FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

خواب جستجو میری

 

 

 

                سعود عثمانی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

ہے ایک سیلِ ندامت اس آبگینے میں

عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں

 

اسی زمیں اسی مٹی سے نور پھوٹا تھا

اسی دیار ، اسی رُت ، اسی مہینے میں

 

ہے بند آنکھ میں بھی عکسِ مسجدِ نبوی

جڑا ہوا ہے یہی خواب اس نگینے میں

 

کسی نے اسمِ محمد پڑھا تو ایسا لگا

کہ جیسے کوئی پرندہ اُڑا ہو سینے میں

 

میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی

سلگتے دشت سے آیا ہوا مدینے میں

 

مہِ حجاز کھلے آسماں مین ہے اور میں

بھٹک رہا ہوں کسی بے چراغ زینے میں

 

پلٹ کے آیا نہیں جنت البقیع سے میں

گڑا ہوا ہے مرا دل اسی دفینے میں

 

کسی حدیث کی خوشبو مجھے بتاتی ہے

مہک گلاب کی تھی آپ کے پسینے میں

 

سعود یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے

میں اپنے شہر میں ہوں اور دل مدینے میں

٭٭٭

 

 

 

زنجیر جب پگھلتی ہے سینے کی ہوک سے

سلمان یثرب آتے ہیں ارضِ ملوک سے

نادم کھڑے ہیں شہرِ مدینہ میں چند لوگ

آقاؐ پلٹ رہے ہیں جہادِ تبوک سے

 

آقاؐ ہمیں بھی راہ دکھا دیجئیے کہ ہم

صدیوں کے فاصلے پہ ہیں لمحوں کی چوک سے

 

آقاؐ ہمیں بھی دوست عطا کیجئیے کہ ہم

تنگ آ چکے ہیں سلسلہِ گرگ و خوک سے

 

مثلِ فضالہ مجھ کو بھی تسکین دیجئیے

دنیا نے بھر دیا مرا سینہ شکوک سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دنیا! میں تجھ سے تنگ ہوں ، میرا مکان چھوڑ

چل چھوڑ ، تو ہی ٹھیک سہی، میری جان چھوڑ

 

کچھ واجبات رزق کے ، کچھ قرض عشق کے

اے دل ! یہ سب حساب چکا ، اور دکان چھوڑ

 

ہے یوں کہ یہ جہان ترے بس کا ہے نہیں

اب اپنا خواب دان اٹھا، خاک دان چھوڑ

 

اے شاہ ! تو نے آ کے مری دھوپ روک لی

میری زمین چھوڑ ، مرا آسمان چھوڑ

 

جھوٹ اور سچ کے بیچ کا مسکن کوئی نہیں

ہر مصلحت سے جان چھڑا ، درمیان چھوڑ

 

یہ عشق بے امان سہی ، میری جان ہے

تو جانتا نہیں ہے مرا امتحان ، چھوڑ

 

ویرانگاں کو یاد رکھیں تازہ بستیاں

آئندگاں کے واسطے اک داستان چھوڑ

 

وہ یادِ بے پناہ تعاقب میں آئی ہے

کتنا کہا تھا تجھ سے ، مت اپنا نشان چھوڑ

٭٭٭

 

 

 

 

 

پلٹ کے چاند سیہ رات میں نہیں آیا

سو پھر وہ ہاتھ مرے ہاتھ میں نہیں آیا

کھِلی وہ صبح ، بنفشے کا پھول ہو جیسے

طلائی رنگ شروعات میں نہیں آیا

وہ ناچتا ہوا جنگل، وہ جاگتا ہوا خواب

وہ مور پھر مرے باغات میں نہیں آیا

پھر اس کے بعد ہوا یوں کہ بادشاہ کبھی

سفید و سرخ محلات میں نہیں آیا

غزل ادھوری پڑی رہ گئی کہ موسمِ گُل

دوبارہ باغِ طلسمات میں نہیں آیا

یہ مون سون تو پھر آبسا ہے آنکھوں میں

اور اب کی بار یہ برسات میں نہیں آیا

 

کچھ اس لیے بھی اسے تازگی نصیب نہیں

کہ شہر اپنے مضافات میں نہیں آیا

یہاں مکین تھے پہلے سے میرے خواہش و خواب

میں بےسبب تو خرابات میں نہیں آیا

لکیریں کھینچ گیا ہے تری طرح مجھ میں

وہ زلزلہ جو مری ذات میں نہیں آیا

 

یہ شعبدے نہ دکھا ، دل دِکھا مجھے ، کہ فقیر

تلاش کشف و کرامات میں نہیں آیا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ لطف سیرِ سماوات میں نہیں آیا

میں یوں ہی کارگہِ ذات میں نہیں آیا

سدا جو ساتھ رہا تھا ، وہی ستارۂ سبز

سفر میں آئی ہوئی رات میں نہیں آیا

کمال یہ ہے کہ وہ بھی بدل رہا ہے مجھے

جو فرق میرے خیالات میں نہیں آیا

میں ڈھونڈتا ہوا آیا ہوں زندگی اپنی

میں تم سے شوقِ ملاقات میں نہیں آیا

نجانے کب سے اسی ایک پل کے ہاتھ میں ہوں

وہ ایک پل جو کبھی ہاتھ میں نہیں آیا

دماغ ترک محبت پہ شاد تھا مرے دوست

مگر یہ دل جو تری بات میں نہیں آیا

ہزار بار محبت میں تنگ آیا مگر

ہزار شکر کہ جذبات میں نہیں آیا

میں جان دے کے بھی دنیا کو تیرا عشق نہ دوں

یہ تاجِ زر مجھے خیرات میں نہیں آیا

تمام عمر جلے ہیں کٹھالیوں میں سعود

یہ سوز عشق ہے ، اک رات میں نہیں آیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ جو نصیبِ عشق ہے ، یہ جو غبارِ عشق ہے

اس کا گلہ نہ کرمیاں ، عشق ہے پیارے عشق ہے

 

کتنے دنوں سےرنج بھی ٹھیک سے کر نہیں رہا

کتنے دنوں سے تیرا رنگ آئنہ دارِ عشق ہے

 

چند دنوں میں ہو گا تُو ، ایک بگولا رقص خُو

چند دنوں کی بات ہے ، یہ جو قرارِ عشق ہے

 

بات یہ ہے کہ ناصحا ، تجھ سے کروں میں بحث کیا

کوئی شریرِ عشق ہے ، کوئی شرارِ عشق ہے

 

وقت سے دُور ہو سکیں ، چین کی نیند سو سکیں

آج بھی اس جہان میں کیا کوئی غارِ عشق ہے

 

عشق کی چاہ کر نہیں ، دیکھ تجھے خبر نہیں

راج کمار عشق ہے، راج دلارے عشق ہے

 

لفظ سخن سہی مگر لفظ سخنوری نہیں

کاری گری ہے اور شے، اور یہ کارِ عشق ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

گزارنے سے کوئی دُکھ گزر نہیں جاتا

سو وہ بھی جا تو چکا ہے ،مگر نہیں جاتا

جو عکس تھے وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں

جو آئنہ ہے مجھے چھوڑ کر نہیں جاتا

جہاں خلوص میں گرہیں دکھائی دینے لگیں

میں اس کے بعد وہاں عمر بھر نہیں جاتا

کسی سے ربطِ محبت بحال کرنے کو

میں دل سے کہتا ہوں ، جاتا ہوں ، پر نہیں جاتا

 

اسی لیے تو مرے دوست بھی ہیں میرے عدو

میں دل پہ جاتا ہوں اور بات پر نہیں جاتا

وہ برف پوش محبت اِدھر نہیں آتی

اور اِس پہاڑ کا لاوا اُدھر نہیں جاتا

قیام جیسی کوئی حالتِ سفر ہے مری

ہوا میں جیسے پرندہ ٹھہر نہیں جاتا

بہت قریب ہے گرچہ دماغ سے مرا دل

مگر میں کام کے وقفے میں گھر نہیں جاتا

اک ایسے پیڑ کا فوصل ہے میرا عشق سعود

جو مر تو جاتا ہے لیکن بکھر نہیں جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک ادھُوری نظم

 

نہ جانے ذکر تھا کسکا، کہاں سے بات چلی

مرے وجود کے ٹکڑو! حسنؔ،عزیرؔ، علیؔ

 

یہ تین نام ہیں ترتیب کے بغیر جنہیں

کسی خیال کی رَو وزن میں پکارتی ہے

حسن، عزیر، علیتم کو کیا خبر کہ یہاں

حیات کیسے طلسمات سےگزارتی ہے

میں جس جہان کے قصّےسُنا رہا تھا تمہیں

دل ایک پل کے لئے اُس جہاں میں لَوٹ گیا

تمہارے ساتھ جو دن بھر رہا وہی کردار

ہوئی جو شام تو پھر داستاں میں لَوٹ گیا

 

الگ جہان تھا وہ، پر یہی مکان تھا وہ

یہ بام و در تو نہیں،ہمدموں کی صورت ہیں

یہ سنگ و خشت کے شیشوں سے جھانکتے چہرے

جو میرے ساتھ مرےساتھیوں کی صورت ہیں

 

و ہ روز و شب تھے کہجس کے گواہ ہم سب تھے

لہو میں روشنی تھی،بارشوں میں خوشبو تھی

عجیب مہکا ہوا دور ہم پہ گزرا تھا

گُلوں کا ذکر تو کیا،آنسوؤں میں خوشبو تھی

 

نیا بنا ہوا گھر تھا،نئے بنے ہوئے دل

اور اِس سے قبل ہمارے مکاں ہمارے نہ تھے

سو اِس نشے نے بہت کُلفتیں بھُلا دی تھیں

وہ ایسے دن تھے جو پہلے کبھی گزارے نہ تھے

 

بنا کواڑ کے الماریوں کو شکوہ تھا

کہ اِس مکان میں آسائشیں ذرا کم تھیں

مگر مکان کو حیرت تھی اُن مکینوں پر

کہ جن کی سمت سے فرمائشیں ذرا کم تھیں

 

وہ سب جو خواہشیں ہوتی ہیں، خواب ہوتے ہیں

کسی طلسم نے معدوم کر دیا تھا اُنہیں

ضروریات کی ترتیب و انتظام کے بعد

جو کچھ خلا تھے قناعت نے بھر دیا تھا انہیں

 

جو شرق و غرب کی سب نعمتوں سے بڑھ کر تھے

وہ دو وجود یہیں اسمکاں میں رہتے تھے

بڑی خنک سی تمازت تھی پیار میں اُن کے

وہ آفتاب تھے اورسائباں میں رہتے تھے

 

سو آٹھ فرد تھے ہم گھر کے اور کچھ مہماں

جو مو سموں کی طرح آنے جانے والے تھے

کسی کو علم نہیں تھا کہ اگلے دور میں ہم

جُدائیوں کے بڑے دُکھ اُٹھانے والے تھے

 

وہ کوئلوں کی انگیٹھی میں اَدھ جلے یاقوت

بچھی ہوئی کسی کونے میں ایک جائے نماز

وہ نرم گرم لحافوں میں مَدھ بھری نیندیں

وہ صبح ساتھ کے کمرےسے ذِکر کی آواز

 

وہ اک وسیع قفس چاؤسے بنایا ہوا

برآمدے کے ستونوں کے درمیان جو تھا

اور اس دیار کا ہر ایک خوش نوا طائر

ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا، میہمان جو تھا

 

وہ زرد چشم، سیہ رنگ، نیل دُم چڑیا

 

جو اک ترنّمِ لرزاں پہ ڈولتی رہتی

شرابی آنکھ سے تکتی فرشتہ پر قمری

جو ایک رِند کے لہجے میں بولتی رہتی

 

کسی تفکّرِ حیراں میں غرق وہ طوطا

جو بھائی جان کے قدموں کی چاپ جانتا تھا

نہ جانے کیوں اُسےہر آئنے سے وحشت تھی

یہ اُس کے بھید تھے، وہ اِن کو آپ جانتا تھا

 

کبوتروں کی قطار سے ٹوٹ کر یک دَم

زمیں کی سمت کئی مہ لقا اُترتے ہوئے

ہماری اور تمہاری طرح یہ چند پرند

کسی وسیع قفس میں اُڑان بھرتے ہوئے

 

میں صبح دیر سےاُٹھتا تھا اور مرا اسکول

،،بہت قریب تو کیا تھا مگر قریب سا تھا،،

اور اُس کی راہ میں اک سُرخ پھول کا پَودا

نہ جانے عمر عجب تھی کہ وہ عجیب سا تھا

 

میں جب بھی گاچنی ملتا تو میری تختی پر

ہتھیلیوں سے لکیریں سی پڑنے لگتی تھیں

اور اس کے بعد کسی گرم خشک جھونکے سے

سلیٹی رنگ کی پَوریں اکڑنے لگتی تھیں

 

نہ جانے کیفِ سخن تھا کہ بانکپن، کیا تھا

پہ کوئی شے تھی جو مجھ کو بہت سنوارتی تھی

بہت عزیز تھی مجھ کو وہ سرد چنگاری

جو رات بھر مرے سینےمیں دن گزارتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

نیم انسان مخلوق سے

 

ایک مخلوق نے اس کی تخلیق کی

خاکِ سفاک سےاس کا نطفہ بنایا گیا

رحمِ بے رحم کے گھپ اندھیروں میں رکھا گیا

آتش ِ بغض سے سارے اعضا بنا کر انہیں

گدلے آبِ تعصب کی تلچھٹ سے دھویا گیا

سازشی استخواں جوڑ کر

لحمِ نفرت سے اسپرخد و خال لکھے گئے

اور دل

سرخ سنگِ شقاوت کے بے جوڑ ٹکڑے سے ڈھالا گیا

کوہ ِ کینہ سے سینہ تراشا گیا

عقربی ذہن کو

اپنے کالے عقیدوں کی تعظیم کرتے ہوئے

دوسرے ہر عقیدے کی توہین کرنی سکھائی گئی

زہرِ سیال تشنہ رگوں میں بہایا گیا

اور پھر

زردجلتی بھلستی ہوئی جلد ڈھانچے پر مڑھ دی گئی

خالق خیر و شر

سب بجا ہےمگر

اس زمانے کی فریاد کس سے کریں

جس میں چاروں طرف دستِ خوں ریز ہیں

مذہبی گُرگ ہو یا کوئی دہریہ بھیڑیا

دانت اور کچلیاں ایک سے تیز ہیں

کیا زمانہ ملا ہے ہمیں

جس میں اس خوک کو خوب کہنے کی تاکید ہے

کیا زمانہ ملا ہے ہمیں

جس میں اس نیم انسان مخلوق سے

ربط رکھنا بھی لازم ہے اور رابطے کے فقط

دو ہی امکان ہیں

دوستی دشمنی

نیم انسان دو پایہ مخلوق سے

دوستی دشمنی دوہی امکان ہیں

شہر ویران ہیں

فیصلے کی گھڑی سر پہ ہے

لوگ بے جان ہیں

کیا کریں ؟کیا کریں ؟

یہ جو انسان ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

جو دل قریب ہو پہلے نشانہ بنتا ہے

سو اس کا تیر مجھی پر چلانا بنتا ہے

 

یہ بوڑھی ماں کی طرح کچھ بھی کہہ نہیں سکتی

سو اس زمیں کا تمسخر اڑانا بنتا ہے

وہ گوری چھاؤں میں ہیں اور سیاہ دھوپ میں ہم

سو ان کا حق ہے ، انہی کا جلانا بنتا ہے

 

چراغ زاد ! چراغوں سے تیری بنتی نہیں

ہواؤں سے ہی ترا دوستانہ بنتا ہے

 

خرد کے آڑھتیوں کو یہ علم ہی تو نہیں

کہ خوب سوچ سمجھ کر دوانہ بنتا ہے

میں ہاتھ جوڑتا ہوں ناصحانِ شعلہ زباں

بہت دکھوں سے کوئی آشیانہ بنتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

جھلمل ہے دل میں آج بھی روشن ستارہ کیا

اس ڈل میں اب بھی تیر رہا ہے شکارا کیا

 

ہر روز صبح دم کوئی آئینہ ٹوٹنا

اس خواب میں بچے گا ہمارا تمہارا کیا

 

دیکھو یہ کارِ عشق نہیں کارِ خیر ہے

تم اس میں کر رہے ہو میاں ، استخارہ کیا

 

لوگو یہ شہر وہر نہیں ہے ، سراب ہے

اس فاصلے سے تم پہ کھلے گا نظارا کیا

 

یہ تم جو آئنے کی طرح چور چور ہو

تم نے بھی اپنی عمر کو دل پر گزارا کیا ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس خامشی میں مجھ کو کسی نے پکارا کیا

مہتاب آگیا ہے پلٹ کر دوبارہ کیا

 

ہم خواب زاد لوگ ہیں ، خانہ بدوش ہیں

ہم تو خود اپنے ساتھ رہیں گے ہمارا کیا

 

ہر سایۂ رواں کی طرح صرف تھوڑی دیر

اس دشت میں کرے گا کوئی ابر پارہ کیا

 

ا ے عشق، اے مجاز کے اس پار اصل عشق

تو مجھ پہ ہوسکے گا کبھی آشکارا کیا ؟

سب مدح و ذم سعود گئے دن کی بات ہے

دل شاد ہو تو آئنہ کیا سنگِ خارا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنا سمجھیں ، نہ پرایا سمجھیں

دل کو دنیا کی طرح کا سمجھیں

دل کی اپنی ہی سمجھ ہوتی ہے

جو فقط ذہن ہیں ، وہ کیا سمجھیں

اتنے ناداں بھی نہیں ہیں ہم لوگ

دھو پ ہو اور اسے سایا سمجھیں

اتنے سادہ بھی نہیں ہیں ہم لوگ

کسی دیوار کو رستا سمجھیں

اتنے تشنہ بھی نہیں ہیں ہم لوگ

غیر کے جام کو اپنا سمجھیں

ہم تو وہ لوگ ہیں ، انداز شناس

بات کم ہو تو زیادہ سمجھیں

ہم تو وہ لوگ ہیں ، اے قریۂ حرف

جو ہر اک رمز و کنایہ سمجھیں

 

ہم تو وہ لوگ ہیں جن سے یہ لوگ

زیست کرنے کا طریقہ سمجھیں

 

پھر بھی کچھ ہے جو نہیں ہے بس میں

بس یہ تقدیر کا لکھا سمجھیں

 

یہ جو صحرا ہے تہِ آب رواں

اب مری ذات کا حصہ سمجھیں

یہ جو زر ناب پتاور ہے ، اسے

سبز رہنے کا نتیجہ سمجھیں

یہ جو شب تاب دریچہ ہے مرا

سانس لینے کا وسیلہ سمجھیں

کچھ دھڑکنے کی صدا آتی ہے

خواب خفتہ تجھے زندہ سمجھیں ؟

کہہ رہے ہیں مرے بیتے موسم

اپنے ماضی کو بس آیا سمجھیں

دل پہ آتا ہے کسی ہاتھ کا لمس

جب بھی ہم خود کو اکیلا سمجھیں

آنکھیں ہر گل پہ ٹھٹک جاتی ہیں

ہر کسی کو ترا چہرا سمجھیں

شام اک نام پہ کھِل اٹھتی ہے

اسم سمجھیں کہ ستارہ سمجھیں

ایک آہٹ جو چلی آتی ہے

خود کو کس طرح سے تنہا سمجھیں

ایک بھولی ہوئی خوشبو مجھ سے

کہہ رہی ہے مجھے تازہ سمجھیں

بات کرتے ہوئے رک جاتا ہوں

آپ اس بات کو پورا سمجھیں

دل کو اک عمر سمجھتے رہے ہم

پھر بھی اک عمر میں کتنا سمجھیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نہروں میں وہی آبِ خنک جاری کروں گا

دریا کی طرح دشت کی دل داری کروں گا

جو چاہے کسی قریۂ گل پوش میں بس جائے

میں تو اسی صحرا کی نگہداری کروں گا

مٹی سے حلف خون میں رہتا ہے مری جان

پلٹوں گا تو اس عہد سے غداری کروں گا

جو مجھ میں ہے اس خواب میں رہنا نہیں آتا

کیا جانے کب آسان یہ دشواری کروں گا

دل آتشِ خفتہ کا دفینہ ہے سو اک دن

چقماق سے روشن وہی چنگاری کروں گا

٭٭٭

 

 

 

تصویریں بناؤں گا ، سخن کاری کروں گا

اے ہجر ترے وصل کی تیاری کروں گا

مصروف تو رہنا ہے جدائی میں کسی طور

بچھڑے ہوئے لوگوں کی عزا داری کروں گا

ٹوٹی ہوئی ٹہنی کے بھی سب زخم ہرے ہیں

اے عشق زدہ ، میں تری غم خواری کروں گا

اچھا تو یہی ہے کہ میں کچھ بھی نہ کہوں دوست

کرنی ہی پڑی بات تو پھر ساری کروں گا

کہہ دوں گا مجھے تم سے محبت ہی نہیں تھی

اک روز میں اپنی بھی دل آزاری کروں گا

سچ یہ ہے کہ پڑتا ہی نہیں چین کسی پل

گر صبر کروں گا تو اداکاری کروں گا

٭٭٭

 

 

 

 

یہاں بہت ہیں ملالہ ، ملالہ ایک نہیں

 

وہ روشنی ہے سو اس کا حوالہ ایک نہیں

یہاں بہت ہیں ملالہ ، ملالہ ایک نہیں

سیاہ شب کے افق تاب روزنوں کی قسم

بہت سی روشنیاں ہیں اجالا ایک نہیں

یہ کہکشاں ، یہ ستارے ، یہ چاند ، یہ سورج

دیارِ نور میں نازوں کا پالا ایک نہیں

مہ تمام ، زمیں کو نگاہ بھر کے تو دیکھ

جو اس کے گرد بنا ہے وہ ہالہ ایک نہیں

یہ سب پسند کے مظلوم چُن رہے ہیں سعو د

ستم تو یہ ہے ستم کرنے والا ایک نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وہی ہے گیت ، جزیرے میں جل پری وہی ہے

یہ خواب اب بھی وہی ہے ، بعینہ وہی ہے

وہی ہے سبز سمندر میں نقرئی مٹی

جو بہہ رہی ہے تہ آب روشنی وہی ہے

وہی ہے شوخ ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی

سفید ریت پہ لہروں کی سمفنی وہی ہے

لرزتا دیکھ کے عکسِ زمردیں اپنا

گیاہ رنگ پہاڑی کی دلبری وہی ہے

 

اسی طرح ہے شبِ آبنوس فام کی لو

طلائی صبح کی پوشاک آتشی وہی ہے

یہ چاند ابر میں ، غرقاب آئنے کی طرح

طلسم وقت وہی ، شب کی ساحری وہی ہے

ہر ایک رنج سے بے فکر پھوٹتے چشمے

جو مجھ میں پھول کھلا دے ، تری ہنسی وہی ہے

اُڑان بھرتی ہوئی رنگ رنگ بولیوں کو

سمجھ رہا ہوں کہ میری بھی سرخوشی وہی ہے

بدل چکے ہیں بیک خواب میرے سب ساتھی

نہ دوستی وہی ہے اور نہ دشمنی وہی ہے

ہوا سےرِستی ہوئی بھیگے جسم کی خوشبو

میں جانتا ہوں یہ مانوس اجنبی وہی ہے

میں تیرے ساتھ ہوں لیکن بہت اکیلا ہوں

یہ ایک بات نئی ہے پہ دوسری وہی ہے

بچھڑ کے جاتے ہوئے سرمئی پرندے ، سن

میں ہم نوا ہوں ترا ، میری ہُوک بھی وہی ہے

میں خواہ چاہوں نہ چاہوں مجھے پلٹنا ہے

پسند ہو کہ نہ ہو، میری بے بسی وہی ہے

کنار آب جھکے شاخچوں کی طرح سعود

میں خوش ہوں اور مری آنکھ میں نمی وہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

احوال

 

کس طرح رہے بھرم ہمارا

یہ شعر و سخن ، یہ حرف و تمثیل

یہ غم کے بھرے ہوئے پیالے

جو کہہ نہیں پائے غم ہمارا

 

اس لوح کا ماجرا عجب ہے

اوروں کا تو ذکر سکیا ، کہ خود پر

احوال کھلا ہے کم ہمارا

دنیا کا گلہ کریں تو کیسے

خود سے بھی مکالمہ اگر ہو

ہم پر ہو بہت کرم ہمارا

 

کس عشق کی داد مانگتے ہم

اک جامِ سفال میں پڑا ہے

ٹوٹا ہوا جامِ جم ہمارا

 

ہم چپ کی نوا گری کے عادی

دھڑکن کا سراغ دے رہا ہے

آواز کا زیر و بم ہمارا

تصویر گری ہے سہل کتنی

رخسار پہ نقش بن رہے ہیں

اور اشک ہے مُوقلم ہمارا

آنکھوں میں کٹی تھی رات اور اب

خوشبو کی طرح سلگ رہے ہیں

کیا رنگ ہے صبح دم ہمارا

اشکوں سے گندھی ہوئی ہے مٹی

اس دشت کی آتشیں تمازت

کیا جذب کرے گی نم ہمارا

پتھریلے نکیلے راستوں پر

اک صفحۂ تر بہ تر پڑا ہے

یہ حال ہے بیش و کم ہمارا

٭٭٭

 

 

 

 

تمہی تو ہو

 

تمہی تو ہو جو مرے دل کا آئنہ خانہ

سجا کے رکھتی ہو ایسے کہ عکس،رنگ،بہار

ہر ایک سمت نظر میں بکھرتے جاتے ہیں

تمہی تو ہو جو مرے ان خمیدہ ہاتھوں کو

لگا کے رکھتی ہو دل سے کہ جیسے شاخِ گلاب

کہ جیسے پھول کو تتلی کا لمس ملتا ہے

تمہی تو ہو جو ہر اک بے اماں جزیرے پر

ٹھکانے اور سہارے کی طرح ملتی ہو

میں سر اٹھائے جہاں سے گزرتا جاتا ہوں

 

تمہی تو ہو جو مرے خوشنما گھروندے کو

سنہرے خواب کے ساحل پہ تند لہروں سے

بچا کے رکھتی ہو ایسے کہ میرے گھر کے سوا

حصار اور در و دیوار گھلتے جاتے ہیں

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو میرے چاروں طرف

نہ کوئی عکس،نہ خوشبو، نہ آئنے،نہ بہار

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو یخ ہواؤں میں

میں برگِ زرد کی صورت پناہ ڈھونڈتا ہوں

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو اتنے لوگوں میں

خود اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہوں ہاتھ اپنا

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو اس جزیرے پر

کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کوئی سہارا نہیں

سمندروں کے ادھر بھی کوئی کنارا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

سوگیا تھک کے چراغوں کو جگانے والا

کون آئے گا بھلا ، کون ہے آنے والا

یہ جو دنیا ہے ، یہی ہے میری اپنی دینا

میں ترے خواب سے باہر نہیں جانے والا

ایسا لگتا ہے کہیں گریہ کناں ہے مجھ میں

ایک آنسو مرے دل تک اتر آنے والا

کوہساروں کے سوا کوئی نہیں ہے شاید

مری آواز میں آواز ملانے والا

اپنے قاتل سے میں واقف نہیں ، پر جانتا ہوں

مارنے والے سے برتر ہے بچانے والا

اس قبیلے میں کوئی اور نہیں ہے شاید

عشق میں میری طرح نام کمانے والا

کینوس بھی نہیں کاغذ بھی نہیں چاہیے ہے

میں ہوں الفاظ سے تصویر بنانے والا

تیری مانند یہ کچھ دیر رکا ہے مرے ساتھ

پھر یہ منظر بھی نہیں لوٹ کے آنے والا

میں نے اک عمر یہی خواب تو دیکھا ہے سعود

آج تالاب میں ہے چاند نہانے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ رہا تیرا تخت و تاج میاں

فقر کا اور ہے مزاج میاں

کیا کرے چاند کیا کرے سورج

کور چشمی کا کیا علاج میاں

جانے کس دم ٹھہر گیا مجھ میں

رات اور دن کا امتزاج میاں

یہ جو قسطوں میں جاں نکالتا ہے

کب تلک لے گا یہ خراج میاں

اژدہے کا تو اپنا مسلک ہے

کیا پرندے کا احتجاج میاں

بولتے آئنوں سے کچھ پہلے

قصہ خوانی کا تھا رواج میاں

پھر میں پہنچا اسی جزیرے پر

جس پہ تھا جل پری کا راج میاں

پاؤں پھیلا دئے سمیٹ کے ہاتھ

کیا غرض کیسی احتیاج میاں

چوتھے درویش نے کہا مجھ سے

کر کوئی اپنا کام کاج میاں

عشق بھی رزق کی طرح ہے سعود

رب سے ملتا ہے سب اناج میاں

٭٭٭

 

 

 

 

 

چشمِ بے خواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے

کیسا پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے

مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت

اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے

کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ

ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے

لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک

دور سے دیکھو تو یہ شہر بھنور لگتا ہے

وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ

دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے

کوئی شوریدہ نفس جسم کے اندر ہے سعود

دل دھڑکتا ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بچھڑ رہا ہے یہ دل زندگی کے دھارے سے

مگر یہ بات کہے کون اتنے پیارے سے

نکل رہا ہوں بہت دور اس زمیں سے میں

کلام کرتا ہوا صبح کے ستارے سے

وہ گر رہا ہے کسی آبشار کی صورت

میں تک رہا ہوں اسے آخری کنارے سے

تیرے بغیر زمین و زمان ہیں بھی تو کیا

ارے یہ دل کہ نکلتا نہیں خسارے سے

جو کٹ گئی ہے اسے اتنا سرسری نہ سمجھ

میاں یہ عمر گذرتی نہیں گذارے سے

بڑا حجاب ہے حدسے زیادہ قرب سعود

کہ نقش چھپتے ہیں نزدیک کے نظارے سے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی سراب کرے گا،کبھی غبار کرے گا

یہ دشتِ جاں ہے میاں یہ کہاں قرار کرے گا

ابھی یہ بیج کی مانند پھوٹتا ہوا دکھ ہے

بہت دنوں میں کوئی شکل اخیتار کرے گا

یہ خود پسند سا غم ہے سو یہ امید بھی کم ہے

کہ اپنے بھید کبھی تجھ پہ آشکار کرے گا

تمام عمر یہاں کس کا انتظار ہوا ہے

تمام عمر مرا کوں انتظار کرے گا

نشے کی طرح محبت بھی ترک ہوتی نہیں

جو ایک بار کرے گا وہ بار بار کرے گا

٭٭٭

 

 

 

 

ڈپریشن

 

بکھرے ہوئے رنگ ہیں دھنک کے

منظر ہیں زمیں پر فلک کے

مہکار سے رنگ مل رہے ہیں

چہروں میں گلاب کھل رہے ہیں

ہر سانس مہک رہی ہو جیسے

پھولوں سے کشید کی ہو جیسے

دریائے حروف بہہ رہا ہے

ہر شخص بس اپنی کہہ رہا ہے

جذبوں کو پناہیں مل رہی ہیں

آپس میں نگاہیں مل رہی ہیں

لیک مری کیفیت عجب ہے

اک درد ہے اور بے سبب ہے

جی زیست سے بھر گیا ہو جیسے

شیشہ سا بکھر گیا ہو جیسے

ماحول میں کھو کر سوچتا ہوں

حیران سا ہو کے سوچتا ہوں

جب مجھ کو نصیب ہر خوشی ہے

پھر دل میں نہ جانے کیا کمی ہے

کیا جانئے دل اداس کیوں ہے

دریا پہ بھی آ کے پیاس کیوں ہے

آنکھوں کی نمی چھپا رہا ہوں

روتے ہوئے مسکرا رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

اس ایک پل سے گذرنا محال تھا میرا

وہ پہلے پیار کا پہلا ملال تھا میرا

 

نجانے کیوں مجھے یہ واہمہ سا رہتا ہے

کہ تو بھی خواب تھا میرا خیال تھا میرا

بہت دنوں میں وہ کیفیت پلٹ آئی

کہ شامِ ہجر تھی اور جی بحال تھا میرا

غبارِ درد میں بھی گردِ ماہ و سال میں بھی

عجیب رنج تھا جس کو خیال تھا میرا

پھر ایک بار میں رویا تو بے خبر سویا

وگرنہ غم سے نکلنا محال تھا میرا

٭٭٭

 

 

 

 

 

بچھڑ گیا ہے تو اب اس سے کچھ گلا بھی نہیں

کہ سچ تو یہ ہے وہ اک شخص میرا تھا بھی نہیں

میں چاہتا ہوں اسے اور چاہنے کے سوا

مرے لیے تو کوئی اور راستا بھی نہیں

عجیب راہگزر تھی کہ جس پہ چلتے ہوئے

قدم رکے بھی نہیں راستا کٹا بھی نہیں

دھواں سا کچھ تو میاں برف سے بھی اٹھتا ہے

سو دل جلوں کا یہ ایسا کوئی پتا بھی نہیں

رگوں میں جمتے ہوئے خون کی طرح ہے سعود

وہ حرف ہجر جو اس نے ابھی کہا بھی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمھی تو ہو

 

 

تمہی تو ہو جو مرے دل کا آئنہ خانہ

سجا کے رکھتی ہو ایسے کہ عکس،رنگ،بہار

ہر ایک سمت نظر میں بکھرتے جاتے ہیں

تمہی تو ہو جو مرے ان خمیدہ ہاتھوں کو

لگا کے رکھتی ہو دل سے کہ جیسے شاخِ گلاب

کہ جیسے پھول کو تتلی کا لمس ملتا ہے

تمہی تو ہو جو ہر اک بے اماں جزیرے پر

ٹھکانے اور سہارے کی طرح ملتی ہو

میں سر اٹھائے جہاں سے گزرتا جاتا ہوں

 

تمہی تو ہو جو مرے خوشنما گھروندے کو

سنہرے خواب کے ساحل پہ تند لہروں سے

بچا کے رکھتی ہو ایسے کہ میرے گھر کے سوا

حصار اور در و دیوار گھلتے جاتے ہیں

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو میرے چاروں طرف

نہ کوئی عکس،نہ خوشبو، نہ آئنے،نہ بہار

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو یخ ہواؤں میں

میں برگِ زرد کی صورت پناہ ڈھونڈتا ہوں

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو اتنے لوگوں میں

خود اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہوں ہاتھ اپنا

اور اب جو تم بھی نہیں ہو تو اس جزیرے پر

کوئی ٹھکانہ نہیں ہے کوئی سہارا نہیں

سمندروں کے ادھر بھی کوئی کنارا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

مہک اٹھے گی ساری راہگزر آہستہ آہستہ

ہوا کرتا ہے خوشبو کا سفر آہستہ آہستہ

دئیے صرف ایک غم نے زندگی کو زاویئے کیا کیا

جلیں اک لو سے شمعیں کس قدر،آہستہ آہستہ

مرے حسنِنظر کا خود مجھے احساس تک کیوں ہو

جمالِ یار کر آنکھوں میں گھر،آہستہ آہستہ

شعاعیں خود ہی اپنا راستہ پہچان لیتی ہیں

اتر آتی ہے آنکھوں میں سحر آہستہ آہستہ

تری یادیں بھی اک اک کر کے رخصت ہوتی جاتی ہیں

بچھڑتے جا رہے ہیں ہم سفر آہستہ آہستہ

٭٭٭

 

 

 

 

 

آخرِ کار

 

ذرا دیر کی زندگی کے لیے خواب سب اک طرف رکھ دئیے

خواب سوچوں میں تھے

خواب آنکھوں میں تھے

خواب لفظوں میں تھے

خواب رنگوں میں تھے

خواب تھے جو مری چار سمتوں میں تھے

زندگی عمر بھر

چار سمتوں سے یہ دھوپ سہتی رہی

یوں ہی رہتی رہی

اور پھر ایک دن یوں ہوا

سبز خوابوں کی ٹھنڈی تپش چھوڑ کر

ایک موہوم سی روشنی کے لیے

اک ہمکتی چھلکتی ہنسی کے لیے

زندگی کے لیے

جو نہیں مل سکی اس خوشی کے لیے

اک ذرا دیر کی زندگی کے لیے

خواب سب اک طرف رکھ دئیے

٭٭٭

 

 

 

 

شاید اس طرح گذشتہ کی تلافی ہو جائے

سارے غم بھول کے اک غم مجھے کافی ہو جائے

تو اگر چاہے تو شعلوں میں کھلا دے گلشن

تری رحمت ہو تو پھر زہر بھی شافی ہو جائے

تو نہ چاہے تو سمندر سے بھی تشنہ لوٹوں

تو اگر چاہے تو شبنم مجھے کافی ہو جائے

ایک مدت سے ہوں زندانِ گنہ میں محبوس

عمر بھر قید کے مجرم کی معافی ہو جائے

بے حسی منتظرِ چشمِ کرم ہے کب سے

دل پہ بھی اک نگہِ سنگ شگافی ہو جائے

وہ جو مفہومِ دعا دل میں ہے بے لفظ سعود

لب پہ آ جائے تو پابندِ قوافی ہو جائے

٭٭٭

 

 

بے نام اداسی کے ہیں اسباب عجب سے

دل ہے کہ بجھا جاتا ہے افراطِ طرب سے

دیکھا تو اندھیروں میں بہت رنگ تھے پنہاں

منظر کئی پیدا ہوئے یک رنگیِ شب سے

میں پیش قدم ہونے کو تھا بر سرِ میداں

اتنے میں ہزیمت کی خبر آئی عقب سے

گر سبز رتیں میرے مقدر میں نہیں تھیں

سینچا تھا میری خاک کو کیوں بحرِ عرب سے

 

آتا ہو سلیقہ تو سعود اب بھی سخن ور

کہتا ہے ہر اک بات،مگر حسنِ ادب سے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حوصلہ چھوڑ گئی راہ گزر آخر کار

رہ گیا ساتھ مسافر کے سفر آخر کار

 

کوہِ اسود نے بہت راستے روکے لیکن

شرق سے پھوٹ پڑا چشمۂ زر آخر کار

 

اس کے پتوں پہ لکیریں تھیں ہتھیلی جیسی

مدتوں سبز رہا پیڑ مگر آخر کار

 

تھم کے رہ جائے گی اک روز لہو کی گردش

ختم ہو جائے گا اندر بھی سفر آخر کار

 

جس نے اک عمر سے آواز جھلس رکھی تھی

آنکھ تک آ گیا وہ شعلۂ تر آخر کار

 

زرد ہو جائیں گے پتے بھی گلابوں کی طرح

ایک ہو جائیں گے سب عیب و ہنر آخر کار

 

دست خوش لمس میسر نہیں آئے گا کبھی

بند رہ جائے گا سیپی میں گہر آخر کار

 

تم نہیں جانتے اس رنج کو ہم جانتے ہیں

راکھ کر جائے گا اس غم کا اثر آخر کار

 

ٹوٹ جاتا ہے کسی شخص کے مانند سعود

قیدِ تنہائی میں رہتا ہوا گھر آخر کار

٭٭٭

 

 

 

 

 

سب خواب میں ہیں کون سنے گا نوائے شب

گویا ہے ماورائے سماعت صدائے شب

 

اک چاند میرے ساتھ چلا پھر پلٹ گیا

کس ہمسفر نے ساتھ دیا ماسوائے شب

 

حیرت سے سوچتا ہوں کہ جشنِ طلوعِ مہر

اک ابتدائے صبح ہے یا انتہائے شب

 

کرنوں نے بڑھ کے روک دیا سیل تیرگی

سورج نے آ کے ختم کیا ارتقائے شب

 

فردا کے ایک وعدۂ روشن کے باوجود

کچھ اور ظلمتیں ہیں ابھی ماورائے شب

٭٭٭

 

 

 

 

عجب خجالتِ جاں ہے نظر تک آئی ہوئی

کہ جیسے زخم کی تقریبِ رونمائی ہوئی

نظر تو اپنے مناظر کی رمز جانتی ہے

کہ آنکھ کہہ نہیں سکتی سنی سنائی ہوئی

برونِ خاک فقط چند ٹھیکرے ہیں مگر

یہاں سے شہر ملیں گے اگر کھدائی ہوئی

خبر نہیں ہے کہ تو بھی وہاں ملے نہ ملے

اگر کبھی مرے دل تک مری رسائی ہوئی

میں آندھیوں کے مقابل کھڑا ہوا ہوں سعود

پڑی ہے فصلِ محبت کٹی کٹائی ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو دکھ اٹھا رہا ہے جسے بھول جانے کا

پاگل! یہی تو روگ ہے جی کو لگانے کا

تم میں سے میں بھی ہوں، سو مرا فیصلہ بھی ہے

گلزار خرچ کرنے کا صحرا کمانے کا

اے کوہسار و ارض و سما! چاہے کچھ کہو

اب میں نہیں یہ بارِ امانت اٹھانے کا

کچھ رنگ زنگ ہو گئے کچھ عکس بجھ گئے

منظر بدلتا جاتا ہے آئنہ خانے کا

اس چومکھے چراغ کو کتنا خیال ہے

تیرا، حریمِ حرف کا، دل کا، زمانے کا

مالک! بساط بھر تو سخن کر رہا ہوں میں

سو مجھ کو وہم بھی نہیں بے کار جانے کا

کیسا ہے یہ چراغِ رواں کا سفر سعود

تاریکیوں کے بیچ سے رستہ بنانے کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

اسی قبا میں بسر اک زمانہ کر دیا ہے

بدن کو ہم نے پہن کر پرانا کر دیا ہے

یہ دشتِ دل ہے یہاں کوئی بھی نہیں آتا

سو ہم نے دفن یہیں سب خزانہ کر دیا ہے

افق کے پار یہ سورج سے جا ملے شاید

چراغ آبِ رواں پر روانہ کر دیا ہے

جو ایک عمر سے اک دوسرے کی زد پر تھے

انہیں مفاد نے شانہ بہ شانہ کر دیا ہے

جہان رزق کے ان پست قامتوں نے میاں

مزاجِ عشق کو بھی عامیانہ کر دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہے ایک سیلِ ندامت اس آبگینے میں

عجیب ہے یہ سمندر کہ ہے سفینے میں

 

اسی زمیں اس مٹی سے نور پھوٹا تھا

اسی دیار، اسی رت ، اِسی مہینے میں

 

ہے بند آنکھ میں بھی عکسِ مسجدِنبویؐ

جڑ ا ہوا ہے یہی خواب اِس نگینے میں

 

کسی نے اسمِ محمدؐ پڑھا تو ایسا لگا

کہ جیسے کوئی پرندہ اڑ ا ہوا ہو سینے میں

 

میں ایک بے ادب و کم شناس اعرابی

سُلگتے دشت سے آیا ہُوا مدینے میں

 

مہِ حجاز کھلے آسماں میں ہے اور مَیں

بھٹک رہا ہوں کسی بے چراغ زینے میں

 

پلٹ کہ آیا نہیں جنّتُ البقیع سے مَیں

گڑ ا ہوا ہے مرا دل اسی دفینے میں

 

کسی حدیث کی خوشبو مجھے بتاتی ہے

مہک گُلاب کی تھی آپﷺ کے پسینے میں

 

سعود یوں بھی تو ممکن ہے حاضری لگ جائے

میں اپنے شہر میں ہوں اور دل مدینے میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

خوشی سے کرتے ہیں ہر اک کے غم کا ماتم لوگ

یہ لوگ اوروں کے دکھ بیچتے ہیں ، اور ہم لوگ

 

یہ ریگ زاد تری کی رمق نہیں رکھتے

نہ جانے روتے ہیں کیسے یہ لوگ ، بے نم لوگ

 

کبھی کبھار تو لگتا ہے، اصل ہیں تو یہی

یہ سارےموم کے پتلے یہ سب مجسم لوگ

 

یہ شہر جانتا ہے ان گرسنہ بھیڑیوں کو

سو احترام میں کہتے ہیں ان کو آدم لوگ

 

عجب تو یہ ہے انہیں شرم بھی نہیں آتی

وضاحتوں کے طلبگار ہیں یہ مبہم لوگ

 

کبھی قریب سے دیکھا ہے تم نے دنیا کو

یہ اک ہجوم ہے اور اس میں ہیں بہت کم لوگ

 

میں چپ رہوں تو کوئی اور بول پڑتا ہے

قیام کرتے ہیں میرے نفس میں پیہم لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

بچپن میں مرے وقت رواں ایسا نہیں تھا

اس وقت یہ بوڑھا تو جواں ایسا نہیں تھا

 

کچھ کچھ مری مرضی کی تھی پہلے یہی دنیا

لوگ ایسے نہیں تھے، یہ جہاں ایسا نہیں تھا

 

اس وقت بھی کچھ کوئلے جلتے تھے بدن میں

لیکن مری آنکھوں میں دھواں ایسا نہیں تھا

 

لگتا تھا کہ بھر جائے گا یہ زخم بالآخر

تب تک مرے سینے پہ نشاں ایسا نہیں تھا

 

تم نے مجھے دیکھا نہیں اس عشق سےپہلے

صحرا تو میں پہلے بھی تھا، ہاں ، ایسا نہیں تھا

 

اب سامنے ہے میرے ، مگر کیسے کہوں میں

تو جو مرے دل میں تھا میاں ، ایسا نہیں تھا

 

ہر نرخ پہ گاہک کے خریدار تھے تم لوگ

حالانکہ نہ بکنا تو زیاں ایسا نہیں تھا

 

اب اپنے پتاور میں کھڑا سوچ رہا ہوں

پہلے میں کبھی برگ فشاں ایسا نہیں تھا

 

اظہار کا ہر رنگ برت لینے سے پہلے

سچ یہ ہے کہ میں تشنہ بیاں ایسا نہیں تھا

 

اس برف سے اب تک بھی شرر اڑتے ہیں صاحب

سچ مچ ، مجھے اندازۂ جاں ایسا نہیں تھا

 

یہ لوگ مرا حال سمجھتے بھی ہیں ، پھر بھی

کہتے ہیں فلاں ابن فلاں ایسا نہیں تھا

٭٭٭

 

 

 

 

جیسے راکھ دمک اٹھتی ہے ، جیسے غبار چمکتا ہے

دور کہیں اس تاریکی میں کوئی دیار چمکتا ہے

 

تم تک اس کی کرنیں شاید اب پہنچی ہوں لیکن دوست

یہ تارہ تو میرے دل مین آخری بار چمکتا ہے

 

ایک شکستہ بستی میں اب کوئی دیا موجود نہیں

لیکن ٹوٹے آئینوں کا اک انبار چمکتا ہے

 

دریا تک تو آ پہنچے ہیں آگے کیا ہے علم نہیں

پیاسے اونٹ بھڑکتے ہیں تشنہ رہوار چمکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

بچپن کا ایک اتوار

 

 

سریلی قمریاں حق سرہ گردان کرتی ہیں

تو گھر بیدار ہوتا ہے

گھنے پیپل سے چھنتی روشنی کی دستکوں سے شرق رویہ کھڑکیوں کی آنکھ کھلتی ہے

بچھے بستر سمٹتے ہیں تو کمرے جاگ اُٹھتے ہیں

 

میں اک پیڑھی پہ بیٹھا ہوں

گندھے میدے کے اک پتلے ورق کی سوندھ پھیلی ہے

مری امی کسی بوتل کے ڈھکنے سے

شہابی گول ٹکڑے کاٹتی ہیں اور تکونیں بچتی جاتی ہیں

یہ منظر ، نیم خاموشی کا منظر ایک شرّاٹے میں ڈھلتا ہے

کڑاہی میں ابلتا آئنہ ان گول ٹکڑوں اور تکونوں کو سنہرے ، زرد رنگوں میں بدلتا ہے

 

اک ایسے خواب میں بیدار ہوں جس میں

مری امی ، مرے ابو ، مری بہنیں ، مرے بھائی

مرے اطراف میں ہیں اور میں ان سے بات کرتا ہوں

میں ان کو چھیڑتا ہوں ، تنگ کرتا ہوں.

( یہ سب باتیں تو ان سے آج بھی ہوتی ہیں لیکن

اُس گھڑی ، اُس وقت ، اُس دن مَیں

پگھلتے وقت کے اُس منجمد ٹکڑے میں

ان کو چھو بھی سکتا تھا)

ہمارے قہقہوں کی گونج آنگن میں بکھرتی ہے

مہکتی مسکراتی صبح کا ریشم پھسلتا ہے

 

اور اب اتنے دنوں کے بعد پھر اتوار کا دن ہے

سنہرے وقت کا اک منجمد ٹکڑا مرے اندر پگھلتا ہے

اور اب کی بار شرّاٹا مرے دل سے نکلتا ہے..

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہی مسئلہ تجھے ہر جگہ نظر آئے گا

جو نہیں ملے گا وہ جا بجا نظر آئے گا

 

کبھی جھانک تو کسی برگِ زرد کی آنکھ میں

کوئی آشنا تجھے دیکھتا نظر آئے گا

 

کبھی اپنا اصل بھی دیکھ آئنہ توڑ کر

کوئی کرچیوں میں بٹا ہوا نظر آئے گا

 

کہیں کائنات کے باغ میں گلِ نیلگوں

کہیں سرخ پھول گلاب سا نظر آئے گا

 

نظر آئے گی تجھے سات رنگ کی روشنی

کوئی راستا تجھے دودھیا نظر آئے گا

 

ہے تری تلاش میں ، تو ہے جس کی تلاش میں

مگر اس غبارِ سفر میں کیا نظر آئے گا

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر مجھ کو خامشی میں کسی نے پکارا کیا

مہتاب آگیا ہے پلٹ کر دوبارہ کیا

 

ہر روز صبح دم کوئی آئینہ ٹوٹنا

اس خواب میں بچے گا ہمارا تمہارا کیا

 

دیکھو یہ کارِ عشق نہیں ،کارِ خیر ہے

تم اس میں کر رہے ہو میاں استخارہ کیا

 

یہ تم جو آئنے کی طرح چُور چُور ہو

تم نے بھی اپنی عمر کو دل پر گزارا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کیسا ابر دل پر چھا گیا ہے

اداسی روح تک برسا گیا ہے

 

ذرا یہ برف کا کہسار دیکھو

کہ جیسے آئنہ پتھرا گیا ہے

 

ذرا یہ سوختہ اشجار دیکھو

کوئی غم ہے جو ان کو کھا گیا ہے

 

بس اب یہ دوستی ہے عمر بھر کی

وہ مجھ سے ہی مجھے ملوا گیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

حجرے شکستہ دل ،در و دیوار دم بخود

آرام گاہِ شاہ کے آثار دم بخود

 

جکڑا ہوا زمیں نے ستونوں کا اک جلوس

اک پَل پہ آکے وقت کی رفتار دم بخود

 

اندر کی سمت گرتی ہوئی دل گرفتہ سِل

باہر کے رخ جھکے ہوئے مینار دم بخود

 

یہ سنگِ ماہ رنگ کہ مر مر کہیں جسے

یہ روشنی سی برف کے اُس پار دم بخود

 

اک دوسرے کو تکتے ہوئے عکس و آئنہ

اظہار منجمد ، لبِ گفتار دم بخود

 

سکتے میں چار سمت زرہ پوش جالیاں

محراب کی کھنچی ہوئی تلوار دم بخود

 

صدیوں سے بادشاہ یہاں محو خواب ہے

صدیوں سے ہے لگا ہوا دربار دم بخود

 

کُو کُو کی گونج پھیلی ہوئی چار سُو مگر

اس داستاں کا مرکزی کردار دم بخود

٭٭٭

 

 

 

 

 

قدیم وقت بھی رہتا ہے نوجواں کی طرح

ہری زمین کی طرح ، نیلے آسماں کی طرح

 

جو سالِ نو تھے بتدریج کہنہ ہوتے گئے

نئے لباس کی صورت ، نئے مکاں کی طرح

 

وہ یاد مٹ کے بھی دل میں دوام چھوڑ گئی

ہے سطحِ آئنہ کھرچے ہوئے نشاں کی طرح

 

میں کیا کروں مجھے بے طرح یاد آتے ہیں

تمام سالِ گذشتہ گزشتگاں کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

دونوں آنکھوں کی اک اوک بنائی میں نے

پھر بہتے منظر سے پیاس بجھائی میں نے

 

تم کو شاید اس کا بھی احساس نہ ہو گا

ریزہ ریزہ جوڑی تھی یکجائی میں نے

 

جیسے کوئی دو دو عمریں کاٹ رہا ہو

جھیلی اپنی اور اس کی تنہائی میں نے

 

ایک محبت مجھ میں شعلہ زن رہتی تھی

خیر پھر اک دن آگ سے آگ بجھائی میں نے

 

خود کو راضی رکھنے کی ہر کوشش کرکے

آخر اپنے آپ سےجان چھڑائی میں نے

 

ان گلیوں میں اور شہروں میں اور باغوں میں

زندہ رکھا اندر کا صحرائی میں نے

 

میری پونجی اور تھی ،میرے خرچ الگ تھے

خوا ب کمائے میں نے ، نیند اڑائی میں نے

 

صبح کے تارے تجھ کو بھی معلوم نہ ہو گا

صدیوں جیسی کی تھی شب پیمائی میں نے

 

اس ماحول میں یہ اتنا آسان نہیں تھا

دیکھو لوگو کنول بنا دی کائی میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

سوگیا تھک کے چراغوں کو جگانے والا

کون آئے گا بھلا ، کون ہے آنے والا

 

یہ جو دنیا ہے ، یہی ہے میری اپنی دنیا

میں ترے خواب سے باہر نہیں جانے والا

 

ایسا لگتا ہے کہیں گریہ کناں ہے مجھ میں

ایک آنسو مرے دل تک اتر آنے والا

 

کوہساروں کے سوا کوئی نہیں ہے شاید

مری آواز میں آواز ملانے والا

 

اپنے قاتل سے میں واقف نہیں ، پر جانتا ہوں

مارنے والے سے برتر ہے بچانے والا

 

اس قبیلے میں کوئی اور نہیں ہے شاید

عشق میں میری طرح نام کمانے والا

 

کینوس بھی نہیں کاغذ بھی نہیں چاہیے ہے

میں ہوں الفاظ سے تصویر بنانے والا

 

تیری مانند یہ کچھ دیر رکا ہے مرے ساتھ

پھر یہ منظر بھی نہیں لوٹ کے آنے والا

 

میں نے اک عمر یہی خواب تو دیکھا ہے سعود

آج تالاب میں ہے چاند نہانے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

لوگ چپ چاپ رواں ہیں ہر سمت

جس طرح نیند میں چلنے والے

 

سانس لینے کو ابھرتی ہے زمیں

کچھ جزیرے ہیں نکلنے والے

 

دیکھ سیال شفق کی جگمگ

جس طرح رنگ پگھلنے والے

 

کھوٹ کی طرح الگ ہو گئے لوگ

ہم تھے اک آگ میں جلنے والے

 

رنگ پوشاک سے اڑ جاتے ہیں

یہ پرندے نہیں پلنے والے

 

اے ہتھیلی پہ دھرے انگارے

ہم نہیں ہاتھ بدلنے والے

٭٭٭

 

 

 

 

کبھی کبھی مری آنکھوں میں خواب کھلتا ہے

یہی وہ پھول ہے جو زیرِ آب کھلتا ہے

 

قبائے سرخ سنہرا بدن بھی چاہتی تھی

کہاں ہر ایک پہ رنگِ شراب کھلتا ہے

 

یہ کون ہے کہ دریچے شگفت ہونے لگے

جھروکے پھوٹتے ہیں ، بند باب کھلتا ہے

 

کسی کسی کو میسر ہے جستجو تیری

کسی کسی پہ یہ باغِ سراب کھلتا ہے

 

لہو کی باس ہواؤں میں رچنے بسنے لگی

کھلا وہ زخم کہ جیسے گلاب کھلتا ہے

 

گلِ سخن بھی ہے غالب کی مے کشی جیسا

بروزِ ابر و شبِ ماہتاب کھلتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبوب کے بھی حبیب ہو جاؤ

سجدہ کرو اور قریب ہو جاؤ

 

جو باغ چہک رہا ہے دل میں

اس باغ کے عندلیب ہو جاؤ

 

اک بیش بہا کی جستجو میں

ہوتے ہو اگر غریب ، ہو جاؤ

 

توفیق بغیر کچھ نہیں ہے

کتنے ہی بڑے ادیب ہو جاؤ

٭٭٭

 

 

 

 

 

دل کسی طرح بھی اس بات پہ تیار نہیں

میں تجھے بھول تو جاؤں ،مگر اے یار نہیں

مصلحت زاد تعلق مجھے درکار نہیں

مصلحت ہے تو مری سمت سے سو بار "نہیں ”

 

عشق دریا کی طرح راستہ چن لیتا ہے

عشق کی راہ میں حائل کوئی دیوار نہیں

 

ہم تو آئینہ حیرت میں بسر کرتے ہیں

ہم جو اُس پار نظر آتے ہیں ، اُس پار نہیں

 

بعد اک عمر کے شوریدہ سروں پر یہ کھلا

یہ جو دیوار نظر آتی تھی ، دیوار نہیں

 

اس خموشی سے بہت رنج اٹھائے ہیں مگر

عشق کا مسئلہ کردار ہے ، گفتار نہیں

 

آنکھ اس خواب سے باہر کبھی آئے تو کھلے

ہم جو بیدار نظر آتے ہیں بیدار نہیں

 

دوستی ہے تو مری جان بھی قربان سعود

نوکری ہے ، تو نہیں ، اے مری سرکار ، نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ دن گزر گئے ، وہ کیفیت گزرتی نہیں

عجیب دھوپ ہے دیوار سے اترتی نہیں

 

ہرے درخت سے لپٹی ہوئی یہ کاسنی بیل

اداس ہوتی ہے لیکن اداس کرتی نہیں

 

ہوائے درد محبت کی تمکنت بھی تو دیکھ

کہ مشتِ خاک ہے لیکن کبھی بکھرتی نہیں

 

تُو اس عذاب سے واقف نہیں کہ عشق کی آگ

تمام عمر جلا کر بھی راکھ کرتی نہیں

 

کوئی دلاسا ملا ہے تو رو دیا ہوں سعود

یہ لمسِ حرف نہ ہوتا تو آنکھ بھرتی نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ابر ملبوسِ آب تھا جیسے

چاند کو کچھ حجاب تھا جیسے

 

کل اچانک وہ یوں ملا مجھ کو

کوئی پنہاں جواب تھا جیسے

 

صفحہ صفحہ سفر تھا یادوں کا

جلتی بجھتی کتاب تھا جیسے

 

ادھ کھلی رات ، ان کہے منظر

راستا نیم تاب تھا جیسے

 

چاندنی میں طلوع ہوتا ہوا

رات کا آفتاب تھا جیسے

 

گہری تاریکیوں میں بہتا ہوا

ایک روشن گلاب تھا جیسے

 

رات بھر میرے عارض و لب پر

بوسٔہ ماہتاب تھا جیسے

 

اس کی آواز نیم خوابیدہ

پھول سا زیرِ آب تھا جیسے

 

سو کے اٹھا تو میری آنکھوں میں

اس کی آنکھوں کا خواب تھا جیسے

٭٭٭

 

 

 

 

منظر دل کے اندر کے

 

 

ہریالی کے اتنے رنگ ہیں جتنے رنگ سمندر کے

روز گجر دم اِس وادی میں باغیچوں کا اک غالیچہ کھلتا ہے

کاہی سے انگوری تک کے تیز اور ہلکے رنگ

لغت میں اِس وادی سے پہنچے ہیں

 

لیکن پھر بھی

سرخ اور زرد پہاڑوں کی پُر ہیبت عظمت

سبزے کی آرائش سے انکاری ہے

اس کہسار کی ہر اک چوٹی ہریالی سے عاری ہے

یوں لگتا ہے

ایک خطِ سیراب سے اُوپر

برگ و بار کی ہر اک خواہش پتھر ہوتی جاتی ہے

 

دیکھو

اپنے دل میں دیکھو

ہریالی اک حد سے آگے بنجر ہوتی جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

وہ مدتوں کے بعد سرِ راہ مل گیا

ایسا لگا کہ جیسے کوئی زخم چھل گیا

 

اس کے تو جیسے پاؤں زمیں نے پکڑ لیے

اور میں کسی شجر کی طرح جڑ سے ہل گیا

 

اس کے بھی لفظ جیسے مقفل سے ہو گئے

میرے بھی لب پہ جیسے کوئی حرف سِل گیا

 

اس کے بھی دل کے رنگ نگاہوں تک آ گئے

مجھ میں بھی قافلہ سا چلا ، تا بہ دل گیا

 

لمحے ، کہ جیسے وقت میں گرہیں سی پڑ گئیں

منظر کہ جیسے آنکھ کے پردے پہ سل گیا

 

وہ جس پہ اندمال کی مدت گزر چکی

اندر کہیں وہ زخم رگِ جاں سے مل گیا

 

پھولوں نے جیسے جھانک لیا تھا مرا وجود

دل کا ہر ایک رنگ درختوں پہ کھل گیا

 

دھندلی سی کچھ وداع کی تصویر ہے سعود

منظر کشی کے وقت کوئی عکس ہل گیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب طلسم ہے دیوار و در میں رکھا ہوا

کہ میرا گھر بھی ہے رختِ سفر میں رکھا ہوا

 

نہ جانے کب مجھے اذن سفر عطا کردے

میں ایک اشک ہوں اس چشمِ تر میں رکھا ہوا

 

ہوائے تند سے گُل کو بھی نسبتیں ہیں وہی

یہ اک چراغ ہے طاقِ شجر مین رکھا ہوا

 

بنا بنا کے مٹاتا ہے شاہ کار مرے

عجیب عیب ہے دستِ ہنر مین رکھا ہوا

 

بہت دنوں سے اسے میری جستجو ہے سعود

کوئی سفر ہے کسی رہگزر میں رکھا ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کمال ضبط کا یہ آخری ہنر بھی گیا

میں آج ٹوٹ کے رویا اور اس کے گھر بھی گیا

 

یہ دکھ ہے اس کا کوئی ایک ڈھب تو ہوتا نہیں

ابھی امڈ ہی رہا تھا کہ جی ٹھہر بھی گیا

 

عجیب غم تھا قبیلے کے حرف کار کا غم

کہ بے ثمر بھی گیا لفظ ، بے اثر بھی گیا

 

یہ ایک پل ، یہ مرا دل ، یہ زرد رنگ کا پھول

ابھی کھلا بھی نہیں تھا ، ابھی بکھر بھی گیا

 

یہ دشت زاد بگولا ، یہ رقص خو درویش

اگر میں ٹھیر گیا تو یہ ہم سفر بھی گیا

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ بھی ہو ، خوئے یار سے ہٹنے کی خو نہ ہو

یارب وہ مدح و نعت ہو جس میں غُلو نہ ہو

 

مضمون آفرینی و نکتہ سرائی میں

ایسا نہ ہو کہ چہرہ ٔ حق سرخرو نہ ہو

 

میری سپہ مجھی پہ نہ تلوار سونت لے

میرا لکھا ہوا کہیں میرا عدو نہ ہو

 

بیکار ہی نہ جائیں سخن کی ریاضتیں

جیسے کوئی نماز پڑھے اور وضو نہ ہو

 

جیسے کسی نے اپنی عبادت کے زعم میں

نیت تو باندھ رکھی ہو ، رخ قبلہ رُو نہ ہو

 

ایسا نہ ہو کہ اہلِ محبت کے نام پر

جو لفظ ہو وہ کذب و ریا کا نمونہ ہو

 

اے صدقِ عشق زاد مرے سچ کی لاج رکھ

یہ آبِ آئنہ کبھی بے آبرو نہ ہو

 

اے عشق سینہ سوز مرے د ل سے دل ملا

اور یوں کہ بس کلام ہو اور گفتگو نہ ہو

 

تجھ پر اگر میں شعر لکھوں تجھ کو بھول کر

تا عمر میری آنکھ مرے روبرو نہ ہو

 

میں خاک ڈالتا ہو ں زر و سیمِ حرف پر

اے یار بے مثال اگر ان میں تُو نہ ہو

 

مقبولِ اہلِ بیتِ محبت رہوں سعود

دنیا کی داد چاہے مرے چار سُو نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارا کیا

کہ دل کو برف کیا ذہن کو شرارا کیا

 

مزاج درد کو سب لفظ بھی قبول نہ تھے

کسی کسی کو ترے غم کا استعارہ کیا

 

پھر اس کے اشک بھی اس کو ادا نہ کر پائے

وہ دکھ جو اس کے تبسم نے آشکارا کیا

 

کہ جیسے آنکھ کے لگتے ہی کھل گئیں آنکھیں

نگاہ جاں نے بہت دور تک نظارہ کیا

 

ہمیں بھی دیکھ کہ تجسیم نو سے گزرے ہیں

بدن کو شیشہ کیا، دل کو سنگ پارہ کیا

 

عجیب مزاج تھا تنہائی آشنا کہ سعودؔ

خود اپنا ساتھ بھی مشکل سے ہی گوارا کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

حساب ترک تعلق تمام میں نے کیا

شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا

 

وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے

سو اس کا جشن بصد اہتمام میں نے کیا

 

بہت دنوں میں مرے گھر کی خامشی ٹوٹی

خود اپنے آپ سے اک دن کلام میں نے کیا

 

اس ایک ہجر نے ملوا دیا وصال سے بھی

کہ تو گیا تو محبت کو عام میں نے کیا

 

مزاج غم نے بہر طور مشغلے ڈھونڈے

کہ دل دکھا تو کوئی کام وام میں نے کیا

 

وہ آفتاب جو دل میں دہک رہا تھا سعود

اسے سپرد شفق آج شام میں نے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو جا رہا تھا لوٹ کے مہمان کی طرح

بکھرا ہوا تھا دل ترے سامان کی طرح

 

کیسے کھینچے یہ تیر کہ یہ ہے تو میں بھی ہوں

پیوست ہے رگوں میں رگ جان کی طرح

 

اک نام فاصلوں پہ بھی ہے متصل بھی ہے

میری کتاب عمر کے عنوان کی طرح

 

اک چاپ سی تھی رات کہیں جاں کے آس پاس

دل نیم وا رہا درِ امکان کی طرح

 

جیسے تمام جسم میں مٹی سی بھر گئی

دکھ بے اماں تھا گرد کے طوفان کی طرح

٭٭٭

 

 

 

 

 

نظام شام و سحر سے مفر بھی ہے کہ نہیں

فصیل درد مسلسل میں در بھی ہے کہ نہیں

 

سواد شام سے نور سحر کی منزل تک

سوائے درد کوئی ہمسفر بھی ہے کہ نہیں

 

تجھے یقیں نہ آئے تو میری آنکھ سے دیکھ

ترے جمال میں حُسن نظر بھی ہے کہ نہیں

 

میں ایک لمحہ کیف وصال مانگ تو لوں!

نہ جانے عمر مری اس قدر بھی ہے کہ نہیں

 

سُلگ رہا ہوں میں جس کے فراق میں کب سے

خبر نہیں ہے کہ اس کو خبر بھی ہے کہ نہیں

 

تری طرح کے کسی شخص کے انتظار میں ہوں

خبر نہیں یہ ترا انتظار ہے کہ نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

عشق سامان بھی ہے بے سروسامانی بھی

اسی درویش کے قدموں میں ہے سلطانی بھی

 

ہم بھی ویسے نہ رہے دشت بھی ویسا نہ رہا

عمر کے ساتھ ہی ڈھلنے لگی ویرانی بھی

 

وہ جو برباد ہوئے تھے ترے ہاتھوں وہی لوگ

دم بخود دیکھ رہے ہیں تری حیرانی بھی

 

آخر اک روز اترنی ہے لبادوں کی طرح

تن ملبوس! یہ پہنی ہوئی عریانی بھی

 

یہ جو میں اتنی سہولت سے تجھے چاہتا ہوں

دوست اک عمر میں ملتی ہے یہ آسانی بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

عجب قفس تھا، عجب خوش نوا پرندہ تھا

نہیں وہ دل نہیں، اِک دوسرا پرندہ تھا

 

کلام کرتا ہوا، پنکھ پھڑپھڑاتا ہوا

چراغِ بام تھا یا شام کا پرندہ تھا

 

ہر ایک جانتا تھا گرم پانیوں کا سراغ

سو جو بھی ڈار میں تھا رہنما پرندہ تھا

 

روپہلی جھیل کے پہلو میں تھی سیہ بندوق

اور ان کی سمت اترتا ہوا پرندہ تھا

 

پھر ایک ہُوک نے تنہائی دور کر دی مری

بہت قریب کوئی دل زدہ پرندہ تھا

 

عجیب حالت ہجرت تھی قبل ہجر سعودؔ

مرے وجود میں پر تولتا پرندہ تھا

٭٭٭

 

 

 

 

سفر قیام مرا، خواب جستجو میری

بہت عجیب ہے دنیائے رنگ و بو میری

 

تجھے خبر بھی نہیں تجھ میں خاک ہونے تک

ہزار دشت سے گزری ہے آبجو میری

 

میں سبز شاخ ہوں اور خاک تک نہیں محدود

سمندروں کی تہوں میں بھی ہے نمو میری

 

میں اس خیال کو چھوتے ہوئے لرزتا ہوں

مگر یہ سچ ہے کہ منزل نہیں ہے تو میری

 

تلاش کرتی ہوئی آنکھ کی تلاش میں ہوں

کوئی تو شکل ہو دنیا میں ہو بہو میری

 

وہ نام لے کے میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا

کہ گھٹ کے رہ گئی آواز در گلو میری

 

ہوائے شب تجھے آئندگاں سے ملنا ہے

سو تیرے پاس امانت ہے گفتگو میری

٭٭٭

ماخذ:

کتاب چہرہ، غزل کیلنڈر (مرتب: لیاقت علی چوہدری، اور

http://www.freeurdupoetry.com/?q=Urdu-Poetry-Of-Mohsin-Naqvi-0&page=27

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید