جوگیا
راجندر سنگھ بیدی
’’ نہا دھوکر، نیچے کے تین ساڑھے تین کپڑے پہنے، جوگیا روز کی طرح اس دن بھی الماری کے پاس آ کھڑی ہوئی اور میں اپنے ہاں سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر دیکھنے لگا۔ ایسے میں دروازہ کو ہاتھ جو لگا تو ’’چوں‘‘ کی ایک بے سُری آواز پیدا ہوئی۔ بڑے بھیّا جو کہیں پاس ہی بیٹھے شیو بنا رہے تھے، مُڑ کر بولے——
’’کیا ہے جُگل؟‘‘
’’کچھ نہیں موٹے بھیّا‘‘ میں نے اُنھیں ٹالتے ہوئے کہا —— ’’گرمی بہت ہے۔‘‘
اور میں پھر سامنے دیکھنے لگا —— ساری کے سلسلے میں جوگیا آج کون سا رنگ چنتی ہے؟ — میں جِے جِے اسکول آف آرٹس میں پڑھتا تھا۔ رنگ میرے حواس پر چھائے رہتے تھے۔ رنگ مجھے مرد عورتوں سے زیادہ ناطق معلوم ہوتے تھے اور آج بھی ہوتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ لوگ اکثر بے معنی باتیں کرتے ہیں، لیکن رنگ کبھی معنی سے خالی بات نہیں کرتے۔
ہمارا مکان کالبا دیوی کی وادی شیٹ ا گیاری لین میں تھا۔ پارسیوں کی ا گیاری تو کہیں دور گلی کے موڑ پر تھی۔ یہاں پر صرف مکان تھے، آمنے سامنے جو ایک دوسرے سے بغلگیر ہو رہے تھے۔ان مکانوں کی ہم آغوشیاں کہیں تو ماں بچے کے پیار کی طرح دھیمی دھیمی، ملائم ملائم،اور صاف ستھری تھیں اور کہیں مرد عورت کی محبت کی طرح مجنونانہ ، سینہ بہ سینہ، لب بہ لب، غلیظ اور — مقدّس …
سامنے بانپو گھر کی قسم کے کمروں میں جو کچھ ہوتا تھا، وہ ہمارے ہاں گیان بھون سے صاف دکھائی دیتا —— ابھی بجور کی ماں ترکاری چھیل رہی ہے اور چاقو سے اپنا ہی ہاتھ کاٹ لیا ہے۔ ڈنکر بھائی نے احمد آباد سے گھی اور تیل کے دو پیپے منگوائے ہیں اور پنجابن سب کی نظریں بچا کر انڈوں کے چھلکے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک کر بھاگ رہی ہے۔ جیسے ہمارے گیان بھون سے ان لوگوں کا کھایا پیا سب نظر آتا تھا، ایسے ہی انھیں بھی ہمارا سب کچھ نظر آتا ہو گا۔
جوگیا کے گھر کا نام تورنچھوڑ نواس تھا ،لیکن میں اسے بانپو گھر کہتا تھا، اس لیے کہ اس میں عام طور پر بدھوائیں اور چھوڑی ہوئی عورتیں رہتی تھیں۔ ان میں ایک جوگیا کی ماں تھی جو دن بھر کسی درزی گھر میں سلائی کی مشین چلاتی اور اس سے اتنا پیسہ پیدا کر لیتی جس سے اپنا اور اپنی بیٹی کا پیٹ پال سکے اور ساتھ ہی جوگیا کی تعلیم بھی مکمل کرے۔
جوگیا سترہ اٹھارہ برس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ قد کوئی ایسا چھوٹا نہ تھا لیکن بدن کے بھرے پُر سے اور گٹھے ہونے کی وجہ سے اس پر چھوٹا ہونے کا گمان گزرتا تھا۔ کسی کو یقین بھی نہ آسکتا تھا کہ جوگیا وال، رنگنا اور ہفتے میں ایک آدھ بار کی شری کھنڈ سے اتنی تندرست ہو سکتی تھی ۔ بہرحال ان لڑکیوں کا کچھ مت کہیے۔ جو بھی کھاتی ہیں، سب الّم غلّم ان کے بدن کو لگتا ہے اور بعض وقت تو غلط حصوں کو لگتا ہے جنھیں میں تو صحیح حصّے کہتا ہوں، کیونکہ عورت کے جسم میں پتلے پتلے، پیلے پیلے خطوط کی بہ نسبت، مجھے گہرے گہرے اور بھرپُور خط اچھے لگتے ہیں۔ جوگیا کا چہرہ سومنات مندر کے پیش رُخ کی طرح چوڑا تھا، جس میں قندیل جیسی آنکھیں، رات کے اندھیرے میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو روشنی دکھاتی تھیں۔ مورتی میں ناک اور ہونٹ زمرّد اور یاقوت کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ سر کے بال کمر سے نیچے تک کی پیمائش کرتے تھے، جنھیں وہ کبھی ڈھیلا ڈھیلا اور بھیگا بھیگا رکھتی اور کبھی اس قدر خشک بنا دیتی کہ ان کی کچھ لٹیں باقی بالوں سے خواہ مخواہ الگ ہو کر چہرے اور گردن پر مچلتی رہتیں۔ اس کا چہرہ کیا تھا، پورا تارا منڈل تھا جس میں چاند ،خیالوں اور جذبوں کے ساتھ گھٹتا اور بڑھتا رہتا تھا۔ جوگیا یوں بڑی بھولی تھی لیکن اپنے آپ کو سجانے بنانے کے سلسلے میں بہت چالاک تھی۔ کب اور کس وقت کیا کرنا ہے، وہ خوب جانتی تھی اور اس کے اس جاننے میں اس کی تعلیم کا بڑا ہاتھ تھا جس نے اس کے حُسن کو دوبالا کر دیا تھا۔ گڑبڑ تھی تو صرف رنگ کی۔ کیونکہ جوگیا کا رنگ ضرورت سے زیادہ گورا تھا، جسے دیکھتے ہی زکام کا سا احساس ہونے لگتا۔ اگر باقی کی چیزیں اتنی متناسب نہ ہوتیں تو بس، چھُٹّی ہو گئی تھی۔
میں نہیں جانتا محبت کس چڑیا کا نام ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جوگیا کو دیکھتے ہی میرے اندر دیواریں سی گزرنے لگتی تھیں اور جہاں تک مجھے یاد ہے جوگیا بھی مجھے دیکھ کر غیر متعلق باتیں کرنے لگتی ۔ جوگیا میری بھتیجی ہیما کی سہیلی تھی۔ عجیب سہیلی پنا تھا … ہیما صرف سات سال کی تھی اور جوگیا اٹھارہ برس کی۔ ان کی دوستی کی کوئی وجہ تھی، جسے صرف جوگیا جانتی تھی اور یا پھر میں جانتا تھا۔ موٹے بھیّا اور بھابی صرف یہی سمجھتے تھے کہ وہ ہیما سے پیار کرتی ہے۔ اس لیے اسے پڑھانے آتی ہے۔ یوں ہمارے گھر میں آ کر جوگیا سب کو سبق دے جاتی تھی۔ میں جو ایک آرٹسٹ بننے جا رہا تھا، ایسی رکھ رکھاؤ کی باتوں کا قائل نہ تھا۔ لیکن میری مجبوریاں تھیں۔ میں نے کمانا شروع نہیں کیا تھا اور میرے ہر قسم کے خرچ کا مدار موٹے بھیّا پر تھا۔ البتہ بیچ بیچ میں مجھے اس بات کا بھی خیال آتا تھا کہ اس داؤ گھات میں بھی ایک مزہ ہے۔مغرب میں لڑکے لڑکیاں جو اتنی آسانی سے ایک دوسرے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں، بِنا کسی التہاب کے ایک دوسرے کی آغوش میں چلے آتے ہیں۔ خاک لُطف اُٹھاتے ہیں؟ اتفاقاً محبوبہ کے بدن سے چھو جانے پر ان کے اندر تو کوئی بجلی نہ دوڑتی ہو گی؟ شاید ان کو کوئی ایسا لُطف ملتا ہو جو ہمارے لطف سے ارفع ہو ۔ لیکن ہمارے ہاں صرف لمس اور اِدھر اُدھر کی باتوں ہی میں ایسے تلذذ کا احساس ہوتا ہے کہ ان کے وصال میں بھی کیا ہو گا؟
یوں ہی دوچار بار میرا ہاتھ جوگیا کے پنڈے کو لگ گیا ہو گا۔ ایک بار، صرف ایک بار میں نے اپنے ارادے سے اس کا منھ چُوما تھا۔
ہم گھر سے تھوڑے تھوڑے وقفے اور فاصلے کے ساتھ نکلتے تھے اور پھر پارسیوں کی ا گیاری کے پاس مل جاتے۔ ہمارے اس راز کو صرف وہ پارسی پجاری ہی جانتا تھا، جو فرشتوں کے لباس میں ا گیاری کے باہر بیٹھا ہوتا اور مُنھ میں زنداد سنتا پڑھتا رہتا تھا۔ وہ ،صرف وہ ہمارے سروش کو سمجھتا تھا۔ اس لیے اس کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم اُسے ضرور ’’صاحب جی‘‘ کہتے اور پھر اس راستے پر چل پڑتے جو دنیا کے لہو و لعب، میٹروسینما کی طرف جاتا تھا، جہاں پہنچ کر جوگیا اپنے کالج کی طرف چل دیتی اور میں اپنے اسکول کی طرف۔ راستے بھر ہم غیر منطقی باتیں کرتے اور ان سے پورا حظ اُٹھاتے۔ اگر پیار کی باتیں ہوتیں بھی، تو کسی دوسرے کے پیار کی، جن میں وہ مرد کو ہمیشہ بدمعاش کہتی اور پھر اس بات پر کڑھتی بھی کہ اس کے بغیر بھی گزارہ نہیں۔ ایک دن جہانگیر آرٹ گیلری میں کسی آرٹسٹ کی منفرد نمائش تھی اور پورے شہر بمبئی میں سے کوئی بھی اس بدنصیب کی تصویروں کو دیکھنے اور خریدنے نہ آیا تھا۔ صرف میں اور جوگیا پہنچے تھے اور وہ بھی تصویریں دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے کو دیکھنے، محسوس کرنے کے لیے۔ پورے ہال میں ہمارے سوا کوئی نہ تھا اور تین طرف سے رنگ ہمیں گھور رہے تھے۔ ’جو ہو میں ایک صبح‘ کے نام کی ایک بڑی سی تصویر تھی جس میں اوپر کے حصّے پر بُرش سے گہرے سرُخ رنگ کو موٹے موٹے اور بھدّے طریقے سے تھوپا اور پچارا گیا تھا۔ اس نے ہماری روحوں تک میں التہاب پیدا کر دیا۔ تصویر کے نیچے ایک اسٹول سا پڑا تھا، جس پر جوگیا کسی اندرونی تکان کے احساس سے بیٹھ گئی۔ اس کی سانس قدرے تیز تھی اور میں جانتا تھا، محبت میں ایک قدم بھی بعض اوقات سینکڑوں فرسنگ ہوتا ہے … اور آدمی چلنے سے پہلے تھک جاتا ہے …
آرٹسٹ رُوہانسا ہو کر باہر چلا گیا —— دیکھنے کوئی آتا مرتا ہے یا نہیں۔ اپنی نفرت میں وہ ہماری محبت کو نہ دیکھ سکا تھا۔
جبھی ہم دونوں کے اکیلے پن نے سارے ہال کو بھر دیا۔
اس دن میں نے جوگیا سے سب کہہ دینا چاہا۔ ہم دونوں ہی پیار کی ہیرا پھیریوں سے تنگ آ چکے تھے۔ چنانچہ میں نے ایک قدم آگے بڑھایا، ٹھٹھکا اور پھر اسٹول کے پاس، جوگیا کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ میں کہہ بھی سکا توبس اتنا —— ’’جوگیا!میں تمھیں ایک لطیفہ سناؤں؟‘‘
’’سامنے آ کے سناؤ‘‘ جوگیا بولی۔
میں نے کہا ’’لطیفہ ہی ایسا ہے —— جوگی!‘‘
میری طرف دیکھے بغیر ہی اُسے میرے حیص بیص کا اندازہ ہو رہا تھا اور مجھے پیچھے، اس کے کانوں کی لووں سے اس کی مسکراہٹ دکھائی دے رہی تھی۔ آخر میں نے لطیفہ شروع کیا۔
’’ایک بہت ہی ڈرپوک قسم کا پریمی تھا۔‘‘
’’ہوں‘‘ … جوگیا کے سنبھلنے ہی سے اس کی دلچسپی کا انداز ہو رہا تھا۔ پھر میں نے کہا — ’’وہ کسی طرح بھی اپنی پریمیکا کو اپنا پیار نہ جتا سکتا تھا۔‘‘
اس پر جوگیا نے تین چوتھائی میں میری طرف دیکھا — ’’تم لطیفہ سنار ہے ہو؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے کچھ خفیف ہوتے ہوئے کہا۔
اور جوگیا پھر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی —— منتظر … ایک ایسا انتظار جو بہت ہی لمبا ہو گیا تھا، جس میں لمحات کے شرارے، کسی بارُود سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہے تھے، خلا میں پھٹ رہے تھے اور آخر معدومیت کا حصہ ہوتے جا رہے تھے۔ جبھی ’’جوہو میں ایک صبح‘‘ میں لال رنگ کے بیچ سے سورج کی کرن نیچے سمندر کی سیاہیوں میں ڈولتی ہوئی کشتی پر پڑی اور میں نے کہا — ’’وہ لڑکی اپنے پریمی سے تنگ آ گئی۔ آخر اس نے سوچا اس بیچارے میں تو ہمت ہی نہیں۔ کیوں نہ میں اسے کوئی ایسا موقع دوں، شاید …چنانچہ اس نے اپنے جنم دن پر لڑکے کو بلا لیا۔ لڑکا آیا بھی، گلدستہ بھی لایا جسے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس کی پریمیکا نے کہا — ’’ہے کتنا پیارا ہے، یہ اودے میں گلابی، گلابی میں سبز رنگ کے پھول … ان کے بدلے تو کوئی میرا منھ بھی چُوم لے۔‘‘
’’پھر؟‘‘ جوگیا کی بے صبری پیچھے سے بھی دکھائی دے رہی تھی۔
’’پھر— لڑکی نے اپنا مُنھ تھوڑا آگے کر دیا، مگر … وہ لڑکا باہر جا رہا تھا، دروازے کی طرف‘‘
’’ہے بھگوان‘‘ اور جوگیا نے ہاتھ اپنے ماتھے پر مار لیا۔
میں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا— لڑکی بولی ۔’’کہاں جا رہے ہو لالی؟‘‘
لالی نے دروازے سے کے پاس مڑتے ہوئے کہا — ’’اور پھول لینے …‘‘
اس سے پہلے کہ جوگیا ہنستی اور اس کا انتظار ابدیت پر چھا جاتا، میں نے پیچھے سے اس کے دونوں بازو جکڑ کر اس کا مُنھ چُوم لیا تھا۔ اب جوگیا بناوٹی غصّے سے مجھے ہلکے ہلکے تھپڑ لگا رہی تھی اور اپنے ہونٹ پونچھ رہی تھی۔ وہ ہنس نہ سکتی کیونکہ وہ ناراض تھی اور خوش بھی۔محبت کے اس بے برگ و گیاہ سفر میں ایکا ایکی زمین کا کوئی ایسا ٹکڑا چلا آیا تھا، جسے بارش کے چھینٹوں نے ہرا بھرا کر دیا تھا …اس دن اگر ہم جوشیلے، گہرے سُرخ رنگ کی تصویر کے نیچے کھڑے نہ ہوتے، تو میں جوگیا کا منھ نہ چوم سکتا تھا۔ اس کے بعد آرٹ کا دلدادہ کوئی آدمی آیا اور اس نے بازو والی تصویر خرید لی جس کا نام تھا ’’کوئی کسی کا نہیں‘‘ اور جس میں ایک عورت سر ہاتھوں میں دیے رور رہی تھی۔ سب رنگوں میں اُداسی تھی اور وہ ایسے وقت میں اُداسی کے رنگ خرید رہا تھا، جب کہ سب کھلتے ہوئے رنگ ہمارے تھے۔ جیب میں ایک پائی نہ ہونے کے باوجود سب تصویریں ہماری تھیں، نمائش ہماری تھی۔ جوگیا ایک عظیم تشفی کے احساس سے معمور باہر دروازے کے پاس پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس نے ایک بار مُڑ کر میری طرف دیکھا، مُکاّ دکھایا، مسکرائی اور بھاگ گئی…
کچھ دیر بعد یونہی اِدھر اُدھر رنگ اُچھالنے کے بعد میں بھی باہر چلا آیا۔ دُنیا کی سب چیزیں اس روز اُجلی اُجلی دکھائی دے رہی تھیں۔ لوگوں نے ایسے ہی رنگوں کے نام اُودا، سفید، کالا اور نیلا وغیرہ رکھے ہوئے ہیں۔ کسی کو خیال بھی نہیں آیا۔ ایک رنگ ایسا بھی ہے جو ان کی جمع تفریق میں نہیں آتا اور جسے اُجلا کہتے ہیں اور جس میں دھنک کے ساتوں رنگ چھپے ہوتے ہیں… میرا گلا تشکّر کے احساس سے رندھا ہوا تھا — میں کس کا شکریہ ادا کر رہا تھا؟ … اس ایک لمس سے جوگیا ہمیشہ کے لیے میری ہو گئی تھی۔ میں جیسے اس کی طرف سے بے فکر ہو گیا تھا۔ اب وہ کسی کے ساتھ بیاہ بھی کر لیتی، کسی کے ساتھ سو بھی جاتی، جب بھی وہ میری تھی۔ ایسا چھن جس میں سچائی ہو، ولولہ ہو، بدنصیب شوہر کو کہاں ملتا ہے؟
تو گویا میں اس دن دیکھ رہا تھا ،کون سے رنگ کی ساری جوگیا اپنی الماری میں سے نکالتی ہے۔ اگر وہ مجھے میرے ہال کے دروازے کے پیچھے دیکھ لیتی تو ضرور اشارے سے پوچھتی— آج کون سی ساری پہنوں اور اس میں سارا مزہ کرکرا ہو جاتا۔ میں تو جاننا چاہتا تھا، صبح سویرے، نہا دھوکر جب کوئی سُندری اپنی ساریوں کے ڈھیر کے سامنے کھڑی ہوتی ہے، تو اس میں کون سی چیز ہے جو اس بات کا فیصلہ کرتی ہے — آج گلابی رنگ کی ساری پہننی چاہیے۔ ان عورتوں کے سوچنے کا طریقہ بڑا پُراسرار ہے، اور پُرپیچ۔ اتنا بھید، اتنا رہسیّہ کہ مرد اس کی تھاہ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ سُنا ہے چاند نہ صرف عورت کے خون، بلکہ اس کے سوچ بچار پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ لیکن چاند کا اپنا تو کوئی رنگ ہی نہیں، روشنی ہی نہیں۔ وہ تو سب سُورج سے مستعار لیتا ہے … جبھی … جبھی ساری پہننے سے پہلے عورت ہمیشہ اپنے کسی سُورج سے پوچھ لیتی ہے — آج کون سی ساری پہنوں؟
نہیں، نہیں … اس کا اپنا رنگ ہے، اپنا فیصلہ۔ ہر کسی کو کوئی مرد تھوڑا ہی بتانے جاتا ہے؟ پھر رات —— رجنی کا بھی تو ایک رنگ ہوتا ہے، اس کا اپنا رنگ … جسے دیکھ کر گاتے ہیں۔ موہے شیام رنگ دئی دے … مورا گورا رنگ لئی لے …
اس دن بہت گرمی تھی ۔ نیچے وادی شیٹ ا گیاری لین میں آتے جاتے لوگ ریت کے رنگ کی سڑک پر سے گزرتے تھے، تو معلوم ہوتا تھا موسم کی بھٹیارن کہیں دانے بھون رہی ہے۔ جبھی کوئی پنجابی یا مارواڑی بڑا سا پگڑ باندھے آتا، تو اوپر سے بالکل مکّی کا دانہ معلوم ہوتا ،جو بھٹی کی آنچ میں پھول کر سفید ہو جاتا ہے…
یہاں گیان بھون سے مجھے صرف رنگ کے چھینٹے دکھائی دیے۔ وہ سب ساڑیاں تھیں جن میں سے ایک جوگیا اپنے لیے، میرے لیے، ساری دنیا کے لیے چُن رہی تھی۔ یوں ہی اس نے ایک بار میرے گھر کی طرف دیکھا۔ شاید اس کی نگاہیں مجھے ڈھونڈ رہی تھیں۔ لیکن میں نے تو کسی اوٹ کی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی ،جس سے میں تو ساری دنیا کو دیکھ سکتا تھا لیکن دنیا مجھے نہ دیکھ سکتی تھی۔ اس دن میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا جوگیا نے ہلکے نیلے رنگ کو چُنا ہے۔ ایسی گرمی میں یہی ٹھنڈا رنگ اچھا معلوم ہوتا تھا۔ اگر میں ہوتا تو جوگیا کو یہی رنگ پہننے کا مشورہ دیتا۔ جبھی میں نے سوچا، میں نے بہت چھُپنے کی کوشش کی، لیکن جوگیا نے جانے اپنے من میں مجھے بلا کر مجھ سے پوچھ ہی لیا ہے۔
پھر وہی شروع کی جدائی اور آخر کا میل۔ معلوم ہوتا تھا ا گیاری تک یہ دُنیا اور اس کے قانون ہیں۔ اس کے بعد کوئی قانون ہم پر لاگو نہیں ہوتا۔
میں نے بڑھ کر جوگیا کے پاس پہنچتے ہوئے کہا ’’آج تم نے بڑا پیارا رنگ چُنا ہے، جوگی…‘‘
’’میں جانتی تھی تم اسے پسند کرو گے۔‘‘
’’تم کیسے جانتی تھیں؟‘‘
’’ایسے ہی … کبھی کبھی تمھارا من میرے من میں آ جاتا ہے۔‘‘
’’ہوں‘‘ میں نے سوچتے ہوئے کہا —— ’’آج تمھیں چھونے، ہاتھ لگانے کو بھی جی نہیں چاہتا۔‘‘
’’کیا چاہتا ہے؟‘‘
اس وقت ایک وکٹوریہ ہم دونوں کے بیچ آ گئی، جسے نکلنے میں صدیاں لگیں۔میری نگاہیں پھر جھیلوں میں تیرنے، چھینٹے اڑانے لگیں۔ جب تک ہم پرنسس اسٹریٹ کا چوراہا پار کر کے میٹرو کے پاس آ چکے تھے، جہاں سے ہمارے راستے جدا ہوتے تھے۔ میں نے کہا —— ’’آج جی چاہتا ہے سر تمھارے پیروں پر رکھ دوں اور روؤں۔‘‘
’’روؤں؟ — کیوں؟‘‘
شاستر کہتے ہیں، آتما کے پاپ رونے ہی سے دھُل سکتے ہیں۔‘‘
’’کون سا پاپ کیا ہے تمھاری آتما نے ؟‘‘
’ایسا پاپ جو میرا شریر نہ کرسکا۔‘‘
ایسی باتوں کو عورتیں بالکل نہیں سمجھتیں اور یا پھر ضرورت سے زیادہ سمجھ جاتی ہیں۔ جوگیا نہ سمجھ سکی۔ اپنا کوئی بچار اس کے من میں چلا آیا تھا —— ’’جانتے ہو میرا جی کیا چاہتا ہے؟‘‘
’’کیا — کیا— کیا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔
’’چاہتا ہے‘‘ اس نے اپنی ہلکے نیلے رنگ کی ساری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’تمھیں اس میں چھپا کر ان امبروں پر اڑ جاؤں، جہاں سے آپ ہی واپس آؤں، نہ تمھیں آنے دوں‘‘ اور یہ کہتے ہوئے جوگیا نے ایک بار اوپر، ہلکے نیلے رنگ کے آسمان کی طرف دیکھا، جہاں سے وہ کبھی آئی تھی —
میں کچھ دیر کے لیے وہیں تھم گیا اور ان خوش نصیبوں کے بارے میں سوچنے لگا جنھیں جوگیا ایسی سُندریاں اپنے دامن میں چھپا کر امبروں پر لے گئیں،جہاں سے وہ خود آئیں اور نہ انھیں آنے دیا۔ خدا بھی ان کے پاس سے گزرا تو ایک سرد آہ بھر کر چلا گیا۔
مُڑ کے دیکھا تو جوگیا جاچکی تھی۔
امبر تو کہاں ، جوگیا مجھے تپتی ہوئی زمین اور ٹوٹی پھوٹی سڑک کے ایک طرف اکیلا، بے یار و مددگار چھوڑ گئی تھی، جس کا احساس مجھے خاصی دیر کے بعد ہوا۔ حدّت سے پھٹتی ہوئی سڑک کی دراڑوں میں گھوڑا گاڑیوں کے بڑے بڑے پہیّے پھنس رہے تھے اور ان کے ڈرائیور پیشانیوں پر سے پسینہ پونچھتے اِدھر اُدھر تبرّے سناتے ہوئے آ جا رہے تھے۔ جبھی میں نے دیکھا خنک آب کی سی کوئی موج چلی آ رہی ہے۔ وہ کوئی اور جوان لڑکی تھی — لانبی ، اُونچی ، باب کیے ہوئے بال۔ وہ ہلکے نیلے رنگ کی شلوار پہنے ہوئے تھی!
چند قدم اور آگے گیا تو ایک نہیں، دو، تین، چار عورتیں ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے شاپنگ کرتی پھر رہی تھیں!
یہ تجربہ مجھے پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے بھی ایک بار کرافورڈ مارکیٹ کے علاقے میں آنے جانے والی سب عورتوں نے دھانی لباس پہن رکھا تھا۔ فرق تھا تو صرف اتنا کسی کی اوڑھنی دھانی تھی اور کسی کی ساری۔ اسکرٹ بھی دھانی تھے اور میں سوچتا رہ گیا تھا —— سویرے جب یہ عورتیں نہا دھو کر بالوں کو چھانٹتی بناتی ہوئی کپڑوں کی الماری کے پاس پہنچتی ہیں، تو ان میں کون سی بات، کون ایسا جذبہ ہے جو انھیں بتا دیتا ہے — آج مولسری پہننا چاہیے؟یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ ایک دن کوئی نارنجی رنگ استعمال کرتی ہے، تو پھر اس سے اس کی طبیعت اُوب جاتی ہے اور پھر دوسرے دن اس کا ہاتھ اپنے کسی دوسرے رنگ کی طرف اُٹھ جاتا ہے۔ مثلاً سرسوں کا سا پیلا رنگ، چمپئی رنگ، گل اناری، کاسنی، فیروزی … لیکن — وہ کون سا بے تار برقی کا عمل ہے جس سے وہ سب کی سب ایک دوسری کو بتا دیتی ہیں، اور پھر ایکا ایکی پُورا بازار، پورا سنسار ایک ہی رنگ سے رنگ جاتا ہے؟ شاید یہ موسم کی بات ہے یا ویسے ہی چاند کی، بادل کی… شاید کوئی مروجہ فیشن، کسی ایکٹرس کا لباس ہے، جو ان کے انتخاب میں دخل رکھتا ہے؟ … نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ بعض اوقات وہ رنگا رنگ کپڑے بھی پہنتی ہیں اور کیا کچھ مرد کی آنکھوں کے سامنے لہرا دیتی ہیں۔
اس دن سب کی ساریاں ہلکے نیلے رنگ کی دیکھ کر میری آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ سمجھ کا شمّہ بھر بھی دماغ میں نہ گھس سکتا تھا۔ میں اسکول پہنچا تو ایک کلاس ختم ہو چکی تھی اور لڑکے لڑکیاں باہر آ رہے تھے۔ کچھ آ کر کمپاؤنڈ میں کے گل مہر کے نیچے کھڑے ہو گئے۔
ان میں سکیشی بھی تی۔ اس کے اسکرٹ کا بھی رنگ نیلا تھا —!
اگر ہیمنت میرا دوست وہاں نہ مل جاتا تو میں پاگل ہو جاتا۔ ہیمنت یوں تو خزاں کو کہتے ہیں، لیکن وہ حقیقت میں وسنت تھا— بہار، جو اس پر ہمیشہ چھائی رہتی تھی۔ دُنیا بھر میں کہیں، کسی جگہ بھی ایک ہی موسم نہیں رہتا اور نہ ایک رنگ رہتا ہے، لیکن اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک ہی سی ہنسی اور تضحیک رہتی تھی جس کے کارن ہم اسے کہا کرتے تھے — سالے!چاہے کتنا زور لگا لے، تو کبھی آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔ کیا تجھ پر گریبان پھاڑ کر باہر بھاگ جانے کی نوبت آئی ہے ؟ بے بسی میں تشنجی ہاتھ تو نے ہوا میں پھیلائے ہیں اور اپنے بال نوچے ہیں؟ کیا تیرے بدن پر ایکا ایکی لاکھوں ٹڈے رینگتے ہیں؟ رات کے وقت اندھیرے میں چمگادڑ تجھ پر جھپٹے ہیں اور اپنا مُنھ تیری شہ رگ سے لگا کر تیرا خون چُوسا ہے؟ کیا تو اس وقت بچوں کی طرح رویا ہے، جب تیری تصویر انعامی مقابلے میں اوّل آئی؟ کیا تجھے ایسا محسوس ہوا ہے کہ ماں باپ ہوتے ہوئے بھی تو یتیم ہے اور دوست ایک ایک کر کے تجھے اندھے کنوئیں میں دھکیل کر چل دیے ہیں؟کیا تو نے جانا ہے جس منصور کو سولی پر چڑھایا گیا تھا، وہ تُو تھا؟ تیرے چہرے پر سیاہیاں چھٹی ہیں اور تیرے خد و خال اتنے سخت، گھناؤنے اور طاقتور ہوئے ہیں جتنے میکسیکو کے میورلز؟ کیا تجھے ہر لمبوتری چیز ایک لنگ اور پیٹریر کی گانٹھ یونی معلوم ہوئی ہے جس سے متوحش ہو کر …
آج پھر میں نے اسے بتایا —شہر کی سب عورتیں ہلکا نیلا پہنے نکل آئی ہیں۔ ہیمنت نے اپنے دانت دکھا دیے اور حسبِ معمول میرا مذاق اُڑانے لگا۔ وہ مجھے ساون کا اندھا سمجھتا تھا، جسے ہر طرف ہرا ہی ہرا دکھائی دیتا ہے۔ میں نے سکیشی کی طرف اشارا کیا جسے ہم ماڈل کہا کرتے تھے۔ وہ آج تک کسی کی ماڈل نہ بنی تھی، لیکن اس کے بدن کے خطوط بالکل ویسی لڑکیوں کے تھے۔ میں نے کہا — ’’دیکھو آج یہ بھی ہلکے نیلے رنگ کا اسکرٹ پہنے ہوئے ہے…‘‘
ہیمنت نے مجھے کچھ نہ کہا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتا ہوا کمپاؤنڈ سے لان پر لے آیا ،جو پام کے پیڑوں سے پٹا پڑا تھا۔ وہاں ایک کنارے پر پہنچ کر وہ باڑ کے پیچھے کھڑا ہو گیا، جہاں سے سامنے سڑک دکھائی دیتی تھی۔ ایک راستہ کرافورڈ مارکیٹ کی طرف جاتا اور دوسرا وکٹوریہ ٹرمینس اور ہارن بی روڈ کی طرف۔ وہ ثابت کرنا چاہتا تھا، یہ سب میرا وہم ہے۔ وہاں پہنچے تو کوئی عورت ہی نہ تھی۔ اگر عورتیں اپنے اپنے مردوں کو ہلکے نیلے رنگ کی ساریوں میں چھپا کر اوپر، امبروں پر اُڑ گئی ہوتیں تو وہاں مرد نظر نہ آتے — لیکن — چاروں طرف مرد ہی مرد تھے اور وہ یوں گھوم پھر رہے تھے جیسے کسی عورت سے سروکار ہی نہیں۔کوئی لانبا تھا اور کوئی ناٹا۔ کوئی خوبصورت اور کوئی بدصورت اور توند یڑا، اور وہ سب بھاگ رہے تھے، جیسے انھیں کسی عورت کو جواب نہیں دینا ہے۔ جبھی ادھر سے، جیسے لوہے کی بنی ہوئی، گھاٹن گزری جس نے ہرے رنگ کا کانٹا لگا رکھا تھا۔ اس کی طرف اشارا کرتے ہوئے ہیمنت بولا — ’’پہچان اپنی اس ماں کو…‘‘
میں نے بیکار کی عذر داری کی — ’’میں ان بے چاری غریب مزدور عورتوں کی بات نہیں کرتا۔‘‘
’’کن کی کرتے ہو؟‘‘
’’اُن کی —جن کے پاس کپڑے تو ہوں۔‘‘
جبھی میری بدقسمتی سے ایک سیڈان، سامنے، پارسی و اُردو والے کے ہاں رُکی۔ اس میں ادھیڑ عمر کی ایک عورت بیٹھی تھی۔ وہ اس جماعت کی نمایندہ تھی جس کے پاس نہ صرف کپڑے ہوتے ہیں، بلکہ بے شمار ہوتے ہیں اور رنگ اتنی انواع کے کہ وہ بوکھلا جاتی ہیں ۔ اسی لیے جب وہ اپنے وارڈ روب کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں تو انھیں سندریوں کا وہ بے تار برقی کا پیغام نہیں آتا۔ ان کی حالت اس خریدار کی ہوتی ہے جس کے سامنے کوئی دکاندار انواع و اقسام کا ڈھیر لگاوے اور وہ ان میں سے کچھ بھی نہ چن سکیں۔ وہ عورت خوب لپی پُتی ہوئی تھی اور اس نے ایک شعلہ رنگ ساری پہن رکھی تھی۔ پچاس فٹ چوڑی سڑک کے اس پار سے مجھے اس کی وجہ سے گرمی لگ رہی تھی ، لیکن اسے اس بات کا احساس نہ تھا کہ باہر آگ برس رہی ہے جس میں ایسا شعلے کا سا رنگ نہ چلے گا۔
اس عورت کا نوکر، جو تھوڑی دیر پہلے پرمٹ کے کاغذ سنبھالتا ہوا اندر گیا تھا، ایک ٹوکری میں کچھ وسکی اور چند بیئر کی بوتلیں رکھے ہوئے باہر چلا آیا اور ڈکی کھول کر اس میں رکھنے لگا۔ جب تک میں ہیمنت کے سامنے خفیف ہو چکا تھا ۔اپنی خفت کو چھپانے کے لیے میں نے کہا ——
’’یہ بیئر کی بوتلیں … کم از کم اس کے مرد کو تو گرمی لگتی ہے۔‘‘
ایسے ہی میں ہیمنت کے سامنے کئی بار شرمندہ ہوا۔ ایک آدھ بار مجھے اُسے شرمسار کرنے کا موقع مل گیا ،جب کہ سب عورتیں سرمئی ساڑیاں پہنے سڑک پر چلی آئی تھیں۔ مجھے ہمیشہ ان کے رنگ ایک سے لگتے تھے۔ لیکن جب ہیمنت میرا کان پکڑ کر مجھے باہر لاتا، تو مجھے وہ الگ الگ دکھائی دینے لگتے۔ آخر میں نے اسے اپنے دل کا واہمہ سمجھ کر ان باتوں کا خیال ہی چھوڑ دیا۔
لیکن — وہ چھوٹتا کیسے؟ ایک دن جوگیا نے کالے بلاؤز اور خاکستری رنگ کی ساری کا بے حد خوبصورت امتزاج پیدا کیا تھا۔ اس دن سب عورتوں نے یہی کمبی نیشن کر رکھا تھا۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ ان میں کسی کا بلاؤز خاکستری تھا، تو ساری کالے رنگ کی تھی، جس میں سنہرے کی ایک آدھ تار جھلملا رہی تھی۔
کئی موسم بدلے۔ خزاں گئی تو بہار آئی — یعنی جس قسم کی خزاں اور بہار بمبئی میں آسکتی ہے اور پھر اس بہار میں ایک کاہش سی پیدا ہونی شروع ہوئی۔ ایک چبھن، تلخی کی ایک رمق چلی آئی جو محبت اور کامرانی کو حد درجہ گداز کر دیتی ہے اور جذبوں کی آنکھوں میں آنسو چلے آتے ہیں۔ پھر کہیں ہرا زیادہ ہرا ہو گیا اور اس پر تازگی اور شگفتگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جیسے بارش کے دو چھینٹوں کے بیچ سُبک سی ہوا پانی پر دوشالہ بُن دیتی ہے۔ پھر سمندر میں اس قدر زمرد گھلا کہ نیلم ہو گیا اور اس میں مچھلیوں کی چاندیاں چمکنے لگیں۔آخر وہ چاندیاں تڑپ تڑپ کر اپنے آپ کو ماہی گیروں کے حوالے کرنے لگیں۔ پھر آسمان پر صوت و تجلّی کا ٹکراؤ ہوا۔ بادل گرجے، بجلی تڑپی، اور یکایک چھاجوں پانی برسنے لگا۔ اس عرصے میں جوگیا نے کئی نیلے پیلے، اودے کالے، سردیٔ اور سرمئی، دھانی اور چمپئی رنگ بدلے۔ اسے کتنی جلدی تھی لڑکی سے عورت بن جانے کی اور پھر عورت سے ماں ہو جانے کی۔ مجھے یقین تھا کہ اتنی صحت مند لڑکی کے جب بچّے پیدا ہوں گے، جڑواں ہوں گے بلکہ تین چار بھی ہو سکتے ہیں، میں انھیں کیسے سنبھالوں گا؟ اور اس خیال کے آتے ہی میں ہنسنے لگا۔
ان دنوں جوگیا اپنی بیمار ماں کے پَیر پکڑ کر اس سے لپ اسٹک لگانے کی اجازت بھی لے چکی تھی۔ ایک طرف زندگی دھیرے دھیرے بجھی جا رہی تھی اور دوسری طرف لپک لپک کر کھل رہی تھی۔ جوگیا نے لپ اسٹک استعمال کرنے کی اجازت تو لے لی تھی ،لیکن اتنی ساریوں ، اتنے رنگوں کے لیے اتنے لپ اسٹک کہاں سے لاتی؟میں نے ایک دن میکس فیکٹر کی لپ اسٹک خرید کر تحفے میں جوگیا کو دی، تو وہ کتنی خوش ہوئی، جیسے میں نے کسی بہت بڑے راز کی کلید اس کے ہاتھ میں دے دی ہو۔ وہ بھول ہی گئی کہ وہ میرے ساتھ گرگام کے ٹرام کے پٹے پر کھڑی ہے۔ وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے فوراً ہی بعد اس کی آنکھیں میلوں اندر دھنس گئیں اور نمی سے باہر جھلکنے لگی۔ میں سمجھ گیا ،جوگیا بے حد جذباتی لڑکی ہے۔ بھلا میرے سامنے اتنی ممنون دکھائی دینے کی کیا ضرورت تھی۔لیکن بات دوسری تھی۔ جس رنگ کی میں لپ اسٹک لایا تھا، اس سے میچ کرتی ہوئی ساری جوگیا کے پاس نہ تھی اور نہ خریدنے کے لیے پیسے تھے۔ میرے پاس بھی اتنے پیسے نہ تھے جن سے کوئی خوبصورت سی ساری خرید کر اسے دے سکتا۔ میں نے تو لپ اسٹک کے پیسے بھی موٹے بھیّا کی جیب سے چُرائے تھے اور یا بھابی کے ساتھ اس عشق میں بٹورے تھے جس کا حق صرف دیور ہی کو پہنچتا ہے۔
برسات ختم ہوئی تو ایک تماشہ ہوا۔ جوگیا نے گھر میں بڑوں کے وقت کے پڑے ہوئے کچھ عقیق بیچ ڈالے اور میری لپ اسٹک کے ساتھ میچ کرتی ہوئی ایک ساری خرید لی۔ اس بات کا مجھے کہاں پتہ چلتا لیکن ہمارے گھر میں ایک مخبر تھی۔ جوگیا کی سہیلی ہیما … جوگیا نے نارنجی سرخ رنگ کی ساری پہنی اور جب ہم ا گیاری پار، لاقانونیت کے جنگل میں ملے، تو میں نے جوگیا کو چھیڑا— ’’جانتی ہو، جوگیا! آج تم کیا لگتی ہو؟‘‘
’’کیا لگتی ہوں؟‘‘
’’بیربہوٹی… جو برسات ہوتے ہی نکل آتی ہے۔‘‘
جوگیا کے دل میں کوئی شرارت آئی۔ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی — ’’جانتے ہو تم کون ہو؟‘‘
’’؟‘‘
’’بیر — اور میں بیربہوٹی۔‘‘
اور اس کے بعد جوگیا اس قدر لال ہو کر بھاگ گئی کہ اس کے چہرے کے رنگ اور ساری کے رنگ میں ذرا سا بھی فرق نہ رہا۔
اس دن سب عورتوں ن نارنجی رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے۔ اپنی آنکھوں کے اس جلوس کی تاب نہ لا کر میں نے پھر ہیمنت سے کہہ دیا۔ اب کے ہیمنت نے اکیلے نہیں، تین چار لڑکوں کو ساتھ لیا اور شاہراہ عام پر میری بے عزتی کی۔ شاید مجھے اتنا بے عزتی کا احساس نہ ہوتا اگر سوکیشی وہاں نہ آ جاتی، جو سفید نائیلون کی ساری پہنے ہوئے تھی اور اس میں تقریباً ننگی نظر آ رہی تھی— وہ روز بروز سچ مچ کا موڈل ہوتی جا رہی تھی۔
جوگیا کو بیربہوٹی بننے کی کتنی خواہش تھی، اس کا مجھے روح کی گہرائیوں تک سے اندازہ تھا۔ لیکن میں کچھ نہ کرسکتا تھا سوائے اس کے کہ میں اسکول سے پاس ہو کر نکل جاؤں اور کوئی اچھی سی نوکری کر لوں اور یا تصویریں بنا کر مالا بار ہل اور وارڈن روڈ کے جھوٹے دقیقہ شناسوں کو اونے پونے میں بیچ دوں۔لیکن ان سب باتوں کے لیے وقت چاہیے تھا جو میرے پاس تو بہت تھا۔ تھوڑا بہت جوگیا کے پاس بھی تھا ،لیکن اس کی ماں کے پاس نہ تھا، محنت اور مشقت کی وجہ سے جسے کوئی کرم روگ لگ گیا تھا۔
میں اس انتظار میں تھا کہ ایک دن بھابی اور موٹے بھیّا سے کہہ دوں۔ لیکن مجھے اس کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ ہیما، بانپو گھر میں جوگیا کے پیار و لار لیتی ہوئی ایکا ایکی اپنے گھر میں آدھمکی اور دھڑے سے کہہ ڈالا— ’’کاکا! کیوں نہیں تم جوگیا سے بیاہ کر لیتے؟‘‘
جبھی میں نے کہا — ’’دھت۔‘‘
یہ ’’دھت‘‘ اگر میں ہی کہتا تو کوئی بات نہ تھی۔ کچھ دنوں بعد ہیما کی اس ٹائیں ٹائیں پر بھیّا اور بھابی نے اُسے ڈانٹنا شروع کر دیا اور ایک دن تو بھابی نے اس معصوم کو ایسا طمانچہ مارا کہ وہ اُلٹ کر دہلیز پر جا گری۔ اس دن میرا ما تھا ٹھنکا۔ مجھے یوں لگا جیسے اسے بارے میں دونوں گھروں کے بیچ میں کوئی بات ہوئی ہے۔
میرا اندازہ ٹھیک تھا۔ جوگیا اور بجور کی ماؤں اور پنجابن نے مل کر بھابی کے ساتھ بات چلائی اور مُنھ کی کھائی۔ بانپو گھر کی عورتیں یوں ٹھیک تھیں۔ ان سے باتیں کر لینا، ان کے ساتھ چیزوں کا تبادلہ بھی درست تھا۔ ایک آدھ کو اشارے سے رام کرنا اور چوری چھپے ان سے ہم بستری کر لینا بھی ٹھیک تھا ،لیکن ان کے ساتھ رشتے ناتے کی بات چلاناکسی طرح بھی درست نہیں تھا۔ پھر اور بھی بہت سی باتیں نکل آئیں جو ہمارے گجراتی گھروں کا وبال، ان کا زہر، مٹی کا تیل اور کنواں ہوتی ہیں ——جوگیا کی ماں لڑکی کو کچھ دے دِلا نہ سکتی تھی۔ اسی لیے ہمارے گھروں میں جب کوئی لڑکی جوان ہوتی ہے تو کچھ لوگ اس کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں —— تیار ہو گئی مرنے کو— خیر دینے دلانے کی بات پر میں تن کر کھڑا ہو گیا، لیکن اس کے بعد بھابی اور گیان بھون کی عورتوں نے دوسری باتیں شروع کر دیں ——جوگیا کا باپ کون تھا؟ کوئی کہتی وہ مسلمان تھا اور کوئی بڑھیا گواہی دیتی، وہ ایک پرتگالی تھا جو بڑودے میں بڑے عرصے تک رہا تھا۔ جو بھی ہو وہ سب باتیں تھیں۔ ایک بات جو تحقیق کے ساتھ مجھے معلوم ہوئی، وہ یہ تھی کہ جوگیا کی ماں منادور کے براہمن دیوان کی دوسری بیوی تھی، جسے قانون نے نہیں مانا۔ جوگیا اس دیوان کی لڑکی تھی، مگر لوگ جوگیا کی ماں، ایک بیاہتا عورت کو دیوان صاحب کی رکھیل کہتے تھے۔ یہ اس قسم کے لوگ تھے جنھوں نے جوگیا کی ماں کے کچھ بھی پلّے پڑنے نہ دیا اور وہ بمبئی چلی آئی۔ کچھ بھی تھا، اس میں جوگیا کا کیا قصور تھا ؟ وہ تو اپنے باپ کی موت کے تین مہینے بعد پیدا ہوئی تھی اور باپ کی شفقت کا منھ تک نہ دیکھا۔ میں ان سب چیزوں کے خلاف جہاد کرنے اور جوگیا کے ساتھ فٹ پاتھ پر رہنے کو تیار تھا۔ لیکن باقی سب نے مل کر جوگیا کی ماں کو اتنا صدمہ پہنچایا کہ وہ مرنے کے قریب ہو گئی۔ اب وہ چاہتی تھی جلدی سے جلدی جوگیا کا ہاتھ کسی واجبی گزارے والے مرد کے ہاتھ میں دے دے۔ میرے گھر والوں کی باتوں کے کارن وہ میری صورت سے بھی بیزار ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی بیٹی سے صاف کہہ دیا تھا، اگر اس نے مجھ سے شادی کی بات بھی کی، تو وہ کپڑوں پر تیل چھڑک کر جل مرے گی۔ جوگیا اب کالج نہ جاتی تھی اور بانپوگھر کے جوگیا والے فلیٹ کے کواڑ اکثر بند رہتے اور ہم تازہ ہوا کے ایک جھونکے کے لیے ترس گئے تھے۔
ایک شام مجھ پر بہت کڑی آئی۔ سرشام ہی چمگادڑ کے بڑے بڑے پر مجھ غریب پر سمٹنے لگے۔ کچھ دیر کے بعد یوں لگا جیسے کوئی میری شہ رگ پر اپنا منھ رکھے تیزی سے میری سانس چوس رہا ہے۔ جتنا میں اسے ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں، اتنا ہی اس کے دانت میرے گلے میں گڑے جا رہے ہیں۔ ایسی شاموں کا رنگ سیاہ بھی نہیں ہوتا اور سفید بھی نہیں ہوتا۔ ان کا صرف ایک ہی رنگ ہوتا ہے —— حبس اور جانکاہی کا رنگ اور جن لوگوں پر ایسی شامیں آتی ہیں، وہی جانتے ہیں کہ ایسے میں صرف ماں کی چھاتیاں اور محبوبہ کی چھاتیاں ہی ان کو بچا سکتی ہیں۔ میری ماں مر چکی تھی اور جوگیا میری نہ ہو سکتی تھی …
افوہ — اتنی گھٹن، اتنی اداسی — ، اور اسی کا بھی ایک رنگ ہوتا ہے۔ میلا میلا، چھدرا چھدرا، جیسے منھ میں ریت کے بے شمار ذرّے اور پھر اس میں ایک عفونت ہوتی ہے، جس سے متلی بھی ہوتی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ آخر آدمی وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں سے احساس کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں اور رنگوں کی پہچان جاتی رہتی ہے۔
صبح اُٹھا تو میرا اس گھر، اس شہر، اس دُنیا سے بھاگ جانے کو جی چاہتا تھا۔ اگر جوگیا کی ماں نہ ہوتی اور وہ میرے ساتھ چلنے کو تیار ہو جاتی تو میں اُسے لے کر کہیں بھی نکل جاتا … جبھی مجھے بیراگی یاد آنے لگے، بدھ بھکشو یاد آنے لگے جو اس دنیا کو چھوڑ دیتے ہیں اور کہیں سے بھی بھکشا لے کر اپنے پیٹ میں ڈال لیتے ہیں اور پھر بیٹھ کر ’’اوم منے پدمے‘‘ کا ورد کرنے لگتے ہیں۔
میں واقعی اس دُنیا کو چھوڑ دینا چاہتا تھا، لیکن سامنے بانپو گھر میں جوگیا کے فلیٹ کا دروازہ کھلا اور جوگیا مجھے سامنے نظر آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ راتوں نہیں سوئی۔ اس کے بال بے حد روکھے تے اور یوں ہی اِدھر اُدھر چہرے اور گلے میں پڑے تھے۔ اُس نے کنگھی اُٹھائی اور بالوں میں کھبو دی۔ کچھ دیر بعد وہ الماری کے پاس جا پہنچی…
میں اسکول کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں سب عورتوں نے جوگیا کپڑے پہن رکھے تھے۔ انھیں کس نے بتایا تھا؟ وہ اُداس تھیں، جیسے زندگی کی ماہیت جان لینے پر انھیں بھی کوئی بیراگ ہو گیا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں کھڑتال تھی اور منھ میں بھجن تھے، جو نہ کسی کو دکھائی دے رہے تھے اور نہ سنائی دے رہے تھے۔ وہ بھکشو بنی ایک دروازے سے دوسرے دروازے پر جا رہی تھیں اور انھیں کھٹکھٹا رہی تھیں، لیکن اس بھرے شہر بمبئی میں کوئی انھیں بھکشا دینے کے لیے باہر نہ آ رہا تھا۔
اسکول پہنچا تو ہیمنت بدستور ہنس رہا تھا۔ آج اس نے پہل کی۔ بولا — ’’شہر کی عورتوں نے آج کیا رنگ پہن رکھا ہے؟‘‘
میں اس بے حس آدمی کو جواب نہ دینا چاہتا تھا، لیکن اپنے آپ ہی میرے منھ سے نکل گیا— ’’آج سب جوگنیں بن گئی ہیں۔ سب نے بیراگ لے لیا ہے اور جوگیا پہن لیا ہے۔‘‘
اس دن میں اُسے اور سکیشی کو گل مہر کے نیچے سے ، پام کے پیڑوں میں سے گھسیٹتا ہوا باڑ کے پاس لے گیا۔ سامنے سڑک چل رہی تھی اور اس پر انسان کے پتلے ساکت تھے۔ ان سب نے بیراگ پا لیا تھا اور جوگیا کفنیاں پہنے بلا ارادہ، بے مقصد پھٹی پھٹی آنکھوں سے گھور رہے تھے، جیسے اس دنیا میں کوئی مرد نہیں،کوئی عورت نہیں جسے ان کو جواب دینا ہے۔
میں نے ایک عورت کی طرف اشارا کیا، وہ جوگیا کپڑے پہنے ہاتھ میں کمنڈل لیے جا رہی تھی۔ ہیمنت کھلکھلا کے ہنسا۔ ساتھ سکیشی بھی ہنسی جس نے جینز پہن رکھی تھی اور اس کے کولھے، اس کی رانیں تک دکھائی دے رہی تھیں۔ وہ پورے طور پر ماڈل بن چکی تھی…
جب ہیمنت کی ہنسی تھمی تو اس نے کہا —— ’’تو بالکل پاگل ہو گیا ہے، جُگل … کہاں ہیں جوگیا کپڑے؟ اس عورت نے تو ایک اُودی ساری پہن رکھی ہے اور وہ کمنڈل جو تجھے دکھائی دیتا ہے، ایک خوبصورت پرس ہے‘‘… سکیشی نے بھی ہیمنت کی تائید کی۔
میں حواس باختہ سڑک پر کھڑا سامنے دیکھتا رہا۔ جبھی ایک بس رُکی اور اس میں سے ایک لڑکی اُتری … ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا — ’’وہ جوگن ہے، جوگیا کپڑے پہنے ہوئے! … میں کیا اندھا ہوں؟‘‘
لیکن اپنی آنکھوں پر یقین کرنے کے لیے میں کچھ دیر وہیں کھڑا رہا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے یقین ہو گیا اور پیچھے دیکھتے ہوئے میں نے آواز دی۔
’’ہیمنت…‘‘
لیکن ہیمنت اور سکیشی ایک دوسرے کی بانہہ میں بانہہ ڈالے اندر جا چکے تھے۔ ان کے قہقہے سنائی دے رہے تھے۔ وہ مجھے ایسے ہی بے یارو مددگار اس صحرا کے کنارے چھوڑ گئے تھے جیسے لوگ کسی پاگل آدمی کو چھوڑ جاتے ہیں … یہ بھی ان کی عنایت تھی کہ انھوں نے مجھے پتھر نہیں مارے تھے اور نہ ہی مجھے اولیا کہا تھا۔
اور وہ لڑکی اس طرف آ رہی تھی۔ اب تو مجھے پورے سنسار پر پھیلے ہوئے اس رنگ کے بارے میں کسی قسم کا شک نہ تھا۔ اس سے پہلے کہ میں یقین اور ایمان کی بلند آواز کے ساتھ ہیمنت اور سکیشی کو پکارتا، وہ لڑکی میرے قریب آ چکی تھی۔ میں نے ایک آواز سنی —— ’’بیر۔‘‘
اور میں نے چونک کر دیکھا۔ کسی دوسرے رنگ کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا، کیونکہ وہ خود جوگیا تھی جسے میں نے اس صبح اپنے گیان بھون سے، بانپو گھر کے کھلے دروازے میں سے، سب ساریوں میں سے جوگیا رنگ کی ساری کا انتخاب کرتے دیکھا تھا۔
ایک عجیب بے اختیاری کے عالم میں میں نے ایک قدم بڑھایا اور عجیب تر بے بسی کے عالم میں رُک گیا۔ جوگیا بولی۔
’’میں کل بڑودے جا رہی ہوں۔‘‘
’’کیوں جوگیا۔ بڑودے میں کیا ہے؟‘‘
’’میری ننہیال—— وہاں میرا بیاہ ہو رہا ہے، پرسوں …‘‘
’’او … ‘‘
’’میں تم سے ملنے آئی تھی۔‘‘
’’تو ملو —‘‘ میں جانے کیا کہہ رہا تھا؟
اس وقت آرٹس اسکول کے کچھ لڑکے لڑکیاں، پرنسپل صابری اور کچھ دوسرے لوگ آ جا رہے تھے، جب کہ جوگیا نے اچک کر اتنے زور سے میرا منھ چوم لیا کہ میں بوکھلا اور لڑکھڑا کر رہ گیا۔ وہ اٹھارہ انیس برس کی لڑکی کی بجائے، پینتیس چالیس برس کی ایک بھرپور عورت بن گئی تھی۔ اس کا بوسہ کتنا مرتعش تھا، کتنی مقدس وحشت، شہوت تھی اس میں۔
اگر کچھ لوگ دیکھ بھی رہے تھے تو ہمیں وہ دکھائی نہ دیے۔
’’وہ دیکھ بھی رہے تھے تو کیا کرسکتے تھے‘‘؟ جاتے ہوئے جوگیا نے کہا۔
’’میرے جانے کے بعد تم روئے، تو میں تمھیں ماروں گی، ہاں‘‘ اور ساتھ ہی اس نے مجھے مُکاّ دکھایا۔
اور اس کے بعد جوگیا چلی گئی۔
سویرے گیان بھون اور بانپو گھر کے سامنے ایک وکٹوریہ کھڑی تھی، جس پر بازار کا بوجھا اٹھانے والے کچھ سوٹ کیس اور کچھ ٹرنک رکھ رہے تھے اور کچھ یوں ہی اِدھر اُدھر کا سامان۔ ان لوگوں کو رخصت کرنے کے لیے بانپوگھر کے سب لوگ نیچے چلے آئے تھے۔ لیکن سامنے گیان بھون سے میرے سوا کوئی نہ آیا تھا۔ موٹے بھیّا اور بھابی تو کیا آتے، معصوم ہیما کو بھی انھوں نے غسل خانے میں بند کر دیا تھا ،جہاں سے اس کے رونے کی آواز گلی میں آ رہی تھی۔
پہلے بجور کی ماں اور پنجابن کے سہارے جوگیا کی ماں اتری اور گرتی پڑتی وکٹوریہ میں بیٹھ گئی۔ تھوڑا سانس درست کیا اور پھر سب کی طرف ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی — ’’اچھا بہنو، ہم چلتے بھلے، تم بستے بھلے۔‘‘
اور پھر آئی —— جوگیا!
جوگیا نے ہلکے گلابی رنگ کی ایک خوبصورت ساری پہن رکھی تھی اور گلاب ہی کا پھول محنت اور خوبصورتی سے بنائے ہوئے جوڑے میں ٹانک رکھا تھا۔ ابھی وہ وکٹوریہ میں بیٹھی بھی نہ تھی کہ ا گیاری کا پارسی پروہت اِدھر آنکلا۔ میں نے عادتاً کہا —— ’’صاحب جی۔‘‘
’’صاحب جی‘‘ پارسی پروہت نے کہا اور پھر مجھے اور جوگیا کو تقریباً ایک ساتھ کھڑے دیکھ کر مسکرایا، آشیرواد میں ہاتھ اُٹھائے اور مُنھ میں ژند اوستا کا جاپ کرتا ہوا چلا گیا۔ جوگیا گاڑی میں بیٹھی تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تی۔
جب میں بھی مُسکرا دیا!
٭٭٭
ماخذ:
http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید