ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
خاں صاحب
ظریف دہلوی
پیشکش: مجلس ادبیات عالیہ اردو محفل
ٹائپنگ: محمد عمر، مومن فرحین، سید عاطف علی، گلِ یاسمین
ظریف دہلوی کی افسانہ نگاری
’’کہانی سناؤ‘‘ کی فرمائش کا آغاز اس وقت ہوا جب انسان نے بولنا شروع کیا۔ جب سے اب تک اس فرمائش میں کبھی فرق نہیں آیا۔ بچوں کا تو خیر یہ ایک دلچسپ مشغلہ ہے ہی لیکن بڑوں کو بھی کہانیوں کی دھن رہتی ہے۔ آخر بڑا آدمی ایک بڑا بچہ ہی تو ہوتا ہے۔ چڑیا چڑے کی کہانی سے لے کر آج تک کے مختصر افسانے تک ہزاروں سال بیت چکے ہیں۔ اور ہزاروں ہی قسم کی کہانیاں کہی گئی ہوں گی۔ جیسے جیسے بولیاں زبانیں بنتی گئیں ان کا ادب بھی درجہ بدرجہ ترقی کرتا گیا اور اس کے اصول و قواعد منضبط ہوتے گئے۔ ادب زندگی کے پہلو بہ پہلو رہتا ہے اور زندگی کی عکاسی کرتا ہے / تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ادب میں بھی ارتقا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ زندگی کی طرح ادب کے بھی ان گنت پہلو نکل آئے۔ ان میں سے ایک جو سب سے زیادہ مقبول اور سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہے وہ ہمارا جدید افسانہ ہے۔ یہ کہانی کی ایک باقاعدہ شکل ہے جو مقر رہ اصولوں کے تحت وجود میں آئی ہے اور اس کی عمر ربع صدی سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بھی کہانی ہی کا ایک روپ ہے جو داستانوں اور ناولوں کے چولے بدلتے بدلتے اس ہئیت کو پہنچا ہے اور اب ایک جداگانہ فن سمجھا جاتا ہے۔ راشد الخیری اور پریم چند اس نئے فن کے بانی ہیں اور ان کے بعد سینکڑوں فن کار ہیں جنھوں نے اسے پروان چڑھایا۔
اردو افسانہ نگاری میں مزاحیہ افسانہ مرزا عظیم بیگ چغتائی کی اختراع ہے۔ ان سے پہلے اردو میں مزاح بھی موجود تھا اور افسانہ بھی۔ لیکن مزاحیہ افسانہ چغتائی سے پہلے کسی نے نہیں لکھا۔ ہماری قدیم داستانوں میں مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ خصوصاً فسانۂ آزاد میں۔ لیکن داستان سرائی ایک علیٰحدہ فن ہے جو دم توڑ رہا ہے۔ زمانے نے اس کے سر سے قدر دانی کا ہاتھ اٹھا لیا۔ مصروفیات سے بھری ہوئی زندگی کا تقاضہ کچھ اور ہے اس لئے داستان نویسی معدوم ہوئی اور داستان گوئی بھی ماضی کو سونپی جا رہی ہے۔ ہاں تو مزاحیہ افسانہ مرزا عظیم بیگ چغتائی کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اپنی دس سال کی مختصر ادبی زندگی میں ہمارے مزاحیہ لٹریچر کو مالامال کر دیا۔ ان کی دیکھا دیکھی دس پانچ اور اہلِ قلم بھی اس نئی صنفِ ادب کی طرف متوجہ ہوئے جن میں سے مرزا فرحت اللہ بیگ دہلوی اور شوکت تھانوی کامیاب و با مراد ہوئے۔ یہ سب 1930ء کی پیداوار ہیں۔ اسی زمانہ میں قاضی عباس حسین ظریف دہلوی بھی مزاحیہ افسانے کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے لکھے ہوئے چند افسانے بہت مقبول ہوئے۔ اس سے پہلے بھی ظریف صاحب کو افسانہ نگاری کا شوق تھا لیکن سنجیدہ یا غمناک افسانے لکھتے تھے۔ اس زمانے کا تقاضہ یہی تھا۔ راشد الخیری غم کی تصویریں پیش کر رہے تھے اور پریم چند بھی دکھی زندگی کی عکاسی کر رہے تھے۔ جب چغتائی نے گدگدانا شروع کیا تو سب لکھنے والے کھلکھلانے لگے۔ انھی ہنسنے ہنسانے والوں میں سے ایک قاضی عباس حسین ظریف دہلوی بھی تھے جن کی شخصیت اور فن کے بارے میں مجھے آپ سے کچھ مختصراً عرض کرنا ہے۔
ظریف صاحب 1905ء سے پوسٹل آڈٹ دہلی میں ملازم تھے۔ 1942ء میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ حساب جیسے دماغ سوزی کے کام کے باوجود ان کی شگفتہ مزاجی ان کے جاننے والوں کے لئے ایک معمہ ہی بنی رہی۔ بچوں میں بچے اور بڑوں میں بڑے بنے رہے۔ نہایت بذلہ سنج اور رونق کے آدمی ہیں۔ جہاں بیٹھ جاتے ہیں اپنے لطائف و ظرائف سے سب کو لوٹن کبوتر بنا دیتے ہیں۔ دلّی والے ہیں اس لئے ٹکسالی اردو گھر کی لونڈی ہے۔ لیکن ادب سے دلچسپی رکھنے کی وجہ سے ان کی زبان اور بھی چٹخارے دار بن گئی ہے۔ دلّی کے اکثر بزرگوں کی آنکھیں دیکھے ہوئے ہیں اس لئے علمِ مجلسی سے کماحقہ واقف ہیں اور برمحل فقرہ طرازی اور برجستہ گوئی کا خاص ملکہ رکھتے ہیں۔ بولی ٹھولی، ضلع جُگت، پھبتی بھٹی، ہنسی مذاق سب میں مشّاق ہیں لیکن اس خوبی کے ساتھ کہ دل آزاری کا پہلو کبھی نہیں آنے پاتا۔ لکھنے پڑھنے کا شوق اوائل عمر سے ہے۔ 1922ء سے نظم و نثر دونوں میں قلم کی جولانیاں دکھا رہے ہیں۔ ان کی ادبی کاوشوں سے اکثر ماہنامے مزیّن ہوتے رہتے ہیں۔
ظریف صاحب کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہی زبان لکھیں جو بولتے ہیں۔ چاہے نظم ہو چاہے نثر۔ اس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ’’روحِ تبسم‘‘ ان کی منظومات کا مجموعہ ہے جس میں غزل، قطعے، مسدّس، تضمینیں، رباعیاں اور نظمیں وغیرہ سبھی کچھ ہیں۔ اسے کہیں سے کھول کر پڑھ لیجئے، یہی معلوم ہو گا کہ کوئی آپ سے باتیں کر رہا ہے۔ اتنی آسان اور ہلکی پھلکی زبان چند غزلوں میں تو آپ کو اکثر شعرا کے ہاں مل جائے گی لیکن ہمیشہ اسی طرز میں طبع آزمائی کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہو سکا۔ آسان زبان لکھنی کس قدر مشکل ہے، اس کا جواب ان سے پوچھئے جنھوں نے یہ پاپڑ بیلے ہوں
ذوقِ ایں بادہ ندانی بخدا تا نہ چشی
یہی حال ان کی نثر کا ہے کہ دلّی کی عام بول چال میں افسانے لکھے ہیں۔ ابو الکلامی اردو سے ظریف صاحب کو سخت نفرت ہے، یہ اسے سرے سے اردو ہی نہیں مانتے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ جب اردو ہی کے الفاظ سے سارے مفہوم ادا ہو سکتے ہیں تو عربی اور فارسی کے نامانوس الفاظ سے پڑھنے والوں کو کیوں زحمت دی جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ آسان زبان لکھنی مشکل ہے اس کے لئے بڑی مشق و مزادلت کی ضرورت ہے۔ اس کتاب کے ہر افسانے میں آپ یہ خوبی پائیں گے کہ عبارت ایسی رواں ہے کہ آپ کا تخیل کہیں نہیں الجھے گا اور اس میں کہیں وہ پستی بھی نہیں آئے گی جس سے آپ کی خوش مذاقی کو ٹھیس لگے۔
ظریف دہلوی نے ہر قسم کے افسانے لکھے ہیں لیکن اس مجموعہ میں صرف مزاحیہ افسانے شامل ہیں۔ 1936ء میں "عروسِ ادب ” کے نام سے ان کے سنجیدہ اور مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ شائع ہوا تھا۔ یہ کتاب چھپنے کے تھوڑے ہی عرصہ بعد ختم ہو گئی تھی۔ دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کا خیال ظریف صاحب نے ملتوی کر دیا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ علیٰحدہ ہی شائع کیا جائے۔ چنانچہ اس عرصہ میں آپ نے کئی افسانے لکھے اور اب ایک کتاب کا مواد پورا ہونے پر انھیں شائع کیا جا رہا ہے۔ اس مجموعے میں صرف تین افسانے "عروسِ ادب” کے شامل ہیں۔ باقی بارہ افسانے بعد کے لکھے ہوئے ہیں۔
مزاح نگاری ایک نہایت نازک فن ہے۔ کسی کو اس طرح ہنسانا کہ خود اپنی ہنسی نہ اڑے، یا کوئی ایسی بات کہنا جو اخلاق یا شائستگی سے گری ہوئی نہ ہو اور اسے سن کر ہنسی بھی آئے، ایک دشوار فن ہے۔ ایک ذرا سی لغزش سے مزاح کا لطف کِرکِرا ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ مذاق کے بھونڈے پنے سے سُننے والے کو اپنی جگہ پر اور لکھنے والے کو اپنی جگہ پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے اور اکثر لینے کے دینے بھی پڑ جاتے ہیں۔ ظریف صاحب کو مزاح سے فطری مناسبت ہے۔ ان کی خوش طبعی ان کی زندگی کے ہر شعبے میں کارفرما رہتی ہے۔ دفتر میں، دوستوں میں، گھر میں، باہر ہر جگہ اور ہر ایک سے چُہل کرنا ان کی عادت میں داخل ہے۔ یہی شوخی ان کی تحریروں میں بھی ڈھل گئی ہے۔ جس طرح ان کی گفتگو نہایت محتاط ہوتی ہے اُسی طرح ان کی تحریر بھی ابتذال سے پاک ہوتی ہے۔ ظریف صاحب طرزِ بیان اور واقعات سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ احساسِ عُجب پیدا کرنا مزاح کا کام ہے اور ہمیں ہنسی ایسی ہی انہونی باتوں پر آتی ہے۔ مثلاً ایک بھلا مانس کہتا ہے:
’’میں تو اس شکنتلا کا ذکر کر رہا ہوں جو ہندوستان کا مایہ ناز شاعر تھا جس نے کالی داس کا ناٹک لکھ کر اردو شاعری کو چار چاند لگا دئیے‘‘ (خانصاحب)
یہ ’آنکس کہ نداند و براند کہ بداند‘ کی توجیہہ ہے جسے پڑھ کر اس جہلِ مرکب پر بے ساختہ ہنسی آ جاتی ہے۔
افسانہ نگاری میں واقعہ نگاری کو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے تاثیر کا عنصر بڑھتا ہے۔ ہمارے عام افسانہ نگار اس خوبی کا بہت کم خیال رکھتے ہیں کہ جیسا ان کی کہانی کا کردار ہو وہ زبان بھی ویسی ہی بولے۔ اردو زبان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دو طرح کی زبانیں شامل ہیں۔ ایک مردوں کی دوسری عورتوں کی۔ عورتوں کے لئے ایک طرزِ گفتگو مخصوص ہے جس کے محاورے بھی جداگانہ ہیں۔ ظریف صاحب نے اس کا خاص اہتمام کیا ہے کہ ان کا ہر کردار اپنے طبقے اور اپنی صنف کی زبان بولتا ہے۔ مثلاً
’’بیگم کھانا نکالتی جاتی تھیں اور بڑبڑاتی جاتی تھیں نوج کسی کے گھر کے مردوے ایسے مومنا چومنا ہوں، ان موئے کمینوں کو سر ہی پر چڑھا لیا ہے اور کوئی ہوتا تو اس نامراد کے ایسے جوتے لگاتا کہ یاد کرتی۔ ان سے ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کی جاتی۔ ہم کیا کریں۔‘‘
دلّی کی زبان باہر والوں کی یورش سے بہت کچھ مٹ گئی۔ اوّل تو ہنگامۂ 1857 ہی میں دلّی ایسی برباد ہوئی کہ یہاں کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور جتنے دلّی والے تھے وہ یا تو پھانسیاں پا گئے یا جان بچانے کے لئے در بدر خاک بسر ہوئے۔ جب دوبارہ امی جمی ہوئی تو بقول غالبؔ دلّی پنجابی کٹڑہ بن گئی۔ یہاں کی تہذیب کے ساتھ وہ ٹکسالی زبان بھی بہت کچھ مٹ گئی جس کے متعلق داغؔ نے دعویٰ کیا تھا؎
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستان میں دھوم ہماری زبان کی ہے
لال قلعہ کی تو کوکھ ہی اجڑ گئی اور دلّی کا سہاگ ایسا لُٹا کہ پھر اس کے وہ اچھے دن نہیں آئے۔ اور گو یہاں پہلے سے بھی زیادہ چہل پہل ہو گئی۔ بھانت بھانت کا آدمی اس شہر میں سما گیا اور دلّی اتنی بڑھی کہ اس کے پہلو میں ایک پورا نیا شہر نئی دلّی کے نام سے آباد ہو گیا۔ اور اس کی آبادی دس گنی ہو گئی لیکن دلّی نہ تو تہذیب کا گہوارہ بن سکی اور نہ لسانی اعتبار سے وہ درجہ حاصل کر سکی جو غدر سے پہلے اسے حاصل تھا۔ تاہم اس پَچ میل تہذیب کے زمانے میں بھی چند پرانے خاندان دلّی والوں کے باقی ہیں جن کی تہذیب اور زبان دہلی مرحوم کی یاد تازہ کرتی ہے۔ ظریف صاحب ایک ایسے ہی خاندان کے ممتاز فرد ہیں۔ دلّی کی زبان سے انھیں والہانہ شیفتگی ہے۔ اس کا ثبوت ان کے مضامین سے ملتا ہے۔ جن میں گھریلو زندگی کے مرقعے نہایت صحت کے ساتھ پیش کئے گئے ہیں۔ ایک بیوی اپنے میاں سے یوں ناراضگی ظاہر کرتی ہے:
’’جھوٹ تو میں جانتی ہی نہیں۔ پر اتنا جانتی ہوں کہ آپ کو میری ہر بات زہر لگتی ہے۔ میں تو منہ میں قفل ڈال کے بھی بیٹھ جاؤں مگر گھر اوندھا ہو جائے گا۔ اس لئے بولنا ہی پڑتا ہے۔ نوج کوئی اس طرح ذرا ذرا سی بات پر بگڑے۔ دنیا میں آخر سبھی کے گھروں میں بیویاں ہیں۔ سبھی کچھ اپنے اپنے میاؤں کو کہہ لیتی ہیں۔ آپ جیسا فلسفی نوج کوئی ہو کہ منہ سے بات نکالنی دشوار ہے۔‘‘ (فلسفی میاں)
یہ وہ پُر لطف اور پُر خلوص نوک جھونک ہے جس کے بغیر زندگی اجیرن ہو جائے۔ ان چٹ پٹی باتوں سے زندگی میں وہ مزہ پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے گھر سے محبت کرتا ہے۔ دلّی کی ایک غریب جاہل عورت کو دیکھئے کس طرح اپنے میاں کا شکوہ کر رہی ہے۔
’’بھائی یہ نہیں جانے کے۔ نہیں جانے کے۔ میں انھیں خوب جانتی ہوں۔ پیسے پھینک آتے ہیں اور پھر کیا مجال جو چیز واپس کر آئیں۔ پیسے کا ذرا درد نہیں۔ ایک کی جگہ چار خرچ کرتے ہیں اور چیز نکمی اٹھا لاتے ہیں۔ پھر لاکھ سمجھاؤ، سر پٹکو، کبھی جو واپس کرنے جائیں۔ اپنی لائی ہوئی چیز کی الٹی سیدھی تعریفیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بس تواہی (تباہی) مجھ نامراد کی جان پر آتی ہے۔ خبر نہیں۔ کس کس طرح من مار کے دو پیسے بچاتی ہوں وہ یوں آگ لگ جاتے ہیں۔‘‘ (خانصاحب کی قربانی)
کرفیو آرڈر کے زمانے میں عجیب و غریب لطائف سننے میں آتے ہیں۔ ظریفؔ سے بھلا ہنسی مذاق کی یہ باتیں کیسے چھپ سکتی تھیں۔ انھیں ایک دلچسپ مضمون کا مواد مل گیا۔
’’داروغہ جی: بڑے میاں آپ نکلے کیوں تھے؟
بڑے میاں: ہم تو نماز کو جا رہے تھے سپاہی یہاں لے آئے۔ بہتیرا کہا کہ ارے نماز تو پڑھ لینے دو، پھر ہی لے چلنا۔ ہم کہیں بھاگے تھوڑی ہی جاتے ہیں۔ مگر یہ کس کی سنتے ہیں۔ فرعون بنے ہوئے ہیں۔ ہماری نماز بھی گئی۔ ہائے آج تک بیماری میں بھی قضا نہ ہوئی تھی۔
داروغہ جی: نماز تو چھ بجے کے بعد ہوتی ہے۔ آپ چھ بجے سے پہلے نکلے ہی کیوں تھے۔ آپ کو معلوم نہیں کہ چھ بجے تک کا کرفیو ہے۔
بڑے میاں: ہمارے پاس گھڑی تھوڑے ہی ہے۔ اذانیں ہو گئیں۔ اللہ کی طرف سے آوازیں آئیں ’حی علی الصلوۃ‘ ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔‘‘ (کرفیو آرڈر)
جذبات نگاری میں بھی ظریف صاحب ’’شعوری، غیر شعوری اور تحت الشعوری‘‘ ثقیل اصطلاحات سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بس وہی کہہ دیتے ہیں جو سب پر بیت چکی ہے۔ اس لئے ان کے پڑھنے میں ایک تو دماغ پر بار نہیں پڑتا۔ دوسرے دل پر فوراً اثر ہوتا ہے۔ نفسیاتی کیفیات اس طرح بھی بیان کی جا سکتی ہیں:
’’جب خاصی رات ہو گئی اور میاں نہ آئے تو ذرا پریشانی ہوئی۔ آٹھ بجے، نو بجے، دس بج گئے تو دل میں پنکھے لگ گئے۔ بے اوسان ہو گئیں۔ رو رو کر دعائیں مانگنے لگیں۔ اپنے اوپر نفرین کرنے لگیں کہ میں نے میاں کو کسی مصیبت میں پھنسا دیا۔ کچھ نہ کچھ افتاد ضرور پڑی ہے جو اب تک نہیں آئے۔ وہ تو رُکنے والے تھے ہی نہیں۔ وہ ان ہی خیالات میں تھیں کہ کسی نے کُنڈی کھٹکھٹائی۔ یہ دروازے پر گئیں تو معلوم ہوا شاہی پیادے ہیں۔ پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔‘‘ (کرامت شاہ)۔
اس نتھری سُتھری اردو میں ظریف صاحب نے اپنے سارے افسانے لکھے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی شاعری کی طرح ان کی نثر نگاری بھی مقبولیت عام حاصل کرے گی۔ آج کل جبکہ اردو اور ہندوستانی کا جھگڑا سارے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے، ایک ایسی زبان کی ضرورت ہے جسے ہندو مسلمان پڑھے لکھے اور جاہل سب یکساں طور پر سمجھ سکتے ہوں۔ اس گتھی کو سلجھانے میں ظریف صاحب کی لکھی ہوئی زبان بہت کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی وہ زبان ہے جو مُلک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سمجھی جاتی ہے۔ اگر ہمارے ادیب اس آسان اردو کو ایک معیاری نمونہ بنا لیں تو ہندی اردو، ہندو مسلمان اور کانگریس اور مسلم لیگ کے لسانی اختلافات مٹ سکتے ہیں۔
میں ظریف صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے نہ صرف دل کش افسانے لکھے ہیں بلکہ عام زبان کا ایک قابلِ تقلید نمونہ پیش کر کے ایک بڑی خدمت انجام دی ہے۔
شاہد احمد دہلوی
مورخہ 8 فروری 1947ء
گذارش
میرے خُسر اور بہترین معلم مولوی اشرف حسین صاحب بڑی قابلیت کے بزرگ تھے مگر نام و نمود سے کوسوں دور تھے۔ مولا راشد الخیری مرحوم ان کے حقیقی ماموں زاد بھائی تھے اور یہ حقیقت ہے کہ اُن ہی کے فیضِ صحبت سے عبد الراشد صاحب ’راشد الخیری‘ بن گئے۔ مولوی اشرف حسین صاحب سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے دو ہی برس بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔ میرا زیادہ وقت مرحوم کی خدمت میں گزرتا تھا اور ہر وقت زبان و بیان کی خوبیاں اور نکات کانوں میں پڑتے رہتے تھے۔ یہ مرحوم کی جوتیوں کا صدقہ ہے کہ مجھے بھی کچھ ٹوٹے پھوٹے جملوں کو جوڑ کر یکجا کرنا آ گیا۔ مرحوم ہلکی پھلکی سیدھی سادی اردو کے عاشق تھے۔ ٹھوس اور ثقیل الفاظ کی آمیزش سے دور بھاگتے تھے۔ مجھے بھی پگڈنڈی مرحوم بتا گئے اُسی پر چلتا رہا ہوں اور چلتا رہوں گا۔
اتنا اور عرض کر دینے کی ضرورت سمجھتا ہوں کہ 1936ء میں میرے چودہ افسانوں کی کتاب ’عروسِ ادب‘ کے نام سے چھپی تھی۔ اوّل تو اس کا نام ہی ایسا تھا کہ پڑھنے یا سننے والے کے دماغ میں ایک ٹھوس ادبی کتاب کا تصور قائم ہو جاتا تھا۔ دوسرے یہ بات تھی کہ اس میں مزاحیہ اور سنجیدہ دونوں طرح کے افسانے تھے۔ میں نے بجائے اس کے کہ اسی کا دوسرا ایڈیشن چھپواتا اب یہ کیا ہے کہ اس کے تین مزاحیہ افسانے (ولی کامل، انجمن خدام ادب اور ہماری عید) اس کتاب میں شامل کر لئے اس طرح یہ کتاب سر تا پا مزاحیہ افسانوں کی ہو گئی ہے۔ سنجیدہ افسانوں کی ایک اور کتاب ’نیلم کی انگوٹھی‘ کے نام سے زیرِ طبع ہے۔ جس میں کچھ افسانے ’عروسِ ادب‘ کے ہیں اور کچھ نئے۔
ظریف دہلویؔ 21 فروری 1947ء
٭٭٭
خانصاحب
ہمارے خاں صاحب بھی ماشاء اللہ ہیں بڑی خوبیوں کے آدمی۔ زندہ دل، ہر وقت ہنسنے ہنسانے والے، اڑاتے رہتے ہیں بے پر ہی کی اور اسی کے ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ ان کی ہر بات پر آمنا صدقنا کہے جائیں تو خوش ہیں اور جو ذرا بھی مخالفت کی تو پھر آئیں تو جائیں کہاں۔ پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پھر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی پرانا ملنے جلنے والا ہے، بچہ ہے، بڑا ہے، امیر ہے یا غریب ہے، جان کو آ جاتے ہیں۔ مجھ پر ذرا مہربان ہیں۔ وہ اس لئے کہ میں بزرگ سمجھ کر ان کا ایک آدھ کام کر دیا کرتا ہوں۔ کوئی خط آیا تو پڑھ دیا یا کچھ لکھ لکھا دیا۔ پھر بھی ان کی نظریں دیکھتا رہتا ہوں کہ کہیں بگڑ گئے تو سنبھالے نہیں سنبھلیں گے۔ ایک دن میں نے انھیں بہت ہی خوش اور بشاش دیکھ کر کہا:
’’خانصاحب! کئی دن سے ایک بات پوچھنے کا ارادہ کر رہا ہوں مگر ڈر لگتا ہے‘‘
’’کاٹ کھاؤں گا نا‘‘ خانصاحب نے بغیر دانتوں کا غار سا منہ کھول کر قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’میں تو جناب کو انسان سمجھتا ہوں ” میں نے عاجزی سے کہا۔
"آدمی کہو آدمی۔ انسان آج کل کہاں دھرے ہیں۔ خانصاحب نے فلاسفرانہ شان سے پیشانی پر شکن ڈال کر کہا۔
"نہیں خانصاحب! آپ انسان ہیں پورے انسان۔ میں نے یقین دلانے کے طور پر لفظ ’’پورے‘‘ پر زور ڈال کر کہا۔
’’پھر وہی بات۔ میاں کہہ تو دیا انسان آج کل گھِس لگانے کو بھی نہیں آدمی بھی دنیا میں کم ہی ہوں گے۔‘‘
’’یہ کیا فرمایا خانصاحب آدمی کم ہیں۔ چاندنی چوک جیسے لمبے چوڑے بازار میں تو کھوے سے کھوا چھِلتا ہے۔ اور آپ فرماتے ہیں کہ آدمی کم ہیں یہ بات کچھ دماغ میں نہیں بیٹھی خانصاحب۔‘‘
میں نے اپنے چہرے پر آثارِ سراسیمگی پیدا کرتے ہوئے کہا۔
’’اب یہ تم نئی بحث چھیڑ بیٹھے۔ آؤ لگے ہاتھوں اس کو بھی سمجھاتے چلیں۔‘‘ خانصاحب نے افیم کی چُسکی لگاتے ہوئے کہا۔ ’’میاں میرے بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔‘‘ ایک ریوڑی منہ میں ڈال کر۔۔۔ ’’یوں تو ہونے کو سب ہی آدمی ہیں۔ مگر زیادہ تر محض صورت شکل کے لحاظ سے آدمی ہیں۔ سیرت اور افعال کے لحاظ سے جانور۔ نِرے جانور بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔ جانور بیچاروں کو یہ باتیں کہاں نصیب جو یہ حضرت آدمی کرتے رہتے ہیں۔ دیکھو! میاں میرے بات یہ ہے کہ۔۔۔۔‘‘ یہ خانصاحب کا تکیہ کلام ہے۔۔ ’’آدمی آخر آدمی ہی ہے۔ فرشتہ تو ہے نہیں۔ اس سے خطائیں بھی ہوتی ہیں لغزشیں بھی ہوتی ہیں۔ گناہ بھی ہوتے ہیں اس لئے کہ اللہ میاں نے اس کے اندر جذبات بھی تو بھر رکھے ہیں۔ بس تو بات یہ ہے کہ جو انسان ان جذبات کو کچل کر سلامت روی سے نکل گیا وہی امتحان میں پاس ہوا اور انسان بنا اور جو ان میں کہیں الجھا کہیں بچا کہیں گرا کہیں سنبھلا وہ بھی خیر آدمی ہے اور جو ان آلائشوں میں گھِر کر رہے گا اور جس نے کبھی ضمیر کا کہا نہ کیا وہ آدمی نہیں آدمی کی شکل میں کسی طرح کا جانور ہے۔ کون سا جانور ہے؟ یہ اس کے افعال اور کردار پر منحصر ہے۔ تو بات یہ ہے کہ اس ترازو میں لوگوں کو تولو۔ اس کانٹے میں جانچو اور اس کسوٹی پر کسو تو معلوم ہو گا کہ یہ تو سب کے سب اتنے سارے آدمی نظر آ رہے ہیں ان میں سے در اصل بڑی تعداد آدمی کی شکل کے جانوروں کی ہے۔ ہاں تو وہ تم کیا بات پوچھ رہے تھے؟‘‘ خان صاحب نے گنّا چھیلتے ہوئے کہا۔
’’آپ کا اسمِ مبارک مرزا قربان علی بیگ خاں ہے؟‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
’’اس میں دریافت طلب کون سی بات ہے۔ سب ہی جانتے ہیں۔‘‘ خان صاحب نے ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آپ مرزا ہیں یا خان۔ یعنی مغل ہیں یا پٹھان؟‘‘ میں نے جی کڑا کر کے کہہ دیا۔
’’تمہاری سمجھ تو ہمالیہ پہاڑ کے نیچے دب گئی، اس نے عرصہ سے ہمیں دیکھ رہے ہو آخر کیا اندازہ لگایا تم نے۔ تمہاری نظروں میں ہم مرزا جی جچتے ہیں یا خان؟‘‘ خان صاحب نے تن کر کہا جتنا ان سے پچپن برس کی عمر میں تنا گیا۔
’’ایمان کی بات تو ہے کہ آپ پور پور خان جچتے ہیں؟‘‘ میں نے اپنی آنکھوں میں تعریف کی چمک پیدا کر کے کہا۔
’’تو پھر ہم خان ہی ہیں۔ ہر کہ شک آدر کافر گردد۔‘‘ خان صاحب نے ریوڑی گھُلاتے ہوئے ہنس کر کہا۔
’’بیشک بیشک آپ خان تو ہیں ہی مگر اک ذرا سی بات یہ ہے کہ آپ کے نام کے الفاظ مرزا اور بیگ چغلی کھا رہے ہیں۔‘‘ میں نے بھی ہنس کر کہا۔
’’اچھا یہ بات ہے۔ آپ کو بھی ان ہی سے مغالطہ ہوا؟‘‘ خان صاحب نے گردن کو جھٹکا دے کر کہا۔
’’جی ہاں۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔
’’میاں میرے، سنو، بات یہ ہے کہ یہ سب تعظیمی الفاظ ہیں۔ موٹی سی اور سیدھی سادی مثال تو میں یہ دیتا ہوں کہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ تعظیم کا لفظ خان ہے۔ تم کہو گے کہ سید سب سے زیادہ قابلِ تعظیم ہیں۔ تو بات یہ ہے کہ تم حالات اور واقعات سے اپنی بات کو وزنی نہیں بنا سکتے۔ تم روز مرہ دیکھتے رہتے ہو کہ مغل ہے تو شیخ ہے تو اور سید ہے تو، پٹھان بننے پر ہی اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔ پٹھان ہی بننے کی فکر میں دن رات غلطاں پیچاں ہے۔ اسی کے لئے لوگوں کی خوشامد درآمد کرتا پھرتا ہے۔ ہزاروں روپے خرچ کر کے میونسپل کمشنر بنتا ہے۔ پھر ڈپٹی کمشنر کی کوٹھی کے تاوے کاٹتا ہے، دعوتیں دیتا ہے، سوغاتیں پہنچاتا ہے اور آخر کار خان صاحب بن جاتا ہے۔ اور اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ خان بہادر بن کر دم لیتا ہے اور بھئی بات یہ ہے کہ ہم سے جو پوچھو تو بہادر تو کیا وہ تو نِرا خان بھی نہیں بنتا جس میں بہادری نہ ہو۔ جس میں غصّہ نہ ہو جس کے بدن میں خون جوش نہ مارتا ہو، جس کا خوامخواہ اُلجھ پڑنے کو دل نہ چاہے، جو ذرا سی بات پر مرنے مارنے کو تیّار ہو جائے جو ہر وقت ماش کے آٹے کی طرح اینٹھتا رہتا ہو وہ خان نہیں، خان کی کاغذی تصویر ہے۔ اور ناموں کا کیا ہے جو ماں باپ نے رکھ دیے وہی عمر بھر کے لیے ہو گئے۔ میاں بات یہ ہے کہ نام فقط پہچان کے لئے ہوا کرتے ہیں کہ سمجھنے سمجھانے میں آسانی ہو۔ ورنہ آدمی افعال سے، عادات سے پہچانا جاتا ہے۔ تم ہی ایمان سے کہو سیّدوں کو شراب پیتے نہیں دیکھا؟ سارے ہی کام کرتے ہیں پھر سیّد کے سیّد۔ تو ایسے سیّدوں کو تم سردار سمجھو تو سمجھو ہم تو سرے سے انہیں مسلمان ہی نہیں سمجھتے۔ اب تمہاری بات کا جواب دیتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ ماں باپ نے تو مرزا قربان علی بیگ نام رکھا۔ ہم نے اپنی طبیعت میں صلاحیت دیکھ کر اور اندازہ لگا کر لفظ خان اور بڑھا دیا۔ ہم پٹھان وٹھان تو جانتے نہیں۔ ہاں، اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہم خان ہیں بلکہ خان بہادر۔ روپیہ خرچ کرتے تو سرکاری خان بہادر بن جاتے مگر نقلی۔ اب غیر سرکاری ہیں اور اصلی۔ ہمارے اس عمر بھر کے یہ دم خم ہیں کہ تم جیسے چار چیتھڑے بھی مقابلہ پر آ جائیں تو ہم دم بھر میں دھجیاں اڑا دیں۔ دھجیاں!‘‘ خان صاحب نے گرجتے ہوئے اپنی تقریر ختم کی۔
اس گفتگو کے بعد چونکہ خان صاحب کا پارہ ذرا تیز ہو گیا تھا میں نے ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور چپ چاپ کھسک آیا۔ اب تک جو گفتگو خان صاحب کی آپ نے سُنی اس سے آپ نے ان کو مردِ معقول سمجھا ہو گا، ان کی یہ باتیں تھیں بھی وزنی۔ مگر اب جو لکھتا ہوں اسے پڑھ کر آپ بھی چکرا جائیں گے۔ میری خود اپنی سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ خان صاحب در اصل معقول آدمی ہیں اور محض تفنن طبع کے لئے ایسی باتیں کرنے لگتے ہیں جو میں اب لکھ رہا ہوں یا بیٹھے بٹھائے ایک دم سے ان کے دماغ کی کوئی چول ڈھیلی ہو جایا کرتی ہے۔ بہرحال آپ سنئے۔
خان صاحب کی بیٹھک میں آٹھ دس نئی روشنی کے لوگ جمع ہیں۔ بیچ میں خان صاحب تشریف فرما ہیں۔ سامنے حقّہ رکھا ہے۔ ہاتھ میں افیون کی پیالی ہے۔ ایک طشتری میں ریوڑیاں رکھی ہوئی ہیں۔ دو تین پوریاں گنّے کی بھی موجود ہیں۔ افیون گھولتے جاتے ہیں، ایک دو کش حقّہ کے لگائے، ایک چسکی افیون کی لی، دو تین ریوڑیاں منہ میں ڈالیں۔ گھلاتے جاتے ہیں۔ گنّا چھیلتے جاتے ہیں۔ مزے مزے کی باتیں کر رہے ہیں، سب ہنس رہے ہیں۔ خان صاحب ہیں کہ نہایت متانت و سنجیدگی کے ساتھ بیٹھے رموز و نکات بیان فرما رہے ہیں۔
’’خان صاحب! یہ ہار رت اور ماروت کون تھے؟‘‘ میرے دوست اصفر نے پوچھا۔
’’یہ دونوں الفاظ ہار اور مار سے نکلے ہیں۔ ایران کے سب سے بڑے شاعر بزرجمہر نے اپنے دیوان جامِ خم میں بڑی تشریح کے ساتھ یہ واقعہ لکھا ہے کہ جب محمود غزنوی نے اپنی فوج لے کر ایران پر چڑھائی کی تو اس وقت لڑائی کا قاعدہ تھا کہ ایک ایک آدمی دونوں فوجوں سے نکل کر آتا تھا۔ پہلے اپنے کان کو ہاتھ لگا کر زمین چھوتا تھا۔ فریقِ ثانی سے گلے مل کر خوب روتا تھا۔ پھر لڑنا شروع کر دیتا تھا۔ اس وقت جو ہار جاتا تھا اسے ’ہاروت‘ کہتے تھے اور جو دوسرے کو مار دیتا تھا اسے ’ماروت‘ کہتے تھے۔ تو محمود کی فوج میں اس وقت ایک حبشی ملک کافور تھا جس نے پینتالیس آدمی یکے بعد دیگرے مارے تھے۔ وہ اس زمانے کا ماروت مشہور ہوا اور ہاروت تو جتنے ہارے، یعنی مارے گئے سب ہی تھے۔‘‘
’’خان صاحب! ہم نے تو سنا ہے کہ ہاروت اور ماروت دو فرشتے تھے جو زہرہ طوائف سے عشق کرنے کی بدولت چاہِ بابل میں اُلٹے لٹکائے گئے تھے۔‘‘ میرے دوست قدیر نے کہا۔
’’اوہو! تم اس واقعہ کی طرف اشارہ کر رہے ہو! میاں بات یہ ہے کہ بات کو توڑ مروڑ کر یہ لکھنے والے چاہے جو کچھ لکھ دیں اور پڑھنے والے جو کچھ سمجھ لیں۔ مگر سینہ بہ سینہ علم کی کیا بات ہے۔ سچی باتیں تمہیں ہم نہ بتائیں گے تو اور کون بتانے آئے گا۔ لو سنو! امریکہ کے لوگ بڑے جیوٹ اور جی دار ہوتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے پاس ایک کنواں ہے۔۔۔‘‘
’’امریکہ میں کون سا ہانگ کانگ ہے۔‘‘ قدیر نے حیران ہو کر کہا۔
’’تمہاری بات کاٹنے کی عادت بہت بُری ہے جی۔‘‘ خان صاحب نے جھڑک کر کہا ’’میں خود ہی سب کچھ بتا دیتا۔ اچھا سنو! ہانگ کانگ امریکہ کا دار الخلافہ ہے۔ وہاں ایک کنواں ہے بہت گہرا۔ اتنا گہرا کہ دنیا کے دوسری طرف پھُوٹ نکلا ہے۔ وہاں کے آدمی ایسے جیوٹ ہوتے ہیں کہ کبھی ہمالیہ کی چوٹی پر چڑھ جاتے ہیں، کبھی زمین کے شمالی سرے پر جا پہنچتے ہیں۔ مرتے بھی ہیں لنگڑے لولے بھی ہو جاتے ہیں مگر باز نہیں آتے۔ تو دو آدمی اس کنویں میں رسّی پکڑ کر اُترے۔ دو تین میل تک تو رسّی کے سہارے سہارے اُترتے رہے اور ختم ہوئی تو انہوں نے ہاتھ چھوڑ دیے۔ ایک رات اور ایک دن متواتر چلتے رہے۔ تیسرے دن صبح کو چاہِ بابل کے کنویں میں سے کچھ عورتیں پانی بھر رہی تھیں جو ایک کی ٹانگ سے ڈول میں پھنسی اور دوسرے کی دوسری عورت کے ڈول میں۔ وہ عورتیں چلّائیں تو مرد آ گئے اور دونوں کو اُلٹا ہی کھینچ لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نکلے دونوں بابل ہی کے کنویں میں سے تھے اور اُلٹے مگر یہ حسن و عشق کا قصّہ! یہ سب کا سب شاعری ہے۔ کوری شاعری۔ میں ایسی لغو باتوں کو نہیں مانتا۔‘‘
’’اور خان صاحب! یہ یاجوج ماجوج کون تھے؟‘‘ میرے دوست مسعود نے دریافت کیا۔
’’اس باب میں مختلف روایات ہیں۔‘‘ خان صاحب نے افیون کی چُسکی لیتے ہوئے کہا۔ ’’بزرجمہر نے اپنے ’جام خم‘ میں لکھا ہے کہ جب افراسیاب کی فوج نے دارا کی فوج پر حملہ کیا تو دارا شکست کھا کر بھاگا۔ اس لئے کہ افراسیاب کی فرج میں دو عفریت یاجوج اور ماجوج بھی تھے جنہوں نے دارا کی فوج کے آدمیوں کو گھوڑوں سمیت کچا ہی کھانا شروع کر دیا تو دارا بیچارا بھاگا اور بچی کھچی فوج کے ساتھ بغداد شریف پہنچا۔ وہاں جا کر حضرت سلیمان علیہ السلام سے فریاد کی۔ اتنے میں افراسیاب کی فوج بھی بغداد شریف پہنچ گئی۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو تو اللہ نے بڑی طاقت بخشی تھی۔ ان کے تو جنات تابع تھے۔ بس انہوں نے یاجوج ماجوج دونوں عفریتوں کو پکڑ کر ایک غار میں قید کر دیا اور افراسیاب سے دارا کا سارا ملک واپس دلوا دیا۔ بلکہ تاوان میں ایران کا وہ حصّہ بھی دلوا دیا جسے آج کل ترچناپلی کہتے ہیں۔ تو ان دونوں یاجوج ماجوج کو ایک غار میں بند کر کے اُسے ایک بڑی سی سِل سے ڈھک دیا اور اس پر اسم اعظم دم کر دیا۔ کہتے ہیں کہ یہ دونوں اس وقت سے اب تک اندر ہی اندر زمین کھودتے چلے جا رہے ہیں جب کوئی بڑا سا پہاڑ راستے میں آ جاتا ہے اور اسے یہ دونوں زور لگا کر ہلاتے ہیں تو ساری زمین ہل جاتی ہے اور زلزلہ آ جاتا ہے جسے تم لوگ بھونچال کہتے ہو اور۔۔۔۔‘‘
’’اچھا تو خان صاحب یہ زلزلے اس وجہ سامنے آیا کرتے ہیں؟‘‘ میرے دوست حمید نے پوچھا۔
’’اور تم کیا سمجھتے ہو کہ زمین گائے کے سینگ پر ہے اور جب وہ گائے سینگ بدلتی ہے تو زمین ہل جاتی ہے اور زلزلہ آ جاتا ہے۔ میں ایسی لغو اور فضول باتوں کو نہیں مانا کرتا۔ ہاں تو ایک دن وہ آئے گا جب یہ دونوں یاجوج اور ماجوج زمین سے باہر نکل آئیں گے اور بس جب ہی قیامت آ جائے گی۔‘‘
’’سبحان اللہ سبحان اللہ! خان صاحب آپ تو بحر العلوم ہیں۔ کیسے کیسے تاریخی واقعات بیان فرمائے ہیں آپ نے دل خوش ہو گیا۔‘‘ حمید نے جھومتے ہوئے کہا۔
’’خان صاحب کی کیا بات ہے۔ ہر فن میں ہر طرف سے ماہر ہیں۔‘‘ حامد نے کہا۔
’’خان صاحب کسی علم میں بند تھوڑے ہی ہیں۔ تاریخ، جغرافیہ، ریاضی، فلسفہ، علم الارض، علم الافلاک۔ غرض کون سا علم ہے جس میں ہمارے خاں صاحب کو کامل دسترس نہیں۔‘‘ میں نے بظاہر بڑے جوش سے کہا۔
’’ہمارے اصغر بھائی اور حمید بھائی شاعر ہیں۔ ہاں اصغر بھائی وہ سوال خان صاحب سے کیجیے۔ یہ یقیناً آپ کو جوابِ شافی دیں گے۔‘‘ حامد نے ذرا اُونچی آواز سے کہا۔
’’کون سا سوال ہے؟ پوچھو پوچھو۔ شوق سے پوچھو۔‘‘ خان صاحب نے افیم کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
’’آپ کی رائے میں گزشتہ دور کے شعراء میں سب سے قابل کون سا شاعر تھا۔‘‘ اصغر نے سوال کیا۔
’’تم نے ایک چھوٹا سا سوال کر کے میرے تخیلات میں ہیجان برپا کر دیا۔‘‘
خان صاحب نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔ ’’خیر! تم بھی کیا یاد کرو گے۔ لو آج میری شاعری کے متعلق ایسے ایسے فلسفیانہ نکات بتاتا ہوں کہ جس محفل میں چلے جاؤ گی نام پاؤ گے۔ بات یہ ہے کہ میری زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں۔ کیا جانے کب بُلاوا آ جائے۔ سینے پر بوجھ لے جا کر کیا کروں گا۔ لو جو کچھ کہوں اسے کان دھر کر سنو اور گرہ میں باندھ لو۔ سنو تقابل کی غرض سے جب ہم شعرائے ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں صرف ایک دور ایسا نظر آتا ہے جس میں اکھٹے چھ شعراء ایک ہی زمانے میں متفرق ممالک میں ممتاز نظر آتے ہیں۔ اس زمانے کو مورخ لوگ سنہرا زمانہ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر زمانے میں چھوٹے چھوٹے شعرا بھی حشرات الارض کی طرح ہوا کر تے ہیں ان سب سے قطع نظر کر کے اگر ہم صرف بڑے ہی بڑے شاعروں کو لیں جو اپنے اپنے ملکوں میں ممتاز تھے، اور ان کے کلام کو تنقیدی نگاہ سے دیکھیں اور شاعری کے اصولوں اور قواعد و ضوابط کی ترازو میں تولیں، اور زبان و محاورے کی کسوٹی پر کَس لگا کر دیکھیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ کون سا شاعر ہر لحاظ سے سب میں ممتاز تھا۔ اٹھارہویں صدی عیسوی میں یہ چھ شاعر مختلف ممالک میں نامور، ممتاز اور مشہور ہو گزرے ہیں۔ ہومر چین میں، شیکسپیئر اٹلی میں، فردوسی عرب میں، شکنتلا، غالب، اور میر تقی سودا ہندوستان میں۔‘‘
’’ہائیں خان صاحب! شکنتلا کو آپ شاعر فرما رہے ہیں۔ وہ تو عورت تھی۔‘‘ میں نے آنکھیں پھاڑ کر جلدی سے کہا۔
’’تمہیں فغفور چین کی لڑکی کا خیال ہو گا۔ اس کا نام بھی شکنتلا تھا۔ میں اس کا ذکر نہیں کر رہا۔ میں تو اس شکنتلا کا ذکر کر رہا ہوں جو ہندوستان کا مایہ ناز شاعر تھا۔ جس نے کالی داس کا ناٹک لکھ کر اردو شاعری کو چار چاند لگائے۔ جس کے بارِ احسان سے اردو زبان قیامت تک سبکدوش نہیں ہو سکتی۔‘‘ خان صاحب نے جھوم کر کہا۔
’’خان صاحب آپ کیا فرما رہے ہیں؟ شکنتلا شاعر اور کالیداس ناٹک؟ ہم نے تو یہ پڑھا ہے کہ۔۔۔۔‘‘
’’مت بکواس کرو جی۔ تم کیا جانو شاعر کسے کہتے ہیں اور ناٹک کس جانور کا نام ہے۔ جامع المشاعر مطبوعہ نول کشور پریس کے صفحہ ۶۴ پر دیکھو۔ مجھے کتابیں حفظ یاد ہیں حفظ۔‘‘ خان صاحب نے تن کر مونچھوں پر تاؤ دیتے ہوئے فرمایا۔
’’اچھا فرمائیے۔‘‘ میں نے ان کے غصّے سے ڈر کر ہولے سے کہا۔
’’ہومر، شیکسپیئر اور فردوسی ان تینوں کے ہاں گل و بلبل کی شاعری ہے۔ کہیں کہیں قدرتی مناظر کا نقشہ بھی موجود ہے۔ مگر اوّل تو ہمیں یہ موضوع کچھ پسند نہیں۔ دوسرے ان کی زبان غیر تھی۔ ہم اچھی طرح سمجھ ہی نہیں سکتے بھلا آپ ہی فرمایئے فردوسی کی عربی، شیکسپیئر کی لاطینی اور ہومر کی چینی سے ہم کیونکر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مانا کہ تینوں اپنے زمانے کے استاد تھے مگر ہمیں کیا؟ ہم نے تو اس وقت سرسری طور پر ان کا ذکر بھی اس لیے کر دیا کہ جامع المشاعر میں انہیں استاد لکھتا ہے۔ اب رہ گئے تین شاعر جو اپنے ہندوستان کے تھے۔ ان کا کلام اردو میں ہے۔ سبحان اللہ کیا بات ہے صاف ستھری زبان، دلفریب محاورے، موزوں الفاظ، برجستہ مضمون، پاکیزہ ترکیب، مرصع بندشیں جسے دیکھو اپنے رنگ میں نرالا ہے، مست کرنے والا ہے، اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ان سب میں افضل کون ہے اور ان اچھوں میں سے سب سے اچھا چن کر دکھانا ہے۔ تو سنو۔ شکنتلا نے حیدر آباد سندھ سے لے کر راس کماری تک اپنا ڈنکا بجوایا تھا تو غالب نے میرٹھ سے سری نگر تک اور میر تقی سودا نے رائے بریلی سے مرشد آباد تک۔ تینوں ہندوستان کی روح رواں تھے۔ ان کے اشعار سن کر بہتا پانی تھم جاتا تھا۔ یہ لوگ برسات میں شعر پڑھتے تھے تو پرنالوں میں ماہی پشت کا جال بن کر جم جاتا تھا۔ ان کے کلام میں جادو تھا۔ یہ لوگ سانڈوں کو لڑوا دیتے تھے۔ مگر بھئی میں تو یہی کہوں گا کہ غالب غالب ہی تھا، ہر لحاظ سے غالب تھا۔ یہی سر سیّد مرحوم اپنی کتاب ’آثار الصنادید‘ میں لکھا ہے۔ مگر تم یہ نہ سمجھنا کہ میں سر سیّد مرحوم کی رائے سے متاثر ہو کر کہہ رہا ہوں۔ جامع المشاعر پڑھو گے تو تمہاری بھی یہی رائے ہو گی۔‘‘
’’خانصاحب! آج تو آپ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ ایسے ایسے نکات و رموز شاعری کے بیان فرمائے ہیں کہ جی خوش ہو گیا۔ اب جی چاہتا ہے کہ آپ کا بیش بہا کلام بھی سُن کر مستفید ہوں۔‘‘ میں نے منّت سے کہا۔
’’تم میرا کلام کیا خاک سمجھو گے۔ میری راہ سب سے جداگانہ ہے اور پھر ایک کی ایک۔ ہر شخص کہ یہی رائے ہے کہ بڑا اونچا کلام ہے۔ مگر در اصل پلّے کسی کے کچھ نہیں پڑتا۔ اور سب جھک ماو کر کہنے لگتے ہیں کہ مہمل ہے مہمل ہے۔
ارے میاں بات یہ ہے کہ ہم جیسے آدمی کوئی روز روز تھوڑا ہی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بھی خدا جانے کیا اللہ میاں کے جی میں آ گئی تھی جو سر سیّد، منشی ذکا اللہ، ڈپٹی نذیر احمد، محسن الملک، وقار الملک اور ہم جیسے سب کے سب ایک ہی گھان میں بنا ڈالے۔‘‘ خان صاحب نے میری طرف دیکھ کر بڑے فخر سے کہا۔
ہم جتنے آدمی وہاں بیٹھے تھے سب ایک دم سے اُن کے سر ہو گئے۔ تو آخر انہوں نے اپنا کلام بلاغت نظام یوں سنانا شروع کیا:
جب شورِ سلاسل ہونا تھا محبوب سے پردا کیا کرتے
تاریک فضاؤں میں رہ کر ہر گام پہ سجدہ کیا کرتے
جانبازی عاشق حدِّ نظر تک حسن کی فطرت میں شامل
فردوسِ بریں کو ساغر سے ہمدوشِ ثریا کیا کرتے
جلووں کی فراوانی سے جبیں مانوس حوادث کیا ہوتی
جب حسنِ نظر کا ساحل تھا پھر اور مداوا کیا کرتے
اف چاندنی راتوں کی دھڑکن سے جام و سبو بھی غافل تھے
مسحور فضائیں رنگِ شفق تھیں عرضِ تمنّا کیا کرتے
طوفانِ تلاطم خیز میں جب ساحل کی بلندی پر پہنچے
پھر سوزِ درون پردہ کو ہم دیر و کلیسا کیا کرتے
جاں سوز طرب افروز نظر مقبول دو عالم حُسن بشر
ہر شان جبیں آرائی کو ہم محمل لیلےٰ کیا کرتے
صحرا میں بیاباں مثلِ بگولا خاک اُڑاتا پھرتا تھا
تقدیر میں جب تعمیر نہ تھی تخریب میں جھگڑا کیا کرتے
جب چاکِ گریباں کے ہاتھوں یوں خونِ تمنّا ہونا تھا
زنداں کے اسیرِ دستِ اجل کو محوِ تماشا کیا کرتے
طاغوش سے شاعرِ فطرت کو کہتے ہیں کہ ہے یہ مہمل گو
اِن عقل کے اندھوں کو پھر ہم تارِ یدِ بیضا کیا کرتے
ہم سب نے یہ بلند پایہ غزل سُن کر اس قدر تعریف کی کہ سارے گھر کو سر پر اُٹھا لیا۔ چونکہ وقت بہت ہو گیا تھا مجلس برخاست ہوئی۔ سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یار زندہ صحبت باقی!
٭٭٭
ہم کیا کریں
’’دیکھنا ذرا اس کلموئی کی تو جا کر خبر لو۔ کہاں مر گئی؟‘‘
ہم: ’’کون سی کلموئی؟‘‘
بیگم: ’’یہ کم بخت جُمیا کل سے کمانے نہیں آئی، سارا گھر سڑ رہا ہے۔ ذرا جا کے دیکھو تو کیا ہوا؟‘‘
ہم: ’’ہمارے تو دفتر کو دیر ہو رہی ہے۔ تم نے یہ ایک اور کام بتا دیا۔‘‘
بیگم: ’’تم جانو نہ جانو۔ یہ بھی سوچا کہ کمایا نہ جائے گا تو آخر ہو گا کیا؟‘‘
ہم بادل ناخواستہ اُٹھے۔ محلے میں گئے۔ لوگوں سے پوچھا۔ سب نے یہی کہا کہ کل سے ہمارے بھی کمانے نہیں آئی۔ ہم کٹڑے میں گئے، دیکھا کہ بیٹھی مزے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے۔ ہم نے کہا۔
ہم: ’’بھاگوان! تو نے یہ کیا کیا۔ گھر کو سنڈاس بنا دیا؟‘‘
جُمیا: ’’میاں! ہم سے اب اِس محلّے میں نہیں کمایا جاتا۔ تم کوئی اور بندوبست کر لو۔‘‘
ہم: ’’ارے اور بندوبست کیسا؟ تو بات بتا کیا ہے؟‘‘
جُمیا: ’’میاں پرسوں تمہاری بیگم صاب نے مجھے جھاڑوؤں سے مارا۔ لو صاب ایک تو ان کا میلا سر پر اُٹھائے اُٹھائے پھرو اوپر سے مار بھی کھاؤ۔ نا صاحب یہ ہمارے بس کا روگ نہیں۔‘‘
ہم: ’’ارے تو پھر بتا اب کیا ہو گا۔ ہم خود اپنے سر پر اُٹھا اُٹھا کر پھینکیں گے؟‘‘
جُمیا: یہ تو بیگم صاب سے پوچھو جنہوں نے جھاڑوؤں سے مارا ہے۔‘‘
ہم نے بہت دیر تک سمجھایا مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوئی تو گھر آ کر بیوی سے کہا۔
ہم: ’’وہ تو آتی نہیں بیگم۔‘‘
بیگم: ’’آتی کیسے نہیں۔ چُٹیا پکڑ کر لاؤ قطّامہ کی۔‘‘
ہم: ’’یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔‘‘
بیگم: ’’آخر بکتی کیا ہے۔ معلوم تو ہو۔‘‘
ہم: ’’وہ کہتی ہے تم نے پرسوں اُسے جھاڑوؤں سے مارا۔‘‘
بیگم: ’’ہاں ہاں، مارا اور ماروں گی۔ جھاڑوؤں سے مارا! اس کے تو جوتیاں لگاؤں گی جوتیاں۔ لو صاحب، ایک تو دو وقتی کو نہ آئیں۔ فرش دھوئیں اپنی شکل کا، کنستر منگوا کر دیا فرش دھرنے کے لئے۔ کم بخت نے چار دن میں پیندا توڑ دیا۔ پاخانہ دھونے کے لئے پانی لے جاتی ہے تو وہاں جاتے جاتے آدھا کنستر رہ جاتا ہے۔ وہیں باہر سے کھڑے ہو کر جو پھینکتی ہے تو اک ذرا سا پانی اندر جاتا ہے۔ باقی سب باہر ہی گر جاتا ہے۔ اور جو کچھ کہو تو ٹرّانا شروع کر دیتی ہے۔ ایک روپیہ مہینے کا ڈیڑھ کروا لیا اور کام ایسا دلدّر۔‘‘
ہم: ’’تو اب کیا ہو؟‘‘
بیگم: ’’ہو کیا؟ چودھری سے جا کر کہو، اسے ڈانٹو، کمیٹی میں رپٹ کرو۔‘‘
ہم: ’’لا حول و لا قوة! اب میں دفتر جاؤں یا اس جھکندن میں پڑوں۔‘‘
بیگم: ’’تمہیں جھکندن ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں کہتی ہوں کچھ بندوبست نہ کرو گے تو اس گھر میں رہ کیسے سکو گے۔‘‘
ہم: بیگم! ہماری جان تو مصیبت میں آ گئی۔ اس دن تم نے دھوبن کے تھپڑ مار دیا۔ وہ کپڑے پھینک پھانک کر چل دی۔ بڑی منّت خوشامد سے اُسے راضی کیا۔ اب تم نے یہ دوسرا محاذِ جنگ قائم کر دیا۔ میں ہی رہ گیا ہوں ان کمینوں کی خوشامد کرنے کو۔ اچھا تم کھانا تو لاؤ۔ میرے دفتر دیر ہو رہی ہے۔
بیگم کھانا نکالتی جاتی تھیں اور بڑبڑاتی جاتی تھیں۔ ’’نوج کسی کے گھر کے مردودے ایسے ہوں مومنا چومنا۔ ان موئے کمینوں کو سر پر چڑھا لیا ہے اور کوئی ہوتا تو اس نامُراد کے ایسے جوتے لگاتا کہ یاد کرتی۔ ان سے ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کی جاتی۔‘‘
ہم نے جلدی جلدی کھانا کھایا کیا دھکیلا اور دفتر بھاگے۔ اپنی بیگم کی عادت تو جانتے ہی تھے۔ سارے دن خیال لگا رہا کہ خبر نہیں کیا ہو رہا ہو گا۔ یہ اللہ کی بندی کسی کی خاک نہیں مانتی، ہر کسی سے اُلجھ پڑتی ہے۔ خیر دفتر میں کام بھی کرتے جاتے تھے اور دماغ میں ایک چھوٹی سی تقریر بھی تیّار کر رہے تھے کہ بیگم کو سمجھائیں گے، یہ کہیں گے۔ یوں قائل کریں گے۔ آج دفتر سے ذور سویرے سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ گھر پہنچتے ہی سب سے پہلے بیگم کی صورت دیکھی کہ چہرے پر امن و امان کی فضا ہے یا آثارِ برہمی ہیں۔ انہوں نے بھی آنکھیں چار کیں اور نظروں کے سوال کا جواب زبان سے یوں دیا۔
بیگم: ’’کچھ اور بھی سنا تم نے؟‘‘
ہم: ’’کیا ہوا۔ کوئی نیا گُل کھلا لیا؟‘‘
بیگم: ’’وہ سارے محلّے والے بھی تم ہی کو بُرا کہہ رہے ہیں۔‘‘
ہم: ’’مجھے۔ ارے میں نے کیا کیا؟‘‘
بیگم: ’’یہ جُمیا کی بچّی کہتی ہے کہ سارا محلّہ کماؤں گی مگر یہ حویلی نہیں کمانے کی۔ اور یہ محلے والے بھی اُسے ڈانٹنے سے تو رہے اور اُلٹی ہاں میں ہاں
ملاتے ہیں۔‘‘
ہم: ’’یہ تو بُری ہوئی۔‘‘
بیگم: ’’بُری کیسے ہوئی۔ تمہارے منہ میں زبان نہیں ہے۔ کہتے کیوں نہیں جا کر۔‘‘
ہم: ’’بیگم سارا دن تو کاغذوں سے سر مارتے گذرا۔ اب اِن سے سر کھپاؤں۔ کیا مصیبت میں جان آئی ہے۔‘‘
بیگم۔ ’’پہلے زمانے کے بہادر لوگ فوجوں میں گھُس جاتے تھے اور کائی سی پھاڑ کر چلے آتے تھے۔ تم سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ زبان ہی سے لڑ لو۔‘‘
ہم: ’’پہلے زمانے کے لوگ گھی کھاتے تھے اور دودھ پیتے تھے۔ ہم تیل کھاتے ہیں وہ بھی خالص نہیں۔ اور لسّی پینے میں بھی اللہ کی قدرت ہی سمجھو جو دفتر چلے جاتے ہیں اور خیر سے واپس آ جاتے ہیں۔‘‘
بیگم: ’’اچھا پھر اس کا کچھ علاج بھی ہو گا یا نہیں؟‘‘
ہم: ’’ہائے پہلے زمانے کے لوگ کیسے اچھے تھے۔ دیکھنا بیگم! دن پھر روزہ رکھا، اور روزہ بھی کیسا، یہ نہیں کہ اس پر مزاج بگڑ رہا ہے۔ اس پر بک جھک رہے ہیں۔ اسے پکڑ کر ٹھونک دیا۔ دوپہر بھر پڑے سنّاتے رہے۔ اٹھے منہ ہاتھ دھویا، بازار نکل گئے، کیلے چھانٹ رہے ہیں، امرود ہاتھ میں لے کر دیکھ رہے ہیں، انگور خرید رہے ہیں، دو گھنٹے یوں گذار آئے۔ اب بیٹھے ہوئے امرود چھیل رہے ہیں۔ کچالو بنا رہے ہیں بکتے جھکتے بھی جاتے ہیں۔ ہر دم گھڑی پر نظر ہے۔ خدا خدا کر کے مغرب کا وقت ہوا۔ اذان میں دو تین منٹ باقی ہیں۔ یہ اللہ کے نیک بندے، شربت کے پیالے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں۔ ’اس محلے کی دونوں مسجدوں کے گھنٹے پیچھے ہیں۔ بھلا دیکھو تو سہی اندھیرا ہو چلا اور ملّا جی ابھی پڑے اونگھ رہے ہیں اور اس مسجد کا وہ پٹھان مُلا تو ایسا نا معقول ہے کہ پہلے خود روزہ کھول کر اپنا نل بھر لیتا ہے، پھر اذان دینے کھڑا ہوتا ہے۔ جا کر دیکھو تو بیٹھا کھا رہا ہو گا۔ حالانکہ حدیث یہ ہے کہ روزہ افطار کرنے میں جتنی جلدی کی جائے اتنا ہی زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ خیر صاحب خدا خدا کر کے اذان کی آواز کانوں میں آئی۔ پھر جو آستینیں چڑھا کر ڈٹے ہیں تو کبھی پھُلکیوں پر ہاتھ مارتے ہیں، کبھی کچالو اُڑاتے ہیں، کبھی شربت کا گلاس منہ میں انڈیلتے ہیں۔ غرض دو نالی بھر کے اٹھے۔ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے، ڈکاریں لے رہے ہیں، اور اُٹھک بیٹھک کر رہے ہیں۔ خیال کھانے میں لگا ہوا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو مسجدوں میں امام صاحب ڈیڑھ دو گھنٹے تراویحوں میں نہ رگڑیں تو یہ سحری کے ردّے لگاتے لگاتے پانچ چھ ہی دن میں بیمار ہو کر پڑ جائیں۔ ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ پہلے زمانے کے لوگ کیسے اچھے تھے کہ روزہ رکھا، قرآن شریف اور نمازوں میں دن گزرا، اکلِ حلال کی سعئ نیک بھی کرتے رہے۔ افطار کا وقت ہوا، کھجور سے روزہ کھولا اور جو کی روٹی کھا کر عبادت میں مصروف ہو گئے اور اکثر اللہ کے نیک بندے ایسے بھی تھے کہ کھجور سے روزہ کھولا اور بغیر سحری کیے دوسرا روزہ رکھ لیا۔ تو بیگم میرا مطلب یہ ہے کہ آؤ ہم بھی اللہ کے نیک اور پیارے بندے بن جائیں۔ سیر بھر کھجوریں لے آتا ہوں۔ دو دو کھجوریں روز کھا کر روزہ رکھ لیا کریں گے۔ نہ پیٹ میں کچھ رہے گا نہ یہ بھنگن کے نخرے اُٹھانے پڑیں گے اور پھر جنّت کے حقدار ہوئے سو الگ۔‘‘
بیگم: ’’واہ واہ! میں تو سمجھی تھی جنے کیا کچھ دفتر سے سوچ کر آئے ہیں۔ کوئی اچھی سی ترکیب بتائیں گے۔ انہوں نے تو ایک دم سے ولی ہی بنا دیا۔‘‘
ہم: ’’بیگم ذرا غور تو کرو کیسی اچھی بات ہے، کیسی نیک اور پاکیزہ زندگی ہو گی اور پھر ؏
نے غمِ درد نے غم کالا
بیگم: ’’اے بس رہنے دو اپنی بات وات کو۔ بات آئی ہے کہیں کی۔ جاؤ کچھ بندوبست کرو۔‘‘
ہم: ’’بیگم ہم نے جان کر تم سے نہیں کہا تھا کہ تم اور بھی چراغ پا ہو گئی۔ بات اصل میں یہ ہے کہ میں دفتر سے آج اسی مارے جلدی اُٹھ آیا تھا۔ یہاں گھر میں گھسنے سے پہلے میں میر صاحب کے ہاں گیا۔ انہیں ساتھ لے کر شیخ صاحب کے پاس گیا۔ وہاں مرزا جی اور لالجی بھی بیٹھے تھے۔ بہت سی باتیں ہوئیں مگر
؏ مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات‘‘
بیگم: ’’مقطع کیسا؟ اب لگے یہاں بھی شاعری بگھارنے۔ بات کہو بات۔‘‘
ہم: ’’بات کیا کہوں، تم بگڑ جاؤ گی۔‘‘
بیگم: ’’بات تو کہو۔ سیدھی بات پر کیوں بگڑنے لگی۔ ایسی کیا دیوانی ہو گئی ہوں۔‘‘
ہم: ’’سیدھی ہی تو بات نہیں ہے۔ ٹیڑھی ہے۔ جب ہی تو کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔‘‘
بیگم: ’’بس بجھوا چکے پہیلیاں۔ اب کہہ بھی چکو کسی طرح۔‘‘
ہم: ’’بیگم! وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ہر طرح جُمیا کو سمجھایا بجھایا۔ وہ کسی طرح نہیں مانتی۔ اس بات پر اڑ گئی ہے کہ تم معافی مانگو۔‘‘
بیگم: ’’تم کیوں معافی مانگو؟‘‘
ہم: ’’ارے ہم نہیں تم مانگو تم!‘‘
بیگم: (اچھل کر) ’’کیا کہا۔ میں معافی مانگوں، اس چڑیل سے؟ ارے یہ کہا اس نامراد ناشاد نے؟ ذرا لاؤ تو اُسے پکڑ کے میرے پاس۔ ارے تم میری شکل کیا دیکھ رہے ہو؟ ذرا لاؤ تو اس کلموئی کی چُٹیا پکڑ کے میرے سامنے۔ ارے اُٹھو اُٹھو! میرے تن بدن میں آگ لگ رہی ہے اور یہ مزے سے بیٹھے مٹر مٹر دیکھے جا رہے ہیں۔ اُٹھو نا تمہیں ہو کیا گیا ہے؟ سُنتے نہیں۔‘‘
ہم: ’’بیگم! اسی لئے تو میں خاموش تھا۔ تم سے کہتا نہ تھا تم نے میرے حلق میں انگلی ڈال کے بات نکال لی۔ اب کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اُدھر بھی تریاہٹ ہے ادھر بھی تریاہٹ۔‘‘
بیگم: ’’اب تو میں ایک منٹ بھی اس محلّے میں نہیں ٹھہر سکتی۔ دوسرا مکان لے لو، یہاں سے اُٹھ چلو۔‘‘
ہم: ’’مکان بھی کیا دُکانوں پر ملتے ہیں کہ گئے اور لے آئے۔ تمہیں کچھ خبر بھی ہے کہ دلّی میں مکانوں پر کیا آفت آئی ہوئی ہے۔ اچھے اچھے شریف اور پڑھے لکھے بابو لوگ بڑی بڑی تنخواہ والے چھوٹے چھونے مکانوں میں چھ چھ مل کر رہ رہے ہیں اور بال بچّوں کو وطن میں چھوڑ رکھا ہے۔ تم کہتی ہو کہ دوسرا مکان لے لو۔ کوئی اپنا بس ہے۔‘‘
بیگم: ’’تو میں تو جاتی ہوں اپنی امّاں کے ہاں۔‘‘
تم: ’’اچھا سنو تو سہی۔ تم بس اتنا زبان سے کہہ دو کہ آیندہ جُمیا کو نہیں مارو گی پھر میں سلٹ لوں گا اور سب کو راضی کر لوں گا۔
بیگم: ’’ماروں گی۔ سو دفعہ ماروں گی۔ لو صاحب کام نہیں کرنے کی اور زبان چلائے گی تو میں اس کی خوشامد کروں گی، اس کے آگے ہاتھ جوڑوں گی۔ چڑیل کا مار مار کے بھرکس نکال دوں گی۔‘‘
ہم: ’’تو پھر اب کیا کیا جائے۔
؎ ملک الموت کو ضِد ہے کہ میں جاں لے کے ٹلوں
سر بسجدہ ہیں مسیحا کہ مری بات رہے‘‘
بیگم: ’’یوں تو اس کم بخت کو اور شیر کرنا ہوا کہ اب تو وہ مجھے لے کے جوتیوں میں پہن ڈالے گی اور خاک بھی کام کر کے نہ دے گی۔‘‘
ہم: ’’نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ تم میری بات مان لو۔ ان کمینوں سے دوبدو کرنی بھی نہیں چاہیے۔ اس لئے کہ ان کی تو کوئی عزت نہیں۔ مار کھا لیں اور جھاڑ جھوڑ کر کھڑے ہو جائیں۔ اور جو خدا نخواستہ کہیں وہ بھی تمہیں ایک جھاڑو مار بیٹھے تو تمہاری عزّت تو دو کوڑی کی رہ جائے نا۔‘‘
بیگم: ’’ارے! تم کیا کہ رہے ہو۔ وہ جوانا مرگ مجھے مارے گی؟ مجھے؟ ذرا مار کے تو دیکھے کھال کھینچ کے رکھ دوں نامراد کی۔‘‘
ہم: ’’کھال کھینچو یا کچھ کرو۔ عزّت تو جاتی رہے گی۔ بیگم یہ ایک دن کا واقعہ سناؤں۔ بالکل اپنے سامنے کا۔
میں بتاشوں کی گلی میں سے جا رہا تھا۔ ایک بھنگن بھرا ہوا ٹوکرا سر پر لئے گزر رہی تھی۔ پہلے زمانے میں بھنگی راستے میں آواز لگاتے چلتے تھے۔ ’بھنگی ہے سرکار، بچ جائیے ماں باپ، بچے جیتے رہیں، حکم بنا رہے سرکار‘ اور اب تو جان جان کے بھڑ کے چلتے ہیں۔
تو ایک لالہ صاحب اُجلے برف کپڑے پہنے ہوئے جا رہے تھے۔ بھنگن ان سے بھڑ کر نکلی۔ لالہ صاحب جلدی سے بچ تو گئے مگر کہنے لگے ’اری دیکھ کے نہیں چلتی۔ آنکھیں پھوٹ گئی ہیں۔‘ بھنگن وہیں کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی ’لالہ سنبھال کے بات کرو۔ آنکھیں پھوٹی ہوں گی تمہاری۔‘ لالہ صاحب نے خفا ہو کر اسے دو چار صلواتیں سُنائیں۔ بس یقین ماننا بیگم اس بھنگن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور غلاظت کا بھرا ہوا ٹوکرا لالہ صاحب پر پھینک دیا۔ بے چارے کے سارے کپڑے خراب ہو گئے۔‘‘
بیگم: ’’پھر اس چڑیل کو مارا نہیں لوگوں نے۔‘‘
ہم: ’’اس کے بھی طرفدار موجود ہو گئے اور لالہ کو ہی بُرا بھلا کہنے لگے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں وہ مقولہ بالکل ہی صحیح ہو گیا ہے کہ اپنی عزّت اپنے ہاتھ ہے۔‘‘
بیگم: ’’یہ تم ہی لوگوں نے اچھوتوں کو سر پر چڑھا دیا ہے۔ ورنہ ان کی مجال تھی کہ آنکھ ملا سکتے۔‘‘
ہم: ’’تو بس اب میں جا کر کہہ دیتا ہوں۔ آیندہ تم اس سے کچھ نہ بولنا۔‘‘
بیگم: ’’نہیں میں تو فی الحال اپنی امّاں کے ہاں جاتی ہوں۔ تم اگر کہیں اور مکان کا بندوبست کر لو گے تو آ جاؤں گی۔ نہیں تو تم جانو۔ مجھ سے یہ ذلّت برداشت نہیں ہونے گی۔‘‘
میں نے بیگم کو بہتیرا سمجھایا مگر وہ کسی طرح نہ مانیں اور اپنی امّاں کے ہاں چلی گئیں
اب ہم کیا کریں؟
٭٭٭
ولی کامل
ڈاکٹر صاحب! دیکھئے کیسی بہکی بہک باتیں کر رہے ہیں۔ بخار اس وقت بہت تیز معلوم ہوتا ہے۔ کہیں ان کے دشمنوں کو سرسام تو نہیں ہو گیا۔
ڈاکٹر: ’’آپ ایسی بولائی کہوں جاتی ہیں۔ کچھ ایسے زیادہ پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ بخار بیشک 104 درجے کا ہے مگر سرسام کا مطلق اندیشہ نہیں۔ آپ بالکل نہ گھبرایئے۔
مریض: ’’سرسام! سرسام! ہاں ہاں سرسام صمصام کے بھائی کا نام ہے۔ صمصام کو نہیں جانتے۔ لا حول و لا قوة، ارے میان وہی صمصام الدّین جو نہر میں ڈپٹی کلکٹر ہیں۔ احتشام اور گلفام ان کے بیٹے ہیں۔
بیوی: ’’ڈاکٹر صاحب! خدا کے لئے آپ کوئی ایسی دوائی دیجئے جو ان کا یہ بہکنا جائے۔ آپ تو اب تھوڑی دیر میں چلے جائیں گے۔ پھر میں ہوں اور یہ پہاڑ سی رات۔ بس رات بھر یوں ہی بہکے رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو ایسے لال لال دیدے کر کے گھورتے ہیں کہ میرا دم فنا ہو جاتا ہے۔ اگر بوا فہیمن اور نصیبن نہ ہوتیں تو جانے میرا کیا حال ہوتا!
مریض: ’’یہ کون بکواس کر رہا ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس بے چاری کی باتوں کا خیال نہ کیجئے۔ یہ پیدائشی دیوانی ہے۔ اچھا ایک بات بتایئے۔ آپ حلفیہ کہہ سکتے ہیں کہ میں پاگل ہوں۔‘‘
ڈاکٹر: ’’ہرگز نہیں۔‘‘
مریض: ’’اس کا کیا مطلب ہے؟ یعنی آپ بتانا نہیں چاہتے۔‘‘
ڈاکٹر: ’’میرا مطلب یہ ہے کہ آپ ہرگز پاگل نہیں ہیں۔ آپ کا دماغ بالکل درست ہے۔‘‘
مریض: ’’اچھا جو کچھ کہوں گا آپ اس پر یقین لائیں گے۔‘‘
ڈاکٹر: ’’کیوں نہیں۔‘‘
مریض: ’’اچھا بتائیے میں کون ہوں؟‘‘
ڈاکٹر: ’’آپ آدمی ہیں۔‘‘
مریض: ’’آدمی تو آپ بھی ہیں۔ اور یہ جو میری بیوی ہے بڑی اچھی لڑکی ہے۔ آپ ہنستے ہیں۔ کیوں ہنستے ہیں۔ یہ لڑکی نہیں تو کیا ہے؟ آپ پھر ہنس رہے ہیں۔ ارے میاں یہ تو سچ ہے کہ یہ چالیس برس کی ہے مگر ہے تو لڑکی۔ آپ ہنسے جا رہے ہیں سنئے سنئے۔ ہنسی کو روکئے سنئے۔ جب تک اس کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہو یہ عورت نہیں کہلائی جا سکتی۔‘‘
ڈاکٹر: ’’اب میں آپ کے سوال کا مفصل جوب دیتا ہوں۔ سنئے آپ علیگڑھ
کالج کے گریجویٹ ہیں نہایت شریف خاندان کے ہیں۔ آپ یہاں نہر
میں ایگزیکٹو انجینئر ہیں۔ آپ کو ایک ہزار روپے ماہوار تنخواہ ملتی ہے۔۔ آپ
کے پاس موٹر ہے۔ آپ بنسبت ریل کے سفر کے موٹر کے سفر کو زیادہ
پسند کرتے ہیں اور اسی پر دور دور سفر کرتے ہیں۔ آپ کی ڈاڑھی
بہت گھنی اور گھن دار ہے۔ اور ناف تک پہنچتی ہے اور جس وقت آپ ہیٹ
لگا کے چلتے ہیں تو چہرے پر چھاجوں نور برستا ہے۔‘‘
مریض: ’’آپ تو ہم سے اتنے واقف ہیں کہ ہماری بیوی بھی نہ ہوں گی۔ اچھا
جناب یہ تو آپ اقرار ہی کر چکے ہیں کہ میں پاگل نہیں ہوں اور میرا دماغ صحیح و سالم ہے تو سنئے آج چھے بجے میرا وصال ہے۔‘‘
ڈاکٹر: کیا کہا؟
مریض: میرے عزیز دوست! تو میرا ہم جماعت بھی ہے اور اب دو برس سے میری اور تیری نوکری بھی ایک ہی جگہ ہے۔ تو میری عادت سے واقف ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ آج چھ بجے میں مر جاؤں گا۔
ڈاکٹر: ارے میاں ایسی جلدی کا ہے کی ہے۔ ذرا ٹھہر جاؤ دو چار دن بعد ہی مر جانا۔
مریض: تم جانتے نہیں رات کو میرے پاس جبرئیل آئے تھے وہ یہ خوشخبری لائے تھے کہ حق تعالیٰ شانہُ بہت دنوں سے آپ کے وصال کا متمنی ہے اور اب اس سے ہجر کے صدمے نہیں اٹھائے جاتے اور سنو ان کے جانے کے بعد میرا وصال ہو گیا۔ راتوں رات میرے سارے مریدوں کو خبر ہو گئی۔ صبح سویرے ہی میرے گھر میں ہزاروں مرید جمع ہو گئے۔ اب مشکل یہ ہوئی کہ کفن یہاں ملتا نہیں۔ چھوٹی سے بستی ہے۔ خیر نگر چودہ میل ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو وہاں کچی یا پکی سڑک تو ہے نہیں فقط ٹرالی جاتی ہے۔ خیر دو چار آدمی وہاں گئے اور کفن لے آئے۔ اور درزی کو بھی ساتھ لیتے آئے۔ خیر صاحب وہ کفن سلا اور ہمیں اس میں لپیٹا۔ مگر وہ ذرا چھوٹا رہا۔ پاؤں ڈھکے تو سر کھلا رہ گیا اور سر ڈھکا تو پاؤں کھلے رہ گئے۔ اب سب نے کہا کہ بھئی اب کیا کریں۔ اب اگر ٹرالی پر گئے تو کل آئیں گے۔ اتنی دیر میں لاش سڑ جائے گی۔ ایک آدمی نے کہا کہ ہمارے حضرت ولی اللہ تھے۔ دور دور تک ان کا شہرہ تھا۔ لاکھوں ان کے مرید ہیں ان کا منہ کھلا رکھنا چاہیئے تاکہ خلقت آپ کی زیارت سے مشرف ہو۔ سب کو یہ صلاح پسند آئی۔ چنانچہ ہمارا منہ کھلا رہا اور ہم منہ کفن سے باہر نکالے چار کے کندھے پر سوار چلے۔ اب ایک اور مصیبت آئی۔ لاکھوں آدمی جنازے کے ساتھ تھے اور جو آتا تھا ہمارے ڈاڑھی کا ایک بال تبرک کے طور پر رکھ لیتا تھا۔ ہم ولی تو تھے ہی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے اور خلقت کا یہ ہجوم دیکھ کر خوش ہو رہے تھے۔ مگر ڈاڑھی کو لوگوں کے بے رحم ہاتھوں سے نہ بچا سکے۔ نتیجہ یہ ہو کہ تھوڑی دیر میں ہماری ڈاڑھی صفا چٹ ہو گئی۔ جیسے کسی نے استرے سے مونڈ دی۔ اب لوگوں نے کہا کہ بھئی ایسے ولی اللہ کا اللہ کے دربار میں بغیر ڈاڑھی کے جانا مناسب نہیں ہے۔ اب کیا کرنا چاہیے۔ ہمارے جنازے کو ایک جوہڑ کے کنارے رکھ دیا اور سب بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے۔ کسی نے کہا کہ بھٹے کے بال لگا دو۔ کسی نے کہا چَوری (جس سے مکھیاں اڑاتے ہیں) کی ڈنڈی انہیں نگلا دو۔ مگر کسی بات پر فیصلہ نہ ہوا۔ آخر یہ قرار پایا کہ جنازے کو گھر واپس لے چلو اور ان کی بیوی سے پوچھو وہی کوئی ترکیب بتائیں گی۔ تو بھئی ہم پھر گھر گئے۔ بیوی نے جب یہ ماجرا سنا تو کہا گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے تم ذرا ٹھہرو۔ میں ابھی آئی۔ اندر گئیں اور جھٹ ایک قینچی لے آئیں اور لپک کر اپنے چوٹی جڑ سے کتر لی اور جناب خوب گاڑھا گاڑھا سریش لے کر وہ چوٹی ہمارے ٹھوڑی پر چپکا دی۔ اب ہم پھر چلے۔ ادھر تو ہمیں قبر میں اتار کرمٹی وٹی دے کر لوگ کھسکے اور ادھر منکر نکیر آن موجود ہوئے ہمارا منہ کھلا ہوا تھا اور ڈاڑھی ہماری چھاتی پر پڑی ہوئی بل کھا رہی تھی۔ آتے ہی ان کی نظر ڈاڑھی پر پڑی۔ بڑے بھنائے کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے جس کی ایسی بل دار ڈاڑھی ہے اور سچی بات ہے کہ وہ ڈرے بھی۔ دونوں تھر تھر کانپنے لگے۔ ایک دوسرے سے کہتا تھا کہ تو سوال کر اور پیچھے کھسکا جاتا تھا۔ اب یہاں جو لگی دیر تو حضرت جبریل آئے اور ان سے کہا یہ تم دونوں کھڑے کیا کھسر پھسر کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا سوال و جواب کرنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ ڈر لگتا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ اللہ کے خاص الخاص بندے ہیں ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ چنانچہ ہمیں بڑے ادب اور تعظیم کے ساتھ حق سبحانہ کے دربار میں لے گئے وہاں ہم اللہ کے حکم سے کھڑے ہو گئے اور جناب باری تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے خاص الخاص بندے آ ہم تیرے لیے بہت دن سے بیقرار تھے۔ اتنا کہہ کر مریض بے ہوش ہو گیا۔ بیوی اتنی دیر میں کئی مرتبہ بولنے کو ہوئیں مگر
ڈاکٹر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ اب ڈاکٹر صاحب نے
ایک دوا مریض کے حلق میں ڈالی اور ان کی بیوی سے کہا کہ اب انہیں سونے
دو۔ حیران نہ کرنا صبح کو ان شاء اللہ اچھے ہو جائیں گے۔
ان باتوں کو مہینوں گزر گئے مگر اب تک ڈاکٹر صاحب انجینئر صاحب کو
چھیڑا کرتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہ کا وصال یاد ہے اور دیکھنا وہ تمہاری
بیوی کے بال نکل آئے یا ابھی تک پَر قینچ ہی ہیں۔
ہماری عید
’’دیکھنا سنتے بھی ہو یا روئی بھر لی کان میں، کتنی دفعہ کہا ہے مگر آج جنے (جانے) تمہیں کیا ہو گیا ہے صبح سے جو کاغذوں ہر پلے ہیں تو سر اٹھانے کا نام ہی نہیں لیتے۔‘‘
بھئی بعض دفعہ کی بات بھی ’کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے‘ ہو جاتی ہے۔ اب دیکھیے نا ہمیں شام کو ایک مشاعرے میں جانا تھا۔ یوں تو بے چارے دفتر والوں کو فرصت کہاں ملتی ہے۔ صبح سے شام تک کولہو کے بیل بنے رہتے ہیں۔ سوچا تھا کل چھٹی ہے صبح ہی صبح کاغذ پنسل لے کر بیٹھ جائیں گے کچھ نہ کچھ دال دلیا ہو جائے گا۔ چنانچہ اب لے کر بیٹھے تھے کہ دو چار شعر لکھ ڈالیں مگر مطلع ہی اٹک کر رہ گیا، ایک مصرعہ تو ہوا کہ؎
آج لکھتے ہیں قصیدہ ہم تمہاری شان میں
پھر بہتیرا دماغ پر زور ڈال رہے تھے، بیس پچیس منٹ ہو گئے جھک
مارتے مگر دوسرا مصرعہ نہ جڑا۔ اب آپ ہی فرمایئے۔ اسے ندائے غیبی نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں کہ ہاتف نے ہماری بیگم کی زبانی دوسرا مصرعہ ہمارے پاس بھیج دیا۔ لیجیے مطلع ہو گیا۔ ؎
آج لکھتے ہیں قصیدہ ہم تمہاری شان میں
دیکھنا سنتے بھی ہو یا روئی بھر لی کان میں
ہم نے اچھل کر کہا بیگم! واللہ نہ ہوئیں تم بادشاہی کے زمانے میں خدا کی قسم تمہارا منہ موتیوں سے بھر دیا جاتا۔ بھئی واہ کیا مصرعہ عنایت فرمایا ہے آپ نے مزہ آ گیا۔
بیگم: یا الٰہی خیر! یہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے رات کو تو بھلے چنگے سوئے تھے۔
ہم: بیگم ہوا ہوایا کچھ نہیں۔ بس اب دو منٹ میں پوری کیے لیتا ہوں۔ مطلع کی دیر تھی۔ اب کیا ہے چٹکی بجاتے ہی پندرہ شعر لو۔
بیگم: آج تو بڑی اول جلول باتیں کر رہے ہو۔ میں کہتی ہوں پرسوں عید ہے کچھ آئے گا بھی یا نہیں۔ چھے دن سے برابر کہہ رہی ہوں اور تم ہو کہ روز آج کل آج کل کئے جاتے ہو۔
ہم: بیگم گھبراؤ نہیں کل انشاء اللہ تمہارے سارے کام ہو جائیں گے۔
بیگم: اور وہ سویاں کب آئیں گی؟
ہم: وہ بھی کل ہی آ جائیں گی۔
بیگم: اور وہ چنو کا سویٹر تو آیا ہی نہیں۔ اس کی ٹوپی بھی میلی چیکٹ ہو گئی ہے وہی پہنے پہنے پھر رہا ہے۔ اب کیا عید کو بھی وہی اوڑھے گا؟ کَے دن سے کہہ رہی ہوں تمہارے کان پر جوں بھی رینگتی ہے؟ صبح کو کہتی ہوں تو کہہ دیتے ہو دفتر سے آؤں گا تو یاد دلانا۔ شام کو کہتی ہوں تو کہتے ہو اب تو تھک گیا ہوں صبح کو یاد دلانا۔ غرض یونہی ٹالے بالے میں یہ دن آ گیا۔ اور ایک ٹوپی کیا تمہارے تو سارے کام ایسے ہی خوبی بھرے ہوتے ہیں۔ وہ یاد ہے یا نہیں پچھلی بقر عید کو کیسی مہندی لا کے دی تھی۔ موئی ہلدی کہ ہاتھ پاؤں سب زرد ہو کے رہ گئے۔ نہ جانے کس کم بخت کے ہاں سے اٹھا لائے تھے موئے نے زرد مٹی دے دی۔
ہم: بیگم! تم تو یونہی خواہ مخواہ الجھ کر رہ جاتی ہو، کوئی بات نہ چیت ذرا سا بھی کوئی کسی قسم کا ذکر ہوا اور تم نے جھکڑ چلا دیا۔
بیگم: لو اور سنو! الجھتے تم ہو یا میں؟ میں نے تو ایک سیدھی سی بات کہی تھی۔ تم کہو تو میں میں قفل ڈال لوں؟
ہم: قفل کیوں ڈالو کنجی کہیں کھو گئی تو یہ منا منا خوبصورت سا منہ تڑوانا پڑے گا۔ اچھا سنو! جو کچھ منگوانا ہے لو مجھے لکھوا دو۔ تمہارے سارے کام کل شام تک نہ ہو جائیں جب ہی کہنا۔
بیگم: پھر وہی کل شام! ارے میں کہتی ہوں آج دن بھر تمہیں کیا پان چرنے ہیں؟ چھٹی بھی ہے جو دل پر رکھو تو سارے کام یوں چٹکی بجاتے میں ہوتے ہیں۔
ہم: دیکھو بیگم! آج تو ہمیں غزل کہہ لینے دو۔ شام ہی کو تو مشاعرے میں جانا ہے۔ طرح کی غزل اگر ہمارے پاس نہ ہوئی تو لوگ پھبتیاں اڑائیں گے آوازے کسیں گے کہ اوروں سے لکھوا کر لاتے تھے۔ آج کسی نے لکھ کر نہیں دی تو کورے چلے آئے۔ خاصی طرح مطلع ہو گیا تھا۔ تم نے دماغ کا ستیا ناس کر دیا۔ اب گھنٹا بھر تک زور ڈالیں گے تو کہیں جا کر دماغ حاضر ہو گا۔
بیگم: چولہے میں جائے تمہارا مطلع اور بھاڑ میں جائے تمہاری غزل۔ میں پوچھتی ہوں آخر تمہیں اس دماغ سوزی سے مل کیا جاتا ہے۔ کبھی تو بت بنے بیٹھے ہیں، کبھی آپ ہی آپ جھوم رہے ہیں۔ کبھی گنگنا رہے ہیں۔ سچ کہتی ہوں اچھے خاصے پاگل معلوم ہوتے ہو پاگل۔
ہم: ارے تم کیا جانبو شاعر کو ایک شعر کی بھی داد مل گئی تو سمجھو ساری محنت وصول ہو گئی۔ اب تمہیں کیا بتاؤں بیگم کہ داد میں کیا ملتا ہے۔ سچ کہتا ہوں پیٹ بھر کے زردہ بریانی کھانے میں اتنا جی خوش نہیں ہوتا جتنا ایک شعر کی داد ملنے سے ہوتا ہے۔
بیگم: چاہے گھر اوندھا پڑا رہے۔ مگر تمہیں داد مل جائے۔ داد آئی ہے کہیں کی۔
ہم: بیگم باتیں تو ہم تم سے کر رہے ہیں مگر ہمارا دماغ مصروف ہے شاعری ہی میں، لو ایک شعر اور ہو گیا ؎
آنگھ بھینگی تنگ پیشانی بڑی موٹی سی ناک
خوبیاں اتنی تو ہونی چاہئیں انسان میں
بیگم: (ہنس کر) واہ کیا قصیدہ لکھ رہے ہیں۔ شرم تو نہیں آتی۔
ہم: ہمیں شرم کا ہے کی، جس کی شان میں لکھ رہے ہیں اسے آئے تو آئے۔ بیگم: کیوں فضول وقت ضائع کر رہ ہو! (ہاتھ سے کاغذ چھین کر) جاؤ بازار ہو آؤ۔ دیکھنا، سچ کہتی ہوں۔ دو ہی دن تو رہ گئے ہیں۔ اے لو پرسوں تو عید ہے ہی۔ آج کی تمہیں چھٹی بھی ہے۔ سب کام ہو جائیں گے۔ کل پھر دفتر کا بہانہ ہو گا۔ لو اٹھو چلو۔
ہم: اچھی بیگم! اس وقت طبیعت ذرا حاضر ہے مجھے غزل پوری کر لینے دو لو ایک اور ہو گیا سنو؎
آئینے میں خود ذرا بینی مبارک دیکھئے
فرق کیا اس ناک میں اور اونٹ کے کوہان میں
’تم جانو تمہارا کام۔ جانتے ہیں کوئی کتیا بھونک رہی ہے‘ کہتی ہوئی بیگم تو ادھر گئیں ادھر ہم نے خوب اطمینان سے غزل پوری کی۔ اس کے بعد پہلے تو منت خوشامد کر کے اپنی بیگم کو سنایا۔ پھر انہیں اپنی یہ تازہ ترین غزل سنائی۔ بہت ہنسیں۔ لوٹ پوٹ ہو گئیں۔ پھر کہنے لگیں۔
بیگم: اب خوب داد ملے گی؟
ہم: اجی چار چار دفعہ ایک ایک شعر پڑھوائیں گے۔
بیگم: اور میں بھی تو سنوں یہ ہوتا کیا ہے تمہارا مشاعرہ؟
ہم: بیگم تم کنوئیں کی مینڈکی ہو۔ کچھ جانتی ہی نہیں۔ اچھا سنو۔ بڑے بڑے آل انڈیا مشاعروں میں تو شامیانے لگتے ہیں، دریوں چاندنیوں کا فرش ہوتا ہے، لاوڈ سپیکر لگتے ہیں۔ اور یوں معمولی مشاعرے بھی کسی بڑے مکان میں ہوتے ہیں۔ بہرحال دونوں طرح کے مشاعروں میں سامعین کے لیے جو جگہ ہوتی ہے اُس سے کسی قدر اُونچی جگہ شاعروں کے لیے ہوتی ہے۔ ایک ہوتے ہیں ’’جناب صدر‘‘ یہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک صدر ناطق، دوسرے صدر خاموش۔ یعنی کہیں ایسے ہوتے ہیں کہیں ویسے۔ صدر ناطق وہ ہوتے ہیں جو شاعر کے کلام شروع کرنے سے پہلے اُس کے متعلق کچھ کہتے ہیں۔ یعنی تعارف کراتے ہیں۔ پھر اُس کے اشعار کی خود تعریف کرتے ہیں اور پبلک سے گویا داد دلواتے ہیں جب وہ شاعر پڑھ چکتا ہے تو اُس کے کلام پر تھوڑا سا تبصرہ بھی کرتے ہیں۔ یہ تو ہوئے صدر ناطق۔ اب رہے صدر خاموش تو اُن کی کچھ نہ پوچھیے۔ ایسے بیٹھے ہیں جیسے مجسمہ۔ جناب آج بے طرح گُم سُم بنے ہیں نہ ہوں ہاں کریں اور نہ کچھ بولیں چالیں۔
اچھا بعض شاعر تمیز دار ہوتے ہیں۔ آداب مشاعرہ کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ وقت سے پہلے آتے ہیں۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد جاتے ہیں۔ اپنا کلام سناتے ہیں، دوسروں کا سنتے ہیں، چاہے اچھا ہو یا بُرا۔ مناسب موقعہ پر داد دیتے ہیں، جب اُن کا نام لے کر صدر صاحب بلاتے ہیں تو اُن کے پاس جا کر انہیں سلام کرتے ہیں، پھر اجازت طلب کے پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ یہ تو ہوئے ضابطہ کے شاعر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ جتنی دیر میں چلیں گے پبلک ہمارا انتظار کرے گی، ہمیں چاروں طرف تلاش کرے گی۔ چنانچہ یہ لوگ بارہ بجے پہنچے، جلدی کر کے پڑھنے کے لیے بلائے گئے۔ نہ سلام، نہ علیک، جاتے ہی دن سے غزل داغ دی۔ خوب داد ملی اور پڑھتے ہی کھسک گئے۔ گویا تمام حاضرین کے سر پر احسان کا ٹوکرا دھر گئے۔
بیگم: یہ تو بڑی بُری بات ہے۔ خود غرضی ہے کہ اپنا کلام سنایا اور دوسروں کا نہ سنا۔ ایسے کیا بہت ہی بڑے شاعر ہوتے ہیں؟
ہم: بہت ہی بڑے تو کیا خاک ہوتے ہیں۔ ہاں سمجھتے ضرور ہیں کہ ہمچو من دیگرے نیست
بیگم: اور مشاعروں میں سُنا ہے گانا بھی تو ہوتا ہے۔
ہم: ہاں ہوتا ہے۔ بعض شاعر ترنم سے پڑھتے ہیں جسے تھوڑا سا گانا کہتے ہیں۔ بعض خاصے قوال اور گویّوں کی طرح باقاعدہ تال سُر سے گاتے ہیں اور تانیں لیتے ہیں۔ بعض نِرت بھی کرتے ہیں۔
بیگم: پھر تو انھیں خوب داد ملتی ہو گی۔
ہم: کیا کہنے ہیں۔ شاعری کے عیوب گانے سے ڈھک جاتے ہیں خاصے شعر بہت اچھے بن جاتے ہیں۔
بیگم: اور وہ آپ کی دلپسند داد ملتی کیونکر ہے؟
ہم: بس کچھ نہ پوچھو بیگم! ایسے مزے مزے سے ملتی ہے کہ داد کی داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ کوئی صاحب بیٹھے بیٹھے کچھ اس طرح چیخ کر ’واہ‘ کہتے ہیں کہ برابر والا اچھل پڑتا ہے کہ اللہ خیر کرے کہیں ان کے بچھو نے تو نہیں کاٹ لیا۔ ایک صاحب بڑے میٹھے میٹھے سُروں میں فرماتے ہیں۔ ’کیا کہنے ہیں کیا کہنے ہیں‘ ایک صاحب بزرگانہ شفقت سے فرماتے ہیں ’میاں جیتے رہو جیتے رہو کیا شعر پڑھا ہے۔‘ ایک صاحب اپنی ران پر زور سے ہاتھ مار کر فرماتے ہیں ’ہائے! کیا کہہ دیا۔ ہئی ہئی‘
بیگم: تو یوں کہو مشاعرہ بڑی بہار کی چیز ہوتی ہے۔
ہم: اور کیا۔ تم سے کئی دفعہ کہا۔ تم چلتی ہی نہیں۔ ایک دفعہ چل کے دیکھو تو۔
بیگم: مجھے تو معاف ہی رکھئیے۔ میں نہیں جاتی۔ سُنا ہے بعض شاعر واہیات باتیں بھی بکتے ہیں۔
ہم: ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ اور جو کہیں کسی جگہ کوئی شاعر ایسا ویسا شعر پڑھ بھی دیتا ہے تو اُسے روک دیا جاتا ہے۔
بیگم: شعر کہہ دینے کے بعد روکا تو کیسا روکا۔ سُننے والے تو سن ہی لیتے ہیں۔
ہم: ہاں اب کیا کیا جائے۔ پہلے سے منع کر دیا جاتا ہے مگر پڑھنے والے نہ مانیں تو انھیں ہاتھ پکڑ کر باہر نکالنے سے تو رہے۔
بیگم: اچھا۔ اب تو تمہاری غزل پوری ہو گئی۔ اب تو بازار ہو آؤ۔
ہم: آ گئیں نا سَم پر۔ اچھا لکھواؤ کیا کیا منگوا رہی ہو؟
بیگم: سویّاں لا کر دو۔ چنو کا سویٹر اور ترکی ٹوپی، ننھی کا کنٹوپ، بچوں کی اور میری جرابیں، اور صاحب خدا آپ کا بھلا کرے وہ اُوٹو۔
ہم: اُوٹو کس جانور کا نام ہے۔
بیگم: وہ تم نے دیسی عِطَر بقر عید پر لا کر دیا تھا نا؟
ہم: دیسی عطَر! ارے عطر دیسی ہی ہوتے ہیں۔ ولایتی عطر کون سے ہوتے ہیں؟
بیگم: وہ اُٹو گلستاں بوستاں کیا بلا تھی جو تم بقر عید پر لائے تھے؟
ہم: اچھا! وہ گلستان کی شیشی جو لایا تھا جس میں شیشے کی سلائی لگی ہوئی تھی۔
بیگم: ہاں ہاں وہی۔ بڑا اچھا عِطَر تھا۔ اور وہ صاحب رات کی رانی!
ہم: رات کی رانی اور دن کا راجہ، یہ کیا کہہ رہی ہو؟
بیگم: آپ کو تو ان غزلوں نے کہیں کا نہ رکھا۔ کچھ جانتے ہی نہیں۔ اے لو وہ پرسوں ہی تو عزیز دُلہن آئی تھی۔ بس یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے گلاب گندی کی دکان ساتھ لے آئی ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ رات کی رانی لگائے ہوئے ہیں۔ بڑی اچھی خوشبو کا عطَر ہے۔
ہم: دیکھو بیگم! ہماری بیوی ہو کر ایسی اردو نہ بولا کرو۔ اچھی خوشبو کیا ہوتی ہے؟
بیگم: سچ کہتی ہوں بڑی اچھی خوشبو تھی۔
ہم: پھر وہی۔ ارے خوشبو کے معنی ہی اچھی بُو کے ہیں۔ خوشبو کہو یا اچھی بُو۔
بیگم: بُو تو بدبو کو کہتے ہیں۔ بدبو بھی کہیں اچھی ہو سکتی ہے۔
ہم: خیر، کہہ تو دیا اب ’’اچھی خوشبو‘‘ نہ کہنا۔ تو یہ ’’رات کی رانی‘‘ ایک طرح کا عطر ہوتا ہے؟ اچھا آگے چلو۔
بیگم: تین عید کارڈ اور۔۔۔ اور۔۔۔۔ میرے لئے جو تمہارا جی چاہے۔
خیر صاحب ہم بیگم کی بتائی ہوئی ساری چیزیں لے آئے اور اپنی بیگم کے لئے خاص طور پر کچھ چیزیں اپنی طرف سے بھی لائے۔ بیگم نے کسی پر ناک چڑھائی، کسی پر بھوں۔ کسی میں یہ خرابی بتائی کسی میں وہ۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ روز ہی ہوتا رہتا ہے۔ مگر مصیبت تو یہ ہوئی کہ عید والے دن صبح کو ہم عید گاہ جا رہے تھے کہ بیگم نے سر ہو کر، منت خوشامد کر کے چُنّو کو ساتھ کر دیا جو چار برس کا ہے اور اسی پر بس نہیں کی۔ ننھی کو بھی ہماری گود میں زبردستی ٹھونس دیا جو سوا برس کی ہے۔ چُنّو کی انگلی پکڑے، ننھی کو گود میں لادے ہم حقیقی معنوں میں مزدور بنے عید گاہ پہنچے۔ فقط اتنا تو قصور ہم سے ہوا کہ ایک دو منٹ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر اپنے سے آگے کی چھٹی صف میں گئے کہ تعویذ ایک صاحب بیچ رہے تھے، وہ لے آئیں۔ چُنّو سے تاکید کر دی تھی کہ بیٹا یہیں بیٹھا رہئیو۔ ابھی آتا ہوں۔ بچی کو گود میں لئے لئے گئے تھے۔ آن کر جو دیکھتے ہیں تو چُنو صاحب غائب ہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ بھی ہمارے پیچھے ہی گیا تھا۔ نہ معلوم کدھر چلا گیا۔ اب بھلا بتائیے ہزاروں آدمیوں میں کہاں ڈھونڈیں اور کیونکر تلاش کریں۔ بچی ہے کہ تسمۂ پا کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ ایک منٹ کو الگ نہیں ہوتی۔ سخت مصیبت اور کوفت تھی۔ بارے سامنے والے مُکبّر پر سے آواز آئی
’’کسی کا بچہ کھو گیا ہے تو لے لو‘‘ اب جو دیکھتے ہیں تو ہمارے چُنو میاں ہوا میں اُدھر ہیں۔ ایک شخص ان کی بغلوں میں ہاتھ دئیے سر سے اوپر اٹھائے ہوئے ہیں۔ خیر وہاں سے جا کر انھیں لائے۔ اپنی جگہ آئے ہی تھے کہ اِدھر تو آواز لگی ’’صفیں سیدھی کر لو‘‘ اور اُدھر ہماری ننھی صاحبہ محترمہ نے ٹھنک کر فرمایا ’ابا چھی‘ جلدی سے اسے لے کر چلے اور اس خیال سے کہ کہیں کر نہ دے تو سارے کپڑے ہی خراب ہو جائیں گے۔ ایک ہاتھ سے اس غریب کے کولھے بھینچے ہوئے تھے۔ ہمارے چُنو میاں کو الگ ایک ہاتھ کی ضرورت تھی۔ وہ بغیر انگلی تھامے چلتے ہی نہ تھے۔ مجبوراً اس سے کہا کہ بیٹا ہماری اچکن کا دامن پکڑ لو۔ دیکھو چھوڑنا مت، نہیں تو پھر کھو جاؤ گے۔ غرض بہ ایں ہئیت کدائی۔ ہم جو چلے تو لوگوں کو ہماری وجہ سے تکلیف ہوئی۔ جو ذرا بزرگ و سنجیدہ تھے انھوں نے تو بس اتنا ہی کہا کہ میاں چھوٹے بچوں کو عید گاہ میں نہیں لانا چاہئیے۔ اپنے آپ کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی۔‘‘ مگر آزاد منش لوگوں نے آوازے کسنے شروع کر دئیے۔ ’’میاں لائے کیوں تھے۔ نہ لاتے تو بیوی اماں نہ خفا ہو جاتیں۔‘‘ دیکھنا میاں یہ ہیں وہ بیوی کے لاڈلے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس وقت جو حالت ہمارے دل کی تھی اس کا اندازہ وہی خوش نصیب لوگ لگا سکتے ہیں جن پر کبھی ایسی بپتا پڑ چکی ہو۔ اس ذلت و خواری میں ایک مصیبت یہ نازل ہوئی تھی کہ ننھی جو ایکدم روئے اور کسمسائے جاتی تھی ایک دفعہ ہی زور لگا کر ہمارے پیٹ میں اڑا کر جو سیدھی ہوئی ہے تو ہمارا ہاتھ جس سے ہم اس کے کولھے بھینچے ہوئے تھے، کولھوں کے نیچے سے نکل گیا۔ بس نتیجہ آپ خود سمجھ لیجئے۔ ایک تو سارے راستے ان غلیظ کپڑوں میں گھر آئے بچی کو لادے ہوئے چنو کی انگلی پکڑے ہوئے۔ اس پر گھر آ کر بیوی کی فضیحتی سنی۔ پنجے جھاڑ کر ہمارے ہی پیچھے پڑ گئیں۔ ’’تُم نے ہی رلایا ہو گا۔ وہ تو صبح ہی کو کر چکی ہے۔ اس کا پیٹ تو ایسا نہیں ہے۔ روتے روتے ہلکان ہو گئی ہو گی، نکل گئی۔‘‘
غرض اسی پر بات بڑھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ بیگم الگ منہ پھُلا کر پڑ گئیں اور ہم الگ بسورتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔ یہ تھی ہماری عید۔
فلسفی میاں
کیا سوچ رہے ہیں آپ؟
ہم یہ سوچ رہے ہیں بیگم کہ اگر اللہ میاں زمین کو گول نہ بناتے تو اُن کی خُدائی میں کیا فرق پڑ جاتا۔ آخر وہ تو قادرِ مطلق ہیں، چپٹی ہی سے کام نکال لیتے۔
بیگم: نہیں کچھ اور بات ہے۔
ہم: کچھ اور بات نہیں۔
بیگم: کھائیے تو قسم۔
ہم: تمہارے سرِ عظیم کی قسم۔
بیگم: کیا کہنے۔ قسم کھانے کو بھی میرا ہی چونڈا نظر آیا۔
ہم: اللہ پاک کی وسیع مملکت میں، لا محدود سلطنت میں، تمام کائنات میں ہر چیز گول ہے، ہر ذرہ گول ہے، ہر سیّارہ گول ہے، اللہ میاں کو گولائی بہت پسند ہے۔ جب ہی تو۔ دیکھو تم اپنے آپے ہی کو دیکھو۔ اچھا پاؤں سے چلو، دیکھو انگلیوں کے ناخن گول ہیں۔ ٹخنہ گول ہے۔ گھُٹنے کی چپنیاں گول ہیں۔ اور اوپر چلو دیکھو دونوں۔۔۔ اچھا خیر جانے دو۔ اور اوپر ناف گول ہے۔ اور پیٹ ہاں پیٹ بھی گول ہے۔ اور۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ اچھا اور اوپر چلو ٹھوڑی گول ہے، اس میں گڑھا بھی گول ہے، دہانہ گول ہے، ناک کے سوراخ دونوں کے دونوں گول ہیں، رخسار گُلگلے سے ہیں۔ یعنی گول گول ہیں۔ وہ گڑھے بھی گول ہیں جن میں آنکھیں سکونت پذیر ہیں۔ پھر آنکھوں کے ڈیلے، پُتلیاں، تِل سب ہی گول ہیں اور یہ تمہارا سر جس میں خدا جانے کیا بھرا ہوا ہے، یہ بھی گول ہے۔ تو جب اللہ میاں کو گول چیزیں اس قدر پسند ہیں تو ہم ان کے بندے تمہارے سر جیسی گول چیز کو کیوں نہ پسند کریں۔ تو پھر اگر تمہارے سر کی قسم کھا لی تو کون سا گناہ کیا؟
بیگم: یا اللہ تیرا شکر! ختم ہو گئی آپ کی تقریر۔ مگر بات وہیں کی وہیں رہی۔ میں پوچھتی ہوں زمین گول ہوئی تو اور چپٹی ہوئی تو آپ کو اس کے متعلق سوچنے سے کَے رکعت کا ثواب مل جائے گا۔ بات بتائیے۔ اصلی بات کیا ہے؟
ہم: بات وات کچھ بھی نہیں۔ ہم ذرا اپنے سر کے متعلق سوچ رہے تھے کہ وہ بھی تو گول ہے بالکل زمین کی طرح۔
بیگم: ہے تو پھر کیا ہے۔ بات کیا ہے۔ آخر بتاتے کیوں نہیں۔ پہیلیاں بُجھوائے جا رہے ہیں۔ ایک دم۔
ہم: بتا دیں؟ برا تو نہ مانو گی؟
بیگم: سچی بات ہو گی تو برا کبھی نہ مانوں گی۔
ہم: بیگم! مصیبت تو یہی ہے کہ سچی بات ہی سب کو بری لگتی ہے۔ وہ تو تم نے بھی سنا ہو گا کہ سچی بات آدھی لڑائی ہوتی ہے۔
بیگم: اچھا خیر، آپ کہیے تو سہی۔
ہم: بگڑ جاؤ گی۔
بیگم: اوں ہونہہ۔
ہم: چراغ پا تو نہ ہو گی۔
بیگم: نہیں۔ نہیں۔ نہیں۔
ہم: غصے کو تو نہیں بلاؤ گی؟
بیگم: یا اللہ
ہم: حق و انصاف کی عینک لگا کر دیکھو گی؟
بیگم: بس سن چکی، جاتی ہوں۔
ہم: ہائیں یہ کیا؟ ارے کدھر چلیں۔ سنو تو۔ ارے دیکھو۔ تمہیں اپنی شادی کی پہلی رات کی شرم و حیا کی قسم۔ ذرا ٹھہر جاؤ۔ آج تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔
بیگم: توبہ ہے۔ نہ جانے ہی دیتے ہیں۔ نہ بات ہی کہہ چکتے ہیں۔
ہم: ارے کہنے کو تو ہم کبھی کے کہہ بھی چکے ہوتے۔ بس اک ذرا تمہاری۔۔۔ تمہاری۔۔۔ دیکھو لفظ یہ ذرا کچھ ایسا ہی سا ہے۔ یعنی تمہارے خیال میں۔۔۔ اچھا کوئی اور لفظ سوچتے ہیں۔ اس سے ذرا ہلکا سا نرم سا۔
بیگم: کیا مصیبت میں جان آئی ہے۔ اچھا لفظ وفظ کا آپ خیال نہ کیجئے۔ جو منہ میں آئے کہہ ڈالئے۔ میں دس دفعہ کہہ چکی ہوں کہ برا نہ مانوں گی۔ پھر سمجھ نہیں آتی تامّل کس بات کا ہے؟
ہم: بیگم! ہم دِلّی والے ہیں ٹھیٹھ دِلّی والے۔ سینکڑوں برس سے ہمارے آباء و اجداد اسی سرزمین پاک میں بستے تھے۔ ہم چاہے کچھ بھی ہو جائے زبان کو نہیں بگاڑیں گے۔ وہی لفظ بولیں گے جو جہاں مناسب ہو گا۔ ہاں تو کِل کِل ہی ٹھیک اور صحیح لفظ ہے۔ بس کِل کِل ہی ہم بھی کہیں گے۔
بیگم: کِل کِل؟
ہم: ہاں کِل کِل
بیگم: کِل کِل کیسی؟
ہم: دیکھو غالباً تمہیں یاد ہو گا۔ ابھی صرف ایک منٹ گزرا ہم کہہ رہے تھے کہ ’’ارے کہنے کو ہم کبھی کے کہہ چکے ہوتے بس اک ذرا تمہاری۔۔۔‘‘ بس یہاں لفظ کِل کِل ہی آ سکتا ہے۔ اور ایک بہت بڑے شاعر نے بھی اپنی تم ہی جیسی تعلیم یافتہ بیوی کے متعلق یہی لفظ استعمال کیا ہے۔
گریجویٹ بیوی سے ہمارا ناک میں دم تھا
ادھر ہم نے زبان کھولی اُدھر میڈم نے کِل کِل کی
ہم چیلنج دیتے ہیں ان تمام بڑے بڑے ادیبوں کو جن کے نام کا آج کل ڈنکا بج رہا ہے۔۔۔! اور سچ پوچھو تو یہ بھی غلط ہے۔ ڈنکا آج کل کہاں رکھا ہے۔ وہ تو بادشاہی زمانے کی چیز تھی۔ بادشاہت کے ساتھ رخصت ہو گئی۔ اب تو اس کی مردہ سی نشانی یہ رمضان کریم کے دھونسے رہ گئے ہیں۔ گیلے سیلے دھبّڑ دھبڑ کرتے ہوئے۔ ہاں اب تو ڈھول ہیں ڈھول۔ تو صحیح اردو یہ ہوئی کہ ہم چیلنج دیتے ہیں ان تمام بہت بڑے بڑے اور چوٹی کے ادیبوں کو جن کے نام کا آج ڈھول پٹ رہا ہے کہ ذرا میدان میں آئیں۔ عقل کے گھوڑے دوڑائیں اور پسینے پسینے ہو جانے کے بعد بھی کوئی لفظ کِل کِل سے اچھا ڈھونڈ کر اس جگہ بٹھا دیں تو ہم آج اسی وقت ان کے شاگرد ہونے کو تیار ہیں۔ چاہے جیسی قسم لے لو۔
بیگم: (گھبرا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر) بس خدا کے لیے معاف کرو بابا میں باز آئی تمہاری۔۔۔
ہم: ارے کیا غضب کیا بھاگوان۔ نکاح ہی توڑ ڈالا۔ میں تمہارا بابا ہوں؟ بابا۔ ارے مجھے باپ بنا ڈالا۔
بیگم: لا حول ولا قوت، توبہ توبہ۔
ہم: مارو کلّوں پر تھپڑ
بیگم: آپ کے؟
ہم: جی نہیں اپنے
بیگم: (ہولے ہولے کلّوں پر تھپڑ مار کر) توبہ توبہ۔ اچھا دیکھیے مجھے کھانے کی خبر لینی ہے۔ آج کم بخت ماما بھی غوطہ لگا گئی۔ آپ کی تو آج چھٹی ہے مجھے جانے دیجئے سب کام پٹ پڑے ہیں۔ یا جو کچھ کہنا ہو مختصر الفاظ میں کہہ دیجئے بس۔
ہم: اچھا تو ذرا تیار ہو جاؤ ناچنے کے لیے
بیگم: کیا مطلب؟
ہم: وہی سچی بات جس کے سنتے ہی تم کِل کِل کرنے لگو گی۔ ناچنا شروع کر دو گی۔
بیگم: یہ بھی کوئی چِڑ مقرر کی ہے آپ نے؟
ہم: چڑ وڑ تو ہم جانتے نہیں۔ اچھا سنو! ہم اس وقت بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ جس طرح زمین گول ہے اسی طرح ہمارا سر بھی گول ہے۔ جس طرح زمین پر سفر کرنے والے جہاں سے چلتے ہیں ہِر پھر کر وہیں آ جاتے ہیں۔ اسی طرح تمہاری ہر بات کا مرکز ہمارا سر ہی ہوتا ہے۔ تمہاری ہر تان ہمارے سر پر ہی ٹوٹتی ہے۔ ہر بات کو کھینچ تان کر ہمارے ہی سر پر دے مارتی ہو۔ پرسوں اچھن موزے لایا تو تم نے کہا کہ ہاں یہ ہیں موزے۔ دیکھو کیسے اچھے ہیں۔ بالکل اونی معلوم ہوتے ہیں اونی، اور ایک آپ لائے تھے موٹے کھدر کہ پہنو تو معلوم ہو کہ پاؤں بھوبل میں رکھ دیا اور پھر لاکھ سر پٹکو کیا مجال جو پھیر کے آئیں۔ اور کل تم اپنی سہیلی رابعہ سے کہہ رہی تھیں۔۔۔ میں چھوٹے کمرے میں بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔۔۔ کہ دیکھنا بوا میری بہن کا بچہ چھامن کیسی اچھی ململ لایا ہے اور لو دیکھو یہ تمہارے بھائی جان نے لا کر دی تھی۔ موٹی جھونا۔ آج ابھی تھوڑی دیر ہوئی رمضانی چنے لایا تھا تو تم نے کہا تھا یا نہیں کہ کیسے گرم گرم اور زرد کھلے ہوئے چنے لایا ہے۔ ایک آپ لاتے ہیں کالے کالے جن میں برابر کی ٹھڈیاں ملی ہوتی ہیں۔
بیگم: مجھے آپ سے اللہ واسطے کا بیر بھی تو ہے۔
ہم: بیر ویر تو ہم جانتے نہیں۔ یہ بتاؤ جو کچھ ہم نے کہا ہے اس میں کچھ جھوٹ بھی ہے۔
بیگم: جھوٹ سچ تو میں جانتی نہیں۔ پر اتنا جانتی ہوں کہ آپ کو میری ہر بات زہر لگتی ہے۔ میں تو منہ میں قفل ڈال کر بھی بیٹھ جاؤں مگر گھر اوندھا ہو جائے گا اس لیے بولنا ہی پڑتا ہے۔ نوج کوئی اس طرح ذرا ذرا سی بات کو پکڑے دنیا میں آخر سپاہی کے گھروں میں بیویاں ہیں۔ سب ہی کچھ اپنے اپنے میاؤں کو کہہ لیتی ہیں۔ آپ جیسا فلسفی نوج کوئی ہو۔ منہ سے بات نکالنی دشوار ہے۔
ہم: دیکھو بگڑنے لگیں نہ۔ اسی لئے ہم کچھ کہتے نہ تھے۔
بیگم: نہیں میں کئی کی دن سے دیکھ رہی ہوں کہ آپ ہر وقت جلی کٹی سناتے رہتے ہیں۔ سنتے سنتے کان پک گئے اور آج تو کچھ ایسے کپڑوں میں لپیٹ کر بات شروع کی ہے کہ میرے فرشتوں کو بھی گمان نہ تھا کہ مقطع کا بند مجھ نگوڑ ماری پر ٹوٹے گا۔
یہ کہ کر بیوی رونے لگی۔ ہمیں کوئی صاحب دروازے پر کھڑے آوازیں دے رہے ہیں۔
اے لیجئے ہم تو چلے!
خان صاحب کی قربانی
عنوان سے یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ خان صاحب کو کسی نے حلال کر دیا۔ بات یہ ہے کہ میں اس مضمون میں یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ ہمارے خان صاحب نے بکرے کی قربانی کیونکر کی اور کس طرح کی۔ سُنیے۔ مگر ہاں پہلے یہ تو بتا دوں کہ یہ خان صاحب ہیں کون بزرگوار؟ اچھا تو سب سے پہلے آپ ان کا حلیہ ملاحظہ فرمائیے:
دبلے پتلے منحنی سے آدمی ہیں۔ ہلکے پھلکے۔ بس یوں سمجھئے کہ آدمی کا خلاصہ ہیں۔ جس طرح مکان کی تعمیر ختم ہونے پر مالک مکان بچے کھچے تختوں اور چھپٹیوں سے کوئی چھوٹی سی چوکی یا پٹری یا پٹرے بنوا لیتا ہے، بس یوں ہی سمجھ لیجئے کہ ہمارے خان صاحب بھی بن گئے۔ آپ انہیں چلتے ہوئے دیکھیں تو یہ معلوم ہو کہ ہوا میں اُڑ رہے ہیں۔ پاؤں میں لنگ تو نہیں ہے مگر دور سے دیکھو تو معلوم ہوتا ہے ایک طرف ذرا سی جھونک کھا رہے ہیں، جیسے گُڈّی کنّی کھاتی ہو۔ چھوٹا سا سر۔ اس پر سُرخ چُگّی اور لمبی داڑھی۔ چڑھی ہوئی مونچھیں، تنگ پیشانی، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، لمبی ناک آگے سے جھُکی ہوئی جیسے طوطے کی چونچ، چھوٹے سے مُنہ پر بڑا سا دہانہ، اور رنگ؟ آبنوس سے ذرا کھُلتا ہوا۔ خیر آپ سانولا کہہ لیجئے۔ ہاں قد تو رہ ہی گیا۔ بس پانچ فٹ۔ پورے پانچ۔ ایک انچ کم نہ زیادہ۔ عمر کوئی پچاس کے لگ بھگ سمجھئے۔ یہ ہیں ہمارے خان صاحب دام اقبالہٗ۔ ٹھیٹ دِلّی کی پیداوار۔ بڑے مزے کے آدمی ہیں۔ عقل ذرا کچھ واجبی سی ہے جس کا ثبوت سب سے بڑا یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو بے انتہا عقلمند اور تجربہ کار سمجھتے ہیں۔ ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتے ہیں اور تقدیر کے سر منڈھتے ہیں۔ جس محفل میں جاتے ہیں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں اور نُقل محفل بنے رہتے ہیں۔ میرے ان کے درمیان مدّت سے دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ کچھ وہ میرا لحاظ کرتے ہیں کچھ میں ان کی کم عقلی کا ماتم۔ یوں نبھے جا رہی ہے۔
بقر عید سے ایک دن پہلے شام کو میرے پاس آئے۔ کچھ گھبرائے گھبرائے اور کہنے لگے ’’ذرا گھر میں چلو۔‘‘
’’گھر میں تو بیٹھا ہی ہوں۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا: ’’یہ کیا بازار ہے؟‘‘
’’میرے گھر چلو۔‘‘ خان صاحب نے لفظ ’’میرے‘‘ کو ذرا زور دے کر کہا۔
’’بات تو بتائیے۔ قصّہ کیا ہے؟‘‘
’’قصّہ وصّہ کیا ہوتا، بس وہی کِل کِل پھر شروع ہو گئی۔ ایک مصیبت میں جان ہے۔‘‘ خان صاحب نے بسورتے ہوئے کہا۔
’’معلوم ہوتا ہے آپ نے پھر کوئی حماقت کی۔‘‘ میں نے انہیں گھورتے ہوئے کہا۔
’’اتنا سمجھاتا ہوں مگر آپ کے کانوں پر جوں نہیں رینگتی۔ عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھرتے ہیں۔‘‘
’’بات تو تم نے پوری سُنی نہیں اور لگے مجھ ہی کو الزام دینے۔ میں کہتا ہوں۔۔۔۔۔ اچھا تم گھر تو چلو۔‘‘ خان صاحب نے بے صبری کے ساتھ کہا۔ ’’وہاں چل کر خود دیکھ لینا کہ حماقت میں نے کی ہے یا وہ کالے سر والی سر بالوں کو آ رہی ہے۔‘‘
’’اچھا خانم سے مطلب ہے؟‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔
’’جی ہاں تمہاری بھاوج۔‘‘ خان صاحب نے جواب دیا۔
’’اچھا ٹھہریئے۔ ابھی چلتا ہوں۔ ذرا کپڑے بدل لوں۔‘‘ کہہ کر میں نے پٹاری اُن کی طرف کھسکا دی کہ اتنے آپ پان کھائیے۔ میں کپڑے بدل کر جو آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اللہ کے بندے نے چونے کی کُلیا میں کتھّے کی چمچی ڈال رکھی ہے اور کتھّے والی میں چونے کی۔ میں نے دیکھتے ہی کہا۔
میں: خان صاحب! ہیں آپ بڑے عقلمند، بھلے مانس کیا عقل کو گھاس چرنے کو چھوڑ دیا ہے۔ یہ آپ ہیں کہاں اس وقت؟
خان صاحب: کیا ہوا۔ یہ برسنے کیوں لگے؟
میں: یہ کیا کِیا آپ نے؟ پٹاری کا ستیا ناس کر کے رکھ دیا۔
خان صاحب: میں تو سمجھا تھا نہ معلوم کون سا لمبا چوڑا قصور کر بیٹھا ہوں۔ میاں ہو بڑے تھُڑ دلے۔ بس دھیلے کے نقصان پر بگڑ بیٹھے۔
میں: دھیلے پیسے کا سوال نہیں۔ اصل میں آپ رہتے ہی کچھ کھوئے کھوئے سے ہیں۔ جب ہی تو خانم سے دانتا کِل کِل رہتی ہے۔
خان صاحب: اچھا تو اب چلتے بھی ہو یا نہیں؟
خیر صاحب ہم دونوں چلے۔ خان صاحب کے گھر پہنچے۔ خانم میرے سامنے ہوتی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی میاں سے بولیں۔
خانم: اب انہیں لائے ہو حمایتی بنا کے۔ اچھا میں بھی دیکھوں گی کیونکر تمہاری طرفداری کرتے ہیں؟
میں: خانم میں سچ کہتا ہوں مجھے اب تک خبر نہیں کہ معاملہ کیا ہے۔ انہوں نے تو میرے گھر پہنچ کر بس رٹ لگا دی کہ میرے ساتھ چلو۔ میرے ساتھ چلو۔ خانم پھر کِل کِل کر رہی ہیں۔
خانم: (کولہوں پر ہاتھ رکھ کر) اچھا یہ کہا انہوں نے؟ میں کِل کِل کر رہی ہیں۔ کِل کِل۔ ہوں بھائی ذرا تم بھی دیکھنا یہ بکرا لائے ہیں۔ وہ کھڑا۔ ذرا پاس جا کر دیکھو۔ اس کی قربانی جائز بھی ہے؟ اور پھر کیسی تعریفیں کرتے ہوئے گھر میں گھسے ہیں۔ (منہ بنا کر) موٹا ہے، تازہ ہے، تیار ہے، بہت سستا مل گیا، بڑا چکنا گوشت ہو گا، مزا آ جائے گا، ہوں۔ ذرا تم خود جا کر دیکھو سینگ ٹوٹا ہوا، کان کٹا ہوا، موئے کی ناک بہہ رہی ہے۔ ایک دم کھانسے جاتا ہے۔ بکرا لائے ہیں صاحب قربانی کے لئے۔
میں نے جا کر دیکھا تو سچ مچ اس کا تو آدھا کان غائب تھا اور ایک سینگ ٹوٹا ہوا۔ میں نے خاں صاحب سے کہا۔
میں: خان صاحب! اس کی تو قربانی جائز نہیں۔
یہ سنتے ہی خانم کھِلکھلا کر ہنسیں۔ خان صاحب روکھے ہو کر بولے۔
خان صاحب: اب لگے تم بھی ان ہی کی سی کہنے۔ بھئی واہ۔ اچھا لایا تمہیں!
خانم: (جلدی سے) یوں کہو حمایتی بنا کے۔
خان صاحب: تم چپکی رہو جی۔
خانم: کیوں چپکی رہوں۔ بڑے آئے چپکا کرنے والے۔ لو صاحب ایک تو روپے پھینک آئے پورے سولہ بھر مٹّی اور پھر کہتے ہو چپکی رہو۔ ہونہہ خدا جانے کس کس طرح کتر بیونت کر کے یہ روپے بکرے کے لئے بچائے تھے۔ یہ بکرا لائے ہیں موا کن کٹا۔ جاؤ پھیر کے آؤ۔ میں نہیں جانتی میرے روپے لا کر دو۔
خان صاحب نے میری طرف کچھ ایسی بے کسی سے دیکھا جیسے ایک بچّے کا سوال غلط ہو گیا ہو اور ماسٹر بیت ہاتھ میں لے کر کھڑا کہہ رہا ہو کہ جلدی سوال نکال نہیں تو کھال اُدھیڑ دوں گا۔ اور بچہ کسی کو دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں کہے کہ خدارا اس ظالم سے بچاؤ۔ مجھے ان کی حالت پر بڑا ترس آیا۔ میں نے کہا۔
میں: کہاں سے لائے تھے خان صاحب؟ چلیے میں ساتھ چلتا ہوں۔
خان صاحب: چلو گے کہاں۔ وہ رکھا ہے؟ خدا جانے بیچ باچ کر کہاں پہنچا ہو گا۔
خانم: بھائی یہ نہیں جانے کے۔ نہیں جانے کے۔ میں انہیں خوب جانتی ہوں پیسے پھینک آتے ہیں اور پھر کیا مجال جو چیز واپس کر آئیں۔ ان کے تو سارے کام ایسے ہی خوبی بھرے ہوتے ہیں۔ پیسے کا ذرا درد نہیں۔ ایک کی جگہ چار خرچ کرتے ہیں اور چیز نکمّی اُٹھا لاتے ہیں۔ پھر لاکھ سمجھاؤ، سر پٹکو، کبھی جو واپس کرنے جائیں۔ اپنی لائی ہوئی چیز کی اُلٹی سیدھی تعریفیں کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ بس توالی (تباہی) مجھ نا مراد کی جان پر آتی ہے۔ خبر نہیں کس کس طرح من مار کے دو پیسے بچاتی ہوں وہ یوں آگ لگا آتے ہیں۔
خان صاحب: عجیب مصیبت میں جان ہے۔ مجھے تو اس عورت نے چرخا بنا دیا ہے۔ کوئی چیز خاطر میں نہیں لاتی۔ ہر چیز میں جان جان کر کیڑے ڈالے جاتے ہیں۔ بھائی، خدا کی قسم کوڑی پھیرا کرتا ہوں بازار کا۔ پھر بھی اس عورت کے بھانویں نہیں۔ میں پھر بُرے کا بُرا۔ اچھا اب بتاؤ کیا کروں۔ کسی طرح یہ قصّہ ختم بھی ہو گا یا نہیں؟
میں: چلئے چل کر کوشش تو کریں۔ شاید بیچنے والا مل جائے۔ بلا سے روپے دھیلی کا نقصان ہو جائے۔ واپس کر کے دوسرا لے آئیں گے۔
بکرا مزے سے بیل کے پتّے کھا رہا تھا۔ خان صاحب نے نل کے پائپ میں بندھی ہوئی رسّی کھولی۔ بکرا اڑ گیا۔ بڑی مشکل سے کھینچتے گھسیٹتے دروازے تک پہنچے ہوں گے کہ ایک دم سے جو بکرے نے زور کیا تو رسّی خان صاحب کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ بکرا قلانچیں مارتا ہوا سیدھا دالان میں پہنچا۔ خانم بھی چیختی چلّاتی دوڑیں۔ ہے ہے نئی جاجم کا ستیا ناس کر دے گا۔ دوڑنا پکڑنا۔ بکرے نے اتنی دیر میں فرش پر پیشاب کا چھڑکاؤ کر دیا اور مینگنیوں کا مینہ برسا دیا۔ نئی چار خانے کی جاجم غارت ہو گئی۔ خانم چیختی پیٹتی رہیں۔ ہم بکرے کو پکڑ دھکڑ کر لے چلے۔ جامع مسجد پہنچ کر میں نے خان صاحب سے کہا۔ ذرا غور سے سب کو دیکھتے جائی اور پہچانیے کہ کس سے لے گئے تھے۔ اب خان صاحب کی حالت ملاحظہ ہو۔ ایک شخص پانچ بکرے لئے کھڑا تھا۔ کہنے لگے یہی ہے۔ اسی سے لیا تھا۔ میں نے اس جا کر کہا۔
میں: چودھری صاحب! ذرا دیکھنا بھائی۔ یہ بکرا تم سے لے گئے تھے۔ اس کی قربانی جائز نہیں۔ آخر تم بھی تو مسلمان ہو۔ سب کچھ جانتے ہو۔ یہ واپس کر کے دوسرا دے دو۔
چودھری: میاں جی! میرا تو یہ بکرا نہیں ہے کسی اور سے لے گئے ہوں گئے۔
میں: (خان صاحب سے) آپ انہی سے لے گئے تھے۔ بولتے کیوں نہیں؟
خان صاحب چودھری کی طرف غور سے دیکھ کر بولے۔
خان صاحب: میاں تم سے ہی تو لیا تھا۔ تمہارے پاس چھ بکرے تھے۔ ایک میں نے لیا۔ پانچ یہ رہے۔
چودھری: میاں جاؤ عقل کے ناخن لو۔ بڑے آئے بکرا لینے۔ نہ جانے کہاں سے یہ چھچھوندر لے گئے۔ میرے بکرے دیکھتے نہیں سانڈ ہیں سانڈ۔ کتنے کا لے گئے تھے۔
خان صاحب: سولہ روپے کا اور کتنے کا؟
چودھری: میرے تو چالیس چالیس کے ہیں۔ اور میں نے تو تین ابھی کھڑے کھڑے بیچے ہیں۔
خان صاحب کچھ لاجواب سے ہو کر مجھ سے کہنے لگے۔
خان صاحب: تو نہ لیا ہو گا ان سے۔
میں: آپ جانتے تو خاک نہیں۔ یونہی خواہ مخواہ کسی کے سر ہو جاتے ہیں۔ آخر بتائیے تو جس سے بکرا لیا تھا اس کا حلیہ کیا تھا؟
خان صاحب: حلیہ، حلیہ کیسا؟
میں: اس کی شکل و صورت کیسی تھی؟
خان صاحب: ایسی تھی جیسی سب کی ہوتی ہے۔
میں: عجیب آدمی ہیں آپ بھی۔ میاں اس کی ڈاڑھی تھی؟
خان صاحب: تھی
میں: کیسی تھی؟
خان صاحب: خاصی تھی۔
میں: لا حول و لا قوۃ۔ بندۂ خدا۔ یہ بتائیے کالی ڈاڑھی تھی یا سفید تھی، چھوٹی تھی یا بڑی؟ اس کا رنگ کیسا تھا، گورا، کالا یا سانولا؟ ٹوپی پہنے ہوئے تھا یا ننگے سر تھا یا صافہ باندھے ہوئے تھا؟
خان صاحب: کالی ڈاڑھی تھی، صافہ باندھے ہوئے تھا۔ سفید صافہ۔ میں تو کہتا ہوں یہی ہے۔ چلو پھر اُسی سے پوچھیں۔ بد معاشی کر رہا ہے۔
میں: اب آپ کا پٹنے کو جی چاہ رہا ہے۔ چلئے گھر چلئے۔
خان صاحب: اور۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔ وہ خانم جو کہیں گی۔
میں: ہاں کہیں گی تو ضرور۔
خان صاحب: پھر؟
میں: پھر کیا؟ سُن لیجئے گا۔ بولئے گا نہیں۔
خان صاحب: مگر۔۔۔ بھائی خدا کے لئے دیکھو میں ہاتھ جوڑتا ہوں۔ کسی طرح اِس قصّے کو ختم کرو۔
یہ کہتے کہتے خان صاحب کی آواز بھرّا گئی۔ مجھے یہ قصّہ اور کسی طرح تو ختم ہوتا نظر نہ آیا۔ میں نے اپنے پاس سے ایک بکرا خریدا۔ جو تھا تو اس سے چھوٹا مگر قربانی کے قابل تھا۔ خان صاحب والا بکرا میں اپنے گھر لے گیا۔ (خان صاحب ساتھ ساتھ تھے) یہ دوسرا بکرا لے کر ہم خان صاحب کے گھر پہنچے۔ خانم دیکھ کر کہنے لگیں۔
خانم: ہاں دیکھو! بکرا ہے بے عیب، کتنے کا ملا؟
بکرا در اصل چودہ روپے کا تھا مگر میں نے کہہ دیا سترہ کا ملا ہے۔ بہرحال یہ قصّہ یوں ختم ہوا۔ دوسرے دن خان صاحب سویرے ہی سے میرے گھر آ گئے۔ عید گاہ ساتھ گئے۔ ساتھ نماز پڑھی۔ ساتھ واپس آئے۔ غرض دم کے ساتھ رہے اور منّت خوشامد کر کے عیدگاہ سے مجھے اپنے گھر لے گئے۔ راستہ بھر خوشامد کرتے رہے کہ قربانی اپنے ہاتھ سے کر دو۔ مختصر یہ ہے کہ میں ان کے ساتھ اُن کے گھر گیا۔ قصائی کو بلایا۔ بقر عید والے دن قصائی کو گھیر گھار کر لانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ بہرحال وہ آ گیا۔ اب ذرا ملاحظہ ہو خانم کی تائید ہے کہ اپنے بکرے کی قربانی خود کرنی چاہیے۔ یعنی چھری خود پھیرنی چاہیے۔ میں بھی خان صاحب کو مرد بنا رہا ہوں، قصائی الگ جلدی کر رہا ہے کہ مجھے دوسری جگہ جانا ہے۔ مگر خان صاحب نے ہیں کہ آنا کانی دیے جا رہے ہیں۔ جب خانم نے ڈانٹ پلائی تو مجبوراً چھری تھامی۔ قصائی نے بکرے کو پچھاڑا۔ بکرا ’’مے ایں ایں‘‘ کیے جا رہا ہے۔ قصائی خفا ہو ہو کر کہہ رہا ہے۔ ’’میاں چلو، میاں چلو۔‘‘ اور خان صاحب ہیں کہ کانپ رہے ہیں اور ’’ہیں ہیں ہیں بھئی بھئی۔ اچھی بھائی۔‘‘ کہے جا رہے ہیں۔ قصائی نے چیخ کر کہا۔ ’’میں چھوڑتا ہوں۔ تم جانو تمہارا کام۔‘‘ ادھر میں نے خان صاحب کو لے جا کر ان کا ہاتھ بکرے کے گلے پر ٹکا کر کہا ’’کہیے بسم اللہ اللہ اکبر‘‘۔ خان صاحب نے چھری چلائی تو مگر شہ رگ کاٹے بغیر ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے جلدی سے چھُری لے کر حلال کیا۔ مگر خان صاحب کے پھوہڑ پنے سے ان کے سارے کپڑے خون میں بھر گئے۔ مجھے تو جلدی ہو رہی تھی۔ بال بچّوں کے لیے مٹھائی اور کچوریاں وغیرہ ابھی تک نہیں لی تھیں۔ لہٰذا میں تو چُپ چاپ کھسک گیا۔ اس کے بعد کی داستان کہ کپڑے خراب ہو جانے پر خانم نے ان کی کیونکر خبر لی اور پھر کیا ہوا، بشرط فرصت پھر کبھی سُن لیجئے گا۔
جیسے کو تیسا
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب ہندوستان میں ریلیں نہ تھیں۔ لوگ رتھوں، ہلیوں، چھکڑوں، گھوڑا گاڑیوں وغیرہ میں بیٹھ کر سفر کیا کرتے تھے اور یوں اس فاصلے کو جو اب گھنٹوں میں طے ہوتا ہے دِنوں بلکہ مہینوں میں طے کرتے تھے جن کے پاس اسباب کم ہوتا تھا یا چھڑے دم ہوتے تھے۔ وہ گھوڑوں، ٹٹوؤں اور بیلوں پر سفر کرتے تھے۔
اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک لالہ جی جن کا نام رام پرشاد تھا اپنے وطن الہ آباد سے بنارس گئے تاکہ علم حاصل کریں۔ تین چار برس وہاں رہے اور جب پڑھ لکھ کر خوب ودوان (عالم) ہو گئے تو اپنی کتابیں بیل پر لادیں اور وطن کی طرف چل پڑے۔ کبھی پیدل چلتے کبھی خود بھی سوار ہو جاتے۔
تیسرے دن کا واقعہ ہے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ لُو چل رہی تھی، دِن سُلگ رہا تھا۔ زمین تپ رہی تھی۔ یہ بچارے پسینے میں نہائے بیل کی رسّی پکڑے چلے جا رہے تھے۔ پیاس کے مارے بُرا حال تھا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ زبان منہ سے نکل پڑتی تھی۔ بارے دور سے ایک کنواں دکھائی دیا۔ ان کی جان میں جان آئی۔ جوں توں کر کے وہاں پہنچے۔ بڈھا جاٹ چرس کھینچ رہا تھا۔ اس سے بولے۔
’’چودھری تھوڑا سا پانی پلاؤ گے؟‘‘
چودھری بولا۔ ’’آؤ مہاراج! پیو کھُوب ڈٹ کر پیو۔‘‘
پنڈت جی نے پانی پیا۔ منہ پر چھلکے لگائے۔ سر پر پانی ڈالا۔ ذرا جان میں جان آئی۔ کنویں کی مینڈ پر بیٹھ کر سستانے لگے۔ چودھری نے پوچھا۔
’’مہاراج! کہاں سے آنا ہوا؟ بڑے نراش دکھّو ہو (پریشان دکھائی دے رہے ہو)‘‘ پنڈت جی بولے۔
"چودھری کیا بتائیں۔ آج کل گرمی تو اچار نکالے دیتی ہے۔ بہت دُور سے آ رہے ہیں۔ کاشی جی گئے تھے۔ اب چار برس پیچھے اپنے گھر لوٹ رہے ہیں چودھری۔ مہاراج! کاشی جی کے کرن لاگے گئے تھے (کاشی جی کیا کرنے گئے تھے)
پنڈت جی: ودِّیا سکھنے گئے تھے۔‘‘
چودھری۔ تب تو کھوب ودوان ہو گئے ہو گے۔ چار برس میں تو سب کچھ پڑھ لیا ہو گا۔ بھلا ہماری ایک بات بتاؤ گے؟
پنڈت جی: کیوں نہیں۔ پوچھو کیا پوچھتے ہو؟
چودھری: نہ یو بات کوئی نا۔ جو تم ایسے ہی ودوان ہو تو ہماری ایک سَرَط (شرط) مان لو۔ تب کہیں۔
پنڈت جی: اچھا اچھا۔ اپنی شرط بھی بتا دو۔ ہم کوئی بھاگتے تھوڑے ہی ہیں۔
چودھری: ہمارا ایک چھوٹا سا شبد (مصرعہ) ہے۔ اس کا مَطبَل (مطلب) بتا دو تو جانیں۔ جو تم نے بوجھ دیا تو ہم سے ایک بیل لے لینا اور جو تم سے نہ بن پڑا تو اپنا بیل ہمیں دے دینا۔
پنڈت جی نے سوچا یہ گاؤں کا گاؤدی ایسی کیا بات پوچھ بیٹھے گا جو ہم جیسے ودوان سے نہ بتائی جائے گی۔ جھٹ بول اُٹھے۔
پنڈت جی: ہاں ہاں ہمیں تمہاری شرط منظور ہے۔ پوچھو کیا پوچھتے ہو؟
چودھری: پنڈت جی! پھر کھُوب سا سوج بچار کر لو۔ کبھی پاچھے پچھتانا نا پڑے۔ کھُوب سمجھ کر بچن دینا۔
پنڈت جی اپنی دانست میں پورے عالم فاضل بن چکے تھے۔ اُن کے احساس کو ٹھیس لگی۔ چودھری کے تاؤ دلانے سے سچ مچ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے۔
پنڈت جی: چودھری سُن لے۔ ہم پنڈت ہیں پنڈت! چار برس کاشی جی میں رہ کر علم پڑھا ہے۔ کچھ بھاڑ نہیں جھونکا۔ لے اب لپک کر بتا دیر نہ کر۔ ہماری راہ کھوٹی ہوئی ہے۔ ہمیں تیری شرط منظور ہے۔ بول کیا کہتا ہے؟
چودھری: اچھا تم جانو۔ لو سُنو ہمارا شبد ہے ؎
’’شپ شاپ شپا شپ شپّا سا‘‘
لے اس کا مطبل بتا دو۔
پنڈت جی نے جو یہ سنا تو اوسان خطا ہو گئے۔ انہوں نے بھلا یہ شپا شب کاشی جی میں کاہے کو پڑھی تھی۔ لگے بغلیں جھانکنے۔ کبھی یہ کتاب نکال کر دیکھی۔ کبھی اس میں ٹٹولا۔ بڈھا چودھری ایک ہی کائیاں تھا۔ پنڈت جی کی سراسیمگی دیکھ کر لگا ٹھٹھے مارنے۔ پنڈت جی اور بھی بدحواس ہو گئے۔ ہاتھ پاؤں میں رعشہ سا آ گیا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔ ادھر چودھری نے چھینٹے دے کر اور بھی ہاتھوں کے طوطے اُڑا دیے۔
’’پنڈت جی یہ پُستک اُٹھا دوں۔ اس میں سے باجھ لو۔‘‘ آخر پنڈت جی نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا:
پنڈت جی: چودھری تو جیتا اور میں ہارا۔ مجھ سے تیرے شبد (مصرعہ) کا ارتھ (مطلب سمجھانا) نہ ہو گا۔ لے میرا بیل لے لے۔ پر اتنی دیا کر کہ میری یہ کتابیں اپنے پاس ہی رہنے دے۔ پھر کبھی آ کر لے جاؤں گا۔ اب انہیں بنا بیل کے کیسے لے جاؤں۔
ادھر تو پنڈت جی بیل کھو کر اُلٹے پاؤں بنارس چلے کہ اپنے ادھورے علم کو پورا کریں۔ اُدھر بڈھے کسان نے اپنے پوتے سے کہا۔
چودھری: جھورا یو دیکھ! بھگوان نے ایک بیل تو دلا دیا۔ اب دو بیلوں میں سے ایک تو اپنا ہو گیا اور کیا جانے بھگوان کی یہی اِچھّا ہو کہ دوسرا بیل بھی یوں ہی دِلا دیں جو دَلدّر پار ہو جائیں۔ اب تو لمبردار کا ایک بیل تو واپس کر آئیو۔
پنڈت جی شرط ہار کر واپس بنارس جا رہے تھے۔ اُدھر سے ایک اور ودوان گھر جاتے ہوئے ملے۔ انہیں جو دیکھا تو بڑا اچنبھا ہوا۔ کہنے لگے۔
’’رام پرشاد جی! تم تو گھر گئے تھے۔ یہ اُلٹے کاشی جی کیسے جا رہے ہو۔ اور وہ تمہارا بیل کدھر گیا؟‘‘
رام پرشاد: شیو دیال جی! کیا بتاؤں۔ مجھے تو اس پاکھنڈی نے کہیں کا نہ رکھا۔
یہ کہہ کر رو رو کر ساری داستان سُنائی۔ شیو دیال بولے۔
’’تم بڑے مورکھ ہو جو اُس پاپی کے جُل میں آ گئے۔ اس کا بیل ہتھیانے کے لوبھ میں اپنا بھی گنوا بیٹھے۔ خیر تمہارے بھلے دِن تھے جو ہم مل گئے۔ چلو تمہارا بیل دلوا دیں۔‘‘
رام پرشاد نے کہا۔ ’’بھیّا تم وہاں نہ جاؤ۔ مجھ پر تو جو بپتا پڑی سو پڑی۔ تم کیوں بیٹھے بٹھائے بلا مول لیتے ہو۔ اُس دُشٹ سے نہ جیت سکو گے۔ میری طرح اپنا بیل بھی کھو بیٹھو گے۔‘‘
شیو دیال کہہ سن کر انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ جب وہ گاؤں پاؤ میل رہ گیا تو رام پرشاد نے اشارے سے بتایا کہ دیکھو وہ گاؤں ہے، وہ کنواں ہے اور وہ بڈھا چرس کھینچ رہا ہے۔
شیو دیال نے کہا۔ ’’تم یہیں جھاڑیوں کے پیچھے ٹھہر جاؤ۔ میں اکیلا جاتا ہوں۔ تمہیں ساتھ دیکھ کر وہ پاپی بدک جائے گا۔‘‘
یہ تو یہاں ٹھہر گئے اور شیو دیال اپنا بیل لے کر آگے بڑھا۔ بڈھے کسان نے جو دُور سے انہیں دیکھا تو خوش ہو کر اپنے پوتے سے کہا۔
’’چھورے یو دیکھ! پرماتما نے دوسرا بیل بھی بھج دیا۔ میں نہ کہوں تھا پرماتما کی دیا ہو تو چھپر پھاڑ کر دیں ہیں۔‘‘
اتنے میں شیع دیال بھی آ پہنچے۔ پانی پیا اور دم لینے کو کنویں کے مینڈھ پر بیٹھ گئے۔ چودھری نے ان سے بھی وہی باتیں کیں جو رام پرشاد سے کی تھیں اور شرط بُر کر پکی کر لی۔ پھر اپنا وہی شبد سُنایا۔ ؎
’’شپ شاپ شپا شپ شپّا سا‘‘
شیو دیال سنتے ہی بولے ’’ارے چودھری یہ تو نے کیا پوچھ لیا۔ کوئی اور بڑی سی بات پوچھ جو ہم اپنی ودّیا کا گن دکھائیں۔ یہ تو ہمارے کاشی میں پہلی جماعت کے بچّے بھی بتا سکتے ہیں۔‘‘
اب تو چودھری بڑا سٹپٹایا۔ مگر یہ سوچ کر کہ یہ دھوکا دے رہا ہے ذرا تیترا معلوم ہوتا ہے۔ اُس کی طرح بُدّھو نہیں ہے۔ کہنے لگا۔
’’اور بات وات تو ہم جانتے نہیں۔ تم تو بس اسی کا ارتھ کر دو (مطلب سمجھا دو)‘‘ شیو دیال نے کہا۔
شیو دیال: جو تیری یہی اِچھّا ہے تو سُن لے۔ یہ اصل میں چار شبدوں کا پورا اشلوک ہے (چار مصرعوں کا قطعہ ہے) ان میں سے ایک شبد وہ ہے جو تو نے ابھی پڑھا۔ اب تُو کہے ہے تو ہم اسی ایک شبد کا ارتھ کر دیں اور تُو چاہے تو پورا اشلوک سنا دیں۔
چودھری: جو تُو ایسا ہی گُنی ہے تو سارا ہی اشلوک سنا دے۔
شیو دیال: اچھا تو سُن لے۔ پورا اشلوک یوں ہے۔
چٹ چاٹ چٹا چٹ چٹّا سا
کھٹ کھاٹ کھٹا کھٹ کھٹّا سا
بھد بھاد بھدا بھدا بھدّا سا
شپ شاپ شپا شپ شپّا سا
یہ سن کر بڈھے چودھری کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا، ہے بھگوان! یہ کیا ہوا۔ جیتا جتایا بیل ہاتھوں سے چلا۔ پھر دل کڑا کر کے کہنے لگا:
چودھری: اچھا اب ارتھ بھی کر دے۔
شیو دیال: سن چودھری! تیرے کھیت میں باجرہ بویا ہوا تھا۔ جب ساری بالیں پک گئیں تو ایک دن تو نے اپنے سب بال بچوں سے کہا کہ چلو رے باجرہ توڑ لاؤ۔ سو تیرے بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، سب مل جُل کر کھیت میں آئے اور لگے باجرے کی بالیں توڑنے۔ اس وقت بالیں ٹوٹنے سے ایسی آواز آ رہی تھی ؎
چٹ چاٹ چٹا چٹ چٹا سا
سب بالی توڑ تاڑ گھر لے گئے۔ اب تو نے کہا آؤ رے چھورے چھوریوں اسے کوٹو۔ بالوں میں سے باجرا الگ کرو۔ سو سب کے سب موگریاں لے لے کر بیٹھ گئے۔ اور لگے کوٹنے۔ اب کوٹنے سے کیسی آواز آئی ؎
کھٹ کھاٹ کھٹا کھٹا سا
اب تو نے کہا کہ فصل کا پہلا اناج ہے۔ آؤ رے بچوں اب اسے پکاؤ۔ سو اس میں سے تھوڑا سا باجرہ لے کر ایک بڑے مٹکے میں ڈالا اور اس میں پانی اور گُڑ ڈال کر چولھے پر چڑھایا۔ وہ لگا پکنے اور اس میں سے آواز آنے لگی۔
بھد بھاد بھدا بھد بھدا سا
جب پک چکا تو تُو نے کہا۔ آؤ رے چھورے چھوریوں اِسے کھاؤ۔ سو چودھری بڑی بڑی مٹّی کی رکابیوں میں اسے نکالا اور خوب چھاچھ ملا کر اب جو سب نے ہاتھوں سے کھانا شروع کیا ہے تو کیا آواز آ رہی تھی۔ ؎
شپ شاپ شپا شپ شپّا سا
سو چودھری سن لیا تو نے اب اور کچھ پوچھنا ہے تو جلدی سے پوچھ پاچھ لے۔ نہیں تو بیل دے۔ ہماری راہ کھوٹی ہو رہی ہے۔
چودھری نے ٹھنڈا سانس بھر کر اپنے پوتے سے کہا۔
’’لا چھورے بیل کھول لا۔‘‘
شیو دیال نے رام پرشاد کی کتابیں بھی لے کر اُسی بیل پر لادیں اور چودھری سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔ ’’تاؤ جی پرنام۔‘‘ اور چل دیا۔
رام پرشاد کے پاس پہنچ کر اس سے کہا کہ۔ ’’لو پنڈت جی اپنا بیل اور اب کہیں پانی وانی پینے کے لئے ٹھہرو تو کسی سے بات نہ کرنا۔‘‘
دعوت نامہ
’’آج کیا پڑا پا گیا جو یوں باچھیں کھلی جا رہی ہیں۔‘‘ بیوی چھالیہ کترتے ہوئے بولیں۔
میاں: کیوں کیا ہوا؟
بیوی: میں بھی تو یہی پوچھ رہی ہوں کہ آج تو ماشا للہ بڑے خوش خوش گھر میں گھسے ہو۔ کیا بات ہے؟
میاں: روز تم کہا کرتی تھیں نا کہ کگر میں گھستے ہی کھاؤں پھاڑوں کھاؤں پھاڑوں کرتے ہوئے تو بس اب ہم نے بھی سوچا کہ چلو ہنستے ہوئے گھر میں گھسا کریں گے۔
بیوی: نہیں بتاؤ۔ سچ بتاؤ۔ کچھ ترقّی ہوئی ہے؟
میاں: بیوی اِس نوکری میں ترقّی سے تو مُنہ دھو رکھو۔ کمبخت ایسا منحوس دفتر ہے کہ خدا کسی کو نہ لے جائے۔
بیوی: اور اپنی کہو۔
میاں: اپنی کیا کہیں۔ بس پھنس گئے سو پھنس گئے۔
بیوی: اب چھوڑ دو۔
میاں: پھر کھائیں کیا۔ ہوا پھانک کے جئیں؟
بیوی: اچھا بتاؤ پھر کیا بات ہے جو چہرہ کھلا ہوا ہے۔ ماشاء اللہ غپا غپ نور برس رہا ہے۔
میاں: بیوی بڑی اچھی بات ہے۔ لاؤ پہلے کھانا کھلوا دو پھر بتا دیں گے۔
بیوی: نہیں پہلے بتا دو پھر لاؤں گی۔
میاں: اری بھاگوان کہہ تو دیا کہ بتا دوں گا۔ پہلے کھانا کھا لینے دو۔ دس بجے کا کیا گیا اب شام کو گھر گھسا ہوں۔ ہاتھ پاؤں ڈھیر ہو کر رہ گئے ہیں۔ دماغ کا کچومر نکل گیا۔ پیٹ میں الگ آگ لگ رہی ہے۔ دید یا مصرعہ طرح طرح کی غزل ہو گی، صاحب طرح کی۔ امتحان لیتے ہیں شاعروں کا اور احمق یہ نہیں سمجھتے کہ طرح میں غزل کسی دوسرے سے لکھوا کر نہیں لا سکتے۔
بیوی: (جلدی سے) اچھا اچھا۔ تم کھانا تو کھاؤ۔ لو پہلے منہ ہاتھ دھو لو۔ ذرا دماغ کو ٹھنڈک پہنچے۔ میں تو پہلے ہی کھٹکی تھی کہ کہیں کوئی مشاعری ہو گی اُس کا بُلاوہ آیا ہو گا۔
میاں: (ہنس کر) نہیں مشاعری تو نہیں ہے، ہے تو بڑا مشاعرہ۔ آل انڈیا کی وضع کا۔ لو دیکھو یہ۔۔۔۔۔۔
بیوی: (بات کاٹ کر) اچھّا اچھّا تم کھانا تو کھاؤ۔
یہ کہہ کر وہ تو کھانا نکالنے گئیں۔ ادھر میاں ہاتھ منہ دھو کر تیار ہو گئے۔ کھانا کھا چکے تو کہنے لگے۔
میاں: تم نے ہیچ ہی میں سے بات کاٹ دی۔ لو دیکھو یہ ہے وہ دعوت نامہ۔
بیوی: بس تم ہی دیکھو۔ میں کیا کروں گی دیکھ کے۔ مجھے تو پھر گھر کا فکر پڑ گیا کہ اب چار پانچ دن تک سودے سلف کی الگ حیرانی ہو گی، گھر الگ سنّاٹا ہو گا۔ ہاں اور کیا بغیر مرد کے گھر کاہے کا۔ راتوں کو ڈر لگے گا۔
میاں: چار پانچ دن کا کیا کام۔ ہفتہ کو رات کی گاڑی سے جاؤں گا اور منگل کو انشاء اللہ رات کی کسی گاڑی سے آ جاؤں گا۔ بس تین دن کی بات ہے۔
بیوی: اچھا دیں گے کیا؟
میاں: یہ لوگ بڑے نامعقول ہوتے ہیں۔ خود غرض اپنا پیٹ بھرنے والے۔ سُنا ہے بہت سارا چندہ ہوا ہے اور پھر ٹکٹ الگ لگایا ہے۔ کوئی چار پانچ ہزار کی رقم اکھٹی ہو ہی گئی ہو گی۔ مگر شاعروں کو دیتے ہوئے دل دکھتا ہے۔ چاہتے ہیں کہ انہیں کم سے کم دے کر زیادہ سے زیادہ اپنی جیب میں رکھ لیں۔
بیوی: دیکھنا تم بُرا تو بہت جلدی مان جاتے ہو مگر خلق کا حلق تھوڑے ہی بند کیا جا سکتا ہے۔ سب کہتے ہیں کہ مُجرے میں جاتے ہیں، گاتے ہیں اور پیسے لے آتے ہیں۔ سنتے سنتے میرے کان پک گئے۔ میں تو کہتی ہوں کہ تم کہیں نہ جایا کرو اور جاؤ بھی تو پیسے لیا کرو۔ لوگ کیا بے جا کہتے ہیں۔ بے شک یہ تو اپنے علم و ادب کو فروخت کرنا ہوا۔
میاں: اب تم بھی لگیں نا معقولوں کی سی باتیں کرنے۔ لوگ تو اصل میں حسد کرتے ہیں۔ جلے مرتے ہیں کہ ہائے یہ نوکری الگ کرتا ہے اور یوں شاعری سے الگ پیسے بٹورتا ہے۔ کیوں جی میں پوچھتا ہوں وہ جو اس دن تمہاری سہیلی آئی تھیں کیا نام ذکیہ جن سے تم نے پوچھا تھا کہ تمہارے میاں کیا کرتے ہیں اور انہوں نے جواب دیا تھا کہ ناظر ہیں۔ پھر تم نے پوچھا تھا کہ تنخواہ کیا ملتی ہے انہوں نے کہا تھا کہ پینسٹھ روپے ملتے ہیں۔ پھر تم نے پوچھا تھا کہ کچھ اوپر سے بھی ہو جاتا ہے انہوں نے کہا تھا کہ ہاں بوا اللہ کا فضل ہے تو تم نے کہا تھا کہ شکر ہے۔ تو یہ ’’اوپر کی کمائی‘‘ تو بڑی اچھی ہوئی۔ ایسی کہ اسے اللہ کا فضل کہا گیا۔ اور ہم شاعر لوگ کسی کی جیب نہیں کاٹتے، کسی بے گناہ کو جیل میں نہیں سڑاتے، کسی سے زبردستی کچھ نہیں چھینتے تو یہ مجرا بری کمائی ہوئی۔ سبحان اللہ
بیوی: اب میں کیا جانوں۔ لوگ کہتے ہیں اور نام دھرتے ہیں۔
میاں: وہ لوگ تو احمق ہیں۔ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ اگر شاعر سفر کی صعوبتیں اُٹھا کر مشاعروں میں جاتا ہے، راتوں کو پانچ پانچ بجے تک جاگتا ہے اور بندھا بیٹھا رہتا ہے کیا مجال کہ ذرا لیٹ کر کمر تو سیدھی کر سکے، پھر گلا پھاڑتا ہے تو وہ کسی کے باپ کا نوکر ہے کہ کرایہ بھی اپنی گرہ سے خرچ کر کے جائے اور لوگوں کو خوش کر کے خیر سے اپنے گھر آ جائے۔ اور میں تم سے پوچھنا ہوں یہ جو وکیل مقدمے کرتے ہیں اور فیس لیتے ہیں۔ یہ معاوضہ نہیں تو کیا بلا ہے؟ یہ اپنی علم کو چاہیں تو کیا ہے۔ مفت مقدمے کیا کریں۔ بیوی بچے کا گلا گھونٹ دیں۔ اسی طرح مدرسوں کے ماسٹر، کالجوں کے پروفیسر، دفتروں کے بابو اور عہدے دار غرض سب ہی اپنے علم کو بیچتے ہیں۔ علم اُسے کہتے ہیں جسے سب نہ جانتے ہوں اور جو محنت کرنے کے بعد حاصل ہو۔ شاعری بھی علم ہے۔ یہ بھی محنت کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ اس سے پرخاش کیوں ہے؟ اور ہاں یہ جو ریڈیو پر جا کر تقریر کرتے ہیں اور پچاس پچاس روپے لے آتے ہیں۔ یہ کیا چیز ہے۔ یہ شیر مادر ہے نا؟
بیوی: ہاں یہ باتیں تو بالکل ٹھیک ہیں مگر دنیا کو کیا کِیا جائے۔
میاں: دنیا کون سی دنیا؟ مکّار اور خود غرض دنیا! ذرا دیکھا کہ ارے یہ تو مشہور ہو رہا ہے، پیسے الگ آ رہے ہیں، شہرت الگ ہو رہی ہے۔ جہاں جاتا ہے موٹروں میں سیر کرتا ہے، خاطر تواضع ہوتی ہے بس یہ چنیا جل مری۔ آگ لگ گئی تن بدن میں۔ دنیا آئی ہے کہیں کی۔ میرا جی چاہتا ہے کہ ایک کتاب لکھوں اور اس نامعقول اور ناہنجار دنیا کے بخئے اُدھیڑ کر رکھ دوں۔ اور انشاء اللہ یہ کر کے رہوں گا۔ میرے دماغ میں مسالہ ہے بہت کچھ۔
بیوی: اچھا تم کرایہ لے لیا کرو۔ اور اوپر سے کچھ نہ لیا کرو۔ پھر تمہیں کوئی کچھ نہ کہے گا ہمیں اوروں سے کیا مطلب ہم سے اپنے میاں کی برائی نہیں سُنی جاتی۔
میاں: مرحبا! جزاک اللہ تم نے بیوی یہ دو بول کہہ کے میرا دل ہاتھ بھر کا کر دیا۔ اب میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میں یہاں اپنے شہر میں تو جہاں بھی مشاعرہ ہوتا ہے چاہے کتنی دور کیوں نہ ہو، ایک پیسہ تک نہیں لیتا۔ تانگے کا کرایہ بھی نہیں لیتا اور اکثر ایسا ہوا ہے کہ رات کو چار بجے تانگہ نہ ملنے کی وجہ سے جوتیاں چٹختا پیدل لڑھکتا ہوا گھر آیا ہوں۔ اب رہے باہر کے مشاعرے تو یہ میں نے اپنا اصول بنا رکھا ہے کہ جہاں کالج یا اسکول کے لڑکے مشاعرہ کرتے ہیں یا پبلک ہی مشاعرہ کرتی ہے اور بلاتی ہے مگر چندہ کر کے کافی رقم اکٹھی نہیں کی جاتی، بس پان سگریٹ شامیانہ وغیرہ کے سو پچاس روپے جمع کر لئے جاتے ہیں یا اتنی رقم جو شاعروں کو آنے جانے کے کرائے کے نام سے دی جا سکے تو وہاں میں فقط کرایہ ہی لیتا ہوں۔ کہیں سے اِنٹر کا اور کہیں سے تھرڈ کا، کیونکہ میں اتنی ہمدردی نہیں کر سکتا کہ اپنا کرایہ بھی خرچ کروں اور سفر کی تکلیف بھی اُٹھاؤں اور جا کر وہاں کی پبلک کو خوش کر آؤں۔ ہاں جہاں معلوم ہو جاتا ہے کہ شہر میں سے چندہ الگ جمع کیا ہے، ٹکٹ الگ لگا رکھا ہے وہاں میں اپنا فرض مقدس سمجھتا ہوں کہ لوں اور ضرور لوں۔ اس کے کیا معنی کہ دو ہزار چندے کے جمع کئے اور شاعروں کو کرایہ کے نام سے چھ سو روپے دیئے باقی چودہ سو آپ کھا گئے۔ کیوں کھا گئے؟ مشاعرے کے نام سے چندہ کیا ہے، ٹکٹ لگایا ہے تو مشاعرے ہی میں خرچ کرو۔ یا کھاؤ بھی تو مل بانٹ کے یعنی کچھ شاعروں کو دو۔ کچھ آپ بھی کھا لو!
بیوی: خیر تم جانو۔ اب میں اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ میرے اپنے عزیر تمہیں برا کہتے ہیں تو مجھے رنج ہوتا ہے۔
میاں: یوں تو تمہاری زبان ایسی چلتی ہے قینچی کی طرح سے کہ بھنگن آئی تو اس کی ٹانگ لی۔ پاخانہ نہیں دھویا، کل دو وقتی کو نہیں آئی۔ یہ نہیں کیا۔ وہ نہیں کیا۔ اتنے میں دھوبن آ گئی تو اس کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس غریب کے ارمان ابھی درست نہیں ہوئے، کپڑوں کا گٹھڑ سر سے پھینکا ہے، زور زور سے سانس لے رہی ہے، دھونکی بنی ہوئی ہے اور آپ ہیں کہ پنجے جھاڑ کے۔۔۔
بیوی: (جلدی سے) اب بس بھی کرو گے یا نہیں۔ یہ تو میں جانتی ہوں کہ افسانہ نگار بھی ہو، شاعر بھی۔ بھلا تمہارے پاس الفاظ اور مضمون کی کیا کمی۔۔۔
میاں: تو تم اپنے ان عزیزوں کے سامنے منہ میں گھنگنیاں کیوں بھر لیتی ہو، ڈر لگتا ہے، پھانسی دے دیں گے؟ میرے منہ پر کوئی کچھ کہہ دے تو ترکی بہ ترکی سُنے اور یوں پیٹھ پیچھے تو بادشاہ کو بھی برا کہتے ہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ میں تو فقط اللہ پاک سے ڈرتا ہوں اور ہمیشہ ضمیر کے کہنے پر چلتا ہوں۔ اور ہر ایک شخص کو بالکل صحیح راستے پر لاتا ہے۔ بشرطیکہ آدمی اس کے کہنے پر چلے تو پھر جب میں کسی کے کہنے سُننے کی کیوں پرواہ کروں۔ راستے چلتے میں آدمی کے گھوڑے سے بھی ہنہناتے ہوئے ملتے ہیں، کتے بھی بھونکتے ہوئے اور بکرے اور گدھے اور خدا جانے کیا کیا جانور اپنی اپنی بولیاں بولتے ہوئے ملتے ہیں۔ مگر آدمی گزرا چلا جاتا ہے۔
اچھا بیوی! آج تمہاری باتوں سے ہم بہت خوش ہوئے۔ تم ہماری سچّی رفیق ہو، ہمدرد ہو، غمگسار ہو، جیتی رہو، خوش رہو۔ بس اب جاؤ، مجھے طرحی غزل کہنی ہے۔ وقت ہے نہیں۔ کل تو روانہ ہونا ہی ہے۔ آج نہ لکھی تو بس بے طرحی ہی رہے۔ خیر بات تو کچھ نہیں مگر تھوڑی سی سبکی ہونی ہے کہ لو صاحب طرح میں غزل نہیں لکھی گئی۔ اب حیلے حوالے کر رہے ہیں۔ تو بس اب جاؤ آرام کرو۔
شاہ بڑا
خدا رکھے دِلّی بائیس خواجہ کی چوکھٹ کہلاتی ہے جس کے معنی بجا طور پر یہ لئے جاتے ہیں کہ اس پر ارواحِ مقدّسہ کا سایہ ہے اور ان کے روحانی فیوض و برکات کی بدولت یہاں ہمیشہ امن و امان اور چین چان رہتا ہو گا۔ مگر تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اس غریب دِلّی نے کیسی کیسی مُصیبتیں جھیلیں، کِن کِن آفتوں میں پھنسی، زمانے نے اسے کس کس طرح رگڑا اور پھر ہمیں وہی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ تباہی کے بعد یہ چھل چھلا کر کی کیسی نکل آئی اور کس آن بان سے چمکی۔ حقیقتاً یہ ہے روحانی فیض ارواحِ مقدّسہ کا۔ وہی دِلّی جو غدر ۱۸۵۷ء میں اجڑ چکی تھی آج اپنے اندر بارہ لاکھ نفوس کی آبادی رکھتی ہے۔ اور نئی دہلی تو عجوبۂ روزگار ہے جس میں بے شمار بڑی بڑی عمارتیں، سرکاری دفاتر، ریڈیو کے دفتر اور اسٹوڈیو، کونسل چیمبر، سکریٹریٹ، راجہ مہاراجہ اور نوابوں کے محلّات، کناٹ پلیس وغیرہ ہیں۔ ان کے علاوہ یہ شہر بسا ہوا اور بنا ہوا کچھ ایسے قرینے اور ٹھکانے سے ہے کہ دیکھ کر جی خوش ہوتا ہے۔ جو لوگ دور دور سے آتے ہیں، ان کی بھی کی رائے ہے کہ گو یورپ اور امریکہ میں بڑے بڑے شہر بہر ہیں جن میں سر بفلک عمارات میں بڑی خوبصورت خوبصورت اور سو منزلوں کی مگر جس خوبصورتی کے ساتھ یہ نیا شہر بنایا گیا ہے کہ سب یک منزلہ مکان یکساں عمارتیں، جگہ جگہ گھاس کے خوشنما پلاٹ، ہر جگہ خوبصورتی، خوشنمائی اور یکسانیت اس طرز کا کوئی دوسرا شہر نہیں ہے۔ بہر حال کہنا یہ تھا کہ نئی دِلّی تو اب بنی ہے لیکن پرانی دِلّی میں وہ وہ عجائبات موجود ہیں جنہیں دُور دُور کے سیّاح اور اسکالر دِنوں نہیں مہینوں دیکھتے ہیں اور اپنے علم میں اضافہ کر کے جاتے ہیں۔ مجھے یہاں دِلّی کی عمارتوں، کھنڈروں، مقبروں، مسجدوں، تہہ خانوں وغیرہ سے بحث نہیں کرنی ہے۔ مجھے تو آج کی صحبت میں دِلّی کی ایک یادگار ایک پرانی چیز ’’شاہ بڑا‘‘ کی ہلکی سی جھلک دکھانی ہے۔
دِلّی میں یہ بات بالکل عام ہے کہ جہاں یار دوستوں میں بیٹھ کر کسی نے زمین آسمان کے قلابے ملانے شروع کئے یا بے پر کی اُڑانی شروع کی تو ساتھ والے کہہ اُٹھتے ہیں کہ ’’لو بھئی اب یہ شاہ بڑے کی اُڑا رہا ہے۔‘‘ یہ شاہ بڑا کیا چیز ہے؟ یہی بات اختصار کے ساتھ بتاتا ہوں۔ جامع مسجد سے مشرق کی طرف سیدھے چلے جائیے۔ فصیل شاہی کے کنگورے نظر آئیں گے۔ وہیں آپ کو ایک چوڑا سا زینہ نیچے اُترتا دکھائی دے گا۔
یہ راج گھاٹ کہلاتا ہے۔ آپ اس زینہ پر سے اُتر کر چلیے۔ بس سامنے آپ کے بیلا روڈ ہو گی اور اس کے دوسرے کنارے پر بہت سے درختوں کو ہرا بھرا جھنڈ دکھائی دے گا۔ یہی شاہ بڑا ہے؟ برسات میں اب بھی دریا کا پانی شاہ بڑے تک آ جاتا ہے۔ مگر جاڑوں اور گرمیوں میں دُور رہتا ہے۔ کوئی سو گز دُور۔ اوّل تو اس زمانے میں دریائے جمنا میں سے دو بڑی بڑی نہریں نکالی گئی ہیں جو ہر وقت اس دریا کو جونک کی طرح چوستی رہتی ہیں دو دو واٹر ورکس ہیں۔ بارہ لاکھ آدمیوں کے لیے اور درختوں اور گراس پلاٹس (گھاس کے قطعات) کے لیے کِس قدر پانی کی ضرورت ہے۔ ذرا خیال تو کیجیے اور پھر سب سے بڑی بات یہ کہ ۱۹۲۵ء کے سیلابِ عظیم کے بعد سرکار نے شاہ بڑے کے قریب ایک پشتہ بنوایا ہے جس سے ٹکرا کر پانی پرے ہی پرے چلا جاتا ہے۔ اس طرف نہیں آتا۔ ورنہ ہر برسات میں ہم دیکھا کرتے تھے کہ بیلا روڈ پر بھی گھٹنوں گھٹنوں پانی ہو جاتا تھا۔ ہمارے ہوش کی بات ہے کہ ہم نے اب سے چالیس بیالیس برس پہلے برسات میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ فصیل تک پانی ہے اور اتنا ہے کہ فصیل کے کنگوروں پر سے تیراک کود رہے ہیں اور تیراکی کا میلہ ہو رہا ہے۔ اب ان دونوں نہروں اور پُشتے کی وجہ سے برساتوں میں بھی پانی فصیل تک نہیں دیکھا گیا۔ ذرا اُس زمانے کا اندازہ کیجئے جب نہ یہ نہریں تھیں نہ پشتہ، پانی فصیل تک ہے قلعہ کا شمن برج عین دریا کے کنارے ہے جس میں سے زینہ اُتر کر پانی تک گیا ہے۔ بجرے اور کشتیاں بُرج کے نیچے لگی ہوئی ہیں۔ شہزادے، شہزادیاں اُتر کر آتی ہیں، کشتوں پر بیٹھتی ہیں، سیر کرتی ہیں۔ کشتیاں دُلہن بنی ہوئی ہیں۔ بادشاہ سلامت بُرجوں میں ہیں تو اور دیوانِ خاص میں ہیں تو سیر کر رہے ہیں۔ الٰہی وہ کیسے دن ہوں گے اور کیسی راتیں ہوں گی۔ کیا تھا اور کیا ہو گیا۔ ؎
زمین چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
جو صاحبِ تخت و تاج تھے ان کی اولاد پریشان حال پھرتی ہے۔ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَ تُذِلُّ مَن تَشَاءُ۔
ہاں تو ذکر شاہ بڑے کا ہو رہا تھا۔ جائے وقوع تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ ہرے ہرے درختوں کا ایک بڑا سا جھنڈ ہے۔ یہ درخت ہر موسم میں سر سبز رہتے ہیں۔ سڑک سے کوئی تیس چالیس قدم کے فاصلے پر ہے۔ آپ وہاں جائیے تو معلوم ہو گا کہ اچھا خاصا وسیع رقبہ گھیر رکھا ہے۔ تقریباً چالیس گز لمبا اور اسی قدر چوڑا مقام ہے۔ درختوں کے اندر چھپا ہوا، اندر کوئی ڈیڑھ گز اونچے چبوترے پر شاہ بڑے صاحب کا مزارِ مبارک ہے۔ یہ کون بزرگ تھے؟ یہ مزار کب بنا؟ افسوس ہے کہ مجھے اس کی نسبت کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ تلاش اور جستجو کی جائے تو آپ کے حالات معلوم ہو ضرور سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ آپ نے مسواک کرنے کے بعد جو پھینکی تو اللہ کی قدرت سے اس نے جڑ پکڑ لی اور جو یہ پیلو کا درخت موجود ہے، یہ وہی ہے جو اس مسواک سے اُگا تھا۔ تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ تمام کا تمام جھنڈ جو دُور سے کیا بالکل قریب سے بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری بیس پچیس درختوں کا مجموعہ ہے، حقیقت میں ایک ہی درخت ہے۔ آپ اندر جائیے تو آپ کو اصل درخت کی جڑ دکھائی دے گی۔ اور وہاں سے آپ کو برابر نشانات ملیں گے کہ یہ شاخ یوں زمین میں گئی اور یوں وہاں سے نکلی، یوں پھیلی اور پھر آگے گئی۔ غرض آپ کو جگہ جگہ موٹی موٹی شاخیں زمین کے اندر گئی ہوئی معلوم ہوں گی۔ ایسی موٹی جن کا قُطر ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ فٹ کا ہے۔ بعض اُنگلی سے بھی پتلی شاخیں زمین کے اندر جانے کی کوشش کرتی ہوئی معلوم ہوں گی۔ یہی پتلی پتلی شاخیں جو آج بعض انچ دو انچ زمین میں گھس گئی ہیں اور بعض نے سر ٹکایا ہی ہے کسی زمانے میں موٹے موٹے گدّے اور تنے بن جائیں گی جیسی ان کی بڑی بہنیں اب ہیں۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ بڑے موٹے موٹے اژدھے لمبے لمبے پڑے ہوئے ہیں۔ بعض کُنڈلی مارے اور بعض آڑے ترچھے بعض سیدھے۔ ان ہی اژدہوں کی پیٹھ پر لوگ بیٹھتے ہیں۔ یہی ان کی کرسیاں ہیں، یہی، مونڈھے، یہی بنچیں ہیں۔ اب آج کل بھی آپ سہ پہر کو ٹھنڈے وقت جائیے تو آپ دیکھیں گے کہ کچھ لوگ درخت کی موٹی موٹی شاخوں پر بیٹھے ہیں اور کچھ زمین پر کپڑا، چادر یا سیتل پاٹی بچھائے تاش کھیل رہے ہیں۔ کہیں پچیسی ہو رہی ہے۔ کہیں کوئی بزرگ صورت سفید ریش بیٹھے بڑی متانت سے کوئی قصّہ فرما رہے ہیں سر تا پا بڑ۔ پہلے زمانے کی بات تو اب کہاں جب بڑے زوروں پر بھنگ، چرس، چانڈو، افیم اُڑا کرتی تھی۔ مگر باقیات الصّالحات اب بھی ہے۔ اب بھی آپ چلے جائیں تو دو گھڑی دل بہل ہی جائے۔ میں وہاں گیا تو کئی دفعہ ہوں لیکن اکثر صبح کے وقت جانے کا اتفاق ہوا۔ جب سوائے دو ایک فقیروں کے اور کوئی نظر نہیں آیا۔ ہاں ایک دفعہ پانچ بجے شام کو بھی جانے کا موقع ملا۔ اب اسے اتفاق کہیے یا خوبی تقدیر کہ خدا نے مراد پوری کر دی سے اور کچھ نہ کچھ سنوا ہی دیا۔ ایک بزرگ صورت بڑی متانت سے کچھ فرما رہے تھے۔ دس بارہ آدمی پاس بیٹھے بڑے غور و اشتیاق سے سن رہے تھے۔ کچھ حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ تھا۔ آپ بھی سنئے۔
ایک شخص: تو چچا! یہ جاپان کے پاس گولہ بارور بہت ہے؟
بزرگ: بیٹا! گولہ بارود بھی بہت ہے اور آدمی بھی اس کے پاس ایسے جائیا اور جانہار ہیں کہ اپنے بل بوتے سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ یوں سمجھو کہ بم کا گولہ دس پندرہ سیر کا ہوتا ہے۔ جاپانیوں کا ایک آدمی دو گولے کندھے پر رکھ کر ایک اس کندھے پر ایک اُس کندھے پر اور جو ہوائی جہاز سے اُترا ہے تو سنگل پور کے دریا میں وہ جو انگریزوں کا بڑا سا جہاز کھڑا تھا نا، بس وسکی وہ جو لاٹ ہوئی سے جو میں سے دھواں نکلا کرتا ہے بس وس دھوئیں میں گھُس گیا اور نیچے اُتر کے چُپ چاپ زینے میں سے ہوتا ہوا دھُر نیچے پہنچ گیا۔ وہاں وس نے وہ دونوں گولے رکھ کر جو دیا سلائی جلائی ہے تو بس یوں سمجھو کہ چھوٹی قیامت ہی تو آ گئی۔
دوسرا شخص: (جلدی سے) دیکھا بے او اشاق (اسحٰق) اسے کہتے ہیں جی داری۔ واہ بے جاپانی واہ۔ تیرے کئے کونے (کیا کہنے)
تیسرا: تو چچا! وہ تو بھلا کاہے کو بچا ہو گا۔
بزرگ: میاں وہ تو جہاز کا جہاز ہی ایسا بیٹھا جس طریو پانی میں بتاشہ بیٹھتا ہے ایک کہی نہ دو، بس ڈوبتا ہی چلا گیا۔ اور وِس جاپانی کی کیا پوچھتے ہو؟ وس کے تو پرخچے ہی اُڑ گئے۔
اسحٰق: ایک یہ ہمارے خلیفہ ببّن بیٹھے ہیں جیسے پُولا مارا گلدم۔ بس ڈنڈ قبضے دیکھ لو۔ اتنے بڑے ڈیل ڈول میں کوئی آدھی چھٹانک کا دِل ہو گا۔
خلیفہ ببّن: کیوں بے نہیں مانا۔ بتاؤں تجھے آن کے۔ گیہوں کی مِل رہی ہو گی؟
اسحٰق: (خم ٹھونک کر) یار خاں کو کچھ کم سمجھ رکھا ہے بے۔
تیری۔۔۔۔۔ کہہ کے خلیفہ ببّن اسحٰق کی طرف لپکے اور اب دونوں میں دھینگا مشتی ہونے لگی۔ منہ سے پھول جھڑتے جاتے تھے۔ خیر لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔ کچھ نشہ پانی ہوا۔ پھر باتیں ہونے لگیں۔
ایک صاحب: تو چچا! یہ جاپانی ایسے جیوٹ ہوتے ہیں۔ اور ہم نے تو سنا ہے کہ جرمن ان کا بھی ابّا ہے۔ وِس کے پاس نہ جانے کیسے کیسے محاربے موجود ہیں۔
دوسرے صاحب: اور ویسے تو ہماری سرکاری بھی کیا کسی سے کچھ کم ہے۔ دو طرفی لڑ رہی ہے۔ ایک طرف تو اٹلی والوں کو رگید رگید کر جبل طاق کے ذخیرے میں دھکیل دیا ہے۔
ایک: (جلدی سے) ابے ذخیرہ کاہے کا؟
دوسرے: وہ جبل طاق کا ذخیرہ جو ہے جہاں کبھی ہماری حکومت تھی جس کے چو طرفہ پانی ہی پانی ہے۔
ایک: ابے جنجیرہ کہہ جنجیرہ! اِتّا بھی نہیں جانتا۔
دوسرا: بیٹا آج کل کی لڑائی تو علم کی لڑائی ہے۔ کَس بَل کچھ کام نہیں آتا۔ بس علم میں جو سوا ہوا وہی جیتا۔ اور علم کیا۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سُنا ہے کہ وہ جو کبھی پہلے افراسیاب اور امیر حمزہ طلسم ہوش ربا میں جنگ کیا کرتے تھے بس کسی طریو وہی جادو افراسیاب والا ان لوگوں کے پاس بھی آ گیا۔ ہوا میں اُڑے اُڑے پھرتے ہیں۔ ایک گولہ پھینکا تو ساری زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔
ایک صاحب: چچا! یہ جاپان ہے کس طرف کو؟
بزرگ: بھئی ہمیں پورا نقشہ تو وِس کا معلوم نہیں۔ پر اِتّا ضرور جانتے ہیں کہ ہے کہیں ہمالیہ پار، اور وِس کی حدودیں امری خا سے بھی ملتی ہیں۔ جبھی تو ودھر سے امری خا دبائے چلا آ رِیا ہے اور اس جانبین سے ہماری سرکار بڑھی چلی جا رہی ہے۔
دوسرے صاحب: اور چچا یہ جرمن کدھر کو ہوا؟
بزرگ: یہ کابل افغانستان سے پرے پرے جرمن ہی جرمن ہے۔
دوسرے صاحب: تو یہ تو پھر ہندوستان کے پاس ہی ہوا۔ پھر تو چچا بڑی مشکل کی بات ہوئی۔
بزرگ: اجی جرمن کا تو کچومر نکل گیا ہے۔ ہماری سرکار نے اٹلی تو لے ہی لیا۔ اب جرمن ہی پر دھاوا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میں نے شاہ بڑے کی ذرا یوں ہی سی جھلک دکھائی ہے۔ اسی کوئی شک نہیں کہ موقعہ ہے بڑا اچھا۔ صبح کو ہوا خوری کے لئے وہاں جائیے تو دل خوش ہوتا ہے۔ پانی کے اوپر سے ہو کر ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔ کیسی اچھی معلوم ہوتی ہے اور سامنے دریا کا نظارہ کیا بھلا لگتا ہے۔ یہ مقام برسات کی تو جان ہے۔ جمنا کا پانی بالکل قریب آ جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ناؤ شاہ بڑے ہی پر ٹھیکی لیتی ہے۔
شاہ بڑے کے حالات معلوم کرنے کے سلسلے میں مجھے کئی دفعہ وہاں جانا پڑا۔ بڑے بڑے پرانے دُم گلوں سے بات چیت کرنے کا اتفاق ہوا۔ مگر کچھ کام کی باتیں معلوم نہ ہوئی جنہیں سند سمجھا جاتا۔ ہاں یہ معلوم ہوا کہ یہاں سال میں ایک دن عُرس بھی ہوتا ہے اور اکثر قوّالی بھی ہوتی رہتی ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اسی بیلا روڈ پر جہاں مٹکاف ہاؤس کے پاس دریا کا پُشتہ بنا ہوا ہے، ذرا جھوت میں ایک مزار اور ہے۔ وہ شاہ اڑے صاحب ہیں۔ میں نے خود جا کر دیکھا۔ وہ بھی زیرِ درختان پیلو آسودہ ہیں۔ وہاں بھی عُرس ہوا کرتا ہے، قوّالیاں ہوتی ہیں، چادریں چڑھتی ہیں۔ دلّی کے پنجابی اِن شاہ اڑے صاحب کے بڑے معتقد ہیں۔ مزار پر دیگیں پکواتے ہیں۔ غربا کو کھانا کھلاتے ہیں، خیرات کرتے ہیں۔ قوّالی کرتے ہیں۔ یہ مزار بھی دریا کے کنارے ہی ہے۔ یہاں تو ہر برسات میں پانی آ جاتا ہے۔
اور سُنئے! اسی بیلا روڈ پر شاہ بڑے صاحب اور شاک اڑے صاحب کے مزارات کے بیچ میں ایک شاہ کھڑے صاحب اور ہیں۔ ان کا مزار قدسیہ باغ کی شرقی حد پر باغ ہی میں بالکل بیلا روڈ کے کنارے واقع ہے۔ یہاں کے مجاور سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی سال میں ایک دفعہ عرس ہوتا ہے۔ چادر چڑھائی جاتی ہے اور قوّالی ہوتی ہے۔ یہ تینوں مزارات بہت پرانے معلوم ہوتے ہیں۔ شاہ بڑے صاحب کے مزار کے متعلق میرا خیال ہے کم از کم تین سو برس کا ضرور ہو گا۔ اس لیے کہ پیلو کا درخت جو اس طرح سے زمین پر لیٹا ہوا اور زمین کے اندر گھسا ہوا اور زمین کے اوپر چھایا ہوا ہے وہ تین سو برس سے کسی طرح کم نہ ہو گا۔
شاہ بڑے میں ایک بڑے میاں لوگوں کو حقّے بھر بھر پلایا کرتے تھے۔ اور چرس، چانڈو، افیم بھی گھولنے بنانے میں ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے۔ اب دکھائی نہیں دیتے۔ شاید اللہ میاں کے ہاں ان کی خدمات کی ضرورت پڑ گئی۔ ایک بڑھیا بھی وہاں رہا کرتی تھی جو بڑی شائستہ اور تمیز دار معلوم ہوتی تھی مگر رہتی تھی کچھ بند بند سی۔ معلوم ہوتا تھا کہ اپنے پیٹ میں بہت سے افسانے اور رومان چھپائے بیٹھی ہے۔ اب وہ بھی نظر نہیں آتی۔ شاید اللہ میاں کو پیاری ہوئی۔
اللہ میاں بھی آسمان پر بڑے اچھے اچھے اور ہر فن کے آدمی جمع کر رہے ہیں۔ قابل سے قابل حکیم، لائق سے لائق ڈاکٹر، فیڈرل کورٹ کے جج، اچھے سے اچھے افسانہ نگار، مضمون نویس، سنجیدہ اور مزاح نگار ہر قسم کے شعرا، بڑے بڑے مدبّر، سینڈو اور غلام پہلوان جیسے کس بل کے آدمی بڑا اچھّا اسٹاک جمع کر لیا۔ اب یہ کِس سے پوچھیں اور کون ہمیں بتلائے کہ آسمان پر کیسی کسی محفلیں جمتی ہیں اور ان میں کیا کیا ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ جو جاتا ہے منہ میں گھنگھنیاں بھر لیتا ہے۔ کیا مجال جو خواب ہی میں آ کر ایک حرف تو بتا جائے ؎
جی چاہتا ہے سیر کریں آسمان کی
پر کیا کریں کہ رہ گئے پَر قینچ ہو کے ہم
ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے
ایک دن سہ پہر کو میں محلہ بلیماراں میں ایک ٹی پارٹی میں گیا۔ میرے دو دوست سعید اور حامد بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی بالکل ضد واقع ہوئے تھے۔ سعید بالکل خشک مزاج اور حامد نہایت شگفتہ طبیعت۔ سعید کورا فلسفی اور حامد اوّل درجہ کا پھبتی باز ہنسنے ہنسانے والا۔ سعید ایسا میٹھا رہتا تھا جیسے کوئی پتھر رکھا ہوا ہے۔ کبھی کبھار ایک آدھ چھوٹا سا فقرہ بول دیئے تو بول دیئے ورنہ گُم سُم بیٹھے ہیں۔ حامد سے نچلا بیٹھا ہی نہ جاتا تھا۔ زبان تالو سے نہیں لگتی۔ قینچی کی طرح چلتی ہی رہتی تھی۔ خود ہنستا تھا سب کو ہنساتا تھا۔ پارٹی بڑے ٹھاٹھ کی تھی۔ ہماری میز سے چوتھی میز پر ایک صاحب بیٹھے تھے، گول مول گیند کی طرح۔ حامد نے ان کی طرف اشارا کر کے سعید سے پوچھا:
’’انہیں جانتے ہو؟‘‘
سعید: ’’ہشت‘‘
حامد: ’’میں اِن کا نام پوچھتا ہو، تخلص نہیں۔‘‘
سعید: ’’پاگل۔‘‘
حامد: ’’یہ تخلّص ہو گا۔ نام بتاؤ۔ پورا نام۔ یا کہہ دو میں نہیں جانتا۔‘‘
سعد دوسری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے عابد سے کہا۔
میں: ’’آخر تم کیوں پوچھ رہے ہو، بات کیا ہے؟
حامد: ’’یہ سعید بھی گدھا ہی ہے۔ اسے مطلق معلوم نہیں کہ وہ کون صاحب ہیں اور لگا ان کے تخلص گنوانے۔‘‘
میں: ’’تم جانتے ہو کیا؟‘‘
حامد: ’’جانتا تو میں بھی نہیں لیکن ایک چیز دیکھنے کے قابل ہے تو اُسے کیوں نہ دیکھیں۔ سبحان اللہ! یار ذرا دیکھو تو کتنا صحیح حدود اربعہ رکھتا ہے۔ جس پہلو سے ناپ کر دیکھو رقیہ برابر ہی نکلے گا اور اس شکل و صورت اور تن و توش پر جناب کو اپنے متعلق جُسن ظن بھی ہے۔ یعنی اپنے آپ کو حسین بھی سمجھتے ہیں۔ ذرا جناب کے بال ملاحظہ فرمائیے۔ گھنٹے بھر آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر جانکاہی سے بنائے گئے ہیں۔ میں کہتا ہوں ان حضرت کی کوئی کل بھی سیدھی ہے؟ تنگ پیشانی، آنکھیں بجّو کی سی، کان بڑے بڑے اور ناک؟ بس یوں سمجھئے کہ باجرے کی جلی ہوئی روٹی پر آم کے اچار کی پھانک رکھی ہوئی ہے۔ چیچک کے داغ اتنے کہ پاؤ بھر قیمہ اور بھر لو۔ اور سونے پر سہاگہ رنگ ایسا کہ سنگِ موسیٰ کو شرمائے۔ بس یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ٹھیکے پر بنوائے گئے تھے۔
میں: ’’کیوں بکتے ہو؟ توبہ استغفار کرو۔ بندوں کے منہ آتے آتے اب لگے اللہ میاں پر بھی حرف زنی کرنے ؎
تو کارِ زمیں رانِکو ساختی
کہ با آسمان نیز پرداختی
حامد: ’’توبہ توبہ! اللہ میاں پر کون مردود حرف زنی کر رہا ہے۔ اللہ میاں نے آخر اونٹ بھی تو بنایا ہے اور اس کے، تعلق اپنے کلامِ پاک میں کچھ فرما بھی دیا ہے۔ بھائی میں تو یہ کہتا ہوں کہ ایسے آدمیوں کو کم سے کم یہ تو نہ سمجھنا چاہیے کہ ہم حسین ہیں۔ حضرت یقیناً اپنے آپ کو خوبصورت سمجھتے ہوں گے جب ہی تو گھنٹوں بناؤ سنگھار کرتے ہیں اور یہ اپنی بیوی سے یہ توقع بھی رکھتے ہوں گے کہ وہ غریب انہیں حُسنِ مجسم سمجھ کر پُوجے، اس لئے اس غریب کے جذبات کا کیا حال ہو گا۔ پھوٹ گئی قسمت بیچاری کی!‘‘
’’تجھ کو پرائی کیا پی اپنی نبیڑ تو۔‘‘ سعید سے نہایت آہستہ فلسفیانہ انداز سے کہا۔
حامد: ’’اللہ پاک نے اپنی قدرت کاملہ سے زمین کے ذرّے ذرّے میں درسِ عبرت پوشیدہ رکھا ہے۔ دیکھنے کے لئے دیدۂ بینا سُننے کے لئے کان اور سمجھنے کے لئے عقل درکار ہے اور۔۔۔۔۔‘‘
حامد کی آواز ذرا اُونچی ہو گئی تھی۔ ایک مولانا کی وضع کے لمبی ڈاڑھی والے آدمی جو برابر کی میز پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنی کرسی کھسکا کر ہماری میز پر آ گئے اور یہ سمجھ کر کہ حامد کوئی بڑا دیندار آدمی ہے اس کی طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے۔
مولانا: مولانا! آپ ظاہری حیثیت سے تو کوئی نئی روشنی کے آدمی معلوم ہوتے ہیں۔ مگر آپ کے خیالات معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی۔ جناب کا اسمِ مبارک؟
حامد: (مسمی صورت بنا کر) جی خاکسار ذرّۂ بے مقدار کو حامد کہتے ہیں۔
مولانا: سبحان للہ، سبحان اللہ! کیا پاکیزہ نام ہے حامد۔ حمد سے مشتق ہے۔ محمدؐ، احمدؐ، محمود، حمید۔ سبحان اللہ کیسے کیسے پاکیزہ نام اس سے نکلتے ہیں اور آپ حامد ہیں۔ یعنی حمد کرنے والا۔ کیوں نہ ہو جب ہی تو آپ رب العزّت کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ مگر ایک گذارش میں بھی جناب سے کروں گا۔
حامد جو اس اثناء میں برابر بے چینی کے ساتھ پہلو بدلے جا رہا تھا، گھبرا کر بولا۔
حامد: فرمائیے۔
مولانا: مولانا! آپ کے خیالات تو بڑے اچھے ہیں اور آپ مذہبی آرمی معلوم ہوتے ہیں۔ مگر جیسا آپ کا باطن سے ویسا ظاہر بھی تو بنانا چاہیے۔
حامد: میں جناب کا مطلب نہیں سمجھا۔
مولانا: مولانا! میرا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ کوٹ پتلون نہ پہنا کیجئے اور ڈاڑھی رکھیے۔ یہ اللہ کا نور ہے۔
حامد: قبلہ! کوٹ پتلون میں تو میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا اور ڈاڑھی میرے والد صاحب رکھا کرتے تھے۔
مولانا: (خوش ہو کر کہا دیکھئے تو معلوم ہو کہ قبلہ گاہی صاحب بھی بڑے دیندار و متّقی تھے۔ پھر تو آپ کو ڈاڑھی ضرور رکھنی چاہیے۔
حامد: مولانا آپ بھی ستم کرتے ہیں۔ اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ جسے میرے باپ نے رکھا اُسے میں کیسے رکھ سکتا ہوں۔
یہ سن کر میں نے قہقہہ لگایا۔ اس خشک انسان سعید سے بھی ہنسی نہ رُک سکی۔ اور مولانا ’’لا حول و لا قوۃ‘‘ کہتے ہوئے جہاں سے آئے تھے۔ وہیں چلے گئے۔ پھر انہوں نے ہماری طرف مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔ میں نے حامد سے کہا۔
’’حامد! تمہیں بھری محفل میں یوں باتیں نہ کرنی چاہیں۔‘‘
حامد: ارے میاں! میں تو اس موذی کے آنے سے پریشان ہو گیا۔ ایک دم سے یوں نازل ہوا جیسے کوئی بم کا گولہ آ پڑا ہو۔ کیا مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں کہ آ گیا کھنڈک ڈالنے۔
میں: مگر تم نے بات کہی بڑی بیہودہ
حامد: بیہودہ ویہودہ تو میں جانتا نہیں۔ میں تو بس اس بات کا قائل ہوں کہ ہمیشہ شورٹ کٹ استعمال کرنا چاہیے چنیں اور چناں سے بھناتا ہوں۔ اب اگر میں ان مولانا صاحب سے کچھ بحث کرنی شروع کرتا تو پھر یہ حضرت حدیث شریف اور کلام اللہ کی آیتوں سے ٹی پارٹی کو محفل وعظ بنا دیتے۔ میں نے نہایت آسانی سے ان کو وہیں واپس کر دیا جہاں سے جناب تشریف لائے تھے
میں: وہ تمہیں کیا خیال کر کے آئے تھے اور اب کیا سمجھ رہے ہوں گے؟
حامد۔ اور میں انہیں کیا سمجھ رہا ہوں کچھ اس کی بھی انہیں خبر ہے یا پرواہ ہے؟ بس اسی طرح وہ بھی مجھے سمجھے جائیں۔ مجھے نہ کچھ خبر ہے نہ پرواہ اور کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ میرے پیچھے کیوں پڑ گئے؟ میں نے یہ ہی کیا نا جو آپ بھی کرنا چاہتے تھے مگر ہمت نہ پڑتی تھی۔
میں: خیر اب چھوڑو اس ذکر کو کچھ اور باتیں کرو۔
اب سب لوگ کھا پی رہے تھے۔ پارٹی بڑی شاندار تھی۔ کیک پیسٹری وغیرہ نہایت عمدہ، برتن نفیس، چمچے چاندی کے۔ چائے پیتے پیتے حامد نے ایک دم سے کہا
حامد: بھائی ظریف! ذرا دیکھو تو؟؟
میں: کیا ہے؟
حامد: وہ ادھر! وہ سامنے پانچویں میز پر!
میں: مجھے تو کوئی خاص بات معلوم نہیں ہوتی۔
سعید: چمچہ
حامد: ہاں چمچہ۔ دکھا ظریف بھائی! یہ سعید سمجھ گیا اور تم اب تک نہیں سمجھے۔
میں: صاف صاف کہو۔ میں تو خاک بھی نہیں سمجھا۔
حامد: میاں وہ جو پانچویں میز پر ایک صاحب بیٹھے ہیں وہ صاحب بہادر بنے ہوئے، بالکل تازہ ولایت، ان کے چوٹٹے پنے کو دیکھا، یعنی کس صفائی سے آپ نے چمچہ تیر کیا ہے۔
میں: کیا جیب میں رکھ لیا؟
حامد: جیب میں رکھتا تو ممکن تھا کوئی دیکھ لیتا یا کبھی جھکتا تو نکل ہی پڑتا۔ ایسی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے ہے۔ گھاگ معلوم ہوتا ہے۔
میں: پھر کہاں چھپایا؟
سعید: بوٹ میں!
حامد: ہے یہ سعید بھی کائیاں۔ چپکے ہی چپکے سب کچھ بھانپ رہا تھا۔ یوں فلسفی اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے اور مسمسا سا بنا رہتا ہے مگر اڑتی چڑیا کے پر گنتا ہے۔
میں: ہو تم دونوں ہی عقل کے پتلے۔ اچھا بتاؤ تو تم نے کیسے دیکھ لیا؟
حامد: میاں بات یہ ہے کہ میں بڑی دیر سے دیکھ رہا تھا کہ یہ حضرت بلا ضرورت ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ میں سمجھ گیا کہ ضرور کچھ دال میں کالا ہے بس نگاہ میں رکھا اور یوں چوری پکڑی گئی۔ ’’ہر فرعونے را موسی۔‘‘ سعید نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔
حامد۔ یقیناً! میں اس فرعون کے لئے موسی بنوں گا۔ اب تم ذرا سیر دیکھتے جاؤ۔
اتنے میں لوگ کھا پی چکے۔ ایک صاحب نے اٹھ کر میزبان صاحب کی شان میں نثر میں ایک قصیدہ فرمایا، ایک صاحب نے حسب حال نظم عطا فرمائی، پھر میزبان صاحب نے حاضرین با تمکین کا شکریہ نہایت اچھے اور میٹھے بولوں میں ادا فرمایا۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور چلنے لگے۔ اسی وقت حامد نے پکا کر کہا
حامد: میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ سب صاحبان ایک دو منٹ کے لئے تشریف رکھیں۔
لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ حامد نے کہنا شروع کیا۔
حامد: سب سے پہلے میں محترم میزبان صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسی اچھی ٹی پارٹی دے کر ایک پنتھ دو کاج کیے۔ یعنی ہمارا پیٹ بھی بھرا اور بہ یک وقت ہمیں اپنے بیشتر احباب سے ملا بھی دیا، اور پھر دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک اپنی قدرت کاملہ سے میزبان صاحب کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ وہ اکثر ایسی پارٹیاں دیا کریں، اور اس کے بعد یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر معزز حاضرین پا نچ منٹ مجھے اور دے سکیں تو میں ایک شعبدہ دکھاؤں۔
یہ کہہ کر حامد چپکا ہو گیا۔ ہر طرف سے آوازیں آئیں ’’ضرور ضرور، شعبدہ ضرور دکھائیے۔‘‘ میزبان صاحب نے بھی ہنس کر کہا ’’آپ کی بڑی نوازش ہو گی آپ شعبدہ ضرور دکھائیے‘‘۔
حامد نے ’بہتر‘ کہہ کر ایک چمچہ (چاندی کا) اٹھایا اور ہاتھ اونچا کر کے کہا کہ ’’دیکھتے حضرات! یہ ایک چمچہ ہے، جی ہاں چمچہ، معمولی چمچہ۔ چاندی کا سہی۔ خیر اب دیکھئے۔ اسے میں یوں اپنے کوٹ کی جیب میں رکھ لیتا ہوں اے دیکھئے اندر کی جیب میں، اے لیجے یوں، اور اب دیکھئے میں کوٹ کے بٹن لگا لیتا ہوں۔ اے یوں۔ اور اب میں جاتا ہوں۔ آداب عرض ہے ارے یہ ہمارے میزبان صاحب تو ناراض ہی ہو گئے۔ بس معلوم ہوا کہ جیسے آپ ما شاء اللہ لحیم و شحیم ہیں ویسا آپ کا دل نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے۔ اتنی لمبی چوڑی ٹی پارٹی تو دے دی مگر روپے سوا روپے کے چمچے کے لے دل میلا کیا۔ لیجئے حضرت آپ پریشان نہ ہوں میں آپ کا چمچہ دیئے دیتا ہوں یہ کہہ کر میزبان کے پاس پہنچا اور کہنے لگا ’’معاف کیجئے گا مجھے آپ ہی پر شبہہ ہے۔ ذرا اپنی جیبیں ٹٹول لینے دیجئے۔‘‘ حامد جیبیں ٹٹولتا رہا اور میزبان کھڑے مسکراتے رہے۔ جانتے تھے کہ شعبدہ باز اسی قسم کی باتیں اور حرکتیں کیا کرتے ہیں۔ میزبان کے پاس سے چمچہ نہ نکلا تو حامد نے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’معاف کیجئے حضرات! میں پیشہ ور شعبدہ باز نہیں ہوں، اسی لئے اکثر غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ اچھا حضرت اب کے غلطی نہ ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر دوسری میز پر پہنچا۔ وہاں ایک صاحب کی جامہ تلاشی لی۔ مگر چمچہ وہاں سے بھی برآمد نہ ہوا تو سر کھجانے لگا۔ کچھ سوچتا رہا، پھر ایک دم سے ایک اور میز پہنچا۔ اسی پر جہاں اصلی چور صاحب براجمان تھے۔ لوگ ہنس رہے تھے۔ مگر وہ چور صاحب سہمے ہوئے سے تھے۔ حامد نے ان سے بھی کہا کہ ذرا اپنی جیبیں دکھائیے۔ ان کی جان میں جان آئی سمجھے کہ یہاں سے چمچہ برآمد نہ ہو سکے گا۔ چنانچہ ہوا بھی یہی۔ لوگوں نے آوازے کسنے شروع کئے۔ ’’حضرت جو کچھ سیکھا سکھایا تھا سب بھول گئے اب پھر کے سے جا کر سیکھئے‘‘ معلوم ہوتا تھا حامد پر گھڑوں پانی پڑ گیا کبھی کچھ انگلیوں پر گنتا۔ کبھی آنکھیں بند کر کے سوچنے لگتا۔ آخر گردن ہلا کر کہنے لگا۔
’’میرا حساب غلط نہیں ہو سکتا۔ چمچہ یہیں ہے، میں نے ساری جیبیں دیکھ ڈالیں، چمچہ نہ ملا مگر ہے ان ہی صاحب کے پاس۔ دیکھئے حضرت برا نہ مانے گا۔ میری عزت پر حرف آ رہا ہے ممکن ہے مجھے آپ کی پتلون تک اتروانی پڑے، خیر بوٹ سے شروع کرتا ہوں۔ ذرا آپ مہربانی کر کے اپنا بایاں پاؤں میز پر رکھ لیجئے۔ گھبرائیے نہیں۔ لایئے پاؤں لائیے‘‘۔
وہ صاحب در حقیقت گھبرا گئے اور ذرا جھلا کر کہنے لگے۔
’’جائیے جائیے اپنا کام کیجئے۔‘‘
لوگوں نے کہنا شروع کیا ’’اجی حضرت! دکھا دیجئے نا، ہرج ہی کیا ہے۔ چمچہ نکلے گا ضرور کسی نہ کسی کے پاس سے۔‘‘
بڑی مشکل سے وہ صاحب راضی ہوئے۔ پاؤں میز پر رکھا۔ لوگ بڑے اشتیاق سے دیکھ رہے تھے۔ ایک پر ایک ٹوٹا پڑتا تھا۔ بوٹ کے تسمے حامد نے اپنے ہاتھ سے کھولے۔ چمچہ نہ نکلا۔ دوسرے پاؤں کے بوٹ کے تسمے کھولے چمچہ برآمد ہو گیا۔ واہ وا! سبحان اللہ کا غل مچ گیا۔ کسی نے کہا کمال کر دیا۔ کسی نے کہا ہمزاد تابع ہے، حامد دونوں ہاتھوں سے سلام کرتا ہوا نکل گیا۔ میں اور سعید بھی چپ چاپ کھسک گئے۔ چور صاحب قہر کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے مگر بے بس تھے۔ جانتے تھے کہ مجھ پر ترپ لگا گیا۔ اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول ڈال کر چمچہ صاف اڑا لے گیا۔ مگر اصل حال نہ بتا سکتے تھے۔ دل ہی دل میں کہہ رہے تھے
ہم تو مرشد تھے تم ولی نکلے
انجمن خدام ادب
راجہ صاحب: کیا بکتا ہے بے وقوف؟
ملازم: حضور کوئی پندرہ بیس آدمی ڈیوڑھی پر کھڑے ہیں۔
راجہ صاحب: آدمی، کیسے آدمی؟
ملازم: ہاں حضور آدمی ہیں۔
راجہ صاحب: ابے نامعقول کیسے آدمی ہیں؟
ملازم: اب کیا بتاؤں حضور! آدمی ہیں جیسے آدمی ہوتے ہیں۔
راجہ صاحب: نالائق۔ جا سرفراز علی خاں کو بلا کے لا۔
سرفراز علی خاں راجہ صاحب کے سیکریٹری تھے۔ انہیں محل ہی میں دو عالی شان کمرے ملے ہوئے تھے۔ راجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا۔
راجہ صاحب: سکتر صاحب! دیکھے تو یہ باہر کون لوگ
کھڑے ہیں۔ کیا علاقے میں کچھ بد نظمی ہے؟
سکریٹری: نہیں حضور بد نظمی تو کچھ نہیں۔ میں ابھی جا کر دریافت کرتا ہوں۔
تھوڑی دیر کے بعد سکریٹری صاحب واپس آئے اور کہا۔
سکریٹری: حضور! بیس بائیس اجلے پوش آدمی ڈیوڑھی پر کھڑے ہیں بعض تو رئیس معلوم ہوتے ہیں۔ حضور کے سلام کو حاضر ہوئے ہیں اجازت ہو تو بلا لاؤں۔
راجہ صاحب: (حیران ہو کر) بیس بائیس آدمی سلام کو آئے ہیں؟ یہ مصیبت کیا ہے۔ بھائی جا کے پوچھو تو سہی بات کیا ہے؟
سکریٹری: حضور میں نے پوچھا تھا کہ کیا کام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ راجہ صاحب سے کچھ ضروری باتیں گزارش کرنی ہیں۔
راجہ صاحب: تو ایک یا دو آدمیوں کو بلا لاؤ۔ سکریٹری: میں نے یہی بات ان سے کہی تھی مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم سب ساتھ جائیں گے۔
راجہ صاحب: ڈرپوک آدمی نہیں تھے۔ جوانی میں تو ان کے کس بل کی دھاک تھی۔ ڈھائی من کی جوڑی ہلاتے تھے۔ روزانہ تین میل ایک سانس میں بھاگتے تھے، بڑا خوبصورت اور کسرتی بدن تھا۔ جسے کھانے پینے کی کمی نہ ہو، بے فکری ہو اور کسرت کا شوق ہو اس کے بدن کا کیا ٹھکانا ہے جیوٹ بھی ایسے تھے کہ اکثر علاقے میں بلوہ ہو گیا ہے، لکڑی چل رہی ہے آپ بھی کہیں اتفاق سے سیر کرتے کرتے پہنچ گئے پاس کوئی ہتھیار تو در کنار لکڑی تک نہیں۔ مگر گاڑی سے چھلانگ مار بھیڑ میں ایسے گھسے جیسے توپ کا گولہ وہیں کسی سے لکڑی چھینی اور پھر جو ہاتھ دکھانے شروع کئے ہیں تو کائی سی پھاڑ دی۔ اس پچپن برس کی عمر میں بھی تیر کی طرح سُدھ تھے، کیا مجال جو کمر میں ذرا بھی خم آ یا ہو۔ ہاں گوشت تو ذرا لٹک گیا تھا مگر تھے اب بھی تگڑے۔ غرض راجہ صاحب بزدل نہیں تھے مگر ایکا ایکی بیس بائیس آدمیوں کا آنا سن کر اور وہ بھی اجلے پوشوں کا، سٹ پٹا ضرور گئے اور کہنے لگے۔
راجہ صاحب: ارے میاں کہیں کانگریس کے آدمی تو نہیں ہیں؟
سکریٹری: حضور معلوم نہیں۔ شکل سے تو کچھ بوڑم ہی سے معلوم ہوتے ہیں
راجہ صاحب: اجی یہ کانگریس والے بڑے افعی ہوتے ہیں شکل سے تو بوڑم ہی معلوم ہوتے ہیں۔ مگر ان سے اللہ ہی بچائے۔ اچھا تم بلاؤ تو سہی راجہ صاحب کے ہاں کرسیوں کی کیا کمی تھی۔ ایک اشارے میں کرسیاں آ گئیں۔
راجہ صاحب بھی دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ وہ لوگ آئے خوب جھک جھک کر سلام کئے۔ راجہ صاحب نے کہا بیٹھئے۔ تشریف رکھئے۔
اب ذرا ملاحظہ ہو۔ کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے راجہ صاحب کا منہ تک رہے ہیں، مسکوڑے لے رہے ہیں، پہلو بدل رہے ہیں مگر منہ سے کوئی نہیں بولتا۔ ادھر راجہ صاحب پریشان ہیں کہ کیا وبال آ گیا۔ آخر نہ رہا گیا تو فرمایا۔
راجہ صاحب: فرمائیے فرمائے کیسے تشریف لائے؟ ایک صاحب ذرا کھنکارے۔ معلوم ہوا کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ مگر برابر والے کو کہنی کا ٹہوکا دے کر ٹھنڈے ہو گئے۔ دوسرے صاحب نے اچکن کا اوپر کا بٹن کھولا۔ ذرا گلا سہلایا کچھ کہنا چاہتے تھے مگر ہمت نہ پڑی۔ راجہ صاحب ان کی یہ بے اوسانیاں دیکھ رہے تھے ان سے چپکا نہ رہا گیا۔ بڑی ملائمت اور شفقت سے کہا۔
راجہ صاحب: بولو بھئی کیا چاہتے ہو۔ گھبراؤ نہیں۔
اس اتنے سے فقرے میں راجہ صاحب نے نہ معلوم کونسی اور کتنی شفقت پدری بھر دی تھی کہ ایک صاحب فوراً کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے
ایک صاحب: آج راجہ سر مسعود علی خاں صاحب سی آئی ای کا نام نامی آفتاب سے زیادہ روشن اور چاند سے زیادہ منور ہے۔
دوسرے صاحب: جناب کے اوصاف حمیدہ و اطوار ستودہ کی یاد ہمارے تصورات کی دنیا میں روز بروز تازہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔
تیسرے صاحب: ہم عمیق ترین صداقت کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جناب کی خفیف ترین جنبش لب بھی ہماری ہستی کے اسرار و رموز کو ہم پر منکشف کر دے گی۔
چوتھے صاحب: ہمارے اعماق قلب اور ہماری روحوں کی گہرائیوں میں
راجہ صاحب: بات کاٹ کر، ارے لاحول و لا قوة! یہ کیا لغو اردو بول ہے ہو۔ تمہاری روحیں ہیں یا کنویں؟
پانچویں صاحب: ہم خوب جانتے ہیں اس عمیق ترین صداقت کو جس پر ہمارے حسین و مستحسن ترین الفاظ بھی۔۔۔۔
راجہ صاحب: (جلدی سے) اگر تم لوگوں کو ایسی ہی بکواس کرنی ہے اور غریب اردو کے گلے پر یوں گنڈاسے مارنے ہیں تو جاؤ سدھارو۔ ہمیں تمہارے ایسے ادب لطیف کی ضرورت نہیں، اور جو کچھ کہنا سننا ہے تو سیدھی سادی اردو بولو۔ تم لوگ ناحق گنواروں کی طرح اس بھولی بھالی پری پر چاندی سونے کے زیور لاد رہے ہو جن سے وہ غریب دبی جاری ہے اور سکڑ سکڑ کر دہری ہوئی جاتی ہے۔ اسے خدا کے لئے یونہی رہنے دو۔ یہ حسین ہے اور بے حد حسین۔ اسے بھاری بھاری گہنوں کی مطلق ضرورت نہیں۔ اچھا اب کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ مگر جو کچھ کہنا ہو ایک صاحب بیان کر دیں اور سب چپ رہیں۔
اب کہنیاں اور انگلیاں چلنی شروع ہوئیں اور آپس میں کھسر پھسر ہونے لگی۔
’’یار مغربی تم کہو‘‘
’’نہیں نہیں مشرقی صاحب کو بولنے دو‘‘
’’نہیں یار یہ تو ہکلا ہے کام بگاڑ دے گا اور اس وقت گھبراہٹ میں تو اور ہکلائے گا۔‘‘
’’چنگیزی صاحب آپ کھڑے ہو جائیے، بس دیر نہ کیجئے۔ اماں کھڑے ہو یار۔ لاحول و لا قوۃ۔ دیکھو وہ مغربی کھڑا ہو گیا؟‘‘
مغربی صاحب: ہم نے ایک انجمن بنائی ہے جس کا نام ’انجمن خدام ادب‘ ہے۔ اس انجمن کے اغراض و مقاصد اگر اجازت ہو تو بیان کروں۔
راجہ صاحب: ہاں ہاں کہو کہو۔
مغربی صاحب: 1۔ اپنی ذاتی کوششوں سے اور اپنے عزیز و اقارب و احباب کے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر ایسے رسالوں کے اجرا کو روکنا جو محض قوم کو لوٹنے کے لئے وجود میں آتے ہیں اور چند ماہ کے بعد فنا ہو جاتے ہیں۔
2۔ ہندوستان کے متفرق صوبوں میں زبان اردو کے مرکز کے متعلق جو تنازعہ ہے اسے دور کرنا۔
3۔ اردو کو تمام ہندوستان کی متحدہ و متفقہ زبان بنانا۔
4۔ غریب مگر اچھے مضمون نگاروں کی دل کھول کر مالی امداد کرنا بلکہ اس بات کی کوشش کرنا کہ ایسے لوگوں کو فکر معاش سے آزاد ہی کر دیا جائے۔
5۔ بہترین مضمون نگاروں کو سال میں چار دفعہ معقول انعامات دینے اس سے بحث نہیں کہ ان کے مضامین کس رسالے میں چھپے ہیں
6۔ ایک رسالہ جاری کرنا اور اس میں خود غرضی و تعصب اور ذاتی بغض و عناد کی عینک اتار کر صحیح معنوں میں مضامین پر تنقید کرنا یعنی مضامین کی خوبیوں کو روشن کر کے دکھانا، اور برائیوں کو ایسے پیرائے میں ظاہر کرنا جو ناگوار خاطر نہ گذرے۔ خصوصاً ایسے مضامین پر دل کھول کر تنقیدیں کرنا جو ہمارے تمدن و معاشرت کے گلے پر کند چھری پھیرتے ہیں جو عریاں ہو تے ہیں جن میں بے حیائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہوتی ہے جن میں رکیک اور بیہودہ خیالات کو ادب لطیف کہہ کر پیش کیا جاتا ہے جن سے نوجوان عورتوں کے جذبات جو کنواری ہوں یا بیاہی ہوئی، بجائے جلا پانے کے اور بھڑکتے ہیں جن میں لڑکیوں کو در پردہ محبت کرنے اور محبت کیے جانے کا سبق دیا جاتا ہے اور طریقے بتائے جاتے ہیں۔ ایسے مضامین اور مضمون نگاروں کی طرف ملک کو متوجہ کرنا
راجہ صاحب: واقعی تمہاری انجمن کے اغراض و مقاصد تو بڑے اچھے ہیں۔ اگر تم لوگ خلوص سے کام کرو تو ملک کی حالت سنوار دو۔ میں خود سوچا کرتا تھا کہ آجکل جہاں اعلی و پاکیزہ علم و ادب کے جواہر ریزے پیش کرنے والے رسالے ہیں جن کا نظم و نسق لائق فائق اور تعلیم یافتہ ایڈیٹروں کے ہاتھ میں ہے اور جو ملک و قوم کے لئے بے انتہا مفید بلکہ ضروری ہیں وہاں اکثر رسالوں کے ذریعے ملک میں گندہ لٹریچر بھی پھیل رہا ہے۔ ایسے رسائل کی باگ دوڑ ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو۔ ع
آنکس کہ نداند و بداند کہ بداند
کے تحت میں آتے ہیں۔ اچھا یہ تو بتاؤ کہ اس انجمن کے عہدے دار کون کون سے ہیں۔ سب بن گئے یا کچھ باقی ہیں۔
مغربی صاحب: سارے عہدے دار منتخب ہو چکے ہیں فقط ص۔۔ در کا تقرر باقی ہے جس کے لئے ہم سب اس وقت خدمت عالی میں حاضر ہوئے ہیں۔
راجہ صاحب: یعنی صدر کا انتخاب میں کروں؟
مغربی صاحب: جی نہیں۔ بلکہ خود صدر بن کر ہماری عزت افزائی فرمایئے اور ملک و قوم کو تباہی سے بچائیے۔
راجہ صاحب: اس کا جواب میں فی الحال نہیں دے سکتا۔ سوچ سمجھ کر دوں گا۔ ہاں تمہاری انجن کے عہدے دار کون کون سے ہیں ذرا ان کے نام تو بتاؤ؟
مغربی صاحب۔ خاکسار یونس مغربی ہاپڑوی وائس پریسیڈنٹ ہے۔
راجہ صاحب:(جلدی سے) ٹھہرو ٹھہرو۔ ذرا یہ تو بتاؤ یہ مغربی اور ہاپڑوی سے کیا مراد ہے؟
مغربی صاحب: خاکسار کے آباء و اجداد مغرب سے آئے تھے اور ہاپڑ فدوی کا وطن ہے۔
راجہ صاحب: اچھا یہ بات ہے۔ آگے چلو۔
مغربی صاحب: یہ الیاس مشرقی ٹراونڈرموی سیکریٹری ہے۔
راجہ صاحب: ان کے آباء و اجداد مشرق سے آئے ہوں گے اور ان کا وطن ٹراونڈرم ہو گا جو ریاست ٹراونکور کا دار الخلافہ ہے۔
مغربی صاحب: بجا فرمایا۔ حضور خوب سمجھے۔
راجہ صاحب: کیا ٹھیک ہے۔ بڑی دور دور کے آدمی جمع کئے ہیں اچھا آگے چلو۔
مغربی صاحب: یہ منصور شمالی کالی کٹوی اسسٹنٹ سکریٹری ہیں۔
راجہ صاحب: شمالی تو میں سمجھ گیا کہ ان کے آباء و اجداد ہمالیہ پار سے آئے ہوں گے۔ مگر یہ کالی گوری کٹوی کیا بلا ہے؟
مغربی صاحب: حضور! صوبہ مدراس میں وہ کالی کٹ شہر ہے نا؟
راجہ صاحب: (جلدی سے) ہاں ہاں ہاں۔ میں بھول گیا تھا۔ جغرافیہ میں میں ہمیشہ کمزور ہی رہا اور جب پڑھا کرتا تھا تو اسی کم بخت مضمون میں فیل ہوتا تھا۔ اچھا آگے چلو۔
مغربی صاحب: یہ محمود جنوبی ماناودروی جوائنٹ سکریٹری ہیں۔
راجہ صاحب۔: بھائی پھر وہی مشکل پیش آئی جنوبی تو میں سمجھ گیا کہ ان کے آباء و اجداد لنکا ونکا سے آئے ہوں گے مگر یہ کالا بندر کیا چیز ہے؟ مغربی صاحب: حضور کالا بندر نہیں ماناودر ہے۔ یہ صوبہ گجرات میں ایک ریاست ہے
راجہ صاحب۔: اچھا! خیر آگے چلو۔
مغربی صاحب: یہ اظہار نصیری پونوی مدیر رسالۂ ’خدام ادب‘ ہیں۔
راجہ صاحب: یہ نفیری کیسی؟ کیا نفیری بھی بجا کرے گی؟
مغربی صاحب: حضور مذاق فرماتے ہیں۔ یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے۔ حضور ’نفیری‘ نہیں ’نصیری‘ ہے، اظہار صاحب پونہ کے رہنے والے ہیں۔ اس لئے پونوی ہوئے اور شمس العلماء مولوی سید نصیر علی صاحب قبلہ مرحوم و مغفور کی اولاد میں سے ہیں اس لئے ’’نصیری‘‘ ہوئے۔
راجہ صاحب: بہت خوب۔ اچھا آگے چلو۔
مغربی صاحب: یہ انوار چراغی کیتھلوی مدیر مسؤل ہیں اسی رسالے کے۔
راجہ صاحب: بھئی آج کل چراغوں کا دستور نہیں رہا۔ لالٹینی کہو۔
مغربی صاحب: (ہنس کر) یہ خان بہادر مولوی چراغ الدین صاحب مرحوم کے پوتے ہیں اس لئے چراغی ہوئے اور کیتھل ضلع کرنال میں رہتے ہیں اس لئے کیتھلوی ہوئے۔
راجہ صاحب۔: اچھا! آگے چلو۔
مغربی صاحب: یہ نو ممبر مینیجنگ کمیٹی کے ہیں۔
۱ شریف شمسی پلکھوی (ساکن پلکھوا ضلع میرٹھ)
۲ سلیم قمری چرکھاروی (ساکن ریاست چرکھاری)
۳ نعیم مریخی کھرکھودوی (ساکن کھرکھودہ ضلع میرٹھ)
۴ سید ضمیر ہمدانی تراوڑوی (ساکن تراوڑی ضلع کرنال)
۵۔ لطیف شیرازی روپڑی (ساکن روپڑ ضلع انبالہ)۔
۶ ظہیر صدیقی اٹکوی (ساکن اٹک)
۷ نصیر فاروقی الموڑوی (ساکن الموڑہ)۔
۸ مرزا دانا ہلاکو خانی اجنالوی (ساکن اجنالہ ضلع امرتسر)
۹ مرزا نسیم تیموری سکھروی (ساکن سکھر)
راجہ صاحب: بس
مغربی صاحب: حضور میں یہی ممبر اور عہد داران ہیں۔
راجہ صاحب: اچھا بھئی سنو! میں جو کچھ کہنے والا ہوں اس سے تم لوگوں کی دل شکنی فرد ہو گی۔ مگر میں صاف گوئی پر مجبور ہوں۔ سنو میں سیدھی سادی اردو بولتا اور لکھتا ہوں جسے بچہ بھی سمجھ لے اور اسی کو پسند کرتا ہوں میرے پاس کوئی سا مضمون لے آؤ۔ تمہیں اسی دھلی نکھری اردو میں لکھ کر دکھا دوں گا۔ خان بہادری میر ناصر علی مرحوم و مغفور کی اردو یاد ہے یا بھول گئے ہو یا بد قسمتی سے تم لوگوں کی نظر سے ’صلائے عام‘ کا ایک بھی پرچہ نہیں گذرا تو مجھ سے لے جاؤ اور غور سے پڑھو۔ مرحوم نے کم سے کم دس من کاغذ سیاہ کیا ہو گا مگر جتنا لکھا سب سیدھی سادی اردو میں۔ آج کل کے مضمون نگاروں کی طرح اردو کی شکل مسخ نہیں کی۔ اسی طرح شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد مرحوم و مغفور نے سینکڑوں ہی کتابیں لکھیں اور سب صاف، آسان اور سلیس اردو میں جسے بچہ بھی مزے لے لے کر پڑھے پرانے لوگوں کی کتابیں اٹھا کر پڑھو کوئی موضوع چھوڑا بھی ہے۔ پھر جب ہم سیدھی سادی اردو میں سب کچھ لکھ پڑھ سکتے ہیں تو اس غریب کے سر پر ’ادب لطیف‘ کا پھاوڑا کیوں ماریں۔ ایک وہ پرانے لوگوں کی اردو تھی جو الفاظ کے لحاظ سے دیکھو تو اور صرف و نحو کے اعتبار سے دیکھو تو ہر طرح پوری اترتی تھی۔ ایک آجکل کی اردو ہے کہ لکھنے والوں کو موٹے موٹے الفاظ ٹھونسنے سے مطلب ہے۔ ہندی اور فارسی ترکیبیں یہ ملا دیں۔ ان کے بیچ میں اضافت خواہ مخواہ یہ ٹھونس دیں، عربی مصدروں سے اسم صفت یہ بنا دیں، غرض یہ ادب لطیف والے جو کچھ نہ کریں تھوڑا ہے۔ اچھی اردو لکھنے والوں کا آج کل بھی کال نہیں، گو کم ہیں مگر ہیں ضرور۔ خواجہ حسن نظامی صاحب کو دیکھئے کیسی اچھی ہلکی پھلکی اور آسان اردو لکھتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کی اردو پڑھئے زبان چٹخارے لیتی ہے۔ ان لوگوں سے اردو زبان سیکھو اور ان کے پیچھے پیچھے چلو۔ تو بھائی ایک تو یہ کرو کہ ادب لطیف کے پاس تک نہ پھٹکو اور یہ جو تم رسالہ نکال رہے ہو اس میں بھی صاف ستھری اردو لکھو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنے برتن میں کھانا پیش کرو۔ مغربی صاحب: میں سمجھا نہیں جناب کا مطلب راجہ صاحب۔ ارے میاں میں بڑے بڑے موٹے موٹے ناموں کا دم چھلا اپنے پیچھے نہ لگاؤ۔ بی اے پاس کرو اپنے نام کے آگے بی اے لکھو۔ بڑی اچھی بات ہے ایم اے پاس کرو اپنے آپ کو ایم اے لکھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ایل ایل بی پاس کرو اپنے نام کے ساتھ ایل ایل بی لکھو۔ چشم ما روشن دل ما شاد مگر یہ مغربی اور مشرقی شمسی اور قمری، ہمدانی اور کرمانی چنگیزی اور تیموری، صدیقی اور فاروقی اس پچھاڑی سے کیا فائدہ؟ خواہ مخواہ کا رعب جماتے ہو۔ ہماری رائے میں تو اگر اپنے آپ کو ’آدمی‘ لکھ دیا کر تو بہت اچھی بات ہے کچھ بیجا بھی نہیں کہ حضرت آدم کی اولاد ہو ہی میں جناب نصیر فاروقی صاحب سے پوچھتا ہوں ذرا یہاں تو تشریف لائیے۔ کیوں حضرت آپ فاروقی کدھر سے ہیں؟ آپ جانتے بھی ہیں ہمارے فاروق اعظم جناب عمر خطاب رضی اللہ عنہ کس شان کے آدمی تھے؟ نہیں جانتے تو لو میں بتاتا ہوں سنو! جناب عمر ممبر خلافت پر تشریف فرما ہیں۔ گاڑھے کی قبا زیب تن ہے آپ مجمع کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں ’’لوگو سنو اور عمل کرو۔‘‘ ایک بدو فوراً اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور کہتا ہے ’’نہیں سنتے اور نہیں عمل کرتے‘‘۔ وہ بادشاہوں کا بادشاہ جس سے بڑے بڑے قہار بادشاہوں کی روح لرزتی تھی سر دربار ایک گنوار کی اس گستاخی کا کیا جواب دیتا ہے، سنو
حضرت عمر: بھائی کیوں نہیں سنتے اور کیوں نہیں عمل کرتے؟
بدو: لڑائی میں سے مال غنیمت جو ملا تھا وہ ہم سب میں تقسیم ہوا تھا۔ گاڑھے کا جتنا ٹکڑا تمہارے حصے میں آیا تھا اس میں سے یہ قبا جو تم پہنے ہوئے ہو، ہرگز نہیں بن سکتی تھی تم نے یقیناً بیت المال میں سے باقی کا کپڑا لے کر یہ قبا بنائی ہے۔ اس لئے ہم تمہارا کہنا نہیں سنتے اور نہیں مانتے۔
اس وقت جناب عمر بیکسی سے اپنے لڑکے حضرت عبد اللہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ کھڑے ہو کر کہتے ہیں کہ ’اے اعرابی! میرے باپ نے بیت المال میں سے ایک حبہ بھی نہیں لیا۔ ان کو میں نے اپنے حصے کا کپڑا دے دیا تھا۔ ہم دونوں کے حصے کا کپڑا اتنا ہو گیا کہ میرے باپ کی قبا بن گئی‘‘۔ اب بدو پھر کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے ’’ہاں اے عمر اب کہو اب ہم تمہاری بات سنیں گے اور عمل بھی کریں گے۔‘‘ کیوں فاروقی صاحب! آپ بھی ایسا کر سکتے ہیں؟ آپ کو ایسا مرتبہ میسر آ جائے اور آپ کا ادنی غلام ایسی حرکت کرے تو آپ اسے کچا ہی چبا جائیں۔ کیوں ہیں نا ٹھیک؟ آپ تو لوگوں کا مال غصب کیجئے اور فاروقی کہلائیے، یتیموں کے گلے کاٹیے اور فاروقی بنے رہیئے، شرابیں پیجئے، عیاشی کیجئے، دنیا کا کوئی عیب نہ چھوڑیئے اور فاروقی کا دم چھلا لگائے لگائے پھرئیے۔ اور سنیے۔ انہیں حضرت عمرؓ کا قصہ ہے جن کے نام نامی سے آپ ’پدرم سلطاں بود‘ کہتے پھرتے ہیں۔ جناب عمرؓ کی بہادری، دانش مندی اور تدبر کی دھاک چار دانگ عالم میں بندھی ہوئی ہے۔ شاہ ایران کے دربار میں سے چھ آدمی اٹھتے ہیں اور بیڑا اٹھاتے ہیں کہ ہم عمر کا کام تمام کر کے آئیں گے چنانچہ وہ جناب عمر کے دربار میں آتے ہیں۔ کبھی فقیروں کا دربار کاہے کو دیکھا تھا سمجھتے تھے کہ شاہ ایران جیسا شان و شوکت کا دربار ہو گا۔ یہاں کا رنگ ہی کچھ اور دیکھا۔ کہاں کے قالین اور کیسی مسند تکیے؟ یہاں تو ایک بوریا تھا اسی پر یہ اللہ کا شیر بیٹھا تھا۔ مگر روحانی قوت سے در و دیوار تک پر ایک ہیبت سی طاری تھی۔ یہاں آ کر ہمارے ایرانی دوستوں کی سٹی گم ہو گئی۔ ہاتھ پاؤں میں رعشہ آ گیا۔ کہنا کچھ چاہتے تھے کہہ گئے کچھ۔ یعنی اقرار کر لیا کہ آپ کی جان لینے آئے تھے۔ وہ بوتل دکھائی جس میں زہر ہلاہل تھا جس کا ایک قطرہ موت کے گھاٹ اتارنے کو کافی تھا۔ سنو اور غور سے سنو ہمارے فاروق اعظم نے کیا کیا۔ میاں، وہ بوتل کی بوتل ان کے ہاتھ سے لے کر منہ سے لگا لی اور غٹ غٹ کر کے سب پی گئے۔ اب یہ لوگ اور بھی گھبرائے مگر حضرت عمر مسکراتے رہے۔ کچھ بھی نہ ہوا جیسے پانی پی لیا۔ یہ لوگ ایسے ہیبت زدہ ہوئے اور اس فقیر اعظم کے اس فعل کا کچھ ایسا اثر ان کے دلوں پر ہوا کہ فوراً مسلمان ہو گئے پھر واپس شاہ ایران کے پاس گئے اور کہا کہ ’’عمر بادشاہی نمی کند خدائی می کند‘‘ کیوں میاں فاروقی صاحب! تم بھی زہر پی سکتے ہو۔ ارے میاں زہر تو کیا خاک پیو گے، ذرا دو تولے مگنیشیا سالٹ ہی پی کر دیکھو اور پچا جاؤ تو ہم جانیں کہ ہاں تھوڑے بہت فاروقی ہو۔
بھائی میں تو کہتا ہوں کہ تمہارے دادا چراغ الدین خان بہادر بھی تھے شمس العلماء بھی تھے سب کچھ تھے مگر تمہیں اس سے کیا۔ تم علم و فضل میں ان سے آدھے بھی ہو جاؤ تو ہم جانیں کہ قابل دادا کے قابل پوتے ہو اور جو الف کے نام بے بھی نہ جانو اور کہلاؤ چراغی تو بھی اس کے ہم قائل نہیں۔ اور اسی طرح تمہارے اور بزرگ ہمدان سے آئے تو اور نیشا پور سے آئے تو، مشرق سے آئے تو اور مغرب سے آئے تو۔ تمہیں اس سے کیا۔ میاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے تم قابل بنو قابلیت دکھاؤ زمانہ تمہیں قابل ماننے کے لئے تیار ہے۔
مغربی صاحب: جناب کے خیالات قابل قدر ہیں جو کچھ جناب نے فرمایا بالکل بجا و درست ہے مگر مجھے یہ عرض کرنے کی اجازت دیجئے کہ ہم لوگ یہ دم چھلا اس لیے نہیں لگاتے کہ لوگ اس سے مرعوب ہو کر خواہ مخواہ ہماری عزت کریں بلکہ ان تبرک ناموں کا دم چھلا ہم لوگ اس لئے لگاتے ہیں کہ ان کے ناموں سے ان کی برگزیدہ ہستیوں کا اور ان کے نیک اور قابل قدر کارناموں کا خیال ہمیں اکثر آتا رہے اور اسی طرح شاید ہم بھی ان کے نقش قدم پر چل سکیں اور اپنی زندگیوں کو کامیاب بنا سکیں۔
راجہ صاحب: بھائی کہنے اور کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ کہنے کو سب یوں ہی باتیں بنایا کرتے ہیں مگر ایسے لوگ شاذونادر ہی ہیں جن کا قول و فعل یکساں ہے۔ اب تم ہی ایمان سے کہہ دو اتنے آدمی تیموری، صدیقی، فاروقی وغیرہ بنے بیٹھے ہیں یہ کون سے اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں؟ ہاں اتنا میں ضرور کہوں گا کہ اظہار نصیری صاحب سے میں بذات خود واقف ہوں یہ محنتی اور ہونہار شخص ہیں، لیاقت بھی ان میں خاصی ہے اور اسے بڑھانے ہی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ یہ بیشک اپنے قابل دادا کے لائق پوتے ہیں۔ انہوں نے اگر غرور تکبر کو منہ نہ لگایا اور زمانہ کی گرم سرد سہنے کی قوت پیدا کر لی اور عادت ڈال لی تو ضرور اپنے لائق دادا کا نام روشن کریں گے۔ یہ اگر ’نصیری‘ کا دم چھلا اپنے نام کے ساتھ لگا لیں تو خیر لگا لیں۔ خیالات ان کے وسیع ہیں، پرواز بھی بلند ہے۔ اظہار خیالات بھی خوب کر لیتے ہیں۔ مگر برتن ان کے پاس بھی برا ہے وہی ادب لطیف اور ٹھونس ٹھاس والا۔ اپنے دادا کے پوتے ہیں تو دادا ہی جیسی اردو لکھیں۔
مغربی صاحب: اب جناب ہمارے پریسیڈنٹ بن جائیں گے تو جس راستے پر آپ چلائیں گے اسی راستے پر ہم لوگ چلیں گے۔
راجہ صاحب: (جلدی سے) میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس پریسیڈنٹ کے مسئلے کو سوچوں گا۔ آپ خواہ مخواہ یہ خیال نہ کر بیٹھیں کہ میں آپ کا پریسیڈنٹ بن ہی گیا۔ ہاں وہ تیسری بات تو رہ ہی گئی، وہ یہ ہے کہ مجھے یہ بھی بہت برا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ناموں کے ساتھ اپنے وطن کو بھی خواہ مخواہ چپکا دیتے ہیں، چاہے وہ کتنا ہی غیر معروف کیوں نہ ہو اور کانوں کو کتنا ہی برا اور ثقیل کیوں نہ معلوم دے۔ مراد آبادی، اکبرآبادی، بنارسی، لکھنوی، دہلوی، لاہوری، اجمیری، حیدر آبادی میں تو مضائقہ نہیں کہ کانوں کو برے نہیں معلوم دیتے۔ مگر پلکھوی، گلاوٹھوی، کھرکھودی، چرکہاروی، اٹکوی، الموڑوی وغیرہ بہت برے معلوم ہوتے ہیں اگر ایسا ہی اپنے وطن کا نام روشن کرنا منظور ہو تو ’ساکن‘ کا لفظ وطن کے نام سے پہلے لگا دیں، جیسے ساکن تراوڑی ساکن کھتیل وغیرہ اچھا اب تم لوگ جا سکتے ہو۔ میں نے خاصا وقت تمہاری نذر کر دیا۔ ہاں ذرا ٹھہرو۔
راجہ صاحب نے چپکے سے سرفراز علی خان کے کان میں کچھ کہا جو فوراً چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آئے اور کہنے لگے۔
سیکریٹری: راجہ صاحب آپ صاحبوں کو پانچ سو روپے مرحمت فرما تے ہیں۔
راجہ صاحب: مغربی صاحب! یہ رقم آپ اپنی تحویل میں رکھیے اور آئندہ ماہ کی اسی تاریخ کو آپ چاروں صاحبان یعنی آپ، سیکریٹری صاحب، اسسٹنٹ سکریٹری صاحب اور اظہار صاحب پھر یہاں تشریف لائیں میں دیکھوں گا کہ آپ نے یہ رقم کیونکر خرچ کی اور آپ کی انجمن کا کیا حال ہے۔ پھر مزید گفتگو کروں گا۔ خدا حافظ۔
مولوی چقماق
’’یہ تم گھڑی گھڑی چقماق چقماق کیا کہا کرتے ہو؟‘‘ قاسم نے منصور سے کہا۔
منصور: میاں وہ ہے نا ایک سڑی سا آدمی، وہ جو ایک کالا سا ڈنڈا لئے پھرتا ہے، مڑا ہوا، بل کھایا ہوا، سانپ کی وضع کا۔
قاسم: اچھا وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ جنہیں ’’مولانا حاضر‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ہاں یار آدمی دلچسپ معلوم ہوتا ہے۔ جہاں دیکھو جس جگہ جاؤ یہ دھرے ہوئے ہیں۔ قطب صاحب چلے جاؤ، اوکھلے جاؤ، پہاڑی پر جاؤ، ہمایوں کے مقبرے جاؤ، غرض یہ ہر جگہ موجود ہیں۔ اسی لئے لوگ انہیں ’’مولانا حاضر‘‘ کہتے ہیں۔
منصور: مگر میں نے ان کا نام مولوی چقماق رکھا ہے۔
قاسم: یہ کس مناسبت سے؟
منصور: بات بات پر بھڑک اُٹھتا ہے جیسے کسی نے دیا سلائی دکھا دی
قاسم: مگر یہ تو پاگل پن ہوا۔ خواہ مخواہ بھڑکنے کے کیا معنی؟
منصور: جلا ہوا بہت ہے۔
قاسم: کس سے؟
منصور: دُنیا والوں سے۔
قاسم: اس سے کیا مطلب وہ دنیا والا نہیں ہے؟
منصور: اس کی ظاہری وضع قطع پر نہ جاؤ۔ کبھی اس کی باتیں سنو باتیں، وزنی ہوتی ہیں۔ ٹھوس۔
قاسم: تو کبھی لے چلو۔
منصور: مجھے ان کا پتہ ٹھکانا تو معلوم نہیں۔ اُدھر کہیں سبزی منڈی کی طرف رہتے ہیں۔ مگر دیکھو کسی نہ کسی دن راہ باٹ میں مل جائیں گے تو ان کی باتیں سنوائیں گے۔۔۔۔۔ اب آج کا پروگرام کیا ہے۔ چھٹّی کیونکر گذرے گی؟
قاسم: میں اسی لئے آیا تھا کہ تم سے قطب صاحب چلنے کو کہوں۔ نذیر کے خالہ زاد بھائی گورکھپور سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہہ رہا تھا کہ انہیں مقبرہ قطب صاحب وغیرہ کی سیر کرا دو۔
منصور: اور کھانا وانا؟
قاسم: قطب صاحب میں کھا پی لیں گے۔
منصور: تانگے میں چلو گے یا موٹر بس میں؟
قاسم: موٹر بس کی علّت ہے اور تانگے میں خواہ مخواہ آٹھ دس روپے خرچ ہو جائیں گے۔ سائیکلوں پر چلیں گے۔
منصور: میرا تو کچھ ہرج نہیں۔ نذیر کیا کہتا ہے؟
قاسم: اسی نے کہا تھا کہ سائیکلوں پر باتیں کرتے ہوئے مزے مزے سے چلیں گے۔
منصور: بڑا کنجوس ہے۔ مہمان کے لئے دس پانچ روپے خرچ نہیں کئے جاتے۔
منصور: وہ کہتا ہے کہ تانگے والے کو تو بھر مٹھی روپے دیے جائیں تو کَے رکعت کا ثواب ملے گا۔ اپنے ہی پیٹ میں نہ ڈالیں جو انگ کو تو لگے۔
منصور: انگ انگ کو تو کیا خاک لگے گا۔ گھی بناسپتی اور دودھ لسّی۔ مگر اس میں شک نہیں کہ سائیکلوں پر سیر اچھی رہے گی، جہاں جی چاہا اُتر گئے سیر کی اور جب جی چاہا چل پڑے۔ تو کب آ رہے ہو؟
قاسم: آ کیا رہے ہو، بس میرے ساتھ ہی چلو۔ رستے میں اجمیری دروازے کی مسجد میں بیٹھ کر ناشتہ کر لیں گے۔
قاسم اور منصور دونوں نذیر کے گھر گئے۔ وہاں سے اُسے اور اُس کے بھائی کو لے کر روانہ ہوئے۔ اجمیری دروازے کی مسجد میں بیٹھ کر حلوا پوری اور
کچوریوں کا ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ وہاں سے دلّی دروازے ہوتے ہوئے مٹکوں والی درگاہ پہنچے۔ نذیر کے بھائی مسعود غالباً پہلی دفع دلّی آئے تھے۔ دور ہی سے ہزاروں مٹکے دیکھ کر کہنے لگے۔
مسعود: یہ کیا چیز ہے؟
نذیر: درختوں، بانسوں اور بلّیوں پر مٹکے لٹکا رکھے ہیں۔ یہاں لوگ منّت مانتے ہیں اور جب مراد پوری ہو جاتی ہے تو مٹکوں میں شربت لاتے ہیں اور نیاز دلواتے ہیں۔ پھر شربت تقسیم کرنے کے بعد مٹکوں کو لٹکا دیتے ہیں۔
مسعود: بے شمار مٹکے ہیں۔ کیا ٹھیک ہے۔ اور یہ چمکدار مٹکے کیسے ہیں جن پر نگاہ نہیں ٹھہرتی؟
قاسم: یہ تانبے کے ہیں قلعی دار۔ صاحبِ استطاعت لوگ تانبے کے بھی چڑھاتے ہیں۔
مسعود: اور کوئی رات بے رات آن کر لے جائے تو۔ یا جگہ تو بستی آبادی سے دور ہے؟
منصور: چور ڈاکو منّت مراد کی چیزوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ یہی بات ہے جو آج تک کوئی مٹکا چوری ہوا نہیں۔
یہ درگاہ دیکھ داکھ کر یہ لوگ پرانے قلعے گئے۔ وہاں سے ہمایوں کا مقبرہ اور درگاہ حضرت نظام الدّین اولیا ہوتے ہوئے منصور کے مقبرے پہنچے، وہاں سے سیدھے قطب صاحب گئے۔ سب سے پہلے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ پھر لاٹ کے نیچے آ کر
ہری ہری گھاس کے فرش مخملیں پر بیٹھ گئے اور ذاتِ باری کی صنعت گری کا تماشہ ہر روپ میں دیکھنے لگے۔ ؎
عورتیں رنگین ملبوسات میں
جیسے اُڑتی تتلیاں برسات میں
ہر طرف جلوہ ہے اور رنگِ حیات
رقص کرتی پھر رہی ہے کائنات
ان لوگوں کو یہاں بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ منصور نے کہا
منصور: لو وہ آ گئے!
نذیر: کون آ گئے؟
منصور: چقماق!
قاسم: مولوی چقماق؟ کہاں ہیں؟
منصور: وہ رہے سامنے!
نذیر: چلو دل لگی رہے گی۔
منصور: کوئی ایسی ویسی بات نہ کر بیٹھا۔ جھاڑ دے گا۔
اتنے میں مولوی چقماق قریب آ گئے۔ منصور اور نذیر نے بیک آواز ’’آداب عرض ہے‘‘ کہا۔ چقماق بغیر آواز دیئے وہیں گھاس پر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔
چقماق: تربیت کا قصور ہے۔ تربیت کی خامی ہے۔
سب دوست اُن کا منہ تکنے لگے۔
چقماق: تربیت، تعلیم، تجربہ انسانی زندگی کے لئے لازمی چیزیں ہیں۔ مگر سب سے پہلی چیز تربیت ہے۔ تعلیم اور تجربہ بعد کی چیز ہیں۔ جس کی تربیت اچھی ہو گئی تو سمجھ لو اس کی زندگی سدھر گئی۔
منصور: تو حضور ہم ہر خفگی کا کیا سبب ہے؟ ہم نے کیا کیا؟
چقماق: یہ کہاں کا اخلاق ہے کہ دور ہی سے ’’آداب عرض‘‘ کا جوتا میرے مغز پر دے مارا۔ کھڑے ہوئے نہیں ہاتھ ملایا نہیں۔ بس ایک گولہ سا دے مارا۔ ’’آداب عرض‘‘۔ اچھی تربیت لی ہوتی تو سلامُ علیکم کہتے۔ یہ آداب عرض کیا بلا ہے۔ ہونہہ۔ آداب۔ آداب۔ ایک بہت بڑے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
روز کہتے ہو کہ آداب آداب
آ دباؤں گا تو مشکل ہو گی
نذیر: حضور! آج کل مہذّب لوگ سب ہی آداب کہا کرتے ہیں۔
چقماق: مہذّب لوگ سڑی ہوئی مچھلی اور کیڑے پڑا ہوا پنیر بھی تو کھاتے ہیں۔ عورتوں کو بغل میں لے کر ناچتے بھی تو ہیں۔ شراب بھی تو پیتے ہیں۔ مہذّب۔۔۔ ہونہہ۔۔۔۔ مہذّب۔۔۔۔۔ پچھتّر فیصدی۔
منصور: حضور! ہمیں تو بچپن سے ہی سکھایا گیا ہے کہ بڑوں کا ادب کرنا چاہیئے اور آداب عرض کہنے سے اظہارِ ادب مقصود ہے۔
چقماق: کس نے سکھایا ہے؟ پچھتّر فیصدی! ’’آداب عرض سکھایا ہے۔ کیا معنی ہوئے ’’آداب عرض‘‘ کے۔ یہ عرض اور طول کیا بلا ہے۔ لغو، واہیات، بے معنی، سیدھی سی بات کہو ’’اسلامُ علیکم‘‘ کہ سلامتی ہو تم پر اور دوسرا جواب میں کہے ’’وعلیکم السلام‘‘ اور بھئی تم پر بھی سلامتی ہو۔ سبحان اللہ کیسی پیاری پیاری باتیں ہیں، کیسے میٹھے بول ہیں۔ جب ہی تو کہتا ہوں تربیت، تربیت! تربیت کی خرابی ہے، سارے زمانے میں تربیت کا کال ہے۔ تانگے والا ہے تو تربیت سے کورا۔ نہ ہاتھ دکھاتا ہے، نہ منہ سے بکتا ہے سر پر چڑھائے چلا آ رہا ہے۔ موٹر والا ہے تو تربیت سے عاری۔ وہ زور و شور سے ہارن دیتا ہے کہ آئے حواس غائب ہو جاتے ہیں۔ آدمی اچھل پڑتا ہے۔ سائیکل والا ہے تو تربیت سے کوسوں دور، بھِڑا کر لے جا رہا ہے۔ نہ گھنٹی بجاتا ہے اور نہ بریک باندھتا ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک تیر ہے جو چلا جا رہا ہے اور جو ذرا سی بات کہو تو آستینیں چڑھا کر لڑنے کو مستعد۔ پچھتّر فیصدی!
حضور اجازت دیں تو کچھ عرض کروں۔ نذیر نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
چقماق: فرمایئے۔
نذیر: حضور بار بار پچھتّر فیصدی کیا فرمایا کرتے ہیں۔
چقماق: جانتے ہو انسان کِسے کہتے ہیں؟ اچھا انسان کو چھوڑو۔ انسان آج کل ہیں ہی کہاں۔ یہ بتاؤ آدمی کسے کہتے ہیں؟
نذیر: آدمی؟ آدمی تو سب ہی ہیں۔ یہ کیا اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں۔
چقماق: ہونہہ! اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں! ان میں کِتنوں میں آدمیت ہے۔ کیا معیار ہے تمہارے پاس آدمیت کا۔ کونسی کسوٹی پر پرکھتے ہو یا جس کی شکل آدمی کی سی دیکھی اُسے ہی آدمی سمجھ لیا؟ پچھتر فیصدی!
نذیر: اب میں کیا عرض کروں؟
چقماق: آپ کیا عرض کریں گے میں ہی عرض کرتا ہوں۔ آپ لوگ سائیکلوں پر آئے ہیں۔ جی؟ شہر کے بازاروں میں سے گذرے ہیں؟ کیا دیکھا آپ نے؟
منصور: کوئی خاص بات تو دیکھی نہیں۔
چقماق: دیکھتے کیا خاک! بٹن لگے ہوئے ہیں آنکھوں کی جگہ۔ ارے میاں آنکھوں سے کام لینا سیکھو۔ انہیں بٹن نہ سمجھو۔ یہ کام کی چیزیں تم سائیکلوں پر چلے آئے سیدھے؟ بغیر کسی دقّت کے؟
منصور: ان کی، نذیر کی سائیکل سے تو ایک بچّہ الجھ کر گِرا مگر خیر گزری چوٹ پھیٹ نہیں لگی اور میری سائیکل سے ایک رکشا لڑ گئی۔
چقماق: تو تمہاری اور میاں نذیر کی بے پرواہی ہو گی؟
نذیر (جلدی سے) وہ بچّہ آنکھیں بند کر کے سڑک کی ایک سمت سے دوسری جانب بھاگا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ ایک دم سے اس طرح بھاگے گا۔ میں نے بہت کوشش کی مگر وہ جھپٹ میں آ ہی گیا۔ اس میں میرا کیا قصور؟
چقماق: اس میں تمہارا قصور تھا نہ بچّے کا۔ کیونکہ تم نے کوشش کی اور بچا نہ سکے۔ اس لئے کہ تمہیں سان و گمان بھی نہ تھا کہ بچہ یوں بے تحاشا بھاگے گا اور بچہ بھی بے قصور تھا اس لئے کہ آخر بچہ ہی تھا۔ قصور بچے کے باپ کا ہے کہ اگر وہ ساتھ تھا تو بچے کی انگلی کیوں نہیں پکڑ رکھی تھی اور اگر ساتھ نہیں تھا تو اس قصور میں اس کی ماں بھی برابر کی شریک تھی جس نے یہ سوچ لیا کہ بس ہم نے پیدا کر دیا۔ اب پالیں محلے والے، پچھتّر فیصدی۔ اور وہ رکشا کا کیا قصّہ ہے؟
منصور: حضور! میں تو اپنے بائیں سے جا رہا تھا۔ وہ رکشا والا موٹر کے بچنے کے لئے دائیں پر آ گیا اور سائیکل سے لڑا دی۔
چقماق: نہ تمہیں اتنی توفیق ہوئی کہ اُتر پڑتے کیونکہ تم تو قسم کھا کر چلے تھے کہ چاہے جتنی بھیڑ ہو اتر کر ہی نہیں دیں گے۔ اور رکشا والے تو پھر رکشا والے ہی ہیں اور ایک رکشا والے پر کیا منحصر ہے جسے دیکھو فرعون بے سامان بنا ہوا ہے۔ تانگے والا تانگے پر ایسا بیٹھا ہے جیسے بادشاہ تخت پر۔ اڑائے چلا جا رہا ہے روکنے کا نام نہیں لیتا۔ موٹر والا ہے تو ہوائی جہاز بنائے ہوئے ہے۔ ہارن زور زور سے بجائے گا مگر کیا مجال جو رفتار ہلکی کر دے۔ پچھتّر فیصدی۔
قاسم: حضور! یہ بے پڑھے لکھے لوگ جاہل ہوتے ہیں اور دلّی میں خبر نہیں کہاں کہاں سے آن مرے ہیں۔ نرے گنوار۔
چقماق: بے پڑھے لکھے جاہل و گنوار؟ ہونہہ اور تمہارے پڑھے لکھوں میں کتنے آدمی ہیں؟ ذرا میں بھی تو سنوں۔
قاسم: بے پڑھے لکھے تو ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔
چقماق: میں پھر پوچھتا ہوں بتاؤ آدمی کہتے کِسے ہیں؟ پچھتّر فیصدی! تم یہ سوچتے ہو کہ بی۔ اے ایم۔ اے پاس کر لیا تو آدمی بن گیا؎
چار پائے برو کتابے چند
یہ کون ہیں صاحب؟ وکیل صاحب ہیں! یہ کون ہیں؟ سیشن جج ہیں۔ یہ کون ہیں؟ پروفیسر صاحب ہیں! یہ کون ہیں؟ طوطیِ ہند ادیب زمان مولوی فاضل جناب فلاں فلاں بی۔ اے۔ ہیں۔ بس تم نے سمجھ لیا کہ آدمی کیا انسان ہیں۔ کسی سے ہنس کر بولے اخلاق سے باتیں کیں تم سمجھ بیٹھے کہ بڑے اچھے آدمی ہیں۔ کیا بات ہے۔ خاندانی ہیں۔ ان لوگوں کو پڑھو، سمجھ کر پھر معلوم ہو گا کہ کتنے ان میں سے آدمی ہیں اور کتنے آدمی کی شکل کے جانور۔
منصور: حضور ہم تو سینکڑوں آدمیوں کو جانتے ہیں جو مجسّم خلق و ایثار ہیں۔ اور میں تو انہیں انسان ہی سمجھتا ہوں۔ انسان!
چقماق: پھر وہ انسان! ارے انسان تو آجکل ناپید ہی ہے۔ مجھے آدمی دکھاؤ آدمی۔
منصور: اب میں آپ کو کیونکر سمجھاؤں۔
چقماق: سمجھاؤ نہیں۔ دکھاؤ۔ اچھا بتاؤ کسی کا نام لو۔
منصور: ایک تو مرزا رفیع الدّین صاحب ہی ہیں۔ اتنے بڑے عربی فارسی کے عالم فاضل، عالی مرتبہ ادیب، بے مثال افسانہ نگار، بڑے پایہ کے شاعر اور آسودہ حال خوشحال آدمی ہیں، مگر اخلاق ایسا کہ بچّہ بھی چلا جائے تو بچھے چلے جاتے ہیں۔ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ اتنا بڑا شخص ہے۔
چقماق: ہر چمکدار چیز کو سونا نہ سمجھ بیٹھو۔ جب تک اسے کسوٹی پر نہ کس لو۔ یہ میں مانتا ہوں کہ اس گئی گذری دنیا میں اب بھی پچیس فیصدی آدمی موجود ہیں۔ مگر پچھتر فیصدی آدمی کی شکل کے جانور ہیں۔ نرے جانور۔ بہرحال اتنا ضرور کہتا ہوں کہ جن جن لوگوں کو تم آدمی سمجھ رہے ہو اور جن کی اپنے دل میں اس قدر وقعت رکھتے ہو بہت ممکن ہے اگر انہیں غور سے پڑھو تو ان میں سے بہتوں کو آدمی نہ پاؤ۔
قاسم: تو حضور! کیونکر پڑھیں؟
چقماق: پڑھنے کے تو بہتیرے طریقے ہیں مگر میں نے تو ایک اصول بنا رکھا ہے۔
نذیر: ہمیں بھی وہ اصول بتا دیجئے۔
چقماق: سنو! اللہ پاک نے آدمی میں جذبات کا سمندر بھر دیا ہے اور پھر اس گناہوں بھری دنیا میں چھوڑ دیا ہے اور تاکید یہ ہے کہ حوریں دیکھو مگر عاقبت کی حوروں کا خیال کر کے ان کے پاس تک نہ پھٹکو۔ شراب دیکھو مگر شرابِ طہور کا تصوّر دِل میں جما کر آگے بڑھ جاؤ۔ مطلب یہ ہے کہ تیرہ ادھار کی خاطر نو نقد کو چھوڑ دو۔ خواہشاتِ دنیا بے شمار اور انواع و اقسام کی ہیں۔ سب سے دامن کوئی کہاں تک بچا سکتا ہے۔ ایسا کر لے تو فرشتہ ہی نہ ہو جائے۔ ہاں نبی اور پیغمبر ایسے ضرور تھے مگر ان کے خاص دل و دماغ تھے۔ بہرحال میرا اپنا کہنا تو یہ ہے کہ جس نے ایک آدھ لغزش کے سوا سب برائیوں کو چھوڑ دیا میری رائے میں وہ انسان ہے اور آدمی ماننے کے لئے تو میں نے گِنے چُنے دو ایک اصول مقرر کر رکھے ہیں۔
منصور: ہمیں بھی بتا دیجئے۔ ہم بھی پرکھ کر اُسی کو دوست بنائیں گے۔
چقماق: دوست بنانے کے لئے تو بس یہ یہ یاد رکھو
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
آرائش کے طور پر ہی کچھ روپیہ قرض مانگ لو اور وہ ؎
زر می طلبی سخن درین است
نہ کہے تو سمجھ لو کہ خاصا دوست ہے
منصور: اور آدمی؟
چقماق: جس میں غرور نہ ہو، جس کی بات وزنی ہو۔ اس میں سب کچھ آ گیا یعنی جو وعدہ کر کے پورا کرے، کسی کو ملنے کا وقت دے تو اس وقت گھر پر موجود رہے۔ کسی کے پاس جانے کا اُسے وقت دے تو پہنچ جائے۔ کسی سے کتاب پڑھنے کو لے تو وقت پر واپس کر دے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اگر کسی کی بات وزنی ہے، بوجھل ہے، ٹھوس ہے تو وہ چاہے شراب پئے، رنڈی بازی کرے ہماری بلا سے۔ ہم اسے انسان تو نہیں کہیں گے مگر ہاں آدمی سمجھ لیں گے۔ لو تم بھی کیا یاد کرو گے تمہیں ایسی کسوٹی بتاتے ہیں اور ایسی ترازو دیتے ہیں جس پر رکھ کر اور جو میں تول کر تم انسان آدمی، اور آدمی کی شکل کا جانور معلوم کر سکتے ہو۔ ہائے چچا سعدی کیا خوب فرما گئے ہیں ؎
انسان:
آنکس کہ بداند و بداند کہ نداند
اسپ خیرو خویش بہ افلاک رساند
آدمی:
وان کس کہ بداند و بداند کہ بداند
او نیز خرِ لنگ بہ منزل برساند
جانور بشکلِ آدمی:
واں کس کہ نداند و بداند کہ بداند
در جہلِ مرکب ابد الدہر بماند
اچھا میں نے تم لوگوں کے ساتھ اپنا بہت سا قیمتی وقت ضائع کر دیا۔ اللہ حافظ۔
کرفیو آرڈر
آج کل جہاں کھانے کی، پینے کی، پہننے اوڑھنے کی مصیبتیں ہیں وہاں اب چلنے پھرنے کی اور مصیبت ہو گئی ہے۔ ناپ کر کھاؤ، ناپ کر پہنو، یہ تو مدّتوں سے تھا ہی اب یہ بھی ہو گیا کہ ناپ کر چلو۔
لحاف میں دبکے دبکائے پڑے تھے کہ تین بجے رات کو ایک دَم سے مکان کے پچھواڑے سے شور و غل کی آواز آئی۔ تین بجے رات کے گھر سے باہر قدم نکلنا تھانے کی دعوت قبول کرنے کے مترادف تھا۔ جانتے تھے کہ وہ دعوت ثقیل ہوتی ہے ہمارے بس کا روگ نہیں۔ اس لئے اوپر چھت پر گئے۔ مکان کے پچھواڑے جہاں سے چیخنے چلّانے کی آوازیں آ رہی تھیں، سقّے رہتے ہیں۔ ہم نے پہلے تو دیوار کے پاس کھڑے ہو کر آوازیں دیں۔ ارے بھئی کیا ہے، ارے بھئی کیا بات ہے، ارے کچھ بتاؤ تو۔ جب کچھ جواب نہ ملا اور شور مچتا ہی رہا تو ہم نے دیوار پر سے لٹک کر کہا۔
’’ارے بی کیا ہوا؟ کچھ بتاؤ تو؟‘‘
بڑی بی: اے بیٹا! کیا بتائیں۔ مجّو کو پولیس والے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کلو کے باپ کو۔ اچھی بابو جی، خدا تمہارا بھلا کرے، ذرا تھانے چلے جاؤ۔
ہم: بڑی بی۔ یہ بہت مشکل بات ہے۔ اس وقت تھانے کیونکر جاؤں۔ کرفیو آرڈر ہے۔ گھر سے قدم نکلنا دو بھر ہے۔
بڑی بی: نہیں بیٹا! تم بڑے آدمی ہو۔ تمہیں کوئی کیا کہے گا۔ دیکھنا اُس کی بیوی بے ہوش پڑی ہے۔ بچے بِلک رہے ہیں۔ اچھی چلے جاؤ۔ خدا تمہاری آس اولاد کا بھلا کرے۔
ہم: ارے بی! میں کیسے جاؤں؟ گھر سے نکلتے ہی میں جو پکڑا جاؤں گا۔ کرفیو آرڈر ہے کہ مذاق ہے۔ یہ تو بتاؤ کہ جب دُنیا بھر کو معلوم ہے کہ رات کے نو بجے سے صبح کے چھ بجے تک کرفیو ہے تو تین بجے گھر سے نکلنے کی پڑ کیا گئی تھی؟
بڑی بی: بیٹا! گلی میں کتّے بھونکے جا رہے تھے۔ نیند حرام کر رکھی تھی کم بختوں نے بس ہمیں تو خبر ہی نہیں ہوئی وہ لکڑی لے کر انہیں مارنے نکلا۔ یہ کم بخت پولیس والے بھی شکار کی تاک بی میں لگے رہتے ہیں۔ لو میاں جھٹ آن دبایا۔ ہم سب چیختے پیٹتے ہی رہے وہ لے ہی گئے اور جوانا مرگ کہتے کیا ہیں کہ بڑی بی وہیں گھر کے اندر رہنا۔ جو ایک قدم بھی باہر نکالا تو تمہیں بھی تھانے لے جائیں گے۔ اچھّی میاں ذرا چلے جاؤ۔ اللہ واسطے کا کام ہے۔
ہم: بڑی بی! میں اس وقت بھلا کیسے جاؤں۔ خود پھنس جاؤں گا۔ صبح کو جا کر دیکھوں گا کیا بات ہے اور ہو سکا تو ضمانت پر چھڑا لاؤں گا۔
بڑی بی: ہے ہے۔ وہ حوالات میں سردی سے اکڑے گا۔
خیر صاحب صبح کو ہم تھانے گئے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ میاں مجّو حوالات میں بیٹھے رو رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی مجّو کہنے لگا۔
بابو جی دیکھو کس ناگہانی میں پھنس گیا۔ اُدھر بیوی پورے دنوں سے ہے۔ صبح شام میں بال بچہ ہونے والا ہے۔ چار دن سے بخار میں لوتھ پڑی ہے۔ ادھر میں پھنس گیا۔ اب دوا دارو کو بھی کوئی نہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بابو جی ضمانت کرا دو۔ مرتے دم تلک تمہارا احسان نہیں بھولنے کا۔
ہم: گھبراؤ نہیں۔ میں اسی لئے آیا ہوں۔ داروغہ جی باہر آئیں تو بات کروں۔ داروغہ جی تو پھر داروغہ جی ہی ہوتے ہیں۔ ہم اس جاڑے پالے میں کبھی ٹہلنے لگے۔ کبھی کھڑے ہو گئے۔ اور بھی کتنے آدمی ہماری طرح قواعد کر رہے تھے۔ خدا خدا کر کے داروغہ جی باہر آئے۔ میری ان سے صاحب سلامت تھی، کہنے لگے۔
داروغہ: آپ صبح صبح کہاں۔
ہم: حکیم ڈاکٹر کے ہاں۔ وکیل کے ہاں اور تھانے میں آدمی اپنی خوشی سے تھوڑے ہی جاتا ہے۔
داروغہ جی: کیا بات ہے؟
ہم: میرے گھر کے پچھواڑے دیوار بیچ ایک بے چارا سقّہ رہتا ہے۔ رات کو کتّے بھونک رہے تھے۔ اس کی بیوی بیمار پڑی ہے۔ وہ بے چارا کتّوں کو مارنے نکلا تھا کہ کرفیو میں دھر لیا گیا۔
داروغہ: یہ لوگ بھی گدھے ہی ہوتے ہیں۔ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کرفیو بڑی سختی کے ساتھ عمل ہو رہا ہے اور پھر بھی نہیں مانتے۔
ہم: (چپکے سے) اسے چھوڑ دیجئے۔ آپ کا احسان مجھ پر ہو گا۔
داروغہ: کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ یا اور جو اتنے سارے آدمی کھڑے ہیں یہ کیا کہیں گے؟ دیکھ رہے ہیں آپ۔ زمانہ کیسا جا رہا ہے۔ نوکری سنبھالنی مشکل ہو رہی ہے۔ آپ ضمانت دے دیجئے۔ میں ابھی چھوڑے دیتا ہوں۔
چنانچہ ہم نے پانچ سو روپے کی ضمانت دی۔ مجّو نے میرے پاؤں پکڑ لیے اور دعائیں دیتا ہوا گھر گیا۔ ہم وہیں کرسی پر بیٹھ گئے۔ داروغہ جی نے سپاہی سے کہا ’’دوسرے کو پیش کرو۔‘‘ ایک بڑے میاں بڈھے پھونس جھکی ہوئی کمر پیش ہوئے۔
داروغہ جی: بڑے میاں آپ کیوں نکلے تھے؟
بڑے میاں: ہم تو نماز کو جا رہے تھے۔ سپاہی یہاں لے آئے۔ بہتیرا کہا کہ ارے نماز تو پڑھ لینے دو۔ پھر ہی لے چلنا۔ ہم کہیں بھاگے تھوڑے ہی جاتے ہیں مگر یہ کس کی سنتے ہیں۔ فرعون بنے ہوئے ہیں۔ ہماری نماز بھی گئی۔ ہائے آج تک بیماری میں بھی قضا نہیں ہوئی تھی۔
داروغہ جی: نماز تو چھ بجے کے بعد ہوتی ہے۔ آپ چھ بجے سے پہلے کیوں نکلے؟ آپ کو معلوم نہیں کہ چھ بجے تک کرفیو ہے۔
بڑے میاں: میاں ہمارے پاس گھڑی تھوڑے ہی ہے۔ اذانیں ہو گئیں۔ اللہ کی طرف سے آوازیں آئیں ’’حی على الصلوة‘‘ ہم اُٹھ کھڑے ہوئے۔
ہم نے چپکے سے داروغہ جی سے کہا۔ آپ کا ضمیر کیا کہتا ہے؟
داروغہ جی: ضمیر کی سنیں یا بال بچّوں کے پیٹ کو دیکھیں۔ نوکری ہے یا بھائی بندی؟
پھر بڑے میاں سے بولے۔
بڑے میاں! تمہارا ضمانتی کون ہے؟
بڑے میاں: اوپر اللہ ہے اور نیچے چھوٹے چھوٹے بچے اور عورتیں ہیں۔
داروغہ جی: تمہارے لڑکے وڑکے نہیں ہیں؟
بڑے میاں: ایک لڑکا ہے پردیس میں۔ مہینے کے مہینے خرچ بھیج دیتا ہے۔ میں تو بیکار ہوں۔ سودا سلف بھی نہ جانے کس طرح اپنے بدن کو گھسیٹ کر لا دیتا ہوں۔
داروغہ جی: اب ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ضمانت جب تک نہ ہو تم گھر نہیں جا سکتے۔
بڑے میاں: ارے میں نہیں جاؤں گا تو بچّوں کے منہ میں دانہ بھی نہیں پڑے گا۔ خدا کے واسطے ایسا ظلم نہ کیجئے غریبوں کی آہ سے ڈرنا چاہیے۔
داروغہ جی: اب تمہاری آہ کو دیکھیں یا اپنے جاہ کو (سپاہی سے) لے جاؤ انہیں۔ دوسرے ملزم کو لاؤ۔
ایک صاحب پیش ہوئے۔ اجلی دھوتی، اجلا کوٹ، ننگے سر، بال بنے ہوئے، آتے ہی فروٹ انگریزی بولنے لگے۔ داروغہ جی نے ملائمت سے کہا۔
داروغہ جی: اردو ہی میں بات کیجئے۔ میں انگریزی سمجھ تو لیتا ہوں، مگر جب میں بھی ہندوستانی آپ بھی ہندوستانی تو پھر انگریزی میں گفتگو کی کیا ضرورت ہے؟ جی فرمائیے کیسے آنا ہوا؟
ملزم: میں حسبِ معمول ہوا خوری کو جا رہا تھا۔ آپ کے سپاہی نے پکڑ لیا اور یہاں لے آیا۔ میں کوئی معمولی آدمی نہیں۔ گزٹیڈ افسر ہوں۔ چیف کمشنر سے شکایت کروں گا۔ میری سخت انسلٹ ہوئی ہے۔
داروغہ جی: ٹھہرئیے ذرا ٹھہریئے۔ آپ چھ بجے سے پہلے نکلے کیوں تھے؟ آپ کو معلوم نہیں چھ بجے تک کرفیو ہے؟
ملزم: کون کہتا ہے میں چھ سے پہلے نکلا۔ ٹھیک چھ بجے گھر سے چلا تھا۔
داروغہ جی: آپ کی گھڑی آگے ہو گی؟
ملزم: سپاہی کے پاس کیا گھڑی تھی؟
سپاہی: داروغہ جی! جب میں انہیں لے کر یہاں پہنچ لیا ہوں اس وقت بھونپو بجا ہے۔
داروغہ جی: آپ کی آسانی کے لئے اور سمجھنے کے لئے اور جان لینے کے لئے ٹھیک چھ بجے بھونپو بجتا ہے کہ شہر بھر کو خبر ہو جائے کہ اب کرفیو کا وقت ختم ہو گیا ہے اور پھر بھی آپ پہلے ہی گھر سے نکل پڑتے ہیں تو اس میں قصور کس کا ہے، آپ کا کوئی ضمانتی ہے؟
ملزم: میں گزٹیڈ افسر ہوں۔ چھ سو روپے تنخواہ پاتا ہوں، ڈھائی سو کلرک میری ماتحتی میں کام کرتے ہیں۔ میری ضمانت کی ضرورت نہیں۔
داروغہ جی: ضمانت تو آپ کو دینی پڑے گی۔ میں مجبور ہوں۔
ملزم: میں چیف کمشنر سے آپ کی شکایت کر دوں گا۔
داروغہ جی: میں مجبور ہوں (سپاہی سے) انہیں لے جاؤ
ملزم: (گھبرا کر) اچھا دیکھئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں میری کافی انسلٹ ہو چکی ہے۔ آپ کو میں ورڈ دیتا ہوں کہ پیشی کی تاریخ پر عدالت میں حاضر ہو جاؤں گا۔
داروغہ جی: آپ یہاں کرسی پر تشریف رکھئے اور اپنا پتہ بتا دیجئے۔ میں اتنا کر سکتا ہوں کہ کسی کو آپ کے مکان پر بھیج کر اطلاع کروا دوں۔ مجھے افسوس ہے کے بغیر ضمانت کے آپ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ قانون قانون ہی ہے۔ اور وہ امیر غریب، گزٹیڈ اور نان گرٹیڈ سب کے لئے یکساں ہے۔
چنانچہ انہوں نے مکان کا پتہ بتایا جو بالکل قریب ہی تھا اور داروغہ جی نے ایک سپاہی کو وہاں بھیج دیا۔ اس کے بعد سپاہی سے کہا۔ ’’دوسرے ملزم کو پیش کرو‘‘
کوئی سولہ سترہ برس کا لڑکا پیش ہوا۔ کالا کلوٹا، ننگے پاؤں، ننگے سر،
داروغہ جی: تو کون ہے بھئی؟
ملزم: قلعی کی دکان میں کام کرتا ہوں۔
داروغہ جی: کہاں رہتا ہے؟
ملزم: وہیں دُکان میں رہتا ہوں۔ وہیں سوتا ہوں۔
داروغہ جی: دو بجے رات کو کیوں نکلا تھا؟
ملزم: ٹٹّی آ رہی تھی۔
داروغہ جی: ٹٹّی گیا ہے؟
ملزم: حضور پاخانہ
داروغہ جی: حضور کے بچے نالی پر کیوں بیٹھا تھا، وہ تیرے باپ کا پاخانہ ہے۔ حرامزادوں نے شہر بھر کو سڑا رکھا ہے۔ نالی پر بیٹھ جاتے ہیں آرام سے کیوں بے تو صبح کو سرکاری پاخانوں میں نہیں جا سکتا تھا؟
ملزم: حضور پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ بہت دیر سے روک رہا تھا۔ پھر مجبور ہو کر اِدھر اُدھر دیکھ بھال کر کواڑ دُکان کے کھولے اور چُپ چاپ نالی پر پیٹھ گیا۔ سرکاری پاخانوں تک جانے کی ہمّت نہ پڑی کہ کرفیو میں پکڑا جاؤں گا۔
داروغہ جی: اور اب جو پکڑا گیا۔ اچھا ضمانتی کون ہے تیرا؟
ملزم: میری ضمانت کون دے گا۔ میں تو پردیسی ہوں، تین دن ہوئے مجھے آئے ہوئے۔
داروغہ جی: (سپاہی سے) اسے لے جاؤ۔
میں یہ سب کچھ دیکھ سُن رہا تھا اور دل میں کہہ رہا تھا کہ اللہ اکبر کیا زمانہ آ گیا ہے کہ کھانے پر، پینے پر، کپڑے پر تو کرفیو تھا ہی اب چلنے پھرنے پر بھی ہو گیا۔ زندگی اجیرن ہو گئی مگر
ہم ڈھونڈھتے ہیں موت کو لیکن وہ بھی
دکھلا کے جھلک اور پَرے ہٹتی ہے
دل میں ایک محشر خیال لئے ہوئے تھانے سے چلا کہ الٰہی اِس مصیبت مجسّم زمانے میں کیونکر جینا ہو گا۔ کسی رات بے رات ناگہانی مصیبت پڑ جائے تو کوئی اس کی مدد کو گھر سے نہ نکل سکے۔ کسی عورت کے ہاں بال بچّہ ہونے والا ہو یا رات کے ۲ بجے ہو جائے تو دائی کو نہیں بُلا سکتے۔ جو بے چارے جگہ جگہ مر رہے ہیں اور تکلیفیں اٹھا کر مر رہے ہیں وہ تو جان سے جا رہے ہیں اور جو جی رہے ہیں وہ زندہ درگور ہیں اور کہہ رہے ہیں ؏
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
خاں صاحب کی عید
’’حامد علی صاحب‘‘ مسعود نے حامد کے مکان کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے آواز دی۔
’’ارے بھئی کون ہے؟‘‘ ملازمہ نے اندر سے کہا۔
’’میں ہوں، مسعود! حامد بھائی کیا کر رہے ہیں؟‘‘ مسعود نے جواب میں کہا۔
’’میاں! مسعود صاحب آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘ ملازمہ نے باورچی خانہ ہی میں سے آواز لگائی۔
’’یہیں سے بیٹھے بیٹھے سوال جواب کیے جا رہی ہے۔ یہ نہیں کہ باہر جا کر کہہ دے کہ ابھی آتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘
’’۔۔۔۔۔ اے بی شریفن! سُن رہی ہو یا نہیں؟‘‘ حامد نے غسل خانے میں سے چیخ کر کہا۔
’’سویّاں اُبالنے میں دس دفعہ اُٹھ چکی ہوں۔ اس گھر کے طور ہی نرالے ہیں؟‘‘ ملازمہ بڑبڑاتی ہوئی اُٹھی اور باہر جا کر کہنے لگی ہے۔
ماما: ’’میاں کہہ تو دیا کہ حامد میاں نہا رہے ہیں۔ غسل خانہ ہیں۔ آپ نے تو دُہائی مچا دی۔‘‘
مسعود: ’’اے بی تم تو ہوا سے لڑتی ہو۔ یہ تم نے کب کہا کہ میاں نہا رہے ہیں؟‘‘
ماما: ’’اچھا اب تو کہہ رہی ہوں۔‘‘
بیگم حامد: ’’ارے کون ہے؟ اب وہیں جا کے مری۔‘‘
ماما: (گھر میں آ کر) ’’بیوی وہی آئے ہیں جو کل آئے تھے۔ مسدود میاں۔‘‘
بیگم: ’’مسدود میاں کی بچی! یہ تیرے منہ پر آنکھیں ہیں یا بٹن لگے ہوئے ہیں صریحاً دیکھ چکی ہے کہ کل مسعود گھنٹہ بھر میرے پاس بیٹھ کر گئے ہیں اور جا کر سوال و جواب کر رہی ہے مُردار۔ یہ نہیں کہ گھر میں بُلا لے۔ (زور سے) آ جاؤ مسعود بھائی۔
مسعود: (گھر میں آ کر) ’’بھابھی جان سلامُ علیکم۔ حامد بھائی کہاں ہیں؟‘‘
بیگم: ’’وعلیکم السلام۔ وہ نہا رہے ہیں۔‘‘
حامد: (غسل خانہ سے) ’’میاں ابھی آیا۔‘‘
مسعود: ’’یہ آپ کی ماما تو بڑی بدتمیز ہے۔‘‘
بیگم: ’’بلند شہر کی ہے۔ وہ علاقہ شکار پور ہی کا ہے۔ بھائی کیا بتاؤں۔ ان ماما نوکروں نے کیسا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اوّل تو ملتے ہی نہیں اور جو ملتے بھی ہیں تو ایسے خوبیوں بھرے اور تنخواہ دیکھو تو بابوؤں کی۔ عجب زمانہ آ گیا ہے کم بخت۔ آج عید کا دن ہے۔ چاہو کہ امی جمی سے گذر جائے۔ ایک چیخم دھاڑ مچا رکھی ہے جیسے غدر مچ گیا ہو۔
حامد: (غسل خانہ سے آ کر) سلامُ علیکم۔
مسعود: وعلیکم السلام۔ یعنی آج عید کا دن ہے۔
حامد: ہاں ہے تو غالباً عید ہی۔
مسعود: غالباً کے کیا معنی؟ ارے میاں عید گاہ بھی چلنا ہے یا نہیں؟ میں تو تیّار ہو کے آیا ہوں۔
حامد۔ ابھی تو بہت وقت ہے یار۔
مسعود: تمہارا سر ہے۔ سوا آٹھ بجے ہیں اور ابھی قبلۂ عالم کو بھی ساتھ لینا ہے۔
بیگم حامد: کون سے قبلۂ عالم؟
مسعود: بھابی جان! آپ خاں صاحب کو بھول گئیں؟
بیگم: ارے تم لوگوں نے اس غریب کی ناحق مٹّی پلید کر رکھی ہے۔ بڈّھے آدمی کو نہیں ستایا کرتے۔ بری بات ہے۔
مسعود: بھابھی جان! وہ بنتا بھی تو بہت ہے۔ ہر بات میں ٹانگ اَڑاتا ہے۔ اپنے آپ کو بڑا مہربان سمجھتا ہے۔
حامد: مگر باتیں بڑی سنجیدگی سے کرتا ہے، جیسے کوئی فلاسفر بول رہا ہو۔
مسعود: اچھا اچکن پہنو۔ لپک کر تیار ہو جاؤ۔ رشید اور محمود بھی آتے ہیں۔ اتنے میں خان صاحب کو لے آؤں۔
حامد تیار ہوتا ہے۔ رشید اور محمود بھی آ جاتے ہیں۔ ذرا سی دیر میں مسعود بھی خاں صاحب کو لئے آ پہنچتا ہے۔ خاں صاحب آتے ہی فرماتے ہیں:
’’صحیح حدیث ہے کہ عید کے دن دودھ میں خُرما ڈال کر کھانا چاہیے۔‘‘
حامد: خاں صاحب! چینی پر راشن ہے۔ حلوائیوں نے دکانیں بند کر رکھی ہیں۔ خرمے کون بنائے؟
خاں صاحب: تم بھی عجیب بوڑم ہو۔ میاں خُرمے کھجوروں کو کہتے ہیں۔
مسعود: کھجوریں کہاں رکھی ہیں؟
خاں صاحب: تو چھوارے تو ہیں۔
حامد: حدیث شریف میں چھواروں کا ذکر کہاں ہے؟
خاں صاحب: سویّاں کھانی بھی سنت ہیں۔
رشید: یہ ہے مقطع کا بند۔ لاؤ بھائی حامد لے ہی آؤ۔ یہ بھی اپنے نام کے خاں صاحب ہیں۔ بغیر کھائے ٹلنے والے نہیں۔
دودھ سویّاں آتی ہیں اور ساتھ میں کچوریاں بھی۔ سب کھا پی کر عیدگاہ روانہ ہوتے ہیں۔ جامع مسجد پہنچ کر یہ فکر ہوئی ہے کہ تانگے میں چلا جائے یا ٹریم میں۔ دور کا معاملہ ہے۔ حامد ایک تانگے والے سے کرایہ پوچھتا ہے۔
تانگے والا: تین روپے ہوں گے صاحب
حامد: جاتے آنے کے؟
تانگے والا: جاتے جاتے کے صاحب۔ آتے کی خوب کہی۔ اب میں وہاں آپ کے لئے دو گھنٹے ٹھہرا رہوں گا نہ؟
مسعود: چلو میاں چلو۔ ٹریم میں چلیں گے۔
مسعود: ٹریم میں آج جگہ ملنی مشکل ہے۔ دیکھ نہیں رہے آدمی لٹکے ہوئے چل رہے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے خاں صاحب؟ ارے یہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟
خاں صاحب: میں یہ سوچ رہا ہوں کہ اللہ میاں نے ٹریم بھی کیا چیز بنائی ہے۔ محمود: ٹریم اللہ میاں نے بنائی ہے؟
خاں صاحب: ٹریم نہیں تو بھاپ تو اللہ میاں نے بنائی۔
حامد۔ بھاپ کیسی؟ بھاپ کا یہاں کیا ذکر؟
خاں صاحب: پانی گرم ہو جاتا ہے تو اس میں سے بھاپ اُٹھتی ہے یا نہیں؟
رشید: ارے یہ کون مسخرہ نہیں جانتا۔ مگر یہاں بھاپ کا کون سا تُک ہے؟
خاں صاحب: تم تو بال کی کھال نکالتے ہو۔ ارے میاں ریلیں بھاپ سے چلتی ہیں یا نہیں۔ انجن بھاپ سے چلتا ہے یا نہیں، بس اسی طرح ٹریم بھی بھاپ سے چلتی ہے۔
حامد: انجن میں تو اس کی بھاپ وہیں تیار ہوتی ہے۔ ٹریم میں کس جگہ تیار ہوتی ہے؟
خاں صاحب: اب یہ کیا ضروری بات ہے کہ ٹریم بھی انجن کی طرح بھاپ کو جیب میں ڈالے ڈالے پھرے۔
رشید: تو حضور سوال یہ ہے کہ وہ بھاپ جس سے ٹریم چلتی ہے آخر ہوتی کس جگہ ہے؟
خاں صاحب: وہ جو ٹریم خانہ ہے نہ وہ۔۔۔۔
مسعود: اے سبحان اللہ! کیا بات فرمائی ہے قبلہ آپ نے۔ ٹریم خانہ! سبحان اللہ گویا ٹریم گاڑیاں بھی مرغیاں ہیں۔
خاں صاحب: تمہاری بات کاٹنے کی عادت بہت بری ہے جی! پہلے سن تو لیا کرو۔۔۔۔ خبر نہیں کیا کہہ رہے تھے ہم۔ ہاں وہ جو ٹریم کا گھر بنا ہوا۔۔۔ او تانگے والے!
تانگے والا: کہئے عید گاہ پہنچا آؤں!
خاں صاحب: میاں صاحبزادے کیا لو گے؟
تانگے والا: ابّا جی! تین روپے دے دینا۔
خاں صاحب: میاں گھوڑا تانگا تمہارا عیدگاہ پہنچتے ہی واپس کر دیں گے۔
تانگے والا: نہیں صاحب! گھوڑا تانگا واپس کر کے کیا کیجئے گا۔ تین روپے میں گھوڑا بھی لیجئے، تانگہ بھی لیجئے اور مجھے بھی کیوں چھوڑا مجھے بھی لے لیجئے۔ ایک استرا دلوا دیجئے گا آپ کی حجامت بنایا کروں گا۔
خاں صاحب۔ بڑا ہی بد تمیز ہے یہ۔ گستاخ کہیں کا۔
مسعود: جانے دیجئے خان صاحب! جانور کی صحبت میں رہ کر جانور بن گیا ہے یہ تو۔
تانگے والا۔ واہ صاحب وا! عید کے دن بے ناحق کو جناور بنا دیا۔ میں نے گستاخی کیا کی؟
حامد: ابے گستاخی کے سر پر سینگ ہوتے ہیں کیا؟ دیکھتا نہیں یہ تیرے باپ سے بھی بٹے ہیں۔۔۔۔۔ چلئے خاں صاحب! ٹریم میں چلیں۔ بس اب کے جو آئے تو کسی نہ کسی طرح گھس ہی جائیے گا۔
اتنے میں ٹریم آئی لدی ہوئی۔ تو مجھ پر اور میں تجھ پر۔ مسعود، حامد، رشید اور محمود تو کسی نہ کسی طرح دھنس ہی گئے۔ خانصاحب بے چارے کئی دفعہ چڑھے اور جھٹک دیے گئے۔ آخر حامد اور رشید نے بڑی مشکل سے گھسیٹ گھساٹ کر ان کو بھی اوپر کھینچ ہی لیا۔ ان سب کو بیٹھنے کی جگہ تو کیا خاک ملتی، کسی نہ کسی طرح کھڑے ہو گئے۔ بلکی یوں سمجھو کہ ٹھک گئے۔ اتنے میں خان صاحب بڑے زور سے چیخے:
’’ارے میرا پاؤں۔‘‘ لوگ گھبرا گئے کہ کوئی چیز ٹریم سے باہر چھوڑ آئے یا کیا ہوا۔ خاں صاحب برابر چیخ رہے ہیں۔ ’’ارے میرا پاؤں۔ ارے میرا پاؤں؟‘‘ حامد نے چلا کر کہا۔
’’کیا مصیبت ہے خاں صاحب؟ پاؤں تو دونوں آپ ساتھ لے کر چڑھے ہیں۔‘‘
خاں صاحب: سب بکواس کئے جا رہے ہیں۔ پاؤں کا میرے بھرتہ ہو گیا۔ ارے او جانور ابے ہٹ۔ میرے پاؤں پر کھڑا ہوا ہے۔ او ٹریم والے! او میاں کنڈکٹر۔ گاڑی روکو۔ ارے روک، ارے روک۔
ٹریم کھڑی ہو گئی۔ جو آدمی خاں صاحب کے پاؤں پر چڑھا کھڑا تھا اسے بمشکل تمام ہٹایا گیا کیونکہ جگہ بالکل ہی نہ تھی۔ اب خاں صاحب ہیں کہ اتر پڑتے ہیں۔
’’نہیں میں ہرگز اس میں نہیں جاؤں گا۔ میں پیدل چلا جاؤں گا۔‘‘ آخر یہ چاروں بھی اُتر پڑے۔ ٹکٹ کے پیسے بھی گئے۔ اب سب پیدل چلنے لگے۔ رشید نے پوچھا:
’’ہاں خاں صاحب! وہ بھاپ والا کیا مضمون تھا؟‘‘
خان صاحب: بھاپ جائے بھاڑ میں۔ مجھے ٹریم کے نام سے نفرت ہو گئی۔ گدھے کے بچے نے میرا پاؤں کچل دیا۔
محمود: ٹریم کو گدھے کا بچہ کہہ رہے ہیں آپ؟
خان صاحب: ٹریم نہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جو آدمی کی شکل کا جانور تھا۔ اب تک میرے پاؤں میں مرچیں لگ رہی ہیں۔
رشید: خان صاحب! آپ کی خدمت میں رہ کر ہمیں بھی کچھ نہ کچھ مفید باتیں معلوم ہو جاتی ہیں۔ معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے، ہاں دیکھیے اب بتا دیجئے کہ ٹریم بھاپ سے کیونکر چلتی ہے؟
خاں صاحب: یہ جو تار تمہارے سر کے اوپر لگے ہوئے ہیں ذرا نہیں ہاتھ لگا لو تو پتہ چلے۔
رشید: کیا پتہ چلے؟
خاں صاحب: میاں جل رہے ہیں۔ آگ ہو رہے ہیں آگ۔
رشید: تو پھر؟
خاں صاحب: پھر کیا۔ بڑے کوڑھ مغز ہو۔ اب بھی نہیں سمجھے۔ میاں ٹریم خانے میں بہت ساری بھاپ بنتی ہے اور وہاں سے ان کھوکھلے تاروں میں آتی ہے اور ان تاروں سے ٹریم چلتی ہے۔ بھاپ بند ہو جائے تو ٹریم کھڑی کی کھڑی نہ رہ جائے۔
حامد: سبحان اللہ خاں صاحب، واہ وا کیا دماغ پایا ہے۔ ماشاء اللہ۔
یہ باتیں بھی کرتے جاتے تھے اور جلدی جلدی چل بھی رہے تھے۔ قطب روڈ پر پہنچے تھے کہ گولے کی آواز آئی۔ لوگوں نے قدم بڑھا دیے۔ مختصر یہ ہے کہ یہ لوگ جب عید گاہ پہنچے تو اندر گھس ہی نہ سکے۔ باہر بھی عید گاہ سے ذرا فاصلہ پر جگہ ملی۔ وہیں کپڑا بچھا کر سب کھڑے ہو گئے۔ صفیں سیدھی ہوئیں اور نماز شروع ہو گئی۔ یہ لوگ اس ترتیب سے کھڑے ہوئے تھے کہ سب سے پہلے حامد تھا۔ اس کے برابر میں مسعود، پھر محمود، پھر رشید، پھر خاں صاحب اور ان کے برابر ایک کرخنداری وضع کا لڑکا تھا۔ کوئی سترہ اٹھارہ برس کا۔ سب سے پہلی غلطی خاں صاحب نے یہ کی کہ پہلی تکبیر پر رکوع میں چلے گئے۔ سب ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور خان صاحب رکوع میں ہیں۔ کن انکھیوں سے سب دیکھ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں۔ دوسری تکبیر خاں صاحب کھڑے ہوئے اور سجدے میں جانا چاہتے تھے کہ رشید نے بازو پکڑ کر روک لیا۔ بارے کچھ سمجھ میں آ گیا اور کھڑے رہے۔ تیسری تکبیر پر پھر سجدے میں چلے۔ راشد نے سہارا دے کر ابھار دیا۔ اب قرات شروع ہوئی خاں صاحب دَم لیے لگے۔ اب پھر تکبیر ہوئی۔ خاں صاحب نے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیے اور یہ خیال کر کے مسکرائے کہ اب کے ہمارے دوستوں نے غلطی کی کہ رکوع میں چلے گئے۔ رشید نے رکوع ہی میں ہاتھ بڑھا کر خاں صاحب کو جھکا دیا۔ اب سب لوگ ربّنا لک الحمد کی آواز کے بعد سجدے میں گئے، پھر اُٹھے مگر خاں صاحب سجدے ہی میں رہے لیکن زور زور سے کھنکارے جا رہے تھے۔ ان چار دوستوں کا مارے ہنسی کے برا حال تھا۔ نماز سب کی غائب ہو گئی مگر یہ سمجھ نہ سکے کہ خاں صاحب ایک دم کھنکارے کیوں جا رہے ہیں۔ رشید قریب تھا وہ کن انکھیوں سے دیکھ رہا تھا کہ جو کرخنداری ٹائپ لڑکا خاں صاحب کے برابر میں تھا اس نے سجدے میں خاں صاحب کی لمبی ڈاڑھی مٹھی میں خوب دبا رکھی تھی۔ خاں صاحب زور لگا رہے تھے، کھنکار رہے تھے، ہاتھ سے چھڑا رہے تھے مگر وہ اللہ کا بندہ کب چھوڑنے والا تھا۔ نیّت توڑ نہیں سکتے تھے۔ اتنا ضرور جانتے تھے کہ میں نے نیّت توڑ دی تو سب کی نماز گئی۔ بے چارے سجدے میں بے بس پڑے تھے یہاں تک کہ سب لوگ کھڑے بھی ہو گئے۔ آخر کسی نہ کسی طرح سے یا تو انہوں نے اس ظالم کے پنجے سے اپنی ڈاڑھی کو آزاد کر لیا یا اس نے خود ہی چھوڑ دی۔
دوسری رکعت میں پہلے قرأت ہوتی ہے پھر تین تکبیریں۔ خاں صاحب قرأت کے بعد کی تکبیر پر پھر چلے رکوع میں۔ رشید نے اونچا کر دیا۔ دوسری تکبیر پر پھر چلے۔ رشید نے ہاتھ سے سہارا دے کر کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد وہ ذرا ہوشیار ہو گئے اور دائیں بائیں دیکھ بھال کر کام کرنے لگے۔ اب جو رکوع کے بعد سجدے میں گئے تو رشید تو ان کے پاس ہی تھا، سب کچھ دیکھ چکا تھا مگر اور تینوں دوست بھی سمجھ چکے تھے کہ اس غریب پر کچھ افتاد پڑ رہی ہے، چنانچہ اب کے انہوں نے بھی ذرا غور سے کن انکھیوں سے دیکھنا شروع کیا کہ آخر یہ ہے کیا مصیبت؟ اب کے خاں صاحب نے یہ احتیاط کی کہ سجدے میں جانے سے پہلے اُلٹے ہاتھ سے اپنی ساری ڈاڑھی کو سمیٹ کر بائیں جانب کر دیا کیونکہ وہ لڑکا دائیں جانب تھا۔ اب چاروں دوست یہ دیکھ دیکھ کر ہنسی کے مارے بے قابو ہوئے جا رہے تھے کہ وہ لڑکا چُپکے چُپکے ہاتھ لا کر ان کی ڈاڑھی کو ڈھونڈتا ہے کہ کہاں چلی گئی۔ اور خاں صاحب اس کا ہاتھ اپنے سیدھے ہاتھ سے جھٹک کر زور سے کھنکارتے ہیں۔ یہی عمل دونوں سجدوں میں ہوتا رہا۔ اس کے بعد بیٹھے، التحیات، تشہد اور درود شریف کے بعد سلام پھیرتے ہی بپھرے ہوئے شیر کی مانند خاں صاحب اٹھے اور گرجنا شروع کیا۔
خاں صاحب: کہاں ہے وہ بدمعاش۔ کہاں ہے (برابر والے سے) کہاں ہے جی وہ لڑکا۔ بد ذات، کمینہ، پاجی۔
برابر والا: اجی حضت کیا ہوا؟ آپ مارے غصّے کے آپے سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔
خاں صاحب: وہ ضرور تمہارا کوئی رشتہ دار تھا۔ بتاؤ کہاں ہے وہ؟
برابر والا: ہمارا وہ کوئی نہیں تھا۔ آپ ہی کے ساتھ آیا ہو گا۔
خاں صاحب: گدھے کا بچّہ، سؤر، ملعون۔
رشید: خاں صاحب کچھ بتایئے تو سہی آخر ہوا کیا؟
خاں صاحب: بڑا اُلّو کا پٹھّا تھا۔
حامد: خاں صاحب! یہ تو بہت بُری بات ہے کہ آپ بھری عید گاہ میں ایسے ناشائستہ الفاظ منہ سے نکال رہے ہیں۔
خاں صاحب: نا شائستہ؟ ارے مجھے وہ مردود مل جائے تو اس کی بوٹیاں چبا ڈالوں۔
محمود: آخر بتایئے تو ہوا کیا؟
خاں صاحب: حرامزادے نے سجدے میں ڈاڑھی پکڑ لی میری۔
مسعود: تو آپ نے چھڑا کیوں نہ لی؟
خاں صاحب: میں برابر کھنکارے تو جا رہا تھا اور ڈاڑھی چھڑانے کی بہتیری کوشش کر رہا تھا مگر اس کمبخت نے بھر مٹھی پکڑ رکھی تھی۔ کہاں گیا یہ بدمعاش؟
اس کے بعد خاں صاحب کی طبیعت کچھ ایسی مکدّر ہوئی کی اٹھ کھڑے ہوئے نہ دعا مانگی، نہ خطبہ ختم ہونے کا انتظار کیا۔ یہ چاروں دوست بھی ان کے ساتھ ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد یہ سب لوگ طرح طرح سے کوشش کرنے لگے کہ کسی طرح خاں صاحب کا دماغ درست ہو جائے۔ جب خاں صاحب گم سم ہی رہے تو رشید نے کہا۔
’’خاں صاحب! چلئے۔ میری گو راؤنڈ (Merry go round) کی سیر کریں۔
خاں صاحب: مر گونڈ کس جانور کا نام ہے؟
مسعود: اجی وہ انگریزی ہنڈولا ہوتا ہے نا؟ ہاں خاں صاحب ضرور چلئے۔ بڑا لطف آتا ہے۔
حامد: خاں صاحب! چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
خاں صاحب: اچھا ایسی چیز ہے؟
رشید: اجی یہ ایک چیز کیا۔ انگریزوں کی ہر ایک چیز اچھی ہوتی ہے۔ واللہ یہ ہنڈولا تو عجیب چیز بنائی ہے۔ گھوڑے پر تنے بیٹھے ہیں اور گھوڑا ہے کہ ہوا سے باتیں کر رہا ہے۔
خاں صاحب: ہاں! چلو تو چلیں۔
یہ سب مل کر جاتے ہیں۔ انگریزی ہنڈولے کو دیکھتے ہیں تو خاں صاحب بھی شگفتہ ہو جاتے ہیں، چھوٹے چھوٹے بچے بھی گھوڑوں پر تنے بیٹھے ہیں، ہنس رہے ہیں۔ غل مچا رہے ہیں۔ انہیں دیکھ دیکھ کر خان صاحب بھی خوش ہو رہے ہیں۔ دو منٹ کے بعد ہنڈولا رُک گیا۔ حامد نے چپکے سے ہنڈولے والے کو ٹکٹ سے کچھ زائد پیسے دے کر طے کر لیا تھا کہ پانچ سیٹیں برابر برابر کی ہمیں دے دینا۔ چنانچہ اب یہ پانچوں بیٹھ گئے۔ خاں صاحب نے ایک اعلیٰ درجے کا گھوڑا ہتھیا لیا اور اس پر ایسے تن کر بیٹھ گئے گویا بڑے شہسوار ہیں۔ بار بار ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرتے۔ کبھی مونچھوں پر تاؤ دیتے ہیں۔ تماشائی دیکھ چکے تھے کہ یہ نُقلِ محفل ہیں۔ نِرے بوڑم۔ حامد اور رشید وغیرہ کے بار بار خاں صاحب خاں صاحب کہنے سے سمجھ گئے تھے کہ ان کو بنایا جا رہا ہے۔ چنانچہ انہیں بھی ایک کھلونا ہاتھ آ گیا۔ کوئی کہتا ہے ’’خاں صاحب ذرا جمے ہوئے بیٹھئے گھوڑا دولتی مارتا ہے۔‘‘ تو خاں صاحب گھبرا کر پیچھے دیکھنے لگتے ہیں اور گھوڑے کی گردن سے چمٹ جاتے ہیں۔ کوئی ناک پکڑ کر کہتا ہے ’’اوں ہوں۔ خاں صاحب، آپ کے گھوڑے نے لید کر دیا۔‘‘ تو خان صاحب اپنا سفید براق رو مال جیب میں سے نکال کر اپنی ناک سے لگا لیتے ہیں۔ غرض اب گھوڑے چلے۔ خاں صاحب تنے ہوئے بیٹھے ہیں۔ سر اور سینہ کو اندازِ شہسواری کے ساتھ جنبش دے رہے ہیں۔ اے لیجئے گھوڑے تیز ہو گئے۔ اب خان صاحب نے پہلے تو ہولے ہولے ’’اب ارے، ارے۔ ارے، رے‘‘ کہا پھر انہیں چکر آنے لگے تو لگے چیخنے ’’ارے روکو۔ ارے تھام۔ ارے۔ ابے۔ ابے او بھائی۔ او میاں۔ ارے تھام تھام۔‘‘ تماشائی بن رہے ہیں۔ قہقہے لگا رہے ہیں۔ لڑکے اور بچے تالیاں بجا رہے ہیں اور خاں صاحب ہیں کہ ایک دم چیختے چلاتے جا رہے ہیں۔ خدا خدا کر کے ہنڈولا تھما۔ خاں صاحب کو بے انتہا چکر آ رہے تھے۔ اب اترتے جو ہیں تو دھڑام سے گرے۔ حامد اور مسعود نے بغل میں ہاتھ دے کر کھڑا کیا تو لڑکھڑا رہے ہیں۔ چلا نہیں جاتا۔ دلّی والے تو ذرا سی بات میں بھیڑ لگا دیتے ہیں یہ تو اچھا خاصا تماشہ تھا۔ ٹھٹ کا ٹھٹ لگ گیا۔ کوئی کہتا ’’دودھ پھٹکری پلاؤ۔ گجّی چوٹ آئی ہے۔‘‘ کوئی صلاح دیتا ’’دائی کو دکھاؤ۔ ناف جاتی رہی ہے۔‘‘ کہیں سے آواز آئی۔ ’’خاں صاحب! وصیّت فرما دیجئے۔ ہارٹ فیل ہونے کو ہے۔‘‘ بارے وہیں برف والا ہنڈا لئے بیٹھا تھا۔ حامد نے لپک کر ایک بڑی قلفی (قفلی) کھلوائی اور اپنے ہاتھ سے چمچے بھر بھر کے خاں صاحب کو کھلانی شروع کی۔ اب خاں صاحب کی آنکھیں کھلیں۔ جان میں جان آئی۔ وہاں سے کبابی کی دکان پر گئے اور مچھلی کے کباب خاں صاحب کو کھلائے۔ خاں صاحب مچھلی اور خاص کر مچھلی کے کبابوں کے عاشق زار ہیں۔ اب خاں صاحب پھر پہلے کی طرح شگفتہ ہو گئے۔ ایک یہ بات ضرور پیدا ہو گئی کہ لڑکوں اور بچوں کا جم غفیر ان سب کے ساتھ ہو لیا۔ یہ سب چلے آ رہے تھے کہ آواز آئی۔ ’’پرانا چنڈول۔‘‘ یہ سنتے ہی خاں صاحب بِدکے اور کہنے لگے۔ ’’یہ کون چنڈول کا بچہ بولا۔‘‘ ہوا در حقیقت یہ تھا کہ لڑکے آپس میں ہنسی مذاق کرتے جا رہے تھے۔ ایک نے دوسرے کو پرانا چنڈول کہہ دیا۔ یہاں تو پانی مر رہا تھا۔ ہر بات خاں صاحب ہی پر چپکی جا رہی تھی۔ خاں صاحب سمجھے کہ مجھ پر آوازہ کسا ہے۔ چنانچہ بپھر گئے اور لڑکوں کے سر ہو گئے۔ لڑکوں کو ایک اور بات ہاتھ آئی۔ اب ادھر سے آواز آتی ہے ’’پرانا چنڈول۔‘‘ خان صاحب لپکتے ہیں، ڈانٹے ہیں، دھمکاتے ہیں۔ پیچھے دوڑتے ہیں تو دوسری طرف سے بھی یہی آواز آتی ہے۔ لڑکوں کی قوم تو وہ ہے کہ اس سے شیطان نے بھی پناہ مانگی تھی۔ اچھے بھلے چنگے آدمی کو یہ دم بھر میں پاگل بنا دیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود کہ حامد، مسعود، رشید، محمود سب ہی نے لڑکوں کو منع کیا، ڈانٹا، خاں صاحب کو سمجھایا چمکارا، پچکارا مگر توبہ کیجئے۔ لڑکے پھر لڑکے ہی ہوتے ہیں اور لڑکے بھی دلّی کے۔ دس سے بیس اور بیس سے پچاس ہوئے۔ تالیاں پِٹ رہی ہیں، کنکر پتھر اُچھل رہے ہیں۔ قہقہے لگ رہے ہیں اور خاں صاحب ہیں کہ سچ مچ کے پاگل بنے ہوئے ہیں۔ جب یہ چاروں دوست سب تدبیریں کر کے تھک گئے تو ایک تانگہ پکڑا اور اس میں خاں صاحب کو بٹھا یہ جا وہ جا۔ محمود رہ گیا تھا کیونکہ تانگے میں جار ہی سواریاں بیٹھتی ہیں۔ وہ ٹریم میں آ گیا۔ خاں صاحب سارے رستے بکتے جھکتے رہے۔ مزاج کا پارہ تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ وہ تو خدا بھلا کرے حامد کا کہ اپنے پاس سے دو چار روپے کی کچوریاں اور مٹھائی لے کر دونوں ٹوکریاں خاں صاحب کے گھر میں دے دیا کہ خان صاحب کے بیوی بچوں کی تو عید ہو جائے۔
یہ تھی ہمارے خاں صاحب کی عید
کرامت شاہ
یہ کہانی میں نے اپنے بچپن میں بڑی بوڑھیوں سے بار ہا سنی تھی اور جب میرے بال بچے ہوئے تو انہوں نے بیسیوں مرتبہ اپنے بڑوں سے سنی۔ میں نے اتنا کیا ہے کہ اسے اپنی طرز پر افسانوی رنگ دے دیا ہے۔ یہ کہانی کب سے چلی اور کہاں سے چلی، اس کا کھوج لگانا محال ہے۔ آپ اسے پڑھ کر کہیں گے کہ مجذوب کی بڑ ہے اور دلّی والے تو یہی سمجھیں گے کہ شاہ بڑے کی گپ ہے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ آپ ذرا سی دیر کے لئے مان لیں کہ اللہ پاک قادر مطلق سب کچھ کر سکتا ہے تو آپ کا کیا ہرج ہو جائے اور اگر سمجھیں کہ
؎ بہ ناداں آنچناں روزی رساند
کہ دانا اندراں حیراں بماند
تو آپ کا کیا بگڑ جائے۔
ظریف دہلوی
۔۔۔۔
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب پہاڑ گنج ایک اُجاڑ علاقہ تھا جہاں سوائے چند کھپریلوں اور چھپروں والے مکانوں اور جھونپڑوں کے کچھ نہ تھا۔ انہی جھونپڑیوں میں سے ایک میں دو میاں بیوی رہتے تھے۔ میاں کوئی پینتیس چھتیس برس کے۔ بیوی کچھ اوپر پچیس کی۔ دونوں ایک دوسرے کے عاشق زار، میاں اوّل درجے کے بیوقوف اور سادہ لوح اور بیوی بڑی سمجھدار اور عقلمند۔ یوں سمجھئے کہ میاں کے حصّے کی عقل بھی بیوی کو مل گئی تھی۔ میاں یوں تو بیوی کے بڑے عاشق زار اور گرویدہ تھے مگر محنت مزدوری کے نام سے کانپتے تھے۔ بیوی بے چاری گوٹا بُنتی، کرتے ٹوپیاں سیتی اور یوں لشتم پشتم کچھ اس طرح گزر ہو رہی تھی کہ کبھی سالن پک گیا تو کبھی چٹنی روٹی کھا کر دونوں میاں بیوی پڑ رہے۔ ایک دن بیوی نے میاں سے کہا۔
بیوی: اے دیکھنا میں کہتی ہوں یوں ہاتھ پاؤں کو پنشن دے کر کب تک گھر میں پڑے رہو گے۔ انہیں کچھ ہلاؤ جلاؤ۔ ان سے کام لو، نہیں تو ان میں زنگ لگ جائے گا۔
میاں: تم تو یوں ہی کہا کرتی ہو۔ آخر میں کیا کروں۔ مجھے آتا ہی کیا ہے؟
بیوی: کچھ ہاتھ اور پاؤں ہلانے ہی سے آتا ہے، گھر میں پڑے پڑے کیا خاک آئے گا۔
میاں: بیوی تم تو یوں ہی خواہ مخواہ سر ہو جاتی ہو۔ لڑنے کو جی چاہتا ہے اور نہیں تو۔
بیوی: دیکھو پھر بگڑے۔ میں نے کہہ دیا ہے، ہاں!
میاں: نہیں ٹڈّی (یہ اپنی بیوی کو پیار سے ٹڈّی کہا کرتے تھے) میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ جو کم بخت کو کوئی کام آتا ہی کب ہے جو میں کروں۔ پڑھا میں نہیں۔ لکھا میں نہیں۔ کسی کام جوگا میں نہیں۔ کماؤں تو کیا کر کے؟
بیوی: تم آمادہ تو ہو۔ کام تو میں سو بتا کے رکھ دوں۔
میاں: اچھا تو لو بتاؤ۔ اب ہم بھی کما کے دکھائیں گے۔
بیوی: دیکھو وعدہ کرو کہ جو کچھ میں بتاتی جاؤں گی کان دبا کر کرتے جاؤ گے۔
میاں: اچھا ٹڈّی اچھا۔ بتاؤ
بیوی: بتاؤں گی۔ پہلے تم سر اور ڈاڑھی کے بال خوب بڑھا لو۔
میاں: یہ کیوں؟
بیوی: دیکھو پھر تم بولے۔ تم وعدہ کر چکے ہو۔ ہاں۔ بس جو جو میں کہے جاؤں چُپ چاپ کئے جاؤ اور اللہ میاں کی قدرت کا تماشا دیکھو۔
لو صاحب! ایک ہی مہینے میں بیوی نے اپنے میاں کو پیر بنا دیا۔ لمبی لمبی زلفیں۔ تیل مین چک بچک، لمبی داڑھی، لمبا سا کرتا۔ نیلا تہمد۔ ایک بغل میں سبز رنگ کا جزدان جس میں ایک اینٹ رکھی ہوئی۔ دوسری میں اجلا بوریا۔ بہ ایں ساز و سامان کرامت شاہ۔۔۔ یہ نام بھی بیوی ہی نے رکھ دیا۔ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جا براجے۔
سہہ پہر کا وقت ہے۔ لوگ اہلے گہلے اِدھر سے اُدھر پھر رہے ہیں۔ کوئی دہی بڑے کھا رہا ہے، کوئی ٹٹی کے کباب اڑا رہا ہے۔ کوئی مچھلی کے کباب چٹ کر رہا ہے۔ غرض ایک بہار آ رہی ہے۔ آج جو لوگوں نے ایک نئے آدمی کو بہ ایں ریش و فش سیڑھیوں پر بوریا بچھائے بیٹھے دیکھا تو بڑا اچنبھا ہوا۔ کسی نے کہا ’’یہ شاہ صاحب تو بڑے زوروں کے ہیں۔‘‘ کسی نے کہا ’’یہ دلّی ہی کا جگرا ہے کہ جو آتا ہے لوٹ جاتا ہے اور یہ بے چاری اف نہیں کرتی۔‘‘ کوئی صرف ’’بگلا بھگت‘‘ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔ یہ بے چارے سب کی بولیاں ٹھولیاں سن رہے تھے اور دل ہی دل میں اپنی ٹڈّی کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ کس عذاب میں پھنسا دیا۔ اتنے میں ذرا جھٹپٹا سا ہو گیا۔ ایک گھوسی کی بھینس کہیں گلّے میں سے غائب ہو گئی۔ وہ بے چارہ مصیبت کا مارا پیٹ پکڑے اِدھر بھی آ نکلا۔ شاہ صاحب کو دیکھا تو جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ملا۔ پاس آ۔ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔ شاہ صاحب پہلے ہی جلے بھُنے بیٹھے تھے۔ چیخ کر بولے ’’کیا ہے بے؟‘‘
گھوسی نے سوچا یہ بھی پہنچے ہوئے آدمیوں کی ادا ہوتی ہے اور گڑگڑا کر بس اتنا ہی کہنے پایا تھا کہ ’’میری بھینس۔‘‘ کہ شاہ صاحب نے ڈانٹ کر کہا۔ ’’بھاگ یہاں سے۔ جا گھر جا۔‘‘ گھوسہ سمجھا کہ کام بن گیا۔ سیدھا گھر کی طرف بھاگا۔ اُدھر اللہ کی کار سازی دیکھئے کہ بھینس گلے سے الگ ہو کر دوسرے راستے سے گھر پہنچ چکی تھی۔ گھوسی نے بھینس کو دیکھا تو جان میں جان آئی۔ سستے سمے تھے۔ ایک تھان لٹھے کا، ایک ململ کا، جلدی سے لیا۔ دو سیر مٹھائی لی اور لپک کر کرامت شاہ کی خدمت میں پہنچا۔ انہوں نے جو اسے یوں لدا پھندا آتے ہوئے دیکھا تو آنکھیں بند کر کے جھومنے لگے۔ گھوسی نے آتے ہی ساری چیزیں حضور کے قدموں میں رکھ کر کہا۔ ’’حضور آپ کی دعا سے بھینس مل گئی اور پانچ روپے ادب سے پیش کیے۔ شاہ صاحب نے روپے جیب میں ڈالے، مٹھائی کی ٹوکری بغل میں دبائی، لٹھے اور ململ کے تھان کندھوں پر ڈالے اور بوریا اور جزدان اٹھا سیدھے گھر کو ہو لئے۔ اس بوجھ سے بے چارے ہلکان ہو گئے۔ ہانپتے کانپتے گھر پہنچے اور لگے گلی ہی میں سے چیخنے ’’اری ٹڈّی! او ٹڈّی! کنڈی کھول، کنڈی کھول۔‘‘ بیوی بے اوسان ہو کر دوڑی کہ الٰہی خیر! میرے میاں پر کیا مصیبت آئی۔ کہیں گاڑی گھوڑے کی جھپیٹ میں تو نہیں آ گئے۔ دروازہ کھولتے ہی میاں برس پڑے۔
میاں: دیکھو ٹڈی میں اسی لئے تو گھر سے نکلتا نہیں تھا۔ تم نے میرا کیا حال کر دیا۔ پسینے پسینے ہو گیا۔
بیوی نے جو اتنی ساری چیزیں دیکھیں تو نہال ہو گئیں۔ جھٹ میاں سے لے اندر گئیں اور میاں کی خوشامد کرنے لگیں۔
بیوی: اے ہے کیا حال ہو گیا دشمنوں کا۔ بے طرح ہانپ رہے ہو۔
میاں: تم نے پہلے ہی کیا کم لاد دیا تھا کہ اس ناہنجار گھوسی نے اور لا کر بیل ہی بنا دیا۔
بیوی: اے ہے کسی بے چارے کو کیوں برا بھلا کہہ رہے ہو۔ اس نے تمہارا کیا بگاڑا؟
میاں: کیا بگاڑا؟ تم اتنا بوجھ لے کر جامع مسجد سے یہاں تک آؤ تو معلوم ہو۔
بیوی: دیکھنا تم نے اب تک یہ بتایا ہی نہیں کہ یہ چیزیں دیں کس نے؟
میاں: ارے اُسی نے دیں۔ اسی گھوسی کے بچے نے جس کی بھینس کھو گئی تھی۔
بیوی: پھر مل گئی، کیسے ملی؟
میاں: اب مجھے کیا خبر کیسے ملی۔ مل ہی گئی۔ میں نے تو اسے ڈانٹ دیا تھا کہ بھاگ یہاں سے۔ گھر جا۔ وہ یہ ساری چیزیں لے آیا اور کہنے لگا کہ بھینس اپنے آپ گھر پہنچ گئی۔
بیوی: اے اللہ! تیرے قربان۔ تیری شان رزّاقی کے صدقے۔
میاں: دیکھو ٹڈّی یہ پانچ روپے بھی اسی نے دیے ہیں۔ بس اب مہینہ بھر سے زیادہ کا خرچ آ گیا۔ اب ہم نہیں نکلنے کے۔
بیوی: ہاں ہاں اب نہ جانا۔ نہ جانا۔
غرض بیوی نے منّت خوشامد کر کے میاں کو راضی کر لیا۔ اس سے تو اطمینان ہوا کہ اب کرتے سی سی کر اور ٹوپیاں کاڑھ کاڑھ کر آنکھوں کا تیل نہیں نکالنا پڑے گا۔ کیونکہ سستا سما تھا۔ یہ پانچ روپے مہینے دو مہینے کو کافی تھے۔ ادھر بیوی خوش کہ کھانے کو اللہ نے دے دیا۔ ادھر میاں خوش کہ چلو جان چھوٹی۔
کوئی چار پانچ دن کے بعد بیوی نے ہلکے سُروں میں پھر کہا؟ ’’اے دیکھنا آج پھر ذرا ہو آؤ دو گھڑی کی سیر ہی ہو جائے گی۔ میاں۔ دیکھو ٹڈی! ہم نے کہہ دیا ہے بس اب نہیں جائیں گے۔
بیوی۔ اب اتنے دنوں آرام تو کر لیا۔
میاں: بس ایک دفعہ کہہ دیا ہم تو جانے ہی کے نہیں۔
بیوی: ہماری بات نہیں مانتے؟ اچھا جاؤ کٹی۔
میاں: ٹڈی تم تو اتنی سی بات میں بگڑ جاتی ہو ہم کہتے ہیں ابھی نہیں جانے کے۔
بیوی: اچھا دو چار دن اور آرام کر لو، پھر ذرا سی دیر کو ہو آنا، بس اب انکار نہ کرنا، نہیں تو پھر، ہاں۔
خیر صاحب۔ خیر صاحب۔ چار پانچ دن ہنسی خوشی اطمینان سے کٹے۔ ایک دن صبح کو بیوی نے بچوں سے گوشت، مسالہ، دودھ، پستے، ورق، کیوڑہ وغیرہ منگوایا (انہوں نے محلے کے بچوں کو بٹھا لیا تھا۔ سیپارے قاعدے پڑھایا کرتی تھیں) قورمہ، کھیر، بادشاہ پسند ماش کی دال اور روے میدے کے پرت دار پراٹھے پکائے۔ دوپہر کو دسترخوان پر کھانے چنے تو میاں حیران ہو کر بولے۔
میاں: ٹڈی، یہ آج کیا کیا پکا ڈالا تم نے؟
بیوی: آج ہم نے اپنے میاں کی دعوت کی ہے۔
میاں: اوہو! یہ پراٹھے تو بڑے زوروں کے ہیں۔ ٹڈی تم نے تو دلی کے بھٹیاروں کو بھی مات کر دیا۔
بیوی: ہم نے ساری چیزیں اپنے میاں کے لئے دل سے پکائی ہیں۔
میاں: ٹڈی تم نے تو ہماری دنیا کو جنت بنا دیا ہے۔ بیوی: اچھا تم کھانا تو کھاؤ۔ سالن میں نمک تو ٹھیک ہے نا؟
میاں۔ بالکل ٹھیک ہے۔ جیتی رہو۔ دل خوش کر دیا۔ میاں کھانا کھا چکے۔ اب بیوی ہیں کہ آگے پیچھے آگے پیچھے پھر رہی ہیں۔ کبھی پان بنا کے دیتی ہیں کبھی حقہ بھر کر پلاتی ہیں۔ اسی طرح تین بج گئے تو بیوی نے کہا۔
بیوی۔ لو آج پھر ذرا جامع مسجد کی سیر کر آؤ۔
میاں: دیکھو ٹڈی تم نے پھر وہی باتیں کرنی شروع کیں۔
بیوی: ہمارے میاں نہیں۔ دیکھو اتنے دنوں تک آرام لے چکے۔ بس اب انکار نہ کرو۔ اٹھو۔ (ٹھنک کر) اللہ! ہم کس طرح کہہ رہے ہیں چلو اٹھو۔ میاں با دل ناخواستہ آمادہ ہوئے۔ بیوی نے لپک کرسر میں تیل ڈالا، کنگھی گی، اور ذرا سی دیر میں پیر کرامت شاہ بنا کر روانہ کر دیا۔ یہ پھر جا کر جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بوریا بچھا ڈٹ گئے۔
تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ ایک بوڑھا سنار روتا پیٹتا آیا اور کہنے لگا ’’دہائی ہے شاہ جی کی۔ میں لٹ گیا تباہ ہو گیا‘‘
شاہ جی آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے۔ اچھے اچھے کھانے جو دوپہر کو کھائے تھے دماغ میں عجیب کیف و سرور پیدا کر رہے تھے۔ ماش کی بادشاہ پسند دال دماغ میں بسی ہوئی تھی۔ فوراً بول اٹھے۔
’’ماش کی دال کھا پیٹ بھر کے ماش کی دال۔ روٹی بھی ماش کی واہ واواہ۔ جا بھاگ‘‘
بیچارہ سنار بھاگم بھاگ گھر گیا اور جلدی جلدی کر کے ماش کی روٹی اور دال خوب کھائی۔ بات اصل میں یہ ہوئی کہ کسی امیر کی سونے کی انگوٹھی بننے آئی تھی جس میں ایک قیمتی ہیرا جڑنا تھا۔ سنار نگینہ جڑ رہا تھا کہ وہ اچٹ کر نہ جانے کہاں غائب ہو گیا، سنار نے بہتیرا ڈھونڈا۔ کہیں نہ ملا غریب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ بے اوسان ہو گیا۔ الٰہی اب کیا ہو گا۔ ایسا قیمتی ہیرا میں کہاں سے لا کر دوں گا۔ میرے پاس تو اتنی جمع پونجی بھی نہیں۔ اگلے ہفتہ بھینس والا معاملہ شہر بھر میں مشہور ہو ہی چکا تھا۔ یہ بھی پیٹ پکڑے کر امت شاہ کے پاس پہنچا۔ دن بھر کا بھوکا پیاسا تھا۔ اور اب جو ماش کی دال اور ماش کی روٹی کھائی تو ذرا ہی سی دیر میں پیٹ میں قراقر شروع ہو گیا۔ دکان پر آ گیا۔ پریشان ہے، ہیرے کو ادھر ادھر ڈھونڈھ رہا ہے۔ پاخانے کی حاجت ہوتی ہے چلا جاتا ہے، پھر آ کر ڈھونڈھنے لگتا ہے، تھوڑی دیر میں مارے دستوں کے یہ حال ہوا کہ دکان ہی میں لمبا لیٹ گیا اور سمجھا کہ وقت آ گیا۔ لیٹتے ہی جو چھت پر نگاہ گئی تو دیکھتا کیا ہے کہ کڑی کی دراڑ میں ہیرا چمک رہا ہے۔ جھٹ اٹھ بیٹھا۔ کیسے دست اور کہاں کا مروڑ اور درد لپک کر ہیرا اتارا اور احتیاط سے صندوقچے میں بند کیا اور دو تین سیر مٹھائی، کچھ کپڑا اور بیس روپے لے کر شاہ جی کے پاس پہنچا اور لگا رو رو کے دعائیں دینے۔ لوگ جمع ہو گئے اور بھیڑ لگ گئی۔ جو سنتا کرامت شاہ کی کرامت کا قائل ہو جاتا۔
غرض آج پھر کرامت شاہ لدے پھندے گھر پہنچے۔ چیخ کر بیوی کو آواز دی۔ ان کے تو میاں کی آواز پر کان ہی لگے ہوئے تھے۔ سمجھیں کہ آج پھر اللہ میاں نے رحمت کی۔ دوڑی دوڑی گئیں، کنڈی کھولی اور میاں کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ میاں نے گھر میں قدم رکھتے ہی بکنا جھکنا شروع کیا۔
میاں: آپ مزے سے بیٹھی رہتی ہیں میں ہی رہ گیا ہوں لدے بیل بننے کو۔ اور یہ نا معقول مطلق نہیں سمجھتے کہ میں اتنا بوجھ لاد کر لے کیسے جاؤں گا۔ بس لادنے سے مطلب ہے۔
بیوی۔ اے تم بیٹھو تو سہی۔ لو حقہ پیو میں نے تمہارے لئے خمیرہ تمباکو منگوایا ہے اور اینٹ کا توا رکھا ہے۔ دیکھو کیسی مہک آ رہی ہے۔
غرض بیوی نے یوں چمکار پچکار کر میاں کے حواس درست کئے اور پھر میاں سے آج کی کامیابی کا قصہ سنا۔ میاں بیان کر چکے تو کہنے لگے۔
میاں: بس ٹڈی اب میں تمہارا کہنا نہیں مانوں گا۔ اللہ نے بہت دے دیا اب چھ مہینے تک کہیں نہ جاؤں گا۔
بیوی: ہاں ہاں اللہ کا شکر ہے، اب کیوں جانے لگے۔ جب خدا دے کھانے کو تو بلا جائے کمانے کو۔
ایک ہفتہ تک تو بیوی چپکی رہیں۔ اس کے بعد ذرا دھیمے سروں میں میاں کو آمادہ کرتی رہیں۔ اور ابھی پندرہ دن نہیں گزرے تھے کہ ٹھنڈے ٹھنڈے سروں میں کہنے لگیں۔
بیوی: لوگوں کے گھروں میں دو دو نوکر ہیں۔ اور دری چاندنیاں فرش فروش سب ہی کچھ ہے۔ ایک میں ہوں کہ صبح سے شام تک گھر کے کام دھندے میں لگی رہتی ہوں۔ اللہ جانے ہڈی ہڈی دکھنے لگتی ہے تھک کے چورا ہو جاتی ہوں، ہمارے میاں یوں تو اتنی محبت کرتے ہیں جان فدا کرتے ہیں۔ مگر یہ نہیں کہ کوئی ماما چھوکری ہی رکھ دیں۔
میاں: اور یہ جو محلے کے بچے پڑھاتی ہو۔ یہ کام نہیں کرتے کیا؟
بیوی: اے خاک! یہ کیا کام کریں گے، پکانے کے یہ نہیں، ریندھنے کے یہ نہیں، برتن یہ نہیں مانجھ سکتے۔ ہاں سودا سلف منگوا لو تو اس میں بھی اکثر پیسے پھینک ہی آتے ہیں۔
میاں: تو پھر میں کیا علاج کروں؟
بیوی۔ اچھا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ نوکر چاکر ہوں۔ گھوڑا گاڑی میں نکلا کرو؟
میاں۔ چاہتا کیوں نہیں، بلکہ میرا تو یہ جی چاہتا ہے کہ آپ چاہے جن حالوں میں رہوں تمہیں دلہن بنائے رکھوں۔
بیوی: الٰہی تیرا کیونکر شکر ادا کروں اپنی رحمت سے تو نے کیسا اچھا میاں دیا ہے جس نے آج تک میری کوئی بات نہیں ٹالی۔
میاں: اور نہ کبھی ٹالوں گا انشاء اللہ
بیوی: دل سے کہہ رہے ہو؟
میاں: اور نہیں تو کیا۔
بیوی: اچھا تو پھر ذرا سی دیر کو جامع مسجد ہو آؤ۔
میاں: (سر کھجا کے) دیکھو ٹڈی! تم نے پھر وہی باتیں شروع کیں۔
بیوی: تمہیں اختیار ہے نہ جاؤ۔ میں کوئی زبردستی تھوڑے ہی کرتی ہوں۔ تم ہی کہتے ہو کہ تمہاری بات نہیں ٹالوں گا۔
میاں۔ ٹڈی تم تو خواہ مخواہ پریشان کرتی ہو، اللہ میاں نے چھ مہینے کا خرچ تو دے ہی دیا مجھے دو مہینے تو آرام کر لینے دو۔
بیوی: یہ بھی کوئی خرچ کہلاتا ہے کہ کھا لیا، پی لیا، تن ڈھک لیا بس۔ ٹوٹے سے جھونپڑے میں رہتے ہیں۔ گھر میں دو چارپائیوں کے سوا تیسری نہیں۔ اور وہ بھی موئی جھلنگا۔ اپنا کوئی مکان ہو ڈھنگ کا۔ فرش فروش ہو، نوکر چاکر ہوں، گہنا پاتا ہو، کپڑے لتے درست ہوں۔
میاں: ٹڈی تمہارے دل میں تو لالچ آ گیا۔ یہ تمہارا لالچ مجھے کسی بلا میں نہ پھنسا دے۔ جو کچھ اللہ نے دیا ہے اسے صبر شکر سے کھاؤ۔
بیوی: آخر اللہ اوروں کو بھی تو دیتا ہے۔ بس اب حجت نہ کرو۔ جاؤ تم ہو آؤ دیکھو تم تو بڑے اچھے میاں ہو، ہماری بات کبھی نہیں ٹالتے۔
غرض بیوی نے کہہ سن کر آج پھر آمادہ کر دیا اور کرامت شاہ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر جا بیٹھے تھوڑی دیر گذری تھی کہ چار سپاہی وردی پہنے ہوئے آتے دکھائی دیے پیر جی کا ما تھا ٹھنکا آنکھیں بند کر کے یا حی یا قیوم پڑھنے لگے سپاہی ان ہی کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ پیر جی نے آنکھوں کی دراڑوں میں سے دیکھا تو سہم گئے اور لگے زور زور سے نعرے لگانے۔ یا حق یا حق
ایک سپاہی بولا۔
’’پیر جی صاحب! اجی شاہ صاحب‘‘
دوسرا سپاہی: اجی شاہ صاحب چلئے۔
پیر جی۔ (گھبرا کر) کہاں، بھائی کہاں؟
سپاہی: بادشاہ سلامت نے بلایا ہے قلعے میں چلئیے۔ پیر جی رونے پر آمادہ نظر آ رہے تھے۔ گڑگڑا کر کہنے لگے۔
’’بھائی ہم کیا کریں گے وہاں جا کر ہم تو گھر جاتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ بوریا تہہ کر بغل میں دبایا اور جل تو جلال تو بڑھتے ہوئے لگے چلنے۔
سپاہی نے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا اور چلا لے کے قلعے کی طرف اب پیر جی ہیں کہ مچل رہے ہیں اور ہے ہیں، گڑگڑا رہے ہیں، زمین پر لیٹے جا رہے ہیں مگر سپاہی نہیں چھوڑتے۔ گھسیٹے لئے جا رہے ہیں، لوگوں کا ٹھٹ کا ٹھٹ لگ گیا۔ دوچار بھلے آدمی کہنے بھی لگے کہ ’’جانے دو بے چارہ غریب آدمی ہے۔ فقیروں کو نہیں ستایا کرتے۔‘‘ مگر سپاہی کب چھوڑنے والے تھے، کہنے لگے ’’صاحب بادشاہ کا حکم ہے کیسے نہ لے جائیں، انہیں چھوڑ دیں تو اپنی جانیں گنوائیں۔‘‘
پیر جی بہت پھیلے تو سپاہی ان کو اس طرح لے گئے کہ
پا بدست دگرے دست بدست دگرے
قلعے میں پہنچے، بادشاہ سلامت کے حضور میں پیش ہوئے، بادشاہ نے ملائمت سے کہا۔
بادشاہ: شاہ صاحب! ہم نے سنا ہے آپ بڑے روشن ضمیر ہیں۔ گھوسی کی بھینس اور سنار کے ہیرے کا حال ہمیں معلوم ہے، ہم نے آپ کو اس لئے طلب کیا ہے کہ ہماری ملکہ عالیہ کا نو لکھا ہار کسی نے چرا لیا ہے۔ آپ اپنے کشف سے اسے ڈھونڈھ نکالئے۔
پیر جی: بادشاہ سلامت! میں تو خدا کا گنہگار بندہ ہوں۔ میں روشن ضمیر نہیں ہوں۔ خدا کے لئے مجھے گھر جانے کی اجازت دیجیئے۔ میری بیوی بڑی پریشان ہو رہی ہو گی۔
بادشاہ: شاہ صاحب! ہار آپ کو ڈھونڈ کر دینا ہو گا۔ ہماری ملکہ عالیہ بہت پریشان ہیں اور ہم ان کی پریشانی نہیں دیکھ سکتے۔
پیر جی: حضور! مجھے اب تو گھر جانے دیجئے۔ میں کل حاضر ہو جاؤں گا۔
بادشاہ: بس اب ہم کچھ سننا نہیں چاہتے۔ آپ کو ایک ہفتہ کی مہلت دی جاتی ہے۔ اس عرصے میں ہار نہ ملا تو آج ہی کے دن صبح کو آپ کو سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ ہاں اپنے گھر کا پتہ بتا دیجئے آپ کی بیوی کو اطلاع کر دی جائے گی، آپ یہیں محل میں رہیں گے۔
پیر جی کے رہنے کو محل مل گیا۔ اب یہ بیچارے پریشان ہیں کہ یا الٰہی اب کیا کروں۔ بادشاہ کو تو ماش کی دال نہیں بتا سکتا۔ میں پہلے ہی ٹڈی سے کہتا تھا کہ دیکھ لالچ نہ کر۔ اس کا انجام برا ہو گا۔ نہ مانی اور مجھے مروا دیا۔ اب کیا ہو گا ہائے میں نہ جاؤں گا تو ٹڈی کیسی پریشان ہو گی۔ اکیلی راتوں کو کیسے رہے گی یہ خیال کر کے رونے لگے۔
اب بیوی کا حال سنیے مغرب کے وقت تک تو خوشی خوشی میاں کا انتظار کرتی رہیں سمجھتی تھیں کہ لدے پھندے کوئی دم میں آتے ہی ہوں گے۔ جب خاصی رات ہو گئی اور میاں نہ آئے تو ذرا پریشانی ہوئی۔ آٹھ بجے، نو بجے، دس بج گئے تو دل میں پنکھے لگ گئے، بے اوسان ہو گئیں۔ رو رو کر دعائیں مانگنے لگیں اپنے اوپر نفرین کرنے لگیں کہ میں نے میاں کو کسی مصیبت میں پھنسا دیا۔ کچھ نہ کچھ افتاد پڑی ہے جو اب تک نہیں آئے۔ وہ تو رکنے والے تھے ہی نہیں۔
وہ ان ہی خیالات میں تھیں کہ کسی نے کنڈی کھٹکھٹائی۔ یہ دروازے پر گئیں تو معلوم ہوا سپاہی ہیں۔ پاؤں تلے کی زمین نکل گئی۔ اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ پھر ہمت کر کے پوچھا۔
” ارے بھئی تم کون ہو؟”
سپاہی: ہم شاہی پیادے ہیں۔ پیر جی کرامت شاہ تمہارے ہی میاں ہیں؟
بیوی: ہاں ہاں۔ ہاں۔ اللہ جلدی بتاؤ، وہ کیسے ہیں، کہاں ہیں؟
سپاہی: بہن گھبراؤ نہیں۔ وہ اچھی طرح ہیں۔ بادشاہ سلامت نے ان کو بلوا کر اپنے محل میں رکھ لیا ہے۔ ملکہ عالیہ کا نو لکھا ہار چوری ہو گیا ہے۔ بادشاہ سلامت نے کر امت شاہ کی کرامتوں کا حال سن کر انہیں اپنے محل میں ٹھہرا لیا ہے تا کہ وہ ہار ڈھونڈ نکالیں تم گھبراؤ نہیں۔ دو چار دن میں آ جائیں گے۔ اور لو یہ لو، یہ ایک توڑا اشرفیوں کا بادشاہ سلامت نے تمہارے خرچ کو بھیجا ہے۔
سپاہی توڑا دے کر چلے گئے۔ بیوی کو یہ تو اطمینان ہوا کہ میاں صحیح سلامت ہیں، مگر اول تو میاں کی جدائی شاک تھی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ رات تنہا بسر کرنی پڑے گی۔ دوسرے یہ بھی ڈر اور خوف دل میں تھا کہ نو لکھا ہار نہ جانے کس نے چرایا ہو گا اور چور کیا وہاں دھرا ہو گا۔ خدا معلوم کہاں کا کہاں پہنچ گیا ہو گا۔ میرے میاں بیوقوف اور سادہ لوح وہ بھلا کیا تفتیش و تلاش کر سکتے ہیں اور بادشاہوں کے مزاج کا کیا ٹھکانا۔ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ آج جس پر الطاف و اکرام کی بارش ہے کل اسی کے زن و بچہ کولھو میں پلوا دیں۔ غرض بیچاری بے طرح پریشان تھی۔ رو رو کر دعائیں مانگتی تھی کہ اپنے حبیب کے صدقے میں اب کے میرے میاں کو ساتھ خیریت کے میرے پاس بھجوا دے میں آنکھوں کا تیل نکالوں گی محنت مزدوری کروں گی مگر اب انہیں کبھی کمانے کو مجبور نہ کروں گی۔
اب پیر جی کا حال سنیے۔ چھ دن گزر چکے ہیں، رات کا وقت ہے کوئی بارہ کا عمل ہو گا۔ پیر جی سنسان ہو حق رات میں چھت پر ٹہل رہے ہیں۔ اللہ کے حضور میں رو رہے ہیں، گڑگڑا رہے ہیں۔ جانتے ہیں کہ صبح کو سولی پر چڑھا دیا جاؤں گا اور اپنی ٹڈی سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاؤں گا اس پریشانی اور یاس کے عالم میں دماغی توازن بھی ٹھیک نہیں رہا۔ ٹہل رہے ہیں اور چخ چخ کر کہہ رہے ہیں کہ آ جاری نندیا صبح کو ماری جائے گی جندیا۔
اب اللہ کی کارسازی دیکھئے کہ ملکہ عالم کی ایک منہ چڑھی باندی تھی جسے وہ پیار سے چندیا کہا کرتی تھیں، وہ نو لکھا ہار اسی نے چرایا تھا اور اب تک اسی کے پاس تھا۔ کیونکہ اس کی چوری کا چرچا بچے بچے کی زبان پر تھا۔ وہ بادشاہ کی سی آئی ڈی سے تو نہیں ڈرتی تھی مگر جب سے اس نے سنا تھا کہ بادشاہ نے کرامت شاہ کو بلوا کر محل میں رکھا ہے بڑی پریشان تھی۔ ایک دیوار بیچ ملکہ عالم کا محل تھا۔ یہ باندی چپ چاپ راتوں کو آ کر دیکھتی رہتی تھی کہ پیر جی اب کیا کر رہے ہیں، اب کیا کر رہے ہیں۔ آج جو اس کے کانوں میں پیر جی کے جوش و خروش کی آوازیں آئیں تو سمجھی کہ آج آخری دن ہے پیر جی کوئی جلالی عمل پڑھ رہے ہیں، چپکے چپکے دبے پاؤں اپنی چھت پر آئی۔ اور اب جو یہ سنا کہ پیر جی کہہ رہے ہیں ’’صبح کو ماری جائے گی جندیا‘‘ تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے سمجھی کہ بس صبح کو پیر جی بادشاہ کو میرا نام بتا دیں گے۔ سب عزت آبرو خاک میں مل جائے گی اور جان سے جاؤں گی۔ بھاگی بھاگی گئی۔ اور جھٹ نو لکھا ہار لے آئی اور پیر جی کے قدموں میں ڈال کر رو رو کر ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہنے لگی کہ خدا کے لئے میرا نام بادشاہ کو نہ بتائیے گا۔
پیر جی بہت بگڑے بہت لال پیلے ہوئے کہ تو نے ہمیں اتنے دنوں تک پریشان کیوں رکھا۔ پہلے ہی کیوں نہ لے آئی۔ مگر اس کے رونے دھونے پر رحم آ گیا اور وعدہ کر لیا کہ جا ہم تیرا نام نہیں بتائیں گے۔
اب پیر جی نے ہار تو کرتے کی اندر کی جیب میں رکھا اور اطمینان سے سو گئے۔ صبح کو چوبدار آیا اور پیر جی کو بادشاہ سلامت کے حضور میں لے گیا بادشاہ دربار خاص فرما رہے تھے۔ سب امرا و مصاحبین حاضر تھے۔ بادشاہ نے پیر جی کو دیکھتے ہی فرمایا۔
بادشاہ: شاہ صاحب! ہار کا پتہ لگا؟
پیر جی نے طیش میں آ کر جیب سے ہار نکال تخت پر دے مارا اور گرج کر بولے۔
’’لے اپنا ہار‘‘
بادشاہ نے جو ہار کو دیکھا تو سکتے میں رہ گیا۔ اس کی خاص سی آئی ڈی اتنے دنوں سے سر گاڑی پاؤں پہیہ کئے ہوئے تھی خاک بھی نتیجہ نہ نکلا اور شاہ صاحب نے محل میں بیٹھے ہی بیٹھے ہار منگوا لیا۔ غرض بادشاہ اور سب کے سب درباری پیر جی کی کرامت سے کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ منہ سے بات نکل سکی۔ ادھر پیر جی ایک جلال کے عالم میں تھے۔ در اصل اس وقت کا سماں ہی عجیب تھا۔ ایک ناقابل بیان جذبات کا عالم ان پر طاری تھا۔ بار ملنے کی خوشی بادشاہ اور درباریوں کو مرعوب کرنے کا افتخار، اپنی پیاری ٹڈی سے ملنے کا جوش و امنگ۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس وقت بن آئی تھی۔ لگے پھیلنے۔ نیچے سے شاہ صاحب: تو فقیروں کو آزماتا ہے۔ ہائیں! اللہ والوں کا امتحان لیتا ہے۔ ہائیں! بادشاہ نے تخت سے اتر کر انتہائی عقیدت مندی سے شاہ صاحب کے ہاتھ چومے۔ آنکھوں سے لگائے اور گڑگڑا کر کہا۔
بادشاہ: شاہ صاحب! معاف کیجئے۔ ہم نے آپ کو جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔
شاہ صاحب۔ (جلدی سے) تو نے ہمیں دکھ پہنچایا ہے۔ ہم تیری سلطنت کو زیر و زبر کر دیں گے۔
بادشاہ: نہیں شاہ صاحب! معاف کر دیجیئے۔ میری رعایا تباہ ہو جائے گی۔
شاہ صاحب: بس اب ہم جاتے ہیں اپنے گھر۔
یہ کہہ کر پیر جی چلنے لگے۔ بادشاہ نے منت سماجت کر کے چار دن کے لئے اور روک لیا۔ خوب خاطر ہونے لگی۔ بادشاہ کا یہ حال تھا کہ دن میں دو دفعہ ان کی جائے قیام پر جانا اور کھڑا رہتا۔ پیر جی ہیں کہ اپنی ٹڈی کے تصور میں محو ہیں۔ بات کرنی تو در کنار مڑ کر بھی نہیں دیکھتے کہ کون کھڑا ہے۔ ان کی اس بے التفاتی اور بے توجہی سے بادشاہ کی عقیدت مندی سے اور راسخ ہوتی۔ جانتا کہ اللہ والے لوگ ہیں۔ ان کے نزدیک شاہ و گدا سب برابر ہیں۔ جب بادشاہ ہی ایسا قدردان اور گرویدہ ہو تو دوسروں کا کیا ذکر ہے۔ غرض پیر جی فوق البشر ہستی بنے ہوئے تھے۔ ہر طرح سے خاطر ہو رہی تھی۔ بھرے دربار میں بلا روک ٹوک آ جا سکتے تھے۔ بادشاہ سے بڑھ کر عزت ہو رہی تھی۔ ہاں بس ایک قید تو یہ تھی کہ محل سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ بادشاہ انہیں اپنے سے جدا نہیں رکھنا چاہتا تھا۔
چوتھے دن صبح ہی سے ٹڈی بے طرح یاد آنے لگیں جی چاہتا تھا کہ اڑ کے پہنچ جائیں۔ مگر کیا کریں کچھ بس نہیں چلتا۔ بادشاہ کی نیت کھوٹی معلوم ہوتی ہے۔ ادھر سے ادھر پھر رہے ہیں، پریشان ہیں، رو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں
’’ہائے ٹڈی میں کس عذاب میں پھنس گیا۔ تو وہاں میری یاد میں بیقرار ہو گی۔ میں یہاں تڑپ رہا ہوں۔‘‘
ان خیالات نے دماغ کو کچھ ایسا پراگندہ کیا کہ ایک موٹا سا ڈنڈا لے کر چل پڑے کہ آج بھی بادشاہ نے جانے نہ دیا تو اس کا سر پھاڑ دوں گا، چاہے جو کچھ ہو جائے۔ ایسی زندگی سے تو موت ہزار درجے بہتر ہے۔ دربانوں اور چوبداروں کی بھلا کیا مجال تھی کہ انھیں روکتے۔ یہ سیدھے دربار میں پہنچے اور جاتے ہی کڑک کر بولے۔
’’بس اب ہم جاتے ہیں اپنے گھر۔‘‘
بادشاہ انہیں دیکھتے ہی تخت سے اترا اور ہاتھ باندھ کر کہنے لگا۔
’’شاہ صاحب! بس تھوڑے دن اور ٹھہر جائیے۔‘‘
انہیں تاؤ تو آ ہی رہا تھا، جان سے بیزار تھے۔ الا للہ کہہ کر جو سر پر ڈنڈا مارا تو تاج دور جا گرا۔ درباری بھاگ کر بادشاہ کو بچانے آئے مگر اب جو دیکھتے ہیں تو تاج میں سے ایک چھوٹا سا کالا سانپ نکل کر پھنکاریں مار رہا ہے۔ سب نے مل کر سانپ کو تو مار دیا مگر بادشاہ کی مارے دہشت کے عجیب حالت تھی دوڑ کر پیر جی کے ہاتھ چومے اور آنکھوں سے لگائے اور درباریوں سے کہنے لگا۔
’’دیکھی تم نے میرے پیر کی کرامت! اس وقت یہ تاج کو نہ گراتے تو میں اس موذی سانپ سے بچ سکتا تھا؟‘‘ غرض بادشاہ نے دربار کو برخاست کیا اور منت خوشامد کر کے شاہ صاحب کو ان کی جائے قیام تک لے گیا۔ ساری سلطنت میں بادشاہ کی جان بچنے کی خوشی میں شادیانے بجنے لگے گھر گھر خوشیاں منائی جانے لگیں۔ پیر جی پھر دل مسوس کر رہ گئے۔ پہلے تو بادشاہ نے چار دن کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ اب اس کا کوئی سوال ہی نہ تھا۔ بھلا ایسے پیر روشن ضمیر کو بادشاہ کیونکر اپنے سے جدا کر سکتے تھے۔ تین دن پھر انگاروں پر لوٹ کر گزارے۔ چوتھے دن مصمم ارادہ کر کے چلے کہ آج بادشاہ کو مار ہی ڈالوں گا چھوڑوں گا نہیں۔ بلا سے چاہے کچھ ہو۔
یہ دل میں ٹھان کر سیدھے دربار میں پہنچے اور ایک کہی نہ دو بادشاہ کی ٹانگیں پکڑ گھسیٹتے ہوئے کھینچے لئے چلے گئے۔ درباری بچانے دوڑے بھی مگر بادشاہ نے منع کر دیا۔ یہ اسی طرح بادشاہ کو کھینچتے ہوئے دربار کے کمرے سے باہر دور تک لے گئے۔
ان کے باہر جاتے ہی اللہ کی قدرت دیکھئے وہ چھت آن پڑی اور بہت سے لوگ دب کر رہ گئے، بادشاہ اور بھی معتقد ہو گیا اور پیر جی کی خوب خاطر ہونے لگی۔
یہ قاعدے کی بات ہے کہ جب کوئی بادشاہ کا منظور نظر ہو جاتا ہے تو اس کے تو دشمن بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہاں تو یہ حال تھا کہ منظور نظر کیا بادشاہ ہی پیر جی کا غلام بنا ہوا تھا۔ اب تو درباری امراء جتنے بھی نہ جلتے تھوڑا تھا۔ یہ لوگ اکثر بادشاہ کے کان بھرا کرتے تھے اور طرح طرح سے پیر جی کی برائیاں کیا کرتے تھے
’’جاہل ہے، ان پڑھ ہے، جزدان میں کوئی کتاب و تاب نہیں ہے شما اینٹ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
بادشاہ جواب میں کہتا۔
’’یہ سب کچھ صحیح ہے مگر حقیقت کا گلا نہیں گھونٹا جا سکتا۔ ان اللہ والے لوگوں کی ظاہری حالت پر نہ جاؤ۔ ان کی گدڑی میں لعل ہوتے ہیں، ملکہ کا نو لکھا ہار شاہ صاحب نے پیدا کیا، مجھے موذی سانپ سے شاہ صاحب نے بچایا، مجھے چھت کے نیچے دبنے سے شاہ صاحب نے بچایا۔ تمہارے پاس ان باتوں کا کیا جواب اور کیا حل ہے۔‘‘
غرض اسی طرح دن گزر رہے تھے پیر جی کے ٹڈی کی یاد میں بے چینی سے اور بادشاہ کے پیر جی کی موجودگی میں اطمینان و خوشی سے۔ مگر امراء وزرا جو گھڑی گھڑی شاہ صاحب کی برائیاں کرتے رہتے تھے اس سے بادشاہ کو بڑی کوفت ہوئی تھی۔
ایک دن بادشاہ نے بڑے وزیر سے جو سب سے زیادہ شاہ صاحب کا دشمن تھا، کہا کہ میں ان آئے دن کی شکایتوں سے تنگ آ گیا ہوں سنتے سنتے میرے کان پک گئے۔ میری سمجھ میں بات آتی ہے کہ ایک دفعہ تم سب مل کر جس طرح کا چاہو میرے شاہ صاحب کا امتحان لے لو، اگر وہ ناکام ثابت ہوں گے تو میں ان کو قتل کروا دوں گا اور اگر وہ کامیاب ہو گئے تو پھر تم سب کو انہیں اپنا پیر ماننا پڑے گا اور پھر اگر کوئی ان کی شکایت کرے گا تو اسے فوراً قتل کروا دوں گا۔
چنانچہ بارہ امرا کو اور شاہ صاحب کو ہمراہ لے کر بادشاہ دہلی سے بیس میل دور جنگل میں گیا۔ شاہ صاحب کو ایک خیمے میں بٹھا کر سب لوگ ذرا سی دور چلے گئے پھر بادشاہ نے بڑے وزیر سے کہا۔
’’لو اب تم جس طرح چا ہو امتحان لے لو۔‘‘
بڑا وزیر بولا ’’بہت بہتر‘‘
اور یہ کہہ کر کوئی ایک فرلانگ چلا گیا اور بند مٹھی دکھا کر بادشاہ سے کہنے لگا۔
’’اگر شاہ صاحب بتا دیں گے کہ میری مٹھی میں کیا ہے تو میں اور یہ سب لوگ ان کو اپنا پیر مان لیں گے اور دل سے ان کے معتقد ہو جائیں گے۔‘‘
اب یہ سب لوگ واپس آئے شاہ صاحب کو بلایا اور بادشاہ کہنے لگا
بادشاہ: شاہ صاحب! آج آپ کا امتحان ہے۔ میری طرف سے آپ دل میں کچھ خیال نہ کیجئے گا۔ میں تو آپ کو روشن ضمیر مانتا ہوں اور آپ کا دل سے معتقد ہوں مگر یہ امرا اور وزیر مجھے چین نہیں لینے دیتے۔ یہ آپ کی برائیاں کرتے رہتے ہیں۔ آج ہم سب نے طے کر لیا ہے کہ اگر آپ امتحان میں کامیاب ہو گئے تو یہ لوگ بھی آپ کے مرید ہو جائیں گے
’’اور اگر آپ ناکام رہے تو ابھی، اسی وقت اور اسی جگہ آپ کو قتل کر دیا جائے گا۔ دیکھئے یہ بڑے وزیر آپ کے سامنے دونوں ہاتھ پیچھے کئے کھڑے ہیں۔ ان کی مٹھی میں کوئی چیز ہے۔ آپ بتایئے وہ کیا چیز ہے یاد رکھئے کہ اگر آپ نہ بتا سکے تو اسی وقت جلاد آپ کا سر قلم کر دے گا۔‘‘
یہ کہہ کر بادشاہ نے تالی بجائی خونخوار جلاد ہاتھ میں ننگی تلوار لیئے کھڑا ہوا۔ پیر جی کی آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔ سمجھ گئے کہ اب جان نہیں بچے گی۔ ہائے میری ٹڈی بیوہ ہو جائے گی۔ یہ خیال آتے ہی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ بھرائی ہوئی آواز میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے۔
’’ٹڈی ٹڈی!‘‘
بادشاہ نے بڑے وزیر سے کہا۔
’’مٹی کھول مٹھی کھول۔‘‘
مٹھی کھولی تو سب نے دیکھا کہ ایک مردہ سی ٹڈی بیٹھی تھی۔
بادشاہ نے فوراً وزیر سے کہا ’’ہاتھ چوم ان کے ہاتھ چوم!‘‘
وزیر نے اور سارے امراء نے پیر جی کے ہاتھ چومے اور سب کے سب دل سے پیر جی کے مرید و معتقد ہو گئے۔
پیر جی نے بادشاہ سے کہا۔
’’اب ہمیں گھر جانے دے۔ بہت دن ہو گئے اپنی بیوی سے ملے ہوئے۔‘‘
بادشاہ نے انہیں محل رہنے کو دیا۔ خلعت و جاگیر عطا کی۔ یہ اپنی ٹڈی کو لے کر آرام سے ہنسی خوشی رہنے لگے۔
ماخذ:
https://www۔rekhta۔org/ebooks/khan-sahab-zareef-dehlvi-ebooks?lang=ur#
ٹائپنگ: اراکین اردو محفل
محمد عمر، مومن فرحین، سید عاطف علی، لا المیٰ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں