FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

حیرت فروش

 

(افسانوی مجموعہ)

 

 

                   غضنفر

 

 

 

 

شہنا

اور

فرحان

کے

نام

 

 

 

تعارف

 

نام     :       غضنفر علی

قلمی نام :       غضنفر

تاریخ پیدائش   :       9؍مارچ 1953؁ء

وطن   :       چورانوں، گوپال گنج، بہار

تعلیم   :       ایم، اے (اردو)پی۔ ایچ۔ ڈی، مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

پیشہ    :       درس وتدریس(سرکاری ملازمت)

عہدہ   :       پرنسپل، ناردن ریجنل لنگویج سینٹر، پٹیالہ،

سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لنگویجز، میسور، منسٹری آف

ایچ۔ آر۔ ڈی۔ ڈپارٹمنٹ آف ہائر ایجو کیشن، حکومت ہند

مستقل پتہ       :       بشریٰ، حمزہ کالونی، نیوسرسید نگر، علی گڑھ

خط و کتابت کا پتہ        :       ناردن ریجنل لنگویج سینٹر، پنجابی یونی ورسٹی کیمپس، پٹیالہ(پنجاب)

……

 

تصانیف

 

۱۔       پانی(ناول)

۲۔      کینچلی(ناول)

۳۔      کہانی انکل(ناول)

۴۔      دویہ بانی(ناول)

۵۔      فسوں (ناول)

۶۔      وِش منتھن(ناول)

۷۔      مم(ناول)

۸۔      مشرقی معیارِ نقد(تنقید)

۹۔      زبان و ادب کے تدریسی پہلو(تعلیم)

۱۰۔     تدریسِ شعرو شاعری(تعلیم)

۱۱۔      کوئلے سے ہیرا(ڈراما)

زیرِ طبع تصنیفات

۱۔       شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات(تنقید)

۲۔      لسانی کھیل(تعلیم)

۳۔      رنگ و رامش(خاکے )

٭٭٭

 

 

 

کہانی، کہانی سے پہلے

 

 

کہانی صرف کہانی نہیں ہوتی

کہانی

سوز

ساز

رمز

اور راز ہوتی ہے

کہانی

آہ

اور واہ ہوتی ہے

کہانی

رنگ

نور

خوشبو

اورلمس ہوتی ہے

کہانی

زیست کی تصویر

فکر کی تفسیر

اور خواب کی تعبیر ہوتی ہے

کہانی

حرف سے پیکر

لفظ سے منظر

اور صوت سے سُر مندر بناتی ہے

موسیقی کی لہریں نکالتی ہے

کہانی

زبان میں جادو

اور بیان میں رقص دکھاتی ہے

کہانی

آگ کو پانی بناتی ہے

اور آب سے آگ جلاتی ہے

کہانی

سردالاؤمیں گرمی پھونک دیتی ہے

راکھ سے چنگاری کرید لیتی ہے

کہانی

صرف کہانی نہیں کہتی

کہانی رامائن کہتی ہے

پنچ تنتر باچتی ہے

الف لیلیٰ سناتی ہے

شاہنامہ بیان کرتی ہے

مہابھارت چھیڑتی ہے

 

کہانی وہ بھی کہتی ہے

جو کہا نہیں گیا

وہ بھی سناتی ہے

جوسنانہیں گیا

وہ بھی دکھاتی ہے

جو دیکھا نہیں گیا

کہانی صرف کہانی نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

کڑوا تیل

 

’’اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔ تب تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘شاہ جی نے میرے ہاتھ سے تلہن کا تھیلا لے کر کولھو کے پاس رکھ دیا۔

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ میں دروازے کے پاس پڑے ایک اسٹول پر بیٹھ گیا۔

کولھو کسی پائدار لکڑی کا بنا تھا۔ اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اور مضبوطی کے ساتھ گڑا تھا۔ کولھو کی پکی ہوئی پائدار لکڑی تیل پی کر اور بھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔

اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلا ہوا تھا۔ منہ کے اندرسے اوپر کی جانب موسل کی مانند ایک گول مٹول ڈنڈا نکلا ہوا تھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سِراجُڑا تھا۔ جوئے کا دوسرا سِرا بیل کے کندھے سے بندھا تھا جسے بیل کھینچتا ہوا ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔

بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا۔ کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی۔ ایسالگتا تھاجیسے وہاں کوئی بڑا ساپہیہ رکھ کر زورسے دبا دیا گیا ہو۔

کولھو کے منہ میں اوپر تک سرسوں کے دانے بھرے تھے۔ دانوں کے بیچ موسل نما ڈنڈا مسلسل گھوم رہا تھا اوراس عمل میں اس کا دباؤ چاروں طرف کے دانوں پر پڑ رہا  تھا۔

دانے ڈنڈے کے دباؤ سے دب کر چپٹے ہوتے جا رہے تھے۔

دبے اور کچلے ہوئے دانوں کا تیل اندر ہی اندر نیچے جا  کر کولھو کے نچلے سِرے میں بنے ایک باریک سوراخ کے ذریعے بوند بوند ٹپک کر ایک مٹ میلے سے برتن میں جمع ہو رہا تھا۔

برتن میں جمع تازہ تیل ایسالگتا تھا جیسے بیل کی پگھلی ہوئی چربی ہویا جیسے سونا پگھلا کر ڈال دیا گیا ہو۔

تیل کی چمک دیکھ کر میری آنکھوں میں چمکتے ہوئے چہرے، مالش شدہ اعضا، گٹھے ہوئے جسم، کسے ہوئے پٹھے، چکنی جلدیں، دمکتی ہوئی لاٹھیاں اور زنگ سے محفوظ مشینوں کے پرزے چمچمانے لگے۔ مضبوط اورچمکدارجسموں کے ساتھ صحت مند دماغ اور ان دماغوں کے تاب دار کارنامے بھی اس تیل میں تیرنے لگے۔

تیل کے برتن سے نگاہیں نکلیں تو کولھو میں جتے بیل کی جانب مبذول ہو گئیں۔

بیل اوپرسے نیچے اور آگے سے پیچھے تک پٹخا ہوا تھا، پُٹھا پچک گیا تھا۔ پیٹ دونوں طرف سے دھنس گیا تھا۔ پیٹھ بیٹھ گئی تھی۔ گوشت سوکھ گیا تھا۔ ہڈیاں باہر نکل آئی تھیں۔ قد بھنچا ہوا تھا۔ گردن سے لے کر پُٹھے تک پوراجسم چابک کے نشان سے اٹا پڑا تھا۔ جگہ جگہ سے کھال ادھڑ گئی تھی۔ بال نچے ہوئے تھے۔ گردن کی جلد رگڑ کھا کر چھل گئی تھی۔ دونوں سینگوں کی نوکیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ کانوں کے اندر اور باہر جِلد خور کیڑے جِلد سے چمٹے پڑے تھے۔ پچھلا حصہ پیروں تک گوبر میں سناہوا تھا۔ دُم بھی میل میں لپٹی پڑی تھی۔ دُم کے بال بیل کے چھیرے میں لت پت ہو کر لٹ بن گئے تھے۔ پچھلے ایک پاؤں سے خون بھی رس رہا تھا۔

بیل کی آنکھوں پرپٹیاں بندھی تھیں۔ ناک میں نکیل پڑی تھی۔ منہ پر جاب چڑھا ہوا تھا۔ بیل ایک مخصوص رفتارسے دائرے میں گھوم رہا تھا۔ پاؤں رکھنے میں وہ کافی احتیاط برت رہا تھا۔ گھیرے کی دبی ہوئی زمین پراس کے پیراس طرح پڑ رہے تھے جیسے ایک ایک قدم کی جگہ مقر ر ہو۔ نہایت ناپ تول اور سنبھل سنبھل کرپاؤں رکھنے کے باوجود کبھی کبھار وہ لڑکھڑا پڑتا اور اس کی رفتار میں کمی آ جاتی تو شاہ جی کے ہاتھ کا سونٹا لہرا کراس کی پیٹھ پر جا پڑتا اور وہ اپنی تلملاہٹ اور لڑکھڑاہٹ دونوں پر تیزی سے قابو پا کر اپنی راہ پکڑ لیتا۔

سونٹا اس زور سے پڑتا کہ سڑاک کی آواز دیر تک کمرے میں گونجتی رہتی۔ کبھی کبھی تو میری پیٹھ بھی سہم جاتی۔

بیل کو ایک مرکز پر لگاتار گھومتے ہوئے دیکھ کر میرے دل میں ایک عجیب سا خیال آیا اور میری نگاہ رسٹ واچ پر مرکوز ہو گئی۔

ایک چکر میں تیس سیکنڈ—

میں نے گھڑی کی سوئیوں کے حساب سے چکروں کو گننا شروع کر دیا۔ ایک—دو— تین —چار— پانچ— چھ— سات— آٹھ— نو —دس—

دس چکر پانچ منٹ چارسکنڈمیں —

گویا اوسطاً فی چکر—تیس سکنڈ

’’شاہ جی یہ بیل کتنے گھنٹے کولھو کھینچتا ہو گا؟‘‘

’’یہی کوئی بارہ تیرہ گھنٹے ؟ ’’کیوں ؟‘‘

’’یوں ہی پوچھ لیا۔ ’’مختصر سا جواب دے کر میں بارہ گھنٹوں میں پورے کیے گئے چکروں کا حساب لگانے لگا۔

پانچ منٹ میں دس چکر تو ایک گھنٹے میں ؟

ایک گھنٹے میں ایک سوبیس چکر

اور بارہ گھنٹے میں ؟

ایک سوبیس ضرب بارہ برابر چودہ سوچالیس چکر—

اچانک میری نگاہیں اس گھیرے کو گھورنے لگیں جس میں بیل گھوم رہا تھا۔

دس، دس، بیس، دس، تیس، دس چالیس—میرے آگے دائرے کی لمبائی کھنچ گئی۔

بیل ایک چکر میں تقریباً چالیس فٹ کی دُوری طے کرتا ہے۔

چالیس ضرب چودہ سوچالیں برابر ستاون ہزار چھے سوفٹ —

ستاون ہزار چھ سوفٹ مطلب سواسترہ کلومیٹر

گویا ایک دن میں سواسترہ کلو میٹر کی دُوری

اگر بیل کمرے سے باہر نکلے تو روزانہ—

کمرہ پھیل کر میدان میں تبدیل ہو گیا۔ دُور دُور تک پھیلے ہوئے میدان میں کھلی فضائیں جلوہ دکھانے لگیں۔ سورج کی شعاعیں چمچانے لگیں۔ تمام سمتیں نظر آنے لگیں۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں ——چاروں طرف سبزہ زار اگ آئے۔ کھیت ہرے ہو گئے۔ سبزے لہلہانے لگے۔ پودے لہرانے لگے۔ شاخیں ہلنے لگیں۔ سبزہ زاروں کے بیچ پانی کے سوتے ندی، نالے، تالاب اور چشمے جھلملانے لگے۔

یکایک بیل کے کندھے سے جُوا اتر گیا۔ اس کی آنکھوں سے پٹیاں کھل گئیں۔ منہ سے جاب ہٹ گیا۔ بیل کھلی اور روشن فضا میں ہری بھری دھرتی کے اوپر بے فکری اور آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے لگا۔ سبزوں کو دیکھ کراس کی آنکھوں میں ہریالی بھر گئی۔ اس کا چہرہ چمک اُٹھا۔ وہ مختلف سمتوں میں بے روک ٹوک گھومتا، من پسند سبز، تازہ، نرم ملائم پودوں، پتوں اور مخملی گھاس کو چرتا، چباتا، جگالی کرتا، ندی، نالوں اور چشموں سے پانی پیتا، تمام سمتوں کی جانب دیکھتا، میدان کی وسعتوں کو آنکھوں میں بھرتا جھومتا ہوا کافی دُور نکل گیا۔

سڑاک

سونٹے کی چوٹ پر ذہن جھنجھنا اُٹھا۔ پھیلی ہوئی سرسبزدھرتی میری آنکھوں سے نکل گئی۔

بیل کولھو کھینچنے لگا۔ اس کی آنکھوں کی پٹیاں لہرانے لگیں۔

لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پربندھ گئیں۔

بیل کے کندھے پر بندھا جوا، اس کی ناک میں پڑی نکیل، گھومتا ہوا کولھو، کچلتے ہوئے سرسوں کے دانے، دانوں سے بنا کھل، برتن میں جمع تیل، تیل کے پاس کھڑا شاہ جی سب کچھ میری آنکھوں سے چھپ گیا۔ سب کچھ اندھیرے میں ڈوب گیا۔

اندھیرا میرے اندر تک گھلتا چلا گیا۔

مجھے ہول اُٹھنے لگا۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ بے چین ہو کر میں نے اپنی آنکھوں سے پٹیاں جھٹک دیں۔

’’شاہ جی!ایک بات پوچھوں ؟‘‘

’’پوچھیے۔ ‘‘

’’بیل کی آنکھوں پرپٹی کیوں بندھی ہوئی ہے ؟‘‘

’’اس لیے کہ کھلی آنکھوں سے ایک جگہ پر لگاتار گھومتے رہنے سے اُسے چکّر آ سکتا ہے اور———‘‘

یک لخت میں اپنے بچپن میں پہنچ گیا۔ جہاں ہم کبھی کھلی اور کبھی بند آنکھوں سے کھلیان کے وسط میں گڑے کھمبے کے چاروں طرف چکر لگانے کا کھیل کھیلا کرتے تھے۔ اور کھلی آنکھوں سے گھومتے وقت اکثر چکر کھا کر گر پڑتے تھے۔

شاہ جی ویسانہیں ہے جیسا کہ میرے ذہن نے اس کی تصویر بنا لی ہے۔ شاہ جی کو کم سے کم بیل کی تکلیف کا احساس ضرور ہے۔ تصویر قدرے صاف ہو گئی۔

’’اوراسے چکر آنے کا مطلب ہے میرا گھن چکر‘‘

’’مطلب؟‘‘ دوسرا جملہ سن کر میں چونک پڑا۔

’’مطلب یہ کہ میں گھن چکّر میں پڑ جاؤں گا۔ یہ بار بار چکّر کھا کر گرے گا تو کام کم ہو گا اور کم کام ہو گا تو ہمارا نقصان ہو گا۔ ‘‘

شاہ جی کی تصویرسے جوسیاہ پرت اتری تھی، ، دوبارہ چڑھ گئی۔

مجھے ان کے گھن چکر میں کچھ اور بھی چکر محسوس ہونے لگا۔ کئی اور باتیں میرے دماغ میں چکر کاٹنے لگیں۔

کولھو کے منہ میں پڑے سرسوں کے دانے میرے قریب آ گئے۔

آنکھوں پرپٹی باندھنے کی وجہ یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ کہیں بیل ان دانوں میں منہ نہ مار لے اور شاہ جی کو اپنے پاس سے ہرجانے بھرنا پڑ جائے۔

کولھو کا دائرہ بھی میرے نزدیک سرک آیا۔

یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کہیں بیل کو یہ احساس نہ ہو جائے کہ وہ برسوں سے ایک ہی جگہ پر صبح سے شام تک گھومتا رہتا ہے اوراس احساس کے ساتھ ہی وہ بغاوت پر اُتر آئے، جوا توڑ کر بھاگ نکلے۔

اور یہ بھی کہ اسے کھل اور تیل نہ دکھ جائے۔

سرسوں کے زیادہ تر دانے کچل کر کھل میں تبدیل ہو چکے تھے۔ برتن میں کافی ساراتیل جمع ہو گیا تھا۔

بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

’’شاہ جی!یہ کھل تواسے ہی کھلاتے ہوں گے ؟‘‘

’’نہیں اسے کیوں کھلائیں گے یہ کوئی گاڑی تھوڑے کھینچتا ہے۔ کھل تواسے دیتے ہیں جو گاڑی کھینچتا ہے۔ یا ہل جوتتا ہے۔ ‘‘

میری نظر ایک بار پھر بیل کے اوپر مرکوز ہو گئی۔

دھنسی ہوئی کوکھ۔ پچکا ہوا پٹھا، دبی ہوئی پیٹھ اور اُبھری ہوئی ہڈیاں میری آنکھوں میں چبھنے لگیں۔

’’شاہ جی!یہ بیل تو کافی کمزور اور بوڑھا دکھتا ہے۔ اسے رٹائرڈ کیوں نہیں کر دیتے۔ ‘‘

’’نہیں بابو صاحب! اس کی بُوڑھی ہڈیوں میں بہت جان ہے۔ ابھی تو یہ برسوں کھینچ سکتا ہے۔ پھر یہ سدھاہوا ہے۔ اپنے کام سے اچھّی طرح واقف ہے۔ اس کی جگہ جوان بیل جوتنے میں کافی دقّت ہو گی۔ جوان بیل کھینچے گا کم بدکے گا زیادہ۔ اس لیے فی الحال یہی ٹھیک ہے۔ ‘‘

میری نگاہیں بیل کی رفتار کی طرف مبذول ہو گئیں۔

بوڑھا بیل واقعی سدھا ہوا تھا۔ ایک متوازن رفتارسے کولھو کھینچ رہا تھا۔ اس کے پاؤں نپے تلے پڑ رہے تھے۔ قدم گھیرے سے باہر شاید ہی کبھی نکلتا تھا۔ لگتا تھا اس کی بند آنکھیں شاہ جی کے سونٹے کو دیکھ رہی تھیں۔

’’ویسے ایک بچھڑے کو تیار کر رہا ہوں۔ کبھی کبھی اسے جوتتا ہوں۔ مگر پَٹھا ابھی، پُٹھے پر ہاتھ رکھنے نہیں دیتا۔ کندھے پر جوا رکھتے وقت بڑا اُدھم مچاتا ہے۔ آنکھ پر آسانی سے پٹی بھی باندھنے نہیں دیتا۔ سرجھٹکتا ہے مگر دھیرے دھیرے قابومیں آہی جائے گا۔ ‘‘

میری آنکھوں میں بچھڑا آ کر کھڑا ہو گیا۔

لمبا چوڑا ڈیل ڈول، بھرا  بھرا چھریرا بدن، اُٹھا ہوا پُٹھا، اونچا قد، تنی ہوئی چکنی کھال، چمکتے ہوئے صاف ستھرے بال، پھرتیلے پاؤں۔

بچھڑے کاکساہواپرکشش جسم مجھے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ میری نگاہیں اس کے ایک ایک انگ پر ٹھہرنے لگیں۔ اچانک بچھڑے کا ڈیل ڈول بگڑ گیا۔ قد دب گیا۔ پیٹ دھنس گیا۔ پُٹھا پچک گیا۔ پیٹھ بیٹھ گئی۔ ہڈیاں نکل آئیں۔ کھال داغ دار ہو گئی۔ پیروں کی چمڑی چھل گئی۔ بالوں کی چمک کھو گئی۔ بدن گوبر میں سن گیا۔

میرے جی میں آیا کہ میں کمرے سے باہر جاؤں اور بچھڑے کی رسی کھول دوں۔ یہ بھی جی میں آیا کہ اور نہیں تو آگے بڑھ کر بیل کی آنکھوں کی پٹی ہی نوچ دوں مگر میں اپنی گھانی کا تیل نکلنے کے انتظار میں اپنی جگہ پر چپ چاپ بیٹھا کبھی بیل، کبھی کولھو کے سوراخ سے نکلتے ہوئے تیل کو دیکھتا رہا۔

اور بیچ بیچ میں سڑاک سڑاک کی گونج سنتارہا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہاؤس ہوسٹس

 

ایر کنڈیشنڈ آفس میں ایزی چیئر پربھی مسٹرچوپڑادباؤ اور تناؤ لیے بیٹھے تھے۔ وہ ایک نئی قسم کے بواسیر میں مبتلا تھے۔ مسّے ان کے دماغ میں تھے۔ جس دن مسّے زیادہ پھول جاتے مسّوں میں ہل چل سی مچ جاتی اور دباؤ سے چہرے کا تناؤ بڑھ جاتا۔

آفیسر بیگ میز پر کب سے تیار پڑا تھا مگر وہ اسے اُٹھا نہیں پا رہے تھے، جیسے اس میں کسی نے آتش گیر مادہ رکھ دیا ہو۔ آتش گیر مادہ تواس میں نہیں تھا مگر گھر جا کر جب بھی وہ بیگ رات میں کھلتا تو دھماکا ضرور ہو جاتا۔ کاغذوں کے پھیلتے ہی گھر میں بھونچال آ جاتا۔ ماحول کی دھجّیاں بکھر جاتیں۔ در و دیوار میں دھواں بھر جاتا۔ یہ اور بات ہے کہ گھرکے بھونچال، ماحول کے بکھراؤ اور در و دیوار کے  دھوئیں کا سبب صرف یہ بیگ ہی نہیں تھا بلکہ گھر کے اردگرد آئے دن کھلنے والے وہ بکسیز بھی تھے جن سے نکلنے والا تیز رنگوں اور بوؤں کا بارودی غبار کھڑکیوں، دروازوں اور روشن دانوں سے گھس کر دل و دماغ پر چڑھتا اورسانسوں میں بستاجا رہا تھا۔ کچھ اور چیزیں بھی تھیں جو باہری دباؤ کے باعث اندرسے اٹھ رہی تھیں اور ان سب سے گھرکا توازن بگڑتا جا رہا تھا۔

گھرکے بگڑے ہوئے توازن سے نکلنے والی بے ہنگم، کرخت اور بے رس آوازیں حسبِ معمول مسزچوپڑا کے کانوں میں ادھم مچا رہی تھیں اور توازن کے اس بگاڑسے بننے والی بد رنگ بے کیف اور بد ہیئت صورتیں آنکھوں میں بچھوؤں کی طرح اپنا ڈنک چبھو رہی تھیں۔

مسٹرچوپڑاکے مشتعل مسّوں کا ایک علاج سنکائی ضرورتھاجس کا انہیں تجربہ بھی تھا۔ وہ کسی بار یا کیبرے میں چلے جاتے۔ شراب کا نشہ انہیں سن کر دیتا یا کیبرے ڈانسرکے عریاں بدن سے نکلنے والی گرمی دماغ کے مسّوں کو گرما کر نرم بنا دیتی۔ کولھوں کے جھٹکوں سے انہیں آرام مل جاتا مگر گھر پہنچتے ہی سوئے ہوئے مسّے اپنی آنکھیں کھول دیتے۔

جب بھی تناؤ بڑھتامسٹرچوپڑاکا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا ہوا اپنی فیکٹری کے بنے کھلونوں پر آ کر رک جاتا۔ ان کے سامنے طرح طرح کے کھلونے گھومنے لگتے۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہوتے جو روتے بچّوں کوہنسادیتے، ضدّی بچّوں کی ضد کو دبا دیتے، ان کا دھیان ایک طرف سے دوسری جانب موڑ دیتے، اپنے کرتب سے بچّوں کے پیٹ میں گدگدیاں بھر دیتے۔ پژمردہ چہروں پر شادابیاں سجادیتے۔ ویران آنکھوں میں چراغ جلا دیتے۔

آج بھی ان کا ذہن کھلونوں پر آ کر رک گیا تھا۔

کھلونوں کے سامنے بچّوں کی جگہ جوان اور بوڑھے کھڑے تھے، جن کی ویران آنکھیں، کھنچے ہوئے چہرے، خشک ہونٹ، پر شکن پیشانی، سخت سپاٹ پیٹ، سب کے سب کھلونوں کی سمت ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔

’’سرابھی تک——‘‘مسٹر چوپڑا آواز پر چونک پڑے۔ سامنے ان کے مینجر ملہوترا کھڑے تھے۔

’’ہاں مگر آپ!مسٹر چوپڑا نے ملہوترا کی طرف تعجب سے دیکھتے ہوئے کہا۔

’’سر آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے۔ ‘‘

’’سنائیے۔ ‘‘

’’آپ کے خوابوں کی تعبیر مل گئی سر!‘‘

’’کون سے خواب؟کیسی تعبیر؟‘‘مسٹرچوپڑا کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’سرہم نے ہاؤس ہوسٹس تلاش کر لی ہے۔ ‘‘

ہاؤس ہوسٹس؟

’’یس سر!‘‘

مسٹر چوپڑا کے ذہن میں ہوائی جہاز اڑنے لگے۔ آس پاس خلائی دوشیزائیں سجی سنوری مہکتی اور مسکراتی ہوئی پھرنے لگیں۔ شگفتہ جسموں کی تازگی دل و دماغ کو تر و تازہ کرنے لگی۔

سفرکی گرد چھٹنے لگی۔ تناؤ ڈھیلا پڑنے لگا۔ کاروباری اُلجھنوں، گھریلو جھمیلوں، سودوزیاں کی جھنجھٹوں اور جھنجھلاہٹوں سے مکتی ملنے لگی۔ ماضی کی تلخیوں پر پردہ پڑ گیا۔ مستقبل کی چنتاؤں پر غلاف چڑھ گیا۔ حال ہوا کی طرح ہلکا ہو گیا۔

’’کیاسچ مچ ہاؤس ہوسٹس مل گئی؟‘‘

’’یس سر!‘‘

’’کیا یہ ہاؤس ہوسٹس بھی ویسی ہی ہو گی جیسی کہ جہازوں میں ہوتی ہیں جو پورے سفر میں ہر ایک مسافرکی شریک حیات بنی رہتی ہیں، جن سے بنا ضرورت بولنے کو جی چاہتا ہے۔ بنا بھوک پیاس کے بھی جن سے کھانے پینے کی چیزوں کی فرمائش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ جنھیں ہر کوئی اپنی آنکھوں میں قید کر لینا چاہتا ہے۔ جن کی بدولت ہوائی جہاز کا سفر ہوا کی طرح سبک ہو جاتا ہے ؟

’’سران سے بھی بہتر ہے ہماری ہاؤس ہوسٹس۔ ‘‘

کیا؟ ’’آنکھوں کے ساتھ مسٹر چوپڑا کے ہونٹ بھی پھیل گئے۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں سر!آپ کے خوابوں کی تعبیر کی تلاش میں ہم کئی ہوائی میزبانوں کے گھر بھی گئے مگر گھروں کے اندر ان کے جسموں پر ہوائی جہاز والا رنگ و نور نظر نہ آیا۔ ان کا چہرہ پھیکا، باسی اوربوسیدہ لگا۔ ان سے بات کرتے وقت ان کے لہجوں میں جھنجھلاہٹ اور اکھڑ پن بھی محسوس ہوا۔ سر !ہم نے جوہاؤس ہوسٹس حاصل کی ہے اس کا رنگ و روپ ہمیشہ تر و تازہ رہے گا۔ اس کا لب و لہجہ بھی سداپرسکون  اور پر کیف  بنا رہے گا۔ ‘‘

’’مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔ ‘‘

’’یقین آ جائے گا!جب آپ اسے دیکھیں گے۔ ‘‘

’’میں جلد سے جلد دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’میں تواسی لیے حاضر ہوا ہوں سر۔ ‘‘

مسٹر چوپڑا اسپرنگ کی طرح اچھل کر اپنی کرسی سے اترے اور ملہوترا کے پیچھے پیچھے اپنی فیکٹری کے گیسٹ ہاؤس تک پہنچ گئے۔ ملہوترا نے آگے بڑھ کر کال بٹن کو دبا دیا۔ بٹن کے دبتے ہی دروازہ کھل گیا۔

ایک نہایت حسین و جمیل دوشیزہ نے جاں بخش مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ مسٹر چوپڑا کی نگاہیں دوشیزہ کے مقناطیسی رنگ و روپ پرکسی کمزور لوہے کی طرح فوراً چپک گئیں۔ متناسب، سڈول، شگفتہ، شاداب اور پر آب جسم نے مسٹر چوپڑا کے پژمردہ اور ویران آنکھوں کے آگے رنگ و نور بکھیر دیے۔

چند لمحے بعد اس حسنِ مجسم کے لب لعلیں بھی کھل گئے۔

’’یہ کیا؟آپ نے پھر چہرے کو تَناؤ سے بھر لیا؟میں کہتی ہوں آخر اتنی سوچ فکر کیوں ؟ یہ بھاگ دوڑکس لیے ؟——زندگی مسکرانے کے لیے ملی ہے، اُداس ہونے کے لیے نہیں۔ میں اس چہرے پر پھول دیکھنا چاہتی ہوں، خار نہیں۔ آئیے گرم پانی تیار ہے، منہ ہاتھ دھو لیجیے، کچھ ریلیف مل جائے گا۔ ‘‘

مسٹر چوپڑا حیرت واستعجاب سے اس حسینہ کی طرف دیکھتے ہوئے باتھ روم کی جانب بڑھ گئے۔ اس کی آواز کا جادو اور لہجے کی اعتمادی قوت نے انہیں واش بیسن تک پہنچا دیا۔ باتھ روم سے باہر نکلے تووہ پھر ان کے پاس آ گئی۔

’’کیا لیں گے ؟چائے، کافی؟یا کوئی سافٹ ڈرنک؟ کہیئے تووہسکی کا ایک پیگ بنادوں ؟‘‘

مسٹر چوپڑا اس کی آنکھوں کے پر خلوص بھاؤ اور باتوں کے مترنم بہاؤ میں بہنے لگے۔ چہرے کا کھنچاؤ کم ہونے لگا۔ بوجھل من سبک ہونے لگا جیسے ان کے مسّوں کو ٹھنڈک پہنچ گئی ہو۔

’’سر!اب ذرا اس کا ایک دوسرا رول دیکھیے۔ ملہوترا نے ایک اسکول بوائے کو بلوایا جو اپنی پیٹھ پر کتابوں کا بستہ لادے ایک دوسرے کمرے میں تیار بیٹھا تھا۔ بچّہ اشارہ پا کر دروازے کی طرف بڑھا۔ پیچھے پیچھے دروازے تک ہاؤس ہوسٹس بھی پہنچ گئی۔

’’دیکھو بیٹے !ٹھیک سے اسکول جانا۔ راستے میں کہیں اِدھر اُدھر نہ رکنا۔ چھٹی ہونے پر سیدھے گھر پہنچنا۔ لنچ ٹائم میں لنچ ضرور کھا لینا۔ بھولنا نہیں۔ پیاس لگے تو پانی صرف اپنی بوتل کا پینا۔ اورسنو ایک قدم آگے بڑھ کر اس نے بچّے کی پیشانی پر ایک پیار بھرا بوسہ ثبت کر دیا۔

بچّہ لمسِ محبت سے سرشار ہو کر جھومتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

ہاؤس ہوسٹس کے ہونٹوں سے چھلکتی ہوئی ممتا مسٹر چوپڑا کے من کے پیالے میں بھر گئی۔ ان کا سراپامعصوم بچّے کی طرح مسکرا اُٹھا۔

’’سرایک اور روپ ملاحظہ فرمائیے۔ ‘‘ملہوترا نے آگے بڑھ کر دروازہ بند کر دیا۔

تھوڑی دیر بعد کال بیل بجی اورہاؤس ہوسٹس دروازے پر پہنچ گئی۔ دروازہ کھلا۔ سامان سے لدی پھندی ایک عورت اندر داخل ہوئی۔

’’میم صاحب!شاپنگ کیسی رہی؟لگتا ہے آپ بہت تھک گئی ہیں۔ بیٹھیے پہلے میں آپ کے لیے گرما گرم کافی لاتی ہوں۔ پھر آپ کے جسم کا مساج کر دوں گی۔ آپ پھرسے فریش ہو جائیں گی۔ ‘‘

’’کیسی لگی سر؟‘‘

’’بہت اچھّی۔ بہت ہی پیاری۔ ایک دم فنٹاسٹک!‘‘

’’تھینک یوسر!‘‘

’’مگر ملہوترا!‘‘

’’سر؟‘‘

’’گھر کے اندر جا کر کہیں یہ بھی ایرہوسٹس کی طرح باسی اور پھیکی تو نہیں ہو جائے گی۔ ‘‘

’’بالکل نہیں سر!ذرا اسے غور سے تو دیکھیے۔ اس کی جلد میں جوکساؤ ہے وہ کبھی ڈھیلا نہیں پڑے گا۔ اوراس کا رنگ تو اتنا پختہ ہے کہ کسی بھی موسم کا واراسے پھیکا نہیں کر سکتا۔ اوراس کے لب و لہجے میں ایسی جاذبیت ہے کہ قیامت تک بھی ختم نہیں ہو گی۔ ‘‘

’’تو کیا یہ——؟‘‘حیرت سے مسٹر چوپڑا ملہوترا کی طرف دیکھنے لگے۔

’’یس سر!‘‘

’’ونڈر فل !میں تو سمجھ رہا تھا کہ——بھئی ملہوترا تم نے واقعی کمال کر دیا۔ آئی ایم پراؤڈ آف یو۔ ‘‘

’’سر!کمال تو اس کا ہے جو اس کے اندر ہے۔ جو اتناsensitiveہے کہ پیروں کی چاپ سے سمجھ جاتا ہے کہ آنے یا جانے والا مرد ہے یا عورت ہے۔ جوان ہے یا بوڑھا ہے۔ یا بچّہ ہے۔ جو یہ بھی محسوس کر لیتا ہے کہ کوئی آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔ جسے وقت کا بھی احساس رہتا ہے اور جو جنس، عمر، وقت، حیثیت، موقع، ماحول، موسم سب کو نگاہ میں رکھتا ہے اور اسی کے مطابق اپنا رول پلے کرتا ہے۔ ‘‘

’’واہ ملہوترا واہ !آج پتہ چلا کہ تم ایک کامیاب بزنس مین اور اچھّے سائنس داں ہی نہیں بلکہ ایک عظیم تخلیق کار بھی ہو۔ سچ مچ تم نے میرے خوابوں کی تعبیر ڈھونڈ نکالی ہے۔ اب جلد سے جلد یہ تخلیق میرے  گھر پہنچ جانی چاہیے۔

’’سر!لیکن ایک درخواست ہے ‘‘

’’بولو‘‘

’’سر ہم اس کی نمائش کرنا چاہتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو۔ ‘‘

’’ مسٹر چوپڑا سوچ میں پڑ گئے ‘‘کچھ دیر کے بعد بولے۔

’’ٹھیک ہے مگر نمائش میں دیر نہیں ہونی چاہیے۔ ‘‘

’’بالکل دیر نہیں ہو گی سر!‘‘

بہت جلد نمائش کی تیاریاں مکمل کر لی گئیں۔ ہاؤس ہوسٹس نمائش کے لیے شہر کے سب سے بڑی آرٹ گیلری میں رکھی گئی۔ دیکھنے والوں کا تانتا لگ گیا۔ ہاؤس ہوسٹس کے مختلف طرزوں اور روپ کا مظاہرہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے۔

نمائش کے بعد ملہوترا نے ایک موٹاسارجسٹر مسٹر چوپڑا کے سامنے رکھ دیا۔

یہ کیا ہے ؟

’’سر! اس میں لوگوں کے کمنٹسCommentsہیں۔ ‘‘

مسٹر چوپڑا نے رجسٹرکھول کر اِدھر اُدھر سے پڑھنا شروع کیا۔

’’آپ کی فیکٹری نے یہ ایک ایسا جاندار کھلونا بنایا ہے جو بے جان جسموں میں بھی جان ڈال دیتا ہے اور جو بچّہ، بوڑھا، جوان، مرد، عورت سب کے لیے کشش رکھتا ہے۔ (رپورٹر)

