فہرست مضامین
- جدید ادب
- ابہام کی جمالیات : میراجی
- میرا جی: ایک نظر میں
- میرا جی کی نظموں کی چیستانی صورتِ حال
- جنسی آسودگی کا خواہشمند شاعر:میرا جی
- میراجی بعض ادیبوں کی نظر میں
- میراجی کی نظمیں اپنے عہد کے تناظر میں
- میرا جی کی غزل: ایک نئے لسانی پیرائے کی تلاش
- ’میرا جی کے گیت : ایک تعارف۔ ایک جائزہ
- ’’ میں ڈرتا ہوں مسرت سے ‘‘ ۔۔ میراجی کی ایک نظم کا مطالعہ
- میراجی کی نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ اور اس کے رنگ
- اجنتا۔ اورنگ آباد اور میرا جی
- خراج عقیدت بخدمت میراجیؔ
- ترقی پسند نظم نمبر اور میرا جی
- میرا جی، شخصیت اور فن (ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)
- میرا جی کے حوالے سے ایک خط
جدید ادب
www.jadeedadab.com
شمارہ 19:(جولائی تا دسمبر 2012ء)
میرا جی نمبر، حصہ دوم
مدیر : حیدر قریشی
نوٹ: اس انتخاب میں محض مضامین شامل ہیں، میرا جی کا انتخاب، تراجم، نذرِ میرا جی اور کچھ مضامین علاحدہ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔ انگریزی مضامین بھی شامل نہیں ہیں۔
ابہام کی جمالیات : میراجی
معید رشیدی
[شعر خوب معنی ندارد……بیدلؔ ]
شعری دھند میں لپٹی ہوئی دوآوازیں ہیں ……میرجی اورمیراجی۔ دوسایے ہیں جو ہمارے تعاقب میں ہیں اور ہم ان کے تعاقب میں۔ داستان رات اور سایے کی ہے۔ رات انسان کی پہلی شناخت ہے۔ سایہ آدمی کا پہلاہمزاد ہے۔ سایے کی رات کتھادھند کے خمیر سے پھوٹی ہے۔ یہ زمین بنجرہے !۔ یہاں سوال اگتے ہیں :
جانے کس پاتال سے آئے
دھندلی رات کے دکھیا سائے
پاتال، رات اور سایہ……تینوں علامتیں ہیں۔ معنوی اعتبارسے نہایت دبیز۔ ان کی وجودی تعبیرمعنی کو وہ سمت عطا کرتی ہے جہاں لفظ’گنجینۂ معنی کاطلسم‘بن جاتا ہے۔ اس شعر کے توسط سے جب ہم نے میراجی کو سمجھنا شروع کیاتومحسوس ہواکہ یہ شخص دیوانہ ہے۔ سوالات بہت کرتا ہے، اورسوالات بھی ایسے کہ اس کے ہر سوال میں سوالوں کی ایک دنیاآباد ہے۔ دھندلی رات کادکھیاسایہ دھرتی کے پاتال تک پہنچنے کی کوشش میں ماراماراپھرتا ہے :
نگری نگری پھرامسافرگھرکارستہ بھول گیا
کیا ہے تیراکیا ہے میرا اپناپرایابھول گیا
آوارگی ابہام کاچہراہے۔ دھندلی رات کے دکھیاسایے نے ابہام کی چادر اوڑھ لی ہے۔ ابہام کیا ہے ؟یہ کوئی صنعت نہیں۔ ہرلفظ اس وقت تک مبہم اوربے معنی ہے جب تک ہم اسے مفروضوں کے ذریعے بامعنی نہ بنائیں۔ ابہام لفظ کے خمیر میں ہے۔ یہ مانوس و نامانوس کا ایک سلسلہ ہے جس میں شاعر زندگی کے تجربوں کواجنبیاتا ہے۔ ابہام معنی کے طرفوں کوکھولنے کے لیے متن کی قرأت کاطریقہ بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ طریقہ سوال سے شروع ہو کر سوال ہی پر ختم ہو جاتا ہے۔ ابہام کے پاتال میں چھپی زندگی خود سب سے بڑاسوال ہے۔ توپھرابہام سے مفرکہاں ؟قرأت کاتجزیاتی نظام ہرلفظ کومعنوی اساس پر پھیلنے کا موقع عطا کرتا ہے۔ استعارہ لفظ کے معنوی امکانات کو پھیلانے کاعام ذریعہ ہے۔ زبان کی اساس استعاراتی ہے۔ مفروضہ جب روزمرہ کاحصہ بن جاتا ہے تو اس کی استعاراتی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے ہرنیا استعارہ مشاہدے کی ندرت کوپیش کرتا ہے۔ شاعری زبان کامعجزہ ہے۔ اس لیے ادبی تخلیق پر ہونے والی ہربحث کاآغاز لسانی بنت کے مسائل سے ہوتا ہے۔ لفظ ومعنی کے رشتے کوسمجھے بغیر معنوی رعایتوں کی تفہیم ادھوری ہے۔ ہراستعاراتی پیکر مشاہدات کے متعدد اجزاسے باہم مربوط ہوتا ہے۔ انھی اجزاکی کثرت سے رعایتیں وجود میں آتی ہیں۔ چوں کہ مجازکی تمام صورتیں ابہام کی کوکھ سے پیداہوئی ہیں، اس لیے قاری کا ذہن ان صورتوں سے آشناہوتے ہوئے بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ ہرقاری متن سے مطابقت کانیاقرینہ ڈھونڈتا ہے۔
ابہام شعری خواص کوتوانابناتا ہے، کیوں کہ یہ شاعری کی جڑوں میں پیوست ہے۔ یہ ذہن کی مستقل حالت ہے۔ انسانی ذہن ہمیشہ شک، واہمہ یامبہم کیفیات کاشکار، رہتا ہے۔ عبیداللہ علیم کی ایک تقریب میں جون ایلیانے کہا تھا کہ شاعری اظہارذات نہیں، بلکہ ہیجانِ ذات کا اظہارہے۔ یہ دراصل ذات کے حوالے سے ذہنی ہیجان کامعاملہ ہے جواکائی کی صورت کسی تخلیقی متن میں اپنی تمام ترکثرت کے ساتھ متشکل ہوتا ہے۔ کوئی بھی نظم، چاہے اس کابیانیہ جتنابھی سپاٹ ہو، ابہام سے مبرانہیں ہوتی۔ نظم کاکوئی بھی مطالعہ شرح، تعبیریاتجزیے کے لیے نہ صرف ابہام کے درجات سے ہو کرگزرتا ہے، بلکہ ان میں الجھتابھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تخلیقی متن کی قرأت ایک نوع کامجاہدہ بھی کہلاتی ہے۔ قرأت کی پیچیدگیاں باذوق قاری کو مسرت بہم پہنچاتی ہیں۔ میراجی کی شاعری میں ابہام ایک پاتال ہے۔ فکری بنت، دھندلی رات کی مانند ہے اور دکھیاسایہ ان کامرکزی شعری کردار۔ اسی لیے ابہام کی جمالیات کو ہم نے ان کی شاعری کاسرنامہ بنایا ہے۔ قرینہ یہ ہے کہ باغی اور وحشی تخیل والایہ دکھیاسایہ دھندلے اوراندھے نغموں میں راتوں کی کہانی سناتا ہے :
آؤ۔ اپنے باغی، وحشی تخیل کی
دھندلے، اندھے نغموں میں
سن لوکہانی راتوں کی۔
[مدھوری بانی]
قصہ گوئی کی تاریخ/ تصور، رات ہی سے وابستہ ہے۔ انسان نے اپنی اساطیر کوتخیلی حکایات میں پہچانا۔ رات کتھاکابیانیہ سادہ ہوہی نہیں سکتا اوریہاں تورات کاہرلمحہ خون بن کر تجربے کی آنکھوں سے رس رہا ہے۔ سرخ وسیاہ کے اس جنگل میں ایک سادھوآسن جمائے، دھونی رمائے پریم کے منتر پڑھ رہا ہے۔ الفاظ زبان سے اداہو رہے ہیں اورمعنی کاچشمہ اداس آنکھوں سے پھوٹ رہا ہے۔ من مندر میں ایک دیوی ہے جس کے علم میں بنگال کاجادوہے۔ روایت ہے کہ اس کے شہر میں جانے کے کئی راستے ہیں، واپس آنے کاکوئی راستہ نہیں۔ اب سادھواس شہرکافقیربن چکاہے۔ وہ اس شہر کی سانولی مٹی میں ضم ہو چکاہے۔ اسی مٹی سے کالی بنتی ہے اورمیراسین کامیراجی کالی[رات]کی کہانی سنارہا ہے :
رات اندھیری، بن ہے سونا، کوئی نہیں ہے ساتھ،
پَوَن جھکولے پیڑ ہلائیں، تھرتھرکانپیں پات
دل میں ڈرکاتیرچبھاہے، سینے پرہے ہاتھ،
رہ رہ کرسوچوں یوں کیسے پوری ہو گی رات؟[نارسائی]
واہمہ کے دشت میں میراجی کاتخیل ارضی پیکرتراشتا ہے۔ ان کا ارضی بیانیہ قدیم وطویل ہندوستانی تہذیب کے سلسلوں سے عبارت ہے۔ ان کاکلام انھی سلسلوں کامظہرہے۔ ابہام کی جمالیات نے ان کے تخیل کودبازت عطاکی ہے۔ ان کی قرأت میں معنوی پہلوؤں کی دریافت کے لیے ابہام کے مدارج کوطے کرناہے۔ ابہام اورایہام میں فرق ہے۔ ایہام[Pun]ایک شعری صنعت ہے جس میں ایک لفظ کے دومعنی مراد لیے جاتے ہیں۔ ایک قریب کاہوتا ہے، دوسرابعید کا، اورلکھنے والے کی مراد بعیدمعنی سے ہوتی ہے۔ Ambivalenceبھی اسی سے مشابہ ہے۔ یہاں دونوں معنی ایک دوسرے سے جداہونے کے ساتھ محدود ہوتے ہیں، جبکہ ابہام کثرتِ معنی پردال ہے۔ ابہام کی تعریف میں مارکسی نقادٹیری ایگلٹن لکھتا ہے :
Ambiguity happens when two or more senses of a word merge into each other to the point where the meaning itself becomes indeterminate.(1)
یعنی ابہام معانی کا انضمام ہے۔ کسی سیاق یاتناظر میں کوئی مبنی برابہام لفظ اپنے لغوی معنی [Literal Sense]میں استعمال نہیں ہوتا۔ ایک لفظ سے جب کئی معنی دریافت ہوں تومجازاپناسایہ وسیع ترکر لیتا ہے۔ کسی مخصوص/ لغوی معنی سے تجاوزشعری عناصر[تشبیہ، استعارہ، کنایہ، مجازمرسل، تمثیل، مبالغہ، علامت وغیرہ]کی تشکیل کاموجب بنتا ہے۔ بنیادی چیز تخیل ہے۔ قوتِ واہمہ[Fancy]اس کاغیر منقسم حصہ ہے۔ واہمہ مختلف معانی میں ارتباط پیدا کرتا ہے اورمنضبط قوتِ حاسّہ اسے صحیح سمت عطا کرتی ہے۔ واہمہ ابہام کی کلید ہے۔ ابہام عام گفتگو میں بھی درآتا ہے، لیکن سب سے مبہم شعری زبان ہوتی ہے جس کاہرجزاپنی فطرت میں جدلیاتی ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کاخیال ہے :
’’اجمال اور جدلیاتی لفظ کے بعد ابہام شاعری کی تیسری اورآخری معروضی پہچان ہے۔ [موزونیت اوراجمال کی موجودگی ہمیشہ فرض کرتے ہوئے ]ہم یہ کہہ سکتے ہیں اگرکسی شعر میں صرف ابہام ہی ہے توبھی وہ شاعری ہے۔ عام طور پرجدلیاتی لفظ اورابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں، لیکن جس طرح تنہاجدلیاتی لفظ شعرکوشاعری میں بدل دیتا ہے، اسی طرح تنہا ابہام بھی شعر کوشاعری بنا دیتا ہے۔ شعر میں ابہام یاتوعلامت سے پیداہوتا ہے یا ایسے الفاظ کے استعمال سے جن سے سوالات کے چشمے پھوٹ سکیں۔ جتنے سوالات اٹھیں گے شعراتناہی مبہم ہو گا اوراتناہی اچھاہو گا۔ ‘‘(2)
یعنی اجمال اورجدلیاتی لفظ کی طرح ابہام بھی شاعری کامستقل جزہے، اوریہ تینوں شاعری کی معروضی شناخت مقرر کرتے ہیں، لیکن ابہام بذاتِ خود کبھی معروضی نہیں ہوتا۔ [یعنی] ابہام کی معروضی شناخت ممکن نہیں، کسی مبنی برآہنگ شعری متن میں ابہام موجودہوتواسے شاعری کہاجا سکتا ہے۔ ابہام شاعری کی آخری معروضی شناخت نہیں، بلکہ یہ پہلی شناخت ہے اورشاعری کی اولین شرط بھی۔ فاروقی صاحب بجافرماتے ہیں کہ اگرکسی شعرمیں صرف ابہام ہی ہے توبھی وہ شاعری ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام طور پرجدلیاتی لفظ اورابہام ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ ہمارے خیال میں ابہام پہلے آتا ہے، جدلیاتی لفظ بعدمیں۔ اس لیے کہ جدلیاتی لفظ کی بنیاد ہی ابہام پرہے۔ وہ کون سا استعارہ ہے جس سے ایک سے زائد سوالات پیدانہیں ہوتے ؟اگرسوالات پیداہوتے ہیں تواس کی وجہ ابہام ہے۔ اس طرح اس کی اولین حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ چوں کہ جدلیاتی لفظ از خود مبہم ہوتا ہے، اس لیے ترسیل کا مسئلہ بھی پیداہو گا۔ ابہام میں ابلاغ کاعمل جمالیات کوبھی طے کرتا ہے۔
اکثر کہاجاتا ہے کہ فلاں شعر/ نظم مہمل ہے۔ ابہام سے شعر نہ توچیستاں بنتا ہے اور نہ ہی مبالغے سے کوئی شعرلغویات کے دائرے میں آتا ہے۔ ہرشعرمہمل نہیں ہوتا۔ قصور تواپنی تفہیم کابھی ہوتا ہے۔ کوئی خیال کسی کے لیے مہمل ہوسکتا ہے، لیکن وہی خیال دوسروں کے لیے بھی مہمل ہو، کوئی ضروری نہیں۔ مبالغہ ابہام کے بطن سے نکل کر استعارے کی وجودیات میں داخل ہو جاتا ہے۔ ابہام نہ تواہمال ہے اور نہ اِشکال۔ اہمال’مہمل گوئی‘کوکہتے ہیں، جبکہ ابہام معنی خیزی کاعمل ہے۔ یہاں کوئی نہ کوئی معنی ضرورنکل آئے گا۔ اِشکال میں کوئی خیال مشکل ضرورہوتا ہے، ناقابلِ فہم نہیں۔ بعض حوالوں سے یہ مشکل دورہوسکتی ہے۔ کہاجاتا ہے کہ’شاعری انکشاف ہے اسی لیے مبہم ہے۔ ‘کسی پرمہملیت کالیبل لگانابہت آسان ہے۔ جب آدمی بشیربدراوراحمدفرازکوپڑھنے کاعادی ہو جاتا ہے تواسے ن۔ م۔ راشداورمیراجی کی شاعری تومہمل معلوم ہو گی ہی۔ ہم نے بعض لوگوں کوکہتے سناہے کہ میراجی مہمل بکتے ہیں۔ کچھ لوگوں کویہ شکایت ہے کہ جس طرح فیض ہماری زبان پررہتے ہیں، میراجی نہیں رہتے۔ ان کاکلام زبان زدنہیں ہوتا۔ بھئی زبان زد توچٹکلے بھی ہو جاتے ہیں۔ توشاعری اورلطیفے میں کیافرق ہے ؟فیض کامیراجی سے کوئی موازنہ نہیں۔ دونوں اپنے ڈھب کے شاعر ہیں۔ میراجی کاکلام اگریاد نہیں رہتاتواس میں ان کاکوئی قصورنہیں۔ میراجی وجودکاشاعرہے۔ وہ مٹی میں چھپے پاتال میں لے جاناچاہتا ہے۔ جب زندگی ہی مبہم ہے تومیراجی سے کیوں مطالبہ کیاجائے کہ ان کے مطالب آسان ہوں ؟ فاروقی صاحب نے پرلطف بات کہی ہے کہ :
’’ذاتی طور پرمیں کسی شاعری کومہمل کہنے سے اتناہی ڈرتاہوں جتناکوئی مسلمان دوسرے مسلمان کوکافرکہنے سے ڈرتا ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کفرکافتویٰ ہمیشہ سے بہت سستارہا ہے، اورآج بھی ہے ‘‘(3)
اب تک کی گفتگومیں بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ ابہام کی شناخت کیوں کرمقررکی جائے ؟ابہام کی دبازت علامت ہے۔ علامت میں تشبیہ، استعارہ یاتمثیل کامفہوم شامل ہوتا ہے۔ یہ استعارے سے زیادہ عمیق ہے۔ علامت اپنے تمام انسلاکات کے ساتھ ظاہرہوتی ہے۔ فرض کیجیے کہ’ آسمان‘، زمانے کا استعارہ ہے، لیکن اس میں عظمت، وسعت، تحرک، تغیر، وقت، جیسے تمام مفاہیم بھی موجود ہیں۔ آسمان، خداکابھی استعارہ ہوسکتا ہے اورظالم کابھی۔ اس کی کیفیت کی مناسبت سے مفاہیم بدلیں گے، لیکن یہی آسمان جب علامت کے معنی میں لیاجائے گاتواس میں یہ سارے معانی مراد لیے جائیں گے۔
ابہام پرگفتگومیں سرولیم ایمپسن کی کتاب’Seven Types Of Ambiguity‘اہم حوالہ ہے۔ یہ کتاب ایمپسن نے اس وقت لکھی جب وہ بائیس برس کے بھی نہیں تھے۔ جب وہ چوبیس سال کے ہوئے توپہلی بار یہ کتاب 1930میں شائع ہوئی، اورجدیدادبی تنقید میں سنگ میل قراردی گئی۔ ایمپسن نے ابہام کو سات حصوں میں تقسیم کر کے ان کی الگ الگ درجہ بندی کی۔ اس نتیجے پرپہنچے کہ ابہام شاعری کے خمیرمیں ہے۔ ابہام کی تعریف میں لکھتے ہیں :
"Ambiguity’ itself can mean an indecision as to what you mean, an intention to mean several things, a probability that one or other or both of two things has been meant, and the fact that a statement has several meanings.It is useful to be able to seperate these if you wish, but it is not obvious that in separating them at any particular point you will not be raising more problem than you solve.(4)
ایمپسن نے ابہام کی جمالیات کواسلوب کی لطافت سے تعبیر کیا ہے۔ ہماراخیال ہے کہ ابہام توبت ہزارشیوہ ہے۔ اس تک رسائی کے محض سات نہیں، ہزاروں درہیں۔ اس کی تہ میں اترنے کی کوشش میں قاری مزید الجھتاجاتا ہے، اورمعنی التوامیں رہتا ہے۔
کچھ لوگ ابہام کے بڑے مخالف ہیں۔ میراجی اور راشد کی شاعری کے مطالعے میں ابہام کا ذکر شدو مد سے کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں سلیم احمد کے دو مضامین کا حوالہ دینا مناسب معلوم پڑتا ہے۔ ’ابہام کیوں ؟‘ اور ’ ابہام اور بازی گری ‘۔ انھوں نے ابہام کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے اور اس نوع کے سوالات قائم کیے ہیں :
- ہمیں ایک نظم مبہم معلوم ہوتی ہے۔ اس کا کیا سبب ہوتا ہے ؟
- [قاری کے ساتھ] شاعر بھی ابہام میں مبتلاہوتا ہے۔ کیوں ؟
- ابہام کی فنی ضرورت کیا ہے، یعنی دانستہ ابہام کی غرض و غایت کیا ہے ؟
سلیم احمد نے ابہام کی ممکنہ صورتوں کا جائزہ لینے کی بساط بھر کوشش کی ہے اور ابہام کو الہام سے ملا کر دیکھا ہے :
’’شاعری کے کسی سنجیدہ طالب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ شاعری اپنی آخری حدود میں ’’حقیقت نامعلوم‘‘ کا اشاریہ ہے۔ یہ حقیقت اظہار اور ابلاغ سے گریزاں، اور طالبِ اخفا ہے۔ اس کی فطرت ہی یہ ہے کہ ظاہرہونے سے بچتی ہے۔ مگر شاعری ہمیشہ اس حقیقت پر کمند انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی۔ یہ حقیقت تو قابو میں نہیں آتی مگر شاعری ایک ایسا آئینہ ضرور تیار کر دیتی ہے جس میں اس کا عکس جھلملانے لگے یا کم از کم وہ نیم ظاہر ہو جائے، گھونگھٹ میں چھپے ہوئے محبوب کی طرح حقیقت کی یہ جلوہ نمائی شاعری کو الہام بنا دیتی ہے۔ الہام ابہام کے بغیر ممکن نہیں، اور راز کھل کر بھی راز ہی رہتے ہیں۔ (5)
شاعری کو الہام کہاجاتارہا ہے۔ یہ ایک الگ نظریہ ہے۔ شاعری الہام ہے یا نہیں، الگ بحث کا موضوع ہے، لیکن اس بحث میں بعض اختلافات کے باوجود جو نکتہ اہم ہے وہ ابہام کا اعتراف ہے، کیوں کہ یہاں الہام کا دارومدارہی ابہام پر رکھاگیا ہے۔ [ایہام سے قطع نظر ] نظری سطح پر ابہام کے مطالعے کا چلن میراجی اور راشد کی شاعری کے جائزے سے ہوا۔ ایک گروہ نے ابہام کی حمایت کی اور دوسرے نے سخت مخالفت۔ اس معرکے میں ابہام کی نظری اساس کو استحکام حاصل ہوا۔ سلیم احمد کا مضمون ہے ’ ابلاغ کا مسئلہ ‘۔ اس میں انھوں نے وزیر آغاکے مضمون ’ ابلاغ سے علامت تک ‘ پر گفتگو کرتے ہوئے شاعری میں ابلاغ کے مسئلے کوالہام [ غیر اناکا شعور]کے حوالے سے سلجھانے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک تخلیق، داخلیت [غیر انا کا شعور] سے خارجیت [ انا کا شعور ] کے سفر کا نام ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تخلیقی امیج پوری تخلیقی شخصیت کا نچوڑ ہوتی ہے۔ انھوں نے وزیر آغا اور شمس الرحمن فاروقی کی شاعری کو بری شاعری کا نمونہ اس بنیاد پر قرار دیا کہ ان کے یہاں ’غیر انا‘ کا شعور ’انا‘ کے شعور سے مکالمے پر تیار نہیں ہوتا اور اسی لیے ان کی شاعری میکانکی ہو جاتی ہے۔ انھوں نے ’ فکر کا طاعون ‘ والے مضمون میں فاروقی صاحب سے اپنے اختلافات واضح کیے ہیں۔ اس ضمن میں فاروقی صاحب کے تین مضامین حوالے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’ تعبیر کی شرح ‘، ’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘ اور ’ شعر کا ابلاغ ‘۔ ان مضامین کا براہِ راست تعلق ابہام سے ہے۔ متن سے معنی کشید کرنے کا عمل تعبیر کہلاتا ہے۔ تعبیر کے مختلف وسائل ہیں۔ تعبیر کے عمل میں معنی کشید کرنے کا مرکزی وسیلہ ابہام ہے۔ تخلیقی سطح پر اظہار، ترسیل اور ابلاغ کے تینوں مراحل میں زیریں لہر کے بطور ابہام موجود ہوتا ہے۔ ادبی تخلیق میں کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس نے وجدان کو اپنے اوپر مکمل طور پر ظاہر کر لیا ہے ؟کیا اس بات پر کوئی مصر ہوسکتا ہے کہ اس کے اظہار نے مکمل ترسیل حاصل کر لی ہے ؟ کیا اس پہلو پر کوئی اَڑ سکتا ہے کہ اسے تخلیقی متن کا پور ا، ابلاغ ہو چکا؟ترسیل کی ناکامی کے لیے مصنف کو قصور وار ٹھہرانے سے پہلے تھوڑے توقف کے ساتھ غور کر لینا چاہیے کہ متن کا تشکیلی نظام کیا کہتا ہے اور متن کی قرأت کیسے کی جائے ؟ ہر متن ایک ہی زاویے سے نہیں پڑھاجا سکتا۔ میراجی کا متن ترسیل کی ناکامی کا المیہ نہیں ؛ ابہام کی جمالیات کا محورہے۔ محمد حسن عسکری نے میراجی پر خاکہ لکھتے ہوئے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ لوگوں کو میراجی سے شکایت رہتی ہے کہ وہ سمجھ میں نہیں آتے۔ وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے پڑھنے والوں کا خیال نہیں رکھا۔ اس نوع کی باتیں اب کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔
کلیات میراجی کی پہلی نظم ہے ’چل چلاؤ‘۔ موضوع ’بے ثباتیِ دنیا‘۔ اس موضوع پر شاعری کا انبار ہے۔ میرؔ جی نے تو ہستی کوحباب اور اس کی نسبت، نمائش کو سراب سے تعبیر کیا ہے۔ میر کے ہم عصر نظیر نے بھی کہا ہے۔ ’سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا / جب لاد چلے گا بنجارہ‘۔ ولی نے بھی خدو خال کی بات کو خال خال بتا کر زندگی کو دردو غم سے جوڑ دیا ہے۔ میرجی سے میراجی تک کے سفر میں بے ثباتیِ دنیا کا موضوع پامال بھی بہت ہوا۔ شیلی بھی کہہ کر چلا گیا:
Our sweetest songs are those that tell of sadest thought
اس طرح درد و غم کے اظہار پر شاعروں کا اجارہ ٹھہرا۔ حزنیہ اظہار شعر گوئی کا فیشن بھی قرار پایا۔ جب تک درد کی جبلت کو محسوس نہ کیا جائے۔ جب تک غم کی ماہیت سے ہو کر نہ گزراجائے۔ اسے اپنے باطن میں کیسے اتارا جا سکتا ہے ؟ہاں صاحب، میراجی غم کاشاعر ہے۔ دکھوں کو اس نے پہچان لیا ہے۔ درد اس کے درون میں ہے۔ غم اس کے وجود میں ہے۔ وہ اپنے تخیل کو وحشی کیوں کہتا ہے ؟راتوں کی کہانی کیوں سناتا ہے ؟یہ کیسا عاشق ہے جو محبوب کی چوٹی اور کمر کا مقتول نہیں ؟اس کے یہاں محبت پوجا بن گئی ہے اور اس محبت سے پھوٹنے والاہر منطقہ اس کے لیے مقدس ہے۔
میراجی کی شاعری عشق کا صحیفہ ہے۔ اس جوگی نے دنیا کو ہزار رنگ میں دیکھا، لیکن:
’بس دیکھا اور پھر بھول گئے ‘
کیوں ؟اس لیے کہ کسی منظر کو ثبات نہیں۔ ’چل چلاؤ‘ ایک ’ لمحے ‘ کی جمالیات کو محسوس کرنے کا تجربہ ہے۔ زندگی کو دیکھنے کے بے شمار زاویے ہیں۔ قطرے میں دریا کی تلاش تصوف کا علاقہ ہے۔ جز کو عظیم کُل کا حصہ سمجھنا اہل تصوف کا شیوہ رہا ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ حیاتِ کُل کا ایک جز ہے۔ فانی نے کہا ہے :’ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانی/ زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا‘۔ غالب نے بھی کہا ہے :’عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا‘۔ غالب جادۂ راہِ فنا کو عالم کے اجزاے پریشاں کا شیرازہ بتاتے ہیں۔ میراجی نے عرصۂ حیات کے، ایک لمحے میں سمٹنے کا تجربہ کیا ہے :
ہر منظر، ہر انساں کی دیا اور میٹھا جادو عورت کا
اک پل کو ہمارے بس میں ہے، پل بیتا، سب مٹ جائے گا،
اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو،
تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو؟
کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی ؟
ہے چاند فلک پر اک لمحہ،
اور اک لمحہ یہ ستارے ہیں،
اور عمر کا عرصہ بھی، سوچو ! اک لمحہ ہے !
[چل چلاؤ]
میراجی نے عرصۂ حیات کو ایک لمحہ سمجھنے کے ساتھ ہستی کو ایک ذرہ بھی تصور کیا ہے۔ مسرت کے فلسفے میں زندگی کو خواب سے تعبیر کر کے انھوں نے مسرت کے خوف کا ادراک کیا ہے۔ اس دنیا میں ہرشخص مسرت کی تلاش میں ہے لیکن وہ مسرت سے خوف کھاتے ہیں۔ اس لیے کہ کہیں یہ مسرت زندگی کو خواب نہ بنادے۔ مسرت میں جو رومان کا پہلو ہے وہ خواب کی کیفیت کو جلا بخشتا ہے۔ شکستِ خواب ان کے یہاں کرب انگیز تجربہ ہے۔ خواب بہر حال خواب ہے۔ ہر خواب حقیقت نہیں بنتا۔ خواب کا ٹوٹنا میراجی کے یہاں دل کا ٹوٹنا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ہر مسرت فانی ہے۔ اس لیے اس تجربے سے گزرنے میں انھیں ڈر کا احساس ٹیسیں مارتا ہے :
میں ڈرتا ہوں مسرت سے،
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں، کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے ؛
کہیں یہ میری ہستی کو بنادے خواب کی صورت ؛
[میں ڈرتا ہوں مسرت سے ]
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کائنات کے نغمۂ مبہم میں الجھنا نہیں چاہتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر پل انھی نغموں میں گھرے ہوئے ہیں جن میں کائنات کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ وہ ابہام کو بعض اوقات شعوری طور پر موزوں کرتے ہیں۔ ان کی بعض نظمیں پہلی قرأت میں آسان معلوم پڑتی ہیں لیکن جب تہہ میں اتر نے کی کوشش کی جاتی ہے تو معاملہ پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔ ان کی ایک نظم ہے ’سمندر کا بلاوا‘۔ اس کی مختلف تعبیریں کی گئی ہیں۔ سمندر یہاں کلیدی وجودی علامت ہے۔ متکلم داخلی وجودی کردار ہے۔ بعض حضرات سمندر کو ماں کی علامت بتاتے ہیں کہ میراجی نے اپنی ماں کی یاد میں یہ نظم لکھی تھی، لیکن اس طرح تو نظم ایک سیاق میں مقید ہو جاتی ہے۔ اس نظم کے کوڈز کو جب ڈی کوڈ کیا جاتا ہے تو معنی کی کئی نمایاں لہریں ابھرتی ہیں۔ ان لہروں میں بہہ جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور یہ معنی کی سیال کیفیات کی وجہ سے ہیں۔ سرگوشیوں سے شروع ہونے والی اس نظم میں آوازوں کی چمک، دھمک، شور اور اسرار کا جال پھیلا ہوا ہے۔ ’صدا‘ اور ’ندا‘ دو بنیادی ذیلی علامتیں ہیں :
مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھارہی ہے
یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دیے جا رہی ہے
عموماً صدا اور ندا کو ہم معنی تصور کیا جاتا ہے لیکن لغت اور علامت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ صدا پر ندا غالب ہے۔ صدا زندگی اور ندا موت ہے۔ اگر آپ اسے رد کرتے ہیں تو صدا خارج اور ندا باطن کا بلاوا ہے۔ اگر آپ اسے بھی رد کرتے ہیں تو صدا فانی ہے اور ندا لافانی تجربہ ہے۔ ہر اک شے سمندر سے آئی اور سمندر میں جا کر ملے گی تو اس سمندر کا بلاوا وجود کا بلاوا ہے۔ سمندر کی ندا قطرے کی صدا سے ٹکرا رہی ہے :
یہ اک گلستاں ہے ……ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں ……
یہ پر بت ہے ……خاموش ساکن / ……
یہ صحرا ہے ……پھیلاہوا، خشک، بے برگ صحرا / ……
نہ صحرا نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی
گلستاں ہو، پربت ہو کہ صحرا، تینوں دبیز علامتیں ہیں۔ ان میں زندگی کے دونوں پہلو موجود ہیں۔ گلستاں میں ہواکا لہلہانا، کلیوں کا چٹکنا، غنچوں کا مہکنا، پھولوں کا کھلنا ……یہ سب زندگی اور بقا کی علامتیں ہیں لیکن انھیں پائداری میسر نہیں۔ بہار کے بعد خزاں کا دور بھی آتا ہے۔ پربت کے دامن میں وادی ہے۔ وادی میں ندی ہے۔ ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہے۔ ندی زندگی کی علامت ہے۔ اس کی حرارت میں ناؤ کا بہنا زندگی کا رومان ہے لیکن ناؤ بہتے بہتے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ منظر، پس منظر میں چلاجاتا ہے۔ حال سے ماضی بننے کا سفر تاریخ کے جبر کو بھی ہویدا کرتا ہے، اس کے فنتاسی کو بھی اوراس کے اثبات کوبھی۔ صحرا کے بگولوں سے بننے والے عکس مجسم بھی زندگی کی رمق لیے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اک پل کو یہ متشکل ہوتے ہیں اور جیسے ہی طوفان اٹھتا ہے یا تند ہوا چلتی ہے تو عکسِ مجسم بکھرجاتے ہیں۔ یہ فنا کی منزل ہے۔ یعنی ہر شے فانی ہے۔ تغیر مادّے کی فطرت میں ہے۔ مادہ ایک صورت سے دوسری صورت میں منتقل ہوتا ہے۔ ختم نہیں ہوتا۔ فنا اور بقا، دونوں مستقل حالت نہیں ہیں۔ ہر بقا کو فنا کے رستے ہو کر گزرناپڑتا ہے۔ بہار کے بعد خزاں ہے لیکن خزاں کے بعد نئی بہار بھی تو ہے۔ ہرشے سمندر سے آئی، سمندر سے جا کر ملے گی۔ سمندر زندگی کی نہایت عمیق علامت ہے۔ یہ زندگی کا منبع ہے۔ سمندر وقت کی بھی علامت ہے۔ شاعر پر یہ راز کھل چکا ہے کہ ثبات محض تغیر کو ہے۔ ہر شے مدارجِ انتقال سے گزرتی ہے۔ اس لیے شاعر کی نظر اب نہ صحرا پر ہے، نہ پربت پر اور نہ کسی گلستاں پر۔ شاعر تو پیڑوں کے ایک جھرمٹ پر اپنی نگاہیں جمائے ہوا ہے۔ جھرمٹ جہاں ہر درجے کے پیڑ موجود ہیں۔ مختلف رنگ، نسل اور جسامت کے۔ ایک پیڑ گرتا ہے تو وہیں کوئی نو نہال سر اٹھاتا ہے۔ اجتماع تہذیب کابھی نقش ہے۔ یہاں ہر وحدت، کثرت کا حصہ ہے۔ جس طرح فرد سماج کا اور جس طرح قطرہ سمندر کا حصہ ہے :
نہ صحرا نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی
جب شاعر یہ کہتا ہے کہ ’ تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں ‘، تو آئینے کا طلسم ٹوٹتا ہے۔ نداآئینہ ہے اور آئینہ وجود۔ جسم مرتا ہے، روح منتقل ہوتی ہے۔ اسی طرح آئینے میں عکس کچھ دیر کو ٹھہرتا ہے اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ آئینہ قائم رہتا ہے، چہرے بدل جاتے ہیں۔
’دن کے روپ میں رات کہانی ‘، ’جاتری ‘، ’محبت‘، ’ اونچا مکان ‘، ’ عکس کی حرکت ‘، ’ شام کو، راستے پر ‘، ’ اُفتاد‘، ’ محبوبہ کا سایہ ‘، ’ فنا ‘ جیسی دیگر تمام نظمیں ابہام کی جمالیات میں قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں :
لیکن یہ رنگ خیالوں کے اب میری نظر میں سایہ ہیں
سب بیتی رات کا جادو ہیں، سب پچھلے جنم کی مایا ہیں [محبوبہ کا سایہ ]
جس جگہ آکے ازل اور ابد ایک ہوئے تھے دونوں،
ایک ہی لمحہ بنے تھے مل کر [بعدکی اڑان ]
رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی [دن کے روپ میں رات کہانی ]
یہ لہریں ہیں، انھیں نسبت ہے کالی رات کے غمناک دریا سے [سرسراہٹ]
میراجی کی شخصیت اور شاعری دونوں کے ساتھ ابہام کا گہرا رشتہ ہے۔ میراجی کی موت پر منٹو نے کہا تھا کہ اگر وہ کچھ دیر سے مرتا تو یقیناً اس کی موت بھی ایک درد ناک ابہام بن جاتی۔ منٹو نے میراجی کے ’تین گولے ‘ والے خاکے میں لکھا ہے کہ اس کے سارے وجود میں ایک ناقابلِ بیان ابہام کا زہر پھیل گیا تھاجوایک نقطے سے شروع ہو کرایک دائرے میں تبدیل ہو گیا تھا، اس طور پر کہ اس کاہرنقطہ اس کا نقطۂ آغاز ہے اوروہی نقطہ، نقطۂ انجام۔
حواشی
(1)Terry Eagleton,How to read a poem,Indian edition 2007,Blackwell Publishing,P:125
(2)شمس الرحمن فاروقی، شعر، غیرشعراورنثر، 2005، قومی کونسل براے فروغ اردوزبان، نئی دہلی، ص:96
(3)ایضاً
(4)William Empson, Seven Types Of Ambiguity, 1949,Chatto and Windus,London,PP:5-6
245-246، اکادمی بازیافت، کراچی، : پاکستان، ص ص: 2009سلیم احمد، مضامین سلیم احمد، مرتبہ: جمال پانی پتی، (5)
٭٭٭
میرا جی: ایک نظر میں
سہیل اختر
میرا جی کا نام ذہن میں آتے ہی سب سے پہلے ان کا وہ پورٹریٹ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے جو ان کے معاصرین قلم کاروں نے اپنی تحریروں میں بنایا اور اس میں اپنی پسند کے خوب خوب افسانوی رنگ بھرے۔ جیسے لمبے لمبے میل سے چکٹ بال، گندگی سے بھرے ہوئے ناخن، بوسیدہ لباس، زیادہ تر ایک لمبے اور کوٹ سے ڈھکا ان کا سراپا، لوہے کے تین گولے، گلے میں موٹی موٹی منکوں کی مالا۔ میرا جی کا یہی حلیہ ذہنوں میں محفوظ رہا۔ اور پھر یہ کہ کسی بھی محفل میں اگر وہ موجود ہوں تو اپنے آپ کو ہیرو ثابت کرنے کی کوشش ضرور کیا کرتے تھے، سب کی توجہ حاصل کر کے اپنے بات کو اس انداز سے کہنا گویا ان کی بات ہی حرفِ آخر ہو میرا جی کا طرّۂ امتیاز تھا۔ اس لفظی پورٹریٹ سے ظاہر ہے کسی بھی قاری کو ان کی شخصیت سے کراہیت اور نفرت ہی محسوس ہوتی۔ میرا جی کے بارے میں اسی ملامت آمیز داستان طرازی نے ان کے گرد ایک ایسا حصار بنا دیا جسے توڑ کر ان کی شخصیت کو محبت اور ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش نہ صرف ان کے جیتے جی بلکہ ان کی وفات کے دوتین دہائیوں بعد تک بھی کم کم ہی ہوئی۔ پھر ان کی شاعرانہ عظمت اور اردو ادب میں ان کے گراں قدر تحقیق و تنقید تک کیسے نظر جاتی۔ 1988 میں جمیل جالبی کا مرتب کردہ ’کلیاتِ میراجی‘ شائع ہوا اور 1990 میں میراجی کی شخصیت و فن پر جمیل جالبی کا ہی وقیع کارنامہ ’میراجی: ایک مطالعہ‘ شائع ہوا۔ ان دونوں کتابوں نے میراجی کو سنجیدگی سے سمجھنے اور سمجھانے میں اہم رول ادا کیے۔ اس کے بعد میراجی کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر وقتاً فوقتاً کافی کچھ لکھا گیا ہے۔
بیسویں صدی کے پہلے دہے کا آخری سال اور دوسرے دہے کے پہلے دو سال اردو ادب میں وہ غیر معمولی وقت ہے جبCONSECUTIVE تین سالوں میں نئی نظم کے تین اہم ترین شخصیتوں نے جنم لیا۔ 1910 میں ن م راشد کی پیدائش ہوئی، 1911 میں فیض احمد فیضؔ اور 1912میں ثناء اللٰد ڈار عرف میراجی نے دنیا میں آنکھیں کھولیں۔ جب ان تینوں نے اردو ادب میں قدم رکھا تو ہندوستان زبردست سیاسی اور معاشی اتھل پتھل کا شکار تھا، قابض انگریزوں کے خلاف آزادی کی تحریک زوروں پر تھی، یہی نہیں ادب میں بھی مغرب میں زور پکڑ رہی جدیدیت سے ایک ہلچل تھی۔ فیض، راشد اور میراجی نے اس پر آشوب دور میں ادبی ہوش سنبھالا اور حالانکہ یکساں طور پر اطراف کے انتشار سے اثر قبول کیا لیکن تینوں نے اپنے منفرد، مختلف اور باشعور ردِ عمل سے اردو ادب کو مالامال کیا۔
میراجی کی پیدائش 25؍مئی 1912کو لاہور میں ہوئی۔ ان کے والد محمد مہتاب الدین ریلوے میں اسسٹنٹ انجینیر تھے اور یوں ان کا تبادلہ مختلف مقامات پر ہوتا رہتا تھا۔ والد کے تبادلوں کے باعث میراجی بچپن میں ہی گجرات کاٹھیاواڑ سے لیکر بوستان، بلوچستان تک سکھر، جیکب آباد، ڈھابے جی جیسے مقامات گھوم لیے۔ محمد مہتاب الدین کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا تو انہوں نے میراجی کی والدہ سے شادی کر لی جو ان سے عمر میں کافی چھوٹی تھیں۔ 1932 میں میراجی نے لاہور میں اپنے اسکول میں ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور اس پر دل و جان سے مر مٹے۔ یہ میراجی کی طرف سے سراسر یک طرفہ عشق تھا جس سے میرا سین ساری زندگی لاتعلق رہی۔ اس عشق کے نتیجے میں میراجی میٹرک تک کی تعلیم بھی مکمل نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنا نام بدل کر میراجی رکھ لیا، بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا اور اس میں بتدریج ترقی کرتے گئے۔
میراجی مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ کی ادارت سے چند برسوں تک منسلک رہے۔ میراجی کی شمولیت سے جدید ادبی رویوں کو فروغ ملا۔ میراجی نے لاہور میں ہی چار سال پہلے قائم ہوئے ’حلقۂ اربابِ ذوق‘ میں 1940میں شامل ہوئے۔ میراجی کے آنے سے حلقے کی سرگرمیوں میں گویا ایک نئی جان پڑ گئی۔ 1942میں میراجی ’ادبی دنیا‘ چھوڑ کر دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو سے وابسطہ ہو گئے۔ وہیں انہوں نے ایک مدت تک ’ساقی‘ (دہلی) کے لیے ادبی کالم نگاری بھی کی۔ 1947میں وہ بمبئی چلے آئے اور ’خیال‘ کی ادارت کی۔ لیکن میراجی اپنے مخصوص مزاج کے باعث کہیں بھی ٹک نہیں پائے۔ کثرتِ شراب نوشی، آتشک اور استمنا بالید کے نتیجے میں میرا جی3 نومبر1949 کو بمبئی کے ایک ہسپتال میں ساڑھے 37 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
—–
میراجی جب ادب میں داخل ہوئے وہ زمانہ اقبالؔ (1878-1928) کے عروج کا دور تھا۔ اقبال بے شک ایک عظیم شاعر تھے اور جس طرح انہوں نے اردو ادب و معاشرے کو متاثر کیا دوسرا کوئی نہ کر سکا۔ علامّہ اردو شاعری کی سب سے بلند اور پر وقار آواز تھے۔ اقبال کے فلسفے، طرزِ فکر اوراسلامی وژن کے بارے میں کافی کچھ لکھا جا چکا ہے جس کی تبلیغ انہوں نے اپنے کلام اور خطبات سے کی۔ اقبال روایت شکن نہ تھے بلکہ نئی صداقتوں کو روایتی اصولوں کی توسیع سے سمجھتے اور سمجھاتے تھے۔ وہ اس خیال کے حامی تھے کہ ہمیں روایت کی روشنی میں اپنے عقیدے کی قوت سے نئے چیلینجوں کا سامنا کرنا ہے۔
اپنی تمام تر عظمت کے باوجود نہ تو اقبالؔ کے افکار و خیالات اور نہ ہی ان کا اسلوب و نظریۂ فن نئی نسل کے تخلیق کاروں کے لیے مشعلِ راہ بن سکا۔ کیوں کہ فیض، راشد اور میراجی نئی نظم کے لیے الگ سنگِ بنیاد رکھ رہے تھے۔ اقبالؔ کی وفات سے دوسال قبل 1936میں ترقی پسند مصنفین کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی۔ ترقی پسند مصنفین نے یہ بات واضح کر دی کہ قلم کاروں کو سماجی نا انصافی اور نامساوات کے خلاف اپنا ایجنڈا بنانا ہے تاکہ فرقہ پرستی، نسلی عصبیت، بدعنوانی، جنسی غلامی وغیرہ کا سدباب کیا جا سکے۔
ان تین عہد ساز نظم نگاروں میں سے فیضؔ ترقی پسند تحریک سے منسلک اور اس کے علم بردار تھے۔ فیضؔ نے سماجی مسائل اور ان کے حل کو بیان کرنے کے لیے روایتی غزل کے حسن و عشق، ہجر و وصال، رسن و دار جیسی تشبیہات کو ہی استعمال کیا۔ انہوں نے فارسی آمیز، رواں دواں اور مترنم اردو زبان کو اپنے شعری اظہار کا وسیلہ بنایا۔ چونکہ فیضؔ کی شعری کائنات ان ہی الفاظ اور علامتوں پر قائم ہوئی تھی جو اردو ادبی سائیکی کا حصّہ تھی اس لیے قاری و سامع پر فوری طور پر اثر پذیر ہوتی تھی اور یہی فیضؔ کی ہر دلعزیزی کا راز بھی ہے۔ ن م راشد نے بھی فارسی آمیز اردو زبان کو ہی برتالیکن ان کی شناخت ایک جدید حسیات سے معمور، اپنے مستقبل کے بارے میں خوف زدہ و مشکوک و فکرمند شاعر کی حیثیت سے ہوئی جو اپنی تہذیب و تمدّن کے زوال پر کرب میں مبتلا نظر آتا ہے۔ فیضؔ ( جنہوں نے پابند نظم کی ہیئت کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا) کے خلاف راشد نے آزاد نظم کی ہیئت کو اپنایا اور اسے وسعت دی۔ تاثر اور ترنم کے لیے راشد نے مصرعوں کی تکرار کا استعمال کیا۔
ان کے بر خلاف میراجی نے اپنے لیے سب سے مشکل راہ کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اپنے دور میں لکھی جا رہی فارسی آمیز اردو کی بجائے خسروؔ و کبیرؔ کی سبک ہندی زبان کی بازیافت کی۔ اسے اپنے وجود کا حصہ بنایا۔ اپنی زبردست تخلیقی قوت اور بے پناہ زرخیز ذہن سے اس میں وسعت پیدا کر کے جدید نظم کے مزاج سے ہم آہنگ کیا۔ میراجی کے وسیع مطالعے اور تجربہ پسندی نے مغرب کی مقبول صنف آزاد نظم کو اردو شاعری کے مزاج کے مطابق ڈھال دیا۔ انہوں نے اپنی نظموں کی فضا سازی کے لیے اردو غزلیہ شاعری کی فارسی روایت کی بجائے ہندو دیو مالا اور اساطیرسے مدد لی۔ ن م راشد نے میراجی کے متعلق یوں ہی نہیں لکھا تھا کہ وہ ہم لوگوں میں سب سے زیادہ زرخیز ذہن کے مالک تھے۔
—–
میراجی کی نظموں کو پڑھتے ہوئے دھرتی سے ان کے گہرے لگاؤ کی طرف ذہن بے اختیار کھنچتا ہے۔ گو حالیؔ اور ان کے معاصرین کی مساعی سے مظاہرِ فطرت میں دلچسپی لینے کا رجحان ابھرتا ہے۔ پہاڑوں، جنگلوں، میدانوں اور مرغزاروں کی دلکشی و خوبصورتی اور موسموں کے بعض مظاہر مثلاً برسات، گرمی وغیرہ کو موضوع بنایا تو گیا لیکن ارضِ وطن سے اس کی وابستگی بڑی حد تک سطحی رہی۔ مناظرِ فطرت کو منظوم کرنے کی تحریک اردو نظم میں بڑی حد تک مغربی شاعری کے بعض رجحانات کی تقلید میں پیدا ہوئی۔ اسی لیے اس میں کافی حد تک گہرائی و گیرائی کا فقدان پایا جاتا تھا۔ لیکن میراجی کے یہاں معاملہ بالکل جداگانہ تھا۔ میراجی نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم، عقائد اور مظاہر سے وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ ہی مغرب کے زیرِ اثر انہیں بطور فیشن اپنایا۔ بلکہ میراجی نے مظاہرِ فطرت میں ڈوب کر انہیں اپنی نظموں کا پسِ منظر بنایا۔ میرا جی کے یہاں یہ رجحان بے حد قوی نظر آتا ہے۔ دھرتی سے لگاؤ کا جو والہانہ پن ان کے یہاں ہے وہ ان کے معاصرین کے یہاں نظر نہیں آتا۔ مثلاً یہ چند نمونے دیکھیں :
رات اندھیری، بن ہے سونا، کوئی نہیں ہے ساتھ
پَون جھکولے پیڑ ہلائیں، تھر تھر کانپیں پات
دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے، سینے پر ہے ہاتھ
رہ رہ کر سوچوں یوں کیسے پوری ہو گی رات
(نارسائی)
دھرتی پر پربت کے دھبّے، دھرتی پر دریا کے جال
گہری جھیلیں، چھوٹے ٹیلے، ندی نالے، باولی، تال
کالے ڈرانے والے جنگل، صاف چمکتے سے میدان
لیکن من کا بالک اُلٹا، ہٹ کرتا جائے ہر آن
انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چندرمان!
(کٹھور)
سیمابی اور عنّابی چیتے ہیں اندھیری راتوں کے
جیسے منتر ہوں جنگل کے جادوگر کی باتوں کے
یا ساون میں کالی گھٹاؤں کی تیکھی برساتوں کے
دل پر چھانے والے نغمے، بے ہوشی لانے والے !
(برہا)
میراجی جس دور میں یہ نظمیں لکھ رہے تھے اس دور میں اردو کا قاری و سامع کے ذہنوں میں فارسی آمیز اردو غزلیہ شعری کائنات رچی بسی تھی۔ اسی لیے میراجی کے علامتی نظام اور ہندی کی آمیزش نے انہیں عام پڑھنے والے سے دور رکھا۔ لیکن کسے خبر تھی کہ آنے والی نسلوں میں یہی فارسی تراکیب سے گریز اور عام فہم زبان والا شعری اسلوب ہر دلعزیز بنے گا جسے میراجی نے اپنایا تھا، یوں میرا جی نئے تخلیق کاروں کے آج بھی ہم سفر ہیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ میراجی پچھلی نسلوں سے زیادہ نئی نسل کے تخلیقی سفر میں ہم رکاب ہیں۔ یہ کم بڑی بات نہیں کہ میراجی نے اردو نظم نگاری میں ایک ایسی راہ کو ہموار کیا جس پر آنے والی نسلیں اپنا تخلیقی سفر طے کر سکیں۔
—–
میراجی کے ہم عصر ان کے لیے کیسے کیسے جذبات و خیالات رکھتے تھے یہ اس مضمون کی ابتدا میں تحریر کیے گئے جملوں سے ظاہر ہے۔ اوائل عمری میں ہی عشق میں ناکامی ہاتھ آئی۔ اس کے بعد میراجی نے تنہائی اور خود اذیتی کو اپنا شعار بنا لیا۔ انہوں نے تمام زندگی مفلوک الحالی میں بسر کی۔ دکھ، درد، رنج، ناکامی، تنہائی جس شخص کے رفقاء ہوں اس کی ذہنی حالت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن میراجی کی نظموں کو پڑھتے ہوئے ایک ایسے شخص سے ہمارا تعارف ہوتا ہے جو جینے کی امنگوں سے معمور نظر آتا ہے۔ وہ زندگی کی تمام لطافتوں، رنگینیوں اور بوقلمونیوں سے لطف اندوز بھی ہونا چاہتا ہے اور ان کی تہہ میں اتر کر اسرارِ زیست بھی تلاش کرنا چاہتا ہے۔ وہ اپنے حال کے شکست و ریخت سے بھلے مایوس سہی لیکن مستقبل سے نا امید نہیں ہے۔ ان کی نظموں کو پڑھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی حالات کا مارا شخص ہے جس پر عرصۂ حیات تنگ ہو گیا تھا۔ بظاہر میراجی جیسے بھی نظر آتے تھے، لیکن بباطن زندگی کے حقائق اور اس کے اسرارو رموز کا انہیں گہرا عرفان حاصل تھا اور یہی ان کے شعری کائنات میں کہکشاں کی طرح جگمگاتا نظر آتا ہے۔
میراجی کی خود اذیتی کے سلسلے میں ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے تحقیقی مقالے میں جو تجزیہ پیش کیا ہے اسے یہاں نقل کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ ڈاکٹر رشید امجد کا یہ مقالہ ’’میراجی، شخصیت اور فن‘‘ جس پر انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی، اسے مدیرِ’جدید ادب‘ (جرمنی) حیدر قریشی نے اپنے مضمون میں نقل کیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد کا تجزیہ کچھ یوں ہے :
’’میراجی خود کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ان کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ ملامتی خود کو برا بھلا کہہ کر ایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔ میراجی کے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھکتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی کیفیت پیدا کر دی تھی لیکن مکمل طور پر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔ بہت سے اثرات مل کر جو کچھ بنا، وہ خالصتاً ’میراجیت ‘ تھی․․․․․․ یہ ان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثناء اللٰد ڈار کی حیثیت سے نہیں بلکہ میراجی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔ انہوں کی اپنی شخصیت کی یہ MYTH ممکنہ رنج و غم سہہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل ڈرامہ نہیں کر سکتا۔ یہ تو ایک شخصیت کی MYTH کی تعمیر تھی جس کے لیے انہوں نے ثناء اللٰد ڈار کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی اختیار کی۔ زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میراجی کو زندہ کر گئے۔ یہی ان کا مقصد بھی تھا اور یہی ان کا ثمر بھی ہے۔ ‘‘
میراجی نے اپنی مختصر سی زندگی میں وہ کارنامے انجام دیے کہ جدید نظم اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکی۔ انہوں نے اردو شاعری بالخصوص نظم نگاری کو ایک نئی راہ سے متعارف کرایا۔ انہوں نے ایک جداگانہ اسلوب، نئے لفظیات، تشبیہات و استعارات سے ایک گرانقدر اضافہ کیا۔ وہی میرا جی جو میرا سین کے عشق میں میٹرک بھی نہ پاس کر سکے ان کے مطالعے کا یہ عالم تھا مغربی شاعری و تحریکات پر ان کی گہری نظر تھی۔ مغربی رجحانات کو انہوں نے من و عن نہیں بیان کیا بلکہ اسے اردو شاعری کے مزاج سے ہم آہنگ کر کے نئی نظم کا خمیر تیار کیا۔ عصرِ حاضر کے منظر نامے سے بھی وہ مکمل طور پر واقف تھے۔ ان کی ظاہری وضع قطع سے لوگوں نے انہیں سماجی حیثیت سے ایک غیر ذمہ دار شخص تصور کیا لیکن انہوں نے جو فکر انگیز مضامین تحریر کیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ سماجی، سیاسی و ادبی حیثیت سے انہوں نے جس شعور اور ذمہ داری کا ثبوت دیا اس کی مثال ان کے دور میں کم ہی ملتی ہے۔ ان کا یہی شعور اور ان کی یہی بصیرت جابجا ان کی نظموں میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اپنے دور کی مختلف جہتوں، تہہ در تہہ مسائل کی پیچیدگیوں کو جس طرح میراجی نے اپنی نظموں میں خوش اسلوبی سے نظم کیا ہے وہ ان کا اپنا حصہ ہے۔ ایک مختصر سی نظم ’بلندیاں ‘ دیکھیے :
دیکھ انسانوں کی طاقت کا ظہور
اک سکونِ آہنیں ہمدم ہے میرا، اور میں
روزنِ دیوار سے
دیکھتا ہوں کوچہ و بازار میں،
آ رہے ہیں، جا رہے ہیں لوگ ہر سو۔۔ گرم رَو
اور آہن کی سواری کے نمائندے بھی ہیں
تیز آنکھوں، نرم قدموں کو لیے ؍ محو گہرے نشّۂ رفتار میں
اور یہ اونچا مکان
جس پہ استادہ ہوں میں
جذبۂ تعمیر کا اظہار ہے
سرخرو، دل میں اولوالعزمی لیے
رات کی تاریکیاں ہر شئے پہ ہیں چھائی ہوئی
لیکن ان تاریکیوں میں ہیں درخشاں چشمہائے دیو تہذیبِ جدید۔
اس نظم میں میراجی اپنے چاروں طرف آ رہی تبدیلیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں اور خود کو روایت کے اونچے مکان پر استادہ کہہ کر روایت سے اپنی گہری وابستگی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ میراجی آنے والی تبدیلیوں کے تئیں پر امید بھی نظر آتے ہیں۔
میراجی کی نظموں کا منظرنامہ بے حد وسیع ہے۔ اس میں داخلیت پسندی کا گزر نہیں۔ ان کی نظموں کی گہرائی اور تہہ داری کو ڈوب کر سمجھنے کی کوشش کم کم ہوئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے عصر کو میراجی نے اپنی نظر سے دیکھا اور اسی طرح اس کی افہام و تفہیم اپنی تخلیقات میں کی۔
—–
میراجی کی نظموں کا ایک پہلو اس کا جنسی عنصرہے۔ جنس میراجی کی نظموں میں زندگی کے مختلف رنگوں اور جذبوں کی طرح ہی آیا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے یہاں سارا معاملہ ہی جنسی ہو جیسا کہ سمجھ لیا گیا۔ میراجی کو SEXUALLY PERVERT کہا گیا اور یوں ان کی نظموں کے بیشتر حصے کو جنسی بیمار ذہنیت کی اپج بتایا گیا۔ یہ میراجی کے ساتھ ہوئی انگنت زیادتیوں میں سے ایک زیادتی تھی۔ یہ پہلو خود میراجی کے لفظوں میں :
’’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محض جنسی پہلو ہی میری توجہ کا واحد مرکز ہے لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی سب سے بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں۔ اور جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے۔ اس لیے ردّ عمل کے طور پر دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو میرا آدرش ہے۔ ‘‘
اب اس کے بعد میرا جی پر جنس زدہ ہونے کے بے جا الزامات کے بارے میں کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا۔
میراجی کے گیتوں اور غزلوں میں ان کا وہی اسلوب اور لفظیات دیکھنے کو ملتی ہے جو ان کی نظموں میں موجود ہے۔ یہاں بھی برہا کی تڑپ، ملن کا سوز و گداز، آرزوؤں اور آشاؤں کا بے انت جہان دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے گیتوں میں لوک گیتوں سا پھیلاؤ اور مٹی سے جڑے ہونے کا بھاؤ ملتا ہے۔ میرا جی نے غزلیں کم کہی لیکن جتنی کہی اعلیٰ پائے کی کہی۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کی طرح مشہور ہیں۔
میراجی جدید نظم کا وہ باب ہیں جسے پڑھے بغیر نیا لکھنے والا اپنے شعری سفر پر زیادہ دور نہیں جا سکتا۔ میرا جی آج بھی لکھنے والوں کے تخلیقی و ذہنی سفر میں ہم سفر ہیں۔ انہوں نے تقریباً تنِ تنہا نئی نظم کو جو ہمہ گیری اور وسعت عطا کی اس کے لیے اردو نظم نگاری ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
٭٭٭
میرا جی کی نظموں کی چیستانی صورتِ حال
قاسم یعقوب
’’لوگ مجھ سے میرا جی کو نکالنا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔
یہ نکل گیا تو میں کیسے لکھوں گا، یہ کمپلیکس ہی تو میری تحریریں ہیں۔ ‘‘۱
میرا جی کی نظمیں تین طرح کے متون میں بٹی ہوئی ہیں۔ ایک نظموں کا اپنا وجود، دوسرا ثنا اللہ ڈار اور تیسرا میراجی کا بے ترتیب کردار۔ میرا جی کو پڑھتے ہوئے کبھی نظمیں خود کو پڑھواتی ہیں، کبھی ثنا اللہ ڈار کو اور کبھی میرا جی اپنے گولے لیے آ دھمکتے ہیں۔ میرا جی کو پڑھتے ہوئے میرا جی کی نظمیں خود کو پڑھوانے کے لیے میرا جی کے جوشِ جذبات، مریضانہ حسیت، اعصابی تشنج، دیوانہ پن اور ادھوری جنسیت کا سہارا لیتی ہیں۔ میرا جی کے ساتھ(یا اُردو نظم کے اِس اہم موڑ کے ساتھ) یہ بہت بڑی زیادتی ہوئی ہے کہ ان نظموں کو ہمیشہ میرا جی کے حقارت آمیز، قابلِ رحم اوراساطیری کردار کے آئینے میں پڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس نے میراجی کی نظموں کی تفہیم نہیں ہونے دی اور جب بھی اس تنقیدی متن میں کسی نئے اضافے کی خبر ملنے لگتی ہے تو میراجی کے گولے چھن چھن بجنے لگتے ہیں اور ان نظموں کی چیستانی صورتِ حال پر گفتگو موقوف کر دی جاتی رہی ہے۔
بیسویں صدی کے اس شاعر کی نظموں کی فکری اُپج صرف دو طرح کے موضوعات میں بٹی ہوئی ہے :
۱۔ فرد اور سماج کا رشتہ
۲۔ ذات کی نفسیاتی اُلجھنوں کا اظہار
میرا جی نے فکری سطح پر فرد اور سماج کے رشتوں کو نہ سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اس طرح کی فکر نے اُن کے شعری وژن کو متاثرکیا۔ وہ ساری عمر ذات کی کج رویوں کے فلسفۂ تشریح و ابلاغ میں مصروفِ عمل رہے۔ فرد اور سماج کے رشتے سے منسلک اُن کی صرف دو چار نظمیں ہی میسر ہیں۔
میرا جی کو پڑھتے ہوئے شدید قسم کے فنی ابہام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میراجی کی نظموں کے موضوعات کیا ہیں ؟اور موضوعات کی فکری اور فنی دروبست کا مقام کیا ہے ؟یہ دو الگ الگ سوال تھے۔ مگر ناقدین نے ان سوالوں کو ہمیشہ میرا جی کے کردار کے آئینے میں رکھ کے ایک ہی نظر سے دونوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے جس سے اس چیستانی صورتِ حال کا حل نظر نہیں آ رہا۔
میراجی کا کردار اور اُن کی نظموں میں اُن کا کردار ……یہ بھی دو الگ الگ موضوعات تھے۔ میراجی کی نظموں میں اُن کے شخصی کردار کو تلاش کرتے ہوئے اِن دونوں کرداروں کو ملا دیا گیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ دونوں کردار میراجی کی شخصیت کا حصہ تھے ؟اگر اُن کی شخصیت ہی اس طرح کی تھی تو لاشعور کی اندھی رات تخلیق اور تشکیل، دونوں کی تمیز مٹا دیتی ہے۔ مگر میراجی کے ہاں یہ کردار ’’شعوری‘‘ کردار کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اس مضمون کا ’آغازیہ‘ ہی اصل میں میراجی کے متن کی فکری ردِّ تشکیل کرتا ہے۔ میراجی جتنا نفسیاتی اُلجھنوں کا شکار تھے وہ اُسی قدر ہیجانی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا ’’شعوری‘‘ ادراک بھی رکھتے تھے۔ یوں اگر دیکھا جائے تو اُن کی نظموں کا ٹیکسٹ نفسیاتی کم اور فنی مطالعے کا تقاضا زیادہ کرتا ہے۔ یہاں شاعر غیر شعوری قوتوں کے ہاتھوں مجبورِ محض نہیں بلکہ شعوری مدرکات سے اپنے کردار اور فن کواساطیری معنیات سے آراستہ کرنا چاہتا ہے یا اُس کی تسکین ہوتی ہے۔ میراجی کے کردار کی ہیجانیت اور بے ترتیبی سماج کا ردِ عمل نہیں بلکہ سماج میں حصہ داری کا تقاضا بھی لیے ہوئے ہے۔ چند ایک جگہوں پر وہ اس روپ میں موجود ہیں :
’’بمبئی کے قیام کے دوران انھوں نے بھنگ بھی پینا شروع کر دی۔ اپنی ہیئت کذائی سے وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح نمایاں ہوں۔ لاہور میں جب محلے کے بچے انھیں دیکھ کر ’’بڈھی میم‘‘ کا نعرہ لگاتے تو میراجی رُک کر اپنے بال مٹھی میں پکڑ کر انھیں دکھاتے تاکہ اُن کا نوٹس لیا جائے۔ ‘‘۲
’’ثنا اللہ ڈار لاہور کے ایک طالب علم تھے جو میٹرک کے امتحان میں کامیابی کے بعد بعض وجوہ کی بنا پر مزید تعلیم کے لیے کالج داخل نہ ہوسکے۔ اتفاق سے ان کے دوستوں میں سے ایک صاحب ایسے بھی تھے جنھیں ثنا اللہ خاں افسانہ نگار بنانے کی بڑی آرزو رکھتے تھے۔ انھیں ادبی مشورے دینے کے لیے کبھی کبھی ان کے کالج بھی جا نکلتے۔ ان صاحب کی سیٹ کے برابر ایک بنگالی لڑکی بیٹھا کرتی جس کا نا م میرا سینؔ تھا۔ ثنا اللہ خاں نے اس لڑکی کو نہ جانے کس عالم میں دیکھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اس پر مر مٹے۔ میراؔ کو اس کے اعزا پیار سے میراجی پکارتے تھے۔ ثنا اللہ خاں نے پہلا کام تو یہی کیا کہ اپنا اصل نام ہمیشہ کے لیے ترک کر کے یہی نام اپنے لیے اختیار کر لیا۔ پھر میراؔ کے بال انھیں خاص طور پرپسند تھے۔ جب اس کے بالوں تک ان کی دسترس نہ ہوسکی تو خود اپنے بال بھی میرا ہی کی تقلید میں بڑھا لیے۔ کچھ عرصے میں میراؔ کے گیان دھیان نے انھیں ایسا بے سدھ کیا کہ انھیں نہانے دھونے اور لباس کا بھی ہوش نہ رہا۔ ‘‘۳
’’ایک روز جو گئے تو معلوم ہُوا انھوں نے ایک نرس کی کلائی پرکاٹ لیا ہے۔ میں نے کہا میرا جی:اس خوبصورت نرس کی کلائی پر کاٹ لیا آپ نے۔ بگڑ کر کہنے لگے، پھر اس نے مجھے انڈا کیوں نہیں دیا کھانے کو۔ ‘‘ ۴
ایسے بہت سے واقعات ہیں جو میراجی کی زندگی سے جڑے ہوئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ میرا جی کا سارا کردار شعوری تھا پہلے تو میراجی کی نظموں کو ان کے کردار کے ساتھ نتھی کر کے پڑھا جاتا رہا اور پھر ان کے کردار کو شعوری اور غیر شعوری جانچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ظاہری بات ہے یہ دو الگ الگ جہات رکھتے ہیں۔ اگر یہ سارا عمل غیر شعوری تھا اور میراجی کے کردار کی تخلیق جبلی سطح پر موجود ہے تو پھر ان نظموں کی تعبیر میں اُن عناصر کی کھوج جو نفسیاتی کرب کا باعث ہیں، کسی اور پیمانے سے ماپی جائے گی اور اگر اُن کا کردار شعوری تھا تو پھر میراجی کا سارا فن چیستاں کی شکل میں در آنے سے ایک بڑے فنی مغالطے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو گا۔ اس مضمون میں اقتباسات پر زیادہ بھروسا کیا جا رہا ہے، مقصود یہ ہے کہ اُس تصویر کو بھی ایک نظر دیکھا جا سکے جس پر بہت کم نظر گئی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے میرا جی کی اسی کردارسازی کو پہچانتے ہوئے لکھا تھا:
’’میرا سین سے اُن کے عشق کی ساری داستان میراجی کے اپنے ذہن کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے۔ جیسے میراسینؔ محض اس کا ایک خواب تھا جسے اس نے حقیقت بنا کر پیش کیا اور جب خواب کا زور ٹوٹ گیا تو بھی وہ اسے قائم رکھنے کی برابر کوشش کرتے رہے۔ ‘‘۵
عموماً شعر کا لاشعوری محرک اپنی جولاں گاہ خود بناتا اور تیور سنوارتا، آگے بڑھتا ہُوا ملتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا جی کی لفظی دروبست ایک نئی شعری لغت کو تشکیل دے رہی تھی مگر جذبے کی لوچ اور گداز پن نہایت محدود پھیلاؤ کا شکار رہا۔ وہ ہیجان انگیز کیفیات کو بھی ایک مخصوص فریم میں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پڑھنے والا لفظوں کے گرد تعمیر کیا جانے والا ہالہ توڑنے میں وقت صرف تو کرتا ہے مگر جو امیجری کھلتی ہے اُس کا ہیولا کسی ہیجانی کیفیات کا پیش منظر نہیں بنتا اور صاف لگتا ہے کہ اِن نظموں کا تخلیقی پس منظر بھی کسی ہیجانی اتھل پتھل کا ردِّ عمل نہیں۔ چند ایک نظموں میں دیکھیے، بیانیے کی شدت، موضوع کی ضرورت سے کس قدر کم اور مبہم ہے :
مجھ کو اُلجھن ہے یہ کیوں میں تو نہیں ہوں موجود
رات کی خلوتِ محجوب کے مخمور صنم خانے میں
میری آنکھوں کو نظر آتا ہے روزن کا دھواں
اور دل کہتا ہے یہ دردِ دل سوختہ ہے
ایک گھنگھور سکوں، ایک کڑی تنہائی
میرا اندوختہ ہے
(شام کو راستے میں )
………………
کسی عورت کا پیراہن، کسی خلوت کی خوشبوئیں
کسی اک لفظ بے معنی کی میٹھی میٹھی سرگوشی
یہی چیزیں مرے غم گیں خیالوں پر ہمیشہ چھائی رہتی ہیں
(میں جنسی کھیل کو اک تن آسانی سمجھتا ہوں )
………………
اُلجھنوں سے کیوں ترا نادان دل گھبرا گیا
زندگی میں اُلجھنیں دلچسپیاں لائیں تمام
پیشتر تھا عمر کا پھل سادہ سادہ اور خام
اُلجھنوں سے پختگی کا رنگ اس میں آ گیا
(میرا جی پابند نظمیں )
………………
مجھے گریہ سنائی دے رہا ہے
یہی جی چاہتا ہے پاس جا کر بھی اسے سُن لوں
مگر ڈر ہے جب اس کے پاس پہنچا میں تو گریہ ختم ہو گا
ایک گہری خامشی ہو گی
(انجام)
………………
چلو چلیں
بہن یہ کہہ رہی تھی اب تو آپ بسا ہی لیں
میں سوچتا تھا، کس کا گھر، ہمارا گھر تمھارا گھر
اور اُس پہ بھائی بول اُٹھا، فضول ہے یہ گفتگو فضول ہے
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں
(شراب)
………………
جل پری آئے کہاں سے ؟ وہ اسی بستر پر
میں نے دیکھا، ابھی آسودہ ہوئی، لیٹ گئی
لیکن افسوس کہ میں اب بھی کھڑا ہوں تنہا
ہاتھ آلودہ ہے، نم دار ہے، دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو تو نہیں پونچھے تھے
(لبِ جوئبار)
ان نظموں میں الجھنیں ہیں، پریشانی ہے، نفسانی ہیجانیت ہے مگر نہ جانے کیوں نظم کا بیانیہ Straightہونے کی وجہ سے وہ شدت پیدا نہ ہو سکی جو نظموں کا موضوعاتی تقاضا تھا۔ ’’لبِ جوئبار‘‘ کا موضوع شدید ہیجانی کیفیات کا ردِ عمل ہے مگر نظم میں ایک رومانی فضا کی عکس بندی کی گئی ہے۔ اس نظم میں در آنے والے چند لفظوں پر غور کیا جائے۔ نشستہ بُت، جھاڑیاں سلسلۂ کوہ بنیں، خشک پتوں کا بستر، نغمہ بیدار ہُوا، جل پری روپوش ہوئی، چشمہ کی مانند، اچھوتی سی دلہن کی صورت، تصور کا دولہا، ہر بوند میں آبی پاؤں، بستر پر انجان پری، بنسری ہاتھ میں لے کر میں گوالا بن جاؤں، ہاتھ آلودہ، دھندلی ہے نظر…… وغیرہ۔ اس نظم کا موضوع ان لفظوں کی بالائی سطح کا استعمال کرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ میراجی نے ان نظموں میں جو ہیجانی امیجز بنائے ہیں۔ وہ ملاحظہ ہوں :
آنکھ نے صرف یہ دیکھا کہ نشستہ بُت ہے
(ایک انجان لڑکی پیشاب کرنے کے لیے بیٹھتی ہے )
خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا
(پیشاب کا پتوں پر گرنا)
نہاں خانے سے ……جیسے بے ساختہ انداز میں بجلی چمکے
(پیشاب کا اندامِ نہانی سے خارج ہوتے وقت چمکنا)
جل پری دیکھتے ہی دیکھتے روپوش ہوئی
(لڑکی کا حاجت سے فارغ ہو کر چلے جانا)
منظر انجان، اچھوتی سی دلہن کی صورت
(لڑکی کا ہیجانی تصور جاگ اُٹھتا ہے )
زندگی گرم تھی ہر بوند میں آبی پاؤں ……خشک پتوں پہ پھسلتے ہوئے جا پہنچے تھے
(دوبارہ لڑکی کے پیشاب والے منظر کو یاد کیا جا رہا ہے )
میں نے دیکھا، ابھی آسودہ ہوئی، لیٹ گئی
(لڑکی کا تصور شاعر کے تصورات میں ہیجانیت پکڑتا ہے )
ہاتھ آلودہ ہے، نم دار ہے، دھندلی ہے ……ہاتھ سے آنکھ کے آنسو نہیں پونچھے تھے
(تصور استمنا بالید کے ذریعے شاعر کو تسکین پہنچا رہا ہے )
ان امیجز اور ذخیرۂ الفاظ کی موجودگی میں نظم اپنی شدت کی تلخی بیان کرنے کی بجائے ایک مدھم اور رومانی فضا کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ ایسا نہیں کہ شاعر ان کیفیات سے گزرا نہیں۔ معاملہ یوں ہے کہ شاعر پر یہ واردات اُتری ہے مگر دو حصوں میں تقسیم ہو کر۔ پہلے حصے میں وہ عملی تجربہ سے گزرتا ہے اور پھر بعد میں ان کیفیات کی شعوری سطح پرPoetification کر رہا ہے۔ یوں یہ نظم بنتی ہے اُترتی نہیں۔ میراجی کی اس نظم میں موضوع اپنے شعری شدت سے دور کھڑا ہے۔ شعری پیکر کے وجود میں جو منظر پیش کیا جا رہا ہے وہ تجرباتی سطح پر ویسا نہیں تھا۔ اپنی معروضی حالت میں بھی اور اپنی کیفیتی حالت میں بھی……
میرا جی کے ایک ہم عصر’ مجید امجد‘ اپنی زندگی کی جس محرومی کا داخلی تجربہ کر رہے تھے وہ نیچرل اور غیر شعوری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجید امجد کے ہاں زندگی اپنی فلسفیانہ جذباتیت میں ڈوبی ہوئی گہرے اور بڑے شعری تجربے کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ مجید امجد کی کسمپرسی کا مجید امجد کو شعوری ادراک نہیں تھا مگر میراجی اپنی زندگی کی اس حالت کا ناقدانہ جائزہ لیتے رہتے تھے۔ انھیں پورا ادراک تھا کہ وہ کس قسم کا افسانہ ترتیب دے رہے ہیں۔ چند ایک اقتباسات دیکھیے :
’’میں دنوں، مہینوں بلکہ بعض دفعہ ایک ایک ڈیڑھ ڈیڑھ سال تک نہیں نہایا کرتا، دنیا کو یہ بات بُری معلوم ہوتی ہے اور میں اسے سمجھتا ہوں، میرے کپڑے اکثر میلے دکھائی دیتے ہیں، دنیا بُرا مانتی ہے، میں جانتا ہوں، بعض دفعہ خالی پیٹ زیادہ شراب پینے سے صبح مجھے اپنابستر خود گیلا محسوس ہوتا ہے۔ ‘‘۶
’’میں دلی چھوڑ کے بمبئی کے گرد و نواح میں ہوں۔ پہلے دفتر کی میزوں پر سوتا تھا۔ اب فرش پر براجمان ہوتا ہوں ……خود کو کبھی معمولی اور کبھی پہنچا ہُوا بڑا فقیر تصور کرتا ہوں اور دنیا مجھے بھکاری سمجھتی ہے۔ سچ ہے سماج کے فرائض جس طرح دنیا انھیں سمجھتی ہے میں جس طرح انھیں سمجھتا ہوں پورے نہیں کیے۔ لیکن میں نے اپنی جسمانی زندگی سے زیادہ جس قدر ذہنی زندگی بسر کی ہے اس کا لحاظ کسے ہو گا!!‘‘۷
یہ تو صرف عبداللطیف کے نام کے خطوں کے اقتباسات تھے۔ میراجی کا یہ وجدانی شعور تھا محض سماجی حالات سے آگہی نہیں۔ وہ اپنے حالات کے خود تخلیق کردہ تھے اور اس لاچارگی پر بے بسی کی اذیت میں کڑھنے کی بجائے وہ اسے اپنا اثاثہ قرار دیتے رہے۔ اپنے خطوط میں وہ اپنے شعری ابہام اور موضوعاتی پیچیدگی کا ہرگز شکار نہیں نظر آتے۔ بلکہ اُن کے ہاں کسی قسم کی نفسیاتی یا جنسی کشمکش نہیں ہے۔ اپنی نظموں کی اشاعت کے حوالے سے وہ بہت شاکی تھے۔ قیوم نظر کو ایک خط میں لکھتے ہیں :
’’۱۔ ہر مجموعے کو صرف ایک ایڈیشن کے لیے بیچنے کی کوشش کرو اور زیادہ سے زیادہ وصولی کی کوشش کرو۔
۲۔ اگر کافی سے زیادہ پیسے نظر آتے ہوں تو اس صورت میں کسی ایک مجموعے کے لیے جملہ حقوق دے سکتے ہو۔
۳۔ اُردو بُک سٹال، سنگم اور جالندھر والوں سے اگر بات ہو جائے تو اسے ہم ترجیح دیں گے۔
۴۔ اُردو بُک سٹال اور سنگم سے مختار (صدیقی)نے پہلے کچھ باتیں طے کر رکھی ہیں۔ جن کا تمھیں حال معلوم ہے۔
۵۔ یہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ جس نئے جوئے میں حصہ لینے کے لیے میں اور مختار اس وقت تلے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ان تینوں مجموعوں کو زیادہ سے زیادہ پیسوں پر جلد سے جلد بیچ دیا جائے۔
باقی سب تم خود سمجھ سکتے ہو۔ ‘‘۸
ن م راشد نے جب انھیں ’’کانگریسی گاندھی‘‘ کا لقب دیا تو وہ اس کا اظہار اس ٹائٹل کے حق دار کی طرح کرتے رہے ۹
میراجی اپنی نظموں میں ایسا کیوں نہیں تھے ؟کیا میراجی کی کرداری چیستانی صورتِ حال اُن کی نظموں کی بھی صورتِ حال بنی؟کیا میراجی کی نظموں کے مبہم لسانی پیکر اُن کی شخصیت کا پرتو تھے ؟کیا میراجی کی نظموں میں ہیجانی اور لاشعوری نفسیاتی کیفیات صرف شعوری سطح پر موجود ہیں یا جذباتی سطح پر بھی قاری کو ہیجانیت یا جذباتیت کا شکار کرتی ہیں ؟ میرا جی کا ابہام فنی ابہام ہے یا نفسیاتی؟
یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات کا ازسرِنَو جائزہ لینا ہو گا۔ میراجی کی کرداری اور شعری تصویر کشی جس طرح ہو چکی ہے اُردو دنیا میں ایک ’’متھ‘‘ کی شکل میں ڈھل چکی ہے۔ میرا جی کوئی لاچار یا محروم طبقے سے وابستہ نہیں تھے۔ اپنے دور کے بہترین دماغ اُن کو میسر تھے۔ اُن کی رسائی ریڈیو، اخبارات اور معروف جرائد تک بہت آسان تھی۔ وہ انتہائی زیرک، کثیر مطالعہ اور نظر شناس ادیب تھے۔ وہ خود اپنے بارے میں کہتے ہیں :
سرسری طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ مشرق سے مہارانی میرا بائی، چنڈی داس اور امرو نے مجھ پر اثر کیا اور مغرب سے والٹ وٹمن، ڈی ایچ لارنس، سٹیفن میلارمے اور چارلس بودلیئر نے مفکرین میں سے چارلس ڈارون، سگمنڈ فرائڈ، سر جیمز جینز، آئن سٹائن(جن کے نظریے کو میں نہیں سمجھ سکتا) ہیولاک ایلس اور رابندر ناتھ ٹیگور قابلِ ذکر ہیں۔ اور شعرا کی فہرست یہ ہے :امیر خسرو، سید انشاء اللہ، میر تقی میر، حفیظ جالندھری، عبدالرحمن بجنوری، مولوی عظمت اللہ اور ڈاکٹر محمد دین تاثیر……‘‘۱۰
میرا جی کی نظموں میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ابہام ہے۔ ابہام ہمیشہ دو طرح کا ہوتا ہے۔
۱۔ متن کی معنیاتی حدود کے سکڑاؤ سے
۲۔ متن میں موجود معنیاتی ابعاد کے پھیلنے کی وجہ سے
میراجی کا ابہام متن کی معنیاتی کائنات کے سکڑنے سے پیدا ہوتا ہے۔ عموماً اس طرح کا ابہام ذات کی لاشعوری یا شعوری اُلجھنوں کا، فنی سطح پر، درست اظہار نہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ میراجی ابہام کو خود شعوری طور پر برت رہے تھے۔ مثلاً وہ لکھتے ہیں :
’’اکثریت کی نظمیں الگ ہیں میری نظمیں الگ ہیں اور چوں کہ زندگی کا اصول ہے کہ دنیا کی ہر بات ہر شخص کے لیے نہیں ہوتی اس لیے یوں سمجھئے کہ میری نظمیں بھی صرف انھی لوگوں کے لیے ہیں جو انھیں سمجھنے کے اہل ہوں یا سمجھنا چاہتے ہوں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہوں۔ کوشش ہی سے وقت کی پابندیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘۱۱
ڈاکٹر جمیل جالبی نے اُن کے ابہام کو ایک اور طرح سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
’’میراجی کے ہاں ابہام کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ ان نفسی اُلجھنوں اور ان ذہنی کیفیات کو اپنی گرفت میں لانے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے لاشعور میں سو رہی ہیں۔ ایسی نفسی اُلجھنیں اور کیفیات کو جن کی کوئی شکل اور کوئی نام نہ ہو، لفظوں کے ذریعہ پیش کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں مروّجہ زبان اور اس کے الفاظ معنی بدلنے لگتے ہیں اور نئی تراکیب اور بندشیں، استعارے اور علامات بار بار سامنے آتے ہیں۔ ساتھ ساتھ میراجی تخلیقی سطح پر حقیقت کو خواب بنانے اور دونوں کو ملا کر ایک کر دینے کی کوشش میں خالص شاعری کو جنم دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘۱۲
اگرابہام ایک اضافی تصورِ حیات ہے تو فنی چیستانی صورتِ حال کا معمہ کیا چیز ہے ؟میراجی کی نظموں کو ہمیشہ اسی فریم میں لا کے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مثلاً میراجی کی کئی نظمیں باقاعدہ چیستانی عکس بندی ہے۔ بلکہ دو نظموں کے عنوانات ہی پہیلیوں پر مشتمل ہیں :
چیستاں
پردان دان کی پہیلی
اسی طرز پر اُن کی بہت سی نظمیں مل جاتی ہیں۔ اُلجھن کی کہانی، ایک ہی کہانی، دو نقشے، یہودی، چنچل بیٹی شیطان کی، ناچ وغیرہ باقاعدہ پہیلیوں کی طرز پر بنی گئی نظمیں ہیں جو ایک طرف میراجی کے فنی لاشعور میں شامل گیت کی موجودگی کا پتا دیتی ہیں اور دوسری طرف اُن کے ذہن میں موجود چیسانی صورتِ حال کا بھی نقشہ کھینچتی ہیں۔
میراجی کو سمجھنے کے لیے اُن کی نظموں کو نظم کے دائرے سے نکال کر گیت کے قریب لانا ہو گا۔ نظمِ میراجی کا سارا Texture گیت کی فضا کے قریب ہے۔ وہ گیتوں میں اپنے اہداف کے بہت قریب کھڑے نظر آتے ہیں۔ گیت ہی اصل میں اُن کے فن کا اظہاریہ تھا۔ وہ ہرگز شدت پسند نہیں تھے۔ وہ ہیجانی بھی نہیں تھے۔ ہمارے ناقدین نے انھیں جنسی درندے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اُن کی ’درندگی‘ محدود شعوری اظہار تھا جسے اُن کی مجبور کیفیات نے گھیر کے اُن کے گرد ہالے کی طرح بُن ڈالا تھا۔ میراجی اول تا آخر ایک گیت نگار تھے۔ وہ گیتوں میں واضح اور ٹھوس انسان کی شکل میں ابھرے ہوئے ہیں۔ اُن کے گیتوں میں ہیجانیت نہیں، وجدانیت کا سوز ہے۔ وہ جنسی جذبات کی آمیزش سے روح کا پاتال تیار کر لیتے ہیں جو کسی بڑے شاعر کا وطیرہ ہوتا ہے۔ میراجی کو گیتوں کو نظموں سے الگ کر کے دیکھنے سے وہ خود بھی گمراہ ہوئے۔ اُن کی نظم ساری عمر اُن سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتی رہی مگر وہ گیت سے چمٹے رہے۔ سجادباقر رضوی نے اس فضا کا ہلکا سا اشارہ کیا ہے :
’’میری رائے میں میراجی کی نظمیں ان کے گیتوں سے لگائی ہوئی قلمیں ہیں اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نظموں کی پوری اہمیت کو سمجھنے کے لیے ان کے گیتوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے …………گیت کہنے والے کو عورت بننا پڑتا ہے۔ یعنی یہ کہ اسے عورت بن کر شدید اور معصوم اظہار کرنا پڑتا ہے اور اگر میراجی یعنی ثنا اللہ کامیابی سے عورت کا کردار کر سکیں تو کامیاب گیت لکھتے رہیں گے مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ثنا اللہ، ثنا اللہ ہی رہ جاتے ہیں۔ میرا بائی بن سکتے ہیں اور نہ میرا سین……‘‘۱۳
میرا جی، ن م راشد اور فیض کے پہلے شعری مجموعوں کی اشاعت بالترتیب ۱۹۴۱، ۱۹۴۲ کے بعد اپنا پہلا مجموعہ کلام’’میراجی کے گیت‘‘۱۹۴۳ء میں لاتے ہیں۔ حالاں کہ وہ نظم کی مقبولیت کا بہ خوبی اندازہ کر رہے تھے۔ ۱۹۴۴ء میں اُن کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’میراجی کی نظمیں ‘‘شائع ہوتا ہے۔ جس کے چند ماہ بعد ہی ۱۹۴۴ء میں اُن کے گیتوں کا اور مجموعہ ’’گیت ہی گیت‘‘ شائع ہوتا ہے۔ گویا اُن کی نظموں کے آگے پیچھے گیتوں کی فضا بھی تیار ہے۔ مجھے تو ایسے لگا ہے کہ وہ اپنے شعری سفر میں گیت سے آگے بڑھے ہی نہیں۔ فنی سطح پر بھی اور اُن کا خود شعور بھی……وہ جہاں گیت سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کا فن شدید مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے اور ابہام کے معنیاتی سکڑاؤ کا شکار ہو جاتا ہے جنھیں اُن کی طرح ناقدین اُن کے ہیجانی مسائل سمجھانے کی کوشش میں ایک سربستہ راز بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ ’’اس نظم میں ‘‘ جو ۱۹۴۴ء ہی میں شائع ہوئی، سے پتا چلتا ہے کہ وہ اس ابہام سے بہت اچھی طرح آشنا تھے۔ یہاں سے اشارہ فکر انگیز ہو گا کہ میرا جی کے تراجم ’’نگار خانہ‘‘، ’’مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘، ’’خیمے کے آس پاس‘‘میں بھی میراجی کی ترجمہ نگاری گیت کی فضا سے باہر نہ آسکی۔ بلکہ جن عالمی شعرا کے شعری پیکروں کو اُردو کے قالب میں منتقل کیا ہے۔ اپنے اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے ان کا فکری محور ہندوستانی اساطیر کا جامہ پہنے ہوئے ہے گویا میراجی نے ترجمے میں ان شعرا کے فنی اور فکری مواد کی شناخت کو مسخ کر کے پیش کیا ہے جو ایک فنی مغالطہ کا باعث بنتا ہے۔ میراجی کے تراجم میں چنڈی داس، بودلیئر، والٹ وٹمن، تھامس مور، میلارمے، ڈی ایچ لارنس اور سیفو ایک ہی شاعر کی تحریریں نظر آتے ہیں۔ اُن کی لسانی، فنی اور جغرافیائی شناخت کو میراجی نے گیت کا رنگ عطا کر دیا ہے۔ یہ ترجمہ نگاری ترجمہ کے اصولوں کے خلاف ہے۔
میراجی، ن م راشد، اختر الایمان، مجید امجد وغیرہ کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ میرا جی اپنے فنی سفر کے پہلے پڑاؤ میں تھے اُن کی نظمیں گیت سے علاحدہ نہ ہو سکیں تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ابھیe Transitional phas میں تھیں۔ کیا پتا وہ اس تجربے سے کچھ نیا بنا لیتے۔ وہ تو صرف اڑتیس سال کی عمر میں اپنے سارے فن کو ادھورا چھوڑ گئے۔ راشد کی فکری اور فنی پختگی کا سب سے سنہری دور ’’لا= انسان ‘‘ سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں انھوں نے حسن کوزہ گر، زندگی اک پیرہ زَن، زندگی سے ڈرتے ہو، سالگرہ کی رات، ہم کہ عشاق نہیں، جیسی نظمیں دیں۔
میراجی کی نظموں کے فنی سفر میں ’’میراجی کی نظمیں ‘‘، ’’پابند نظمیں ‘‘ اور’’ تین رنگ‘‘ تین شعری مجموعے ہیں جو اپنے تخلیقی معیارات میں تین موڑ بھی کہے جا سکتے ہیں۔ ان تینوں مجموعوں میں میراجی کا شعری سفر بتدریج نکھرتا ہُوا ملتا ہے۔ شاید وہ اِس سے اگلے سفر پر زندگی اور اپنی ذات کے قضیے کو حل کر کے کسی بڑے تخلیقی سفر کی مسافرت اوڑھ لیتے اور آئندگاں کے لیے بڑا ’’فن‘‘ پیش کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
٭٭
حوالہ جات
۱۔ اختر الایمان:میراجی کے آخری لمحے، نقوش لاہور، شمارہ ۲۸، ۲۷، ۱۹۵۲ء، ص۱۲۳
۲۔ شاہین مفتی، ڈاکٹر:جدید اُردو نظم میں وجودیت، سنگِ میل پبلشرز لاہور، ۲۰۰۱ء، ص۱۸۳
۳۔ محمود نظامی:میرا جی ایک مطالعہ، مشمولہ مضمون ’’میراجی‘‘، سنگِ میل پبلیشرز لاہور ۱۹۹۰، ص۱۱۴
۴۔ اخترالایمان کا رشید امجد کے نام خط، بہ حوالہ (رشید امجد، ڈاکٹر:میرا جی:شخصیت و فن، مغربی پاکستان اُردو اکادمی، لاہور ۱۹۹۵ء ص۷۳)
۵۔ وزیر آغا، ڈاکٹر:نئے مقالات، مشمولہ مضمون ’’میرا جی کا عرفان ذات‘‘، مکتبہ اُردو زبان سرگودھا، ۱۹۷۲ء ص۲۴
۶۔ میرا جی کا عبداللطیف کے نام خط:میراجی :ایک مطالعہ، ص۶۹۸
۷۔ ایضاً، ص۶۹۷
۸۔ ایضاً، ص۷۱۵
۹۔ عبدالطیف کے نام خط، بہ تاریخ ۳۱ مارچ ۱۹۴۶ء، میرا جی۔ ایک مطالعہ، ص۶۹۵
۱۰۔ میرا جی ایک مطالعہ، ص۴۷۶۱۱۔
میرا جی ایک مطالعہ، ص۴۷۶۱۲۔
میراجی۔ ایک مطالعہ، ص۲۹۱ ۱۳۔
میراجی۔ ایک مطالعہ، ص ص ۳۷۸، ۳۷۹
٭٭٭
جنسی آسودگی کا خواہشمند شاعر:میرا جی
مستبشرہ ادیب
اس مضمون کا مقصد میراجی کی شاعری کا تنقیدی اور تحقیقی جائزہ پیش کرنا نہیں ہے۔ اور نا ہی ان کی شاعری میں جنسی اور نفسیاتی الجھنوں کی ترجمان نظموں کا تجزیہ کرنا ہے۔ یہاں صرف جنس کے ایک پہلو یعنی وصال کی خواہش / تکمیل آرزو کے متعلق چند نظموں کے بارے میں تاثرات بیان کئے گئے ہیں، ساتھ ہی یہ کہ میراجی کی قائم کردہ روایت نے کس طرح اردو شاعری میں سلسلہ روایت کی شکل اختیار کی ہے۔ ا س کا مختصراً جائزہ شاعرات کے کلام سے بھی لیا گیا ہے۔
واقعی ایک ایسی شاعری جس کی دنیا میں تخلیقی اظہار کے حدود اخلاقیات کے دائروں میں محدود ہوں۔ جہاں عاشق کا پیشہ محبوب کے حسن کے بیان اور وصال کے تصور پر قائم ہو۔ ہجر اور فراق کے راگ الاپنا اس کا مقدر قرار دیاگیاہو۔ وہاں عورت کے جسم کے حصول کی باتیں کرنا۔ یا اس سے وابستہ مرد کی جنسی خواہش اور نفسیاتی الجھنوں کے زائیدہ کرب کا اظہار روایتی شعر ی طریقہ کار سے سراسر انحراف ہی ہوسکتا ہے۔ جس کو میراجی نے بخوبی انجام دیا۔ حالانکہ اس انحراف کی راہیں ان کے لئے بہت دشوار تھیں۔ پھر بھی یہ میراجی کا اردو شاعری کی دنیا میں جرأت مند قدم تھا۔ جس کی وجہ سے خصوصاً جدید نظم انسانی ذات کی داخلی کیفیت کے مختلف پہلوؤں سے آشنا ہوئی۔ اور اس نے اظہار کے طریقہ کار میں تبدیلی کے ساتھ ہیئت کے تجربوں کا ذائقہ بھی چکھا۔ جس کی وجہ سے میراجی کو نئی نظم کا امام تسلیم کیا گیا۔ حالانکہ میراجی کے علاوہ ان کے معاصرین شعراء میں فیض اور ن۔ م۔ راشد کا نام بھی اماموں کے فہرست میں شامل ہے۔ چونکہ ان شعراء کی راہیں کافی حد تک نئی ہونے کے باوجود روایت سے منسلک تھیں۔ لہٰذا میراجی کے تخلیقی تجربہ کی ندرت اور اظہار کے طریقہ کار کی انفرادیت تسلیم کی گئی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی میراجی کے حوالے سے ن۔ م۔ راشد اور فیض احمد فیض کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’فیض نے یہ کام نہیں کیا راشد نے یہ کام نہیں کیا۔ ان کا تعلق غزل کی روایت سے کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتا ہے۔ اور ماورا کی شاعری میں تو اختر شیرانی کی اردو غزل اردو شاعری کا عکس و اثر بہت نمایاں اور گہرا ہے ‘‘۱
درحقیقت میراجی نے اپنی الگ شناخت قائم کی۔ اور اردو شاعری میں جس انوکھے تجربہ کے ساتھ نظم کی دنیا میں اپنی بساط رکھی۔ اس کی اولیت اور انفرادیت ابھی تک برقرار ہے۔ میراجی کی تخلیقات کا عمیق مطالعہ کرنے والے ناقدین اور ادیب بلا شک و شبہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر جمیل جالبی کا یہ بیان دیکھئے۔
’’میراجی نے جب شاعری کا آغاز کیا تو اس وقت جنس کی بات کرنا مروجہ اخلاقیات کی سطح پر ایک ناپسندیدہ فعل تھا‘‘۲
وہ مزید اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’ میراجی نے بھیڑچال سے ہٹ کر اردو شاعری میں ایک ایسا تجربہ کیاکہ خود اردو شاعری میں موضوع اور ہیئت دونوں اعتبار سے ایک ایسی روایت بن گئی کہ ان کی روایت ہی ان کے زندہ رہنے کے لئے کافی ہے ‘‘۳
کچھ اسی طرح کے الفاظ میں میراجی کی تخلیقی اور فنی صلاحیت اور تجربہ کی ندرت کے متعلق ڈاکٹر رشید امجد بھی رقم طراز ہیں۔
’’میراجی نفسی مشاہدے کے شاعر ہیں۔ انہوں نے پھٹی ہوئی جیبوں والی پتلون پہن کر۔ اور دنیا کو تین لوگوں میں سمیٹ کر، اس سے بچوں کی طرح کھیلتے ہوئے واقعاتی صداقت کو باریک بینی اور خبر و آگہی کے فنکارانہ تجسس کے ساتھTwistکر کے، تحیر انگیزی کے نئے ہنر کارانہ رویہّ سے شاعری کو نئے ذائقہ اور نئے رُخ سے روشناس کیا‘‘۴
بہ الفاظِ دیگر سلیم احمد بھی میراجی کی شاعری کی انفرادیت اور ندرت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ وہ اردو شاعری کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے اس حقیقت پر پہنچے ہیں کہ:
’’یہ شاعری جیسی بھی ہے اور آپ اس کو جو مقام دیں، لیکن ایک ایسی شاعری جس کا مقابلہ ایسے مسائل سے تھا۔ جس سے اردو زبان کی شاعری کو کسی دور میں بھی سابقہ نہیں پڑا، ان مسائل کو ان کی پوری شکل میں نمایاں کرنے کے لئے اس شاعری نے ایک نئی ہیئت اختیار کی، میراجی کی شاعری کی اولیت ان سے نہیں چھین سکتے۔ ۵
میراجی کے تخلیقی تجربہ کی نوعیت اور انفرادیت کے متعلق مذکورہ بیانات گویا اس بات کا اعتراف ہیں کہ میراجی نے تہذیبی اور اخلاقی قدروں کی پاسدار شعری روایت سے نہ صرف انحراف کیا بلکہ تخلیقی طریقہ کار میں موضوعات کی سطح سے لیکر طرز اظہار اور ہیئتی نظام میں بھی کافی کچھ نیا کرنے کی کوشش کی، یہ میراجی کا ہی حوصلہ تھا کہ اردو شاعری پہلی مرتبہ انسان کی فطری جنسی دنیا سے روشناس ہوئی، یعنی کہ جو شاعری ابھی تک خیالوں اور خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اس میں میراجی نے انسان کی ذات کے کچھ ایسے فطری تقاضوں کے متعلق باتیں کرنا شروع کی، جن کو گندہ یا فحش قرار دیا جاتا تھا۔ چاہے میراجی پر یہ مغربی ادب کے عمیق مطالعہ کا اثر ہویا فرائڈ کے تحلیل نفسی کے نظریہ کی دین، بہرحال میراجی کا خصوصاً ابتدائی کلام انسان کی فحش قرار دی گئی قدرتی اور فطری کیفیات کو تہذیب کے پردوں سے باہر لاتاہوامحسوس ہوتا ہے۔ میراجی کی وہ نظمیں پڑھئے اور دیکھئے جن میں انہوں نے خاص طورسے انسان کی جنسی اورنفسیاتی الجھنوں کو مرکزی موضوع کے طور پر برتا ہے، ان نظموں کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میراجی روایتی شاعری کے خلاف نہیں ہیں، بلکہ وہ کچھ نیا تجربہ کرنے کے لئے پر عزم ہیں، یہی وجہ ہے کے اس طرح کی شعری تخلیقات میں میراجی تصور کا جال بنتے ہیں، مگر احساس ہوتا ہے کہ جیسے میراجی تصور یا خواب کا تانا بانا تو صرف شعری کشش کے لئے بنتے ہیں، اس کے علاوہ نظم میں موضوع کی مطابقت سے جو تاثیر پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ فطری معلوم نہیں ہوتی بلکہ یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سب ان کی شعوری کوشش کا نتیجہ ہے یا وہ جان بوجھ کر ایسا کرنے پر آمادہ ہیں، کہ وہ اردو نظم کے سانچے میں لفظوں کے پردوں پرانسان کی نفسیات اور جنسی خواہش کی تکمیل کے کیا کیا مراحل ہیں، دیکھا دینا چاہتے ہیں وہ مستعد ہیں کہ نظم کو جنس کے انوکھے اور غیر مانوس تجربہ کا ذائقہ ضرور چکھائیں گے۔
یہ میراجی کی ہی کاوشیں تھی کہ آج اردو شاعری میں روح، جسم اور جنس کے حوالے عام ہیں، اور ان کی تفہیم کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے، اس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ میراجیؔ اپنی کوششوں میں کامیاب بھی اس حد تک ہوئے کہ ان کا نام بدنام ہو کر زیادہ ہوا، ڈاکٹر رشید امجد شاعری کے حوالے سے میراجی کی حوصلہ مندی اور سماج کے رد عمل کے متعلق لکھتے ہیں۔
’’میراؔ جی نے اخلاقیات کے اس کھوکھلے پن کو جو رومانی شعراء کے توسط سے ان تک آن پہنچا تھا ردکیا، اسی وجہ سے انہیں جنسی زدگی، بیمار ذہنیت اور فراریت، شکست خوردگی، انفرادیت پسندی اور غیرسماجی ذہن کے طعنے برداشت کرنے پڑے ‘‘۶
سماج کے طعنے تشنے برداشت کرنے والے میراجی کی کوششوں سے جدید نظم انوکھے اور نادر تجربات سے ہمکنار ہوئی، نتیجتاً جو نظمیں وجود میں آئیں، ان کے عنوانات اور موضوعات اس طرح سے ہیں۔ نظم ’’جو ئبار‘‘ کامرکزی موضوع استمنا بالید ہے۔ نظم’’ برقعے ‘‘ میں میراجی نے لباس پرستی، نظم کروٹیں، میں جنسی وصال کے دوران شوہر کی میٹھی میٹھی باتوں اور تن آسانی میں جنسی آسودگی کے موضوع کو برتا ہے، جبکہ جنس سے ذراسا مختلف موضوع ’’دن کے روپ میں رات کی کہانی‘‘ کا ہے، دراصل یہ نظم محبت کرنے والے ان عاشقین کے نام ہے جو اپنے لباس کی طرح محبت کو بھی نمائش کی چیز سمجھتے ہیں۔ نظم ’’دھوکا‘‘ کا موضوع مندرجہ بالا نظموں کے مضامین سے اس لئے الگ ہے۔ اس نظم میں شاعر نے عورت کو ایک ایسی علامت کے طور پر برتا ہے، جو بذات خود کنواں ہے، اورجنسی تجربہ کے بعد سمندر میں تبدیل ہو جاتی ہے، علاوہ ازیں ’’ایک تھی عورت‘‘ نظم بھی کچھ اسی طرح کی ہے، حالانکہ نظم ’’چل چلاؤ‘‘ میں شاعر کا موقف ’’محبت، زندگی، ازل اور ابد‘‘ پر منحصر ہے۔
مذکورہ نظموں کے علاوہ میراجی کی ان چند نظموں کا تذکرہ بھی ضروری ہے جن کا بنیادی موضوع جنس اور نفسیات سے متعلق ہے۔ یعنی ’’حرامی‘‘، ’’ عورت ‘‘’’دور کنارا‘‘ ’’ایک نظم‘‘، ’’عدم کا خلاء‘‘، ’’مدھوری بانی‘‘، ’’دور نزدیک‘‘، ’’خود لذتی‘‘، ’’دکھ دل کا دارو‘‘، ’’سرگوشیاں ‘ ‘، ’’سنجوگ‘‘، ’’ اونچا مکان‘‘، ’’سنگ آستاں ‘‘، ’’جنسی عکس خیالوں کا‘‘، ’’میں جنسی کھیل کو صرف تن آسانی سمجھتاہوں ‘‘، ’’ اے ریاکاروں ‘‘، ’’اجنبی انجان عورت رات کی‘‘ پژ مردگی، ’’جسم کے اس پار‘‘، رتجگا’’دوسری عورت سے ‘‘ یہ وہ نظمیں ہیں جن میں میراجی نے جنسی خواہش یانفسیاتی الجھنوں کے دوران ذہنی اور جذباتی کشمکش کو کسی دیگر موضوع سے منسلک نہیں کیا ہے، بلکہ بالواسطہ ان فن پاروں میں تخلیقی تجربہ کا اظہار تہذیبی اقدار کے بر خلاف اس حقیقت کا عکاسی ہے کہ میراجی جنس کو صرف ایک فطری چیز ہی نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک یہ جذبہ اور کیفیت قدرت کی بہت بڑی نعمت ہے، اور جب یہ جذبہ خدا کی دی ہوئی نعمت اور انسانی زندگی کا ضامن ہے، تو گناہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ میراجی ایک جگہ لکھتے ہیں۔
’’بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا محض جنسی پہلو ہی میری توجہ کا واحد مرکز رہا ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے، جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتاہوں، جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے، وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے، اس لئے رد عمل کے طور پر میں دنیا کی ہر بات کو جنس کے تصور کے آئینہ میں دیکھتا ہوں، جو فطرت کے عین مطابق ہے، اور میرا آدرش ہے ‘‘۷
مذکورہ بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ میراجی کا تصور جنس تہذیب و تمدن کی، کھوکھلی، عارضی اور غیر ضروری روایات کے خلاف ضرور ہے، مگر فطرت کے عین مطابق ہے۔ دوسرا یہ کہ میراجی کی شاعری مکمل طور پر جنس کی ترجمان نہیں ہے، اس لئے میراجی کی فنکارانہ اور غیر معمولی شخصیت کے متعلق، تصور قائم کر لینا کہ میراجیؔ صرف جنس کے شاعر ہیں، بالکل غلط ہے، انہوں نے انسان کی زندگی کے دوسرے گوشوں کو بھی اپنے مشاہدے کے آئینہ میں دیکھا ہے اور پھر تخلیقی تجربہ کا حصہ بنایا ہے، یہ ضرور ہے کہ میراجی کا جنس اور نفسیاتی الجھنوں کے متعلق بیشتر کلام ان کے ابتدائی تخلیقی سفرکی میراث ہے، غالباًاسی وجہ سے ابتداء میں تفہیم کی آسانی کے لئے جنس کے متعلق ان کا نظریہ بعض نظموں میں ابہام اور علامتی پیرائے میں نظم نہیں ہوا ہے، بلکہ اس طرح کی نظموں میں ان کا طرز بیان بالکل سادہ اور خطابیہ ہے، یہ مثالیں دیکھئے
۱ انداز نظر کی الجھن کو تم شرم و حیاکو کیوں کہتے ہو
جنسی چاہت کی برکت کو ملعون خدا کیوں کہتے ہو
فعلوں کے نشے میں بہتے ہو جب آشائیں اکساتیں ہیں
اور بن جاتے ہو تنگ نظر لفظوں کی جو بحثیں آتی ہیں
’’اے ریاکارو‘‘
۲ جنسی عکس خیالوں کا
چاند رات میں ڈالوں گا
ان آنکھوں کی جھیلوں میں !
جنسی خلوت جسموں کی
مرد عورت کی قسموں کی
دیکھوں گا دکھلاؤں گا
’’جنسی عکس خیالوں کا‘‘
مگر مذکورہ مثالوں کی تعداد بہت کم ہے، کیونکہ میراجی کی شعری کائنات کی علامتی فضا میں تصور / خواب/ خیال/ اور یاد کا جال پھیلا ہوا ہے میراجی کے ناقدین اور ادیب خصوصاً جمیل جالبی، رشید امجد، وزیر آغا اور سلیم احمد سبھی اس بات سے متفق بھی ہیں کہ میراجی کی شاعری میں جنس کا پہلو محض اکہری شکل میں عیاں نہیں ہوتا، اور اس کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے میراجی تکمیل آرزو کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے، ان کی خواہش اس طرح سے نامکمل رہ جاتی ہے کہ جیسے ابھی آگے کچھ اور ہونا باقی ہے۔ بعض جگہ میراجی تکمیل وصال کے ارادہ کو ہی نظم کے ابتداء سے اختتام تک دہراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاًیہ مثالیں دیکھئے۔
۱ آج رات/ مرادل چاہتا ہے تو بھی میرے پاس ہو/ اور سوئیں ساتھ ساتھ/ ………………/ آبھی جا/
۲ لے گھٹائیں آ رہی ہیں بے نشاں رفتار سے / اور ان کالی گھٹاؤں میں ہے سرمستی خمار/ اور پانی کے تار/ تو بھی آ/ مل کے ہم/ آج رات / گاہی لیں چاہت کا گیت / جسم بھی تیرا مجھے مرغوب ہے / اور تیری پرا ہر ادا اور یہ چہرہ ترا/ محبوب ہے /
’سرگوشیاں ‘
۳ ارادہ ہے کہ لے کر آج ان جذبوں کو میں تاریک غاروں / میں بنوں گا ہم سفر تیرا/ چل آ رنگیں کہانی کو / شروع عشق کی منزل سے لے بھاگیں / وہاں پر مل کے پہنچادیں / جہاں ہے گوہر مقصود پوشیدہ نگاہوں سے / سہانی گرم آہوں میں /
’سنگ آستاں ‘
میراجی کے تخلیقی اظہار کی انفرادیت کی وجہ جنس کی فطری خواہش کا نمایاں ہونا ہی نہیں ہے، بلکہ ان فن پاروں میں قاری کی دلچسپی بڑھنے کی وجہ بنتی ہے، شاعر کی تخلیقی ہنر مندی، اس کے خوابوں اور خیالوں کی دنیا میں حقیقی اور فطری جذبات و کیفیات کو یکجا کر کے منظم شکل دینے کی صلاحیت، مذکورہ مثالوں میں شاعر کی ذہنی کشمکش اور جذبات ایک ایسے ارادہ کی شکل میں نمایاں ہوئے ہیں، جس میں تکمیل آرزو کی خواہش مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ جنسی آسودگی کا خواہشمند شاعر بظاہر بے قابو نہیں ہے، اس کے اظہار میں نہ کسی طرح کی جھنجھلاہٹ ہے، نہ منت وسماجت، بلکہ فاصلہ کا احساس شد ید ہے۔
حالانکہ جن نظموں میں میراجی نے فاصلے / دوری سے پیدا جذبات کی شدت کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، ان میں شاعر اور اس کے مخاطب/ عورت کے درمیان فاصلے میں کسی طرح سے فراق یا ہجر کی کیفیت محسوس نہیں ہوتی، اور گر اس طرح کی نظموں کو کچھ وقفے کے لئے یہ بھول کر مطالعہ کریں کہ یہ میراجی کا نہیں بلکہ کسی اور شاعر کا کلام ہے ’’ تب بھی یہ نظمیں فاصلے کے شدید احساس کے علاوہ ہجر کی تڑپ سے کوسوں دور ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ ان میں ہندی شاعری کے اہم کردار برہن کے الاپ کی کیفیت بہت سادگی سے نمایاں ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ شاید اس طرح کا اثر میراجی کی ہندی شاعری سے کسب فیض کا مظہر ہے، نظم میں راوی اور اس کی مخاطب عورت ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہیں، لیکن ان کے وصال میں فاصلے حائل ہیں، ناسازگار حالات کے تذ کرے کے بغیر میراجی فاصلوں پر سوالیہ کا نشان بھی دونوں طرف سے قائم کرتے ہیں، دونوں اطراف وصال کی شدت خواہش پر افسوس بھی کرتے ہیں،
۱ ایک تو ایک میں دور ہی دور ہیں
آج تک دور ہی دور ہر بات ہوتی رہی
دور ہی دور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں
لہر سے لہر ٹکرائے کیسے کہو؟
اور ساحل سے چھو جائے کیسے کہو ؟
’’دور کنارا‘‘
۲ ترا دل دھڑکتا رہے گا
مر ا دل دھڑکتا رہے گا
مگر دور دور
’’دور نزدیک‘‘
۳ تخیل کا بڑا ساگر تصور کے حسیں جھونکے
لئے آتے ہیں بارش میں تمنائیں عبارت کی
مگر پوری نہیں ہوتی تمنا دل کی چاہت کی
میں جنسی کھیل……
میراجی کی تصور جنس اور نفسیات کی ترجمان نظموں میں شاعر کی مخاطب عورت ہے، عورت کا کردار روایتی شاعری کے محبوب کی طرح نظموں میں اپنی معنویت قائم رکھتا ہے کیونکہ اس کے حوالے سے ہی شاعر اپنی کیفیات کا اظہار کرتا ہے، لیکن خود عورت کی کیفیت یہاں بھی مفقود ہے جبکہ میراجی کی نظموں کی یہ عورت کوئی خیالی محبوب نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی گوشت پوست کی انسان ہے۔ یہ کالے سیاہ بالوں والی، گداز باہوں والی خوبصورت بھی سفید بھی اور کہیں سانولی شکل و صورت کی عورت ہے، علاوہ ازیں میراجی نے اپنی نظموں میں مذکورہ عورت کے کردار کے علاوہ ماں اور بہن کی شکل میں بھی عورت کو نظم کیا ہے لیکن میراجی کے انداز اور زبان میں کہیں بھی عورت کے متعلق بے حرمتی محسوس نہیں ہوتی۔ حالانکہ میراجی کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ وہ جنسی بے راہ روی کے قائل ہیں اس کے باوجود بھی وہ عورت کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اس سے محبت کرتے ہیں تکمیل وصال کے بھی خواہشمند ہیں اور چونکہ وصال دو شخصیت کے مابین ارتباط کی جو شکل قائم کرتا ہے، اس میں دونوں جنس کا باہم اتصال لازم ہے، اس لئے میراجی جب اپنی نظموں میں عورت کی تصویر بناتے ہیں۔ تواس کے ساتھ ان کی جنسی خواہش بھی نمایاں ہوتی ہے۔ مثلاً:
۱ سیاہ بالوں کی تیرگی میں تمہارا ما تھا چمک رہا ہے
تمہاری بالوں کی تیرگی میں نگاہ گم ہے
یہ بند جوڑ ا جو کھل کے بکھر ے تو پھر کرن بھی سنور کے نکھرے
’’جسم کے اس پار‘
۲ سفید بازو
گداز اتنے
زباں تصور میں حظ اٹھائے
’’دکھ دل کا دارو‘‘
۳ تیری یہ پیاری جوانی اک اچھوتی سی کلی / اور صورت سادی سادی سانولی /
اور تیرے بالوں میں چمپا کے پھول/
اور نازک ہاتھ پر لپٹا ہوا گجرا ترا/
اور گلے میں ایک ہار/ آہ تیرے سب سنگار/ کھینچتے ہیں دل کے تار
’’سرگوشیاں ‘‘
۴ میں دھندلی نیند میں لپٹا تھا سو پردوں سے وہ جاگ اٹھی
ہلکے ہلکے بہتی آئی اور چھائی میٹھی خوشبو سی
باریک دپٹہ سر پہ لئے اور آنچل کو قابو میں کئے
چنچل نینوں کو اوٹ دیئے شر میلا گھونگھٹ تھامے تھی
نردوش بدن اک چندر کرن، اٹھتا جوبن بس من موہن
میں کون ہوں، کیا ہوں کیا جانے، اور بس من میں کیا اور بھول گئی
جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا، تب سوچ لگی الجھن سی ہوئی
پھر گونج سی کانوں میں آئی، وہ سندر تھی سپنوں کی پری
’’ اجنبی انجان عورت رات کی‘‘
مذکورہ مثالیں اس اعتبار سے بھی لائق توجہ ہیں کہ ان میں عورت کی حیثیت مرکزی ہے، میراجی اس کی جسمانی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں، اس کے جسم کے حصول کے بھی آرزو مند ہیں، اس کے باوجود کہیں بھی زبان اور طرز اظہار میں فحش گوئی کا احساس نہیں ہونے دیتے، یہاں تک کے وہ جب طوائف کے قریب بھی ہوتے ہیں، مثلاً یہ بند دیکھئے جس میں میراجی نے طوائف کو پیشہ ور کے طور پیش کیا ہے، یہاں بھی دیگر نظموں کی طرح جنسی خواہش کی تکمیل کا ارادہ نظم کا موضوع بنا ہے۔
ایک ہی پل کے لئے پاس آؤ/ لیکن افسوس مجھے عمر کا ہی ساتھ پسند آتا ہے / جانی پہچانی کسی بات سے رغبت ہی نہیں تم کو/ تمہیں ہر راہ میں انجان ملا کرتے ہیں / کیا نگاہوں میں تمہاری آکاش/ کوئی تاریک نہاں خانہ ہے / جس کی تاریکی میں اک پل کے لئے / چاند ستارے بادل/ ایسے آتے ہیں، چلے جاتے ہیں /
’’دوسری عورت سے ‘‘
مذکورہ بند یک طرفہ مکالمے کی شکل میں ہے، شاعر نے لفظوں کی دروبست اور مصرعوں کی ترتیب سے جو فضا قائم کی ہے، اس میں ’’تمہیں ‘‘ لفظ ہی نہیں بلکہ اس سے وابستہ پورے مصرعہ ’’تمہیں ہر راہ میں انجان ملا کرتے ہیں ‘‘ سے یہ مفہوم بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ شاعر اپنے مخاطب سے اس وقت بہت قریب ہے، اور یہ مخاطب ایک طوائف ہے، علاوہ ازیں مخاطب میں طوائف کی زندگی کے علاوہ اس کا نظریہ جنس بھی شاعر نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، نظم کا آخری بند ملاحظہ کیجئے۔
اور یہ پل بھی چلا جائے گا
پیرہن سچ پہ رکھ دو در استادہ سے باہر آؤ
اک گھڑی درد کے تاریک نہاں خانے میں
تم سے مل کر ہی بسر کر لوں گا
میں تمہیں چاند سمجھ لوں گا لچکتا ہوا چاند
اور پھر دل کو یہ سمجھاؤں گا
تو بادل ہے
ایک ہی پل کو برستا بادل
تجھے اک پل میں برستے ہوئے مٹ جانا ہے
’’ دوسری عورت سے ‘‘
صرف نظم کا عنوان ہی نہیں نظم میں برتے گئے استعارے بھی نظم کی تفہیم کو مشکل نہیں بناتے۔ مثلاً چاند میراجی کے یہاں محبت کے استعارے کے طور پر بہ کثرت استعمال ہوا ہے لیکن مذکورہ بند میں طوائف کو صرف چاند ہی نہیں، بلکہ لچکتا ہوا چاند قرار دیا ہے، شاید شاعر کے نزدیک لچک کردار کی ملاحیت اور پیشہ کے اعتبار سے جھکنے کی علامت بھی ہے، جبکہ بند میں دوسرا استعارہ ’’برستا بادل‘‘ ہے، وہ بھی ایسا بادل جس کے برسنے کا مقدر فطری اور دائمی نہیں، بلکہ پل بھر کے لئے برسنا ہے اور پھر مٹ جانا ہے، یعنی کے شاعر کے نزدیک طوائف سے تعلق کی حیات صرف پل بھر کی ہے، وہ اسی پل میں جیتی اور تعلق کے وقفہ کے خاتمے کے بعد مٹ جاتی ہے، گویا کہ وصال کے وقفہ تک ہی تعلق کی حیات ہے، بند کی فضا ڈرامائی ہے۔ لیکن یہاں بھی میراجی کی دیگر نظموں کی طرح روح اور جسم کے سنجوگ کی خواہش ہی تخلیقی تجربہ کا موضوع بنی ہے۔
اسی طرح کی دو نظمیں بعنوان’’طلسم جاوداں ‘‘ اور ’’اتفاقات‘‘ ن۔ م۔ راشد کی بھی ہیں۔ انہوں نے بھی مذکورہ دونوں نظموں میں جنسی خواہش کے تکمیل کے ارادہ کو مرکزی موضوع کے طور پر برتا ہے۔ اور میراجی کی ہی طرح ڈرامائی فضا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً:
رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت اب رہنے دے
آج میں ہوں چند لمحوں کے لئے تیرے قریب
سارے انسانوں سے بڑھ کر خوش نصیب
چند لمحوں کے لئے آزاد ہوں تیرے دل سے اخذ نور و نغمہ کرنے کے لئے زندگی کی لذتوں سے سینہ بھرنے کے لئے رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت اب رہنے دے وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ تو اگر چاہے تو یہ بھی جا وداں ہو جائے گا پھیل کر خود بیکر اں ہو جائے گا مطمئن باتوں سے ہوسکتا ہے کون روح کی سنگیں تاریکی کو دھو سکتا ہے کون؟ دیکھ اس جذبات کے نشے کو دیکھ تیرے سینے میں بھی اک لرزش سی تاری ہو گئی زندگی کی لذتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے مجھ کو اپنی روح کی تکمیل کر لینے بھی دے
’’طلسم جاوداں ‘‘
۲ اتفاقات کو دیکھ/ اس حسیں رات کو دیکھ/ توڑ دے وہم کے جال/ چھوڑ دے اپنے شبستانوں کو جانے کا خیال/ خوف موہوم تری روح پہ کیا طاری ہے / اتنا بے صرفہ نہیں تیرا جمال/ اس جنون خیز حسیں رات کو دیکھ/ آج اس ساعت دزدیدہ و نایاب میں بھی/ تشنگی روح کی آسودہ نہ ہو/ جب ترا جسم جوانی میں ہے نیسان بہار/ رنگ و نکہت کا فشار/
’’اتفاقات‘‘
مذکورہ دونوں مثالوں کی فضا محولہ بالا میراجی کی نظم کی فضا کے مثل ہے، کیونکہ راشد نے بھی میراجی کی طرح مذکورہ نظموں میں صرف جنسی خواہش کی تکمیل کے ارادہ کو موضوع کے طور پر نظم کیا ہے، جبکہ ان کا تخلیقی طریقہ کار میراجی سے مختلف اور منفرد ہے، وہ بیشتر نظموں میں ایک ساتھ کئی موضوعات کو تخلیقی تجربہ کا حصہ بناتے ہیں۔ خصوصاً سماجی اور سیاسی موضوع کو جنس سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ مگر مندرجہ بالا بندوں میں شاعر ایک ساعت دزدیدہ کو جاوداں بنانے کا خواہشمند ہے۔ روح کی تکمیل کرنا چاہتا ہے۔ وہ صرف لمحات جنوں میں اپنے جذبات کے نشہ ساتھ اپنی مخاطب عورت کے جوبن اور کیفیت کو عیاں کرنا نہیں بھولتا، اسے وقت کے مختصر ہونے کا شدید احساس ہے۔
میراجی نے اپنے شعری سفر کے ابتدائی دور کی نظموں کو جنسی حسیّت کی ترجمان نظمیں قرار دیا ہے، اس طرح کی نظموں میں جن کا تعلق صرف اور صرف جنس ہے۔ ان میں میراجی جنسی خواہش کی تکمیل/ روح کے وصال کی خواہش کو نظم کی شکل میں عیاں کرتے ہیں۔ یہ نظمیں چاہے میراجی کے جنسی بے راہ روی یا فطری تعلق بنانے کی خواہش کی ترجمان ہوں یا استمنابالید کی کیفیات کی عکاس، لیکن کہیں بھی یہ نظمیں دو شخصیتوں کے باہم اتصال، تکمیل وصال کے دوران کی کیفیت کو نمایاں نہیں کرتیں۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ میراجی وصال کے خواہشمند ہیں۔ بہ کثرت اس موضوع کے گرد اپنی نظمیں تخلیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن روح کے سنجوگ کی خواہش سے بات آگے نہیں بڑھ پاتی۔ صرف ایک نظم میں میراجی نے تخیل میں وصال کی کہانی سنائی ہے۔
۱ آؤ اپنے باغی وحشی تخیل کی/ دھندلے اندھے نغموں میں / سن لو کہانی راتوں کی/ خلوت میں پھیلی تھی ہلکی ہلکی خوشبو صندل کی/ بوجھل رقصاں جھونکوں میں / بہتی تھی- بہتی جاتی تھی نّدی میٹھی/ باتوں کی/ شرم، جھجھک تھے کھوئے ستارے وسعت کے / سازدل/ میں تا ر ہلے تھے رغبت کے / خاموشی تھی، باتیں تھیں، پھر خاموشی تھی/ پھر باتیں / ننھے ننھے، میٹھے میٹھے لفظوں کی دل کو سہلاتی برساتیں / شیریں رنگ تھا بستر کا/ آہ! اچانک سویا نغمہ اٹھا، بھڑکتا، جھنجھلاتا/ اونچی، تیکھی، دل میں چبھتی، پار ہوئی جاتی تانیں / سازدل کے قابوسے / باہر نکلی جاتی تانیں / وقت مصور تھا/ اک پل میں رنگ ہی بدلا منظر کا/ جیسے سینہ چیرے لاوا/ اونچے ضدی پربت کا/ ( اس کے دل پہ نشہ چھائے حرکت کا/ اور دامن کی وادی کا نقشہ بدلے / میں نے دیکھا کلیا پھول بنی ویسے
’’مدھوری بانی‘‘
یہی میر اجی کے تخلیقی طریقہ کار کا امتیاز ہے کہ وہ نظم میں موضوع کی مناسبت سے جو مناظر تشکیل دیتے ہیں۔ قاری کے لئے وہی مناظر موضوع اور شاعر کے مقصود کی تفہیم میں معاون ہوتے ہیں۔ مذکورہ نظم کا خاصہ بھی یہی ہے کہ نظم کی تنظیم میں مناظر کہیں بھی اپنے غیر موزوں ہونے کا احساس نہیں کراتے۔ بلکہ مناظر کی تبدیلی کیفیت میں لمحہ بہ لمحہ آئی ہوئی تبدیلیوں کی توضیح معلوم ہوتی ہے۔ نظم میں تشبیہی اور علامتی پیکروں کی خوبصورتی لاجواب ہے۔ ابتدائی تین مصرعے کہانی سنانے کی فضا قائم کرنے میں شاعر کے معاون ہیں۔ جبکہ آخری چار مصرعوں میں نظم کے مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لئے جو تشبیہ تراشی ہیں۔ وہ اپنی تازگی کا احساس کراتی ہیں۔ اور موضوع کے عین مطابق بھی معلوم ہوتی ہیں۔
ن۔ م۔ راشد نے بھی صرف ایک نظم بعنوان ’’ہونٹوں کا لمس‘‘ میں دوران وصال کی کیفیت کو قلم بند کیا ہے۔ اس نظم میں موضوع کے اعتبار سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ میراجی کی نظم’’ مدھوری پانی‘‘ کی طرح شاعر نے پورے طریقہ سے تکمیل وصال کے ساتھ جنسی آسودگی کو بھی نمایاں کیا ہے۔
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس/ جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے /
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس/ اور پھر ’’لمس طویل‘‘/ …………………………/
تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس/ جس کے آگے، ہیچ جرعات شراب/
یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانند سراب/ سوز شمع و گردش پروانہ گو یاداستاں /
نغمۂ سیار گاں بے رنگ و آب/ قطرۂ بے مایہ طغیاں شراب!
(ہونٹوں کا لمس)
یہ نئی شاعری کے وہ اہم فن پارے ہیں، جن میں انسان کی فطری کیفیات کے گم نام گوشے روشن ہیں۔ مذکورہ نظم میں راشد نے منظم طریقہ سے ’’ تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس‘‘ اور ’’پھر لمس طویل‘‘ جیسے مصرعوں سے تکمیل وصال کی کیفیات نظم کی ہیں۔ اور پھر جنسی آسودگی کی توضیح کے لئے جو تشبیہات وضع کیں ہیں وہ شاعر کی منشا کے مطابق کیفیات کی ترجمانی کو گنجلک اور مبہم نہیں بناتیں بلکہ اس کی بآسانی تفہیم میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
تقسیم ہند کے بعد کی شاعرات کے یہاں بھی جنس کے مختلف پہلوؤں کو نظم کرنے کی روایت عام ہے۔ یعنی شاعرات نے میراجی کی قائم کردہ روایت کو آگے ہی نہیں بڑھایا بلکہ حجاب کے پردوں سے باہر لا کر عورت کو اس کی فطری تقاضوں کے ساتھ شاعری میں پیش کیا ہے۔ نتیجتاً جو عورت اب تک شاعری میں مر دکی کیفیات کے حوالے سے نظم ہوئی آتی تھی وہ اب بذات خود عورت کے یہاں اپنی فطری اور قدرتی حسیات کے ساتھ نظم ہوئی ہے، جس سے شاعرات کا کلام ہی نہیں بلکہ مکمل جدید شعری دبستان کو ایسے نایاب فن پارے نصیب ہوئے۔ جن سے ہماری کلاسکی شاعری محروم ہے۔
تکمیل وصال یاجنسی خواہش کی تکمیل کے دوران کے تجربات کو جن شاعرات نے نظم کے سانچہ میں ڈھالا ہے۔ ان میں ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی کے علاوہ فہمیدہ ریاض کا نام سرفہرست ہے۔ ساجدہ زیدی نے اپنی صرف ایک ’’نظم لمحہ موجود ‘‘میں جنسی آسودگی کے حصول کے ارادہ کو میراجی کی طرح نظم کیا ہے۔ جبکہ زاہدہ زیدی نے باقاعدگی سے جنس اور تخلیقی تجربہ کے موضوع کو ایک دوسرے میں ضم کر کے نظمیں تشکیل دیں۔ اور ہیئت کے نایاب تجربہ بھی کئے۔ مثال کے طور پر غیر معمولی ہیئت میں بیان کی ہوئی وصال کی کیفیت کی ترجمان یہ نظم دیکھئے۔
لہو کی گردش تھی
بہتے لمحات کے ترنم
مگر وہ لمحے
جن میں تم تم تھے
اب فقط یاد کے سرمئی سمندر میں
کچھ شکستہ لفظوں کی کشتیاں ہیں (تم)
یہ جنسی تجربہ کا انوکھا فنکارانہ اظہار ہے۔ جس سے نہ صرف ہیئت کا نیا تجربہ وجود میں آیا۔ بلکہ یہ جنسی عمل کے دوران کی ذہنی کشمکش کا شدید تاثر بھی قاری کے ذہن پر قائم کرتا ہے، علاوہ ازیں زاہدہ کی فنی چابکدستی اور الفاظ کو کیفیت کی مناسبت سے اپنی تخلیقی گرفت میں رکھنے کی صلاحیت بھی ظاہر ہے۔ زاہدہ زیدی کی محولہ بالا نظم کے علاوہ ’’وصل‘‘ ’’ہوا تیز ہے ‘‘ اور ’’طوفان‘‘ جیسے عنوانات کی نظمیں بھی جنس کے موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔
اس ضمن میں فہمیدہ ریاض کا ذکر اس اعتبار سے بھی ضروری ہے، کہ انہوں نے نہ صرف میراجی کی جسم اور جنس کو نظم کرنے کی روایت کو تقویت دی۔ بلکہ انہیں یہ اولیت بھی حاصل ہے کہ عورت کو حجابات کے پردوں سے باہر لائیں۔ دراصل فہمیدہ نے نسائی حسیت کی ترجمانی کے لئے دیگر شاعرات کی طرح خاص حدود متعین نہیں کئے۔ اور پہلی مرتبہ شاعری میں عورت کے مخصوص فطری تقاضوں کا اظہار کھل کر کیا۔
مثال کے طور پر مو صوفہ کی دو نظمیں بعنوان ’’ابد‘‘ اور’’ زبانوں کا بوسہ‘‘ دیکھئے۔ جن میں عورت کی زبانی جنسی وصال کی کیفیت کو منظم شکل دی ہے۔
۱یہ کیسی لذت ہے جسم شل ہو رہا ہے میرا/ یہ کیا مزا ہے کہ جس سے ہے عضوعضو بوجھل/ یہ کیفیت کیا ہے کہ سانس رک رک کے آ رہا ہے / یہ میری آنکھوں میں کیسے شہوت بھرے اندھیرے اتررہے ہیں / لہو کے گمبد میں کوئی در ہے کہ وا ہوا ہے / یہ چھوٹتی نبض رکتی دھڑکن پہ ہچکیاں سی/ گلاب وکا فورکی لپٹ تیزہو گئی ہے / یہ آبنوسی بدن یہ بازو کشادہ سینہ/ میرے لہو میں سمٹتا سیال ایک نکتے پہ آ گیا ہے / امری نسیں آنے والے لمحے کے خیال میں کھنچ کے رہ گئی ہیں / بس اب تو سرکا دو رُخ یہ چادر/ دیئے بجھادو/ ’’ابد‘‘
۲زبانوں کے رس میں یہ کیسی مہک ہے / یہ بوسہ کہ جس سے محبت کی صہبا کی اڑتی ہے خوشبو/ یہ بدمست خوشبو جو گہرا غنودہ نشہ لا رہی ہے / یہ کیسا نشہ ہے / مرے ذہن کے ریزے ریزے میں ایک آنکھ سی کھل گئی ہے / تم زباں منھ میں رکھ کے پاتال سے میری جاں کھینچتے ہو/ یہ بھیگا ہوا گرم تاریک بوسہ/ ……/ مجھے ایسا لگتا ہے تاریکیوں کے لرزتے ہوئے پل کو/ میں پار کرتی چلی جا رہی ہوں / یہ پل ختم ہونے کو ہے / اور اس کے آگے / کہیں روشنی ہے / ’’زبانوں کا بوسہ‘‘
مذکورہ دو نظموں کی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ ان میں ماضیِ بعید کے لمحات وصال یامستقبل میں ایسا ہی ہونے کے امکانات کی توضیح نہیں بلکہ یہ وہ فن پارے ہیں جن میں جنسی عمل کے دوران/ تکمیل وصال کی کیفیت نظم کے وجود میں آئی ہیں۔ فہمیدہ کا کمال فن یہ ہے کہ دونوں ہی نظموں میں وصال کے درمیان لمحہ بہ لمحہ محسوس ہونے والی کیفیات کی تبدیلی مصرعہ بہ مصرعہ نمایاں ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے یعنی شاعرہ کی یہ تخلیقات حال کے تجربہ کہ مکمل ترسیل ہیں۔ جن میں جذبات و کیفیات کی مناسبت سے الفاظ کی تراوش لائق ستائش ہے بلکہ ان کی اہمیت اس اعتبار سے بھی افزوں ہے کہ یہ نظمیں کسی مرد کے تجربہ کی فنکارانہ اظہار کی مثالیں نہیں بلکہ یہ عورت کی زبانی خود اسی کی کیفیات کے اظہار کے نایاب نمونے ہیں۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو فن پارے جنس اور نفسیاتی کیفیات کے ترجمان ہیں انہیں یہ کہکر نظرانداز نہیں کر سکتے کہ یہ فحش ہیں یاکسی بیمار ذہن کی اختراع۔ ان میں مرکزی موضوع بنی جنسی خواہش یاجنسی عمل بقائے انسان کا ضامن ہے۔ یہ انسان کی ذات کا فطری اور لازمی جذبہ ہے۔ جس پہ بھلے ہی گندہ سمجھ کر تہذیب کے موٹے غلاف چڑھا دیئے جائیں لیکن یہ سچہ جذبہ ہے۔ اور اس فطری حقیقت سے فنکار، ادیب یا تخلیق کار بے اعتنا نہیں ہوسکتے۔
٭٭
حواشی
۱دیباچہ کتاب میراجی ایک مطالعہ ڈاکٹر جمیل جالبی، ص ۳۲۔
۳مضمون ’’میراجی کو سمجھنے کے لئے ‘‘ ڈاکٹر جمیل جالبی، ص ۲۸۷۔
۴مضمون- میراجی کی نظمیں کتاب ’’میراجی شخصیت اورفن‘‘ ڈاکٹر رشیدامجد، ص ۱۵۹۔
۵مضمون- بدنام شاعر-سلیم احمد۔ کتاب میراجی ایک مطالعہ ۳۳۲۔
۶مضمون- میراجی کی نظمیں۔ کتاب میراجی شخصیت اور فن-۱۴۰۔
۷مضمون۔ اپنی نظموں کے بارے میں، میراجی کتاب۔ میراجی ایک مطالعہ۔ ۴۷۷۔
۸کلیات میراجی۔ مرتب ڈاکٹر جمیل جالبی۔
٭٭٭
میراجی بعض ادیبوں کی نظر میں
ڈاکٹرسید محمد یحییٰ صبا
(اس طویل مضمون سے صرف چند اقتباسات شامل کیے جا رہے ہیں )
قومی مجلس برائے تعلیمی تحقیق، نئی دہلی سے شائع شدہ مضمون میں بنیادی معلومات کچھ یوں فراہم کی گئی ہے۔
’’ میراجی کا اصلی نام ثناء اللہ ڈار تھا۔ وہ ایک کشمیری خاندان میں گوجر انوالہ(اب پاکستان)میں پیدا ہوئے۔ ان کا زیادہ وقت لاہور، دلّی اور ممبئی میں گزرا۔ ممبئی میں ہی ان کا انتقال ہوا۔ وہ انتہائی ذہین انسان تھے۔ مطالعہ کا شوق بے حد تھا اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم کئے اور ان پر تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھے۔ جدید تنقید میں میراجی کا نام بہت بلند ہے۔ انہوں نے بہت سے قدیم و جدید ہندوستانی اور پوری شعرا پرتنقیدی مقالات لکھے۔ ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ مبنی خیالات و تجربات پر مشتمل ہے۔
وہ لاہورکی ایک مشہور ادبی انجمن’’ حلقہ ارباب ذوق‘‘ کے بانیوں میں تھے جس نے بہت سے ذہنوں کو متاثر کیا اور شاعری میں جدید رجحانات کو فروغ دیا۔ انہوں نے اختر الایمان کے ساتھ مل کر رسالہ خیال نکالا۔
میراجی کی’’ نظموں ‘‘ کے کئی مجموعے مثلاً، میرا جی کی نظمیں، اور گیتوں کا مجموعہ ’’گیت ہی گیت‘‘ ان کی زندگی میں شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ، پابند نظمیں ‘اور انتخاب ’تین رنگ‘ بعد میں شائع ہوئے بہت بعد میں پاکستان سے ’’کلیات میرا جی‘‘(مرتبہ جمیل جالبی)اور باقیات میرا جی، (مرتبہ شیما مجید)شائع ہوئے۔ نثر میں دو کتابیں ’مشرق و مغرب کے نغمے ‘ اور’ اس نظم‘ میں۔ شائع ہوئیں۔
جامع اردو انسائیکلو پیڈیا میں میراجی کے سلسلے میں اہم معلومات موجود ہے۔
میراجی کا نام ثناء اللہ ڈار تھا۔ ان کے والد منشی مہتاب الدین ریلوے انجینئر تھے۔ ملازمت کی وجہ سے مختلف جگہوں پر قیام رہا۔ میراجی کی تعلیم بھی مختلف مقامات پر ہوئی اور ادھوری رہی۔ شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا۔ پہلے سامری تخلص کرتے تھے۔ لاہور کے قیام کے دوران ان کی زندگی ایک انقلاب سے دوچار ہوئی۔ میرا سین نامی ایک لڑکی سے عشق نے انہیں میراجی بنا دیا۔ وہ مولانا صلاح الدین کے رسالہ ادبی دنیا سے وابستہ ہو گئے۔ وہاں سے دہلی آئے تو آل انڈیا ریڈیو میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں چند سال کے ممبئی واپس چلے گئے۔ ممبئی کے ایک اسپتال میں انتقال کیا۔
میراجی کی زندگی نفسیاتی الجھنوں کا شکار رہی۔ وہ سماج کی مروجہ اقدار سے منحرف تھے۔ میراجی اردو شاعری میں ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے شاعری میں ایک نئی روایت قائم کی۔ ان کا سارا زور انسان کی باطنی شخصیت اور انفرادی تجربوں پر تھا۔ تحلیل نفسی سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ ہندی فلسفے، اساطیر اور موسیقی سے بھی متاثر تھے۔ دنیا بھر کی عشقیہ شاعری کا بغور مطالعہ کیا۔ خاص طور پر فرانس کے انحطاطی شعرا کا انہوں نے تفصیلی مطالعہ کیا تھا۔ میراجی کی اہمیت ایک خاص طرزاحساس کے علاوہ ہیئت کے تجربوں کی وجہ سے بھی ہے۔ وہ طبعاً ایک باغی شاعر تھے۔ میراجی کی شاعری کا ایک پہلو وہ بھی ہے جسے اشاریت اور ابہام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نظموں اور غزلوں کے علاوہ میراجی کے گیت اور ان کی تنقیدی تحریریں بھی اہم ہیں۔ نثری مضامین کے مجموعے اس نظم میں اور مشرق و مغرب کے نغمے، کے نام سے شائع ہوئے۔
(جامع اردو انسائیکلو پیڈیا حصہ اول ادبیات، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی، صفحہ533)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر عبید الرحمن ہاشمی نے اپنے ایک مضمون بعنوان اردو نظم کا آغاز و ارتقا میں میراجی کی حلقہ ارباب ذوق سے وابستگی کا ذکر کرتے ہیں۔ عبید الرحمن ہاشمی نے میراجی کی شعری ہیئت کی فہم و بصیرت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اردو نظم کے ارتقا میں میراجی کا نام اہم ہے۔ میراجی نے اردو نظم کو ہیئت اور طرز دونوں کے اعتبار سے یورپی نظموں کے بلند معیارسے اہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش کی۔ میراجی کا مطالعہ خاصا وسیع تھا۔ انگریزی، فرانسیسی، امریکی، جرمنی اور روسی زبانوں کی شاعری کا مطالعہ کیا تھا۔ ان زبانوں کی کئی نمائندہ نظموں کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ میراجی کی نظموں میں جنس ایک اہم موضوع رہا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں جنسی موضوع کو بھر پور انداز میں برتنا شروع کیا۔ ان نظم کروٹیں۔ دھوبی کا گھاٹ، ایک شام کی کہانی، دوسری عورت اور اخلاق کے نام وغیرہ ایسی نظمیں ہیں جن میں جنسی الجھن کا موضوع پست سطح سے بلند ہو کر اس دور کی اجتماعی زندگی میں ایک اہم پہلو کا مظہر ہو جا تا ہے۔ جنسی جذبہ حب شکست آرزو کی ارفع صورت میں ڈھل جاتا ہے تو پر تاثیر نظمیں وجود میں آتی ہیں۔ اس سلسلہ میں نارسائی، کٹھور، مجھے گھر یاد آتا ہے۔ مجاور، دور کنارا، عدم کا خلا قابل ذکر ہیں۔ ان نظموں میں دوری کی اذیت، شخصی محرومی، غم انتظار، ذہنی تلاش اور ذوق تپش کا بیان ملتا ہے۔ اجنتا کے غار قدرے طویل نظم ہے۔ بعد کی اڑان، اندھا طوفان، فاختہ، کوا، وغیرہ علامتی نظمیں ہے۔ اونچا مکان میں ایک فاحشہ کی قابل رحم زندگی کا بیان ملتا ہے۔ کلرک کا نغمہ، محبت‘‘ میں کلرک کی مجبور زندگی کے ادھورے خوابوں کا سیدھا بیان ملتا ہے۔ (اسٹڈی میٹریل) فاصلاتی تعلیم، دوسرا پرچہ، مثنوی، مرثیہ اور نظم، اکائی 14صفحہ نمبر 265، ایڈیٹر پروفیسر اشرف رفیع )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی (جرمنی)کا مضمون بعنوان میراجی شخصیت اور فن(ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ) کے شروع میں ہی یہ درج ہے۔
’’ادبی دنیا میں آنے سے پہلے اپنی ٹین ایچ میں میرے پسندیدہ شاعر وہی شعراء ہوتے جو ٹین ایجرز کے سدا بہار شاعر ہیں۔ لیکن انہیں شاعروں میں ان شاعروں سے یکسر مختلف میراجی بھی شامل تھے جنہیں میں نے ٹین ایج میں ہی حیرت کے ساتھ پڑھا تھا۔ ان کا شعری مجموعہ ’’تین رنگ‘‘ مجھے کہیں سے ملا تھا اور میں نے اس کی نظمیں، گیت اور غزلیں اسی عمر میں پڑھ لی تھیں۔ یہ غالباً 1969ء کا سال تھا۔ (عمر 17سال)جب میں نے میراجی کو کچھ سمجھا کچھ نہیں سمجھا مگر کوئی انوکھا سا شاعر ی ذائقہ ضرور محسوس کیا۔ تب جہاں میں نوکری کرتا تھا، اس ملز میں لیبا رٹری کے دوستوں کا بیت بازی کا مقابلہ ہوا تھا اوراس میں سب سے زیادہ میراجی کے شعر پڑھے گئے۔ بیت بازی کا فیصلہ میراجی کی غزل نے کرایا۔
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
لام سے شروع ہونے والے اشعار ختم ہو گئے اور میراجی کی اس غزل کے شعرا بھی باقی تھے۔ اسی کتاب میں ایک نظم غالباً ’’خلا‘‘ کے عنوان سے تھی۔ خدا نے الاؤ جلا یا ہوا ہے ؍اسے کچھ دکھائی نہیں رہا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میراجی کے کارنامے اور حلقہ ارباب ذوق کے حوالے سے ڈاکٹر انور سدید تحریر کر تے ہیں کہ حلقہ ارباب ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بالعموم ایک دوسرے کی ضد قرار دیا جا تا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور خارجیت، ما دیت، اور روحانیت مستقیم ابلاغ اور غیر مستقیم ابلاغ کی بنا پر ان دونوں تحریکوں میں واضح حدود اختلاف موجود ہیں۔ تاہم یہ دونوں تحریکیں قریباً ایک ہی زمانے میں ایک جیسے سماجی اور معاشی حالات میں پیدا ہوئیں، پروان چڑھیں اور معنوی طور پر رومانیت کے بطن سے ہی پھوٹی تھیں۔ حقیقت نگاری سے امتزاج کی بنا پر ترقی پسند تحریک نے افقی جہت اختیار کی اور اجتماعی عمل کو مادی سطح پر بروئے کار لانے کی کوشش کی۔ حلقہ ارباب ذوق نے عمودی جہت اختیار کی اور اس نے اجتماع میں گم ہو جانے کے بجائے ابن آدم کو اپنی شخصیت کے عرفان کی طرف متوجہ کیا۔ ایک تحریک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا اور دوسری کا عمل بالواسطہ، داخلی اورآہستہ رو، چنانچہ ان دونوں تحریکوں نے نہ صرف اپنے عہد کے ادب کو متاثر کیا بلکہ دو الگ الگ اسلوب حیات بھی پیدا کئے۔ ترقی پسند تحریک نے مادی وسائل پر فتح حاصل کرنے کی سعی کی جبکہ حلقہ ارباب ذوق نے ما دیت سے گریز اختیار کر کے روحانیت اور داخلیت کو فروغ دیا۔
میراجی اس تحریک کے روح رواں تھے اور ادباء اور شعراء کا یہ فرض سمجھتے تھے کہ اس کے اندرون اوراس کی ذات کے تجربات خارجی عوامل کی روشن میں بیش کئے جائیں کہ سماجی مسائل کو پیش کرنے میں خود ادیب کا اپنا وجود ختم ہو جائے۔ چونکہ میراجی اپنی عمر کا زیادہ تر حصہ تو غیر منقسم ہندوستان میں گزارا ہے اور وہ حلقہ ارباب یا مجلس داستاں گویاں کے اہم ستون ہیں۔ اس ل لیے ہند و پاک دونوں میں یکساں طور پر مقبول رہے۔
میراجی کے حوالے پروفیسر انور سدید اپنی معرکۃ الآرا کتاب اردو ادب کی تحریکیں ابتدا تا1975ء مطبع کتابی دنیا دہلی کے صفحہ نمبر 541تا545یوں رقم طراز ہیں۔
’’حلقہ ارباب ذوق کو میراجی کی ذات میں وہ شخصیت میسر آ گئی جو بکھرے ہوئے اجزا کو مجتمع کرنے اور انہیں ایک مخصوص جہت میں گامزن کرنے کا سلیقہ رکھتی تھی۔ میراجی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ مشرق اور مغرب کے اس دلچسپ امتزاج نے ان کی شخصیت کے گرد ایک پرا سرار جال سابن دیا تھا۔ چنانچہ ان کے قریب آنے والا ان کے سحر مطالعہ میں گرفتار ہو جاتا اور پھر ساری عمر اس سے نکلنے کی راہ نہ پا تا۔ دور سے دیکھنے والے ان کی ظاہری ہیئت کذائی، بے ترتیبی اور آزادہ روی پر حیرت زدہ ہوتے اور پھر ہمیشہ حیرت زدہ رہتے۔ میراجی کی عظمت کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ وہ حلقے کے ارکان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے تھے۔ ان کا ادبی ذوق پختہ اور مطالعہ وسیع تھا اورحلقے میں آنے سے پہلے وہ والٹ وٹمن، بودلیئر، میلارمے، لارنس، چنڈی داس، ودیاپتی اور امارو وغیرہ کے مطالعے کے بعد ادبی دنیا میں ان شعراء پر تنقیدی مضامین کا سلسلہ شروع کر چکے تھے۔ ان مضامین میں میراجی کا ادبی رشتہ مولانا صلا ح الدین احمد سے استوار ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے ربع چہارم میں ’’ادبی دنیا‘‘ تجدد کا ایک ایسا آفتاب تھا جس نے مشرقی اور مغربی ادب کی روشن کرنوں کو حلقے کی تحریک سے بہت پہلے اکناف ہند میں پھیلانا شروع کر دیا تھا۔ ادبی دنیا میں منصور احمد، حامد علی خاں، جلیل قدوائی، خلیل بی اے۔ سراج الدین احمد نظامی وغیرہ نے مغربی ادب کے تراجم کا عمدہ سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ ان کے ساتھ اختر شیرانی، حفیظ ہوشیار پوری اور شاد عارفی وغیرہ کی نظمیں اور غزلیں بھی شائع ہوتی تھیں۔ چنانچہ ادبی دنیا ایک ایسا سنگم تھا جہاں قدیم اور جدید ادب کے دونوں دھارے باہم مل جاتے تھے۔ ادبی دنیا چونکہ کسی نظریاتی جکڑ بندی کو قبول نہیں کرتا تھا۔ اس لیے اس نے خالص ادب کی اشاعت کی، اور نئے ادبا کو متعارف کرانے میں خصوصی دلچسپی لی۔ چنانچہ یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ ادبی دنیا کی آزاد روش نے ہی میراجی کواس رسالے کی طرف متوجہ کیا اور پھر مدیر مولانا صلاح الدین احمد اور ادیب میراجی کے درمیان جو رشتہ قائم ہوا اسمیں چونکہ خلوص اور ایثار قدر مشترک کے طور پر موجود تھے۔ اس لیے یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ 1939میں جب میراجی ادبی دنیا کے مدیر معاون مقرر ہوئے تو ہیئت، خیال اور موضوع کے وہ تمام تجربات جنہیں میراجی کے ذہن نے پیدا کیا تھا ’’ادبی دنیا‘‘ کے صفحات میں بکھر گئے۔ چنانچہ جب حلقہ ارباب ذوق کی ابتدا ہوئی تو میراجی ادبی تربیت کا دور نہ صرف ختم کر چکے تھے بلکہ وہ ادب میں شہرت اور ناموری بھی حاصل کر چکے تھے اور ادبی دنیا کے ساتھ وابستگی کی بنا پر انہیں اہمیت بھی حاصل تھی۔ ‘‘
میراجی کی شمولیت کے بعد حلقہ ارباب ذوق نے نہ صرف اجتہاد اور ترقی کی طرف قدم بڑھایا بلکہ اس نے ترقی پسند تحریک کی مقصدیت کے خلاف رد عمل بھی ظاہر کیا اوراس کی یکسانیت کے مقابلے میں تنوع پیدا کرنے کی بھی کوشش کی۔ چنانچہ حلقے نے اب ایک ایسی تحریک کی صورت اختیار کر لی جو ادب کی موجود حالت کو بدلنے اور فن کے داخلی حسن کو اجاگر کرنے کا تہیہ کر چکی تھی۔ حلقے کی زندگی کے گزشتہ چند عشروں پر ناقدانہ نظر ڈالی جائے تو خالص ادب کی یہ تحریک بے حد فعال اور توانا نظر آتی ہے۔ اس میں جز ر و مد، عمل اور رد عمل اور بحث و نظر کی گہما گہمی پیدا ہوئی یوں اس تحریک نے اولین سطح پر زندگی سے اثرات قبول کئے اور انہیں ادب کی بنت میں شامل کیا اور ثانوی سطح پر زندگی کو بالواسطہ طور پر متاثر کرنے کی کوشش کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمار پاشی نے ’’میراجی شخصیت اور فن کے نام سے کتاب کے شروع میں ہی مضمون بعنوان’’ ہندوستان کی تہذیبی اقدار کا محافظ میراجی‘‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ ‘‘
’’ لب جوئبارے میراجی کی بدنام ترین نظم ہے۔ عام خیال ہے کہ میراجی نے یہ نظم ماسٹر پنشن پر لکھی ہے۔ صرف یہی ایک نظم نہیں بلکہ میراجی کی پوری شاعری کوجنسی غلاظت کو ڈھیر قرار دے کر ترقی پسندوں نے اسے ادب باہر کرنے کی پوری پوری کوشش کی مگر میراجی کی شاعری میں چونکہ زندگی کی رمق و چمک موجود تھی اس لیے وہ آج یعنی اپنی موت کے تقریباً تیس برس بعد پہلے سے زیادہ دلچسپی سے پڑھا جا تا ہے اور نئے شعرا کا محبوب ترین شاعر ہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ن۔ م۔ راشد کے بقول:
میراجی کا مقصد کبھی سفلی جذبات کو اکسانا نہ تھا بلکہ جہاں کہیں جنس کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی بلند ہانگ طریقے سے نہیں کرتے۔ (جو ش کی شاعری ملاحظہ فرمائیے )لذت انگیز صورت پارے بھی آنکھوں کے سامنے نہیں لاتے۔ (جیسے فیض کے ہاں ملتے ہیں ) اس لیے یہ الزام لگانا کہ وہ بیمار ذہن کے مالک تھے جس پر جنسیت کا غلبہ تھا یا عمداً فحاشی کی تبلیغ کر تے تھے۔ لوگوں کی آراء شرارت کے مترادف ہے ‘‘۔
(بحوالہ میراجی شخصیت و فن از کمار پاشی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر آغا میراجی پر اپنے مضمون میں اظہار خیال کرتے ہیں۔
’’غیر ملکی حکومت کے استبداد کے خلاف جو رد عمل وجود میں آیا، اس کا ایک نمایاں پس منظر وطن دوستی کے میلان کی صورت میں ہمارے پیش نظر ہے۔ گویا یہ رد عمل ملکی غلبے اور مغربی تہذیب کے نفوذ کے خلاف اہل وطن کی وہ سعی ہے جسے نفسیات کی اصطلاح میں تحفظ ذات کا نام دینا چاہئے۔ چنانچہ اس کے تحت بہت سے نظم گو شعرا نے حب الوطنی کے جذبات کا اظہار کیا۔ محروم، اقبال اور راشد کے ہاں بالخصوص یہ رجحان بہت قوی تھا۔ تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ رجحان دراصل غیر ملکی سیاسی اور تہذیبی دباؤ کے خلاف رد عمل کی ایک صورت تھی۔ ارض وطن سے کسی مثبت شغف اور لگاؤ سے اس کو تحریک نہیں ملتی تھی اور ان شعرا کے ہاں اس رجحان کی جڑیں ہی مضبوط تھیں۔ چنانچہ خود اقبال جو شروع شروع میں وطن دوستی کے ایک بہت برے علمبردار تھے، جب نظر ثانی تصادم میں مبتلا ہوئے تو وطن دوستی کی بجائے ملت پرستی کی طرف مائل ہو گئے اور ان کے ہاں ہمالہ، جنگل اور کٹیا کی بجائے صحراء کارواں اور خیمے (یعنی خالص اسلامی تہذیب کی) علامتیں ابھرتی چلی آئیں۔ اسی مضمون میں آگے چل کر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ اردو نظم میں میراجی وہ پہلا شاعر ہے جس نے محض رسمی طور پر ملکی رسوم عقائد اورمظاہرسے وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے رد عمل کے طور پر اپنے وطن کے گن گائے ہیں بلکہ جس کی روح دھرتی کی روح سے ہم آہنگ اور جس کا سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز قدیم ملی روایات، تاریخ اور اساطیر سے مملو ہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دانشور اخلاق احمد دہلوی نے ان کی زندگی سے متعلق یوں محسوس کیا:
’’جب میرا جی اپنی دانست میں سمجھ لیتے کہ تخلیہ ہو گیا تو اپنے گلے کی ہندوانی مالائیں گریبان سے باہر نکالتے اور ان مالاؤں کے ایک ایک دانے پر میرا میرا پڑھتے اور بالکل اس آسن میں ہو بیٹھتے، جس طرح سادھوگیان دھیان میں بیٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی میرا کے بھجن بھی گاتے تھے۔ ان کا مطالعہ مذہبیات، جنسیات، اور نفسیات پر بے پناہ تھا۔ ہندو مائی تھولوجی سے انہیں خاص شغف تھا شاید اس لیے کہ ان کی محبوبہ ’’کافر‘‘ تھی۔ میراجی خود لاڈ میں کبھی کبھی میراسین کو ’’کافر‘‘ کہا کر تے تھے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میراجی کے سلسلہ میں شاہد احمد دہلوی ایک جگہ لکھتے ہیں۔ میراجی کے عزیز دوست یوسف ظفر نے ایک عجیب واقعے سنا یا۔ وہ اس سال حج کو گئے تھے، فرما تے تھے کہ میں مدینہ منورہ میں حضور کی جالیوں سے کچھ فاصلہ پر بیٹھا مراقبے میں غرق تھا اور جو جو مجھے یاد آتارہا میں اس کے لیے دعا کر تا رہا، یہاں تک کہ کوئی نام باقی نہ رہا۔ مجھ پر عجیب سرور کا عالم طاری تھا۔ قلب گداز ہو گیا تھا اور آنکھوں سے آنسو کی لڑیاں بندھی ہوئی تھیں کہ یکا یک میراجی میرے سامنے آکھڑے ہوئے اور بولے ’’مجھے بھول گئے، میرے لیے تم نے دعا نہیں کی۔ ‘‘میں نے اسی وقت میراجی کے لیے بھی دعا کی۔ وہ سامنے کھڑے رہے۔ دعا ختم کر کے جو دیکھتا ہوں تو نہ میراجی ہیں نہ کوئی اور بس میں تھا اور میرے سامنے حضور کی جالیاں تھیں۔ میں بہت حیران ہوا کہ یہ ماجرا کیا ہے ؟اس قدر گندہ اور ناپاک شخص بھلا ایسی پاکیزہ اور مقدس جگہ کیسے آ گیا؟دنوں میں اس واقعے پر غور کرتا رہا۔ پھر ایک دم سے ایک دن میراجی سے اپنی پہلی ملاقات یاد آ گئی۔ یہ اس رات کا واقعہ ہے کہ جب وہ بیئر کی اٹھارہ بوتلیں پی کر میرے گھر میں آدھی رات کو درانہ چلے آئے تھے۔ میں نے ان سے ان کا نام پوچھا تھا تو انہوں نے اپنا نام میراجی بتایا تھا کہ اور جب میں نے ان سے ان کا اصلی نام دریافت کیا تو انہوں نے اپنی تیوری پر بل ڈال کر کہا تھا۔ ‘‘میرا اصلی نام محمد ثناء اللہ ڈار ہے۔ اس نام میں ’’محمد‘‘ کا لفظ آتا ہے۔ کسی کو حق نہیں ہے کہ اپنے گندے منہ سے اس پاک لفظ کو ادا کرے۔ ‘‘کڑی سے کڑی مل گئی تھی اور میری چٹک دور ہو گئی تھی مجھے یقین ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس والہانہ احترام کے صلے میں میراجی کی بخشش ہو گئی ہو گی اور حضور کی اس بے اندازہ محبت کے طفیل میراجی کے سارے گناہ معاف ہو گئے ہوں گے۔ (بحوالہ میراجی شخصیت و فن از کمار پاشی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعادت حسن منٹو کے مطابق :۔
’’ میراجی کی لکھائی بہت صاف اور واضح تھی۔ موٹے خط کے نب سے نکلے ہوئے بڑے صحیح نشست کے حروف، تکون کی سی آسانی بنے ہوئے۔ ہر جوڑ نمایاں۔ میں اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ مجھے اس میں مولانا حامد علی خاں مدیر ’’ہمایوں ‘‘کی خطاطی کی جھلک نظر آئی۔ یہ ہلکی سی مگر کافی مرئی مماثلت و مشابہت اپنے اندر کیا گہرائی رکھتی ہے۔ اسکے متعلق میں اب بھی غور کر تا ہوں تو مجھے ایسا کوئی شوشہ یا نکتہ سمجھائی نہیں دیتا جس پر میں کسی مفروضے کی بنیادیں کھڑی کر سکوں۔ ……بحیثیت شاعر کے اس کی حیثیت رہی ہے جو گلے سڑے پتوں کی ہوتی ہے جسے کھا د کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس کا کلام بڑی عمدہ کھاد ہے جس کی افا دیت ایک نہ ایک دن ضرور ظاہر ہوکے رہے گی۔ اس کی شاعری ایک گمراہ انسان کا کلام ہے جو انسانیت کی عمیق ترین پستیوں سے متعلق ہونے کے باوجود دوسرے انسانوں کے لیے اونچی فضاؤں میں مرغ باد نماکا کام دے سکتا ہے۔ اسی کا کلام ایک ’’جگ ساپزل‘‘ہے جسکے ٹکڑے بڑے اطمینان اورسکون سے جوڑ کر دیکھنے چاہئیں۔ ‘‘
منٹو لکھتے ہیں کہ:
’’بحیثیت انسان کے وہ بڑا دلچسپ تھا۔ پر لے درجے کا مخلص جس کو اپنی اس قریب قریب نا یا ب صفت کا مطلقاً احسا س نہیں تھا۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اشخاص جو اپنی خواہشات جسمانی کا فیصلہ اپنے ہاتھوں کو سونپ دیتے ہیں عام طور پر اسی قسم کے مخلص ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ خود کو صریحاً دھوکا دیتے ہیں مگر اس فریب دہی میں جو خلوص ہوتا ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ میراجی نے شاعری کی، بڑے خلوص کے ساتھ، شراب پی، بڑے خلوص کے ساتھ بھنگ پی، وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ لوگوں سے دوستی کی، اور اسے نبھایا۔ اپنی زندگی کی ایک عظیم ترین خواہش کی جُل دینے کے بعد وہ کسی اور سے دھوکا فریب کرنے کا اہل ہی نہیں رہا تھا۔ اس اہلیت کے اخراج کے بعد وہ اس قدر بے ضرر ہو گیا تھا کہ بے مصرف سامعلوم ہوتا تھا ایک بھٹکا ہوا مسافر جو نگری نگری پھر رہا ہے۔ منزلیں قدم قدم پر اپنی آغوش اس کے لیے وا کرتی ہیں۔ مگر وہ ان کی طرف دیکھے بغیر آگے نکلتا جا رہا ہے۔ کسی ایسی جگہ جس کی کوئی سمت ہے رقبہ…… ایک ایسی تکون کی جانب سے جس کے ارکان اپنی جگہ سے ہٹ کر تین دائروں کی شکل میں اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد بشیر کا مندرجہ ذیل اقتباس میراجی کی حوالے سے ملاحظہ فرمائیں۔
’’وہ پان بہت کھاتا تھا۔ د ن میں اوسطاً چالیس پچاس اور یہ لت ایسی تھی کہ اس کے بغیر اس کا دن گزرنا مشکل تھا۔ اس کے ساتھ گھومنے والے دوچار مرتبہ پان کھاتے تھے تو اسے بھی کھلا دیتے تھے مگر اس سے میراجی کی طلب پوری نہیں ہوتی تھی چنانچہ اس نے ایک پان والے ساتھی کو یہ یقین دلایا کہ ممبئی کے پنواڑی پان بنانا نہیں جانتے۔ اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ پان کھانے والے ساتھی نے کودر لاج میں پاندان بنا لیا جس کے لیے چونا، کتھا اور چھالیا میراجی خود لایا۔ اس کے بعد میراجی ہر روز صبح گھر سے نکلنے سے پہلے چالیس پانوں کی گڈی بنا کے بغل میں رکھ لیتا اور دن بھر چباتا رہتا۔ پان کے علاوہ میراجی دو وقت کھانا بھی کھاتا تھا اور چار ایک پیالے چائے بھی پیتا تھا۔ اس کے لیے میراجی کو کسی پلان کی ضرورت نہ تھی۔ وہ جس کے ساتھ گھومتا تھا۔ وہ اسے از خود کھانا کھلا دیتا تھا یا یوں سمجھیے کہ میراجی گھومتا ہی اسی کے ساتھ تھا جو اسے خود منت کر کے کھانا کھلا دے اور وہ منت نہ بھی کرتا دعوت نہ بھی دیتا تو بھی کھانے میں شمولیت کرنے کے فن میں میراجی کی عظمت کو تسلیم کرنا ہی پڑتا۔ کھانے پینے کی ضروریات پوری کرنے میں میراجی کا رویہ ایسے ہی نارمل قسم کے آدمی کا تھا جس کا مقصد دوسروں کی گرہ پر زندہ رہتا ہو۔ میراجی ایسے دوستوں کو بہت پسند کرتا تھا جو اسے روٹی کھلا دیتے تھے۔ مگر وہ کسی کا ممنون نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اعجاز احمد لکھتے ہیں۔
’’میراجی کی نثر کی اخلاقیات موجودہ معاشرے کی اخلاقیات ہے۔ اور قدم قدم پرخوداس کی زندگی اور شاعری کی نفی کرتی ہے۔ میراجی تمام عمر دو حصوں میں بٹا رہا اورایسی دوہری اخلاقیات برتتا رہا جسکی ایک شق کا دوسری شق سے علاقہ نہ تھا۔ ایک تو وہ قطعاً نئی غیر روایتی اخلاقیات جو اس کی شاعری کی اساس بنی اور ایک وہ حیرت ناک حد تک روایتی اخلاقی پابندیاں، جن کی کسوٹی پر اس نے اپنے نثری مضامین میں دوسرں کو پرکھا اورسزاوار ٹھہرایا۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا صلاح الدین احمد تحریر فرماتے ہیں۔
’’میراجی اپنے رسیلے گیتوں، اپنی کنایاتی نظموں اور اپنے بے قافیہ اشعار کی ابہامی کیفیتوں کے اعتبار سے اردو کے شعری ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور اس امر سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اردو میں نظم بے قافیہ اور نظم آزاد کا فروغ اوراس کے وسیلے سے پیچیدہ تاثرات شدید جذبات اور نازک محسوسات کا اظہار ایک بہت بڑی حد تک میراجی کے گوناگوں شعری تجربات کا مرہون ہے۔ اپنے عروج کے ایام میں میراجی کی نظم نے ایک ماورائی کیفیت اختیار کر لی تھی اور ایوان شعر میں ایک طلسماتی سی روشنی پھیلا دی تھی۔ پھراس روشنی سے بیسوں اور مشعلیں روشن ہوئیں اور بہت سی اور قندیلیں جگمگائیں اور شعر کی مملکت میں معانی کا سکہ چلا اور زبان کی وسعتیں فکر کا سہارا پا کر انجانی حدود تک پھیلتی چلی گئیں۔ اوراس میں بھی کسے کلام ہے کہ آج میراجی ہمیں یاد ہے تو اردو کے ایک بہت بڑے نفسیاتی شاعر کی حیثیت سے یاد ہے کہ اوراس کی یہ حیثیت اور اس کا یہ امتیاز شاید ہمیشہ تک باقی رہے گا۔ لیکن یہ ایک بہت بڑا لیکن ہے۔ میراجی کا وہ کارنامہ جو اس کی عظمت کا ایک بہت بڑا عنصر ہے اورجس کا دائرہ سخن فہم خواص ہی تک محدود نہیں، بلکہ جو ہم جیسے عوام کو بھی اپنے حلقہ سحر میں اسیر کر لیتا ہے اس کی لازوال نثرہے۔ جس کی نیرنگی اورجس کا نکھار، جس کی شوخی اور جس کی متانت جس کی نفاست اورجس کی سادگی، جسکی نزاکت اور جس کی نشتریت، جس کا تنوع اور جس کا پھیلاؤ دیدنی ہے۔ گفتنی یا شنیدنی نہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے، بلکہ غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی حریف یعنی اپنے خالق کی شاعری کے دامن میں یوں سمٹ کر رہ گئی جسے اسے زندگی کی روشنی پانے کا کوئی حق ہی نہیں تھا۔ اور یہ نا منصفی پہلی بار نہیں ہوئی۔ اقلیم ادب کا یہ ظالمانہ رواج ایک عرصہ دراز سے قائم ہے اور ا ردو میں بھی میراجی سے پہلے اس کی متعدد نظائر موجود ہیں۔ خود غالب کی نثر بھی ایک عرصہ دراز تک تسلیم و قبول سے ناآشنا رہی۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمود ہاشمی نے اپنے مضمون میں میراجی کے بارے میں لکھا ہے۔
’’میراجی غالب کے بعد فن کی نجات اور نئی زندگی بخشنے والا، اردو ادب کا دوسرا محور ہے۔ یہ اتفاق نہیں حقیقت ہے کہ میراجی کی نظمیں، یا پہلا مجموعہ 1944میں شائع ہوا اس مجموعہ میں 1932سے 1943تک کی نظمیں ہیں۔ میراجی کے پہلے مجموعہ کے اس کیلنڈر سے ملحقہ ایک اور تاریخ 1938کی ہے۔ جب گراں بار، کوہ وقار مجموعوں کے شاعر محمد اقبال(علامہ)اپنی شہرت و مقبولیت کے نقطہ، عروج پر پہنچ کر رخصت ہوئے۔ کہا جا تا ہے، علامہ، اردو شاعری کی سب سے بلند اور پر وقار آواز ہیں۔ اس سے انکار کی یہاں ضرورت نہیں۔ لیکن اس اقرار پر تامل نہیں کہ اقبال اپنے عروج میں اور میراجی اپنے آغاز میں ایک دوسرے کے ہم عصر ہیں۔ ایک کی شخصیت گمنام اور بے اثر دوسرے کی شخصیت کی آواز باز گشت بر اعظم کو عبور کرتی ہوئی اور تاثر میں عوام وخواص کی حدود کو بے محاباطے کرتی ہوئی۔ لیکن عامہ اپنی عظمت کے تمام کھڑاگ کیساتھ تاریخ کے ARENAتنہا رہ جا تے ہیں۔ ان کانام چلتا ہے تو لے دے کر، امین حزیں سیالکوٹی اور اس قبیل کے شعر طرازوں تک۔ میراجی کی شخصیت، علامہ کے تناظر میں بے حد عجیب نظر آتی ہے۔ آنے والی نسل کے میراجی کے اسلوب کو، میراجی کے طرزاحساس کو، میراجی کے نظریۂ شعر کو قبول کرتی ہے اور علامہ کا اثر ان کے اپنے ARENAسے باہر نہیں نکل پا تا۔ علامہ ایک پر وقار، یادگار، کا نقش بن جا تے ہیں اور میراجی آنے والوں کا ہم سفر ہے۔ بیسویں صدی کی چار دہائیاں، ماضی کی صدیوں پر بھاری ہیں لیکن میراجی ہنوز نئے آنے والوں کا ہم سفرہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وزیر آغا اپنے مضمون میں ’’میراجی دھرتی پوجا کی ایک مثال‘‘ کے بارے میں مندرجہ ذیل اقتباس بیان کرتے ہیں۔
’’میراجی کی نظموں اور گیتوں کی ایک مخصوص فضا ہندو دیوتا مالا اور فلسفے سے میراجی ی جذباتی ہم آہنگی نیز کرشن رادھا کے پجاری شاعروں سے اس کا تعلق خاطر ہے۔ یہ سب باتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ میراجی نے دھرتی پوجا کی ایک اہم مثال قائم کی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اس خاص میدان میں جہاں تک اردو نظم کا تعلق ہے میراجی کی حقیقت منفرد اور یکتا ہے۔ اردو نظم گو شعراء میں سے شاید ہی کسی نے اپنے موضوع سے اس قسم کی جذباتی وابستگی شغف، اور زمین سے ایسے گہرے لگاؤ کا ثبوت پہنچایا ہے۔ ہو جیسا کہ میراجی کے ہاں نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں میراجی کی شاعری نے اس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا ہے اور اسی لیے اس میں زمین کی کی خوشبو، حرارت اور رنگ بہت نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت ایک بہت بڑی حد تک اس کے اسی رجحان کے باعث ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میراجی کے بعد آنے والے بہت سے نظم شعرا میراجی سے بڑے واضح اثرات قبول کئے ہیں اور اسکی علامتوں، اشاروں، سوچنے کے خاص انداز اور بیان کے مخصوص پیرائے کو پیش نظر رکھا ہے۔ چنانچہ اردو نظم کا وہ طالب علم جسنے میراجی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعرا کے ہاں میراجی کے اثرات کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ ‘‘
٭٭
مراجع
(1)اردو شاعری پر ایک ایک نظر کلیم الدین احمد مکتبہ فروغ اردو، لکھنؤ 1925
(2)اردو نظم-نظریہ و عمل ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 1989
(3)اردو شاعری کا مزاج ڈاکٹر وزیر آغا ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 1997
(4)اردو ادب میں نظم معریٰ اور آزاد نظم حنیف کیفی شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی 1986
(5)اردو شاعری میں اشاریت ڈاکٹر سلیمان اطہر جاوید موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی 1983
(6)شعر غیر شعرو نثر شمس الرحمن فاروقی شب خون کتاب گھر 1997
(7)کلیات میراجی جمیل جالبی اردو مرکز لندن
(8) میراجی ایک مطالعہ جمیل جالبی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی1992
(9) میراجی شخصیت و فن ڈاکٹر رشید امجد مغربی پاکستان اردو اکادمی، لاہور 1992
(10) میراجی شخصیت وفن کمار پاشی موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی 1981
(11)نئی شعری روایت شمیم حنفی مکتبہ جامعہ، نئی دہلی 1978
(12)مضامین نو خلیل الرحمن اعظمی ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ 1995
(13)میراجی کی نظمیں مرتب مرغوب علی نصرت پبلشر ز لکھنؤ 1986
رسائل و جرائد
(1)تخلیقی ادب کراچی شمارہ4
(2)سوغات بنگلور شمارہ نمبر 87
(3)شعرو حکمت حیدر آباد کتاب اول1987
(4)علی گڑھ میگزین شمارہ اول 1957
(5 )جدید ادب جرمنی۔ شمارہ نمبر 5۔ جولائی 2005
٭٭٭
میراجی کی نظمیں اپنے عہد کے تناظر میں
احتشام علی
حلقۂ اربابِ ذوق، ترقی پسند تحریک کے متوازی ابھرنے والی ایک ایسی تحریک تھی جس نے جدید اردو نظم کو فرد کے داخلی تحرک سے منسلک کرتے ہوئے ایک نئے طرزِ احساس کی بنا رکھی۔ جدید اردو نظم کی روایت میں حلقے کے تحت لکھی جانے والی نظم خارج کی بجائے داخل اور ظاہر کی بجائے باطن کی آئینہ دار تھی۔ ترقی پسند تحریک اردو ادب خصوصاً شاعری سے جس مخصوص نقطۂ نظر کو اجاگر کرنے کا تقاضا کرتی تھی حلقۂ ارباب ذوق کے نظم نگار اس سے بالکل متضاد سوچ کے حامل تھے جس کی بدولت اسے ابتدا ہی سے ترقی پسند تحریک کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ علی سردار جعفری نے حلقے اور اس کے اراکین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا:
’’اسی زمانے میں ایک اور گروہ نے سر اٹھایا۔ یہ ہیئت پرست، ابہام پرست اور جنس پرست ادیب تھے جن کے مشہور نمائندے میراجی، یوسف ظفر، ممتاز مفتی اور مختار صدیقی وغیرہ تھے ان کی رومانیت مہجول اور گندی تھی ان کا انا کسی قسم کی سماجی ذمہ داری کو برداشت نہیں کرتا تھا جس کا لازمی نتیجہ ابہام، قنوطیت اور فرار تھا۔ ‘‘۱
حلقۂ اربابِ ذوق کے تحت جدید اردو نظم کی روایت کے فروغ میں میراجی کی حیثیت بنیاد ساز کی تھی۔ اُن کی نظموں اور تنقیدی بصیرت نے نہ صرف حلقے کی روایت کا رخ جدید نظم نگاری کی طرف پھیرا بلکہ مغربی شاعری کے جدید رجحانات کو بھی متعارف کرایا۔ حلقے کے دوسرے ادبا کی نسبت میراجی مشرقی و مغربی ادب پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے اور اس کا عملی ثبوت ان کی تنقیدی مضامین کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘ کی صورت میں منصہ شہود پر آ چکا تھا۔ مولانا صلاح الدین کے بقول ’’میرا جی ذہنی اعتبار سے مغرب کے جدید علوم کی طرف راغب تھے لیکن ان کی فکری جڑیں قدیم ہندوستان میں پیوست تھیں۔ ‘‘ ۲ میرا جی کی نظمیں نہ صرف فرد کے داخلی آشوب کی آئینہ دار تھیں بلکہ ان کی نظموں میں موجود فرد ایسے تمام جذبات کا اظہار مکمل برہنگی سے کرنے پر قادر تھا جنھیں مخصوص مُلائی سوچ نے ایک مدت سے تہذیب کے جامے میں قید کر رکھا تھا۔ اسی لیے میرا جی کی شاعری کو ابتدا ہی سے آڑے ہاتھوں لیا گیا کسی نے اُنھیں ملارمے اور بودلیئر کا پیروکار قرار دیا اور کسی نے اُن کی نظموں میں موجود غنائی کیفیات کو کبیر، میربائی، چنڈی داس، امرو اور ودیاپتی سے اکتساب کا نتیجہ قرار دیا مگر بنظرِ غائر دیکھا جائے تو ان کی نظموں کے بہت سے میلانات میرا جی کی اپنی ذات میں چھپی محرومیوں، نفسیاتی الجھنوں اور جنسی ناآسودگی کا شاخسانہ تھے۔ ادب کے غیر ترتیب یافتہ قارئین نے بھی میراجی کی نظموں کے متن کی ساخت کو مدنظر رکھنے کی بجائے اُن کی شخصیت کے گنجلکوں اور غیر فطری جنسی رجحانات پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھی اور میراجی کی شخصیت کو ایک شاعر سے زیادہ افسانہ بنا کر اُس سے حظ اٹھاتے رہے۔ اگر میرا جی کی شاعری کو اُن کے عہد کی حسّیت کے سیاق میں رکھ کر دیکھیں تو اُن کی نظمیں مروجہ اقدار کے خلاف ایک ایسے انفرادی ردِعمل کی غماز ہیں جس نے شاعری کے کعبہ میں ایستادہ روایتی بتوں پر کاری ضرب لگاتے ہوئے عورت، مرد کے باہمی تعلق کو شمسہٰ اور سلمیٰ کی افلاطونی محبت کے رومانی دائرے سے باہر نکالا اور جبلی تقاضوں کی اہمیت کا ادراک کرایا۔ سلیم احمد کے بقول ’’میرا جی وہ تنہا شاعر تھا جس کی ذات میں اس زمانے کی مخصوص روح ہم آہنگی تلاش کر رہی تھی جسے ہم نے ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں کہیں گم دیا تھا‘‘ ۳
سلیم احمد کی مندرجہ بالا رائے اس بات پر دال ہے کہ ایک ایسے دور میں جب فرد اپنی شخصی سطح سے علاحدہ ہو کر اجتماعی آدرشوں کے تعاقب میں بھٹکتا ہوا اپنی ذات سے بالکل لا تعلق ہو گیا تھا۔ میرا جی نے اپنی نظموں کے ذریعے انسانی سائیکی کے ان کونے کھدروں کو کھنگالنے کی کوشش کی جن تک رسائی ایک مدت سے مفقود ہو چکی تھی، ’اٹھیے بس اب کہ لذتِ خواب سحر گئی‘‘ سے لے کر ’’ ہاتھ آلودہ ہے، نمدار ہے دھُندلی ہے نظر‘‘ تک کا یہ سفر قریباً ایک صدی پر محیط تھا جب فرد نے اپنے گرد و پیش میں بپا ہنگاموں کو فراموش کر کے خود اپنی ذات کو درپیش سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے زمانے کے کوہِ ندا کو پار کیا تھا۔ ن م راشد نے اپنی ایک نظم کے چند مصرعوں میں دو صدیوں کے اس داخلی آشوب کو اس طرح سمونے کی کوشش کی ہے کہ میر، میرزا اور میراجی کی روحوں کا خلفشار ایک تاگے میں پرویا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ چند مصرعے دیکھیے :
میر ہو، مرزا ہو میرا جی ہو
نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے
ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی طولِ المناکی ہے
ایک ہی روح جو بے حال ہے زندانوں میں
ایک ہی قید تمنا کی ہے۔ ۴
اگر ہم میرا جی کی نظموں پر بات کرنے سے پہلے اُن کے شخصی خاکے پر نگاہ ڈالیں تو خود ان کا اپنا وجود بھی مذکورہ عہد کی فرسودہ، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے خلاف شدید ترین ردِ عمل کا اعلامیہ تھا۔ شمیم احمد کے بقول:
’’وہ اپنی ہر شکست کا بدلہ اپنی ذات سے لینے لگے اور خود لذتی کا شکار ہو گئے۔ انھوں نے اردو شاعری میں رومانی بہروپیے کی حیثیت سے زندہ رہنے کی کوشش کی، لمبی لمبی زلفیں، ہاتھ میں گولے، گردن میں مالا اور پتلون کی جیب کا استر غائب‘‘ ۵
میراجی کی شاعری میں موجود علامتیں فرد کے نفسیاتی مسائل، جنسی الجھاووں، اذیت پرستی اور لایعنیت ایسے رجحانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی نظموں میں ایسی تمثالوں کی فراوانی ہے جو Image کی مہین ترین صورتوں کو اداسی اور بے یقینی کی ایک ملگجی دھند میں لپیٹ کر قاری کے سامنے پیش کرتی ہیں۔ جنگل کی مخصوص گنجلک فضا اور اس فضا میں پائے جانے والے پُر اسرار جملہ عناصر کو ان کی نظموں میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ ایسی نظموں میں آر کی ٹائپ (Architype) کی کارفرمائی ایک ایسی حسّیت کو تشکیل دیتی ہے جہاں جنگل کی تہذیب قدیم آریائی اور دراوڑی تہذیبوں کی باہم آمیزی سے قدیم ہندوستان کی باز آفرینی کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ وزیر آغا کے بقول:
’’میراجی کی نظموں میں جنگل کی یہ فضا اپنی ساری متنوع کیفیتوں کے ساتھ بڑے بھرپور انداز میں نمایاں ہوتی ہے بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ موضوع ہو گا کہ جنگل کی طرف میرا جی کی مراجعت دراصل قدیم ہندوستان کی طرف مراجعت ہے۔ ‘‘ ۶
میراجی کی نظموں میں ایسی قدیم تلمیحات، استعارات اور اساطیر وافر مقدار میں موجود ہیں جن کا تعلق خالصتاً قدیم ہندو مذہب اور کلچر سے ہے خصوصاً رادھا اور کرشن کے معاشقے اور جنسی معاملات کو انتہائی دلجمعی سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک نظم کا ٹکڑا دیکھیے :
یہ چندا کرشن۔ ستارے ہیں جھرمٹ براندا کی سکھیوں کا
اور زہرہ نیلے منڈل کی رادھا بن کر کیوں آئی ہے ؟
کیا رادھا کی سندرتا چاند بہاری کے من کو بھائے گی؟ ۷
میراجی کی جنسی ناآسودگی اور جبلی پیاس کے نقوش کی بدولت ان کی بعض نظموں کو بہت زیادہ ہدفِ تنقید بنایا گیا مگر یہ ان کی فنکارانہ چابکدستی ہے کہ ’’لبِ جوئبارے ‘‘ جیسی نظموں میں بھی بالواسطہ طرزِ اظہار، نت نئی تمثالوں اور علامتوں کا استعمال نظم کو اکہریت اور سپاٹ پن سے محفوظ رکھتا ہے۔ ’’اونچا مکان‘‘، ’’حرامی‘‘، ’’دھوبی گھاٹ‘‘ جیسی نظموں میں بھی جنسی بیانیہ براہِ راست نہیں بلکہ علامتوں کے ماہرانہ استعمال کی بدولت لگا لپٹا محسوس ہوتا ہے، ’’دھوبی کا گھات‘‘ کے آخری مصرعوں میں شاعر کا نیم دعائیہ انداز نظم کو جنسی الجھاوے سے کہیں بلند تر سطح پر لے جاتا ہے۔
پھیلے ہوئے ملبوس پہ کرنوں کی تمازت
ہے زیست کے گیسو کی حرارت
اس شخص کو پیراہنِ آلودہ کے دھونے ہی سے روزی
ملتی ہے جہاں میں
تُو اس پر نظر کر۔ ۸
میراجی کی مغربی شعرا سے آشنائی اور جدید مغربی رجحانات کا مطالعہ ان کی شعری کرافٹ میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی نظموں میں غی رمرئی پیکروں کی تجسیم داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کثیر ابعاد کی حامل قرار پاتی ہے۔ ایک نظم ملاحظہ ہو جس میں سائے کی Personificationنہ صرف شاعر کے داخلی جذبات کی عکاس ہے بلکہ خارجی مظاہر بھی شاعر کے تخیل سے جِلا پا کر سایوں میں ڈھلتے محسوس ہوتے ہیں۔ نظم میں موجود پیراڈوکس (Parodox)، معاشرے کے دوہرے معیارات اور شاعر کا داخلی کرب اس کی رگوں میں دوڑتے اُداسی اور ڈر کے سیال کو ایک نئی احساساتی سطح عطا کرتے ہوئے اپنی تجسیم گھٹنے بڑھتے سایوں کی شکل میں کراتے ہیں جو ایک طرف بے یقینی کی شدید ترین صورتِ حال کے عکاس ہیں اور دوسری طرف ارد گرد پائے جانے والے اس خوف کی دلالت کرتے ہیں جس کا براہِ راست تعلق مذکورہ عہد کی حسّیت سے ہے۔ نظم ’’دن کے روپ میں رات کہانی‘‘ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں :
اور مری ہستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے
جس کے ہر ایک کنارے کو شعاعِ سوزاں
اپنی شدت سے جلانے پہ، مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے
کاش آ جائے گھٹا، چھائے گھٹا اور بن جائے
چڑھتے سورج کا زوال۔
راستہ آج بھی سایہ ہے مگر ایک نیا سایہ ہے
راہ میں ایک مکان۔
وہ بھی سایہ ہے اداسی کا گھنیرا سنسان
راہ میں آتی ہوئی ہر مورت
ایک سایہ ہے۔ چڑیل
حور کا اس میں کوئی عکس نظر آتا نہیں
دیکھتے ہی جسے میں کانپ اٹھا کرتا ہوں
آنکھوں میں خون اتر آتا ہے
سامنے دھند سی چھا جاتی ہے
دل دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے۔ ۹
میرا جی کی بہت سی نظموں کے متون ادب کے سنجیدہ قارئین سے آج بھی اپنی تفہیم کے متقاضی ہیں، ایسی نظموں کو میراجی کی شخصیت کے دھندلکوں میں الجھا کر ناقابلِ تفہیم قرار دینا یا انھیں میراجی کی شراب نوشی سے منسلک قرار دے کر منہ پھیر لینا میراجی کے ذہنِ رسا کے ساتھ ہی نہیں بلکہ جدید اردو نظم کے ساتھ بھی زیادتی کے مترادف ہے۔ ایسی نظموں کے متن میں موجود نیم روشنی (Translucence) اور کثیر المعنویت کو تنقید کے جدید ترین رجحانات کی روشنی میں ڈی کوڈ (Decode) کرنا از حد ضروری ہے اس ضمن میں ناصر عباس نیر کا میراجی کی نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ کا ساختیاتی مطالعہ بطور نمونہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ میراجی کی نظموں کا زمانی دائرہ محض اُن کے اپنے عہد تک محدود نہیں ہے بلکہ ایک آفاقی تناظر میں فرد کی داخلی تنہائی اور آشوب کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ عصری حسّیت ان کی نظموں میں کسی خارجی مظہر کی بجائے ان کے داخلی کرب سے آمیز ہو کر ایک مادی معاشرے میں فرد کی ذات میں پیدا ہونے والے خلا کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک نظم ’’رخصت‘‘ دیکھیے جس میں موجود فرد وجودی کرب میں مبتلا ہو کر زندگی کے ویران محل کو اپنے ناخنوں سے چھیلنے کے کارِ بے سود میں مصروف نظر آتا ہے۔ علاوہ ازیں متن میں موجود ثقافتی کوڈز یاجوج ماجوج کی اسلامی اساطیر کی طرف بھی واضع اشارہ کرتے ہیں :
آپ ہی آپ میں بہتے ہوئے دھارے کی طرح
اپنے پاؤں کو بڑھا لیتا تھا
آپ ہی آپ میں رستی ہوئی بوندوں کی طرح
سوچتے سوچتے رُک جاتا تھا
آپ ہی آپ ابلتی ہوئی چشمِ نمناک
یاد کے دامنِ بوسیدہ سے
خشک ہونے کے لیے پل کو لپٹ جاتی تھی
آپ ہی آپ میں روتے ہوئے طائر کی طرح
بہتے بہتے کسی ٹہنی پہ بسیرا لے کر
جھومتی ٹہنی سے لپٹی ہوئی پھیلی ہوئی، بے جان زمیں کے اوپر
اپنی ہستی کو گرا دیتا تھا
اور گرتے ہی نظر آتا تھا
ایک ویران محل
جس کی چوکھٹ کو مرے ہاتھوں کے ناخن ہر دم
چھیلنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے
جیسے یوں چھیلنے سے منظرِ بوسیدہ پر
کچھ نئے نقش ابھر آئیں گے ۱۰
مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں ہم یہ بات انتہائی وثوق سے کہ، سکتے ہیں کہ جدید اردو نظم کی روایت میں میراجی کی حیثیت ایک دبستان کی سی ہے۔ اسی لیے سلیم احمد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:
’’شاعرانہ روایتوں کو پیدا ہوتے اور پروان چڑھنے میں تو صدیاں لگتی ہیں پتا نہیں سو پچاس سال کی مستقل کوششوں کے بعد اس روایت میں کس رتبہ کی شاعری ہو لیکن یہ ایک بات میں جانتا ہوں۔ یہ روایت جب تک قائم رہی اپنی ترقی کی انتہا پر پہنچ کر بھی میراجی کی مرہونِ منت رہے گی‘‘ ۱۱
٭٭
حوالہ جات و حواشی
(۱)علی سردار جعفری۔ ’’ترقی پسند ادب‘‘۔ علی گڑھ: انجمن ترقیِ اردو ہند، ۱۹۵۱ء۔ ص۱۶۷
(۲)انور سدید، ڈاکٹر۔ ’’اردو ادب کی تحریکیں ‘‘۔ کراچی: انجمنِ ترقیِ اردو پاکستان، طبع ششم، ۲۰۰۷ء، ص۵۴۱
(۳)سلیم احمد۔ ’’بدنام شاعر‘‘۔ مشمولہ، میراجی-ایک مطالعہ۔ (مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی) لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۰ء۔ ص۳۳۳
(۴)ن م راشد۔ ’’کلیاتِ راشد‘‘۔ لاہور: ماورا پبلشرز، سنہ ندارد۔ ص۳۴۱
(۵)شمیم احمد۔ ’’جدید شاعری کا اسکول‘‘ مشمولہ، میراجی-ایک مطالعہ۔ (مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی)لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۰ء۔ ص۳۳۳
(۶)وزیر آغا، ڈاکٹر۔ ’’دھرتی پوجا کی ایک مثال۔ میراجی‘‘۔ مشمولہ، نظمِ جدید کی کروٹیں، لاہور: سنگت پبلشرز، طبع چہارم، ۲۰۰۷ء۔ ص۶۸
(۷)میراجی۔ ’’کلیاتِ میراجی‘‘۔ (مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی) لاہور: سنگِ میل پبلی کیشنز، طبع دوّم، ۱۹۹۶ء۔ ص۵۱،
(۸)____ایضاً ____ص۸۴
(۹)____ایضاً ____ص۱۲۳
(۱۰)____ایضاً ____ص۱۳۸
(۱۱)سلیم احمد۔ ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘۔ کراچی: نفیس اکیڈمی، آفسٹ ایڈیشن، اگست ۱۹۸۱ء۔ ص۶۴
٭٭٭
میرا جی کی غزل: ایک نئے لسانی پیرائے کی تلاش
ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی
میرا جی کی غزل اردو غزل کی روایت سے منحرف بھی ہے اور منسلک بھی۔ میرا جی نے محدود تعداد میں جتنی غزلیں کہی ہیں ان میں ما قبل اور معاصر غزل سے انحراف کے کئی پہلو نشان زد کیے جا سکتے ہیں۔ میرا جی کی نظم ہمیشہ توجہ کا مرکز رہی ہے، حالاں کہ ان کی غزل بھی خصوصی مطالعے کی حق دار ہے۔ میرا جی کی غزل کے حوالے سے پہلا سوال تو یہ ذہن میں آتا ہے کہ انھوں نے غزل کی طرف کم توجہ کیوں کی؟اس کا ایک سیدھا سا جواب تو یہ ہے کہ میرا جی کی انفرادیت پسندی اور باغیانہ مزاج کو نظم میں زیادہ سہولت میسر تھی۔ ان کے منفرد شعری تجربے کی ترسیل اور تخلیقی اظہار کے لیے نظم زیادہ موزوں صنف سخن تھی۔ وہ جس جہان کی تلاش میں نکلے تھے وہ نظم کا جہان تھا۔ اس راستے پر غزل اپنی تنگ دامانی کی وجہ سے ان کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ اس میں ایک پہلو یہ بھی مضمر ہے کہ ہماری اردو غزل جس تہذیب کو پیش کر رہی تھی وہ ہند اسلامی تہذیب تھی جب کہ میرا جی کی روح خالصتاً ہند آریائی تہذیب کے منطقوں میں سفر کر رہی تھی۔ مثلاً ان کی نظموں کے یہ ٹکڑے دیکھیے :
جنگل کی ہر اک ٹہنی نے سبزی چھوڑی، شرما کے چھپی تاریکی میں،
اور رنگ برنگ پھولوں کے شعلے کالے کاجل بن کر روپوش ہوئے،
اور بادل کے گھونگٹ کی اوٹ سے ہی تکتے تکتے، چنچل چندا کا روپ بڑھا!
یہ چندا کرشن۔ ستارے ہیں جھرمٹ برندا کی سکھیوں کا!
اور زہرہ نیلے منڈل کی رادھا بن کر کیوں آئی ہے ؟
کیا رادھا کی سندرتا چاند بہاری کے من بھائے گی؟(سنجوگ)
کیوں چھوڑ سنگھاسن راجہ نے بن باس لیا، کیا بات ہوئی
کب سکھ کا سورج ڈوب گیا، کب شام آئی، کب رات ہوئی
ساون کی رم جھم گونج اُٹھی۔۔ بادل چھائے برسات ہوئی
راجا تو کہاں، پرجا پیاسی اک اور ہی روپ میں ناچتی ہی
اب دائیں جھکو، اب بائیں جھکو، یوں، ٹھیک، یونہی، ایسے ایسے !(کتھک)
میرا جی کی غزل کے حوالے سے یہ کہنا کہ وہ ہند اسلامی روایت کے شاعر ہیں اور اس بڑے خاندان کے فرد ہیں جس میں عراقی، شاہ حسین، وارث شاہ، حسن شاہ اور خواجہ غلام فرید شامل ہیں (۱)۔ درست نہ ہو گا۔ ممکن ہے میرا جی کی نظم میں صوفیانہ واردات اور ان کی قلبی واردات میں مماثلت کے کچھ نشان مل جائیں لیکن غزل میں ایسے آثار کی تلاش سود مند ثابت نہیں ہو گی۔ غزل کا ایک متعین، مستحکم اور محدود فریم ورک ہے۔ غزل اس فریم ورک سے باہر نہیں آسکتی، اگر آئے گی تو غزل، غزل نہیں رہے گی، اس لیے غزل میں یکسر نئے تجربات کی گنجایش بھی کم ہو جاتی ہے۔ میرا جی جدیدیت کے علم بردار ہیں۔ جدیدیت، روایت سے جس مکمل انقطاع کا مطالبہ کرتی ہے وہ غزل میں مکمل طور پر ممکن نہیں ہے۔ غزل میں میراجی کی جدیدیت پسندی حارج ہوتی ہے اس لیے وہ کھل کر غزل نہیں کہہ سکے اور جس قدر غزلیں کہی ہیں ان میں بھی روایت سے مکمل انقطاع میں کامیاب نطر نہیں آتے۔ روایت سے اس وابستگی کا احساس خود شاعر کو بھی ہے :
میر ملے تھے میرا جی سے باتوں سے ہم جان گئی
فیض کا چشمہ جاری ہے، حفظ ان کا بھی دیوان کریں
روایت سے مکمل انقطاع نہ کر سکنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا جی کی غزل بھی غزل کے بنیادی حصار کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ ان کی غزلیں، غزل کی بنیادی ہیئت کی پابند ہیں اور ان کی تشبیہیں، استعارے اور تمثالیں بھی کافی حد تک مانوس ہیں۔ میرا جی کی نظم کے بر عکس ان کی غزل کا بیانیہ سادہ اور قابل فہم ہے اور وہ ابہام جو میرا جی کی نظم کا خاصا ہے، ان کی غزل میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ غزل میں بھی ان کا رویہ جدیدیت پسندی کا ہے۔ ان کے ہاں داغ کا رنگ یا حالی اور اقبال کا اتباع(۲ )نہیں ہے۔ اقبال کا اتباع ان معنوں میں ہو سکتا ہے کہ نظم میں میرا جی کی جدیدیت پسندی روایت سے انقطاع پر مبنی ہے جب کہ غزل میں اقبال کی طرح ان کی جدیدیت بھی روایت سے کسی نہ کسی طور مربوط نظر آتی ہے۔
دل میں ہر لحظہ ہے صرف ایک خیال
تجھ سے کس درجہ محبت ہے مجھے
کیفیت خانہ بدوشانِ چمن کی مت پوچھ
یہ وہ گلہائے شگفتہ ہیں جو برباد نہیں
موہ کا پنچھی دل میں بے کل ڈول رہا ہے جنگل جنگل
تو ہے اک نادان شکاری، ٹھیک نہیں ہیں تیر ے نشانے
سدھ بسرے پر ہنسنے والو چاہ کی راہ چلو تو جانو
اوچھا پڑتا ہے ہر داؤں جب یہ جادو چل جاتا ہے
میرا جی کی طویل بحر کی غزلوں کا آہنگ ان کی غزل کو گیت کے قریب تر کرتا ہے۔ اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کہ میرا جی کی ذہنی مناسبت ہند آریائی تہذیب سے تھی۔ گیت کی صنف اس تہذیب کی بہتر نمایندگی کرتی ہے۔ اس لیے گیت کی جانب ان کا فطری میلان تھا جو کسی نہ کسی طرح ان کی غزل میں بھی راہ پاتا رہا ہے۔ اسی نسبت سے غزل میں ہندی الفاظ کی آمیزش بھی غزل کے لیے ایک نئے لسانی پیرائے کی تشکیل کی کوشش کی طرف اشارہ کرتی ہے مگر یہ روایت پہلے سے موجود تھی۔ اسے میرا جی کی اختراع قرار نہیں دیا جا سکتا۔
غزل کی شعریات میں غزل کا مزاج، موڈ اور آہنگ غزل کے اندرونی نظام سے تشکیل پاتا ہے۔ بالخصوص غزل کا قافیہ، ردیف اور بحر جو تاثر قایم کرتے ہیں اسے حتمی تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے غزل کے شعرا اس کے عادی ہیں اور قاری بھی اس سے سمجھوتا کرنے پر مجبور ہے۔ یوں قاری کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ متن سے ایک خاص قسم کے حظ اور تاثر سے آگے بڑھے۔ جب کہ نئی تنقیدی تھیوری متن میں قاری کی شمولیت کو نظر اندازکرنے کے حق میں نہیں ہے۔ کسی بھی ادبی متن کی درست قرأت معنی یابی اور متن کے کثیر ابعاد تک رسائی کے امکانات کو وسیع کر دیتی ہے۔ جب کہ متن کی غلط قرئات اصل مفاہیم کے عیاں ہونے میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔ غزل کے اشعار میں الفاظ کا مفہوم شعر کے آہنگ سے متعین ہوتا ہے۔ اردو میں علاماتِ اوقاف کا استعمال صرف متن کی درست قرأت میں معاون ہی نہیں ہوتا، بل کہ لہجے کا اتار چڑھاؤ شعرکے بیانیہ ہے یا استفہامیہ ہونے کا تعین بھی کرتا ہے۔
اپنا اپنا رنگ بھلا لگتا ہے۔۔ کلیاں چٹکیں، پھول بنیں
پھول پھول یہ جھوم کے بولا:کلیو!تم کو بدھائی ہو
آبشار کے رنگ تو دیکھے لگن منڈل کیوں یاد نہیں
کس کا بیاہ رچا ہے ؟دیکھو!ڈھولک ہے شہنائی ہی
پہلے شعر کا لہجہ خطابیہ اور مسرت کا ہے جب کہ دوسرے شعر کا لہجہ استفہامیہ ہے اور ساتھ یاد اور حسرت کا اظہار بھی ہے۔ کلیاتِ میرا جی کے مرتب نے لکھا ہے :’’املا اور رموزِ اوقاف وہی رکھے گئے ہیں جو میرا جی نے متعین کیے تھے ‘‘(۳)۔ گویا شاعر کو اس بات کا احساس تھا کہ شعر کی درست قرأت اصل مفہوم تک رسائی کے لیے ضروری ہے۔ غور کریں تو میرا جی کے ان دو اشعار میں خط، سکتہ، رابطہ، فجائیہ اور استفہامیہ کی پانچ علامات استعمال ہوئی ہیں۔ شعری روایت میں ہمیں بسرام کے لیے سکتہ اور زیادہ سے زیادہ سوالیہ کی علامت نظر آتی ہے۔ مگر میرا جی نے اس قدر زیادہ علاماتِ اوقاف کے استعمال سے اشعار کے لب و لہجے میں معانی کے مزید امکانات کو روشن کر دیا ہے۔ ایسی موہوم اور بے نشان کیفیتیں جو عموماً قابلِ توجہ نہیں ٹھہرتیں، یہاں وہ بھی شاعر کے شعری تجربے کا حصہ بن گئی ہیں ان کا ادراک محض ان آوازوں سے ہو رہا ہے۔ جنھوں نے علامات اوقاف کے استعمال سے جنم لیا ہے۔ یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے کہ آوازیں معانی سے عاری نہیں ہوتیں بل کہ ان کے باطن میں بھی خیال، تجربے یا تاثر کی کوئی لہر موجود ہوتی ہے جو شعر کے مجموعی آہنگ اور تاثر کو بدل سکتی ہے۔ میرا جی کے جہانِ غزل میں آگے بڑھنے سے قبل ہمیں خود شاعر سے رجوع کرنا پڑے گا۔ میرا جی لکھتے ہیں :
’’ہماری پرانی شاعری میں منزل، جادہ، ناصح، عاشق اور اس قسم کے دوسرے الفاظ کے ساتھ ایک خاص معنی بل کہ یوں کہیے کہ ایک محدود معنی منسلک ہیں۔ آج کل کے جدید زمانے کا شاعر جب انہی الفاظ کو اپنے کلام
میں استعمال کرتا ہے تو چاہے بعض دفعہ وہ روایتی مفہوم کو بھی کام میں لائے لیکن اس کے با وجود اس کی اپنی شخصیت ان پرانے لفظوں میں مفہوم کے نئے رنگ پیدا کرتی ہے اور ایسے شاعروں کے کلام سے لطف اٹھا نے کے لیے (یا کم از کم اس کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے )ہمیں اس فریب سے بچنا ضروری ہے جسے قدامت
کے تعین کی گہرا ئی ہمارے ذہنی افق سے دور نہیں ہونے دیتی۔ ‘‘(۴)
نئی فکر نئے تخلیقی اظہار کا تقاضا کرتی ہے۔ نئے تخلیقی اظہار کے لیے نئی زبان کی ضرورت بھی ایک فطری بات ہے۔ شاعری میں جو الفاظ معانی کا تعین کرتے ہیں وہ لغوی مفہوم کے پابند نہیں ہوتے۔ ہماری کلاسیکی شاعری کی شعریات میں الفاظ اپنے متعین مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں لیکن نئی شاعری کی شعریات الفاظ کی کثیر الابعاد معنویت پر زور دیتی ہے۔ اردو شاعری کی ڈکشن اور آہنگ میں تبدیلی کی اولین کوشش میر وسودا اور انشا و جرأت کے عہد میں نظر آتی ہے۔ عام بول چال کے الفاظ کو غزل کی زبان بنانے کی یہ کوشش بارور تو ہوئی لیکن رفتہ رفتہ الفاظ کے چند متعین مفاہیم بھی کلیشے کی صورت اختیار کر گئے۔ حالی اور آزاد نے اجتماعی اور عقلی بنیادوں پر زبان کی تبدیلی پر زور دیا۔ یہ تبدیلی نئے خیالات کے اظہار کا وسیلہ تو بن سکی لیکن کسی نئے تخلیقی بعد اور اور نئے تخلیقی عمل کی انفرادیت قایم کرنے سے قاصر رہی۔ میرا جی جس نئے لسانی پیرائے کی تشکیل میں مصروف تھے اس کا مقصد انفرادی تجربے اور اسلوب میں مطابقت پیدا کرنا تھا۔ اس مطابقت کے لیے ضروری تھا کہ زبان کے قدیم ڈھانچے کو وسیع کیا جائے۔ وہ زبان کو محض خیال کے ایک پیکر کے بجائے انسان کے ذہنی، حسی اور جذباتی تجربے سے مربوط حقیقت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ نظم کی طرح غزل میں بھی اپنے انفرادی تجربے کی ترسیل کے لیے انھوں نے اردو غزل کی زبان میں نئی لفظیات شامل کرنے کی کوشش کی۔ شاید وہ منطقی اثباتیت پسند وں کے خیالات سے بھی اثر لے رہے تھے۔ وٹگنسٹائن نے کہا تھا الفاظ محض مشہود تجربوں کی تصویر نہیں ہوتے بل کہ زندگی کے ہمہ رنگ تجربوں کی خاکہ کشی بھی کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں الفاظ صرف واقعات کا اثبات نہیں ہوتے بل کہ ایسے حسی تجربوں کی نشان دہی بھی کرتے ہیں جو شعور کی گرفت میں نہیں آسکتے یعنی حقیقت صرف وہ نہیں جس کا تجربہ کیا جا سکے، تجربے کا تاثر بھی حقیقت کا حصہ ہوتا ہے۔ جب ہم الفاظ کو ان کے مروجہ مفاہیم میں استعمال کرتے ہیں تب تک کوئی مشکل نہیں آتی۔ مشکل وہاں پیش آتی ہے جب ہم فلسفیانہ تخیل کی راہ اپناتے ہیں۔ یہاں رسمی زبان سے ہمارا رشتہ کمزور پڑ جاتا ہے اور تخلیقی اظہار میں ابہام اور ژولیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ ہم عادت کے مطابق زبان کے رسمی مفہوم سے آزاد نہیں ہو پاتے اس لیے مغائرت کے احساس سے دو چار ہوتے ہیں۔ یوں ہم تخلیق کار کے اس نکتہ نظر سے بھی بے خبر رہتے ہیں جو دوران تخلیق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ در اصل اس نکتہ نظر کی شمولیت ہی لفظ کو انوکھا بناتی ہے (۵)۔ میرا جی نے اپنی کچھ غزلوں میں بظاہر مانوس الفاظ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ ان کا ظاہری مفہوم بھی الجھاؤ کا شکار ہو گیا ہے :
ملائیں چار میں گر د و تو بن جائیں گے چھ پل میں
نکل جائیں جو چھ سے سے دوتو باقی چار رہتے ہیں
یہ روایتی غزل کی زبان نہیں ہے۔ ریاضی کی کوئی مساوات بھی نہیں۔ مشرقی تنقید کے پیمانے سے دیکھیں تو اس میں صنعتِ سیاقۃ الاعداد کے تقاضے بھی پورے نہیں ہو رہے۔ یہ زندگی کی حقیقت کے بارے میں شاعر کا استہزائیہ لہجہ ہے اور زندگی کی میکانیت پر کیا گیا طنز ہے جو اس کے انفرادی تجربے کی ترسیل کا ذریعہ اظہار بن گیا ہے۔ شاعر کے انفرادی نکتہ نظر نے ان مانوس الفاظ کو انوکھا بنا دیا ہے۔ ’’شاعری میں زبان اور اس کے تمام اوزاروں کی طرف شاعر کا رویہ انفرادی ہوتا ہے۔ اس رویے کی تربیت میں اس کی روایت اور ماحول کے اثرات کی اہمیت مسلم ہے۔ تاہم ذاتی تجربے اور طرزِ احساس کی زائیدہ شاعری لسانی اور فنی اعتبار سے ہمیشہ عمرانی معاہدوں کی پابند نہیں ہوتی۔ اس لیے ہر شاعر کے مطالعے میں اس کے انفرادی طریقِ کار اور استعداد، نیز زبان کی طرف اس کے ذاتی رویوں کی تلاش و تفہیم ناگزیر ہے ‘‘(۶)۔ میرا جی کی ذاتی زندگی کا مطالعہ اس حقیقت کو منکشف کرتا ہے کہ وہ جسم اور روح کے ملاپ اور حقیقت اور خیال کے ادغام کے قائل ہیں۔ ان کا یہ انفرادی تجربہ اور رویہ گردو پیش کی دنیا کو نئے انداز میں تخلیق کرنے پر مائل کرتا ہے۔ اس صورت حال میں مروج اور مستعمل لفظ حقیقت کو اجاگر کرنے میں مددگار نہیں ہو پاتے۔ میرا جی مروجہ صیغۂ اظہار کی اس نا رسائی سے با خبر ہیں، اس لیے وہ اردو غزل کو بھی نئے اسالیب سے روشناس کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ حقیقت کو مکروہ شکل میں دریافت کرتے ہیں اور بد صورتی میں سچائی کا نشان پاتے ہیں۔ ان کا یہ پراسرار تجربہ غزل کے محدود فریم ورک کے اندر ایک نئے لسانی پیرائے میں منکشف ہوتا ہے :
کیا پوچھتے ہو ہم سے یہ ہے حالتِ جگر
پی اس قدر کہ کٹ ہی گیا آلتِ جگر
چہرے کا رنگ زرد، مئے ناب کا بھی زرد
یہ رنگ ہیں کہ رنگ ہے پیشاب کا بھی زرد
بیسویں صدی میں نئے موضوعات کے تخلیقی اظہار کے لیے جس نئے لسانی پیرایے کا مطالبہ نئی شاعری نے کیا اس کے لیے منضبط کوششیں لسانی تشکیلات کے علم برداروں نے کیں۔ لسانی تشکیلات کی تحریک کا آغاز ۶۰ء کے عشرے میں ہوا۔ افتخار جالب کی مرتبہ ’’نئی شاعری۔ ایک تنقیدی مطالعہ‘‘۱۹۶۱ء میں منظر عام پر آئی۔ لسانی تشکیلات کا تخلیقی اظہار نظم اور افسانے میں زیادہ ہوا۔ غزل میں لسانی تشکیلات کی کوشش ظفر اقبال نے ’’گلافتاب‘‘ میں کی جو ۱۹۶۵ء میں شایع ہوئی لیکن درحقیقت اردو غزل میں لسانی تشکیل کے ابتدائی نقوش میرا جی کی غزل میں نظر آتے ہیں۔ جب کوئی تخلیق کار متعارف اور مروج رویّوں سے ہٹ کر نئی لسانی راہ اپناتا ہے تو بہت ساری لسانی پیچیدگیاں بھی جنم لیتی ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم سوال یہ درپیش ہوتا کہ کیا تخلیق کار کا لسانی اور اسلوبی تجربہ اس کے تخلیقی تجربے کا حصہ بن پایا ہے کہ نہیں ؟لسانی تشکیلات کے شعرا کے برعکس میرا جی کا امتیازیہ ہے کہ اردو غزل میں ان کے اس لسانی تجربے نے کسی پیچیدگی یا مغائرت کو جنم نہیں دیا بل کہ ان کے تخلیقی تجربے سے ہم آہنگ ہو کر ابھرا ہے۔
٭٭
حوالہ جات
۱۔ جیلانی کامران، میرا جی مشمولہ میرا جی صدی۔ منتخب مقالات، مرتبہ، ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹر عابد سیال، اسلام آباد:مقتدرہ قومی زبان، ۲۰۱۰ء، ص۱۹۷
۲۔ صلاح الدین احمد، میرا جی کی نثر، مشمولہ مشرق و مغرب کے نغمے، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء، ص ۱۰۔ ۱۱
۳۔ ڈاکٹر جمیل جالبی، مرتب، کلیات میرا جی، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز۔ ۲۰۰۰ء، ص۳۱
۴۔ میرا جی، بحوالہ اکرام قمر، میرا جی کی آخری تحریریں، مشمولہ میرا جی صدی۔ منتخب مقالات، ص۲۴۲۔ ۲۴۳
۵۔ شمیم حنفی، جدیدیت اور نئی شاعری، لاہور:سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۸ء؛ص۱۶۹۔ ۱۷۰
۶۔ ایضاَ، ص۴۶۱
٭٭٭
’میرا جی کے گیت : ایک تعارف۔ ایک جائزہ
شکیل کوکب
’’میرا جی کے گیت ‘‘ میرا جی کی پہلی شعری تصنیف ہے جو 1943ء میں مکتبہ اردو لاہور سے شائع ہوئی یہ تصنیف پچاس (50)گیتوں پر مشتمل ہے جبکہ کتاب کے شروع میں ایک پیش لفظ اور’’ گیت کیسے بنتے ہیں ؟‘‘کے عنوان سے ایک دیباچہ بھی شامل ہے جو میرا جی نے خود تحریر کیے تھے۔ اس دیباچے میں میرا جی نے ان داخلی عوامل کی نشاندہی کی ہے جو اس کتاب کے بیشتر گیتوں کی تشکیل میں کار فرما رہے۔ کتاب میں شامل پچاس گیتوں میں سے آٹھ گیٹ مختلف ہندی شعراء مثلاً چنڈی داس، تکا رام، ودیاپتی اور رابندر ناتھ ٹھاکر کے کلام سے ترجمہ شدہ ہیں جبکہ باقی گیت میرا جی کے اپنے تخلیق کردہ ہیں۔
گیت ایک قدیم شعری صنف ہے اس کا اپنا ایک مخصوص مزاج اور آہنگ ہوتا ہے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی گیت کی تعریف، مزاج اور ہئیت پریوں روشنی ڈالتے ہیں۔
’’گیت گانے کی چیز کو کہتے ہیں۔ اس کا موسیقی سے گہرا تعلق ہے اس لیے گیت میں سر تال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اصطلاح میں گیت وہ صنف شعر ہے جس میں ایک عورت مرد کو مخاطب کر کے اظہار محبت کرتی ہے گیت میں جذبات و احساسات خصوصاً ہجر اور فراق کی کیفیت بڑے والہانہ انداز میں بیان کی جاتی ہے۔ بعض گیتوں میں محبت کا اظہار مرد کی طرف سے بھی ہوتا ہے مگر گیت کا بنیادی مزاج یہی ہے کہ وہ محبت میں مبتلا ایک عورت کے دل کی پکار ہے۔ اردو گیت کی بنیاد ہندی گیت پر ہے لہذا اس کی فارم اور زبان و بیان پر ہندی گیتوں کا گہرا اثر ہے اردو گیت میں بھی ہندی کے الفاظ، خالص ہندوستانی تلمیحات اور مقامی موسموں، درختوں اور پھلوں وغیرہ کے نام بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ گیت کا لہجہ نسائی اور دھیما اور الفاظ نرم اور سبک ہوتے ہیں۔ گیت کا مجموعی مزاج نسوانی اور مقامی ہے گیت کی کوئی خاص ہئیت مقرر نہیں ‘‘ (۱)
چنانچہ میرا جی کی اس شعری تصنیف میں جو گیت شامل ہیں ان میں بھی یہ خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر ان گیتوں میں ہندی فضا پوری طرح چھائی ہوئی ہے ویسے تو میرا جی کی ساری شاعری میں ہندی روایت کو بہت دخل رہا اور انہوں نے ہندی شاعری کی روایت سے ہی توانائی حاصل کی لیکن اس تصنیف میں شامل گیت میرا جی کی شاعری کے ابتدائی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اس دور میں ان کی شاعری میں خاص طور پر ہندی فضا سازی ملتی ہے جمیلہ شاہین اس حوالے سے کہتی ہیں۔
’’میرا جی کی شاعری اور شخصیت کا یہ وہ دور ہے جب ان کی شاعری میں ان کی ذات کا اظہار ہندی دیو مالا، ہندی شاعری کے لہجہ اور آہنگ اور ہندی محاورات کی وساطت سے ہوا ہے ‘‘ (۲)
اس طرح میرا جی کے گیتوں میں ہندی فضا کے بارے میں اکرام قمر کی رائے بھی ملاحظہ ہو :
’’ میرا جی نے جو گیت لکھے ہیں ان کی فضا بھی ہندی ہے اس نے ہندی الفاظ اور ان کی روح کو اپنے گیتوں میں اس طرح بٹھایا ہے کہ وہ الفاظ اردو میں اجنبی معلوم نہیں ہوتے ‘‘(۳)۔
ہندی گیتوں کی روایت کے زیر اثر میرا جی کے گیتوں میں جو فضا بنتی ہے اس میں موسیقیت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے چنانچہ ہلکے پھلکے گاتے ہوئے مصرعے ان گیتوں کی جان ہیں مثلاً
پی لے میت، پی لے میت
پانی ہاری بازی جیت، پی لے میت، پی لے میت۔
پریم کی ہار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی سے بسار
دو بوندوں میں سنائے دی گی متوالی، میٹھی جھنکار
موہن بول، میٹھا گیت
پی لے میت، پی لے میت (۴)
ان گیتوں میں موسیقیت کا عنصر داخل کرنے میں میرا جی کی شعوری کوشش کا بھی دخل ہے چنانچہ پیش لفظ میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے خود لکھتے ہیں۔
’’ کتابی ڈراموں کی طرح یہ گیت کتابی نہیں بلکہ گانے کے لئے ہیں اور اس وجہ سے فن شعر کے کٹر پر ستاروں کو شاید ان میں بعض باتیں غیر مانوس معلوم ہوں لیکن موسیقی شعر سے کہیں بڑھ کر سخت اصولوں کی پابند ہوتے ہوئے بھی ایک بے ساختہ فن ہے اور لکھنے والے نے ان گیتوں کی تخلیق کے پس منظر میں اسی خیال کو مد نظر رکھا تھا ‘‘ (۵)
’’میرا جی کے گیت ‘‘ میں شامل گیتوں میں موسیقیت اور غنائیت پائی جاتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ میرا جی کی شخصیت میں موسیقیت رچی بسی ہوئی ہے۔ نفیس اقبال اس نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’میرا جی کو موسیقی سے خاص لگاؤ تھا گیت میں گانے کا عنصر لازمی ہے میرا جی کے گیتوں میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے اور اس کا سبب ان کے ذہن میں بسی ہوئی غنائیت ہے ‘‘(۶)
عام طور پر گیت ایک ایسی صنف شعر ہے جس میں عورت کے جذبات و احساسات کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ ’’میرا جی کے گیت ‘‘ میں شامل گیتوں میں بھی عورت کو ہی بنیادی اہمیت حاصل ہے۔
بقول نفیس اقبال:
’’میرا جی نے اپنے گیتوں میں ہندوستان کی دھرتی کی سب سے بڑی علامت یعنی ایک ہندوستانی عورت کو پیش کیا ہے میرا جی نے عورت کے جسمانی پہلوؤں کو بطور خاص اہمیت دی ہے ‘‘ (۷)
چنانچہ عورت کے جسمانی پہلو خاص طور پر میرا جی کے گیتوں میں نمایاں ہوتے ہیں اور اس طرح ان گیتوں کا ایک اہم موضوع جنس قرار پاتی ہے ان گیتوں میں جب عورت اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتی ہے تو ان میں بھی جنسی پہلو نمایاں رہتا ہے۔ مثلاً
مجھ کو یہ بتاسکھی !
کس نے لیا شیام نام ؟
اے سکھی بتا مجھے
کیسے ملوں گی اسے
نام ہی سے یہ ہوا
موہنی سی کر گیا
جسم اس نے جب چھوا
کہہ سکھی کہ ہو گا کیا ؟
جس جگہ ہے اس کا گھر
اس جگہ کنواریاں
اس کا روپ دیکھ کر
ضبط کر سکیں کہاں !
(۸)
جنس کو بطور خاص موضوع بنانے کی وجہ سے میرا جی کو جنس زدگی اور بیمار ذہنیت کے طعنے بھی برداشت کرنے پڑے لیکن ڈاکٹر رشید امجد جنس کے بارے میں میرا جی کے نظریے کی وضاحت یوں کرتے ہیں
’’میرا جی کے ہاں عورت ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے اور جنس کے بارے میں ان کا رویہ صحت مندانہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا جی جنسی عمل کو غیر اخلاقی قرار دینے کی بجائے اسے انسانی محبت کے لئے ایک مثبت عمل سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ عمل انسان کو ایک روحانی مسرت سے ہم آہنگ کرتا ہے۔ چنانچہ وہ جنس کو ایک قبیح فعل سمجھنے کی بجائے حسن کے گرد جمع اس تہذیبی آلودگی کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو مروج اخلاق کی پیداوار ہے جنس کے ساتھ میرا جی کا تعلق سطحی یا اکتسابی نہیں بلکہ ذہنی اور روحانی ہے کیونکہ وہ اسے زندگی اور تخلیق کا ایک لازمی عنصر سمجھتے ہیں ‘‘ (۹)
یہ ایک حقیقت ہے کہ اگرچہ جنس میرا جی کی شاعری کا ایک مرکزی موضوع ہے تاہم میرا جی کی شاعری کو صرف جنس تک محدود کرنا ان کے ساتھ نا انصافی ہو گی یہی وجہ ہے کہ اس مجموعے میں شامل گیتوں میں جنس کے علاوہ دیگر کئی موضوعات بھی ملتے ہیں۔ وہ ہجر و فراق کی کیفیات کی بھی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔
بھیج بھیج سندیسے اپنے مجھے ستانے والے
جب تیرا سندیسہ آئے بِرہ اگن بھڑکائے
ساگر نینوں کا سوکھے من کا سوتا بہ جائے
بیتے سکھ سب یاد آ جائیں دل چٹکی میں مسلیں
بے بس من کچھ کر نہ کر سکے اور تڑپ تڑپ رہ جائے
دل کو سکھ دینے والے، دل کو تڑپانے والے
بھیج بھیج سندیسے اپنے مجھے ستانے والے (۱۰) وغیرہ
ہندوستانی سماج میں مذہب کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ اس مجموعے میں شامل گیتوں میں مذہبی نوعیت کے گیت بھی ملتے ہیں اور ان گیتوں میں بھی ہندی روایت کے زیر اثر ہندو دھرم اور ہندی سماج کی عکاسی ملتی ہے۔
جے ستیل جے ستیلا ______
تیرے درشن ہیں دکھن بھنجن
سکھ ہے تیری دیا کے کارن
جے ستیل جے ستیلا
تیرے درشن کو ہم آئے
دل میں پھول بھینٹ کے لائے
جے ستیل جے ستیلا (۱۱)وغیرہ
عام طور پر گیتوں میں نرم و نازک اور لطیف احساسات اور ہلکی پھلکی کیفیتوں کو ہی بیان کیا جاتا ہے تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ گیت میں فکر و خیال کی اعلیٰ سطحوں کو نہیں برتا جا سکتا لیکن اس سلسلے میں گیت کے
مخصوص مزاج کو مد نظر رکھنا ضروری ہے بقول نفیس اقبال :
"گیت کا وصف یہ ہے کہ کیفیت خواہ کسی نوعیت کی بھی ہو اس کے اظہار میں ایک سادگی اور ایک سلاست کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور بڑے بڑے فلسفیانہ مقدمات کو بھی واردات عائدہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے "(۱۲)
"میراجی کے گیت ” میں شامل گیتوں میں بھی فکری عنصر دکھائی دیتا ہے میرا جی اپنے مختلف گیتوں میں فلسفہ زندگی اور فلسفہ کائنات پر روشنی ڈالتے دکھائی دیتے ہیں مثلاً
اب جس ڈھب آن پڑی سکھ جان
دکھ بھی سکھ ہے، کوئی جو بولے
سن لے، اکیلا بیٹھ کے رولے
چاہے سنبھلے، چاہے ڈولے
دل کو دے گیا یہ گیان
جس ڈھب آن پڑی سکھ جان (۱۳)
لیکن میراجی کا فنی کمال یہ ہے کہ ان گیتوں میں فکری اور فلسفیانہ عناصر کے باوجود سادگی اور سلاست برقرار رہتی ہے اور گیت کے مخصوص مزاج پر حرف نہیں آتا
جیون ایک مداری پیارے کھول رکھی ہے پٹاری
کبھی تو دکھ کا ناگ نکالے پل میں اسے چھپائے
کبھی ہنسائے کبھی رلائے بین بجا کر سب کو رجھائے
اس کی ریت انوکھی نیاری، جیون ایک مداری (۱۴)
وغیرہ
اس مجموعے کے بعض گیتوں میں میراجی نے تصوف اور روحانی موضوعات کو بھی بیان کیا ہے مثلاً ایک گیت کے مصرعے ملاحظہ ہوں
کب جو گ مٹے گا تیرا، اسی سوچ نے ڈالا ڈیرا
کب جوگ مٹے گا تیرا، اجالا آئے، اندھیرا بھاگے، جاگے سویا پنچھی
پھر وہی ڈال ڈال پر پھیرا
کب جوگ مٹے گا تیرا، اسی سوچ نے ڈالا ڈیرا
بول کہ پھندہ ٹوٹا
جیون چھوٹا
جال سے مایا کے اب مکتی پائی
آنکھوں میں آئی
راہ نئی، وہ بات گئی
اب کوئی نہ تیرا میرا، اسی سوچ نے ڈالا ڈیرا (۱۵)
اسی طرح ایک اور گیت میں کہتے ہیں
ماٹی محل بنایا تو نے ماٹی محل بنایا
ہاتھ میں پیالا اٹھایا تو نے ماٹی محل بنایا(۱۶)
وغیرہ
میراجی کے ہاں اس روحانی واردات پر ڈاکٹر رشید امجد تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
"اس طرح کی واردات ایک روایتی صوفی کی واردات سے ملتی ہے لیکن میراجی ان معنوں میں اس روایت سے الگ ہیں کہ ان کے یہاں تصوف اپنے مخصوص معنوں اور مزاج میں موجود نہیں بلکہ ان کی تمام کشمکش اور جستجو کا مقصد جدید زمانے کے انتشار اور پریشان خیالی کی سطح کے نیچے جا کر نئے انسانی تجربے کی تہہ تک پہنچ کر جدید انسان کی روح کا سراغ لگانا تھا” (۱۷)
مجموعی طور پر میراجی کے گیت، میں شامل گیت گیت نگاری کے فن پر میراجی کی دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ میراجی کی نظم نگاری کے برعکس ان گیتوں میں ابہام اور علامت نگاری وغیرہ جیسی کوئی چیز نہیں ملتی اور میرا جی یہاں گیت نگاری کی روایتی کسک کی پابندی کرتے نظر آتے ہیں۔ نفیس اقبال میراجی کی گیت نگاری کا محاکمہ یوں پیش کرتے ہیں :
"میراجی کے گیتوں میں زبان کی سادگی، نغمے کی روانی، موضوع کی مانوسیت اور خیال کا تسلسل اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ ان کی ہندی فضا کے باوجود کہیں اجنبیت باقی نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ میراجی کا یہ اختصاص ناقابل فراموش ہے کہ انہوں نے اس صنف کو ہندوستان میں حیات نو عطا کی اور اسے ذاتی طرز احساس اور نیا لہجہ دیا” (۱۸)
٭٭
حوالہ جات
۱۔ رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر، اصنافِ ادب، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2008، ص 71,72
۲۔ جمیلہ شاہین، (مضمون ) میرا جی کاسفرِ شوق، مشمولہ میراجی ایک مطالعہ، مرتب، ڈاکٹر جمیل جالبی، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 1990، ص308
۳۔ اکرام قمر، (مضمون )میرا جی کی آخری تحریریں، مشمولہ ’’ادبی دنیا ‘‘ لاہور، شمارہ 28، 1952ص 79
۴۔ میرا جی، میرا جی کے گیت، مکتبہ اردو، لاہور، 1943، ص 39
۵۔ ایضاً ص 6
۶۔ نفیس اقبال، پاکستان میں اردو گیت نگاری، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور، 1986، ص130,131
۷۔ ایضاً ص 133
۸۔ میرا جی، میرا جی کے گیت، ص 73,74
۹۔ رشید امجد، ڈاکٹر، میرا جی شخصیت اور فن، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد، 2006، ص 91
۱۰۔ میرا جی، میرا جی کے گیت، ص 27
۱۱۔ ایضاً ص 49
۱۲۔ نفیس اقبال، پاکستان میں اردو گیت نگاری، ص 44
۱۳۔ میرا جی، میرا جی کے گیت، ص 16
۱۴۔ ایضاً ص 50
۱۵۔ ایضاً ص 71, 72
۱۶۔ ایضاً ص 80
۱۷۔ رشید امجد، ڈاکٹر، میرا جی شخصیت اور فن، ص 101
۱۸۔ نفیس اقبال، پاکستان میں اردو گیت نگاری، ص 137
٭٭٭
’’ میں ڈرتا ہوں مسرت سے ‘‘ ۔۔ میراجی کی ایک نظم کا مطالعہ
شہناز خانم عابدی
میراجیؔ کی نظم ’’ میں ڈرتا ہوں مسرت سے ‘‘ پر بات کر نا مقصود ہے۔ چالیس کی دہائی کے وسط میں میراجیؔ نے نظم پڑھنے کا طور طریقہ سکھایا تھا۔ ستر کی دھائی میں اس سے میں آ گاہ ہو ئی۔ اصو لاً مجھے میراجی کا انداز اپنانا چاہئے تھا۔ لیکن میں نے اپنے ذہن کو اور قلم کو آزاد چھوڑنا ہی منا سب سمجھا۔ یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ میں نے ممتاز شاعر بِلی کو لنس ( Billy Collins) کے انداز کو بھی میرا جیؔ کی نظم پڑھنے کے سلسلے میں یکسر نظر انداز کر دیا۔ بلی کولنسؔ ( Billy Collins) کا مقصد نوجوان نسل کو شاعری پڑھنے پر مائل کرنا تھا۔ میرا جیؔ کو اس طور یعنی بلی کولنسؔ کے طریقے پر پڑھا نہیں جا سکتا ہے۔
میرا جی کی مندرجہ بالا نظم ۱۹۳۶ء کی تخلیق ہے۔ چنانچہ یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اس نظم کی تخلیق کے قریباً سات آٹھ برس بعد ہی میراجیؔ نے ’’ اس نظم میں ‘‘ لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ نظم کا عنوان ’’ میں ڈرتا ہوں مسرت سے ‘‘ انوکھا اور چونکا دینے والا ہی نہیں بلکہ فکر انگیز بھی ہے۔ ڈرنا جب کوئی غیر معمولی صورت اختیار کر تا ہے تو اس کو آنکھ بند کر کے مریضانہ(Morbid) قرار دیا جا تا ہے۔ میں نے بھی یہی سوچا اور محسوس کیا تھا۔ لیکن نظم میں کسی مریضانہ خوف کو موضوع نہیں بنا یا گیا ہے۔ جیسے جیسے ہم نظم کو پڑھتے ہوئے آ گے بڑھتے ہیں تو لفظ، لفظ فقرہ، فقرہ، نظم اپنے بھید کھولتی جا تی ہے۔ یہی میرا جی کی نظم نگاری کا فن ہے ا ور اسی میں میراجی کی انفرادیت بھی مضمر ہے۔ کہا جا تا ہے کہ صنفِ غزل میں اظہار سے زیادہ اخفا کی اہمیت ہے۔ میراجی کے ہاں اس کے بر عکس صورتحال ملتی ہے۔ میراجی کی یہ نظم اگر چہ کہ غزل نہیں ہے۔ میراجی کی نظم اخفاء اور اظہار کی حسّی اور معنوی ترتیب اور تکرار سے بنتی ہے۔ جدید مغربی تنقید نظم میں آر کی ٹیکچرل نوعیت کی تعمیر پر زور دیتی ہے۔ میراجی کے ہاں جز وی اور ڈھیلے ڈھالے انداز کی تعمیر دیکھی جا سکتی ہے۔ زیرِ نظر نظم کو پڑھتے ہیں۔
شا ر یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ مسرت سے ڈرتا ہے۔ مسرت سے ڈرنا معمول کا انسانی رویہ نہیں ہے۔ اس سبب سے شاعر اس کی توجیح کر تے ہوئے پہلی ہی سطر سے قاری کو اپنی نظم کی دنیا میں پکڑ لا تا ہے۔ قاری کو اپنے ساتھ پا کر شاعر اس معمول سے ہٹی ہو ئی صورتِ حال کی وضاحت کر تا ہے۔ آ ہستہ آ ہستہ جیسے پَرت پَرت کھل رہے ہوں اور قاری جاننے لگتا ہے کہ شاعر کو اپنی ہستی کی فکر ہے۔ اسے ’ پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم ‘ سے اندیشہ ہے اور ڈرتا ہے کہ مسرت سے ہمکنار ہو کر مبادا وہ اس نغمے میں نہ الجھ جائے۔ کائناتی نغمہ میراجی کے ہاں مغرب سے آ یا ہے۔ لیکن مغرب کے کسی اور شاعر نے شاید ہی اس کو نغمۂ مبہم کہا ہو گا یا اس کو پریشاں بتایا ہو گا۔ اس کو نغمۂ سر مدی سے ہٹا کر پریشاں کہنا اور نغمۂ مبہم کے مر حلے تک پہنچانا میرا جی کی ہمّتِ دشوار پسند ہی سے ممکن ہو ا۔
نظم آ گے بڑھنے کے ساتھ پرَت پرَت کھلتی ہی نہی بلکہ خشت خشت تعمیر بھی ہو تی جا تی ہے۔ نظم کا یہ سفر فکری اور معنوی ہو نے کے ساتھ حسیاتی بھی ہے۔ میرا جی کی تخلیقی توانا ئی تجریدی فکر کو تجسیمی فکر میں تبدیل کر نے کی پوری طرح اہل ثا بت ہو تی ہے۔
میراجیؔ کو یہ بھی اندیشہ لا حق ہے کہ مسرت کی سر شا ری اس کی ہستی کو خواب میں نہ ڈھال دے۔ میرا جیؔ کائنات کے مقابل اپنی اپنی ہستی کو ایک ذرّے سے تعبیر کر تے ہوئے ’ گہرِ عالمتاب ‘ سے خوف کھا تے ہیں۔ گہرِ عالمتاب کی ترکیب توجہ کی طالب ہے اور اس کے ساتھ نشّہ کا التزام بے حد پریشان کن ہے۔ میراجی کی تراکیب کا مزاج ہی کچھ ایسا ہے وہ متضاد باہم مخالف کیفیات کو جوڑ کر زندگی کو پیرا ڈوکسس (Paradoxes)سے معمور ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان ترکیبات کو استعا رات کا مجموعہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس مر حلے پر جب میں اس نظم کو پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو اس کا عنوان ’’ میں ڈرتا ہوں مسرت سے ‘‘خود ایک مرکب استعارہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس نظم کا لفظیات کی ایک سے زائد سطحوں پر ابلاغ ہوتا ہے۔ شاعر نے پڑھنے والے کی شعر فہمی کی صلا حیت(Receptivity )کی سطح پر آنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ابلاغ کی ایک سے زائد سطحوں پر پہنچ کر اپنی بات کہی ہے۔ گو یا پڑھنے والے کی شعر فہمی کی صلاحیت(Receptivity )کو بتدریج اس سطح پر لا نے کی نیت سے ایک زینہ استوار کیا ہے۔ تا آ نکہ اس خد شے کو ذہنی اور حسیاتی دونوں سطح پر قاری سمجھ سکے۔
’’ کہیں یہ میری ہستی کو پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے ؍ کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت ؍
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے گہرِ عالمتاب کا نشّہ؍ستاروں کا علمبردار کر دے گی مسرت میری ہستی کو ؍اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی؍ تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ ڈرتا ہو ں ؍کہیں یہ میری ہستی کو بھلا کر تلخیاں ساری؍بنا دے دیو تا ؤں سا ؍تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا؍زمانہ اپنی ہستی کا۔
نظم کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے قاری میراجیؔ کے اس ڈر سے آ گاہ ہو چکتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی تلخیوں سے مکمل طور پر اور یکسر رستگار ہو جانے سے ڈرتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کی ہستی دیوتاؤں جیسی ہو جائے۔ مسرت سے معمور اور تلخیوں سے خالی۔ گویا وہ چاہتے ہیں آدمی ہی رہیں زندگی کے سرد و گرم سے نبرد آزمائی کرتے ہوئے۔ یہاں میں آپ کی اور پڑھنے والوں کی اجازت سے میراجی کی نظم کو لے کر اِدھر اُدھر پٹری سے اتر کر بھٹکنا چاہوں گی۔
’’ الا انا او لیا اللہ لا خوف علیہ و لا ھم یحز نو ن‘‘ کچھ ایسا ہی ہماری تعلیمات میں ملتا ہے۔ میراجی اپنی اس نظم میں ایک جانب خوف زدہ ہیں تو دوسری جانب وہ حزن سے چھٹکارا پانے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہاں میں میرا جی کی نظم کے دیوتاؤں کو اولیاء اللہ سے مبدل کرنے کی جسارت کی مرتکب ہو رہی ہوں۔ اہلِ نظر میں سے کسی کو گراں گز رے تو معذرت۔ خدارا مجھے مولون یا بنیاد پرست نہ سمجھا جائے۔
اب میں آپ کی توجہ علّامہ اقبالؔ کے اس جرأت مندانہ اور شوخ شعر کی جانب مبذول کرنا چا ہتی ہوں
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
میراجیؔ کی نظم کے آخری سطور تک پہنچتے پہنچتے مذکورہ شعر میرے ذہن میں اپنی جگہ بنا چکا تھا میں نے سوچا اپنے پڑھنے والوں کو بھی اس صورتحال کا شر یک بنا لوں۔
میراجیؔ کے ہاں حزن ہی نہیں بلکہ حزن پرستی ملتی ہے۔ اس سبب سے میرا جیؔ کی فکر اسلام کے اولیاء اللہ سے لگا نہیں کھاتی۔ میراجی ایک جانب اولیا ء اللہ کی مثالی زندگی جو خوف سے خالی اور غم سے تہی ہو تی ہے سے انحراف کرتے ہیں تو دوسری جانب دیو تاؤں کی زندگی سے بھی منہ موڑتے ہیں میرا جیؔ کے خیال میں دیوتاؤں کی زندگی خواب کی زندگی جیسی ہو تی ہے اصل اور حقیقی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہو تا۔ میرا جیؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ وہ ہندو مت والوں کے اس عقیدے سے آگاہ نہ تھے۔ کرشن جی مہا راج نے ایک سوبیس برس انسان کے روپ میں بسر کئے تھے۔ انسانی زندگی کے دائمی دکھوں کا تجربہ اٹھایا تھا۔ زندگی کا سرد وگرم دیکھا تھا۔
میرا جیؔ او لیا ء اللہ اور دیوتا کے مقابل میں ’آدمی ‘ رہنے کو تر جیح دیتے ہیں۔ آد می کی زندگی مسرت سے عبارت نہیں ہو سکتی۔ ’ آدمی ‘ کو زندگی میں دکھ، درد، غم اور ملال سے واسطہ رہتا ہے۔
میرا جیؔ کا رجحان ہندو وشنو دھرم کی فکر سے مربوط ہے اس نظم کا مرکزی خیال اور متن ہندو دیو تاؤں میں کرشن جی کی جا نب جھکا ہو ا ہے کرشن جی جو کلجگ کے دیوتا ہیں۔ کلجگ جس میں حقیقی مسرت سے ہمکنار ہو نا اسمبھَو ( نا ممکن ) ہے۔ مسرت سے زیادہ اذیت بدی ہے۔ وصال نا ممکن الحصول ہے اور فِراق انسانی زندگی کی اساس ہے۔ اس کا نتیجہ مایوسی، ملال، اور حزن ہے۔ رادھا، کرشن جی مہاراج کی شریکِ زندگی نہ بن سکی تھیں۔
ایک مرتبہ پھر علّامہ اقبال کی جانب رجوع بصد معذرت
نہ کر ذکرِ فراق و آ شنا ئی کہ اصل زندگی ہے خو د نمائی
نہ دریا کا زیاں ہے نے گہر کا دلِ دریا سے گوہر کی جدائی
٭٭٭
میراجی کی نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ اور اس کے رنگ
سید اختر علی
میراجی کی شخصیت نابغۂ روزگار تو تھی ہی روایتی علوم اور مغربی علوم سے واقفیت نے ان کی شخصیت کو مزید جلا بخشی۔ نیز حلقۂ اربابِ ذوق سے وابستگی نے حلقہ کو اور ان کو چار چاند لگائے۔ سو یہ چاند اپنی چاندنی بکھیرنے لگا۔ اور وہ ثنا ء اللہ ثانی ڈار سے ’’میراجی‘‘ ہوا۔ اور پھر اسی نام سے جگ میں مشہور۔ میراجی نے لکھا بہت اونچا لکھا۔ لیکن آزادیِ اظہار کے نام پر وہ بھی لکھا جو ایک بولنے والا بولتے وقت بھی سو بار سوچے۔ انھوں نے سات پردے کی باتوں کو ایک سفید کاغذ کے پردے پر اجاگر کیا۔ پھر بھی عزّ و شرف ان کے حصہ میں آئی۔ اور ایک زمانہ آج بھی ان کے فکر و فن کا معترف ہے۔
میراجی علامت اور آواز کے شاعر ہیں۔ شخصیت بھی پر اسرار پائی ہے۔ آپ کو جہاں علامات اور استعارے کے پنکھ لگا کر معنیِ مضمون کی اونچی اڑان بھرنے میں مزہ آتا ہے تو وہیں دوسری طرف پھیکے اور گہرے یا شوخ و چنچل رنگوں سے بنے کیفیات کے پرچم لہرا کر الفاظ کے ذریعہ جذبات اوراحساست کے طبل پر تھاپ مار کر کائنات کی لونی و صوتی دنیا میں ہلچل پیدا کرنے میں لطف آتا ہے۔۔ میراجی کے یہاں لفظ کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ نے ایک جگہ لکھا ہے :
’’ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور تصور یا خیال کے ساتھ ساتھ ہی اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند موجود ہوتے ہیں۔ لوازم کا یہ ہالہ انفرادی انداز نظر کا پابند ہے، یعنی ایک ہی لفظ زید کے لیے اور تلازمِ خیال ہے اور بکر کے لیے اور۔ لیکن ایک ہی زبان سے بہت سے افراد کا مانوس ہونا مختلف افراد کے لیے الفاظ میں قریباً قریباً یکساں تلازمِ خیال پیدا کر دیتا ہے۔ جب کوئی لفظ ہمارے فہم و ادراک میں آتا ہے تو یہ تلازمِ خیال کا ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے اور جب اس سے پہلے لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملایا جائے تو ہالہ اپنی ہئیت کو دوسرے لفظ کی مناسبت سے تبدیل کر لیتا ہے۔ ‘‘
(بحوالہ مضمون :’’میراجی شخصیت اور فن‘‘ (ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)از حیدر قریشی)
سو اس اقتباس کی روشنی میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میراجی کی منفرد اور دلپذیر نظم’’سمندر کا بلاوا‘‘ کا تجزیہ کیا جائے۔ اور دیکھا جائے کہ اس میں کن کن الفاظ میں تصور یا خیال کے کون کون سے رنگ بھرے گئے ہیں اور لوازم کے کون سے ہالے اس میں پائے جاتے ہیں۔
میراجی کی یہ نظم پہلی قرأت میں سیدھی سادھی لگتی ہے لیکن ہے بڑی پیچیدہ۔ سمندر میں پیدا ہونے والی لہروں کی طرح نظم کے سمندر میں معنوں کی کئی زیریں اور بر آب لہریں ساتھ ساتھ چلتی دکھائی دیتی ہیں۔ میراجی کے لفظ، الفاظ اور جملے بولتے ہیں۔ تنکے کی طرح وہیں نہیں نہیں ڈولتے۔ اگر ڈولتے بھی ہیں تو تنکے کا ڈولنا توانائی کی ترسیل کی پہچان بھی ہے۔ اور یہیں سے ابلاغ کا عمل شروع ہوتا ہے۔
نظم کا لب و لہجہ دھیما اور مزاج ٹہراؤ والا ہے۔ الفاظ سیدھے سادھے ہیں۔ شاعر کے جذبات و احساسات کے رنگ بھی پاکیزہ ہیں۔ اس سے نظم کی فضا پر ایک عجیب سا پر وقار سحرطاری ہو گیا ہے۔ اور اس سحر طرازی سے سارا ماحول پر اسرار ہو گیا ہے۔ اس نظم کے کئی رخ ہیں۔ اس میں خیالات کا بہاؤ ایک عجیب رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس کے شیڈس ہر مقام پر بدلتے رہتے ہیں۔ حسرت و یاس دکھ درد تکلیف و غم، رنج و الم اور کیا نہیں ہے شاعر کے سرمایۂ حیات میں !اس اعتبار سے یہ نظم داخلی جذبات و احسات اور شاعر کے وسعتِ مطالعہ کاعجیب و غریب ماورائی سنگم ہے
یہ دلپذیر اور غیر معمولی نظم ان کے مجموعۂ کلام ’’تین رنگ‘‘ میں شامل ہے۔ اس مجموعہ میں نظمیں، گیت اور غزلیں شامل ہیں۔ شاید اسی لیے اس مجموعہ کا نام بھی ’’تین رنگ‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس نظم کا شمار ان کی ان نظموں میں ہوتا ہے جس میں ان کی سو کالڈ ’’بیمار ذہنیت‘‘ کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اسے حسنِ اتفاق کہیے یا میراجی کی شعوری کوشش کہ اس نظم کی ہر سطر میں بھی تین تین رنگ پائے جاتے ہیں۔ لیکن نظم کے مطالعہ سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی یہ سجاوٹ غیر شعوری ہے۔ بلکہ یہ نظم ایک وجدانی کیفیت میں لکھی گئی ہے۔
نظم میں الفاظ کے یہ تین رنگ دراصل ایک دوسرے سے علاقہ رکھنے والے تین الفاظ کا ایک گروپ ہے۔ ہر گروپ کا ہر لفظ اسی گروپ سے تعلق رکھنے والے مخصوص رنگ کا ایک شیڈ ہے۔ یہ شیڈس فکر کے کینواس پر خیال کی پتیوں کو ایک پر ایک جمائے گلِ تخیل کی تشکیل کرتی ہیں۔ اور ریاضی کی زبان میں اس گروپ کا ہر لفظ فکر کی ترسیم پر مرتسم ایک ایسا نقطہ ہے جس سے گزرنے والے خیال کے خط سے شاعر کے تخیل کے گراف کا اندازہ ہوتا ہے۔
چنانچہ الفاظ کے انہی ’’تین رنگوں ‘‘ کے حوالے سے کوشش کی جائے گی کہ میراجی نے اس نظم میں اپنے تصور و خیال کے ایک ایک دھاگے کو کن کن رنگوں سے رنگا ہے اور پھر فکر و فن کی چادر کو بن کرکس طرح سجایا اور سنوارا ہے۔
نظم میں اس کی تصویر کچھ اس طرح سے بنتی ہے :
۱) [سرگوشی۔ صدا۔ ندا]
(آواز کے تین رنگ۔ ایک آواز پر دوسری آواز کے غالب ہونے کا رنگ)
۲)[ایک پل۔ ایک عرصہ۔ ․․․․] (وقت کے تین رنگ۔ وقت کے ان تین رنگوں میں سرگوشی اور صدا کے عرصۂ وقت کی تو وضاحت ہے لیکن ندا کے عرصۂ وقت کی وضاحت نہیں )
۳) [انوکھا بلانے والا۔ انوکھی ندا۔ گہری تھکن](پکارنے والے کی انفرادیت کے تین رنگ۔ شاعر کی زندگی کے سب سے متحیّر کن لمحات کے تین رنگ)
۴)[میرے پیارے بچے۔ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا]
(ماں کی ممتا کے تین رنگ۔ ماں کے چمکار و پچکار کے رنگ)
۵)[’’خدایا، خدایا‘‘، ․․․․․․]
(ایک ماں کی فکر اور بچے کو ڈرانے کے بعد اپنا جی چھوٹا کرنے یعنی پچھتاوے اور افسوس رنگ۔ پھر ایک دم خاموشی کا رنگ )
۶) [بچپن۔ جوانی۔ بڑھاپا] ( نظم میں شاعر کے نہیں دکھائی دینے والے موسمِ عمر کے تین رنگ۔ بے فکر عمر، لا ابالی عمر، فکروں سے بھری عمر)
۷) [سسکی-تبسم-تیوری]
( زندگی کے تین رنگ۔ بچپن کاہنسنا رونا، عالمِ شباب کا خوابوں میں گزرنا، بڑھاپے میں بچپنے کا عود کرآنا۔ )
۸) [ایک سسکی-اک تبسم-صرف تیوری ]
( کشمکشِ حیات کے ہالے۔ زندگی کے ہالے۔ شاید شاعر کی ماں کے لمحاتِ روز و شب کا بیان)
۹) [نہ آنکھوں میں جنبش۔ نہ چہرے پہ تبسم۔ نہ تیوری]
(بے رنگ بڑھاپے کے تین رنگ)
۱۰)[کان۔ سننا۔ اور صرف سننا]
(مجبور زندگی کے تین رنگ)
۱۱)[گلستاں۔ پربت-صحرا ]
( دنیا کے تین رنگ۔ حالتِ سکون کے تین رنگ۔ زندگی کے challengesکے رنگ۔ زندگی کی متغیر خوشیوں کے رنگ۔ کائنات کی بوقلمونی کی داستان )
۱۲) [کلی۔ غنچہ۔ پھول ]
(ایک پھول کی زندگی کے رنگ۔ شبابِ گلستاں کے تین رنگ)
۱۳)[کھلنا۔ مرجھانا۔ مرجھا کر گرنا](گلستاں کے بہار و خزاں کے تین رنگ۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ کے تین رنگ)
۱۴)[نکھرنا۔ سنورنا، سنور کر بکھرنا ] (آئینۂ زندگی کے رنگ۔ حقیقی آئینہ کے سامنے انسانی نفسیات کے رنگ)
۱۵)[شکل کا مٹنا۔ مٹ ہی جانا۔ پھر نہ ابھرنا ]
(زوالِ زیست کے تین رنگ، کسی کاز کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دینے کے رنگ)
۱۶)[خاموش۔ ساکن۔ چشمہ]
(پربت کی بولتی خاموشیوں کے رنگ)
۱۷)[ وادی۔ ندی۔ ناؤ]
( پربت کے دامن کے چہکتے رنگ۔ اسبابِ زندگی کے تین رنگ۔ زندگیوں کے قافلوں کے رنگ، کاروانِ حیات کے رنگ)
۱۸)[پھیلا ہوا۔ خشک۔ بے برگ صحرا]
(صحرائی زندگی کے تین رنگ۔ زندگی کی بے سروسامانی کے رنگ)
۱۹)[بگولے۔ بھوت۔ عکس مجسم ](صحرائی زندگی کے تار وپود۔ زندگی کی پریشانیوں کے رنگ)
۲۰)[ میں ( شاعر)۔ پیڑوں کا جھرمٹ۔ اور نگاہیں ]
(یاس و امید کے رنگ۔ وحدت کے رنگ)
۲۱)[سمندر ․․․․․(مانند ایک نقطہ، خط اور سطح )]
(ِ زندگی کے منبع کا رنگ۔ حیاتِ ارضی کے ہئیت کا رنگ۔
تجسیم کائنات کا رنگ۔ وقت کا رنگ)
۲ ۲) [ماضی۔ حال۔ ․․․․․․․․]․
( زمانہ کے رنگ۔ اس نظم میں زمانۂ ماضی اور زمانۂ حال کا رنگ تو ہے لیکن زمانۂ مستقبل کا رنگ غائب ہے )
۲۳) [حسرت۔ یاس۔ مجبوری]
(نظم کا غیر مرئی کلیدی رنگ)
۲۴)[مرئی اور غیر مرئی چیزوں کی مرحلہ وار منتقلی کے رنگ]
اس اکیس سطری نظم میں درج بالا تقریباً چوبیس رنگ ہیں۔ آئیے ان رنگوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
شاعر کہتا ہے کہ اس نے بچپن سے لے کر اب تک بہت سی آوازیں سنی ہیں۔ کبھی ایک پل کے لیے تو کبھی ایک عرصہ نیٖز ایک عرصے سے۔ مگر اب اسے ایسی سرگوشیاں سنائی دے رہی ہیں جو اس نے ابھی تک نہیں سنی تھی۔ شاعر نے اس سرگوشی نما پکار کو ’’انوکھی ندا‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کب سے یہ ندا آ رہی ہے اس کے بارے میں شاعر کچھ نہیں کہتا، خاموش ہے !جس میں اسے بتایا جا رہا ہے کہ اس کا اپنا کوئی ہے جو اسے بلا رہا ہے۔ ساتھ ہی اسے یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ بلانے والا اسے بلاتے بلاتے اب تھکنے لگا ہے۔ لیکن کیا بات ہے کہ اس کی توجہ اس ندا (پکار)کی طرف نہیں ہے !اس لیے شاعر حیرت سے کہتا ہے :
’’بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا‘‘
پھر بلانے والا کیا ’’ندا‘‘ لگا رہا ہے اس کی وضاحت کرتا ہے :
’’میرے پیارے بچے ‘‘–’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے ‘‘–’’دیکھو، اگر یوں کیا تو برا مجھ سے
بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا۔ ‘‘ ’’خدایا، خدایا!‘‘
نظم کی ان پہلی پانچ سطروں میں شاعر نے الفاظ کے تقریباً پانچ رنگ استعمال کیے ہیں۔ پہلا رنگ آواز کا رنگ ہے۔ اس کے شیڈس ’’سرگوشی۔ صدا۔ ندا‘ ‘‘ہیں۔ سرگوشی علامت ہے نزدیکی اور راز داری کی۔ اس کا علاقہ قربت کے ذیل میں آتا ہے۔ یہ آواز دوسروں کو سنائی نہیں دیتی ا ور دوسروں کے لیے ہوتی بھی نہیں۔ صدا کا تعلق سماعت کے عام زمرہ سے ہے۔ راز داری اس کی شرط نہیں۔ اس کا علاقہ قرب و جوار کے ذیل میں آتا ہے۔ ندا کا تعلق سماعت کے خاص زمرہ سے ہے۔ اس کا علاقہ بُعد کے ذیل میں آتا ہے۔ لیکن شاعر نے اس ندا کو انوکھی ندا کہا ہے کیونکہ یہ صرف اسے ہی بصورتِ سرگوشی سنائی دے رہی ہے۔
لیکن یہ آوازیں ایک آواز پر دوسری آواز کے اغلبیت کا رنگ بھی ہیں۔ ’سرگوشی ‘پر صدا بھاری ہے تو’ صدا ‘پر ’ندا ‘کا زور ہے۔ یہاں سرگوشی اور صدا مختصر اور طویل زندگی کی علامت ہیں تو ندا خاتمہ کا اعلان۔
دوسرا رنگ وقت کا رنگ ہے۔ اس کے شیڈس ’’ایک پل۔ ایک عرصہ۔ ․․․․ ‘‘ہیں۔ پہلے دو شیڈس شاعر کو سنائی دینے والی مختلف آوازوں کے عرصۂ وقت کی وضاحت کرتے ہیں۔ لیکن یہاں شاعر کمالِ ہوشیاری سے وقت کے تیسرے شیڈ کو منظر سے ہٹا دیتا ہے۔ جو کہ اس انوکھی ندا کا وقت ہے۔ شاعر کا یہی کمال اس کی اس نظم کی جان ہے۔
وقت کے ان رنگوں سے نسبت رکھنے والا اور ایک رنگ نظم میں موجود ہے جو دکھائی نہیں دیتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ ہے شاعر کی عمر کا رنگ: ’’بچپن۔ جوانی۔ بڑھاپا ‘‘جس طرح کل نگار (ہولوگرام)کو زاویہ بدل کر دیکھنے پر مختلف شیڈس اور تصویریں نظر آتی ہیں اسی طرح وقت کے ان رنگوں سے عمر کے یہ رنگ سایہ کی طرح چپکے ہوئے ہیں۔ وقت کی ڈور سے بندھی شاعر کے عرصۂ حیات کی کبھی سیدھا اڑتی اور کبھی غوطے کھاتی یہ پتنگ اس کی بے فکر عمر، لا ابالی عمر اور فکروں سے بھری عمر کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
اب شاعر کی زندگی میں حیرت و استعجاب کا سب سے انوکھا خاص رنگ ظاہر ہوتا ہے اور وہ ہے : ’’انوکھا بلانے والا۔ انوکھی ندا۔ گہری تھکن‘‘۔ یہ رنگ شاعر کو آواز دینے والے کا بھی رنگ ہے۔ یہ اس کی انفرادیت اور اس کے بہت خاص ہونے کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ بلانے والا شاعر سے بہت اچھی طرح سے واقف ہے۔ اور ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا اس سے بہت قریبی تعلق ہے اور مضبوط رشتہ بھی۔ لیکن کسی وجہ سے وہ سامنے نہیں آتا۔ کہہ رہا ہے کہ میں تمھیں کب سے بلا رہا ہوں۔ بلاتے بلاتے اب تھکنے بھی لگا ہوں۔ تم کب آؤ گے۔ بس چلے آؤ! حساس شاعر کے ذہن میں یہ سوال کلبلاتا ہے :
’’بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا، ‘‘
اسی اثناء شاعر کو پھر سرگوشیاں سنائی دیتی ہیں :
’’میرے پیارے بچے۔ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا‘‘
اب شاعر چونک جاتا ہے۔ اسے یہ آواز جانی پہچانی لگتی ہے۔ اور پھر وہ اس پیار بھرے دلار و چمکار کے رنگوں کو پہچاننے کی سعی کرتا ہے۔ اک لمحہ بعداس کو اپنے سامنے پھر اسی انوکھی آواز کے افسوس اور پچھتاوے کا پرچم ’’خدایا، خدایا‘‘ کر کے لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے کہہ رہا ہو’ صد حیف!یہ میں نے کیا کر دیا‘۔ پھر اس کے بعد اک لمحے کے لیے خاموشی کا رنگ چھا جاتا ہے۔ گو کہ اس سکوت کے رنگ کا اثر فقط چند لمحوں کے لیے ہے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے صدیاں بیت گئیں ہوں۔
شاعر حیران پریشان ہے کہ اس ’’انوکھی ندا‘‘ تک کس طرح پہنچے۔ اسے علم نہیں کہ اپنے آپ کو کس طرح ریمیائے یا teleportکرے یاِ ہیمیا سے کام چلا کر اس ندا تک پہنچے۔ بلانے والا بھی نظروں سے اوجھل ہے۔ لیکن زود حس شاعر ہمت نہیں ہارتا۔ اپنے محسوسات اور تخیلات کی دنیا کو جگاتا ہے۔ پھر اسے اپنی نظروں کے سامنے رہ رہ کر ’’سسکنے ‘‘والی وہ آواز سنائی دیتی ہے تو کبھی بلانے والے کے چہرے پر ہلکا سا ’’تبسم‘‘ دکھائی دیتا ہے تو کبھی اس کے ماتھے پر ’’تیوری‘‘ پڑتے ہوئے دیکھتا ہے۔
’’کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم، کبھی صرف تیوری‘‘
نظم کی اس ایک سطر سے شاعر نے ’زندگی تیرے کتنے روپ‘ کے مانند زندگی کے کئی تین رنگ ایک ہی رنگ’’ سسکی۔ تبسم۔ تیوری‘‘ سے تیار کیے ہیں۔
قصہ یہ ہے کہ میراجی اپنی ماں سے ملنے لاہور جانا چاہتے تھے۔ لیکن بعض مجبوریاں آڑے آئیں اور تا دمِ آخر وہ اپنی ماں سے نہیں مل سکے۔ انھیں یہ قلق ہمیشہ رہا کہ ان کا وجود ماں سے ہے جیسا ازل سے ہوتا آیا ہے اور ابد تک ہر ایک کا ہو گا، لیکن وہ اپنی ماں سے نہیں مل سکے۔ قیاساًیہ کہا جا سکتا ہے کہ میراجی سمندر کے کنارے کھڑے ہیں۔ سمندر ی لہریں آ آ کر ساحل سے ٹکراتی ہیں۔ ایک شور بپا ہے۔ ان کے دل و دماغ میں بھی یادوں کا ایک دریا موجزن ہو گیا ہے۔ وہ اس سحر آگیں کیفیت میں گرفتار ہونے سے اپنے آپ کو کس طرح بچا پاتے ؟ لیکن مجبور ہیں۔ ماں سے ملنا نصیب میں نہیں۔ سو عالمِ تخیل میں ماں کے پاس پہنچتے ہیں اور ماں سے کہتے ہیں کہ میری ماں مجھے سمندر میں ہوا کے ساتھ پیدا ہونے والی یہ منہ زور لہریں کبھی تیرا دکھ لگے ہے تو کبھی اٹھلاتی بل کھاتی یہ لہریں تیری ایک پل کی خوشی۔ اور ساحل سے لپٹ کر دم بھر میں دم توڑتی یہ بپھری ہوئی موجیں تیرا پل بھر کا غصہ لگے ہے۔ ماں !تیرے بھی عجیب دھنک رنگ ہیں :
سمندر میں ہوا کے ساتھ پیدا ہونے والی یہ منہ زور لہریں کبھی تیرا دکھ لگے ہے تو کبھی اٹھلاتی بل کھاتی یہ لہریں تیری ایک پل کی خوشی۔ اور ساحل سے لپٹ کر دم بھر میں دم توڑتی یہ بپھری ہوئی موجیں تیرا پل بھر کا غصہ لگے ہے۔ ماں !تیرے بھی عجیب دھنک رنگ ہیں :
’’کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم، کبھی صرف تیوری‘‘
’’مگر یہ صدائیں تو آ رہی ہیں
شاعر آگے کہتا ہے کہ اس کو کچھ ایسی ’’صدائیں ‘‘ بھی مسلسل سنائی دے رہی ہیں جو اسے جتلا رہی ہیں کہ
’’انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے ‘‘
اب شاعر نے ماں اور ماں کی ممتا کو سامنے موجود بے کنار گہرے سمندر کے روپ میں دیکھا اور پھر اس نے ان ’’صداؤں ‘‘کے اشارے کو سمجھا جو اسے سمجھا رہی ہیں یہ کہہ کر کہ
’’انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے ‘‘
پھرتو اپنی ماں سے ملنے کیوں نہیں جاتا؟سفینے سامنے کھڑے ہیں۔ پھر کیا مجبوری ہے ؟
شاعر آگے کہتا ہے کہ ان آوازوں کو سنتے سنتے اب اس کا یہ حال ہو گیا ہے اور وہ عمر کے اس حصہ کو پہنچ گیا ہے کہ اب نہ اس کی آنکھوں کے تارے جاگتے ہیں، نہ ہی اس کی بانچھیں کھلتی ہیں اور نہ ہی اس کے ماتھے پر کسی بات یا آواز سے بل پڑتا ہے۔ فقط کان ہی اب اس کا ساتھدے رہے ہیں۔ ان آوازوں کو فقط سننا اب اس کی مجبوری ہو گئی ہے (سائنسی اعتبار سے بڑھاپے میں ہلکی آواز زیاد ہ واضح سنائی دیتی ہے اور اونچی آواز کم )
’’اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں۔ ‘‘
نظم کے اس وسطی حصہ میں شاعر نے زندگی کے جو رنگ چنے ہیں وہ یہ ہیں۔ ’’نہ آنکھوں میں جنبش۔ نہ چہرے پہ تبسم۔ نہ تیوری ‘‘، ’’کان۔ سننا۔ اور صرف سننا‘‘یہ عمر کے اس حصہ کے رنگ ہیں جسے بڑھاپا کہا جاتا ہے۔ عموماً یہ بے بسی، بے کسی اور مجبوری سے عبارت ہے۔ اس حصہ کا رنگ بڑا گنجلک اور کائی زدہ ہوتا ہے۔ صرف ایک ہی کام رہ جاتا ہے۔ سننا، دیکھنا اور کڑھتے رہنا:
’’سب ہیں گھر میں لیکن
گھر میں کوئی نہیں
چارپائی پر بیٹھا بوڑھا سوچ رہا ہے
سب ہیں میرے لیکن
میرا کوئی نہیں !
(عمر کے سائے، اخترؔ صادق)
کان کیا سنتے جا رہے ہیں ؟اور اس سے شاعر نے کیا نتیجہ اخذ کیا ؟اس نے اس کو نظم کے اگلے حصہ میں بیان کیا ہے۔
شاعر فقط اب سننے کے موڈ میں ہے۔ وہی سرگوشیاں اس سے مخاطب ہیں :
’’یہ گلستاں ہے۔ ‘‘
’’یہ پربت ہے۔ ‘‘
’’یہ صحرا ہے۔ ‘‘
سرگوشی پہلے گلستاں کی داستان سناتی ہے :
’’یہ اک گلستاں ہے، ہوا لہلہاتی ہے، کلیاں چٹکتی ہیں، غنچے مہکتے ہیں اور پھول
کھلتے ہیں، کھل کھل کے مرجھا کے گرتے ہیں، اک فرش مخمل بناتے ہیں جس پر
مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں کہ جیسے گلستاں ہی اک آئینہ ہے،
اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری، سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی، پھر نہ ابھری۔ ‘‘
سرگوشی کہہ رہی ہے دیکھو اس گلستاں کو کہ کیسا اس میں اس کی زندگی ہو اکے مانند جھوم رہی ہے۔ اس کے بھی تین رنگ ہیں :کلی، غنچہ اور پھول۔ جیساکہ اس سے پہلے بیان کیا گیا ہے یہاں بھی شاعر نے کلی اور غنچہ میں بہت ہی لطیف فرق کو ملحوظ رکھا ہے۔ شاعر نے بند کلی سے پھول بننے کے تین مدارج بتائے ہیں۔ پہلے کلی بنتی ہے۔ پھر وہ چٹکتی ہے، یہ ادھ کھُلی کلی غنچہ ہے جو مہکنے لگتا ہے۔ پھر پھول بن کر وہ گلستاں کی رونق بڑھاتا ہے۔
شاعر نے گلستاں کو زندگی کا آئینہ قرار دیا اور آئینہ کی مناسبت سے پھر تین رنگ بیان کیے ہیں۔ نکھرنا، سنورنا اور پھر جھنجھلا کرسنگھار کو بگاڑ دینا۔ ایک انسان بھی اپنی زندگی میں انہی کیفیات سے گذرتا ہے۔ اور بالآخر مٹی میں مل کر حیاتِ جاوداں کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔ اب وہی سرگوشی شاعر کو پربت کی کہانی سناتی ہے :
’’یہ پربت ہے خاموش، ساکن،
کبھی کوئی چشمہ ابلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اس کی چٹانوں کے اس پار کیا ہے ؟
مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے، دامن میں وادی ہے، وادی میں ندی ہے، ندی میں
بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے،
اسی آئینے میں ہر اک شکل نکھری، مگر ایک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو پھر وہ نہ ابھری۔ ‘‘
سرگوشی کہانی کچھ یوں شروع کرتی ہے۔ پربت دنیا کا دوسرا رنگ ہے۔ پربت جتنا بڑا ہے اتنا ہی خاموش اور ساکن ہے۔ کیا یہ اس کی ساکت جامد صفات کے مخصوص تین رنگ نہیں ہیں ؟
شاعر نے بہتی ہوئی ناؤ کو اس فانی زندگی کا آئینہ قرار دیا ہے۔ شاید شاعر کا اشارہ کشتیِ نوحؑ کی طرف بھی ہے جہاں سے اس فانی زندگی کا احیا ہوا۔ اور کئی کاروانِ حیات یہیں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیلے۔ اور پھر زندگی کا کاروبار کبھی چلنے لگا تو کبھی ڈھلنے لگا۔ جو آج بھی جاری و ساری ہے۔ ا سی لیے شاعر کہتا ہے :
’’اسی آئینہ میں ہر ایک شکل نکھری، مگر اک پل میں جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ ابھری‘‘
’’یہ صحرا ہے __پھیلا ہوا، خشک، بے برگ صحرا،
بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں ‘‘
یہ صحرا اس جہاں کا تیسرا رنگ ہے۔ یہ محتاجی اور بے سروسامانی کا رنگ ہے۔ یہ چلچلاتی دھوپ میں ہوا کو بھی ننگا کرنے والا رنگ ہے۔ اس کے بھی تین رنگ ہیں۔ یہ پھیلا ہوا ہے۔ خشک ہے۔ بے برگ ہے۔ صحرا کی زندگی کے رنگ بھی ہماری زندگی کے رنگوں کا ایک حصہ ہے۔ یہاں کا ہر پل ایک سراب ہے۔ دھوکا ہے۔ بعینہٖ دنیا کی زندگی کا ہر پل بھی ایک رنگین سراب ہے۔ آخرِ کار شاعر ان سرگوشیوں سے اپنا دامن چھڑاتا ہے اور کہتا ہے :
’’مگر میں تو دور__ایک پیڑوں کے جھرمٹ پر اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں۔ ‘‘
میراجی کہتے ہیں کہ میری آرزوؤں کی پریاں نہ تو اب گلستاں میں بسیرا لینا چاہتی ہیں اور نہ ہی اونچے پربتوں کی جویائی کرنا چاہتی ہیں۔ اور نہ ہی یہ دشتِ سواراں سے ہیں۔ و ہ تو بس اب میری نظروں کی ڈوری تھامے اس راستے پر سفر کرنے کی تمنائی ہیں جہاں میری نگاہیں ٹکتی ہیں۔ میری نگاہیں پیڑوں کے ایک جھرمٹ پر ہیں۔ یہ ہے تو دور لیکن اب یہی میری جاد ۂ منزل ہے۔ کیونکہ یہ کثرت میں وحدت کا رنگ ہے۔ اس لیے یہی میری زندگی ہے۔ یہی میری زندگی کا چھوٹا ساآئینہ ہے۔
اب شاعر اپنے ذہنی سفر کے آخری پڑاؤ پر ہے۔ وہ کہتا ہے ’’تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں ‘ ‘ تو اس پر آئینہ کا سحر ختم ہوتا ہے۔ اور وہ ندا کے درپن میں اپنے خد و خال کا جائزہ لینے لگتا ہے۔ جائزہ لیتے لیتے اس پر منکشف ہوتا ہے کہ بصورتِ سرگوشیاں یہ جو ندائیں اسے دی جا رہی ہیں دراصل یہ آئینہ تمثال آئینہ کا جوہر ہیں۔ پھر یہ کیسے تھکیں گی۔ کہیں آئینہ بھی تھکا ہے ! فقط میں ہی اپنا عکس دیکھتے دیکھتے تھکا ہوں۔
’’ نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں،
اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری
فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے،
بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا
تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں ؛
نہ صحرا نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجکو
کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی۔ ‘‘
شاعر کو سرگوشی نے پہلے گلستان کی داستان سنائی۔ پھر پربت کی۔ پھر صحرا کی۔ شاعر کہتا ہے مجھے لگتا تھا کہ صحرا، پربت اور گلستاں زندگی کا آئینہ ہیں۔ انہی آئینوں سے زندگی کے عکس نکل نکل کر ادھر ادھر پھیلے۔ زندگی کی ابتدا انہیں سے ہوئی۔ زندگی کا منبع یہی ہیں۔ لیکن اس پر جب یہ بھید کھلتا ہے کہ ’پانی تمام زندہ چیزوں کی بنیاد ہے ‘تو وہ اس انوکھی سرگوشی کی سنائی گئی داستان کی پر زور مخالفت کرنے کے لیے داستان کی ترتیب کو الٹ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے دامنِ دل کو اب صحرا، پربت اور نہ ہی گلستاں کے آئینے کھینچتے ہیں۔ فقط اب آئینہ تمثال سمندرمیرے لیے پر کشش کرتا ہے۔ کیونکہ اب میں جان چکا ہوں کہ ہر ذی روح کی ابتدا پانی سے ہوئی ہے۔ اور ایک دن اسے پانی ہی بن کر پاتال کو پہنچنا ہے۔ میری ماں اور میرا وجود بھی اسی پانی سے ہے۔ سو اب قیامت کا انتظار ہے اسی دن میں اپنی ماں سے مل سکوں گا۔ یہاں شاعر نے ’’ہر شے سمندر سے آئی‘‘ کا اشارہ سورۂ نور کی اس آیت کی طرف دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور اللہ نے ہر جاندار کو پانی سے خلق کیا‘‘۔ اور نظم کی آخری سطر کے دوسرے ٹکڑے ’’سمندر میں جا کر ملے گی ‘‘کا مطلب شاعر نے شاید یہ لیا ہے کہ جو شے جس چیز سے بنی ہے آخر کو اسے اسی میں مل کر فنا کو پہنچنا ہے۔
’’نہ صحرا نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو
’’کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر ملے گی۔ ‘‘
درج بالا رنگوں کی فہرست سے واضح ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنی اس نظم میں خصوصیت سے چیزوں اور جمالیاتی کیفیات کی مرحلہ وار منتقلی کے مدارج بیان کیے ہیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ ہر شے کو مرحلہ وار ایک طے شدہ راستے سے گزرنا ہے۔ یہ خالقِ کائنات کے طے شدہ رنگ ہیں۔ لہٰذا شاعر بھی انھیں اسی رنگ میں رنگنا اور دیکھنا چاہتا ہے۔ نظم کے کینواس پر مدارج کے انہی رنگوں سے میراجی کے خیال و خوابوں کے بھید کھلتے ہیں۔
گو کہ اس اکیس سطری نظم میں درج بالا تقریباً چوبیس رنگ ہیں لیکن ان سب رنگوں پرمحیط سمندر کا رنگ ہے۔ سمندر کو اوپر سے دیکھیں تو نقطہ لگے، سامنے سے دیکھیں تو خط اور اس کی پہنائیوں میں پہنچ جائیں تو سطح۔ نقطہ ابتدائے وجود ہے۔ اس وجودی نقطہ سے خط بنا اور اس خط سے سطح وجود میں آئی۔ اور ان تینوں کے اشتراک سے کائنات کے اجسام کی تجسیم ہوئی۔ سو سمندر تینوں رنگوں پر محیط تجسیمِ کائنات کا رنگ ہے۔ یعنی جس طرح ایک مصور فن پارہ کی تخلیق کے بعد اس پر کہیں کونے میں بالکل رمزیہ انداز میں اپنی شناختی دستخط ثبت کرتا ہے جس کا ڈھونڈ پانا عام آدمی کے بس کا روگ نہیں، بالکل اسی طرح شاعر کا سمندررنگ ان رنگوں پر ایک دستخط کی طرح وقت کے کاغذ پر ثبت ہے۔
اسی لیے کہا جا سکتا ہے کہ میراجی کی نظموں کا منظر نامہ سمندر اور اس کائنات کی طرح وسیع اور گہرا ہے۔ سمندر کا سا شور اور سکوت اور کائنات کی بو قلمونی کی طرح کا خاصہ ان کی نظموں کا خاصہ ہے۔
یہی ان کی اس نظم کے رنگ ہیں اور شاید دیگر نظموں کے بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھُول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھُول گیا
٭٭٭
اجنتا۔ اورنگ آباد اور میرا جی
ہاجرہ بانو
احساس کی بے ساختگی کا اظہار اگر دیکھنا ہو تو میرا جی کے الفاظ سنگتراش کی کسی بولتی مورت کے سمان نظروں کے سامنے ابھر آتے ہیں۔ جن میں زندگی کی لہریں کروٹیں بدل کر انگ انگ میں وہ سرور جگا جاتی ہیں کہ انسان صدیوں تک کرہ ار ض کو اپنی مٹھی میں قید کر لیتا ہے۔ ظاہری چکا چوند سے آزاد میرا جی کے نفس مضمون و ایمائیت پر نقادوں نے اپنے قلم کی منقاریں تو توڑ دی ہیں لیکن اس کے گہرے وجود کی پرتیں مٹاسکنے میں انہیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ اس کی حتمی وجہ یہ تھی کہ میرا جی نے اپنی نظموں میں صرف اور صرف اپنا ذاتی تجربہ سمودیا ہے۔ جس نے قاری کی روح کو ان کی نظم کے الفاظ میں جذب کر لیا ہے۔ اشعار تو ان کی ہیجانی کیفیت کی مجبوری کے علمبردار تھے۔ اسی لیے احساسات کی گھٹن اور جذبات کے طوفان اظہار کا ایسا راستہ تلاش کر لیتے تھے کہ تسکین احساسات کے سوتے پھوٹ پڑتے تھے۔ میرا جی کی شاعری کسی درد کا وہ مرہم ہوتی تھی جو آہستہ آہستہ زخم کو مندمل کر کے راحت جاں کا سبب بنتی تھی نہ کہ طلسماتی اثر دکھا کر پل بھر میں غائب ہو کر پھر سے درد کی توانائی میں اضافہ کرتی تھی۔ ابہام اور اشاریت کے باوجود میرا جی کے اشعار میں نفس مضمون اپنی قوت کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ شاعری کی مرصع کاری سے پرے ان کی سادگی میں زندگی کے تمام راگ اپنے سر بکھیرتے ہیں۔ ان کے یہ نغمے صدیوں سے کھڑیوں پہاڑوں میں حرکت پیدا کر کے انہیں زندہ جاوداں بناتے ہیں۔
’’اجنتا کے غار‘‘ میری نظر میں میرا جی کی بہترین نظموں میں سے ایک ہے۔ الفاظ کے بکھیرتے سروں کو قرطاس پر محسوس تو کیجیے۔
دھیان کی جھیل میں لہرایا کنول کا ڈنٹھل
سوچ آتی ہے مجھے کیوں ہوئی پروا چنچل
دھیان کی جھیل میں ہر چیز ہے کو مل شیستل
جیسے ناری ہوا اٹھائے ہوئے امرت چھاگل
تہذیب اور روایتوں کے شعور کی پرتوں کو توڑتا یہ شاعر اپنی حدوں کو لانگتا ہوا بلندیوں کی جانب اپنے براق پر سوار آگے ہی آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ فرائڈ کے ذہنی نظرئیے کے زیر اثر میرا جی کی شاعری نے حقیقی جنس کو اولیت بخش کر شعور کی سطح کو نہ چھوتے ہوئے لاشعور اور انتشاریت کی بو قلمونی کائنات میں گھر بسانے کی کوشش کی۔ اور بڑی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ اسی نظم کے آگے اپنے اشعار میں سربلند گونج کی بجائے لطیف اشارے میں اپنی ایمائیت کا سکہ جماتے ہوئے کہتے ہیں :
میلے کپڑے کی طرح لٹکی ہوئی تصویریں
بیتے دن رات میرے سامنے لے آتی ہیں
کئی راجہ ہیں یہاں ایک ہی راجہ بن کر
ایک ہی تاج کے ہیرے ہیں کئی ہیرے ہیں
میرا جی کا ہر شعر اپنے اندر موسیقی کے تمام سروں کی شناخت رکھ کر لے اور آہنگ کو اس سلیقے کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ بنجر روح کی کوکھ میں تازگی کی کونپلیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ کہیں کہیں ای ای کمنگس E. E. Cummings کی طرح لاشعوریت کے مسطح میدان میں ضرور پہنچاتی ہیں لیکن ان میدانوں کی سطح سے بوریت محسوس ہونے کی بجائے ان کی خوبصورتی اور حسن میں اضافہ کر دیتی ہیں۔ مختلف علامات و اشارات ان کے جنسی تصورات کو بہت ہی انوکھے اور منفرد انداز میں شگفتگیِ چشم کا سبب بناتے ہیں۔
․․․․․․․ آم کے پیڑ، کنول تال کنارے جم کر
سرسراتے ہوئے پتوں کی صدا سے پیہم
اسی اک سوچ میں کھو بانو(شار ر کا بلاوا‘‘
دیتے ہیں
آم کیسے ہیں، کنول کیسے ہیں
اور میں سوچتا ہوں
آم شیرینی سے امرت کا مزہ دیتے ہیں
اور کنول جلوہ دکھاتے ہی ہر اک بات بھلا دیتے ہیں
یہ کنول تال یہ تو آم کا سایہ مت جان
کیا تجھے یاد نہیں آتی ہے
گیسوؤں کی وہ گھنیری چھاؤں
جس کے پردے میں کنول کھلتا ہے، ہنس دیتا ہے
زندگی کیا ہے کوئی اس کی خبر لیتا ہے
وہی میرا جی جو فقیرانہ، درویشانہ اور بے نیازانہ اداؤں کے ساتھ پل بھر میں گزشتہ صدیوں کا سفر کرا دیتا ہے۔ کمال تو یہ کہ یہ صدیوں کا سفر صرف قدم اور نظروں کے سہارے طے نہیں ہوتا بلکہ جذبات اور لاشعور کی آنکھوں کے ذریعے طے کیا جاتا ہے۔
․․․․․․․․ جس نے بیتی ہوئی صدیوں میں مجھے الجھایا
تو ہی داسی ہے تو ہی رانی ہے
رات کی مہلت یک لمحہ کو انبار بنا دیتی ہے
رات کے جانے پہ بیزار بنا دیتی ہے
میرے دل کو․․․․․․․․․ میرا دل راجہ ہے
اس کنول تال کے پژ مردہ کنارے پہ نشستہ ہے مگر
بات اس کی نہیں سنتا کوئی
اور یہ بیٹھے ہوئے سوچ کی لہروں میں بہا جاتا ہے
تیری بیباک اداؤں کا جلوس
دیکھتے دیکھتے آنکھوں سے نکل جاتا ہے
اور پھر دھیان مجھے آتا ہے
لیٹے لیٹے جو تیری آنکھوں میں نیند آ جائے
میں تجھے چھوڑ کے چل دوں، کہیں چل دوں،
چپ چاپ
ایک اچٹتی سی، نظر جاگ نہ اٹھے چل دو
یہ خیال آتے ہی چھنا کا خیال آتا ہے
وہ تو خوابیدہ ہے انجان ہے ان باتوں سے
آؤ اب سوئیں بہت رات گئی․․․․․․․․․ نیند آئی۔
میرا جی نے زندگی کا دوسرا نام ہی ہیجان رکھا تھا۔ جس کا راستہ علم کے پائیدانوں سے ہو کر احساس کی پگڈنڈی پر چلتا ہے۔ شائد اسی نئے مرکزی نقطے نے نئی نسل کے جدید شعراء کو میرا جی کے دائرے میں قید کر لیا تھا۔ اجنتا کی خوبصورت مصوری میں پوشیدہ جذبات کو میرا جی سے بہتر شاید ہی کوئی آنک سکتا ہے۔ میرا جی نے اس نظم میں اجنتا کی غار میں بند پوری تاریخ کو مصور ہی نہیں کیا انہیں متحرک بھی کر دیا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے سارے کردار جیتے جاگتے ہوئے موجود ہیں، سارے منظر اپنی اپنی بات سنا رہے ہیں، بلکہ یوں بھی لگنے لگتا ہے کہ یہ سارے کردار زندہ موجود ہیں اور ہم انہیں تصویر بنے دیکھ رہے ہیں۔
یہ میرا جی کے فن کے کمال کا اوج ہے !
٭٭٭
خراج عقیدت بخدمت میراجیؔ
ہاجرہ بانو
جنت۔ ہاں وہ سرزمین جسے ہندو پاک کی سیاسی خاردار سرحدوں نے گھیر رکھا ہے، کارگل وار کے کئی سال بعد بھی سناٹے میں کسی فوجی کی رائفل کے فائر کی آواز سے چناروں پر بیٹھے ہوئے پرندے پھڑپھڑاتے ہوئے پرواز کر جاتے ہیں۔ غور و فکر میں غرق ہوتا چاند، ڈل جھیل میں اپنی کھوئی ہوئی مسکراہٹ تلاشتا ہے۔ بلند برفیلی چٹانوں سے اپنی ترنگوں کو سمیٹتا بہتا پانی یہ سوچتا ہے کہ کون سا راستہ منتخب کروں پتہ نہیں آگے کس ندی کے پانی پر کوئی تنازعہ کھڑا ہو جائے۔ سیب جیسے سرخ رخساروں والی حسینائیں بیاہ کی فکر میں اپنی سرخی کو زردی میں روزبروز تبدیل ہوتی دیکھتی رہتی ہیں۔ ان کے والدین کی ماند پڑتی جبین پر پڑی شکنیں اس فکر میں گہری ہوتی نظر آتی ہیں کہ ان کی بیٹیوں کو شادی کے لیے اپنی پاکیزگی کی توثیق کتنی بار کرانی ہو گی۔ بچوں کے ضعیف چہرے دیکھ کر ایسا لگتا ہے مانو کئی دہائیوں نے ایک ساتھ ان معصوم چہروں پر قبل از وقت قدم رنجہ فرمالیا ہو۔ نوجوانوں کی انگلیاں محبوباؤں کی زلفوں کو سنوارنے کی بجائے ایف 16 سنوارتی نظر آتی ہیں۔ جذبات سے عاری ان کے چہرے کسی سپاٹ چٹان کی مانند محسوس ہوتے ہیں۔ زعفران کے کھیت بھی ان کے لبوں پر مسکراہٹ لانے میں ناکام رہتے ہیں۔
جی ہاں اسی جنت کی کشمیری سرزمین سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے گھر 25 مئی 1912 بمقام گوجرانوالہ منشی محمد مہتاب الدین کے گھر ایک گلفام نے جنم لیا۔ زہراوی پریاں اپنے پنکھوں کے پالنے میں اسے جھولا جھلاتیں۔ تتلیاں اسے اپنے مخملی پنکھوں سے رنگین بناتیں۔ سریلی چڑیاں اسے اپنی لوری دے کر سلاتیں اور جگنو کی سبز چمک اس کی ننھی ننھی آنکھوں میں مسکراہٹ بھر دیتیں۔ یہی گلفام میرا جی کہلایا۔ منشی محمد مہتاب الدین ریلوے انجینئر تھے۔ پہلی اہلیہ کی وفات کے بعد ایک کمسن دوشیزہ سے شادی کی جن سے میراجی تولد ہوئے۔ مہتاب الدین خود بھی معاشی گردش میں الجھے رہتے اور اپنے افراد خاندان کو بھی مستقل سفر میں رکھتے۔ کاٹھیا واڑا، بلوچستان، سکھر اور جیکب آباد میں زیادہ قیام کیا۔ ننھے گلفام نے بھی ان سارے مقامات کی مٹی کی سوگندھ کو اپنے خمیر کے تعاون سے منسلک کیا۔ مہتاب الدین نے لخت جگر کا نام محمد ثناء اللہ ڈار رکھا اور اس کے بہتر مستقبل کے سپنے دیکھنے لگے۔ ثناء اللہ نے صنف شاعری کو اپنایا اور ’’ساحری‘‘ تخلص اپنایا۔ ہندو میتھالوجی سے متاثر ثناء اللہ لاہور میں ایک بنگالی خاندان کے اکاؤنٹ آفیسر کی بیٹی میرا سین کے حسن پر فریفتہ ہو کر اسی کے نام کو اپنے قلمی نام کے لیے مقدس جانا۔ میرا کے حسن کے سحر نے اس ساحری کو کہیں کا نہ چھوڑا۔ عشق کی وحشت اور دیوانگی اتنی بڑھی کہ گھر بار کو الوداع کہہ کر آوارگی کو گلے لگا لیا۔ افراد خاندان کے ساتھ کی بجائے دوستوں کی محبت کو اہم سمجھا۔ عشق کی آگ میں جل کر جو کچھ بھی اپنے قلم سے سپرد قرطاس کرتے ان ہی گیتوں کو فروخت کر کے پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ لاہور کی ادبی دنیا سے جڑ گئے پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی کے لیے خود کو مختص کر لیا۔ ’’ساقی‘‘ دہلی میں کالم نویسی بھی کی۔ ’’خیال‘‘ ممبئی کے ایڈیٹر کے فرائض بھی بخوبی سنبھالے لیکن وہ بھی نہایت مختصر عرصے تک۔
زمانے سے منفرد عشق اور اس کی شدت نے میراجی کی شخصیت کو بھی منفرد بنا دیا۔ مجنوں تمثال میرا جی کی شیروانی کی جیب، جیب کم دیوار پر آویزاں وہ تھیلی زیادہ محسوس ہوتی جس میں ہر قسم کا سامان رکھا ہوتا ہے۔ سرپر لمبے لہراتے بال سب کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لیتے۔ بغل میں کاغذ بیاض دابے، اطراف و اکناف کے دقیانوسی ذہنوں کو دھول کی طرح اڑاتے، ناک کی سیدھ میں چلتے۔ ان کا دل انہیں آزو بازو دیکھنے کی مہلت ہی نہیں دیتا تھا۔ تصور میں میرا اور سامنے سیدھا راستہ۔ مونچھیں ایسی جو سماج کے فرسودہ افراد پر کاری رعب جما دیں۔ گلے میں پڑی مالا کے منکے عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کا پتہ دیتے۔ افراد خاندان، پاس پڑوس، محلے اور سماج سے کرب آمیز سلگتی وحشت کا احساس لیے ان کا پیکر اردو ادب میں خود میرا جی کے نہ چاہتے ہوئے بھی بلند مقام حاصل کر گیا۔ میرا جی نے عہد کیا تھا کہ وہ صرف اپنے لیے شاعری کریں گے۔ غزل، نظم، آزاد نظم سب کچھ تو ڈال گئے اردو کے دامن میں۔
میرا جی نے تقسیم ہند کا کتنا اثر اپنے دل پرلیا اس کا تو پتہ نہیں لیکن 1947 کے بعد وہ مستقل طور پر ممبئی میں ہی رہے۔ تہذیب کے گہرے اثر سے مزین نقوش ان کی شاعری، نثر اور خطوط میں جا بجا ملتے ہیں۔ ہر تحریر میں ہندوستانی تہذیب کا ارضی پہلو نظر آتا ہے۔ عمر کے آخری ایام میں اختر الایمان میرا جی کے عزیز دوستوں میں سے تھے جنہوں نے ان کا بہت خیال رکھا۔ 37 سال کی قلیل عمر میں میرا جی نے اپنی زندگی کے کینوس پر صرف اور صرف خزائیں ہی دیکھیں اور یہی کہتے رہے :
جیسی ہوتی آئی ہے ویسی بسر ہو جائے گی
زندگی اب مختصر سے مختصر ہو جائے گی
اور ان کی ژولیدگیِ زیست واقعی مختصر ہو گئی۔ ان کے دوست اختر الایمان بڑے ہی تاسف سے کہتے ہیں :
’’․․․․․․․․․․ کثرت شراب نوشی، اور سگریٹ نوشی کے سبب جگر متاثر ہو گیا تھا۔ ذہنی کمزوری کے مختلف اسباب کی بنا پر الیکٹرک شاک دیتے دیتے ہی ایڈورڈ میموریل ہاسپٹل میں انتقال ہو گیا․․․․․․․․․‘‘
ناکام عشق کو سمیٹنے والی 4 نومبر 1949 وہ دردناک تاریخ تھی جب یہ عظیم شاعر ہم سے بچھڑ گیا۔ تین رنگ، مشرق و مغرب کے نغمے، نگار خانہ، اس نظم میں، خیمے کے آس پاس، میرا جی کی نظمیں، گیت ہی گیت، اور پابند نظمیں اتنا کچھ تو دیا اردو ادب کو۔ شاید زندگی وفا کرتی تو اس گراں قدر سرمائے میں مزید اضافہ ہوتا۔ جب بھی جدید نظم کے موجد کی بات کی جائے گی میرا جی کا نام سب سے پہلے لیا جائے گا۔ شاعری میں کامل طور پر جدید امکانات کا خاصہ صرف انہی کا رہا ہے۔ وہ الفاظ کی تبذیر نہ کرتے ہوئے بڑے نپے تلے الفاظ کا استعمال کر کے اپنی شاعری کو بڑی ہی طرفگی کے ساتھ خوبصورت بناتے۔ حلقۂ ارباب ذوق سے وابستہ ہو کر نئے شعراء کی تربیت کا فریضہ بھی بخوبی انجام دیا۔ قدیم شاعری کی روایات سے تمرد کرنے میں میرا جی ہی علمبردار رہے۔ غیر ملکی شعراء کے مطالعے اور ترجمے نے ان کی جدید شاعری میں نئے اصولوں نے التہاب کا کام کیا۔ یوروپ کی جدید تحریکوں کے کئی اثرات انہی کی وساطت سے اردو شاعری میں داخل ہوئے۔ میرا جی نے جنسی شدتی جذبات کو بھی موضوع بنا کر اسے زندگی کی ایک زندہ علامت اور فعال قوت کے طور پر نہایت ہی ہنر مندی اور فنکاری کیساتھ پیش کیا۔ ان کی بیشتر نظموں میں جنس زدگی کے اثرات نمایاں طور پر ملتے ہیں۔ یہ اثر ان کی آزاد روی کے باعث شاعری میں جلوہ افروز ہوا کیونکہ میرا کے عشق میں ناکامی کے بعد میرا جی نے تمام اخلاقی حدود کے حصار کو پوری قوت سے توڑ کر اپنی زندگی کی لگام جنسی جذبات کے حوالے کر دی تھی۔ میرا جی کی شاعرانہ صلاحیت اور فنی بصیرت انہیں دوسرے شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ اردو شاعری میں ابہام اور علامت نگاری کے اقیوم کے باعث میراجی ہی سرفہرست رہے لیکن یہی خوبی نقادوں کی نظر میں ان کے لیے خامی بن کر رہ گئی۔
․․․․․․․ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی میرا جی کی شاعری کے تجزئیے کے بعد لکھتے ہیں :
’’ان کی (میرا جی کی) صلاحیتوں میں شبہ نہیں لیکن وہ قطعی طور پر بعض ذہنی امراض میں مبتلا ہیں اس کا سبب محبت میں ناکامی ہو یا جنسی تشنگی اور محرومی، اس کا نتیجہ ان کے کلام میں ایک عجیب و غریب نفسیاتی الجھاؤ کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ نفسیاتی الجھاؤ ان کے فن میں بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اسے میرا جی کی اشاریت اور ابہام کا نام دے کر طرح طرح سے اس کی توجیہ کی گئی ہے۔ اس اعتبار سے میرا جی کی شاعری اردو کی شاعری کی تاریخ میں منفرد ہے لیکن محض منفرد ہونا کسی فن کی عظمت کے لیے کافی نہیں۔ ‘‘
یہ عظیم تجرد شاعر اس دنیا کے کرب کے عواطف سمیٹے یہ کہتے کہتے عواقب کی جانب بڑھ گیا اور اپنی پائندہ شاعری سے اردو ادب کو مالامال کر گیا کہ :
انتظار منزل موہوم کا حاصل یہ ہے
ایک دن ہم پر عنایت کی نظر ہو جائے گی
٭٭٭
ترقی پسند نظم نمبر اور میرا جی
حیدر قریشی
ڈاکٹر علی احمد فاطمی ایسے ترقی پسند نقاد ہیں جن کی سوچ اور اپروچ میں ایک توازن ملتا ہے۔ اپنے ترقی پسند خیالات کے ساتھ وہ ادب کو اس کے مجموعی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ ادب کے تئیں ان کے اس رویے نے عمومی طور پر انہیں ادبی دنیا میں نہ صرف عدم توازن کا شکار ہونے سے بچائے رکھا بلکہ ان کی ترقی پسند سوچ میں ایک توازن بھی قائم کر دیا۔ ترقی پسند تحریک کی ابتدا، عروج، زوال سے لے کر اب تک کے منظر نامہ پر ایک سر سری سی نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ تحریک اپنی بہت ساری ادبی خوبیوں کے باوجود اپنے کارندوں کی مارکسسٹ سخت گیری اور فکری سطح پر متشددانہ رویے کی وجہ سے زوال کا شکار ہوئی۔ سخت گیر ترقی پسندوں نے جو زیادہ تر مارکسزم کے کچے پکے مطالعہ سے دانشور بن بیٹھے تھے، ادب کو محض آلۂ کار سمجھ لیا۔ ایسے غیر تخلیقی اذہان نے تخلیقی عمل کے اسرار اور اس کی پیچیدگیوں کو بھی سرسری طور پر لیا اور اپنے نظریات کو عقیدے کی متشددانہ حد تک پہنچا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک کے تخلیق کار بھی اسی رو میں بہہ نکلے۔ چنانچہ کبھی کسی نے احسن فاروقی کو گریبان سے پکڑ کر اسٹیج سے نیچے گرایا تو کبھی منٹو اور اسی طرح کے دوسرے تخلیق کاروں کو اپنے رسائل میں چھاپنے سے روک کرسوشل بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ کبھی فیض میلہ میں احمد ندیم قاسمی جیسے ترقی پسند کو بھی ہوٹ کر کے مشاعرہ پڑھنے سے روک دیا گیا۔ یہ متشددانہ رویوں کی چند سرسری سی مثالیں ہیں۔ اس کا نقصان مخالفین کو اتنا نہیں ہوا جتنا خود ترقی پسندوں کو اور ان کی اپنی تحریک کو نقصان ہوا۔ ترقی پسند تحریک کے تنظیمی زوال کے بعد ترقی پسند تخلیق کاروں اور دوسرے دانشوروں نے سنجیدگی کے ساتھ تحریک کی غلطیوں کا جائزہ لیا اور جہاں تک ممکن ہو سکا اصلاحِ احوال کی کوشش کی۔ علی احمد فاطمی کو میں ایسے دانشوروں میں شمار کرتا ہوں جنہوں نے تحریک کی غلطیوں کا ادراک کر کے احسن طور پر ان غلطیوں کی تلافی اور اصلاح کی کوشش کی۔
جوش و فراق لٹریری سوسائٹی، ا لہٰ آباد کے زیر اہتمام ایک ادبی رسالہ ’’جوش بانی‘‘ وقتاً فوقتاً شائع ہوتا ہے۔ اس کے مدار المہام علی احمد فاطمی ہیں۔ ’’جوش بانی‘‘ کا شمارہ نمبر۵۔ ۶ جولائی ۲۰۱۰ء تا جون ۲۰۱۱ء ترقی پسند نظم نمبر کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ اس نظم نمبر کو دیکھ کر میری ان تمام باتوں کی تصدیق ہوتی ہے جن کا میں اوپر ذکر کر چکا ہوں۔ علی احمد فاطمی کے بے حد اہم اداریہ کے ساتھ ترقی پسند ادب اور ترقی پسند شاعری کے بارے میں محمد حسن، سید محمد عقیل، صدیق الرحمن قدوائی، شارب ردولوی، عتیق اللہ، اقبال حیدر، ابن کنول اور علی احمد فاطمی کے آٹھ مضامین شامل ہیں۔ ان میں ترقی پسند ادب اور خصوصاً ترقی پسند شاعری کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس نمبر کا اہم حصہ اور بنیادی شناخت قرار پانے والا حصہ نظموں کے تجزیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ اس میں ۵۹ شاعروں کی ۷۱ نظموں کا تجزیاتی مطالعہ یکجا کیا گیا ہے۔ اداریہ اور مضامین کا حصہ ۱۱۶ صفحات پر مشتمل ہے، جبکہ نظموں کے تجزیاتی مطالعہ کا سلسلہ صفحہ نمبر ۱۱۷ سے لے کر صفحہ نمبر ۵۲۷ تک پھیلا ہوا ہے۔ اس نمبر کی پہلی خوبی تو یہ ہے کہ اداریہ میں ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے فراخدلی کے ساتھ یہ اعتراف کیا ہے
’’بہت پہلے میں نے میرا جی کی کتاب اس نظم میں پڑھی تھی جو بہت اچھی لگی تھی، بس اسی طرز پر ترقی پسند نظم اور ان کے تجزیوں کا خاکہ بنا ڈالا‘‘۔
یہ روایتی ترقی پسندوں سے ہٹ کر آزادانہ علمی و ادبی کام کرنے والوں کے کام کے ایماندارانہ اعتراف کی ایک جہت ہے۔ وگرنہ عمومی طور پر ترقی پسندوں کی طرف سے میرا جی کو برا بھلا ہی کہا جاتا تھا۔ رجعت پسند کی روایتی گالی جو مارکسزم کا سطحی مطالعہ کرنے والے ہر کسی کو منہ بھر کر دے دیا کرتے ہیں، میرا جی کو بھی دی جاتی رہی۔ لیکن آج سنجیدہ اور پڑھے لکھے ترقی پسندوں میں یہ رویہ سامنے آنے لگا ہے کہ وہ نظریاتی تشدد کی بجائے دوسروں کی بات اور کام کی بھی قدر کرنے لگے ہیں۔ یہ ایک صحت مند تبدیلی ہے، جس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
تجزیاتی مطالعہ کے لیے منتخب کی گئی نظموں میں شاعروں کے انتخاب میں بھی کھلے دل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے تو ترقی پسند تحریک کے آغاز سے بھی پہلے چند ایسی شاندار نظمیں لکھ دی تھیں جو آج بھی ترقی پسند شاعری کے لیے مثالی نمونہ قرار دی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ علامہ اقبال کی دو نظمیں بھی تجزیاتی مطالعہ میں شامل کی گئی ہیں، اختر شیرانی سے لے کر میرا جی تک مختلف الجہات لیکن اہم اردو شعراء کو بھی اس حصہ میں شامل کیا گیا ہے۔ میرا جی کے لکھے ہوئے جوش ملیح آبادی اور ن م راشد کی نظموں کے دو تجزیے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اور میرا جی کی نظم ’’کلرک کا نغمۂ محبت‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ کرا کے اسے بھی شامل کیا گیا ہے۔
علامہ اقبال، جوش ملیح آبادی، اختر شیرانی، فراق گورکھپوری، ن م راشد، میرا جی، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، معین احسن جذبی، مجروح سلطان پوری، ساحر لدھیانوی،
اسرارالحق مجاز، احسان دانش، جمیل مظہری، مجنوں گورکھپوری، پرویز شاہدی، وامق جونپوری، مسعود اختر جمال، احمد ندیم قاسمی، سلام مچھلی شہری، اختر الایمان، جاں نثار اختر، کیفی اعظمی جیسے معتبر ناموں سے لے کر آج کے ندا فاضلی، جاوید اختر اور شاہد ماہلی تک شاعروں کی ایک کہکشاں ہے جو اس نمبر میں جگمگا رہی ہے اور جن کی نظموں کے تجزیوں سے ترقی پسند افکار کی توثیق کی جا رہی ہے۔ ایک کمی ہے کہ ظہیر کاشمیری سے لے کر احمد فراز تک پاکستان کے کئی معتبر ترقی پسند شاعر اس نمبر میں دکھائی نہیں دے رہے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے کہ ’’پاکستان کے سبھی ترقی پسند شاعروں کو ہم نہیں لے سکے جس کا ہمیں افسوس ہے۔ مواد کی فراہمی مسئلہ بنی رہی‘‘
ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے اداریہ کے ان اقتباسات سے ان کے موڈ اور فراخدلانہ طریق کار کے بارے میں اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
’’قمر رئیس کہا کرتے تھے کہ ادب میں نظریاتی تشدد نقصان زیادہ پہنچاتا ہے اور دائرہ کو محدود کرتا ہے۔ فکر میں نرمی اور لچک ہونی چاہیے جو قمر رئیس میں تھی اور میں بھی اس کا قائل ہوا اور اسی کا فائدہ اٹھایا‘‘
’’سارا ادب ہمارا، سارے ادیب ہمارے، سارے انسان ہمارے، ساری کائنات ہماری، یہی ہم نے اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے اور یہی ہم اپنے نوجوانوں کو وراثت میں دینا چاہتے ہیں۔ ‘‘
یہ خوشی کی بات ہے کہ پہلے زندگی کے صرف ایک رُخ پر ہی اصرار کرنے والے ترقی پسند دانشور اب اپنے افکار پر قائم رہتے ہوئے زندگی کو اس کے مجموعی تناظر میں بھی دیکھنے لگے ہیں۔ بلکہ زندگی سے بڑھ کر کائناتی سطح پر بھی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی اور ان کے رفیق کار کینیڈا کے اقبال حیدر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ترقی پسند نظم نمبر پیش کر کے ترقی پسند نظم کے خد و خال کو اجاگر کیا۔ اپنی سوچ میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کو نمایاں کیا اور ہمارے میرا جی کے کام کا اعتراف کر کے دوسروں کو بھی اعتراف کی ترغیب دی۔ اس نمبر سے ادب میں فراخدلانہ سوچ اور صحت مند رویے مستحکم ہوں گے۔
٭٭٭
میرا جی، شخصیت اور فن (ڈاکٹر رشید امجد کا پی ایچ ڈی کا مقالہ)
حیدر قریشی
ادبی دنیا میں آنے سے پہلے اپنی ٹین ایج میں میرے پسندیدہ شاعر وہی شعراء تھے جو ٹین ایجرز کے سدا بہار شاعر ہیں۔ لیکن انہیں شاعروں میں، اُن شاعروں سے یکسر مختلف میراجی بھی شامل تھے جنہیں میں نے ٹین ایج میں ہی حیرت کے ساتھ پڑھا تھا۔ ان کا شعری مجموعہ’’ تین رنگ‘‘ مجھے کہیں سے ملا تھا اور میں نے اس کی نظمیں، گیت اور غزلیں اسی عمر میں پڑھ لی تھیں۔ یہ غالباً ۱۹۶۹ء کا سال تھا۔ (عمر ۱۷ سال)جب میں نے میرا جی کو کچھ سمجھا، کچھ نہیں سمجھا مگر کوئی انوکھا سا شعری ذائقہ ضرور محسوس کیا۔ تب جہاں میں نوکری کرتا تھا، اس ملز میں لیبارٹری کے دوستوں کا بیت بازی کا مقابلہ ہوا تھا اور اس میں سب سے زیادہ میرا جی کے شعر پڑھے گئے۔ بیت بازی کا فیصلہ میرا جی کی ایک غزل نے کرایا۔
گناہوں سے نشوونما پا گیا دل
درِ پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل
لام سے شروع ہونے والے اشعار ختم ہو گئے اور میرا جی کی اس غزل کے شعر ابھی باقی تھے۔ اسی کتاب میں ایک نظم غالباً ’’خلا ‘‘(۱)کے عنوان سے تھی۔
خدا نے الاؤ جلایا ہوا ہے
اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے
ٹین ایج، خام ذہن اور ایسی بات۔۔۔ اس کے بعد میرا جی کو مربوط طور پر پڑھنے کا موقعہ تو نہیں ملا لیکن ادبی رسائل کے ذریعے کافی کچھ پڑھنے کو ملتا رہا، تعارف بڑھتا رہا۔ یوں جدید نظم کے حوالے سے ان کی اہمیت کا احساس بھی ہوتا گیا۔
میرا جی پر اب تک کافی کام ہو چکا ہے۔ ایم اے اردو کا تحقیقی مقالہ انوار انجم نے لکھا، متعدد اہم ادبی رسائل نے میرا جی سے متعلق دستیاب یادگار مواد کو محفوظ کیا۔ اور اب زیرِ نظر کتاب ڈاکٹر رشید امجد کا تحقیقی مقالہ ہے جس پر انہیں پی ایچ دی کی ڈگری دی گئی ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اس مقالہ میں ان کے نگران تھے۔ میں سمجھتا ہوں جدید نظم میں میرا جی جتنی اہم شخصیت ہیں، رشید امجد جدید افسانے میں لگ بھگ اتنی ہی اہم شخصیت ہیں۔ لگ بھگ اس لیے لکھا ہے کہ ہلکے سے تقدم و تاخر کی گنجائش موجود ہے لیکن اس کے باوجود رشید امجد کا جدید افسانے کے حوالے سے جو کام ہے وہ میرا جی کے جدید نظم والے کام جتنا ہی اہم ہے۔ شاید اسی لیے رشید امجد نے نہ صرف دستیاب معلومات سے استفادہ کیا ہے بلکہ میرا جی کو جدید ادب کے باطنی حوالوں سے بھی عمدگی سے دریافت کیا ہے۔
اس مقالہ کے سات ابواب ہیں۔ پہلا باب خاندانی، سوانحی اور شخصی حالات پر مشتمل ہے اور یہ باب اس مقالہ کا اہم ترین حصہ ہے۔ اس باب میں میرا جی کے بارے میں جو اہم معلومات یکجا ہوئی ہے اسے اختصار کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔
میرا جی کا اصل نام ثناء اللہ ڈار تھا۔ ۲۵؍مئی ۱۹۱۲ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ (ایک روایت میں گجرات بھی مذکور ہے )ان کے والد منشی محمد مہتاب الدین کی پہلی بیوی فوت ہوئیں تو انہوں نے میرا جی کی والدہ سے شادی کر لی جو عمر میں منشی صاحب سے بہت چھوٹی تھیں۔ عمروں کے اس تفاوت نے بھی میرا جی کے ذہن پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کے والد کو ریلوے کی ملازمت کی وجہ سے مختلف شہروں میں قیام کرنا پڑا۔ گجرات کا ٹھیا واڑ سے لے کر بوستان، بلوچستان تک انہوں نے سکھر، جیکب آباد، ڈھابے جی، جیسے مقامات گھوم لیے۔ بنگال کے حسن کے جادو نے انہیں لاہور میں اپنا اسیر کیا۔ ۱۹۳۲ء میں انھوں نے ایک بنگالی لڑکی میرا سین کو دیکھا اور پھر اسی کے ہو رہے۔ یہ سراسر داخلی نوعیت کا یکطرفہ عشق تھا۔ میرا سین کو اس کی کلاس فیلوز میرا جی کہتی تھیں، چنانچہ ثناء اللہ ڈار نے اپنا نام میرا جی رکھ لیا اور رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپے رانجھا ہوئی کی زندہ مثال بن گئے۔ اس عشق میں میٹرک پاس نہ کر
سکے۔ ہومیو پیتھک ڈاکٹری سیکھ لی لیکن نہ اس کی بنیاد پر ڈاکٹر کہلوانا مناسب سمجھا اور نہ ہی اس مہارت سے کوئی تجارتی فائدہ اٹھایا۔ بال بڑھا لیے، ملنگوں جیسا حلیہ اختیار کر لیا۔ پھر اس میں تدریجاً ترقی کرتے گئے، لوہے کے تین گولے، گلے کی مالا، لمبا اور بھاری بھر کم اوور کوٹ، بغیر استر کے پتلون کی جیبیں اور ہاتھ عام طور پر جیب کے
اندر، بے تحاشہ شراب نوشی، سماجی ذمہ داریوں سے یکسر بے گانگی۔۔۔ یہ سارے نشان میرا جی کی ظاہری شخصیت کی پہچان بنتے گئے۔ بقول محمد حسن عسکری :
’’جب انہوں نے دیکھا کہ دوست انہیں افسانہ بنا دینا چاہتے ہیں تو بے تامل افسانہ بن گئے، اس کے بعد ان کی ساری عمر اس افسانے کو نبھاتے گزری‘‘۔
میرا سین سے میرا جی کی پہلی ملاقات یا پہلی بار دیکھنا ۲۰ مارچ ۱۹۳۲ء کا واقعہ ہے۔ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنا تو کیا میٹرک بھی نہ کر سکے۔ اس کے باوجود انگریزی زبان اور ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔ جدید نظم کا تجربہ انگریزی ادب سے ہی آیا تھا میرا جی نے اسے ہندوستان کی مقامیت میں گوندھ کر اردو کی مستقل اور جاندار صنف بنا دیا۔ ان کے کئے ہوئے سارے تراجم بھی انگریزی سے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی تنقیدی بصیرت میں مغربی علوم سے مثبت استفادہ کے ساتھ اسے اپنے ادب کے تناظر میں دیکھنے کا رویہ بھی موجود ہے۔ یوں میٹرک فیل میرا جی، جو ظاہری زندگی میں ایک ملنگ سا شاعر ہے ادب کے معاملہ میں بہت ذمہ دار دکھائی دیتا ہے۔ ۲۹؍اپریل ۱۹۳۶ء کو بزم داستاں گویاں کے نام سے لاہور میں ایک ادبی تنظیم قائم ہوئی جو بعد میں حلقہ ارباب ذوق بن گئی۔ ۲۵؍اگست ۱۹۴۰ء کو میرا جی پہلی مرتبہ حلقہ کے اجلاس میں شریک ہوئے، ان کی آمد نے حلقہ میں ایک نئی روح پھونک دی۔
میرا جی کے والد نے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم سے مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ مل کر ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کھولی۔ لیکن ایجنسی گھاٹے کا شکار ہوئی۔ نوبت مقدمہ بازی تک پہنچی۔ ایسی فضا میں میرا جی نے مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ والد نے برا منایا تو انہیں سمجھا بجھا دیا۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ان کی شمولیت سے جدید ادبی رویوں کو فروغ ملنے لگا۔ ۱۹۴۲ء میں ’’ادبی دنیا‘‘ کو چھوڑ کردہلی گئے۔ جون ۱۹۴۷ء کو بمبئی گئے لیکن اپنے مخصوص مزاج کے باعث دنیا داری میں کہیں بھی کامیاب نہ ہو سکے۔ لاہور کے زمانہ سے لے کر دہلی کے دور تک طوائفوں کے پاس بھی جاتے رہے اور لاہور کی ایک طوائف سے آتشک کا موذی تحفہ لے کر آئے۔ دہلی میں ریڈیو کی ملازمت کے دوران دو اناؤنسرز کو کچھ پسند کرنے لگے لیکن ایک اناؤنسر کی پھٹکار کے بعد میرا سین کی مستی میں واپس چلے گئے۔ بمبئی کی فلمی دنیا میں پاؤں جمانے کی کوشش کی۔ مگر کامیاب نہ ہوئے۔ اس دوران ماں سے ملنے کی خواہش لاہور جانے پر اکساتی رہی، لاہور تو نہ جا سکے البتہ ’’سمندر کا بلاوا‘‘ جیسی خوبصورت نظم تخلیق ہو گئی۔ ایک بار والدہ سے ملنے کے لیے معقول رقم جمع کر لی تھی کہ ایک تانگے والے نے اپنا مسئلہ بتایا کہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہو رہی۔ میرا جی نے ساری رقم اٹھا کر تانگے والے کو دے دی اور والدہ سے ملنے کا پروگرام موخر کر دیا جو تا دمِ مرگ موخر ہی رہا۔ ایک اور موقعہ پر ایک ترقی پسند شاعر کی درد بھری داستان سن کر ساری جمع پونجی اس کے حوالے کر دی۔ بمبئی میں سخت غربت، بھیک مانگنے جیسی حالت، دن میں چالیس سے پچاس تک پان کھانے کی عادت، کثرت شراب نوشی، استمنا بالید اور آتشک کے نتیجہ میں ۳؍نومبر ۱۹۴۹ء کو میرا جی بمبئی کے ایک ہسپتال میں ساڑھے ۳۷ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ الطاف گوہر کی تحریر کے مطابق ’’مرنے سے چند دن پہلے جب ایک پادری نے ان سے پوچھا۔۔ ’آپ یہاں کب سے ہیں ؟ ‘
تو میرا جی نے بڑی متانت سے کہا۔۔ ’ازل سے ‘۔ ‘‘
اختر الایمان نے بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ چونکہ تقسیم بر صغیر کے معاً بعد کا زمانہ تھا۔ اس لیے میرا جی جیسا شاعر جو زندگی بھر قدیم ہندوستان کی رُوح کا پرستاررہا، اس کا مسلمان اور پاکستانی ہونا تعصب کا موجب بن گیا۔ اختر الایمان نے خود اخبارات کے دفاتر میں فون کر کے خبر دی۔ دوسرے دن خود جا کر میرا جی کی وفات کی خبر دی لیکن کسی اخبار نے ان کی وفات کی خبر چھاپنا گوارا نہیں کیا(۲)۔ میرا جی کو بمبئی کے میرن لائن قبرستان میں دفن کیا گیا۔ جنازے میں صرف پانچ افراد شامل ہوئے۔ اختر الایمان، نجم نقوی، مدھو سودن، مہندر ناتھ اور آنند بھوشن۔
میرا جی کی داستان کے اس مقام پر ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی ایک غزل کا ایک مصرعہ بڑا ہی برجستہ درج کیا ہے نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا
میرا جی اپنی زندگی کے مختصر دور میں دہلی، لاہور، بمبئی، پونہ تک جن مختلف ادیبوں کے کسی نہ کسی رنگ میں قریب رہے، ان میں سے چند نام یہ ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد، شاہد احمد دہلوی، منٹو، یوسف ظفر، قیوم نظر، الطاف گوہر، مختار صدیقی، ن۔ م۔ راشد، اختر الایمان، راجہ مہدی علی خان، کرشن چندر، احمد بشیر، محمود نظامی، و دیگر۔
مقالہ کے دوسرے باب میں میرا جی کی نظم نگاری پر بات کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں میرا جی کے گیتوں اور غزلوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں ان کی تنقید کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ پانچویں باب میں میرا جی کے تراجم کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ چھٹے باب میں میرا جی کی نثر کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں کم از کم مجھے پہلی بار علم ہوا کہ اپنی عام ظاہری ہیئت کے بر عکس انہوں نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے اور سماجی موضوعات پر بھی بعض فکر انگیز مضامین تحریر کیے تھے اور علم فلکیات میں بھی انہیں دلچسپی تھی۔ ساتویں باب میں مذکورہ تمام حوالوں سے میرا جی کے ادبی مقام کا تعین کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی ذاتی زندگی سے لے کر ان کے ادبی مقام تک مقالہ لکھتے ہوئے انتہائی محنت اور عرق ریزی سے کام لیا ہے۔ تحقیق کے تقاضوں کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔ مختلف اور متضاد آراء کو بھی یکجا کیا ہے اور اپنی طرف سے اپنا تجزیہ بھی پیش کیا ہے۔
یہاں ڈاکٹر رشید امجد کے ایسے تجزیوں کے چند اقتباس پیش کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔
’’میرا جی خود کو تکلیف دے کر ایک طرح کی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ان کا کچھ تعلق ملامتی فرقے سے بھی بنتا ہے۔ ملامتی خود کو برا بھلا کہہ کر ایک قسم کی روحانی بالیدگی حاصل کرتے ہیں۔ میرا جی کے یہاں کچھ ملامتی اور کچھ بھگتی تحریک کے اثرات نے ایک ملی جلی کیفیت پیدا کر دی تھی لیکن مکمل طور پر انہیں کسی خانے یا خاص اثر کے تحت نہیں دیکھا جا سکتا۔ بہت سے اثرات سے مل کر جو کچھ بنا وہ خالصتاَ ’’میرا جیت‘‘ تھی‘‘(ص ۹۵)
’’یہ ان کا بہت سوچا سمجھا فیصلہ تھا کہ وہ ثناء اللہ ڈار کی حیثیت سے نہیں بلکہ میرا جی کی حیثیت سے زندہ رہیں گے۔ انہوں نے اپنی شخصیت کی یہMyth ممکنہ رنج و غم سہہ کر بنائی تھی اور یہ محض ڈرامہ نہیں تھا کیونکہ ساری زندگی دکھوں کی نگری میں مارا مارا پھرنے والا مسافر اتنا طویل ڈرامہ نہیں کر سکتا۔ یہ تو ایک شخصیت کیMyth کی تعمیر تھی جس کے لیے انہوں نے ثناء اللہ ڈار ہی کی قربانی نہیں دی بلکہ تمام ظاہری آرام و آسائش اور معمولات سے بھی کنارہ کشی کی۔ زندگی کا جہنم بھوگ کر وہ میرا جی کو زندہ کر گئے۔ یہی ان کا مقصد بھی تھا اور یہی ان کا ثمر بھی ہے۔ (ص۱۰۵)
میرا جی کی نظم نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں :
’’میرا جی کی شاعری میں تنوع ہے ہی ایسا کہ اس کی کئی جہتیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں ‘‘(ص۱۵۸)
’’میرا جی کی نظموں کا منظر نامہ اتنا پھیلا ہوا اور متنوع ہے کہ اس میں داخلیت پسندی کا گزر ہی نہیں ہو سکتا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ انہوں نے اس خارجی منظر نامے اور وسیع کینوس کو اپنی ذات کے حوالے سے دیکھا اور بیان کیا ہے۔
داخلیت پسندی اور بیمار ذہنیت کے الزامات میرا جی پر ان لوگوں نے لگائے تھے جو ان کی نظموں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے۔ ‘‘(ص ۱۵۹)
میرا جی کی گیت نگاری اور غزل گوئی کے بارے میں ڈاکٹر رشید امجد اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں :
’’میرا جی کے گیتوں میں جو کرب اور دکھ ہے وہ ان کی ذات کے ایوان سے چھن چھن کر وہاں آ رہا ہے اور خاص طور پر سنجوگ کی ایک کیفیت، تمناؤں کی مستقل کسک، اور آشاؤں کی ایک بے انت دنیا، یہ سب ان کی ذات کے وہ گوشے ہیں جو ان کے مزاج کو گیت کے قریب لاتے ہیں اور گیت بطور صنف ان کے اس مزاج سے ایسا تال میل کھاتا ہے کہ میرا جی کے گیت نہ صرف یہ کہ ایک انفرادی حیثیت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کی ایک پہچان بھی بنتے ہیں ‘‘(ص ۱۷۱۔ ۱۷۲)
’’میرا جی کی یہ غزلیں اسلوب اور اظہار کے حوالے سے ایک منفرد حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی لفظیات بھی وہی ہیں جو میرا جی کی نظموں اور گیتوں کی ہیں۔ گویا انہوں نے اپنے گیتوں کے مزاج کو غزل کے مزاج سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے یہ غزلیں نظم کا رنگ بھی لیے ہوئے ہیں ‘‘(ص۱۸۷)
یہاں میں اپنی طرف سے یہ بات ایزاد کرنا چاہوں گا کہ میرا جی اپنے عہد کے نظم نگاروں میں بھی اور بعد میں آنے والے بیشتر اہم نظم نگاروں میں بھی اس لحاظ سے منفرد مثال ہیں کہ تخلیقی لحاظ سے جتنی ان کی نظمیں اعلیٰ پائے کی ہیں، اتنی ہی ان کی غزلیں بھی اعلیٰ پائے کی ہیں۔ یہ الگ بات کہ انہوں نے غزلیں بہت کم کہی ہیں۔ ان کے برعکس ہمارے بیشتراچھے نظم نگار (بہ استثنائے چند)جب غزل کہتے ہیں تو بہت ہی کمزور غزل کہہ پاتے ہیں۔
میرا جی کی تنقیدی بصیرت ان کی تنقیدی آراء سے عیاں ہے۔ ایم ڈی تاثیر کی ایک نظم میں تخلص کے استعمال پر میرا جی نے اپنی رائے کا اظہار یوں کیا:
’’تخلص غزل کی پیداوار ہے اور غزل تک ہی اسے محدود رہنا چاہیے کیونکہ غزل میں اس کی کھپت بہت خوبی سے ہو جاتی ہے۔ نظم میں اس کے استعمال سے تسلسل میں فرق پڑتا ہے۔ خصوصاً اس نظم میں جس کی خوبی اس کے تصورات کا بہاؤ ہے۔ ایسی نظم میں موضوع سے قرب ہر لمحہ ضروری تھا اور تخلص موضوع کی بجائے شاعر کے قریب لے جاتا ہے۔ ‘‘(ص۲۰۰)
ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کی تنقید نگاری کے سلسلے میں کئی اہم نکات کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ان کے بقول:
’’میرا جی کا رجحان نفسیاتی تنقید کی طرف تھا لیکن انہوں نے نظموں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے ایک فریم کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ انہوں نے مختلف شاعروں کی نظموں کا تجزیہ کیا ہے، ان میں ترقی پسند بھی شامل ہیں، جن کے نظریات سے ان کا بنیادی اختلاف تھا، لیکن انہوں نے ان کی نظموں کو ان کے نظریے کی روشنی میں رکھ کر ان کا فنی تجزیہ کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا جی فن پارے کو کسی مخصوص نظریے سے دیکھنے کی بجائے اس کی فنی حیثیت کو سامنے رکھتے تھے ‘‘(ص۲۰۲)
’’نظم کے بنیادی خیال کی تلاش میرا جی کی تنقید کا مرکزی نقطہ ہے اور اس مرکزی نقطہ کو وہ اکثر نفسیاتی توجیہات سے واضح کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ‘‘(۲۰۴)
’’میرا جی کی تنقید میں ایک تحقیقی ذائقہ بھی شامل ہے۔ یہ در اصل ان کے وسیع مطالعہ کی عطا ہے ‘‘(۲۰۹)
میرا جی کی ایک خوبصورت نظم ’’میں ڈرتا ہوں مسرت سے ‘‘دیکھیے :
میں ڈرتا ہوں مسرت سے
کہیں یہ میری ہستی کو
پریشاں کائناتی نغمۂ مبہم میں الجھا دے
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت
مِری ہستی ہے اک ذرہ
کہیں یہ میری ہستی کو چکھا دے کہر عالم تاب کا نشہ
ستاروں کا علمبردار کر دے گی، مسرت میری ہستی کو
اگر پھر سے اسی پہلی بلندی سے ملا دے گی
تو میں ڈرتا ہوں۔۔۔ ڈرتا ہوں
کہیں یہ میری ہستی کو بنا دے خواب کی صورت
میں ڈرتا ہوں مسرت سے ؍کہیں یہ میری ہستی کو
بھلا کر تلخیاں ساری
بنا دے دیوتاؤں سا
تو پھر میں خواب ہی بن کر گزاروں گا
زمانہ اپنی ہستی کا
اس نظم کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد نے میرا جی کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’ان کے نزدیک اگر انسانی زندگی سے درد کی میراث چھِن جائے تو آدمی محض دیوتا بن جاتا ہے، یا محض خواب۔ میرا جی کے نزدیک تلخیوں سے بھرا ہوا انسان مسرت کے ان لمحوں سے زیادہ قیمتی ہے جہاں آدمی دیوتا بن جاتا ہے یا خواب۔ دونوں کیفیتیں میرا جی کے یہاں ایک ہیں۔ دنیا کے دکھوں سے بھرے لوگ ان کے نزدیک معراج انسانیت ہیں، اسی لیے انہیں وہ لوگ بھی عزیز ہیں جو دکھوں کی دلدل میں ہمیشہ پھنسے رہتے ہیں۔ اس سے یہ بھی نہ سمجھا جائے کہ وہ دکھوں کے حامی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک انسان کا مقدر دکھوں سے عبارت ہے اور خوشیاں اس کے مقابلے میں نا پائیدار ہیں ‘‘(ص۱۵۰ )
اپنے تجزیے میں آگے چل کر ڈاکٹر رشید امجد نے مہابھارت کے حوالے سے ایک بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے۔ جنگ کے خاتمہ پر جب کرشن جی مہاراج دوارکا جانے لگے تو تو انہوں نے مہارانی کنتی سے کہا کہ اے ماتا ! میں واپس جانے لگا ہوں تم کوئی ور مانگ لو۔ اس پر مہارانی کنتی نے پوچھا مہاراج آپ واپس کب آئیں گے ؟
اس پر کرشن جی نے کہا کہ جب تم دکھ اور تکلیف میں ہو گی تب واپس آ جاؤں گا۔ اس پر ماتا کنتی نے ور مانگا کہ سدا دکھ اور تکلیف میں رہوں۔ اس قصہ کو بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں :
’’کنتی اور میرا جی نے ایک ہی ور مانگا ہے یعنی دکھ اور تکلیف کا ور، لیکن کنتی اور میرا جی کے ور میں فرق یہ ہے کہ ماتا کنتی نے یہ ور کرشن جی کے درشنوں کے لیے مانگا تھا مگر میرا جی نے یہ خواہش بھی نہیں کی، انہوں نے ایک طرف تو دکھ اور تکلیف کا انتخاب کیا اور میرا سین کی واپسی کی خواہش کی بجائے خود میرا سین بن کر اسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندرسمو لیا۔ رانجھا رانجھا کر دی نی میں آپ ای رانجھا ہوئی‘‘(ص۱۵۱)
اپنے مقالہ کے صفحہ ۱۶۰ تا ۱۶۱ پر انہوں نے میرا جی کی نظم کی انفرادیت کے جو گیارہ نکات بیان کیے ہیں، وہ سب اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ڈاکٹر رشید امجد کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت یہاں کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد کی یہ رائے میرا جی کی شخصیت کے ایک مخفی پہلو کو روشن کرتی ہے :
’’جنس کا حوالہ میرا جی کے ساتھ اس طرح چپک گیا ہے کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ میرا جی کا سارا مسئلہ جنس ہی ہے اور انہوں نے دوسرے مسائل کی طرف بالکل توجہ نہیں دی۔ در اصل میرا جی کے شخصی افسانے نے ان کے گرد ایک ایسا ہالہ بنا دیا ہے کہ اس سے باہر نکلنے کی دوسروں نے کو ئی کو شش ہی نہیں کی اور عام لوگ میرا جی کو ان افسانوں اور ان کی شاعری پر ہونے والے سطحی اعتراضات ہی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ میرا جی نے اپنے مضامین میں جس سیاسی اور سماجی شعور کا اظہار کیا ہے اور ان کے مضامین جس طرح بر صغیر کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورت حال کا احاطہ کرتے ہیں وہ شعور ان کے بہت کم ہم عصروں کو حاصل تھا۔ عام طور پر میرا جی کو اینٹی ترقی پسند سمجھا جاتا ہے لیکن میرا جی نے اپنے مضامین میں بر صغیر کی اقتصادی صورتحال کے جو تجزیے کیے ہیں وہ ان کے عہد کا بڑے سے بڑا ترقی ترقی پسندبھی نہیں کرتا‘‘(ص۲۸۷)
آج کل مابعد جدیدیت کے نام پر، قاری (در حقیقت غیر تخلیقی نقاد) کی قرات کو غیر ضروری بلکہ ناجائز اہمیت دلانے کا کھیل چل رہا ہے۔ یوں قاری کی اہمیت کے جو’’ راز‘‘ کھولے جا رہے ہیں میرا جی نے کسی لسانی گورکھ دھندے کے بغیر آج سے ساٹھ ستر سال پہلے اس بات کا معقول پہلو آسان لفظوں میں بیان کر دیا تھا اور نا معقول پہلو آج کے مابعد جدید نقاد کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ ان کے ایک مضمون کا یہ اقتباس دیکھیے :
’’ہر لفظ ایک تصور یا خیال کا حاصل ہے اور اس تصور یا خیال کے ساتھ ساتھ ہی اس کے لوازم بھی ایک ہالے کی مانند موجود ہوتے ہیں۔ لوازم کا یہ ہالہ انفرادی انداز نظر کا پابند ہے، یعنی ایک ہی لفظ زید کے لیے اور تلازم خیال ہے اور بکر کے لیے اور۔ لیکن ایک ہی زبان سے بہت سے افراد کا مانوس ہونا مختلف افراد کے لیے الفاظ میں قریباً قریباً یکساں تلازم خیال پیدا کر دیتا ہے۔ جب کوئی لفظ ہمارے فہم و ادراک کے دائرے میں آتا ہے تو یہ تلازم خیال کا ہالہ ذہن میں ایک خاص ہیئت اختیار کرتا ہے اور جب اس پہلے لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ ملایا جائے تو ہالہ اپنی ہیئت کو دوسرے لفظ کی مناسبت سے تبدیل کر لیتا ہے ‘‘(ص۲۰۶)
میرا جی کے ادبی مقام کے تعین میں ڈاکٹر رشید امجد لکھتے ہیں :
’’میرا جی کے یہاں ما دیت اور ماورائیت کا جو امتزاج نظر آتا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے دوسرے شعراء سے منفرد و ممتاز بناتا ہے۔ اپنے عہد کے مجموعی انتشار اور مختلف نظریات اور فلسفوں کی یلغار کے باوجود میرا جی کی شخصیت میں ایک روایتی عنصر بھی موجود تھا۔ یہ عنصر ایک ایسی باطنی یا روحانی تنہائی ہے جس کے ڈانڈے صوفیانہ درد و غم سے جا ملتے ہیں۔ یہ ایک ایسا رویہ ہے جو انسان کو اپنے آس پاس کی الجھنوں سے بے نیاز کر دیتا ہے ‘‘ (ص۳۰۲)
’’یہ حقیقت ہے کہ میرا جی بیسویں صدی کے اردو ادب میں ایک اہم اور منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری خصوصاً نظموں کے ذریعے جدید اردو کی بنیاد رکھی اور اپنی تنقید کے توسط سے اردو شاعری کی تفہیم کی اور نئے تنقیدی پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ ان کا کام ان کی عظمت کی سند ہے کہ میرا جی اپنے عہد ہی میں نہیں، آج بھی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں ‘‘(۳۲۵)
ڈاکٹر رشید امجد نے اپنے مقالہ میں تحقیق کے تمام تقاضے پورے کرنے کے ساتھ اپنی تخلیقی اور تنقیدی
بصیرت سے کام لیتے ہوئے میرا جی کی ادبی حیثیت پر دستاویزی نوعیت کا اہم اور یاد گار کام کر دیا ہے۔
اس کتاب(مقالہ)کا مطالعہ کرتے ہوئے میں نے میرا جی سے بھر پور ملاقات کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) یہ نظم اب’’ کلیاتِ میرا جی‘‘ میں ’’سلسلۂ روز و شب‘‘ کے عنوان سے ملی ہے تاہم اس کی تیسری لائن
’’ہر اک سمت اس کے خلا ہی خلا ہے ‘‘سے اندازہ ہوتا ہے کہ میری یادداشت میں ۳۶ سال پہلے کی پڑھی ہوئی نظم کا عنوان’’ خلا‘‘ کیوں رہ گیا تھا۔
(۲)اب اختر الایمان کے مطبوعہ خط سے علم ہوا کہ اخبار میں میرا جی کی وفات کی خبر چھپی تھی، رشید امجد کے مقالہ میں ایسا چھپنا کسی سہو کا نتیجہ ہے۔ (ح۔ ق)
٭٭٭
(مطبوعہ جدید ادب جرمنی۔ شمارہ:۵۔ جولائی ۲۰۰۵ء)
اس نظم میں
میراجی
مندرجہ ذیل نظموں کا جائزہ لیا جائے گا۔
(۱) بوادی کہ درآں خضر را عصا خفت است۔
عطا اللہ سجاد
(ہمایوں )
(۲) طلوع آفتاب
امین حزیں سیالکوٹی
(عالمگیر)
(۳) ایسا کیوں ہوتا ہے۔
سلام مچھلی شہری
(ادب لطیف)
میرا جی کے حوالے سے ایک خط
ایوب خاور(لاہور)
پیارے بھائی حیدر قریشی صاحب
السلام علیکم! امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میں پچھلے کئی مہینوں سے اپنے ایک ڈرامے کی شوٹنگ میں لاہور سے باہر مصروف رہا ہوں جس کی وجہ سے وہ نظم جو مجھے جدید ادب کے اس شمارے کے لیے لکھنا تھی، وہ کہیں میرے دل کے پچھواڑے ہی میں پڑی رہ گئی۔ حالانکہ جدید ادب کے میرا جی نمبر کے لیے میں خود ہی اس نظم کی فرمائش کر چکا تھا۔
کل فون پر بات ہوئی تو اچانک میرے ساتھ ساتھ نظم کی آنکھ بھی کھل گئی۔ ٹیلی ویژن کے حوالے سے ڈرامہ اور میوزک دونوں میری ترجیحات میں رہے ہیں۔ 1988میں معروف ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار مرزا اطہر بیگ کے ڈرامہ سیریل، "حصار”کے لیے مجھے ایک نظم چاہیے تھی جو کہانی کے ہر ٹریک کوEnhance کرنے میں مدد دے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اور بڑے شعرا کی طرح ن م راشد، میرا جی اور مجید امجد خاص طور پر میرے مطالعہ میں رہے ہیں۔ راشد صاحب اور مجید امجد صاحب کو تو شایدکچھ لوگوں نے چھونے کی ناکام کو شش کی ہو گی لیکن میرا جی یقیناً آج تک Untouched رہے ہیں۔
اُن کی نظم”سمندر کا بلاوا” جب بھی میری نظر سے گزری اس نے ہر بارپہلی بار کی طرح مجھے Haunt کیا۔ چنانچہ ڈرامہ سیریل "حصار”کے لیے میں نے اور کچھ نہ دیکھا بس’’ سمندر کا بلاوا ‘‘نکال کر اپنے دوست موسیقار مجاہد حسین کو پیش کر دی۔ اور اپنے ہاں کی ایک بہت اچھی گلوکارہ حمیرا چنا کی آواز میں اسے ریکارڈ کروالیا۔ اس نظم نے نہ صرف میرے سیریل کو چار چاند لگادیئے بلکہ مجموعی طور پر اس کی Inttelactual سطح کو بھی بڑھا دیا۔ آج بھی یہ نظم ڈرامے کے Clips کے ساتھ Internet پر موجود ہے، جو میرا کی امانت کے طور پر میرے اس سیریل کی زینت بنی ہوئی ہے۔
آج میرا جی پر نظم لکھنے کے خیال ہی سے ’’ سمندر کا بلاوا‘‘ پھر میرے دل پر دستک دینے لگا۔ سو” یہ میرا جی کی میرا ہے ” کے عنوان سے یہ نظم جدید ادب کی خصوصی اشاعت کے لیے آپکی نذرہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ کو اور جدیدادب کے میرے دوسرے دوستوں کو بھی پسند آئے گی۔
خیر اندیش ایوب خاور ۱۸؍جون ۲۰۱۲ء
٭٭٭
ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر
تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید