FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

’مٹی کا سفر‘ مجموعے کا دوسرا حصہ

               ڈاکٹر نگہت نسیم

 

خواہشوں کا سفر

            انسانوں کی کتنی ساری خواہشیں رازوں کی طرح زندگی میں ہلچل مچائے رکھتی ہیں۔ جو نہ تو کہی جا سکتی ہیں اور نہ اس کی خواہش سے رُکا جا سکتا ہے۔

            کسی کو بہت سارے شہروں میں کوئی شہر سب سے اچھا لگتا ہے۔

            کسی کے لیے بہت سارے چہروں میں کوئی چہرہ عزیز ہو تا ہے۔

            کوئی بہت سارے لمحوں میں کوئی لمحہ بھی نہیں بھولتا۔

            کسی کے ساتھ بہت سارے غموں میں کوئی غم ایک راز کی طرح چھُپی ہوئی خواہش جیسا ہر وقت ساتھ رہتا ہے۔ ایسے ہی بہت سارے شہروں میں لندن میرا SECRET FANTACYتھا۔

            بہت سارے چہروں میں سلیم بھائی کا ایک ایسا چہرہ تھا جو مجھے کبھی نہیں بھولتا تھا۔ بہت سارے لمحوں میں سچ مچ تنہا کر دینے والا لمحہ کبھی نہ بھولتا تھا۔ کئی بہت سارے غموں میں سلیم بھائی کے بچھڑ جانے کا گم مجھے برباد رکھتا تھا لیکن یہ سب ایسا تھا جس کی فقط میں خود اپنی راز دار تھی۔ ’’ کاش ‘‘ کا خواہش سے رشتہ جتنا مضبوط تھا، اتنا ہی میرا یادوں سے۔ جب ماں جی اللہ بخشے جنت نصیب ہوئی تھیں تو ان کی عمر چالیس برس تھی۔ سلیم بھائی جو اُن کے اکلوتے بیٹے تھے، مشکل سے بائیس برس کے تھے۔ میں بیس بر س کی اور ہم سب سے چھوٹی رانی دس برس کی تھی۔ اس وقت ابا جان لندن میں ہوا کرتے تھے اور ہم سب گلبرگ لاہور میں ایک عمدہ سے گھر میں عمدہ طریقے سے رہا کرتے تھے۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ماں جی کو کینسر ہو گیا تھا لیکن نانی اماں کہا کرتی تھیں کہ تنہائی بھی کینسر کی طرح ہو تی ہے جو بالآخر ختم کر کے ہی ختم ہوتی ہے اور میں ہمیشہ کی طرح آج بھی یہی سوچتی ہوں کہ جس طرح جدید سائنس یہ کہتی ہے کہ کینسر جین میں آتا ہے  اسی طرح تنہائی اور تنہائی پسند ہونا بھی جینز (GENES)میں ٹرانسفر ہوتا ہے۔ ماں جی کی تنہائی کچھ کچھ مجھ میں ٹرانسفر ہو گئی تھی۔ میں ہنگامہ پسند نہیں تھی مگر کبھی کبھی موڈی ہو جاتی تھی۔ مزے مزے سے باتیں کرتی رہتی، گیت غزلیں بھی سن لیتی تھی۔ رانی کی دیکھ بھال اور اسے بہلانے کے لیے میں اس جیسا بن جایا کرتی تھی۔ یوں میں ایک دن میں ایک عمر جی لیا کرتی تھی۔ وہ ایسے کہ صبح ہوتے ہی رانی کے بچپن سے شروع کر کے رات نانی اماں کی طرح مدبر ہو جا یا کرتی تھی۔ پھر بے دم سی بے جان سو جایا کرتی۔ سونا اور مرنا بھی تو برابر ہوتا ہے۔ یوں ایک دن میں ایک عمر گزار لینے کی عادت نے مجھے تھکانا شروع کر دیا تھا لیکن سلیم بھائی کی چُپ کے قُفل نہ ٹوٹتے تھے۔ اپنے کام سے کام شاید مطلبی بھی۔ انہیں اکنامکس کی کتابیں اور اخبار کے علاوہ کچھ کام نہ تھا لیکن جانے کیوں بہن ہونے کے ناتے انہیں میں نے ایک رتبہ، ایک اعتبار، ایک حوالہ سادے رکھا تھا۔

            اُن کی چپ میں بھی ماں کا چہرہ اور باپ کی شفقت ڈھونڈا کرتی لیکن ایسی ’’گرمی‘‘ مجھے کبھی نہ ملتی۔ ایک دفعہ میں صحن دھو رہی تھی اور بے حد مگن تھی۔ نانی اماں باورچی خانے میں کوئی نئی ترکیب آزما رہی تھیں۔ رانی ٹی وی میں گم تھی۔ مجھے کام کرنے کے دوران ریڈیو سننا بہت اچھا لگتا تھا۔ جو صبح ریڈیو سیلون سے شروع ہوتا  تو شام چار بجے تک سارے اسٹیشن آزما لیے جاتے اور پھر بہلانا کسے کہتے ہیں۔ ریڈیو بھی ماں جی نے اللہ بخشے میرے ہی واسطے لیا تھا یا شاید اپنی تنہائی کے کینسر کا علاج چاہتی تھیں۔ حالانکہ ان کے کینسر کا مسیحا تو ابا جان تھے۔ ان کے وجود کی موجودگی، ان کی باتوں کی خوشبو، ان کے لمس کی تازگی، ان کے حوصلے کا ٹانک کچھ بھی تو ان کے حصے میں نہ آ یا تھا اور آیا بھی تو بس پاؤنڈ اور پینیز جو روپے میں بدلتے تو لاکھوں ہو جاتے لیکن ان لاکھوں سے اماں جی کی تنہائی کا کوئی نسخہ کبھی نہ ملتا تھا۔ سو وہ گھلتے گھلتے مٹی میں مل گئیں اور ابا جان بھی لندن کے بنک بن گئے، سو ریڈیو ٹی وی کا گھر آنا کون سی بڑی چیز تھی۔ ہوا یوں کہ میں ریڈیو پر آنے والے کسی پروگرام میں مگن تھی کہ اچانک سلیم بھائی آئے اور ریڈیو اُٹھا کر اندر لے گئے اور اپنی پسند کے اسٹیشن بدل بدل کر سننے لگے اور نانی اماں کو بلا کر کہا کہ ’’یہ ریڈیو میرا ہے۔ گڈی سے کہیں کہ اسے ہاتھ نہ لگایا کرے۔‘‘ ان کے لہجے میں سرد سی اجنبیت مجھے چونکا گئی۔ میں صحن میں کھڑی رہ گئی۔حالانکہ ان کے آنے پر میں سوچ رہی تھی کہ سلیم بھائی اپنی عمر سے کہیں زیادہ سوبر اور خوب صورت لگتے ہیں، بالکل شہزادوں کی طرح آن بان رکھنے والے شخص کا دل بھی تنگ ہی نکلا شہزادوں کی طرح۔ اس دن میں نے خو د کو بڑی خاموشی کے ساتھ ان سے علیحدہ کر لیا۔ ان کے وجود سے جڑا میرا ہر خواب ادھورا رہ کر ختم ہو رہا تھا لیکن ایک بات کا فرق ضرور مجھے پتا لگ گیا کہ ماں جی کو رونا بے حد آسان تھا مگر سلیم بھائی کی بے اعتنائی اور بے حسی کو رونا بے حد مشکل۔ ذہنی علیحدگی کا خلا میری ساری زندگی پر محیط ہو گیا۔ ہر رات سوچنا میرا معمول بن گیا۔ کیا تھا اگر وہ مجھ سے پوچھ کر اسٹیشن بدل لیتے یا پوچھ کر ریڈیو لے جاتے۔

            اگر وہ اس دن ریڈیو نہ بھی سنتے تو کیا قیامت آ جاتی۔ چلو اگر بے خیالی میں اٹھا کر لے بھی گئے تھے تو نانی اماں سے یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ گڈی اسے ہاتھ نہ لگائے کہ یہ میرا ہے۔

            میں نے کبھی تیرا میرا نہ کیا تھا۔ ہم دونوں تو ایک ہی ماں باپ کی اولاد تھے۔ یہ ساری چیزیں ہم سب کی تھیں۔ دُکھے ہوئے بے چین زود حس، زود رنج دل کے لیے یہ خبر صدمے کی طرح ہر وقت ساتھ رہتی اور پھر سارا قصور اپنا ہی دھر لیتی کہ کاش میں یہ ریڈیو نہ سن رہی ہوتی تو شاید سلیم بھائی کی غیرت اور بے حسی پر پردہ پڑا رہتا اور ہم دونوں بہنیں بہلی رہتیں۔ شاید یہ سرد مہری انہیں ابا جان کی طرف کی طرف سے ورثے میں ملی تھی جنہیں ہم سب کی فکر تھی مگر ساتھ رہنے کا شوق نہ تھا۔ جانے کیوں انہیں اپنی تنہائی بھری زندگی میں کسی کی مداخلت پسند نہ تھی یا پھر محبت کرنے سے ڈرتے تھے۔ جو نہ ہمیں اپنے پاس لاتے تھے اور نہ ہمارے پاس خود آ تے تھے۔ جب ماں زندہ تھیں تو اتنی ہی بار آئے تھے، جتنے ہم بہن بھائی تھے۔ لندن میں بھی وہ اکیلے رہتے تھے۔ دوسری شادی تو چھوڑ کوئی دوست وغیرہ بھی نہیں تھے۔ بس کام سے کام۔

            بھلا ایک تنہا شخص کو اپنی تنہائی کے زندہ رکھنے کے لیے کتنے کام کرنے پڑتے ہوں گے۔کتنی مصروفیت ہوتی ہو گی۔بس بچپن سے ہی لندن میراSECRET FANTACYبن گیا تھا۔ مجھے ابا جان کی خدمت سے زیادہ یہ تجسس تھا کہ آ خر ایسی کیا مصروفیت اور بہلنے کا سامان ان کے پاس ہے جو انہیں ہم سب سے بیگانہ رکھتا تھا یا پھر ایسا بے حس مزاج  انہوں نے کیوں اپنایا تھا۔ ویسے بھی پر اسرار انسان ہمیشہ مقبول رازوں کی طرح سب کوہی مزہ دیتے ہیں، سو وہ خاندان کے ہر فر د کے فیورٹ ٹاپک کی طرح زیرِ بحث رہتے تھے۔ یوں ہمارا گھر اور اس کے طور طریقے کا ذکر خاندان تو کیا محلے کے ہر گھر میں گرم سموسے کی طرح ہاٹ فیورٹ تھا۔ میری آنکھوں میں لندن شہر کا نقشہ بس چکا تھا۔ میرے دل میں چھپی ہوئی تمنا میرے انگ انگ میں پھوٹتی تھی لیکن اس ساری کہانی میں، میں بے خبر رہی کہ سلیم بھائی کے دل کا بھی یہی روگ تھا۔ جو بیٹھے بٹھائے لندن جانے کی سوچ ڈالی بلکہ راتوں رات عمل بھی کر لیا اور ایک دفعہ پھر ہم سب حیران و پریشان رہ گئے۔

            ’’گُڈی اور رانی کا کیا ہو گا بیٹا!‘‘نانی کا لہجہ آ زردہ ہو رہا تھا اور میں اپنے کمرے سے صاف صحن میں ہونے والی دل گرفتہ بحث سن سکتی تھی۔

            ’’میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘ کم گوئی اور سرد لہجے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ سلیم بھائی نے دونوں فرق مٹا ڈالے تھے۔ یہ کہتے ہوئے سر د بھی تھے اور اختصار سے کام لے کر اجنبیت بھی دکھا چکا تھے کہ ہم دونوں بہنوں کی اہمیت سرے سے نہیں تھی جو پاکستان جیسے ماحول میں اکیلی رہیں عزت سے یا نہیں، انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔

            ’’ بیٹے تم ان کی آس ہو۔ تم اس گھر کے بڑے اور باپ کی جگہ ہو !میں اکیلی جوان لڑکیوں کے ساتھ۔۔۔!‘‘ نانی اماں نے دانستہ آگے کچھ نہ کہا ہو گا یا پھر ان کا آنسوؤں سے بھیگا ہوا لہجہ آ گے نہ چل پایا ہو گا یا پھر اپنی خود داری کو مزید رُسوا نہ کیا ہو گا۔ بقول ان کے احتجاج بھی رسوا کر دیتا ہے۔ وہ ساری رات نانی اماں نے جاگ کر گزاری تھی۔ میں خود بظاہر سو رہی تھی مگر ان کی ہر کروٹ پر سینکڑوں آنسوؤں کی بارش میں بھیگتی رہی تھی۔ آنکھوں کی دل سے آنکھ مچولی کا کھیل میرے لیے نیا نہیں تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ ویرانی تھی۔ بے حسی، غیریت، اجنبیت کی اداسی تھی۔ اس موسم میں سلیم بھائی میرے خوابوں کے شہر لندن کے لیے اُڑ گئے لیکن وہ ابا جان کے بازوؤں میں نہیں گرے بلکہ اپنے دوست کے پاس رہنے کو ترجیح دی۔ شاید وہ بھی کوئی حد پار نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کے جانے کے بعد دو فون آئے تھے۔ ایک سلیم بھائی کے خیریت سے پہنچ جانے کا، دوسرا ابا ّ جان کا کہ ڈرنے کی ضر روت نہیں ہے۔ آ رام سے رہو میں زیادہ پیسے بھجوا دو ں گا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اب نانی اماں کی نوکری میں چوکی داری بھی شامل ہو گئی تھی، سو پگار بھی بڑھ دی گئی۔ اس ساری کہانی میں نانی اماں کا کیا قصور تھا۔ جو جوان بیٹی کی لاش روزانہ اٹھاتی تھیں اور دفنا دیتی تھیں۔ میری اور رانی کی صورت جب دیکھتیں ایسا ہی کرتی ہوں گی۔ صرف مری ہوئی اکلوتی بیٹی کے رشتے سے جڑا ہر رشتہ نباہتے نباہتے کہا ں تک پہنچ گئی تھیں یا پتا نہیں شاید دنیا میں کہیں باپ اور بھائی بِکتے ہو ں گے جو ابا جان پیسے بڑھا کر بھجوانے والے تھے کہ بازار سے خرید لائیں یا پھر انگریزوں نے ہر رشتے کا طلسم ختم کر رکھا تھا۔BROKEN HOUSEکے بچوں کی طرح لا وارث سے، سب سے ’’چچ چچ ‘‘ کی شکل میں ہمدردیاں سمیٹتے اور اُلجھ اُلجھ کر خود بھی اُلجھی ہوئی ذات کی طرح پھرنے لگے تھے لیکن ان سارے عذابوں سے میں رانی کو دور رکھنا چاہتی تھی۔ اس لیے اسے بہلاتے بہلاتے میں خود بھی بہل جاتی۔ ہم دونوں کو ہنستا دیکھ کر نانی اماں بھی مطمئن ہو جاتیں اور ہر وقت مشغول رہتیں۔ سینا پرونا، کڑھائی کروشیا، سویٹر سلائی، کھانا پکانا غرض ہر کام میں طاق اور سلیقہ مند سی با وقار نانی اماں نے ہم دونوں میں کوٹ کوٹ کر سب کچھ بھر دیا تھا۔

            میں کبھی جزبز ہو تی تو ہمیشہ کہتیں۔ ’’ ہنر اور حسنِ سلوک کبھی رائیگاں نہیں جاتے۔ ایسا انسان کبھی ذلیل اور رسوا نہیں ہوتا۔ ‘‘ سر شام ہم لوگ دروازوں پر تالے ڈال کر خود کو اللہ کے حوالے کر کے ایک کمرے میں جمع ہو جاتے۔ بیچ میں رانی سوتی تھی۔ دائیں طرف نانی اماں جو دروازے کے قریب جگہ تھی۔ بائیں طرف میں، میری جگہ کے ساتھ ہی ٹیبل تھا۔ جس پر نیشنل کا ریڈیو تھا۔ جس نے پہلی دفعہ مجھے سلیم بھائی سے ذہنی طور پر علیحدہ کر دیا تھا اور دلی طور پر قریب اور رنجیدہ تر۔ جب میں اسے دیکھتی، سب کچھ یا د آ جاتا بلکہ بار بار آتا۔ اُن کو گئے کئی برس ہونے کو آئے تھے۔ لیکن کوئی پتہ وغیرہ ہمیں نہ مل سکا تھا البتہ ہر مہینے ابا جان کے فون اور پیسو ں سے پتہ لگتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ انہوں نے ایم بی اے کر لیا تھا اور پھر شادی کر کے ہمیشہ کے لیے کینیڈا شفٹ ہو گئے تھے۔ شادی میں ابا جان تک شریک نہ ہوئے تھے اور نہ ہی بروقت اطلاع کی تھی انہوں نے۔ بہت بعد میں وہ ملنے آئے تھے اور کہنے آئے تھے کہ ایک بہت بڑی اچھی آفر پر کینیڈا جا رہے ہیں۔

            یہ خبر ہم تینوں کو ہلا گئی تھی مگر ابا جان نے اتنے سکون سے سنایا جیسے کسی جاننے والے کی اطلاع دے رہے ہیں۔

            میرے لندن کے خوابوں میں ایک اور چھپا ہوا خواب آ ملا کہ کاش، میں سلیم بھائی کو دیکھ سکو ں۔ شاید اب وہ بھول گئے ہوں یا ہمیں یاد کرتے ہوں۔ کاش یہ سب ان کا خول ہو، ما سک ہو جو آسانی سے جینے کے لیے پہن رکھا ہو۔ حقیقت میں وہ بہت خیال کرنے والے اور محبت کرنے والے نکلیں۔ ہائے، میری سیکریٹ فینٹسی!! میرا ان سے تعلق ایک روگ کی طرح چمٹ گیا تھا۔ میں کسی سے کہے بغیر کسی کو بتائے بغیر انہیں اپنی عدالت میں بری کر چکی تھی اور ہمہ وقت ان کے لیے سراپا دعا بن گئی تھی۔ شاید ہر بہن ہی ایسی ہوتی ہو یا پھر میں بے وقوف تھی۔ نانی اماں مجھے ہمیشہ سمجھایا کرتیں کہ ’’سجن او جیڑا کنڈ پہچانے۔ ‘‘ یعنی اپنا وہ ہوتا ہے جو یہ جانے کہ اس کے بعد میرا اپنا کس حال میں ہے۔ سو ان کے خیال میں سلیم بھائی سجنوں کی لسٹ میں سرے سے ہی نہ آئے تھے۔ جب وہ یہاں تھے، تب کون سی خبر رکھتے تھے۔ وہ تو ہم سب کو ہی ان کی اتنی خبر رکھنی پڑتی تھی کہ احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ انہیں ہماری خبر ہے کہ نہیں۔ ان کی کوئی رائے نہ ہوتی تھی۔ بس حکم ہی ہوتے تھے کہ یہ ہونا ہے۔ یہ نہیں ہونا ہے۔ یہ آئے گا، یہ نہیں آئے گا۔یہ کھانا پکے تھا، یہ نہیں۔انہیں اس بات سے مطلب نہیں تھا کہ ایسا واقعی ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا بلکہ انہیں صرف اس بات سے مطلب تھا کہ ان کے سامنے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی موجودگی میں ایسے نہیں آنا چاہیے۔ جسے وہ پسند نہیں کرتے۔ آگے پیچھے چاہے جو کوئی بھی آئے۔ انہیں صرف اپنی ذات اور خواہشوں سے مطلب تھا۔ ماں جی دل برداشتہ ہو جاتی تھیں اور اکثر کہتیں تھیں۔ ’’ شکر ہے تمہارا باپ یہاں نہیں رہتا ورنہ ایک حاکم اور ہو جاتا اور دوگنی خاطر داری اور غلامی بھی ہوتی۔‘‘مگر ایک ماں کی طرح انہیں بھی آس تھی کہ وہ ان کو سمجھ لے گا لیکن جیسے ہی انہیں سمجھ آ ئی کہ جس طرح برفیلے علاقوں میں صرف ٹنڈ منڈ درخت ہی رہ جاتے ہیں، اسی طرح ان کا بیٹا سرد لہجے کے ساتھ ٹنڈ منڈ ہی رہتا ہے۔ انہیں ان کی دعاؤں کی حدت، میری خاموش محبت اور نانی اماں کی سرزنش بھی نہیں پگھلا سکی تھی۔ سو وہ کینسر میں کھو گئیں اور پھر چلی بھی گئیں۔ہم سب حیران ہی رہ گئے تھے کہ اتنی خاموشی سے بڑی کم عمری میں وہ رشتوں کے سارے راز و انداز سمجھ گئی تھیں جسے سمجھنے کے لیے زمانے لگتے ہیں اور ایک لمبی عمر چاہیے ہوتی ہے۔ ایسی ہی ایک عمر ہماری نانی اماں جی رہی تھیں۔ آزمانے سے لے کر نتیجے تک وہ جینا چاہتی تھیں اور میں چونکہ بے حد مثبت اور پُر امید سوچ لیے رہتی تھی جو عین میری عمر کا تقاضا بھی تھا سو ہر نئے آنے والے دن کو ایک دن پہلے ہی خواب کی طرح اپنے کنٹرول میں رکھ لیتی تھی اور نئے سرے سے خود کو نا امیدی کے لیے تیار کر لیتی تھی۔ میں ایک یقین کے ساتھ اپنی امید کی زمین پر مضبوطی کے کھڑی تھی اور کھڑی ہی رہی۔ میں آخری سانس تک سلیم بھائی کا انتظار کر سکتی تھی۔ وہ میرے بھائی تھے۔ ان کا ایک مقام ایک رتبہ تھا،میرے دل میں۔ وہ نہ ہونے کے باوجود ہر وقت گھر میں محسوس ہوتے چلتے پھرتے۔ کبھی کبھی کچھ کہتے ہوئے۔ کبھی میں سوچتی کہ اگر وہ پُر بہار ہوتے۔ ذرا سے شوخ ہوتے۔ دلداری سے لے کر خبرداری تک کے ہنر سے واقف ہوتے تو کیا ہوتا۔ شاید ماں جی کو کینسر نہ ہوتا اور نہ میں زود رنج ہوتی۔ میں واقعی ہو بھی جاتی جو رحمان میری زندگی میں نہیں آتے۔ رحمان نانی اماں کی چوائس تھے۔ پڑھے لکھے۔۔۔ سرکاری عہدے دار۔ ابا جان آئے اور مجھے ان کے حوالے کر گئے لیکن سلیم بھائی نہیں آئے حالانکہ ابا جان بتا رہے تھے کہ انہیں اطلاع کر کے آیا ہوں۔ کتنی بار فون بھا گ بھاگ کر اٹھایا۔ پوسٹ مین کا راستہ دیکھتی رہی مگر جس طرح تعلق کی کوئی حد نہیں ہوتی،بے تعلقی کی بھی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ میرے تعلق کی بھی کوئی حد نہ تھی اور سلیم بھائی کی بے تعلقی کی بھی کوئی سرحد نہ تھی۔

            ’’ مر و یا جیو اُن کی بلا سے۔ ‘‘رانی نے وہ سب غصے میں کہہ دیا جو میں صرف دل ہی دل میں کڑھ کر کہا کرتی تھی۔

            ’’ بری بات غصہ بزدل نکالا کرتے ہیں۔‘‘رحمان نے رانی کے سرپر ہاتھ رکھتے ہوئے ہم سب کو چونکا دیا۔

            ’’میں سوچتا ہوں، نانی اماں کہ سلیم بھائی کو اس قدر بے حس نہیں ہونا چاہیے مگر آ پ لوگوں کو بھی داد دینی پڑتی ہے کہ سوائے ان کے حوالے سے خود کو اپ سیٹ کرنے کے کوئی اور کام  ہی نہیں ہے۔ خدا جانے وہ کس حال میں ہوں گے۔ ہو سکتا ہے وہ شرمندہ بھی ہوں اور جانے وہ کیا کیا دلائل دے رہے تھے اور میرا دل جانتا تھا بڑے یقین کے ساتھ کہ ہم سب ان کا دل رکھنے کے لیے سر ہلا کر اپنی بے وقوفی کا اعلان کر رہے تھے یا پھر رحمان ہی کا دل رکھنے کے لیے مسکرا رہے تھے اور آئے ہوئے آنسوؤں کو گرنے سے بار بار بچا رہے تھے۔ ہمارے گھر میں پہلا فرد اس طرح کا آ گیا تھا جس کے محور پر ہم تین عورتیں گھومتی تھیں اور انہوں نے کسی کو بھی مایوس نہ کیا۔

            نانی اماں کا بیٹا بن کر۔

            رانی کے بھائی بن کر۔

            میرا سب کچھ ہو کر۔۔۔!! پناہ گاہ، تحفظ، بر فیلی ہواؤں کی زد میں بھی رہ کر ہرا بھرا درخت میرا تھا اور صرف میرا۔۔۔!!

            ’’ کیا سوچتی رہتی ہو؟‘‘ انہوں نے انتہائی محبت سے میرے سرپر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔

            ’’نانی اماں اور رانی اکیلی ہو گئی ہیں۔ ابا جان لندن میں تنہا رہ گئے ہیں۔ سلیم بھائی کینیڈا میں الگ رہ گئے ہیں۔ ‘‘

            ’’ اور تم میرے ساتھ تنہا رہتی ہو؟‘‘ انہوں نے میری بات مکمل کرتے ہوئے کہا۔

            تومیں بے ساختہ کہہ اٹھی۔ ’’ آ پ کے ساتھ میں ایک دنیا میں رہتی ہوں۔ تنہا ہونے کا وقت نکالنا پڑتا ہے لیکن اب سوچتی صرف یہ ہوں کہ رانی کی شادی کے بعد نانی اماں کا کیا ہو گا۔‘‘ میری آنکھوں سے جھر جھر آنسو بہہ رہے تھے۔

            ’’ہو گا؟‘‘ وہ ہمارے ساتھ رہیں گی، ہماری اماں بن کر۔‘‘ رحمان نے جیسے میرے مسائل اپنی پلکوں سے چن لیے تھے۔ میرا بس چلتا تو رُواں رُواں اپنے مہربان کے قدموں میں ڈال دیتی۔ آ دمی کا یہی رخ میری کمزوری تھا۔ بہادری سے موسموں کی سختی گرمی کو جھیلنے والا۔ ہر مسئلے کے حل والا۔ سبھی کا محافظ۔ ایک تناور درخت کی طرح خود دھوپ میں رہ کر سب کو دھوپ اور بارش سے بچانے والا انسان بجا طور پر دل میں رہنے کے لیے تھا۔ یہی روپ میری ماں کی آنکھوں میں بسا رہتا تھا۔، لیکن حسرت ان کا نصیب بنی رہتی۔ پھر ایسا ہی روپ میری نانی اماں کی آنکھوں میں ابھرا تھا،سلیم بھائی کے لیے کہ وہ ایسا ہی جواں مرد ہو گا۔ حوصلہ مند، اپنے گھر کو چھپر چھاؤں دینے والا لیکن پھر حسرت نے گھر کی چوکھٹ نہ چھوڑی۔ اب رحمان نے میری زندگی میں آ کر مجھے حسرت سے بچا لیا تھا۔ مجھے خوش نصیب بنا دیا تھا لیکن پھر بھی رات کے کسی نہ کسی پہر سب کچھ یاد آتا۔

            ادھورا گھر۔۔۔

            ادھورا بچپن۔۔۔

            ادھوری محبتیں۔۔۔

            جب اتنا کچھ ادھورا رہ گیا ہو تو پورا ہوتے ہوتے بھی عمر بیت جاتی ہے۔ شاید سب کچھ اچھا ہی رہتا جو نانی اماں فوت نہ ہو جاتیں۔ چند دنوں کی بیماری یہ رنگ لائے گی، کسے خبر تھی۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے اب ماں چلی گئی ہو۔ ماں جی کے ساتھ سے دوگنا ساتھ ان سے ہمارا تھا۔ رحمان اگر ساتھ نہ ہوتے تو شاید یہ غم اس طرح کا نہ ہوتا کہ سنبھالا جا سکتا۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ،ماں تو چوکی دار ہوتی ہے، سو ہمارا چوکی دار چلا گیا۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے گھر کے بند دروازے کھلے رہ گئے ہوں۔ ان کی باتیں، حکمتیں، محبتیں، قربانیاں کتنا کچھ یاد کرنے کو، دہرانے کو رہ گیا تھا۔ اس دفعہ ابا جان آئے تو رانی کو ساتھ لندن لے گئے۔ جب ان کا جہاز اُڑا تومیں ایک لمحے کو اس بھرے شہر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ کتنے دنوں تک تو مجھے ہوش ہی نہ آیا تھا۔ ہمارا گھر لمحہ لمحہ بکھر گیا تھا۔ پوری دنیا میں دھوپ بارش کی طرح سب اپنی اپنی جگہ بس رہے تھے۔ ایک بے قراری کو کہیں قرار نہ تھا۔ اسی بھاگ دوڑ میں کچھ مہینے اور گزرے تو میں اسامہ کی ماں بن گئی۔ ایک نیا تجربہ۔ ایک نئے خواب نے مجھے چونکا دیا تھا۔

            میں بہلنے لگ گئی۔ کام صبح سے شروع ہوتے تو رات پر ختم ہو تے بلکہ ختم کرنے پڑتے۔ رانی کے خط سے پتا چلا کہ وکالت کے لیے اس نے مختلف کالجوں میں اپلائی کر دیا ہے۔ اور احتیاطاً کینیڈا میں بھی۔ اور ابا جان کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ ہو بہو سلیم بھائی جیسے ہیں۔ اس لیے شروع میں دِقت ہوئی کہ کبھی ان کے ساتھ رہے نہیں اس لیے سمجھ بھی نہیں تھی۔ اب سب کچھ پتا لگ گیا ہے اور اب مجھے ان کی پُر اسرار سرگرمیوں سے زیادہ اپنے کیریئر کی فکر ہے۔

            ’’ دیکھا تم نے، رانی نے جینا سیکھ لیا ہے۔ تم بھی کچھ سیکھ لو۔‘‘ رحمان نے میرا دھیان اس طرف لگاتے ہوئے کہا۔

            ’’ سیکھنا کیسا اُس کو لندن کی ہوا لگ گئی ہے۔ ویسے ابا جان کے ساتھ رہ کر اور کیا سیکھنا تھا۔‘‘ میں دل ہی دل میں اداس ہو گئی تھی۔ جانے اپنی بہن کی دوری پر یا پھر اپنی نئی تنہائی پر یا پھر رانی کی بے پروائی اچھی نہیں لگی تھی۔

            ’’آخر تم اتنی زود حس اور جذباتی کیوں ہو! تمہیں صرف اپنے گھر اور بچوں کی فکر کرنی چاہیے۔ جس طرح اور سب کرتے ہیں۔ ‘‘ رحمان کی بات میں حیران رہی گئی تھی، وہ کیسے  تہہ در تہہ مجھ تک پہنچ جاتے تھے۔

            ’’ کوشش کروں گی۔‘‘ میں ان کے سینے سے لگی کانپ رہی تھی، رو رہی تھی، اپنے ادھورے پن پر۔ اپنی کم مائیگی کا غم منا رہی تھی جس نے مجھے کبھی آزاد نہ رہنے دیا تھا۔ شوخی سے اڑنے نہ دیا تھا۔ کھل کر ہنسنے نہ دیا تھا۔ وہ سارا وقت جس پر رحمان اور اسامہ کا حق تھا، وہ لے لیا تھا۔ یہ چاہتے ہوئے بھی کہ میں اپنے بچوں کو کوئی ادھورا پن نہ دوں گی۔ چاہے ایک وقت کی روٹی کھاؤں یا معمولی سے مکان میں رہوں۔ بھلے پہننے کو دو جوڑے کم قیمت بھی ہوں تو شکر کروں گی مگر مکمل رفاقت ذہنی اور جسمانی سبھی کچھ انہی پر نثار کر دوں گی پھر کافی دنوں بعد رانی کا فون آ یا اور اس نے بتا یا کہ اسے کینیڈا میں وکالت میں داخلہ مل گیا ہے اور وہ ہوسٹل جا رہی ہے۔

            ’’ اور ابا جان کا کیا ہو گا؟‘‘ میں نے سمجھانے والے انداز میں پو چھا۔

            ’’ وہی جو مجھ سے پہلے ہوتا ہو گا۔ ‘‘اس کے لہجے کی بے پروائی پر میں رات رات بھر انگاروں پر رہی۔ باپ کی خدمت کا خواب جو دن رات میری آنکھوں میں منڈلاتا رہتا تھا، وہ رانی کی قسمت ٹھہرا تھا مگر وہ قدر نہ کر سکی اور شاید یہ میرے باپ کے لیے خدا کی طرف سے سزا تھی جو اس نے ماں جی سے بلا وجہ بے اعتنائی دِکھا کرکی تھی۔ ان کی وفا، حیا،کسی کی بھی تو قدر نہ کی تھی بلکہ ساری عمر ہر رشتے کو پیسے سے تولتے رہے تھے سو بیٹی اور بیٹے والے ہوتے ہوئے بھی تنہائی کی سزا کاٹ رہے تھے۔ اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹتے کاٹتے لہولہان ہوتے ہوں گے مگر کہہ نہیں سکتے۔ بزدل جو ہوئے یا پھر اَنا پرست۔ کاش محبت نے آ پ کے دِل پر دستک دی ہوتی تو آپ نہ تو بزدل ہوتے اور نہ انا پرست اور شاید سزا کے اتنے طویل دور بھی نہ ہوتے۔۔۔ بوڑھے ہو کر سب کچھ کرنا پڑتا ہو گا۔

            سنا ہے کہ باہر کے ملکوں میں نوکر بھی عام طور پر نہیں ملتا۔ سارے کام جنہیں کر کے میں تھک جاتی ہوں، اپنے ہاتھ سے کیسے کرتے ہوں گے۔ کتنی بار آنکھیں بھیگ جاتیں، تصور ختم نہ ہوتے تھے۔ نوالے اٹک اٹک کر اُترتے تھے لیکن پاگل پن کا علاج کہیں نہ تھا تاہم اب میں اداکاری کرتے کرتے کریکٹر ایکٹر ہو گئی تھی۔ رحمان کو شبہ ہوتا نہ اسامہ کو۔ سب مگن،سبھی خوش تھے۔ رانی کے خط سے پتہ لگا کہ سلیم بھائی اس سے ملنے آتے ہیں۔ کبھی کبھی ویک اینڈ پروہ بھی ان کے گھر جاتی تھی۔ بھابی اچھی ہیں مگر بھابی ہیں اس لیے احتیاط کرتی ہوں۔ سلیم بھائی آتے ہیں اور خاموشی سے جس جگہ بیٹھتے ہیں وہیں سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں۔نہ کچھ کہتے ہیں، اور نہ ہنستے ہیں بس چُپ چاپ رہتے ہیں۔ میں بعض وقت گھبرا جاتی ہوں اِدھر اُدھر ہو جاتی ہوں۔ ان کے آ نے سے میں ڈسٹرب ہو جاتی ہوں اس لیے بہانہ بنا کر اکثر ٹال بھی دیتی ہوں۔ یہ سب پڑھ کر میں کتنا روئی تھی۔ یہ رانی کا مزاج کب سے ایسا بے حس ہو گیا تھا۔ بالکل انگریز ہو گئی ہے۔ اپنے پرائے کا فرق ہی نہیں سمجھتی۔ پھر نصیحتوں سے بھرا پانچ صفحات کا خط اسے بھیج ڈالا حالانکہ میں نے اسے وہ سب کرنے کو کہا تھا جو مجھے کرنے کی حسرت تھی، خواہش تھی۔ خدمت، جاں نثار ی، بے لوث پیار میرے اندر سرتا پیر بہتا تھا اور میرا باپ اکیلا، میرا بھائی تنہا تھے اور میری بہن جس کو شاید ہم سب نے بے حس بنا ڈالا تھا، مزے سے رہ رہی تھی۔ واقعی وہ خوش اور مگن تھی یا سزا دے رہی تھی خود کو۔ میں فیصلہ نہ کر پائی تھی!

            سلیم بھائی کو دیکھے مجھے تیس برس سے بھی زیادہ ہو چکے تھے لیکن وہ روز اول کی طرح مجھے ازبر تھے۔ چھ فٹ تین انچ قد۔ چھریرا بدن۔ سلیقے سے بنے مال۔ جب وہ سفید کرتا پاجامہ پہن کر نکلتے تو ماشاء اللہ کہنا پڑتا۔ وہ اپنے حسن سے لا پرواہ ہو کر بھی بے حد و جیہ اور شکیل تھے۔ جانے اب کیسے ہو گئے ہوں گے۔ یقیناً گریس فل سے ہوں گے۔ بال گرے ہو چکے ہوں گے یا کھچڑی پک رہی ہو گی لیکن پھر بھی اچھے لگتے ہوں گے۔ بچے نہیں ہوئے، کبھی کبھی غم ہوتا ہو گا۔ بیوی کو بھی بہلاتے ہوں گے۔ یار دوست اتنے پیارے اور ذہین دوست کی دوستی پر نازاں ہوتے ہوں گے۔ کبھی تو نانی اماں، ماں جی اور میں یاد آ تی ہوں گی۔ دل کرتا ہو گا مجھ سے ملنے کو۔ خاندان کے واحد بچے اسامہ کو دیکھنے کی خواہش ہوتی ہو گی۔ جو ہو بہو اُن کے نقش اور قد لے کر آیا تھا۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا جیسے سلیم بھائی TEEN AGERمیں گھوم رہے ہوں۔ زندگی کو جیسے پہئے سے لگے ہوئے تھے۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا لیکن میں پہروں، گھنٹوں اپنی دنیا میں گھومتی پھرتی۔ روز صبح ہوتی اور یونہی تانے بانے بُنے جاتے۔ سارے الزام ایک دوسرے پر رکھ کر اور پھر شام تک سزا سے بری بھی کر دیتی، یونہی رات بھی گزر جاتی۔ سب کو ایسے ہی میرے ساتھ رہنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ ایک دن رانی کا فون بے وقت آ گیا۔

            ’’ خیر تو ہے نا!‘‘ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔

            ’’ہاں، سلیم بھائی آپ کے پاس رہنے کو آ رہے ہیں۔ ‘‘

            ’’ کیا!‘‘ مجھ پر ایسی کیفیت تھی کہ اگر رحمان مجھے تھام نہ لیتے تو میں شاید گر جاتی۔

            ’’آج یہاں سے روانہ ہو رہے ہیں۔‘‘

            ’’ میری بات کراؤ اُن سے۔‘‘ میرا اشتیاق قابل دید تھا۔

            ’’اب ان سے کوئی بات نہیں کر سکتا باجی!‘‘ رانی کی سسکیاں مجھے وہ سب کچھ بتا رہی تھیں جو میں خواب میں سننا چاہتی تھی۔ بتیس برس بعد میرا بھائی آئے گا۔ جسے میں صرف دیکھ سکوں گی۔ وہ نہ مجھ سے کچھ کہے گا اور نہ میں بتا سکو ں گی اور میں اسے چھو بھی نہ سکو ں گی۔ اس لیے کہ وہ شیشے کے گھر میں آئے گا۔ اس کے جسم اور منہ پر کیمیکل ہو ں گے۔ جو اس نے صرف میرے لیے لگوائے ہیں کہ وہ آخری سفر میرے سامنے کر نا چاہتا ہے۔

            ’’کیوں کی ایسی خواہش انہوں نے ؟‘‘ میں سکتے میں تھی۔

            رحمان مجھے کندھے سے لگائے آہستہ آہستہ بتا رہے تھے کہ سلیم بھائی نے میرا پانچ صفحوں کا خط پڑھ لیا تھا جسے پڑھ کر وہ بہت روئے تھے اور پھر اکثر روتے رہتے تھے۔ بالآخر بیمار پڑ گئے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ کہ سگریٹ نوشی کی کثرت نے انہیں کینسر میں مبتلا کر دیا ہے اور یہ مرض لا علاج ہے۔ جب انہیں پتا چلا تو انہوں نے خواہش ظاہر کی، وہ وطن جانا چاہتے ہیں۔ آخری وقت وہ میری محبت کی چھاؤں میں گزارنا چاہتے ہیں اور مرنے کے بعد ماں جی کے ساتھ سونا چاہتے ہیں پھر وہ آ گئے اور ہمیشہ کے لیے بچھڑ بھی گئے اور ان سے ملنے کا، ان کو دیکھنے کا، ان کے ساتھ رہنے کا خواب، میری ساری خواہشیں ایک ایک کر کے دفن ہو گئیں۔ میری آنکھوں میں یہ آخری لمحہ ٹھہر گیا تھا۔ اس کے بعد میرا کوئی وہم باقی نہ بچا تھا۔ میرے پاس ایک بھی امید باقی نہ رہی تھی۔ بس یاد تھا تو اتنا، میرا برف جیسا سفید اور سرد بھائی اندر سے بڑا گرم تھا۔ وہ تنہائی کی آ گ میں تپ تپ کر کندن ہو گیا تھا۔ اس نے میرے سارے ملال، سارے دکھ، سارے سارے گلے شکوے ایک چُپ میں چُھپا لیے تھے اور مجھے اپنی محبت کی ذمے داری سے آزاد کر گئے تھے۔مگر اب کی بار اپنوں کی طرح اپنوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر زیر کر گئے تھے۔ اپنے ساتھ وہ سب کو واپس لے آئے تھے۔ ابا جان اور رانی پھر واپس نہ جا سکے۔ سارے خزانے تو یہیں دفن تھے۔ ان کی حفاظت بھی تو کرنی تھی۔ صبح سے شام حاضری بھی تو دینی تھی۔ سو یہ ذمے داری ابا جان نے اٹھا لی تھی۔ میں ہر رات پچھلے پہر تک ساری کہانی دہراتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ اگر ہم سب ساتھ مل کر رہتے اور دکھ سکھ شیئر کرتے تو کسی کو بھی تنہائی کا کینسر نہ مارتا اور نہ ہی ایک دن میں ایک عمر جی لینے سے تھکن ہوتی۔

———————–

 

خواب کا دیا

            زندگی نہ تو دو رُخی تھی اور نہ ہی دوغلی۔ اس کو کچھ میں نے ہی ایسا سمجھ لیا تھا۔ حالانکہ سب کچھ میرے اندر تھا اور پھر ہونے والے سارے واقعات میرے باہر ہو رہے تھے۔ سمجھ دار انسان تو وہی ہوتے ہیں جو اندر باہر کے سارے پریشر میں ایڈجسٹ ہوتے جاتے ہیں شاید پڑھے لکھے لوگ اِسے ADAPTATIONکہیں مگر اس دنیا میں مجھ جیسی ہزاروں بے وقوف لڑکیاں ہوں گی جن کی سمجھ بُوجھ ایسے وقت میں انڈر پریشر ہو کر کُکر کی طرح سٹی بجانے لگتی ہے، گویا اپنا آپ اُبلنے اور پھر پھٹ پڑنے کا الارم خود ہی بجا دے۔ غلطی کہاں تھی، آج ہی مجھے فیصلہ کرنا تھا۔ آج ایسی لڑکی کو اسپیشل بننا تھا یا پھر ADAPTATIONکے آخری ہُنر کی آزمائش تھی۔ آخر کچھ تو کرنا ہے، بہلنے کے لیے، سمجھنے کے لیے اور کئی غلطیوں کو کبھی نہ دہرانے کے لیے۔

            ’’ زندگی کو کبھی ۲۰ گز اور ۱۲۰ گز زمین کے اندر نہیں گھومنا چاہیے۔ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ ہر خواہش کا سفر انگریزی کا SUFFER بن جا تا ہے۔‘‘ نیلم کی بڑبڑاہٹ بجلی کے جانے سے مزید بڑھ جاتی تھی، حالانکہ وہ بے حد خوش اخلاق اور قناعت پسند لڑکی تھی۔ اُسے یوں ہی اُلجھنے کی عادت نہ تھی۔ جو کچھ بھی ہوتا، ٹیبل پر ہوتا۔ اور یوں دلوں میں کبھی گرہ نہ پڑتی تھی۔ یہ دانشمندی میں نے اُس سے سیکھی تھی۔ وہ میری بڑی بہن تھی۔ اور کبھی کبھی امی جی چپکے سے اُس میں اُتر آتی تھیں۔ تب میں اُس سے ڈر جایا کرتی تھی۔ میں کیا بابر بھی اطاعت میں سر جھُکا لیا کرتا تھا۔ ابا جی کی غیر ضروری حمایت بھی اُنہیں حاصل تھی۔ یہ بات مجھے بہت دیر بعد پتہ چلی کہ وہ اُن اسپیشل لڑکیوں میں سے ایک تھیں جن کی سمجھ عمر کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ بردباری اور تحمل اُن کے لیے خاص تحفہ ہوتا ہے۔ خفا ہونا اُنہوں نے سیکھا ہی نہ تھا۔ مزاج کی نرمی اور سلوک کا حسن اُن پر ختم تھا۔ میں، پھر میرے بعد بابر تھا۔ ہم دونوں کی جان اُن میں بند تھی۔ اس سکون اور اطمینان کو کبھی زمین اور گھر کے ایک سو بیس گز پر ہونے کا غم نہ ہوا تھا۔ اگر کبھی ہوتا تو صرف بجلی کے عین گرمیوں میں دوپہر کے وقت چلے جانے سے پتہ نہیں بڑے بڑے لان نہ ہونے کا غم تھا یا پھر کیا وجہِ غم تھی اس وقت میری سمجھ اتنی ہی تھی۔

            میں نیلم سے صرف دو سال چھوٹی تھی۔ اس لیے غمگسار اور راز دار بھی تھی۔ کبھی کبھی اس تکون میں امی جی بھی شامل ہو جاتی تھیں۔ باتوں کی زنبیل ایسی کھلتی کہ پھر ابا جی کو خالص زنانہ گفتگو میں دخل اندازی کرنی پڑی۔ نیلم نے بی اے کے بعد ٹیلی کام جوائن کر لیا تھا۔ باقی ہم دونوں ا سکول کالج میں زیر تعلیم تھے۔

            ’’ مجھے اپنے ادارے میں سب سے پیاری بات پتا ہے، کیا لگتی ہے ؟‘‘ نیلم کی آنکھوں میں نیلگوں پانی ہر وقت تیرا کرتا تھا۔

            ’’کیا؟؟‘‘ میں نے اشتیاق سے پوچھا۔

            ’’ ہزاروں میلوں کی جدائی ایک منٹ میں ختم۔ جس طرح ایک مریض کے لیے ڈاکٹر اُس کا پورا جہان ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارا یونٹ بھی ایک جہان ہے، دور دور رہنے والوں کے لیے۔ ‘‘

            ’’ گویا شہزادی نیلم! تم دِلوں، جذبوں، خوابوں اور خیالوں کی ڈاکٹر ہو۔‘‘ میں نے استری کے لیے کپڑے اُٹھاتے ہوئے کہا۔

            ’’ ویسے جانِ عزیز اگر تم غور کرو تو ہر انسان دوسرے انسان کے لیے ایک ڈاکٹر اور مسیحا ہوتا ہے۔ ‘‘

            ’’ ہوتا نہیں نیلم، ہو سکتا ہے۔ ‘‘ میں نے تنبیہ کی تو وہ ہنس پڑی۔

            ’’ کبھی کبھی تم بہت پتے کی بات کر جاتی ہو۔ واقعی اگر ہم سب ایک دوسرے کو ایسے ہی منٹ منٹ پر سلوک کی خوشیاں بانٹنا شروع کر دیں تو دنیا والے کس پر جھگڑا کریں گے۔؟ کس بات پر اقوام متحدہ بحث کرے گی؟؟‘‘

            ’’ تم دونوں امن کی فاختائیں دنیا میں بے روز گاری پھیلا کر رہیں گی، اللہ رحم کرے۔‘‘ بابر پڑھتے پڑھتے تھک کر ہم میں آ ملا تھا۔ پھر وہی سیاست، کتابیں، شاعری اور پھر آخر میں وہی اس کا سوال۔ ’’دوپہر میں کیا پکار رہی ہو۔ ‘‘

            ’’بابر! تمہیں کھانے کے علاوہ کیا شوق ہے ؟‘‘ میں چیخ پڑتی۔

            ’’پینے کا۔ ‘‘ وہ مسخرے پن پر اُتر آتا۔’’ بس اس کی تفصیلات اور جزئیات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے تم دونوں کو۔‘‘

            ’’ اچھا تم بتاؤ بابر! آ ج کیا کھانے کو دِل کر رہا ہے ؟‘‘ نیلم ہنس پڑتی اور انتہائی صلح پسندی سے بابر کے گلے میں بانہیں ڈال کر پوچھتی۔

            ’’کچھ بھی باجی ! بس زمرد کا دماغ نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘

            ’’بس بس!! کھانا آ ج امی جی پکار رہی ہیں کسی کو بحث نہیں کرنی تم اپنے کمرے میں جا کر پڑھو۔ اور تم زمرد!جلدی سے کپڑے استری کر کے نیچے کچن میں آ جاؤ۔ میں جا رہی ہوں، امی جی کی مدد کرنے۔ ابا جی بھی آئے ہوں گے۔ ‘‘

            ’’ اچھا۔‘‘ بابر اپنے کمرے میں جا چکا تھا۔

            امی جی کو نیلم کی شادی کا خبط سوار ہو چلا تھا۔ بابر،جو گھر کے تمام ناموں کے حساب سے شاہی خاندان جیسا رعب داب والا تھا، کسی بادشاہ کے شہزادے سے کم سوچ نہ رکھتا تھا۔ وہ شادی اتنی دھوم دھام سے کراتا کہ ہم سب غرارے شرارے سنبھالتے رہ جاتے۔

            ’’زمرد تمہیں پتہ ہے۔۔۔ امی کیا کہہ رہی تھیں ؟‘‘ نیلم نے چائے کا کپ ہلکے سے مُنہ سے لگاتے ہوئے کہا۔

            ’’ کیا یہی ناں کے فلاں فلاں لوگ تمہیں دیکھنے آنا چاہتے ہیں۔ فلاں کا لڑکا تم سے تعلیم میں کم ہے۔ فلاں ٹھیک ہے مگر ہاں کرنے میں کئی رشتے دار اختلاف رائے کے بعد بچھڑ سکتے ہیں اور۔۔۔‘‘

            ’’ اور یہ کہ ایسا کچھ نہیں کہا۔ ‘‘ نیلم ہنس پڑی۔

            ’’تو امی جی سے کیا توقع کروں ؟‘‘

            ’’ پوچھ رہی تھیں کہ تمہارے ابا جی نے کہلوایا ہے کہ اگر تمہاری کوئی پسند ہے تو بتاؤ۔ ہم تمہیں کبھی ہرٹ نہیں کر سکتے۔!‘‘

            ’’ او ہ نو! امپاسبل۔۔۔‘‘میں حیران ہو گئی تھی اس لیے کہ میں ابا جی سے اس روشن خیالی کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ میں سوچ رہی تھی کہ وہ ایسے ہی ہیں، جیسے تایا جی تھے یا پھر بڑی پھو پھو نے جیسا اپنی لڑکیوں کے ساتھ کیا۔

            ’’ ہاں تم سچ کہتی ہو۔‘‘ نیلم نے تائید کی۔ ’’میں بھی یہ بات سن کر بہت حیران ہوئی تھی۔‘‘

ٍ            ’’ پھر تم نے کیا کہا؟‘‘ میرا شوق بڑھ رہا تھا۔

            ’’ کچھ بھی نہیں اور کہوں بھی کیا؟ زمرد! تمہیں نہیں لگتا، لڑکی اللہ نے عجیب ہی مخلوق بنا دی ہے۔ سہمی سہمی،وہمی سی۔ہر لڑکی ایک خواب کا دیا ہوتی ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہتی کہ ٹوٹ جائے یا اسے کوئی توڑ دے۔ نہ ہی بجھنا چاہتی ہے اور نہ ہی کسی کو بجھاتے ہوئے دیکھ سکتی ہے۔ بیچ درمیان کی یہ راہیں ہم لڑکیاں کیوں چُن لیتی ہیں ؟ نہ کھل کر ہاں کہہ سکتی ہیں، نہ نہیں۔ ‘‘

            ’’ نیلم! تمہاری کوئی چوائس ہے ؟‘‘ میں نے ڈائریکٹ پوچھ ڈالا۔

            ’’ ابھی تک تو نہیں۔‘‘

            ’’ بتانے سے ڈرتی ہو یا اعتبار نہیں ہے ؟ ‘‘

            ’’ نہیں، مجھے اپنے آ پ سے اقرار کرنے کی ہمت نہیں ہے۔ میں خود سے آنکھیں ملا کر بات نہیں کر سکتی۔۔۔ امی کے سوال کے بعد کئی چہرے آ کھڑے ہوئے ہیں میرے سامنے۔ اُن میں سے ہر ایک مجھے ناگزیر لگا پھر جب میں نے سوچا کہ کیوں ناگزیر ہے تو خود کو مطمئن نہیں کر سکی۔ زمرد! پلیز زمرد، میں اپنی فیلنگز صحیح طور پر واضح نہیں کر سکوں گی۔‘‘ نیلم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔

            میں نے اُس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لیے۔

            ’’سچ یہ ہے کہ ہمیں چہروں اور ڈگریوں کی نہیں، سمجھ اور آگہی کی رفاقت چاہیے ہو تی ہے۔ سمجھ اور شعور سے بنائے ہوئے گھر کبھی نہیں گِرتے، انہیں مفلسی کی دیمک بھی نہیں لگتی۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں؟‘‘

            ’’ ہاں سو فیصد۔۔۔!! تو۔۔۔‘‘

            ’’تو زمرد،میر ے پا س کوئی گارنٹی نہیں ہے اور نہ کسی نے دی ہے، اُس سچ کی جسے چہروں اور ڈگریوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ‘‘

            ’’ بس پھر اسے خدا کے حوالے کر دو!‘‘ میں ہنس پڑی۔

            ’’انسان ہمیشہ خدا کے حوالے ہوتا ہے۔ وہ جب چاہے جو کر دے۔ دیے جلاتا بھی ہے، بجھاتا بھی ہے۔ ہاتھ ہمارے ہیں تو کیا ہوا، ڈور تو اسی نے ہلانی ہے۔ ‘‘

            ’’ نیلم! کبھی کبھی تم اس قدر قنوطی ہو جاتی ہو کہ مجھے ڈر لگنے لگتا ہے۔ ‘‘

            ’’ پگلی !‘‘ اُس نے مجھے گلے لگا لیا اور مجھے یوں لگا، جیسے جلتے ہوئے دیے کی ہلکی ہلکی گرمی میں میَں بھی پگھل جاؤں گی۔

            ’’ ہاں، تمہیں بتانا بھول گئی کہ اس ویک اینڈ پر ہم سب آفس کے لوگ مل کر ٹھٹھہ پکنک پر جا رہے ہیں۔ تمہارا کیا ارادہ ہے۔ چلو گئی زمرد؟‘‘

            ’’ نہیں بھئی، تم لوگ جاؤ، میں کیا کروں گی۔ ویسے بھی تمہیں پتہ ہے، امی بولتی رہتی  ہیں۔ بابر الگ ناک میں دم کر دیتا ہے۔ اچھا تم کپڑے کون سے پہن کر جاؤ گی؟‘‘ پھر ہم دونوں گھنٹوں کپڑوں اور جوتوں سے باہر نہ آ سکے۔ لڑکیاں جو ہوئیں ! سج سنور لینے کی باتیں یا پھر دوسروں کی برائیاں بقول بابر کے بس یہ دو کام صنفِ نازک کی ذمے داریاں تھیں۔

            ’’ اور تمہیں پال پوس کر اس قابل کس نے کیا کہ اتنے ذی شعور ہو سکو کہ ایسی باتیں کرو۔‘‘ امی جی تو اُس کے کان تک کھینچ ڈالتیں۔

            ’’ بھئی، میں تو لڑکیوں کی بات کر رہا تھا، اَمّیوں کی تھوڑی۔‘‘ وہ بڑی وضاحت اور سچائی سے کہتا اور ہم سب صلح کے طور پر ہنس پڑتے۔

            جس وقت نیلم پکنک پر جا رہی تھی۔ میں نے اسے یاد کرایا کہ وہ کسی کو تو اسپیشل نظر سے ضرور دیکھ کر آئے تاکہ میری فائل اوپر آئے۔

            ’’ کیا اب میں یہ بھی کروں گی؟‘‘ نیلم حیران رہ گئی۔

            ’’ اگر تم گھر میں بڑی بہن ہو تو کیا ہوا کسی بزرگ کے فیصلوں میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ اگر یونہی بڑی ہونے کا روگ لیے جیتی رہیں نا تو بچپن کے فوراً بعد اَدھیڑ عمری شروع ہو جاتی ہے اور پھر پلک جھپکتے بڑھاپا، کہو کیا منظور ہے۔ ‘‘ میں نے اُس کے آگے ہاتھ پھیلائے۔

            ’’ ابھی کچھ نہیں۔ صرف مجھے جانے دو۔‘‘ اُس نے اپنے خوبصورت ہاتھ میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے بڑی عجلت سے کہا۔’’ اچھا امی کا خیال رکھنا۔‘‘

            ’’ نکلتے نکلتے بھی نصیحت نہ بھولنا! جیسے میری تو کچھ لگتی نہیں ہیں۔‘‘

            ’’ خدا حافظ!!‘‘

            ’’ نیلم۔۔۔نیلم تمہارا کیا بنے گا! پتہ نہیں، تم اندر سے ویسی ہو جیسے بظاہر ہو یا پھر دوغلی، دو رُخی۔۔۔ دو دنیا میں رہنے والے لوگ تو خود اپنے لیے روگ بن جاتے ہیں۔ بظاہر بڑے مطمئن و مسرور مگر اندر سے کتنے تنہا اور اُداس ! شاید کہ ہر لڑکی یا پھر ہر سمجھدار لڑکی دو رُخی ہوتی ہے۔ دنیا کو خوش رکھنے کے لیے، ارد گرد سارے رشتوں کو قائم رکھنے کے لیے اپنے قیام کی جنگ اپنے اندر لڑتی رہتی ہے۔ ہارتی بھی رہتی ہے اور کبھی جیت بھی جاتی ہے۔ علی الاعلان جنگ کا بگل کبھی نہیں بجا سکتی۔ اگر نیلم تم نے سمجھداری کی چادر اوڑھ کر قناعت اور رضا مندی سے ہاں کر دی تو کیا ہو گا،سب خوش خوش روز سو جایا کریں گے۔ بس تم نیلم، صرف تم رات بھرکرو ٹیں بدلتی رہو گی۔ اپنے آپ کو بہلانے کے لیے ہر وقت بہانوں کی تلاش میں رہو گی۔ میں جانتی ہوں کہ تم نے کسی پر اعتبار کر لیا ہے۔ تم نے ساری عمر کے لیے اپنی ذات کا محور تلاش کر لیا ہے۔ تمہاری آنکھوں کا حسن کئی ہفتوں سے بڑھ گیا ہے۔ تمہارے کپڑوں میں ایک نیا روپ بھرنے لگا ہے۔ ایسے کہ تم تیار ہونے کے لیے ایکسٹرا پانچ منٹ لینے لگی ہو۔ بات کرتے کرتے بڑی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہو۔میں جانتی ہوں، تم ڈرتی ہو۔ بڑی ہونا! امی جان کی تربیت ہو۔ ہمارے لیے راہ عمل ہو!اباجی کا فخر ہو۔ کتنی بھاری ذمہ داریاں تمہارے نازک کندھوں پر ہیں۔ تم بڑی جو ہوئیں۔نیلم پلیز!! میری اچھی بہن! اپنے لیے ایک اچھا سا فیصلہ کر کے آنا۔ ہر وقت جنگ نہ کرنے کا اپنے آپ سے۔۔۔ میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ ہم دونوں مل کر لڑکی کی بقا کی جنگ لڑیں گے۔ اوکے !،میں نے نیلم کی تصویر سے وعدہ لیا ور کچن میں چلی آئی۔

            ابھی اُسے گئے دو گھنٹے ہی ہوئے تھے کہ اطلاع آئی کہ اس کی وین ڈالر سے ٹکرا گئی  ہے اور اس میں صرف تین لوگ بچ سکے تھے مگر ان میں نیلم کا نام نہیں تھا۔

            نیلم ہم میں نہیں تھی۔

            کیوں نہیں تھی۔

            وہ دیے کی طرح بجھ گئی تھی یا اُس نے سارے گھر کو بُجھا دیا تھا۔

            وہ جو خوابوں کی باتیں کرتی تھی،اب خود خواب خیال ہو گئی تھی اُس کی پہلی برسی آئی اور گزر گئی۔ آ ج چوتھی برسی ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی اُس کی غیر موجودگی کا عادی نہیں ہو سکا ہے۔ وہ بے حد غیر معمولی لڑکی تھی۔ اُس کا یوں چلے جانا حادثہ نہیں،سانحہ تھا۔

            ’’ امی جی کا خیال رکھنا !!‘‘ اُس کا آخری جملہ تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتی۔ اُس کا دِل پیار کا ساگر تھا۔ اُس نے ڈائری میں لکھا تھا۔ اُس کی اِس امانت کی میں تنہا راز دار اور مالک تھی۔

            ’’ میں اپنے گھر کے اعتبار کو قائم رکھنے کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں۔ یہ سچ ہے کہ ساجد مجھے بے حد پسند ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہ ہماری فیملی اور ہمارے خاندانی رکھ رکھاؤ سے تعلق نہیں رکھتا۔ ابا جی اس کے لئے کبھی راضی نہیں ہو سکتے۔ تو پھر میں ہاتھ پھیلا کر اپنی اَنا کو فقیر کیوں کروں۔محبت تو عزت و توقیر کا نام ہے۔ اِس کا بھرم قائم ہی رہے تو اچھا ہے۔ ‘‘

            ساجد نیلم کا کلاس فیلو بھی تھا اور ان دونوں نے اِکٹھے ٹیلی کام جوائن کیا تھا! اتفاق سے وہ پکنک پر نہیں گیا تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ اس حادثے کے بعد وہ بھی اندر سے مر گیا تھا۔ بے حد ذہین اور انٹلیکچوئل سا ساجد بڑا گریس فل تھا لیکن مذہب کے جس گروہی خطے سے ہمارا تعلق تھا، وہ اُس سے بہت دور رہتا تھا اور زبان اور خاندانی رسموں رواجوں سے بھی میل نہیں کھاتا تھا۔

            نیلم تم صحیح کہتی تھیں کہ پیار ایسا سچ ہو تا ہے جسے کسی توقع اور بہلاوے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ تو سمجھ اور آگہی کے رشتے ہمیشگی کی رفاقت میں بدل جاتے ہیں۔ جہاں سمجھوتوں کا گزر نہیں ہوتا پھر آگے کے صفحے پر لکھا تھا۔

            ’’ ساجد سے آج آفس میں بات ہوئی اور یوں یہ طے ہو گیا کہ ہم میں سے دونوں ہی بزدل ہیں۔ میں گھر کی بڑی ہوں اور وہ گھر کا بڑا ہے۔ ہمیں اپنا اپنا بھرم رکھنا ہے۔ ساری عمر اس بوجھ کو لیے پھرنا ہے۔ پتہ نہیں، یہ قربانی رائیگاں جاتی ہے یا رنگ لاتی ہے۔ میں نہیں چاہتی کہ زمرد کے لئے کوئی مشکل ہو یا پھر ساجد کی تین چھوٹی بہنوں کے لئے یا پھر ہم لڑنا ہی نہیں چاہتے اور اس طرح ہم دونوں نے ساری عمر بہلنے کے لئے ہتھیار رکھ لیے ہیں۔ بس جو کچھ بھی ہے، قرار آنے کے لیے کم ہے۔ ‘‘

کتنا مشکل کتنا کٹھن

جینے سے جینے کا ہُنر

            نیلم، میری اچھی نیلم، تم مجھ میں آ گئی ہو۔ تمہاری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ ہم لڑکیاں کس کس سے کہاں کہاں لڑیں۔ ہارنے میں بھی رُسوائیاں ہیں اور لڑنے میں بھی جگ ہنسائیاں۔ طبعاً ہم سب بزدل اور وہمی ہیں۔ ہم ہر لہراتی ہوئی چیز کو سانپ سمجھ کر ڈر جانے والی لڑکیاں دوغلی اور دو رُخی ہی رہیں گی۔ اندر باہر دنیا بسائے رہنا ضرورت کی طرح ذہنوں میں رہے گا۔ ہر لڑکی کے دِل میں کوئی نہ کوئی ساجد مختلف بھیس اور نام بدل کر رہتا رہے گا۔ چاہے وہ کسی کے ساتھ بھی عمر گزار دے۔

            ’’ زمرد بیٹی، نیلم کو گئے چوتھا سال آ چلا ہے۔ تمہارے ابا جی نے پچھوایا ہے کہ تمہاری پھوپھو اپنے چھوٹے بیٹے بلال کے لئے آئی تھیں لیکن تمہاری مرضی ہمیں چاہیے۔‘‘ امی جی نے محبت سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ پتہ نہیں، کب نیلم مسکراتی ہوئی ہمارے درمیان آ کھڑی ہوئی۔

            ’’ جو آپ کی مرضی امی جی۔ ‘‘ میں اُن کے گلے سے لگے بلک بلک کر رو پڑی۔ پتہ نہیں نیلم تمہیں یاد کر کے یا پھر ایک دِیا اور بُجھ جانے پر لیکن تم تو یہی چاہتی تھیں نا نیلم! میں نے اس کی ڈائری کو نذرِ آتش کر دِیا۔ اب اس کی حفاظت مجھ سے نہ ہو سکتی تھی۔ اُس کے راز، اُس کی باتیں اور اُس کی خواہش ایک روگ کی طرح میرے اندر جل رہی تھیں، دِیے کی طرح۔۔۔

 

بھائی جی

            بھائی جی تو بڑے سارے انہیں دلار سے کہتے تھے۔ اور ہم سب جوان سے آٹھ برس پندرہ برس چھوٹے تھے، نام سمجھ کر بلاتے تھے۔ ان کا اصل نام شاہ زیب تھا۔ بقول رانی کے وہ سن ڈیڑھ کی پیدائش رکھتے تھے اس لیے مغلئی خاندان سے متاثر ہو کر تایا جی نے ان کا نام شاہ زیب رکھا تھا۔تھے واقعی شہزادوں کی طرح آن بان والے اور  ویسے ہی فیاض بھی۔ ان کا دھیما پن اور مسکراتے وقت آنکھوں تک سے ہنس دینے والے بھائی جی ہم سب کو بے حد عزیز تھے۔ چونکہ وہ تمام کزنوں کی تعداد جو کہ ملا جُلا کر پچیس تک پہنچتی تھی۔ ان سب میں بڑے تھے۔ لہٰذا ہم سب کو انہیں بھائی جی کہنے کا آرڈر ملا تھا۔

            سو سب کہتے تھے۔ بڑوں نے بھی کہنا شروع کر دیا۔ جیسے بڑے ماموں جی ہم سب کے لیے بھی تایا جی تھے۔ اس لیے باقی سب کزنز انہیں تایا جی کہتے تھے اور حتیٰ کہ نانی جی بھی۔ اس لیے بھائی جی بس بھائی جی تھے۔ گھر سے لے کر محلے تک ا سکول سے کالج تک پھر یونیورسٹی میں بھی اس چیز سے قطعی دور کہ وہ ہمارے ماموں زاد تھے تو کسی کے تایا زاد اور کسی کے دوست یار۔۔۔ میرا شمار کزنوں میں سب سے چھوٹی پھوپھی کی دوسرے نمبر کی کزن میں آتا تھا۔ بھائی جی مجھ سے آ ٹھ سال بڑے تھے۔ جس گھر میں پلے بڑھے تھے وہ بڑے بڑے دالانوں اور باغوں والا گھر تھا۔ اور جہاں امی جی کی شادی ہوئی تھی وہ سرکاری گھروں والا ایک احاطہ بند کالونی تھی۔ سو۔۔۔ نانی جی کے گھر رہنا ہمارے لیے ایک Fantasy Worldکی حیثیت رکھتا تھا۔ چھٹیوں میں انتظار کیا جاتا۔ سارے اچھے کپڑے جوتے اس لیے سینت سینت کر رکھتے کہ وہاں جا کر پہنیں گے۔ اچھی اچھی باتیں بھی یاد سے لے کر حفظ کر لی جاتیں کہ سب خوش ہوں گے۔

            اچھی رپورٹ کارڈ تک سنبھالے جاتے کہ وہاں سب کو دکھائیں گے۔ آپا جو مجھ سے چار سال بڑی تھیں۔ نئے نئے کھانے پکانا سیکھتیں تاکہ وہاں سب کو مرعوب کر سکیں۔ میں چونکہ گھر میں بھی چھوٹی تھی اور بھائی جی سے بھی آٹھ سال چھوٹی تھی،سارے کزنوں میں میرا شمار ایسے ہی ہوتا تھا جیسے ہو تو ٹھیک، نہ ہو تو تو بھی ٹھیک۔ ایسا انسان بھلا کیا اپنی جگہ متعین کرے جس کا ہونا متعین نہ تھا لیکن بڑے بڑے دلانوں اور باغوں سے گھرا ہوا گیارہ کمروں کا پرانا بھٹکا ہوا ویران گھر مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے پرانا گھِسا ہو ا سوٹ جس کے چھوٹے ہو جانے کی سند سب دیتے ہیں لیکن کہیں سے خود کو لگتا نہیں ہے۔ اس لئے کہ دل نہیں کرتا حقیقت کا سامنا کرنے کو۔۔۔ بالکل ایسے ہی تا جی اور تین چاچاؤں کے لیے کہ گھر چھوٹا تو نہیں مگر نئے زمانے میں پرانا لگتا ہے اور چونکہ امیر تھے لہٰذا رہنا بھی عجیب لگتا تھا۔ مگر ان کا دل مانتا نہیں تھا۔ لہٰذا وہ پرانا گھر، اپنا گھر، اپنے پسندیدہ پرانے کپڑوں کی طرح پہن اوڑھ رہے تھے اور پھر نانا جی کی یادیں بھی تو وہیں تھیں جو ہم سب کے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھیں۔ امی جی بھی تو بیاہ کر رخصت ہوئی تھیں اس دہلیز سے۔ اس پرانے سے بڑے گھر کی ایک ایک اینٹ پزل کا پروگرام دیتی تھی۔ ہر شخص کی یاد ایک سنگ میل کی طرح ان اینٹوں پر لکھی گئی تھی۔ یہاں دادا جی ( ہمارے نانا جی ) بیٹھتے تھے۔۔۔

             یہاں ان کے دوست امیر محمد روز ان سے بیٹھک کرتے تھے۔۔۔

            اس جگہ نانی جی نے پہلی دفعہ تندور میں روٹی پکائی تھی اور ٹھیک اسی جگہ شوقیہ میری امی جی نے بھی روٹی لگانا سیکھا تھا۔‘‘

            تایا جی نے دسویں جماعت کے وقت یہاں پڑھائی کی تھی۔

            اور یوں یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے بھائی جی پر رک جاتا۔ وہ چونکہ اس نسل کے سردار کی حیثیت رکھتے تھے۔لہٰذا وہ ایک کمرے سے پیدا ہو کر یونیورسٹی تک کی یادگاریں رکھتے تھے۔ یا خدا! ہم کبھی بھی ان یادگاروں سے برآمد نہیں ہو سکتے۔ لیکن ایک بات تھی، سب کچھ پرانا ہونے کی وجہ سے پیار بھی بہت پرانا ہو گیا تھا۔ جذبوں کی سچائیوں میں تپ تپ کر کندن ہو گیا تھا۔ جبھی تو ہر شخص سونے کی طرح قیمتی اور روپیلا لگتا تھا۔

            ہم تمام پھوپھی زاد کزنوں کو ماموں زاد کزن بہت اچھے لگتے تھے، شاید امیر بھی۔ بحر حال ہم سب ایمپریس تھے۔ بے سوچے سمجھے ہم سب Complexکمپلیکس کا شکار تھے۔ حالانکہ ان کی محبت اور چاہت میں کمی نہ تھی۔ بس کمی تھی تو اکٹھا نہ رہنے کی وہ سب چونکہ مل کر رہتے تھے۔ لہٰذا ہر دن میلہ سا لگتا۔ اور ہم سب علیحدہ علیحدہ گھروں میں رہتے تھے۔ سو ہم واپس وہاں سے آئے تو ہفتوں تنہائی تنہائی کھیلتے رہتے۔۔۔

            مل جل کر رہنے میں کتنا پیار ہے۔

            کتنا مزہ ہے۔۔۔

            یوں لگتا ہے دکھ بھی جیسے دم دبا کر بھا گ جاتے ہیں۔

            پیسے سے بھی امیری اور دلوں کی بھی امیری۔

            سکون، اطمینان اور خوشیوں سے بھائی جی رجّے پیٹ بھرے ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کا سکون بھرا لہجہ دھیمی مسکراہٹ،ان کے چہرے پر سرور کی طرح رہتا تھا۔ پھر اوپر سے پڑھے لکھے، ان کو اور بھی منفرد بناتا تھا۔

            ’’بیلا تم نے کہاں تک پڑھ لیا ہے ؟‘‘بھائی جی نے اپنی کتاب پر نظر جمائے جمائے مجھ سے وہیں سے پوچھ ڈالا مگر خوشی کے مارے ہفتوں نیند نہ آئی کہ بھائی جی کو میرا نام یاد ہے۔ اور جب آپا کو بتایا تو وہ ہنس پڑیں۔

            میری خوشی پر۔۔۔ واقعی میں اتنی زیادہ خوش کن حیرانگی میں تھی کہ جواب دینا ہی بھول گئی۔

            ’’میں نے تم سے پوچھا ہے۔۔۔‘‘انہوں نے ازلی قیامت خیز مسکراہٹ کو ہدایتاً مجھے عطا کرتے ہوئے سوال دھرایا۔

            ’’جی میں فرسٹ ائیر میں۔ ‘‘میں بوکھلا گئی۔

            ’’کون سے سجکیٹ ہیں ؟ ‘‘انہوں نے قریب آنے کے لئے میری سمت قدم بڑھا دیئے۔ مجھے یوں لگا جیسے چاند آسمان سے زمین کی طرف آ رہا ہو۔

            ’’جی وہ۔۔۔‘‘میں بٹر بٹر انہیں دیکھ رہی تھی اپنی طرف آ تے ہوئے۔

            ’’دیکھو بیلا۔ اگر تم نے عام لڑکیوں کی طرح آرٹس اس لیے رکھی ہے کہ تم نے صرف وقت گزارنا ہے کتا ب کے ساتھ یا صرف اس لیے کہ لڑکیوں کو پڑھائی کیا کرنی ہے کون سی نوکری کرنی ہے۔ کیا تیر مار لیں گی تو مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔۔‘‘ وہ شاید مجھے سمجھا رہے تھے۔

            ’’دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ کی لکیریں بتا رہی ہیں کہ تم پائلٹ بنو گی۔‘‘ انہوں نے جھٹ میرا بھیگا ہوا سر د ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

            یہ کیا ہو رہا تھا؟ ؟شاید جادو۔۔۔سحر۔۔۔

            ’’بھائی جی!! میں اور پائلٹ۔۔۔‘‘ میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

            کچھ تو مجھے ہو رہا تھا۔۔۔ جیسے پہلی دفعہ دِل کو دھڑکنا آ رہا تھا۔

            شرم کو سرخ پوش ہونا آ رہا تھا۔

            پسینے کو قطرے کی طرح پیشانی پر چمکنا آ رہا تھا۔

            یہ سب کچھ اور بہت کچھ پہلی دفعہ سب کو آ رہا تھا۔

            مگر۔

            بھائی جی کو کچھ نہیں آ رہا تھا پہلی دفعہ۔ انہیں سب کچھ پہلے سے آتا تھا۔۔۔ نہیں انہیں تو سرے سے ایسا کچھ نہ آتا تھا۔

            ’’ارے ارے مجھے اپنا ہاتھ دو۔۔۔ ‘‘انہوں نے پھر پیچھے کی طرف بندھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ایسے کہ ان کا خوبصورت پیاری مسکراتی آنکھوں والا چہرہ میرے اتنے قریب آ گیا تھا کہ اس کے بعد میں دن رات جلنے لگی ہوں۔

            مہکنے لگی ہوں۔۔۔

            خواب دیکھنے لگی ہوں۔

            ’’ارے بیلا تم بے حد اسپیشل لڑکی ہو۔۔۔بے حد Sensitive (حساس) ‘‘ اور اس ایک لمحے کو تو مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ کوئی مجھے یوں Discoverکر ے گا۔ اور مجھے یہ بھی کہاں پتہ تھا کہ ’’ حساس‘‘ ہونا کیا ہوتا ہے۔

            سُنو بیلا! Don’t waste Your talent( خود کو ضائع نہ کرنا)

            ’’جی۔۔۔‘‘ میں حیران تھی۔

            ’’Really I mean it۔۔۔۔ ( میں سچ کہ رہا ہوں )‘‘ بھائی جی میرے سرکو سہلاتے ہوئے کتا ب اٹھا کر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔۔۔ میں تنہا رہ گئی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں تنہا ہونے سے ڈر گئی تھی۔۔۔میں اس خواب کو ریزہ ریزہ نہ دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔

            ’’بھائی جی کہاں ہیں۔۔۔‘‘ کہیں سے آواز آئی۔

            ’’انہیں پڑھنے کے علاوہ کام کیا ہے۔ ‘‘کوئی اور ہاں میں ہاں میں ملاتا۔ ’’ لگتا ہے ساری ریسرچ انہوں نے ہی کرنی ہے۔‘‘ کوئی جل کر کہتا۔ لیکن بھائی جی بھی تو بڑے اسپیشل تھے۔ بالکل بھی Spoil Kid ( بگڑی اولاد) نہ تھے۔

            بڑی ذمہ داری سے بی فارمیسی کے بعد ریسرچ میں چلے گئے تھے۔ انہیں (Discovery)(دریافت) کا خبط تھا۔ چاہے انسان ہو یا انسانی خلیے انہیں صرف معلوم کرنا تھا۔ کیا میں ان کو بھی اپنے جیسی لگی جبھی تو مجھے کہہ رہے تھے

            ’’Do something Special۔۔۔‘‘

            ’’میں اسپیشل ہوں۔۔۔‘‘

            ’’نہیں بھائی جی آپ اسپیشل ہیں۔ جبھی تو ایسا کہہ رہے ہیں بھلا کون کہتا ہے اس جل ککڑی دنیا میں کہ تم بہت اسپیشل ہو۔۔۔‘‘

            میں مرعوب تو پہلے ہی سے تھی مگر اب جو کچھ لگ رہا تھا بہت الگ تھا۔

            کچھ ایسا الگ تھا کہ میں کسی کو بھی راز دار نہ بنا سکی۔۔۔

            میں سب کے ساتھ رہتی مگر ہوتی کہیں اور تھی۔۔۔

            بھائی جی کیا سامنے آئے، میرا دل چاہتا کہ کوئی اور وہاں نہ ہو اور وہ صرف مجھے Discoverکریں۔۔۔ حالانکہ میں کسی سے بھی جیلس نہ تھی۔ مگر میں تنہائی چاہنے لگی تھی۔ میں واقعی سحر میں آ گئی تھی۔

            بھائی جی کے سحر میں۔۔۔

            اور یہ ایسا سحر تھا کہ دن رات ختم ہو رہے تھے مگر سحر کی کوئی رات تھی اور نہ کوئی دن۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا بھی نہیں کہ میرے سجکیٹ کیا ہیں مگر مجھے دھُن ہو گئی کہ میں سائنس لوں گی۔ میں جو پڑھائی کو’’ وقت گزارہ‘‘ سمجھتی تھی ایک دم بدل گئی تھی۔

            ہماری زندگی کی ایک حیثیت ہے، ایک مقام ہے۔ اس کا تعین اور یقین ہم نے کرنا ہے۔ میں بے اہم زندگی گزار رہی تھی مگر باقی ایسے نہیں گزارنا چاہتی تھی۔ میں کچھ اہم اور الگ کرنا چاہتی تھی۔

            امی جی حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔

            ابوجی فخر سے مجھے تک رہے تھے۔

            آپا کو اچھا لگ رہا تھا۔۔۔

            جب بھائی جی کو پتہ چلا تو وہ بے حد خوش ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔

            ’’ہمیں اس کی پراہ نہیں کرنی چاہیے کہ ہم انسانی سمندر میں قطرے کی حیثیت رکھتے ہیں اس کے باوجود ہم سب تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ‘‘

            ’’کیسے۔۔۔؟‘‘نانی جی مسکرا رہی تھیں۔۔

            ایسے جیسے آ پ اچھی ہیں۔ آ پ نے ہماری پرورش کی۔ اپنے انداز اور رکھ رکھاؤ سے۔ اسی طرح سے ہم سب کو اس High Techدنیا سے کندھے سے کندھا ملا کر جینا ہے۔

            اس مقابلے باز دنیا کو جیتنا ہے۔۔۔

            ہمارا بہت سخت مقابلہ ہے زندگی سے۔ ہمیں اگر اچھی با وقار نسلیں بنانی ہیں تو ہمیں ان کے قابل بننا پڑے گا۔۔۔ سیریس ہو کر پڑھنا پڑے گا۔۔۔‘‘ ان کے طویل لیکچر سے کئی لوگوں کو غر ض نہ تھی۔ مگر میرا قلبی لگاؤ ان کی باتوں کو اقوالِ زریں سے کم حیثیت نہ دیتا تھا۔ سو میں سوچ لیا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔

            میں کچھ بنوں گی مختلف سی،بالکل بھائی جی کی طرح۔ اور پھر میں نے یہ بھی سوچ لیا  کہ بھائی جی سے پوچھوں گی کہ اگر میں پائلٹ نہ بنوں تو براتو نہیں مانیں گے۔

            ’’مگر کیوں ؟‘‘ وہ مجھ سے پوچھ رہے تھے۔

            ’’اس لیے کہ مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ کہیں خفا نہ ہو جائیں۔ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔

            ’’پگلی۔‘‘انہوں نے اتنے پیار سے مجھے گلے لگا لیا جیسے معصوم بچے کو ماں اپنے سینے میں تحفظ کے لیے چھپا لیتی ہے۔

            اتنی گرمی۔۔۔

            اتنا پیار۔۔۔

            اتنا تحفظ، کتنا قرار، سب کچھ دھڑکن دھڑکن بن رہی تھی۔ ’’دیکھو تم یوں کرو بیلا کہ تم بھی ریسرچ آفیسر بن جاؤ۔ دیکھو بہت سارے ڈاکٹر،انجینئر اکاؤنٹنٹ ہو گئے ہیں۔ ریسرچ فیلڈ خالی پڑی ہے تم آ جاؤ۔۔۔‘‘ انہوں نے کچھ اتنے مان سے کہا تھا کہ سر ہلانا پڑا۔

            ’’ آخر تم ہی کیوں ؟ ‘‘ رانی خالہ زاد ہونے کے ناطے مجھ سے ہم عمر ہونے کا فائدہ اٹھانا چاہ رہی تھی۔ مگر میں اس سے اپنی کوئی بات شیئر نہ کر سکی۔ میں اسے کیا سمجھاتی۔ بھائی جی جتنا مہربان ہو رہے تھے۔ میں اتنی ہی بے قرار۔۔۔ رو گی سی، روہانسی سی۔۔۔ اس رو پڑنے والے بچے کی طرح جسے کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ اسے بھوک لگی ہے کہ نیند آ رہی ہے۔۔۔ بس وہ روئے جا رہا تھا۔ مدد۔۔۔ مد دکی کان پھاڑتی ہوئی آواز۔۔۔ بالکل اُسی طرح میں ہو رہی تھی۔ مگر میری زبان، کوئی سمجھ نہ پا رہا تھا۔ ’’ سو آخر تم ہی کیوں ‘‘ کا رانی کو کیا جواب دیتی۔

            ’’گڑبڑ تو نہیں کر رہی ہونا۔۔۔‘‘ وہ آنکھیں مٹکا کر راز داری سے پوچھ رہی تھی۔

            ’’پاگل ہو کیا۔۔۔بھائی جی کے لیے ایسا سو چوں گی۔۔۔‘‘ میں کہتے کہتے دودھ میں اُبال کی طرح آتے آتے رک گئی۔ مجھے پہلی دفعہ پتہ لگا کہ جھوٹ کہہ رہی ہوں۔۔۔ دلاسہ دے رہی ہوں خود کو۔۔۔

            چلو تم تو بھائی جی سمجھتی ہو مگر وہ،بیلا،بہت رومانٹیک ہو کر کہتے ہیں۔’’ کچھ بھی بولتے رہنے کا جنون ہے تم کو۔ ‘‘میں نے رانی کو دھکا دے دیا۔ مگر دل میں خوشی کے انگارے سے پھوٹ پڑے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں سمجھنے میں غلطی نہیں کر رہی۔ انہیں بھی مجھ سے اُنس  ہو گیا ہے۔

            جبھی تورانی کو بھی لگا کہ انہیں مجھ میں اور میرے کیرئیر میں غیر معمولی دلچسپی کیوں ہے۔

            ان کی باتیں۔۔۔

            ان کا چہرہ۔۔۔

            ان کے وجود کا لمس۔سب کچھ میرے اتنے قریب رہتا کہ مجھے احساس ہی نہ ہوتا کہ وہ میرے پاس نہیں ہیں اور اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب کئی ہفتوں مصروفیات کی وجہ سے ہم نانی کے گھر نہ جا سکیں تو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے واپسی پر بھائی جی ہمارے گھر آ گئے تھے۔ ’’بھئی پھو پھو کہاں ہیں آپ سب۔۔۔‘‘ بھائی جی کے ’’ آپ سب‘‘ پر مجھے یوں لگا جیسے انہوں نے صرف مجھے پوچھا ہو۔۔۔ شاید اس لیے کہ میں ہی ان کے سامنے تھی۔۔۔

            ’’ بس پڑھائی۔۔۔امتحان۔۔۔‘‘ میں بس یہی بتا سکی کہ آپا اور امی جی آ گئیں اور میری حیثیت سب کی نظر میں بس’’ چھوٹی ‘‘ سی رہ گئی۔۔۔ سب پیار اور پچکار کرتے اس لیے کہ میں ان کے لیے گڑیا تھی اور اگر کوئی اہمیت دیتا اور کسی قابل سمجھتا تھا تو وہ تھے بھائی جی۔۔۔ شاید اس لیے میں ان کے قریب ہو گئی تھی۔ وہ میرے اندر کی لڑکی کی تسکین کر دیتے تھے۔ کبھی تعریف سے، کبھی مشورے سے اور کبھی اُمید دِلا کر۔ اہمیت دے کر اور کبھی اہمیت جتا کر۔۔۔ وہ سر سے پیر تک میرے اندر کی لڑکی کو زندہ رکھنے اور زندہ کرنے کے معجزے سے واقف تھے۔ اور تحسین توہر ایک کے لیے تحفہ ہو تی ہے۔ مجھے اس تحفہ کا انتظار رہتا تھا۔ ان کا توقیری اور تحسین آمیز رویہ مجھے اہم اور مختلف بنا دیتا تھا اور منفرد بننے کے شوق میں اہم ہونے کے لیے اور High tech society) کو جیتنے کے لیے میں اڑتی گئی اڑتی گئی۔۔۔ میرے ساتھ صرف بھائی جی تھے  اس لیے پتہ ہی نہیں لگتا تھا کہ کون سا لمحہ ان کے بغیر گزر گیا۔۔۔ میں اکثر یہی سوچتی کہ کیا کوئی شخص ایسی بھی تاثیرِ مسیحائی رکھتا ہو گا جو کسی کو سر سے پیر تک بدل دے اور اس پر کھُلے بھی نہ۔۔۔ مجھے کبھی نہ پتہ چل سکا کہ وہ واقعی کیوں کرتے ہیں میرے ساتھ۔۔۔

            ہو سکتا ہے سب کے ساتھ ایسے ہی ہوں یا واقعی میں اسپیشل تھی۔۔۔ میں ہنس پڑتی۔ یا ہو سکتا ہے کہ میرا ہر بات کو مان لینا انہیں اہم بناتا ہو۔۔۔ صرف اسی تسکین اور تحفہ کے لیے میرے ساتھ بات کرتے ہوں۔

            ’’کہاں ہو محترمہ؟‘‘ انہوں نے میرے سامنے ہاتھ ہلایا۔ میں جو اپنے کمرے میں کتابیں ہاتھ میں لیے کھڑکی کے پار دیکھ رہی تھی۔ وہ تو امی اور آپا سے باتیں کر رہے تھے۔ اس لیے اندر آ گئی۔۔۔ مجھے خبر ہی نہ ہوئی کہ بھائی جی کب اندر آئے تھے۔۔۔

            ’’اور کیا کرتی رہتی ہو۔۔۔‘‘ وہ کرسی پر بیٹھ چکے تھے۔ ان کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔۔۔

            ’’کچھ بھی نہیں۔۔۔‘‘ اور کیا کہتی کہ خواب دیکھتی رہتی ہوں الٹے سیدھے۔۔۔

            ’’یہ کیا بات ہوئی۔۔۔‘‘ آگے وہ کچھ اور مجھے ناصحانہ باتیں سمجھاتے میں نے الٹا ان سے پوچھ لیا کہ آپ کیا کرتے ہیں ’’ کچھ اور ‘‘ کی مد میں۔

            ’’ہاں میں اچھی کتابیں پڑھتا ہوں۔ اچھی فلمیں دیکھتا ہوں۔۔۔

            اچھی جگہ سیر کے لیے جا تا ہوں۔۔۔ تمہیں پتہ ہے بیلا میں ہر روز رات کو ایک کام اپنے آپ کو خوش کرنے کے لیے ضرور کرتا ہوں۔ چاہے وہ کتنا بڑا ور چاہے وہ کتنا چھوٹا ہو۔۔۔ مجھے سکون دیتا ہے، خوش کر دیتا ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے وجود کی کوئی اہمیت ہے۔۔۔ بالکل ایسے ہی رات کو میرے دل نے کہا کہ تم سب کو دیکھے دِن ہو گئے ہیں مجھے جانا چاہیے۔ سو خود کو خوش کرنے کے لیے یہاں آ گیا ہوں۔۔۔ کیا کہو گی تم مجھے Selfish؟ ‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔

            ’’ نہیں آ پ بہت اچھے ہیں۔ ‘‘میں نے جانے کس جذب میں کہہ دیا۔ مگر انہوں اتنی حیرانگی سے مجھے دیکھا کہ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے یوں لگا جیسے انہوں نے کوئی نئی Discoveryکر لی ہو۔۔۔ میرے اندر کے راز کی Discovery۔۔۔ لیکن پیار تو ایک لہر کی طرح ہوتا ہے۔ اسے بہے جانا ہے۔ اسے سمندر کی کشش کھینچ لے گی۔ جہاں بھی ہو گی۔ میں کیا کرتی۔ میں لہر لہر ہو کر سمندر کی طرف کھنچ رہی تھی۔۔۔

            انہوں نے کچھ بھی نہیں کہا اور چلے گئے۔۔۔

            انہوں نے ’’ اور کیا کرتی رہتی ہو؟‘‘ کی تفصیل بھی نہ لی۔ اور نہ کوئی نئی امید کی فصل اگائی۔ وہ چلے گئے۔ رات خاموشی سے دن سے گلے لگنے کو بے قراری سے آگے بڑھ رہی تھی  اور بھائی جی کے وجود کی کمی بے قراری بن کر میرے اندر تاریکی کی طرح بڑھ رہی تھی۔

            ’’مجھے لگتا ہے بھائی جی کہیں سیریس ہو گئے ہیں۔‘‘ آپا کا انکشاف مجھے ہلا کر رکھ گیا۔ مجھے یوں لگا  جیسے کوئی میرے وجود کو مجھ سے الگ کر رہا ہو۔

             ’’ کیسے ؟ ‘‘ میں نے معصومیت کی ایکٹنگ کی۔ شاید اس امید پر کہ اب شاید آپا میرا نام بتا کر بم گرا دیں مجھ پر۔۔۔ لیکن ایسا تو آپا نہ بتا رہی تھیں۔

            ’’ اس لیے کہ بڑی ممانی ( جو بقیہ لوگوں کی تائی جی تھیں ) سے انہوں نے شادی کی درخواست پر غور و خوض کرنے کی ہامی بھر لی ہے۔۔۔‘‘

            ’’اوہ۔۔۔ ‘‘میں نے آہ بھری۔

            بھئی اتنے بڑے ہو گئے ہیں۔ آخر کب شادی کریں گے لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ بھائی جی کی شادی بہت اچھی لڑکی سے ہو۔۔۔ تاکہ ہم سب ایسے ہی رہیں۔۔۔ واقعی بھائی جی صحیح کہتے تھے کہ ایک لڑکی دنیا کا واحد محور ہے جس کے گرد سب گھومتے ہیں۔ سو خاندان کے اس محور کو دنیا کی اس طاقت ور مخلوق کو بہت سمجھ دار، پڑھا لکھا اور Well Oriented ہونا چاہیے۔۔۔ سو ہمیں آپ کے لیے بھی ایسی ہی Well Oriented Girl. Well  Mannered,کی تلاش ہے۔ جو آپ کی ذہنی اونچائی کا ساتھ دے سکے اور ہم سب سے رشتے نباہ سکے۔۔۔ یہ کیسی چپ تھی جو سر د رات کی طرح مجھے سے لپٹے جا رہی تھی۔۔۔ سچ کی طرح مجھے پور پور کڑوا کر رہی تھی۔ مجھے تنہا کر رہی تھی۔

            مجھے چھوٹی گڑیا ہونے کی سزا دے رہی تھی۔حالانکہ میں اب فزکس میں ماسٹر کا سوچ رہی تھی تاکہ ریسرچ ورک میں جا سکوں۔۔۔

            ’’تمہارا کیا خیال ہے۔۔۔‘‘ آپا نے مجھے چونکا دیا۔

            ’’میرا خیال۔۔۔ کس بارے میں ؟ ‘‘

            ’’یہی۔۔۔ بھائی کی شادی کے بارے میں ؟ ‘‘انہوں نے کروٹ بدلتے ہوئے پوچھا۔

            ’’میں کیا کہہ سکتی ہوں۔۔۔ یہ خالصتاً ان کا ذاتی معاملہ ہے۔۔۔‘‘میں نے موضوع ہی بدل دِیا۔

            مجھے یاد آیا، بھائی جی ایک دن کہہ رہے تھے کہ، دنیا میں بہت سارے کام اس شادی اور محبت جیسے مسائل سے اہم ہیں۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ لڑکیوں کو سوائے ان خوابوں کے کچھ سوجھتا ہی نہیں۔۔۔ تم سب ہالی وُڈ اور بولی وُڈ کے Fantasy Worldمیں رہتی ہو۔ اوئے پاگل لڑکیو! وہ تو مارکٹینگ کرتے ہیں پیسے بنانے کے لیے اور تم سب اپنی زندگی آئیڈیل بنانے کے چکر میں الجھ جاتی ہو۔  Lets Come in Reality World Girls.۔ اور واقعی حقیقت یہی تھی کہ ہم فینٹسی ورلڈ میں رہنے والی لڑکیاں تھیں اور شاید انہوں نے سمجھا کہ میں ذرا سی الگ ہوں ان سب سے کہ میں زیادہ تر چُپ رہتی تھی۔ سو انہوں نے سوچا کہ شاید میں خوابوں میں رہنے والے لوگوں سے مختلف ہوں اس لیے میں ان کی باتوں پر غور کروں گی، مان لوں گی، انہیں بتا دونگی کہ خواب اور حقیقت کیا ہے۔۔۔ سو میرا بدلنا، میری سوچ۔۔۔ انہوں نے یہ سب کچھ جیت کی طرح قبول کر لیا صرف فاتح بن کر، جبھی تو کتنے مزے سے اپنی پسند کی لڑکی شاز، جو ا نہی کی طرح ریسرچ کر رہی تھی،مختلف تھی۔انٹلیکچول (Intellectual) تھی۔ دونوں کے شوق ایک جیسے تھے۔ اس کے حق میں ووٹ دے دیا۔۔۔ حالانکہ پیار کے، قرب کے خواب تو آپ نے اور شاز نے بھی دیکھے ہوں گے لیکن وہ ہماری طرح چھوٹی اور گڑیا ٹائپ تھوڑی تھی۔۔۔

            ’’ چلو یہ قومی مسئلہ بھی ختم ہوا۔‘‘رانی کہہ رہی تھی۔

            شاید مجھے حقیقت میں لانا چاہ رہی تھی۔

            کپڑے کیسے بنیں گے۔۔۔ یہ مسئلہ آپا کا تھا۔

            کہاں سے سلیں گے۔۔۔ یہ بوکھلانا چھوٹی ممانی کا تھا۔

            کتنے دن پہلے ڈھولک رکھا جائے گا۔۔۔ نانی جی کی خوشی پرانی تھی۔

            یہ سب کیا ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن سب کچھ نارمل ہو رہا تھا۔ میرے ساتھ یہی کچھ مختلف ہو رہا تھا ہمیشہ کی طرح۔۔۔ خواب میں نے دیکھے تھے لہٰذا سزا بھی یک طرفہ ہی ہونی چاہیے۔۔۔ اشتباہِ نظر میرا تھا سو بکھرنا بھی میرا ہی حاصل تھا۔ اور میرے اس راز کا ہم راز بھی تو کوئی نہ تھا۔۔۔ سو کہنا اور سننا بھی کیا تھا۔ بس اب۔۔۔

            میں اڑتے اڑتے تھک گئی تھی۔۔۔ چلتے چلتے گر رہی تھی۔۔۔

            میں واقعی الگ ہو گئی تھی سب سے۔۔۔ جیسے کونج ڈار سے۔۔۔

            جد ا جدا سی۔۔۔ یہ کیسی Discoveryتھی۔ جو ابھی ابھی ہو ئی تھی۔

            کسی نے بھی بھائی جی کا خواب نہ دیکھا تھا۔

            اِک میں ہی صرف ایک اسی خواب کے پیچھے ہولی تھی۔۔۔

            سب نے شاہ زیب میں بھائی جی کو دیکھا تھا اور مانا تھا۔

            اور انہوں نے بھی خود کو ہم سب کا بھائی جی ہی سمجھا تھا، لیکن۔۔۔

            میرے لیے بھائی جی صرف شاہ زیب تھے۔۔۔

            صرف شاہ زیب۔۔۔!!

———————-

 

محرم یار پیارا

            اب ایک منٹ کی اوقات ہی کیا تھی۔ سوائے اس کے کہ وقت آگے بڑھانے کے لیے اسے آ گے ہونا پڑتا تھا اور ہمیں گننا پڑتا تھا۔ جبھی کچھ سیانوں نے اپنی گھڑیوں میں منٹوں والی سوئی رکھی ہی نہ تھی۔ اندازے کے وقت کا اپنا ہی مزہ ہوتا ہے۔ کم ہو تو مزہ۔۔۔ اور آگے ہو تو بھی فرق نہیں۔

            ویسے بھی مجھے تو وقت کی چالوں سے ایسی کوئی خاص دلچسپی بھی نہ تھی کہ مرتی رہوں گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ۔

            اٹھتی بھی گھڑیوں کے بغیر اور سوتی بھی سوئیوں کے بغیر۔۔۔

            فجر ملے یا نہ ملے، ہزاروں لوگو ں کی طرح بے پرواہ رہتی اور اکثر ہی دل کے اشاروں پر مور کی طرح اٹھلایا ہی کرتی، سو نماز پڑھی یا نہ پڑھی، دل کو روگ نہیں لگایا تھا۔ تائی جی کی طرح جو ایک بھی نماز کے چھٹ جانے پر قلق سے دہری پھرا کرتیں۔ جن کا اوڑھنا بچھونا ہی جائے نماز تھا۔ صفائی ستھرائی، پاکی ناپا کی بس ان کی گفتگو کا شروع آخر یہی ہوتا۔ خاندان بھر میں سنکی، شکی، پاگل، خبطی سمجھی اور کہلائی جاتی تھیں جنہیں وہ مسکرا کر ایک اعزاز کی طرح سنبھال رکھتیں۔

            ’’ رب تک رستہ ہے آسان تھوڑی ہو گا۔۔۔‘‘

            پاگل پن اور جنون کے بغیر بھی منزلیں ملی ہیں کسی کو۔۔۔

            ان کے چہرے کانور اتنا گہرا ہو جاتا کہ ان کی جھکی ہوئی آنکھوں سے بھی نظر نہ ملتی تھی۔ اور پھر ہم تو عمر کے اس دور میں تھے جس میں پاگل پن اور جنون صرف عشق کے کھاتے میں رکھا جاتا ہے۔

            ’’ ارے تمہاری تائی امی دیوانی ہو گئی ہیں۔‘‘ ریشم آپا اپنی ماں کو ہمیشہ تمہاری تائی امی کہا کرتی تھیں۔

            ’’ آپا! وہ آپ کی امی جی بھی ہیں۔‘‘ میں انہیں ہمیشہ کی طرح آج بھی یاد دلا رہی تھی۔

            ’’ہاں نا وہی۔۔۔بس دیوانی ہو گئی ہیں۔ بھلا ہر وقت کوئی کیسے جنون کر سکتا ہے۔ ایک ہی بات کا جنون۔۔۔‘‘

            ریشم آپا کو بس بہانہ چاہیے تھا۔ وہی تھیں جنہیں سب سے زیادہ وضو سے گھبراہٹ ہوتی تھی۔ کبھی پانی ٹھنڈا ہوتا اور کبھی بہت گرم۔۔۔ کبھی نیل پالش کو کھرچتے وقت اپنے بالوں کو نوچنے کی دھمکی دیتی تھیں تو کبھی کپڑوں کی ناپاکی کا رونا۔۔۔ لیکن نماز کو وقت کے ساتھ ملانے پر ہمیشہ ہی خفا رہتی تھیں۔

            ’’ لو اور سنو۔۔۔اس نماز کا کیا فائدہ جو ماتھے پر بل ڈال دے اور دِل میں رب سے دوری۔۔۔‘‘ تائی اماں ریشم آپا کے بال نماز والے دوپٹے میں اڑستے ہوئے پیار سے کہے جاتیں اور سمجھاتیں لیکن ریشم آپا کا دِل ہمیشہ ریشم کے دھاگوں کی طرح اُلجھا ہی رہتا۔۔۔ ہر وقت خفگی کا جالا بنا رہتا۔۔۔

            لیکن۔۔۔

            ایک منٹ ہمیشہ کی طرح کم پڑتا۔

            سوئیوں کی گرفت سے آزاد ہو جاتا۔

            اور یوں ایک منٹ میں نماز قضا ہو جاتی۔

            ’’ ہائے ربا!‘‘ تائی امی کا کلیجہ ہول جاتا۔

            اوریوں ایک منٹ کی اہمیت ہمیشہ آس پاس یوں لڑکھتی رہتی جیسے بچہ اپنے من پسند گیند کو ادھر ادھر پھینک کر بھی اسی کے پیچھے لگا رہتا ہے۔

            مجھے ریشم آپا بہت اچھی لگتی تھیں۔ بالکل ریشم جیسی ملائم اور سبک سی ریشم آپا۔ ہر رنگ میں ملائم تھیں۔۔۔ہر ادا چمکدار۔۔۔

            ان کے سنہرے رنگ میں عجب سی کشش تھی۔ آنکھیں غلافی تھیں اور سمندروں کے بیچ بیچ سونے کی پتلیاں ایسی گھومتی، ڈولتیں جیسے چکور چاند کی طرف ڈولتا رہتا ہے۔

            اور کبھی سنہری کنچے لگتے جو ایسے دوڑتے بھاگتے جیسے کنچے کھیلتے کھیلتے ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ان کی پلکیں اوپر نیچے گرتیں تو ایک دوسرے سے لڑاتی لیتی ہوئی لگتیں اور وہ ادائے بے نیازی سے اپنے خوبصورت بھری بھری گول کلائیوں والے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کو مل دیتیں جیسے کسی بچے کو لڑائی سے روکا جاتا ہے کہ ’’خبردار جواب شرارت کی ہو۔‘‘

            ان کے خوبصورت متناسب جسم پر جب دوپٹہ شانوں سے ڈھلکتا تو کلیجہ تائی امی کا دھڑک جاتا اور پھر وہ صلواتیں پڑتیں کہ میں بھی گھبرا کر اپنا دوپٹہ شانوں پر پھیلا لیتی۔

            ریشم آپا کی پسند بھی لا جواب تھی۔ یوں توہر رنگ ان پر سجتا تھا لیکن میرون رنگ میں دولہن سی ہو جاتی تھیں اور پھر ان کی آنکھوں کی لڑائی جنگ میں بدل جاتی۔۔۔

            وہ یونیورسٹی میں ایم اے کر رہی تھیں لٹریچر میں۔۔۔ بقول تائی امی کے ریشم کوتو نہ اردو آتی ہے اور نہ ادب سے دور کا بھی واسطہ۔ خدا جانے، کالج یونیورسٹی میں ایڈمیشن کے لیے ماں باپ سے کیوں نہیں پوچھا جاتا۔

            ایک تو تائی امی کو بس بیر ہے ریشم آپا سے۔۔۔۔

            وقت بے وقت ڈانٹ پھٹکار جس کو وہ کندھے اُچکا کر ایسے سنتیں جیسے تائی امی کسی اور سے کہہ رہی ہوں۔

            ’’ وقت دیکھ لڑکی، کیا ہوا ہے ؟

            ایک ایک منٹ کا حساب دینا ہو گا۔ یہ جو فرشتے ہیں نا دائیں بائیں جو جھٹکتی پھرتی ہو، وہی بتائیں گے منٹ منٹ کا حساب۔۔۔‘‘

            ہائے ربا میرے۔۔۔ یہ پھر ایک منٹ کہاں سے آ گیا جس کی اہمیت تھی اور نہ اوقات۔۔۔ بھلا ایک منٹ کسی کا کیا بگاڑ سکتا تھا۔

            لیکن ایسا ہو ا تھا۔۔۔ یہی ایک منٹ، دنیا بدل دیتا ہے۔

            ایک منٹ تو کیا اس کے ہزارویں حصے میں بھی طاقت تھی کہ وہ سب کچھ بدل سکتا تھا۔ اس حصے میں کوئی زندہ اور کوئی مردہ، کوئی خوش تو کوئی افسردہ۔۔۔

            کوئی آیا کوئی گیا۔۔۔

            کوئی شیطان بنا تو کوئی انسان۔۔۔

            منٹ کی ساری سوئیاں میرے آس پاس بجنے لگتیں۔

            گھنٹوں کی طرح۔۔۔

            پائل کی طرح۔۔۔۔

            تو کہیں اڑنے لگتی تتلیوں کی طرح۔۔۔۔

            میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی۔

            ’’سن مانو! تجھ سے ایک بات کہنی تھی۔ ‘‘

            ’’ مجھ سے ؟‘‘

            میں نے چونک کر ریشم آپا کو دیکھا اور خوشی سے بھر گئی۔ واہ جی واہ ! دم میں مو ج در موج سرور اترنے لگا۔

            ’’جی آپا ‘‘ میں ہمہ تن گوش تھی۔

            ’’ مانو!پتہ ہے کیا۔۔۔‘‘ ریشم آپا نے بات ادھوری چھوڑ دی۔

            ’’ اب بھلا مجھے کیا پتہ۔‘‘ میں نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔

            ان کی آنکھوں میں نشہ ہلکورنے لینے لگا۔ ان کی دراز پلکوں کی لڑائی بھی بند ہو گئی تھی اور دھیرے دھیرے غلافی آنکھوں پر جھک گئی تھیں جیسے سستا رہی ہوں، آرام کرنا چاہتی ہو ں یا پھر ہار مان لی ہو۔۔۔

            ’’مانو‘‘ تجھے پتہ ہے، میری کلاس میں ایک جادو گر آ یا ہے۔‘‘

            ’’جادو گر۔۔۔؟‘‘

            میں نے سہم کر آپا کو دیکھا لیکن وہ اتنی پر سکون تھیں کہ میں حیران رہ گئی۔

            یہ جادو تھا یا سَحر یا پھر مجھے ہی ایسا لگا تھا جیسے ریشم آپا ہم سے بچھڑ رہی ہیں۔۔۔ وہ میرے ساتھ تھیں۔ میرے ہاتھ کو انہوں نے اپنے نرم ملائم ہاتھوں میں لے رکھا تھا اور ان کی زبان بھی مجھ سے مخاطب تھی لیکن ان کی روح میرے ساتھ نہیں تھی۔ ان کا ذہن وہاں نہیں تھا۔ ان کی آنکھیں کسی ایسے مرکز کے گرد چکر کاٹ رہی تھیں جیسے چکور چاند کے گرد۔۔۔ریشم آپا کی نشے کے بوجھ سے مدھ بھری غلافی آنکھیں جو جھکیں تو اٹھی ہی نا!

            ان کا جادو گر سَحر کر گیا تھا۔

            میں ان کو پور پور بھکاریوں کی طرح پکار رہی تھی۔ اپنے سوال کو دھرا رہی تھی۔ ان کا گرم اور نم ہاتھ میری ہتھیلی میں جذب ہو رہا تھا۔

            آپا نیم دراز سی اپنے لمبے بالوں سے دھیرے دھیرے کھیل رہی تھیں۔ کبھی بالوں  کو کھولتیں اور کبھی باندھ دیتیں، ان کا دوپٹہ شانوں سے ڈھلک کر دائیں طرف پڑا ہنس رہا تھا۔۔۔ میں نے سہم کر آپا کو تھام لیا۔

            ’’ آپا وہ جادو گر کون ہے ؟ کون ہے وہ آپا؟؟َ‘‘ میں نے انہیں کندھوں سے ہلایا۔

            ریشم آپا نے مجھے یوں دیکھا جیسے واقعی پلٹ کر دیکھا ہو جاتے جاتے۔۔۔ اور اپنا ڈھلکا ہوا سفید ڈوپٹہ اٹھا کر نیوی بلیو قمیص پر یوں رکھ دیا جیسے اب اس کا کام ختم ہوا۔

            وہ خود بھی تو گہرے نیلے رنگ میں پانیوں کی ہی طرح سبک سبک بہہ رہی تھیں یا بادلوں کی طرح اڑ رہی تھیں۔

            ’’ آپا! بتائیں نا، کون ہے وہ جادوگر؟‘‘

            انہوں نے یکبارگی حیرانی سے مجھ دیکھا اور پھر ہنس پڑیں جیسے گہرے بادلوں کی اوٹ سے سورج کھکھلا رہا ہو۔

            ’’ مانو اس کا نام ساحر ہے۔‘‘ انہوں نے کھلکھلاتے ہوئے بتایا۔

            ’’ ساحر۔۔۔ تو بہ آپا، یہ کوئی نام ہوا۔ آخر عمر، عامر، وجاہت، احمر، عمیر کیوں نہیں ؟‘‘

            ’’ اس لیے کہ وہ سب سے الگ ہے۔‘‘ انہوں نے میرے ماتھے پر پڑے ہوئے بالوں کو ہٹایا۔

ٍ            عمر میں میرا ان کا چار سال کا فرق تھا لیکن مجھ میں ان میں ہزاروں برس کا فاصلہ تھا۔ کبھی ایسا لگتا جیسے وہ کوہ قاف کی پری ہوں خوب صورت سی۔۔۔ ہر کام ایک پل میں نمٹانے والی۔۔۔ کبھی شہزادی سی۔۔۔ آن بان والی۔۔۔ ہر شخص درباری لگتا ان کے حضور۔۔۔ اور ان کی بے نیازی، ان کے منصب دلبری کو اور بھی جاندار کر دیتی۔

            ’’ مانو، سن رہی ہونا۔‘‘

            ’’جی آپا!‘‘ میں بھی درباری ہی لگ رہی تھی خود کو، جس کا کام صرف سننا ہو تا ہے۔

            ’’ مانو! ساحر جب بولتا ہے، لگتا ہے جیسے دن رات ٹھہر گئے ہوں۔۔۔ اور کیا بولتا ہے مانو، ایسے لگتا ہے جیسے یہ سب پہلی دفعہ ہی کسی نے کہا ہو جیسے سارا کا سارا سچ ہو۔۔۔ کہیں کوئی غلطی نہیں۔۔۔‘‘

            اور میں نے چپکے سے سوچا کہ ایسا تو صرف ابا جی ہی کہتے ہیں۔ ہر بات سچ اور کھری کھری۔۔۔ اور پھر مجھے تو اختلاف کرنا ہی تھا۔ سو نام پر کر بیٹھی، اب ساحر بھی کوئی نام ہوا۔

            ’’ تم بھی نا۔۔۔ یہ کیا نام گنوائے تم نے، ہے کوئی ایسا نام جو ساحر جیسا اچھا اور مکمل ہو۔‘‘

            ’’آپا تم پاگل ہو گئی ہو۔‘‘

            اور وہ میری بات پر ہنستی چلی گئی۔

            دل ہی دل میں، میں نے انہیں خوب ہی صلواتیں سنائیں لیکن بظاہر عزت کی پوٹلی سنبھالے اپنے اور ان کے درمیان اپنے چھوٹے بڑائی کے فاصلوں کو سمیٹتی رہ گئی۔ آخر پورے چار سال بڑی تھی۔ ہمارے گھر میں تو چار دن بڑے کو بھی وہی عزت حاصل تھی جو چار سال بڑے کی تھی۔ اتنے بڑے سے گھر میں جس کو دیکھ کر پرانی حویلی کا گمان زیادہ ہو تا تھا،

بی بی جی کے زمانے میں ہی تا یا جی اور ابا جی اس گھر میں اکٹھے رہا کرتے تھے۔ بچپن، جوانی شادیاں اور سب کے بچے اسی گھر میں ہوئے تھے۔

            بی بی جی کے جانے کے بعد تائی امی اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی کمی بھی پوری کرتی رہتیں اس لیے کبھی کبھی اب ہم سب کو بی بی جی کی یاد کم آنے لگی تھی۔

            عجیب اتفاق تھا۔ تایا جی کے ہاں بچوں میں فرہاد بھائی اور ریشم آپا تھیں اور میں امی، اباجی کی واحد اولاد سب کی مانو۔۔۔ مجھے بھی اب اپنا اصلی نام یا د نہ رہتا تھا۔ جو صرف سرکاری کاغذوں میں لکھا رہ گیا تھا۔

            مانو، میرا نام فرہاد بھائی نے رکھا تھا۔ بقول ان کے، میں نے سب سے پہلے انہیں ہی دیکھا تھا اور اس وقت میری آنکھوں میں بلی کی آنکھوں والا تجسس اور چمک تھی اور مسکراہٹ لبوں سے ہوتی ہوئی پورے چہرے تک تھی تو انہیں اس سے اچھا نام ملا ہی نہیں اور امی جی سے کہا، کہ یہ ہماری مانو بلی ہے۔ ہماری اور صرف ہماری مانو۔۔۔، اس دن سے لے کر آ ج تک میں صرف مانو تھی سب کی۔۔۔حالانکہ آنکھوں میں چالاکی اور تجسس بھی نہ رہا تھا۔ ہاں ایک شرارت سی رہتی تھی وہاں۔۔۔ یا شاید اپنے اس طرح اہم ہونے کا نشہ تھا۔ جو بھی تھا اس نے مجھے مانو ہی رہنے دیا۔     لیکن ریشم آپا کے سامنے سب کچھ پھیکا تھا۔ میں ان جیسی شاید ہزار بار Recycleہو کر بھی آتی تو نہ بن پاتی۔

            آ پا بس ریشم تھیں۔۔۔ ہر ادا سے۔۔۔ ہر رنگ سے۔۔۔ ہر زاویے سے۔۔۔

            وہ ساحر کے اثر میں تھیں یا ساحرہ کے اثر میں خود ساحر آ چکا تھا۔۔۔ جو بھی تھا، مجھے حیران کر رہا تھا۔ ان کے سب سے بڑے راز کی راز دار صرف میں تھی۔

            ان کے کھوئے کھوئے دن رات کی تفصیل میرے پاس تھی۔

            ایک ایک منٹ پر کتنا کچھ بدل جاتا ہے اور بدل رہا تھا۔

            ریشم آپا ریشم کی طرح ہاتھوں سے پھسل رہی تھیں۔ ان کی مدھ بھری آنکھیں اُٹھنا بھول گئی تھیں۔

            ’’ مانو ! آج وہ نہیں آیا تھا۔ ‘‘

            ’’ کون آپا؟‘‘میں انجان بن گئی۔

            ’’کون سے کیا مطلب ؟‘‘ انہوں نے ایسے حیران ہو کر دیکھا جیسے کوئی جرم کر لیا ہو میں نے ’’ مانو!‘‘ انہوں نے تنبیہاً پکارا،ایسے جیسے سرزنش کر رہی ہوں۔’’ ساحر اور کون۔‘‘

            ’’ اوہ۔‘‘میں نے پھر انجان بننا چاہا۔‘‘ کیوں خیر تھی نا آپا؟‘‘

            ’’ ہاں !‘‘ ریشم آپا پردے اٹھا کر کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھ رہی تھیں۔ ’’ ہاں شاید خیر ہی ہے۔ ‘‘ انہوں نے سوچتے ہوئے کہا۔

            ’’ یہ کیا بات ہوئی آپا !‘‘ میں نے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ان کا زمین پر ڈھلکا ہوا دوپٹہ انہیں یاد کراتے ہوئے تھما دیا۔

            ’’ ساحر نے کہا تھا کہ وہ مجھ سے یونیورسٹی سے باہر اکیلے میں ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘

            ’’پھر؟پھر آپا؟‘‘ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ’’ پھر؟‘‘ میں نے انہیں تڑپ کر کندھوں سے ہلایا۔

            ’’ پتہ نہیں کیوں مانو، میں انکار نہیں کر سکی۔ میں اسے انکار نہیں کر سکتی۔‘‘ ان کی آنکھیں ابھی بھی اڑتے بادلوں کی طرح انہی کے تعاقب میں تھیں۔

            ’’ آپا!‘‘ میں نے انہیں اپنی طرف موڑ لیا۔

            ان کی غلافی آنکھیں جھک گئی تھیں، پلکیں بدمست سی کناروں سے لگی ہو ئی تھیں۔ سنہری چمکتی رنگت پر کشمکش کی کیفیت تھی۔

            آپا میرے گلے سے لگی ہوئی تھیں۔ ان کا وجود بارشوں کے بوجھ سے جھکے اس پتے کی طرح لگ رہا تھا جو کبھی خوشی سے جھومتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو کبھی سہم کر کانپتا ہوا۔

            پتہ نہیں کیوں مجھے اس کشمکش سے ہمیشہ ہی گھبراہٹ ہوئی تھی۔ یہ کیفیت اس وقت کا سندیسہ ہوتا تھا جب آپ کا دل نہیں چاہتا کہ یہ کام ہو اور آپ کو کرنا پڑ جائے۔۔۔ کبھی مصلحتاً تو کبھی کا دل رکھنے کے لیے۔۔۔لیکن اس کشمکش میں ایک ہار ہی ہوتی ہے اپنی اور جیت ہمیشہ دوسرے کی۔۔۔

            ’’آپا!پھر ؟‘‘ میں بھی اسی کشمکش کا حصہ ہو رہی تھی۔

            ’’ پھر کچھ نہیں مانو، پھر کیا۔۔۔ تم کیا سمجھیں ؟‘‘

             آ پا کی آنکھیں سیدھی تیر کی طرح میرے دل کے آر پار ہو رہی تھیں۔ ان کی آنکھوں میں شکوہ سا تیرنے لگا تھا۔ شاید ساحر کی بے وجہ ضد کا یا میرے شک کا۔۔۔ شکوہ تو شکوہ ہی تھا۔

            اب میں بھی بھلا کیا کرتی۔ تائی امی کا ایک منٹ کا فلسفہ ایک پل میں مجھے سمجھ آ گیا تھا۔ سو میرے سر پر بھی سوار ہو گیا اور ایک منٹ کو تو یہی لگا جیسے ریشم آپا سے کوئی بہت ہی بڑی غلطی ہو گئی ہو۔

            ’’ مانو ! ‘‘انہوں نے مجھے ہلکے سے چھو ا۔

            ’’ آپا میں ڈر گئی تھی۔ میں ڈر گئی تھی آپا !‘‘ میں ان سے لپٹ گئی۔

            انہوں نے مجھے آہستہ سے مجھے علیحدہ کیا اور خود تخت پر شہزادیوں کی طرح بیٹھ گئی۔ وہی ریشمی سی ریشم آپا تھی۔ نیم دراز سی گاؤ تکیہ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔

            اپنے بالوں سے کھیلتی ہوئی۔۔۔

            وہی مدھ بھری جھکی جھکی غلامی آنکھیں۔۔۔

            اور وہی لڑتی جھگڑتی پلکیں۔۔۔

            ڈوبتے سورج جیسی سنہری پتلیاں تھر تھراتی تو لگتا جیسے کائنات کی سانس رک رک کر چل رہی ہو۔۔۔

            خوب صورت مسکراتے ہوئے یاقوتی ہونٹ ایسے جیسے اب بولے کہ تب بولے۔۔۔

            اور ان کا سرو قامت انہیں سب سے ممتاز کرتا تھا اور اس سے بھی زیادہ ان کا لہجہ، ان کی باتیں ایسے لگتی جیسے سحر ہو جائے۔۔۔ ہوش اڑ جائیں جیسے نہ سوال آئے اور نہ جواب سوجھیں۔

            جو بھی ہوتا تھا، اتنا اچانک ہوتا کہ ان کے آس پاس کے لوگ صم ہو جاتے، گھبرا جاتے۔۔۔ شاید اسی لیے تائی امی ایک سانس اپنے لیے لیتی تو دوسرا ریشم آ پا کے لیے رکھ دیتی اور ریشم آپا کا دل جب ایک منٹ میں 72دفعہ کی بجائے 144 بار دھڑکتا تو ان کی سانسیں ہر جگہ سنائی دیتی تھیں۔

            ’’ آپا !میں ڈر گئی تھی، شاید اسی لیے۔‘‘ سانسوں کی تیزی کا ادراک بڑا جان لیوا تھا۔

            ’’ کیوں مانو؟ کیوں بھلا ڈر گئی تھی؟‘‘ آپا نے اپنا سر میری گود میں رکھ دیا۔

            میرے ہاتھ بے اختیار ان کے خوب صورت چمکیلے سونے کی تاروں جیسے بالوں میں الجھ گئے اور پھر پتہ نہیں کیوں میرے کئی آنسو سونے کی تاروں سے لپٹ گئے لیکن ایسے کہ آپا کو خبر بھی نہ ہو سکی۔

            ایک وہ وقت تھا جب وہ میرے کہے ان کہے لہجوں کی پہچان رکھتی تھی۔ آ ج کیسے ہاتھ چھڑائے الگ کھڑی تھی۔

            ریشم آپا مجھ سے بچھڑ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ، دھیرے دھیرے میرا غم مجھے نڈھال ہی تو کر دیتا جو آپا مجھے پکار نہ لیتی۔

            ’’ مانو !،  میں نہیں جانتی مجھے کیا ہو رہا ہے۔ بس اتنا جانتی ہوں مجھے پیار نے سجا دیا ہے۔اندر سے بھی اور باہر سے بھی۔ میرے ساحر نے مجھے سجا دیا ہے مانو، مجھے خوب صورت کر دیا ہے۔ جھرنوں جیسا سبک، بادلوں جیسا بنا دیا ہے اور میں اڑتی رہتی ہوں۔ اور پر بہت ہی اوپر۔۔۔

            ریشم آپا آنکھیں موندے اپنے ساحر کے ساتھ زمین سے آسمان تک خبر لے آئی تھی اور میں زمین پر کھڑی صرف انہیں جاتا اور کبھی  اڑتا دیکھ رہی تھی۔ میرے ہاتھ ان کی ریشمی بالوں سے ابھی بھی باتیں کر رہے تھے لیکن ان کا نم ہاتھ میرے ہاتھوں سے نکل رہا تھا۔

            میں نے مضبوطی سے ان ہاتھوں کو پکڑ لیا۔

            ’’ آپا، میں ڈر گئی تھی۔ ‘‘ میں ان کے ہاتھوں پر سر کھے رو رہی تھی، کہرہ رہی تھی۔ہر آنسو میں لوٹنے کی فریاد تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔

            ’’ ڈر اور شک میں فرق ہوتا ہے مانو۔ ڈر لگے تو کسی کا ساتھ ہو جاتا ہے اور شک ہو تو ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ فرق ہوتا ہے مانو ڈر اور شک میں۔‘‘

            ’’ جی آپا!‘‘میں اب ان کے گلے سے لگی ہوئی تھی۔ ان سے انہی کی شکایت کر رہی تھی اور وہ ابھی تک ٹوٹے ریکارڈ کی طرح ایک ہی بات دھرا رہی تھی۔

            ’’ مانو فرق ہوتا ہے نا، ڈر لگنے میں، شک کرنے میں۔‘‘

            پھر ریشم آپا کبھی یونیورسٹی سے واپس گھر آتے ہوئے ساحر سے ملتی آتی۔ خاص طور پر اس دن جب وہ نہیں آتا تھا اور اگر کبھی کہیں بھی ملاقات نہ ہوتی تو آپا کا جینا مرنے جیسا لگتا تھا۔ اداس، ملول سی، چپ چاپ سی، زرد سی، ڈھلتی شاموں کی ویران اور سنولائی سی لگتی اور اگر ان کی غلافی آنکھیں شب بھر جاگتی تو اور بھی انگارہ ہو جاتیں اور ایسے میں رو پڑتی تو کہیں کچھ دکھائی نہ دیتا۔

            آ ج بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اور وہ چپ سی تھیں۔

            ’’ ارے یہ کیا، تم رو رہی ہو؟‘‘ تائی امی ریشم آپا کے کمرے میں جانے کس کام آ ئی تھیں۔ انہیں یوں دیکھا تو ٹھٹک گئیں۔ کیا ہو رہا ہے یہاں۔۔۔ اور لڑکی، تم نے کیا حال بنا رکھا ہے ؟‘‘ تائی امی نے جو ریشم آپا کو یوں بے سدھ دیکھا تو بے چین ہو گئیں۔’’ کیا ہوا میری بچی کو ؟‘‘ وہ تڑپ کر ان کے قریب ہی بیٹھ گئیں۔

             تائی امی جو ایک ایک منٹ کا حساب یاد کرایا کرتی تھی، ابھی ابھی سب کچھ بھول گئی تھی۔ گھبرا کر انہوں نے ریشم آپا کا دوپٹہ ان کے شانوں پر پھیلا دیا اور ان کا سر اپنے کندھوں سے لگا لیا۔

            ’’ میری بچی میری ریشم جیسی بچی، کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘

            ریشم آپا نے کچھ نہ کہا بس مسکرا دی۔ ایک نڈھال اور تھکی تھکی ہنسی امی کے لیے کافی تھی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ان کی بیٹی ان سے کچھ نہیں چھپا سکتی یا شاید انہیں اپنے جاننے پر مکمل اعتبار تھا۔

            تائی امی کچھ نہ سمجھی تھیں۔ انہیں خبر ہی نہ ہو سکی کہ ان کی ریشم سحر ذ دہ ہو گئی ہے۔ تائی امی ہمیں سر شام کبھی سر کھولنے نہیں دیتی تھیں۔ مجال تھی جو ہم میں سے کوئی ننگے سر پیڑ کے نیچے کھڑے ہو سکے۔ جب بھی ایسا دیکھتیں کھڑے کھڑے اتنی دہائی مچاتیں اور جنوں بھوتوں کے ہزار قصے جواب ہمیں از بر یاد ہو چکے تھے ہر بار نئے تاثر کے ساتھ سناتی تھیں اور اب توہم سب کو اتنے یاد ہو چکے تھے کہ جہاں کہیں بھی گھنے پیڑ دیکھتے وہیں ہاتھ دوپٹہ کی طرف چلا جاتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اذان سنتے وقت لاشعوری طور پر دوپٹے کی تلاش شروع ہو جاتی ہے۔

            ’’ تم لو گ نہیں سدھر و گی۔ ‘‘ ان کی آواز یہیں کہیں سے آ ئی تھی۔ ’’ ایک منٹ نہیں لگتا کچھ بھی ہونے میں۔ ‘‘

            ’’ ہاں تائی امی ! واقعی ایک ہی منٹ لگا ہے سب کچھ ہونے میں۔۔۔ ساحر نہ تو گھنا پیڑ تھا اور نہ ہی کوئی جن بھوت۔۔۔ لیکن تھا ساحر، جادو کر گیا تھا، سر سے پیر تک سحرزدہ کر دیا تھا ایسے کہ ریشم ریشم کی طرح الجھ رہی تھی۔ ٹوٹ رہی تھی یا شاید پھسل رہی تھی۔۔۔

            ساحلی ریت کی طرح بے سمت، بے نشان، بے نام منزلوں تک کا سفر کر رہی تھی۔۔۔ ساحلوں کی ہوا جیسی بے قرار سی ریشم آپا۔۔۔ ساحلی ریت کی طرح اڑ رہی تھی۔

            ’’ اچھا چلو تم دونوں باہر کمرے سے نکلو میں کچھ بنا لاتی ہوں تم لوگوں کے لیے۔‘‘ تائی امی نے اٹھتے ہوئے کہا۔

            ’’ نہیں مجھے بھوک نہیں۔ ‘‘ ریشم آپا کی آواز میں نقاہت تھی۔

            ’’ ارے واہ، یہ کیسے ہو گا۔ تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا میری بچی، دیکھو تو مانو اپنی آپا کو، کیسی کمزور ہو گئی ہے۔ رنگ دیکھو تو کیسا کمہلا رہا ہے۔ کیا ہو گیا ہے ریشم تجھے ؟‘‘

            انہوں نے اپنے ممتا بھرے ہونٹ آپا کی یخ پیشانی پر رکھ دیئے۔ آپا نے تڑپ کر آنکھیں کھول دیں۔

            ’’ کیا ہوا میری بچی کو؟‘‘ تائی امی کی نظریں آپا کی آنکھوں سے مل رہی تھی۔ انہوں نے کچھ پا لیا تھا یا پہچان لیا تھا۔

            ایک منٹ میں، ایک سکینڈ، ایک پل میں یا پھر پل کے کسی ہزارویں حصے میں انہیں کچھ خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگی تھیں۔

            ’’ ریشم میری طرف دیکھو۔ ‘‘ تائی امی کی آواز میں حکم تھا۔ میں نے سہم کر آپا کو ان سے چھین لیا اور گھسیٹ کر اپنے ساتھ لگا لیا۔

            ’’آپ بھی بس تائی امی، ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں۔ آپا کی طبیعت کل سے خراب ہے اور آپ تو جانتی ہیں یونیورسٹی کی پڑھائی کتنی سخت ہوتی ہے۔ ‘‘

            ’’ تو بتایا کیوں نہیں ؟‘‘ انہوں نے سرزنش کی۔

            ’’ جی۔۔۔وہ بس۔۔۔ !‘‘

            آپا اب بھی خاموش تھی۔ آنکھیں بند کیے اپنے جہاں میں گم تھی اور میں جھجک کر رہ گئی۔

            ’’ اور یہ ناس ماری پڑھائی۔۔۔ذکر نہ کرنا۔‘‘ اب وہ بولتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور جاتے جاتے پھر پلٹ آئی تھیں۔ ’’ پڑھائی کوئی بھی ہو میری بچی، وہ ہمیشہ سخت ہی ہوتی ہے۔ ‘‘

            تائی امی کی آواز کی شکستگی نے مجھے اداس کر دیا اور ریشم آپا بھی میرے کندھے سے جڑی گم تھی۔ وہ یہاں تھی ہی نہیں۔

            ’’ آپا، مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ ‘‘ میں نے ان کا ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگا لیا۔

            ’’ بس شک نہیں کرنا مانو، ڈر کا ڈر نہیں لگتا اب۔ ساحر نے مجھے بہادر بنا دیا ہے۔ لڑنا، جھگڑنا نہیں مانو، بہادر ہونا سکھایا ہے۔ جانتی ہونا، یہ فرق۔۔۔؟ اچھا ایسا کرتی ہوں، میں تمہیں ساحر سے ملواتی ہوں۔ تم بھی دیکھنا کہ جب وہ جہاں جدھر دیکھتا ہے، چیزیں سانس لینا بھول جاتی ہیں۔ اور جب وہ بولتا ہے تو ساری کائنات اپنے کام چھوڑ کر صرف اسے سنتی ہے۔ ‘‘

            ’’ آپا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف آ پ کو ایسا لگتا ہو۔ پر مجھے نہ لگے۔ آپا اگر مجھے نہ لگا ایسا تو۔۔۔‘‘ میں نے بات ادھوری ہی رہنے دی۔

            ریشم آپا نے پلٹ کر مجھے یوں دیکھا جیسے ان کو حیرت ہوئی ہو پھر دوسرے ہی پل بڑی خوب صورت سی ہنسی ان کے چہرے پر نور کی طرح برس گئی۔

            یہ کون دیکھتا ہے اسے دیکھنے کے بعد

            ’’ مانو! ادھوری باتیں، رقابتوں کی طرح ہوتی ہیں۔ ہر وقت مکمل کرنے کی خواہش گھیرے رہتی ہے لیکن ادھوری باتوں کے انبار ایسے لگ جاتے ہیں جیسے اماں نے پچھلی سردیوں میں ابا جی کا پرانا سوئیٹر ادھیڑ دیا تھا اور اون کا کتنا ڈھیر سارا انبار لگ گیا تھا ان کے پاس۔۔۔ یاد ہے نا مانو؟ اماں کے پلنگ کے پاس اون کا انبار، ایسے جیسے دل کے پاس ادھوری باتوں کا انبار۔‘‘

            ’’اور ہاں آپا، یاد ہے تایا جی کیسے الجھ کر گر گئے تھے اس دن اون کے انبار میں۔‘‘

            ’’ ہاں، ایسے جیسے انسان ادھوری باتوں سے الجھ جائے اور پھر گر جائے۔۔۔ اور چاہے کہ الجھا بھی رہے۔۔۔ خفا بھی رہے کہ ایسا کیوں ہوا۔۔۔

            جانتی ہو مانو کہ انسان کیوں الجھا رہتا ہے ؟ ایسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں گر نہ جائے۔ بکھر نہ جائے۔۔۔ اور کہیں اس کی سلامتی کا بھرم ٹوٹ نہ جائے۔‘‘

            ’’ آپا ‘‘ میں نے پھر انہیں آواز دی۔

            ’’ ارے مانو، تم پھر ڈر گئیں۔ ‘‘

            ’’ ہاں آپا، پھر۔۔۔ ؟‘‘ میں نے سہم کر ریشم آپا کو دیکھا۔

            ماں اپنی سلامتی کا بھرم لیے چلی گئیں کئی باتوں کو ادھورا چھوڑ کر۔۔۔ ریشم آپا ابھی بھی اسی دروازے کو تک رہی تھی جہاں سے کچھ دیر پہلے تائی امی گئی تھی اور میں کہہ رہی تھی۔

            ’’ میں نے خو د آپا کے بغیر دیکھا ہی نہیں ہے۔ آپا نہیں جانتی کہ آپ کے بغیر کیسا لگے گا۔جب آپ ایسی باتیں کرتی ہیں تو میں آپ کے بغیر رہنے کے ہنر سے اور بھی دور ہو جاتی ہوں۔ ‘‘

            ’’ پگلی۔۔۔‘‘ انہوں نے میرا ما تھا چوما، بالوں کو وہاں سے ہٹایا اور مجھے اکیلا چھوڑ کر باہر چلی گئی۔

            ان کی خوشبو ان کے بعد بھی ان کا ہی پتہ دے رہی تھی۔

٭……..٭

            کیا ہو رہا ہے، کیا ہونے والا ہے۔، جب سب کو پتا چلے گا، تب کیا ہو گا۔۔۔ تایا جی، اباجی، تائی امی، امی جی اور فرہاد بھائی اوہ خدایا۔۔۔ جب انہیں پتہ چلے گا کہ مجھے سب کچھ پتہ تھا تو کیا ہو گا؟ کیا کہیں گے مجھے۔۔۔ اور آپا کا کیا ہو گا؟

            پتہ نہیں مجھے کیا کرنا چاہیے۔۔۔ کیسے بتاؤں، کیسے بتاؤں کہ ریشم آپا کیوں گھل رہی ہے۔ کیسے ہجر کی نذر ہو رہی ہیں۔۔۔

            خوشیوں اور محبتوں میں اتنے فاصلے تھے کہ میں سوچ کر ہی کانپ گئی۔

            ساحر کون تھا۔۔۔

            کہاں رہتا تھا۔۔۔

            کس کے ساتھ رہتا تھا۔۔۔

            اس کا حسب نسب، گھر بار کچھ بھی تو نہ پتا تھا۔ جو بھی سوچتی، صرف قیاس ہی ہوتا، لیکن کب تک۔۔۔ آج آپا سے کہہ دو ں گی کہ مجھے ساحر سے ملنا ہے۔ ابھی اور اسی وقت۔۔۔

            میں اپنے کمرے سے نکل کر ان کے کمرے میں آ گئی۔ آپا اپنے کمرے میں نیم دراز کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ ان کی نیم وا آنکھوں سے روشنی ایک لکیر کی طرح لفظوں پر پڑ رہی تھی۔ وہ اتنی منہمک تھی کہ انہیں میری آہٹ بھی چونکا نہ سکی۔

            ’’ آپا۔۔۔آپا، مجھے ساحر سے ملنا ہے۔ ‘‘ میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

            انہوں نے اچانک ایسے مجھے دیکھا جیسے وہاں میری آپا نہیں، کوئی اور تھا۔ اتنی گہری اجنبیت اور اس سے بھی زیادہ جسارت پر حیرت۔۔۔

            ’’ ریشم آپا۔۔۔ !‘‘ میں نے ان کے ہاتھوں سے کتا ب لے کر بند کر دی۔

            ’’ آں ہاں۔‘‘ وہ ایسے چونکی جیسے کسی لمبے سفر سے واپس آئی ہوں۔ ’’ کیا کہا مانو تم نے ؟‘‘

            ’’آپا !‘‘ میں نے قدرے خفگی سے کہا۔’’کچھ نہیں۔‘‘ اور پھر یہ کہہ کر ناراضگی کا اظہار کر ہی دیا۔ ’’ واہ یہ کیا بات ہوئی۔ میری آپا کو یوں مجھ سے کوئی چرا لے اور میں شور بھی نہ کروں۔۔۔‘‘

            ’’ ارے،ارے تو ہماری بلی ہم سے خفا ہے۔‘‘ انہوں نے مجھے لپٹا لیا۔’’ ہاں کیو ں نہیں مل لینا ساحر سے۔۔۔لیکن اس نے مجھے تم سے کبھی علیحدہ نہیں کیا مانو، میں نے خود کو تم سے، سب سے علیحدہ کیا ہے۔ وہ بھی میں نے نہیں کیا۔ خودبخود ہو گیا۔ ہوتا چلا گیا سب کچھ۔ اب اس میں ساحر کا کیا قصور؟‘‘

            ’’ ہے آپا اس کا قصور۔‘‘ میں اب بھی خفا تھی۔ ’’ یاد ہے پہلے ہم اکھٹے گھومتے اور پھرتے تھے، کھیلتے تھے، کھاتے پیتے تھے، شاپنگ پر جاتے تھے، فلم دیکھتے تھے، ٹی وی پر پروگرامز بھی انجوائے کرتے تھے۔ اکھٹے اکھٹے پڑھتے اور ملنے ملاتے بھی تھے اورتو اور اب تو اپنی باتیں کہے بھی عرصہ ہو گیا ہے اور پرسوں فرہاد بھائی بھی پوچھ رہے تھے کہ ریشم کو کیا ہو گیا ہے۔ بات ہی نہیں کرتی ہم سے۔‘‘

            ’’ پھر تم نے کیا کہا فرہاد کو۔‘‘ ریشم آپا مسکرا رہی تھی۔ ‘‘

            ’’ پھر کیا، کہہ دیا کہ مصروف ہیں یونیورسٹی کے ایک پراجیکٹ میں۔ ‘‘

            ’’ اچھا۔‘‘ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور ہنستی چلی گئی۔ ہنستے ہنستے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔  ایسے جیسے تیز ہوا سے کچھ لہریں ساحل سے بھی آگے آ جائیں تو سب کچھ گیلا کر دیتی ہیں۔ ایسے ہی آپا کی آنکھیں چھم چھم ساحلوں سے آگے برس رہی تھی۔

            ’’ آپا، بس بھی کریں۔ اب ایسی بات بھی نہیں کہی تھی۔‘‘ میں بھی مسکرا دی۔

            ’’ مجھے تمہارے پراجیکٹ بتانے پر ہنسی آئی تھی۔ پراجیکٹ۔۔۔ واہ جی، واہ۔‘‘ ریشم آپا کی ہنسی ایک بار پھر چاروں طرف بکھر رہی تھی۔

            ’’ آپا، مجھے ساحر سے ملواؤ نا۔ ‘‘ میں نے پھر انہیں یاد کرایا۔

            ’’ اچھا ٹھیک ہے۔ پوچھوں گی اس سے۔‘‘ انہوں نے سادگی سے کہا۔

            ’’ کیا۔۔۔‘‘

            میں بس زمین آسمان ایک ہی کرنے والی تھی کہ آپا اور بھی حیران کر دیا۔

            ’’ ہاں نا، یہ تو اس مرضی ہے کہ تم سے ملے یا نہ ملے۔‘‘

            ’’ آپا، اب ساحر فیصلہ کریں گے کہ مانو یعنی مجھ سے ملیں گے کہ نہیں ؟ ان کے یہی اعزاز کیا کم ہے کہ ہم ان سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘

            آپا نے مجھے اتنی حیرت سے دیکھا جیسے میں نے کوئی غلطی کر دی ہو۔۔۔ اور پھر خاموش ہو گئی۔ چند لمحے لمحے پہلے والی ہنسی ساحلو ں کے پیچھے رہ گئی۔ پھر میں بھی اپنے کمرے میں آ گئی۔

            کئی دن گزر گئے۔ جیسے پہلے گزرتے تھے لیکن آپا کے دن رات نہیں گزرتے تھے۔ وہ ہر وقت گھڑی کی سوئیاں ہی گنتی رہتی۔

            ’’آپا، کیا بات ہے۔ صبح سے آپ ہر ایک سے کوئی ہزار بار وقت پوچھ چکی ہیں۔ کوئی خاص بات ہے جو وقت کا اعتبار ہی نہیں ہو رہا۔‘‘

            ’’ ہاں مانو!‘‘ ان کی آواز کی اداسی مجھے ملول کر گئی۔

            ’’ کیوں، کیا ہوا آپا؟‘‘

            ’’ وہ،مانو۔۔۔ وہ ساحر جا رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے رک رک کر بتایا۔

            ’’ کہاں جا رہا ہے ؟‘‘ میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

            ’’ اپنے گھر، چھٹیوں پر۔‘‘ ان کا اداس چہرہ اور بھی حسین ہو رہا تھا۔

            ’’ تو نہ جانے دیں نا۔‘‘

            میں نے لاپروائی سے کہا لیکن آپا نے انتہا کا برا مان لیا تھا۔ بر س پڑی مجھ پر۔

            ’’ کیا کروں،روک لوں اسے ؟ پاگل ہوئی ہو تم تو مانو! انسان کو سارے رشتوں کی ضر روت ہوتی ہے، ہنسی خوشی رہنے کے لیے انسان کو انسان ہی چاہیے ہوتے ہیں جیسے پودوں کو پانی، روشنی، ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیسے روک دوں ایسے جینے سے، خوش ہونے سے۔‘‘

            ’’ اچھا تو اس فکر ہے، ہماری نہیں۔‘‘ میں بھی ان کے مقابل کھڑی تھی بحث پر اتر آئی۔ ’’ ہمیں روشنی نہیں چاہیے۔ ہمارا ہوا، پانی سب بند۔۔۔ ہمیں تو نہ جینا ہے اور نہ خوش ہونا ہے۔۔۔ہمارے حصے کی آپا بھی آپ نے اسی کو دے دی۔ یہی آپ نے اچھا نہیں کیا۔۔۔‘‘

            ’’ خدایا! مانو، اس نے کبھی مجھے تم سب سے علیحدہ نہیں کیا۔ یہ میں ہوں، مجھ سے، ریشم سے ہوا سب کچھ۔۔۔ لیکن مجھے نہیں پتہ چلتا کہ ایسا کیسے ہوا۔ یوں لگتا ہے جیسے میں ہر پل نشے میں ہوں۔ سرشار سی، بے خبر سی۔۔۔ مانو یہ نشہ مجھے اس کے قریب رکھتا ہے۔ اتنا قریب کہ  مجھے اس کی آواز صاف سنائی دیتی ہے۔، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ مجھے بلاتا ہے، مجھے سب سنائی دیتا ہے۔ مانو،مجھے کیوں اس کی آوازیں آتی ہیں ؟‘‘

            ریشم آپا کے چہرے پر جانے کیا کیا تھا۔ بے چینی، کشمکش، پانے اور کھونے کا ایک عجیب سا امتزاج۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔

            ’’وہ کیوں یاد کرتا ہے مجھے اتنا کہ مجھ سے بے خبر نہیں رہا جاتا۔ تم اس سے مل کر دیکھنا مانو، اس سے مل کر اس سے غافل کوئی کیسے رہ سکتا ہے۔ کیسے میں غافل رہی سکتی ہوں۔ سوتے سو جاگتے دکھائی دیتا ہے۔ سنائی دیتا ہے۔ کیسے بے خبر رہوں مانو، کیسے رہوں ؟ اصل میں، میں ہی بری ہوں، حصوں حصوں میں بٹ نہ سکی تو پوری کی پوری اسی کو ہو گئی۔ تمہارے حصے کی ریشم بھی اسے ہی دے دی۔ مانو، بس میں۔۔۔ غلطی ہوئی ہے مجھ سے لیکن یقین کرو انجانے میں نہیں۔ خوشی سے دیا سب کچھ اسے۔۔۔ اور اگر میرے پاس کچھ اور رشتے کچھ اور یادیں یا کچھ اور انسان بھی ہوتے تو بھی اسے دے دیتی۔

            بس جو تھا دے دیا اس کو۔۔۔

            وقت۔۔۔

            دن رات۔۔۔

            رشتے۔۔۔

            دوست، سب کچھ۔۔۔

            ’’ سب کچھ آپا؟‘‘ میں نے اپنی بات کی وضاحت چاہی۔

            ’’ مانو ڈر اور شک میں فر ق جانتی ہونا؟ مجھے ساحر نے نظروں سے نظر ملا کر بات کرنے کا ہنر سکھایا ہے۔ ویسے ابھی تو وہ گھر جا رہا ہے، واپس آئے گا تو بات کراؤں گی۔‘‘

            پھر آپا پانچ ہفتے ہمارے ساتھ رہیں۔ پر ایسے رہیں کہ جیسے مہمان رہتے ہیں۔ پر تکلف، خاموش سی۔۔۔

            آپا کس بے وطن کے طرح لگتی تھی۔ دوریوں کی دہائی ان کی آنکھیں ایسے دیتی کہ محشر بپا سا لگتا۔۔۔

            بات سے بات ملانا بھول جاتی۔۔۔

            کھانا کھاتے کھاتے اچانک متلا جاتی۔۔۔

            سر میں ایسا درد اٹھتا کہ آنکھیں لال انگارہ ہو جاتیں۔۔۔

            پھر ایک دن ان کا بدن ایسا جلتا انگارہ بن گیا جیسے آگ۔۔۔ ایسا بخار تو کبھی انہیں نہیں ہوا تھا۔ وہ آنکھیں موندے نڈھال سی پڑی تھی۔ ان کو ہلاتے جلاتے یا بولتے تو ان کی آنکھیں دیکھی نہ جاتی تھی۔ کر ب میں ڈوبی تھر تھر اتی پتلیاں۔۔۔کچھ کہنے کے لیے سو چتی پھر رک جاتی۔۔۔ان کے چہرے پر زردی کھنڈرات جیسی تھی۔ کھانے پینے کے ہوش سے بھی دور۔۔۔ یہ ریشم میری آپا تو نہیں تھی۔ فرہاد بھائی ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے کبھی ہلکے سے تھپتھپاتے تو کبھی آنکھوں سے لگا لیتے۔

            ’’ مجھے اپنی ریشم چاہیے، ہنسنے کھلکھلاتے والی۔‘‘

            ’’ اچھا۔‘‘ وہ مسکرا دی۔

            کتنے دنوں بعد ان کے چہرے پر نور برسا تھا۔ اجالا ہوا تھا۔

            ’’ کیا ہو گیا ہے میری بچی کو۔‘‘ تائی امی جوان کے سرہانے بیٹھی تلاوت کر رہی تھی انہیں مسکراتا دیکھ کر صدقہ دینے اٹھنے کھڑی ہوئی اور پھر فرہاد بھائی بھی مطمئن ہو کر چلے گئے۔

            ’’ کوئی ڈھونڈ لیا ؤنی میرے محرم یار پیارے نوں۔‘‘

            آپا کی آواز مدھم سروں کی طرح دھیرے دھیرے ابھر ڈوب رہی تھی۔

            ’’ آپا۔۔۔‘‘ جانے کیوں یہ لفظ ادا کرنے کرتے میرے حلق میں آنسو پھندے کی طرح اٹک گئے۔

            ’’ میرا محرم یا پیار۔‘‘ آپا نے شاید ساحر کو پکارا تھا یا پھر اسے محسوس کر رہی تھی آس پاس۔۔۔

            ’’ پیار میں پیاس کس نے رکھ دی مانو؟‘‘ ایسی تشنگی، اتنی تنہائی، اتنا اکیلا پن، اتنا سونا پن، جیسے ہو کا عالم ہو۔ سوئی بھی گرے تو آواز آئے۔۔۔ مانو تم ہی کہو نا کیا کروں میں ؟‘‘

            ان کی خوبصورت تھکی ہوئی آنکھوں کی برسات بہت ہی شدید تھی، اتنی ہی شدید جیسے مون سون کی پہلی پہلی بارش یا پھر اگست کی بارشیں جو ایک روز سے کئی روز تک برستی ہیں۔ایسے میں بچا ؤ کی تدبیر بھی نہیں یاد رہتی۔ جہاں پانی بھرا ہو، وہیں بھرا رہ جاتا ہے۔

            میں اس بھرے پانی میں بڑی اونچی اینٹیں رکھ کر ان تک پہنچنا چاہتی تھی۔ انہیں بچانا چاہتی تھی۔ لیکن انہوں نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔

            ’’ کوئی بات نہیں مانو، کبھی تو وقت گزرے گاہی۔ کبھی تو آئے گا ہی۔ ‘‘

            بھری برسات ذرا دیر کو تھمی تھمی، آپا نے خود ہی جل تھل پانی میں اینٹیں رکھ دی تھی اور اس پر دھیرے دھیرے پاؤں رکھتے رکھتے کنارے تک آن گئی تھی۔

            ’’ آپا!ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ واپس آ جائیں۔ اس رستے پر رکھا ہی کیا ہے۔ آپ دیکھیں تو خود کو، کچھ نہیں بچا آپا، کچھ بھی تو نہیں۔‘‘ میں ان کے بالوں کو ان کے چہرے پر سے ہٹا رہی تھی۔

            ’’ کیسے بچتا مانو ! سب کچھ دے دیا۔۔۔ جو بھی میرے پاس تھا، دینا ہی تو پیار ہے، سو دے دیا، ہار ہی گئی میں تو۔۔۔‘‘ آپا کا وجود پتہ نہیں کس ارتعاش سے کانپ رہا تھا۔

            ’’ آپا ساحر دیکھتا کیسا ہے ؟‘‘ میں نے شاید انہیں بہلانا چاہا تھا۔

            ’’ پتہ نہیں مانو، کیسا دیکھتا ہے۔ میں نے کبھی اسے نظر بھر کر دیکھا ہی نہیں، دیکھا ہی نہیں جاتا مانو۔‘‘ ان کے چہرے پر ایک بار پھر نور برس رہا تھا۔

            ’’ آپا، اس کا اتا پتا۔‘‘ میری جستجو دیدنی تھی۔

            ’’ نہیں جانتی، کیا فرق پڑتا ہے اس سے کہ وہ کہیں کا بھی ہو، کہیں بھی رہتا ہو اور کسی کے ساتھ بھی رہتا ہو۔‘‘

            ’’ آپا !‘‘ میری آواز میں احتجاج اتر آیا تھا۔ جس کا انہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔

            وہ یہاں تھی ہی نہیں۔۔۔

            وہ یہاں اب رہتی بھی کب تھی۔۔۔

            ’’ آپا!‘‘ میں نے انہیں زور سے ہلایا۔

            ’’ سن رہی ہوں مانو، تمہارے کسی سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ میں نے کبھی اس سے پوچھا ہی نہیں۔ مجھے لگتا ہے۔جیسے اگر پوچھ لیا تو بے اعتبار ہو جاؤں گی۔ ویسے بھی مانو، مجھے تو رہنا ہی ہے اس کے ساتھ۔۔۔ وہ رکھے یا نہ رکھے،رکھ سکا تو رہ جاؤں گی۔۔۔‘‘

            ’’ اور نہ رکھا تو۔۔۔؟‘‘ میں نے انہیں یاد کرایا۔

            ’’تو بھی اس کے ساتھ ہی رہو ں گی۔ رہ ہی تو رہی ہوں ابھی بھی، سو کیا فرق پڑے گا اس بات سے۔‘‘

            ’’ آپا، آپ کو نہیں، ہمیں بہت فرق پڑے گا اور فرق پڑتا ہے گھر والوں کو۔۔۔ کبھی سوچا کہ جب انہیں پتہ چلے گا تو کیا ہو گا؟‘‘

            ’’ حیرت ہے، انہیں اب تک پتہ کیوں نہیں چلا۔‘‘ آپا کی آنکھوں میں واقعی ہی حیرانگی تھی۔

            ’’ تو آپ بتا دیجیے نا۔‘‘ میں نے غصے سے کہا۔

            پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

             پھر آپا ہنستی چلی گئی۔ ایک دفعہ پھر حسین ساحلی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔

            ’’آپا، آپ نے ساری دنیا سے کوئی علیحدہ ہی محبت کر ڈالی ہے۔‘‘

            ’’ مانو محبت تو سب کرتے ہیں پر اعتبار نہیں کرتے۔ میں نے اعتبار کیا ہے، یقین کیا ہے، اعلان کیا ہے کہ ساحر نے مجھے سحرزدہ کر دیا ہے۔ اس میں علیحدہ ہونے والی کیا بات ہے۔ اس میں برائی کیا ہے۔ ‘‘

            ’’ برائی نہیں جانتی آپا، بس ڈرتی ہوں آپ کی حالت دیکھ کر۔‘‘

            آپا ایک بار پھر ہنستی چلی گئی۔

            اسے کہو کہ بہت نامراد شے ہے جنون

            اسے کہو کہ مجھے بہت جنون اس کا

            اسے کہو کہ وہ آ جائے۔۔۔

            میرے ساحر سے کہو کہ اب آ جائے۔ مجھے اسے دیکھنا ہے، سننا ہے، محسوس کرنا ہے۔‘‘

            آپا کی آنکھیں بند تھی اور ان کی آواز کہیں بہت دور سے آ رہی تھی۔

            ’’ ہائے ربا!ان لڑکیوں کو کیا ہو گیا ہے۔ نہ نماز کا ہوش نہ وقت کے جانے کا احساس۔ ‘‘

تائی امی کی اونچی آوازیں بھی ریشم کی آنکھیں نہ کھول سکی۔

            سارا گھر چاروں طرف سے انہی کا احاطہ کیے ہوا تھا۔ وہ تھی اتنی پیاری اور گھر بھر کی رونق۔۔۔

            وہ ہنستی تو درو دیوار بج اٹھتے۔۔۔

            وہ سرگوشیاں کرتی تو پوری کائنات ہمہ تن گوش ہو جاتی۔۔۔

            او ران کی لڑتی جھگڑتی پلکیں جب بھی اوپر نیچے گرتیں تو رات دن میں بدل جاتے۔۔۔

            ان کی سنہری رنگت پر، لمبے بال کبھی آگے پیچھے جھولتے تو جی چاہتا کہ ان بالوں کی طرح ان سے لپٹ جائے۔۔۔

            اب بھی شاید سبھی یہی سوچ رہی تھے کہ کیسے ان سے لپٹ کر ان کی ساری تکلیف اپنی کر لیں۔۔۔

            ڈاکٹر کاشف بتا رہے تھے کہ آپا کو موسمی بخار ہو ا ہے، فلو کے ساتھ۔۔۔ لیکن اتنی زیادہ تپش۔۔۔ تایا جی کی تشویش کو کہیں قرار نہ تھا۔

            ’’ ارے، آپ فکر نہ کریں، سب ٹھیک ہو جائے گا۔Viral infectionہے۔ ٹھیک ہونے میں ذرا وقت لگے گا۔‘‘

            ڈاکٹر کاشف دوائی کے ساتھ تسلی بھی نسخے میں لکھ گئے تھے لیکن آپا کے بخار کو کہیں قرار نہ تھا۔ چونک چونک جاتی۔

            رات در آئی تھی۔ تائی امی کی جگہ اب امی جی ان کے سرہانے بیٹھ کر تلاوت کر رہی تھی اور ساتھ سفید ململ کے دوپٹے میں آنسو بھی گراتی جا رہی تھی۔

            ’’ اماں !‘‘ ریشم آپا نے تائی امی کو پکارا تھا۔ وہ جو دور تھیں دوڑ کر پہنچیں۔

            ’’ جی میری جان، میری بچی !‘‘ تائی امی نے انہیں دل سے لگا لیا۔

            ’’ اماں ! مجھے کوئی بلا رہا ہے۔۔۔ مجھے جانا ہے اس کے پاس۔‘‘ ریشم آپا بار بار باہر کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔

            ’’ کہاں میری بچی ! کس کے ساتھ، کون بلا رہا ہے ریشم ؟ ‘‘ تائی امی نے ان کے نڈھال سے چہرے پر پیار کرتے ہوئے پوچھا۔

            اس سے پہلے ریشم آپا ساحر کا نام لیتی، میں نے انہیں زور سے ہلایا اور تقریباً چیخ ہی پڑی ان پر۔۔۔

            ’’ آپا، آنکھیں کھولیں، آپ کہیں نہیں جا رہیں۔ کوئی آپ کو نہیں بلا رہا۔‘‘ میں نے آپا کو جھپٹ کر اپنے ساتھ لگا لیا۔

            آپا اپنے ہوش میں تھی ہی کب۔۔۔اف،اگر تائی امی یا امی جی نے پوچھ لیا تو۔۔۔ خدایا۔۔۔!وہ دونوں مجھے ایسے دیکھ رہی تھیں جیسے میں گناہ گار ہوں ان کی۔۔۔

            میرے ربا!‘‘ تائی امی کے آنسو روکتے ہی نہ تھے۔

            ’’ آپ جائیں اپنے دونوں کمروں میں، میں ہوں نا آپا کے پاس۔ آپ لوگ تو بس ہراساں کر دیں سب کو، بخار میں انسان ایسا اول فول بول ہی جاتا ہے اور آپ لگیں پوچھنے۔۔۔

اب جو پوچھنا ہو تو بعد میں پوچھ لینا جب وہ اچھی ہو جائیں۔‘‘

            ’’ مانو، دیکھو بتا دو جو کچھ ہے۔‘‘ تائی امی کی پریشانی ان کی آنسوؤں سے ظاہر تھی۔

            ’’ نہیں تائی امی ! کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔‘‘

            ’’ ہائے ربا! میرے دل کو بے چینی کیسی ہے مانو۔‘‘

            ’’ چلیے آپا، مانو ہے ریشم کے پاس، آپ آرام کریں۔ باقی میں بھی رات بھر دیکھتی رہوں گی۔ آپ تو چلیں، دیکھیں کیا حال کر لیا ہے رو رو کر۔‘‘ امی جی انہیں زبردستی اٹھا کر باہر لے گئیں تو مجھے بھی سکون کا سانس آیا۔

            ’’ مانو!‘‘

            ’’ جی آپا، پانی دوں ؟‘‘ میں نے گلاس ان کے لبوں سے لگا دیا۔

            ’’مانو، ساحر مجھے بلا رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے گلاس ہاتھ سے پرے کر دیا۔‘‘ اسے کہو کہ مجھے اتنا نہ یاد کرے، میرے پر نہیں جو اڑ کر آ جاؤں۔۔۔ نہیں جا سکتی نا اس کے پاس، پر نہیں ہیں کیا کروں۔ ایسا لگتا ہے مانو جیسے حکم نہیں مانا، کہیں ساحر خفا نہ ہو جائے۔۔۔ مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔ اس سے کہو کہ میرا امتحان نہ لے اور خود ہی آ جائے۔‘‘

            وہ ہولے ہولے کہہ رہی تھی یا پھر اس سے ہی باتیں کر رہی تھی۔میں نے ریشم آپا کو ایسا کبھی دیکھا ہی نہ تھا۔ بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ غنودگی میں کہی ان کی باتیں کبھی سمجھ آتی اور کبھی بالکل بھی نہیں اور میرا ڈر اپنی جگہ۔۔۔

            آپا کے بغیر میں نے ایک پل بھی جی کر نہ دیکھا تھا۔

            کیسے جیوں گی آپ کے بغیر۔۔۔ آپا مجھے ڈر لگتا ہے کہیں نہ جانا، کہیں بھی اور ساحر کے پاس بھی نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔

            مجھے ان دیکھے ساحر سے جلن ہونے لگی تھی۔

            جو اس نے ایسا جادو کر دیا تھا  کہ آپا کو ریشم سے جدا کر دیا اور ریشم کو ہم سب سے۔۔۔

            I Hate Him

            I Hate Himآپا!

            میں رو رہی تھی۔ رات کے پچھلے پہر اپنی بے بسی بہت ہی دکھی کر گئی۔ ساحر نے سارا کا سارا ریشم اپنے نام کر لیا تھا۔ کچھ بھی ہمارے لیے نہیں چھوڑا تھا۔۔۔ مجھے ملنا ہے ساحر سے۔۔۔ اس دفعہ تو ضروری ہی ملنا ہے۔ دیکھنا ہے اسے،پوچھنا ہے اسے کہ کیا گھات لگانے کے لیے میری آپا ہی ملی تھی جو خود ریشم جیسی تھی۔۔۔ اسے یوں الجھا کر ہم سے توڑ ہی دیا۔۔۔

            ’’ آپا مجھے ساحر سے ملنا ہے۔ ‘‘ میں انجانے میں زور زور سے ہلا رہی تھی اور وہ اتنی ہی بے قراری سے کہہ رہی تھی۔

            ’’ ساحر سے کہو کہ مجھے نہ بلائیں۔ اس سے کہو مانو کہ مجھے نہ ماننے کی اذیت میں ڈالے۔‘‘

            ’’ میری آپا!‘‘میں نے ان کے ماتھے پر اپنا سر ٹھیک دیا۔ ’’ کب اچھی ہو ں گی آپا۔ یا اللہ کچھ کر دیجیے، پلیز۔‘‘

            مجھ سے واقعی ریشم آپا کی بے قراری برداشت نہ ہوتی تھی اور وہ بغیر ختم کیے کئی باتیں شروع کر دیتی جس میں ایک ہی جملے کی تکرار ہوتی کہ ساحر سے کہو کہ خود ہی آ جائے اور میں دیوانو ں کی طرح انہیں سب سے بچانے کی تدبیر کرتی رہتی کہ یہ وقت مناسب نہیں تھا کسی کو بھی کچھ بتانے کا۔۔۔

            دوا کے ساتھ دعا بھی ہو رہی تھی۔ آپا دھیرے دھیرے اچھی ہو رہی تھی یا ساحر واپس آ گیا تھا شاید اسی لیے ان میں روح پڑ گئی تھی۔ سکون ہلکورے لینے لگا تھا۔ ان کی آنکھیں جو کئی ہفتوں سے ویران رہی تھی پھر سے مدھ بھری ہو رہی تھی۔ نشہ ان پر برس بر س جا رہا تھا۔

            ’’آ ج میں تمہیں ساحر سے ملواؤں گی۔‘‘

            ’’ سچ آپا۔۔۔کہاں پر،  کب؟‘‘ میری خوشی بھی میرا ساتھ نہیں دے پار ہی تھی۔

            ’’ اس کے گھر۔۔۔ یا یونیورسٹی میں اور کہاں۔‘‘

            ’’لیکن آپا۔۔۔؟‘‘ میں نے ہلکی سی آواز میں اپنا شاید چھوٹا سا اختلاف ان تک پہنچانے کی کوشش کی تھی۔

            ’’ اب کیا ہے مانو!‘‘ انہوں نے جلد ی جلدی ساحر کا پتا بتایا۔ جیسے وہ یہیں پڑوس میں ہی رہتا ہو۔

            ’’ لیکن آپا۔۔۔ آ ج کیسے جا سکتے ہیں۔‘‘ میں نے انہیں فرہاد بھائی کی سالگرہ یاد کرائی جو ہم سب باہر ہوٹل میں منانے والے تھے۔

            ’’ ہائے ربا!‘‘ آپا نے بالکل تائی امی کے لہجے میں کہا اور ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا۔ ان کی اس ادا میں بھی حسن تھا۔ میں ہنس پڑی۔

            ’’ جی آپا جی، آپ کو یاد بھی کرایا تھا کل۔۔۔ اور آج صبح سے اس انتظار میں ہوں کہ ان کے لیے تحفہ لینے چلیں لیکن آ پ ہیں کہ یاد ہی نہیں۔ فرہاد بھائی کو پتا چل گیا نا تو۔۔۔‘‘ میں نے بات ادھوری ہی رہنے دی۔

            ’’ آں ہاں۔‘‘ وہ جیسے کسی گہرے خیال سے چونکی ہوں۔ ’’ ہاں تم نے کل بتایا تو تھا۔ میں تو بھول ہی گئی مانو، خدایا کیوں بھول جا تی ہوں اتنا کچھ۔ اچھا جلدی سے شاپنگ پر چلو۔ میں نے کچھ بھی نہیں سوچا، لینا تو دور کی بات ہے۔ بھول کیسے گئی مانو؟‘‘ ان کے خوبصورت چہرے پر شرمندگی، ندامت اور جانے کیا کیا تھا۔ ’’ لیکن وہ ساحر، مانو کیا کہوں اس کو۔ یہ سوچو کتنی بری بات ہو جائے گی۔ ‘‘ آپا دونوں ہاتھوں سے ریسیور تھامے کھڑی تھی۔

            ’’ ارے، کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ میں نے انہیں تسلی دی اور پھر انہوں نے ساحر کو فون کر دیا اور فون رکھتے رکھتے وہ پھر مطمئن اور پر سکون تھی۔

            وہ رات بڑی خوب صورت تھی۔ کتنے عرصے بعد ریشم آپا ہمارے ساتھ ہماری لگ رہی تھی پھر بھی وقفے وقفے کے ساتھ چوری ہو جاتی تھی اور چوری بھی ایسی جس کا صرف مجھے ہی پتا تھا۔

            ’’ آج تو ریشم نے مجھے حیران ہی کر دیا۔‘‘ فرہاد بھائی نے آپا کا دیا ہوا گفٹ پیک کھولتے ہوئے انہیں گلے سے لگا لیا۔’’ آخر بہن کس کی ہے۔

            ان کی آنکھوں میں ایک فخر تھا۔ جس کا سامنا ریشم آپا کے بس میں نہ تھا۔ شاید اس لیے ان کی دراز پلکوں نے جھکے رہنا ہی مناسب سمجھا تھا۔

            یادگار سی رات دھیر دھیرے یادوں میں اضافہ کر رہی تھی اور گزرتی چلی گئی۔ ہم سب واپس گھر آ چکے تھے لیکن آپا جیسے کچھ وہاں بھول آئی تھی، گم صم سی بیٹھی تھی۔

            ’’کیا ہوا؟خیر نا آپا؟‘‘

            میں نے انہیں یاد کرایا کہ ہم سب گھر آ چکے ہیں اور سب سونے کے لیے اپنے کمروں میں بھی جا چکے ہیں اور تائی امی کی نماز کی تلقین، وقت گزرنے کی تفصیل بھی سناتی۔۔۔ لیکن وہ وہاں تھی ہی کب۔

            ’’ مانو، ساحر وہیں تھا۔‘‘ انہوں نے شکستہ سے لہجے میں کہا۔

            ’’ ارے نہیں۔‘‘ میں حیران ہی تو رہ گئی۔

            ’’ ہاں مانو، وہ وہی تھا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ، اسی ہال کے کونے والی سیٹ پر۔ ‘‘

            ’’ خدایا!آپا! آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ کم از کم بتا تو دیا ہوتا۔ میں دیکھ ہی لیتی۔ ‘‘

            ’’لیکن وہ کیوں آیا تھا مانو۔۔۔ اگر اس نے آنا ہی تھا تو بتایا کیوں نہیں۔ چھپایا کیوں ؟ کیسے بتاتی مانو کہ وہ آیا کیوں۔‘‘

            ان کے آ نسو پہلی دفعہ ایسے بہہ رہے تھے کہ جیسے سیدھے دل پر سوراخ کرتے نظر آئے۔

            ’’ آپا، اچانک پروگرام بن گیا ہو گا۔ دوستوں کے ساتھ۔۔۔ آ پ بس وہمی ہو رہی ہیں کہ جیسے دو شک دور کرنے آیا ہو کہ کہیں آپ نے غلط تو نہیں بتایا۔ ‘‘

            ’’ کاش ایسا نہ ہو مانو، کاش ایسا نہ ہو کہ وہ مجھ پر شک کر بیٹھا ہو۔ ‘‘ ان کے آنسو نہ تو شب ہجر کا نوحہ لگ رہے تھے اور نہ ہی وصل کی خواہش میں تڑپتے ہوئے۔۔ نہ ہی اپنی تنہائی پر اشکبار تھے۔۔۔ اور نہ ہی سجدے میں کرے تھے۔۔۔یہ تو وہی آنسو تھے جو شکوے کے طور پر گر رہے تھے۔

            ’’ آپا پلیز خدا کے لیے۔ ہوش کریں۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آپ اتنی Idealisticکیوں ہیں۔ حقیقی دنیا میں کیوں نہیں رہتی آپ۔۔۔ آپا، یہ سب کتابی باتیں ہیں۔ خوابی باتیں ہیں۔ قصے کہانیوں میں اچھے لگتے ہیں۔ حقیقت مختلف ہوتی ہے جہاں وہاں تلخ بھی ہوتی ہے۔ ‘‘

            میں اپنے دل کی بھڑاس نکال رہی تھی۔ ان کو ان کی بزدلی اور کمزوری کے طعنے دے رہی تھی۔ انہیں ان کی خوابی محبت کا قصور وار ٹھہرا رہی تھی اور ریشم جیسی سبک سبک سی آپا ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کرنٹ لگ جانے سے انسان جوں توں کھڑا رہ جاتا ہے اور روح جسم سے آزاد ہو جاتی ہے۔۔۔ کچھ ایسا ہی ہوتا لگ رہا تھا۔

            ’’ آپا۔۔۔!‘‘ میں نے گھبرا کر انہیں چھوا، وہ ایسے دور ہٹی جیسے کسی اجنبی نے چھو لیا ہو۔ ’’ آپا میں ہوں،مانو۔‘‘ میں نے انہیں پھر چھونا چاہا انہوں نے میرا ہاتھ جھٹک دیا۔

            ’’ نہیں تم میری مانو نہیں ہو، تم کوئی اور ہو۔ دنیا دار سی مانو، دلدار تم نہیں ہو تم۔ دیوار کے اندر در نہیں رکھتی ہو تم۔۔۔ تم میری مانو نہیں ہو۔‘‘

            ان کی آواز اونچی ہو رہی تھی اور کبھی آنسوؤں کی وجہ سے دھیمی۔۔۔’’ تم میری مانو کیسے ہو سکتی ہو۔۔۔ کیسے ؟‘‘

            وہ روتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگتی چلی گئی۔ میں اپنے کمرے بیٹھی رہ گئی۔

            ’’کیا کروں میں۔۔۔۔ آپا، میں کیا کروں۔۔۔ کب تک، کہاں تک اس کہانی کے انجام کا انتظار کروں گی۔ ‘‘

            اور پھرا گلے دن میرا انتظار بڑھ گیا۔

            سورج نکلا۔۔۔ دن چڑھا۔ سب اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے۔

            پھر دن ڈھلا۔۔۔

            شام ہوئی۔۔۔

            سب اپنے اپنے کاموں پر سے واپس بھی آ گئے۔ نہ آئی تو آپا ہی نہ لوٹی تھی یونیورسٹی سے۔۔۔

            سب پریشان تھے۔ تائی امی ایک منٹ میں ہزار منٹوں کی تفصیل گنوا چکی تھی۔ تائی جی!  پر سکون رہنے کی ناکام سی کوشش میں بار بار گیٹ کو تک رہے تھے۔ ابا جی کام پر سے ہر منٹ پر تفصیل لے رہے تھے۔ امی جی ہمیشہ کی طرح زود رنج سی دوپٹے پر آنسو ہی ٹانکنے میں لگی تھیں۔ فرہاد بھائی کبھی میرے کمرے میں آتے تو کبھی باہر جاتے۔

            ’’ خدایا ! آپا،آپ کہاں ہیں۔۔۔ کوئی فون ہی کر دیجیے۔۔۔یا SMS،آپا، پلیز۔۔۔‘‘ میں فون کو حسرت سے دیکھ رہی تھی۔

            کہیں آپا ساحر کے ساتھ تو نہیں ہے اتنی دیر تک۔۔۔ نہیں، یا اللہ !نہیں۔۔۔میں جو گھبرا کر باہر نکلی تو فرہاد بھائی ہی سے ٹکرا گئی۔

            ’’مانو!ریشم کا Cellکہیں گھر تو نہیں رہ گیا؟ فون ریسیور نہیں کر رہی اور نہ ہی SMSکا جواب دے رہی ہے۔‘‘

            ’’ ارے یاد آیا، بھائی آپا نے کہا تھا کہ واپسی پر نورین کے گھر جائے گی۔ اسائنمنٹ بنانے جانا تھا اور یہ بھی کہہ رہی تھی کہ اگر شام ہو جائے تو فرہاد سے کہنا کہ مجھے لینے آ جائے۔‘‘

            مجھے اس سے اچھی طر ح بات سمجھ ہی نہیں آ سکی کہ کیسے گھر والوں کو پر سکون کر دوں اور آپا کو دوڑ کر بچا لوں کسی بھی برے وقت سے، بری گھڑی سے۔۔۔

            ’’ اے لڑکی باؤلی ہوئی تم تو۔۔۔ سارا گھر پریشان ہو رہا ہے اور تمہیں ابھی یاد آیا بتانا۔۔۔‘‘ امی جی نے مجھے گھرکنے کے ساتھ ساتھ شانے پر دھپ بھی رکھ دی۔

            ’’ اوہ سوری امی جی! بھول گئی۔ ‘‘ میں ان سے لپٹ گئی۔

            ’’ ایک تو تم دونوں کو بھولنے کی بیماری ہو گئی ہے۔‘‘ فرہاد بھائی نے وہیں سے ڈانٹ لگائی۔

            ’’ اچھا جاؤ میرے چاند! جاؤ لے آؤ جا کر ریشم کو،اندھیرا ہو گیا ہے۔‘‘

            تائی امی کے چہرے پر وقتی خوشی اور اطمینان میرے لیے کسی بھی خزانے سے کم نہ تھا اور اس ایک لمحے کی تو جائیداد ہی لگ رہا تھا۔

            میں اور فرہاد بھائی گاڑی میں بیٹھے اُڑے جا رہے تھے۔ وہ جانے کیوں آدھے گھنٹے کی ڈرائیو آدھے منٹ میں ہی طے کر لینا چاہتے تھے۔

            ’’ آہستہ فرہاد بھائی! ‘‘ میں آخر بول ہی پڑی۔

            ’’ ایڈریس پھر سے بتانا مانو! ‘‘ اُنہوں نے میری ہدایت ان سنی کر دی۔

            ’’ جی بھائی، یہ رہا۔ ‘‘ میں آپا کا بتایا ہوا ساحر کا ایڈریس ان کی طرف بڑھا دِیا اور خود جی ہی جی میں اُلجھ گئی۔

            میرا روم روم دعائیں کر رہا تھا۔۔۔ فریادی ہو رہا تھا۔۔۔

            کبھی میں جی اُٹھتی تو کبھی مرنے لگتی۔۔۔

            اگر آپا وہاں ہوئی تو۔۔۔آگے سب اندھیرا تھا، کیا سوچتی، کچھ نہ بچا تھا سوچنے کو۔

            اگر آپا وہاں نہ ہوئی تو۔۔۔! پھر بھی اندھیرا ہی تھا۔ کہاں ڈھونڈیں گے انہیں۔۔۔ ہم میں سے کسی کو بھی ان کے بغیر جینے کی عادت نہیں تھی۔

            کاش آپا، ریشم نہ ہوتی۔۔۔ نہ یوں اُلجھتی، نہ یوں ٹوٹتی۔۔۔ کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔۔۔ کاش سب کچھ واپس آ سکتا ریشم آپا، وقت۔۔۔

            کاش گاڑی کی اسپیڈ کی طرح کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو کر زندگی کا دائرہ اختیار کبھی تنگ کر رہا تھا تو کبھی ٹوٹ رہا تھا۔

            گاڑی ساحر کے گھر کے سامنے کھڑی ہو چکی تھی۔ مجھ سے باہر دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ سادہ سا سفید رنگ کے در و دیوار والا عام سا گھر ہماری عالیشان کوٹھی سے کتنا مختلف تھا۔ اس گھر کا گیٹ کتنا میلا اور چھوٹا سا تھا اور ہمارے گھر کا گیٹ بڑا سا، رعب دار، ہر وقت چمکتا دمکتا سا اور ساتھ کرسی پر بیٹھے حاجی صاحب ہر وقت موجود پہرے دیتے ہوئے پلک جھپکنا بھی گنا ہ سمجھتے تھے۔پر آج کیسے ان کی پلک جھپک گئی تھی۔۔۔ دربان، نگہبان کے ہوتے ہوئے گھر کا سب سے بڑا اور قیمتی ہیرا اس فقیر کے دامن میں گر گیا تھا۔

            کاش ایسا نہ ہوا ہوتا۔۔۔

            ’’ مانو تم جاؤ اندر اور ریشم کو بلا لاؤ۔ میں باہر ہی رکتا ہوں۔ ‘‘

            ’’ جی اچھا۔ ‘‘ میں نے دِل ہی دِل میں رب کا ہزار شکر کیا۔

            فرہاد بھائی کے اس جملے میں کتنی عزت تھی۔۔۔

            ریشم آپا کی دلیری کی۔۔۔

            میرے جھوٹ کی۔۔۔

            گھر والوں کے اعتبار کی۔۔۔

            میرے مالک! خیر۔۔۔ مجھے تائی امی کی پکار بہت قریب ہی سے سنائی دی اور خود بھی بے اختیار ایسا ہی کہہ گئی اور دھڑکتے دِل کے ساتھ دروازہ کھٹکھٹا دِیا۔ کسی کے آنے سے پیشتر ہی دروازہ خود بخود کھل گیا۔ جیسے دروازہ بھیڑ کر رکھا گیا ہو یا پھر کوئی بند کرنا بھول گیا ہو۔

            ’’ آپا ! ‘‘ میں نے بے اختیار ہو کر انہیں آواز دی اور چاروں طرف انہیں یوں ڈھونڈا جیسے ایک لمحے کی تاخیر بھی ساری عمر کی تلافی نہیں کر سکے گی۔

            میں اندر بڑھی۔ دروازہ پیچھے کھلا ہی رہ گیا۔

            اندر کوئی نہیں تھا۔ آمنے سامنے تین کمروں میں کوئی نہ تھا۔ صحن میں پڑی کرسیاں بھی خالی، تو کچن میں بھی برتنوں کے سوا کچھ نہیں۔۔۔

            کہیں کوئی نہیں تھا۔۔۔

            کسی کی آواز نہ سانس۔۔۔

            ’’ میرے مالک! خیر۔۔۔ ‘‘

            تائی امی کی آواز جیسے بہت قریب سے آئی تھی ایسے کہ میں نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر ساکت ہی رہ گئی۔

            ’’ آپا! ‘‘ میری ریشم آپا کے پیر نظر آ گئے تھے جو آدھ کھلے دروازے سے واضح ہو رہے تھے۔ میں بے اختیار ہو کر ان کی طرف لپکی۔

            وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ ان کے کپڑے بے ترتیب سے ان سے لپٹے ہوئے تھے۔ ان کا بڑا سا دوپٹہ شفاف موتیے رنگ کا ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح وہی مسکراتے ہوئے یاقوتی ہونٹ، ایسے کہ اب کھلے کہ تب، ان کی لڑتی جھگڑتی پلکیں خاموش تھیں۔ ان کے بدن پر ایک سکوت تھا۔ ایک گہری خاموشی تھی۔ جیسے ساحر نے اب روح بھی نکال لی ہو۔

            ’’آپا! ‘‘

            میں نے ان کا ڈھلکا ہوا دوپٹہ ان کے شانوں پر ڈالتے ہوئے انہیں ہلکے سے چھوا۔ ان کا بایاں ہاتھ باہر کی طرف ڈھلک کر بستر سے نیچے لٹک گیا۔

            ’’ آپا، میری آپا! ‘‘ میں نے انہیں گلے سے لگا کر زور سے پکارا۔ اتنی زور سے کہ باہر انتظار کرتے ہوئے فرہاد بھائی بھی دوڑتے ہوئے کھلے دروازے سے اندر آ گئے۔

            ’’ مانو، کیا ہوا؟ ‘‘

            ’’ بھائی ! آپا بولتی نہیں۔ دیکھتی نہیں۔ آپا۔۔۔ ‘‘

            میری آواز حلق میں اٹکی رہ گئی جب فرہاد بھائی نے بستر پر سے دس سی سی کی سرنج اٹھا لی۔ فرہاد بھائی کبھی آپا کی نبضیں ٹٹولتے تو کبھی سرنج کو دیکھتے۔

            ’’ نشہ۔۔۔ اور ریشم۔۔۔ ‘‘ فرہاد بھائی کی بے یقینی، ان کی ہراساں آنکھیں۔۔۔ ان کی بے ترتیب آواز۔۔۔

            آپا اب کچھ نہیں سن سکتی تھی۔ وہ تھی ہی کب یہاں۔۔۔ وہ تو عرصے سے ہمارے ساتھ رہتے ہوئے بھی ہماری نہ تھی۔۔۔

            ’’ میری آپا نہیں جا سکتی یوں۔۔۔ نہیں جا سکتی۔‘‘ میں دیوانہ وار چیخیں مار رہی تھی اور چکر کاٹ رہی تھی۔ تلاش کر رہی تھی ایسے جیسے شیر شکار کو ڈھونڈتا ہے۔

            ’’ کس کو ڈھونڈ رہی ہوں مانو؟ ‘‘

            اجنبی سی آواز پر میں نے پلٹ کر دیکھا۔

            ہاں وہ ساحر ہی تھا۔ اونچا، لمبا، سفید رنگ، براؤن بالوں اور براؤن بڑی بڑی آنکھوں والا۔۔۔ میٹھے موہنے، ٹھہرے پانیوں جیسا۔۔۔ وہ ساحر ہی تھا۔۔۔ آپا نے بتایا تھا ایسا۔۔۔ کہ وہ جادو گر ہے۔

            اس کی آنکھ میں، اس کی بات میں، سب جادو ہے۔۔۔

            میں بھی جہاں کھڑی تھی، وہیں کھڑی رہ گئی۔۔۔ جامد ہو گئی، ساکت رہ گئی۔۔۔ میں جو بہت ساری باتیں پوچھنا چاہتی تھی۔ ایک ایک پل کا حساب جو ہم سب نے آپا کے بغیر گزارے تھے، ان سارے لمحوں کا حساب لینا چاہتی تھی۔ وہ سارے سانس جو آپا نے ہمارے بغیر تھے۔ وہ سب واپس لینے تھے مجھے۔۔۔ لیکن میں کھڑی کی کھڑی رہ گئی ایسے کہ مجھے فرہاد بھائی کی ہذیانی چیخیں بھی آگے بڑھ کر ساحر کا گریبان پکڑنے پر مجبور نہ کر سکی۔

            وہ کہہ رہا تھا کہ۔۔۔

            ’’ میں نے ریشم سے کہا تھا کہ دو ہی راستے ہیں۔۔۔ واپس لوٹ جائے اپنے جہاں میں یا پھر میرے جہاں میں بس جائے۔۔۔ فیصلہ اس کا تھا۔ مانو، میں نے کوئی زبردستی نہیں کی اس کے ساتھ۔۔۔ میں تو دن رات نشے میں رہتا ہوں۔ میرے رنگ میں رنگ جانے کی تمنا اس کی تھی۔۔۔ اور کسی کے رنگ میں رنگنے کے بعد کبھی کبھی جان سے گزرنا پڑتا ہے مانو۔۔۔ سو وہ گزر گئی۔۔۔‘‘

            آپا کا محرم یار پیار جسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ خود سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئی تھی۔ دیوار سے ٹیک لگائے انہی کی طرح آسمانوں کو دیکھ رہا تھا۔

            ریشم آپا، آپ سچ کہتی تھیں کہ ساحر جو بھی کہتا ہے، سچ لگتا ہے، کہیں کوئی غلطی نہیں۔۔۔ پر غلطی تو مجھ سے ہوئی تھی کہ سمجھ ہی نہ پائی اور نہ ہی کسی کو بتا پائی کہ میری آپا کو کس کا نشہ تھا !!

—————

***

’مٹی کا سفر‘ مجموعے کا دوسرا حصہ، مصنفہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی اور تدوین: اعجاز عبید،

 پروف ریڈنگ اور ای بک: اعجاز عبید