’’اس تخلیق کو دیکھ کر میری طرح بہت سے، ادیب تخلیق کرنا بھول جائیں گے۔ ‘‘  (ادیب)

’’آپ اسے بیچنا چاہیں تومیں اس کے منہ مانگے دام دے سکتا ہوں۔ ‘‘ (تاجر)

’’روبوٹ سائنس کی ایک بہت بڑی دین ہے مگر اس میں خوبصورتی پیدا نہیں کی جا سکی۔ آپ نے اس ماڈل کو حسن عطا کر کے سائنس کو بہت آگے بڑھا دیا ہے۔        (سائنس داں )

’’آپ اسے میرے گھر پہنچا دیجیے۔ بدلے میں جو چاہے کرا لیجیے ‘‘ (منسٹر)

’’مجھے یہ اتنی اچھّی لگی کہ میں اپنے ممی پاپا کو بھی بھول گئی۔ ‘‘ (طالبہ)

’’میں ایک کم تنخواہ والا ملازم ہوں۔ اسے خرید نہیں سکتا۔ اس لیے جی چاہتا ہے اسے چرا کر اپنے گھر لے جاؤں۔‘‘ (ٹیچر)

’’نوکری اگر نہیں، تو یہ ہاؤس ہوسٹس ہی مجھے دے دی جائے۔ ‘‘ (بے روزگار)

’’یہ تو اتنی قیمتی ہے کہ اگراس کی اسمگلنگ کی جائے تو ہیرا، سونا، چرس، حشیش، افیون، براؤن شوگر سب پر پانی پھرسکتا ہے۔   (اسمگلر)

’’اتنی پیاری چیز کو آپ نے یہاں بند کر رکھا ہے۔ اسے گھر لائیے نا۔ ‘‘      مسز اوشاملہوترا، وائف آف ایم۔ آر۔ ملہوترا،  مینجر ٹوائز کمپنی

٭٭٭

 

 

 

سانڈ

 

’’یہ کیسی بھگدڑ مچی ہے بھائی؟‘‘

سورج پور گاؤں کے ایک بوڑھے نے اپنے بر آمدے سے بھاگنے والوں کو مخاطب کیا — ایک نوجوان نے رُک کر ہانپتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘

’’چاچا !گاؤں میں آج سانڈ پھر گھس آیا ہے۔ ‘‘

’’سانڈ پھرگھس آیا ہے !‘‘بوڑھے کی سفیدلمبی داڑھی اوپرسے نیچے تک ہل اٹھی—

’’ہاں چاچا!پھرگھس آیا ہے اور آج تواس نے ایسی تباہی مچائی ہے کہ پوچھیے مت۔ نتھو کی بچھیا کو خراب کر دیا۔ چھیدی کے بچھڑے کو سینگ مار دیا۔ بھولو کے بیل کو ٹکریں مار مار کر لہولہان کر دیا۔ کالو کی گائے بھینس کے چارہ پانی کے برتن کو توڑ پھوڑ دیا۔ بدھو اور بھولا کی تیار سبزیوں کو نوچ کھسوٹ کر ملیامیٹ کر دیا۔ اب بھی بورایا ہوا اینڈتا پھر رہا ہے۔ نہ جانے اور کیا کیا کرے گا؟ کس کس پر قیامت ڈھائے گا؟‘‘

’’تم لوگ دھام پور والوں سے کہتے کیوں نہیں کہ وہ اپنے سانڈ کو روکیں۔ ادھر نہ آنے دیں۔ ‘‘

’’کہا تھا چاچا!گاؤں کے بہت سے لوگوں نے مل کر کہا تھا۔ ان سے بتایا تھا کہ ان کے گاؤں کا سانڈ ہمارا کتنا نقصان کر رہا ہے۔ مگر جانتے ہیں اُنھوں نے کیا جواب دیا۔ ‘‘

’’کیا جواب دیا؟‘‘

’’اُنھوں نے یہ جواب دیا کہ بھلاسانڈ کو بھی کہیں روک کر رکھا جا سکتا ہے۔ سانڈ تو دیوی دیوتا کاپرسادہوتا ہے۔ اسے بھگوان کے نام پر چھوڑ ا جاتا ہے اور بھگوان کے نام کا سانڈ بھگوان کی بنائی ہوئی اس دنیا میں کہیں بھی بنا روک ٹوک جا سکتا ہے۔ بھگوان ہی کی طرح اس کا بھی سب پہ حق ہے۔ سب میں اس کا حصہ ہے۔ وہ جو چاہے کھاسکتا ہے۔ اسے روک کر اپنے کو بھگوان کی نظروں میں دوشی اور نرک کا بھو گی بنانا ہے کیا——؟چاچا!میری سمجھ میں نہیں آیا کہ دھام پور کے لوگوں نے ایسا کیوں کہا؟ کیاسچ مچ سانڈ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے ؟‘‘‘

’’ہاں بیٹے !بات تو سچ ہے۔ لوگ اپنی کسی مراد کو پانے کے لیے بھگوان یا دیوی دیوتا سے منت مانتے ہیں کہ اگر ان کی مراد پوری ہو گئی تو وہ بھگوان یا دیوی دیوتا کے نام کا کوئی سانڈ چھوڑ دیں گے اور اپنی گائے کے بچھڑے کو یاکسی دوسری گائے کے بچھڑے کو خرید کر آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ چھوڑنے سے پہلے اس بچھڑے کو خوب مل مل کر نہلاتے ہیں۔ اس کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالتے ہیں۔ گاؤں والوں کو ایک جگہ جمع کر کے پوجا پاٹ کرتے ہیں اورسب کے سامنے بچھڑے کے جسم یا ماتھے پر بھگوان یا دیوی، دیوتا کا کوئی پکّا نشان بنا دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ بچھڑے کو کھونٹے سے کھول کر آزاد کر دیتے ہیں۔

چونکہ وہ بھگوان کے نام پر چھوڑا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے کھانے پینے اور گھومنے پھرنے میں کوئی کسی طرح کی رکاوٹ نہیں ڈالتا اور وہ آزادی اور بے فکری سے خوب کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن جاتا ہے۔ ‘‘

’’پھر تو دھام پور والوں نے ٹھیک ہی کہا تھا چاچا؟‘‘

’’ٹھیک تو کہا تھا، مگر یہ بھی تو ٹھیک ہے کہ کوئی اپنی بربادی کو چپ چاپ نہیں دیکھ سکتا۔ اپنے بچاؤ کے لیے اسے بھی تو کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ‘‘

’’تواب ہمیں کیا کرنا چاہیے چاچا؟‘‘

’’تم لوگ کانجی ہاؤس کے افسروں سے ملو۔ گاؤں کا حال بتاؤ۔ اور ان سے کہو کہ وہ دھام پور گاؤں کے سانڈ سے ہمارے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچائیں۔ ان سے یہ بھی کہو کہ یہ سانڈ پاگل ہو گیا ہے۔ اس لیے اسے جلد سے جلد کانجی ہاؤس میں بند کر دیا جائے۔ ورنہ ہمارے گاؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے گاؤں کو بھی روند ڈالے گا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے چاچا!میں آج ہی گاؤں والوں کو تیار کرتا ہوں۔ ‘‘

سورج پور والے اپنی تباہی کی خبر اور سانڈ کی شکایت لے کر کانجی ہاؤس پہنچے۔

کانجی ہاؤس کے افسرِ اعلیٰ نے ان کا دکھڑا سن کر کہا۔

’’آپ لوگوں کی تکلیف سن کر ہمیں بہت دُکھ ہوا۔ مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔‘‘

’’کیوں صاحب؟‘‘گاؤں والے اس کی طرف دیکھنے لگے۔

’’اس لیے کہ اس کانجی ہاؤس میں لا وارث سانڈ کو بند کرنے کا چلن نہیں ہے۔ یہاں تو ایسے جانوروں کو بند کیا جاتا ہے جن کا کوئی نہ کوئی وارث ہوتا ہے۔ جو کچھ دنوں کے اندر اندر اپنے جانوروں کو جرمانہ بھر کر چھڑا کر لے جاتا ہے۔ اگر ہم ایسے جانوروں کو باندھ کر رکھنے لگے تو کچھ دنوں میں یہ ہاؤس ہی بند ہو جائے گا۔ ‘‘اس نے نہایت ہی نرم لہجے میں جواب دیا۔

افسر کا جواب سن کر گاؤں والے گڑ گڑا کر بولے ۔

’’صاحب !کچھ کیجیے۔ ‘‘ورنہ تو ہمارا ستیاناس ہو جائے گا۔ ہم کنگال ہو جائیں گے۔ ‘‘

افسر نے انہیں سمجھاتے ہوئے پھر کہا۔

’’ہم مجبور ہیں۔ ہم ایسے جانور کو کانجی ہاؤس میں بالکل نہیں رکھتے۔ آپ لوگوں کو میری بات پر شاید یقین نہیں آ رہا ہے۔ آئیے میرے ساتھ۔ ‘‘

افسر گاؤں والوں کو اپنے ساتھ لے کر کانجی ہاؤس میں داخل ہوا۔

گاؤں والوں کی نگاہیں وہاں پر بندھے ہوئے جانوروں کو گھورنے لگیں۔ انہیں کہیں بھی کوئی سانڈ نہیں ملا۔ وہاں تو ایسے جانور بندھے تھے جو بہت ہی کمزور اور دبلے پتلے تھے جن کے پیٹ اندرکودھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہر کو نکلی ہوئی تھیں۔

کانجی ہاؤس کے اندر کا حال دیکھ کر گاؤں والے واپس لوٹ آئے اور اپنے کو قسمت کے حوالے کر کے بیٹھ گئے۔

ایک دن سانڈنے گاؤں میں پھر تباہی مچائی۔ اس کے بعد ایک باراورگھس آیا۔ پریشان ہو کر گاؤں والے ایک جگہ جمع ہوئے۔ بوڑھے نے گاؤں والوں کو اس بار یہ مشورہ دیا کہ وہ کانجی ہاؤس کے اوپر والے محکمے میں جا کر اپنی فریادسنائیں۔ گاؤں والے وہاں بھی پہنچے۔ وہاں کے افسروں نے گاؤں والوں کی درخواست پرسنجیدگی سے غور کیا اور کانجی ہاؤس کے افسران کو زور دے کر لکھا کہ وہ دھام پور والوں کو سانڈ کی تباہی سے بچائیں اور گاؤں والوں سے کہا کہ وہ کانجی ہاؤس کے افسران سے رجوع کریں۔ وہ ضرور اس سلسلے میں ضروری کار روائی کریں گے۔

گاؤں والے پھر کانجی ہاؤس پہنچے —افسران نے ان سے کہا۔

’’ٹھیک ہے۔ آپ لوگ سانڈ کو پکڑ کر لائیے۔ ہم اسے یہاں بند کر لیں گے۔ ‘‘

گاؤں والے کانجی ہاؤس کے افسرکی بات سن کر بہت خوش ہوئے اور گاؤں آ کر انہوں نے سانڈ کو پکڑنے کی تیاری شروع کر دی۔

گاؤں کے مضبوط اور پھرتیلے نوجوان ہر طرح سے تیار ہو کر سانڈ کا انتظار کرنے لگے۔ جلد ہی موقع ہاتھ آ گیا۔ سانڈ کے گاؤں میں گھستے ہی نوجوانوں کی ٹولی اپنے ہاتھوں میں لاٹھی اور رسّی لے کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔

نوجوانوں نے سانڈ کو گھیرنے اور اسے گرا کر پکڑنے میں بڑی ہوشیاری دکھائی۔ اَن تھک محنت کی مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ سانڈ ان کے نرغے سے نکل بھاگا۔ اس کوشش میں بہت سے نوجوان زخمی بھی ہو گئے۔ مگر نوجوانوں نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ وہ اس کا پیچھا کرتے رہے۔ وہ سانڈ سورج پور گاؤں سے نکل کر اپنے گاؤں یعنی دھام پور کی طرف بھاگا۔ نوجوان بھی اس کے پیچھے دوڑے۔

دھام پور والوں نے جب یہ دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے سانڈ کو دوڑا رہے ہیں اور دوڑانے والوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں اور رسّیاں بھی ہیں تووہ اپنے سانڈ کو بچانے کے لیے اپنے گھروں سے لاٹھی، بھالے اور بندوقیں لیے باہر نکل آئے اور پیچھا کرنے والوں کو للکارتے ہوئے چلائے۔

’’خبردار!وہیں رک جاؤ!آگے مت بڑھو۔ اگر تم نے ہمارے سانڈ کو ہاتھ بھی لگایا توہم تمہارے ہاتھ توڑ ڈالیں گے۔ تمھیں گولیوں سے بھون دیں گے۔ یہیں زمین پر ڈھیر کر کے رکھ دیں گے۔ جانتے نہیں،یہ سانڈ ہمارے دیوتا پر چڑھایا  گیا پرساد ہے۔ ‘‘

سانڈ کا پیچھا کرنے والے سورج پور کے نوجوانوں نے جب دھام پور والوں کی دھمکی سنی اور ان کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے بھالوں، لاٹھیوں اور تنی ہوئی بندوقوں کو دیکھا تو ان کے پاؤں تھرا کر تھم گئے اور وہ آگے بڑھنے کے بجائے منھ لٹکائے ہوئے پیچھے پلٹ آئے۔

اس حادثے کے بعد دھام پور والے اور شیر ہو گئے۔ اور اب وہ اپنے سانڈ کو آئے دن جان بوجھ کر سورج پور گاؤں کی طرف ہانکنے لگے۔

سورج پور گاؤں کی تباہیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو ایک دن بوڑھے نے گاؤں کے چھوٹے بڑے سبھی کو بلا کر کہا۔

’’میرے گاؤں کے پیارے لوگو!ہم نے ہر طرح کی کوشش کر کے دیکھ لی مگر سانڈ سے اپنے گاؤں کو نہ بچاس کے اور یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ اگر ہم سانڈ کو پکڑنے کے لیے زیادہ کچھ کریں گے تو اس کی مدد کے لیے دھام پور والے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ نتیجے میں بھاری خون خرابہ ہو گا اور تباہی مچے گی۔ اس لیے اب ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہم لوگ بھی اپنے دیوتا کے نام پر ایک بچھڑا چھوڑ دیں اور جلد سے جلد اسے سانڈ بنا دیں۔ ‘‘

’’اس سے کیا ہو گا چاچا؟‘‘——کئی نوجوان ایک ساتھ بول پڑے۔ ان کی حیران آنکھیں بوڑھے کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

’’اس سے یہ ہو گا کہ ہماراسانڈ بھی دھام پور والوں کا وہی حال کرنے لگے گاجو اپنے سانڈ سے وہ ہمارا کرواتے ہیں۔ اُدھر بھی جب تباہی مچے گی تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور وہ اپنے سانڈ کو روکنے پر مجبور ہوں گے۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں چاچا۔ یہ راستہ ہی ان کے لیے ٹھیک ہے۔ ‘‘نوجوانوں کے چہرے انتقام کی آگ سے دہک اٹھے۔ مگر بعض بزرگوں کے چہروں پرسنجیدگی طاری ہو گئی۔

سورج پور والوں نے ایک بچھڑا خریدا اسے نہلایا دھلایا۔ گلے میں ہار پہنایا اور سب کے سامنے اس کی پیٹھ پر دیوتا کے نام کا ایک ٹھپّہ لگا کراسے آزاد چھوڑ دیا۔

کمزور بچھڑا کھونٹے سے الگ ہوتے ہی آزادی اور بے فکری سی کھانے پینے اور پروان چڑھنے لگا اورسارے گاؤں کا چارہ پانی کھا پی کر بہت جلد بچھڑے سے سانڈ بن گیا۔

سانڈ بن کر جب اس نے اینڈنا اورسینگ مارنا شروع کیاتوسورج پور والوں نے اس کا رخ دھام پور والوں کی طرف موڑ دیا۔ دھام پور گاؤں میں گھس کر اس نے گاؤں کو روندنا اورتہس نہس کرنا شروع کر دیا۔ وہاں بھی بیل لہو لہان ہونے لگے۔ ان کے چارہ، پانی کے برتن بھی ٹوٹنے پھوٹنے لگے۔ ان کے کھیت اور کھلیان بھی تباہ و برباد ہونے لگے۔

دونوں طرف سے سانڈ ایک دوسرے کی جانب ہانکے جانے لگے۔ کچھ دنوں بعد ایک روز ایک عجیب و غریب منظر رونما ہوا۔ دونوں سانڈوں کو لوگوں نے ایک ساتھ گھومتے ہوئے دیکھا۔ دونوں اینڈتے ہوئے پہلے سورج پور گاؤں میں گھسے اور دونوں نے مل کر گاؤں کو روند روند کر ملیا میٹ کیا۔ پھر وہاں سے ایک ساتھ نکلے اور دھام پور میں گھس کر توڑ پھوڑ مچانے لگے۔

یہ منظر دیکھ کر دونوں گاؤں والوں کی آنکھیں حیرت میں ڈوب گئیں۔

اس دن کے بعد دونوں سانڈوں کا ایک ساتھ گھومنا اور مل جل کر گاؤں کو روندنا معمول بن گیا۔ دونوں گاؤوں کے علاوہ آس پاس کے دوسرے گاؤں بھی ان سانڈوں کی چپیٹ میں آنے لگے۔

اپنی بربادی سے تنگ آ کر آس پاس کے سبھی گاؤں والے مل جل کرسانڈوں کو مارنے کا منصوبہ بنانے لگے مگرکسی طرح یہ خبر محکمۂ تحفظِ وحشیان تک پہنچ گئی اوراس نے ان سانڈوں کی پیٹھ پر اپنا ٹھپّہ لگا دیا جو اس بات کا اعلان تھا کہ یہ جانور محکمۂ تحفظِ وحشیان کی حفاظت میں ہیں۔ انہیں کوئی بھی مار پیٹ نہیں سکتا۔

لوگوں نے یہ دیکھ کر سانڈوں کو مارنے پیٹنے کے بجائے اپنا اپناسرپیٹ لیا۔

٭٭٭

 

 

 

پہچان

 

بدحواسی میں وہ بھاگا چلا جا رہا تھا………۔

گھیرو——پکڑو——مارو——کاٹو——کی شر انگیز صدائیں چابک برسا رہی تھیں اور بندوق——بلّم اور تلوار دھاری صورتیں ایڑ لگا رہی تھیں۔

بھاگتے بھاگتے اچانک شہری پیروں کو جنگلی زمینوں کالمس محسوس ہوا۔ رفتار دھیمی ہو گئی۔ ایک پیڑ کے پاس رک کر اس نے پیچھے دیکھا۔ آبادی سے وہ کافی دُور نکل آیا تھا۔

اطمینان کے ساتھ وہ اس پیڑ کے پاس بیٹھ گیا۔ مسلسل بھاگتے رہنے سے اس کا گلا خشک ہو گیا تھا۔ سانسیں درست کرنے کے بعد وہ پانی کی تلاش میں آگے بڑھ گیا۔ کچھ دُور جانے کے بعد اسے ایک جھیل دکھائی پڑی۔ پانو جھیل کے کنارے پہنچ گئے۔

ٹھہرے ہوئے شفّاف پانی پر اپنا مسخ شدہ عکس دیکھ کر اس کا جھکتا ہواجسم یکایک ٹھٹھک گیا۔

اسے لگاجیسے وہ، وہ نہیں ہے۔ اس کے اوپرکسی دوسرے کی کھال منڈھ دی گئی ہے۔

سرسے پگڑی غائب تھی۔ بال منڈے جا چکے تھے۔ چہرے سے داڑھی صاف تھی۔ اس کے ذہن میں چھلے ہوئے آلو کی تصویر ابھر آئی۔ اس کی اپنی شکل عجیب بد ہیئت، بے رنگ اور پھیکی پھیکی سی محسوس ہوئی۔ کراہت کا ایک بھپکا اس کے رگ و پے میں سما گیا۔

آنکھیں مل کر نگاہیں اس نے دوبارہ پانی میں ابھرے عکس پر مرکوز کر دیں۔ جوان پیشانی سے بوڑھی لکیریں جھانک رہی تھیں۔ پھیلے ہوئے زرد مٹ میلے دیدوں میں سیاہ پرچھائیاں لہرا رہی تھیں۔

پیشانی اور آنکھیں توا س کی اپنی ہی ہیں لیکن پیشانی کے پاس سرکے اوپر سلیقے سے بندھی ہوئی جو پگڑی تھی، وہ کیا ہوئی؟جتن سے پالے ہوئے سجیلے بال کہاں گئے ؟آنکھوں کے نیچے گالوں پرسے سجی ہوئی داڑھی کدھر چلی گئی؟

اس نے ذہن پر زور دیا تو یاد آیا——

ان سب کا صفایاتواسی نے کیا تھا——بھاگتے ہوئے خوداسی نے پہلے اپنی پگڑی پھینکی تھی۔ پھر ایک جگہ چھپ کرسراورداڑھی کے بال منڈائے تھے۔ لیکن ایسا اس نے کیوں کیا تھا؟ اس نے دوبارہ ذہن پر زورڈالاتوسماعت کو چیر دینے والی آوازوں کا ایک ریلا اس کے کانوں میں گھس کر گونجنے گرجنے لگا۔ آگ برسانے والی صورتیں آنکھوں میں لپلپانے لگیں۔

زہریلی آوازوں کے شور اور شعلہ فشاں صورتوں کی لپلپاہٹ سے ایک ایسی کپکپاہٹ اس کے وجود میں سمائی کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں اس کا عکس لرز کر رہ گیا۔

اس نے اپنی جلتی ہوئی نگاہیں تیزی سے پانی کی طرف جھکا دیں لیکن پانی کے پاس پہنچنے سے پہلے گردن پھر ٹھٹھک گئی۔

اس کے چہرے کے پاس ایک اور چہرے کا عکس ابھر آیا تھا۔ آنکھیں پھیل کر اس عکس پر مرکوز ہو گئیں۔ یہ تو اس کے اپنے پڑوسی کا چہرہ ہے۔ لیکن یہ کیا—؟اس کے سرپر تو ٹوپی تھی یہ چوٹی کہاں سے آ گئی؟

اسے لگا جیسے پڑوسی کے گھٹے ہوئے سرپرکوئی بچھو ڈنک ابھارے بیٹھا ہو۔ خوف کا ایک ڈنک اس کے اندر چبھتا ہوامحسوس ہوا۔ اس کا وجود تلملا اُٹھا۔ وہ اس سیاہ بچھو کو سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ ایک اور چہرہ اس کی بغل میں آ کر کھڑا ہو گیا—یہ اس کے دوسرے پڑوسی کا چہرہ تھا۔ سنورے سجے بالوں والے سرپرپگڑی اور کلین چہرے پر داڑھی دیکھ کر اس کی نگاہیں ایک بار پھر حیران ہو اٹھیں، پڑوسی کے سرپرلپٹی ہوئی پگڑی کنڈلی مار کر بیٹھے ہوئے کسی اجگر کی طرح اس کی آنکھوں میں پھنپھنانے لگی۔

دہشت کی ایک اورلہراس کے اندر رسرایت کر گئی۔ اس کی تلملاہٹ اور بڑھ گئی۔ اس نے تیزی سے پتھر کا ایک ٹکڑا اُٹھا کرپانی پردے مارا۔ لہروں نے آلو، بچھو، اجگر تینوں کو دُور ڈھکیل دیا۔ اس کی ٹھٹھکی ہوئی گردن جھکتی چلی گئی۔ اس نے جلدی سے اپنے ہونٹ پانی میں ڈبو کر ایک ہی سانس میں بہت ساراپانی حلق میں اتار لیا۔

خشک گلا تر ہو  کر اوپر اُٹھا تو آنکھوں میں منظروں کا ایک جھنڈ جھلملانے لگا۔ جھیل کے اُس کنارے پر طرح طرح کے خمدارسینگوں، چمکدار آنکھوں اور رنگ برنگے کھالوں والے چھوٹے بڑے بے شمار جانور پانی پینے میں مصروف تھے اور ان کے بہت سے دوسرے ساتھی دُور  دُور تک پھیلی ہوئی وادی میں اِدھرسے اُدھر اور اُدرھرسے اِدھر دھما چوکڑی اور اچھل کود میں مصروف تھے۔

پہاڑ صورت جسموں، لپلپاتی لمبی سونڈوں، سوپ جیسے کانوں اور سفیدسڈول لمبے لمبے دانتوں والے ہاتھی مستی میں جھوم رہے تھے۔ سیاہ منہ، بھوری کھال اور لمبی دُم والے ہنومان ان ہاتھیوں کے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے۔ ان دونوں کے پیچھے سرخ رخسار، زرد بال اور چھوٹی پونچھ والے بندر قلابازیاں کھاتے ہوئے چل رہے تھے۔

ایک طرف نکیلی، خمیدہ، متناسب شاخوں اور بوٹے دار مخملی کھالوں والے ہرنوں کے غول قلانچیں مار رہے تھے اور ان کے ننھّے ننھّے پیارے پیارے پھرتیلے بچّے بے فکری سے زقندیں لگا رہے تھے۔

دوسری طرف سے کالے لمبے بالوں والے بھالوؤں کے جھنڈ ڈولتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔

کہیں پر خوبصورت چمکیلی آنکھوں اورسندرسڈول سینگوں والی مدمست نیل گائیں کلیلیں کرتی پھر رہی تھیں تو کہیں پر چالاک چنچل چیتلوں کی ٹولیاں چہلیں کرتی ہوئی چوکڑیاں بھر رہی تھیں۔

اُس کا دل سینے سے اُچھل کر وادی میں جا پہنچا اور وہ بھی جانوروں کے ساتھ قلابازیاں کھانے لگا۔

وہ اپنے دل کی قلا بازیوں اور زقندوں میں محو تھا کہ اچانک ایک دھماکامحسوس ہوا۔

جھومتی ہوئی حیوانی شکلوں کی جگہ انسانی ہیولے ڈولنے لگے۔ بندوقیں لہرانے لگیں۔ گولیاں دندنانے لگیں۔ دوڑ بھاگ، خوف وہراس اور چیخ وپکارسے ساراماحول دہل اُٹھا۔

اُس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور تیزی سے کانوں میں اُنگلیاں دے لیں۔ کچھ لمحے تک بے حس و حرکت پڑے رہنے کے بعد وہ لرزتا ہوا اُٹھا اور لڑکھڑاتا ہوا آہستہ آہستہ ایک گھنے پیڑ کے قریب پہنچ گیا۔ کچھ دیربعداسے نیند آ گئی۔

آنکھ کھلی تواس نے دیکھا۔ چیتلوں کا ایک جوڑاسامنے کی جھاڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کود رہا تھا۔ کچھ دُوری پر ایک ہرنی اپنے بچّے کو چوم چاٹ رہی تھی اور ننھے ننھے بچّے اُچھل اُچھل کر ماں کی چھاتیوں سے دودھ چوس رہے تھے۔

اُسے اپنا گھر یاد آ گیا۔ اُس کا دل بے قرار ہو اُٹھا۔ اُس نے ہڑبڑا کر چاروں طرف دیکھا۔ سامنے کی پہاڑی کو وہ پہچانتا تھا۔ دیوانہ وار وہ اس کی جانب دوڑ پڑا۔ پہاڑسے اتر کر آبادی میں پہنچا اور احتیاط کے ساتھ آگے کی طرف پانو رکھتا، شاہراہوں سے بچتا، مینار دار گنبدی عمارتوں سے کتراتا، ہوشیاری سے پگڈنڈیوں کا انتخاب کرتا ہوا ایک محلے میں داخل ہو گیا۔

سورج ڈوب چکا تھا۔ ماحول پرقبرستان ساسنّاٹاطاری تھا۔ دروازے، کھڑکیاں، اور روشندان بند تھے۔ ہر مکان ایک تابوت بن گیا تھا۔ سامنے کے ایک روشندان سے کچھ روشنی جھانک رہی تھی۔ وہ اسی جانب بڑھتا جا رہا تھا کہ اچانک اس روشندان پربھی سیاہ غلاف چڑھ گیا۔ گویا تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی گئی۔ روشنی تاریکی کے پیٹ میں سماگئی۔

ایک مکان کے پاس رُک کر اس نے اپنے کان دروازے سے لگا دیے۔ سرگوشیاں سن کر اس کے ہاتھ جلدی جلدی مگر احتیاط کے ساتھ دستک دینے لگے۔

آہٹ پا کر یکایک سرگوشیاں خاموش ہو گئیں۔ جیسےیکبارگی کسی نے کسی کا گلا دبوچ لیا ہو۔

وہ دروازے سے کھسک کر مکان کے پیچھے گلیارے میں پہنچ گیا اور دیوار پر چڑھ کر آنگن میں کود پڑا۔ دھم کی چوٹ پرسنّاٹے کی چیخ نکل گئی۔

’’کون؟ ’’گھبراہٹ اور دہشت بھری ایک نحیف سی نسوانی آواز تھرتھرانے لگی۔ وہ تیز تیز قدم رکھتا ہوا آنگن سے کمرے میں پہنچ گیا۔

’’کون ہو تم؟بولتے کیوں نہیں ؟کیا چاہتے ہو؟‘‘گھبرائی ہوئی ایک عورت مضبوطی سے اپنے بچّے کا ہاتھ تھامے پیچھے کھسکنے لگی۔

’’ارے میں ہوں بلونت تمہارا بلّو۔ ‘‘وہ اس عورت کی طرف بڑھنے لگا۔

’’بھگوان کے لیے ادھر مت آؤ۔ وہیں رُک جاؤ دیکھو ہم نے کچھ نہیں کیا ہے ؟ہم نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا ہے، ہماراکسی بھی معاملے میں کوئی ہاتھ نہیں ہے —ہم لوگ تو  خود ہی دکھی ہیں —بھگوان کے لیے ہم پر دیا کرو۔ ‘‘اس کی آواز لڑکھڑانے لگی۔

وہ پیچھے ہٹتی ہوئی دیوارسے جا لگی۔ سہماہوابچّہ اس کے پیروں سے چمٹ گیا۔

’’ارے ارے یہ کیا—؟تم تو سچ مچ ڈر گئیں۔ ارے بھئی میں کوئی دشمن نہیں، تمہارا پتی ہوں۔ تمہارا بلّو اپنے منے کا پاپا آ بیٹا میرے پاس آ۔

’’نہیں، پتا نہیں آپ کون ہیں ؟‘‘

’’میں تمہارا پاپا ہوں بیٹے۔ ‘‘

’’نہیں، آپ میرے پاپا نہیں ہیں۔ میرے پاپا تو وہ ہیں۔ ‘‘اس کی نگاہیں بچّے کے اِشارے کی طرف مبذول ہو گئیں۔

اس کی پگڑی اور داڑھی والی تصویر فریم سے مسکراتی ہوئی جھانک رہی تھی۔ سرعت کے ساتھ اس کے دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں سرپر پہنچ کر اس کی گنجی کھوپڑی پر پھرنے لگیں۔ اسے محسوس ہوا جیسے وہ کسی دوسرے کے سرپرہاتھ پھیر رہا ہو۔

’’کیا بات ہے بہو؟تم کس سے باتیں کر رہی ہو؟بلونت آ گیا کیا؟‘‘

’’ماں جی جلدی آیئے پتا نہیں گھر میں کون گھس آیا ہے ؟بدمعاش خود کو منّے کا پاپا کہہ رہا ہے۔ ‘‘

ماں کمرے میں آ گئی۔ ماں کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔

’’ماں اُنہیں تم ہی سمجھاؤناکہ میں کوئی غیر نہیں بلکہ ان کا اپنا بلونت ہوں۔ ‘‘ماں کی آنکھیں اور پھیل گئیں۔

’’نہیں تم میرے بلونت نہیں ہو۔ ‘‘

’’کیا کہہ رہی ہو ماں !کیا تم میری آواز بھی نہیں پہچانتیں ؟‘‘

’’میں اپنے بیٹے کی آواز خوب اچھّی طرح پہچانتی ہوں۔ لیکن تمہاری آواز میرے بلونت کی آواز نہیں۔ میرے بلّو کی آواز میں توشہدجیسی مٹھاس ہے۔ اس کا ٹھہرا ہوا شانت لہجہ تو کانوں میں رس گھولتا ہے اور تمہارے لہجے میں تو——نہیں، نہیں، تم میرے بیٹے نہیں ہو سکتے۔ تم ضرور کوئی ڈھونگی ہو۔ بلونت کے کپڑے پہن کر ہمیں دھوکا دینے آنے ہو۔ ہمیں لوٹنا چاہتے ہو۔ کہیں تم نے میرے بلونت کا خون تو——‘‘

’’نہیں، ایسا مت بولو ماں ! تمہارا بلونت زندہ ہے، صحیح سلامت ہے۔ میرا یقین کرو ماں ! میں ہی تمہارا بلّو ہوں۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ماں۔ ‘‘

اوراس کی آواز بھیگ گئی۔ آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے۔ ماں کے کان بیٹے کی آواز پر چونک پڑے۔ آنکھیں آنسوؤں کو پہچان گئیں۔

’’میرے لال! میرے بلّو !میرے بیٹے !مجھے معاف کرنا میں تمھیں پہچان نہ سکی۔ لیکن میرے لال تم نے یہ اپنا کیا حال بنا رکھا ہے ؟یہ سب کیسے ہوا؟کیوں کر ہوا؟کس نے کیا؟‘‘

بیوی کی نگاہیں جھک گئیں۔

’’دادی ماں، دادی ماں، کیا یہ سچ مچ میرے باپو ہیں ؟‘‘

’’ہاں، منّے، یہی تمہارے باپو ہیں۔ ‘‘ماں کا گلا بھی رندھ گیا۔

’’لیکن دادی ماں باپو نے اپنی پگڑی کیوں پھینک دی؟یہ گنجے کیوں ہو گئے ؟اپنی داڑھی مونچھیں کیوں کٹوا دیں ؟‘‘

بچّے کے سوال سے سنّاٹاچھا گیا—بلونت سکتے میں آ گیا۔

جواب میں آنکھوں سے صرف آنسوبہتے رہے۔ ماں آنسوؤں کی زبان سمجھ گئی۔ بیوی کی آنکھوں سے ندامت کے آنسورواں ہو گئے۔ منّا اپنے سوال کے جواب کی خاطر ایک ایک کے چہرے کی طرف بھونچکا ہو کر دیکھتا رہا۔

بلونت کومحسوس ہوا جیسے وہ اپنے بیٹے، اپنی ماں، اپنی بیوی اور اپنے گھرسب سے بہت دُور جا چکا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

بھیڑچال

 

’’پاپا!پاپا!کوئی کہانی سنائیے نا‘‘

میرے دونوں بچّے قریب آ کر بیٹھ گئے۔

’’کیسی کہانی؟‘‘

’’ایسی کہانی جس میں خوب سارے جانور ہوں، شیر ہو، بھیڑیا ہو چیتے ہوں۔ ‘‘اور تھِرل ہو۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ آج میں ایسی ہی کہانی سناتا ہوں۔ ‘‘

کسی جنگل میں بہت سارے جانور تھے۔ ان میں بھیڑیں بھی تھیں۔ بھیڑوں کے ریوڑ جنگل میں چاروں طرف جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ بھیڑوں کو جنگل کے کچھ جانور پسند نہیں کرتے تھے اور ان کے خلاف اپنے دل میں میل رکھتے تھے۔ ان سے نفرت کرتے تھے۔

’’پسند کیوں نہیں کرتے تھے پاپا؟‘‘

’’پسندنہ کرنے کی کئی وجہیں تھیں۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ ان جانوروں کے خیال میں بھیڑیں باہر سے آئی تھیں۔ ‘‘

’’کیاسچ مچ بھیڑیں باہر سے آئی تھیں ؟‘‘

کہتے تو یہی ہیں کہ بھیڑوں کے سکڑ داداباہرسے آئے تھے مگر انہوں نے اس جنگل کو ہی اپنا گھر بنا لیا تھا۔ بہت سی بھیڑوں کوتواس بات کا پتہ بھی نہیں تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ بھیڑیں بچّے بہت پیدا کرتی تھیں اور جنگل میں جگہ جگہ ان کے ریوڑوں کے پھیلے رہنے سے دوسرے جانوروں کو کودنے پھاندنے اور بھاگنے دوڑنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی تھی۔

بھیڑوں کا رہن سہن اور کھانے پینے کا طریقہ دوسرے جانوروں سے الگ تھا۔ نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

ایک اور وجہ یہ تھی کہ جنگل کا راجا شیر بھیڑوں پر مہربان تھا۔ یہ اور بات تھی کہ شیر کی مہربانیاں صرف ان چند بھیڑوں تک ہی محدود تھیں جن کے بال زیادہ گھنے اور سفید تھے۔ بھیڑوں کی بہت بڑی تعداد تو ایسی تھی جن کے بدن پربال تھے ہی نہیں اور جن پر تھے بھی وہ کافی چھِدرے اور نُچے کھچے تھے۔ اور ان کے پیٹوں میں گڈھے بھی تھے۔

’’بھیڑوں کے پیٹ میں گڈّھے کیوں تھے۔ ‘‘ایک نے حیران ہو کر پوچھا۔ ‘‘

’’اس لیے کہ انہیں پیٹ بھر چارہ نہیں ملتا تھا اور چارہ نہ ملنے سے ان کے پیٹ اندر تک دھنس گئے تھے اوردھنسے ہوئے خالی پیٹ گڈّھوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ ‘‘

’’اوہ!—اور اُنہیں چارہ کیوں نہیں ملتا تھا پاپا؟اُس نے پھرسوال کیا۔

’’اس لیے کہ جنگل کی بہت سی چراگاہوں میں اُنہیں گھسنے نہیں دیا جاتا تھا۔ ‘‘

’’کامران!تم بہت سوال کرتے ہو۔ کہانی سننے دو۔ آگے کیا ہوا پاپا؟‘‘شہنا نے گھورتے ہوئے ٹوکا۔

بھیڑوں سے نفرت کرنے والے جانورشیرسے بھی جلتے تھے۔ شیرسے جلنے کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ شیر بھیڑوں پر مہربان تھا بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ شیر جنگل کا خیال کم اور اپنا زیادہ کرتا تھا۔ اس کی من مانی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ جنگل کی ہر ایک چیز پر صرف اپنا حق سمجھتا تھا۔ اگر وہ کسی جانور کو اپنا شکار بناتا تو اسے اپنا پیدائشی حق سمجھتا۔ وہ جب چاہتا دہاڑتا اور اپنی دہاڑ سے جنگل کے کونے کونے میں دہشت پھیلا دیتا مگر کسی دوسرے جانور کی غرّاہٹ بھی اسے پسندنہیں تھی۔ جب بھی کوئی جانور ذرا بھی اونچی آواز میں بولتاتواس کی مونچھیں تن جاتیں۔ غصّے سے اس کا منہ پھیل جاتا اوراس کے نکیلے  دانت باہر نکل آتے۔ شیرسے دشمنی رکھنے والے جانور ہمیشہ شیرسے بدلہ لینے اور اس کو نیچا دکھانے کی تاک میں لگے رہتے مگر کامیابی نہ ملنے پروہ اپنا غصّہ بھیڑوں پر اُتارتے تھے۔ کبھی بھیڑوں کے بچّے پکڑ لے جاتے۔ کبھی بوُڑھی بھیڑوں کو مار گراتے، کبھی مادہ بھیڑوں کے تھنوں کو بھنبھوڑ ڈالتے اور کبھی کبھی ریوڑوں پر ہلّا بول کر اُنہیں اتنا دوڑاتے کہ بہت سی بھیڑیں آپس میں ٹکرا ٹکرا کر کچل جاتیں۔

شیرسے ان کی دشمنی بڑھتی گئی۔ بڑھتی گئی اور یہاں تک جا پہنچی کہ انہوں نے ایک دن شیر کے خلاف بہت سارے جانوروں کو جمع کر لیا۔ ان میں سے ایک نے اپنی گردن اُٹھا کر بھِیڑ کو مخاطب کیا اور نہایت ہی اثر دار اور غصّے سے بھری آواز میں کہا۔

’’ساتھیوں !شیر کی من مانی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمیں اس کے خلاف مل جل کر کچھ کرنا چاہیے۔ یوں بھی اس جنگل پراس کو راج کرتے ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہے۔ اب کسی دوسرے کو موقع ملنا چاہیے۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘بیٹے نے سوال کیا۔

’’پھر یہ ہوا کہ آپس میں رائے مشورہ کر کے ان میں سے کچھ جانور شیر کے پاس گئے اور بہت ہی گمبھیر لہجے میں بولے ‘‘

’’معاف کیجیے گا، ہمیں آپ پربھروسہ نہیں رہا۔ اب ہم اپنا راجا کسی اور کو بنانا چاہتے ہیں ‘‘

شیر نے بہت ہی ضبط اور دھیرج کے ساتھ ان کی بات سنی اور ایک ایک کو گھورتے ہوئے پوچھا۔

’’کیا یہ جنگل کے سبھی جانوروں کی رائے ہے ؟‘‘

شیر کے اس سوال پران میں سے کچھ توسہم کر خاموش ہو گئے مگر کچھ جانوروں نے زور دے کر جواب دیا۔

’’ہاں جنگل کے سبھی جانور چاہتے ہیں کہ ان کا راجا کسی دوسرے کو بنایا جائے۔ ‘‘

ان کا جواب سن کر شیر بڑی نرمی سے اطمینان بھرے لہجے میں بولا۔

’’مگر میری جانکاری کے مطابق سبھی جانورایسانہیں چاہتے، پھر بھی میں آپ لوگوں کو مایوس نہیں کروں گا۔ میں اس بات کے لیے تیار ہوں کہ آپ اپنا راجاپھرسے چن لیجیے۔ شرط صرف یہ ہے کہ میدان میں میں بھی اتروں گا۔‘‘

جانوروں نے شیر کی شرط بخوشی مان لی۔ اب طے یہ کرنا تھا کہ شیر کے مقابل میدان میں اُتاراکسے جائے۔ پوچھ تاچھ کرنے اور ٹوہ لینے پر پتہ چلا کہ یوں تو جنگل کا ہر ایک جانور راجا بننا چاہتا تھا مگر باگھ، بھیڑیا، تیندوہ اور بھالو اپنے کو اس عہدے کا حقدار سمجھتے تھے۔ ایک ساتھ یہ چاروں تو راجا بن نہیں سکتے تھے، اس لیے فیصلہ یہ ہوا کہ چاروں ہی میدان میں اتریں۔ جو جیت جائے گا اُسے جنگل کا راجا بنا دیا جائے گا۔

اس فیصلے کے ساتھ ہی باگھ، تیندوہ، بھیڑیا، بھالو چاروں جنگل میں گھوم گھوم کر تمام چھوٹے بڑے جانوروں سے ملنے لگے۔

یہ چاروں اُمیدوار باری باری سے بھیڑوں کے پاس بھی پہنچے اور اپنے اپنے دانتوں کو چھپاتے ہوئے بہت ہی میٹھی آواز میں بولے۔

’’ہم اگر راجا ہو گئے تو تمہارے لیے جنگل کی ساری چراگاہیں کھول دیں گے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہو گی۔ ہمارے راج میں کوئی تم پر کوئی حملہ نہیں کرے گا۔ تمہارا ایک بچّہ بھی نہیں مارا جائے گا۔ ‘‘

اُن کی چکنی چپڑی باتیں سن کر بھیڑوں کے ریوڑسے کچھ بھیڑیں گردن اُچکا اُچکا کران کی طرف دیکھنے لگیں۔

اُدھر شیر نے بھی جنگل کے جانوروں کو اپنے پاس بلا کران سے ملنا شروع کر دیا تھا۔ ایک دن اس نے زیادہ گھنے اور سفید بالوں والی بھیڑوں کو بھی اپنے کچھار میں بلایا اور نہ جانے ان کے کانوں میں کیا کہا کہ جب وہ کچھار سے باہر نکلیں تو ان کی آنکھیں ہرنوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایک دن جنگل کے سبھی جانور ایک بڑی سی وادی میں جمع ہوئے۔ راجا بننے کی شدید خواہش رکھنے والے امیدوار——شیر، باگھ، تیندوہ، بھیڑیا اور بھالو پانچوں جانوروں کے ہجوم سے ہٹ کر پانچ کناروں پر جا کھڑے ہوئے۔

جنگل کے ڈھنڈورچی نے چیخ چیخ کر بھیڑ کو مخاطب کیا۔

’’سنو!سنو!اے جنگل کے سمجھدار اور ہوشیارباسیو!سنو!تمہارے ہونے والے راجا تمہارے سامنے کھڑے ہیں۔ انہیں دیکھو!سوچو!اور اپنی اپنی پسند کے راجا کے خیمے کی طرف بڑھ جاؤ!‘‘

ڈھنڈورچی کا اعلان سنتے ہی جانور اپنے اپنے جھنڈسے نکل کر پانچوں امیدواروں کے پاس پہنچنے لگے۔ زیادہ سفید اور گھنے بالوں والی بھیڑیں دُور دُور تک پھیلے ہوئے اپنے ریوڑ سے نکل کر شیر کی طرف بڑھیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ان کے پیچھے پیچھے بھیڑوں کا ساراریوڑ بھی شیر کے پاس پہنچ گیا۔

شام تک جانوروں کا سارا ہجوم پانچ حصّوں میں بنٹ چُکا تھا۔ ۔ ایک ایک حصّے کی گنتی شروع ہوئی۔ شیر کے پاس جمع ہوئے جانوروں کی تعدادسب سے زیادہ نکلی۔ شیر جیت گیا اور پھر سے جنگل کا راجا بن بیٹھا۔

باگھ، تیندوہ، بھیڑیا اور بھالو اپنی ہارسے بہت دکھی ہوئے۔ اور کافی شرمندہ بھی۔ ان سب نے اپنی ہار کا ذمّہ دار بھیڑوں کو ٹھہرایا۔ باگھ اور بھیڑیا تو مارے غصّے کے بھیڑوں کے ریوڑ پر جگہ جگہ ٹوٹ پڑے۔ زخمی بھیڑیں بدحواس ہو کر گرتی پڑتی، لنگڑاتی، روتی، پیٹتی شیر کے پاس پہنچیں۔ شیر نے ان کا رونا دھونا سن کر دہاڑتے ہوئے للکارا۔

’’خبردار!اب اگر کسی نے ان پر حملہ کیاتواس کا انجام برا ہو گا مگر شیر کی دہاڑ اور دھمکی کے باوجود حملے نہیں رُکے۔ ‘‘

کچھ دنوں بعد تیندوہ اور بھالو دونوں ایک ساتھ مل کر بھیڑوں کے پاس آئے اور بہت ہی اعتماد اور بھروسے کے ساتھ پیار بھری آواز میں ہمدردی جتاتے ہوئے بولے :

’’گھبراؤ نہیں، ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے واسطے جنگل کی دوسری چراگاہیں بھی کھلوا دیں گے۔ ‘‘

تیندوہ اور بھالو کی نرم ملائم باتیں سن کر بھیڑیں جگالی کرنے لگیں جیسے ان کے سوکھے معدوں سے بہت سی ہری ملائم پتیاں نکل کران کے منہ میں آ گئی ہوں۔ ان کے سرہلنے لگے۔ دُمیں بھی ہلنے لگیں اور ان کے پاؤں بھی آگے پیچھے ہونے لگے۔

گرگٹوں کے ذریعہ شیر تک جب یہ خبر پہنچی تو گھبرا کر فوراً اس نے اپنی صلاح کار لومڑی کو طلب کیا۔

لومڑی نے اپنی آنکھیں نچا نچا  کر خبر کی گمبھیرتاسے شیر کو آگاہ کیا۔ شیر نے بنا دیر کیے اپنے پالتو درندے جنگل کے کونے کونے میں دوڑا دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے باگھ اور بھیڑیے کے بہت سارے حمایتی بندی بنا کر گپھاؤں میں قید کر دیے گئے۔

باگھ اور بھیڑیے شیر کی اس چالبازی پراس درجہ جھلّا اُٹھے کہ وہ شیرکواس کی اس حرکت کا مزا چکھانے کے لیے آپس میں مل گئے۔ اُنھوں نے بہلاپھسلا کر گیدڑ، سانپ اور بندروں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔

شیر سے مقابلہ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ سب نے اپنے اپنے مورچے سنبھال لیے۔ گیدڑوں کی باقاعدہ بیٹھکیں ہونے لگیں۔ ’’ہواں ہواں ‘‘نکلنے لگا۔ دُور دراز کے گیدڑ بھی اس کورس میں شامل ہو گئے۔

گیدڑوں نے اپنی بھپکیوں سے بھیڑوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ سانپ اپنے بلوں سے نکل کر بھیڑوں کے سامنے لہرا لہرا کر اپنا پھن پھیلانے لگے۔ ان کی پھنکاریں بھیڑوں کے کانوں میں گھس کران کے دلوں کو دہلانے لگیں۔ بندر بھیڑوں کے ریوڑوں کے آس پاس کے پیڑوں پر چڑھ کر دانت کچکچانے لگے۔ قلابازیاں کھانے کے بہانے بھیڑوں کی پیٹھوں پر دھم دھم کودنے لگے۔ باگھ اور بھالوؤں نے اپنے حملے تیز کر دئیے۔ بھیڑیں دائیں بائیں اندر باہر ہر طرف سے مار کھانے لگیں۔ جگہ جگہ ان کے بچّے کچلے اورڈسے جانے لگے۔ بوُڑھی بھیڑیں اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے لگیں۔ نوجوان بھیڑیں لنگڑانے لگیں اور مادہ بھیڑیں اپنے تھنوں کی نوچ کھسوٹ کے درد سے کراہنے لگیں۔

تنگ آ کر بہت ساری بھیڑیں شیر کے کچھار میں پہنچیں۔ شیرسے رو رو کر اپنا دکھڑا سنایا۔ خون رستے ہوئے زخم دکھائے۔ اور گڑگڑا کر بولیں۔

’’ہم سے اب اور نہیں سہا جاتا۔ ہماری حالت پرترس کھائیے اورکسی طرح ان درندوں سے ہمیں بچائیے۔ ‘‘

بھیڑوں کا حال دیکھ کر شیر نے غرّاتے ہوئے اپنے شیروں کو حکم دیا کہ وہ حملہ روکنے کا جتن کریں مگر اس کے باوجود باگھ، بھیڑیے اور ان کے ساتھیوں کے حملے نہیں رکے۔

بھیڑیں شیرسے نا امید اورمایوس ہو کر رحم طلب نگاہوں سے دوسرے جانوروں کی طرف دیکھنے لگیں۔ زیادہ گھنے اور سفیدبالوں والی بھیڑیں بھی نہ جانے کیوں اس بار ان کے ساتھ ہو گئیں۔

یہ دیکھ کر کہ بھیڑیں ان کی طرف دیکھنے لگی ہیں باگھ اوراُس کے ساتھیوں نے حملے روک دیے۔ اب بھیڑیں بے خوف ہو کر اطمینان کی سانس لینے لگیں۔ ان کے زخم بھرنے لگے مگر کچھ دنوں کے بعد اچانک ایک روز رات کے سنّاٹے میں ان پر حملہ ہو گیا۔

اس حملے میں بہت ساری بھیڑیں مر گئیں۔ اور ہزاروں کی تعداد میں بری طرح زخمی ہو گئیں۔ بھیڑوں کے ریوڑ میں کہرام مچ گیا۔ ان کی چیخ وپکارسے ساراجنگل دہل اُٹھا۔ اُن کے دکھ میں شریک ہونے اور اُن سے ہمدردی جتانے جنگل کے کونے کونے سے جانور پہنچنے لگے۔

اپناساراکام کاج چھوڑ کر جنگل کا راجہ شیر بھی اُن کے پاس پہنچا۔ بھیڑوں کی حالت دیکھتے ہی شیر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ روروکراس نے بھیڑوں کا حال پوچھا، آگے بڑھ کر اُن کے زخموں پر مرہم رکھا۔ ہمدردی کے بول بول کر ڈھارس بندھائی۔ ہر طرح کا دلاسا دیا۔ اور اپنے کارندوں سے کہہ کر اُن کے آگے ہرے نرم چارے کے ڈھیر لگوا دیے۔ صرف یہی نہیں کہ شیر نے بھیڑوں کے غم میں آنسوبہائے۔ ان کے لیے مرہم پٹّی اور چارہ پانی کا بندوبست کیا بلکہ اُن کی تسلّی کے لیے بہت سے گیدڑ، بندرسانپ اور کچھ باگھ، بھالُو اور بھیڑیے پکڑ کر بند بھی کر دیے۔

شیر کے آنسوؤں اوراس کی چارہ گری کے جذبے سے بھیڑیں پسیج گئیں۔ شیر کے خلاف اُن کے دلوں میں بیٹھا ہوا میل دھُل گیا اور وہ پھرسے شیر کی طرف دیکھنے لگیں۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

جس رات بھیڑوں کے ریوڑ پر حملہ ہوا تھا، اس رات کئی نوجوان بھیڑیں جاگ رہی تھیں۔ اُن کی آنکھوں نے حملہ کرنے والوں کو پہچان لیا تھا۔

’’حملہ کرنے والے کون تھے ؟‘‘بچّی نے پوچھا۔

’’اوں ہوں۔ یہ نہیں بتاؤں گا۔ آخرسسپنس بھی تو ہونا چاہیے نا۔ ‘‘

ہاں، سسپنس تو چاہیے۔ آگے ؟‘‘

’’اُن نوجوان بھیڑوں نے جب دُوسری نوجوان بھیڑوں کو یہ بتایا کہ اُس رات اُن پر حملہ کرنے والے کون تھے تو اُن کی آنکھیں حیرت سے پھیلی رہ گئیں۔ مگر بوُڑھی بھیڑوں کو یقین نہیں آیا۔ ‘‘

اس حادثے کے بعد نوجوان بھیڑوں کو شدّت کے ساتھ احساس ہو گیا کہ جنگل میں رہنا ہے تو اپنے بچاؤ کے لیے خود ہی کوئی راستہ ڈھونڈنا ہو گا۔

ایک دن دو نوجوان بھیڑیں کسی بات پر آپس میں جھگڑ رہی تھیں کہ اچانک اُنہیں اپنے جسموں پر پڑی چوٹوں کے درد کی ٹیس سے محسوس ہوا کہ ان کے پاس کوئی بڑی کار آمد چیز موجود ہے۔ دونوں آپس کی لڑائی کو بھول کر ایک دوسرے کے سروں کی طرف دیکھنے لگیں۔

کچھ دیر کے بعد دونوں کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔

’’ان کے سروں میں کیا تھا پاپا؟‘‘

’’سسپنس۔ ‘‘

’’سوری پاپا!آگے ؟‘‘

ان دونوں نے پہلے نوجوان اور بعد میں بوُڑھی بھیڑوں سے اپنے اپنے سروں کی طرف دیکھنے کو کہا۔ اپنے سروں کو دیکھ کر ان سب کی آنکھیں بھی چمک اُٹھیں۔ سب کی سب اپنی رگوں میں ایک عجیب طرح کی راحت محسوس کرنے لگیں مگر ایک دن ایک تجربہ کار بوُڑھی بھیڑ نے نوجوانوں کو مخاطب کیا:

’’ہم نے اپنے سروں کو تو دیکھ لیا مگر جب تک اپنے پیروں کو نہیں دیکھیں گے ہمارے یہ سرکچھ نہیں کر سکیں گے۔ ‘‘

بوُڑھی بھیڑ کی بات سن کر نوجوان بھیڑوں کی نگاہیں اپنے پیروں کی طرف مڑ گئیں۔ پیروں کو دیکھ کر تجربہ کار بھیڑ کی بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ اور وہ اپنے پیروں کی طرف دھیان دینے لگیں۔

جنگل میں راجا کو ہٹانے کی ہوا ایک بار پھر چل پڑی۔ جانور پھر سے ایک وادی میں جمع ہوئے۔ امید وار کناروں پر کھڑے ہو گئے۔

ڈھنڈورچی کا اعلان سنتے ہی جانور اپنے اپنے جھنڈسے نکل کر امیدواروں کی طرف بڑھنے لگے۔ زیادہ سفیداورگھنے بالوں والی بھیڑیں اپنے ریوڑ کی اگلی صف سے نکل کر آگے بڑھیں مگر کوئی بھی بھیڑ ان کے پیچھے نہیں گئی۔

یہ دیکھ کر تمام جانور بھونچکّا رہ گئے۔ وادی پرسنّاٹاچھا گیا۔ ایک ایک جانور بھیڑوں کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔

تب اگلی صف سے ایک نوجوان بھیڑ آگے نکل کر خاموشی کے سینے کو چیرتی ہوئی بولی:

’’ہمیں اس طرح آپ حیرت سے کیوں دیکھ رہے ہیں۔ ہم کوئی اجنبی نہیں ہیں بلکہ وہی بھیڑیں ہیں جوبرسوں سے اس جنگل میں آپ کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اب ہم نے اپنی چال بدل لی ہے۔ اور ہمیں یہ احساس ہو گیا ہے کہ ہمارے سروں میں بہت کچھ ہے۔ ‘‘

یہ سنتے ہی جنگل کے تمام جانوروں کی نگاہیں بھیڑوں کے پیروں اور سروں کی طرف مرکوز ہو گئیں۔

دُور دُور تک بھیڑیں فوجیوں کی طرح پاؤں سے پاؤں ملائے اور سراُٹھائے کھڑی تھیں۔ اور اُن کی آنکھیں بھی آج چمک رہی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

حیرت فروش

 

کتابوں سے نکلتے ہی نگاہیں اشتہاروں  پر پڑنے لگیں۔ اشتہار اور انٹرویو کے چکّر میں وہ در بدر پھرنے لگا۔ اس چکّر میں اسے چکّر آنے لگے۔ آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا۔ پاؤں لڑ کھڑانے لگے۔ مگر ایک دن ایک اشتہار سے اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔

’’ضرورت ہے حیرتوں کی۔ ایک ایک حیرت کا منہ مانگا دام—حیرت فروش اس پتہ پر رجوع کریں۔ ‘‘

(ادارۂ حیرت، عجائب خانۂ نو، کائنات گنج، آفاق نگر۔ )

وہ حیرتوں کی تلاش میں نکل پڑا———

ایک جگہ ایک بے قصورجسم پر سڑاک سڑاک کوڑے برس رہے تھے۔ بے رحم چابک کی چوٹ پر کچّے بدن کی نرم و نازک چمڑی جگہ جگہ سے اُدھڑ رہی تھی۔ سفیدچربی پِگھل پِگھل کر باہر نکل رہی تھی۔ مظلوم کی چیخ و پکار پر زمین وآسمان دہل رہے تھے۔ لوگ تماشائی بنے کھڑے تھے۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ کوڑوں کی مسلسل ضرب پراس کا وجود جھنجھنا اُٹھا۔

آگے بڑھا تو ایک مقام پر———

ایک بن بیاہی عورت ماں بنی بیٹھی تھی۔ ماں اور بچّے دونوں کو سنگ سارکیا جا رہا تھا۔ پتھر مارنے والوں میں بچّے کا باپ بھی شامل تھا۔

اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ لرز اُٹھا۔ کچھ اور آگے بڑھا تو دیکھا:

کمان کی طرح جھکی رہنے والی گردن بندوق کی نال کی طرح تنی ہوئی تھی۔ دینے والا ہاتھ پھیلا ہوا تھا۔ لینے والا دے رہا تھا۔

اعجوبہ انداز دیکھ کروہ حیران رہ گیا۔

شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، گلی گلی گھوم گھوم کراس نے بہت ساری حیرتیں جمع کیں اور ان حیرتوں کے عوض میں ملنے والی منہ مانگی رقم کے تصوّر میں جھومتا ہوا ادارۂ حیرت کے دروازے پر پہنچ گیا۔

’’جناب!میں حیرتیں لایا ہوں۔ ‘‘

’’کیا؟حیرتیں لائے ہو؟‘‘

’’جی، بہت ساری حیرتیں لایا ہوں ‘‘

’’دِکھاؤ!‘‘

’’مجھے ان کے منہ مانگے دام ملیں گے نا؟‘‘

’’ضرور ملیں گے۔ ‘‘

’’آپ سچ کہہ رہے ہیں نا؟‘‘

’’ہاں، ہاں، میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں مگر پہلے اُنہیں دکھاؤ تو۔ ‘‘

’’ابھی دِکھاتا ہوں۔ لیجیے،یہ پہلی حیرت ملاحظہ کیجیے۔ ‘‘

بن بیاہی عورت ماں بن گئی۔

’’دُوسری دِکھاؤ!‘‘

جرم ثابت ہو جانے کے باوجود مجرم برَی ہو گیا۔

’’تیسری دِکھاؤ!‘‘

قاتل کو انعام سے نوازا گیا۔

’’کوئی اور دِکھاؤ!‘‘

گلابوں پر گیندے کھِلے۔

’’کوئی اور!‘‘

شاخ سے ثمر ٹوٹا زمین پر نہیں گِرا۔

’’اور!‘‘

پانی میں آگ لگ گئی۔

’’اور کوئی!‘‘

سائبانوں سے دھوپ برستی ہے۔

’’اور‘‘

آسمان زمین پر اُتر آیا۔

’’اور‘‘

زمین آسمان پر پہنچ گئی۔

’’کوئی اور‘‘

’’عجیب ہیں آپ! اور اور کی رَٹ لگائے جا رہے ہیں مگر ایک بھی حیرت پر آپ کی آنکھیں نہیں پھیلیں۔ پیشانی پر کوئی لکیر نہیں اُبھری۔ کیا یہ حیرتیں آپ کو حیرت انگیز نہیں لگیں ؟‘‘

’’حیرتیں !حیرت انگیز!نہیں ؟مجھے تو نہیں لگیں۔ ‘‘

’آپ مذاق کر رہے ہیں جناب!’‘‘

’’نہیں، میں مذاق بالکل نہیں کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’تو کیا سچ مچ یہ آپ کو حیرت انگیز نہیں لگیں ؟‘‘

’’میں سچ کہہ رہا ہوں، مجھے اِن میں حیرت کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔ ‘‘

’’کہیں آپ کے حواس بیمار تو نہیں ہیں ؟‘‘

’’نہیں، میرے حواس بالکل دُرست ہیں۔ ‘‘

’’نہیں صاحب!ضرور آپ کے حواس میں کوئی خرابی آ گئی ہے ورنہ———‘‘

’’نہیں بھائی!میرے حواس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ کہو تومیں اپنا ڈاکٹری معائنہ کرا کر دِکھا دوں۔ تب تو یقین کرو گے نا؟‘‘

’’ہاں، معائنے کے بعد مجھے یقین آ جائے گا۔ ‘‘

’’تو ٹھیک ہے۔ آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘ادارۂ حیرت کا مینجراسے لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا۔ مختلف طرح کی مشینوں سے مینجر کے حواس کی جانچ ہو گئی۔ ڈاکٹر رپورٹ دیکھ کر مینجرسے بولا۔

’’آپ کے حواس بالکل صحیح ہیں۔ کہیں کوئی خرابی یا خامی نہیں ہے۔ ‘‘

’’رپورٹ سن کر اس نے ڈاکٹر کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا‘‘

’’تعجب ہے !ان کے حواس میں کوئی خرابی نہیں، پھر بھی انہیں حیرتیں حیرت انگیز نہیں لگتیں۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘اس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔

’’ڈاکٹر صاحب!یہ حیرتیں جن پر میں اب تک حیران ہوں۔ جنھیں دیکھ کر میری آنکھیں جل جل گئی ہیں۔ پلکیں بھیگ بھیگ گئی ہیں۔ چہرہ بگڑبگڑسا گیا ہے۔ دل دھڑک دھڑک اُٹھا ہے۔ دماغ ماؤف ساہوہو گیا ہے۔ وجود لرز لرز اُٹھا ہے، ان کے لیے اُن میں حیرانی کی کوئی بات ہی نہیں ہے ؟ ———سمجھا! یہ ضرور کوئی ڈراما کر رہے ہیں تاکہ میری اتنی ساری حیرتوں کے منہ مانگے دام نہ دینے پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب!میں نے انہیں بڑی مشقّت اور مشکل سے جمع کیا ہے۔ برسوں تگ و دو کی ہے۔ ‘‘

دھوپ میں خود کو تپایا ہے۔

بارش میں جسم کو بھگویا ہے۔

تن من پر کڑاکے کی سردیاں جھیلی ہیں۔

تنگ و تاریک راہوں میں ٹھوکریں کھائی ہیں۔

روحانی اذیتیں برداشت کی ہیں۔

تب جا کر یہ میرے ہاتھ لگی ہیں۔ ڈاکٹر !ان سے کہیے کہ اگر یہ منہ مانگے دام نہیں دے سکتے تو اپنی مرضی سے جو چاہیں دے دیں، میں اسی پر قناعت کر لوں گا مگر————— ’’دیکھو! میں کوئی ڈراما وراما نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی میری نیت میں کوئی کھوٹ ہے۔ تم جو کچھ اپنے ساتھ لائے ہو اگر یہ حیرتیں ہوتیں تو میں واقعی تمھیں منہ مانگے دام دیتا—— اچھّا، اگر تم کو مجھ پر یقین نہیں آ رہا ہے تومیں لوگوں کو جمع کرتا ہوں تم اِنہیں اُن کے سامنے رکھو۔ اگر وہ انہیں حیرت تسلیم کر لیتے ہیں تومیں تم جو مانگو گے، دینے کے لیے تیار ہوں۔ ‘‘

مینجر نے لوگوں کو جمع کیا۔ ایک ایک کر کے اس نے ساری حیرتیں ان کے سامنے رکھ دیں مگرکسی بھی حیرت پر کوئی آنکھ نہیں پھیلی۔ کسی بھی چہرے پر کوئی اثر مرتّب نہیں ہوا۔ اس کی حیرانی اور بڑھ گئی۔ کچھ دیرسوچنے کے بعد اس نے اپنے شبہے کا اظہار کیا۔

’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمام لوگ کسی دبا کے شکار ہوں ؟سب کے حواس بیمار پڑ گئے ہوں ؟‘‘

’’تمہارا یہ شک بھی ہم دور کیے دیتے ہیں ——‘‘اُس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔

’’ڈاکٹر!پلیز ان سب کا معائنہ بھی کر دیجیے۔ ‘‘

تمام لوگوں کا بھی معائنہ ہو گیا۔ کسی میں کوئی خرابی نہیں نکلی۔

پھیل کر اس کے دیدے اور بڑے ہو گئے۔

’’کہیں ایسا تو نہیں کہ جانچ مشین ہی خراب ہو؟‘‘اس کے ذہن میں ایک اور اندیشے نے سراُٹھایا۔

’’تمہارا یہ شک بھی ہم دور کرا دیتے ہیں، مشینوں کو بھی جانچ کر دیکھ لیتے ہیں۔ ‘‘

مشینوں کی بھی جانچ ہو گئی۔ مشینیں ٹھیک تھیں۔

اس کاسرندامت سے جھک گیا۔

’’مجھے افسوس ہے نوجوان کہ تمہاری محنت رائیگاں گئی۔ ایک بار پھر کوشش کرو۔ ممکن ہے دوسری بار کامیاب ہو جاؤ۔ ‘‘

احساسِ ناکامی اور ندامت کے بوجھ کے ساتھ وہ وہاں سے لوٹ آیا مگر اس کی تلاش جاری رہی۔ اسے وہ تمام حیرتیں پھر سے دِکھائی پڑیں جنھیں وہ ادارۂ حیرت میں چھوڑ آیا تھا۔ ان کے علاوہ اس نے یہ بھی دیکھا:

باپ بیٹی کے ساتھ زنا میں مشغول تھا

بیٹا ماں کے اوپرسوار تھا

رہبر رہزنی کر رہا تھا

محافظ تحفظ کا گلا گھونٹ رہا تھا

اندھا دیکھ رہا تھا

آنکھ والا ٹھوکر کھا رہا تھا

لنگڑا دوڑ رہ تھا

پاؤں والا گرا پڑا تھا

لولھا  مال و زر بٹور رہا تھا

ہاتھ والا دستِ نگر تھا

دریا کوزے میں بند تھا

زہر بے اثر تھا

صدا بے صوت تھی

سرخ سفیدتھا

سفید سیاہتھا

مگر کسی بھی حیرت پراس کی آنکھیں نہیں پھیلیں۔ چہرے پر لکیر نہیں اُبھری۔ پیشانی پر بل نہیں پڑا۔ دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوئی۔ سماعت نہیں لرزی۔ دماغ ماؤف نہیں ہوا۔ اسے اپنے آپ پر تعجّب ہوا۔ اسے محسوس ہواجیسے اس کے حواس بے کار ہو گئے ہوں۔

وہ حیرتوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ کہیں بھی کوئی حیرت ہاتھ نہیں آئی۔ کئی برس بیت گئے ——آنکھوں میں اندھیرا گھلنے لگا۔ مایوسیاں دل و دماغ میں ڈیرا ڈالنے لگیں۔ ایک دن ایک حادثے پر نظر پڑی۔ اسے اس پر حیرت کا گمان ہوا۔ وہ اپنی پھیلی ہوئی آنکھوں میں اس حادثے کوسمیٹے ادارۂ حیرت کی طرف بھاگا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

’’میں وہی ہوں جوبرسوں پہلے بہت ساری حیرتیں لے کر آیا تھا مگر میری ایک بھی حیرت نہیں بِکی تھی۔ ‘‘

’’اب کس لیے آئے ہو؟‘‘

’’پھرح یرت لے کر آیا ہوں۔ ‘‘

’’دِکھاؤ!‘‘

’’کسی کی قابلیت اس کے کام آ گئی۔ ‘‘

’’کیا؟قابلیت بار آور ہو گئی؟‘‘مینجر کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’جی ہاں، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘

’’اب کے تم واقعی حیرت لے کر آئے ہو؟جاؤ!کیشیئر سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کر لو مگر جانے سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ حیرت تمھیں کہاں ملی ؟اگر تم خود ہماری رہنمائی کر سکو تواس کا ہم تمھیں الگ سے معقول معاوضہ دیں گے۔ ‘‘

’’ضرور ‘‘اس نے کیشئیر سے قیمت وصول کی اور اُن کی رہنمائی کرتا ہوا جائے وقوع تک پہنچ گیا۔

’’ہم لوگ ادارۂ حیرت سے حاضر ہوئے ہیں۔ ‘‘مینجر نے تعارف کرایا۔

’’فرمائیے !‘‘اس جگہ کسے افسرِ اعلا نے ان کے آنے کا سبب دریافت کیا۔

’’ہم لوگ آپ کو سَمّانِت کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’سمّانِت کرنا چاہتے ہیں !مگر کیوں ؟‘‘

’’اس لیے کہ آپ نے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے۔ ‘‘

’’حیرت انگیز کارنامہ!کون سا کارنامہ؟‘‘

’’آپ نے ایک شخص کی لیاقت تسلیم کر لی۔ اُسے اس کی قابلیت کا ثمرہ دے دیا۔ ‘‘

’’ہاہاہا………‘‘یکایک افسرکے منہ سے قہقہوں کا فوّارہ ابل پڑا۔

’’آپ ہنس رہے ہیں ؟‘‘ادارۂ حیرت کے کارکن اسے اِس طرح دیکھنے لگے جیسے کوئی ایک اور اعجوبہ ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہو۔

’’ہنسوں نہیں تو اور کیا کروں صاحب؟‘‘مشکل سے افسرنے اپنی ہنسی کو روکا۔ ‘‘

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘مینجر کی حیرانی اور بڑھ گئی۔

’’جناب!اس قابل شخص کا انتخاب اس لیے نہیں ہوا کہ وہ قابل تھا؟‘‘

’’پھر؟‘‘

’’در اصل ہم اپنے سابقہ عمل سے اوب چکے تھے۔ یہ تبدیلی ویسی ہی ہے جیسے ہم اپنے پر تکلف دسترخوان پر کبھی چٹنی روٹی کی فرمائش کر بیٹھتے ہیں۔ ‘‘

رُکا ہوا فوّارہ پھرسے جاری ہو گیا۔

ادارۂ حیرت کے مینجر اوراس کے کارکنوں کی پھیلی ہوئی آنکھیں ایک دم سے سکڑ گئیں۔ جیسےیکایک کوئی نشتر چبھو کران کے دیدوں کے اندرسے ڈلے نکال لیے گئے ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

یوکلپٹس

 

جھگرو پھر اپنے کھیت میں اُداس کھڑا تھا۔ آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ فصل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ دُور دُور تک مٹّی ہی مٹّی تھی—سخت، بے جان، بے رس، پتھّر سی مٹّی—

کہیں سے پتھّر کا ایک ٹکڑا اس کے دل سے آ ٹکرایا۔ آنکھیں گیلی ہو گئیں۔ پُر آب نگاہوں میں ڈوبا ہوا ماضی اُبھر آیا———ہاتھوں کے چھالے —— پسینے کے قطرے ——اناجوں کے تندرست و توانا دانے ——اور یوریا کے بھرے بھرائے بورے تیرنے لگے۔

کیاسوچ رہے ہو بیٹے ؟‘‘کسی نے جھگرو کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اوراس کی گردن پیچھے کی طرف مُڑ گئی۔

’’کاکا !پھسل اس بار بھی نہیں ہوئی—آپ تو جانتے ہیں کہ اس بار ہم نے کتنی محنت کی تھی۔ عمدہ سے عمدہ کھاد ڈالا—سینچائی کے لیے ٹیوب ویل بھی لگایا۔ جوتائی گوڑائی میں بھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی——لیکن ‘‘جھگرو کے ہونٹ بند ہو گئے اور آنکھوں میں سیلاب اُمنڈ آیا— ماضی پھر ڈوب گیا—تیرتی ہوئی چیزیں جھگوروں کے ساتھ دُور بہت دُور جا پہنچیں۔

کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد اس کے لب پھر وا ہو گئے۔

’’کاکا!آپ کو تو یہ بھی پتہ ہے کہ اسی کھیت میں باپو کے زمانے میں کتنی اچھّی پھسل لگتی تھی۔ اس کی بدولت گھر میں ہن برستا تھا—ساری کوٹھیاں اناج سے بھر جاتی تھیں۔ ایک ایک آدمی موج مستی سے دن بتاتا تھا۔ کسی کوکسی چیز کی چِنتا نہ تھی اور آج——‘‘اس کی زبان پھر بند ہو گئی۔

کاکا کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں —کم عمر پیشانی پر فکر کے جالے اور جوان آنکھوں کے اردگردسیاہیوں کے ہالے صاف دکھائی دے رہے تھے اور ان ہالوں کے بیچ اس کی ویران آنکھوں سے اس کا اُجڑا ہوا گھر جھانک رہا تھاجس کے آنگن میں ایک مریل سی عورت اپنے سوکھے ہوئے سے بچّے کے منہ میں اپنی خشک لجلجی چھاتیوں سے دودھ ٹپکانے کا جتن کر رہی تھی۔

’’بیٹے !میں تمہارے حالات سے اچھّی طرح واقف ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم نے محنت میں کوئی کمی نہیں کی۔ عمدہ بیج اور عمدہ کھاد ڈالا، سینچائی کا بھی معقول انتظام کیا——پھر بھی فصل نہیں ہوئی۔ جانتے ہو اس کا کارن کیا ہے ؟——تم نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ فصل اب کیوں نہیں ہوتی؟‘‘

’’گور تو بہت کیا کاکا پر کچھ سمجھ میں نہیں آیا—پہلے تو میں یہی سمجھتا رہا کہ نئی کِسم کے کھاد اور ماکول پانی کے ابھاؤ میں پھسل نہیں ہو پاتی لیکن اس بارتواس کی کمی کو بھی پورا کر کے دیکھ لیا۔ میری تو اکل (عقل)حیران ہے کہ آکھِر (آخر)پھسل کیوں نہیں اگتی۔ ‘‘

’’بیٹے !میں بتاتا ہوں، فصل کیوں نہیں اُگتی—تم اپنے کھیت کے کناروں پروہ پیڑ دیکھ رہے ہو—لمبے لمبے —سفید سفید—ہرے ہرے پتّوں والے پیڑ—!‘‘

’’ہاں، دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘

’’تمہاری فصل کے نہ ہونے کے کارن یہی ہیں۔ ‘‘

’’پھسل کے نہ ہونے کے کارن یہ ہیں ؟‘‘یہ کیسے ہو سکتا ہے کاکا؟انہیں توہم نے پھسل کو جانوروں سے بچانے کے لیے لگایا تھا۔ ‘‘

’’یہ صحیح ہے کہ تم نے فصل کی حفاظت کے لیے ہی انہیں لگائے تھے لیکن یہ بھی سچ ہے بیٹے !کہ فصل کی تباہی کے کارن بھی یہی ہیں۔ یہی تمہارے کھیت کی نمی کوچوس کر اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ ……‘‘

’’لیکن کاکا!یہ تو کھیت سے کافی دُور ہیں اور منڈیروں پر کھڑے ہیں۔ ‘‘

’’تم بہت بھولے ہو بچّے !شاید تمھیں ان پیڑوں کے بارے میں ٹھیک سے جانکاری نہیں ہے ——یہیوکلپٹس ہیں —ہماری زبان میں انہیں سفیدہ کا پیڑ کہا جاتا ہے ——ان کا دھڑ نہایت سفیداورچکنادِکھائی دیتا ہے لیکن جڑ—ان کی جڑیں زمین میں کافی گہرائی تک پہنچتی ہیں —اور دُور دُور تک کی نمی کو سوکھ لیتی ہیں —یہ جہاں ہوتے ہیں آس پاس میں کوئی دُوسراپودا پنپ نہیں پاتا—‘‘

’’کاکا!اگر کارن یہ ہیں تو میں آج ہی انہیں کاٹ ڈالتا ہوں۔ ‘‘

’’نانا، ایسامت کرنا—ان کو ہاتھ نہ لگانا ورنہ غضب ہو جائے گا۔

گجب ہو جائے گا کیا مطلب؟ میں سمجھانہیں۔ ‘‘

’’مطلب یہ کہ اس علاقے میں پیڑوں کو کاٹنا منع ہے بیٹے۔ ‘‘

’’لیکن کاکا!یہ پیڑ تو ہماری جمین میں ہیں۔ اور انہیں لگائے بھی ہم نے ہیں۔ پھر ہم انہیں کاٹ کیوں نہیں سکتے؟‘‘

’’تمہارا یہ کہنا صحیح ہے بیٹے !کہ یہ پیڑ تمہاری زمین میں ہیں، اور انہیں تم نے لگائے ہیں، پھر بھی اجازت کے بغیر تم انہیں کاٹ نہیں سکتے۔ ایسی غلطی ہر گز مت کرنا ورنہ فصل سے تو ہاتھ دھو ہی چکے ہو، جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑ جائے گا۔ ‘‘

’’مگر کاکا—!اگر انہیں گرایا نہیں گیا تو ہماری پھسل تو کبھی نہیں ہو گی۔ ‘‘

’’ہاں، بیٹے !جب تک یہ کھڑے ہیں فصل تو نہیں ہو گی۔ ‘‘

’’تو آپ ہی بتائیے۔ ہم کیا کریں ؟کس طرح سے پھسل اُگائیں ؟آپ تو جانتے ہیں کہ ہماری جندگی کا دارومدار اسی کھیت کی پھسل پر ہے۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں، تمہاری زندگی کی سانسوں کی ڈور فصل کے خوشوں سے بندھی ہے — لیکن اس کے لیے تمھیں انتظار کرنا ہو گا——صرف انتظار—‘‘

’’لیکن کس کا انتظار کاکا؟‘‘

’’آندھیوں کا——وہی کچھ کر سکتی ہیں ——آؤ اب گھر چلتے ہیں۔ ‘‘

کاکا نے پھر اپنا ہاتھ جھگرو کے کندھے پر رکھ دیا۔

بھاری من اور بوجھل قدموں کے ساتھ جھگرو بھی کاکا کے ہمراہ گھر آ گیا۔

انتظار کرتے کرتے کاکاکاجسم زمین میں جا گڑا۔ ہڈّیاں گل سڑ کر مٹّی میں تبدیل ہو گئیں —اور جھگرو کے کالے بالوں میں سفیدی پت گئی۔ چہروں پر جھرّیوں کا جال بن گیا اور آنکھوں میں موتیا بند پڑ گئے۔

ایک دن جھگرو کے بچّے اس کے سامنے جمع ہوئے اور کہا۔

’’باپو!اب ہم سے آندھیوں کا انتظار نہیں ہوتا—ہم نے طے کیا ہے کہ ہم ان پیڑوں کو کاٹ گرائیں گے جو ہمارے کھیتوں کے منڈیروں پر کھڑے ہیں۔ ‘‘

جھگرو کے لاکھ منع کرنے پر بھی وہ نہیں مانے اور کلہاڑی لے کر کھیت پر جا پہنچے۔

پیڑوں پر ابھی کچھ ہی وار پڑے ہوں گے کہ گاؤں کے چوکیدار کی اطلاع پر محکمۂ جنگلات کے کچھ سپاہی وہاں آ دھمکے اور اُنہیں پکڑ کر تھانے لے گئے —

’’کیا تم لوگوں نے پیڑ کاٹنے کی کوشش کی تھی؟‘‘تھانے دار نے کرخت لہجے میں سوال کیا۔

’’جی ہاں حجور کی تھی۔ ‘‘بڑے بیٹے منگرو نے جواب دیا۔

’’کیا تمھیں معلوم نہیں کہ پیڑوں کا کاٹنا جرم ہے ؟‘‘

’’لیکن حجور !وہ پیڑ تو ہماری جمین میں ہیں ——ہم انہیں کاٹ کیوں نہیں سکتے ؟‘‘

’’بے شک پیڑ تمہاری زمین میں ہیں لیکن وہ ہماری حفاظت میں ہیں۔ ہماری اجازت کے بغیر تم انہیں ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے۔ ‘‘

’’لیکن ایسا ہم کیوں نہیں کر سکتے حجور؟‘‘

’’بے وقوف !اتنے بڑے ہو گئے اور تمھیں یہ بھی پتہ نہیں کہ پیڑ ہمارے محافظ ہیں۔ ان سے ہماری دھرتی کا سنتولن قائم ہے۔ انہیں کے دم سے بارش ہوتی ہے اور اس بارش سے ہی ہماری یہ دنیا ہری بھری نظر آتی ہے۔ ‘‘

’’لیکن حجور!ان پیڑوں سے تو ہماری پھسلیں برباد ہو رہی ہیں، ہم تباہ ہوئے جا رہے ہیں۔ ‘‘

’’تم سے کس نے کہا کہ پیڑوں سے فصل برباد ہوتی ہے ؟‘‘

’’حجور میرے باپو نے !‘‘

’’کیا تمہارے باپو کوئی سائنس داں ہیں ؟یا انہوں نے پیڑوں پر ریسرچ کی ہے ؟‘‘

’’نہیں حجور!وہ تو کچھ بھی نہیں ہیں۔ صرف ایک دیہاتی آدمی ہیں۔ معمولی کسان۔ ‘‘

’’تومیں جو کہہ رہا ہوں وہ سچ ہے یا تمہارے دیہاتی اَن پڑھ باپ جو کہتے ہیں وہ— ؟‘‘

’’میں کیا کہہ سکتا ہوں حجور! ہم توبس اتنا چاہتے ہیں کہ ہمارا کھیت کچھ اُگلے —اس میں سے کچھ پیدا ہو کہ ہم جِندہ رہ سکیں —ہم اپنی طرف سے ہر طرح کی محنت مسکت کرنے کے لیے تیار ہیں —آپ ہی کوئی راستہ بتا دیجیے نا—!ہم اسی پر عمل کریں گے۔ ‘‘

’’دیکھو راستہ واستہ بتانا میرا کام نہیں ——تم خود کوئی راستہ ڈھنڈو——لیکن اتنا یاد رکھو کہ وہ پیڑ ہماری حفاظت میں ہیں ——انہیں اگر دو بارہ ہاتھ لگاؤ گے تو جیل کی کال کوٹھری میں بند کر دیے جاؤ گے، جاؤ اب اپنا کام کرو۔ ‘‘

’’لیکن حجور!‘‘

’’اب ہم کچھ سننا نہیں چاہتے —اب جلدی سے دفع ہو جاؤ ورنہ………

منہ لٹکائے ہوئے جھگرو کے بیٹے واپس آ گئے اورپھرسے اپنے باپ کے ساتھ آندھی کے انتظار میں کھڑے ہو گئے۔

دھیرے دھیرے ان کے بالوں میں بھی سفیدی اپناگھونسلہ بناتی جا رہی ہے۔ چہروں پر جھرّیوں کے جال بچھتے جا رہے ہیں۔ آنکھوں میں گڈھے پڑنے لگے ہیں اور گڈھوں میں سیاہیاں جمع ہوتی جا رہی ہیں۔

جب کبھی ذرازورسے ہوا چلتی ہے تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ آندھیاں آنے والی ہیں، اور وہ گھرسے نکل کر کھیت پرجا پہنچتے ہیں۔ ان کی نگاہیں پیڑوں پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ کانوں میں پیڑوں کے گرنے کی چرچراہٹ محسوس ہوتی ہے۔ ویران آنکھوں میں سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ اورسورج کی اس روشنی میں ان کا کھیت لہلہا اٹھتا ہے۔ گیہوں کی سنہری بالیاں چمک اٹھتی ہیں — —لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ہوا لمبے، سفید، اور تندرست پیڑوں سے ٹکرا کرواپس لوٹ جاتی ہے اور پھربرسوں ادھر کا رخ نہیں کرتی۔

٭٭٭

 

 

 

ڈوبرمین

 

میرے ہاتھ رکھنے پر میری بیوی اس طرح چونکی جیسے کسی کنواری لڑکی پرکسی نامحرم مرد نے ہاتھ رکھ دیا ہو۔

’’کون؟‘‘

میری اُنگلیاں ٹھٹھک گئیں۔

میں ہکّا بکّا ہو کر اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا۔

اس کے جسم نے میرے ہاتھ کو پہچاننے سے انکار کر دیا تھا۔

اس ہاتھ کو جسے وہ جسم برسوں سے جانتا تھا۔

جس کی اُنگلیوں کے پور پور کو پہچانتا تھا۔

جس کی ایک ایک حرکت اور حرارت سے پوری طرح واقف تھا۔

یہ وہی جسم تھا جس کا بند بند میرے ہاتھ کی جنبش سے کھل جاتا تھا۔

جو میرے ہاتھ کے لمس سے پگھل جاتا تھا۔

جسے میری اُنگلیاں جو SHAPEدینا چاہتی تھیں اس SHAPE میں ڈھل جاتا تھا۔ میری بیوی بھی اپنے چونکنے پر حیرت زدہ تھی۔ اس کی آنکھوں میں احساسِ ندامت اُبھر آیا تھا۔

’’کیا بات ہے ؟‘‘

’’وہ نشان!میں نے سمجھا شاید——‘‘جملہ لرز کر ٹوٹ گیا۔

نشان میری جانب لپک پڑا۔ میراسراپاسہم اُٹھا۔

جذبۂ لذّتِ جسم یک لخت سردپڑ گیا۔

یہ نشان وہ نشان تھا جو کچھ روز قبل ہمارے مکان پر دکھائی پڑا تھا۔ اورپھر آہستہ آہستہ ہمارے دل و دماغ میں اُتر گیا تھا۔

پہلے تو ہم نے یہ سمجھا کہ کارپوریشن والے کچھ کرنا چاہتے ہوں اور اُن کا کارندہ کوئی کوڈ بنا گیا ہو۔

پھر خیال آیا کہ کسی شرارتی بچّے نے راہ چلتے اپنی شرارت کا مظاہرہ کر گیا  ہو مگر جب گھر سے باہر نکلے تو اس نشان کے پُراسرار تذکرے نے ہمیں بوکھلا دیا۔

کارپوریشن کا کوڈ اور بچّے کی شرارت لگنے والا نشان، عجیب و غریب قسم کا نشان لگنے لگا۔

غورسے دیکھنے پر کبھی وہ کوئی چہرہ بن جاتا۔ کبھی کوئی ہاتھ، کبھی پاؤں، کبھی پنجہ، کبھی دانت، کبھی ناخن، کبھی بچھّو کا ڈنک، کبھی سانپ کا پھن، کبھی چھری کی نوک، کبھی تلوار کا پھل، کبھی انی، کبھی لبلبی، کبھی نال، کبھی کچھ، کبھی کچھ۔

کبھی ایسا محسوس ہوتاجیسے ہمارے مکان کی دیوار پر کوئی اِچھا دھاری سانپ چڑھ آیا ہو۔ ایسا سانپ جسے شکلیں تبدیل کرنے کی شکتی بھی حاصل ہو گئی ہو۔

نشان گہرا ہو گیا۔

شکلیں شعلوں کی طرح لپلپانے لگیں۔

ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

اس رات صبح تک ہم کروٹیں بدلتے رہے۔

ایک اور رات ایک ہلکی سی آہٹ پر ہماری آنکھ کھل گئی۔ ہڑبڑا کر ہم دونوں بسترسے اُٹھ بیٹھے۔ لپک کر بیوی نے سوتے ہوئے بچّے کو بھی بسترسے اُٹھا کر گود میں بھینچ لیا، جیسے ہمارے بیڈروم میں سانپ گھس آیا ہو یا زلزلہ آ گیا ہو۔

بچّے کی آنکھ کھُل گئی۔

وہ حیران ہو کر ہم دونوں کی طرف باری باری سے دیکھنے لگا۔ شاید وہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ ہم بے وقت کیوں کر اُٹھ بیٹھے ہیں اوراس کی ماں نے اُسے بسترسے اُٹھا کر گود میں کیوں بھینچ رکھا ہے۔ ہم نے اُسے کچھ نہیں بتایامگراس کے چہرے سے ہمیں محسوس ہواجیسے اس کی آنکھوں نے ہمارے چہروں کو پڑھ لیا ہو۔

اُس رات بھی ہم نہیں سوسکے۔ ہمارے ساتھ ہمارا بچّہ بھی جاگتا رہا۔

نشان گہرا ہوتا گیا۔ اس کی لپلپاتی ہوئی شکلیں دل و دماغ سے لپٹتی چلی گئیں۔

ایک دن میری بیوی گھبرائی ہوئی مجھ سے بولی۔

’’اب ہمیں یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیے۔ ‘‘

میں نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’چھوڑ تو دیں مگر ہم جائیں گے کہاں ؟‘‘

’’کہیں بھی۔ کسی اپنے علاقے میں۔ ‘‘

’’اس مکان کا کیا ہو گا؟‘‘

’’بند کر دیں گے۔ ‘‘

اور کہیں ہاتھ سے نکل گیا تو؟‘‘میرا مکان میری آنکھوں میں سمٹ آیا۔ گیٹ، دروازے، کھڑکیاں، روشندان سب ایک ساتھ کھل گئے۔

رنگ برنگ کے پھولوں سے سجاہرابھرالان، کشادہ کمرے، آرام دہ بیڈروم۔ آراستہ ڈرائنگ روم، علاحدہ ڈائننگ ہالINDEPENDENTگیسٹ روم، پُرسکون اسٹڈی روم، ہوا دار کچن، روشن کوری ڈور، صاف ستھرا باتھ روم، پھیلی ہوئی لابی، کھُلا کھُلا سا آنگن، سب کے سب اپنے رنگ و روغن کے ساتھ جھانکنے لگے۔

پوش علاقے میں یہ کشادہ مکان ہم نے اس لیے کھڑا کیا تھا تاکہ پندرہ سال تک لگا تار تنگ و تاریک دائرے میں گزری تعفّن اور گھٹن سے بھری ہماری زندگی صاف، تازہ اور بھرپور سانس لے سکے۔ اپنے پھیپھڑوں پر جمی پرت در پرت سیاہی کو ہم دھوسکیں۔ کھلی فضا میں کھلے ہوئے ذہنوں کے ساتھ رہ کر سکھ اورسکون پا سکیں۔

یہ وہ مکان تھا جسے کھڑا کرنے میں

مجھے بار بار

بیٹھنا پڑا تھا۔

جس کی تعمیر کی تمنّا میں

نہ جانے کتنے خواب ٹوٹے تھے

کتنے منصوبے بگڑے تھے

کتنے حوصلے اُوپر اُٹھ اُٹھ کر

نیچے گرے تھے۔

جسے بنانے کی فکر میں

پندرہ سال تک مسلسل بگڑنا پڑا تھا

سیکڑوں ضرورتوں کا گلا گھُٹا تھا

ہزاروں خواہشیں مری تھیں

جسم نے موسموں کے بے شماروارسہے تھے

دل و دماغ نے اَن گنت چوٹیں برداشت کی تھیں۔

پیٹ کے علاوہ چہروں پربھی گڈھے کھدے تھے

ایمان داریوں کا سربھی کُچلا تھا

ضمیر فروشی کا کرب بھی جھیلنا پڑا تھا

جس کی بنیاد میں ہمارا پسینہ بھی ٹپکا تھا

جس کے پتھروں سے ہمارے ہاتھوں میں بھی چھالے پڑے تھے۔

جس کی چھتیں اُٹھانے میں ہمارے ہاتھ پاؤں بھی لہولہان ہوئے تھے

ہمارے گھٹنے بھی چھلے تھے

میرا مکان مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔

’’مکان ہاتھ سے نکل جانے کا ڈر ہے تواُسے بیچ دیجیے۔ مگر جلد سے جلد یہاں سے چلیے۔ ‘‘

’’بیچ دوں ؟‘‘مجھے ایسالگا جیسے کوئی مجھ سے میری بیوی کو بیچنے کے لیے کہہ رہا ہو۔ میرا وجود سرسے پاؤں تک لرز اُٹھا۔ میں اپنی بیوی کی طرف دیکھنے لگا۔

’’ہاں، اُسے بیچ کر کسی اور علاقے میں لے لیجے۔ ‘‘

میرا مکان مجھے اپنی طرف پوری طاقت سے کھینچنے لگا۔

مگر میری آنکھیں بیوی کے چہرے سے الگ نہ ہو سکیں۔

اس کی آنکھوں میں ایسے ایسے عکس دِکھائی پڑے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے مکان بیچنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

تگ و دو شروع ہو گئی۔

خریدار آنے لگے۔

ہمارا مکان ہر ایک کوپسندآیا مگرکسی نے بھی مناسب قیمت آفر نہیں کی۔ نودس لاکھ کے مکان کی قیمت پانچ لاکھ سے بھی کم لگائی گئی۔ ایسالگتا تھاجیسے تمام خریدار کسی ایک جگہ سے آ رہے ہوں یا ہمارے پاس آنے سے پہلے ایک دوسرے سے مل چکے ہوں۔ میں نے بیوی کوسمجھایا کہ جو قیمت مل رہی ہے وہ بہت ہی کم ہے اور اتنی کم قیمت میں اتنا قیمتی مکان مجھ سے تو نہیں بیچا جائے گا۔ مگر وہ نہیں مانی۔ وہ اس قیمت پربھی مکان بیچنے کے لیے ضد کرنے لگی۔

میں نے اُسے اس طرح بھی سمجھایا کہ مکان کی جو قیمت مل رہی ہے اگر اس قیمت میں دوسرے علاقوں میں مکان نہ ملا تو کیا ہو گا مگراس بات کا بھی اس پر اثر نہیں ہوا۔

بولی:

’’پہلے آپ دوسرے علاقوں میں مکانوں کے دام معلوم تو کیجیے۔ کیا پتہ اسی قیمت پر ایسا ہی مکان مل جائے۔ ‘‘

’’میری جدّوجہداس جانب بھی شروع ہو گئی۔

میں نے کچھ محلّوں میں بکاؤ مکانوں کی قیمتیں معلوم کیں تو پتہ چلا کہ وہاں تو مٹّی بھی سونے کے بھاؤ بِک رہی ہے ——گندی، بدبو دار گلیوں میں نا جائز زمینوں میں بنے مکانوں کی قیمت بھی ساتھ آٹھ لاکھ سے کم نہیں تھی۔

یہ جدّ و جہد بھی بیکار گئی۔

قسمت کے سہارے مکان کو چھوڑ دینے اور کسی کرائے کے مکان میں منتقل ہو جانے کا فیصلہ بھی ہوا مگر اپنے محلّوں میں کرائے کادَرسُن کر ہمارے ہوش اُڑ گئے۔

ہر طرف سے ہماراراستہ تنگ ہونے لگا۔

بیوی کی حالت پاگلوں جیسی ہو گئی۔

اس نے کمروں کی صفائی، ڈسٹنگ، اور پودوں کو پانی دینا تو چھوڑ ہی رکھا تھا، اب پھُول پتّوں کو نوچنے کھسوٹنے بھی لگی تھی، اسے دیکھ کر میرا توازن بھی بگڑنے لگا۔

میری حالت میرے دوستوں سے چھپی نہ رہ سکی، ایک نے مشورہ دیا۔

’’ڈوبرمین کیوں نہیں خرید لیتے ؟‘‘

’’یہ کیا ہوتا ہے ؟‘‘

’’یہ ایک قسم کا واچ ڈوگ ہوتا ہے۔ بڑا ہی چُست، چوکس اور خوں خوار، یہ جس گھر میں ہوتا ہے اس کے آس پاس کسی کے آنے کی ہمّت نہیں ہوتی۔ مگر اس کے لیے شروع میں ٹرینر (TRAINER)بھی رکھنا ہو گا کیونکہ آسانی سے قابو میں نہیں آتا۔ اس کے ساتھ مانوس ہونے میں وقت لگتا ہے۔

مجھے اپنے دوست کا یہ مشورہ ایک آخری سہارامحسوس ہوا۔ حیثیت نہ ہونے کے باوجود ہم نے ڈوبرمین خرید لیا۔ اور تنخواہ پر ٹرینر بھی رکھ لیا۔

ایک ڈیڑھ ہفتے تک خود بند رہ کر ہم نے ڈوبرمین کودن میں کھولے رکھا تاکہ اُس کے رونگٹے کھڑے کر دینے والی صورت دُور دُور تک دِکھائی دے جائے۔

اس کے پھُرتیلے جسم کی چوکسی اچھّی طرح نظر آ جائے !اس کے سیاہ چہرے پر بجلیوں کی طرح چمکنے والی چوکنی آنکھیں زیادہ سے زیادہ آنکھوں میں سماجائیں۔ سماعت کو چیر دینے والی آواز دل  و دماغ میں پیوست ہو جائے۔ اس کے بعد ڈوبرمین کے کھلنے اور بندہونے کے اوقات مقر ر ہو گئے، اسے رات کے ۹ بجے کھول دیا جاتا اور صبح کے ۶ بجے بند کر دیا جاتا۔

ڈوبرمین کی موجودگی، اس کی چوکسی اور اس کی خوفناک آواز نے دھیرے دھیرے ہمیں نشان کی نیش زنی سے نجات دلا دیا۔

مگر ہمیں ہمارا آس پاس کچھ اٹ پٹا سالگنے لگا۔

معمولات ڈسٹرب ہونے لگے

پیروں میں زنجیرسی بندھنے لگی

دماغوں میں انکس ساداخل ہونے لگا

حواس میں جکڑن سی محسوس ہونے لگی

انہیں دنوں مجھے آفس کے کام سے کلکتہ جانا پڑا۔ جس روز مجھے گھر لوٹنا تھا اس دن ٹرین لیٹ ہو گئی۔

کمپارٹمنٹ سے اتر کر میں تیزی سے رکشا اسٹینڈکی طرف لپکا۔ بنا مول تول کیے رکشا لیا  اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

رکشے پر بیٹھتے ہی بیوی کا سجاسنوراسراپا آنکھوں میں بس گیا۔

اضطراب سے بھری منتظر آنکھیں مضطرب کرنے لگیں۔

اٹیچیوں میں بند بچّوں اور بیوی کے گفٹ بھی اِدھر اُدھر سے ٹہوکے دینے لگے۔

’’بھیّا!ذرا تیز چلاؤ!‘‘میں نے رکشے والے سے درخواست کی۔

اچھّا صاحب!اس نے رکشے کی رفتار تیز کر دی۔

کچھ دُور جانے کے بعد اچانک گھڑی پر میری نظر پڑی۔ اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں گیارہ کے ہند سے پر ٹکی چھوٹی سوئی اس طرح چمکی جیسے میرے سامنے یکایک کسی سیاہ بچھّونے اپنا ڈنک اُبھار دیا ہو۔ میرے اِردگِرددوسیاہ آنکھیں چمکنے لگیں۔

روکو!روکو!میں نے ہڑبڑا کر رکشے والے کو روکا۔

کیا بات ہے صاحب!بریک لگاتے ہوئے رکشے والا بھی ہڑبڑا گیا۔ رکشے کے پہیے بھی لڑکھڑانے لگے۔

واپس اسٹیشن لے چلو!‘‘

کچھ چھُوٹ گیا ہے کیا صاحب؟‘‘اس نے رکشا پیچھے موڑتے ہوئے پوچھا۔

’’نہیں، ایسے ہی کچھ کام ہے۔ ‘‘

اسٹیشن پہنچ کر اپناسامان اُٹھاتے ہوئے جب میں نے رکشے کا کرایہ رکشے والے کی طرف بڑھایا تو وہ چونکتے ہوئے بولا۔

’’کیوں صاحب!واپس نہیں آئیں گے کیا؟‘‘

’’نہیں ‘‘اس کی طرف دیکھے بنا میں پلیٹ فارم کی طرف بڑھ گیا۔

آگے بڑھتے ہوئے مجھے محسوس ہواجیسے کوئی چھلانگ لگاتا ہوا میرے پیچھے آ رہا ہو۔

اس دن پوری رات میں نے پلیٹ فارم پر گزاری۔

رات بھر میری آنکھوں میں سیاہ آنکھیں چمکتی رہیں۔

میرے کانوں میں ایک خوفناک آواز گونجتی رہی۔

مجھے محسوس ہوتارہاجیسے دیوار کے نشان نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

خالد کا ختنہ

 

جو تقریب ٹلتی آ رہی تھی، طے پا گئی تھی۔ تاریخ بھی سب کو سوٹ کر گئی تھی۔ پاکستان والے خالو اور خالہ بھی آ گئے تھے اور عرب والے ماموں ممانی بھی۔ مہمانوں سے گھر بھر گیا تھا۔

بھرا ہوا گھر جگمگا رہا تھا۔ در و دیوار پر نئے رنگ و روغن روشن تھے۔ چھتیں چمکے لیے کاغذ کے پھول پتوں سے گلشن بن گئی تھیں۔ کمروں کے فرش آئینہ ہو گئے تھے۔ آنگن میں چمچماتی ہوئی چاندنی تن گئی تھی۔ چاندنی کے نیچے صاف ستھری جازم بچھ چکی تھی۔

باہر کے بر آمدے میں بڑی بڑی دیگیں چڑھ چکی تھیں۔ باس متی چاولوں کی بریانی سے خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔ قورمے کی دیگوں سے گرم مصالحوں کی لپٹیں ہواؤں سے لپٹ کر دُور دُور تک پھیل رہی تھیں۔

دھیرے دھیرے محلّہ پڑوس کی عورتیں بھی آنگن میں جمع ہو گئیں۔ بچّوں کی ریل پیل بڑھ گئی۔

رنگ برنگ کے لباس فضا میں رنگ گھولنے لگے۔ سونے چاندی کے گہنے کھن کھن چھن چھن بولنے لگے۔ پرفیوم کے جھونکے چلنے لگے۔ دل و دماغ میں خوشبوئیں بسنے لگیں۔ میک اپ جلوہ دکھانے لگا۔ چہروں سے رنگین شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ ابرق سے آراستہ آنکھوں کی جھلملاہٹیں جھلمل کرنے لگیں۔ سرخ سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں کھلکھلا پڑیں۔ ماحول میں رنگ نور، نگہت تینوں رچ بس گئے۔ جگمگاتا ہوا گھر اور جگمگا اُٹھا۔

ابو امّی بے حد خوش تھے کہ خوشیاں سمٹ کران کے قدموں میں آ پڑی تھیں۔ دلوں میں بے پناہ جوش و خروش تھا کہ جوش ایمانی اور پر جوش ہونے والا تھا۔ آنکھیں پر نور تھیں کہ نور نظر سنّت ابراہیمی سے سرفراز ہونے جا رہا تھا۔ چہرے پرتاب و تب تھی کہ لختِ جگر کی مسلمانی کو تاب و توانائی ملنے والی تھی۔ سانسیں مشک بار تھیں کہ تمنّاؤں کے چمن میں بہار آ گئی تھی۔

تقریب کا آخری مرحلے شروع ہوا۔

مہمان بر آمدوں اور کمروں سے نکل کر آنگن میں آ گئے۔ چاندنی کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے ——فرش کے وسط میں اوکھلی آ پڑی۔ اوکھلی پر پھول دار چادر بچھ گئی۔ خوان تازہ پھولوں کے سہرے سے سج گیا۔ ململ کا کڑھا ہوا کرتا پیکٹ سے باہر نکل آیا۔

بزرگ نائی نے اپنی بغچی کھول لی۔ استراباہر آ گیا۔ کمانی تن گئی۔ راکھ کی پڑیا کھل گئی۔

خالد کو پکارا گیا مگر خالد موجود نہ تھا۔ بچّوں سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ سب نے نفی میں سرہلا دیا۔ ابو امّی کی تشویش بڑھ گئی۔ تلاش جاری ہوئی۔ ابو اور میں ڈھونڈتے ہوئے کباڑ والی اندھیری کوٹھری میں پہنچے۔ ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو خالد ایک کونے میں دیر تک کسی دوڑائے گئے مرغ کی طرح دُبکا پڑا تھا۔

’’خالد بیٹے ! تم یہاں ہو اور لوگ ادھر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ آؤ، چلو! تمہاری ممی پریشان ہو رہی ہیں۔ ‘‘

’’نہیں ابو!میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ ‘‘خالد منہ بسورتے ہوئے بولا۔

خالد سے ختنے کی بات چھپائی گئی تھی مگر شاید کچھ دیر پہلے کسی نے اسے بتا دی تھی۔

’’ٹھیک ہے، مت کرانا۔ مگر باہر تو آ جاؤ۔ !ابو نے بڑے پیارسےیقین دلایا۔ مگر خالد دیوارسے اس طرح چمٹ کر بیٹھا تھاجیسے دیوار نے کسی طاقت ور مقناطیس کی طرح اسے جکڑ لیا ہو۔ ہم نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچنے کی کوشش کی مگر اس کا دوسرا ہاتھ دیوارسے اس طرح چپک گیا تھاجیسے وہ کوئی سانپ ہو جس کا اگلا حصہ کسی بل میں جا چکا ہو اور دم ہمارے ہاتھ میں۔ نہ جانے کہاں سے اس چھوٹے سے بچّے میں اتنی طاقت آ گئی تھی۔ بڑی زور آوری کے بعد مشکل سے اسے کوٹھری سے باہر لایا گیا۔

’’امّی!امّی! میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

’’اچھّی بات ہے۔ نہ کرانا لیکن یہ نیا کرتا تو پہن لو۔ دیکھو نا سارے بچّے نئے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اور یہ دیکھو!یہ سہراکتنا اچھّا ہے۔ تمہارے سرپربہت سجے گا۔ لو، اسے باندھ کر دولھا بن جاؤ۔ یہ سب لوگ تمھیں دولہابنانے آئے ہیں۔ تمہاری شادی بھی تو ہو گی نا!

’’امّی!آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ میں سب جانتا ہوں ‘‘میں کرتانہیں پہنوں گا۔ میں سہرانہیں باندھوں گا۔ ‘‘

’’یہ دیکھو!تمہارے لیے کتنے سارے روپیے لایا ہوں !ابونے کڑکڑاتے ہوئے دس دس کے ڈھیرسارے نوٹ خالد کے آگے بچھادیئے۔

آس پاس کھڑے بچّوں کی آنکھیں چمک انھیں۔

’’اچھّا!یہ دیکھو! تمہارے لیے میں کیالایا ہوں ؟پاکستان والے خالونے امپورٹیڈ ٹافیوں کا ڈبہ کھول دیا۔

بچّوں کی زبانیں ہونٹوں پرپھرنے لگیں۔

عرب والے ماموں آگے بڑھ کر بولے۔

’’دیکھو خالد! یہ کار تمہارے لیے ہے۔ بغیر چابی کے چلتی ہے۔ یوں ——‘‘تالی کی آواز پر کار اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔

مگر خالد کی آنکھیں کچھ نہ دیکھ سکیں۔ اس کی نظریں کسی صیّاد دیدہ جانور کی طرح پتلی میں سہمی ہوئی ساکت پڑی رہیں۔

ابو، امّی، خالو، ماموں، پیار، پیسہ، ٹافی، کارسب کچھ دے کر تھک گئے۔ خالد ٹس سے مس نہ ہوا۔

جھنجھلا کرابوزبردستی پر اُتر آئے۔ خالد کی پینٹ کھول کر نیچے کھسکانے لگے مگر خالد نے کھلی ہوئی پینٹ کے سروں کو دونوں ہاتھوں سے کس کر پکر لیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے ساتھ لبوں سے رونے کی آوازیں بھی نکلنے لگیں۔ خالد کے آنسوؤں نے امّی کی آنکھوں کو گیلا کر دیا۔ ’’مت روؤ میرے لال! مت روؤ!تم نہیں چاہتے توہم زبردستی نہیں کریں گے۔ تمہارا ختنہ نہیں کرائیں گے۔ ‘‘ امّی نے روندھی ہوئی آواز میں خالد کو دلاسادیا اور اپنے آنچل میں اس کے آنسو جذب کر لیے۔ کچھ دیر تک امّی خاموش رہیں۔ پھر خالد کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ ’’پچھلے سال تو پھوپھی کے گھر کامران کے ختنے کے وقت تم خود ضد کرتے رہے کہ امّی آپ میرا بھی ختنہ کرا دیجیے مگر آج تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟تم اتنے ڈرپوک کیوں بن گئے ؟تم تو بڑے بہادر بچّے ہو۔ تم نے اپنے زخم کا آپریشن بھی ہنستے ہنستے کرا لیا تھا۔ اس میں تو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’امّی !میں ختنہ کرانے سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘

’’تو؟‘‘

’’ابو!آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے بدمعاش انہیں جان سے مار دیتے ہیں۔ ‘‘

خالد کا جملہ ابو کے ساتھ ساتھ سب کے سروں پر فالج کی طرح گر پڑا۔ سب کی زبانیں اینٹھ گئیں۔ چہکتا ہوا ماحول چپ ہو گیا۔ جگمگاہٹیں بجھ گئیں۔ مسکراہٹیں مرجھا گئیں۔ بچّوں کی اُنگلیاں اپنے پاجاموں میں پہنچ گئیں۔

تلاشیوں کا گھناؤنا منظر اُبھر گیا۔ جسم ننگے ہو گئے۔ چاقو سینے میں اُترنے لگے۔ ماحول کا رنگ اُڑ گیا۔ نور پر دھند کا غبار چڑھ گیا۔ خوشبو بکھر گئی۔

نائی کا استرابھی کند پڑ گیا۔ راکھ پر پانی پھر گیا۔

پاکستان والے خالو نے ماحول کے بوجھل پن کو توڑتے ہوئے خالد کو مخاطب کیا۔

’’خالد بیٹے !اگر تم ختنہ نہیں کراؤ گے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟تمہارا ختنہ نہ دیکھ کر تمھیں ختنہ والے بدمعاش مار ڈالیں گے۔ ‘‘

’’سچ ابو؟‘‘خالد سرسے پاؤں تک لرز گیا۔

’’ہاں، بیٹے !تمہارے خالوسچ کہہ رہے ہیں۔ ‘‘

’’تو ٹھیک ہے میرا ختنہ کر دیجیے۔ ‘‘جھٹ اس کے ہاتھوں سے کھلی ہوئی پینٹ کے سرے چھوٹ گئے۔ پینٹ کولھے سے نیچے سرک آئی۔ خالد ختنے کے لیے تیار تھا۔ مگراس کی رضا مندی کے باوجود کسی نے بھی اس کے سرپرسہرا نہیں باندھا۔ کوئی بھی ہاتھ کرتا پہنانے آگے نہیں بڑھا۔

اذیت ناک سکوت جب ناقابل برداشت ہو گیا تو پاکستان والے خالو نے آگے بڑھ کر خالد کو اسی حلیے میں اوکھلی کے اوپر بٹھا دیا۔

تقریب کا آغاز ہو  گیا مگر نائی کے تھال میں پیسے نہیں گرے۔ نائی نے مطالبہ بھی نہیں کیا۔

خاموشی سے اس نے مسلمانی میں راکھ بھری۔ کمانی فٹ کی۔ چمٹے میں چمڑے کوکسا اور اس پر لرزتا ہوا استرارکھ دیا۔ جیسے ختنہ نہیں، گردن کاٹنے جا رہا ہو۔

٭٭٭

 

 

 

مِسنگ مَین

 

ہمارے اپنے مکان کی دیواروں پر میری پسندکارنگ ابھی چڑھنا شروع ہی ہوا تھا کہ اسے دیکھ کر میرے بچّوں کی ناک بھوں سکڑ گئی۔

بیٹا بولا، ’’پاپا!یہ کیسا رنگ کرا رہے ہیں ؟پلیزاسے روک دیجیے۔ ‘‘

’’ہاں، پاپا!یہ بالکل اچھّا نہیں لگ رہا ہے۔ موُ یا کوئی اور نیا کلر کرائیے۔ ‘‘

بیٹی بھی بول پڑی۔

’’کیوں ؟‘‘اس رنگ میں کیا خرابی ہے ؟‘‘میں نے پوچھا۔

پاپا،یہ بہت ڈل اور بھدّا لگ رہا ہے۔ اس سے تو مکان کی بیوٹی ہی خراب ہو جائے گی۔ ‘‘بیٹے نے خرابیاں گنوائیں۔

’’ہاں پاپا! سنی ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ بہت ہی بے کار کلر ہے۔ ‘‘بیٹی نے تائید کی۔

’’نہیں، نہیں یہ رنگ اچھّا ہے۔ یہی ٹھیک رہے گا۔ ‘‘

’’کیا پاپا!آپ کا ٹیسٹ کیسا ہے ؟دیکھئے یہ بالکل نہیں جچ رہا ہے۔ پلیز اسے روک دیجیے۔ ‘‘بیٹا زور دینے لگا۔

’’فارگوڈسیک پاپا۔ اسے نہ کرائیے۔ ‘‘بیٹی بھی دباؤ ڈالنے لگی۔

’’نہیں،یہی ٹھیک رہے گا۔ مجھے اچھّا لگتا ہے۔ ‘‘میں اپنے فیصلے پر اڑنے لگا۔

’’پاپا آپ تو ضد کرنے لگے۔ ‘‘بیٹا بولا۔

’’yes، آپ ضد کر رہے ہیں پاپا!‘‘بہن نے بھائی کی ہاں میں ہاں ملائی۔

’’ہاں، میں ضد کر رہا ہوں، میں ضدّی ہوں اور اب وہی ہو گا جو میں چاہوں گا۔ ‘‘

میرا لہجہ سخت ہو گیا۔

بچّے مایوس ہو کر اندر چلے گئے۔

’’آپ ضد کر رہے ہیں۔ ‘‘

یہ جملہ زہر میں بجھے تیرکی طرح میرے احساس میں پیوست ہو گیا۔ مرا وجود جھنجھنا اُٹھا۔

یکایک بہت سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے اپنی حیثیت کے مطابق مکان کا پلاٹ اقرار کالونی میں لینا چاہا مگر اسے سرسید نگرجیسے مہنگے علاقے میں خریدنا پڑا۔

میں نے سفیدرنگ کی ماروتی پسند کی مگر گھر میں سٹیل گرے کلرکی سنٹروآ گئی۔

میں بچّوں کویونیورسٹی کے اسکول میں داخل کرنا چاہتا تھا مگر وہ لیڈی فاطمہ میں داخل ہو گئے۔

ان سب میں ان کی مرضی موجود تھی۔ یہی نہیں بلکہ ٹی وی، فرج، صوفہ، پلنگ ایک ایک چیز میں ان کی مرضی شامل تھی اُن کی ضِد چھپی ہوئی تھی۔

پھر بھی کہتے ہے، میں ضد کرتا ہوں، کہاں ہے میری ضد؟کدھر ہے میری مرضی؟‘‘

میں اپنی ضد اور اپنی مرضی تلاش کرنے لگا۔

تھوڑی دیر بعد ان کی ماں گھرسے باہر نکلی اور میرے پاس آ کر آہستہ سے بولی۔

’’کیوں بچّوں کا موڈ خراب کر رہے ہیں ؟ان کی بات کیوں نہیں مان لیتے ؟آخر اس مکان میں رہنا تو انہیں کو ہے۔ ہم اب اور کتنے دنوں کے مہمان ہیں۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ ہم اپنی پسند ان پر لادیں۔ دونوں نئے مکان کو لے کر کتنے پر جوش تھے، کتنے خوش تھے۔ مگر آپ کی ضد نے ان کے جوش و خروش، ان کی خوشی ومسرت سب پر پانی پھیر دیا۔ بے چارے اُداس و ملول بیٹھے ہیں۔ آپ نے یہ بھی سوچا کہ ان کی پڑھائی پراس کا کیا اثر پڑے گا؟یہ رنگ کا چکر ان کی پڑھائی میں ضرور بھنگ ڈال دے گا۔ خدا کے لیے مان جائیے۔ مہربانی کر کے کام کو رکوا دیجیے۔

بیوی نے ہمیشہ کی طرح والدین کا فرض اور بال ہٹ کا فلسفہ سمجھا کر اور ان کی پڑھائی کا واسطہ دے کر مجھے خاموش کر دیا۔

میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرے بچّے اُداس ہو جائیں۔ ان کے چہرے کا رنگ اُڑ جائے۔ اُن کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ جائے۔ ان کے دلوں میںیاس بھر جائے۔

اُن کی اُداسی کا ذکرسنتے ہی اُن کے اُداس چہرے میری آنکھوں میں آبسے۔

’’ٹھیک ہے۔ تم لوگوں کی جو مرضی ہو، کرو، اب میں کچھ نہیں بولوں گا۔ ‘‘

ہمیشہ کی طرح یہ جملہ دہرا کر میں خاموش ہو گیا۔

بیوی خوش اور مطمئن ہو کر بچّوں کو خوشخبری سُنانے چلی گئی اور میں حسبِ عادت اپنے ماضی میں پہنچ گیا۔ مجھے اپنا بچپن یاد آنے لگا۔

’’ابّا!ابّا!۔ ‘‘

’’کیا ابّا ابّاکی رَٹ لگا رکھی ہے، کچھ بولتا کیوں نہیں ؟‘‘

’’ابّا میں گاؤں کے مدرسے میں نہیں پڑھوں گا۔ میں شہر کے مشن اسکول میں جاؤں گا۔ ‘‘

’’کیا کہا!تو تم مدرسے میں نہیں پڑھے گا۔ مشن اسکول میں جا کرکرسٹان بنے گا!‘‘ خبردار جو دوبارہ وہاں جانے کی بات کی تو———

یکایک میرے ہونٹ سل گئے۔ میرا منہ لٹک گیا۔ میری آنکھوں کی چمک بجھ گئی۔

’’ابّا!ابّا!۔ ‘‘

’’پھر ابّا!ابّا! تجھ سے کتنی بار کہا کہ تو توتلایا مت کر۔ سیدھی بات کیا کر۔ ‘‘

’’جی ابّا۔ ‘‘

’’بول کیا کہنا چاہتا ہے ؟‘‘

’’ابّا میں رنگین سائیکل لوں گا۔ نیلی ہینڈل اور لال فریم والی، جس کے پہیے پتلے پتلے ہوتے ہیں۔ ‘‘

’’نہیں ہرکلس ٹھیک رہے گی۔ وہ مضبوط ہوتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں، میں تو وہی لوں گا۔ ‘‘

’’میں نے کہہ دیا نا کہ ہرکلس سائیکل آئے گی۔

’’نہیں، میں ہر کلس نہیں لوں گا۔ مجھے تو رنگین سائیکل چاہیے۔ ‘‘

چٹاخ۔

’’لے یہ رہی رنگین سائیکل۔ دوبارہ ضد کی تو یہ تیرے گال مار مار کر اور لال کر دوں گا۔ ‘‘

میں روتا ہوا وہاں سے اُٹھ کر اپنی کوٹھری میں چلا گیا اور دیر تک لکھوری اینٹوں والی کوٹھری میں سسکتا رہا۔

رہ رہ کر میرے دل میں یہ خیال آتا رہا کہ ابّا میرے پاس آئیں گے اور میرے آنسو پونچھیں گے۔ مجھے پچکاریں گے۔ مگر ابّا نہیں آئے۔ یہ خیال شایداس لیے آتا رہا کہ ایک بار جب میں بیمار پڑا تھا تو ابّا ساری رات میرے پاس بیٹھے رہے۔ میرے ماتھے پر پانی کی پٹی رکھتے رہے، مجھے تسلّی دیتے رہے۔

میں کچھ بڑا ہوا تب بھی میری بات نہیں سنی گئی۔ میں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھنا چاہا مگر ابّا نے مجھے بہاریونیورسٹی میں داخل کر دیا۔

میں نے اپنی پسند کی ایک لڑکی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو جواب میں ابّا کا چنگیزی لب و لہجے میں نادر نامہ آ دھمکا۔

ماضی کی یاد نے مجھے اور رنجیدہ کر دیا۔ میری اُداسی اور گہری ہو گئی، میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

’’آپ اتنے پریشان کیوں ہیں ؟بچّوں کی خواہش کو پورا کرنا تو ماں باپ کا فرض ہوتا ہے۔ ان کی ضد کے آگے تو والدین کو جھکنا ہی پڑتا ہے۔ آخر اولاد کی خوشی میں ہی تو ماں باپ کی خوشی ہے۔ اس میں بھلا پریشان اور اُداس ہونے کی کیا بات ہے ——‘‘

مجھے محسوس ہوا جیسے میری بیوی میرے سرہانے کھڑی مجھے سمجھا رہی ہو مگر وہ تو کچن کے کام میں مصروف تھی۔

میرے جی میں آیا کہ میں دیکھوں کی میری اُداسی کا کوئی اَثر میرے بچّوں پر ہے یا نہیں اور میں اپنے کمرے سے اُٹھ کر اُن کے کمرے میں چلا گیا۔

دونوں بچّے ٹیلی ویژن پر کوئی مزاحیہ سیریل دیکھنے میں محو تھے۔ میرے آنے کا انہوں نے نوٹس بھی نہیں لیا۔

میں اکثر اپنے بچّوں کو خوش کرنے میں اُداس ہوا۔ اُن کی ضد پوری کرنے میں میرا دل دُکھا۔ میری انا مجروح ہوئی۔ میرے اندر شدید خواہش جاگی کہ بچّوں کو میرے اندر کی کیفیت کا احساس ہو۔ وہ مجھ سے میری اُداسی کا سبب پوچھیں۔ افسوس کا اظہار کریں مگر وہ ہر بار اپنی ضد کی کامیابی کی خوشی میں مجھے بھول گئے۔

میں خاموشی سے اپنے کمرے میں واپس آ گیا۔ کچھ دیر تک میں چپ چاپ کمرے کی چھت کو گھورتا رہا، پھر کمرے سے نکل کر باہر چلا گیا۔

رنگائی کا رکا ہوا کام پھرسے شروع ہو چکا تھا۔ دیوار پر کوئی اور رنگ چڑھ رہا تھا اور وہ نیا رنگ پہلے والے رنگ کو مدھم کرتا جا رہا تھا۔ کچھ دیر تک میں ایک رنگ کو ہلکا اوردوسرے کو گاڑھا ہوتا ہوا دیکھتا رہا۔

پھرباہرسے اندر آ گیا۔ بچّے حسب معمول سیریل میں مصروف تھے۔ بیوی کچن میں مگن تھی۔ میں اپنے کمرے میں پہنچ کر بستر پر لیٹ گیا۔

دیوارسے دونوں رنگ اُتر کر میری آنکھوں میں داخل ہو گئے۔

دونوں رنگ جگنوؤں کی طرح آنکھ مچولی کھیلنے لگے۔ اچانک میرے دیدوں میں میرا مکان اُبھرنے لگا۔

پہلے نیو اُبھری۔

نیوسے میری ضرورتیں بھی اُبھریں جنھیں دفن کر کے نیو کھودی گئی تھی۔ نیو کے بعد دیواریں اُبھریں۔

دیواروں سے میری وہ خواہشیں بھی اُبھریں جنہیں دبا کر دیواریں اُٹھائی گئی تھیں۔

پھر چھت اُبھری۔

چھت سے وہ قرض بھی اُبھراجسے چھت تعمیر کرنے میں میں نے اپنے جسم و جان پر لاد لیا تھا۔

اور آخر میں وہ رنگ اُبھراجسے دیواروں کے لیے میں نے پسند کیا تھا اور اِسی کے ساتھ وہ رنگ بھی اُبھر آیا جسے بچّوں کی ضد نے اُبھارا تھا اور جودیوارسے اُتر کر میری آنکھوں میں داخل ہو کر اپنا رنگ دِکھا رہا تھا۔

نیو، دیواریں، چھت، تینوں کھسک کر کہیں اور چلی گئیں۔ آنکھوں میں صرف رنگ رہ گئے۔

رفتہ رفتہ ایک رنگ اُڑتا گیا پھیکا پڑتا گیا۔ اور دوسرا جمتا گیا اور گاڑھا ہوتا گیا۔

گاڑھے رنگ پر میری نگاہیں مرکوز ہو گئیں۔

یہ میرے بچّوں کا رنگ تھاجسے اُن کے بچپن کی ضد نے اُبھارا تھا، اس رنگ نے ایک بار پھرسے مجھے اپنے بچپن میں پہنچا دیا۔ میں اپنے اِردگِرداسے تلاش کرنے لگا مگر مجھ میں وہ کہیں نہیں ملا، مجھے تووہ رنگ میرے ابّاکے پاس نظر آیا۔

میں مایوس اور اُداس ہو کر اپنے بچپن سے باہر نکل آیا۔ پھر وہیں آ گیا جہاں میں خود ابّا بنا بیٹھا تھا مگر یہاں بھی ابّا والا رنگ مجھ میں نہیں تھا۔ وہ رنگ تو میرے بچّوں کے پاس تھا۔

میں نہ وہاں تھا اور نہ یہاں۔

میں اپنے لیے بے چین ہو گیا۔ مجھے محسوس ہونے لگا جیسے زمانہ مجھے چھوڑ کر گزر گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پُرزہ

 

کان سے رسیورکے لگتے ہی ڈی سی پی سنگھ کی وشرامی پوزیشن ساودھانی میں تبدیل ہو گئی۔ چہرے کا رنگ بدلتا چلا گیا۔

رسیورکوجب کریڈل پر رکھا تو کریڈل چیخ پڑا۔

کریڈل کی آواز ابھی تھمنے نہ پائی تھی کہ ایک اور آواز گونجنے لگی۔ زورسے دبی کال بیل سے نکلی ہوئی آواز نے فضا میں ہلچل مچا دی۔

ایک سپاہی ہڑبڑایا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔

’’سر؟‘‘

’’گاڑی لگواؤ۔ ‘‘

ڈی سی پی سنگھ اپنی کرسی سے اُٹھ کر آفس کے ایک گوشے میں بنے کیبن کے اندر داخل ہوئے۔ اپناسول ڈریس اُتار کر ایک طرف رکھا اور وردی پہن کر آئینے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ انہیں محسوس ہواجیسے اُنھوں نے کوئی وزنی شے اپنے اوُپر ڈال لی ہے۔

کچھ دیر تک وہ اپنے سراپے کوغورسے دیکھتے رہے۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے کیبن سے نکل کر دوبارہ کرُسی پر آ بیٹھے۔ اُن کے چہرے کا تناؤ اور بڑھ گیا تھا۔

’’سر، گاڑی تیار ہے۔ ‘‘

اس خبر کے سنتے ہی مسٹرسنگھ اسپرنگ کی طرح کھڑے ہو گئے اور اپنے جوتوں سے چرمراہٹ نکالتے ہوئے آفس سے باہر آ گئے۔ انہیں دیکھتے ہی بوٹوں سے کھٹاکھٹ کی آوازیں نکلنے لگیں۔

جھک کر ڈرائیور نے کار کی پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا۔

’’دلکشا گارڈن۔ ‘‘گاڑی میں بیٹھتے ہی مسٹرسنگھ نے حکم دیا۔

لال بتی والی امبیسڈردلکشاکی جانب دوڑنے لگی۔

مسٹر سنگھ کی آنکھیں سامنے کے شیشے پر مرکوز ہو گئیں۔

آہستہ آہستہ فون پر ملی خبریں متشکل ہونے لگیں۔

مسٹر سنگھ کا چہرہ بگڑنے لگا۔

’’گاڑی تیز چلاؤ‘‘

کار کی رفتار تیز ہو گئی۔ بتی کی سرخی سانپ کی زبان کی طرح لپلپانے لگی۔

ان کا ذہن خبروں کے خدوخال میں اُلجھ گیا۔

اچانک قریب سے نکلی ہوئی کوئی آواز ان کی سماعت سے آ ٹکرائی۔ ذہن چونکا۔ آواز اُنھیں ناگوار لگی مگر اُنھوں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔

دھیرے دھیرے آواز تیز ہوتی گئی اور رہ رہ کر ان کے دماغ پر ضرب لگانے لگی۔

آواز کبھی دائیں طرف سے آتی ہوئی محسوس ہوتی، کبھی بائیں طرف سے۔ کبھی آگے سے تو کبھی پیچھے سے۔ کبھی وہ ایک دم سے دھیمی ہو جاتی اور کبھی بہت زیادہ شور کرنے لگتی۔

’’جیت سنگھ! یہ آوازکیسی ہے ؟‘‘مسٹر سنگھ نے ڈرائیور کو قدرے سخت لہجے میں مخاطب کیا۔

’’سر، لگتا ہے گاڑی سے نکل رہی ہے۔ ‘‘

’’سروس نہیں کراتے کیا؟‘‘

’’کراتا ہوں سر۔ ‘‘

’’پھر یہ آواز۔ ‘‘

’’سر، پہلے نہیں تھی۔ ‘‘

’’نہیں تھی تواب کہاں سے آ گئی؟لہجہ اور سخت ہو گیا۔ ‘‘

’’سر، شایداسپیڈبڑھ جانے سے ———‘‘

’’مسٹر سنگھ کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر بولے۔ ‘‘

’’آئندہ سروس کی طرفProperدھیان دیا کرو۔ ‘‘

’’یس سر۔ ‘‘

کچھ دیربعدمسٹر سنگھ کو محسوس ہونے لگا جیسے وہ آواز گاڑی سے نکل کران کے دماغ میں بیٹھ گئی ہو۔

لال بتی والے چورا ہے پر جب کبھی آواز سے چھٹکارا ملتا تو متشکل خبریں انہیں اپنے شکنجے میں کس لیتیں۔ اور جب خبروں کا شکنجہ کچھ ڈھیلا پڑتا تو دماغ میں بیٹھی آواز اپنے ہاتھ پیر چلانے لگتی۔

مسٹرسنگھ کا چہرہ گمبھیر ہوتا گیا۔

ڈرائیور نے شیشے میں جب صاحب کا چہرہ دیکھاتوسہم اُٹھا۔ گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔

’’سر، کہیں رُک کر گاڑی دکھا لوں ؟‘‘

’’نہیں۔ ‘‘

ڈی سی پی سنگھ کا مختصر جواب سن کر ڈرائیور اور پریشان ہو اُٹھا۔ اس کا ذہن بھٹکنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں میکینک کو گالیاں دینے لگا۔ سالے من لگا کرکام نہیں کرتے۔ ایک ایک پُرزے پر دھیان دیتے تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔ اب کے میکینک کو اچھّی طرح ڈانٹ لگائے گا اور اگر کچھ بولا توWritten Complaint کر دے گا۔ پھر سالامارا مارا پھرتا پھرے گا————

ڈرائیور کے دل و دماغ کی کیفیت نے اس کے ہاتھ پاؤں پر اثر ڈالنا شروع کر دیا۔ گاڑی ڈس بیلینس ہونے لگی۔ رفتار کا توازن بگڑنے لگا۔

مسٹر سنگھ آرام دہ سیٹ پر کُشن سے پیٹھ ٹکائے بیٹھے تھے۔ مگر ان کے بھیتر کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ کبھی ان کی ناک سکڑ جاتی تو کبھی ہونٹ بھینچ جاتے۔ کبھی پلکیں بند ہو جاتیں اور پیشانی لکیروں سے بھر جاتی۔

مسٹرسنگھ کی یہ حالت ڈرائیور کی ذہنی کیفیت کو شدید سے شدید تر کرتی جا رہی تھی۔ اس کے ذہن اور ہاتھ پاؤں کی ہم آہنگی رفتہ رفتہ ختم ہوتی جا رہی تھی کہ اچانک دلکشا گارڈن کا بورڈ اس کی آنکھوں میں آسمایا اوراس نے اپنے بھٹکے ہوئے ذہن کومستعدی کے ساتھ اسٹیرنگ پر مرکوز کر دیا۔

گاڑی تھانے کے کیمپس کے پاس پہنچی تومسٹرسنگھ کی آنکھیں سڑک کے اِردگردسلگتی ہوئی گاڑیاں، ٹوٹے ہوئے بجلی کے تار، الٹے ہوئے ٹھیلے، بکھرے ہوئے پتھر، ٹپکے ہوئے خون کے قطرے وغیرہ دیکھ کر سہم گئیں، ان کا دل دہل اُٹھا۔

کھڑکی کا شیشہ اُٹھا ہوا ہونے کے باوجود ان کا ہاتھ چٹخنی تک پہنچ گیا۔

گاڑی کیمپس میں داخل ہو کر گیٹ کے پاس پہنچ گئی تھی۔

لال بتی والی گاڑی کو دیکھتے ہی بھیڑ بھڑک اٹھی تھی۔ نعروں کا شور بلند ہو گیا تھا۔ لاٹھیاں فضا میں لہرانے لگی تھیں۔

ڈرائیور نے نہایت ہوشیاری اور احتیاط سے گاڑی صدر دروازے سے نکال کر آفس کے سامنے لے جا کر کھڑی کر دی۔

ڈی سی پی سنگھ گاڑی سے اترکرسیدھے آفس میں داخل ہو گئے۔ آن کی آن میں تھانے کے ذمہ دار افسران ان کے پاس سمٹ آئے۔ افسروں کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔

’’کیا پوزیشن ہے ؟کرسی پر بیٹھتے ہی مسٹرسنگھ نے تھانہ انچارج کو گھورتے ہوئے سوال کیا۔

’’سریہ کسی بھی طرح نہیں مان رہے ہیں۔ بس آپ کا انتظار تھا۔ آپ کہیں تو گولی؟ گولی کا نام سنتے ہی مسٹرسنگھ کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

نہیں، گولی نہیں۔ ان کے نمائندوں کو بلواؤ، میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔

’’یس سر۔ ‘‘

کچھ لوگ ڈی سی پی سنگھ کے سامنے حاضر ہوئے۔ مسٹر سنگھ نے انہیں بھی مخصوص افسرانہ نگاہ سے دیکھا مگر ان کے چہروں پر ان کی اس مخصوص نظر کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ لوگوں کا چہرہ اس خوف سے بھی عاری تھا جو عام طور پر پولیس اسٹیشن میں داخل ہونے والوں کے چہرے پر اُبھر آتا ہے۔

’’آپ لوگ اطمینان سے بیٹھ جائیے۔ ‘‘

’’شکریہ!‘‘نمائندے سامنے کی خالی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

’’ہاں، اب بتائیے کہ آپ لوگوں کی پرابلم کیا ہے ؟‘‘

’’سرہمیں اپنی جگہ سے اکھاڑ دیا گیا ہے۔ ‘‘

’’مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ ہے سر کہ ہمارے بسے بسائے گھر اجاڑ دئیے گئے ہیں اور ہم سڑک پر آ گئے ہیں۔ ‘‘

’’ایساکیوں کیا گیا؟‘‘

’’یہ تو آپ اپنے افسران سے پوچھیے سر۔ ‘‘

’’کیوں مسٹرتیواری !انہیں ان کی جگہ سے کیوں ہٹایا گیا ہے ؟ڈی سی پی سنگھ نے انچارج کو مخاطب کیا۔ ‘‘

’’سر، انہوں نے اس زمین پر ناجائز قبضہ کیا تھا۔ ‘‘

’’نا جائز نہیں، ہمارا قبضہ جائز تھاسر۔ ‘‘

’’جائزکیسے تھا؟تھانہ انچارج بیچ میں بول پڑا۔ ‘‘

’’آپ بیچ میں نہ بولیے مسٹر تیواری۔ ‘‘

’’سر۔ ‘‘زبان کے ساتھ مسٹرتیواری کے بوٹوں سے بھی آواز نکل پڑی۔

’’آپ لوگوں کا قبضہ جائزکیسے تھا؟ کیا آپ کے پاس کاغذات ہیں ؟‘‘

’’ہاں سر ہمارے پاس راشن کارڈ ہے۔ پانی اور بجلی کا بل ہے، اس علاقے کے ووٹرلسٹ میں ہمارا نام ہے۔ ‘‘

’’کیا آپ کے پاس اس زمین کے کاغذات ہیں۔ ‘‘

’’نہیں، ایسا تو کوئی کاغذ نہیں ہے سرمگر اس زمین پر ہم برسوں سے رہتے چلے آ رہے ہیں، کاغذ کی کبھی ضرورت تو پڑی نہیں۔ ‘‘

’’برسوں سے رہ رہے ہیں ؟‘‘

’’جی سر۔ باپ دادا کے زمانے سے۔ بلکہ ان سے بھی پہلے سے۔ ‘‘

’’اس سے پہلے کبھی آپ سے خالی کرنے کے لیے نہیں کہا گیا؟‘‘

’’نہیں سر، کبھی نہیں۔ ‘‘

’’کبھی کوئی نوٹس سردنہیں ہوئی۔ ‘‘

’’نہیں سر۔ ‘‘

’’ہوں، ‘‘ایک لمبی سانس لے کر وہ کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر تھانہ انچارج کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

’’مسٹرتیواری !یہ کار روائی کیوں کی گئی؟‘‘

’’سر، اس زمین کے قانونی مالکان نے درخواست دی تھی کہ وہ اپنی زمین پرجن کلیان کے لیے کوئی بھون نرمان کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انہیں اس زمین کا قبضہ دلایا جائے۔ ‘‘

’’سر، یہ سب بہانے ہیں، اس زمین کا کوئی قانونی مالک نہیں ہے۔ یہ زمین ہماری ہے۔ البتہ کچھ لوگوں نے الٹاسیدھا کر کے فرضی کاغذ بنوا لیا ہے۔ ‘‘

’’فرضی کاغذ؟‘‘

’’جی سر، فرضی کاغذ۔ اور وہاں جن کلیان کا کوئی کام وام نہیں ہونے جا رہا ہے۔ وہ لوگ اتنے ہی کلیان کاری ہوتے تو ہمیں اجاڑتے ہی کیوں ؟اپنا یہ شوق کہیں اور پورا کر لیتے۔ ان کے پاس زمینوں کی کیا کمی ہے۔ سر، سچی بات تو یہ ہے کہ وہ بنانا ونانا کچھ نہیں چاہتے، وہ تو صرف ہمیں اجاڑنا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ کو اجاڑنا چاہتے ہیں !مگر کیوں ؟‘‘

’’اپنی تسکین کے لیے ‘‘

’’تسکین کے لیے !‘‘، ’’لیکن اتنی سی بات کے لیے کوئی اتنے سارے لوگوں کا گھر کیوں اجاڑے گا؟‘‘

’’یہ اتنی سی بات نہیں ہے سر!یہ بہت بڑی بات ہے ‘‘

’’میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بڑی بات کیسے ہے ؟‘‘

’’سریہ جاننے کے لیے معاملے کی تہہ میں اترنا ہو گا۔ ان کی تاریخ پر غور بڑے گا جنھوں نے ہماری زمین پرجعلسازی کر کے اپنا دعویٰ پیش کیا ہے۔ ‘‘

’’مسٹرسنگھ نے اپنی نگاہیں نمائندے کی آنکھوں پر مرکوز کر دیں۔ ‘‘

’’میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں سر۔ ‘‘

’’کچھ دیرمسٹرسنگھ اس کی آنکھوں میں جھانکتے رہنے کے بعد بولے۔ ‘‘

’’چلیے ہم مان لیتے ہیں کہ یہ بڑی بات ہے مگر آپ لوگ جو یہ شور ہنگامہ کرتے ہیں، دنگا فساد پر اتر آئے ہیں تو کیا اس سے آپ کی پرابلمSolveہو جائے گی؟‘‘

’’ہمیں یہ تو نہیں معلوم سرکہ اس سے ہمارا مسئلہ حل ہو گا یا نہیں مگر یہ تو فطری بات ہے کہ جسم پر چوٹ پڑے گی تو چیخ تونکلے گی ہی۔ لوگوں سے جب ان کا گھر چھنے گا تو وہ سڑک پر آئیں گے ہی۔ جب بچّے بلکیں گے تو بھلا ماں باپ کیسے چپ رہ سکتے ہیں سر۔ ‘‘

———سر آپ خود چل کر ایک بار اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجیے آپ کو ہماری تباہی اور پریشانی کا اندازہ ہو جائے گا۔ ‘‘

’’چلیں گے، ضرور چلیں گے مگر میری آپ سے ایک درخواست ہے۔ ‘‘

’’فرمائیے سر۔ ‘‘

’’آپ!اپنے لوگوں کو سمجھائیے، انہیں چپ کرائیے، انہیں بتائیے کہ کار روائی ہو رہی ہے۔ وہ شانت ہو جائیں۔ ‘‘

’’سر، ہم انہیں سمجھانے اور چپ کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘

’’مسٹرتیواری!جائے واردات پر چلنے کی تیاری کیجیے۔ ‘‘

’’یس سر۔ ‘‘

’’مسٹر سنگھ نمائندوں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچ گئے۔ جھلسے ہوئے درودیوارسے نکلتا ہوا دھواں، ٹوٹے ہوئے فرنیچر ز، پچکے ہوئے برتن، کروکری کی بکھری ہوئی کرچیاں، ٹوٹے پھوٹے کھلونے، نچے کھچے لحاف گدّے، ادھ جلے کپڑے، جگہ جگہ جمے ہوئے خون کے دھبے سب کے سب اپنی طرف کھینچنے لگے۔ ‘‘

’’مسٹر سنگھ کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔ ‘‘

’’سرایک نظر ہمارے بال بچّوں پربھی ڈال لیتے۔ ‘‘

’’ہاں، ادھر بھی چلتے ہیں۔ ‘‘

’’بیشمار عورتیں، بچّے بوڑھے کھردری زمین پر پڑے سسک رہے تھے۔ مسٹر سنگھ کو دیکھ کر ان کی سسکیاں چیخ میں بدل گئیں۔ ‘‘

’’مسٹر سنگھ نے یہ بھی دیکھا کہ ان میں سے بیشتر زخمی تھے۔ کسی کے سرپرپٹی بندھی تھی تو کسی کے ہاتھ اور پاؤں میں۔ کسی کسی کے زخموں سے اب بھی خون رس رہا تھا۔ کوئی چیخ رہا تھا تو کوئی مسلسل بین کیے جا رہا تھا۔ ‘‘

مسٹرسنگھ کی نظر یکایک ایک جگہ ٹھہر گئی۔ ایک عورت کے حسن نے انہیں اپنے پاس روک لیا۔ چند لمحے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ خوبصورت عورت ان سے اپنا چہرہ چھپا رہی ہو۔ مگر انہیں یہ بھی محسوس ہوا کہ چھپانے کے اس عمل میں شرم و حیا کے علاوہ کچھ اور بھی شامل تھا۔ نگاہ بچا کر جب انہوں نے اپنی نظراس کے چہرے پر ڈالی تو یہ دیکھ کر وہ دم بخود رہ گئے کہ اُس عورت کا ایک طرف سے رُخساربرُی طرح جھلسا پڑا تھا۔ خوبصورت چہرے کے بدنما داغ نے ان کے حسِ جمال کو بھی جھلس کر رکھ دیا۔ خاکی وردی کے اندر دبا دل تیزی سے دھڑک اُٹھا۔

جائے واردات کا معائنہ کر کے مسٹرسنگھ نمائندوں کے ہمراہ واپس تھانے آ گئے۔

پولیس کار روائی کی فائل پڑھنے اور معاملے کے ایک ایک پہلو پر غور کرنے کے بعد مسٹر سنگھ نے نمائندوں کو بلا کر کہا۔

’’میں نے سب کچھ غور سے دیکھ لیا ہے۔ میں سچی رپورٹ لکھوں گا اور سفارش بھی کروں گا کہ آپ کے ساتھ انصاف ہو۔ ‘‘

مسٹر سنگھ کی بات سن کر نمائندوں کے بوجھل چہروں پر خوشی کی ایک رمق جھلک اُٹھی۔ ان کے تناؤ میں قدرے کمی آ گئی۔

’’سرہمیں آپ سے یہی توقع تھی—سرہم مانتے ہیں کہ ہمارے پاس قانونی دستاویز نہیں ہے۔ ہمارے بزرگوں نے شایداس کی ضرورت محسوس نہیں کی ہو لیکن سچ یہی ہے کہ جہاں ہم برسوں سے رہتے آ رہے، وہ زمین ہماری ہے اوراس زمین پر ہم اپنا بہت کچھ صرف کر چکے ہیں۔ سر، ہماری آپ سے التجا ہے کہ ہمیں وہاں قانونی طورسے بسادیا جائے تاکہ دوبارہ ہمیں اجڑنا نہ پڑے اور آپ کو بھی——‘‘نمائندے نے آخری جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔

’’میں پہلے بھی آپ سے کہہ چکا ہوں کہ سچی رپورٹ بھیجوں گا اور آپ کی سفارش بھی کروں گا مگر میری بھی آپ سے ایک درخواست ہے کہ آپ یہ شور، ہنگامہ بند کر دیں اور دوسروں کو بھی چین سے رہنے دیں۔

’’ٹھیک ہے سر، آپ کے کہنے سے فی الحال ہم اپنا منہ سی لیتے ہیں۔ لیکن ہمیں انصاف نہیں ملا تو ہمارا منہ زیادہ دنوں تک بند نہیں رہ سکے گا۔ ‘‘

’’اطمینان رکھیے، آپ کو انصاف ملے گا۔ ‘‘

’’شکریہ۔ سر!ایک گزارش اور کرنی تھی۔ ‘‘

’’بولیے۔ ‘‘

’’کیا ہم یونہی سڑکوں پر بھوکے پیاسے پڑے رہیں گے ؟‘‘

’’نہیں، عارضی طور پر ہم آپ کے لیے ریلیف کیمپ لگوا دیتے ہیں۔ ‘‘

’’شکریہ!بہت بہت شکریہ۔ ‘‘

’’اب آپ لوگ جائیے اوراس بات کا پورا خیال رکھیے کہ پھرسے کوئی ہنگامہ برپا نہ ہونے پائے۔ ‘‘

تھانے سے واپسی کے دوران اچانک مسٹر سنگھ کو محسوس ہوا کہ گاڑی سے نکلنے والی آواز بند ہو گئی ہے۔

’’جیت سنگھ !گاڑی سے اب تو آواز نہیں نکل رہی ہے !‘‘انہوں نے نہایت پرسکون اور نرم لہجے میں ڈرائیور کو مخاطب کیا۔

’’سر، میکینک کو دکھا لی تھی۔ ‘‘

’’کیا پرابلم تھی؟‘‘

’’سر، ایک پرزہ اپنی جگہ سے اُکھڑ گیا تھا۔ اُسے پھرسے اپنی جگہ پرکس دیا گیا۔ ‘‘

’’اوہ——‘‘مسٹر سنگھ پھرسنجیدہ ہو گئے مگر اِس بار اُن کے چہرے پر پہلے جیسا تناؤ نہیں تھا۔ اس سنجیدگی نے ڈرائیور کے اندر بھی کوئی ہلچل پیدا نہیں کی۔

گاڑی نہایت سبک روی سے اپنے ٹھکانے کی طرف بڑھی جا رہی تھی۔ ڈرائیور اپنے کو ہلکامحسوس کر رہا تھا—

’’جیت سنگھ!‘‘

’’سر۔ ‘‘

’’میکینک کوکیسے پتا چلا کہ گاڑی سے نکلنے والی آواز کا ریزن(Reason) اکھڑا ہوا پرزہ تھا؟‘‘

’’سر، اس نے گاڑی کو تھوڑی دور چلا کر دیکھا۔ آوازسنی اور ریزن سمجھ گیا۔ ‘‘

’’اچھّا؟‘‘

’’جی، سر۔ ‘‘

’’اسے یہ پتاکیسے چلا کہ کس جگہ کا پرزہ اُکھڑا ہے ؟‘‘

’’سر، اچھّے میکینک کو توIdea ہو ہی جاتا ہے۔ اس نے وہیں ہاتھ لگایا جہاں اسے شبہہ تھا۔ اوراس کا شبہہ درست نکلا۔ ‘‘

’’او——میکینک اچھّا رہا ہو گا؟‘‘

’’جی، سر۔ ‘‘

مسٹر سنگھ خاموش ہو گئے۔ گاڑی بدستورسبک روی سے آگے بڑھتی رہی۔

آفس پہنچ کرمسٹرسنگھ نے، رپورٹ تیار کی اور اپنے اعلا افسران تک بھیج دی۔

اس رپورٹ کے جواب میں مسٹر سنگھ کو جو لیٹر موصول ہوا اسے پڑھ کروہ ایک بار پھرو شرامی پوزیشن سے ساؤدھانی پوزیشن میں آ گئے۔ اس بار کی پوزیشن نے ان کے حواس تک کوساکت کر دیا۔

یہ ایک ٹرانسفر لیٹرتھاجس میں لکھا گیا تھا کہ مسٹرسنگھ چوں کہ سچویشن کوProperly Handleنہ کر سکے اس لیے ان کاٹرانسفر کیا جاتا ہے۔

لیٹر پڑھ کر مسٹرسنگھ بھونچکا رہ گئے۔ ان کی سمجھ میں نہ آ سکاکہ آخر ان سے کون سی مس ہینڈ لنگ ہوئی جس کے سبب انہیں یہ سزادی گئی۔ مگر ان کی حیرت جاتی رہی جب کسی خفیہ ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ ایک غیر تحریری رپورٹ بھی پہنچائی گئی جس سےیہ تاثر دیا گیا کہ ڈی سی پی سنگھ نے اس کیس کوسلجھانے کے بجائے اور اُلجھا دیا ہے اور فسادیوں کو سزا دینے کے بجائے اُنہیں کیمپوں میں بسا کر نہ صرف یہ کہ ان کی مدد کی ہے بلکہ انتظامیہ کے اوپر ایک غیر ضروری خرچ کا بوجھ بھی لاد دیا ہے۔

صحیح صورت حال سے واقف ہوتے ہی مسٹرسنگھ کی نظریں بے شمار لوگوں کی زمین سے بے دخل کرنے والوں کی اس نگاہ تک پہنچ گئیں جس کا ذکر تھانے میں انکوائری کے دوران نمائندوں نے کیا تھا اور نمائندوں کی وہ بڑی بات بھی ان کی سمجھ میں آ گئی جواس دن انہیں معمولی سی بات لگی تھی۔

اپنے نئے آفس میں مسٹرسنگھ کو ایک دن معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے سابقہ علاقے میں جو ریلیف کیمپ لگوائے تھے وہ گرا دیے گئے ہیں۔ ہجوم پھرسے سڑکوں پر آ گیا ہے۔ راستے جام کر دیے گئے ہیں۔ مشتعل بھیڑنے بجلی اور ٹیلی فون کے تار بھی کاٹ دیے ہیں۔ لاٹھی، آنسو گیس، گولی کسی سے بھی بھیڑ قابو میں نہیں آ رہی ہے۔ صورت حال بگڑتی جا رہی ہے۔ تھانہ، پولیس، انتظامیہ بجلی، فون، پانی، سبھی کے عملے پریشان ہیں تو یکایک ان کی آنکھوں کے سامنے لال بتی والی ایک کار اُبھر آئی جس کی آواز نے ایک دن دلکشا پولیس اسٹیشن جاتے وقت ان کی تاک میں دم کر رکھا تھا کہ اس کار کا ایک پرزہ اپنی جگہ سے اکھڑ گیا تھا۔ مگرواپسی پرجس کی رفتارسبک ہو گئی تھی کہ پُرزے کو اس کی جگہ پر میکنیک نے کس دیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

ہون کنڈ

 

ہون کنڈ کے اونچے چبوترے پر چنتن منن کے مدرا میں بیٹھے رشی منیوں کے منتر نے بہت سے دو پایوں کو چوپایا بنا دیا۔ منتر نے محض رنگ و روپ ہی نہیں بدلے، ان کے کردار و اطوار بھی بدل دیے۔ کچھ کو اتنا اہم بنا دیا کہ ان کے پیروں پر پھول چڑھنے لگے اور کچھ کو اتنا بے وقعت کر دیا کہ ان کے سروں پر بوجھ لدنے لگے۔

بوجھ ڈھونے والے چوپایوں میں وہ بھی شامل تھے جن کی کہانی آج بیان کی جا رہی ہے۔

منتر نے انہیں اتنا بھولا بھالا اور معصوم بنا دیا کہ وہ بھاری سے بھاری بوجھ بھی بے چوں چرا کیے چپ چاپ ڈھونے لگے۔ کمزوری دِکھانے اور لڑکھڑانے پر لات اور چابکیں بھی کھانے لگے۔

مسلسل بھاری بوجھ ڈھوتے رہنے سے ان کی کمر ٹیڑھی ہو گئی۔ گردن جھک گئی۔ چابکوں کی چوٹ سے کھال جگہ جگہ سے اُدھڑ گئی۔ پیٹھ کی چمڑی داغدار ہو گئی۔ مگرکسی کو ان کی حالت پر ترس نہیں آیا۔

صدیاں گزر جانے کے بعد دھرتی کے نیچے کھڑی گائے نے جب اپناسر ہلایا تو ایک بار زمین پر بھونچال آیا۔ اس بھونچال میں بہت ساری چیزوں کے ساتھ ساتھ دھرتی کی کوکھ سے ایک ایسی مخلوق بھی باہر آئی جس نے اپنے کومسیحا بتایا۔

مسیحا نے اپنے گرد و پیش کے ماحول کو بغور مشاہدہ کیا اور ایک صاف ستھرے پُر فضا مقام پر دواؤں کا ایک کارخانہ کھول دیا۔

کارخانہ کھولنے کے بعد ایک دن وہ مسیحا اُن چوپایوں کے پاس پہنچا اورافسوس ناک لہجے میں ہمدردی جتاتے ہوئے بولا۔

’’آپ پر بہت ظلم ہوتا ہے اور آپ اتنے سیدھے شریف ہیں کہ چابک اور لات کھا کر بھی خاموش رہتے ہیں۔ کچھ نہیں بولتے۔ بوجھ ڈھونے والے یہاں کچھ دوسرے چوپائے بھی ہیں مگر ان کی حالت آپ جیسی نہیں ہے۔ مار پڑنے پروہ چپ نہیں رہتے۔ اپنے غصّے کا اِظہار کرتے ہیں اور وقت پڑنے پرسینگ بھی مارتے ہیں۔ اس لیے مارنے والے اُن سے گھبراتے بھی ہیں۔ جانتے ہیں آپ کو مارنے والے آپ سے کیوں نہیں ڈرتے ؟‘‘

کیوں نہیں ڈرتے ؟ ’’انہوں نے تجسس کے ساتھ پوچھا۔ ‘‘

’’اِس لیے کہ آپ کے سروں پرسینگ نہیں ہیں۔ ‘‘

یکایک اُن کی نگاہیں ایک دوسرے کے سروں پر مرکوز ہو گئیں۔

آہستہ آہستہ اُن کے دیدوں میں اُداسی گھلنے لگی۔

’’مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ چاہیں گے تو میں آپ کے سروں پرسینگ اُگا دوں گا۔ ‘‘مسیجانے اپنے لہجے کو پر اعتماد بناتے ہوئے کہا۔

’’کیا؟‘‘اُداس آنکھوں میں حیرت بھر گئی۔

’’میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ‘‘مسیحا نے اُن کی حیرانی دور کرنے کی کوشش کی۔

ان کی آنکھوں سے حیرت دور ہو گئی اور اُداس دیدوں میں روشنی جھلملا اُ ٹھی۔

اُن کو خوش ہوتا دیکھ کر مسیحا بولا۔

’’مگراِس کٹھن کام کے لیے آپ مجھے کیا دیں گے ؟‘‘

’’آپ جو مانگیں گے۔ ‘‘اُنھوں نے جوش میں جواب دیا۔

’’میں جو مانگوں گا آپ دیں گے ؟‘‘

’’ہاں، دیں گے، ضرور دیں گے، اُن کا جوش اور بڑھ گیا‘‘

’’مُکر تو نہیں جائیں گے ؟‘‘

’’نہیں، بالکل نہیں، ’’اُنھوں نے مسیحاکویقین دلایا۔

’’تو ٹھیک ہے، کل سے آپ کا علاج شروع ہو جائے گا۔ کل صبح سویرے آپ میرے کارخانے آ جائیے۔ ‘‘

’’جی، اچھّا‘‘، وہ جھومتے ہوئے اپنے ٹھکانوں کی طرف چل دیے اور حسب معمول بوجھ ڈھونے لگے مگر اُس دن اُنہیں بوجھ کا احساس نہیں ہوا۔

وہ وقتِ مقر رہ سے پہلے ہی مسیحا کے پاس پہنچ گئے۔ مسیحا نے باری باری سے ایک ایک کے سرمیں سوئی کے ذریعے کوئی رقیق شے داخل کی اور گرم پانی سے دوا کی ایک ایک ٹکیہ کھلا کر اُن کو واپس بھیجتے ہوئے بولا۔

’’سوئی لگانے کا سلسلہ لگ بھگ کئی ہفتے تک چلے گا۔ اِس کے بعد آپ کا روپ ایسا ہو جائے گا کہ آپ خود بھی اپنے کو پہچان نہیں پائیں گے۔ ‘‘

وہ خوش ہو کرواپس چلے گئے۔ اورمسیحا کی ہدایت کے مطابق بلا ناغہ سوئی لگواتے اور دوا کی ٹکیہ کھاتے رہے۔

دھیرے دھیرے سوئی اور ٹکیہ نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ اُن کے سروں پر دونوں کانوں کے پاس سینگوں کی کونپلیں پھوٹ آئیں۔

کونپلیں روز بروز بڑھتی اور موٹی ہوتی گئیں۔ ان میں سختی بھی آتی گئی۔

اپنے سروں پرسینگوں کی پھوٹتی ہوئی کونپلوں کو دیکھ کر وہ پھولے نہیں سمائے۔ اوراُس دن تو اُن کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا جب ان کے سروں پر پورے سینگ نکل آئے۔

سڈول، چکنے اور نکیلے  سینگوں کے نکل آنے سے ان کی شکل بھی بدل گئی۔ اب وہ اپنے پُرانے روپ سے الگ تھلگ دِکھائی دینے لگے۔

اُنھوں نے اپنے اندر ایک عجیب سی جھرجھری محسوس کی۔ اُن کی رَگوں میں خون کی روانی تیز ہو گئی۔ ان کے جسم میں تناؤ پیدا ہو گیا اور وہ اپنے پٹھوں میں طاقت اور توانائی بھی محسوس کرنے لگے۔

طاقت کا احساس پیدا ہوتے ہی اُن کے برتاؤ اورسو بھاؤ میں بے اعتدالی آ گئی۔ وہ راہ چلتے اپنے سروں کو جھٹکنے لگے۔ اِترا کر اِدھر اُدھر سینگ مارنے لگے۔ بنا بات اور بنا موقع محل سینگوں کو زورزورسے ہلانے ڈُلانے میں اُن کے آس پاس اُٹھنے بیٹھنے اور اُن کے ساتھ چلنے پھرنے والے چوپائے بھی گھائل ہونے لگے۔ اُن کے سینگوں کی نوک سے کسی کی ناک زخمی ہونے لگی تو کسی کی آنکھ دکھنے لگی۔ ان کی چوٹ سے کسی کے پیٹ میں تکلیف پیدا ہو گئی تو کسی کی پیٹھ درد کرنے لگی۔

ایک دن مسیحا ان کے پاس آیا اور بولا۔

میں نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ آپ کے سروں پرسینگ اُگا دیے اور آپ نے ان سینگوں کا کمال بھی دیکھ لیا۔ اب آپ کی باری ہے۔ میں آج اِسی لیے آیا ہوں کہ آپ بھی اپنا وعدہ پورا کیجیے۔

مسیحا کی بات سُن کر وہ اپنے سینگ ہلاتے ہوئے بولے۔

’’ضرور ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ بولیے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟‘‘

مسیحا نے نہایت نرم اور ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔

’’اِتنے بڑے کارنامے کے لیے میں آپ سے ایک چھوٹا ساکام چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’کون سا کام؟‘‘اُنھوں نے جوش دکھاتے ہوئے پوچھا۔

’’لوگوں کے دُکھوں کو دُور کرنے کے لیے میں نے دواؤں کا ایک کارخانہ لگایا ہے مگر میری دوائیں دُکھیوں تک وقت پر نہیں پہنچ پاتیں جس سے میرے دماغ پر بہت بوجھ رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اِس بوجھ کو کچھ کم کر دیں۔ ‘‘

’’آپ کے دماغ کے بوجھ کو ہم کس طرح کم کر سکتے ہیں۔ ہم اس میں گھُسیں گے کیسے ؟ ہم اِتنے بڑے اور آپ کا دماغ اِتنا چھوٹا۔ ‘‘اُنھوں نے بھولے پن سے کہا۔

’’مسیحا مُسکراتے ہوئے بولا۔

’’آپ شاید میری بات نہیں سمجھے۔ اَصل میں میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے کارخانے کی دوائیں ضرورت مندوں تک پہنچا دیں۔ ‘‘

’’بس اِتنی سی بات ہے۔ آپ فکر مت کیجیے۔ آپ کی دوائیں ہم ضرور پہنچائیں گے۔ ‘‘

’’تو ٹھیک ہے کل تیار ہو کر کارخانے آ جائیے۔ ایک بات ضرور یاد رکھیے گا۔ اس کام کے لے میں آپ کو کچھ نہیں دوں گا کیوں کہ میرا یہ کام آپ اپنے سینگوں کے بدلے میں کریں گے۔ جن کو اُگانے میں میرا بہت کچھ خرچ ہو چکا ہے۔ ‘‘

’’ہمیں آپ سے کچھ چاہیے بھی نہیں۔ آپ نے جو دیا ہے وہ ہمارے لیے بہت ہے آپ نے ہمیں صرف سینگ ہی نہیں دیے ہیں بلکہ صدیوں کی ذلّت سے ہمیں چھٹکارا بھی دلایا ہے۔ آپ کا ہم پر اِتنا بڑا احسان ہے کہ ہم زندگی بھر بھی اگر آپ کی دوائیں ڈھوتے رہے تب بھی آپ کے اِس احسان کا بدلہ ہم نہیں چکا پائیں گے۔ آپ بے فکر رہیے، اس کے لیے ہم آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے۔ ‘‘اُنھوں نے مسیحا کو اچھّی طرح اِطمینان دلایا۔

دوائیں ڈھونے کا کام شروع ہو گیا۔

ابتدا میں ہلکے بکس اُن پر لادے گئے۔ اور وہ بناکسی بوجھ اور تکلیف کے احساس کے ہنسی خوشی اُنھیں اُن کے ٹھکانوں تک پہنچاتے رہے۔ آہستہ آہستہ بکس بھاری ہوتے گئے۔ ٹھکانوں کی دوریاں بھی بڑھتی گئیں جس میں ان کا وقت زیادہ صرف ہونے لگا اوراس کام کے لیے وقت کم پڑنے لگاجس سے ان کے چارہ پانی کا بندوبست ہوتا تھا۔ کام کم ہونے سے ان کے چارے پانی میں کمی آتی گئی اور وہ چارہ پانی کی کمی کے سبب روزبروز کمزور ہوتے گئے۔ ان کے پیٹ اندر کی طرف دھنس گئے۔ ہڈیاں باہر نکل آئیں۔ خالی اَنتڑیاں خشک موسم کی زمین کی طرح تڑخنے لگیں۔ ان چوپایوں کی ہمدردیاں بھی کم ہوتی چلی گئیں جو انھیں کبھی اپنا سمجھ کر کیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ ان کے سینگ جانے انجانے میں انہیں بھی تکلیف پہچانے لگے تھے۔

وہ بے چارے اکے لیے پڑ گئے۔ ان کی حالت مار کھائے بنا بھی پہلے سے زیادہ خراب ہو گئی۔ وہ پریشان رہنے لگے۔ رفتہ رفتہ ان کی پریشانی ناقابلِ برداشت ہونے لگی۔ تنگ آ کر ایک دن وہ مسیحا سے بولے۔

’’سینگ پا کر تو ہماری حالت اور بھی بدتر ہو گئی۔ ان سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ ‘‘

مسیحا ان کی پریشانی اور گھبراہٹ کو دیکھ کر سمجھاتے ہوئے بولا۔

’’فائدہ کیوں نہیں پہنچا۔ کیا تمہاری پیٹھ بوجھ لادنے والوں کی مارسے بچ نہیں گئی؟‘‘

وہ روہانسی آواز میں بولے

’’بچ تو گئی مگر ہمارا چارہ پانی کم ہو گیا۔ اور ہم اکے لیے بھی پڑ گئے۔ جو ہمارے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے اُنھوں نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا۔ جو ہم پر ترس کھاتے ان کی ہمدردیاں بھی ختم ہو گئیں۔

’’اُنھوں نے تم سے منہ اِس لیے موڑ لیا کہ سینگ پا کر تم نے اُن پربھی سینگ مارنا شروع کر دیا۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ان سینگوں سے تم ہر ایک پر حملہ کرنے لگو، بولو، اب کیا چاہتے ہو؟‘‘

مسیحا نے سمجھاتے ہوئے پوچھا۔

’’آپ یہ سینگ ہمارے سروں سے الگ کر دیجیے۔ ‘‘اُنھوں نے اِلتجا کی۔

’’یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘

’’صاحب‘‘ آپ تو بڑے گیانی ہیں، سینگ اُگاسکتے ہیں تو اِنہیں گرا بھی سکتے ہیں۔ کچھ کیجیے صاحب! ہم بہت تنگ آ گئے ہیں ‘‘اُنھوں نے گڑ گڑاتے ہوئے کہا۔

’’اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ میرے پاس سچ مچ ایسی کوئی سوئی نہیں جس سے تمہارے یہ سینگ غائب ہو سکیں۔ بہتریہ ہو گا کہ تم اپنے سینگوں کو قابو میں رکھو اور اپنا کام کیے جاؤ۔ ‘‘

وہ مایوس ہو کر چپ ہو گئے اور اپنا اپنا بوجھ لیے لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

ایک دن جب وہ ہانپتے اور لڑکھڑاتے ہوئے دواؤں کی پٹیاں کارخانے سے لے کر کہیں جا رہے تھے توراستے میں انہیں کسی نے روکتے ہوئے کہا۔

’’ڈال دیا نہ مسیحانے مصیبت میں !‘‘

چونک کر اُنھوں نے اُس اجنبی کو دیکھا۔ اس کے ماتھے پر چندن کا ایک سورج نما ٹیکہ چمک رہا تھا۔ اپنے بھیس بھوشا سے وہ کوئی مہان پُرش لگ رہا تھا۔

’’آپ کون ہیں ؟‘‘ان میں سے ایک نے پوچھا۔

’’میں رشی پتر ہوں۔ میں ان رشیوں کی سنتان ہوں جن کے منتر نے تمھیں چار پیر پردان کیے تھے۔ جانتے ہو تمھیں چار پاؤں کیوں دیے گئے تھے ؟

’’نہیں، ہمیں نہیں معلوم؟اِدھر اُدھر وہ بغلیں جھانکتے ہوئے بولے ‘‘

’’میں تمھیں بتاتا ہوں کہ تم لوگوں کو چار پیر کیوں دیے گئے۔ واستومیں تمھیں چار پیر اس لیے دیے گئے کہ تم ٹھیک سے دھرتی پر کھڑے رہسکو۔ تمہاراسنتولن بنا رہ سکے۔ ‘‘

اسی طرح ہمارے منیوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کسی کوسینگ دیے ہوں گے اور کسی کو ان سے ونچت رکھا ہو گا۔ کام کے بٹوارے میں بھی کوئی نہ کوئی اُدیشیہ اُوشیہ رہا ہو گا، نشچیہ ہی اس میں کوئی کلیان کاری رہسیہ چھپا ہو گا۔ تمہاری جو یہ مصیبت ہے، اسی لیے ہے کہ تم نے اپنے رشیوں کا ودھان توڑا۔ ان کا اپمان کیا اورکسی کے بہکاوے میں آ کر اپنے سروں پرسینگ اُگا لیے۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ سینگ تمہارے جی کا جنجال نہیں بن گئے ؟‘‘

’’ہاں، یہ سینگ سچ مچ ہمارے لیے جنجال بن گئے ہیں۔ ‘‘اُنھوں نے سرہلا کر اقرار کیا۔

’’کیا تم چاہتے ہو کہ اس جنجال اور سنکٹ سے تمھیں مکتی مل جائے ؟‘‘رشی نے ان کا جواب سن کر بڑے ہی نرم لہجے میں پوچھا۔

’’ہاں، مہاراج!چاہتے ہیں۔ جی جان سے چاہتے ہیں۔ بھگوان کے لیے ہمیں اس سے مکتی دلائیے۔ ‘‘وہ رشی پترسے اِلتجا کرنے لگے۔

’’مُکتی تو تمھیں مل سکتی ہے پرنتو——‘‘رِشی پتر کچھ سوچ کر چپ ہو گیا۔

’’پرنتو کیا مہاراج؟‘‘وہ پوری بات سننے کے لیے بے چین ہو اٹھے ‘‘

’’تھوڑا بہت تمھیں کشٹ اُٹھانا پڑے گا۔ ‘‘

’’اُٹھا لیں گے مہاراج!کشٹ بھی اُٹھا لیں گے۔ اوپائے تو بتائیے۔ رِشی پتر دیر تک چپ رہا۔ پھر ان کی طرف غورسے دیکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا۔ ‘‘

’’تمھیں کچھ دنوں تک ہون کے پاس بیٹھنا ہو گا۔ اَگنی دیوتا کو آہوتی دینی ہو گی۔ ہون کی گرمی ہی سینگوں کوگلاسکتی ہے۔ آرمبھ میں تمھیں پیڑا اویشیہ ہو گی پرنتو بعد میں تم کو سدا کے لیے اس سنکٹ سے مکتی مل جائے گی۔ تمہاری اوستھا پہلے جیسی ہو جائے گی۔ تم پر بوجھ لادنے والے تمھیں پورا پورا چارہ پانی دینے لگیں گے۔ جنھوں نے تم سے منہ موڑ لیا ہے وہ تمھیں پھر سے اپنا لیں گے۔ ان کی سہان بھوتی پھرسے تمھیں ملنے لگے گی اور رشیوں منیوں کا کرودھ بھی شانت ہو جائے گا۔ ‘‘

رِشی پتر کی بات سن کر وہ مسیحا کی طرف سے منہ پھیر کر ہون کنڈ کے پاس بیٹھ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

رنگ

 

وہ شخص جو ہمارے سامنے والی سیٹ پر گم صم اُداس بیٹھا تھا، عجیب انداز سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ کبھی اُس کی نظریں میرے بچّوں پر تو کبھی میری بیوی پر مرکوز ہو جاتیں۔ کبھی کچھ کھاتے پیتے وقت وہ ہمیں ندیدوں کی طرح دیکھنے لگتا تو کبھی ہماری بات چیت کو بہت ہی غورسے سننے لگتا——— — کبھی ہمارے ہنسنے پر چونک پڑتا اور ایک دم اُداس ہو جاتا۔ کبھی ہماری کسی بات یا کسی حرکت پراس کی آنکھیں بے چین ہو جاتیں اور اس کا چہرہ پراسرار ہو جاتا————غرض کہ ہمارے ایک ایک عمل پر وہ چونک پڑتا تھا۔ ایسا لگتا کہ ہمارا کوئی بھی عمل اسے اچھّا نہیں لگ رہا تھا۔ یا ہمارا عمل اس کے اندر کوئی طوفان کھڑا کر رہا تھا۔ اس کے عجیب و غریب اندازِ نظر نے اس کو میری توجّہ کا مرکز بنا دیا تھا۔

اس کا حلیہ بھی عجیب تھا۔ جسم کی فطری بناوٹ اور خدوخال سے خوش حال، مگر باہری رنگ ڈھنگ سے بدحال دکھائی دے رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے جوان جسم پر بوڑھاپے کی کھال منڈھ دی گئی ہو۔ خاموش چہرے سے ابھرتی ہوئی چیخ، آنکھوں میں دہشت، وحشت، اذیت،یاس، حقارت، نفرت، انتقام، وغیرہ کا ملاجلا احساس۔

اسے دیکھ کر ایسالگتا تھا کہ کہیں وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت نہ کر بیٹھے۔

میرا اندیشہ صحیح نکلا۔

کسی بات پر ہم چاروں قہقہہ لگا رہے تھے کہ اچانک وہ میری طرف اپنی پراسرار نگاہیں مرکوز کرتا ہوا بھاری اور بھیانک لہجہ میں بولا:

’’میں آپ کے بیوی بچّوں کو جلادوں تو؟‘‘

اس کے اس جملہ نے ہمارے قہقہوں پر فالج گرا دیا۔ یکبارگی ہم لرز پڑے، جیسے ہمارے ارد گرد زلزلہ آ گیا ہو۔ میری نگاہیں کانپتی ہوئی اس کے ہاتھ میں دبی بوتل کے پاس پہنچ گئیں۔ مجھے محسوس ہوا بوتل میں بلبلے اٹھنے لگے ہیں۔

میرے بچّے مجھ سے چمٹ گئے۔ بیوی کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔

آس پاس کی سیٹوں سے اُبھرتی ہوئی خوش گپیاں ایک دم خاموش ہو گئیں جیسے کسی آسیب نے ایک ساتھ سبھی کے گلے دبا دیے ہوں۔ گاڑی کا شور بھی سنائی دینا بند ہو گیاجیسے ٹرین ٹھہرسی گئی ہو۔

ہمّت جٹا کر نہایت دھیمی اور ملائم آواز میں ہکلاتا ہوا میں صرف اتنا کہہ سکا:

’’کیا بک رہے ہیں ؟‘‘

’’بک رہا ہوں !میں بک رہا ہوں ہاہاہاہا————‘‘اس کی خوفناک ہنسی زور پکڑتی گئی————

پورا ماحول دہشت زدہ ہو گیا۔

کچھ دیر تک شدت کے ساتھ گونجتے رہنے کے بعد اس کی ہنسی یکبارگی تھم گئی۔ ۰جیسے وہ کسی کیسٹ کے ٹیپ کی طرح کہیں اُلجھ کر ٹوٹ گئی ہو۔ اس کا چہرہ سنجیدہ ہو گیا۔ ایسا سنجیدہ جیسے اس کے رگ و پے میں دورانِ خون بند ہو گیا ہو۔ اس کا چہرہ مُردے کا سا لگنے لگا۔ بالکل بے جان۔ بے حس و حرکت——خوفناک!!!

ہمارا خوف اور بڑھ گیا۔

میری بیوی بچّے جلا دیے گئے۔ اچانک مردے میں جان پڑ گئی۔

’’کیا؟‘‘

’’ہاں !سبھی میری آنکھوں کے سامنے جل کر بھسم ہو گئے ……اُن کی ہڈیاں تک نہیں بچیں۔ ‘‘

میرے جسم پر میرے بچّوں کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔ مگر میرے اُوپرکساخوف کا شکنجہ قدرے ڈھیلا پڑنے لگا۔

’’اُنہیں کس نے جلایا؟‘‘میں نے ہمدردانہ لہجہ میں پوچھا۔

’’اتنی جلدی بھُول گئے ؟‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

میں ہڑبڑاسا گیا۔ مجھ پر خوف کا شکنجہ دوبارہ کسنے لگا۔ میں تعجب سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

’’اُنہیں آپ نے جلایا۔ ‘‘اس نے میری طرف گھورتے ہوئے جواب دیا۔

’’میں نے —؟‘‘میری حیرانی اور بڑھ گئی۔ مجھے چکّر آنے لگے —چند لمحے بعد میں نے خودکوسنبھالاتودیکھاکہ میرے بچّے میری طرف عجیب نظرو ں سے گھور رہے تھے۔

میں نے جلدی سے نگاہیں ان کی طرف سے ہٹا کر اپنی پلکیں بند کر لیں۔

اُس نے مجھے اپنے بال بچّوں کا قاتل کیوں کہا؟

اُس کو غلط فہمی کیوں ہوئی؟آخر اس نے اتنے وثوق سے کیوں کہا؟ کہیں اس کا دماغ تو نہیں چل گیا ہے ؟

کہیں واقعی میرے رنگ روپ قاتل سے تو نہیں ملتے ؟

کوئی بات تو ہو گی جس نے اس سے یہ کہلوایا ہو گا؟

آخر وہ ہے کون———؟

’’دیکھیے !یہ آدمی رونے لگا ہے۔ ‘‘بیوی نے مجھے ٹہوکے دیے۔ میں نے اپنی پلکیں کھول کر نگاہیں اس شخص کی جانب مرکوز کر دیں۔

اس کی خشک آنکھوں میں سیلاب اُمنڈ آیا تھا۔

کھارے مٹ میلے پانی میں صاف و شفاف منظر اُبھرنے لگے۔ خوش رنگ بچّے، معصوم چہرے، رنگین بستے، خوش نماڈریس، چہکتا ہوا آنگن، مہکتا ہوا گھر۔

—————

پھولوں سے سجی کار، کار میں بیٹھی زیورسے لدی چاندسی دُلہن۔ معطّر لباس، پر نور چہرہ، سرخ لب ورخسار۔ تمنّاؤں سے بھری آنکھیں۔

—————

قمیض میں بٹن ٹانکتے ہوئے نرم و نازک ہاتھ، نرم گرم آغوش، جاں گدازلمس، روح پروربوسے۔

دفعتاً پانی میں آگ کی لپٹیں لہرانے لگیں۔ منظر بدلنے لگے۔ رنگ جھلسنے لگا۔ نور دھواں ہونے لگا۔ خوشبو بکھرنے لگی۔

’’اُنہیں آپ نے جلایا۔ ‘‘

یہ جملہ میرے ذہن میں گونجنے لگا۔ گونج ضرب لگانے لگی———دل و دماغ کی گرہیں کھلنے لگیں۔

یکایک میرا ذہن کمپارٹمنٹ سے نکل کر ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں آندھیاں چل رہی تھیں، بہت سارے پرچم ہوا کے جھونکوں سے فضا میں کسی ہیؤلے کی طرح ڈول رہے تھے۔ ان میں وہ پرچم بھی شامل تھا جو میرے آنگن میں لہرایا کرتا تھا۔ جس کا رنگ مجھے اُس کھیت کی یاد دلایا کرتا تھا جس کی فصل کے پھولوں کے رنگ سے ہنسی کے فوارے پھوٹتے تھے۔ وہ رنگ جوسانسوں میں خوشبو، رگوں میں ترنگ، بیماروں میں جان اور کمزوروں میں قوّت بھر دیتا تھا۔

ہنسی بکھیرنے والے رنگ سے رنگا پرچم، سرُخ دھبّوں سے اَٹا پڑا تھا۔ پرچم کے پاس سے سِسکیاں اور چیخیں اُبھر رہی تھیں۔

سِسکیاں اور چیخیں چمگادڑوں کی طرح مجھ سے چمٹنے لگیں ———میں تلملا اُٹھا۔

منظر سے میری نگاہیں ہٹیں اور میں نے جب اپنے بچّوں کی طرف دیکھا تو بچّے مجھے اس طرح گھور رہے تھے جیسے سرخ دھبّوں اور سِسکیوں والا پرچم میرے ہاتھ میں لہرا رہا ہو۔ میری تلملاہٹ اور شدید ہو گئی—

’’کہاں کھو گئے ؟یہ آدمی تو چیخ چیخ کر رونے لگا ہے۔ ‘‘بیوی نے پھر ٹہوکے دیے۔

اس کے گریہ نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔

بچّوں کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی تھی اور وہ بے خوف ہو کراُس شخص کی طرف دیکھنے لگے تھے۔

کمپارٹمنٹ کے دوسرے مسافر جو کچھ دیر پہلے تک اُس شخص کو کوئی آتنک وادی سمجھ کر سہمے ہوئے تھے اور اُسے دبوچنے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے، اس کی طرف ہمدردانہ نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔

’’اس کے بال بچّے کیوں جلا دیے گئے ؟‘‘ایک اورسوال مجھے پریشان کرنے لگا۔ جواب کی تلاش میں ذہن بھٹکنے لگا۔

کیا یہ سچ مچ آتنک وادی ہے ؟

کیا اس نے کسی کا قتل کیا ہے ؟

کیا اس کے بیوی بچّے مجرم تھے ؟

کیا اُنھوں نے کوئی ریکھا پار کرنے کی کوشش کی تھی؟

کیا اُنھوں نے کسی ودھی ودھان کا النگھن کیا تھا؟

کیا اِس شخص کے پاس کوئی فیکٹری تھی؟

کیا یہ کوئی بڑا کاشتکار تھا؟

کیا یہ کوئی اعلا افسرتھا؟

جواب کی صورت میں طرح طرح کے سوال اُبھرنے لگے۔

اُس کا گریہ تیز ہو گیا تھا۔ اُس نے ہماری طرف گھورنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے آپ میں سمٹا، ڈراسہما، اُداس اور بے رنگ یادوں کو اپنی آنکھوں میں بسائے مسلسل روئے جا رہا تھا۔

اُس کے گریہ کا سبب وہ رنگ تھا جس نے اُس سے اُس کا ایک ایک رنگ چھین لیا تھا۔ جس رنگ کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اُس کے پاس پہنچ کر آدمی ہنسے بنا نہیں رہ سکتا۔

میری آنکھوں میں دُور دُور تک رنگوں کی فصل لہلہانے لگی۔ اور کانوں میں قہقہے گونجنے لگے۔

قہقہوں میں گریہ گھُلنے لگا۔ درد سے بھرا گریہ شدید تر ہوتا گیا۔ میرا دل بے چین ہو اُٹھا۔ میراجی چاہنے لگا کہ اُسے چپ کرا دوں۔ اُس کا گریہ روک دوں۔

مگر اِسے کیسے چپ کراؤں ؟

اِس کے آنسو کس طرح روکوں ؟

میرے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا۔ میں عجیب طرح کی بے چارگی میں گرفتار تھا کہ میں نے دیکھا:

میری برتھ سے دو ننھے ننھے ہاتھ نکل کر اُس شخص کے رُخساروں کی طرف بڑھ گئے ہیں اور اُن کی ننھی منّی اُنگلیوں نے آنسوؤں کی بوندیں اپنی پوروں پر اُٹھا لی ہیں اور اُن اُنگلیوں کے لمس سے گریہ کناں لبوں پرمسکراہٹ کی ایک ہلکی سی کرن جھلملا اُٹھی ہے۔

مجھے محسوس ہوا جیسے پرچم میرے بچّوں کے ہاتھ میں پہنچ گیا ہے۔ پرچم سے سرخ دھبّے غائب ہو گئے ہیں اور وہاں صرف اُس کا اپنا رنگ رہ گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

آٹے کی دلدل

 

اس کے بھائی نے تواس کی جیب میں اپنا خلوص ڈالا تھامگراُسے محسوس ہواجیسے کسی نے سانپ چھوڑ دیا ہو۔ سرسراہٹ سے اُس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

یہ سانپ اکثراس کی جیب میں داخل ہوتا اوراپنازہراس کے رَگ و پے میں اُتار دیتا۔ ہر بار وہ سوچتا کہ اَب کے اُسے اپنی جیب میں داخل ہونے نہیں دے گا۔ اور اگر داخل ہو گیا تو اُسے نکال کر باہر پھینک دے گا مگر ہر دفعہ اس کے ہاتھ بندھ جاتے۔

کچھ اور بھی سانپ اُس سے لپٹتے رہتے اور اُن کازہراُس کے بھیتر گھلتا رہتا۔

بیوی اُس سے اپنی کوکھ میں بچّہ چاہتی مگر وہ اسے جھلّی میں ڈال دیتا۔ جھلّی کو لے کر ہر بار اُن کے درمیان کھینچا تانی ہوتی اور اس کھینچا تانی میں اکثر ان کے جذبوں کی نسیں ٹوٹ جاتیں۔ جذبوں کی نسیں جب ٹوٹتیں توجسم کا ریشہ ریشہ بکھر جاتا۔

معمولی ناک نقشہ اور اوسط درجے کے جسم کے باوجود چھوٹے بھائی کی بیوی چست درست لگتی اور گھر آنے جانے والوں کوattractکیا کرتی جبکہ اس کی بیوی تیکھے نقوش اور بھرے پُرے بدن کے باوجود کڑک مرغی سی دکھائی دیتی۔ اس کا کڑک پن کٹ کھنی مرغی کی طرح جھپٹ جھپٹ کر اُسے ٹھونگیں مارتا اور اُس کے احساس کو نوچ کھسوٹ ڈالتا۔

اُس کی بیوی گھرکی بڑی بہو تھی مگر ابّا ہمیشہ چھوٹی بہو کو مخاطب کرتے۔ ابّا کے پکارنے پر جب چھوٹی بہو کے منہ سے ’’جی ابّا جان‘‘نکلتاتولگتاجیسے کسی کسے ہوئے سازسے جھنکار نکلی ہو۔ اس وقت چھوٹی بہو کا چہرہ بھاری بھرکم بھاؤوں سے بھر جاتا۔ اس کی چال ڈھال میں لوچ ساپیدا ہو جاتا اور وہ کسی دربار کی تجربہ کار رقاصہ نظر آنے لگتی۔ اس کی نگاہیں اس کے سراپے میں کھو جاتیں۔ وہ اپنی بیوی کو بھی اُسی شکل میں دیکھنا چاہتا۔ اس کے سراپے میں بھی رقص کا عکس ملاحظہ کرنا چاہتا۔ یقیناً اُس کی بیوی بھی چاہتی ہو گی کہ اس کے سازکابھی تارکسے، اس کے لب سے بھی جھنکار نکلے۔ اس کے رُخ پر بھی بھاؤ سجے۔ اس کی چال ڈھال میں بھی لوچ پیدا ہو۔ ممکن ہے وہ اپنے سسرکو کوستی ہو مگر اس میں ان کا بھی کیا قصور۔ پکارا تواُسی کو جاتا ہے نا جو پکار کا جواب دیتا ہے اور جواب وہ دیتا ہے جس کے پاس جواب ہوتا ہے۔

اپنے پاس جواب نہ ہونے کا ذمّے وار وہ اُسے ٹھہراتی ہو گی کیوں کہ جب جب چھوٹی بہو کے منہ سے جھنکار نکلتی اس کی بیوی کی آنکھیں سوال بن کر اُسے گھورنے لگتیں اور سوالوں کی سوئیاں بچھو کے ڈنک کی طرح اُس میں ٹوٹ جاتیں۔

کھانسی کے دوروں کے دوران امّاں کی نگاہیں جب اُس کی طرف اُٹھتیں تو اس کی نظریں جھک جاتیں۔ اسے لگتا جیسے اماں کے پھیپھڑوں میں تپ دق کے جراثیم کہیں اورسے نہیں بلکہ اس کے دماغ سے نکل کر پہنچے ہوں۔

باہر نکلتا تو محلّے پڑوس کے بڑے بوڑھے طرح طرح کے فقرے کستے۔ ان کی آنکھیں اُس کی جانب زہر میں بجھے طنز کے تیر چھوڑتیں۔ اُسے محسوس ہوتاجیسے وہ وہ نہ ہو کر کوئی پاگل ہو جسے دیکھتے ہی اِدھر اُدھر سے پتھربرسنے لگتے ہیں۔ یہ وہی بڑے بوڑھے تھے جنہوں نے کبھی اسے اپنی پلکوں پر بٹھایا تھا۔ جن کی زبانیں اُس کی تعریف کرتے نہیں تھکتی تھیں۔ اپنی جس تابناک شے کی بدولت وہ لوگوں کا پیارا تھا وہ شے اب بھی اس کے دماغ میں موجود تھی بلکہ پہلے سے زیادہ تابناک ہو گئی تھی۔ لوگوں کے اس متضاد رویے پر جب وہ غور کرتا تو چاروں طرف سے دھواں اُٹھنے لگتا۔ ایک ایک چیز بے معنی لگنے لگتی۔ سارے فلسفے، سارے افکار اُلٹ جاتے۔ سورج دھند سے اٹ جاتا۔ کبھی کبھی اس کے بھیترسے کوئی کہتا:

’’توسانپ سے نجات پا سکتا ہے ‘‘

’’تیرے اندر سے زہر نکل سکتا ہے۔ ‘‘

مگر جو شرط وہ رکھتا

اُسے ماننا آسان نہ تھا

اِس لیے کہ اُس کے دماغ کی تابناک شے نے

اُسے جس مقام پر پہنچا دیا تھا

وہاں سے نیچے اُترنا

بہت مشکل تھا

ایسی تاب ناک شے

جو کٹھن پر شرم

گھورتپسیا

کڑی سادھنا

رِشیوں منیوں کے سے تپ جپ

اور فقیروں کی سی ریاضت سے ملی ہو

اورجس کے لیے نیند کی پریوں کے پروں کو مسلنا پڑا ہو

اورجس میں زندگی کاست، سار

اور شب و روز کے منتھن سے نکلا ہو، رنگ و آہنگ شامل ہو،

کو پا کر آسانی سے نیچے نہیں اُترا جاتا

پھر بھی اُس نے اپنے کو تیار کیا۔

بس اِتنا ضرور خیال رکھا کہ نیچے اُترے تو اپنے سواکسی کو دِکھائی نہ دے اور اگر کوئی دیکھے بھی تو دیکھنے والے کو وہ نہ دیکھ سکے اور اس طرح وہ ایک اجنبی زمین پر اُتر گیا۔

مگر آنکھیں وہاں بھی موجود تھیں۔ زمین پر رہنے والے کو نگاہیں وہاں بھی اِسی احساس سے دوچار کرتیں جس کے تصوّرسے سہم کراُس نے اِدھر کا رُخ کیا تھا۔

وہاں کی نظریں تو شاید کچھ زیادہ ہی تیز تھیں۔ جب بھی اُس کی طرف دیکھتیں اس کے دیدوں میں سؤراُبھاردیتیں۔ سرسے پا تک غلاظت میں سناہوا سؤر۔ گندگی کے ڈھیر پر جھکاہواسؤر۔

اُس کے آٹے میں سنے ہاتھ ٹھٹھک جاتے۔ گیلے آٹے کا گندمی رنگ یک دم سے پیلا پڑ جاتا۔ گیلا پن اس کے بھیتر تک بد بو بھر دیتا……تقریباً روز ہی یہ سؤراس کی آنکھوں میں اُبھرتا اور دیر تک اس کے احساس پر لوٹ لگاتا رہتا۔

اُسے گھنٹوں اُکڑوں بیٹھ کر منوں آٹا گوندھنا پڑتا۔ اکڑوں بیٹھنے میں ایڑی اور تلوے کی نسیں کھنچتیں تو جسم کے ساتھ دماغ کی نسیں بھی اینٹھ جاتیں۔ پانی اور آٹے کو ملانے میں اُنگلیوں کا سارا کس بل نکل جاتا۔ لس پیدا کرنے میں اپنے جسم کا سارا لس باہر آ جاتا۔ سوتے وقت ہاتھ کی اَکڑی ہوئی اُنگلیوں کو سیدھی کرنے کی کوشش کرتا تو آنکھوں کے آگے مرغ کے کٹے ہوئے پنجے لہرانے لگتے۔ پنجے جن کی اَکڑی ہوئی اُنگلیوں کی نسیں کھینچ کر اُوپر نیچے کرنے کا کھیل وہ اپنے بچپن میں کھیلا کرتا تھا۔ واقعی اُسے لگتا کہ اُس کے ہاتھ بھی مرغ کے پنجوں کی طرح جسم سے کٹ کر جدا ہو گئے ہیں۔ اَکڑی ہوئی بے جان اُنگلیوں میں حرکت پیدا کرنے کی کوشش اُسے اِس لیے کرنی پڑتی تاکہ وہ پھرسے خشک آٹے میں لس پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں۔

اس زمین پر صرف جسم ہی اُکڑوں نہیں بیٹھتا بلکہ دل و دماغ، آنکھ، زبان، کان سبھی کو اُکڑوں بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس کا بہت جی چاہتا کہ اس کے اعضا کنمنائیں، حواس سگبگائیں، سراُوپر اُٹھے، آنکھ اِدھر اُدھر بھی دیکھے۔ نگاہ جسموں پر جمے۔ اَنگوں کو ٹٹولے، رنگوں کو جذب کرے، اس کے اپنے انگوں میں رس گھلے۔ اُس کی زبان بولے، کان سنیں، لیکن چپ رہنے، نیچے دیکھنے اور من مارنے کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔

شروع شروع میں اس نے اپنے کام کو گھر والوں سے چھپائے رکھا کہ کہیں وہ بھی ذہنی اذیت میں گرفتار نہ ہو جائیں یا اُن کی غیرت جوش میں نہ آ جائے اور وہ خصوصاً اُس کی بیوی کہیں ضد نہ کر بیٹھے کہ وہ وہاں سے گھر آ جائے مگر بعد میں اس نے اس راز کو اپنی بیوی پر منکشف کر دیا تھا۔

جس کے جواب میں اُس کی بیوی نے لکھا تھا۔

’’آپ نے تو بتایا تھا کہ آپ سپروائزری کرتے ہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ آٹا گوندھتے ہیں۔ کیوں مذاق کرتے ہیں۔ بھلا مرد بھی کہیں آٹا گوندھتا ہے۔ وہ بھی آپ جیسا مرد۔ ‘‘

کئی بار اس نے سوچا کہ وہ اس اذیت ناک زمین کے شکنجے سے نکل بھاگے مگر جب بھی وہ ایسا سوچتا اُس کی آنکھوں میں اُس کی بیوی کے خطوط کی تحریریں اُبھرنے لگتیں۔

’’جس دن آپ کا جہاز ہوا میں اُڑا تھا، میں بھی آسمان میں اُڑی تھی۔ مجھے اس دن بہت اچھّا لگا تھا۔ آپ کے جانے سے گھرکے دوسرے لوگ بھی بہت خوش ہیں۔ آپ میری فکر نہ کیجیے۔ میں سچ مچ بہت خوش ہوں۔ ‘‘

’’آپ اپنے بارے میں بہت کم لکھتے ہیں۔ تفصیل سے لکھیے کہ وہاں کی زندگی کیسی ہے ؟ اچھّا ہوا یہاں کی نگوڑی گرمی سے آپ کا پیچھا جلد چھوٹ گیا۔ ہمارا تو گرمی سے ناک میں دم ہے۔ پڑوسی کو  کولر کی ہوا میں سوتے دیکھتی ہوں تو سینے پر سانپ لوٹنے لگتا ہے۔ کاش اِسی گرمی میں ہمارے گھر بھی کولر آ جاتا۔ باقی سب خیریت ہے۔‘‘

’’آپ کو پتہ ہے گھر میں میری عزت کتنی بڑھ گئی ہے۔ ہر وقت لوگوں کی زبان پر اب میرا نام سنائی دیتا ہے۔ مجھے بہت اچھّا لگتا ہے۔ ‘‘

’’……امّاں کی کھانسی میں کمی آ گئی ہے مگر ڈاکٹر کہتے ہیں مکمل علاج کے لیے انہیں پٹنہ لے جانا پڑے گا۔ بڑی آپا آئی تھیں۔ ایک ٹو اِن ون کی فرمائش کر گئی ہیں۔ میری فکر بالکل مت کیجیے میں اچھّی ہوں۔ ‘‘

’’جاتے وقت جو تحفہ آپ مجھے دے گئے تھے وہ اب پیکٹ سے باہر آ گیا ہے۔ بڑا ہی پیارا ہے۔ بالکل آپ کی طرح……‘‘

ایک خوش خبری اور بھی ہے۔ کولر اپنے یہاں بھی لگ گیا ہے۔ میں یہاں مزے میں ہوں۔ ‘‘

’’ابّا کہہ رہے تھے کہ نور اللہ چچا کے لڑکے کود و سال کا اورExtensionمل گیا ہے۔ سنا ہے محنت اور ایمانداری سے کام کرنے پر کمپنی والے بہت خوش ہوتے ہیں۔ اور ملازمت کی میعاد بنا کہے بڑھا دیتے ہیں۔ مجھے آپ کی قابلیت، محنت اور ایمانداری پر پورابھروسا ہے۔ ‘‘

’’روپے برابر مل رہے ہیں۔ گھرکی دیواریں ہم نے اونچی کرالی ہیں۔ بجلی کا نیا کنکشن بھی لے لیا ہے۔ ‘‘

اور خط کی تحریروں کی سوئیاں اس طرح چبھتیں کہ اس کے ذہن و دل کو گود ڈالتیں۔ اس کے دماغ میں بیٹھی ہوئی تابناک شے بھی چھلنی ہو اُٹھتی۔

آخرکاراُس نے یہ سوچا کہ زمین پر رہ کر اُکڑوں ہی بیٹھنا ہے تو کیوں نہ وہ اپنی زمین پر بیٹھے۔ کم سے کم اُس کے حواس کو تو اُکڑوں نہیں بیٹھنا پڑے گا اور ایک دن اُس نے طے کیا کہ وہ اُس زمین کو چھوڑ دے گا مگر اچانک اُس کی آنکھوں میں اُس کی اپنی زمین سمٹ آئی۔ آہستہ آہستہ اُس کا گھر بھی اُبھر آیا۔

قریب سے اپنی زمین کو دیکھ کر وہ سوچ میں پڑ گیا۔ کیا یہ زمین اُکڑوں بیٹھنے والے کو وہ سب کچھ دے سکے گی جس سے اس کے گھرکی دیواروں کی اونچائی برقرار رہ سکے۔ کھڑکیوں میں لگے کولروں کی پنکھڑیاں گردش کر سکیں۔ دروازوں کا رنگ و روغن سلامت رہ سکے۔ اس کے آنسوؤں میں وہ تصویر بھی اُبھر آئی جس نے بجلی کی روشنی، کولر کی ہوا، اور اونچی دیواروں کے سائے میں آنکھیں کھولی تھیں۔ اس تصویر کے اُبھرتے ہی اُس کے فیصلے پر فالج گر پڑا اوراس کی اُنگلیاں آٹے کی دلدل میں دھنستی چلی گئیں

٭٭٭

 

 

 

تیشہ

 

میلی کچیلی قمیض، ملگجی دھوتی اور پلاسٹک کے کٹے پھٹے جوتے میں ایک جھلسا ہواسا آدمی سرپرٹین کی رنگ دار پیٹی اُٹھائے پہاڑی ڈھلان سے ڈھلکتا، ہانپتا کانپتا، پسینے میں شرابور مسافر خانے پہنچا۔

سرکابوجھ اُتار کر ایک کونے میں رکھا، گچھے سے ماتھے اور گردن کا مٹ میلا پسینہ پونچھا۔ کھڑے کھڑے سانسیں درست کیں اور دھوتی کی گانٹھ سے مڑے تڑے نوٹ نکال کر مٹھی میں دبائے کاؤنٹر کے پاس پہنچ کر بولا۔

’’ایک ٹکٹ مجپھر پور!‘‘

ٹکٹ کے ساتھ واپس ہوئے روپیوں کو دیکھ کر وہ چونک پڑا۔

’’بابو!آپ نے یہ روپیے جیادہ لوٹا دیے ہیں ؟‘‘

بکنگ کلرک نے اس کی طرف گھورتے ہوئے جواب دیا۔

’’نہیں، میں نے زیادہ نہیں لوٹائے ہیں۔ شاید تمھیں معلوم نہیں کہ اس بار کرائے میں کمی کر دی گئی ہے۔ ‘‘

’’کیا بھاڑے میں کمتی ہو گئی ہے ؟‘‘اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ باہر کھینچ لیا۔ آس پاس کے لوگوں کی نگاہیں بھی اس کے اوپر مرکوز ہو گئیں۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگ اچانک اس کی طرف اس طرح کیوں دیکھنے لگے ہیں۔ اس نے زیادہ دھیان بھی نہیں دیا اور وہاں سے ہٹ کر اپنی پیٹی کے پاس آ گیا۔

مٹھی کھول کر روپیوں کو دوبارہ گنا۔ ہتھیلی پردس دس کے تین نوٹ پڑے تھے۔ یعنی ڈیڑھ دن کی مزدوری جس کو پانے کے لیے صبح سویرے ہی ڈیرا چھوڑنا پڑتا۔ ڈی۔ سی آفس کے پاس بہت سارے مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہو کر بے چین نظروں سے مالکوں اور ٹھیکہ داروں کا انتظار کرنا پڑتا اور کام مل جانے پر پندرہ سولے گھنٹے تک کڑاکے کی سردی یا چلچلاتی دھوپ میں پہاڑ کاٹنا اور نکیلے  پتھروں کو پیٹھ پر لاد کر ڈھونا پڑتا۔

اُسے رامو کی فرمائش یاد آ گئی۔

’’باپو!مجھے بھی دلا دو نا ایسی کار!‘‘

آنکھوں کے سامنے گاؤں کے زمیندار چندر پال سنگھ راٹھور کے سب سے چھوٹے سپتر راجا بابو کی کار دوڑنے لگی۔

رامو ہر بار اس سے راجابابوجیسی کار کی فرمائش کرتا اور وہ ہر بار وعدہ کر کے رہ جاتا۔

’’ارے بھائی!کہاں کھو گئے ؟یہ روپے رکھ لو، نہیں تو کوئی ا چک لے گا۔ ‘‘

اس نے فوراً روپیوں کو دھوتی کی گانٹھ میں اَڑس لیا۔

مگر تھوڑی دیر بعد وہ تینوں نوٹ دھوتی کی گانٹھ سے نکل کراس کی آنکھوں میں گھومنے لگے اور گھومتے گھومتے کارمیں تبدیل ہو گئے۔

اِس بار وہ رامو کے لیے کار ضرور لے جائے گا۔

فیصلہ کرنا تھا کہ آنکھوں میں کھڑی کار میں کسی نے چابی بھر دی۔ کار دوڑنے لگی۔

رامو کار کو دیکھ کر کتنا خوش ہو گا۔ اپنی ننھی ننھی اُنگلیوں سے اس میں چابی بھرے گا۔ چابی بھرکراُسے گاؤں کے بچّوں کے سامنے زمین پر چھوڑ دے گا۔ کار دوڑ پڑے گی۔ رامو کی آنکھیں ان پہاڑیوں پر رات میں چمکنے والے قُمقُموں کی طرح جگمگا اٹھیں گی۔ گاؤں کے بچّے رامو کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے اور رامو اپنے کو راجا بابو——

سیٹی دیتی گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچ گئی۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھا۔ پیٹی کو سرپر لادا اور گاڑی کی طرف دوڑ پڑا۔

چھوٹے چھوٹے ڈبّوں والی گاڑی سانپ کی طرح لہراتی، بل کھاتی سرنگوں میں داخل ہوتی ہوئی آگے بڑھنے لگی۔

اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو پہاڑوں پربسا ایک ایک مکان اور ایک ایک پیڑ بھاگتا ہوامحسوس ہوا۔ ریلوے لائن کے ساتھ چلتی ہوئی سڑک پر موٹر گاڑیاں بھی بھاگ رہی تھیں۔ اچانک پیچھے سے ایک کار آ  کر آگے کی طرف کافی تیزی سے بھاگنے لگی۔ ایسالگتا تھا جیسے وہ ٹرین سے مقابلہ کر رہی ہو، اسے دیکھ کر راجا بابو کی کارپھرسے اس کی آنکھوں میں بس گئی۔ کہیں سے دوڑتا ہوا اس کا رامو بھی آ کر کھڑا ہو گیا۔ رامو کی آنکھیں کارسے ہٹ کراس کی طرف دیکھنے لگیں ——

اس کی اُنگلیاں دھوتی کی گانٹھ پر پہنچ گئیں۔

دھرم پور کی پہاڑیاں قریب آ چکی تھیں۔ اندھیرے میں مکانوں کے بلب جگنوؤں کی طرح جھلملانے لگے تھے۔ بہت سارے جگنو اس کی آنکھوں میں اتر گئے۔

چھوٹی گاڑی اسے لے کربڑی گاڑی کے پاس پہنچ گئی۔ کالکا اسٹیشن پر کھڑی بڑی گاڑی کے ایک جنرل ڈبّے میں گھس کراس نے پیٹی کو اوپر کے برتھ پر رکھا اور نیچے والی سیٹ پر گمچھا بچھا کر بیٹھ گیا۔

’’آپ کہاں تک جائیں گے بھائی صاحب؟‘‘اس نے بغل والے مسافر کو مخاطب کیا۔

’’چھپرہ تک۔ ‘‘

’’تب تو کافی دور تک ہماراسفر رہے گا۔ ‘‘

’’آپ کہاں تک جائیں گے ؟‘‘چھپرہ والے مسافر نے پوچھا۔ ‘‘

’’ہم مجپھر پور جائیں گے۔ ‘‘

’’اِدھر کیا کرتے ہیں ؟‘‘

’’یہی اپنا کام۔ ‘‘

’’بوجھا ڈھوتے ہیں ؟‘‘

’’ہوں۔ ‘‘

’’اِدھر کب سے ہیں ؟‘‘

’’دس بارہ سال ہو گئے ——گاڑی کھلنے میں ابھی تو بہت ٹیم ہو گانا؟‘‘

’’ہاں !ابھی کافی ٹیم ہے۔ ‘‘

’’ہم اپنا ایک جروری کام کر آئیں —تنک ہمارا یہ سامان اور سیٹ دیکھتے رہیے گا۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں، کر آئیے۔ چنتا کی کوئی بات نہیں۔ ہم تو یہاں ہیں ہی۔ ‘‘

’’سکریہ!‘‘وہ گاڑی سے اُتر کر مین گیٹ سے باہر نکلا اور کالکا  بازار کی طرف بڑھ گیا۔ مختلف طرح کی دُکانوں پر نگاہ دوڑاتے ہوئے آگے بڑھتا جا رہا تھا کہ یکایک ایک دکان کے پاس اس کے پاؤں رک گئے، دکان کے اندر شیشے کے شوکیس میں طرح طرح کے کھلونے سجے تھے۔

’’کیا چاہیے ؟‘‘دُکاندار نے اس کے سراپے کو گھورتے ہوئے پوچھا۔

’’کار والا کھلونا۔ ‘‘

’’کیسا؟‘‘

’’کوئی بڑھیا سا۔ وہ!——وہ دِکھائیے۔ ‘‘اس نے ایک کار کی طرف اشارہ کیا۔

’’وہ تو بہت مہنگا ہے۔ ‘‘

’’جرا دکھائیے تو۔ ‘‘

’’لینا ہے یا صرف دیکھنا ہے۔ ‘‘

’’نہیں صاحب لینا ہے۔ پسند آ جائے گا تو جرور لوں گا۔ ‘‘

’’اچھّا!‘‘دُکاندار نے شوکیس سے کار نکال کراس کی طرف بڑھا دی۔

’’یہ چلتی ہے ؟‘‘اس نے کارکوغورسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’’ہاں، چلتی ہے۔ ‘‘

’’کس طرح چلتی ہے ؟جرا دکھائیے گا۔ ‘‘

’’لاؤ۔ دکھاتا ہوں۔ ‘‘دکاندار نے اس سے کار لے کر اس میں چابی بھری اور کار دکان کے فرش پر چھوڑ دی۔ کار دوڑنے لگی، بچّوں کی طرح اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’بولو، لینا ہے ؟‘‘

’’ہاں، لینا ہے، کیا دام ہو گا؟‘‘

’’۴۰ روپے۔ ‘‘

’’یہ تو بہت جیادہ ہے۔ ‘‘

’’کھلونا بھی تو اے ون ہے۔ ‘‘

’’کچھ کمتی نہیں ہو گا؟‘‘

’’دام بالکل واجب ہے۔ ‘‘

’’تھوڑا کم کر دیجیے نا؟‘‘

’’ٹھیک ہے، پانچ روپے کم دے دو۔ ‘‘

’’تھورا اور کم کیجیے۔ ‘‘

’’نہیں، پینتیس روپے سے ایک پیسہ بھی کم نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’تیس روپے میں دے دیجیے۔ ‘‘

’’کہہ دیا نہ کہ پینتیس سے ایک پیسہ کم نہیں ہو گا۔ لینا ہے تولو، ورنہ راستہ ناپو۔ ‘‘

اس کا کھلا ہوا چہرہ بجھ گیا۔ کاؤنٹر سے اتر کر وہ سڑک پر آ گیا۔ اس کے پاؤں اسٹیشن کی طرف لوٹنے لگے۔ اس نے گردن گھما کر دکان کی طرف دیکھا۔ دکان دارکارکوشوکیس میں رکھ رہا تھا۔ کچھ قدم آگے جانے کے بعد اس کی گردن ایک بار پھر دکان کی طرف مڑی۔ رفتار دھیمی ہو گئی۔ یکایک پاؤں پیچھے پلٹ پڑے۔ پلٹتے ہوئے ایک آدھ جگہ ٹھٹھکے مگر پھر تیزی سے دکان کی طرف بڑھتے چلے گئے۔

’’ٹھیک ہے۔ یہ لیجیے پینتیس روپے۔ ‘‘

’’اچھّا!‘‘دُکاندار نے شوکیس سے کار نکال لی۔

کار کا پیکٹ اُس کے ہاتھ میں آتے ہی اُس کے جسم میں چابی بھر گئی۔ رَگ و ریشے تھرکنے لگے۔

نگاہوں کے سامنے رامو کا چہرہ پھر اُبھر آیا۔ کار پیکٹ سے نکل کر رامو کے ہاتھ میں پہنچ گئی۔ رامو نے چابی بھرکراُسے فرش پر چھوڑ دیا۔ کار دوڑنے لگی۔ دوڑتی ہوئی کار کو دیکھ کر رامو کے ننھے منے ہاتھ تالی بجانے لگے۔ تالی کی آوازاس نے اپنے کانوں میں محسوس کی۔ آنکھوں کے بلب روشن ہو گئے۔ چہرہ دمک اُٹھا۔ کاؤنٹر سے اُتر کر وہ تیزی سے اسٹیشن کی طرف بڑھنے لگا، جیسے اُس کے پیروں میں کار کے پہیّے لگ گئے ہوں۔

اپنے ڈبّے میں پہنچ کر اُس نے پیٹی کا تالا کھولا اور پیکٹ کو کپڑوں کی تہہ کے اندر رکھ دیا۔

کچھ دیر بعد گاڑی چل پڑی۔ رفتہ رفتہ گاڑی کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ تیزرفتارسے اُٹھے ہوا کے جھونکے کھڑکیوں کے اندر گھس کرمسافروں کو تھپکیاں دینے لگے۔ مسافر اپنی اپنی سیٹوں پر اُونگھنے لگے۔ اگل بغل میں اُونگھتے ہوئے مسافر جھول جھول کر اُس کے کندھوں پر گرنے لگے۔ سامنے کی سیٹ سے خرّاٹے کی آواز بھی اُبھرنے لگی۔

رات کے سفرمیں ایسے بھی جلد اُسے نیند آ جاتی تھی مگر آج اس کی آنکھوں میں نیند اپنا ڈیر انہیں ڈال پا رہی تھی جب بھی وہ پلکیں بند کرتا پیٹی کے اندرسے کار نکل کراُس کی آنکھوں میں آ جاتی اور اُس کی پتلیوں کے فرش پر گول گول گھومنے لگتی۔

اچانک وہ اُٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ سیٹ کے کنارے پر پیر رکھ کر اُس نے برتھ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور پیٹی کا تالا کھول کر اندر سے کار والا پیکٹ نکال لیا۔ اپنی جگہ پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ اس نے پیکٹ کھولنا شروع کیا۔ ہرے رنگ کی چمچماتی ہوئی کار پیکٹ کے گیرج سے جھانکنے لگی۔ کار کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں ہریالی بھر گئی۔ اس نے کار کو ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا۔

نظر پہلے پہیوں پر گئی۔ پہیے تھے تو کھلونوں والے مگر اصلی پہیّوں کی طرح ان میں ایک ایک چیز موجود تھی۔ پہیّوں سے اٹھ کر نظر کار کی اگلی کھڑکی پر مرکوز ہو گئی۔ کھڑکی کے اندراسٹیرنگ سنبھالے ڈرائیور بھی بیٹھا تھا۔ پیچھے کی کھڑکی کے پاس بھی ایک آدمی بیٹھا ہوا نظر آیا۔ سامنے سے دیکھا تو دونوں طرف ہیڈ لائٹ بھی فٹ تھی اور ان کے اندر دو چھوٹے چھوٹے بلب بھی۔ اس نے گمچھے سے اپنا ہاتھ پونچھ کر کار کی باڈی پر انگلیاں پھیریں تو پالیش کی ہوئی اسٹیل کی باڈی کا فی سولڈاورچکنی محسوس ہوئی۔ ہتھیلی کے ترازو پر رکھ کراس نے کار کے وزن کا بھی اندازہ کیا۔ کار بھاری لگی۔ اس سے مضبوطی کا بھی احساس ہوا۔

اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ سبھی اونگھ رہے تھے۔ اس کے اندرسے رہ رہ کر یہ خواہش اٹھ رہی تھی کہ کچھ مسافروں کی آنکھیں کھل جائیں۔ اس نے اپنا کندھا اگل بغل کے مسافروں سے الگ بھی کیا مگر ان نیند کے ماتوں پراس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

اس کا جی چاہا کہ وہ کار میں چابی بھر کر فرش پر چھوڑ دے۔ مگر فرش تو گٹھری بنے آدمیوں سے اٹا پڑا تھا۔

وہ اپنی سیٹ سے اٹھا اور کار کو لیے ساودھانی سے خالی جگہوں اور سیٹ کے کونوں اور کناروں پرپاؤں رکھتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔

اندر پہنچ کر اس نے باتھ روم کے دروازے کی چٹخنی چڑھائی۔ چٹخنی کو ایک بار پھر چیک کیا اور فرش پر بیٹھ کر آہستہ آہستہ کار میں چابی گھمانا شروع کر دی۔ چابی فل ہو جانے پر اس نے کار کو فرش پر چھوڑ دیا۔ اٹھاتوسامنے کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ کر مسکراپڑا۔ جھلسی ہوئی جلد میں چمک پیدا ہو گئی تھی۔

باتھ روم سے آ کراس نے کارکوپھرسے پیٹی میں بند کر دیا۔ اس باراس نے کوشش کی کہ اسے نیند آ جائے مگر آنکھوں میں نیند کے بجائے رامو آ گیا۔

اس بار رامو نہیں کہے گا کہ باپو تم بڑے کھراب ہو۔ بار بار وعدہ کرتے ہو اور کبھی پورا نہیں کرتے۔ اس بار تو چابی سے چلنے والی کار کو دیکھ کر اس کی زبان خوشی سے بند ہو جائے گی۔ کار کو دیکھ کر سچ مچ کتنا خوش ہو گا وہ!اسے پاتے ہی گھرسے نکل بھاگے گا۔ اس کے ہاتھ میں کار کو دیکھ کر گاؤں کے لڑکے اسے گھیر کر کھڑے ہو جائیں گے۔ وہ ان کے سامنے اٹھلا اٹھلا کر کار میں چابی بھرے گا اور زمین پراسے چھوڑ دے گا۔ کار دوڑے گی تو بچّے اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھیں گے۔ رامواس وقت پھولے نہیں سمائے گا۔

گاڑی کی اسپیڈ کافی بڑھ گئی تھی۔ وہ آندھی طوفان کی طرح سائیں سائیں کرتی بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ اسے گاڑی کی بڑھی ہوئی اسپیڈ بہت بھلی لگی۔ اتنی بھلی کہ اسے نیند آ گئی۔

دوسرے دن شام کے وقت وہ گھر پہنچا۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد اس نے پیٹی کھولی اور اس میں سے کار والا پیکٹ نکال کر بر آمدے میں آ گیا۔

’’رامو کی ماں !ارے او رامو کی ماں، ادھر آؤتوآ‘‘اس نے اپنی پتنی کو پکارا۔

’’کیا ہے جی؟‘‘پتنی لپکتی ہوئی اس کے پاس آ گئی۔

’’ایک چیج دکھاتا ہوں۔ دیکھے گی تو تیری جوانی لوٹ آئے گی۔ ‘‘

’’ایسی کیا چیج لائے ہو کہ——‘‘

’’ابھی دکھاتا ہوں۔ ‘‘اس نے جھٹ سے پیکٹ کھول کر کار کو باہر نکال لیا۔ چمچاتی ہوئی کار کو پتنی آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگی۔

’’یہ اپنے رامو کے لیے ہے ؟ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی کہ راجا بابو کے پاس ہے۔ بلکہ یہ اس سے بھی اچھّی ہے۔ کیونکہ یہ بالکل نئی اور اے ون ہے۔ ان کی تو پرانی ہو کر کھٹارا ہو گئی ہے۔ یہ بھی چلتی ہے۔ بلکہ دوڑتی ہے۔ اس میں اس طرح چابی بھرتے ہیں۔ رامو کہاں ہے ؟دکھائی نہیں دیتا۔ ‘‘چابی گھماتے ہوئے اس نے پوچھا۔

’’وہ تو کام پر گیا ہے۔ پتھر توڑنے۔ آتا ہی ہو گالو، وہ ———آ گیا۔ اس کی نگاہیں بر آمدے سے باہر دوڑ پڑیں۔

ایک میلا کچیلا سالڑکاتھکاہارابوجھل قدموں سے ان کی طرف آ رہا تھا۔ لڑکے کے ہاتھ میں تیشہ دیکھ کر اس کی ہتھیلی سے کار لڑھک پڑی اور بھربھرا کرساری چابی نکل گئی۔

٭٭٭

 

 

 

ملبے پر کھڑی عمارت

 

چیخ سن کر ہم چونک پڑے۔ محسوس ہواجیسے پڑوسی کے کسی بچّے کو کرنٹ لگ گیا ہو۔ دوڑ کر میں پڑوسی کے گھر پہنچا تودیکھاپڑوسی اپنے بچّے کو تڑاتڑ پیٹ رہا تھا۔

’’سالا، حرامی، نالائق، سؤر، کمینہ، کتّا، ……گالیاں بھی برس رہی تھیں۔

ایک گوشے میں پڑوسی کی بیوی دیوار سے لگی گم صم کھڑی تھی۔ اس کی آنکھوں کے کٹورے آنسوؤں سے بھرے ہوئے تھے۔ پڑوسی کا چھوٹا بچّہ ماں کے پیچھے دبکا پڑا تھا۔

’’اسے اس قدر کیوں مار رہے ہیں ؟‘‘مجھ سے رہا نہیں گیا۔

’’ماروں نہیں تو کیا کروں ؟کم بخت تھرڈکلاس نمبر لے آیا ہے۔ میراتواس حرام زادے نے پیسہ، عزت، ارمان سب کچھ خاک میں ملا دیا۔ ‘‘

تھپڑ کی رفتار تیز ہو گئی۔ چیخ میں شدت آ گئی۔ کٹورے چھلک پڑے۔

’’اب بس بھی کیجیے۔ مارنے سے کیا نمبر فرسٹ کلاس میں بدل جائیں گے ؟‘‘

’’نہیں بدلیں گے مگر دل کی بھڑاس تونکل جائے گی۔ ‘‘

’’آپ کی بھڑاس تو کیا نکلے گی البتہ اس معصوم کی جان ضرور نکل جائے گی۔ ‘‘

’’نکل جائے۔ اس جنجال سے تو چھٹکارا مل جائے گا——آپ نہیں جانتے اس کی پڑھائی کے لیے مجھے کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’میں جانتا ہوں۔ مجھے سب معلوم ہے ——مگر مارنے پیٹنے سے تو کچھ نہیں ہو گا۔ آئیے اِدھر آئیے۔ ‘‘

میں نے پڑوسی کو بچّے کے پاس سے کھینچ کرکرسی پر بٹھا دیا۔

بچّے کے پاس سے وہ آ تو گیامگراس کی قہر آلود نگاہیں بچّے کے چہرے میں گڑی رہ گئیں۔

’’کیا بات ہے بیٹے !محنت نہیں کرتے ؟میں نے پیارسے بچّے کو مخاطب کیا۔

’’کرتا ہوں انکل!بہت کرتا ہوں مگر پتہ نہیں نمبر کیوں ———

’’جھوٹ بولتا ہے بدمعاش!‘‘

’’اللہ قسم میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں۔ آپ ممی سے پوچھ لیجیے۔ ‘‘

’’ممی سے کیا خاک پوچھیں ؟یہ دھیان رکھتی تو آج تیری یہ درگت نہیں بنتی۔ ‘‘

’’دیکھیے۔ آپ مجھ پر خواہ مخواہ الزام لگا رہے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم گھر کا حال؟آپ تو اپنی دُکانداری میں مست رہتے ہیں۔ بھائی صاحب! میں اگر دھیان نہ دوں تو اتنے بھی نمبر نہ آئیں اور یہ بھی جھوٹ نہیں بول رہا ہے۔ سچ مچ محنت سے پڑھتا ہے۔ ‘‘

صبر کا بندھ ٹوٹ گیا۔ خاموشی بول پڑی۔

’’کمال ہے تم دھیان دیتی ہو۔ یہ محنت سے پڑھتا ہے۔ رزلٹ پھر بھی تھرڈ کلاس!میں پوچھتا ہوں پھر یہ نمبر اِتنے کم کیوں آئے ؟‘‘آخری جملے کی آواز چیخ میں بدل گئی۔

شعلہ بار آنکھیں بچّے کے چہرے سے نکل کر بیوی کی طرف لپک پڑیں۔

’’میں کیا جانوں ؟‘‘

’’تو کون جانے گا؟اس کے ساتھ تم بھی جھوٹ بول رہی ہو۔ یہ سب تمہاری ہی لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ تم ہی اسے بگاڑ رہی ہو۔ ‘‘آنکھوں سے شعلے بھڑکنے لگے۔ ‘‘

کیسی بات کرتے ہیں ؟بھلا میں کیوں اسے بگاڑوں گی۔ میں اتنا ہی تو کر سکتی ہوں جتنا کہ مجھے آتا ہے۔ ———

’’کیا مطلب؟تم ایک چھٹی کلاس کے بچّے کو بھی نہیں پڑھا سکتیں۔ ‘‘

’’آپ بہت پڑھے لکھے ہیں تو خود کیوں نہیں پڑھاتے۔ کسی دن لے کر بیٹھیے تو——‘‘

’’تم حد سے بڑھ رہی ہو۔ ‘‘

’’حد میں تو آپ نہیں ہیں۔ ‘‘

’’شوہرسے زبان لڑاتی ہو۔ ‘‘

’’شوہر منہ کھلوانے پر تلا ہو تو کوئی کیسے چپ رہ سکتا ہے۔ ‘‘

’’چپ ہو جاؤ ورنہ——‘‘

’’ورنہ کیا——یہی نا کہ اب آپ مجھے ماریں گے۔ ماریے۔ اپنی بچی کھچی بھڑاس بھی نکال لیجیے۔ ‘‘

’’میں کہتا ہوں اپنی زبان کو لگام دو ورنہ———‘‘

’’پلیز راشد صاحب، بھابی!آپ بھی چپ ہو جائیے۔ آپ لوگ خواہ مخواہ بات کو کہاں سے کہاں پہنچا رہے ہیں۔ ‘‘

میرے کہنے سے دونوں کے لب تو خاموش ہو گئے مگر ان کی آنکھیں چپ نہ رہ سکیں۔ ایک کی قہر برسانے لگیں اور دوسرے کی آنسو بہانے لگیں۔ ماں کے پیچھے دبکا ہوا بچّہ سہم گیا۔

’’راشد صاحب!نمبر کم آنے کا مطلب صرف یہی تو نہیں کہ بچّہ محنت نہیں کرتا یا بقول آپ کے بھابی اس پر توجہ نہیں دیتیں۔ اس کی کوئی اور وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔ ‘‘

’’اور کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟‘‘پڑوسی کا لہجہ تلخ ہو گیا۔

میری آنکھوں میں ایک ساتھ کئی منظر آ کر کھڑے ہو گئے۔

’’ایک دن میں نے بھی نمبر کم آنے پر اپنے بیٹے کو پیٹا تھا اوراس نے بھی اسی طرح رو رو  کر صفائی پیش کی تھی۔ اس روز پورے دن اور پوری رات میں پریشان رہا تھا۔ اس دن سوچابھی بہت تھا۔ اور یہ طے بھی کیا تھا کہ بچّے کی پڑھائی کی طرف خود بھی دھیان دوں گا۔

پہلی بار جب میرا بیٹا میرے پاس پڑھنے کے لیے آیا تھاتوسب سے پہلے میری نظر اس کی پیٹھ پر لدے اسکول بیگ پر پڑی تھی اور اچانک میری آنکھوں میں کشمیری قلیوں کا حلیہ اُبھر گیا تھا۔

میں نے بیگ سے کتابیں نکال کر دیکھیں۔

ایرتھ میٹک——الجبرا——انگلش لنگویج

انگلش لٹریچر——جی۔ کے ——جنرل سائنس

مورل ٹیچنگ——سوشل اسٹڈیز——ہندی بھاشا۔ ویاکرن

ہندی ساہتیہ——سنسکرت بھاشا——سنسکرت ساہتیہ

کمپیوٹر——ڈرائنگ——آرٹ اینڈ کرافٹ

ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو، دس، گیارہ، بارہ، تیرہ، چودہ پندرہ، — ——تقریباً اتنی ہی کاپیاں ………………………مجھے لگا تھاجیسے میرے سامنےد و پہاڑیاں اُبھر آئی ہوں۔

کتابوں کو اُ لٹ پلٹ کر دیکھا توسائنس میں فزکس، کیمسٹری اور بائیالوجی بھی شامل ہیں۔

سوشل اسٹڈیز میں ہسٹری جیوگرافی اور سوِکس تین سبجیکٹ۔ الجبرا کے اندر جومیٹری بھی موجود۔ جنرل نولیج میں قدیم واقعات و علوم سے لے کر علوم جدیدہ اور حالات حاضرہ تک کی معلومات۔

آنکھیں میز پر اُبھری پہاڑیوں کی اونچائیوں کو نہار رہی تھیں کہ اچانک ایک دھماکہ محسوس ہوا تھا اور آنکھوں میں ایک حادثہ اُبھر آیا تھا۔

کچھ ہی دنوں قبل اس پہاڑی شہر کی ایک خوبصورت شاندار اور پر وقار ملٹی اسٹوری عمارت گر پڑی تھی۔ اس عمارت کی اپنی منزلیں تونیست و نابود ہوئی ہی تھیں، اس کے ملبے نے آس پاس کے مکانوں کو بھی ملیا میٹ کر دیا تھا۔ وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ عمارت کی بنیادیں کمزور تھیں۔ بنیادیں پکی زمین کے بجائے کسی ملبے پر کھڑی کر دی گئی تھیں۔

ورق گردانی کے دوران بار بار میری نگاہیں اپنے بچّے کی طرف اُٹھ جاتی تھیں۔ بچّے کا سوکھاہواجسم، دُبلے پتلے ہاتھ پاؤں، جگہ جگہ سے جھانکتی ہوئی ہڈّیاں، بے رونق چہرہ، دھنسی ہوئی آنکھیں ایک ایک کر کے سب میری آنکھوں میں سما گئے تھے۔

’’چپ کیوں ہو گئے ؟بتائیے اور کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟‘‘پڑوسی مجھے عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

میری نگاہیں اس کے بچّے کے سراپے کی طرف مبذول ہو گئیں۔ مجھے خاموش دیکھ کر اس نے اپناسوال پھر دَہرایا۔

’’بتائیے نا کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟‘‘

’’آپ تو تیل کا کاروبار کرتے ہیں نا؟‘‘

’’ہاں، مگر——؟‘‘جواب کی جگہ وہ میرے اس غیر متوقع سوال سے چھٹپٹا گیا۔

’’بتائیے کہ ایک پاؤ تیل کی بوتل میں ایک کلو تیل ڈالیں گے تو کیا ہو گا؟‘‘

’’کیسی بات کرتے ہیں صاحب!پاؤ بھرکی بوتل میں ایک کلو تیل کیسے ڈالا جا سکتا ہے ؟‘‘

’’فرض کیجیے کہ کوئی سرپھراگاہک آپ سے کہے کہ ڈالنا پڑے گا تو کیا ہو گا؟‘‘

’’ہو گا کیا۔ ایک پاؤ کے علاوہ باقی تیل اِدھر اُدھر گر کر بہہ جائے گا۔ ‘‘

’’بہہ جائے گا نا؟‘‘

’’ہاں بہہ جائے گا۔ ‘‘پڑوسی میری طرف غور سے دیکھنے لگا۔ اُس کی آنکھوں کی شعلگی مدھم پڑ گئی تھی۔

’’ایک بات اور بتائیے۔ کیا آپ سے کبھی اس بچّے نے شکایت کی کہ اِس کی پیٹھ دکھتی ہے۔ ‘‘

’’نہیں ‘‘

میرے بچّے نے بھی مجھ سے نہیں کی مگر کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ان کی پیٹھ پر کوئی بھاری بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ کبھی اِس کے بیگ کا وزن کر کے دیکھیے چھ سات کلوسے کم کا نہیں ہو گا۔ چھ سات کلو کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لاد کر ہمارے بچّے روزانہ چار پانچ کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے ہیں۔ بوجھ صرف اُن کی پیٹھ پر نہیں بلکہ دماغ پر بھی لدا ہے۔ اِس دماغ پر جو نچوڑے ہوئے گیہوں، ملاوٹ والے تیل، سستی سبزی اور سپریٹا دودھ سے پروان چڑھتا ہے۔

’’شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مگر اِس کا حل———؟‘‘اُس کی آنکھیں جواب جاننے کے لیے بے چین ہو اُٹھیں۔ لیکن اِس سوال پر میری زبان بند ہو گئی۔

یہ سوال ایک دن میرے اندرسے بھی اُچھلا تھا۔ میری آنکھیں بھی جواب جاننے کے لیے بے چین ہوئی تھیں۔ جواب کی تلاش میں میرا ذہن دُور دُور تک بھٹکا تھا۔

بہت سے جواب میرے ذہن میں موجودتھے۔ لیکن اگر میں اس سے کہتا کہ بچّے کو اچھّا کھلائیے۔ اچھّا پلائیے اوراِس کا بوجھ ہلکا کیجیے تو بیساختہ اُس کے منہ سے نکلتا۔

’’اِس طرح تو میرا بوجھ اور بھاری ہو جائے گا۔ میری کمر جھک جائے گی۔ ‘‘

اگر یہ کہتا کہ بچّے کو کنوینٹ اسکول سے نکال کرمیونسپلٹی کے اسکول میں ڈال دیجیے تووہ مجھے قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا اور طنزیہ لہجے میں بولتا۔

’’یعنی کہ میں اِسے اچھوت بنا دوں تاکہ محلّے پڑوس کے بچّے اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھیلنا کودنا بند کر دیں اور یہ اپنی نظر میں بھی گر جائے۔ ‘‘

اگر یہ رائے دیتا کہ پڑھائی چھُڑا  کر دکان پر بٹھا دیجیے تواس کے تمام منصوبوں پر پانی پھر جاتا۔ اُس کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے اوراُس کی آنکھیں قہر برسانے لگتیں۔

اوراگراسےیہ حل بتاتا کہ سسٹم کے خلاف بغاوت کیجیے، آواز اُٹھائیے ان پالیسیوں کے خلاف جو بغیر سوچے سمجھے بنائی جاتی ہیں اور بنا جانچے پرکھے مسلط کر دی جاتی ہیں یا جو بہت ہی زیادہ سوچ سمجھ کر بنائی جاتی ہیں تو وہ یہ سوال کرتا کہ ہماری آواز سنے گا کون؟ہماری آواز سے نہ کہیں پر چکّا جام ہو گا نہ کسی کی بجلی گل ہو گی اور نہ ہی کسی کا نل بند ہو گا۔

میری آنکھیں چھت کی جانب اُٹھ کر خلا کو گھورنے لگیں۔

’’بتائیے نا، اِس کا کیا حل ہے ؟‘‘مجھے خاموش دیکھ کر اُس نے اپنا سوال دوہرایا۔

آہستہ آہستہ میری نگاہیں خلاسے نکل کراُس کی طرف مرکوز ہو گئیں۔ اس کا غصّہ شانت ہو گیا تھا۔ اس کے چہرے کے کھینچے ہوئے اعصاب معمول پر آ گئے تھے۔

وہ میری طرف اس اندازسے دیکھ رہا تھا جس طرح بچّے اپنے کسی مشکل اور اُلجھے ہوئے سوال کے حل کے لیے اپنے اُستاد کی طرف دیکھا کرتے ہیں۔

مجھے اپنے اندر چبھن سی محسوس ہوئی اور میں نے اپنا رُخ پڑوسی کی نگاہ سے ہٹا کر بچّے کی طرف موڑ دیا۔

بچّہ اب بھی سِسک رہا تھا۔ گالوں پر اُبھرے اُنگلیوں کے نشان کے نیچے درد کی لہریں اب بھی رینگ رہی تھیں۔ سِسکیوں اور درد کی لہروں کو شاید ماں کی نرم اُنگلیوں کا انتظار تھا مگر ماں کی اُنگلیاں بھاری من کے شکنجے میں بھنچی پڑی تھیں۔

میری نگاہ بچّے کی ماں کی جانب مبذول ہو گئی۔

وہ فالج زدہ عورت کی طرح بے حس و حرکت کھڑی تھی۔ آنکھوں کے کٹورے اَشکوں سے خالی ہو گئے تھے۔ اب اُن میں عجیب ساسوناپن بھر گیا تھا۔

’’خاموش کیوں ہیں ؟بتائیے نا۔ ‘‘

میں نے اپنی نظریں پھر سے اُس کے چہرے کی طرف مرکوز کر دیں اوراُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نہایت نرم اور کمزور لہجے میں کہا۔

’’اپنے اس بچّے سے کہیے کہ کھیلنے جائے۔ بے چارہ ابھی تک ذبح ہونے والے مرغ کی طرح سہما بیٹھا ہے اور بھابی سے بولیے کہ یہ اس دُبکے ہوئے منے کو سنبھالیں اور ایک ایک پیالی چائے بنا لائیں۔ ذرا زیادہ شکر ڈال کر——

اور چائے پی کر ہم اور آپ بازار چلیں، آپ اپنی دُکان پر بیٹھ کر تیل بیچیے گا اور میں گھوم گھوم کر کوئی سستی سبزی تلاش کروں گا۔

٭٭٭

 

 

 

عمارت

 

شہرِ بے امان کی بے چینی جب بہت زیادہ بڑھ گئی اور لوگ چھٹپٹانے لگے تو شہر کے ایک گوشے سے ایک معمر آدمی، جس کی آنکھوں میں تاب، ماتھے پر متانت اور داڑھی میں نور تھا، اُٹھا اوراُس نے شہر والوں کو پر وقار لہجے میں مخاطب کیا۔

’’لوگو!تمہارے لیے ایک عمارت تیار کر دی گئی ہے۔ ایسی عمارت جوآکسیجن سے بھری ہوئی ہے۔ اس میں داخل ہو جاؤ!تمہارے پھیپھڑے کاربن سے محفوظ ہو جائیں گے اور تم ابد تک سکون کی سانس لے سکو گے۔ ‘‘

کاربنی فضا میں گھٹے ہوئے عاجز و پریشان لوگ یہ اعلان سنتے ہی اس عمارت میں دوڑ کر داخل ہو گئے۔ کچھ عرصے تک ان کے پھیپھڑے کاربن ڈائی آکسائڈ سے محفوظ رہے مگر دھیرے دھیرے اس عمارت کی آکسیجن کم ہوتی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ وہ کاربن ڈائی آکسائڈ سے بھر گئی۔

واقعی وہ عمارت کاربن سے بھر گئی یا لوگوں کو ایسا محسوس ہوا یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سچ ضرور ہے کہ لوگوں کی سانسیں پھولنے لگیں اور ان کا دم گھٹنے لگا۔

ان کی بے چینی اتنی بڑھ گئی کہ اہلِ شہراُس عمارت کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے لیکن ایسا نہیں ہوا کہ باہر آ کر اُنہیں آکسیجن حاصل ہو گئی۔ باہر ان کی گھٹن اور بڑھ گئی اور وہ آکسیجن کی طلب اور تلاش میں تڑپنے لگے۔

شہر کے ایک دوسرے حصّے سے ایک معمر شخص نکل کر آگے آیا اوراُس نے نہایت ہی اعتماد کے ساتھ اعلان کیا

’’اے پریشان لوگو!گھبراؤ نہیں، تمہارے لیے ایک عمارت بنا دی گئی ہے۔

اس میں داخل ہو جاؤ!تمھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سکون حاصل ہو جائے گا۔ ‘‘

مضطرب لوگ نئی عمارت میں داخل ہو گئے۔ عمارت میں داخل ہوتے ہی ان کی بھنچی ہوئی مٹھیاں ڈھیلی پڑ گئیں، پھولی ہوئی رگیں معمول پر آ گئیں۔ تنفس کے راستے کاربن ڈائی آکسائڈ کے شکنجوں سے آزاد ہو گئے۔

لیکن کچھ عرصے بعد لوگوں نے محسوس کرنا شروع کر دیا کہ ان کی گردنیں بھنچنے لگی ہیں۔ رگیں پھولنے لگی ہیں اور تنفس کے راستے کسی شکنجے میں کسنے لگے ہیں۔ ‘‘

رفتہ رفتہ لوگ اس عمارت سے بھی نکل آئے اور مزید اضطراب کے ساتھ کسی محفوظ مقام کی ضرورت محسوس کرنے لگے۔

پھرکسی گوشے سے پر یقین آواز میں ایک عمارت کا اعلان ہوا———

لوگ اس عمارت میں داخل ہوئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آکسیجن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کاربن ڈائی آکسائڈ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر عمارت کا اعلان——

آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائڈ کاسلسلہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ سلسلہ صدیوں تک چلتا رہا۔ آخر کار انتہائی یقین و اعتماد اور نہایت ہی پر وقار اور متین و برد بار لہجے میں اعلان گونجا:-

مژدہ اے جاں بلب لوگو!تمہارے لیے۔ معمار اعلا نے ایک ایسی عمارت تعمیر کر دی ہے جو اندر باہر، اوپر نیچے، دائیں بائیں، ہر جانب سے محفوظ ہے اور حد درجہ پرسکون ہے۔ اس عمارت میں ایسی آکسیجن بھری گئی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گی اور جو ابد تک تمہاری ضرورتیں پوری کرتی رہے گی۔ اوراس میں کبھی تمہارا دم نہیں گھٹے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یاد رکھو! تمہارے لیے یہ آخری عمارت ہے۔ اس کے بعد کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کہ یہ عمارت ہر طرح سے مکمل ہے اس میں داخل ہو جاؤ! ہمیشہ ہمیش کے لیے پرسکون ہو جاؤ گے۔

کاربن زدہ لوگ تیزی سے اس عمارت میں داخل ہو گئے۔ آکسیجن ان کی رگ و ریشے میں سرایت کر گئی۔

ایک طویل مدّت تک وہ کولڈ اسٹوریزمیں رکھے گئے پھلوں کے مانند تر و تازہ رہے لیکن آہستہ آہستہ وہ خود کو کنجوس بنیوں کے گوداموں ٹھوسی گئی اشیا کی طرح محسوس کرنے لگے۔

اس عمارت کی آکسیجن واقعی کم ہو گئی یا لوگوں کو ایسا محسوس ہوا، یہ کہنا آسان نہیں مگر یہ یقیناً سچ ہے کہ لوگوں کے دم گھٹے۔ اور اتنے گھٹے کہ وہ اس عمارت میں بھی عاجز آ گئے۔

مگر اس عمارت سے نکلنے میں زبردست رکاوٹ یہ تھی کہ یہ اعلان ان کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ ’’اس کے بعد تمہارے لیے کوئی عمارت نہیں بنائی جائے گی۔ ‘‘

یہ بھی دیکھا گیا کہ اس عمارت میں لوگ جب داخل ہوئے تھے تو ان کے قد مختصر اور سر کافی چھوٹے تھے۔ بعد میں ان کے قدوں اور سروں میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔

کچھ لوگوں نے جرأت کی اور اس عمارت سے باہر نکل آئے مگر باہر اندرسے زیادہ گھٹن تھی۔

کچھ لوگوں نے اپنے بڑے سروں کا استعمال کیا اور عمارتیں بنا ڈالیں لیکن ان کی بنائی ہوئی عمارتیں زیادہ دنوں تک ان کے پھیپھڑوں کو محفوظ نہ رکھ سکیں۔ اور وہ ان میں سے بھی باہر نکل آئے۔

آخری عمارت کے اندر اور  باہر دونوں جگہوں کے باشندے بے حد پریشان ہیں۔ ان کے سینوں میں جلن ہے۔ سانسوں میں گھٹن ہے۔ آنکھوں میں چبھن ہے۔ دم پھول رہا ہے۔ گلا بھنچ رہا ہے۔ نسیں پھٹ رہی ہیں۔

لوگ کسی ایسی عمارت کی ضرورت کو شدّت سے محسوس کرنے لگے ہیں جس کی آکسیجن کبھی ختم نہ ہو اور  جو ابدی سکون دے سکے لیکن ایسی عمارت کس طرح بنے ؟کون بنائے ؟

اب شہر کے کسی گوشے سے کسی عمارت کا اعلان نہیں ہوتا اورشایداس لیے نہیں ہوتا کہ معمارِ اعلا تو پہلے ہی یہ اعلان کر چکا ہے کہ اس مکمل عمارت کے بعد کوئی اور عمارت نہیں بنائی جائے گی۔

کیا معمار اعلا کو یہ علم نہیں۔

کہ اس مکمل عمارت میں رہنے والے لوگوں کے قد اونچے اور سربڑے ہو چکے ہیں ؟ اور اس میں کاربن ڈائی آکسائڈ بھر گئی ہے۔

٭٭٭

تشکر: نسترن فتیحی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی اور مصنف جنہوں نے اجازت دی

ان پیج سے تبدیلی، ترمیم اور  ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید