FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فوزیہ

)ناولٹ)

 

 

 

ایم اے رضا

ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

چاچا کرملی(کرم علی)او چاچا کرملی۔مجھے دو روپے کی املی دے دے۔

او دھیے تو ہن نکی جئی بالکی نہی رہی توں ہن وڈی ہو گئی ایں۔

تے۔ ھولی بولیا کر۔

چاچے کرم علی نے دو روپے کی املی تول کر کاغذ میں تہ کر کے فوزیہ کو دیتے ہوئے کہا۔

تو۔

فوزیہ بولی۔

چاچا ابھی تو میں صرف چھٹی جماعت میں ہوں جب آٹھویں میں جاؤں گی تو دیکھ لوں گی۔

اس نے املی لی اور گلی کی نکڑ  کی طرف بھاگنے لگی۔

اوئے دھیے ھولی ٹر تو کڑی ایں منڈا نہی ایں۔

مگر اس نے چاچے کرم علی کی آواز کو سنی ان سنی کیا اور موڑ مڑ کر سکول جانے لگی ابھی اس نے سکول کے دروازے سے اندر قدم رکھا ہی تھا کہ ساتھ ہی تفریح بند ہونے کی گھنٹی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

اور۔ساتھ ہی اسے سہیلیوں نے گھیر لیا اس نے تھوڑی تھوڑی املی سب میں بانٹی اور باقی مٹھی میں رکھ کر واپس کلاس میں چلی گئی۔

فوزیہ پتر۔ فوزیہ پتر۔ فوزیہ پتر۔

اس کی اماں کی آواز نے اسے ایک دم خیالوں سے چونکا دیا اور وہ خیالوں سے باہر آتے ہوئے بولی۔

جی اماں۔

پتر دروازے تے ویکھ کوئی آیا اے۔

جی اماں جا رہی ہوں۔

دروازہ بند کر کے کنڈی لگا کر واپس آتے ہوئے کہا۔

اماں فقیر تھا چلا گیا۔

پتر اہناںنوں خالی نئیں موڑی دا ایہہ بہت پہنچے ہوندے نے۔

اونہہ ہوں اتنے پہنچے ہوئے ہوتے تو بھیک مانگ رہے ہوتے اس نے زیر لب کہا اور کہہ کر اندر چلی گئی اور اپنی آٹھویں جماعت کی کتابیں دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ کیا اماں مجھے نویں جماعت میں داخلہ لے کر دے گی یا مجھے بھی اماں کی طرح بس آٹھ جماعت پاس کا انعام ملے گا۔ کیوں ۔۔

کیوں نہیں۔میں۔ ضرور پڑھوں گی میں نے پورے سکول میں سب سے زیادہ نمبر لیے ہیں مجھے۔ مجھے۔ کون روک سکتا ہے پڑھنے سے۔ میں۔ ضرور پڑھوں گی۔ آگے۔ ہر صورت۔ پڑھوں گی مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں پڑھوں گی ضرور پڑھوں گی۔

اس کی نظریں کمرے کی اندرونی سیلی دیواروں کے برسوں پرانے بوسیدہ کاغذ پڑھنے لگی گویا وہ اس کے لیے نویں جماعت کا نصاب ہو جس کا اس نے امتحان دینا ہے۔

اسیں اثناء میں کندھے پر ہاتھ کا دباؤ پڑتے ہی اس نے والدہ کا ہاتھ سمجھا مگر دباؤ اپنے وقت سے طویل ہوا تو اس نے مڑ کر دیکھا۔

سِجو تو۔

جی میں۔

تو۔

تو کب آئی۔

فوزیہ نے پوچھا۔

اچھا جی ما بدولت کے دروازہ پیٹنے اور اندر آنے تک موصوفہ کو پتا ہی نہیں چلا۔

کیا ہٹ دھرمی ہے یہ۔

نہیں نہیں میرا مطلب ہے کہ سسرال سے کب آئی فوزیہ نے پوچھا تو اس کا چہرہ کچھ مرجھا سا گیا مگر وہ چھپاتے ہوئے بولی "کل ہی آئی ہوں بس ذرا کام کاج کی وجہ سے دیر ہو گئی اور کچھ دیگر وجوہات کی بنا پر فراغت نہ مل سکی آج ذرا فرصت ملی تو دوڑی آئی تیری طرف”بہت اچھا کیا”میں بھی آج کل کچھ زیادہ پریشان ہوں اپنی پڑھائی اور دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے تم سے چند باتیں کر لوں گی تو دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا” فوزیہ نے کہا اور فوراًاس کو اپنی چارپائی پر سرہانے کی طرف بٹھا کر خود پائینتی کی طرف بیٹھ گئی اور۔یک زبان ہو کر پر تکلف الفاظ کی بھر مار کر دی "سِجو کیا کھائے گی؟کیا پیے گی؟دیکھے گی ؟سِییے گی ؟وغیرہ وغیرہ ” اوئے بس بس جناب آپ تو لگتا ہے مجھے مارنے کا بھر پور پروگرام بنائے ہوئے "سنا ہے تمھارے ہاتھ کی چائے بہت مشہور ہے "سِجو بولی”تمھیں کیسے پتا چلا فوزیہ نے پوچھا "چاچی مہیداں بتا رہی تھی کہ فوزیہ چائے اتنی اچھی بناتی ہے کہ جواب نہیں سجو بولی "اچھا چل تو بیٹھ میں تیرے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں” فوزیہ نے کہا اور اٹھ کر دروازے کی طرف چل دی اور لکڑی کے دروازے سے وہ چھجے نما ٹین والے چھت والے برآمدے میں داخل ہوئی اور اس تکون نما ۷ مرلے کے گھر کی چاردیواری کے ایک طرف کونے پر بنے کوٹھڑی نما باورچی کھانے کی جانب چل دی باورچی کھانے میں مٹی کے تیل والے چولہے پر چاہے بنانے میں تو اسے چند ساعتیں لگیں مگر چائے کو پیالیوں میں انڈیلنے میں جیسے برسوں لگے چونکہ اس کی والدہ کی ڈانٹ پھٹکار بھیجو اسے برتنوں کے کھڑکھڑانے پر اسے برابر موصول ہو رہی تھی۔

اس لیے جو کہ در حقیقت اس کے مستقبل کے فائدے کی چیز تھی کہ برتن کو یوں نہ کرو فلاں چیز کو آرام سے استعمال کرو۔فلاں ایسے استعمال کرتے ہیں۔

اس لیے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا وہ ایتھنز اور سپارٹا کے دور سے چائے انڈیلنے کی سزا پر معمور ہے جو اسے ابھی تک دی جا رہی ہے اور اس کی والدہ کی جلی کٹی باتیں بقول ان کے اس کے فائدے کے لیے تھی اضافتاًسزائے با مشقت کا تصور واضح کر رہی تھی اور اس کے اندر یہ بات کسی خنجر کی نوک یا تیر کی اَنی کی طرح چبھ رہی تھی کہ وہ اپنی والدہ کی ڈانٹ پھٹکار بھی چائے کے ساتھ ساتھ پیالیوں میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہو مگر مقطِر اس میں مانع تھی اور وہ چاہے کی پتی کے ساتھ ساتھ گویا ان کثیف باتوں کو بھی الگ کر کے چائے کو صاف شفاف کر رہی تھی۔

وہ چائے لے کر واپس پلٹی۔

٭٭٭

 

 

 

سِجو چارپائی کے تکیے کے نیچے موجود پھٹے گتوں والی ڈائری نکال کر ورق گردانی کرنے لگی تو اچانک ایک صفحے پر اس کی نظر ٹک گئی۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

آؤ چپ کی زباں میں خاور

اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں

غالب کی شاعری میں حقیقت اور مجاز دونوں ؟۔

معروف قول یہی ہے۔

لیکن۔

اس کو رد نہیں ؟۔

زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا

وضاحتیں بھی کبھی تِشنہ رہ جاتی ہیں۔

مربوط تربیت نہ ہو تو؟۔

اذیتیں ملتی ہیں ؟۔

راحتیں بھی کبھی اذیت بن جاتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

دروازے کے پردے کے پیچھے سے فوزیہ ہاتھ میں ٹرے پر چائے کی پیالیاں اور کچھ بسکٹس سجائے برآمد ہوئی۔

اسی اثنا میں سِجو نے چپکے سے ڈائری واپس تکیے کے نیچے دھکیل دی اور فوزیہ کا دھیان نہ پڑا۔

لیجئیے جناب ایسی چائے آپ کو پورے جلالپور میں کہیں بھی نہیں ملے گی فوزیہ نے شوخ ادا سے کہا اور دونوں چائے کی شڑوں شڑوں میں مصروف ہو گئیں ادھر اُدھر کی ہانکتے ہانکتے اچانک سجو نے فوزیہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اچھوتے لفظوں سے پوچھا فوزیہ یہ ابن مریم کا کیا چکر ہے –میں سمجھی نہیں فوزیہ نے نادانی کا اظہار کیا –اتنے میں سجوں نے پھٹے گتوں والی ڈائری کو تکیے کے نیچے سے واپس نکالا اور اس کے سامنے چند صفحات کھول کر رکھ دئیے تو جیسے فوزیہ کو کوئی سیاق و سباق مل گیا ہو بات سمجھنے کے لیے –اوہو یار یہ تو ویسے ہی بس یونہی۔

بس یونہی۔

سجو نے بات کاٹتے ہوئے کہاں اور فوزیہ کے چہرے پر رنگ اترنے لگے —اس نے بات بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاَسجو چھوڑ نا۔

یار۔ کوئی اور بات کرو تم کوئی سسرال کے بارے بتاؤ یا جیجا جی کے بارے میں کچھ بتاؤ وغیرہ وغیرہ ؟

یار تو سیدھی طرح بہنوئی نہیں بول سکتی اتنا برا لگتا ہے یہ لفظ مجھے —پتا نہیں زمانے کو کیا ہو گیا ہے فیشن کی دوڑ میں پہلے پہلے کپڑے اور چہرے خراب ہوئے اور اب زبان بھی برباد ہونے لگی –اچھا جی تو۔

تو۔

اب بھی دقیانوس کی دقیانوس ہی ہے فوزیہ نے چڑ کر کہا اس پر سجو ہنس پڑی سِجوبندے کو زمانے کے ساتھ بھی چلنا چاہیے ؟–

ہاں ضرور چلنا چاہیئے مگر اس کا مطلب۔

یہ  قطعاً نہیں ہے کہ زمانہ بھی حیران ہو جائے کہ اتنا تیز تومیں بھی نہیں دوڑ رہا–سجو نے جواب دیا

اچھا چھوڑ تو ان باتوں کو کچھ سسرال بارے بتا کہ کیا حال ہے احوال ہے ؟۔

-بخیر۔

یا؟—فوزیہ نے پوچھا —کچھ خاص نہیں غلط فہمیاں بھی وہی ہیں اور میں بھی وہی ہوں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ پہلے اپنے گھر والوں کو وضاحتیں دینی پڑتی تھیں اب اب اپنے سسرال والوں کو دینی پڑتی ہیں —یہ خدا کا شکر ہے کہ میری ساس زیادہ شکیک المزاج نہیں ہے اس جواب کے ساتھ سجو کی آنکھیں کچھ نم ہو گئیں مگر فوزیہ کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اس نے دوبارہ ضبط سے کام لیا اور دوبارہ طبیعت کو معمول پر لانے میں کامیاب ہو گئی۔

سجو کیا بات ہے تو کچھ چپ چپ سی ہو گئی ہے فوزیہ نے اسے جھنجھوڑا۔

نہیں فوزیہ کوئی خاص بات نہیں اگر زندگی میں کامیاب رہنا چاہتی ہو تو میری ایک بات پلے باندھ لو کہ زندگی میں جتنا ضبط سے کام لو گی اتنا لوگ تمھیں اپنا سمجھیں گے تمھارے سے اپنے دکھ سکھ سنے سنائیں گے اور اگر تم اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ جاؤ گی تو سب تمھیں بوجھ سمجھیں گے اور تم سے دور ہونے کی کوشش کریں گے۔

ٹھیک ہے جناب مابدولت سر تسلیم خم کرتے ہیں سجو کے فلسفیانہ اور حقیقت سے پر کشیدہ جواب پر گویا ظرافت کی لکیر کھینچ دی ہو

٭٭٭

 

 

 

گلی والے دروازے کی ٹین کی چادر پر جب چند ضربیں لگیں تو ساتھ ہی آواز آئی زینب دھیے۔او زینب دھیے بواء کھول میں تیری ماسی بشیراں کھلوتی پئی آں زینب نے آواز سنی تو گویا ہوئی۔

ماسی۔بوائ۔ تے۔ نا۔ بھن۔آؤنی پئی آں –زینب دروازہ کھولتے ہوئے –آ ماسی آ جا لنگ اندر–ماسی کے اندر آنے پر اس نے دروازہ بند کیا اور پردہ واپس گرا دیا –ماسی صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئی تو زینب ساتھ پڑے مورے پر بیٹھ کر بولی –ماسی سنا کی حال نی —فوزیہ پتر ماسی بشیراں آئی اے تے کوئی چاہ پانی دا بندوبست کر —اچھا امی جی

فوزیہ نے جواب دیا۔

-نا –نا–نا— دھیے رھن دے –آ–ھُن رانیاں دے گھروں کھا پی کے آئی آں —ماسی آج کیویں ٹانگ لگ گیا تیرا ایدھر پھیراں پاون واسطے —زینب نے پوچھا ۔؟—دھیے میں ھُن رانیاں دے گھروں آئیں آں۔

-ماسی کیہڑے رانیاں دے وَلوں۔

-زینب نے تفصیلاًپوچھا۔

-اوہی رانا فیاض اشرف —جھیٹرے جامع مسجد دے پِچھے رہندے نے۔

رانے فیاض دا نِکا پتر رانا نیاز اشرف۔پُتر۔

ماسی نے تفصیل بتائی۔

اچھا اچھا رانا فیاض اشرف صاحب اوہناں دا پُتر۔پر خیر سی ماسی اوہناں وَل۔۔؟ہاں ہاں دھیے خیر اے۔

اوہ اپنے پتر ارباز دا ویاہ کرن دا ارادہ رکھ دے نے۔

یعنی رانا فیاض اشرف صاحب دے پوتے رانا نیاز۔

دے پُتر دا۔  تے اوہناں مینوں رشتے دے بارے اکھییا۔

اے تے ھالے میں ایہہ گل صرف تیرے آگے کیتی اے فوزیہ دے حوالے نال جے توں بہتر سمجھیں تے میں اوہناں نال آگے گل ودہاواں۔

دھیے کھاندا پیندا گھر تے ماشا اللہ اوہناں دا پُتر آپ وی کسے بیکری تے لگیا ہویا اے تے نال اوہدے پیوُ دی اپنی منیاری دی دکان وی اے۔

ماسی ایہہ ساریاں گلاں تے ٹھیک نے پر توں مینوں کجھ سوچن دا موقع تے دے تے میں فیر تِن دساں دی۔

زینب نے استفسار کیا۔۔

ہاں ہاں دھیے کیوں نئیں توں رج کے تے سوچ لے تے میں اینی دیر وچ ایہہ گل اپنے تک ای رکھاں گی تودھیے پریشان نہ ہوؤیں میرا اپنا وی ایہہ ای دل اے کہ فوزیہ دی شادی اوہدے نال ہووئے۔

ایہہ گل سن کے تے زینب ڈُوہنگی سوچ وچ پئے گئی

٭٭٭

 

 

 

زینب فوزیہ کے ساتھ ٹانگے کی پچھلی سیٹ پر بیٹھتے ہی خیالات کے بہت بڑے بھنور میں کھو گئی۔

-اشتیاق حسین دھلی ہوئی اجلی ڈاکیے کی وردی پہنے صحن میں سلیقے سے بچھی چارپائی پر بیٹھا ناشتہ کرنے کے بعد چنگیر میں رکھے پونے کے ساتھ ہاتھ صاف کر رہا تھا کہ اتنے میں اس کی بیوی اس کے لیے چائے لے آئی تو وہ چائے پینے لگا اور چائے پینے کے بعد وہ اٹھا اور برآمدے کی طرف بڑھا اور برآمدے کے ستون کے اندر کی طرف لٹکے آئینے میں اس نے اپنی ادھیڑ عمر پر اچکتی نظر ڈالی اور ایک نظر اپنے بالوں پر ڈالی اور ان میں ہاتھ پھیرتے وقت اس نے چند سفید بال دیکھے تو کچھ پریشان ہوا مگر  ڈاک خانے جلدی جانے کی فکر نے اس پریشانی پر قابو پا لیا اور صحن میں نلکے کی پا نچ فٹی چار دیواری کے پاس کھڑے اپنے سھراب کے سائیکل کے پاس آ گیا اور سائیکل کی گدی کے نیچے سے صافی نکال کر اس نے سائیکل صاف کی اور پھر صافی واپس رکھنے کے دوران اس نے باہر وا لے دروازے پر آواز سنی "اشتیاق حسین ” او بھائی اشتیاق حسین "یہ تو ماسٹر نعمت اللہ صاحب کی آواز لگ رہی ہے اس نے خود سے کہا اور سائیکل سٹینڈ پاوں سے ہٹا کرسائیکل کو دروازے کی طرف سر کا نے لگا اس اثناء میں اس کی بیوی نے دوپہر کے کھانے کا ٹفن اسے دیا تو اس نے ٹفن ہینڈل کے ساتھ لٹکا لیا تو اس کی بیوی نے گلی والے دروازے کا پردہ ہٹا یا اور دروازہ کھولا تاکہ اشتیاق حسین سائیکل باہر نکال سکے اتنے میں اپنے پیکو کے سائیکل کے ساتھ کھڑے ماسٹر نعمت اللہ صاحب سے نظر ٹکرا گئی تو اس نے ادب سے سلام کیا تو جواباً ما سٹرصا حب نے سلام کے جواب کے ساتھ "جیوندی رہ دھیے "کی دعا دی تو اشتیاق حسین نے سائیکل باہر نکالی اور ماسٹر صاحب سے سلام دعا کرنے لگا تو اس کی بیوی نے پیچھے سے دروازہ بند کر لیا اشتیاق حسین کیا بات ہے آج کل تھوڑا پریشان نظر آتا ہے ماسڑصا حب کی بات کے دوران دونوں نے سائیکل سرکا کر پاوں پیڈل پر رکھا اور دوسرا پاوں کیر ئیر کے اوپر سے گزارتے ہوے گدی پر بیٹھے اور سائیکل چلانے لگے تو اشتیاق حسین نے جواب دیا ماسٹر صاحب ریٹائر منٹ میں صرف ایک سال باقی ہے بس اسی وجہ سے کچھ پریشان تھا اس پر ماسٹر صاحب اسے قدرت، قسمت، مقدر، نامی چیزیں سمجھانے لگے اور اس دوران ان کی بات وقفوں کا شکار ہو جاتی جب سامنے سے آنے والے تانگوں اور اکا دکا موٹر کاروں کی زد سے بچ بچا کے نکلتے ؟۔

اگلے موڑ پر دونوں کو جداگانہ اور تنہا رستوں میں چلنا پڑتا۔

منزل پر پہنچنے کے لیے روزانہ کی طرح وہ آج کی صبح بھی جب میر عالم چوک پر پہنچے تو ماسٹر صاحب خدا حافظ کہہ کر دائیں جانب مڑنے لگے اور اشتیاق حسین بھی ڈاکخانے جانے کے لیے بائیں جانب مڑنے لگا۔

ماسٹر صاحب ابھی تھوڑا آگے ہی گئے تو پیچھے کسی موٹر کی بریک لگنے کی زور دار آواز کے ساتھ ایک ٹکر کی آواز سنی تو سائیکل روک کر پیچھے دیکھا تو اشتیاق حسین پر نظر پڑی وہ خون میں لت پت زمین پر پڑا تھا۔

اپنے سائیکل کے قریب ہی۔

اور لوگ اس طرف دوڑ رہے تھے ماسٹر نعمت اللہ بھی پاس پہنچے سائیکل ایک طرف پھینکا۔

اور اشتیاق حسین کے پاس بیٹھ کر اس کا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر نیچے بیٹھے اور گودی میں رکھا اور باقی ارد گرد کھڑے لوگوں کو آواز دے کر کہا کہ۔۔ ۔۔ جلدی سے ایمبولینس بلاؤ اور اشتیاق حسین کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تمھیں کچھ نہیں ہو گا ؟۔۔ ۔ اشتیاق حسین شدید زخمی حالت میں کراہتے ہوئے اکھڑے لہجے میں ٹوٹتے لفظوں کے ساتھ بولا ما۔۔ س۔۔ ٹر۔۔ صاح۔۔ ب۔۔ میر۔۔ ے۔۔ ۔ گ۔۔ ھر والوں کا خیال رکھیے۔۔ ۔۔ گا اس کا سر ڈھلک گیا۔۔ ۔ اتنے میں کسی کے لئے اطلاع دینے پر مقامی رفاہی تنظیم MWFکی ایمبولینس آ چکی تھی ماسٹر صاحب نے بغیر کسی توقف کے اشتیاق حسین کو اس میں ڈالا اور ہیڈ کواٹر ہاسپٹل میں لے گئے مگر ڈاکٹروں نے اس کی موت کی تصدیق کر دی اور لمحوں کے اندر اس کے جنازہ اور تدفین کا سلسلہ مکمل ہوا اور ہنستا بستا ادھیڑ عمر اشتیاق حسین منوں مٹی تلے دبا دیا گیا۔۔ ۔۔ بہن جی۔۔ ۔ بہن جی۔۔ ۔ آں ہاں قبرستان آ گیا کوچوان کی آواز نے زینب کو اپنے خیالوں کے گہرے بھنور سے نکالا اور اس نے کوچوان کو کرائے کے پیسے دئیے اور فوزیہ کے ساتھ اتر کر قبرستان کے دروازے کی طرف چل پڑیں اور دروازے کے قریب لگے پھٹے والے سے کچھ پھول اور اگر بتیاں خریدی اپنے باپ کی قبر پر سجانے کے لیے ماں سے پیسے لے کر اس پھٹے والے کو دیتے وقت شکایت لگائی چاچا جمعرات کے دن تو تازہ پھول رکھ لیا کر و اور وہ والدہ کے ساتھ قبرستان میں داخل ہو گئی اور قبروں کے بیچ بنی راہداریوں سے ہوتی ہوئی ایک قبر کے پاس رکی جس کے کتبے پر جلی حروف میں کالی روشنائی میں اشتیاق حسین لکھا تھا زینب قبر کے دائیں طرف کھڑی ہو کر فاتحہ خوانی کے لیے چند زبانی یاد کردہ سورتیں پڑھنے لگی اور فوزیہ اپنے باپ کی قبر سے کانٹے دار جھاڑیاں صاف کر کے پھول پھیلانے میں اور اگر بتیاں سجانے میں مصروف ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

برقی قمقموں اور چونے سے بنے زاویوں سے سجے زینب زوجہ اشتیاق حسین کا گھر مکمل طور پر شادی کی خوشیوں کی بہار میں بکھیر رہا تھا نکاح ہو چکا تھا اور دلہن رخصتی سے چند ساعتیں قبل اپنے چھوٹے بڑے دور نزدیک کے رشتے داروں سے ملنے میں مصروف تھی اور گلی والے دروازے پر گلی میں ایک پرانے ماڈل کی لینسر پھو لوں سے سجی سجائی کھڑی تھی اور اس کا ہارن وقفے وقفے سے بج رہا تھا۔جیسے وہ کسی ٹرین کی طرح اسٹیشن پر کھڑی اپنی روانگی سے قبل تنبیہاً متنبہ کر رہی ہو کہ پھر نہ کہنا گاڑی چھوٹ گئی۔

مگر یہاں ایک مسئلہ اور بھی در پیش تھا کہ گلی چھوٹی ہونے کی وجہ سے دیگر گاڑیاں رکھنے والے اور موٹر سائیکل سوار پیچھے رکنے پر مجبور تھے اس وجہ سے بھی ڈرائیور ہارن دینے پر مجبور تھا جبکہ ادھر دلہن اپنے رشتے داروں سے ملنے کے بعد اپنی والدہ سے گلے لپٹ کے رو رہی تھی اور دولھے میاں بغل میں کھڑے تھے چہرے پر پریشانی کے تاثرات جمائے پھر سب دلھن کو صحن سے دروازے کی طرف لے جانے لگے اور دولھا میاں بھی کچھ فاصلے پر آگے آگے چل رہے تھے اچانک۔۔ ۔ گلی والا دروازہ کھلا اور  دلھن گلی والے دروازے سے دولھے میاں کے ساتھ باہر نمودار ہوئی اور دونوں گاڑی کی طرف بڑھے اور کسی نے آگے بڑھ کر اس پرانی لینسر کا دروازہ کھولا اور دلھن کے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کر دیا گیا۔دولھا دوسری طرف والے دروازے سے موٹر کار میں بیٹھ گیا۔ گاڑی چلنے لگی تو پیچھے طرف والی ٹریفک کو بھی چلنا نصیب ہوا اب وہ تین گاڑیوں پر مشتمل بارات کافی لمبی لائن میں جت گئی تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا گویا وہ ساری بارات ہی تھی۔ یوں فوزیہ ارباز اشرف کی دلھن بن کر اپنے سسرال یعنی پیا گھر سدھارنے کے لیے جانے لگی اور اس کی والدہ کی نظریں گلی کی نکڑ تک بارات کا تعاقب کرتی کرتی واپس مڑ آئیں مگر دماغ سوچ کا جسم بن کر اشتیاق حسین سے ملنے چلا گیا تاکہ اسے بتائے۔–اشتیاق حسین تم نے جو بوجھ اپنی رفیقہ حیات کے کندھوں پر ڈال گئے تھے وہ اس سے سبک دوش ہو چکی ہے اشتیاق حسین اب تو بس تیری طرف آنے کے لئے دن گِن رہی ہوں زینب نے سوچا اور گھر کے اندر چلی گئی۔

٭٭٭

 

مرلے کا دو منزلہ مکان وائٹ واش کے ساتھ بہت خوبصورت لگ رہا تھا اور اس پر بجلی کے قمقمے سونے پر سہاگہ کا کام کر رہے تھے ایک دیو قامت گیٹ جو کشادہ گلی کی جانب کھلا ہوا تھا۔

گیٹ کے بالکل سامنے اندر کی طرف گیرج اور۔

–جب باہر گلی سے گھر میں داخل ہوتے تو گیرج کے دائیں طرف۔

–مگر گھر سے نکلتے وقت بائیں طرف۔

— چھوٹا سادالان سلیقے سے سجے ہوئے چند گملوں سے بہت ہوش ربا منظر پیش کر رہا تھا۔

–لیکن ایک طرف کچھ جگہ کھدی ہوئی تھی اور اس کے اردگرد چند دیگیں رکھیں ہوئی تھیں اور اس سے منظر میں کچھ عجیب سا پن پیدا ہو گیا تھا۔

–اور گیرج کے اندر سے ہی دوسری منزل کو جانے والی سیڑھیوں کی ریلنگ کافی نفاست سے سجائی گئی تھی اور سیڑھیوں کے اوپری اختتام سے لے کر دلھن کے کمرے تک خوبصورت سرخ قالین بچھا ہوا تھا جس کے ایک کونے پر سیاہ دھاگے سے حق کیٹرنگ سروس لکھا ہوا تھا مگر باریک بینی کے بغیر نظر نہیں آتا تھا۔

–دلھن کے کمرے کو کافی محنت سے سجایا گیا تھا بالخصوص مسہری جس پر دلھن براجمان تھی مگر رنگوں میں امتزاج اور امتیاز روا نہ رکھنے کی وجہ سے کافی عامیانہ پن آ گیا تھا جو تقریباً محنت کو اکارت ہی کر رہا تھا مگر دلھن کے اردگرد بیٹھنے والی خواتین ان چیزوں سے بے پرواہ دلھن کے اوپر نظریں جمائیں ہوئے تھیں جو میجنٹا کلر کے لہنگے میں ملبوس چہرے پر سوفٹ میک اَپ سجائےجو کہ سِجوکی محنت کا کمال تھا۔

–کافی خوبصورت اور دلربا لگ رہی تھی اس کی نندیں اس کو اس کی جیٹھانی اور جیٹھ کا تعارف کروا رہی تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ کافی خوش گپیوں اور لطیفہ بازی کا ماحول بھی ساز گار تھا پھر اچانک اس کی ساس کی آواز کمرے میں گونجی اور سب سہم گئے ارشاد یہ ہوا کہ دلھن تھک چکی ہے اسے مکمل طور پر آرام کا موقع فراہم کیا جائے۔

کیوں کی یہ شاید فوزیہ کی زندگی کے وہ پہلے اور آخری الفاظ ثابت ہونے والے تھے جو اس نے اپنی بہو کے لیے شاید نرمی محبت اور الفت سے ادا کیے ہوں گے۔

یہ معتدل سا اندازہ اس کی چھوٹی نند کا تھا جو ابھی تک ناولوں اور کہانیوں کے کرداروں کو حقیقی زندگی کے قرین قیاس سمجھا کرتی تھیں اور سمجھتی تھی کہ حقیقت کو جھٹلا کر اسے بدلا بھی جا سکتا ہے اور جو مستقبل میں فوزیہ کے کیے اس کے سسر کے بعد واحد خیر خواہ بنے والی تھی۔

یوں چپ چاپ محفل برخاست ہو گئی اور ماحول میں شور کی کیفیت اور تناسب بھی کم ہو گیا اور سب لوگ تقریباًسونے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

اس کی سادہ زندگی میں اچانک اضطراب اور پریشانیوں کا پلڑا بھاری ہونے لگا گو اس نے پہلی زندگی دکھوں اور آہوں کے بغیر نہیں گزاری تھی مگر اس میں اسے یہ تسلی رہتی تھی کہ کوئی اس کی سادگی سچے پن اور اخلاص پر شک نہیں کرتا تھا۔

–مگر یہاں پر تو حالات اسے چکمے پر چکمہ دے رہے تھے پلٹے پر پلٹا کھا  رہے تھے چہرے وہی تھے انداز بدلنا شروع ہو گئے۔–تعلق وہی رہا جہتیں بدلنا شروع ہو گئیں اور سوائے اس کے سسر صاحب اور اس کی چھوٹی نند کے باقی ہر شخص ہر منظر ہر چیز کے انداز بدل چکے تھے۔

–وہ اپنی ذات کے اندر صورت اور معنوی دونوں انداز میں ان چیزوں کا مقابلہ کر رہی تھی اور اب مکمل طور پر عورت بن چکی تھی اور اس کا منجھا ہوا جسم اور بھاری سینہ اس کی شخصیت میں بے پناہ دلکشی کا اضافہ کر رہا تھا اور وہ چہرے سے بہت پر سکون نظر آتی تھی مگر اس کے دل میں بے پناہ طوفان بلکہ سونامی اٹھ رہے ہوتے تھے۔–زلزلے بپا ہو رہے تھے۔

اور وہ۔۔۔  ان کو چہرے پر آنے سے روک لیتی تھی مگر پھر بھی کبھی کبھی اس کا چہرہ متغیر اور مضطرب ہو جاتا تھا مگر ابھی تو ابتدائے عشق سے آگے آگے بہت کچھ ہونا تھا اور بقول غالب ؔ

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

فوزیہ ۳سالہ شانزہ کے ساتھ گھر کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی کہ اچانک اس کو چکر آیا اور اس دوران بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور وہ سیڑھیوں لڑھکتی ہوئی نیچے آ رہی اور شانزہ گرنے سے تو بچ گئی مگر والدہ کی حالت دیکھ کر گھبراہٹ سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی سب لوگ اکٹھے ہوئے اور فوزیہ کو قریبی ہسپتال پہنچایا گیا اس دوران اس کی ساس نے کچھ گھِسی پِٹی روایتی باتیں کی مگر اس وقت کسی نے ان باتوں پر دھیان نہ دیا۔

–ہسپتال سے واپسی پر سب کے چہرے دمک رہے تھے کہ فوزیہ پھر ماں بننے والی ہے۔–اس کی نند نے اس کو اس کے کمرے میں بیڈ پر لیٹتے وقت سہارا دیا۔–یہ بات بہت حد تک چھپانے کی کوشش کی گئی مگر نہ چھپائی جا سکی اور جب سِجو کو پتا چلی تو وہ فوراً فوزیہ سے ملنے چلی آئی فوزیہ کے پاس بیٹھتے ہی اس نے ڈھیر سارے سوال کر ڈالے۔

–سِجو شاید قدرت نے مجھ سے بس یہ امتحان لینے تھے بس تم دعا کیا کرو کہ میری بیٹی کا مقدر اچھا ہو۔

–فوزیہ کیا بات ہے کیا پھر کوئی جھگڑا ہوا ہے۔

–سِجو تو گھر والی ہے اور مجھ سے سوال پوچھ رہی ہے۔

–فوزی میں تو یہ سب سن کر بے حس ہو چکی ہوں۔

–سِجو تم ٹھیک کہتی ہو پر اس طبیعت کا کیا کروں جو آج بھی اتنی ہی لطیف اور حساس ہے جتنی کہ اس وقت ہوا کرتی تھی جب ہم اپنی اپنی کاپیوں میں سے ایک ایک کاپی کو کور چڑھا کر ڈائری بنا کر اس پر مختلف رنگوں کے مار کر سے سجا سجا کر شعر لکھا کرتی تھیں۔

فوزیہ تم بہت ہی با ہمت ہو جو اتنا کچھ چپ چاپ برداشت کرتی ہو کو ئی میرے ساتھ کرتا تو میں اس کا خون پی جاتی۔

اچھا فوزی اب میں چلتی ہوں دیر ہو رہی ہے میری ساس بھی جل بھن رہی ہو گی سِجو نے اجازت مانگی اتنے میں فوزیہ کی ساس دوبارہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

–سِجو۔

–او۔

–سِجو۔

–فوزیہ پکاری۔

–ہاں میری جان۔

–حکم فرمائیے۔

–سِجو کیا اسی پرانے انداز میں جو وہ پچپن سے اس کے لیے استعمال کرتی آ رہی تھی۔

اس  انداز میں بے پناہ پیار اور خلوص چھپا ہوا۔

–فوزیہ نے دوپٹے کے نیچے سینے تک ہاتھ لے جا کر جب واپس نکالا تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی چابی تھی۔

–سِجو یہ چابی لے اور ڈریسنگ ٹیبل کا دراز کھولو اوپر والا۔پہلا۔

فوزیہ کا حکم ملتے ہی سِجو بجا لائی۔

–جی اب کیا کروں سِجو نے پوچھا۔

–یہ جو فیروزی رنگ کے کپڑے کی پوٹلی ہے اسے اٹھا لے۔

–لیکن کیوں ۔؟ یہ تمہاری امانت ہی تو ہے۔

–مانتی ہوں۔

–مگر۔

–کوئی اگر۔

–مگر۔

–نہیں

یار میں اب تیری یہ امانت نہیں سنبھال سکتی فوزیہ کے شدید اسرار پر سِجو نے پوٹلی اٹھائی اور اسے اپنے پرس میں رکھ لیا اس حیرانی کے ساتھ کہ فوزیہ نے اگر یہ پیسے استعمال نہیں کیے تو اس کے کمرے سے چوری ہونے والے پیسوں کو اس نے کیسے پورا کیا۔

–اور کیسے حالات پر کنٹرول کیا۔

–جبکہ فوزیہ کی ساس یہ سارا منظر ایسے دیکھ رہی تھی انتہائی عجب اور حیران کنی کے عالم میں۔

–اور سوچ رہی تھی کہیں فوزیہ اپنے گھر خرچ میں سے پیسے بچا کر تو نہیں سِجو کو دے رہی۔

–میں بھی کہوں کہ سودا سلف اتنی جلدی کیسے ختم ہو جاتا ہے ؟ کمبخت سودا ہی کم منگوائے گی تو پورا کیسے ہو گا؟۔

–اس کی ساس بظاہر مطمئن تھی مگر اندرونی طور پر بے پناہ وسوسوں کا شکار تھی اور کئی باتیں اس کا ذہن ماننے سے انکار بھی کر رہا تھا مگر وہ جان بوجھ کر ان کو غلط رنگ میں سوچ رہی تھی کہ جیسےبذات خود بہو ہوتے وقت اس کی ساس نے اس بارے خدشات رکھے تھے ان کا پورا پورا بدلہ چکا رہی ہو۔

–مگر پھر وہ خیالات کی دنیا سے باہر نکل آئی اور اپنی بہو اور اس کی سہیلی کی طرف متوجہ ہوئی۔

فوزیہ نے اٹھنے کی کوشش تو بہت کی مگر سِجو کے شدید اسرار پر لیٹے لیٹے سِجو سے گلے مل کر اسے الوداع کیا–اور سِجو چلی گئی۔

–کئی دن لوگ اسی طرح تیمار داری کے لیے آئے جن میں اڑوس پڑوس کی عورتوں سے لے کر دور و نزدیک کے جاننے والے شامل تھے۔

–ان سب کی خاطر تواضع بھی اس کی ساس کے رویہ میں اتار چڑھاؤ کا سبب بنا رہا۔

٭٭٭

 

 

 

فوزیہ نے لیٹے لیٹے تپائی پر سے دختران اسلام میگزین اٹھایا اور اس کے چند ورق الٹ پلٹ کر دیکھے اور ان پر نظریں ٹکا کر سوچ میں پڑ گئی اس انداز سے کہ اگر کسی کی بھی نظر اس پر پڑتی تو نظر یہی آتا کہ وہ مطالعہ میں مصروف ہے۔–یہ سارے انداز رویے مسائل اور چیزیں اس کے اندر ہیجان اضطراب، پریشانیاں اور سوالوں کے بھنور اور سونامی پیدا کر رہے تھے کبھی وہ خود کشی کے آسان طریقوں کے بارے میں سوچتی اور کبھی وہ کوئی ایسا طریقہ سوچنے کی کوشش کرتی کہ وہ مر بھی جائے اور اس کا ایمان بھی بچ جائے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

–اب وہ اک نئی سوچ میں پڑ گئی۔

–قدرت کے انداز بھی بہت نرالے ہیں اور اس نے جو انسان کو تسخیر کی قوت دی اس کا بھی اپنا ایک عجب انداز کہ وہ کوبرا ہیلی کوپٹر اور بوئینگ کو لے کر ہواؤں اور فضاؤں کا سینہ تو چیر سکتا ہے مگر خزاں کے موسم میں کسی درخت سے گرا ہوا ایک پتا بھی واپس اس درخت پر نہیں لگا سکتا وہ بڑے بڑے خطرناک اور مہیب جانوروں، اژدھوں اور اجگروں کو سُدھا کر اپنا غلام تو بنا سکتا ہے–مگر– سیب کے درخت پر نیا سیب اگانا تو درکنار–وہ اس درخت پر اگے سیب میں اپنی مرضی کا ذائقہ نہیں بھر سکتا وہ ایک کھٹے کینو میں مٹھاس بھرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

–بس–ان قدرتی نشانیوں کی وجہ سے وہ خدا نہیں بنتا۔–مگر–جزواً وہ گھر سے لے کر آفس تک پتا نہیں کتنی دفعہ خدا بن بیٹھتا ہے اور عملی شرک کا مظاہرہ کرتا ہے۔–اور–اگر شرک نہ کرے تو پھر بغیر کسی واسطے اور وسیلے کے اس تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے–اور– یہاں پر بھی وہ بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا اور بھول جاتا ہے کہ قدرت نے بھی تو اعتدال رکھا ہے دن کے ساتھ رات کا دھوپ کے ساتھ چھاؤں کا مرد کے ساتھ عورت کا–اس نے تو شروع سے پلڑے برابر کر کے دیے ہیں اور ہم کبھی ایک طرف جھک جاتے ہیں اور کبھی دوسرے پلڑے کو اونچا کر دیتے ہیں–اور–ہمارے ہاں اکثریت میں بلکہ اسَی (۸۰)فیصد سے زائد بے اعتدالیاں نامساعدیت، بے وزنیت، اور تضادات تو موروثی ہیں اور ہم ورثہ ادر  ورثہ حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں اور مزید پال پوس کر اسے آگے منتقل کر دیتے ہیں۔–اور۔–نتیجہ نکالتے ہیں قدرت کو یہی منظور تھا۔–دھت تیرے کی؟۔– یہ ساری چیزیں تو ورثے میں شدومد سے بڑھتی چلی آ رہی ہیں۔

–مگر۔– ورثے میں تو ہمیں اسلام بھی ملا تھا ۔؟۔

–ورثے میں تو ہم امت وسط تھے۔

–۔؟ورثے میں تو ہمارے پاس ہر طرح کی خوبیاں بھی تھیں جو اب صرف اسلاف کے کارنامے اور قصے کہانیاں بن کر ہمارے پاس کتابوں ناولوں اور تاریخ کی صورت میں موجود ہیں۔–یہ سب چیزیں آگے کیوں منتقل نہیں ہو رہی ہیں۔–کیوں ہم اپنی غلطیوں کو قدرت کی آڑ اور پردہ دے کر اپنے جرم سے پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہیں–اور کہتے ہیں کہ قدرت کو یہی منظور تھا مگر جب کوئی بھی کام پوری صحت کے ساتھ ٹھیک ہو جاتا ہے اور بن جاتا ہے تو وہاں پے اپنی محنت کے گن کیوں گائے جاتے ہیں کیوں یہ راگ الاپے جاتے ہیں کہ بڑی محنت اور مشقت سے ٹھیک کیا ہے–بنایا ہے وغیرہ وغیرہ اگرچہ وہ ایک معمولی سی گاڑی ہی کسی مکینک کے ہاتھوں کیوں نہ ٹھیک ہو رہی ہو۔

–فوزیہ کسی آہٹ کو پا کر حقیقتاً دختران اسلام میگزین کی طرف متوجہ ہوئی اور اس صفحے پر کھلے ہوئے آرٹیکل کو صفحے کے وسط سے پڑھنا شروع کر دیا۔–پھر ہمیں علامہ کا سہارا لینا پڑتا ہے

بر طراز اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی

ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی

حکیم الامت ہی اس اضطراب کے اونٹ کو کسی کروٹ بٹھانے میں ممد و معاون نظر آتے ہیں۔

–جب فوزیہ نے محسوس کیا کہ اس کے کمرے کی طرف آنے والی پیروں کی آہٹ رک گئی اور کسی اور طرف جانے لگی ہے تو اس نے اپنی سوچ کے کبوتر دوبارہ محو پرواز کر دئیے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فوزیہ کا بیٹا اب سال کا ہونے والا تھا اس کے آنے سے گھر کی کشیدگیوں پر سکون کا ہلکا سا پردہ تو پڑ گیا مگر اس پردے میں کچھ سوراخ ایسے ہی تھے جیسے ہماری زمیں کے اردگرد لپٹے اوزن کے غلاف میں سوراخ ہیں اور نقصان دہ الٹرا وائلٹ شعاعیں رکاوٹ کے باوجود کچھ نہ کچھ تناسب کے ساتھ اس زمین پر آ کر ہمیں پریشان اور بیمار کر ہی دیتی ہیں۔

–اس ادھورے سکون کا اثر یہ ہوا کہ وہ ان بچھڑے لوگوں بھی یاد کرنے لگی جن کے جسم منوں مٹی کے نیچے تھے آج پہلی دفعہ اسے صحیح معنوں میں وہ سب لوگ یاد آ رہے تھے۔

–واقعات کی ایک فلم چل رہی تھی۔

–جب۔– وہ کچن میں بیٹے کے لیے دودھ گرم کر رہی تھی اور شانزہ کے لیے کھچڑی پکا رہی تھی۔–والد کے ساتھ ساتھ والدہ کی وفات اس کے ذہن میں تازہ ہو رہی تھی۔–آبائی مکان کا بیچ دینا اور اس طرح کے دیگر واقعات۔–کئی سہیلیوں کا بچھڑنا رشتے داروں کی فوتیدگیاں جو ننھیال اور ددھیال دونوں طرف سے تھیں پھر وہ لوگ جو اس کے سسرال میں اس کے خیرخواہ تھے ان کا بچھڑنا اور دیگر کئی چھوٹے موٹے واقعات یہ سب ایک اضطراب کی صورت اس کی بے چینی میں اضافہ در اضافہ کرتے چلے جا رہے تھے اور وہ خود بھی نہیں سمجھ رہی تھی کہ وہ کس طرف اور کس رخ پر سوچ رہی ہے بس اس کا ذہن 280کی رفتار سے کسی فراری یا کسی FZR2000 کی طرح380 کی رفتار سے دوڑ رہا تھا اور باقی تمام واقعات وسوسے خیالات احساسات اور جذبات دوسری گاڑیوں کی طرح ریس میں۔–ابھی دوسرے لیپ(LAP) میں تھے۔– اور اس کے تعاقب میں دوڑتے چلے آ رہے تھے۔–اور اس ریس میں نہ تو وہ جیت رہی تھی اور نہ ہی پوری طرح سے ہار رہی تھی۔

–گویا اس کی NEED FOR SPEED میں لیپ تو بڑھ رہے تھے مگر نتیجہ نہیں نکل رہا تھا کسی جیت یا ہار کی صورت میں۔

–اس سوچ کی دوڑ دھوپ میں اس نے فیڈر بیٹے کے منہ میں ڈالا اور کھچڑی کی پلیٹ شانزہ کے سامنے رکھ دی اور چمچ شانزہ کے ہاتھ میں دینے کے باوجود وہ اس کے ننھے ننھے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر اس کی کھانے میں مدد بھی کر رہی تھی تاکہ وہ بیڈ پر کھچڑی کے چاول نہ گرائے۔

–زندگی کے پچھلے سال ان کے مہینے ان کے ہفتے، دن اور دن کے پہر ایک فلم کی طرح ریوائنڈ ہو رہے تھے اور اس کے اندر بے چینی اور اضطراب کا بے پناہ طوفان کھڑا کر رہے تھے جیسے ابھی ایک نیا سونامی آنے والا تھا۔

–اس کے بعد اس نے کئی دیگر کاموں کو سر انجام دے کر طبیعت کو معمول پر لانے کی کوشش کی۔–مگر بے سود۔

–فیملی میگزین بھی بے بس ہو گیا، سرگزشت شعاع، سسپنس بھی اس کی سوچ کی بے چینی کے آگے بند باندھنے میں ناکام رہے۔–اور۔– وہ۔انکی ورق گردانی میں مصروف رہی۔– جب تک کہ بچے سو نہ گئے۔–بچوں کو سلا کر وہ نیچے آئی۔

–بھابی کیا بات ہے آپ کچھ پریشان لگ رہی ہو اس کی چھوٹی نند نے پوچھا۔

–کچھ نہیں بس ذرا تکان ہے۔

— فوزیہ اتنا جواب دے کر باہر لان میں آ گئی کچھ دیر ٹہلنے کے باوجود اس نے خود کو مزید بے چین پایا اور اچانک اس کے ذہن میں کوئی سوچ آئی اور اس نے اوپر جا کر گاؤن پہنا اور نیچے آ کر گیٹ سے نکلنے سے پہلے نقاب کرنے لگی۔

–بھابی کہاں جا رہی ہیں اس کی چھوٹی نند نے پوچھا۔

–کہیں نہیں بس ذرا قبرستان تک جا رہی ہوں امی کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے۔

–بھابی میں بھی ساتھ چلوں۔

— پھر کبھی لے چلوں گی فوزیہ نے جواب دیا اور گیٹ سے باہر نکل گئی

٭٭٭

 

 

 

فوزیہ کیا کر رہی ہو۔

آہہ ہہ ہ۔

–پلیز گاڑی آہستہ چلاؤ ؟۔

–پلیز۔

–فوز۔

–فوز۔

— فوز پلیز۔

–شارقہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی جب فوزیہ نے تیزی کے ساتھ ڈرائیو کرتے ہوئے موڑ کاٹا اور تالی بجا کر پھر سٹئیرنگ مضبوطی سے پکڑ لیا شارقہ بے پناہ ڈر رہی تھی اور فوزیہ اس کے چہرے سے ابھرنے والے خوف اور ڈر سے بہت محظوظ ہو رہی تھی۔

–فوزیہ اپنے شوہر کی طرف سے ملنے وا لی نئی پراڈو کو اندھا دھند ڈرائیو کر رہی تھی اور اس کی رف ڈرائیونگ کے ساتھ بے پناہ خوشی بھی موجود تھی۔–اسی لیے یہ خوشی اس پر شراب کے نشے سے زیادہ اثر کر رہی تھی اور وہ اس خوشی میں بے پناہ خوش ہو رہی تھی، بہک رہی تھی اور بے خود ہو رہی تھی۔

–خطرناک قسم کے کٹس۔–یو ٹرنز۔–سکریچیں اور ڈرِفٹس۔

–وہ اتنی بڑی گاڑی کو یوں چلا رہی تھی جیسے چھوٹا بچہ اپنی کھلونا گاڑی کو اپنی من چاہی الفت سے دوڑاتا ہے اور اس کے لیے سیڑھیوں کی ریلنگ بھی سڑک ہوتی ہے اور وہ ڈرائینگ روم کی تمام چیزوں کو اپنی گاڑی کی سڑک سمجھ کر ان پر گاڑی دوڑاتا ہے۔

–فوزیہ اس ملنے والے تحفے پر یوں ہی زور آزمائی کر رہی تھی۔–کبھی یہ کٹ۔–کبھی اس طرف کٹ۔–کبھی دائیں سے ریڑھی بان مشکل سے جان بچا کر گزرا۔–کبھی کوئی سائیکل والا بمشکل جان بچا پاتا اور کبھی کوئی موٹرسائیکل والا کراسنگ کے بعد زچ ہو کر چند گالیاں عنایت کر کے گزر جاتا۔پیدل چلنے والے کیچڑ کے چھینٹے پڑنے پر مختلف قسم کے القابات سے اس کو نوازتے جا رہے تھے۔اچانک سامنے چورا ہے پر ایک تانگہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا آ رہا تھا۔–جب وہ اچانک گاڑی کے سامنے آیا تواس افتاد کے اچانک سامنے آنے کے لیے فوزیہ تیار نہ تھی۔

–لہٰذا وہ بوکھلا گئی اور اس بوکھلاہٹ میں بریک پر دباؤ بڑھانے کی بجائے ایکسیلیٹر پر دباؤ بڑھا دیا مگر پھر اچانک دوبارہ بریک پرپاؤں رکھ کر دباؤ بڑھایا۔مگر اب دیر ہو چکی تھی اور ایکسیلیٹر پر پڑنے والے دباؤ نے اپنا کام دکھا دیا تھا–گاڑی تانگے سے ٹکرا گئی–اور–گاڑی تو رک گئی مگر تانگہ گھوڑے، کوچوان اور ایک خاتون سواری جو برقعہ نما گاؤن میں تھیں سمیت قلابازیاں کھانے لگا تانگے کا ایک ٹائر ٹوٹ چکا تھا اور دو انسان اور ایک جانور خون میں لت پت پڑے تھے۔

–اور فوزیہ گاڑی کی ونڈ سکرین جس میں چند دراڑیں پڑ چکی تھیں وہاں سے بت بنی–حواس باختہ یہ منظر دیکھ رہی تھی۔

–فوزیہ۔

–فوزیہ۔

— فوزیہ۔

–شارقہ نے تقریباً چلا کر کہا۔

–آں۔

–ہاں ہاں۔

فوزیہ چلو جلدی کرو گاڑی سٹارٹ کرو۔

–بھاگ چلیں۔

–ابھی تک کسی نے نہیں دیکھا دور تک کوئی بھی نہیں۔

–نہیں شارقہ۔

–شارقہ کی شدید مزاحمت اور روکنے کے باوجود وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی اور نعشوں کے قریب جا کر ان کا معائنہ کرنے لگی کہ شاید کوئی زندہ ہو۔–تب تک ایک دو ادھیڑ عمر سائیکل سوار اور چند پیدل افراد بھی قریب آ چکے تھے۔

–فوزیہ نے مقامی رفاہی تنظیم MWF کو اپنے موبائل فون سے فون کیا تاکہ ایمبولینس منگوائی جا سکے۔

–اتنے میں پولیس بھی جائے وقوعہ پر پہنچ چکی تھی۔

–اس وقت فوزیہ اپنے شوہر کو تمام تر تفصیلات بتا رہی تھی اس کے انسٹا فون پر۔–پولیس والوں نے فوزیہ کو حراست میں لے لیا اور وہ پولیس کی گاڑی میں بیٹھی تو شارقہ فوزیہ کی گاڑی میں پولیس کی گاڑی کا تعاقب کر کے پولیس اسٹیشن جانے لگی اور پریشانی سے اس کے چہرے کے رنگ اڑ  چکے تھے پولیس نے فوزیہ اور گاڑی کو حراست میں لے کر قانونی کاروائی شروع کر دی۔

–اُدھر شارقہ۔

–فوزیہ پر بے پناہ غصے ہو رہی تھی۔

–مگر– شاید فوزیہ اس سے بے نیاز اس قدر کھوئی ہوئی تھی کہ اسے اپنے آنسوؤں کے گرنے کی خبر تک نہ تھی

٭٭٭

 

 

 

مقامی رفاہی تنظیم MWF کی ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی رانا ارباز اشرف کے گھر کے سامنے رکی اور اس میں سے ایک لاش نکال کر گھر والوں کے حوالے کی گئی جس پر گھر میں کہرام مچ گیا–اور ہر طرف فوزیہ کے جاں بحق ہونے کی خبر محلے میں آگ کی طرح پھیل رہی تھی اور گھر میں ایک قیامت صغریٰ بپا تھی ہر طرف فوزیہ کے جاں بحق ہونے پر چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں اور صف ماتم الگ بچھی ہوئی تھی–عجیب بلکہ عجیب ترین صورتحال تھی اس سے عداوت بغض اور کینہ رکھنے والے لوگ بھی اس کی خاطر غش کھا کھا کر گر رہے تھے۔–جیسے اس کے سب سے زیادہ چاہنے والے تو وہی تھے۔–اس کی پڑوسن جو اس پر سب سے زیادہ جز بز ہوا کرتی تھی۔–وہ۔– اب تک تین دفعہ بے ہوش ہو چکی تھی رو رو کر اور غم سے نڈھال ہو کر

بقول احمد ندیم قاسمی صاحب

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن

یہ اور بات کہ دفنائیں گے اعزاز ساتھ

یہ ساری صورتحال نہ صرف غم گین تھی بلکہ اس پر فوزیہ کی بیٹی شانزہ اور بیٹے کی معصومیت اور بھولا پن اس غم کی حدت میں اور اضافہ کر رہا تھا ہر کس وناکس اس پر غم گین تھا

٭٭٭

 

 

 

عدالت لگی ہوئی تھی اور سب لوگ انہماک کے ساتھ بیٹھے جج کے فیصلے کے انتظار میں تھے اچانک بیٹھے ہوئے حاضرین میں باتیں شروع ہو گئیں اور چند آوازیں بلند ہوئیں

آرڈر۔–آرڈر۔–آرڈر۔–کہہ کر جج صاحب مخاطب ہوئے

تمام شواہد کی روشنی میں مجرم کی طرف سے دائر کی جانے والی اپیل پر ورثاء کے تاثرات اور بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے مجرم کو مقتولہ فوزیہ زوجہ رانا ارباز اشرف کے لواحقین کو قصاص ادا کرنے کی صورت میں رہا کر دیا جائے اور تین سال تک کے لیے ان کا ڈرائیونگ لائسنس معطل کر دیا جائے تیز رفتاری کے قوانین کے مطابق حسب ضابطہ جرمانہ بھی کی جائے تاکہ آئندہ یہ تیز رفتاری سے باز رہیں اور قوانین کو ملحوظ خاطر رکھ کر ڈرائیونگ کریں۔دَا کورٹ از ایجرنڈ۔–عدالت برخاست کی جاتی ہے۔

طلعت وہ میری ہم نام تھی۔–اور کس بے بسی کی موت مری۔

–کٹہرے سے طلعت کے سہارے اترے ہوئے فوزیہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔

جو خدا کی مرضی

نہیں طلعت یہ سب میری خطا ہے۔طلعت یہ میری غلطی ہے ، طلعت پلیز تم مانتے کیوں نہیں ؟ یہ میری غلطی ہے ؟۔

–ہے نا۔

–ہاں۔

–ٹھیک ہے۔

–مگر اب تو تم اپنی غلطی کی سزا بھگت چلی ہو۔

–نا۔

–طلعت سزا سے بچی ہوں مگر۔

–گناہ کا داغ تو باقی ہے ابھی۔

–فوز۔

–پلیز۔

–سنبھالو۔

–خود کو۔۔؟۔

–اخباروں میں کتنا چھپا ہو گا تمہارے متعلق۔

–میڈیا نے کتنا اچھالا ہو گا۔

–تمھیں۔–ہے نا۔

–یہ سب میری وجہ سے ہو ا۔

–میں کس کس سے معافی مانگوں خداورسول، معاشرہ، فوزیہ گھر والے اس کے چھوٹے چھوٹے بچے۔

–کتنے لوگوں کو میں نے دکھ دیا فقط اک گناہ سے۔–کتنے لوگوں کو۔

–کتنے لوگوں کو ناراض کیا۔–۔؟

رانا ارباز اشرف S.A.Kایس اے کے کمپنی کے ہیڈ آفس کی ریسیپشنسٹ کے پاس پہنچ کر بولا

السلامُ علیکم۔–جی مجھے طلعت کادوانی صاحب سے ملنا ہے۔

–آپ کا نام۔

–ریسیپشنسٹ نے ایک موٹے سے رجسٹر کی طرف جھکتے ہوئے اور پنسل کو ایک خاص خانے کے وسط میں رکھ کر کچھ لکھنے کے انداز میں پوچھا۔

–جی رانا ارباز اشرف۔

–کس سلسلے میں ملنا ہے۔

–اس خانے میں تیزی سے کچھ لکھ کر اگلے خانے میں وہ اور پنسل کا سکہ بھی شاید اس انتظار میں تھا کہ کب اور کیا جواب ملتا ہے ؟۔

–اور وہ گویا کوئی لیڈی ڈاکٹر ہے جو نسخہ لکھتے وقت انجکشن کو لکھنے کے بعد موزوں ترین ٹیبلٹس یا اینٹی بائیوٹکس میں سے کسی خاص کا نام لکھنے کے لیے ایک لمحہ کو رکی ہوئی ہے

جی وہ عدالت والے کیس کے سلسلے میں ملنا تھا۔

ریسیپشنسٹ نے ایک دم اسے گھورا۔–جیسے اس نے کوئی گالی دے دی ہو محترمہ کو۔

–اس نے انٹر کام پر کسی سے بات کی اور کچھ پوچھا اور جواب ملنے پر آفس اٹنڈنٹ کو آواز دی غفور چاچا۔–او۔–غفور چاچا

جی۔–جی۔–بی بی جی

ان کو بڑے صاحب کے آفس تک پہنچا دو اور خیال رہے یہ صاحب کے بہت خاص مہمان ہیں۔

جی بی بی جی۔

–آپ فکر ہی نہ کریں آئیے میرے ساتھ۔

–رانا ارباز اشرف اس کے ساتھ چلنے لگا گویا وہ ایک ٹورسٹ ہے اور ٹورسٹ گائیڈ کے پیچھے چل رہا ہے۔

–غفور نے آفس کے دروازے سے اندر داخل ہو کر بڑے صاحب کو سلام کیا۔

–اور کہا صاحب یہ آپ سے ملنے آئے ہیں۔–یہ کہہ کر الٹے پاؤں باہر نکل آیا۔

–آئیے آئیے۔–رانا صاحب۔–تشریف لائے اتنے میں طلعت کادوانی اپنی سیٹ سے اٹھ کر میز کے گرد سے گزر کر دروازے کے کافی قریب پہنچ گیا تاکہ اس کا استقبال کر سکے۔

–اس کا استقبال کیا اور اسے صوفے پر بٹھا کر خود پاس ہی بیٹھ گیا اور کوٹ کی جیب سے کچھ نکالتے ایک دم رکا۔

–اور سیکرٹری کو انٹر کام پر کچھ کہا اور واپس آ کر دوبارہ بیٹھ گیا اور کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک چیک بک نکال کر ایک چیک پر پچاس لاکھ کی رقم پر کر کے اس کے نیچے اپنے دستخط کرنے لگا اس کام کو مکمل کرنے کے بعد اس نے چیک کو ایک خاکی لفافے میں بند کیا اور انتہائی عقیدت سے دونوں ہاتھوں میں لفافہ پکڑ کر رانا ارباز اشرف کے سپرد کیا۔

–اتنے میں غفور ڈرنکس اور چاہے کی ٹرالی لے کر آیا اور بیٹھ کر چائے بنانے لگا تو طلعت نے اس کو بھیج کر چائے خود بنانی شروع کی اور گویا ہوا۔

–اس سارے عرصے میں رانا ارباز اشرف بت بنا یہ سب دیکھتا رہا–اور کچھ حد تک احساس کمتری میں مبتلا ہوتا رہا۔–کہ شاید وہ کسی اور دنیا میں جا بسا ہے–اور یہ سب اس کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔

–طلعت نے چائے بننے تک کولڈ ڈرنک اس کی طرف بڑھائی تھی جسے وہ اب تک ختم کر چکا تھا۔ نہایت ادب و احترام کے ساتھ جیسےوہ نہایت مؤدب شاگرد ہے اور استاد کی طرف سے ملنے والے ایک سوال کے حل کی بجائے اس نے چار مزید سوال بھی حل کر دئیے ہوں۔

طلعت چائے کی پیالی کو اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا۔

–رانا صاحب زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے ہم سب تو بہانے ہیں۔–مگر پھر بھی آپ نے اور آپ کی پوری فیملی نے جواحسان ہمارے اوپر کیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ ہم ساری زندگی بھی اسے نہ چکا سکیں گے۔–روپے کبھی بھی انسان کا نعم البدل نہیں ہو سکتے مگر انسان ان دونوں چیزوں کو اکٹھا رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی میں زندگی تمام ہوتی ہے کہیں رشتے کم پڑ جاتے ہیں تو کہیں روپے کم پڑ جاتے ہیں–ہم سب تو محنت کر رہے ہیں۔اوپر والا اپنے بہت ہی پیارے بندوں سے کئی گُنا زیادہ آزمائش کرتا ہے جیسے کہ مثال آپ کے سامنے ہے۔میری فیملی پر اُترنے والا غم آپ پر اور آپ کی فیملی پر اُترنے والے گم کا عشر عشیر بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ اس کے زیادہ قریب ہیں اس لیے اس نے آپ کو بڑی آزمائش کے لیے چنا ہے ایک طرف آپ اس غم کو برداشت کر رہے ہیں اور ایک طرف آپ اتنے بڑے صبر کا مظاہرہ کر رہے ہیں–جوکسی حوصلہ مند بے پناہ صابر اور زِیرک انسان ہی کا کام ہو سکتا ہے کوئی بھی عام شخص ہوتا تو شاید اتنی بڑی قربانی نہ دیتا اور اتنا بڑا احسان ہمارے اوپر نہ کرتا آپ یقیناً بہت مہان ہیں بہت ہی عظیم دیوتا ہیں۔ ارباز یہ زندگی بہت سوں کو ملتی ہے مگر اتنا بڑا جگر اور اتنا صبر ہر کسی کو نہیں ملتا یہ میرے خیال میں صبر ایوب کا خاص حصہ ہے جو آپ کو عطا ہوا۔

ارباز منہ اٹھائے اسے یوں تکے جا رہا تھا جیسے کہ کوئی انہونی ہو رہی ہو اور جیسے کہ وہ کسی عظیم عالم سے واعظ سن رہا ہو اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ اسے یوں گھر کا فرد سمجھا جائے گا اور بات ہو گی وہ ہمہ تن گوش ہو کر پھر طلعت کی بات سننے لگا۔

–جس طرح میرے آقاﷺ نے اپنے چچاؓ کے قاتلوں کو معاف فرما دیا تھا یہ اس پَرتَو کا خاص فیض آپ کو عطا ہوا۔–ورنہ۔–یوں دور پر فتن میں تو بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہا ہے اور جس دین کو ہمارے لیے ضابطہ حیات، فلسفہ زندگی اور فلسفہ انقلاب بنایا گیا تھا اس کے سینے میں تضادات، تفرقہ اور انتہا پسندی کے ایسے خنجر گھونپ دیے گئے ہیں کہ مرغ بسمل کی طرح نہ جان جاتی ہے نہ چین آتا ہے –تضادات، تفرقہ اور انتہا پسندی کے ایسے خنجر گھونپ دیے گئے ہیں کہ مرغ بسمل کی طرح نہ وہ مر رہا ہے اور نہ پوری طرح سے جی رہا ہے–ہم سب کسی عجیب اور شاید خطرناک بیماری کا شکار ہو رہے ہیں کہ ہمارے پاس اکٹھے ہونے کے لیے اور اکٹھے رہنے کے لیے ہزاروں وجوہات ہونے کے باوجود ہم  ان سے صرفِ نظر کر کے نہ ہوتے ہوئے بھی لڑائی جھگڑے کے لئے کوئی نہ کوئی وجہ نکال لیتے ہیں۔کبھی ذاتی طور پر دانستہ اور کبھی غیر ارادی طور پر یعنی نا دانستہ۔جانے کیوں ہم رخنہ اندازیوں کو ہوا دے رہے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس عمارت میں رہتے ہیں اسی کی اینٹیں نکال رہے ہیں گرے گی تو اپنے اوپر ہی لیکن کیا کریں۔ان تضادات سے جان چھوٹے تو بندہ کسی سمجھانے والے کے پیچھے چلے۔اب تو حالت یہ ہے کہ جو سچے ہیں ان پر بھی شک ہونے لگتا ہے ۔کہ کہیں اپنی دوکان تو نہیں چمکا رہے یا اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو نہیں بنا رہے اور میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ میں جس تنظیم کو ڈونیشن دے رہا ہوں کل کو وہی ملک کے امن کی دشمن تو نہیں بن جائے گی۔لیکن خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے ان لوگوں کا کہ جن کی بیس پچیس سالہ کی گئی محنت اور کوشش اتنی صاف اور نکھری ہوئی اور سابقہ ریکارڈ اتنا شاندار ہے امن، علم اور فلاح عام پھیلانے میں کہ ان کے ور کر یا کارکنوں کو دیکھ کر ہی اطمینان ہونے لگتا ہے کی اب کی بار میری جیب سے نکلنے والے پیسے میرے ان بھائیوں پر خرچ ہوں گے جن کے پاس میرے جتنی دولت تو نہیں مگر خدا نے ان کے حصے کی جو دولت مجھے دی تھی ان کا حصہ با حفاظت اور صحیح سلامت ان تک پہنچ گیا ہے۔خیر جہاں سیر ہوتا ہے وہاں سوا سیر بھی تو ہوتا ہے۔میں جانتا ہوں کہ آپ کی برادری نے آپ کو کافی تنگ کیا ہو گا اس مسئلے کے بارے میں کہ بزدل مت بنو!بدلہ لو بدلہ قصاص مت لو مگر آپ نے اپنی سوچ سے فیصلہ کیا اور اتنا بڑا فیصلہ کہ جسے کرتے وقت آپ نے جانے کتنے پتھر اپنے دل پر رکھے ہوں ۔جانے کتنا صبر کیا ہو گا۔

–طلعت نے کچھ دیر توقف کی۔اور اس اثناء میں اس نے رانا ارباز اشرف کے چہرے بالخصوص آنکھوں میں دیکھا جہاں کچھ نمی تھی اور اس اچانک دیکھنے پر وہ کچھ حیران اور پریشان ہوا—جیسے وہ کسی کلاس میں بیٹھا ہے لیکچر سن رہا تھا اور پروفیسر کے لیکچر دینے کے بعد اچانک فیڈبیک کے لیے اچانک سوال کر دیا ہو۔

کہ–آپ کو کیا کچھ سمجھ میں آیا ہے۔

–طلعت پھر گویا ہوا چائے کا آخری گھونٹ لے کر۔

–رانا صاحب میری خواہش ہے کہ فوزیہ نے جان دے کر ہمیں ایک دوسرے کے قریب کیا ہے۔

–اگر آپ کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی مشکل، تکلیف یا مسئلہ میں اپنی فیملی یا اپنی برادری کے کسی فرد کی نسبت مجھے موقع دیں گے تو میں سمجھوں گا کہ  میرا اور میری بیوی کا قصور اس سے مزید ہلکا ہو گا۔اور میں بھر پور درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھ پر یہ مہربانی ضرور فرمایا کریں گے ۔

اور اس بات پر طلعت نے چارو ناچار اس سے وعدہ لے لیا اور اسے چھوڑنے ریسیپشن تک آیا۔

–رانا ارباز اشرف اسے ملنے کے بعد سیدھا بنک پہنچا اور اپنی بیوی کے اکاؤنٹ میں موجود رقم کو اپنے اکاونٹ میں ٹرانسفر کرنے کے لیے مینجر کو درخواست دی۔یہ وہ رقم تھی جواس کے والد کی بچی کھچی پنشن جو اس کی والدہ نے اسے دی تھی شادی کے اخراجات پورے کر کے اور اس کی والدہ کی وفات کے بعد جو فوزیہ کا آبائی گھر بکنے کے بعد اسے ملی اس نے وہ اپنے اکاؤنٹ میں جمع کر رکھی تھی مبلغ ایک لاکھ ستائیس ہزار دو سو نو روپے۔

–بنک نے کچھ ضروری دستاویزات پر اس کے دستخط لیے اور کچھ ضروری جانچ پڑتال کی۔

–اس دوران اس نے قصاص والی رقم کا چیک بھی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروایا اور جب فوزیہ کے اکاؤنٹ کی رقم اس کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو گئی اور مینجر نے فوزیہ کے اکاؤنٹ فارم اور بہی کھاتوں پر اکاؤنٹ کلوزڈ کی مہر لگا ئی تو وہ وہاں سے اٹھا اور کچھ ضروری دستاویزات اور رسیدیں سنبھالیں اور ان کو لے کر بنک سے باہر نکلا اور گھر کی راہ لی۔

٭٭٭

 

 

 

رانا ارباز اشرف اس کے بچے اور دیگر تمام گھر والے لان میں بیٹھے تھے اور مغرب کے وقت مختلف اطراف سے اذانوں کی مختلف لَے کے ساتھ آوازیں موصول ہو رہی تھیں اور ہر شخص اس وقت اداس اور غم گین حالت کو روکنے میں ناکام تھا بقول شخصے

بچھڑا وہ کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

٭٭٭

ماخذ:

https://urdunama.org/forum/viewtopic.php?t=3026

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل