FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تقسیم کہانی

 

حصہ سوم

 

سعادت حسن منٹو کی کچھ اور کہانیاں

 

تحقیق اور انتخاب: عامر صدیقی

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

ڈارلنگ

 

 

 

یہ ان دنوں کا واقعہ ہے۔ جب مشرقی اور مغربی پنجاب میں قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ کئی دن سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ وہ آگ جو انجنوں سے نہ بجھ سکی تھی۔ اس بارش نے چند گھنٹوں ہی میں ٹھنڈی کر دی تھی۔ لیکن جانوں پر باقاعدہ حملے ہو رہے تھے اور جوان لڑکیوں کی عصمت بدستور غیر محفوظ تھی۔ ہٹے کٹے نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں باہر نکلتی تھیں اور اِدھر اُدھر چھاپے مار کر ڈری ڈبکی اور سہمی ہوئی لڑکیاں اٹھا کر لے جاتی تھیں۔ کسی کے گھر پر چھاپہ مارنا اور اس کے ساکنوں کو قتل کر کے ایک جوان لڑکی کو کاندھے پر ڈال کر لے جانا بظاہر بہت ہی آسان کام معلوم ہوتا ہے لیکن’س‘ کا بیان ہے کہ یہ محض لوگوں کا خیال ہے۔ کیونکہ اسے تو اپنی جان پر کھیل جانا پڑا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں آپ کو ’س‘ کا بیان کردہ واقعہ سناؤں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے آپ کو متعارف کرا دوں۔ ’س‘ ایک معمولی جسمانی اور ذہنی ساخت کا آدمی ہے۔ مفت کے مال سے اس کو اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی عام انسانوں کو ہوتی ہے۔ لیکن مالِ مفت سے اس کا سلوک دلِ بے رحم کا سا نہیں تھا۔ پھر بھی وہ ایک عجیب و غریب ٹریجڈی کا باعث بن گیا۔ جس کا علم اسے بہت دیر میں ہوا۔ اسکول میں ’س‘ اوسط درجے کا طالب علم تھا۔ ہر کھیل میں حصہ لیتا تھا۔ لیکن کھیلتے کھیلتے جب نوبت لڑائی تک جا پہنچی تھی تو’س‘ اس میں سب سے پیش پیش ہوتا۔ کھیل میں وہ ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کر جاتا تھا۔ لیکن لڑائی کے موقع پر اس نے ہمیشہ ایمانداری سے کام لیا۔ مصوری سے ’س‘ کو بچپن ہی سے دلچسپی تھی۔ لیکن کالج میں داخل ہونے کے ایک سال بعد ہی اس نے کچھ ایسا پلٹا کھایا کہ تعلیم کو خیرباد کہہ کر سائیکلوں کی دکان کھول لی۔ فساد کے دوران میں جب اس کی دکان جل کر راکھ ہو گئی تو اس نے لوٹ مار میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ انتقاماً کم اور تفریحاً زیادہ، چنانچہ اسی دوران میں اس کے ساتھ یہ عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ جو اس کہانی کا موضوع ہے۔ اس نے مجھ سے کہا۔ ’’موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ منوں پانی برس رہا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنی تیز و تند بارش کبھی نہیں دیکھی۔ میں اپنے گھر کی برساتی میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ میرے سامنے لوٹے ہوئے مال کا ایک ڈھیر پڑا تھا۔ بے شمار چیزیں تھیں مگر مجھے ان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میری دکان جل گئی تھی۔ مجھے اس کا بھی کوئی اتنا خیال نہیں تھا شاید اس لیے کہ میں نے لاکھوں کا مال تباہ ہوتے دیکھا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا، دماغ کی کیا کیفیت تھی۔ اتنے زور سے بارش ہو رہی تھی۔ لیکن ایسا لگتا تھا کہ چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی ہے اور ہر چیز خشک ہے۔ جلے ہوئے مرونڈوں کی سی بو آ رہی تھی۔ میرے ہونٹوں میں جلتا ہوا سگرٹ تھا۔ اس کے دھوئیں سے بھی کچھ ایسی ہی بو نکل رہی تھی۔ جانے کیا سوچ رہا تھا اور شاید کچھ سوچ ہی نہیں رہا تھا کہ ایک دم بدن پر کپکپی سی دوڑ گئی اور جی چاہا کہ ایک لڑکی اٹھا کر لے آؤں۔ جونہی یہ خیال آیا۔ بارش کا شور سنائی دینے لگا اور کھڑکی کے باہر ہر چیز پانی میں شرابور نظر آنے لگی۔ میں اٹھا، سامنے لوٹے ہوئے مال کے ڈھیر سے سگرٹوں کا ایک نیا ڈبہ اٹھا کر میں نے برسانی پہنی اور نیچے اتر گیا۔‘‘

’’سڑکیں اندھیری اور سنسان تھیں۔ سپاہیوں کا پہرہ بھی نہیں تھا۔ میں دیر تک ادھر ادھر گھومتا رہا۔ اس دوران میں کئی لاشیں مجھے نظر آئیں۔ لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا۔ گھومتا گھامتا میں سول لائنز کی طرف نکل گیا۔ لُک پھری ہوئی سڑک بالکل خالی تھی۔ جہاں جہاں بجری اکھڑی ہوئی تھی۔ و ہاں بارش جھاگ بن کر اڑ رہی تھی۔ دفعتہً مجھے موٹر کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی موٹر بیبی آسٹن اندھا دھند چلی آ رہی تھی۔ میں سڑک کے عین درمیان میں کھڑا ہو گیا اور دونوں ہاتھ اس انداز سے ہلانے لگا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ رک جاؤ۔‘‘

’’موٹر بالکل پاس آ گئی مگر اس کی رفتار میں فرق نہ آیا۔ چلانے والے نے رخ بدلا۔ میں بھی پینترہ بدل کر ادھر ہو گیا۔ موٹر تیزی سے دوسری طرف مڑ گئی۔ میں بھی لپک کر ادھر ہولیا۔ موٹر میری طرف بڑھی مگر اب اس کی رفتار دھیمی ہو گئی تھی میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ پیشتر اس کے کہ میں کچھ سوچتا مجھے زور سے دھکا لگا اور میں اکھڑ کر فٹ پاتھ پر جا گرا۔ جسم کی تمام ہڈیاں کڑکڑا اٹھیں مگر مجھے چوٹ نہ آئی۔ موٹر کے بریک چیخے، پہیّے ایک دم پھسلے اور موٹر تیرتی ہوئی سامنے والے فٹ پاتھ پر چڑھ کر ایک درخت سے ٹکرائی اور ساکت ہو گئی۔ میں اٹھا اور اس کی طرف بڑھا۔ موٹر کا دروازہ کھلا اور ایک عورت سرخ رنگ کا بھڑکیلا مومی رین کوٹ پہنے باہر نکلی۔ میری کڑکڑائی ہوئی ہڈیاں ٹھیک ہو گئیں اور جسم میں حرارت پیدا ہو گئی۔ رات کے اندھیرے میں مجھے صرف اس کا شوخ رنگ رین کوٹ ہی دکھائی دیا۔ لیکن اتنا اشارہ کافی تھا کہ اس مومی کپڑے میں لپٹا ہوا جو کوئی بھی ہے۔ صنفِ نازک میں سے ہے۔‘‘

’’میں جب اس کی طرف بڑھا تو اس نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ بارش کے لرزتے ہوئے پردے میں سے مجھے دیکھ کر بھاگی۔ مگر میں نے چند گزوں ہی میں اسے جا لیا جب ہاتھ اس کے چکنے زین کوٹ پر پڑا تو وہ انگریزی میں چلائی۔ ’’ہلپ ہلپ۔‘‘

میں نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالا اور گود میں اٹھا لیا۔ وہ پھر انگریزی میں چلائی’’ہلپ ہلپ۔ ہی از کلنگ می۔‘‘

میں نے اس سے انگریزی میں پوچھا۔ ’’آر یو اے انگلش وومن‘‘

فقرہ منہ سے نکل گیا تو خیال آیا کہ اے کی جگہ مجھے این کہنا چاہیے تھا۔ اس نے جواب دیا۔ ’’نو۔‘‘

انگریز عورتوں سے مجھے نفرت ہے۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا’’دِن اِٹ از آل رائیٹ۔‘‘

اب وہ اردو میں چلانے لگی۔

’’تم مار ڈالو گے مجھے۔ تم مار ڈالو گے مجھے۔‘‘

میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس لیے کہ میں اس کی آواز سے، اس کی شکل و صورت اور عمر کا اندازہ لگا رہا تھا۔ لیکن ڈری ہوئی ہوئی آواز سے کیا پتہ چل سکتا تھا۔ میں نے اس کے چہرے پر سے ہڈ ہٹانے کی کوشش کی۔ پر اس نے دونوں ہاتھ آگے رکھ دیے۔ میں نے کہا۔ ہٹاؤ اور سیدھا موٹر کی طرف بڑھا۔ دروازہ کھول کر اس کو پچھلی سیٹ پر ڈالا اور خود اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ گیر درست کر کے سلف دبایا تو انجن چل پڑا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ ہینڈل گھمایا۔ گاڑی کو فٹ پاتھ پر سے اتارا اور سڑک میں پہنچ کر اکسلریٹر پر پیر رکھ دیا۔ موٹر تیرنے لگی۔ گھر پہنچ کر میں نے پہلے سوچا کہ اوپر برساتی ٹھیک رہے گی۔ لیکن اس خیال سے کہ لونڈیا کو اوپر لے جانے میں جھک جھک کرنی پڑے گی۔ اس لیے میں نے نوکر سے کہا۔ دیوانہ خانہ کھول دو۔ اس نے دیوان خانہ کھولا تو میں نے اسے گھپ اندھیرے ہی میں صوفے پر ڈال دیا۔ سارا رستہ خاموش رہی تھی۔ لیکن صوفے پر گرتے ہی چلانے لگی۔ ’’ڈونٹ کِل می۔ ڈونٹ کِل می پلیز۔‘‘

مجھے ذرا شاعری سوجھی۔ ’’آئی وونٹ کِل یو۔ آئی وونٹ کِل یو ڈارلنگ۔‘‘

وہ رونے لگی۔ میں نے نوکر سے کہا۔ چلے جاؤ۔ وہ چلا گیا۔ میں نے جیب سے دیا سلائی نکالی۔ ایک ایک کر کے ساری تیلیاں نکالیں مگر ایک بھی نہ سلگی۔ اس لیے کہ بارش میں ان کے مصالحے کا بالکل فالودہ ہو گیا تھا۔ بجلی کا کرنٹ کئی دنوں سے غائب تھا۔ اوپر برساتی میں ٹوٹے ہولے مال کے ڈھیر میں کئی بیٹریاں پڑی تھیں۔ لیکن میں نے کہا۔ اندھیرے ہی میں ٹھیک ہے، مجھے کون سی فوٹو گرافی کرنی ہے۔ چنانچہ برساتی اتار کر میں نے ایک طرف پھینک دی اور اس سے کہا۔ ’’لائیے میں آپ کا رین کوٹ اتار دوں۔‘‘

میں نیچے صوفے کی جانب جھکا۔ لیکن وہ غائب تھی۔ میں بالکل نہ گھبرایا۔ اس لیے کہ دروازہ نوکر نے باہر سے بند کر دیا تھا۔ گھُپ اندھیرے میں اِدھر اُدھر میں نے اسے تلاش کرنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بھڑ گئے اور تپائی کے ساتھ ٹکرا کر گر پڑے۔ فرش پر لیٹے ہی لیٹے میں نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا جو گردن پر جا پڑا۔ وہ چیخی میں نے کہا۔ ’’چیختی کیوں ہو۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔‘‘

اس نے پھر سسکیاں لینا شروع کر دیں۔ شاید اس کا پیٹ ہی تھا جس پر میرا ہاتھ پڑا۔ وہ دوہری ہو گئی۔ میں نے جیسا بھی بن پڑا اس کے رین کوٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیے۔ مومی کپڑا بھی عجیب ہوتا ہے جیسے بوڑھے گوشت میں چکنی چکنی جھریاں پڑی ہوں۔ وہ روتی رہی اور ادھر ادھر لپٹ کر مزاحمت کرتی رہی۔ لیکن میں نے پورے بٹن کھول دیے اسی دوران میں مجھے معلوم وہ کہ وہ ساڑھی پہنے تھی۔ میں نے کہا یہ تو ٹھیک رہا۔ چنانچہ میں نے ذرا معاملہ دیکھا۔ خاصی سڈول پنڈلی تھی جس کے ساتھ میرا ہاتھ لگا۔ وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ میں پہلے ذرا یوں ہی سلسلہ کر رہا تھا۔ پنڈلی کے ساتھ جب میرا ہاتھ لگا تو بدن میں چار سو چالیس والٹ پیدا ہو گئے۔ لیکن میں نے فوراً ہی بریک لگا دیے کہ سہج پکے سو میٹھا ہوئے۔ چنانچہ میں نے شاعری شروع کر دی۔ ’’ڈارلنگ۔ میں تمہیں یہاں قتل کرنے کے لیے نہیں لایا۔ ڈرو نہیں۔ یہاں تم زیادہ محفوظ ہو۔ جانا چاہو تو چلی جاؤ۔ لیکن باہر لوگ درندوں کی طرح چیر پھاڑ دیں گے۔ جب تک یہ فساد ہیں تم میرے ساتھ رہنا۔ تم پڑھی لکھی لڑکی ہو، میں نہیں چاہتا۔ کہ تم گنواروں کے چنگل میں پھنس جاؤ۔‘‘

اس نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ ’’یو وونٹ کِل می؟‘‘

میں نے فوراً ہی کہا۔ ’’نو سر۔‘‘

وہ ہنس پڑی۔ مجھے فوراً ہی خیال آیا کہ عورت کو سر نہیں کہا کرتے۔ بہت خفت ہوئی۔ لیکن اس کے ہنس پڑنے سے مجھے کچھ حوصلہ ہو گیا۔ میں نے کہا۔ معاملہ پٹا سمجھو، چنانچہ میں بھی ہنس پڑا۔ ’’ڈارلنگ، میری انگریزی کمزور ہے۔‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا۔ ’’اگر تم مجھے مارنا نہیں چاہتے تو یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘

سوال بڑا بے ڈھب تھا۔ میں نے جواب سوچنا شروع کیا۔ لیکن تیار نہ ہوا۔ میں نے کہا جو منہ میں آئے کہہ دو۔ ’’میں تمہیں مارنا بالکل نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ مجھے یہ کام بالکل اچھا نہیں لگتا۔ تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں اکیلا تھا۔‘‘

وہ بولی۔ ’’تمہارا نوکر تمہارے پاس رہتا ہے۔‘‘

میں نے بغیر سوچے سمجھے جواب دے دیا۔ ’’اس کا کیا ہے وہ تو نوکر ہے۔‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ میرے دماغ میں نیکی کے خیال آنے لگے میں نے کہا۔ ہٹاؤ چنانچہ اٹھ کر اس سے کہا۔ ’’تم جانا چاہتی ہو تو چلی جاؤ۔ اٹھو۔‘‘

میں نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ایک دم مجھے اس کی پنڈلی کا خیال آ گیا اور میں نے زور سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ چمٹا لیا۔ اس کی گرم گرم سانس میری ٹھوڑی کے نیچے گھس گئی۔ میں نے اٹکل پچو اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر جما دیے۔ وہ لرزنے لگی۔ میں نے کہا۔ ’’ڈارلنگ ڈرو نہیں۔ میں تمہیں ماروں گا نہیں۔‘‘

’’چھوڑ دو مجھے۔‘‘

اس کی آواز میں عجیب و غریب قسم کی کپکپاہٹ تھی۔ میں نے اسے اپنی گرفت سے علیحدہ کر دیا۔ لیکن فوراً ہی اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔ سڑک پر اسے اٹھاتے وقت مجھے محسوس نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اس کے کولہوں کا گوشت بہت ہی نرم تھا۔ ایک بات مجھے اور بھی معلوم ہوئی وہ یہ کہ اس کے ایک ہاتھ میں چھوٹا سا بیگ تھا۔ میں نے اسے صوفے پر لٹا دیا اور بیگ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔ ’’اگر اس میں کوئی قیمتی چیز ہے تو یقین رکھو یہاں بالکل محفوظ رہے گی۔ بلکہ چاہو تو میں بھی تمہیں کچھ دے سکتا ہوں۔‘‘

وہ بولی۔ ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘

’’لیکن مجھے چاہیے‘‘

اس نے پوچھا۔ ’’کیا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔ ’’تم‘‘

وہ خاموش ہو گئی۔ میں فرش پر بیٹھ کر اس کی پنڈلی سہلانے لگا۔ وہ کانپ اٹھی۔ لیکن میں ہاتھ پھیرتا رہا۔ اس نے جب کوئی مزاحمت نہ کی تو میں نے سوچا کہ مجبوری کی وجہ سے بیچاری نے اپنا آپ ڈھیلا چھوڑ دیا ہے۔ اس سے میری طبیعت کچھ کھٹی سی ہونے لگی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ ’’دیکھو میں زبردستی کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ تمہیں منظور نہیں ہے تو جاؤ۔‘‘

یہ کہہ کر میں اٹھنے ہی والا تھا کہ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیا۔ جو کہ دھک دھک کر رہا تھا۔ میرا بھی دل اچھلنے لگا۔ میں نے زور سے ڈارلنگ کہا اور اس کے ساتھ چمٹ گیا۔ دیر تک چوما چاٹی ہوتی رہی۔ وہ سسکیاں بھر بھر کے مجھے ڈارلنگ کہتی رہی۔ میں بھی کچھ اسی قسم کی خرافات بکتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس سے کہا۔ ’’یہ رین کورٹ اتار دو۔ بہت ہی واہیات ہے۔‘‘

اس نے جذبات بھری آواز میں کہا۔ ’’تم خود ہی اتار دو نا!‘‘

میں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور کوٹ اس کے بازوؤں میں سے کھینچ کر اتار دیا۔ اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’کون ہو تم؟‘‘

میں اس وقت اپنا حدود اربعہ بتانے کے موڈ میں نہیں تھا۔ ’’تمہارا ڈارلنگ!‘‘

اس نے ’’یو آر اے نوٹی بوائے‘‘ کہا اور اپنی باہیں میرے گلے میں ڈال دیں میں اس کا بلاؤز اتارنے لگا تو اس نے میرے ہاتھ پکڑ لیے اور التجا کی۔ ’’مجھے ننگا نہ کرو ڈارلنگ، مجھے ننگا نہ کرو۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’کیا ہوا۔ اس قدر اندھیرا ہے۔‘‘

’’نہیں، نہیں!‘‘

’’تو اس کا یہ مطلب ہے کہ…‘‘

اس نے میرے دونوں ہاتھ اٹھا کر چومنے شروع کر دیے اور لرزاں آواز میں کہنے لگی۔ ’’نہیں نہیں۔ مجھے شرم آتی ہے۔‘‘

عجیب ہی سی بات تھی۔ لیکن میں نے کہا۔ چلو ہٹاؤ چھوڑو بلاؤز کو۔ آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں کچھ دیر خاموش رہا تو اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا ’’تم ناراض تو نہیں ہو گئے؟‘‘

مجھے کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ میں ناراض ہوں یا کیا کہوں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا ’’نہیں نہیں ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ تم بلاؤز نہیں اتارنا چاہتی ہو، نہ اتارو۔ لیکن۔‘‘

اس سے آگے کہتے ہوئے مجھے شرم آ گئی۔ لیکن ذرا گول کر کے میں نے کہا۔ ’’لیکن کچھ تو ہونا چاہیے۔ میرا مطلب ہے کہ ساڑھی اتار دو۔‘‘

’’مجھے ڈر لگتا ہے‘‘

یہ کہتے ہوئے اس کا حلق سوکھ گیا۔ میں نے بڑے پیار سے کہا۔ ’’کس سے ڈر لگتا ہے۔‘‘

’’اسی سے۔ اسی سے‘‘

اور اس نے بلک بلک کر رونا شروع کر دیا۔ میں نے اُسے تسلی دی کہ ڈرنے کی وجہ کوئی بھی نہیں۔ ’’میں تمہیں تکلیف نہیں دوں گا۔ لیکن اگر تمہیں واقعی ڈر لگتا ہے تو جانے دو۔ دو تین دن یہاں رہو جب میری طرف سے تمہیں پورا اطمینان ہو جائے تو پھر سہی۔‘‘

اس نے روتے روتے کہا۔ ’’نہیں نہیں۔‘‘

اور اپنا سر میری رانوں پر رکھ دیا۔ میں اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد اس نے رونا بند کر دیا اور سوکھی سوکھی ہچکیاں لینے لگی۔ پھر ایک دم مجھے اپنے ساتھ زور کے ساتھ بھینچ لیا اور شدت کے ساتھ کانپنے لگی۔ میں نے اسے صوفے پر سے اٹھ کر فرش پر بٹھا دیا اور۔ کمرے میں دفعتہً روشنی کی لکیریں تیر گئیں۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے پوچھا ’’کون ہے؟‘‘

نوکر کی آواز آئی۔ ’’لالٹین لے لیجیے‘‘

میں نے کہا۔ ’’اچھا‘‘

لیکن اس نے آواز بھینچ کر خوفزدہ لہجے میں کہا۔ ’’نہیں نہیں۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’حرج کیا ہے۔ ایک طرف نیچی کر کے رکھ دوں گا۔‘‘

چنانچہ میں نے اٹھ کر لالٹین لی اور دروازہ اندر سے بند کر دیا۔ اتنی دیر کے بعد روشنی دیکھی تھی۔ اس لیے آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ اٹھ کر ایک کونے میں کھڑی ہو گئی تھی۔ میں نے کہا ’’بھئی اتنا بھی کیا ہے۔ تھوڑی دیر روشنی میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ جب تم کہو گی اسے گل کر دیں گے۔‘‘

چنانچہ میں لالٹین ہاتھ ہی میں لیے اس کی طرف بڑھا۔ اس نے ساڑھی کا پلو سرکا کہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا۔ میں نے کہا ’’تم بھی عجیب و غریب لڑکی ہو۔ اپنے دولھے سے بھی پردہ۔‘‘

یہ کہہ میں سمجھنے لگا کہ وہ میری دولہن ہے اور میں اس کا دولھا۔ چنانچہ اسی تصور کے۔ تحت میں نے اس سے کہا۔ ’’اگر ضد ہی کرنی ہے تو بھئی کر لو۔ ہمیں آپ کی ہر ادا قبول ہے۔‘‘

ایک دم زور کا دھماکا ہوا۔ وہ میرے ساتھ چمٹ گئی۔ کہیں بم پھٹا تھا۔ میں نے اس کو دلاسا دیا۔ ’’ڈرو نہیں۔ معمولی بات ہے‘‘

ایک دم مجھے خیال آیا جیسے میں نے اس کے چہرے کی جھلک دیکھی تھی۔ چنانچہ اس کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر میں ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میں نے کیا دیکھا۔ بہت ہی بھیانک صورت، گال اندر دھنسے ہوئے جن پر گاڑھا میک اپ تھپا تھا۔ کئی جگہوں پر سے اس کی تہہ بارش کی وجہ سے اتری ہوئی تھی اور نیچے سے اصلی جلد نکل آئی تھی جیسے کئی زخموں پرسے پھاہے اتر گئے ہیں۔ خضاب لگے خشک اور بے جان بال جن کی سفید جڑیں دانت دکھا رہی تھیں۔ اور سب سے عجیب و غریب چیز مومی پھول تھے جو اس نے اس کان سے اس کان تک ماتھے کے ساتھ ساتھ بالوں میں اڑسے ہوئے تھے۔ میں دیر تک اس کو دیکھتا رہا۔ وہ بالکل ساکت کھڑی رہی۔ میرے ہوش و حواس گم ہو گئے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب میں سنبھلا تو میں نے لالٹین ایک طرف رکھی اور اس سے کہا ‘‘تم جانا چاہو تو چلی جاؤ!‘‘

اس نے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن جب دیکھا کہ میں اس کا رین کوٹ اور بیگ اٹھا رہا ہوں تو خاموش ہو گئی۔ میں نے یہ دونوں چیزیں اس کی طرف دیکھے بغیر اس کو دے دیں۔ وہ کچھ دیر گردن جھکائے کھڑی رہی۔ پھر دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔‘‘

یہ واقعہ سُنا کر میں نے ’س‘ سے پوچھا۔ ’’جانتے ہو وہ عورت کون تھی؟‘‘

’س‘ نے جواب دیا۔ ’’نہیں تو۔‘‘

میں نے اس کو بتایا۔ ’’وہ عورت مشہور آرٹسٹ مس ’م‘ تھی۔‘‘

وہ چلایا۔ ’’مس ’م‘؟ وہی جس کی بنائی ہوئی تصویروں کی میں اسکول میں کاپی کیا کرتا تھا؟‘‘

میں نے جواب دیا۔ ’’وہی۔ ایک آرٹ کالج کی پرنسپل تھی۔ جہاں وہ لڑکیوں کو صرف عورتوں اور پھولوں کی تصویر کشی سکھاتی تھی۔ مردوں سے اسے سخت نفرت تھی۔‘‘

عزت جہاں کو آپ یقیناً جانتے ہوں گے۔ کون ہے جو اس لڑکی کے نام سے واقف نہیں۔ اگر آپ سوشلسٹ ہیں اور بمبئی میں رہتے ہیں تو آپ ضرور عزت سے کئی بار ملاقات کر چکے ہوں گے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ اس نے اپنی زندگی کے کئی برس اشتراکیت کی تحریک کی نشر و اشاعت میں صرف کیے ہیں اور حال ہی میں ایک غیر معروف آدمی سے شادی کی ہے۔ اس غیر معروف آدمی کو میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ ناصر سے میں اس زمانے کا واقف ہوں جب میں اس کو ناصو کہا کرتا تھا۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں وہ میرا ہم جماعت تھا۔ میں تو اپنی تعلیم بیماری اور مفلسی کے باعث جاری نہ رکھ سکا مگر وہ صرف مفلس تھا۔ اس نے بی اے کا امتحان کسی نہ کسی طرح پاس کر لیا اور بمبئی کی ایک بہت بڑی مِل میں ملازم ہو گیا۔ میں ان دنوں بمبئی ہی میں تھا۔ جب وہ دلی کے ایک کارخانے میں کام کرتا کرتا بمبئی آیا اور مل میں ملازم ہوا۔ اس دوران میں اس سے میری کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن افسوس ہے کہ چند وجوہ کی بنا پر میں بمبئی میں اپنا قیام جاری نہ رکھ سکا اور مجھے مجبوراً دلی جا کر ایک نہایت ہی ذلیل ملازمت اختیار کرنا پڑی۔ خیر! میں نے دلی کو دو برس کے بعد خیر باد کہا اور بمبئی شہر کا رخ کیا۔ جہاں میرے چند عزیز دوستوں کے علاوہ اب عزت جہاں بھی رہتی تھی۔ میں خود سوشلسٹ ہوں۔ سوشلزم پر میں نے سینکڑوں مضمون لکھے ہیں مگر وہ مضامین جو میں نے عزت جہاں کے قلم سے مختلف اخباروں میں پڑھے تھے، میرے دل و دماغ پر مرتسم ہو گئے تھے۔ خدا کے لیے کہیں یہ خیال نہ کیجیے گا کہ مجھے اس سے غائبانہ عشق تھا۔ در اصل مجھے اس لڑکی یا عورت کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا صرف اشتیاق تھا۔ اخباروں اور رسالوں میں اکثر اس کی سرگرمیوں کا حال پڑھ چکا تھا اور مجھے اس سے بے پناہ دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ میں چاہتا تھا۔ اس سے ملوں، اس سے باتیں کروں اور جس طرح کالج اور اسکول کے نو گرفتارِ محبت لونڈے اپنے رومانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ اسی طرح میں اس سے اشتراکیت کے ساتھ اپنی والہانہ وابستگی کا اظہار کروں۔ ہم دونوں سیگل سے لے کر کارل مارکس تک اشتراکی فلسفے کی نشو و ارتقاء کی باتیں کرتے۔ لینن، لراتسکی اور اسٹالن کے مختلف نظریات پر گفتگو کرتے۔ میں ہندوستان کی سوشلسٹ تحریک کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا۔ وہ بھی اپنے خیالات مجھے بتاتی۔ میں اسے ان نوجوانوں کی کہانیاں سناتا جو کارل مارکس کی کتاب محض اس لیے بغل میں دبائے پھرتے ہیں کہ انھیں دوسروں پر رعب گانٹھنا مقصود ہوتا ہے۔ میں اسے اپنے ایک دوست کی داستان سناتا جس کے پاس سوشلزم پر ہر وہ کتاب جو انگریزی زبان میں چھپ چکی ہے۔ موجود ہے مگر وہ سوشلزم کی الف ب سے بھی واقف نہیں وہ کارل مارکس کا نام اس طرح لیتا ہے جس طرح لوگ اپنے قریبی رشتہ دار میونسپل کمشنروں کا لیتے ہیں۔ میں عزت کو بتاتا کہ اس کے باوجود وہ مخلص آدمی ہے جو سوشلزم کے خلاف ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ پھر میں اس سے ان لڑکوں اور لڑکیوں کے متعلق بات چیت کرتا جو سوشلزم صرف اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے سے ملنے اور جنسی تعلقات پیدا کرنے کا موقعہ ملے۔ میں اسے بتاتا کہ پچاس فیصدی لڑکے جو سوشلسٹ تحریک میں شامل ہوتے ہیں شہوت زدہ ہوتے ہیں۔ اپنی ہم جماعت لڑکیوں کو وہ یوں دیکھتے ہیں جیسے ان کی نگاہیں صدیوں کی بھوکی پیاسی ہیں اور اکثر لڑکیاں جو اس تحریک میں شامل ہوتی ہیں۔ سرمایہ داروں کی ہنگامہ پسند بیٹیاں ہوتی ہیں اپنی زندگی میں حادثے پیدا کرنے کے لیے یہ سوشلزم پر چند ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد اس تحریک کی سرگرم کارکن بن جاتی ہیں۔ ان میں سے کچھ تو آہستہ آہستہ جنسی خواہشات کے خرابے کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اور کچھ آزادی کی آخری حدود پر پہنچ کر ایک ایسی جذباتی چیز بن جاتی ہیں جو ملک کے نام نہاد لیڈروں کے کھیلنے کے کام آتی رہتی ہے۔ غرض یہ کہ عزت جہاں سے ہندوستان کی اشتراکی تحریک کے عواقب و عواطف پر سیر حاصل بحث کرنے کا خوب لطف آتا۔ اس کے مضامین سے میں اس کی ذہانت اور بیباک خیالی معلوم کر چکا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری ہم خیال ہو گی۔ بمبئی آ کر مجھے ایک دوست کے ہاں ٹھہرنا پڑا۔ کیونکہ مکان اور فرنیچر کا بندوبست کرتے کرتے مجھے کئی روز خوار ہونا تھا۔ بیوی کو میں دلی ہی چھوڑ آیا تھا۔ اس سے میں نے کہہ دیا تھا کہ جونہی مکان ملے گا۔ میں تمہیں بلا لوں گا۔ میرے سب دوست کنوارے ہیں اور فلم ڈائریکٹر عورتوں کے متعلق آپ کا فلسفہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ آپ چونکہ اسٹوڈیو میں کسی ایکٹرس یا ایکٹر کی لڑکی سے تعلقات پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت کے وقت مختلف دلالوں کے ذریعے سے ایک لڑکی منگوا لیتے ہیں۔ رات بھر اسے اپنے پاس رکھتے ہیں اور صبح ہوتے ہی اسے رخصت کر دیتے ہیں۔ شادی اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے خیال کے مطابق بیوی ان سے کبھی خوش نہیں رہے گی۔ ’’بھائی میں فلم ڈائریکٹر ہوں۔ دن کو شوٹنگ کروں گا تو دن بھر باہر رہوں گا رات کو شوٹنگ کروں گا تو رات بھر باہر رہوں گا۔ دن کو کام کرنے کے بعد رات کو اور رات کو کام کرنے کے بعد دن کو آرام کرنا ضروری ہے۔ بیوی مجھ سے اپنے سارے حقوق طلب کرے گی مجھے بتاؤ ایک تھکا ہوا آدمی یہ سارے حقوق کیسے پورے کر سکتا ہے۔ ہر روز ایک نئی لونڈیا اچھی ہے نیند آ گئی تو اس سے کہا جاؤ سو رہو۔ اگر اس کی صحبت سے تنگ آ گئے تو ٹیکسی کا کرایہ دیا اور چلتا کیا۔ عورت بیوی بنتے ہی ایک بڑا فرض بن جاتی ہے۔ میں چونکہ فرض شناس ہوں اس لیے شادی کا بالکل قائل نہیں۔‘‘

جس دوست کے ہاں میں ٹھہرا ہوا تھا ایک دن میں اور وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر ایک لڑکی ڈھونڈنے گئے۔ دلال جو اس کا پرانا واقف تھا۔ ایک کے بجائے دو ’’دکھشنی چھوکریاں‘‘ لے آیا۔ میں بہت سٹپٹایا۔ مگر فوراً ہی میرے دوست نے کہا۔ تم گھبراؤ نہیں۔ ایک اور دو میں فرق ہی کیا ہے؟‘‘

ٹیکسی واپس گھر کی طرف مڑی ہم سب یعنی میں، میرا دوست فلم ڈائریکٹر اور وہ دو کاشٹا پوش لڑکیاں تین سیڑھیاں طے کر کے تیسری منزل پر پہنچے۔ فلیٹ کا دروازہ میں نے کھولا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ہی ایک کرسی پر ناصر بیٹھا بڑے انہماک سے میرا اردو ٹائپ رائٹر دیکھ رہا تھا اور اس کے پاس ہی ایک عینک لگی عورت بیٹھی تھی جب اس نے مڑ کر ہماری طرف دیکھا تو میں پہچان گیا۔ عزت جہاں تھی۔ میرا دوست ان اجنبیوں کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔ لیکن دونوں ’’دکھشنی چھوکریاں‘‘ اندر کمرے میں داخل ہو چکی تھیں۔ اس لیے اس نے پردہ پوشی کی ضرورت بیکار سمجھی۔ میں نے اپنے دوست سے ناصر کا تعارف کرایا۔ ناصر نے جواب میں ہم دونوں سے اپنی بیوی کو متعارف کرایا۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے دوست سے جو اب سگرٹ سلگا رہا تھا۔ عزت جہاں کا مزید تعارف کرانے کی خاطر۔ ’’یہ ہندوستان بہت بڑی اشتراکی خاتون ہیں۔ تم نے ان کے مضامین ضرور پڑھے ہوں گے۔‘‘

میرے دوست کو اشتراکیت سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اس نام ہی سے ناواقف تھا۔ اس نے دونوں لڑکیوں کو دوسرے کمرے میں جانے کا اشارہ کیا اور ہم سب سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’معاف فرمائیے گا۔ میں ابھی حاضر ہوا۔‘‘

عزت جہاں کی آنکھیں ان لڑکیوں پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ان کے لباس، وضع قطع، غرضیکہ ہر چیز کا اچھی طرح جائزہ لے رہی تھی۔ جب وہ دونوں دوسرے کمرے میں چلی گئیں اور میرے دوست نے جر?ت رندانہ سے کام لے کر دروازہ بند کر دیا۔ تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئی۔ ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ ناصر ہر روز مجھ سے کہتے تھے کہ چلو چلو۔ پر میں ان دنوں کچھ زیادہ مصروف رہی۔ اور۔ آپ تو اب یہیں تشریف لے آئے ہیں نا؟ مکان برا نہیں!‘‘

اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھ کر خوشنودی کا اظہار کیا۔ میں نے کہا۔ ’’جی ہاں اچھا ہے۔ ہوا دار ہے۔‘‘

’’ہوا دار تو خاک بھی نہیں۔‘‘

’’بیچ کا دروازہ کھلا ہو تو بہت ہوا آتی ہے۔‘‘

’’ہاں شاید پہلے آ رہی تھی۔‘‘

دیر تک میں اور ناصر اور عزت جہاں ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے مگر میں محسوس کر رہا تھا کہ عزت کے دل میں کھُد بُد ہو رہی ہے۔ میرا دوست جلدی حاضر ہونے کا وعدہ کر کے دو لڑکیوں کے ساتھ دوسرے کمرے میں کیا کر رہا تھا؟ غالباً وہ یہی معلوم کرنے کے لیے بیقرار تھی۔ نصف گھنٹہ گزرنے پر اس نے بڑے تکلف کے ساتھ مجھ سے کہا۔ ’’ایک گلاس پانی پلوا دیجیے۔‘‘

فلیٹ کے دو راستے ہیں ایک سامنے سے۔ ایک پیچھے۔ میں نے دروازہ کھلوانا مناسب خیال نہ کیا۔ چنانچہ دوسرے راستے سے گلاس میں پانی لے کر آ گیا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ میاں بیوی دونوں کھُسر پھسر کر رہے ہیں۔ عزت جہاں نے گلاس میرے ہاتھ سے لے لیا اور کہا۔ ’’آپ نے بہت تکلیف کی۔‘‘

’’جی نہیں۔ اس میں تکلیف کی بات ہی کیا ہے۔‘‘

پانی پی کر اس نے عینک کے موٹے شیشوں کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑیں اور بناوٹی لہجے میں کہا۔ ’’اس فلیٹ کے غالباً دو راستے ہیں۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

کچھ دیر پھر اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اس کے بعد گفتگو کا رخ بدل کر اشتراکیت کی طرف آ گیا اور میں اور عزت دونوں سرخ ہو گئے۔ میں نے باتوں باتوں میں اشراکیت کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو واضح کیا۔ ’’اشتراکی کہتے ہیں کہ تمام انسانی ادارے مثال کے طور پر مذہب، تاریخ، سیاست وغیرہ سب ہمارے معاشی حالات سے اثر پذیر ہو کر معرضِ وجود میں آتے ہیں۔ موجودہ نظامِ معیشت جس میں امیر اور غریب کا امتیاز ہے اور جس میں پیداوار کے تمام آلات ایک محدود اونچے طبقے کے ہاتھ میں ہیں انھیں صرف ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے یہ ایک مضر اور تباہ کن ادارہ ہے جسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہیے۔ جب اس کا خاتمہ ہو جائے گا تو آپ کے خیال کے مطابق اشتراکی دور شروع ہو گا۔ جس میں تمام آلات پیداوار۔ یہی ہمارے معاشی حالات پر حاوی ہیں عوام کے قبضے میں آ جائیں گے۔ عزت جہاں نے میری تائید کی۔ ’’جی ہاں۔‘‘

’’عوام کی قوت اور حکومت کی نمائندہ ایک خاص جماعتِ حاملہ ہو گی۔ جسے اشتراکی حکومت کہا جائے گا۔‘‘

عزت جہاں نے پھر کہا۔ ’’جی ہاں۔‘‘

’’لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ اشتراکی نظام میں بھی تمام قوت ایک محدود طبقے کے ہاتھ میں ہو گی۔ یہ نمائندہ جماعت اشتراکیوں کے فلسفے کے مطابق تمام لوگوں کی بہبودی کو مدارِ عمل بنائے گی۔ اس جماعت کو ذاتی اغراض اور شخصی منافع سے کوئی واسطہ نہ ہو گا اس کے اغراض عوام کے مقاصد کے مطابق ہوں گے۔ لیکن۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر وثوق سے کون کہہ سکتا ہے کہ یہ محدود جماعت جو بظاہر عوام کی نمائندہ جماعت ہو گی۔ کچھ عرصے کے بعد سرمایہ داروں کی طرح ہر قسم کے ظلم و ستم ڈھائے گی۔ کیا یہ لوگ غاصب نہیں ہو سکتے۔ کچھ عرصے کی حکومت کے بعد کیا ان کے دل میں ذاتی اغراض پیدا نہیں ہوں گی؟‘‘

عزت جہاں مسکرائی۔ ’’آپ تو باکونین کے بھائی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

میں نے جوش کے ساتھ کہا۔ ’’مانتا ہوں کہ کارل مارکس کے ساتھ ساری عمر لڑنے کے باوجود باکونین کسی نقطہ مفاہمت پر نہیں پہنچ سکا اور اپنے اخلاص کے باوجود کسی مدلل اور منظم فلسفے کی بنیاد نہیں ڈال سکا۔ لیکن اس کا یہ کہنا جھوٹ نہیں ہے کہ ڈیمو کریسی بھی ایک بڑی جماعت کے دوسری چھوٹی جماعت پر جابرانہ نظامِ حکومت کا نام ہے۔ میں ایسے دورِ سیاست کا قائل ہوں جس کا سماج ہر قسم کی حکومت اور دباؤ سے آزاد ہو‘‘

عزت پھر مسکرائی۔ تو آپ انارکزم چاہتے ہیں جو ایک ناقابل عمل چیز ہے۔ آپ کا باکونین اور کرویٹوکین دونوں مل کر اسے قابلِ قبول نہیں بنا سکتے۔؟‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’اشتراکیت کے پاس بھی کوئی قابل عمل فلسفہ نہیں تھا۔ لوگ اسے دیوانوں کا ایک دھندلا سا خواب سمجھتے تھے۔ مگر انیسویں صدی میں کارل مارکس نے اس کو ایک قابل عمل معاشرتی نظام کی صورت میں پیش کیا۔ ممکن ہے انارکزم کو بھی کوئی کارل مارکس مل جائے۔‘‘

عزت جہاں نے بند دروازے کی طرف دیکھا اور جیسے اس نے میری بات سنی نہیں مجھ سے پوچھا۔ ’’آپ کے دوست وعدہ کر کے گئے تھے ابھی آئے نہیں؟‘‘

میں نے بہتر سمجھا کہ اسے سب کچھ بتا دوں۔ ’’انھوں نے تکلف برتا تھا۔ ورنہ ان کا مقصد یہی تھا کہ وہ نہیں آئیں گے۔‘‘

عزت جہاں نے بڑے بھولے پن سے کہا۔ ’’کیوں؟‘‘

میں ناصر کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ جو اب ہماری گفتگو میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ ’’دو لڑکیاں اس کے ساتھ ہیں انھیں چھوڑ کر وہ ایسی خشک محفل میں کیسے آ سکتا ہے؟‘‘

عزت نے یہ سن کر مجھ سے دریافت کیا۔ ’’یہ دو لڑکیاں فلم ایکٹرس تھیں؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

’’دوست ہوں گی؟‘‘

’’جی نہیں۔ آج ہی جان پہچان ہوئی ہے۔‘‘

اس کے بعد آہستہ آہستہ میں نے ساری بات بتا دی اور جنسیات کے بارے میں اپنے دوست کا نظریہ بھی اچھی طرح واضح کر دیا۔ بڑے غور سے میری تمام باتیں سن کر اس نے فتویٰ دینے کے انداز میں کہا۔ ’’یہ انارکزم کی بدترین قسم ہے۔ آپ کے دوست کے خیالات اگر عام ہو جائیں تو دنیا میں ایک اندھیر مچ جائے۔ عورت اور مرد کے تعلقات صرف۔ صرف بستر تک محدود ہو جائیں اور کیا؟ یہ آپ کے دوست جو کوئی بھی ہیں یہ عورت کو کیا سمجھتے ہیں۔ ڈبل روٹی، کیک یا بسکٹ۔ زیادہ سے زیادہ کافی یا چائے کی ایک گرم پیالی۔ پی اور جھوٹے برتنوں میں ڈال دی۔ لعنت ہے ایسی عورتوں پر جو یہ ذلت برداشت کر لیتی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ زندگی میں جنسیات کو اتنی اہمیت کیوں دی جاتی ہے۔ کیا آپ کے یہ دوست بغیر عورت کے زندہ نہیں رہ سکتے۔ انھیں ہر روز عورت کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟‘‘

میں نے اپنے ذاتی خیال کا اظہار کیا۔ ’’عورت کی ضرورت ہر مرد کو عمر کے ایک خاص حصے میں محسوس ہوتی ہے۔ اس کو بعض زیادہ اہمیت دیتے ہیں بعض کم۔ میرا دوست ان بعض لوگوں میں سے ہے جو اس کو روزمرہ کی ایک ضرورت سمجھتے ہیں۔ اگر کھانا پینا اور سونا اہم تو اس کے نزدیک عورت بھی اتنی ہی اہم اور ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ غلطی پر ہو مگر اس نے اپنی اس کمزوری کی کبھی پردہ پوشی نہیں کی۔‘‘

عزت جہاں کے لہجے میں اور زیادہ تلخی پیدا ہو گئی۔ ’’پردہ پوشی نہیں کی۔ تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ وہ راستی پر ہیں۔ فاحشائیں کھلے بندوں اپنا جسم بیچتی ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کا وجود فطری ہے۔ چونکہ ہمارا نظام بالکل غلط اور غیر فطری ہے۔ اسی لیے ہمیں یہ چکلے نظر آتے ہیں۔ چونکہ آپ کے دوست کا نظامِ عصبی تندرست نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عورت اور روٹی میں کوئی فرق نہیں سمجھتے۔ روٹی کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اس جسمانی تعلق کے بغیر یقیناً زندہ رہ سکتا ہے!‘‘

میں نے کہا۔ ’’جی ہاں زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کی میں زندگی اور موت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ ہر مرد کو عورت دستیاب نہیں ہو سکتی۔ لیکن جس کو دستیاب ہو سکتی ہے۔ وہ اسے اپنی ضروریاتِ زندگی میں شامل کر لیتا ہے۔‘‘

ناصر کو اب اس گفتگو سے بھی کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ چنانچہ اس نے اپنی بیزاری کا اظہار کر ہی دیا۔ ’’ہٹاؤ یار اس قصے کو۔ بہت وقت ہو گیا اور ہمیں یہاں سے پورے انیس میل دور جانا ہے۔ چلو عزت چلیں۔‘‘

عزت نے اپنے خاوند کی بات سنی ان سنی کر دی اور مجھ سے کہا۔ ’’کچھ بھی ہو مگر آپ کے دوست اصل میں بہت ہی بدتمیز ہیں۔ یعنی اتنا بھی کیا کہ یہاں ہم تین آدمی بیٹھے ہیں اور آپ دوسرے کمرے میں۔ لاحول ولا قوۃ۔‘‘

ناصر کو نیند آ رہی تھی۔ ’’ارے بھئی خدا کے لیے اب سلسلے کو ختم کرو۔ چلیں!‘‘

عزت بھنا گئی۔ ’’ارے واہ۔ ارے واہ۔ یہ تو آہستہ آہستہ میرے خاوند ہی بن بیٹھے ہیں۔‘‘

یہ سن کر مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی۔ ناصر بھی ہنس دیا۔ ہم دونوں ہنسے تو عزت جہاں کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔ ’’اور کیا۔ یہ آہستہ آہستہ خاوند بننا ہی تو ہے۔ یعنی مجھ پر رعب جمایا جا رہا ہے۔‘‘

اس کے بعد ناصر اور عزت تھوڑی دیر اور بیٹھے اور چلے گئے۔ پہلی ملاقات خاصی دلچسپ رہی۔ ہندوستان کی اشتراکی تحریک کے بارے میں گو مفصل طور میں عزت جہاں سے گفتگو نہ کر سکا۔ لیکن پھر بھی اس نے مجھے بہت متاثر کیا اور میں نے سوچا کہ اس سے آئندہ ملاقاتیں بہت ہی فکر خیز ہوں گی۔ میں نے اپنا فلیٹ لے لیا۔ دلی سے بیوی بھی آ گئی تو عزت ایک بار پھر آئی۔ دونوں پہلی ہی ملاقات میں سہیلیاں بن گئی۔ چونکہ عزت جہاں کو ہر روز اپنے دفتر جانے کے لیے شہر آنا پڑتا تھا۔ اس لیے شام کو گھر لوٹتے ہوئے اکثر ہمارے ہاں آ جاتی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ وہ میرے پاس بیٹھے اور ہم ہیگل، کارل مارکس، اینجل، باکونین، کروپٹوکین اور تراتسکی کے متعلق باتیں کریں اور سوشلزم کے ہر دور کو سامنے رکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ مگر میری بیوی اور وہ دونوں دوسرے کمرے میں جا کر پلنگ پر لیٹ جاتی تھیں اور جانے کیا کیا باتیں شروع کر دیتی تھیں۔ اگر کبھی میں سوشلزم پر اسٹالن کی موجودہ جنگی پالیسی کے اثر کا ذکر چھیڑتا تو وہ میری بیوی سے سفید اون کا بھاؤ پوچھنا شروع کر دیتی۔ اگر میں ایم۔ این۔ رائے کی ریا کاری کی بات کرتا تووہ ’’خاندان‘‘ فلم کے کسی گیت کی تعریف شروع کر دیتی تھی اور اگر میں اسے اپنے پاس بٹھا کر روس کے موجودہ جنگی نظام پر گفتگو کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو وہ تھوڑی ہی دیر کے بعد اٹھ کے باورچی خانے میں چلی جاتی اور میری بیوی کا ہاتھ بٹانے کی خاطر پیاز چھیلنے میں مشغول ہو جاتی۔ دن بھر وہ پارٹی کے دفتر میں کام کرتی تھی۔ شام کو تھکی ہوئی گھر پہنچتی تھی جو دفتر سے بیس پچیس میل دور تھا۔ الیکٹرک ٹرین میں ایک ایک گھنٹے کا سفر اس کو دن میں دو دو مرتبہ کرنا پڑتا تھا۔ آتے اور جاتے ہوئے۔ اس کا خاوند مل میں ملازم تھا۔ مہینے میں پندرہ دن اسے رات کو ڈیوٹی دینا پڑتی تھی۔ لیکن عزت خوشی تھی۔ میری بیوی سے کئی مرتبہ کہہ چکی تھی۔ ’’شادی کا مطلب صرف بستر نہیں اور خاوند کا مطلب صرف رات کا ساتھی نہیں۔ دنیا میں انسان صرف اسی کام کے لیے نہیں بھیجا گیا میں۔‘‘

اور میری بیوی اس کی اس بات سے بہت متاثر تھی۔ عزت جہاں اپنا کام بہت خلوص سے کر رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اس کی بے اعتنائیاں بری معلوم نہیں ہوتی تھیں وہ مجھ سے زیادہ میری بیوی کے پاس بیٹھنا اور اس سے بات چیت کرنا پسند کرتی تھی۔ مجھے اس کا مطلقاً خیال نہیں تھا۔ بلکہ میں سوچ رہا تھا کہ وہ بہت جلد میری بیوی کو جو متوسط طبقے کے سرمایہ داروں کی ذہنیت رکھتی تھی۔ اپنی ہم خیال بنا لے گی۔ ایک روز کا ذکر ہے۔ میں اپنے دفتر سے جلد واپس آ گیا۔ غالباً دو عمل ہو گا میں نے دروازے پر دستک دی۔ دروازہ میری بیوی کے بجائے ناصر نے کھولا میں سیدھا اپنے میز کی طرف بڑھا۔ چونکہ حسبِ عادت مجھے اپنا بیگ رکھنا تھا۔ ناصر سامنے میرے پلنگ پر کمبل اوڑھ کر لیٹ گیا۔ ادھر صوفے پر عزت جہاں لیٹی تھی۔ ناصر نے کہا۔ ’’بھئی مجھے بخار ہو رہا ہے۔‘‘

میں نے عزت جہاں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔ ’’اور آپ؟‘‘

عزت نے جواب دیا۔ ’’جی نہیں۔ میں ایسے ہی لیٹی ہوں۔‘‘

’’رقیہ کہاں ہے؟‘‘

عزت نے جواب دیا۔ ’’دوسرے کمرے میں سو رہی ہیں۔‘‘

’’یہ کیا۔ ہر ایک سورہا ہے۔‘‘

میں نے اپنی بیوی کو آواز دی۔ ’’رقیہ۔ رقیہ‘‘

اندر سے نیند بھری آواز آئی۔ ’’جی!‘‘

’’ارے بھئی ادھر آؤ۔ کب تک سوئی رہو گی؟‘‘

رقیہ آنکھیں ملتی آئی اور عزت کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔ ناصر کمبل اوڑھے لیٹا رہا۔ میں اپنی بیوی کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر گہری نیند کے متعلق باتیں ہوتی رہیں۔ کیونکہ رقیہ ہمیشہ گھوڑے بیچ کر سونے کی عادی ہے۔ اس کے بعد عزت اور میری بیوی کے درمیان کروشیے اور سلائیوں کی باتیں چھڑ گئیں۔ اسی دوران میں چائے آ گئی۔ ناصر نے لیٹے لیٹے ایک پیالی پی لی۔ میں نے بخار دور کرنے کے لیے اسے اسپرو کی دو ٹکیاں دیں جو اس نے لے لیں۔ ڈیڑھ دو گھنٹے تک یہ لوگ بیٹھے رہے۔ اس کے بعد چلے گئے۔ رات کو سونے کے لیے جی میں پلنگ پر لیٹا تو حسبِ عادت میں نے اوپر کے تکیے کو دہرا کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ نچلے تکیے کا غلاف ہی نہیں ہے۔ رقیہ سے جو میرے پاس کھڑی اپنے کپڑے تبدیل کر رہی تھی میں نے پوچھا۔ ’’اس تکیے پر غلاف کیوں نہیں چڑھایا۔‘‘

رقیہ نے غور سے تکیے کی طرف دیکھا اور حیرت سے کہا۔ ’’ہائیں، سچ مچ یہ غلاف کدھر غائب ہو گیا۔ ہاں۔ وہ آپ کے دوست۔‘‘

میں نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’کیا ناصر لے گیا؟‘‘

’’کیا معلوم؟‘‘

رقیہ نے رک رک کر کہا۔ ’’ہائے کتنی شرم کی بات ہے۔ میں نے ابھی تک یہ بات آپ کو بتائی ہی نہیں تھی۔ میں اندر سو رہی تھی اور وہ آپ کے دوست اور اس کی بیوی۔ لعنت بھیجئے۔ بڑے بدتمیز نکلے۔‘‘

دوسرے روز تکیے کا غلاف پلنگ کے نیچے سے ملا جس کو چوہوں اور کاکروچوں نے جگہ جگہ سے دھن ڈالا تھا اور اسپرو کی دو ٹکیاں جو میں نے ناصر کو بخار دور کرنے کے لیے دی تھیں۔ وہ بھی پلنگ کے نیچے سے مل گئیں

***

 

 

 

 

 

عزت کے لیے

 

 

 

چونی لال نے اپنی موٹر سائیکل اسٹال کے ساتھ روکی اور گدی پر بیٹھے بیٹھے صبح کے تازہ اخباروں کی سرخیوں پر نظر ڈالی۔ سائیکل رکتے ہی اسٹال پر بیٹھے ہوئے دونوں ملازموں نے اسے نمستے کہی تھی۔ جس کا جواب چونی لال نے اپنے سر کی خفیف جنبش سے دے دیا تھا۔ سرخیوں پر سرسری نظر ڈال کر چونی لال نے ایک بندھے ہوئے بنڈل کی طرف ہاتھ بڑھایا جو اسے فوراً دے دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی بی ایس اے موٹر سائیکل کا انجن اسٹارٹ کیا اور یہ جا وہ جا۔ موڈرن نیوز ایجنسی قائم ہوئے پورے چار برس ہو چلے تھے۔ چونی لال اس کا مالک تھا۔ لیکن ان چار برسوں میں وہ ایک دن بھی اسٹال پر نہیں بیٹھا تھا۔ وہ ہر روز صبح اپنی موٹر سائیکل پر آتا، ملازموں کی نمستے کا جواب سر کی خفیف جنبش سے دیتا۔ تازہ اخباروں کی سرخیاں ایک نظر دیکھتا ہاتھ بڑھا کر بندھا ہوا بنڈل لیتا اور چلا جاتا۔ چونی لال کا اسٹال معمولی اسٹال نہیں تھا۔ حالانکہ امرتسر میں لوگوں کو انگریزی اور امریکی رسالوں اور پرچوں سے کوئی اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن موڈرن نیوز ایجنسی ہر اچھا انگریزی اور امریکی رسالہ منگواتی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چونی لال منگواتا تھا۔ حالانکہ اسے پڑھنے وڑھنے کا بالکل شوق نہیں تھا۔ شہر میں بہت کم آدمی جانتے تھے کہ موڈرن نیوز ایجنسی کھولنے سے چونی لال کا اصل مقصد کیا تھا۔ یوں تو اس سے چونی لال کو خاصی آمدن ہو جاتی تھی۔ اس لیے کہ وہ قریب قریب ہر بڑے اخبار کا ایجنٹ تھا۔ لیکن سمندر پار سے جو اخبار اور رسالے آتے بہت ہی کم تھے۔ پھر بھی ہر ہفتے ولایت کی ڈاک سے موڈرن نیوز ایجنسی کے نام سے کئی خوبصورت بنڈل اور پیکٹ آتے ہی رہتے۔ اصل میں چونی لال یہ پرچے اور رسالے بیچنے کیلیے نہیں بلکہ مفت بانٹنے کے لیے منگواتا تھا۔ چنانچہ ہر روز صبح سویرے وہ ان ہی پرچوں کا بنڈل لینے آتا تھا جو اس کے ملازموں نے باندھ کر الگ چھوڑے ہوتے تھے۔ شہر کے جتنے بڑے افسر تھے سب چونی لال کے واقف تھے۔ بعض کی واقفیت صرف یہیں تک محدود تھی کہ ہر ہفتے ان کے یہاں جو انگریزی اور امریکی پرچے آتے ہیں۔ شہر میں کوئی ایک موڈرن نیوز ایجنسی ہے۔ اس کا مالک چونی لال ہے۔ وہ بھیجتا ہے اور بل کبھی روانہ نہیں کرتا۔ بعض ایسے بھی تھے جو اس کو بہت اچھی طرح جانتے تھے مثال کے طور پر ان کو معلوم تھا کہ چونی لال کا گھر بہت ہی خوبصورت ہے۔ ہے تو چھوٹا سامگر بہت ہی نفیس طریقے پر سجا ہے۔ ایک نوکر ہے راما، بڑا صاف ستھرا اور سو فی صدی نوکر۔ سمجھدار، معمولی سا اشارہ سمجھنے والا جس کو صرف اپنے کام سے غرض ہے۔ دوسرے کیا کرتے ہیں کیا نہیں کرتے اس سے اس کو دلچسپی نہیں۔ چونی لال گھر پر موجود ہو جب بھی ایک بات ہے۔ موجود نہ ہو جب بھی ایک بات ہے۔ مہمان کس غرض سے آیا ہے۔ یہ اس کو اُس کی شکل دیکھتے ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ کبھی ضرورت محسوس نہیں ہو گی کہ اس سے سوڈے برف کے لیے کہا جائے یا پانوں کا آرڈر دیا جائے۔ ہر چیز خود بخود وقت پر مل جائے گی اور پھر تاک جھانک کا کوئی خدشہ نہیں۔ اس بات کا بھی کوئی کھٹکا نہیں کہ بات کہیں باہر نکل جائے گی۔ چونی لال اور اس کا نوکر راما دونوں کے ہونٹ دریا کے دریا پینے پر بھی خشک رہتے تھے۔ مکان بہت ہی چھوٹا تھا۔ بمبئی اسٹائل کا۔ یہ چونی لال نے خود بنوایا تھا۔ باپ کی وفات پر اسے دس ہزار روپیہ ملا تھا۔ جس میں سے پانچ ہزار اس نے اپنی چھوٹی بہن روپا کو دے دیے تھے اور جدی مکان بھی اور خود علیحدہ ہو گیا تھا۔ روپا اپنی ماں کے ساتھ اس میں رہتی تھی اور چونی لال اپنے بمبئے اسٹائل کے مکان میں۔ شروع شروع میں ماں بہن نے بہت کوشش کی کہ وہ ان کے ساتھ رہے۔ ساتھ نہ رہے تو کم از کم ان سے ملتا ہی رہے مگر چونی لال کو ان دونوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے اپنی ماں اور بہن سے نفرت تھی۔ در اصل اسے شروع ہی سے ان دونوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ البتہ باپ سے ضرور تھی کہ وہ تھانیدار تھا۔ لیکن جب وہ ریٹائر ہوا تو چونی لال کو اس سے بھی کوئی دلچسپی نہ رہی جس وقت اسے کالج میں کسی سے کہنا پڑتا کہ اس کے والد ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر ہیں تو اسے بہت کوفت ہوتی۔ چونی لال کو اچھی پوشش اور اچھے کھانے کا بہت شوق تھا۔ طبیعت میں نفاست تھی۔ چنانچہ وہ لوگ جو اس کے مکان میں ایک دفعہ بھی گئے۔ اس کے سلیقے کی تعریف اب تک کرتے ہیں۔ این ڈبلیو آر کے ایک نیلام میں اس نے ریل کے ڈبے کی ایک سیٹ خریدی تھی۔ اس کو اس نے اپنے دماغ سے بہت ہی عمدہ دیوان میں تبدیل کروا لیا تھا۔ چونی لال کو یہ اس قدر پسند تھا کہ اسے اپنی خوابگاہ میں رکھوایا ہوا تھا۔ شراب اس نے کبھی چھوئی نہیں تھی۔ لیکن دوسروں کو پلانے کا بہت شوق تھا۔ ایرے غیرے کو نہیں، خاص الخاص آدمیوں کو۔ جن کی سوسائٹی میں اونچی پوزیشن ہو۔ جو کوئی مرتبہ رکھتے ہوں۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی وہ اکثر دعوت کرتا۔ کسی ہوٹل یا قہوہ خانے میں انھیں اپنے گھر میں جواس نے خاص اپنے لیے بنوایا تھا۔ زیادہ پینے پر اگر کسی کی طبیعت خراب ہو جائے تو اسے کسی تردد کی ضرورت نہ ہوتی۔ کیونکہ چونی لال کے پاس ایسی چیزیں ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ جن سے نشہ کم ہو جاتا تھا۔ ڈر کے مارے کوئی گھر نہ جانا چاہے تو علیحدہ سجے سجائے دو کمرے موجود تھے۔ چھوٹا سا ہال تھا۔ اس میں کبھی کبھی مجرے بھی ہوتے تھے۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ چونی لال کے اس مکان میں اس کے دوست کئی کئی دن اور کئی کئی راتیں اپنی سہیلیوں سمیت رہے۔ لیکن اس نے ان کو مطلق خبر نہ ہونے دی کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ البتہ جب اس کا کوئی دوست ان کی ان نوازشوں کا شکریہ ادا کرتا تو چونی لال غیر متوقع طور پر بے تکلف ہو کر کہتا۔

’’کیا کہتے ہو یار۔ مکان تمہارا اپنا ہے۔‘‘

عام گفتگو میں وہ اپنے دوستوں کے اونچے مرتبے کے پیشِ نظر ایسا تکلف کبھی نہیں برتتا تھا۔ چونی لال کا باپ لالہ گردھاری لال عین اس وقت ریٹائر ہوا جب چونی لال تھرڈ ڈویژن میں انٹرنس پاس کر کے کالج میں داخل ہوا۔ پہلے تو یہ تھا کہ صبح شام گھر پہ ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ڈالیوں پر ڈالیاں آ رہی ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ تنخواہ بونس سیدھی بنک میں چلی جاتی تھی۔ لیکن ریٹائر ہونے پر کچھ ایسا پانسہ پلٹا کہ لالہ گردھاری لال کا نام جیسے بڑے آدمیوں کے رجسٹر سے کٹ گیا۔ یوں تو جمع پونجی کافی تھی۔ لیکن لالہ گردھاری لال نے بیکار مباش کچھ کیا کر، مکانوں کا سٹہ کھیلنا شروع کر دیا اور دو برسوں ہی میں آدھی سے زیادہ جائیداد گنوا دی، پھر لمبی بیماری نے آ گھیرا۔ ان تمام واقعات کا چونی لال پر عجیب و غریب اثر ہوا۔ لالہ گردھاری لال کا حال پتلا ہونے کے ساتھ چونی لال کے دل میں اپنا پرانا ٹھاٹ اور اپنی پرانی ساکھ قائم رکھنے کی خواہش بڑھتی گئی اور آخر میں اس کے ذہن نے آہستہ آہستہ کچھ ایسی کروٹ بدلی کہ وہ بڑے آدمیوں کا بظاہر ہم جیلس تھا۔ ہم پیالہ و ہم نوالہ تھا۔ لیکن اصل میں وہ ان سے بہت دور تھا۔ ان کے رتبے سے، ان کی جاہ و منزلت سے البتہ اس کا وہی رشتہ تھا۔ جو ایک بُت سے پجاری کا ہو سکتا ہے یا ایک آقا سے ایک غلام کا۔ ہو سکتا ہے کہ چونی لال کے وجود کے کسی گوشے میں بہت ہی بڑا آدمی بننے کی خواہش تھی جو وہیں کی وہیں دب گئی اور یہ صورت اختیار کر گئی۔ جو اب اس کے دل و دماغ میں تھی۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرتا۔ اس میں انتہائی درجے کا خلوص تھا۔ کوئی بڑا آدمی اس سے ملے نہ ملے یہی کافی تھا کہ وہ اس کے دیے ہوئے امریکی اور انگریزی پرچے ایک نظر دیکھ لیتا ہے۔ فسادات ابھی شروع نہیں ہوئے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تقسیم کی بات بھی ابھی نہیں چلی تھی کہ چونی لال کی بہت دنوں کی مراد پوری ہوتی نظر آئی۔ ایک بہت ہی بڑے افسر تھے۔ جس سے چونی لال کی جان پہچان نہ ہو سکی تھی۔ ایک دفعہ اس کے مکان پر شہر کی سب سے خوبصورت طوائف کا مجرا ہوا۔ چند دوستوں کے ہمراہ اس بڑے افسر کا شرمیلا بیٹا ہربنس بھی چلا آیا۔ چنانچہ جب چونی لال کی اس نوجوان سے دوستی ہو گئی تو اس نے سمجھا کہ ایک نہ ایک دن اس کے باپ سے بھی راہ و رسم پیدا ہو ہی جائے گی۔ ہربنس جس نے تعیش کی زندگی میں نیا نیا قدم رکھا تھا بہت ہی الھڑ تھا۔ چونی لال خود تو شراب نہیں پیتا تھا۔ لیکن ہربنس کا شوق پورا کرنے کے لیے اور اسے شراب نوشی کے ادب آداب سکھانے کے لیے ایک دو دفعہ اسے بھی پینی پڑی۔ لیکن بہت ہی قلیل مقدار میں۔ لڑکے کو شراب پینی آ گئی۔ تو اس کا دل کسی اور چیز کو چاہا۔ چونی لال نے یہ بھی مہیا کر دی اور کچھ اس انداز سے کہ ہربنس کو جھینپنے کا موقع نہ ملے۔ جب کچھ دن گزر گئے تو چونی لال کو محسوس ہوا کہ ہربنس ہی کی دوستی کافی ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے سے وہ لوگوں کی سفارشیں پوری کرا لیتا تھا۔ ویسے تو شہر میں چونی لال کے اثر و رسوخ کا ہر شخص قائل تھا۔ لیکن جب سے ہربنس اس کے حلقہ واقفیت میں آیا تھا اس کی دھاک اور بھی زیادہ بیٹھ گئی تھی۔ اکثر یہی سمجھتے تھے کہ چونی لال اپنے اثر و رسوخ سے ذاتی فائدہ اٹھاتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس نے اپنے لیے کبھی کسی سے سفارش نہیں کی تھی۔ اس کو شوق تھا دوسروں کے کام کرنے کا اور انھیں اپنا ممنونِ احسان بنانے کا بلکہ یوں کہیے کہ ان کے دل و دماغ پر کچھ ایسے خیالات۔ طارق کرنے کا کہ بھی کمال ہے۔ ایک معمولی سی نیوز ایجنسی کا مالک ہے لیکن بڑے بڑے حاکموں تک اس کی رسائی ہے۔ بعض یہ سمجھتے تھے کہ وہ خفیہ پولیس کا آدمی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں، لیکن چونی لال حقیقت میں جو کچھ تھا بہت ہی کم آدمی جانتے تھے۔ ایک کو خوش کیجیے تو بہت سوں کو ناراض کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ چونی لال کے جہاں احسان مند تھے وہاں دشمن بھی تھے اور اس تاک میں رہتے تھے کہ موقعہ ملے اور اس سے بدلہ لیں۔ فسادات شروع ہوئے تو چونی لال کی مصروفیات زیادہ ہو گئیں۔ مسلمان اور ہندوؤں دونوں کے لیے اس نے کام کیا۔ لیکن صرف ان ہی کے لیے جن کا سوسائٹی میں کوئی درجہ تھا۔ اس کے گھر کی رونق بھی بڑھ گئی۔ قریب قریب ہر روز کوئی نہ کوئی سلسلہ رہتا۔ اسٹور روم جو سیڑھیوں کے نیچے تھا۔ شراب اور بیئر کی خالی بوتلوں سے بھر گیا تھا۔ ہربنس کا الھڑ پن اب بہت حد تک دور ہو چکا تھا۔ اب اسے چونی لال کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ بڑے آدمی کا لڑکا تھا۔ فسادات نے دستر خوان بچھا کر نت نئی چیزیں اس کے لیے چن دی تھیں۔ چنانچہ قریب قریب ہر روز وہ چونی لال کے مکان میں موجود ہوتا۔ رات کے بارہ بجے ہوں گے۔ چونی لال اپنے کمرے میں ریل گاڑی کی سیٹ سے بنائے ہوئے دیوان پر بیٹھا اپنے پستول پر انگلی گھما رہا تھا کہ دروازے پر زور کی دستک ہوئی۔ چونی لال چونک پڑا اور سوچنے لگا۔ بلوائی؟ نہیں!۔ راما؟ نہیں! وہ تو کئی دنوں سے کرفیو کے باعث نہیں آ رہا تھا۔ دروازے پر پھر دستک ہوئی اور ہربنس کی سہمی ہوئی ڈری ہوئی آواز آئی۔ چونی لال نے دروازہ کھولا۔ ہربنس کا رنگ ہلدی کے گابھے کی طرح زرد تھا۔ ہونٹ تک پیلے تھے چونی لال نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘

’’وہ۔ وہ۔‘‘

آواز ہربنس کے سوکھے ہوئے گلے میں اٹک گئی۔ چونی لال نے اس کو دلاسا دیا۔ ’’گھبرائیے نہیں۔ بتائیے کیا ہوا ہے۔‘‘

ہربنس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’وہ۔ وہ۔ لہو۔ بند ہی نہیں ہوتا لہو۔‘‘

چونی لال سمجھا تھا کہ شاید لڑکی مر گئی ہے۔ چنانچہ یہ سن کر اسے نا امیدی سی ہوئی۔ کیونکہ وہ لاش کو ٹھکانے لگانے کی پوری اسکیم اپنے ہوشیار دماغ میں تیار کر چکا تھا۔ ایسے موقعوں پر جب اس کے گھر میں اس کے مہمان کسی مشکل میں گرفتار ہو جائیں چونی لال کا دماغ غیر معمولی طور پر مستعد ہو جاتا تھا۔ مسکرا کر اس نے ہربنس کی طرف دیکھا جو کہ لرز رہا تھا ’’میں سب ٹھیک کیے دیتا ہوں۔ آپ گھبرائیے نہیں۔‘‘

یہ کہہ اس نے اس کمرے کا رخ کیا۔ جس میں ہربنس تقریباً سات بجے سے ایک لڑکی کے ساتھ جانے کیا کرتا رہا تھا۔ چونی لال نے ایک دم بہت سی باتیں سوچیں۔ ڈاکٹر۔ نہیں۔ بات باہر نکل جائے گی۔ ایک بہت بڑے آدمی کی عزت کا سوال ہے اور یہ سوچتے ہوئے اسے عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس ہوتی کہ وہ ایک بہت بڑے آدمی کے ننگ و ناموس کا محافظ ہے۔ راما؟ کرفیو کے باعث وہ کئی دنوں سے نہیں آ رہا تھا۔ برف؟ ہاں برف ٹھیک ہے۔ ریفرجریٹر موجود تھا۔ لیکن سب سے بڑی پریشانی چونی لال کو یہ تھی کہ وہ لڑکیوں اور عورتوں کے ایسے معاملوں سے بالکل بے خبر تھا۔ لیکن اس نے سوچا کچھ بھی ہو۔ کوئی نہ کوئی اوپائے نکالنا ہی پڑے گا۔ چونی لال نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوا۔ ساگوان کے اسپرنگوں والے پلنگ پر ایک لڑکی لیٹی تھی اور سفید چادر خون میں لتھڑی ہوئی تھی۔ چونی لال کو بہت گھن آئی۔ لیکن وہ آگے بڑھا۔ لڑکی نے کروٹ بدلی اور ایک چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ ’’بھیا!‘‘

چونی لال نے بھینچی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’روپا!‘‘

اور اس کے دماغ میں اوپر تلے سینکڑوں باتوں کا انبار سا لگ گیا۔ ان میں سب سے ضروری بات یہ تھی کہ ہربنس کو پتا نہ چلے کہ روپا اس کی بہن ہے چنانچہ اس نے منہ پر انگلی رکھ کر روپا کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور باہر نکل کر معاملے پر غور کرنے کیلیے دروازہ کی طرف بڑھا۔ دہلیز میں ہربنس کھڑا تھا۔ اس کا رنگ اب پہلے سے بھی زرد تھا۔ ہونٹ بالکل بے جان ہو گئے تھے۔ آنکھوں میں وحشت تھی۔ چونی لال کو دو بدو دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ چونی لال نے دروازہ بھیڑ دیا۔ ہربنس کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ چونی لال خاموش تھا۔ اس کے چہرے کا کوئی خط بگڑا ہوا نہیں تھا۔ اصل میں وہ سارے معاملے پر غور کر رہا تھا۔ اس قدر عمق سے غور کر رہا تھا کہ وہ ہربنس کی موجودگی سے بھی غافل تھا۔ مگر ہربنس کو چونی لال کی غیر معمولی خاموشی میں اپنی موت دکھائی دے رہی تھی۔ چونی لال اپنے کمرے کی طرف بڑھا تو ہربنس زور سے چیخا اور دوڑ کر اس میں داخل ہوا۔ بہت ہی زور سے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے ریل گاڑی کی سیٹ والے دیوان پر سے پستول اٹھایا اور باہر نکل کر چونی لال کی طرف تان دیا۔ چونی لال پھر بھی کچھ نہ بولا وہ ابھی تک معاملہ سلجھانے میں مستغرق تھا۔ سوال ایک بہت بڑے آدمی کی عزت کا تھا۔ پستول ہربنس کے ہاتھ میں کپکپانے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد فیصلہ ہو جائے۔ لیکن وہ اپنی پوزیشن صاف کرنا چاہتا تھا۔ دونوں چونی لال اور ہربنس کچھ دیر خاموش رہے۔ لیکن ہربنس زیادہ دیر تک چپ نہ رہ سکا۔ اس کے دل و دماغ میں بڑی ہلچل مچی ہوئی تھی۔ چنانچہ ایک دم اس نے بولنا شروع کیا۔ ’’میں۔ میں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ مجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ یہ۔ کہ یہ تمہاری بہن ہے۔ یہ ساری شرارت اس مسلمان کی ہے۔ اس مسلمان سب انسپکٹر کی۔ کیا نام ہے اس کا۔ کیا نام ہے اس کا۔ محمد طفیل۔ ہاں ہاں محمد طفیل۔ نہیں نہیں۔ بشیر احمد۔ نہیں نہیں محمد طفیل۔ وہ طفیل جس کی ترقی تم نے رکوائی تھی۔ اس نے مجھے یہ لڑکی لا کر دی اور کہا مسلمان ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تمہاری بہن ہے تو کیا میں اسے یہاں لے کر آتا۔ تم۔ تم۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ تم بولتے کیوں نہیں۔‘‘

اور اس نے چلانا شروع کر دیا۔ ’’تم بولتے کیوں نہیں۔ تم مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہو۔ تم مجھ سے بدلہ لینا چاہتے ہو۔ لیکن میں کہتا ہوں مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔‘‘

چونی لال نے ہولے سے کہا۔ ’’گھبرائیے نہیں۔ آپ کے پتا جی کی عزت کا سوال ہے۔‘‘

لیکن ہربنس چیخ چلا رہا تھا۔ اس نے کچھ نہ سنا اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پستول داغ دیا۔ تیسرے روز کرفیو ہٹنے پر چونی لال کے دو نوکروں نے موڈرن نیوز ایجنسی کا اسٹال کھولا۔ تازہ اخبار اپنی اپنی جگہ پر رکھے۔ چونی لال کے لیے اخباروں اور رسالوں کا ایک بنڈل باندھ کر الگ رکھ دیا مگر وہ نہ آیا۔ کئی راہ چلتے آدمیوں نے تازہ اخباروں کی سرخیوں پر نظر ڈالتے ہوئے معلوم کیا کہ موڈرن نیوز ایجنسی کے مالک چونی لال نے اپنی سگی بہن کے ساتھ منہ کالا کیا اور بعد میں گولی مار کر خود کشی کر لی۔

***

 

 

 

 

بسم اللہ

 

 

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی۔ سعید بہت متاثر ہوا۔ بمبئی میں اس نے ظہیر کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر مفصل ملاقات پہلی مرتبہ لاہور میں ہوئی۔ لاہور میں یوں تو بے شمار فلم کمپنیاں تھیں مگر سعید کو اس تلخ حقیقت کا علم تھا کہ ان میں سے اکثر کا وجود صرف ان کے نام کے بورڈوں تک ہی محدود ہے۔ ظہیر نے جب اس کو اکرم کی معرفت بلایا تو اس کو سو فیصدی یقین تھا کہ ظہیر بھی دوسرے فلم پروڈیوسروں کی طرح کھوکھلا ہے جو لاکھوں کی باتیں کرتے ہیں۔ آفس قائم کرتے ہیں۔ کرائے پر فرنیچر لاتے ہیں اور آخر میں آس پاس کے ہوٹلوں کے بل مار کر بھاگ جاتے ہیں۔ ظہیر نے بڑی سادگی سے سعید کو بتایا کہ وہ کم سے کم سرمائے سے فلم بنانا چاہتا ہے۔ بمبئی میں وہ اسٹنٹ فلم بنانے والے ڈائریکٹر کا اسسٹنٹ تھا۔ پانچ برس تک وہ اس کے ماتحت کام کرتا رہا۔ اس کو خود فلم بنانے کا موقعہ ملنے ہی والا تھا کہ ہندوستان تقسیم ہو گیا اور اسے پاکستان آنا پڑا۔ یہاں وہ تقریباً ڈھائی سال بیکار رہا مگر اس دوران میں اس نے چند آدمی ایسے تیار کر لیے جو روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے سعید سے کہا ’’دیکھئے جناب میں کوئی فرسٹ کلاس فلم بنانا نہیں چاہتا۔ کم فلم آدمی ہوں۔ اسٹنٹ فلم بنا سکتا ہوں اور انشاء اللہ اچھا اسٹنٹ فلم بناؤں گا۔ پچاس ہزار روپوں کے اندر اندر سو فیصدی نفع تو یقینی ہے۔ آپ کا خیال ہے؟‘‘

سعید نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا۔ ’’ہاں، اتنا نفع تو ہونا چاہیے۔‘‘

ظہیر نے کہا’’جو آدمی روپیہ لگانے کے لیے تیار ہیں۔ میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ حساب کتاب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ یہ آپ کا کام ہے۔ باقی سب چیزیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘

سعید نے پوچھا ’’مجھ سے آپ کیا خدمت چاہتے ہیں؟‘‘

ظہیر نے بڑی سادگی سے کہا۔ ’’پاکستان کے تقریباً تمام ڈسٹری بیوٹر آپ کو جانتے ہیں۔ میری یہاں ان لوگوں سے واقفیت نہیں۔ بڑی نوازش ہو گی اگر آپ میری فلم کی ڈسٹری بیوشن کا بندوبست کر دیں۔‘‘

سعید نے کہا۔ ’’آپ فلم تیار کر لیں۔ انشاء اللہ ہو جائے گا۔‘‘

’’آپ کی بڑی مہربانی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر ظہیر نے میز پر پڑے ہوئے پیڈ پر پنسل سے ایک پھول سا بنایا’’سعید صاحب، مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ میں کامیاب رہوں گا۔ ہیروئن میری بیوی ہو گی۔‘‘

سعید نے پوچھا۔ ’’آپ کی بیوی؟‘‘

’’جی ہاں!‘‘

’’پہلے کسی فلم میں کام کر چکی ہیں؟‘‘

’’جی نہیں۔‘‘

ظہیر نے پیڈ پر پھول کے ساتھ شاخ بناتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے شادی یہاں لاہور میں آ کر کی ہے۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ اسے فلم لائن میں لاؤں مگر اس کو شوق ہے۔ بہت شوق ہے۔ ہر روز ایک فلم دیکھتی ہے۔ میں آپ کو اس کا فوٹو دکھاتا ہوں۔‘‘

ظہیر نے میز کا دروازہ کھول کر ایک لفافہ نکالا اور اس میں سے اپنی بیوی کا فوٹو سرکا کر سعید کی طرف بڑھا دیا۔ سعید نے فوٹو دیکھا۔ معمولی خد و خال کی جوان عورت تھی۔ تنگ ما تھا۔ باریک ناک موٹے موٹے ہونٹ۔ آنکھیں بڑی بڑی اور اداس۔ یہ آنکھیں ہی تھیں جو اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کے مقابلے میں سب سے نمایاں تھیں۔ سعید نے غور سے ان کو دیکھنا چاہا مگر معیوب سمجھا اور فوٹو میز پر رکھ دیا۔ ظہیر نے پوچھا۔ ’’کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید کے پاس اس سوال کا جواب تیار نہیں تھا۔ اس کے دل و دماغ پر در اصل وہ آنکھیں چھائی ہوئی تھیں۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ غیر ارادی طور پر اس نے میز پر سے فوٹو اٹھایا اور ایک نظر دیکھ کر پھر وہیں رکھ دیا۔ اور کہا ’’آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔‘‘

ظہیر نے پیڈ پر ایک اور پھول بنانا شروع کیا۔ ’’یہ فوٹو اچھی نہیں۔ ذرا سی ہلی ہوئی ہے۔‘‘

اتنے میں پچھلے دروازے کا پردہ ہلا اور ظہیر کی بیوی داخل ہوئی۔ وہی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ ظہیر اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ’’عجیب و غریب نام ہے اس کا۔ بسم اللہ!‘‘

پھر سعید کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ میرے دوست سعید صاحب۔‘‘

بسم نے کہا۔ ’’آداب عرض۔‘‘

سعید نے اس کا جواب اٹھ کر دیا۔ ’’تشریف رکھیے۔‘‘

بسم اللہ دوپٹہ ٹھیک کرتی سعید کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار چغلیاں کھا رہا تھا۔ سعید نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ ظہیر نے فوٹو واپس لفافے میں رکھا اور سعید سے کہا۔ ’’مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ بسم اللہ پہلے ہی فلم میں کامیاب ثابت ہو گی۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کا فلمی نام کیا رکھوں۔ بسم اللہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

سعید نے بسم اللہ کی طرف دیکھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ ایک لحظے کے لیے جیسے ڈوب سا گیا۔ فوراً ہی نگاہ اس طرف سے ہٹا کر اس نے ظہیر سے کہا۔ ’’جی ہاں۔ بسم اللہ ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی اور نام ہونا چاہیے۔‘‘

تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بسم اللہ خاموش تھی۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں بھی خاموش تھیں۔ سعید نے اس دوران میں ان آنکھوں کے اندر کئی بار ڈبکیاں لگائیں۔ ظہیر اور وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔ بسم اللہ خاموش بیٹھی اپنی بڑی بڑی اداس آنکھوں پر چھائی ہوئی سیاہ پلکیں جھپکا کی۔ اس کے ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مہین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار برابر چغلیاں کھاتا رہا۔ سعید ادھر دیکھتا تو ایک دھکے کے ساتھ اس کی نظریں دوسری طرف پلٹ جاتیں۔ بسم اللہ کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ فوٹو میں اس رنگت کا پتا نہیں چلتا تھا۔ اس گہرے سانولے رنگ پر اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں اور بھی زیادہ اداس ہو گئی تھیں۔ سعید نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس اداسی کا باعث کیا ہے؟ اس کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ اداس دکھائی دیتی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے۔ کوئی معقول بات سعید کے ذہن میں نہ آئی۔ ظہیر بمبئی کی باتیں شروع کرنے والا تھا کہ بسم اللہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کی چال میں بے ڈھنگا پن تھا، جیسے اس نے اونچی ایڑھی کے چپل نئے نئے استعمال کرنے شروع کیے۔ غرارے کی نشست بھی ٹھیک نہیں تھی۔ سلوٹوں کا گراؤ بھدا تھا۔ اس کے علاوہ سعید نے یہ بھی محسوس کیا کہ ادب آداب سے بسم اللہ محض کر رہی ہے۔ لیکن اس کے گہرے سانولے چہرے پر دو بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، اداس ہونے کے باوجود کس قدر جذبات انگیز تھیں! چند ہی ملاقاتوں میں ظہیر سے سعید کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے۔ ظہیر بے حد سادہ دل تھا۔ اس خاص چیز سے سعید بہت متاثر ہوا تھا۔ اس کی کسی بھی بات میں بناوٹ نہیں ہوتی تھی۔ خیال جس شکل میں پیدا ہوتا تھا سادہ الفاظ میں تبدیل ہو کر اس کی زبان پر آ جاتا تھا۔ کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی وہ سادگی پسند تھا۔ جب بھی سعید اس کے یہاں جاتا۔ ظہیر اس کی خاطر تواضع کرتا۔ سعید نے اس سے کئی بار کہا کہ تم یہ تکلیف نہ کیا کرو مگر وہ نہ مانا۔ وہ اکثر کہا کرتا’’اس میں کیا تکلیف ہے، آپ کا اپنا گھر ہے۔‘‘

سعید نے جب تقریباً ہر روز ظہیر کے ہاں جانا شروع کیا تو اس نے سوچا کہ یہ بہت بُری بات ہے۔ وہ میری اتنی عزت کرتا ہے۔ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اور میں اس سے صرف اس لیے ملتا ہوں کہ مجھے اس کی بیوی سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ بہت بُری بات ہے۔ اس کے ضمیر نے کئی دفعہ اسے ٹوکا مگر وہ برابر ظہیر کے ہاں جاتا رہا۔ بسم اللہ اکثر آ جاتی تھی۔ شروع شروع میں وہ خاموش بیٹھی رہتی۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے باتوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ لیکن گفتگو کے لحاظ سے وہ خام تھی۔ سعید کو دکھ ہوتا تھا کہ وہ اچھی اچھی باتیں کرنا کیوں نہیں جانتی۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ظہیر گھر سے باہر تھا۔ سعید نے آواز دی تو بسم اللہ بولی۔ ’’باہر گئے ہوئے ہیں۔‘‘

یہ سن کر سعید کچھ دیر کھڑا رہا کہ شاید وہ اس سے کہے، اندر آ جائیے۔ ابھی آتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ ظہیر کے فلم کا چکر چل رہا تھا۔ اس کا ذکر قریب قریب ہر روز ہوتا۔ ظہیر کہتا مجھے اتنی جلدی نہیں ہے۔ ہر ایک چیز آرام سے ہو گی۔ اور اپنے وقت پر ہو گی۔ سعید کو ظہیر کے فلم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کو اگر دلچسپی تھی تو بسم اللہ سے جس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ کئی بار غوطے لگا چکا تھا۔ اور اس کی یہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ جس کا احساس اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا کیونکہ یہ کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ اپنے دوست ظہیر کی بیوی سے جسمانی رشتہ پیدا کرنے کا خواہاں تھا۔ دن گزرتے گئے۔ ظہیر کے فلم کا کام وہیں کا وہیں تھا۔ سعید ایک دن اس سے ملنے گیا تو وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا۔ چلنے ہی والا تھا کہ بسم اللہ نے کہا۔ ’’اندر آ جائیے وہ کہیں دور نہیں گئے۔‘‘

سعید کا دل دھڑکنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ بسم اللہ میز کے پاس کھڑی تھی۔ سعید نے جرأت سے کام لے کر اس سے کہا۔ ’’بیٹھئے۔‘‘

بسم اللہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر خاموش رہی اس کے بعد سعید نے اس کی آنکھوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ظہیر آئے نہیں ابھی تک؟‘‘

بسم اللہ نے مختصر جواب دیا۔ ’’آ جائیں گے۔‘‘

تھوڑی دیر پھر خاموش رہی۔ اس دوران میں کئی مرتبہ سعید نے بسم اللہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا۔ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اٹھ کر ان کو چومنا شروع کر دے۔ اس قدر چومے کہ ان کی ساری اداسی دھل جائے مگر سعید نے اس خواہش پر قابو پا کر اس سے کہا۔ ’’آپ کو فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے؟‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی اور جواب دیا۔ ’’ہے تو سہی۔‘‘

سعید ناصح بن گیا۔ ’’یہ لائن اچھی نہیں۔ میرا مطلب ہے بڑی بدنام ہے۔‘‘

اس کے بعد اس نے فلم لائن کی تمام برائیاں بیان کرنا شروع کر دیں۔ ظہیر کا خیال آیا تو اس نے رخ بدل لیا۔ ’’آپ کو شوق ہے تو خیر دوسری بات ہے۔ کیریکٹر مضبوط ہو تو آدمی کسی بھی لائن میں ثابت قدم رہ سکتا ہے۔ پھر ظہیر خود اپنا فلم بنا رہا ہے لیکن آپ کسی دوسرے کے فلم میں کام ہرگز نہ کیجیے گا۔‘‘

بسم اللہ خاموش رہی۔ سعید کو اس کی یہ خاموشی بہت بری معلوم ہوئی۔ پہلی مرتبہ اس کو تنہائی میں اس سے ملنے کا موقعہ ملا تھا مگر وہ بولتی ہی نہیں تھی۔ سعید نے ایک دو مرتبہ ڈرتے ڈرتے ٹوہ لینے والی نگاہوں سے اسے دیکھا مگر کوئی رد عمل پیدا نہ ہوا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔ ’’اچھا تو پان ہی کھلائیے۔‘‘

بسم اللہ اٹھی۔ ریشمی قمیض کے پیچھے اس کے سینے کا نمایاں ابھار ہلا۔ سعید کی نگاہوں کو دھکا سا لگا۔ بسم اللہ دوسرے کمرے میں گئی تو وہ ڈر ڈر کے تیکھی تیکھی باتیں سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پان لے کر آئی اور سعید کے پاس کھڑی ہو گئی۔ ’’لیجئے۔‘‘

سعید نے شکریہ کہہ کر پان لیا تو اس کی انگلیاں بسم اللہ کی انگلیوں سے چھوئیں اس کے سارے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی۔ اس کے ساتھ ہی ضمیر کا کانٹا اس کے دل میں چُبھا۔ بسم اللہ سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے گہرے سانولے چہرے سے سعید کو کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ سعید نے سوچا۔ ’’کوئی اور عورت ہوتی تو فوراً سمجھ جاتی کہ میں اسے کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ لیکن یہ شاید سمجھ گئی ہو۔ شاید نہ بھی سمجھی ہو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

سعید کا دماغ بے حد مضطرب تھا۔ ایک طرف بسم اللہ کا ستانے والا وجود تھا۔ اس کی بڑی بڑی اداس آنکھیں۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار۔ دوسری طرف ظہیر کا خیال، اس کے ضمیر کا کانٹا۔ سعید عجب الجھن میں پھنس گیا تھا۔ بسم اللہ کی طرف سے کوئی اشارہ نہیں ملا تھا۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ جو چیز سعید سوچ رہا ہے نا ممکن ہے۔ مگر وہ پھر اس کو انہی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا۔ ’’ظہیر نہیں آئے میرا خیال ہے۔ میں چلتا ہوں۔‘‘

بسم اللہ نے خلافِ توقع کہا۔ ’’نہیں نہیں بیٹھئے۔‘‘

’’آپ تو کوئی بات ہی نہیں کرتیں۔‘‘

یہ کہہ کرسعید اٹھا۔ بسم اللہ نے پوچھا۔ ’’چلے؟‘‘

سعید نے اس کی طرف ٹوہ لینے والی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’جی نہیں، بیٹھتا ہوں۔ آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو۔‘‘

بسم اللہ نے ایک جمائی لی۔ ’’مجھے کیا اعتراض ہو گا۔‘‘

بسم اللہ کی آنکھوں میں خمار سا پیدا ہو گیا۔ سعید نے کہا۔ ’’آپ کو شاید نیند آ رہی ہے۔‘‘

’’جی ہاں رات جاگتی رہی۔‘‘

سعید نے ذرا بے تکلفی سے پوچھا۔ ’’کیوں!‘‘

بسم اللہ نے ایک اور جمائی لی۔ ’’کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔‘‘

سعید بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد بسم اللہ سو گئی۔ اس کے سینے کا نمایاں ابھار ریشمی قمیض کے پیچھے سانس کے زیر و بم سے ہولے ہولے ہل رہا تھا۔ بڑی بڑی اداس آنکھیں اب بند تھیں۔ دایاں بازو ایک طرف ڈھک گیا تھا۔ آستین اوپر کو اٹھ گئی تھی۔ سعید نے دیکھا گہرے سانولے رنگ کی کلائی پر ہندی کے حروف کھدے ہوئے تھے۔ اتنے میں ظہیر آ گیا۔ سعید اس کی آمد پر سٹپٹا سا گیا۔ ظہیر نے اس سے ہاتھ ملایا۔ اپنی بیوی بسم اللہ کی طرف دکھا۔ ’’ارے سو رہی ہے۔‘‘

سعید نے کہا۔ ’’میں جا رہا تھا۔ کہنے لگیں ظہیر صاحب ابھی آ جائیں گے۔ آپ بیٹھئے۔ میں بیٹھا تو آپ سو گئیں۔‘‘

ظہیر ہنسا۔ سعید بھی ہنسنے لگا۔ ’’بھئی واہ، اٹھو اٹھو۔‘‘

ظہیر نے بسم اللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ بسم اللہ نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنی بڑی بڑی اداس آنکھیں کھول دیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اب ان میں ویرانی سی بھی تھی۔ ’’چلو چلو، اٹھو۔ ایک ضروری کام پر جانا ہے۔‘‘

بسم اللہ سے یہ کہہ کر ظہیر سعید سے مخاطب ہوا۔ ’’معاف کیجیے گا سعید صاحب، میں ایک کام سے جا رہا ہوں۔ انشاء اللہ کل ملاقات ہو گی۔‘‘

سعید چلا گیا۔ دوسرے روز اس نے ظہیر کے ہاں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی کہ وہ گھر پر نہ ہو۔ وہاں پہنچا تو باہر کئی آدمی جمع تھے۔ سعید کو ان سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ ظہیر کی بیوی نہیں تھیں۔ وہ ایک ہندو لڑکی تھی جو فسادوں میں یہاں رہ گئی تھی۔ ظہیر اس سے پیشہ کراتا تھا۔ پولیس ابھی ابھی اسے برآمد کر کے لے گئی ہے۔ وہ بڑی بڑی سیاہ اور اداس آنکھیں اب سعید کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔

***

 

 

 

 

 

سہائے

 

’’یہ مت کہو کہ ایک لاکھ ہندو اور ایک لاکھ مسلمان مرے ہیں۔ یہ کہو کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں۔ اور یہ اتنی بڑی ٹریجڈی نہیں کہ دو لاکھ انسان مرے ہیں، ٹریجڈی اصل میں یہ ہے کہ مارنے اور مرنے والے کسی بھی کھاتے میں نہیں گئے۔ ایک لاکھ ہندو مار کر مسلمانوں نے یہ سمجھا ہو گا کہ ہندو مذہب مر گیا ہے، لیکن وہ زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔ اسی طرح ایک لاکھ مسلمان قتل کر کے ہندوؤں نے بغلیں بجائی ہوں گی کہ اسلام ختم ہو گیا ہے، مگر حقیقت آپ کے سامنے ہے کہ اسلام پر ایک ہلکی سی خراش بھی نہیں آئی۔ وہ لوگ بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ بندوقوں سے مذہب شکار کیے جا سکتے ہیں۔ مذہب، دین، ایمان، دھرم، یقین، عقیدت۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم میں نہیں، روح میں ہوتا ہے۔ چھرے، چاقو اور گولی سے یہ کیسے فنا ہو سکتا ہے؟‘‘

ممتاز اس روز بہت ہی پر جوش تھا۔ ہم صرف تین تھے جو اسے جہاز پر چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔ وہ ایک غیر متعین عرصے کے لیے ہم سے جدا ہو کر پاکستان جا رہا تھا۔ پاکستان، جس کے وجود کے متعلق ہم میں سے کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا۔ ہم تینوں ہندو تھے۔ مغربی پنجاب میں ہمارے رشتہ داروں کو بہت مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ممتاز ہم سے جدا ہو رہا تھا۔ جگل کو لاہور سے خط ملا کہ فسادات میں اس کا چچا مارا گیا ہے تو اس کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ اسی صدمے کے زیر اثر باتوں باتوں میں ایک دن اس نے ممتاز سے کہا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں اگر ہمارے محلے میں فساد شروع ہو جائے تو میں کیا کروں گا۔‘‘

ممتاز نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا کرو گے؟‘‘

جگل نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔ ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘

’’یہ سن کر ممتاز بالکل خاموش ہو گیا اور اس کی یہ خاموش تقریباً آٹھ روز تک قائم رہی اور اس وقت ٹوٹی جب اس نے اچانک ہمیں بتایا کہ وہ پونے چار بجے سمندری جہاز سے کراچی جا رہا ہے۔‘‘

ہم تینوں میں سے کسی نے اس کے اس ارادے کے متعلق بات چیت نہ کی۔ جگل کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ممتاز کی روانگی کا باعث اس کا یہ جملہ ہے۔ ’’میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے، میں تمہیں مار ڈالوں‘‘

غالباً وہ اب تک یہی سوچ رہا تھا کہ وہ مشتعل ہو کر ممتاز کو مار سکتا ہے یا نہیں۔ ممتاز کو جو کہاس کا جگری دوست تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہم تینوں میں سب سے زیادہ خاموش تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ ممتاز غیر معمولی طور پر باتونی ہو گیا تھا۔ خاص طور پر روانگی سے چند گھنٹے پہلے۔ صبح اٹھتے ہی اس نے پینا شروع کر دی۔ اسباب وغیرہ کچھ اس انداز سے باندھا اور بندھوایا جیسے وہ کہیں سیر و تفریح کے لیے جا رہا ہے۔ خود ہی بات کرتا تھا اور خود ہی ہنستا تھا۔ کوئی اور دیکھتا تو سمجھتا کہ وہ بمبئی چھوڑنے میں ناقابلِ بیان مسرت محسوس کر رہا ہے، لیکن ہم تینوں اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ صرف اپنے جذبات چھپانے کیلیے ہمیں اور اپنے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے بہت چاہا کہ اس سے اس کی یک لخت روانگی کے متعلق بات کروں۔ اشارتاً میں نے جگل سے بھی کہا کہ وہ بات چھیڑے مگر ممتاز نے ہمیں کوئی موقعہ ہی نہ دیا۔ جگل تین چار پگ پی کر اور بھی زیادہ خاموش ہو گیا اور دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ میں اور برج موہن اس کے ساتھ رہے۔ اسے کئی بل ادا کرنے تھے۔ ڈاکٹروں کی فیسیں دینی تھیں۔ لانڈری سے کپڑے لانے تھے۔ یہ سب کام اس نے ہنستے کھیلتے کیے، لیکن جب اس نے ناکے کے ہوٹل کے بازو والی دکان سے ایک پان لیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ برج موہن کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر وہاں سے چلتے ہوئے اس نے ہولے سے کہا۔ ’’یاد ہے برج۔ آج سے دس برس پہلے جب ہمارا حال بہت پتلا تھا، گوبند نے ہمیں ایک روپیہ ادھار دیا تھا۔‘‘

راستے میں ممتاز خاموش رہا۔ مگر گھر پہنچتے ہی اس نے پھر باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا، ایسی باتوں کا جن کا سر تھا نہ پیر، لیکن وہ کچھ ایسی پر خلوص تھیں کہ میں اور برج موہن برابر ان میں حصہ لیتے رہے۔ جب روانگی کا وقت قریب آیا تو جگل بھی شامل ہو گیا، لیکن جب ٹیکسی بندرگاہ کی طرف چلی تو سب خاموش ہو گئے۔ ممتاز کی نظریں بمبئی کے وسیع اور کشادہ بازاروں کو الوداع کہتی رہتیں۔ حتیٰ کہ ٹیکسی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ گئی۔ بے حد بھیڑ تھی۔ ہزار ہار ریفیوجی جا رہے تھے۔ خوشحال بہت کم اور بدحال بہت زیادہ۔ بے پناہ ہجوم تھا لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اکیلا ممتاز جا رہا ہے۔ ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ جا رہا ہے جو اس کی دیکھی بھالی نہیں۔ جواس کے مانوس بنانے پر بھی اجنبی رہے گی۔ لیکن یہ میرا اپنا خیال تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ممتاز کیا سوچ رہا تھا۔ جب کیبن میں سارا سامان چلا گیا تو ممتاز ہمیں عرشے پر لے گیا۔ ادھر جہاں آسمان اور سمندر آپس میں مل رہے تھے، ممتاز دیر تک دیکھتا رہا، پھر اس نے جگل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔ یہ محض فریبِ نظر ہے۔ آسمان اور سمندر کا آپس میں ملنا۔ لیکن یہ فریبِ نظر کس قدر دلکش ہے۔ یہ ملاپ!‘‘

جگل خاموش رہا۔ غالباً اس وقت بھی اس کے دل و دماغ میں اس کی یہ کہی ہوئی بات چٹکیاں لے رہی تھی۔ میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔‘‘

ممتاز نے جہاز کی بار سے برانڈی منگوائی، کیونکہ وہ صبح سے یہی پی رہا تھا۔ ہم چاروں گلاس ہاتھ میں لیے جنگلے کے ساتھ کھڑے تھے۔ ریفیوجی دھڑا دھڑ جہاز میں سوار ہو رہے تھے اور قریب قریب ساکن سمندر پر آبی پرندے منڈلا رہے تھے۔ جگل نے دفعتاً ایک ہی جرعے میں اپنا گلاس ختم کیا اور نہایت ہی بھونڈے انداز میں ممتاز سے کہا۔ ’’مجھے معاف کر دینا ممتاز۔ میرا خیال ہے میں نے اس روز تمہیں دکھ پہنچایا تھا۔‘‘

ممتاز نے تھوڑے توقف کے بعد جگل سے سوال کیا۔ ’’جب تم نے کہا تھا میں سوچ رہا ہوں۔ بہت ممکن ہے میں تمہیں مار ڈالوں۔ کیا اس وقت واقعی تم نے یہی سوچا تھا۔ نیک دلی سے اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔‘‘

جگل نے اثبات میں سر ہلایا’’۔ لیکن مجھے افسوس ہیچ‘‘

’’تم مجھے مار ڈالتے تو تمہیں زیادہ افسوس ہوتا۔‘‘

ممتاز نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’لیکن صرف اس صورت میں اگر تم نے غور کیا ہوتا کہ تم نے ممتاز کو۔ ایک مسلمان کو۔ ایک دوست کو نہیں بلکہ ایک انسان کو مارا ہے۔ وہ اگر حرامزادہ تھا تو تم نے اس کی حرامزدگی کو نہیں بلکہ خود اس کو مار ڈالا ہے۔ وہ اگر مسلمان تھا تو تم نے اس کی مسلمانی کو نہیں اس کی ہستی کو ختم کیا ہے۔ اگر اس کی لاش مسلمانوں کے ہاتھ آتی تو قبرستان میں ایک قبر کا اضافہ ہو جاتا۔ لیکن دنیا میں ایک انسان کم ہو جاتا۔‘‘

تھوڑی دیر خاموش رہنے اور کچھ سوچنے کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا۔ ’’ہو سکتا ہے، میرے ہم مذہب مجھے شہید کہتے، لیکن خدا کی قسم اگر ممکن ہوتا تو میں قبر پھاڑ کر چلانا شروع کر دیتا۔ مجھے شہادت کا یہ رتبہ قبول نہیں۔ مجھے یہ ڈگری نہیں چاہیے جس کا امتحان میں نے دیا ہی نہیں۔ لاہور میں تمہارے چچا کو ایک مسلمان نے مار ڈالا۔ تم نے یہ خبر بمبئی میں سنی اور مجھے قتل کر دیا۔ بتاؤ، تم اور میں کس تمغے کے مستحق ہیں؟ اور لاہور میں تمہارا چچا اور اس کا قاتل کس خلت کا حقدار ہے۔ میں تو یہ کہوں گا، مرنے والے کتے کی موت مرے اور مارنے والوں نے بیکار۔ بالکل بیکار اپنے ہاتھ خون سے رنگے۔‘‘

باتیں کرتے کرتے ممتاز بہت جذباتی ہو گیا۔ لیکن اس زیادتی میں خلوص برابر کا تھا۔ میرے دل پر خصوصاً ً اس کی اس بات کا بہت اثر ہوا کہ مذہب، دین، ایمان، یقین، دھرم، عقیدت۔ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے جسم کے بجائے روح میں ہوتا ہے۔ جو چھرے، چاقو اور گولی سے فنا نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ میں نے اس سے کہا’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔‘‘

یہ سن کر ممتاز نے اپنے خیالات کا جائزہ لیا اور قدرے بے چینی سے کہا۔ ’’نہیں بالکل ٹھیک نہیں۔ میرا مطلب ہے کہ یہ سب ٹھیک توہے۔ لیکن شاید میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں، اچھی طرح ادا نہیں کر سکا۔ مذہب سے میری مراد، یہ مذہب نہیں، یہ دھرم نہیں، جس میں ہم میں سے ننانوے فی صدی مبتلا ہیں۔ میری مراد اس خاص چیز سے ہے جو ایک انسان کو دوسرے انسان کے مقابلے میں جداگانہ حیثیت بخشتی ہے۔ وہ چیز جو انسان کو حقیقت میں انسان ثابت کرتی ہے۔ لیکن یہ چیز کیا ہے؟ افسوس ہے کہ میں اسے ہتھیلی پر رکھ کر نہیں دکھا سکتا‘‘

یہ کہتے کہتے ایک دم اس کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اور اس نے جیسے خود سے پوچھنا شروع کیا’’لیکن اس میں وہ کون سی خاص بات تھی؟ کٹر ہندو تھا۔ پیشہ نہایت ہی ذلیل لیکن اس کے باوجود اس کی روح کس قدر روشن تھی؟‘‘

میں نے پوچھا۔ ’’کس کی؟‘‘

’’ایک بھڑوے کی۔‘‘

ہم تینوں چونک پڑے۔ ممتاز کے لہجے میں کوئی تکلف نہیں تھا، اس لیے میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔ ’’ایک بھڑوے کی؟‘‘

ممتاز نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے حیرت ہے کہ وہ کیسا انسان تھا اور زیادہ حیرت اس بات کی ہے کہ وہ عرفِ عام میں ایک بھڑوا تھا۔ عورتوں کا دلال۔ لیکن اس کا ضمیر بہت صاف تھا۔‘‘

ممتاز تھوڑی دیر کے لیے رک گیا، جیسے وہ پرانے واقعات اپنے دماغ میں تازہ کر رہا ہے۔ چند لمحات کے بعد اس نے پھر بولنا شروع کیا’’اس کا پورا نام مجھے یاد نہیں۔ کچھ سہائے تھا۔ بنارس کا رہنے والا۔ بہت ہی صفائی پسند۔ وہ جگہ جہاں وہ رہتا تھا گو بہت ہی چھوٹی تھی مگر اس نے بڑے سلیقے سے اسے مختلف خانوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ پردے کا معقول انتظام تھا۔ چارپائیاں اور پلنگ نہیں تھے۔ لیکن گدیلے اور گاؤ تکیے موجود تھے۔ چادریں اور غلاف وغیرہ ہمیشہ اجلے رہتے تھے۔ نوکر موجود تھا مگر صفائی وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ صرف صفائی ہی نہیں، ہر کام۔ اور وہ سر سے بلا کبھی نہیں ٹالتا تھا۔ دھوکا اور فریب نہیں کرتا تھا۔ رات زیادہ گزر گئی ہے اور آس پاس سے پانی ملی شراب ملتی ہے تو وہ صاف کہہ دیتا تھا کہ صاحب اپنے پیسے ضائع نہ کیجیے۔ اگر کسی لڑکے متعلق اسے شک ہے تو وہ چھپاتا نہیں تھا۔ اور تو اور اس نے مجھے یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ تین برس کے عرصے میں بیس ہزار روپے کما چکا ہے۔ ہر دس میں سے ڈھائی کمیشن کے لے لے کر۔ اسے صرف دس ہزار اور بنانے تھے۔ معلوم نہیں صرف دس ہزار اور کیوں، زیادہ کیوں نہیں۔ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ تیس ہزار روپے پورے کر کے وہ واپس بنارس چلا جائے گا اور بزازی کی دکان کھولے گا۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ صرف بزازی ہی کی دکان کھولنے کا آرزو مند کیوں تھا۔‘‘

میں یہاں تک سن چکا تو میرے منہ سے نکلا’’عجیب و غریب آدمی تھا۔‘‘

ممتاز نے اپنی گفتگو جاری رکھی’’۔ میرا خیال تھا کہ وہ سر تا پا بناوٹ ہے۔ ایک بہت بڑا فراڈ ہے۔ کون یقین کر سکتا ہے کہ وہ ان تمام لڑکیوں کو جو اس کے دھندے میں شریک تھیں۔ اپنی بیٹیاں سمجھتا تھا۔ یہ بھی اس وقت میرے لیے بعید از وہم تھا کہ اس نے ہر لڑکی کے نام پر پوسٹ آفس میں سیونگ اکاؤنٹس کھول رکھا تھا اور ہر مہینے کل آمدنی وہاں جمع کراتا تھا۔ اور یہ بات تو بالکل ناقابل یقین تھی کہ وہ دس بارہ لڑکیوں کے کھانے پینے کا خرچ اپنی جیب سے ادا کرتا ہے۔ اس کی ہر بات مجھے ضرورت سے زیادہ بناوٹی معلوم ہوتی تھی۔ ایک دن میں اس کے یہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا، مینہ اور سکینہ دونوں چھٹی پر ہیں۔ میں ہر ہفتے ان دونوں کو چھٹی دے دیتا ہوں تاکہ باہر جا کر کسی ہوٹل میں ماس وغیرہ کھا سکیں۔ یہاں تو آپ جانتے ہیں سب ویشنو ہیں۔ میں یہ سن کر دل ہی دل میں مسکرایا کہ مجھے بنا رہا ہے۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ احمد آباد کی اس ہندو لڑکی نے جس کی شادی اس نے ایک مسلمان گاہک سے کرا دی تھی، لاہور سے خط لکھا ہے کہ داتا صاحب کے دربار میں اس نے ایک منت مانی تھی جو پوری ہوئی۔ اب اس نے سہائے کے لیے منت مانی ہے کہ جلدی جلدی اس کے تیس ہزار روپے پورے ہوں اور وہ بنارس جا کر بزازی کی دکان کھول سکے۔ یہ سن کر تو میں ہنس پڑا۔ میں نے سوچا، چونکہ میں مسلمان ہوں۔ اس لیے مجھے خوش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘

میں نے ممتاز سے پوچھا۔ ’’تمہارا خیال غلط تھا؟‘‘

’’بالکل۔۔ اس کے قول و فعل میں کوئی بعد نہیں تھا۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی خامی ہو، بہت ممکن ہے اس سے اپنی زندگی میں کئی لغزشیں سرزد ہوئی ہوں۔ مگر وہ ایک بہت ہی عمدہ انسان تھا۔‘‘

جگل نے سوال کیا۔ ’’یہ تمہیں کیسے معلوم ہوا!‘‘

’’اس کی موت پر‘‘

یہ کہہ کر ممتاز کچھ عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے ادھر دیکھنا شروع کیا جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں سمٹے ہوئے تھے۔ ’’فسادات شروع ہو چکے تھے۔ میں علی الصبح اٹھ کر بھنڈی بازار سے گزر رہا تھا۔ کرفیو کے باعث بازار میں آمدورفت بہت ہی کم تھی۔ ٹریم بھی نہیں چلی رہی تھی۔ ٹیکسی کی تلاش میں چلتے چلتے جب میں جے جے ہسپتال کے پاس پہنچا، تو فٹ پاتھ پر ایک آدمی کو میں نے بڑے سے ٹوکرے کے پاس گٹھڑی سی بنے ہوئے دیکھا۔ میں نے سوچا کوئی پاٹی والا(مزدور) سو رہا ہے۔ لیکن جب میں نے پتھر کے ٹکڑوں پر خون کے لوتھڑے دیکھے تو رک گیا۔ واردات قتل کی تھی، میں نے سوچا اپنا راستہ لوں، مگر لاش میں حرکت پیدا ہوئی۔ میں پھر رک گیا آس پاس کوئی نہ تھا۔ میں نے جھک کر اس کی طرف دیکھا۔ مجھے سہائے کا جانا پہچانا چہرہ نظر آیا، مگر خون کے دھبوں سے بھرا ہوا۔ میں اس کے پاس فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اور غور سے دیکھا۔ اس کی ٹول کی سفید قمیض جو ہمیشہ بے داغ ہوا کرتی تھی لہو سے لتھڑی ہوئی تھی۔ زخم شاید پسلیوں کے پاس تھا۔ اس نے ہولے ہولے کراہنا شروع کر دیا تو میں نے احتیاط سے اس کا کندھا پکڑ کر ہلایا جیسے کسی سوتے کو جگایا جاتا ہے۔ ایک دو بار میں نے اس کو نامکمل نام سے بھی پکارا۔ میں اٹھ کر جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ دیر تک وہ ان ادھ کھلی آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھتا رہا۔ پھر ایک دم اس کے سارے بدن میں تشنج کی سی کیفیت پیدا ہوئی اور اس نے مجھے پہچان کر کہا۔ ’’آپ؟ آپ؟‘‘

میں نے اس سے تلے اوپر بہت سی باتیں پوچھنا شروع کر دی۔ وہ کیسے ادھر آیا۔ کس نے اس کو زخمی کیا۔ کب سے وہ فٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ سامنے ہسپتال ہے، کیا میں وہاں اطلاع دوں؟’’اس میں بولنے کی طاقت نہیں تھی۔ جب میں نے سارے سوال کر ڈالے تو کراہتے ہوئے اس نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ کہے۔ میرے دن پورے ہو چکے تھے۔ بھگوان کو یہی منظور تھا!‘‘

بھگوان کو جانے کیا منظور تھا، لیکن مجھے یہ منظور نہیں تھا کہ میں مسلمان ہو کر، مسلمانوں کے علاقے میں ایک آدمی کو جس کے متعلق میں جانتا تھا کہ ہندو ہے، اس احساس کے ساتھ مرتے دیکھوں کہ اس مارنے والا مسلمان تھا اور آخری وقت میں اس کی موت کے سرہانے جو آدمی کھڑا تھا، وہ بھی مسلمان تھا۔ میں ڈرپوک تو نہیں، لیکن اس وقت میری حالت ڈرپوکوں سے بدتر تھی۔ ایک طرف یہ خوف دامن گیر تھا، ممکن ہے میں ہی پکڑا جاؤں، دوسری طرف یہ ڈر تھا کہ پکڑا نہ گیا تو پوچھ پچھ کے لیے دھیر لیا جاؤں گا۔ ایک بار خیال آیا، اگر میں اسے ہسپتال لے گیا تو کیا پتا ہے اپنا بدلہ لینے کی خاطر مجھے پھنسا دے۔ سوچے، مرنا تو ہے، کیوں نہ اسے ساتھ لے کر مروں۔ اسی قسم کی باتیں سوچ کر میں چلنے ہی والا تھا۔ بلکہ یوں کہئے کہ بھاگنے والا تھا کہ سہائے نے مجھے پکارا۔ میں ٹھہر گیا۔ نہ ٹھہرنے کے ارادے کے باوجود میرے قدم رک گئے۔ میں نے اس کی طرف اس انداز سے دیکھا، گویا اس سے کہہ رہا ہوں، جلدی کرو میاں مجھے جانا ہے۔ اس نے درد کی تکلیف سے دوہرا ہوتے ہوئے بڑی مشکلوں سے اپنی قمیض کے بٹن کھولے اور اندر ہاتھ ڈالا، مگر جب کچھ اور کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی تو مجھ سے کہا’’نیچے بنڈی ہے۔ ادھر کی جیب میں کچھ زیور اور بارہ سو روپے ہیں۔ یہ۔ یہ سلطانہ کا مال ہے۔ میں نے۔ میں نے ایک دوست کے پاس رکھا ہوا تھا۔ آج اسے۔ آج اسے بھیجنے والا تھا۔ کیونکہ۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ آپ اسے دے دیجیے گا اور۔ کہئے گا فوراً چلی جائے۔ لیک۔ اپنا خیال رکھیے گا!‘‘

ممتاز خاموش ہو گیا، لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی آواز، سہائے کی آواز میں جو جے جے ہسپتال کے فٹ پاتھ پر ابھری تھی، دور، اُدھر جہاں آسمان اور سمندر ایک دھندلی سی آغوش میں مدغم تھے، حل ہو رہی ہے۔ جہاز نے وسل دیا تو ممتاز نے کہا۔ ’’میں سلطانہ سے ملا۔ اس کو زیور اور روپیہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘

جب ہم ممتاز سے رخصت ہو کر نیچے اترے تو وہ عرشے پر جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کا داہنا ہاتھ ہِل رہا تھا۔ میں جگل سے مخاطب ہوا۔ ’’کیا تمہیں ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ممتاز، سہائے کی روح کو بلا رہا ہے۔ ہم سفر بنانے کے لیے؟‘‘

جگل نے صرف اتنا کہا۔ ’’کاش، میں سہائے کی روح ہوتا!‘‘

***

 

 

 

 

 

 

رام کھلاون

 

 

کھٹمل مارنے کے بعد میں ٹرنک میں پرانے کاغذات دیکھ رہا تھا کہ سعید بھائی جان کی تصویر مل گئی۔ میز پر ایک خالی فریم پڑا تھا۔ میں نے اس تصویر سے اس کو پُر کر دیا اور کرسی پر بیٹھ کر دھوبی کا انتظار کرنے لگا۔ ہر اتوار کو مجھے اسی طرح انتظار کرنا پڑتا تھا کیونکہ ہفتے کی شام کو میرے دھلے ہوئے کپڑوں کا اسٹاک ختم ہو جاتا تھا۔ مجھے اسٹاک تو نہیں کہنا چاہیے اس لیے کہ مفلسی کے اس زمانے میں میرے صرف اتنے کپڑے تھے جو بمشکل چھ سات دن تک میری وضعداری قائم رکھ سکتے تھے۔ میری شادی کی بات چیت ہو رہی تھی اور اس سلسلے میں پچھلے دو تین اتواروں سے میں ماہم جا رہا ہے۔ دھوبی شریف آدمی تھا۔ یعنی دھلائی نہ ملنے کے باوجود ہر اتوار کو باقاعدگی کے ساتھ پورے دس بجے میری کپڑے لے آتا تھا، لیکن پھر پھر بھی مجھے کھٹکا تھا کہ ایسا نہ ہو میری نادہندگی سے تنگ آ کر کسی روز میرے کپڑے چور بازار میں فروخت کر دے اور مجھے اپنی شادی کی بات چیت میں بغیر کپڑوں کے حصہ لینا پڑے جو کہ ظاہر ہے بہت ہی معیوب بات ہوتی۔ کھولی میں مرے ہوئے کھٹملوں کی نہایت ہی مکروہ بُو پھیلی ہوئی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اسے کس طرح دباؤں کہ دھوبی آ گیا۔ ’’ساب سلام۔‘‘

کر کے اس نے اپنی گٹھڑی کھولی اور میرے گنتی کے کپڑے میز پر رکھ دیے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی نظر سعید بھائی جان کی تصویر پر پڑی۔ ایک دم چونک کر اس نے اس کو غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ اور ایک عجیب اور غریب آواز حلق سے نکالی۔ ’’ہے ہے ہے ہیں؟‘‘

میں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے دھوبی؟‘‘

دھوبی کی نظریں اس تصویر پر جمی رہیں۔ ’’یہ تو ساعید شالیم بالشٹر ہے؟‘‘

’’کون؟‘‘

دھوبی نے میری طرف دیکھا اور بڑے وثوق سے کہا۔ ’’ساعید شالیم بالشٹر۔‘‘

’’تم جانتے ہو انھیں؟‘‘

دھوبی نے زور سے سر ہلایا۔ ’’ہاں۔ دو بھائی ہوتا۔ ادھر کولابا میں ان کا کوٹھی ہوتا۔ ساعید شالیم بالشٹر۔ میں ان کا کپڑا دھوتا ہوتا۔‘‘

میں نے سوچا یہ دو برس پہلے کی بات ہو گی کیونکہ سعید حسن اور محمد حسن بھائی جان نے فجی آئی لینڈ جانے سے پہلے تقریباً ایک مہینے بمبے میں پریکٹس کی تھی۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا۔ ’’دو برس پہلے کی بات کرتے ہو تم۔‘‘

دھوبی نے زور سے سرہلایا۔ ’’ہاں۔ ساعید شالیم بالشٹر جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی دیا۔ ایک دھوتی دیا۔ ایک کرتہ دیا۔ نیا۔ بہت اچھا لوگ ہوتا۔ ایک کا داڑھی ہوتا۔ یہ بڑا۔‘‘

اس نے ہاتھ سے داڑھی کی لمبائی بتائی اور سعید بھائی جان کی تصویر کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’یہ چھوٹا ہوتا۔ اس کا تین بلوا لوگ ہوتا۔ دو لڑکا، ایک لڑکی۔ ہمارے سنگ بہت کھیلتا ہوتا۔ کولابے میں کوٹھی ہوتا۔ بہت بڑا۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’دھوبی یہ میرے بھائی ہیں۔‘‘

دھوبی نے حلق سے عجیب و غریب آواز نکالی۔ ’’ہے ہے ہے ہیں؟ ساعید شالیم بالشٹر؟؟‘‘

میں نے اس کی حیرت دور کرنے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’یہ تصویر سعید حسن بھائی جان کی ہے۔ داڑھی والے محمد حسن ہیں۔ ہم سب سے بڑے۔‘‘

دھوبی نے میری طرف گھور کے دیکھا، پھر میری کھولی کی غلاظت کا جائزہ لیا۔ ایک چھوٹی سی کوٹھڑی تھی بجلی لائٹ سے محروم۔ ایک میز تھا۔ ایک کرسی اور ایک ٹاٹ کی کوٹ جس میں ہزارہا کھٹمل تھے۔ دھوبی کو یقین نہیں آتا تھا کہ میں ساعید شالیم بالشٹر کا بھائی ہوں۔ لیکن جب میں نے اس کو ان کی بہت سی باتیں بتائیں تو اس نے سر کو عجیب طریقے سے جنبش دی اور کہا۔ ’’ساعید شالیم بالشٹر کولابے میں رہتا اور تم اس کھولی میں!‘‘

میں نے بڑے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’دنیا کے یہی رنگ ہیں دھوبی۔ کہیں دھوپ کہیں چھاؤں۔ پانچ انگلیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔‘‘

’’ہاں ساب۔ تم بروبر کہتا ہے۔‘‘

یہ کہہ کر دھوبی نے گٹھڑی اٹھائی اور باہر جانے لگا۔ مجھے اس کے حساب کا خیال آیا۔ جیب میں صرف آٹھ آنے تھے جو شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم تک آنے جانے کے لیے بمشکل کافی تھے۔ صرف یہ بتانے کے لیے میری نیت صاف ہے میں نے اسے ٹھہرایا اور کہا۔ ’’دھوبی۔ کپڑوں کا حساب یاد رکھنا۔ خدا معلوم کتنی دھلائیاں ہو چکی ہیں۔‘‘

دھوبی نے اپنی دھوتی کا لانگ درست کیا اور کہا۔ ’’ساب ہم حساب نہیں رکھتے۔ ساعید شالیم بالشٹر کا ایک برس کام کیا۔ جو دے دیا، لے لیا۔ ہم حساب جانتے ہی نا ہیں۔‘‘

یہ کہہ وہ چلا گیا اور میں شادی کی بات چیت کے سلسلے میں ماہم جانے کے لیے تیار ہونے لگا۔ بات چیت کامیاب رہی۔ میری شادی ہو گئی۔ حالات بھی بہتر ہو گئے اور میں سکینڈ پیر خان اسٹریٹ کی کھولی سے جس کا کرایہ نو روپے ماہوار تھا کلیئر روڈ کے ایک فلیٹ میں جس کا کرایہ پینتیس روپے ماہوار تھا، اٹھ آیا اور دھوبی کو ماہ بماہ باقاعدگی سے اس کی دھلائیوں کے دام ملنے لگے۔ دھوبی خوش تھا کہ میرے حالات پہلے کی بہ نسبت بہتر ہیں چنانچہ اس نے میری بیوی سے کہا۔ ’’بیگم ساب۔ ساب کا بھائی ساعید شالیم بالشٹر بہت بڑا آدمی ہوتا۔ ادھر کولابہ میں رہتا ہوتا۔ جب گیا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔ تمہارا ساب بھی ایک دن بڑا آدمی بنتا ہوا۔‘‘

میں اپنی بیوی کو تصویر والا قصہ سنا چکا تھا اور اس کو یہ بھی بتا چکا تھا کہ مفلسی کے زمانے میں کتنی دریا دلی سے دھوبی نے میرا ساتھ دیا تھا۔ جب دے دیا، جو دے دیا۔ اس نے کبھی شکایت کی ہی نہ تھی۔ لیکن میری بیوی کو تھوڑے عرصے کے بعد ہی اس سے یہ شکایت پیدا ہو گئی کہ وہ حساب نہیں کرتا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’چار برس میرا کام کرتا رہا۔ اس نے کبھی حساب نہیں کیا۔‘‘

جواب یہ ملا۔ ’’حساب کیوں کرتا۔ ویسے دوگنے چوکنے وصول کر لیتا ہو گا۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’آپ نہیں جانتے۔ جن کے گھروں میں بیویاں نہیں ہوتیں ان کو ایسے لوگ بے وقوف بنانا جانتے ہیں۔‘‘

قریب قریب ہر مہینے دھوبی سے میری بیوی کی چخ چخ ہوتی تھی کہ وہ کپڑوں کا حساب الگ اپنے پاس کیوں نہیں رکھتا۔ وہ بڑی سادگی سے صرف اتنا کہہ دیتا۔ ’’بیگم ساب۔ ہم حساب جانت نا ہیں۔ تم جھوٹ نا ہیں بولتے گا۔ ساعید شالیم بالشٹر جو تمہارے ساب کا بھائی ہوتا۔ ہم ایک برس اس کا کام کیا ہوتا۔ بیگم ساب بولتا دھوبی تمہارا اتنا پیسہ ہوا۔ ہم بولتا، ٹھیک ہے!‘‘

ایک مہینے ڈھائی سو کپڑے دھلائی میں گئے۔ میری بیوی نے آزمانے کے لیے اس سے کہا۔ ’’دھوبی اس مہینے ساٹھ کپڑے ہوئے۔‘‘

اس نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ بیگم ساب، تم جھوٹ نا ہیں بولے گا۔‘‘

میری بیوی نے ساٹھ کپڑوں کے حساب سے جب اس کو دام دیے تو اس نے ماتھے کے ساتھ روپے چھوا کر سلام کیا اور چلا گیا۔ شادی کے دو برس بعد میں دلی چلا گیا۔ ڈیڑھ سال وہاں رہا، پھر واپس بمبئی آ گیا اور ماہم میں رہنے لگا۔ تین مہینے کے دوران میں ہم نے چار دھوبی تبدیل کیے کیونکہ بے حد ایمان اور جھگڑالو تھے۔ ہر دھلائی پر جھگڑا کھڑا ہو جاتا تھا۔ کبھی کپڑے کم نکلتے تھے، کبھی دلائی نہایت ذلیل ہوتی تھی۔ ہمیں اپنا پرانی دھوبی یاد آنے لگا۔ ایک روز جب کہ ہم بالکل بغیر دھوبی کے رہ گئے تھے وہ اچانک آ گیا اور کہنے لگا۔ ساب کو ہم نے تک دن بس میں دیکھا۔ ہم بولا، ایسا کیسا۔ ساب تو دلی چلا گیا تھا۔ ہم نے ادھر بائی کھلہ میں تپاس کیا۔ چھاپہ والا بولا، اُدھر ماہم میں تپاس کرو۔ باجو والی چالی میں ساب کا دوست ہوتا۔ اس سے پوچھا اور آ گیا۔‘‘

ہم بہت خوش ہوئے اور ہمارے کپڑوں کے دن ہنسی خوشی گزرنے لگے۔ کانگرس برسر اقتدار آئی تو امتناعِ شراب کا حکم نافذ ہو گیا۔ انگریزی شراب ملتی تھی لیکن دیسی شراب کی کشید اور فروخت بالکل بند ہو گئی۔ ننانوے فی صدی دھوبی شراب کے عادی تھے۔ دن بھر پانی میں رہنے کے بعد شام کو پاؤ آدھ پاؤ شراب ان کی زندگی کا جزو بن چکی تھی۔ ہمارا دھوبی بیمار ہو گیا۔ اس بیماری کا علاج اس نے اس زہریلی شراب سے کیا جو ناجائز طور پر کشید کر کے چھپے چوری بکتی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے معدے میں خطرناک گڑ بڑ پیدا ہو گئی جس نے اس کو موت کے دروازے تک پہنچا دیا۔ میں بے حد مصروف تھا۔ صبح چھ بجے گھر سے نکلتا تھا اور رات کو دس ساڑھے دس بجے لوٹتا تھا۔ میری بیوی کو جب اس کی خطرناک بیماری کا علم ہوا تو وہ ٹیکسی لے کر اس کے گھر گئی۔ نوکر اور شوفر کی مدد سے اس کو گاڑی میں بٹھایا اور ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر بہت متاثر ہوا چنانچہ اس نے فیس لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن میری بیوی نے کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، آپ سارا ثواب حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘

ڈاکٹر مسکرایا۔ ’’تو آدھا آدھا کر لیجیے۔‘‘

ڈاکٹر نے آدھی فیس قبول کر لی۔ دھوبی کا باقاعدہ علاج ہوا۔ معدے کی تکلیف چند انجکشن ہی سے دور ہو گئی۔ نقاہت تھی، وہ آہستہ آہستہ مقوی دواؤں کے استعمال سے ختم ہو گئی۔ چند مہینوں کے بعد وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا اور اٹھتے بیٹھتے ہمیں دعائیں دیتا تھا۔ بھگوان ساب کو ساعید شالیم بالشٹر بنائے۔ ادھر کولابے میں ساب رہنے کو جائے۔ باوا لوگ ہیں۔ بہت بہت پیسہ ہو۔ بیگم ساب دھوبی کو لینے آیا۔ موٹر میں۔ ادھر کِلے (قلعے ) میں بہت بڑے ڈاکٹر کے پاس لے گیا جس کے پاس میم ہوتا۔ بھگوان بیگم ساب کو خُس رکھے۔‘‘

کئی برس گزر گئے۔ اس دوران میں کئی سیاسی انقلاب آئے۔ دھوبی بلا ناغہ اتوار کو آتا رہا۔ اس کی صحت اب بہت اچھی تھی۔ اتنا عرصہ گزرنے پر بھی وہ ہمارا سلوک نہیں بھولا تھا۔ ہمیشہ دعائیں دیتا تھا۔ شراب قطعی طور پر چھوٹ چکی تھی۔ شروع میں وہ کبھی کبھی اسے یاد کیا کرتا تھا۔ پر اب نام تک نہ لیتا تھا۔ سارا دن پانی میں رہنے کے بعد تھکن دور کرنے کے لیے اب اسے دارو کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی۔ حالات بہت زیادہ بگڑ گئے تھے۔ بٹوارہ ہوا تو ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ ہندوؤں کے علاقوں میں مسلمان اور مسلمانوں کے علاقوں میں ہندو دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں ہلاک کیے جانے لگے۔ میری بیوی لاہور چلی گئی۔ جب حالات اور زیادہ خراب ہوئے تو میں نے دھوبی سے کہا۔ ’’دیکھو دھوبی اب تم کام بند کر دو۔ یہ مسلمانوں کا محلّہ ہے، ایسا نہ ہو کوئی تمہیں مار ڈالے۔‘‘

دھوبی مسکرایا۔ ’’ساب اپن کو کوئی نہیں مارتا۔‘‘

ہمارے محلے میں کئی وارداتیں ہوئیں مگر دھوبی برابر آتا رہا۔ ایک اتوار میں گھر میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کھیلوں کے صفحے پر کرکٹ کے میچوں کا اسکور درج تھا اور پہلے صفحات پر فسادات کے شکار ہندوؤں اور مسلمانوں کے اعداد و شمار۔ میں ان دونوں کی خوفناک مماثلت پر غور کر رہا تھا کہ دھوبی آ گیا۔ کاپی نکال کر میں نے کپڑوں کی پڑتال شروع کر دی تو دھوبی نے ہنس ہنس کے باتیں شروع کر دیں۔ ساعید شالیم بالشٹر بہت اچھا آدمی ہوتا۔ یہاں سے جاتا تو ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتہ دیا ہوتا۔ تمہارا بیگم ساب بھی ایک دم اچھا آدمی ہوتا۔ باہر گام گیا ہے نا؟ اپنے ملک میں؟ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔ موٹر لے کر آیا ہماری کھولی میں۔ ہم کو اتنا جلاب آنا ہوتا۔ ڈاکٹر نے سوئی لگایا۔ ایک دم ٹھیک ہو گیا۔ ادھر کاگج لکھو تو ہمارا سلام بولو۔ بولو رام کھلاون بولتا ہے، ہم کو بھی کاگج لکھو۔‘‘

میں نے اس کی بات کاٹ کر ذرا تیزی سے کہا۔ ’’دھوبی۔ دارو شروع کر دی؟‘‘

دھوبی ہنسا’’دارو؟ دارو کہاں سے ملتی ہے ساب؟‘‘

میں نے اور کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے میلے کپڑوں کی گٹھڑی بنائی اور سلام کر کے چلا گیا۔ چند دنوں میں حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو گئے۔ لاہور سے تار پر تار آنے لگے کہ سب کچھ چھوڑو اور جلدی چلے آؤ۔ میں نے ہفتے کے روز ارادہ کر لیا کہ اتوار کو چل دوں گا۔ لیکن مجھے صبح سویرے نکل جانا تھا۔ کپڑے دھوبی کے پاس تھے۔ میں نے سوچا کرفیو سے پہلے پہلے اس کے ہاں جا کر لے آؤں، چنانچہ شام کو وکٹوریہ لے کر مہاکشمی روانہ ہو گیا۔ کرفیو کے وقت میں بھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ اس لیے آمدورفت جاری تھیں۔ ٹریمیں چل رہی تھیں۔ میری وکٹوریہ پل کے پاس پہنچی تو ایک دم شور برپا ہوا۔ لوگ اندھا دھند بھاگنے لگے۔ ایسا معلوم ہوا جیسے سانڈوں کی لڑائی ہو رہی یہ۔ ہجوم چھدرا ہوا تو دیکھا، دو بھینسوں کے پاس بہت سے دھوبی لاٹھیاں ہاتھ میں لیے ناچ رہے ہیں اور طرح طرح کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ مجھے ادھر ہی جانا تھا مگر وکٹوریہ والے نے انکار کر دیا۔ میں نے اس کو کرایہ ادا کیا اور پیدل چل پڑا۔ جب دھوبیوں کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک دھوبی سے پوچھا۔ ’’رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

ایک دھوبی جس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی جھومتا ہوا اس دھوبی کے پاس آیا جس سے میں نے سوال کیا۔ ’’کیا پوچھت ہے؟‘‘

’’پوچھت ہے رام کھلاون کہاں رہتا ہے؟‘‘

شراب سے دھت دھوبی نے قریب قریب میرے اوپر چڑھ کر پوچھا۔ ’’تم کون ہے؟‘‘

’’میں؟ ر ام کھلاون میرا دھوبی ہے۔‘‘

’’رام کھلاون تہار دھوبی ہے۔ تو کس دھوبی کا بچہ ہے۔‘‘

ایک چلایا۔ ’’ہندو دھوبی یا مسلمین دھوبی کا۔‘‘

تمام دھوبی جو شراب کے نشے میں چور تھے مکے تانتے اور لاٹھیاں گھماتے میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ مجھے ان کے صرف ایک سوال کا جواب دینا تھا۔ مسلمان ہوں یا ہندو؟ میں بے حد خوفزدہ ہو گیا۔ بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ میں ان میں گھرا ہوا تھا۔ نزدیک کوئی پولیس والا بھی نہیں تھا۔ جس کو مدد کیلیے پکارتا۔ اور کچھ سمجھ میں نہ آیا تو بے جوڑ الفاظ میں ان سے گفتگو شروع کر دی۔ رام کھلاون ہندو ہے۔ ہم پوچھتا ہے وہ کدھر رہتا ہے۔ اس کی کھولی کہاں ہے۔ دس برس سے وہ ہمارا دھوبی ہے۔ بہت بیمار تھا۔ ہم نے اس کا علاج کرایا تھا۔ ہماری بیگم۔ ہماری میم صاحب یہاں موٹر لے کر آئی تھی۔ یہاں تک میں نے کہا کہ تو مجھے اپنے اوپر بہت ترس آیا۔ دل ہی دل میں بہت خفیف ہوا کہ انسان اپنی جان بچانے کے لیے کتنی نیچی سطح پر اتر آتا ہے اس احساس نے جر?ت پیدا کر دی چنانچہ میں نے ان سے کہا ’’میں مسلمین ہوں۔‘‘

’’مار ڈالو۔ مار ڈالو‘‘ کا شور بلند ہوا۔ دھوبی جو کہ شراب کے نشے میں دھت تھا ایک طرف دیکھ کر چلایا۔ ’’ٹھہرو۔ اسے رام کھلاون مارے گا۔‘‘

میں نے پلٹ کر دیکھا۔ رام کھلاون موٹا ڈنڈا ہاتھ میں لیے لڑکھڑا رہا تھا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور مسلمانوں کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کر دیں۔ ڈنڈا سر تک اٹھا کر گالیاں دیتا ہوا وہ میری طرف بڑھا۔ میں نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ ’’رام کھلاون۔‘‘

رام کھلاون دہاڑا۔ ’’چپ کر بے رام کھلاون کے۔‘‘

میری آخری امید بھی ڈوب گئی۔ جب وہ میرے قریب آ پہنچا تو میں نے خشک گلے سے ہولے سے کہا۔ ’’مجھے پہچانتے نہیں رام کھلاون؟‘‘

رام کھلاون نے وار کرنے کے لیے ڈنڈا اٹھایا۔ ایک دم اس کی آنکھیں سکڑیں، پھر پھیلیں، پھر سکڑیں۔ ڈنڈا ہاتھ سے گرا کر اس نے قریب آ کر مجھے غور سے دیکھا اور پکارا۔ ’’ساب!‘‘

پھر وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا ’’یہ مسلمین نہیں۔ ساب ہے۔ بیگم ساب کا ساب۔ وہ موٹر لے کر آیا تھا۔ ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔ نے میرا جلاب ٹھیک کیا تھا۔‘‘

رام کھلاون نے اپنے ساتھیوں کو بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے۔ سب شرابی تھے۔ تُو تُو میں میں شرع ہو گئی۔ کچھ دھوبی رام کھلاون کی طرف ہو گئے اور ہا تھا پائی پر نوبت آ گئی۔ میں نے موقع غنیمت سمجھا اور وہاں سے کھسک گیا۔ دوسرے روز صبح نو بجے کے قریب میرا سامان تیار تھا۔ صرف جہاز کے ٹکٹوں کا انتظار تھا جو ایک دوست بلیک مارکیٹ سے حاصل کرنے گیا تھا۔ میں بہت بے قرار تھا۔ دل میں طرح طرح کے جذبات ابل رہے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ جلدی ٹکٹ آ جائیں اور میں بندرگاہ کی طرف چل دوں۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اگر دیر ہو گئی تو میرا فلیٹ مجھے اپنے اندر قید کر لے گا۔ دروازہ پر دستک ہوئی۔ میں نے سوچا ٹکٹ آ گئے۔ دروازہ کھولا تو باہر دھوبی کھڑا تھا۔ ’’ساب سلام!‘‘

’’سلام‘‘

’’میں اندر آ جاؤں؟‘‘

’’آؤ‘‘

وہ خاموشی سے اندر داخل ہوا۔ گٹھڑی کھول کر اس نے کپڑے نکال پلنگ پر رکھے۔ دھوتی سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور گلو گیر آواز میں کہا۔ ’’آپ جا رہے ہیں ساب؟‘‘

’’ہاں‘‘

اس نے رونا شروع کر دیا۔ ساب، مجھے ماف کر دو۔ یہ سب دارو کا قصور تھا۔ اور دارو۔ دارو آج کل مفت ملتی ہے۔ سیٹھ لوگ بانٹتا ہے کہ پی کر مسلمین کو مارو۔ مفت کی دارو کون چھوڑتا ہے ساب۔ ہم کو ماف کر دو۔ ہم پئے لا تھا۔ ساعید شالیم بالشٹر ہمارا بہت مہربان ہوتا۔ ہم کو ایک پگڑی، ایک دھوتی، ایک کرتا دیا ہوتا۔ تمہارا بیگم ساب ہمارا جان بچایا ہوتا۔ جلاب سے ہم مرتا ہوتا۔ وہ موٹر لے کر آتا۔ ڈاکٹر کے پاس لے جاتا۔ اتنا پیسہ خرچ کرتا۔ ملک ملک جاتا۔ بیگم صاب سے مت بولنا۔ رام کھلاون۔‘‘

اس کی آواز گلے میں رُندھ گئی۔ گٹھڑی کی چادر کاندھے پر ڈال کر چلنے لگا تو میں نے روکا ’’ٹھہرو رام کھلاون۔‘‘

لیکن وہ دھوتی کا لانگ سنبھالتا تیزی سے باہر نکل گیا۔

***

 

 

 

 

یزید

 

 

سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے۔ بالکل اسی طرح جس موسم میں خلافِ معمول چند دن خراب آئیں اور چلے جائیں۔ یہ نہیں کہ کریم داد، مولا کی مرضی سمجھ کر خاموش بیٹھا رہا۔ اس نے اس طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا۔ مخالف قوتوں کے ساتھ وہ کئی بار بھڑا تھا۔ شکست دینے کے لیے نہیں، صرف مقابلہ کرنے کے لیے نہیں۔ اس کو معلوم تھا کہ دشمنوں کی طاقت بہت زیادہ ہے۔ مگر ہتھیار ڈال دینا وہ اپنی ہی نہیں ہر مرد کی توہین سمجھتا تھا۔ سچ پوچھیے تو اس کے متعلق یہ صرف دوسروں کا خیال تھا اُن کا، جنہوں نے اسے وحشی نما انسانوں سے بڑی جاں بازی سے لڑتے دیکھا تھا۔ ورنہ اگر کریم داد سے اس بارے میں پوچھا جاتا، کہ مخالف قوتوں کے مقابلے میں ہتھیار ڈالنا کیا وہ اپنی یا مرد کی توہین سمجھتا ہے۔ تو وہ یقیناً سوچ میں پڑ جاتا۔ جیسے آپ نے اُس سے حساب کا کوئی بہت ہی مشکل سوال کر دیا ہے۔ کریم داد، جمع، تفریق اور ضرب تقسیم سے بالکل بے نیاز تھا۔ سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے۔ لوگوں نے بیٹھ کر حساب لگانا شروع کیا کہ کتنا جانی نقصان ہوا، کتنا مالی، مگر کریم داد اس سے بالکل الگ تھلگ رہا۔ اس کو صرف اتنا معلوم تھا کہ اس کا باپ رحیم داد اس جنگ میں کام آیا ہے۔ اس کی لاش خود کریم داد نے اپنے کندھوں پر اٹھائی تھی۔ اور ایک کنوئیں کے پاس گڑھا کھود کر دفنائی تھی۔ گاؤں میں اور بھی کئی وارداتیں ہوئی تھیں سینکڑوں جوان اور بوڑھے قتل ہوئے تھے، کئی لڑکیاں غائب ہو گئی تھیں۔ کچھ بہت ہی ظالمانہ طریقے پر بے آبرو ہوئی تھی۔ جس کے بھی یہ زخم آئے تھے، روتا تھا، اپنے پھوٹے نصیبوں پر اور دشمنوں کی بے رحمی پر، مگر کریم داد کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ نکلا۔ اپنے باپ رحیم داد کی شہ زوری پر اسے ناز تھا۔ جب وہ پچیس تیس، برچھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح بلوائیوں کا مقابلہ کرتے کرتے نڈھال ہو کر گر پڑا تھا، اور کریم داد کو اس کی موت کی خبر ملی تھی تو اس نے اس کی روح کو مخاطب کر کے صرف اتنا کہا تھا۔ ’’یار تم نے یہ ٹھیک نہ کیا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک ہتھیار اپنے پاس ضرور رکھا کرو۔‘‘

اور اس نے رحیم داد کی لاش اٹھا کر، کنویں کے پاس گڑھا کھود کر دفنا دی تھی اور اس کے پاس کھڑے ہو کر فاتحہ کے طور پر صرف یہ چند الفاظ کہے ہوئے ’’گناہ ثواب کا حساب خدا جانتا ہے۔ اچھا تجھے بہشت نصیب ہو!‘‘

رحیم داد جو نہ صرف اس کا باپ تھا بلکہ ایک بہت بڑا دوست بھی تھا بلوائیوں نے بڑی بے دردی سے قتل کیا تھا۔ لوگ جب اس کی افسوسناک موت کا ذکر کرتے تھے تو قاتلوں کو بڑی گالیاں دیتے تھے، مگر کریم داد خاموش رہتا تھا۔ اس کی کئی کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔ دو مکان جل کر راکھ ہو گئے تھے۔ مگر اُس نے اپنے ان نقصانوں کا کبھی حساب نہیں لگایا تھا۔ وہ کبھی کبھی صرف اتنا کہا کرتا تھا۔ ’’جو کچھ ہوا ہے۔ ہماری اپنی غلطی سے ہوا ہے۔‘‘

اور جب کوئی اس سے اس غلطی کے متعلق استفسار کرتا تووہ خاموش رہتا۔ گاؤں کے لوگ ابھی سوگ میں مصروف تھے کہ کریم داد نے شادی کر لی۔ اسی مٹیار جیناں کے ساتھ جس پر ایک عرصے سے اس کی نگاہ تھی۔ جیناں سوگوار تھی۔ اس کا شہتیر جیسا کڑیل جوان بھائی بلووں میں مارا گیا تھا۔ ماں، باپ کی موت کے بعد ایک صرف وہی اس کا سہارا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیناں کو کریم داد سے بے پناہ محبت تھی، مگر بھائی کی موت کے غم نے یہ محبت اس کے دل میں سیاہ پوش کر دی تھی، اب ہر وقت اس کی سدا مسکراتی آنکھیں نمناک رہتی تھیں۔ کریم داد کو رونے دھونے سے بہت چڑ تھی۔ وہ جیناں کو جب بھی سوگ زدہ حالت میں دیکھتا تو دل ہی دل میں بہت کڑھتا۔ مگر وہ اس سے اس بارے میں کچھ کہتا نہیں تھا، یہ سوچ کر کہ عورت ذات ہے۔ ممکن ہے اس کے دل کو اور بھی دکھ پہنچے، مگر ایک روز اس سے نہ رہا گیا۔ کھیت میں اس نے جیناں کو پکڑ لیا اور کہا۔ ’’مردوں کو کفنائے دفنائے پورا ایک سال ہو گیا ہے اب تو وہ بھی اس سوگ سے گھبرا گئے ہوں گے۔ چھوڑ میری جان! ابھی زندگی میں جانے اور کتنی موتیں دیکھنی ہیں۔ کچھ آنسو تو اپنی آنکھوں میں جمع رہنے دیں۔‘‘

جیناں کو اس کی یہ باتیں بہت ناگوار معلوم ہوئی تھیں۔ مگر وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ اس لیے اکیلے میں اس نے کئی گھنٹے سوچ سوچ کر اس کی ان باتوں میں معنی پیدا کیے اور آخر خود کو یہ سمجھنے پر آمادہ کر لیا کہ کریم داد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔! شادی کا سوال آیا تو بڑے بوڑھوں نے مخالفت کی۔ مگر یہ مخالفت بہت ہی کمزور تھی۔ وہ لوگ سوگ منا منا کر اتنے نحیف ہو گئے تھے کہ ایسے معاملوں میں سو فیصدی کامیاب ہونے والی مخالفتوں پر بھی زیادہ دیر تک نہ جمے رہ سکے۔ چنانچہ کریم داد کا بیاہ ہو گیا۔ باجے گاجے آئے، ہر رسم ادا ہوئی اور کریم داد اپنی محبوبہ جیناں کو دلہن بنا کر گھر لے آیا۔ فسادات کے بعد قریب قریب ایک برس سے سارا گاؤں قبرستان سا بنا تھا۔ جب کریم داد کی برات چلی اور خوب دھوم دھڑکا ہوا تو گاؤں میں کئی آدمی سہم سہم گئے۔ ان کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ کریم داد کی نہیں، کسی بھوت پریت کی برات ہے۔ کریم داد کے دوستوں نے جب اُس کو یہ بات بتائی تو وہ خوب ہنسا۔ ہنستے ہنستے ہی اس نے ایک روز اس کا ذکر اپنی نئی نویلی دلہن سے کہا تو وہ ڈر کے مارے کانپ اٹھی۔ کریم داد نے جیناں کی سُوہے چوڑے والی کلائی اپنے ہاتھ میں لی، اور کہا۔ ’’یہ بھوت تو اب ساری عمر تمہارے ساتھ چمٹا رہے گا۔ رحمان سائیں کی جھاڑ پھونک بھی اتار نہیں سکے گی۔‘‘

جیناں نے اپنی مہندی میں رچی ہوئی انگلی دانتوں تلے دبا کر اور ذرا شرما کر صرف اتنا کہنا۔ ’’کیمے، تجھے تو کسی سے بھی ڈر نہیں لگتا۔‘‘

کریم داد نے اپنی ہلکی ہلکی سیاہی مائل بھوری مونچھوں پر زبان کی نوک پھیری اور مسکرادیا۔ ’’ڈر بھی کوئی لگنے کی چیز ہے!‘‘

جیناں کا غم اب بہت حد تک دور ہو چکا تھا۔ وہ ماں بننے والی تھی۔ کریم داد اس کی جوانی کا نکھار دیکھتا تو بہت خوش ہوتا اور جیناں سے کہتا۔ ’’خدا کی قسم جیناں، تو پہلے کبھی اتنی خوبصورت نہیں تھی۔ اگر تو اتنی خوبصورت اپنے ہونے والے بچے کے لیے بنی ہے تو میری اس سے لڑائی ہو جائے گی۔‘‘

یہ سن کر جیناں شرما کر اپنا ٹھلیا سا پیٹ چادرسے چھپا لیتی۔ کریم داد ہنستا اور اسے چھیڑتا۔ ’’چھپاتی کیوں ہو اس چور کو۔ میں کیا جانتا نہیں کہ یہ سب بناؤ سنگھار صرف تم نے اسی سؤر کے بچے کے لیے کیا ہے۔‘‘

جیناں ایک دم سنجیدہ ہو جاتی۔ ’’کیوں گالی دیتے ہو اپنے کو؟‘‘

کریم داد کی سیاہی مائل بھوری مونچھیں ہنسی سے تھرتھرانے لگتیں۔ ’’کریم داد بہت بڑا سؤر ہے۔‘‘

چھوٹی عید آئی۔ بڑی عید آئی، کریم داد نے یہ دونوں تہوار بڑے ٹھاٹ سے منائے۔ بڑی عید سے بارہ روز پہلے اس کے گاؤں پر بلوائیوں نے حملہ کیا تھا اور اس کا باپ رحیم داد اور جیناں کا بھائی فضل الٰہی قتل ہوئے تھے، جیناں ان دونوں کی موت کو یاد کر کے بہت روتی تھی! مگر کریم داد کی صدموں کو یاد نہ رکھنے والی طبیعت کی موجودگی میں اتنا غم نہ کر سکی، جتنا اسے اپنی طبیعت کے مطابق کرنا چاہیے تھا۔ جیناں کبھی سوچتی تھی تو اس کو بڑا تعجب ہوتا تھا کہ وہ اتنی جلدی اپنی زندگی کا اتنا بڑا صدمہ کیسے بھولتی جا رہی ہے۔ ماں باپ کی موت اس کو قطعاً یاد نہیں تھی۔ فضل الٰہی اس سے چھ سال بڑا تھا۔ وہی اس کا باپ تھا وہی اس کی ماں اور وہی اس کا بھائی۔ جیناں اچھی طرح جانتی تھی کہ صرف اسی کی خاطر اس نے شادی نہیں کی۔ اور یہ تو سارے گاؤں کو معلوم تھا کہ جیناں ہی کی عصمت بچانے کے لیے اس نے اپنی جان دی تھی۔ اس کی موت جیناں کی زندگی کا یقیناً بہت ہی بڑا حادثہ تھا۔ ایک قیامت تھی، جو بڑی عید سے ٹھیک بارہ روز پہلے اس پر یکا یک ٹوٹ پڑی تھی۔ اب وہ اس کے بارے میں سوچتی تھی تو اس کو بڑی حیرت ہوتی تھی کہ وہ اس کے اثرات سے کتنی دور ہوتی جا رہی ہے۔ محرم قریب آیا تو جیناں نے کریم داد سے اپنی پہلی فرمائش کا اظہار کیا اسے گھوڑا اور تعزیے دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ ان کے متعلق بہت کچھ سن چکی تھی۔ چنانچہ اس نے کریم داد سے کہا۔ ’’میں ٹھیک ہوئی تولے چلو گے مجھے گھوڑا دکھانے؟‘‘

کریم داد نے مسکرا کر جواب دیا۔ ’’تم ٹھیک نہ بھی ہوئیں تو لے چلوں گا۔ اس سؤر کے بچے کو بھی!‘‘

جیناں کو یہ گالی بہت ہی بُری لگتی تھی۔ چنانچہ وہ اکثر بگڑ جاتی تھی۔ مگر کریم داد کی گفتگو کا انداز کچھ ایسا پر خلوص تھا کہ جیناں کی تلخی فوراً ہی ایک ناقابل بیان مٹھاس میں تبدیل ہو جاتی تھی اور وہ سوچتی کہ سؤر کے بچے میں کتنا پیار کوٹ کوٹ کے بھرا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کی افواہیں ایک عرصے سے اڑ رہی تھی۔ اصل میں تو پاکستان بنتے ہی بات گویا ایک طور پر طے ہو گئی تھی کہ جنگ ہو گی۔ اور ضرور ہو گی۔ کب ہو گی، اس کے متعلق گاؤں میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ کریم داد سے جب کوئی اس کے متعلق سوال کرتا، تو وہ یہ مختصر سا جواب دیتا۔ ’’جب ہونی ہو گی ہو جائے گی۔ فضول سوچنے سے کیا فائدہ!‘‘

جیناں جب اس ہونے والی لڑائی بھڑائی کے متعلق سنتی، تو اس کے اوسان خطا ہو جاتے تھے۔ وہ طبعاً بہت ہی امن پسند تھی۔ معمولی تُو تُو میں میں سے بھی سخت گھبراتی تھی۔ اس کے علاوہ گزشتہ بلووں میں نے اس نے کئی کشت و خون دیکھے تھے اور انہی میں اس کا پیارا بھائی فضل الٰہی کام آیا تھا۔ بے حد سہم کر وہ کریم داد سے صرف اتنا کہتی۔ ’’کیمے، کیا ہو گا!‘‘

کریم داد مسکرا دیتا۔ ’’مجھے یا معلوم۔ لڑکا ہو گا لڑکی۔‘‘

یہ سن کر جیناں بہت ہی زچ بچ ہوتی مگر فوراً ہی کریم داد کی دوسری باتوں میں لگ کر ہونے والی جنگ کے متعلق سب کچھ بھول جاتی۔ کریم داد طاقت ور تھا، نڈر تھا، جیناں سے اس کو بے حد محبت تھی۔ بندوق خریدنے کے بعد وہ تھوڑے ہی عرصے میں نشانے کا بہت پکا ہو گیا تھا۔ یہ سب باتیں جیناں کو حوصلہ دلاتی تھیں، مگر اس کے باوجود ترنجنوں میں جب وہ اپنی کسی خوف زدہ ہمجولی سے جنگ کے بارے میں گاؤں کے آدمیوں کی اڑائی ہوئی ہولناک افواہیں سنتی، تو ایک دم سُن سی ہو جاتی۔ بختو دائی جو ہر روز جیناں کو دیکھنے آتی تھی۔ ایک دن یہ خبر لائی کہ ہندوستان والے دریا بند کرنے والے ہیں۔ جیناں اس کا مطلب نہ سمجھی۔ وضاحت کے لیے اس نے بختو دائی سے پوچھا۔ ’’دریا بند کرنے والے ہیں؟ کون سے دریا بند کرنے والے ہیں۔‘‘

بختو دائی نے جواب دیا۔ ’’وہ جو ہمارے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں۔‘‘

جیناں نے کچھ دیر سوچا اور ہنس کر کہا۔ ’’موسی تم بھی کیا پاگلوں کی سی باتیں کرتی ہو، دریا کون بند کر سکتا ہے۔ وہ بھی کوئی موریاں ہیں۔‘‘

بختو نے جیناں کے پیٹ پر ہولے ہولے مالش کرتے ہوئے کہا۔ ’’بی بی مجھے معلوم نہیں۔ جو کچھ میں نے سنا تمہیں بتا دیا۔ یہ بات اب تو اخباروں میں بھی آ گئی ہے۔‘‘

’’کون سی بات؟‘‘

جیناں کو یقین نہیں آتا تھا۔ بختو نے اپنے جھریوں والے ہاتھوں سے جیناں کا پیٹ ٹٹولتے ہوئے کہا۔ ’’یہی دریا بند کرنے والی‘‘

پھر اس نے جیناں کے پیٹ پر اس کی قمیض کھینچی اور اٹھ کر بڑے ماہرانہ انداز میں کہا۔ ’’اللہ خیر رکھے تو بچہ آج سے پورے دس روز کے بعد ہو جانا چاہیے!‘‘

کریم داد گھر آیا، تو سب سے پہلے جیناں نے اس سے دریاؤں کے متعلق پوچھا۔ اس نے پہلے بات ٹالنی چاہی، پر جب جیناں نے کئی بار اپنا سوال دہرایا تو کریم داد نے کہا۔ ’’ہاں کچھ ایسا ہی سنا ہے۔‘‘

جیناں نے پوچھا۔ ’’کیا؟‘‘

’’یہی کہ ہندوستان والے ہمارے دریا بند کر دیں گے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘

کریم داد نے جواب دیا۔ ’’کہ ہماری فصلیں تباہ ہو جائیں۔‘‘

یہ سن کر جیناں کو یقین ہو گیا کہ دریا بند کیے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ نہایت بے چارگی کے عالم میں اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’کتنے ظالم ہیں یہ لوگ۔‘‘

کریم داد اس دفعہ کچھ دیر کے بعد مسکرایا۔ ’’ہٹاؤ اس کو۔ یہ بتاؤ موسی بختو آئی تھی۔‘‘

جیناں نے بے دلی سے جواب دیا۔ ’’آئی تھی!‘‘

’’کیا کہتی تھی؟‘‘

’’کہتی تھی آج سے پورے دس روز کے بعد بچہ ہو جائے گا۔‘‘

کریم داد نے زور کا نعرہ لگایا۔ ’’زندہ باد۔‘‘

جیناں نے اسے پسند نہ کیا اور بڑبڑائی۔ ’’تمہیں خوشی سوجھتی ہے جانے یہاں۔ کیسی کربلا آنے والی ہے۔‘‘

کریم داد چوپال چلا گیا۔ وہاں قریب قریب سب مرد جمع تھے۔ چودھری نتھو کو گھیرے، اس سے دریا بند کرنے والی خبر کے متعلق باتیں پوچھ رہے تھے، کوئی پنڈت نہرو کو پیٹ بھر کے گالیاں دے رہا تھا۔ کوئی بد دعائیں مانگ رہا تھا۔ کوئی یہ ماننے ہی سے یکسر منکر تھا کہ دریاؤں کا رخ بدلا جا سکتا ہے۔ کچھ ایسے بھی تھے جن کا یہ خیال تھا کہ جو کچھ ہونے والا ہے وہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔ اسے ٹالنے کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ مل کرمسجد میں دعا مانگی جائے۔ کریم داد ایک کونے میں خاموش بیٹھا سنتا رہا۔ ہندوستان والوں کو گالیاں دینے میں چودھری نتھو سب سے پیش پیش تھا۔ کریم داد کچھ اس طرح بار بار اپنی نشست بدل رہا تھا جیسے اسے بہت کوفت ہو رہی ہے۔ سب بک زبان ہو کر یہ کہہ رہے تھے۔ کہ دریا بند کرنا بہت ہی اوچھا ہتھیار ہے۔ انتہائی کمینہ پن ہے۔ رذالت ہے۔ عظیم ترین ظلم ہے۔ بدترین گناہ ہے۔ یزید پن ہے۔ کریم داد دو تین مرتبہ اس طرح کھانسا جیسے وہ کچھ کہنے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔ چودھری نتھو کے منہ سے جب ایک اور لہر موٹی موٹی گالیوں کی اٹھی تو کریم داد چیخ پڑا۔ ’’گالی نہ دے چودھری کسی کو۔‘‘

ماں کی ایک بہت بڑی گالی چودھری نتھو کے حلق میں پھنسی کی پھنسی رہ گئی، اس نے پلٹ کر ایک عجیب انداز سے کریم داد کی طرف دیکھا جو سر پر اپنا صافہ ٹھیک کر رہا تھا۔ ’’کیا کہا؟‘‘

کریم داد نے آہستہ مگر مضبوط آواز میں کہا۔ ’’میں نے کہا گالی نہ دے کسی کو۔‘‘

حلق میں پھنسی ہوئی ماں کی گالی بڑے زور سے باہر نکال کر چودھری نتھو نے بڑے تیکھے لہجے میں کریم داد سے کہا۔ ’’کسی کو؟ کیا لگتے ہیں۔ وہ تمہارے؟‘‘

اس کے بعد وہ چوپال میں جمع شدہ آدمیوں سے مخاطب ہوا۔ ’’سنا تم لوگوں نے۔ کہتا ہے گالی نہ دو کسی کو۔ پوچھو اس سے وہ کیا لگتے ہیں اس کے؟‘‘

کریم داد نے بڑے تحمل سے جواب دیا۔ ’’میرے کیا لگتے ہیں؟ میرے دشمن لگتے ہیں۔‘‘

چودھری کے حلق سے پھٹا پھٹا سا قہقہہ بلند ہوا۔ اس قدر زور سے کہ اس کی مونچھوں کے بال بکھر گئے۔ ’’سنا تم لوگوں نے۔ دشمن لگتے ہیں۔ اور دشمن کو پیار کرنا چاہیے۔ کیوں برخوردار؟‘‘

کریم داد نے بڑے برخوردارانہ انداز میں جواب دیا۔ ’’نہیں چودھری۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پیار کرنا چاہیے۔ میں نے صرف یہ کہا ہے کہ گالی نہیں دینی چاہیے۔‘‘

کریم داد کے ساتھ ہی اس کا لنگوٹیا دوست میراں بخش بیٹھا تھا۔ اس نے پوچھا۔ ’’کیوں؟‘‘

کریم داد صرف میراں بخش سے مخاطب ہوا۔ ’’کیا فائدہ ہے یار۔ وہ پانی بند کر کے تمہاری زمینیں بنجر بنانا چاہتے ہیں۔ اور تم انھیں گالی دے کہ یہ سمجھتے ہو کہ حساب بیباق ہوا۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے۔ گالی تو اس وقت دی جاتی ہے۔ جب اور کوئی جواب پاس نہ ہو۔‘‘

میراں بخش نے پوچھا۔ ’’تمہارے پاس جواب ہے؟‘‘

کریم داد نے تھوڑے توقف کے بعد کہا۔ ’’سوال میرا نہیں۔ ہزاروں اور لاکھوں آدمیوں کا ہے۔ اکیلا میرا جواب سب کا جواب نہیں ہو سکتا۔ ایسے معاملوں میں سوچ سمجھ کر ہی کوئی پختہ جواب تیار کیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک دن میں دریاؤں کا رخ نہیں بدل سکتے۔ کئی سال لگیں گے۔ لیکن یہاں تو تم لوگ گالیاں دے کر ایک منٹ میں اپنی بھڑاس نکال باہر کر رہے ہو۔‘‘

پھر اس نے میراں بخش کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔ ’’میں تو اتنا جانتا ہوں یار کہ ہندوستان کو کمینہ، رذیل اور ظالم کہنا بھی غلط ہے۔‘‘

میراں بخش کے بجائے چودھری نتھو چلایا۔ ’’لو اور سنو؟‘‘

کریم داد، میراں بخش ہی سے مخاطب ہوا۔ ’’دشمن سے میرے بھائی رحم و کرم کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے۔ لڑائی شروع اور یہ رونا رویا جائے کہ دشمن بڑے بور کی ریفلیں استعمال کر رہا ہے۔ ہم چھوٹے بم گراتے ہیں، وہ بڑے گراتا ہے۔ تو اپنے ایمان سے کہو یہ شکایت بھی کوئی شکایت ہے۔ چھوٹا چاقو بھی مارنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور بڑا چاقو بھی۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔‘‘

میراں بخش کی بجائے چودھری نتھو نے سوچنا شروع کیا۔ مگر فوراً ہی جھنجھلا گیا۔ ’’لیکن سوال یہ ہے کہ وہ پانی بند کر رہے ہیں۔ ہمیں بھوکا اور پیاسا مارنا چاہتے ہیں۔‘‘

کریم داد نے میراں بخش کے کاندھے سے اپنا ہاتھ علیحدہ کیا اور چودھری نتھو سے مخاطب ہوا۔ ’’چودھری جب کسی کو دشمن کہہ دیا تو پھر یہ گِلا کیسا کہ وہ ہمیں بھوکا پیاسا مارنا چاہتا ہے۔ وہ تمہیں بھوکا پیاسا نہیں مارے گا۔ تمہاری ہری بھری زمینیں ویران اور بنجر نہیں بنائے گا تو کیا وہ تمہارے لیے پلاؤ کی دیگیں اور شربت کے مٹکے وہاں سے بھیجے گا۔ تمہاری سیر، تفریح کے لیے یہاں باغ بغیچے لگائے گا۔‘‘

چودھری نتھو بھنا گیا۔ ’’یہ تُو کیا بکواس کر رہا ہے؟‘‘

میراں بخش نے بھی ہولے سے کریم داد سے پوچھا۔ ’’ہاں یار یہ کیا بکواس ہے؟‘‘

’’بکواس نہیں ہے میراں بخشا۔‘‘

کریم داد نے سمجھانے کے انداز میں میراں بخش سے کہا۔ ’’تو ذرا سوچ تو سہی کہ لڑائی میں دونوں فریق ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے، پہلوان جب لنگر لنگوٹ کس کے اکھاڑے میں اتر آئے تو اسے ہر داؤ استعمال کرنے کا حق ہوتا ہے۔‘‘

میراں بخش نے اپنا گھٹا ہوا سر ہلایا۔ ’’یہ تو ٹھیک ہے!‘‘

کریم داد مسکرایا۔ ’’تو پھر دریا بند کرنا بھی ٹھیک ہے۔ ہمارے لیے یہ ظلم ہے، مگر ان کے لیے روا ہے۔‘‘

’’روا کیا ہے۔ جب تیری جِیب پیاس کے مارے لٹک کر زمین تک آ جائے گی تو میں پھر پوچھوں گا کہ ظلم روا ہے یا ناروا۔ جب تیرے بال بچے اناج کے ایک ایک دانے کو ترسیں گے تو پھر بھی یہ کہنا کہ دریا بند کرنا بالکل ٹھیک تھا۔‘‘

کریم داد نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور کہا۔ ’’میں جب بھی کہوں گا چودھری۔ تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ صرف وہ ہمارا دشمن ہے۔ کیا ہم اس کے دشمن نہیں۔ اگر ہمارے اختیار میں ہوتا، تو ہم نے بھی اس کا دانہ پانی بند کیا ہوتا۔ لیکن اب کہ وہ کر سکتا ہے، اور کرنے والا ہے تو ہم ضرور اس کا کوئی توڑ سوچیں گے۔ بیکار گالیاں دینے سے کیا ہوتا ہے۔ دشمن تمہارے لیے دودھ کی نہریں جاری نہیں کرے گا چودھری نتھو۔ اس سے اگر ہو سکا تو وہ تمہارے پانی کی ہر بوند میں زہر ملا دے گا، تم اسے ظلم کہو گے، وحشیانہ پن کہو گے اس لیے کہ مارنے کا یہ طریقہ تمہیں پسند نہیں۔ عجیب سی بات ہے کہ لڑائی شروع کرنے سے پہلے دشمن سے نکاح کی سی شرطیں بندھوائی جائیں۔ اس سے کہا جائے کہ دیکھو مجھے بھوکا پیاسا نہ مارنا، بندوق سے اور وہ بھی اتنے بور کی بندوق سے، البتہ تم مجھے شوق سے ہلاک کر سکتے ہو۔ اصل بکواس تو یہ ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو۔‘‘

چودھری نتھو جھنجھلاہٹ کی آخری حد تک پہنچ گیا۔ ’’برف لا کے رکھ میرے دل پر۔‘‘

’’یہ بھی میں ہی لاؤں۔‘‘

یہ کہہ کر کریم داد ہنسا۔ میراں بخش کے کاندھے پر تھپکی دے کر اٹھا اور چوپال سے چلا گیا۔ گھر کی ڈیوڑھی میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ اندر سے بختو دائی باہر نکلی۔ کریم داد کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر پوپلی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ ’’مبارک ہو کیمے۔ چاند سا بیٹا ہوا ہے، اب کوئی اچھا سا نام سوچ اس کا؟‘‘

’’نام؟‘‘

کریم داد نے ایک لحظے کے لیے سوچا۔ ’’یزید۔ یزید!‘‘

بختو دائی کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کریم داد نعرے لگاتا اندر گھر میں داخل ہوا۔ جیناں چارپائی پر لیٹی تھی۔ پہلے سے کسی قدر زرد، اس کے پہلو میں ایک گل گوتھنا سا بچہ چپڑ چپڑ انگوٹھا چوس رہا تھا۔ کریم داد نے اس کی طرف پیار بھری فخریہ نظروں سے دیکھا اور اس کے ایک گال کو انگلی سے چھیڑتے ہوئے کہا۔ ’’اوئے میرے یزید!‘‘

جیناں کے منہ سے ہلکی سی متعجب چیخ نکلی۔ ’’یزید؟‘‘

کریم داد نے غور سے اپنے بیٹے کا ناک نقشہ دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں یزید۔ یہ اس کا نام ہے۔‘‘

جیناں کی آواز بہت نحیف ہو گئی۔ ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو کیمے؟ یزید‘‘

کریم داد مسکرایا۔ ’’کیا ہے اس میں؟ نام ہی تو ہے!‘‘

جیناں صرف اس قدر کہہ سکی۔ ’’مگر کس کا نام؟‘‘

کریم داد نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔ اُس نے دریا کا پانی بند کیا تھا۔ یہ کھولے گا!‘‘

***

 

 

 

 

 

دیکھ کبیرا رویا

 

 

نگر نگر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جو آدمی بھیک مانگے گا اس کو گرفتار کرایا جائے۔ گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ ایک بہت پرانی لعنت دور ہو گئی۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لوگوں نے پوچھا۔ اے جولا ہے تو کیوں روتا ہے؟ کبیر نے رو کر کہا۔ ’’کپڑا جو چیزوں سے بنتا ہے۔ تانے اور پیٹے سے۔ گرفتاریوں کا تانا تو شروع ہو گیا پر پیٹ بھرنے کا پیٹا کہاں ہے؟‘‘

ایک ایم اے۔ ایل ایل بی کو دو سو کھڈیاں الاٹ ہو گئیں۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ایم اے۔ ایل ایل بی نے پوچھا۔ ’’اے جولا ہے کے بچے تو کیوں روتا ہے؟ کیا اس لیے کہ میں نے تیرا حق غصب کر لیا ہے؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا۔ ’’تمہارا قانون تمہیں یہ نکتہ سمجھاتا ہے کہ کھڈیاں پڑی رہنے دو، دھاگے کا جو کوٹا ملے اسے بیچ دو۔ مفت کی کھٹ کھٹ سے کیا فائدہ۔ لیکن یہ کھٹ کھٹ ہی جولا ہے کی جان ہے!‘‘

چھپی ہوئی کتاب کے فرمے تھے۔ جن کے چھوٹے بڑے لفافے بنائے جا رہے تھے۔ کبیر کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے وہ تین لفافے اٹھائے اور ان پر چھپی ہوئی تحریر پڑھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے لفافے بننے والے نے حیرت سے پوچھا۔ ’’میاں کبیر تم کیوں رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا۔ ’’ان کاغذوں پر بھگت سُورداس کی کویتا چھپی ہے۔ لفافے بنا کر اس کی بے عزتی نہ کرو۔‘‘

لفافے بنانے والے نے حیرت سے کہا۔ ’’جس کا نام سُورداس ہے۔ وہ بھگت کبھی نہیں ہو سکتا۔‘‘

کبیر نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ ایک اونچی عمارت پر لکشمی کا بہت خوبصورت بت نصب تھا۔ چند لوگوں نے جب اسے اپنا دفتر بنایا تو اس بُت کو ٹاٹ کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ دفتر کے آدمیوں نے اسے ڈھارس دی اور کہا۔ ’’ہمارے مذہب میں یہ بت جائز نہیں۔‘‘

کبیر نے ٹاٹ کے ٹکڑوں کی طرف اپنی نمناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’خوبصورت چیز کو بدصورت بنا دینا بھی کسی مذہب میں جائز نہیں۔‘‘

دفتر کے آدمی ہنسنے لگے۔ کبیر ڈھاریں مار مار کر رونے لگا۔ صف آرا فوجوں کے سامنے جرنیل نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ’’اناج کم ہے، کوئی پروا نہیں۔ فصلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ کوئی فکر نہیں۔ ہمارے سپاہی دشمن سے بھوکے ہی لڑیں گے۔‘‘

دو لاکھ فوجیوں نے زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ کبیر چلا چلا کے رونے لگا۔ جرنیل کو بہت غصہ آیا۔ چنانچہ وہ پکار اٹھا۔ ’’اے شخص، بتا سکتا ہے، تو کیوں روتا ہے؟‘‘

کبیر نے رونی آواز میں کہا۔ ’’اے میرے بہادر جرنیل۔ بھوک سے کون لڑے گا۔‘‘

دو لاکھ آدمیوں نے کبیر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ ’’بھائیو، داڑھی رکھو مونچھیں کترواؤ اور شرعی پاجامہ پہنو۔ بہنو، ایک چوٹی کرو، سرخی سفیدہ نہ لگاؤ، برقع پہنو!‘‘

بازار میں ایک آدمی چلا رہا تھا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ چلّانے والے آدمی نے اور زیادہ چلّا کر پوچھا۔ ’’کبیر تو کیوں رونے لگا؟‘‘

کبیر نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا۔ ’’تیرا بھائی ہے نہ تیری بہن، اور یہ جو تیری داڑھی ہے۔ اس میں تو نے وسمہ کیوں لگا رکھا ہے۔ کیا سفید اچھی نہیں تھی۔‘‘

چلّانے والے نے گالیاں دینی شروع کر دیں۔ کبیر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ ایک جگہ بحث ہو رہی تھی۔ ’’ادب برائے ادب ہے۔‘‘

’’محض بکواس ہے، ادب برائے زندگی ہے۔‘‘

’’وہ زمانہ لد گیا۔ ادب، پروپیگنڈے کا دوسرا نام ہے۔‘‘

’’تمہاری ایسی کی تیسی۔‘‘

’’تمہارے اسٹالن کی ایسی کی تیسی۔‘‘

’’تمہارے رجعت پسند اور فلاں فلاں بیماریوں کے مارے ہوئے فلابیئر اور بادلیئر کی ایسی کی تیسی‘‘

کبیر رونے لگا بحث کرنے والے بحث چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک نے اس سے پوچھا۔ ’’تمہارے تحت الشعور میں ضرور کوئی ایسی چیز تھی جسے ٹھیس پہنچی۔‘‘

دوسرے نے کہا۔ ’’یہ آنسو بورژوائی صدمے کا نتیجہ ہیں۔‘‘

کبیر اور زیادہ رونے لگا۔ بحث کرنے والوں نے تنگ آ کر بیک زبان سوال کیا۔ ’’میاں، یہ بتاؤ کہ تم روتے کیوں ہو؟‘‘

کبیر نے کہا۔ ’’میں اس لیے رویا تھا کہ آپ کی سمجھ میں آ جائے، ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی۔‘‘

بحث کرنے والے ہنسنے لگے۔ ایک نے کہا۔ ’’یہ پرولتاری مسخرہ ہے۔‘‘

دوسرے نے کہا۔ ’’نہیں یہ بورژوائی بہروپیا ہے۔‘‘

کبیر کی آنکھوں میں پھر آنسو آ گئے۔ حکم نافذ ہو گیا کہ شہر کی تمام کسبی عورتیں ایک مہینے کے اندر شادی کر لیں اور شریفانہ زندگی بسر کریں۔ کبیر ایک چکلے سے گزرا تو کسبیوں کے اڑے ہوئے چہرے دیکھ کر اس نے رونا شروع کر دیا۔ ایک مولوی نے اس سے پوچھا۔ ’’مولانا۔ آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا’’اخلاق کے معلّم ان کسبیوں کے شوہروں کے لیے کیا بندوبست کریں گے‘‘

مولوی کبیر کی بات نہ سمجھا اور ہنسنے لگا۔ کبیر کی آنکھیں اور زیادہ اشک بار ہو گئیں۔ دس بارہ ہزار کے مجمع میں ایک آدمی تقریر کر رہا تھا۔ ’’بھائیو۔ باز یافتہ عورتوں کا مسئلہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہمیں سب سے پہلے سوچنا ہے اگر ہم غافل رہے۔ تو یہ عورتیں قحبہ خانوں میں چلی جائیں گی۔ فاحشہ بن جائیں گی۔ سن رہے ہو، فاحشہ بن جائیں گی۔ تمہارا فرض ہے کہ تم ان کو اس خوفناک مستقبل سے بچاؤ اور اپنے گھروں میں ان کے لیے جگہ پیدا کرو۔ اپنے اپنے بھائی، یا اپنے بیٹے کی شادی کرنے سے پہلے تمہیں ان عورتوں کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ کبیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تقریر کرنے والا رُک گیا۔ کبیر کی طرف اشارہ کر کے اس نے بلند آواز میں حاضرین سے کہا۔ ’’دیکھو اس شخص کے دل پر کتنا اثر ہوا ہے۔‘‘

کبیر نے گلو گیر آواز میں کہا۔ ’’لفظوں کے بادشاہ، تمہاری تقریر نے میرے دل پر کچھ اثر نہیں کیا۔ میں نے جب سوچا کہ تم کسی مالدار عورت سے شادی کرنے کی خاطر ابھی تک کنوارے بیٹھے ہو تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘

ایک دکان پر یہ بورڈ لگا تھا۔ ’’جناح بوٹ ہاؤس۔‘‘

کبیر نے اسے دیکھا۔ تو زار و قطار رونے لگا۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کٹ مرا ہے۔ بورڈ پر آنکھیں جمی ہیں اور روئے جا رہا ہے۔ انھوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں۔ ’’پاگل ہے۔ پاگل ہے!‘‘

ملک کا سب سے بڑا قائد چل بسا تو چاروں طرف ماتم کی صفیں بچھ گئیں۔ اکثر لوگ بازوؤں پر سیاہ بلے باندھ کر پھرنے لگے۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سیاہ بلّے والوں نے اس سے پوچھا۔ ’’کیا دکھ پہنچا جو تم رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا۔ ’’یہ کالے رنگ کی چندیاں اگر جمع کر لی جائیں تو سینکڑوں کی سترپوشی کر سکتی ہیں۔‘‘

سیاہ بلّے والوں نے کبیر کو پیٹنا شروع کر دیا۔ تم کمیونسٹ ہو، ففتھ کالمسٹ ہو۔ پاکستان کے غدار ہو۔‘‘

کبیر ہنس پڑا۔ ’’لیکن دوستو، میرے بازو پر تو کسی رنگ کا بلّا نہیں۔‘‘

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل