FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

حاصل

 

 

 

صائمہؔ اسحاق

ماخذ: کتاب ایپ

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

انتساب

 

والدِ محترم

جناب شبیر احمد

کے نام

جو تعلیمِ نسواں کے بہت بڑے حامی تھے

 

 

 

 

 

 

حاصل ہے کیا سوائے تر آنے کی دہر میں

اُٹھ آسماں تلے سے کہ شبنم بہت ہے یاں

میرؔ

 

 

 

 

گردِ سفر

 

جب پڑھنا لکھنا سیکھا گویا کوئی جہانِ حیرت کھل گیا۔ فطری میلان نے لفظوں کو اس وقت ایک آہنگ دینا شروع کیا جب میں شاعری کی ابجد سے بھی واقف نہ تھی۔ ایک ایسا آہنگ جس نے مجھے اسیر نہیں مسحور کئے رکھا، کتھارسس، اظہار، بھڑاس، شکوہ ہر موسم میں ساتھ دیا۔

صنف کی زنجیر بھی اس خود کلامی کی اڑان کو نہیں روک سکی، کیونکہ یہ میری اپنی دنیا تھی جس میں پرواز کی کوئی حد اور سمت مقرر نہیں تھی۔ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسے کسی کے ساتھ بانٹوں گی۔ لیکن ایک عزیز دوست عائشہ عرفان کی تحریک پر اشعار کو جمع کرنا شروع کیا۔ بس پھر مخلص لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

اس مجموعے میں اشعار کے ساتھ میرے گھر والوں کا تعاون اور دوستوں کی محبت اور حوصلہ افزائی شامل ہے۔

میں نے اپنی دنیا کا پہلا در کھول دیا ہے۔ اب یہی طے کرے گا کہ اگلا در کھلے یا یونہی گُپت رہے۔

آراء کی منتظر

صائمہ اسحاق

saimaishaq1@gmail.com

 

 

 

 

صائمہ کی رواں دواں شاعری

 

اردو غزل کے بنیادی عناصر میں دیگر لوازمات کے ساتھ تخلیق کار کے لیے آمد وہ عنصرِ لازم ہے جس کے ساتھ اِس صنف کی اساس استوار ہے یہ وہ قوت ہے جو غزل گو کی نہ صرف تخلیقی استعداد کا تعیّن کرتی ہے بلکہ اُس کے مزاج اسلوب میلانِ طبع اور دیگر لوازماتِ تخلیق کی بھی رجحان سازی کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے آمد ذہنی ساخت اور نظامِ فکر و احساس کے پیچیدہ تعلق کے نتیجے پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ داخل کے ساتھ خارج کی عمل داری کی نوعیت کا بھی اہتمام رکھتی ہے کلام میں شدّت اور زور جہاں مطالعے اور مشاہدے کے مرہونِ منّت ٹھہرتا ہے وہاں آمد کی تُند لہریں بھی شعر میں بہاؤ کی سی کیفیت پیدا کرتی ہیں

میرے خیال میں شاعر خالص اپنا کچھ کہنے کی دیانت داری کے کرشمے سے ہی شاعر کہلانے کا حقدار بن سکتا ہے یہ وہ ارتقائی عمل ہے جو اُسے وقت اور وقت کے تحیّرات کے تازہ بہ تازہ دھارے کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ رکھتا ہے بلکہ اُس میں اپنی روش کی ملاوٹ کا بھی قصد کرتا ہے۔  صائمہ کا مجموعہ کلام مطالعہ کے مراحل سے گزرا تو خوشی ہُوئی کہ ندّی کی طرح بہتے ہوئے رواں دواں مصرعے اور زبان کے ساتھ من مانا اور فطری اور غیر مصنوعی برتاؤ جو غزل کی شان و شوکت کے بڑھاوے کے زمرے میں آتا ہے سے آشکاری ہُوئی یہ ایسی خصوصیتِ طبع ہے جو تخلیق کار کو کسی ایک جگہ جامد ہونے سے روکے رکھتی ہے۔

صائمہ کے کچھ اشعار مثال کے طور پر درج کر رہا ہُوں۔

 

میرے لفظوں سے شجر پھوٹ پڑیں گے اک دن

کوئی قرطاس کی مٹّی کو ذرا نم کر دے

_____

بکھر کے رہ گیا اک رنجشی بگولے سے

سمجھ رہے تھے کہ مضبوط آشیانہ ہے

_____

آج تک اس کے ازالے میں جھلستے ہیں قدم

تیری چھاؤں میں ملی تھی کبھی دو پل کی زمیں

_____

صائمہ غیر ارادی سی اجازت پا کر

عشق لے آیا ہمیں ہجرِ مسلسل کی زمیں

_____

تیری دنیا میں کہاں روح سمائی میری

کہکشاؤں کے جہاں تک ہے رسائی میری

_____

بند لبوں سے کہہ ڈالے

کیا کیا لفظ برہنے سے

_____

اُس کو مت چھیڑئیے ہو جاتا ہے چُننا مشکل

وہ بگڑتا ہے تو اِس طور بکھر جاتا ہے

_____

پنکھ ملتے ہی اُڑن چھُو ہو گیا

دل جو برسوں سے ترا نخچیر تھا

_____

ابھی تو بس منڈیروں تک تمھاری دھوپ آئی ہے

ڈھلے گا دن تو اُس کے ساتھ ڈھلنا سیکھ لیں گے ہم

_____

زمانہ اُس کو کبھی سر اُٹھا کے تکتا تھا

وہی ستارہ جو اب پائمال ٹھہرا ہے

_____

گو بہت گہرے ہیں ڈھونڈو گے تو مل جائیں گے

ہو چکے صائمہ اب شام کے سائے ہم بھی

_____

مانا دشوار سہی پھر بھی کریں کیا آخر

تیرے گھر تک اگر آیا یہی رستہ آیا

_____

تمھارے دکھ بہت جھیلے ہیں مَیں نے

اب اپنے غم میں رونا چاہتی ہُوں

_____

دل و نگاہ کی پاکیزگی کے سوتوں سے

جمی ہے گرد سو سارا گیان میلا ہے

_____

بوند خون کی بن کر صائمہ رگوں میں تھا

ہو گیا ہے جب آنسو آنکھ نے دھکیلا ہے

_____

چاہیں مہکیں نہ مہکیں مگر صائمہ

خوب گہرے ہیں رنگِ حنا اور ہم

_____

جُدائیوں کو زمانے گزر گئے اب تو

یہ یاد بھی نہ رہا یاد اُس کو آنا ہے

_____

زندگی تو نے مار ڈالا ہے

تو ہی جینے کے گُر سکھائے گی

_____

شہر سُلگا ہُوا ہے کچھ دن سے

کوئی تازہ بیان مت دینا

_____

اُس کے کمرے سے میں اک پھول چرا لائی تھی

یوں وہ شامل ہے مرے حُسن میں رعنائی میں

_____

اِس قدر عاجز ہُوا وہ مستقل اصرار سے

اُس نے آخر حشر میں ملنے کا وعدہ کر لیا

 

صائمہ کے مندرجہ بالا اشعار پڑھ کر آپ جان سکتے ہیں کہ وہ آمد کی روانی سے کیا کیا کشید کرتی ہے قرطاس کی مٹّی۔ اُڑن چھُوا۔ آنسو دھکیلا۔ رنجشی بگولہ جیسے نئے تخلیقی مرکبات سے اُس کی شعری اُپج کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے نہ صرف زبان کا تخلیقی استعمال نیا پن پیدا کرنے کا کام سر انجام دیتا ہے بلکہ شعر میں نامیاتی وحدت اور رچاؤ بساؤ سے بھی سہولتِ شعر کی نشاندہی ہوتی ہے اُس کی طبیعت میں غزل کی کلاسیکل روش گُندھی ہُوئی ہے جہاں خیال کا مکمّل اظہار اُسے تازگی کی فضا میں لے جاتا ہے وہاں شعر میں تحرّک کا عنصر بھی دبے پاؤں داخل ہو کر دلآویزی کی سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے وہ شعر کہتی ہے تو لگتا ہے کہ نئی کائنات تخلیق کرنے جا رہی ہے اپنی زبان اپنا لہجہ اپنے محاورے اپنے روز مرّے اُس کی غزل کا جواز بن کر ساتھ ہی چلے آتے ہیں اچھّی شاعری کی ایک صفت اُس کا نیا ہونا بھی ہے اور یہی وہ صفت ہے جو صائمہ کی شاعری میں زیریں لہر کے طور پر نمایاں ہوتی نظر آتی ہے بیروں سے اندروں اور اندروں سے بیروں کا ایسا آہنگِ دو طرفہ دکھائی دیتا ہے کہ شعر پڑھتے ہُوئے مسرّت کے احساس کے ساتھ ساتھ دردمندی اور معاشرتی سچآئیوں کی طرف بھی دھیان لگا رہتا ہے یوں صائمہ با شعور ذہن کی حامل ہوتے ہُوئے ایک سلیقہ مند فن کار بھی نظر آتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ

شاعری اُس سے خود کو کہلواتی ہے یعنی مجبوری نظامِ فکر و احساس بن کر اُس کے ذہنی الاؤ کا کتھارسس بن کر اُس کا علاج بھی کرتی ہے اور جب تخلیقی ٹرانس سے نکلتی ہے تو توازن کی حالت میں بھی لے جاتی ہے اور توازن ایک نیا عدمِ توازن پیدا کر کے اگلی منزلوں کے سُراغ کی طرف نکل جاتا ہے۔ صائمہ کی شاعری کا سفر اِسی نہج پر رواں دواں نظر آتا ہے یوں بھی تخلیق کے عمل کا سارا مقصد ہی اِس راز میں پنہاں ہے کہ چشمے کی طرح پہاڑوں کا سینہ چیر کر نہ نکلے تو بات نہیں بنتی صائمہ کی شاعری بھی ایسا ہی چشمہ ہے جو سرچشمہ ندرت ہونے کے ساتھ ساتھ ملائمت گہرائی اور تازگی کو باغ و بہار کی روش عطا کرتا ہے اور دعا ہے کہ یہ چشمہ نئی نئی کائناتوں میں پھیلاؤ کے راستوں کا متلاشی رہے۔

افضال نوید

ٹورنٹو کینیڈا

۲۶ مئی ۲۰۱۵ء

 

 

 

 

حاصل کی شاعرہ

 

شاعری ایک طرح کا گورکھ دھندا ہے۔ شعر کو سمجھنا خواب کی تعبیر جاننے کے مشابہ ہے جس طرح خاصے تعامق و تفوّق کے بعد خواب کی اصل تک پہنچا جا سکتا ہے اُسی طرح سچا شعر ذہنی مشقت سے گُزر کر ہی سمجھا جا سکتا ہے۔  شعر کا معاملہ عام تحریر سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔  سو جب شعر پیرایۂ اظہار میں آتا ہے اُس میں نہ صرف آپ کا شعور کام کرتا ہے بلکہ لاشعور بھی ایک شعوری انداز میں کارفرما ہوتا ہے۔  خواب کے بارے میں نفسیاتی ماہرین کا کہنا بجا ہے کہ خواب کا تعلق باطنی حواس سے ہے میرے نزدیک اُُسی طرح شعر کا بھی اِن حواس سے بہت گہرا تعلق ہے مگر یہ بات بھی معدودے چند لوگوں پر ہی آشکار ہو گی۔  جس کا سبب یہ ہے کہ شعراء کے ازل ہی سے دو قبیلے رہے ہیں۔  پہلا شعر کہنے والوں کا اور دوسرا شعر لکھنے والوں کا۔  شعر لکھنے والوں میں علمِ عروض کے ماہر مستری حضرات شامِل ہیں جبکہ کہنے والوں میں لفظ کی صحت اور کلام کی رُوح سے واقف شاعر جلوہ گرہیں۔ آج میرا سرنامۂ موضوع جو شاعری ہے اُس کی شاعرہ کا تعلق شعراء کے پہلے قبیلے سے ہے۔  میری اِس بات کا اندازہ آپ کو اِس کی شاعری پڑھتے ہوئے خود ہی ہو جائے گا۔  سب سے پہلی اور قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ فی زمانہ یہ شاعرہ، شاعرہ ہوتے ہوئے بھی خود شعر کہتی ہے۔  یہی اِس کا بنیادی وصف ہے جس کی وجہ سے مالکِ حرف نے اس کی شاعری میں برَکت رکھ دی ہے۔  آپ جب جب اِس کی شاعری پڑھتے ہوئے گُذریں گے آپ کو محسوس ہو گا کہ اِن لفظوں میں کوئی ایسی طاقت ضرور ہے جو دامَنِ دل کھینچتی ہے۔  لفظ تو ہر تخلیق کار کے پاس عمومی طور پر ایک ہی ہُوا کرتے ہیں۔ اِن تراکیبِ لفظی اور اصطلاحات کے علاوہ جو شاعر (واقعی شاعر) خود اختراع کرتا ہے مگر یہ سلیقۂ اظہار لفظوں کو برَتنے کا فن ہے۔  جو شاعری کو خوبصورتی عطا کرتا ہے۔  صائمہ اسحاق کی شاعری اپنے موثر سلیقۂ اظہار اور زندگی کو مختلف طریق سے محسوس کرنے کا صلہ ہے سو پڑھنے والے کے دل تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔  مَیں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ غزَل ایسی زور آور صنفِ سُخن کا مکمل اِنکار کرنا نا ممکن حد تک مُشکل امر ہے غزَل ہمارا تہذیبی ورثہ ہے۔  اور کوئی قوم اپنی تہذیب سے دور نہیں رہ سکتی چاہے وہ اُس کی اِنکاری ہی کیوں نہ ہو غزَل کے اثرات ہماری نظم پر بھی مرتب ہوئے ہیں یوں تو صائمہ اسحاق نے نظم بھی لکھی ہے مگر اِس کا اصل میدان اور پہچان غزل ہی ہے۔  شاید اِس کا شعری خمیر غزَل ہی کے سانچے میں ڈھل سکتا ہو۔  یہ اعجاز بھی اِس نیم وحشی صنفِ سُخن یعنی غَزل کا ہے کہ وہ ابتدا ہی میں تخلیق کار پر اپنا بھرپور اثَر چھوڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں تخلیق کار غزل ہی سے اپنا شعری سفَر آغاز کرتا ہے۔  غزَل میں بنیادی حیثیت مطلع کی ہُوا کرتی ہے کیوں کہ مطلع ہی سے غزَل اپنی طرف متوجہ کر پاتی ہے گویا غزَل کا مطلع غزَل کا طلوع ہے۔  اگر مطلع متاثر کرے تو پوری غزَل خاص توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے اور اگر مطلع کمزور یا دو لخت ہو تو ہماری توقع کم پڑ جاتی ہے۔  جس کا منطقی نتیجہ ہمارے اندر غزَل کے لئے منفی احساسات پیدا کر دیتا ہے۔  جہاں تک صائمہ اسحاق کی غزَل کے مطلع کی بات ہے تو مجھے اکثر بلکہ بیش تر مقامات پر یہ شاعرہ کامیاب بلکہ تحسین کی مستحق نظَر آتی ہے۔  کچھ مطالع دیکھیے:

حرف گونگے ہو گئے، قرطاس بنجر ہو گیا

کیا کریں تدبیر، پانی سر سے اُوپر ہو گیا

_____

نقص کچھ ایسا تھا اِس شہر کی بینائی میں

طاق ہونا ہی پڑا مجھ کو شکیبائی میں

_____

اِک اِسی بات پہ پھولے نہ سمائے ہم بھی

شکر صد شکر تمہیں یاد تو آئے ہم بھی

ہمارے رخ پہ جو رنگِ جمال ٹھہرا ہے

کسی کے حسنِ نظر کا کمال ٹھہرا ہے

_____

جب دشتِ جاں پہ دھوپ تنی تھی گمان کی

وہ چھاؤں لے کے چل دیا مجھ سائبان کی

_____

دور رہ کر تو نہ اِس طرح سزا دے مجھ کو

تُو مِرا ہے تو مِرا ہو کے دکھا دے مجھ کو

_____

اُس نے سُن لی ہے اَن کہی اپنی

دیدنی کیوں نہ ہو خوشی اپنی

اِن مطلعوں سے ایک بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ شاعرہ اِس رمز سے بہ خوبی واقف ہے کہ غزَل میں مطلع کی اہمیت کیا ہے۔  اور ان سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شاعرہ اپنے سلیقۂ اظہار میں زبان کے چونچال اور لہجے کی مدد سے اپنے شعری کینوس کو وسیع کرنے اور برجستہ شعر کہنے کی کوشش کرتی ہے۔  ’’حاصل‘‘ کی شاعرہ کا کرب گردشِ ایام کے تابع نہیں بلکہ اُس پر حاوی ہے جس کی بدولت وہ آج کے مشاہدے کا تعلق آنے والے کل سے جوڑتی ہے تو ایک نیا تجربہ قاری کے سامنے آتا ہے۔  قاری محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ طاقتیں جو ہمیشہ سے منفی رجحانات کے ساتھ زمان و مکان سے اُلجھتی آ رہی ہیں وہی منفی طاقتیں ایک مثبت تخلیقی رو کے ساتھ معاشرے کی نئی تفہیم کرنے میں معاون ہونے لگتی ہیں۔

_____

ہو قلمکار کی غیرت کو گوارا کیوں کر

لفظ کو خود کشی کرنے نہیں دی جائے گی

_____

زندگی بھر جو اُٹھاتا رہا دیوار اسے

آخرِ کار بنانے پڑے دروازے سے

_____

لاکھ ٹکڑوں میں بِکھر جاؤں مگر سچ بولوں

میرے معبود تو آئنہ بنا دے مجھ کو

_____

میرے لفظوں سے شجر پھوٹ پڑیں گے اک دن

کوئی قرطاس کی مٹی کو ذرا نم کر دے

_____

سر جھکائے ہوئے گُذرے ہیں گلی سے ورنہ

سب سُنے، آپ جو کَستے رہے آوازے سے

_____

منتظر تھی مَیں، ہمہ تن گوش تھی کچھ بولتے

اِس خموشی سے مِرا پندار پتھر ہو گیا

_____

زمانہ اس کو کبھی سر اُٹھا کے دیکھتا تھا

وہ اِک ستارہ جو اب پائمال ٹھہرا ہے

_____

اس کے مِٹ جانے کا کیوں ماتم کریں

وہ جو پانی پر لکھی تحریر تھا

_____

میرے سُخن میں تلخیِ دوراں ہے موجزن

میں عرض تب کروں کہ اماں پاؤں جان کی

_____

اَن سُنے رہ گئے لفظ بولے ہوئے

رائے گاں ہی گئے اِک صدا اور ہم

اِس کے یہاں بد قسمتی کا شکوہ، ناکامی کا دُکھ اور مایوسی کا بیان ایسا نہیں ہے جیسا کہ معاصر شعراء کے یہاں موجود ہے بلکہ وہ اپنی لئے ایسی راہ تلاش کر لیتی ہے جو اسے مایوس نہیں ہونے دیتی اور یہ سلیقہ بہت کم شعراء کے حصہ میں آتا ہے۔ شعر کو شعر بنانے میں جو عناصر مدَد گار ہُوا کرتے ہیں اُن میں ایک تو کیفیت یعنی جذبے کی سرشاری ہے اور دوسرا اُسلوبیاتی حُسن یعنی سمعی و صوتی نشو و نُما ہے جس کے ذریعے قاری تک پہنچنے والے متن کے تہہ در تہہ معنیٰ پردۂ سماعت پروہ نقش بنا جاتے ہیں جن کا تجربہ بالکل ویسا ہی ہے جیساکہ ایبسٹرکٹ آرٹ۔  ایبسٹرکٹ آرٹ میں جس طرح ہم پردۂ بصارت سے ہوتے ہوئے دماغ تک آئے رنگوں کی ترتیب سے منظر کے اثرات تک پہنچتے یا کم از کم پہنچنے کی سعی کرتے ہیں۔ اس ضمن میں وضاحت کے لئے خواجہ حسن عسکری کا ایک شعر نقل کرتا ہوں۔

_____

بارش کے بعد رات سڑک آئنہ سی تھی

اِک پاؤں پانیوں پہ پڑا چاند ہِل گیا

شعر پڑھتے ہی، جس منظر کو نقش کیا گیا ہے، ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔  بلکہ پاؤں رکھنے کے بعد جو ارتعاش پانی میں پیدا ہوتا ہے یا اُس وقت ہُوا ہو گا وہ بھی آنکھوں میں جھلملا اُٹھتا ہے۔  یہ امیج کا کمال ہے جہاں منظر از خود تصویر ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔  اِس سے قطعِ نظر کے لفظ "پانیوں” کی صحت پر بات کی جا سکتی ہے۔  لیکن یہ کسی اور موقع پر اُٹھا رکھتے ہیں۔  جو اشعار مَیں نے اُوپر لکھے تھے صائمہ اسحاق کی کتاب”حاصل” میں موجود مختلف غزلیات سے ماخوذ ہیں۔ اور میری نظر میں یہ اشعار صائمہ اسحاق کے فکری و فنی اختصاص کی صحیح نمائندگی بھی کرتے ہیں اِن میں اکثر شعر اِمیج بناتے یا کم از کم اِمیج کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔  وہ چاہے کسی واقع کی سطح پر ہی کیوں نہ ہو اِن اشعار میں آواز کی طاقت سے پیدا ہونے والے منظر اور فکر کا بہاؤ اپنی جولانیوں پر ہے۔  اِس شاعرہ کے یہاں ایک رکی رکی سی معصوم حیرت اور دبی ہوئی مسکراہٹ محسوس کی جا سکتی ہے۔  یہی نہیں بلکہ معاشرے میں جکڑے ہوئے انسان کے معصوم جذبات و احساس کا تانا بانا بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ظہور پذیر ہوتا دکھائی دیتا ہے۔  اور یہ احساس بھی ہو جاتا ہے کہ اِس کلام کی شعری فضا قدرے مختلف ہے۔  کچھ ہے جو قاری کو زنجیر کرتا ہُوا گُذرتا ہے اور یہ احساس کہیں محدود نہیں ہے یعنی صرف چند اشعار تک محدود نہیں بلکہ اکثر یہ محسوس ہوتا ہے کہ کرشمہ دامنِ دل می کنند کہ جاریں جاست۔

یعنی اظہارِ شعری کی دلکشی ہی شاعرہ کا حاصل ہے لہٰذا یہ شاعرہ ارادی یا غیر ارادی طور پر جہانِ لفظ و معنیٰ میں معتکف رہی ہے۔  اس مجموعے میں مختلف اسالیب کے اشعار جہاں ایک تخلیق کار کی عمیق نظری کو ظاہر کرتے ہیں وہیں اُس شعوری و لاشعوری مطالعے کا پتا بھی دیتے ہیں جو ایک سچے قاری کا فرضِ عین ہُوا کرتا ہے۔  صائمہ اسحاق کی شاعری میں جہاں آپ کو کسی حد تک جدید اُسلوب و فکر کی پرچھائیاں مِلیں گی وہیں اِس کے یہاں آپ کو گُزشتہ شعری روایت سے جڑت کا احساس بھی معاصر شاعری سے قدرے زیادہ اور مضبوط نظر آئے گا۔  دُنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور باطن سے محسوس کرنے کا نتیجہ ہی یہ سب اشعار ہیں جو کہیں محبت کی خوشبو بن کر مہکتے ہیں تو کہیں زندگی کے مختلف رنگوں میں دَمَکتے اور گِرد و پیش کے منظروں میں جھلکتے ہوئے آپ کے سامنے آتے ہیں۔ اظہار کے بہت سے رنگ اِس کی شاعری میں ہم آمیز ہو کر ایک نیا رنگ پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔  کچھ ہے جو اِس کی شاعری کو ہم عصر شاعرات سے ممتاز کرتا ہے وہ چاہے زندگی کو محسوس کرنے کا الگ طریق ہے یا شعر میں ٹریٹمنٹ کی سطح پر کوئی تبدیلی ہی کیوں نہ ہو جس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اُس نے لفظ کو اہمیت دی ہے ورنہ یہاں تک کا سفر طے کرنا کچھ سہل نہیں تھا۔  صائمہ اسحاق کا انداز سادہ، دلکش اور مترنم ہے جس میں تنوع اور جدت موجود ہے۔  ان تمام باتوں کے باوجود صائمہ اسحاق کی طرف سے مصرع کی ساخت اور زبان کے استعمال میں بے توجہی کا معاملہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے۔  صائمہ اسحاق اور تمام نئے لکھنے والوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ قُدما سے لے کر آج تک ایسے شعراء جو عظمت کے ساتھ شہرت و مقبولیت تک پہنچے ہیں اُن سب کے یہاں مصرع کی ترتیب و تربیت اور زبان کا استعمال کلاسیکی خوشبو کے ساتھ ہُوا ہے۔  عہد موجود میں فراز ہوں یا پروین شاکر اِنہوں نے زبان کے ساتھ ساتھ اپنے موجودہ عہد تک آتے ہوئے محاوروں کو بھی اپنی مکمل صحت کے ساتھ برتا ہے۔  شعر کہنے میں کسی تیز روی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ شعر پر اِتنی محنت کرنا ایک تخلیق کار کا فرض ہے کہ محنت نظر نہ آئے۔  صائمہ اسحاق کو اِس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔  مگر یہ باتیں مَیں اِس شاعرہ کے اگلے پڑاؤ کے لیے لکھ رہا ہوں۔  موجودہ مواد پر اِن باتوں کو منطبق نہ کیا جائے۔  اِن کو اظہار میں لانا اِس لیے مناسب سمجھا کہ آپ پر آشکار ہو سکے کہ مَیں نے اِس شاعرہ کی کتاب کو بہ غور دیکھا ہے ایک ایک مصرع پڑھا ہے ایک ایک نظم سے ہوتا ہُوا گُزرا ہوں جو مجھ پر قرض بھی تھا۔  یاد رکھیے ہر نیا آنے والا سچا تخلیق کار کچھ امکان لے کر ظہور پذیر ہوتا ہے عین اُسی طرح صائمہ اِسحاق کا ظہور بھی اپنے مکمل امکانات کے ساتھ ہُوا ہے۔  خدائے حرف نے اِس کو لفظ کی حُرمت کے لیے چُن لیا ہے اب آگے اِس شاعرہ کی محنت اور ریاضت طے کرے گی کہ اُسے کِن راستوں پر چل کر اپنے آنے والی منزلوں کا خیر مقدم کرنا ہے۔  یہ چند سطریں جو ایک دیباچہ کی صورت آپ کے سامنے ہیں یہ صائمہ اسحاق کے اولین مجموعۂ کلام ’’حاصل‘‘ میں فکری اور فنی سطح کے لیے ابتدائی تعارف کی حیثیت رکھتی ہیں۔  زیرِ مطالعہ کتاب میں ایک وسعت پذیر زمینی کردار کے متواتر وسعت آشنا ہونے کے معاملات کارفرما ہیں اِس شاعری کی فضا عام زندگی کی تمام چھوٹی بڑی سچائیوں سے عبارت ہے۔  اِس کتاب کی تخلیقات کے بین السطور ہمہ وقت موجود متحرک امیج اور فعال تمثالیں متن کی تہہ در تہہ تشکیل میں معاون نظر آتی ہیں۔  جب شاعرہ یہ کہتی ہے ’’میرے معبود تو آئنہ بنا دے مجھ کو‘‘ تو در اصل وہ موجودہ صورتِ حال کا نوحہ رقم کرتی ہے۔  یہ اطمینان کا اظہاریہ جہاں حوصلہ فراہم کرتا ہے وہیں موجود صورتِ حال میں پستی کا منظر بھی پیش کرتا دکھائی دیتا ہے۔  اور لفظ آئنہ یہاں ایک علامت کے طور پر بھی سامنے آتا ہے جو بذاتِ خود ایک خوش آئند بات ہے۔  اِس سے ایک سوچنے والے انسان اور تخلیق کار کے کھَرے پن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔  تاہم تخلیق کار کے احتجاج میں آہنگ کی تُندی و تیزی نہیں مِلتی یہ اور اِس جیسی کئی خواہشات اور شکایتیں گفتگو کے لحن ہی میں کی گئی ہیں۔  ایسی گفتگو جو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی سطح پر قرینۂ شعر میں ڈھل جاتی ہے۔  اور یوں تجربوں کی چھلنی سے چھنا ہُوا اصل شعر ہی باقی رہ جاتا ہے صائمہ اسحاق نے اپنی اولین جست ہی سے قاری کے دِل کو زنجیر کر لیا جس پر اُس کو داد دیے بنا نہیں بن پڑتا اُمید رکھنا چاہیے کہ اِس شاعرہ کا دوسرا قدم اِس کے پہلے قدم سے زیادہ مضبوط اور مبارک ہو گا۔ دعائیں۔

دلاور علی آزر

 

 

 

 

بحضور سرور کائنات حضرت محمدﷺ

 

 

تابشِ حرف سے ماورا آپ ہیں

میرے آقا رضائے خدا آپ ہیں

 

اہلِ طائف ہیں پتھر اٹھائے ہوئے

ہاتھ اٹھائے سراپا دعا آپ ہیں

 

کوئی کیا کر سکے نعت کا حق ادا

نعت سے حمد کا سلسلہ آپ ہیں

 

میں ہوں عاصی مگر، کیسے ہو بے اثر

جس مناجات کا واسطہ آپ ہیں

 

دین و دنیا کی سب نعمتیں مانگ لوں

مجھ سیہ بخت کا حوصلہ آپ ہیں

 

آسمانِ نبوت منور سہی

ضو مگر جس کی سب سے جدا، آپ ہیں

 

سنگِ اسود بھی دے گا گواہی یہی

امنِ عالم کو وجہِ بقا آپ ہیں

٭٭٭

 

 

 

نعت

 

نہیں ہمت کہ ایسی کوئی خواہش لب پہ لے آؤں

یہ دل میں ہے رسول اللہ اذنِ حاضری پاؤں

 

الٰہی تو زبان و دل کی وہ تطہیر فرما دے

میں کچھ تحفے درودوں کے بطورِ خاص بھجواؤں

 

خطا کاری پہ شرمندہ ہوں، پر یہ کفر کیونکر ہو

کہ امت آپ کی ہو کر بھی میں مایوس ہو جاؤں

 

مرے اللہ! حسرت ہے ترے محبوب کے در پر

غلامانِ غلاماں کی کسی فہرست میں آؤں

 

مرے شاہا! تپش کوئی دل و جاں کو جلاتی ہے

تو ہو کر راکھ، اپنی خاک دنیا بھر میں بکھراؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنے شریکِ حیات کے نام جن کے ساتھ نے میرا نام ہی نہیں زندگی بھی بدل دی

 

آنکھوں میں نور اس کا، ہونٹوں پہ پیاس اس کی

گھر میں بسی ہوئی ہے چاہت کی باس اس کی

 

کانوں میں اس کا لہجہ، پلکوں میں اس کے آنسو

وہ ہے مرا لبادہ، اور میں لباس اس کی

 

جس اور چاہے موڑے، جو ظلم چاہے توڑے

اب تو پڑی ہوئی ہے جیون میں راس اس کی

 

یہ دل نہیں ہے لوگو، سمجھو سمجھ سکو تو

گویا دھڑک رہی ہے سینے میں آس اس کی

 

کھیلی ہے دل کی کشتی انجان پانیوں میں

وہ بادباں ہوا میں تارہ شناس اس کی

٭٭٭

 

 

 

 

ہمارے رخ پہ جو رنگِ جمال ٹھہرا ہے

کسی کے حسنِ نظر کا کمال ٹھہرا ہے

 

ابھی یہ واقفِ الفت نہیں ہے پوری طرح

مکانِ دل میں کوئی خال خال ٹھہرا ہے

 

زباں کی طرح الگ کر لئے ہیں دل ہم نے

تبھی تو کارواں خواب و خیال ٹھہرا ہے

 

کسی کا حسن کبھی دیکھنے نہیں دے گا

ہمارے شیشۂ دل میں جو بال ٹھہرا ہے

 

خدایا اب تو اسے بھی عروج حاصل ہو

ہمارے شہر پہ کب سے زوال ٹھہرا ہے

 

زمانہ اس کو کبھی سر اٹھا کے تکتا تھا

وہی ستارہ جو اب پائمال ٹھہرا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تم نے جو منفعت سے خسارہ بدل دیا

ہم نے مفاہمت کا ارادہ بدل دیا

 

اے بے وفا حیات تِری گردشوں کی خیر

تو نے بھی کیسا وقت سنہرا بدل دیا

 

کوئی تو واردات ہوئی ہے جی اس کے ساتھ

کچھ تو ہے جس نے یہ دلِ سادہ بدل دیا

 

گو جیتنا ہماری بقا کا سوال تھا

لیکن بساطِ وقت نے مہرہ بدل دیا

 

پہلے تو زیست کرنے کی ہمت تھی آہنی

کم مائے گی تھی جس نے ارادہ بدل دیا

 

مفہوم جان لینے سے قاصر نہیں ہیں ہم

تو کیا ہوا کہ آپ نے فقرہ بدل دیا

 

یہ روشنی کا عادی رہا ہے تمام عمر

تاریکیوں نے شہر کا نقشہ بدل دیا

 

اپنی طرح کے ایک ہی ہیں آپ بھی جناب

جب ہم بدل گئے تو ارادہ بدل دیا

 

یہ عشق ہی کا وصف رہا ہے کہ صائمہ

دل پہ چڑھا تھا رنگ جو گہرا بدل دیا

٭٭٭

 

 

 

 

زمین میلی ہے یہ آسمان میلا ہے

دلوں کے کھوٹ سے سارا جہان میلا ہے

 

مشاورت سے تری بام و در سنورتے تھے

جو تو نہیں ہے تو سارا مکان میلا ہے

 

دل و نگاہ کی پاکیزگی کے سوتوں پہ

جمی ہے گرد سو سارا گیان میلا ہے

 

ترے خیال کی دھرتی پہ پاؤں رکھتے ہی

پھسل کے ٹوٹنے والا دھیان میلا ہے

 

وہ مسندوں پہ مقدس لگے بہت لیکن

قریب جاؤں تو میرے سمان میلا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ماں

 

ستارے توڑ لانے کا

نئی دنیا بسانے کا

زمانے کو ہلانے کا

افق کے پار جانے کا

بہت تھا ولولہ دل میں

بہت تھا حوصلہ مجھ میں

بس اک معصوم چاہت پر

یہ راہیں چھوڑ دیں میں نے

مجھے ’’ مما‘‘ کہا اس نے

مہاریں موڑ دیں میں نے

٭٭٭

 

 

 

 

نئی ٹھوکر لگے گی تو سنبھلنا سیکھ لیں گے ہم

حصارِ بے بسی سے بھی نکلنا سیکھ لیں گے ہم

 

بڑی چاہت سے اپنے رنگ تیری سمت بھیجے تھے

نئے رنگوں کی چاہت کو کچلنا سیکھ لیں گے ہم

 

ابھی تو بس منڈیروں تک تمھاری دھوپ آئی ہے

ڈھلے گا دن تو اس کے ساتھ ڈھلنا سیکھ لیں گے ہم

 

طریقہ کچھ نیا تم سوچ رکھنا مات دینے کا

اسی اثناء میں کوئی چال چلنا سیکھ لیں گے ہم

 

کئی موسم رہے ہیں نوحہ خواں اس برف جانی پر

سو اب تو سرد آہوں پر پگھلنا سیکھ لیں گے ہم

 

ہوئے مسمار تو اب صائمہ یہ سوچ بیٹھے ہیں

ہوا کا دیکھ کر کے رُخ، بدلناسیکھ لیں گے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

اک اسی بات پہ پھولے نہ سمائے ہم بھی

شکر صد شکر تمھیں یاد تو آئے ہم بھی

 

مہرباں وہ ترے لہجے سے برستا ساون

جس کی رم جھم میں بڑی دیر نہائے ہم بھی

 

لوگ حیران ہیں کیوں دیکھ کے تم کو آخر

اس تجسس میں تمھیں دیکھنے آئے ہم بھی

 

مفت کے مشورے یہ تم بھی سنبھالو اپنے

اپنی محفوظ رکھیں قیمتی رائے ہم بھی

 

گو بہت گہرے ہیں ڈھونڈو گے تو مل جائیں گے

ہو چکے صائمہ اب شام کے سائے ہم بھی

٭٭٭

 

 

 

 

ایک میٹھی سی کسک جاگ اٹھی ہے من میں

یاد پھر سے مجھے اک خواب پرانا آیا

 

آج میں آہنی دیوار سے ٹکرا جاؤں

آج اک دوست مجھے دینے دلاسا آیا

 

آپ نے ہم کو ابھی ٹھیک سے جانا کب ہے

وار یہ آخری ہو گا اگر اوچھا آیا

 

مانا دشوار سہی پھر بھی کریں کیا آخر

تیرے گھر تک اگر آیا، یہی رستہ آیا

 

تُو تو پاؤں میں لئے پھرتا ہے منزل لیکن

ہم کو بس ایک ترا راستہ تکنا آیا

 

صائمہ ختم ہوئے عذر تعلق کے تمام

اجنبی بن کے وہ دیرینہ شناسا آیا

٭٭٭

 

 

 

مجسمہ

 

بڑی مشکل سے خود کو

پتھروں کے بیچ ڈھالا ہے

بڑی دشواریوں کے بعد

اس دل کو سنبھالا ہے

مگر صدیوں کے بعد اس نے

کوئی پیغام بھیجا ہے

مرے آغاز کو پھر سے

نیا انجام بھیجا ہے

سو اب دل چاہتا ہے کہ

مدھر نغموں میں کھو جاؤں

کسی کے ان کہے جملوں کو

من ہی من میں دہراؤں

کسی کے نام پر پھر سے

میں اب کچھ اور ہو جاؤں

مگر اب میں سلے ہونٹوں میں

کوئی گپت نغمہ ہوں

میں اب ان پتھروں کے بیچ

اک سنگی مجسمہ ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

سہہ لیا آستیں میں لگتی ہوئی گھات کا دکھ

کیسے سہہ لیں مگر اس طرح ملی مات کا دکھ

 

جو بھی صحراؤں میں رہتے ہیں وہی جانتے ہیں

کس طرح توڑ کے رکھ دیتا ہے برسات کا دکھ

 

بوجھ اک دائمی فرقت کا لئے سینے پر

جھٹپٹے نے بھی سہا ساتھ میں دن رات کا دکھ

 

وہ جوپردیس میں بیٹھا ہے اسے کیا معلوم

راہ تکتی ہوئی آنکھوں سے ملاقات کا دکھ

 

زندگی یونہی سسکتی رہی چاروں جانب

اور کھاتا ہی گیا سب کو یہی ذات کا دکھ

 

اس تعلق کی روانی تھی ہواؤں سی مگر

لے کے ڈوبا اسے اک رنجشِ بے بات کا دکھ

 

تلخ لہجہ تو گراں تھا، ہے مگر اس سے سوا

سرد آنکھوں سے کہی طنز بھری بات کا دکھ

٭٭٭

 

 

میں آج خود اپنی دسترس ہی میں آ رہی ہوں

اور اپنی آنکھوں سے بے یقینی ہٹا رہی ہوں

 

وہ میرے ہونٹوں کو مسکرانا سکھا رہا ہے

میں اس کو خوابوں میں رنگ بھرنا سکھا رہی ہوں

 

نظر کے آگے سے سارے پردے ہٹے ہوئے ہیں

میں خوشبوؤں کی برہنگی دیکھ پا رہی ہوں

 

عیاں تو ہونے تھے سارے اسرار آج مجھ پر

میں ارتقاؤں میں اپنا حصہ بٹا رہی ہوں

 

اتار پھینکوں گی آج شانوں سے بوجھ سارے

پروں میں تازہ لہو کی گردش سی پا رہی ہوں

 

اُبھر رہی ہوں، بکھر رہی ہوں، نکھر رہی ہوں

سو اپنی ناکامیوں سے ہی فیض پا رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

درد کا سمندر ہے، خواہشوں کا ریلا ہے

زندگی کا میلہ بھی کس قدر جھمیلا ہے

 

ساتھ ساتھ رہ کر بھی دوریاں مقدر تھیں

فاصلوں پہ جل جائیں، درد یہ بھی جھیلا ہے

 

جیت بھی ہماری ہے، ہار بھی ہماری ہے

اب کی بار ہم نے بھی ایسا کھیل کھیلا ہے

 

کاش ایسا ہو جاتا، کاش ویسا ہو جائے

آرزو کے جنگل میں دل کہاں اکیلا ہے

 

لطف تھا اذیت میں، کیف بے قراری میں

اب مگر محبت کا درد کچھ نویلا ہے

 

بوند خون کی بن کے صائمہ رگوں میں تھا

ہو گیا ہے جب آنسو، آنکھ نے دھکیلا ہے

 

 

 

 

 

نظم

 

سیدھی سادی باتوں کی

اک گتھی سلجھانا دوست

ہم بھی کوشش کر دیکھیں گے

تم بھی یاد نہ آنا دوست

اتنا ہے سمجھانا دوست

وقت کی ظالم دلدل میں

ہمدردوں کے چُنگل میں

انسانوں کے جنگل میں

تم بھی کھو نہ جانا دوست

اتنا ہے سمجھانا دوست

جب آنکھیں بوڑھی ہو جائیں

گزرے موسم میں کھو جائیں

جگنو سے اک ساتھی کو

آنکھوں میں بھر لانا دوست

اتنا ہے سمجھانا دوست

جب کوئی تم میں بس جائے

سانس کی ڈور میں پھنس جائے

تو پھر دل کی گہرائی سے

دامن کو پھیلانا دوست

اتنا ہے سمجھانا دوست

جب سارے نشتر سہہ جاؤ

آنکھوں کے رستے بہہ جاؤ

اور بالکل تنہا رہ جاؤ

بس آواز لگانا دوست

اتنا ہے سمجھانا دوست

٭٭٭

 

 

 

 

پھر وہی قصۂ الفت نہ سناؤ، جاؤ

سبز ہو جائے گی پھر کونپلِ گھاؤ، جاؤ

 

آگہی کرب میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے

بے خبر آنکھ کو دنیا میں گھماؤ، جاؤ

 

ہاتھ زخمی ہیں مرے کرچیاں چن چن کے عبث

اور اب خواب نہ آنکھوں کو دکھاؤ، جاؤ

 

دل کی دھرتی میں تو بنیادِ وفا رکھ دی ہے

اب گھروندہ کسی ساحل پہ بناؤ، جاؤ

 

آپ سے شکوۂ بے نام سنبھالا نہ گیا

اور سہہ لوں میں کڑے طنز کا تاؤ، جاؤ

 

عشق کا روگ دواؤں سے کہیں جاتا ہے

کوئی ٹونا کوئی تعویذ کراؤ، جاؤ

 

پُر اثر آہ بنانا کوئی آساں تو نہیں

پہلے سینے میں کوئی درد سماؤ، جاؤ

٭٭

 

 

دل، تمنائیں، دستِ دعا اور ہم

اتنی شدت سے مانگیں گے کیا اور ہم

 

احتجاجی صدا زیرِ لب تھی ابھی

چیر ڈالے گئے ہیں ردا اور ہم

 

آج آنچل گلابوں سے لڑ جائے گا

گھر کو مہکائیں دستِ صبا اور ہم

 

اب شفق کی بھلا پیش کیا جائے گی

سرخ تر ہے مآلِ حیا اور ہم

 

ان سنے رہ گئے لفظ بولے ہوئے

رہ گئی رائے گاں ہر صدا اور ہم

 

آ گئے وہ اگر پر سشِ حال کو

اور بہکے گی پگلی ہوا اور ہم

 

چاہے مہکیں نہ مہکیں مگر صائمہ

خوب گہرے ہیں رنگِ حنا اور ہم

٭٭٭

 

 

محبت کے تیور ہیں کتنے نرالے

ابھی سے سنبھلتا نہیں دل سنبھالے

 

جو دل کے مکیں ہیں انہی کو خبر ہے

اتارے ہیں کتنے پُر آسیب جالے

 

کھڑے ہیں ابھی تک اسی راستے پر

کہ اب بھی وہ شاید پلٹ کر منا لے

 

اطاعت محبت میں ہے شرطِ اول

تو بس اس کی مرضی نکالے، بلا لے

 

رعونت ٹپکتی ہے اک اک ادا سے

کوئی تو ذرا ان کے کس بل نکالے

 

ہیں سب صائمہ کیف و مستی میں بے خود

یہ ماتھے کا جھومر یہ کانوں کے بالے

٭٭٭

 

 

 

 

تیری نظر کا مجھ کو پیغام کب ملا ہے

میرے دلِ حزیں کو آرام کب ملا ہے

 

تازہ مہاجرت کا قصہ ہے مختصر سا

ان کے نگر میں دل کو آرام کب ملا ہے

 

مصلوب اب نہ ہوں گے یہ عہد کر لیا ہے

سچ بولنے پہ کوئی انعام کب ملا ہے

 

کردار جس میں سارے ہوں سر کشی پہ مائل

ایسی کہانیوں کو انجام کب ملا ہے

 

دھڑکا رہے گا دل کو شب خون کا کہ ان کی

آنکھوں سے آشتی کا پیغام کب ملا ہے

 

جولانیاں کہاں ہیں اب وہ طبیعتوں میں

پھر عشق کا سا دل کو ہنگام کب ملا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

اک آہ بھیج دی گئی بارش میں گھول کر

گویا کہ لگ گئی ہے جھڑی اشک و آب کی

بہرِ سفر نکل پڑا وہ منزلوں کا میر

ڈھونڈو کو ئی نظیر مرے ہم رکاب کی

٭٭٭

 

 

 

 

حرف گونگے ہو گئے، قرطاس بنجر ہو گیا

کیا کریں تدبیر، پانی سر سے اوپر ہو گیا

 

مان سے جس دم تری چوکھٹ پہ پاؤں دھر دیا

بس اسی پل سے مکاں تیرا، مرا گھر ہو گیا

 

منتظر تھی میں، ہمہ تن گوش تھی، کچھ بولتے

اس خموشی سے مرا پندار پتھر ہو گیا

 

پونچھتے بر وقت ان آنکھوں کو دھندلاتی نمی

اب تو کہرِ غم میں غائب سارا منظر ہو گیا

 

صائمہ اک جذبۂ صادق ہمیں درکار تھا

سب بلائیں ٹل گئیں، کوہِ جنوں سر ہو گیا

٭٭٭

 

 

 

 

کہیں اندر سے گھائل ہو رہی ہوں

ہے اتنا درد پاگل ہو رہی ہوں

 

اسیری سے محبت کم ہوئی ہے

میں پروازوں پہ مائل ہو رہی ہوں

 

ابھی سے آنکھ میں چبھتے ہیں کنکر

ترے منظر میں شامل ہو رہی ہوں

 

تپش آنے لگی صدیوں پرے سے

تری اے عشق! قائل ہو رہی ہوں

 

لپیٹے تن پہ اک اجلا سویرا

میں گہری شب میں داخل ہو رہی ہوں

 

کہیں یہ لفظ بھی نہ روٹھ جائیں

کہ اب ان تک سے غافل ہو رہی ہوں

 

رہا تکمیل کا سا واہمہ کل

مگر اب جا کے کامل ہو رہی ہوں

 

رگوں میں نیلگوں سے رتجگے ہیں

ترے رنگوں پہ مائل ہو رہی ہوں

 

بہت خیرات بانٹی صائمہ اب

میں خود اک در پہ سائل ہو رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

دکھ کچھ ایسے لڑ جاتے ہیں

آنسو بھی کم پڑ جاتے ہیں

 

کوئی دعائیں روک رہا ہے

بنتے کام بگڑ جاتے ہیں

 

نم آنکھوں میں پڑے رہیں تو

سپنے بھی گل سڑ جاتے ہیں

 

ٹھوکر پہ رکھتے ہیں دنیا

دل جب ضد پر اڑ جاتے ہیں

 

دیکھ کے اس کی منکر آنکھیں

لفظ لبوں میں گڑ جاتے ہیں

 

ہجر نہیں پت جھڑ ہے جس سے

یونہی پیڑ اجڑ جاتے ہیں

 

آنکھ میں وحشت کی پہنائی

دیکھ کے دشت سکڑ جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

نوحہ

 

احترامِ ردا کی بات نہ کر

تجھ ہوس زاد کو نہیں ملحوظ

حیف عصمت یہ بنتِ حوا کی

بعد مرنے کے بھی نہیں محفوظ

٭٭٭

 

 

 

 

 

وطنِ عزیز کے ایک گوشے میں روح کو جھنجھوڑ دینے واقعے پر قلم برداشتہ

 

 

اتار کر نگہِ یاس مسکرانا ہے

اداس چہروں کو کچھ حوصلہ دلانا ہے

 

جدائیوں کو زمانے گزر گئے اب تو

یہ یاد بھی نہ رہا، یاد اُس کو آنا ہے

 

ہتھیلیوں پہ دھری ہے ابھی دعا میری

اسی نے اب تو کوئی معجزہ دکھانا ہے

 

کوئی تو ہے جو مری بات کو سمجھتا ہے

سمجھ گیا وہ مری بات، آزمانا ہے

 

انہیں تو خوں کا تعلق بھی بار لگتا ہے

ہمیں تو رشتۂ بے نام بھی نبھانا ہے

 

وفورِ شوق میں آگے نکل گئے اتنا

یہ یاد ہی نہ رہا لوٹ کے بھی آنا ہے

 

نکل کے دل سے مرے جاؤ گے کہاں آخر

کہو کیا اس کے سوا بھی کوئی ٹھکانہ ہے

 

بکھر کے رہ گیا اک رنجشی بگولے سے

سمجھ رہے تھے کہ مضبوط آشیانہ ہے

 

وہ آج لوٹ بھی آئے اگر تو کیا حاصل

کہ اب مجھے تو کسی اور سمت جانا ہے

 

بدن میں بہتا ہوا درد کیسے بہلاؤں

ابھی دھڑکتا ہوا گھاؤ بھی چھپانا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کیا خبر تھی یہ کہ جنگل ہنستا بستا چھوڑ کر

ساتھ میرے چل پڑے گا اپنا رستہ چھوڑ کر

 

کتنے بنجر رابطوں کے کرب سے گزریں مزید

اب تووہ ہمت ملے، بڑھ جائیں یکتا چھوڑ کر

 

لفظ آوارہ بھی تھے، گونگے بھی اور بے فیض بھی

سو میں دامن جھاڑ کے اٹھ آئی تکتا چھوڑ کر

 

سامنے امکان کے سب موسموں کی دھول ہے

اب وہ بت ٹوٹے گا یا بولے گا سکتہ چھوڑ کر

 

صائمہ کچھ ہو نیا پن زندگی پر منکشف

تازگی کا کیف اوڑھیں، پہنا برتا چھوڑ کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

اک نیا حشر پھر اٹھائے گی

شبنمی رُت بہت رلائے گی

 

دن بھی رازوں کو سینت رکھے گا

رات بھی بھید کچھ چھپائے گی

 

ہم نہیں ہیں وہ جن کے دامن پر

بے بسی خاک ڈال جائے گی

 

یہ زمیں زرد رُت کی عادی ہے

سرخ موسم بھی جھیل جائے گی

 

تو اگر ساتھ چل پڑے میرے

زندگی معجزہ دکھائے گی

 

اب تری آنکھ ہی مجھے تیری

سوچ کے زاویئے دکھائے گی

 

قید گر کر بھی دو اندھیرے میں

روشنی روزنوں سے آئے گی

 

کھو دیا گر یہ لمحۂ بیدار

نیند شہ رگ کو کاٹ کھائے گی

 

زندگی تو نے مار ڈالا ہے

تو ہی جینے کے گر سکھائے گی

 

اپنی ہمت کو سینچتی لڑکی

تم سمجھتے تھے ٹوٹ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

تھام لیں کس نے زیست کی باگیں

روک رکھا ہے اس کہانی کو

میرے اللہ مختصر کر دے

آزمائش یا زندگانی کو

٭٭٭

 

 

 

 

کیسی کج رو ہے آبنائے عشق

راہ خود ہی کوئی سجھائے عشق

 

عقل کو پاسبان رکھتے ہیں

اب جڑوں سے ذرا ہلائے عشق

 

سارا عالم ہے عشق میں پنہاں

اُس کی ہستی ہے ماورائے عشق

 

خوں میں اجداد کی وراثت کو

جس طرح چاہے آزمائے عشق

 

رہ گئی آنچ بھر کسر باقی

توڑ کر پھر مجھے بنائے عشق

 

خود ہی شق کر دے سینۂ ہستی

اور خود تالیاں بجائے عشق

 

صائمہ جسم رہ گیا خوشبو

روح نے اوڑھ لی ردائے عشق

٭٭٭

 

 

آنکھ کو کچھ تو خواب موسم دے

پھر جو چاہے عذاب موسم دے

 

زرد سپنے تیاگ دوں، پہلے

پت جھڑوں کا حساب موسم دے

 

سب ہوا بھید کھول دیتی ہے

چاہے کتنا سراب موسم دے

 

میں بھی اپنا اسے حوالہ دوں

کچھ تعارف جناب موسم دے

 

آج آ جائے وہ اگر مولا

میرے گھر تو سحاب موسم دے

٭٭٭

 

 

 

 

صرف لفظی امان مت دینا

دَم نہیں تو زبان مت دینا

 

ترکِ الفت کو میں بھی سہہ لوں گی

اور تم بھی دھیان مت دینا

 

مانگ بھی لوں اگر محبت میں

تم مری جان! جان مت دینا

 

دھوپ گر چھین لی ہے آج اس نے

تم بھی کل سائبان مت دینا

 

شہر سلگا ہوا ہے کچھ دن سے

کوئی تازہ بیان مت دینا

٭٭٭

 

 

 

کاش

 

کاش اس طرح ہوتا

راستے بدلنے سے

منزلیں بدل جاتیں

آس کے درختوں پر

ناسمجھ پرندوں کے

پھر سے لوٹ آنے کی

خواہشیں بھی جل جاتی

٭٭٭

 

 

دلوں میں برف سی جمنے لگی ہے

لہو میں ہی وفاؤں کی کمی ہے

 

مرے کانوں میں جو رس گھولتی ہے

کسی کی گفتگو کی چاشنی ہے

 

ہویدا ہے ترے چہرے سے اب بھی

محبت ماورائی روشنی ہے

 

تری آنکھوں میں بھی خاموشیاں ہیں

مری باتوں میں بھی بے ربطگی ہے

 

عذابوں میں اضافہ ہی کرے گا

یہ جو تیرا شعورِ آگہی ہے

 

ہمیں جھیلیں گے اس کا سب خسارہ

یہ طرزِ فکر ہم نے خود چنی ہے

 

عطا کر دی ہے وجہِ زندگانی

مرا رب صائمہ کتنا غنی ہے

٭٭٭

 

 

نقص کچھ ایسا تھا اس شہر کی بینائی میں

طاق ہونا ہی پڑا مجھ کو شکیبائی میں

 

کب اجازت تھی کہ تعبیر کے سپنے دیکھوں

خواب دفنا دئیے سب آنکھ کی گہرائی میں

 

اس کی خوشبو بھی چلی آتی ہے موقع پا کر

کھول دیتی ہوں میں در ذات کا پُروائی میں

 

اک ذرا حوصلہ اے ڈوبتے سورج، مانا

اک جہاں کھویا رہا ہے تری پہنائی میں

 

پہن لیتی ہے ہر اک بہن یہ رنگیں عینک

غیر ممکن ہے خرابی ہو مرے بھائی میں

 

اس کے کمرے سے میں اک پھول چُرا لائی تھی

یوں وہ شامل ہے مرے حسن میں، رعنائی میں

 

یہ تو سوچا بھی نہ تھا آپ سے پیماں ہوں گے

بات بڑھ جائے گی دو دن کی شناسائی میں

 

مجھ سا انمول رتن ہار کے خود بھی تاعمر

خرچ ہوتا رہا نقصان کی بھرپائی میں

 

صائمہ رسم بنا لی ہے یہ مہجوروں نے

ورنہ کیا سکھ ہے بھلا بادیہ پیمائی میں

٭٭٭

 

 

 

 

من کے کالے پن پہ اجلا تن لبادہ کر لیا

دوستو ہم نے بھی جینے کا ارادہ کر لیا

 

اِس قدر عاجز ہوا وہ مستقل اصرار سے

اُس نے آخر حشر میں ملنے کا وعدہ کر لیا

 

جب تصنع کی تھکن رشتے میں در آنے لگی

اس نے گھر اور میں نے اپنے دل کو سادہ کر لیا

 

آج لوٹا دیں گے جو کچھ بھی ہمیں سونپا گیا

قرض خواہو آؤ، ہم نے دل کشادہ کر لیا

 

وہ تو وہ ہے، سائباں بھی ہے خفا اس شہر کا

چھاؤں سے پل بھر جو اس کی استفادہ کر لیا

٭٭٭

 

 

 

 

قطعہ

 

وقتِ تعبیر کیوں تیاگ دیا

خواب جو اوڑھنا، بچھونا تھا

تو بھی نکلا روایتوں کا اسیر

تو بھی میری طرح کھلونا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

خواب دھنستے ہیں یہاں آنکھ ہے دلدل کی زمیں

دل پہ دھر پاؤں تو مل جائے گی مخمل کی زمیں

 

کیسی سنگلاخ چٹانوں پہ مجھے لا ڈالا

جانتا تھا کہ مجھے راس ہے ململ کی زمیں

 

سوچ لے مجھ سے بچھڑ کر توجڑے گا کس سے

میں تو اگ جاؤں گی آنگن ہو کہ جنگل کی زمیں

 

خوشبوئیں ہی تو بتائیں گی، تمہیں میرا پتہ

تھی اقامت کو میسر کبھی صندل کی زمیں

 

آج تک اس کے ازالے میں جھلستے ہیں قدم

تیری چھاؤں میں ملی تھی کبھی دو پل کی زمیں

 

صائمہ غیر ارادی سی اجازت پا کر

عشق لے آیا ہمیں ہجرِ مسلسل کی زمیں

٭٭٭

 

 

 

 

جب اک آنسو دعاؤں میں گھلے گا

مرا مالک ترا دل پھیر دے گا

 

بڑی معصوم سی یادیں سنبھالے

دیئے کے ساتھ دل شب بھر جلے گا

 

سمندر بھول کر ساحل کی حالت

یونہی گہرائی میں کھویا رہے گا؟

 

اب ان باتوں سے آخر فائدہ کیا

شکستہ آئینہ کیسے جڑے گا

 

خوشی سے ناچ اٹھیں گی یہ آنکھیں

تمھارا خواب جب ان میں سجے گا

 

بسالی دل میں یہ جھوٹی تسلی

گزرتا وقت مٹھی میں رکے گا

 

تمھاری آشنا خوشبو کے پیچھے

کوئی آنکھوں کو موندے چل پڑے گا

 

انہی خوش فہمیوں میں جی رہے ہیں

ہمیں وہ بھول کر کب جی سکے گا

 

وہی ہے صائمہ محور سخن کا

یہ کب سوچا کہ کوئی کیا کہے گا

٭٭٭

 

 

 

 

دل بدر کر نہ یوں بہانے سے

ہم نکل جائیں گے فسانے سے

 

تو بھی حصہ ہے اس تعلق کا

میں ہی کب تک لڑوں زمانے سے

 

شست باندھیں سکون سے صاحب

میں نے ہٹنا نہیں نشانے سے

 

کیا یہ لازم ہے آپ ہی کی طرح

ہم بھی مر جائیں جان جانے سے

 

ہم کو الفت اسیر کر لے گی

جانتے تھے یہ تم زمانے سے

 

موتیا جل گیا تری خوشبو

میرے آنگن میں پھیل جانے سے

 

دستبردار ہو بھی سکتے ہیں

صائمہ تم کو آزمانے سے

٭٭٭

 

 

مان

 

اتنا سوچ لینا تھا

مان اور بھروسے کے

نازک و سبک تن پر

مصلحت کی ضربوں سے

کیسی کلفتیں ہوں گی

ایک بدگمانی سے

کیسی رنجشیں ہوں گی

کتنے درد بخشے گا

جھوٹ کا تسلسل جو

زندگی پہ طاری ہے

جان بوجھ کر تم نے

اپنے پاؤں کاٹے ہیں

اپنی جنگ ہاری ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

موجِ تغیر رنگ گزیدہ

میں ہوں ہم آہنگ گزیدہ

 

کیا یہ کبھی ہنس بھی پائے گا

شہر تمھارا جنگ گزیدہ

 

اب بے رنگی میں ہی خوش ہے

چنری میری رنگ گزیدہ

 

یاس کا چولا پہن لیا ہے

ہم ہیں شوخ و شنگ گزیدہ

 

سہج سہج کر چلتے ہیں اب

شہرِ فسوں کے ڈھنگ گزیدہ

 

گہرے رنگوں میں مت ڈالو

ہو جاؤ گے بھنگ گزیدہ

 

پتھرائی آنکھوں سے پوچھو

کیا ہوتا ہے سنگ گزیدہ

 

شہرِ طلسم سے پلٹی تو وہ

ہو گیا دیدۂ دنگ گزیدہ

٭٭٭

 

 

 

 

لا تعلق، بے حس و بے جان ہیں

دل ہمارے گویا قبرستان ہیں

 

بے نشاں منزل اچانک مل گئی

اپنی خوش بختی پہ ہم حیران ہیں

 

دوستی، شوخی، سخن وارفتگی

آج ہونٹوں پر کھلے پیمان ہیں

 

قید کر لیں پرسکوں منظر کوئی

بے سکوں آنکھوں کے کچھ ارمان ہیں

 

آپ سے بھی عہد شکنی ہو گئی

آپ بھی تو آخرش انسان ہیں

 

آپ کو پختہ یقیں ہے ہار کا

مجھ کو کافی جیت کے امکان ہیں

 

صائمہ جس کے لئے ہے اہتمام

آپ ہی تو خاص وہ مہمان ہیں

٭٭٭

 

 

اسے یوں سوچنا اچھا کہاں ہے

جو قسمت میں نہ ہو ملتا کہاں ہے

 

لبوں سے چاشنی ٹپکی ہے بے شک

مگر وہ مہرباں لہجہ کہاں ہے

 

وہ مرہم لفظ عنقا ہو چکے ہیں

دلاسے ڈھونڈتا پھرتا کہاں ہے

 

بڑھا کر ہاتھ چھو سکتی ہوں تجھ کو

فلک اونچا ہے پر اتنا کہاں ہے

 

خوشی کا روز رستہ دیکھتی ہوں

یہ دل خوش باش رُت بھولا کہاں ہے

 

تمھیں ناحق ہے امیدِ عدالت

کہ منصف شہر کا بینا کہاں ہے

 

ہے کیا تقصیر بے رنگ خواہشوں کی

تمھارا رنگ ہی گہرا کہاں ہے

 

ابھی تو آزمائش آ رہی ہے

اے میرے دوست تو جاتا کہاں ہے

 

اسے بھی صائمہ احساس ہو گا

کہ اب کی بار وہ الجھا کہاں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساتھ

 

کچھ ایسے ساتھ ہوتے ہیں

کہ جن میں باک ہوتا ہے

قریں ہو کر بھی دوری کا

کوئی احساس ہوتا ہے

کہ جیسے چاند اور سورج

فلک پہ ساتھ رہتے ہیں

مگر جو پھول ہیں دل کے

کبھی وہ کھل نہیں سکتے

وہ دونوں مل نہیں سکتے

٭٭٭

 

 

 

 

خدا کے بندو! یہ وحشت زدوں سی خو کب تک

ہراس پھیلتا جائے گا چار سو کب تک

 

اس آسرے پہ کہ منصف ادھر سے گزرے گا

سڑک پہ پھیلا رہے گا مرا لہو کب تک

 

کبھی تو ذہن کی دھرتی سے سر اٹھائے گی

رہے گی فکر مری تخمِ بے نمو کب تک

 

یہ میں تو میں ہوں مجھے خاک بھی گوارا ہے

یہ دیکھنا ہے کہ باقی رہے گا تو کب تک

 

سراب جیسا تھا تجھ سے وہ درد کا رشتہ

تو خشک آنکھ میں ڈھونڈے گا آب جو کب تک

 

جو خواب بھی نہ رہا آنکھ میں تو کیا ہو گا

دہائی دے گا مرا شہر آرزو کب تک

 

خدایا اس کی نظر دل تلک پہنچ جائے

وگرنہ کوئی رہا ایسے خوب رو کب تک

٭٭٭

 

 

درد کو دل سے ہم کنار نہ کر

یوں مراسم کو تار تار نہ کر

 

دے فقط لذتِ تخیلِ یار

تو عنایات بے شمار نہ کر

 

ہر دفعہ جیتنا ضروری ہے؟

ہار کو یار دل پہ بار نہ کر

 

جو کہانی تھی نذر کر دی ہے

تو نہ چاہے تو اعتبار نہ کر

 

صائمہ دھڑکنوں کا مدفن ہو

دل کو اس درجہ بے قرار نہ کر

٭٭٭

 

 

 

تیری دنیا میں کہاں روح سمائی میری

کہکشاؤں کے جہاں تک ہے رسائی میری

 

کبھی آنکھوں نے تری راستہ دکھلایا ہے

دلِ مضطر نے کبھی بات بنائی میری

 

گونج اسباب میں تم باندھ کے لے آئے تبھی

دور تک دی تمھیں آواز سنائی میری

 

آپ تو لفظ پہ ایمان ہی لے آئے ہیں

دیکھ لیتے مرا لہجہ وہ ادائی میری

 

سب لکیروں نے مجھے مل کے بدھائی دی ہے

تھام لی اس نے ہتھیلی جو حنائی میری

 

آج تیزاب سے پھر پھول کوئی جھلسا ہے

حیف کس طرح جئے صنفِ نسائی میری

 

اس زمیں زاد کے تیور تھے چٹانوں جیسے

خاک میں رہتے ہوئے خاک اڑائی میری

 

عشق کیوں میرے ہی سینے میں پنپنا ہے تجھے

یہ بتا تجھ کو ادا کون سی بھائی میری

 

کوئی نکلا ہے مجھے ڈھونڈنے ستاروں میں

چاند سے جھانکتی ہے آبلہ پائی میری

 

آج دشوار مسافت کا گلہ ہے تجھ کو

تو نے بستی ہی بڑی دور بسائی میری

 

مجھ سے ملبوس کی خوشبو تو کرے گی مسحور

صندلیں ہاتھ نے جو کی ہے بُنائی میری

٭٭٭

 

 

 

اپریل فول

 

وہ بھی کتنی پاگل ہے

اب بھی بھیج دیتی ہے

کچھ سوال جیون کے

اور خواب آنکھوں کے

اس دھڑکتے پتھر کو

جو سمجھتا آیا ہے

ہر برس کا ہر لمحہ

اک فقط یکم اپریل

٭٭٭

 

 

 

 

مجھ کو اعزاز یہ بھی حاصل ہے

وہ مرے دوستوں میں شامل ہے

 

ایک دوجے سے کیوں نہ رغبت ہو

میری کشتی ہے، اس کا ساحل ہے

 

تیورِ قیس ہیں جدا ورنہ

وہی لیلیٰ ہے وہ ہی محمل ہے

 

اس سے سر پھوڑنا رہا بے سود

اس کے سینے میں برف کی سل ہے

 

اس کی حرمت متاعِ ہستی ہے

راز کا انکشاف مشکل ہے

 

یہ جوالا سا ہے جو سینے میں

لوگ کہتے ہیں یہ مرا دل ہے

 

آج وہ شوخ دھج سے نکلا ہے

صائمہ آج چاند کامل ہے

٭٭٭

 

 

روح پر جو خمار طاری ہے

کوئی فیضان دل پہ جاری ہے

 

سب رجز جانئے گئے بیکار

قوم سننے کی حس سے عاری ہے

 

آج یونہی بچھڑ گیا کوئی

آج کی شام دل پہ بھاری ہے

 

ایک ہوتا تو دیکھتے لیکن

شہر کا شہر ہی مداری ہے

 

سسکیوں کی سہی صدا ہو کوئی

شہر پر کیوں سکوت طاری ہے

 

لفظ ہوں گے کسی کے ممکن ہے

لیکن آواز تو تمھاری ہے

 

منہ کے لقمے بھی مانگ لیتا ہے

میرا حاکم بڑا بھکاری ہے

٭٭٭

 

 

 

جفا کے مسترد تم سارے الزامات کرتے ہو

نہیں گر حوصلہ کیوں دوستی کی بات کرتے ہو

 

اگر سورج ہو تو پھیلاؤ اپنی روشنی یہ کیا

جہاں سے تم نکلتے ہو، وہیں پر رات کرتے ہو

 

بہت حساس ہو لیکن مزاجوں کے تلون میں

ہمارے شہر کے موسم کو بھی تم مات کرتے ہو

 

ہمی اک کج روش ہیں، بے وفا ہیں اور بس اک تم

فرشتہ ہو جو ہر اک کام بالکل راست کرتے ہو

 

تمھیں اتنا بتانا ہے کہ تم آوارہ بادل ہو

گزرتے ہو کہیں سے اور کہیں برسات کرتے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

بوجھل نگاہ کو ہی سہارا بنایئے

بہر تماشہ کوئی نظارہ بنائیے

 

منزل کی فکر بعد میں کر لیں گے ہم جناب

پہلے تو سامنے کوئی رستہ بنائیے

 

پھر ہم سے بے وفائی کی امید ہو تو ہو

جا کر کسی کو عکس ہی خود سا بنائیے

 

آنکھوں سے بہہ رہا ہے جو سیلابِ بے بہا

اس کے لیے خیال میں صحرا بنائیے

 

بے ربط پھیلتا ہی رہا ہے یہ ہر طرف

اس شہر کے لئے کوئی نقشہ بنائیے

 

لفظوں سے غم کو بانٹ رہے ہیں جناب، گر

لہجہ بھی غمگسار کے جیسا بنائیے

 

آنکھوں سے پھوٹنے لگیں جب خواب وصل کے

دل کو تپا کے ہجر میں سونا بنائیے

 

گہنا گیا ہے جبکہ ترے آسماں کا چاند

خود کو کسی کی آنکھ کا تارا بنائیے

 

گھر بھر بنا لیا ہے جو رونق کے واسطے

تنہائی کے لئے کوئی گوشہ بنائیے

 

کٹ حجتی سے آپ تو پہلے ہی کر چکے

اب جائیے نہ اور تماشا بنائیے

 

سب بھید کھول دیتی ہیں غیروں کے سامنے

آنکھوں کے واسطے کوئی پردہ بنائیے

 

انسانیت کوئی صفت منتقل تو ہو

اجداد کا دوبارہ سے شجرہ بنائیے

 

شوخی بھی ساتھ چھوڑ گئی ہے کسی کے ساتھ

چلئے شرارتوں کا بھی کتبہ بنائیے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہاتھوں کو الزام نہ دینا

 

شب بھر چھپتے چھپاتے ہاتھ

اپنا فرض نبھاتے ہاتھ

جب جب ماہِ نو کو دیکھیں

راہِ طلب میں اٹھ جاتے ہیں

پر آنکھیں سنسان رہیں جب

حرف برائے نام رہیں جب

خالی ہاتھ کی بنجر دھرتی

کس کو کس سے مانگ سکے گی

ہاتھوں کو الزام نہ دینا

٭٭٭

 

 

 

 

رگوں میں بہتا ہوا دردِ لادوا کیا تھا

وہ عشق ہی تھا تو سر چشمۂ شفا کیا تھا

 

بہا کے لے گیا طوفان کوئی پل بھر میں

یہ عمر بھر کی ریاضت کا بلبلہ کیا تھا

 

بہت مہیب تھے جالے تمھاری یادوں کے

کھنڈر وجود میں کچھ ان کے ماسوا کیا تھا

 

ہمیں تو مار گئی ہے گھٹن درونِ بدن

تمھارے پاس یہ گنجینۂ صبا کیا تھا

 

دھڑکتے دل نے بہانہ بہم کیا ورنہ

تمھارے بعد بھی جینے کا سلسلہ کیا تھا

 

گیا وہ آنکھ کو رنگوں کے خواب پہنا کر

گلاب رُت میں وگرنہ دھرا ہوا کیا تھا

 

وہ میرا آئینہ، حیران سا رہا کچھ پل

مرے نقوش میں ایسا نیا نیا کیا تھا

٭٭٭

 

 

آنکھ میں گرد سی اُڑاتے ہیں

جاتے موسم بہت ستاتے ہیں

 

راہ تکتے ہیں مسکراہٹ کی

ہونٹ بے بات گنگناتے ہیں

 

صاف نیت ہو، صاف نظریں ہوں

اپنی پہچان خود بناتے ہیں

 

آج چوکھٹ پہ رہ گئیں آنکھیں

خواب آتے ہیں، لوٹ جاتے ہیں

 

سوچتی ہوں وہ میرے بعد آخر

انگلیوں پر کسے نچاتے ہیں

 

ہم سے پیمان سوچ کر کرنا

ہم جو کہتے ہیں، کر دکھاتے ہیں

 

آپ سادہ سی بات کے اکثر

نت نئے زاویئے دکھاتے ہیں

 

اور پھر ایک دن کہا اس نے

ہم تو تارے بھی توڑ لاتے ہیں

 

صائمہ جیت بھی تو سکتی ہے

آؤ بازی نئی لگاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

کیا خبر تھی یوں اچانک ہی جدا ہو جائے گا

دیکھتے ہی دیکھتے وہ کیا سے کیا ہو جائے گا

 

اِس کڑکتی دھوپ میں یہ سوچ کر پاس آئی تھی

مہرباں ہے وہ، مرے سر پر ردا ہو جائے گا

 

اک نگاہ ناز پر ہم حالِ دل کہتے نہیں

داستاں سن کر طبیعت آشنا ہو جائے گا

 

تھی لگن سچی تبھی تو بے رخی کے باوجود

اس کا ایماں تھا میرے لب کی دعا ہو جائے گا

 

مجھ کو رہبر کی ضرورت ہی نہیں ہے صائمہ

خود خیالِ یار بڑھ کر رہنما ہو جائے گا

٭٭٭

 

 

 

 

سب کی آنکھوں میں مرے دل کی نمی جائے گی

زندگی اب اِسی انداز سے کی جائے گی

 

ہو قلمکار کی غیرت کو گوارا کیوں کر

لفظ کو خود کشی کرنے نہیں دی جائے گی

 

صرف برسات تباہی پہ نہیں ہے معتوب

گوشمالی تو ہواؤں کی بھی کی جائے گی

 

عشق دربار ہے یہ تیری عدالت تو نہیں

کہ جہاں دل سے گواہی نہیں لی جائے گی

 

تم پکارو تو سہی، فکرِ جہاں رہنے دو

دل سے نکلے گی اگر، دل سے سنی جائے گی

 

غیر محسوس سے بندھن کو نبھانے کے لیے

ڈور احساس کے ریشم سے بُنی جائے گی

 

ہو گیا نذرِ خزاں بوڑھا شجر آنگن کا

صائمہ پھر بھی کہانی تو کہی جائے گی

٭٭٭

 

 

اشتباہ

 

محبت ساز ہوتی ہے

سنہرا راز ہوتی ہے

محبت دو دلوں کے بیچ

اک آواز ہوتی ہے

محبت جسم ہو جاتی

الگ اک قِسم ہو جاتی

تنِ مردہ جلانے والا

کوئی اسم ہو جاتی

تو ہم بھی خاک ہو لیتے

کسی نوخیز جذبے کی طرح

بے باک ہو لیتے

بدن کے پیرہن سے

عمر بھر کو پاک ہو لیتے

مگر یہ جان لیں پہلے

محبت ہو بھی پائی ہے

سرابوں کے لئے یا بس

یہ ساری جگ ہنسائی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کرے آلودہ جو انساں کی حرمت

جہنم میں گئی ایسی محبت

 

جو چنگاری مرا دامن جلا دے

رکھوں میں اس سے کیوں صاحب سلامت

 

نہ کہتے کچھ، نگاہیں ہی جھکاتے

کہیں سے تو نظر آتی ندامت

 

کسی کو بعد میں الزام دینا

تُو، پہلے جانچ تو لے اپنی نیت

 

ہے تُو کیا؟ دوست ہے؟ ہمدم کہ ساتھی؟

تو کیوں سنتے رہیں تیری شکایت

 

گھڑی بھر کی خوشی دکھلا رہی ہے

صفر ہوتی ہوئی ساری ریاضت

 

اسی سادہ مزاجی نے ڈبویا

بھلا کس کام کی ایسی شرافت

 

دلِ نادان اب تو باز آ جا

اٹھائے جا رہا ہے کیوں ہزیمت

٭٭٭

 

 

 

 

دل و نگاہ کی رعنائیاں سمجھ لینا

میرے خیال کی گہرائیاں سمجھ لینا

 

جواب دو یا نہ دو تم پہ منحصر لیکن

میرے سوال کی سچائیاں سمجھ لینا

 

کسی بھی صاحبِ ادراک کی جسارت کو

جو چاہو تم تو خود آرائیاں سمجھ لینا

 

فلک سے ہوتی ستاروں کی زر فشانی کو

تمھاری بھول تھی رسوائیاں سمجھ لینا

 

سنائی دے جو کبھی صائمہ ہنسی کی کھنک

اسے وجود کی کٹھنائیاں سمجھ لینا

٭٭٭

 

 

 

 

نہ لالی نہ گہنے سے

حسن ہے تیرا رہنے سے

 

دل کی بات ضروری ہے

رہ نہیں سکتے کہنے سے

 

سہہ لیتے دکھ سارے گر

ہو جاتے کم، سہنے سے

 

درد بھی اب کچھ مدھم ہے

آنکھ سے بہتے رہنے سے

 

میرے فلک کی قسمت ہے

مہر و ماہ گرہنے سے

 

بند لبوں سے کہہ ڈالے

کیا کیا لفظ برہنے سے

٭٭٭

 

 

 

 

اُمید

 

جب کبھی

موسمِ گل میں تتلی کوئی

ہاتھ کی پشت پر

رنگ کی ان کہی داستاں چھوڑ کر

ان ہواؤں کی لہروں میں کھو جائے گی

جانتی ہوں تمھیں میری یاد آئے گی

٭٭٭

 

 

سنہری نیند سونا چاہتی ہوں

پرستانوں میں کھونا چاہتی ہوں

 

یہ شانے بوجھ ڈھوتے تھک گئے ہیں

میں اب موتی پرونا چاہتی ہوں

 

بڑی معصوم سی چاہت کا خوں ہے

جو اب دامن سے دھونا چاہتی ہوں

 

ترا آنا ہے، بے موسم کی بارش

دل و جاں کو بھگونا چاہتی ہوں

 

تمھارے دکھ بہت جھیلے ہیں میں نے

اب اپنے غم میں رونا چاہتی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

جسم جب درد کے صحراؤں سے بھر جاتا ہے

روح کا روپ ذرا اور نکھر جاتا ہے

 

اس کو یہ زعم کہ وہ چاہ کا چڑھتا دریا

مجھ کو یہ خوف چڑھا دریا اتر جاتا ہے

 

فقط آنکھیں ہی نہیں خواب بھی پتھراتے ہیں

جو بھی اس شوخ کے جادوئی نگر جاتا ہے

 

چاہتا ہے کہ مری ذات کے ہالے میں رہے

پھر مری قوتِ تسخیر سے ڈر جاتا ہے

 

اس کو مت چھیڑئیے ہو جاتا ہے چننا مشکل

وہ بگڑتا ہے تو اس طور بکھر جاتا ہے

 

صائمہ یاد دلانے سے بھلا کیا حاصل

وہ تو ہر بات سے فی الفور مکر جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک بہت پیاری دوست سے ملاقات

 

ایک مدت بعد اس کے گھر گئے

جسم و جاں اپنائیت سے بھر گئے

 

وہ بھی بانہیں وا کیے تھی منتظر

ہم بھی یادوں کے لئے لشکر گئے

 

روح تک میں چاشنی سی گھل گئی

گفتگو میں ذائقے سے بھر گئے

 

آ گیا اپنوں کی چاہت کا سوال

حرف سارے پانی پانی کر گئے

 

یہ شکایت بھی بجا ہی تھی کہ سب

بے وجہ الزام اس کے سر گئے

 

مصلحت کے نام پر اتنا گریز

حیرتوں کے کھلتے کتنے در گئے

٭٭٭

 

 

ہاتھ پر بکھری ہوئی تقدیر تھا

بہتے جھرنے کی مگر تفسیر تھا

 

آپ آئے تو سکوں آیا ہمیں

ورنہ کیسا خوف دامن گیر تھا

 

پنکھ ملتے ہی اُڑن چھو ہو گیا

دل جو برسوں سے ترا نخچیر تھا

 

اے طبیبِ عشق تیری خیر ہو

ساتھ تیرا ہی مجھے اکسیر تھا

 

منزلوں کو راستہ تکنا پڑا

راستہ خود پاؤں کی زنجیر تھا

 

اس کے کھو جانے کا کیوں ماتم کریں

جو کہ پانی پر لکھی تحریر تھا

 

صائمہ کس پر عتاب آنے کو ہے

آج میرِ شہر کچھ دلگیر تھا

٭٭٭

 

 

 

محبت

 

 

ہمارے جاننے والے

ہمیں پہچاننے والے

غموں سے چور ہو جائیں

محبت کے ستارے

یک بہ یک بے نور ہو جائیں

اگر دل تلخیوں کے بوجھ سے رنجور ہو جائیں

جوازِ زندگی کیا ہو

اگر وہ دور ہو جائیں

٭٭٭

 

 

 

 

کرم شیوہ، بھرم انداز اس کا

بنے گر کوئی محرم راز اس کا

 

وہ بام و در سے دل کی کہہ رہا ہے

تو کیا کوئی نہیں ہم راز اس کا؟

 

متاعِ جاں لٹی تو کیا تعجب

تھا وہ بھی، دل بھی نو سرباز اس کا

 

نگہ میں طنز، تلخی، بد گمانی

ہے سب بخشا ہوا اعزاز اس کا

 

ستارے ناموافق تھے کہ نیت

کھلا ہم پر یہ عقدہ شاذ اس کا

 

ہمیں یہ سوختہ سپنے بہت ہیں

ہو نیرو کو مبارک ساز اس کا

 

دریدہ پیرہن ہے دل کی مانند

وہی ہر جائی ہے بزّاز اس کا

٭٭٭

 

 

یوں نہ بھٹکیں اگر در بہ در کیا کریں

ہمسفر کے بنا، ہم سفر کیا کریں

 

وجہِ غم کی ہے اس کو خبر کیا کریں

پھر بھی اس پہ نہیں ہے اثر کیا کریں

 

کتنے شہکار تخلیق ہوتے مگر

کاٹ ڈالا ہے دستِ ہنر کیا کریں

 

اب تو تاریکیاں بخت تک آ گئیں

ڈھونڈ کر روشنی کا نگر کیا کریں

 

مضمحل دل کو مشکل سے راضی کیا

کاٹنی تو ہے عمرِ خضر کیا کریں

 

اک فسوں نے ہے ہر شے کو گھیرا ہوا

شہرِ یاراں ہے زِیر و زبر کیا کریں

 

ہجر میں خوشبوئے یار کافی ہمیں

مانگ کر اے خدا! بحر و بر کیا کریں

 

اب وہ شوقِ نظارہ کہاں صائمہ

اب جو آئے بھی وہ بام پر کیا کریں

٭٭٭

 

 

 

 

تم نے سن لی ہے ان کہی اپنی

دیدنی کیوں نہ ہو خوشی اپنی

 

تیرا دریا سراب جیسا ہے

اور صحرا سی تشنگی اپنی

 

وقت اب یہ بھی دیکھنا ہو گا

تم نے سہہ لی ہے بے رخی اپنی

 

کتنے پت جھڑ بِتائے ہیں لیکن

ہے سوا اب کے بے کلی اپنی

 

وقتِ رخصت یہ وقت بھی آیا

اس کی آنکھوں میں تھی نمی اپنی

 

صرف موزونیت نہیں کافی

فکر دیکھے تو آدمی اپنی

 

شبِ افتاد صائمہ گزری

آنکھ اب تک نہیں کھلی اپنی

٭٭٭

 

 

دن راتوں کا بھیدی ہے

 

جیسے تن میں سب کے من کے

میل چھپائے گنگا بہتی رہتی ہے

دن راتوں کا بھیدی ہے

پیوند وں سے بھری ردا پر

لہو کے کتنے دھبے ہیں

بجھنے والی ان آنکھوں نے

کچھ سپنے بن رکھے ہیں

بنجر اور چٹیل چوٹی نے

طوفانی موسم چکھے ہیں

ان سب کو بہلانا کیا

دستِ دعا پھیلانا کیا

قہر اترتا رہتا ہے

قسمت سوتی رہتی ہے

دن راتوں کا بھیدی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جب دشتِ جاں پہ دھوپ تنی تھی گمان کی

وہ چھاؤں لے کے چل دیا ہر سائبان کی

 

ہیں آج تو ہواؤں کے تیور ہی کچھ الگ

شاید وہ سن رہا ہے دلِ بے زبان کی

 

میرے سُخن میں تلخیِ دوراں ہے موجزن

میں عرض تب کروں کہ اماں پاؤں جان کی

 

کیا ہو گیا ہے اس نے جو رستہ بدل لیا

ہو خیر میرے یار، مرے بدگمان کی

 

فکر و سخن کی بات نہیں چھیڑئیے جناب

کب کوئی ناپ سکتا ہے وسعت گمان کی

 

ہم در سنبھالنے میں لگے تھے خبر نہ تھی

’’دیوار گر رہی ہے ہمارے مکان کی‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

میرا سرمایۂ جاں کوئی دوبارہ لا دے

چند لمحوں کو سہی ساتھ وہ پیارا لا دے

 

ایک ہی خواب نگاہوں نے مسلسل دیکھا

کوئی تو اب مجھے تعبیر کا مژدہ لا دے

 

اب تو سانسوں میں بھی در آئی ہے بارود کی بُو

جہاں محفوظ ہو انسان وہ قریہ لا دے

 

آج بھی جاگ کے راتوں کو دعا کرتی ہے

ماں کے جیسا مجھے احساس سنہرا لا دے

 

جو مجھے آبلہ پائی کی سعادت بخشے

وہ مرے عشق، مجھے دشتِ تمنا لا دے

 

جو مری ذات، مرے نقش مکمل کر دے

وہی پتھر، وہی مٹی، وہی گارا لا دے

 

ہو اجازت تو جیوں اپنے بدن میں کچھ پل

’’مرے بازو، مری آنکھیں، مرا چہرہ لا دے‘‘

 

عمر بھر ساتھ رہی ہوں میں نگہبانوں کے

آج تنہا ہوں تو اڑنے کا سلیقہ لا دے

٭٭٭

 

 

 

 

دور رہ کر تو نہ اس طرح سزا دے مجھ کو

تُو مرا ہے تو مرا ہو کے دکھا دے مجھ کو

 

تو مسیحا ہے تو پھر اپنے کمالات دکھا

تنِ مردہ ہوں نظر ڈال جِلا دے مجھ کو

 

لاکھ ٹکڑوں میں بکھر جاؤں مگر سچ بولوں

میرے معبود تو آئنہ بنا دے مجھ کو

 

ساتھ دینے کی اگر ہمت و توفیق نہیں

اپنا پیمان کسی طور بھلا دے مجھ کو

 

میں اگر مہرِ تمنا ہوں نزاکت سے سنبھال

ہوں سیہ بخت ستارہ تو بجھا دے مجھ کو

 

صائمہ جس کو سمجھ بیٹھی ہوں غم خوار و ندیم

کیا خبر کل وہی مٹی میں ملا دے مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

پھر سے …..

 

جانے کتنی صدیوں بعد

پھر کوئل کا گیت سنا

دھوپ بھی روشن ماتھا لے کر

بوسہ دینے آ پہنچی

پُروائی نے نرمی سے

یوں آنکھوں پہ دستک دی

میں پوری سچائی سے

لہرائی، مسکائی، ہنس دی

٭٭٭

 

 

 

 

دھوپ میں جس کے تغافل کی جلا کرتے ہیں

ابر، اس کے لئے پھیلا کے ردا کرتے ہیں

 

اب ہوئے قید تو جانا ہے اسیری کا عذاب

جا تجھے وعدوں سے، قسموں سے رہا کرتے ہیں

 

ہم بہت عام سے انساں ہیں مگر سچ کہنا

ہم سے انساں بھی کہیں روز ملا کرتے ہیں

 

کوئی دکھ ساتھ میں سہہ کر کبھی دیکھا ہوتا

غم کے رشتے بڑے مضبوط ہوا کرتے ہیں

 

چھوڑ کر جاتے ہو ہم کو تو چلے جاؤ مگر

ہم دعاؤں سے ابھی حشر بپا کرتے ہیں

 

درد سے پُر ہے مرا سینہ، سو لب بستہ ہوں

خالی برتن تو بہر حال صدا کرتے ہیں

 

ایسی مسموم ہوئی آب و ہوا شہروں کی

لوگ اب سانس بھی ڈر ڈر کے لیا کرتے ہیں

 

صائمہ ہار چکے تھے سبھی سی سی کے کفن

بس اسی واسطے اب ہونٹ سیا کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

میرا ہر رنگ جدا آپ کے اندازے سے

پیکرِ سوز اٹھے گا مرے شیرازے سے

 

سر جھکائے ہوئے گزرے ہیں گلی سے ورنہ

سب سنے، آپ جو کستے رہے آوازے سے

 

زندگی بھر جو اٹھاتا رہا دیوار اسے

آخرِ کار بنانے پڑے دروازے سے

 

اک شہادت بھی تسلی کے لئے کافی تھی

آپ نے دھر دیا الزام بس اندازے سے

 

قلعۂ دل بھی بھلا کتنا مزاحم ہوتا

پیش قدمی ہوئی ہر کھڑکی سے، دروازے سے

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی لازم ہے احترام کرو

مجھ سے شوریدہ سر کو رام کرو

 

یہ کہانی فقط محبت تھی

یوں نہ سفاک اختتام کرو

 

جی غنیمت ہے اتنی فرصت بھی

جو کبھی دور سے سلام کرو

 

شب گزاری ہے آج برزخ میں

آؤ، دن کو بھی اب حرام کرو

 

تم سے منسوب ہو کے اترائیں

کبھی ایسا بھی کوئی کام کرو

 

راز داری بہت ہوئی صاحب

اب کہانی کو وردِ عام کرو

٭٭٭

 

 

 

 

اگرچہ شہر عادی ہے تری جھوٹی نویدوں کا

مگر کچھ تو بھرم رکھتا مِرے رہبر امیدوں کا

 

مرا جی چاہتا ہے ہجو لکھوں آج میں کوئی

مگر جو میرا سامع ہے وہ عادی ہے قصیدوں کا

 

بہت مشکل میں ہے لیکن مرے دل کی دعا یہ ہے

’’پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا‘‘

 

جسے جنت کمانے کا وسیلہ ہم سمجھتے ہیں

مقدر بیچتا پھرتا ہے وہ اپنے مریدوں کا

 

طوافِ لقمۂ نانِ جویں کرتے رہیں کب تک

بنا کر رکھ دیا ہے کھیل لوگوں کے عقیدوں کا

 

لہو میں صائمہ غیرت کی تھوڑی سی تو لالی ہو

حیا رخصت ہوئی اور ڈھل گیا ہے، آب دیدوں کا

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھو گیا ذات کی گپھاؤں میں

وہ جو شامل تھا سب خطاؤں میں

 

سانس لینا محال کر دے گی

وقت کی گرد ہے فضاؤں میں

 

کیسے پاؤ گے میرے نقشِ قدم

پاؤں رکھتی ہوں میں ہواؤں میں

 

بار ہونا ہی تھا سماعت پر

شور برپا ہے بے نواؤں میں

 

کوئی کومل سا استعارہ ہے

اس کی بے اعتنا اداؤں میں

 

آج وہ آزما رہا ہے مجھے

کل جو تھا طالع آزماؤں میں

 

بھیجنا اپنے نام کا سورج

گھِر گئی میری شب بلاؤں میں

 

اس کے آنے سے درد ڈھلتا ہے

وہ بھی شامل ہے اب دواؤں میں

 

وہ مجھے روک بھی نہ پائے گا

مانگ لوں گی اسے دعاؤں میں

 

صائمہ جان کر ہوئی حیراں

دل بھی ہوتا ہے دیوتاؤں میں

٭٭٭

 

 

 

 

خار زاروں پر روانی دیکھ کر

کچھ سراہیں جانفشانی دیکھ کر

 

آپ کی رائے تو سب سے خاص تھی

یوں نہ بدلیں اک کہانی دیکھ کر

 

نکتہ چینی بھی بھلی لگنے لگی

اس غضب کی نکتہ دانی دیکھ کر

 

دل دکھا تہمت سے لیکن خوش بھی ہوں

آپ سب کی یک زبانی دیکھ کر

 

شب نے بخشے صائمہ وہ آفتاب

کیا کریں صبحیں سہانی دیکھ کر

٭٭٭

 

 

 

 

گریز ہو کہ سپردگی ہو کوئی اشارہ نہیں رہا ہے

جو مل رہا تھا قدم قدم پہ وہ اب سہارا نہیں رہا ہے

 

سنائی دینے لگی ہے دھڑکن بدن کے باہر، ہوا کے اندر

یہ دل شکستہ تو اب بھی ہے پر، دکھوں کا مارا نہیں رہا ہے

 

نکل پڑی ہے گلاب رستوں پہ تیری خوشبو بھی آنکھ ملتی

کہ ایسے رستوں پہ آنکھ موندے سفر کا یارا نہیں رہا ہے

 

ہزار دعوے رہے مزاحم تری شباہت کو جانچنے میں

مگر جو اب نقش کھل رہے ہیں تو یہ گوارا نہیں رہا ہے

 

ہیں اور بھی دکھ کئی کہ جن کی بدن کو دیمک لگی ہوئی ہے

سو دل کی بستی پہ اک ترے درد کا اجارہ نہیں رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ضربِ تقسیم نوازی سے الجھ بیٹھی ہوں

اک عجب طرزِ ریاضی سے الجھ بیٹھی ہوں

 

اسکی ہر بات میں ہوتے ہیں ہزاروں معنی

میں بھی گفتار کے غازی سے الجھ بیٹھی ہوں

 

دامن حال مکدر ہی نہ کر دے پھر سے

کیوں غبارِرہِ ماضی سے الجھ بیٹھی ہوں

 

بے رخی بھی تری دکھلائی، بہت سمجھایا

کیا کروں میں دلِ راضی سے الجھ بیٹھی ہوں

 

پارساؤں کی کوئی ایک گواہی لا دو

آج بہتان طرازی سے الجھ بیٹھی ہوں

 

صائمہ پست کئے دیتا ہے قامت میری

اسکے شملے کی فرازی سے الجھ بیٹھی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

ہے اب وہ منظرِ امرت بصارتوں سے پرے

شفق سنبھال رہا تھا جو ساعتوں سے پرے

 

نوازا جائے گا مہرِ خموشی سے لب کو

صدائیں جس نے اچھالیں سماعتوں سے پرے

 

سسک رہی ہے وہ اک ان کہی کہ جس کے لئے

متن بھی کیا کیا تراشے عبارتوں سے پرے

 

محبتوں کو پنپنے کی کب ملی مہلت

خیال خاص ہی رہتا تھا چاہتوں سے پرے

 

اتر رہا تھا صحیفہ الم کا آنکھوں پر

وہ منکشف ہوا دل پر بشارتوں سے پرے

٭٭٭

 

 

 

 

چھو لیں گر کچھ منظرِ بے کل ہمارے نام کے

پھیل جائیں آپ میں جنگل ہمارے نام کے

 

ہم نے بھی اک عمر کاٹی ہے کسی کے نام پر

وہ بھی رکھ لیتا کہیں کچھ پل ہمارے نام کے

 

خوشبوؤں سے بھر گیا شہرِ خیال آرزو

پھول جو بھیجے کسی نے کل ہمارے نام کے

 

بس وضاحت ہی تو مانگی آپکے الزام کی

آ گئے ماتھے پہ فوراً بل ہمارے نام کے

 

آج بھی ہو جائیں تو دیوارو در تک کھل پڑیں

دیکھ رکھے ہیں نا وہ جل تھل ہمارے نام کے

 

خوش خرامی آپ نے رکھ لی کسی کے واسطے

اور فقط بھیجے ہیں پائے شل ہمارے نام کے

 

سرمگیں آنکھوں کا کوئی آ گیا ہے شہر میں

صائمہ کرتا ہے سارے چھل ہمارے نام کے

٭٭٭

 

 

جیسے رگ رگ میں کوئی میخ گڑی ہے اب کے

روح تک بھی کہیں مصلوب پڑی ہے اب کے

 

رخ پہ کچھ رنگ شفق اور بھڑک اٹھا ہے

ایک بے باک نظر ضد پہ اڑی ہے اب کے

 

ایک موہوم سی آہٹ کا سہارا ہے مجھے

ورنہ تنہائی تو شدت کی پڑی ہے اب کے

 

من کی زر خیزیاں کچھ اس سے سوا چاہتی ہیں

ورنہ برسات تو چوکھٹ پہ کھڑی ہے اب کے

 

میں نے مانگے تھے ستارے تری راہوں کے لئے

آسمانوں سے مگر خاک جھڑی ہے اب کے

 

ایک پتے کے کھڑکنے سے لرز اٹھتی ہوں

راہِ اسرار جو پاؤں میں پڑی ہے اب کے

 

صائمہ گزری ہوں اس کرب سے ہنس کر اکثر

پر ترا ہجر قیامت کی گھڑی ہے اب کے

٭٭٭

 

بکھرے اشعار

 

میرے لفظوں سے شجر پھوٹ پڑیں گے اک دن

کوئی قرطاس کی مٹی کو ذرا نم کر دے

٭٭

 

اسی کی ضرب سے ٹکڑے ہوئی ہوں

جو پتھر چھو کے سونا ہو رہی تھی

٭٭

 

محدود کر رہا ہے مرا آسماں اگر

تو پھر زمین ہی کو میری بے کراں بنا

٭٭

گلاب رُت کا پرندہ اڑان چاہتا ہے

خزاں سے کہہ دو کہ دامن سمیٹ لے اپنا

٭٭

 

کیسے کمزور سہاروں پہ کھڑی کر لی ہے

اے محبت کی عمارت! ترا اللہ حافظ

٭٭

 

شکست و ریخت کے سب منظروں پہ بھاری ہے

تمھارا خواب مری آنکھ سے بچھڑ جانا

٭٭

 

حرف حرف تفہیم میں پڑنا لاحاصل بے فیض

باتونی لوگوں سے سرزد ہو جاتی ہیں باتیں

٭٭٭

تشکر: کتاب ایپ

www.idealideaz.com

www.kitaabapp.com

ای بک سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل