FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

جسّی

 

 

 

 

 (پنجاب کی ایک کربناک داستان)

 

 

 

محمد بشیر مالیر کوٹلوی

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

کنڈل فائل

 

 

 

آگاہی

 

اس ناول میں بیان کئے گئے واقعات، کردار اور مقامات فرضی ہیں۔ کسی طرح کی مماثلت اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔ کسی تنازعہ کی صورت میں سماعت کا حق صرف مالیر کوٹلہ (پنجاب) کی عدالت میں ہو گا۔

اس ناول کے کسی بھی حصّے یا پورے ناول کا استعمال خصوصاً  آڈیو، ویڈیو، فلم یا انٹرنیٹ وغیرہ کے لیے مصنف کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔ بلا اجازت صورت حال ظہور پذیر ہوتی ہے تو قانونی کاروائی کا حق محفوظ ہے۔

محمد بشیر مالیر کوٹلوی

bashirmalerkotlvi@gmail.com

 

 

 

 

راز و نیاز

 

اب تک میری دس کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ پانچ کتابیں افسانوی مجموعے،  ایک کتاب افسانچے، ایک کتاب ٹیلی پلیز سکرپٹ، ایک کتاب افسانہ کی تکنیک، اور دو کتابیں تنقیدی مضامین (تجزیے)۔ ایک راز کی بات بتاؤں آپ کو۔۔۔!؟ مجھے امید نہیں تھی کہ میں اتنی کتابوں کا خالق بن پاؤں گا۔ ماں کی دعاؤں کے صدقے اور خدائے برتر کے کرم سے عمر میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا اور قلم مسلسل الفاظ اگلتا چلا گیا۔ اب تو اردو ادب کی خدمت ہی جینے کا مقصد ہے۔ خدا کرے آخری سانس کے ساتھ ہی تحریروں کا یہ سلسلہ ختم ہو (آمین) ویسے بھی میرے نزدیک تخلیقی عمل کا رُک جانا ادیب کی موت کے مترادف ہے۔

برسوں سے دل میں یہ خواہش پل رہی تھی، کہ ایک ناول بھی تخلیق کروں۔ اللہ نے یہ تمنّا بھی پوری کر دی۔ ناول جسّی آپ کے ہاتھوں میں دعوت مطالعہ دے رہا ہے۔ مجھے اپنے پیارے پیارے پنجاب سے بے حد شغف ہے جس کا اظہار میں نے اس ناول میں کیا ہے۔ پنجاب کے لوگ جی بھر کر اور زندہ دلی سے جینے کا ہُنر جانتے ہیں۔ پنجاب کے چھوٹے بڑے موسمی تیوہار مثلاً لوہڑی، بیساکھی اور بسنت وغیرہ دنیا بھر میں مشہور ہیں ان کی بڑی خوبی یہ ہے کہ ان تیوہاروں کا کوئی مذہب نہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ بلا امتیاز مذہب و ملّت یہ تیوہار ہر پنجابی مناتا ہے۔ پنجاب میں شادی بیاہ کی رسمیں تو بہت ہی دلچسپ ہوتی ہیں، جیسے دولہا دلہن پر پانی وارنا، چھٹیاں کھیلنا، کنگنا کھیلنا اور چوتھی بہت ہی دلچسپ اور مزے دار رسم ہے۔ ’’جاگو‘‘ جو شاید دنیا کے کسی بھی ملک میں نہ پائی جاتی ہو۔ میں نے ان چھوٹی بڑی رسموں اور روایتوں کی اس ناول میں تصویر کشی کی ہے۔ ممکن ہے مجھ سے پہلے یہ کوشش کسی نے نہ کی ہو۔ اسی لیے میں پنجاب کی تہذیب کے ان دلچسپ اور سُنہرے حصّوں کو اردو ادب کی نذر کر رہا ہوں تاکہ یہ رسمیں بھی ادب میں سانس لے سکیں۔ ناول کی تخلیق کے بارے میں بات کریں تو تقسیم کے بعد پنجاب میں بہت کم ناول منظرِ عام پر آئے ہیں۔

دوستو۔۔۔! میں تو اردو افسانے کا طالبِ علم ہوں۔ ادب میں پچھلے ۴۴ سالوں سے محو عمل ہوں مگر میں اپنے آپ کو پروجیکٹ کرنے کا ہُنر نہ سیکھ سکا۔ ساری زندگی بہتر سے بہتر تخلیق اور اشاعتی سلسلوں میں مصروف رہا۔ اپنی فطرت سے مجبور، ادب میں اپنا کوئی آقا بھی نہ بنا سکا۔ خالی ہاتھ ضرور رہا، مگر ہر تخلیق کے بعد خوشی اور دلی سکون سے ہم کنار ہوتا رہا جو سب سے بڑا ایوارڈ ہے۔

یہ میرا پہلا ناول ہے میں کہاں تک کامیاب رہا ہوں یہ تو ناول کے مطالعہ کے بعد آپ ہی طے فرمائیں گے۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ آج کا قاری ہی ادب کا کھرا نقّاد ہے۔ اب ہمیں ممتاز مفتی اور حسن عسکری جیسے نقّاد کہاں میّسر ہوں گے۔

 

نیاز مند

محمد بشیر مالیرکوٹلوی

موبائیل۔ ۰۹۴۱۷۴۲۳۷۸۸

نزدیک پنجاب اردو اکادمی۔ منٹو اسٹریٹ

۰۷۹۸۶۴۳۱۹۳۷       بیرون دہلی گیٹ۔ مالیر کوٹلہ۔ ۱۴۸۰۲۳

bashirmalerkotlvi@gmail.com        پنجاب (بھارت)

 

 

 

 

 

 

 

 

 

جسّی

 

(۱)

 

ہندوستان، میرا پیارا ہندوستان، ایک ایسا ملک ہے جس میں مختلف مذاہب اور مختلف تہذیب کے لوگ پائے جاتے ہیں جو اپنے اظہار کے لیے مختلف زبانوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان زبانوں میں ہندی، اردو، پنجابی، ڈوگری، بنگالی، تیلگو، گجراتی اور مراٹھی وغیرہ شامل ہیں۔ یہاں مختلف تہذیبوں کے مختلف رسم و رواج دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دنیا میں بھارت ہی ایسا دیش ہے جس میں سب سے زیادہ مذاہب کو ماننے والے رہتے ہیں۔ ہر رنگ، ہر نسل کے لوگ ایک نقطہ پر متحد ہو جاتے ہیں۔ وہ ہے ’’جے ہند‘‘ ۔ وہ علامہ اقبال تھے یا ٹیگور، وہ منٹو بیدی تھے یا پریم چند، حُب الوطنی کا رنگ سب میں ایک سا تھا۔ بھارت کا ایک بہت ہی پیارا اور خوبصورت اَنگ ہے ’’پنجاب‘‘ جسے صدیوں سے اس ملک کا تاج کہلانے کا فخر حاصل ہے۔ پنجاب فارسی کے دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ پنج اور آب، یعنی پانچ پانی، یعنی ستلج، راوی، چناب، بیاس اور جہلم۔ یہ پانچ دریا پنجاب کی چھاتی پہ گذرتے ہیں۔ اسی لیے اس صوبہ کا نام پنجاب پڑا۔

اگر ماضی کی پرتیں کھولی جائیں تو پنجاب ہندوستان کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیرونی حملہ آور اس راستے سے آئے۔ قدیم ویدک تہذیب نے پنجاب کی سر زمین پر ہی نشو و نما پائی۔ کہا تو یہ بھی جاتا ہے کہ رِگ وید کی تصنیف بھی پنجاب میں ہوئی۔ ایرانی، یونانی، ترک اور منگول بھی اسی راستے سے ہندوستان میں آئے۔ سکندر آیا تو پنجابیوں نے ہی اُس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اُس کی فوجیں دریائے بیاس سے آگے نہ بڑھ پائیں۔ بابر نے پنجاب پر تین بار حملہ کیا۔ حملے کا مرکز لاہور ہی رہا۔ غرض یہ کہ جب جب بیرونی طاقتوں نے ہندوستان پر حملے کیئے تب تب پنجاب نے ہی سب سے پہلے اُن کے وار کو روکا۔ ۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہوا۔ تقسیم کا دُکھ سب سے زیادہ پنجاب کو جھیلنا پڑا۔ بٹوارے سے پہلے مہا پنجاب پشاور سے لے کر دہلی تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں بل کھاتے ہوئے خوبصورت دریاؤں کے انداز بھی تھے۔ پہاڑوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی خوبصورتی بھی تھی۔ اس ایک پنجاب کی علاقائی حوالے سے تین طرح کی شناخت تھی۔ مالوہ، دوآبہ اور ماجھا۔ تینوں خطوں کی بولی اور تہذیب میں بھی تھوڑا تھوڑا فرق تھا۔ پنجابیت کا رس سب میں برابر پایا جاتا تھا۔ پٹیالہ، سنگرور، بٹھنڈہ کا علاقہ مالوہ کہلاتا تھا۔ ستلج اور بیاس کے گرد و نواح کے علاقے کو دوآبہ، امرتسر لاہور گجراں والا وغیرہ ماجھا کہلاتے تھے۔ تقسیم کی خاک و خون کی آندھی نے پنجاب کو رُلا دیا۔ اس کے دو ٹکڑے ہو گئے جو مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کہلائے۔ پنجاب کا مغربی حصّہ پاکستان کے پاس چلا گیا۔ مشرقی حصّہ ہندوستان میں رہا۔ دیش آزاد ہوا۔ زخمی پنجاب نے بھی آزادی کا جشن منایا۔ عوام نے جمہوریت کی فضاؤں میں سانس لیا۔ پنجاب ایک بار پھر لرز گیا۔ ہندوستان کی سیاسی دانشمندی نے پنجاب کی پہاڑوں کی خوبصورتی کو الگ کر کے اُس علاقہ کو ہماچل اور دوسرے علاقہ کو ہریانہ کا نام دے دیا۔ اس طرح پنجاب کو تقسیم کے بعد بھی تقسیم کا کرب جھیلنا پڑا۔ گو پنجاب مختصر سے مختصر ہو گیا۔ پھر بھی اپنی خصوصیات کی بنا پر سب سے آگے ہی رہا۔ پنجاب اس قدر زرخیز صوبہ ہے جو پورے ملک کو اناج فراہم کرتا ہے۔ بات فوج کی کریں یا سپورٹس کی، پنجاب کو دونوں میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ حسن و جوانی کے سلسلہ میں پنجابیوں کا جواب نہیں۔ اگر آپ حسن و جوانی کی بستی بالی وڈ کو مانتے ہیں تو اُس میں بھی پنجابیوں کی تعداد آپ کو سب سے زیادہ ملے گی۔ خوبصورت آواز کا جادو کے ایل۔ سہگل کے بعد محمد رفیع نے جگایا جو پنجابی تھے۔ رفیع کا ثانی شاید آج تک پیدا نہیں ہو سکا۔ کلاسی کل موسیقی میں پٹیالہ گھرانا اس قدر معتبر ہے کہ آج بھی اُن کا ذکر آئے تو گویّے تعظیم سے کان چھو لیتے ہیں۔ فنونِ لطیفہ میں پنجابی سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیا کم فخر کی بات ہے کہ جس زبان کی مٹھاس اور خوبصورتی کی ساری دنیا قائل ہے وہ پنجاب میں ہی جنمی جس کا نام ہے ’اردو‘ ۔ محمود شیرانی اپنی کتاب ’’پنجاب میں اردو‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اردو اور پنجابی ایک ہی منصوبے کے تحت تیار ہوئیں اردو کی جنم بھومی پنجاب ہے۔ مہا پنجاب اردو زبان و ادب کا گہوارہ تھا۔ لاہور زبان و ادب کا مرکز مانا جاتا تھا۔ اردو افسانے کو پنجاب نے سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور احمد ندیم قاسمی جیسے نام دیئے۔ شاعری کے میدان میں حالیؔ، اقبالؔ اور ساحرؔ لدھیانوی کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اردو ادب سے اگر ہم پنجابی ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کے نام الگ کر دیں تو آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ شعر و ادب میں پنجابیوں کا کتنا بڑا حصّہ تھا۔ آزادی کی جنگ میں ملک پنجاب کے شہید بھگت سنگھ لالا لاجپت رائے اور شہید اودھم کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتا۔

پچھلی صدی کے نویں دھاکے میں اس خطّے کو کسی کی نظر لگ گئی۔ ہنستے کھیلتے پنجاب میں نفرتوں کی آندھیاں چلنے لگیں۔ ایک بار پھر پنجاب آنسوؤں اور خون میں نہا گیا۔ عام آدمی کی تو بات کیا چیف منسٹر کی زندگی بھی محفوظ نہ رہی۔ میڈیا آئے دن آگ اُگلنے لگا۔ قتل و غارت کی خبریں سُن سُن کر پنجابیوں کی روحیں کانپ اُٹھیں۔ دہشت گردی کے خونی پنجوں نے پنجاب کو بری طرح جکڑ لیا۔ جہاں راتوں کو گھبروؤں کی ٹولیاں بھنگڑا ڈالتی تھیں، شادی بیاہ کے موقعوں پر جاگوئیں نکلتی تھیں وہاں کے اندھیرے اب موت کے سنّاٹے بن کر ڈرانے لگے۔ سچ مچ پنجاب سہم کر رہ گیا تھا۔ دہل کر رہ گیا تھا۔

امرتسر اور جالندھر کے درمیان جنڈیالہ کے پاس بلونت سنگھ سر پنچ کا گاؤں تھا۔ بلونت جسے پیار سے سب لوگ بلونتا کہتے تھے۔ اُس سے پہلے اُس کے والد سردار دِلاور سنگھ اس گاؤں کے سر پنچ تھے۔ بلونت اور گاؤں کے لوگ اُن کو عزّت سے دار جی کہتے تھے جو سردار جی کا مخفف ہے۔ دلاور سنگھ اپنی شرافت، سخاوت اور ذہانت کی وجہ سے اپنے علاقہ میں مشہور تھے۔ وہ پڑھے لکھے اور جہاں دیدہ آدمی تھے۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ ملک کے قانون سے بخوبی واقف تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کس معاملے کا مقدمہ کون سی دفعہ کے تحت دائیر ہوتا ہے۔ لاکھوں کا حساب کھڑے کھڑے انگلیوں پر کر دیتے تھے۔ اپنے گاؤں میں دلاور سنگھ اس قدر مقبول تھے کہ کئی بار تو بلا مقابلہ سر پنچی کا چناؤ اُن کے حق میں ہو جاتا۔ عدالتوں کے اُلجھے ہوئے مقدمات میں بھی دونوں پارٹیوں میں صلاح صفائی کروا دیتے۔

دلاور سنگھ کی آبائی حویلی گاؤں سے تھوڑا ہٹ کر تھی۔ جنڈیالہ کو جانے والی میں روڈ سے لنک روڈ پر آتے ہی، آنے والوں کی پہلی نظر اُن کی حویلی پر ہی پڑتی جو بڑی شان سے کھیتوں کے سلسلے میں چھاتی تانے کھڑی تھی۔ حویلی میں دونوں وقت پانچ دس آدمیوں کا کھانا زیادہ بنتا تھا۔ کوئی اجنبی مسافر یا مہمان حویلی سے بھوکا نہیں جاتا تھا۔ محکمہ مال کے ملازم ہوں یا مردم شماری کے غرضیکہ گاؤں میں آنے والا ہر سرکاری آدمی سر پنچ کی حویلی کا مہمان ہوتا۔ حویلی کے ساتھ دلاور سنگھ نے مویشیوں کا کافی کشادہ باڑہ بنا رکھا تھا۔ جس میں مہنگی، زیادہ دودھ دینے والی بھینسیں اور اچھی نسل کی ولایتی گائیں رہتیں جن کا دودھ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ دلاور سنگھ کا یہ شوق تھا کہ وہ کرنسی نوٹوں کا تھیلا بھر کر اپنے کارندوں کو لے کر امرتسر کے بڑے مویشی میلے میں جاتا اور مہنگی سے مہنگی، زیادہ دودھ دینے والی بھینسیں خریدتا۔ گاؤں میں کسی غریب کے گھر شادی کی تقریب ہوتی تو اُسے دودھ دہی کی فکر نہیں رہتی تھی۔ کہنے کی دیر تھی کہ حویلی سے دودھ کے ڈرام آ جاتے۔ شہر میں کسی مہربان سیاست دان یا کسی پہچان والے آفیسر کے گھر شادی ہوتی تو دودھ سر پنچ کی حویلی سے جاتا۔ گوردواروں کے لنگروں کے لیے فصل پر اناج کی بوریاں اور سبزیاں پہونچا دی جاتیں دودھ تو روزانہ گوردواروں کو حویلی سے جاتا ہی تھا۔ کبھی کوئی ضرورت مند، سوال لے کر آتا تو وہ مایوس نہیں لوٹتا تھا۔ گاؤں کے غرباء کو مٹھّی بند مدد دی جاتی تھی۔ بلونتے نے کئی بار اعتراض اُٹھایا کہ اس طرح دولت نہ لُٹائی جائے۔ دلاور سنگھ ہنس دیتے اور کہتے بلونتے پُتّر اپنے پُرکھاں کی پانچ سو ایکڑ زمین ہے۔ مال جوڑ کر کیا کرنا ہے۔ واہِ گرو دیتا ہے ہم اُس کے بندوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اپنا یہاں کچھ نہیں، جب جائیں گے، خالی ہاتھ جائیں گے۔

بلونت سنگھ کھیتوں میں بنے اپنے فارم ہاؤس میں ہی رہتا تھا۔ دو ٹائم حویلی سے کھانا آ جاتا۔ کبھی اُس کا بیٹا بٹّو، جو اب پچّیس۲۵ سال کا ہو گیا تھا اور خالصہ کالج امرتسر میں زیرِ تعلیم تھا، لے آتا یا کوئی کارندہ کھانا لے آتا۔ بلونت سنگھ کی بیٹی جو بٹّو سے دو سال چھوٹی تھی وہ بھی شہر میں کالج جاتی تھی۔ آتے جاتے وہ باپ کو سَت سری اکال کہنے آ جاتی تھی۔ بلونت سنگھ پنچایت کے کاموں اور اپنی کھیتی باڑی میں مصروف رہتا تھا۔ اُسے حویلی جانا ہوتا تو ماں کو ڈیوڑھی میں بلا لیتا۔ بٹّو جو بے حد نٹ کھٹ اور ہنس مکھ تھا۔ بلونت اُس کی باتیں سُن سُن کر سوچتا کہ وہ بھی جوانی میں بٹّو کی طرح ہی تھا۔ امریکہ والے بلکارے سے مل کر کیا کیا شرارتیں نہیں کرتا تھا۔ اب تو بلکارہ امریکہ سے لوٹ آیا ہے، اپنی دولت کے نشے میں ہی رہتا ہے۔ گاؤں کے دوستوں کو بھول گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

(۲)

 

وہ جنوری کا سرد ترین دن تھا۔ کہرے نے زمین سے اپنی محبت کی انتہا کر دی تھی۔ صبح کے دس بجنے کو تھے۔ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا تھا۔ اُس دن پنجاب کا خاص تیوہار تھا جو لوہڑی کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس تیوہار کو ہندو اور سکھ مل کر ایک ہی طرح سے مناتے ہیں۔ یہ خاص تیوہار جنوری کے مہینہ میں ہی منایا جاتا ہے۔ بکرمی سال کا یہ آخری دن ہوتا ہے۔ دوسرے دن پہلی ماگھ سے نیا سال شروع ہوتا ہے۔ کسی کو اپنے بیٹے کے لیے بہو کی تلاش ہو، کوئی بچے کی خواہش رکھتا ہو، وہ منّت مانگتا ہے کہ اگر اُس کی مراد پوری ہو جائے تو وہ اگلے سال لوہڑی بھرے گے یعنی اپنے بچے یا دولہا دلہن کی لوہڑی منائے گا۔ دعا قبول ہونے پر وہ لوہڑی منانے کا اعلان کرتا ہے۔ لوہڑی کا دن آنے پر وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مدعو کرتا ہے۔ مہمانوں کے آنے پر اُن کی چائے اور مٹھائی سے تواضع کی جاتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں ٹھٹھرتے موسم میں کھلے صحن کے درمیان سوکھی لکڑی اور اپلوں کو ترتیب سے چِن کر آگ جلائی جاتی ہے۔ جلتے الاؤ میں تلوں کے چھِٹ دیئے جاتے ہیں تاکہ آگ زیادہ بھڑک اُٹھے۔ سبھی لوگ دائرہ بنا کر الاؤ کے اِرد گِرد بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر لوہڑی دولہا دلہن کے نام کی ہے تو وہ دونوں الاؤ کو ماتھا ٹیکتے ہیں۔ اپنے بھگوان یا واہِ گرو کی ارداس کرتے ہیں۔ اگر لوہڑی بچے کے نام کی ہے تو چھوٹے بچے کو ماں گود میں لے کر ماتھا ٹیکنے کی رسم پوری کرتی ہے، ۔ گھر والے میزبان، سب مٹھیاں بھر بھر کر، مونگ پھلی، ریوڑیاں اور مکّا کی کھِیلیں (پاپ کارن) بانٹی جاتی ہیں۔ ڈھولی ڈھول بجاتے ہیں۔ سبھی لوگ بھنگڑا ڈال کر (ناچ کر) خوشی مناتے ہیں۔ اس طرح لوہڑی کی تقریب میں مونگ پھلی، ریوڑیوں، اور پاپ کارن کے ساتھ الاؤ کی تپش اور بھانگڑے کا مزہ بھی لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دیر رات تک چلتا ہے۔

اس تیوہار کو پنجاب کے ایک بہادر سُورما دُلّا بھٹّی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ روایت ہے کہ حاکمِ وقت ایک ہندو راجہ تھا۔ اُس کو ایک خوبصورت براہمن لڑکی پسند آ جاتی ہے۔ جس کے حُسن کے دُور دُور تک چرچے ہو رہے تھے۔ راجہ نے براہمن کو بلا کر کہا کہ لڑکی کو اُس کے محلوں کے حوالے کیا جائے۔ اُسے مالا مال کر دیا جائے گا۔ براہمن دُلّا بھٹّی کے پاس گیا۔ جو ڈاکو بن گیا تھا۔ امیروں کو لوٹتا اور غریبوں کی پرورش کرتا تھا۔ براہمن کی بات سُن کر دُلّا لڑکی کے لیئے یوگیہ ور کی تلاش میں نکل پڑا۔ راجہ کو دیئے ہوئے وقت سے پہلے ہی دُلّا بھٹّی نے، باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے، کنیا دان کیا اور لڑکی کی شادی کروا دی۔ گھر میں تل اور شکر کے سوا کچھ نہ تھا۔ دُلّے نے وہی اُٹھا کر لڑکی کو دان میں دے دیئے۔ اُسی دن سے لوہڑی کا تیوہار منایا جانے لگا۔ شکر اور تلوں کی رسم کو زندہ رکھنے کے لیے ریوڑیاں بانٹی جاتی ہیں جو تِلوں اور گڑ سے بنتی ہیں۔ اس تیوہار کے دن کا خاص طور پر بچوں کو انتظار رہتا ہے۔ لوہڑی کے دن صبح سویرے بچّے ٹولیاں بنا کر گاؤں میں نکل جاتے ہیں اور گھر گھر جا کر لوہڑی مانگتے ہیں۔ لوہڑی کے کچھ خاص چھند ہوتے ہیں جو ماضی بعید سے مروّج ہیں۔ یہ چھند منظوم ضرور ہیں مگر شاعری کے ضابطہ سے آزاد ہیں۔ بچوں کی ٹولیاں گھروں کے سامنے یا صحن میں جا کر لوہڑی کے بول بولتی ہیں۔ کچھ بچے جملہ ختم ہونے پر کہہ اُٹھتے ہیں ’ہو‘ !! جیسے تال دے رہے ہوں۔ لوہڑی کے چھند کچھ اس طرح ہیں جن میں دُلّا بھٹّی کی داستاں کس قدر اختصار سے پیش کی جاتی ہے۔ دیکھئے۔!

سُندرئیے مندرئیے تیرا کون وچارہ ہو!

دلّا بھٹّی والا          ہو!

دُلّے دھی وِیا ہی            ہو!

سیر سَکر پائی ہو!

کُڑی دے مامے آئے ہو!

مامے چوری کٹّی ہو!

زمینداراں نے لٹّی  ہو!

کُڑی دا لال دوپٹّہ ہو!

دُلّے دھِی ویاہی ہو!

 

(خوبصورت لڑکی تیرا کون محافظ

دُلّا بھٹّی

دُلّے نے بیٹی کی شادی کی

سیر شکر دان کی

لڑکی کے ماموں آئے

ماموں نے چوری بنائی

زمینداروں نے لُٹّی (یہ اشارہ راجہ کی طرف ہے)

لڑکی کا لال دوپٹہ (یہ اشارہ راجہ کی طرف ہے)

دُلّا بھٹّی نے بیٹی کی شادی کی

 

اِن چھندوں کے بعد، اگر گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے تو بچّے کہتے ہیں ’ کھول مائی کنڈا۔ جیوے تیرا منڈا‘ (امّاں دروازے کی کنڈی کھول۔ تیرا بیٹا جیئے) اگر گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو بچے ایک ہی آواز میں کہتے ہیں۔ ’کھول مائی تاکی۔ جیوے تیری کاکی‘ ( امّاں کھڑکی کھول۔ تیری بیٹی جیئے) جس گھر میں نئی دُلہن آئی ہو تو بچے بولتے ہیں۔ ’دے مائی لوہڑی۔ جیوے تیری جوڑی‘ (امّاں لوہڑی دے تیری جوڑی جیئے)۔ جس گھر میں بچہ نہ ہوتا ہو وہاں بچے بولتے ہیں۔ ’لوہڑی دا ڈَکّا دے۔ رام تینو بچہ دے‘ (لوہڑی کا تنکا۔ یا سوکھی ہوئی شاخ، دے۔ رام تجھے بچہ دے گا)

معصوم بچوں کی یہ دعائیں سُن کر گھر والے اُن کو نقد روپے، مونگ پھلی، ریوڑی اور مکّا کی کھِیلیں دیتے ہیں۔ کام نپٹا کر بچے روپوں اور چیزوں کو آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جو گھر بچوں کو کچھ دیتا نہیں، جھڑک دیتا ہے۔ بچے اُس کو یہ کہہ کر چڑاتے ہیں۔

کوٹھے پر حُقّہ۔ ایہہ گھر بھُکھّا     (چھت پر حُقّہ۔ یہ گھر بھوکا۔۔!)

اُڑ دا اُڑ دا چاکو آیا۔ مائی دے گھر ڈاکو آیا۔       (اُڑتا اُڑتا چاکو آیا۔ مائی کے گھر ڈاکو آیا کہ آیا)

آج کل لوہڑی کی یہ دلچسپ اور مزے دار رسمیں پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں سِمٹ کر رہ گئی ہیں۔ ترقی یافتہ شہروں میں یہ تیوہار بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔

لوہڑی پنجاب کا تفریحی اور دلچسپ تیوہار ہے جو پنجاب کی تہذیب کا حصّہ ہے۔ بٹّو چمڑے کی جاکیٹ پہنے اور سر پر چھجے والی ٹوپی لیے، پاپا بلونت سنگھ کے لیے ایک ہاتھ میں بڑے سائیز کا ہاٹ پاٹ اور دوسرے ہاتھ میں گرم دودھ سے بھری تھرمس لیے کہرے اور سخت موسم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فارم ہاؤس جا رہا تھا۔ راستے میں جَسّا سنگھ نمبر دار مل گیا وہ بٹّو سے مخاطب ہوا۔ ’’او بٹّو سنگھ۔۔۔!‘‘ سر پنچ واسطے حاجری (ناشتہ) لے کے جا رہا ہے۔۔!‘‘

بٹّو، اُن کے سامنے کھڑا ہو گیا اور گردن آگے کی طرف جھکا کر بولا ’’ست سری کال۔۔۔ چاچا جی۔!‘‘

’’جیتے رہو بیٹے!۔۔۔ سر پنچ کو یاد دلا دینا۔ آج میرے پوتے کی لوہڑی بھرنی ہے۔ کہیں اور نہ چلا جائے اُس کے بغیر محفل ٹھنڈی رہ جانی ہے۔!!‘‘ نمبردار نے آپس میں دونوں ہاتھ رگڑتے ہوئے کہا۔

بٹو ہنس کر بولا ’’آپ کی محفل کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔ پاپا۔۔! گاؤں میں آج لوہڑی کے دس فنکشن ہیں۔ اُن کا اڈّا تو آپ کے یہاں ہی جمے گا۔ آپ تیار ہو کر کہاں چلے۔۔!؟‘‘

’’او یار۔۔۔! شہر جا رہا ہوں کل گاڑی مرمّت کے لیے دی تھی۔۔!‘‘ پگڑی درست کر کے بولا۔

بٹّو مچل کر بولا ’’آپ تو شہر چلے میری لوہڑی کون دے گا۔۔۔!؟‘‘

’’او پُتّر۔۔۔ تیری چاچی ہے نا گھر۔۔! میری بس کا ٹائم ہو رہا ہے۔ سر پنچ کو یاد دلا دینا۔۔!‘‘ نمبر دار آگے بڑھ گیا اور دھُند میں گُم ہو گیا۔ بٹّو اونچی آواز میں بولا۔

’’او۔ کے۔ چاچا جی! میں پاپا کو کہہ دوں گا۔۔!!!‘‘

فارم ہاؤس کے آہنی پھاٹک سے گذر کر، بلونت سنگھ کے کمرے کا تھوڑا سا دروازہ کھول کر اونچی آواز میں بولنے لگا

’’سندرئیے، مندرئیے۔۔۔ تیرا کون وچارہ۔۔۔!    ’’ہو!!‘‘

دُلّا بھٹّی والا    ’’ہو!!‘‘

دُلّے دھی وِیاہی      ’’ہو!!‘‘

بلونت سنگھ بٹّو کی آواز سُن کر ساتھ والے کمرے سے زعفرانی پٹکا سر پر باندھتے ہوئے نکلا اور سنجیدگی سے بولا ’’اوئے۔۔۔!! یہ کیا ڈرامہ ہے۔۔!؟ کیوں شور مچا رہے ہو۔۔!!؟‘‘

لوہڑی کا چھند پورا کر کے بٹو بولا ’’لوہڑی دا ڈَکّا دے۔۔۔ رام تینوں بچّہ دے۔۔!!‘‘

’’پاپا۔۔۔ آپ لوہڑی کو ڈرامہ کہتے ہو۔۔!؟ ویری سَیڈ (very sad)‘‘ بٹّو مونہہ بنا کر’’۔۔۔ لائیے۔۔! نکالئیے میری لوہڑی۔۔۔ پورے دس ہزار روپے۔‘‘

بلونت نقلی غصّہ دکھاتے ہوئے ’’دیکھ اوئے نہ تو میرے گھر لڑکا ہوا ہے، نہ ابھی ابھی میری دُلہن آئی ہے۔۔۔! لوہڑی کس بات کی بھروں۔۔۔!!؟۔۔۔ اور اتنی بڑی رقم کیوں۔۔!!؟‘‘

بٹّو تھرمس اور ہاٹ پاٹ میز پر جما کر اُچھلا اور صوفے پر بیٹھ کر بولا ’’سر پنچ بھول گئے۔۔۔۔ ؟ آج سے ۲۵ سال پہلے ۲۶ جنوری کو آپ کے گھر ایک ہیرا پیدا ہوا تھا۔۔۔!!؟

بلونت سنگھ اُسے گھورتے ہوئے بولا۔ ’’ہیرا۔۔۔!؟‘‘

بٹّو اِترا کر بولا۔ ’’ہاں جی۔۔۔! ہیرا۔۔۔! یعنی کہ، یشونت سنگھ سِندھو یعنی کہ۔۔۔ میں۔۔!!‘‘

بلونت سنگھ تھوڑا ناراض ہو کر بولا ’’اوئے۔۔۔! ہیرے کے پُتّرا۔۔۔ میں کپڑے پہن لوں، برتن نکال الماری سے اور کھانا کھلا، آج لوہڑی کے چَکّر میں کئی جگہ جانا ہے۔ وَدھائیاں دینے۔۔۔!‘‘

بٹّو جلدی سے، گلاس، پلیٹیں اور چمچ نکالنے لگا۔ ’’پاپا۔۔۔! جَسّا انکل ملے تھے۔۔۔!‘‘

پگڑی سر پر رکھ کر، بلونت سنگھ، کچھ سوچ کر پوچھنے لگا۔ ’’اچھا۔۔۔ اوہ، نمبردار۔۔۔!!؟‘‘

برتن میز پر سجا کر ’’ہاں جی۔۔۔ نمبردار۔۔۔ کہہ رہے تھے، آج اُن کے پوتے کی لوہڑی ہے۔۔۔! آپ کو یاد دلا دوں۔۔۔!!‘‘

ہاٹ پاٹ کھول کر بلونت سنگھ گرم گرم ساگ سرسوں پلیٹ میں نکال کر، اُس پہ مکھن کا چمچ رکھتے ہوئے بولا ’’یاد ہے یار، کیسے بھول سکتا ہوں، دوستوں کی محفل تو نمبردار کے گھر میں جمے گی۔!!‘‘

مکّی کی روٹی توڑتے ہوئے، وہ بڑبڑائے ’’مکئی کی روٹی، تیری ماں سے اچھی کوئی نہیں بنا سکتا۔!‘‘

اس کے بعد بلونت سنگھ اس طرح خاموش ہو گیا۔

جیسے اُس سے کوئی غلطی سرزد ہو گئی ہو۔ کھانا کھانے کے بعد بلونت سنگھ بٹّو سے بولا ’’بِٹّے۔۔۔ او ڈِبّہ کھول کے باداموں والے گڑ کا ٹکڑا نکال۔ ہاٹ پاٹ کی طرف اشارہ کر کے بٹّو نے کہا ’’پاپا۔۔۔ رَس کی کھیر ہے نا۔۔۔ وہ لے لیجئے۔۔!!‘‘

بلونت سنگھ اُکتا کر بولا ’’نہیں کھانی یار، تیری کھیر ویر۔۔۔ تو الماری میں سے گڑ نکال، اس میں بادام کِشمِش، کاجو اور ادرک ڈلوائے ہیں میں نے۔۔۔!!‘‘

بلونت سنگھ گُڑ کا مزہ لینے لگا۔ بٹّو موبائیل فون نکال کر اُس سے کھیلنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد بڑبڑایا۔ اوہ، آشو کا ویڈیو میسیج۔۔۔!‘‘

بلونت سنگھ نے جوتے پہنتے ہوئے سوال کیا۔ ’’ایہہ۔۔۔ آشو کون ہو گیاوَئی۔۔۔!؟‘‘

موبائیل پہ کام جاری رکھتے ہوئے، بٹّو نے جواب دیا۔ ’’آشو، گاری بھائی کا بیٹا۔۔۔!

آج کل دوبئی میں ہے کسی ایئرویز کمپنی میں اُس کو نوکری مل گئی۔ پاپا۔۔۔!

دوبئی میں رہ کر بھی اُس نے لوہڑی کے بھنگڑے کی ویڈیو، فیس بُک پر ڈالی ہے اور لوہڑی کی ودھائی دی ہے۔۔۔!!‘‘

’’اپنے گِرد شال لپیٹتے ہوئے بلونت بولا ’’بٹّو سیاں (سنگھ) پنجابی، کینیڈا میں رہے یا آسٹریلیا لوہڑی کا دن کبھی نہیں بھول سکتا۔ آج دنیا بھر میں پنجابی پھیلے ہوئے ہیں۔ فارن میں رہ کر بھی لوہڑی مناتے ہیں۔ فارنر کو بھی خوب نچاتے ہیں۔۔۔! کچھ دیسی لوگ ودیش جا کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ جیسے سالا وہ امریکہ والا۔۔۔ بلکارہ۔۔۔ یار دوستوں سے ہی کٹ گیا۔ ڈالر کیا کما لیئے۔۔۔!!‘‘

الماری سے چابیوں کا گچھا لے کر بلونت اندرونی کمروں میں چلا گیا۔ بٹّو، موبائیل فون سے کھیلتا رہا۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد بلونت ہاتھ میں سو سو کے کرنسی نوٹوں کی گڈّی لیئے باہر نکلے۔ بٹّو نے موبائیل سے نظریں اُٹھا کر پاپا کی طرف دیکھا اور اچھل پڑا ’’دھنّیہ ہو سر پنچ ساب۔۔۔!!‘‘

صوفے پر بیٹھتے ہوئے بلونت نے سوال کیا۔ ’’کیا مطلب اوئے تیرا۔۔۔!‘‘

’’دھن ہو، مطلب دان کر رہے ہو، مطلب بٹّو سیاں کو دس ہزار دے رہے ہو لوہڑی کا۔۔۔!‘‘ بٹّو نے وضاحت کی۔

بلونت سنگھ طنزاً مسکریا ’’تو بھی گھن چکّر ہی رہا۔ اس موبائیل کی بیماری نے تیرا دماغ خراب کر دیا۔ یہ پکڑ دس ہزار، اپنی ماں کو دے دینا، اور کہہ دینا اس مہینے کے پورے تیس ہزار ہو گئے۔ بجلی کا بل لے آنا وہ بھی بھرنا ہے۔!

بٹّو تڑپ اُٹھا ’’میری لوہڑی، ۔۔۔!؟ کل بیٹی کو تو آپ نے پانچ ہزار نکال کر دے دیئے۔۔۔!! موٹی۔۔۔۔ کو مجھے نہیں پتہ۔۔۔ میں بڑا ہوں۔ کالج کے دوستوں کے ساتھ لوہڑی منانے جانا ہے مجھے۔ دس ہزار نکال کر دو۔۔۔!!‘‘

بلونت سمجھانے کے انداز میں بولا ’’کاکا۔۔۔ اتنا خرچہ نہیں کرتے میرے بچے۔ شہر ضرور جانا ہے۔!؟؟

’’او۔۔۔ یار جسّا خواہ مخواہ ناراض ہو جائے گا۔ آج پوری فیملی کو جانا ہے وہاں۔۔۔!!‘‘

بٹّو موبائیل بند کر کے جیب میں رکھتے ہوئے بولا۔ ’’بنواری کے بھتیجے کی لوہڑی بھرنی ہے۔ اُس نے سارے دوستوں کو بلوایا ہے۔ میری جیپ بھی ریپیئر ہونی ہے۔۔۔! جسّا انکل کو میں سمجھا دوں گا۔ بس آپ جلدی سے مال نکالو۔۔۔!!‘‘

بلونت نے سوال کیا۔۔۔ ’’یہ بنواری کون۔۔۔!؟‘‘

’’او، جی۔۔۔ چمن لال کھتری، ایم۔ ایل۔ اے کا بھتیجا۔ اپنا دوست ہے۔ دس لاکھ کی گاڑی میں آتا ہے کالج۔۔۔۔ ایک ہم ہیں۔ برسوں سے پرانی جیپ لیئے پھرتے ہیں۔ دار جی کے زمانے کی۔۔۔!!‘‘

بلونت سنجیدگی سے ’’کم بولا کر۔۔۔ جب چنڈی گڑھ جائے گا لَاء کالج میں، نئی گاڑی نکلوا دوں گا۔۔!!‘‘

گریجویشن اسی جیپ میں کر لے۔۔۔ بار بار مت سنایا کر۔ ایم۔ ایل۔ اے کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے۔ تمہارے دوست کا باپ ایکسپورٹ امپورٹ کا کام کرتا ہے۔ میرے پاس تو لے دے کر تین سو ایکڑ زمین ہے۔ دو سو ایکڑ تو تیرے دادا، دان ہی کر گئے۔ کچھ گوردوارے کو دے دی، کچھ بیچ کر لوگوں کو کھِلا گئے۔ تالیاں بجوانے کے شوق میں۔۔۔!! ہماری خاندانی پانچ سو ایکڑ تھی۔ دس ہزار کی گڈّی لے کر، جیب میں رکھتے ہوئے بٹّو بولا ’’مجھے بھی دو۔۔۔ پاپا۔۔۔!!‘‘

باسکٹ کی جیپ میں ہاتھ ڈال کر بلونت سنگھ نے روپے نکالے اور گِنتے ہوئے بولا ’’پانچ میں کام چلا لے، سوم وار کو شہر جاؤں گا، آڑھتیے سے چیک ملنا ہے۔‘‘ پانچ ہزار لے کر بٹّو مچلنے لگا، پانچ ہزار اور دو۔۔۔ آپ۔ دو ہزار مزید گِن کر اُس کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے بلونت تھوڑی ناراضگی سے بولا ’’میری جیب میں کچھ رہنے دے۔ کتنے ہی لوگوں کو لوہڑی دینا ہو گی آج!‘‘ جاتے جاتے بٹّو نے سوال کیا۔ ’’پاپا۔۔۔ یہ بلکار سنگھ امریکہ والا آپ کا دوست تھا۔۔۔!؟‘‘

بلونت ایک ٹھنڈی سانس لے کر بولا ’’ہاں یار۔۔۔ مگر نہیں۔۔!‘‘ بٹو پاپا۔۔۔ جواب کو ہنسی میں اُڑا کر اچھلا اور پاپا کا بوسہ لے کر بولا، تھینک یو پاپا۔۔۔! آپ دنیا کے بیسٹ (Best) پاپا ہو۔!‘‘

بٹّو باہر جانے کے لیے لپکا، تو بلونت بولا۔ ’’اوئے مکھن باز، یہ برتن تو لے جا۔۔۔!‘‘

بٹّو مڑا ’’اب سارے کام مجھے ہی کرنے ہوں گے۔ کوئی کاماں (نوکر) آ کر لے جائے گا۔!‘‘ بٹّو چلا گیا۔ بلونت سنگھ بڑ بڑایا۔ ’’کنجر ہے۔۔۔ ایک نمبر کا۔۔۔!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

(۳)

 

ایک دو ضروری فون کرنے کے بعد بلونت سنگھ صوفے کی گود میں بکھر گیا۔ کھلے کھیتوں میں رہائش ہونے کی وجہ سے کمروں میں سردی کا احساس کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا۔ دھند ابھی چھٹی نہیں تھی۔ وہ یہ سوچ کر پڑا رہا کہ ابھی تو شہر سے پنچایت سیکریٹری بھی نہیں آیا ہو گا۔ تیوہار کے کارن اور سخت سردی، لوگ اپنے اپنے گھروں میں دُبکے پڑے ہوں گے۔ حویلی کی طرف سے بچوں کے لوہڑی مانگنے کا شور اُٹھ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آج وقت نکال کر حویلی ضرور جائے گا۔ بیٹھک میں بے جی (ماں) کو بلا کر بات کر لے گا۔ ہمیشہ کی طرح پریتی بھی آج گھر پر ہی ہو گی۔ اس وقت تو وہ بھی لڑکیوں کی ٹولی میں شامل ہو کر لوہڑی مانگنے نکلی ہو گی۔ بٹّو کی باتیں یاد کر کے وہ ہنسنے لگا۔ جب وہ بلونت کو پاپا کی بجائے سر پنچ کہتا ہے تو اُسے بہت پیارا لگتا ہے۔ باپ کے ساتھ دوستوں کی طرح باتیں کرنے لگتا ہے کمبخت۔۔۔!!۔ بلونت اپنے دار جی کے سامنے زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ کئی بار وہ سوچتا کہ سر پنچی کی یہ سیٹ جو اُس نے دار جی کے بعد سنبھال رکھی ہے، یہ بٹّو مسخرہ سنبھال پائے گا؟ اس کا جواب سوچ کر خود ہی ہنس دیتا، کہ وہ بھی اس کی عمر میں ایسا ہی نٹ کھٹ بے پرواہ اور غیر ذمہ دار تھا، اس کے کھلنڈرے پن سے اُس کے دار جی بھی یہی کہا کرتے تھے جو وہ بٹّو کے بارے میں سوچتا ہے۔ کئی بار تو بلونت خود بھی چاہتا کہ وہ بیٹے کے ساتھ اسی کی طرح مزاحیہ باتیں کرے اُس کو چھیڑے، اُس کی شرارتوں میں شامل ہو۔ مگر وہ مجبور تھا، وقت نے اُس سے ہنسی مذاق، سب کچھ چھین لیئے، اُس کی جگہ سنجیدگی، اُداسی اور چڑچڑا پن دے دیا۔ ایک ایسا خول اُس کے ارد گرد چمٹ گیا جِسے اُتار کر پھینکنا اُس کے بس کی بات نہ تھی۔ جب وہ بٹّو کی عمر کا تھا توبہ!۔۔۔ کس قدر نٹ کھٹ اور شریر تھا۔ روتے ہوئے لوگ اُسے پسند نہ تھے، جب تک رونے والوں کو ہنسا نہ دیتا اُسے چین نہیں آتا تھا۔ اداس اور سنجیدہ لوگوں کا وہ ہمیشہ مذاق اُڑایا کرتا تھا۔ وہ اکثر دوستوں کو کہا کرتا تھا کہ زندگی تو ہے ہی ہنسنے ہنسانے اور موج مستی کرنے کے لیئے۔ بس انجوئے کرو۔ جب وہ راجیش کھنّہ کی طرح مونہہ بنا کر، اُس کے انداز میں گردن گھما کر اُس کا ڈائیلاگ بولتا ’’پُشپا۔۔۔! آئی ہیٹ ٹیئرز۔۔۔!!‘‘ تو وہ سب کو ہنسنے پر مجبور کر دیتا، اور پھر آنسوؤں اور زندگی پر ایک لمبا چوڑا لیکچر جھاڑ دیتا جس میں کام کی باتیں کم اور لطیفے زیادہ ہوتے۔ گاؤں والے پیار سے اُسے بڑی حویلی کا کنجر کہا کرتے تھے۔ وہ بھی سُن کر ہنس دیتا، کیوں کہ روٹھنا یا غصّہ کرنا تو اُسے آتا ہی نہ تھا۔ اُس کی شرارتوں سے پریشان ہو کر لوگ، حویلی کے سر پنچ یعنی اُس کے دار جی سے اُس کی شکایت کر دیا کرتے تھے۔ اُسے یاد ہے ایک بار دار جی نے چھڑیوں سے پیٹا تھا اُسے۔ وہ شاید ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ ایک رات پریتو کملی جو ایک نیم پاگل عورت تھی۔ بچے اُس کو چھیڑتے تھے۔ جب وہ گالیاں دیتی تو بہت خوش ہوتے تھے۔ بلونت سنگھ نے ساتھی لڑکوں سے مل کر رات کو اُس کی چار پائی اُٹھا کر گاؤں سے باہر والے تالاب کے کنارے چھوڑ دی تھی۔ کملی (پاگل) کو پتہ ہی نہیں چلا وہ سوتی ہی رہی۔ صبح جب اُس کی آنکھ کھلی تو وہ چیخیں مار مار کر رونے لگی، کسی نے کہہ دیا کہ سر پنچ کا بیٹا، بلونتا کنجر تھا۔ بس پھر کیا تھا، وہ روتی ہوئی اور بلونتے کا سیاپا کرتی ہوئی حویلی پہونچ گئی۔ بلونت گھر پر ہی تھا، کملی کی دہائی سُن کر دار جی کو بڑا غصّہ آیا۔ انہوں نے چھڑی سے بلونت کو خوب پیٹا۔ مار اُس اکیلے نے کھائی جب کہ اُس کے ساتھ چار لڑکے اور بھی شامل تھے اُس شرارت میں۔ بیس سال کی عمر میں وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتا۔ پنچایت گھر کے سامنے والے میدان میں گلی ڈنڈا کھیلنے لگتا۔ جب کوئی غلطی کرتا تو بچوں کے انداز میں ہی اُن کے ساتھ جھگڑا کرتا۔ اپنے ہم عمروں کے ساتھ وہ کبڈی کھیلتا، کشتی کے داؤ پیچ لڑاتا۔ کبڈی کے میدان میں اُس کے ساتھی اُس کے مسخرے پن سے تنگ آ جاتے تھے۔ سردی کا موسم جب پنجاب کو الوداع کہتا اور سرسوں کے کھیت زرد پھولوں سے بھر جاتے، تو بسنت کے موقع پر پتنگ بازی میں نمبر ایک رہتا۔ اُس دن وہ کرتا اور لاچا (پنجابی لُنگی جس کو چادرہ بھی کہتے ہیں) بھی زرد رنگ کا پہنتا تھا۔ اُس کا مسخرہ پن شادی بیاہ والے گھر دیکھنے لائق ہوتا۔ شادی کسی کے گھر ہوتی، بلونت کے بغیر رنگ پھیکا ہی رہتا۔ جہیز کے سوٹ ٹانکنے سے لے کر ڈولی وداع ہونے تک بلونت شادی میں مصروف رہتا۔ رات کو ڈھولک کی تھاپ پر شگنوں کے گیت گانا، اور ناچنا، خاص طور پر عمر رسیدہ عورتوں سے ٹھمکے لگوانا اُس کا شغل تھا۔ مہندی اور اُبٹن لگانے والی راتوں میں عورتوں اور مردوں کے ساتھ مل کر جشن منانا، قہقہوں کی برسات کرنا اُس کا فرض منصبی ہوتا۔ بارات والے دن جو کچھ وہ کرتا وہ سب دیکھ کر لوگ دنگ رہ جاتے۔ پنجاب میں جاگو کا نکلنا ایک تفریحی رسم مانی جاتی ہے۔ خاص طور پر عورتیں اس رسم کو نبھاتی ہیں۔ لفظ جاگو سے مراد ہے بے دار ہو جاؤ۔ یعنی جاگ جاؤ۔ پنجاب میں خاص طور پر لڑکی کی شادی میں آتے ہوئے ننہال کی طرف کے رشتہ دار، شادی والی رات کو اپنی خوشی اور تفریحی جذبوں کا اظہار کرنے کی غرض سے جاگو نکالتے ہیں۔ جس میں مقامی رشتہ دار بھی شوق سے شامل ہوتے ہیں۔ یہ رسم آجکل دیہاتی علاقوں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ شہروں میں تو جاگو کی روایت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ شادی کی درمیانی رات میں ننہال والے پیتل کی ایک گاگر لے کر اُسے چراغوں سے سجاتے ہیں۔ آجکل تو ریڈی میڈ جاگو بھی مل جاتی ہے۔ گاگر کو ایک عورت سر پر اُٹھا لیتی ہے۔ مہمانوں میں سے کوئی مزاحیہ قسم کی تگڑی عورت سر پر پگڑی باندھ لیتی ہے۔ ہاتھ میں لاٹھی لے کر جاگو پارٹی کی رہنمائی کرتی ہے۔ کچھ دیہاتوں میں شریر قسم کے لڑکے بھی عورتوں کے کپڑے پہن کر اس کام کے لیئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جاگو کا قافلہ مہمان اور گاؤں کی عورتوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے۔ چند مرد قافلے کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ تاکہ عورتوں کے ساتھ کوئی چھیڑ خانی نہ کرے۔ عورتیں مل کر کچھ اس طرح کا گیت گاتی ہیں جو شاید صدیوں پرانا ہے۔

’’چھاوا، وَائی ہُن جاگو۔۔۔ آئیا۔۔۔!‘‘      (شاباش بھئی اَب جاگو آئی ہے)

’’سُتّینوں جگا لَے وَئی ہُن جاگو آئیا۔۔!‘‘      (سوئی ہوئی کو جگا لے۔ بھی اب جاگو آئی ہے)

’’رُسّینوں منا لَے۔۔ وَئی ہُن جاگا آئیا۔۔!‘‘ (روٹھی ہوئی کو منا لے۔ بھئی اب جاگو آئی ہے)

’’جَٹّا وے جَٹّا جاگ وے ہُن جاگو آئیا۔۔!‘‘ (جاٹ رے جاٹ جاگ بھئی اب جاگو آئی ہے)

’’مُساں اے سلائیا وے ہُن جاگو آئیا۔۔!‘‘ (بڑی مشکل سے اسے سلایا ہے بھئی اب جاگو آئی ہے)

’’لوری دے کے پائیا وے ہُن جاگو آئیا۔۔!‘‘ (لوری دے کے سلائی ہے بھئی اب جاگو آئی ہے)

’’چھاوا، وَائی ہُن جاگو۔۔۔ آئیا۔۔۔!‘‘      (شاباش بھئی اَب جاگو آئی ہے)

یہ بولیاں اور شور شرابا گاؤں والوں کو آگاہ کرنے کے لیئے ہوتا ہے کہ لوگ چوکنّا ہو جائیں کہ اُن کی طرف جاگو کو گذرنا ہے۔ عورتیں اور بچے گلیوں میں شرارتیں بکھیرتے ہوئے گذرتے ہیں۔ ماضی بعید میں کچے مکان ہوا کرتے تھے۔ (پنجاب میں اب تو خال خال ہی کچّا مکان دیکھنے کو ملتا ہے) جاگو والے کچّے مکانوں کے برساتی پت نالے، توڑ دیتے ہیں۔ گلی کے بلب اور ٹیوب لائیٹ توڑ دیتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں اگر کوئی بوڑھا گلی میں چار پائی ڈالے سو رہا ہے اُس کی چار پائی اوندھی مار دیتے ہیں۔ اگر کوئی دوکان رات گئے تک کھلی ہے تو بلا اجازت اُس کی کھانے پینے کی چیزیں لوٹ لیتے ہیں۔ جاگو گاؤں میں خاص رشتہ داروں کے گھروں میں ہی لے جائی جاتی ہے۔ جس گھر میں جاگو جاتی ہے گھر کے دروازے پر پہونچنے سے پہلے شادی والے لڑکے یا لڑکی کے سَر پر گاگر رکھ دی جاتی ہے۔ گھر والے پہلے میں گیٹ کے دونوں طرف سرسوں کا تیل ٹپکاتے ہیں۔ یہ عمل آنے والوں کی آمد متبرک مانے جانے کی نشانی ہوتا ہے۔ یہ بھی روایت ہے کہ اس عمل سے بہت سی بلائیں ٹلتی ہیں۔ بہرحال گاگر اُٹھاتے ہوئے دولہا یا دلہن جو عنقریب شادی کے بندھن میں بندھنے جا رہے ہوتے ہیں کا مونہہ میٹھا کروا کر گھر میں داخلہ دیتے ہیں۔ پھر گھر کی ایک عورت مٹھائی کا ڈبّہ ہاتھوں میں لے کر کھڑی ہو جاتی ہے گھر کے اندر جانے والے مونہہ میٹھا کر کے جاتے ہیں۔ گھر کے اندر جا کر خوب بھنگڑا اور بولیوں کا ناچ ہوتا ہے۔ روانگی پر گھر والے لڑکا یا لڑکی کو نقدی کی شکل میں شگون دیتے ہیں۔ پھر جاگو کا یہ قافلہ کسی دوسرے گھر کی طرف رُخ کرتا ہے۔ راستے میں لاٹھی جس پر گھنگھرو بندھے رہتے ہیں۔ لاٹھی والی لاٹھی زمین پہ مار کر آگے بڑھتی ہے۔ عورتیں اُسی انداز سے اور وہی گیت گاتی ہوئیں آگے بڑھ جاتی ہے۔ شہروں میں خلوص اور رواداری کی کمی کی وجہ سے جاگو کی رسم بہت کم منائی جاتی ہے۔ شہروں کی گلیوں میں شور مچانا اور شرارتیں بکھیرتے ہوئے کسی کا نقصان کر دینا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ جھگڑوں کا اندیشہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں یہ رسم شہروں میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اسی لیئے صرف پنجاب کے دیہاتوں میں یہ روایت قائم ہے۔ جاگو والیاں کسی کا کتنا ہی بڑا نقصان کر ڈالیں وہ بُرا نہیں مناتا۔ جاگو والیوں سے نہ کوئی بد تمیزی کر سکتا ہے نہ جھگڑا۔ سبھی عورتیں کسی کی کوئی نہ کوئی رشتہ دار ہوتی ہیں۔ گاؤں میں سبھی لوگ اپنے ہی ہوتے ہیں۔ کوئی کسی کا برا نہیں مناتا۔ یہ بھائی چارے اور خلوص کی مثال گاؤں میں آج بھی زندہ ہے۔ عورتیں بھی اُنہیں کے ساتھ مذاق کرتی ہیں جو واقف ہوں اپنے ہوں۔ جن سے امید ہو کہ یہ بُرا نہ منائیں گے۔

بلونت سنگھ بلونتا جاگو کا بہت شوقین تھا۔ چند دوستوں کو لے کر عورتوں کی جاگو میں شامل ہو جاتا اور طرح طرح سے لوگوں کو ستاتا۔ کئی بار تو لوگ تنگ آ کر اُس کی شرارتوں کی شکایت لے کر دِلاور سر پنچ کے پاس پہونچ جاتے۔ بلونتا عورتوں کے کپڑے پہن کر جاگو کی راہبری کرنے کو بھی تیار رہتا۔ بلونتے کی شرارتوں سے گاؤں والے پریشان ہی رہتے تھے۔ گاؤں کا جگّو چاچا فوج سے ریٹائیر ہو کر آیا تھا۔ اُس نے چائینا کی جنگ لڑی تھی۔ چوپال پر بیٹھ کر جب وہ افیم کے نشے میں جنگ کے قصّے سنانے بیٹھتا تو سناتا ہی چلا جاتا۔ اُس کے سارے قصّے اُس کی جھوٹی سچّی بہادری پر ہی ختم ہوا کرتے تھے۔ چاچا جب قصّے سناتا تو حسبِ عادت آنکھیں بند کر لیتا۔ اُس پہ افیم کی پینک طاری ہو جاتی۔ بلونتا محفل سے ایک ایک آدمی کو چپکے سے اُٹھا کر بھگا دیتا اور خود چھُپ کر دیکھتا، قصّہ ختم ہونے پر چاچا محض برگد کو قصّہ سنا رہا ہوتا۔ چاچا کسی کو کچھ نہ کہتا۔ گالیاں بلونتے کو دیتا وہ جانتا تھا کہ یہ تماشہ بلونتا کنجر ہی کرتا ہے۔ کبھی کبھی بلونت دوستوں کو ساتھ لے کر سوتے ہوئے چاچا کی چارپائی اُٹھا کر گاؤں سے دور رکھ کر آ جاتا۔ چاچا جب آنکھیں مل کر صبح کو دیکھتا تو چلانے لگتا۔ اور چارپائی اُٹھا کر گاؤں میں آ جاتا۔ بغیر سوچے سمجھے وہ گالیاں بلونتے کو ہی دیتا۔ کئی بار تو وہ دلاور سنگھ کے پاس آ کر رو دیا تھا کہ بلونتے نے اُس کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ کبھی اُس کی افیم کی ڈبیا چھپا دیتا ہے، کبھی چارپائی کی رسّیاں کاٹ دیتا ہے۔

گاؤں والوں سے روز روز بلونت کی شکایتیں سُن سُن کر دلاور سنگھ بھی پریشان رہتے تھے۔ وہ اُسے بہت ڈانٹتے، کئی بار اُن کا ہاتھ بھی اُٹھ گیا، مگر بلونت کا کھلنڈرہ پن جوں کا توں ہی رہا۔ اپنی شرارتوں کیوجہ سے بلونتا خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول تھا۔ نت نئے پنگے کھڑے کرنا اُس کا مشغلہ تھا۔

جگّو چاچا جب بلونت کی شکایت لے کر حویلی جاتا تو ہنگامہ کھڑا کر دیتا۔ دلاور اُس کی باتیں سنتے رہتے اور غصّہ سے تپتے رہتے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اب جگّو فوجی حویلی سے اپنی شکایتوں کا پٹارہ کیسے اُٹھا کر جائے گا۔ دلاورسنگھ اُسے تسلّی دے کر اندر سے رَم کی بوتل، جگّو کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ اُس ایک رَم کی بوتل کے بدلے جگّو چاچا بلونتے کے سارے گُناہ، ساری زیادتیاں معاف کر دیتا۔ بوتل لے کر خوشی خوشی گھر لوٹ جاتا۔ کبھی جب وہ اچھے موڑ میں ہوتا تو بلونت کو بٹھا کربڑے پیار سے سمجھاتا۔ کہتا بلونتیا۔۔۔ تو ایسی حرکتیں نہ کیا کر یار، آخر تجھے ملتا کیا ہے۔ ذرا سوچ تو کس خاندان سے ہے۔ واہے گرو کی سَوں (قسم) اگر مجھے تیرے باپ دلاور کی شرم نہ ہوتی تو میں کب کا گولی چلا دیتا۔ میرے پاس بندوق ہے نا، وہ مجھے سرکار نے انعام میں ایسے ہی نہیں دی۔ میرا نشانہ بہت پکّا ہے۔ پھر وہ اپنا قصّہ لے بیٹھتا، میں جب پہلی بار لدّاخ پہونچا۔۔۔۔ بلونت فوراً باتوں کا رُخ بدل دیتا۔ اُس سے پوچھنے لگتا۔۔۔ ’’چاچا آج کل افیم خالص نہیں ملتی، میں دیکھ رہا ہوں، آجکل تو جماہیاں بہت لے رہا ہے۔۔۔!‘‘

جگّو اُس کی ہاں میں ہاں ملا کر کہتا۔۔۔ ’’کیا کروں یار آجکل بے ایمانی بہت بڑھ گئی، سالے افیم میں بورن ویٹا پھونک کر ملا دیتے ہیں۔ کوئی پہچان ہی نہیں سکتا، مال کھانے پر ہی پتا چلتا ہے کہ مٹی ہے۔ سالا نشہ ہی نہیں ہوتا، کتنی ہی کھا لو!‘‘ جگّو کا موڈ ٹھیک کرنے کے طریقے بلونت کو بہت آتے تھے۔ کبھی کبھی وہ جگّو چاچا کو گندے لطیفے سنا دیتا تو چاچا لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ جگّو فوجی، پورے گاؤں کا چاچا، صحتمند اور بے فکرہ انسان کینسر کے آگے گھٹنے ٹیک گیا۔ بلونت سنگھ کو آج بھی یاد تھا، آخری وقت میں جگّو نے بلونتے کی طرف پیار سے دیکھ کر کہا تھا۔ ’’بلونتیا۔۔۔ یار اب میری چار پائی شمشان گھاٹ پر چھوڑ کر آنا، گاؤں سے باہر تالاب کے کنارے مت چھوڑ دینا یار!‘‘ بلونت سنگھ اُس دن بہت رویا تھا اور جگّو چاچا سے کی ہوئیں زیادتیوں کو یاد کر کے بہت پچھتایا تھا۔ وہ ایک لمبی سانس لے کر بڑبڑایا۔۔۔ ’’کیسے کیسے لوگ۔۔۔ ہو کر گُذر گئے۔۔۔!‘‘

بلونت اپنی جوانی کے قصّے اپنی تنہائیوں میں یاد کر کے اکثر ہنس دیا کرتا تھا۔ گاؤں کی عورتوں خاص طور پر بھابھی کے رشتہ والیوں کو وہ بہت ستاتا تھا۔ بوڑھی عورتوں کی خدمت اور میٹھے بول بول کر وہ اُن کے دل جیت لیتا تھا۔ ہم عمر لڑکیوں سے اُسے گھل مل کر بیٹھنا بہت اچھا لگتا تھا۔ مخالف جنس کے معاملات میں کبھی کوئی اُس پر انگلی نہیں اُٹھاتا تھا۔ سارا گاؤں جانتا تھا کہ بلونتا شریر ضرور ہے مگر کردار کا بہت اچھا ہے۔ کسی لڑکی کی طرف وہ میلی آنکھ سے نہیں دیکھتا تھا۔ کئی لڑکیوں نے اُسے اپنے پیار کے جال میں پھنسانے کی کوششیں بھی کیں مگر وہ صاف نِکل جاتا۔ اپنی جان پر کھیل کر کئی لڑکیوں کی تو اُس نے عزّت لٹنے سے بچائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

(۴)

 

روپے جینز کی پچھلی پاکٹ میں رکھ کر بٹّو پاپا کے فارم ہاؤس سے نکل کر حویلی کی طرف جا رہا تھا۔ دھُند تھوڑا کم ہو چلی تھی۔ آسمان صاف تھا، دھوپ نکلنے کی امید بن گئی تھی۔ ہماچل پردیس میں جب برف باری ہوتی ہے تو، پنجاب ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے۔ لوہڑی کا تیوہار تو آتا ہی سخت سردی میں ہے۔ سامنے سے آ رہے ٹریکٹر سے بچنے کے لیئے بٹّو کچے راستے سے ایک طرف ہو گیا۔ ڈرائیور کو پہچان کر وہ بولا،

’’اوئے، چھندر۔۔۔۔ ذرا آہستہ چلا، دھُند ہے، کسی کو رگڑ نہ دینا۔۔۔!‘‘

چھندر نے سوال کیا ’’او تو۔۔۔ کہاں سے آ رہا ہے۔۔۔۔!؟‘‘

’’پاپا۔۔۔ کو حاجری دے کر آ رہا ہوں۔۔۔ مال بھی تو لینا تھا، پنجاب میں حاجری کا مطلب ناشتہ اور لنچ ہوتا ہے۔ کسان صبح سویرے کھیتوں میں کام کرنے کے لیئے نکل جاتا ہے۔ دس بجے کے قریب عورتیں اور بچے اُن کے لیئے کھانا لے کر کھیتوں میں جاتے ہیں۔ جسے حاجری کہا جاتا ہے۔ اُس وقت کے کھانے کو بھَتّہ بھی کہا جاتا، لوک گیتوں میں اکثر لفظ بھَتّہ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹریکٹر گُذر گیا۔ بٹّو کو سامنے سے رانو بھابھی نظر آئی جو اپنے شوہر بلبیر کے لیئے، حاجری لے کر کھیتوں کو جا رہی تھی۔ بٹو شرارت کی غرض سے ایک طرف کو کھڑا ہو کر اُس کا جائزہ لینے لگا۔ رانوں واقعی بہت خوبصورت عورت تھی۔ بوٹا سا قد، مناسب جسم، جوانی کے پھلوں سے لدی پھندی، کھلتی ہوئی رنگت، پیالہ سی آنکھیں اور مستانی چال، بٹّو دل تھام کر کھڑا رہا۔ رانوں بھی جانتی تھی کہ وہ مذاق کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ جب وہ مسکراتی ہوئی بٹّو کے قریب سے گذری، تو بٹّو ایک آہ بھر کر بولا۔۔۔ ’’ہائے۔۔۔!رانوں بھابھی۔۔۔! ہم مر گئے تھے کیا۔۔۔!؟جو تو بلبیر بھآ جی، (بھائی جی) کی زندگی سورگ بنانے آ گئی۔۔۔!؟‘‘

چار قدم آگے بڑھ کر پھر وہ پیچھے مُڑ کر بولی ’’کیا کرتی بیٹے۔۔۔! تم سے شادی کر لیتی تو تمہیں گود میں کھلانا پڑتا۔‘‘

بٹّو فوراً مونہہ بنا کر بولا، ’’ہائے۔۔۔ بھابھی تمہاری تو گود بھی سورگ کا جھُوٹا (جھُولا) ہے۔!‘‘

وہ کھِل کھلا کر ہنس پڑی اور کڑک کر نقلی غصّہ دکھاتے ہوئے بولی ’’ٹھہر جا۔۔۔ لُچّیا۔۔۔!! میں دِلاتی ہوں تمہیں جھُوٹا۔۔۔! مسٹنڈا کہیں کا۔۔۔!‘‘ رانوں ہنستی رہی بٹّو حویلی کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ وہ پھاٹک کھول کر صحن میں گیا تو اُس کی جرمن شیفرڈ کتیا جِنّی اُس کو دیکھتے ہی مستی میں زمین پر لوٹنے لگی۔ اُس نے پیار سے اُسے بلایا۔ ’’جی۔۔۔ نی۔۔۔!!‘‘

مالک کی تھوڑی سی توجّہ پا کر وہ اور خوشی کا اظہار کرنے لگی، بٹّو کے جوتے پر زبان پھیرنے لگی۔ بٹو کو اچھا نہ لگا۔ اُس نے اُسے ڈانٹا۔۔۔ ’’نو۔۔۔ نو جِنّی۔۔۔!‘‘ جِنّی شانت ہو کر بیٹھ گئی۔ جیسے سہم گئی ہو۔ صحن میں حویلی کا ایک کارندہ، مویشیوں کے لیئے چارہ تیار کر رہا تھا۔ ایک جوان لڑکی چارے کی ٹوکریاں بھر بھر کر لا رہی تھی۔ اُسے دیکھتے ہی بٹّو نے اُس سے سوال کیا۔۔۔ ’’لاڈو۔۔۔! ماں کدھر ہے۔۔۔!؟‘‘

وہ دوپٹّہ درست کرتے ہوئے بولی۔۔ ’’ویر جی۔۔۔! بی بی پچھلے وہیڑے (صحن) والے ٹیوب ویل پر کپڑے دھو رہی ہیں۔ میں اُدھر سے ہی آ رہی ہوں۔۔۔!‘‘

بٹّو بڑبڑایا۔۔۔ ’’اتنی سردی اور دھُند میں کپڑے دھونا۔۔۔! یہ ماں بھی لگتا ہے اپنے آپ کو سزا دینے پہ تلی ہے۔۔۔!‘‘

وہ ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو جِنّی (کتیا) بھی اُس کے پیچھے چلنے لگی۔ بٹّو نے اُسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا، وہ اُس کی نظریں پہچان کر کوں کوں کرتی ہوئی پھر بیٹھ گئی۔ بٹّو مسکرا کر برآمدے سے ہوتا ہوا پچھلے صحن میں جا پہونچا۔ اُس کی ماں جسّی اپنے سامنے کپڑوں کا ڈھیر لگائے بیٹھی ایک کپڑے کو صابن لگا کر مَسل رہی تھی۔ بٹّو کو دیکھ کر تھوڑی خفا ہو کر بولی۔۔۔

’’اتنے ٹائم سے سر پنچ کے پاس کیا کر رہا تھا؟ یہاں تیرے دوست میری جان کھا رہے ہیں۔ بٹّو کہاں ہے؟ بٹّو کِدھر ہے۔۔۔!؟‘‘

’’ماں۔۔۔! اُدھر بھیج دیتی، فارم ہاؤس پر۔۔۔!‘‘ وہ فوراً بولا

ایک کپڑے کو کوٹتی ہوئی، بولی۔۔۔ ’’سر پنچ کے سامنے جاتے ہوئے سبھی گھبراتے ہیں۔۔! میں تو سب کو کہتی رہی کہ بٹّو بنگلے پر گیا ہے۔ اپنے پاپا کی حاجری لے کر۔۔۔!!‘‘

’’آج لوہڑی ہے نا۔۔۔ ابھی ان کے ساتھ مل کر مجھے بھی دو چار لوہڑی والے گھروں میں جانا ہے۔ اُن کی شام کا انتظام ہو جائے گا، میں تو شام کے بعد شہر جاؤں گا۔ ایک دوست کے بھتیجے کی لوہڑی ہے! جَسّی کے ہاتھ رُک گئے۔ ’’مگر رات کو تو ہمیں جسّا نمبر دار کے گھر جانا ہے۔ وہ خود آئے تھے کہنے اپنے پوتے کی لوہڑی، بڑی دھوم دھام سے بھر رہے ہیں۔۔۔!!‘‘ نہ گئے تو وہ ناراض ہوں گے۔ تو تو جانتا ہے وہ اپنے رشتہ دار ہیں اور سر پنچ کے گہرے دوست بھی۔۔۔!!‘‘ جسّی مگھے سے پانی کپڑے پر ڈال کر اُسے پھر رگڑنے میں مصروف ہو گئی اور بولی ’’مت جا۔۔۔ آج لوہڑی وہیں منائیں گے۔ اُن کا لڑکا بھی تیرا دوست ہے۔!‘‘

وہ اُکتا کر بولا، ’’ماں میں نے پاپا کو بتا دیا، ایم۔ ایل۔ اے کا بیٹا میرا دوست ہے۔ اُس کے بڑے بھائی کے بیٹے کی لوہڑی ہے۔۔۔!‘‘

جسّی فکر مند ہو کر بولی۔ ’’اکیلا جائے گا یا کوئی ساتھ ہو گا۔۔۔!؟‘‘

وہ خفا ہو کر بولا، ’’ماں۔۔۔ اب میں بچّہ نہیں رہا۔۔۔!‘‘

جسّی ہاتھ سے جھاگ کو صاف کرتے ہوئے ایک آہ بھر کر بولی، ’’تو جانتا ہے، سر پنچ نے گاؤں میں کئی دشمن پیدا کر لیئے ہیں۔۔۔ تو جب تک شہر سے لوٹتا نہیں مجھے چین نہیں آتا۔ دوسری بات یہ کہ تو لوہڑی کے فنکشن میں پیگ شیگ بھی ضرور لگائے گا۔ اور ڈرائیونگ بھی تیز کرتا ہے۔ واہے گرو خیر کرے۔ میری مان۔۔۔ ایک دو دوستوں کو ساتھ لے جا ۔۔۔ ہنستے کھیلتے لوٹ آنا۔۔۔!!‘‘

بٹّو بڑی چالاکی سے بات بدل کر پوچھنے لگا۔ ’’وہ پریتی موٹی کہاں ہے۔۔۔ ماں۔۔۔!!؟‘‘

’’اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاؤں میں لوہڑی مانگنے نکلی ہے۔ امریکہ والے بلکار کے گھر سے۔‘‘

’’بلکار تو اب امریکہ میں ہی رہتا ہے۔ سر پنچ کا بچپن کا دوست ہے۔۔۔!‘‘ اُن کو ایک ہزار روپے ملے ہیں۔

’’پریتی کی سہیلیاں ہمارے یہاں بھی آئی ہوں گی۔۔۔!‘‘ بٹو نے سوال کیا۔

’’ہاں۔۔۔! بے جی سے پانچ سو روپے لے گئیں۔ توبہ وہ پروفیسر راج کی بیٹی کتنا بولتی ہے، جان کھا گئی میری۔ مجھ سے اتنا بولا نہیں جاتا۔ میں نے تو اُن کو بے جی کے حوالے کر دیا تھا۔!!‘‘

جسّی کپڑوں کو پانی والے ٹب میں ڈالنے لگی۔ بٹّو خاموشی سے ماں کو گھورنے لگا، کچھ سوچ کر وہ جیسے دور سے بولا۔ ’’ماں ایک بات کہوں۔۔۔!؟‘‘

گیلے ہاتھوں سے وہ دوپٹہ سنبھالتے ہوئے بولی۔ ’’ہاں ہاں۔۔۔ بول۔۔!!‘‘

’’ماں وہ اچھی لڑکی نہیں۔ پریتی کو روکو اُس سے نہ ملا کرے۔ اگر میں نے اُس کو کہا تو تٗو جانتی ہے طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ وہ میری شکایت پاپا سے کرے گی۔ پاپا اپنی لاڈلی بیٹی کے لیئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ میری شامت آ جائے گی۔!!‘‘

کپڑوں سے ہاتھ کھینچ کر وہ کچھ سوچ کر بولی۔ ’’وہ لڑکی خراب نہیں۔ بس بولتی تھوڑا زیادہ ہے۔۔۔!!‘‘

بٹّو غصّہ سے بولا۔ ’’آپ اس حویلی کی قید سے باہر کب نکلتی ہیں۔۔۔ ؟ جو آپ کو کسی کی خبر ہو کہ کون کیا ہے۔ ہم باہر گھومتے پھرتے ہیں۔ ہمیں معلوم رہتا ہے۔ وہ۔۔۔! وہ لڑکی ایک ٹائم میں چار چار لڑکوں سے فلرٹ کرتی ہے۔۔۔ ماں۔۔۔ وہ لڑکی بہت گندی ہے۔۔۔!!‘‘

جسّی نے سر کھجا کر سوال کیا۔ ’’یہ پھَلرٹ کِسے کہتے ہیں۔۔۔!‘‘

وہ ہنس کر بولا، ’’ارے میری بھولی ماں فلرٹ مطلب آنکھ مَٹَکّے کا دھوکا۔۔۔!!‘‘

جسّی سنجیدہ ہو گئی، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئی اور بڑبڑائی۔ ’’کہتا تو تٗو ٹھیک ہی ہے۔۔! مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ آج پہلے پریتی سے بات کر لوں۔۔۔!‘‘

دونوں خاموش ہو گئے۔ جسّی ایک سرد آہ بھر کر پھر کپڑے دھونے میں مصروف ہو گئی۔ بٹّو کچھ سوچ کر بولا، ’’ماں۔۔۔! کالج میں پریتی کا آخری سال ہے۔ گریجویشن تو اُسے کروانا نہیں۔ میٹرک ہی بہت ہے۔‘‘

یہ فیصلہ پاپا جی پہلے ہی سُنا چکے۔ اُسے گھر بٹھا کر گھر کے کاموں میں لگا دو۔ سسرال میں جا کر رسوئی کا کام تو لڑکیوں کو کرنا ہی ہوتا ہے۔ تم سے، رسوئی کا کام اور سلائی کڑھائی کا کام سیکھ لے گی تو سسرال میں جا کر عزّت پائے گی۔ ورنہ ساس کے جوتے اور طعنے کھائے گی۔ جسّی بڑبڑائی، ’’کام کرنے کے لیئے بھلے گھر میں نوکر ہی ہوں۔ عورت کو سارے کام سیکھ لینے چاہئیں۔!‘‘

گو دھُند چھٹ چلی تھی۔ مگر سرد ہوائیں کانپنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ جیکٹ کی زِپ اوپر کھینچ کر بٹّو نے ایک جھرجھری لی اور ماں کی طرف دیکھ کر ہاتھ رگڑنے لگا۔ جو بڑے آرام سے کپڑے دھو رہی تھی۔ ایک سوئیٹر کے علاوہ اُس کے جسم پر کوئی گرم کپڑا نہیں تھا۔ بٹّو سوچنے لگا۔ وہ نوجوان ہو کر کتنی سردی محسوس کر رہا ہے۔ یہ ماں ہے کہ اتنی سردی میں کپڑے دھو رہی ہے۔ اس پر موسم کا کوئی اثر نہیں۔ آخر کسی مٹی کی بنی ہے یہ۔ ہر وقت کام کام کرتی رہتی ہے۔ نہ تھکتی ہے نہ اس پر سردی گرمی کا اثر ہوتا ہے۔ جانے کیوں اُسے کئی بار محسوس ہوتا کہ ماں جان بوجھ کر اپنے آپ کو مصروف رکھتی ہے۔ جیسے اپنے شریر کو سزا دے رہی ہو۔ اُس سے رہا نہ گیا۔ وہ ماں سے پوچھ ہی بیٹھا۔ ’’ماں اتنے ٹھنڈے موسم میں لوگ رضائیوں میں گھُسے پڑے ہیں۔ آپ یہ دھوب گھاٹ لگائے بیٹھی ہیں۔ گھر میں اتنے نوکر چاکر ہیں۔ یہ کپڑے کوئی اور بھی دھو سکتا ہے۔ تم جان بوجھ کر اپنے آپ کو سزا کیوں دیا کرتی ہو۔۔۔!؟‘‘

جسّی ایک کپڑا ملتے ہوئے بولی۔ ’’ارے۔۔۔ سب کی سب نکمّی ہیں۔ ان کے دھُلے کپڑے مجھے پسند نہیں۔ کپڑوں پہ لگے داغ ویسے ہی چھوڑ دیتی ہیں۔ اب سر پنچ کی عادت تو تٗو جانتا ہی ہے۔ کام کوئی خراب کر دے۔ گالیاں وہ تیری ماں کو ہی دیتا ہے۔ جسّی کا ہی سیاپا (ماتم) کرتا ہے۔ تمہیں اور پریتی کو شہر جانا ہوتا ہے وہاں گندے کپڑے پہن کر جاؤ گے تو لوگ کیا کہیں گے۔ کہیں گے بڑی حویلی والوں کو کپڑے دھونے کا سلیقہ نہیں۔ دو سوٹ پریتی کے تھے۔ دو بے جی کے تیری جینز پتلونیں بھی کئی دن سے میلی پڑی تھیں۔ ایک سوٹ میرا تھا۔ کل سر پنچ نے کرتے، چادرے اور کچھیرے بھیج دیئے تھے دھونے کو، آج نہ دھوتی تو کپڑوں کا ڈھیر لگ جاتا۔ دھوپ تو کئی دن سے نظر نہیں آئی۔ آج بھی کیا پتہ سورج نکلے نہ نکلے۔۔۔!!‘‘

ماں بولتی بھی رہی، ہاتھ بھی چلاتی رہی۔ وہ ماں کا چہرہ تکتا رہا۔ کسی زمانے میں اُس کی ماں بے حد خوبصورت رہی ہو گی۔ وہ خاموش ہی تھا کہ ماں پھر بڑبڑائی۔۔۔

’’اب کام تو کام کرنے سے ہی ختم ہوتا ہے نا۔ کام سے ڈرتے رہیں گے تو کام بڑھتا جائے گا، پُتّر۔۔۔!!‘‘

بٹّو فیصلہ کُن انداز میں بولا۔

ٹھیک ہے۔۔۔! ایک کام کرتے ہیں، پاپا سے کہہ کر واشنگ مشین منگوا لیتے ہیں۔ کچھ تو آرام ملے گا تمہیں۔۔!!‘‘

وہ خالی خالی نظروں سے بیٹے کو دیکھ کر طنزیہ مسکرائی۔

’’آرام۔۔۔ ؟! جسّی کو۔۔۔!؟ اور اس گھر میں۔۔۔!؟ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔!!‘‘ مجھے نہیں منگوانا مشین، واہے گرو نے ہاتھ دیئے ہیں کام کرنے کے لیئے۔ سر پنچ کو مت کہہ دینا، خواہ مخواہ ناراض ہو گا۔ تیری وَوہٹی (دلہن) آئے گی۔ تب منگوا لیں گے، مشین اوّل تو وہ خود ہی لے کر آئے گی۔ جہیز میں۔۔۔!‘‘

بٹّو نے فوراً سوال داغا۔ ’’کیوں۔۔۔ وہ کیوں لے کر آئے گی۔۔۔!!؟‘‘

وہ اُسے سمجھاتے ہوئے بولی۔ ’’سر پنچ اپنے برابر والوں کی بیٹی لے گا تمہارے لیئے۔ کسی کنگال کی بیٹی تو تمہاری دلہن بنے گی نہیں۔ آج کل تو غریب سے غریب بھی ٹی۔ وی۔ اور واشنگ مشین جہیز میں دے دیتا ہے۔‘‘

بٹّو بول اُٹھا، ’’ماں! میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنے سسرال والوں سے جہیز میں صرف ایک روپیہ لوں گا۔۔۔ صرف ایک روپیہ۔۔۔!!‘‘

کچھ سوچ کر، ’’او۔۔۔ ہو۔۔۔! روپیہ پہ یاد آیا۔۔۔!!‘‘

کمر ٹیڑی کر کے اُس نے، دس ہزار روپے کی گڈّی نکالی اور ماں کی طرف بڑھا دی۔ ہاتھ دوپٹہ سے خشک کر کے، روپے پکڑ کر اُس نے سوال کیا۔ ’’یہ روپے کیسے۔۔۔ ؟!‘‘

بٹّو نے جواب دیا، ’’پاپا نے دیے تھے۔ یہ گھر کے خرچے کے بقایا ہیں، جو انہوں نے تمہیں دینے تھے۔!‘‘

کرنسی نوٹوں کی گڈی دیکھتے ہوئے وہ بولی، ’’ٹھیک ہے۔۔۔!‘‘ تھوڑا خاموش رہ کر۔

’’ارے ہاں بٹّو ٹی۔ وی۔ کے اوپر بجلی کا بل پڑا ہے۔ وہ اُٹھا کر جیب میں رکھ لے۔ سر پنچ کو دے دینا۔۔۔ پرسوں وہ بے جی سے ملنے بیٹھک پر آیا تھا۔ مجھے یاد نہیں رہا کسی کارندے کو شہر بھیج کر بل کی رقم جمع کروا دے، تاریخ نزدیک ہی ہے۔‘‘

بٹّو کی جیب سے ترنّم پھوٹا۔ اُس نے موبائیل فون پر انگوٹھا گھسا کر، اُسے کان سے لگا لیا، اور غور سے موبائیل سے آتی ہوئی آواز سُننے لگا۔ پھر اک دم ہنس کر بولا۔ ’’اوئے۔۔۔ گالی مت دے سالے۔۔۔!! آ رہا ہوں، ۔۔۔ ہاں ہاں دیر ہو گئی یار۔۔۔ پاپا جی کے پاس گیا تھا۔۔۔۔ بس آ رہا ہوں۔ ایسا کرو تم لوگ آ جاؤ، میں جیپ نکال رہا ہوں۔۔۔!! جیپ سے گھومیں گے گاؤں میں۔۔۔!!‘‘

فون جیب میں رکھ کر بٹّو کھڑا ہو گیا اور بولا، ’’ٹھیک ہے ماں۔۔۔!میں چلا۔۔۔!!‘‘

جسّی ایک کپڑا نچوڑتی ہوئی بولی، ’’ارے کہاں چلا۔۔۔ کچھ کھا پی تو لے۔۔۔ صبح سے ایک کپ چائے پی کر نکلا تھا۔ میں کپڑے نچوڑ لوں، پھر ناشتہ تیار کرتی ہوں، ۔۔۔!!‘‘

وہ تقریباً دوڑتے ہوئے بولا، ’’جہاں جائیں گے وہیں کچھ نہ کچھ کھانا پڑے گا، تو رہنے دے۔۔۔‘‘

جسّی ایک لمبی سانس لے کر بڑبڑائی۔

’’واہے گرو۔۔۔۔ میں اس لڑکے کا کیا کروں، کسی کی سُنتا ہی نہیں۔ اب بھوکے پیٹ باہر جا رہا ہے۔۔۔!‘‘

کپڑے نچوڑ کر ٹب میں رکھتے ہوئے اُس نے آواز لگائی۔۔۔ ’’بچنیئے۔۔۔۔ نی بچنی۔۔۔!!‘‘

سامنے سے ایک سانولی لڑکی ننگے پاؤں، تقریباً دوڑتی ہوئی آئی، ’’کیا ہوا۔۔۔ بی بی جی۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔!؟‘‘

جسّی اُس کی طرف دیکھ کر ہلکے سے غصّہ سے بولی، ’’ہے۔۔۔ کھسماںنوں کھانی۔۔۔!(شوہر کو کھا جانے والی) مجھے کیا ہونا تھا۔۔۔!‘‘

سانسوں پہ قابو پا کر وہ بولی، ’’ہائے ہائے۔۔۔ میں سمجھی پتہ نہیں کیا ہوا بی بی کو۔۔۔ جو اتنی زور سے آواز دی۔۔۔!‘‘

جسّی ہنس کر بولی، ’’توں تو۔۔۔ جھلّی (پاگل) ہے۔ مجھے کیا ہونا ہے۔ چل یہ کپڑے اُٹھا، اور تار پر ٹانگ۔۔۔!‘‘

وہ جھٹ سے بولی، ’’بی بی جی۔۔۔ دھُند تو دیکھو۔۔۔ کپڑے اور گیلے ہو جائیں گے۔۔۔!‘‘

’’بچنی۔۔۔ کپڑے ٹانگ۔۔۔۔ آسمان صاف ہوتا ہے تبھی دھند پڑتی ہے۔ تھوڑی دیر میں دھوپ نکل آئے گی۔ تو کپڑے ٹانگ۔۔۔ میری کمر میں پتہ نہیں کیوں درد ہونے لگا۔۔۔۔!!‘‘

ٹب کو ہاتھ ڈال کر بچنی بولی، ’’میں نے تو کہا تھا، میں دھو دیتی ہوں، آپ مانتی ہی نہیں کسی کی۔۔۔!!‘‘

’’اچھا اچھا۔۔۔ زیادہ پٹر پٹر مت کر۔ تم کام کرنے لائق ہو، تو میں کیوں جان ماروں چل کپڑے اُٹھا۔۔۔!!‘‘

بچنی ٹب اُٹھا کر عقبی صحن کی طرف چل دی۔ گیلے کپڑے اور ٹھنڈی ہوا۔ اُس نے ایک جھرجھری لی اور اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ کمرے میں جا کر سب سے پہلے اس نے دوپٹے سے بندھے کرنسی نوٹ کھولے اور الماری میں رکھ کر تالا لگا دیا۔ اُس کی کمر میں درد نے کروٹ لی، وہ تڑپ کر رہ گئی۔ کپڑے بدل کر نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بیڈ پر دراز ہو گئی اور اپنے آپ کو رضائی میں محفوظ کر لیا۔ اور آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔ اور پریتی کی سہیلی کے بارے میں سوچنے لگی کہ کس طرح پریتی کو اُس سے الگ کیا جائے۔ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ اُس نے آنکھیں کھولیں، دروازے پر بچنی کھڑی تھی۔

’’بی بی جی۔۔۔ کپڑے تار پر ڈال دیئے اور ٹاپا وہیں رکھ دیا۔۔۔ کہو تو کمر میں بام لگا دوں۔۔۔!!؟‘‘

جسّی آہستہ سے بولی، ’’نہیں ری۔۔۔ بام تو رہنے دے۔۔۔ ایک کپ گڑ اور ادرک کی چائے بنا لا۔۔۔ جیسے کل بنا کر دی تھی۔ بس اتنا خیال رہے کہ دودھ نہ پھٹے۔۔۔!‘‘

وہ چہکی۔۔۔ ’’بی بی۔۔۔ میں دودھ کو چائے اور گڑ کے ساتھ نہیں پکاتی۔ الگ گرم کر لیتی ہوں۔۔!!‘‘

’’ٹھیک ہے۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ اب تو جا چائے بنالا، اچھی طرح پکا کر، مجھے گولی کھانی ہے۔۔۔!!

بچنی چلی گئی، کمرے میں سکوت چھا گیا۔ جسّی کے پپوٹوں نے پھر آنکھوں کو چھُپا لیا اور وہ بند آنکھوں سے ماضی کی بنتی بگڑتی تصویروں میں کھو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

(۵)

 

کتنا سہانا دن تھا جب اُس نے اس حویلی میں پہلا قدم رکھا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ساری دنیا اس غیور حویلی میں سمٹ آئی ہے۔ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رشتہ دار، گھر کے افراد اور نوکر چاکر ہر کوئی کسی نہ کسی کام میں الجھا ہوا نظر آ رہا تھا۔ حویلی کی عمارت جیسی اُس دن سجی تھی ویسی دوبارہ دیکھنے کو نہیں ملی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے پھولوں، خوشبوؤں اور روشنیوں کا ایک سمندر اُمڈ آیا تھا۔ اُس رات اُس نے گھونگھٹ میں سے ایک بار حویلی کی طرف نظر بھر کر دیکھا تھا اور دیکھتی رہ گئی تھی۔ دیو ہیکل بلڈنگ بجلی کے رنگین قمقموں سے لدی پڑی تھی۔ کم سے کم ایک کلو سونے کے زیورات سے لدی پھندی جب وہ کار سے اُتری تو لوگ اُسے ندیدوں کی طرح دیکھ رہے تھے۔ بینڈ بجنے کی تیز آوازوں نے پورے ماحول پر اپنی حکومت جما رکھی تھی۔ ہر کسی کو اونچے سروں میں بات کرنا پڑ رہا تھا۔ دار جی نشے میں جھوم جھوم کر روپے کے سِکوں کی بارش کر رہے تھے۔ سِکّے لوٹنے والے بچوں کی چھینا جھپٹی کی وجہ سے، ایک قدم آگے بڑھانا بھی مشکل ہو رہا تھا۔ پھاٹک سے اندر کھڑا عورتوں کا ہجوم شور مچا رہا تھا۔ آؤ۔۔۔ آگے آؤ۔۔۔، بلونت روپے لوٹنے والوں سے پریشان ہو کر دار جی کو روپے پھینکنے سے منع کر رہا تھا۔ مگر دلاور سنگھ سر پنچ پر تو جیسے شراب کے نشے کے ساتھ ساتھ، خوشیوں اور جوش کا بھوت سوار تھا۔ وہ اپنی دھن میں سرخ اور گوٹے والی تھیلی میں سے مٹھی بھر سکّے نکالتے اور پھینک دیتے۔ اُس دن کے بعد دار جی کو اُس نے اتنے نشے میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی میں وہ اپنی ہر تمنّا پوری کرنا چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے وہ اور بلونت حویلی کے آہنی پھاٹک پر پہونچے تھے۔

حویلی کے صحن میں عورتوں کا ہجوم تھا۔ سب سے آگے بے جی گلابی دوپٹہ اوڑھے آئیں انہوں نے پھاٹک کے دائیں بائیں سرسوں کا تیل ٹپکایا اور اُس کا ہاتھ پکڑ کر بولیں، ’’آ جا۔۔۔ جسّی ذرا سنبھل کر۔۔۔!‘‘ وہ تو بس گھونگھٹ میں لپٹی جا رہی تھی، اُسے کوئی خبر نہ تھی کہ کیا ہو رہا ہے کیا نہیں۔ پھر ایک دم عورتوں نے مل کر گانا شروع کیا، وہ گیت جو اس خاص موقع پر گایا جاتا ہے۔

’’پانی وار بنّے دیئے مائیں‘‘         (اے دولہے کی ماں پانی وار)

’’بنّا تیرے دوار کھڑا‘‘                  (دولہا تیرے دروازے پر کھڑا ہے)

’’سُکھاں منگدینوں ایہہ دن آیا‘‘     (منّتیں مانگ مانگ کر یہ دن آیا)

’’بنّا تیرے دوار کھڑا‘‘                  (دولہا تیرے دروازے پر کھڑا ہے)

پنجاب میں بنّا یا بنرا دولہے کو کہا جاتا ہے اور بنّی دلہن کو کہتے ہیں۔ پیتل کی ایک لٹیا میں دودھ کی لَسّی ڈالی جاتی ہے اور اُس میں تین چار پیپل کے پتّے ڈالے جاتے ہیں۔ بے جی نے اُس کے ساتھ آئی ہوئی ماسی کو دولہا پر کرنسی نوٹ گھما کر، تھما دیئے۔ جس کو شگن کہا جاتا ہے۔ پھر اُسے اور بلونت کو عورتوں کے درمیان کھڑا کر دیا گیا۔ سب سے پہلے بے جی نے اُن دونوں کے سروں پر لُٹیا گھما کر لَسّی کا ایک گھونٹ پیا، بعد میں دوسری چھ سہاگنوں نے لٹیا اُن کے سروں پر گھُما کر لسّی کا ایک ایک گھونٹ پیا۔ بچی ہوئی لَسّی کو دیوار پر گرا دیا گیا۔ اس طرح پانی وارنے کی رسم ہوئی۔ پانی کی رسم کے دوران بلونت نے جو بھابیوں کے ساتھ مستی کی وہ اُسے گھونگھٹ کے اندر بھی محسوس ہوتی رہی۔ سبھی عورتیں ایک ہی بات کہے جا رہی تھیں کہ یہ تو پکّا کنجر ہے، یہ تو دوسروں کی شادی میں مستی کرنے سے باز نہیں آتا۔ اپنے وِیاہ (شادی) میں کیوں نہیں کرے گا۔ جب اُس نے پہلی بار عورتوں کے مونہہ سے یہ لفظ سُنا تو اُسے بڑا غصّہ آیا تھا۔ بعد میں اُسے پتہ چلا کہ سارا گاؤں ہی اُسے اُس کی خر مستیوں کی وجہ سے پیار سے بلونتا کنجر کہتا تھا۔ بلونت بھی بُرا نہیں مانتا تھا یہ سُن کر اور زیادہ مستی کرتا۔

پھر عورتیں کوئی مقامی گانا مل کر گاتیں۔ اُنہیں حویلی کے اندر لے گئی تھیں۔ وہ بلونت کے پیچھے پیچھے جب حویلی کے اندر جا رہی تھی تو اُسے محسوس ہو رہا تھا۔ جیسے وہ زمین کی بجائے ستاروں پر قدم رکھ رہی ہو۔ چھوٹی چھوٹی رسمیں ہوتی رہیں۔ جیسے جیسے بے جی کہتی گئیں وہ کرتی رہی۔ کس قدر مقدّس خمار تھا وہ، کیسا سرور تھا وہ آج تک نہ بھلا سکی تھی اُن لمحوں کے لمس کو۔ باہر بینڈ کا شور تھا۔ اندر عورتوں کے گانے کی تیز آوازیں عجیب رنگ پیدا کر رہی تھیں۔ وہ تو جیسے ہواؤں کے دوش پر اُڑی جا رہی تھی۔ آخر اُس کے سپنے سچ ہونے کا وقت آ ہی گیا۔ لڑکیاں اُس سے ہنسی مذاق کرتی ہوئیں بلونت کے کمرے میں لے گئیں۔ جہاں بہت ہی خوبصورتی سے سہاگ کی سیج سجائی گئی تھی۔ سفید چاندنی پر سرخ گلابوں کی ڈھیر ساری بکھری ہوئی پتیاں جیسے برسوں سے اُس کے وجود کی منتظر تھیں۔ جیسے کمرہ اُس کی موجودگی سے مکمل ہو گیا تھا۔ ماسی نے اُسے پلنگ پر بٹھا کر اُس کے جوتے اُتارے اور فرش پر جما دیئے۔ لڑکیاں آپس میں مذاق کرتی ہوئیں قہقہے بکھیر رہی تھیں۔ اُن میں سے ایک بولی، ’’نی۔۔۔! چلو باہر چلیں، بلونتا آ گیا، تو جان چھڑانی مشکل ہو جائے گی۔ بھابھی ہی بھُگتے گی اب اُس کنجر کو۔۔۔۔۔ گاؤں کی لڑکیوں کو پریشان کرتا رہتا ہے۔۔۔!!‘‘

ساری لڑکیاں قہقہے بکھیرتی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں۔ ماسی بھی کسی بہانے سے باہر نکل گئی۔ مسہری کی کلیوں کی خوشبو سے کمرہ مہکا پڑا تھا۔ اُس نے اپنے آپ کو سمیٹا اور گھٹنوں پر ٹھوڑی جما کر اپنے دل کی دھڑکنوں میں کھو گئی۔ جانے کیوں اُس کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔ حالانکہ، بلونت کے بھرے بھرے بازو اور چوڑی چھاتی تو اُس کا سپنا تھا، پھر اُسے کیا ہو رہا تھا۔ ایک عجیب سا جذبہ تھا، بے انتہا خوشی، جوانی کا جوش ان کے اوپر وہ ہلکا ہلکا سا خوف۔ اُس خاص جذبے کو وہ آج تک کوئی نام نہ دے سکی تھی۔ رات کے گیارہ بجے کے قریب، برآمدے میں لڑکیوں کے قہقہوں کا شور اُٹھا اور بلونت کمرے میں داخل ہو گیا۔ اُس کی دھڑکن اور تیز ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد بلونت ٹانگیں پلنگ سے لٹکا کر سیدھا لیٹ گیا اور بڑبڑایا ’’شادی کرنا بھی۔۔۔ بڑی محنت کا کام ہے۔۔۔ یار۔۔۔ میں تو تھک کر چور ہو گیا!‘‘

وہ خاموش رہی۔۔۔ اُس نے اپنے مہندی رنگے گلابی پیروں کے پاس کوئی چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ذرا سا گھونگھٹ اُٹھا کر اُس نے دیکھا تو وہ چیخ مار کر، بے ساختہ، پلنگ سے نیچے اُتر گئی۔ مارے خوف کے وہ کانپنے لگی۔ اُسے اپنے گھونگھٹ کا خیال نہ رہا۔ اُس کا سرخ سُنہری دوپٹہ پلنگ پر پڑا رہ گیا اور وہ ننگے سر کھڑی ہو گئی۔ بلونت کا ایک زوردار قہقہہ بُلند ہوا، وہ جسّی کو دیکھ کر ہنسے جا رہا تھا، پلاسٹک کا ایک سیاہ رنگ کا بچھو اُس کی اُنگلیوں میں تھا۔ اُس نے جلدی سے دوپٹہ اُٹھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ دوپٹہ ہاتھوں میں اُٹھا کر بلونت اُسے گھور رہا تھا۔ اور کہہ رہا تھا۔

’’اب کیا فائدہ۔۔۔۔ چاند تو بادلوں سے آزاد ہو کر درشن دے گیا۔ اپنے اپنے سٹائیل کی بات ہے۔۔۔! وہ بڑی مشکل سے بولی ’’ہائے۔۔۔۔ میری تو جان نکل گئی۔۔۔!!‘‘

بلونت بغیر آنکھیں جھپکائے اُس کو نہارتا رہا۔ پھر آگے بڑھ کر، اُس نے اُسے گلے لگا لیا اور بولا،

’’سوری۔۔۔۔ جان۔۔۔۔!!‘‘

اور پھر بلونت نے اُس کے وجود کو ایک نئی جہت دے دی اور اُس کے پہلو میں سما گیا۔ اُس رات اُسے محسوس ہوا کہ جیسے وہ آج مکمل ہو گئی۔ جیسے اُس کا نیا جنم ہوا ہو۔ جیسے اُس کے پر لگ گئے ہوں اور وہ آسمان کی وسعتوں میں دیوانہ وار، بلاوجہ اُڑتی چلی جا رہی ہو۔ شاید واہے گرو نے زندگی کی تمام تر خوبصورتی نچوڑ کر، سہاگ رات بنائی ہو۔ اُس رات بلونت نے نیند تو اُس کی آنکھوں سے نوچ ہی لی تھی۔ اتنا پیار کہ اُس سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا تھا۔ لذّتوں میں ڈوبے ہوئے دو دلوں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ کب صبح ہو گئی۔ باہر سے آہستہ آہستہ آوازیں آ رہی تھیں۔

’’جسّی!۔۔۔ جسّیئے!!۔۔۔ بیٹے دروازہ کھول۔۔۔ صبح ہو گئی۔!!!‘‘

اُس کے بھاری پپوٹے پھڑپھڑائے، نہ چاہتے ہوئے بھی اُس نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھی۔ اُس نے بلونت کا جسم چادر سے ڈھانپ دیا۔ جو اوندھے مونہہ بے خود ہو کر سو رہا تھا۔ چپل گھسیٹتی ہوئی وہ دروازے کی طرف لپکی۔ دروازہ کھولا تو بے جی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ اُس نے ست سری اکال بلا کر، بے جی کے پاؤں چھوئے۔ بے جی دُودھوں اور پوتوں کی دعائیں دے کر آہستہ سے بولی، ’’ڈولی کے ساتھ آنے والی عورت، کیا کہتی ہے تو اُسے۔۔۔!؟‘‘

وہ گردن جھکائے بولی، ’’جی۔۔۔! ماسی۔۔۔!!‘‘

بے جی نے اپنی بات پوری کی ’’میں اُس ماسی کو بھیج دیتی ہوں۔ تو باتھ روم ہولے، برش وغیرہ کر لے۔ پھر چائے بھجواتی ہوں۔ چائے آ جائے تو بلونتے کو جگانا۔ یہ تو انگریز ہے۔ گندے مونہہ ہی چائے پیتا ہے۔!‘‘

بے جی چلی گئی تو اُس نے باتھ روم کا رُخ کیا۔ ضروریات سے فارغ ہو کر، وہ بیٹھ گئی۔ بلونت نیند میں مسکرا رہا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ کوئی ایسی شرارت کرے کہ بلونت ہڑبڑا کر اُٹھ جائے مگر وہ ایسا کر نہ سکی۔ اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر، ہلاتی ہوئی آہستہ سے بولی۔۔۔۔

’’بلونت جی!۔۔۔ بلونت جی!۔۔۔ اُٹھیئے۔۔۔۔ اُٹھئیے نا بلونت جی۔۔۔!!‘‘

وہ اوں۔۔۔ آں کر کے مچلتا رہا۔ جب اُس کی نیند ٹوٹی تو اُس نے آنکھیں کھولے بغیر، جسّی کا بازو کھینچ کر اُسے اپنے اوپر گرا لیا اور اپنے مضبوط بازوؤں میں جکڑ لیا۔ اُس کی پسلیاں چُرمرا  گئیں۔ اُس کے مونہہ سے ہلکی سی چیخ کمرے میں اُبھری، ’’اوئی ماں۔۔!‘‘

وہ کسمسائی اور بلونت کے بازوؤں سے آزاد ہونے کی کوشش کرنے لگی اور سرگوشی میں بولی،

’’چھوڑ دو جی۔۔۔!۔۔۔ چھوڑو۔۔۔!! کوئی آ جائے گا۔۔۔!!!‘‘

بلونت آنکھیں بند کیئے ہوئے ہی بولا، ’’ارے تو آنے دو۔۔۔!۔۔۔ کوئی بھگا کر تو لایا نہیں تمہیں۔۔۔!!‘‘

’’چھوڑو جی۔۔۔!۔۔۔ دیکھو ماسی آ گئی۔۔۔!!‘‘ وہ بڑ بڑائی

بلونت نے آنکھیں کھول دیں۔ ماسی ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیئے کھڑی تھی، اُس نے مسکرا کر دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ بازوؤں کی گرفت ڈھیلی ہوئی تو وہ آزاد ہو کر، پلنگ کے ایک طرف بیٹھ گئی۔ میز پر چائے کے ساتھ ڈرائی فروٹ اور بسکٹ کی پلیٹیں رکھ کر ماسی باہر چلی گئی۔

چائے پی کر، پیالی رکھتے ہوئے، بلونت بولا، ’’بے جی نے چائے بھی پھیکی بھیجی۔۔۔!!‘‘

وہ تھوڑا حیران ہو کر بولی، ’’نہیں جی۔۔۔! میٹھا تو ٹھیک تھا۔۔۔!!‘‘

بڑی پھرتی سے بلونت نے اُس کے چہرے کے قریب ہو کر اُس کو چوم لیا، اور ہنس کر بولا،

’’اب ہوا ہے۔۔۔ میٹھا برابر۔۔۔!!‘‘

وہ شرم سے دوہری ہو گئی۔ بلونت کا لمس اُس کی روح میں اُتر گیا۔ وہ آہستہ سے بولی۔ ’’زیادہ میٹھا اچھا نہیں ہوتا جی۔‘‘

بلونت تڑپ کر بولا، ’’یہ کیا یار، جی۔۔۔ جی لگا رکھا ہے۔ جان۔۔۔! میرا نام سردار بلونت سنگھ ہے۔ بلونت، پیار سے لوگ مجھے بلونتا کہتے ہیں۔ رات ہم دو سے ایک بن گئے۔ اب چھوڑو جی جی۔!!‘‘

بلونت نے گھوم کر اُس کی گود میں سر رکھ لیا اور ٹکٹکی باندھ کر اُس کا چہرہ دیکھنے لگا اور بڑبڑایا، ’’رب نے تمہیں بڑے فرصت کے وقت میں بیٹھ کر بنایا ہے۔ جسّی کِس کِس چیز کی تعریف کی جائے۔!

وہ اُس کا سر تکیئے پر ٹکا کر بولی ’’آپ اُٹھو، باتھ روم ہو لو جی۔۔۔! بے جی نے جلدی تیار ہونے کے لیئے کہا ہے۔‘‘

’’اوے چھوڑو۔۔۔! جاؤ کنڈی لگاؤ۔۔۔ پیار کی پہلی قسط، لے کر نکلیں گے۔۔۔!!‘‘

’’ہائے ربّا۔۔۔! چھوڑو۔۔۔!! ماسی آئی ہو گی۔۔۔ مجھے نہانا ہے۔ دار جی سے آشیر واد لینا ہے۔!‘‘

’’ارے پہلے اُن کے بیٹے کا آشیر واد تو لے لو۔۔۔!‘‘

باہر سے بے جی کی آواز آئی۔ ’’بلونتے۔۔۔ بے بلونتیا!۔۔۔ تیرے دار جی بلا رہے ہیں تجھے۔ باہر آ جا۔۔۔!!‘‘ وہ دوپٹے کا کونا مونہہ میں لے کر ہنسی۔ ’’اب اُٹھو گے آپ۔۔۔!!‘‘

در اصل بلونت کو کمرے سے باہر نکالنے کا یہی ایک طریقہ تھا۔ دار جی کا نام سنتے ہی وہ پلنگ سے اُتر کر ننگے پاؤں ہی باتھ روم میں گھُس گیا۔

ہائے میں مر جاواں گُڑ کھا کے۔ آج تو کیؤں کو قتل کر ڈالو گی۔ میں تو ڈھیر ہو ہی گیا۔!!

ماسی کے ساتھ ایک عورت آئی جو چائے کے برتن اُٹھا کر لے گئی۔ اُس نے ماسی کو گلابی سوٹ نکالنے کو کہا جو بھاری ڈوپٹّے والا تھا، اور نہانے کی تیاری کرنے لگی۔ کم خوابی اور بلونت کی خوبصورت زبردستیوں اور کھلنڈرے پن نے اُس کے جسم کو جیسے توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اُسے نقاہت محسوس ہو رہی تھی۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی کہ ایسے میں اگر اُسے بخار آ گیا تو وہ رسمیں کیسے نبھا پائے گی۔ پرس میں سے اُس نے ایک پین کِلر کی گولی نکال کر حلق میں رکھی اور پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔ بلونت کوئی فلمی دھُن گُنگناتا ہوا باتھ روم سے باہر نکلا اور چپل پہن کر، کمرے سے باہر جاتے ہوئے بولا،

’’میں دار جی کے پاس جا رہا ہوں۔ تم نہا دھوکر تیار ہو جاؤ۔۔۔ بعد میں، میں بھی نہا لوں گا۔۔۔!‘‘ اُس نے خاموشی سے ہاں میں گردن ہلا دی۔ بلونت مسکراتا ہوا، باہر چلا گیا۔ تولیا اور ضروری کپڑے اُٹھا کر وہ باتھ روم میں چلی گئی۔ ماسی، باقی سامان سمیٹ کر اٹیچی کیس میں محفوظ کرنے لگی۔ گرم پانی کے شاور نے اُس کے جسم کو کچھ تازگی بخشی۔ لمبے بالوں کو تولیے میں لپیٹ کر اُس نے، باتھ روم سے باہر قدم رکھا، ماسی نے اُسکے اِردگرد چادر لپیٹ دی، کپڑے پہن کر وہ شنگار میز کی تپائی پر بیٹھ کر شیشے میں اپنا جائزہ لینے لگی اور شرما گئی میک اپ کو فائنل ٹچ دے کر وہ بیٹھی ہی تھی کہ بلونت کمرے میں داخل ہوا۔ ماسی یا کسی اور کو کمرے میں نہ پا کر وہ جسّی کی طرف بڑھا اور اُسے باہوں میں بھر کر بولا،

’’ہائے میں مر جاواں گُڑ کھا کے۔ آج تو کئیوں کو قتل کر ڈالو گی۔ میں تو ڈھیر ہو ہی گیا۔۔۔!‘‘

وہ ہنستی ہوئی بولی ’’چھوڑو۔۔۔! دروازہ کھلا ہے۔ کوئی۔۔۔۔۔۔!‘‘

وہ جملہ پورا نہ کر پائی تھی، بلونت نے اُس کے ہونٹوں پہ قُفل ڈال دیا۔ وہ تڑپ کر الگ ہو گئی اور آئینے میں دیکھ کر نقلی ناراضگی دکھاتے ہوئے بولی۔

’’ہائے ربّا۔۔۔۔ سارا میک اپ خراب کر دیا، اب مجھے پھر اتنا ہی وقت لگے گا جی۔۔۔ دیکھو ساری لپ سٹک بکھر گئی۔‘‘

واہے گرو کا واسطہ آپ نہا لو۔۔۔ لیٹ ہو گئے، تو بے جی ناراض ہو جائے گی۔۔۔!‘‘

بلونت کچھ کہنے والا ہی تھا کہ باہر سے بے جی کی آواز آئی۔

’’بلونتیا۔۔۔ پُتّر تیار ہو گیا تو لے آ جسّی کو۔ ناشتہ تیار ہو گیا۔۔۔!‘‘

اُس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ جلدی جلدی اپنا میک اپ درست کرنے لگی، بلونت بھی وقت کے تقاضے کو سمجھ چکا تھا۔ الماری میں سے کپڑے نکال کر اُس نے پگڑی کی میچنگ کی اور باتھ روم میں چلا گیا۔ ماسی نے اُسے زیورات سے لاد دیا اور وہ تیار ہو کر پلنگ پر بیٹھ گئی۔ بلونت نے نیا سوٹ پہن کر پگڑی باندھنا شروع کی۔ بے جی کمرے میں آ کر غصّہ سے بولی، ’’دیکھ لے ووہٹی تیار ہو گئی۔۔۔ توں ابھی پگ میں الجھا ہوا ہے۔ جلدی کر ناشتہ کر کے گورودوارے بھی جانا ہے۔ رومالے کتنے لے کر آیا تھا۔۔۔!؟‘‘

وہ پگڑی کے پلّے کو گھُماتا ہوا بولا۔۔۔ ’’گیارہ تھے۔‘‘

بے جی کمرے سے باہر نکلتے ہوئے بولی، ’’ٹھیک ہے اب جلدی سے جسّی کو لے کر باہر آ جا سبھی لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ پگڑی باندھ کر اُس نے نظر بھر کر اپنا جائزہ لیا اور مسکرا کر اُس کی طرف ہاتھ بڑھا کر بولا، ’’چلو سردارنی جی۔۔۔ باہر جنتا آپ کا انتظار کر رہی ہے‘‘

وہ ایک ادا کے ساتھ اُٹھی اور گھونگھٹ نکال کر بلونت کے پیچھے پیچھے چل دی۔ ہال کمرے میں پہونچ کر سب سے پہلے اُس نے دار جی کے پاؤں چھو کر آشیرواد لیا۔ بلونت نے دار جی کے برابر بیٹھی ہوئی ایک بزرگ عورت کی طرف اشارہ کیا، ’’یہ لڑکی بوا جی ہیں، پریتو بوٗا‘‘

بزرگ عورت نے بلونت کا کان پکڑ لیا، ’’وے کنجرا۔۔۔ کدی نے شرم کر لیا کر، میں نوں کڑی دَس دا ہیں۔ (اوئے کنجرا۔۔۔ کبھی تو شرم کر لیا کر۔ مجھے لڑکی بتا رہا ہے) میں تیرے باپ نالوں وڈّی ہاں۔ (میں تیرے باپ سے بڑی ہوں)۔

بلونت بلبلا اُٹھا۔ ’’اوہ۔۔۔ بوا جی غلطی ہو گئی، وہ اُس کی طرف مونہہ پھیر کر بولا۔‘‘

’’جسّی۔۔۔! یہ بوڑھی مائی۔۔۔۔ ہماری بوا جی ہے۔۔۔!‘‘

وہ جھکی اور بوا جی کے بھی پاؤں چھو کر اُن کا آشیر واد لیا۔

بوا جی اُس سے مخاطب ہو کر بولیں۔

’’بھائی۔۔۔ بیبا۔۔۔ بلونتے دی کِسے گل دا بُرا نہ منا لئیں۔ ایہہ تاں کنجر ہے۔ سارا پنڈ جاندا ہے۔ (بھائی۔۔۔ بی بی۔۔ بلونتے کی کسی بات کا برا نہ منا لینا۔ یہ تو کنجر ہے۔ سارا گاؤں جانتا ہے۔)

رسوئی کے ساتھ والے کمرے میں دونوں بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے۔ جلدی جلدی چلتی ہوئی بے جی کمرے میں آئی اور جسّی سے مخاطب ہوئی۔

’’جسّی بیٹے۔۔۔! تم آرام سے ناشتہ کر لو، اور ہال کمرے میں بیٹھو، میں مہمانوں کے لیئے بھاجی تول کر پیک کروا دوں، اتنے میں پھر ٹائم نہیں لگے گا۔ کچھ لوگ تو ابھی جانے کے لیئے تیار ہو رہے ہیں۔ میری کانپور والی بہن، وہاں پرنسپل ہے، وہ جلدی مچا رہی ہے۔ اب نانکے سوا من بھاجی لے جانے کے لیئے کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے محلّے اور دوستوں میں بھاجی بانٹنی ہے۔۔۔۔!مٹھائی کے ٹوکرے بھی بلونت کے دار جی نے بیٹھک میں ہی رکھوا لیئے۔۔۔!!‘‘

بھاجی بھی پنجاب کی ایک دلچسپ رسم ہے۔ شادی میں آئے ہوئے مہمان جب اختتام پر وِداع ہوتے ہیں تو ان کو گھر والے حسبِ حیثیت مٹھائی دیتے ہیں، کوئی ایک کلو دیتا ہے تو یا کوئی دو ڈھائی کلو فی کنبہ دے دیتا ہے۔ خاص طور پر ننہال والوں کو، حیثیت والے لوگ چالیس کلو مٹھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ چھَک لے کر آتے ہیں۔ لفظ چھَک پنجابی میں کہا جاتا ہے۔ علاقائی سطح پر اس کو کچھ اور بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر ’’بھات بھرنا‘‘ کہا جاتا ہے۔ نواسی کی شادی میں ماضی بعید میں ننہال والے پلنگ پیڑھا دیا کرتے تھے۔ آج کل فرنیچر دیا جانے لگا ہے۔ دولہا دولہن کے لیئے دیگر متعلقہ رشتوں کے لیئے سوٹ، دُلہن کو زیور بھات بھرنا یعنی چھک دینا اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ بہر حال بھات بھرنے والے ننہال، نواسے کے لیئے کپڑے اور دوسرے تحائف دے دیتے ہیں۔ کچھ لوگ نقد رقم بھی دے دیتے ہیں۔ بھات بھرنے والے زیادہ بھاجی یعنی مٹھائی جو بیسن کی ہوتی ہے جیسے لڈو، میٹھی نمکین سِویاں، جِسے لوگ نگدی بھی کہتے ہیں۔ مَٹھّیاں، شکر پارے وغیرہ۔ شادی سے فارغ ہو کر ننہال والے اپنے رشتہ داروں میں بھاجی بانٹتے ہیں۔ بھاجی کا دوسرا نظریہ شاید یہ بھی ہوتا ہو کہ شادی کے ہفتہ دس دِنوں بعد تک بھی، بھاجی کھاتے ہوئے لوگ شادی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔

’’بس، بھاجی سے فارغ ہو کر، ہم گوردوارے، ارداس کرنے جائیں گے اور وہیں چھٹیاں کھیلنے کی رسمیں، ہو جائیں گی۔ تیرے دیور ہیں کہ بے تاب ہو رہے ہیں۔ چھٹیاں کھیلنے کو، میں نے کہہ دیا کہ بس دو لڑکے کھیلیں گے چھٹیاں۔ ایک پھوپھی کا لڑکا دوسرا ماموں کا۔ گوردوارے سے واپس آ کر، کنگنا کھیلنے کی رسم کرنی ہے۔ بارہ بجے گاؤں کی عورتیں مونہہ دکھائی کے لیئے آنے لگیں گی۔۔۔۔!!‘‘

بے جی کمرے سے نکل کر جاتے ہوئے بولی، ’’ناشتہ اچھی طرح کر لینا، دوپہر کو کھانا لیٹ ملے گا۔ تمہیں عورتیں گھیرے رکھیں گی۔۔۔!‘‘

گو موسم ملا جلا تھا، لیکن جسّی پسینے سے پریشان تھی، مہمان رشتہ داروں کے جمگھٹ میں وہ گوردوارے میں پہونچی، جو حویلی سے زیادہ دور نہ تھا۔ راستے میں عورتیں ایک دوسرے کے قریب مونہہ لا کر روایتی گیت گا رہی تھیں۔ بلونت کندھے کا کپڑا تھامے جو اُس کے کندھے کے کپڑے سے بندھا تھا، جسے پنجاب میں گٹھ جوڑ کہا جاتا ہے، شرارتیں بکھیرتا، آگے آگے چل رہا تھا۔ وہ گھونگھٹ میں اُس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ اُس کا پرس لیئے، ماسی اُس کے ساتھ موجود تھی۔ گوردوارے کے اندر جا کر وہ میٹھی میٹھی اور مسرور کرنے والی مقدس کیرتن سُننے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بے جی اور دار جی نے اُن کو اُٹھایا، انہوں نے ماتھا ٹیک کر بھائی جی سے آشیر واد لیا۔ دار جی نے آگے بڑھ کر گیارہ زعفرانی رومالے اور اکیاون سو روپے بھائی جی کو بھینٹ کیئے۔ اور بولے، ’’واہِ گرو جی کا کھالسا واہے گرو جی کی فتح‘‘

بھائی جی نے سب کو گوردوارے کا پرشاد، دیسی گھی کا حلوہ دیا، اور دولہا دلہن کا گٹھ جوڑ کھول دیا۔ دولہا دلہن گٹھ بندھن سے آزاد ہو کر گوردوارے سے باہر آئے۔ دھوپ تیز ہو چلی تھی۔ پورب سے آتی ہوئی ہواؤں میں خنکی بڑھ چلی تھی۔ گوردوارے کے کھلے صحن میں، سبھی لوگ اکٹھے ہو گئے۔ دلاور سنگھ اپنے دو چار ساتھیوں کو لے کر گاؤں کی طرف چل دیئے۔ چھٹیاں کھیلنے کی رسم کی تیاری ہو گئی۔ پنجابی زبان کا لفظ چھٹی شاید چھڑی سے ہی بگڑا ہے۔ چھَٹی درخت کی پتلی اور سوکھی ہوئی شاخ کو کہتے ہیں۔ کپاس کا پودا سوکھ جاتا ہے اُسے بھی چھٹی کہتے ہیں۔ چھٹیوں کا کھیل دلہن دیوروں کے ساتھ کھیلتی ہے اور دولہا اپنی بھابیوں کے ساتھ کھیلتا ہے۔ دلہن جو اپنا گھر، اپنے لوگ چھوڑ کر آتی ہے اُس کی دل جوئی کے لیئے یہ چھوٹی چھوٹی رسمیں ہوتی ہیں۔ کنگنا کھیلنا بھی اسی کی کڑی ہے۔ اِن رسوم کا فائدہ یہ بھی ہے کہ دلہن گھر والوں سے تھوڑا کھُلتی ہے اور اُس کو نئے رشتوں کی پہچان بھی ہوتی ہے۔

رسم شروع ہوئی۔ سب سے پہلے دولہا دلہن کو کھیلنا تھا۔ بلونت نے چھٹی اُٹھا کر ڈرامہ بازی شروع کر دی۔ ایک دم چیخا۔۔۔

’’آج دیکھنا ہے پھگواڑے والوں نے جسّی کو کتنا دودھ، مکھن کھلایا ہے۔ وچولا (رشتہ کروانے والا) کہتا تھا لڑکی مکھنوں سے پلی ہے۔ آ جا جسّیے میدان میں۔۔۔۔!!‘‘

جب بلونت جسّی کو چھڑی مارنے لگا، ایک چھڑی مارتا اور خود ہی، اداکاری کر کے کہتا ’’ہائے۔۔۔!‘‘ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گئے۔ انتہائی پیار سے چھڑیاں کھا کر، جسّی نے بھی آہستہ آہستہ سات چھڑیاں مار دیں۔ پھر پھوپھی کا بیٹا آیا۔ اُس نے آہستہ آہستہ سات چھڑیاں جسّی کو ماریں۔ جسّی نے اُس کو مار دیں۔ اُس کے بعد ماموں کا بیٹا۔ دو لڑکوں نے ضد کی کہ وہ بھی بھابھی سے کھیلیں گے۔ وہ دونوں بھی جسّی سے کھیل لیئے۔ دیوروں اور بھابی کی رسم ہو گئی تو بلونت زور سے بولا۔۔۔

’’او بھئی۔۔۔۔ سُن لو، میری بھابیوں میں سے جو بھابی سب سے خوبصورت ہے وہ میدان میں آ جائے۔۔۔!‘‘

بلونت کے قریبی رشتوں میں سے چھ سات بھابیاں موجود تھیں۔ سب کی اُس کے بھونڈے مذاق سے اور کھلنڈرے پن سے گھبراتی تھیں۔ کوئی بھابی سامنے نہیں آئی۔ آخر بے جی نے پھوپھی کی بہو، لاجو کو آواز دی۔

’’نی لاجو۔۔۔! چل نی۔۔۔ ہو آگے۔۔۔!‘‘

لاجو بہت خوبصورت لڑکی تھی۔ شادی کو دو سال ہو گئے تھے۔ بچّہ نہیں ہوا تھا۔ اپنے فِگر اور بناؤ شنگار میں وہ نمبر وَن تھی۔ بے جی کی آواز سُن کر وہ ساڑھی کا پلّو سنبھالتی ہوئی آگے آ گئی۔ بلونت نے اُسے چڑانے کی غرض سے چھیڑا۔۔۔

’’او۔۔۔۔ لاجو بھابھی۔۔۔! تمہیں کیسے وہم ہو گیا کہ تم ہی میری، ساری بھابیوں سے خوبصورت ہو۔۔۔۔!؟‘‘

وہ تنک کر بولی، ’’کیوں، ۔۔۔ کیا کمی ہے۔۔۔۔ مجھ میں۔۔۔۔!!؟‘‘

آنکھیں تیری ٹیڑھی ہیں۔۔۔ یوں۔۔۔ (وہ بھینگا بن کر آنکھیں دکھا نے لگا) اور یہ لمبی ناک بارڈر پار کر کے پاکستان جا رہی ہے۔۔۔۔ اور رنگ۔۔۔۔!؟‘‘

اس سے پہلے کہ بلونت کچھ اور کہتا وہ چھڑی گھما کر اُس کی طرف لپکی، بلونت قہقہے لگاتا ہوا آگے آگے وہ غصّہ میں بھری پیچھے پیچھے چلّائی۔

’’ٹھہر جا مویا (مرا ہوا) ابھی بتاتی ہوں تجھے۔ بہت سر چڑھا رکھا ہے گاؤں والوں نے تجھے۔۔۔!‘‘ وہ چھٹی کا وار ہاتھوں پہ روکتا ہوا، جسّی کے پاس آ گیا، جسّی کی ہنسی گھونگھٹ میں بے قابو ہو رہی تھی۔ بے جی چلّائی۔۔۔۔ ’’بے بلونتیا۔۔۔ بس کر۔۔۔ آرام سے چھٹیاں کھیل لے، گھر جا کر کنگنا بھی کھیلنا ہے!مونہہ دکھائی بھی ہونی ہے! تیرے دار جی پنچایت گھر چلے گئے۔ اُن کے سامنے تو گؤ بن جاتا ہے۔!‘‘

وہ ہاتھ جھٹک کر بولا، ’’میرے ہاتھ پر چھٹی ماری ہے۔۔۔ دیکھ لال ہو گیا۔۔۔!‘‘

لاجو کا شوہر بولا، ’’ہاں تیرے لگنی چاہیئے تھی۔ تو اُس کو۔۔۔ بھینگی جو بتاتا ہے۔۔۔!‘‘

بلونت زور سے ہنسا، ’’اچھا اب، لاجو بھابی کے وکیل بھی بن گئے ہو۔ جورو کے غلام تو تھے ہی۔۔۔!‘‘

قہقہوں اور چھیڑ چھاڑ کے درمیان چھٹیوں کی رسم جاری ہوئی، بلونت کو پہلے لاجو بھابھی کو سات بار چھٹی کا وار کرنا تھا۔ وہ غصّہ دکھاتے ہوئے، دانت پیستا ہوا، ذرا پیچھے ہٹ گیا، چوٹ والا ہاتھ دکھا کر، اُس نے لاجو کو گھورا، وہ سہم گئی۔ ہوا میں دو تین بار چھٹی کو گھما کر آواز کرتا ہوا لاجو کی طرف بڑھا۔ بالکل اُسی انداز میں جیسے ہیرو ہاتھ میں تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ لاجو گھبرا گئی، وہ آنکھیں بند کر کے، تکلیف سہنے کے انداز میں کھڑی ہو گئی۔ دیکھنے والوں پہ جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ بلونت نے مارنے کیلئے چھٹی ہوا میں لہرائی اور بھابھی کے بازو پر سات بار آہستہ آہستہ بڑے پیار سے، رسم پوری کر دی اور بولا، ’’سوری بھابھی جی۔۔۔۔ ڈرئیے مت۔۔۔!!‘‘

اس طرح چھٹیوں کی رسم پوری ہوئی۔ گوردوارے سے باہر پرانے پیپل کے نیچے رُک کر بے جی نے ایک لڑکے کے ہاتھ سے گیہوں کے آٹے کا تھال لیا اور اُس سے مخاطب ہوئی۔

’’جسّی۔۔۔! لے بیٹے اپنے ہاتھوں سے یہ آٹا پیپل کی جڑوں میں ڈال دے، چینٹے کھائیں گے۔۔۔!!‘‘

آگے بڑھ کر اُس نے آٹے کا تھال تھاما، اور پیپل کی جڑوں میں ڈال دیا، یہ رسم بھی پوری کر دی۔

گوردوارے سے لوٹے تو اُس نے دیکھا بڑے برآمدے اور صحن میں گدے بچھا دیئے گئے تھے اور سفید چاندنی بچھا دی گئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے صحن اور برآمدے میں برف باری ہوئی ہو۔ اُسے ہال کمرے میں، قالین پر بچھی چاندنی پر بٹھا دیا گیا۔ اُس کی بغل میں ماسی بیٹھ گئی۔ درمیان میں تھوڑی جگہ چھوڑ کر بلونت کو بٹھا دیا گیا اور سب کے سب ایک جمگھٹا بنا کر بیٹھ گئے۔ کمرے کے دوسری طرف بچّے شور مچا رہے تھے۔ بے جی نے بیٹھے بیٹھے ایک ملازمہ کو آواز دی۔۔۔،

’’نی۔۔۔ پرسِنّئیے۔۔۔! وہ شگنوں والی پرات اُٹھا لا، جلدی کر۔۔۔۔!!‘‘

پرات دودھ کی لسّی سے بھری پڑی تھی۔ اُس کے اندر گھاس، دو چار سکّے، ایک دو انگوٹھیاں پڑی تھیں۔ بے جی نے دونوں کے کلائیوں پہ بندھے کنگنے کھول کر پرات میں ڈال دیئے اور بلونت کی بڑی بھابھی، ماموں کی بہو کو آواز دی، وہ آ کر سب کے درمیان آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ بے جی نے پرس میں سے چاندی کا ایک روپیہ نکالا اور اُس کی طرف بڑھا دیا۔ بھابھی نے دونوں ہاتھوں سے پرات میں پڑے سامان کو مٹھی میں لے کر روپے کو شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے پکڑ لیا اور بولی،

’’کہو بھئی تیار ہو۔۔۔۔!؟ دونوں اپنے ہاتھ پرات میں رکھ لو۔۔۔!‘‘

ماسی نے اُس کے دونوں ہاتھ پرات کے پانی میں ڈبو دیئے۔ جسّی کا گھونگھٹ تھوڑا اوپر سرکا دیا۔ روپے والا ہاتھ پرات کی پیندی سے مار کر دوچار بار آواز کی اور ہاتھ پانی سے اوپر اُٹھا کر چھوڑ دیا۔ مٹھی کھُلتے ہی روپیہ سمیت سب کچھ پرات میں گِر پڑا۔ اب دونوں ہاتھوں سے جسّی اور بلونت چاندی کا روپیہ ڈھونڈنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد روپیہ بلونت کے ہاتھ لگ گیا۔ وہ اچھل پڑا، ’’میں جیت گیا۔۔۔ میں جیت گیا۔۔۔!!‘‘

روپیہ بھابھی کے ہاتھ پر رکھ کر وہ دوسری باری کا منتظر، جسّی کے ہونٹوں پر نظر جما کر بیٹھا رہا کہ بھابھی نے اُسے چونکا دیا۔ ’’بے بلونتیا۔۔۔! ووہٹی کو پھر دیکھ لینا، پہلے اِدھر دھیان دے۔۔۔!‘‘

جسّی اور بلونت دوسری پاری کے لیئے تیار ہو گئے۔ بھابھی نے پھر پانی کے اوپر مٹھی کھول دی۔ دوسری بار بھی بلونت ہی جیت گیا۔ بلونت نے محسوس کیا کہ جسّی، روپیہ ڈھونڈنے میں زیادہ کوشش نہیں کرتی، اور چاہتی ہے، بلونتا ہی جیتتا رہے۔ تیسری بار روپیہ تلاش کر کے بلونت نے پانی کے اندر ہی روپیہ جسّی کے ہاتھ میں دے دیا۔ اس طرح جسّی جیت گئی۔ وہ بلونت کی اس مہربانی پر مسکرائی۔ چوتھی پاری پر وہ خود بھی روپیہ پر جھپٹ پڑی اور روپیہ نکال کر بھابھی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ بھابھی نے بلونت کو آگاہ کیا۔

’’بلونتیا ذرا تگڑا ہو کر کھیل۔ اب کے ہار گیا، تو ساری زندگی جورو کا غلام بن کر رہے گا۔۔۔!!‘‘

سات بار کنگنا کھیلنے کے بعد، بلونت اور وہ اُٹھ گئے اور دوسرے جوڑے کنگنا کھیلنے کے لیئے آگے آنے والے ہی تھے ایک بُڑھیا بولی،

’’دلاور سیاں (دلاور سنگھ) کو بلاؤ۔ وہ بلونتے کی ماں سے کنگنا کھیلے گا۔۔۔!!‘‘

بے جی نے وقت کی کمی کی وجہ سے معاملہ ٹال دیا۔ ’’اب سر پنچ کی خبر کیا کہ وہ کہاں اور کن لوگوں کے پاس بیٹھے ہوں گے۔۔۔ اُن کو بلانے میں گھنٹہ لگ جائے گا، کنگنا کھیلنے والے جوڑے سُکھ نال بہت ہیں۔ شگُن ہی کرنا ہے، وہ ہو جائے گا۔ بارہ بجے قریب کنگنا کھِلتا رہا۔ اُس کے بعد جسّی کو بلونت کے کمرے میں لے جا کر تیار کیا گیا۔ میک اپ وغیرہ درست کر کے جسّی کو ماسی بڑے برآمدے میں لے آئی۔ جہاں اُس کے بیٹھنے کے لیئے ایک خاص جگہ بنائی گئی تھی۔ گاؤں کی عورتیں صحن میں کافی جمع ہو رہی تھیں۔ وہ ماسی کے ساتھ بیٹھ گئی۔ گھر کی عورتیں بھی اُس کے قریب آ کر بیٹھنے لگیں۔ دوسری طرف بوا جی کو ایک پرس دے کر اُس کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔ سب سے پہلے بوا جی نے اپنے پرس میں سے سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر اُس کے دونوں ہاتھوں میں تھما دیئے اور گھونگھٹ اُٹھا کر بعد میں دیکھا جبکہ رسم پہلے مونہہ دیکھنے کی ہوتی ہے۔ بوا (پھوپھی) بولی۔ ’’میں نے ہی تو تمہیں پہلی بار دیکھ کر پسند کیا تھا۔ اپنے بھتیجے کے لیئے۔ پر جسّیئے تو تو پہلے سے بہت سوہنی ہو گئی۔۔۔ پری لگتی ہو۔۔۔ پری۔۔۔۔!! واہِ گرو بری نظر سے بچائے۔۔۔!!‘‘

اُس نے کوئی جواب نہیں دیا، بس سُن کر شرم سے دوہری ہو گئی۔ بوا جی کے بعد دوسری رشتہ دار عورتوں نے اُسے مونہہ دکھائی دی، وہ دوپٹّے کا ایک پلّہ پھیلائے گھونگھٹ میں بیٹھی تھی، آنے والی عورت گھونگھٹ اُٹھا کر اُس کا چہرہ دیکھتی، پھر اُس کے پلّے میں کرنسی نوٹ ڈال کر ایک طرف بیٹھ جاتی۔ آہستہ آہستہ عورتوں سے صحن بھر گیا۔ گو موسم معتدل تھا پھر بھی جسّی پسینے میں بھیگ رہی تھی۔ سِلک کے بھاری کڑھائی والے کپڑے اور زیورات اوپر سے عورتوں کا ہنگامہ کئی عورتوں کے مونہہ سے آنے والی بدبو سے وہ پریشان ہو اُٹھی۔ جو بھی دیکھتی وہ عَش عَش کر اُٹھتی اور یہ کہے بغیر نہ رہ پاتی۔۔۔

’’ہائے نی۔۔۔ کنّی سوہنی ووہٹی اے بولنتے دی۔۔۔!!‘‘

واقعی، یہ کوئی جھوٹ نہ تھا۔ عورتیں باتیں کر رہی تھیں کہ ایسی پری چہرہ دُلہن اتنی سُندر پہلے کبھی اس گاؤں میں نہیں آئی۔ رنگت ایسی جیسے مکھن پہ کیسر (زعفران) کا رنگ گھول کر ڈال دیا گیا ہو۔ تیکھے تیکھے نین نقش۔ مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے پتلے پتلے ہونٹ۔ ستواں ناک۔ پیالہ سی خمار آلودہ آنکھیں۔ باریک پہلی تاریخ کے چاند جیسی بھنویں، کشادہ پیشانی، گھٹنوں تک لٹکتے سیاہ بال، اوپر سے ہیرے اور سونے کے نئے فیشن والے زیورات۔ اُس کی اتنی تعریفیں کبھی نہ ہوئی تھیں۔ کرنسی نوٹ جب زیادہ جمع ہو جاتے تو بوا جی اُنہیں ترتیب سے لگا کر پرس میں محفوظ کر لیتیں۔ دو بجنے کے قریب تھے۔ اُس کو ہلکی ہلکی بھوک محسوس ہونے لگی۔ مونہہ دکھائی کی رسم کے دوران دو بار بلونت آیا، اور بے جی سے تکرار کرنے لگا کہ اب بند کرو یہ سب اور دلہن کو اپنے کمرے میں جانے دو۔ وہ بلونت کی اس معصوم فرمائش پر دل ہی دل میں ہنسی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اُس کا شوہر کیوں پریشان ہو رہا ہے۔ بے جی نے دونوں بار اُسے ڈانٹا،

’’بے جھلّیا (پاگلا) مونہہ دکھائی کی رسم عورتوں کی ہوتی ہے، تیرا یہاں کوئی کام نہیں، تو اپنے دوستوں کے پاس جا۔۔۔!!‘‘

جب وہ اپنی ضد پر اڑا رہا، عورتیں اُس کی حالت پر ہنسنے لگیں۔ بے جی کو غصّہ آ گیا۔

’’تو یہاں سے جاتا ہے۔۔۔۔ یا تیرے دار جی کو بلاؤں۔۔۔!! گاؤں والیاں کیا کہیں گی۔۔۔!!!؟‘‘

وہ اونچی آواز میں بولا ’’کیا کہیں گی۔۔۔!؟ ووہٹی ہے میری۔۔۔ میں اِسے بھگا کر نہیں لایا۔۔۔!!‘‘

جو عورت زیادہ ہنس رہی تھی اُس کو مخاطب ہو کر بلونت بولا، ’’کیوں چاچی ٹھیک اے ناں ٹھیک۔۔۔!!‘‘

چاچی۔۔۔ قہقہہ بکھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ ’’پورا کنجر ہے۔۔۔!‘‘

بھیڑ میں سے ایک آواز اُبھری، ’’بلونتیا۔۔۔! کوئی نا۔۔۔ کوئی نا۔۔۔ پوری رات تیری ہی ہے۔ جی بھر لینا۔۔۔!!!‘‘

بے جی نے اُس عورت کو ڈانٹا، ’’نی شرم کر نی۔۔۔ منڈے (لڑکے) کے ساتھ کیسی باتیں کرتی ہے۔ چل تو نکل یہاں سے!‘‘

بلونت کو دھکیلتی ہوئی بے جی ایک طرف لے گئی۔ بھیڑ سے ایک آواز آئی ’’جو لڈو کھانے ہیں رات کو کھا لینا‘‘

’’دوسری بولی ’’وہ بھی کیا کرے، سر پنچ بیٹے کے لیئے دلہن ہی اتنی خوبصورت لایا ہے۔۔۔!!بلونتا تو ہے ہی کنجر۔۔۔!!‘‘

مارے شرم کے اُس کی گردن جھک گئی تھی۔

بلونت کو کنجر کہنے والی بُڑھیا کو اُس نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔ کوئی اُس کے شوہر کو گالی دے یہ اُسے منظور نہ تھا۔ بے جی پر لفظ کنجر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ سُن کر محض ہنستی رہیں۔ کچھ دِنوں بعد جسّی پر یہ راز کھلا کہ گاؤں کے لوگ بلونت کی شرارتوں اور مسخرے پن کی وجہ سے گاؤں والے اُسے پیار میں کنجر کہتے تھے۔ نہ بلونت نے خود کبھی بُرا مانا نہ گھر والوں نے ہی کسی کو ٹوکا۔ سب جانتے تھے کہ کنجر بلونت کے لیئے گالی نہیں بلکہ لوگوں کی محبت ہے۔ گاؤں والے مانتے تھے کہ بلونت کی اچھل کود اور مسخرہ پن اُن کے گاؤں کا شنگار ہے۔ وہ بھی بلونت کی باتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کر لیتے تھے۔ خدا خدا کر کے رسم رونمائی ختم ہوئی۔ جسّی کو گرمی اور گاؤں کی عورتوں سے اُٹھتی مہک سے نجات مل گئی۔ بے جی اور دوسری عورتوں نے اُسے اُٹھایا اور بلونت کے بیڈ روم میں لے جا کر پلنگ پر بٹھا دیا اور باہر آ گئیں۔ سب سے پہلے تو جسّی نے بھاری کڑھائی والا دوپٹہ اُتار پھینکا۔ پھر سِلنگ فین پوری رفتار کے ساتھ چھوڑ کر، آنکھیں بند کر کے لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد بے جی کی آواز کمرے کے قریب آئی۔۔۔

’’جانے کیسی کیسی عورتیں مونہہ دکھائی میں آئی تھیں۔ جسّی کو کسی کو بری نظر نہ لگے، اس لیئے اُس کی نظر اتارنا ضروری ہے۔! وہ امریکہ والے بلکارے کی ووہٹی (دلہن) کیسے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔۔ اُس کی نظر بڑی بھیڑی (بری) ہے!‘‘

بے جی مٹھی میں سوکھی ہوئی سرخ مرچیں لیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔ جسّی اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ بے جی بولیں۔۔۔، ’’لیٹی رہو۔۔۔ لیٹی رہو بیٹا۔ میں نے تو بس نظر اُتارنی ہے۔۔۔!‘‘ مرچوں والی مٹھی کو جسّی کے سر پر سات بار گھُما کر، وہ واپس چلی گئی۔ جسّی پھر بے سُدھ ہو کر لیٹ گئی۔ بے جی نے مرچوں کو چولہے میں پھینکا تو مرچیں بھک بھک کر کے جل گئیں۔ دھانس (بٗو) کسی کو نہ آئی۔ جسّی کس قدر مسرور تھی کہ اُس کو کتنا پیار کرنے والی مہربان ساس ملی ہے۔ وہ دس بیس منٹ ہی لیٹی ہو گی کہ ایک نوکرانی اُس کے کمرے میں آ کر بولی، ’’بہو رانی۔۔۔! سردارنی جی نے آپ کو کھانے پر بلایا ہے۔۔۔!!‘‘

نوکرانی کے جانے کے بعد وہ اُٹھی تو اُس کی کمر میں درد ہونے لگا۔ وہ بُڑبُڑائی۔

’’توبہ۔۔۔! تین گھنٹے۔۔۔ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے اُس کی کمر اکڑ گئی۔۔۔!‘‘

باہر سے لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ کمرے میں آ کر وہ ایک آواز میں بولیں۔۔۔ ’’بھابھی۔۔۔ چلئے ہم سب مل کر آپ کے ساتھ کھانا کھائیں گی۔۔۔!‘‘

جسّی لڑکیوں سے باتیں بھی کر رہی تھی اور باہر کھلے صحن پر بھی اُس کی نظر تھی۔ جہاں بلونت بڑی بے چینی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ وہ کبھی کسی ملازمہ سے الجھ جاتا کبھی کسی رشتہ دار پہ ناراض ہو جاتا۔ کبھی کسی بچے کو بلا وجہ پیٹ دیتا۔ جسّی اُس کی بے قراری کو بخوبی سمجھتی تھی۔ وہ اُس کی قربت کے لیئے تڑپ رہا تھا۔ بلونت کی یہ تڑپ یہ چاہت جسّی کے دل میں گدگدی پیدا کر رہی تھی۔ بلونت لڑکیوں سے بھی ناراض کہ وہ سب کی سب جسّی کے ساتھ لنچ کریں گی۔ جب جسّی اور لڑکیوں کو کھانا پروسا جا رہا تھا تو وہ زبردستی جسّی کے قریب آ بیٹھا تھا۔ بلونت یوں مونہہ بنا بنا کر لڑکیوں سے باتیں کر رہا تھا کہ سارا ماحول قہقہہ زار ہو گیا۔ بلونت کو اُن دنوں، دن کا اُجالا کاٹے نہیں کٹتا تھا۔ وہ رات کے انتظار میں آنے بہانے جسّی کے اردگرد بھنورے کی طرح منڈلاتا رہتا۔ اُس دن رات کا کھانا کھا کر بلونت بیٹھا ہی تھا کہ اُس کے دوست آ گئے انہوں نے پوری طرح بلونتے کو گھیر لیا۔ وہ جان بوجھ کر بلونتے کے ساتھ چپکنے کی سکیم بنا کر آئے تھے۔ بلونت پہلے تو اُن کے ساتھ مستی کرتا رہا۔ دس بجے کے بعد اُن کو بھگانے لگا۔ معاملہ زیادہ سنجیدہ ہوا تو بلونت اُن کی خوشامد کرنے لگا۔ وہ جلد سے جلد جسّی کے پہلو میں جانا چاہتا تھا۔ جب خوشامد سے کام نہ بنا تو سودے بازی ہونے لگی۔ معاملہ چار بوتلوں پر طے ہوا۔ چار بوتل وِسکی کے روپے لے کر وہ چلے گئے۔ جسّی بھی پلنگ پر بیٹھی گھٹنوں پہ سر رکھے بور ہو رہی تھی۔ بلونت بے صبری سے کمرے میں داخل ہوا، دوستوں کو گالیاں دیتے ہوئے اُس نے دروازے کی کنڈی لگائی اور جسّی کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور اُس کو باہوں میں بھر کر اپنی دن بھر کی تشنگی مٹانے لگا۔ دو چار منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ جسّی کسمسا کر اُس سے الگ ہو گئی۔ باہر سے بے جی کی آواز آئی۔۔۔ ’’بے بلونتیا۔۔۔! کُنڈا (زنجیر) کھول دے۔۔۔ بلونت۔۔۔!!‘‘

اُسے بے جی پر غصّہ آ رہا تھا۔ اُس نے اُٹھ کر دروازہ کھولا اور غصّہ سے بل کھا کر۔۔۔۔ ’’کیا ہے۔۔۔ کیوں پریشان کر رہے ہیں۔۔۔!؟‘‘

بے جی مونہہ میں دوپٹہ لے کے ہنسی روکتے ہوئے بولی۔۔۔ ’’کنجرا دودھ لائی ہوں۔۔۔۔!!‘‘

ٹرے میں دو بڑے پیتل کے گلاس جیسے بلونت کو مونہہ چڑا رہے تھے۔ بے جی نرمی سے بولی۔۔۔۔ ’’پُتّر یہ کیسر (زعفران) اور بادام والا دودھ ہے۔ پی لینا۔۔۔!!‘‘

بے جی سے ٹرے پکڑ کر، اُس نے دروازہ زور سے بند کر لیا، اور بڑبڑایا، اب کوئی بھی آ جائے دروازہ نہیں کھلے گا۔!‘‘

جسّی بلونت کی بے چینی اور جھنجھلاہٹ دیکھ کر دل ہی دل میں ہنس رہی تھی۔ ٹرے تپائی پر رکھ کر بلونت نے اُسے بازوؤں میں بھر لیا تھا۔ وہ نہال ہو گئی۔ بلونت کو جانے اُس رات کیا ہوا کہ رات بھر جسّی کو آنکھ جھپکنے نہیں دی تھی۔ ساری رات خاموشی سے محبت کے پاٹھ پڑھاتا رہا۔ جسّی اپنے خیالوں میں گُم تھی کہ بچنی تپائی پہ چائے کا کپ رکھ کر چلی گئی۔ وہ ماضی میں کھوئی ہوئی تھی۔

وہ دن بھی کیا دن تھے۔ ہواؤں کے دوش پر سنہرے خواب بنا کرتے تھے۔ چاند کی کرنوں کر نرم نرم سیج پر، محبت صرف محبت کی فصل اُگا کرتی تھی۔ وہ سرگوشیوں کے اقرار وہ محبت بھری قسمیں۔ انگلیوں کے پوروں کے میٹھے میٹھے احساسات۔ جاگتی راتیں، انتظار بھرے دن، نشے میں ڈوبی ہوئی وقت کی رفتار۔ کاش اُن دنوں کے سائے ہمیشہ ہمیشہ اُس پر مہربان ہوتے انہی سایوں کی گود میں سر رکھ کر وہ مر جاتی تو جنم سپھل ہو جاتا۔ بلونت تو کہنا ہی کیا تھا۔ وہ اپنے مقدر پر فخر کرتی تھی کہ اُسے بلونت جیسا خوبصورت گھبرو (جوان) اور ٹوٹ کر چاہنے والا شوہر ملا تھا۔ جو چاہتا تھا کہ جسّی ایک لمحہ کے لیئے بھی اُس کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو۔ وہ دنیا داری کی ساری باتیں بھول گیا تھا۔ اُسے یاد تھی تو صرف جسّی۔۔۔ اور جسّی۔۔۔۔!!

پھر صبح ہو گئی، ماسی کمرے میں آ کر چائے رکھ کر چلی گئی۔

گاؤں والوں نے اب بلونتے کو ایک نیا نام دے دیا تھا۔ اب وہ بلونتا کنجر کی بجائے بلونتا جورو کا غلام کہا جانے لگا۔ اپنا نیا نام سن کر بلونت گردن جھکا لیتا اور خوب ہنستا۔ جسّی نے سُنا تو وہ بہت ناراض ہوئی۔ بلونت نے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگی۔۔۔

’’دیکھو جی۔۔۔! اس میں تو میری ہی بدنامی ہے نا۔ لوگ کہتے ہوں گے بلونتے کو اُس کی ووہٹی (بیوی) نے نکمّا بنا دیا۔۔۔!‘‘

چائے کا کپ رکھ کر وہ شرارت سے بولا۔۔۔ ’’ٹھیک تو کہتے ہیں۔ اگر تو کالی بھُجنگڑ ہوتی اور تیری آنکھیں ٹیڑھی ہوتیں، ناک چپٹی ہوتی، تو بلونتا، بلونتا ہی رہتا۔ تم اتنی خوبصورت ہو تبھی تو میں تیرا دیوانہ ہو گیا ورنہ تیری طرف دیکھتا بھی نہیں۔!!!‘‘

اور اچانک اُسے بانہوں میں جکڑ لیا۔ جسّی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ بولی ’’جاؤ پرے (دور)۔۔۔ آپ سے تو ناراض ہونا بھی مشکل ہے۔ چھوڑو۔۔۔ ہائے۔۔۔ میری پسلیاں توڑو گے۔۔۔!!دیکھو میز سے چائے کے برتن گریں گے۔۔۔!‘‘

باہر سے بے جی نے جسّی کو پکارا، تو وہ بولی۔۔۔ ’’آئی بے جی۔۔۔!‘‘

وہ آنکھیں موندھے بولا ’’کہاں جا رہی ہو، ملکہ۔۔۔!‘‘

وہ اپنے آپ کو چھُڑاتے ہوئے بولی ’’آج گاؤں میں، میرے ہاتھ کی میٹھی روٹیاں بانٹنی ہیں۔ جسّی کو چھوڑ کر اُس نے حیران ہو کر سوال کیا۔ ’’کیا۔۔۔! ؟ سارے گاؤں میں۔۔۔!؟‘‘

باتھ روم سے آ کر وہ شنگار میز کے سامنے کھڑی ہو گئی، اپنا میک اپ اور بال درست کر کے کمرے سے باہر چلی گئی۔ بے جی اُس کا کچن میں انتظار کر رہی تھی۔ ایک بڑی پرات میں گُڑ ملا گیہوں کا آٹا گوندھا  جا چکا تھا۔ چولہے کے پاس بیٹھ کر جسّی کھلے ہاتھ تھما کر آٹے کا پیڑا گول کر رہی تھی کہ بلونت کچن میں آ دھمکا اور اُس نے ماں سے سوال کیا۔۔۔

’’بے جی۔۔۔! جسّی اتنی ساری روٹیاں بنائے گی؟ کام کرنے والیوں کی چھٹی کر دی کیا۔۔۔ ؟‘‘

بے جی جسّی کو روٹی بیلتے دیکھ رہی تھی، بولی ’’عورتوں کے کاموں میں دخل مت دیا کر۔۔۔! جا کوئی کام کر لے۔ چل بھاگ یہاں سے۔۔۔!‘‘

وہ ناراض ہو کر بولا، ’’آپ بھی کمال کرتی ہو، اتنی روٹیاں پکوا کر مارو گی اس بے چاری کو۔۔۔!؟کیسی ساس ہو آپ۔۔۔۔!؟؟‘‘

بے جی بلونت کو سمجھاتے ہوئے بولی۔ ’’دیکھو پُتّر جی۔۔۔۔ نئی دلہن کو کچن میں داخل کرنے کی یہ پنجاب کی رسم ہے۔ زیادہ نہیں بس چار پانچ روٹیاں جسّی پکائے گی باقی ساری روٹیاں پریتو اور بچنی بنائیں گی۔ گاؤں میں خاص خاص گھروں میں روٹیاں بانٹ دی جائیں گی۔ جسّی کی پکائی ہوئی روٹیاں شگون کے طور پر تیرے دار جی کو جسّی اپنے ہاتھوں سے پروسے گی۔ پھر وہ جسّی کو کچھ نقدی شگون کے طور پر دیں گے۔ آج کے بعد سمجھو جسّی کا کچن میں داخلہ ہو گیا۔ اب وہ تیرے ناشتے وغیرہ کی فکر کر لے گی۔ جو ایک پتنی کا دھرم ہوتا ہے۔ سمجھ گیا نا۔۔۔!‘‘

اُس نے ہاں میں گردن ہلائی اور جسّی کو روٹیاں سینکتے ہوئے دیکھتا رہا۔ جسّی اُس کی طرف دیکھ کر شرارت سے مسکرانے لگی اور بولی ’’اب جاؤ بیٹھک میں مردوں کے ساتھ بیٹھو۔۔۔!!‘‘

جالی دار دوپٹّے سے ناک تک گھونگھٹ نکال کر، جسّی بے جی اور دو ملازم عورتوں کے ساتھ بیٹھک میں داخل ہوئی۔ جہاں دلاور سنگھ پنچایت کے دو تین آدمیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ایک طرف کرسی پہ بلونت بیٹھا اُن کی باتیں سُن رہا تھا۔ ست سری اکال بلا کر پہلے جسّی نے دلاور سنگھ کے پاؤں چھو کر دعائیں لیں، پھر شگون کے مطابق اُس نے ملازمہ سے ٹرے لے کر میٹھی روٹیاں اور تازہ بالائی سسُر کو پیش کی۔ دلاور سنگھ نے باسکٹ کی جیب سے روپوں کی گڈی نکال کر اکیاون سو روپے جسّی کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔

بلونت نے روپوں کو آنکھیں پھاڑ کر دیکھا اور باپ سے مخاطب ہوا۔۔۔

’’دار جی۔۔۔! اتنی۔۔۔! بڑی۔۔۔! رقم۔۔۔!؟ پانچ روٹیاں پکانے کا اتنا بڑا معاوضہ ہوتا ہے کیا۔۔۔ ؟ دو چار روپے دے کر ٹرخا دیتے، باقی روپوں کو میں اوکھا سوکھا (کسی نہ کسی طرح) سنبھال ہی لیتا۔۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ ہنستے ہوئے بولے ’’اوئے۔۔۔ چپ اوئے۔۔۔! یہ میرا اور جسّی کا معاملہ ہے۔ تو ٹانگ مت اَڑا۔۔۔!!‘‘ جسّی آدھے گھونگھٹ سے بلونت کو دیکھ کر ہنس پڑی۔

دلاور سنگھ جسی کو نہارتے ہوئے بولے۔۔۔ ’’او یہ تو میری سوہنی دھی (خوبصورت بیٹی) ہے۔ اسی کا تو ہے سب کچھ۔۔۔!‘‘

بلونت کھسیانہ ہو کر بڑبڑایا ’’سانوں کی۔۔۔! (ہمیں کیا) لُٹاؤ لُٹاؤ مال۔۔۔!!‘‘

جسّی نے ہاتھ جوڑ کر سر جھکایا اور واپس لوٹ گئی۔ بلونت اُس کے پیچھے جانے لگا تو دلاور سنگھ نے اُسے پُکارا۔۔۔، ’’تو کہاں جانے لگا۔۔۔۔!؟ آ اِدھر بیٹھ، کوئی کام کی بات کریں۔۔۔!‘‘

بلونت جلدی جلدی دروازے پر جا کر بولا۔۔ ’’دار جی۔۔۔!۔۔۔ مجھے باتھ روم آیا ہے۔۔۔!‘‘

بیٹھک میں بیٹھے سبھی لوگ ہنس پڑے، پلیٹوں میں روٹیاں رکھ کر چمچ سے اُن پر بالائی ڈالتے ہوئے دلاور سنگھ بولے۔۔ ’’دیکھا کیسا بہانے باز ہے۔۔۔!؟ لوگ باتھ روم جاتے ہیں۔ اِسے باتھ روم آتا ہے۔!!‘‘

ایک بزرگ ممبر پنچایت ٹھنڈی سانس لے کر بولا، ’’جوانی میں۔۔۔ شادی کے فوراً بعد ۔۔۔۔۔ ہمیں بھی بھی ایسے ہی باتھ روم آیا کرتا تھا۔۔۔۔!!‘‘

سبھی لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

جسّی کمرے میں گئی تو بلونت بھی اُس کے پیچھے پیچھے پہونچ گیا اور اُس سے لپٹ گیا۔ وہ ایک طرف ہٹ کر زیور اُتارنے لگی اور تیکھے انداز میں بولی۔۔۔

’’آپ کو تو دار جی نے کوئی بات کرنے کے لیئے روکا تھا۔ آپ اِدھر آ گئے۔۔۔!؟‘‘

وہ پلنگ پر دراز ہوتے ہوئے بولا۔ ’’اُن کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ امرتسر جاؤ۔۔۔۔، آڑھتیے (کمیشن ایجینٹ) سے رقم لے کر آؤ، فلاں وکیل کو یہ کاغذات دے کر آؤ، فصلوں کے لیے فلاں فلاں دوائی لے کر آنا۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ!!۔۔۔۔۔۔!‘‘

جسّی کنگن ڈبیا میں رکھ کر بولی۔ ’’تو کل سردار بلونت سنگھ جی امرتسر پدھار رہے ہیں۔۔۔!!؟‘‘

’’ارے کون کمبخت جائے گا۔ میں نے دار جی کی بات ہی نہیں سُنی۔ کہہ دیا مجھے باتھ روم آیا ہے۔ بس آ گیا۔ تمہارے پاس۔۔۔!!‘‘ وہ مچل کر بولا۔

جسّی سنجیدہ ہو کر سوچنے لگی۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

’’بلونتا جی۔۔۔! آپ یہ بتاؤ۔۔ یہ سب کب تک چلے گا۔ کب تک بیوی کے پلّو سے بندھے رہو گے۔ دیکھو۔۔۔ ڈیر رات اپنی ہے۔ جتنا چاہے۔۔۔ جی بھر کر پیار کرو۔ میں تمہاری ہوں صرف تمہاری۔ یہ حق واہے گرو جی کی کرپا سے تم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ میں نے سُنا ہے شادی سے پہلے تم کھیتوں میں بھی کام کرتے تھے۔ شہر کے سارے کام خود ہی نپٹاتے تھے۔ ڈنگروں (مویشیوں) کو بھی دیکھتے تھے۔ رب کے واسطے یہ سارے کام پھر سے شروع کر دو۔۔۔!‘‘

وہ جسّی کی باتیں سُن کر، مونہہ بنانے لگا، ’’یار جسّی۔۔۔ کیا کروں تیرے بغیر کچھ سوجھتا ہی نہیں۔۔۔‘‘

جسّی غصّہ سے بل کھا کر بولی۔ ’’مر گئی۔۔۔ جسّی۔۔۔!! ہر وقت ایک ہی نام رٹتے رہتے ہو۔ جسّی جسّی۔۔۔ جسّی۔۔۔۔ میرے شریر کے ٹکڑے کر کے جیبوں میں ڈال لو۔ کل سے اگر سارے کام کرنے نہ لگے۔۔۔ تو۔۔۔ میرا مری ہوئی کا مونہہ دیکھو۔۔!!‘‘

بلونت تڑپ اُٹھا۔۔۔ ’’یہ کیا بک رہی ہو جسّی۔۔۔ مریں تمہارے دشمن۔۔۔!!‘‘

’’بس اب میں نے قسم دے دی، اب تمہیں پہلے جیسا بلونت ہی بننا پڑے گا۔۔۔!‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں بولی۔

بلونت ہنس کر بولا، ’’قسم تو وہ ہوتی ہے، جو آدمی خود اور سچے دل سے کھائے۔ جسّی۔۔۔! میں یہ سارے کام تب کرتا تھا جب تم میری زندگی میں نہیں تھی۔ بس تمہارے سپنے دیکھا کرتا تھا۔۔۔ کہ میری وَوہٹی (بیوی) ایسی ہو گی۔۔۔ ویسی ہو گی (جسّی کے بے حد قریب ہو کر) جیسا سوچا تھا ویسی ہی مل گئی۔۔۔۔!‘‘ بلونت تھوڑی چھیڑ چھاڑ کرنے لگا۔

وہ نقلی غصّہ دکھا کر بولی، ’’ہٹو۔۔۔! تمہیں تو ہر وقت ایک ہی کام سوجھتا ہے۔ پیار۔ پیار۔ پیار۔۔۔!!‘‘

کئی بار تو بلونت کا اُسے ٹوٹ کر چاہنا اور اُس کا دیوانہ پن جسّی کے لیئے پریشانی کا سبب بن جاتا۔ جب کبھی وہ اپنے مائیکے جانے کی خواہش ظاہر کرتی تو مانو طوفان آ گیا ہو۔ بلونت اُس کے سامنے اتنے سوالات کھڑے کر دیتا کہ وہ اُس کا مونہہ تکتے رہ جاتی۔

کیوں۔۔۔ ؟ کیا کرنا ہے، مائیکے جا کر۔۔۔۔!؟

یہاں کیا نہیں۔۔۔۔ ؟ جو تیرے مائیکے میں ہے۔۔۔۔!؟

یہاں تیرا دل نہیں لگتا۔۔۔ ؟ بور ہو رہی ہو میری شکل دیکھ دیکھ کر۔۔۔ ؟ مائیکا مائیکا۔۔۔!؟ جسّی اُسے لاکھ سمجھاتی، کہ بلونت جی، پھگواڑے میں میری ماں ہے، باپ ہے، جنہوں نے مجھے جنم دیا ہے، پالا پوسا ہے، لکھایا پڑھایا ہے۔ وہ بھی آپکی طرح مجھے بہت پیار کرتے ہیں۔ وہ بھی چاہتے ہیں کہ جسّی کچھ دن ہمارے پاس آ کر رہے۔ اُن کا مجھ پر حق نہیں۔۔۔ ؟ بلونت ٹس سے مس نہیں ہوتا، بس حکم سُنا دیتا ’’بس نہیں جانا۔۔۔ تو نہیں جانا۔۔۔ کوئی بحث نہیں۔۔۔!‘‘

جب بات زیادہ بڑھتی تو وہ جذباتی ہو اُٹھتا اور جذباتی ہو کر کہتا۔۔۔ ’’میرا کیا ہو گا۔۔۔ جسّی۔۔۔!؟ میں۔۔۔ میں تمہارے بغیر کیسے رہ پاؤں گا۔ نگل جائیں گے۔ مجھے رات کے اندھیرے اور تنہائیاں۔۔۔!کیا تو۔۔۔ اپنے بلونتے کو یہاں رونے کے لیئے چھوڑ کر جائے گی، چار دنوں کے لیئے۔۔۔!؟

وہ کلیجہ مسوس کر رہ جاتی، اور غصّہ سے بولتی، ’’سور داس ہو۔۔۔ پکّے سور داس۔۔۔!!‘‘ اور وہ ہنس دیتا۔

ایک بار جسّی کی بہن، جو اپنے کنبہ کے ساتھ امریکہ میں رہتی تھی اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ ہندوستان آئی تھی۔ پروگرام کے مطابق اُس نے اپنے مائیکے پھگواڑے بھی، چند دِنوں کے لیئے رُکنا تھا۔ بہن کا فون آیا تو جسّی نے خود بات کی۔ بہن نے فون پر جسّی سے کہا، وہ اپنے سسرال سے بول رہی ہے۔

’’جسّی، تیری شادی میں تیرے جیجا نہیں آ سکے تھے وہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ بچّے بھی تمہیں یاد کرتے رہتے ہیں۔ ہم تمہارے گاؤں نہیں آ سکیں گے، واپسی میں کم وقت رہ گیا۔ اس لیئے تم ہمارے پھگواڑے کے سٹے کے دوران وہیں آ جاؤ۔۔۔ بلونت آئے تو ہمیں اچھا لگے گا۔!‘‘

جسّی مائیکے جانے کے لیئے تڑپ اُٹھی۔ اُس نے بلونت سے اجازت نہیں مانگی بلکہ فیصلہ سُنا دیا کہ اُس کی دیدی اور جیجا جی، بچوں سمیت پھگواڑہ آ رہے ہیں، میں ایک ہفتہ کے لیئے جا رہی ہوں۔ دیدی نے آپ کو بھی بُلایا ہے۔ بلونت اُس کا مونہہ تکتا رہ گیا۔ جسّی نے جب دِلاور سنگھ سے اجازت مانگی تو وہ خوش ہو کر بولے۔ ’’ہاں ہاں پُتّر جی، کیوں نہیں جاؤ جاؤ۔۔۔! بہن بہنوئی امریکہ سے آئے ہیں، تو جانا چاہیئے بلکہ، اگر وہ لوگ ایک دو راتیں ہمارے یہاں گذارتے، ہم بھی اُن کی سیوا کرتے۔۔۔!‘‘

وہ گردن جھُکائے بولی، ’’دار جی۔۔۔! وہ آ تو جاتے۔۔۔ جیجا جی کی چھٹیاں کم ہیں۔۔۔۔!!‘‘

’’کوئی بات نہیں۔۔۔! پھر کبھی سہی اور ہاں جسّی بیٹے جو چیز چاہیئے لے جانا۔ روپے، جتنے چاہیں لے جانا۔۔۔ کام آئیں گے۔ میرے والی گاڑی لے جاؤ۔ ڈرائیور تو اچھا ہے بلونتا۔۔۔!وہ بھی ساتھ جائے گا۔۔۔؟!‘‘

’’ہاں جی۔۔۔ دیدی نے اُن کو بھی بلایا ہے۔۔۔!‘‘ جسّی نے جواب دیا۔

دِلاور سنگھ ہنس کر بولے۔۔۔ ’’تم اس پر قابو رکھنا۔ امریکہ والوں کے سامنے کچھ اُلٹا سُلٹا نہ بول دے۔۔۔!‘‘

جسّی ہنس دی۔۔۔ ’’ایسی کوئی بات نہیں دار جی۔ گھر پر اور گاؤں میں ہی شرارتیں کرتے ہیں باہر جا کر تو سمجھ داری کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔۔۔!!‘‘

’’بلونتا۔۔۔ اور سمجھ دار۔۔۔۔!؟‘‘ اتنا کہہ کر وہ بیٹھک کی طرف چلے گئے۔

امریکہ والوں کا بلونت سنگھ کے مزاحیہ انداز نے دل موہ لیا۔ جسّی کے جیجا نے بلونت کو بہت پسند کیا، انہوں نے وعدہ کیا کہ اگلی بار وہ ہفتہ کے لیئے بلونت کے گاؤں میں آئیں گے۔ جالندھر اور امرتسر گھومیں گے۔

ایک دن صبح سویرے بلونت بوکھلایا ہوا، بے جی کو ڈھونڈتا ہوا، کچن میں آ گیا۔ بے جی دلاور سنگھ کے لیئے چائے بنا رہی تھی۔ اُس کا ہاتھ پکڑ کر وہ روہانسا ہو کر بولا۔۔۔،

’’بے جی۔۔۔ بے جی۔۔۔!!جلدی چلو۔۔۔ جسّی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا۔۔۔!‘‘ بے جی گھبرا گئی۔

’’ہائے بے۔۔۔۔ کیا ہوا میری بچّی کو۔۔۔!؟‘‘

’’بے جی۔۔۔ وہ قے پہ قے کیئے جا رہی ہے۔۔۔ اور نڈھال ہو کر گِر بھی پڑی۔۔۔۔!‘‘

چولہے سے چائے کا برتن اُتار کر بے جی نے ہاتھ دھوئے اور دوپٹّے سے ہاتھ پونچھتے ہوئے بلونت کے پیچھے ہولی۔

کمرے میں جا کر، جسّی سے بات کر کے، بے جی اطمینان سے پَلنگ پر بیٹھ گئی۔

بلونت پریشان ہو اُٹھا اور بولا ’’کمال ہے۔۔۔!آپ تو آرام سے بیٹھ گئیں۔ مجھے بتاؤ میں ڈاکٹر کو لے آؤں۔۔۔ ؟دار جی والی گاڑی لے جاتا ہوں۔۔۔!‘‘

بے جی مسکرا کر بولیں، ’’ڈاکٹر کو لانے کی ضرورت نہیں۔ حوصلہ رکھ۔ جسّی کو کچھ نہیں ہوا۔۔۔!‘‘

وہ تِلملا اُٹھا۔ ’’ارے۔۔۔!؟اُس کی حالت خراب ہے۔ اور۔۔۔۔!!‘‘

بے جی بات کاٹ کر بولی۔۔۔ ’’بے جھلّیا (پاگل) تو باپ بننے والا ہے اور میں۔۔۔ میں دادی۔۔۔!!‘‘

وہ ایک دم کودا، اور کمرے سے نکل گیا اور پوری حویلی میں شور مچانے لگا۔

’’او میں۔۔۔ میں باپ۔۔۔! میں باپ بننے والا ہوں۔۔۔ باپ۔۔۔ پاپا۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔!!!‘‘

اُس کا شور سُن کر، جسّی شرم سے دوہری ہوتی جا رہی تھی۔ دلاور سنگھ کو جب یہ خوش خبری ملی، تو وہ اُٹھ کر پہلے گوردوارے گئے۔ ما تھا ٹیک کر انہوں نے واہے گرو کا شکر ادا کیا۔ حویلی لوٹے تو، خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ گھر آ کر دلاور سنگھ نے جسّی کا ماتھا چوما اور گیارہ سو روپے اُس کے سر پر وار کر غریبوں میں بانٹ دیئے۔

رات کو جب بلونت کمرے میں آیا، تو وہ خوش ہونے کی بجائے افسردہ نظر آ رہا تھا۔ وہ خاموشی سے پلنگ پر بیٹھ گیا۔ اُس کا لٹکا ہوا مونہہ دیکھ کر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور مزاحیہ انداز میں بولی ’’پتی پرمیشور جی۔۔۔ کیا ہوا۔۔۔ ؟ اداس کیسے ہو۔۔۔۔!؟‘‘

پہلے تو بلونت بات کو ٹالتا رہا۔ پھر اپنی پریشانی کی وجہ جسّی کو بتانے لگا۔۔۔،

’’میں تو ایسے ہی خوش ہو رہا تھا۔ بعد میں، میں نے سوچا، میرا تو دُشمن پیدا ہو جائے گا۔!‘‘

جسّی پریشان ہو اُٹھی، فوراً بولی، ’’دُشمن۔۔۔!!؟؟ تمہارا۔۔۔ ؟؟ کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔ ؟؟‘‘

وہ مونہہ بسور کر بولا، ’’اور نہیں تو کیا۔۔۔! سالا۔۔۔ ہمارا بچّہ تیرے اور میرے درمیان آ جائے گا۔ تو اُس کی طرف زیادہ دھیان دینے لگے گی۔ اُس کے کاموں میں لگی رہے گی۔ میرا کیا ہو گا۔۔۔ ؟؟‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور اُس کے گلے میں باہیں ڈال کر بولی۔ ’’او۔۔۔ میرے بھولے بادشاہ۔۔۔! آپ کے لیئے میری محبت اور بڑھ جائے گی۔ کم نہ ہو گی۔ آپ کو جب وہ توتلی زبان میں پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ کہے گا۔ آپ اُس پر سو جان سے قربان ہو جاؤ گے۔ اُس کو دیکھ دیکھ کر جئیں گے۔ ہم ساری دنیا کو بھول جائیں گے۔۔۔۔!‘‘

وہ خلاؤں میں گھورتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’سچ۔۔۔!؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ دیکھ لینا۔۔۔!‘‘ جسّی نے جواب دیا۔

پھر ایک دن حویلی کا وارث سردار دلاور سنگھ کا پوتا اس دنیا میں روتا ہوا آ گیا۔ بلونت پہلی بار باپ بن گیا۔ حویلی میں گہما گہمی ہو گئی۔ مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ حلوائیوں نے اپنا کام شروع کر دیا۔ پورے گاؤں میں لڈّو بانٹے گئے۔ پوتے کی پیدائش سے سات دن تک دلاور سنگھ جشن مناتے رہے۔ علاقے کی نقّال پارٹیاں آئیں اور انہوں نے حویلی کے کھلے میدان میں اکھاڑے لگائے۔ مقامی گانے والوں نے اپنا الگ رنگ جمایا، مالیرکوٹلہ کے قوّالوں نے سماں باندھا۔ دولت دونوں ہاتھوں سے لُٹائی گئی۔ پینے والوں نے جم کر شراب پی۔ چاروں طرف دلاور سنگھ سر پنچ کی جے جے کار ہو گئی۔

ایک دن صبح سویرے دلاور سنگھ نے بلونتے کو اپنے کمرے میں بلا کر بٹھا لیا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ سنجیدہ ہو کر بیٹے سے بولے۔

’’بلونت سیاں۔۔۔! اب تو بیٹے کا باپ بن گیا، اب یہ کھلنڈر پن، یہ ہنسی مذاق، یہ لا پرواہیاں چھوڑ دے۔ اب میں بوڑھا ہو چلا ہوں بیٹے۔۔۔۔! پچھلے بیس سال سے الیکشن کے بغیر ہی سر پنچ بن جاتا ہوں، ایسے ہی نہیں بن جاتا، اس کے لیئے بہت قربانیاں، بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس زمانے میں سیاست بہت مشکل ہو گئی ہے۔ جس کی پیٹھ برداشت نہ ہو، اُس کا مونہہ دیکھنا پڑتا ہے۔ اس حویلی سے واہے گرو کی کرپا سے آج تک کوئی بھوکا نہیں گیا۔ کوئی ناراض نہیں گیا۔ اگر تو نے اپنے آپ کو نہیں بدلا، تو حویلی کی شان و شوکت، میری یہ سر پنچی کی گدّی، سب کچھ میرے ساتھ ہی ختم ہو جائے گا۔۔۔!‘‘

بلونت بڑی خاموشی سے دار جی کی باتیں سن رہا تھ۔ ’’جی۔۔۔ جی دار جی۔۔۔!!‘‘

دلاور کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے بولا، ’’بلونتے یار اب میں ساٹھ کا ہو چلا ہوں۔ اب میں تھک جاتا ہوں۔ تو اب سیانا ہو گیا۔ مجھے سہارا دے، میرے کاموں میں ہاتھ بٹا۔۔۔! گاؤں والوں نے بھی تم سے بہت امیدیں لگا رکھی ہیں۔۔۔ بیٹے۔۔۔!‘‘

وہ نظریں نیچی کیئے بولا، ’’جی۔۔۔ جی دار جی۔۔۔!!‘‘

’’شادی سے پہلے تو کھیتوں کے، حویلی کے، ڈنگر بچھے سے لے کر شہر کی خرید و فروخت کے کام کر ہی لیتا تھا‘‘

اُس کا وہی جواب تھا۔ ’’جی۔۔۔ جی دار جی۔۔۔!!‘‘

بلونت سارا دن سنجیدگی سے سوچتا رہا کہ جسّی بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ حویلی کے کام کاج میں حصّہ لے۔ دار جی کا کہا ہوا ایک ایک جملہ اُس کے ذہن میں گونجتا رہا۔ واقعی اس حویلی کا وقار تو حویلی کے مردوں کے کندھے پر ہی قائم رہ سکتا ہے۔

ایک دن بغیر کسی کو بتائے بلونت سویرے کھیتوں کی طرف چلا گیا۔ جسّی کی آنکھ کھلی۔ اُس کو بستر پر نہ پا کر اُسے عجیب سا لگا۔ وہ سوچنے لگی کہ بلونت کو تو روزانہ وہ ہی جگایا کرتی ہے، آج اسے کیا ہو گیا۔ وہ بہت سویرے اُٹھ کر کہیں چلا گیا۔ جسّی نے اپنے بالوں کو باندھ کر بیٹے کو سنبھالا۔ اُس کی ناپی بدل کر، اُسے دودھ پلایا تو وہ سو گیا۔ وہ بار بار برآمدے کی طرف دیکھ رہی تھی، اُسے بلونت کہیں دکھائی نہیں دیا۔ بیٹے کو پلنگ پر لٹا کر وہ باتھ روم چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہاتھ مونہہ دھوکر وہ باتھ روم سے نکلی اور کچن کی طرف چل دی۔ بی جی سٹیل کے گلاسوں میں چائے ڈال رہی تھی کہ جسّی نے سوال کیا، ’’بے جی۔۔۔ آج وہ سویرے سویرے کہاں چلے گئے!!؟‘‘

بے جی دلاور سنگھ کے لیئے چائے کے گلاس سنبھال کر کھڑی ہو گئی اور بولی، ’، بھائی۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ بہت اُداس تھا۔ کسی سے کچھ کہے بغیر باہر چلا گیا۔۔۔ اُس نے تو چائے بھی نہیں پی۔ کوئی بات نہیں آ جائے گا۔ گیا ہو گا کہیں۔ تو چائے لے لے۔!!‘‘

بے جی جاتے جاتے رُکی اور پلٹ کر بولی ’’نی جسّی۔۔۔ منڈے (لڑکے) کو اکیلا مت چھوڑا کر۔۔۔ بچوں کو اوپر کی کسر ہو جایا کرتی ہے۔ بھلے کسی کام والی کو اُس کے پاس بٹھا دیا کر۔۔۔!!‘‘

وہ ادب سے بولی، ’’جی۔۔۔ جی بے جی۔۔۔‘‘

دار جی۔۔۔! دلاور سنگھ کی باتوں نے بلونت کے ذہن پر اس قدر گہرا اثر چھوڑا، کہ وہ دن بدن سنجیدہ ہوتا چلا گیا۔ دو سال کے بعد بیٹی پریتی کی پیدائش کے بعد تو وہ جیسے یکسر بدل گیا تھا۔ گو بلونت اپنے کام کاج میں پہلے سے زیادہ مصروف ہو چکا تھا۔ مگر جسّی کے لیئے اُس کی محبت اُس کی دیوانگی ویسی کی ویسی رہی۔ اُس کا بیٹا بٹّو چار سال کا ہوا تو اُسے شہر کے انگلش اسکول میں داخل کروا دیا گیا۔ پریتی تو جیسے جسّی کا سایہ تھی، اُس کی فوٹو کاپی تھی۔ بلونت پریتی سے بہت پیار کرتا تھا۔ اُس کے ایک آنسو پر ہزاروں روپے خرچ کر دیتا۔ بٹّو بے حد شرارتی واقع ہوا تھا۔ اُس کی اُچھل کود اور بدمعاشیاں دیکھ کر، دلاور سنگھ اکثر کہہ اُٹھتے کہ حویلی میں ایک بلونتا اور پیدا ہو گیا۔ وقت اپنی رفتار سے گذرتا گیا۔ کھیتوں میں سرسوں کے زرد پھول کھِل اُٹھتے تو بسنت آ جاتا۔ گیہوں کے پودے اناج سے بوجھل ہو کر سوکھ جاتے، اُن پہ درانتی چلتی تو بیساکھی آ جاتی۔ موسم بدلتے رہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے جسّی اور بلونت کی شادی ہوئے پانچ سال بیت گئے۔ دو بچّے پیدا کر کے بھی جسّی ویسی کی ویسی رہی۔ اُس کے حسن میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اُس کی کمر کا گوشت تک ڈھیلا نہ پڑا تھا۔ وہ اتنی ہی پُر کشش تھی، جاذبِ نظر تھی، جس کو دیکھ دیکھ کر بلونت سنگھ جی رہا تھا۔

___

 

 

 

 

(۶)

 

اُن دِنوں ہنستا کھیلتا پنجاب ایک بار پھر آنسوؤں میں ڈوب گیا۔ مذہبی جنون خون کی ہولی کھیلنے لگا۔ ہر طرف نفرتوں کی آندھیاں چلنے لگیں۔ ٹپّوں، چھندوں اور بولیوں کی جگہ پنجاب میں ماؤں، بہنوں کے بین گونجنے لگے۔ سُہاگنوں کی مانگ اجڑنے لگی۔ ماؤں کے لاڈلے دہشت گردی کا شکار ہونے لگے۔ بچوں کے سر سے اُن کے تحفظ کے سائے اُٹھنے لگے۔ دن خوف اور بے یقینی کے سائے میں گذر جاتا، رات کے اندھیرے آسیب بن کر چنگھاڑنے لگے۔ شام ڈھلتے ہی گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دُبک جاتے۔ کوئی جب دن کے اُجالے کمزور ہونے تک گھر نہ لوٹتا تو پریشان اور منتظر نگاہیں دروازے سے چپک کر رہ جاتیں۔ کیونکہ گھر سے باہر گیا ہوا آدمی غیر یقینی کا شکار تھا۔ کھلے عام انسانوں کا قتل ہو رہا تھا۔ ہر طرف لاقانونیت پھیلی ہوئی تھی۔ نوجوان بہک گئے تھے۔ مذہبی جنون اُن کے سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ کچھ لال فیتہ شاہی کی زیادتیوں نے بھی اُن کو خون خوار بنا ڈالا تھا۔ وہ سرکش ہو کر بھٹکنے لگے تھے۔ وہ پوس کا ایک ٹھٹھرتا دن تھا۔ دس بجے تک فضاؤں پہ دھند کا راج پھیلا ہوا تھا۔ برفیلی ہوائیں جسم کو نوچ رہی تھیں۔ سورج کی تھالی آسمان پر نمودار تھی۔ جس سے آرام سے آنکھیں چار ہو رہی تھیں۔ دھوپ اتنی کمزور کہ زمین کو چھونے نہیں پا رہی تھی۔ ہر کوئی گرم کپڑوں کا سہارا لے کر موسم کا مقابلہ کر رہا تھا۔ سُکھّا سنگھ المعروف سُکھّا کھاڑکو (دہشت گرد) جو فیڈریشن کی طرف سے ایریا کمانڈر بنایا گیا تھا، اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ اپنے اِرد گرد کمبل لپیٹے، ہاتھ آپس میں رگڑ کر گرمی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ چاروں کھیتوں کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ فیروزپور کو کافی پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ جی۔ ٹی روڈ سے کسی گاڑی میں سفر کرنا اُن کے لیئے خطرناک تھا۔ پولیس نے ہر جگہ ناکے لگائے ہوئے تھے۔ اُن کو ہر حال میں کل صبح تک پھلور پہونچنا تھا۔ سکھّا سنگھ کے تین ساتھیوں میں سے ایک اُس کا دوست جسپال سنگھ تھا۔ باقی دو لڑکے اُس کے انڈر پٹّی سے آئے تھے۔ ایک شام سنگھ شاما دوسرا گورنام سنگھ گورناما دونوں ہی، سر پھرے اور بے وقوف تھے۔ سُکھّا دو دن میں اُن سے پریشان ہو گیا تھا۔ جبکہ وہ دونوں اُس کی عزّت کرتے تھے۔ دونوں، ذرا سی بات پر گالی گلوچ ہونے لگتے اور ایک دوسرے پر اے۔ کے سنتالیس تان لیتے۔ وہ دونوں پولیس کے آئی۔ جی کا قتل کر کے آئے تھے۔ جس کی وجہ سے پولیس اُنہیں ڈھونڈھتی پھر رہی تھی۔ ہائی کمانڈ نے اُن دونوں کو سکھّا کے پاس فیروز پور بھیج دیا تھا۔ چلتے چلتے شاما رُک گیا اور اِدھر اُدھر دیکھ کر بیگ میں سے رَم کی بوتل نکال کر مونہہ کو لگانے ہی لگا تھا کہ سکھا نے پیچھے مُڑ کر اُسے کہا،

’’اوئے۔۔۔ آ جا اوئے۔۔۔۔ کتنی بار کہا ہے کہ یہ کام دن میں مت کیا کر۔ مانتا ہی نہیں۔۔۔!!‘‘

شام نے کھسیانی ہنسی ہنس کر بوتل بند کی اور اپنے بیگ میں محفوظ کر لی اور جلدی جلدی قدم اُٹھاتا ہوا، اُن کے ساتھ شامل ہو کر بولا،

’’کیا کروں۔۔۔ سَر جی۔۔۔ آج سردی بہت ہے۔ تھوڑی سی لگانی تھی!!‘‘

سُکھا آگے بڑھتا ہوا بولا، ’’ہاں سردی تو تمہیں ہی لگتی ہے، ہمیں تو لگتی ہی نہیں۔۔۔!‘‘ سبھی ہنس پڑے۔ چلتے چلتے بارہ بج گئے، گورناما ایک جگہ ٹھہر کر بولا،

’’سُکھا بھآ جی (بھائی جی) صبح سے کچھ نہیں کھایا جی، بھوک بہت ستا رہی ہے، تھوڑا سَستا لیں۔ سامنے ٹیوب ویل بھی ہے۔ چار  پائی بھی پڑی ہے۔ بیٹھنے کی اچھی جگہ ہے۔۔۔!!‘‘

شاید سکھا بھی تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔ شاما نے آگے بڑھ کر چارپائی زمین پہ ڈال دی۔ سکھا ایک لمبی سانس لے کر چار پائی پر دراز ہو گیا۔ بیگ اُس نے اپنے سرہانے رکھ لیا۔ ایک طرف شاما لیٹ گیا، گورناما اور جسپال گھاس پر کمبل بچھا کر سستانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد اُسے کچھ یاد آ گیا وہ ایک دم اُٹھا، اپنے بیگ میں سے بوتل نکالی اور ڈھکن کھول کر مونہہ کو لگا لی بعد میں گورنامے کی طرف بوتل بڑھا کر بولا۔ ’’لے، تو بھی لے لے، اس آگ کو۔۔۔ سردی ہے۔۔۔!‘‘ گورناما تھوڑا ہچکچایا تو شاما بولا۔۔۔ ’’کچھ نہیں کہتے سر جی۔۔۔ اپنا بڑا بھائی ہے، لے لے۔۔۔۔!‘‘

سُکھا آنکھیں بند کیے بولا، ’’یہ جو تو خالی پیٹ دارو پیتا ہے نا، مرے گا۔۔۔!‘‘

شاما مزاحیہ انداز میں بولا، ’’سَر جی۔۔۔ دارو سنگھوں کو کچھ نہیں کہتی اور پھر مرنا تو ہے ہی پولیس کی گولیوں سے مریں یا دارو پی کر مریں۔۔۔! (وہ بُڑبڑایا) یہاں جینا بھی کون سالا چاہتا ہے۔۔۔!؟‘‘

چارپائی پر لیٹتے ہی شاما خرّاٹے مارنے لگا۔ سبھی پہ غنودگی چھا رہی تھی۔ آدھ گھنٹہ آرام کرنے کے بعد سُکھا، ایک دم کھڑا ہو گیا اور زور سے بولا،

’’او اُٹھو۔۔۔ اوئے۔۔۔ چلو جلدی چلو۔۔۔!!‘‘

تینوں ہڑبڑا کر ایک دم کھڑے ہو گئے۔ وہ سمجھے کوئی خطرہ درپیش ہے۔ بادل نخواستہ اُن تینوں کے ہاتھ، اپنی اپنی اے۔ کے سینتالیس پر مضبوط ہو گئے۔ چاروں کا قافلہ پھر سے چل پڑا۔ آگے آگے سکھا چل رہا تھا۔ سب سے پیچھے شاما آ رہا تھا۔

سکھّے نے اُس کو تسلّی دیتے ہوئے کہا، ’’شامے۔۔۔! پندرہ بیس منٹ میں ہم جی۔ ٹی روڈ پکڑ لیں گے۔ وہاں ایک لالے (بنئے) کا ڈھابہ ہے۔ وہاں پیٹ پوجا کریں گے۔ ذرا جلدی جلدی پاؤں اُٹھا۔ مجھے بھی بھوک لگی ہے۔۔۔!!‘‘

شاما کی رفتار پہلے سے تیز ہو گئی تھی۔

لالا مکھن لال کا ڈھابہ جی۔ ٹی روڈ پر واقع تھا۔ وہ جگہ نہ کسی گاؤں کا بس اسٹاپ تھی نہ وہاں کوئی مارکیٹ تھی، برسوں سے یہ ڈھابہ اسی ویرانے میں، مسافروں کے سہارے چل رہا تھا۔ ڈھابے کے آگے کھلا میدان تھا۔ جس کے قرب میں لمبا برآمدہ تھا۔ جس کے ایک طرف کھانا بنانے کی جگہ تھی دوسری طرف مکھن لال کا کاؤنٹر تھا۔ جہاں ٹیلیفون کے ساتھ ہمیشہ میٹھی سونف کا ڈبّہ پڑا رہتا تھا۔ گاہک کھانے کی ادائیگی کر کے سونف ضرور مونہہ میں ڈالتا تھا۔ جو سونف نہ لے اُسے بڑے پیار سے مکھن لال چمچ بھر کر سونف پیش کرنا نہ بھولتا۔ برآمدے کے ساتھ دو بڑے کمرے تھے جن کے دروازے پیچھے کی طرف بھی کھُلتے تھے۔ جہاں مردوں اور عورتوں کے لیئے پیشاب گھر بنا ہوا تھا۔ مکھن لال کا کئی بسوں کے ڈرائیوروں سے سمجھوتہ تھا۔ وہ لنچ کے ٹائم پر بس ڈھابے کے آگے لگا دیتے تھے۔ کنڈیکٹر اعلان کر دیتے کہ بھئی بس بیس منٹ یہاں ٹھہرے گی۔ جس نے روٹی وَوٹی کھانی ہو وہ کھا لے۔ بس کے مسافر لالا مکھن لال کی آمدنی میں اضافہ کرتے۔ مسافروں سے مکھن لال ہر چیز کا بھاؤ بڑھا کر لیتا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر کو مفت کھلانا پڑتا تھا۔ ساڑھے بارہ کے قریب وہ چاروں ڈھابے کے عقبی دروازے سے داخل ہوئے۔ برآمدے میں آ کر انہوں نے واش بیسن پر ہاتھ دھوئے۔ کمبل کے کونے سے ہاتھ پونچھتا ہوا، سکھُا لالا کے سامنے گیا تو لالا ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’ست سری اکال سُکھّا بھآ جی۔۔۔ بڑے دِنوں کے بعد چرن ڈالے غریب کے ڈھابے پر۔۔۔۔!!‘‘

سُکھا ہنس کر بولا، ’’مکھن لال میرے ساتھ منڈے ہیں (لڑکے ہیں) ذرا مامیاں (ماموؤں) کا خیال رکھنا۔ پولیس سونگھتی پھرتی رہتی ہے۔ ہم لوگوں کو، تٗو تو جانتا ہی ہے۔۔۔!!‘‘

مکھن لال ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’اوہ۔۔۔ آپ بھآ جی فکر مت کریں۔ آپ کی طرف کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارے گا۔۔۔!‘‘

ایک کمرے میں جا کر وہ چاروں ایک ٹیبل پر جم گئے۔ شاما نے بوتل نکالی اور دو گلاسوں میں شراب انڈیل لی۔ ایک گلاس گورنامے کی طرف بڑھا کر بولا،

’’او لَے۔۔۔ اوئے گورنام سیاں۔۔۔ یہ دونوں ویر (بھائی) تو دن میں لیتے ہی نہیں۔ (پی۔۔۔!)‘‘

سُکھّا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ اُس نے سوچا، شراب پیئے بغیر یہ مانیں گے نہیں۔ پھر میں بھی کیوں روکوں۔۔۔!‘‘

تھوڑی دیر بعد ایک بارہ تیرہ سال کا لڑکا آیا اُس نے ٹیبل پر کپڑا مارا اور پانی کا خالی جگ اُٹھا کر لے گیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پانی سے بھرا جگ اُٹھا لایا، جگ میز پر جما کر، وہ اکڑ کر کھڑا ہو گیا۔

’’کیا لاؤں ساب، مٹر پنیر، پالک پنیر، دال مکھانی، سرسوں کا ساگ، رائتہ اور کھیر۔۔۔!!‘‘

شیاما نے اُسے سر سے پیر تک دیکھا، بوسیدہ سی جینز، پُرانی جیکٹ، کانوں تک اونی ٹوپی۔۔۔،

’’اوئے۔۔۔۔ مُنڈو (لڑکے) جا چار پلیٹ میٹ لے آیا، رائتہ اور سلاد بھی۔۔۔!‘‘

لڑکا اپنے انداز میں بولا، ’’ساب یہ لالا جی کا ویشنو ڈھابہ ہے۔ اِدھر میٹ نہیں ملتا۔۔۔!‘‘

شاما کا موڈ بگڑنے لگا، ’’او۔۔۔ چھوٹو۔۔۔ جا میٹ لے آ۔۔۔ چل جا۔ ماں کا۔۔۔۔!‘‘

لڑکا پھر اُسی انداز میں بولا، ’’ساب ماں کی گالی کیوں دیتا ہے۔ جب اِدھر میٹ بنتا ہی نہیں۔ کہاں سے لاؤں۔۔۔ ؟!!‘‘

شاما کو نشہ ہو رہا تھا۔ اُس نے لڑکے کے مونہہ پر زور دار تھپّڑ رسید کر دیا۔ لڑکا چیخ کر فرش پر گِر گیا۔ شیاما چیخا، ’’سالے، اکڑ دکھاتا ہے۔ بہن۔۔۔ کُتّا سالا۔۔۔!!‘‘

شیاما پستول نکال کر بولا۔۔۔ ’’سالے کے پچھواڑے سے گولی نکال دوں گا، سالا اکڑتا ہے۔۔۔!‘‘

سکھا جو خاموشی سے یہ تماشہ دیکھ رہا تھا، شیاما سے پستول لے کر بولا،

’’کیوں اس غریب کو مارا، یہاں میٹ بنتا ہی نہیں۔ وہ بے چارہ لائے گا کہاں سے، !؟جھلّے۔۔۔!! اور یہ ہنگامہ کر کے تم لوگوں کو دکھانا چاہتے ہو کہ تم کیا ہو۔ عقل سے کام لو۔ ہمیں کھانا کھا کر جلدی نکلنا ہے۔ یہ جی۔ ٹی روڈ ہے۔ یہاں پولیس والے گھومتے رہتے ہیں۔‘‘

شاما باغیانہ انداز میں بولا، ’’سر جی۔۔۔ ہم نہیں ڈرتے پولیس وُلیس سے۔۔۔!‘‘

لڑکے کی چیخ کی آواز سُن کر لالا اپنی دھوتی سنبھالتا ہوا اندر آیا۔ لڑکا دیوار سے لگا کھڑا رو رہا تھا۔ لالا ہاتھ جوڑ کر سکھّا سے بولا،

’’بھآ جی۔۔۔! بچے سے کوئی غلطی ہوئی۔۔۔!؟ آپ مجھے بتاؤ کیا سیوا کروں۔۔۔!؟‘‘

سُکھا نے کھانے کا آرڈر دیا۔ دس منٹ میں کھانا ٹیبل پر سج گیا۔ شاما ضد پکڑ کر بیٹھا تھا کہ وہ تو میٹ ہی کھائے گا۔ مکھن لال کی خوشامد اور سُکھے کی دلیلوں سے پریشان اُس نے کھانا شروع کر دیا۔ مکھن لال اپنے کاؤنٹر پر جا بیٹھا تھا، وہ چاروں پیٹ بھر کھانا کھا کر کھیر کے مزے لے رہے تھے کہ وہی لڑکا سکھا کے کان میں کچھ کہہ کر چلا گیا۔ سکھا تڑپ کر کھڑا ہو گیا اور بولا، ’’او چلو۔۔۔ اوئے۔۔ پچھلے دروازے سے ہی نکلنا ہے۔۔۔!لالا نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا۔ تھوڑی دیر میں دھول اُڑاتی ہوئی ڈھابے کے آگے پولیس کی جِپسی آ کر رُکی۔ ڈی۔ ایس۔ پی مکھّن لال کو تصویر دکھا کر بولا، ’’مکھن لال۔۔۔ یہ دو کھاڑکو، بہت خطرناک ہیں۔ ایک بڑے پولیس آفیسر کو مار کر پٹّی سے بھاگے ہیں۔ تٗو تو کھاڑکوؤں کا دوست ہے۔ اگرچہ دونوں تمہارے ڈھابے میں آئیں تو مجھے فون کر دینا۔۔۔!! پچاس ہزار انعام رکھا ہے سرکار نے ان پر۔۔۔‘‘

مکھن لال جہاں دیدہ آدمی تھا، بولا ’’ضرور سر۔۔۔۔ ان میں سے ایک بھی نظر آ گیا آپ کو خبر کر دوں گا۔۔۔۔ اور آئیے سر۔۔۔۔ اس سیوک کو بھی سیوا کا موقع دیں۔۔۔!!‘‘

ڈی۔ ایس۔ پی جیب میں تصویریں رکھ کر بولا، ’’آج جلدی میں ہیں پھر کبھی آئیں گے، تمہارے ڈھابے کی کھیر کھانے۔۔۔!‘‘

لالا ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔۔۔ ’’بہت بہتر سر۔۔۔!!‘‘

پولیس کی جِپسی روانہ ہو گئی تو لڑکے نے سوال کیا، ’’سیٹھ جی! کِن کی تصویریں تھیں۔۔۔!؟‘‘

مکھن لال بولا، ’’اُسی کی۔۔۔ جس نے تجھے تھپّڑ مارا تھا۔۔۔!‘‘

’’وہ پیسے بھی نہیں دے کر گئے، آپ نے اُنہیں بھگا دیا۔۔۔۔!!‘‘ لڑکا حیران ہو کر بولا۔

مکھن لال ناراض ہو کر بولا، ’’تو مروائے گا، مکھن لال کو۔۔۔۔! چُپ رہا کر حرام زادے۔۔۔!!‘‘

چلتے چلتے دن کا اجالا کمزور پڑنے لگا۔ سرد ہوائیں کپکپانے پر مجبور کر رہی تھیں۔ شاما شراب کے نشے میں چل تو رہا تھا مگر بری طرح تھک گیا تھا۔ ایک ٹیوب ویل کے پاس پرانی پرالی (چاول کے سوکھے پودے) کے ڈھیر دیکھ کر، رُک گیا اور سکھّے سے بولا،

’’سر جی۔۔۔ اور کتنا چلنا ہو گا۔۔۔ ؟ تھوڑا رُک جاتے ہیں۔۔۔!‘‘

سُکھا رُک گیا، شاید وہ بھی تھوڑا سستانا چاہتا تھا۔ پرالی کے ڈھیر پر لیٹ کر بولا، ’’شام سنگھ۔۔۔! یار تو ٹائم بہت خراب کرتا ہے۔ ڈھابے میں ڈیڑھ گھنٹہ خراب کر دیا۔ اگر پولیس والے نہ آتے تو شاید تو اور وقت لیتا۔ چلتے چلتے تین جگہ رُک کر وقت برباد کیا۔ اب پھر۔۔۔ چلو رات میں کسی وقت پھلور پہونچ ہی جائیں گے۔۔۔!! واپس فیروز پور جانے کا تو کوئی دوسرا انتظام کریں گے۔ پیدل کا راستہ تو لمبا ہے۔۔۔!!‘‘

اتنی دیر میں گورناما گنّے کے کھیت سے چار پانچ گنّے توڑ لایا۔ سب کو ایک ایک گنّا دے کر خود بھی اپنے مضبوط دانتوں سے گنّا کاٹنے لگا۔ گنّے کا ٹکڑا لے کر شام بڑبڑایا۔۔۔

’’ماں۔۔۔ پیٹ تو خالی ہے اوپر سے یہ گنّا۔۔۔ ہونہہ۔۔۔!!‘‘

گورناما گنّے کا رس اندر کھینچے ہوئے بولا، ’’خالی پیٹ ہے تو مت چوس۔۔۔ پھینک دے گنّا۔۔۔!کوئی زبردستی نہیں۔۔۔۔‘‘

شیاما نتھنے پھلا کر بولا، سالے یہاں تیرا حکم چلے گے۔۔۔!؟۔۔۔ کیا ہے تو۔۔۔!!؟؟‘‘

گورناما غرّایا۔۔۔ ’’تیری ماں کی۔۔۔۔! سالا کس کو بولا۔۔۔ اوئے کُتّے۔۔۔!!؟؟‘‘

دونوں نے ایک دوسرے پر اے۔ کے۔ سینتالیس تان لیں۔

سُکھّا جو آرام سے گنّا چوس رہا تھا، اُن کو گھورتے ہوئے بولا،

’’تم دونوں ہو پاگل، ذرا ذرا سی بات پر اسلحہ نکال لیتے ہو۔ یہاں سے تھانہ مشکل سے ایک کلو میٹر دور ہو گا۔ ایک بھی گولی چلی، تو گھیرے میں آ جاؤ گے، بندے بن کر بیٹھ جاؤ اور پانچ دس منٹ آرام کر لو، پھر نکلنا ہے۔۔۔۔!!::

دونوں اپنے اپنے بیگ اُتار کر پرالی پر جم گئے۔ شاما نے نئی بوتل کا ڈھکن توڑا اور دو چار گھونٹ لگا کر، گورنامے کی طرف بوتل بڑھا کر بولا،

’’لے یار۔۔۔۔ مار لے دو گھونٹ۔۔۔ تو ایسے ہی غصّہ کر جاتا ہے۔۔۔!‘‘

جسپال سنگھ جو بہت ہی کم گو تھا، چند مولیاں اُکھاڑ لایا، ٹیوب ویل کے حوض میں دھوکر شاما کے آگے رکھ کر بولا، ’’بھوک لگی ہو گی، لے یہ کھا لے۔۔۔!!‘‘

وہ تینوں مولیاں کھاتے رہے، جسپال نے پودوں کی سوکھی شاخیں اور لکڑیاں اکٹھی کر کے آگ جلا دی۔ آگ سینک کر اُن میں کچھ توانائی آ گئی۔ تھوڑی دیر بعد سکھّا بولا، ’’جنڈیالہ گورو سے پہلے، سردار دلاور سنگھ کا گاؤں پڑتا ہے۔ گاؤں کے سر پنچ ہیں اور بہت بڑے زمیندار ہیں۔ اُن کی حویلی بھی گاؤں سے ہٹ کر ہے۔ بہت مہربان اور دیالو آدمی ہیں۔ ہم چاہے دس ہوں یا پندرہ، اُن کے گھر سے کبھی بھوکے نہیں آتے۔ ہم سب کو وہ بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ رات کا کھانا آج وہیں کھائیں گے۔ چلو اب نکلو یہاں سے اب تو آگ بھی ٹھنڈی ہو گئی۔

ٹارچیں نکال لو۔۔۔ اندھیرا ہو گیا۔ کسی جانور پر پاؤں نہ پڑ جائے۔ اٹھو، سچّے پادشا کا نام لے کر۔۔۔۔ چلو۔۔۔!!‘‘

شاما نے بے دلی سے اُٹھ کر بیگ کندھے سے لٹکایا، اے۔ کے سنتالیس سنبھالی اور چلنے کو تیار ہو گیا۔ جسپال ایک طرف جا کر پیشاب کرنے لگا، سُکھّا اور گورناما آہستہ آہستہ چلنے لگے۔ کافی دور تک خاموشی سے چلتے رہے۔ سُکھا سنگھ نے گورناما سے سوال کیا۔۔۔ ’’اُس آئی۔ جی کو مارنے کا ہائی کمانڈ کی طرف سے حکم تھا۔۔۔!؟‘‘

گورناما چلتے چلتے بولا، ’’نا جی۔۔۔! اُس کو تو ہم نے ہی اُڑا دیا۔ بہت حرامی تھا۔۔۔!!‘‘

سکھّا نے پھر پوچھا۔۔۔ ’’ہوا کیا تھا۔۔۔!؟‘‘

’’جی میری بھووا (پھوپھی) کا لڑکا تھا منجیت، بہت خوبصورت جوان تھا۔ گیارہویں میں پڑھتا تھا۔ ہماری ساری فیملی کی آنکھ کا تارا تھا وہ، مجھے اپنی اولاد کی طرح پیارا تھا۔ میں اُن دنوں امرتسر میں، بابا جی کی سیوا میں رہا کرتا تھا۔ دوسرے تیسرے دن گھر چکّر لگا لیتا تھا۔ چانس کی بات تھی، میں ایک ہفتے کے لیئے دہلی چلا گیا۔ منجیتا کالج سے آ رہا تھا کہ اُسے پولیس نے اُٹھا لیا۔ وہ آئی۔ جی معصوم لڑکوں کو اُٹھا لیتا تھا۔۔۔!‘‘

’’او۔۔۔ رُک جا مرنا ہے!؟۔۔۔ سانپ اَس کھیت سے دوسرے کھیت جا رہا ہے۔۔۔!‘‘ سُکھا نے اُسے روک کر کہا۔

گورناما اینٹ اُٹھا کر بولا، ’’مار دیں۔۔۔۔ سر جی۔۔۔!!‘‘

سکھّا نے اُسے منع کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’نا نا۔۔۔ اپنا کیا لیتا ہے۔۔۔ جانے دے بے چارے کو۔۔۔!‘‘

’’کوبرا ہے۔۔۔۔ ہے بھی گولڈن۔۔۔!!‘‘ وہ دونوں کہاں رہ گئے۔۔۔!؟‘‘

’’آ رہے ہیں سر جی۔۔۔ پیچھے آ رہے ہیں۔ شاما، جسپال کو بھی پلا رہا ہو گا۔۔۔!!‘‘ گورنامے نے ہنس کر جواب دیا۔

تھوڑی دیر خاموش رہ کر، سکھّے نے پھر سوال کیا۔۔۔ ’’پھر کیا ہوا؟ آئی۔ جی نے لڑکا چھوڑ دیا۔۔۔!؟‘‘

گورناما سنجیدہ ہو گیا، ’’ناجی۔۔۔! میرے پھُپھّڑ (پھوپھا) سے پانچ لاکھ مانگ لیئے۔۔۔!اور کہہ دیا کہ پرسوں شام چار بجے تک رقم لے کر آ جاؤ، ورنہ لڑکا اِنکاؤنٹر میں مار دیں گے۔ اُس وقت گھر میں اتنی رقم نہیں تھی، چھوٹے زمیندار کو آڑھتیا بھی اتنا قرض نہیں دیتا۔ جیسے تیسے، پھُپھّڑ جی نے رقم تیار کر لی۔ وہ ٹریکٹر سے شہر آ رہے تھے کہ جام میں پھنس گئے۔ رقم لے کر پیدل بھاگے اور ساڑھے چار بجے تھانے پہونچے تب تک منجیتا ایک خوفناک آنتک وادی بن کر اِنکاؤنٹر میں مارا  جا چکا تھا۔ اُس کے مرتک شریر کے ساتھ پولیس آفیسر تصویریں کھِنچوا رہے تھے۔ منجیتے کا نام بنتا کھاڑکو رکھ دیا گیا تھا۔ بنتے کھاڑکو کی فائل بند کر دی گئی۔ کافی اسلحہ اور نقلی کرنسی بھی برآمد کر لی گئی۔ اگلے دن تمام اخباروں میں ہمارے بچے کی تصویر چھپی، جسے مار کر چار پائی سے باندھ کر دیوار کے ساتھ کھڑا کیا ہوا تھا، ساتھ میں پولیس والوں کی تصویر تھی۔۔۔۔!!‘‘

گورناما پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔ ’’ہمارا پیارا بچہ مارا گیا۔ میرے پھُپھّڑ جی کو سالوں نے پیٹا اور روپے بھی چھین لیئے۔۔۔! بس سر میں پاگل ہو اُٹھا، یہ شاما میرا بچپن کا دوست ہے۔ ایک لڑکی کے عشق میں یہ شرابی بن گیا۔ بس۔۔۔! سَر ہم دونوں اُس آئی جی کے پیچھے لگ گئے۔ ایک دن اُسے سنیما میں گھیر کر مارا، دو گن مین بھی زخمی کئے۔ پھر ہم بابا جی کے شرن میں چلے گئے، اُنہوں نے آپ کی شرن میں بھیج دیا۔۔۔۔!!‘‘

گورناما اپنے آنسو پونچھنے لگا۔ وہ چاروں ایک فارم ہاؤس کے قریب سے گذر رہے تھے کہ باہر گھومتا ایک جرمن شیفرڈ اُن کے پیچھے پڑ گیا۔ وہ کتّے سے پیچھا چھُڑانے کی کوشش کرنے لگے۔ کتّا تھا کہ بھونکے جا رہا تھا۔ شاما نے پستول نکال کر کتّے کی کھوپڑی میں گولی داغ دی۔ کتّا وہیں دم توڑ گیا۔ سُکھّا سنگھ سخت ناراض ہوا، شاما کو ڈانٹ کر بولا،

’’اوئے۔۔۔ یہ کیا کیا تو نے پاگل۔۔۔۔ اب بھاگ لو فٹافٹ یہاں سے۔۔۔۔!!‘‘

کافی دور نکل کر سکھا نے اپنی چال دھیمی کی اور شاما سے مخاطب ہوا۔۔۔ ’’یہ میرا علاقہ ہے۔ میں چپے چپے سے واقف ہوں۔ وہ ڈی۔ ایس۔ پی مان کی کوٹھی تھی، اُس کے ساتھ ہر وقت تین چار گن میں ہوتے ہیں۔ وہ ہماری ہِٹ لِسٹ میں بھی ہے۔ گولی کی آواز سُن کر وہ ضرور باہر آیا ہو گا۔۔۔۔!!‘‘

شاما نے ہچکچاتے ہوئے سکھا سے سوال کیا۔۔۔ ’’سر جی۔۔۔ آپ پولیس سے اتنا ڈرتے کیوں ہو۔۔۔!!؟؟ ڈھابے سے بھی آپ پولیس والوں کی وجہ سے بھاگے۔ اب ڈی۔ ایس۔ پی مان سے ڈر گئے۔۔۔!!‘‘

سُکھا اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا۔۔۔ ’’تم گدھے کے گدھے رہے۔ مجھے اور جسپال کو پھلور جانا ہوتا ہم کسی بھی ٹرک میں سوار ہو جاتے۔ مجھے تم دونوں کو پھلور پہنچانا ہے۔ زندہ۔۔۔ اسی لیئے اتنی محنت کر رہے ہیں!‘‘

چلتے چلتے سکھا نے کچھ سوچ کر خاموشی توڑی۔۔۔ ’’ہاں۔۔۔ بھئی تم دونوں اس علاقے میں پہلی بار آئے ہو میں تم کو بتا دوں کہ جہاں ہم کھانا کھانے جا رہے ہیں، وہ گاؤں سر پنچ دلاور سنگھ کا ہے جو بہت عزّت دار اور بھلا آدمی ہے۔ ہم خالصتانیوں پر وہ مہربان ہے۔ کھانے پینے کے علاوہ روپیہ پیسے سے بھی ہماری مدد کر دیا کرتا ہے۔ کبھی بھی متھّے وَٹ (پیشانی پہ شکن) نہیں ڈالتا۔ مجھے تو وہ اپنا بیٹا ہی سمجھتا ہے۔ تم ہو رہے ہو شرابی۔۔۔۔ حویلی میں کوئی بدتمیزی نہیں کرنا۔ چُپ چاپ روٹی کھانا۔۔۔۔!!‘‘

گورناما اُسے تسلّی دیتے ہوئے بولا، ’’سر آپ بالکل نہ گھبرائیں۔ ہم آپ سے باہر تھوڑے ہیں۔ آپ ہمارے کمانڈر ہیں۔ بڑے بھائی ہیں۔۔۔۔!!‘‘

شاما بڑبڑایا۔۔۔ ’’پیٹ میں تو سالے چوہے دوڑ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کتنی دور ہے حویلی۔۔۔!!؟؟‘‘

سُکھا اشارہ کر کے بولا۔۔۔ ’’وہ درختوں کا جھُنڈ دیکھ رہے ہو۔۔۔ بس وہیں ہے دلاور سنگھ کی حویلی۔ بس پہونچ لیئے۔۔۔۔ آ جا۔۔۔ چلا آ۔۔۔!!‘‘

موسم اپنی تمام تر خنکی لیئے اُتر رہا تھا۔ سارا گاؤں گہری نیند سو رہا تھا، گاؤں کا چوکیدار حلوائی کی اَدھ جلی بھٹّی کے پاس بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ بادلوں نے پورے چاند کو اپنی آغوش میں چھُپا لیا تھا۔ جس سے اندھیروں کے حوصلے اور بھی بُلند ہو چلے تھے۔ وہ چاروں مسافر بھوک اور تکان سے پریشان چلتے ہی جا رہے تھے۔

رات کا کھانا کھانے کے بعد، حسبِ معمول دلاور سنگھ نے ٹی۔ وی کی خبریں سنیں اور بڑبڑاتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھے۔۔۔۔

’’وا ہے گرو۔۔۔! ہمارے پنجاب کو بھی کسی کی نظر کھا گئی۔۔۔ کبھی دس کبھی بیس پنجابیوں کا قتل ہو رہا ہے۔ عام آدمی مرے، آتنک وادی مرے یا پولیس والے مریں، ہیں تو پنجابی ماؤں کے بیٹے۔۔۔ (ایک ٹھنڈی سانس لے کر) کب ٹھنڈا ہو گا یہ خون خرابے کا بازار۔۔۔۔!؟۔۔۔۔ خبر نہیں۔۔۔!!‘‘

کمرے میں جا کر انہوں نے اندر سے کُنڈی لگا لی۔ ملازم عورتیں رسوئی کا کام ختم کر کے حویلی سے باہر بنے سروینٹ کواٹروں میں  جا چکی تھیں۔ بے جی چھوٹے بٹّو اور پریتی کو لے کر اپنے کمرے میں  جا چکی تھی۔ دونوں بچوں کو دادی کے بغیر نیند نہیں آتی تھی۔ جسّی آج بہت تھک گئی تھی۔ وہ رضائی اپنے گرد لپیٹ کر پلنگ کے ایک طرف سو گئی تھی۔ بلونت بھی کچھ حساب کتاب دیکھ کر نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا۔ رات کا ابھی آدھا سفر بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ باہر جنّی اور دوسرے کتّے کے بھونکنے کی آوازیں سُنائی دیں۔ شور زیادہ بڑھا تو دلاور سنگھ نے اپنے کمرے کی کھڑی کھولی جو صحن میں کھلتی تھی اور نوکر کو آواز دی۔۔۔ ’’او جیتے۔۔۔!!۔۔۔ کون ہے اوئے، دیکھ تو۔۔۔۔!!‘‘

جیتا ہکلاتے ہوئے بولا، ’’دار جی۔۔۔! وہ ہیں۔۔۔۔ وہ۔۔۔!!۔۔۔ وہ۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ سر پر پٹکا باندھتے ہوئے بولے، ’’اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ اِن کتّوں کو سنبھال۔۔۔!‘‘

جیتا کتّوں کو پچکارتا ہوا اپنے کمرے کی طرف لے گیا۔ تھوڑی دیر بعد دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔ دلاور سنگھ اپنا کشمیری شال اپنے گرد لپیٹے ہوئے ہال میں آ گئے۔ بے جی بھی بچوں کو سوتا چھوڑ کر ہال میں چلی آئی۔ بلونت آنکھیں ملتا ہوا ہال میں آیا۔ ایک جماہی لے کر اُس نے سوال کیا۔۔۔ ’’دار جی۔۔۔! اس وقت کون ہو سکتا ہے۔۔۔۔!؟‘‘

دلاور سنگھ لاپرواہی سے بولے، ’’او۔۔۔ کوئی نہیں۔۔۔ منڈے (لڑکے) ہوں گے۔ بے چارے پولیس سے چھُپتے چھُپاتے پھرتے رہتے ہیں۔ بھوک لگتی ہے۔۔۔ تو حویلی کی طرف آ جاتے ہیں۔ روٹیاں کھائیں گے اور چلے جائیں گے۔‘‘

بے جی ناک چڑھا کر بولی، ’’آپ نے ان کو سر چڑھا رکھا ہے۔۔۔ اب کون ان کے لیئے روٹیاں بنائے، کام والیاں تو چلی گئیں۔۔۔! جسّی اور میں کیا کریں گی۔۔۔!؟‘‘

دِلاور تھوڑا غصّہ دِکھا کر بولے، ’’کبھی تھوڑا تنگ بھی ہونا پڑتا ہے۔ وہ دو مہمان عورتیں بھی تو ہیں۔۔۔ اُن کو جگا لو۔۔۔! ہماری حویلی سے کوئی بھوکا چلا جائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔!‘‘

بلونت کچھ سوچ کر بولا، ’’دار جی۔۔۔ میں اپنا پستول اُٹھا لاؤں۔۔۔!؟‘‘

دِلاور تھوڑا اُکھڑ کر بولے، ’’بلونتیا۔۔۔! پاگل نہ بن، اسلحہ دیکھ کر یہ لوگ بگڑ جاتے ہیں۔ لائیسینسی پسٹل ہے۔ اگر وہ لے جانے لگے۔۔۔۔ پولیس سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔‘‘

باہر سے دروازہ پیٹنے کی شدّت میں اور اضافہ ہونے لگا تھا۔ بلونت سنگھ دار جی کو کچھ اور سمجھانا چاہتا تھا مگر۔۔۔ دلاور سنگھ کی پوری توجہ دستک کی طرف لگی ہوئی تھی۔ وہ اس وقت کچھ بھی سُننے کو تیار نہ تھے۔ بلونت سنگھ ہچکچاتے ہوئے بولا، ’’دار جی۔۔۔ پر وہ۔۔۔ پر وہ۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ غصّہ سے بولے، ’’اوئے۔۔۔۔ یہ کیا پر پر لگا رکھا ہے، دروازہ تڑوائے گا کیا۔۔۔ ؟ کھول دے دروازہ۔۔۔! کچھ نہیں ہو گا۔ سارے اپنے ہی مُنڈے (لڑکے) ہیں۔۔۔۔ میرا بہت مان آدر کرتے ہیں۔۔۔۔!‘‘

بلونت خاموش ہو گیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔ آگے آگے سکھا باقی تین اُس کے پیچھے کھڑے تھے۔ سُکھّا اندر آتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر ادب سے بولا، ’’سر پنچ ساب۔۔۔ ست سری اکال۔۔۔ واہے گرو جی کا خالصہ شری واہے گرو جی کی فتح۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ خوش ہو کر بولے، ’’او آ بھئی۔۔۔۔ سُکھّیا۔۔۔ کی حال ہے تیرا۔۔۔!‘‘

سُکھا نے اُن کے گھُٹنوں کو تعظیم سے چھوا، تو دلاور سنگھ نے اُس کا کندھا چھو کر اُسے آشیرواد دیا، ’’جیتا رہ۔۔۔ پُتّر۔۔۔!!‘‘

اندر آ کر شاما، گورناما اور جسپال نے بھی فتح بُلائی، تو انہوں نے بڑے تپاک سے کہا۔۔۔ ’’آؤ۔۔۔ آؤ پُتّر جی۔۔۔ جی آئیاںنوں (استقبال ہے)‘‘

صوفے پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے سُکھّا سے سوال کیا۔۔۔

’’اور سُنا سُکھّیا۔۔۔ بڑے دِنوں کے بعد نظر آئے۔۔۔!‘‘

سُکھا نیچی نظر کیئے بولا، ’’سر پنچ ساب۔۔۔ بس فیروز پور اور موگا میں زیادہ کام رہا۔ آپ کے اِدھر کم ہی آنا ہوا۔۔۔۔!‘‘

شاما اور گورناما کی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر دلاور سنگھ نے سوال کیا۔۔۔

’’آ۔۔۔ دونوں بچّے۔۔۔۔ پہلے کبھی نہیں دیکھے اِدھر۔۔۔!؟‘‘

سُکھا نے اُن کا تعارف کروایا۔، ’’یہ ہے جی۔۔۔ شاما۔۔۔ شام سنگھ اور یہ گورناما، گورنام سنگھ۔ یہ دونوں جوان پٹّی سے آئے ہیں۔ پچھلے دنوں، انہوں نے ایک آئی۔ جی پولیس کو لڑھکا دیا۔ پنجاب پولیس ان کو ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ ہائی کمانڈ نے کچھ دنوں کے لیئے انہیں میرے پاس بھیج دیا۔۔۔! اور اسے تو آپ جانتے ہیں۔۔۔ جسپال سنگھ۔۔۔ پالا۔۔۔ اپنا پُرانا متّر ہے۔

دلاور سنگھ ہنستے ہوئے بولے، ’’پالا تو جنڈیالے کا ہی ہے۔ صوبہ دار کا بیٹا ہے۔ اسے تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کا بچپن ہم نے دیکھا ہے۔ اب تو یہ سیانا ہو گیا (بزرگ ہو گیا)‘‘

شیاما اور گورناما زیادہ نشہ ہونے کی وجہ سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے تھے، دلاور سنگھ نے پالے سے سوال کیا، ’’جسپال سیاں کتنی عمر ہو گی۔۔۔ تیری۔۔۔!؟‘‘

جسپال ہنس کر بولا، ’’او جی۔۔۔ میری بے بے بتایا کرتی تھی کہ ہلّہ پڑنے کے دو سال بعد میں پیدا ہوا تھا۔ اب حساب آپ لگا لو۔۔۔۔ میں تو انگوٹھا چھاپ ہوں۔۔۔۔!‘‘

دِلاور سنگھ کچھ سوچ کر بولے، ’’ہلے ۱۹۴۷ میں پڑے تھے، جب پاکستان بنا، دو سال کا مطلب ۱۹۴۹، اور اب چل رہا ہے ۱۹۸۹کل ملا کے ۴۰ سال کا ہوا۔۔۔!‘‘

جسپال نے تسلیم کیا، ’’ہاں جی۔۔۔ اتنا ہی ہوں گا۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ کو بیٹھے بیٹھے کچھ محسوس ہوا۔ ’’او۔۔۔ آؤ بھئی بیٹھو، تم لوگ کھڑے کھڑے باتیں کر رہے ہو۔ میں بیٹھ گیا۔‘‘ چاروں نے اپنے گِرد لپیٹے ہوئے کمبل اُتار کر صوفے کی پشت پر رکھ دیئے۔ رائفلیں اور بیگ سینٹر ٹیبل پر ٹکا دیئے۔ شاماں اور گرناما کچھ نشے کے زیر اثر کچھ نیند اور تھکاوٹ سے پریشان گردن جھکا کر آنکھیں موند کر بیٹھے رہے۔ دلاور سنگھ سمجھتے رہے کہ لڑکے سعادت مند ہیں۔ دونوں ہاتھ رگڑ کر گرمی پیدا کرنے کی کوشش کر کے، دلاور سکھا سے مخاطب ہوئے، ’’اور سُنا سکھّا۔۔۔۔ گھر پر سب کُشل منگل ہے۔۔۔!!؟؟‘‘

سکھّا تھوڑا سنجیدہ ہو کر بولا، ’’ہم نے تو اپنا جیون پنتھ کے حوالے کر دیا۔ اب گھر بار کی کیا خبر لیں۔ نہ مجھے گھر والوں کی خبر ہے نہ اُن کو میرا پتہ ہے کہ میں کہاں ہوں۔ زندہ ہوں یا پولیس کی گولی کا نشانہ بن چکا ہوں۔!‘‘

ایک آہ بھر کر وہ پھر بولا، ’’پچھلے دِنوں میرے گاؤں کا ایک بندہ ملا تھا، اُس نے بتایا کہ باپو جی بہت بیمار ہیں۔ اِدھر ایسا اُلجھا ہوں کہ اپنے گاؤں نہیں جا سکا۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ شال درست کر کے بولے، ’’واہے گرو۔۔۔ کرپا کرے گا۔۔۔!‘‘

ہال میں خاموشی چھا گئی۔ دو مہمان آدمی اور بلونت خاموشی سے اُن کی باتیں سُن رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد سکھا بولا، ’’سر پنچ ساب بھوک بہت لگی ہے۔ روٹیوں کا انتظام ہو جائے تو۔۔۔۔۔!!!‘‘

’’تم لوگوں نے حویلی کے پھاٹک کے پاس قدم رکھّا، میں نے تبھی بلونت کی بے جی سے کہہ دیا تھا کہ کھانے کا انتظام کرے۔ تم تو جانتے ہو، دلاور کی حویلی سے کوئی بھوکا نہیں جاتا۔۔۔!!‘‘

مہمان بندے پریشان بھی تھے اور خوف زدہ بھی۔ دلاور اُن کی طرف بغور دیکھ کر بولے، ’’کاکا۔۔۔ آپ دونوں جا کر آرام کرو۔ یہ تو اپنے ہی منڈے (لڑکے) ہیں۔ کبھی کبھی پرشادہ چھکنے (روٹی کھانے) آ جایا کرتے ہیں۔۔۔!!‘‘

سکھّا نے اُن کو مشکوک نظروں سے دیکھا، اور دلاور سنگھ سے سوال کیا۔

’’سر پنچ ساب۔۔۔ یہ دونوں، اس علاقے کے تو نہیں لگتے۔ کون ہیں یہ۔۔۔!؟‘‘

’’اپنے رشتہ دار ہیں۔ لوہے کا کاروبار کرتے ہیں۔ راجستھان سے آئے ہیں۔ منڈی گوبند گڑھ جانا ہے اِن کو۔۔۔ کوئی ایسی بات نہیں۔۔۔ گھبراؤ نہیں۔۔۔۔!‘‘

ہال میں شراب کی بٗو بُری طرح پھیلی ہوئی تھی۔ بے جی، دو مہمان عورتوں کو جگا کر لے آئی تھی، جو برتنوں سے کچن میں آوازیں پیدا کرنے لگی تھیں۔ دلاور سنگھ، بلونت سے بولے، ’’بلونتے۔۔۔! جا، جسّی پُتّر کو بھی جگا لا۔۔۔ کہنا جلدی کھانا تیار کر دے۔۔۔!‘‘

گورنامے نے ایک دم آنکھیں کھولیں اور بجلی کی سی پھرتی سے اُٹھ کر کھڑا ہوا، رائفل اُٹھا کر دلاور سنگھ سے بولا، ’’دیکھ او، بابا۔۔۔! تو جو بھی ہے۔۔۔! یہ بندہ یہاں سے نہیں ہلے گا۔۔۔!‘‘

دلاور ہنس کر بولے، ’’بیٹا جی۔۔۔! یہ میرا پُتّر ہے۔ بلونتا۔۔۔! سُکھا جانتا ہے اسے، کوئی وہم نہ کرو۔ یہاں تم لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں۔۔۔ آرام سے بیٹھو۔۔۔!!‘‘

شاما نے سامنے کھڑے ہو کر دلاور سنگھ پر رائفل تان لی اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے بولا، ’’او بُڈّھے۔۔۔ زیادہ ہوشیاری نہ دِکھا، گورنامے نے کہہ دیا یہ بندہ یہاں سے نہیں ہلے گا۔۔۔ تو ہلے گا ہی نہیں۔ ورنہ گولی نکال دوں گا، بیچ میں سے عورت کو بلانا ہے تو کسی عورت کو بھیجو۔۔۔!‘‘

شاما کی یہ حرکت دیکھ کر بلونت طیش میں آ گیا، وہ چیخ اُٹھا،

’’اوئے وَڈّے کھاڑکوا ( او بڑے دہشت گرد) تمیز سے بات کر دار جی سے، نیچے کر رائفل، تو جانتا نہیں تٗو نے کِس پر یہ تانی ہے۔۔۔!‘‘

سُکھا، جو اب تک یہ تماشا دیکھ رہا تھا، پستول نکال کر کھڑا ہو گیا اور چلّایا،

’’اوئے۔۔۔ او شرابی جانورو۔۔۔۔ بندے بنو۔۔۔! میرے پِتا سمان بزرگ پر رائفل تان دی۔ میں تم دونوں کی حرکتوں کو صبح سے برداشت کر رہا ہوں۔ میں بھول گیا تھا کہ تم کو کسی عزّت دار آدمی کے گھر میں لے جانا چاہیئے ہی نہیں تھا۔ تمہیں بھوکے پیٹ ہی پھلور لے کر جاتا۔ چلو بیٹھو۔۔۔ شرافت سے پرشادے چھکو (روٹی کھاؤ) اور چلو۔۔۔!‘‘

شاما اور گورناما سکھا کی ڈانٹ کھا کر، رائفلیں ہاتھوں میں لیئے صوفے پر بیٹھ گئے۔ شور سُن کر جسّی گھونگھٹ نکالے، چلتی ہوئی رسوئی گھر میں چلی گئی۔

سکھّا ہاتھ جوڑ کر دلاور سنگھ سے مخاطب ہوا۔۔۔، ’’سر پنچ ساب۔۔۔ ان بے وقوفوں کی بدتمیزی کے لیئے میں معافی چاہتا ہوں۔ مجھ سے غلطی ہوئی ان سر پھرے شرابیوں کو اس گھر میں لانا ہی نہیں چاہیئے تھا۔ بھوکے پیٹ سے مجبور ہو گئے سردار جی۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ کھسیانی سی ہنسی کے ساتھ بولے، ’’کوئی بات نہیں بچّے ہیں۔ ہمارے مہمان ہیں۔۔۔!!‘‘

بلونت غصّہ سے تپ رہا تھا، اور برابر باپ کو گھورے جا رہا تھا، دلاور سنگھ بلونت کے جذبات سمجھتے تھے۔ خاموش ہی رہے۔ وقت اپنی رفتار سے گذر رہا تھا، کھانے کے انتظار میں وہ چاروں بے حال ہو رہے تھے۔ اُن دونوں نے پھر سے آنکھیں موند لی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے بے جی نے آواز دی، بلونتے کے دار جی۔۔۔ پرشادے تیار ہیں۔۔۔!!‘‘

شاما نے گورنامے سے کہا۔۔۔ ’’او۔۔۔ دیکھ بُڑھیا کہتی ہے روٹی بن گئی۔۔۔!‘‘

گورناما ایک جماہی لے کر بولا، ’’کون بُڑھیا۔۔۔!؟‘‘

شاما لا پرواہی سے بولا، ’’اس بڈھے کی ووھٹی (بیوی) ہو گی سالی اور کون۔۔۔!‘‘

اس بار بات بلونت کی برداشت سے باہر تھی۔ اُس نے آگے بڑھ کر شاما کے جبڑے پر ایک زور دار گھونسا جڑ دیا اور چلّایا۔۔۔

’’حرام زادے۔۔۔ ہمارے گھر آ کر ہماری ماں کو گالی دیتا ہے۔۔۔ سالے۔۔۔!‘‘

گھونسا کھا کر شاما خون تھوکنے لگا، سنبھلتے ہی اُس نے رائفل کا رُخ بلونت کی طرف کر کے لب لبی پر انگلی رکھ دی۔ سکھا بڑی پھرتی سے شاما کی طرف کودا، اور اُسے دھکّا دے کر بولا، ’’کتّے کے بچّے۔۔۔۔! ایک بھی فائر ہوا تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا۔۔۔!‘‘

شاما نے سنبھل کر سُکھا پر فائر کر دیا۔ گولی اُس کی دائیں ران میں لگی۔ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ شاما بڑبڑایا، ’’سالا، گالی دیتا ہے۔ بزدل کہیں کا، بڑا آیا کمانڈر، سویرے سے جان کھا لی ہماری۔‘‘ جسپال، سُکھّا کو سنبھالنے میں لگ گیا۔ وہ بے ہوش ہو چکا تھا۔ جسپال غصّہ سے بل کھا رہا تھا۔ وہ ان سر پھرے دہشت گردوں سے واقف تھا۔ وہ اس کو بھی گولی مارنے میں پیچھے نہ ہٹتے، گورناما چیخا، ’’او۔۔۔ چلو اوئے۔۔۔ سب کے سب کمرے میں، ورنہ یہاں لاشیں بچھا دیں گے۔۔۔!!‘‘

دو رائفلوں کے دہانوں کو دیکھتے ہوئے دلاور سنگھ چلنے لگا تو بلونت نے اُن کا بازو تھام لیا۔ دلاور سنگھ اُس کا اشارہ سمجھ رہا تھا۔ بلونت چاہتا تھا کہ اُن دونوں کا مقابلہ کیا جائے۔ وہ دور اندیش آدمی تھے۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی زندگی داؤ پر لگانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر بلونت کو کچھ ہو گیا تو یہ حویلی ویران ہو جائے گی۔

شاما چلّایا۔۔۔ ’’او۔۔۔ چلو اوئے۔۔۔ جلدی اندر جاؤ۔۔۔ ورنہ۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ ہاتھ اوپر اُٹھائے کمرے میں چلے گئے۔ پیچھے پیچھے بلونت اور دونوں مہمان بھی اندر چلے گئے۔ شاما نے جلدی سے باہر کی کُنڈی لگا دی۔ عورتوں کے دم خشک ہو رہے تھے۔ وہ کسی بڑے حادثہ کے خوف سے خاموش تھیں۔ میز خالی کر کے گورناما بولا، ’’چل مائی۔۔۔۔ جلدی کھانا لگواؤ۔۔۔!!‘‘

جسپال، سکھّے کا سر زانوں پر رکھّے اُن دونوں کی طرف نفرت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ایک ہاتھ میں کپڑا لیئے وہ بہتے ہوئے خون کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ شاما اُس کو دیکھ کر ہنسا اور تمسخرانہ انداز میں بولا، ’’اوئے ایریا کمانڈر کے چمچے۔۔۔ آ جا۔۔۔ کھا لے روٹیاں۔۔۔ تیرے باس کا تو گولی کھا کر پیٹ بھر گیا۔۔۔!‘‘

دونوں نے مل کر قہقہہ لگایا۔ ایک عورت برتن چن گئی۔ دوسری نے کھانا پروس دیا۔ وہ کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ لُقمہ چباتے ہوئے گورناما بولا، ’’پالے آ جا۔۔۔ روٹی کھا لے۔۔۔ ارے اِسے کچھ نہیں ہوا، ۔۔۔۔ ران میں ہی گولی لگی ہے۔ بچ جائے گا، مرے گا نہیں۔۔۔!‘‘

جسپال غصّہ سے دانت پیس کر بولا، ’’تم نہیں جانتے ہائی کمانڈ میں سُکھّا کی کتنی عزّت ہے۔ سکھّا کو گولی مار کر تم نے اپنی موت کو آواز دی ہے۔۔۔!‘‘

گورناما کھانا کھاتے کھاتے بولا، ’’کون سالا مرنے سے ڈرتا ہے۔ اس کو کس نے ایریا کمانڈر بنا دیا۔ بات بات پہ پولیس سے ڈرتا ہے۔ گولی نہ چلاؤ، یہ نہ کرو وہ نہ کرو۔۔۔!‘‘

’’چل چل۔۔۔ آ جا کھا لے روٹی، مرنے دے اِسے۔ ہم نے اسے گولی نہیں ماری یہ تو پولیس کی گولی سے زخمی ہوا ہے۔۔۔‘‘

جسپال تھوک نگل کر بولا، ’’یہ خود ہی بتا دے گا کہ گولی کس نے ماری، اس کو۔۔۔‘‘

دونوں نے مل کر قہقہے بُلند کیئے، ’’او پالیا۔۔۔ اسے زندہ کون چھوڑے گا جو یہ بولے گا۔۔۔!‘‘

جسپال اُن کا چہرہ تکتا رہ گیا۔ وہ ہنستے رہے۔

شاما رسوئی کی طرف مونہہ کر کے بولا، ’’او مائی۔۔۔ دال مکھانی تھوڑی اور بھیج۔۔۔!‘‘

جسّی دال کا برتن لے کر اُن کی طرف بڑھی، پلیٹ میں دال ڈالتے ہوئے، بد قسمتی سے ہوا نے اُس کا دوپٹہ سر سے سرکا دیا۔ جسّی کا حسن دیکھ کر شاما اور گورناما کا مونہہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ جسّی کو فوراً کسی انجانے خطرے کا احساس ہوا۔ گھونگھٹ نکال کر وہ جلدی جلدی رسوئی میں چلی گئی۔ وہ دونوں جیسے کھانا، کھانا بھول گئے، پھٹی آنکھوں سے گورناما بولا، ’’شامے۔۔۔ کچھ دیکھا۔۔۔!؟‘‘

شاما مسکرا کر بولا، ’’ہاں یار۔۔۔ حویلی میں تو چاند اُتر آیا ہے اوئے۔۔۔۔!‘‘

شاما۔۔۔ ہاتھ کی روٹی تھالی میں گرا کر بولا، ’’گورنامے چھوڑ روٹی۔۔۔ پکڑ لے ووہٹی(بیوی)!‘‘

گورناما کمبل سے ہاتھ صاف کر کے بولا، ’’یار۔۔۔ آج تو واہِ گرو ہم پر مہربان ہے۔۔۔!‘‘

جسپال کی رائفل تھوڑی دوری پر پڑی تھی، وہ رائفل کی طرف بڑھا ہی تھا کہ شاما نے رائفل اُٹھا لی، اور اُس پرگھونسوں اور لاتوں کی بارش کر دی۔ جسپال اوندھے مونہہ فرش پر گر پڑا، اپنے ہونٹوں سے خون صاف کر کے وہ چیخا۔

’’ہم خالصتانیوں کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ سبھی بی بیاں ہماری بہنیں اور مائیں ہوتی ہیں۔ خبردار۔ اگر کوئی گندی حرکت کی۔ بوٹی بوٹی کر دوں گا سالوں کی۔۔۔!!‘‘

شاما ماتھے پر بل ڈال کر بولا، ’’اس حرامی کو خاموش کر دوں ؟ ورنہ یہ رنگ میں بھنگ ڈالے گا۔۔۔!‘‘

گورناما کچھ سوچ کر بولا، ’’نہیں نہیں۔۔۔ اِسے مارنا نہیں، کہاں دو لاشیں اُٹھائیں گے۔ حویلی میں کوئی اپنا نشان نہیں چھوڑنا۔۔۔! ایسا کر اس کی پگڑی اُتار کر اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دے۔۔۔!‘‘

شاما نے اُس کی پگڑی اُتاری تو وہ چھٹپٹایا، گورنامے نے اُسے وارننگ دیتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’پالا جی۔۔۔ زیادہ تڑپو نہیں۔۔۔ ورنہ ایک گولی تیرے سر پر لگی بہت ہے۔۔۔!!‘‘

جسپال خاموش ہو گیا۔ شاما نے آرام سے اُس کے ہاتھ پاؤں باندھے اور مونہہ ایک کپڑے سے بند کر دیا۔ جسپال سے فارغ ہو کر اُن کی آنکھوں میں جیسے چمک آ گئی، وہ رسوئی میں گھُس گئے۔ وہاں جّسی نہیں تھی۔ وہ اُسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈھنے لگے۔ سارے کمرے دیکھ کر جب وہ دلاور سنگھ کی بیٹھک میں پہونچے تو وہاں جسّی ٹیلیفون کے ساتھ زور آزمائی کر رہی تھی۔ اُسے دیکھ کر وہ دونوں آرام سے کھڑے ہو گئے اور مسکرانے لگے۔ شاما بڑے پیار سے بولا، ’’کیوں تکلیف دے رہی ہو اِن کومل ہاتھوں کو۔ حویلی میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہم نے ٹیلیفون کا تار کاٹ دیا تھا۔ چھوڑو اس بے جان چیز کو، آؤ ہمارے پاس آؤ۔۔۔!‘‘

جسّی کی نظر کھونٹی پر لٹکتی دلاور سنگھ کی تلوار پر پڑ گئی۔ اُس نے اُچک کر تلوار اُتار لی اور میان سے نکال کر، چلّائی، آؤ۔۔۔ کتّو۔۔۔! چھو کر دیکھو مجھے۔ کاٹ کر رکھ دوں گی۔۔۔!!‘‘

شاما مسکرا کر بولا، ’’تم تو غصّہ کر گئی۔ ہم نے تو تمہیں بڑے پیار سے اپنے پاس بلایا تھا۔۔۔‘‘

گورناما جسّی کی طرف بھوکی نظروں سے دیکھتا ہوا، جسّی کی طرف بڑھنے لگا جسّی نے اُس پر تلوار کا بھرپور وار کر دیا۔ اگر وہ پیچھے نہ ہٹتا تو شاید اُس کا بازو اُس کے جسم سے الگ ہو جاتا۔ جسّی کے وار سے اُس کے بازو پہ گہرا زخم آیا تھا۔ کراہتے ہوئے وہ اپنا بازو پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ جسّی نے ہانپتے ہوئے دوسرا وار کیا تو آگے بڑھ کر شاما نے وار رائفل پہ لے لیا اور ایک اُلٹا ہاتھ اُس کے گال پر جما دیا۔ ’’حرام زادی۔۔۔!ہماری نرمی کا فائدہ اُٹھاتی ہے۔ تلوار چھین کر شاما نے جسّی پر گھونسوں اور لاتوں کی بوچھاڑ کر دی۔ وہ بوکھلا گئی، جسّی کے دوپٹّے سے گورنامے کے بازو کے زخم کو باندھ کر انہوں نے جسّی کو شاخ گل کی طرح اُٹھا لیا اور اُس کے بیڈ روم میں لے جا کر، اُسے پلنگ پر پٹخ دیا۔ وہ چیختی رہی اور مدد کے لیئے بلونت کو پُکارتی رہی۔ زخم کھا کر گورناما مزید خون خوار ہو گیا تھا، دونوں جانور بن چکے تھے۔ وہ جسّی کو نوچنے لگے۔ جب انسان جانور کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو اُسے دوسرے انسان کے درد کا احساس نہیں رہتا۔ یہ ظالمانہ کھیل دو گھنٹے تک چلتا رہا۔ حویلی سے باہر لوگ بے خود ہو کر سوتے رہے۔ سارا گاؤں نیند میں ڈوبا رہا اور بلونتے کی جسّی، لٹتی رہی۔

بلونت جسّی کی چیخ و پُکار سُن کر دروازہ توڑنے کی کوشش میں اپنا ہاتھ زخمی کر بیٹھا تھا، حویلی کا مضبوط اور آہنی دروازہ جوں کا توں رہا۔ بلونت دھاڑیں مارتا ہوا، دیواروں سے اپنا سر پھوڑنے لگا۔ دلاور سنگھ اُس کو دلاسہ دینے کی غرض سے اُس کی طرف بڑھے تو وہ چیخ اُٹھا۔۔۔ ’’دیکھ لیا اِن لوگوں پر ترس کھانے کا نتیجہ۔۔۔۔۔۔ ؟؟ کھلاؤ ان کو اور روٹیاں۔ بھینٹ کرو ان کو نوٹوں کی گڈّیاں۔۔۔!! دیکھو۔۔۔ وہ تمہارے خاندان کی بہو کا کیا حال کر رہے ہیں۔ آپ بہت بڑے سردار ہو۔۔۔ سر پنچ ساب ہو۔۔۔۔ کرو کچھ حیلہ۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ آنسو بہاتے ہوئے بولے، ’’اب تٗو مجھے جو چاہے کہہ لے۔ میں تمہارا گُنہگار ہوں۔۔۔ بیٹا۔۔۔۔!!‘‘

بلونت پھر گرجا۔۔۔، ’’میں نے کہا تھا، دار جی۔۔۔ پستول اُٹھانے دو۔ حکم کر دیا نہیں۔۔۔ تو بس نہیں۔۔۔ اولاد کی کیا مجال کہ وہ حکم ٹال دے۔ آپ کو پتہ ہونا چاہئے تھا، کہ کھاڑکو کسی کے سگے نہیں ہوتے۔ یہ صرف گولی کی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ آپ کو تو بھگوان کہلانے کا شوق ہے۔ بنو۔۔۔ اور بھگوان۔۔۔ اور دیکھو اپنی بربادی۔۔۔!!‘‘

وہ بلونت کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑائے، ’’بلونت میری بچّی کو بچا لے اوئے میری عزّت کو بچا لے۔۔۔!‘‘

وہ آنسو بہاتے ہوئے بے ہوش ہو کر فرش پر گر پڑے۔

وقت اپنی مستی میں تانڈو کا ناچ ناچتا ہوا گذرتا رہا۔ دونوں جانور صفت درندوں نے جب اپنے ظلم سے جی بھر لیا جسّی درد کی تاب نہ لا کر بے ہوش ہو کر ایک طرف لُڑھک گئی تھی۔ شاما اور گورناما اُس کو اُسی حالت میں چھوڑ کر اپنے کپڑے درست کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکلے۔ بلونت اپنے کمرے میں بند اُن کو برابر گالیاں دے رہا تھا۔ گالیاں سُن کر وہ بے تحاشا قہقہے لگانے لگے۔ ہال میں آ کر انہوں نے جسپال کو کھولا اور حکم دیا کہ اُس کی رائفل اُن کے پاس رہے گی وہ سکھا کو، اُٹھا کر چلے گا، اور راستہ بتائے گا۔

اگر کوئی اپنے گروپ کا بندہ ملا تو کہہ دینا، پولیس کی گولی لگی ہے، اگر اُٹھاتا ہے تو بتا۔۔۔!!؟ ورنہ ہم اِسے گولی مار دیتے ہیں، کون اُٹھائے پھرے گا اس کو۔۔۔!؟۔۔۔ بول۔۔۔!؟‘‘

جسپال بُری طرح ٹوٹ چکا تھا، وہ ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’نہیں نہیں۔۔۔! اسے مارنا نہیں۔۔۔ ہوش میں آئے گا، میں اِسے سمجھادوں گا۔ اُٹھاؤں گا میں اس کو۔۔۔ اُٹھا لوں گا۔۔۔!!‘‘

وہ دونوں آگے تھے، جسپال اُن کے پیچھے ہو لیا، چلتے ہوئے اُس نے آنکھ بچا کر رسوئی کی کُنڈی کھول دی، بے جی اور دوسری عورتیں جو سہمی ہوئی بیٹھی تھیں، سوچنے لگیں کہ شاید باہر سے کوئی آتنکی آئے گا، ظلم ڈھانے۔ گاؤں کے دوسری طرف گوردوارے کا بھائی جی بولا۔۔۔ ’’شری واہِ گرو جی کا خالصہ، شری واہِ گرو جی کی فتح۔۔۔!!‘‘

بے جی کو احساس ہوا کہ تقریباً چار بچے صبح کا وقت ہے، کُنڈی کھلنے کے بعد جب دس منٹ تک کوئی اندر نہ آیا، نہ کوئی آواز سُنائی دی، بے جی نے دروازہ کھولا تو وہاں کوئی نہ تھا، اُس کا دھیان فوری طور پر جسّی کی طرف گیا، وہ جسّی کے کمرے کی طرف لپکی، جس کا ایک پَٹ کھلا تھا۔ کمرے کے اندر کا منظر دیکھ کر جیسے بے جی کی دھڑکنیں بند ہو گئیں۔ اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک زور دار چیخ مار کر وہ اپنی چھاتی پیٹنے لگی اور بین کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل کر دروازہ بند کرنے لگی۔

’’ہائے ربّا۔۔۔ ہم تو لُٹ گئے۔۔۔۔ برباد ہو گئے۔۔۔ میری پھول سی بچّی، جسّی۔۔۔! ہائے نی جسیّئے۔۔۔ تم نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔۔۔۔ نی۔۔۔۔!‘‘

مہمان عورتوں نے رسوئی گھر سے نکل کر مردوں کے کمرے کی کُنڈی کھول دی۔ بلونت پاگلوں کی طرح شور مچاتا ہوا کمرے سے باہر نکلا اور جسّی کے اور اپنے بیڈروم کی طرف لپکا۔ برآمدے میں بلونت کو دیکھ کر بے جی اور دکھی ہو اُٹھی، چھاتی پیٹتے ہوئے بولی، ’’بلونتیا بے، آپاں (ہم) لُٹّے گئے۔ بے، دیکھ ان کتّوں نے جسّی کی جان لے لی۔۔۔!‘‘

بلونتا بے صبری سے بیڈ روم کی طرف بڑھا اور دروازہ کھولا، تو اندر کا منظر دیکھ کر اُس پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا، اُس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور مونہہ حیرانی سے کھلا رہ گیا۔ جسّی بالکل بے لباس پلنگ پر بے ہوش پڑی تھی۔ اُس کے بال اُلجھے ہوئے تھے جنہیں بری طرح نوچا گیا تھا، اُس کی گوری گوری چھاتیوں، گالوں، بازوؤں اور رانوں پر جگہ جگہ کھروچیں نظر آ رہی تھیں۔ جن میں سے خون رِس رہا تھا۔ گورے جسم پر نیل کے بے شمار نشانات تھے۔ کئی جگہ دانت گاڑنے کے بھی نشانات تھے۔ بیڈ شیٹ پر جگہ جگہ خون کے دھبّے تھے۔ بلونت یہ منظر برداشت نہ کر سکا، وہ پاگل ہو اُٹھا۔ اُس نے اپنی پستول اور گولیاں اُٹھائیں اور دہشت گردوں کو للکارتا ہوا حویلی سے باہر چلا گیا۔ دن کے اجالے اترنے کو تھے، وہ گاؤں کے اِرد گِرد بنی پھرنی (سڑک) پر پستول لیئے دوڑتا رہا۔ وہ ظالم جانے کس طرف نکل گئے کچھ پتہ نہ تھا۔ آخر تھک ہار کر وہ تالاب کے کنارے سوکھے درخت کے تنے پر بیٹھ کر رونے لگا۔ اُس کے ذہن کی دیواروں پر بے ہوش مظلوم جسّی کی تصویر چپک کر رہ گئی۔ پستول جیب میں اَڑس کر، وہ تھکے قدموں سے اپنے کھیتوں کی طرف نکل گیا، وہ گھر جانا نہیں چاہتا تھا، نہ تو وہ دار جی کے رو برو ہونا چاہتا تھا، نہ جسّی کو دوبارہ دیکھنا چاہتا تھا۔ کھیتوں کے بیچ بنے ایک کارندے کے کمرے میں چار پائی ڈال کر لیٹ گیا۔ وہ آنکھیں بند کرتا، تو جسّی کی وہی تصویر اُس کے دماغ پہ کچوکے لگانے لگتی۔ اُسے کسی طرح چین نصیب نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دو بار اُس نے پستول نکال کر خود کشی کرنے کی کوشش کی، جسّی کے بغیر اُس کی زندگی کا مطلب ہی کچھ نہیں رہ جاتا۔ اُس کی اس حالت کا ذمہ دار وہ دار جی کو ٹھہرا رہا تھا اور خود کو بزدلی کا مجرم جو جسّی کی حفاظت نہ کر سکا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

 

 (۷)

 

دلاور سنگھ کو ہوش آیا، تو وہ آنکھیں ملتے ہوئے کچھ سوچنے لگے۔ اُٹھ کر ہال میں گئے تو مہمان مرد اور عورتیں جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ بے جی بلکتی ہوئی اُن کے قریب آئی تو انہوں نے سرگوشی کی ’’سردارنی۔۔۔! جسّی کا کیا حال۔۔۔ ؟ وہ زندہ تو ہے، نا۔۔۔!‘‘

بے جی رُک رُک کر بولی، ’’اُس کی حالت۔۔۔ بہت خراب۔۔۔ ہے۔۔۔! زخموں اور کھرونچوں سے بھری پڑی ہے۔ خون کافی بہہ گیا۔ جانوروں کی طرح نوچ کر کھا گئے، میری بچّی کو۔۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ خفا ہو کر آہستہ سے بولے، ’’آہستہ بول۔۔۔ بے وقوف۔۔۔!!‘‘

بے جی نے مزید بتایا۔۔۔، ’’وہ پلنگ سے اُٹھ نہیں پا رہی، ویسے اب ہوش میں ہے۔ تکلیف بہت مان رہی ہے۔ میں نے ہلدی والا دودھ دیا تھا۔ وہ بھی نہیں پیا اُس نے۔ بس روئے جا رہی ہے۔ بار بار بلونت کے بارے میں پوچھ رہی ہے۔۔۔!‘‘

دِلاور نے پھر سوال کیا، ’’اور۔۔۔ بلونت کہاں ہے۔۔۔!؟‘‘

وہ کچھ یاد کر کے بولی، ’’وہ تو اُن حرامیوں کے جانے کے بعد سے نظر ہی نہیں آیا۔ میں تو جسّی کو سنبھالنے میں لگی رہی۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ نے سرگوشی کی، ’’جسّی کے بارے میں کسی نوکر یا کسی باہر والی کو تو نہیں بتایا۔۔۔ ؟‘‘ کام والی سبھی عورتیں آ گئیں کیا۔۔۔!؟‘‘

’’ہاں جی۔۔۔۔! آتے ہی وہ اپنے اپنے کاموں پہ لگ گئیں۔ نوکر بھی مویشیوں کی دیکھ بھال اور دودھ دوہنے میں لگ گئے۔ مجھ سے اُن میں سے مہندر نے پوچھا تھا کہ رات حویلی میں اتنا شور کیوں ہوتا رہا۔ میں نے اُس کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں ٹال دیا۔ ہاں۔۔۔! یاد آیا۔۔۔ سردار جی۔۔۔ چوکیدار بھی آ گئے جو آپ سے پرسوں ایک دن کی چھٹی لے کر گئے تھے۔۔۔!!‘‘

دلاور راز دارانہ انداز میں بولے، ’’میری بات ذرا دھیان سے سُن، جا کر جسّی کے کپڑے بدل دے۔ بستر کی چادریں، تکیئے اور گدّے، سب بدل دے۔ کہیں بھی، کوئی خون کا دھبّہ نظر نہیں آنا چاہیئے۔ اُس کے کمرے کی طرف کوئی عورت جانے نہ پائے خیال رکھنا۔ دونوں بچے جاتے ہیں تو جائیں۔ کوئی جسّی کے بارے میں پوچھے تو کہہ دینا اُس کا پاؤں باتھ روم میں پھسل گیا، اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ یہ ہماری مان مریادا ہماری عزّت کا سوال ہے۔ کسی کو رات کی بات کا پتہ چلا تو ہماری مٹّی ہو جائے گی۔۔۔ سمجھ گئی نا۔۔۔ سردارنی۔۔۔!!‘‘

بے جی کچھ سوچ کر بولی۔۔۔، ’’سنو جی۔۔۔!‘‘

دلاور جاتے ہوئے رُک کر بولے، ’’ہاں۔۔۔! بول۔۔۔ جلدی سے۔۔۔!‘‘

اُن چاروں مہمانوں نے تو سارا تماشا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اُن کا۔۔۔ کیا۔۔۔!؟‘‘

وہ سر کھُجا کر بولے، ’’ہاں۔۔۔ ٹھیک کہا تو نے۔۔ یہ تو بہت دور کے ہیں، پھر بھی میں ان کو سمجھا دیتا ہوں کہ میری عزّت کی خاطر اس بات کو راز ہیں ہی رکھیں۔ تم جلدی سے جاؤ۔۔۔ جیسا میں نے کہا، معاملہ سیٹ کر دو۔۔۔ مجھے بلونت کو بھی کھوجنا ہے کہ وہ کہاں ہے۔۔۔!؟‘‘

بے جی پلو سنبھالتی ہوئی جسّی کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ دلاور سنگھ نے ٹیلی فون کا تار درست کروا کر ایک فون کیا۔

’’ڈاکٹر گپتا۔۔۔! آپ اسپتال میں کتنے بجے بیٹھتے ہیں۔۔۔!؟‘‘

اُدھر سے آواز آئی۔۔۔ ’’کون بول رہا ہے۔۔۔!؟‘‘

’’جی میں آپ جی کا سیوک دلاور سر پنچ بول رہا ہوں۔۔۔!‘‘

’’ارے۔۔۔۔ ست سری اکال دلاور جی۔۔۔ خیر تو ہے۔ آج سویرے سویرے ہماری یاد کیسے آ گئی۔۔۔ ؟‘‘

دلاور سنگھ جذباتی ہو کر بولے، ’’ڈاکٹر آج دلاور سنگھ کو آپ کی سخت ضرورت ہے۔ بیٹھے، کھڑے جیسے بھی ہو، بس چلے آؤ۔۔۔۔ ایک تجربہ کار نرس ضرور ساتھ میں لے آنا، کہو تو گاڑی بھیج دوں دیر نہیں کرنا، میں بہت بہت پریشان ہوں۔۔۔۔!‘‘

’’ہوا کیا۔۔۔ ؟سردارنی تو ٹھیک ہیں اور بلونت۔۔۔ ؟‘‘

دِلاور جلدی سے بولے، ’’باتوں میں سَمے برباد مت کرو۔۔۔ جلدی گاؤں پہونچ جاؤ، حویلی۔۔۔!!‘‘

ایک گھنٹہ بعد ڈاکٹر گپتا ایک ادھیڑ عمر کی عورت کے ساتھ میں گیٹ پر تھے۔ اندر آتے ہی، ڈاکٹر گپتا کو دلاور سنگھ نے بیٹھک میں بٹھا کر دروازے بند کر لیئے۔ عورت ابھی کار میں ہی بیٹھی تھی۔ اندر بیٹھ کر دلاور سنگھ نے رو رو کر رات کی ساری کہانی گپتا کے آگے بیان کر دی اور ہاتھ جوڑ کر بولے، ’’گپتا آپ میرے بھائی ہو، یہ کہانی آپ کو بتا رہا ہوں، ساری باتیں راز میں رکھنا، میں نہیں چاہتا میں اسے اسپتال لے جاؤں، شور مچاؤں، سب کو پتہ چلے کہ دلاور سنگھ کی بہو کے ساتھ کیا ہوا۔ میری عزّت میرا وقار مٹی میں مل جائے گا۔ آپ چپ چاپ گھر میں ہی بہو کا علاج کر دو۔ نرس کو بھی کہہ دیں کہ وہ کسی کو نہ بتائے کہ وہ نرس ہے۔ جسّی کا علاج کرنے آئی ہے۔۔۔!‘‘

ڈاکٹر خاموش ہو گیا، ’’ایسی سچویشن میں تو پولیس کو انفارم بھی نہیں کیا جا سکتا۔۔۔!!‘‘ دلاور بڑبڑائے۔

ڈاکٹر گُپتا غمگین ہو کر بولے، ’’ٹھیک ہے سر پنچ صاحب۔۔۔ چلو آپ مریض کو دکھاؤ۔ اُس کا علاج حویلی میں ہی کریں گے۔۔۔!‘‘

دِلاور دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے بولے، ’’ڈاکٹر، گُپتا میرے خاندان پر آج تک اتنا بڑا سنکٹ نہیں آیا تھا، جتنا آج آیا ہے۔ اس ایک رات نے مجھے توڑ کر رکھ دیا۔‘‘

ڈاکٹر گپتا تسلّی دیتے ہوئے بولے، ’’حوصلہ رکھئیے۔۔۔ بھگوان سب ٹھیک کر دے گا۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ، ڈاکٹر گُپتا اور نرس کو لے کر جسّی کے کمرے میں چلے گئے۔ اندر بے جی جسّی کے سرہانے بیٹھی اُس کا چہرہ تکے جا رہی تھی جو بے ہوش پڑی تھی۔ جسّی کا چہرہ دیکھ کر دلاور سنگھ کی آنکھیں بھر آئیں۔ اُس کے دائیں گال پہ دانت گڈے ہوئے تھے، آنکھوں کے گِرد کالے دائرے اُبھر آئے تھے، ماتھا، ٹھوڑی، اور گردن پر ناخون سے کھرونچیں پڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر گپتا نے دلاور سنگھ کو دیکھ کر کہا۔۔۔

’’سر پنچ۔۔۔ آپ باہر چلے جاؤ۔۔۔ بھابھی جی کو یہیں پر رہنے دو۔۔۔!‘‘

دلاور سنگھ اُلٹے ہاتھ سے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے۔ ڈاکٹر نے اچھی طرح سے چیک اپ کیا، اور کچھ ٹیسٹوں کے لیئے خون کا نمونہ محفوظ کر لیا۔ نرس کو ضروری ہدایات دے کر چلا گیا۔ ہدایات کے مطابق نرس نے علاج شروع کر دیا۔

دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ دلاور سنگھ نے بلونت کے سارے ٹھکانے کھنگال لیئے، مگر اُس کا پتہ نہ لگا۔ وہ شہر میں بھی کہیں نہ تھا۔ ایک کارندے نے خبر دی کہ اُن کے کھیتوں کے درمیان بنے کچّے کوٹھے میں بلونت بے سُدھ پڑا ہے۔ وہ فوراً کھیتوں کے درمیان پہونچ گئے، دروازے سے ہٹ کر اُن کا بہاری کارندہ بیٹھا، زردے سے دِل بہلا رہا تھا۔ وہ دلاور کو دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ دلاور سیدھے کمرے میں داخل ہوئے۔ بلونت نشے میں دھت ٹوٹی سی چارپائی پر سو رہا تھا۔ فرش پر شراب کی دو خالی بوتلیں لڑھکی پڑی تھیں۔ بیٹے کی حالت دیکھ کر دلاور کی آنکھیں بھر آئیں، انہوں نے بڑے پیار سے اُسے پکارا، ’’بلونتیا۔۔۔ او پُت (بیٹے) بلونتیا۔۔۔!اُٹھ اوئے۔۔۔ چل گھر چل۔۔۔!!‘‘

بلونت نے اپنے بھاری پپوٹے ہلائے، ’’آنکھیں کھولیں اور دلاور کو دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔۔۔ مونہہ میں کچھ بڑبڑایا، جو باپ کی سمجھ میں نہ آیا، بلونت کا بازو پکڑ کر دلاور بولے، ’’چل۔۔۔ بلونتیا۔۔۔۔ یہاں کیا کر رہا ہے۔۔۔ ؟ گھر میں سب تیرے لیئے پریشان ہیں، بچے بار بار پوچھ رہے ہیں، پاپا کہاں ہے۔۔۔!؟‘‘

بلونت ادھ کھلی آنکھوں سے، دلاور سنگھ کو دیکھ کر مُسکرایا، ’’بچے۔۔۔! ہاں۔۔۔ اچھا وہ میرا پیارا سا بٹّو۔۔۔ اور چھوٹی سی گُڑیا۔۔۔ پریتی۔۔۔!! کہاں ہیں وہ۔۔۔!؟‘‘

دلاور نے سہارا دے کر اُسے کھڑا کیا، ’’گھر پر ہیں۔۔۔ چل میرا شیر۔۔۔ گھر چل۔۔۔!!‘‘

دلاور کے اشارے پر بہاری نے اندر آ کر بلونت کے بغل میں اپنا کندھا پھنسایا اور اُسے باہر لے آیا، بلونت آنکھیں بند کیئے بڑبڑا رہا تھا ’’بٹّو۔۔۔ پریتی۔۔۔ پریتی۔۔۔ بٹّو۔۔۔!‘‘

دلاور بہاری کارندے کی مدد سے اُس کو حویلی میں لے آیا، اور اُسے اپنی بیٹھک کے لمبے صوفے پر دراز کر دیا۔ بیوی کو دلاور سنگھ نے منع کر دیا کہ بلونت اس وقت نشے میں ہے، اس سے کوئی بات مت کرنا، اُسے سونے دو، شام کو بات کریں گے۔ بلونت صوفے پر گرتے ہی خرّاٹے لینے لگا۔

شام کو چھ بجے بلونت کی آنکھ کھلی تو سامنے دلاور سنگھ اور بے جی کو بیٹھے ہوئے پایا۔ دونوں بچے بلونت سے لپٹ کر رونے لگے۔ بٹّو روتے ہوئے بولا،

’’پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ دیکھو نا۔۔۔ ماں کتنی بیمار ہے۔ وہ کچھ بولتی نہیں۔ ہم سے بھی بات نہیں کرتی۔۔۔!!‘‘

بلونت کو کچھ یاد آ گیا۔ اُس کی آنکھیں پھیل گئیں، وہ مٹھیاں بھینچ کر کھڑا ہو گیا۔ دلاور اُس کی حالت دیکھ کر آگے بڑھے، انہوں نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ بلونت نے دار جی کی طرف غصّہ سے دیکھا اور اُن کا ہاتھ جھٹک دیا، اور باہر کی طرف جانے لگا۔ دلاور سنگھ نے اُس کا راستہ روک لیا اور پیار سے بولے، ’’اب کہاں جا رہا ہے بیٹا۔۔۔!! چل جسّی کے پاس چل۔۔۔ وہ ہوش میں آ گئی ہے، اور بار بار تیرے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ چل میرا شیر۔۔۔۔ اُس بے چاری مظلوم کو تسلّی دے، وہ پریشان ہے۔۔۔!‘‘

بلونت آنکھیں پھاڑے دیوار کو گھورتا رہا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اُس کی داڑھی میں پیوست ہو رہے تھے۔ اُس نے اپنے اندر کا جائزہ لیا۔ اُس کے ذہن میں بار بار جسّی کی پہلی تصویر اُبھر اُبھر کر مٹ رہی تھی، تھوڑی دیر میں اُس پہ کپکپی سوار ہو گئی۔ وہ بڑبڑایا، جسّی زندہ ہے۔۔۔ ؟ مری نہیں۔۔۔!!؟‘‘ وہ بُری طرح خوف زدہ ہو رہا تھا۔۔۔!اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر دبا لیا اور پیچھے ہٹ کر ایک بار پھر خود کو صوفے پر گرا لیا۔ دلاور سنگھ بڑی نرمی سے بولے، ’’چل بلونتیا جسّی سے مل لے، وہ مر کر بچی ہے۔ اُسے تیری ہمدردی اور پیار کی ضرورت ہے۔ وہ حرام زادے تو اُس کو مار کر ہی چلے گئے تھے، واہے گرو نے اُس کی جان بخشی کر دی، شاید بچوں اور تمہارے لیئے۔۔۔!!‘‘

بلونت کے نتھنے پھڑپھڑانے لگے اور سانسیں پھولنے لگیں، وہ زور زور سے سانس لے کر چلّایا، ’’نا۔۔۔ نا۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔!!میں جسّی کا سامنا نہیں کر سکتا۔ نہیں۔۔۔۔ میں نا مرد ہوں۔۔۔۔ اُس کی حفاظت نہیں کر سکا۔۔۔!! کچھ دیر بیٹھک میں خاموشی چھائی رہی، بلونت گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ اُس کے دماغ کی نسیں جیسے پھٹنے لگی تھیں۔ جسّی کی بری حالت کا وہ منظر اس کے ذہن کی دیواروں پر چسپاں ہو گیا تھا۔ اُس منظر سے وہ خوف زدہ تھا۔ وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اُس کی بُری حالت کی وہ پہلی تصویر جیسے آسیب بن کر اُس کے ذہن کی دیوار پر چپک چکی تھی، جس کی موجودگی اُس کے لیئے جان لیوا ثابت ہو رہی تھی۔ پگڑی اُتار کر اُس نے میز پر رکھ دی اور بال بکھیر کر چلّایا۔

’’نہیں۔۔۔۔ نہیں دار جی۔۔۔۔! نہیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں۔۔۔ جسّی کا سامنا نہیں کر سکتا۔۔۔!! میرے بس کی بات نہیں۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ اُس کے ذہن کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔ موضوع بدلنے کی خاطر، وہ بلونت سے بولے، ’’چلو ٹھیک ہے۔۔۔ نہیں جانا نا سہی۔ یہ کیش(بال) کیوں کھول لیئے۔۔۔ ؟۔۔۔۔ چل جُوڑا کر۔۔۔۔ پکڑی نہیں پہنتا تو، رومالا باندھ لے۔۔۔۔ کوئی آئے گا تو کیا کہے گا۔۔۔ ؟‘‘

کچھ دیر خاموش رہ کر، بلونت نے بالوں کو سنوارا، جُوڑا کیا اور اُٹھ کر باہر کی طرف جانے لگا۔ دلاور بے جی سے بولے، ’’او بھَلیئے لوکے (بھلی لوگ) جا مُنڈے (لڑکے) واسطے چائے لے آ اور کچھ کھانے کو بھی لے آنا۔ میرا بیٹا صبح سے خالی پیٹ گھوم رہا ہے۔۔۔!!‘‘

بے جی اُٹھ کر باہر چلی گئی۔ بلونت زعفرانی رومالا سر پر باندھ کر کسی گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔ دلاور سنگھ نے اُس کے قریب آ کر اُسے اپنی چھاتی سے لگا لیا، اور بولے، ’’پُتّر۔۔۔ بہادر بن۔۔۔۔ ایسے سنکٹ آدمی کی زندگی میں، آ جاتے ہیں۔۔۔۔ اُن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیئے۔۔۔۔ تٗو تو۔۔۔ یار بہت کمزور ہو رہا ہے۔۔۔!!‘‘

بلونت پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، بولا، ’’میں کیا کروں۔۔۔ ؟ جسّی کا وہ سین یاد آتے ہی جی چاہتا ہے اس حویلی سے، اس گاؤں سے بھاگ جاؤں۔۔۔۔!! مجھے اب جسّی سے ڈر لگنے لگا ہے۔‘‘ دلاور اپنے آنسو خُشک کرتے ہوئے بولے، ’’تم نے کبھی یہ سوچا، کہ اگر تُمہیں کچھ ہو گیا میرا اور تیری بے جی کا کیا ہو گا۔ واہِ گرو۔۔۔ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے۔۔۔ اگر تیرے ہاتھ میں پستول ہوتی، اُن حرامیوں کے پاس مشین گنیں تھیں۔ آج کوئی نہ کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہوتا۔۔۔!!‘‘

وہ ابھی کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اُس کی بے جی چائے کی ٹرے لے آئی۔ دِلاور بیوی سے مخاطب ہوئے، ’’سردارنی، کچھ کھانے کو لائی ہو۔۔۔۔ ؟‘‘

میز پر ٹرے ٹکا کر بے جی ایک پلیٹ اُٹھا کر بلونت سے بولی، ’’کل بلبیر پٹواری برفی کا ڈبّہ دے گیا تھا۔ اس کے بیٹا ہوا ہے۔۔۔ کہہ رہا تھا، جالندھر کے لَولی والوں سے لے کر آیا ہے۔۔۔!!‘‘

دلاور سنگھ پھیکی سی مسکراہٹ بکھیر کر بولے، ’’پھر تو مجھے بھی کھِلاؤ۔۔۔!‘‘

بے جی نقلی غصّہ دکھا کر بولی، ’’نہیں۔۔۔۔ آپ نہیں کھائیں گے۔ آپ یہ نمک پارے لے لو۔۔۔ شوگر بڑھ گئی تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جانی ہے۔۔۔!!‘‘

وہ آنکھ دبا کر بولے، ’’بلونتے، کہہ یار، اپنی بے جی کو، ایک پیس سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔!!‘‘

تینوں نے مل کر چائے پی، بلونت کا موڈ بھی تھوڑا ٹھیک ہو گیا، دلاور سنگھ باتوں باتوں میں بلونت کو حویلی کے اندر لے گئے۔ جسّی والے کمرے کا دروازہ دیکھ کر بلونت ٹھٹھک گیا، اُس کے پاؤں برآمدے ہی میں جم گئے۔ وہ آنکھیں پھاڑے فرش کو گھورنے لگا۔ اُس کے اندر جیسے کوئی چِتا جل اُٹھی جس کی تپش سے وہ جل اُٹھا، وہ ایک دم مڑا اور تیز تیز چلتا ہوا حویلی سے باہر نکل کھڑا ہوا۔ دلاور سنگھ اور بے جی کی آوازیں اُس کا پیچھا کرتی رہیں، مگر وہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا اور اپنے کھیتوں کی طرف چلا گیا۔ اُسے محسوس ہو رہا تھا جیسے زخمی جسّی اس کا پیچھا کر رہی ہو۔ اُس کی بزدلی پہ قہقہے لگا رہی ہو۔

دلاور سنگھ برآمدے سے چلتے ہوئے اپنی بیٹھک میں آ گئے اور اس طرح صوفے پر گر گئے جیسے میلوں کا سفر پیدل چل کر آئے ہوں۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ایک تو بہو کا صدمہ دوسرے بلونت کی یہ حالت۔ اُن کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ اچھے خاصے ہنستے کھیلتے گھر کو جانے کس کی نظر لگ گئی۔ اُن کے بائیں بازو میں زور کا درد اُٹھا وہ دیوان پر لیٹ گئے۔۔۔

نرس اور بے جی جسّی کی دیکھ بھال میں مصروف تھیں۔ جسّی بار بار ایک ہی سوال کر رہی تھی، ’’بٹّو کے پاپا کہاں ہیں۔ وہ ٹھیک تو ہیں۔ سویرے سے نظر نہیں آئے۔۔۔!!‘‘ بلونت نے رات پھر اُسی کوٹھے (کچا مٹی کا کمرہ) میں گذار دی۔ دلاور سنگھ نے نوکر کے ہاتھ اُسے کھانا بھی وہیں بھجوا دیا۔ جسّی کا علاج ہو رہا تھا۔ دلاور، بلونت کے لیئے بہت پریشان تھے۔ وہ جسّی سے خوف کھا رہا تھا۔ جسّی کے سامنے آنے کو تیار نہ تھا۔ وہ ہر وقت سوچتے رہتے کہ اب جسّی کا کیا ہو گا۔ وہ حویلی میں کیسے رہ پائے گی بلونت کے بغیر۔ ڈاکٹر گُپتا اُنھیں سمجھاتے کہ وقت بہت بڑی مرہم ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹینشن مت لو۔ تمہارے لیئے اچھا نہیں ہے۔ تین ہفتوں میں جسّی چلنے پھرنے لگی۔ گھر کے نوکروں اور ملنے جُلنے والوں کو یہی بتایا گیا تھا کہ جسّی کا باتھ روم میں پیر پھسل گیا تھا جس سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔ کافی گہری چوٹیں آئی تھیں۔ جسّی کو بلونت سنگھ کی حرکات کا علم ہو چکا تھا۔ وہ شوہر سے ملنے کے لیئے تڑپ اُٹھی ایک دوپہر کو وہ دونوں بچوں کو لے کر بلونت سے ملنے نکل گئی۔۔۔!!‘‘

بلونت بنیان اور کچھہرا پہنے کھیتوں میں کام کر رہا تھا۔ کسی کارندے نے اُسے بتایا ہی نہیں کہ چھوٹی سردارنی آئی ہے۔ پسینے میں شرابور بلونت کے عین پیچھے کھڑے ہو کر جسّی نے گلو گیر آواز میں اُسے پُکارا۔۔۔، ’’بٹّو کے پاپا۔۔۔!!‘‘

دونوں بچّے پاپا۔۔۔ پاپا۔۔۔ کہتے ہوئے بلونت سے لپٹ گئے۔ بلونت جسّی کی آواز سُن کر جیسے پتھرا گیا۔ اس نے دونوں بچوں کو اپنے مضبوط بازوں میں اُٹھا لیا اور جسّی کی طرف دیکھے بغیر کوٹھے کی طرف چل دیا۔ جسّی تھکے قدموں سے چلتی ہوئی، دروازے میں کھڑی ہو گئی، بلونت کھڑا ہو گیا اور دیوار کی طرف مونہہ کر کے دانت پیس کر غصّہ سے بولا، ’’تو یہاں کیوں آئی ہے۔۔۔!؟میری جان لے گی۔۔۔۔؟ مجھے مارے گی۔۔۔!!؟؟‘‘

وہ روتے ہوئے بولی، ’’میں۔۔۔ میں اور کہاں جاؤں۔۔۔ ؟ آپ کے بغیر، میرا وجود بے معنی ہے۔۔۔!! اور میں تو آپ کی سیویکا ہوں، میں آپ کو کیوں مارنے لگی۔۔۔ ؟‘‘

وہ چیخ اُٹھا، ’’وجود۔۔۔!۔۔۔ وجود!! بس بہت ہو گیا۔ مجھے اکیلا چھوڑ دے۔۔۔!!میں تمہارا سامنا نہیں کر سکتا۔۔۔!!‘‘ وہ چلّایا، زخمی اور گندی عورت مجھے مت ڈرا۔۔۔ بھاگ۔۔۔! بھاگ۔۔۔ جا یہاں سے۔۔۔!۔۔۔۔ دور۔۔۔ دور رہ۔۔۔!!‘‘

وہ دوپٹے سے آنسو پونچھتے ہوئے بولی، ’’مجھ سے اتنی نفرت کیوں۔۔۔!؟میرا قصور۔۔۔۔!!؟‘‘

وہ چیخا۔۔۔، ’’چلی جا۔۔۔! چلی جا یہاں سے۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔!!‘‘

وہ اچانک دیوار سے سر ٹکرانے لگا، دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے اپنے آپ کو لہو لہان کر لیا، اپنی بنیان پھاڑ ڈالی۔ سر کا رومالا اُتار پھینکا، اپنا سر پیٹنے لگا، شور سُن کر کارندے کوٹھے کی طرف دوڑے، جسّی نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔۔، ’’اپنے آپ کو سزا مت دو۔۔۔ آپ کو واہے گرو کا واسطہ، لو میں چلی جاتی ہوں۔۔۔!‘‘ جسّی جانے کے لیئے مڑی کہ کارندے آ گئے، بلونت کی حالت دیکھ کر وہ سمجھے شاید چھوٹے سردار کو اوپر کی ہوا ہو گئی (کسی آسیب کا سایہ ہو گیا)۔

دلاور کو خبر ملی تو وہ بھاگے چلے آئے، مقامی ڈاکٹر سے زخموں پہ مرہم پٹی کروا کر انہوں نے بلونت کو حویلی میں چلنے کو کہا، مگر اُس کی پھر سے بگڑتی حالت دیکھ کر انہوں نے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے پُتّر، مت جا حویلی۔ اُس رات بے جی زخمی بیٹے کے پاس اُس کی دیکھ بھال کرنے چلی آئی۔ دلاور سنگھ اُس رات سو نہ سکے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ صبح سویرے جسّی چائے لے کر بیٹھک میں آئی تو انہوں نے اُسے بیٹھنے کا اشارہ کر کے کہا، ’’بیٹھ بیٹے۔۔۔ تیرے ساتھ کوئی بات کرنی ہے۔۔۔!‘‘

چائے کی چُسکی لے کر وہ بولے، ’’جسّی۔۔۔ بیٹا! عورت کا دل بہت بڑا ہوتا ہے۔ تیاگ اور تپسّیا عورت کا زیور ہوتے ہیں۔ بیٹے اس بوڑھے باپ کی فریاد سُن لے۔۔۔!‘‘

وہ بیچ میں بول اُٹھی، ’’یہ کیا۔۔۔ کہہ رہے ہیں آپ دار جی۔۔۔ بیٹیوں سے کوئی فریاد کرتا ہے۔۔۔!؟

کپ میز پر رکھ کر وہ بولے، ’’جیتی رہو۔۔۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ تو بلونتے کے سامنے مت جا۔۔۔!‘‘

وہ آنکھیں بھر کر پھر بولے، ’’وہ تو دیوار کچّی تھی، جو زخم زیادہ گہرے نہیں ہوئے۔ اگر دیوار پکّی ہوتی تو وہ اپنے آپ کو ختم کر لیتا۔ تیرا تیاگ ہی اُس کا جیون ہے۔ ورنہ، ہم اُسے کھو دیں گے۔ ابھی معاملہ تازہ ہے۔ سَمے کے ساتھ ساتھ تبدیلی آ جائے گی۔ واہے گرو سب ٹھیک کر دیں گے۔۔۔!! بس تجھے اپنے آپ کو مارنا ہو گا۔ کنٹرول کرنا ہو گا۔۔۔ واہے گرو کا واسطہ اس باپ پر، اس حویلی پر رحم کر۔۔۔۔ سمجھا اپنے آپ کو۔۔۔ بس اُس سے دور ہو جا۔۔۔ اُس کی زندگی کی خاطر۔۔۔ تیرا بڑا احسان ہو گا۔۔۔۔!! وہ نارمل ہو جائے تو اُس سے مل لینا۔ ابھی اُس کا دماغ وہ حادثہ بھلانے کو تیار نہیں۔۔۔!!‘‘

بے جی حویلی میں آ پہونچی، بیٹھک میں آئی تو بہو اور سسُر کو باتیں کرتے پایا۔ دلاور سنگھ نے اُسے دیکھتے ہیں پوچھا، ’’اب کیسا ہے میرا بچّہ۔۔۔ سردارنی۔۔۔!‘‘

وہ پھُپھک پھُپھک کر رو پڑی، ’’ساری رات نہیں سویا، درد سے کراہتا رہا۔ ابھی صبح سویرے سویا ہے۔۔۔ کیا ہو گا اس حویلی کا۔۔۔! لوگوں کی بُری نظریں کھا گئیں اس حویلی کی خوشیوں کو۔۔۔!‘‘

خالی کپ میز پر رکھ کر وہ گہری سانس لے کر بولے، ’’واہے گرو۔۔ بھلی کرے گا۔۔۔!!‘‘

جسّی کی زندگی میں زبردست تبدیلی آ گئی۔ اُس نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔۔۔!!اُس نے مائیکے یا کسی اور جگہ جانا چھوڑ دیا۔ وہ ایک دم خاموش ہو گئی۔ اُس نے گھر کے کاموں اور بچوں کی پرورش میں اپنے آپ کو غرق کر لیا۔ وہ پتھّر کی مورت بن کر رہ گئی، نہ اُسے احساس رہا کہ بلونت اس گاؤں میں رہتا ہے، نہ اُس کے ساتھ گذاری ہوئی رنگینیاں اُسے یاد رہیں۔ موسم بدلتے رہے، وقت اپنی رفتار سے چلتا رہا، کب وقت نے اُس کے سر میں چاندی بو دی اُسے پتہ ہی نہ چلا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے آدھے بال سفید ہو گئے۔ دلاور سنگھ بیٹے کی پریشانیوں میں اُلجھ کر ایک دن دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اکال چلانا کر گئے۔ (فوت ہو گئے۔)

بلونت نے اپنے کھیتوں کی مٹی کی طرح خود کو مٹی بنا لیا۔ وہ بچوں کو جوان ہوتے ہوئے دیکھ کر جی رہا تھا۔

دلاور سنگھ کے بعد دوستوں اور گاؤں والوں کی خواہش پر وہ باپ کی خالی جگہ سنبھال کر سر پنچ بن گیا۔ زبان کو سیاست کا چَسکا لگ جائے تو چاہتے ہوئے بھی نہیں چھٹتا۔ اُس کچّے کوٹھے کی جگہ پہلے دو کمرے بنے سر پنچ بنتے ہی بلونت نے اپنی شان کے مطابق بہت خوبصورت فارم ہاؤس بنا لیا۔ جہاں بیٹھ کر وہ سیاسی میٹنگیں کرتا۔ اور لوگوں کے مسائیل سُنتا، اور معاملات طے کرتا۔ جب کسی ضروری کام سے وہ گاؤں میں جاتا تو بیٹھک میں بیٹھ کر بے جی سے مل کر آ جاتا۔ بے جی بھی اکثر و بیشتر بیٹے سے ملنے کے لیئے فارم ہاؤس چلی آتی۔ بٹّو اور پریتی تو روزانہ باپ سے ملنے آتے تھے۔ بلونت سنگھ بیٹی پریتی سے بے حد پیار کرتا تھا۔ پریتی میں اُسے اُس کی ماں کی جوانی نظر آتی تھی۔

ماں باپ کا اس طرح ایک دوسرے سے الگ رہنا کئی بار بٹّو اور پریتی کو سوچنے پر مجبور کر دیتا۔ اُن دونوں نے اس معاملہ میں جب کبھی بلونت اور جسّی سے پوچھنا چاہا۔ وہ ہمیشہ ٹال جاتے۔ اُن کی علیحدگی اُن کے فاصلوں کا علم تو صرف بے جی کو ہی تھاجو اپنے شوہر سے کیئے ہوئے وعدہ کی پابند تھی کہ جسّی کا راز مرتے دم تک راز ہی رہے گا۔ ویسے بھی بے جی کافی عمر رسیدہ ہو چکی تھی۔ ان تمام الجھنوں سے دور رہتی اور دین دھرم کے کاموں میں زیادہ وقت گزارتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

(۸)

 

بلکار سنگھ بے انتہا دولت کما کر گاؤں لوٹا تھا، لوگ اُسے امریکہ والا بلکارہ کے نام سے ہی یاد کرتے تھے۔ بلکارہ گاؤں میں اپنی الگ حیثیت رکھتا تھا۔ گاؤں میں سب سے خوبصورت، وسیع اور نئے طرز کی کوٹھی اُسی کی تھی۔ بڑا زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ وہ انتہائی مغرور اور بدتمیز تھا۔ سیاست سے اُس کا دور کا بھی تعلق نہ تھا، جب کوئی کورٹ کچہری کا کام ہوتا تو وہ بلونت سنگھ کو اپنی پرانی دوستی کا حوالہ دے کر اپنا کام نکلوا لیتا۔ ویسے وہ بلونت سنگھ کے کبھی قریب بھی نہ پھٹکتا تھا۔ بلونت چونکہ پرانا سر پنچ تھا اس لیئے اُس کی پولیس اور دوسرے محکموں میں کافی عزّت تھی۔ ویسے بھی بلونت سخی بہت تھا۔ ہر کسی کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ مقامی افسروں کی خدمت کے لیے حویلی والے سر پنچ دلاور سنگھ کے زمانہ میں مشہور تھے۔ اُن دنوں گاؤں میں ایک قتل ہو گیا۔ واقعہ یوں بتایا جا رہا تھا کہ بلکار سنگھ امریکہ والے کا بیٹا جو بڑا گھمنڈی اور مونہہ پھٹ تھا، ایک غریب اور بوڑھے کسان کے گھر میں جا گھُسا اور اُس کی جوان لڑکی کی عزّت لوٹنے کی غرض سے، اُس کو زبردستی اُٹھا رہا تھا کہ بوڑھے کسان نے اُسے روکا تو لڑکے نے اُس کا گلہ دبا کر اُسے مار ڈالا۔ بوڑھا کسان جس کا نام سورن سنگھ تھا، وہیں ڈھیر ہو گیا۔ گھمنڈی اور سیکس کے اندھے لڑکے نے لڑکی کا اُس کے باپ کی لاش کی موجودگی میں ریپ کیا اور پستول لہراتا ہوا بھاگ گیا۔ بلونت سنگھ کا ایک پُرانا وفا دار کارندہ، سورن سنگھ کے مکان کی چھت سے یہ ساری واردات دیکھتا رہا۔ اُس نے سارا قصّہ بلونت سنگھ کو سُنایا اور پولیس سٹیشن میں بھی اپنا بیان لکھوا دیا۔ پولیس نے لڑکے کو حراست میں لے کر لڑکی کی میڈیکل رپورٹ اور بلونت سنگھ کے کارندے کستوری کے مطابق ایف۔ آئی۔ آر درج کر، سورن کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیئے سِول اسپتال بھیج دی گئی۔ بلکار سنگھ کے بیٹے کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ بیٹے کو بچانے کے لیئے بلکار سنگھ نے روپیہ پانی کی طرح بہا دیا۔ شہر کے سب سے سینئر اور مہنگے وکیل کو مونہہ مانگی رقم ادا کر دی۔ ڈاکٹروں نے اپنی رپورٹ میں واضح کر دیا کہ بوڑھا سورنا، ہارٹ اٹیک کی وجہ سے جان بحق ہوا۔ جج کو بھی کسی راستے سے قابو کر لیا۔ تین سو دو قتل کیس کی بجائے ریپ کیس میں لڑکے کی ضمانت ہو گئی۔ قتل کیس فی الحال شک کے دائرے میں رکھا۔ جج نے پولیس کو آرڈر کر دیا کہ وہ سورن کی موت کے سلسلے میں مزید تفتیش کرے۔ بلکار سنگھ بیٹے کو ضمانت پر گھر تو لے آیا مگر اُس کے دل میں کستوری جو قتل کا چشم دید گواہ تھا، کا خوف اُسے پریشان کر رہا تھا، لڑکی کو تو وہ کسی طرح خاموش بھی کر دیتا۔

ایک دن صبح کے گیارہ بجے بلکار سنگھ بلونت کے فارم ہاؤس جا پہونچا۔ بلونت اپنے کشادہ ڈرائنگ روم میں چند گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھا سرکار کی کسی نئی لون (قرضہ) اسکیم کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ بلکار سنگھ سب کو ست سری اکال بول کر کھڑا ہو گیا۔ بلونت اُس کے آنے کی وجہ سے سمجھ گیا۔ بلونت نے ہاتھ جوڑ کر اشارہ کیا کہ وہ صوفے پر بیٹھ جائے۔ بلکار خاموشی کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا۔ گاؤں کے لوگوں سے تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد اُس نے الماری سے فارم نکالے اور اپنے دوست جسّا سنگھ نمبردار کو دے کر بولا، ’’سردار جسّا سنگھ، ان فارموں کو اچھی طرح پڑھ لو، درخواست، حلفیہ بیان اور پُر کیا ہوا یہ فارم۔ آپ پنچایت سیکریٹری کو دے دیں۔ چھوٹے زمیندار بھائیوں کو تو لون کی ضرورت رہتی ہی ہے۔ ایک بات اور بھائی، اس لون میں کوئی بیاج نہیں دینا پڑے گا اور قسط بھی چھ مہینے کے بعد دینا ہو گی۔۔۔!!‘‘

موجودہ افراد سے مخاطب ہوا۔۔۔، ’’آپ لوگوں کا کام تو جسّا نمبردار کر دے گا، کسی اور کو لون چاہیے تو اس کو بھی بھیج دینا۔ مجھے ہفتہ کے اندر اندر کیس جمع کروانے ہیں۔۔۔!!‘‘

بلونت سنگھ بلکار کو اشارہ کر کے اپنے بیڈروم میں چلا گیا۔ کمرے میں پہونچ کر اُس نے بلکار کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور مسکرا کر بولا،

’’جی بلکارہ جی۔۔۔! حکم کرو۔۔۔۔! کسیے آنا ہوا۔۔۔!؟‘‘

بلکارہ سنگھ گردن جھُکائے کچھ سوچتا رہا، تھوڑی دیر بعد، آہستہ سے بولا،

’’سر پنچ میں کیا حکم کر سکتا ہوں ۔۔۔! بس ایک ریکویسٹ لے کر آیا تھا تمہارے پاس۔۔۔!!‘‘

بلونت اُس کی بات سننے سے پہلے بولا، ’’چائے لو گے۔۔۔ یا کافی بنواؤں۔۔۔!!‘‘

بلکار ہاتھ جوڑ کر بولا، ’’بریک فاسٹ کر کے آیا ہوں، کچھ نہیں لینا، بس میری بات سُن لو سر پنچ۔۔۔!!‘‘

’’تم تو اچھی طرح جانتے ہو، ۔۔۔۔ میں بیٹے کے کیس کو لے کر بہت پریشان ہوں۔۔۔!!‘‘

بلونت خاموشی سے سننے لگا۔

’’کیا بتاؤں یار یہ آج کی نئی نسل بہت ہی گرم مزاج ہے، بھلا کیا ضرورت تھی سورنے کو مارنے کی۔۔۔ ؟ وہ تو ویسے ہی۔۔۔۔ سالا مرنے کے بہت قریب تھا۔۔۔!!‘‘

بلونت کچھ نہ بولا، بس ہوں، ہاں کرتا رہا۔ کمرے میں ایک دم خاموشی چھا گئی، ڈرائنگ روم سے جسّا سنگھ کے بولنے کی آواز آ رہی تھی۔ بلونت کو خاموش دیکھ کر، بلکارے نے کہنا شروع کیا۔۔۔، ’’پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تو آ گئی، ڈاکٹر نے ڈِکلیر کر دیا کہ بڈھا ہارٹ اٹیک سے مرا تھا۔ ایک تو وہ تیرے آدمی، کستوری کا بیان اور لڑکی، کی میڈیکل رپورٹ اور اُس کا بیان ہمارے لیئے خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔۔۔!!‘‘

بلونت نے گردن ہلائی اور سوال کیا۔۔۔، ’’ہاں۔۔۔ مجھے خبر ہے۔ مجھ سے کیا چاہتے ہو۔۔۔۔!!؟؟‘‘

بلکار گڑگڑایا، ’’یار بلونتیا۔۔۔! ہم بچپن کے یار ہیں۔۔۔۔! دوستی کے ناطے، تم سے مدد مانگنے آیا ہوں!‘‘

بلونت طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا، ’’ہاں۔۔۔ تو میرا یار تھا، مگر امریکہ جانے سے پہلے پہلے۔ ڈالر کما کر تو اپنا بیتا ہوا سمے بھول گیا۔۔۔ خیر چھوڑ۔۔۔! مطلب کی بات کر، مدد کیسی چاہتا ہے۔۔۔!‘‘

بلکارہ تھوک نگل کر بولا، ’’کستوری تو تیرا آدمی ہے۔ تو جو بھی بولنے کو کہے گا، وہ وہی بیان دے گا۔ میں۔۔۔ میں اُس کا مونہہ بھر دوں گا۔ دو چار دس لاکھ جتنا کہے گا میں دوں گا۔۔۔ میں دوں گا۔ لڑکی کو ہم کسی اور طریقے سے سنبھال لیں گے۔ بس تو کستوری کو ہماری فیور میں کر دے میرا بھائی۔۔۔!!‘‘

بلونت تھوڑی دیر دیوار کو گھورتا رہا جہاں گورو نانک دیو جی کی بڑی تصویر آویزاں تھی۔ وہ آہستہ سے بولا، ’’ہُم۔۔۔۔! تمہارا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوا، کہ تو لڑکی کو اپنے راستے سے ہٹائے گا۔۔۔!!‘‘

بلکارہ اُکتا کر بولا، ’’افوہ۔۔۔! یار تو نے کیا لینا ہے، لڑکی کا ہم جو بھی کریں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہ لڑکی میرے بیٹے کو پھانسی چڑھانے کے موڈ میں ہے۔ سالی بات کرنے کو تیار نہیں، کئی لوگ اُس کے پیچھے لگائے، میں خود بھی بات کر چُکا ہوں اُس سے کسی کروٹ بیٹھتی ہی نہیں۔ بہت سمجھایا، نوٹوں کی گڈیاں دیکھ کر شور مچانے لگتی ہے سالی۔۔۔! تم ہی کوئی راستہ نکالو۔۔۔ سارا گاؤں تمہارے اشارے پر چلتا ہے۔ کوئی راستہ نکال۔۔۔ میرا بھائی۔۔۔ تیرا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔۔۔!!‘‘ بلکارہ آنسو پونچھنے لگا، وہ کچھ زیادہ جذباتی ہو رہا تھا۔۔۔۔، ’’میرے بیٹے کو بچا لے سر پنچ، تجھے واہِ گرو کا واسطہ۔۔۔ میرے بچے کی زندگی کا سوال ہے۔۔۔!‘‘

بلونت خاموشی سے بابا نانک کا نورانی چہرہ دیکھ رہا تھا، کہ بلکار نے خاموشی توڑی، ۔۔۔ ’’بولتا کیوں نہیں سر پنچ۔۔۔۔۔ نکال کوئی راستہ۔۔۔!‘‘

بلونت کچھ سوچ کر بولا، ’’کستوری، اپنا بیان بدل دے گا۔۔۔!‘‘

بلکار کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، ’’سچ۔۔۔ سچ کہہ رہا ہے تو سر پنچ۔۔۔!‘‘

’’اور لڑکی بھی۔۔۔ جو تٗو کہے گا، وہی بولے گی۔۔۔۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ مگر۔۔۔۔۔!!‘‘

بلکار خوش ہوتے ہوئے، ایک دم چونک پڑا، ’’یہ مگر کیا۔۔۔۔!؟؟‘‘

’’مگر ایک شرط ہے۔۔۔!‘‘

بلکارہ بے صبری سے بولا، ’’ارے تٗو شرط ورط کو مار گولی، تو دونوں کے لیئے رقم بول کتنی مانگتا ہے۔۔۔!؟؟‘‘

بلونت پہلو بدل کر بولا، ’’کچھ نہیں دینا پڑے گا، الٹا جو تو کہے گا اُتنی رقم میں تم کو دوں گا۔۔۔!!‘‘

بلکارہ حیران ہو کر بولا، ’’دینے کی بجائے لینا، سر پنچ مذاق کر رہا ہے۔۔۔!!؟؟‘‘

بلونت اُسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا، ’’بڑی سیدھی سی بات ہے، لڑکی کا خاندان تو جانتا ہی ہے، بھلے غریب ہے، ساری سمسیائیں حل ہو جائیں گی۔ اپنے بیٹے سے اُس مظلوم لڑکی سے شادی کروا دے۔ بنا لے اُسے اپنے گھر کی بہو، پہلے گوردوارے میں آنند کارج کروا، پھر کورٹ میریج ہو گی۔ جتنا جہیز تو کہے گا، میں دوں گا۔ بلکہ سارا گاؤں دے گا۔ بول ہے منظور۔۔۔ ؟ کستوری کی ذمہ داری میری۔۔۔!‘‘

بلونت کا ایک ایک لفظ بلکار کے سر پر ہتھوڑے کی ضرب کی طرح لگ رہا تھا، مگر وہ خاموشی سے سُنتا رہا۔ اپنے غصّہ کو دبا کر وہ بولا، ’’بلونتیا، جانتا ہے تٗو کیا کہہ رہا ہے۔۔۔ ؟ کہاں میں اور کہاں وہ دو ٹکے کی لڑکی۔۔۔۔!؟ اُسے میرے گھر کی بہو بنانے چلا ہے تٗو۔۔۔!!‘‘

بلونت تیش میں آ کر بولا، ’’ارے وہ دو ٹکے کی چھوکری، جانتا ہے گریوال خاندان سے ہے۔ تٗو۔۔۔ تٗو کیا ہے۔۔۔۔!؟ ترکھان۔۔۔! تیری تو اس شادی سے عزّت بڑھے گی، گھٹے گی نہیں۔۔۔!!‘‘

بلکار کے صبر کا باندھ جیسے ٹوٹ گیا، وہ چیخ اُٹھا۔

’’میرے بیٹے کے فیوچر کا سوال نہ ہوتا تو اتنی باتیں کہنے سے پہلے میں تیری زبان کھینچ لیتا۔۔۔!!‘‘

بلونت چیخ اُٹھا، ’’تو میرے گھر پر نہ ہوتا، تو میں تجھے ڈھیر کر دیتا۔۔۔۔ سالے، دولت نے تجھے اندھا کر دیا۔ دنیا کا مالک بن گیا تو۔۔۔۔ جس لڑکی کا چاہو ریپ کر دو۔۔۔ جِسے چاہو، مروا دو۔۔۔! تیرے باپ کا راج ہے۔۔۔!؟‘‘

بلکار نے جیب سے پستول نکال لیا، ’’تو سر پنچ ہے، بھگوان نہیں، تیرے جیسے دو دو سو روپے کے بدلے کچہری میں دھکّے کھاتے پھرتے ہیں۔۔۔ گواہیاں دینے کے لیئے، تٗو ہے کیا۔۔۔ ؟‘‘

’’تٗو کیا ہے۔۔۔۔!؟؟‘‘ بلونت چیخا۔

ٍ      اس سے پہلے کہ بلکار گولی چلاتا، جسّا نے اُسے پیچھے سے دبوچ لیا۔ وہ تو اُس کی پٹائی کرنے کے موڈ میں تھا، مگر بلونت نے اُسے منع کر دیا، گولیاں نکال کر پستول اُس کی جیب میں ڈال کر اُسے دھکّے دیتا ہوا جسّا اُسے باہر لے گیا۔ جاتے جاتے اُس نے، اُس کے دو تین تھپّڑ جڑ دیئے۔ بلکارہ حویلی سے باہر جا کر چلّایا۔۔۔ ’’بلونتیا۔۔۔! آج کا حساب تجھے چُکانا ہو گا، ۔۔۔ یہ میرا وعدہ ہے۔۔۔!!! اور اس تیرے چمچے جسّے سے بھی نپٹ لوں گا۔۔!!‘‘

بلکارہ چلا گیا تو بے جی پھولی ہوئی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے آئی اور بلونت کو دیکھ کر بولی، ’’بے بلونتے۔۔۔۔ بے کیا ہوا۔۔۔ تو اُس کنجر کے مونہہ کیوں لگا۔‘‘

کستوری نے حویلی میں جا کر بتایا کہ تیرا اور بلکارے امریکہ والے کا جھگڑا ہو رہا ہے۔۔۔!‘‘

بلونت پٹکے سے اپنا مونہہ صاف کرتے ہوئے بولا، ’’کچھ نہیں۔۔۔! سالا سورنے اور اُس کی بیٹی کی بات کرنے آیا تھا، بولی لگا رہا تھا، کستوری کی اور لڑکی کو راستے سے ہی ہٹانے کی بات کر رہا تھا۔ میں نے کہہ دیا اپنے لڑکے کی شادی سورنے کی بیٹی سے کر دے، جو جہیز مانگے گا میں دوں گا اور کیس بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس بات پر وہ بھڑک گیا، پستول دکھا رہا تھا۔ سالا اپنی اوقات بھول گیا۔۔۔!!‘‘

ایک بزرگ بولا، ’’سر پنچ صاحب۔۔۔۔ اس آدمی سے دُشمنی ٹھیک نہیں۔۔۔!!‘‘

بلونت بل کھا کر بولا، ’’تایا۔۔۔ کیا، لڑکی کا بھی قتل ہونے دوں، بلاتکار تو اُس بے چاری کا ہو گیا۔۔۔!‘‘

بے جی اُس کا مونہہ تکتے ہوئے بولی، ’’تو کس کس کے لیئے لڑے گا۔۔۔!؟ پُت (بیٹے) تو میرا اکیلا سہارا ہے، تجھے کچھ ہو گیا۔۔۔ میری تو چھاتی ہی پھٹ جائے گی۔۔۔!‘‘

’’بے جی۔۔۔۔ مجھے کچھ نہیں ہو گا۔ یہ دیکھ جسّا سنگھ جیسے یودھے (بہادر) میرے ساتھ ہیں اور میں اپنے گاؤں میں کسی غریب پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔۔۔!!‘‘

ایک گاؤں والا بولا، ’’ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارا سر پنچ، بلونتا بھرآ (بھائی) ہے۔ اس کو کوئی نقصان پہنچائے گا ہم برداشت نہیں کریں گے۔۔۔!!‘‘

بلکار سنگھ نے کسی طرح اپنے بیٹے کی ضمانت کروا لی، بلونت نے کستوری کو اُس کے گھر بہار میں بھیج دیا، پولیس نے بلونت کے اشارے اور بلات کاری کے ثبوتوں اور کستوری کے بیانات کو بنیاد بنا کر، کورٹ میں چالان پیش کر دیا۔ جب کستوری کی گواہی کی ضرورت پڑی تو بلونت اسے خود کچہری لے کر گیا۔ غلط پوسٹ مارٹم کی رپورٹ تیار کرنے کے جرم میں ڈاکٹر سَسپینڈ ہو گیا۔ قتل اور بلاتکار کی واردات ثابت ہو گئی۔ فیصلے کا دن آ گیا۔ بلکار کے لڑکے کو چودہ سال کی قید با مشقّت ہو گئی۔ چودہ سال تین سو دو میں اور تین سو چھیتّر میں، سات سال کی۔ دونوں سزائیں ساتھ ساتھ بھُگتنی ہوں گی۔ بلکار سنگھ اس فیصلے سے ٹوٹ کر رہ گیا۔ اتنا پیسہ لُٹا کر بھی وہ بیٹے کو بچا نہ سکا۔ وہ زخمی سانپ کی طرح بل کھا کر رہ گیا۔ بلونت نے کچھ دوستوں کی مدد سے، سورن کی مظلوم بیٹی کی شادی ایک بھلے لڑکے سے کروا دی۔ دل میں بدلے کی آگ سنبھالے بلکارا امریکہ چلا گیا ایک سال کے بعد وہ امریکہ سے لوٹ آیا۔ آتے ہی وہ اپنے بیٹے کو ملنے جیل پہونچا اور کسی طرح اُس کو دو ہفتے کی چھٹی پر گھر لے آیا۔ گاؤں میں کوئی ہلچل نہ ہوئی۔ بیٹے کی چھٹیاں ختم ہوئیں۔ بلکارہ اُسے دل پر پتھر رکھ کر واپس جیل چھوڑ آیا۔ کچھ دنوں کے بعد بلکارا گاؤں سے باہر چلا گیا۔

اُس دِن بٹّو کے کسی دوست کا جنم دن تھا، شہر میں پارٹی انجوائے کر کے بٹّو ایک ساتھی کے ساتھ گاؤں کی طرف آ رہا تھا۔ رات کے گیارہ بجے تھے۔ گاؤں جانے والی سڑک پر رات کو کرفیو جیسا ماحول ہو رہا تھا۔ گاؤں کی سڑک سُنسان تھی۔ بیچ سڑک ایک جگہ سوکھے ہوئے پیڑ کا ایک تنا دیکھ کر بٹّو نے جیپ روک لی، تنا اُٹھانے کے لیئے ابھی اُس نے جیپ سے پاؤں ہی نکالے تھے کہ اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر چار پانچ آدمیوں نے اُس پر اچانک تلواروں اور لوہے کی سلاخوں سے حملہ کر دیا۔ ساتھی لڑکا زخمی ہو کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ ویسے بھی حملہ آوروں کا نشانہ بٹّو ہی تھا۔ زخموں سے چور بٹّو کو غنڈوں نے سڑک کے کنارے ڈال کر جیپ کے ٹائیر کاٹ دیئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ بٹّو کے زخمی ساتھی نے حویلی جا کر دہائی دی تو حویلی میں کہرام مچ گیا۔ دو گاڑیوں میں سوار ہو کر بلونت سنگھ، بٹّو کی تلاش میں نکل پڑا۔ موقع پر پہونچ کر بلونت نے بٹّو کی نبض ٹٹولی، بٹّو زندہ تھا۔ لہو لہان بیٹے کو لے کر وہ حویلی جانے کی بجائے شہر کی طرف چل دیا۔ وہ وقت ضائع کر کے بیٹے کی جان کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔ سِول اسپتال کے ایمرجینسی وارڈ میں ڈاکٹروں نے بٹّو کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ سبھی ڈاکٹروں کی رہائش اسپتال کیمپس میں ہی تھی۔ اگلے دن شام تک بلونت سنگھ گاؤں پہونچا۔ جسّی، بٹّو کے پاس آ گئی۔ جسّی نے رو رو کر اپنا بُرا حال کر لیا۔ بے جی نے اُسے سمجھایا، ’’کملیئے (پگلی) اگر تو خود کو نہ سنبھال سکی، بیٹے کو کیا سنبھالے گی۔ پندرہ دن کے بعد بٹو کو چھٹی مل گئی۔ وہ تندرست نہ ہوا۔ ٹوٹی ہوئی ہڈیوں پر پلاسٹر چڑھا دیا گیا تھا۔ دیکھ بھال کے لیئے ایک نرس کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ دو پرائیویٹ ڈاکٹر ہفتے میں دو بار بٹّو کے علاج پر مامور ہو گئے۔ بٹّو گھر آیا تو سارا گاؤں اُس کی خبر گیری کے لیئے اُمڈ پڑا۔ دوسرے دن اچانک بلکار سنگھ، حویلی کی بیٹھک میں داخل ہوا۔ وہ اکیلا ہی تھا۔ ست سری اکال بلا کر بیٹھا رہا۔ بلونت دوسرے لوگوں سے بٹّو کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔ بلکارے سے کسی نے بات نہ کی۔ آخر میں اُٹھ کر جانے لگا تو بلونت کو ست سری اکال بلا کر اُس نے سرگوشی کی، ’’کیوں سر پنچا۔۔۔! اوئے پتا چلا۔۔۔ بیٹے کا درد کیا ہوتا ہے۔ بٹّو کو سنبھال کر رکھ۔۔۔! ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے۔۔۔!!‘‘

اس سے پہلے کہ بلونت کچھ کہتا، وہ بڑی تیزی کے ساتھ باہر چلا گیا اور اپنے پیچھے ایک زور دار دھماکہ چھوڑ گیا۔ بلونت غصّہ سے کانپنے لگا۔ ساری بات اُس کی سمجھ میں آ گئی۔ اُس نے ایس۔ ایس۔ پی کو فون ملا کر کچھ کہا ہی تھا کہ اُس کی چھاتی میں زور کا درد اُٹھا اور وہ اوندھے مونہہ گر پڑا۔ ڈاکٹر گُپتا کو اطلاع ملی تو وہ بھاگا بھاگا آیا۔ بلونت بے ہوش ہو گیا اور پسینے سے نہا گیا۔ بلونت کو دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ ڈاکٹر گُپتا کی کار حویلی کے پھاٹک پر رُکی۔ گُپتا کے ساتھ ایک ڈاکٹر اور تھا۔ ساتھ میں نرس بھی تھی۔ تینوں نے مل کر اپنی کوششیں شروع کر دیں اور بلونت سنگھ موت کے مونہہ سے واپس آ گیا۔ بے جی کا بیٹے کو دیکھ دیکھ کر برا حال ہو گیا۔ شہر کے ایک پرائیویٹ ہارٹ کیئر اسپتال میں بلونت سنگھ کو داخل کرا دیا گیا۔ آپریشن ہوا اور پیس میکر اُس کی چھاتی میں دفن کر دیا گیا۔ جسّی کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی۔ وہ حسب معمول گھر کے کاموں میں مصروف رہی۔ کچھ دنوں بعد بلونت صحت یاب ہو کر گھر لوٹ آیا۔ اسپتال میں بھی اُسے بٹّو کی فکر اندر سے کھاتی رہی۔ فارم ہاؤس آ کر اچانک اُسے احساس ہوا کہ وہ جسّی کا گنہگار ہے۔ وہ اُس کی وجہ سے ایک زندہ لاش بن چکی تھی۔ ایک رو بوٹ کی طرح ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ کوشش کرنے لگا کہ وہ جسّی سے ملے مگر جسّی اُس کے سائے سے بھی دور رہتی تھی، بٹّو تندرست ہو کر گھر آ گیا تھا۔ دادی کی اصلی گھی کی دیسی خوراک سے وہ کچھ ہی دنوں میں تندرست و توانا ہو اُٹھا۔ بٹّو کے صحتیاب ہونے کے بعد بلونت نے حویلی میں اکھنڈ پاٹھ کروا دیا۔ گاؤں بھر کی دعوت کی۔ بٹّو کے کیس میں بلکار سنگھ صاف نکل گیا۔ اُس نے اُس دن اپنی موجودگی امریکن ایمبیسی میں ثابت کر دی۔ پیسے کے زور پر بٹّو پر ہوئے حملے کی واردات دو چار آنتک وادیوں پر ڈال دی گئی۔ بٹّو صحت یاب ہو کر گھر تو لوٹ آیا تھا۔ ایک خوف جو بلونت کو ہر وقت گھیرے رہتا وہ تھا بلکار سنگھ کی وارننگ کا۔ اُس کا کہا ہوا ایک ایک لفظ اُس کی چھاتی میں خنجر کی طرح پیوست ہوتا رہتا۔ بلونت نے بٹو کا کالج چھڑوا دیا اور اُس کو سخت ہدایت دی کہ وہ اکیلا کہیں نہیں جائے گا۔ دو آدمی اُس کی حفاظت کے لیئے مقرّر کر دیئے۔ بٹّو کالج کی رنگینیاں چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔ بلونت نے اُسے سمجھایا۔۔۔ ’’دیکھ پتّر۔۔۔! ہماری اتنی بڑی جائیداد ہے۔ زیادہ پڑھ کر تجھے کون سی نوکری کرنا ہے۔ اب میں بوڑھا ہو چلا ہوں۔ اس دل کی بیماری نے مجھے اور کمزور بنا دیا ہے۔ دودھ، گھی، میٹ، انڈا سب کچھ چھوٹ گیا اور پھر بلکار کا خطرہ ہمارے سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ کوئی انہونی ہو گئی تمہارے ساتھ تو اس حویلی کو وارث کون دے گا۔۔۔۔ ؟ میں تو جیتے جی مر جاؤں گا۔ اوئے تیری ماں، تیری دادی۔۔۔ رب کے واسطے کالج کی ضد چھوڑ دے اور کھیتی باڑی کی طرف دھیان دے۔ تیرے دادا گاؤں کے سر پنچ رہے۔ اُن کے بعد سیوا میں نے سنبھال لی۔ اب تو اس کو بھی سنبھالے گا۔۔۔!‘‘

بٹّو کا خواب تھا کہ وہ ائیر فورس جوائین کرے اور پائیلیٹ بنے۔ مگر باپ کی مجبوریوں کے آگے اُس کے خواب سچ نہ ہو سکے۔ وہ بھی اپنی زمینداری میں مصروف ہو گیا۔

بلونت سنگھ کا جسم کافی کمزور ہو چلا تھا۔ پرہیزگاری کے کھانوں نے اُس کی طاقت چھین لی۔ وہ اب اپنے فارم ہاؤس کے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر لوگوں کے مسائیل حل کرنے لگا تھا۔ کسی خاص کام سے وہ شہر جاتا تھا۔ وقت اپنی چال سے چلتا رہا۔ بلکار موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ کب بلونت کو کوئی نقصان پہنچائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 

(۹)

 

اُس شام دن کے اُجالے میلے ہونے لگے تھے۔ بلونت سنگھ کچھ لوگوں کے ساتھ فارم ہاؤس کے لان میں کرسیاں ڈالے بیٹھا کسی معاملے پر بات چیت کر رہا تھا۔ آج صبح سے ہی اُس کی طبیعت ناساز تھی۔ دوائیاں بھی وقت پر کھائی تھیں۔ مگر دل کی دھڑکن تیز ہی ہوتی جا رہی تھی۔ بٹّو اپنے محافظوں کے ساتھ شہر گیا ہوا تھا۔ پٹوار خانے، کچہری اور دانہ منڈی کے کاموں سے فارغ ہو کر وہ دوپہر کے بعد جنڈیالہ سے اپنے گاؤں لوٹ رہا تھا کہ اُس کی جیپ سے ایک ٹیمپو کا معمولی سا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔ غلطی بٹّو کی ہی تھی۔ تھوڑی بہت چوٹیں آئی تھیں۔ اُس نے واپس شہر جا کر مرہم پٹّی کروائی اور گاؤں کی طرف چل دیا۔ کسی نے ایکسیڈینٹ کی خبر گاؤں میں پھیلا دی۔ ایک کارندہ گھبرایا ہوا اور بھاگتا ہوا بلونت کے قریب آ کر زور سے بولا،

’’سر پنچ ساب۔۔۔! سر پنچ ساب۔۔۔!! اپنے چھوٹے سردار جی کا ایکسیڈینٹ ہو گیا۔۔۔۔!!‘‘

ایکسیڈینٹ کا نام سُن کر جیسے بلونت سنگھ پر آسمانی بجلی گر پڑی۔ اُس کی چھاتی میں شدید درد کی لہر اُٹھی، وہ کانپنے لگا۔ اُس کا دل جیسے اُس کے سینے سے باہر نکلنے کو تڑپ اُٹھا، بلونت ایک ہاتھ سے سینہ تھام کر کھڑا ہو گیا اور پورے زور سے چِلّایا۔۔۔

’’بل۔۔۔ کاریا۔۔۔۔!۔۔۔ تیری اوئے۔۔۔۔!!‘‘

گالی کے باقی الفاظ اُس کے اندر ہی کہیں جم گئے۔ اُس کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں اُبھر آئی تھیں۔ وہ بے ہوش ہو کر گھاس پر ڈھیر ہو گیا۔ یہ دوسرا اٹیک تھا جس نے اُسے آہنی ہاتھوں میں دبوچ لیا تھا۔ فوری طور پر گاؤں کے ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ جس نے بلونت کی حالت سنبھالنے کے لیئے ایک دو انجیکشن دے دیئے۔ بٹّو فارم ہاؤس پہونچا تو اُس نے ڈاکٹر گپتا کو فون کر دیا۔ اٹیک بڑا زبردست تھا۔ ڈاکٹر گُپتا کے گاؤں پہونچنے سے پہلے ہی بلونت کی روح پرواز کر چکی تھی۔ بے جی اور پریتی پہلے سے ہی فارم ہاؤس پہونچ چکی تھیں۔ بٹّو اور پریتی چیخیں مار کر باپ سے لپٹ کر روتے رہے۔ بوڑھی ماں روتے روتے بے ہوش ہو گئی تھی۔ بلونت کی موت کی خبر پھیلی تو پورے گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ جسّی نے جب بلونت کی موت کی خبر سُنی تو اُس کے ذہن میں زور دار دھماکہ ہوا اور اُس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ وہ اپنے بستر پر بیٹھی اپنے پیر کے انگوٹھے کو دیکھتی رہی۔ حویلی کا کوئی فرد نارمل نہ رہا۔ جسّا سنگھ نے حالات کا اندازہ لگا کر آخری رسومات کی ذمہ داری اپنے سر لے لی۔ پنچایت سیکریٹری نے رات کو ہی ضلع کے تمام آفیسرز، سیاست دانوں جن سے بلونت کی جان پہچان تھی، سب کو اطلاع دے دی۔ دور نزدیک کے رشتہ داروں کو فون کر دیئے۔ صبح چار بجے کے قریب بلونت کی لاش فارم ہاؤس سے اُٹھا کر حویلی کے برآمدے میں رکھ دی گئی۔ جسّی ساری رات ویسے ہی گردن جھکائے بیٹھی رہی۔ دن کے اُجالے پھیلے تو جان پہچان والی عورتیں روتی ہوئی حویلی میں آنے لگیں۔ وہ جسّی سے گلے مل کر روتیں اور عورتوں میں بیٹھ جاتیں۔ جسّی ٹس سے مس نہ ہوئی۔ وہ بُت بنی خُشک آنکھوں سے جوں کی توں بیٹھی رہی۔ اتفاق سے اُن دنوں اُس کی بہن امریکہ سے آئی ہوئی تھی۔ یہ المناک خبر سنتے ہی، سارا کُنبہ صبح سویرے ہی دو گاڑیاں بھر کر جسّی کے گاؤں کی طرف چل دیا۔ پورے راستے سب کے سب خاموش رہے۔ کبھی کبھی جسّی کی ماں رونے لگتی۔ حویلی کے باہر گاڑیاں پارک کر کے جسّی کی ماں بہن اور بھابیاں زور زور سے بین کرتی ہوئیں حویلی کی طرف بڑھنے لگیں۔ مرد گردن جھکائے، مردوں میں جا بیٹھے۔ ماں اپنی چھاتی پیٹتی ہوئی، جسّی کے کمرے میں داخل ہوتے ہی جسّی سے لِپٹ کر بین کرنے لگی۔ اُس کے بعد بہن گلے مل کر روئی۔ اکیلی اکیلی بھابھیاں ملیں، وہ سب روتی رہیں، آنسو بہاتی رہیں۔ جسّی ایک دم خُشک آنکھوں سے سب کا چہرہ تکتی رہی۔ اُس کی آنکھوں کا پانی جیسے سوکھ گیا تھا۔ اُس کے سوچنے سمجھنے کی طاقت جیسے جاتی رہی تھی۔ ساری عورتیں پریتی اور بے جی کو بھی مل رہی تھیں۔ صبح سویرے، باہر صحن میں دریاں بِچھا دی گئی تھیں۔ جسّی کو اُس کے کمرے سے اُٹھا کر صحن کے درمیان بٹھا دیا گیا تھا۔ ہلکی ہلکی دھوپ زمین پر اُتر رہی تھی۔ جسّی کے ارد گرد گھر کی تمام عورتیں بیٹھ چکی تھیں۔ تھوڑے فاصلے پر بلونت کی چار پائی رکھ دی گئی۔ گاؤں کی عورتوں اور رشتہ داروں کی آمد شروع ہو گئی۔ عورتیں آتیں، جسّی کے اور بے جی کے گلے ملتیں اور بیٹھ جاتیں۔ جسّی بے حِس، پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دری کے ریشوں کو گھورے جا رہی تھی۔ اُس کے پیچھے پریتی، نانی کے کندھے پر سر رکھے روئے جا رہی تھی۔ جسّی نے آدھا مونہہ گھونگھٹ میں چھُپا رکھا تھا۔ دور دراز سے لوگ بھاری تعداد میں بلونت سنگھ کے آخری سفر میں شامل ہونے کے لیئے پہونچ رہے تھے۔ سیاست دان، ملازم، زمیندار اور بزنس میں غرضیکہ علاقہ کے ہر شعبہ سے آئے ہوئے لوگ حویلی میں نہ سما کر باہر کھیتوں میں بیٹھے تھے۔ جسّا سنگھ نے پہلے ہی خالی پڑے کھیتوں میں دریاں بچھوا دی تھیں۔ جمِ غفیر کو دیکھ کر وہاں موجود لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اتنا بڑا مجمع تو سردار دلاور سنگھ کی ار تھی کے ساتھ بھی نہ تھا۔ بانس کی ار تھی تیار کر لی گئی۔ بلونت سنگھ کا آخری لباس کرتا پاجامہ تیار کیا جا رہا تھا۔ کرتا پاجامہ تیار ہوا تو بلونت سنگھ کو نہلایا گیا۔ کرتا پاجامہ پہنا کر اُس کے سر پر پگڑی باندھی گئی۔ بانس کی ارتھی پر لٹا کر اُس پر قیمتی شالیں ڈالی گئیں۔ بلونت کے آخری درشنوں کے لیئے لوگ آگے آنے لگے۔ گوردوارے کے ہیڈ گرنتھی ارداس کے پوتر بول پڑھ رہے تھے۔

ایک سہاگن کے لیے اس سے بڑا اور کیا المیہ ہو سکتا ہے کہ وہ بیوہ ہو گئی۔ نہ جسّی روئی نہ اُس نے اپنی چھاتی پیٹی۔ وہ سکتے کے عالم میں زمین پر نظریں گاڑے بیٹھی تھی۔ ایک بوڑھی عورت نے، غور سے جسّی کا جائزہ لیا اور اُس کی آنکھیں دیکھ کر تقریباً چلّا اُٹھی۔۔۔

’’نی (اری)۔۔۔۔ کوئی اِسے رُلا دو۔۔۔۔ اس کے آنسو نہ نکلے تو اس کا کلیجہ پھٹ جائے گا۔۔۔۔! یہ مونہہ چھپائے بیٹھی ہے۔۔۔!!!‘‘

یہ سُن کر دوسری عورتوں کے بھی کان کھڑے ہو گئے۔ سبھی عورتیں محسوس کرنے لگیں کہ جسّی گھونگھٹ کی آڑ میں خُشک آنکھیں لیئے بیٹھی ہے۔ روئی نہیں۔ کچھ رشتہ دار عورتیں جو بے جی کے قریب بیٹھی اُس کو تسلیاں دے رہی تھیں اُٹھ کر جسّی کے قریب آ گئیں ان میں سے ایک نے جسّی کا گھونگھٹ پلٹ دیا۔ جسّی اب بھی سکتہ کے عالم میں دری کے ریشوں کو گھور رہی تھی۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت نے جسّی کو کندھے سے پکڑ کر ہلایا۔۔۔،

’’نی۔۔۔۔ نی جسّی۔۔۔ نی۔۔۔! تیرا بلونتا مر گیا نی۔۔۔۔!!‘‘

دوسری بولی، ’’جسّئیے، تو رنڈی(بیوہ) ہو گئی نی۔۔۔۔! انرتھ ہو گیا۔۔۔۔!!‘‘

تیسری بولی، ’’جسّی تیرے سر کا سائیں۔۔۔ تیرا بلونتا نہیں رہا۔۔۔ نی۔۔۔!!‘‘

جسّی عورتوں کے مونہہ سے نکلے ہوئے مکالمے سنتی رہی اور خالی خالی نظروں سے اُن کے چہرے تکتی رہی۔ اُن کی باتوں سے اُس پر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ ایک عورت پیچھے سے بولی، ’’نی۔۔۔ کسی نے اس کی چوڑیاں توڑیں۔۔۔۔ ؟ اس کے ناک، کان اور گلہ خالی کروائے۔۔۔!!‘‘

جسّی کی بہن جو اُس کے پہلو میں بیٹھی تھی، جل بھُن گئی اور چیخ اُٹھی۔۔۔،

’’اری۔۔۔ تم لوگوں کو خبر نہیں۔۔۔۔ ؟ بلونتے کے ہوتے ہوئے، میری بہن تو پچھلے بیس سالوں سے بیوہ کی زندگی گذار رہی ہے۔ کسی نے اُس کا دکھ جانا۔۔۔ ؟ بانٹا کسی نے اُس کا درد۔۔۔۔!!؟؟؟‘‘

بہن کھڑی ہو گئی، جسّی کی دونوں کلائیاں اُس کے سر سے اونچا اُٹھا کر بولی،

’’کیا توڑو گی تم۔۔۔۔!؟ اس کی کلائیاں۔۔۔۔!؟ تو برسوں سے سونی پڑی ہیں۔ نہ ناک میں کوکا۔۔۔۔ نہ کان میں بالی۔۔۔۔!!‘‘ اتنا کہہ کر وہ جسّی سے لپٹ کر دھاڑیں مارنے لگی۔ جسّی آنکھیں پھاڑے جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو اُس کے دل میں جیسے ایک مونہہ زور طوفان مچلنے لگا۔ اُس کے نتھنے پھڑکنے لگے۔ مگر آنکھیں پھر بھی خُشک تھیں۔ اُس کا جی چاہنے لگا جیسے وہ آسمان کی طرف مونہہ اُٹھا کر چیخ اُٹھے اور دنیا کو دہلا دے، آسمان کی چھاتی پھاڑ دے۔ جسّی کی بہن کی باتیں سُن کر بے جی کلیجہ مسوس کر رہ گئی، وہ مجبور تھی۔

ساری رسمیں پوری ہو چکی تھیں۔ دن کے دو بجنے کو تھے، گرنتھی کی ارداس پوری ہو چکی تھی۔ جسّا سنگھ نے اپنے آنسو پونچھ کر اپنے دوست کی ارتھی اُٹھانے کا اشارہ دیا، تو قریبی لوگوں نے بلونت کی ارتھی اُٹھا لی۔ بٹّو پانی کا چھوٹا کورا مٹکا لیئے ارتھی کے آگے کھڑا ہو گیا۔ تمام مرد گردنیں جھکائے اپنی اپنی جگہ کھڑے ہو گئے۔ ارتھی، آہستہ آہستہ حویلی سے باہر آ گئی۔ لوگ ارتھی کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ روایت کے مطابق مردوں کے پیچھے عورتوں کا قافلہ گاؤں کی حدود تک چلنا تھا۔ جسّی جوں کی توں بیٹھی تھی، عورتوں نے شور مچانا شروع کیا، ’’نی، اُٹھ جسّیئے۔۔۔۔ کھڑی ہو بھائی۔۔۔۔ دیکھ ارتھی جانے لگی ہے۔۔۔!!

ایک عورت غصّہ سے بولی۔۔۔ ’’دیکھتی کیا ہو۔۔۔۔ اُٹھاؤ اسے۔۔۔ اسے آگے آگے چلنا ہے۔۔۔!!‘‘

کسی نے پریتی کو آواز دی، ’’نی پریتی۔۔۔۔ کُڑے (اری) اُٹھا نی اپنی ماں کو۔۔۔ جلدی سے۔۔۔!!‘‘

پریتی، جس کا رو رو کر بُرا حال تھا، ’’اُس کی آنکھیں سوج رہی تھیں۔ ماں سے بولی، ’’اُٹھ جا ممّی۔۔۔ پاپا کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔۔۔ اُٹھ جاؤ۔۔۔۔ کیا ہو گیا آپ کو۔۔۔!!‘‘

قریب سے کوئی عورت بول اُٹھی، ’’جسّی۔۔۔ تیری پریتی یتیم ہو گئی نی۔۔۔ اس کی بات تو مان لے۔۔۔!!‘‘

پریتی کے یتیم ہونے کے احساس نے ایک بم کا کام کیا۔۔۔ جیسے کسی نے دریا کے باندھ کو توڑ دیا ہو۔۔۔ جیسے کسی نے پاگل طوفان کی زنجیریں کھول دیں۔ جسّی آسمان کو دیکھ کر جو چیخی تو ساری عورتیں چونک اُٹھیں۔۔۔ اُس کو ایسا لگا جیسے بیس سال پُرانا سارا درد اُس نے قدرت کے دامن میں اُگل دیا ہو۔۔۔۔!!

بہن نے روتے ہوئے اُس کی بغل میں اپنا بازو دے کر اُسے اُٹھایا، وہ اپنی رانیں پیٹتی ہوئی بہن سے مخاطب ہوئی۔

’’کس کی ارتھی کے ساتھ جاؤں۔۔۔!؟؟اُس آتنک وادی کی ارتھی کے ساتھ جس کے فاصلوں کا آتنک میں نے بیس سال جھیلا ہے۔۔۔!!‘‘

جسّی روتے ہوئے عورتوں کے آگے آگے چل پڑی۔ دیکھنے والی آنکھیں مطمئن تھیں کہ جسّی آنسو بہا رہی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل 

 

ای پب فائل 

کنڈل فائل