فہرست مضامین
جانوروں کی کہانیاں
مختلف مصنفین
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
مخلص دوست
ایک پتھر درخت کی سب سے بالائی شاخ پر بیٹے ہوئے طوطے کو لگا اور وہ پھڑپھڑاتا ہوا شاخ سے گر کر نیچے زمین پر آن گرا…. اسے تڑپتا دیکھ کر ندیم کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔
نشید سے یہ منظر دیکھا نہیں گیا، وہ دور کھڑا ندیم کی حرکات کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا، تیز تیز قدم بڑھا کر ندیم کے قریب پہنچ کر کچھ کہنا ہی چاہ رہا تھا کہ ندیم بول اٹھا، نشید دیکھا تم نے میرا نشانہ، اب دیکھو میں اس اڑتے ہوئے کبوتر کو کیسے اپنے نشانے پر لیتا ہوں، کہتے ہوئے اس نے ہاتھ میں پکڑی غلیل تان لی۔
ندیم بس کرو، ایک مسلمان ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے والے کو یہ حرکت زیب نہیں دیتی، کہتے ہوئے نشید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، کیوں، خیریت تو ہے کوئی چڑیا گھر کھولنے کا پلان بنالیا ہے تم نے۔ ندیم نے عجیب انداز میں منہ بناتے ہوئے سوال کیا۔
ندیم، یہ مذاق نہیں ہے ، میں کئی دنوں سے دیکھ رہا ہوں تم بے زبان، معصوم پرندوں کو نشانہ بنا کر ان کی زندگی سے کھیل رہے ہو، ان معصوم پرندوں کو ہلاک کر کے تمہیں ملتا کیا ہے ، نشید نے نرم انداز میں کہا۔
ارے یار، آج تم بہت سنجیدہ نظر آ رہے ہو، ندیم نے بات کو ٹالنے کے انداز میں کہا۔
میں واقعی مذاق نہیں کر رہا ہوں، اگر میری تم سے دوستی نہ ہوتی تو میں۔۔۔۔ کہتے کہتے نشید نے اپنا جملہ نامکمل چھوڑد یا، دوستی نہیں ہوتی تو پھر کیا کر لیتے تم۔ ندیم تنک کر بولا، میں نے پرندوں کو ہی تو مارا ہے ، تمہارا کوئی ذاتی نقصان تو نہیں کیا، یہ پرندے کیا تم نے خرید رکھے ہیں، اس نے جارحانہ انداز میں کہا۔
میں نے انہیں خرید نہیں رکھا ہے مگر ان معصوم پرندوں نے تمہارا کیا بگاڑا، کیا نقصان کیا ہے جو ان سے ان کی زندگی چھین رہے ہو، نشید نے نرمی سے سمجھانے کے سے انداز میں کہا، پھر ذرا ٹھہر کر بولا، اپنی ذرا دیر کی خوشی کے لیے اپنی تفریح کے لیے کسی کی جان لے لینا اچھی بات نہیں ہم مسلمان ہیں، اسلام سلامتی کا مذہب ہے ، ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کا ہم کلمہ پرھتے ہیں، سارے جہانوں کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجے گئے ، ہم ان کی امتی ہو کر وہ کام کریں جو ہمیں کرنا ہی نہیں چاہیے ، ایک اصول ہے وہ یہ کہ اگر تم کسی کو وہ چیز نہیں دے سکتے تو اس سے تمہیں لینا بھی نہیں چاہیے ، زندگی دینے اور لینے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ، نشید نے بڑی نرمی سے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ایک مسلمان کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ کسی پر ظلم ہوتا دیکھے تو اسے ظلم کرنے سے روک لے ، اگر وہ ظالم کو ظالم کرنے سے روک نہیں سکتا تو اسے اپنے دل میں برا ضرور سمجھے ، میں تمہاری بھلائی کے لیے سمجھا رہا ہوں، نشید نے کہا۔
بس، بس رہنے دو میری بھلائی، میں خود سمجھتا ہوں ا پنی بھلائی اپنی برائی کو، تم اپنے کام سے کام رکھو بس، ندیم نے اسی طرح تنکتے ہوئے کہا۔
نشید نے کیا۔ ٹھیک ہے ، ابھی تو میں جا رہا ہوں مگر میری یہ بات یاد رکھنا، آئندہ کسی معصوم پرندے کو اپنے ظلم کا نشانہ بنایا تو ٹھیک نہیں ہو گا، یہ کہہ کر نشید نے جانے کے لیے جیسے ہی اپنا قدم آگے بڑھایا ندیم نے ایک اور کبوتر کو نشانہ بنا کر اس کی جان لے لی، نشید یہ دیکھ کر اس پر جھپٹا اور اس کے ہاتھ سے غلیل چھین لی، ندیم اپنی غلیل اس سے واپس لینے کے لیے بھپرے ہوئے انداز میں جھپٹا مگر نشید جھکائی دے کر تیزی سے ایک طرف ہٹ گیا، نہ جانے کیسے ندیم کا پیر پھسلا، وہ ڈگمگایا، سنبھلنے کی کوشش کی مگر اوندھے منہ زمین پر گرپڑا، جس جگہ وہ گرا تھا وہیں ایک بڑا نوکیلا پتھر پڑا ہوا تھا جو اس کی پیشانی میں بری طرح چھب گیا اور پیشانی سے خود کی دھار بہہ نکلی، نشید نے یہ دیکھا تو واپس پلٹا، اس نے ندیم کو اٹھایا اور اپنا رومال اس کے زخم پر رکھ کر خون روکنے کی کوشش کرنے لگا، مگر جب ناکام رہا تو اسے ساتھ لے کر قریبی کلینک لے گیا، ڈاکٹر نے دیکھا زخم گہرا تھا، پوچھا یہ کیسے لگا تو نشید نے ساری بات بتادی۔
ڈاکٹر نے کہا۔ بیٹے شکر کریں، یہ قدرتی سزا ہے ، اللہ کی طرف سے آپ کے ظلم کی، آپ کو ایک اچھا دوست ملا ہے جو آپ کو غلط کام سے روکنا چاہتا ہے ، آپ نے قرآن مجید پڑھا ہے ، ندیم نے اقرار میں سر ہلا دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اس کی سورۃ الزلزال یاد ہے آپ کو، ندیم نے پھر اقرار میں سر ہلا دیا، شاباش یہ تو بہت اچھی بات ہے ذرا سنائیے تو سہی، ڈاکٹر صاحب نے ندیم سے بڑے ہی دوستانہ انداز میں کہا، ندیم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر سورۃ الزلزال سنادی۔ ماشاءاللہ، آپ کو اچھی طرح یاد ہے ، اور پڑھتے بھی بہت پیارے انداز میں ہیں اب ذرا یہ بتائیں آپ کو اس کا ترجمہ بھی آتا ہے ، اس پر ندیم نے انکار میں سر ہلا دیا۔ ارے بھائی، یہ کیا بات ہوئی، آپ نے قرآن مجید پڑھا، سورت بھی یاد کی مگر اس کا ترجمہ نہیں معلوم آپ کو، پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے کہا۔ ترجمہ جاننے سے پہلے آپ یہ جان لیں کہ قرآن مجید کی یہ سورۃ مدنی ہے اور اس میں سات آیات ہیں، پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کہتے ہیں : جب زمین اپنی پوری شدت سے ہلا ڈالی جائے گی اور دوسری آیت میں کہا ہے اور انسان کہے گا یہ کیا ہو رہا ہے پھر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اس روز وہ اپنے اوپر گزرتے ہوئے حالات بیان کرے گی کیوں کہ تیرے رب نے اسے ایسا کرنے کا حکم دیا ہو گا، اس روز لوگ متفرق حالت میں پلٹیں گے تاکہ ان کے اعمال ان کو دکھائے جائیں پھر آخری دو آیات میں سے ایک آیت میں کہا ہے کہ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا اور دوسری آخری آیت میں کہا ہے کہ جس نے ذرا برابر بھی بدی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے آگے کہا بیٹے میں نے پہلے کہا تھا یہ قدرتی سزا ہے جو آپ کو اسی وقت مل گئی یہ آپ کے ظالم کی جو بے زبان، معصوم پرندوں کی جان لے کر کرتے ہیں کی ملی ہے ، پھر آپ کا دوست اپنی دوستی، اپنی اسلامی تعلیم اور اسلامی اخوت، محبت کا خیال کرتے ہوئے آپ کو میرے کلینک تک لے آیا، یہ بھی اللہ کی طرف آپ کے دوست کے دل میں ڈالی گئی بات ہے۔ ذرا سوچیے وہ آپ کو زخمی حالت میں وہیں پڑا چھوڑ کر اپنے گھر چلا جاتا تو بروقت طبی امداد نہ ملنے پر آپ کے زخم کی نوعیت کیا ہوتی کی زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ کمزوری محسوس نہ کرتے اور ندیم ڈاکٹر صاحب کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔
اس کی گردن ندامت سے جھکی ہوئی تھی، وہ اپنے عمل پر شرمسار تھا اور دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے کرم کا شکر ادا کر رہا تھا جس نے نشید کی صورت میں ایک اچھا مخلص دوست اور ڈاکٹر صاحب کی صورت میں ایک اچھا رہنما، جب وہ نشید کے ساتھ کلینک سے باہر نکلا تو دل ہی دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ آئندہ وہ کسی بھی پرندے کو کسی بھی کمزور کو ناحق اپنے ظلم کا نشانہ نہیں بنائے گا۔
ایک دن ندیم نے صبح سویرے مٹھی بھر باجرے کے دانے اپنے آنگن میں ڈال دیے ، دانے دیکھ کر کئی کبوتر اور دوسرے پرندے دانہ چگنے صحن میں آ گئے ، ندیم کو دانہ چگتے ہوئے پرندے بہت اچھے لگ رہے تھے آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ ظلم وہ ہے جس سے دل و دماغ میں چھبن ہی محسوس ہو اور نیکی وہ جس سے دل و دماغ میں خوشی، سکون اور اطمینان کا احساس پیدا ہو۔ اب ندیم وہ پہلے والا ندیم نہیں رہا تھا۔
اس کا ہر فعل، ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق ہو گیا تھا، اس کی سوچ کا عمل بالکل بدل چکا تھا، نشید اب اس کا سب سے مخلص دوست تھا۔
٭٭٭
نااہل بادشاہ
دریا کے اس پار جنگل کے تمام جانوروں نے جنگل کے بادشاہ شیر کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدیوں پر محیط فرسودہ اور آمرانہ نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے اور ہر بار شیر ہی جنگل کا بادشاہ کیوں بنے ، دوسرے جانوروں کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہیے ، شہروں میں جمہوری طرز حکومت بڑی کامیابی سے چل رہا ہے ، اب جنگل میں بھی جمہوریت ہونی چاہیے ، الیکشن ہوں اور جو جانور جیتے اسے بادشاہت کا تاج ملے ، اس مطالبے میں لومڑی، ریچھ اور ہاتھی پیش پیش تھے ، شیر نے جانوروں کے تیور دیکھتے ہوئے بادشاہت چھوڑدی اور گوشہ نشین ہو گیا، تمام جانور بے حد خوش تھے ، الیکشن کا اعلان کر دیا گیا، بادشاہت کے امیدواروں میں ہاتھی، چیتا، ریچھ، لومڑی اور بندر شامل تھے ، الیکشن ہوئے ووٹ ڈالے گئے ، اتفاق سے جنگل میں بندروں کی تعداد سب سے زیادہ تھی، ا نہوں نے اپنے ساتھی بندر کو ووٹ ڈیے ، درختوں پر رہنے والیے کچھ پرندوں نے بھی اپنا ووٹ بندر کو دیا، اس طرح بندر واضح اکثریت سے کامیاب قرار پایا اور بادشاہت کا تاج اس کے سر پر سج گیا۔
کچھ دن تو آرام سے گزرے ، پھر جنگل کا سکون خراب ہوناشروع ہو گیا، شیر کا اپنا ایک رعب ہوتا تھا، تمام جانور س کی ایک دھاڑ سے سہم جاتے تھے ، جب کہ بندر بادشاہ ہر وقت درختوں پر اچھلتا رہتا، یا پھر اپنے ساتھی بندروں کی جوئیں نکال نکال کر کھاتا رہتا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام جانور بے لگام ہو گئے ، سب اپنی من مانی کرنے لگے ، بڑے جانوروں نے چھوٹے اور معصوم جانوروں کو ستانا شروع کر دیا۔ کبھی شکایت آتی کہ کوئی بڑا جانور چھوٹے جانور کے بچوں کو کھا گیا ہے کبھی پتا چلتا کہ کسی پرندے کے انڈے غائب ہیں مگر بندر بادشاہ اپنے حال میں مست تھے ، ایک دن بی گلہری، بادشاہ بندر کے پاس واویلہ کرتی ہوئی پہنچی اور بولی "بادشاہ سلامت! بھیڑیا آج زبردستی میرے گھر میں گھس آیا ہے اور میرے بچوں کو اٹھا کر لے گیا ہے ، ابھی وہ زیادہ دور نہیں گیا ہو گا، آپ میری مدد کریں اور میرے معصوم بچوں کو بھیڑیے کے چنگل سے آزاد کرائیں، ورنہ وہ میرے بچوں کو چیر پھاڑ کر کھا جائے گا، بندر بادشاہ نے کہا اچھا میں کچھ کرتا ہوں، اس کے بعد انہوں نے ایک درخت پر چھلانگ لگائی، وہاں سے دوسرے ، پھر تیسرے اور پھر بھاگتے ہوئے بی گلہری کے پاس آئے اور پھر ایک درخت پر چڑھ گئے ، وہاں سے دوسرے ، پھر تیسرے درخت پر چھلانگتیں لگاتے چلے گئے ، اتنے میں بی گلہری نے دیکھا کہ بھیڑیا اس کے بچوں کو کھا چکا تھا، اونچے درختوں سے بندر بادشاہ بھی یہ منظر دیکھ کر بی گلہری کے پاس آئے اور غمگین صورت بنا کر بولے "میں نے بھاگ دوڑ تو بہت کی لیکن اللہ کی یہی مرضی تھی” بی گلہری روتی دھوتی بندر کو بددعا دیتی چلی گئی اور بندر بادشاہ پھر سے اپنی اچھل کود میں مصروف ہو گئے۔
جنگل کے تمام جانور اس نااہل بادشاہ سے تنگ آچکے تھے ، وہ شرمندہ چہروں کے ساتھ شیر کی کچھار میں داخل ہوئے اور درخواست کی کہ شیر دوبارہ سے بادشاہت سنبھالے اور جانوروں کو نااہل اور نامعقول بادشاہ سے نجات دلائے۔ شیر نے انہیں یاد دلایا کہ جمہوری اصولوں کے مطابق پانچ سال سے پہلے بندر کو بادشاہت سے نہیں ہٹایا جا سکتا، ہاں اگر اس دوران بادشاہ مر جائے تو پھر متفقہ فیصلے سے دوسرے بادشاہ کا اعلان کیا جا سکتا ہے ، یہ سن کر تمام جانور پریشان ہو گئے اور سوچ بچار کرنے لگے کہ اس بادشاہ سے نجات کیسے حاصل کی جائے۔
میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے ، جس کی بدولت ہم اس بندر بادشاہ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ چالاک لومڑی نے پرجوش لہجے میں کہا۔ بھلا کیا، تمام جانوروں نے بیک زبان پوچھا، لومڑی نے کہا، جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ بندروں کی ایک عادت ہوتی ہے کہ انہیں خاص طور پر متوجہ کر کے کوئی حرکت کی جائے تو وہ اس کی نقالی کرتے ہیں اور جیسا کرتے جاؤ ویسا ہی کرتے ہیں، اب ترکیب یہ ہے کہ کوئی جانور بندر بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور اسے نقالی کرنے پر مجبور کر دے اور عجیب و غریب حرکت کرتا ہوا اسے جنگل کے کنارے بنے پرانے کنویں پر لے جائے ، اس کے بعد وہ جانور اس کنویں میں چھلانگ لگادے ، بندر بادشاہ بھی اسی جانور کی نقل کرتے ہوئے اس گہرے کنویں میں چھلانگ لگادیں گے ، اس طرح ہم سب کو اس نااہل بادشاہ سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔
تمام جانور لومڑی کو داد دینے لگے کہ بہت عمدہ ترکیب ہے مگر اصلہ مسئلہ یہ تھا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا، یعنی کون جانور بندر بادشاہ کو متوجہ کرے اسے نقالی پر مجبور کرے اور پھر کنویں میں چھلانگ لگائے کیوں کہ کنویں میں چھلانگ لگانے کے بعد تو کسی کا بھی زندہ بچنا محال ہے ، یہ ذمہ داری مینڈک نے اپنے ذمے لے لی، اس نے کہا کہ میں خشکی اور پانی دونوں جگہوں پر رہ سکتا ہوں، میں کوشش کروں گا کہ بعد میں کنویں سے نکل سکوں، اگر نہ بھی نکل سکا تو باقی زندگی کنویں میں ہی گزاردوں گا۔
منصوبہ مکمل تھا، فوراً ہی اس پر عمل کیا گیا۔ تمام جانور درختوں کے پیچھے چھپ گئے اور مینڈک بندر بادشاہ کے سامنے آ کر انہیں متوجہ کرنے کے لیے ٹرانے لگا، ساتھ ساتھ وہ اچھل بھی رہا تھا، بندر نے جب یہ دیکھا تو وہ بھی اچھلنے لگا اور ٹرانے کی کوشش کرنے لگا، مینڈک کبھی آگے کو اچھلتا، کبھی پیچھے کو قلابازی کھاتا اور مسلسل ٹراتا ہوا آہستہ آہستہ کنویں کی طرف بڑھنے لگا، نقالی بندر اس کی نقل کرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے تھا، کنویں کے نزدیک پہنچ کر مینڈک نے ایک لمبی جست لگائی اور ٹراتا ہوا کنویں کے اندر چلا گیا، بندر نے بنا سوچے سمجھے چھلانگ لگادی اور چھپاک سے سیدھا پانی کے اندر جاگرا، تمام جانور درختوں کے پیچھے سے نکل کر کنویں کے گرد جمع ہو گئے اور بندر بادشاہ کو ڈوبتا ہوا دیکھنے لگے ، اچانک اندر سے کوئی چیز اڑتی ہوئی نکلی اور کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گئی، یہ مینڈک تھا، تمام جانور اسے باہر دیکھ کو خوش ہو گئے ، مینڈک نے بتایا کہ اس نے چھلانگ لگاتے ہی اندر کی طرف کناروں پر بنے سوراخ دیکھ لیے تھے اس لیے وہ سیدھا ایک سوراخ میں جا کر بیٹھ گیا، تمام جانور خوشی خوشی اپنے ٹھکانوں پر واپس آ گئے۔ بندر اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا، شیر کو پھر سے جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا اور تمام جانوروں نے عہد کیا کہ آئندہ کسی نااہل کو کبھی بادشاہ نہیں بنایا جائے گا، اب دریا کے اس پار جنگل میں امن و سکون تھا اور تمام جانور ہنسی خوشی رہ رہے تھے۔
٭٭٭
بھول بھلکڑ
کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے کمزور تھے۔ بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔ امی جان کسی بات کو منع کرتیں تو ڈر کے مارے ہاں تو کر لیتے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد بالکل بھول جاتے اور اس بات کو پھر کرتے لگتے۔ ابا جان پریشان تھے تو امی جان عاجز، تمام ساتھی میاں جگنو کا مذاق اڑاتے اور انہیں بھول بھلکڑ کہا کرتے۔
ابا جان میاں جگنو کا کان زور سے اینٹھ کر کہتے۔ دیکھو بھئی جگنو۔ تم نے تو بالکل ہی حد کر دی۔ بھلا ایسا بھی دماغ کیا کہ کوئی بات یاد ہی نہ رہے۔ تم باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش کیا کرو۔ ہاتھی کی قوم تو بڑے تیز دماغ ہوتی ہے۔ برس ہا برس کی باتیں نہیں بھولتی۔ مگر خدا جانے تم کس طرح کے ہاتھی ہو۔ اگر تمہاری یہی حالت رہی تو تم سارے خاندان کی ناک کٹوادو گے۔
جگنو میاں جلدی سے اپنی ننھی سی سونڈ پر ہاتھ پھیرتے اور سر ہلا کر کہتے۔ ابا جان اب کے تو معاف کر دیجئے۔ آئندہ میں ضرور باتیں یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔ مگر یہ ہمیشہ کی طرح بھول جاتے اور اپنی کرنی سے باز نہ آتے اور بھئی بات یہ ہے کہ دنیا میں اتنی بہت سی تو باتیں ہیں۔ بھلا کوئی کہاں تک یاد رکھے۔ اونھ۔
اب مثلاً تمام ہاتھی بن مانسوں سے نفرت کرتے تھے۔ کیوں کہ آج سے سو برس پہلے کسی بن مانس نے ایک بڑا سا ناریل کسی ہاتھی کے منہ پر دے مارا تھا۔ اس دن سے تمام ہاتھی بن مانسوں کے دشمن ہو گئے۔ یہ بات جگنو کو بہت سے ہاتھیوں نے سمجھائی تھی مگر میاں جگنو تو تھے ہی بھول بھلکڑ، کئی بار کان پکڑ کر توبہ کی کہ اب بن مانسوں کے بچوں کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔ کھیلنا کیسا ان کی صورت بھی نہیں دیکھوں گا۔
مگر دوسرے ہی دن ساری توبہ بھول جاتے اور پھر ان کے ساتھ کبڈی کھیلنا شروع کر دیتے۔ ہاتھیوں کے دوسرے دشمن طوطے تھے۔ ہاتھی ان سے بھی بڑی نفرت کرتے تھے۔ بات یہ تھی کہ ایک دفعہ کوئی ہاتھی بیمار ہو گیا۔ اس لیے ہاتھوں نے طوطوں سے کہا کہ شور مت مچایا کرو۔ اس سے مریض کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے ، مگر توبہ، وہ طوطے ہی کیا جو ٹیں ٹیں کر کے آسمان سر پر نہ اٹھالیں۔ اس دن سے ہاتھی طوطوں سے بھی بیر رکھنے لگے۔ وہ تو کہو ان کے بس کی بات نہیں تھی ورنہ انہوں نے تو کبھی کی ان کی چٹنی بنا کر رکھ دی ہوتی، جگنو کے ماں باپ اور یار دوستوں نے اسے یہ بات بھی کئی مرتبہ بتائی تھی اور کہا تھا کہ طوطوں سے ہماری لڑائی ہے۔ تم بھی ان سے بات مت کیا کرو۔ مگر میاں جگنو بن مانس والی بات کی طرح یہ بات بھی بھول جاتے اور طوطوں کو اپنی پیٹھ پر چڑھا کر سارے جنگل میں کودے کودے پھرتے۔
میاں جگنو کی یہ حرکتیں دیکھ کر ہاتھیوں نے اس سے بول چال بند کر دی۔ بڑے بڑے ہاتھیوں نے کہا۔ جگنو کا حافظہ اتنا خراب ہے کہ کسی کی دوستی اور دشمنی کو نہیں سمجھتا بھلا یہ کسی سے دشمنی کیا کر سکے گا۔
تمام ہاتھی اس کو بے وقوف کہہ کہہ کر چڑاتے اور اس پر پھبتیاں کستے۔ مگر جگنو کو کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ اتنا سیدھا سادا اور نیک دل تھا کہ وہ ان کے مذاق کا بالکل برا نہ مانتا تھا اور پھر اس کا حافظہ بھی تو کمزور تھا۔ اسے یاد ہی نہیں رہتا تھا کہ کون دوست ہے کون دشمن، کون سی بات اچھی ہے ، کون سی بری۔
ایک دن ایک بڑا ہی خوفناک واقعہ پیش آیا۔ جنگو جنگل میں ٹہلتا پھر رہا تھا کہ ایسا معلوم ہوا جیسے ایک دم زمین پھٹ گئی اور وہ اس میں سما گیا۔ اصل میں شکاریوں نے یہ گڑھا کھود کر اس کے اوپر گھاس پھونس ڈھانپ دیا تھا تاکہ ہاتھی اس کے اوپر سے گزریں تو نیچے گر پڑیں اور پھر وہ انہیں پکڑ لیں۔ قسمت کی بات، میاں جگنو ہی کی شامت آ گئی۔
ایک دم اوپر سے گرنے سے میاں جگنو کے بہت چوٹ آئی تھی۔ تھوڑی دیت تک تو اس کی سمجھ میں یہی نہیں آیا کہ یہ ہوا کیا۔ آخر جب اس نے آنکھیں ملیں اور ادھر ادھر دیکھا تو پھر اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک گہرے گڑھے میں گر پڑا ہے۔ اب تو اس کی جان نکل گئی۔ اس نے پیر پٹک پٹک کر اور ادھر ادھر ٹکریں مار مار کر لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح گڑھے سے نکل جائے مگر کچھ بن نہ پڑی۔ بے چارے نے ہر طرف سے مایوس ہو کر زور سے چنگھاڑنا شروع کر دیا۔ ابا، ابا، اماں، اماں ! دوڑو دوڑو۔
جگنو کی چیخیں سن کر جنگل کے تمام ہاتھی دوڑ پڑے اور گڑھے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے دیکھنے لگے۔ جگنو نے چیخ کر کہا۔
میں ہوں جگنو، ، اس گڑھے میں پڑا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے یہاں سے نکالو۔
اس کے ماں باپ نے نیچے جھک کر اسے دیکھا۔ چند بڑے بوڑھے ہاتھی بھی اس کے پاس آ گئے۔ سب کے سب پریشان تھے۔ امی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ جگنو کو اس مصیبت سے کس طرح نجات دلائیں۔ انہیں خاموش دیکھ کر جگنو کا دل بیٹھ گیا اور آنکھوں میں آنسو بھر کر بولا۔
تم مجھے یہاں سے نہیں نکال سکتے ، میری مدد کوئی نہیں کر سکتا، اف میں کیا کروں۔
سب ہاتھیوں نے مایوسی سے سر ہلایا اور آہستہ آہستہ چلے گئے۔ چلتے وقت اس کی ماں نے کہا۔ جگنو! گھبرانامت، ہم تمہارے لیے کھانا لے کر آتے ہیں۔ مگر جگنو کو کھانے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اس گڑھے سے نکلنا چاہتا تھا۔
ہاتھی چلے گئے تو اس نے ایک گہری سانس لی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اچانک اسے سر پر بہت سے پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز آئی۔ اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو رنگ برنگے طوطے نظر آئے۔ یہ سب اس کے دوست تھے جنہیں وہ اپنی پیٹھ پر چڑھاکر جنگل کی سیر کراتا تھا۔ کچھ طوطے گڑے پر آ کر بولے۔ جگنو گھبراؤ نہیں۔ ہم ابھی تمہیں اس مصیبت سے چھٹکارا دلاتے ہیں۔ خاطر جمع رکھو۔
یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور پھر جگنو نے سنا کہ طوطے بن مانسوں کو آوازیں دے رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد طوطے بہت سے بن مانسوں کو لے کر آ گئے۔ ان کے ہاتھوں میں انگوروں کی لمبی لمبی رسیوں جیسی بیلیں تھیں۔ انہوں نے بیلوں کے سرے گڑھے میں لٹکاد یے اور کچھ بن مانس ان کے ذریعے گڑے میں اتر گئے۔ جگنو انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اب اسے باہر نکلنے کی کچھ امید ہو گئی تھی۔ ہنس کر بولا۔ میرے دوستو! کیا تم مجھے باہر نکالنے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔
بن مانس بولے۔ کیوں نہیں ضرور! خدا نے چاہا تو ابھی ابھی ہم تمہیں اوپر کھینچ لیں گے اگر کوئی اور ہاتھی ہوتا تو ہم ذرا بھی پروا نہ کرتے کیوں کہ وہ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ مگر تمہاری بات دوسری ہے ، تم ہمارے دوست ہو اور دوست کی مدد کرنا دوست کا فرض ہے۔ لو اب ذرا تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ تاکہ ہم تمہیں ان رسیوں سے باندھ دیں۔
جگنو کھڑا ہو گیا اور بن مانسوں نے اسے رسیوں سے خوب جکڑ دیا پھر وہ ان تمام رسیوں کو لے کر گڑھے سے باہر چلے گئے اور انہیں سب کو بٹ کر ایک موٹی سی رسی بنالی۔ پھر ایک بن مانسو زور سے بولا۔ ہوشیار، خبردار۔
سب کے سب بن مانسوں نے رسی کو مضبوطی سے تھام لیا اور تن کر کھڑے ہو گئے اسی بن مانس نے پھر کہا۔ کھینچو، ایک سااتھ۔
اب سارے بن مانس رسی کو پوری طاقت سے کھینچنے لگے۔
ایک زور کے جھٹکے کے ساتھ جگنو کے پیر ایک دم زمین سے اٹھ گئے اور پھر وہ آہستہ آہستہ اوپر اٹھتا گیا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا، بدن پر پسینے چھوٹ رہے تھے ، اگر رسی ٹوٹ گئی تو، تو وہ پھر دھڑام سے نیچے گر پڑے گا۔ بن مانس برابر رسی کھینچ رہے تھے اور ساتھ ساتھ شور بھی مچاتے جاتے۔ ہاں شاباش، کیا کہنے بہادرو، بس تھوڑا سا فاصلہ اور رہ گیا ہے۔ ہاں لگے زور۔
تھوڑی دیر میں میاں جگنو زمین کے اوپر تھے۔ انہوں نے حیرت سے آنکھیں ملیں۔ چاروں طرف دیکھا اور جب سب دوستوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ تب وہ سمجھے کہ میں سچ مچ اوپر آ گیا ہوں۔ نئی زندگی پا کر جگنو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ کھلکھلائے پڑتے تھے۔ یار دوستوں سے خوب خوب گلے ملے اور بولے۔ تم سچ مچ میرے دوست ہو۔ دوست وہ جو مصیبت میں کام آئے۔ چلو سب میری پیٹھ کر چڑھ جاؤ۔
جگنو میاں گھر پہنچے تو ماں باپ رو رہے تھے۔ ان کے لیے تو میاں جگنو ختم ہو چکے تھے لیکن انہیں ایکا ایکی آتا ہوا دیکھ کر دن رہ گئے۔ امی جان، میرے لال کہہ کر چمٹ گئیں۔ ابا جان نے بھی پیار کیا۔ جب دلوں کی بھڑاس نکل چکی تو میاں جگنو نے بتایا کہ جن جانوروں کو آپ دشمن سمجھتے اور انہیں ہمیشہ نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے ، انہوں نے ہی میری جان بچائی تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے میاں جگنو کو اجازت دے دی کہ تم خوشی سے طوطوں اور بن مانسوں کے ساتھ کھیلا کرو، تمہیں کوئی نہیں روکے ٹوکے گا۔ اس دن سے تمام ہاتھوں نے انہیں بے وقوف بھی کہنا چھوڑ دیا اور ان سے ہنسی خوشی ملنے جلنے لگے۔
جگنو کے ماں باپ کو آج پہلی بار معلوم ہوا کہ دوسروں کے خلاف دل میں خواہ مخواہ حسد اور دشمنی رکھنے سے یہ بہتر ہے کہ انہیں دوست بنایا جائے تاکہ وہ وقت پر کام آسکیں۔
٭٭٭
اوئی چوہا
مسٹر چوہے روز لوگوں سے بھری ہوئی بس کو سڑک پر فراٹے بھرتے دیکھتے ، ان کا بھی جی چاہتا کہ وہ بس کی سیر کریں، لیکن چھوٹے پاؤں ہونے کی وجہ سے اتنی لمبی چھلانگ نہ لگا سکتے تھے کہ پائیدان پر جا چڑھیں۔
سردیوں کے دن تھے ، چوہے صاحب سڑک پر بیٹھے دھوپ سینک رہے تھے اور بس میں سیر کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے کہ بس کھڑی ہونے کی وجہ سے ایک عورت اور مرد آن کر کھڑے ہوئے ، عورت نے لمبا کوٹ پہن رکھا تھا، چوہے کے ذہن میں جھٹ ایک ترکیب آ گئی، عورت کے پیچھے پہنچ کر آہستہ سے اس کے کوٹ پر چڑھنے لگے ، عورت مرد باتوں میں اس قدر محو تھے کہ ان کو چوہے کی کارگزاری کا علم نہ ہوا اور چوہے صاحب بڑے اطمینان سے کوٹ کی جیب میں بیٹھ گئے۔
اتنے میں بس آ گئی اور دونوں اس میں سوار ہو گئے ، چوہے صاحب بھی ان کے ساتھ بس کے اندر پہنچ گئے۔
ڈرائیور نے کہا۔ اپنا کرایہ اس صندوقچی میں ڈال دیں۔
چوہے نے دیکھا کہ پہلے مرد نے اور پھر عورت نے کچھ نقدی صندوقچی میں ڈال دی، چوہے صاحب سوچنے لگے کہ یہ کرایہ کیا بلا ہے جب عورت نشست پر بیٹھی تو وہ جیب سے نکل کر باہر آ گئے۔
اب چوہے نے سوچا کہ شریفانہ طریقہ تو یہی ہے کہ میں ڈرائیور سے کہہ دوں کہ میں پہلی بار بس پر چڑھا ہوں، میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کرایہ بھی دینا پڑتا ہے ، اگر میں جانتا تو تھوڑی بہت رقم جیب میں ضرور لاتا۔
وہ ڈرائیور کے پاؤں کے پاس جا کھڑے ہوئے اور کئی دفعہ کوشش کی کہ ڈرائیور سے کچھ کہیں، انہوں نے ڈرائیور کو اپنی طرف متوجہ بھی کیا لیکن ڈرائیور بس کو چلاتا رہا اور چوہے صاحب کی طرف بالکل توجہ نہ کی۔
چوہے نے سوچا یہ تو سنتا ہی نہیں کیوں نہ اس کی ٹانگوں پر چڑھ کر گھٹنے پر چلا جاؤں پھر تو میری بات سنے گا۔
جب چوہے صاحب نے اس تجویز پر عمل کیا تو ڈرائیور نے ان کو الٹے ہاتھ سے اس طرح اچھالا کہ وہ ایک موٹی عورت پر جاکر پڑے ، وہ ایک دم چلائی اوئی چوہا اور کھڑی ہو کر ناچنے لگے ، چوہے صاحب جھٹ بھاگ کر نشستوں کے نیچے جا چھپے ، لیکن عورتوں میں بھاگڑ مچ گئی، ڈرائیور نے گاڑی کھڑی کر لی۔
کیا ہے ؟
تمام عورتیں بول اٹھیں، چوہا۔
اب سب لوگ چوہے صاحب کو تلاش کرنے لگے ، مگر وہ ایسی جگہ چھپے بیٹھے تھے کہ ان پر کسی کی نظر نہ پڑ سکی تھی۔ جب سب لوگ بیٹھ گئے تو چوہے صاحب نے اطمینان کا سانس لیا اور دل میں کہنے لگے ، چوہوں کو بس میں سفر نہ کرنا چاہیے۔ ڈرائیور نے بس چلادی، اب چوہے صاحب دروازوں سے جھانک جھانک کر باہر دیکھنے لگے مگر کسی چیز کو اچھی طرح نہ دیکھ سکے ، انہوں نے نشستوں کے نیچے چل پھر کر جس سے باہر کا نظارہ کر سکیں لیکن کامیابی نہ ہوئی، صرف مسافروں کے پاؤں نظر آتے ہیں، اتنے میں چوہے صاحب نے ایک چمکیلی سلاخ دیکھی جو بس کے اندر چھت تک لگی ہوئی تھی، دل میں کہنے لگے ، یہ ٹھیک رہے گی، اس کے سہارے میں چھت پر چڑھ جاؤں گا۔ چنانچہ وہ چھت پر چڑھ گئے۔
چھت پر بیٹھ کر چوہے صاحب کو باہر کی ہر چیز دکھائی دینے لگی، دفعتہ بس ایک موڑ پر مڑی جس سے دھچکا لگا، چوہے صاحب خود کو لڑھکنے سے نہ بچا سکے اور گھنٹی کی زنجیر پر آ رہے ، وہ نہیں جانتے تھے کہ گھنٹی کی زنجیر ہے ، کیوں کہ پہلی ہی دفعہ بس پر سوار ہوئے تھے۔
گھنٹی بجنی شروع ہوئی اور بجتی ہی چلی گئی، ڈرائیور نے خیال کیا، کوئی مسافر اترنا چاہتا ہے ، اگلے موڑ پر بس کھڑی کر دی گئی اور چوہے صاحب اچھل کر پہلی جگہ پر جابیٹھے۔ گھنٹی بجنی بند ہو گئی، جب کوئی نہ اترا تو ڈرائیور نے پھر موٹر چلادی، لیکن وہ دھچکے سے چلی…. چوہے صاحب پھر گھنٹی کی زنجیر پر آ رہے اور ٹن ٹن کر کے گھنٹی پھر بجنے لگی۔
چوہے صاحب نے سوچا۔ شاید ڈرائیور مجھے پریشان کرنے کے لیے بار بار گھنٹی بجا رہا ہے۔
ڈرائیور نے اگلے موڑ پر پھر گاڑی کھڑی کر دی، چوہے صاحب زنجیر سے چھلانگ لگا کر پھر سلاخ پر چڑھ گئے ، گھنٹی بجنی بند ہو گئی، جب کوئی نہ اترا تو ڈرائیور نے بس چلادی۔
اب چوہے صاحب کے کان کے پیچھے خارش سی ہوئی اور انہوں نے کھجانے کے لے ے اپنا پاؤں اٹھایا، لیکن خود کو سنبھال نہ سکے اور ایک بار پھر زنجیر پر گر پڑے ، گھنٹی بجنے لگی، چوہے صاحب نے خیال کیا یہ بھی عجیب بس ہے۔ ڈرائیور نے پھر موڑ پر بس روکی لیکن کوئی نہ اترا، چوہے صاحب دل میں کہنے لگے ، بڑی سست رفتار بس ہے ، اس سے زیادہ تیز تو میں پیدل چل سکتا ہوں، اگلے موڑ پر اتر جاؤں گا۔
چنانچہ جب ڈرائیور نے اگلے موڑ پر بس روکی تو وہ چمکتی ہوئی سلاخ سے نیچے اترآئے اور پچھلے دروازے سے چھلانگ لگا کر باہر نکل گئے۔
نیچے اتر کر چوہے صاحب نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے اسے مفت میں بس کی سیر کرادی لیکن ڈرائیور نے کچھ بھی نہ سنا اور بس چل پڑی۔
٭٭٭
چور مینا
مہاراجا رنجیت سنگھ پنجاب کا راجا تھا۔ ایک دفعہ اس کے زمانے میں لاہور میں اس بات کا بڑا شور مچا کہ عورتوں کے زیور خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔ کوئی عورت کان سے بالی اتار کر ادھرادھر ہوئی اور بالی غائب۔ کسی نے منہ دھوتے وقت ناک سے لونگ اتار کر رکھی تو لونگ ندارد۔ کسی نے ناک سے کیل اتاری اور خود گھڑی بھر کے لیے اندر گئی تو کیل ہی گم۔ بڑھتے بڑھتے یہ حالت یہاں تک پہنچی کہ ہر روز کسی نہ کسی محلے میں عورتوں کے زیور چوری ہونے لگے۔
چند ہی دنوں میں ایسا طوفان اٹھا کہ لوگ کوتوالی میں حاضر ہو کر چیخ و پکار کرنے لگے کہ دن دہاڑے چیزیں اڑ جاتی ہیں اور کچھ پتا نہیں چلتا، مزے کی بات یہ تھی کہ جہاں چوری ہوتی وہاں کسی غیر آدمی کا آنا ثابت نہیں ہوتا تھا، اندر سے اگر مکان کو قفل لگا رکھا ہے یا سیڑھیوں کو بند کیا ہوا ہے تو وہ بھی بدستور بند رہتی تھیں۔ لیکن زیور غائب ہو جاتا تھا۔
یہ حالت چھ ماہ تک رہی۔ شہر میں اس بات کا عام چرچا تھا کہ عورتوں کے چھوٹے چھوٹے زیور پراسرار طریقے سے چوری ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی بے پروا اور سیدھی سادی عورتوں لونگ، کیل، انگوٹھی، چھلا اتار کر گھر میں رکھ دیتی تھیں اور وہ فوراً غائب ہو جاتا تھا، کہا جانے لگا کہ کوئی جادو کے زور سے چوری کرتاہے۔ بعض لوگوں کی رائے تھی کہ جن بھوت چرا کر لے جاتے ہیں۔
ان دنوں لاہور میں شہباز خاں کوتوال تھا، یہ شخص قصور کا رہنے والا تھا، اس کے ماتحت ارجن سنگھ جمعدار تھا جو بہت قابل اور ذہین تھا۔ عام طور پر پیچیدہ مقدمات جن کا سراغ لگانا مشکل ہوتا، تفتیش کے لیے ارجن سنگھ کے سپرد کیے جاتے تھے ، ایک دن بیٹھے بیٹھے کوتوال صاحب ارجن سنگھ سے کہنے لگے۔
دیکھ لی آپ کی لیاقت۔ آپ اس چور کا سراغ نہیں لگا سکتے۔
یہ سن کر جمعدار نے کہا۔ حکم کی دیر ہے۔ دیکھیے کس طرح گرفتار کر کے لاتا ہوں۔
اس پر کوتوال نے ارجن سنگھ کو اس عجیب و غریب چور کی گرفتاری پر مامور کیا۔ عقل مند جمعدار نے سب سے پہلے ان مکانوں کا معائنہ کیا، جہاں سے زیور چوری ہوئے تھے ، سب زیور ہلکے وزن کے تھے۔ جمعدار سوچنے لگا کہ چور انسان نہیں ہے ، یہ کوئی اور ہی مخلوق ہے ، اسی فکر غرق وہ بازار میں گزر رہا تھا کہ ایک شخص کو دیکھا کہ دونی چھت پر سے گراتا ہے اور مینا اسے گرنے سے پہلے پکڑ لیتی ہے اور اپنے مالک کے پاس لے آتی ہے۔ ارجن سنگھ کے ذہن میں پہلے ہی یہ خیال تھا کہ اس قسم کی چوری انسان نہیں کرتا، بلکہ کوئی اور چیز ہے۔ فوراً دماغ اس طرف متوجہ ہوا کہ ہو نہ ہو کوئی جانور چور ہے جس کو یہ سکھایا گیا ہے کہ چھوٹے چھوٹے زیور جہاں پڑے ہوں اٹھا کر مالک کے پاس لے آئے۔
یہ گتھی حل ہوتے ہی وہ ہر شخص کی بڑے غور سے نگرانی کرتا رہا، ایک دن ایک شخص کو پنجرا ہاتھ میں لیے ہوئے دیکھا، جس پر غلاف پڑا ہوا تھا اور وہ شخص ادھر ادھر گھوم رہا تھا۔
ارجن سنگھ کو شک ہوا وہ اس کے پیچھے لگ کر نگرانی کرنے لگا۔ دوسرے ہی دن اس نے دیکھا کہ چونا منڈی کی ایک گلی میں جا کر اس شخص نے ادھر ادھر تاکا اور جب وہاں کسی کو موجود نہ پایا تو پنجرے کا غلاف تھوڑا سا اٹھا دیا اور ایک پرندہ اڑا کر باہر چلا گیا۔ یہ شخص گلی میں ٹہلنے لگا۔ ارجن بھی تاک میں تھا، کوئی دس پندرہ منٹ کا عرصہ گزرا ہو گا کہ وہیں پرندہ چونچ میں انگوٹھی پکڑے ہوئے جھٹ اس شص کے ہاتھ پر آبیٹھا اور اس نے انگوٹھی جیب میں ڈال کر جانور کو پھر پنجرے میں بند کر دیا اور کوئی کھانے کی چیز اس کو دے دی۔
ارجن سنگھ یہ دیکھ کر بے حد خوش ہوا، اس کو جس چیز کی تلاش تھی، وہ مل گئی، جب یہ مجرم موتی بازار میں سے گزر رہا تھا تو ارجن نے اسے پکڑ لیا، اور اس کی تلاشی لی تو دو لونگیں، تین انگوٹھیاں اور دو چھلے برآمد ہوئے ، اس وہ کو کوتوالی لے گیا اور پنجرا کوتوال کے سامنے رکھ کر کہا…. جناب! اس پنجرے میں آپ کا چور ہے ، جس نے کئی مہینوں سے شہر میں آفت مچا رکھی ہے اور یہ شخص جو پاس کھڑا ہے ، اس کا مالک ہے۔
کوتوال نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس نے اپنے مکان کا پتا بتایا جہاں سے ایک گھڑا انگوٹھیوں، چھلوں اور سونے کی کیلوں وغیرہ کا برآمد ہوا، مجرم نے بتایا کہ میں نے اس مینا کو سکھا پڑھا کر چور بنایا تھا، جہاں یہ سونے کی کوئی کم وزن ہلکی سی چیز پڑی دیکھتی، اٹھا لاتی،
اس گرفتاری سے کوتوال صاحب اور شہر کے لوگ بہت خوش ہوئے اور ارجن سنگھ کو معقول انعام ملا۔ مجرم کے دونوں ہاتھ کٹوا دیے گئے اور مینا کو شاہی چڑیا خانے میں بھیج دیا گیا اور اس کے پنجرے پر لکھ دیا گیا چور مینا جو بھی اسے دیکھتا، چور اور سراغ رساں کی چالاکی پر حیران ہوتا۔
٭٭٭
سونڈ ہاتھی کی
بھئی، کبھی تم نے سوچا کہ ہاتھی کی سونڈ کیسے بنی، تم دیکھتے ہو کہ ہاتھی اپنی سونڈ سے کیسے بڑے بڑے کام لیا ہے۔ مثلاً یہ سونڈ اس کی ناک بھی ہے اور وہ اس سے چیزوں کو سونگھتا ہے ، اس سے سانس لیتا ہے ، سونڈ کی مدد سے وہ چیزیں پکڑ کر زمین سے اٹھاتا ہے اور جب اسے دوسرے جانوروں سے لڑائی کرنا ہو تو اس وقت وہ اپنی سونڈ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
ہزاروں سال پہلے کی بات ہے ، اس زمانے میں ہاتھی کی ناک اتنی لمبی نہیں ہوتی تھی جتنی کہ آج کل ہوتی ہے۔ افریقا میں ہاتھی کا ایک بچہ رہتا تھا۔ یہ ہاتھی بچہ بے حد ذہین اور شرارتی تھا اور دوسرے ذہین اور شریر بچوں کی طرح اس کا کام دن بھر اپنے بڑوں سے مختلف چیزوں کے بارے میں سوالات کرتے رہنا تھا۔ کبھی کبھی وہ اتنے سارے اور اتنے مشکل سوال کرتا تھا کہ اس کے بزرگ جواب دیتے دیتے تنگ آ جاتے تھے اور اگر وہ ان کے ڈانٹنے پر خاموش نہیں ہوتا تھا تو پھر اس کی خوب پٹائی لگتی تھی۔
ایک دن صبح صبح اس کے ذہن میں ایک نیا سوال آیا، چنانچہ وہ سب سے پہلے اپنی امی جان کے پاس گیا اور ان سے کہا۔ امی، امی یہ بتائیے کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا کھاتا ہے ، اس کی امی نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے اسے گھورا پھر غصے میں بولی۔ منے ، یہاں سے فوراً بھاگ جاؤ تم دیکھ نہیں رہے کہ میں تمہارے ابا کے لیے کھانا تیار کر رہی ہوں، پھر امی نے اسے مارنے کے لیے اپنے اگلے پاؤں اٹھائے ، لیکن وہ پہلے ہی بھاگ نکلا۔ اب وہ اپنے خالو یعنی شتر مرغ کے پاس آیا، شتر مرغ اپنی دم پھلا پھلا کر جھاڑیوں کے درمیان پھدک رہا تھا، اس کے پورے جسم پر بڑے خوب صورت اور چمکیلے پر تھے لیکن دم کے پر بہت چھوٹے اور کچھ نچے ہوئے لگتے تھے۔
ہاتھی بچہ اپنا پہلا سوال بھول گیا اور بولا، خالو جان، ایک بات بتائیے۔
خالو جان دانہ چگتے چگتے رک گئے اور بولے ، ہاں ہاں جلدی سے بولو، دیکھ نہیں رہے ، میں کھانا کھا رہا ہوں۔
خالو جان، آپ کے جسم پر بڑے خوب صورت اور لمبے لمبے پر ہیں لیکن آپ کی دم کے پر بہت چھوٹے ہیں، کیا لڑائی میں کسی دوسرے جانور نے نوچ لیے۔
خالو شتر مرغ کو ہاتھی بچے کی بات پر بڑا غصہ آیا، انہوں نے زور سے اپنی چونچ ہاتھی بچے کے سر پر ماری اور بولے ، بھاگ جاؤ، شریر کہیں گے ، ورنہ بہت ماروں گا۔
ہاتھی بچہ مار سے بچنے کے لیے بھاگ نکلا، ایک جگہ اسے اپنے لمبے چچا زرافے درختوں کی پتیاں نوچ نوچ کر کھاتے ہوئے نظر آئے ، ان کے ہلکے پیلے جسم پر سیاہ رنگ کے بڑے بڑے دھبے اور داغ تھے۔ ہاتھی بچہ فوراً رک گیا اور بولا، چچا جان، چچا جان ایک بات بتائیے۔
ہاں بیٹھا ضرور پوچھو، زرافے چچا پتیاں چباتے ہوئے بولے۔
چچا، چچا آپ کی کھال ویسے تو بڑی خوب صورت اور چمکیلی ہے ، لیکن اس پر یہ کالے کالے دھبے کیسے پڑ گئے ہیں، کیا آپ کوئلے کی کان میں گھس گئے تھے۔
بھاگ جاؤ بدتمیز، ژرافے چچا ایک دم غصے میں آ گئے اور انہوں نے اپنی لاتیں اسے مارنے کے لیے اٹھائیں، ہاتھی بچہ مار سے بچنے کے لیے وہاں سے بھاگا تو اسے ایک جگہ اس کے بال دار چچا بندر نظر آئے جو ایک درخت کے نیچے گرے پڑے ناریل اٹھا اٹھا کر پھوڑ رہے تھے اور اندر کا گودا مزے لے لے کر کھا رہے تھے۔
ہاتھی بچہ نے چچا بندر کو دیکھا تو سوچنے لگا، چچا آج درخت پر چڑھ کر ناریل کھانے کے بجائے نیچے گرے ہوئے ناریل پر کیوں گزار کر رہے ہیں، پھر چچا بندر سے بولا، چچا جان، ایک بات بتائیے۔
ہاں، ہاں بولا، بیٹا، چچا خوخیاتے ہوئے بولے۔
چچا جان، آج آپ اوپر چڑھ کر تازہ ناریل کھانے کے بجائے نیچے گرے ہوئے باسی ناریل کیوں کھا رہے ہیں۔
چچا ایک دم غصے میں آ گئے اور اس کے ایک زور دار پنجہ مار کر بولے۔ بدتمیز دیکھتا نہیں کہ ہمارے پیر میں موچ آ گئی ہے ، بھاگ یہاں سے ورنہ مادوں گا۔
ہاتھی بچہ وہاں سے بھاگا تو سیدھا اپنی امی جان کے پاس پہنچا، اس کی امی لمبی لمبی گھاس پر منہ مارنے میں مصروف تھیں، انہوں نے پیار سے اسے اپنے پاس بلایا اور تازہ تازہ گھاس پیش کی، کچھ دیر وہ گھاس کھاتا رہا، جب اس کا پیٹ بھر گیا تو اسے یاد آیا کہ اس کی کوئل خالہ دور دور کی سیر کرتی ہیں وہ یقیناً بتا سکیں گی کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا کھاتا ہے۔
کوئل خالہ جنگل میں ایک درخت پر بیٹھی کوک رہی تھیں، ہاتھی بچہ ان کے پاس پہنچا اور بولا خالہ جان خالہ جان، ایک سوال پوچھوں، ماریں گی تو نہیں۔
نہیں بیٹا، شوق سے ایک چھوڑ دس سوال پوچھو۔
خالہ جان، یہ بتائیے کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا کھاتا ہے۔
خالہ جان سوال سن کر سوچ میں پڑ گئیں پھر بولیں، تم بہت شریر ہو بھئی اس سوال کا جواب تو مگر مچھ خود ہی دے سکتا ہے کہ وہ رات کے کھانے میں کیا کھانا پسند کرتا ہے۔
خالہ جان، مگر مچھ کہاں رہتا ہے۔
یہاں سے مشرق کی طرف ایک بہت بڑا دریا ہے ، مگرمچھ وہاں رہتا ہے۔
ہاتھی بچہ، مگر مچھ سے ملنے کے لیے مشرق کی طرف روانہ ہوا جنگل کافی گھنا تھا۔ دھوپ چھن چھن کر بمشکل زمین تک پہنچ رہی تھی چھوٹے چھوٹے جانور ہاتھی بچے سے ڈر کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے اور وہ جھومتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں ہوا سیلی ہو گئی اور مچھروں کے غول کے غول نظر آنے لگے۔ تھوڑی دیر میں پانی بہنے کی آواز سنائی دینے لگی، دریا قریب آ گیا تھا، دریا کے قریب اس نے جو جانور سب سے پہلے دیکھا وہ ایک آبی سانپ تھا جو ایک درخت کی شاخ سے لٹک رہا تھا، ہاتھی بچہ اس کے قریب رک گیا اور بولا، چچا جان، چچا جان، کیا آپ کا نام مگر مچھ ہے۔
بدتمیز، آبی سانپ نے دم زور سے ہاتھی بچہ کے منہ پر مارے ، میں آبی سانپ ہوں اور سانپوں کا سردار ہوں بھاگ جاؤ۔
ہاتھی بچہ آگے بڑھا تو دریا آ گیا،۔ دریا کے کنارے سے ایک جانور آدھا پانی میں ڈوبا اپنا سر پانی سے باہر نکالے بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا یہ مگر مچھ تھا۔
چچا جان، چچا جان، ہاتھی بچہ نے اسے آواز دی مگر نے ایک آنکھ کھول کر۔۔۔۔ دیکھا تو سامنے ایک موٹے تازے ہاتھی بچے کو دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا، لیکن ہاتھی بچہ اس سے کافی فاصلے پر تھا اور وہ اسے پکڑ کر شکار نہیں کر سکتا تھا، اس لیے کاہلی سے بولا، کیا بات ہے بھئی، کیوں تنگ کر رہے ہو۔
چچا جان، چچا جان، کیا آپ نے مگر مچھ دیکھا ہے۔
چچا مگر مچھ نے اپنی دونوں آنکھیں کھول دیں۔ ہاتھی بچہ کو گھور کر دیکھا پھر بولا، کیوں تمہیں مگر مچھ سے کیا کام ہے۔
میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ رات کے کھانے میں کیا کھانا پسند کرتا ہے ، ہاتھی بچہ نے کہا۔
رات کے کھانے کا نام سن کر مگرمچھ کے منہ میں پانی بھر آیا، وہ دل ہی دل میں بولا۔
رات کے کھانے ہاتھی بچے کا گوشت کھانے کو ملے تو مزہ آ جائے ، لیکن کیسے۔
پھر وہ ہاتھی بچہ سے بولا، میاں صاحب زادے ، آپ میرے قریب آئیں تو میں چپکے سے آپ کے کان میں بتاؤں کہ مگر مچھ رات کے کھانے میں کیا پسند کرتا ہے۔
اچھا، ہاتھی بچہ جواب سن کر خوش ہو گیا اور اس نے دریا کے کنارے پر آ کر اپنا کان مگر مچھ کے بالکل قریب کر دیا، مگر مچھ نے ہاتھی بچے کو اتنے قریب دیکھا تو اپنی جگہ سے اچھلا اور ہاتھی بچہ کا کان پکڑنے کی کوشش کی، ہاتھی بچہ مگر مچھ کے رات کے کھانے کے بارے میں سوال پوچھ کر بہت سارے بزرگوں سے مار کھا چکا تھا اس لیے بے حد محتاط تھا، چنانچہ اس نے فوراً اپنا کان پیچھے کر لیا۔ مگر مچھ اس کا کان تو نہ پکڑ سکا لیکن اس کی ناک کی نوک اس کے منہ میں آ گئی جسے اس نے زور سے پکڑ لیا۔
ہاتھی بچہ زور سے چلایا، چچا جان، چچا جان، مجھے چھوڑئیے ، میری ناک ٹوٹ جائے گی۔
مگر مچھ اس کی ناک پکڑے پکڑے بولا، میں رات کے کھانے میں ہاتھی بچہ کو کھانا پسند کرتا ہوں۔
یہ سن کر تو ہاتھی بچے کی جان نکل گئی، اس نے اپنی ناک چھڑانے کے لیے پورا زور لگایا، ادھر مگرمچھ نے اس کی ناک کو پوری طاقت سے پکڑ کر کھینچا، دونوں میں خوب زور آزمائی ہونے لگی۔ آبی سانپ بھی اس زور آزمائی کو دیکھنے کے لیے قریب آ گیا۔
جنگل کے دوسرے چھوٹے بڑے جانور، خرگوش، گلہریاں اور چوہے وغیرہ بھی اس لڑائی کا منظر دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے۔ کبھی مگرمچھ ہاتھی بچہ کو پانی کے اندر کھینچ لیتا اور کبھی ہاتھی بچہ مگر مچھ کو باہر کھینچ لاتا، اس کھینچا تانی میں ہاتھی بچے کی ناک جو پہلے ایک جوتے سے زیادہ بڑی نہیں تھی کھینچ کر کافی لمبی ہو گئی، سب جانور خرگوش اور گلہریاں وغیرہ زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔ ہاتھی بچہ جب اپنی ناک چھڑانے میں ناکام رہا تو مدد کے لیے چلایا، تماشا دیکھنے والے سب جانوروں کی ہمدردیاں ہاتھی بچے کے ساتھی تھیں کیوں کہ مگر مچھ ان چھوٹے چھوٹے جانوروں کو بغیر ڈکار لیے ہضم کر جاتا تھا لیکن وہ ہاتھی بچہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تھے۔
جب ہاتھی بچے نے دیکھا کہ سب چھوٹے جانور مگر مچھ سے ڈرتے ہیں تو چلایا، چچا سانپ، چچا سانپ، مجھے بچائیے۔
آبی سانپ بولا۔ تم نے دیکھا، مگر مچھ کتنا خراب جانور ہے اور تم نے مجھے مگر مچھ کہا تھا۔
چچا جان، مجھے معاف کر دیجئے ، ہاتھی بچے نے کہا۔
آبی سانپ نے یہ سن کر اپنی دم پوری طاقت سے مگر مچھ کے ماری، مگر مچھ نے ہاتھی بچے کی ناک فوراً چھوڑی اور دریا میں غوطہ لگا گیا۔
ہاتھی بچہ فوراً دریا کے کنارے سے دور ہو گیا کہ کہیں مگر مچھ دوبارہ اس کی ناک نہ پکڑ لے۔
بیٹا، آبی سانپ بولا، جاؤ تم اب اپنے گھر جاؤ۔
ہاتھی بچہ بولا، چچا جان، میں اپنے گھر نہیں جا سکتا میری ناک اتنی لمبی ہوئی ہے کہ میری امی میری پٹائی لگائیں گی، میں اپنی ناک کے سکڑنے کا انتظار کروں گا۔
بیٹا، آبی سانپ نے کہا، اللہ جو کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے بعض اوقات کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا چیز اس کے لیے اچھی اور کیا چیز بری، تمہیں اپنی شکل کے بگڑ جانے پر افسوس نہیں کرنا چاہیے۔
لیکن ہاتھی بچہ مسلسل اپنی ناک لمبی ہو جانے پر افسوس کرتا رہا، اچانک کہیں سے ایک مکھی اڑتی ہوئی آئی اور اس کے سر پر بیٹھ گئی، ہاتھی بچہ نے مکھی کو اڑانے کے لیے اپنی ناک ہلائی جو اب سونڈ بن چکی تھی، مکھی سونڈ کی زد میں آ کر وہیں گر پڑی۔ تم نے دیکھا، آبی سانپ نے ایک درخت پر لگے ہوئے کچھ پھلوں کی طرف اشارہ کیا، یہ پھل کافی بلندی پر لگے ہوئے تھے اور ہاتھی بچہ ان کے قریب نہیں پہنچ سکتا تھا، اچانک اس نے اپنی سونڈ اٹھائی ور کئی پھول توڑ ڈالے ، اب اسے اپنی سونڈ کا اصل فائدہ معلوم ہوا، اس نے دریا کے کنارے رہنے والے چھوٹے جانوروں اور آبی سانپ کو خدا حافظ کہا اور واپس اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔
٭٭٭
نازک صاحب کا بکرا
رؤف پاریکھ
نازک صاحب ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ نام تو ان کا اللہ جانے کیا تھا لیکن اپنی حرکتوں اور حلیے کی وجہ سے سارے محلے میں نازک صاحب کے نام سے مشہور تھے۔
دبلے پتلے دھان پان آدمی تھے۔ پھونک مارو تو اڑ جائیں۔ ذرا سی بات پر بگڑ جاتے تھے۔ جب وہ کوٹ پتلون پہنے ، باریک سنہری کمانی کا چشمہ لگائے ، ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے میں بکرے کی رسی تھامے محلے میں نکلتے تھے تو ان کی دلچسپ حرکتوں کی وجہ سے راہ چلتے لوگ بھی رک کر انہیں دیکھنے لگتے تھے۔ کبھی چھوٹے چھوٹے پتھروں پر پاؤں رکھنے سے انہیں موچ آ جاتی اور کبھی اپنے بکرے کی مریل سی "میں ایں ” سن کر ڈر جاتے۔ ان کا بکرا بھی خوب تھا۔ موٹا تازہ کالے رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ محلے میں نازک صاحب سے ز یادہ ان کا بکرا مشہور تھا۔ نازک صاحب نے اسے بڑے پیار سے پالا تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کے بکرے کو ہاتھی بھی لگائے۔ وہ اکثر اپنے بکرے کی عظمت، ذہانت اور اس کے اعلیٰ خاندان کے قصے سنایا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ "اس سے ذہین، خوب صورت، بہادر اور شریف نسل کا بکرا آج تک پیدا نہ ہوا، اس بکرے کا پر دادا مغل بادشاہوں کا پالتو اور شاہی بکرا تھا۔ اس کا دادا پنجاب کے سکھ حکم راں رنجیت سنگھ کے ہاں پلا بڑھا تھا۔ اس بکرے کی ماں دوسری جنگ عظیم میں انگریز فوجوں کے ساتھ محاذ جنگ پر رہتی تھی اور انگریز فوجیوں نے کئی لڑائیاں صرف اس بکری کا دودھ پی پی کر جیتی تھیں "۔
اس پر کوئی بچہ مذاقاً کہتا، "پھر تو اس کی ماں بکری کو بہادری کے صلے میں کوئی بڑا تمغا بھی ملا ہو گا”۔
تو وہ بڑی سنجیدگی سے کہتے ، "ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔ اسے انگریز فوج کا سب سے بڑا تمغا وکٹوریا کراس ملا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بکرا بھی بہت بہادر ہے۔ ایک بار اس نے ڈاکوؤں کو مار بھگایا تھا”۔
حالاں کہ وہ بکر اتنا ڈر پوک تھا کہ بلیاں بھی اسے ڈراتی تھیں۔ اسی لیے محلے کے بچے کہا کرتے تھے : "نازک صاحب کا بکرا چوہا ہے چوہا، ” یہ سن کر نازک صاحب بہت خفا ہوتے تھے۔ بکرے کی اس بزدلی نے اس دفعہ بقر عید پر عجب گل کھلایا۔ آپ بھی سنیے :
کرنا اللہ کا یوں ہوا کہ دادی اماں نے ہمارے ابا جان سے کہا کہ بقر عید قریب آ رہی ہے۔ قربانی کے لیے اچھا سا بکرا لے آؤ۔ ابا جان عید سے دو روز پہلے ایک بکرا لے آئے۔ موٹا تازہ، سیاہ رنگ کا لیکن کان دونوں سفید۔ اس وقت تو ہم نے غور نہیں کیا لیکن بعد میں ہمیں احساس ہوا کہ یہ بکرا نازک صاحب کے بکرے سے بہت ملتا جلتا ہے۔ وہی رنگ وہی کاٹھ۔ خیر صاحب بکرا تو انا جان لے آئے لیکن وہ بکرا کیا تھا اچھا خاصا غنڈہ تھا۔ کم بخت نے آتے ہی پڑوس کے بکرے کو ایسی ٹکر مارے کہ بے چارہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا، دور جا گرا، پھر محلے کے دو چار آدمیوں کو سینگ مارے تو بے چارے بلبلا کر رہ گئے۔ بڑی مشکل سے پانچ چھے آدمیوں نے مل کر اسے رسی سے باندھا۔ اس پر اس نے ایک ایسی خوف نازک آواز میں "میں ” کی کہ بکرے تو بکرے ایک دفعہ تو محلے بھر کے بیل اور گائے بھی سہم کر رہ گئے۔ جو بچے اس انتظار میں تھے کہ بکرا آئے گا تو اسے ٹہلانے لے جائیں گے وہ سب سانس روکے اپنی اپنی ماؤں کے پیچھے دبک گئے۔
"یا الہٰی، یہ بکرا ہے یا پہلوان، کسی کے قابو میں ہی نہیں آتا”۔ امی نے کہا۔
"ارے بیٹا، یہ کیا اٹھا لائے ہو”۔ دادی اماں ہمارے ابا جان سے کہنے لگیں، "مجھے تو لگتا ہے یہ بکرا نہیں کوئی جن بھوت ہے "۔
"مجھے بھی یہی لگ رہا ہے "۔ خالہ بی نے کہا۔
ابا جان بولے ، "کمال کرتے ہیں آپ لوگ بھی۔ بکرا ذرا طاقت ور ہے صحت مند ہے۔ بس بے چارہ نئے ماحول اور نئی جگہ سے گھبرا رہا ہے۔ کل تک ٹھیک ہو جائے گا”۔
لیکن کل تک تو اس نے زور لگا لگا کر رسی توڑ دی اور باہر سڑک پر نکل بھاگا۔ راستے میں جو بکرا بھی اسے ملا اس سے الجھتا گیا اور ہر آنے جانے والے کو ٹکریں مارتا گیا۔ پورے محلے میں شور مچ گیا۔ لوگ دوڑ پڑے۔ کئی لوگوں نے اپنے بکرے گھر میں چھپا لیے۔ بڑی مشکل سے اسے قابو میں کر کے ایک کوٹھڑی میں بند کیا۔ اب محلے بھر میں اس کی دھاک بیٹھ چکی۔ لوگ اسے غنڈا بکرا کہنے لگے تھے۔ نازک صاحب نے جب اس بکرے کی شہرت سنی تو انہوں نے اپنے بکرے کو باہر نکالنا بند کر دیا اور کہنے لگے "اپنے نامعقول بکرے کو باندھ کر رکھنا۔ اگر وہ دوسرے بکروں کے ساتھ گھلا ملا تو اس کی بری صحت میں پڑ کر سارے بکرے خراب ہو جائیں گے۔ بالکل اسی کی طرح سب بکرے شیطان ہو جائیں گے۔ اسی لیے میں نے اپنے بکرے کو باہر نکالنا بند کر دیا ہے۔ ہاں میاں ! تمہارا کیا ہے۔ تمہارا بکرا تو دو تین دن میں کٹ جائے گا لیکن میں نے اپنا بکرا بڑی محنت سے پالا ہے۔ اس کی تربیت کی ہے یہ کوئی کٹنے والا بکرا نہیں ہے۔ اس کا دادا جو تھا۔۔۔۔۔۔۔ "۔
"بس بس رہنے دیجئے۔ آپ کے لاڈلے بکرے کا شجرہ نسب ہم خوب جانتے ہیں۔ اتنا کرم کیجئے گا کہ اسے دو تین دن باہر مت نکالیے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا بکرا اس کی آنکھ وانکھ پھوڑ دے "۔ یہ کہہ کر ہم اپنے بکرے کی خیریت دریافت کرنے اس کی کوٹھڑی کے اندر پہنچے جس میں موصوف بند تھے۔ معلوم ہوا کہ ٹکریں مار مار کر اس نے کوٹھڑی کے دروازے کی چولیں ڈھیلی کر دی ہیں۔ بڑی مشکل سے اسے گھاس اور پانی وغیرہ دیا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ غنڈا بکرا رات کو تھک ہار کر سوجائے گا۔ آخر سارا دن کشتی کرتا رہا ہے۔ لیکن توبہ کیجئے صاحب! وہ تو جانے کس مٹیکا بنا ہوا تھا۔ رات بھر کم بخت چلاتا رہا۔ نہ سویا نہ سونے دیا۔ اس کی آواز سے نہ صرف گھر بھر کی نیدن حرام تھی، بلکہ پاس پڑوس والے بھی تنگ آچکے تھے۔ اتنی زور دار آواز میں "میں میں ایں ” کرتا تھا کہ قبر میں پڑے مردے بھی جاگ جائیں۔
آخر اللہ اللہ کر کے صبح ہوئی۔ محلے کے کئی لوگ ہمارے پاس بکرے کی شکایت کرنے آئے۔ ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہم بھی بکرے سے اتنے ہی تنگ ہیں اور کل عید کی نماز پڑھ کر فوراً ہی اس کی میں میں کو ہمیشہ کے لیے بند کروا دیں گے۔
اور لوگوں کے ساتھ ساتھ نازک صاحب بھی شکایت کرنے پہنچ گئے۔ کہنے لگا، ” آپ کے بکرے کی قوالی نے مجھے رات بھر نہیں سونے دیا۔ مجھے شبہ ہے کہ یہ بکرا پاگل تو نہیں۔ آخر میرا بھی تو بکرا ہے۔ اتنے سالوں سے پالا ہوا ہے۔ مجال ہے جو کبھی زور سے بھی "میں ” کی ہو۔ آخر میں نے اس کی تربیت کی ہے۔ بڑا خاندانی بکرا ہے میرا۔ اس بکرے کا پردادا۔۔۔۔۔۔۔ "۔
"مغلوں کا شاہی بکرا تھا”۔ ہم ان کی بات کاٹ کر بولے ، "یہی کہنا چاہتے تھے نا آپ۔ صاحب، یقین کیجئے کہ ہم تو اپنے اس بکرے سے بہت تنگ آچکے ہیں۔ کل ہی قسائی کو بلوا کر چھری پھروا دیں گے۔ کہیے آپ کو اس کی بوٹیاں بھجوائیں یا پائے "۔
وہ دونوں کان پکڑ کر بولے ، "نانانا۔ توبہ توبہ! مجھے ہر گز کچھ نہ بھجوانا، اس کا گوشت کھا کر تو میں بھونکنے لگوں گا۔ اس غنڈے بکرے۔۔۔۔۔۔۔۔ "۔
اور بہت دیر تک اللہ جانے ہمارے بکرے کو کیا کچھ کہتے رہے اور چلتے چلتے ہدایت کرگئے۔ "دیکھو میاں ! بکرا کٹواتے وقت بہت احتیاط کرنا۔ کہیں بھاگ نہ جائے اور ہاں ایک قسائی سے کام نہیں چلے گا۔ بکرا جن ہے جن۔ کم از کم تین چار قسائیوں کی ضرورت ہو گی۔
غرض وہ سارا دن محلے والوں کی شکایات اور ہدایت سننے میں گزرا۔ آخر رات آئی۔ رات کا چارہ کھا کر بکرے نے تازہ دم ہو کر جو چلانا شروع کیا صبح تک بغیر رکے چلاتا چلا گیا۔ صبح ہوتے ہی ہم نہا دھو کر عید کی نماز پڑھنے گئے۔ واپسی پر پپو قسائی کو لیتے آئے۔ ہم نے اس سے بہتیرا کہا کہ بکرا بڑا منہ زور ہے ، دو چار آدمیوں کو بھی ساتھ لے لو لیکن وہ نہ مانا، کہنے لگا، "برسوں سے بکرے کاٹ رہا ہوں۔ چھوٹے موٹے بکرے کو اگر گھور کر دیکھ لوں تو اس کا دم نکل جاتا ہے اور کوئی بکرا ذرا تگڑا ہو تو ہش کرنے پر دم دبا کر لیٹ جاتا ہے اور مزے سے چھری پھیر دیتا ہوں "۔
لیکن پپو قسائی کی ساری شیخی دھری کی دھری رہ گئی۔ بکرے کو کوٹھڑی سے نکالنا تھا کہ اس نے اچھل کر پپو قسائی کو ٹکر مارے اور اس سے پہلے کہ قسائی اٹھ کر اسے "ہش” کرتا، بکرا چھلانگیں مارتا ہوا دروازے سے باہر نکل گیا۔ ہم شور کرتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگے۔ ابا جان نے پپو قسائی کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور وہ بھی بڑے غصے سے چھری لہراتا ہوا بکرے کے پیچھے بھاگا۔
ادھر بکر آن کی آن میں برابر کی گلی میں گھس گیا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہم ٹامک ٹوئیاں مارتے رہے لیکن بکرا نہ ملا۔ پورے محلے میں شور مچ گیا کہ غنڈا بکرا فرار ہو گیا۔ بچے تماشا دیکھنے باہر نکل آئے۔ آخر کسی بچے نے بتایا کہ برابر کے محلے میں ایک بکرا دوسرے بکرے کو ٹکریں مارتا دیکھا گیا ہے۔ ہم نے کہا ہو نہ ہو یہ ہمارا بکرا ہے۔ برابر کے محلے میں پہنچے مگر وہاں بھی بکرا نہ ملا۔ جب مایوس ہو کر واپس آ رہے تھے تو پپو قسائی ایک موٹے تازے کالے بکرے کا سفید کان پکڑے آتا دکھائی دیا اور وہ بکرا بڑی شرافت سے سر جھکائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ساتھ چلا آ رہا تھا۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ہمارا بکرا تنی آسانی سے قابو کیا جا سکتا ہے۔ ہم مارے حیرت کے اپنی جگہ پر کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ واقعی پپو قسائی نے تو کمال کر دیا۔ وہ ٹھیک کہتا تھا کہ بکرے میری "ہش” سن کر ڈر جاتے ہیں۔ ہم دل ہی دل میں یہ سوچ رہے تھے اور ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے پپو قسائی بکرے کو کان سے پکر کر ہمارے گھر میں داخل ہو گیا تاکہ اسے ذبح کر سکے۔
اتنے میں ہمیں ایک خوفناک "میں ایں ” سنائی دی۔ ہم اچھل پڑے اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو غنڈا بکرا کھڑا ہمیں غصے سے گھور رہا تھا۔ "میرے اللہ! یہ یہاں کہاں سے آ گیا۔ تو پھر پپو قسائی کون سے بکرے کو کاٹنے لے گیا ہے۔ ” ہم سوچ میں پڑ گئے۔ لیکن غنڈے بکرے ایک بار پھر زور سے "میں ایں ” کی۔ اس کے ساتھ ہی نازک صاحب آتے دکھائی دیے۔ بہت بدحواس نظر آتے تھے۔ ہمیں دیکھ کر لپک کر آگے آئے اور پھولی ہوئی سانس سے بولے ، "تم نے میرے بکرے کو کہیں دیکھا ہے۔ اللہ جانے کس طرح کھلا رہ گیا تھا گھر سے باہر نکل گیا اور یہ تمہارا بکرا باہر کیوں کھڑا ہے۔ ” اب ہماری سمجھ میں آیا کہ پپو قائی نے اتنی آسانی سے بکرے کو کیوں قابو کر لیا تھا۔ دراصل وہ نازک صاحب کا بکرا تھا۔ دونوں کا رنگ او جسامت ایک ہی تھی اس لیے دھوکا ہو گیا، یہ خیال آتے ہی ہم گھر کی طرف دوڑ پڑے تاکہ پپو قسائی کو نازک صاحب کا بکرا کاتنے سے باز رکھ سکیں۔
"ٹھیرو۔ رک جاؤ۔ بکرا مت کاٹنا۔۔۔۔۔۔ یہ بکرا ہمارا نہیں ہے "۔
یہ کہتے ہوئے ہم گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ پپو قسائی نازک صاحب کے بکرے کو کاٹ چکا تھا اور اس کی کھال اتارنے کی تیاری کر رہا تھا۔
ابا جان حیرانی سے ہماری شکل دیکھ رہے تھے اور ہم یہ سوچ رہے تھے کہ نازک صاحب کو ہم یہ سارا معاملہ کیسے سمجھائیں گے۔ وہ تو ہماری جان کو آ جائیں گے۔ اتنے میں نازک صاحب ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور ابا جان کو مخاطب کر کے بولے۔ ” آپ نے میرا بکرا کہیں دیکھا ہے۔ نہ جانے کس طرح کھلا رہ گیا تھا۔ گھر سے باہر نکل گیا۔ کیا آپ کا بکرا کٹ گیا”۔
اس سے پہلے کہ ابا جان کچھ کہتے ہم بول پڑے۔ "جی ہاں، جی ہاں ہمارا بکرا کٹ گیا، بڑے آرام اور شرافت سے۔ کم بخت بڑا ڈرپوک نکلا۔ ذرا مزاحمت نہ کی۔ آپ کے بکرے کی طرح بہادر ہوتا اور شاہی بکروں کی اولاد ہوتا تو ہرگز اس طرح نہیں کٹتا۔ آخر آپ کا بکرا ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنے والا بکرا ہے بھلا اس کا اور اس کا کیا مقابلہ”۔
وہ خوش ہو کر بولے۔ ” جی، جی، صحیح کہا تم نے برخوردار۔ لیکن میرا بکرا ہے کہاں "۔
میں نے باہر کھڑا دیکھا تھا ابھی۔ بڑی خوفناک آواز میں "میں ” کر رہا تھا۔ آخر اس کی ماں نے دوسری جنگ عظیم لڑی تھی”۔ ہم نے کہا۔
اب ان کی سمجھ میں سارا معاملہ آ گیا۔ کبھی وہ اپنے بکرے کو دیکھتے جس کی کھال پپو قسائی اتار رہا تھا اور کبھی اس غنڈے بکرے کو جو باہر کھڑا چلا رہا تھا۔ ہم نے جھانک کر باہر دیکھا۔ محلے بھر کے بچے ایک بڑا سا دائرہ بنائے غنڈے بکرے کو دیکھ رہے تھے اور وہ بڑے غصے س ے ان کے درمیان کھڑا شور مچارہا تھا۔ "یہ رہا آپ کا بکرا”۔ ہم نے نازک صآحب کو انگلی کے اشارے سے غنڈا بکرا دکھا کر کہا۔
لیکن نازک صاحب نے تو ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ "میرا بکرا میرا بکر”۔ کہہ کر انہوں نے سارے محلے والوں کو اکھٹا کر لیا۔ ہم نے انہیں پیش کش کی کہ اپنے بکرے کے عوض آپ ہمارا بکرا لے لیں لیکن وہ راضی نہ ہوتے تھے ، کہتے تھے اتنا خوب صورت ذہین اور بہادر بکرا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور یہ بکرا تو غنڈا ہے۔ میں اسے کیسے لے سکتا ہوں۔ آخر لوگوں نے انہیں سمجھایا کہ ایک سا رنگ اور قد ہونے کی وجہ سے پپو قسائی سے غلطی ہوئی۔ آپ دوسرا بکرا لے لیں۔ ابا جان نے بھی ان سے معافی مانگی۔
آخروہ راضی ہو گئے لیکن انہوں نے اسی وقت کھڑے کھڑے پپو قسائی کو وہ بدمعاش بکرا فروخت کر دیا اور پپو قسائی تین چار آدمیوں کی مدد سے اسے لے گیا۔
آج بھی نازک صاحب اس بکرے کو یاد کر کے اداس ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اتنا ذہین، خوب صورت، بہادر اور طاقت ور بکرا آج تک دنیا میں پیدا نہیں ہوا۔ حالاں کہ وہ بکرا ذرا سا بھی بہادر ہوتا اور پپو قسائی سے تھوڑی بھی زور آزمائی کر لیتا تو بچ جاتا۔ لیکن نازک صاحب اس بات کو نہیں مانتے۔ کہتے ہیں کہ
"اس کا دادا۔۔۔۔۔۔۔۔ "۔
٭٭٭
محبت کا سبق
جنگل کے ایک درخت کی شاخ پر شہد کی مکھیوں کا بڑا سا چھتہ لگا ہوا تھا۔ بندر اس شہد کو کھانے کی فکر میں تھا۔ آخر اسے دور سے ریچھ آتا دکھائی دیا۔ بندر نے ایک ترکیب سوچی اور جیسے ہی ریچھ قریب پہنچا وہ درخت کے پیچھے سے نکلا اور اس کے قریب جا کر کان میں چلایا:
"السلام علیکم! بھالو بھائی”۔
ریچھ ڈر کر اچھل پڑا اور بندر کو دیکھا تو کہنے لگا: "وعلیکم السلام بھائی! تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کہاں سے ٹپک پڑے اچانک”۔
"ٹپکوں گا بھلا کہاں سے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ذرا ٹہلنے نکلا تھا کہ تم نظر آ گئے تمہاری شکل پر بارہ بج رہے تھے۔ میں نے سوچا ہو نہ ہو آج بھالو بھائی ضرور کسی پریشانی میں ہیں "۔ بندر نے کہا۔
"کہہ تو سچ رہے ہو۔ بڑی عجیب پریشانی ہے "۔ ریچھ نے جواب دیا۔
"وہ کیا بھلا”۔ بندر نے پوچھا۔ "ہمیں بتاؤ تو سہی۔ بھالو بھائی تم پریشانی ہوتے ہو تو اپنی بھی نیند اڑ جاتی ہے ، سچ کہہ رہا ہوں "۔ بندر نے جھوٹ موٹ کی ہمدرد جتائی۔
"بات یہ ہے کہ آج میری سالگرہ ہے اور میں کیک لینے جا رہا ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیک کہاں سے خریدوں۔ کیا جنگل میں کہیں کیک ملتا ہے "۔ ریچھ نے پوچھا۔
"واہ! واہ! یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے سالگرہ مبارک ہو۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو بھالو بھائی”۔ بندر تالیاں بجاتے ہوئے بولا۔ لیکن وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ریچھ کو کس طرح بے وقوف نا کر شہد حاصل کیا جائے۔ آخر کار اس نے کچھ سوچ کر کہا: "لیکن ایک بار میں ضرور کہوں گا بھالو بھائی”۔
"وہ کیا”۔ ریچھ نے کہا۔
"آپ کے بال بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ آپ کی سالگرہ میں جو جانور آئیں گے وہ یہی کہیں گے کہ ریچھ نے بال نہیں کٹوائے "۔ بندر نے کہا۔
"اچھا!”۔ ریچھ پریشان ہو کر بولا۔ "پھر میں کیا کروں "۔
"میری مانیے تو حجامت بنوا لیجئے "۔ بندر نے ریج کو پٹی پڑھائی۔
"حجامت۔ لیکن جنگ میں کون میرے بال کاٹے گا”۔ ریچھ نے منہ لٹکا کر کہا۔
"ارے کیسی باتیں کرتے ہیں آپ بھالو بھائی۔ میں جو حاضر ہوں آپ کی خدمت کے لیے۔ آپ کو کہیں جانے کی کیا ضرورت ہے۔ ایسے ا چھے بال کاٹوں گا کہ بالکل امیتابھ بچن نظر آئیں گے "۔ بندر نے مکاری سے کہا۔
"امیتابھ بچن”۔ ریچھ نے حیرت سے کہا۔ "کیا یہ کوئی نیا جانور آیا ہے جنگل میں "۔
اس کی بات سن کر بندر کی ہنسی چھوٹ گئی لیکن ضبط کر کے بولا۔ ” اس جنگل میں تو نہیں البتہ میرے دادا ابو کہتے ہیں کہ یہاں سے بہت دور ایک بڑا جنگل ہے۔ اس میں اس جیسے کئی جانور پائے جاتے ہیں "۔
"اچھا تو چلو جلدی سے میری حجامت بنا ڈالو”۔ ریچھ نے کہا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ابھی لیجئے۔ لیکن آپ کو میرا ایک چھوٹا سا کام کرنا ہو گا”۔ بندر نے کہا۔
"کون سا کام”۔ ریچھ نے معصومیت سے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔
"بس ذرا سا شہد چاہیے مجھے۔ بہت دیر سے دل چاہ رہا تھا۔ ویسے تو میں خود رخت پر چڑھ کر اتار لیتا لیکن آج میرے پاؤں میں درد ہے اور درخت پر چڑھ نہیں سکتا۔ شہد کا چھتہ زیادہ اوپر ہے۔ آپ ہاتھ بڑھا کر اتار لیں گے "۔
ریچھ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ ہاتھ بڑھا کر شہد کی مکھیوں کا چھتہ درخت کی شاخ سے نو چلی۔ بندر خطرہ بھانپ کر ایک طرف بھاگا اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ کر دیکھنے لگا کہ ریچھ کی کیا درگت بنتی ہے۔ اس کا منصوبہ یہی تھا کہ کسی طرح شہد کھایا جائے لیکن مکھیوں کے ڈنک سے خوف زدہ ہو کر اس نے سوچا کہ کسی ترکیب سے شہد اس طرح حاصل کیا جائے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بے چارہ بھولا بھالا ریچھ اس کی باتوں میں آ گیا اور سالگرہ کے لیے بال کٹوانے کے شوق میں شہد کی مکھیوں کا چھتہ نوچ بیٹھا۔ مکھیاں بھلا ریچھ کو کب چھوڑنے والی تھیں۔ کاٹ کاٹ کر ریچھ کا برا حال کر دیا۔ بے چارہ چیخیں مارتا ہوا ادھر ادھر بھاگنے لگا اور غصے میں آ کر چھتے کو بالکل ہی پچکا ڈالا۔
بندر یہ دیکھ کر آگے بڑھا اور کیلے کے درخت کا ایک پتہ لے کر چھتہ اس میں لپیٹ لیا۔ پھر کئی پتے اور درخت کی شاخیں جمع کر کے ان کو آگ لگا دی۔ آگ سے جب دھواں اٹھا تو مکھیاں گھبرا کر بھاگ گئیں۔ ریچھ بے چارہ ایک طرف نڈھال پڑا تھا۔ بندر نے کیلے کا پتہ کھولا اور سارا شہد چٹ کر گیا۔
آخر ریچھ ہمت کر کے اٹھا اور بولا:
"بندر بھائی! اب ذرا جلدی سے میرے بال کاٹ دو۔ سالگرہ کا وقت ہونے و الا ہے اور مجھے ابھی کیک لینے بھی جانا ہے "۔
بندر نے جلدی سے منھ صاف کیا اور کہنے لگا۔ "ہاں ہاں، کیوں نہیں آؤ”۔
یہ کہہ کر بندر اسے اپنے گھر لے گیا۔ وہاں پہنچ کر بندر نے قینچی، کنگھی، استرا اور ایک بڑا سا سفید کپڑا نکالا۔ سفید کپڑا بندر نے ریچھ کی گردن کے اردگرد باندھ دیا اور قینچی نکال لی۔
ریچھ نے جو یہ سارا سامان دیکھا تو کیا، ” آپ کے پاس تو حجامت کا پورا سامنا موجود ہے۔ آپ حجام کی دکان کیوں نہیں کھول لیتے "۔
بندر بہت عرصے سے جنگل میں حجامت کی دکان کھولنے کا ارادہ کر رہا تھا لیکن سوچتا تھا کہ پہلے کسی جانور کی حجامت مفت میں بنا کر ہاتھ صاف کر لے اور ذرا مہارت ہو جائے تو باقاعدہ دکان کھول لے۔
ریچھ کی حجامت بنانے سے نہ صرف اسے شہد مل گیا بلکہ حجامت بنانے کی مشق بھی ہو جاتی لیکن ریچھ کے سامنے وہ یہ بات ظاہر کرنا نہیں چاہ رہا تھا اس لیے وہ ریچھ کی بات کا کوئی الٹا سیدھا جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں وہاں سے خرگوش گزرا۔ مکھیوں کے کاٹنے کی وہ سے ریچھ کا منہ جگہ جگہ سے سوجا ہوا تھا اور بے چارے کے ایک آدھ جگہ سے خون بھی نکل رہا تھا۔
جب خرگوش نے ریچھ کو اس حال میں گردن پر سفید کپڑا باندھے بال کٹواتے دیکھا تو اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
خرگوش کی چیخ سن کر بندر ایسا ڈرا کہ اس نے گھبراہٹ میں قینچی ریچھ کے بالوں کے بجائے اس کے کان پر چلادی اور ریچھ کا کان ذرا سا کٹ گیا۔ اس پر ریچھ نے ایک ایسی زوردار چنگھاڑ ماری کہ بندر تھر گھر کانپنے لگا۔ ریچھ کے کان سے خون بہہ رہا تھا۔
تم نے میرا کان کاٹ ڈالا!” ریچھ چلایا۔
"اس خرگوش کے بچے نے مجھے ڈرا دیا تھا”۔ بندر نے کہا۔
"اب کیا ہو گا”۔ مجھے ابھی کیک لینے بھی جانا ہے۔ آج میری سالکگرہ ہے اور سارے جانور دعوت میں پہنچنا شروع ہو گئے ہوں گے اور میں۔۔۔۔۔۔ میں یہاں بیٹھا ہوں کٹا ہوا کان اور سوجا ہوا منہ لیے "۔ ریچھج رو دیا۔
"آپ فکر نہ کریں بھالو بھائی”۔ بندر نے کہا۔ "آپ کی خدمت کے لیے۔۔۔۔۔۔ "۔
"تم چپ رہو”۔ ریچھ بندر کی بات کاٹ کر نہایت غصے سے بولا۔ "تم نے ہی مجھے اس حال تک پہنچایا ہے "۔
خرگوش جو اتنی دیر سے چپ کھڑا تھا، بول پڑا۔ "میری مانو تو پہلے اپنا کان سلوالو درزی سے "۔
"بے وقوف! بھلا درزی بھی کان سیتا ہے "۔ بندر نے ڈانٹ کر کہا۔ "چلو ڈالر کے پاس چلتے ہیں "۔
اب ریچھ کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ بندر کے ساتھ چلے۔ تینوں ڈاکٹر ہمدرد کے پاس پہنچے ، ڈاکٹر ہمدرد ایک نہایت ہنس مکھ، مہربان اور ہوشیار ڈاکٹر تھے۔ وہ کئی سال سے جنگل میں ایک جھوٹے سے مکان میں اکیلے رہتے تھے اور اکثر جانور ان کے پاس علاج کے لیے جایا کرتے تھے۔ یہ تینوں جب ڈاکٹر ہمدرد کے پاس پہنچے تو لومڑی ڈاکٹر صاحب کے پاس آئی ہوئی تھی۔ اس کے پاؤں میں کانٹا چبھ گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کانٹا نکال چکے تھے اور پٹی باندھ رہے تھے ، ان کو دیکھتے ہی ڈاکٹر ہمدرد نے کہا۔
"اوہو! بھالو میاں ! بھئی یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے تم نے "۔
ریچھ بے حال تو تھا ہی ڈاکٹر صاحب کی ہمدردی پا کر زور زور سے رونے لگا اور سارا قصہ سنایا۔
ڈاکٹر صاحب بندر پر خفا ہوئے۔ بندر کان دبائے چپ چاپ سنتا رہا۔ آخر ڈاکٹر نے بھالو بھائی کی مرہم پٹی شروع کی۔
لومڑی، جو ریچھ کی ساری بات سن چکی تھی، ڈاکٹر صاحب کے ہاں سے نکلتے ہی سیدھی ریچھ کے گھر پہنچی جہاں سارے جانور ریچھ کی سالگرہ میں شریک ہونے کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ لومڑی نے جاتے ہی سارا ماجرہ کہہ سنایا۔ سارے جانور لومڑی کی بات سن کر غصے میں آ گئے۔
"بندر کی شرارتیں تو روز بروز بڑھتی جا رہی ہیں اسے سبق سکھانا اب ضروری ہو گیا ہے "۔ مور نے کہا
"کم بخت میرے سامنے آ جائے تو پنجہ مار کر اس کا پیٹ پھاڑ دوں "۔ شیر نے غصے سے کہا۔
"نہیں بھئی! اتنا غصہ اچھا نہیں "۔ دریائی گھوڑے نے کہا۔ "اسے ذرا سختی سے سمجھادیں گے شاید مان جائے ورنہ پھر کچھ تدبیر سوچیں سے "۔
"میرا خیال ہے سب ڈاکٹر ہمدرد کے گھر چلیں۔ بندر بھی وہیں ہو گا”۔ ہرن نے تجویز پیش کی۔
سب راضی ہو گئے اور ڈاکٹر ہمدرد کے ہاں پہنچے۔ بندر نے جو ان کو آتے دیکھا تو کھڑی سے کود کر بھاگ گیا۔
ادھر ڈاکٹر ہمدرد ریچھ کی پٹی کر چکے تھے اور باورچی خانے میں کچھ کام کر رہے تھے۔ ریچھ آرام کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ تمام جانوروں نے اس کا حال پوچھا اور اسے سالگرہ کی مبارکباد دی۔
"میرے د وستوں ! ایسی کیا بات ہے "۔ ڈاکٹر ہمدرد کی آواز آئی۔ وہ باورچی خانے سے نکل رہے تھے اور سب ن دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سا خوب صورت کیک تھا”۔ میں اتنی دیر میں تمہاری سالگرہ کے لیے بڑا مزیدار فروٹ کیک بنایا ہے۔ یہ دیکھو۔ ” ڈاکٹر صاحب نے کیک آگے کر دیا جس پر بالائی سے لکھا ہوا تھا۔ "سالگرہ مبارک ہو بھالو بھائی”۔
ریچھ نے کیک کاتا اور سب جانوروں نے تالیاں بجا کر "ہیپی برتھ ڈے ٹو یو بھالو بھائی”۔ گایا۔ ریچھ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔
"آپ سب لوگوں اور ڈاکٹر صاحب کا شکریہ لیکن کاش! بندر بھی یہاں ہوتا اور سالگرہ کا کیک کھاتا”۔
"ارے ! اس نے تمہارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا لیکن پھر بھی تم اسے یاد کر رہے ہو”۔ چوہے نے حیرت سے کہا۔
"ہاں ہاں کیوں نہیں۔ آخر وہ ہے تو تمہارا بھائی نا۔ اس سے غلطی ہو گئی تو کیا ہوا۔ میں نے اسے معاف کر دیا ہے "۔ ریچھ نے کہا۔
بھالو میاں بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں "۔ ڈاکٹر ہمدرد بولے۔ "اچھے لوگ وہی ہوتے ہیں جو دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں اور اپنے دل میں برے لوگوں کے لیے بھی جگہ رکھتے ہیں۔ یہ بڑے حوصلے اور بڑی بہادری کی بات ہے "۔
اب ذرا بندر کی سنیے ! ڈاکٹر صاحب کے گھر سے بھاگ کر جب وہ جنگل میں اس جگہ پہنچا جہاں اس نے ریچھ کو بہلا پھسلا کر شہد چاٹا تھا تو شہد کی مکھیوں نے اسے گھیر لیا۔ اس نے بھاگنے اور جان بچانے کی بہت کوشش کی لیکن توبہ کیجئے صاحب! مکھیوں نے کاٹ کاٹ کر اس کے پورے جسم کو سجا دیا۔ آخر گرتا پڑتا روتا چلاتا مرہم پٹی کرنے ڈاکٹر ہمدرد کے پاس واپس آیا اور جاتا بھی کہاں۔
جیسے ہی وہ ڈاکٹر صاحب کے گھر میں داخل ہوا سارے جانور چپ ہو گئے اور اسے دیکھنے لگے۔ ریچھ آگے بڑھا اور اسے سہارا دے کر بٹھایا۔ ڈاکٹر صاحب نے جلدی جلدی اس کے زخموں پر دوا لگائی اور پٹی باندھی۔ ریچھ نے اسے کیک کا ایک بڑا ٹکڑا دیا۔ یہ دیکھ کر بندر رونے لگا اور کہا:
"تم کتنے اچھے ہو اور میں کتنا برا ہوں۔ مجھے معاف کر دو”۔
ریچھ نے جاب دیا۔
"میں تو تمہیں پہلے ہی معاف کر چکا ہوں۔ بس تم وعدہ کرو کہ آئندہ کسی کو تنگ نہیں کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سزا دی ہے "۔
"میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب کسی کو تنگ نہیں کروں گا”۔ بندر نے کہا
تمام جانوروں نے تالیاں بجائیں اور ریچھ نے بندر کو گلے لگا لیا۔ بندر نے ریچھ کے کان میں کیا۔
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔ بھالو بھائی۔ وہ شہد بہت مزے دار تھا لیکن مہنگا پڑا”۔
"اب اگر تمہیں شہد چاہی تو مجھ سے صاف صاف کہہ دینا۔ حجامت بنوانے کا جھانسا مت دینا۔ "ریچھ نے کہا اور دونوں زور زور سے ہنسنے لگے۔
٭٭٭
ہاتھی کی سائیکل
ننھا ہاتھی جنگل میں صبح کی سیر کے لیے نکلا تھا لیکن جب اس کی نظر ایک چھوٹی سی خوب صورت دو پہیوں والی سائیکل پر پڑی تو وہ سیر کو بھول کر سائیکل کی طرف لپکا۔ سائیکل بہت صاف اور چمک دار تھی۔ نئی معلوم ہوتی تھی۔ کسی نے اسے درخت کے تنے کے سہارے کھڑا کر رکھا تھا۔ سائیکل کے قریب پہنچ کر وہ اسے غور سے دیکھنے لگا، "واہ وا! کتنی خوبصورت سائیکل ہے "۔ ننھا ہاتھی دل میں سوچنے لگا، "بالکل ویسی ہی ہے جیسی اس دن ایک بچے کے پاس دیکھی تھی”۔
ننھا ہاتھی سائیکل کو ہر طرف سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش! ایسی سائیکل اس کے پاس بھی ہوتی۔ "یہ سائیکل کس کی ہے "۔
اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ پھر خود ہی کہنے لگا۔ "اگر کوئی دیکھ نہیں رہا تو پھر یہ سائیکل میری ہو گئی”۔ یہ سوچ کر اس نے چاروں طرف دیھکا۔ جنگل سنسان پڑا تھا۔ "ہاں یہ سائیکل میری ہے "۔ یہ کہہ کر وہ خوشی خوشک اچک کر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ اس نے آہستہ آہستہ پیڈل مارنے شروع کر دیے۔ سائیکل چلنے لگی۔
مارے خوشی کے ننھے ہاتھی کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ خوب ناچے ، قہقہے لگائے۔ اب وہ سائیکل کو چوڑے راستے پر لے آیا اور تیز تیز پیڈل مارنے لگا، لیکن اس کا دل یکایک اداس ہو گیا۔ "یہ سائیکل بہت اچھی ہے لیکن میری تو نہیں ہے۔ ہاں یہ سائیکل کسی اور کی ہے۔ تو کیا میں نے چوری کی ہے۔ کیا میں چور ہوں۔ نہیں نہیں، میں چور نہیں ہوں، مجھے تو یہ سائیکل جنگل میں پڑی ملی ہے۔ اس لیے میری ہو گئی۔ ہاں یہ میری سائیکل ہے "۔
یہ سوچ کر ننھے ہاتھی نے سائیکل کی رفتار اور تیز کر دی۔ اتنے میں اسے چوہا نظر آیا۔ چوہا ایک پرانے درخت کے کھوکھلے تنے میں بیٹھا کہانیوں کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ "کیا حال ہے بھائی چوہے "۔ ہاتھی نے ہاتھ لہرایا۔
پھر اس نے سائیکل روک دی اور بولا، "میں اپنی سائیکل پر صبح کی سیر پر نکلا ہوں "۔
چوہا حیرت سے بولا، "اپنی سائیکل پر۔ یہ سائیکل تمہاری کہاں سے ہو گئی”۔
ہاتھی نے جواب دیا۔ "ہاں، ہاں یہ میری سائیکل ہے ، دیکھ نہیں رہے اسے میں ہی چلا رہا ہوں "۔
چوہے نے کہا۔ "لیکن تمہارے چلانے سے یہ سائیکل تمہاری نہیں ہو گئی۔ یہ اس بچے کی ہے جو جنگل کے ایک کونے میں چھوٹے سے مکان میں رہتا ہے۔ میں نے خود اسے یہ سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہماری مس کہتی ہیں کہ کسی چیز پڑی ہوئی ملے تو اسے رکھ نہیں لیتے "۔
یہ سن کر ہاتھی نے فوراً سائیکل چلا دی اور چوہے سے کہا، "جاؤ، جاؤ، اپنا کام کرو، یہ سائیکل میری ہے "۔
کہنے کو تو ہاتھی نے یہ بات کہہ دی تھی، لیکن وہ دل ہی دل میں ڈر رہا تھا کہ کہیں چوہا اس کی شکایت نہ کر دے ، اب وہ سائیکل تیز تیز چلانے لگا۔ اس نے سائیکل میں لگی ہوئی گھنٹی بجائی "ٹرن ٹرن”۔ گھنٹی بجانے میں اسے اتنا مزہ آیا کہ وہ بار بار گھنٹی بجانے لگا۔ خوشی سے اس نے ایک چنگھاڑ ماری اور پھر گھنٹی بجانے لگا۔
چوں چوں چڑیا اس وقت اپنے گھونسلے میں ناشتا تیار کر رہی تھی، جب اس نے گھنٹی کی ٹرن ٹرن اور ننھے ہاتھی کی چنگھاڑ سنی تو بولی۔
"خیر تو ہے ، اسکول نہ جانے پر جب ننھے ہاتھی کی پٹائی ہوتی ہے تو روز ہی چنگھاڑتا ہے مگر آج یہ گھنٹیاں کیوں بجا رہا ہے۔ ” اور جب اس کی نظر ننھے ہاتھی پر پڑی تو یہ دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ ننھا ہاتھی ایک انتہائی چمچماتی، خوب صورت نئی سائیکل پر گھنٹی بجاتا گانا گاتا چلا آ رہا ہے۔
"یہ ہاتھیوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آ گیا کہ وہ اپنے بچے کو ایسی قیمتی سائیکل دلا دیں۔ ہو نہ ہوا اس نے یہ سائیکل کہیں سے ہتھیائی ہے "۔ چوں چوں چڑیا بڑبڑائی۔
یہ سوچ کر چوں چوں چڑیا پھر زور سے اڑی تاکہ جنگل کے سب جانوروں کو یہ بتا سکے کہ ننھے ہاتھی کو کہیں سے سائیکل ہاتھ لگی ہے جس پر وہ بیٹھا چلا آ رہا ہے۔ لیکن اس نے دیکھا کہ تمام جانور ایک جگہ جمع ہیں اور آپس میں مشورہ کر رہے ہیں کہ یہ سائیکل کس کی ہے اور ننھے ہاتھی سے واپس کس طرح لی جائے۔ دراصل چوہے نے تمام جانوروں کو جمع کر کے انہیں ساری بات بتا دی تھی۔ چوں چوں چڑیا بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔ سب جانوروں نے فیصلہ کیا کہ یہ سائیکل ننھے ہاتھی سے واپس لے کر اس بچے کو دے دی جائے جو اس سائیکل کا مالک ہے۔
اتنے میں سائیکل کی ٹرن ٹرن سنائی دی اور ننھا ہاتھی سائیکل پر آتا دکھائی دیا۔ ننھے ہاتھی نے جب دیکھا کہ تمام جانور ایک جگہ جمعہ ہیں اور اسے غور سے دیکھ رہے ہیں تو وہ گھبرا گیا۔ جیسے ہی اس کی سائیکل ان جانوروں کے پہنچی سب نے اسے گھیر لیا۔ "یہ سائیکل تم نے کہاں سے خریدی”۔ خرگوش نے سائیکل پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
"خریدے گا بھلا کہاں سے ، کسی کو ڈرا دھمکا کر لے لی ہو گی”۔ چوہے نے کہا۔
"نہیں، نہیں یہ سائیکل میں نے کسی سے چھینی نہیں ہے۔ یہ میری سائیکل ہے "۔ ننھے ہاتھی نے جواب دیا۔
"تو پھر بتاؤ کہاں سے آئی تمہارے پاس”۔ لومڑی نے اسے ڈانٹ کر کہا۔ "کہیں پڑی ہوئی ملی تھی تو اس کے مالک کو بھی ڈھونڈتے۔ بچہ جی چڑھ بیٹھے فوراً سائیکل پر اور ٹرن ٹرن سے سارا جنگل سر پر اٹھا لیا”۔
ننھے ہاتھی نے جب دیکھا کہ اب اس کی خیر نہیں تو سامنے کھڑے ہوئے بندر کو ایک طرف دھکا دیا اور سائیکل تیزی سے نکال لے گیا۔ سارے جانور چلائے :
"لینا، پکڑنا، دوڑو، جانے نہ پائے "۔
لیکن ہاتھی نے سائیکل کو بہت تیز چلایا اور کافی آگے نکل گیا۔ خرگوش نے کہا:
"میری رفتار تیز ہے ، میں اسے پکڑ لوں گا”۔ یہ کہہ کر وہ ننھے ہاتھی کے پیچھے لپکا۔ لومڑی اور چوہا بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ چوں چوں چڑیا بھلا کب پیچھے رہتی۔ وہ بھی اڑتی ہاتھی کے پیچھے گئی۔ ننھے ہاتھی نے جو مڑ کر دیکھا تو خرگوش، لومڑی، چوہے اور چڑیا کو اپنا پیچھا کرتا پایا۔ چناں چہ اس نے سائیکل کی رفتار اور بڑھا دی۔ اب سائیکل خطرناک حد تک تیز ہو چلی تھی اور ہاتھی کے قابو سے باہر ہونے لگی تھی۔ اتنے میں ایک بڑا سا پتھر سائیکل کے راستے میں آیا۔ اس سے ٹکرا کر سائیکل جو اچھلی تو ہاتھی اسے سنبھال نہ سکا اور سائیکل کے ساتھ اڑا اڑا ڑا دھم، زمین پر آ رہا، ہاتھی کے سر پر شدید چوٹ آئی اور بے ہوش ہو گیا۔
ہاتھی کو جب ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا۔ اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ سارے جانور جمع تھے۔ ممی ہاتھی اور پتا ہاتھی بھی اس کے پلنگ کے پاس کھڑے تھے۔ ہاتھی کو ہوش آیا تو ممی ہاتھی نے کہا۔
"دیکھو بیٹا اگر کوئی چیز کہیں پڑی ملے تو وہ ہماری نہیں ہو جاتی۔ تم نے کسی کی چیز لے لی اور پھر جھوٹ بھی بولا کہ یہ میری ہے۔ تمہیں اس کی سزا ملی ہے "۔
ننھے ہاتھی نے کہا، "امی مجھے سے غلطی ہو گئی۔ مجھے معاف کر دیجئے "۔
پپا ہاتھی نے کہا، "تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا، یہ بہت اچھی بات ہے ، ہم تمہارے لیے ایک ایسی ہی سائیکل لے آئیں گے ، لیکن وعدہ کرو آئندہ کوئی اچھی چیز لینے کو چل چاہے تو ہم سے کہو گے ، ہم تمہیں دلائیں گے "۔
"وعدہ، ابو وعدہ!”۔ ننھا ہاتھی جلدی سے بولا۔ سب جانوروں نے باری باری اسے مبارکباد دی اور چوں چوں چڑیا پھر جلدی سے اڑگئی تاکہ جنگل میں یہ خبر سب کو سنادے کہ ننھے ہاتھی نے اپنی غلطی مان لی ہے۔
٭٭٭
پنیر کا چاند
لوئی ایک پیارا سا چھوٹا چوہا تھا۔ جب اُس نے چلنا سیکھا تو اُس کی امی نے اس کو تازہ خوراکیں دینا شروع کیں تو وہ بھی آہستہ آہستہ صحت مند اور موٹا تازہ ہوتا گیا۔ اب لوئی اسکول بھی جانا شروع ہو گیا تھا۔ اُس کی امی اُسے اچھی اچھی کہانیاں سناتی اور اُسے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اپنی دشمن بلی سے بچنا ہے۔ اب لوئی کافی بڑا ہو گیا تھا۔ اسی طرح ایک دن اُس کی امی گھر کا سودا سلف لانے کے لئے مارکیٹ گئیں تو لوئی کو بھی ساتھ لے لیا۔ لوئی بھی اپنی امی کے ساتھ مارکیٹ جانے کا بہت خواہش مند تھا، وہ اُچھلتا پھدکتا اپنی امی کے ساتھ مارکیٹ روانہ ہو گیا۔ اُس کی امی نے خاص طور پر لوئی کے لئے پنیر کا ڈبہ خریدا۔
لوئی نے جب پنیر کھایا تو اُسے بے حد پسند آیا اور پنیر اُس کی پسندیدہ چیز بن گئی۔ ایک دن رات کے کھانے کے بعد لوئی اپنی امی کے ساتھ باہر کی چہل قدمی کر رہا تھا کہ لوئی کی نظر گول چاند پر پڑی جو اندھیرے میں چمکتا ہوا بہت پیارا لگ رہا تھا۔ لوئی گول اور روشن چاند کو دیکھ کر مچل گیا۔ اُس نے اپنی امی سے پوچھا کہ کیا یہ چاند پنیر کا ہے۔ اُس کی ماں نے اپنے چھوٹے بیٹے کی معصومیت پر سر ہلا دیا۔ اب لوئی پر اس بڑے سے پنیر کو چکھنے کی دھن سوار ہو گئی اور اس تک پہنچنے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ آخر اُس کے ذہن میں آئیڈیا آ ہی گیا، اُس نے اُس گھر میں جس کی دیوار میں اُس کا بل واقع تھا کہ ایک کونے میں موجود اونچے سی میز پر چڑھ کر چاند تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ یہ سوچ کر ایک دن چپکے سے وہ رات کو جب اُس کی امی سو رہی تھیں باہر نکلا، کیونکہ چاند بھی رات کو نظر آتا تھا۔ وہ ایک رسی کی مدد سے کرسی پر چڑھ کر بالآخر میز پر چڑھنے کی کئی کوششوں کے بعد میز کے کنارے پر پہنچ گیا۔ جیسے ہی وہ میز کے اوپر پہنچا اُسے ایک بڑی سی پلیٹ میں پنیر کا بڑا سا ٹکڑا نظر آیا۔ یہ دیکھ کر اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اُس نے جلدی سے تھوڑا سا پنیر کھایا اور کچھ جیبوں میں ڈال لیا۔ پھر جلدی سے نیچے اُتر آیا تاکہ کوئی دیکھ نہ لے اپنے بل میں پہنچ گیا۔ اب اُسے دوبارہ چاند کو دیکھنے کی خواہش تھی، مگر اچانک بارشیں شروع ہو گئیں اور اُس کا رات کا اپنی امی کے ساتھ نکلنا بند ہو گیا۔ وہ کھڑکی سے چاند کو دیکھنے کی کوشش کرتا، مگر بادلوں کی وجہ سے اُسے نظر نہ آتا، بالآخر کچھ دنوں کے بعد جب بارشیں ختم ہوئیں تو وہ بڑی بے چینی کے ساتھ چاند کو دیکھنے کیلئے کھڑکی پر آیا تو چاند کو دیکھ کر خوشی سے امی کو آوازیں دینے لگا۔ "دیکھیں امی میں نے تھوڑا سا چاند کھایا تھا اور اب وہاں سے وہ کم بھی ہو گیا ہے "۔ اُس کی امی نے چاند کو دیکھا اور حسب معمول اپنے بیٹے کی معصومیت پر ہنس دی۔
٭٭٭
آنٹی ڈولی
سیدہ قراۃ العین ضیا
ایک تھی بی چیونٹی۔ نام تھا ان کا آنٹی ڈولی۔ ان کا گھر ڈاکٹر انکل کے گھر کی پچھلی دیوار کے نیچے ایک سوراخ تھا۔ وہ اپنے گھر میں اکیلی رہتی تھیں۔ خاموش، چپ چاپ۔ پتا نہیں کیوں انکی پڑوسن چیونٹیوں سے بھی بالکل دوستی نہیں تھی۔ شاید وہ تھوڑی سی مغرور تھیں۔
جون کی ایک چلچلاتی ہوئی دوپہر میں وہ خوراک تلاش کرنے کے لیے باہر نکلیں تو انہیں چینی کا ایک دانہ نظرآیا۔ خوب موٹا سا۔ ان کے منھ میں پانی بھر آیا۔ کیوں کہ انہیں میٹھا بہت پسندتھا۔ وہ اسے دھکیلتی ہوئی اپنے گھر کی طرف لانے لگیں۔ لیکن اتنا بڑا چینی کا دانہ اور اوپر سے چلچلاتی ہوئی دھوپ۔ بے چاری بوڑھی آنٹی ڈولی ہانپنے لگیں، لیکن وہ چینی کے دانے کو کسی صورت میں چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی تھیں۔ اچانک انہیں سامنے پڑوسن چیونٹی کے دو ننھے منے بچے اچھلتے کودتے ہوئے اپنی جانب آتے دکھائی دیے۔ وہ منو اور چنو تھے۔ چیونٹیوں میں بہت اچھا رواج ہے کہ وہ جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو سلام کرتی ہیں۔ چاہے بچے ہوں یا بڑے ، پھر بڑے بچوں کے سروں پر ہاتھ بھی پھیرتے ہیں۔
چنو منو جانتے تھے کہ آنٹی ڈولی ان کے سلام کو کبھی جواب نہیں دیں گی۔ لیکن انہیں اپنی امی کی نصیحت اچھی طرح یاد تھی کہ بڑا ہو یا چھوٹا، آپ کو سب کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ چناں چہ چنو منو نے آنٹی ڈولی کو ادب سے سلام کیا۔
آنٹی ڈولی نے منھ بنا کر کہا: "اونہہ”۔ اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ آگے چل پڑیں اور بڑبڑاتی ہوئی کہنے لگیں۔ "سلام کے بہانے میرا چینی کا دانہ لینے کے چکر میں تھے "۔
آنٹی ڈولی ہر ایک سے بدگمان رہتی تھیں۔ ابھی آنٹی تھوڑی دور ہی گئی تھیں کہ ان کا پیر مڑ گیا اور موچ آ گئی۔ درد کے مارے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بیچ راستے میں وہ اپنے چینی کے دانے پر چڑھ کر بیٹھ گئیں۔ بہت ساری چیونٹیاں وہاں سے گزریں۔ انہوں نے آنٹی ڈولی کو سلام بھی کیا، لیکن کسی کو پتا نہ چلا کہ ان کے پیر میں موچ آ گئی ہے اور وہ رو رہی ہیں، کیوں کہ عام دنوں میں بھی ان کا چہرہ ایسے ہی لگتا تھا۔ غرور اور نفرت سے بھرا ہوا۔ وہ درد کی وجہ سے روتی رہیں، یہاں تک کہ شام ہو گئی۔
چنو منو اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کر واپس آ رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ آنٹی ڈولی اپنے چینی کے دانے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے سلام کیا اور آگے جانے لگے ، لیکن ان کے کانوں میں رونے کی آواز آئی۔ دونوں نے گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھا۔ پھر منو کی نظر آنٹی ڈولی پر پڑی اور ان کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو نظر آئے۔ منو نے چونک کر کہا: "ارے آنٹی آپ رو رہی ہیں ؟” وہ دونوں بھاگ کر ان کے پاس آئے۔
آنٹی نے روتی آنکھوں اور سڑ سڑ کرتی ہوئی ناک کے ساتھ بتایا: "میرے پیر میں موچ آ گئی ہے "۔
چنو جلدی سے بولا: "اچھا آنٹی آپ یہیں ٹھیریں، ہم اپنے امی ابو کو لے کر ابھی آتے ہیں۔ ” وہ دونوں اپنے گھر کی طرف بھاگے۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں اپنے امی، ابو، برابر والی خالہ اور ان کی بہن کو لے کر آ گئے۔ ان سب نے آنٹی کو سہارا دیا اور گھر لے کر جانے لگے۔ پیچھے چنو منو چینی کے دانے کو دھکیلنے لگے۔ آنٹی کو بڑے آرام سے بستر پر لٹایا گیا۔ انہیں دوا پلائی گئی۔ وہ بہت شرمندہ نظر آ رہی تھیں۔ انہوں نے سب سے اپنے رویے کی معافی مانگی۔ سب نے انہیں معاف کر دیا۔ چنو منو چینی کے دانے کو لے کر پہنچ گئے اور بولے : "لیں آنٹی! آپ کا چینی کا دانہ۔ "
آنٹی ڈولی نے دونوں کو پیار کیا اور کہا: "یہ اب تم دونوں کا ہے۔ "
دونوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اور بولے : "شکریہ آنٹی! آئیے ، اسے ہم سب مل کر کھائیں۔ "
پھر وہ دونوں چینی کے دانے پر ٹوٹ پڑے۔ آنٹی ڈولی ہنستی ہوئی ان دونوں بچوں کو دیکھ رہی تھیں۔ آج انہیں سب کچھ اچھا لگ رہا تھا۔ وہ خوب ہنس رہی تھیں۔ آج انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ اچھے اخلاق اور ملنساری میں بہت فائدہ ہے۔ غرور میں کچھ نہیں رکھا۔ غرور کرنے والے کو تو اللہ تعالی بھی پسند نہیں کرتے۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.vshineworld.com/urdu/library/stories/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید