FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مندر کا شیر اور دوسری کہانیاں

 

 

                جم کاربٹ

 

ترجمہ: انیس الرحمٰن

 

 

 

مندر کا شیر

 

 

جو شخص کبھی دابیدھر نہیں گیا وہ اس کے گرد و پیش کے مناظر کے حُسن کا کبھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ یہاں "پرماتما کے پہاڑ” کی چوٹی کے قریب ایک ریسٹ ہاؤس ہے۔ اس ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں کھڑے ہو کر آپ جِدھر نظر اٹھائیں گے آپ کو ازلی و ابدی حُسن کےطلسمی نظارے دکھائی دیں گے۔ ریسٹ ہاؤس سے دریائے پانار کی ڈھلان شروع ہو جاتی ہے۔ اس وادی سے پرے پہاڑیوں کا سلسلہ ابدی برف میں کھو جاتا ہے۔

نینی تال سے ایک غیر ہموار اور پیچیدہ سڑک لوہر گھاٹ کی طرف جاتی ہے جو دابیدھر کے اندر سے ہو کر گزرتی ہے۔ اسی سڑک کی ایک شاخ دابیدھر کو الموڑہ سے ملاتی ہے۔ اسی مؤخر الذکر سڑک پر میں پانار کے آدم خور چیتے کا شکار کھیل رہا تھا کہ مجھے محکمۂ تعمیرات کے اوورسیز نے بتایا کہ اس چیتے نے دابیدھر میں ایک شخص ہلاک کر دیا ہے۔ لہذا میں دابیدھر کی سمت چل پڑا۔

اپریل کی ایک گرم دوپہر کو ابھی میں دابیدھر کے ریسٹ ہاؤس میں پہنچا ہی تھا اور چائے سے خود کو تازہ دم کر رہا تھا کہ دابیدھر کے مندر کا پجاری میرے پاس آیا۔ دو برس پہلے جب میں یہاں چمپاوت کی آدم خور شیرنی کا شکار کرنے آیا تھا تو اس بوڑھے نحیف و نزار آدمی سے میری دوستی ہو گئی تھی۔ وہ مقامی مندر کا پجاری تھا۔ تھوڑی دیر پہلے مندر کے قریب سے گزرتے وقت میں نے اسے سلام کیا تھا۔ مگر اس نے فقط سر ہلا کر جواب دینے میں اکتفا کیا تھا۔ کیونکہ اس وقت وہ عبادت میں مصروف تھا۔ اب عبادت ختم کر کے وہ میرے پاس آ گیا تھا اور برآمدے کے فرش پر بیٹھا میرے ساتھ گپ بازی میں مصروف تھا۔ میں بھی سفر کی تھکاوٹ کا مارا ہوا تھا اور ہلکی پھلکی گفتگو کے سوا کچھ نہ کرنا چاہتا تھا۔

پجاری سے مجھے پتا چلا کہ اوورسیز نے مجھے غلط بتایا تھا کہ دابیدھر میں چیتے نے ایک آدمی کو ہلاک کر دیا تھا۔ وہ آدمی اس پجاری کا مہمان تھا اور اس نے رات اس کے پاس مندر میں ہی بسر کی تھی۔ وہ شخص پجاری کی نصیحت کے خلاف رات کو باہر مندر کے چبوترے پر سوگیا تھا۔ نصف شب کے قریب جب مندر کے گرد و پیش کی چٹانیں مندر پہ سایہ فگن تھیں تو آدم خور چیتا رینگتا ہوا اس جگہ آیا اور اس چبوترے پر سوئے ہوئے شخص کا ٹخنا پکڑ کر اسے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ وہ شخص ہڑبڑا کر اٹھا اور قریبی الاؤ سے سلگتی ہوئی ایک لکڑی پکڑ کر چیتے کو مار بھگایا۔ اس کے شور سے مندر کے اندر سوئے ہوئے بعض دوسرے پجاری بھی جاگ اٹھے۔ وہ ایک دم اس کی مدد کو پہنچ گئے۔ اپنے لیئے صورتحال خطرناک دیکھ کر چیتا راہِ فرار اختیار کر گیا۔ اس شخص کے زخم زیادہ تشویش ناک نہ تھے۔ گاؤں کے وید نے ان پر بعض جڑی بوٹیوں کا مرہم لگا دیا جس کے بعد وہ آگے اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔

پجاری کی یہ باتیں سن کر میں نے دابیدھر ٹھہرنے کا ارادہ کر لیا۔ گرد و پیش کے دیہات کے لوگ ہر روز مندر میں اور وید کی دوکان پر آیا جایا کرتے تھے۔ یہ لوگ میری آمد کی خبر چاروں طرف پھیلا سکتے تھے اور جب آدم خور چیتا کسی انسان یا جانور کو ہلاک کرتا تو لوگوں کو مجھے تلاش کرنے میں آسانی رہتی۔

جب بڈھا پجاری شام کے قریب مجھ سے رخصت ہونے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ گرد و پیش کے علاقے میں کون سی جگہ شکار کے لیئے موزوں رہے گی۔ کیونکہ میرے آدمیوں نے کئی دن سے گوشت نہ چکھا تھا اور دابیدھر میں کسی قیمت پر گوشت ملنا محال تھا۔

"جی ہاں ” اس نے جواب دیا۔ "یہاں مندر کا شیر جو ہے۔ ”

میری اس یقین دہانی پر کہ اس کے شیر کو ہلاک کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ، اس نے ایک قہقہہ لگا کر کہا "جناب آپ اسے بےشک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ ”

اور اس طرح مجھے دابیدھر کے مندر کے شیر کا پتہ چلا جس نے مجھے شکار کا ایک دلچسپ ترین تجربہ بخشا اور جسے میں اب آپ کے سامنے بیان کروں گا۔

اگلی صبح میں لوہر گھاٹ کی طرف اس غرض سے نکل گیا کہ آدم خور چیتے کے پنجوں کے نشان تلاش کرسکوں یا س کے متعلق گرد و پیش کے دیہات کے لوگوں سے کچھ اطلاعات لے سکوں کیونکہ چیتا رات کو اس مسافر پر حملہ کر کے اس سمت گیا تھا۔ جب میں دوپہر کو کھانے کی غرض سے ریسٹ ہاؤس میں آیا تو میں نے ایک شخص کو اپنے ایک ملازم سے باتیں کرتے دیکھا۔ اس آدمی نے مجھے بتایا کہ اس کا نام بالا سنگھ ہے۔ رات کو اسے پجاری سے پتا چلا تھا کہ میں شکار کھیلنا چاہتا ہوں اور وہ مجھے چند بارہ سینگوں کا اتا پتا دینے آیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ کھانے کے بعد میں اس کے ساتھ جاؤں گا۔ کھانے کے بعد حسب وعدہ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ میرے پاس بالکل نئی بندوق تھی جو کچھ عرصے پہلے میں نے کلکتہ سے اپنے ایک اسلحہ فروش دوست کی دوکان سے خریدی تھی۔ وہ بندوق مارکیٹ میں بالکل نئی تھی اور لوگ اس کے نام سے پہلے واقف نہ ہونے کی بنا پر اسے خریدنے سےگریز کرتے تھے۔ میں نے بھی وہ بندوق اس شرط پر خریدی تھی کہ اگر وہ خاطر خواہ نتائج برآمد نہ کرسکی تو میں اسے واپس کر جاؤں گا۔

دابیدھر کے جنوب کی سمت کی پہاڑیوں کی ڈھلوان شمال کی پہاڑیوں کی ڈھلوان کے مقابلے میں کم خطرناک ہے۔ ہم دیودار کے درختوں میں سے گزرتے ہوئے شمال کی سمت ہی جا رہے تھے۔ وادی کی مشرق کی سمت، گھاس کے ایک قطعے کی طرف جو گنجان جنگل سے گھرا ہوا تھا اشارہ کرتے ہوئے اس شخص نے کہا کہ بارہ سینگے یہیں گھاس چرنے آتے ہیں۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اسوادی کی دائیں طرف ایک پگڈنڈی ہے جو دابیدھر اور اس کے گاؤں کو آپس میں ملاتی ہے۔ اور اس پگڈنڈی سے اس نے بارہ سینگوں کو اس گھاس کے قطعے میں گھومتے پھرتے دیکھا تھا۔ میری رائفل پانچ سو گز تک مار کر سکتی تھی۔ چونکہ اس پگڈنڈی اور گھاس کے قطعے کا درمیانی فاصلہ بمشکل تین سو گز تھا۔ لہذا میں نے وہیں بیٹھ کر شکار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

جب ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو میں نے سامنے قدرے بائیں طرف چند گِدھ آسمان پہ منڈلاتے دیکھے۔ میں نے اپنے ساتھی کی توجہ اس طرف مبذول کرائی۔ جس پر اس نے کہا کہ گھاس کے قطعے کی دوسری طرف ایک گاؤں ہے۔ ممکن ہے وہاں کوئی مویشی مرگیا ہو اور گِدھ اس کی لاش کو ہضم کرنے کی فکر میں ہوں۔ اس کی اس تشریح سے میری تسلّی نہ ہوئی اور ہم دونوں اس گاؤں کی سمت چل پڑے۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ گاؤں فقط ایک جھونپڑی پر مشتمل تھا۔ جھونپڑی سے پرے کچھ فاصلے پر ایک بیل مرا پڑا تھا اور گِدھ اس کا گوشت نوچ رہے تھے۔ ہمیں دیکھ کر ایک شخص جھونپڑی سے باہر نکلا۔ ہمارا پُر تپاک خیر مقدم کرنے کے بعد اس نے پوچھا کہ میں کہاں سے آیا ہوں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میں نینی تال سے آدم خور چیتے کا شکار کرنے آیا ہوں تو اس نے بڑے تاسف کا اظہار کیا اور کہا کہ کاش اسے کل میری آمد کا پتہ چل جاتا "تب آپ اس شیر کا شکار کرسکتے تھے جس نے میرا بیل ہلاک کیا ہے۔ ” اس نے مجھے بتایا کہ اس کے پندرہ مویشی کھیت میں بندھے ہوئے تھے۔ رات کو شیر آیا اور اس کا ایک بیل ہلاک کر گیا۔ اس کے پاس کسی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔ لہذا وہ بے چارگی کے عالم میں بیل کو شیر کی نذر ہوتا دیکھتا رہا۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اگر اسے یہ معلوم تھا کہ دابیدھر کے علاقے میں شیر رہتا ہے تو پھر اس نے اپنے مویشی کھُلے کھیت میں کیوں باندھے۔ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس سے پیشتر شیر نے کبھی کسی پالتو مویشی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔

جب میں وہاں سے جانے لگا تو اس شخص نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ بارہ سینگوں کا شکار کرنے۔ اس پر وہ ملتجی لہجے میں کہنے لگا کہ اس وقت میں بارہ سینگوں کا خیال ترک کر کے شیر کا شکار کروں ، "آپ جانتے ہیں کہ میری ملکیت بہت چھوٹی سی ہے۔ اگر شیر اسی طرح میرے بیلوں بھینسوں کو ہلاک کرتا رہا تو میں اور میرے بال بچے بھوکوں مر جائیں گے۔ ”

گِدھ مُردہ بیل ختم کر چکے تھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ کیونکہ گزشتہ رات شیر کو اپنے شکار کی خاطر کسی قسم کی دقّت نہ اٹھانی پڑی تھی۔ اس بنا پر میرا خیال تھا کہ وہ آج رات کو بھی آئے تھے۔ میرا ساتھی بھی اب بارہ سینگوں کے بجائے شیر کے شکار کو ترجیع دینے لگا تھا۔ میں ان آدمیوں کو وہیں چھوڑ کر یہ معلوم کرنے کی خاطر چل پڑا کہ شیر کس سمت گیا تھا۔ چونکہ گاؤں کے آس پاس کوئی درخت نہ تھا جس پر میں اپنی مچان تیار کرسکتا تھا۔ لہذا میں چاہتا تھا کہ شیر کو اُس کی واپسی پر راستے میں ہی جا ملوں۔ وہاں کی زمین بڑی سخت تھی جس پر شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی نہ دیتے تھے۔ دو دفعہ گاؤں کے چکر کاٹنے کے بعد میں پاس ہی بہنے والی برساتی ندی کی سمت چل پڑا۔ وہاں ہموار و نم دار زمین پر ایک بڑے شیر کے پنجوں کے نشان موجود تھے۔ ان نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ شیر اپنا شکار کھانے کے بعد ندی کی بالائی سمت گیا تھا اور یہ فرض کر لینا بےجا نہ تھا کہ وہ اسی سمت سے واپس آئے گا۔ جھونپڑی وہاں سے کوئی تیس گز کے فاصلے پر تھی۔ ندی کے جس کنارے پر میں نے شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے۔ وہیں ایک دیودار کا درخت تھا جس پر جنگلی گلاب کی ایک بیل چڑھی ہوئی تھی۔ درخت کی ایک موٹی سی شاخ ندی پر جھکی ہوئی تھی۔ رائفل کو زمین پر رکھ کر میں درخت کے اوپر چڑھ گیا اور اس کا بغور معائنہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ وہاں دو شاخوں کے درمیان بڑے آرام سے بیٹھا جا سکتا ہے۔

جھونپڑی میں واپس آ کر میں نے ان دونوں دیہاتیوں کو بتایا کہ میں اپنی بھاری رائفل لینے کی خاطر ریسٹ ہاؤس جا رہا ہوں۔ لیکن میرے راہبر نے بڑی زندہ دِلی سے کہا کہ میں یہ تکلیف نہ کروں ، وہ خود ہی میری رائفل لے آئے گا۔ اسے ضروری ہدایات دینے کے بعد میں اس دیہاتی کے پاس بیٹھ گیا اور اس کی باتیں سننے لگا کہ اسے کس طرح اپنے سر پر گھاس پھوس کی چھت کا سایہ قائم رکھنے کے لیے فطرت اور جنگلی جانورو ں سے نبرد آزمائی کرنی پڑتی ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور کیوں نہیں چلا جاتا تو اس نے بڑی سادگی ے کہا، "یہی تو میرا گھر ہے”۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں نے جھونپڑی ی سمت دو آدمی آتے دیکھے۔ ان میں سے کسی کے پاس بھی بندوق نہ تھی۔ ان میں سے ایک بالا سنگھ تھا۔ جس نے ہاتھ میں لالٹین اٹھا رکھی تھی۔ بالا سنگھ نے مجھے بتایا کہ وہ میری بھاری رائفل نہ لا سکا تھا کیونکہ اس کے کارتوس سُوٹ کیس میں بند تھے اور میں اس سُوٹ کیس کی چابی بھیجنا بھول گیا تھا۔ لہذا اب شیر کو نئی رائفل ہی سے شکار کیا جا سکتا تھا۔

درخت پر چڑھنے سے پہلے میں نے کسان سے کہا کہ میری کامیابی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ اپنے دونوں بچوں کو خاموش رکھے اور بیوی کو اس وقت تک چولہا نہ جلانے دے جب تک میں شیر شکار نہ کر لوں یا جب تک یہ فیصلہ نہ کر لوں کہ شیر نہیں آ رہا۔ بالا سنگھ کو میں نے یہ ہدایت دیں کہ وہ جھونپڑی کے مکینوں کو خاموش رکھے اور جب میں سیٹی بجاؤں تو لالٹین روشن کر دے۔ اس کے بعد میری مزید ہدایات کا منتظر رہے۔

جب سورج کا آخری شعلہ بھی پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپ گیا تو اس کے ساتھ ہی وادی میں چہچہانے والے ہزاروں پرندوں کی آوازیں تھم گئیں۔ شفق گہری ہونے کے ساتھ ہی پہاڑی کے اوپر ایک اُلّو بولنے لگا۔ چاند طلوع ہونے سے پہلے نیم تاریکی کا ایک چھوٹا سا وقفہ آیا۔ یہ وقفہ آتے ہی جھونپڑی کے مکین مُردوں کی طرح خاموش ہو گئے۔ میں نے مضبوطی سے اپنی رائفل پکڑ رکھی تھی اور اندھیرے میں دیکھنے کے لیے آنکھوں پر زور دے رہا تھا کہ شیر میرے درخت کے نیچے سے گزرنے کے بجائے پرے سے گزر کر اپنے گزشتہ شب والے شکار کے پاس گیا۔ اور وہاں فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ دیکھ کر غصے میں آ گیا۔ وہ مدھم آواز میں گِدھوں کو برا بھلا کہنے لگا جو اس کے شکار پر ہاتھ صاف کر گئے تھے۔ وہ تین چار منٹ تک بڑبڑاتا رہا اور پھر اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ چاندنی لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہی تھی۔ چند منٹ بعد چاند سامنے والی پہاڑی کی چوٹی پر کھڑا تھا۔ بیل کی ہڈیاں چاندنی میں سفید سفید چمک رہی تھیں۔ مگر شیر کہیں دکھائی نہ دے رہا تھا۔ شدّتِ احساس سے میرے ہونٹ خشک ہو گئے تھے۔ میں نے ان پر زبان پھیر کر انہیں نم دار کیا اور پھر آہستہ سے سیٹی بجائی۔ بالا سنگھ پہلے ہی چوکنا بیٹھا تھا۔ اس نے فوراً لالٹین روشن کر دی اور جھونپڑی کا دروازہ کھول کر باہر کھڑا ہو کر اگلے حکم کا انتظار کرنے لگا۔ جب سے میں اس درخت پر بیٹھا تھا اس سیٹی کے سوا میں نے کوئی آواز نہ نکالی تھی اور اب جو میں نے نیچے دیکھا تو شیر شفاف چاندنی میں درخت کے نیچے کھڑا تھا اور اپنے داہنے کندھے پر سے بالا سنگھ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میری بندوق کی نالی اور شیر کے سر کے درمیان پانچ فٹ سے زیادہ کا فاصلہ نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ اب شیر میری مُٹھّی میں ہے اور میری ایک ہی گولی اسے ٹھنڈا کر دے گی۔ میں نے بڑے اعتماد سے نشست باندھی اور رائفل کی لبلبی دبا دی۔ لبلبی میری انگلی کے دباؤ تلے دبتی چلی گئی اور کچھ بھی نہ ہوا۔

خدایا! میں کس قدر غیر محتاط واقع ہوا تھا۔ درخت پر بیٹھنے سے پہلے میں نے رائفل میں پانچ کارتوس بھرے تھے۔ کارتوسوں کو باہر نکال کر اس کا معائنہ کرنے کی غرض سے میں نے رائفل کھولی تو کارتوس اپنی جگہ بالکل فِٹ تھے۔ تو پھر کیا وجہ تھی کہ گھوڑا دبانے پر اس نے چلنے سے انکار کر دیا تھا؟ اس کی وجہ مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی۔ اگر بندوق پرانی ہوتی تو میں اپنی غلطی کو فورا درست کر لیتا۔ بندوق کو دوبارہ راست کر کے میں نے ابھی اُس کا گھوڑا بھی نہ دبایا تھا کہ وہ خودبخود چل گئی۔ ایک زور دار دھماکا ہوا اور شیر ایک ہی چھلانگ لگا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ میں نے جلدی سے بالا سنگھ کی طرف دیکھا تو وہ بھاگ کر جھونپڑی کے دروازے کے اندر داخل ہو رہا تھا۔

اب درخت پر بیٹھنا فضول تھا۔ میں نے بالا سنگھ کو آواز دی تاکہ وہ درخت سے اترنے میں میری مدد کرسکے۔ جھونپڑی میں آ کر میں نے جو رائفل کا بغور معائنہ کیا تو جس دکان سے میں نے اسے خریدا تھا اس دکاندار کی مجھے ایک نصیحت یاد آ گئی جو اس رائفل کے متعلق اس نے مجھے کی تھی۔ وہ دُہرے سسٹم والی رائفل تھی اور جب تک اس کے دونوں تالے نہ کھولے جائیں وہ چل نہ سکتی تھی۔ یہ نقطہ میرے ذہن سے بالکل نکل گیا تھا اور جب میں نے اپنی ناکامی کی وجہ بالا سنگھ کو بتائی تو وہ خود کو ملامت کرنے لگا۔ "اگر آپ کی بھاری رائفل اور سُوٹ کیس دونوں یہاں اٹھا لاتا تو ہرگز ایسا نہ ہوتا۔ ” اس وقت میں اُس سے متفق ہو گیا۔ لیکن بعد میں جب دن گزرتے گئے تو مجھے یقین ہو گیا کہ اگر اُس شام میرے پاس بھاری رائفل بھی ہوتی تو شاید پھر بھی میں اُس شیر کو شکار نہ کر پاتا۔

اگلی صبح میں شیر کے متعلق کوئی نئی خبر حاصل کرنے کی خاطر بڑی دیر تک نواحی علاقوں میں پھرتا رہا۔ اور جب ریسٹ ہاؤس میں آیا تو ایک شخص بڑی بےتابی سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس شخص نے بتایا کہ شیر نے ابھی ابھی اُس کی ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ اُس گائے نے نیا نیا بچھڑا جنا تھا اور اب دودھ نہ ملنے کی صورت میں بچھڑے کی موت کا بھی خطرہ تھا کیونکہ اس وقت اس کی اور کوئی گائے بھی دودھ نہ دے رہی تھی۔

گزشتہ شب شیر کو اس کی خوش قسمتی نے بچا لیا تھا۔ لیکن آخر کب تک قسمت اس کا ساتھ دی گی۔ ان سب شکاروں کا حساب اسے اپنی موت کی صورت میں دینا ہو گا۔ اِس پہاڑی علاقے میں مویشی پہلے ہی کم تھے اور ایک مویشی کا ہلاک ہو جانا بڑا سنجیدہ مسلہ تھا۔ اُس شخص کو اپنے دوسرے مویشیوں کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ کیونکہ وہ بھاگ کر اُس کے گاؤں پہنچ چکے تھے۔ لہذا اُس نے مجھے کہا کہ میں بڑے آرام سے کھانا کھاؤں۔ دوپہر کے ایک بجے کھانے سے فارغ ہو کر میں اُس شخص کے ساتھ ہولیا۔ میرے دو آدمی مچان کا سامان اٹھائے ہمارے پیچھے چل رہے تھے۔

ہمارا قریبی راستہ پہاڑی کی چوٹی پر سے گزرتا تھا لیکن میں شیر کے کام میں مُخل نہ ہونا چاہتا تھا۔ لہذا ہم نے پہاڑی کے گِرد چکر کاٹ کر اُس جگہ پہنچنے کا فیصلہ کیا جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی۔ راہ میں نم دار زمین پر بھگوڑے مویشیوں کے کھُروں کے گہرے نشان موجود تھے۔ ان پر چلتے ہوئے ہم جائے حادثہ پر پہنچ گئے۔ وہاں خون کا ایک تالاب تھا۔ اس کے اندر سے گائے کو گھسیٹنے کی کشادہ لکیر موجود تھی۔ یہ لکیر کوئی دو سو گز تک جا کر ایک ندی کے کنارے ختم ہو گئی تھی۔ وہاں گھنے درخت تھے۔ ندی میں پاؤں پاؤں پانی تھا۔ شیر اپنا شکار لے کر ندی کے کنارے انہی گھنے درختوں میں کہیں چھپا تھا۔

گائے صبح کے کوئی دس بجے کے قریب ہلاک کی گئی تھی۔ شیر کی اوّلین خواہش یہی ہو گی کہ اپنے شکار کو کسی ایسی جگہ چھپا دے جہاں اس کو کوئی نہ دیکھ سکے۔ لہذا وہ اپنا شکار درختوں کے جھنڈ میں چھپا کر ندی میں سے گزر کر وادی میں اتر گیا تھا۔ جیسا کہ اس کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوتا تھا۔ ایک ایسا علاقہ جہاں انسان اور مویشی عام چلتے پھرتے ہوں وہاں اس قِسم کا اندازہ کرنا کہ شیر کہاں لیٹا ہو گا بعید از قیاس ہے کیونکہ ہلکی سی مدافعت سے بھی وہ اپنی جگہ بدل لیتا ہے۔ اگرچہ شیر کے پنجوں کے نشان وادی میں اتر گئے تھے لیکن میں اور میرے آدمیوں نے بڑی احتیاط سے ندی کے کنارے تک چل کر رک جانا مناسب سمجھا۔

یہ ندی کوئی دو سو گز شمال سے ایک ایسے تالاب سے شروع ہوتی تھی جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا رہتا تھا۔ یہاں کوئی پندرہ فٹ لمبا ایک گڑھا تھاجس کے دہانے پر گھاس وغیرہ اگی ہوئی تھی۔ ہمارا پہلا اندازہ غلط نکلا۔ شیر نے ندی کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں اپنا شکار چھپانے کے بجائے مؤخر الذکر گڑھے میں چھپا رکھا تھا۔ اپنی گائے کو اپنے سامنے مردہ دیکھ کر اس دیہاتی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میرے پاس ہمدردی کے چند الفاظ کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ شیر نے گائے کو ابھی تک چھوا نہ تھا۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر اسے بڑے آرام سے کھانا چاہتا تھا۔

ہمیں اب اس گڑھے کے پاس ایسی جگہ تلاش کرنی تھی جہاں آرام سے بیٹھا جا سکے۔ ندی کے دوسرے کنارے چند دیودار کے درخت تھے مگر وہ سب کے سب گڑھے سے دور تھے اور وہاں سے شیر پر ٹھیک سے گولی نہ چلائی جا سکتی تھی۔ علاوہ بریں ان پر چڑھنا مشکل تھا۔ گڑھے سے تیس گز کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا مضبوط درخت ندی کی بائیں سمت کھڑا تھا۔ اس کی شاخیں خاصی گھنیری تھیں۔ زمین سے صرف چھ فٹ اوپر جا کر درخت کا تنا دو شاخوں میں بٹ گیا تھا۔ جن کے درمیان میں آسانی سے بیٹھ سکتا تھا۔ یہ جگہ زمین کے اتنے قریب تھی کہ میرے ساتھیوں نے میرے وہاں بیٹھنے کے خلاف احتجاج کیا لیکن اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اپنے ساتھیوں کو وہاں سے روانہ کرنے سے پہلے میں نے انہیں ہدایت کی کہ وہ گزشتہ شب والی جھونپڑی میں واپس چلے جائیں اور وہاں اس وقت تک میرا انتظار کریں جب تک میں انہیں آواز نہ دوں یا ان کے پاس نہ چلا آؤں۔ وہ جھونپڑی وہاں سے زیادہ دور نہ تھی اور درختوں کی شاخوں میں سے صاف دکھائی دے رہی تھی۔

میرے ساتھی شام کے چار بجے کے قریب رخصت ہو گئے۔ میں درخت کی شاخوں میں چھپ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے خاصی دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ کیونکہ تجربات سے مجھے معلوم تھا کہ شیر سورج ‏ غروب ہونے سے پہلے یہاں نہ آئے گا۔ میری بائیں سمت ندی کوئی پچاس گز تک دکھائی دے رہی تھی۔ جو میرے سامنے کوئی دس گز پر بہہ رہی تھی۔ یہ ندی دس گز گہری اور بیس گز چوڑی تھی۔ میرے سامنے درختوں سے خالی پہاڑی چٹانیں تھیں۔ میری دائیں طرف وہ گڑھا تھا جہاں شیر اپنا شکار چھپا گیا تھا۔ مُردہ گائے میری نظروں سے اوجھل تھی۔ کیونکہ لمبی لمبی گھاس نے اسے ڈھانپ رکھا تھا۔ میری پشت پر لمبی لمبی گہری جنگلی گھاس تھی، جو میرے درخت تک آئی ہوئی تھی اور اسی گھاس نے گائے کو بھی چھپا رکھا تھا۔ شیر اپنا شکار یہاں چھپانے کے بعد ندی میں سے گزر کر وادی کی دوسری سمت چلا گیا تھا اور اس کی واپسی کا امکان بھی اسی راہ سے تھا۔ لہذا میں متواتر ندی کی سمت دیکھ رہا تھا۔ میرا خیال تھا کہ جونہی شیر ندی کے اس کنارے نمودار ہو اس پر فوراً گولی چلا دوں۔

میرے گرد و پیش کئی قسم کے جانور اور پرندے تھے جو مجھے شیر کی آمد سے مطلع کرسکتے تھے۔ لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ کیونکہ پرندوں اور جانوروں کی تنبیہی آواز سنے بغیر میں نے اچانک شیر کو اپنے شکار کے قریب غراتے ہوئے دیکھا۔ وہ میرے قریب سے گزرنے کے بجائے دوسری سمت سے وہاں پہنچ گیا تھا۔ لیکن اس سے مجھے کوئی تردّد نہ ہوا۔ میں تجربے سے جانتا تھا کہ شیر دن کے وقت اپنے شکار کے قریب جم کر کھڑا نہیں رہتا اور وہ تھوڑی دیر بعد ضرور کھلے میدان میں میرے سامنے آئے گا۔ اب وہ اپنا شکار کھا رہا تھا۔ ہڈیاں ٹُوٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ پندرہ منٹ گزر گئے۔ اچانک مجھے اپنی بائیں سمت سے ایک کالا ریچھ آتا دکھائی دیا۔ وہ بہت بڑا ریچھ تھا۔ اچانک وہ رک گیا۔ اور اپنی تھوتھنی ہوا میں بلند کر کے زور زور سے سونگھنے لگا۔ اس نے گوشت اور شیر کی بو سونگھ لی تھی۔ میں شکار کے دائیں سمت تھا۔ چونکہ ہوا شمال سے جنوب کو چل رہی تھی اسلیئے ریچھ میری بُو نہ سونگھ سکا۔ تب اچانک وہ زمین پر لیٹ گیا اور چند لمحوں کے بعد بڑی احتیاط سے آہستہ آہستہ شیر کی سمت بڑھنے لگا۔ وہ ایک سائے کی طرح حرکت کر رہا تھا۔ جوں جوں وہ گڑھے کے قریب آ رہا تھا، زیادہ محتاط ہوتا جا رہا تھا۔ جب وہ گڑھے سے چند ہی قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو پیٹ کے بل زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر وہ رینگتا ہوا گڑھے کے کنارے پر پہنچ گیا اور اپنا سر اٹھا کر اس کے اندر جھانکنے لگا۔ شیر بڑے مزے سے اپنا شکار کھانے میں مصروف تھا۔ اب کیا ہو گا؟ شدّتِ احساس سے میرا جسم ایک تنے ہوئے رسّے کی طرح تھرّا رہا تھا اور میرے ہونٹ اور حلق سوکھ گئے تھے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ریچھ اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ جنگل کے بادشاہ کے شکار میں مُخل ہو۔ لیکن ریچھ کی حرکات میری سوچ کو غلط ثابت کرنے پر تلی ہوئیں تھیں۔ چند لمحے ریچھ اسی طرح گڑھے کے اندر جھانکتا رہا۔ پھر اچانک وہ ایک زبردست چیخ مارکر گڑھے کے اندر کود گیا۔ اس چیخ کا مقصد میرے خیال میں شیر کو ہراساں کرنا تھا۔ لیکن اس کا الٹا اثر ہوا۔ شیر ایک دم مشتعل ہو گیا کیونکہ ریچھ کی چیخ کے جواب میں مجھے ایک تیز گرج سنائی دی۔

میں نے جنگلی درندوں کی نبرد آزمائی بہت کم دیکھی ہے۔ یہ شاید میرا دوسرا تجربہ تھا۔ گڑھے کے اندر شیر اور ریچھ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رہے تھے اور ان کی تیز خوفناک آوازیں آس پاس گونج رہی تھیں۔ مقابلہ زبردست تھا۔ وقت ایک دم سانس روک کر کھڑا ہو گیا۔ شدت احساس سے میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ یہ جنگ کوئی تین یا چار منٹ جاری رہی ہو گی۔ بہر حال جب شیر نے یہ سمجھا کہ وہ اپنے دشمن کو خاصا نقصان پہنچا چکا ہے تو چھلانگ لگا کر گڑھے سے باہر نکل آیا اور میرے سامنے سے تیزی سے بھاگتا ہوا نکل گیا۔ اس کے پیچھے چیختا چلّاتا ہوا ریچھ تھا۔ شیر ابھی میرے سامنے سے گزرا ہی تھا کہ میں نے بندوق اٹھا کر نشانہ باندھا اور گولی چلا دی۔ گولی کی آواز پر شیر غصے سے گرجا اور پھر گھاس میں چھپ گیا۔ چند لمحے وہ گھاس میں چلتا رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ میرا خیال تھا کہ گولی اس کے دل میں لگی تھی اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا تھا۔

اس قسم کے پہاڑی علاقے میں بندوق کی گولی کی آواز توپ کے گولے کی گرج سے کم نہیں ہوتی۔ مگر اس گرج کا پاگل ریچھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ شیر کے تعاقب میں اندھا دھند میری طرف بھاگا چلا آ رہا تھا۔ میں ایک ایسے جانور کو ہلاک نہ کرنا چاہتا تھا جس میں اتنے عظیم دشمن کو بھگا دینے کی جرات تھی۔ لیکن اس کی میرے قریب تر آتی ہوئی منحوس چیخ میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ جب وہ مجھ سے چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تو میں نے بندوق کی بائیں نالی کی گولی اس کے ماتھے میں پیوست کر دی۔ وہ پیٹ کے بل آہستہ سے زمین پر لیٹ گیا اور پھر نہ اٹھ سکا۔

جہاں ایک لمحہ پہلے دو خوفناک درندوں کی ہیبت ناک آوازوں سے جنگل گونج رہا تھا اب سارے میں مکمل خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ میرا دل اپنی اصلی حالت پہ آیا تو میں پائپ سلگا کر اپنے اعصاب کو بحال کرنے لگا۔ ابھی میں نے بندوق کو اپنی گود میں رکھ کر پائپ کے ایک دو کش لگائے ہی تھے کہ اپنے سامنے کچھ فاصلے پر مجھے شیر بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ میری طرف نہیں اپنے مردہ دشمن کی طرف دیکھ رہا تھا۔

میں جانتا ہوں کہ یہ واقعات پڑھ کر ایک اچھا شکاری بلاشبہ مجھ پر ایک اناڑی شکاری ہونے کا الزام لگا دے گا۔ میرے پاس دفاع کی کوئی صورت نہیں لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ اپنی طرف سے میں پوری طرح ہوشیار تھا۔ جب میں نے شیر کی پشت پر گولی چلائی تھی تو مجھے یقین تھا کہ میں اسے ایک مہلک ضرب لگا رہا ہوں اور گولی چلانے کے بعد میں نے شیر کی جو چیخ سنی تھی اس سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں نے اسے ڈھیر کر لیا ہے۔ میری دوسری گولی سے ریچھ چت ہو گیا تھا۔ لہذا اب میں بندوق کو دوبارہ بھرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتا تھا اور اسے اپنی گود میں رکھے ہوئے تھا۔

شیر کو ٹھیک ٹھاک دیکھ کر میں کوئی دو سیکنڈ حیرت میں غلطاں رہا۔ اس کے بعد میں نے جلدی سے رائفل میں کارتوس بھرے۔ اب شیر مجھ سے کوئی چالیس گز کے فاصلے پر تھا اور اس کی رفتار بھی مدھم ہو گئی تھی۔ وہ سامنے والی پہاڑی پر اسی ڈگری کا زاویہ بنائے ہوئے تھا۔ میں نے بندوق اٹھائی اور نشانہ باندھ کر داغ دی۔ شیر لڑکھڑاتا ہوا اپنے پچھلے قدموں پر گرا مگر پھر جلدی سے سنبھل کر پہاڑی کی دوسری سمت کود گیا۔ گولی شیر کے منہ سے کوئی پانچ انچ نیچے چٹان پر لگی تھی جس کے باعث شیر گھبرا کر پیچھے گر پڑا تھا مگر اب کے پھر صاف بچ کر نکل گیا تھا۔

تھوڑی دیر پائپ پینے کے بعد میں ریچھ کو دیکھنے کی نیت سے درخت پر سے اترا۔ میرے خیال کے برعکس ریچھ بہت بڑا نکلا۔ شیر سے اس کی لڑائی واقعی قابل تحسین تھی۔ اس کی گردن اور جسم پر دانتوں کے بڑے بڑے زخم تھے۔ جن سے خون رس رہا تھا۔ ممکن تھا وہ ان زخموں کی زیادہ پرواہ نہ کرتا مگر اس کی ناک پر جو زخم آیا تھا اس نے اسے مشتعل کر دیا تھا۔ ہر نر جانور ناک کے زخم کے متعلق بڑا حساس ہوتا ہے اور اسے ایک طرح اپنی ہتک محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا اور میری پہلی گولی کی آواز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس نے شیر کا تعاقب جاری رکھا تھا۔

اب میرے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ میں ریچھ کی کھال اتارنے کے لیے اپنے آدمیوں کو بلاتا۔ لہذا میں انہیں ملنے کے لیے جھونپڑی کی سمت چل پڑا۔ انہیں ساتھ لے کر میں شام سے پہلے ریسٹ ہاؤس میں پہنچ جانا چاہتا تھا کیونکہ اس علاقے میں آدم خور چیتا بھی تو گھوم رہا تھا۔ جھونپڑی کے باہر کوئی ایک درجن آدمی مجھے بڑے غور سے آتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ اور جب میں ان کے پاس پہنچ گیا تو حیرت کے مارے ان کی زبانیں گنگ تھیں۔ آخر بالا سنگھ کی زبان میں سکت آئی اور جب اس نے مجھے ساری بات سنائی تو مجھے اس پر حیرت نہ ہوئی کہ تمام آدمی مجھے کیوں اس طرح دیکھ رہے تھے۔ جیسے میں مردہ ہو کر جی اٹھا تھا۔ آخر بالا سنگھ کہنے لگا، "آپ نے ہمیں جھونپڑی کے اندر ٹھہرنے کی نصیحت کی تھی۔ اور جب ہم نے شیر کی پہلی گرج کے بعد آپ کی چیخ سنی تو ہمیں یقین ہو گیا کہ شیر نے آپ کو درخت سے نیچے گھسیٹ لیا ہے اور آپ زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اور جب شیر کی گرج بند ہو گئی اور آپ کی چیخ سنائی دیتی رہی تو ہم سمجھے کہ شیر آپ کو اٹھائے لیئے جا رہا ہے۔ بعد میں ہم نے آپ کی بندوق کی دو گولیوں کی آواز سنی۔ اس کے بعد تیسری آواز سے تو ہم بڑی شش و پنج میں پڑ گئے۔ یعنی شیر کے منہ میں آیا ہوا انسان کس طرح گولی چلا سکتا ہے۔ اور اب ہم مشورہ کر رہے تھے کہ آپ اس طرف آتے دکھائی دیئے۔ جس کے سبب حیرت کے مارے ہماری زبانیں بولنا بھول گئیں۔ ” بات یہ تھی کہ انسان اور ریچھ کی چیخ ایک دوسرے سے اس قدر ملتی ہیں کہ دور سے انسان ان میں امتیاز نہیں کرسکتا۔

تب میں نے ان سب کو شیر اور ریچھ کی خوفناک جنگ کے بارے میں بتایا۔ ریچھ کی چربی عام طور پر گٹھیا کے مرض کے لیے مفید سمجھی جاتی ہے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ مجھے چربی کی ضرورت نہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ دوسری صبح ہم ریچھ کی کھال اتارنے چل پڑے۔ میرے ساتھ آدمیوں کا ایک ہجوم تھا جو ریچھ کی چربی کے خواہش مند تھے۔ علاوہ بریں وہ ایک ایسے بہادر ریچھ کو دیکھنا چاہتے تھے جس نے شیر کو بھگا دیا تھا۔ لوگوں نے ریچھ کی چربی آپس میں تقسیم کر لی اور اس کی کھال میں نے بالا سنگھ کو دے دی جسے حاصل کر کے وہ خود کو سب سے زیادہ خوش قسمت تصور کر رہا تھا۔

شیر اس گائے کو کھانے دوبارہ اس جگہ نہ آیا۔ یوں بھی شام تک گِدھ اسے ختم کر چکے تھے۔

ریچھ کی چربی کی خبر تھوڑی دیر میں سارے نواحی علاقے میں پھیل گئی۔ یہ خبر محکمۂ جنگلات کے ایک محافظ کے پاس بھی پہنچی۔ اس کا باپ کئی برس سے گٹھیا میں مبتلا تھا۔ وہ چربی لینے کی خاطر دابیدھر کی سمت آ رہا تھا کہ راستے میں اسے چند مویشی بھاگتے ہوئے دکھائ دیئے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک نوجوان گڈریا بھی تھا۔ جس نے اسے بتایا کہ ابھی ابھی اس کی ایک گائے شیر نے ہلاک کر دی ہے۔ جب اس محافظ نے یہ خبر ہم تک پہنچائی تو میں اور وہ محافظ اس طرف چل پڑے۔ اس وادی میں دیودار کے درخت جگہ جگہ اگے ہوئے تھے۔ میں وادی کے کنارے پر کھڑا اپنے سامنے پھیلے سبزہ زار کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ پھر میں اور وہ محافظ وادی میں اتر گئے۔ تھوڑی دور چل کر ہمیں خشک پتّوں کا ایک ڈھیر دکھائی دیا۔ اگرچہ اس کے اندر سے گائے کے جسم کا کوئی حصہ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ لیکن میں جانتا تھا کہ شیر نے گائے کو اس کے اندر چھپا رکھا ہے۔ بدقسمتی سے میں نے یہ بات اپنے ساتھی کو نہ بتائی۔ بعد میں اس نے بھی مجھے بتایا کہ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ شیر اس طرح بھی اپنا شکار چھپا دیا کرتا ہے۔ جب شیر اس طرح اپنا شکار چھپا دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ فی الحال کہیں آس پاس نہیں ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ فرض نہ کر لینا چاہیے۔ اگرچہ وادی میں داخل ہونے سے پہلے میں نے اس کا بغور جائزہ لے لیا تھا۔ لیکن اب میں اپنی طرف سے پورا محتاط تھا۔

پتّوں کے اس ڈھیر سے کچھ فاصلے پر ایک پہاڑی پنتالیس ڈگری کا زاویہ بنا رہی تھی۔ اسی پہاڑی کے اوپر چالیس گز کے فاصلے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ میں ان پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا کہ شیر پر میری نظر پڑ گئی۔ جو وہاں زمین پر لیٹا تھا۔ اور اس کی پشت میری طرف تھی۔ اس کے سر کا ایک حصّہ اور جسم کی ایک دھاری بھی مجھے دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے سر پر گولی چلانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ اور جسم پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ میرے سامنے ساری دوپہر اور شام پڑی تھی۔ لہذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ چھپ کر شیر کے اِدھر آنے کا انتظار کروں۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ یا ہی تھا کہ مجھے اپنی بائیں سمت ایک حرکت سی دکھائی دی۔ سر پھیر کے دیکھا تو ایک ریچھ پتّوں کے ڈھیر کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے دو بچے بھی تھے۔ شاید ریچھ نے شیر کو شکار کرتے دیکھ لیا تھا اور اب موقع پاکر اس کے شکار پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں شیر کے شکار کے قریب کھڑا ہونے کے بجائے وادی کے کنارے پر کھڑا ہوتا تو ایک دلچسپ منظر دیکھنے میں آتا۔ ریچھ نے شیر کا شکار ہضم کرنے کی کوشش کرنی تھی۔ جس پر شیر نے بیدار ہو جانا تھا اور پھر ان کے مابین جو لڑائی ہوتی وہ واقعی قابلِ دید ہوتی۔

محکمۂ جنگلات کا محافظ جو اب تک میرے پیچھے کھڑا تھا اس اب تک شیر دکھائی نہ دیا تھا۔ وہ مجھے ریچھ کی سمت دیکھتے ہوئے خود بھی اس سمت دیکھنے لگا۔ ریچھ کو دیکھنا تھا کہ وہ ایک دم چلاّ اٹھا، "دیکھو صاحب بھالُو! بھالُو!” اس کی آواز سن کر شیر ایک دم اٹھا اور ایک ہی جست میں بجلی کی طرح آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ مگر ایسا کرنے سے پہلے اسے بیس گز کھلی زمین کا ایک قطعہ طے کرنا تھا۔ جب وہ وہاں سے گزر رہا تھا تو میں نے رائفل اٹھائی اور لبلبی دبانے ہی والا تھا کہ جنگل کے محافظ نے یہ سمجھا کہ میں نے ریچھ کو نہیں دیکھا اور غلط سمت میں گولی چلانے لگا ہوں۔ لہذا اس نے جلدی سے رائفل کی نال پکڑ کر اس کا رخ ریچھ کی سمت کر دیا۔ بندوق کی گولی مجھ سے کچھ فاصلے پر ایک درخت میں لگی۔ غصّے میں آنا بےسود تھا۔ اور وہ بھی جنگل میں۔ محافظ جو اب تک پوری بات سے بے خبر تھا اور اس تاثر کے تحت تھا کہ اس نے میری توجہ ریچھ کی جانب کرا کے مجھے ایک آفت سے بچا لیا ہے۔ گولی کی آوازسے ریچھ بھی چوکنا ہو گیا۔ اور وہ اپنے بچوں کے ہمراہ جلدی سے وادی کے نیچے اتر گیا۔ میرا ساتھی یہی کہتا رہ گیا، "مارو صاحب مارو۔ "لیکن جب میں نے اسے ساری بات بتائی تو وہ ایک دم غمگین ہو گیا۔ وہاں سے ہم بنگلے واپس چلے آئے۔

دوسری صبح جب میں پھر اس وادی میں گیا تو میرا یہ شبہ صحیح نکلا کہ شیر اب اپنا شکار کھانے نہ آئے گا۔ جب میں وہاں پہنچا تو تینوں ریچھ شکار پر ہاتھ صاف کر چکے تھے اور بچی کچی ہڈیاں گِدھ نوچ رہے تھے۔

صبح ہوئے ابھی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی۔ میں سامنے والی پہاڑی پر چڑھ کر اس سمت چلنے لگا جِدھر شیر گیا تھا۔ دوپہر کے وقت جب میں بنگلے میں لوٹا تو ایک شخص میرا منتظر تھا۔ اس نے بتایا کہ شیر نے ایک اور گائے ہلاک کر دی ہے۔ وہ شخص ایک مقدمے کے سلسلے میں الموڑا  جا رہا تھا اور اس نے راستے میں شیر کو گائے شکار کرتے دیکھا تھا۔ وہ راستے کا تھوڑا سا چکر لگا کر مجھے فقط یہ اطلاع دینے آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ تو نہ جا سکتا تھا۔ مگر اس نے زمین پر نقشہ کھینچ کر بتا دیا کہ شیر نے کس جگہ گائے ہلاک کی تھی۔ اگر اس شخص نے صحیح نقشہ بنایا تھا تو یہ جگہ اس جگہ سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھی جہاں کل میں نے شیر پر گولی چلائی تھی۔ اب کی دفعہ اس نے ایک ندی کے کنارے شکار کیا تھا۔

گزشتہ دن شیر نے جہاں اپنا شکار کیا تھا اسے اس نے وہیں رہنے دیا تھا۔ لیکن آج جب میں جائے حادثہ پر پہنچا تو شیر اپنا شکار گھسیٹ کر دور لے گیا تھا۔ یہ فاصلہ تقریباً دو میل ہو گا۔ اب گائے کے گھسٹنے کی لکیر درختوں کے گھنے جھنڈوں میں گزر رہی تھی۔ تھوڑی دور آگے گیا تو گائے کی ایک پچھلی ٹانگ ٹوٹ کر دو درختوں کے درمیان پھنسی ہوئی ملی۔ چند قدم آگے چل کر سرسبز جھاڑیوں کے ایک گھنے جھنڈ میں شیر کا شکار پڑا تھا۔ اس نے اسے ڈھانپنے کی بھی کوشش نہ کی تھی۔

دو میل کا فاصلہ یوں محتاط ہو کر طے کرنے اور رائفل کے بوجھ سے میرا جسم پسینے سے شرابور تھا اور پیاس کے مارے حلق خشک ہو رہا تھا۔ اس سے میں بخوبی اندازہ کرسکتا تھا کہ اتنا بڑا بوجھ اتنی دور گھسیٹنے سے شیر کو کس قدر پیاس لگی ہو گی۔ پیاس بجھانے کے ارادے سے میں ندی کی سمت چل پڑا۔ وہ ندی جس کے کنارے میں نے ریچھ کو ہلاک کیا تھا، وہ یہاں سے کوئی نصف میل دور تھی۔

میں ندی کے کنارے کھڑا تھا۔ اس جگہ درختوں کا گھنا سایہ تھا۔ ایک چٹان کی عقب سے چکر لگا کر میں ندی میں اترا ہی تھا کہ مجھ سے کوئی بیس گز کے فاصلے پر شیر ندی کے کنارے نرم نرم ٹھنڈی ریت پر سویا ہوا تھا۔ یہاں سے ندی دائیں سمت کو ایک دم مڑ جاتی تھی۔ اس کی پشت میری سمت تھی اور میں فقط اس کی پچھلی ٹانگیں اور دُم دیکھ سکتا تھا۔ میرے اور شیر کے درمیان خشک شاخوں کی ایک دیوار سی تھی۔ جو درخت کے نیچے کی سمت لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ شاخیں ہٹا کر شیر کی سمت جانا ممکن نہ تھا کیونکہ شاخوں کی ہلکی سی بھی آواز سے شیر بیدار ہو جاتا۔ دوسری سمت سے ریت پر سے گزر کر اس تک پہنچنا بھی مشکل تھا کیونکہ کنارے کی ڈھلوان سے ریت کے سرکنے سے شیر جاگ جاتا۔ اب میرے پاس فقط یہی صورت تھی کہ میں وہیں بیٹھ کر اس بات کا انتظار کروں کہ شیر کب مجھے خود پر گولی چلانے کا موقع دیتا ہے۔

تھکاوٹ سے چور شیر پانی پینے کے بعد گہری نیند سورہا تھا۔ نصف گھنٹے تک وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ تب اس نے داہنی سمت پہلو بدلا اور اس کی ٹانگیں کچھ مزید دکھائی دینے لگیں۔ اس حالت میں وہ کچھ دیر لیٹا رہا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا اور ندی کے خم سے باہر نکل آیا۔ رائفل کے گھوڑے پر انگلی رکھے میں اس کے دوبارہ نمودار ہونے کا منتظر رہا کیونکہ اس کا شکار میرے عقب میں پہاڑی کے پیچھے تھا۔ چند منٹ گزر گئے۔ پھر ایک ہرن کی تیز آواز سنائی دی۔ اتنے میں ایک جنگلی مرغ بھی زور زور سے بولنے لگا۔ شیر جا چکا تھا۔ وہ کیوں چلا گیا تھا اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ اسے میری خوشبو آ گئی ہو گی ایسا نہیں تھا کیونکہ شیر میں سونگھنے کی حس نہیں ہوتی۔ خیر میرے لیئے اس میں پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ تھوڑی دیر میں ضرور اپنا شکار کھانے کے لیئے آئے گا۔ جسے وہ اتنی مشکل سے گھسیٹ کر لایا تھا۔ ندی کے جس گڑھے سے شیر نے پانی پیا تھا میں نے بھی وہیں جا کر اپنی پیاس بجھائی۔ پانی برف سا ٹھنڈا تھا۔ پانی پینے کے بعد میں نے پائپ سلگا لیا۔

سورج غروب ہونے کے قریب تھا کہ میں گائے سے دس گز دائیں طرف دیودار کے ایک درخت پر چڑھ کر آرام سے بیٹھ گیا۔ شیر نے مغرب کی سمت سے اپنے شکار کے پاس آنا تھا۔ اور میں نہ چاہتا تھا کہ اس کا شکار میرے اور اس کے درمیان ہو۔ کیونکہ شیر کی بینائی بہت اچھی ہوتی ہے۔ درخت پر سے میں سامنے پھیلی ہوئی وادی اور اس کے پیچھے پہاڑیوں کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ اور جب سورج آس پاس کی پہاڑیوں پر آگ بکھیر کر بجھنے والا تھا تو پہلے ایک بارہ سینگے کی آواز سنائی دی۔ شیر حرکت کر رہا تھا۔ اسے یہاں پہنچنے میں خاصی دیر لگنی تھی۔ اس کے باوجود اتنی روشنی متوقع تھی کہ میں بڑے آرام سے اُس پر گولی چلا سکتا تھا۔

آگ کا گولا اُفق کے پیچھے چھپ گیا۔ شفق کی سرخی ختم ہو گئی۔ ہر طرف اندھیروں کی پھُوار پڑنے لگی۔ ہر طرف ایک گہرا سکوت محیط تھا۔ ستاروں کی روشنی ہمالیہ کے دامن سے بڑھ کر کہیں اور زیادہ چمکیلی نہیں ہوتی۔ میں اس روشنی میں گائے کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ گائے کا سر میری طرف تھا اور اگر شیر پیچھے سے آ کر اسے کھانے لگتا تو میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ اس صورت میں شیر کو ہلاک کرنے کا پچاس فیصد امکان تھا۔ لیکن اسے فقط صرف زخمی کرنا مجھے نہ تھا کیونکہ زخم مندمل ہو جانے کے بعد اس بات کا زیادہ امکان تھا کہ وہ آدم خور بن جاتا۔ اب تک اس نے جنگل کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کی تھی۔ میں اسے فقط دیہاتیوں کی سہولت کی خاطر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔

مشرق کی سمت سے روشنی آ رہی تھی۔ درختوں کی شاخیں زمین پر مبہم سے سائے ڈال رہی تھیں۔ تب چاند نکل آیا اور کھلی وادی میں چاندنی کا دھارا بہنے لگا۔ اب شیر کے آنے کا وقت تھا۔ میں اسے دیکھ تو نہ سکتا تھا لیکن مجھے اس کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کیا وہ اپنے شکار سے پرے کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا؟ یہ ناممکن تھا کیونکہ میں درخت کے اوپر اس طرح چھپا بیٹھا تھا کہ اس کا ایک حصہ بن کر رہ گیا تھا اور شیر کسی وجہ کے بغیر جنگل کے ہر درخت کو بغور نہیں دیکھتا۔ اس کے باوجود شیر وہاں شیر وہاں موجود تھا اور مجھے دیکھ رہا تھا۔

اب اتنی روشنی تھی کہ میں گرد و پیش بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اپنے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ جب میں نے اپنا سر داہنی طرف پھیر کر اپنے بالکل پیچھے دیکھنے کی کوشش کی تو میری نظر شیر پر پڑی۔ وہ اپنے پنجوں کے بل زمین پر بیٹھا تھا۔ اس کا منہ اپنے شکار کی طرف تھا مگر وہ سر پھیر کر مجھے دیکھ رہا تھا۔ جب اس نے مجھے اپنی سمت دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اپنے کان ڈھیلے چھوڑ دیئے اور جب میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا تو اس نے پھر سے کان کھڑے کر لیئے۔ جیسے وہ خود سے کہ رہا ہو، "خیر اب تم نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ مگر اب تم کیا کرو گے؟” اور میں واقعی کچھ نہ کرسکتا تھا۔ کیونکہ شیر پر گولی چلانے کی خاطر مجھے درخت پر پہلو بدل کر پہلے داہنی طرف اور پھر عقب کی سمت مڑنا تھا۔ لیکن ایسا کرنا شیر کو خبردار کرنے کے مترادف تھا جو پندرہ فٹ کے فاصلے سے مجھے برابر گھُورے جا رہا تھا۔ اب اس پر گولی چلانے کا فقط ایک ہی امکان تھا اور وہ تھا بائیں کندھے کے اوپر سے۔ میں نے اس تجویز کو لباسِ عمل پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ رائفل میرے گھٹنوں پر پڑی تھی اور اس کا منہ بائیں سمت ہی تھا۔ جب میں نے اسے بڑی آہستگی سے اٹھا کر اس کا منہ ہولے ہولے اپنی داہنی سمت پھیرنا شروع کیا تو شیر نے اپنا سر نیچا اور کان چوڑے کر لیئے۔ میں وہیں کا وہیں رک گیا۔ اس پوزیشن میں شیر تب تک رہا جب تک میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا لیکن جب میں نے پھر رائفل گمانی شروع کی تو وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھا اور سایوں میں گھل مل گیا۔

شیر ایک دفعہ پھر مجھے مات دے گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ چاہے جتنی دیر تک درخت پر بیٹھا رہوں وہ واپس نہ آئے گا۔ لیکن اگر میں یہاں سے چلا جاؤں تو ممکن ہے وہ لوٹ آئے اور چونکہ وہ ساری گائے فقط ایک رات میں نہیں کھا سکتا تھا۔ لہذا اگلے دن اس سے ٹکر لینے کا مجھے ایک اور موقع مل سکتاتھا۔

اب میرے سامنے یہ سوال تھا کہ رات کہاں بسر کروں۔ اس دن میں نے پہلے ہی کوئی بیس میل کا سفر کیا تھا۔ وہاں سے ریسٹ ہاؤس آٹھ میل دور تھا۔ وہاں تک پہنچنے کی مجھ میں سکت نہ تھی اور پھر راستے میں بھرپور جنگل تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ شکار سے کوئی دو، تین سو گز کے فاصلے پر کھلی وادی میں سوجاؤں مگر مجھے آدم خور چیتے کا خیال آیا اور آدم خور چیتے ہمیشہ رات کو شکار کرتے ہیں۔ آخر مجھے دور مویشیوں کی گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آئیں۔ یہ دیہاتیوں کا کوئی پڑاؤ تھا۔ میں درخت سے اترا اور اس سمت چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد میں وہاں پہنچ گیا۔ تھکاوٹ کے مارے میری بری حالت ہو رہی تھی۔ دیہاتیوں نے میری حسبِِ توفیق خاطر تواضع کی۔ پھر میں چارپائی پر لیٹ کر پائپ پینے لگا۔

دوسری صبح سورج ابھی طلوع ہو رہا تھا کہ اپنے گرد و پیش کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی۔ تین آدمی میرے پاس کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک نے گرم گرم تازہ دودھ سے بھرا ہوا پیالہ پکڑ رکھا تھا۔ انہوں نے مجھے کھانے کی پیشکش کی مگر میں نے ان کی میزبانی کا شکریہ ادا کر کے یہ دیکھنے کی خاطر کہ اب شیر اپنا شکار کہاں لے گیا ہو گا پھر سے وادی کی سمت چل پڑا۔ مجھے دیکھ کے حیرت ہوئی کہ گائے وہیں جوں کی توں پڑی ہے۔ گِدھوں سے بچانے کی خاطر میں نے اسے شاخوں سے ڈھانپ دیا اور تازہ دم ہونے کے لیئے ریسٹ ہاؤس کی سمت چل پڑا۔

ہندوستانی ملازم اپنے آقا کے بڑے وفادار ہوتے ہیں۔ چوبیس گھنٹے کی غیر حاضری کے بعد جب میں وہاں پہنچا تو میرے ملازم حیران نہ ہوئے اور نہ ہی انہوں نے مجھ سے کوئی سوال پوچھا۔ غسل کے لیئے گرم پانی تیار تھا۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں ریسٹ ہاؤس کے سامنے والے لان میں بیٹھ کر نظروں کے سامنے پھیلی ہوئی دلکش وادی سے حظ اٹھانے لگا اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیئے۔ نینی تال سے تو میں پانار کے آدم خور چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا۔ وہی چیتا جس نے اس روز مندر کے چبوترے پر سوئے ہوئے مسافر کی ٹانگ کھینچی تھی۔ اس کے بعد اس کے متعلق کچھ نہ سنا گیا تھا۔ لوگوں سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ بعض اوقات وہ چیتا کافی عرصے کے لیئے دابیدھر سے غائب ہو جاتا ہے اور پھر ایک دن اچانک آ جاتا ہے۔ آج کل وہ وہاں سے غائب تھا اور کوئی نہ کہ سکتا تھا کہ کب واپس آئے گا۔ میں تو اصل میں اس چیتے کو ہلاک کرنے آیا تھا اور اس میں مجھے ناکامی ہوئی تھی۔ اب دابیدھر میں مزید بیٹھے رہنا میرے لیئے کسی طرح سودمند نہ تھا۔ لیکن مندر کے شیر کا مسلہ بدستور میرے سامنے تھا۔ اس شیر کو ہلاک کرنا میں کسی طرح اپنی ذمہ داری محسوس نہ کرتا تھا۔ لیکن اس کے سبب دیہاتیوں کو جو نقصان پہنچ رہا تھا اس کے پیش نظر میں نے اسے شکار کرنے کی پوری کوشش کی تھی۔ اس نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کا معاوضہ بھی ادا کیا تھا۔ مگر وہ ہر بار مجھے چکمہ دے گیا تھا۔ لیکن اتنا میں ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ اس نے مجھے شکار کے نہایت دلچسپ تجربات سے آشنا کرایا تھا۔ اس کے ہاتھوں اپنی شکستوں کے باوجود مجھے اس پر کوئی غصہ نہ تھا۔ وہ ایک نہایت ذہین شیر تھا اور میں نے اس جیسے بہت کم شیر دیکھے تھے۔ گزشتہ چار دن سے ہم ایک دوسرے سے نبرد آزما تھے۔ اور ان چار دنوں میں میں بے حد تھک گیا تھا۔ لہذا میں نے آج کا دن آرام کر کے اگلے دن نینی تال واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ ابھی میں نے یہ فیصلہ کیا ہی تھا کہ مجھے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی، "سلام صاحب! میں آپ کو بتانے آیا ہوں کہ شیر نے میری ایک گائے ہلاک کر دی ہے۔ ” شیر کو شکار کرنے کا ایک اور موقع ہاتھ لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ خواہ میں اس دفعہ کامیاب رہوں یا ناکام بہر صورت کل نینی تال ضرور لوٹ جاؤں گا۔

انسانوں اور ریچھوں کی مداخلت سے تنگ آ کر شیر نے اپنی جائے شکار بدل لی تھی اور یہ آخری شکار اس نے دابیدھر کی مشرقی پہاڑیوں پر اس جگہ سے چند میل دور ادھر کیا تھا جہاں میں گزشتہ شب اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ یہ جگہ اونچی نیچی تھی اور کہیں کہیں ہی کوئی اِکّا دُکّا درخت دکھائی دیتا تھا۔

مشرقی پہاڑیوں کے نیچے ایک وادی تھی جس میں جھاڑیاں بکثرت اُگی تھیں۔ اور ان کے درمیان کہیں کہیں گھاس کے قطعات تھے۔ انہی قطعات میں سے ایک کے کنارے شیر نے گائے ہلاک کی تھی اور اسے گھسیٹ کر بائیں سمت کی جھاڑیوں میں لے گیا تھا۔ چند قدم چلنے پر مجھے گائے نظر آ گئی۔ وہیں دیودار کا ایک درخت تھا۔ میں نے اس پر بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا۔

میرے ملازم میرے ساتھ تھے۔ وہ میرے لیئے چائے بنانے میں مصروف ہو گئے۔ میں یہ سوچ کر کہ شاید شیر کہیں آس پاس لیٹا ہو اور اس پر گولی چلانے کا مجھے موقع مل جائے۔ میں ادھر ادھر گھومنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر یہیں کہیں وادی میں لیٹا ہو گا۔ میں ایک گھنٹے تک اسے تلاش کرتا رہا مگر وہ دکھائی نہ دیا۔

جس درخت پر میں بیٹھا تھا اس کا تنا قدرے باہر کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس کے بڑے تنے پر زمین سے کوئی دو گز کے فاصلے پر گھنی شاخیں اگی ہوئی تھیں۔ جس کے باعث درخت پر چڑھنا آسان تھا۔ مگر درخت پر چڑھنے کے بعد تنے کی نیچے والی زمین گھنی شاخوں کے باعث بالکل دکھائی نہ دینی تھی۔ شام کے چار بجے میں نے اپنے ملازم روانہ کر دیئے اور خود درخت کے اوپر زمین سے کوئی بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آرام دہ جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے ملازموں سے کہا تھا کہ وہ مشرقی پہاڑی کے قریب میرا انتظار کریں۔ کیونکہ میں نے سوچا تھا کہ اگر شیر شام سے پہلے آ گیا تو بہتر ورنہ وہاں رات گزارنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔

گائے سر سبز کھلی زمین پر مجھ سے کوئی دس گز کے فاصلے پر پڑی تھی۔ اس کی پچھلی ٹانگیں جھاڑیوں کے ایک جھُنڈ کو چھو رہی تھیں۔ وہاں بیٹھے مجھے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا۔ میں اوپر نظریں اٹھائے آسمان سے گزرنے والے مختلف پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گائے کو دیکھنے کی نیت سے جونہی میں نے سر پھیرا تو شیر کا سر ان جھاڑیوں سے نمودار ہوتا ہوا دکھائی دیا جنہیں گائے کی پچھلی ٹانگیں چھو رہی تھیں۔ وہ لیٹا ہوا تھا اور اس کا سر زمین سے بہت قریب تھا اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنا ایک پنجہ بڑھایا اور پھر دوسرا اور پھر بڑی آہستگی سے پیٹ کے بل رینگ کر اپنے شکار کے پاس آ گیا۔ یہاں وہ کسی حرکت کے بغیر چند منٹ لیٹا رہا۔ تب بدستور اپنی نگاہیں مجھ پر گاڑے ہوئے اس نے منہ سے گائے کی دُم کاٹ کر اسے ایک طرف رکھا اور پھر کھانے لگا۔ تین دن پہلے ریچھ سے لڑائی کے بعد اس نے کچھ نہ کھایا تھا اور بے حد بھوکا تھا۔ وہ یوں کھا رہا تھا جیسے کوئی آدمی سیب کھاتا ہے۔ وہ کھال کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گائے کی ران سے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے پھاڑ رہا تھا۔

بندوق میری گود میں پڑی تھی اور اس کا رخ شیر کی سمت تھا۔ میں نے فقط یہ کرنا تھا کہ اسے کندھے کے قریب لا کر گھوڑے کو دبا دوں۔ یہ موقع مجھے اس وقت مل جاتا جب چند سیکنڈ کے لیئے بھی شیر اپنی نظریں اِدھر اُدھر کر لیتا۔ لیکن شاید شیر میرے دل کی بات بھانپ گیا تھا اور اس خطرے سے آگاہ تھا۔ کیونکہ وہ مجھ سے نظریں ہٹائے بغیر بڑے اطمینان سے اپنا شکار کھا رہا تھا۔ جب وہ کوئی دس بارہ سیر گوشت کھا چکا اور اس کے عَقب والی جھاڑی میں ایک بُلبُل بولنے لگی تو میں نے سوچا یہ میرے لیئے بہترین موقع ہے۔ میں رائفل کو نہایت آہستہ آہستہ اٹھاؤں تو شاید شیر کو میری ہاتھوں کی جُنبش کا پتا نہ چلے۔ اور جب بُلبُل تیزی سے بولنے لگی تو میں نے اپنی تجویز کو لباسِ عمل پہنانا شروع کر دیا۔ ابھی میں نے بندوق کو چھ انچ ہی اوپر اٹھایا ہو گا کہ شیر ایک دم ہی پیچھے کی سمت ہٹ گیا جیسے کسی بڑے سپرنگ نے اسے پیچھے کی سمت کھینچ لیا ہو۔ اب بندوق کندھے پہ جمائے اور کہنیاں گھٹنوں پر ٹکائے میں منتظر تھا کہ شیر فقط لمحہ بھر کے لیئے اپنا سر جھاڑیوں سے باہر نکالے اور مجھے یقین تھا کہ وہ ایسا ضرور کرے گا۔ وقت گزرتا گیا اور پھر مجھے شیر کی آواز سنائی دی۔ وہ جھاڑیوں کے عقب سے دبے پاؤں چل کر میرے درخت کے نیچے آ کھڑا ہوا تھا اور اب اپنے اگلے پنجوں سے درخت کے اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے اور اس کے درمیان درخت کے تنے کے گرد اگی ہوئی جھاڑیاں تھیں۔ جن کے باعث میں اسے دیکھ نہ سکتا تھا۔ شیر زور زور سے اپنے پنجے تنے کے گرد مار کر اس کی چھال کھرچ رہا تھا۔

میں جانتا تھا کہ کوّوں اور بندروں میں ظرافت کی حِس ہوتی ہے۔ لیکن اس روز مجھے پتا چلا کہ یہ حِس شیر میں بھی موجود ہے۔ نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ جنگلی جانور اس قدر خوش قسمت بھی ہوسکتا ہے جتنا یہ شیر تھا۔ گزشتہ پانچ دنوں میں اس نے پانچ گائیں ہلاک کی تھیں۔ میں نے کوئی آٹھ مرتبہ اسے دیکھا تھا اور کوئی چار مرتبہ اس پر گولی چلائی تھی۔ اور اب کوئی نصف گھنٹے تک میرے سامنے بیٹھ کر مجھے گھور کر اور اپنا شکار کھا کر میرے درخت کے گرد چکّر لگا رہا تھا۔ جیسے میرا مذاق اڑا رہا ہو۔

اس وقت مجھے مندر کے پجاری کے وہ فقرے یاد آرہے تھے جو اس نے برآمدے میں بیٹھ کر اِس شیر کے متعلق کہے تھے۔ "جناب آپ اسے بےشک ہلاک کر دیں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ مگر نہ تو آپ اور نہ ہی کوئی دوسرا شکاری، اسے ہلاک کرنے میں کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ ” پجاری نے جو کہا تھا شیر اسے ثابت کر رہا تھا۔ یہ میرا اور شیر کا آخری مقابلہ تھا۔ اس سارے وقت میں ہم دونوں کو کوئی ضرب نہ آئی تھی۔ لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ شیر اس طرح میرا مذاق اڑا کر آرام سے لوٹ جائے۔ میں نے بندوق گود میں رکھ لی اور دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں دے کر شیر کے وہاں سے ہٹنے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں شیر پورے زور سے گرجا۔ آس پاس کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ تب شیر پوری رفتار سے بھاگتا ہوا وادی کے نیچے اتر گیا۔ اتنے میں میرے آدمی بھی وہاں آ پہنچے۔ وہ کہنے لگے "ہم نے شیر کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی دُم ہوا میں اٹھی ہوئی تھی۔ اور یہ دیکھیئے اس نے درخت کا کیا حشر کیا ہے۔ ” کچھ دیر اور اگر شیر درخت کو یونہی نوچتا رہتا تو وہ گر ہی جاتا۔

دوسرے دن میں دابیدھر سے رخصت ہو گیا لیکن وہاں سے جانے سے پہلے میں نے اپنے دوستوں کو یقین دلایا کہ جب آدم خور چیتے کی سرگرمیاں یہاں بڑھ جائیں گی تو میں پھر آ جاؤں گا۔

بعد میں مجھے کئی مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ لیکن میں نے کسی سے بھی یہ نہ سنا کہ کسی شکاری نے مندر کے شیر کو ہلاک کیا ہے۔

٭٭٭

آنجہانی کرنل جم کار بٹ کی کتاب "Temple Tiger & More Man-Eater of Kumaon” کے پہلے باب "Temple Tiger” کا ترجمہ ہے۔

 

 

 

 

مکتیسر کی آدم خور شیرنی

 

 

 

نینی تال سے اٹھارہ میل شمال مشرق کی طرف آٹھ ہزار فٹ اونچی اور پندرہ میل لمبی ایک پہاڑی ہے جو مغرب سے مشرق کو پھیلی ہوئی ہے۔ اس پہاڑی کا مغربی کنارا ایک دم اوپر کو اٹھا ہوا ہے اور اس کنارے کے نزدیک مکتیسر جانوروں کی بیماریوں کا تحقیقاتی ادارہ ہے۔ جہاں ہندوستان میں حیوانات کی بیماریوں کی روک تھام کے لیئے مختلف ادویات کی تحقیق کی جاتی ہے۔ اس ادارہ کی تجربہ گاہ اور اسٹاف کے کوارٹر پہاڑی کے شمالی حصّے پہ واقع ہیں۔ پہاڑی کے اس شمالی حصّہ کا شمار ہمالیہ کے بہترین نظاروں میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے مکتیسر دیکھا ہے یا وہاں رہے ہیں ان کا خیال ہے کہ یہ علاقہ کماؤں کا خوبصورت ترین علاقہ ہے اور یہاں کی آب و ہوا کا جواب نہیں۔

ممکن ہے مکتیسر کی خوبصورتی کا احساس ایک شیرنی کو بھی ہو گیا ہو کیونکہ اس نے وہاں کے قریبی گھنے جنگلات کو اپنا مسکن بنا لیا۔ وہاں اس کے دن بڑے مزے سے گزرتے تھے کیونکہ وہاں ہرن وغیرہ عام تھے، لیکن بدقسمتی سے ایک دن اس کا مقابلہ خارپشت سے ہو گیا۔ اس مقابلہ میں اس کی ایک آنکھ جاتی رہی اور اس کے جسم پہ کوئی پچاس زخم آئے جو ایک انچ سے نو انچ لمبے تھے۔ بعض زخموں میں خار پشت کے کانٹے ٹوٹ گئے تھے اور جب شیرنی نے انہیں اپنے دانتوں سے نکالنا چاہا تو وہ زیادہ گہرے زخم بن گئے۔ ایک دن جبکہ وہ بھوکی پیاسی ایک جگہ لمبی لمبی گھاس میں لیٹی اپنے زخم چاٹ رہی تھی ایک عورت اپنے مویشیوں کے لیئے گھاس کاٹنے ادھر آ نکلی۔ پہلے تو شیرنی نے اس کی پرواہ نہ کی لیکن جب وہ عورت گھاس کاٹتی کاٹتی بالکل اس کے قریب آ گئی اور اس کی درانتی شیرنی کے جسم سے ٹکرائی تو شیرنی نے غصّے میں آ کر اسے ایک تھپڑ رسید کیا۔ عورت وہیں ڈھیر ہو گئی۔ اس عورت کو وہیں چھوڑ کر شیرنی لنگڑاتی ہوئی ایک میل دور چلی گئی اور ایک اکھڑے ہوئے درخت کے خالی تنے میں پناہ گزیں ہو گئی۔ دو دن بعد ایک آدمی اس درخت سے ایندھن کاٹنے کے غرض سے وہاں آیا۔ شیرنی نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ اس آدمی کا جسم درخت کے دونوں جانب لٹکنے لگا۔ ممکن ہے اس کے جسم سے خون کو بہتا دیکھ کر شیرنی کو پہلی مرتبہ خیال آیا ہو کہ یہ بھی کوئی کھانے والی چیز ہے اور وہ اس سے اپنی بھوک مٹا سکتی ہے۔ بہر حال بات کچھ بھی ہو، اپنے شکار کو چھوڑنے سے پہلے شیرنی نے اس کی پشت کا تھوڑا سا حصہ کھایا۔ تیسرے دن اس نے جان بوجھ کے ایک تیسرے شخص کو ہلاک کیا۔ اس کے بعد وہ ایک مسلّمہ آدم خور بن گئی۔

شیرنی نے ابھی انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اس کی اطلاع مجھ تک پہنچ گئی۔ چونکہ مکتیسر میں شکاری پہلے ہی سے موجود تھے اور جن میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ وہ شیرنی کو شکار کرے لہذا میں نے ان کے معاملے میں دخل انداز ہونے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لیکن جب شیرنی نے تقریباً چوبیس افراد ہلاک کر ڈالے اور وہاں کے باشندوں اور تحقیق گاہ میں کام کرنے والے ملازمین کی جانوں کو ہر وقت خطرہ رہنے لگا تو تحقیق گاہ کے انچارج افسر نے حکومت سے میری خدمات حاصل کرنے کی درخواست کی۔

حالات سے پتا چلتا تھا کہ میرا کام آسان نہ ہو گا کیونکہ اس وقت تک ایک تو میرا آدم خوروں کو ہلاک کرنے کا تجربہ خاصا محدود تھا۔ دوسرا شیرنی ایک وسیع رقبہ پر گشت کرتی تھی اور کوئی علم نہ تھا کہ اس سے کہاں سامنا ہو جائے۔

میں نینی تال سے دوپہر کے وقت تین ملازموں کے ہمراہ روانہ ہوا اور دس میل کا سفر طے کر کے رات رام گڑھ کے ڈاک بنگلے میں بسر کی۔ ڈاک بنگلے کا خانساماں میرا پرانا دوست تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں آدم خور شیرنی کو ہلاک کرنے جا رہا ہوں تو اس نے مجھے تنبیہ کی کہ میں وہاں سے مکتیسر کے آخری دو میل بڑی احتیاط سے طے کروں کیونکہ گزشتہ چند دنوں میں شیرنی نے اس راستے پر تین چار مسافروں کو ہلاک کیا تھا۔

اپنے ملازموں کو یہ ہدایت کر کے کہ وہ سامان باندھ کر میرے پیچھے چلے آئیں ، خود میں صبح سویرے بندوق لے کر نینی تال اور الموڑا سڑک کے سنگم پر پہنچ گیا۔ جہاں سے مکتیسر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ یہاں سے محتاط ہو کر سفر کرنا ضروری تھا کیونکہ اب میں آدم خور کی حدود میں داخل ہو رہا تھا۔ یہاں سے سڑک تھوڑی دور تک سیدھی جاتی تھی اور پھر پیچاک میں الجھ جاتی تھی۔ سڑک کے سیدھے حصے پر دونوں جانب بڑے خوبصورت پہاڑی پھول کھلے تھے۔ اس پہاڑی پر چڑھنے کا میرا یہ پہلا موقع تھا۔ راستے میں قدم قدم پر غار تھے جن میں پہاڑی ہوائیں سستا رہی تھیں۔ سڑک پر جھکی ہوئی چٹانیں تھیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بعض غار بےحد گہرے ہیں اور وہ زمین کی سطح کو چھو رہے ہیں۔

مکتیسر شروع ہونے سے پہلے پہاڑی پر ایک چھوٹا سا میدان ہے۔ جہاں مکتیسر کا ڈاک خانہ ہے اور وہیں سے بازار بھی شروع ہو جاتا ہے۔ ابھی تک ڈاک خانہ نہیں کھلا تھا۔ فقط ایک دوکان کھلی تھی جس کے مالک نے مجھے ڈاک بنگلے کا راستہ بتایا جو وہاں سے پہاڑی کے شمالی حصے پر تقریباً نصف میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ مکتیسر میں دو ڈاک بنگلے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمین کے لیئے اور دوسرا عوام کے لیئے۔ مجھے یہ معلوم نہ تھا مگر میرے دوکاندار دوست نے مجھے سرکاری ملازم سمجھ کر سرکاری ڈاک بنگلے کا راستہ بتا دیا جس کے باعث وہاں کے خانساماں کو میرے لیئے ناشتہ تیار کرنے کے لیئے مفت کی تکلیف اٹھانی پڑی۔

میں ناشتہ کرنے میں مصروف تھا اور اپنے سامنے پھیلے ہوئے برف کے دلفریب نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ میرے سامنے بارہ انگریزوں کی ایک پارٹی گزری جنہوں نے رائفلیں اٹھا رکھی تھیں۔ ان کے پیچھے ایک سارجنٹ اور دو آدمی جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ میرے پوچھنے پر سارجنٹ نے مجھے بتایا کہ یہ پارٹی آدم خور کے ڈر سے اکٹّھی ہو کر سفر کر رہی ہے۔ سارجنٹ ہی سے مجھے پتا چلا کہ حکومت نے ادویات کی تحقیق گاہ کے انچارج افسر کو بذریعہ تار اطلاع دے دی ہے کہ میں اس کی درخواست پر وہاں پہنچ رہا ہوں۔ سارجنٹ نے امید کا اظہار بھی کیا کہ میں آدم خور کو ہلاک کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا کیونکہ اس بستی میں حالات بڑے ابتر ہو چکے تھے۔ دن کے وقت بھی کوئی تنہا چلنے پھرنے کی جرات نہیں کرتا اور شام پڑتے ہی لوگ گھروں کے دروازے مقفل کر لیتے ہیں۔ آدم خور کو ہلاک کرنے کی بہت سی کوششیں کی گئی تھیں لیکن سب بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ شیرنی اپنے شکار کو دوبارہ کھانے کبھی نہ آتی تھی۔

ناشتے کے بعد میں نے خانساماں کو ہدایت کی کہ جب میرے آدمی وہاں پہنچ جائیں تو وہ انہیں بتا دے کہ میں آدم خور کا اتا پتا لگانے نکل گیا ہوں اور نہ جانے کب واپس آؤں گا۔ پھر میں نے رائفل اٹھائی اور ڈاک خانہ کی طرف چل پڑا تاکہ اپنے گھر یہاں بخیریت پہنچنے کی اطلاع پہنچا سکوں۔

جب میں تار دینے ڈاک خانے میں آیا تو تار کے فارم پر میرے دستخط دیکھ کر پوسٹ ماسٹر میرے قریب آیا اور مجھے بڑے تپاک سے ملا۔ اور لوگ بھی وہاں جمع ہو گئے اور سب کے سب آدم خور کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ وہ میری ہر طرح سے مدد کو تیار تھے۔ ان کے اس جذبے سے مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ ان کی باتوں سے مجھے آدم خور کے بارے میں بہت سی مفید اطلاعات حاصل ہوئیں۔ دیہی ہندوستان میں ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان کی وہی حیثیت ہے جو دوسرے ملکوں میں سرائے اور کلبوں کی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں اگر کسی خاص موضوع پر اطلاعات جمع کرنی ہوں تو اس کے لیئے ڈاک خانہ اور بنیئے کی دوکان مرکز ثابت ہوتے ہیں۔

ڈاک خانے سے کوئی دو میل بائیں جانب ایک ہزار فٹ نیچے ایک باغ ہے جسے بدری شاہ کا باغ کہا جاتا ہے۔ بدری میرے ایک پرانے دوست کا بیٹا تھا جو چند ماہ پہلے میرے پاس نینی تال آیا تھا اور اس نے وعدہ کیا تھا کہ آدم خور کو ہلاک کرنے میں وہ ہر طرح سے میری مدد کرے گا۔ یہ پیشکش اس وقت میں نے قبول نہ کی تھی۔ لیکن اب جب حکومت کی درخواست پر میں مکتیسر پہنچ گیا تھا میں نے فیصلہ کیا کہ بدری کے پاس جاؤں اور وہ جس قسم کی مدد مجھے دے اسے قبول کر لوں۔ خاص طور پر موجودہ حالات میں جبکہ شیرنی نے اپنا آخری انسانی شکار اس کے باغ کے تھوڑے فاصلے پہ کیا تھا۔

اپنے اردگرد کھڑے لوگوں کا شکریہ ادا کر کے اور ان سے یہ کہہ کر کہ میں ان کی مدد پر بھروسہ کروں گا۔ میں دھاری سڑک کی طرف چل پڑا۔ اب دن اچھی طرح نکل چکا تھا اور بدری کے گھر جانے سے قبل میں نے سوچا کہ گرد و نواح کی پہاڑیوں کا ایک چکر لگا لوں۔ سڑک پر کوئی سنگ میل نہ تھا۔ تقریباً چھ میل کا فاصلہ طے کر کے اور دو قریبی دیہاتوں کی سیر کر کے میں واپس چل پڑا۔ ابھی میں نے نصف سفر طے کیا تھا کہ مجھے ایک چھوٹی سی لڑکی ملی جسے ایک بیل تنگ کر رہا تھا۔ لڑکی کی عمر کوئی آٹھ برس کی تھی۔ وہ بیل کا رسّہ آگے کی طرف کھینچ رہی تھی مگر بیل پیچھے کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں اپنی ضد پر اڑے ہوئے تھے۔ لڑکی کی مدد کے طور پر میں بیل کو پیچھے سے ہانکنے لگا۔

"تم کلوے کو چرا کر تو نہیں لے جا رہی ہو؟” لڑکی بیل کو اسی نام سے بُلا رہی تھی۔

"نہیں تو۔ ” لڑکی نے قدرے ہتک محسوس کر کے اپنی بھوری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔

"یہ کس کا ہے؟”

"میرے باپ کا ہے۔ ”

تم اسے کہاں لے جا رہی ہو؟”

"اپنے چچا کے پاس۔ ”

"تمہارے چچا کو اس کی کیا ضرورت ہے؟”

"میرے چچا کا ایک بیل شیر نے ہلاک کر دیا ہے۔ اب اس کے پاس فقط ایک ہی بیل ہے۔ کھیتی باڑی کے لیئے اسے دوسرے بیل کی ضرورت ہے۔ ” لڑکی خاموش ہو گئی۔ مگر دوسرے ہی لمحے خود ہی بول پڑی، "تم شیر کو ہلاک کرنے آئے ہو؟”

"ہاں ! شیر کا شکار کرنے آیا ہوں۔ ”

"تو پھر تم میرے چچا کے مرے ہوئے بیل سے دور کیوں جا رہے ہو۔ ”

"کلوا کو تمہارے چچا کے پاس جو پہنچانا ہوا۔ ”

لڑکی میرے جواب سے مطمئن سی ہو گئی۔ لڑکی نے مجھے ایک مفید اطلاع مبہم پہنچائی تھی۔ مگر میں اس سے مزید اطلاعات حاصل کرنا چاہتا تھا۔ لہذا میں نے اس سے پوچھا۔

"کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ شیر آدم خور ہے؟”

"ہاں اس نے ہمارے گاؤں کے دو تین آدمیوں کو ہلاک کیا ہے۔ ”

اتنے میں ہم ایک ایسے چھوٹے سے مکان کے سامنے پہنچ گئے جو ایک کھیت میں واقع تھا۔ لڑکی نے اپنے چچا کو آواز دی اور اس سے کہا کہ وہ کلوے کو لے آئی ہے۔ چچا نے اندر سے آواز دی کہ وہ کھانا کھا رہا ہے۔ لڑکی نے بیل کو باہر کھونٹ پر باندھ دیا اور واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ میں بھی اس کے ساتھ ہولیا۔

"کیا تم مجھے بتا سکتی ہو کہ تمہارے چچا کے بیل کو شیر نے کہاں ہلاک کیا تھا؟”

"کیوں نہیں۔ ” لڑکی نے بڑے شوق سے کہا۔

"کیا تم نے مرا ہوا بیل دیکھا ہے؟”

نہیں ! وہ میرے چچا نے میرے باپ کو بتایا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ”

جہاں سے ہم گزر رہے تھے وہاں سے سڑک بڑی تنگ تھی اور ارد گرد گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ لڑکی سے باتیں کرتے وقت میں گرد و پیش کا بغور جائزہ بھی لیتا جا رہا تھا۔ ہم نے کوئی میل بھر سفر طے کیا ہو گا کہ ہمیں سڑک سے ایک کچا راستہ جنگل میں جاتا ہوا دکھائی دیا۔ لڑکی وہاں ٹھہر گئی اور اس راستے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگی۔

"چچا کا بیل اسی راستے میں کہیں مرا پڑا ہے۔ ”

اب مجھے ہر ضروری اطلاع مل چکی تھی۔ لڑکی کو بحفاظت اس کے گھر پہنچا کر میں واپس اسی جگہ پر آیا اور اس کچے راستے پر چلنے لگا کوئی دو فرلانگ چلنے پر مجھے ایک جگہ مویشیوں کے گہرے کھُروں کے نشان دکھائی دیئے۔ راستے سے ہٹ کر میں متوازی سمت میں جنگل کے اندر داخل ہو گیا۔ پچاس قدم چلنے پر مجھے ایک بڑی سی لکیر نظر آئی جیسے کسی چیز کو گھسیٹا گیا ہو۔ اس لکیر پر کوئی پچاس گز چلنے کے بعد مجھے بیل کی لاش مل گئی جو ایک پہاڑی نالے کے کنارے سے بیس قدم دور پڑی تھی۔ نالے اور لاش کے درمیان ایک سوکھا ہوا درخت تھا جس پر خاردار بیلیں چڑھی ہوئی تھیں۔ فقط یہ ہی ایک ایسا موزوں درخت تھا جس پر بیٹھ کر میں آدم خور کو ہلاک کرنے کی امید کرسکتا تھا۔ رات اندھیری ہونے کے باعث میں بیل کی لاش کے جس قدر زیادہ قریب ہوتا اسے شکار کرنے کے اتنے ہی زیادہ امکان ہوسکتے تھے۔

اس وقت دو بجے تھے۔ میرے پاس ابھی اتنا وقت تھا کہ بدری کے پاس جا سکوں۔ بدری نے میرے لیئے چائے تیار کرائی اور پھر چائے کے دوران ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ جب میں نے بدری سے پوچھا کہ اس بیل کے ہلاک کیئے جانے کی خبر مکتیسر میں دوسرے شکاریوں کو کیوں نہیں پہنچائی گئی تو اس نے جواب دیا کہ یہ شکاری اب تک اس آدم خور کو ہلاک کرنے سے معذور رہے ہیں جس کے باعث لوگوں کو اب ان پر اعتماد نہیں رہا۔ اب گاؤں والے ان تک ایسی کوئی اطلاع پہنچانا بےکار تصور کرتے ہیں۔ بدری کے نزدیک ان شکاریوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جب کبھی وہ آدم خور کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے تو اس سے پہلے بڑی شاندار تیاریاں کرتے۔ وہ راستے سے جھاڑیوں اور چھوٹے موٹے درختوں کو صاف کر دیتے اور بڑی بڑی مچانیں تیار کرتے اور ان مچانوں پر کئی کئی آدمی بیٹھے ہوتے۔ آدم خور کو فوراً معلوم ہو جاتا کہ سب تیاریاں اس کے لیئے کی گئی ہیں۔ لہذا وہ اپنے شکار کے پاس دوبارہ کبھی نہیں آتا۔ بدری کو یقین تھا کہ مکتیسر کے علاقے میں فقط ایک ہی شیر ہے اور وہ بھی اپنی دائیں ٹانگ سے قدرے لنگڑا ہے۔ مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ لنگڑا کیسے ہوا ہے اور وہ نر ہے یا مادہ۔

میں نے بدری کو اس درخت کے متعلق بتایا جس پر میں رات کو بیٹھنا چاہتا تھا۔ جب شام کے قریب میں شیر کے ہلاک کیئے ہوئے بیل کی طرف جانے لگا تو بدری اس بات پہ مصر ہو گیا کہ وہ اور اس کے دو آدمی بھی میرے ساتھ جائیں گے اور مچان تیار کرنے میں میری مدد کریں گے۔ جب انہوں نے وہ درخت دیکھا تو کہنے لگے کہ میں وہاں بیٹھ کر شیر کا انتظار نہ کروں اور اسے اتنی اجازت دوں کہ وہ اپنے شکار کو گھسیٹ کر کسی مناسب جگہ پر لے جائے جہاں سے اس پر گولی چلانا اور اسے ہلاک کرنا آسان ہو۔ اگر شیر آدم خور نہ ہوتا تو میں بھی یہی کچھ کرتا۔ مگر اب میں ہاتھ آیا ہوا موقع کھونا نہ چاہتا تھا۔ ایسا موقع جو شاید پھر کبھی میسر نہ ہو۔ اس جنگل میں ریچھ بھی تھے۔ اگر کسی ریچھ کو بیل کی خبر ہو جاتی تو اس صورت میں میں آدم خور پر گولی چلانے کا موقع بھی کھو بیٹھتا کیونکہ ہمالیہ کے ریچھ بڑے نڈر ہوتے ہیں اور وہ شیر کا شکار کھانے میں ذرا جھجک محسوس نہیں کرتے۔ جہاں تک ممکن ہوسکا میں درخت پر آرام سے بیٹھ گیا۔ بدری اور اس کے آدمی اگلی صبح آنے کا وعدہ کر کے رخصت ہو گئے۔

میرا منہ پہاڑی کی سمت اور پشت ندی کی جانب تھے۔ اگر پہاڑی سے کوئی جانور اترتا تو میں اسے صاف طور پہ دیکھ سکتا تھا۔ لیکن اگر شیر پیچھے کی جانب سے آتا، جیسا کہ مجھے توقع بھی تھی، وہ مجھے نہ دیکھ سکتا تھا۔ بیل کا رنگ سفید تھا اور اس کی ٹانگیں میری جانب تھیں۔ میرے اور اس کے درمیان کوئی پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔ میں چار بجے اس درخت پر بیٹھ گیا اور کوئی ایک گھنٹے بعد مجھ سے دو سو گز دور ندی کی سمت ایک ککر کے بولنے کی آواز آنے لگی۔ شیر حرکت کر رہا تھا۔ ککر اسے دیکھ کر چلانے لگا تھا۔ وہ بڑی دیر تک چلاتا رہا اور پھر حرکت کرنے لگا۔ اس کی آواز مدھم پڑتی گئی حتی کہ مجھ تک آنی بند ہو گئی۔ اس کا مطلب تھا کہ شیر اپنی شکار کی حدود میں داخل ہو کر کسی جگہ پر لیٹ گیا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کو یہ معلوم کرنے کے لیئے کہ آس پاس کوئی انسان ہے کہ نہیں وہاں لیٹ گیا تھا اور جب اسے یقین ہو جائے گا کہ گرد و نواح میں کوئی انسان نہیں تو وہ اپنے شکار کی سمت حرکت کرے گا۔ وقت کی رفتار مدھم ہو گئی۔ ہر طرف اندھیرا پھیل گیا۔ مرا ہوا بیل اب سفید دھبے جیسا دکھائی دے رہا تھا۔ اتنے میں ندی کی جانب مجھے ایک بھاری سر دکھائی دیا اور کسی کے چور قدموں چلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر اچانک کوئی میرے نیچے آ کر رک گیا۔ دو منٹ تک کوئی موت سی خاموشی طاری رہی اور پھر شیر درخت کے نیچے خشک پتّوں پر لیٹ گیا۔

غروب آفتاب کے وقت آسمان پہ گہرے بادل جمع ہو گئے جس سے رات اور زیادہ گہری ہو گئی۔ جس وقت وہ درخت کے نیچے سے اٹھ کر اپنے شکار کے پاس گیا تو اس وقت کثیف اندھیرے کے باعث ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میں نے اپنی آنکھوں پر بےحد زور دیا مگر اب سفید بیل بھی مجھے نہ دکھائی دے رہا تھا۔ شیر کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ اپنے شکار تک پہنچ کر شیر اسے سونگھنے لگا۔ مجھے شیر پر گولی چلانے کی کوئی جلدی نہ تھی۔ اگرچہ وہ میرے قریب تھا لیکن جب تک میں درخت پر حرکت نہ کرتا اسے معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ میں وہاں موجود ہوں۔ میں تاروں کی روشنی میں آس پاس دیکھنے کا عادی ہو چکا ہوں۔ مگر اس رات تو آسمان پر کوئی تارا بھی نہ تھا اور نہ ہی بادلوں میں بجلی کی چمک تھی۔ شیر نے ابھی تک اپنے شکار کو ہلایا نہ تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ اپنے شکار کی دائیں جانب لمبائی کے رخ پر لیٹا ہوا تھا۔

گھنی تاریکی نے میری بصارت ناکارہ کر دی تھی لہذا میں نے اپنی سماعت پر اعتبار کرنا مناسب خیال کیا۔ میں نے رائفل اٹھائی اور اپنی کہنی کو اپنے گھٹنے پر رکھ کر شیر کی آواز پر بڑی احتیاط سے نشانہ باندھا۔ نشانہ باندھ کر میں نے پھر اپنے کان آواز پر لگا دیئے اور مجھے احساس ہوا کہ میری نشست شیر سے ذرا اوپر ہے۔ لہذا میں نے بندوق کی نالی ذرا نیچے کی اور یقین کی خاطر پھر سے کان آواز پر لگا دیئے۔ چند دفعہ میں نے یونہی کیا اور جب میں مطمئن ہو گیا کہ میرا نشانہ صحیح ہے تو میں نے لبلبی دبا دی۔ دو ہی چھلانگوں میں شیر ندی کی بیس فٹ چوڑی پٹری پھلانگ چکا تھا۔ چند لمحے خشک پتّوں پر شیر کے قدموں کی آواز آتی رہی اور پھر گمبھیر خاموشی طاری ہو گئی۔ اس خاموشی کی دو طرح توجیہہ کی جا سکتی تھی۔ یا تو شیر وہاں پہنچ کر مرگیا تھا یا پھر اسے گولی لگی نہ تھی۔ رائفل کو کندھے پہ رکھے میں تین چار منٹ تک کوئی آواز سننے کی کوشش کرتا رہا۔ جب مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی تو میں نے رائفل کندھے پر سے ہٹا لی۔ دوسرے ہی لمحے ندی کے کنارے پر سے شیر کے غرانے کی آواز آئی جس کا مطلب تھا وہ زخمی نہیں ہوا اور اس نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ میں درخت پر زمین سے کوئی دس فٹ بلندی پر بیٹھا تھا۔ چونکہ وہاں بیٹھنے کا انتظام تسلی بخش نہ تھا لہذا میں آہستہ آہستہ نیچے کو سرک رہا تھا اور اس وقت زمین سے کوئی آٹھ فٹ اونچا تھا اور میرے پاؤں نیچے کو لٹک رہے تھے اور مجھ سے بیس فٹ کے فاصلے پر ایک آدم خور شیر غرا رہا تھا۔

دن کے وقت اگر آپ نے شیر دیکھ لیا ہو مگر اس نے آپ کو نہ دیکھا ہو تو یہی صورت حال آپ کے خون کی گردش تیز کر دینے کے لیئے کافی ہوتی ہے۔ لیکن جب رات ہو اور وہ بھی اندھیری رات اور شیر بھی آدم خور ہو اور آپ یہ بھی جانتے ہوں کہ شیر آپ کی طرف گھور رہا ہے تو یہ صورت حال خون میں طوفان برپا کر دیتی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ شیر اپنی ضرورت سےے زیادہ شکار نہیں کرتا۔ بشرطیکہ اسے تنگ نہ کیا جائے۔ شیر کے لیئے بیل دو تین دن کے لیئے کافی تھا اور اسے مجھے ہلاک کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ اس کے باوجود میں بےچین تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ شیر غیر معمولی فطرت کا مالک نہ نکلے۔ ویسے میں درخت پر محفوظ تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ میں سوجاتایا درخت سے گر پڑتا اور شیر کے ہاتھ آ جاتا۔ میں نے سوچا اب بےکار بیٹھنے سے سگریٹ پینا بہتر ہو گا۔ میں نے سگریٹ سلگایا تو شیر ندی کے کنارے سے ذرا پرے ہٹ کر غرانے لگا۔ میں نے تین سگریٹ پیئے۔ اس دوران شیر میری طرف گھورتا رہا۔ آخر بارش آ گئی۔ میں نے ہلکے کپڑے پہن رکھے تھے۔ تھوڑی دیر میں میں سردی سے ٹھٹھرنے لگا۔ مجھے معلوم تھا کہ بارش سے بچنے کے لیئے شیر کسی گھنے درخت یا کسی چٹان کے نیچے پناہ گزین ہو گیا ہو گا۔ بارش رات گیارہ سے صبح چار بجے تک ہوتی رہی۔ جب یہ رکی تو مطلع صاف ہو گیا۔ اب میری تکلیف میں اضافہ کرنے کے لیئے تیز ہوا چلنے لگی اور میں سردی سے منجمد ہوا جا رہا تھا۔

صبح کے وقت ابھی سورج ہی نکل رہا تھا کہ بدری گرم چائے کی کیتلی لیئے وہاں پہنچ گیا۔ اس نے میری رائفل پکڑی اور ااس کے دونوں آدمیوں نے مجھے بڑی احتیاط سے درخت پر سے اتارا۔ میری ٹانگیں جڑ گئی تھیں اور وہ کام کرنے سے انکار کر رہی تھیں۔ دونوں اچھے آدمی مجھے زمین پر لٹا کر میرے جسم کی مالش کرنے لگے جس سے تھوڑی دیر بعد میرا خون گردش کرنے لگا۔ میں نے اس سے پہلے فقط آواز پر نشانہ باندھ کر گولی چلانے کا تجربہ نہ کیا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ میری گولی شیر کے سر سے فقط دو تین انچ ادھر لگی ہے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔

واپسی پر راستے میں بارش کے سبب کیچڑ ہو گیا تھا۔ بدری کا ایک آدمی ناشتہ وغیرہ تیار کرنے کے لیئے ہم سے بیس منٹ پہلے روانہ ہو چکا تھا۔ جب ہم اس کچے راستے پر گئے جو بدری کے گھر جاتا تھا تو اس آدمی کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ تھوڑی دور آگے چل کر یکایک ہمیں ایک شیرنی کے پنجوں کے نشان بھی دکھائی دیئے۔ جیسے وہ ندی کے کنارے سے ایک دم چھلانگ لگا کر اس راستے پر اتر آئی ہو۔

بدری کے آدمی کے قدموں اور شیرنی کے پنجوں کے نشانات سے پتہ چلتا تھا کہ وہ دونوں بڑی تیزی سے سفر کر رہے تھے۔ بدری اور میں کچھ بھی نہ کرسکتے تھے۔ ۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں وہ شخص ہم سے بیس منٹ پہلے روانہ ہو چکا تھا۔ اگر وہ اب تک بدری کے گھر بحفاظت پہنچ چکا ہے پھر تو ٹھیک ہے ورنہ ہم اس کے لیئے کچھ نہ کرسکتے تھے۔ ہم نے اپنی رفتار تیز کر دی اور یہ جان کر ہمارے دم میں دم آیا کہ بدری کے باغ سے تھوڑی دور اس طرف شیرنی نیچے کی طرف مڑ گئی تھی اور وہ آدمی خیریت سے باغ میں داخل ہو چکا تھا۔ بعد میں جب اس آدمی سے پوچھا گیا تو اس نے شیرنی کے تعاقب کے متعلق لا علمی کا اظہار کیا۔

کپڑے خشک کرتے وقت میں نے بدری سے اس راستے کے متعلق پوچھا جدھر شیرنی گئی تھی۔ اس نے بتایا کہ راستہ گھنے درختوں سے ڈھکے ہوئے ایک نالے کی طرف جاتا ہے جو کوئی دو میل آگے جا کر ایک اور نالے سے مل جاتا ہے۔ اس سنگم کے قریب گھاس کا ایک کشادہ قطعہ ہے۔ بدری کا خیال تھا کہ شیرنی وہاں جا کر دن بھر آرام کرے گی کیونکہ اس کے آرام کرنے کی وہ مثالی جگہ تھی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی طرح وہاں پہنچ کر شیرنی کو شکار کرنے کے لیئے قسمت آزمائی کرنی چاہیئے۔ لیکن ابھی ہمیں ابھی یہ یقین نہ تھا کہ شیرنی وہاں پہنچی ہے کہ نہیں۔ اس کے لیئے بہترین طریقہ یہ تھا کہ کچھ آدمی اکٹھے ہو جائیں جو نصف دائرے کی شکل میں ڈھول وغیرہ بجاتے ہوئے شیرنی کو گھاس کے اس قطعے تک لے جائیں۔ بدری نے اپنے مالی گوبند کو بلایا۔ گوبند نے بتایا کہ اس کے پاس تیس کے قریب آدمی موجود ہیں۔

اس منصوبے کے بعد میں اپنی رائفل صاف کرنے لگا۔ دوپہر کے وقت گوبند تیس آدمی لے کر آ گیا۔ گوبند اور اس کے آدمی مقامی باشندے تھے اور جانتے تھے کہ انہیں کس جگہ آدم خور سے خطرہ ہوسکتا ہے۔ میں نے انہیں اپنے منصوبے سے آگاہ کر دیا تو وہ اس پر عمل کرنے کو تیار ہو گئے۔ گوبند نے اپنے آدمی دو گروہوں میں تقسیم کر دیئے۔ ایک کا انچارج وہ خود بن گیا اور دوسرے کا سربراہ ایک معتبر آدمی کو بنا دیا۔ اب منصوبہ یہ تھا کہ ایک گھنٹے بعد بدری بندوق کی ایک گولی چلائے گا اور دونوں گروہ ندی کے دونوں کناروں پر شور مچاتے اور ڈھول پیٹتے روانہ ہو جائیں گے۔ یہ منصوبہ تو بہت اچھا تھا مگر مجھے شبہ تھا کیونکہ بعض اوقات شیر خلاف توقع حرکت کر جاتا ہے۔

صبح جس راستے پر میں نے آدم خور کے پنجوں کے نشانات دیکھے تھے ان پر چلتے ہوئے میں نے دیکھا کہ شیرنی جھاڑیوں کے گھنے خطے میں داخل ہو گئی تھی۔ چند سو گز چلنے کے بعد میں نے دیکھا کہ پہاڑی کو کئی چھوٹے چھوٹے ندی نالوں نے کاٹ رکھا تھا۔ اب میں گھاس کے اس قطعے کو تلاش کر رہا تھا جہاں گوبند اور اس کے ساتھیوں نے شیرنی کو گھیر کر لانا تھا۔ چند قدم آگے گیا تو ایک جگہ مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ وہاں ایک گائے کی لاش پڑی تھی جسے کم از کم ایک ہفتے پہلے ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کی گردن پر پنجوں کے نشانوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اسے کسی شیر نے ہلاک کیا ہے۔ میں اس ڈھانچے کو کھینچ کر پہاڑی کے کنارے پر لے آیا اور اسے نیچے وادی میں لڑھکا دیا۔ ڈھانچہ تھوڑی دیر تک لڑھکتا رہا اور پھر ایک کھڈ میں جا کر رک گیا۔ بائیں طرف مڑ کر جب میں نیچے کی طرف اترا تو مجھے کوئی تین سو گز کے فاصلے پر گھاس کا ایک کھلا قطعہ دکھائی دیا۔ یہ جگہ اس جگہ سے بہت مختلف تھی جس کا نقشہ میں نے اپنے ذہن میں بنا رکھا تھا۔ وہاں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں میں آرام سے بیٹھ سکتا۔ شیرنی کسی بھی طرف سے آ کر مجھ پر حملہ آور ہوسکتی تھی۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی اور میں کچھ نہ کرسکتا تھا کیونکہ بدری نے بندوق سے گولی چلا دی تھی اور اس کے آدمی دو گروہوں میں بٹ کر ندی کے دونوں کناروں پر چلنے کو تیار تھے۔ اتنے میں دور فاصلے پر مجھے لوگوں کے شور مچانے کی آوازیں سنائی دیں۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ وہ لوگ میری طرف آرہے ہیں مگر شور بتدریج مدھم پڑتا گیا اور پھر اس کی آواز مجھ تک پہنچنی بند ہو گئی۔ ایک گھنٹے بعد مجھے پھر شور سنائی دیا۔ جب وہ میری داہنی سمت کو میری سطح پر آ گئے تو میں نے انہیں بلند آواز میں شور بند کرنے اور اپنے قریب آنے کو کہا۔ ہمارا منصوبہ غلط ثابت ہوا تھا۔ میں نے گھاس کے قطعے کو پہلے سے نہ دیکھ رکھا تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس آدمی بھی بہت کم تھے اور وہ بھی غیر تربیت یافتہ۔ وہ پہاڑی علاقہ بے حد وسیع اور گھنا تھا۔ وہاں تو سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت تھی۔

ان آدمیوں کو جھاڑیوں میں سے گزرتے وقت بڑی دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ میرے گرد بیٹھے اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے کانٹے نکالنے اور میرے سگریٹ پینے لگے۔ اس دوران گوبند مجھے بتا رہا تھا کہ ہمیں اپنا یہ منصوبہ کل پر ملتوی کرنا چاہیئے کیونکہ کل تک مکتیسر سے بہت سے آدمی جمع کیئے جا سکتے ہیں۔ اچانک گوبند نے اپنا ایک جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ جس سے پتا چلتا تھا کہ اس نے میرے پیچھے کوئی غیر معمولی چیز دیکھی ہے۔ میں نے ایک دم پلٹ کے دیکھا۔ وہاں ایک ویران کھیت میں شیرنی بڑی خاموشی سے چلی آ رہی تھی۔ وہ ندی کے دوسرے کنارے پر ہم سے کوئی چار سو گز دور تھی اور ہماری سمت آ رہی تھی۔

جب جنگل میں کوئی شیر آپ کی طرف بڑھ رہا ہو تو آپ کے ذہن میں بجلی کی سی تیزی سے وہ خیالات آتے ہیں جو شیر پر گولی چلانے یا اس کی تصویر اتارنے کے سلسلے میں آپ کی کوشش کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ شیرنی کو ندی تک پہنچنے کے لیئے ابھی تین سو گز طے کرنے تھے۔ ان میں سے دو سو گز زمین ایسی تھی جہاں کوئی درخت نہ تھا۔ شیرنی سیدھی ہماری طرف آ رہی تھی اور وہ کسی لمحے بھی ہمیں دیکھ سکتی تھی۔ میں اسے دیکھنے کے سوا اور کچھ نہ کرسکتا تھا۔ مکتیسر کے باشندے اسے لنگڑی شیرنی کہتے تھے مگر مجھے وہ لنگڑی دکھائی نہ دیتی تھی۔ میرے ذہن میں بجلی کی طرح یہ منصوبہ آیا کہ جونہی شیرنی کھلے میدان سے جنگل میں داخل ہو تو میں بھاگ کر آگے جاؤں اور جب وہ ندی پار کرنے لگے تو اس پر قسمت آزمائی کروں۔ اگر میرے اور شیرنی کے درمیان کو باڑ وغیرہ ہوتی تو میں اسی وقت آگے بڑھ کر اس کے عقب سے شیرنی پر کھلے میدان میں ہی گولی چلا دیتا اور اگر نشانہ خطا ہو جاتا تو اسے ندی پر روک کر دوبارہ گولی چلاتا۔ لیکن چونکہ وہاں باڑ موجود نہ تھی اس لیئے مجھے اس وقت تک انتظار کرنا پڑا جب شیرنی کھلے میدان سے جھاڑیوں میں داخل ہوئی۔ جب شیرنی نظروں سے اوجھل ہوئی تو میں آدمیوں سے یہ کہہ کر کہ میرے آنے تک وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلیں ، آہستہ آہستہ ندی کی طرف چل پڑا۔ تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ راستے میں مجھے جنگلی گلاب کی ایک جھاڑی دکھائی دی جو چند گز پھیلی ہوئی تھی۔ اس جھاڑی کے درمیان میں ایک سرنگ سی تھی۔ جب میں اس سے گزرنے لگا تو میرا ہیٹ کانٹوں میں الجھ کر گر پڑا جس سے میرے سر میں کئی کانٹے داخل ہو گئے جنہیں بعد میں گھر پہنچنے پر میری بہن میگی نے بڑی مشکل سے نکالا۔ میرے سر سے خون بہہ رہا تھا مگر میں اسی حالت میں اس گڑھے کی طرف بھاگ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے میں نے مردہ گائے کا ڈھانچہ پھینکا تھا۔ آخر میں وہاں پہنچ گیا۔ وہ گڑھا چالیس گز لمبا اور تیس گز چوڑا تھا۔ اس گڑھے کا بالائی حصہ گھنی جھاڑیوں سے ڈھکا ہوا تھا مگر نچلا حصہ بالکل صاف تھا۔ جب میں اس گڑھے کے دھانے پر پہنچا تو اندر سے مجھے ہڈیاں ٹوٹنے کی آواز آئی۔ شیرنی مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکی تھی اور گزشتہ رات کی بھوک مٹا رہی تھی۔

اگر گائے کو چھوڑ کر شیرنی باہر نکلتی تو میں اس پر بخوبی گولی چلا سکتا تھا۔ لیکن اگر وہ گڑھے کے بالائی حصے سے جھاڑیوں کے اندر سے پہاڑی کی چوٹی کی سمت چلی جاتی تو میرے لیئے اسے دیکھنا محال تھا۔ گھنی جھاڑیوں سے جہاں سے شیرنی کی آواز آ رہی تھی۔ ایک تنگ سا راستہ میرے پہلو سے گزرتا ہوا ایسی چٹان کی طرف جاتا تھا جس کے نیچے پچاس گز کے فاصلے پر ندی بہہ رہی تھی۔ وہاں کچھ کھلی زمین بھی تھی۔ میں اس امکان پر غور کر رہا تھا کہ شیرنی کو کسی نہ کسی طرح اس کھلی زمین کی طرف لے جایا جائے۔ اس کی یہی صورت تھی کہ پہاڑی پر ایک پتھر پھینک کر شیرنی کو خبردار کیا جائے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے اپنے عقب سے آواز سنائی دی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو گوبند میرا ہیٹ لیئے کھڑا تھا۔ اس زمانے میں کوئی یورپین ہیٹ کے بغیر باہر نہ پھرا کرتا تھا۔ ہیٹ کو جھاڑیوں میں الجھا ہوا دیکھ کر گوبند اسے مجھے دینے آیا تھا۔ ہمارے نزدیک پہاڑی میں ایک غار سا تھا۔ میں نے اپنی ایک انگلی ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے گوبند کو بازو سے پکڑا اور اسے اس غار میں دھکیل دیا۔ وہ اس غار میں دبک کر بیٹھ گیا، میرا ہیٹ اس کے ہاتھوں میں لٹک رہا تھا۔ گڑھے میں ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سن کر اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا اور اس پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔ ادھر سے فارغ ہو کر جب میں دوبارہ گڑھے کے منہ پر آیا تو شیرنی نے گوشت کھانا بند کر دیا تھا یا تو اس نے مجھے دیکھ لیا تھا یا گائے کا گوشت اس کے لیئے ناکافی ثابت ہوا تھا۔ خاصی دیر تک نہ تو گڑھے میں کوئی حرکت ہوئی اور نہ ہی کوئی آواز سنائی دی۔ آخر وہ مجھے دکھائی دی۔ وہ مخالف سمت سے گڑھے کے کنارے پر چڑھی اور پہاڑی چڑھنے لگی۔ جھاڑیوں میں سے وہ مجھے تھوڑی تھوڑی دکھائی دے رہی تھی۔ اس امید کے ساتھ کہ میری گولی جھاڑیوں سے گزر کر شیرنی کو لگے گی۔ میں نے جلدی سے بندوق اٹھائی اور نشانہ لے کر لبلبی دبا دی۔ گولی چلنے پر شیرنی ایک دم پیچھے کو مڑی اور دوبارہ گڑھے کے کنارے کی طرف آئی۔ اس کے پاس سے گزر کر میرے راستے کے قریب سے بھاگنے لگی۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ گولی اس کے کان کے قریب لگی ہے اور وہ ایک آنکھ سے اندھی ہے۔ وہ فقط گھبرائی ہوئی نظر آ رہی تھی جیسا کہ خطرے کے وقت اکثر جانوروں کی کیفیت ہو جاتی ہے۔ اسے یہ معلوم ہوسکا تھا کہ گولی کس سمت سے آئی تھی۔ خیر جو کچھ بھی تھا، ایک زخمی اور بپھری ہوئی شیرنی میرے سمت آ رہی تھی۔ جب وہ مجھ سے دو گز کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے جلدی سے نشانہ لے کر گولی چلا دی۔ شیرنی پورے زور سے اچھلی اور اندھا دھند چٹان کے اوپر سے چھلانگ لگا کر بڑے دھماکے سے ندی میں کود گئی۔ میں نے اوپر سے جھانک کر دیکھا تو شیرنی کا جسم پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور اس کی ٹانگیں اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ اس کے ارد گرد کا پانی خون سے سرخ ہو رہا تھا۔

گوبند ابھی تک اسی غار میں دبکا بیٹھا تھا۔ میری طرف سے اشارہ پاکر وہ میرے پاس آ گیا۔ شیرنی کو دیکھ کر وہ مڑا اور آدمیوں کی طرف منہ کر کے بلند آواز میں چلانے لگا، "شیر مرگیا! شیر مرگیا۔ ” وہ آدمی بھی شور مچانے لگے۔ ان کی آواز سن کر بدری نے اپنی رائفل سے ہوا میں دس فائر کر دیئے۔ یہ فائر مکتیسر اور اس کے نواحی دیہات میں سنے گئے اور دیکھتے دیکھتے ندی کنارے بہت سے آدمی جمع ہو گئے۔ انہوں نے شیرنی کو پانی سے باہر نکالا اور بدری کے باغ کی طرف چل پڑے۔ اسے دیدار عام کے لیئے خشک گھاس کے بستر میں ڈال دیا گیا اور میں چائے پینے کے لیئے بدری کے مکان میں چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد لوگوں کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے میں نے شیرنی کی کھال اتاری۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک آنکھ سے کانی تھی اور اس کے جسم پہ خارپشت کے زخموں کے کوئی پچاس نشان تھے جن میں سے بعض نشان نو انچ لمبے تھے۔ دس بجے میں اپنے کام سے فارغ ہو گیا۔ بدری نے بڑے خلوص سے مجھے رات وہاں ٹھہرنے کی دعوت دی جسے چند مجبوریوں کے باعث میں قبول کرنے سے معذور تھا۔ وہاں سے میں مکتیسر کی طرف روانہ ہو پڑا۔ میرے ہمراہ دو آدمی تھے جنہوں نے شیرنی کی کھال اٹھا رکھی تھی۔ ڈاک خانے کے سامنے کھلی زمین پر شیرنی کی کھال بچھا دی گئی۔ مکتیسر کے باشندے اسے دیکھنے کے لیئے جمع ہو رہے تھے۔ ان کے چہروں پہ خوشی کے آثار تھے۔ وہ رات میں نے ڈاک بنگلے میں گزاری اور دوسرے دن تقریباً ۷۲ گھنٹوں کی غیر حاضری کے بعد میں دوبارہ اپنے گھر نینی تال میں موجود تھا۔

کسی آدم خور کو ہلاک کرنے سے ایک عجیب سے اطمینان کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے کوئی شخص کسی بہت بڑے فرض سے عہدہ برا ہوا ہو۔ یہ اطمینان کہ میں نے ایک بہت بڑے خود غرض درندے کو اس کی اپنی زمین پہ شکست دی ہے اور کم از کم زمین کے ایک چھوٹے سے حصے کو اتنا محفوظ بنا دیا ہے کہ ایک چھوٹی سی آٹھ سالہ لڑکی وہاں آزادی سے آ جا سکتی تھی۔

٭٭٭

 

 

 چوکا کا آدم خور شیر

 

 

چوکا۔ ۔ ۔ جس نے لدھیا وادی کے آدم خور شیر کو چوکا کے آدم خور کا نام دیا۔ لدھیا وادی کے قریب دریائے ساروا کے دائیں کنارے پر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ اس گاؤں کے شمال مغربی کنارے سے ایک راستہ ایک چوتھائی میل چل کر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ جس کا ایک تہائی حصہ تو ٹھک جاتا ہے اور دوسرا حصہ پہاڑیوں میں سے بل کھا کر کوٹی کندری میں ختم ہو جاتا ہے۔ کوٹی کندری ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ جس کے مالک چوکا کے باشندے ہیں۔

۱۹۳۶ء موسم سرما کا ذکر ہے کہ اس موخرالذکر راستے پر ایک آدمی اپنے بیلوں کے ہمراہ جا رہا تھا۔ جب وہ چوکا کے قریب پہنچا تو اچانک ایک شیر جھاڑیوں سے نکل کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ اس آدمی نے انتہائی جرات سے کام لیا اور وہ شیر اور بیلوں کے درمیان کھڑا ہو گیا۔ وہ شیر کو ڈرانے کے لیئے اونچی آواز میں شور مچانے لگا اور ساتھ ہی اپنی لاٹھی گھمانے لگا۔ بیلوں نے یہ موقع غنیمت جانا اور سرپٹ گاؤں کی طرف بھاگ گئے۔ جب شیر نے اپنے شکار کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو اس نے اپنی توجہ اس آدمی پر مرکوز کر دی۔ شیر کے خطرناک ارادے کو بھانپتے ہوئے وہ آدمی پیچھے کو مڑا اور انتہائی تیز رفتاری سے بھاگنے لگا۔ وہ ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ شیر چھلانگ لگا کر اس پر کود پڑا۔ اس آدمی کے کندھوں پر ایک بھاری ہل تھا اور اس کی پشت پر ایک بوری تھی جس میں اس نے اپنی ضروریات کی چیزیں باندھ رکھی تھیں۔ شیر نے اپنے دانت اس بوری میں گاڑ دیئے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اس آدمی نے بوری کو وہیں پھینک دیا اور مدد کے لیئے شور مچاتا ہوا گاؤں کی طرف بھاگنے لگا۔ اس کا واویلا سن کر گاؤں سے اس کے رشتہ دار اور دوست اس کی مدد کو دوڑے چلے آئے لیکن وہ آدمی مزید کسی حادثے کے بغیر گاؤں پہنچ گیا۔ شیر کا ایک پنجہ اس کے دائیں کندھے پر اس زور سے پڑا تھا کہ وہاں ایک گہرا زخم چھوڑ گیا تھا۔

جون ۱۹۳۷ کا ذکر ہے کہ سات آدمی اور دو لڑکے ٹھک سے دو سو گز مغرب کی طرف مویشی چرا رہے تھے۔ دس بجے کے قریب انہیں خیال آیا کہ ان کے کچھ مویشی بھٹک کر جنگل چلے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے کو انہیں جنگل سے لانے کے لئے بھیجا۔ لڑکے کو بھیج کر یہ لوگ ایک سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں سوگئے اور تقریباً چھ گھنٹے بعد بیدار ہوئے تو جنگل میں ایک ہرن کے بولنے کی آواز سنائی دی جو اس سمت سے آ رہی تھی جدھر مویشی بھٹک کر گئے تھے۔ ان آدمیوں نے ایک دوسرے لڑکے کو جس کی عمر بھی تقریباً چودہ برس تھی پہلے لڑکے کے سراغ میں بھیج دیا۔ جونہی وہ جنگل میں داخل ہوا مویشی ایک دم افراتفری کے عالم میں ایک ندی کی طرف دوڑے۔ ندی کے قریب ایک شیر ایک گائے پر کود پڑا اور سات آدمیوں کے سامنے اسے ہلاک کر دیا۔ مویشیوں کی بھاگ دوڑ اور آدمیوں کے شور شرابے سے گاؤں والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور تھوڑی ہی دیر میں ندی کے سامنے والی کھلی زمین پر لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ ان لوگوں میں دوسرے لڑکے کی ماں بھی تھی جو بیوہ تھی۔ جب اس نے لوگوں کو اپنے بیٹے کا نام پکارتے سنا تو وہ ان کی طرف صورتحال معلوم کرنے کے لئے گئی۔ جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بیٹا جنگل میں مویشیوں کو ہانکنے کے لئے گیا تھا اور ابھی تک واپس نہیں آیا تو وہ خود اس کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس لمحے پہلے لڑکے کے والدین بھی وہاں پہنچ گئے اور جب انہوں نے ان سات آدمیوں سے اپنے بیٹے کے متعلق پوچھا تو انہیں یاد آیا کہ انہوں نے تو اسے صبح دس بجے سے ہی نہیں دیکھا۔

بیوہ عورت کے پیچھے تمام لوگ بھی جنگل میں داخل ہو گئے وہ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ اسے اپنے بیٹے کی لاش دکھائی دی اور اس کے قریب ہی جھاڑی میں پہلا لڑکا بھی مرا پڑا تھا۔ شیر نے اس کے جسم کا ایک حصہ کھا لیا تھا۔ دونوں لاشوں کے بیچ ایک بچھڑا مرا پڑا تھا۔ بعد میں جب مجھے اس المناک حادثے کی تفصیل بتائی گئی تو میں نے اندازہ کیا کہ اس روز شیر جنگل میں اس کھلی زمین کے پاس ہی کہیں لیٹا تھا جہاں مویشی چر رہے تھے اور جب بچھڑا جو آدمیوں کے دیکھے بغیر جنگل میں چلا گیا تھا شیر کے قریب آیا تو اس نے اسے ہلاک کر دیا اور ابھی وہ اسے اٹھا کر چلنے بھی نہ پا یا تھا کہ پہلا لڑکا اس کی تلاش میں وہاں آ نکلا اور شیر نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔ اس کے بعد شیر دونوں شکاروں کے پاس چار بجے شام تک لیٹا رہا۔ تب ایک ہرن پانی پینے کی غرض سے گزرا تو اس نے شیر کی بو سونگھ کر بلند آواز میں بولنا شروع کر دیا۔ یہ آواز سن کر ان آدمیوں کو اس حقیقت کا احساس ہوا کہ ان کے مویشی جنگل میں چلے گئے تھے اور انہوں نے دوسرے لڑکے کو انہیں واپس ہانکنے کے لئے جنگل میں بھیجا۔ بدقسمتی سے وہ لڑکا بھی سیدھا وہاں جا پہنچا جہاں شیر اپنے شکاروں کی حفاظت کر رہا تھا اور اس نے اسے بھی ہلاک کر دیا۔

دوسرے لڑکے کی موت کے شاہد مویشی بھی تھے۔ جو اس کی مدد کے لئے فورا وہاں آئے۔ انہوں نے شیر کو وہاں سے بھگا دیا اور خود بھی ڈر کے مارے افراتفری کے عالم میں بھاگ کھڑے ہوئے۔ اپنے شکار سے محروم ہونے پر شیر کو غصہ آیا اور وہ بھگوڑے مویشیوں کے پیچھے بھاگا اور آخری گائے پر کود کر اپنا انتقام لے لیا۔ اگر مویشی گاؤں کی سمت نہ بھاگتے تو ممکن تھا کہ شیر کے انتقام کی آگ فقط ایک ہی مویشی کے ہلاک کرنے سے نہ بجھتی۔

ان ظالمانہ حملوں سے نینی تال اور الموڑا کے ضلعوں میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا اور شیر کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانے لگی۔ ضلع کے بعض افسر رات رات بھر مچانوں پر بیٹھے رہے مگر فقط دو مرتبہ شیر کو زخمی کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کے بعد شیر نے انتقامی جذبے کے تحت زیادہ انسانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا اور خاص طور پر ٹھک کے گاؤں میں۔

ٹھک سے دو سو گز اوپر کی طرف گندم کا ایک کھیت ہے۔ اس میں فصل کاٹی جاچکی تھی اور دو لڑکے مویشی چرا رہے تھے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ اپنی حفاظت کے لئے وہ کھیت کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ کھیت کے شمالی کنارے پر جھاڑیوں کا ایک جھنڈ تھا۔ وہاں سے کوئی پہاڑی شروع ہو جاتی تھی جو کوئی ایک ہزار فٹ اونچی تھی۔ اس پہاڑی پر سے دونوں لڑکے صاف دکھائی دے رہے تھے۔ شام کے قریب ان کی ایک گائے بھٹک کر جھاڑیوں کے جھنڈ کی طرف چلی گئی۔ دونوں لڑکے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے اسے ہانکنے کے لئے ادھر گئے۔ بڑا لڑکا آگے تھا۔ جونہی وہ ایک جھاڑی کے قریب سے گزرا تو شیر جو وہاں چھپا بیٹھا تھا اس پر کود پڑا۔ چھوٹا لڑکا خوف کے مارے گاؤں کی طرف دوڑا اور چوپال میں بیٹھے ہوئے چند آدمیوں کے قدموں میں سسکیاں بھرنے لگا۔ جب لڑکے میں بولنے کی طاقت آئی تو اس نے بتایا کہ ایک بڑے لال رنگ کے جانور نے اس کے بھائی کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس نے زندگی میں پہلی بار شیر کو دیکھا تھا۔ اسی وقت دیہاتیوں کا ایک گروہ بڑی دلیری سے خون کی لکیر کے پیچھے پیچھے جنگل میں لڑکے کی لاش ڈھونڈنے چل پڑا۔ چونکہ رات قریب تھی لہذا وہ لوگ کوئی ایک میل جنگل میں چل کر واپس ٹھک آ گئے۔ دوسرے دن آس پاس کے دیہات کے لوگوں کی مدد سے انہوں نے پھر اپنی تلاش شروع کر دی۔ لیکن سارے دن کی تلاش کے بعد انہیں فقط اس لڑکے کی سرخ ٹوپی اور خون میں لتھڑے ہوئے کپڑے مل سکے۔ چوکا کے آدم خور کا یہ آخری شکار تھا۔

چوکا کے آدم خور شیر کے ڈر سے لدھیا وادی کے لوگ وہاں سے ہجرت کرنے لگے اور جب ایبٹسن نینی تال، الموڑا اور گڑھوال کے اضلاع کا ڈپٹی کمشنر ہوا تو اس نے اپنے ڈویژن کو اس خوفناک شیر سے رہائی دلانے کا تہیہ کر لیا۔

اپریل ۱۹۳۷ء کی ایک دوپہر ایبٹسن، اس کی بیوی اور میں براستہ تنک پور موضع بھوم پہنچے۔ ہم سر سے پاؤں تک گرد میں اٹے ہوئے تھے۔ دریائے ساروا کے کنارے کچھ دیر آرام کرنے کے اور چائے کی ایک پیالی پینے کے بعد ہم تھولی گھاٹ پیدل روانہ ہو پڑے جہاں ہمارے خیمے ملازموں نے پہلے ہی نصب کر رکھے تھے۔ دوسری صبح ہم ناشتہ کرنے کے بعد ہم کالا ڈھونگا پہنچے۔ تھولی گھاٹ اور کالا ڈھونگا کے درمیان آٹھ میل کا فاصلہ ہے۔ ہماری آمد کی اطلاع پہلے ہی سے وہاں پٹواریوں اور جنگل کے محافظوں کو پہنچا دی گئی تھی۔ ان لوگوں کو ہم نے اس لئے جمع ہونے کو کہا تھا کہ وہ ہمیں آدم خور کے متعلق تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچا سکیں۔ جب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچے تو چار آدمی ہمارے منتظر تھے اور آدم خور کے متعلق ان کی اطلاع حوصلہ افزا تھی۔ گزشتہ چھ سات دنوں میں وہاں کوئی انسان ہلاک نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ شیر موضع ٹھک کے گرد و نواح میں موجود ہے۔ جہاں اس نے چند روز پہلے ایک بچھڑا ہلاک کیا تھا۔ کالا ڈھونگا ایک پہاڑی وادی میں واقع ہے اور اس کا رقبہ کوئی چار میل کے قریب ہے۔ اس کے تین طرف دریائے ساروا اور چھوتی طرف ایک پہاڑی ہے جو کوئی پانچ ہزار فٹ اونچی ہے۔ ریسٹ ہاؤس دریائے ساروا کے کنارے واقع ہے اور اس کے سامنے والے مناظر دنیا کے خوبصورت ترین مناظر میں شامل کئے جا سکتے ہیں۔

رات کالا ڈھونگا کے ریسٹ ہاؤس میں گزارنے کے بعد صبح کے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ہم چوکا کی طرف پیدل چل پڑے جو وہاں سے کوئی پانچ میل کے فاصلے پر تھا۔ سورج کی شعاعوں میں خوشگوار قسم کی حدت تھی۔ شمال سے جنوب کی طرف ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔

آدم خور کے خلاف اپنی تحریک میں مدد اور مزید انسانی جانوں کے نقصان کو روکنے کے لئے ہم نے چھ نوجوان بھینسے تنک پور سے پہلے ہی چوکا روانہ کر دئیے تھے۔ یہ بھینسے ہم نے شیر کو ترغیب دینے کے لئے استعمال کرنے تھے۔ چوکا پہنچنے پر ہمیں بتایا گیا کہ ان بھینسوں کو جنگل میں مختلف جگہوں پر گزشتہ تین راتوں سے باندھا ہوا ہے اور اگرچہ ایک شیر کے پنجوں کے نشان دو تین بھینسوں کے قریب دیکھے گئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگلے چار دنوں کے دوران ہم صبح کے وقت ان بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ دن میں شیر کو دیکھنے کی کوشش کرتے اور شام کو ایک دفعہ پھر بھینسوں کو دیکھنے جاتے۔ پانچویں صبح کو ٹھک کے قریب جنگل کے کنارے بندھے بھینسے کو شیر اٹھا کر لے گیا۔ اپنے شکار کو گھنے جنگل میں لے جانے کے بجائے جیسا کہ ہمیں توقع تھی شیر اسے ایک کھلے راستے سے پہاڑی پر لے گیا تھا۔ ایسا اس نے ایک مچان سے بچنے کی خاطر کیا تھا۔ اس مچان سے اس پر دو مرتبہ پہلے گولی چلائی جا چکی تھی اور شاید وہ زخمی بھی ہوا تھا۔ بھینسے کو تھوڑی دور لے جانے کے بعد اس کے سینگ دو تنگ چٹانوں کے درمیان پھنس گئے تھے اور شیر اسے وہیں چھوڑ گیا تھا۔ شیر کے پنجوں کے نشانات سے معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑا نر شیر ہے۔

مردہ بھینسے سے بیس فٹ کے فاصلے پر جامن کا ایک درخت تھا۔ بھینسے کو چٹانوں کے درمیان سے کھینچنے کے بعد ہم نے ایک آدمی کو جامن کے درخت پر چڑھا دیا تاکہ وہ اس کی ایسی چند شاخیں توڑ دے جو بھینسے کو پوری طرح دیکھنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ پہاڑی پر وہ اکیلا ہی درخت تھا اور وہیں بیٹھ کر شیر پر گولی چلائی جا سکتی تھی۔ درخت پر سے گرد و پیش کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ جب وہ شخص درخت کی شاخیں توڑ رہا تھا تو میرا خیال ہے کہ شیر نے اسے دیکھ لیا تھا۔

اس وقت صبح کے گیارہ بجے تھے۔ اپنے آدمیوں کو گاؤں کھانا کھانے کے لئے بھیج کر میں اور ایبٹسن ایک سایہ دار جھاڑی کے نیچے بیٹھ کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ اڑھائی بجے کے قریب ہم ہلکا پھلکا کھانا کھا رہے تھے کہ چند جنگلی پرندوں کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ ایبٹسن اور اس کا ملازم شیر کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے جنگل میں چلے گئے اور میں جامن کے درخت پر چڑھ گیا۔ جب میں درخت پر ٹھیک طرح بیٹھ سے گیا تو ایبٹسن اور اس کا ملازم جنگل سے باہر نکل آئے اور چوکا کیمپ واپس چلے گئے۔ اپنے پیچھے وہ دو آدمی ٹھک میں چھوڑ گئے۔

ایبٹسن کے جانے کے تھوڑی دیر بعد پھر جنگل میں سے پرندوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں۔ اس سے ظاہر تھا کہ شیر پھر حرکت کر رہا تھا۔ لیکن اس بات کی بہت کم امید تھی کہ وہ شام سے پہلے کھلے میدان میں سے گزر کر اپنے شکار کی طرف آئے گا۔ پرندے تقریباً پندرہ منٹ تک چلاتے رہے اور پھر ایک دم خاموش ہو گئے۔ اس کے بعد شام تک کوئی آواز سنائی نہ دی اور جنگل پر خاموشی طاری رہی۔

دریائے ساروا کے کنارے نیپال کی پہاڑیوں پر شام کی شفق آہستہ آہستہ اندھیرے میں تبدیل ہونے لگی۔ اتنے میں ایک ہرن کے بولنے کی تیز آواز سنائی دی۔ شیر اس سمت سے واپس آ رہا تھا جدھر سے وہ اپنا شکار چھوڑ کر گیا تھا۔ میرے سامنے درخت کی ایک شاخ تھی جس پر میں نے بندوق کی نال ٹکا رکھی تھی اور شیر کے آنے پر فقط بندوق کے پچھلے حصے کو ذرا اوپر اٹھا کر لبلبی دبانے کی ضرورت تھی۔ وقت آہستہ آہستہ رینگنے لگا پھر دو سو گز کے فاصلے پر پہاڑی کی سمت ککر چیخ اٹھا۔ شیر پر گولی چلانے کے سلسلے میں میری امید نے دم توڑ دیا۔ اب یہ صاف ظاہر تھا کہ شیر نے میرے آدمی کو درخت کی شاخیں توڑتے دیکھ لیا تھا اور پھر شام کے قریب ممکن تھا کہ اس نے مجھے بھی درخت پر بیٹھے دیکھ لیا ہو۔ بہرحال وہ شکار سے پرے پرے چلا گیا تھا۔ اس کے بعد تھوڑے تھوڑے وقفے سے سانبھر اور ککروں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں لیکن ہر آواز پہلی آواز سے قدرے دور سے آتی تھی۔ نصب شب کے قریب یہ آوازیں بھی بند ہو گئیں اور جنگل پر مکمل خاموشی طاری ہو گئی۔

ابھی دن نکلا ہی تھا کہ میں درخت سے اترا، اپنی سکڑی ہوئی ٹانگیں سیدھی کیں اور ایک قریبی جھاڑی میں چھپائی ہوئی تھرماس سے چائے پینے لگا۔ جب ٹانگوں میں ذرا چستی آئی اور میں قدرے تازہ دم ہو گیا تو گاؤں کی طرف چل پڑا۔ گاؤں آ کر پہلے میں نے غسل کیا اور ناشتہ کر کے لیٹ گیا۔ رات کے اس تجربے سے میں کچھ دل برداشتہ ہو گیا تھا۔ اتنے میں گاؤں کے چند معتبر لوگ بھی وہاں آ پہنچے۔ میری دل برداشتگی کے اظہار پر انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں ایک دو روز مزید وہاں ٹھہروں۔ انہیں یقین تھا کہ میں شیر کو ہلاک کر لوں گا۔

ایک بجے کے قریب میں پھر ٹھک کی پہاڑیاں چڑھ رہا تھا۔ راستے میں مجھے بتایا گیا کہ ایک سانبھر کی آواز سنی گئی ہے۔ کیمپ سے میں اس ارادے سے چلا تھا کہ اب کے ایک زندہ بھینس کے قریب شیر کا انتظار کروں گا۔ جس طرف سے سانبھر کی آواز سنائی دی تھی وہاں راستے میں ایک درخت تھا۔ ہم نے رسے کی مدد سے اس پر مچان تیار کی اور درخت کے نیچے بھینس باندھ دی۔ تین بجے کے قریب میں اس درخت پر چڑھ گیا۔ ایک گھنٹے کے بعد ایک ککر کی آواز آئی اور تھوڑی دیر بعد کوئی ہزار گز سے شیر کی گرج سنائی دی۔ بھینس کے آگے بہت سارا چارہ ڈال دیا گیا تھا۔ اس کے گلے کی گھنٹی رات بھر بجتی رہی مگر وہ شیر کو اپنی سمت متوجہ نہ کرسکی۔

صبح کے وقت جب میں چوکا واپس آیا تو معلوم ہوا ایبٹسن صبح ہونے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا ہے۔ گزشتہ شام اسے اطلاع ملی تھی کہ لدھیا وادی سے آٹھ میل دور ایک شیر نے ایک بیل ہلاک کر دیا تھا۔ وہ ساری رات اس بیل کے قریب شیر کے انتظار میں بیٹھا رہا مگر بے سود۔ دوسری شام وہ کیمپ واپس چلا آیا۔ صبح کو جب ہم ناشتہ کر رہے تھے تو ایک آدمی نے آ کر اطلاع دی کہ جو بھینس دریا کے بہاؤ کی سمت جنگل میں بندھی تھی۔ جہاں گزشتہ روز ککر اور سانبھر کی آوازیں سنائی دی تھیں ، وہاں سے غائب ہے۔ اس گفتگو کے دوران میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر میکڈونلڈ بھی وہاں پہنچ گیا جو اسی روز کالا ڈھونگا سے اپنا کیمپ چوکا میں منتقل کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس نے دریا کے بہاؤ کی سمت (غالباً جہاں بھینس بندھی ہوئی تھی) شیر کے پنجوں کے نشانات دیکھے ہیں۔

ناشتے کے بعد مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ مچھلی کے شکار پر چلے گئے اور میں ایبٹسن کے ایک ملازم کے ہمراہ گمشدہ بھینس کی کھوج میں چل پڑا۔ ٹوٹے ہوئے رسے اور شیر کے پنجوں کے نشانوں کے سوا کسی دوسری بات سے یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ بھینس کو ہلاک کیا گیا ہے۔ بہرحال آس پاس تلاش کرنے پر مجھے خون کی لکیر دکھائی دی۔ نہ جانے کس مصلحت کی بنا پر شیر اپنے شکار کو تین چار میل کا چکر دے کر اسے پھر سے دریا کے کنارے لے آیا تھا اور یہ جگہ اس جگہ سے کوئی دو سو گز کے فاصلے پر تھی جہاں اس نے بھینس کو ہلاک کیا تھا۔ اس جگہ سے دریا کا پاٹ بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شیر اپنے شکار کے ہمراہ وہیں کہیں لیٹا ہو گا۔ چونکہ میرا ارادہ ساری رات شیر کے انتظار میں بیٹھنے کا تھا لہذا میں نے دن کا باقی وقت مسز ایبٹسن اور میکڈونلڈ کے ہمراہ مچھلیاں پکڑنے میں گزارنا بہتر سمجھا۔ لیکن میں پہلے اس بات کا یقین کر لینا چاہتا تھا کہ شیر وہاں موجود ہے کہ نہیں۔

واپس گاؤں آ کر میں نے چار آدمی اور لئے اور پھر اسی سمت چل پڑا۔ میں چاروں آدمیوں کے آگے آگے چل رہا تھا۔ جب میں دریا کے تنگ پاٹ کے قریب پہنچا تو شیر کی غرا ہٹ سنائی دی۔ شیر کی غرا ہٹ مجھ سے بیس گز سامنے گھنی جھاڑیوں میں سے آ رہی تھی۔ جب جنگل میں ایک ان دیکھا شیر قریب ہی غرا رہا ہو تو اس کی آواز بے حد ہیبت ناک ہوتی ہے اور واضح طور پر بتاتی ہے کہ دخل اندازی کی کوشش نہ کرنا۔ اس تنگ جگہ پر جب کہ شیر موزوں جگہ پر بیٹھا تھا اور اس کا پلہ بھاری تھا، میرا آگے بڑھنا سراسر حماقت تھی۔ میں نے اپنے آدمیوں کو پیچھے مڑنے کا اشارہ کیا اور خود بڑی بھی بڑی احتیاط سے الٹے قدموں چلنے لگا۔ مجھے یقین تھا کہ شیر کہاں ہے۔ اب میں اس سے دو دو ہاتھ کرسکتا تھا۔ میں نے انہیں گاؤں واپس جانے کے لئے کہا مگر وہ اس قدر خوف زدہ تھے کہ رائفل کی پناہ کے بغیر ایک قدم اٹھانے کو تیار نہ تھے۔ اگر میں انہیں گاؤں چھوڑنے جاتا تو تقریباً دو گھنٹے ضائع ہو جاتے۔ لہذا ناچار انہیں اپنے ساتھ ہی رکھنا پڑا۔

میرا ارادہ تھا کہ شیر کے عقب سے اس پر حملہ کیا جائے۔ دریا کے بائیں کنارے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم دریا سے تقریباً دو سو گز پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں ہم بائیں سمت کو مڑ گئے۔ دو سو گز مزید چلنے پر ہم پھر بائیں جانب کو ہو لئے۔ اب ہم اس جگہ سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھے جہاں سے شیر کی غرا ہٹ سنائی دی تھی۔ اب صورتحال شیر کے بجائے ہمارے حق میں تھی۔ میں جانتا تھا کہ شیر دریا کی سمت نہ جائے گا۔ کیونکہ وہاں اس نے آدمی دیکھ لئے تھے اور نہ ہی پہاڑی کی سمت کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسے ہمارے قریب سے گزرنا پڑتا۔ ہم اسے سامنے والی پہاڑی کی سمت جانے کی ترغیب دینا چاہتے تھے۔ کوئی دس منٹ تک ہم دریا کے کنارے بیٹھے بغور گرد و پیش کا جائزہ لیتے رہے۔ تب چند قدم پیچھے ہٹ کر ہم تین گز بائیں سمت کو چلے اور پھر ایک جگہ بیٹھ گئے۔ ابھی ہم بیٹھے ہی تھے کہ میرے ساتھ والے آدمی نے سرگوشی میں کہا، "شیر” اور دریا کی سمت اشارہ کر دیا۔ لیکن مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ دوبارہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے فقط شیر کے کان ہلتے ہوئے دیکھے تھے۔ کوشش کے باوجود مجھے شیر دکھائی نہ دے سکا۔ اتنے میں ایک آدمی حالات کا ٹھیک جائزہ لینے کو کھڑا ہوا اور شیر جو ہماری طرف منہ کر کے لیٹا ہوا تھا، اٹھ کھڑا ہوا اور پہاڑی چڑھنے لگا۔ جونہی ایک پہاڑی کے عقب سے اس کاسر دکھائی دیا میں نے گولی چلا دی۔ بعد میں دیکھنے پر معلوم ہوا کہ گولی شیر کی گردن کے بالوں میں سے گزر گئی تھی۔ شیر نے ایک چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں کے عقب میں روپوش ہو گیا۔ میرا خیال تھا کہ شیر زخمی نہیں ہوا اور میرا یہ خیال بعد میں صحیح ثابت ہوا کیونکہ جس چٹان میں میری گولی لگی تھی اس کے قریب ہی شیر کے کچھ بال پڑے تھے اور خون کہیں دکھائی نہ دیتا تھا۔

تھوڑے فاصلے پر بھینس پڑی تھی۔ شیر نے اسے گدھوں اور دوسرے گوشت خور پرندوں سے بچانے کی خاطر پانی کے ایک چار فٹ گہرے گڑھے میں چھپایا ہوا تھا۔ چاروں آدمیوں کو گاؤں واپس بھیج کر میں تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک شکار کے قریب چھپا رہا اور جب شیر واپس نہ آیا تو کیمپ واپس لوٹ گیا۔ اگلی صبح ناشتہ کرنے کے بعد میں اور میکڈونلڈ پھر دریا کے کنارے آئے۔ شیر اپنے شکار کو وہاں سے اٹھا کر کچھ فاصلے پر لے گیا تھا اور رات میں اس کا نصف سے زیادہ حصہ کھا گیا تھا۔

ٹھک کی پہلی بھینس کو جسے شیر نے ہلاک کیا تھا اور جس کے قریب میں رات بھر شیر کا انتظار کرتا رہا تھا، وہاں سے اٹھا کر اس سے دو سو گز کے فاصلے پر ایک نئی بھینس باندھ دی گئی تھی۔ چار دن بعد ٹھک کے نمبردار نے ہمیں اطلاع بھیجی کہ شیر اس بھینس کو ہلاک کر کے اٹھا لے گیا ہے۔

ہم نے جلدی سے تیاری کی پھر میں اور ایبٹسن بڑی مشکل چڑھائی عبور کرنے کے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ شیر بھینس کو ہلاک کر کے اسے سیدھا وادی میں لے گیا تھا۔ ہم دونوں شیر کے پنجوں کے نشانات پر چلنے لگے۔ ہمارے پیچھے ہمارے دو ملازم تھے، جنہوں نے ہمارا سامان اٹھا رکھا تھا۔ جلد ہی ہمیں پتا چل گیا کہ شیر اپنا شکار کسی خاص جگہ لے کر گیا تھا۔ آخری گھنی جھاڑیوں میں سے دو گرے ہوئے درختوں پر سے گزر کر شیر نے اپنا شکار ایک چھتری نما درخت کے نیچے چھپا دیا تھا۔ شیر نے اسے ابھی تک چھوا نہیں تھا اور یہ بات ہمارے لئے خاصی پریشان کن تھی۔ بھینس کی گردن پر دانتوں کے نشانات سے پتا چلتا تھا کہ وہ آدم خور شیر ہی تھا۔

اتنا لمبا سفر کرنے سے ہمارے جسم پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر چائے پیتے وقت میں گرد و پیش کا جائزہ لینے لگا تاکہ کوئی ایسا درخت نظر آ سکے جس پر میں رات گزار سکوں۔ کوئی تیس گز کے فاصلے پر ایک درخت تھا جس کا ایک تنا زمین سے دس فٹ اوپر زمین کے متوازی جا رہا تھا۔ میں نے اس تنے میں مچان کھڑی کر دی۔ مچان تیار کرتے وقت ہم لوگ بلند آواز میں باتیں بھی کر رہے تھے تاکہ اگر شیر کہیں آس پاس ہو تو وقتی طور پر وہاں سے ہٹ جائے۔ جب مچان تیار ہو گئی تو ایبٹسن اور میں تھوڑی دیر سگریٹ پیتے اور گپیں لگاتے رہے۔ اس کے بعد وہ دونوں آدمیوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہو گیا۔

جس درخت پر ہم نے مچان بنائی تھی وہ زمین سے ۴۵ درجے کا زاویہ بناتا تھا۔ اس کے نیچے کوئی بیس مربع فٹ زمین بالکل ہموار تھی۔ اس کے فورا بعد گھاٹی شروع ہو جاتی تھی۔ جس کی ڈھلوان پر گھنی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اس گھاٹی کے آخر پر ایک ندی تھی۔ شیر کے آرام کے لئے مثالی جگہ۔

ایبٹسن اور اس کے آدمیوں کو رخصت ہوئے ابھی پندرہ منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ ایک سرخ بندر چلا چلا کر جنگل کے باسیوں کو شیر کی موجودگی کا احساس دلانے لگا۔ اس سے پتا چلتا تھا کہ جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت شیر وہاں موجود نہ تھا اور اب اپنے شکار کے پاس آوازیں سن کر صورت حال کی تحقیق کرنے آ رہا ہے۔

میرا منہ پہاڑی کی طرف اور شکار میری دائیں طرف تھا۔ بندر ابھی چھ سات بار ہی چلایا تھا کہ مجھے اپنے نیچے گھاٹی پر کسی خشک لکڑی کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ میں نے داہنی طرف دیکھا تو شیر گھاٹی چڑھ کر چالیس گز دورسے میرے درخت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چند منٹ تک وہ درخت کو گھورتا رہا۔ آخر اس نے میری سمت آنے کا فیصلہ کر لیا۔ میرے درخت کے نیچے ہموار زمین کی طرف بڑھتے وقت وہ زیادہ محتاط ہو رہا تھا اور اس کا پیٹ زمین سے لگتا جا رہا تھا۔ آخر وہ میرے درخت کے نیچے آ کر خشک پتوں پر لیٹ گیا۔

پندرہ منٹ تک وہ بالکل خاموش بیٹھا رہا۔ شیر بالکل میرے نیچے لیٹا تھا۔ اس کی تھوڑی زمین پر تھی اور آنکھیں بند تھیں۔ ایک دم اس نے آنکھیں کھولیں ، مکھیاں اڑانے کے لیئے پلکیں جھپکائیں اور پھر سوگیا۔ اب مجھے شیر کی دم اور پچھلی ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر میں درخت پر ذرا بھی حرکت کرتا تو شیر کو میری موجودگی کا علم ہو جانا تھا۔ اس بات کا مجھے یقین تھا کہ شیر نیند پوری کرنے کے بعد اپنے شکار کے پاس جائے گا۔ لیکن کب؟ دوپہر بڑی گرم تھی لیکن شیر نے بڑی سایہ دار جگہ چنی تھی اور ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی اس حالت میں ممکن تھا کہ وہ شام تک سویا رہے اور میں شام کے اندھیرے میں اس پر گولی چلانے کا موقع کھو بیٹھوں۔ لہذا صورت حال کو شیر کی مرضی پر چھوڑنا سراسر غلطی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں جہاں میں بیٹھا تھا وہاں فقط شیر کی دم اور ٹانگیں دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے اس حصے پر گولی چلانے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ آخر میں نے بڑی احتیاط سے اپنی ٹانگیں اوپر کیں اور آہستہ آہستہ تنے کے اوپر کھڑا ہو گیا۔ اب مجھے شیر کا تین چوتھائی حصہ دکھائی دینے لگا۔ میں نے اپنی پشت کو ایک بڑی شاخ کے ساتھ لگایا اور بندوق کی نالی شیر کی طرف پھیر کر چلا دی۔ شیر بجلی کی طرح اچھلا اور گھاٹی اترنے لگا۔ میں ایک دم اپنی جگہ سے مڑا اور دوسری گولی اس کے سینے میں اتار دی۔ وہ بڑے دل گردے والا شیر ثابت ہوا کیونکہ ایک آواز نکالے بغیر وہیں ڈھیر ہو گیا۔

گولی کی آواز سن کر ایبٹسن اور اس کے ساتھی میری سمت چل پڑے۔ راستے میں میری ان سے ملاقات ہو گئی۔ ہم واپس جائے وقوعہ پر آئے۔ ہم چاروں میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اتنے بڑے شیر کو اٹھا کر کیمپ تک لے آتے۔ لہذا ہم آدمیوں کو جمع کرنے گاؤں کی سمت چل پڑے۔

وہ ایک بڑا نر شیر تھا۔ مجھے اس کے جسم کے مختلف حصوں میں شاٹ گن کے کئی چھرے بھی ملے۔ اگلی صبح تقریباً سو افراد کے مجمع کے سامنے ہم نے شیر کی کھال اتاری۔

٭٭٭

تشکر: اردو محفل کے رکن انیس الرحمٰن جنہوں نے اس کی فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید