فہرست مضامین
- تو اس کی باتیں ہوں
- افتخار مغل
- انتخاب، ترتیب اور کمپوزنگ: سردار فرحان محمد خان
- لہو کو شعر بنا لیں تو اس کی باتیں ہوں
- اک خلا، ایک لا انتہا اور میں
- جمال گاہِ تغزل کی تاب و تب تری یاد
- کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں
- الٹ گئی تری کشتی تو کیا خطا مری دوست
- یہ جو اک ڈولتا ستارہ ہے
- رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار
- اک رُخ پہ مرا دیدۂ حیران کھُلا ہے
- خزاں میں پھول کھلے تھے بہار کے جیسے
- سبھی فساد ہیں تن میں لہو کے ہونے سے
- اب کہاں شہر میں وہ آئنہ تن تم جیسے
- ہوس نے پوچھا! یقیں کا دیا بچا کہ بُجھا؟
- مری طرح خدا اُس کو بے مزا نہ رکھے
- جو اُس نے ٹھان لی وہ کر گیا تو ؟
- دیے کو میں نے کبھی بھی نہیں کہا سورج
- یہ کچھ دنوں کی نہیں بات اک دہَائی کی ہے
- وہ تیرے ہجر کی یادیں، ترے وصال کی رو
- کہیں سے ٹوٹ گیا ہے وہ سلسلہ مری جاں
- تمام عُمر رہا رابطہ ہمارے بیچ
- آپ خنجر بنوں اور آپ ہی گھائل ہو جاؤں
- کوئی چٹان چٹختی ہے جب چٹانوں میں
- حبس میں ایک درِ باز بنا رکھا ہے
- محبتوں کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے
- بلا سے دوستو! جینا محال ہو جائے
- جو کبھی آنکھ کو جل تھل نہیں ہونے دیتا
- باعثِ ترکِ تعلق جو بھی تھا اپنی جگہ
- کچھ روز سے یہ آئینہ دھُندلا بھی بہت ہے
- بارِ جسم اور وزنِ جاں لے کر
- میں ایک حوالہ ہوں مجھے دھیان میں رکھنا
- یہ میری آنکھ میں جو اَن کہی محبت ہے
- نگوں کہیں بھی کبھی سر نہیں کیا ہم نے
- تری صدا پہ پلٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
- تمہاری راہ کا اک رہ نورد ایسا تھا
- تمہارے سامنے اک مرتبہ خدا لے جائے
- سوادِ ہجر میں رکھا ہوا دیا ہوں میں
- کم کسی غم کے گرفتار نظر آئیں گے
- صدمۂ حرفِ گرہ گیر نہیں دیکھا ہے
- ابھی تو گھاؤ ترے ہجر کا بھرا بھی نہیں
- وہی تیرا حوالہ رہ گیا ہے
- اس جسم کی آشُفتہ بیانی سے گزر کر
- انتخاب، ترتیب اور کمپوزنگ: سردار فرحان محمد خان
- افتخار مغل
تو اس کی باتیں ہوں
افتخار مغل
انتخاب، ترتیب اور کمپوزنگ: سردار فرحان محمد خان
ڈاؤن لوڈ کریں
لہو کو شعر بنا لیں تو اس کی باتیں ہوں
بیاضِ زخم نکالیں تو اس کی باتیں ہوں
وہ خود جگے مرے شعروں میں جوت بن کے کبھی
نہ یہ کہ جوت جگا لیں تو اس کی باتیں ہوں
ڈھلے تو آپ ڈھلے سوچ کے پیالوں میں
یہ کیا کہ ہم اسے ڈھا لیں تو اس کی باتیں ہوں
ذرا فراغ! کہ موسم کھُلے تو بات کھُلے
گھٹائیں گیسو سُکھا لیں تو اس کی باتیں ہوں
کچھ اہتمام! کہ قصہ ہے اک پری وش کا!
کہ رنگ، رنگ جما لیں تو اس کی باتیں ہوں
چراغِ اشک فروزاں کریں سرِ مژگاں
ذرا یہ دیپ جلا لیں تو اس کی باتیں ہوں
جب اس کی بات چلے پھر نہ کوئی بات چلے
زمانے وقت نکالیں تو اس کی باتیں ہوں
بہت چلے گا جو چلے گا اس کا ذکرِ جمیل
قیامتوں کو سُلا لیں تو اس کی باتیں ہوں
غمِ حیات، غمِ روزگار، فکرِ معاش
گر ان بلاؤں کو ٹالیں تو اس کی باتیں ہوں
اب اس جمال کا سورج نکلنے والا ہے
ذرا چراغ بُجھا لیں تو اس کی باتیں ہوں
نئے چراغ حوالوں کے، ہاتھ سے رکھ دیں
کوئی پُرانا دیا لیں تو اس کی باتیں ہوں
ذرا سنور لے عروسِ زبانِ قصہ گری
فسانے بال بنا لیں تو اس کی باتیں ہوں
وہ رم کرے تو غزل شعر شعر چلتی ہے
بیان لہجے غزالیں تو اس کی باتیں ہوں
یہ فکرِ خام! کہ جیسے خزاں کی کچی شفق
اسے لہو میں تپا لیں تو اس کی باتیں ہوں
ابھی کہاں وہ سلیقہ کہ اس کی بات نبھے
جو خود کو میرؔ بنا لیں تو اس کی باتیں ہوں
جمال دوست ہیں ہم بھی مگر ولی تو نہیں
ولیؔ کی طرز اڑا لیں تو اس کی باتیں ہوں
وہ حبسِ نظم و رباعی میں کب کھُلے اے دل
رہِ غزل کی ہوا لیں تو اس کی باتیں ہوں
ادھر سے گزریں تو مل جائیں میرؔ و غالب سے
ذرا بڑوں کی دعا لیں تو اس کی باتیں ہوں
وہ کم سپرد غزل بیچ بھی کھلے کم کم
بس اُس کو اُس سے چرا لیں تو اس کی باتیں ہوں
خود اس کا ذکر ہے دیوانِ حافظِ شیراز
سخن کی فال نکالیں تو اس کی باتیں ہوں
نہیں کہ اس سا کوئی دوسرا بھی ممکن ہے
یہ وہم دل سے نکالیں تو اس کی باتیں ہوں
وہ بیچ آئے تو تہوار کی طرح آئے
نوائیں رنگ اچھالیں تو اس کی باتیں ہوں
کہ اس کی آنکھ، شرابوں کا استعارہ ہے
خراب جام اٹھا لیں تو اس کی باتیں ہوں
مزہ تو جب ہے کہ شب زندہ دار سجدہ گزار
غرورِ زہد، بچا لیں تو اس کی باتیں ہوں
کوئی بہک کے قدم کیوں اٹھائے! حدِ ادب
ہوائیں خود کو سنبھالیں تو اس کی باتیں ہوں
گلہ نہ ہو کہ کوئی سو تارہ گیا امشب
عروسِ شب کو جگا لیں تو اس کی باتیں ہوں
کوئی قرینہ نہیں اس کے ذکر کا، لیکن
اسے بہانہ بنا لیں تو اس کی باتیں ہوں
٭٭٭
اک خلا، ایک لا انتہا اور میں
کتنے تنہا ہیں میرا خدا اور میں
کتنے نزدیک اور کس قدر اجنبی!!
مجھ میں مجھ سا کوئی دوسرا اور میں
لوگ بھی سو گئے، روگ بھی سو گئے
جاگتے ہیں مرا رت جگا اور میں
رات اور رات میں گونجتی ایک بات
ایک خوف، اک منڈیر، اک دیا اور میں
شہر تاراج ہے، جبر کا راج ہے
پھر بھی ثابت ہیں میری انا اور میں
تیرے موسم، تری گفتگو اور تو
میری آنکھوں میں اک ان کہا، اور میں
اب تو اس جنگ کا فیصلہ ہو کوئی
لڑ رہے ہیں ازل سے ہوا اور میں
رنگ، خوشبو، شفق، چاندنی، شاعری
لکھ رہا تھا میں، اس نے کہا "اور میں!”
اس کی بات اور ہے، ورنہ اے افتخارؔ
اس کو معلوم ہے، التجا اور میں
٭٭٭
جمال گاہِ تغزل کی تاب و تب تری یاد
پہ تنگنائے غزل میں سمائے کب تری یاد
کسی کھنڈر سے گُزرتی ہوا کا نم! ترا غم
شجر پہ گرتی ہوئی برف کا طرب تری یاد
تُو مجھ سے میرے زمانوں کا پوچھتی ہے تو سُن
ترا جنوں، ترا سودا، تری طلب، تری یاد
گزر گہوں کو اُجڑنے نہیں دیا تو نے
کبھی یہاں سے تُو گزرتی تھی تٗو اور اب تری یاد
یہ قید عمر کی تو کٹتی نظر نہیں آتی!
بس ایک قرینہ ترا دھیان ایک ڈھب تری یاد
بہ فیضِ دردِ محبت خوش نسب، میں نجیب
مرا قبلہ ترا غم، مرا نسب تری یاد
بہ جُز حکایت تو ایں وجود چیزے نیست
میں کل کا کل ترا قصہ میں سب کا سب تری یاد
دریں گمان کدہ، کلُ مَن عَلیھا فان
بس اک چھلا وہ مرا عشق ایک چھب تری یاد
بہر سبیل ہُنر کا سفر تو جاری ہے
کبھی کچھ اور بہانہ کُبھو سبب تری یاد ٭٭٭
کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں
تویوں نہیں کہ تجھے سوچتا نہیں ہوں میں
میں تم کو خود سے جدا کر کے کس طرح دیکھوں
کہ میں بھی "تم” ہوں، کوئی دوسرا نہیں ہوں میں
تو یہ بھی طے! کہ بچھڑ کر بھی لوگ جیتے ہیں
میں جی رہا ہوں! اگرچہ جیا نہیں ہوں میں
کسی میں کوئی بڑا پن مجھے دکھائی نہ دے
خدا کا شکر کہ اتنا بڑا نہیں ہوں میں
مری اٹھان کی ہر اینٹ میں نے رکھی ہے
میں خود بنا ہوں! بنایا ہوا نہیں ہوں میں
یہاں جو آئے گا وہ خود کو ہار جائے گا
قمار خانۂ جاں میں نیا نہیں ہوں میں
مرے وجود کے اندر مجھے تلاش نہ کر
کہ اس مکان میں اکثر رہا نہیں ہوں میں
میں ایک عمر سے خود کو تلاشتا ہوں مگر
مجھے یقین نہیں، ہوں بھی یا نہیں ہوں میں
میں اک گمان کا امکاں ہوں افتخارؔ مغل
کہ ہو تو سکتا ہوں لیکن ہوا نہیں ہوں میں ٭٭٭
الٹ گئی تری کشتی تو کیا خطا مری دوست
نہ موج میری طرف دار، نے ہوا مری دوست
بصد ہُنر وری سونے میں ڈھالتی ہے تجھے
یہ میری شاعری یعنی یہ کیمیا مری دوست
ترے سوا بھی مرے غمگسار ہیں تو سہی!
کہ رات میری عزا دار اور صبا مری دوست
ہم اہلِ ہجر کا کیا ہے جیے تو جی لیں گے
خدا دراز کرے تیری عُمر جا مری دوست
اسی زباں سے تجھے بے وفا کہوں کیسے
اسی زبان سے میں نے تجھے کہا مری دوست
یہ زندگی ہے یہاں سو طرح کے قصے ہیں
کسی کا دوست نہ رہنے کا گلہ مری دوست
یہ ہجر دوست کٹھن ہے یہ قیدِ عمر، مگر
میں کاٹ لوں گا کسی طور یہ سزا مری دوست
بچھڑ کے تجھ سے میں زندہ رہا نہیں مری جان
مرا نہیں ہوں ترے ہجر میں، بجا مری دوست
تمہارا عشق بھی کھینچا، غمِ جہاں بھی سہا
یہ بوجھ ڈھوئے ہیں میں نے جدا جدا مری دوست ٭٭٭
یہ جو اک ڈولتا ستارہ ہے
یہ مرا آپ کا ستارہ ہے
دل بھی ہے ایک نوع کی دُنیا
یہ بھی ٹوٹتا ہوا ستارہ ہے
کون یوں جاگتا ہے رات گئے
میں ہوں یہ صبح کا ستارہ ہے
اک مسلسل شکستگی ہے حیات
زیست اک ٹوٹتا ستارہ ہے
آنکھ کی جھیل میں نہ چمکا، جو
وہ ستارہ بھی کیا ستارہ ہے
میری مٹی بھی کہکشاں کا غبار
میری بھی کیمیا ستارہ ہے
ابھی ٹوٹا تھا اک ستارۂ اشک
پھر مژہ پر نیا ستارہ ہے
اپنا اپنا ہے آسماں سب کا
ہر کسی کا جُدا ستارہ ہے
تب ترا روپ چڑھتا سورج تھا
اور اب ڈوبتا ستارہ ہے ٭٭٭
رکھ رکھاؤ میں کوئی خوار نہیں ہوتا یار
دوست ہوتے ہیں، ہر اک یار نہیں ہوتا یار
دو گھڑی بیٹھو مرے پاس، کہو کیسی ہو
دو گھڑی بیٹھنے سے پیار نہیں ہوتا یار
یار! یہ ہجر کا غم! اس سے تو موت اچھی ہے
جاں سے یوں ہی کوئی بیزار نہیں ہوتا یار
روح سنتی ہے محبت میں بدن بولتے ہیں
لفظ پیرایۂ اظہار نہیں ہوتا یار
نوکری، شاعری، گھر بار، زمانہ، قدریں
اک محبت ہی کا آزار نہیں ہوتا یار
خوش دلی اور ہے اور عشق کا آزار کچھ اور
پیار ہو جائے تو اقرار نہیں ہوتا یار
لڑکیاں لفظ کی تصویر چھپا لیتی ہیں
ان کا اظہار بھی اظہار نہیں ہوتا یار
آدمی عشق میں بھی خود سے نہیں گھٹ سکتا
آدمی سایۂ دیوار نہیں ہوتا یار!!
گھیر لیتی ہے کوئی زلف، کوئی بوئے بدن
جان کر کوئی گرفتار نہیں ہوتا یار
یہی ہم آپ ہیں ہستی کی کہانی، اس میں
کوئی افسانوی کردار نہیں ہوتا یار
٭٭٭
اک رُخ پہ مرا دیدۂ حیران کھُلا ہے
لگتا ہے کہیں رحل پہ قرآن کھُلا ہے
غم دوست سی لڑکی سے رہ رسم چلی ہے
یا میر تقی میر کا دیوان کھُلا ہے
اک خواب کی میت پئے تدفین اُٹھی ہے
تب جا کے کہیں رات کا زندان کھُلا ہے
آثار سے لگتا ہے کہ ممکن ہے خدا ہو!
دل میں اسی باعث درِ امکان کھُلا ہے
یہ زیست بھی ساقیؔ کی کوئی نظم ہے شاید
سو رنگ سے اس نظم کا عنوان کھُلا ہے
ہستی کو سمجھنے میں بڑا وقت لگا ہے
اک عمر میں مجھ پر مرا مہمان کھُلا ہے
کچھ خواب ہیں، کچھ شعر ہیں، کچھ درد ہیں، کچھ داغ
کمرے میں بہ ہر سو مرا سامان کھُلا ہے
کس خاک پہ کھُلنے تھے مری خاک کے جوہر
یہ بستہِ صد رنگ کہاں آن کھُلا ہے
مدت ہوئی تلخابِ خموشی سے بہلتے
تب لذتِ گفتار کا جُز دان کھُلا ہے
٭٭٭
خزاں میں پھول کھلے تھے بہار کے جیسے
یہ خال خال تھے تجھ گُل عذار کے جیسے
نہیں ہے درد کوئی دردِ ہجر سا، لیکن
بہت سے غم ہیں، غمِ روزگار کے جیسے
اس عہدِ مرگ صدا میں یہ شعر، یہ مصرعے
سکوتِ دشت میں صوتِ ہزار کے جیسے
قبائے مرگ بھی اک دن اُتار پھینکیں گے
لباسِ ہست چلے ہیں اُتار کے جیسے
ق
پھر ایک بار کھڑے ہیں ملول و لب بستہ
مزار وقت پہ لوحِ مزار کے جیسے
پھر ایک بار وہی رہ گزارِ غم، وہی ہم
دیارِ جاں میں غریب الدیار کے جیسے
پھر ایک مرتبہ خود کو سمیٹ لیں تو چلیں
پھر ایک بار اُڑے ہیں غبار کے جیسے
وفا خصال بڑے لوگ تھے، پہ کم کم تھے
ترے قتیلؔ، ترے افتخار کے جیسے
٭٭٭
سبھی فساد ہیں تن میں لہو کے ہونے سے
بلا کا شور ہے اس آب جُو کے ہونے سے
یہ دل کا روگ، یہ آنکھوں میں انتظار، یہ خواب
کئی عذاب ہیں اک آرزو کے ہونے سے
پُر انتشار بھی ہے جسم کا بھرا بازار
تو رونقیں بھی اسی ہاؤ ہو کے ہونے سے
بس اک جہت تھی، محبت کی اک جہت، ورنہ
غرض نہیں تھی ہمیں ہشت سُو کے ہونے سے
سرائے جاں کے اندھیروں میں کس کو ہونا تھا
مگر یہ بات! کہ اک شعلہ رُو کے ہونے سے
مکالمے سے تو ابلاغ ٹوٹ جاتا ہے
یہ ہونا اچھا رہا گفتگو کے ہونے سے
یہ چار شعر حوالہ ہیں میرے ہونے کا!
اگر میں ہوں تو اسی آبرو کے ہونے سے
یہ چھب، یہ روپ، یہ بل رفتنی ہیں سب چیزیں
غنی نہیں ہے کوئی رنگ و بُو کے ہونے سے
٭٭٭
اب کہاں شہر میں وہ آئنہ تن تم جیسے
لے گئے باندھ کے سب رُوپ کا دھن تم جیسے
ہم نے کھینچے ہیں تو یہ ہم تھے، سو یہ غم کھینچے ہیں
کھنچ سکتے نہیں یہ رنج و محن تم جیسے
ہم بھی جی لیں گے کسی طور بہ ایں حال فراق
ہم نے بھی سیکھ لیے تم سے چلن تم جیسے
ہم میں قوت ہے بچھڑ جانے کی، ہم ہجر نصیب
ہار آئے ہیں کئی لعل و یمن تم جیسے!
کبھی لگتا ہے کہ تم سرو سمن جیسے ہو
کبھی لگتا ہے کہ ہیں سرو سمن تم جیسے
ہم سا مداح بھی لاکھوں میں کوئی ہوتا ہے
شاذ ہوتے ہیں اگر زہرہ بدن تم جیسے
تب تلک سبز ہے یہ برگِ غزل جب تک ہیں
ہم سے آشفتہ بیاں، رشکِ چمن تم جیسے
کون لکھے ترے مصرعے پہ غزل تجھ سی فرازؔ
"کوئی کس منہ سے کرے تم سے سُخن، تم جیسے”
٭٭٭
ہوس نے پوچھا! یقیں کا دیا بچا کہ بُجھا؟
کہا بجھا پہ تری شعلگی بجھا کہ بُجھا
ہوا کا نظم و نسق اور میں اکیلا چراغ!
اور اس پہ بھی مرے لوگوں کو یہ گلہ کہ بُجھا
دیے بجھا دیئے خواہش کے ایک اک کر کے
یہ اک چراغ نفس ہے سو یہ بجھا کہ بُجھا
وہ رہ گزر پہ رکھا دیپ تھا سو بُجھنا تھا
پر اپنے جیسے ہزاروں دیے جلا کے بُجھا
اک آئینے کی چمک تھی ترے ہمارے بیچ
وہ سلسلہ کہ جو ٹوٹا وہ آئینہ کہ بُجھا
ترے خیال کی لو تو نہیں لرزنے دی
ہمارے شعلے کا کیا ذکر وہ رہا کہ بُجھا
شرارِ ہست تھا کوئی سو جل بُجھا یکبار
کوئی چراغِ لحد تھا سو لڑکھڑا کہ بُجھا
میں اک شہاب شکستہ تھا افتخار مغل
بجھا ضرور مگر خوب جگمگا کہ بُجھا
٭٭٭
مری طرح خدا اُس کو بے مزا نہ رکھے
پہ مطمئن بھی بچھڑ کر اُسے خُدا نہ رکھے
جلا کے رکھے دُعا کے چراغ پلکوں پر
فقیر وہ ہے جو لفظوں میں مدعا نہ رکھے
تو سر کا بوجھ بھلا کس لیے اُٹھا کے پھرے
وہ جس کے سر میں خدا عشق کی ہوا نہ رکھے
وہ دھان پان سی لڑکی رکھے گی پاسِ وفا
سنبھال کر جو بدن پر کبھی ردا نہ رکھے
نکال کر جو ہتھیلی پہ اپنا دل رکھ دے
پسِ سکوت وہی قبر پر دیا نہ رکھے
میں ابنِ ارض ہوں میرا نسب مری مٹی
جو خاک زاد نہیں مجھ سے سلسلہ نہ رکھے
خدا کسی پہ نہ لائے یہ وقت، ہجر کا وقت
ہمارے بعد کسی کو خدا جدا نہ رکھے
وہی رکھے درِ ثاقبؔ سے افتخار نیاز
جو شخص اپنی طبیعت قلندرانہ رکھے
٭٭٭
جو اُس نے ٹھان لی وہ کر گیا تو ؟
مرا بیٹا بھی گر مجھ پر گیا تو ؟
میں کس شدت سے اُس کو سوچتا ہوں
وہ میری شدتوں سے ڈر گیا تو ؟
کسی دن چلتے چلتے کاسۂ سر
تری دہلیز پر میں دھر گیا تو ؟
ابھی ہے عشق خطرے کے نشاں تک
یہ سیلاب اور بھی اوپر گیا تو ؟
ہوا مُجھ پر ہنسے گی اس دفعہ بھی
میں دستک پر اگر باہر گیا تو ؟
یہ دنیا تو گئی اُس کے جنوں میں
اور اب کے اُس کا سنگِ در گیا تو ؟
مجھے بس اک ہُنر آیا محبت!
محبت سے بھی گر دل بھر گیا تو ؟
نہ سویا ہوں نہ رویا ہوں بچھڑ کر
اگر میں ضبطِ غم سے مر گیا تو ؟
جو میرے بُرج میں رکتا کہیں مرا سورج
تو میں دکھاتا زمانے کو دوسرا سورج
شفق مثال چمکتا ہے تیری چھت کا اُفق
یہیں کہیں تھا ابھی تیرے حسن کا سورج
تری جُدائی کا عالم ابھی نہیں بھُولا
ابھی بھی دکھتا ہے ساحل سے ڈوبتا سورج
یہ تیرے نام میں کیا دھوپ سی ہے، جب بھی لیا
مجھے لگا ہے کہ مجھ میں اُتر گیا سورج
تو کائنات! یہی کائنات ہے تیری
تھکے تھکے سے ستارے بُجھا بُجھا سورج
یہ میرا جُرم بھی ہے اور میرا فخر بھی ہے
دیے کو میں نے کبھی بھی نہیں کہا سورج
کہ اک زمانے سے سُونا ہے دار کا منظر
تہاڑؔ جیل پکارے کوئی نیا سورج
ہر اک زمین غزل کی زمین لگتی ہے
مری زمیں پہ چمکتا ہے جب ترا سورج
٭٭٭
یہ کچھ دنوں کی نہیں بات اک دہَائی کی ہے
بڑی طویل کتھا اُس سے آشنائی کی ہے
یہ لڑکیوں کے جواں قہقہے یہ گیت، یہ شعر
انہیں نواؤں سے برکت نوا سرائی کی ہے
اس عہدِ مرگِ محبت کا المیہ یہ ہے
وہی ہے عُمر محبت کی جو پڑھائی کی ہے
مجھے ٹک اپنی دعا دیجو میرؔ صاحب جی
مرے بھی سر میں ہوا عشق و آشنائی کی ہے
وہ یوں بھی قہر ہے اپنی اداؤں میں، اور پھر
ستم ظرف کو عادت بھی خود ستائی کی ہے
یہ ایک شام نہیں کٹ رہی کسی صورت
ابھی تو عُمر ہے اور عُمر بھی جدائی کی ہے
ہمارے ہاتھ سے نکلی ہیں تتلیاں کئی بار
ہماری تربیت بچپن سے نارسائی کی ہے
کہاں چھپائے گا تو افتخارؔ اپنوں سے
جو تیری روح میں خوشبو کسی پرائی کی ہے
٭٭٭
وہ تیرے ہجر کی یادیں، ترے وصال کی رو
یہ کیسے پھر کئی ماضی کی سمت حال کی رو
مرے جنوں کی یہ حالت نہیں رہے گی جو ہے
پہ کتنے روز رہے گی ترے جمال کی رو
وہاں پہ تیرے حوالوں کے پھول سوکھ گئے!
پہنچ گئے ہے کہاں تُو، مرے خیال کی رو
سنا ہے اب ترے گالوں کی لو بھی مدھم ہے
گزر گئی ہے یہاں سے بھی اک زوال کی رو
تمہارے دھیان کی رو سے نکل کے جب دیکھا
نکل گئی تھی بہت دور ماہ و سال کی رو
مجھی پہ رہنے دو الزام، تم کہو گے کیا
تمہاری سمت اگر مُڑ گئی سوال کی رو
یہ بحر، بحرِ مقضب ہے افتخار مغل
کسی شبیہ کا موجہ! کوئی خیال کی رو
٭٭٭
کہیں سے ٹوٹ گیا ہے وہ سلسلہ مری جاں
ہمارے بیچ تو کچھ بھی نہیں رہا مری جاں
شکستِ زعمِ تعلق کے بعد بھی دل میں
جہاں پہ تو تھا وہاں پر ہے اک خلا مری جاں
ابھی زبان پہ ہے تیری گفتگو کا لمس
ابھی تو ہاتھ میں ہے تیرا ذائقہ مری جاں
یہ میرے شعر، جو سونے کے مول اٹھتے ہیں
تری نگاہ ہے اس زر کی کیمیا مری جاں
تجھے میں کیسے بتاؤں کے تو ہے میرے لیے
مری ہتھیلی پہ رکھی ہوئی دعا مری جاں
بہت سے باب ہیں آنکھوں میں ناکشودہ ابھی
میں تجھ پہ پوری طرح سے نہیں کھُلا مری جاں
مگر یہ بھید بڑی دیر میں کھلا مجھ پر
وہ انکشاف کا لمحہ تھا واہمہ مری جاں
٭٭٭
تمام عُمر رہا رابطہ ہمارے بیچ
پہ سدِ راہ رہی ہے انا ہمارے بیچ
ہم ایک ہوتے ہوئے خود کو دو سمجھتے رہے
یہ کس نے رکھ دیا تھا آئنہ ہمارے بیچ
یہ ہم تھے! یا کسی حدِ متارکہ کی سپہ
بنا نہیں ہے کبھی راستہ ہمارے بیچ
یہ جز ملالِ مسافت گرہ میں خاک نہیں
یہ جز غبار سفر کچھ نہ تھا ہمارے بیچ
ہزار شامیں گزاری ہیں گفتگو میں، مگر
کبھی کھلا نہیں وہ ان کہا ہمارے بیچ
یہ ٹھیک ہے کہ جلا بھی نہیں قرینے سے
مگر بُجھا بھی نہیں ہے دیا ہمارے بیچ
ہم ایک دوسرے کا دکھ ہیں افتخار مغلؔ
تمام عمر یہی بے رہا ہمارے بیچ
٭٭٭
آپ خنجر بنوں اور آپ ہی گھائل ہو جاؤں
زہر بھی آپ بنوں آپ ہی زائل ہو جاؤں
گھنگرو بن کے بجوں تیرے ہر اک گام پہ میں
تُو جو کہہ دے تو ترے پاؤں کی پائل ہو جاؤں
یہ بھی ہو سکتا ہے میں مانگ لوں تجھ کو تجھ سے
یہ بھی ہو سکتا ہے اک روز میں سائل ہو جاؤں
شام بن کر میں اُتر آؤں دریچے سے ترے
بن کے خوشبو میں تری راہ میں حائل ہو جاؤں
زندگی تُو مجھے قائل نہیں کر پائی ہے
تُو اگر اس سے ملا دے تو میں قائل ہو جاؤں
عین ممکن کہ میں ہو جاؤں سراسر تُجھ سا
عین ممکن ہے کہ میں خود پہ ہی مائل ہو جاؤں
میں محبت ہوں محبت کا اثر ہوں اے دوست
یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ میں زائل ہو جاؤں
٭٭٭
کوئی چٹان چٹختی ہے جب چٹانوں میں
تو اک ہُوک سی اُٹھتی ہے سخت جانوں میں
بہت سے لوگ ہوئے رزق رہ گزارِ غزل
بہت سے لوگ تھے لیلیٰ کے سار بانوں میں
یہ کن کے جسم اٹھائے ہوئے ہیں میں اور تو؟
یہ کون اجنبی ہیں میری، تیری جانوں میں
ولیؔ ہو میرؔ تقی ہو کہ مصحفیؔ کہ انیسؔ
عجیب طرح کے افسوں ہیں ان فسانوں میں
کہیں کہیں پہ محبت بھی کر رہے ہیں لوگ
کہیں کہیں پہ کوئی گھر میں بھی ہے مکانوں میں
ہزار پھیر ہیں دریائے ہست کی رہ میں
ہزار موڑ ہیں ہونے کی داستانوں میں
تو کیا طلسم تھا ؟ اس روز افتخار مغلؔ
وہ بولتی تو کھنکتے تھے لفظ کانوں میں
٭٭٭
حبس میں ایک درِ باز بنا رکھا ہے
حرفِ خاموش کو آواز بنا رکھا ہے
تو نے جس شخص کو سمجھا تھا فقط گرد و غبار
اس نے اب تک تجھے دمساز بنا رکھا ہے
اس کی پلکیں بھی نہیں لرزیں کبھی اس کے لیے
ہم نے جس عشق کو اعزاز بنا رکھا ہے
داغِ رسوائی! ترا شکر! کہ جس نے مجھ کو
خلقتِ شہر میں ممتاز بنا رکھا ہے
روح کی روح تلک مجھ پہ ہویدا ہے وہ شخص
خود کو جس شخص نے اک راز بنا رکھا ہے
میں ترے خواب کی تصویر بھی لے سکتا ہوں
نیند میں تو نے وہ انداز بنا رکھا ہے
مختصر یہ کہ وضاحت نہیں مسلک اپنا
ہم نے ایجاز کو اعجاز بنا رکھا ہے
٭٭٭
محبتوں کا نتیجہ دکھائی دیتا ہے
یہ خواب مجھ کو ادھورا دکھائی دیتا ہے
اُسے یہ کون بتائے کہ اس کا رنگِ شکست
ادھورے خط میں بھی پُورا دکھائی دیتا ہے
میں جب بھی عشق کا انجام سوچتا ہوں، مجھے
ہمیشہ خواب میں صحرا دکھائی دیتا ہے
کبھی کبھار چمکتا ہے شعروں میں کوئی شعر
کبھی کبھی یہ ستارا دکھائی دیتا ہے
عجب طلسم ہے جس شے کو غور سے دیکھوں
اسی میں اس کا سراپا دکھائی دیتا ہے
شکستہ لوگ بھی ہوتے ہیں ٹوٹے آئینے
ان آئنوں میں تماشا دکھائی دیتا ہے
اُسے بھی نیند نہیں آتی افتخار مغلؔ
مجھے بھی اس کا دریچہ دکھائی دیتا ہے
٭٭٭
بلا سے دوستو! جینا محال ہو جائے
امیرِ شہر سے تو اک سوال ہو جائے
یہ شاعری یہ ریاضت کوئی مذاق ہے کیا
کہ جو بھی چاہے وہی خوش خیال ہو جائے
کوئی طلسم کدہ ہے یہ کُنجِ یادِ یار
جو اس میں بیٹھ کے رو لے نہال ہو جائے
وہ تیرے وصل کی بارش وہ تیرے روپ کی دھوپ
کمال ہو جو وہ موسم بحال ہو جائے
کسے فراغ کہ ناپے محیط عرصۂ عمر
کسے دماغ! گلِ ماہ و سال ہو جائے
خیال میں تو رمیدہ ہے کب سے اک خوش چشم
غزل میں قید اگر وہ غزال ہو جائے
وہ بے نیاز جو چاہے تو افتخار مغلؔ
نہیں بعید کے تُو لازوال ہو جائے
٭٭٭
جو کبھی آنکھ کو جل تھل نہیں ہونے دیتا
وہ کہانی بھی مکمل نہیں ہونے دیتا
شانت رکھتا ہے دل و جاں کی محبت کا سرور
عشق انسان کو بوجھل نہیں ہونے دیتا
تو کسی آنکھ کا مرکز ہو، کسی دل کا سُرور
میں تجھے جان سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
شاعری جبسِ ہستی میں ہے روزن کی طرح
یہ ہُنر حبس میں پاگل نہیں ہونے دیتا
اور کیا چاہتے ہیں لوگ وفاداروں سے
پیار خوابوں کو معطل نہیں ہونے دیتا
مسلکِ غم کا پیمبر ہوں میں اور میرا خدا
مجھ پہ یہ دین مکمل نہیں ہونے دیتا
اس کو اُلجھی ہوئی چیزوں سے بہت رغبت ہے
وہ مرے مسئلوں کو حل نہیں ہونے دیتا
٭٭٭
باعثِ ترکِ تعلق جو بھی تھا اپنی جگہ
جل رہا ہے آج تک تیرا دیا اپنی جگہ
میں تو خیر اک خواب ہوں میری پریشانی نہ پوچھ
خواب کی تعبیر تُو ہے، تو بتا اپنی جگہ
گھیر لیتی ہے محبت اور خوشبو اور موت
اس طرح، جیسے بنا لے خود ہوا اپنی جگہ
میں نے دنیا مانگ لی ہوتی تو مل جاتا وہ شخص
میں تو سمجھا ہر دعا کی ہے جزا اپنی جگہ
اپنی اپنی بارگہ ہے اپنی اپنی سجدہ گاہ
جان! تو اپنی جگہ ہے اور خدا اپنی جگہ
یہ جگہ بھرنے کو اپنا آپ خالی کر دیا
اس بھرے گھر میں مگر تیرا خلا اپنی جگہ
وہ نہیں ملتا تو پھر اس کو خدا سے بھی نہ مانگ
عاشقی اپنی جگہ ہے اور انا اپنی جگہ
٭٭٭
کچھ روز سے یہ آئینہ دھُندلا بھی بہت ہے
دیکھے کوئی دل میں تو تماشا بھی بہت ہے
اب میلا ہے جیون کا لبادہ تو گلہ کیوں
سچیہ ہے کہ ہم نے اسے پہنا بھی بہت ہے
مانگے سے کبھی گوہرِ مقصود ملا ہے ؟
یہ جانتے تھے پر تجھے مانگا بھی بہت ہے
ایسی بھی نہیں تلخ محبت کی حکایت
یہ زہر پیا جائے تو میٹھا بھی بہت ہے
ہم اہلِ جنوں، وقت کے مقتل میں پلے ہیں
پر اپنا قبیلہ پھلا پھُولا بھی بہت ہے
اُلجھا بھی ہواؤں سے بہت پیار کا پرچم
لیکن یہی پرچم ہے کہ اُونچا بھی بہت ہے
کچھ رُونا رُلانا مری تہذیب بھی ہے یار
کچھ میرؔ سا جینا مجھے بھایا بھی بہت ہے
٭٭٭
بارِ جسم اور وزنِ جاں لے کر
اتنا ساماں چلیں کہاں لے کر
اک پریدہ سا داغِ جسم اک اِسم
ہم بھی نکلے ہیں کیا نشاں لے کر
جس کے پاؤں تلے زمیں ہی نہ ہو
کیا کرے سر پہ آسماں لے کر
ایک آنسو مجھے عطا کردہ
پانیوں سے بھرا جہاں لے کر
بیچ دی جاودانیِ ناہست
ہم نے اک ہستِ رائگاں لے کر
دل فروشوں کے سامنے مت آ
یہ بدن کی بھری دکاں لے کر
میں سرائے بدن سے نکلا ہوں
افتخار ایک کارواں لے کر
٭٭٭
میں ایک حوالہ ہوں مجھے دھیان میں رکھنا
اک پھول مرے نام کا گُلدان میں رکھنا
آنکھوں سے بتا دینا دل و جان کے احوال
افسانے کو افسانے کے عنوان میں رکھنا
سو حادثے ہوتے ہیں تعلق کے سفر میں
ٹوٹے ہوئے رشتوں کو بھی سامان میں رکھنا
تصویر بھی حیران ہے آنکھیں بھی ہیں حیران
حیران کو کیا دیدۂ حیران میں رکھنا
موت اور خریدار بتا کر نہیں آتے
کچھ جنسِ وفا وقت کی دکان میں رکھنا
ہوتا ہے جو ہر آن اسے دھیان سمجھنا
جو ہو نہیں سکتا اسے امکان میں رکھنا
میں حاصلِ تفریق کبھی بھی نہ بنوں گا
تم جب کبھی رکھنا مجھے میزان میں رکھنا
٭٭٭
یہ میری آنکھ میں جو اَن کہی محبت ہے
مرا تمام اثاثہ یہی محبت ہے
ادھورے پن سے تو لگتا ہے جیسے دنیا بھی
کسی کی نصف میں چھوڑی ہوئی محبت ہے
میں جانتا ہوں کہ ہے اور سا مرا انجام
میں جانتا ہوں مجھے اور سی محبت ہے
یہ چاندنی جو مرے چار سُو ہے یہ تُو ہے
یہ دل میں دھوپ سی جو ہے تری محبت ہے
میں اس کی پہلی محبت ہوں افتخار مغلؔ
مگر وہ شخص مری آخری محبت ہے ٭٭٭
نگوں کہیں بھی کبھی سر نہیں کیا ہم نے
یونہی تو زیست کو دو بھر نہیں کیا ہم نے
بنا لیا تھا بزرگوں نے اک مکان، مگر
تمام عمر اسے گھر نہیں کیا ہم نے
دیا زیادہ ہے دنیا کو اور لیا کم ہے
کبھی حساب برابر نہیں کیا ہم نے
اگرچہ زیست کے بازار میں رہائش کی
پر اپنا نرخ مقرر نہیں کیا ہم نے
وہ آدمی ہے ہماری طرح پہاڑ نہیں
سو اس کو چاہا، اسے سر نہیں کیا ہم نے
سو افتخار مغلؔ قصہ مختصر یہ ہے
کسی بھی شخص کو محور نہیں کیا ہم نے
٭٭٭
تری صدا پہ پلٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
سو نصف نصف میں بٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
پسِ انا بھی وہی اک سکوتِ مرگِ انا
کہ یہ نقاب اُلٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
اب ایک بار بہم ہو کے بھی ذرا دیکھیں
کہ ایک ایک میں بٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
گہے اتار کے اک سمت رکھ دیے خد و خال
طلسمِ جسم سے ہٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
ہمیں کو ڈالنی ہے اب سپر بہ مقتلِ زیست
اسی محاذ پہ ڈٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
ہمیں تو زیست کا آموختہ نہ یاد ہوا
کہ عمر بھر اسے رٹ کر بھی ہم نے دیکھ لیا
٭٭٭
تمہاری راہ کا اک رہ نورد ایسا تھا
جو اپنے آپ میں صحرا کی گرد ایسا تھا
سو اس کا چہرہ تھا سرسوں کے کھیت کے جیسا
کہ وہ بچھڑتے ہوئے غم سے زرد ایسا تھا
بس ایک وار تھا جو سامنے سے آیا تھا
خوشا کہ دشمنوں میں ایک مرد ایسا تھا
خلوصِ دل سے دعا کی تھی اپنے مرنے کی
گزشتہ رات تو فرقت کا درد ایسا تھا
تپش وہ تھی کہ سُلگتا تھا پیرہن اس کا
چھوا تو برف تھا جذبوں میں سرد ایسا تھا
غبار ہو کے بالآخر ہوا کا رزق بنا
تمہارے شہر کا اک کوچہ گرد ایسا تھا
٭٭٭
تمہارے سامنے اک مرتبہ خدا لے جائے
پھر اس کے بعد بلا سے اگر قضا لے جائے
گر آبرو ہی سلامت نہیں بہ مقتلِ زیست
تو پھر یہ کاسہِ سر کوئی کیوں بچا لے جائے
طلا بنایا ہے، خود کو کھپا کے ہجراں میں
جسے ہوس ہو وہ ہم سے سے یہ کیمیا لے جائے
تمہارا سودا اگر سر میں ہے تو میں بھی ہوں
یہ مُشتِ خاک بدن ہے سو یہ ہوا لے جائے
اب ایسا صاحبِ ساماں بھی کون ہے جو یہاں
سفر پہ نکلے تو گھر سے ہی راستہ لے جائے
سو ہم نے پھینک دی باہر گلی میں یہ دنیا
جسے بھی چاہیے ہو، وہ اسے اُٹھا لے جائے
٭٭٭
سوادِ ہجر میں رکھا ہوا دیا ہوں میں
تجھے خبر نہیں کس آگ میں جلا ہوں میں
میں قریہ، قریہ پھرا گرد باد بن کے جہاں
اسی زمین پہ پرچم صفت اُٹھا ہوں میں
ابھی چھٹی نہیں جنت کی دھُول پاؤں سے
ہنوزِ فرش زمیں پر نیا نیا ہوں میں
مری شگفت کے موسم ابھی نہیں آئے
کہیں کہیں پہ مگر پھر بھی کھل گیا ہوں میں
مری شکست بھی ہے فتح افتخار مغلؔ
کہ یوں ہی بنتے بگڑتے ہوئے بنا ہوں میں
٭٭٭
کم کسی غم کے گرفتار نظر آئیں گے
ہم ہی دو چار گُنہ گار نظر آئیں گے
یہ جو ہم لوگ ہیں ہم پھول اُگانے والے
موسم آئے گا تو گُلزار نظر آئیں گے
سر اُٹھیں گے تو بڑا قہر بپا ہو گا یہاں!
سرو و شمشاد بھی گل دار نظر آئیں گے
یہی دہلیز کے پتھر، یہی افتادہ کے لوگ
اُٹھ گئے تو یہی دیوار نظر آئیں گے
قافلے گزریں گے مقتل سے اطاعت میں مری
کل یہی راستے ہموار نظر آئیں گے
یہی خوش قد، یہی میرؔ اور اسدؔ اور اقبالؔ
دور سے بس یہی مینار نظر آئیں گے
٭٭٭
صدمۂ حرفِ گرہ گیر نہیں دیکھا ہے
آپ نے بھی پسِ تحریر نہیں دیکھا ہے
اس قدر سہم گئے دیکھ کے مقتل کو جو تم
تم نے شاید مرا کشمیر نہیں دیکھا ہے ؟
میں نے اس غم کو چھُوا اس کی تلاوت کی ہے
محض شعروں میں غمِ میرؔ نہیں دیکھا ہے
مری اس نسل نے دیکھے ہیں جہانگیر کنی
پر کہیں عدلِ جہانگیر نہیں دیکھا ہے
آپ نے نغمۂ زنجیر سنا ہے لوگو
آپ نے صاحبِ زنجیر نہیں دیکھا ہے
جان! بس تو نے حکایات سُنی ہیں غم کی
جان! تم نے غمِ شب گیر نہیں دیکھا ہے
٭٭٭
ابھی تو گھاؤ ترے ہجر کا بھرا بھی نہیں
بھرا بھی ہو تو تاسف ؟ نہیں ذرا بھی نہیں
یہ دیکھ کر مری حیرت کی انتہا نہ رہی
کہ میں نے ہاتھ بھی پھیلا دیا مرا بھی نہیں
میں تج بھی سکتا ہوں کھیل اپنے ہونے کا
یہ کھیل جس سے مرا دل ابھی بھرا بھی نہیں
تو مجھ کو وہ بھی نہیں سمجھا دُوسروں کی طرح
جو اپنا آپ ہے میرا، جو دوسرا بھی نہیں
کہ چاہے جانے کی خواہش بھی چاہنے میں ہے
سو میرے یار! یہ سودا بہت کھرا بھی نہیں
میں اپنی قبر ہوں مدت سے افتخار مغلؔ
اور افتخار مغل خود سے میں ڈرا بھی نہیں
٭٭٭
وہی تیرا حوالہ رہ گیا ہے
وگرنہ تو یہاں کیا رہ گیا ہے
میں پورا ہو گیا تو یاد آیا
مرا قصہ ادھورا رہ گیا ہے
مجھے تقسیم کر کے بھی مری جاں
کہو کتنا حسارہ رہ گیا ہے
یہ میلہ ختم سمجھو جسم و جاں کا
فقط میلے کا ملبہ رہ گیا ہے
محبت اب کہاں ان موسموں میں
محبت استعارہ رہ گیا ہے
چلو ہم ڈھے گئے لیکن محبت
ترا پرچم تو اُونچا رہ گیا ہے
٭٭٭
اس جسم کی آشُفتہ بیانی سے گزر کر
تھک جاتا ہے انسان جوانی سے گزر کر
بے رنگ نظر آتا ہے جس کو مرا کردار
دیکھے تو ذرا میری کہانی سے گزر کر
ہم تم بھی تو اے دوست! بہت ٹوٹ گئے ہیں
ٹوٹی ہوئی ترتیبِ زمانی سے گزر کر
لیکن، کوئی پہنچا ہی نہیں دل کے متن تک
اجسام کے الفاظ و معانی سے گزر کر
بھیگی ہوئی لگتی ہے ہر اک چیز کی تصویر
اس آنکھ میں ٹھہرے ہوئے پانی سے گزر کر
٭٭٭
تشکر: سردار فرحان محمد خان جنہوں نے اس کی کمپوزنگ کی اور فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
بہت خوب جناب۔۔۔۔۔ جزاک اللہ