خدیجہ الکبریٰؓ۔ سوانح حیات اور کارنامے
قاری محمد یونس شاہد میو
پیش لفظ
ہر قسم کی تعریف اس ذات ماوراء کے لئے ہے جو اپنے بندوں کو خوبیوں سے نواز کر۔ ان سے گونا گوں خدمات لیتا ہے ان کی عقلوں اور فہموں کو روشن کر کے اپنے مقاصد پورے کراتا ہے اور اپنے مخصوص بندوں کو مشبرات کے ذریعہ الہام و ہدایات دیتا ہے اور اس امت پر اپنی رحمت سے اس دروازے کو تا قیامت کھول کے رکھ دیا ۔ صلوٰہ و سلام اس ذات بابرکت پر جسے معلم الاخلاق اور تمام ادیان کا ناسخ بنا کر بھیجا اس سے زیادہ کیا کہا جا سکتا ہے جو حسان نے کہہ دیا ؎احسن منک لم تر قط عینی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واجمل منک لم تلد النساء۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خلقت مبراء من کل عیبی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کانک قد خلقت کماتشاء اور اس کی گھر والیوں کو اس خیر الامم امت کی ماں کا درجہ دیا اور انہیں ذمہ داری سونپنی کہ ان کے گھروں میں جو آیات اللہ تلاوت کی جاتی ہیں انہیں بلا کم وکاست امت تک پہنچا دیں ۔ ۔ ۔ امابعد راقم کی جب دوسری کتب [۱]ترجمہ قران کریم در میواتی زبا ن [ ۲ ] مجموعہ چہل حدیث[۳]حضورؐ اپنے گھر میں [۴]عالم بشریت نبوت سے پہلے[۵]ذات عملیات و مجربات ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پائے تکمیل کو پہنچیں تو راقم نے اس کتاب کی تالیف پر توجہ مرکوز کر دیں، اس کتاب کو شروع کرنے سے پہلے اس موضوع کو جتنا آسان سمجھا گیا تھا یہ موضوع اتنا ہی مشکل بنتا گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتب کی تصنیف و تالیف میں جن دشوار گذار وادیوں کو عبور کرنا پڑتا ہے وہ اہل علم سے مخفی نہیں ہیں یہ کتاب کوئی ناول یا بازاری کتاب تو ہے نہیں کہ اسے وقت گذاری کے بعد الماری میں دیمک کی خوراک بننے کے لئے ڈال دیا جائے اس موضوع سے ہماری ایمانی غیرت اور مذہبی عقیدت وابسطہ ہے اس میں جتنا احتیاط سے کام لیا جا سکتا تھا لیا گیا ، اس کی تالیف کے لئے جن کتب سے استفادہ کیا گیا اس کے مندرجات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس کی تالیف کے لئے امہات کتب اور عربی زبان میں لکھی گئی کتب سے استفادہ کیا گیا مجبوری سمجھ لیں یا قدرتی بندوبست ایسے حالات میں اسے ترتیب دیا گیا کہ کتاب تو کیا ایک معمولی سا رسالہ بھی اس موضوع پر پاس موجود نہیں تھا دوران ملازمت تحقیقی سرگرمیاں جاری رکھنا میرے لئے شاید ممکن نہ تھا اس مواد کے حصول کے لئے مجھے کمپیوٹر سوفٹ وئیر پر انحصار کرنا پڑا ان میں اس قدر مواد موجود ہے کہ جس کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا ، ایسی ایسی کتب جن کے نام سنا کرتے تھے یا ان کے نام حوالہ جات میں دیکھنے کو ملتے تھے، وہ تمام میری ایک کمان /ایک کلک پر کمپیوٹر مہیا کرنے پر مجبور تھا، مگر عربی زبان کی وسعت اور قدماء کا مخصوص طرز تحریر اور ترتیب مواد کا اپنا اسلوب تھا اس وصف کو مرور ایام کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا، آج کے قلم کار کا جداگانہ انداز ہے، اس بات سے مفر نہیں کہ آج اگر میرے پاس فارسی اور اردو ذخیرہ موجود ہوتا تو بہت خو ب تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اپنے موضوع پر انوکھی کاوش ہے بلکہ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن ان کتب کا اسلوب مخاصمانہ اور مناظرانہ ہے ۔ اور ان کتب میں مناظرانہ انداز میں مخصوص پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے یا اعتراضات کا جواب دیا گیا ہوتا ہے مگر مختصر انداز انداز میں اتنے سارے پہلو اور گھریلو حالات شاہد ہی کسی کتا ب کا حصہ ہوں ، مطولات اور بڑی کتب میں مواد یہ سب موجود ہے لیکن منتشر اور بکھرا ہوا ہے مختلف ابواب میں مختلف عنوانوں کے تحت موجود ہے مگر اس سے استفادہ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان صفحات کے ترتیب کے لئے کتنے اوراق کو کھنگالا گیا یا کس قدر محنت کی گئی اس کا اندازہ مطالعہ کرنے سے بخوبی کیا جا سکتا ہے ، اتنے سارے حوالہ جات اتنے مختصر صفحات میں سمودینا اللہ کی توفیق سے ہی ممکن تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس تالیف و تصنیف کا مقصد گھرانہ نبوت اور ازواج مطہرات سے عقیدت کا اظہار ہے، ضمنی طور پر یہ بات بھی ماحضر تھی کہ اس موضوع پر لکھنے والوں کے لئے ایک ایسا دائرہ معارف[ انسائیکلوپیڈیا ]مہیا کر دیا جائے کہ محقق بوقت تحقیق اس پر مکمل اعتماد کر سکے اور ہر کوئی اپنی ا ستطاعت کے مطابق اس سے مستفید ہوسکے اس مواد سے ہر خاص و عام مستفید ہوسکتا ہے مگر اہل علم اور علمائے تحقیق کے لئے در نایاب ہے۔ ۔ کمپیوٹر کے سامنے کئی کئی گھنٹوں تک بیٹھنا اور مواد تلاش کر کے اسے کمپوز کرنا بہت دماغ سوزی کا کام ہے ، پھر سائئٹ پر آٹھ نو گھنٹے ڈیوٹی کرنے کے بعد اتنی سکت کہاں رہتی ہے کہ دماغ اس کا متحمل ہوسکے۔ موضوع کا استحضار اور ڈیوٹی کی نزاکت متضزاکت متضاد باتیں ہیں، بسا غنیمت جو ہوسکا اہل عقیدت کے لئے حاضر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وما توفیق الابا للہ العلی العظیم الیہ توکلت والیہ انیب ۔ ۔ ۔ غلام گھرانہ نبوت بندہ محمد یونس شاہد عفی اللہ عنہ۔ ۔ ۔ ۔ حال مقیم تخت نصرتی ضلع کرک ۶ سمتبر ۰۰۷ ۲ بروز جمعرات
٭٭٭
خدیجہ الکبریٰؓ۔ سوانح حیات اور کارنامے
۔ ۔ وفا کی تصویر، سچائی کی خوگر۔ مجسمہ اخلاق، پاکیزہ سیرت و بلند کردار۔ گداز دل۔ جان پرسوز۔ فہم و فراست۔ عقل و دانش اور جود و سخا کی پیکر، ناز و نعم میں پلی ہوئی۔ دولت جس کے گھر میں ہُن کی طرح برستی رہی۔ جسے سب سے پہلے اسلام قبول کر نے کا شرف حاصل ہوا ، اللہ رب العزت نے جبریل ؑ کی وساطت سے آسما ن سے سلام بھیجا ۔ جسے سب سے پہلے جنت کی بشارت دی گئی۔ جسے حبیب کبریا، ؐ کی صحبت بابرکت میں چوبیس سال اور چند ماہ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جس کے گھر میں سب سے پہلے آسمانی وحی اترتی رہی۔ جس نے شعب بنو ہاشم میں رسول اللہؐ کے ساتھ محصور رہ کر رفاقت، محبت، وارفتگی اور ایثار کا مثالی کردار پیش کیا ۔ جس نے اپنی ساری دولت رسول اللہؐ کے قدموں میں ڈھیر کر دی، جس کی قبر میں ہادیِ برحقؐ خود اترے اور لحد مبارکہ کا بچشم خود معاینہ فرمایا۔ اپنے دست اقدس سے قبر میں اتارا، سرور دو عالم کی ہمدرد، غمگسار رفیقہ حیات۔ خاتون جنت حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کی والدہ، نوجوانان جنت کے سرداروں حضرات حسنین کریمین کی نانی۔ امیر المومنین عثمانؓ وعلیؓ کی خوش دامن جسے تاریخ میں سیدہ طاہرہ صدیقہ خدیجۃ الکبریؓ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے آئے اس خاتون جنت کی رشک بھری زندگی کا دل آویز تذکرہ احادیث و تواریخ کی روشنی میں دیکھتے ہوئے اپنے تاریک دلوں کو روشنی بہم پہنچائیں۔ الآجری لکھتے ہیں:خدیجہ میں اللہ ہر جہت سے شرف و کرم جمع کر دیا تھا۔ آپ کی خوشی مین نبیﷺ کی خوشی تھی۔ آپ آنکھوں کے لئے راحت اور دل کے لئے سکون تھیں[الشریعۃ للآجری[264.4
نسب نامہ
خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزی بن قصئی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوئی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن کنانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ماں کی طرف سے نسب نامہ یہ ہے فاطمہ بنت زید بن رواحہ بن حجر بن عبد بن معیص بن عامر بن لوی [الذریۃ الظاہرہ ۱/۲۴]حیاۃ الصحابہ کی روایت کے مطابق عام الفیل سے پچیس سال قبل پیدا ہوئیں[حیاۃ الصحابہ ۷۴۲ج ۔
خواب
ایک بار جب ستارے نکلے ہوئے تھے اور خدیجہؓ اپنے گھر کے صحن میں بیٹھی ہوئی تھیں خوشی خوشی اپنے بستر پے تشریف لے گئیں ، ایسی بات خدیجہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی ، آپ نے خواب دیکھا کہ آسمان سے سورج اترا ہے، جس سے آس پاس اُجالا ہو گیا اور لوگ دیکھنے سے پہلے ہی مرعوب ہو گئے کہ یہ سورج اس[خدیجہ] کے گھر میں اترا ہے ، خدیجہ اس خواب کی تعبیر کے لئے ورقہ کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا ، اگر تو نے یہ سچ دیکھا ہے، تو تیر ے گھر میں اس امت کا نبی آئے گا ۔ اسی طرح خدیجہ ایک دن یہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کعبہ کے گرد جمع تھیں، جہاں قریش کے اور بھی لوگ تھے تو خدیجہ نے گھر سے آ کر طواف کعبہ کیا، تو خدیجہ عورتوں کی طرف چلی گئیں ، تو کسی منادی کی آواز کانوں میں پڑی [یہ ایک یہودی تھا] کہ رہا تھا اے نساء قریش! !عنقریب ایک د ن ہو گا، اگر تم میں سے کوئی اس کی طاقت رکھے، تو اس کی بیوی بن جائے، تو عورتوں نے اسے پتھر مارنے شروع کر دئے، خدیجہ کو ورقہ بن نوفل کی بات یاد تھی، خدیجہ فکر میں پڑ گئیں یہ منادی کرنے والا کوئی دیوانہ مجنوں نہ تھا، بلکہ عاقل و بالغ تھا ، یہ بات تو ورقہ بن نوفل نے بھی خدیجہ سے کہہ دی تھی کہ:یا خدیجۃ ان محمد نبی ھذالالۃ[السیرۃ الحلبیہ۱/۲۲۲] نکاح کے وقت عمر۔ خدیجہ کے والد ماجد حرب فجار سے پہلے وفات پا گئے تھے، ان کے چچا عمر و بن اسد نے اس نکاح میں سرپرستی کی [ تاریخ طبری ص ۲ ۲ ۵ ج۱ ] امام القیم الجوزیہ لکھتے ہیں: پس جب آپؐ کی عمر پچیس سال ہوئی تو آپ نے شام کی طرف ایک سفر فرمایا یہ تجارتی سفر تھا، اس سفر سے واپسی پر خدیجہ سے نکاح ہوا کچھ کہتے ہیں اس وقت آپ کی عمر پچیس سال اور کچھ لوگ تیس سال کہتے ہیں اور کچھ نے اکیس سال بھی لکھا ہے جب کہ حضرت خدیجہ کی عمر اس وقت چالیس سال کی تھی [ذاد المعاد۱/۷۷ تاریخ طبرہ۱/۵۲۱]علامہ الحلبی لکھتے ہیں :لما بلغؐ خمسا وعشرین سنۃ ای علی الراجح من اقوال الستۃ وعلیہ جمہور العلمائ[سیرۃ الحلبیہ۱/۲۱۶] اس وقت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی [طبقات ابن سعد ص۱۴۱ج۱ تاریخ طبری ص ۵۲۱ج۱ الذریۃ الظاہرہ۱/۲۷] لیکن ابن عبد البر ۴۵ سال لکھتے ہیں [الاستیعاب ص۳۵ج۱][دلائل النبوۃ ص۱۷٨ج۱] روایات میں آیا ہے کہ نکاح کے وقت بنی ہاشم کے لوگوں کے ساتھ مضر کے بڑے بڑے لوگ بھی شامل تھے[تفسیر حقی ج۱۱ص461 ]
نکاح کی تحریک
مذکورہ بالا سطور میں جس خواب کو بیان کیا ہے اس کی تعبیر کے بعد حضرت خدیجہ کے قلب و نظر پر حضرت محمدؐ کا خیال چھا گیا اور آپؐ کی محبت رگ و پے میں سرایت کر گئی ، لیکن کچھ سجھائی نہ دے رہا تھا کہ کیا کرے ؟اور کس طرح آپ تک پیغام پہنچایا جائے ۔ سیدہ خدیجہ کی ایک گہری سہیلی نفیسہ بنت منبہ اس ساری صورت حال سے آگاہ تھیں، انہوں نے ایک کہا اللہ رے ! یہ دل نشین خاموشی، یہ پراسرار سکوت، یہ اداسی بجھی بجھی طبیعت یہ خود کلامی کے بے چین لمحے۔ کچھ بولو تو سہی ، مذاق ہی مذاق میں اچانک سنجیدہ ہو کر کہنے لگیں ۔ چھوڑو بھی یہ بھی کوئی بات ہے ، یہ مشکل تو میں یوں حل کئے دیتی ہو ں۔ وہاں سے اٹھیں اور سیدھی حضرت محمدؐ کے پاس چلی گئیں سلام عرض کیا ۔ خیریت دریافت کی۔ پھر کہنے لگیں ایک نجی قسم کا سوال ہے اگر برا نہ مانیں تو کچھ عرض کروں ؟آپؐ نے فرمایا کہو کیا بات ہے؟ ۔ کہنے لگیں آپؐ شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟فرمایا ۔ میرے پاس مالی گنجائش نہیں ہے جس سے شادی کے اخراجات پورے کرسکوں۔ نفیسہ کہنے لگیں اگر میں ایک مالدار، خاندانی اور حسین و جمیل خاتون کی نشاندہی کروں جو آپ سے شادی کی دلی رغبت رکھتی ہے ، کیا آپ کو منظور ہے ؟پوچھا وہ کون ہے؟۔ جواب دیا خدیجہ بنت خویلد ہیں ۔ آپؐ نے فرمایا اگر وہ رضا مند ہے تو مجھے قبول ہے ۔ یہ جواب سن کر نفیسہ باغ باغ ہو گئیں اسی وقت جا کر اپنی پیاری سہیلی کو یہ خوشی بھرا پیام سنایا۔ یہ قبولیت کوئی معمولی قبولیت نہ تھی خدیجہ کے بھاگ جاگ اٹھے ، انہوں نے خوشی و شادمانی سے جھومنا شروع کر دیا ۔ ا س شادی کی تقریب میں جہاں بہت سے عزیز و اقارب نے شرکت کی وہاں حضرت حلیمہ نے بھی شرکت کی واپسی پر انہیں حضرت خدیجہ ہے چالیس بکریاں ، ایک اونٹ اور بہت سا گھریلو سامان دیکر رخصت فرمایا۔ خطبہ نکاح کے لئے دیکھئے [الکامل للمبرد ص۴ج۴، حلیہ الاولیاء ص۲۲۶، سہیلی الروض ص۳ ۲۱ج۱ صفوۃ الصفوۃ ص ذکر اسما ء النبیؐ، ص۶۲ج۱۔ نساء اہل بیت ص۳۱] ابو طالب نے خطبہ پڑھا جس کے الفاظ مورخین یہ اس طرح نقل کئے ہیں :الحمد اللہ الذی جعلنا من ذریۃ ابراہیم وزرع اسماعیل وضئضئی [النسل۔ الغریب ابن سلام ۳/۱۱۱] معد وعنصر مضر وجعلنا حضنۃ بیتہ وسواس حرمہ وجعل لنا بیتا محجوبا و حرما آمنا وجعلنا الحکام علی الناس ثم ان ابن اخی ھذا محمد بن عبد اللہ لایوزن بہ رجل الارجح بہ فان کان فی المال قل فان ظل زائل وامر حائل ومحمد من قدعرفتم قرابۃ وقد خطب خدیجۃ بنت خویلد وبذل لھا لادساق ما آجلہ وعاجلہ من مالی وھو بعد ھذا واللہ لہ نباء عظیم وخطر جلیل[صفوۃ السفوۃ ص۷۴ج۱] تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے ذریۃ ابراہیم اور اسماعیل کی شاخ میں رکھا اور معد کی نسل میں رکھا اور عنصر مضر میں بنایا اور اپنے گھر کا محافظ بنایا اور بری باتوں سے محفوظ رکھا اور ہمارے لئے حجاب والا گھر دیا اور حرم امن والا اور ہماری باتیں لوگوں کے احکام بنائیں بس یہ میرا بھتیجا محمد بن عبد اللہ کا جس کے ساتھ بھی تولا جائے گا وزنی نکلے گا ، ہاں مال تو آنے جانے والی بات ہے یہ سائے کی طرح ڈھلتا ہے ، لیکن اچھی بات برقرار رہتی ہے ، تم محمد کی قرابت سے واقف ہو میں نے ان کی نسبت خدیجہ بنت خویلد کی طرف کی ہے مہر موجود ہے ۔ میرے مال اس کا حصہ ہے بس اللہ کے لئے ہے بڑے بات اور عظیم سوچ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ أبو طالب حامی الرسول للعسكری- (1 / 125۔ صفوۃ الصفوہ ۱/۷۴]الفاضل – (1 / 6۔ المستطرف – (2 / 479 ۔ جمهرۃ خطب العرب – (1 /۔ 77۔ الكامل فی اللغۃ والادب – (1 / 302وفود النابغۃ الجعدی على ابن الزبیر ۔ ۔ ربیع الأبرار – (1 / 467۔ الدرجات الرفیعۃ- السید علی ابن معصوم – (1 / 61]جناب ابو طالب کے خطبہ ختم ہوتے ہی سیدہ خدیجہ کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل اٹھے اور بحیثیت ولی یوں گویا ہوئے سب تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں ایسا ہی بنایا جیسا کہ آپ نے بیان فرمایا اور ہمیں ایسی ہی فضیلتیں عطاء کیں جیسا کہ آپ نے شمار کرائیں ہم عرب کے سردار اور راہنما ہیں اور آپ سب بھی ۔ کوئی قبیلہ اور کوئی شخص آپ کے فضائل اور فخر و شرف کا انکار نہیں کرسکتا اور ہمیں آپ کی شرافت و نجابت اور قومیت سے تعلق پیدا کرنے کی رغبت پیدا ہوئی ۔ پس اے قبائل قریش !گواہ رہو کہ میں نے خدیجہ بنت خویلد کا نکاح محمد بن عبداللہ سے کر دیا ہے جب ورقہ بن نوفل خاموش ہوئے تو جناب ابی طالب کہنے لگے بہتر ہو گا کہ عمرو بن اسدسیدہ کے حقیقی چچا بھی اس کی توثیق کر دیں۔ اس پر عمر بن اسد کھڑے ہوئے اور کہا :اے قریش!گواہ رہو کہ میں خدیجہ بنت خویلد کو محمد بن عبد اللہ کے نکاح میں دی دیا ہے۔ اس ایجاب و قبول کے ہوتے ہیں سراداران قریش نے ابی طالب اور دیگر عمائدین بنو ہاشم کو مبارک باد دی اور یوں یہ رسم نکاح اختتام پذیر ہوئی۔ یہ نکاح حکیم بن حزام کے مکان پر ہوا تھا[أخبار مكۃ للأزرقی – (3 / 252
ولیمہ
جب نکاح ہو گیا تو خدیجہ نے نبیؐ سے دریافت کیا ، کیا ہونا چاہئے ؟ میں ارادہ کرتی ہوں کہ ایک جانور ذبح کر کے لوگوں کو کھلاؤں [نساء اہل بیت ص۲٩ج۱، انسا ن الاعیون ص۲۲۷ج۱] میں اتنا ہے کہ خدیجہ نے لڑکیوں سے کہا جاؤ دف بجاؤ ناچو ۔ ے چچا لوگوں کو گائے ذبح کر کے کھلاؤ۔ ۔ مؤمنین کی پہلی ماں سیدہ خدیجہ کے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص کاروباری تعلقات قائم تھے۔ سرور دو عالم علیہ الصلوۃ والسلام کی عفت و دیانت، سیرت کی پختگی، کردار کی بلندی، حسن سلوک، معاملہ فہمی، کاروباری مہارت اور ذاتی خصال حمیدہ کا ذکر سن کر سیدہ خدیجہ نے ادب و احترام کے ساتھ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے قبول کر لیا۔ ہادیِ انس و جاں علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پہلی شادی مبارک تھی جو قیامت تکاُمت کے لئے َان گنت خیرات و برکات کا سرچشمہ بنی۔ اس وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر مبارک پچیس جبکہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ کی چالیس برس تھی۔ قبیلہ قریش کی اس معزز، دانشمند اور دور اندیش خاتون کو عبد المطلب کے جواں بخت پوتے علیہ الصلوۃ والسلام کے فضائل و شمائل نے ایسا گرویدہ کر دیا تھا کہ انہوں نے اپنا دل، جان اور مال و متاع سب کچھ ان کے قدموں پر نثار کر دیا تھا، اور اس سودے پر وہ صرف خوش نہیں بلکہ نازاں تھیں کہ پیکر جمال و کمال علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اپنی چاکری میں قبول فرمایا ہے مضاربت۔ جب خدیجہ کے پاس رسول اللہؐ کی امانت داری سچائی کی اور بہترین اخلاق کی خبر پہنچی تو اپنا ایلچی بھیج کر انہیں مضاربت پر مال تجارت شا م کی طرف لے جانے کی فرمائش کی ، کہا جو میں دوسروں کو نفع دیا جاتا ہے اس سے زیادہ آپ کو دوں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساتھ میں میسرہ نامی غلام کو ساتھ کر دیا شام کے لئے روا نہ ہو گئے ، شام پہنچے تو ایک درخت کے قریب تشریف فرما ہوئے ساتھ میں ایک گرجا تھا جس میں ایک راہب رہتا تھا اس نے میسرہ سے پوچھا درخت کے نیچے یہ صاحب کو ن ہیں؟کیونکہ اس درخت کے نیچے سوا نبی کے کوئی اور شخص نہیں بیٹھ سکتا میسرہ نے پوچھنے پر بتایا یہ قریشی اور حرم کے رہنے والے ہیں، بہت قلیل عرصہ میں سارا سامان فروخت کر کے قافلہ جلد ہی واپس آگیا ، میسرہ نے دیکھا کہ دو فرشتے برابر آپؐ پر سایہ کئے ہوئے ہیں جو سورج کی شدت سے بچاتے ہیں[تاریخ طبری ص۵۲۱ج۱ البدایہ والنہایہ۲/۲٩۳ الاعلام بما فی دین النصاری1/287] واپسی پر بہت زیادہ منافع کے ساتھ مال واپس کر دیا میسرہ نے اپنی مالکہ کو سارا ماجرا اور راہب کی با ت کہہ دی یہ بات ان کی رغبت نکاح کا سبب بنی ، حالانکہ بہت سے رئیس خدیجہ سے نکاح کے خواہش مند تھے ، جب بات بڑھی تو آپ نے اپنے چچا حمزہ بن عبد المطلب کو پیامبر بنا کر بھیجا اور وہ خویلد بن اسد سے ملے اور نکاح ہو گیا تمام اولاد سوا ابراہیمؑ کے انہی کے بطن سے تھی اور یہ زینب رقیہ ام کلثوم اور فاطمہ قاسم۔ طیب و طاہر ہیں یہ سب کے نبوت سے پہلے ہیں اللہ کو پیارے ہو گئے البتہ تمام لڑکیوں نے اسلام کا زمانہ پایا [تاریخ طبری ص۵۲۱ج۱، سیرت الحلبیہ۱/۷۷، ۱/٨ ٩ ۱ [عیون الا ثر ص۶۰ج۱سیرۃ النبی۲/۶ فتوح الشام۲/۳۳صفوۃ الصفوہ ص۷۳ج۱] ]
اولاد
۱]۱۵سال کی عمر میں ابوھالہ مالک بن نباش بن زرارہ التمیمی سے سے شادی ہو ئی یہ جاہ و جلال کے والے تھے، اورسادات قریش میں انکا شمار ہوتا تھا [اسد الغابہ ترجمہ رقم ۶۷ ٨ ] دوسری شادی عیق بن عائذ المخزومی سے ہوئی [فتح الباری ص ۷ ۶ ۱ ج ۷تفسیر القرطبی14/164] ان کے ہاں ایک بیٹی ہندہ پیدا ہوئی لیکن اسے ساتھ نباہ نہ ہوسکا اور دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔ نبیؐ سے آپ کے چار لڑکیاں اور دو لڑکے [ابن سعد ص۱۲۳ج۱ ، کامل ابن اثیر ص۴۰ج۲ ، تاریخ اسلام ذہبی ص۶۶، صفوۃ الصفوہ ص ۴۷ ۱ج۱ الا ستیعا ب ص۵۰ج۱ ]میں ہے کہ اس متفقہ قول کا کوئی مخالف نہیں ہے ان میں سے حضرت فاطمہ کی اولاد دنیا میں بہت زیادہ پھیلی اور کثیر تعداد میں آج بھی موجود ہے۔ حضورؐ اقدسؐ کے نکاح میں آنے سے پہلے سیدہ خدیجہ طاہرہ کے پہلے بھی دو نکاح ہو چکے تھے ان سے اولاد بھی ہوئی تھی ۔ عتیق بن عائز بن عبد اللہ سے ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی وہ اسلام لائی اور اس کا نکاح ہوا۔ دوسرے خاوند ہند بن نباش بن زوارہ ابو ہالہ سے سے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند دوسرے کا نام ہالہ تھا ، ابن عبدالبر لکھتے ہیں: ہند نبیؐ کے ربیب تھے، وہ اپنی ماں کے ساتھ ایمان لائے اور جنگ جمل میں حضرت علی کی طرف طرفداری میں شہید ہوئے ۔ ایک روایت بھی ہے کہ وہ بصرہ میں طاعون سے فوت ہوئے ان کے جنازہ میں اژدھام کثیر تھا اور لوگ اپنے جنازوں کو چھوڑ کر اس کے جنازہ میں اس لئے شریک ہوئے کہ یہ نبیؐ کے ربیب تھے۔ سیدنا ہند بڑے فصیح و بلیغ تھے اور رسول اللہؐ کی شان بہت بیان فرمایا کرتے تھے[ملاحظہ کی کیجئے ابن سعد ۱/۲ ۲ ۴ ، شمائل ترمذی ۷، مجمع الزوائد٨/۲۷۳ دلائل ابی نعیم ۳۲۷، دلائل بیہقی۱/۲٩۰]المعارف میں ابن قتیبہ لکھتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے میں باپ ، ماں ، بہن بھائی کے لحاظ سے سب سے زیادہ عزت والا ہوں کیونکہ میرے والد رسول اللہؐ ہیں میری ماں خدیجہ ہیں، میرا بھائی قاسم ہے میری بہن فاطمہ ہے[المعارف ابن قتیبہ صفحہ ۱۳۳]اسی ہند کی وجہ سے حضرت خدیجہ کی کنیت ام ہند تھی (طبقات ابن سعد ٨/۱۵، تہذیب الاسماء والصفات ۲/۳۴۲] سیدہ خدیجہ کے گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا دولت کی بہتات تھی اس وجہ سے عقبہ کی لونڈی سلمہ کو بچوں کی پرورش اور نگہداشت پر مقرر کیا تھا وہ ان کو کھلاتی پلاتی تھیں گویا ان کی ان کی آیا تھیں[امہات المومنین صفحہ78 از حکیم محمود ظفر]
زید بن حارثہ
حکیم بن حزام نے زید کو خرید کر خدیجہ کو ہبہ کیا [اصابہ، السیرۃ النبویہ ص٨۷ج۲ اسلام زید بن حارثہ] ان کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ عبد اللہ بن دینار کہتے ہیں میں نے عبد اللہ بن عمر سے سنا کہ جب نبیؐ نے اسامہ کو امیر لشکر بنایا تو لوگوں نے اعتراض کیا تو نبیؐ نے فرمایا لوگوں کا کیا ہے انہوں نے تو ان کے والد کی امارت پر بھی اعتراض کیا تھا جبکہ اس کا باپ مجھے لوگوں میں بہت پسند تھا اور اب اس کے بعد اس کا بیٹا مجھے پسند ہے[ بخاری المناقب ، مسلم ص۴ ٨ ٨ ۱ ج ۴ باب فضائل زید بن حارثہ ، فضائل صحابہ ابن حنبل ص٨۳۴ج۲]فضائل صحابہ لنسائی ص۲۴ج۱ لیکن مستدرک حاکم ص۳۳۵ج۳ ]میں جو روایت ہے اس کے مطابق حضرت خدیجہؓ نے زید کو چار سو درہم میں خریدا اور نبیؐ کو ہبہ فرمایا۔ حسن بن اسامہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے باپ سے کہ حارثہ بن شراحبیل نے قبیلہ طے کی ایک عورت سے شادی کی اس سے اسماء و زید پیدا ہوئے، تو زید کی وفات ہو گئی پیچھے اولا د چھوڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دنوں کے بعد تہامہ کے بنی فزارہ نے قبیلہ طے پر حملہ کیا اور لشکر کشی میں انہوں نے زید کو اُٹھا لیا اور عکاظ کے بازار میں فروخت کرنے کے لئے لے آئے ۔ نبیؐ نے بعثت سے پہلے زید کو دیکھا اور خدیجہ کے پاس تشریف لائے کہ اور فرمانے لگے اے خدیجہؓ میں نے بازار میں ایک غلام دیکھا ہے اس کی یہ خوبیاں اور ایسی صفات ہیں ، میں نے اسے عقل و ادب جمال و کمال سے مزین پایا ہے اگر وہ مجھے مل جائے تو بہت خوب ہو تو ورقہ کو خدیجہ نے اپنے پیسے دیکر بھیجا کہ جا کر اس غلام کو خرید لائے ، اس کے بعد خدیجہؓ نے بطبیعت خوش زید کو نبیؐ اپنے خاوند کو بخش دیا [مستدرک ص۲۳۵ج۳] آگے چل کر ان کے والد اور چچا کی آمد اور زید کو ساتھ لے جانے کا مطالبہ اور زید کا اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار اور دیگر تفصیلات درج ہیں [سیرت الحلبیہ ص۴۳٨ج۱ تفسیر القرطبی 14/118] میں ہے کہ زید کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی ایک روایت میں ہے کہ چار صد درہم میں خریدا اور دوسری میں سات سو دراہیم لکھا ہے۔ ۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک بار نبیؐ بہت خوش اور مسرور گھر میں داخل ہوئے میں نے اس خوشی کا سبب پوچھا تو فرمانے لگے :مجزر المدلجی اسامہ اور اس کے بیٹے زید کے پاس سے گذرا وہ دونوں سوئے تھے اور منہ ڈھکا ہوا تھا اور دونوں کے پاؤں ننگے تھے جو لحاف سے باہر تھے ۔ اس نے دیکھ کر کہا یہ قدم ایک دوسرے سے ہیں [یعنی یہ باپ بیٹا ہیں] اس بات پر مجھے بہت خوشی ہوئی ][المبسوط لسرخسی۱۷/۶۵] یہ اس لئے اہمیت کی حامل ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو وقتی نظریات اور رسوم کی کتنی اہمیت ہوتی ہے حالانکہ نبیؐ کو اس کی کیا ضرورت تھی ، لیکن جو لوگ اسامہ اور ان کے بارہ میں شکوک کا اظہار کرتے تھے کیونکہ ان باپ بیٹے کے رنگ میں فرق تھا اس لئے لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے تھے ، اسی بات کی خوشی تھی کہ کفار جو قیافہ شناس لوگوں کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے ان کی زبانیں بند ہو جائیں گی ورنہ مسلمانوں کو تو اس کی ضرورت ہی کیا تھی جب نبیؐ کو ان سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔
پیغام حق اور عطائے نبوت
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ پر وحی کی ابتداء سچے خوابوں سے ہوئی آپؐ سوتے میں جو خواب دیکھتے اس کا ظہور صبح کی پو پھٹنے کی طرح ہوا کرتا تھا ، پھر آپؐ کو خلوت سے محبت ہو گئی آپؐ غار حراء میں خلوت نشین ہوتے ، اور اس میں کئی کئی رات مسلسل عبادت کرتے ، اوراس زمانہ میں توشہ ساتھ لے جاتے ، جب ختم ہو جاتا تو حضرت خدیجہؓ کے پاس واپس آتے اور اتنے ہی دنوں کے لئے اور تو شہ لے جاتے ، حتیٰ کہ غار حراء میں ہی [پیغام ]حق آ پہنچا ، فرشتہ آپؐ کے سامنے آیا اور اسنے کہا پڑھو [فتح الباری ۴۰۳ج۲۰]میں ہے کہ یہ ریشمی ٹکڑے پر لکھا ہواتھا] مستدرک حاکم ص۵۲٩ج۲] میں ہے کہ جاء نی جبریل ؑبنمط من دیباج فیہ مکتوبا فقال اقراء ۔ اور طیالسی ص۲۱۶ میں اسی موقعہ پر ہے ولم اقراء کتابا ً قط اور سفر السعادہ ص۱۰علی حامش کشف الغمہ میں ہے اذا ظہر لہ شخص فقال ابشر یا محمدؐانا جبرئیل و انت رسول اللہ لھذاہالامۃ ثم اخرج لہ قطعۃ نمط من حریر مرصعۃ بالجواہر ووضعھا فی ہدہؐ وقالاقراء قال واللہ ما انا بقاری ولاادری فی ھذہ السالۃ کتابۃ [بحوالہ احسان الباری ص۷۰]توآپؐ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، حضورؐ فرماتے ہیں فرشتے نے مجھے پکڑ کر [سینہ سے ] لگا کر زور سے دبایا ، حتیٰ کہ مجھے تکلیف محسوس ہونے لگی ، تین مرتبہ میرے ساتھ یہی کچھ ہوا ، پھر کہا [اقرء باسم ربک الذی خلق الی ، قولہ مالم یعلم ، پس رسول اللہؐ ان آیات کو لے کر اس حالت میں واپس ہوئے کہ آپؐ کا دل کانپ رہا تھا ، اور خدیجہ کے پاس پہنچ کر فرمایا اے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو، چنانچہ انہوں نے کمبل اڑھا دیا ، حتیٰ کہ گھبرا ہٹ دور ہو گئی ، تو خدیجہؓ سے فرمایا مجھے تو اپنی جان کا اندیشہ ہو گیا ہے ، [کیونکہ وحی کا بوجھ بہت تھا جو حضورؐ نے ہمیشہ محسوس فرمایا تو پہلے دن کی گرانی کا کون اندازہ کرسکتا ہے ]اسی ثقل کی وجہ سے آپ کوؐ اپنی جان کا خطرہ ہوا تھا ]خدیجہؓ ، کہنے لگیں ہرگز نہیں ، خدا کی قسم ، وہ آپؐ کو کبھی ر سوا نہیں کرے گا ، کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں اپاہجوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں ، ناداروں کو کمانے [کھانے] کے قابل بنا تے ہیں مہمانوں کی میز بانی کرتے ہیں ، اور قابل امداد حادثات میں مدد فرماتے ہیں ۔ الفاظ یہ ہیں، کلا ما یخزیک اللہ انک لتصل الرحم وتحمل الکل وتکسب المعدوم وتقری الضعیف وتعین علی النوائب الحق، [ بخاری بداء الوحی۳۔ مسلم ۳۱ ۳ ، تر مزی۵۶۵ ۳ ، احمد۱۴۵۰۲ فتوح الشام۱/۲٨۷]اس کے بعد خدیجہؓ آپؐ ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں ، جو خدیجہؓ کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی بن گئے تھے ۔ عبرانی لکھنے پر قادر تھے، انجیل کا جتنا حصہ مقدر ہوتا عبرانی میں لکھتے تھے ، اسوقت وہ بوڑھے ناتواں ، نابینا ہو گئے تھے ۔ خدیجہؓ نے کہا اے ابن عم اپنے بھتیجے کی بات تو سنئے ، ورقہ نے کہا میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو ؟تو آپؐ جو دیکھا بیان کر دیا ، تو ورقہ کہنے لگے یہ تو وہی معزز فرشتہ ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ ؑ کے پاس بھیجا تھا ، کاش میں اسوقت جوان ہوتا [جب کہ تبلیغ کا حکم دیا جائے گا ]میں اسوقت تک زندہ رہتا جب آپؐ کو آپ کی قوم [مکہ سے ]نکال دے گی تو رسولؐ نے [تعجب سے] فرمایا ۔ کیا یہ لوگ مجھے نکالنے والے ہیں ؟[مجموع الفتاوی لابن تیمیہ۱۶/۲۵۷] [حالانکہ اسوقت آپؐ کو صادق الامین کے نام سے پکارتے ہیں ]ورقہ نے کہا ہاں ![آج تک] کسی بھی قوم کے پاس یہ چیز لانے والا نہیں لایا جو آپؐ لائے ہیں مگر ان کے ساتھ ضرور دشمنی کی گئی ، اور ا گر میں نے وہ دن پا لیا جو آپؐ کو پیش آنے والا ہے تو آپؐ کی ضرور مدد کروں گا مگر اس کے بعد کم عرصہ زندہ رہے [بخاری کتاب بداء الوحی] تفسیر القرطبی میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ نے ابوبکرؓ کو بھی اس معاملہ میں شریک حال کر لیا تھا حضرت ابوبکر نے نبیؐ کا ہاتھ پکڑا اور ورقہ کے پاس چلے گئے [تفسیر القرطبی 1/115]اس کی شرح میں علامہ ابی حمزہ اندلسی [۶٩٩ھ]نے عجیب و غریب مسائل استخراج فرمائے ہیں اور اس کی عجیب تعبیر فر مائی ہے ، صاحبان ذوق ان کی کتاب بہجت النفوس جلد اول کی طرف رجوع فرمائیں۔ اس موقعہ پر ورقہ نے حضرت خدیجہ کو مخاطب ہوک ر کہا تھا ؎ فان یک حقا یا خدیجۃ فاعلمی۔ ۔ حدیثک ایانا فاحمد مرسل۔ وجبریل یاتیہ و میکال معھما۔ من اللہ روح یشرح الصدور منزل۔ اے خدیجہؓ جو آپ نے میرے ساتھ بات کی اگر یہ حقیقت ہے تو خوب اچھی طرح جان لیجئے یہ قابل ستائش اللہ کا نبی ہے ۔ جبریل ؑ ان کے پاس آتے ہیں اور ساتھ میں میکائل بھی ہوتے ہیں ان کو اللہ کی طرف سے روح الامین بنا کر اتارا جاتا ہے جو آپ کے لئے شرح صدر کا سبب بنتا ہے [صحابیات مبشرات صفحہ۲۴]
حضرت خدیجہ کی دینی خدمات
یہ وہ خاتون ہیں جن کے نصیبہ میں اللہ نے سب سے پہلے اپنے دین کی حمایت و نصرت کرنا اور اسلام لانا لکھا تھا[ زاد المعاد۲/۴۱۶الحاد والمثانی ص۱۴٨ج۱ ] ان کے کارناموں سے تاریخ اسلامی جگمگ کرہی ہے [بخاری بداء الوحی، صفوۃ الصفوہ ص۷۳ج۱ ]انہوں نے جس انداز میں اپنے جیون ساتھی کی حوصلہ افزائی کی ان کی عقل عظمت دانشمندی کی بین دلیل ہے [زاد المعاد ص۱٩ج ۱] ان کی تربیت اخلاق کریمہ کے اوپر ہوئی تھی ہر وہ بات جو بھلائی شمار ہو اس کا ادراک رکھتی تھیں بہتر ین اخلاق ان کی گھٹی میں پڑے ہوئے تھے اسلام قبول کرتے وقت ان کی یہ تربیت بہت کام آئی، تواریخ میں اس قسم کے واقعات بھی ملتے ہیں کہ خدیجہ ورقہ بن نوفل ہے پاس جا کر الہامی کتب کی باتیں سنا کرتی تھیں اس کام میں خاص انہماک سے کام لیا کرتی تھیں۔ تفسیر القرطبی میں لکھا ہے کہ جب قران کریم کی یہ آیت وربک فکبر نازل ہوئی تو نبیؐ نے اللہ اکبر بلند آواز سے کہا تو حضرت خدیجہ نے بھی آپؐ کی پیروی میں تکبیر کہی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ سب وحی کی بنیاد پر ہوا ہے[تفسیر القرطبی19/62] امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں:ابوبکر اور خدیجہ سابقین الاولین میں سے ہیں یہ لوگ اس وقت سے ماننے والوں میں شامل تھے کہ ابھی تک شق القمر کا معجزہ اور دیگر اخبار مخفی کا ظہور نہ ہوا تھا اور نہ ہی قران کریم نے کسی قسم کی کوئی تحدی پیش کی تھی[الجواب الصحیح 6/511
شان سخاوت
اغیار بھی سیدہ خدیجہ کی صفات جلیلہ کے صدق دل سے معترف ہیں۔ چنانچہ کونستانس جورجیو لکھتا ہے کہ۔ ۔ ۔ جس روز آپ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تو ان کے پاس کھجور کی گٹھلی میں سیاہ نشان کے برابر بھی مال و دولت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ مسلمانوں میں دو ہستیاں ایسی گزری ہیں۔ ۔ ۔ کہ جنہوں نے اپنی ساری دولت، دعوت اسلامیہ کی ترقی کے راہ میں خرچ کر ڈالی۔ ۔ ۔ وہ دو ہستیاں حضرت خدیجہ اور حضرت ابوبکر صدیق ہیں، کہ اسلام لانے سے پہلے یہ دونوں بڑے دولت مند تھے، اور انہوں نے وفات پائی تو ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔
استدلال
سیر اعلام النبلاء ص ۱۱۶ج۲]میں کہ اپنا ڈوپٹہ سر کے ہٹایا تو جبریل نظر آنا بند ہو گئے تو اس سے استدلال کیا کہ اگر یہ شیطان ہوتا تو میرے ننگے سر کو دیکھ کر کبھی غائب نہ ہوتا بخدا یہ تو خدا کا فرشتہ ہے [السیرۃ النبویہ ص ۵ ۷ ج ۲الذریۃ الظاہرہ۱/۳۵ ] یہ نوبت اس لئے پیش آئی کہ کاہن و شاعر لوگون کو جنات و شیاطین نظر آیا کرتے تھے اور عرب لوگ ایسی باتیں کاہنوں سے منسوب کرتے تھے کیونکہ غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے اور یہ مخفی باتیں تھیں جن کا وہ ادراک نہیں کرسکتے تھے مگر نبیؐ نے ان باتوں سے کبھی سروکار نہ رکھا تھا لیکن یہ باتیں اہل عرب کی فہم سے بالا تر تھی کہ ایک انسان کاہن بھی نہ ہو شاعر بھی نہ ہو اور پھر بھی غیب کی باتیں بتائے ؟ [تفسیر نفسی سورہ السبا]اور یہ بات عرب کا بچہ بچہ جانتا تھا تو خدیجہ نے اپنے طور پر جنتا ہوسکا جانچ پرکھ سے کام لیا خدیجہ خود فہم و فرست والی خاتون تھیں ان کے سامنے زندگی کا وسیع تجربہ تھا وہ شاعر و کاہن لوگوں کی عادات سے بخوبی آگاہ تھیں اہل علم سے کسب جاری تھا نبیؐ کے اخلاق کریمہ اور کاہنوں کے اخلاق ذمیمہ سے بھی واقف تھیں مگر دل کی تسلی اور شوہر کی ڈھارس بندھانے کی خاطر یہ ایک تدبیر اختیار کی خدیجہ کہتی ہیں میں نے نبیؐ سے عرض کیا جب آپؐ کے پاس آئیں تو مجھے بھی اطلاع کر دیں خدیجہ کہتی ہیں ایک دن ایسا ہوا کہ جبرئیل ؑ تشریف لائے اور اتفاق سے میں اسوقت آپؐ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی تو آپؐ نے فرمایا میرے رفیق جو آیا کرتے ہیں اس وقت حاضر ہیں تو میں نے کہا اچھا آپؐ اُٹھ کر میری دائیں ران پر آ جائیں آپؐ ادھر آ کر بیٹھ گئے میں نے پوچھا اب بھی دیکھائی دے رہے ہیں ؟آپؐ نے فرمایا ہاں پھر میں نے کہا اچھا تو آپؐ میرے بائیں ران پر آ جائیں آپ ادھر آ کر بیٹھ گئے میں نے پوچھا کیا اب بھی دیکھائی دے رہے ہیں ؟تو آپؐ نے فرمایا ہاں!پھر میں نے اپنی اوڑھنی اتارا کر پوچھا کیا اب بھی دیکھائی دے ر ہے ہیں ؟فرمایا نہیں تو خدیجہ نے کہا بخدا یہ اللہ کا بزرگ فرشتہ ہے یہ شیطان نہیں ہوسکتا [دلائل ابو نعیم طبرانی اوسط ابن ہشام فی السیر ترجمان ۳/۱٨۵]مولانا بدر عالم صاحب لکھتے ہیں: خدیجہ خود بڑی عاقلہ تھیں گو اہل کتاب سے نہ تھیں مگر اپنی فکری دانشمندی سے اتنا ضرور جانتی تھیں کہ جس طرح نبی و ساحر اور کاہنوں کی شخصیتوں میں پاکیزگی و بلندی کا اثر ہوتا ہے اسی طرح جو ان کے پاس خبریں لانے والا ہوتا ہے ان میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہونا چاہئے [ ترجمان ۳ / ۵ ٨ ۱ ] نبوت و رسالت پر آپ کا یہ استدلال عقلی تھا کہ ایسے محاسن و شمائل کا سرچشمہ بنی کی ذات ہوسکتی ہے۔ ورقہ بن نوفل کا استدلال نقلی تھا کہ یہ وہی فرشتہ ہیں جس نے حضرت عیسی ؑ کو بشارت دی تھی ۔ چونکہ نبیؐ سیدنا موسی کی طرح نبی الجہاد ہیں اور شریعت موسویہ کی طرح آپ کی شریعت میں بھی حدود و تعزیرات، جہاد و قصاص اور حلال و حرام ہونے کے احکام علی وجہ الاتم مشتمل ہے لہذا آپ سے بات کرتے ہوئے ورقہ نے باوجود نصرانی ہونے کے یہ کہا ۔ یہ وہی ناموس(فرشتہ)ہے جو موسی پر نازل ہوا تھا اور جس وقت اول بار سیدہ خدیجہ نے آپ کی غیبت میں ورقہ سے آپ کا حال بیان فرمایا تو اس وقت ورقہ نے نصرانی ہونے کے باعث آپؐ کے ناموس(فرشتہ)کو سیدنا عیسی ؑ کے ساتھ تشبیہ دی[فتح الباری۱/۲۴]
شعر
ابوبکر کہتے ہیں میرے ماں باپ قربان یا رسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں آپؐ شاعر نہیں ہیں دوسری جگہ ہے یہ آپؐ کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ ۔ عائشہ کہتی ہیں آپؐ نے کبھی کوئی شعر نہیں کہا [السیر الحلبیہ۲/۲۵٨] دوسری طرف عرب لوگوں شعراء کو بھی بہت اہمیت دیا کرتے تھے قران کریم نے جہاں نبیؐ کی طرف سے اس بات کا دفاع کیا ہے کہ آپؐ کاہن و جادو گر نہیں ہیں وہیں پر قران کریم نے اس بات کی بھی تردد کی ہے کہ آپؐ شاعر بھی نہیں ہیں سورہ یاسین میں ہے وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ [کہ ہم نے نبیؐ کو قران کہنا سکھایا ہے نہ شعر اس لائق ہے کہ نبیؐ کی عظیم ہستی اس کی طرف التفات فرمائیں گو کہ اس وقت کے عرب کے لوگ شعر کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے حضرت حسان کے بارہ میں آتا ہے کہ جب وہ کفار کی طرف سے کی گئی ہجو کا جواب دیتے ہو ان کی تائید روح القدس سے کی جاتی تھی[شمائل محمدیہؐ۱/۲۰۶] صیح مسلم کے حوالہ سے ابن تیمیہ نے یہ[ حدیث الجواب الصحیح ۲/۱٨۳ ] میں ذکر کی ہے دوسری جگہ ہے کہ جب حسان کفار کی ہجو کا جواب دیتے ہیں تو جبریل ان کے ساتھ ہوتے ہیں [صحیحین ] مگر اللہ کی نگاہ میں یہ اس قابل نہیں کہ نبیؐ کو یہ چیز سکھائی جاتی، شعرا ء کے متعلق قران کریم کہتا ہے شاعر تو ہر وادی میں سر مارتے پھرتے ہیں جو کہتے ہیں کرتے نہیں جب کہ نبیؐ کی شان یہ ہے کہ اس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا ۔ جس وقت نبیؐ نے اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر دعوت نبوت کو عام فرمایا، تو کفار و مشرکین میں بے چینی پیدا ہو گئی انہوں نے باہمی مشورہ کیا کہ کوئی ایسی بات ہونی چاہئے کہ اہل عرب کے دل حضرت محمدؐ کی دعوت کی طرف دھیان نہ دیں ، اس سلسلہ میں گفت و شنید کے لئے ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے ۔ ولید نے ان کی باتیں سن کر کہا، تم سب ایک بات پر متفق ہو جاؤ تمہارے اندر کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے کہ خود تمہارا ہی آدمی دوسرے کی تکذیب کر دے اور ایک دوسرے کی بات کاٹ دے۔ لوگوں نے کہا پھر آپ ہی کوئی رائے دیجئے۔ ولید نے کہا بہتر ہے کہ تم کہو میں سنتا ہوں ، اس پر چند لوگوں نے کہا ہم کہیں گے وہ کاہن ہے ۔ ولید نے کہا بخدا وہ کاہن نہیں ہے، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے اس شخص کے اندر کاہنوں والی گنگناہٹ ہے ۔ نہ ان جیسی قیافہ گوئی اور تُک بندی۔ اس پر لوگوں نے کہا ہم کہیں گے وہ پاگل ہے ولید کہنے لگا وہ پاگل بھی نہیں ہے ، ہم نے پاگل بھی دیکھے ہیں اور ان کی کیفیات بھی اس شخص کے اندر پاگلوں والی دم گھٹنے کی کیفیت ہے اور نہ اُلٹی سیدھی حرکتیں، نہ ان جیسی بہکی بہکی باتیں۔ اس پر لوگوں نے کہا تب ہم کہیں گے ، وہ شاعر ہے۔ ولید نے کہا وہ شاعر بھی نہیں ہے، ہمیں رجز، ہجز، قریض، مقبوض، مبسوط سارے ہی اصناف سخن معلوم ہیں اس کی بات بہرحال شعر نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا تب ہم کہیں گے یہ جادوگر ہے۔ ولید نے کہا یہ جادوگر بھی نہیں ہے، ہم نے جادو گر اور جادو بھی دیکھا ہے۔ یہ ان کی طرح جھاڑ پھونک کرتا ہے نہ ان کی طرح گرہ لگاتا ہے ۔ لوگوں نے ولید سے پوچھا پھر کیا کہیں گے؟ولید نے کہا خدا کی قسم اس کی بات بہت شیریں ہے اس کی جڑ پائے دار ہے اس کی شاخ پھلدار ہے تم جو بات کہو گے لوگ اسے باطل سمجھیں گے ہاں اس کے بارہ میں یہ بات مناسب رہے گی کہ یہ جادو گر ہے۔ اس نے ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو ہے اس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی، شوہر بیوی، اور کنبے قبیلے میں پھوٹ پڑ جاتی ہے بالآخر لوگ اسی تجویز پر متفق ہو کر وہاں سے رخصت ہوئے[ابن ہشام۱/۲۷۱ فی ظلال القران۔ مصنف ابن ابی شیبہ۷/۳۳۰
شعر گوئی
جس طرح نبیؐ کے متعلق کاہن ہونے کی تردید کی گئی ہے اسی طرح شاعر ہونے کی بھی نفی کی گئی ہے حالانکہ عرب میں شاعر ہونا ایک خوبی اور اعلی ذہنیت کا حامل شمار ہوتا تھا اور قبائل اپنے اپنے شعراء و خطباء کے ذریعہ فیصلہ کراتے تھے جس شاعر ہار جاتا تھا اس کا قبیلہ بھی ہار مان لیا کرتا تھا لیکن شا عری صفت نبوت کے خلاف ہے اس لئے یہ بات نبی میں رکھی ہی نہیں گئی زندگی میں نبیؐ کا شعر کہنا ثابت نہیں ہے ۔ مولانا بدر عالم لکھتے ہیں اسی طرح بعض وہ علوم ہوتے ہیں جو انبیاء علیھم السلا م کو قصداًَ نہیں سکھائے جاتے کیونکہ وہ شایان شان نبوت نہیں ہوتے کما قولہ تعالی وما علمناہ الشعر وما ینبغی لہ[یسین] ہم نے شعر گوئی آپؐ کو نہیں سکھائی او ریہ آپ کے شایان شان بھی نہیں تھی گویا شاعری و نبوت دو متضاد چیزیں تھیں اسلئے شعر گوئی تو درکنار آپؐ سے شعر خوانی بھی ثابت نہیں ایک آدھا شعر پڑھنا بھی منقول ہے تو اس پر علماء نے طویل بحثیں کی ہیں [ترجمان السنہ ۱/۴٩۳ الدر المنثور] شعر کے بارہ میں نبیؐ سے سوال کیا گیا تو فرمایا اچھا کلام اچھا اور برا کلام برا ہوتا ہے[ابجد العلوم۱/۳۳۷] حضرت عائشہ سے سوال کیا گیا کہ کیا رسول اللہؐ شعر کہا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا یہ آپ کو نزدیک بہت بری بات تھی ایک بارقیس کے کچھ شعر آپ نے پڑھے تو پہلے مصرعہ کو بعد اور بعد والے کو پہلے پڑھ دیا تو ابوبکر نے سن کر کہا یارسول اللہؐ یہ ایسے نہیں ہے بلکہ یوں ہے اس کی تصحیح فرما دی[تفسیر طبری جز۲۳ ]ابوبکر صدیق کہتے ہیں میرے ماں باپ قربان یا رسول اللہ میں گواہی دیتا ہوں آپؐ شاعر نہیں ہیں دوسری جگہ ہے یہ آپؐ کے لئے مناسب نہیں ہے
کاہن
کاہن کے بارہ میں ابن تیمیہ لکھتے ہیں اہل کتاب میں کاہن کا لقب معیوب نہ تھا اس لئے وہ بلا کسی اعتراض کے اپنے علماء کو کاہن کے لقب سے یاد کرتے تھے [کتاب النبوات ص۲۷۲]لیکن اہل عرب کاہن کے لفظ کو کسی اور معنی میں استعمال کرتے تھے یہاں اسی بات کی تردید مقصود ہے کیونکہ ایک لفظ دوسری زبان میں کوئی دوسرا مفہوم ادا کرتا ہے اور ایک سے دوسری جگہ جا کر وہی لفظ کچھ اور معنی میں مفہوم ہوتا ہے جس کا روزمرہ مشاہدہ کیا جاتا ہے عرب کے لوگ نبوت کے مفہوم کو سمجھ نہ سکے تھے ان کی پہنچ زیادہ زیادہ ایک کاہن تک تھی اس سے آگے ان کی سمجھ کام نہ کرتی تھی آدمی اپنے محسوسات کے مطابق ہی گفتگو کرتا ہے مقام نبوت تو بہت اعلی و ارفع ہے بدو اس کا ادراک نہیں کرسکتے تھے شیخ اکبر فرماتے ہیں اس لئے رسول کے مقام میں رسول ہی کو اور انبیاء کے مقام میں نبی ہی کو گفتگو کرنا مناسب ہے انبیاء علیھم السلام کے مقام ہی سے جب ہم آشنا نہیں تو ان سے بحث کیسے کرسکتے ہیں [الیواقیت والجواہر ۲/۴۷، ۷۲] جب امت کے علماء و فضلاء کا یہ حال ہے تو ایک عام بدو عرب کے علم کو آپ کیسے باور کرسکتے ہیں کہ وہ مقام نبوت کا ادراک کرتا ہو گا ایک نبی اور کاہن کی زندگیوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے انبیاء ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں ہر ایک نبی دوسرے نبی کا موئد و بشارت دینے والا ہوتا ہے جب کہ کاہن و جادو گر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے ایک دوسری کی کاٹ میں پوری توانائیاں صرف کرتے ہیں ایک کاہن کی مطمح نظر چند دنیاوی سکے ہوتے ہیں جبکہ ایک نبیؐ کے پیش نظر ایک عالم کی ہدایت و انسانیت کی فلاح اور گمراہ انسانیت کو ایک راستہ پر اکھٹا کرنے اور بھٹکی ہوئی مخلوق کو سیدھی پے لانا ہوتا ہے پھر نبیؐ کے جوامع الکلم کے سامنے کاہن و جادوگروں کے خسیس ولا یعنی شرکیہ کلمات بھلا کیا نسبت ؎چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک۔ مشرکین عرب کاہنوں، عرافوں اور نجومیوں کی خبروں پر بھی ایمان رکھتے تھے کاہن اسے کہتے ہیں جو آنے والے واقعات کی پیش گوئی کرے اور راز ہائے سربستہ سے واقفیت کا دعویدار ہو۔ بعض کاہنوں کا یہ بھی دعوی تھا کہ ایک جن ان کے تابع ہے جو انہیں خبریں پہنچاتا رہتا ہے اور بعض کاہن کہتے ہیں کہ ا نہیںایسا فہم عطاء کیا گیا ہے جس کے ذریعہ وہ غیب کا پتہ چلا لیتے ہیں، اور بعض اس بات کے مدعی تھے کہ جو آدمی ان سے کوئی بات پوچھنے آتا ہے اس کے قول و فعل سے یا اس کی حالت سے اور کچھ مد مقامات اور اسباب کے ذریعہ وہ جائے واردات کاپتہ لگا لیتے ہیں اس قسم کے آدمی کو عراف کہا جاتا ہے مثلاً وہ شخص جو چوری کے مال، چوری کی جگہ گم شدہ جانور وغیرہ کا ٹھکانہ بتاتا۔ اور نجومی اسے کہتے ہیں جو ستاروں پر غور کر کے اور ان کی رفتار و اوقات کا حساب لگا کر پتا لگاتا ہے کہ دنیا میں آئندہ کیا حالات و واقعات پیش آئیں گے[مرقاۃ المفاتح شرح مشکوٰۃ المصابیح۲/۲، ۳الرحیق المختوم] ایک جگہ یوں لکھا ہے کہ: جب کاہنوں کو کوئی بات ہاتھ لگ جاتی تو اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا دیا کرتے تھے، اور جھوٹ کے ساتھ سچ کو ایسے ملایا کرتے تھے کہ جھوٹ و سچ کی پہچان ہی مشکل ہو جایا کرتی تھی[شرح کتاب التوحید۱/۲۳۱] اسی طرح کاہنوں کے بارہ میں احادیث میں بھی معلومات ملتی ہیں۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبیؐ سے سوال کیا کہ کاہن کیا ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا یہ کچھ بھی نہیں ہے تو لوگوں نے کہا یارسول اللہؐ ان کی کئی باتیں ٹھیک بیٹھتی ہیں تو آپؐ نے فر مایا یہ وہ بات ہوتیں ہوتی ہیں جو جنا ت انہیں القاا ء کر دیتے ہیں[ بخاری فی الصحیح بحوالہ کتاب النبوات۱/۲۱۵ا لایمان ۲ / ۲ ۰ ۷ ] ضماد نامی آدمی رقی اور تعویذ جھاڑ پھونک کیا کرتا تھا وہ مکہ آیا تو اہل مکہ نے کہا محمدؐ کو شاید کچھ خلل آ سیبی ہے ضماد سے دم کراتے ہیں ہوسکتا ہے شفاء ہو جائے کیونکہ وہ کہتے تھے کہ محمدؐ مجنون ہیں اس سے بات کی گئی وہ کہنے لگا ہاں میں اس کا علاج کر دوں گا جب وہ نبیؐ کے پاس آیا تو اس نے کہا میں ریح [جنون و جنات ] کا دم کرتا ہوں ہوسکتا ہے تمہیں میرے علاج سے افاقہ ہو جائے تو نبیؐ نے انہیں مخاطب ہوکے کہا[میں یہ پیغام لایا ہو ں]الحمد اللہ نحمدہ ونستعینہ سے لے کر ورسولہ تک امابعد۔ ضماد نے کہا کیا آپؐ ان کلمات کو دہرا سکتے ہیں ؟ تو آپؐ نے پھر پڑھ دئے اور تین بار ان کلمات کو دھرایا تو ضماد کہنے لگا اللہ کی قسم میں نے کاہنوں کا کلام سنا اور شعراء ساحرین کا بھی میں نے اس جیسا کلام کسی سے نہیں سنا یہ کلمات تو سمندر کی گہرائی رکھتے ہیں [الجواب الصحیح۶/۳۷۲ ]
مخلوق کی اقسام
، مخلوقات میں تین طرح کی مخلوق ہیں جنہیں کائنات میں اہمیت دی گئی ہے [۱] فرشتے ان میں خیر ہی خیر ہے برائی کا مادہ ان میں رکھا ہی نہیں گیا یہ خدائی احکامات کو جیسے ہے جب ہے کی بنیاد پر عمل کرتے ہیں قران کریم کہتا ہے لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یومرون کہ یہ اللہ کے دئے گئے امر سے کسی حال میں سرتابی نہیں کرتے جو کہا جاتا ہے کرتے ہیں ، [۲]دوسرے نمبر پر جنات آتے ہیں ان میں شر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے بھلائی ان میں کم ہوتی ہے جو ان میں زیادہ سرکش ہوتے ہیں انہیں شیاطین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ابلیس کے بارہ میں قران کریم کہتا ہے کا ن من الجن کہ وہ تو جنوں میں سے تھا، لیکن شیاطین جن و انس دونوں میں سے ہوسکتے ہیں من الجنت والناس [القران] [۳] تیسرے نمبر پر انسان ہے جیسے اللہ نے اپنا نائب بنایا ہے اسے اگر ڈھیلا چھوڑ دیا جائے تو یہ بغاوت پر بہ آسانی اتر آتا ہے اسے خدا نے اپنی نیابت کے لئے منتخب کیا ہے اس کی کمی کوتاہی اور اخلاقی کمزور ی کو دور کرنے کے لئے اللہ نے بنیوں کا سلسلہ جاری کیا
نماز
عفیف کندی کہتے ہیں میں نے تین افراد کو کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ، عفیف کہتے ہیں میں کعبہ میں آیا تو میں نے دیکھا ایک آدمی آ کے رکا تو اس کے پیچھے پیچھے ایک عورت اور بچہ بھی آ گئے انہوں نے نماز شروع کی میں نے عباس جو کہ تجارت میں میرے ساتھی تھے سے پوچھا یہ کون ہیں تو عباس کہنے لگے یہ میرا بھتیجا ہے نیا دین لے کر آیا ہے ان تین کے سوا اس دنیا میں کوئی اس دین کا پیرو کار نہیں[معجم کبیر لطبرانی ص۴۵۰ج۲۲، مجمع الزوائد ص۲۲۲ج٩ عیون الاثر ص ۶ ۱ ۱ ج ۱ ، معجم الصحابہ ص ٩ ۳ ۱ج۱] سیرۃ الحلبیہ میں ہے کہ خدیجہ کی زندگی میں دو رکعت صبح اور دو رکعت شام کے وقت نماز پڑھی جاتی تھی [سیرت الحلبیہ ص ۴۳۱ج۱] یعنی ابتدا میں صرف دو رکعتیں فرض کی گئی تھیں لیکن جیسے جیسے آسانیاں آتی گئیں احکامات کی تکمیلی صورتیں بھی سامنے آتی گئیں بلکہ بنیادی احکامات کا نزول ان کی وفات کے بعد ہی ہوا لیکن ان کی ابتدائی قربانی نے خدیجہ کو ان لوگوں سے کہیں بلند مقام دیا جو ان کے بعد پورے احکامات پر عمل کرتے رہے۔ تفسیر القرطبی میں لکھا ہے کہ وادی عقبہ مین حضرت جبریل نے پر مارا اور ایک چشمہ جاری ہوا جبریل نے وضو فرمایا نبیؐ دیکھتے رہے پھر ایسے ہی نبیؐ نے وضو فرمایا [القرطبی10/211اعلام النبوۃ1/313]
قربانی
ماں کو بیٹی کے دکھ سے زیادہ کس کا دکھ ہو گا انہوں نے یہ دکھ بھی جھیلا اور سورہ لہب اسی دکھ کے سبب نازل ہوئی اس سورت کے نزول کے بعد ابی لہب نے اپنے بیٹوں کو قسم دی تھی کہ میں اس وقت تم سے بولوں گا جب تم محمد کی بیٹیوں کو طلاق دو گے چنانچہ انہوں نے اپنے والد کی ضد کی وجہ سے اس نسبت کو توڑ دیا ۔ تفصیلی بات تو بنات رسول کے ضمن میں آئے گی نبیؐ کی دو بیٹیاں رقیہ اور ام کلثوم ابو لہب کے دونوں بیٹوں سے منسوب تھیں لیکن ان لوگوں نے جب توحیدی آواز کو سنا جو ان کے من گھڑت عقائد کی رو سے آباء و اجداد کے دین کے خلاف تھی تو انہوں نے پر وہ حربہ استعمال کیا جس سے اعلان توحید کرنے والوں کو تکلیف پہنچے ۔
نبیؐ کی نگاہ میں ان کی عظمت
ایک بار نبیؐ نے حضرت خدیجہ کا ذکر کیا تو حضر ت عائشہ کہنے لگیں کیا آپؐ اس بڑھیا کی بات کرتے ہیں ؟ جب کہ اللہ نے اس کی جگہ بہتر بیویاں دے دی ہیں تو نبیؐ نے فرمایا اس سے بہتر کون ہے ؟ وہ مجھ پر ایمان لائیں جب دوسروں نے انکار کیا اس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اللہ نے اس سے مجھے اولاد دی بخدا آج کے بعد اس کے بارہ میں کچھ نہ کہنا [اعلام النبلاء ص۱۱۷ج۲ ] حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے میں نے رسول اللہؐ کی کسی بیوی پر اتنا رشک نہیں کیا جتنا خدیجہ پر کیا۔ اگر میں ان کے زمانے میں ہوتی تو کیا حال ہوتا؟۔ اور یہ سب اس لئے تھا کہ رسول اللہؐ انہیں بہت یاد فرمایا کرتے تھے اور رسول اللہؐ جب کوئی بکری ذبح فرماتے تو خدیجہؓ کی کسی سہیلی کو تلاش کرتے اور اس کے ہاں ہدیہ بھیجتے[جامع ترمذی البر والصلہ حدیث نمر2082] دوسری روایت میں ہے: حالانکہ میرا نکاح نبیؐ سے ان کی وفات کے بعد ہوا لیکن نبی نے انہیں جنت میں ایسے گھر میں بشارت دی جو موتی سے بنا ہوا ہے[ترمذی المناقب] اور مسلم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ :خدیجہ خدیجہ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں تو رسول اللہؐ نے فرمایا:خدیجہ کی محبت مجھے عطاء کی گئی ہے[مسلم الفضائل حدیث نمبر6177] امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں اللہ تعالی نے خدیجہ سے اوائل اسلام میں جو خدمات سرانجام دیں ان کی اہمیت اپنی جگہ بنیادی مقام کی حامل ہے لیکن عائشہ نبوت کے آخری دور میں جو کہ اکمال دین کا دور تھا میں تشریف لائیں اس وقت اس کی اہمیت زیادہ تھی[منھاج السنہ۴/۳۰۳] اور مسلم کی روایت ہے کہ مردوں میں تو بہت سے کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں بہت کم ہیں ان کاملین میں مریم بنت عمران، اور آسیہ فرعون کی گھر والی اور بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہے [۱٨٨۶ج۴ فضائل خدیجہ] اور ابن حبان کی روایت ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں نبیؐ نے فرمایا جہان کی عورتوں کے لئے کفایت کر گئیں مریم بنت عمران، اور آسیہ فرعون کی گھر والی اور بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمدؐ [ابن حبان ص۴۶۴ج۴۱۔ ترمذی ص۷۰۲ج۵ فضل خدیجہ]
ابتلا
نبیؐ کی دعوت توحید نے مکہ والوں کو پریشان کر دیا تھا کیونکہ اس پیغام کو جتنا دباتے تھے اتنا ہی اس کا بول بالا ہوتا جا رہا تھا ، انہوں نے ایک مجلس منعقد کی جس میں یہ طے کیا گیا کہ نبیؐ اور اس کے ماننے والو سے پورا مکہ بائکاٹ کرے گا ان سے رشتے ناطے لین دین کسب و تجارت ہر معاملہ میں انہیں تنہا کر دیا جائے گا پھر ایک معاہدہ لکھ کر کعبہ اللہ میں لٹکا دیا گیا کہ کوئی اس کی خلاف ورزی نہ کرسکے بہت سے لوگ اس بات پر راضی نہ تھے لیکن برادری ازم اور طبقاتی طاقت نے انہیں یہ سب کچھ کرنے پر مجبور کر دیا، یہ تین سالہ مدت مسلمانوں کے لئے بہت اذیت کا سبب تھی ۔ بنی ہاشم کو ایک گھاٹی میں دھکیل کر محصور کر دیا گیا تھا جیسے شعب ابی طالب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ احادیث اور کتب تواریخ میں اس قسم کے واقعات بھی ملتے ہیں کہ محصورین نے گھاس پھونس تک کھا یا ایک صحابی کہتے ہیں مجھے ایک دن چمڑے کا خشک ٹکڑا ملا میں نے اسے دھو یا اور آگ پر گرم کر کے اپنے پیٹ کی آگ بجھائی اسی قید و صعوبت نے مسلمانوں کو ہلا کے رکھ دیا اللہ نے دیمک کو حکم دیا اسنے اس معاہدہ کو چاٹ لیا جس خبر نبیؐ کو بذریعہ وحی دیدی گئی۔
بیٹے کی وفات کا غم
حضرت حسین بن علیؓ فرماتے ہیں جب رسول اللہؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو خدیجہؓ نے کہا اے اللہ کے رسولؐ!قاسم کی چھاتی کا دودھ زائد ہو گیا ہے کاش اللہ اس کی رضاعت پوری ہونے تک زندگی عطاء فرماتے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اس کی رضاعت جنت میں پوری ہو گئی ہے۔ عرض کرنے لگیں اے اللہ رسولؐ ! اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے تو میرا غم ذرا ہلکا ہو جائے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں اللہ سے دعا کروں پھر اللہ تمہیں قاسم کی آواز سنوادیں۔ خدیجہؓ نے کہا اے اللہ کے رسولؐ ! اس کی بجائے میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تصدیق کرتی ہوں[ابن ماجہ الجنائز حدیث نمبر1512]۔ ۔ صاحب فصول السیرہ لکھتے ہیں جب حمزہؓ نبیؐ کے چچا دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور بہت سے لوگ بھی اور اسلام نے پھیلنا شروع کر دیا تو قریش نے دیکھا انہیں یہ بات بہت ناگوار گذری تو جمع ہوکر ایک معاہدہ تشکیل دیا کہ نبی ہاشم اور بنی المطلب اور نبی مناف سے کوئی معاملہ نہ کیا جائے انہیں رشتہ ناطے کرنے سے باہر رکھا جائے ان کی مجالس کا مقاطعہ کیا جائے اسے ایک معاہدہ کی صورت میں جسے منصور بن عکرمہ بن عامر بن ہاشم نے تحریر کیا تھا ابو لہب کے سوا تمام نبی ہاشم بنو مطلب خواہ وہ کافر تھے یا مسلمان سب نے شعب ابی طالب میں پناہ لی [فصول السیرہ ص٩۰ ج۱، لسان العرب ص۴٨۱ج۱۲، التھفہ الطیفۃ فی تاریخ المدینہ الشریف ص۱۶۶ج۱] کچھ لوگ نرم دل تھے انہیں اپنی قرابت داری کا احساس تھا ان میں حکیم بن حزام بھی تھی یہ کبھی کبھی کبھار چوری چھپے محصورین کی مدد کر دیا کرتے تھے[السیرۃ الحلبیہ۲/۳۴تاریخ طبری۱/۵۵۰]نبیؐ نے فرمایا اے چچا !اس معاہدہ پر اللہ نے ایک زمینی کیڑے کو مسلط کر دیا ہے جو اسے چاٹ گیا ہے سوا اللہ کے نام کے کوئی چیز نہیں بچی، جب قریش نے اس بات کی تصدیق کی تو ایسا ہی پایا [الدرر فی السیر ۱/۵۵]سیدہ خدیجہ نے نبیؐ کے ساتھ وہ تمام تکالیف سیہں جو دوسرے محصورین کو پیش آئیں ۔ سہیلی کہتے ہیں ۔ مکہ میں جب کوئی تجارتی قافلہ آتا تو بنو ہاشم کا ابو لہب قافلہ والوں کے پاس جا کر اعلان کرتا کہ کوئی تاجر اصحاب محمدؐ کو کئی چیز عام نرخوں میں فروخت نہ کرے بلکہ اس سے دوگنی اور تگنی قیمت لے اور اگر کوئی نقصان ہو تو میں اس کا ذمہ دار ہوں ۔ اصحاب محمدؐ جب خرید نے کے لئے آتے تو گرانی کا یہ عالم دیکھ کر خالی ہاتھ واپس ہو جاتے [روض الانف۱/۳۳۲]
اللہ کا سلام
ایک روایت میں آیا ہے کہ نبیؐ نے فرمایا اے خدیجہ! یہ جبریل ہیں تجھ کو سلام کہتے ہیں ، حذیفہ کہتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا خدیجہ دنیا کی تمام عورتوں میں ایمان کے لئے سبقت کرنے والی ہیں، اللہ اور محمدؐ پر[اعلام النبلاء ص۱۱۷ج۲ شرح قصیدہ ابن القیم۲/۵۰۶]
جبریل کا سلام
مسلم نے کچھ اس انداز میں یہ واقعہ بیان کیا ہے حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جبریل نبیؐ کے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے ۔ یارسول اللہؐ یہ خدیجہ آپ کے پاس پہنچنے والی ہیں ان کے پاس گوشت اور کھانے کا سامان اور پینے کی چیزیں ہیں جب یہ تشریف لے آئیں تو انہیں کہہ دینا کہ اللہ نے سلام بھیجا ہے ۔ ساتھ میں میرا [جبریل]کا بھی سلام کہہ دینا اور انہیں جنت میں گھر کی بشارت سنا دینا ۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ؛جس محل میں کسی قسم کی گونج ہو گی اور نہ کوئی تکلیف ہو گی[مسلم الفضائل حدیث نمبر6172]۔ ایک جگہ موتی کے محل کا ذکر آیا ہے [معجم کبیر لطبرانی ص٨ج۲۳ ۔ بن حبان ص۴۶۶ج۱۴۔ ترمذی ص۷۰۲ج۵ فضل خدیجہ، ذاد المعاد ص۴۱۶ج۲] جس میں کوئی جوڑ ہو گا نہ سوراخ]ان کی فضیلت پر اہل علم متفق ہیں [المواہب ص۷۷ج۲]انکے خلاف کوئی بھی بات مزاج نبوی کے خلاف تھی [اعلام النبلاء ص۱۱۲ج۲ ، بخاری المناقب الانصار معجم کبیر طبرانی ص۱۱ج۲۳]ان کی سہیلیو ں ہدایا و تحائف دیا کرتے تھے [بن حبان ص۴۶۴ج۴۱مسلم ص۱٨٨۷ج۴، ، فتح الباری ص۳۶۵ ج ۰ ۱، مستدرک حاکم ص۱۵ ج ۱ ، صفوۃ الصفوہ ص٨ج۲ ]
وفات
مقاطعہ کی وجہ سے اور پے درپے دکھوں نے طبیعت پر برا اثر ڈالا( ۶۵) سال کی عمر میں[الاستیعاب ص ۳٨ ج۱، ذاد المعاد ص ۳۱ج۳] ہجرت سے تین سال پہلے [بن حبان ص۴۷۰ج۱۵تاریخ طبری۲/۲۱۲]ابو طالب کی وفات کے تین روز بعد، اس جہان فانی سے کوچ کیا مقام حجون پر ان کی قبر ہے[اعلام النبلاء ص ۱۱۷ ج۲البدایہ النہایہ۳/۱۲۷ ] ابن اسحقْٰ کی روایت کے مطابق ان کی وفات اسراء [معراج] کے بعد 10رمضان المبارک کو ہوئی[سیرت الحلبیہ ص۴۰ج۲] ان کی نماز جنازہ نہیں ادا کی گئی ۔ کیونکہ نمازیں ان کی وفات کے بعد فرض کی گئیں[البدایہ النہایہ۳/۱۲۷ حاشیہ البیجرونی۱/۴۷۱ تفسیر القرطبی10/210معارج العقول3/1074] حضرت خدیجہ کی رفاقت آں حضرتؐ کے ساتھ چوبیس سال پانچ/چھ ماہ رہی۔ ان کی موجودگی میں آپؐ نے کسی دوسری عورت سے شادی نہ کی[الاستیعاب ص ٨ ۳ ج ۱۔ معجم کبیر لطبرانی ص۴۵۰ج۲۲]عبداللہ بن عبد بن عمیر کہتے ہیں جب حضرت خدیجہ کا انتقال ہوا تو نبیؐ پے بہت گراں گذرا حتی کہ ہمیں آپؐ کی فکر ہونے لگی حتیٰ کہ عائشہ نکاح میں آئیں [معجم کبیر لطبرانی ص ۰ ۵ ۴ ج ۲ ۲ ] ، آپ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت مل گئی تھی[مسلم ص۱٨٨۷ج۴، فضائل الصحابہ ص٨۵۰ج۲، معجم الصحابہ ص۳٩ ۱ ج ۱ ، القاموس المحیط ص۱۶۰ج۱، مختار الصحاح ص۲۲۴ج۱ ، ا لا حا د والمثانی ص ۳٨۲ج۵، بخاری ص۰۰۴ ۲ ج ۵ ] اسی طرح کی خواتین کا کردار دیکھ کر ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎ فَلَوْ كانَ النِّسَاءُ كَمِثْلِ هذِی……لَفُضِّلَتِ النَسَاءُ على الرِّجَالِ فما التأْنِیثُ لاسْمِ الشَّمْس عَیْبٌ……ولاَ التذْكِیرُ فَخْرٌ لِلهلاَلِ اگر عورتیں ایسی ہی ہوں جیسی آج ہم کھو بیٹھے ہیں، تو ایسی عورتوں کو مردوں پر فوقیت دی جاتی ہے [صحابیات المبشرات زهر الآداب وثمار الألباب – (1 / 287۔ الزواجر عن اقتراف الكبائر – (3 / 342۔ قافلۃ الداعیات – (166 / 25۔ أعیان العصر وأعوان النصر – (1 / 283۔ ۔ پورا قصیدہ الحماسۃ المغربیۃ – (1 / 87۔ پر موجود ہے دنیا کی معلوم تاریخ پر نظر ڈالیں یا دوسرے مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس میں عورت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ ہر دور میں خواتین کی حیثیت مردوں کے مقابلے میں بہت ہی کم تر نظر آتی ہے ۔ ان کو معاشرے میں نہایت گھٹیا مقام دیا جاتا تھا۔ اہل مذہب ان کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیتے تھے اور ان سے دور رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے ۔ اور اگر ان سے کچھ رابطہ یا تعلق ہوتا بھی تو ایک ناپاک او ر دوسرے درجے کی مخلوق کی حیثیت سے ہوتا جو صرف مردوں کی ضروریات کو پورا کرنے لیے پیدا کی گئی تھی۔ یونانی اساطیر میں ایک خیالی عورت پانڈورا کو تمام انسانی مصائب کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کی مذہبی خرافات میں حضرت حوا علیہا السلام کو حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کا باعث قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ عورت پر بہت طویل عرصہ ایسا گزرا کہ وہ کوئی قابل لحاظ مخلوق نہ تھی۔ یہ اسلام ہی کا کارنامہ ہے کہ حواء کی بیٹی کو عزت و احترام کے قابل تسلیم کیا گیا اور اس کو مرد کے برابر حقوق دیے گئے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلامی تاریخ کی ابتدا ہی عورت کے عظیم الشان کردار سے ہوتی ہے۔ اسلام کا آغاز حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی لازوال اور بے مثل قربانیوں سے ہوتا ہے ۔ اس وقت ضعیف و ناتواں سمجھی جانے والی صنف نازک عزم و ہمت کا کوہ گراں اور حوصلہ افزائی کا سرچشمہ بن کر نبوت محمدی کا سہارا بن جاتی ہے۔ جب پہلی وحی نازل ہوئی اور غار حراء سے نکل کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گھر تشریف لائے تو گھبراہٹ اور پریشانی کے سائے آپ کا پیچھا کر رہے تھے مگرسیدہ خدیجہ اپنے شوہر کی پاکبازی، بلند اخلاق اور انسان دوست کردار کی گواہ بن کر نبوت پر سب سے پہلے ایمان لے آئیں اور فرمایا کہ ’’اے مجسمہ صدق و امانت! اللہ تعالیٰ آپ جیسے بلند کردار کو کبھی پریشانی اور گھبراہٹ کے سایوں کے سپرد نہیں کرے گا۔ انہوں نے اپنا وقت ، مال اور جان، سب کچھ اسلام پر نچھاور کر دیا۔ یہاں تک کہ اسلام کے راستے میں پہلے شہید حضرت حارث بن ابی ہالہ نے حضرت خدیجہ کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ وہ آپ کے سابق شوہرسے تھے اور نبی مہربان کی گود میں پلے تھے۔ بانیان مذاہب کے ابتدائی ساتھ دینے والو ں کو خصوصی توقیر کا مستحق سمجھاجاتا ہے ان لوگوں نے عملی طور پر ایسا جاندار کردار ادا کیا ہوتا ہے جو جو ان کے فضائل و مراتب کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیتا ہے مشرقی مذاہب میں ہمیں عورتوں کی قربانیاں جا بجا نظر آتی ہیں مثلاً ہندو مذہب میں کورؤوں کے ساتھ ان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح تاؤ مٹ جین مت کنفوشش اور سکھ مت میں ان عورتوں کا نمایاں کردار موجود ہے لیکن فضائل و مراتب میں ان عورتوں کو خاص امتیاز سے محروم رکھا گیا ہے بلکہ عورتوں کے خلاف معاندانہ رویہ روا رکھے جانے پر افسوس بھی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب تک مخالفت و مقاومت کو صحیح تناظر میں دیکھ لیا جائے اس وقت کسی کی حقیقی شخصیت کا نکھر کر سامنے آنا مشکل ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدیجہ کے جو فضائل و مزایا اس جگہ بیان ہوئے ہیں ان خصوصیات تو عرب میں اور بھی بہت سی عورتیں متصف ہوں گی ممکن ہے کسی پہلو میں کوئی عورت ان سے بڑھی ہوئی ہو پھر خدیجہؓ کی خصوصیت کیا ہے؟کیونکہ جزیرہ اسوقت جزیرہ نما عرب میں جو عادات و اخلاق مروج تھے انہیں قبل از اسلام اور بعد از اسلام دونوں ادوار میں تحسین و تکریم حاصل رہی اور ان عادات کو مکارم اخلاق کہا گیا خدیجہ کو اس وجہ سے اہمیت نہیں کہ وہ بذات خود کیسی تھیں ہماری اہمیت کا سبب تو یہ ہے کہ جس مذہب کو ہم مانتے ہیں اور عالم معمورہ پر بسنے والے معتد بہ طبقہ مانتا ہے اس کے ابتدائی دور میں انہوں نے کیا کردار ادا فرمایا خدیجہ ہی کیا ہمارے لئے تو حضرت محمدؐ کی ذات بھی اس لئے قابل تکریم ٹھہری کہ وہ اللہ کا ابدی پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے انہوں نے عابد و معبود کی مفقود کڑیاں جوڑیں جو عرصہ ہوا ٹوٹ چکی تھیں نبی آدم کو ایک نئی جہت دی اس پیام کے ملنے سے پہلے تو وہ بھی عرب کے ایک جوان کی حیثیت سے مکہ کے مکینوں میں سے ایک مکین تھے اس ابدی پیام نے اور خلعت نبوت نے ان کی پہلی زندگی کو اہمیت بخشی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خدیجہ نے اسلام کے ابتدائی دور میں جو کردار لازوال ادا کیا وہ انہیں بجا فضائل کا مستحق ثابت کرتا ہے جو کردار خدیجہ نے بانیہ اسلام کے ساتھ اور ان کی ان کی تحریک کے لئے ادا کیا اگر بالفرض وہ ادا نہ کرتیں تو آج تاریخ کا ہمیں کچھ اور منظر پیش کرتی اس کے نتائج و ثمرات وہ نہ ہوتے جو دنیا کو دیکھنے کو ملے ۔ جس طرح جد الانبیاء ابراہیم کے ساتھ ان کی بیوی نے اہم کردار ادا کیا تھا ایسے ہی ان کے دعا کے نتیجہ میں بھیجے گئے آخری نبیؐ کو بھی ایسی بیوی کی رفاقت ملی جنہوں نے اپنے مثبت کردار سے ایک جداگانہ تاریخ رقم کی یہ بات انہیں وراثت میں ملی تھی کہ دین ابراہیمی کی تکمیل بھی ابتدائی دور کی طرح ایک تکمیلی دور میں بھی ایک خاتون کا کردار بنی آدم کے سامنے آئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فطرت انسانی ہے کہ اگر اسے گھر میں راحت مل جائے تو باہر کے سب غم بھلا دیتا ہے اور اس کے برعکس اگر اسے سب جگہ راحت کا سامان ملے لیکن گھر میں سکو ن نہ ملے تو اسے کسی پل قرار نہیں مل سکتا شریک حیات کا انسانی کردار پر بہت بڑا اثر ہوتا ہے اگر اس کی حمایت و تعاون حاصل رہے تو ہی گھر سے تازہ دم ہو کر اپنی تحریک میں مشغول ہو جاتا ہے اور اگر گھریلو طور پر اسے تعاون نہ ملے تو خواہ کتنا بھی بڑا انسان کیوں نہ ہو بکھر کر رہ جاتا ہے تمام جذبات پز مردہ ہو جاتے ہیں جب نبیؐ پر ایک بھاری بوجھ کو اتارا گیا تو ان کی شریک حیات نے انہیں جس انداز میں تسلی وہ ان کی بصیرت پر کھلی دلیل ہے یہ وہ بوجھ جس نے ایک عالی ہمت انسان کی کمر جھکا کر رکھ دی تھی عرب بالخصوص مکہ کے اس وقت جو حالات تھے ان کی نزاکت و پیچیدگی بھی ان سے پوشیدہ نہ تھی یکا یک ایک ایسا فیصلہ کرنا جو اس کی دنیا میں انوکھا پن ہو بہت مشکل ہوتا ہے مانا کہ ایک بیوی نے اپنے خاوند کی حوصلہ افزائی کی لیکن اپنے آبائی مذہب کو اس سرعت کے ساتھ الوداع کہہ دینا بہت بھاری بات تھی ، یہ مختصر سا جملہ کہ فلاں نے اپنا مذہب چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر لیا اپنے اندر بے پناہ گہرائی رکھتا ہے مذہب چھوڑ نا کوئی معمولی بات نہیں انسان کے لئے کسی مذہب یا مسلک کی تبدیلی بہت بڑا قدم ہو تا ہے کیونکہ اس کی رسوم و روایات اس کے شعور و لاشعور میں بیٹھی ہوتی ہیں انہیں بدلنا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے پھر اس انداز میں ماننا کہ اپنا من تن دھن سب کچھ اس کے لئے حاضر کر دینا اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا پوری زندگی کو اس کی سربلندی کے لئے وقف کر دینا یہی نہیں کہ خدیجہ نے صرف زبانی کلمہ پڑھ کے بس کر دیا تو جیسے ان کی ایمانی زندگی میں انقلاب آیا تھا ایسے ہی ان کی معاشی زندگی میں بھی تغیرات رونما ہوئے تھے ان کی زندگی کا یہ انقلاب نے انہیں زندگی کی نئی جہت دی اور قدرت نے انہیں ایسے کردار کے لئے چن لیا جسے آنے والے دنوں میں مرکزیت ملنا تھی خدیجہ کی زندگی میں اسلامی احکامات پوری طرح نازل بھی نہ ہوئے تھے لیکن انہوں جس صدق دل سے دین متین کی خدمت کی وہ ان لوگوں سے کہیں فوقیت کا ثابت کرتی ہے جنہوں نے پورے دینی احکامات کو پوری زندگی نبھایا ۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید