FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

تھیونگو کی دو کہانیاں

 

 

گوگی وا تھیونگو

 

مرتبہ: اعجاز عبید

 

گوگی وا تھیونگو

Ngũgĩ wa Thiong’o

کینیائی ادیب اور جہد کار

(۲ جنوری ۱۹۳۸ ۔ ۲۸ مئی ۲۰۲۵ )

 

 

عظمت کے چند لمحے

 

اردو روپ:  محمد عامر حسینی

اس کا نام وانجیرو تھا، مگر اسے اپنے عیسائی نام ’بیٹریس‘ میں کچھ اور ہی کشش محسوس ہوتی تھی—ایسا جیسے یہ نام روح کی کسی لطیف سطح سے ابھرا ہو، پاکیزہ، نازک، اور دلکش۔  وہ بدصورت نہیں تھی، لیکن حسن کی اس سان پر بھی نہیں اترتی تھی جس پر دنیا فیصلے صادر کرتی ہے۔  اُس کا جسم گہری سیاہی میں ڈوبا ہوا، بھرپور، مکمل صورت کا حامل ضرور تھا، مگر کچھ یوں لگتا جیسے وہ ابھی تک کسی روحانی شعلے کا منتظر ہو، کوئی زندگی بخش جذبہ جو اسے اندر سے جگا دے۔

وہ بیئر خانوں میں کام کرتی تھی—ایسے مقامات جہاں عورتوں کے بیٹے اپنی ادھوری خواہشات اور دل کی ویرانیاں جھاگ بھری بوتلوں میں ڈبو کر، گلاسوں کی کھنک میں ماضی کو بھلانے کی کوشش کرتے۔  بیٹریس وہاں موجود تو ہوتی، مگر جیسے منظر کے پس منظر میں دھندلا عکس—کسی کی نظر اس پر رکتی نہیں تھی۔  ہاں، کبھی کبھار جب کوئی بار مالک یا جلد باز گاہک بلند آواز میں پکار اٹھتا، ’بیٹریس!‘—تب چند لمحوں کو گردنیں اٹھتیں، آنکھیں اس نام کی خوبصورتی کے جواز کو تلاش کرتیں، مگر جب وہ اس میں کوئی غیر معمولی حسن نہ پاتیں، تو پھر وہی شراب، وہی قہقہے، وہی فحش لطیفے، اور وہی دوسری لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ جاری ہو جاتی۔

بیٹریس ایک زخمی پرندے کی مانند تھی، جو اپنی اڑان میں بے سمت، کبھی اِدھر تو کبھی اُدھر، کسی بھی شاخ پر ٹھہرتا نہیں، بس زخموں کے ساتھ فضا میں لرزتا رہتا ہے۔  کبھی الاسکا، کبھی پیراڈائز، کبھی ماڈرن، اور کبھی تھومے جیسے بیئر خانوں میں دکھائی دیتی—لمورو کے کونے کونے میں۔  کبھی کوئی ناخوش مالک اسے گاہکوں کی عدم دلچسپی کا ذمہ دار ٹھہراتا، تنخواہ دیے بغیر نکال دیتا۔  وہ چپ چاپ اگلے بار کا رخ کر لیتی۔  اور کبھی یہ بے قراری اس کے اندر سے ابھرتی—ایک ہی منظر، ایک ہی چہرے، ایک ہی دہرائی ہوئی کہانی سے اُکتاہٹ۔  وہ دیکھتی کہ وہ لڑکیاں، جو اس سے کہیں کم حسین تھیں، بار کے اختتام پر مردوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی تھیں۔  وہ خود سے سوال کرتی:  آخر ان کے پاس ایسا کیا ہے جو میرے پاس نہیں؟

اس کے دل میں ایک خواب پلتا—ایک ایسا بار، ایک ایسی سلطنت، جہاں وہ خود ملکہ ہو، جہاں مرد اس کے دربار میں بیئر کی بوتلوں، ادھورے تبسموں اور ان بددعاؤں کے نذرانے لیے حاضر ہوں، جن کے پردے میں محبت اور ہوس کی آگ سلگتی ہو۔

جب لمورو کی گلیاں بھی اس کے لیے اجنبی ہو گئیں اور ہر بیئر خانہ ایک دھندلی شکست کا استعارہ بن گیا، تو اس نے قصبے سے باہر ابلتے، پھیلتے چھوٹے بستیوں کا رخ کیا۔  نگراریگا، کامیریتھو، ریرونی، یہاں تک کہ ٹیئکونو تک اس کے قدم جا پہنچے —مگر ہر جگہ ایک ہی کہانی، ایک ہی تکرار۔  ہاں، کبھی کبھار کوئی گاہک آ بھی نکلتا، لیکن ایسا کوئی نہیں جو اس کی چاہت میں لڑ پڑے، جو اسے اختیار کرے جیسے ایک انسان، ایک محبوبہ، ایک وجود کو اختیار کرتا ہے۔  وہ ہمیشہ اس گاہک کی آخری انتخاب ہوتی جس کی جیب خالی ہو چکی ہو۔  اس کے حصے میں وہ بھی نہ آتا جو فریب پر مبنی خوش گمانی ہوتی ہے —وہ دھوکہ دہی جو مرد پانچویں بوتل کے بعد خود کو اور دوسروں کو دیتے ہیں۔  اگلی شام، یا تنخواہ کے دن، وہی شخص اسے پہچاننے سے انکار کر دیتا، اور اپنی دولت کے بل پر ان لڑکیوں کی توجہ خریدنے کی کوشش کرتا جن کے گرد پہلے ہی کئی پرستاروں کا ہجوم ہوتا۔

یہی مسلسل انکار، یہی ٹھکرا دیے جانے کا احساس، اس کے اندر تلخی بھر دیتا۔  وہ ہر لڑکی کو اپنی حریف سمجھنے لگی۔  لیکن نیاگیتی—ہائے نیاگیتی—تو ایک زخم تھی جو کبھی بھرتا نہ تھا۔  وہ مغرور تھی، بے نیاز تھی، جیسے اس دنیا سے ماورا ہو۔  مگر اس کے آس پاس ہمیشہ مردوں کا ہجوم ہوتا؛ وہ ان سے لڑتی، جھگڑتی، اور پھر وہی مرد معافی کی صورت میں تحفے لاتے جنہیں وہ بلا تردد قبول کر لیتی—گویا یہ سب اس کا پیدائشی حق ہو۔  وہ بور ہوتی، بیزار، کبھی حقارت بھرا تاثر لیے بیٹھ جاتی، اور تب بھی مرد اس کی سنگ دلی کو گویا عشرت سمجھ کر لپکتے، جیسے ان کے لیے یہ بے نیازی ہی سب سے حسین دعوت ہو۔

نیاگیتی بھی ایک پرندہ ہی تھی—جو کسی ایک شاخ پر ٹھہرتا نہیں تھا۔  لیکن بیٹریس سے فرق یہ تھا کہ وہ بے قراری اس کی جبلت تھی، تسخیر کی خواہش اس کی فطرت، چہروں اور مناظر کی تبدیلی اس کی غذا۔  بیٹریس کو نیاگیتی کا سایہ بھی گوارا نہ تھا، کیونکہ اس میں وہ عکس جھلکتا تھا جسے وہ خود بننا چاہتی تھی—ایک ایسی عورت جو بار کی خونخوار دنیا میں مکمل طور پر گھل چکی ہو، مگر اس سے بلند بھی ہو، آزاد بھی۔

اور جہاں بھی بیٹریس جاتی، نیاگیتی کا سایہ اس کے قدموں کو جا لیتا۔

آخر کار وہ لمورو سے بھاگ نکلی اور چیری ضلعے کے قصبے الموروگ کی راہ لی۔  ایک زمانے میں الموروگ محض ایک ویران بستی تھی، لیکن ایک دیومالائی عورت ’نیانگ’اندو‘ کی وجہ سے یہ زندگی کی علامت بن گئی تھی۔  وہی نیانگ’اندو جسے ہر پاپ گروپ نے اپنے نغموں میں خراجِ عقیدت پیش کیا۔  وہی نیانگ’اندو جس کے بارے میں مقامی نوجوان فنکار مَتھو اور مُچُنگ’وا گاتے تھے:

جب میں نیروبی سے الموروگ آیا

مجھے کیا خبر تھی

کہ میں یہاں ایک عجوبہ جننے والا ہوں —

نیانگ’اندو۔

یوں الموروگ کو ہمیشہ امید کا شہر سمجھا جاتا—ایسا مقام جہاں تھکے ہارے اور پامال روحیں کچھ دیر کو سستانے آئیں، جہاں پیاسے خوابوں کو تازہ پانی ملے۔  مگر بیٹریس کی طرح نیاگیتی بھی وہاں آ پہنچی۔

بیٹریس کو جلد ہی احساس ہوا کہ الموروگ، اپنے قصے، گیتوں اور رقصوں کے باوجود، لمورو سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔  اس نے کئی حربے آزمائے۔  لباس؟ مگر یہاں بھی وہ اتنا نہ کما پاتی کہ چمکتے دمکتے کپڑے خرید سکے۔  آخر پچھتر شلنگ مہینے کی اجرت، وہ بھی بغیر رہائش، راشن یا کسی تنخواہ دار عاشق کے، کیا بگاڑ سکتی تھی؟ تب تک ’ایمبی‘ نامی رنگ گورا کرنے والی کریم الموروگ پہنچ چکی تھی۔  بیٹریس کو لگا کہ شاید اب قسمت بدلنے والی ہے۔  لمورو میں اس نے کئی لڑکیوں کو دیکھا تھا جو اس سے بھی زیادہ کالی تھیں، مگر ایمبی کے ایک ہلکے سے لمس سے راتوں رات سیاہ گناہوں سے سفید ستارے بن گئی تھیں۔  مرد ان پر نظریں جماتے، اور بڑے فخر سے ان کی نئی نئی محبوباؤں کا ذکر کرتے۔

بیٹریس اکثر سوچتی، مرد کتنے عجیب ہوتے ہیں! وہ بظاہر ایمبی، بٹون، فائر اسنو، مون اسنو جیسی کریموں، نقلی بالوں، اور سیدھے کیے ہوئے بالوں کے خلاف بولتے ہیں، مگر حقیقت میں انہی لڑکیوں پر مرتے ہیں جن کے چہرے ایمبی سے سفید کیے گئے ہوں اور جن کے سر پر یورپی یا بھارتی طرز کے وِگ سجے ہوں۔  بیٹریس نے کبھی اس گہری خود نفی کی جڑ تلاش نہیں کی—وہ اس تضاد کو خاموشی سے قبول کر گئی، اور ایمبی کو انتقام کی صورت میں اپنے جسم پر ملنے لگی۔  اسے اپنے سیاہ ہونے کی شرمندگی دھونا تھی۔

لیکن ایمبی بھی پوری طرح میسر نہ تھی—وہ صرف چہرے اور بازوؤں تک محدود رہ گئی، جب کہ اس کی گردن اور ٹانگیں اب بھی اپنے اصل رنگ میں رہیں۔  چہرے کے کچھ حصے —کانوں کے پیچھے، پلکوں کے اوپر—تو ایسے تھے جہاں وہ ہاتھ ہی نہ پہنچا پاتی، اور یہی حصے اس کے لیے مستقل شرمندگی اور کوفت کا باعث بنتے۔

یہ ’ایمبی کا دور‘ّ وہ ہمیشہ یاد رکھے گی—اپنی آنے والی ’عظمت کے چند لمحوں ‘ سے پہلے کی سب سے گہری ذلت کا زمانہ۔

الموروگ میں وہ اسٹار لائٹ بار اینڈ لاجنگ میں کام کرنے لگی۔  نیاگیتی، اپنے چوڑیوں سے بھرے ہاتھوں اور بڑے جھمکوں کے ساتھ، کاؤنٹر کے پیچھے موجود تھی۔  بار کا مالک بظاہر ایک نیک مسیحی تھا، چرچ جاتا، ہر ہرامبی منصوبے میں عطیہ دیتا، نرم گو، پیٹ نکلا ہوا، سفید بالوں والا، اور اپنی جگہ (’با وقار خاندانی شخص‘۔  وہ بار کو رات کے آخری لمحے تک نہیں چھوڑتا—یا زیادہ درست کہا جائے، جب تک نیاگیتی وہاں سے نہ جاتی، وہ بھی وہیں رکا رہتا۔

اس کی نگاہ کسی اور لڑکی پر نہیں تھی۔  وہ نیاگیتی کے گرد منڈلاتا، اسے خفیہ طور پر کپڑے کے تحفے دیتا، بدلے میں کچھ نہیں پاتا—سوائے وعدوں کے، امیدوں کے، کل کے خیالوں کے۔  باقی لڑکیوں کو وہ مہینے کے اسی شلنگ دیتا۔  مگر نیاگیتی کو ایک الگ کمرہ ملا ہوا تھا؛ وہ جب چاہتی، اسٹاک چیک کرنے اٹھتی۔  جبکہ بیٹریس اور باقی لڑکیاں صبح پانچ بجے جاگتیں، رہائشیوں کے لیے چائے بناتیں، بار کی صفائی کرتیں، برتن دھوتیں۔  پھر باری باری بار میں موجود رہتیں، یہاں تک کہ دو بجے تھوڑی دیر کی مہلت ملتی۔  اور شام پانچ بجے پھر حاضر ہونا ہوتا، بیئر کے جھاگ اور مسکراہٹوں کے ساتھ گاہکوں کی خدمت کے لیے —رات بارہ بجے تک، یا جب تک کوئی پیاسا باقی رہتا۔

بیٹریس کو جو سب سے زیادہ ناگوار گزرتا، وہ مالک کی یہ ضد تھی کہ تمام لڑکیاں اسٹار لائٹ میں ہی سوئیں۔  کہتا، باہر رہیں گی تو وقت پر نہ پہنچیں گی۔  لیکن اصل میں، وہ چاہتا تھا کہ لڑکیاں اپنے جسموں سے لاجنگ میں گاہک لائیں۔

زیادہ تر لڑکیاں، نیاگیتی کی قیادت میں، اس قاعدے کو توڑتیں ؛ چوکیدار کو رشوت دیتیں اور رات بھر اپنی آزادی سے لطف اندوز ہوتیں۔  وہ چاہتی تھیں کہ کچھ وقت وہ بار گرل نہیں بلکہ آزاد عورت بن کر گزاریں۔  بیٹریس ہمیشہ وہیں سوتی۔  اس کے عارضی گاہک بھی زیادہ خرچ نہ کرتے۔

پھر ایک رات، جب نیاگیتی نے مالک کو ٹھکرا دیا، اس نے بیٹریس کا رخ کیا۔  پہلے اس کے کام میں نقص نکالا، پھر گالیاں دیں، اور پھر اچانک مدح سرائی شروع کر دی—ایسی تعریف جس میں تحقیر چھپی تھی۔  وہ اس پر جھپٹا، اس سے الجھا—پیٹ نکلا ہوا، سفید بال، اور سب کچھ۔

بیٹریس کو اس مرد سے عجیب سی گھن محسوس ہوئی۔  وہ نہ کر سکی، نہ کرنا چاہتی تھی، اسے گلے لگانا جسے نیاگیتی نے حال ہی میں ٹھکرا دیا تھا۔  ’’یا خدا!‘‘ اس نے دل میں رو کر کہا، ’’نیاگیتی میں ایسا کیا ہے جو مجھ میں نہیں؟‘‘

اب وہ آدمی اس کے سامنے گڑگڑایا، تحفوں کے وعدے کیے۔  مگر بیٹریس نے ہار نہ مانی۔

اسی رات، اس نے بھی ضابطہ توڑ دیا۔  کھڑکی سے چھلانگ لگائی، کسی دوسرے بار میں پناہ لی، اور صبح چھ بجے واپس لوٹی۔  مالک نے سب کے سامنے اسے بلایا اور نوکری سے نکال دیا۔

مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ بیٹریس خود پر حیران تھی—ایک خاموش فخر میں لپٹی ہوئی حیرت۔

وہ ایک مہینے تک بے روزگار رہی۔  ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک، دوسری لڑکیوں کی بے ثبات مہربانی پر جیتی رہی۔  دل نہ مانا کہ الموروگ کو چھوڑے اور کسی نئے شہر میں از سرِ نو سب کچھ شروع کرے۔  زخم ابھی تازہ تھا، اور وہ مسلسل بھٹکنے سے تھک چکی تھی۔  اس نے ’ایمبی‘ کا استعمال چھوڑ دیا—پیسے نہیں تھے۔  جب آئینے میں خود کو دیکھا، تو حیرت ہوئی کہ وہ کتنی بوڑھی لگنے لگی ہے —محض ایک سال بعد، جب وہ عزت کی سیڑھی سے گری تھی۔

تب وہ خود سے سوال کرتی:  جب سب کچھ چھن چکا، تو پھر یہ اصول پسندی کیوں؟ لیکن پھر بھی، کسی عاشق کی منت سماجت کرنا یا اپنا جسم نقد پیسے کے عوض بیچ دینا، اسے گھناتا تھا۔  جو وہ چاہتی تھی وہ تھا با عزت روزگار، اور کوئی ایک مرد—یا کئی—جو اس کی پروا کریں۔  شاید وہ مرد، گھر، اور بچے کی اس خواہش کو اپنے ساتھ بستر میں لے جاتی تھی۔  شاید یہی سچی طلب ان مردوں کو خوفزدہ کر دیتی تھی جو بار گرلز سے کچھ اور ہی چاہتے تھے۔

وہ راتوں کو دیر تک روتی، اور ’گھر‘ یاد آتا۔  ایسے لمحوں میں، نیئری کے پہاڑی گاؤں میں ماں کا آنگن دنیا کی سب سے مقدس جگہ معلوم ہوتا۔  وہ اپنے کسان ماں باپ کی زندگی کو رومانویت کے رنگوں میں رنگتی—ایسی زندگی جو شانتی اور ہم آہنگی سے لبریز ہو۔  اس کا جی چاہتا کہ لوٹ جائے، جا کر انہیں دیکھے۔  لیکن خالی ہاتھ کیسے جاتی؟ اور ویسے بھی، وہ جگہ اب ایک دھندلی یاد بن چکی تھی، ایک ذہنی نقشہ—اور حقیقت یہ تھی کہ اس کی زندگی اب اس بار میں تھی، ان اجنبیوں کی بھیڑ میں جو خود گمشدہ تھے۔

’زوال پذیر ہو چکی ہوں، زوال پذیر ہو چکی ہوں ‘—یہ جملہ اس کے دل پر نقش ہو چکا تھا۔

وہ اس نسل کا حصہ تھی جو دوبارہ کبھی زمین، فصلوں، ہوا اور چاند سے ہم آہنگ نہ ہو سکے گی۔  نہ اس کے لیے جھاڑیوں کی سرگوشیاں، نہ چاندنی راتوں میں رقص اور وصل کے وہ لمحے جن میں تموتمو کی پہاڑیاں آسمان کو چھوتی دکھائی دیتیں۔  اسے اپنے گاؤں کی وہ لڑکی یاد آئی جو ایک امیر مرد سے دوسرے امیر مرد کی رکھیل بنی، بظاہر ایک پر تعیش زندگی گزارتی رہی، مگر آخرکار خود کو گیس میں جھونک کر مار ڈالا۔

یہ نسل زندگی کے بھید سے ویسے ہی غافل تھی جیسے موت کی حرمت سے۔  کتنی ماؤں نے اپنی ناجائز اولاد کو بیت الخلا میں پھینک دیا، محض اس چمکتی زندگی کے بھرم کو بچانے کے لیے؟

اس لڑکی کی موت ایک لطیفہ بن گئی۔  لوگ کہتے:  ’وہ میٹرک ہو گئی—بغیر تکلیف کے!‘ بیٹریس نے بھی ایک ہفتے تک سوچا، شاید وہ بھی ’میٹرک ہو جائے‘—لیکن آخرکار خود کو اس دہانے تک نہ لے جا سکی۔

وہ محبت چاہتی تھی۔  وہ زندگی چاہتی تھی۔

پھر الموروگ میں ایک نیا بار کھلا:  ٹری ٹاپ بار، لاجنگ اور ریسٹورنٹ۔  ’ٹری ٹاپ‘ کیوں رکھا گیا؟ بیٹریس کو سمجھ نہ آیا، شاید اس لیے کہ یہ ایک منزلہ عمارت تھی—نیچے چائے کا کمرہ، اوپر بیئر کی دکان، اور باقی کمرے اُن گاہکوں کے لیے جو پانچ منٹ یا ایک رات بسر کرنے آتے تھے۔

اس بار کا مالک ایک ریٹائرڈ سرکاری افسر تھا، مگر ابھی بھی سیاست کی چالوں میں دلچسپی رکھتا تھا۔  اس کے کاروبار پورے ملک کے بڑے شہروں میں پھیلے ہوئے تھے۔  ملک بھر کے بڑے لوگ اس کے بار میں آتے —مرسڈیز میں، بینٹلے میں، جیگوار اور ڈائملر میں۔  ان کے ڈرائیور وردیوں میں ملبوس گاڑیوں میں اکتاہٹ سے اونگھتے رہتے۔  اور کچھ نسبتاً چھوٹے لوگ بھی آتے، ان بڑے لوگوں کو سلام کرنے۔

وہ زیادہ تر سیاست کی باتیں کرتے، اپنی ترقیوں اور دوسروں کی برطرفیوں پر تبصرے کرتے۔  ’’کیا پتا ہے؟ فلاں ترقی پا گیا ہے!‘‘

’ ’واقعی؟ اور فلاں کو نکال دیا گیا—عوامی خزانے میں خیانت کی۔  بالکل احمق تھا۔  چالاکی سے کام نہ لیا!‘ ‘ وہ لڑتے، جھگڑتے، حتیٰ کہ کبھی ہا تھا پائی بھی ہو جاتی، خاص طور پر الیکشن کے دنوں میں۔

ایک بات پر سب متفق ہوتے:  ’’لوو قوم ہی کینیا کے تمام مسائل کی جڑ ہے!‘‘

وہ کہتے:  ’’یونیورسٹی کے طالبعلم اور دانشور خود کو آسمانی میناروں میں بند کر چکے ہیں!‘‘

’’کیامبو میں ترقی بہت زیادہ ہو گئی!‘‘

’’نیئری اور مورانگا کے لوگ نیروبی کے سارے بڑے کاروبار ہتھیا چکے ہیں، اب تو چیری ضلعے پر بھی قبضہ چاہتے ہیں!‘‘

’’افریقی مزدور سست اور حسد سے بھرے ہوئے ہیں —ہم نے تو محنت سے خوشحالی کمائی ہے!‘‘

یہ لوگ اپنی تعریف خود کرتے، ایک دوسرے کی مدح سرائی میں بھی پیچھے نہ رہتے۔  کبھی نشے میں چور ہو کر کسی بڑے کا دل پگھل جاتا، اور وہ بار میں موجود ہر شخص کے لیے دو چکر کا آرڈر دیتا۔  یہاں تک کہ الموروگ کے غریب بھی کبھی کبھار ’نو دولتیوں کے دروازے‘ پر آ بیٹھتے۔

اسی جگہ بیٹریس کو نوکری ملی—فرش صاف کرنے اور بستر بنانے کی۔  اور کچھ ہفتوں تک اسے لگا جیسے وہ عظمت کے کچھ قدم قریب آ گئی ہو۔  اب وہ ان مردوں کے بستر بناتی تھی جنہیں وہ پہلے صرف ناموں سے جانتی تھی۔

وہ دیکھتی کہ کیسے غریب لوگ بھی بڑوں کے سامنے خود کو ’بڑا‘ دکھانے کی کوشش کرتے۔  لیکن قسمت کا چکر جلد ہی پھر گیا۔  دوسرے بارز سے لڑکیاں ٹری ٹاپ کی طرف کھنچ آئیں۔  کچھ وہ تھیں جنہیں بیٹریس لمورو میں جانتی تھی، کچھ وہ جو الموروگ میں اس کی ساتھی رہی تھیں۔  اور اب وہ سب کسی نہ کسی بڑے آدمی سے منسلک تھیں —چھپنے، نظر نہ آنے، یا بیک وقت کئی عاشقوں کو سنبھالنے کا کھیل جاری تھا۔

اور نیاگیتی؟ وہ بھی وہیں تھی، کاؤنٹر کے پیچھے —امیر و غریب سب کی نگاہیں اس پر جمی تھیں۔  اور وہ، اپنے بڑے بڑے آنکھوں، کنگنوں اور جھمکوں کے ساتھ، وہی بے نیاز، بیزار، سنبھلا ہوا انداز لیے کھڑی تھی۔

بیٹریس، اب محض جھاڑو دینے والی، اب محض بستر بچھانے والی، مزید غیر محسوس، مزید نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔  وہ لڑکیاں جو قسمت کی دیوی کی مسکراہٹ پا چکی تھیں، اسے تحقیر سے دیکھتی تھیں۔

اور بیٹریس؟ وہ زندگی سے خوابوں کے ذریعے لڑتی تھی۔

جب وہ تازہ چادریں اُن بستروں پر بچھاتی جو ابھی ابھی کسی پانچ منٹ کی چیخ یا ایک بکھرے لمحے کے بعد خالی ہوئے تھے، تو وہ کھڑکی کے پاس جا کر کاریں اور ڈرائیور دیکھتی، یہاں تک کہ نمبر پلیٹس اور وردیوں سے وہ سب کو پہچاننے لگی۔

وہ خواب دیکھتی:  ایک مرد جو صرف اُس کے لیے آتا، دو سیٹوں والی چمچماتی مرسڈیز میں۔  وہ خود کو اس کے ساتھ نیروبی اور ممباسا کی گلیوں میں چلتا دیکھتی—اونچی ایڑی والے جوتے، چھوٹے چھوٹے، تیز تیز قدم—اور پھر اچانک کسی شو کیس کے سامنے رکتی، خوشی سے پکارتی:  ’’اوہ، جان! کیا تم میرے لیے وہ…؟‘‘

’’کیا؟‘‘ وہ غصے کا ناٹک کرتے ہوئے پوچھتا۔  ’’وہ جرابیں، جانِ من!‘‘

جرابیں! کئی جوڑ، بغیر سوراخوں کے، بغیر رفو کیے گئے۔

یہی اس کی خوشحالی کا پیمانہ تھا۔

پھر وہ خود کو طرح طرح کے وِگز میں دیکھتی—سنہری، بھورے، سرخ، افریقی، یورپی—دنیا کے ہر رنگ، ہر طرز کا وِگ! اور تب، وہ یقین سے سوچتی، تبھی یہ زمین ایک نغمہ گائے گی:  ‘ہالیلویا، بیٹریس زندہ ہے!’

ایسے لمحوں میں وہ خود کو بلند محسوس کرتی، اپنی دھندلی زندگی سے بلند، وہ اب فرش صاف کرنے والی اور لمحاتی وصل کے بستر بچھانے والی نہ رہتی، بلکہ بیٹریس بنتی—وانگو ماکری کی وارث، وہ عورت جس کے چاندنی میں بھیگے جسم سے مرد لرز اٹھتے، اور نیانگ’اندو کی بیٹی، جدید الموروگ کی بانی، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس نے کئی عاشقوں کو نامرد بنا دیا۔

پھر وہ اُسے نظر آیا—ایک ایسا شخص جو اُس کے خوابوں کے عاشق سے بالکل مختلف تھا۔  وہ ہفتے کی دوپہر ایک بھاری بھرکم پانچ ٹن وزنی لاری چلاتا ہوا آیا۔  اس نے لاری کو مرسڈیز، جیگوارز اور ڈائملرز کے ساتھ اس انداز سے پارک کیا، جیسے وہ بھی انہی میں سے کوئی قیمتی اور پرکشش سواری ہو—وہ اپنی گاڑی پر فخر محسوس کرتا تھا۔  اس نے ڈھیلا ڈھالا سا خاکستری سوٹ پہن رکھا تھا، جس کے اوپر ایک بھاری خاکی رنگ کی فوجی کوٹ اوڑھی ہوئی تھی۔  اس نے کوٹ اتار کر نہایت احتیاط سے تہہ کیا، سامنے والی نشست پر رکھا، تمام دروازے بند کیے، خود کو تھوڑا سا جھاڑا، اور پھر لاری کے گرد یوں چکر لگایا جیسے کوئی ماہر مکینک اس کا معائنہ کر رہا ہو۔  ٹری ٹاپ میں داخل ہونے سے ذرا پہلے وہ رُکا، مُڑا، اور آخری بار اپنی لاری پر محبت بھری نظر ڈالی، جو باقی سب گاڑیوں کو بونا بنا دیتی تھی۔

ٹری ٹاپ میں داخل ہو کر وہ ایک کونے میں بیٹھ گیا، اور کچھ بلند، پر غرور آواز میں بولا:  ’کینیا وَن!‘ اُس نے شراب کو لذت سے پیا، اور آس پاس کی نظریں تلاش کرنے لگا—کیا کوئی جانا پہچانا چہرہ دکھے۔  ایک بڑا آدمی اسے نظر آیا، تو اس نے فوراً اس کے لیے ’ویٹ ۶۹‘ کی ایک چوتھائی بوتل منگوائی۔  اُس شخص نے بس سر ہلا کر، کچھ حقارت سے مسکرا کر شکر ادا کیا۔  مگر جب لاری والے نے بات کرنے کی کوشش کی تو اُسے نظرانداز کر دیا گیا۔  وہ سن ہو گیا، اپنی ’موراتی‘ میں ڈوب گیا۔  لیکن صرف کچھ دیر کے لیے۔

اس نے دوبارہ کوشش کی۔  اور پھر تیوریوں کا سامنا کرنا پڑا۔  سب سے زیادہ دردناک اس کی لطیفوں میں شامل ہونے کی کوشش تھی؛ وہ حد سے زیادہ زور سے ہنستا، اور سب بات روک دیتے، اُسے تنہا چھوڑ کر۔

شام ڈھلے وہ اُٹھا، کچھ نوٹ گنے —صاف ستھرے سو شلنگ والے نوٹ—اور نیاگیتی کے حوالے کیے، گویا حفاظت کے لیے۔  لوگ سرگوشیاں کرنے لگے، چند ایک ہنسے بھی—کچھ مذاق سے، کچھ حیرت سے۔  لیکن یہ ادا بھی اُسے قبولیت نہ دلا سکی۔  وہ لڑکھڑاتا ہوا کمرہ نمبر سات کی طرف چلا، جو اُس نے کرائے پر لیا تھا۔  بیٹریس چابی لے کر آئی۔  اُس نے ایک نظر اس پر ڈالی، پھر جیسے دلچسپی ہی کھو دی ہو۔

اس کے بعد وہ ہر ہفتے، ہفتہ کی شام پانچ بجے آتا، جب بار میں بڑے لوگ موجود ہوتے۔  وہ وہی رسم دہراتا، سوائے پیسے دینے کے۔  اور ہر بار اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا۔  ہمیشہ وہی کونا، ہمیشہ وہی کمرہ نمبر سات۔

رفتہ رفتہ بیٹریس کو اس کی آمد کا انتظار ہونے لگا—لا شعوری طور پر وہ کمرہ اس کے لیے تیار رکھتی۔  جب وہ بڑے لوگوں کے درمیان ذلت اُٹھاتا، تو اکثر بیٹریس کو روک لیتا۔  یا یوں کہیے، کہ وہ اپنے دل کا بوجھ اُس کے سامنے انڈیل دیتا، جیسے بیٹریس صرف ایک سُننے والی دیوار ہو۔

وہ بتاتا کہ کیسے اس کی زندگی مسلسل جد و جہد کا سفر رہی۔  وہ کبھی اسکول نہ جا سکا، حالانکہ تعلیم اُس کا خواب تھا۔  موقع ہی نہ ملا۔  اس کا باپ رفٹ ویلی میں یورپی نوآبادی کے علاقوں میں ایک کسان مزدور تھا۔  اور اُس وقت یہ حیثیت بہت کچھ کہتی تھی—یہ ایک ایسی نسل تھی جو سفید فام شیطانوں اور اُن کی اولادوں کے لیے ہمیشہ مشقت کرنے کے لیے مقدر ہو چکی تھی۔

اس نے آزادی کی جنگ میں شرکت کی، اور دوسروں کی طرح قید و بند کا سامنا کیا۔  جب وہ جیل سے نکلا، تو اُس کے پاس وہی کچھ تھا جو پیدائش کے وقت تھا—کچھ بھی نہیں۔

آزادی کے بعد اُسے علم ہوا کہ جس تعلیم کی اُسے محرومی تھی، وہی اُس کی راہ کا سب سے بڑا روڑا ہے —وہ ان نشستوں کے لیے نا اہل تھا جو ملک میں طاقت کا سرچشمہ تھیں۔  اُس نے کوئلے جلانے سے آغاز کیا، پھر قصاب بنا، اور آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے رفٹ ویلی اور چِری اضلاع سے نیروبی سبزیاں اور آلو لانے والا بڑا ٹرانسپورٹر بن گیا۔

اسے اپنی محنت پر فخر تھا، لیکن دل میں وہ اُن لوگوں سے خفا رہتا جو قرضے، مراعات یافتہ تعلیم اور سرکاری اسکیموں کی مدد سے اوپر چڑھے تھے، اور اب اُسے اپنا ہم پلہ تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے۔

وہ اسی موضوع پر بولتا رہتا—اس تعلیم پر جو اُسے کبھی نہ ملی، اُن خوابوں پر جو اُس کے لیے چھن چکے تھے، اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی خواہش پر۔

پھر وہ رقم گنتا، تکیے کے نیچے رکھتا، اور بیٹریس کو رخصت کر دیتا۔  کبھی کبھار اُس کے لیے ایک بیئر منگواتا، مگر عورتوں کے بارے میں اُس کی رائے واضح تھی:  وہ مردوں کی دولت کھا جانے والی مخلوق تھیں۔  وہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔

ایک رات اُس نے بیٹریس کے ساتھ رات گزاری۔  صبح اُس نے جیب سے بیس شلنگ نکال کر اُسے دے دیے۔  بیٹریس نے وہ رقم ایک عجیب سی شرمندگی کے ساتھ قبول کی۔

یہ سلسلہ کئی ہفتے جاری رہا۔  رقم بے شک اس کے کام آتی تھی، لیکن وہ محسوس کرتی تھی کہ جیسے اُس کے وجود کی قیمت ایک بوری آلو یا کسی سبزی کی بوری کے برابر طے کر دی گئی ہو۔  اس ایک پاؤنڈ سے اُس مرد نے اس کے جسم کا کرایہ ادا کیا، اس کے کان کا، اُس کے صبر کا، اُس کی ایک رات کے بستر کا۔

بیٹریس اب اس کے خود پرستی بھرے قصوں سے اُکتانے لگی تھی، جو ہر بار ایک ہی دھُن پر چلتے۔  مگر پھر بھی، اُس مرد میں کہیں، بہت گہرائی میں، وہ کچھ محسوس کرتی تھی—جیسے کوئی آگ، کوئی بیج، کوئی پھول، جو ابھی تک دفن ہے، مگر مر چکا نہیں۔

وہ اس میں ایک ہم درد روح دیکھتی تھی۔  اور اُسے اُس کی آمد کا انتظار رہنے لگا۔  کیونکہ بیٹریس بھی کسی ایسے کو چاہتی تھی جس سے دل کی بات کہی جا سکے۔  کوئی ایسا جو سمجھے۔

اور ایک شب، وہ لمحہ آ گیا۔

ایک ہفتے کی شام، جب وہ حسبِ معمول اپنے دکھ بھری جد و جہد کی کہانی سنا رہا تھا، بیٹریس نے اچانک اُسے ٹوکا—نہ جانے کیوں۔  شاید بارش کی ٹپ ٹپ تھی، جو نالیاں بجاتی چھت پر خاموشی سے بج رہی تھی، جیسے سُننے کے لیے دل کو آمادہ کرتی ہو۔

’’وہ سنے گا۔  اُسے سننا ہو گا‘‘، اس نے دل میں سوچا۔

وہ نیئری کے قصبے کَرَتِینا سے آئی تھی۔  اُس کے دو بھائی برطانوی سپاہیوں کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنے۔  ایک اور بھائی قید میں دم توڑ گیا۔  وہ یوں سمجھیے کہ اکلوتی تھی۔

اُس کے ماں باپ غریب تھے، مگر زمین کی چمڑی پر محنت کرتے تھے، اور پرائمری اسکول کی فیس ادا کرتے رہے۔  چھ برس وہ دلجمعی سے پڑھتی رہی، ساتویں برس شاید کچھ ڈھیلی پڑ گئی۔  نتیجہ اچھا نہ آیا۔  وہ جانتی تھی کہ اُس جیسے نمبر رکھنے والے کئی لڑکے اچھے سرکاری اسکولوں میں داخل ہو گئے تھے۔  کچھ تو اس سے بھی کم نمبروں پر، محض سفارش کے زور پر، بڑے بڑے اداروں میں پہنچ گئے۔

مگر وہ کسی اسکول میں نہ بلائی گئی، اور اُس کے والدین ہارمبی اسکول کی فیس نہیں اُٹھا سکتے تھے۔  اور بیٹریس دوبارہ ساتویں جماعت پڑھنے کو تیار نہ تھی۔

سو وہ ماں باپ کے ساتھ گھر میں رہنے لگی۔  کبھی کبھار کھیتوں میں یا گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹاتی۔  لیکن ذرا سوچیے:  چھ برس اُس نے ایک ایسی زندگی گزاری تھی جو اُس کے والدین سے الگ تھی، ایک مختلف لے، ایک اور سانس۔

گاؤں کی زندگی بے رنگ تھی۔  وہ اکثر کَرَتِینا اور نیئری جاتی، روزگار کی تلاش میں۔  ہر دفتر میں وہی سوال:  ’’تم کیا کام جانتی ہو؟ ٹائپنگ آتی ہے؟ شارٹ ہینڈ آتی ہے؟‘‘

وہ مایوس ہو گئی تھی۔

پھر ایک دن، نیئری میں، ایک دکان میں بیٹھی فینٹا پی رہی تھی، آنکھوں میں آنسو۔  تب ایک نوجوان نے، کالے سوٹ اور سن گلاسز میں، اُس کی حالت دیکھی، اُس سے بات کی۔  وہ نیروبی سے آیا تھا۔

’’نوکری چاہیے؟ یہ تو کچھ بھی نہیں۔  بڑے شہر میں کام کی کمی نہیں۔  میں مدد کروں گا۔‘‘

سفر؟ اُس کے پاس کار تھی—کریمی سفید پیجو۔  اُف، جیسے جنت کا دروازہ کھل گیا ہو۔

یہ ایک خوبصورت سفر تھا—نئی صبح کی امید لیے۔  نیروبی۔  اُس نے اُسے ٹیرس بار لے گیا۔  وہاں بیئر پی، باتیں ہوئیں، کھڑکی سے روشن شہر جھلملاتا دکھائی دیا—امید کا چمکتا ہوا جہان۔

اس رات، بیٹریس نے خود کو اُس کے حوالے کر دیا۔  صبح کی نوید میں سب کچھ ممکن لگا۔  اور وہ گہری نیند سو گئی۔

جب صبح آنکھ کھلی، تو وہ نوجوان، وہ کریمی پیجو، سب غائب تھا۔  وہ اُسے دوبارہ کبھی نہ ملی۔

یوں بیٹریس ایک بار گرل بن گئی۔

ڈیڑھ سال ہو چکے تھے، اور وہ اب تک اپنے والدین کو دیکھنے بھی نہیں جا سکی تھی۔

وہ زار و قطار رونے لگی—شرم، شکست اور تنہائی اُس کے گلے میں اٹک گئی۔

وہ بار کلچر میں کبھی رچ بس نہ سکی۔  ہمیشہ اُمید کی کوئی کرن دل میں دبی رہی۔

مگر اب؟ وہ قید ہو چکی تھی۔  اور یہی زندگی اُس کا سچ تھی۔

اس نے اپنے اندر ایک عجیب سا خلا محسوس کیا—خالی پن جیسے روح میں کوئی کھنڈر آباد ہو گیا ہو۔  پھر اچانک تلخی کی ایک کڑوی بوند اس کے اندر ٹپکی، اور آہستہ آہستہ پھیل گئی۔  وہ رونا چاہتی تھی—اپنی اس نئی شکست پر۔  وہ کئی مردوں سے ملی تھی، جنہوں نے اس کے ساتھ سختی کی تھی، اس کے اصولوں کا مذاق اُڑایا تھا، اسے ایک ناکام معصومیت کی ادا سمجھا تھا۔  وہ سب سہہ گئی تھی۔

مگر یہ نہیں —نہیں خدا، یہ نہیں۔

یہ شخص… کیا یہ بھی تو اس کا ساہی دکھ جھیلنے والا نہ تھا؟ ہفتہ در ہفتہ وہ اسی کے سامنے تو اپنی تھکن اتارتا تھا۔  اُس نے اس کی انسانی موجودگی کا کرایہ ادا کیا تھا—ایک بوتل ٹسکر اور صبح کے وقت ایک ٹھوس کرنسی نوٹ کے ساتھ۔  اس کی روح کی ہلچل، اس مرد کے لیے ایک لوری بنی رہی۔

اور پھر… بیٹریس کے اندر کوئی شے ٹوٹ گئی۔

ایک سال اور چھ ماہ کا زہر، ساری تذلیل، سارا صبر، سب کچھ اس مرد کی طرف متوجہ ہو گیا۔

جو اس نے اُس کے ساتھ کیا، وہ کسی تربیت یافتہ ہاتھ کی طرح بے رحم، عین نشانے پر تھا۔

اس نے اس کی آنکھوں کو چھوا—وہ گہری نیند میں تھا۔  اس کا سر اٹھایا، چھوڑ دیا۔  اس کی آنکھیں خشک تھیں، مگر سرد، غیر متزلزل۔  اس نے اس کے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالا، رقم نکالی—پانچ گلابی، صاف ستھرے نوٹ۔  وہ نوٹ اپنے سینہ بند میں رکھے، اور کمرہ نمبر سات سے باہر نکل گئی۔

باہر اب بھی بارش ہو رہی تھی۔

وہ اپنے معمول کے کمرے کی طرف نہ گئی۔  وہ تنگ سی کوٹھری، وہ ہم کمرہ لڑکی کی بے تحاشا بڑبڑاہٹ، اب اس سے برداشت نہ ہوتی تھی۔

وہ بارش اور کیچڑ میں چلتی گئی… چلتی گئی۔

پھر اسے ہوش آیا کہ وہ نیاگیتی کے کمرے کے سامنے کھڑی تھی۔  اُس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

پہلے کوئی جواب نہ آیا۔  پھر بارش کے نغمے کے بیچ، نیاگیتی کی نیند میں ڈوبی آواز ابھری:

’’کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں۔  کھولو۔‘‘

’’کون؟‘‘

’’بیٹریس۔ ‘‘

’’اس وقت رات گئے؟‘‘

’’براہِ کرم۔‘‘

روشنی آن ہوئی، کنڈیاں کھلیں، دروازہ کھلا۔

بیٹریس اندر داخل ہوئی۔

وہ دونوں آمنے سامنے کھڑی تھیں۔  نیاگیتی ایک نیم شفاف نائٹ ڈریس میں ملبوس تھی، جس پر اس نے ایک ہلکا سبز پُل اوور پہنا ہوا تھا۔

’’بیٹریس، سب خیر ہے؟‘‘ اُس نے آخر پوچھا، آواز میں ہلکی سی فکر تھی۔

’’کیا میں کچھ دیر یہاں آرام کر سکتی ہوں؟ میں تھک گئی ہوں۔  اور… میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ بیٹریس کی آواز میں ایک عجیب وقار اور یقین تھا۔

’’مگر کیا ہوا ہے؟‘‘

’’میں تم سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، نیاگیتی۔‘‘

وہ دونوں اب تک کھڑی تھیں۔

پھر، بنا کسی لفظ کے، دونوں بستر پر بیٹھ گئیں۔

’’تم نے گھر کیوں چھوڑا، نیاگیتی؟‘‘ بیٹریس نے پوچھا۔

کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔  نیاگیتی جیسے سوچ رہی ہو۔

پھر اُس نے بولنا شروع کیا، ہلکی کپکپاتی آواز میں:

’’یہ ایک لمبی کہانی ہے، بیٹریس۔  میرے والدین نسبتاً خوشحال اور نیک مسیحی تھے۔  ہمارے گھر میں اصول ہی اصول تھے۔  غیر مذہبیوں کے ساتھ نہ گھلنا، ان کے رسم و رواج—ناچ، گانا، ختنہ جیسی رسومات—سے دور رہنا۔  کھانے کے اوقات، طریقے، ہر بات کا ضابطہ تھا۔  ایک عیسائی خاتون کی طرح چلنا، مردوں کے ساتھ نہ دیکھا جانا—یہ سب لازمی تھا۔  ایک دن، میں اور ایک اور لڑکی، جو میرے جیسی ہی گھریلو پس منظر کی تھی، اسکول سے سیدھا گھر جانے کے بجائے، ایسٹلی بھاگ گئیں۔  تب سے لے کر اب تک، چار برس ہو چکے، میں واپس کبھی نہیں گئی۔  بس… اتنی ہی کہانی ہے۔‘‘

پھر ایک اور خاموش لمحہ۔

پھر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا—ایسے جیسے پہلی بار ایک دوسرے کو واقعی پہچانا ہو۔

’’ایک سوال اور، نیاگیتی۔  تم جواب نہ بھی دینا چاہو، تو ٹھیک ہے … مگر میں ہمیشہ سوچتی رہی کہ تم مجھ سے نفرت کرتی ہو، تم مجھے حقیر سمجھتی ہو۔‘‘

’’نہیں، نہیں، بیٹریس، میں نے کبھی تم سے نفرت نہیں کی۔  میں نے کسی سے نفرت نہیں کی۔  بس یوں سمجھو کہ اب کچھ بھی دلچسپی نہیں دیتا۔  یہاں تک کہ مرد بھی نہیں۔  مگر پھر بھی… میں چاہتی ہوں، مجھے ضرورت ہے اُس فوری توجہ کی جو ان جھوٹی، چاپلوس آنکھوں سے ملتی ہے —تاکہ مجھے یہ محسوس ہو کہ میں ابھی زندہ ہوں، میں خود ہوں۔

لیکن تم… تم ان سب سے کچھ مختلف تھیں۔  تمہارے اندر کچھ تھا… کچھ ایسا جو میرے پاس نہیں تھا۔‘‘

بیٹریس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، جنہیں روکنا اب مشکل ہو چکا تھا۔

اگلی صبح، وہ نیروبی جانے والی بس پر سوار ہو چکی تھی۔

بازار اسٹریٹ سے گزرتے ہوئے وہ دکانوں کو دیکھتی گئی۔  پھر گورنمنٹ روڈ، پھر کینیاٹا ایونیو، اور پھر کیماتی اسٹریٹ۔  ایک دکان میں داخل ہو کر اس نے کئی جرابیں خریدیں۔  ایک جوڑا پہنا۔  پھر ایک نیا لباس خریدا—وہیں بدلا۔

باٹا شو کمپنی میں جا کر اونچی ایڑی کے جوتے خریدے، پہن لیے، پرانے سیدھے فرش والے جوتے وہیں چھوڑ دیے۔  پھر اکمبا کے ایک کیوسک پر جا کر بالیاں خریدیں۔  آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی—اپنے نئے وجود کو دیکھا۔

اچانک اسے اندر کہیں ایک بھوک نے جا لیا—ایسی بھوک، جیسے وہ ساری زندگی بھوکی رہی ہو۔

وہ مِتل محل کے سامنے رُکی۔  پھر آگے چل دی۔  آخر کار ’فرانسے‘ نامی ایک ہوٹل میں داخل ہوئی۔

اس کی آنکھوں کی چمک نے مردوں کی نگاہیں اپنی طرف کھینچ لیں۔  اُسے مزہ آیا۔

ایک کونے کی میز پر بیٹھ کر اس نے ’انڈین کری‘ آرڈر کی۔  ایک مرد اپنی میز چھوڑ کر اُس کے ساتھ آ بیٹھا۔  اُس کی آنکھوں میں ہوس تھی، لباس قیمتی، گفتگو میں رغبت۔

اُس نے بیٹریس کو مشروب پیش کیا، بات چیت کی کوشش کی۔

بیٹریس نے خاموشی سے کھانا کھایا۔  اُس نے میز کے نیچے سے ہاتھ بڑھا کر اس کے گھٹنوں کو چھوا۔  اُس نے اجازت دی۔  ہاتھ رانوں کی طرف بڑھا…

اور اچانک بیٹریس کھڑی ہوئی—کھانا آدھا کھایا، مشروب چھوا تک نہیں، اور باہر نکل گئی۔

اُسے اچھا لگا۔

وہ شخص اُس کے پیچھے آیا۔  اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا، مگر جانتی تھی وہ تعاقب میں ہے۔  وہ چند قدم ساتھ ساتھ چلے۔  بیٹریس نے بس اپنے آپ کو مسکرایا، اُس کی طرف ایک بار بھی نگاہ نہیں کی۔  وہ شخص ہچکچایا، بے یقین ہو گیا۔  پھر وہ رک گیا، اور ایک دکان کے شیشے کے سامنے کھڑا رہ گیا—شرمندگی میں گم۔

بیٹریس بس میں سوار ہو کر الموروگ لوٹی۔  مردوں نے اُسے بیٹھنے کے لیے جگہ دی—اور اُس نے اُسے حق سمجھ کر قبول کیا۔

ٹری ٹاپ بار پہنچی، تو سیدھی کاؤنٹر کی طرف گئی۔  حسبِ معمول بڑے لوگ وہیں موجود تھے۔  اُس کی آمد پر باتیں لمحہ بھر کے لیے رُک گئیں۔  ہر آنکھ اُس کی طرف اٹھ گئی۔  لڑکیاں اُسے گھورنے لگیں۔  حتیٰ کہ نیاگیتی بھی اپنی وہ بے نیازی برقرار نہ رکھ سکی۔

بیٹریس نے سب کو مشروب خرید کر دیا۔

منیجر گھبراہٹ میں اُس کے قریب آیا۔  بات چیت کی کوشش کی۔

’’تم کام کیوں چھوڑ گئی تھیں؟ کہاں چلی گئی تھیں؟ کیا تم کبھی کبھار نیاگیتی کے ساتھ کاؤنٹر پر کام کرنا چاہو گی؟‘‘

ایک ویٹریس ایک نوٹ لے کر آئی۔  کسی بڑے آدمی نے پیغام بھیجا تھا:  ’’کیا وہ ہمارے ساتھ میز پر بیٹھے گی؟‘‘

اور پھر کئی نوٹ آئے —مختلف سمتوں سے، ایک ہی سوال کے ساتھ:  ’’کیا وہ رات آزاد ہو گی؟ ایک دورہ نیروبی کا؟‘‘

بیٹریس کاؤنٹر سے نہ ہٹی۔  لیکن ہر مشروب اس نے حق سمجھ کر قبول کیا۔

اب وہ نئی طاقت سے لبریز تھی—اعتماد سے بھرپور۔

اس نے ایک شلنگ نکالا، جیوک باکس میں ڈالا، اور روبنسن موانگی کی آواز گونجی:  ’ہیینیو وا مشمبانی‘ — وہ نغمہ جو دیہی پس منظر سے آنے والی حقیر سمجھی جانے والی لڑکیوں کی بات کرتا ہے، اور اُن کا موازنہ شہری دنیا کی چمکتی لڑکیوں سے کرتا ہے۔

پھر اُس نے کمارو اور ڈی کے کے نغمے چلائے۔  مرد اُس کے ساتھ رقص کرنا چاہتے تھے —اس نے سب کو نظر انداز کیا، مگر اُن کی بے قراری سے لطف اندوز ہوئی۔  اس نے دھن پر اپنے کولہے مروڑے۔

اُس کا بدن آزاد تھا۔  وہ خود آزاد تھی۔

وہ اُس فضا میں سنسنی اور توجہ کو اپنے اندر جذب کرتی گئی۔

پھر… ٹھیک شام چھ بجے …

وہی پانچ ٹن والی لاری کا شخص بار میں داخل ہوا—اس بار فوجی کوٹ میں۔

اس کے پیچھے ایک پولیس والا تھا۔

وہ چاروں طرف دیکھنے لگا۔  سب کی نگاہیں اُس پر جا ٹکیں۔

لیکن بیٹریس نے اپنے کولہے ویسے ہی جھومتے رکھے۔

پہلے تو وہ اُسے پہچان نہ پایا—جو لڑکی جیوک باکس کے گرد اپنی ’عظمت کے چند لمحے‘ منا رہی تھی، وہ بیٹریس تھی؟

پھر اُس نے فتح مندانہ آواز میں چِلّایا:

’’وہی ہے! چور! چور!‘‘

لوگ اپنی نشستوں پر واپس سمٹ گئے۔  پولیس والا بڑھا، اُسے ہتھکڑی لگائی۔

بیٹریس نے مزاحمت نہ کی۔  بس دروازے پر رُک کر پیچھے مڑ کر تھوکا—اور پھر خاموشی سے باہر نکل گئی۔

بار میں پہلے ایک حیران خاموشی چھائی رہی… پھر قہقہوں کا طوفان اُمڈ پڑا۔

کسی نے مذاق کیا:  ’’چوری بھی کی، وہ بھی اتنی نفاست سے؟‘‘

لوگ اس پر تبصرے کرنے لگے۔  کسی نے کہا، ’’اسے تو مارنا چاہیے تھا!‘‘

کسی نے حقارت سے کہا، ’’یہ بار کی لڑکیاں …!‘‘

کچھ اور تھے، جن کی آوازوں میں دکھ تو نہیں، لیکن حیرت تھی:  ’’یہ جرائم کا تناسب دن بدن بڑھ رہا ہے … کیا پھانسی کا قانون ہر چوری پر لاگو نہ ہونا چاہیے؟‘‘

کسی کو پتا نہ چلا کہ پانچ ٹن والی لاری کا وہ مرد، ایک ہی لمحے میں ہیرو بن چکا تھا۔

اب وہ اس کے گرد جمع ہو گئے۔  سوالات کی بارش۔  کچھ نے اُس کے لیے مشروب منگوایا۔

سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ سب خاموشی سے اُس کی بات سن رہے تھے —اور قہقہوں کے ساتھ اُسے سراہ بھی رہے تھے۔

مال کی حفاظت کی کامیاب کہانی نے لمحہ بھر کے لیے ان سب کو ایک خاندان بنا دیا تھا۔

اور وہ مرد—جو کبھی نظرانداز ہوتا تھا—اب پہلی بار پوری توجہ کے ساتھ اپنی کہانی سُنا رہا تھا۔

لیکن کاؤنٹر کے پیچھے، نیاگیتی رو رہی تھی۔

Minutes of Glory – by Ngũgĩ wa Thiong’o

٭٭٭

 

 

واپسی

 

اردو روپ:  رومانیہ نور

 

راستہ طویل تھا۔  جب بھی وہ ایک قدم آگے بڑھاتا، دھول کے ننھے بادل اٹھتے، غصے سے اس کے پیچھے منڈلاتے، اور پھر آہستہ آہستہ بیٹھ جاتے۔  لیکن فضا میں دھوئیں کی مانند حرکت پذیر٬ گرد کی ایک پتلی سی لکیر باقی رہتی۔  مگر وہ چلتا رہا، مٹی اور زمین کی سختی کی پروا کیے بغیر۔  پھر بھی ہر قدم کے ساتھ اسے راستے کی سختی اور اس کی بے رحمی کا زیادہ احساس ہونے لگا۔  ایسا نہیں تھا کہ وہ نیچے دیکھ رہا تھا؛ بلکہ اس کے برعکس، اس کی نظریں سامنے جمی ہوئی تھیں، جیسے کوئی مانوس منظر اسے آواز دے گا، کہے گا کہ وہ اب گھر کے قریب ہے۔  مگر راستہ بڑھتا گیا۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا، اس کا بایاں ہاتھ ایک طرف آزادانہ جھول رہا تھا، اور اس کا کوٹ جو کبھی سفید رہا ہو گا٬ اب بوسیدہ اور اس کے جسم پر ڈھلکا ہوا تھا۔  دایاں ہاتھ کہنی سے مڑا ہوا تھا، جس میں ایک ڈوری تھی جو اس کی کمر پر رکھی ایک چھوٹی سے گٹھری سے بندھی تھی۔  گٹھری جس کپڑے میں بندھی تھی اس پر کبھی سرخ پھول چھپے ہوئے تھے، اب وہ بھی ماند پڑ چکے تھے۔  یہی گٹھری ان سالوں کی تلخی اور اذیتوں کی گواہ تھی، جو اس نے قید و بند میں گزارے تھے۔  کبھی کبھار وہ سورج کی طرف دیکھتا، جو اب افق کی سمت جھک رہا تھا۔  وہ کبھی ادھوری نگاہوں سے کھیتوں کے چھوٹے چھوٹے قطعات کو دیکھتا، جو کانٹوں کی باڑھ سے گھِرے ہوئے تھے اور جن میں مکئی، پھلیاں اور مٹر جیسی کمزور فصلیں اگی ہوئی تھیں، سب کچھ اسے اجنبی اور سرد محسوس ہوا۔  سارا منظر بے رونق اور تھکا تھکا سا تھا۔  کماؤ کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں تھا۔  اسے یاد تھا کہ *ماؤ ماؤ بغاوت کے زمانے سے پہلے بھی کِکُویُو( کینیا کا ایک بڑا قبیلہ) کی زمینیں تھکی ہاری اور ضرورت سے زیادہ کاشت شدہ معلوم ہوتی تھیں، جب کہ سفید فام آباد کاروں کے کھیت سرسبز و شاداب ہوتے۔

راستے میں ایک پگڈنڈی بائیں طرف مڑتی تھی۔  وہ ایک لمحے کو رکا، پھر فیصلہ کر لیا۔  پہلی بار اس کی آنکھوں میں کچھ چمک سی پیدا ہوئی، کیونکہ یہ وہی راستہ تھا جو وادی میں نیچے لے جاتا اور پھر گاؤں کی طرف۔  اب آخرکار گھر قریب تھا، اور اس خیال کے ساتھ ہی ایک تھکے ہوئے مسافر کا سا تاثر اس کے چہرے سے کچھ دیر کو رخصت ہوا۔ وادی اور اس کے اطراف کی جھاڑیاں، اردگرد کے علاقے سے بالکل مختلف تھیں۔  یہاں ہریالی باقی تھی۔  اس کا مطلب صاف تھا:  ہونیا ندی اب بھی بہہ رہی تھی۔  اس نے اپنے قدم تیز کیے، جیسے جب تک وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لے، یقین نہ آئے کہ ندی واقعی موجود ہے۔  وہ وہاں تھی؛ اب بھی بہہ رہی تھی۔  ہونیا—جہاں وہ اکثر نہایا کرتا، برہنہ جسم لیے، ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگاتا—اب بھی اسی طرح چٹانوں کے گرد بل کھاتی تھی، مدھم سرسراہٹ کے ساتھ بہتی ایک دردناک سی خوشی نے اسے چھو لیا۔  ایک لمحے کے لیے وہ انھی دنوں کی طرف لوٹ جانا چاہتا تھا۔ اس نے آہ بھری۔  شاید یہ ندی اس کے بدلے ہوئے چہرے میں اسی لڑکے کو نہ پہچان سکے جس کے لیے یہ کنارا ہی سب کچھ تھا۔  پھر بھی جب وہ ہونیا کے قریب پہنچا، تو اسے ایک تعلق سا محسوس ہوا—ایسا تعلق، جو اس کی رہائی کے بعد کسی شے سے محسوس نہیں ہوا تھا۔

چند عورتیں پانی بھر رہی تھیں۔  وہ خوش ہوا، کیونکہ وہ ایک دو کو پہچانتا تھا، وہ اسی کی پگڈنڈی سے تھیں۔ ان میں ایک درمیانی عمر کی وانجیکو بھی تھی، جس کا بہرا بیٹا سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا، اس واقعہ سے عین پہلے جب وہ خود گرفتار ہوا تھا۔  وہ ہمیشہ گاؤں کی لاڈلی رہی تھی—ہر ایک کے لیے ایک مسکراہٹ، اور سب کے لیے کھانے کا کوئی نہ کوئی بندوبست رکھتی تھی۔  کیا وہ لوگ اُسے قبول کریں گے؟ کیا اُس کا ’’ہیرو‘‘ جیسا خیرمقدم کریں گے؟ اُس کا خیال تھا کہ کریں گے۔  کیا وہ ہمیشہ سے ہی پہاڑی کے کنارے سب کا پسندیدہ نہیں رہا تھا؟ اور کیا اس نے زمین کے لیے جد و جہد نہیں کی تھی؟ اُس کا جی چاہا کہ دوڑ پڑے اور پکارے:  ’’لوٹ آیا ہوں میں! میں تمہارے پاس واپس آ گیا ہوں!‘‘ لیکن اُس نے ضبط کیا۔  وہ ایک مرد تھا۔

’’سب خیریت ہے؟‘‘ چند مدھم سی آوازیں ابھریں۔ باقی عورتیں، جن کے چہرے تھکن اور وقت کی عطا کردہ جھریوں سے بھرے تھے، خاموشی سے اُسے تکتی رہیں، گویا اُس کی آواز بے معنی ہو، یا جیسے اُس کی موجودگی ہی بلا ضرورت ہو۔  کیوں؟ کیا وہ واقعی اتنے برس کیمپ میں رہا تھا؟ اُس کا حوصلہ بیٹھنے لگا۔  اُس نے دھیمی آواز میں پوچھا:  ’’کیا تم مجھے نہیں پہچانتیں؟ ‘‘ پھر وہی خالی خالی نظریں۔  ٹھنڈی، سخت نگاہیں، جیسے وہ سب کچھ جان بوجھ کر اُسے نہ پہچاننے کا عہد کر چکی ہوں

آخرکار ونجیکو نے اُسے پہچانا۔  مگر اُس کی آواز میں نہ تو کوئی گرمی تھی، نہ جوش۔  ’’اوہ، تم ہو، کَماؤ؟ ہم نے تو سمجھا کہ تم…‘‘ وہ جملہ ادھورا رہ گیا۔  اب جا کے اُس نے کچھ اور محسوس کیا—حیرت؟ خوف؟ وہ ٹھیک سے سمجھ نہ سکا۔

مگر وہ ان عورتوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کی طرف لپکتے ہوئے اشارے دیکھ سکتا تھا، اور اسے یقین ہو گیا کہ کوئی راز ہے، کوئی ایسی بات جس سے اُسے باہر رکھا گیا ہے، اور جو ان سب کو آپس میں باندھتی ہے۔

’’شاید اب میں اُن میں سے نہیں رہا!‘‘ اُس نے تلخی سے سوچا۔  پھر انھوں نے اُسے نئے گاؤں کے بارے میں بتایا۔  پرانا گاؤں، جو جھونپڑیوں کی صورت پہاڑی پر پھیلا ہوا تھا، اب اس کا وجود باقی نہ رہا تھا۔

وہ دل شکستہ اور خود کو فریب خوردہ محسوس کرتے ہوئے ان کے پاس سے اُٹھ آیا۔  پرانے گاؤں نے تو اُس کا انتظار بھی نہ کیا تھا! اور یکایک اُسے اپنے پرانے گھر، دوستوں اور مناظر کی شدید یاد ستانے لگی۔ اُس نے اپنے باپ، ماں، اور…اور..۔

نہیں، اُس کا دل مٹھونی کے بارے میں سوچنے کی ہمت نہ کر پایا۔  مگر تب بھی، مٹھونی، اسی طرح جیسی وہ پرانے دنوں میں تھی، اُس کے دل میں لوٹ آئی۔ اُس کا دل دھڑکنے لگا ایک خواہش اور گرم جوشی اُس کی رگوں میں دوڑ گئی۔ اُس نے اپنے قدم تیز کر دیے۔  وہ گاؤں کی عورتوں کو بھول گیا، کیونکہ اب اُسے صرف اپنی بیوی یاد آ رہی تھی۔  وہ محض دو ہفتے اُس کے ساتھ رہا تھا؛ پھرنوآبادیاتی افواج اُسے اچانک گرفتار کر کے لے گئی تھیں۔ باقیوں کی طرح، اُس کی بھی جلدی جلدی چھان بین کی گئی اور بغیر مقدمے کے قید میں ڈال دیا گیا۔ ان سب برسوں میں اُس نے صرف ایک ہی چیز کے بارے میں سوچا:  اپنا گاؤں، اور اپنی خوبصورت عورت۔

دوسرے قیدی بھی اُسی جیسے تھے۔  وہ دن بھر صرف اپنے گھروں کی باتیں کرتے۔  ایک دن، جب وہ مرنگا کے ایک قیدی، نجورو گے کے ساتھ پتھر توڑ رہا تھا، اچانک نجورو گے نے کام روک دیا۔ اُس نے ایک گہری سانس لی۔ اُس کی تھکی ہوئی آنکھوں میں ایک کھویا ہوا تاثر اور بے چینی تھی۔

’’کیا ہوا، یار؟ خیریت ہے؟‘‘ کَماؤ نے پوچھا۔  ’’میری بیوی۔  میں اُسے بچے کی امید کے عالم میں چھوڑ آیا تھا۔ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ اُس پر کیا گزری۔ ‘‘

ایک اور قیدی بول اٹھا:  ’’میں تو اپنی عورت کو ایک بچے کے ساتھ چھوڑ آیا تھا۔  وہ بس پیدا ہی ہوا تھا۔ ہم سب خوش تھے۔  لیکن اُسی دن مجھے گرفتار کر لیا گیا…‘‘

اور یوں باتیں چلتی رہتیں۔  سب کے سب صرف ایک دن کا خواب دیکھتے تھے — ’’واپسی کا دن۔ ‘‘وہ دن جب زندگی از سرِنو شروع ہو گی۔

کَماؤ نے تو مٹھونی کو بغیر بچے کے چھوڑا تھا۔  یہاں تک کہ اُس نے مکمل ہدیۂ دلہن بھی ادا نہیں کیا تھا۔  مگر اب وہ جائے گا، نیروبی میں کام ڈھونڈے گا، مٹھونی کے والدین کو باقی ہدیۂ دلہن ادا کرے گا۔  زندگی واقعی نئے سرے سے شروع ہو گی۔ ان کا ایک بیٹا ہو گا، اور وہ اُسے اپنے گھر میں پالیں گے۔ اِن امیدوں کے تصور میں اُس نے اپنی چال اور تیز کر دی۔ اُس کا جی چاہا کہ دوڑے —نہیں، اُڑے، تاکہ اپنی واپسی کو تیز کر سکے۔ وہ اب پہاڑی کی چوٹی کے قریب پہنچ چکا تھا۔  اس کا جی چاہا کہ کاش وہ اچانک اپنے بھائیوں اور بہنوں سے جا ملے۔  کیا وہ اُس سے سوال کریں گے؟ ویسے بھی وہ سب کچھ نہیں بتائے گا:  نہ مار پیٹ کا ذکر، نہ چھان بین کی رسوائیاں، نہ سڑکوں اور پتھروں کی کانوں میں کام کرنے کی اذیت، جہاں ہر وقت ایک سپاہی اُس پر نظر رکھتا، جیسے ہی وہ سانس لیتا، ٹھوکر مارنے کو تیار۔  ہاں، اُس نے بہت کچھ سہا تھا—ذلتیں، اذیتیں —اور اُس نے مزاحمت نہیں کی۔  اس سب کا فائدہ ہی کیا تھا؟ مگر اُس کی روح اور اُس کی جوانی کی تمام حرارت بغاوت کرتی رہی، کڑھتی رہی، لہو روتی رہی۔

ایک دن یہ ’وزُنگو‘ (سفید فام) چلے جائیں گے!

ایک دن اُس کی قوم آزاد ہو گی!

پھر—پھر… وہ نہیں جانتا تھا کیا کرے گا۔  لیکن وہ دل ہی دل میں تلخی سے پختہ یقین کر چکا تھا:

اب کوئی اُس کی مردانگی کا مذاق نہیں اُڑائے گا۔

وہ پہاڑی پر چڑھا اور رک گیا۔

نیچے سارا میدان پھیلا ہوا تھا سامنے نیا گاؤں تھا—ایک کے بعد ایک، قطار در قطار، مٹی کی جھونپڑیاں، جو ڈوبتے سورج کے نیچے، زمین سے چمٹ کر بیٹھی تھیں۔  کئی جھونپڑیوں سے نیلا دھواں اُٹھ رہا تھا، جو اُوپر جا کر ایک گہری دھند میں تبدیل ہو رہا تھا، اور اُس گاؤں پر چھا گیا تھا۔

اُس سے بھی پرے، گہرا سرخی مائل سورج ڈوب رہا تھا، اور اُس کی کرنیں انگلیوں کی مانند پھیلتی جا رہی تھیں، جو آخرکار دور دراز کے پہاڑوں پر چھائی ہوئی سُرمئی دھند میں کھو جاتی تھیں۔

وہ گاؤں کی گلیوں سے گزرا، نئے چہرے ملے۔ اُس نے پوچھ گچھ کی۔

اُسے اپنا گھر مل گیا۔  وہ صحن کے دروازے پر رُکا اور ایک گہری سانس لی۔  یہی وہ لمحہ تھا—واپسی کا لمحہ۔  اُس کا باپ، تین ٹانگوں والی چوکی پر بیٹھا، سمٹا ہوا نظر آیا۔

اب وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا، اور کَماؤ کے دل میں اُس کے لیے ہمدردی جاگ اُٹھی۔  مگر اسے زندگی ملی تھی— جی ہاں، زندگی، تاکہ وہ اپنے بیٹے کی واپسی دیکھ سکے۔

’’بابا!‘‘

بوڑھے نے کوئی جواب نہ دیا۔  وہ بس اُسے خالی خالی آنکھوں سے تکے جا رہا تھا، اجنبیت سے بھرپور نظروں سے۔  کَماؤ بے تاب ہو گیا۔ ایک جھنجھلاہٹ سی محسوس ہوئی۔ کیا وہ اُسے نہیں پہچانتا؟ کیا وہ بھی اُسی طرح کا سلوک کرے گا جیسے دریا پر ملی ہوئی عورتوں نے کیا تھا؟

باہر گلی میں ایک دوسرے پر مٹی اچھالتے ہوئے ٬ کچھ ننگے، کچھ آدھ ننگے بچے کھیل رہے تھے، سورج ڈوب چکا تھا، اور چاندنی رات کے آثار نظر آ رہے تھے۔

’’بابا، کیا تم مجھے نہیں پہچانتے؟‘‘ اُمید اُس کے دل سے رخصت ہونے لگی تھی۔  وہ تھک گیا تھا۔ پھر اُس نے دیکھا اُس کے باپ کے جسم میں ارتعاش دوڑ گیا، وہ ایک پتّے کی مانند لرزنے لگا۔  اُس نے باپ کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی دیکھی اور ہاں، کچھ خوف بھی۔  پھر اُس کی ماں آئی، اور بھائی بھی۔ سب اُسے گھیرے میں لینے لگے۔  بوڑھی ماں اُس سے لپٹ گئی اور زور زور سے رونے لگی:

’’مجھے یقین تھا میرا بیٹا آئے گا،  مجھے معلوم تھا وہ مر نہیں سکتا!‘‘

’’مگر ماں، تمہیں کس نے کہا کہ میں مر چکا ہوں؟‘‘

’’وہ کرنجا—نجوگو کا بیٹا۔ ‘‘

اور پھر کَماؤ کو سب کچھ سمجھ میں آ گیا۔  اُسے باپ کی لرزتی حالت کا مطلب سمجھ آیا، دریا پر ملی عورتوں کے سرد رویے کی وجہ معلوم ہوئی۔  لیکن ایک بات اُس کی سمجھ سے بالاتر تھی:  کرنجا تو اُس کے ساتھ کبھی کسی قید خانے میں تھا ہی نہیں! خیر، اب وہ لوٹ آیا تھا۔  اب وہ صرف مٹھونی کو دیکھنا چاہتا تھا۔  وہ کیوں نہ آئی؟

اُس کا دل چاہا کہ پکارے: ’’مٹھونی، میں آ گیا ہوں! میں تمھارے پاس ہوں!‘‘

اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔  ماں اُس کی نگاہ کو سمجھ گئی۔  اُس نے جلدی سے شوہر پر ایک نظر ڈالی اور بس اتنا کہا:

’’مٹھونی چلی گئی ہے۔‘‘

کَماؤ کو یوں لگا جیسے پیٹ میں برف سی جمنے لگی ہو۔ اُس نے گاؤں کی جھونپڑیوں کو دیکھا، زمین کی ویرانی کو دیکھا۔ اُس کے دل میں ہزار سوال اُٹھے، مگر وہ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔  وہ اب تک یقین نہیں کر پا رہا تھا کہ مٹھونی جا چکی ہے۔  لیکن دریا پر ملی عورتوں کی نگاہوں سے، اور اپنے والدین کے چہروں سے، اُسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ واقعی جا چکی ہے۔

’’وہ ہمارے لیے ایک اچھی بیٹی تھی‘‘ اُس کی ماں وضاحت دے رہی تھی، ’’اس نے تمہارا انتظار کیا، اور صبر سے ملک کی سب مصیبتوں کو جھیلا۔ پھر کرنجا آیا،  اور کہنے لگا کہ تم مر چکے ہو۔ تمہارے والد نے اُس کی بات کا یقین کر لیا۔  وہ بھی یقین کر بیٹھی، اور ایک مہینہ سوگ منایا۔ کرنجا تو بار بار ہمارے ہاں آنے لگا تھا۔  آخر وہ تمہارے ریکا (عمر و مرتبے کے برابر) کا تھا نا۔  پھر اُس کے ہاں ایک بچہ ہوا۔  ہم چاہتے تو اُسے روک لیتے۔ لیکن زمین کہاں ہے؟ کھانا کہاں ہے؟ جب سے زمین کی انضمام کاری ہوئی ہے، ہماری آخری آس بھی چھن گئی۔  ہم نے کرنجا کو اُس کے ساتھ جانے دیا۔  دیگر عورتوں نے تو اس سے بھی بدتر کیا ہے — شہر چلی گئی ہیں۔  یہاں تو صرف بوڑھے اور لاغر بچے ہیں۔‘‘

لیکن وہ سن ہی کہاں رہا تھا۔  پیٹ میں جمی سردی اب رفتہ رفتہ تلخی میں بدلنے لگی تھی۔  اب اُسے سب سے، اپنے ماں باپ سے بھی کڑواہٹ محسوس ہونے لگی۔  وہ سمجھنے لگا جیسے سب نے اُس سے غداری کی ہو۔  جیسے وہ سب کرنجا کے ساتھ مل گئے ہوں۔  اور کرنجا تو ہمیشہ سے اُس کا حریف رہا تھا۔  پانچ برس، ہاں، یہ کوئی تھوڑا وقت نہیں ہوتا— مگر پھر بھی، وہ کیوں گئی؟ اُسے کیوں جانے دیا گیا؟ اُس کا جی چاہا کہ بولے، ہاں، بولے، اور ہر شے پر لعنت بھیجے —دریا کی عورتوں پر، گاؤں پر، اور ان لوگوں پر جو اب اس میں بستے تھے۔  مگر بول نہ پایا۔

یہ تلخی اُس کے گلے میں اٹک گئی تھی۔

’’تم—تم نے میری اپنی کو دوسروں کے حوالے کر دیا؟‘‘ اُس نے سرگوشی کی۔

’’بیٹا… سنو، میرے بچے …‘‘

افق پر زرد چاند چھا چکا تھا۔

وہ اندھا، زخمی، اور کینہ بھرے قدموں سے وہاں سے چل دیا۔  چلتا رہا، یہاں تک کہ ہوٖنیا دریا کے کنارے آن پہنچا۔

وہ کنارے پر کھڑا تھا— مگر دریا کو نہیں دیکھ رہا تھا، بلکہ اپنے خوابوں کو زمین پر بکھرتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔  دریا تیز رفتاری سے بہہ رہا تھا، ایک ہی جیسا، نہ رکنے والا شور مچاتا ہوا۔

جنگل میں جھینگر اور دوسرے کیڑے مسلسل شور کیے جا رہے تھے۔

اوپر، چاند اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔  اُس نے اپنا کوٹ اُتارنا چاہا، مگر اُس کے ہاتھ سے وہ چھوٹا سا گٹھری نما سامان— جسے وہ سالوں سے سینے سے لگائے پھرتا آیا تھا— پھسل کر کنارے سے نیچے جا گرا، اور اِس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، وہ دریا کی روانی میں بہنے لگا۔  چند لمحے وہ سکتے میں رہا۔  اُس کا دل چاہا کہ اُسے نکال لائے۔  ’’میں کیا دکھاؤں گا…‘‘

اُس کا ذہن کہنے ہی والا تھا— مگر فوراً چونک گیا:  ’’کیا میں اتنی جلدی بھول گیا؟ میری بیوی تو چلی گئی ہے۔‘‘ اور وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جن میں اُسے مٹھونی کی یادیں بسی محسوس ہوتی تھیں، جن کی وہ ان برسوں میں حفاظت کرتا رہا تھا وہ سب بھی اب چلی گئیں۔  اُسے معلوم نہ تھا کیوں، لیکن اچانک ایک عجیب سا سکون اُس کے دل میں اُتر آیا۔  خود کو دریا میں غرق کرنے کے خیالات بھی چھٹ گئے۔  وہ اپنا کوٹ پہننے لگا، اور آہستہ سے، خود سے مخاطب ہو کر بولا:  ’’اُسے میرا انتظار کیوں کرنا چاہیے تھا؟ یہ سب بدلاؤ میرے لوٹنے کا کیوں انتظار کرتے؟‘‘

٭٭

حواشی

ماؤ ماؤ بغاوت (Mau Mau Rebellion) ایک مسلح تحریک تھی جو 1950 کی دہائی میں کینیا میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خلاف شروع ہوئی۔  اس کا آغاز بنیادی طور پر کیکوئیو (Kikuyu) قبیلے کے افراد نے کیا، جو زمینوں کی واپسی اور آزادی کے خواہاں تھے۔

انگریزی میں عنوان:  The Return

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل