فہرست مضامین
- خواب مزدور ہے
- سواری اُونٹ کی ہے
- کہیں تم ابد تو نہیں ہو
- تندور والا
- یہ ماتم کی شبِ سوئم
- مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں
- عجب پانی ہے
- خواب مزدور ہے
- میں آگ ہوتا
- میں نے دروازہ نہیں کھولا تھا
- کہانی علامت بنے گی
- اسے پکارو
- نیند کی جانب قدم
- ہونے کا خدشہ
- ماتھوں پہ سینگ
- انتباہ
- تم بھی جاناں کیسے ہو
- ٹیلے سے قبرستان تک
- اس رات بڑی خاموشی تھی
- جب پوَ پھٹی
- اسی آگ میں
خواب مزدور ہے
نظمیں
رفیق سندیلوی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
سواری اُونٹ کی ہے
اَور مَیں شہر شکستہ کی
کسی سنساں گلی میںَ سرجھکائے
ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر
اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں
جس کی چوکھٹ پر
ہزاروں سال سے
اِک غم زَدہ عورت
مرے وعدے کی رسّی
ریشۂ دل سے بنی
مضبوط رسّی سے بندھی ہے
آنسوؤں سے تر نگاہوں میں
کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر
مرے خاکستری ملبوس کی
مخصوص خوشبو سونگھنے کو
اَور بھورے اُونٹ کی
دُکھ سے لبالب بَلبلاہَٹ
سننے کو تیار بیٹھی ہے
وُہی سیلن زدہ اُوطاق کا گوشہ
جہاں مَیں ایک شب اُس کو
لرَزتے‘سَنسناتے‘زہر والے
چوبی تیروں کی گھنی بارش میں
بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا
مجھے سب یاد ہے قصّہ
برس کراَبر بالکل تھم چکا تھا
اور خلا میں چاند
یوں لگتا تھا جیسے
تخت پر نو عمر شہزادہ ہو کوئی
یوں ہَوا چہرے کو مَس کر کے گزرتی تھی
کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی
اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اَندر
گلی سوئی ہوئی تھی
دَم بہ خُو د سارے مکاں
ایسے نظر آتے تھے
جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں
موم کے تَرشے ہوئے ہوں
اِک بڑی تصویر میں
جیسے اَزل سے ایستادہ ہوں
وُہی سیلن زدہ اُوطاق کا گوشہ
جہاں مہتاب کی بُرّاق کرنیں
اُس کے لانبے اور کھلے بالوں میں اُڑسے
تازہ تر انجیر کے پتے روشن کر رہی تھیں
اُس کی گہری گندمیں کُہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو
نہیں بھولا ابھی تک
سارا قصّہ یاد ہے مجھ کو
اُسی شب
مَیں نے جب اِک لمحۂ پُرسوز میں
تلوار‘ اُس کے پاؤں میں رکھ دی تھی
اور پھر یہ کہا تھا:
’’میرا وعدہ ہے
یہ میرا جسم اوراِس جسم کی حاکم
یہ میری باطنی طاقت
قیامت اور
قیامت سے بھی آگے
سرحدِامکاں سے لا امکاں تلک
تیری وفا کا ساتھ دے گی
وقت سُنتا ہے
گواہی کے لئے
آکاش پر یہ چاند
قدموں میں پڑی یہ تیغ
اور بالوں میں یہ انجیر کا پتّا ہی کافی ہے
خداوندا، وہ کیسا مرحلہ تھا
اَب یہ کیسا مرحلہ ہے!
ایک سُنسانی کا عالم ہے
گلی چپ ہے
کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی
یہ کیسی ساعتِ منحوس ہے
جس میں ابھی تک
کوئی ننھاسا پرندہ یا پتنگا
یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری
کسی بھی مرد و زَن کی
مَیں نے صورت ہی نہیں دیکھی
سواری اُونٹ کی ہے
اَور مَیں شہرشکستہ کی
کسی سنساں گلی میں سَرجھکائے
ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر
اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں
یا کسی محشر
خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں
ہچکیوں اور سسکیوں کے بعد کا محشر
کوئی منظر
کوئی منظر کہ جس میں اِک گلی ہے
ایک بھورا اُونٹ ہے
اور ایک بُزدِل شخص کی ڈھِیلی رفاقت ہے
سفر نا مختتم
جیسے اَبد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے!
سواری اُونٹ کی
یا کاٹھ کے اَعصاب کی ہے
آزمائش اِک انوکھے خواب کی ہے
پتلیاں ساکت ہیں
سایہ اُونٹ کا ہلتا نہیں
آئینۂ آثار میں
ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں
اُس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں
کب سے گلی میں ہوں
کہاں ہے وُ ہ مری پیاری
مری سیلن زدہ اُوطاق والی
وُہ سُریلی گھنٹیوں والی
زمینوں ‘پانیوں اور اَنفَس و آفاق والی
کس قدر آنکھوں نے کوشش کی
مگر رونا نہیں آتا
سبب کیا ہے
گلی کا آخری کونا نہیں آتا
گلی کو حکم ہو‘ اَب ختم ہو جائے
مَیں بھُورے اور بوڑھے اُونٹ پر بیٹھے ہوئے
پیری کے دِن گنتا ہوں
شاید اِس گلی میں رہنے والا
کوئی اُس کے عہد کا زَنبوُر ہی گزرے
مَیں اُس کی بارگہ میں
دست بستہ‘ معذرت کی بھیک مانگوں
سَر ندامت سے جھکاؤں
اَوراُس زَنبوُ ر کے صدقے
کسی دِن اَپنے بوڑھے جسم کو
اور اُونٹ کو لے کر
گلی کی آخری حد پار کر جاؤں
٭٭٭
کہیں تم ابد تو نہیں ہو
کہو کون ہو تم
ازل سے کھڑے ہو
نگاہوں میں حیرت کے خیمے لگائے
افق کے گھنے پانیوں کی طرف
اپنا چہرہ اُٹھائے
کہو کون ہو تم بتاؤ بتاؤ
کہیں تم طلسمِ سماعت سے نا آشنا تو نہیں ہو
کہیں تم وہ دَر تو نہیں ہو
جو صدیوں کی دستک سے کھُلتا نہیں
یا قدیمی شکستہ سی محراب ہو
جس میں کوئی چراغِ رفاقت بھی جلتا نہیں
دھند آلود،کہنہ پہاڑوں میں
اندر ہی اندر کو جاتا ہوا راستہ تو نہیں ہو
وہی رنگ ہو
جس سے رنگ اور آمیزہ ہوتا نہیں
بے نمو جھیل جس میں پرندہ کوئی
اپنے پر تک بھگوتا نہیں
کون ہو تم بتاؤ بتاؤ
کہیں ملبۂ وقت پر
نیستی کے اندھیرے میں بیٹھے ہوئے
روزِِ اول سے اُجڑے ہوئے
بے سہارا مکیں تو نہیں ہو
کہیں تم فلک سے پرے
یا وَرائے زمیں تو نہیں ہو
کہو کون ہو تم بتاؤ بتاؤ
کہیں تم تکلم کے اسرار سے
لفظ کے بھد سے نا بلد تو نہیں ہو
کہیں تم ابد تو نہیں ہو
٭٭٭
تندور والا
سنو یہ جہنم نہیں ہے
دہکتے ہوئے سرخ شعلوں کی لَو
تیز گہری حرارت
تپش آگ کی
ان مدور کناروں سے
اُٹھتی ہوئی بھاپ میں زندگی ہے
سنو میں نے خود ہی اِسے
اَپنے ایندھن سے روشن کیا ہے
صبح سے شام تک
میں نے آٹے کو گوندھا
خمیرہ کیا
گول پیڑے بنائے
رفیدے سے روٹی لگائی
پکی جب اُس پہ پھول آئے
تو میں نے پرو کے
سیہ سیخ کی نوک سے
اُس سے باہر نکالا
میں روٹی کے پھُولوں کا عاشِق
سدا کا میں اِک نان بائی
ہمیشہ سے میں ایک تندور والا
زمانے،
ترے ساتھ میں پھول چُننے چلوں گا
ابھی میرا تندور نیچے سے اُوپر تلک تَپ رہا ہے
طباقوں میں دو بوری گوندھا ہوا
نرم آٹا پڑا ہے
جسے روٹیوں میں مجھے ڈھالنا ہے
اَزل سے مجھے اس جہنم سے روٹی مِلی ہے
مدور کناروں سے
اُٹھتی ہوئی بھاپ میں زندگی ہے
سُنو،یہ جہنم نہیں ہے
٭٭٭
یہ ماتم کی شبِ سوئم
یہ ماتم کی شبِ سوئم
تھکا ماندا، جنازہ گاہ سے لوٹا ہوا چہرہ
لہو،جیسے کہ اک کائی زدہ تالاب کو
جاتا ہُوا زینہ
فسردہ نیم روشن صحن میں
روتی ہوئی مدقوق آنکھیں
دھُول سے لتھڑی ہوئی سانسیں
بَرہنہ پاؤں کے تلوے میں چبھتا
درد پہنچاتا
کوئی خارِ حزیں پیہم
یہ ماتم کی شبِ سوئم
شبِ سوئم
یہ کیا کھانے سجا کر لائے ہو تم طَشتری میں
سوگ میں کھایا نہیں جاتا
غذا توہین ہے غم کی
قسم لے لو جو میں نے تین دِن سے
گھونٹ بھر پانی پیا ہو
اک نوالہ حلق سے نیچے نہیں اُترا
مجھ ایسے سوگ واروں سے تمہیں ملنا نہیں آیا
اُٹھا لو یہ مُزیّن طشتری
مشروب کا کوزہ ہٹا لو میرے آگے سے
ابھی کچھ تھوڑا سا گیہوں مرے گھر میں پڑا ہے
اور چوکی پر رکھی کچی صراحی میں
ابھی سوکھا نہیں
چشمے کا نتھرا شہد سا پانی
ابھی محرابِ دل کے بیچ
روشن ہے چراغِ زندگانی
٭٭٭
مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں
اچانک اِک شبیہ
بے صدا سی جَست بھر کے
آئنے کے پاس سے گزر گئی
سیاہ زرد دھاریاں
کھ جیسے لہر ایک لہر سے جڑی ہوئی
سنگار میز ایک دم لرز اُٹھی
کلاک کا طلائی عکس بھی دہل گیا
بدن جو تھا بخار کے حصار میں پگھل گیا
مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں
لہو کی کونیات میں
صفات اور ذات میں
عجب طرح کے بھید ہیں
یقین و ظن کی چھلنیوں میں
سو طرح کے چھید ہیں
ابھی تو جاگتا تھا میں
عمیق درد میں کراہتا تھا مَیں
پھر آنکھ کیسے لگ گئی
ابھی تہ سو رہا تھا مَیں
پھر آنکھ کیسے کھُل گئی
بدن سے یہ لحاف کا پہاڑ کیسے ہَٹ گیا
خبر نہیں کہ ہڈیوں کے جوڑ کس طرح کھلے
دَہن فراخ ہو کے‘ پیچھے کیسے کھنچ گیا
نکیلے دانت کس طرح نکل پڑے
نگاہیں کیسے شعلہ رُو ہوئیں
نہ جانے کسےی دَست و پا کی انگلیاں مُڑیں
کمر لچک سی کھا کے کیسے پھیلتی گئی
یہ جلد کیسے سخت کھال میں ڈھلی
یہ گھُپے دار دُم کہاں سے آ گئی
وجود کے کچھار میں
دہاڑتا ہوا
زقند بھر کے میں کہاں چلا گیا
مجھے تو کچھ پتا نہیں
مراتِبِ وجود بھی عجیب ہیں
٭٭٭
عجب پانی ہے
عجب ملاح ہے
سوراخ سے بے فکر
آسن مار کے
کشتی کے اِک کونے میں بیٹھا ہے
عجب پانی ہے
جو سوراخ سے داخِل نہیں ہوتا
کوئی موجِ نہفتہ ہے
جو پیندے سے
کسی لکڑی کے تختے کی طرح چِپکی ہے
کشتی چل رہی ہے
سر پھری لہروں کے جھولے میں
ابھی اوجھل ہے
جیسے ڈوبتی ،اب ڈوبتی ہے
اب نظر کے سامنے ہے
جیسے بطنِ آب سے
جیسے تلاطم کی سیاہی سے
ابھی نکلی ہے
جیسے رات دن
بس ایک ہی عا لَم میں
کشتی چل رہی ہے
کیا عجب کشتی ہے
جس کے دم سے یہ پانی رواں ہے
اور اس ملاح کا دل نغمہ خواں ہے
کتنے ٹاپوُ راہ میں آئے
مگر ملاح
خشکی کی طرف کھنچتا نہیں
نظارۂ رقصندگیِ خواب میں
شامل نہیں ہوتا
عجب پانی ہے
جو سوراخ سے داخل نہیں ہوتا
٭٭٭
خواب مزدور ہے
خواب مزدور ہے
رات دن سر پہ بھاری تغًاری لئے
سانس کی
بانس کی
ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر
اُترتا ہے
چڑھتا ہے
رُو پوش معمار کے حکم پر
ایک لا شکل نقشے پہ اُٹھتی ہوئی
اوپر اٹھتی ہوئی
گول دیوار کے
خِست در خِست چکر میں محصور ہے
خواب مزدور ہے
ایک مُشقت زدہ آدمی کی طرح
میں حقیقت میں یا خواب میں
روز معمول کے کام کرتا ہوں
کچھ دیر آرام کرتا ہوں
کانٹوں بھری کھاٹ میں
پیاس کے جام پیتا ہوں
اور سوزنِ ہجر سے
اپنی ادھڑی ہوئی تن کی پوشاک سیتا ہوں
جیتا ہوں
کیسی انوکھی حقیقت ہے
کیسا عجب خواب ہے
ایک مشقت زدہ آدمی کی طرح
اپنے حصے کی بجری اٹھانے پہ مامور ہے
خواب مزدور ہے
٭٭٭
میں آگ ہوتا
اگر میں آگ ہوتا
سرخ شعلوں کی لپک سے
جست بھرتا
نیل گوں ہالہ بنا کے
موج میں آ کے
تپش کی نرم انگلی لب پہ رکھتا
ایک انگارے کا بوسہ ثبت کرتا
دستِ حدًت سے ترا شانہ تھپکتا
گرم پوروں سی بنفشی لاٹ سے
زلفوں کو سہلاتا
تمازت کے دہکتے بازوؤں میں
تجھ کو بھر لیتا
شراروں کا تنفًس پھونکتا
لو کی ہتھیلی سے
ترے رخسار چھوتا،تھپتھپاتا
آگ کے سارے کرشمے آزماتا
راکھ کرتا
راکھ ہوتا
تیرے سینے سے لپٹ کر
فجر تک روتا
اگر میں آگ ہوتا
٭٭٭
میں نے دروازہ نہیں کھولا تھا
میرے دروازے پہ سہ بار ہوئی تھی دستک
میں نے دروازہ نہیں کھولا تھا
ایک بھی لفظ نہیں بولا تھا
پہلی دستک میں
کوئی بھید نہیں تھا لیکن
دوسری مرتبہ دستک میں
چھپی تھی حیرت
تیسری بار کی دستک سے
عیاں ہوتا تھا
کوئی دہشت زدہ مفرور کھڑا ہو جیسے
اک جنازہ میری چوکھٹ پہ پڑا ہو جیسے
ایسے آواز میں تھیں
درد و الم کی لہریں
جس طرح کوئی پنہ گاہ کے بالکل نزدیک
زہر میں ڈوبے ہوئے تیر سے
چھلنی ہو کر
آخری سانس کو
سینے میں سنبھالے پھر بھی
جسم ،بے انت اندھیرے کے سمندر میں گِرے
اور اک بپھری ہوئی
موجِ کفِ مرگ کے ہمراہ بہے
جس طرح کوئی گھِرا ہوتا ہے
آگ کے دشتِ خطرناک میں
سر سے پا تک
میرے دروازے پہ سہ بار ہوئی تھی دستک
میں نے دروازہ نہیں کھولا تھا
ایک بھی لفظ نہیں بولا تھا
٭٭٭
کہانی علامت بنے گی
کہانی علامت بنے گی
کہ پچھلا زمانہ
ہماری جبینوں پہ
شکنوں کی صورت میں لکھا ہوا ہے
بہت ہی پرانی کسی داستاں میں
شجاعت کے قصے
بدوشِ ہوا اک پری کا
منقش سبک نقرئی تخت پر
بیٹھ کر سیر کرنا
طلسمیں کنویں میں
اسیری کی راتیں
اناروں سے شوخ اور رنگین چڑیوں کا
اک ساتھ باہر نکلنا
گھنی آگ کے بیچ
فرشِ مدور پہ رقصِ شبانہ
وہ چوتھی جہت مشکی گھوڑا بھگانا
کہانی علامت بنے گی
کہ پچھلا زمانہ
مکانِ فسوں ارضِ حیرت سرا ہے
سوارِ جواں پر
کوئی کارِ رفتہ نہیں کھل رہا ہے
نہ سیمرغ کا رازِ خفتہ
نہ کوہِ ندا کا فسانہ
کہانی علامت بنے گی
کہ پچھلا زمانہ
کسی سنت سادھو کی
لمبی جٹاؤں میں الجھا ہوا ہے
٭٭٭
اسے پکارو
اسے پکارو جو نیند موسم میں سوئے چہرے جگا گیا تھا
وہ جس کی سانسیں طویل راتوں کی ہمسفر تھیں
اسے پکارو کہ پھر سے آنکھوں کو خواب سانپوں نے ڈس لیا ہے
بدن کے گنبد میں خواہشوں کا لہو کبوتر پھڑک رہا ہے
نگاہیں اپنے پھٹے دوپٹے کے زرد پلو میں زہر باندھے
رگوں میں کھوئے ہوئے مناظر کی جستجو میں بھٹک رہی ہیں
اسے پکارو جو ذات کشتی کا بادباں تھا
وجود ساحل پہ جس کے ہاتھوں کی خوشبوئیں تھیں
اسے پکارو کہ کشتِ جاں پہ عذاب بادل برس رہا ہے
زبان تختی پہ ذائقوں کے قلم نے پھر سے
کسیلی کڑوی رتوں کا قانون لکھ دیا ہے
سماعتوں میں حروف جنگل جھلس رہا ہے
اداس جذبوں کی کوٹھڑی میں اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا ہے
اسے پکارو کہ سانس خیمہ اکھڑ رہا ہے
بدن حرم سے ستون چہرہ بچھڑ رہا ہے
اسے پکارو جو نیند موسم میں سوئے چہرے جگا گیا تھا
٭٭٭
نیند کی جانب قدم
گنگ سانسیں
پتھروں کا ایک ڈھیر
بیلچے ہاتھوں میں تھامے بانجھ موسم کی پکار
روشنی دیوار کے اندر گئی
واپس ہوئی
ہم نشینی،رات کا پچھلا پہر
نیند کی جانب قدم
میں سمندر اوڑھ کر ساحل پہ ہوں
آنکھ کو دیمک لگی
بانس کے ویران جھنڈ
گیدڑوں کی ہاؤ ہو
بکریوں کے پیٹ سے
میمنے پیدا ہوئے اور مر گئے
بارش شب سے کلس نہلا گیا
کہکشاں رونے لگی
بد دعائیں منتقل ہونے کی گھنٹی بج گئی
سر خمیدہ شہر سیدھا ہو گیا
شاہ رگ سے دھڑکنیں رسنے لگیں
میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا
اور سمندر اوڑھ کر پھر سو گیا
٭٭٭
ہونے کا خدشہ
ڈرو کہ سب خاکروب ہاتھوں میں گرد لے کر
گلاب ہاتھوں،بہار چہروں کو ڈھونڈتے ہیں
ڈرو کہ مکتب کے راستے پر
جلوس ناخواندگاں کتابوں کو برچھیوں میں پرو رہا ہے
تمام بچوں کو خندقوں میں چھپا کے مکتب کے سب معلم
نئی کتابوں میں اقتباس محافظت کو تلاش کرنے میں منہمک ہیں
ڈرو کہ پکی حویلیوں کو اکھاڑ دینے کا عزم لے کر
ہزاروں خانہ بدوش تیشوں سے چوکھٹوں پر توانا ضربیں لگا رہے ہیں
ڈرو کہ اب اونٹ اپنی کروٹ بدل رہا ہے
٭٭٭
ماتھوں پہ سینگ
وہ طلسم تھا جو تمام بستی پہ قہر تھا
کوئی زہر تھا جو رگوں میں سب کی اتر گیا
تو بکھر گیا وہ جو بوریوں میں اناج تھا
کوئی ڈاکو لوٹ کے لے گیا جو دلہن کا قیمتی داج تھا
وہ سماج تھا کہ سبھی کے دل میں یتیم ہونے کا خوف تھا
کوئی ضعف تھا کہ جو آنگنوں میں مقیم تھا
وہ رجیم تھاکہ تمام بستی پہ آگ تھا
کوئی راگ تھا جو سماعتوں پہ عذاب تھا
وہ عتاب تھا کہ سبھی کے ماتھوں پہ سینگ تھے
٭٭٭
انتباہ
میں اپنے وطن سے بغاوت کروں تو
مجھے قتل کرنا
اگر اپنے بھائی کے ورثے کو لوٹوں
تو تم میری آنکھوں میں کانٹے چبھونا
خمیدہ کمر بوڑھے ماں باپ کو میں سہارا نہ دوں تو
مجھے قید کرنا، زد و کوب کرنا
اگر میرا ہمسایہ بھوکا رہے تو
.مجھے فاقہ زدگی سے دوچار کرنا
اگر میرے بیٹے کو میری وجہ سے برائی لگے تو
سلاخوں کے پیچھے مجھے بیڑیوں میں جکڑ کر مشقت کرانا
میں سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی
اگر اپنی بیٹی کی خوشیوں کا قاتل بنوں تو
مجھے بد دعاؤں سے محصور کرنا
مجھے ٹکٹکی پر چڑھانا
میں چوری کروں تو
میرے ہاتھ تلوار سے کاٹ دینا
میں عورت کی عصمت دریدہ کروں تو
زمیں میں مجھے گاڑ دینا
مجھے سنگساری سے معتوب کرنا
اگر جرم ہو جائیں ثابت تو مجھ پر
بھیانک سزاؤں کا اطلاق کرنا
مگر یاد رکھنا
مری بے گناہی کی تصدیق کر کے
اگر تم نے مجھ کو صلیبوں پہ کھینچا
تو میں آخری سانس تک تم سے لڑتا رہوں گا
٭٭٭
تم بھی جاناں کیسے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
پل پل ڈرتے رہتے ہو
پردہ دار بدن کے اندر
آگے پیچھے سوچ سمندر
ریت کنارے بیٹھے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
چادر ڈال کے چہرے پر
شب کی اوٹ میں چلتے ہو
خواب دلہن کی ڈولی میں
اپنے لمس کی جھولی میں
خود کو چومتے رہتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
خوب نہا کر پانی سے
کپڑے اوڑھ کے دھانی سے
اپنے آپ کو تکتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
لیکن رات کو بستر میں
تنہا ذات کے مندر میں
سن کر بھجن اندھیرے کے
دھاڑیں مار کے روتے ہو
اپنے حسن کے سونے کو
بھربھری مٹی کہتے ہو
تم بھی جاناں کیسے ہو
٭٭٭
ٹیلے سے قبرستان تک
میتوں کے زرد چہروں پر جمی تھی
موٹے بھدے چاند کی مریل نکھٹو روشنی
ایک ماتم تھا کہ جس میں منہمک اشجار تھے
صحن تھے خاموش ،سکتے میں درو دیوار تھے
ایک کالی رات تھی جو شہر میں آباد تھی
اپنی اپنی موت ہی ہر ذی نفس کو یاد تھی
راستہ بے ہوش تھا ٹیلے سے قبرستان تک
گورکن نوحہ کناں تھے، زندگی نرغے میں تھی
الوؤں کے غول اڑتے تھے دریچوں کی طرف
شہر سے باہر سمندر گونجنے میں محو تھا
٭٭٭
اس رات بڑی خاموشی تھی
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
اس رات دریچے خالی تھے
اور سڑکوں پر ویرانی تھی
آکاش کے نیلے ماتھے سے
مہتاب کا جھومر غائب تھا
اس رات بڑی خاموشی تھی
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
رستے کے بیچ سمندر تھا
اور اس کے پار پہاڑی تھی
مرے سر پر بوجھ تھا صدیوں کا
اور ہاتھوں میں کلہاڑی تھی
کچھ دور کنارے جوہڑ کے
بس مینڈک ہی ٹراتے تھے
اور پیڑ کے پتوں سے کیڑے
اک ساعت میں گر جاتے تھے
میں اس کو ڈھونڈنے نکلا تو
اس رات بڑی خاموشی تھی
٭٭٭
جب پوَ پھٹی
ابھی کچھ دیر تھی پوَ پھوٹنے میں
گرم بستر چھوڑ کر
جب گھر کی چوکھٹ پار کی میں نے
تو سارا شہر سویا تھا
کہ جیسے اک کویا تھا
جس کی تہ میں ہست و بود کا ریشم
سیاہی کے عجب اسرار میں لپٹا ہوا تھا
اک قدیمی دشت کی مہکار میں لپٹا ہوا تھا
ایسے لگتا تھا
کہ جیسے راستوں،
کھیتوں،مکانوں اور درختوں پر
فُسوں پھونکا گیا ہو
وقت جیسے
اک خُمارِ رَفت میں ڈوبا ہوا ہو
شش جِہَت پر رنگ اِستمرار کا پھیلا ہُوا ہو
لا مَکاں کی کُہنگی میں
دھُند کی لَب بستگی میں
خَلق اَپنی خواب گاہوں میں
دبک کر سو رہی تھی
ٓٓآسماں پر
چاند کی ضَو ماند پڑتی جا رہی تھی
ایک سناٹے کا عالَم تھا
چراغوں کی لَویں بجھنے کہ تھیں
اِمکانِ باراں تھا
گلی کے عَین اُوپر ابَر کے ٹکڑے
فضا میں تیرتے تھے
میں زَمستانی ہوَا میں کپکپاتا
بار بار اپنے سیہ کمبل کے گِرتے پلوؤں کو
پُشت و سینہ پر جماتا
پُر سُکوں اَنداز میں خوابیدہ
بچوں کے ہیوُلے
اشک بار آنکھوں کے پَردوں سے ہٹاتا
لَب ہی لَب میں بَڑبَڑاتا
ساحِل دریا پہ پُہنچا
ناؤ میں بیٹھا!
ابھی کچھ دیر تھی پَو پھُوٹنے میں
دوسرے ساحِل پہ جانے کی کشش نے
موج کے ریلے نے
میری ناؤ کو آگے بڑھایا
صبح کا تارا اَچانک جھِلملایا
ناؤ،پانی،بادباں،چپو،اندھیرا
اور غُنُودہ جسم میرا
سب عناصِر ایک عُنصر میں ڈھلے
دل میں کچھ پُرانی یاد کے پھُول
شاخوں پر کھِلے
پھر پَو پھٹی
پھر دوپہَر کی دھُوپ پھیلی
سہ پہَر کے سایے رینگے
شام دھل آئی
اَندھیرا چھا گیا
اور سینکڑوں راتوں کے
اِک لمبے سفر کے بعد
ساحِل آگیا!
جب اگلے دن کی پَو پھٹی
گھر میں صفِ ماتم بچھی
٭٭٭
اسی آگ میں
اسی آگ میں
مجھے جھونک دو
وہی آگ جس نے بلایا تھا
مجھے ایک دن
دمِ شعلگی
دمِ شعلگی میرا انتظار کیا بہت
کئی خشک لکڑیوں شاخچوں کے حصار میں
جہاں برگ و بار کا ڈھیر تھا
دمِ شعلگی
مجھے ایک پتے نے یہ کہا تھا گھمنڈ سے
ادھر آ کے دیکھ
کھ اس تپیدہ خمار میں
ہمیں ہم ہیں
لکڑیوں شاخچوں کے حصار میں
یہاں اور کون وجود ہے
یہاں صرف ہم ہیں رکے ہوئے
کہیں آدھے اور
کہیں پورے پورے جلے ہوئے
دمِ شعلگی ہمیں جو مسرتِ رقص تھی
تمہیں کیا خبر
اگر آگ تم کو عزیز تھی
تو یہ جسم کونسی چیز تھی
جسے تم کبھی نہ جلا سکے
وہ جو راز تھاپسِ شعلگی نہیں پا سکے
سو کہا تھا میں نے یہ ایک ادھ جلے برگ سے
مجھے دکھ بہت ہے کہ آگ نے
میرا انتظار کیا بہت
مگر ان دنوں کسی اور طرز کی آگ میں
میرا جسم جلنے کی آرزو میں اسیر تھا
مگر ان دنوں میں نہ جل سکا
میں نہ جون اپنی بدل سکا
مگر اب وہ آگ
کہ جس میں تم نے پناہ لی
جہاں تم جلے
جہاں تم کھلے
جہاں تم عجیب سی لذتوں سے گلے ملے
اسی آگ میں مجھے جھونک دو
٭٭٭
ماخذ:
http://www.freeurdupoetry.com/?q=Urdu-Poetry-Of-Rafiq-Sandeelvi
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید