FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جُرأتِ اظہار ۔۔۔ غوث سیوانی

 

 

 

تصوف و عرفان، تاریخ و تہذیب اور اصلاحی و معلوماتی موضوعات پر منتخب مضامین کا مجموعہ

 

فہرست مضامین

جُرأتِ اظہار

 

 

غوث سیوانی

 

 

 

صرف پہلا حصہ یہاں دیا جا رہا ہے، مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

 

 

ایک صفحہ

 

ان قلمکاروں کے نام جن کے قلم کی روشنائی، خون پر بھاری ہے۔

ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے

کبھی تو حوصلہ کر کے ’’نہیں‘‘ کہا جائے

زندہ رہنے کا حق ملے گا اسے

جس میں مرنے کا حوصلہ ہو گا

غوث سیوانی

 

 

 

اپنی تحریروں کے آئینے میں غوث سیوانی

تحریر: ایم اختر، نئی دہلی

 

غوث سیوانی کی تحریریں اکثر اخبارات ورسائل میں دیکھنے کو ملتی ہیں جو عموماً ملک کے سیاسی حالات و سماجی مسائل پر تبصرے کی شکل میں ہوتی ہیں۔ اردو قارئین کا ایک طبقہ اب ان کے نام اور انداز تحریر سے مانوس ہو چکا ہے اور اسے ان کے مضامین کا انتظار رہتا ہے۔ نیوز ایجنسی یو این این تقریباً روزانہ ان کے مضامین ریلیز کرتی ہے جو لگ بھگ آٹھ سو اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس تک پہنچتے ہیں اور ساری دنیا میں اردو کے قارئین کی نظروں سے گزرتے ہیں۔ وہ زود نویس ہیں اور ہر مہینے تیس سے زیادہ مضامین لکھتے ہیں، علاوہ ازیں مختلف ٹی وی چینلوں کے لئے بھی اسکرپٹ رائٹنگ اور پروڈکشن کرتے رہتے ہیں۔ وہ اب تک دو ہزار سے زیادہ مضامین لکھ چکے ہیں اور ٹی وی چینلوں کے لئے اتنی ہی تعداد میں ایپی سوڈس کی رائٹنگ اور پروڈکشن بھی کر چکے ہیں۔ بعض ٹی وی پروگراموں میں انھیں اینکر کے طور پر دیکھا گیا تو بعض میں وہ انٹرویو کرتے ہوئے نظر آئے۔ جب کہ دوردرشن پر ’’غزل اس نے چھیڑی‘‘ میں وہ معروف شاعر جگرؔ مراد آبادی کے رول میں دکھائی دیئے۔ انھوں نے بیرون ملک کے چینلوں کے لئے بھی کئی پروگرام کئے ہیں۔ راجدھانی دلی میں رہائش پذیر اس قلم کار کا اصل کارنامہ اس کی کتابیں ہیں جن کی تعداد پندرہ تک پہنچ چکی ہے اور ان کی ہزاروں کاپیاں اب تک فروخت ہو چکی ہیں۔ یہ کتابیں ہندوستان و پاکستان کے علاوہ امریکہ اور یوروپ کی لائبریریوں کی بھی زینت ہیں۔ ان کی بیشتر کتابیں تصوف کے موضوع پر ہیں جن کے ذریعے وہ سماج کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں اور نفرت بھری، اس دنیا میں محبت پھیلانے میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ موجودہ دور کے تمام مسائل مادیت اور جدیدیت کے شکم سے جنم لے رہے ہیں اور ان کا حل صوفیہ کی تعلیمات میں موجود ہے۔ انھوں نے تصوف کو عہد جدید کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی کے ساتھ چونکہ وہ شاعر بھی ہیں لہٰذا ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کا ایک بڑا شعری کارنامہ ہے، فارسی کے گیارہ اساتذہ شعراء کی منتخب غزلوں کا منظوم ترجمہ، جو دنیا میں پہلی بار ہوا ہے اور ’’دو آتشہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ یہاں ہم ان کی چند کتابوں کا تعارف پیش کرتے ہیں۔

 ’’جدید دنیا کے مسائل اور تصوف‘‘

280 صفحات کی اس کتاب میں آج کے اہم عالمی مسائل مثلاً تشدد، دہشت گردی، بدعنوانی، حقوقِ انسانی کی پامالی، عالمی معاشی بحران، ڈپریشن وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے اور ان کا حل صوفیہ کی تعلیمات میں ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انھوں نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ آج مدرسوں کے نصاب تعلیم میں بھی تصوف شامل نہیں ہے، جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے ملک کے تمام اسکولوں میں صوفیہ کی اخلاقی تعلیمات کو شامل کیا جائے، اس سے طلبہ کی نفسیات کو پاکیزہ بنایا جا سکتا ہے اور ساری دنیا سے بڑھتے جرائم اور حقوقِ انسانی کی پامالی کو روکا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ محبت کو اگر سماج میں عام کیا جائے تو نفرت خود بخود کم ہو جائے گی اور اس سے سماجی بندھن مضبوط ہو گا۔ وہ ایک جگہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں:

’’اللہ پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے جو اپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔‘‘

کتاب کی زبان بہت ہی آسان ہے جو کم پڑھا لکھا آدمی بھی سمجھ سکے اور موقع محل کی مناسبت سے اشعار کے استعمال نے شگفتگی میں اضافہ کر دیا ہے۔ تصوف کے موضوع پر یہ اپنی طرح کی پہلی اور واحد کتاب ہے۔

 ’’تصوف اور کشمیری صوفیہ‘‘

یہ کتاب 456 صفحات پر مشتمل ہے۔ ابتدائی صفحات میں تصوف کیا ہے؟ اس سوال پر گفتگو کی گئی ہے اور باقی صفحات میں کشمیر میں تصوف کے انقلابی رول پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ کشمیر کی تاریخ یہ رہی ہے کہ یہاں چند صدی قبل تک کوئی اسلام کا نام لیوا نہ تھا مگر صوفیہ نے یہاں قدم رکھا اور عوام میں تبلیغ دین کا انقلابی کام کیا جس کے سبب آج یہاں توحید کا بول بالا ہے۔ صوفیہ نے صرف اسلام کی تعلیمات سے ہی لوگوں کو روشناس نہیں کرایا بلکہ انھیں ایسی صنعتیں اور آرٹس بھی سکھائے جو آج کشمیر کی پہچان بن گئے ہیں۔ اس کتاب پر صحافی و ادیب ڈاکٹر افضل مصباحی کا تبصرہ یوں ہے:

’’پوری کتاب عام فہم اور سادہ اسلوب میں محققانہ رنگ و آہنگ کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے، حوالوں کا بھرپور التزام ہے، ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، کسی بھی جگہ قاری کو تشنگی کا احساس ہونے نہیں دیا۔‘‘

کشمیر یونیورسٹی سرینگر کے پروفیسر بشیر احمد نحوی نے ’’تصوف اور کشمیری صوفیہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’2012ء میں زیور طبع سے آراستہ ’’تصوف اور کشمیر صوفیاء‘‘ کے عنوان سے غوث سیوانی صاحب کی تحریر کردہ کتاب حال ہی میں دیکھنے کو ملی۔ اس سے قبل سیوانی صاحب نے ’’انوار تصوف‘‘ اور ’’جدید دنیا کے مسائل اور تصوف‘‘ بھی دو کتابیں تحریر کی ہیں۔ مذکورہ بالا کتاب بڑی دلچسپ، پر از معلومات اور ایک غیر کشمیری کے قلم سے کشمیر میں اولیاء و صوفیاء کی پاکیزہ اور صالح قدروں سے مزین تعلیمات کا خلاصہ ہے۔ 456 صفحات پر مشتمل یہ کتاب پچیس سے زائد موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے کشمیر کے فطری حسن کی منظر کشی کے ساتھ ساتھ یہاں کے اولیاء و مشائخ کے روحانی سفر، ان کے کمالات اور اس وادی پر ان کے احسانات کا خاکہ پیش کرتی ہے۔ تصوف و سلوک کیا ہے؟ اور اس راہِ ہدایت کے کیا تقاضے ہیں؟ اس حوالے سے مصنف نے تقریباً دو سو صفحات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ چنانچہ کشمیر میں تصوف اور یہاں کے صوفیاء کی تعلیمات سے واقفیت پانے کے لئے سیوانی صاحب نے درجنوں مستند کتابوں کا مطالعہ کیا ہے۔ راقم کی دلچسپی اس کتاب کے ساتھ اس لئے بھی پیدا ہو گئی کیونکہ صاحب کتاب نے ہر باب کی شروعات سے پہلے علامہ اقبال کے ایسے اشعار نقل کئے ہیں جو عموماً تصوف کی روح اور خاص طور پر اسلامی اور عملی تصوف کے مزاج کی ترجمانی کرتے ہیں۔‘‘

پروفیسر بشیر احمد نحوی نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے مزید لکھا ہے:

’’کتاب کے نصف ثانی میں، کشمیر میں اسلام اور تصوف کے بارے میں تفصیلات ہیں جو دلچسپ اور معلوماتی ہیں، اسی کے ساتھ اس بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہاں صوفیاء نے اسلام اور تصوف کی اشاعت ہی نہیں کی، انہوں نے کشمیر کی تہذیب، زبان، معاشرت اور معیشت کو بھی متاثر کیا۔ کشمیر کی موجودہ صنعت و حرفت اور تہذیب و تمدن، ان اللہ والوں کی مرہون منت ہے، جن کی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمتِ خلق کے لئے وقف تھا۔ آج جب کہ ہر طرف۔۔ ۔ رشوت ستانی کا بازار گرام ہے، انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے، چھوٹے بڑے کی تمیز ختم ہو چکی ہے، نئی تہذیب نے ہر گھر کو محاذِ جنگ میں تبدیل کر دیا ہے ایسے ماحول میں ان اللہ والوں کے پیغام اور ان کی تعلیمات عام کرنے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔

کتاب کا پیش لفظ ہمدرد یونیورسیٹی، نئی دہلی، میں شعبۂ اسلامک سٹڈیز کے ڈین ڈاکٹر غلام یحیٰ انجم نے لکھا ہے جو خود اپنے آپ میں اہمیت کا حامل ہے۔

 ’’انوارِ تصوف‘‘

صوفیہ کی تعلیمات میں اسلام کا جمالیاتی رخ پیش کیا گیا ہے اور انسانوں کو خالق و مالک سے جڑنے کی طرف مائل کیا گیا ہے۔ آج ہم مذہب کو احکامات کے حوالے سے دیکھتے ہیں اور اختلافات میں الجھ کر اصل مقصود سے دور رہ جاتے ہیں۔ صوفیہ کی تعلیمات ہماری نظر کو ان اختلافات سے ہٹا کر ہمیں اصل کی جانب مائل کرتی ہیں۔ ’’ انوارِ تصوف‘‘ جو کہ 300 صفحات پر مشتمل ہے، صوفیہ کی تعلیمات کا نچوڑ ہے، جسے صوفیہ کی قدیم کتابوں، ملفوظات اور مکتوبات سے جمع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں خاص طور پر امام تصوف شیخ عبد الکریم قشیری، سید علی ہجویری (داتا گنج بخش) ، مولانا جلال الدین رومی، شیخ عبد القادر جیلانی، امام محمد غزالی، شیخ نظام الدین اولیاء، مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی علیہم الرحمہ کی تعلیمات کے کچھ خاص حصے مختلف حوالوں سے پیش کئے گئے ہیں۔ انداز تحریر دلنشیں ہے جو قاری کو مسحور کر دیتا ہے۔ ابتدائیہ کا ایک حصہ ملاحظہ ہو:

’’حسنِ ازل نے اپنی صراحی سے شرابِ عشق جن کے ساغروں میں انڈیلی وہ بیخود و سرشار ہوئے، مست مئے اخیار ہوئے، صاحب دلِ بے قرار ہوئے۔ کوئی رومیؔ کی شکل میں امامِ عاشقاں ہوا تو کوئی قشیری کی صورت سردارِ کاروانِ عرفاں ہوا۔ کوئی غزالی کے روپ میں صاحب دستار ہوا تو کوئی علی ہجویری کی صورت داتائے گنج بے شمار ہوا۔ کوئی نظام الدین کے پیکر میں محبوبِ کردگار ہوا تو کوئی شرف الدین کے سراپا میں مخدومِ بہار ہوا۔ کاروانِ محبت کے انہیں شہسواروں کو دنیا ’صوفی‘ کے لقب سے یاد کرتی ہے اور عشق و عرفان کی اسی تحریک کو ’تصوف‘ کہا جاتا ہے۔‘‘

 ’’دو آتشہ‘‘

اردو شاعری پر فارسی کے زبردست اثرات ہیں کیونکہ اردو کے شعراء پہلے پہل فارسی میں ہی شعر کہا کرتے تھے۔ یہی معاملہ زبان کا بھی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ فارسی شاعری کے بطن سے اردو شاعری نے جنم لیا ہے۔ البتہ آج کے بیشتر اردو داں فارسی سے واقف نہیں۔ فارسی شاعری کا اردو میں ترجمہ بھی ہوتا رہا ہے مگر تمام ترجمے نثری تھے لہٰذا شاعری کے مطالعے کا جو لطف ہے، اس سے عام اردو داں محروم ہو جاتے تھے۔ اردو میں پہلی بار غوث سیوانی نے فارسی کے گیارہ اساتذہ شعراء کی منتخب غزلوں کا منظوم ترجمہ کیا ہے اور اس خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے کہ فارسی کا ترجمہ بھی ہو جائے اور اس کا حسن بھی باقی رہے۔ نظامی، خاقانی، عطار، رومی، حافظ، سعدی، عراقی، خسرو، عرفی، صائب اور بیدل جیسے شاعروں کے خیالات کو اردو نظم میں پیش کرنا ایک چیلنج بھرا کام تھا مگر انھوں نے اسے بہت خوبی کے ساتھ کیا ہے۔ خاقانی، رومی، سعدی، خسرو اور عرفی کے کچھ ترجمہ شدہ شعر ملاحظہ ہوں:

سو سال کا سفر ہے راہِ وصالِ یار

لیکن جو تو بلائے تو بس نیم گام ہے

سبزتر وہ پیڑ شعلے سے ہوا

برق و آتش سے کھلا ہے گلستاں

میں نے کہا کہ عہد وفا پورا کیجئے

کہنے لگے اس عہد میں باقی وفا نہیں

عجیب زلفِ معنبر ہے فتنۂ ساماں

تمہارے ساتھ بھی رہ کر کے جو پریشاں ہے

ترا خیال ہے شب ہے قمر کو کون تکے

دراز رات ہے لیکن سحر کو کون تکے

طاقِ حرم ہے ٹھیک نہ بتخانہ خوب ہے

جس جا ہے اس کا جلوۂ جانانہ خوب ہے

برگد کی چھاؤں

فارسی سے منظوم ترجمے کے علاوہ بہ طور شاعر غوث سیوانی کے اپنے خیالات بھی ہیں جو، ان کے شعری مجموعے ’’برگد کی چھاؤں‘‘ میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ کتاب اردو کے ساتھ ساتھ دیوناگری رسم الخط میں بھی ہے اور زبان بھی بے حد آسان ہے، جسے ایک ساتھ اردو اور ہندی دونوں کہہ سکتے ہیں۔ بلند خیالات کو آسان لفظوں کا پیرایہ دینے کی کامیاب کوشش، اس مجموعے میں نظر آتی ہے۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں۔

پوربی پون نہیں، بگیا نہیں، کویل نہیں

کیوں تمہارے شہر میں برگد نہیں پیپل نہیں

کبھی خطا کی طرح تو کبھی سزا کی طرح

زندگی ہم نے گزاری ہے بددعا کی طرح

وہ میرے دل میں تھا میرا نہیں تھا

کبھی بھی فاصلہ ایسا نہیں تھا

بھیگی بھیگی برکھا رت کے منظر گیلے یاد کرو

دو ہونٹ رسیلے یاد کرو، دو نین کٹیلے یاد کرو

یہ اور اس قسم کے بہت سے اشعار اس مجموعے میں موجود ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ آسان الفاظ میں بھی بلند خیالات پیش کئے جا سکتے ہیں۔

اوپر مذکور کتابوں کے علاوہ بھی غوث سیوانی کی کچھ دوسری کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جن میں ایک کتاب ’’امن کے سفیر‘‘ ہے۔ اس میں صوفیہ کی حیات و خدمات کا ذکر ہے جب کہ ’’اکیسویں صدی کی ضرورت، قرآن وسیرت‘‘ میں اس موضوع پر متعدد مضامین ہیں جو اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ’’ہندوستان کی تہذیبی روایات اور اردو شاعری‘‘ میں ادبی مضامین اور شعراء کا نمونۂ کلام ہے، جب کہ ’’جرأتِ اظہار‘‘ میں تصوف، تاریخ، تہذیب اور دیگر معلوماتی موضوعات پر مضامین ہیں۔ علاوہ ازیں بچوں کے لئے بھی ان کی کچھ کتابیں آئی ہیں جو مغربی بنگال کے اسکولوں کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

اخیر میں غوث سیوانی کے تعلق سے دہلی کے ایک صحافی ظفر انور (روزنامہ ہندوستان اکسپریس) کی کتاب ’’بہار و بنگال کے صحافی‘‘سے چند سطریں ملاحظہ ہوں:

’’غوث سیوانی، دہلی کی اردو صحافت کا ایک معتبر نام ہے۔ ان کے مضامین قریب قریب ہر روز مختلف اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے ہیں اور دور دور تک پڑھے جاتے ہیں۔‘‘

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

من کی بات

 

 

جرأتِ اظہار

 

قلم ہر زمانے میں علم کی اشاعت کا ذریعہ رہا ہے۔ ہزاروں سال قبل جب انسان، تہذیب و تمدن سے نا آشنا اور علم و ہنر سے نابلد تھا، تب بھی اسے یہ معلوم تھا کہ جنگلی پیڑوں کی شاخوں کا قلم اور پھولوں، پتیوں کی روشنائی ذریعۂ ابلاغ ہے۔ ’’ راک پینٹنگس‘‘ کے ذریعہ اس نے جو پیغام دیا تھا اس سے نہ صرف تحریر کی ابتدا کا سامان ہوا، بلکہ اس کے اس پیغام کی زبان کو ہم آج بھی سمجھ سکتے ہیں۔ دنیا میں ’’قلم‘‘ اشاعتِ علم کا ذریعہ بنے گا یہ مخلوقات کی تخلیق سے بہت پہلے طے ہو چکا تھا اور ’’لوحِ محفوظ‘‘ پر حکم خداوندی کو قلم بہت پہلے لکھ چکا تھا ’’الذّی علّم با القلم‘‘۔ جب ’’ قاری‘‘ آب و گل کی منزلوں میں تھا، تب یہ تحریر محفوظ ہو چکی تھی۔ یہ قلم کی عظمت تھی کہ خالقِ قلم نے بھی ’’والقلم ومایسطرون‘‘کہہ کر اس کی قسم کھائی۔ قلم، خالق کی امانتوں میں سے ایک عظیم امانت ہے۔ یہی سبب ہے کہ اہل قلم ہر زمانے میں معزز رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض قلم کاروں نے اس کا استعمال بے حد محتاط انداز میں کیا تو بعض نے اس کی صلاحیت کو جاہ و دنیا طلبی کے لئے استعمال کیا اور معمولی فائدوں کے آگے اس کی عظمت کو قربان کر دیا۔

تاریخ شاہد ہے کہ عہد وسطیٰ میں حق گو لوگوں کے سرقلم کر دیئے جاتے تھے اور سچ لکھنے والے دار پر کھینچے جاتے تھے مگر باوجود اس کے ایسے لوگ بھی ہر دور میں رہے ہیں جنھوں نے قلم کی عظمت کو قائم رکھا اور حق و صداقت کا پرچم بلند رکھا۔ عہد حاضر میں آزادیِ گفتار کا غلغلہ ہے اور قلم کی آواز کو خاموش کرنا آسان نہیں رہا جو یقیناً عہد نو کی اچھی بات ہے مگر اسی کے ساتھ ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حق بولنے اور سچ لکھنے کی قیمت بعض قلم کاروں کو چکانی پڑتی ہے۔ آج میڈیا بہت طاقت در ہو چکا ہے مگر جس قدر اسے قوت حاصل ہوئی ہے، اسی قدر یہ کمزور بھی ہوا ہے۔ کل تک جو طبقہ قلم کی آواز کو دبانے کوشش کرتا تھا، آج اسی کے ہاتھ میں میڈیا کی باگ ڈور آ چکی ہے۔ آج حکومت اور صنعت کار گھرانے جدھر چاہیں میڈیا کے رخ کو پھیرسکتے ہیں۔

بھارت کا آئین بھارتی شہریوں کو ملک میں تقریر و تحریر اور اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے۔ یہی حق، جمہوری نظام حکومت کی بنیاد ہے اور اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں عوام کو تقریر و تحریر کی آزادی کو قانونی طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ پریس اور میڈیا کی آزادی اسی کے تحت آ تی ہے۔ خیالات کا آزادانہ نشر ہی اس آزادی کا بنیادی مقصد ہے، حالانکہ زبان و قلم کی آزادی میں خلل ڈالنے کا سلسلہ آزادی کے بعد سے ہی وقفے وقفے سے جاری ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں مگر باوجود اس کے جدید ذرائع ابلاغ کی موجودگی میں سچائی پر پردہ ڈالنا آسان نہیں رہا اور کچھ حق پسند اس کی قیمت ادا کر کے بھی سچ کا اظہار کرتے ہیں:

جنھیں یہ فکر نہیں سر رہے، رہے نہ رہے

وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں

’’جرأتِ اظہار‘‘ میرے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو دنیا بھر کے تقریباً آٹھ سو اخبارات، رسائل اور ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ مضامین کہاں کہاں شائع ہوئے اور کن کن ملکوں میں پڑھے گئے، یہ بتا پان مشکل ہے مگر یہ سبھی مضامین کہیں نہ کہیں چھپتے رہے ہیں اور بعض مجبوریوں کے سبب کچھ تو فرضی ناموں سے بھی شائع ہوئے ہیں۔ راقم کو بیشتر آرٹیکلس حالات حاضرہ پر لکھنے پڑتے ہیں مگر اس مجموعے میں جو مضامین شامل ہیں ان میں بیشتر تصوف و عرفان، تاریخ و تہذیب اور سماجی موضوعات پر ہیں۔ اس کتاب میں میرے تحریر کردہ لگ بھگ ڈھائی ہزار مضامین سے چند منتخب تحریریں ہی لی گئی ہیں جو اپنے موضوع کے لحاظ سے سدا بہار ہیں اور جن کی معنویت کبھی کم نہیں ہوتی۔ قارئین کرام نے ماضی میں راقم الحروف کی ایک درجن سے زیادہ کتابوں کو پذیرائی بخشی ہے اور اب یہ مجموعۂ مضامین پیش خدمت ہے جس پر تاثرات کا انتظار رہے گا۔

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

 

غوث سیوانی، نئی دہلی

رابطہ

ghaussiwani@gmail.com

٭٭٭

 

 

 

 

طاق حرم ہے ٹھیک، نہ بت خانہ خوب ہے

جس جا ہے، اس کا جلوۂ جانانہ خوب ہے

(عرفیؔ شیرازی)

 

 

 

 

 

تصوف کیا ہے؟

 

حالیہ زمانے میں ایک بار پھر تصوف پر چرچا گرم ہے اور لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر تصوف ہے کیا؟ مشرق سے مغرب تک تصوف سے لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ حیرت انگیز اور خوش آئند ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ عوام کی چاہت کے پیش نظر بازار نے بھی اس میں اپنے مفاد کے پہلو ڈھونڈ لئے ہیں اور اکتساب زر کے راستے نکال لئے ہیں۔ اس موضوع پر کتابوں کی فروخت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے حالانکہ ان میں کتنی کتابیں تصوف کی درست جانکاری دیتی ہیں، یہ سوال بھی توجہ طلب ہے۔ ساری دنیا میں صوفیانہ موسیقی کی محفلوں کا سلسلہ چل پڑا ہے جن سے سنگر، منظمین اور میوزک کمپنیوں کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔ عوامی مقامات سے لے کر ڈانس کلبوں اور باروں تک میں ایسی محفلیں منعقد ہو رہی ہیں جنھیں صوفیانہ موسیقی کی محفل قرار دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں آج دنیا بھر میں صوفی میوزک کے رکارڈ دھڑ لے سے فروخت ہو رہے ہیں اور اس موسیقی کا استعمال فلموں میں بھی خوب ہو رہا ہے۔ ایسے ڈانس گروپ بن گئے ہیں جو اپنے رقص کو صوفیانہ رقص قرار دیتے ہیں اور ان کے شوز دنیا بھر میں مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے فیشن ڈیزائنر بازار میں آ گئے ہیں جو اپنے تیار کردہ ملبوسات کو صوفیانہ قرار دیتے ہیں اور ان ملبوسات کو پسند کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے لہٰذا ان سے بھی کمائی ہونے لگی ہے۔ بہرحال یہ بازار ہے جو تیوہاروں، تقریبات، شادی بیاہ سے لے کر کسی کی موت تک میں اپنی کمائی کے پہلو نکال لیتا ہے اباس نے تصوف کے نام پر جو کچھ کیا ہے اس میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے مگر اسی کے ساتھ عوام کو یہ بتانے کی ضرورت بھی ہے کہ آخر حقیقت تصوف ہے کیا؟ اس کی تاریخ کیا ہے اور اس سے وابستگی کے فائدے کیا ہیں؟ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں کر لینے کی ہے کہ تصوف ایک نظریہ ہے جس کا تعلق انسان کے دل سے ہوتا ہے۔ صوفیہ کی درگاہیں عہد حاضر میں اہل تصوف کی علامت بن گئی ہیں ورنہ ابتداءً انھیں یہ حیثیت حاصل نہ تھی بلکہ اللہ والوں کی قبروں کا اکتساب زر کے لئے استعمال تصوف کے تئیں کئی غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے۔

تصوف کیا ہے؟

’’تصوف‘‘ اصل میں اسلام کی روح اور اس کا جمالیاتی چہرہ ہے۔ جس طرح سے روح کے بغیر جسم محض ایک لاش ہے، اسی طرح تصوف و عرفان کے بغیر مذہب بھی چند ظاہری رسموں کا مجموعہ بھر رہ جاتا ہے۔ اسلام نے جہاں انسان کی زندگی کو ضابطوں اور اصولوں کا پابند بنانے کے لئے اسے شرعی قوانین دیئے ہیں، اسی کے ساتھ اس کی روحانی تسکین اور مخلوق کا رشتہ خالق سے جوڑنے کے لئے اسے علم عرفان و آگہی دیا ہے جو ’’تصوف‘‘ کی شکل میں فروغ پایا۔ اسلام کی پہلی صدی میں علوم اسلامی جب تفسیر، حدیث، فقہ، اصول حدیث، اصول فقہ اور اسماء الرجال کی شکل میں الگ الگ تدوین پا رہے تھے، اسی زمانے میں علوم الٰہیہ کا مجموعہ ’’تصوف‘‘ بھی ایک الگ شعبۂ علم کے طور پر فروغ پارہا تھا جس کا بنیادی مقصد تھا کہ انسان اپنی زندگی کو محض ظاہری اسلامی اصولوں کا پابند نہ بنائے بلکہ ان کی روح تک پہنچے۔ مثال کے طور پر اسلام نے زکوٰۃ کا حکم دیا ہے یعنی ہر مالدار مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ سال میں ایک بار اپنے جمع شدہ مال کا ڈھائی فیصد حصہ غریبوں میں تقسیم کرے۔ اس کا مقصد انسان کے دل میں انسانیت کا درد جگانا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اسلام کے حکم پر عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ ادا کرتا ہے مگر اس کے دل میں غریبوں، پریشان حال لوگوں کے لئے ہمدردی نہیں ہے تو اس نے زکوٰۃ کا مقصد نہیں پایا اور تصوف میں اسی کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی حکم کے مقصد کو پایا جائے۔ اسلام ڈھائی فیصد زکوٰۃ کا حکم دیتا ہے مگر صوفیہ کہتے ہیں کہ انسان اپنی ضرورت سے زیادہ جمع ہی کیوں کرے کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی ضرورت سے باقی دوسرے ضروت مندوں پر خرچ کر دے بلکہ ہو سکے تو اپنی ضرورت سے پہلے وہ دوسروں کی ضرورت کا خیال رکھے۔ یہی سبب ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں جو کچھ بھی ہوتا اسے جمعہ کے دن غریبوں اور ضرورت مندوں میں بانٹ دیا جاتا اور خانقاہ میں جھاڑو پھیر دی جاتی۔

تصوف کی بنیادی تعلیمات

تصوف میں جو سب سے بنیادی باتیں ہیں ان میں پہلی ہے ’’توحید‘‘ یعنی معبود ایک ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا عبادت کے لائق نہیں۔

صاحب میرا ایک ہے دوجا کہا نہ جائے

دوجا صاحب جو کہوں صاحب کھڑا رسائے

تصوف کی دوسری تعلیم ہے ’’توکّل‘‘ یعنی ایک خالق و مالک پر ہی انسان بھروسہ کرے اور اسی سے لو لگائے، کسی دوسرے کی جانب نہ جائے۔ تیسری تعلیم ’’عبادت‘‘ ہے کہ انسان کی دنیا میں آمد کا مقصد اپنے پیدا کرنے والے کی بھکتی اور اس کی عبادت ہے لہٰذا وہ پوری طرح اسی کے گیان، دھیان میں رہے اور یکسوئی کے ساتھ اس کی عبادت کرے کہ انسان کا دل پاکیزہ ہو جائے اور وہ اپنے معبود کا جلوہ اپنے قلب میں محسوس کرے۔ اسے ’’مجاہدہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ تصوف کی تعلیم کا ایک حصہ ’’تزکیہ‘‘ ہے یعنی انسان کو چاہئے کہ عبادت، خیرات اور اپنے خالق کے احکام کی بجا آوری کے ذریعے، اپنے دل کو اس طرح صاف ستھرا کر لے کہ اللہ کے کسی بندے کے خلاف نفرت اور کدورت باقی نہ رہے بلکہ سب کے لئے محبت ہی محبت ہو کیونکہ تصوف، خالق تک پہنچنے کے لئے، اس کی مخلوق کی بھلائی اور خیرخواہی کو اہم راستہ مانتا ہے۔

صوفیہ اور خدمت خلق

صوفیہ کی خانقاہوں میں خدمت خلق کا پرانا دستور رہا ہے۔ یہاں سے لوگوں کو صرف محبت اور بھائی چارہ کا پیغام ہی نہیں دیا جاتا تھا بلکہ ان کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ جس زمانے میں دو جون کی روٹی کا انتظام کرنا ایک مشکل کام ہوتا تھا، اس دور میں خانقاہوں میں ہزاروں لوگوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا جاتا تھا اور جو لوگ یہاں آ کر کھانا نہیں حاصل کر پاتے ان کے گھر راشن پہنچا دیا جاتا۔ ان خانقاہوں میں ہر مذہب، ذات اور طبقے کے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر کھا پی سکتے تھے۔ جس ملک میں ہزاروں سال سے ایک طبقے کو مندروں میں جانے کی اجازت نہ تھی اور کنووں سے پانی بھرنے کی ممانعت تھی، مگر وہ صوفیوں کی خانقاہوں میں سب کے ساتھ بیٹھ کر کھا سکتا تھا اور اس کے ساتھ بھید بھاؤ نہیں کیا جاتا تھا۔ جس طرح ایک بادشاہ صوفیوں کے لئے قابل احترام تھا، اسی طرح ایک غریب بھی عزت کا مستحق تھا کیونکہ وہ اللہ کی مخلوقات میں خالق کا جلوہ دیکھتے تھے اور اس کے بندوں کی خدمت کو اللہ تک رسائی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ صوفیہ کے درس مساوات کی ایک روایت آج بھی گردواروں میں دیکھی جا سکتی ہے، جہاں سماج کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر لنگر میں کھانا کھا سکتے ہیں۔ یہاں کوئی کسی سے اس کی ذات نہیں پوچھتا اور ہر قسم کا بھید بھاؤ مٹ جاتا ہے۔ صوفیہ کی تعلیمات نے صرف سکھ ازم کو متاثر نہیں کیا بلکہ بھارت میں تصوف کے ہی زیر اثر ’’بھکتی تحریک‘‘ نے جنم لیا تھا جو خدا کی وحدانیت اور انسانی مساوات کی علمبردار تھی۔

تصوف کی تاریخی اہمیت

تصوف میں ایک الگ طرح کی جذب و کشش تھی یہی سبب ہے کہ دنیا میں بہت تیزی کے ساتھ اس کا فروغ ہوا، اور عرب و عجم اس کی سحر میں گرفتار ہوئے۔ تصوف نے بے قرار دلوں کو سکون اور بے چین قلوب کو راحت پہنچایا۔ اس نے زندگی کے ہر شعبے میں اپنی چھاپ چھوڑی اور عبادت گاہوں سے لے کر آرٹ و کلچر کے میدان تک میں اس کے اثرات نظر آئے۔ گزشتہ بارہ سو سال سے زیادہ، عالم اسلام کے نصاب تعلیم کا سب سے بڑا حصہ تصوف پر ہی مشتمل تھا۔ اسے ہر دور میں اسلامی علوم کاسب سے اہم حصہ سمجھا گیا اور کسی بھی زمانے میں تصوف کی مطلقاً مخالفت نہیں کی گئی۔ حالانکہ ہر زمانے میں کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنھوں نے صوفیانہ وضع قطع کے ساتھ تصوف کے خالص علوم میں ملاوٹ کی کوششیں بھی کیں مگر اس کی مخالفت خود میں اسٹریم کے صوفیہ کی طرف سے ہوئی۔ حالیہ زمانے میں مزارات کی بعض رسوم، قبروں کے بازاری کرن اور کچھ صوفی نما متصوفین کی نامناسب حرکتوں کے سبب تصوف کے تئیں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں تو بعض مبتدعانہ انتہاپسند نظریات نے غلط فہمیوں کے سبب تصوف کی مخالفت شروع کی مگر باوجود اس کے تصوف کی اہمیت آج بھی مسلّم ہے۔ آج بھی اس کے اندر فرد اور سماج کو بدلنے کی قوت ہے۔ آج بھی اگر صوفیہ کی تعلیمات کو عام کیا جائے تو دنیا میں روحانی، سماجی اور سیاسی انقلاب آ سکتا ہے۔ آج کی دنیا جو نفرت، تشدد، بدامنی اور اخلاقی زوال جیسے بڑے بڑے مسائل سے دوچار ہے اور ان سے نبرد آزما ہونے کا کوئی راستہ نہیں پا رہی ہے، اسے صرف تصوف کے راستے سے حل کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

پریم وہ ساگر ہے کہ جس کا کنارہ کچھ نہیں

ڈوب کر کے جان دیدیں اور چارہ کچھ نہیں

شبھ گھڑی ہے عشق میں دل ہو گیا بے چین جب

نیک ہے یہ کام اس میں استخارہ کچھ نہیں

(حافظؔ شیرازی)

 

 

 

 

محبت کا آئینہ ہے، تصوف

 

’’تصوف‘‘ کی تشریح مختلف الفاظ میں کی جاتی ہے مگر اس موضوع پر لکھی گئی تمام کتابوں اور صوفیہ کے مکتوبات و ملفوظات نیز ان کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اس کا جو مفہوم سامنے آتا ہے اگر اسے ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ لفظ ہو گا ’’محبت‘‘۔ حالانکہ محبت خود اپنے آپ میں ایک ناقابل فہم موضوع ہے جسے سمجھنا اور سمجھانا نا ممکن ہے۔ اسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔

محبت معنیٰ و الفاظ میں لائی نہیں جاتی

یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی

صوفیہ کرام ’’محبت‘‘ کو صرف تصوف ہی نہیں، دین و شریعت کی بھی اساس مانتے ہیں۔ ان کے خیال میں کائنات اور تمام مخلوقات کا وجود عشق و محبت سے ہے اور عشق محبت کے لئے ہے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’روضۃ المحبین و نزہۃ المشتاقین‘ کے ابتدائی صفحات میں تحریر فرماتے ہیں:

’’پاک ہے وہ ذات جس نے محبت کی طرف دلوں کو جب چاہا اور جیسے چاہا پھیر دیا اور اس محبت کے ذریعے اپنی حکمت کے ساتھ اس چیز کو نکالا جس کے لئے ہر جاندار کو پیدا کیا گیا ہے اور محبت کی مختلف انواع واقسام کی تعریف و تفصیل کو مخلوق کے درمیان عام کیا اور ہر محبوب کے لئے اس کے محبوب کی محبت سے حصہ مقرر کیا، خواہ وہ اپنی محبت میں درست ہویا غلط۔ اور اس محب پر محبت کی وجہ سے انعام کردہ یا اسے مقتول بنا دیا، اور اس محبت کو ایسا تقسیم کیا کہ بعض کو اپنی ذات سے محبت کرنے والا بنا دیا، بعض کو بتوں، بعض کو آگ سے اور بعض کو صلیبوں سے، کچھ کو وطنوں کا محب بنا دیا اور کچھ کو بھائیوں کا۔ کسی کو عورتوں کا دلدادہ بنا دیا تو کسی کو بچوں کا۔ کسی کو اموال کا گرویدہ بنا دیا تو کسی کو ایمان کا۔ کسی کو موسیقی کا عاشق بنا دیا تو کسی کو قرآن کا۔۔ ۔ لیکن اللہ، اس کی کتاب اور رسول سے محبت کرنے والوں کو تمام محبت کرنے والوں پرزبردست فضیلت بخشی۔ محبت کے لئے اور محبت کی وجہ سے زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا اور تمام مخلوقات کی تخلیق بھی اسی وجہ سے ہے اور محبت کے لئے ہی افلاک کا دائرہ حرکت میں ہے۔ اور اسی کے لئے حرکات اپنی انتہا کو پہنچتی ہیں، اور اپنی ابتدا کو انتہا سے ملاتی ہیں، اور اسی کی وجہ سے دل اپنے مقصود کو حاصل کرتا ہے اور اپنے مطلوب تک رسائی حاصل کرتا ہے اور ہلاکتوں سے خلاصی پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے راستے کو اختیار کرتا ہے۔‘‘

صوفیہ کے ہاں اصل محبت تو خالق حقیقی کی محبت ہے اور مجازی محبت بھی اس کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ صوفیہ کا تصور ’ہمہ اوست‘ اسی عشق حقیقی کا نتیجہ ہے۔ وہ ذات باری تعالیٰ میں اس قدر گم ہو جاتے ہیں کہ کائنات کے ذرے ذرے میں ’نورِ حق‘ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور ہر چیز میں جمالِ ذات و صفات دیکھنے لگتے ہیں۔ بیخودی کی یہ کیفیت کبھی کبھی انھیں اس منزل تک پہونچا دیتی ہے، جہاں خود اور خدا کا فرق مٹ جاتا ہے اور ہر طرف ’’نورِ وحدت‘‘ کا نظارہ ہوتا ہے شاید ایسی ہی کیفیت میں بعض صوفیہ نے ’انا الحق‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کیا تھا۔

صوفیہ کی نظر میں انسان خالق کی شاہکار ہے۔ خدا اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، اسی لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق میں بھی اس کی صفات کی جھلک نظر آئے۔ اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے، وہ جمیل ہے اور جمال اسے محبوب ہے۔ وہ عالم و علیم ہے اور علماء اس کی نظر میں افضل ہیں۔ اللہ سخی ہے اور اسے سخاوت کرنے والے پسند ہیں۔ خدا کو ایک کمزور کے مقابلے طاقت ور مومن محبوب ہے۔ وہ حیا کرنے والا ہے اور با حیا بندوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ وعدہ پورا فرمانے والا ہے اور پابندِ عہد بندے اس کی نظر میں محبوب ہیں۔ وہ شکور، صادق اور محسن ہے اسے ان صفات کے حامل بندے پسند ہیں۔

معروف صوفی حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ، میں نے حارث محاسبی کو فرماتے سنا، محبت تیرا کسی بھی چیز کی طرف مکمل طور پر پھر جانا اور مائل ہو جانا ہے پھر تیرا اس کو اپنی جان، روح اور مال پر ترجیح دینا پھر اعلانیہ اور خفیہ اس کی موافقت کرنا اور پھر اپنی محبت کو کوتاہ سمجھنا۔ (روضۃ المحبین ونزہۃ المشتاقین)

حضرت عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں، جس کو محبت عطا کی گئی لیکن اس کی مثل خشیت عطا نہ ہوئی توایسا آدمی دھوکہ کا شکار ہے۔ (ایضاً)

معروف صوفی حضرت یحیٰ بن معاذ کہتے ہیں:

محبت کا ایک ذرہ ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔

وہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

وہ شخص سچا نہیں جو اللہ کی محبت کا دعویٰ کرے اور پھر اس کی حدوں کی حفاظت نہ کرے۔ (ایضاً)

اللہ کے وہ بندے جو اپنے معبود سے سچی محبت کرتے ہیں، انھیں ولی یا اللہ کا دوست کہا جاتا ہے۔ ان بندوں سے خود اللہ بھی محبت کرتا ہے۔ ان کے تعلق سے بخاری شریف کی ایک حدیث ہے، جس کے راوی حضرت انس رضی اللہ عنہ ہیں۔ رسول محترمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’جو میرے ولی کی توہین کرتا ہے وہ مجھ سے اعلانِ جنگ کرتا ہے، اور بندہ فرائض کی ادائیگی کے علاوہ کسی چیز سے میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا اور بندہ نوافل سے میرے قرب کو بڑھاتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں، جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، لہٰذا وہ مجھ سے سنتا ہے، مجھ ہی سے دیکھتا ہے، میرے ذریعے پکڑتا ہے اور میری دی ہوئی طاقت سے چلتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے مانگے تومیں اسے عطا فرماتا ہوں، اگر وہ مجھ سے پناہ چاہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور میں کسی چیز میں تردد نہیں کرتا، سوائے اپنے اس مومن بندہ کی موت کے جو موت کو ناگوار سمجھتا ہے اور مجھے اس کی موت کی برائی ناپسند ہے حالانکہ موت تواس کے لئے ضروری ہے۔‘‘

ذرا بندے کی محبوبیت کا عالم تو دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والا خود کیسے اس کی محبوبیت حاصل کر لیتا ہے گویا اب محبت کرنے والا خود محبوب بن جاتا ہے اور اس کی ناز برداری ایسی ہو رہی ہے کہ خالق کی مرضی بھی شامل ہو گئی ہے اور جو بندہ چاہتا ہے مالک اسے پورا فرما دیتا ہے۔

حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمہ محبت الٰہی کے تعلق سے کیا نظریہ رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس واقعے سے ہو جاتا ہے جسے ابن قیم علیہ الرحمہ نے نقل کیا ہے۔

’’ابو بکر کتانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حج کے زمانے میں محبت الٰہیہ کی حقیقت کا مسئلہ زیر بحث آ گیا۔ شیوخ نے اس بارے میں بحث فرمائی۔ جنید بغدادی علیہ الرحمہ، عمر میں ان سب سے چھوٹے تھے۔ شیوخ نے فرمایا اے عراقی! تم بولو، محبت الٰہیہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انھوں نے اپنا سرجھکا لیا، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، پھر فرمایا ایک ایسا آدمی جو اپنے نفس کو چھوڑ چکا ہو، اپنے رب کی یاد سے مل چکا ہو، اس کے حقوق کو دلجمعی سے ادا کر رہا ہو، اپنے دل کی نگاہ سے اسے دیکھ رہا ہو، اللہ کی ذات میں مشغولیت کے انوار سے اس کا دل جل چکا ہو، اس نے محبت الٰہیہ کا جام انڈیل لیا ہو، اگر بولے تو اللہ کو بولے، اگر گفتگو کرے تو اسی کے بارے میں، اگر حرکت کرے تو اللہ کے امر سے، اگر خاموش رہے تو اللہ کی وجہ سے، وہ اللہ کاہو، اس کے لئے ہو، اس کے ساتھ ہو۔‘‘

صوفیہ کی نظر میں محبت، ایمان و ایقان کی بنیاد ہے۔ جنت کی کنجی ہے۔ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہے مگرسب سے افضل محبت، محبتِ الٰہیہ ہے اور سب سے زیادہ مسرور کن دیدار، دیدارِ جمال خداوندی ہے۔ دنیا کے حسینوں کا حسن اللہ کا عطا کیا ہوا ہے۔ یہ حسن جب اتنا پرکشش ہے کہ دیکھنے والے نظریں ہٹانے کو تیار نہ ہوں تو خالقِ حسن کے جمال کا عالم کیا ہو گا؟ جس کے متعلق فرمایا گیا کہ ’اللہ جمیلٌ ویحب الجمال‘۔ یقیناً اللہ جمیل ہے اور ایسا جمیل ہے کہ اس جیسا صاحبِ جمال کوئی دوسرا نہیں۔ اللہ کا ایک صفاتی نام جمیل بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے بڑھ کر حسن و جمال والا کون ہو سکتا ہے، جس کی کاریگری نے کائنات کے ذرے ذرے میں جمال کے خزانے بکھیر دیئے ہیں۔ مسلم شریف کی حدیث ہے، حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’اللہ کے سامنے نور کا پردہ ہے اگر وہ اٹھا دے تو اس کے چہرے کے انوار حدِ نگاہ تک اس کی مخلوق کو جلا کر بھسم کر دیں۔‘‘ اسی حسن کا ایک پرتو طور پر ظاہر ہوا تھا تو قیامت برپا ہو گئی تھی۔ ہر طرف سے صدائے الاماں بلند ہونے لگی تھی۔

عشق حقیقی کے تعلق سے اہلِ دل نے بہت کچھ کہا اور لکھا ہے۔ انکی نظر میں عشق کی معراج دیدارِ محبوب ہے، لیکن اگر محبوب نے شربتِ دیدار نہیں پلایا تو بھی یہاں ناشکری کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے، بلکہ اس سے تڑپ میں مزید زیادتی ہوتی ہے۔

جنت میں بھیج یا مجھے دوزخ میں ڈال دے

جلوہ دکھا کے پر مری حسرت نکال دے

ابنِ قیم نے اس سلسلے میں اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’روضۃ المحبین ونزہۃ المشتاقین‘ میں کئی صوفیہ کے اقوال درج کئے ہیں جو رہروانِ راہِ سلوک کی مستانہ روی کا پتہ دیتے ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سری سقطی علیہ الرحمہ کو فرماتے سنا:

’’شوقِ خداوندی جب عارف میں متحقق ہو تو یہ سب اس کا سب سے عالی شان مقام ہے۔ جب اس میں شوق پیدا ہو جاتا ہے تو وہ ہراس چیز سے توجہ ہٹا لیتا ہے، جواس کو اس کے شوق سے غافل کر دے۔‘‘

یونہی جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا کہ جب محبوب سے محب کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ روتا کیوں ہے؟ فرمایا یہ اس کی ملاقات کے شوق کے سرور اور درد کی وجہ سے ہوتا ہے۔

حضرت سفیان ثوری کا مشہور واقعہ ہے کہ انھوں نے حضرت رابعہ بصریہ سے پوچھا کہ آپ کے ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا، میں نے اللہ کی عبادت جہنم کے خوف اور جنت کی محبت میں نہیں کی کہ میرا حال برے مزدور کے جیسا ہوتا بلکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور شوق میں عبادت کی۔ (احیاء العلوم، چہارم، صفحہ۶۸۹)

محبت الٰہی کی لذت کو وہی پہچان سکتا ہے جسے اس کی معرفت عطا ہوئی۔ سونگھنے کی طاقت سے محروم انسان خوشبو کا احساس نہیں کر سکتا۔ آنکھوں کی بینائی سے محروم شخص کے لئے حسین نظاروں اور خوبصورت رخساروں کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ بہرا، آواز کے جادو اور موسیقی کی لطافت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح عشقِ الٰہی کی لذت بھی عاشق ہی محسوس کر سکتے ہیں۔

عشق سے عشق، محبت سے محبت مجھ کو

اس قدر ذوقِ بلا، شوقِ مصیبت مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

نامِ صنم لے اور میخانہ میں رقص کر

گا گیت اور طرز مستانہ میں رقص کر

مستی ہے چھائی ہر طرف کیف و سرور ہے

تو اے شرابِ ناب پیمانہ میں رقص کر

(خاقانیؔ)

 

 

 

بر صغیر ہند و پاک کی ثقافت کے فروغ میں صوفیہ کا کردار

 

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو تو دیکھ ان کو

ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

بر صغیر ہند و پاک میں پروان چڑھنے والی قومی یکجہتی، سماجی ہم آہنگی اور مخلوط تہذیب کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ یہاں فروغ پانے والے صوفی سلسلوں کو نہیں سمجھا جاتا۔ ان صوفی سلسلوں نے عظیم اسلامی سلطنتوں کی ثقافتی راہوں کے تعین میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دنیا کی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ جب بھی مذہبی بالادستی کا غلبہ ہوتا ہے تو تہذیب کا فروغ رک جاتا ہے۔ کسی بھی تہذیب کی ترقی کے لئے دقیانوسی روایات کی بیخ کنی اور آزادانہ و دانشورانہ فکر کے فروغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوروپ سے بر صغیر تک ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جہاں سخت سماجی اور مذہبی پابندیوں نے تہذیب کا فروغ روک دیا تھا۔ روم وغیرہ میں جب تک سخت عیسائی نظریات کا تسلط تھا تب تک کسی تہذیب کے پروان چڑھنے کی بات سوچی بھی نہیں جا سکتی تھی کیونکہ روایت کے خلاف جانے والوں کے لئے تختہ دار تیار رہتا تھا۔ اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کی آمد سے قبل تک سخت قسم کے قوانین تھے جس میں ایک بڑا طبقہ ہمیشہ کے لئے ’’شودر‘‘ قرار دیا جا چکا تھا جس کی آزادی کے امکانات معدوم تھے۔ آج کے سعودی عرب کو مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے جہاں سخت بندشوں کے بیچ کسی بھی ثقافت کے فروغ کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ ہندوستان پر قبضہ کرنے والے مسلم حکمراں بھی اپنے ساتھ مخصوص قسم کے نظریات لائے تھے مگر ان تصورات کے برعکس یہاں کے سماج کو پیار و محبت کے سانچے میں ڈھالنے کا کام صوفیوں نے کیا۔ یہی سبب ہے کہ بادشاہ عوام کے جسموں پر حکمراں رہے مگر صوفیوں نے ان کے دلوں پر حکمرانی کی۔ بادشاہوں نے وہ راستہ اپنایا جو ان کی حکمرانی کو طول دینے کے لئے مناسب تھا، وہیں صوفیوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس سے سماج میں پیار و محبت کو فروغ ملتا اور مختلف ثقافتی اور مذہبی طریقوں کے درمیان ہم آہنگی قائم ہوتی۔ صوفیوں نے عرب سے بر صغیر تک یہودیوں، عیسائیوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان رابطے کے پل کا کام کیا۔ اس قسم کے کام مسلمان فاتحین کے مفادات کے خلاف بھی نہیں تھے اور اکثر برداشت کر لئے جاتے تھے۔ یہ صوفیہ، اسلام کے تو عالم تھے ہی ساتھ ہی ساتھ انھوں نے یہودی، عیسائی اور ہندو و بودھ علماء سے بھی ان کے مذہب کو سمجھنے کی کوشش کی تھی اور ان کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ یہی سبب تھا کہ انھوں نے اپنشد، گیتا، ویدوں اور دوسرے قدیم گرنتھوں میں ’’پیغام توحید‘‘ کی شناخت کی اور اس نکتے پر اتفاق کی دعوت دی۔ ظاہر پرست علماء کے برخلاف صوفیہ کرام، اسلام کی روح اور قرآنی تعلیمات کی آتما پر زور دیتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ وہ لوگوں کی روحانی اصلاح میں کامیاب ہوتے تھے۔ ہم آج ایسے بہت سے لوگوں کو اپنے گرد و پیش دیکھتے ہیں، جن کی لمبی لمبی داڑھیاں ہوتی ہیں، نمازوں کے پابند ہوتے ہیں، پاجامے ٹخنے سے اوپر ہوتے ہیں اور ظاہری حالت سنت کے مطابق ہوتی ہے مگر اس کے باوجود ان کا دل انسانی ہمدردی سے خالی ہوتا ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔ وہ غم گساری سے بے نیاز ہوتے ہیں جو عین تقاضائے سنتِ رسول ہے اور خاکساری سے دور ہوتے ہیں جو آدمیت کا فطری نتیجہ ہے۔ صوفیہ ظاہر کے بجائے باطن کو درست کرنے کا کام کرتے تھے کیونکہ اگر انسان کا باطن ٹھیک ہو جائے تو اس کا ظاہر خود بخود بدل جاتا ہے۔

صوفیہ کے اثرات

صوفیہ نے بر صغیر ہند و پاک کے سماج پر انمٹ نقوش چھوڑے، جن کے اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ اس صوفی تحریک نے ہندوؤں میں ’’بھکتی تحریک‘‘ کو جنم دیا۔ بھکتی تحریک میں شامل ہندو سنتوں نے جہاں ایک طرف ہندوؤں کے اندر گرنتھوں کے قدیم ’’نظریہ توحید‘‘ کو آگے بڑھایا وہیں چھوت چھات اور اونچ نیچ کے خلاف بھی آواز بلند کی۔ ظاہر ہے کہ یہ اس خطے میں سماجی بدلاؤ کی ابتدا تھی۔ جس ملک میں دلتوں کو ناپاک سمجھا جاتا تھا، جہاں انسان کو اس کے کردار نہیں بلکہ برادری کے سبب اعلیٰ یا ادنیٰ سمجھا جاتا تھا، وہاں انسانوں کے اندر مساوات کا تصور پیش کرنا ایک بڑے سماجی انقلاب کی طرف پیش قدمی تھی جس کی ابتدا صوفیہ کی جد و جہد سے ہوئی۔ سکھ ازم کے بانی گرونانک جی کے نظریات تصوف سے انتہا درجہ متاثر تھے اور آج تک سکھ سماج پر اس کے اثرات محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ صوفیہ کے زیر اثر اس خطے میں فروغ پانے والی شاعری پربھی ان کی تعلیمات کے اثرات مرتب ہوئے۔ حضرت فرید الدین گنج شکر، امیرخسرو، کبیرداس، ملک محمد جائسی، شیخ باہو، فخر الدین ابراہیم عراقیؔ، بلہے شاہ وغیرہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ فارسی، عربی، اردو، اودھی، بھوجپوری، پنجابی، بنگلہ، آسامی، مراٹھی، تمل، تیلگو، کنڑ، کشمیری، پشتو، بلوچی، سرائیکی سمیت اس خطے کی کوئی ایسی زبان نہیں جس میں صوفیانہ کلام نہ لکھے گئے ہوں اور خدا کی وحدت و کبریائی کے نغمے نہ گائے گئے ہوں۔

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر لے

یہ آگ لگتی نہیں ہے لگائی جاتی ہے

روحانی موسیقی اور صوفیہ

صوفیہ کا ایک طبقہ روحانی موسیقی کو قلب و روح کو گرمانے کا ذریعہ مانتا رہا ہے۔ صوفی موسیقی کی روایت دنیا بھر کے مسلم ملکوں میں چلی آ رہی ہے۔ خود عہد نبوی میں ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا رواج تب بھی تھا۔ بعد کے دور میں اگرچہ علماء کا ایک بڑا طبقہ موسیقی کے خلاف رہا مگر صوفیہ کی محفلوں میں اس کا رواج رہا اور بر صغیر میں تو صوفیہ کا ایک بڑا طبقہ سماع کا دلدادہ رہا۔ علماء وقت کے اعتراضات کے باوجود اس نے اس پر اصرار کیا۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ حضرت قطب الدین بختیار کاکی کا وصال عین حالت سماع میں ہوا۔ حضرت نظام الدین اولیاء، بعض علمائے وقت کی مخالفتوں کے باوجود سماع پر مصر رہے۔ آپ کے مرید امیرخسرو موسیقی کے ماہر ہی نہیں تھے، بلکہ اس میدان میں ایجاد و اختراع کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ عہد اکبر کے معروف گویا تان سین کی پرورش حضرت غوث گوالیاری نے کی تھی اور موسیقی کی تعلیم بھی انھوں نے ہی دی تھی۔ اس خطے میں فن قوالی کی ایجاد بھی یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ صوفیہ نے یہاں کی تہذیب پر کیسے انمٹ نقوش مرتب کئے۔ یہاں گائے جانے والے راگوں میں ایک ’’واتسلیہ رس‘‘ بھی گایا جاتا ہے جو خالص روحانی نغموں کے لئے مخصوص ہے۔ کشمیر کی موسیقی پر خاص ایرانی رنگ بھی صوفیہ کی دین ہے جن کے مبارک قدموں کی بدولت ہی یہاں عظیم سماجی و روحانی انقلاب رونما ہوا تھا۔

مذہب کا جمالیاتی چہرہ ہے تصوف

حکمراں تو بس حکمراں ہوتے ہیں۔ تاریخ نے بار بار دیکھا ہے کہ ان حکمرانوں نے مذہبی احکام کی تشریح بھی اپنے مقاصد کی بر آوری کے لئے کی مگر صوفیہ نے اسلام کا انسانیت نواز جمالیاتی چہرہ عوام کے سامنے پیش کیا۔ اس سے سماج کے اندر محبت اور بھائی چارے کو فروغ ملا۔ صوفیوں نے تمام مذاہب کا احترام کیا۔ صوفیوں کی سب سے خاص بات تھی، ایک خدا پر یقین رکھنا اور تمام انسانوں کو ایک ہی خدا کا بندہ سمجھنا۔ صوفی فلسفہ کی اصل عنصر محبت ہے۔ خالق سے محبت اور اس کی مخلوق سے محبت۔ کیونکہ خالق خود بھی اپنی مخلوق سے محبت کرتا ہے اور اتنی محبت کرتا ہے جتنی ایک ماں اپنے بچے سے نہیں کر سکتی۔ یہی تعلیم انھوں نے لوگوں کو بھی دی، جس سے سماجی ہم آہنگی کو فروغ ملا اور انسانیت نواز جذبات عام ہوئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیہ کے لئے احترام کا جذبہ ہر طبقے میں پایا جاتا ہے اور اس کا اصل سبب ہے، ان کا درس محبت۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مسجدوں میں مسلمان جاتے ہیں، مندروں میں ہند و جاتے ہیں، گرجا گھروں میں عیسائی اور گردواروں میں سکھ جاتے ہیں مگر صوفیوں کے آستانے، وہ جگہیں ہیں جہاں ہر فرقہ، ہر مذہب اور ہر طبقے کے لوگ جاتے ہیں۔ ان کی درگاہیں آج بھی سماجی ہم آہنگی کو فروغ دے رہی ہیں۔ حالانکہ یہ بہتر ہوتا کہ ان کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والے لوگ ان کی تعلیمات توحید، اخوت و محبت اور ان کی زندگی کے حالات کو فولڈر، کتابچوں اور ویڈیو و آڈیو سی ڈی کی شکل میں زائرین کو پیش کرتے۔ اس سے ہمارے معاشرے میں محبت و بھائی چارہ کو فروغ ملتا اور تشدد و دہشت گردی سے پریشان انسانیت کو صوفیہ کی تعلیمات کا سہارا ملتا۔ بھارت اور پاکستان سمیت اس پورے خطے میں سماجی ہم آہنگی اور مختلف طبقوں کے اتحاد میں ’’تصوف‘‘ کا ایک اہم رول رہا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014ء میں برطانیہ کے اپنے دورے میں ویمبلے اسٹیڈیم میں ہزاروں کی تعداد میں موجود لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’اسلام میں صوفی روایت طاقتور رہی ہے جو بھی صوفی روایت کو سمجھے گا وہ ہاتھ میں بندوق لینے کا خیال نہیں لا سکتا۔‘‘

ازل سے ان کی تجلی مری نگاہ میں ہے

یہ جانتا ہوں کہ ان کو جانتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھیں ہیں خوب اس پہ اثر خواب خوب تر

اس کے لبوں سے چھو کے شکر ناب خوب تر

ہونٹوں پہ اس کے برقِ تبسم کی اِک کرن

بہ خندۂ شگوفۂ سیراب خوب تر

(سعدیؔ شیرازی)

 

 

 

بھائی چارہ اور سماجی یکجہتی: صوفیہ کے اقوال کی روشنی میں

 

سماج بنتا ہے انسانوں سے۔ یہ انسان ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ہر کسی کی جسمانی اور ذہنی بناوٹ ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہے۔ کوئی گورا تو کوئی کالا ہوتا ہے۔ کوئی لمبا تو کوئی پستہ قد ہوتا ہے۔ کوئی زود رنج تو کوئی نرم خو ہوتا ہے۔ کسی کے مزاج میں تشدد ہوتا ہے تو کوئی امن پسند ہوتا ہے۔ کوئی محفل کو پسند کرتا ہے تو کوئی تنہائی کا خواہاں ہوتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں کی ضرورتیں بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیں اور سب کی خواہشات کا رخ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ کوئی آدھی روٹی میں خوش تو کسی کو پورا ملک مل جائے تب بھی زیادہ کی چاہت۔ کسی کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا اور کسی کے پاس غذا کا انبار۔ اسی تنوع اور رنگا رنگی کو معاشرہ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ معاشرہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اسے درست رکھنا ان سبھی لوگوں کی ذمہ داری جو اس کا حصہ ہیں۔ ایک دوسرے کی خیر خواہی بھی سبھی انسانوں پر لازم ہے اور تصوف کی تعلیمات اس قدر انسانیت دوست ہیں کہ وہ سماج کو بھائی چارہ اور قومی یکجہتی کے بندھن میں باندھنے کا بڑا کام کرتی ہیں۔ تصوف کی نظر میں انسان تو بس انسان ہے اور سارے انسان، ایک خالق کی مخلوق ہیں لہٰذا اس نسبت سے سب کی خیر خواہی کی ذمہ داری سب پر ہے۔ اگر ایک شخص دوسرے کی بھلائی کے لئے کام نہ کرے تو بھی دوسرے اس کی بھلائی کا خیال رکھیں، یہی تصوف کا سبق ہے اور صوفیہ نے اپنے کردار سے اسی کا درس دیا۔

آدمیت جذبۂ ایثار ہونا چاہئے

آدمی کو آدمی سے پیار ہونا چاہئے

اچھوں کے ساتھ اچھا برتاؤ تو سب کرتے ہیں لیکن جو آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرے، اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا غیر معمولی بات ہے اور تصوف میں اسی کا درس دیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر ایک مشہور صوفی حضرت مالک بن دینار علیہ الرحمہ کا واقعہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے ایک بار ایک مکان کرایے پر لیا۔ پاس ہی ایک یہودی کا مکان تھا جو اپنے گھر کی گندگی، پرنالے سے بہا دیا کرتا تھا اور وہ گندگی آپ کے گھر میں چلی آتی تھی۔ اُس نے ایک مدت تک ایسا کیا مگر آپ نے کوئی شکایت نہیں کی۔ البتہ آپ خود ہی اس کی صفائی کر دیا کرتے تھے۔ ایک دن اس نے پوچھا کہ میں جو نالے سے گندگی بہا دیتا ہوں اس سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا تکلیف تو ہوتی ہے مگر میں نے اس کی صفائی کے لئے ایک جھاڑو اور ایک ٹوکری رکھ چھوڑی ہے۔ اُسی سے صفائی کر دیتا ہوں۔ ظاہر ہے اِس جواب کے بعد اس کے پاس سوائے شرمندگی کے کوئی جواب نہ ہو گا۔ (سچی حکایات، پنجم، بحوالہ تذکرۃ الاولیاء)

پڑوسیوں کے بیچ جھگڑے کے جو اسباب ہوتے ہیں ان میں سے ایک بڑا سبب رد عمل ہے، مگر جو رد عمل (RE ACTION) حضرت مالک بن دینار کی طرف سے دیکھنے کو ملا، ایسا رد عمل ہمارے سماج میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اگر اسی طرح کا رد عمل پڑوسیوں کی طرف سے ہونے لگے تو تمام جھگڑے ہی تمام ہو جائیں اور آدمی کا ایک دوسرے سے بھائی چارہ قائم ہو جائے۔

مسئلے خود بخود حل ہو جائیں گے

اپنی اپنی حدوں میں رہا کیجئے

امام محمد غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:

’’جان لو آپسی محبت، اچھے اخلاق اور اختلاف بد اخلاقی کا نتیجہ ہے۔ اچھے اخلاق باہم محبت، الفت اور موافقت کا سبب ہوتے ہیں اور برے اخلاق سے بغض و عداوت، حسد اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے جیسی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جب پیڑ اچھا ہو تو اس کا پھل عمدہ ہوتا ہے۔‘‘ (جلد دوم، صفحہ 362)

عظیم مبلغِ اسلام اور کشمیر میں روحانی اور سماجی انقلاب برپا کرنے والے حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’ذخیرۃ الملوک‘ میں لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خذ العفو و امر بالمعروف و اعرض عن الجاہلین (عفو اختیار کرو اور اچھائیوں کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جاؤ۔) جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے رسول اللہﷺ سے اس کی تفسیر پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جو شخص بے رحمی سے تجھ سے تعلق توڑے تو مہربانی سے اس کے ساتھ مل جا اور جو تجھ کو بھلائی سے محروم رکھے تو جہاں تک ہو سکے اس پر ایثار ہی کرتا رہ اور جو تجھ پر ظلم کرے تو اس کے ساتھ وفاداری سے برتاؤ ر۔‘‘ (صفحہ، 112)

محبت اور اچھے اخلاق میں طاقت ہوتی ہے۔ یہ طاقت نفرت کو مٹا سکتی ہے اسی لئے یہ حکم ہے کہ جو برائی کرے اس کے ساتھ بھی بھلائی کا برتاؤ کرو، جو تعلق توڑنے کی کوشش کرے، اس کے ساتھ بھی بھلائی کرو اور جو ظلم کرے اس کے ساتھ بھی وفاداری کرو۔ ظاہر ہے کہ محبت، اخلاق، ایثار اور وفاداری کی طاقت، نفرت، بے رحمی، ظلم کو مٹا سکتی ہے۔

گالیوں کے بدلے، دعائیں

اسی طرح کی ایک حکایت حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے تذکروں میں بھی ملتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان بیٹھا سارنگی بجا رہا تھا آپ کا ادھر سے گزر ہوا تو دیکھ کر آپ لاحول پڑھنے لگے، وہ اس سے اسقدر آگ بگولہ ہوا کہ سارنگی سے کھینچ کر آپ کے سر پر دے مارا۔ اس سے نہ صرف بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کا سر پھٹ گیا بلکہ اس کی سارنگی بھی ٹوٹ گئی۔ آپ نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر جا کر سارنگی کی قیمت کے ساتھ ساتھ کچھ مٹھائیاں بھی اس کے پاس بھیج دیں۔ اور کہلا بھیجا کہ، بھائی تمہاری سارنگی ٹوٹ گئی یہ اس کی قیمت ہے۔ اور سارنگی ٹوٹنے سے جو تمہیں تکلیف ہوئی اسے دور کرنے کے لئے یہ مٹھائی ہے۔ اس اخلاق نے اسے ہمیشہ کے لئے آپ کا گرویدہ بنا دیا۔

(یہ واقعہ تذکرۃ الاولیاء اور افضل الفوائد، ملفوظات نظام الدین اولیاء فصل۔ 21 میں درج ہے)

لڑائی جھگڑے اور باہمی منافرت ہمارے سماج کا قابلِ نفرت حصہ ہیں۔ ہمارے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ اسی طرح کی فضول باتوں میں گزر جاتا ہے۔ تھانہ پولس اور کورٹ، کچہری اسی کی بدولت قائم ہیں۔ عوام کے کروڑوں روپئے سالانہ اسی کی نذر ہو جاتے ہیں، لیکن اگر ہم نفرت کا جواب محبت سے دینا سیکھ لیں تو ہمارے کئی مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔ تصوف میں آدمی کو اسی کے لئے راضی کیا جاتا ہے۔ یہاں محبت ہی محبت ہے، پیار ہی پیار ہے، ایسے میں کہاں کی لڑائی اور کیساجھگڑا؟

برائی کا بدلہ بھلائی

حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ کے حاضر باشوں میں ہر طبقے کے لوگ ہوتے تھے۔ شاہزادوں اور درباریوں سے لے کر عام غریب لوگ بھی موجود رہتے تھے۔ بعض حاسد قسم کے لوگ بھی آپ کی محفل میں آتے تو بعض جان چھڑکنے والے عقیدت مند بھی ہوتے تھے۔ آپ کے ملفوظات کے جامع امیر حسن سنجری ایک مجلس کا ذکر کرتے ہیں:

’’حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا کہ بعض آدمیوں نے جناب کو ہر موقع پر برا کہا وہ آپکی شان میں ایسی باتیں کہتے ہیں جن کے سننے کی ہم تاب نہیں لا سکتے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب کو معاف کیا تم بھی معاف کر دو اور کسی سے دشمنی نہ کرو۔ بعد ازاں فرمایا کہ چھجو، ساکن اندیپ ہمیشہ مجھے برا بھلا کہا کرتا اور میری برائی کے درپے رہتا۔ برا کہنا سہل ہے لیکن برا چاہنا اس سے برا ہے۔ الغرض جب وہ مرگیا تومیں تیسرے روز اس کی قبر پر گیا اور دعاء کی کہ پروردگار! جس نے میرے حق میں برا بھلا کہا، میں اس سے درگزرا، تو میری وجہ سے اسے عذاب نہ کرنا۔ اس بارے میں فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے مابین رنجش ہو تو دور کر دینی چاہیے۔ اگر ایک شخص دور کر دے گا تو دوسرے کی طرف سے کم تکلیف ہو گی۔، ، (جلد 3، مجلس۔ 5)

آدمی کی شخصیت اچھائیوں اور برائیوں سے بنی ہے، وہ کئی بار غیر اخلاقی (IMMORAL) کام بھی کرتا ہے مگر اس کی برائی کا جواب اچھائی سے دینے والے کم ہی ملتے ہیں۔ ذرا سوچئے اگر ایک شخص کانٹے بوتا ہے اور اس کے جواب میں دوسرا بھی کانٹے بوئے تو پھر ایک سلسلہ چل پڑے گا اور یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی اور کانٹوں کی وجہ سے یہاں گزر بسر نا ممکن ہو جائے گا مگر کانٹوں کے جواب میں اگر پھول بوئے جانے لگیں تو کتنا اچھا ہو۔ یہ دنیا گلزار بن جائے اور جنت کا نمونہ لگنے لگے۔ تصوف کی تعلیمات میں یہی خوبی ہے کہ یہ انسان کو ہمیشہ اس بات کا احساس دلاتی رہتی ہیں کہ وہ ایک انسان ہے اور اللہ کا بندہ ہے، جسے چند روزہ زندگی کے بعد اللہ کی بارگاہ میں جانا ہے۔ جو زندگی عنقریب ختم ہونے والی ہے اس میں نفرت اور بد اخلاقی کی کھیتی کیا کرنا۔

محبت سماج کو جوڑنے والی چیز ہے۔ دشمن کو بھی دوست بنانے والی چیز ہے۔ اسی لئے تصوف میں سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے محبت پر۔ بھائی چارے پر۔ ایک دوسرے کی غمخواری پر۔ اپنے عہد کے معروف صوفی حضرت ابو حمزہ بغدادی کا قول ہے:

’’جب تمہارا جسم تم سے سلامتی پائے تو جان لو کہ تم نے اس کا حق ادا کر دیا اور جب لوگ تم سے محفوظ رہیں تو جان لو کہ تم نے ان کا حق ادا کر دیا۔، ، (کشف المحجوب، صفحہ 230)

یعنی خود کو سلامت رکھنا، اپنے جسم کا حق ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی دوسروں کی بھی بھلائی چاہے۔ یہ دوسرں کا حق ہے کہ وہ ہماری اذیت اور تکلیف سے محفوظ رہیں۔ سماج کی خیر خواہی اور خدا کے بندوں کی بھلائی، یہ وہ انسانی صفات ہیں جن پر تصوف میں خاص دھیان دیا جاتا ہے اور انھیں عبادت تصور کیا جاتا ہے۔

یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں

کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

خدمت خلق سے محبت پھیلتی ہے

خدمت خلق یعنی انسان کی خدمت اور لوگوں کی سیوا صوفیوں کا طریقہ رہا ہے۔ وہ اپنی خانقاہوں سے کئی کام خدمت کے جذبے سے کرتے تھے۔ خانقاہوں نے سماج سیوا کی ایسی ایسی مثالیں قائم کیں، جو بادشاہوں اور امیروں کے لئے بھی نا ممکن تھیں۔ ایسی خانقاہیں ان سبھی ممالک میں پھیلی تھیں، جہاں صوفیہ تھے، ان کے نظریات و خیالات تھے اور تصوف کے سلاسل موجود تھے۔ دلّی کی سب سے مشہور خانقاہ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ تھی جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ اس خانقاہ کی طرف سے روزانہ ہزاروں افراد کے لئے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا تھا۔ جو غریب و نادار نہیں آ سکتے تھے، ان کے گھر کھانا بھیج دیا جاتا تھا۔ کئی غریب خاندانوں کے لئے وظیفے مقرر تھے جو پابندی کے ساتھ ہر مہینے انھیں بھیج دیئے جاتے تھے۔ علماء، حفاظ اور فقراء ومساکین کی مدد کے لئے ہمیشہ دروازہ کھلا رہتا۔ علم حاصل کرنے والے طلباء کے اخراجات خانقاہ سے ہی پورے کئے جاتے تھے۔ جو غریب خاندان دلی سے دور جنوبی ہند میں تھے ان کی مدد کے لئے بھی یہاں سے پیسے بھیج دیئے جاتے تھے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر لوگ خانقاہ کی طرف مدد کے لئے دیکھتے تھے۔ اس خانقاہ کی یہ حالت تھی کہ ہر جمعہ کو جھاڑو پھیر دیا جاتا تھا اور کوئی بھی چیز باقی نہیں چھوڑی جاتی تھی جو کچھ بھی بچا کھچا ہوتا اسے خیرات کر دیا جاتا تھا۔ یہ روایت صرف اسی خانقاہ کی نہیں تھی دیگر خانقاہوں میں بھی اسی قسم کی سماجی خدمات کا سلسلہ جاری تھا۔ اس کے پیچھے صوفیہ کی خاص سوچ تھی، جس کی جھلک خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان میں ملتی ہے:

’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداء میں ہو گا۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اس کی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے، اور جنت میں اس کے لئے ایک محل مخصوص کرتا ہے۔، ،

(انیس الارواح، مجلس۔ 10)

ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے:

’’میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سنا کہ اللہ تعالیٰ تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے، پہلے وہ با ہمت لوگ جو محنت کر کے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں۔ تیسرے وہ جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔، ،

(انیس الارواح، مجلس۔ 20)

اسی طرح حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ:

’’کھانا کھلانا سبھی مذاہب میں پسندیدہ ہے۔، ، (فوائد الفواد، جلد۔ 1، مجلس۔ 17)

اس قسم کے اقوال صوفیہ کے ملفوظات اور ان کی کتابوں میں بہت زیادہ ملتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ خدمت خلق کو کتنا پسند کرتے ہیں۔ وہ اس خدمت کو نہ صرف خدا تک پہونچنے کا ذریعہ سمجھتے تھے بلکہ وہ اسے انسانوں میں محبت اور بھائی چارہ کی اشاعت کا ذریعہ بھی تصور کرتے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

تمہارے پیار کے رستے میں مشکلیں کیسی

کہ خارِ دشتِ محبت، گلاب و ریحاں ہے

ترا ستم بھی کرم ہے ہمارے دل کے لئے

تمہارا زخم بھی زخمِ جگر کا درماں ہے

(سعدیؔ شیرازی)

 

 

 

 قیام امن میں صوفیہ کی تعلیمات کا رول

 

صوفیہ کا پیامِ امن آج بھی دنیا کو امن و محبت کا گہوارہ بنا سکتا ہے

امریکہ کے ایک دانشور سیمویل ہنٹنگٹن نے کبھی تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا تھا۔ ان کے خیال کو عیسائیت اور اسلام کے درمیان تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا مگر آج جو دنیا بھر میں جد و جہد چل رہی ہے اس میں خود مسلمان ہی مسلمان سے برسرپیکار ہیں گو اس کی زد میں کچھ دوسرے لوگ بھی آ رہے ہیں۔ معروف عالم دین مولانا وحید الدین خاں کہہ چکے ہیں کہ ’’مسلم دنیا بارود کے ڈھیر پر کھڑی ہے، کسی چھوٹی سی وجہ سے دھماکہ ہو سکتا ہے۔ تمام مسلمان ٹائم بم کی طرح رہ رہے ہیں۔‘‘ اگر عالمی حالات کا مطالعہ کریں تو مولانا کی بات سے اتفاق کرنا پڑتا ہے کیونکہ آج دنیا بھر میں جس قدر قتل و غارت گری ہو رہی ہے، جتنی نفرت، تشدد، جنگ اور دہشت گردی کی گرم بازاری ہے، وہ اسلام کے ہی نام پر ہے اور اس کی زد میں غیر مسلم کم مسلمان زیادہ آ رہے ہیں۔ پہلے مسلمانوں کا جھگڑا اسلام کے منکر ’’کافروں‘‘ سے تھا مگر اب وہ ’’کلمہ گو کافروں‘‘ کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ پہلے وہ دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کرتے تھے مگر اب ’’اہل قبلہ دشمنان اسلام‘‘ کے خلاف ان کا ’’جہاد‘‘ ہے۔ عراق، شام، افغانستان، پاکستان، لیبیا، مصر اور افریقی ملکوں میں ان خود ساختہ جہادیوں کے حملوں میں جو لوگ مارے جا رہے ہیں، ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔ اس متحرک جنگ کے علاوہ ایک غیر متحرک جنگ بھی مسلمانوں میں جاری ہے۔ یہ جنگ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ زبان اور دل دے لڑی جا رہی ہے۔ شیعہ۔ سنی، صوفی۔ سلفی، مقلد۔ غیر مقلد، دیوبندی۔ بریلوی جیسے موضوعات پر جو جنگ لڑی جا رہی ہے وہ نفرت کی جنگ بھی کم خطرناک نہیں ہے۔ پہلے نفرت ’’مشرکوں‘‘ سے تھی مگر اب نفرت کے نشانے پر ایک اللہ میں یقین رکھنے والے ’’مشرک‘‘ ہیں۔ نفرت کی اس لڑائی میں اب تک لاکھوں لوگ مارے جا چکے ہیں اور ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔ آج اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ خودمسلمانوں سے ہے۔

تشدد، بد امنی اور نفرت کا کھیل

گزشتہ دنوں پاکستان کے آرمی اسکول میں حملہ ہوا جس میں بڑی تعداد میں معصوم بچے مارے گئے۔ یہاں شیعوں پر حملہ عام بات ہے اور درگاہوں کے زائرین پر بارہا خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ شام، عراق اور افغانستان میں اب تک ہزاروں نہیں لاکھوں مسلمان ان حملوں میں مر چکے ہیں یا اپنے اعضا گنوا چکے ہیں مگر اب دہشت کا خوفناک عفریت ترکی اور سعودی عرب کو بھی اپنے چنگل میں لیتا جا رہا ہے۔ بوکو حرام کے دہشت گردوں نے نائیجیریا کے ایک فوجی اڈے پر لوٹ مار کے بعد تقریباً پورے شہر کو آگ لگا کر تباہ کر دیاجس میں ہزاروں لوگ جھلس کر مر گئے۔ یہاں خواتین کا اغوا عام بات ہے۔ الشباب نامی تنظیم افریقہ کے کئی ملکوں میں متحرک ہے اور آئے دن خونریزی کر تی رہتی ہے۔ 2014 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2013 میں 80 فیصد دہشت گرد اموات صرف پانچ ممالک عراق، شام، پاکستان، افغانستان اور نائیجیریا میں ہوئی ہیں۔ یہ تمام اسلامی ممالک ہیں اور مرنے والے بھی مسلمان ہی ہیں۔ 2013 میں دہشت گردی کی وجہ سے ہوئی اموات میں سے 66 فیصد چار دہشت گرد تنظیموں ISIS، بوکو حرام، طالبان اور القاعدہ کے حملوں میں ہوئیں جب کہ دہشت گرد تنظیمیں صرف یہی چار نہیں ہیں، بلکہ دنیا بھر میں قریب سو ہیں۔ اگر ان وارداتوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ تقریباً 80 سے 85 فیصد وارداتیں اسلام کے نام پر قائم دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے ہو رہی ہیں۔ ایک طرف تو مسلمان کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا دہشت گردی سے کوئی رشتہ نہیں ہے اور دوسری طرف دہشت گردی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بتاتا ہے کہ نفرتوں کا یہ پورا کھیل اسلام کے نام پر کھیلا جا رہا ہے۔ مسلمان یہ کہہ کر اپنی گردن چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے ان واقعات کے پیچھے اسلام دشمنوں کا ہاتھ ہے اور امریکہ، اسرائیل و یوروپی ممالک کی سازشیں ہیں۔ حالانکہ یہ طوفان کے خوف سے شترمرغ کی طرح ریت میں سر چھپانے والی بات ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ اگر دشمنان اسلام، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں تو ہمارے لوگ ان کے آلۂ کار کیوں بن رہے ہیں؟ دشمنان اسلام کی سازشیں کوئی نئی نہیں ہیں مگر جس طرح سے آج مسلمان برادر کشی کر رہے ہیں، ماضی میں کم ہی ایسا دیکھا گیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا برمحل ہو گا کہ اس وقت دنیا بھر میں جو تنظیمیں دہشت گردی میں سرگرم ہیں، وہ اسلام کے جمالیاتی رخ تصوف کی منکر ہیں اور اسے غیر اسلامی نظریہ قرار دیتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ان حالات سے مسلمان کیسے نکل سکتے ہیں اور تشدد و نفرت کی یہ آگ کیسے بجھ سکتی ہے؟ دنیا کو امن و امان کا گہوارہ کیسے بنایا جا سکتا ہے اور عالمی قیام امن کیسے ممکن ہے؟

تصوف! امن و محبت کا پیام

قتل، مسلمان کا ہویا غیر مسلم کا وہ قتل ہے، ظلم ہے اور اللہ کی قدرت میں مداخلت کی مصداق ہے۔ قرآن کریم اسے ساری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے اور تصوف اس کی مذمت کرتا ہے۔ تصوف دنیا کو امن، عدم تشدد اور محبت و بھائی چارہ کا درس دیتا ہے۔ صوفیہ نے پوری دنیا کو محبت کا پیغام دیا۔ ان کا اخوت و محبت کا پیغام آج بھی با معنیٰ ہے جو دلوں کو جوڑنے کا کام کر سکتا ہے۔ تصوف کی سب سے بنیادی تعلیم ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک سے ایسا روحانی رشتہ جوڑے کہ اسے اپنے دل کے آئینے میں ساری دنیا کا عکس نظر آنے لگے۔ اس طرح دل سے دل کے تار جڑتے چلے جائیں گے اور کوئی بھی اس کے لئے غیر نہیں رہ جائے گا۔

پوتھی پڑھ پڑھ جگ موا، پنڈت بھیا نہ کوئے

ڈھائی آکھر پریم کے پڑھے سو پنڈت ہوئے

تصوف کہتا ہے کہ خدا ایک ہے۔ اس کی نظر میں اس کے سارے بندے ایک ہیں۔ اللہ سے محبت ہی انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ محبت ہی زندگی کی سب سے بڑی سچائی ہے۔ جو انسان اس محبت کو پا لیتا ہے اسے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہ جاتی۔ صوفیہ نے اپنے پرائے کے دائرے سے باہر نکل کر پوری دنیا کی بھلائی کے لئے انسانیت پر زور دیا۔ انہوں نے کسی بھی تفریق سے اوپر اٹھ کر انسان کے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ خدا کو حاصل کرنے کے لئے جو گی بننا ضروری نہیں ہے۔ گھر گرہستی میں رہ کر بھی خدا سے رشتہ جوڑا جا سکتا ہے۔ بیوی، بچوں سے محبت ہے تو خدا سے بھی محبت ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا کو اپنا گھر، خاندان سمجھنے والے صوفیوں نے محبت کی ایک ایسی مشعل روشن کی جس کی روشنی میں آج بھی پوری دنیا اپنا راستہ صاف صاف دیکھ سکتی ہے۔

محبت دو دلوں میں فاصلہ رہنے نہیں دیتی

میں تم سے دور رہ کر بھی تمہیں نزدیک پاتا ہوں

عہد بنو امیہ اور بنو عباسیہ میں جب علوم تفسیر، حدیث اور فقہ کی تدوین ہو رہی تھی اسی زمانے میں تصوف نے بھی ایک الگ شعبے کے طور پر شناخت بنائی اور اسی دور میں یہ عالم اسلام کے نصاب تعلیم کا سب سے اہم حصہ بن گیا تھا۔ تصوف نے اسلامی معاشرے کے شہری اور دیہی علاقوں میں اپنی جڑیں جما لیں اور بڑے پیمانے پر سماجی، سیاسی اور ثقافتی اثر ڈالا۔ اس نے مذہب کے نام پر جاری ہر قسم کی منافرت کے خلاف آواز اٹھائی۔ عہد وسطیٰ، جس میں سیاسی پاگل پن پوری شدت سے موجود تھا، اس زمانے میں لوگوں کو اخلاقیات کا سبق پڑھایا اور دنیا میں امن و ہم آہنگی کے قیام میں بڑا کارنامہ انجام دیا۔ تصوف کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ اس نے وسط ایشیا سے بر صغیر ہند و پاک تک سماج کو جوڑنے کا کام کیا۔ آج ایک بار پھر دنیا اس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے اور ایک بار پھر تصوف کی جانب رخ کر رہی ہے۔ آج عالمی سطح پر اس کا چرچا ہے۔ اروناچل پردیش کے گورنر ریٹائرڈ آرمی چیف جے جے سنگھ کا کہنا ہے کہ تصوف ہمیں باہمی محبت اور امن کا پیغام دیتا ہے۔ دوستی اور خیر سگالی کا یہ پیغام مسلسل دنیا کے ہر کونے میں پہنچتا رہے، اس کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ انھوں نے پنجاب میں ایک صوفی میلے میں شرکت کے بعد کہا کہ پنجاب کی مقدس سرزمین سے دنیا میں صوفیوں کے پیغام کو پھیلانا ایک عظیم قدم ہے۔ پنجاب کی سرزمین بہادروں، شور ویروں اور صوفی سنتوں کی زمین ہے۔ اس زمین سے محبت، امن اور بہادری کا پیغام ساری دنیا تک پہنچا ہے۔ دوسری طرف معروف فلم اور تھیٹر اداکار اوم پوری کا خیال ہے کہ ’’ تصوف مذہب نہیں، بلکہ دماغ کی اعلیٰ کیفیت کا نام ہے۔ تصوف ایک دوسرے کو ملانے والی اہم طاقت ہے۔ یہ کبھی نہ ختم ہونے والا ترانہ ہے جس نے پوری دنیا پر جادو کر رکھا ہے۔‘‘ اب جب کہ دنیا اسلامی تعلیمات کی روح یعنی تصوف کی جانب واپس لوٹنے کے لئے بے قرار ہے اور اس کے دامن میں امن و شانتی کا پیغام اور اپنے مسائل کا حل ڈھونڈ رہی ہے تو ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ کتابوں میں دفن صوفیوں کی تعلیمات کو عام کریں اور اسے دنیا تک پہنچائیں۔ یقین جانیئے جس دن دنیا نے ان پیغاموں سے آگہی حاصل کر لی اسی دن دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا اور امن کا قیام بھی ممکن ہو سکے گا، کیونکہ جو لوگ بھی آج دہشت گردی میں ملوث ہیں اور دنیا میں امن کے دشمن بنے بیٹھے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جو اہل تصوف کی تعلیمات سے دور ہیں۔ دہشت گردی کا حل صوفیوں کی تعلیمات میں ہے۔ اس پر عمل کئے بغیر دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ صوفیوں نے امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا۔ آج کچھ قوتیں نوجوانوں کو بہلا پھسلا کر تشدد کے راستے پر لے جانا چاہتی ہیں، اگر آنے والی نسل کو تشدد اور دہشت گردی سے روکنا ہے تو انھیں صوفیہ کی تعلیمات سے قریب کرنا ہو گا۔ داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات سے دنیا کو روبرو کرنا ہو گا، خواجہ معین الدین چشتی کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہچانا ہو گا، حضرت نظام الدین اولیاء کے امن کے سبق سے لوگوں کو آشنا کرنا ہو گا۔

شکتی بھی شانتی بھی بھکتوں کے گیت میں ہے

دھرتی کے باسیوں کی مکتی پریت میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

زہے لواء و علم لا الہ الا اللہ

بلندیوں پہ قدم لا الہ الا اللہ

ہزار عدل سے بہتر ہے اس کا ایک ستم

زہے خوشیِ ستم لا الہ الا اللہ

(جلال الدین رومی)

 

 

 

 

صوفیہ کی تعلیمات اپناؤ اور دہشت گردی سے نجات پاؤ

 

دہشت گردی کو کیسے ختم کیا جائے؟ کیا کوئی ایسی ترکیب ہے جس کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ کیا دہشت گرد گروہوں کے پھلنے پھولنے سے روکا جا سکتا ہے؟ اس قسم کے سوال ان دنوں اکثر پوچھے جاتے ہیں اور میڈیا میں اس قسم کی بحثیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دہشت گردی اور تشدد ہمارے سماج کا ناسور بن چکا ہے اور دنیا اس کے خاتمے کے لئے سرگرداں ہے۔ جہاں ایک طرف طاقت ور ملکوں کی طرف سے کمزور ملکوں کے خلاف دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے، وہیں دوسری طرف سماج کا ایک طبقہ دوسرے طبقے پر ظلم و جبر میں مصروف ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں کئی قسم کی دہشت گردیاں نظر آ رہی ہیں۔ امیر اور طاقت ور ممالک کمزور ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کر رہے ہیں۔ حکمراں طبقہ عوام کے حقوق مار کے اپنے لئے عیش و عشرت کے محل تعمیر کر رہا ہے تو کچھ تشدد پسند جماعتیں عوامی مقامات پر بم دھماکے کر کے لوگوں کو خوف وہراس میں مبتلا کر رہی ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم عام ہیں جو تشدد اور دہشت گردی کی ہی ایک قسم ہیں اور ان جرائم میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بیچ کوئی فرق نہیں ہے۔ ہمارے سماج کا امن و سکون انھیں حالات کی نذر ہو چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ایام مزید بدتر ہوں گے کیونکہ بڑے دہشت گرد چھوٹے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے درپے ہیں تاکہ ان کے مظالم کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا باقی نہ رہے۔

بغداد، دلی، ماسکو، لندن کے درمیاں

بارود بھی بچھائے گی اکیسویں صدی

دہشت گردی کے خاتمے میں تعلیمات صوفیہ کی اہمیت

انسانی سماج اور جنگل راج میں یہ واضح فرق ہے کہ انسانی سماج کا ایک دستور ہوتا ہے جب کہ جنگل میں کوئی قانون نہیں چلتا ہے۔ ہر طاقت ور جانور کمزور جانور کو کھا جاتا ہے۔ مگر انسانی معاشرہ میں ایسا نہیں چل سکتا۔ انسان کو بقائے باہم کے دستور پر چلنا پڑتا ہے اور ’’جیو اور جینے دو‘‘ کے مطابق زندگی گزارنا پڑتا ہے۔ یہ حق پورے مہذب سماج کا ہے۔ اس کے بغیر کوئی انسانی معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ بقائے باہم کا اصول اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ حقوق کا حصہ ہے۔ ویسے بھی اگر انسان خون انسانی کا احترام کرنا بند کر دے تو یہ دنیا باقی نہیں بچے گی اور سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا۔ بقائے باہم کے اصول کو توڑنا ہی بنیادی طور پر دہشت گردی ہے۔ یہ جرم کوئی ایک انسان کرے، پوری جماعت کرے یا کوئی ملک کرے، بہرحال غلط ہے۔ جو انسان ایسی حرکت کا ارتکاب کرتا ہے، وہی دہشت گرد ہے اور وہ اس سماج میں رہنے کے لائق نہیں۔ ملکی قوانین انسان کو دہشت گردی سے روکنے کا کام کرتے ہیں اور قانون کے خوف سے لوگ جرائم سے رک جاتے ہیں مگر صوفیہ کی تعلیمات میں دہشت گردی اور تشدد سے بچاؤ کا ایک مختلف راستہ اپناتا ہے۔ وہ انسان کو انسان کا احترام سکھاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قانون کا احترام اپنی جگہ پر مگر اصل بات اپنے خالق و مالک کا خوف ہے۔ قانون کا خوف تو لوگوں کے اندر تب ہوتا ہے جب گواہ موجود ہوں، جب کہ صوفیہ کی تعلیمات انسان کو غلط کاریوں اور ظلم و تشدد سے روکنے کے لئے اللہ کی جانب مائل کرتی ہیں۔ تصوف بتاتا ہے کہ اللہ ہر وقت، ہر جگہ انسان کی نگرانی کر رہا ہے، اس لئے اسے کبھی بھی قدرت کے قانون کے خلاف نہیں جانا چاہئے۔ اللہ انسان کے دلوں کے بھید سے بھی واقف ہے لہٰذا دل کے اندر بھی ایسا خیال نہ لایا جائے۔ تصوف انسان کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ وہ اس قسم کے ظالمانہ کاموں کی طرف مائل ہی نہ ہو۔ یہاں آدمی کی سوچ کو مثبت بنایا جاتا ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ فلاں شخص میرے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے، کیا میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں تو آپ نے فرمایا کہ، ہرگز نہیں۔ اگر کوئی تمہارے راستے میں کانٹے بچھائے اور تم بھی اس کے راستے میں کانٹے بچھاؤ تو یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔ کانٹوں کو جواب کانٹے ہرگز نہیں ہو سکتے۔ صوفیہ کرام کی یہی تعلیمات انسان کے اندر مثبت اسپرٹ پیدا کرتی ہیں اور اسے ظلم و تشدد سے روکتی ہیں۔ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو دنیا کو اسی سوچ کی جانب آنا پڑے گا۔ اس تعلیم و تربیت کی ضرورت آج جس قدر ان جماعتوں کے لوگوں کو ہے جو حکومتوں کے خلاف مسلح ہو کر کھڑے ہوئے ہیں، اس سے زیادہ ان حکمرانوں کو ہے جن کے غیر منصفانہ اقدام نے تشدد اور دہشت گردی کو جنم دیا ہے۔

مظالم کی ممانعت

صوفیہ کرام کی تعلیمات مظالم کی ممانعت کرتی ہیں۔ وہ انسان ہی نہیں جانوروں پر بھی ظلم کے خلاف ہیں۔ امام محمد غزالی علیہ الرحمہ نے اپنی تصنیفات میں ظلم کے خلاف کئی واقعات درج کئے ہیں۔ جن میں سے ایک واقعہ یوں ہے کہ:

’’وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کسی ظالم بادشاہ نے شاندار محل بنوایا۔ ایک مفلس بڑھیا آئی اور اس نے محل کے پہلو میں اپنی کٹیا بنا لی، جس میں وہ سکون سے رہتی تھی۔ ایک مرتبہ ظالم بادشاہ نے سوار ہو کر محل کے ارد گرد چکر لگایا تو اسے بڑھیا کی کٹیا نظر آئی، اس نے پوچھا کس کی ہے؟ کہا گیا ایک بڑھیا ہے جو اس میں رہتی ہے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اسے گرا دو لہٰذا اس کے حکم سے گرا دیا گیا۔ جب بڑھیا واپس آئی تو اس نے اپنی منہدم کٹیا کو دیکھ کر پوچھا کہ اسے کس نے گرا دیا ہے؟ لوگوں نے کہا اسے بادشاہ نے دیکھا اور گرا دیا۔ تب بڑھیا نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور کہا اے اللہ اگر میں حاضر نہیں تھی تو، تو کہاں تھا؟ اللہ نے جبریل کو حکم دیا کہ محل کو اس کے رہنے والوں پر الٹ دو اور الٹ دیا گیا۔، ،

اس قسم کے واقعات عموماً صوفیہ کے تذکروں، ملفوظات اور مکتوبات میں مل جاتے ہیں۔ ان واقعات کے ذریعے صوفیہ کرام اپنی خانقاہوں میں آنے والوں کی تربیت کیا کرتے تھے اور اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ ظلم و تشدد سے دور رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کریں۔

انسانی جان کے احترام کی تعلیم

دہشت گردی کا اصل سبب ہے انسان کے دل کا خوفِ خدا سے خالی ہونا۔ جس کے دل میں خدا کا خوف نہ ہو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ آخرت میں جوابدہی کے احساس کی کمی بھی اسے جرائم کی جانب مائل کرتی ہے۔ صوفیہ کرام کی تعلیمات انسان کے دل میں جہاں اس کی معرفت جگانے کا کام کرتی ہیں، وہیں اس کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی سکھاتی ہیں۔ صسوفیہ کی تعلیمات انسانی جانوں کا احترام سکھاتی ہیں، خونِ ناحق سے دور رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ صوفیہ تو جانوروں کے احترام کی بھی تعلیم دیتے ہیں پھر ان کی تعلیمات پر عمل کرنے والا شخص انسان کو کیسے مارسکتا ہے اور دہشت گردی و جرائم کی جانب کیسے مائل ہو سکتا ہے۔ حضرت امام محمد غزالی علیہ الرحمہ جو کہ ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ہی ساتھ ایک بلند پایہ صوفی بھی تھے، اپنی کتاب مکاشفۃ القلوب میں تحریر کرتے ہیں کہ ’’رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے، جنت میں رحم کرنے والا ہی داخل ہو گا، صحابہ نے کہا ہم سب رحم کرنے والے ہیں، آپ نے فرمایا رحم کرنے والا وہ نہیں جو اپنے آپ پر رحم کرے بلکہ رحم کرنے والا وہ ہے، جو اپنے آپ پر اور دوسروں پر رحم کرے۔، ، وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’فرمان نبوی ہے جوکسی بھوکے کو کھانا کھلاتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے اور جس نے کسی بھوکے سے کھانا روک لیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص سے اپنا فضل و کرم روک لے گا۔، ، ایک بزرگ شیخ ابو عبد اللہ بلیانی رحمۃ اللہ علیہ گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ’’درویشی صرف شب بیداری، نماز روزہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ سب تو بندگی کے اسباب ہیں۔ درویشی یہ ہے کہ کسی کو تکلیف نہ دینا، اگر تجھے یہ بات حاصل ہو جائے گی تو واصل بن جائے گا۔، ،

بر صغیر ہند و پاک میں چشتی سلسلہ کے بزرگوں کی تعلیمات کا زیادہ اثر رہا کیونکہ یہاں خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے کو رائج کیا اور ان کے بعد ملک بھر میں اس سلسلے کو فروغ حاصل ہوا۔ خواجہ صاحب نے اپنے پیر و مرشد خواجہ عثمان ہارونی علیہ الرحمہ کا قول اپنی کتاب انیس الارواح کی دسویں مجلس میں بیان کیا ہے جو اس طرح ہے: ’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں، وہ ایسا ہوتا ہے جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداء میں ہو گا۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اس کی ہزار ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے اور جنت میں اس کے لئے محل مخصوص کرتا ہے۔‘‘ قابل غور پہلو یہ ہے کہ جن صوفیہ کی نظر میں پیاسے کو پانی پلانا، بھوکے کو کھانا کھلانا اور پریشان حال شخص کی پریشانی دور کرنا اللہ کی رضامندی کا ذریعہ ہے، وہ کسی کو اس بات کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں کہ وہ کسی پر بھی ظلم و تشدد کرے یا دہشت گردی میں ملوث ہو۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’حق تعالیٰ کی خوشنودیوں میں کوشش کرنا چاہئے اور مخلوق خدا پر رحم کرنا چاہئے۔ اللہ کے حکم کی تعظیم کرنا اور اللہ کی مخلوق پر شفقت کرنا یہ دونوں آخرت کی نجات کے لئے اصلِ عظیم ہیں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

صبا کی دوش پہ خوشبوئے کوئے یار آتی ہے

کہ اس کی بو شفائے جانِ ہر بیمار آتی ہے

چمن میں پھول کی خوشبو پہ دل قربان کرتا ہوں

کہ اس کے رنگ سے یادِ رخِ دلدار آتی ہے

(ابراہیم عراقیؔ)

 

 

 

مشترکہ سماجی قدریں اور تصوف

 

ہمارے مخلوط معاشرے کو صرف صوفیہ کی تعلیمات جوڑے رکھ سکتی ہیں

ہماری زندگی کیا ہے محبت ہی محبت ہے

تمہارا بھی یہی دستور بن جائے تو اچھا ہو

’’تصوف‘‘ ایک خالص اسلامی نظریہ ہے جو اسلام کے جمالیاتی رخ کو پیش کرتا ہے۔ اس میں وہ قوت ہے کہ کسی بھی سماج میں جذب ہو سکتا ہے اور وہ لچک ہے کہ کسی بھی طبقے کو اپنا بنا سکتا ہے۔ اس کے لئے کوئی غیر نہیں اور اسے کسی سے بیر نہیں۔ یہی سبب ہے کہ یہ دنیا کے جس خطے میں پہنچا وہاں کے معاشرے میں شیر و شکر کی طرح گھل مل گیا اور وہاں کے لوگوں کو اپنا بنا لیا۔ پہلی صدی ہجری کے اخیر میں جب تفسیر، حدیث، فقہ اور اسماء الرجال کے علوم کی الگ شناخت بن رہی تھی تب تصوف بھی علم الٰہیہ کے طور پر اپنی الگ پہچان بنا رہا تھا۔ جب شریعت، انسان کے ظاہر کو قواعد و ضوابط کی پابند بنا رہی تھی، تب طریقت اس کے باطن کو ’’ خدا رخی‘‘ بنانے میں لگی ہوئی تھی۔ اسلام کی ظاہری شکل و صورت پر بعض اوقات حکمرانوں اور سیاسی مصالح کا اثر دیکھنے کو ملا مگر اس کے باطن پر کبھی وہ اپنا اثر نہ ڈال سکے اور یہی خالص اسلام ’’تصوف‘‘ کہلایا۔ بارہویں صدی عیسوی تک، تصوف، مسلم سماجی زندگی کا ایک عالمگیر حصہ بن چکا تھا کیونکہ یہ پوری اسلامی کمیونٹی پر اثر انداز ہو چکا تھا۔ اس بیچ یہ خطۂ عرب سے نکل کر عجم تک پہنچا اور سنٹرل ایشیا ہوتا ہوا سندوہند تک پہنچا۔ جس طرح تصوف نے وسط ایشیا میں اپنے اثرات چھوڑے اسی طرح ہندوستان کی سرزمین پر بھی اس نے وہ نقوش چھوڑے جن کے اثرات آج تک محسوس ہوتے ہیں اور اس قدر گہرے ہیں کہ صبح قیامت تک مٹ نہیں سکتے۔ اصل میں بھارت کی سرزمین ابتدا سے ہی پیغام توحید کا مسکن رہی ہے اور یہاں کے بسنے والوں کا اپنے خالق و مالک کے تئیں خاص لگاؤ رہا ہے۔ تاریخی اور مذہبی روایتیں گواہ ہیں کہ اس مقدس دھرتی کو سب سے پہلے خطاب الٰہی سے مخاطِب ہونے کا موقع ملا ہے۔ اسی سرزمین پر آدم علیہ السلام تشریف لائے اور سب سے پہلے اسی خطے میں ذکرِ الٰہی کی زمزمہ سنجی ہوئی۔ وہ خطۂ ارض، جہاں مدت تک توحید کا پیغام گونجتا رہا تھا، جب وہاں صوفیہ نے قدم رکھا اور بندگان خدا کو اسی بھولے ہوئے پیغام کی یاد دلائی جس سے کبھی یہاں کی فضائیں مانوس تھیں تو جلد ہی لوگوں کی رغبت اس جانب ہونے لگی۔ عوام کا جوق در جوق اس طرف مائل ہونے لگے۔ انھوں نے جلد ہی محسوس کیا کہ جو صدا انھیں اپنی جانب بلا رہی ہے، وہ ان کے لئے اجنبی نہیں ہے۔ اصل میں صوفیہ کا پیغام، محبت کا پیغام تھا، انسانیت کا پیغام تھا، بھائی چارہ اور یکجہتی کا پیغام تھا۔ انسان ہمیشہ سے محبت کا پیاسا رہا ہے، خوش اخلاقی کا بھوکا رہا ہے۔ ہندوستانی سماج میں اونچ نیچ کی دیواریں بہت بلند تھیں جنھیں پھلانگنا آسان نہیں تھا مگر محبت و اخلاق کے طوفان کو یہ سد سکندری بھی نہ روک سکی۔ جب یہاں تصوف و عرفان کا سورج نکلا تو اس کی روشنی سے صرف یہاں کے بام و در ہی نہیں جگمگائے بلکہ دلوں کی وہ کال کوٹھریاں بھی روشن ہو گئیں جن کے دروازوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ سندھ کے خطے میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کے ثبوت موجود ہیں جو تابعی اور ابتدائی دور کے صوفی ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے اصحاب رسول اور تابعین بر صغیر میں وارد ہو چکے تھے جو یقیناً روحانیت و عرفان کے پیغام کے ساتھ آئے تھے اور ان کے بعد جن صوفیہ نے سرزمین سند و ہند پر قدم رکھا ان کی فہرست بھی طویل ہے۔ آنے والے اہل دل یہاں تنہا آئے تھے مگر جلد ہی لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

تصوف سے بھکتی تحریک تک

ہندوستان میں صوفیہ کے پیغام کو خاصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ جنھوں نے اسے قبول کیا، انھوں نے اپنے ظاہر و باطن میں تبدیلی کا احساس کیا مگر جنھوں نے اسے سیدھے طور پر نہیں اپنایا، انھوں نے بھی اس کے اثرات ضرور قبول کئے۔ اس کے زیر اثر ہی ’’بھکتی تحریک‘‘ کی ابتدا ہوئی۔ یہی سبب ہے کہ تصوف و بھکتی تحریک کے اثرات یہاں کے سماج پر گہرے ہیں۔ قرون وسطی کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ میں ’’بھکتی تحریک‘‘ کی خاص اہمیت ہے۔ ہندو مذہبی اصلاح پسندوں کی طرف سے شروع کی گئی اس تحریک نے بر صغیر کے معاشرے پر خاصا اثر ڈالا۔ یہ صوفیہ کی تحریک تصوف کے زیر اثر سامنے آئی اور اسی تحریک کے بطن سے سکھ ازم نے جنم لیا۔ اس کی بنیاد میں صوفیہ کی وہ تعلیمات تھیں جنھیں تصوف کی بنیاد کہا جاتا ہے جیسے توحید، توکل، تجرد، تقویٰ، مساوات انسانی اور خدمت خلق وغیرہ۔ بعض رسموں میں مماثلت بھی نظر آتی ہے جیسے، مندروں میں کیرتن، خانقاہوں اور درگاہوں میں قوالی اور گردواروں میں گربانی۔ اس قسم کی کئی باتیں قرون وسطی (800 – 1700) کی تاریخ و تہذیب میں یکساں دکھائی دیتی ہیں۔ ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتابوں میں توحید کی تعلیم موجود ہے جسے امتداد زمانہ کے سبب لوگوں نے بھلا دیا تھا مگر صوفیہ کی تعلیمات نے اسے ازسرنو زندہ کیا۔ ہندوستانی سماج میں کئی ایسے اہل علم اور مصلح پیدا ہوئے جنھوں نے ہندوؤں کے اندر بھی توحید پر زور دیا۔ اس انقلابی مہم کے لیڈر تھے شنکر اچاریہ جو ایک عظیم مفکر اور جانے مانے فلسفی تھے۔ اس مہم کو چیتنیہ مہاپربھو، نامدیو، تکارام، جے دیو نے آگے بڑھایا۔ ان تمام مہموں کا مقصد بت پرستی کو ختم کر کے انسان کو توحید کے نکتے پر لانا تھا۔ بھکتی تحریک کے لیڈر رامانند نے رام چندر جی کو بھگوان کے طور پر لے کر اس کو مرکوز کرنے کی کوشش کی حالانکہ ان کے بارے میں بہت کم معلومات ہے، لیکن ایسا مانا جاتا ہے کہ وہ 15 ویں صدی کے اوائل میں رہے ہوں گے۔ چیتنیہ سولہویں صدی کے دوران بنگال میں ہوئے۔ انھوں نے الگ الگ دیوتاؤں کے بجائے ایک کرشن کی بھکتی کی تعلیم دی۔ شری رامانج نے ویشنو مت پر زور دیا جو کام انھوں نے جنوبی ہند میں کیا وہی کام رامانند نے شمالی ہندوستان میں کیا۔ مذہب کو کسی ایک نکتے پر لانے کی کوشش اور ایک خدا کی عبادت ان سبھی بزرگوں کی تعلیم کا حصہ تھی جو انھوں نے تصوف کے زیر اثر اپنائی تھی۔ جس طرح صوفیہ نے انسان کو انسان بن کر رہنے کی تعلیم دی تھی، مساوات انسانی کا درس دیا تھا اور خلق خدا کو ’’عیال اللہ‘‘ مانا تھا، اسے ان سبھی سنتوں نے بھی اپنایا تھا۔ قرون وسطیٰ کے ہندوستان میں صوفیہ کے آستانوں پر پیغام توحید کا نغمہ قوالی کی شکل میں گونجا کرتا تھا اور فارسی و ہندوی شعراء کے کلام میں جو مواد پایا جاتا تھا وہی بھگت نامدیو، سنت کبیر داس، میرا اور سور داس کے کلام میں بھی دیکھنے کو ملا۔ انھوں نے اپنی رچناؤں کے ذریعے خدا کی حمد اور اس کی بھکتی پر زور دیا۔ پہلے سکھ گرو، اور سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو جی بھی بھکتی تحریک کے ہی کوکھ سے آئے تھے۔ وہ سنت اور سماجی مصلح تھے۔ انہوں نے ہر قسم کے ذات پات کے بھید بھاؤ اور مذہبی تعصب کی مخالفت کی۔ انہوں نے خدا کو ایک مانا اور ہندو و مسلم سماج میں موجود تنگ نظری کے خلاف آواز اٹھائی۔ تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ صوفیہ کی تعلیمات نے ہندوستان کے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کئے اور یہاں کے عوام و خواص کے ظاہر و باطن کو متاثر کیا۔ تصوف ایک ایسی قوت کے طور پر ابھرا جو سماج کو جوڑے رکھ سکتا تھا۔ ملک کے اب تک کے سیاسی حالات پر نظر ڈالیں تو سیاسی افراد کی جانب سے عوام اور ملک کو بانٹنے کی کوششیں لگاتار ہوتی رہی ہیں مگر جس بات نے اس ملک کو جوڑے رکھا، وہ صوفیہ کی تعلیمات میں موجود محبت و اخوت کا وہ درس ہے جسے ہندوستانیوں نے جانے انجانے میں اپنے باطن کا حصہ بنا رکھا ہے۔ وہ امن میں یقین رکھتے ہیں، وہ عدم تشدد سے اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور تشدد و نفرت کو ناپسند کرتے ہیں۔ سیاست دانوں کی طرف سے عوام کو تقسیم کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں اور سیاسی فائدے کے لئے بھائی چارہ کو توڑنے کی سازشیں بھی کی جاتی ہیں مگر ان کا اثر زیادہ مدت تک باقی نہیں رہتا۔ یہاں وقتی جذبات کے تحت دنگے فساد بھی ہو جاتے ہیں مگر جلد ہی لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ امن و آشتی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ یہ سب صوفیہ کی تعلیم کا ہی اثر ہے جو اس خطے کو اکیسویں صدی میں بھی متحد رکھے ہوئے ہے۔

علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو، جانے کس کس سے

محبت کیوں نہیں کرتے، محبت کر کے دیکھو نا

صوفیہ کا پیغام اتحاد و یکجہتی

اہل تصوف کے پیغام محبت میں جذب و کشش تھی، اسی لئے یہ پیغام کامیاب ہوا اور ہندوستان کی اتحاد و یکجہتی کی بنیاد بنا۔ یہ باتیں صرف کتابی اور رسمی نہیں ہیں بلکہ صوفیہ نے واقعتاً    انھیں اپنی زندگی میں اپنایا اور اپنے پیروکاروں کو اس کاسبق دیا۔ حضرت شاہ ہمدان سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’ذخیرۃ الملوک ‘میں امام تصوف حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’اللہ پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے جو اپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔‘‘ یہ شاہ ہمدان وہی ہیں جنھوں نے وادی کشمیر کو وادیِ تصوف و عرفان بنانے کا کام کیا۔ اس پیغام میں اگر جوڑنے کی قوت نہیں ہوتی تو وادی کشمیر کے باشندے اس صدا پر ’’لبیک‘‘ نہیں کہتے۔ حالانکہ پیغام صرف شاہ ہمدان کا نہیں تھا بلکہ دوسرے صوفیہ کا بھی تھا۔ بہار کی سرزمین پر دلوں کو جوڑنے کا کام کرنے والے شیخ شرف الدین یحیٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مکتوب میں لکھا ہے کہ ’’جانو، کہ دوسری مخلوقات کو محبت سے کوئی لگاؤ نہیں ہے، کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیں ہیں۔ فرشتوں کا کام جو سیدھے طریقے سے چل رہا ہے وہ اس لئے کہ ان تک محبت کا گزر نہیں ہوا ہے اور یہ اونچ نیچ جو انسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے، اس لئے ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے۔‘‘ وہ اس سلسلے میں مزید لکھتے ہیں کہ ’’جب حضرت آدم کی باری آئی تو جہان میں ایک ہلچل مچ گئی۔ فرشتوں نے فریاد کی۔ یہ کیسا حادثہ ہوا کہ ہماری ہزاروں برس کی تسبیح و تہلیل برباد ہو گئی اور ایک مٹی کے پتلے یعنی آدم کو سرفراز کیا اور ہمارے رہتے ہوئے ان کو چنا۔ ایک آواز آئی کہ تم مٹی کو نہ دیکھو اس پاک امانت کو دیکھو یحبہم ویحبونہٗ (اللہ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں) اور محبت کی آگ ان کے دلوں میں سلگائی ہے۔‘‘

صوفیہ کی تعلیمات میں موجود محبت و بھائی چارہ کا عنصر ہی تصوف کی بنیاد ہے۔ صوفیہ نے انسان کو خالق اور اس کی مخلوق سے محبت کا درس دیا اور یہ سبق اپنے اندر اس قدر کشش رکھتا تھا کہ کوئی بھی حساس دل اس سے پہلو تہی نہ کر سکا۔

عشق ہی عشق ہے، نہیں ہے کچھ

عشق بن تم کہو، کہیں ہے کچھ

٭٭٭

 

 

 

 

 

ساقی بس ایک پیالہ مئے اسرار مجھے دے

اک قطرہ ازاں قلزمِ زخار مجھے دے

کنجی ہے یہ گنجینۂ اسرار کے در کی

بس تھوڑا سا تو ساغرِ سرشار مجھے دے

(صائبؔ تبریزی)

 

 

 

 

سیکولرزم اور تصوف

 

بھارت کے سیکولر معاشرے کو اتحاد کے دھاگے میں باندھتی ہیں صوفیہ کی تعلیمات

بھارت کا سماج ایک تکثیری معاشرہ ہے جہاں مختلف نظریات اور مختلف مذاہب کے لوگ رہتے سہتے ہیں۔ یہاں سینکڑوں بولیاں اور زبانیں بولی جاتی ہیں اور ہزاروں قسم کے کلچر ایک دوسرے کے ساتھ شیر و شکر ہوتے ہیں۔ اس معاشرے کی خوبی یہ ہے کہ الگ الگ مذاہب پر عمل کرنے والے اور الگ الگ تہذیبی پس منظر کے لوگ ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوتے ہیں۔ ایسے سماج کے لئے ’’سیکولر‘‘ کا لفظ زیادہ وسیع مفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے اور صوفیہ کی تعلیمات بھی یہی سبق دیتی ہیں کہ تمام انسان ایک اللہ کی مخلوق ہیں اور ان سبھوں کو متحد ہو کر رہنا چاہئے۔ فارسی کے صوفی شاعر شیخ سعدی کے کچھ مصرعے اقوام متحدہ میں لکھے ہوئے ہیں:

بنی آدم اعضائے یک دگرند

کہ درآفرینش زیک جوہرند

چو عضوے بدرد آورد روزگار

دگر عضو ہارا نماند قرار

یعنی تمام انسان ایک جسم کے مختلف اعضاء کی طرح ہیں اور جب زمانہ کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچاتا ہے تو دوسرے اعضاء کو بھی بے چینی ہوتی ہے۔ در اصل سعدی شیرازی نے مندرج بالا مصرعوں میں تصوف کی روح کو بیان کیا ہے۔ نفرت اور تشدد سے بھری ہوئی دنیا میں اسی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس سماج میں رہتے سہتے ہیں، اس میں ہر کسی کو ہمارے نظریات سے اتفاق ہو یہ ضروری نہیں۔ ایسے میں اتفاق اسی بات پر ہونا چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے باہمی محبت و یکجہتی کے ساتھ رہیں۔ آج کی دنیا میں ایسے معاشرے کو سیکولر کہا جاتا ہے، حالانکہ اس کی معنویت الگ الگ ملکوں میں مختلف ہے۔

 ’’سیکولر‘‘ کا مطلب

’’سیکولر‘‘ لفظ لاطینی زبان کے Seculo لفظ سے نکلا ہے جس کا انگریزی میں مطلب ہے "In the world”.کیتھولک عیسائیوں میں رہبانیت عام بات ہے۔ کچھ لوگ باقاعدہ رہبانیت اختیار کئے بغیر معاشرے میں رہتے ہوئے سنیاسیوں کے مذہبی کاموں میں مدد کرتے تھے، انہیں ’’ سیکولر‘‘کہا جاتا تھا۔ حالانکہ اب یہ زیادہ سیع معنوں میں مستعمل ہے۔ لفظ ’’ سیکولر ازم‘‘ کی کہانی کچھ یوں ہے کہ 15 ویں صدی میں پوپ کو لامحدود حقوق حاصل تھے، یہاں تک کہ اسے یورپ کے کسی بھی بادشاہ کو ہٹانے اور نئے بادشاہ کو مقرر کرنے اور کسی کو بھی مذہب سے خارج کرنے تک کے حقوق حاصل تھے۔ یہاں تک کہ پوپ کی اجازت کے بغیر کوئی بادشاہ شادی بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایک بار انگلینڈ کے بادشاہ ہینری 8 (1491-1547) نے 1533ء میں اپنی ملکہ کیتھرین کو طلاق دینے اور ایننے بولین (Anne Bollen) نامی بیوہ سے شادی کرنے کے لئے اس وقت کے پاپ سے اجازت مانگی تو پوپ نے صاف انکار کر دیا اور ہنری کو مذہب سے خارج کر دیا۔ اس پر ناراض ہو کر ہنری نے اپنی ریاست انگلینڈ کو پوپ کی حکومت سے الگ کر لیا اور عیسائی چرچ سے بالاتر حکومت قائم کی۔ اس کے لئے اس نے 1534 میں انگلینڈ کی پارلیمنٹ میں Act of supremacy نامی قانون منظور کیا۔ جس کا عنوان تھا "Separation of church and state”اس قانون کے مطابق چرچ نہ تو ریاست کے کاموں میں مداخلت کر سکتا تھا اور نہ ہی ریاست چرچ کے کاموں میں دخل دے سکتا تھا۔ اس مذہب اور ریاست کی علاحدگی کے اصول کو اس نے Secularismکا نام دیا تھا۔ آج بھی امریکہ میں ’’سیکولر ازم‘‘ کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے مگر دنیا کے الگ الگ ملکوں میں اس لفظ کا الگ الگ مطلب لیا جاتا ہے۔ ہر ملک کے حالات کے مطابق اس کی تشریح کی جاتی ہے۔ اس لئے اس کا الگ الگ ملک اور سماج میں الگ الگ مفہوم سمجھنا چاہئے۔

بھارتی آئین میں ’’سیکولرازم‘‘

بھارتی آئین کی طرف سے بھارت کو ’’سیکولر ریاست‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ 1950 میں آئین کے نافذ ہونے کے قریب 26 سال بعد 42 ویں ترمیم کے ذریعے آئین کے دیباچے میں ’’سیکولر‘‘ اور ’’سوشلسٹ‘‘ الفاظ کو شامل کر دیا گیا۔ تب ملک میں ایمرجنسی لگی تھی۔ تاریخی طور پر بھارت میں تمام مذاہب و نظریات کا احترام زمانے سے چلا آ رہا ہے۔ ملک کا اپنا کوئی سرکاری مذہب نہیں ہے۔ البتہ انفرادی طور پر ہر شخص کو اپنے مذہب اور نظریات کی تبلیغ کی اجازت ہے۔ تمام شہریوں کے مذہبی عقائد قانون کے سامنے برابر ہیں۔

بھارت کا سیکولر معاشرہ اور صوفیہ کی تعلیمات

بھارت میں لفظ ’’ سیکولر‘‘ کا مطلب ہوتا ہے کہ ’’مذہبی غیر جانبداری‘‘ یعنی عوام کا مذہب ہو سکتا ہے مگر حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہو گا اور وہ تمام مذاہب کا احترام کرے گی۔ یہاں ’’سیکولر‘‘ کہہ کر کثرت میں وحدت کا مطلب بھی لیا جاتا ہے۔ یہاں اس کا یہ بھی مطلب ہوتا ہے کہ ہر کوئی اپنے مذہب پر عمل میں آزاد ہے۔ یہاں سیکولرزم کے مقابلے میں ’’کمیونلزم‘‘ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ ٹھیک یہی نظریہ صوفیہ کا رہا ہے کہ حکومت کا کام ہے ملک کا انتظام و انصرام۔ عوام اپنے مذہب اور طور طریقے میں آزاد ہیں۔ حکومت کسی بھی طرح ان کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتی۔ یہاں ایک تاریخی واقعے کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا چا ہوں گا۔ چودہویں صدی عیسوی کی بات ہے جب کشمیر میں سلطان سکندر کی حکومت تھی۔ اس کا ایک وزیر تھا سویہ بھٹ، جس نے حضرت شاہ ہمدان کے بیٹے میر سید محمد ھمدانی کے ہاتھ پراسلام قبول کر لیا تھا اور اس کا نیا نام سیف الدین رکھا گیا تھا۔ یہ اپنے نئے مذہب کے معاملے میں جتنا پر جوش تھا، اتنا ہی اسے اپنے پرانے مذہب سے نفرت تھی۔ اس نے کئی مندروں کو مسمار کرا دیا تھا اور غلط رسموں، رواجوں پر سختی کرتا تھا۔ اس سختی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے پرانے ہم مذہب اس کے تبدیلیِ مذہب کی وجہ سے اس سے نفرت کرتے تھے۔ میر سید محمد ھمدانی کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے ایسا کرنے سے منع فرما دیا اور کہا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ’’لا اکراہ فی الدین‘‘اس لئے مذہبی معاملے میں کوئی زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ نہ کسی کا مذہب زبردستی بدلوایا جا سکتا ہے اور نہ کسی مندر کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔ آپ کے حکم کے بعد یہ سلسلہ رک گیا اور بادشاہ نے اجازت دی کہ اگر کسی سے جبراً تبدیلی مذہب کرایا گیا ہو تو وہ اپنے پرانے مذہب کی جانب لوٹ سکتا ہے۔

صوفیہ کے احترام کا سبب

اگر ہم ریاست، سیاست اور مذہب کے باہمی رشتوں کو روبرو رکھ کر دیکھیں تو یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کچھ مذہبی روایات، تمام مذاہب کے لوگوں کو متاثر کرتی آئی ہیں۔ جنوبی ایشیا اور بالخصوص پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کی صوفیانہ روایات اسی کا حصہ ہے۔ مذاہب انسان کو زندگی جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں اور انھیں بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے ماننے والوں نے خدا کے نام پر اس کے بندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ تصوف وہ نظریہ ہے جو مذہبی شناخت سے اوپر اٹھ کر پوری انسانیت کے اتحاد کی بات کرتا ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ لوگوں کے دلوں میں صوفیہ سے عقیدت کا دریا موجزن ہے اور وہ بلا تفریق مذہب و ملت ان کے آستانوں پر چلے آتے ہیں۔ بر صغیر ہند و پاک میں ہزاروں صوفیہ کے مزارات ہیں اور ان کا احترام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی کرتے ہیں اور اس کا سبب مذہب کے معاملے میں صوفیہ کا غیر جابرانہ نظریہ ہے۔ اگر آپ جی ٹی روڈ سے سفر کریں تو کلکتہ سے امرتسر تک روڈ کے اردگرد صوفیہ کے ہزاروں مزارات مل جائیں گے جہاں آنے والوں میں سبھی مذاہب کے لوگ شامل ہوتے ہیں اور ایسا اس لئے ہے کہ صوفیہ نے ہندوستان کے کثیر رخی معاشرے کے مزاج کے مطابق انسانیت اور محبت کا درس دیا۔ صوفیہ کرام ایک خدا کے تصور پر یقین رکھتے تھے اور اس کے بندوں کے اندر بھی وحدت کے قائل تھے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، پارسی، یہودی اور سبھی مذاہب کے لوگوں کے بیچ اتحاد پر زور دیا۔ انھوں نے سبھی اہل مذاہب کے اخلاقی و روحانی اصلاح پر زور دیا۔ آج کل بھارت میں ’’عدم روداری‘‘ کی بحث زور و شور سے چل رہی ہے اور جہاں اخبارات صفحات کے صفحات سیاہ کر رہے ہیں وہیں الکٹرانک میڈیا گھنٹوں اس موضوع پر بحث میں گزار رہا ہے لیکن اگر صوفیہ کے نظریات ہی حکومت کے نظریات کا حصہ بن جاتے تو شاید اس سلسلے میں بحث کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سیاست دانوں نے عوام کے اندر تفریق پیدا کی اور اس کا استعمال اپنے حق میں کیا مگر صوفیہ لوگوں کو متحد کرنے پر لگے رہے۔ صوفی روایات ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ موجودہ دور میں مذاہب کے روحانی اور اخلاقی پہلو کو مضبوط کیا جائے۔ یہ تصوف کا سحر ہے کہ آرایس ایس پس منظر والے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ’’ مجھے یقین ہے کہ صوفی روایت جو محبت سے منسلک ہے، سخاوت سے منسلک ہے، وہ اس پیغام کو دور دور تک پہنچائے گی جس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے گا۔ میں اوروں کو بھی کہتا ہوں کہ ہم خواہ کسی بھی فرقے کو مانتے ہوں، لیکن صوفی روایت کو سمجھنا چاہیے۔ صوفی سنتوں کی طرف سے پیش نظریہ بھارتی اقدار کا اٹوٹ حصہ ہے لیکن بنیاد پرست طاقتیں اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

طاقِ حرم ہے ٹھیک نہ بت خانہ خوب ہے

جس جا ہے اس کا جلوۂ جانانہ خوب ہے

تسبیح و زہد ٹھیک ہے لیکن دو چار روز

ہے جشنِ گل تو شیشہ و پیمانہ خوب ہے

(عرفیؔ شیرازی)

 

 

 

 

روا داری اور تصوف

 

صوفیہ کے پیغام محبت کو اپنا کر سماج میں رواداری کو عام کیا جا سکتا ہے

تو آگ کا دریا ہے توہم موم کی کشتی

اس موم کی کشتی سے ندی پار کریں گے

گزشتہ دنوں ہمارے ملک میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ ملک میں عدم برداشت کا ماحول ہے یا نہیں؟ کیا عوام کے اندر رواداری کی کمی ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ معمولی معمولی باتوں پر لوگ آپس میں لڑ پڑتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ برے برتاؤ پر اتارو ہو جاتے ہیں؟ اس بحث کی ابتدا تب ہوئی تھی جب عید الاضحی کے بعد راجدھانی دلی سے متصل نوئیڈا کے دادری گاؤں میں محمد اخلاق نامی ایک شخص کو محض اس افواہ کے سبب قتل کر دیا گیا کہ اس کے گھر میں ’بیف‘ رکھا ہوا ہے۔ اس سے قبل اور اس کے بعد بھی کچھ ایسے واقعات ہوئے جو سماج میں موجود عدم رواداری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس قسم کی باتیں ہمارے ملک میں کوئی نئی نہیں ہیں بلکہ مدت سے جاری ہیں اور محض افواہوں پر فرقہ وارانہ فسادات کا پھوٹ پڑنا ایک عام بات ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں ہزاروں فسادات ہوئے ہیں جن میں بے شمار جانی و مالی نقصانات ہوئے۔ حالانکہ ان فسادات کے باوجود ملک کے عوام کی اکثریت امن پسند اور صلح جو ہے۔ عدم رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں رخنہ اندازی کے تعلق سے اکثر قومی اور بین الاقوامی اداروں کی طرف سے بھی متنبہ کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات کے خلاف آواز بلند کریں۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور نفرت کی بنیاد پر تشدد کے واقعات سے فکر مند ہیں۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نسل کی بنیاد پر کسی پر شک کرنے اور خاص کمیونٹیز کے خلاف تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ میں دنیا بھر میں عدم برداشت، نسل پرست خیالات اور نفرت پر مبنی تشدد کے بڑھنے سے فکر مند ہوں۔ اقتصادی مشکلات اور سیاسی موقع پرستی اقلیتوں کے خلاف دشمنی بڑھا رہے ہیں۔ ان کے مطابق پناہ گزینوں، مہاجروں اور مسلمانوں کے خلاف حملے اور تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ مون نے کہا ’’یہاں تک کہ اعتدال پسند پارٹیوں نے اپنے خیالات کٹر کر لئے ہیں، کبھی اعتدال پسند رہے ممالک میں، اب غیر ملکی لوگوں کو ناپسند کئے جانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور کبھی پابند رہی آوازوں نے پچھلی صدی کے سیاہ ترین ابو اب کے خطرات کو چھیڑا ہے۔ ان حالات نے سماجی استحکام اور تنازعات کو فروغ دیا ہے۔‘‘ بان کی مون کے بیان کو بھارت کے حالات سے بھی جوڑ کر دیکھا گیا کیونکہ یہاں عدم برداشت اور رواداری کی بحث چلتی رہی ہے۔ فنکاروں، مصنفین، ماہرین تعلیم اور سائنسدانوں نے اس پر تشویش ظاہر کی ہے۔ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بھی عدم برداشت پر بحث ہوئی۔ حالانکہ سماج میں رواداری کی کمی صرف ہندوستان کی بات نہیں ہے اور بھید بھاؤ کا برتاؤ صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ یہ رویہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے ساتھ بھید بھاؤ کاسلوک کیا جاتا ہے تو خود مسلمان بھی ان لوگوں کے ساتھ بھید بھاؤ اور عدم رواداری کا برتاؤ کرتے ہیں جو مسلم ملکوں میں اقلیت میں ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان، مسلکی اقلیتوں کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ پاکستان میں شیعوں کے ساتھ کیا برتاؤ ہوتا ہے اور سعودی عرب میں انھیں اپنے مسلک پر عمل کرنے میں کس قدر دشواریاں ہوتی ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ مسلم ملکوں میں مختلف مسلکی، مذہبی، لسانی و ثقافتی گروہ ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح برسرپیکار ہیں، یہ جگ ظاہر ہے۔ گویا عدم رواداری اور برداشت کی کمی کسی ایک طبقے کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ قدرتی طور پر ہر انسان الگ الگ مزاج کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور اس کے مزاج کو بدلنا نا ممکن ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انسانی سماج میں تکثیریت ہوتی ہے۔ اگر سماج میں لوگوں کا مزاج مختلف نہ ہو تو معاشرے سے رنگا رنگی ختم ہو جائے۔ اس بات کو صوفیہ بخوبی سمجھتے رہے ہیں، اس لئے انھوں نے ہمیشہ اپنے پیغام کی اشاعت کے لئے رواداری، برداشت کا طریقہ اپنایا اور یہ عین نبیوں کا طریقہ ہے۔ لوگوں کی طرف سے آنے والی تکلیف کو برداشت کرنا اللہ والوں کا وطیرہ ہے۔ حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، حضرت زکریا، حضرت یحیٰ، حضرت یعقوب علیہم السلام نے جو تکلیفیں اپنی قوموں کے ہاتھ سے برداشت کیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خود رسول اکرمﷺ نے قریش مکہ کے ہاتھوں جو تکلیفیں برداشت کیں ان کا ذکر احادیث میں بہت واضح طور پر ملتا ہے۔ اس دنیا میں جب انسان ہے تو دنیا والوں سے اسے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور اگر وہ کسی مشن کو لے کر آگے بڑھتا ہے تو اسے زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب اگر ہر ناپسندیدہ بات پر رد عمل ظاہر کیا جائے تو سماج میں کبھی بھی رواداری نہیں آ سکتی اور ہر عمل پر رد عمل ظاہر کرنا ہی عدم برداشت ہے۔

روا داری کی تعلیم

صوفیہ کرام کی عملی اور علمی تعلیمات میں جہاں ایک طرف یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ کسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور اپنے دشمن کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کرو، وہیں دوسری طرف یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی نے تکلیف پہنچائی تو اسے برداشت کر لو، برائی کا جواب برائی سے نہ دو۔ ظاہر ہے کہ انسانی سماج میں رہنے والوں کا اگر ایسا مشفقانہ رویہ ہو جائے تو ہمارے معاشرے سے عدم برداشت اور عدم رواداری کا خاتمہ ہو جائے۔ فوائد الفواد میں ہے کہ ایک شخص محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء کو تکلیف پہنچایا کرتا تھا اور اکثر آپ کے خلاف باتیں کرتا تھا مگر جب اس کے انتقال کی خبر ملی تو آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کے لئے دعاء فرمائی۔ حضرت مجدد الف ثانی بھی اس کا شکار ہوئے اور بادشاہ وقت کی طرف سے آپ کو پریشان کیا گیا۔ ایک مدت تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اس کے باوجود آپ کی تعلیم یہی تھی کہ دوسروں کے ذریعے ملنے والی پریشانیاں برداشت کر لو مگر تم کسی کو ایذا نہ پہنچاؤ۔ وہ میر محب اللہ مانک پوری کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:

’’خلقت کی تکلیف برداشت کرنے سے چارہ نہیں ہے اور نہ اقارب کی جفا پر صبر کرنے سے گزر۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کر کے فرمایا۔ فالصبرکما صبر اولوالعزم من الرسل ولاتستعجل لہم (آپ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبر کریں اور ان کے لئے جلدی نہ کریں۔) اس مقام کی سکونت میں اگر کوئی نمکینی ہے تو یہی ایذا و جفا ہے اور تم اس نمک سے بھاگ رہے ہو۔ ہاں جو شکر کھا کر پلا بڑھا ہو وہ نمک کی تاب نہیں رکھتا۔‘‘

مسرت و شادمانی میں سب خوش رہتے ہیں مگر انسان تو وہ ہے جو دکھوں اور غموں سے بھی لطف اندوز ہونا سیکھ لے۔ صوفیہ کرام خلق خدا کی جانب سے پہنچنے والی تکلیفوں کو بھی خوشدلی سے قبول کرتے ہیں اور اسے معمول کی زندگی کا حصہ مانتے ہیں چنانچہ ایک مقام پر حضرت مجدد الف ثانی نے لکھا ہے کہ ’’اور جب اچھی طرح غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں درد و رنج اور مصیبت نہ ہوتی تو پھر دنیا کی قدر و قیمت جو کے ایک دانہ برابر نہ ہوتی۔ اس کی ظلمتوں اور تاریکیوں کو (یہاں کے) مصائب و حادثات زائل کرتے ہیں۔ حوادثات کی تلخی، کڑوی دوا کی طرح نفع دینے والی ہے، جو کہ مرض کو دور کرتی ہے۔‘‘ یعنی جسم کی تکلیف، روح کی لذت کا باعث ہے۔ ایسے میں یہ اس کڑوی دوا کی طرح ہے جس سے مریض شفا یاب ہوتا ہے۔ یعنی بظاہر تلخ اور بدمزہ دوا، جب ایسے دور رس اثرات رکھتی ہے تو اُس تکلیف کے لطف کا کیا عالم ہو گا جو رب کائنات کی طرف سے انسان کو عطا ہو۔

محبت کو عام کرو

عدم برداشت اور عدم رواداری تصوف کے مزاج کے خلاف ہیں۔ یہاں اگر ایک طرف لوگوں کو تکلیف پہچانے کی ممانعت ہے تو دوسری طرف ان کی طرف سے آنے والی مصیبتوں پر صبر کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ صوفی کے مزاج میں صبر و شکر ہوتا ہے اور وہ اسی کی لوگوں کو تعلیم دیتا ہے۔ یہی رویہ اگر آج ہمارے سماج کا ہو جائے تو ہر قسم کے مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔ عدم برداشت کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ محبت و یکجہتی کا پیغام لوگوں میں عام کیا جائے۔ اہلِ تصوف کی نظر میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ اللہ کے بندوں کے دل کو تکلیف پہچانا ہے۔ یہ حقوق العباد کی خلاف ورزی بھی ہے۔ ظاہر ہے بندوں کے حقوق کی خلاف ورزی کو اللہ بھی اس وقت تک نہیں معاف کرتا جب تک کہ بندے خود معاف نہ کر دیں۔ کوئی شخص نیکوکار ہو یا بدکار۔ مومن ہو یا غیر مومن صوفیہ کسی کے بھی دل کو تکلیف پہچانا جائز نہیں سمجھتے۔ کیونکہ ان کے نزدیک دل اللہ کا گھر ہے اور اسے ٹھیس پہچانا، اللہ کو تکلیف پہچانے کی طرح ہے۔

شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے

دل ٹوٹے آواز نہ آئے

٭٭٭

 

 

 

 

جب کوئی غیر کو پیغامِ اماں دیتا ہے

اٹھ کے ہر ذرۂ آفاق اذاں دیتا ہے

جوشؔ ملیح آبادی

 

 

 

 

عہدِ حاضر میں صوفیہ کے مکتوبات کی اہمیت

 

خطوط، محض پیغام رسانی نہیں بلکہ انسان کو انسان سے جوڑنے کا بھی ذریعہ رہے ہیں۔ ان کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی؟ سب سے پہلے کس نے، کسے خط لکھا؟ یہ تاریخ انسانی کا موضوع ہو سکتا ہے مگر ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ عہد قدیم میں ابلاغ وترسیل کا ذریعہ ہوا کرتے تھے خطوط اور کوئی دور بیٹھا شخص اگر اپنا پیغام کسی شخص تک پہچانا چاہتا تو اس کے لئے یہی واحدراستہ ہوتا تھا۔ پرانے زمانے کے خطوط آج تاریخی معلومات کی فراہمی کا ذریعہ ہیں اور ماضی کے حالات کے بارے میں بہت کچھ جانکاریاں فراہم کرتے ہیں۔ مکتوبات اور مراسلات کو اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبلیغ دین کا ذریعہ بنایا اور یہ سلسلہ یوں چلا کہ آپ کے جانشینوں نے بھی اسے اس مقصد کے لئے استعمال کیا مگر اس کے بعد صوفیہ کرام کے ایک بڑے گروہ نے خطوط کو اصلاح و تبلیغ کا ذریعہ بنا کران سے مبلغ کا کام لیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے چند مکتوبات کا ذکر احادیث وسیر کی کتابوں میں ملتا ہے اور ان کے مضامین بھی دستیاب ہیں مگر صوفیہ کرام نے جو مکتوبات مراسلات تحریر کئے اور اپنے مریدین، متوسلین، معتقدین کے علاوہ عام لوگوں کو ارسال کئے ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان خطوط کی اس لحاظ سے اہمیت ہے کہ ان میں جہاں توحید وعرفان کے مسائل بیان کئے گئے ہیں، وہیں اصلاحِ نفس اور تزکیۂ قلب کے طریقوں کو بھی سمجھایا گیا ہے۔ جہاں ایک طرف دینی مسائل ہیں وہیں دوسری طرف اس دور کے حالات کا بیان بھی ملتا ہے۔ ایسے خطوط بھی ہیں جو صوفیہ نے بادشاہوں، امیروں اور رئیسوں کی طرف بھیجے ہیں اور ان کے ذریعہ انھیں آخرت کی جانب توجہ دلائی گئی ہے نیز نیک اعمال کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔ یہ مکتوبات اپنے مضامین کے لحاظ سے اس قدر اہم ہیں کہ آج تک بے حد مقبول ہیں اور آج بھی تزکیۂ نفس اور اصلاح قلب کا کام انجام دے رہے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سے لے کر ماضی قریب کے صوفیہ تک کے خطوط کتابوں میں موجود ہیں اور اہمیت کے حامل ہیں۔ بر صغیر ہند و پاک میں حضرات شیخ شرف الدین یحیٰ منیری اور مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہما اللہ کے مکتوبات صدیوں سے کتابی شکل میں موجود ہیں اور ان کی مقبولیت زماں و مکاں سے ماوریٰ ہے۔ یہاں ہم صرف چند خطوط کے اقتباسات پیش کر کے یہ بتانا چاہیں گے کہ عہد حاضر میں ان کی اہمیت کیا ہے؟

نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف ملکوں کے حکمرانوں اور بادشاہوں کو خطوط بھیجے تھے اور انھیں اسلام کی دعوت دی تھی۔ جن بادشاہوں کو آپ نے خطوط ارسال کئے ان میں مقوقس بادشاہ مصر، قیصر روم، کسریٰ ایران کے علاوہ عمان کے حکمراں بھائی جیفر اور عبد بھی شامل تھے۔ حضرت خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم، نے عمان کے حکمران بھائیوں جیفر اور عبد کے نام عربی زبان میں خط لکھا۔ عمان جزیرہ نما عرب کا جنوبی ساحلی علاقہ ہے جہاں جلندی کے دو بیٹے عبد اور جیفر حکمران تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ مبارک خط حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھ ان کی طرف بھیجا۔ اس خط میں انھیں اسلام کی دعوت دی گئی تھی۔ انہوں نے خط سن کر کچھ دن غور و فکر کیا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پرایمان لائے۔ خط اللہ کے نام سے شروع ہے جس کا ترجمہ یوں ہے:

’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

محمد اللہ کے رسول (صلّی اللہ علیہ وسلّم) کی طرف سے جلندی کے بیٹوں جیفر و عبد کے نام۔ سلامتی ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔

اما بعد ! میں آپ دونوں کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں، تو آپ دونوں اسلام قبول کر لیں، اسی میں سلامتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مجھے تمام مخلوق کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، تا کہ میں ہر زندہ انسان کو (آخرت کے بارے میں) خبردار کر دوں اور منکرین خدا پر حجت پوری ہو جائے۔ اگر آپ دونوں نے اسلام کا اقرار کر لیا تو تمہارا ملک بدستور تمہارے ہی پاس رہے گا اور اگر تم نے اسلام سے انکار و اعراض کیا تو بلاشبہ تمہارا ملک ختم ہو جائے گا اور میرے سوار تمہارے گھر تک پہنچیں گے اور میری نبوت تمہارے ملک (کے تمام ادیان) پر غالب آ جائے گی۔‘‘

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جن بادشاہوں کو خطوط ارسال کئے تھے، ان کے رد عمل مختلف تھے۔ عمان کے حکمراں بھائیوں نے تو پیغام رسالت قبول کر لیا تھا مگر ایران کے بادشاہ کسریٰ نے مکتوب مبارک کے ساتھ اہانت آمیز برتاؤ کیا جب کہ قیصر روم نے آپ کا پیغام قبول نہیں کیا مگر اس کا رد عمل مثبت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ نے بھی مختلف خطوط بھیجے، جو الگ الگ نوعیت کے تھے اور ان کے مضامین بھی مختلف قسم کے تھے۔ خلیفہ اول کا ایک خط تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے جس میں زکوٰۃ کے مسائل کابیان ہے۔ امیر المومنین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا جو، اونٹوں اور بکریوں کی زکوٰۃ کے نصاب کے بیان میں ہے۔ آپ کے کئی خطوط تاریخ و حدیث کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ ان میں کچھ کے الفاظ مختلف کتابوں میں مختلف ہیں۔ خصوصاً ً امام بخاری نے صحیح بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک کی روایت سے اس کو نقل کیا ہے۔ خط کا ترجمہ یوں ہے:

’’اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔

یہ وہ فرض زکوٰۃ ہے جو رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے مسلمانوں پر فرض کی اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا۔ مسلمانوں میں سے جس سے اِس کے مطابق مانگا جائے وہ دے اور جس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے۔

چوبیس (24) اونٹوں اور اس سے کم میں ہر پانچ پر ایک بکری دے۔ جب پچیس (۲۵) ہو جائیں تو پینتیس (35) تک اْن میں ایک ایک سالہ اْونٹنی ہے۔ جب چھیالیس (46) ہو جائیں تو پچھتر تک اْن میں ایک چار سالہ اْونٹنی ہے۔ جب چھہتر (76) ہو جائیں تو نوے (90) تک اْن میں دو دو سالہ اْونٹنیاں ہیں۔ جب اکانوے (91) ہو جائیں تو ایک سو بیس تک اْن میں دو تین سالہ اْونٹنیاں ہیں جو قابل جفتی ہوں۔ جب ایک سو بیس (120) سے بڑھ جائیں تو ہر چالیس میں ایک دو سالہ اور ہر پچاس میں ایک تین سالہ، اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو اْن پر زکوٰۃ نہیں ہے مگر جب کہ اْن کا مالک چاہے۔ اور جب پانچ ہو جائیں تو اْن پر ایک بکری ہے۔

اور چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ یہ ہے کہ جب چالیس (40) سے ایک سو بیس تک ہوں تو اْن پر ایک بکری، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہوں تو دو سو تک دو بکریاں، اور جب دو سو سے تین سو تک ہوں تو تین بکریاں، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو ہر سو میں ایک بکری۔ جب کسی کے پاس چالیس سے ایک بھی کم بکریاں ہوں تو اْن پر زکوٰۃ نہیں ہے مگر جب کہ اْن کا مالک چاہے۔

اور چاندی میں چالیسواں حصہ ہے۔ اگر کسی کے پاس ایک سو نوے (190) درہم ہوں تو اْن پر زکوٰۃ نہیں ہے مگر جب کہ اْن کا مالک چاہے۔‘‘

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے عہد میں جو خطوط لکھے جاتے تھے ان پر تاریخ کا اندراج نہیں ہوتا تھا، اس لئے خط کے مضمون سے یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ خط کس تاریخ کو لکھا گیا ہے۔ خلیفہ ثانی حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قمری ماہ وسال کی باقاعدہ تدوین ہوئی اور پھر باقاعدہ تاریخ لکھی جانے لگی۔

بر صغیر ہند و پاک میں مسلمانوں کی آمد کے ثبوت عہد نبوی سے ہی ملنے لگتے ہیں۔ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ساتھ ساتھ صوفیہ کی آمدبھی اس خطے میں ہوتی رہی ہے۔ ان حضرات نے مختلف موضوعات پر خطوط تحریر کئے ہیں مگر ان میں اصلاحی پہلو غالب ہیں۔ اس خطے میں خاص طور پر دو بزرگوں کے خطوط صوفیہ کے حلقوں میں معروف رہے ہیں اور ان سے استفادہ کا سلسلہ ہر دور میں جاری رہا ہے۔ ان میں سے ایک تو مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری (بہار شریف) ہیں اور دوسرے حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ہیں۔ حضرت مخدوم علیہ الرحمہ نے جہاں اپنے آستانے پر آنے والے بندگان خدا کی رہنمائی وعظ و نصیحت سے فرمائی، وہیں جو لوگ نہیں آ سکتے تھے ان کی ہدایت کے لیے خطوط تحریر فرمائے۔ آپ نے جو خطوط لوگوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے بھیجے ان کی تعداد معلوم نہیں۔ جو دستیاب ہو سکے انھیں کتابی شکل مل گئی ہے اور یہ برسوں سے عوام الناس کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ ان خطوط میں شریعت و طریقت کے مختلف مسائل بیان کئے گئے ہیں۔ ان مکتوبات سے جہاں آپ کے علمی مقام کا پتہ چلتا ہے وہیں نثر نگاری میں آپ کے منصب و مرتبے کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ انتہائی سادہ، سلیس اور شگفتہ اندازِ تحریر ہے۔ مکتوب الیہ کی فہم و فراست کے مطابق دلائل و امثال پیش کرتے ہیں۔ بلند، محققانہ مسئلہ بھی آسان زبان میں سمجھاتے ہیں۔ یہ خطوط پراثر ہیں اور صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کی اثر انگیزی میں کمی نہیں آئی ہے۔ جس دور میں یہ خطوط لکھے گئے اہل علم کی زبان فارسی تھی۔ لہٰذا خطوط بھی اسی زبان میں ہیں۔ عہد حاضر میں ان کے اردو تراجم دستیاب ہیں۔

اس وقت خطوط کے تین مجموعے دستیاب ہیں جن میں ’’مکتوبات صدی‘‘ سب سے زیادہ مشہور ہے۔ دوسرا مجموعہ ’’ مکتوبات دو صدی‘‘ ہے۔ اس میں مختلف لوگوں کے نام ارسال کئے گئے خطوط ہیں۔ یہی سبب ہے کہ مضامین کا تکرار بھی کئی جگہوں پر دکھائی دیتا ہے۔ ان دونوں مجموعوں کے مرتب مولانا زین بدر عربی ہیں جو مخدوم کے خاص مرید تھے اور مکتوبات کو بھیجنے سے قبل ان کی نقل اپنے پاس محفوظ کر لیا کرتے تھے۔ تیسرا مجموعہ خطوط ’’مکتوبات بست و ہشت‘‘ ہے۔ اس میں اٹھائیس مکتوبات ہیں جو حضرت مظفر بلخی کے نام تحریر کئے گئے ہیں۔ مخدوم علیہ الرحمہ نے اپنے اس چہیتے مرید کو تقریباً دو سو خطوط تحریر کئے تھے مگر ان کی وصیت کے مطابق یہ خطوط ان کے ساتھ قبر میں دفن کر دئیے گئے۔ صرف اٹھائیس خطوط کسی طرح باقی رہ گئے تھے جو اس مجموعے میں شامل ہیں۔

مخدوم کے مکتوبات کے مجموعے شروع سے ہی مقبول ہو گئے تھے۔ اہل تصوف نے جس طرح حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو حرز جاں بنایا اسی طرح مخدوم کے مکتوبات کو بھی سر آنکھوں پر رکھا۔ ان مکاتیب کے مداحوں میں حضرت نصیر الدین چراغ دہلی، حضرت جلال الدین بخاری، شاہ عبد اللہ شطاری، شاہ محمد غوث گوالیاری، حضرت احمد لنگر دریا ہیں۔ شاہ محمد غوث گوالیاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدین کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر مرشد قریب نہ ہو تو رہنمائی کے لیے شیخ شرف الدین کے مکاتیب پڑھیں۔ اکبر کا درباری عالم ابو الفضل بھی ان مکاتیب کی تعریف کرتا ہے۔ مخدوم کی تصانیف اور ملفوظات کے مجموعوں سے زیادہ آپ کے مکاتیب مقبول ہیں۔

مخدوم شرف الدین یحیٰ منیری کی طرح مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی کے خطوط کو بھی صوفیہ اور علماء کی نظر میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ان میں علم و عرفان کا سمندر موجیں مار رہا ہے۔ یہ سینکڑوں مکتوبات آپ کے افکار و نظریات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ ان خطوط کے مجموعے آپ کی حیات میں ہی شائع ہو چکے تھے اور انھیں آپ کی زندگی میں ہی مقبولیت مل چکی تھی نیزیہ لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ بن چکے تھے۔ ’’مکتوبات مجدد الف ثانی‘‘ جس طرح پہلے مقبول تھے اسی طرح آج بھی مقبول ہیں۔ ان کے اردو تراجم اور تلخیص بھی شائع ہو چکی ہیں۔ انھیں پڑھ کر بہت سے مسائل میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور قلب کو اطمینان و روح کو سکون کا احساس ہوتا ہے۔ ان مکتوبات میں عہد حاضر کے بہت سے مسائل کا حل موجود ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

میں اس مقام پہ پہنچا کہ لامکاں ہے جہاں

جہاں نہ روئے زمیں اور نہ آسماں ہے جہاں

یہ کیا جگہ ہے جہاں جائے چوں چرا بھی نہیں

نہ شکل اور نہ صورت، نہ جسم وجاں ہے جہاں

(حافظؔ شیرازی)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

بر صغیر ہند و پاک میں محبت کا چراغ روشن کرنے والے داتا گنج بخش شیخ علی ہجویری

 

جب ان کے گدا بھر دیتے ہیں شاہانِ زمانہ کی جھولی

محتاج کا جب یہ عالم ہے، مختار کا عالم کیا ہو گا

داتا گنج بخش شیخ علی بن عثمان ہجویری رحمۃ اللہ علیہ ایک معروف صوفی گزرے ہیں جو بر صغیر میں ابتدائی مسلم عہد میں آئے۔ یہ سلطان مسعود بن محمود غزنوی کا عہد تھا۔ آپ نے پنجاب کے لاہور میں قیام کیا اور اپنے علمی و روحانی فیضان سے عوام کو مشرف فرمایا۔ بے شمار تشنگانِ روحانیت آپ کے دریائے فیض سے سیراب ہوئے اور ہزاروں گم گشتگانِ راہ کو ہدایت نصیب ہوئی۔

سالِ ولادت و وطن

شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا سالِ ولادت سوانح نگار متعین نہیں کر پائے ہیں۔ البتہ قیاس کیا جاتا ہے ۴۰۰ھ میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ افغانستان کے شہر غزنی کے آپ رہنے والے تھے۔ اس شہر کے دو محلے جلاب اور ہجویر ہیں جہاں آپ رہائش پذیر رہے۔ پہلے آپ جلاب میں رہے پھر ہجویر میں قیام فرمایا اور اس کے بعد لاہور تشریف لائے۔ جس طرح آپ کی تاریخ پیدائش متعین نہیں اسی طرح آپ کے لاہور آنے کی تاریخ بھی متحقق نہیں۔ ساتھ ہی آپ کا سال وفات بھی نامعلوم ہے۔ البتہ سوانح نگار قیاس کرتے ہیں کہ ۴۵۶ھ-۴۶۵ھ کے درمیان آپ کا انتقال ہوا۔ لاہور میں ہی آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔

سلسلہ نسب

شیخ علی ہجویری کے سلسلہ نسب پر سوانح نگاروں کا اتفاق ہے جو یوں ہے۔ علی بن عثمان بن علی بن عبد الرحمن بن شجاع بن ابو الحسن علی بن حسن اصغر بن زید بن امام حسن بن علی بن ابو طالب اس لحاظ سے آپ سید ہیں اور آٹھ واسطوں سے سلسلہ نسب امیر المومنین حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے۔

شجرۂ طریقت

شیخ علی ہجویری کا سلسلہ طریقت اس طرح ہے۔ علی ہجویری مرید شیخ ابو الفضل ختلی، مرید شیخ حضری مرید شیخ ابو بکر شبلی مرید شیخ جنید بغدادی، مرید شیخ سری سقطی، مرید داؤد طائی مرید حبیب عجمی، مرید حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ۔ آپ کے سلسلہ طریقت میں تقریباً سبھی حضرات بہ طور صوفی مشہور و معروف ہیں۔ ان حضرات کے نام دیگر سلاسل طریقت میں بھی آتے ہیں۔

داتا گنج بخش

شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو ’’داتا گنج بخش‘‘ کے لقب سے عموماً یاد کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ لقب آپ کی زندگی میں مشہور نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے ورودِ ہندوستان کے وقت لاہور میں آپ کے مزار مقدس پر حاضری دی اور چلہ کشی فرمائی۔ وقت رخصت آپ کی زبان پر یہ شعر جاری ہوا:

گنج بخشِ فیض عالم، مظہرِ نورِ خدا

ناقصاں را پیرِ کامل، کاملاں را رہنما

یہ شعر مشہور ہوا اور آج بھی مزار کی لوح پر درج ہے۔ اس شعر کے سبب آپ کا لقب ’’داتا گنج بخش‘‘ پڑا۔ اب لوگ نام سے زیادہ اس لقب سے آپ کو جانتے ہیں۔

نقش حیات

داتا صاحب نے جس دور میں ہوش سنبھالا وہ تصوف اور روحانیت کا دور تھا۔ آپ سے قبل بہت سے اہل تصوف گذر چکے تھے جنہوں نے روحانیت اور تصوف کے پیغام کو عام کر دیا تھا۔ تصوف پر علمی بحث جاری تھی۔ کتابیں لکھی جا رہی تھیں۔ نظریہ وحدت الوجود مقبول ہو چکا تھا۔ تمام اطراف و اکناف ممالک اسلامیہ میں اس کی ترویج و اشاعت ہو چکی تھی، مگر عموماً مذہبی موضوعات پر عربی زبان میں کتابیں تحریر کی گئی تھیں۔ شیخ علی ہجویری نے تصوف کو فارسی داں طبقے تک پہچانے کے لیے فارسی زبان میں کتابیں لکھیں۔ آپ کی سب سے مشہور کتاب ’’کشف المحجوب‘‘ ہے۔ اس وقت صرف یہی دستیاب ہے۔ دیگر تصانیف دست برد زمانہ سے محفوظ نہیں رہ سکیں۔ اس کتاب کے تراجم اردو، انگلش، روسی، فرنچ کے علاوہ بھی دیگر زبانوں میں ہوئے۔ اس کتاب نے ایک عالم کو مستفید کیا اور بعد کے صوفیہ نے اگر تصوف پر قلم اٹھایا تو اس کتاب سے ضرور استفادہ کیا۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کے تعلق سے فرمایا کہ ’’اگر کسی کا پیر نہ ہو تو ایسا شخص جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا تو اس کو پیر کامل مل جائے گا۔‘‘ محبوب الٰہی نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔

کشف المحجوب کو جو پذیرائی ملی وہ کم ہی کتابوں کے حصے میں آتی ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلوب بیان صاف ستھرا اور سادہ ہے۔ جگہ جگہ پر قرآن و حدیث سے حوالے پیش کئے گئے ہیں۔ صاحب کتاب نے اپنے تجربات کو بنیاد بنانے کے بجائے قرآن و حدیث کو بنیاد بنایا ہے۔ اس کے بعد بزرگوں اور صوفیوں کے اقوال کو پیش کیا ہے جس سے کتاب کی افادیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کتاب کی قدر و منزلت کبھی کم نہیں ہوئی۔ آج سے نو صدی قبل اسے نگاہ قدر سے دیکھا جاتا تھا اور آج بھی دیکھا جاتا ہے۔ بلکہ عہد حاضر میں جس طرح تصوف کی ضرورت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لحاظ سے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کی معنویت دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ اس کتاب نے تصوف کے تعلق سے غلط فہمیوں کو دور کیا ہے اور بر صغیر میں تصوف کی اشاعت کی راہیں ہموار کی ہیں۔ اس شاہکار تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ محمد اکرام ’’آب کوثر‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’اس میں تصوف کے طریقے کی تحقیق، اہل تصوف کے مقامات کی کیفیت، ان کے اقوال اور صوفیانہ فرقوں کا بیان، معاصر صوفیوں کے رموز و اشارات اور متعلقہ مباحث بیان کئے گئے ہیں۔ اہل طریقت میں اس کتاب کو بڑا مرتبہ حاصل ہے۔‘‘

شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ اچھے قلمکار تھے اور انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں جن کے نام درج ذیل ہیں:

کتاب فنا و بقا، اسرارالخرق و المونات، الرعایت بحقوق اللہ، کتاب البیان لاہل العیان، نحو القلوب، منہاج الدین، ایمان، شرح کلامِ منصور حلاج اور دیوانِ اشعار۔ آج صرف کشف المحجوب دستیاب ہے۔ آپ کی تصنیفات کی چوری آپ کی زندگی میں ہی شروع ہو چکی تھی جس سے آپ کبیدہ خاطر تھے اور اس کا تذکرہ کشف المحجوب کی ابتدائی سطروں میں کرتے ہیں۔

’’پہلا حادثہ یہ ہوا کہ ایک صاحب میرے اشعار کا دیوان مستعار لے گئے۔ پھر انھوں نے واپس نہیں کیا۔ میرے پاس اس نسخہ کے سوا اور کوئی نسخہ نہیں تھا۔ ان صاحب نے میرے نام کو حذف کر کے اپنے نام سے اس دیوان کو مشہور کر دیا۔ اس طرح میری محنت انھوں نے ضائع کر دی۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف فرمائے۔

دوسرا حادثہ یہ پیش آیا کہ میں نے علم تصوف میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ’منہاج الدین‘ رکھا تھا۔ ایک کمینہ خصلت، چرب زبان شخص نے جس کا نام میں ظاہر کرنا نہیں چاہتا، اس نے شروع سے میرا نام چھیل کر اور اپنا نام درج کر کے عام لوگوں میں کہنا شروع کر دیا کہ یہ میری تصنیف ہے۔‘‘

داتا صاحب کی دیگر تصنیفات کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا یہ تو معلوم نہیں البتہ آج وہ دستیاب نہیں ہیں۔ کشف المحجوب کو دیکھتے ہوئے سمجھا جا سکتا ہے کہ دیگر کتابیں بھی علمی اعتبار سے بے حد اہم ہوں گی۔

داتا صاحب ایک عظیم مفکر، صوفی اور عالم کے ساتھ ساتھ ایک مصلح اور مبلغ بھی تھے۔ آپ کے قیام لاہور کے دوران بے شمار بندگانِ خدا آپ سے فیضیاب ہوئے۔ کشف المحجوب کے اردو ترجمہ (مترجم غلام معین الدین نعیمی) کے دیباچہ میں حضرت شمس بریلوی رقمطراز ہیں:

’’آپ کے ورودِ مسعود نے لاہور کے قالب میں ایک نئی جان ڈال دی۔ آپ کے قیام کے دوران ہزاروں گمگشتگانِ بادیۂ ضلالت و گمرہی نے آپ سے ہدایت پائی اور ہزاروں مشرکوں کے دلوں سے کلمہ توحید پڑھا کر زنگ کفر و شرک کو دور فرمایا۔ حضرت داتا صاحب قدس سرہٗ نے لاہور میں ورود فرمانے کے بعد اپنا تمام وقت تبلیغ اسلام اور تصنیف و تالیف میں صرف فرمایا۔ دربار شاہی سے آپ کا کسی قسم کا تعلق نہیں تھا۔ تبلیغ اسلام کا جو کام آپ نے شروع فرمایا تھا اس کو بعد میں آنے والے اکابرین صوفیاء نے اپنے پاکیزہ اور اعلیٰ کردار سے اسلام کی سچی اور پاکیزہ تصویر پیش کر کے پایہ تکمیل کو پہنچایا۔‘‘

داتا صاحب کے علمی، فکری، اصلاحی، تجریدی اور تبلیغی کارناموں کا ذکر متعدد کتابوں میں ملتا ہے۔ لیکن اس موضوع پر مزید تحقیق و جستجو کی ضرورت ہے۔ آپ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں جن کا تذکرہ آپ کے حالات زندگی میں ملتا ہے۔ شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے:

’’جو دل محبت سے خالی ہو وہ دل برباد و ویران ہے۔ تکلف میں محبت دور کرنے یا اس کے حاصل کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ محبت کے لطائف جو دل پر وارد ہوتے ہیں نفس کو اس کی کچھ خبر نہیں ہوتی۔‘‘            زندگی کا سفر

شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کا خاصا حصہ صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی میں گذارا۔ بیشتر صوفیہ کے تذکروں میں ملتا ہے کہ انھوں نے مختلف ملکوں اور شہروں کی سیر کی اور گوہر مقصود کے حصول کے لیے ڈگر ڈگر، نگر نگر گھومتے پھرے۔ آپ نے بھی اپنے ماقبل کے اہل تصوف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک طویل عرصہ عرب و عجم کی سیاحت میں گزارا۔ عراق، شام، لبنان، آذر بائیجان، خراسان، کرمان اور خوزستان، طبرستان، ترکستان اور ماوراء النہر کے علاقوں کو آپ کی قدمبوسی کا شرف ملا۔ سفر کے دوران اپنے عہد کے معروف صوفیہ سے آپ کی ملاقات رہی۔ جن میں حضرت ابو القاسم بن علی گرگانی، امام ابو القاسم قشیری (مصنف رسالہ القشیریہ) شیخ احمد حماری سرخسی، حضرت محمد بن مصباح، حضرت ابو سعید ابو الخیر، شیخ ابو احمد المظفر بن احمد رحمہم اللہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ بھی اہل طریقت سے آپ کی ملاقات رہی جن کا تذکرہ نہیں ملتا۔ امام ابو القاسم قشیری کا داتا صاحب نے خصوصی تذکرہ کیا ہے اور ان سے استفادہ کا اعتراف بھی کیا ہے۔ داتا صاحب کے مرشد حضرت ابو الفضل حسن الختلی تھے جو آپ کے استاد بھی تھے۔ حضرت ابو العباس محمد شقانی سے بھی آپ نے اکتساب علم کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات مختلف علوم و فنون کے ماہر تھے مگر ان کے علاوہ بھی کچھ اساتذہ سے آپ نے علم حاصل کئے۔

داتا صاحب تصوف میں جنیدی مسلک کے پابند تھے۔ اسی طرح شریعت میں سنی اور فقہ میں حنفی تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو بے حد عقیدت کی نظر سے دیکھتے تھے اور کشف المحجوب میں ان کا تذکرہ بے حد احترام اور القاب کے ساتھ کرتے ہیں۔

داتا صاحب، ایک صاحب روحانیت بزرگ تھے۔ آپ کا بیشتر وقت مجاہدہ، مراقبہ، ذکر و فکر اور اصلاح و تبلیغ میں گزرتا تھا۔ شاید اسی لیے آپ خانگی زندگی سے دور رہے۔ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے آپ نے نکاح فرمایا مگر لمبی مدت تک ازدواجی تعلقات برقرار نہیں رہ پائے اور بیوی سے جدائی ہو گئی۔ اس کے بعد دوسرا نکاح نہیں کیا۔ اولاد کا سلسلہ بھی نہیں چل پایا مگر آپ کی معنوی اور روحانی اولاد کا سلسلہ چلا اور ہزاروں افراد آپ کے سلسلے سے وابستہ ہوئے۔ بے شمار افراد نے فیوض حاصل کئے اور بر صغیر میں نور ہدایت و معرفت آپ کے ہی دم قدم سے پھیلا۔ ضلالت و گمرہی کی شب دیجور نے اسی آفتابِ ہدایت کی کرنوں سے روشنی پائی۔ اندھیرا دور ہوا اور اجالا پھیلا۔

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

سونا بن جاتا ہے آ کر کے یہاں قلبِ سیاہ

کیمیائی تو فقط صحبتِ درویشاں ہے

جس کے قدموں میں دھرے تاجِ تکبر سورج

کبریائی تو فقط حشمتِ درویشاں ہے

(حافظؔ شیرازی)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں خدمت خلق اور غریب پروری کا سبق

 

بر صغیر ہند و پاک میں صوفیہ کی تاریخ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی ہے۔ اس دوران یہاں مختلف سلسلوں کے صوفیہ نے امن و محبت اور بھائی چارہ کے پیغامات کو عام کیا اور انسان کو انسان کا بھائی بن کر رہنے کا درس دیا۔ صوفیہ کرام کی تعلیمات کا سب سے نمایاں حصہ ہوا کرتا تھا خدمت خلق اور اس کام کے لئے انھوں نے اپنی خانقاہوں کا استعمال کیا۔ ان خانقاہوں میں لنگر کا رواج عام رہا ہے۔ وہ زمانہ جس میں غذائی قلت عام تھی اور لوگوں کو پیٹ بھرنے کے لئے کھانا تک ملنا مشکل ہوتا تھا، صوفیہ اپنی خانقاہوں میں ہر روز ہزاروں افراد کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔ بے شمار لوگ جو خانقاہ میں نہیں آ سکتے تھے ان کے گھر پر کھانا بھیج دیا جاتا تھا اور جن لوگوں کے گھر دور تھے ان کے گھر راشن بھیج دیا جاتا۔ خدمت خلق کا یہ طریقہ عام صوفیوں کا طریقہ تھا مگر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بہت زور دیا اور اسی غریب پروری کے سبب انھیں عوام نے ’’خواجہ غریب نواز‘‘ کے لقب سے پکارنا شروع کر دیا۔ خواجہ صاحب کی تعلیمات میں اگرچہ مختلف قسم کے سبق موجود ہیں مگر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے غریبوں کے امداد و تعاون پر کیونکہ صوفیہ کے نزدیک اللہ تک پہنچنے کا بہتر راستہ ہے اس کے بندوں کی خدمت کرنا۔ اللہ اپنے ایسے بندوں سے خوش ہوتا ہے جو اس کے بندوں کو خوش رکھتے ہیں۔ اللہ کو اپنی مخلوق سے بے حد پیار ہے۔ ایک ماں اپنے بچے سے جس قدر محبت کرتی ہے اس سے بہت زیادہ اللہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے لہٰذا وہ ان لوگوں سے خوش ہوتا ہے جو اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں۔ صوفیہ کے ہاں بھی اس پر عمل پایا جاتا ہے۔ اللہ والوں کی خانقاہیں ہمیشہ بندگان خدا کے لئے کھلی رہتی تھیں اور یہاں سے ہر کوئی اپنے مسئلے کا حل پایا کرتا تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی کا آستانہ بھی لوگوں کے لئے ہمیشہ پناہ گاہ بنا رہتا تھا اور اسی لئے آپ (دلیل العارفین مجلس6میں) فرماتے ہیں:

’’عاجزوں کی فریادرسی، حاجت مندوں کی حاجت روائی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، اس سے بڑھ کر کوئی نیک کام نہیں۔‘‘

خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس پیغام پر ہمیشہ عامل رہے اور آپ کے اس پیغام کو آپ کے چاہنے والوں نے اپنے لئے حرز جاں بنا لیا۔ آپ کی سیرت میں ملتا ہے کہ کسی کسان کی حاجت روائی کے لئے آپ نے اجمیر سے دلی کا سفر کیا۔ حالانکہ اس کے لئے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ اگر خط لکھ دیتے تو کسان کا کام ہو سکتا تھا اور بادشاہ وقت اس کی مدد کر دیتا مگر غریب کسان کی تالیف قلب کے لئے اجمیر سے دلی کا سفر کیا۔ صوفیہ کے اسی طریقہ کار نے دنیا کا دل جیتا اور انھیں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنایا۔ ان کے پیغامات صرف زبانی نہیں تھے بلکہ کردار و عمل کے ذریعے بھی انھوں نے وہی درس دیئے جو اقوال وگفتار سے دیئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خدمت خلق کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ ان کے ایک قول سے ہوتا ہے۔ سیرالاولیاء (صفحہ128، از امیر خورد) میں ان کا قول درج ہے:

’’جس میں یہ تین خصلتیں ہوں گی، وہ اس حقیقت کو جان لے کہ خدائے تعالیٰ اس کو دوست رکھتا ہے۔ اول سخاوت دریا کی طرح۔ دوسرے شفقت، آسمان کی طرح۔ تیسرے خاکساری زمین کی طرح۔ فرمایا، جس کسی نے نعمت پائی، سخاوت سے پائی اور جو تقدم حاصل کرتا ہے، صفائے باطن سے حاصل کرتا ہے۔‘‘

نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ کا حکم اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر خدمت خلق کی اپنی فضیلت ہے اور آج کے دور میں اسی کی کمی ہے۔ مسجدوں میں نمازیوں کی بھیڑ نظر آتی ہے، رمضان میں روزہ رکھنے والے بھی کم نہیں ہیں اور حج کے وقت حاجیوں کی کثرت بھی دکھائی دیتی ہے مگر آج کے معاشرے میں اگر کمی نظر آتی ہے تو خدمت خلق کرنے والوں کی، اللہ کے بندوں کی غمگساری کرنے والوں کی اور اللہ کی مخلوقات سے اس کی رضا کے لئے بے لوث محبت کرنے والوں کی۔

اللہ کے بندوں کی خدمت کرنا، ان کے دکھ درد میں کام آنا، بھوکوں کو کھانا کھلانا، ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کرنا اور پریشان حال لوگوں کی پریشانی کو دور کرنا خواجہ غریب نواز کی زندگی کا مقصد تھا۔ اسے آپ نے اللہ کی رضا کا ذریعہ سمجھا۔ خود قرآن کریم اور سیرت نبوی میں بھی اسی کا حکم ملتا ہے مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ آج نمازی ملتے ہیں، حاجی ملتے ہیں، حج وزکوٰۃ ادا کرنے والے بھی ملتے ہیں مگر خدمت خلق کرنے والوں کی کمی ہے۔ خواجہ صاحب کے بعد جو لوگ آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے، انھوں نے بھی آپ کے سبق کو یاد رکھا اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کرتے رہے۔ اسی مقصد سے ان کے روحانی جانشینوں نے ملک بھر میں خانقاہیں قائم کیں اور خود کو پوری طرح خدمت خلق کے لئے وقف کر دیا۔ خواجہ غریب نواز نے خدمت خلق کا جو کام شروع کیا تھا وہ بعد کے دور میں بھی جاری رہا اور آپ کے مشن کو آگے بڑھانے والے اس پر عامل رہے۔ صوفیہ کے تذکرے بتاتے ہیں کہ آپ کے مریدین اور خلفاء نے ملک بھر میں خانقاہیں قائم کیں، لنگر شروع کئے اور عوام الناس کی فلاح کے کام کئے۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، حضرت حمید الدین ناگوری، بابا فرید الدین مسعود گنج شکر، محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء اور ان کے خلفاء ومریدین نے عوامی فلاح کے جو کام کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں اور عین خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے تو اپنے خلفاء کو خاص اسی کام کے لئے بنگال، دکن، گجرات اور مدھیہ پردیش وغیرہ کے علاقوں میں بھیجا تھا جہاں ان بزرگوں نے اس مشن کو آگے بڑھایا جس کے لئے خواجہ عثمان ہارونی، خواجہ معین الدین چشتی اور دیگر صوفیہ کوشاں رہے تھے۔ آج خانقاہی نظام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے اور جو ہے وہ محض رسمی ہے مگر جن کاموں کی شروعات پہلے ہو چکی تھی اس کی جھلک آج بھی دیکھنے کو مل جاتی ہے۔ آج بھی خانقاہوں میں لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے جو اسی لنگر کی یاد ہے جو صوفیہ کی خانقاہوں میں چلا کرتا تھا۔

چشتی سلسلے کے بزرگوں کے ملفوظات، مکتوبات اور تذکروں میں خدمت خلق کا درس ہر دور میں رہا ہے اور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ اپنی مجلسوں میں اس کو بار بار دہراتے رہتے تھے۔ آپ نے جو اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات جمع کئے ہیں، ان میں مرشد کے حوالے سے حضرت خواجہ حسن بصری کی کتاب آثار الاولیاء کا ایک حصہ نقل کیا ہے:

’’صدقہ ایک نور ہے، صدقہ جنت کی حوروں کا زیور ہے اور صدقہ 80 ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے جو پڑھی جائے۔ صدقہ دینے والے روزِ حشر عرش کے سائے میں ہوں گے۔ جس نے موت سے قبل صدقہ دیا ہو گا وہ اللہ کی رحمت سے دور نہ ہو گا۔ پھر فرمایا صدقہ جنت کی راہ ہے، جو صدقہ دیتا ہے وہ اللہ سے قریب ہوتا ہے۔

حضرت خواجہ شریف زندنی رحمۃ اللہ علیہ کا لنگر صبح سے رات گئے تک جاری رہتا، جو کوئی آتا کھا نا کھا کر جاتا۔ آپ فرمایا کرتے تھے اگر لنگر میں کچھ نہ ہو تو پانی سے تواضع کروکوئی خالی نہ جائے۔

پھر فرمایا زمین بھی سخی آدمی پر فخر کرتی ہے، جب وہ چلتا ہے تو نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔، ،

انیس الارواح (ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی، مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی)

صدقہ، خدمت خلق کا ذریعہ ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں اس کی خاص اہمیت رہی ہے۔ صوفیہ نے اس سنت پر عمل جاری رکھا اور کم سے کم اثاثے پر زندگی گزارنا قبول کیا۔ یہ سبھی سلسلہ طریقت میں موجود ہے مگر چشتی سلسلہ جو بر صغیر ہند و پاک میں زیادہ پھیلا اس میں خدمت خلق پر خصوصی زور دیا گیا جو صدقہ کی ہی ایک صورت تھی۔ اسی لئے خدمت خلق سلسلہ چشتیہ میں صدیوں تک جاری رہا اور جب تک اس سلسلے کے صوفیہ موجود رہے وہ خواجہ صاحب کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام کرتے رہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے مشن کا حصہ تھا۔ خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد کے کئی اقوال تحریر کئے ہیں جو خدمت خلق کے سلسلے میں ہیں۔ ایک مقام پر ہے:

’’جب کوئی پیاسے کو پانی پلاتا ہے، اس وقت اس کے تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں، وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو، اگر وہ مر جائے تو اس کا شمار شہداء میں ہو گا۔ پھر فرمایا جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے اللہ اس کی ہزار حاجتوں کو پورا کرتا ہے اور جہنم کی آگ سے اسے آزاد کرتا ہے، اور جنت میں اس کے لئے ایک محل مخصوص کرتا ہے۔، ،

(انیس الارواح، مجلس۔ 10)

ایک دوسری جگہ خواجہ عثمان ہارونی کا ہی قول درج ہے:

’’میں نے خواجہ مودود چشتی کی زبانی سنا کہ اللہ تعالیٰ تین گروہوں کی طرف نظر رحمت فرماتا ہے، پہلے وہ باہمت لوگ جو محنت کر کے اپنے کنبہ کو پالتے ہیں۔ دوسرے جو اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں اور وہ عورتیں جو اپنے شوہروں کا حکم مانتی ہیں۔ تیسرے وہ جو فقیروں اور عاجزوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔، ،

(انیس الارواح، مجلس۔ 20)

صوفیہ کا ماننا تھا کہ اللہ تعالیٰ، رحمٰن ورحیم ہے لہٰذا اس کی مخلوق کو بھی اس کی صفت رحمت کا مظہر ہونا چاہئے۔ وہ کریم ہے اور اپنے بندوں پر کرم فرماتا ہے۔ وہ محسن ہے اور اپنی مخلوقات پر احسان کرتا ہے، وہ اپنی مخلوقات سے بے حد محبت کرتا ہے لہٰذا اس کی مخلوق کی خدمت کے ذریعے اس کی رضا کو پایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کی خدمت سے خوش ہوتا ہے۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر

خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر

 

خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ اور عرفانِ الٰہی

شریعت کیا ہے اور طریقت کیا ہے؟ کیا کوئی شخص شریعت پر عمل سے آزاد ہو سکتا ہے؟ کیا عرفان الٰہی کے لئے شریعت پر کامل عمل ضروری ہے؟ کیا طریقت تک رسائی کے بعد شریعت سے آزادی مل جاتی ہے؟ اس قسم کے سوال عام طور پر سننے کو مل جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں علماء، صوفیہ اور بزرگان دین نے بہت واضح جوابات دیئے ہیں اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات میں بھی اس سلسلے میں وضاحت ملتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کوئی بھی شخص جو مسلمان ہونے کا دعویدار ہو اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لائے ہوئے دین میں یقین رکھتا ہو، وہ جب تک ہوش وخرد میں ہے، تب تک دین مصطفوی اور شریعت محمدی کی پیروی سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ ان صلحاء میں سے تھے جن کا مقصد ہی شریعتِ محمدی کی دعوت دینا تھا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی احکام کو رائج کرنا تھا۔ آپ کی اسی دعوت کے نتیجے میں بر صغیر میں اسلام کا پرچم لہرایا اور دین و احکام دین کا بول بالا ہوا۔

خواجہ غریب نواز رحمہ اللہ علیہ کی تعلیمات کہتی ہیں کہ طریقت، شریعت کا ہی حصہ ہے، اس سے الگ کوئی راہ نہیں۔ مومن کے لئے ہر حال میں اس پر عمل ضروری ہے اور نماز، روزہ، حج وزکوٰۃ سمیت تمام احکام شریعت پر عمل لازمی ہے۔ یہی سبب ہے کہ خواجہ صاحب نے عبادت وریاضت میں کثرت کی اور اہل ایمان کو ہر حال میں احکام شریعت پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ آپ کے ملفوظات ’’دلیل العارفین‘‘ میں ایسے اہل اللہ کے واقعات بیان کئے گئے ہیں، جنھوں نے نماز وعبادت میں خود کو اس طرح مصروف رکھا کہ دنیا کے معاملات سے بے نیاز ہو گئے۔ دلیل العارفین میں ایک بزرگ شیخ اوحد الواحد غزنوی کا ذکر ہے، جن سے خواجہ صاحب دوران سفر ملک شام کے قریب کسی شہر کے باہر ایک غار میں ملے۔ یہ بزرگ عبادت الٰہی اور خشیت ربانی کی کثرت سے سوکھ کر خشک لکڑی کی طرح ہو گئے تھے اور جسم پر محض ہڈی اور جلد باقی بچی تھی۔ بزرگ نے خواجہ صاحب سے فرمایا کہ

’’جب میں نماز ادا کرتا ہوں تو اپنے آپ کو دیکھ کر روتا ہوں کہ اگر ذرہ بھر شرط نماز ادا نہ ہوئی تو سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔ اسی وقت یہ طاعت میرے منہ پر دے ماریں گے۔‘‘

اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نماز اور احکام شریعت کی خواجہ صاحب اور ان کے ممدوحین کی نظر میں کیا اہمیت تھی۔ حالانکہ اس کے علاوہ بھی آپ کے ملفوظات میں جگہ جگہ نماز اور احکام دین پر عمل کی تاکید ملتی ہے۔

شریعت پر عمل کے بغیر چارہ نہیں

خواجہ غریب نواز کی تعلیمات کہتی ہیں کہ شریعت پر عمل ہر حال میں لازم ہے اور اس سے کسی بھی طرح نجات نہیں۔ اس تعلیم پر آپ کے بعد آپ کے جانشینوں نے عمل کیا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید الدین گنج شکر، محبوب الٰہی نظام الدین اولیاء اور اس سلسلے کے دوسرے بزرگوں نے ہمیشہ اور ہرحال میں شریعت کے احکام پر عمل کیا۔ شریعت پر کامل عمل کے بغیر طریقت کی منزل پر گامزن نہیں ہوا جا سکتا۔ چنانچہ دلیل العارفین میں خواجہ معین الدین چشتی کا قول درج ہے:

’’راہ شریعت پر چلنے والوں کا شروع یہ ہے کہ جب لوگ شریعت میں ثابت قدم ہو جاتے ہیں اور شریعت کے فرمان بجا لاتے ہیں اور ان کے بجا لانے میں ذرہ بھر تجاوز نہیں کرتے تو اکثر وہ دوسرے مرتبے پر پہنچتے ہیں جسے طریقت کہتے ہیں۔ اس کے بعد جب مع شرائط طریقت میں ثابت قدم ہوتے ہیں اور تمام احکام شریعت بلا کم وکاست بجا لاتے ہیں تو معرفت کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں، جب معرفت کو پہنچتے ہیں توشناخت وشناسائی کا مقام آ جاتا ہے۔ جب اس مقام پر بھی ثابت قدم ہو جاتے ہیں تو درجہ حقیقت کو پہنچتے ہیں۔ اس مرتبے پر پہنچ کر جو کچھ طلب کرتے ہیں پالیتے ہیں۔‘‘ (مجلس دوم)

عارف کون ہے؟

تصوف نام ہے عرفانِ خداوندی کے راستے کا اور اس راستے پر چلنے والوں کو ہی صوفی یا عارف کہا جاتا ہے۔ راہ تصوف وعرفان کے راہی اپنے خالق ومالک کے عرفان کی جد و جہد میں لگے رہتے ہیں۔ صوفیہ اس راستے کو طویل اور مشکلوں سے بھرا ہوا مانتے ہیں۔ اس راستے پر چلنے والوں کو دوران سفر مختلف قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب عرفان خداوندی کی منزل ملتی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی فرماتے ہیں:

’’ عارف اس شخص کو کہتے ہیں کہ تمام جہان کو جانتا ہو اور عقل سے لاکھوں معنی پیدا کر سکتا ہو اور بیان کر سکتا ہو اور محبت کے تمام دقائق (باریکیاں نکتے) کا جواب دے سکتا ہو اور ہر وقت بحر باطن و نکتہ میں تیرتا رہے تاکہ اسرارِ الٰہی و انوارِ الٰہی کے موتی نکالتا رہے اور دیدہ ور جوہریوں کے پیش کرتا رہے۔ جب وہ اسے دیکھیں پسند کریں۔ ایسا شخص بے شک عارف ہے۔

بعدا زاں اسی وقت فرمایا کہ عارف ہر وقت ولولۂ عشق میں مبتلا رہتا ہے اور قدرتِ خدا کی آفرینش میں متحیر رہتا ہے۔ اگر کھڑا ہے تو بھی دوست کے وہم میں اور اگر بیٹھا ہے تو بھی دوست کا ذکر کرتا ہے۔ اگر سویا ہے تو بھی دوست کے خیال میں متحیر ہے۔ اگر جاگتا ہے تو بھی دوست کے حجاب عظمت کے گرد طواف کرتا ہے۔‘‘ (دلیل العارفین، مجلس۔ 1)

عرفان الٰہی کا راستہ

عرفان و تصوف کی راہ ہی خدا شناسی کی راہ ہے۔ یہاں منزل تک رسائی کے لئے کئی مشکل مرحلوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس راہ پر چلنے والے زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں۔ جس طرح موتی پانے کے لئے سمندر میں غوطے لگانا پڑتا ہے اسی طرح عرفان حق کے لئے بھی عبادت و ریاضت کے دشوار گزار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔

کبیرا یہ گھر پریم کا خالہ کا گھر ناہیں

جو شیش بھوئیں دھرے، سو پیٹھے گھر ماہیں

انسان کی تخلیق کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کا عرفان حاصل کرے اور اسے پہچاننے کی کوشش کرے۔ حالانکہ اللہ کی ذات ایسی نہیں کہ وہ انسان کے وہم و گمان میں بھی آ سکے مگر باوجود اس کے، اُس کی ذات وصفات کو سمجھنے کی کوشش لازمی ہے۔ حالانکہ اس جد و جہد میں ایک مقام وہ بھی آتا ہے جب عارف کی جانب رحمت الٰہی متوجہ ہوتی ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا:

’’عرفان میں ایک حالت ہوتی ہے، جب اس پر یہ حالت طاری ہوتی ہے، تو وہ ایک ہی قدم میں عرش سے حجاب عظمت تک کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ وہاں سے حجاب کبریا تک پہنچ جاتے ہیں، پھر دوسرے قدم پر اپنے مقام پر آ جاتے ہیں۔ (پھر خواجہ صاحب آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا) عارف کا سب سے کم درجہ یہی ہے، لیکن کامل کا درجہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کہاں سے کہاں تک ہے۔‘‘ (دلیل العارفین، مجلس1)

شریعت پر عمل لازم ہے

شریعت کو اس کی روح کے مطابق عمل میں لانا ہی راہ طریقت کا مقصد ہے۔ شریعت پر کامل طور پر عمل کرنے والا ہی طریقت کے راستے کا مسافر کہا جاتا ہے۔ انسان اللہ کے احکام پر جس قدر عامل ہو گا، وہ اسی قدر کامل سالک ہو گا۔ ایسے میں ایک مقام آتا ہے جب سالک کا دل عشق الٰہی کی بھٹی میں تپ کر پختہ ہو جاتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’ عاشق کا دل محبت کا آتش کدہ ہوتا ہے۔ جو کچھ اس میں جائے اسے جلا دیتا ہے اور ناچیز کر دیتا ہے کیونکہ عشق کی آگ سے بڑھ کر کوئی آگ تیز نہیں ہے۔‘‘ ( دلیل العارفین، مجلس۔ 9)

شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہؔ

اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی

اس مضمون میں خواجہ صاحب کے ملفوظات سے جو بھی اقتباس پیش کئے، ان سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ طریقت کی راہ شریعت سے الگ نہیں ہے اور احکام دین پر عمل ہر حال میں لازم و ضروری ہے۔ انسان طریقت میں جتنا کامل ہو گا، وہ شریعت پر اسی قدر کاربند ہو گا۔ آج ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خواجہ معین الدین چشتی کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں اور ان کے آستانے پر حاضری دینا باعث خیروبرکت سمجھتے ہیں۔ اللہ والوں سے عقیدت و محبت اچھی بات ہے اور آداب شریعت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے آستانوں پر حاضری بھی باعث اجروثواب ہے مگر اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنایا جائے۔ انھوں نے جس مقصد کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی اور جس مشن کے لئے وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور ہندوستان تشریف لائے، اس مشن میں لگنا انھیں سب سے بڑی خراج عقیدت ہے۔ اگر ہم آج خواجہ صاحب کی عقیدت کا دم بھرتے ہیں تو یہ بھی ضروری ہے کہ احکام شریعت کی پابندی کریں اور عرفان الٰہی کی کوشش کریں۔ انھوں نے جو اللہ اور اس کے بندوں سے محبت کا درس دیا ہے اس پر عمل پیرا ہوں اور انسانیت کے خیر خواہ بنیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں