FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

خاکِ دل

اصغر وجاہت

رسم الخط کی تبدیلی اور برائے نام ترجمہ: اعجاز عبید

اصل ہندی ناول

’मनमाटी‘

کا اردو روپ

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

1

پتے کی بات سیدھی سچی ہوتی ہے۔ اسے بتانے کے لیے نہ تو زیادہ ہوشیاری کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ سو طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ سیدھی سچی بات دل کو لگتی ہے اور اپنا اثر کرتی ہے۔ میں یہاں ان اوراق میں آپ کے سامنے کچھ سچی باتیں رکھنے جا رہا ہوں۔ یہ باتیں گڑھی ہوئی نہیں ہیں، آپ کی اور ہماری دنیا میں ایسا ہوا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا رہیے گا۔ کچھ آپ بیتی ہے اور کچھ جگ بیتی ہے۔
ایک وقت کی بات ہے۔ کلکتہ کے پارک سٹریٹ علاقے میں ایک پادری سفید لمبا کوٹ پہنے، ٹوپی لگائے، ہاتھ میں پاک کتاب لئے جوشیلی آواز میں کچھ کہہ رہا تھا۔ لوگ اسے گھیرے کھڑے تھے۔ سن رہے تھے۔
اکرم کو کلکتہ آئے تین چار دن ہی ہوئے تھے۔ اس کے بڑے بھائی مسٹر جیکسن کے اردلی تھے۔ اکرم کی عمر سولہ سترہ سال تھی۔ وہ اپنے پشتینی گاؤں ارولی سے آیا تھا اور آنے کا مقصد یہ تھا کہ بڑے بھائی نے اس کی نوکری لگوا دینے کا پکا بھروسہ دلایا تھا۔
’’دو دن سے پڑا سو رہا ہے، اٹھاؤ اسے۔ اکرم جب سے آیا ہے سو رہا ہے۔ کھانا وانا کھاتا ہے، پھر سو جاتا ہے۔‘‘
’’اٹھ اکرم۔۔ ۔۔‘‘ اکرم کی بھابھی نے اسے جھنجھوڑ دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے بڑے بھائی اسلم کی سخت اور کھرکھراتی آواز آئی، ’’کیوں؟ سونے آیا ہے یہاں۔۔۔ اٹھ جا کے بازار سے دہی لے آ، تو تیری بھابھی کھانا پکا لے۔‘‘
اکرم ہاتھ میں پتیلی لے کر باہر آیا، گلی سے نکل کر سڑک پر آ گیا۔ یہاں سے اسے الٹے ہاتھ کی طرف جانا تھا لیکن سامنے بھیڑ لگی تھی۔
پادری کا چہرہ دھوپ میں لال ہو رہا تھا۔ اکرم نے اس سے پہلے کبھی کوئی گورا نہیں دیکھا تھا۔ وہ ڈر گیا، لیکن پھر بھیڑ میں پیچھے چھپ کر تماشہ دیکھنے لگا۔ گورے پادری کا چغہ پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ اس کی گھنیری داڑھی ہوا میں لہرا رہی تھی۔ سینہ پر پڑا ہار ادھر ادھر جھول رہا تھا۔ اکرم اسے ایک ٹک دیکھنے لگا۔ اس کی بڑی بڑی نیلی آنکھیں ادھر ادھر گھوم رہی تھیں۔ وہ جہنم میں دی جانے والی تکلیفوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اور خوفناک ہو گئی تھیں۔ وہ تیزی سے گھوم گھوم کر چاروں طرف جمع لوگوں سے کہہ رہا تھا، ’’سچا اور پکا مذہب اور ایک کراری میم کون لے گا؟‘‘ پادری کی آواز میں کڑک تھی، گرج تھی، ایمانداری تھی، لالچ تھا۔ وہ سب کو گھور کر دیکھ رہا تھا۔
اچانک پادری کی آنکھیں اکرم کی آنکھوں سے ٹکرائیں۔ پادری نے گرج کر پھر اپنا سوال دہرایا، ’’سچا اور پکا مذہب اور ایک کراری میم کون لے گا؟‘‘
اکرم کو لگا کلیجہ اس کے منھ سے آ کر لگ گیا ہے۔ اس کا گلا سوکھنے لگا۔ زبان پر لگا کانٹے اگ گئے ہیں۔ وہ ٹکٹکی لگائے پادری کو دیکھ رہا تھا۔ پادری بار بار اپنا سوال دہرا رہا تھا۔ ہر بار سوال کے بعد اکرم کی حالت خراب ہو جاتی تھی۔ اوپر آسمان میں سورج چلچلا رہا تھا۔ بھیڑ میں کچھ عجیب آواز اٹھ رہی تھی۔ اکرم کو لگا اسے اپنے اوپر قابو ہی نہیں ہے۔
وہ بول اٹھا، ’’میں۔‘‘
اکرم کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا جذبہ تھا۔ وہ گرمی سے جھلس رہا تھا۔ آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں۔ پورے مجمع نے اکرم کی طرف دیکھا۔ پادری کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ وہ آگے بڑھا اور اکرم کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا، پھر دھیرے دھیرے اکرم کا ہاتھ پادری کے ہاتھ میں چلا گیا۔
اکرم کے بھائی نے اسے کلکتہ کی ہر گلی میں تلاش کیا، آس پاس کے گاؤوں میں گیا۔ پولس داروغہ سے پوچھا۔ اسپتال، مردہ گھر، قبرستان ہر جگہ جا کر پتہ لگایا، لیکن اکرم کا کہیں پتہ نہیں چلا۔ تھک ہار کر گھر چٹھی لکھ دی۔ گھر یعنی یو۔ پی۔ کے میرٹھ ضلعے کی سردھنا تحصیل کے ارولی گاؤں۔ اکرم کے بوڑھے باپ اور ماں کو یہ خبر ملی تو ماں نے رو رو کے جان دے دی۔ چھوٹے بھائی حیرت میں پڑے رہے۔ باپ نے توبہ کر لی کہ اب کسی اولاد کو کلکتہ نہیں بھیجیں گے۔
ارولی گاؤں میں سب کچھ ویسے ہی ہوتا رہا جیسا ہوتا آیا تھا۔ اکرم کے لاپتہ ہو جانے کی بات سب بھولتے چلے گئے۔
قارئین، وقت بیتتا گیا اور بیتتا گیا۔ دس لاکھ نو ہزار پانچ سو بار سورج نکلا اور ڈوبا۔ کھیتوں میں گیہوں لہلہایا اور کندن کی طرح لال ہوا۔ ندی میں نیلا پانی بہتا رہا، ہوا چلتی رہی، پتے ہلتے رہے۔ موسم پر موسم بدلتے رہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ چہرے بھی بدلتے رہے۔ اکرم کے والد گزر گئے۔ کلکتہ میں اسلم کا انتقال ہو گیا۔ اکرم کے چھوٹے بھائی وحید ہیضے سے مرے۔ ان کے دونوں بیٹوں، تکو اور عابد نے ہل بیل سنبھال لیا۔

2

چیت کا مہینہ ہے، گیہوں کٹ چکا ہے، لگتا ہے زمین کا عقیقہ کر دیا گیا ہے۔ ادھر ادھر آم کے باغوں میں کوئلیں کوکتی پھر رہی ہیں۔ آوارہ لونڈوں کے گروہ ڈل پک آم بٹورنے کی تاک میں ادھر ادھر گھوم رہے ہیں۔ گھنے پیڑوں کے نیچے بزرگ چار پائیوں پر آرام کر رہے ہیں۔ کھلیانوں میں مڑھائی چل رہی ہے۔
دور سے بیل گاڑی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس گاؤں کی بیل گاڑی نہیں ہے۔ کسی اور گاؤں کی ہے۔ دھیرے دھیرے بیل گاڑی ارولی گاؤں کے گلیارے میں آ جاتی ہے۔ گرد کا ایک مرغولہ اٹھتا ہے اور بیل گاڑی رک جاتی ہے۔ دوچار لوگ بیل گاڑی کے پاس جاتے ہیں۔ بیل گاڑی سے ایک عجیب طرح کا آدمی اترتا ہے۔ اس نے گوروں جیسے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ سر پر ہیٹ بھی لگائے ہے۔ ہاتھ میں چھڑی، کوٹ کی جیب میں گھڑی کی چین پڑی ہے۔ سب اس آدمی کو دیکھ رہے ہیں اور یہ آدمی گلیارے کو اور ادھر ادھر دیکھ رہا ہے۔ پھر اس آدمی نے جو کیا اس سے تو اچنبھے کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ یہ آدمی عجیب سی آواز میں زور سے چلایا اور گلیارے میں لوٹنے لگا، رونے لگا۔ اس کا ہیٹ گر گیا، کپڑے دھول میں اٹ گئے۔ گھڑی جیب سے باہر نکل آئی مگر وہ گلی میں، گرد میں لوٹتا اور روتا رہا۔ سب کو لگا کہ کوئی پاگل ہے، لیکن اگر پاگل ہے تو اتنے اچھے کپڑے کیسے پہنے ہے؟ بیل گاڑی والے نے بتایا کہ صاحب چھولیا اسٹیشن پر پسنجر گاڑی سے اترے تھے۔ اسٹیشن ماسٹر نے اس کی بیل گاڑی کا انتظام کرا دیا تھا۔ کہا تھا صاحب کو ارولی گاؤں جانا ہے۔
’’ارولی میں کس کے گھر آنا تھا؟‘‘
’’یہ تو بات نہیں ہوئی۔‘‘
’’نام پتہ کچھ ہے؟‘‘
’’نہیں ہمارے پاس نہیں ہے۔‘‘
بیس پچیس منٹ کے بعد یہ آدمی دھیرے دھیرے اٹھا اپنی ٹوپی اٹھائی۔ کپڑے ٹھیک کیے اور رامچندر کے چاچا کے پاس گیا۔ وہی بھیڑ میں سب سے بزرگ تھے۔
’’میرا نام اکرم ہے۔۔ ۔‘‘
’’اکرم؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرے بڑے بھائی کلکتہ میں کام کرتے تھے۔۔۔ چھوٹا بھائی وحید ہے۔‘‘
رامچندر کے چاچا کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے منھ سے بول نہیں نکل رہا تھا۔
’’آپ وسیع الدین کے لڑکے اکرم الدین ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں وہی بدنصیب ہوں۔‘‘ صاحب پھر رونے لگا۔
سب انہیں لے کر تکو کے گھر کی طرف چلے۔ گاؤں کے گلیارے سے وہ بیل گاڑی میں نہیں بیٹھے۔ پیدل چلتے رہے۔ کہیں کہیں رک جاتے اور کسی مکان یا پیڑ کو دھیان سے دیکھتے اور پھر آگے چلتے۔ سب حیران تھے کہ گاؤں میں ایسا کیا عجیب ہے جسے یہ آدمی، جو بالکل انگریز لگ رہا ہے، اس طرح دیکھتا، ہنستا، روتا یا آہیں بھرنے لگتا ہے۔
ان کے پیچھے قریب قریب پورا گاؤں چل رہا ہے۔ سب سے پیچھے بیل گاڑی ہے جس میں ان کا سامان دھرا ہے ۔پہاڑ جیسے چار بکسے ہیں، ایک گول بکسا ہے۔ اس طرح کے بکسے گاؤں میں پہلی بار دیکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گاؤں کے لونڈے انہیں چھوکر دیکھ رہے ہیں اور بیل گاڑی والا یا دوسرے بڑے لوگ انہیں منع کر رہے ہیں۔
گھر کے سامنے پہنچ کر یہ صاحب رک گئے۔ تکو اور عابد بھی گھر سے نکل آئے تھے۔ صاحب نے سر پر سے ہیٹ اتار لیا۔ گھر کو اس طرح دیکھا جیسے کوئی اپنے جوان بیٹے کو دیکھتا ہے۔ دوسرے لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں اور وہ گھر کو دیکھے جا رہے ہیں۔ گاؤں میں جسے خبر نہیں تھی اسے بھی خبر لگ گئی ہے اور سب ابو کے گھر کی طرف دوڑے آ رہے ہیں۔ کچھ دیر کھڑے کھڑے مکان کو دیکھنے کے بعد صاحب دروازے کی طرف لپکے اور زور زور سے زنجیر بجانے لگے۔ سب پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ زنجیر کیوں بجائی جا رہی ہے؟ گھر کے مالک گھر کے باہر کھڑے ہیں۔ پورا گاؤں گھر کے باہر کھڑا ہے اور یہ صاحب زنجیر بجا رہے ہیں۔ کس کو بلا رہے ہیں؟ کس تک آواز پہچانا چاہتے ہیں؟ کچھ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ اتنے میں حاجی ولی اللہ اور منشی کرامت علی آ گئے۔ سب لوگ مکان کے سامنے نیم کے پیڑ کے نیچے چار پائیوں پر بیٹھ گئے۔ چارپائیاں کم پڑ رہی تھیں، تو پاس پڑوس کے گھروں سے آ گئیں۔
منشی کرامت علی نے صاحب سے پوچھا، ’’شاید آپ مرحوم وسیع الدین صاحب کے بیٹے ہیں اور وحید میاں کے بھائی ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’ہاں، میں ہی وہ بد نصیب ہوں۔‘‘ سناٹا چھا گیا۔ کچھ دیر کے لیے سب خاموش ہو گئے لیکن کوؤں کی کائیں کائیں جاری رہی۔ ’’آپ اپنے رشتے داروں سے ملنے آئے ہیں؟‘‘ حاجی ولی اللہ نے پوچھا۔
’’ہاں، میں اپنے گاؤں اور گھر میں رہنے آیا ہوں۔۔۔ میں اب یہیں رہوں گا۔‘‘
چاروں طرف کھسر پھسر ہونے لگی۔
کچھ سوچ کر منشی کرامت علی نے کہا، ’’ہاں آپ کو پورا حق ہے۔ آپ کا مرحوم کی جائداد میں حصہ ہے۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’مجھے زمین، جائداد میں کچھ نہیں چاہیئے۔۔۔ ایک تنکا نہیں چاہیئے۔۔۔ بس اس گھر اور اس گاؤں میں رہنا چاہتا ہوں۔۔۔ مجھے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ لندن میں میرا رتبہ ہے۔ وہاں میری شادی ہو گئی تھی۔ میرا ایک لڑکا ہے جو فوج میں ہے۔ ایک لڑکی ہے جس کی شادی ہو گئی ہے۔‘‘
’’صاحب، یہ آپ کے بھتیجے ہیں۔ آپ کے بھائی تو دس سال ہوئے گزر گئے تھے۔‘‘ تقی الدین عرف تکو میاں اور عابد الدین عرف ابو میاں کا منشی کرامت علی نے تعارف کرایا۔ صاحب دونوں سے لپٹ کر رونے لگے۔
بیل گاڑی گھر کے سامنے پہنچ چکی تھی۔ تکو اور ابو صاحب کے پہاڑ جیسے بکسے اتار اتار کر نیچے رکھنے لگے۔ صاحب نے اپنے بوٹ کھولے اور نیم کے پیڑ کے نیچے بچھی چارپائی پر لیٹ کر ایسے سوئے جیسے زندگی میں پہلی بار نیند آئی ہو۔
صاحب نے بتایا کہ انہوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا ہے اور اب پھر سے مسلمان نہیں ہونا چاہتے۔ جو کچھ ہوا، ہو گیا ہے۔ صاحب مہینے میں ایک بار بیل گاڑی کر کے ڈگلی پور گرجا گھر جایا کرتے تھے اور اپنے حساب سے عبادت کیا کرتے تھے۔ انہیں بیٹھک کا ایک حصہ رہنے کے لیے دے دیا گیا تھا۔ صاحب نے اپنے بھائیوں سے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ زمین جائداد میں کوئی حصہ نہیں چاہتے۔ لندن میں ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہے اور ارولی وہ پیسے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ اس طرح بھائیوں کے دل سے یہ خوف نکل گیا تھا کہ کہیں صاحب کو جائداد میں حصہ نہ دینا پڑ جائے اور انگریزوں کا زمانا ہے، صاحب عیسائی ہیں، فراٹے دار انگریزی بولتے ہیں، کلکٹر کمشنر سے مل سکتے ہیں۔ ایک کاغذ بھی چلا دیں گے تو بھاری پڑ جائے گا، لیکن صاحب نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ ہاں، ان کے گاؤں میں رہنے سے چھوٹے موٹے اہلکار جیسے پٹواری اور سپاہی گاؤں سے کچھ دبنے لگے تھے، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ صاحب کی پہنچ لندن تک ہے اور وہ وہاں سے زور ڈلوا سکتے ہیں۔
صاحب صبح کھانا کھا کر گھر سے نکل جاتے تھے۔ جی میں آتا تو پورے گاؤں کا چکر لگاتے۔ ایک ایک گلی میں گھومتے۔ سلام رام رام کرتے۔ لوگوں کی خیر خبر پوچھتے۔ گھومتے رہتے۔ کہیں کسی پیڑ کے نیچے دو چار لوگ بیٹھے ہوتے اور صاحب سے بیٹھنے کے لیے کہتے تو بیٹھ جاتے۔ صاحب حقہ نہیں پیتے تھے، بتاتے تھے کہ لندن میں چرٹ پیا کرتے تھے۔ چرٹ یہاں نہیں ملتا اس لئے اور کچھ نہیں پیتے۔ صاحب لندن کی اور باتیں بھی بتایا کرتے جسے گاؤں کے لوگ بڑے چاؤ سے سنا کرتے، لیکن صاحب کو بات چیت کرنا اتنا پسند نہیں تھا، جتنا گھومنا۔ وہ گاؤں کے دو تین چکر لگا کر کھیتوں کی طرف نکل جاتے اور پانچ سات کوس کا چکر لگا لیتے۔
صاحب کے پاس لندن سے پیسہ آتا ہے۔ سال میں دو تین بار ڈاکیا صاحب کا منی آرڈر لاتا تھا۔ صاحب پیسہ وصول کر کے اکنی ڈاکیے کو دیتے تھے۔ صاحب اپنے پاس ایک ناڑے میں موتیوں جیسا پرو کر چھید والے ایک پیسے کے سکے رکھتے۔ جہاں جی چاہتا، پیسہ نکال لیتے تھے۔
ایک دن صاحب کو کیتھے (کبیٹھ) کے پیڑ پر ایک پکا ہوا کیتھا لگا دکھائی دیا۔ انہوں نے بشیر سے کہا کہ میرے لیے کیتھا توڑ لاؤ تو تمہیں ایک پیسہ دوں گا۔ بشیر پھٹ سے پیڑ پر چڑھ گیا اور کیتھا توڑ لایہ۔ اسی طرح صاحب کو کبھی جنگل جلیبی کھانے کا شوق ہوتا تو پیسہ دے کر تڑواتے تھے۔ بوٹ کھانے کا صاحب کو شوق تھا۔ ہولے بھوننے کے لیے صاحب پیسہ دیا کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ صاحب جب نکلتے تو لونڈوں کا گروہ ان کے آگے پیچھے رہتا۔
گرمیوں کے دنوں میں صاحب خوب تڑکے، سورج نکلنے سے پہلے اٹھ جاتے اور کھیتوں کی طرف نکل جاتے۔ قبرستان میں مہوے کے پیڑوں کے نیچے گاؤں کی عورتیں مہوے بینتیں تو صاحب بھی ایک آدھ مہوا صاف کر کے کھا لیا کرتے۔ پھر باغ آ جاتے اچھا کوئی پکا شاخ پر پکا آم مل جاتا تو دھو کر کھاتے۔ ایک دو فالسے چکھتے، چٹنی کے لیے دو چار کچے آم اٹھا لیتے۔ پراہی چل رہی ہوتی تو خوب مزے میں نہاتے اور گاؤں لوٹ جاتے۔
رات میں جہاں گڑ بن رہا ہوتا، صاحب وہاں پہنچ جاتے۔ کڑھاؤ کی کھرچن کھاتے۔ ایک آدھ لوٹا رس پیتے۔ ادھر ادھر کی گپ سنتے اور دیر تک بیٹھے آگ کو دیکھتے رہتے۔ کڑھاؤ کے اوپر آتے جھاگ کو تکتے رہتے۔ نہیں تو اوپر دیکھ لیتے۔ تاروں بھرا آسمان دکھائی دیتا۔
چاندنی رات میں گاؤں کے باہر لڑکے کبڈی کھیلتے تو صاحب جا کر ضرور دیکھتے۔ کبھی خوش ہوتے تو جیتنے والی ٹیم کے لیے اکنی کا انعام بھی رکھ دیتے۔ اکنی میں پانچ سیر حلوہ بنتا جسے کھلاڑی مزے لے کر کھاتے۔ صاحب کو تالاب میں تیرنا اور سنگھاڑے توڑ کر لانا بہت پسند ہے۔ دو مٹی کے گھڑوں کی ڈونگی بنا کر صاحب گھنٹوں تالاب میں سنگھاڑے توڑتے رہتے، کبھی کبھی گھر بھی لے آتے۔
پورے گاؤں میں ہی نہیں دس بیس گاؤوں میں صاحب کے پاس ہی گھڑی ہے۔ صاحب کے علاوہ اترولا کے نواب صاحب کے پاس گھڑی ہے۔ صاحب صبح گھڑی میں کوک دیا کرتے تھے تو لوگ جا کر دیکھتے تھے کہ گھڑی میں کوک کیسے دیتے ہیں! ٹائم دیکھنا تو صاحب کے علاوہ اور کسی کو آتا نہ تھا۔ ایرا غیرا آدمی صاحب سے ٹائم پوچھنے کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔ گاؤں میں دو ہی تین آدمی ہیں جو ٹائم پوچھنے صاحب کے پاس آتے ہیں۔ صاحب ڈبہ کھول کر گھڑی نکالتے ہیں، ڈھکن اٹھاتے ہیں، گھڑی صاف کرتے ہیں، ایک آنکھ والا چشمہ لگاتے ہیں اور گھڑی میں ٹائم دیکھ کر بتاتے ہیں۔ گاؤں میں کسی کو گھنٹہ اور منٹ کی جانکاری بھی نہیں تھی، اس لئے ٹائم کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا۔
حاجی کریم ٹائم پوچھنے کے لیے اپنے نوکر جمن کو بھیجتے تھے۔ اسے صاحب جو ٹائم بتاتے تھے اسے وہ رٹتا ہوا حاجی جی کے گھر کی طرف دوڑتا۔ جمن پھر راستے میں کسی سے بات نہیں کرتا تھا، کیونکہ اگر وہ بات کر لیتا تھا تو ٹائم بھول جاتا تھا اور پھر صاحب کے پاس جانا پڑتا تھا۔ صاحب دوبارہ ٹائم دیکھنے کی بات سے چڑھ جاتے تھے اور کبھی کبھی منع بھی کر دیتے تھے، تب جمن کہتا کہ وہی ٹائم بتا دیجیے جو پہلے بتایا تھا۔ اس پر بھی صاحب کو غصہ آ جاتا تھا۔ کہتے تھے کہ ٹائم کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ کیا ٹائم ہمیشہ ایک رہتا ہے؟ ارے ٹائم تو بدلتا رہتا ہے۔ یہ سن کر لوگ تعجب میں پڑ جاتے تھے کہ ٹائم لگا تار کیسے بدلتا رہ سکتا ہے؟ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو لگا تار بدلتی رہی، پھر ٹائم کیوں لگاتار بدلتا رہتا ہے؟ بہرحال ترس کھا کر صاحب پھر ٹائم بتا دیتے تھے اور جمن رٹتا ہوا حاجی جی کے گھر کی طرف بھاگ جاتا تھا۔
علاقے میں اگر کبھی کسی زمین دار یا نواب کے یہاں انگریزی کا کوئی خط آ جاتا تھا تو صاحب کو بلایا جاتا تھا۔ صاحب کو لینے بیل گاڑی آتی تھی۔ صاحب اس دن اپنا کالا کوٹ پہنتے تھے، ہیٹ لگاتے تھے، گلے میں سفید رو مال باندھتے تھے۔ بوٹ پہنتے تھے۔ چشمہ اور گھڑی رکھتے تھے۔ قلمدان لیتے تھے اور بیل گاڑی پر بیٹھ جاتے تھے۔ ایک دو بار انہوں نے بیل گاڑی پر کرسی رکھا دی تھی اور کرسی پر بیٹھتے تھے، لیکن ہچکولوں سے کرسی ایک دو بار گر گئی تھی۔ اس لئے صاحب اب بیل گاڑی کے ڈنڈے پر بیٹھتے ہیں۔ صاحب جب انگریزی خط پڑھنے جاتے ہوتے ہیں تو ان کے گھر کے سامنے لونڈوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ صاحب کے بھتیجے تکو میاں اور ابو میاں پھول جاتے ہیں۔ کسی کو اپنے آگے کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ ہے کوئی علاقے میں ایسا جو صاحب کی طرح انگریزی پڑھ لکھ اور بول سکتا ہو؟
ایک بار نواب اترولا کے یہاں کلکٹر آ رہا تھا۔ نواب صاحب بڑے پریشان تھے، انہوں نے صاحب کے لیے فٹن بھیجی تھی۔ اس پر صاحبوں کی طرح بیٹھ کر وہ اترولا گئے تھے اور کہتے ہیں صاحب کی انگریزی سن کر کلکٹر دنگ رہ گیا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں تھا کہ اس علاقے میں کوئی ایسی انگریزی بولتا ہو گا۔
تکو کہتا ہے، ’’اب تم لوگ کیا سمجھتے ہو؟ صاحب کو سرکاری نوکری نہیں مل سکتی؟ ارے وہ چاہیں تو نائب تحصیلدار تو ہو ہی سکتے ہیں۔ دو تین بار نواب میر امجد علی نے انہیں منیجر بنانے کی بات کی ہے، لیکن صاحب تو من موجی ہیں۔ انہیں گاؤں میں مزہ آتا ہے۔ ارے، یہ تو ہمارے نصیب ہیں کہ گاؤں میں صاحب جیسا آدمی رہ رہا ہے۔ کہاں ملے گا ایسا آدمی جو لاٹ صاحب سے بات کر سکتا ہو؟‘‘
گاؤں کے پرانے لوگوں کو یہ اب تک یاد ہے کہ صاحب چمچے سے دال کھایا کرتے تھے۔ یہ بات آس پاس کے گاؤوں میں لوگوں کو بھی پتہ چل گئی تھی اور سب کے لیے یہ ایک ان بوجھ پہیلی بن گئی تھی کہ صاحب دال چمچے سے کیوں کھاتے ہیں؟ صاحب جب آئے تھے تو انہوں نے اپنے ایک بکسے میں سے چھری، کانٹا اور چمچہ نکالا تھا۔ کانٹا اور چھری گھر والوں کے لیے ہی نہیں پورے گاؤں کے لیے نئی چیزیں تھیں اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے؟
تکو نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تھا، ’’چچا جان یہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کھانا کھانے کے لیے ہے۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
تکو کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تھا۔ وہ یہ تو جانتا تھا کہ برتن کھائے نہیں جاتے۔ کیا صاحب برتن کھاتے ہیں؟ ایسا ہے تو گھر کے سب برتن صاحب کھا جائیں گے۔
’’یہ کھاتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، اس سے کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
…اور صاحب نے چھری، کانٹے اور چمچے سے جو کھانا شروع کیا تو گھر کے باقی لوگ صرف انہیں دیکھ رہے تھے۔ سب کھانا، کھانا بھول گئے تھے۔ دھیرے دھیرے صاحب نے چھری اور کانٹے کو الگ رکھ دیا، لیکن چمچے کا استعمال کرتے رہے۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے چمچے کو خود دھوتے، پونچھتے اور سہی جگہ پر رکھ دیتے تھے۔ گاؤں میں یہ بات دھیرے دھیرے پھیلی تھی اور پھر آس پاس تک چلی گئی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ انگریز ایسا ہی کرتے ہیں۔ وہ ہاتھ سے کھانا نہیں کھاتے، کیونکہ ہاتھ کو گندا مانتے ہیں۔ مانا جاتا تھا کہ انگریز حاجت کے بعد پانی کا استعمال نہیں کرتے ہیں، کاغذ سے پونچھ لیتے ہیں، لیکن صاحب ایسا نہیں کرتے۔
صاحب کے چمچے سے زیادہ ان کے کانٹے کو دیکھ کر لوگ حیران تھے۔ کسی نے کبھی ایسی چیز نہ دیکھی تھی اور یہ تو کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس سے کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ جنہوں نے صاحب کا کانٹا نہ دیکھا تھا اور ایسے لوگوں کی بڑی تعداد تھی، انہیں بتایا جاتا تھا کہ سمجھ لو چمچ میں ببول کے بڑے بڑے کانٹے لگے ہوتے ہیں چمچے کی جگہ پر، جس سے صاحب کھانا کھاتے ہیں۔ کانٹے کیا ان کے منھ میں چبھ نہ جاتے ہوں گے؟ یا کانٹے میں کھانا کیسے آتا ہو گا؟ مان لو صاحب سالن روٹی کھا رہے ہیں تو کیا کرتے ہوں گے؟ روٹی تو پوری کی پوری کانٹے میں پھنس جاتی ہو گی۔ کیا صاحب روٹی دانت سے کاٹ کاٹ کر کھاتے ہیں؟ اور صاحب کانٹے سے سالن کیسے کھاتے ہوں گے؟ دوچار لوگ جو صاحب کے نزدیک آ گئے، ان سے کانٹا دکھانے کی فرمائش بھی کرتے تھے۔ صاحب انہیں چاندی کا بڑا سا کانٹا دکھاتے تھے، لیکن کانٹا کسی کے ہاتھ میں نہیں دیتے تھے۔
کچھ سال کے بعد صاحب کے پاس ایک خط آیا جسے پڑھ کر وہ بہت روئے۔ بتایا کہ لندن میں ان کی گھر والی کے گزر جانے کا حال خط میں لکھا ہے۔ پھر صاحب کو دھیان آیا۔ انہوں نے سب سے پوچھے کہ دیکھو جب میں مر جاؤں گا تو کیا تم لوگ لندن میرے بچوں کو خط لکھ سکو گے؟ خط انگریزی میں ہونا چاہیئے، کیونکہ میرے بچوں کو اردو نہیں آتی۔ اب تو بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ گاؤں کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے آدمی منشی جی کو بھی انگریزی میں چٹھی لکھنا نہ آتا تھا۔ وہ فارسی اردو جانتے تھے۔ آس پاس کے گاؤوں میں بھی کوئی ایسا نہ تھا۔ حد یہ ہے کہ ڈگلی پور گرجا گھر کے پادری کو بھی انگریزی میں چٹھی لکھنا نہ آتا تھا۔ شہر یہاں سے چالیس کوس پڑتا ہے۔ جہاں کا ایک آدھ وکیل انگریزی میں چٹھی لکھ سکتا ہے۔
کوئی بات نہیں۔ ایک دن بات صاحب کی سمجھ میں آ گئی۔ وہ املی کے پیڑ کے نیچے لیٹے تھے اور اوپر سے سوکھی املیاں گر رہی تھیں۔ تکو رسی بٹ رہا تھا۔ انہوں نے تکو سے کہا، ’’سنو تکو، چٹھی والی بات سمجھ میں آ گئی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ہم تمہیں چٹھی لکھ کر دے دیں گے۔ ہمارے مرنے پر ڈال دینا۔‘‘
’’ہم نے آج تک چٹھی نہیں ڈالی ہے چچا جان۔۔۔ چھٹی تو جائے گی نا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ جو ڈاکیہ آتا ہے۔۔۔ دے دینا۔۔۔ چار آنے لے گا۔۔۔ چار آنے بھی میں دیتا جاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
صاحب کھیتوں، کھلیانوں، تالابوں، ندیوں، جھیلوں اور گھاس کے میدانوں میں گھومتے رہے۔ نہ انہیں گرمی لگتی تھی اور نہ سردی۔ کوئی میلہ ٹھیلا ایسا نہ ہوتا جسے صاحب چھوڑ دیتے۔ دس دس کوس پیدل چلے جاتے اور برسات کے دنوں کی ندی تیر کر پار کر لیتے۔ ایک رات کھانا کھانے کے بعد صاحب نے تکو سے کہا، ’’پر تکو ایک بات ہے۔ خط میں میں یہ کیسے لکھ پاؤں گا کہ میں کیسے مرا؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘ تکو نے سوچنے کا سارا کام صاحب پر چھوڑ رکھا ہے۔
’’مان لو میں چٹھی میں لکھتا ہوں کہ ہیضے سے مر گیا اور مرتا ہوں بخار آنے سے، تو؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘
’’تو میں چٹھی جلدی نہ لکھوں؟ یعنی جب بیمار پڑوں تو لکھوں؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔‘‘
’’مگر مان لو میں سانپ کاٹنے سے مر گیا۔‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘
’’سانپ کاٹنے کے بعد میں چٹھی کیسے لکھوں گا؟‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے۔‘‘
’’تو میں تمہیں کئی چٹھیاں لکھ کر دے دوں گا۔۔ جس طرح مروں ویسی چٹھی ڈال دینا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مگر یہ تمہیں یاد رہے گا کہ کون سی چٹھی کس بیماری سے مرنے پر ڈالی جائے گی؟‘‘
’’یہ تو ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’ہاں، کیا کیا جائے؟‘‘
’’چلو ہر چٹھی الگ الگ آدمیوں کو دے دیں گے۔ ایک آدمی کو ایک بیماری تو یاد رہے گی۔‘‘
’’ہاں، یہ ٹھیک ہے۔‘‘
اسی سے اوپر کے ہو کر صاحب مرے، لیکن۔۔ ۔۔ گھٹنوں کے درد کی وجہ سے صاحب بستر پر پڑے تو پڑے ہی رہ گئے۔ مہینہ ہو گیا، دو مہینے ہو گئے، صاحب پڑے ہی رہے، پھر صاحب نے دوائیں بھی کھانی چھوڑ دیں۔۔۔ صاحب کو نیند نہ آنے کی شکایت ہو گئی۔ وہ نہ تو دن میں سوتے تھے، نہ رات میں۔۔۔ پھر اچانک ایک دن ابو نے سنا کہ صاحب نیند میں بڑبڑا رہے ہیں۔ وہ اٹھ کر ان کی چارپائی کے پاس گیا۔ وہ جو کچھ بڑبڑا رہے تھے وہ ابو کی سمجھ میں نہیں آیا۔ شاید صاحب انگریزی میں کچھ کہہ رہے تھے، پر صاحب سو بھی نہ رہے تھے۔ ابو نے ان سے کچھ پوچھا تو دیکھا صاحب جاگ رہے ہیں، پر انہوں نے یہ نہیں مانا کہ وہ انگریزی میں کچھ بول رہے تھے۔
دھیرے دھیرے یہ ہونے لگا کہ صاحب رات رات بھر انگریزی بولا کرتے تھے۔ کبھی لگتا تھا کہ وہ کسی پر ناراض ہیں، لڑ رہے ہیں، غصہ کر رہے ہیں۔ کبھی لگتا تھا کچھ دعا کر رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے رونی سی آواز میں کچھ گزارش کر رہے ہیں۔ کبھی لگتا کہ صاحب بڑے پیار بھرے لہجے میں ایسے بول رہے ہیں جیسے بچوں سے بولا جاتا ہے۔ ابو اور بکو ہی نہیں گھر کے سب لوگ یہی سمجھتے تھے کہ صاحب کا دماغ پلٹ گیا ہے، لیکن دن میں صاحب کی حالت ٹھیک ہو جاتی تھی۔ ٹھیک ٹھاک بات چیت کرنے لگتے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ گٹھیا کا روگ موسم بدلتے ہی ٹھیک ہو جائے گا اور وہ آرام سے چل پھر سکیں گے، لیکن گرمیاں آئیں، پھر برسات آئی اور پھر جاڑا آیا پر صاحب چل پھر نہ سکے۔ ان کا وزن بھی تیزی سے گھٹتا چلا گیا اور اسی تیزی سے رات میں ان کا انگریزی میں بڑبڑانا بھی بڑھتا چلا گیا۔
ایک رات صاحب کچھ نام لے لے کر آواز دیتے رہے، لیکن وہ لوگ کون ہیں، کہاں ہیں، یہ کسی کو معلوم نہ تھا، گاؤں کے بڑے بزرگوں نے صرف اندازہ لگایا کہ صاحب اپنے بیٹے بیٹی اور گھر والی کو ہی آوازیں دے رہے ہیں۔ ان کے پکارنے کے جواب میں اگر تکو یا ابو بول دیتے تو صاحب چپ ہو جاتے تھے، پھر اچانک صاحب ایک رات چیخنے چلّانے اور رونے لگے۔ ان کی سانس بھی اکھڑنے لگی۔ منھ سے آواز نکلنی بند ہو گئی اور صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
صاحب کے مرنے کی چٹھی لندن نہیں بھیجی جا سکی، کیونکہ صاحب نے جتنی چٹھیاں لکھوائی تھیں اور ان چٹھیوں میں مرنے کی وجہیں لکھوائی تھی، ان سے صاحب نہ مرے تھے۔ نہ تو صاحب کو جاڑا لگ کر تیز بخار آیا تھا، نہ ہیضہ ہوا تھا، نہ چیچک ہوئی تھی، نہ سانپ کے کاٹے سے مرے تھے اور نہ کسی تالاب میں ڈوب کر مرے تھے، نہ گھر میں آگ لگنے سے، نہ ڈاکوؤں نے انہیں قتل کیا تھا۔
صاحب کے نام ولایت سے جو خط آیا کرتے تھے۔ لگاتار اپنے حساب سے یعنی تین چار مہینے میں ایک خط آتا رہا۔ اس کو پڑھتا کون اور جواب کون دیتا؟ اس لئے تکو خطوں کو صاحب کے کالے بکسے میں ڈال دیتا تھا۔ ہوتے ہوتے دو سال ہو گئے۔ صاحب کے پانچ خط آئے تھے۔
ایک دن گاؤں میں سننے کو ملا کہ کلٹر صاحب علاقے کے دورے پر آ رہے ہیں اور وہ گاؤں بھی آئیں گے۔ گاؤں میں آ کر وہ صاحب کے بارے میں تحقیقات کریں گے۔ یہ سنتے ہی تکو اور ابو کو دست لگ گیا تھا۔ دونوں کے چہرے پیلے پڑ گئے تھے۔ گاؤں میں طرح طرح کی باتیں پھیل گئی تھیں۔ کوئی کہتا تھا کہ صاحب اپنی موت نہیں مرے ہیں۔ تکو اور ابو نے ان کے سامان پر قبضہ جمانے کے لیے ان کا گلا دبایا تھا۔ کوئی کہتا تھا کہ تکو اور ابو نے صاحب کی آخری وصیت، کہ ان کی لاش گاؤں میں ہی دفن کی جائے، پوری نہیں کی ہے اور اس بات کا پتہ کلٹر صاحب کو چل گیا ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ صاحب کلٹر صاحب کے خواب میں آئے تھے اور انہوں نے تکو اور ابو کے بارے میں انگریزی میں شکایت کی تھی۔ کچھ لوگ بتاتے تھے کہ صاحب کی انگریزن نے انگریزی میں لکھ کر ایک شکایت شہنشاہِ انگلستان کو دی تھی۔ یہ شکایت لندن دربار سے سات سمندر پار ہندوستان آ گئی ہے۔ اسی پر کار روائی کرنے کلٹر صاحب آ رہے ہیں۔
بہرحال، جتنے منھ تھے، اتنی ہی باتیں تھیں۔ تکو اور ابو پر محرم آ گیا تھا۔ چولھا تک نہ جلتا تھا اور عورتیں سوگ منایے بیٹھی تھیں۔ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ تکو اور ابو کی زمینیں قرق ہو جائیں گی اور دونوں کو پھانسی پر چڑھا دیا جائے گا۔ کوئی کہتا تھا کہ کم سے کم کالا پانی تو بھیج ہی دیا جائے گا۔ تکو ابو نے کھانا پینا چھوڑ دیا تھا۔ دن بھر نیم کے پیڑ کے نیچے پڑے آپس میں پتہ نہیں کیا کیا باتیں کیا کرتے تھے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے انہیں سمجھاتے تھے کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے اور جارج پنچم کے دربار میں ایسی نا انصافی نہیں ہو سکتی۔ پورا گاؤں گواہی دے گا کہ صاحب اپنے آپ مرے ہیں۔
کلٹر صاحب کی موٹر کے لیے کچا راستہ بننے لگا تھا اور پٹواری نے گاؤں کے کھاتے میں بیس بیگاری لکھ دئیے تھے۔ تو بیس بیگاری جایا کرتے تھے۔ ایک مہینے میں راستہ تیار ہوا تھا۔ نواب حیدر خاں کے آم کے باغ میں بڑا سا شامیانہ لگا تھا جہاں کلٹر صاب کو دربار کرنا تھا۔ شامیانے کے پیچھے کلٹر صاب کے رہنے کے لیے پھوس کا بنگلہ بھی تیار ہو گیا تھا۔ اس کے پیچھے ڈپٹی کلٹروں، تحصیل داروں، نائبوں اور دوسرے عملے کے لیے چھوٹے بڑے حسبِ حیثیت بنگلے تیار کیے گئے تھے۔ پیچھے اردلیوں، گماشتوں، نوکروں کے لیے جھونپڑیاں ڈالی گئی تھیں۔ پولس کے لیے الگ انتظام تھا۔ میرٹھ سے گیس بتیاں، چور بتیاں، میز کرسیاں منگوائی گئی تھیں۔ کلٹر صاحب کے آنے سے پہلے ہی پورا عملہ آ گیا تھا۔ دھوبی، بھشتی، نائی، باورچی، خانساماں سب جمع ہو گئے تھے۔ پورے علاقے کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ زور سے سانس بھی لے سکے۔
کلٹر صاحب نے دربار کیا۔ آخری دن تکو اور ابو کی پیشی ہوئی۔ یہ دونوں صاحب کا ایک ایک سامان لیے حاضر تھے۔ یہاں تک کہ صاحب کا تکیہ، دری اور چادر تک لے گئے تھے۔ صاحب کے کاغذ پتر بھی ان کے ساتھ تھے۔ کلکٹر صاحب نے ان خطوں کو کھولا جو صاحب کے مرنے کے بعد آئے تھے۔ انہیں پڑھا، تکو ابو نے صاحب سے پہلے کوئی انگریز نہ دیکھا تھا۔ وہ دونوں صاحب کا لال چہرہ اور بھورے بال دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے تھے۔ دونوں پتے کی طرح کانپ رہے تھے اور ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ ان کے حلق اور زبانیں سوکھ گئی تھیں اور کچھ پوچھا جاتا تو بول نہ سکتے تھے۔
کلٹر صاحب کو وہ خط بھی دئیے گئے جو صاحب نے اس بابت لکھ کر دئیے تھے کہ اگر ان کی موت اس طرح سے ہو تو ‘یہ’ خط ڈالا جائے اور اس طرح سے ہو تو ‘وہ’ خط ڈالا جائے۔ کلٹر صاحب نے ان خطوں کو بھی پڑھا۔ ڈپٹی صاحب سے انگریزی میں بات چیت کی اور حکم دیا کہ تکو ابو جا سکتے ہیں۔ دونوں کس طرح گھر آئے تھے، یہ انہیں معلوم نہیں، پر دونوں کو تیز بخار آ گیا تھا اور عورتیں رات دن ان کے جسم پر پیپل کے پتے پھیرا کرتی تھیں۔ حکیم شفیع اللہ کی دو خوراکیں روز دی جاتی تھیں۔ اللہ اللہ کر کے پندرہ دن میں بخار اترا تھا۔ صاحب کا سامان انہیں لوگوں کو دے دیا گیا تھا، پر یہ دونوں اسے نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کرتے تھے۔ قسمت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ صاحب کا بھتیجا تکو کا لڑکا جاوید پڑھائی لکھائی میں تیز نکلا اور گاؤں، قصبے اور شہر کی پڑھائی پوری کرنے کے بعد دلی کے سینٹ سٹیفنس کالج میں داخل ہو گیا۔ تکو اور ابو ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کو یہ یقین تھا کہ جاوید بیرسٹر بنے گا اور پھر قسمت نے زور مارا۔ جاوید کالج میں اول آیا اور اسے ولایت جا کر پڑھائی کرنے کا وظیفہ مل گیا۔ ولایت جانے سے پہلے وہ گاؤں آیا۔ اس نے صاحب کا وہ بڑا سا بکسا کھولا جس میں وہ اپنے خط رکھتے تھے۔ صاحب کو مرے بیس سال ہو چکے تھے، لیکن بکسے میں ان کی ایک ایک چیز قرینے سے رکھی تھی۔ جاوید نے صاحب کے پاس لندن سے آئے خطوں کو پڑھا اور کئی پتے نوٹ کیے۔
جاوید کو پانی کے جہاز پر بٹھانے بمبئی تک کئی لوگ گئے تھے۔ وہ قحط کا سال تھا اور ستمبر کا مہینہ تھا۔ جاوید کو لندن بھیجنے کے لیے اس کی ماں تیار نہیں تھی اور کہتی تھی کہ جاوید کو لندن بھیجا تو میں سانپ کے بل میں ہاتھ ڈال دوں گی یا سنکھیا کھا کے سو جاؤں گی، لیکن جاوید جانتا تھا کہ اس کا لندن جانا کتنا ضروری ہے۔ اس نے ماں کو سمجھا لیا تھا پر ماں کو یہ معلوم تھا کہ لندن میں گوری عورتیں مردوں کو پھنسا لیتی ہیں، اس لئے ماں کے زور ڈالنے پر لندن جانے سے پہلے جاوید کا نکاح بھی کر دیا گیا تھا۔
جاوید کے لندن جانے کے کوئی دو مہینے بعد اس کا ایک خط آیا تھا جس میں لکھا تھا کہ وہ صاحب کے گھر گیا تھا۔ صاحب کے لڑکے رابرٹ سے ملا تھا اور صاحب کی لڑکی وکٹوریہ نے بھی اس کی اچھی خاطر مدارات کی تھی۔ وہ دونوں اپنے باپ یعنی صاحب کو یاد کر کے بہت دکھی ہو گئے تھے کہ پتہ نہیں ہندوستان کے گاؤں میں صاحب کی زندگی کیسے کٹی ہو گی؟ لیکن جاوید نے جب سب کچھ انہیں تفصیل سے بتایا تو ان کو کچھ چین آیا تھا۔ جاوید نے یہ بھی لکھا تھا کہ یہ لوگ صاحب کا سامان، ان کے کاغذ پتر مانگ رہے ہیں اور چاہتے تھے کہ پارسل کے ذریعے صاحب کا پورا بکسا لندن بھیج دیا جائے۔ تکو میاں نے صاحب کا بکسا سہارنپور کے مختارِ عام بابو جانکی پرساد مصرا کے ذریعے لندن بھجوا دیا تھا، جس پر اکیس روپے تیرہ آنے خرچ آیا تھا۔ یہ بھی بڑی بات تھی کہ تکو میاں نے بکسا بھجوانے پر اتنا زیادہ پیسہ خرچ کر دیا تھا۔
٭٭٭

3

یہ تو ہوئی جگ بیتی۔ اب میں آپ کو آپ بیتی سناتا ہوں۔ اوپر والے واقعے میں، اگر کوئی لاگ لپیٹ ہے تو اس کی ذمے داری سنانے والے پر ہے۔ اب جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں وہ میرے اپنے ساتھ ہوا ہے اور جو ہوا ہے وہ سب سچ سچ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
جب ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو میری عمر چودہ سال تھی۔ میرا خاندان بلند شہر ضلعے کے ڈبائی قصبے میں رہتا تھا۔ اس قصبے کی ایک گلی کو سید واڑا کہا جاتا ہے۔ وہیں ہم لوگ رہتے تھے۔ چاروں طرف مار کاٹ مچی تھی۔ ہمارے قصبے اور شہر میں کچھ نہ تھا، لیکن لوگوں کے دماغوں کے اندر اتھل پتھل چل رہی تھی۔ اچانک ایک دن میرٹھ سے میرے ماموں آئے اور بتایا کہ پورا خاندان پاکستان جا رہا ہے۔ دلی سے سپیشل ٹرین چل رہی ہے جسے ملٹری والوں کی حفاظت میں بھیجا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے گئی ٹرینوں میں بڑی مار کاٹ ہوئی تھی، لیکن اس ٹرین کے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔ ماموں نے کہا کہ بڑی مشکل سے میں نے اس ٹرین کے دس ٹکٹ حاصل کر لئے ہیں، اگر تم لوگ چلنا چاہو تو چلو۔ ہمارے ابا اور امّاں نے سوچا کہ پورا خاندان ہی جا رہا ہے تو ہم لوگ یہاں رہ کر کیا کریں گے؟ ہم نے بھی بستر باندھ لیا۔ ڈبائی میں ہم لوگوں کے ساتھ ہی رشتہ کے ایک چچا رہتے تھے۔ ان کے حوالے گھر کیا اور ہم لوگ ضروری سمان لے کر صبح تڑکے دو اکوں پر سوار ہو کر اس طرح نکلے کہ ہمارے جانے کی کسی کو خبر نہ ہو۔
اکوں سے ہم علیگڑھ آئے۔ وہاں سے دلی پہنچے۔ دلی کے پاس فرید آباد ریلوے اسٹیشن سے سپیشل چھوٹنی تھی۔ ہم وہاں گئے۔ میری ماں نے میری بنیان میں پانچ ہزار روپے سی دئیے تھے۔ چھوٹے بھائی کے کپڑوں کے ساتھ بھی پیسے سیے تھے۔ ابا کی شیروانی کے استر میں پیسے سیے گئے تھے۔
اسٹیشن پر ٹرین آئی تو عجیب سی لگی۔ ہر چار پانچ ڈبوں کے بیچ ایک کھلی ہوئی بو گی لگی تھی جس میں آرمی والے ریت کے بورے لگائے، چھوٹی چھوٹی بیرکوں میں تعینات تھے۔ گارڈ کے ڈبے کے پیچھے بھی ایک آرمی کا مورچہ جیسا ڈبہ تھا اور انجن کے آگے بھی ایک اسی طرح کا ڈبہ لگایا گیا تھا۔ سواری ڈبوں کی کھڑکیوں پر لکڑی کے تختے جڑے ہوئے تھے۔
ڈبے میں چھپن لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ تھی لیکن اس میں ایک سو چھپن لوگ بیٹھے تھے۔ یہ بتا دیا گیا تھا کہ گاڑی پاکستان آنے سے پہلے نہیں رکے گی، اس لئے جتنا جو انتظام کر سکتا ہے، کر کے بیٹھے۔ بے حساب سامان لے جانے کی اجازت نہیں تھی۔ جو لوگ فالتو سامان لے جانا چاہتے تھے، انہیں چھوڑ دئیے جانے کی دھمکی دی جاتی تھی۔
ٹرین روانہ ہوئی۔ کب رات ہو گئی پتہ ہی نہیں چلا۔ جو لوگ کھڑکیوں کے پاس بیٹھے تھے، وہ جھریوں سے آنکھیں لگائے کچھ دیکھ کر بتا دیتے تھے۔ اکثر اسٹیشنوں کے نام سننے میں آ جاتے تھے لیکن گاڑی وہاں رکتی نہیں تھی۔ کچھ دیر بعد، آدھی رات کے آس پاس گاڑی رک گئی۔ ملیٹری والوں نے ٹرین کے دونوں طرف مورچے لگا لئے۔ آس پاس میں اچانک تیز روشنی دکھائی پڑی اور گولیاں چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ لوگوں نے بتایا کہ آرمی والے فسادیوں کو بھگا رہے ہیں۔ پانچ چھ گھنٹے گاڑی وہیں کھڑی رہی۔ اجالا ہو گیا تو پتہ چلا کہ انجن یہ دیکھنے کے لیے آگے چلا گیا ہے کہ ریل کی پٹریاں تو اکھڑی ہوئی نہیں ہیں؟ انجن واپس آیا۔ ٹرین میں پھر لگا اور ٹرین چلی، لیکن رفتار بہت ہی دھیمی تھی۔ جیسے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہو۔
ڈبے کے اندر اٹھنے کی تو چھوڑیئے، پہلو بدلنے کی بھی جگہ نہ تھی۔ شروع شروع میں تو کافی چیخ پکار تھی لیکن پھر اس طرح سناٹا چھا گیا جیسے کوئی زندہ ہی نہ ہو۔ دلی سے لاہور تک کا سفر اڑتالیس گھنٹے میں طے ہوا تھا۔
اب جو کچھ میری زندگی میں ہو رہا تھا، سپنا تھا۔ رات میں مجھے ڈبائی کے سپنے آتے تھے۔ میں لاکھ چاہتا تھا کہ رات میں ڈبائی کے سپنے نہ آئیں، لیکن یہ نا ممکن تھا۔ سالوں گزر چکے تھے لاہور آئے۔ شادی ہو گئی تھی۔ بچہ ہو گئے تھے لیکن ڈبائی کے سپنے آنا بند نہیں ہوئے۔ میں کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے بیوی کو سمجھا دیا تھا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، مجھے ڈراؤنے خواب دکھائی دیتے ہیں۔ وہ بچاری میری بات کو سچ سمجھی تھی اور مجھ سے ہمدردی رکھنے لگی تھی۔
سال پر سال گزرتے رہے۔ یہاں تک کہ میں بوڑھا ہونے لگا۔ مطلب ساٹھ کے اوپر کا ہو گیا، لیکن مجھے یہی لگتا تھا کہ میں ڈبائی میں رہ رہا ہوں۔ یہ وہی گلی ہے۔ اسی گلی میں شیعوں کی مسجد ہے۔ آگے چل کر پنڈت رام آسرے کا گھر ہے۔ لاہور کی کسی گلی سے گزرتے ہوئے مجھے پنڈت رام آسرے کی آواز سنائی پڑ جاتی۔
میں کانپنے لگتا ہوں۔ یار، یہ کیا ہے؟ مجھے چامنڈا کے مندر کے اوپر پیپل کے اونچے اونچے پیڑوں کے پتوں کے کھڑکھڑانے کی آواز سنائی دیتی ہے اور پھر کسی شاخ سے کوئی بندر دھم سے مندر کی چھت پر کودتا ہے اور میرا کلیجہ دہل جاتا ہے۔ یا اللہ، میں کیا کروں؟
دن میں تو میں پھر بھی کسی طرح اپنے کو قابو میں رکھتا، لیکن رات ہوتے ہی، اور سوتے ہی، میں کچھ نہیں کر سکتا۔ ایک پرانی فلم چلنے لگتی ہے، جس میں روز نیا ہوتا ہے۔ آج سئیا کے پل پر ہم لوگ آم کھا رہے ہیں۔ مہیش گٹھلیاں پانی میں پھینک رہا ہے۔ پتہ نہیں کیسے وہ نالے میں گر پڑا۔ ہم سب نے اسے نالے سے نکالا۔ چامنڈا سے باہر نکلے تو تیز لو چل رہی ہے اور ایسی گرمی تھی جس میں چیل تک انڈا چھوڑ دیتی ہے۔ ہم چار دوست کربلا تک آئے اور گیٹ کے نیچے بیٹھ کر گوٹیاں کھیلنے لگے۔ آج مہیش بہت ہارا۔ وہ رونے لگا تو میں نے اسے گڑ دے دیا، جو میں اماں سے چھپا کر اپنی جیب میں رکھ کر لایا تھا۔
روز رات کو ایک پرانا خواب نئی طرح سے دکھائی دیتا ہے۔
ستر سال پار کر جانے کے بعد بھی سب کچھ ایسا ہی رہا تو مجھے خیال آیا یہ پورا جنم تو ‘اس’ سنسار میں بتا لیا۔ اب دوسرا جنم جانے کہاں ہو گا تو کیوں نہ وہ جگہ دیکھی جائے جہاں جیون بھر رہا ہوں۔ لاہور میں تو میں رہا ہی نہیں۔
حساب کتاب دیکھا، پیسہ ویسا تو ٹھیک ہی ہے۔ دونوں بچہ پڑھ لکھ گئے ہیں۔ شادیاں ہو گئی ہیں، بچہ ہو گئے ہیں۔ پوری طرح سیٹل ہیں، لیکن میں ‘سیٹل’ نہیں ہوں۔ تو میں اپنے کو ‘سیٹل’ کرنے کا کام شروع کر سکتا ہوں۔
بھارت کے ویزا کے لیے اپلائی کیا۔ وجہ بتانے والے کالم میں لکھا ‘اپنے کو سیٹیل’ کرنا۔ اس پر ویزا آفیسر بہت ہنسا۔ بولا، ’’جناب۔۔۔ سمجھ میں آنے والی وجہ لکھیے۔ بزنس کرنا، شادی میں جانا ہے، کوئی غمی ہو گئی ہے۔ وغیرہ۔۔۔ وغیرہ۔۔۔؟‘‘
میں نے لکھا، ‘کیا غمی ہو سکتی ہے؟’ وہ پھر چڑھ گیا اور مجھ سے پوچھے بغیر لکھ دیا ‘غمی ہو گئی ہے۔’
رات اپنے بیڈ روم میں لیٹ کر میں دیر تک بھارت کے ویزے کو دیکھتا رہا اور ڈرتا رہا۔ ایک عجیب طرح کا ڈر جسے بتایا نہیں جا سکتا۔ بھارت کے ساتھ لڑائیاں، بھارت کے خلاف نفرت بھرا ‘پروپیگینڈا’۔ بھارت میں ہندو مسلم فسادات۔۔۔ سب کچھ آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا، لیکن پھر خیال آیا میں بھارت کہاں جا رہا ہوں، میں تو ڈبائی جا رہا ہوں جسے میں سوتے میں اب بھی دیکھتا رہتا ہوں، جہاں کی آوازیں مجھے چاہے انچاہے سنائی دیتی رہتی ہیں۔ چامنڈا کے مندر کے برابر پیپل کے پیڑ پر بندروں کی کیں۔کیں۔ میرے کانوں میں کہیں بھی گونج جاتی ہے، لیکن ڈبائی جانے کے لیے بھارت جانا پڑے گا۔ بھارت میں مجھے کوئی پکڑ نہ لے؟ مجھ پر پاکستانی جاسوس ہونے کا الزام تو لگایا ہی جا سکتا ہے۔ مجھے مسلمان سمجھ کر بھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ ہندو مسلم فساد ہو گیا تو میں بھاگ بھی نہ پاؤں گا۔ جس جس ہندو کو پتہ چلے گا کہ میں پاکستانی ہوں وہ نفرت سے میری طرف دیکھے گا۔ میں بڑھاپے میں یہ سب برداشت کر پاؤں گا؟ اگر نہیں تو پھر میں کیوں جا رہا ہوں؟ تو کیا نہ جاؤں؟۔۔۔ کسی نے سر پر ایک بھاری پتھر مار دیا ہو۔ چامنڈا کے مندر کی چھت پر بندر کودنے لگے۔ آم کے باغ میں کنجڑوں کا کٹہرا چیخنے لگا۔۔۔ میں جاؤں گا۔۔ ضرور جاؤں گا۔۔۔ کیوں کوئی مجھے مارے گا؟ کیا میرے چہرے پر لکھا ہے کہ میں مسلمان ہوں؟ میں داڑھی نہیں رکھتا، میرے ماتھے پر سجدے کا گٹا نہیں ہے۔ میں کٹر مسلمانوں والے کپڑے نہیں پہنتا۔۔۔ کوئی مجھے کیوں پہچانے گا کہ میں مسلمان ہوں؟
اتنے سالوں کے اتار چڑھاؤ کے بعد اب بھارت میں میں صرف ساجد رحمٰن کو ہی جانتا ہوں۔ وہ میری رشتہ کی ایک بہن کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے اور علیگڑھ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے۔ میں نے اسے اپنے بھارت آنے کا پروگرام لکھا اور اس کا جواب آیا کہ وہ مجھے لینے ایئرپورٹ آئے گا اور میں جہاں جہاں جانا چاہتا ہوں، وہاں وہاں لے جائے گا۔ میں نے اسے جواب دیا تھا کہ میں صرف ڈبائی جانا چاہتا ہوں، اور کہیں نہیں جانا چاہتا۔ صرف ایک دن ڈبائی میں گزار کر واپس چلا آؤں گا۔ ڈبائی میں اس لئے نہیں رکنا چاہتا کہ وہاں رہوں گا کہاں؟
دلی ہوائی اڈے پر اترتے ہی مجھے اچانک لگنے لگا تھا کہ میں ہوشیار ہو گیا ہوں۔ میں ہر کام اپنے پورے ہوش و حواس میں کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یہ نہیں کہ کوئی میرے اوپر نگاہ رکھ رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ میں کسی بھی غلطی پر پکڑا جا سکتا ہوں پر یہ ضرور ہے کہ مجھے ہوشیار رہنا چاہیئے۔ میں امیگریشن کی لائن میں بڑے ادب سے کھڑا ہوا۔ ایک دو لوگ میرے آگے آ کر کھڑے ہو گئے تھے، لیکن میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ جب میرا نمبر آیا تو میرا دل دھڑک رہا تھا، لیکن میں چہرے پر پوری سنجیدگی اور یقین کے جذبات لئے ہوئے تھا، پھر مجھے لگا کہ یہ جذبہ کہیں میرے اندر کے ڈر کو نہ ظاہر کر دیں۔ اس لئے میں مسکرانے لگا، پر اندر سے کانپ رہا تھا۔ مجھے لگتا ضرور کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہو جائے گی اور مجھے واپس لوٹایا جا سکتا ہے، لیکن جب میری باری آئی اور سکھ پولس افسر نے میرا پاسپورٹ اور کاغذ ہاتھ سے لیے تو میری جان ہی نکل گئی۔ سکھ، سنا تھا، مسلمانوں سے بہت نفرت کرتے ہیں۔ انہیں دنگوں وغیرہ میں بہت مارا گیا تھا۔ قتلِ عام کیا گیا تھا۔ میں بالکل خاموش کھڑا رہا، سکھ افسر نے میرے کاغذ دیکھ کر ٹھپے لگائے۔ قاعدے سے مجھے آگے بڑھ جانا چاہیئے تھا، لیکن میں کچھ سیکنڈ کے لیے وہاں کھڑا کا کھڑا رہ گیا، پھر خیال آیا کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ یہ تو پہلے اپنے آپ کو ‘گلٹی’ ثابت کرنے جیسا کام ہے۔ میں تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
دلی ہوائی اڈے کے باہر مجھے ساجد مل گیا۔ اس کے ساتھ ایک صاحب اور ملے جن کا تعارف یہ کہہ کر کرایا گیا کہ یہ ڈاکٹر شرما ہیں اور ہندی کے لیکچرر ہیں۔ میں کچھ پس و پیش میں پڑ گیا لیکن جلدی ہی یہ بات میری سمجھ میں آ گئی کہ ساجد نے بڑی عقلمندی کا کام کیا ہے۔
ہوٹل میں سامان وامان رکھنے کے بعد ساجد نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور ایک بہت بڑی غلطی کا پتہ چلا۔ میں نے دلی اور علی گڑھ کا ویزا لیا تھا۔ ساجد نے بتایا کہ ڈبائی تو بلند شہر ضلعے میں ہے اور مجھے بلند شہر کا ویزا لینا چاہیئے تھا۔ میرے ہاتھوں کے تو طوطے ہی اڑ گئے۔ یا اللہ یہ میں نے کیا کر ڈالا! میں یہ کیوں سمجھے بیٹھا تھا کہ ڈبائی علی گڑھ ضلعے میں ہے؟ وجہ یہ رہی ہو گی کہ ہم لوگ علی گڑھ ہوتے ہوئے ہی ڈبائی سے لکھنؤ آیا جایا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ میں ڈبائی کو علی گڑھ ضلعے میں سمجھ بیٹھا تھا۔
’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے ساجد سے پوچھا۔
صورت حال پتہ چلی کہ اب دلی میں نیا ویزا لگنا تو قریب قریب نا ممکن ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بلند شہر کا ویزا لگوانے اسلام آباد جاؤں؟ راستہ یہ ہے کہ میں۔۔۔ کانپ گیا اور بے ساختہ نہیں نہیں کہنے لگا۔ ستر سال کی عمر میں، ایک اچھی خاصی حیثیت کا آدمی ہونے کے بعد اپنے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑا دیکھ کر گھبرا گیا۔
’’یہ میں نہیں کروں گا۔‘‘
’’انکل جی۔۔۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے؟‘‘ ڈاکٹر شرما بولے اور میں حیرت سے ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ان کے چہرے پر بھروسہ اور دوستی تھی۔ یہ دونوں مجھے سمجھاتے رہے کہ کچھ نہ ہو گا، لیکن میری پریشانی کم نہیں ہوئی۔ میں نہ تو نہیں کہہ سکتا تھا اور نہ ہاں۔
’’انکل آپ کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ آپ پاکستانی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر شرما نے کہا۔
’’میں تو کہہ ہی رہا ہوں کہ چلئے۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’میں سب سنبھال لوں گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ پچاس سال بعد اپنا گاؤں دیکھنے آئے ہیں اور بنا دیکھے چلے جائیں؟‘‘
میں ٹکر ٹکر شرما کی طرف دیکھنے لگا۔ جیسے طوطا جال میں پھنسنے کے بعد چڑی مار کو دیکھتا ہے۔
’’آپ کو کچھ نہ ہو گا۔‘‘
’’دیکھو بیٹا، میرے دل کے دو آپریشن ہو چکے ہیں۔‘‘
’’سر میں آپ سے کیسے کہوں کہ کچھ نہ ہو گا۔۔۔ میرے ماما لکھنؤ میں ڈی۔آئی۔ جی ہیں۔ میرے پتا جی رٹائرڈ چیف انجینئر ہیں۔۔۔ میرا بھائی آئی۔ آر۔ ایس میں ہے۔ آپ بھی انکل۔۔ ۔۔‘‘ شرما نے پورے یقین سے کہا۔
طے یہ پایا کہ میں آرام کروں، پھر تھانے جا کر رپورٹ کروں۔ اپنے کو ‘کمپوز’ کروں۔ لاہور فون کر کے بیگم صاحبہ سے بات کر لوں اور پھر سو جاؤں۔
سب کچھ میرے لیے نیا ہے۔ پچاس سال پہلے کی یادیں ختم ہو چکی ہیں۔ راستے، عمارتیں، پیڑ پودے، پل اور ندی نالے، سب نئے لگتے ہیں۔
میں گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ساجد اور شرما کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر ایک با وردی سپاہی بیٹھا ہے۔ یہ شرما جی کا کمال ہے۔ انہوں نے میرا بھروسہ بڑھانے کے لیے اس سپاہی کا انتظام کیا ہے۔ اب ہم پولس کی حفاظت میں ہیں۔ ہمیں کون روک سکتا ہے؟ اگر پولس نے روکا بھی تو پولس کا سپاہی ڈی۔ آئی۔ جی۔ آر۔ کے۔ شرما کا نام لے گا اور ہم آگے بڑھ جائیں گے۔
گاڑی ہچکولے کھاتی گزر رہی تھی۔ میں سب کچھ اس طرح دیکھ رہا تھا کہ زندگی میں دوبارہ یہ سب نہ دیکھ پاؤں گا۔
’’اب ہم ڈبائی آ گئے ہیں۔‘‘ شرما نے کہا۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ یہ تو نہیں ہے۔ ایک کچی سڑک بڑے نیلے تالاب کے پاس سے مڑتی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف دیسی آم کے بڑے بڑے پیڑ تھے۔ آگے تھانہ تھا۔ کھپریل کی عمارت کے سامنے پیپل کا پیڑ تھا۔ اس کے تنے کے پاس ایک چھوٹی سی مورتی رکھی رہتی تھی۔ بائیں طرف داروغہ جی کی گھوڑی بندھی رہتی تھی، جسے کبھی کسی نے کہیں اور نہ دیکھا تھا۔ داروغہ جی جب نکلتے تھے تو بڑی شان سے لکھنؤ کا کرتا چوڑی دار پاجامہ پہنتے اور ٹوپی لگاتے تھے۔ ان کے پیچھے پوری وردی میں دو سپاہی ہاتھ باندھے چلا کرتے تھے۔ داروغہ جی کو وردی میں شاید ہی کسی نے دیکھا ہو۔ داروغہ جی ٹھاکر رام سنگھ کی حویلی تک آتے تھے اور کچھ دیر بیٹھ کر لوٹ جاتے تھے۔ تھانے کے بعد اسی سڑک پر سرکاری اسپتال تھا۔ وہ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔
’’یہ ڈبائی ہے؟‘‘ میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں انکل، یہ ڈبائی ہے۔‘‘
’’وہ پکا تالاب کہاں ہے؟‘‘
’’سامنے آپ دکانیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ان کے پیچھے چھپ گیا ہے۔ ویسے بھی اب تالاب میں کم ہی پانی ہے۔ پچھلے سال یہاں بارش نہیں ہوئی ہے۔۔ سوکھا پڑا ہے۔‘‘
ایک جگہ گاڑی روک دی گئی۔ سپاہی اور ڈرائیور کو گاڑی کے پاس چھوڑ دیا گیا اور ہم لوگ آگے بڑھے۔ اب ہم پرانے قصبے کی طرف جانے لگے۔
’’انکل، یہاں کس محلے میں آپ کا گھر تھا؟‘‘ شرما نے پوچھا۔
’’سید باڑا۔‘‘
ہم پوچھتے پوچھتے سید باڑا آ گئے۔
’’یہی ہے وہ محلہ؟‘‘ ساجد نے پوچھا۔
میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کچھ پتہ نہیں چلا کیونکہ پرانی نشانیاں غائب ہو چکی تھیں۔
’’پتہ نہیں۔‘‘ میں دھیرے سے بولا اور اپنے آپ پر شرم آنے لگی۔ ساجد نے آگے بڑھ کر دو ایک لوگوں سے پوچھا اور سب نے یہی بتایا کہ یہی سید باڑا ہے۔ ایک پتلی سی گلی کے دونوں طرف مکان بنے تھے۔ اب یہ طے ہو گیا کہ سید باڑا یہی ہے۔ میں اس گلی میں ان دو لوگوں کے ساتھ اپنا مکان تلاش کرنے لگا۔ میرے دل میں ایک ایسی ہلچل، ایسا طوفان اور ایسی بے چینی تھی جسے بتایا نہیں جا سکتا۔ لگتا تھا کہ مجھے اپنے اوپر قابو ہی نہیں ہے۔ پوری گلی دیکھ ڈالی پر مجھے اپنا مکان نہیں ملا۔ جہاں میں پیدا ہوا تھا۔ جہاں بچپن اور لڑکپن بیتا تھا۔
’’انکل اور کوئی نشانی یاد ہے؟‘‘ شرما نے پوچھا جب ہم تینوں مایوس ایک جگہ کھڑے تھے۔
’’گلی میں شیعوں کی مسجد تھی۔۔۔ گھر مسجد سے آٹھواں مکان تھا۔‘‘ میں نے کہا۔ شیعوں کی مسجد جلدی ہی مل گئی۔
’’یہ وہی مسجد ہے۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’ہاں، وہی ہے۔‘‘ میں نے خود اپنی آواز کو کانپتے محسوس کیا۔ مسجد کا لوہے کی سلاخوں والا دروازہ بند تھا۔ پوچھا تو بتایا گیا کہ سامنے والے گھر میں چابی ہے۔ ساجد چابی لے آئے۔ تالا کھولا گیا۔ ہم مسجد میں آ گئے۔ مجھے پہلی بار لگا کہ میں ڈبائی میں ہوں۔ یہ لوگ مجھ سے کچھ کہہ یا پوچھ رہے تھے لیکن مجھے سنائی نہیں دے رہا تھا۔
جاڑے کی سرد رات تیز ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ آدھی رات اولے پڑے ہیں لیکن دادی فجر کی نماز کے لیے چار بجے اٹھ گئی ہیں۔
’’شجو۔۔۔ اے شجو۔۔۔ اٹھو۔۔۔ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘ میں بستر پر بے خبر سو رہا ہوں۔
’’شاکر۔۔۔ نے تو کہا تھا کہ۔۔۔ مسجد میں اذان دینی ہے۔ اٹھو۔۔ ۔۔‘‘
میں بستر پر کسمسا رہا ہوں۔
گلی میں سرد ہوا کے تیز جھونکے۔۔۔ لحاف اوڑھے ہوں۔۔مسجد کے ٹھنڈے پانی سے وضو کر رہا ہوں۔
’’اللہ اکبر۔۔ ۔۔‘‘ ٹھٹھری ہوئی آواز کہاں تک پہنچ رہی ہو گی مجھے بھی نہیں معلوم۔
’’یہ مسجد وہی ہے۔‘‘ شرما نے پوچھا۔
’’وہی ہے۔‘‘ میں نے کئی بار پوچھنے پر جواب دیا۔
’’لیکن۔۔۔ وہ حوض کہاں ہے جہاں پانی ہوتا تھا؟‘‘ آس پاس کے لوگ آ گئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں جب سے نل لگا ہے، حوض بند کرا دیا گیا ہے۔
’’…اور یہ لوہے کا دروازہ؟‘‘
’’ہاں پہلے لکڑی کا تھا۔۔۔ ہر دو چار سال بعد بدلنا پڑتا تھا۔‘‘
مسجد کے صحن سے آسمان کا اتنا ہی ٹکڑا دکھائی دیتا ہے۔ اب بھی مسجد اسی طرح سفید چونے سے پوتی جاتی ہے جیسے اس زمانے میں۔ یہ در، یہ دیواریں، اوپر کی چھت، میناریں اور منبر۔ میں خاموشی سے یہ سب نہیں دیکھ رہا تھا۔ میرے اندر آوازوں کا مجمع تھا۔ آوازیں دادی کے درد شریف پڑھنے کی آواز، ابا کی مرثیہ پڑھنے کی آواز، اماں کی کھانا کھا لینے کی پکار، آپا کی گڑیا کی شادی کے گانے کی آواز۔
ساجد اور شرما کچھ الگ کھڑے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ میں دل بھر کر وہ سب سوچ لوں، جو سوچنا چاہتا ہوں۔ ہم نے مسجد سے نکل کر گھر گننا شروع کیے۔ آٹھواں گھر میرا ہونا چاہیئے۔
’’یہی ہے آٹھواں گھر۔‘‘ شرما نے کہا۔
’’پہچان رہے ہیں آپ؟‘‘
’’نہیں یہ نہیں ہے۔‘‘ میں گھر کو اوپر سے نیچے دیکھتا ہوا بولا۔
’’انکل اور کوئی پہچان یاد ہے گلی کی؟‘‘ شرما نے پوچھا
’’گلی کے نکڑ پر چھجّو حلوائی کی دکان ہوا کرتی تھی۔‘‘
چھجّو حلوائی کی دکان تلاش کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ میں حیران ہو گیا۔ پتہ نہیں کیوں اب تک ویسی ہی ہے یہ دکان جیسی ہوا کرتی تھی۔ دھوئیں سے کالی دیواریں سامنے بڑی سی کڑھائی، تخت پر مٹھائیوں کے تھال۔۔۔ پر ایک آدمی بیٹھا جلیبیاں بنا رہا تھا۔
’’کیوں بھائی آپ چھجّو حلوائی کے کون ہیں۔‘‘ شرما نے پوچھا
’’میرے دادا جی تھے۔‘‘ وہ بولا
’’یہاں اس گلی میں وقار حسین صاحب کا گھر ہے؟‘‘
’’وہی جو پاکستان چلے گئے تھے؟‘‘
’’ہاں ہاں، وہی۔‘‘
’’ادھر پانچواں گھر ہے۔‘‘
’’وہاں اب کون رہتا ہے؟‘‘
’’صراف بابو رہتے ہیں۔‘‘
ہم گھر گنتے آگے بڑھنے لگے۔
’’یہی ہے رام لال صراف۔‘‘ دروازے پر لگی نیم پلیٹ پڑھ کر ساجد نے بتایا۔
’’یہی گھر ہے انکل؟‘‘
تین در گلی میں کھل رہے ہیں۔ ان کے برابر صدر دروازہ۔۔۔ سیڑھیاں۔۔۔ ہاں ہاں یہی ہے۔۔ یہی ہے۔۔ میں گھبرا کر گلی میں آگے بڑھ گیا۔ شرما اور ساجد دروازے پر کھڑے رہے۔
’’آئیے، اندر سے تو دیکھ لیجئے۔‘‘ ساجد نے کہا۔
’’بس دیکھ لیا۔۔۔ دیکھ لیا۔‘‘ میں رکا نہیں آگے بڑھتا چلا گیا۔ لگا کہ ایورسٹ فتح کر کے واپس لوٹ رہا ہوں۔ میں پیچھے مڑ کر بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔
میں آگے بڑھتا چلا گیا، میرا سینہ دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔ مجھے نہ کچھ دکھائی دے رہا تھا اور نہ سنائی دے رہا تھا۔ میں بس آگے نکل جانا چاہتا تھا۔ اب میرے اندر ہمت نام کی کوئی چیز نہ بچی تھی۔ میں یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا تھا کہ ہر رات سپنے میں آنے والا مکان میرے سامنے موجود ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تصور جی اٹھا ہو۔ میرے اندر ڈر اور خوشی کے جذبے ایک ساتھ مل گئے تھے۔ مجھے لگتا تھا بس اب ہو چکا۔۔۔ اب دیکھ لیا۔ یہ بھی لگا کہ وہ سب اب کہاں ملے گا جس کی تلاش میں میں آیا ہوں۔ وہ اب کہیں ہے تو میرے اندر ہے۔ مجھے وہ سب اپنے اندر ہی دیکھنا چاہیئے۔ میرے پیر رک ہی نہیں رہے تھے۔
میرے پیچھے سے ساجد کی آواز آئی۔
’’چلئے، وہ لوگ آپ کو بلا رہے ہیں۔‘‘
’’کون؟‘‘
’’صراف صاحب۔۔ شرما نے ان سے بات کر لی ہے۔‘‘
میں رک گیا۔ میں نے چہرے سے ڈھیر سارا پسینہ پونچھا۔
’’نہیں، اب واپس چلو۔‘‘
’’اتنی دور آ گئے ہیں۔۔۔ مل گیا ہے تو اندر سے بھی دیکھ لیجئے۔‘‘
’’دیکھ لیا۔۔ ۔۔‘‘
’’وہ لوگ برا مانیں گے‘‘
’’کون؟‘‘
’’صراف صاحب۔۔۔ انہیں شرما نے آپ کے بارے میں بتا دیا ہے۔‘‘
صدر دروازے پر ایک ادھیڑ عمر آدمی کرتا پاجامہ پہنے کھڑے تھے۔ ان کے گلے میں سونے کی ایک موٹی سی زنجیر تھی۔ ان سے مجھے ملوایا گیا۔ انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور صدر دروازے سے ہم اندر داخل ہوئے۔ بائیں طرف والی بیٹھک میں آ گئے۔ بیٹھک سجی ہوئی تھی۔ انہوں نے تینوں باہری دروازے کھول دئیے۔ میں چھت کی طرف دیکھنے لگا۔
ساجد اور شرما کے لاکھ چھپانے کے بعد بھی صراف صاحب کو یہ پتہ لگ گیا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ ظاہر ہے وقار حسین کا بیٹا اور صابر حسین کا بھتیجا پاکستان سے ہی آیا ہو گا۔ یہ مکان میرے چچا صابر حسین ہی بیچ کر گئے تھے، کیونکہ پورے خاندان میں انہوں نے ہی سب سے بعد ہجرت کی تھی۔
’’آپ نے چھت بدلوائی ہے؟‘‘
’’ہاں، پہلے لکڑی کی پٹیاں تھیں۔۔۔ دس سال پہلے سلیب لگوا دیا تھا۔‘‘ صراف بولے۔ پانی آیا، چائے آئی، ناشتہ آیا، گھر کے بچے سب کچھ لا رہے تھے۔ صراف صاحب کی میزبانی سے میں متاثر ہو گیا۔
’’بھائی جی، آج بھی یہ آپ کا ہی گھر ہے۔ جب تک چاہیں، جتنے دن چاہیں آرام سے رہیے۔ ہمیں آپ کی سیوا کر کے اچھا ہی لگے گا۔‘‘ صراف بولے۔ میں کمزور ہو گیا تھا کہ خاموش تھا۔ ڈر تھا کہیں رونے نہ لگوں۔ صراف جی نے اپنی بہو کو بلایا۔ اس نے میرے پیر چھوئے تو میں اپنے آنسو روک نہیں پایا۔
’’جی، بھگوان کی کرپا سے بھرا پورا گھر ہے۔ میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑے کی شادی ہو گئی ہے۔ دو بچے ہیں۔ دوسرا بیٹا دلی میں ہے۔ موٹر پارٹس کا کام ہے اس کا۔ میری یہاں ہارڈویئر کی دکان ہے۔ بڑا بیٹا سنبھالتا ہے۔ میں تو اب کم ہی بیٹھتا ہوں۔ گھٹنوں نے مجبور کر دیا ہے۔‘‘ صراف نے تفصیل سے اپنے پورے خاندان کے بارے میں بتایا۔
’’اندر سے گھر دیکھیں گے؟‘‘ شرما نے مجھ سے پوچھا۔ وہ شاید سمجھ گیا تھا کہ میں جو چاہتا ہوں، وہ کہہ نہیں پا رہا ہوں۔ رنگا چنا صاف ستھرا آنگن، تین طرف برامدے۔۔۔ بالکل وہی۔۔ آنکھیں بند کیے بغیر خواب دیکھ رہا ہوں اور خواب میں بھی یہ نہ سوچا تھا کہ ایک دن یہاں آ سکوں گا۔
’’ادھر سے۔۔۔ کمرے سے باہر آنے کا ایک چھوٹا دروازہ ہوا کرتا تھا؟‘‘ میں نے صراف صاحب سے پوچھا۔
’’ہاں، ہاں ہے۔۔ ۔۔‘‘ ہم کمرے میں آ گئے۔
’’اسی کمرے میں میں پیدا ہوا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’واہ جی، واہ۔۔۔ تو ہمارے لیے بڑی بات ہے۔‘‘ صراف بولے۔ مکان اندر سے دیکھ کر پھر بیٹھک میں آ گئے۔ اب میرا گلا کچھ کھل گیا تھا۔ میں نے کہا، ’’ادھر لکڑی کی ایک چوکی ہوتی تھی جس پر ابا نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہاں، ادھر کپڑے والی دو کرسیاں اور سرپت والی تین کرسیاں ہوتی تھیں۔‘‘
میں یہ سب ان لوگوں کو نہیں بتا رہا تھا، اپنے کو پھر سے یاد دلا رہا تھا۔
کچھ دیر بعد میں نے صراف صاحب سے پوچھا، ’’یہاں چامنڈا کا مندر ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں جی ہے۔‘‘ وہ بولے۔
’’میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے گڑگڑا کر کہا۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں؟”
’’گاڑی ہے ہمارے پاس۔۔ پکے تالاب پر کھڑی ہے۔‘‘
’’تب تو اور بھی اچھا ہے۔۔‘‘
’’اور چھُئیا کا پل بھی دیکھنا ہے۔‘‘ میں نے کہا اور صراف صاحب ہنسنے لگے، ’’ہاں ہاں جی، ضرور۔‘‘ ایک برساتی نالے پر بنے پل کو دیکھنے کی دلی خواہش پر ہنسی آنا عجیب لگا ہو گا۔
’’اور کربلا۔۔۔ ٹھاکر صاحب کی حویلی۔’’
’’ہاں ہاں آپ کو سب دکھائیں گے۔‘‘ وہ بولے۔
ہمارے لیے چھئیا کی پلیا گاؤں کی آخری حد ہوا کرتی تھی۔ ہم پر وہاں جانے کی پابندی تھی، کیونکہ وہ سنسان اور ویران جگہ تھی۔ نیچے سے نالہ بہتا تھا جو برسات میں اتنا بڑھ جاتا تھا کہ باڑھ آ جاتی تھی اور گاؤں کے لڑکے مچھلی پکڑنے نکل پڑتے تھے۔ ہم بڑی حسرت سے ان لڑکوں کو مچھلی پکڑنے کے لیے جاتے دیکھا کرتے تھے۔
میں، سریش، امین، پربھاکر اور مہیش دوپہر میں سب کی نظروں سے بچ کر چھئیا آتے تھے۔ سریش کمل کے پھول توڑنے کی کوشش میں ایک بار نالے میں گر پڑا تھا اور ہم نے بڑی مشکل سے اسے نکالا تھا۔ پربھاکر اپنے گھر سے گڑ اور چنے لے آتا تھا۔۔۔ میں نے سوچا صراف صاحب سے سریش، پربھاکر اور مہیش کے بارے میں پوچھوں، لیکن پھر ڈر اور گھبرا گیا۔۔۔ لگا پتہ نہیں کیا باتیں پتہ چلیں اور پتہ نہیں، ان میں سے کتنی اچھی ہوں اور کتنی اچھی نہ ہوں، اس لئے ان دوستوں کی یادیں اپنے دل میں ہی محفوظ رکھوں۔
میں نے جھک کر چھئیا کو دیکھا۔ مجھے اپنا عکس گیارہ سال کے اس لڑکے کا لگا جو اس پلیا پر بیٹھ کر دیسی آم چوسا کرتا تھا اور گٹھلیاں چھئیا میں پھینکا کرتا تھا، شاید برسوں سے چھئیا آم کی ان گٹھلیوں کے لیے ترس رہی ہے۔ چھئیا کے اس پار سڑک کے دونوں طرف آم کے بڑے بڑے باغ ہیں۔
’’آم کے یہ باغ بہت پرانے ہیں۔‘‘ میں نے صراف صاحب سے کہا۔
’’ہاں، بہت پرانے ہیں ۔۔۔۔۔ باغ دیکھیں گے؟”
مجھے لے کر یہ لوگ باغ آ گئے۔ ڈاکٹر شرما نے دوچار ڈل پَک آم لے لیے۔ مجھے آفر کیے، میں نے منع کر دیا اور وہ بڑے مزے میں کھانے لگے۔
چامنڈا کے مندر کے سامنے گاڑی رکی۔
’’یہ مندر۔۔۔ اتنا بڑا۔۔ ۔۔‘‘ میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن صراف بات پوری کرنے سے پہلے بولے، ’’مندر تو اب بھی چھوٹا ہی ہے۔۔پجاری کے لیے دو کمرے بنائے گئے ہیں۔‘‘
ہم مندر کے احاطے میں آ گئے۔ پیپل کے وہی پرانے اور لحیم شحیم پیڑ۔ میں ان کے پتوں کو ہوا میں ہلتا دیکھتا رہا۔ ہر پتے پر میرا نام لکھا ہے۔ ان پتوں پر بھی جو ابھی آج کل میں ہی نکلے ہیں، جن کا رنگ پیلا ہے اور جو کمسن لڑکی کے ہونٹوں جیسے ملائم ہیں۔
مندر کی چھت اور پیپل کے پیڑوں پر بندروں کی پوری فوج موجود ہے۔ ہم تپتی دوپہروں میں گھر والوں کو چکمہ دے کر یہاں آ جاتے، تب یہ مندر سنسان ہوا کرتا تھا۔ دیوی بہت سکون سے یہاں آرام کرتی تھی۔ ہم یہاں چبوترے پر بیٹھ جاتے تھے اور تالاب سے توڑے سنگھاڑے کھاتے تھے۔ بندر للچائی نظروں سے ہمیں دیکھتے تھے، جیسے کہہ رہے ہوں ‘یار سب کھائے جا رہے ہو۔۔ ایک آدھ تو ہمیں بھی دے دو۔۔۔ ‘۔ اسی مندر کے چبوترے پر غلیل بنایا کرتے تھے۔ نشانہ سادھنے کی پریکٹس کیا کرتے تھے، پر ہمارے نشانے شاید غلط لگ گئے ہیں، تب ہی تو میں بے وطن ہو گیا ہوں۔۔۔ مہیش اور پربھاکر کے ساتھ دیوی کے درشن کرتا تھا، اب مجھے یاد نہیں، لیکن اس زمانے میں پوجا کی لائنیں یاد ہو گئیں تھیں جو موہن پڑھا کرتا تھا۔
ہمیں دیکھ کر پجاری باہر آ گئے۔ انہوں نے درشن کرایے اور کہنے لگا کہ کمروں کی چھتوں پر سلیب تو ڈل گیا ہے لیکن گِٹی نہیں پڑی ہے۔ کوئی عقیدت مند اگر بیس ہزار روپے دے دے تو گٹی پڑ سکتی ہے۔ صراف صاحب نے کہا، ’’یہ مہمان ہیں۔۔ آپ بعد میں مجھ سے بات کرنا۔‘‘ کربلا کے آس پاس کچھ نئے گھر بن گئے ہیں، لیکن کربلا کا پھاٹک وہی ہے۔ پھاٹک کے کنگورے، چو حدی وہی ہے۔ میناروں پر کالی کائی بھی ویسی ہے۔ اندر کی طرف دیوار میں بنی طاق بھی اسی طرح کالی ہے جیسی میں نے دیکھی تھی۔
مجھے لاہور میں جو خواب آتے تھے، وہ کتنے سچ ہوتے تھے۔ خواب میں ایک ایک ’ڈیٹیل‘ ہوا کرتی تھی۔ چامنڈا کے مندر میں آرتی، محرم کا جلوس، چھریوں کا ماتم، محرم کی صبح تعزیوں کا ٹھنڈا کیا جانا۔ چار بجے شام کو فاقہ شکنی۔۔۔ میں اپنے خوابوں کو ہی متشکل دیکھ رہا تھا۔ ایک ٹک، ایک نظر میں سب کچھ بھر لینا چاہتا تھا۔
’’میں کربلا کا چکر لگانا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
”ہاں، ہاں چلیے‘‘، شرما میرے ساتھ ہو لیے۔ ہم گندی نالیوں اور کوڑے کے ڈھیر سے بچتے بچتے کربلا کا چکر لگانے لگے۔
”وہاں تو محرم بڑے زور شور سے منایا جاتا ہو گا؟” شرما نے پاکستان کے محرم کے بارے میں پوچھا، میں نے کوئی جواب نہیں دیا، کیونکہ کوئی صحیح جواب میرے دماغ میں نہیں آ رہا تھا، پھر خیال آیا کہ کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی چاہیئے۔ میں نے دھیرے سے ’ہاں‘ کہا اور کربلا کے دوسرے پھاٹک پر وہ جگہ دیکھنے لگا جہاں میں علم کھڑے کراتا تھا۔ جہاں ابا جان تابوت رکھتے تھے اور جہاں تعزئے رکھے جاتے تھے۔ میں وہاں گیا اور میں نے اس جگہ کو چھوا تو لگا ابا جان، بڑے خالو، بنے چچا اور اماں کو چھو لیا ہو۔
سب کچھ دیکھ کر واپس آئے تو صراف صاحب کے گھر کھانا تیار تھا۔ میں نے دل میں سوچا، اس احسان کا بدلا تو میں چکا بھی نہ پاؤں گا، کیونکہ صراف صاحب پاکستان کیوں آئیں گے؟ میں نے سوچا، کاش میں اپنے ساتھ کوئی اچھا تحفہ رکھ لیتا اور صراف صاحب کی بہو کو دے دیتا، پھر خیال آیا کہ بہو کو تو پیسے بھی دئیے جا سکتے ہیں۔ میں نے بہو کو بلا کر اسے پانچ سو روپے دئیے۔۔ صراف صاحب بہت روکتے رہے، لیکن میں نہیں مانا۔ واپس جانے کے لیے ہم لوگ صراف صاحب کے گھر سے نکل کر گلی میں آ گئے۔ ایک چھوٹی سی دکان پر شرما نے سگریٹ خریدی۔ دوکاندار کو پیسے دینے لگا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا۔ پوچھنے پر کہ پیسے کیوں نہیں لے رہا ہے، اس نے گلی کے دوسری طرف کھڑے ایک آدمی کی طرف اشارہ کر دیا۔ مطلب یہ تھا کہ وہ منع کر رہے ہیں۔
میں ان کے پاس گیا۔ کوئی پینسٹھ ستر سال عمر رہی ہو گی۔ چہرے پر لمبی داڑھی، ماتھے پر سجدہ کرنے کا نشان۔ دبلا پتلا جسم۔ کرتا اور تہمد پہنے ان بزرگ سے پوچھا تو بولے ’’میں تجھ سے پیسہ لوں گا، پتہ نہیں کتنے سال بعد تو تو آیا ہے۔ تو مجھے نہ جانتا ہو گا لیکن میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں۔ تیرے باپ کو بھی جانتا تھا، تیرا چچا میرے ساتھ گھومتا تھا۔‘‘ میں حیران کھڑا رہ گیا۔
اس سے پہلے کہ میں اپنی آپ بیتی ختم کروں آپ لوگوں کو صرف ایک چھوٹی سی بات اور بتانا چاہوں گا۔ لاہور میں میرے دوست ہیں اکرم احمد۔ وہ لکھنؤ سے لاہور آئے تھے۔ پہلی بار جب مجھ سے ملے اور پتہ چلا کہ ہم دونوں مہاجر ہیں، تو بولے ’’چلئے صاحب، اپنے دیس کی کچھ باتیں ہو جائیں۔‘‘
’’اپنے دیس کی؟‘‘
’’ہاں ہاں۔۔۔ ہندوستان کی باتیں۔‘‘ وہ راز داری سے بولے۔ میں حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’آپ نے سنا نہیں؟ کہتے ہیں۔۔ ۔‘‘ وہ شعر جیسا کچھ سنانے لگے ’’آنکھیں ہے اس دیس میں میری، دل میرا اس دیس میں ہے۔ دن میں پاکستانی ہوں میں، رات میں ہندستانی۔‘‘
مجھے اپنے سپنے یاد آنے لگے۔
جیسا کہ میں نے آپ لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ اس داستان میں کچھ جگ بیتی ہے اور کچھ آپ بیتی ہے اور میں دونوں کو سنانے سے پہلے بتا دوں گا کہ جگ بیتی کیا ہے اور آپ بیتی کیا ہے۔ …تو اب میں آپ کو کچھ جگ بیتی سنانے جا رہا ہوں۔
٭٭٭

4

لاہور میں میری کمپنی کو چین سے لکڑی سپلائی کرنے کا ایک بڑا آرڈر ملا۔ کمپنی کے مالک اور ایم۔ روشن حبیب، جنہیں ستارۂ پاکستان کا خطاب بھی مل چکا ہے، میرے باس تھے۔ انہوں نے آرڈر دیا کہ میں لکڑی کا سودا کرنے سرینام جاؤں، جو لکڑی کے انٹرنیشنل بازار کا ایک سینٹر ہے۔ میں پارا ماری بو کے لیے روانہ ہو گیا۔ وہاں بڑی تعداد میں وہ لوگ بھی بسے ہوئے ہیں جنہیں ڈیڑھ دو سو سال پہلے ہندوستان سے وہاں لے جایا گیا تھا، تاکہ اس علاقے میں گنے کی کھیتی کرائی جا سکے۔ ان میں سے کچھ تو لوٹ آئے تھے لیکن زیادہ تر وہیں بس گئے ہیں۔
اپنے پاراماری بو میں کام کے دوران میں بہت سے ایسے لوگوں سے ملا جن کے پرکھے ہندوستان سے وہاں گئے تھے۔ ان لوگوں میں ڈاکٹر عزیز بھی تھے۔ اب میں جن کی کہانی سنانے جا رہا ہوں۔ وہ ہیں ڈاکٹر عزیز، جو پاراماری بو کے جانے مانے ڈاکٹر ہیں۔ ان کی بڑی اچھی پریکٹس ہے۔ دوسرے کاروباروں میں بھی انہوں نے پیسہ لگایا ہے۔ شہر سے سو کلومیٹر دور ان کا ہزاروں ایکڑ کا فارم ہے۔ شہر میں کئی عمارتیں ہیں۔ ملک کے با عزت اور مالدار لوگوں میں جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک رات مجھے گھر کھانے پر بلایا تھا، جہاں زبیدہ بھی تھی۔ زبیدہ بھی پڑھی لکھی خاتون ہیں اور کئی طرح کے سماجی کام کرتی ہیں۔ کھانا کھانے، کافی پینے کے لیے ہم ان کی کوٹھی کے پیچھے سوئمنگ پول کے کنارے آ گئے۔ پول کے اندر روشنیاں جل رہی تھیں اور نیلے پانی میں لہروں کی پرچھائیاں تیر رہی تھیں۔ ایک طرف پام کے درختوں کا عکس پانی میں پڑ رہا تھا، دوسری طرف کیربین کے پھولوں کے پودے لگے تھے۔ سوئمنگ پول کے کنارے کافی پیتے ہوئے ڈاکٹر عزیز اور ان کی بیگم زبیدہ نے مجھے اپنی زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ سنایا، جو میں انہیں کی زبانی میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

’’ہمارے پردادا، علی دین گرمٹیا بن گئے تھے۔ کلکتہ سے ’کوین آف یوروپ‘ جہاز پر سوار ہوئے اور دو مہینے میں یہاں پہنچے تھے۔ یہاں اس وقت کچھ نہیں صرف جنگل تھا۔ ایسا ویسا جنگل نہیں۔۔۔ ’رین فاریسٹ‘ جیسا جنگل۔ اتنا بھیانک جنگل تھا کہ اس میں دو قدم بھی نہیں گھسا جا سکتا تھا۔ ان مزدوروں نے اس جنگل کو صاف کرنے کا کام شروع کیا جو اس زمانے میں جان لیوا کام تھا، کیونکہ مشین کے نام پر کچھ نہیں تھا۔ سب کچھ ہاتھ سے کرنا پڑتا تھا۔ کچھ سال پہلے دادا کی شادی انہیں خاندانوں میں سے کسی خاندان کی لڑکی سے ہوئی۔ دادا پیدا ہوئے۔ دادا کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ہماری نسلیں یہ بھول نہ جائیں کہ وہ کون ہیں؟ کہاں سے آئے تھے؟ ان کا گاؤں گھر کہاں تھا؟ انہوں نے ایک گیت بنایا جس میں اپنی ذات، دھرم، پشتینی گاؤں اور علاقے کا نام تھا۔ دادا نے یہ گانا ابا کو یاد کرا دیا اور ابا نے یہ گانا مجھے یاد کرا دیا۔ یعنی تین پیڑھیوں سے ہوتا ہوا یہ گانا مجھ تک پہنچا تھا۔ میں ہندی نہیں سیکھ سکا اور نہ بول سکتا ہوں، کیونکہ میری پڑھائی لکھائی ہاسٹل میں ہوئی تھی۔ سالوں در سال گزرتے رہے اور جب یہ گانا میں اپنے بیٹے کو یاد کرا رہا تھا تو خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے گاؤں، دیس، وطن کو چل کر دیکھا جائے۔ پیسہ میں نے کافی کما لیا تھا۔ وہ فکر نہ تھی جو شاید ابا یا دادا کو رہی ہو گی۔ میں نے زبیدہ سے اس بارے میں بات کی تو وہ بھی تیار ہو گئی۔ ہمارے پاس پتے کے طور پر وہی گانا تھا اور اکا دکا باتیں پتہ تھیں کہ ہمارا گاؤں پہاڑوں کے بیچ میں ہے۔ گاؤں تک جانے کے لیے ایک چھوٹے پہاڑ پر چڑھنا پڑتا ہے۔ گاؤں کے پاس ایک جھرنا ہے، جہاں سے گاؤں والے پانی لاتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا تالاب ہے جہاں جانور پانی پیتے ہیں اور لوگ نہاتے دھوتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر عزیز واقعہ سناتے سناتے رکے اور اپنا سگار سلگانے لگے۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور پوچھا، ’’وہ گانا کیا ہے؟‘‘
ڈاکٹر عزیز ہنسنے لگے۔ سنیے
’’جت پٹانا
گؤ سمنا
ملک دیس ہریانا۔‘‘
’’میں کچھ نہیں سمجھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’یہی حال بمبئی (ممبئی) میں تھا۔‘‘
’’بمبئی میں؟‘‘
’’ہاں، میں اور زبیدہ بمبئی پہنچ گئے اور وہاں لوگوں کو ہم نے یہ پتہ بتایا تو کوئی کچھ نہیں سمجھ پایا۔۔۔ لمبا سفر کر کے بمبئی پہنچے تھے۔ پاراماریبو سے ایمسٹرڈم گئے تھے۔ وہاں سے لندن آئے تھے۔ وہاں سے بمبئی کی فلائٹ لی تھی۔۔۔ غضب یہ کہ وہاں کوئی ہمارا پتہ ہی نہیں سمجھ رہا تھا۔ خیر، ہم تاج ہوٹل میں ٹھہر گئے۔ ہوٹل میں بھی کئی لوگوں کو گانا سنایا، لیکن کوئی نہ سمجھ پایا۔‘‘
’’پھر کیا کیا؟‘‘
’’اچانک میری سمجھ میں ایک بات آئی۔ اگلے دن میں نے بازار سے انڈیا کا ایک بڑا نقشہ خریدا اور ہوٹل کے کمرے میں نقشہ پھیلا کر کوئی ایسا لاج تلاش کرنے لگا جو میرے گانے میں ہے۔ ہر لاج کو تلاش کیا، کیونکہ مجھے خود کسی بھی لاج کا مطلب نہیں معلوم تھا۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’ایک لاج ملا۔‘‘ ڈاکٹر عزیز نے بتایا۔
’’کون سا لاج؟‘‘
’’ہریانہ۔‘‘ انہوں نے بتایا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘
’’دلی کے نزدیک ایک سٹیٹ ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر اگلے دن ہم نے فلائٹ پکڑی اور دلی آ گئے۔ وہاں ایئرپورٹ پر ٹیکسی والوں کو یہ گانا سنایا۔ ہریانہ کو چھوڑ کر کوئی کچھ نہیں سمجھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’اب کیا کرتے؟ اتنی دور آنا بیکار تو نہیں جانا چاہیئے تھا۔ ٹیکسی والے سے کہا، ہریانہ چلو۔۔ ۔۔‘‘
’’اس نے پوچھا ہو گا ہریانہ میں کہاں؟‘‘
’’بالکل یہی ہوا۔‘‘
’’تب کیا کیا؟”
’’آخر ایک چالاک قسم کا ٹیکسی والا تیار ہو گیا۔‘‘ زبیدہ بولی۔
’’…اور اس کی چالاکی ہمارے کام آ گئی۔‘‘
’’کیسے؟‘‘
’’اس نے تو یہ سوچا تھا کہ دو مورکھ مل گئے۔ انہیں ہریانہ میں ادھر ادھر گھماتا رہوں گا اور خوب پیسے بناؤں گا، لیکن ہم لوگ بے فکر ہو گئے تھے کہ اب ہمیں ہمارے پتے پر پہچانے کی ذمے داری ٹیکسی والے کی ہے۔ ہم نے اسے پتہ بتا دیا ہے اور اس نے ہمیں ٹیکسی میں بیٹھا لیا ہے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’دن بھر ٹیکسی چلتی رہی۔ ہم جگہ جگہ رک کر اپنا گانا سناتے رہے۔ کچھ لوگوں کو مزہ بھی آتا تھا۔ کچھ ہماری بیوقوفی پر ہنستے تھے۔ کچھ ہمیں تعریفی نظروں سے دیکھتے تھے۔ پورا دن گزر گیا، رات ہو گئی۔ ٹیکسی والا ہمیں ایک ڈھابے پر لے گیا۔ ڈھابے کے مالک نے پتہ نہیں اسے کیا سمجھایا کہ ٹیکسی والا ہمیں لے کر پولس اسٹیشن آ گیا۔ پولس کو بھی ہم نے اپنا گانا سنایا۔ وہ بھی نہیں سمجھ سکے، پر ایک بھلے پولس افسر نے مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ ہمیں قریب ہی ایک ہوٹل میں ٹھہرا دیا گیا۔ اگلے دن پولس افسر آیا اور ہمیں لے کر پولس اسٹیشن آیا۔ یہاں بہت سے بڑے بوڑھے لوگ موجود تھے۔ ہم سے پولس نے کہا کہ انہیں وہ گیت سناؤ۔ میں نے ایک بار سنایا۔۔۔ بار سنایا۔۔۔ سناتا رہا۔ وہ لوگ آپس میں بات چیت کرتے رہے۔ گانا سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ میں نے بیس بار سے بھی زادہ بار گانا سنایا ہو گا، تب کہیں جا کر دھیرے دھیرے گانا کھلنے لگا۔ گتھی سلجھنے لگی۔ ایک بوڑھے نے پوچھا کہ کیا ہم پٹھان ہیں۔ یہ تو مجھے معلوم تھا۔ میں نے کہا، ’’ہاں، پٹھان ہیں۔۔ ‘‘۔ وہ لوگ آپس میں صلاح کرنے لگے۔ پتہ چلا کہ گاؤں کا نام ساپنا ہے جہاں اب بھی پٹھانوں کی آبادی ہے، لیکن ان میں بہت سے پاکستان چلے گئے ہیں۔
ٹیکسی کر کے ہم لوگ ایک گائڈ کے ساتھ ساپنا گاؤں پہنچے، وہاں چوپال پر پورا گاؤں جمع ہو گیا۔ میں نے اپنے پردادا کا نام علی دین بتایا۔ یہ سنتے آئے ہیں کہ خاندان کا کوئی لڑکا سات سمندر پار چلا گیا تھا، پر کبھی لوٹ کر واپس نہیں آیا۔ علی دین کے خاندان کا گھر اسی گاؤں میں تھا۔ لوگ مجھے گھر دکھانے لے گئے۔ خاندان پاکستان جا چکا تھا۔ ہم نے اپنا گھر دیکھا۔۔۔ سو سال بعد وہاں علی دین کی طرف سے کوئی گیا۔‘‘
’’گاؤں والوں کا کیا ’ری ایکشن‘ تھا؟‘‘
’’آج ہم وی۔ آئی۔ پی۔ ہو گئے تھے۔ زبیدہ نے گاؤں پر فلم بنائی۔ ہم گاؤں کے پاس بنے ایک ’ٹورسٹ رزارٹ‘ میں رہے۔ روز گاؤں جایا کرتے تھے۔ ہمیں وہ کھیت دکھائے گئے جو کبھی ہمارے تھے۔ چوپال پر ادھر ادھر سے لوگ آتے تھے۔ ہم سے ملتے تھے۔‘‘
’’خاندان والوں کا کچھ پتہ چلا؟‘‘
’’وہ پاکستان چلے گئے تھے۔۔۔ ضرور پتہ چلا کہ جو پاکستان گئے تھے ان کا نام رفیق الدین تھا اور وہ راولپنڈی میں جا کر بسے تھے۔‘‘
’’بس آگے کا کام آپ میرے اوپر چھوڑ دیجیے۔۔۔ پاکستان جا کر انہیں تلاش کر لوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر عزیز بولے، ’’اگر میں ہریانہ میں اپنے گاؤں نہ جاتا تو اسی طرح اپنے کو ادھورا محسوس کرتا جیسے میرے والد اور دادا کیا کرتے تھے۔‘‘
میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭

…اور اب آخر میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ اور سناتا چلوں۔ یہ آپ بیتی نہیں ہے، جگ بیتی ہے، لیکن جو کچھ ہے بالکل سچ ہے۔ سولہ آنا سچ ہے۔ دلی میں میرے ایک دوست ہیں، جو کچھ عجیب قسم کے آدمی ہیں، لیکن میں ان کے عجیب ہونے کی داستان نہیں سناؤں گا، کیونکہ صرف اسی میں صبح ہو جائے گی۔ بس، یہ سمجھ لیجئے کہ وہ شوربے میں ڈال کر جلیبی کھاتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے اپنے انجکشن لگاتے ہیں۔ وہ پکے سیلانی بھی ہیں۔ ان کا وطن ٖفتح پور ہے۔ یہ کانپور اور الہ آباد کے بیچ جی۔ ٹی روڈ پر ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ لیجئے، اتنی باتیں بتا دیں اور دوست کا نام تو آپ کو بتایا ہی نہیں۔ ان کا نام شفیق الحسنین نقوی ہے۔ نام کچھ ٹیڑھا لگ سکتا ہے، لیکن اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ ان کے والد فارسی عربی کے عالم تھے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ عالم لوگ ہمیشہ ٹیڑھا کام کرتے ہیں، لیکن عام لوگ اس ٹیڑھے کام کو سیدھا کر لیتے ہیں تو ان کے نام کو بھی شہر والوں نے سیدھا کر کے سپھو میاں کر لیا ہے۔ جب تھوڑا لحاظ برتا جاتا ہے تو انہیں سپھو نقوی بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ گاؤں والے انہیں سپھو میاں کہتے ہیں، کیونکہ ’ف‘ کا تلفظ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
سپھو میاں بڑے بیٹھک باز اور باتونی ہیں۔ لاہور آئے تھے، تو ان کے ساتھ محفل جما کرتی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جوانی کے دنوں میں انہیں سیر سپاٹے کا شوق تھا۔ کسی طرح امریکہ چلے گئے۔ حالت یہ تھی کہ جیب میں پیسہ کم تھا، لیکن گھومنے کی آرزو کی کوئی تھاہ نہ تھی۔ گرے ہاؤنڈ بس پر بیٹھے چلے جا رہے تھے۔ اگلی منزل امریکہ کا مشہور اور خوبصورت شہر میامی تھا، لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ میامی میں کہاں ٹھہریں گے؟ سوچا تھا پہنچ جائیں گے تو سوچیں گے۔ خیر، صاحب ہوا یہ کہ بس میں ان کے برابر جو لڑکا بیٹھا تھا، اس سے تعارف ہوا تو وہ پاکستانی نکلا۔ دونوں میں بات چیت ہونے لگی۔ اس نے ان سے پوچھا میامی میں آپ کہاں ٹھہریں گے؟ انہوں نے بتایا کہ اب تک تو کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ کیا آپ کچھ پاکستانی سٹوڈینٹس کے ساتھ ٹھہرنا پسند کریں گے؟ انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ تیار ہو گئے۔
ان کا قصہ اپنی زبانی سنانے سے بہتر ہے انہیں کی زبان سے ان کا قصہ سنیے۔
٭٭٭ 

5

’’میں نے فلیٹ کی گھنٹی بجائی۔ ایک پنجابی جیسے لگنے والے لڑکے نے دروازہ کھولا۔ انہیں معلوم ہو چکا تھا کہ میں وہاں ٹھہرنے آ رہا ہوں۔ اچھا خاصہ فلیٹ تھا۔ تین لڑکے رہتے تھے۔ مجھے ایک رات ہی رکنا تھا۔ میرا سامان لونگ روم میں رکھ دیا گیا۔ میں تینوں سے ملا۔ کچھ دیر بعد ایک مجھ سے بولا، ’’آپ آرام کریں۔ ہم پارٹی میں جا رہے ہیں۔ رات دیر سے آئیں گے۔‘‘
میں کیا کہہ سکتا تھا۔ دو لڑکے چلے گئے اور تیسرا کچن میں کچھ کھانا وانا پکانے میں لگ گیا۔ میں نے سوچا، کھانا تو میں بھی کھاؤں گا۔ اٹھ کر کچن میں آ گیا۔ اس نے میرے سامنے ایک بیر کا کین رکھ دیا اور بولا، ’’بیر تو لیتے ہوں گے؟‘‘
’’ہاں، لیتا ہوں۔‘‘ وہ بھی بیر پی رہا تھا۔
’’پاکستان میں تو بڑی پابندی ہو گی؟” میں نے بیر کین کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’پیسہ نہیں ہے تو بڑی پابندی ہے، پیسہ ہے تو کوئی پابندی نہیں ہے۔ ’’وہ بولا۔ اس کی صاف گوئی مجھے پسند آئی۔
’’یہی حال ہندوستان میں بھی ہے۔‘‘ میں نے پاکستان اور ہندوستان کے برابری ظاہر کرنے کی کوشش جان بوجھ کر کی تھی، کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں بات دونوں ملکوں کے مقابلے یعنی ’کون زیادہ اچھا ‘پر نہ آ جائے۔ اس سے پہلے میں ایک دو ایسے پاکستانیوں سے مل چکا تھا اور اس طرح کی بحث میں پھنس چکا تھا جس کا خاتمہ ہمیشہ کچھ تلخی پر ہی ہوا تھا۔ ایک رات کی بات ہے، ہندوستان چھوٹا ہی ثابت ہو گیا تو کون سی مصیبت آ جائے گی؟
’’آپ کے دوست جس پارٹی میں گئے ہیں وہاں آپ نہیں گئے؟” میں نے بات موڑنے کی کوشش کی۔
’’پارٹی وارٹی میں کہیں نہیں گئے ہیں۔‘‘ وہ کافی تلخی سے بولا، ’’انہیں بھارت کے سکھوں کے ساتھ گل کرنے میں مزہ آتا ہے۔‘‘
اس نے مزہ لفظ اس طرح استعمال کیا کہ اس کی ساری کڑواہٹ میرے منھ میں بھر گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس بات پر ’’واہ واہ کیا بات ہے ‘‘ جیسی بات کہوں یا یہ کہوں کہ ’’ارے صاحب، حد ہوتی ہے، یعنی انہیں آپ جیسے پاکستانی کے ساتھ بات چیت میں مزہ نہیں آتا اور وہ بھارت کے سکھوں کے ساتھ گل کرنے جاتے ہیں۔‘‘ میں اسی پس و پیش میں تھا کہ اس نے بات بدل دی۔ بولا، ’’ٹھیک ہے۔۔۔ یہ تو اپنی اپنی مرضی کی بات ہے۔‘‘
میں نے جلدی سے کہا، ’’ہاں، یہ تو ٹھیک ہے۔۔جہاں جو خوش رہے وہاں جائے۔‘‘ میں نے پہلی بار محسوس کیا تھا کہ پاکستان میں اردو بولنے والوں اور پنجابی بولنے والوں کے بیچ اتنا ٹکراؤ ہے۔
کچھ دیر کے بعد میں نے پوچھا، ’’آپ کی فیملی کہاں سے ہے؟‘‘ اس نے عجیب طرح سے میری طرف دیکھا اور بولا، ’’کراچی سے۔‘‘
کراچی؟ میں سوچنے لگا۔ یار مہاجر تو ہندوستان سے کراچی گئے ہیں۔ یہ لڑکا اپنے کو کراچی کا کیوں کہہ رہا ہے؟ شاید پاکستانیت اس کے دماغ میں زیادہ ہی گھس گئی ہے۔ مجھے کچھ عجیب لگا۔ میں نے پوچھا، ’’آپ کی فیملی کراچی کہاں سے گئی تھی؟‘‘
وہ اپنے کو مزید بے قرار سا محسوس کرنے لگا اور کچھ دیر چپ رہا۔
پھر بولا، ’’بھارت سے۔‘‘ یہ بات اس نے کافی نفرت سے کہی تھی جیسے بھارت کے تئیں اس کے دل میں غصہ اور نفرت بھری ہو، اسے اس بات کا افسوس ہو کہ اس کا خاندان بھارت میں کیوں تھا اور پاکستان میں یعنی اس علاقے میں کیوں نہیں تھا، جو پاکستان میں ہے۔
کچھ دیر تک ہم لوگ خاموش رہے۔ وہ جانتا تھا، اس نے مجھے گھائل کر دیا ہے۔ میں بے شرمی پر اتر آیا اور میں نے پوچھا، ’’بھارت میں کہاں سے؟‘‘
اس نے گھور کر مجھے دیکھا۔ اسے یہ بالکل نا قابلِ برداشت لگ رہا تھا کہ میں اس کے خالص پاکستانی ہونے پر سوالیہ نشان لگا رہا ہوں۔ اس نے اپنا جبڑا سخت کر کے اور ہونٹ بھینچ کر کہا، ’’یو۔ پی۔ سے۔‘‘
اب مجھے اگلا سوال نہیں پوچھنا چاہیئے تھا، لیکن بیر کے دو کین میں پی چکا تھا اور میری ہمت بڑھ گئی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’یو۔ پی۔ تو بہت بڑا ہے بھائی۔۔۔ یو۔ پی۔ میں کہاں سے؟” وہ کچھ دیر خاموش رہا، پھر بولا، ’’آپ نہیں جانتے ہوں گے۔ یو۔ پی۔ کا ایک چھوٹا سا، گمنام ضلع ہے ٖفتح پور۔ وہیں سے ہم لوگ کراچی آئے تھے۔‘‘
’’کون سا ٖفتح پور۔ جو الہ آباد اور کانپور کے بیچ ہے؟‘‘
وہ چڑھ کر اور جیسے حقارت سے بولا، ’’ہاں، وہی۔‘‘
’’وہاں تو میں رہتا ہوں۔ فتح پور ہسوا بھی کہتے ہیں اسے۔‘‘
’’ہاں، وہی۔‘‘ وہ بے خیالی میں بولا اور پھر چوکنا ہو گیا۔
میں بھی خاموش ہو گیا۔ میں جانتا تھا کہ اب ’بال اس کے کورٹ‘ میں ہے۔ دیکھو کیا ہوتا ہے۔ کچن میں مسالوں کی خوشبو پھیل رہی تھی۔ کچھ سیکنڈ کی خاموشی بھاری پڑنے لگی۔
’’آپ ٖفتح پور کے ہیں۔‘‘ وہ مری ہوئی آواز میں بولا۔
’’ہاں۔ وہیں کا ہوں۔ پتہ نہیں کتنی پیڑھیوں سے وہاں رہ رہا ہوں۔‘‘
وہ پھر خاموش ہو گیا۔ میں نے اس کے خاموش چہرے پر طوفان دیکھ لیا تھا۔ ایک رنگ آ رہا تھا اور دوسرا جا رہا تھا۔ تیز روشنی میں اس کے چہرے کے عضلات تھرک رہے تھے۔
’’وہاں کوئی کھیلدار محلہ ہے۔‘‘ اس نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہاں، ہے؟‘‘
اب وہ جو کچھ کہہ یا پوچھ رہا ہے، وہ اس طرح جیسے اسے اپنے اوپر قابو ہی نہ رہ گیا ہو۔
’’ٖفتح پور جی۔ ٹی روڈ پر بسا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’جی۔ ٹی روڈ پر تحصیل ہے؟‘‘
’’ہاں، ہے؟‘‘
’’اس کے سامنے سے کوئی گلی کھیلدار محلے تک جاتی ہے؟‘‘
’’ہاں، جاتی ہے۔‘‘
’’گلی آگے جا کر مڑتی ہے تو وہاں مسلم اسکول ہے؟‘‘
’’ہاں، ہے۔‘‘
’’اسکول کے پیچھے تالاب ہے؟‘‘
میں اس کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا اور میرے دماغ میں عجیب طرح کی اتھل پتھل چل رہی تھی۔ وہ ٖفتح پور کا آنکھوں دیکھا احوال دے رہا تھا۔ اس کی بتائی ہر بات ٹھیک تھی۔
’’ٖفتح پور میں للّو میاں کوئی زمیندار تھے؟‘‘
’’ہاں، بڑے زمیندار تھے۔‘‘
’’وہاں کوئی محلہ باقر گنج ہے؟ جہاں جانوروں کی بازار لگتی ہے؟‘‘ امریکہ کے میامی شہر کے ماڈرن فلیٹ میں یہ سب نام، جگہیں اور لوگ اپنی حاضری درج کرا رہے تھے۔ کچن کی کھڑکی سے ہائی وے نظر آ رہا تھا، جس پر دوڑتی کاروں کی ہیڈ لائٹیں چمک رہی تھیں۔
’’کیا آپ ٖفتح پور گئے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’’نہیں، کبھی نہیں گیا؟‘‘ وہ بولا۔ اس کے لہجے میں کچھ نہ تھا۔ نہ دکھ، نہ سکھ، نہ شرم، نہ دکھ۔
’’کبھی نہیں گئے؟‘‘
’’ہاں، کبھی نہیں گیا؟‘‘ وہ پھر بولا۔
’’لیکن وہاں کے بارے میں جو آپ بتا رہے ہیں وہ ایسا لگ رہا ہے جیسے دیکھا ہوا ہو۔‘‘
’’نہیں، میں نے وہ سب نہیں دیکھا۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘
وہ سٹول پر بیٹھ گیا۔ چکن شاید پک چکا تھا۔ اس نے گیس بند کر دی۔ بیر کا ایک اور کین کھول لیا اور بولا، ’’کراچی میں دادی ہم لوگوں کو جو کہانیاں سنایا کرتی تھیں، وہ ٖفتح پور کی ہوتی تھیں۔ روز رات کو ہم دو بچے دادی کے ساتھ ٖفتح پور پہنچ جاتے تھے۔ وہاں گلیوں میں گھومتے تھے۔ امرود کے باغ میں ’لل گدیا‘ امرود کھاتے تھے۔۔ ۔۔‘‘
وہ بہت دیر تک بولتا رہا اور مجھے کئی باتیں یاد آتی رہیں۔ مجھے ‘صاحب’ یاد آئے جو لندن میں تیس سال رہنے کے بعد اپنے گاؤں واپس آئے تھے اور گاؤں کے گلیاروں میں لوٹ پوٹ کر رویا کرتے تھے۔ مجھے ڈاکٹر عزیز یاد آئے، جو ایک گیت کے سہارے اپنا وطن تلاش کرنے سورینام سے انڈیا چلے آئے تھے۔ مجھے ڈبائی یاد آیا جو میری نس نس میں بسا ہوا ہے۔
اگر آپ لوگوں کو میری باتوں پر یقین نہ آ رہا ہو تو میں گواہی کے طور پر اپنے ایک دوست پریاگ شکل کو آپ کے سامنے کھڑا کر سکتا ہوں۔
پریاگ شکل ہندی کے مشہور اور جدید ادیب ہیں۔ وہ بھی ٖفتح پور کے رہنے والے ہیں۔ ہم دونوں کا بچپن ایک ہی ضلعے میں بیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جب پریاگ جی کو دیکھتا ہوں تو میرے دل کے کونے میں ایک خوشی کی امنگ اٹھتی ہے۔ پریاگ جی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہو گا۔
پریاگ جی نے مجھے بتایا ہے کہ وہ سفر بہت کرتے ہیں۔ ان سفروں کے دوران دلی ہاؤڑہ لائن پر چلنے والی ایکسپریس ٹرینوں سے بھی آتے جاتے ہیں، جو ٖفتح پور جیسے چھوٹے اسٹیشن پر نہیں رکتیں۔ اب دیکھیے، کیا نا انصافی ہے۔ بڑے شہر، بڑے شہروں سے جڑ رہے ہیں اور چھوٹے شہر پیچھے چھوٹ گئے ہیں۔
بہرحال، پریاگ جی نے مجھ سے کئی بار کہا ہے کہ رات کا چاہے جو ٹائم ہو، گاڑی جب ٖفتح پور اسٹیشن سے گزرتی ہے تو ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ گاڑی کس اسٹیشن سے گزر رہی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ ٖفتح پور سے۔
جی ، میں کوئی عالم نہیں جو آپ کو کیوں؟ کیسے؟ کس لئے؟ وغیرہ وغیرہ سوالوں کے جواب دے سکوں۔ آپ خود ماشاء اللہ عقل مند ہیں۔ جواب کھوج سکتے ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
https: //www.rachanakar.org/2007/12/blog-post_16.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل