FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

خدا کی قسم

اور دوسرے افسانے

 

                سعادت حسن منٹو

 

جمع و ترتیب: فرخ منظور

 

 

 

 

    نعرہ

 

 

اسے یوں محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھر دی گئی ہیں ۔

وہ ساتویں منزل سے ایک ایک سیڑھی کر کے نیچے اُترا اور ان تمام منزلوں کا بوجھ اس کے چوڑے مگر دبلے کاندھے پر سوار ہوتا گیا۔ وہ مکان کے مالک سے ملنے کے لیے اُوپر چڑھ رہا تھا تو اسے یوں محسوس ہوا تھا کہ اس کا کچھ بوجھ ہلکا ہو گیا ہے اور کچھ ہلکا ہو جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے اپنے دل میں سوچا تھا مالک مکان، جسے سب سیٹھ کے نام سے پکارتے ہیں ، اس کی بپتا ضرور سُنے گا اور کرایہ چکانے کے لیے اسے ایک مہینے کی اور مہلت بخش دے گا۔۔۔۔۔۔ بخش دے گا!۔۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اس کے غرور کو ٹھیس لگی تھی۔ لیکن فوراً ہی اس کو اصلیت بھی معلوم ہو گئی تھی۔۔۔ وہ بھیگ مانگنے ہی تو جا رہا تھا اور بھیک ہاتھ پھیلا کر، آنکھوں میں آنسو بھر کر اپنے دُکھ درد سُنا کر اور اپنے گھاؤ دکھا کر ہی مانگی جاتی ہے۔۔۔!

اس نے یہی کچھ کیا۔ جب وہ اس سنگین عمارت کے بڑے دروازے میں داخل ہونے لگا تو اس نے اپنے غرور کو، اس چیز کو جو بھیک مانگنے میں عام طور پر رکاوٹ پیدا کیا کرتی ہے، نکال کر فٹ پاتھ پر ڈال دیا تھا۔

وہ اپنا دِیا بُجھا کر اور اپنے آپ کو اندھیرے میں لپیٹ کر مالک مکان کے اس روشن کمرے میں داخل ہوا جہاں وہ اپنی دو بلڈنگوں کا کرایہ وصول کرتا تھا اور ہاتھ جوڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ کے تِلک لگے ماتھے پر کئی سلوٹیں پڑ گئیں ۔ اس کا بالوں بھرا ہاتھ ایک موٹی سی کاپی کی طرف بڑھا۔ دو بڑی بڑی آنکھوں نے اس کاپی پر کچھ حروف پڑھے اور ایک بھدّی سی آواز گونجی۔

’’کیشوّ لال۔۔۔ کھولی پانچویں ، دوسرا مالا۔۔۔ دو مہینوں کا کرایہ۔۔۔ لے آئے ہو کیا؟‘‘

یہ سُن کر اس نے اپنا دل، جس کے سارے پُرانے اور نئے گھاؤ، وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کرید کرید کر ہرے کر چکا تھا، سیٹھ کو دِکھانا چاہا۔ اسے پورا پورا یقین تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے دل میں ضرور ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ پر ۔۔۔ سیٹھ جی نے کچھ سُننا نہ چاہا اور اس کے سینے میں ایک ہُلّڑ سا مچ گیا۔

سیٹھ کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے کے لیے اس نے اپنے وہ تمام دُکھ جو بیت چکے تھے، گئے گزرے دنوں کی گہری کھائی سے نکال کر اپنے دل میں بھر لئے تھے اور ان تمام زخموں کی جلن، جو مدت ہوئی مٹ چکے تھے، اس نے بڑی مشکل سے اکٹھی کر کے اپنی چھاتی میں جمع کی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنی چیزوں کو کیسے سنبھالے؟

اس کے گھر میں بن بلائے مہمان آ گئے ہوتے تو وہ ان سے بڑے روکھے پن سے کہہ سکتا تھا۔ ’’جاؤ بھئی جاؤ، میرے پاس اتنی جگہ نہیں ہے کہ تمہیں بٹھا سکوں اور نہ میرے پاس اتنا روپیہ ہے کہ تم سب کی خاطر مدارت کر سکوں ۔‘‘ لیکن یہاں تو قصہ ہی دوسرا تھا۔ اس نے تو اپنے بھولے بھٹکے، دُکھوں کو اِدھر اُدھر سے پکڑ کر اپنے سینے میں جمع کیا تھا۔ اب بھلا وہ باہر نکل سکتے تھے؟

افراتفری میں اسے کچھ پتہ نہ چلا تھا کہ اس کے سینے میں کتنی چیزیں بھر گئی ہیں ۔ پر جُوں جُوں اس نے سوچنا شروع کیا ،وہ پہچاننے لگا کہ فلاں دُکھ فلاں وقت کا ہے اور فلاں درد اسے فلاں وقت پر ہوا تھا اور جب یہ سوچ بچار شروع ہوئی تو حافظے نے بڑھ کر وہ دھند ہٹا دی جو اِن پر لپٹی ہوئی تھی اور کل کے تمام درد آج کی تکلیفیں بن گئے اور اس نے اپنی زندگی کی باسی روٹیاں پھر انگاروں پر سینکنا شروع کر دیں ۔

اس نے سوچا، تھوڑے سے وقت میں اس نے بہت کچھ سوچا۔ اس کے گھر کا اندھا لیمپ، کئی بار اس کے پیوند لگے کپڑے ان کھونٹیوں پر لٹک کر پھر اس کے میلے بدن سے چمٹ گئے جو دیوار میں گڑی چمک رہی تھیں ۔ کئی بار اسے ان داتا بھگوان کا خیال آیا جو بہت دور نہ جانے کہاں بیٹھا اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے مگر اپنے سامنے سیٹھ کو کرسی پر بیٹھا دیکھ کر، جس کے قلم کی ایک جنبش کچھ کا کچھ کر سکتی تھی، وہ اس بارے میں کچھ بھی نہ سوچ سکا۔ کئی بار اسے خیال آیا اور وہ سوچنے لگا کہ اسے کیا خیال آیا تھا مگر وہ اس کے پیچھے بھاگ دوڑ نہ کر سکا۔ وہ سخت گھبرا گیا تھا۔ اس نے آج تک اپنے سینے میں اتنی کھلبلی نہیں دیکھی تھی۔

وہ اس کھلبلی پر ابھی تعجب ہی کر رہا تھا کہ مالک مکان نے غصے میں آکر اسے گالی دی۔ گالی۔۔۔ یوں سمجھئے کہ کانوں کے راستے پگھلا ہوا سِیسہ شائیں شائیں کرتا اس کے دل میں اُتر گیا اور اس کے سینے کے اندر جوہلّٹر مچ گیا ،اس کا توکچھ ٹھکانہ ہی نہ تھا، جس طرح کسی گرما گرم جلسے میں کسی شرارت سے بھگڈر مچ جایا کرتی ہے، ٹھیک اسی طرح اس کے دل میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ اس نے بہت جتن کئے کہ اس کے وہ دُکھ درد جو اس نے سیٹھ کو دکھانے کے لیے اکٹھے کیے تھے چُپ چاپ رہیں ۔ پر کچھ نہ ہو سکا۔ گالی کا سیٹھ کے منہ سے نکلنا تھا کہ تمام بے چین ہو گئے اور اندھا دھُند ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے لگے۔ اب تو وہ یہ نئی تکلیف بالکل نہ سہہ سکا اور اس کی آنکھوں میں جو پہلے ہی سے تپ رہی تھیں ، آنسو آ گئے جس سے ان کی گرمی اور بھی بڑ گئی اور ان سے دھواں نکلنے لگا۔

اس کے جی میں آیا کہ اس گالی کو جسے وہ بڑی حد تک نگل چکا تھا، سیٹھ کے جھُریاں پڑے چہرے پر قے کر دے مگر وہ اس خیال سے باز آ گیا کہ اس کا غرور تو باہر فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ اپولو بندر پر نمک لگی مونگ پھلی بیچنے والے کا غرور۔۔۔ اس کی آنکھیں ہنس رہی تھیں اور ان کے سامنے نمک لگی مونگ پھلی کے وہ تمام دانے جو اس کے گھر میں ایک تھیلے کے اندر برکھا کے باعث گیلے ہو رہے تھے، ناچنے لگے۔

اس کی آنکھیں ہنسیں ، اس کا دل بھی ہنسا، یہ سب کچھ ہوا۔ پر وہ کڑواہٹ دُور نہ ہوئی جو اس کے گلے میں سیٹھ کی گالی نے پیدا کر دی تھی۔ یہ کڑواہٹ اگر صرف زبان پر ہوتی تو وہ اسے تھُوک دیتا مگر وہ تو بہت بُری طرح اس کے گلے میں اٹک گئی تھی اور نکالے نہ نکلتی تھی اور پھر ایک عجیب قسم کا دُکھ جو اس گالی نے پیدا کر دیا تھا، اس کی گھبراہٹ کو اور بھی بڑھا رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کی آنکھیں جو سیٹھ کے سامنے رونا فضول سمجھتی تھیں ، اس کے سینے کے اندر اُتر کر آنسو بہا رہی ہیں جہاں ہر چیز پہلے ہی سے سوگ میں تھی۔

سیٹھ نے اسے پھر گالی دی۔ اتنی ہی موٹی جتنی اس کی چربی بھری گردن تھی اور اسے یوں لگا کر کسی نے اوپر سے اس پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ چہرے کی طرف حفاظت کے لیے بڑھا، پر اس گالی کی ساری گرد اس پر پھیل چکی تھی۔۔۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔۔۔ وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ ایسی حالتوں میں کسی بات کی سُدھ بُدھ نہیں رہا کرتی۔

وہ جب نیچے اُترا تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اس کے کاندھوں پر دھر دی گئی ہیں ۔

ایک نہیں ، دو گالیاں ۔۔۔ بار بار دو گالیاں جو سیٹھ نے بالکل پان کی پِیک کے مانند اپنے منہ سے اُگل دی تھیں ، اس کے کانوں کے پاس زہریلی بھِڑوں کی طرح بھنبھنانا شروع کر دیتی تھیں اور وہ سخت بے چین ہو جاتا تھا۔ وہ کیسے اس۔۔۔ اس ۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس گڑبڑ کا نام کیا رکھے جو اس کے دل میں اور دماغ میں ان گالیوں نے مچا رکھی تھی۔ وہ کیسے اس تپ کو دور کر سکتا تھا جس میں وہ پھُنکا جا رہا تھا۔ کیسے؟۔۔۔ پر وہ سوچ بچار کے قابل بھی تو نہیں رہا تھا۔ اس کا دماغ تو اس وقت ایک ایسا اکھاڑا بنا ہوا تھا جس میں بہت سے پہلوان کُشتی لڑ رہے ہوں جو خیال بھی وہاں پیدا ہوتا، کسی دوسرے خیال سے جو پہلے ہی سے وہاں موجود ہوتا بھڑ جاتا اور وہ کچھ سوچ نہ سکتا۔

چلتے چلتے جب ایکا ایکی اس کے دکھ قے کی صورت میں باہر نکلنے کو تھے، اس کے جی میں آئی۔ جی میں کیا آئی، مجبوری کی حالت میں وہ اس آدمی کو روک کر جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے پاس سے گزر رہا تھا، یہ کہنے ہی والا تھا۔ ’’بھیّا میں روگی ہوں ۔‘‘ مگر جب اس نے اس راہ چلتے آدمی کی شکل دیکھی تو بجلی کا وہ کھمبا جو اس کے پاس ہی زمین میں گڑا تھا، اسے اس آدمی سے کہیں زیادہ حسّاس دکھائی دیا اور جو کچھ وہ اپنے اندر سے باہر نکالنے والا تھا، ایک ایک گھونٹ کر کے پھر نگل گیا۔

فٹ پاتھ میں چوکور پتھر ایک ترتیب کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ وہ ان پتھروں پر چل رہا تھا۔ آج تک کبھی اس نے ان کی سختی محسوس نہ کی تھی مگر آج ان کی سختی اس کے دل تک پہنچ رہی تھی۔ فٹ پاتھ کا ہر ایک پتھر جس پر اس کے قدم پڑ رہے تھے، اس کے دل کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔۔۔ سیٹھ کے پتھر کے مکان سے نکل کر ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا ہو گا کہ اس کا بند بند ڈھیلا ہو گیا۔

چلتے چلتے اس کی ایک لڑکی سے ٹکّر ہوئی اور اسے یُوں محسوس ہوا کہ وہ ٹوٹ گیا ہے۔ چنانچہ اس نے جھٹ اس آدمی کی طرح جس کی جھولی سے بیر گر رہے ہوں ، اِدھر اُدھر اپنے ہاتھ پھیلائے اور اپنے آپ کو اکٹھا کر کے ہولے ہولے سے چلنا شروع کیا۔

اس کا دماغ اس کی ٹانگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ چل رہا تھا۔ چنانچہ کبھی کبھی چلتے چلتے اسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ اس کا نچلا دھڑ سارے کا سارا بہت پیچھے رہ گیا ہے اور دماغ بہت آگے نکل گیا۔ کئی بار اسے اس خیال سے ٹھہرنا پڑا کہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہو جائیں ۔

وہ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا۔ جس کے اس طرف سڑک پر پوں پوں کرتی موٹروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ گھوڑے، گاڑیاں ، ٹرامیں ، بھاری بھر کم ٹرک، لاریاں یہ سب سڑک کی کالی چھاتی پر دندناتی ہوئی چل رہی تھیں ۔ ایک شور مچا ہوا تھا، پر اس کے کانوں کو کچھ سنائی نہ دیتا تھا وہ تو پہلے ہی سے شائیں شائیں کر رہے تھے، جیسے ریل گاڑی کا انجن زائد بھاپ باہر نکال رہا ہے۔

چلتے چلتے ایک لنگڑے کُتے سے اس کی ٹکّر ہوئی۔ کُتے نے اس خیال سے کہ شاید اس کا زخمی پیر کچل دیا گیا ہے ’’چاؤں ‘‘ کیا اور پرے ہٹ گیا اور وہ سمجھا کہ سیٹھ نے اسے پھر گالی دی ہے۔۔۔ گالی ۔۔۔ گالی ٹھیک اسی طرح اس سے اُلجھ کر رہ گئی تھی جیسے جھاڑی کے کانٹوں میں کوئی کپڑا۔ وہ جتنی کوشش اپنے آپ کو چھڑانے کی کرتا تھا، اتنی ہی زیادہ اس کی روح زخمی ہوتی جا رہی تھی۔

اسے اس نمک لگی مونگ پھلی کا خیال نہیں تھا جو اس کے گھر میں برکھا کے باعث گیلی ہو رہی تھی اور نہ اسے روٹی کپڑے کا خیال تھا۔ اس کی عمر تیس برس کے قریب تھی اور ان تیس برسوں میں ،جن کے پرماتما جانے کتنے دن ہوتے ہیں ، وہ کبھی بھوکا نہ سویا تھا اور نہ کبھی ننگا ہی پھرا تھا۔ اسے صرف اس بات کا دُکھ تھا کہ اسے ہر مہینے کرایہ دینا پڑتا تھا۔ وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرے، اس بکرے جیسی داڑھی والے حکیم کی دوائیوں کے دام دے، شام کو تاڑی کی ایک بوتل کے لیے دونّی پیدا کرے یا اس گنجے سیٹھ کے مکان کے ایک کمرے کا کرایہ ادا کرے؟ مکان اور کرایوں کا فلسفہ اس کی سمجھ سے سدا اُونچا رہا تھا۔ وہ جب بھی دس روپے گِن کر سیٹھ یا اس کے مُنیم کی ہتھیلی پر رکھتا تو سمجھتا کہ زبردستی اس سے یہ رقم چھین لی گئی ہے اور اب اگر وہ پانچ برس تک برابر کرایہ دیتے رہنے کے بعد صرف دو مہینے کا حساب چُکتا نہ کر سکا تو کیا سیٹھ کو اس بات کا اختیار ہو گیا کہ وہ اسے گالی دے؟ سب سے بڑی بات تو یہی تھی جو اسے کھائے جا رہی تھی۔ اسے ان بیس روپوں کی پرواہ نہ تھی جو اسے آج نہیں کل ادا کر دینے تھے۔ وہ ان دو گالیوں کی بابت سوچ رہا تھا جو اِن بیس روپے کے بیچ میں سے نکلی تھیں ۔ نہ وہ بیس روپے کا مقروض ہوتا اور نہ سیٹھ کے کٹھالی جیسے منہ سے یہ گندگی باہر نکلتی۔

مان لیا وہ دھنوان تھا۔ اس کے پاس دو بلڈنگیں تھیں ۔ جن کے ایک سو چوبیس کمروں کا کرایہ اس کے پاس آتا تھا۔ پر ان ایک سو چوبیس کمروں میں جتنے لوگ رہتے ہیں اس کے غلام تو نہیں اور اگر غلام بھی ہیں تو وہ انہیں گالی کیسے دے سکتا ہے؟

’’ٹھیک ہے، اسے کرایہ چاہیے، پر میں کہاں سے لاؤں ۔ پانچ برس تک اس کو دیتا ہی رہا ہوں ۔ جب ہو گا، دے دوں گا۔ پچھلے برس برسات کا سارا پانی ہم پر ٹپکتا رہا۔ پر میں نے اسے کبھی گالی نہ دی، حالانکہ مجھے اس سے کہیں زیادہ ہولناک گالیاں یاد ہیں ۔ میں نے سیٹھ سے ہزار بار کہا کہ سیڑھی کا ڈنڈا ٹوٹ گیا ہے، اسے بنوا دیجئے۔ پر میری ایک نہ سنی گئی۔ میری پھول سی بچی گری۔ اس کا داہنا ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ میں گالیوں کے بجائے اسے بد دُعا دے سکتا تھا۔ پر مجھے اس کا دھیان ہی نہیں آیا۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ نہ چُکانے پر میں گالیوں کے قابل ہو گیا۔ اس کو یہ خیال تک نہ آیا کہ اس کے بچے اپولو بندر پر میرے تھیلے سے مُٹھّیاں بھر بھر کر مونگ پھلی کھاتے ہیں ۔‘‘

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں تھی۔ جتنی کہ اس دو بلڈنگوں والے سیٹھ کے پاس تھی اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت ہو گی، پر وہ غریب کیسے ہو گیا؟۔۔۔ اسے غریب سمجھ کر ہی تو گالی دی گئی تھی۔ ورنہ اس گنجے سیٹھ کی کیا مجال تھی کہ کرسی پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اسے دو گالیاں سنا دیتا۔ گویا کسی کے پاس دھن دولت کا نہ ہونا بہت بُری بات ہے۔ اب یہ اس کا قصور نہیں تھا کہ اس کے پاس دولت کی کمی تھی۔ سچ پوچھئے تو اس نے کبھی دھن دولت کے خواب دیکھے ہی نہ تھے۔ وہ اپنے حال میں مست تھا۔ اس کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ پر پچھلے مہینے ایکا ایکی اس کی بیوی بیمار پڑ گئی اور اس کے دوا دارو پر وہ تمام روپے خرچ ہو گئے جو کرائے میں جانے والے تھے۔ اگر وہ خود بیمار ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ دواؤں پر روپیہ خرچ نہ کرتا۔ لیکن یہاں تو اس کے ہونے والے بچے کی بات تھی جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ ہی میں تھا اس کو اولاد بہت پیاری تھی۔ جو پیدا ہو چکی تھی اور جو پیدا ہونے والی تھی، سب کی سب عزیز تھی۔ وہ کیسے اپنی بیوی کا علاج نہ کراتا؟ ۔۔۔ کیا وہ اس بچے کا باپ نہ تھا؟۔۔۔ باپ… پِتا۔۔۔ وہ تو صرف دو مہینے کے کرائے کی بات تھی اگر اسے اپنے بچے کے لیے چوری بھی کرنا پڑتی تو وہ کبھی نہ چُوکتا۔۔۔

چوری، نہیں نہیں وہ چوری کبھی نہ کرتا۔۔۔ یوں سمجھئے کہ وہ اپنے بچے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار تھا مگر وہ چور کبھی نہ بنتا۔۔۔ وہ اپنی چِھنی ہوئی چیز واپس لینے کے لیے لڑنے مرنے کو تیار تھا، پر وہ چوری نہیں کر سکتا تھا۔

اگر وہ چاہتا تو اس وقت جب سیٹھ نے اسے گالی دی تھی، آگے بڑھ کر اس کا ٹینٹوا دبا دیتا اور اس تجوری میں سے وہ تمام نیلے اور سبز نوٹ نکال کر بھاگ جاتا جن کو وہ آج تک لاجونتی پَتّے سمجھا کرتا تھا۔۔۔ نہیں نہیں وہ ایسا کبھی نہ کرتا۔ لیکن پھر سیٹھ نے اسے گالی کیوں دی؟۔۔۔ پچھلے برس چوپاٹی پر ایک گاہک نے اسے گالی دی تھی، اس لیے کہ دو پیسے کی مونگ پھلی میں چار دانے کڑوے چلے گئے تھے اور اس کے جواب میں اس کی گردن پر ایسی دھول جمائی تھی کہ دُور بنچ پر بیٹھے آدمیوں نے بھی اس کی آواز سُن لی تھی۔ مگر سیٹھ نے اسے دو گالیاں دِیں اور وہ چپ رہا۔ کیشوّ لال کھاری سینگ والا جس کی بابت یہ مشہور تھا کہ وہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا۔۔۔ سیٹھ نے ایک گالی دی اور وہ کچھ نہ بولا۔۔۔ دوسری گالی دی تو بھی وہ خاموش رہا جیسے وہ مٹی کا پُتلا ہے۔۔۔ پر مٹی کا پتلا کیسے ہوا؟ اس نے ان دو گالیوں کو سیٹھ کے تھوک بھرے منہ سے نکلتے دیکھا، جیسے دو بڑے بڑے چوہے موریوں سے باہر نکلتے ہیں ۔ وہ جان بوجھ کر خاموش رہا اس لیے کہ وہ اپنا غرور نیچے چھوڑ آیا تھا۔۔۔ مگر اس نے اپنا غرور اپنے سے کیوں الگ کیا؟ سیٹھ سے گالیاں لینے کے لیے؟ یہ سوچتے ہوئے ایکا ایکی خیال آیا کہ شاید سیٹھ نے اسے نہیں ،کسی اور کو گالیاں دی تھیں ۔۔۔ نہیں نہیں ، گالیاں اسے ہی دی گئی تھیں ، تو اس سوچ بچار کی ضرورت ہی کیا تھی اور یہ جو اس کے سینے میں ہلڑ سا مچ رہا تھا، کیا بغیر کسی وجہ کے اسے دُکھ دے رہا تھا؟ اسی کو دو گالیاں دی گئی تھیں ۔

جب اس کے سامنے ایک موٹر نے اپنے ماتھے کی بتیاں روشن کیں تو اُسے ایسا معلوم ہوا کہ وہ دو گالیاں پگھل کر اس کی آنکھوں میں دھنس گئی ہیں ۔۔۔ گالیاں ۔۔۔ گالیاں ۔۔۔۔۔۔ وہ جھنجھلا گیا۔۔۔ وہ جتنی کوشش کرتا تھا کہ ان گالیوں کی بابت نہ سوچے اتنی ہی شدت سے اسے ان کے متعلق سوچنا پڑتا تھا اور یہ مجبوری اسے بہت چڑچڑا بنا رہی تھی۔ چنانچہ اس چڑچڑے پن میں اس نے خواہ مخواہ دو تین آدمیوں کو جو اس کے پاس سے گزر رہے تھے، دل ہی دل میں گالیاں دیں ۔ ’’یوں اکڑ کے چل رہے ہیں جیسے ان کے باوا کا راج ہے!۔‘‘

اگر اس کا راج ہوتا تو سیٹھ کو مزا چکھا دیتا جو اسے اُوپر تلے دو گالیاں سُنا کر اپنے گھر میں یوں آرام سے بیٹھا تھا جیسے اس نے اپنی گدّے دار کرسی میں سے دو کھٹمل نکال کر باہر پھینک دئیے ہیں ۔۔۔ سچ مچ اگر اس کا اپنا راج ہوتا تو وہ چوک میں بہت سے لوگوں کو اکٹھا کر کے سیٹھ کو بیچ میں کھڑا کر دیتا اور اس کی گنجی چندیا پر اس زور سے دھپّا مارتا کہ بلبلا اُٹھتا۔۔۔ پھر وہ سب لوگوں سے کہتا ہنسو، جی بھر کر ہنسو اور خود اتنا ہنستا کہ ہنستے ہنستے اس کا پیٹ دُکھنے لگتا۔۔۔ پر اس وقت اسے بالکل ہنسی نہیں آئی تھی۔۔۔ کیوں ؟۔۔۔ وہ اپنے راج کے بغیر بھی تو سیٹھ کے گنجے سر پر دھپا مار سکتا تھا، اسے کس بات کی رُکاوٹ تھی؟ ۔۔۔ رکاوٹ تھی۔۔۔ رُکاوٹ تھی تو دو گالیاں سُن کر خاموش ہو رہا۔

اس کے قدم رُک گئے۔ اس کا دماغ بھی ایک دو پل کے لیے سستایا اور اس نے سوچا کہ چلو ابھی اس جھنجھٹ کا فیصلہ ہی کر دوں ۔۔۔ بھاگا ہوا جاؤں اور ایک ہی جھٹکے میں سیٹھ کی گردن مروڑ کر اس تجوری پر رکھ دوں جس کا ڈھکنا مگرمچھ کے منہ کی طرح کھلتا ہے۔۔۔ لیکن وہ کھمبے کی طرح زمین میں کیوں گڑ گیا تھا؟ سیٹھ کے گھر کی طرف پلٹا کیوں نہیں ؟۔۔۔۔۔۔ کیا اس میں جرأت نہ تھی؟

اس میں جرأت نہ تھی۔۔۔ کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اس کی ساری طاقت سرد پڑ گئی تھی۔۔۔ یہ گالیاں ۔۔۔ وہ ان گالیوں کو کیا کہتا۔۔۔ ان گالیوں نے اس کی چوڑی چھاتی پر رول سا پھیر دیا تھا۔۔۔ صرف دو گالیوں نے۔۔۔ حالانکہ پچھلے ہندو مسلم فساد میں ایک ہندو نے اسے مسلمان سمجھ کر لاٹھیوں سے بہت پیٹا تھا اور ادھ مؤا کر دیا تھا اور اسے اتنی تکلیف محسوس نہ ہوئی تھی جتنی کہ اب ہو رہی تھی۔۔۔ کیشو لال کھاری سینگ والا جو اپنے دوستوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑا۔ آج یوں چل رہا تھا جیسے برسوں کا روگی ہے۔۔۔ اور یہ روگ کس نے پیدا کیا تھا؟۔۔۔ دو گالیوں نے!

گالیاں ۔۔۔۔۔۔ گالیاں ۔۔۔ کہاں تھیں وہ دو گالیاں ؟ اس کے جی میں آئی کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے، باہر نکال لے اور جو کوئی بھی اس کے سامنے آئے اس کے سر پر دے مارے، پر یہ کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔ اس کا سینہ مربّے کا مرتبان تھوڑی تھا۔

ٹھیک ہے، لیکن پھر کوئی اور ترکیب بھی تو سمجھ میں آئے۔ جس سے یہ گالیاں دُور دفع ہوں ۔۔۔ کیوں نہیں کوئی شخص بڑھ کر اسے دُکھ سے نجات دلانے کی کوشش کرتا؟ کیا وہ ہمدردی کے قابل نہ تھا؟ ہو گا، پر کسی کو اس کے دل کے حال کا کیا پتا تھا۔ وہ کھلی کتاب تھوڑی تھا اور نہ اس نے اپنا دل باہر لٹکا رکھا تھا۔ اندر کی بات کسی کو کیا معلوم؟

نہ معلوم ہو! ۔۔۔ پر ماتما کرے کسی کو معلوم نہ ہو۔۔۔ اگر کسی کو اندر کی بات کا پتہ چل گیا تو کیش لال کھاری سینگ والے کیلئے ڈوب مرنے کی بات تھی۔۔۔ گالیاں سُن کر خاموش رہنا معمولی بات تھی کیا؟

معمولی بات نہیں بہت بڑی بات ہے۔۔۔ِ ہمالہ پہاڑ جتنی بات ہے۔ اس سے بھی بڑی بات ہے اس کا غرور مٹی میں مل گیا ہے۔ اس کی ذلت ہوئی ہے۔۔۔ اس کی ناک کٹ گئی ہے۔۔۔ اس کا سب کچھ لُٹ گیا ہے۔ چلو بھئی چھُٹی ہوئی۔ اب تو یہ گالیاں اس کا پیچھا چھوڑ دیں ۔۔۔ وہ کمینہ تھا، رذیل تھا، نیچ تھا، گندگی صاف کرنے والا بھنگی تھا، کُتّا تھا۔۔۔ اس کو گالیاں ملنا ہی چاہئے تھیں ۔۔۔ نہیں نہیں ۔ کسی کی کیا مجال تھی کہ اسے گالیاں دے اور پھر بغیر کسی قصور کے۔ وہ اسے کچاّ نہ چبا جاتا۔۔۔ اماں ہٹاؤ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ۔۔۔ تم نے تو سیٹھ سے یوں گالیاں سنیں جیسے میٹھی میٹھی بولیاں تھیں ۔

’’میٹھی میٹھی بولیاں تھیں ، بڑے مزیدار گھونٹ تھے، چلو یہی سہی۔۔۔ اب تو میرا پیچھا چھوڑ دو، ورنہ سچ کہتا ہوں ، دیوانہ ہو جاؤں گا۔ یہ لوگ جو بڑے آرام سے اِدھر سے اُدھر چل رہے ہیں ، میں ان میں سے ہر ایک کا سر پھوڑ دوں گا۔ بھگوان کی قسم مجھے اب زیادہ تاب نہیں رہی۔ میں ضرور دیوانے کُتے کی طرح سب کو کاٹنا شروع کر دوں گا۔ لوگ مجھے پاگل خانے میں بند کر دیں گے اور میں دیواروں کے ساتھ اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر مر جاؤں گا۔۔۔ مر جاؤں گا، سچ کہتا ہوں ، مر جاؤں گا۔۔۔ مر جاؤں گا، سچ کہتا ہوں ، مر جاؤں گا اور میری رادھا وِدھوا اور میرے بچے اَناتھ ہو جائیں گے۔۔۔ یہ سب کچھ ا س لیے ہو گا کہ میں نے سیٹھ سے دو گالیاں سُنیں اور خاموش رہا جیسے میرے منہ میں تالا لگا ہوا تھا۔ میں لُولا، لنگڑا، اپاہج تھا۔۔۔ پرماتما کرے میری ٹانگیں اس موٹر کے نیچے آ کر ٹوٹ جائیں ، میرے ہاتھ کٹ جائیں ۔ میں مر جاؤں تاکہ یہ بک بک تو ختم ہو۔۔۔ توبہ ۔۔۔ کوئی ٹھکانہ ہے اس دُکھ کا۔ کپڑے پھاڑ کر ننگا ناچنا شروع کر دوں ۔۔۔ اس ٹرام کے نیچے سر دے دوں ، زور زور سے چلانا شروع کر دوں ۔۔۔۔۔۔ کیا کروں کیا نہ کروں ؟‘‘

یہ سوچتے ہوئے اسے ایکا ایکی خیال آیا کہ بازار کے بیچ کھڑا ہو جائے اور سب ٹریفک کو روک کر جو اس کی زبان پر آئے بکتا چلا جائے۔ حتیٰ کہ اس کاسینہ سارے کا سارا خالی ہو جائے یا پھر اس کے جی میں آئی کہ کھڑے کھڑے یہیں سے چلانا شروع کر دے۔ ’’مجھے بچاؤ۔۔۔۔۔۔ مجھے بچاؤ!۔‘‘

اتنے میں ایک آگ بجھانے والا انجن سڑک پر ٹن ٹن کرتا آیا اور ادھر اس موڑ میں گم ہو گیا۔ اس کو دیکھ کر وہ اونچی آواز میں کہنے ہی والا تھا۔ ’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ میری آگ بجھاتے جاؤ۔‘‘ مگر نہ جانے کیوں رُک گیا۔

ایکا ایکی اس نے اپنے قدم تیز کر دیئے۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی سانس رُکنے لگی ہے اور اگر وہ تیز نہ چلے گا تو بہت ممکن ہے کہ وہ پھٹ جائے۔ لیکن جوں ہی اس کی رفتار بڑھی، اس کا دماغ آگ کا ایک چکر سا بن گیا۔ اس چکر میں اس کے سارے پرانے اور نئے خیال ایک ہار کی صورت میں گُندھ گئے۔۔۔ دو مہینے کا کرایہ، اس کا پتھر کی بلڈنگ میں درخواست لے کر جانا۔۔۔ سات منزلوں کے ایک سو بارہ زینے، سیٹھ کی بھدّی آواز، اس کے گنجے سر پر مسکراتا ہوا بجلی کا لیمپ اور۔۔۔ یہ موٹی گالی۔۔۔ پھر دوسری۔۔۔ اور اس کی خاموشی۔۔۔ یہاں پہنچ کر آگ کے اس چکر میں تڑ تڑ گولیاں سی نکلنا شروع ہو جاتیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا کہ اس کا سینہ چھلنی ہو گیا ہے۔

اس نے اپنے قدم اور تیز کئے اور آگ کا یہ چکر اتنی تیزی سے گھومنا شروع ہوا کہ شعلوں کی ایک بہت بڑی گیند سی بن گئی جو اس کے آگے آگے زمین پر اُچھلنے کُودنے لگی۔ وہ اب دوڑنے لگا۔ لیکن فوراً ہی خیالوں کی بھیڑ بھاڑ میں ایک نیا خیال بلند آواز میں چِلّایا:

’’تم کیوں بھاگ رہے ہو؟ کس سے بھاگ رہے ہو؟ تم بزدل ہو؟‘‘

اس کے قدم آہستہ آہستہ اُٹھنے لگے۔ بریک سی لگ گئی اور وہ ہولے ہولے چلنے لگا۔۔۔ وہ سچ مچ بزدل تھا، بھاگ کیوں رہا تھا؟۔۔۔ اسے تو انتقام لینا تھا۔۔۔ انتقام۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے اسے اپنی زبان پر لہو کا نمکین ذائقہ محسوس ہوا اور اس کے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوئی۔۔۔ لہو۔۔۔ لہو۔ اسے آسمان زمین سب لہو ہی میں رنگے ہوئے نظر آنے لگے۔۔۔ لہو۔۔۔ اس وقت اس میں اتنی قوت تھی کہ پتھر کی رگوں میں سے بھی لہو نچوڑ سکتا تھا۔

اس کی آنکھوں میں لال ڈورے اُبھر آئے۔ مٹھیاں بھِنچ گئیں اور قدموں میں مضبوطی پیدا ہو گئی۔۔۔ اب وہ انتقام پر تُل گیا تھا۔

وہ بڑھا۔

آنے جانے والے لوگوں میں سے تیر کے مانند اپنا راستہ بناتا آگے بڑھتا رہا۔ آگے۔۔۔ آگے۔

جس طرح تیز چلنے والی ریل گاڑی چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو چھوڑ جایا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ بجلی کے کھمبوں ، دکانوں اور لمبے لمبے بازاروں کو اپنے پیچھے چھوڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔ آگے۔۔۔ آگے۔۔۔ بہت آگے!

راستے میں ایک سینما کی رنگین بلڈنگ آئی۔ اس نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اس کے پاس سے بے پرواہ، ہوا کی مانند بڑھ گیا۔

وہ بڑھتا گیا۔

اندر ہی اندر اس نے اپنے ہر ذّرے کو ایک بم بنا لیا تھا تاکہ وقت پر کام آئے۔ مختلف بازاروں سے زہریلے سانپ کی مانند پھنکارتا ہوا وہ اپولو بندر پہنچا۔۔۔ اپولو۔۔۔ گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے بے شمار موٹریں قطار اندر قطار کھڑی تھیں ۔ ان کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھا کہ بہت سے گدھ پَر جوڑے کسی کی لاش کے ارد گرد بیٹھے ہیں ۔ جب اس نے خاموش سمندر کی طرف دیکھا تو اسے یہ ایک لمبی چوڑی لاش معلوم ہوئی۔۔۔ اس سمندر کے اس طرف ایک کونے میں لال لال روشنی کی لکیریں ہولے ہولے بل کھا رہی تھیں ۔ یہ ایک عالیشان ہوٹل کی پیشانی کا برقی نام تھا۔ جس کی لال روشنی سمندر کے پانی میں گُدگُدی پیدا کر رہی تھی۔

کیش لال کھاری سینگ والا اس عالیشان ہوٹل کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اس برقی بورڈ کے عین نیچے قدم گاڑ کر اس نے اوپر دیکھا۔۔۔ سنگین عمارت کی طرف جس کے روشن کمرے چمک رہے تھے اور ۔۔۔ اس کے حلق سے ایک نعرہ ۔۔۔ کان کے پردے پھاڑ دینے والا نعرہ، پگھلے ہوئے گرم گرم لاوے کے مانند نکلا۔ ’’ہت تیری۔۔۔!‘‘

جتنے کبوتر ہوٹل کی منڈیروں پر اُونگھ رہے تھے، ڈر گئے اور پھڑپھڑانے لگے۔ نعرہ مار کر جب اس نے اپنے قدم زمین سے بڑی مشکل کے ساتھ علیحدہ کئے اور واپس مڑا تو اسے اس بات کا پورا یقین تھا کہ ہوٹل کی سنگین عمارت اڑایا دھم نیچے گر گئی ہے۔

اور یہ نعرہ سُن کر ایک شخص نے اپنی بیوی سے، جو یہ شور سن کر ڈر گئی تھی، کہا:

’’پگلا ہے!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

نیا قانون

 

منگو کوچوان اپنے اڈّے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈّے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے اُستاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔

پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چوہدری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبّرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی۔‘‘ دیکھ لینا چوہدری، تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘

اور جب گاما چوہدری نے اس سے پوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا۔ ’’ولایت میں اور کہاں ؟‘‘

اسپین میں جنگ چھڑی اور جب ہر شخص کو اس کا پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈّے پر جتنے کوچوان حلقہ بنائے حُقّہ پی رہے تھے۔ دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کر رہے تھے اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلاتے ہوئے اپنی سواری سے تازہ ہند و مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔

اِسی روز شام کے قریب جب وہ اڈّے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حُقّے کا دور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اُتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا۔

’’یہ کسی پیر کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو، چھریاں چلتے رہتے ہیں اور میں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دُکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بددعا دی تھی، جا تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے۔۔۔ اور دیکھ لو، جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حُقّے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی۔’’ یہ کانگرسی ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہو گا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہو گی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آ جائے گا یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے لیکن ہندوستان سدا غلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بد دُعا بھی دی تھی کہ ہندوستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘

استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفّر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کُتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی سی آ جاتی۔ نہ معلوم کیوں ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اُوپر کی جھِلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو!۔

جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مُکّدر رہتی اور وہ شام کو اڈّے میں آ کر ہِل مارکہ سگریٹ پیتے یا حُقّے کے کش لگاتے ہوئے اس گورے کو جی بھر کر سنایا کرتا۔

’’. . . . . .‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا۔ ’’آگ لینے آئے تھے، اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں ۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے،یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں ۔۔۔‘‘

اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا۔ وہ اپنے سینے کی آگ اُگلتا رہتا۔

’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی۔۔۔ جیسے کوڑھ ہو رہا ہے۔۔۔ بالکل مُردار، ایک دھپّے کی مار اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعون کی کھوپڑی کے پُرزے اُڑا دوں ۔ لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردُود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔‘‘ ۔۔۔ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا اور ناک کو خاکی قمیض کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بُڑبڑانے لگ جاتا۔

’’قسم ہے بھگوان کی ، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اُٹھاتے اُٹھاتے تنگ آ گیا ہوں ۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں ، رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم، جان میں جان آ جائے۔‘‘

اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

دو مار واڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے، گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔

’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔ کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔‘‘

’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندوستانیوں کو آزادی مل جائے گی۔‘‘

’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘

’’یہ پوچھنے کی بات ہے۔ کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘

ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چابک سے بہت بُری طرح پیٹا کرتا تھا۔ مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا۔’’ چل بیٹا۔ چل بیٹا۔۔۔ ذرا ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے۔‘‘

مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسّی پی کر ایک بڑی ڈکار لی اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ ’’ہت تیری ایسی کی تیسی۔‘‘

شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلافِ معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہو گیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا۔۔۔ بہت بڑی خبر اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں ۔

آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آ رہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لا کھڑا کر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق ،جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کر کے غور و فکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے ان مارواڑیوں کو گالی دی۔۔۔

’’. . . . . . . . غریبوں کی کھٹیا میں گھُسے ہوئے کھٹمل۔ نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہو گا۔‘‘

وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں ، سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی ہمیشہ کے لیے بِلوں میں غائب ہو جائیں گی۔

جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا۔ لا ہاتھ اِدھر ۔۔۔ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں ۔‘‘

یہ کہہ کر منگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں ۔ دورانِ گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا۔ ’’تُو دیکھتا رہ… کیا بنتا ہے۔ یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کر کے رہے گا‘‘۔

استاد منگو موجود سووےَت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سُن چکا تھا۔ اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں ۔ اسی لیے اس نے روس والے بادشاہ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پُرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں ۔ وہ انہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔

کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سُنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو ان واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا تھا۔

ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔

’’جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سُنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریہ کے اعتبار سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں !‘‘

ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی۔ چونکہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے اس لیے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو بُرا سمجھتے ہیں ۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔ ’’ٹوڈی بچے!‘‘

جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کر کے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔

اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلباء کو اپنے ٹانگے میں بٹھا کر مزنگ جا رہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا:

’’نئے آئین نے میری اُمیدیں بڑھا دی ہیں اگر ۔۔۔ صاحب اسمبلی کے ممبر ہو گئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی‘‘۔

’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی، شاید اسی گڑبڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آ جائے۔

’’ہاں ۔ ہاں ۔ کیوں نہیں ۔‘‘

’’وہ بیکار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ ان میں کچھ تو کمی ہو گی۔‘‘

اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی۔اور وہ اس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔ ’’نیا قانون۔۔۔!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا۔ ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آ جاتا جو اس نے دو برس ہوئے چوہدری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر،جب وہ نیا تھا،جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’’نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔

پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصوّر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی، ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔

آخر کار مارچ کے اِکتّیس دن ختم ہو گئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اُٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔

اس نے صبح کے سرد دھُند لکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھی اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں ۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں مارچ کو چوہدری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنّے میں خریدی تھی۔

گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔ ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔

’’ابھی بہت سویرا ہے۔ دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں ۔‘‘ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ’’ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘

جب اس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبا کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خِیرہ کُن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں ۔

تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انار کلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی تھی۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔

جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے، چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیرِ اثر اس نے کئی مرتبہ اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آ گیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔

’’تُو ہر وقت مُردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اُٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچہ جن دے گی؟‘‘۔

استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگا وَتی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی۔ ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور تم پیاس سے بے حال ہو رہے ہو۔‘‘

کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اُسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔

لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اِسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔

انار کلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اور دل میں یہ خیال کیا۔

’’چلو یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔ شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے۔‘‘

چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزلِ مقصود پر اُتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو اُنگلیوں میں دبا کر سُلگایا اور اگلی نشست کے گدّے پر بیٹھ گیا۔ جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد بڑی دھیمی چال چلنا شروع کر دیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔

گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سُست تھی۔ جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا، اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہو رہے تھے۔

وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا اور اس قابلِ غور بات کو آئینِ جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اِسی سوچ بچار میں غرق تھا، اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے سڑک کے اس طرف دور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’گورا‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بُلا رہا تھا۔

جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اُستاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہو گئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا۔ ’’ان کے پیسے چھوڑنا بھی بیوقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دیئے ہیں ، ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں ۔ چلو چلتے ہیں ۔‘‘

خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگہ موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکتے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا۔

’’صاحب بہادر،کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘

اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا۔ ’صاحب بہادر‘ کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھچ گیا اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آ رہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہو گئی گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا اور اپنے اندر اس نے اس گورے کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔

جب گورے نے ،جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رُخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اُوپر کو اُڑ گئیں ۔

استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا۔ اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرّے ذرّے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا۔ ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘ ’’وہی ہے‘‘۔ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔

’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہو گیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور اس خوامخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی، اُسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں ۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اُڑا دئے ہوتے۔ مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔

استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا۔ ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘

استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔

گورے نے جواب دیا۔ ’’ہیرا منڈی۔‘‘

’’کرایہ پانچ روپے ہو گا۔‘‘ استاد منگو کی مونچھیں تھر تھرائیں ۔

یہ سن کر گورا حیران ہو گیا۔ وہ چِلّایا ’’ پانچ روپے … کیا تم ۔۔۔۔۔۔؟‘‘

’’ہاں ، ہاں پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ ’’کیوں … جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘

استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔

گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیشِ نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح اوپر کو اُٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اُتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔

ششدر و متحیّر گورے نے اِدھر اُدھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چِلّانا شروع کیا۔ اس کی چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:

’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں ۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ!‘‘

لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو اُن دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔

’’وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانون ہے میاں ۔۔۔ نیا قانون!‘‘

اور بیچارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کی مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔

استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون، نیا قانون‘‘ چلّاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔

’’نیا قانون، نیا قانون، کیا بک رہے ہو… قانون وہی ہے پرانا!‘‘

اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا!

٭٭٭

 

 

 

سہائے

 

 

’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں ۔۔۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں ۔۔۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں ، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے۔ لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر کے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے۔ کہ اسلام پر ہلکی سے خراش بھی نہیں آئی۔۔۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کئے جا سکتے ہیں ۔۔۔ مذہب ، دین ایمان، دھرم، یقین عقیدت۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں روح میں ہوتا ہے۔۔۔ چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

ممتاز اس روز بہت ہی پُر جوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔۔۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جُدا ہو کر پاکستان جا رہا تھا۔۔۔ پاکستان جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔

ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اُٹھانا پڑا تھا، غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جُدا ہو رہا تھا۔ جگلؔ کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اس کا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا ’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔‘‘

ممتازؔ نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا کرو گے؟‘‘

جگلؔ نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں ۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں ۔‘‘

یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس کی یہ خاموشی تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جا رہا ہے۔

ہم تینوں میں سے کسی نے اس کے اس ارادے کے متعلق بات چیت نہ کی۔ جگلؔ کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے ’’میں سوچ رہا ہوں بہت ممکن ہے، میں تمہیں مار ڈالوں ۔‘‘ غالباً وہ اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر ممتاز کو مار سکتا ہے یا نہیں ۔۔۔ ممتاز کو جو کہ اس کا جگری دوست تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ خاموش تھا لیکن عجیب بات ہے کہ ممتاز غیر معمولی طور پر باتونی ہو گیا تھا۔۔۔ خاص طور پر روانگی سے چند گھنٹے پہلے۔

صبح اُٹھتے ہی اس نے پینا شروع کر دی۔ اسباب وغیرہ کچھ اس انداز سے بندھوایا جیسے وہ کہیں سیر و تفریح کے لیے جا رہا ہے۔۔۔ خود ہی بات کرتا تھا اور خود ہی ہنستا تھا۔ کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا کہ وہ بمبئی چھوڑنے میں ناقابلِ بیان مسرت محسوس کر رہا ہے۔ لیکن ہم تینوں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ صرف اپنے جذبات چھپانے کے لیے ہمیں اور اپنے آپ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

میں نے بہت چاہا کہ اس سے اس کی یک لخت روانگی کے متعلق بات کروں اشارتاً میں نے جگل سے بھی کہا کہ وہ بات چھیڑے ، مگر ممتاز نے ہمیں کوئی موقعہ ہی نہ دیا۔

جگل تین چار پیگ پی کر اور بھی زیادہ خاموش ہو گیا اور دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ میں اور برج موہن اس کے ساتھ رہے۔ اسے کئی بل ادا کرنے تھے، ڈاکٹروں کی فیسیں دینی تھیں ، لانڈری سے کپڑے لانے تھے، یہ سب کام اس نے ہنستے کھیلتے کیے۔ لیکن جب اس نے ناکے کے ہوٹل کے بازو والی دکان سے ایک پان لیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ برج موہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلتے ہوئے اس نے ہولے سے کہا ’’یاد ہے برج۔۔۔ آج سے دس برس پہلے جب ہمارا حال بہت پتلا تھا گوبند نے ہمیں ایک روپیہ اُدھار دیا تھا۔‘‘

راستے میں ممتاز خاموش رہا، مگر گھر پہنچتے ہی اس نے پھر باتوں کالا متناہی سلسلہ شروع کر دیا، ایسی باتوں کا جن کا سر تھا نہ پیر۔ لیکن وہ کچھ ایسی پُر خلوص تھیں کہ میں اور برج موہن برابر ان میں حصہ لیتے رہے جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جگل بھی شامل ہو گیا۔ لیکن جب ٹیکسی بندرگاہ کی طرف چلی تو سب خاموش ہو گئے۔

ممتاز کی نظریں بمبئی کے وسیع اور کشادہ بازاروں کو الوداع کہتی رہیں ۔ حتیٰ کہ ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی۔ بے حد بھیڑ تھی۔ ہزار ہا ریفیوجی جا رہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ۔۔۔ بے پناہ ہجوم تھا۔ لیکن مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جا رہا ہے۔ ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ جا رہا ہے جو اس کی دیکھی بھالی نہیں جو اس کے مانوس بنانے پر بھی اجنبی رہے گی۔ لیکن یہ میرا اپنا خیال تھا میں نہیں کہہ سکتا کہ ممتاز کیا سوچ رہا تھا۔

جب کیبن میں سارا سامان چلا گیا تو ممتاز ہمیں عرشے پر لے گیا۔۔۔ ادھر جہاں آسمان اور سمندر آپس میں مل رہے تھے، ممتاز دیر تک دیکھتا رہا پھر اس نے جگل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ یہ محض فریبِ نظر ہے۔۔۔ آسمان اور سمندر آپس میں ملنا ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ فریبِ نظر کس قدر و دلکش ہے۔۔۔ یہ ملاپ!

جگل خاموش رہا۔ غالباً اس وقت بھی اس کے دل و دماغ میں اس کی کہی ہوئی یہ بات چٹکیاں لے رہی تھی۔ ’’میں سوچ رہا ہوں ، بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں ۔‘‘

ممتاز نے جہاز کی بارسے برانڈی منگوائی کیونکہ وہ صبح سے یہی پی رہا تھا۔۔۔ ہم چاروں ، گلاس ہاتھ میں لیے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریفیوجی دھڑا دھڑ جہاز میں سوار ہو رہے تھے اور قریب قریب ساکن سمندر پر آبی پرندے منڈلا رہے تھے۔

جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کیا اور نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا ’’مجھے معاف کر دینا ممتاز۔۔۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دُکھ پہنچایا تھا۔‘‘

ممتاز نے تھوڑے توقف کے بعد جگل سے سوال کیا ’’جب تم نے کہا تھا میں سوچ رہا ہوں ۔۔۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں ۔۔۔ کیا اس وقت واقعی تم نے یہی سوچا تھا۔۔ نیک دلی سے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔‘‘

جگل نے اثبات سے سر ہلایا ’’۔۔۔ لیکن مجھے افسوس ہے!‘‘

’’تم مجھے مار ڈالتے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔‘‘ ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔۔۔ ایک مسلمان کو۔۔۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ انسان کو مارا ہے۔۔۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مارا ڈالا ہے۔۔۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔۔۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا، لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا۔ ’’ہو سکتا ہے میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلاّنا شروع کر دیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں ۔۔۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے۔ جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں ۔۔۔ لاہور میں تمہارے چچا کو ایک مسلمان نے مار ڈالا۔۔۔ تم نے یہ خبر بمبئی میں سنی اور مجھے قتل کر دیا۔۔۔ بتاؤ تم اور میں کس تمغے کے مُستحق ہیں ؟ ۔۔۔ اور لاہور میں تمہارا چچا اور اس کا قاتل کس خلعت کے حقدار ہیں ۔۔۔؟ ‘‘

’’میں تو یہ کہوں گا، مرنے والے کُتے کی موت مرے اور مارنے والوں نے بیکار بالکل بیکار اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔۔۔ ‘‘

باتیں کرتے کرتے ممتاز بہت زیادہ جذباتی ہو گیا۔ لیکن اس زیادتی میں خلوص برابر کا تھا۔ میرے دل پر خصوصاً اس بات کا بہت اثر ہوا کہ مذہب، دین، ایمان، یقین، دھرم، عقیدت۔۔۔ یہ جو کچھ بھی ہے، ہمارے جسم کے بجائے روح میں ہوتا ہے۔ جو چھرے، چاقو اور گولی سے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا ’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

یہ سُن کر ممتاز نے اپنے خیالات کا جائزہ لیا اور قدرے بے چینی سے کہا نہیں بالکل ٹھیک نہیں ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سب ٹھیک تو ہے۔ لیکن شاید میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اچھی طرح ادا نہیں کر سکا۔۔۔ مذہب سے میری مراد یہ مذہب نہیں ، یہ دھرم نہیں جس میں ہم میں سے ننانوے فیصدی مبتلا ہیں ۔۔۔میری مراد اس خاص چیز سے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسانوں کے مقابلے میں جُدا گانہ حیثیت بخشتی ہے۔۔۔ وہ چیز جو انسان کو حقیقت میں انسان ثابت کرتی ہے۔۔۔لیکن یہ چیز کیا ہے؟۔۔۔ افسوس ہے کہ میں اسے ہتھیلی پر رکھ کر دکھا نہیں سکتا، یہ کہتے کہتے ایک دم اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اور اس نے جیسے خود سے پوچھنا شروع کیا ’’لیکن اس میں وہ کون سی خاص بات تھی؟۔۔۔کٹّر ہندو تھا۔۔۔پیشہ نہایت ہی ذلیل لیکن اس کے باوجود اس کی روح کس قدر روشن تھی؟‘‘

میں نے پوچھا کس کی؟

’’ایک بھڑوے کی۔‘‘

ہم تینوں چونک پڑے۔ ممتاز کے لہجے میں کوئی تکلف نہیں تھا، اس لیے میں نے سنجیدگی سے پوچھا ’’ایک بھڑوے کی؟‘‘

ممتاز نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرف عام میں ایک بھڑوا تھا۔۔۔عورتوں کا دلاّل۔۔۔ لیکن اس کا ضمیر بہت صاف تھا۔‘‘

ممتاز تھوڑی دیر کے لیے رُک گیا جیسے وہ پُرانے واقعات اپنے دماغ میں تازہ کر رہا ہے۔۔۔چند لمحات کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا ’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں ۔۔۔ کچھ سہائے تھا۔۔۔ بنارس کا رہنے والا بہت ہی صفائی پسند۔ وہ جگہ جہاں وہ رہتا تھا گو بہت ہی چھوٹی تھی مگر اس نے بڑے سلیقے سے اسے مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔۔۔ پردے کا معقول انتظام تھا۔ چارپائیاں اور پلنگ نہیں تھے لیکن گدیلے اور گاؤ تکیے موجود تھے چادریں اور غلاف وغیرہ ہمیشہ اُجلے رہتے تھے۔ نوکر موجود تھا مگر صفائی وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔۔۔ صرف صفائی ہی نہیں ، ہر کام۔۔۔ اور وہ سر سے بلا کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ دھوکا اور فریب نہیں کرتا تھا۔۔۔ رات زیادہ گزر گئی ہے اور آس پاس سے پانی ملی شراب ملتی ہے۔ تو وہ صاف کہہ دیتا تھا کہ صاحب اپنے پیسے ضائع نہ کیجئے۔۔۔ اگر کسی لڑکی کے متعلق اسے شک ہے تو وہ چھپایا نہیں کرتا تھا۔۔۔ اور تو اور اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔۔۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔۔۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔۔۔معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں ، زیادہ کیوں نہیں ۔۔۔اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کر کے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزّازی کی دکان کھولے گا۔۔۔میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزّازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔‘‘

میں یہاں تک سُن چکا تو میرے منہ سے نکلا ’’عجیب و غریب آدمی تھا۔‘‘

ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی ’’ میرا خیال تھا کہ وہ سرتاپا بناوٹ ہے۔۔۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیوں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں ۔ اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از فہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹ کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کُل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل ناقابلِ یقین تھی کہ وہ دس بار لڑکیوں کے کھانے پینے کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔۔۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔۔۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ امینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں ۔۔۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں ۔۔۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں سب ویشنو ہیں ‘‘ ۔۔۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔۔۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرا دی تھی، لاہور سے خط لکھا کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزّازی کی دکان کھول سکے یہ سن کر میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا چونکہ میں مسلمان ہوں اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

میں نے ممتاز سے پوچھا ’’تمہارا خیال غلط تھا؟‘‘

’’بالکل ۔۔۔اس کے قول و فعل میں کوئی بُعد نہیں تھا۔۔۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں ۔۔۔ مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔‘‘

جگل نے سوال کیا۔ ’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا؟‘‘

’’اس کی موت پر‘‘ یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔’’ فسادات شروع ہو چکے تھے۔۔۔ میں علی الصبح اُٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔۔۔ کرفیو کے باعث بازار میں آمدو رفت بہت ہی کم تھی۔ ٹریم بھی نہیں چل رہی تھی۔ ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گٹھڑی سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کہ کوئی پاٹی والا (مزدور) سو رہا ہے۔۔۔ لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رُک گیا۔۔۔ واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں ، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔۔۔ میں پھر رُک گیا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔۔۔ اس کی ٹول کی سفید قمیض جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لتھڑی ہوئی تھی۔۔۔ زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔۔۔ میں اُٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔۔۔ پھر اک دم اس کے سارے بند میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا۔ ’’آپ؟۔۔۔ آپ؟‘‘

میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کر دیں ۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔۔۔ سامنے ہسپتال ہے۔ کیا میں وہاں اطلاع دوں ؟

اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے:

’’میرے دن پورے ہو چکے تھے۔۔۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘

بھگوان کو جانے کیا منظور تھا لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو کر مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے۔ اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس کو مارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑا تھا وہ بھی مسلمان تھا۔۔۔ میں ڈرپوک تو نہیں لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں ، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا گیا تو پوچھ گچھ کے لیے دھر لیا جاؤں گا۔۔۔ ایک بار یہ خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے ہی، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں ۔۔۔ اس قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔۔۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا۔۔۔ میں ٹھہر گیا۔۔۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رُک گئے۔۔۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔۔۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا مگر جب کچھ اور کرنے کی اس کی ہمت نہ رہی تو مجھ سے کہا ’’۔۔۔نیچے بنڈی ہے۔۔۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیور اور بارہ سو روپے ہیں ۔۔۔ یہ۔۔۔ سلطانہ کا مال ہے۔۔۔ میں نے ۔۔۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ آج اسے ۔۔۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔۔۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔۔۔ آپ اسے دے دیجئے گا اور کہئے گا فوراً چلی جائے۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘

ممتاز خاموش ہو گیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے سامنے فٹ پاتھ پر اُبھری تھی، دور ادھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہو رہی ہے۔

جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا۔ ’’میں سلطانہ سے ملا۔۔۔۔۔۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘

جب ہم ممتازؔ سے رخصت ہو کر نیچے اُترے تو وہ عرشے پر جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔ اس کا داہنا ہاتھ ہل رہا تھا۔۔۔ میں جگل سے مخاطب ہوا:

’’کیا تمہیں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ممتازؔ ، سہائے کی روح کو بلا رہا ہے۔۔۔ ہم سفر بنانے کے لیے؟‘‘

جگل نے صرف اتنا کہا۔ ’’کاش ، میں سہائے کی روح ہوتا!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

    گورمکھ سنگھ کی وصیّت

 

 

پہلے چھرا بھونکنے کی اِکاّ دُکاّ واردات ہوتی تھی، اب دونوں فریقوں میں باقاعدہ لڑائی کی خبریں آنے لگی تھیں ، جن میں چاقو چھروں کے علاوہ کر پانیں ، تلواریں اور بندوقیں عام استعمال کی جاتی تھیں ۔ کبھی کبھی دیسی ساخت کے بم پھٹنے کی اطلاع بھی ملتی تھی۔

امرتسر میں قریب قریب ہر ایک کا یہی خیال تھا کہ یہ فرقہ وارانہ فسادات دیر تک جاری نہیں رہیں گے۔ جوش ہے جونہی ٹھنڈا ہوا فضا پھر اپنی اصلی حالت پر آ جائے گی۔ اس سے پہلے ایسے کئی فساد امرتسر میں ہو چکے تھے جو دیر پا نہیں تھے۔ دس پندرہ روز تک مار کٹائی کا ہنگامہ رہتا تھا پھر خودبخود فرو ہو جاتا تھا۔ چنانچہ پرانے تجربے کی بنا پر لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ آگ تھوڑی دیر کے بعد اپنا زور ختم کر کے ٹھنڈی ہو جائے گی۔ مگر ایسا نہ ہوا۔۔۔ بلووں کا زور دن بدن بڑھتا ہی گیا۔

ہندوؤں کے محلے میں جو مسلمان رہتے تھے بھاگنے لگے۔ اسی طرح وہ ہندو جو مسلمانوں کے محلے میں تھے اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقاموں کا رُخ کرنے لگے۔ مگر یہ انتظام سب کے نزدیک عارضی تھا۔ اس وقت تک کے لیے جب فضا فسادات کے تکدرسے پاک ہو جانے والی تھی۔

میاں عبدالحئ ریٹائرڈسب جج کو توسو فیصدی یقین تھا کہ صورت حال بہت جلد درست ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ پریشان نہیں تھے۔ ان کا ایک لڑکا تھا گیارہ برس کا، ایک لڑکی تھی سترہ برس کی۔ ایک پرانا ملازم تھا جس کی عمر ستر کے لگ بھگ تھی۔ مختصر سا خاندان تھا۔ جب فسادات شروع ہوئے تو میاں صاحب نے بطور حفظ ماتقدم کافی راشن گھر میں جمع کر لیا تھا۔ اس طرف سے وہ بالکل مطمئن تھے کہ اگر خدانخواستہ حالات کچھ زیادہ بگڑ گئے اور دکانیں وغیرہ بند ہو گئیں تو انہیں کھانے پینے کے معاملے میں تردُّد نہیں کرنا پڑے گا لیکن ان کی جوان لڑکی صغریٰ بہت متردّدتھی۔ ان کا گھر تین منزلہ تھا۔ دوسری عمارتوں کے مقابلے میں کافی اونچا۔ اس کی ممٹی سے شہر کا تین چوتھائی حصہ بخوبی نظر آتا تھا۔ صغریٰ اب کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ نزدیک دور کہیں نہ کہیں آگ لگی ہوتی ہے۔ شروع شروع میں تو فائربریگیڈ کی ٹن ٹن سنائی دیتی تھی پر اب وہ بھی بند ہو گئی تھی اس لیے کہ جگہ جگہ آگ بھڑکنے لگی تھی۔

رات کو اب کچھ اور ہی سماں ہوتا۔ گھپ اندھیرے میں آگ کے بڑے بڑے شعلے اُٹھتے جیسے دیو ہیں جو اپنے منہ سے آگ کے فوارے چھوڑ رہے ہیں ۔ پھر عجیب عجیب سی آوازیں آتیں جو ہر ہر مہادیو اور اﷲ اکبر کے نعرے کے ساتھ مل کر بہت ہی وحشت ناک بن جاتیں ۔

صغریٰ باپ سے اپنے خوف و ہراس کا ذکر نہیں کرتی تھی۔ اس لیے کہ وہ ایک بار گھر میں کہہ چکے تھے کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں ۔ سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ میاں صاحب کی باتیں اکثر درست ہوا کرتی تھیں ۔ صغریٰ کو اس سے ایک گونہ اطمینان تھا۔ مگر جب بجلی کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ساتھ ہی نلوں کا پانی آنا بند ہو گیا تو اس نے میاں صاحب سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ڈرتے ڈرتے رائے دی کہ چند روز کے لیے شریف پورے اُٹھ جائیں ، جہاں اڑوس پڑوس کے سارے مسلمان آہستہ آہستہ جا رہے تھے۔ میاں صاحب نے اپنا فیصلہ نہ بدلا اور کہا ’’بیکار گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ، حالات بہت جلدی ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

مگر حالات بہت جلدی ٹھیک نہ ہوئے اور دن بدن بگڑتے گئے۔ وہ محلّہ جس میں میاں عبدالحئ کا مکان تھا مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔ اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میاں صاحب پر ایک روز اچانک فالج گرا جس سے کے باعث وہ صاحب فراش ہو گئے۔ ان کا لڑکا بشارت بھی جو پہلے گھر میں اکیلا اوپر نیچے طرح طرح کے کھیلوں میں مصروف رہتا تھا اب باپ کی چار پائی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور حالات کی نزاکت کو سمجھنے لگا۔

وہ بازار جو ان کے مکان کے ساتھ ملحق تھا، سنسان پڑا تھا۔ ڈاکٹر غلام مصطفی کی ڈسپنسری مدت سے بند پڑی تھی۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر ڈاکٹر گوراندتامل تھے۔ صغریٰ نے شہ نشین سے دیکھا تھا کہ ان کی دکان میں بھی تالے پڑے ہیں ۔ میاں صاحب کی حالت بہت ہی مخدوش تھی۔ صغریٰ اس قدر پریشان تھی کہ اس کے ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے تھے۔ بشارت کو الگ لے جا کر اس نے کہا ’’خدا کے لیے تم ہی کچھ کرو میں جانتی ہوں کہ باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں مگر تم جاؤ۔۔۔ کسی کو بھی بلا لاؤ ابا جی کی حالت بہت خطرناک ہے۔‘‘

بشارت گیا مگر فوراً ہی واپس آ گیا۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ چوک میں اس نے ایک لاش دیکھی تھی۔ خون سے تربتر۔۔۔ اور پاس ہی بہت سے آدمی ڈھاٹے باندھے ایک دکان لُوٹ رہے تھے۔ صغریٰ نے اپنے خوفزدہ بھائی کو اپنے سینے سے لگایا اور صبر شکر کر کے بیٹھ گئی۔ مگر اس سے اپنے باپ کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ میاں صاحب کے جسم کا داہنا حصہ بالکل سن ہو گیا تھا جیسے اس میں جان ہی نہیں ۔ گویائی میں بھی فرق پڑ گیا تھا اور وہ زیادہ تر اشاروں ہی سے باتیں کرتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ صغریٰ گھبرانے کی کوئی بات نہیں خدا کے فضل و کرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

کچھ بھی ٹھیک نہ ہوا۔ روزے ختم ہونے والے تھے۔ صرف دورہ گئے۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ عید سے پہلے پہلے فضا بالکل صاف ہو جائے گی مگر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید عید ہی کا روز روز قیامت ہو کیونکہ ممٹی پر سے اب شہر کے قریب قریب ہر حصے سے دھوئیں کے بادل اُٹھتے دکھائی دیتے تھے۔ رات کو بم پھٹنے کی ایسی ہولناک آوازیں آتی تھیں کہ صغریٰ اور بشارت ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سو سکتے تھے۔ صغریٰ کو تو یوں بھی باپ کی تیمارداری کے لیے جاگنا پڑتا تھا۔ مگر اب یہ دھماکے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے دماغ کے اندر ہو رہے ہیں ۔ کبھی وہ اپنے مفلوج باپ کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے وحشت زدہ بھائی کی طرف۔۔۔۔۔۔ ستر برس کا ایک بڈھا ملازم اکبر تھا جس کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ سارا دن اور ساری رات پڑا اپنی کوٹھڑی میں کھانستا کھنکھارتا اور بلغم نکالتا رہتا تھا۔ ایک روز تنگ آ کر صغریٰ اس پر برس پڑی ’’تم کس مرض کی دوا ہو۔ دیکھتے نہیں ہو میاں صاحب کی کیا حالت ہے۔ اصل میں تم پرلے درجے کے نمک حرام ہو۔ اب خدمت کا موقع آیا ہے تو دمے کا بہانہ کر کے یہاں پڑے رہتے ہو۔۔۔ وہ بھی خادم تھے جو آقا کے لیے اپنی جان تک قربان کر دیتے تھے۔‘‘

صغریٰ اپنا جی ہلکا کر کے چلی گئی۔ بعد میں افسوس ہوا کہ ناحق اس غریب کو اتنی لعنت ملامت کی۔ رات کا کھانا تھال میں لگا کر اس کی کوٹھڑی میں گئی تو دیکھا خالی ہے بشارت نے ادھر اُدھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ باہر کے دروازے کی کنڈی کھلی تھی۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ میاں صاحب کے لیے کچھ کرنے گیا ہے۔ صغریٰ نے بہت دعائیں مانگیں کہ خدا اسے کامیاب کرے لیکن دو دن گزر گئے اور وہ نہ آیا۔

شام کا وقت تھا ایسی کئی شامیں صغریٰ اور بشارت دیکھ چکے تھے جب عید کی آمد آمد کے ہنگامے برپا ہوتے تھے۔ جب آسمان پر چاند دیکھنے کے لیے ان کی نظریں جمی رہتی تھیں ۔ دوسرے روز عید تھی۔ صرف چاند کو اس کا اعلان کرنا تھا۔ دونوں اس اعلان کے لیے کتنے بے تاب ہوا کرتے تھے۔ آسمان پر چاند والی جگہ پر اگر بادل کا کوئی ہٹیلا ٹکڑا جم جاتا تو کتنی کوفت ہوتی تھی انہیں مگر اب چاروں طرف دھوئیں کے بادل تھے۔ صغریٰ اور بشارت دونوں ممٹی پر چڑھے۔ دور کہیں کہیں کوٹھوں پر لوگوں کے سایے دھبوں کی صورت میں دکھائی دیتے تھے۔ مگر معلوم نہیں یہ چاند کو دیکھ رہے تھے یا جگہ جگہ سلگتی اور بھڑکتی ہوئی آگ۔

چاند بھی کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ دھوئیں کی چادر میں سے بھی نظر آ گیا۔ صغریٰ نے ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگی کہ خدا اپنا فضل کرے اور اس کے باپ کو تندرستی عطا فرمائے۔ بشارت دل ہی دل میں کوفت محسوس کررہا تھا کہ گڑبڑ کے باعث ایک اچھی بھلی عید غارت ہو گئی۔

دن ابھی پوری طرح ڈھلا نہیں تھا۔ یعنی شام کی سیاہی ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔ میاں صاحب کی چارپائی چھڑکاؤ کیے ہوئے صحن میں بچھی تھی۔ وہ اس پر بے حس و حرکت لیٹے تھے اور دور آسمان پر نگاہیں جمائے جانے کیا سوچ رہے تھے۔ عید کا چاند دیکھ کر جب صغریٰ نے پاس آ کر انہیں سلام کیا تو انہوں نے اشارے سے جواب دیا۔ صغریٰ نے سر جھکایا تو انہوں نے وہ بازو جو ٹھیک تھا اُٹھایا اور اس پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ صغریٰ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے تو میاں صاحب کی آنکھیں بھی نمناک ہوگئیں مگر انہوں نے تسلی دینے کی خاطر بمشکل اپنی نیم مفلوج زبان سے یہ الفاظ نکالے ’’اﷲ تبارک و تعالیٰ سب ٹھیک کر دے گا۔‘‘

عین اسی وقت باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ صغریٰ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس نے بشارت کی طرف دیکھا۔ جس کا چہرہ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا تھا۔

دروازے پردوبارہ دستک ہوئی۔ میاں صاحب صغریٰ سے مخاطب ہوئے ’’دیکھو کون ہے۔‘‘

صغریٰ نے سوچا شاید بڈھا اکبر ہو۔ اسی خیال میں اس کی آنکھیں تمتما اُٹھیں ۔ بشارت کا بازو پکڑ کر اس نے کہا ’’جاؤ دیکھو۔۔۔۔۔۔ شاید اکبر آیا ہے۔‘‘

یہ سن کر میاں صاحب نے نفی میں یوں سر ہلایا جیسے وہ کہہ رہے ہیں ’’نہیں یہ اکبر نہیں ہے۔‘‘

صغریٰ نے کہا ’’تو اور کون ہو سکتا ہے ابا جی!‘‘

میاں عبدالحئ نے اپنی قوت گویائی پر زور دے کر کچھ کہنے کی کوشش کی کہ بشارت آ گیا اور سخت خوفزدہ تھا۔ ایک سانس اوپر ایک نیچے صغریٰ کو میاں صاحب کی چارپائی سے ایک طرف ہٹا کر اس نے ہولے سے کہا ’’ایک سکھ ہے۔‘‘

صغریٰ کی چیخ نکل گئی ’’سکھ۔۔۔؟ کیا کہتا ہے؟‘‘

بشارت نے جواب دیا ’’کہتا ہے دروازہ کھولو۔‘‘

صغریٰ نے کانپتے ہوئے بشارت کو کھینچ کر اپنے ساتھ چمٹا لیا اور باپ کی چار پائی پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی طرف ویران نظروں سے دیکھنے لگی۔

میاں عبدالحئ کے پتلے پتلے بے جان ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ’’جاؤ.. . گورمکھ سنگھ ہے۔‘‘

بشارت نے نفی میں سر ہلا دیا’’نہیں کوئی اور ہے۔‘‘

میاں صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا ’’جاؤ صغریٰ وہی ہے۔‘‘

صغریٰ اُٹھی۔ وہ گورمکھ سنگھ کو جانتی تھی۔ پنشن لینے سے کچھ دیر پہلے اس کے باپ نے اس نام کے ایک سکھ کا کوئی کام کیا تھا۔ صغریٰ کو اچھی طرح یاد نہیں تھا۔ شاید اس کو ایک جھوٹے مقدمے سے نجات دلائی تھی۔ جب سے وہ ہر چھوٹی عید سے ایک دن پہلے رومالی سویّوں کا ایک تھیلا لے کر آیا کرتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ’’سردار جی آپ تکلُّف نہ کیا کریں ۔‘‘ مگر وہ ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کرتا تھا ’’میاں صاحب واہگورو جی کی کرپا سے آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ یہ تو ایک تحفہ ہے جو میں جناب کی خدمت میں ہر سال لے کر آتا ہوں ۔ مجھ پر جو آپ نے احسان کیا تھا اس کا بدلہ تو میری سوپشت بھی نہیں چکا سکتی۔۔۔ خدا آپ کو خوش رکھے۔‘‘

سردار گورمکھ سنگھ کو ہر سال عید سے ایک روز پہلے سویوّں کا تھیلا لاتے اتنا عرصہ ہو گیا تھا کہ صغریٰ کو حیرت ہوئی کہ اس نے دستک سن کر یہ کیوں خیال نہ کیا کہ وہی ہو گا، مگر بشارت بھی تو اس کو سینکڑوں مرتبہ دیکھ چکا تھا، پھر اس نے کیوں کہا کوئی اور ہے۔۔۔۔۔۔ اور کون ہو سکتا ہے۔ یہ سوچتی صغریٰ ڈیوڑھی تک پہنچی۔ دروازہ کھولے یا اندر ہی سے پوچھے، اس کے متعلق ابھی وہ فیصلہ ہی کر رہی تھی کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ صغریٰ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ بمشکل تمام اس نے حلق سے آواز نکالی ’’کون ہے؟‘‘

بشارت پاس کھڑا تھا۔ اس نے دروازے کی ایک درز کی طرف اشارہ کیا۔ اور صغریٰ سے کہا ’’اس میں سے دیکھو۔‘‘

صغریٰ نے دروازہ میں سے دیکھا۔ گورمکھ سنگھ نہیں تھا وہ تو بہت بوڑھا تھا لیکن یہ جو باہر تھڑے پر کھڑا تھا جوان تھا۔ صغریٰ ابھی درز پر آنکھ جمائے اس کا جائزہ لے رہی تھی کہ اس نے پھر دورازہ کھٹکھٹایا۔ صغریٰ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا ایک تھیلا ہے ویسا ہی جیسا گورمکھ سنگھ لایا کرتا تھا۔

صغریٰ نے درز سے آنکھ ہٹائی اور ذرا بلند آواز میں دستک والے سے پوچھا۔ ’’کون ہیں آپ؟‘‘

باہر سے آواز آئی ’’جی۔۔۔ جی میں ۔۔۔ میں سردار گورمکھ سنگھ کا بیٹا ہوں ۔۔۔ سنتوکھ۔‘‘

صغریٰ کا خوف بہت حد تک دور ہو گیا۔ بڑی شائستگی سے اس نے پوچھا ’’فرمائیے۔۔۔ آپ کیسے آئے ہیں ۔‘‘

باہر سے آواز آئی ’’جی۔۔۔ جج صاحب کہاں ہیں ۔‘‘

صغریٰ نے جواب دیا ’’بیمار ہیں ۔‘‘

سردار سنتوکھ سنگھ نے افسوس آمیز لہجے میں کہا ’’اوہ ۔۔۔ پھر اس نے کاغذ کا تھیلا کھڑکھڑایا ’’جی یہ سویّاں ہیں ۔۔۔ سردار جی کا دیہانت ہو گیا ہے۔۔۔ وہ مر گئے ہیں ۔‘‘

صغریٰ نے جلدی سے پوچھا ’’مر گئے ہیں ۔‘‘

باہر سے آواز آئی ’’جی ہاں ۔۔۔ ایک مہینہ ہو گیا ہے ۔۔۔ مرنے سے پہلے انہوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ دیکھو بیٹا! میں جج صاحب کی خدمت میں پورے دس برس سے ہر چھوٹی عید پر سویّاں لے جاتا رہا ہوں ۔۔۔ یہ کام میرے مرنے کے بعد اب تمہیں کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں وچن دیا تھا۔ جو میں پورا کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔ لے لیجئے سوِیّاں ۔‘‘

صغریٰ اس قدر متاثر ہوئی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ سردار گورمکھ سنگھ کے لڑکے نے سِو یّوں کا تھیلا آگے بڑھا دیا جو صغریٰ نے پکڑ لیا اور کہا ’’خدا سردار جی کو جنت نصیب کرے۔‘‘

گورمکھ سنگھ کا لڑکا کچھ توقف کے بعد بولا ’’جج صاحب بیمار ہیں ۔‘‘

صغریٰ نے جواب دیا ’’جی ہاں ‘‘

’’کیا بیماری ہے؟‘‘

’’فالج۔‘‘

’’اوہ سردار جی زندہ ہوتے تو انہیں یہ سن کر بہت دُکھ ہوتا۔۔۔ مرتے دم تک انہیں جج صاحب کا احسان یاد تھا۔ کہتے تھے وہ انسان نہیں دیوتا ہیں ۔۔۔ اﷲ میاں انہیں زندہ رکھے۔۔۔ انہیں میرا سلام کہنا۔‘‘

اور یہ کہہ کر وہ تھڑے سے اُتر گیا۔۔۔ صغریٰ سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ اسے ٹھہرائے اور کہے کہ جج صاحب کے لیے کسی ڈاکٹر کا بندوبست کر دے۔

سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا سنتوکھ جج صاحب کے مکان کے تھڑے سے اتر کر چند گز آگے بڑھا تو چار ڈھاٹا باندھے ہوئے آدمی اس کے پاس آئے۔ دو کے پاس جلتی مشعلیں تھیں اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور کچھ دوسری آتش خیز چیزیں ۔ ایک نے سنتوکھ سے پوچھا ’’کیوں سردار جی اپنا کام کر آئے؟‘‘

سنتوکھ نے سر ہلا کر جواب دیا ’’ہاں کر آیا۔‘‘

اس آدمی نے ڈھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا ’’تو کر دیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا؟‘‘

’’ہاں ۔۔۔۔۔۔ جیسے تمہاری مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر سردار گورمکھ سنگھ کالڑکا چل دیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

    اﷲ کا بڑا فضل ہے

 

 

اﷲ کا بڑا فضل ہے صاحبان۔۔۔۔۔۔ ایک وہ زمانۂ جہالت تھا کہ جگہ جگہ کچہریاں تھیں ۔ ہائی کورٹیں تھیں ۔ تھانے تھے۔ چوکیاں تھیں ، جیل خانے تھے قیدیوں سے بھرے ہوئے۔ کلب تھے جن میں جوا چلتا تھا، شراب اڑتی تھی، ناچ گھر تھے، سینما تھے، آرٹ گیلریاں تھیں اور کیا کیا خرافات نہ تھیں ۔۔۔ اب تو اﷲ کا بڑا فضل ہے صاحبان کوئی شاعر دیکھنے میں آتا ہے نہ موسیقار۔۔۔ لاحول ولا۔ یہ موسیقی بھی ایک لعنتوں کی لعنت تھی۔۔۔ یعنی آخر گانا بھی انسانوں کا کام ہے؟ ۔۔۔ تنبورہ لے کر بیٹھے ہیں اور گلہ پھاڑ رہے ہیں ۔ صاحب کیا گا رہے ہیں ، درباری کا نہڑا، مالکوس، میاں کی ٹوڑی، اڈانہ اور جانے کیا کیا بکواس ۔۔۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آخر ان راگنیوں سے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچتا ہے آپ کوئی ایسا کام کیجئے جس سے آپ کی عاقبت سنورے آپ کو کچھ ثواب پہنچے۔ قبر کا عذاب کم ہو۔

اﷲ کا بڑا فضل ہے صاحبان ۔۔۔ موسیقی کے علاوہ اور جتنی لعنتیں تھیں ۔ ان کا اب نام و نشان تک نہیں اور خدانے چاہا تو آہستہ آہستہ یہ زندگی کی لعنت بھی دور ہو جائے گی۔

میں نے شاعر کا ذکر کیا تھا۔۔۔ عجیب و غریب چیز تھی یہ بھی ۔۔۔ خدا کا خیال نہ رسول کی فکر، بس معشوقوں کے پیچھے لگے ہوئے کوئی ریحانہ کے گیت گا رہا ہے، کوئی سلمیٰ کے۔۔۔ لاحول ولا، زلفوں کی تعریف ہو رہی ہے کبھی گالوں کی۔۔۔ وصل کے خواب دیکھے جا رہے ہیں ۔۔۔ کتنے گندے خیالات کے تھے یہ لوگ، ہائے عورت، وائے عورت۔۔۔ لیکن اب اﷲ کا بڑا فضل ہے صاحبان اوّل تو عورتیں ہی کم ہو گئی ہیں اور جوہیں پڑی گھر کی چار دیواری میں محفوظ ہیں ۔۔۔۔۔۔ جب سے یہ خطّہ زمین شاعروں کے وجود سے پاک ہوا ہے فضا بالکل صاف اور شفاف ہو گئی ہے۔

میں نے آپ کو بتایا نہیں ۔ شاعری کے آخری دور میں کچھ شاعر ایسے بھی پیدا ہو گئے تھے جو معشوقوں کے بجائے مزدوروں پر شعر کہتے تھے، زلفوں اور عارضوں کی جگہ ہتھوڑوں اور درانتیوں کی تعریف کرتے تھے۔۔۔ اﷲ کا بڑا فضل ہے صاحبان کہ ان مزدوروں سے نجات ملی، کم بخت انقلاب چاہتے تھے، سنا آپ نے؟ تختہ اُلٹنا چاہتے تھے حکومت کا۔ نظام معاشرت کا۔ سرمایہ داری کا اور نعوذ باﷲ مذہب کا۔

اﷲ کا بڑافضل ہے کہ ان شیطانوں سے ہم انسانوں کو نجات ملی۔ عوام بہت گمراہ ہو گئے تھے اپنے حقوق کا ناجائز مطالبہ کرنے لگے تھے، جھنڈے ہاتھ میں لے کر لادینی حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ اب ان میں سے ایک بھی ہمارے درمیان موجود نہیں اور لاکھ لاکھ شکر ہے پرورد گار کا اب ہم پر مُلاّؤں کی حکومت ہے اور ہر جمعرات ہم حلوے سے ان کی ضیافت کرتے ہیں ۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ اس زمانے میں حلوے کا نام و نشان تک اُڑ گیا تھا۔۔۔ مسجدوں میں حجروں کے اندر بیچارے مُلاّ خدا انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے پڑے حلوے کو ترستے تھے۔ ان کی لمبی لمبی نورانی داڑھیوں کا ایک ایک بال شیطانی اُستروں کی موت کی دعائیں مانگتا تھا۔ اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ یہ دعائیں قبول ہوئیں ۔ اب آپ اس کونے سے اس کونے تک چلے جائیے۔ ساری دکانیں چھان مارےئے ایک اُسترہ بھی آپ کو نہیں ملے گا۔ البتہ حلوہ جو کہ ہمارے رہنما مُلاّؤں کی مذہبی خوراک ہے آپ کو اب ہر جگہ اورہر مقدار میں دستیاب ہو سکتا ہے۔

اﷲ کا بڑا فضل ہے۔۔۔ اب کوئی ٹھمری، دادرا نہیں گاتا، فلمی دھنیں بھی مر کھپ چکی ہیں ۔ موسیقی کا ایسا جنازہ نکلا ہے اور اس طور پر اسے زمین میں دفن کیا گیا ہے کہ اب کوئی مسیحا اسے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا۔ کتنی بڑی لعنت تھی یہ موسیقی۔ لوگ کہتے تھے یہ آرٹ ہے، کیسا آرٹ، کہاں کا آرٹ یہ بھی کوئی آرٹ ہے کہ آپ نے کوئی گانا سنا اور دنیا کے دُکھ درد تھوڑی دیر کے لیے بھول گئے۔ کوئی گیت سنا اور دل آپ کا بلّیوں اُچھلنے لگا۔

حسن و عشق کی دنیا میں جا پہنچے۔۔۔۔۔۔ لاحول ولا۔ آرٹ کبھی ایسا گمراہ کن نہیں ہو سکتا ’’گھونگٹ کے پٹ کھول‘‘، ’’پائل باجی چھنن، چھنن‘‘۔ بابل نیہر مورا چھوٹو جائے‘‘۔ ’’رتیاں کہاں گنوائیں رے‘‘۔۔۔ کوئی شرافت ہے ان بولوں میں ۔ اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ اب ایسی خرافات موجود نہیں الحمدُﷲِ قوالی ہے، سُنئے اور سرُ دھنئے۔ حال کھیلئے ، ہو حق کے نعرے لگائیے اور ثواب حاصل کیجئے۔

مصّوری بھی کچھ کم لعنت نہیں تھی۔ تصویریں بنتی تھیں ۔ برہنہ، نیم برہنہ مصور اپنی پوری قوت تصورِ حسن کی تخلیق میں صرف کر دیتے تھے۔ لیکن یہ کفر تھا۔ تخلیق صرف خدا کا کام ہے اس کے بندوں کا نہیں اور پھر حُسن کی تخلیق یہ تو گناہِ کبیرہ تھا۔ اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ ہمارے درمیان آج ایک بھی مصور موجود نہیں جو تھے ان کی انگلیاں قلم کر دی گئیں ، تاکہ وہ اپنی شیطانی حرکت سے باز رہیں ۔۔۔ اب یہ عالم ہے کہ اس سرزمین پر آپ کو ایک سیدھی لکیر بھی کہیں دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ ایک آدمی بھی ایسا موجود نہیں جو غروبِ آفتاب کے حسین منظر کو دیکھ کر اسے کاغذ یا کپڑے پر منتقل کرنے کا خیال اپنے دل و دماغ میں لائے سچ پوچھئے تو اب وہ خوفناک حس ہی مٹ چکی ہے جسے طلبِ حسن کہتے ہیں ، تخلیق حسن کی بات تو الگ رہی۔

ننگی عورتوں کی تصویریں بنائی جاتی تھیں ، ننگی عورتوں کے مجسّمے تراشے جاتے تھے اسی پر موقوف نہیں ۔ ان کو بڑے پیار سے عجائب خانوں میں سجایا جاتا تھا۔ ان کے بنانے والوں کو انعام و اکرام دیئے جاتے تھے۔۔۔ جی ہاں انعام و اکرام۔۔۔ و ظیفے دیئے جاتے تھے، القاب عنائت کئے جاتے تھے کہ واہ مصور صاحب، آپ نے ننگی عورت کی تصویر کیا خوب کھنچی ہے۔۔۔ یہ پستان ۔۔۔ لاحول ولا، میں نے کس چیز کا نام لیا۔۔۔ معاف کیجئے، میں ابھی حاضر ہوا۔۔۔ ذرا کُلّی کر آؤں ۔۔۔

کُلّی کر آیا، لیکن منہ کا ذائقہ ابھی تک خراب ہے۔ معاف کر دیجئے گا مجھے سہواً میرے منہ سے ایک غلیظ چیز کا نام نکل گیا۔ لیکن آپ تو اس کا مطلب نہیں سمجھے ہوں گے کیونکہ جتنے گندے اور خراب لفظ تھے سب کے سب لغات میں سے نکال دیئے گئے ہیں ۔

میں کیا عرض کر رہاتھا؟ ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ اب ایسا کوئی عجائب خانہ موجود نہیں جہاں ننگی تصویریں یا صرف تصویریں جنہیں آرٹ کا نمونہ کہا جاتا تھا۔ دیکھنے میں آئیں ، ایسے جتنے عجائب خانے تھے ان کو فوراً ہی ڈھا دیا گیا اور ملبہ دریاؤں میں ڈال دیا گیا تاکہ ان کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔

عریانی کی وبا صرف تصویروں اور مجسموں ہی تک محدود نہ تھی۔۔۔۔۔۔ شعروں اور افسانوں میں بھی پھیلی ہوئی تھی، وہ غزل اور وہ افسانہ بہت کامیاب تصور کیا جاتا تھا جس میں عورت اور مرد کے جسمانی رشتے پر بحث کی گئی ہو۔ کس قدر مریضانہ ذہنیت کے تھے وہ لوگ۔۔۔ روحانیت کے بارے میں کبھی کچھ سوچتے ہی نہیں تھے۔ زمین کی باتیں کرتے تھے، اوپر سات آسمان پڑے ہیں ۔ اس کا علم ہی نہیں تھا ان کو ۔۔۔ جسم کی بھوک کا سوچتے تھے، روح کی بھوک کیا ہوتی ہے، ان کے فلک کو بھی اس کا پتہ نہیں تھا۔۔۔ اﷲ کا فضل ہے کہ جسم کی بھوک اب بالکل مٹ چکی ہے۔۔۔ اور اﷲ کا فضل شاملِ حال رہا تو صرف روح ہی روح رہ جائے گی اور ہم فانی انسانوں کا جسم سرے سے غائب ہی ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ خس کم جہاں پاک!

کوئی زمانہ تھا کہ سینکڑوں پرچے، ادب کے نام پر شائع ہوتے تھے۔ ان میں لوگوں کا اخلاق بگاڑنے والی ہزاروں تحریریں آئے دن چھپتی تھیں ،۔۔۔ سمجھ نہیں آتا۔ یہ ادب کیا بلا تھی ادب آداب سکھانے کی کوئی چیز ہوتی تو ٹھیک تھا۔ جو کہانیاں ، افسانے، مضمون، نظمیں ، غزلیں ، ادب کا نام لے کر چھاپی جاتی تھیں ۔ ان میں نہ تو چھوٹوں کو بڑوں کا لحاظ کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی اور نہ مغرب زدہ لوگوں کو ڈھیلا لگانے کی ترکیب ہی بتائی جاتی تھی۔ یہ تو ایک بہت بڑا پاکیزہ فن ہے کہ آتے آتے ہی آتا ہے۔ لیکن اتنا بھی نہ تھا کہ عوام کو داڑھی رکھنے اور لبیں کتروانے ہی کی طرف مائل کیا جاتا۔

ادب ان نااہل ہاتھوں میں بس یہ رہ گیا تھا۔۔۔ عورت اور مرد کے جنسی مسائل۔۔۔ لاحول ولاقوۃ۔ انسان کی نفسیات۔ نعوذ باﷲ۔ یعنی ہم فانی انسانوں کی غیر فانی روح تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ حسن و عشق کی داستانیں خوبصورت مناظر کی تعریفیں ، بڑے ہی خوش نما الفاظ میں ۔۔۔ کوئی شام اودھ کی مدح سرائی کر رہا ہے، کوئی صبح بنارس کی، قوس قزح کے رنگوں کو کاغذ پر اُتارتا جا رہا ہے۔ پھولوں ، بلبلوں ، کوئلوں اور چڑیوں پر ہزاروں صفحہ کالے کئے جا رہے ہیں ۔ لیکن صاحبان، سوال تو یہ ہے۔۔۔ تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔

اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ اب کوئی پھول رہا ہے نہ بلبل۔۔۔ پھولوں کا ناس مارا گیا، تو بلبلیں خود بخود دفان ہو گئیں ۔۔۔ اسی طرح اور بہت سی واہیات چیزیں آہستہ آہستہ اس سرزمین سے جہاں ان کے سینگ سمائے چلی گئی ہیں ۔

میں ادب کے متعلق عرض کر رہا تھا، ہاں صاحب میں نے آپ کو بتایا ہی نہیں آخر میں ادب کی ایک بالکل ہی نئی قسم پیدا ہو گئی تھی۔۔۔ اس وقت لوگ کہتے تھے یہ حقیقی ادب ہے۔ یعنی جو کچھ ہم دیکھتے ہیں ۔ بیان کر دیتے ہیں ۔۔۔ غضب خدا کا۔۔۔ غور فرمائیے اگر آپ کو اس وقت خدا نخواستہ چھینک آجائے، تو مجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ میں اس افسوسناک واقعے کو قلم بند کروں اور پھر ادب کے نام سے اسے دوسروں کے سامنے پیش کروں ، چھینک آنا تھی، آ گئی، اب اس حادثے کی تفصیلات میں جانے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ اوّل تو یہ بات ہی سمجھ میں نہیں آسکتی کہ چھینک کے نفسیاتی پہلو کیا ہو سکتے ہیں ؟ فرمائیے ہو سکتے ہیں ؟ ہر چیز اسی ذاتِ پاک کی طرف سے آتی ہے اور اسی کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔

اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ اس نام نہاد ادب اور ان برخود غلط ادیبوں کا اب نام و نشان نہیں رہا۔ کوئی رسالہ چھپتا ہے نہ جریدہ، صحیفہ۔۔۔ نعوذ باﷲ۔۔۔ اس زمانے میں لوگوں کو اتنی جرأت تھی کہ اپنے ذلیل پرچوں کو صحیفے کہتے تھے اور خود کو صحافی۔۔۔ اب تو صاحب کوئی اخبار بھی نظر نہیں آتا۔ حاکم لوگ البتہ کبھی کبھار جب ضرورت پڑے تو ہماری معلومات کے لیے چند سطریں شائع کر دیتے ہیں ۔ اﷲ اﷲ خیر سلاّ۔

اب صرف ایک اخبار حکومت کی طرف سے چھپتا ہے اور آپ جانتے ہی ہیں سال میں ایک آدھ بار جب کہ اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ خبریں ہوتی ہی کہاں ہیں ؟ اب کوئی ایسی بات ہونے ہی نہیں دی جاتی جو لوگ سنیں ، اور آپس میں چہ میگوئیاں کریں ۔ وہ زمانہ تھا۔ لوگ بیکار ہوٹلوں اور گھروں میں یہ لمبے لمبے اخبار لیے گھنٹوں بحث کر رہے ہیں ۔ کون سی پارٹی برسراقتدار ہونی چاہیے۔ کس لیڈر کو ووٹ دینے چاہئے۔ شہر کی صفائی کا انتظام ٹھیک نہیں ۔ آرٹ سکول کھلنے چاہئیں ۔ عورتوں کے مساوی حقوق کا مطالبہ درست ہے یا نادرست اور خدا معلوم کیا کیا خرافات۔

اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ ہماری دنیا ایسے ہنگاموں سے پاک ہے۔ لوگ کھاتے ہیں ، پیتے ہیں ، اﷲ کو یاد کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں کسی کی برائی میں نہ کسی کی اچھائی میں ۔

صاحبان میں سائنس کا ذکر کرنا تو بھول ہی گیا۔۔۔ یہ ادب کی بھی خالہ تھی۔ خدا محفوظ رکھے اس بلا سے۔ نعوذ باﷲ۔ اس فانی دُنیا کو جنّت بنانے کی فکر میں تھے یہ لوگ جو خود کو سائنس دان کہتے تھے۔ ملعون کہیں کے۔۔۔ خدا کے مقابلے میں تخلیق کے دعوے باندھتے تھے۔ ہم مصنوعی سورج بنائیں گے جو رات کو تمام دنیا روشن کرے گا۔ ہم جب چاہیں گے بادلوں سے بارش دوہ لیا کریں گے۔۔۔ ذرا غور فرمائیے، نمرود کی خدائی تھی، جی اور کیا؟ سرطان جیسی لاعلاج اور مہلک بیماری کا علاج ڈھونڈا جا رہا ہے، یعنی ملک الموت کے ساتھ پنجہ لڑانے کی سعی فرمائی جا رہی ہے، ایک صاحب ہیں وہ دور بین لیے بیٹھے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ وہ چاند تک پہنچ جائیں گے ایک سر پھرے بوتلوں اور مرتبانوں میں بچے پیدا کر رہے ہیں ۔ خدا کا خوف ہی نہیں رہا تھا۔ پاجیوں کو۔۔۔ اﷲ کا بڑا فضل ہے کہ یہ سب شیطان ہمارے درمیان سے اُٹھ گئے۔

اب چاروں طرف سکون ہے۔ کوئی ہنگامہ نہیں ، کوئی واردات نہیں ، کوئی شاعر نہیں ، کوئی مصور نہیں زندگی یوں گزر رہی ہے جیسے گزر ہی نہیں رہی قلب کے لیے یہ کتنی اطمینان دہ چیز ہے، لوگ پیدا ہوتے ہیں ، مر جاتے ہیں ، کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ زندگی سے لے کر موت تک ایک بے آواز، صاف شفاف دھارا بہتا چلا جارہا ہے۔ کوئی بھنور ہے نہ بلبلا، لوگ دونوں کناروں کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ٹھنڈی ریت پر لمبی تانے سو رہے ہیں اور کیوں صاحبان! کیا جی نہیں چاہتا کہ اسی طرح سوئے رہیں ۔ حتیٰ کہ جنت میں دودھ کی نہروں کے کنارے ہماری آنکھیں کھلیں ۔۔۔ اوپر دیکھیں ، تو انگور کے خوشے جھک کر ہمارے منہ میں آجائیں اور پھر سو جائیں ۔

یہ ۔۔۔ یہ اخبار کہاں سے آیا؟ ۔۔۔ اوہ ہم سو گئے تھے۔۔۔ سرکاری ڈاکیہ پھینک گیا ہو گا۔۔۔ بڑی دیر کے بعد آیا ہے پرچہ۔۔۔ دیکھیں کیا لکھا ہے۔۔۔ وہ زمانہ بُرا تھا، صاحبان لیکن ایک بات تھی۔۔۔ سنا ہے کہ اخباروں کی لکھائی چھپائی بہت ہی خوبصورت ہوتی تھی۔ لیکن خوبصورتی کا کیا ہے۔۔۔ معاذ اﷲ ۔۔۔ یہ کیا؟

ٹھہرےئے ٹھہریئے۔۔۔ لیکن میری نظریں تو دھوکا نہیں دے رہیں ، جی نہیں صاف پڑھا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ حکومت شش و پنج میں ۔۔۔۔۔۔ مملکت میں ایک آدمی گرفتار کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ گرفتار ؟ ۔۔۔۔۔۔ گرفتار کیا گیا ہے؟۔۔۔ الزام یہ ہے کہ وہ گلی گلی اور کوچے کوچے یہ شور مچاتا پھرتا تھا کہ میں اس مملکت میں نہیں رہنا چاہتا جہاں خدا تو ہے پر شیطان نہیں ہے۔ نعوذ باﷲ۔۔۔۔۔۔ نامہ نگارِ خصوصی کا بیان ہے کہ جب ملزم کو حکامِ بالا کے حضور پیش کیا گیا تو اس نے چلانا شروع کر دیا۔ یہاں جلدی شیطان بلاؤ ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا‘‘۔۔۔ نامہ نگار خصوصی یہ بھی بیان کرتا ہے کہ ملزم نے اپنی صفائی میں یہ انکشاف کیا کہ اس کے قبضے میں حضرت علامہ اقبال ؒ نور اﷲ مرقدہ کا شعر موجود ہے۔ شعر فارسی زبان کا ہے جسے ہم یہاں درج کرتے ہیں ؂

مزی اندر جہان کو ردوتے

کہ یزداں دارد و شیطاں ندارد

لیکن یہ شعر علاّمہ مرحوم کے مطبوعہ کلام میں کہیں بھی موجود نہیں ، حالانکہ وہ حکومت کی نگرانی میں چھاپا جاتا رہا ہے۔۔۔ بالکل درست ہے۔۔۔۔۔۔

ملزم صریحاً چال بازی کر رہا ہے۔۔۔ آگے کیا لکھّا ہے۔۔۔ جی میں پڑھتا ہوں ۔۔۔ الزام کی نوعیت سنگین ہے لیکن حکومت سخت شش و پنج میں ہے کہ ملزم پر مقدمہ کیسے چلائے کیونکہ کوئی عدالت ہی موجود نہیں ۔ مقدمے کی سماعت ہو تو سزا ملنے کی صورت میں اسے رکھا کہاں جائے کیونکہ مملکت میں ایک بھی جیل موجود نہیں ۔۔۔ لیکن سنا ہے کہ حکومت فوراً ہی ایک حوالات ایک عدالت اور ایک جیل تعمیر کرا رہی ہے۔

اﷲ کا بڑا فضل ہے صاحبان کہ حکومت نے معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو سمجھ لیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

    شہید ساز

 

 

میں گجرات کا ٹھیاواڑ کا رہنے والا ہوں ۔ ذات کا بنیا ہوں ۔ پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان کا ٹنٹا ہوا تو میں بالکل بیکار تھا۔ معاف کیجیے گا میں نے لفظ ’ٹنٹا‘ استعمال کیا۔ مگر اس کا کوئی حرج نہیں ۔ اس لیے کہ اردو زبان میں باہر کے الفاظ آنے ہی چاہئیں ۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں ۔

جی ہاں ، میں بالکل بیکار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا سا کاروبار چل رہا تھا۔ جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو ہی جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا اور اِدھر کے آدمی اُدھر اور اُدھر کے اِدھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں ۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کر دوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔

میں تو چلا ہی اس نیّت سے تھا کہ کوئی موٹاکاروبار کروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الاٹمنٹوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مسکہ پالش مجھے آتا ہی تھا۔ چکنی چپڑی باتیں کیں ۔ ایک دو آدمیوں کے ساتھ یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرا لیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تو میں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرنے لگا۔

کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹمنٹوں کے سلسلے میں کافی تگ ودو کرنا پڑی۔ کسی کے مسکہ لگایا۔ کسی کی مُٹھی گرم کی، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی۔ غرضیکہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپّہ چپّہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔

انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی۔ چنانچہ ایک برس کے اندر اندر میں نے لاکھوں روپے پیدا کرلیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی۔ بینک میں بے اندازہ مال پانی۔۔۔ معاف کیجیے گا میں کاٹھیاواڑ گجرات کا روزمرہ استعمال کر گیا۔ مگر کوئی داندہ نہیں ۔ اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں ۔۔۔ جی ہاں ، اﷲ کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چاکر، پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے۔ کارخانے اور دکانیں الگ۔۔۔ یہ سب تھا۔ لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اُڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہیے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟

آدمی ذہین ہوں ، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں ۔ ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا)میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑبڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟

عورت؟۔۔۔۔۔۔ ہو سکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں ۔ جو تھی وہ کاٹھیاواڑ گجرات ہی میں اﷲ کو پیاری ہو گئی تھی۔ لیکن دوسروں کی عورتیں موجود تھیں ۔ مثال کے طور پر اپنے مالی ہی کی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے۔ سچ پوچھئے تو عورت جوان ہونی چاہیے اور یہ ضروری نہیں کہ پڑھی لکھی ہو، ڈانس کرنا جانتی ہو۔ اپّن کو توساری جوان عورتیں چلتی ہیں ۔ (کاٹھیاواڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں )۔

عورت کا توسوال ہی اُٹھ گیا اور دولت کا پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ بندہ زیادہ لالچی نہیں جو کچھ ہے اسی پر قناعت ہے لیکن پھر یہ دل والی بات کیوں پیدا ہو گئی تھی؟

آدمی ذہین ہوں کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دکانیں بھی چل رہی تھیں ۔ روپیہ اپنے آپ پیدا ہو رہا تھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ دل کی گڑبڑ صرف اس لیے ہے کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔

کاٹھیاواڑ گجرات میں تو بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طور پر جب میرا دوست پانڈو رنگ مر گیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر ڈال لیا اور دو برس تک اُس کو دھندا کرنے سے روک رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خریددی۔ تقریباً چالیس روپے اس پر اُٹھ گئے تھے۔ جمنا بائی کو گرمی ہو گئی سالی کو (معاف کیجیے گا) کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا۔۔۔ لیکن پاکستان آکر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا اور دل کی گڑبڑ کی وجہ یہی تھی۔ ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔

میں نے سوچا کیا کروں ؟۔۔۔ خیرات دینے کا خیال آیا۔ لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب ہر شخص بھکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہے، کوئی ننگا۔ کس کس کا پیٹ بھروں ، کس کا انگ ڈھانکوں ؟۔۔۔ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں ، لیکن ایک لنگرخانے سے کیا ہوتا اور پھر اناج کہاں سے لاتا؟ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہوا تو یہ سوال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کر کے دوسری طرف کارِ ثواب کا مطلب ہی کیا ہے؟

گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دُکھ درد سُنے۔ سچ پوچھیے تو ہر شخص دُکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں اور وہ بھی جو اُونچی اُونچی حویلیوں میں رہتے ہیں ۔ پیدل چلنے والے کو یہ دُکھ تھا کہ اس کے پاس کام کا کوئی جوتا نہیں ۔ موٹر میں بیٹھنے والے کو یہ دُکھ تھا کہ اس کے پاس کار کا نیا ماڈل نہیں ۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔

میں نے غالب کی ایک غزل، اﷲ بخشے شولا پوری کی امینہؔ بائی چتلے کر سے سُنی تھی، ایک شعر یاد رہ گیا ہے ؂

کس کی حاجت روا کرے کوئی

معاف کیجیے گا یہ اس کا دوسرا مصرع ہے اور ہو سکتا ہے پہلا ہی ہو۔

جی ہاں ، میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے۔ میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں ۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں ۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیاتو مجھے معلوم ہوا کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکماّ بنا دیا ہے۔ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں ۔ تاش کھیل رہے ہیں ۔ جُگا ہو رہی ہے۔ (معاف کیجیے گا ’جُگا‘ کا مطلب ہے جُوا یعنی قمار بازی) گالیاں بک رہے ہیں اور فوگٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے ہیں ۔ چنانچہ میں اسی نتیجے پر پہنچا کر بھیک دینا ہر گز ہر گز نیکی کا کام نہیں ۔ لیکن پھر نیکی کے کام کے لیے اور کون سا راستہ ہے؟

کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مر رہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچنے پر ارادہ ترک کر دیا۔ پوری سکیم تیار کر چکا تھا۔ عمارت کے لیے ٹنڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کر دیتا اور ٹنڈر اس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پر صرف کروں گا۔ ظاہر ہے کہ ستّر ہزار روپے میں بلڈنگ کھڑی کر دیتا اور پورے تیس ہزار روپے بچا لیتا مگر یہ ساری سکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جوزائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہو گی۔

غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی فالتو آبادی کا ہے۔ لفڑا کا مطلب ہے جھگڑا، وہ جھگڑا جس میں فضیحتا بھی ہو۔ لیکن اس سے بھی اس لفظ کی پوری معنویت میں بیان نہیں کر سکا۔

جی ہاں غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی اس فالتو آبادی کے باعث ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ آسمان بھی ساتھ ساتھ پھیلتا جائے گا۔ بارشیں زیادہ ہوں گی۔ اناج زیادہ اُگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا۔۔۔ کہ ہسپتال بنانا ہرگز ہرگز نیک کام نہیں ۔

پھرسوچا مسجد بنوا دوں ۔ لیکن اﷲ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چلتے کر کا گایا ہوا ایک شعر یاد آ گیا ؂

نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا

وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پُٖل بنا چاہ بنا مسجد و تالاب بنا۔

کسی کم بخت کو نام و نمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اُچھالنے کے لیے پُل بناتے ہیں ، نیکی کا کیا کام کرتے ہیں ؟ خاک! میں نے کہا نہیں یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ عوام بٹ جاتے ہیں ۔

تھک ہار کر میں حج کی تیاریاں کر رہا تھا کہ اﷲ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر میں ایک جلسہ ہوا۔ جب ختم ہوا تو لوگوں میں بدنظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگڈر مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔

میں نے سوچنا شروع کیا۔ سوچنے کے علاوہ میں کئی مولویوں سے ملا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکار ہوتے ہیں انہیں شہادت کا رُتبہ ملتا ہے۔ یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ ہی نہیں ۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کی بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکل اکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔

میں نے اس باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔

چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکر و تردّد اور غمِ روزگار کے بوجھ تلے پسے ہوئے، دھنسی ہوئی آنکھیں بے جان چال، کپڑے تارتار۔ ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح یا تو کسی ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں پڑے ہیں یا بازاروں میں بے مالک مویشیوں کی طرح منہ اُٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں کیوں جی رہے ہیں ۔ کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں ۔ اس کا کچھ پتا ہی نہیں ۔ کوئی وبا پھیلی۔ ہزاروں مر گئے اور کچھ نہیں تو بھوک اور پیاس ہی سے گھل گھل کر مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے، گرمیوں میں سُوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دو آنسو بہا دیے۔ اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔

زندگی سمجھ میں نہ آئی، ٹھیک ہے۔ اس سے حظ نہ اُٹھایا، یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔ وہ کس کا شعر ہے۔ اﷲ بخشے شولا پور کی امیہ بائی چلتے کر کیا درد بھری آواز میں گایا کرتی تھی ؂

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سُسری پر۔

میں نے سوچاکیوں نہ یہ بیچارے، یہ قسمت کے مارے، درد کے ٹھکرائے ہوئے انسان جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں ، اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جو یہاں ان کی طرف نگاہ اُٹھانا پسند نہیں کرتے وہاں ان کو دیکھیں اور شک کریں ۔ اس کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہوں ۔

اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے؟ میں نے سوچا، کیوں نہیں ۔ وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوقِ شہادت نہیں ۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوؤں اور سکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت نااُمیدی ہوئی جب میں نے ایک مریل سے آدمی سے پوچھا۔ ’’کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟‘‘ توا س نے جواب دیا ’’نہیں ‘‘۔

سمجھ میں نہ آیا کہ وہ آدمی جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اُسے بہت سمجھایا کہ دیکھو بڑے میاں زیادہ سے زیادہ زیادہ تم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے۔ چلنے کی تم میں سکت نہیں ۔ کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تک تمہارے پاس نہیں ۔ زندگی بھر تم نے سُکھ نہیں دیکھا۔ مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا پھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کر کے یہیں بازار میں یا ڈیرے میں جہاں تم رات کو سوتے ہو، اپنی شہادت کا بندوبست کر لو۔ اس نے پوچھا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا۔ ’’یہ سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے۔ فرض کر لیا جائے کہ تم اس پر سے پھسل جاؤ۔۔۔ ظاہر ہے کہ تم مر جاؤ گے اور شہادت کا رُتبہ پاؤ گے۔‘‘ پر یہ بات اُس کی سمجھ میں نہ آئی کہنے لگا ’’میں کیوں آنکھوں دیکھے کیلے کے چھلکے پر پاؤں دھرنے لگا۔۔۔ کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں ‘‘۔۔۔ اﷲ اﷲ کیا جان تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ۔ جھریوں کی گٹھری!!

مجھے بہت افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا۔ جب میں نے سُنا کہ وہ کمبخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رُتبہ اختیار کر سکتا تھا۔ خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چارپائی پر کھانستا کھنگارتا مر گیا۔

ایک بڑھیا تھی منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت۔ آخری سانس لے رہی تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ ساری عمر غریب کی مفلسی اور رنج و غم میں گزری تھی۔ میں اُسے اُٹھا کر ریل کے پاٹے پر لے گیا۔ معاف کیجیے گا۔ ہمارے یہاں پٹری کو ’پاٹا‘کہتے ہیں ۔ لیکن جناب جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی ہوش میں آ گئی اور کُوک بھرے کھلونے کی طرح اُٹھ کر بھاگ گئی۔

میرا دل ٹوٹ گیا۔ لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری۔ بنیے کا بیٹا اپنی دھُن کا پکا ہوتا ہے۔ نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا، میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔

مغلوں کے وقت کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا۔ اس میں ایک سواِ کا ون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ بہت ہی خستہ حالت میں ۔ میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیا اور اس میں ایک ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دیے۔ دو مہینے کرایہ وصول کیا، ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسا کہ میرا اندازہ تھا۔ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہی اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے… شہید ہو گئے۔

وہ جو میرے دل پر بوجھ بوجھ سا تھا کسی قدر ہلکا ہو گیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی کم بھی ہو گئے۔ لیکن انہیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔۔۔ ادھر کا پلڑا بھاری ہی رہا۔

جب سے میں یہی کام کر رہا ہوں ۔ ہر روز حسبِ توفیق دو تین آدمیوں کو جامِ شہادت پلا دیتا ہوں ۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں ، کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا ہی پڑتی ہے۔ اﷲ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر ایک شعر گایا کرتی تھی۔ لیکن معاف کیجیے گا وہ شعر یہاں ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ کچھ بھی ہو، کہنا یہ ہے کہ مجھے کافی محنت کرنا پڑتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا وجود چھکڑے کے پانچویں پہیّے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا۔ جامِ شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے۔ لیکن موت کی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روز جا کر وہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پِھسلا اور شہید ہوا۔

آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں ۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے۔ دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتّر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرا لیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑاڑا دھم گِر پڑے گی۔ کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایا ہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری اُمید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ پرلے درجے کا گناہگار ہے۔ جس کی شہادت اﷲ تبارک و تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

    خدا کی قسم

 

 

اِدھر سے مسلمان اور اُدھر سے ہندو ابھی تک آ جا رہے تھے۔ کیمپوں کے کیمپ بھرے پڑے تھے۔ جن میں تل دھرنے کے لیے واقعی کوئی جگہ نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ان میں ٹھونسے جا رہے تھے۔ غلّہ ناکافی ہے۔ حفظانِ صحت کا کوئی انتظام نہیں ۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں اس کا ہوش کس کو تھا۔ ایک افراط و تفریط کا عالم تھا۔

سن اڑتالیس کا آغاز تھا۔ غالباً مارچ کا مہینہ۔ اِدھر اوراُدھر دونوں طرف رضاکاروں کے ذریعے سے مغویہ عورتوں اور بچوں کی برآمدگی کا مستحسن کام شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں مرد، عورتیں ، لڑکے اور لڑکیاں اس کارِ خیر میں حصہ لے رہے تھے۔ میں جب ان کو سرگرمِ عمل دیکھتا تو مجھے بڑی تعجب خیز مسّرت حاصل ہوتی۔ یعنی خود انسان، انسان کی برائیوں کے آثار مٹانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ جو عصمتیں لُٹ چکی تھیں ان کو مزید لوٹ کھسوٹ سے بچانا چاہتا تھا۔ کس لِئے؟… اس لئے کہ اس کا دامن مزید دھبّوں اور داغوں سے آلودہ نہ ہو۔۔۔؟ اس لیے کہ وہ جلدی جلدی اپنی خون سے لتھڑی ہوئی انگلیاں چاٹ لے اور اپنے ہم جنسوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر روٹی کھائے؟۔۔۔ اس لئے کہ وہ انسانیت کا سوئی دھاگا لے کر جب تک دوسرے آنکھیں بند کئے ہیں ، عصمتوں کے چاک رُفو کر دے؟

کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ لیکن ان رضاکاروں کی جدوجہد پھر بھی قابلِ قدر معلوم ہوتی تھی۔

ان کو سینکڑوں دُشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہزاروں کھیکڑ ے تھے جو اُنہیں اُٹھانے پڑتے تھے۔ کیونکہ جنہوں نے عورتیں اور لڑکیاں اُڑائی تھیں ، سیماب پاتھے۔ آج اِدھر کل اُدھر۔ ابھی اس محلے میں ، ابھی اُس محلے میں اور پھر آس پاس کے آدمی بھی ان کی مدد نہیں کرتے تھے۔

عجیب عجیب داستانیں سننے میں آتی تھیں ۔ ایک لیاژاں افسر نے مجھے بتایا کہ سہارنپور میں دو لڑکیوں نے پاکستان میں اپنے والدین کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ دوسرے نے بتایا کہ جب جالندھر میں زبردستی ہم نے ایک لڑکی کو نکالا تو قابض کے سارے خاندان نے اسے یوں الوداع کہی جیسے وہ ان کی بہو ہے اور کسی دُور دراز سفر پر جا رہی ہے۔۔۔ کئی لڑکیوں نے راستے میں والدین کے خوف سے خود کشی کر لی۔ بعض صدموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہو چکی تھیں ۔ کچھ ایسی بھی تھیں جن کو شراب کی لت پڑ چکی تھی۔ ان کو پیاس لگتی تو پانی کی بجائے شراب مانگتیں اور ننگی گالیاں بکتیں ۔

میں ان برآمد کی ہوئی لڑکیوں اور عورتوں کے متعلق سوچتا تو میرے ذہن میں صرف پھولے ہوئے پیٹ اُبھرتے۔ ان پیٹوں کا کیا ہو گا۔ ان میں جو کچھ بھرا ہے اس کا مالک کون ہے۔۔۔ پاکستان یا ہندوستان؟

اور وہ نو مہینے کی باربرداری۔۔۔۔۔۔ اس کی اُجرت پاکستان ادا کرے گا یا ہندوستان؟ کیا یہ سب ظالم فطرت یا قدرت کے بہی کھاتے میں درج ہو گا؟۔۔۔۔۔۔ مگر کیا اس میں کوئی صفحہ خالی رہ گیا ہے؟

برآمدہ عورتیں آ رہی تھیں ۔ برآمدہ عورتیں جا رہی تھیں ۔

میں سوچتا تھا کہ یہ عورتیں مغویہ کیوں کہلائی جاتی تھیں ۔ انہیں اغوا کب کیا گیا ہے؟۔۔۔ اغوا تو ایک بڑا رومانٹک فعل ہے، جس میں مرد اور عورتیں دونوں شریک ہوتے ہیں ۔ یہ تو ایک ایسی کھائی ہے جس کو پھاندنے سے پہلے دونوں روحوں کے سارے تار جھنجھنا اُٹھتے ہیں ۔ لیکن یہ اغوا کیسا ہے کہ ایک نہتّی کو پکڑ کر کوٹھری میں قید کر لیا۔

لیکن وہ زمانہ ایسا تھا کہ منطق، استدلال اور فلسفہ بیکار چیزیں تھیں ۔ ان دنوں جس طرح لوگ گرمیوں میں بھی دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے سوتے تھے اسی طرح میں نے بھی اپنے دل و دماغ کی سب کھڑکیاں دروازے بند کر دیے تھے حالانکہ انہیں کھلا رکھنے کی زیادہ ضرورت اِسی وقت تھی… لیکن میں کیا کرتا… مجھے کچھ سُوجھتا نہیں تھا۔

برآمدہ عورتیں آر ہی تھیں ۔ برآمدہ عورتیں جا رہی تھیں ۔

یہ درآمد اور برآمد جاری تھی۔ تمام تاجرانہ خصوصیات کے ساتھ!

اور صحافی افسانہ نگار اور شاعر اپنے قلم اُٹھائے شکار میں مصروف تھے۔ لیکن افسانوں اور نظموں کا ایک سیلاب تھا جو اُمنڈتا چلا آ رہا تھا۔ قلموں کے قدم اُکھڑ اُکھڑ جاتے تھے۔ اتنے صید تھے کہ سب بوکھلا گئے تھے۔

ایک لیاژاں افسر مجھ سے ملا۔ کہنے لگا ’’تم کیوں گُم سُم رہتے ہو؟‘‘

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔

اس نے مجھے ایک داستان سنائی

’’مغویہ عورتوں کی تلاش میں ہم مارے مارے پھرتے ہیں ۔ ایک شہر سے دوسرے شہر۔ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں پھر تیسرے گاؤں ۔ پھر چوتھے۔ گلی گلی، محلے محلے ، کوچے کوچے، بڑی مشکلوں سے گوہرِ مقصود ہاتھ آتا ہے۔‘‘

میں نے دل میں کہا۔ ’’کیسے گوہر ۔۔۔ گوہر ناسفتہ۔۔۔ یا سفتہ؟‘‘

’’تمہیں معلوم نہیں ، ہمیں کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔ لیکن میں تمہیں ایک بات بتانے والا تھا۔۔۔ ہم بارڈر کے اس پار سینکڑوں پھیرے کر چکے ہیں ۔ عجیب بات ہے کہ میں نے ہر پھیرے میں ایک بڑھیا کو دیکھا۔ ایک مسلمان بڑھیا کو۔۔۔ ادھیڑ عمر کی تھی۔۔۔ پہلی مرتبہ میں نے اسے جالندھر کی بستیوں میں دیکھا۔ پریشان حال، ماؤف دماغ۔ ویران ویران آنکھیں ۔ گردوغبار سے اَٹے ہوئے بال، پھٹے ہوئے کپڑے۔ اسے تن کاہوش تھا نہ مَن کا۔ لیکن اس کی نگاہوں سے یہ صاف ظاہر تھا کہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں ۔

مجھے ۔۔۔ بہن نے بتایا کہ یہ عورت صدمے کے باعث پاگل ہو گئی ہے۔ پٹیالہ کی رہنے والی ہے۔ اس کی اکلوتی لڑکی تھی جو اسے نہیں ملتی۔ ہم نے بہت جتن کئے ہیں اسے ڈھونڈنے کے لیے مگر ناکام رہے ہیں ۔ غالباً بلوؤں میں ماری گئی ہے مگر یہ بڑھیا نہیں مانتی۔

دوسری مرتبہ میں نے اس پگلی کو سہارنپور کے لاریوں کے اڈے پر دیکھا۔ اس کی حالت پہلے سے کہیں زیادہ ابتر اور خستہ تھی۔ اس کے ہونٹوں پر موٹی موٹی پپڑیاں جمی تھیں ۔ بال سادھوؤں کے سے بنے تھے۔ میں نے اس سے بات چیت کی اور چاہا کہ وہ اپنی موہوم تلاش چھوڑ دے، چنانچہ میں نے اس غرض سے بہت سنگدل بن کر اس سے کہا۔

’’مائی تیری لڑکی قتل کر دی گئی تھی۔‘‘

پگلی نے میری طرف دیکھا۔

’’قتل ؟ ۔۔۔۔۔۔نہیں ‘‘۔

اس کے لہجے میں فولادی تیقُّن پیدا ہو گیا۔

’’اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا۔‘‘

اور وہ چلی گئی۔ اپنی موہوم تلاش میں ۔

میں نے سوچا… ایک تلاش اور پھر موہوم!۔۔۔ لیکن پگلی کو کیوں اتنا یقین تھا کہ اس کی بیٹی پر کوئی کرپان نہیں اُٹھ سکتی۔ کوئی تیز دھارچھرا اس کی گردن کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ کیا وہ امر تھی ۔۔۔ یا کیا اس کی ممتا امر تھی۔۔۔ مامتا تو خیر امر ہوتی ہے پھر کیا وہ اپنی مامتا ڈھونڈ رہی تھی۔ کیا اس نے اسے کہیں کھو دیا۔۔۔؟

تیسرے پھیرے پر میں نے اُسے پھر دیکھا۔ اب وہ بالکل چیتھڑوں میں تھی۔ قریب قریب ننگی۔ میں نے اس کو کپڑے دےئے مگر اس نے قبول نہ کئے۔

میں نے اس سے کہا۔ ’’مائی میں سچ کہتا ہوں تیری لڑکی پٹیالے ہی میں قتل کر دی گئی تھی۔‘‘

اس نے پھر اسی فولادی تیقّن کے ساتھ کہا۔ ’’تو جھوٹ کہتا ہے‘‘۔

میں نے اس سے اپنی بات منوانے کی خاطر کہا۔ ’’نہیں میں سچ کہتا ہوں ۔ کافی رو پیٹ لیا ہے تم نے۔۔۔ چلو میرے ساتھ میں تم کو پاکستان لے چلوں گا‘‘۔

اس نے میری بات نہ سُنی اور بُڑبَڑانے لگی۔ بُربَڑاتے ہوئے ایک دم چونکی۔ اب اس کے لہجے میں تیقّن فولاد سے بھی زیادہ ٹھوس تھا۔

’’نہیں ۔۔۔ میری بیٹی کو کوئی قتل نہیں کر سکتا!‘‘

میں نے پوچھا۔ ’’کیوں ؟‘‘

بڑھیا نے ہولے ہولے کہا۔ ’’وہ خوبصورت ہے۔ اتنی خوبصورت ہے کہ اسے کوئی قتل نہیں کر سکتا۔ اسے طمانچہ تک نہیں مار سکتا‘‘۔

میں سوچنے لگا۔ ’’کیا واقعی وہ اتنی خوبصورت تھی؟۔ ہر ماں کی آنکھوں یں اس کی اولاد چندے آفتاب چندے مہتاب ہوتی ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے وہ لڑکی درحقیقت خوبصورت ہو۔ مگر اس طوفان میں کونسی خوبصورتی ہے جو انسان کے کھردرے ہاتھوں سے بچی ہے۔ ہو سکتا ہے پگلی اس خیالِ خام کو دھوکا دے رہی ہو۔ فرار کے لاکھوں راستے ہیں ۔ دُکھ ایک ایسا چوک ہے جو اِردگرد لاکھوں بلکہ کروڑوں سڑکوں کا جال بُن دیتا ہے۔‘‘

بارڈر کے اس پار کئی پھیرے ہوئے۔ ہر بار میں نے اس پگلی کو دیکھا۔ اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔ بینائی کمزور ہو چکی تھی۔ ٹٹول ٹٹول کر چلتی تھی مگر اس کی تلاش جاری تھی۔ بڑی شدّومد سے اس کا یقین اسی طرح مستحکم تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے… اس لیے کہ… اسے کوئی مار نہیں سکتا۔

بہن نے مجھ سے کہا کہ اس عورت سے مغز ماری فضول ہے۔ اس کا دماغ چل چکا ہے بہتریہی ہے کہ تم اسے پاکستان لے جاؤ اورپاگل خانے میں داخل کرا دو۔

میں نے مناسب نہ سمجھا۔ اُس کی موہوم تلاش جو اُس کی زندگی کا واحد سہارا تھی، میں اس سے چھیننا نہیں چاہتا تھا۔ میں اسے ایک وسیع و عریض پاگل خانے سے ،جس میں وہ مِیلوں کی مسافت طے کر کے اپنے پاؤں کے آبلوں کی پیاس بجھا سکتی تھی، اٹھا کر ایک مختصر سی چار دیواری میں قید کرانا نہیں چاہتا تھا۔

آخری بار میں نے اسے امرتسر میں دیکھا۔ اس کی شکستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اسے پاکستان لے جاؤں گا اور پاگل خانے میں داخل کرا دوں گا۔

وہ فریدچوک میں کھڑی اپنی نیم اندھی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ چوک میں کافی چہل پہل تھی۔ میں ۔۔۔ بہن کے ساتھ ایک دکان پر بیٹھا ایک مغویہ لڑکی کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ جس کے متعلق ہمیں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ بازار صبونیاں میں ایک ہندو بنئے کے گھر موجود ہے۔ یہ گفتگو ختم ہوئی تو میں اُٹھا کہ اس پگلی سے جھوٹ سچ کہہ کر اسے پاکستان جانے کے لیے آمادہ کروں کہ ایک جوڑا اُدھر سے گزرا۔ عورت نے گھونگھٹ کاڑھا ہوا تھا۔ چھوٹا ساگھونگھٹ۔ اس کے ساتھ ایک سکھ نوجوان تھا۔ بڑا چھیل چھبیلا۔ بڑا تندرست اور تیکھے تیکھے نقشوں والا۔

جب وہ دونوں اس پگلی کے پاس سے گزرے تو نوجوان ایک دم ٹھٹک گیا۔ اس نے دو قدم پیچھے ہٹ کر عورت کا ہاتھ پکڑ لیا۔ کچھ اس اچانک طور پر کہ لڑکی نے اپنا چھوٹا سا گھونگھٹ اُٹھایا۔ لٹھّے کی دھُلی ہوئی سفید چادر کے چوکھٹے میں مجھے ایک ایسا گلابی چہرہ نظر آیا، جس کا حسن بیان کرنے سے میری زبان عاجز ہے۔

میں ان کے بالکل پاس تھا۔ سکھ نوجوان نے اس حُسن و جمال کی دیوی سے اس پگلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔ ’’تمہاری ماں !‘‘

لڑکی نے ایک لخطے کے لیے پگلی کی طرف دیکھا اور گھونگھٹ چھوڑ لیا اور سکھ نوجوان کا بازو پکڑ کر بھنچے ہوئے لہجے میں کہا: ’’چلو…‘‘

اور وہ دونوں سڑک سے ذرا ادھر ہٹ کر تیزی سے آگے نکل گئے۔ پگلی چلائی۔ ’’بھاگ بھری۔ بھاگ بھری!‘‘

وہ سخت مضطرب تھی۔۔۔ میں نے پاس جا کر اس سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے مائی…؟‘‘

وہ کانپ رہی تھی۔ ’’میں نے اس کو دیکھا ہے۔۔۔ میں نے اس کو دیکھا ہے۔‘‘

میں نے پوچھا : ’’کسے؟‘‘

اس کے ماتھے کے نیچے دو گڑھوں میں اس کی آنکھوں کے بے نور ڈھیلے متحرک تھے۔ ’’اپنی بیٹی کو۔۔۔ بھاگ بھری کو!‘‘

میں نے پھر اس سے کہا۔ ’’وہ مرکھپ چکی ہے مائی۔‘‘

اس نے چیخ کر کہا۔ ’’تم جھوٹ کہتے ہو!‘‘

میں نے اس مرتبہ اس کوپورا یقین دلانے کی خاطر کہا۔

’’خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں … وہ مر چکی ہے!‘‘

یہ سنتے ہی وہ پگلی چوک میں ڈھیر ہو گئی۔

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید