FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

تقسیم کہانی

 

حصہ دوم: سعادت حسن منٹو کی کہانیاں

 

 

تحقیق اور انتخاب: عامر صدیقی

 

 

 

داؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ٹیٹوال کا کتا

 

 

 

کئی دن سے طرفین اپنے اپنے مورچے بر جمے ہوئے تھے۔ دن میں ادھر اور ادھر سے دس بارہ فائر کیے جاتے جن کی آواز کے ساتھ کوئی انسانی چیخ بلند نہیں ہوتی تھی۔ موسم بہت خوشگوار تھا۔ ہوا خود رو پھولوں کی مہک میں بسی ہوئی تھی۔ پہاڑیوں کی اونچائیوں اور ڈھلوانوں پر جنگ سے بے خبر قدرت اپنے مقررہ اشغال میں مصروف تھی۔ پرندے اسی طرح چہچہاتے تھے۔ پھول اسی طرح کھل رہے تھے اور شہد کی سست رو مکھیاں اسی پرانے ڈھنگ سے ان 1ا

جب پہاڑیوں میں کسی فائر کی آواز گونجتی تو چہچہاتے ہوئے پرندے چونک کر اڑنے لگتے، جیسے کسی کا ہاتھ ساز کے غلط تار سے جا ٹکرایا ہے۔ اور ان کی سماعت کو صدمہ پہچانے کا موجب ہوا ہے۔ ستمبر کا انجام اکتوبر کے آغاز سے بڑے گلابی انداز میں بغل گیر ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ موسمِ سرما اور گرما میں صلح صفائی ہو رہی ہے۔ نیلے نیلے آسمان پر دھنکی ہوئی روئی ایسے پتلے پتلے اور ہلکے ہلکے بادل یوں تیرتے تھے جیسے اپنے سفید بجروں میں تفریح کر رہے ہیں۔

پہاڑی مورچوں میں دونوں طرف کے سپاہی کئی دن سے بڑی کوفت محسوس کر رہے تھے کہ کوئی فیصلہ کن بال کیوں وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ اکتا کر ان کا جی چاہتا تھا کہ موقع بے موقع ایک دوسرے کو شعر سنائیں۔ کوئی نہ سنے تو ایسے ہی گنگناتے رہیں۔ پتھریلی زمین پر اوندھے یا سیدھے لیٹے رہتے تھے۔ اور جب حکم ملتا تھا ایک دو فائر کر دیتے تھے۔

دونوں کے مورچے بڑی محفوظ جگہ تھے۔ گولیاں پوری رفتار سے آتی تھیں اور پتھروں کی ڈھال کے ساتھ ٹکرا کر وہیں چت ہو جاتی تھیں۔ دونوں پہاڑیاں جن پر یہ مورچے تھے۔ قریب قریب ایک قد کی تھیں۔ درمیان میں چھوٹی سی سبز پوش وادی تھی جس کے سینے پر ایک نالہ موٹے سانپ کی طرح لوٹتا رہتا تھا۔

ہوائی جہازوں کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ توپیں ان کے پاس تھیں نہ ان کے پاس، اس لیے دونوں طرف بے خوف و خطر آگ جلائی جاتی تھیں۔ ان سے دھوئیں اٹھتے اور ہواؤں میں گھل مل جاتے۔ رات کو چونکہ بالکل خاموشی ہوتی تھی، اس لیے کبھی کبھی دونوں مورچوں کے سپاہیوں کو ایک دوسرے کے کسی بات پر لگائے ہوئے قہقہے سنائی دے جاتے تھے۔ کبھی کوئی لہر میں آ کے گانے لگتا تو اس کی آواز رات کے سناٹے کو جگا دیتی۔ ایک کے پیچھے ایک باز گشت صدائیں گونجتیں تو ایسا لگتا کہ پہاڑیاں آموختہ دہرا رہی ہیں۔

چائے کا دور ختم ہو چکا تھا۔ پتھروں کے چولھے میں چیڑ کے ہلکے پھلکے کوئلے قریب قریب سرد ہو چکے تھے۔ آسمان صاف تھا۔ موسم میں خنکی تھا۔ ہوا میں پھولوں کی مہک نہیں تھی جیسے رات کو انھوں نے اپنے عطر دان بند کر لیے تھے، البتہ چیڑ کے پسینے یعنی بروزے کی بو تھی مگر یہ بھی کچھ ایسی ناگوار نہیں تھی۔ سب کمبل اوڑھے سورہے تھے، مگر کچھ اس طرح کہ ہلکے سے اشارے پر اٹھ کر لڑنے مرنے کے لیے تیار ہو سکتے تھے۔ جمعدار ہرنام سنگھ خود پہرے پر تھا۔ اس کی راسکوپ گھڑی میں دو بجے تو اس نے گنڈا سنگھ کو جگایا اور پہرے پر متعین کر دیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ سو جائے، پر جب لیٹا تو آنکھوں سے نیند کو اتنا دور پایا جتنے کہ آسمان کے ستارے تھے۔ جمعدار ہرنام سنگھ چٹ لیتا ان کی طرف دیکھتا رہا۔۔ ۔۔ ۔۔ اور گنگنانے لگا۔

جُتیّ لینی آں ستاریاں والی۔۔ ۔۔ ۔۔ ستاریاں والی۔۔ ۔۔ ۔۔ وے ہر نام سنگھا

ہو یارا، بھاویں تیری مہیں وک جائے

اور ہرنام سنگھ کو آسمان ہر طرف ستاروں والے جوتے بکھرے نظر آئے۔ جو جھلمل جھلمل کر رہے تھے

جتی لے دؤں ستاریاں والی۔۔ ۔۔ ۔۔ ستاریاں والی۔۔ ۔۔ ۔۔ نی ہرنام کورے

ہونارے، بھاویں میری مَہیں وک جائے

یہ گا کر وہ مسکرایا، پھر یہ سوچ کر کہ نیند نہیں آئے گی، اس نے اٹھ کر سب کو جگا دیا۔ نار کے ذکر نے اس کے دماغ میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ اوٹ پٹانگ گفتگو ہو، جس سے اس بولی کی ہرنام کوری کیفیت پیدا ہو جائے۔ چنانچہ باتیں شروع ہوئیں مگر اُکھڑی اُکھڑی رہیں۔ بنتا سنگھ جو ان سب میں کم عمر اور خوش آواز تھا، ایک طرف ہٹ کر بیٹھ گیا۔ باقی اپنی بظاہر پر لطف باتیں کرتے اور جمائیاں لیتے رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد بنتا سنگھ نے ایک دم اپنی پرسوز آواز میں ہیر گانا شروع کر دی۔

ہیر آکھیا جو گیا جھوٹھ بولیں، کون روٹھڑے یار مناؤندائی

ایسا کوئی نہ ملیا میں ڈھونڈ تھکی جیہڑا گیاںنوں موڑ لیاؤندائی

اک باز تو کانگ نے کونج کھوئی دیکھاں چپ ہے کہ کر لاؤندائی

دکھاں والیاںنوں گلاں سُکھدیاں نی قصے جوڑ جہان سناؤندائی

پھر تھوڑے وقفے کے بعد اس نے ہیر کی ان باتوں کا جواب رانجھے کی زبان میں گایا

جیہڑے بازتوں کانگ نے کونج کھوئی صبر شکر کر بازفناہ ہویا

اینویں حال ہے اس فقیر دانی دھن مال گیا تے تباہ ہویا

کریں صدق تے کم معلوم ہووے تیرا رب رسول گواہ ہویا

دنیا چھڈ اداسیاں پہن لیاں سید وارثوں ہن وارث شاہ ہویا

بنتا سنگھ نے جس طرح ایک دم گانا شروع کیا تھا، اسی طرح وہ ایک دم خاموش ہو گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خاکستری پہاڑیوں نے بھی اداسیاں پہن لی ہیں۔ جمعدار ہرنام سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد کسی غیر مرئی چیز کو موٹی سی گالی دی اور لیٹ گیا۔ دفعتہً رات کے آخری پہر کی اس اداس فضا میں کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ سب چونک پڑے۔ آواز قریب سے آئی تھی۔ صوبیدار ہرنام سنگھ نے بیٹھ کر کہا۔ ’’یہ کہاں سے آ گیا بھونکو؟‘‘

کتا پھر بھونکا۔ اب اس کی آواز اور بھی نزدیک سے آئی تھی۔ چند لمحات کے بعد دور جھاڑیوں میں آہٹ ہوئی۔ بنتا سنگھ اٹھا اور اس کی طرف بڑھا۔ جب واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آوارہ سا کتا تھا جس کی دم ہل رہی تھی۔ وہ مسکرایا۔ ’’جمعدار صاحب۔ میں ہو کمر ادھر بولا تو کہنے لگا، میں ہوں چپڑ جُھن جُھن!‘‘

سب ہنسنے لگے۔ جمعدار ہرنام سنگھ نے کتے کو پچکارا۔ ’’ادھر آ چپڑ جُھن جُھن۔‘‘

کتا دم ہلاتا ہرنام سنگھ کے پاس چلا گیا اور یہ سمجھ کر کہ شاید کوئی کھانے کی چیز پھینکی گئی ہے، زمین کے پتھر سونگھنے لگا۔ جمعدار ہرنام سنگھ نے تھیلا کھول کر ایک بسکٹ نکالا اور اس کی طرف پھینکا۔ کتے نے اسے سونگھ کر منہ کھولا، لیکن ہرنام سنگھ نے لپک کر اسے اٹھا لیا۔ ’’ٹھہر۔ کہیں پاکستانی تو نہیں!‘‘

سب ہنسنے لگے۔ سردار بنتا سنگھ نے آگے بڑھ کر کتے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور جمعدار ہرنام سنگھ سے کہا۔ ’’نہیں جمعدار صاحب، چپڑ جُھن جُھن ہندوستانی ہے۔‘‘

جمعدار ہرنام سنگھ ہنسا اور کتے سے مخاطب ہوا۔ ’’نشانی دکھا اوئے؟‘‘

کتا دم ہلانے لگا۔

ہرنام سنگھ ذرا کھل کے ہنسا۔ ’’یہ کوئی نشانی نہیں۔ دم تو سارے کتے ہلاتے ہیں۔‘‘

بنتا سنگھ نے کتے کی لرزاں دم پکڑ لی۔ ’’شرنارتھی ہے بے چارہ!‘‘

جمعدار ہرنام سنگھ نے بسکٹ پھینکا جو کتے نے فوراً دبوچ لیا۔ ایک جوان نے اپنے بوٹ کی ایڑھی سے زمین کھودتے ہوئے کہا۔ ’’اب کتوں کو بھی یا تو ہندوستانی ہونا پڑے گا یا پاکستانی!‘‘

جمعدار نے اپنے تھیلے سے ایک بسکٹ نکالا اور پھینکا۔ ’’پاکستانیوں کی طرح پاکستانی کتے بھی گولی سے اڑا دیے جائیں گے!‘‘

ایک نے زور سے نعرہ بلند کیا۔ ’’ہندوستان زندہ باد!‘‘

کتا جو بسکٹ اٹھانے کے لیے آگے بڑھا تھا ڈر کے پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی دم ٹانگوں کے اندر گھس گئی۔ جمعدار ہرنام سنگھ ہنسا۔ ’’اپنے نعرے سے کیوں ڈرتا ہے چپڑ جُھن جُھن۔۔ ۔۔ ۔۔ کھا۔۔ ۔۔ ۔۔ لے ایک اور لے۔‘‘ اس نے تھیلے سے ایک اور بسکٹ نکال کر اسے دیا۔

باتوں باتوں میں صبح ہو گئی۔ سورج ابھی نکلنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ چار سو اجالا ہو گیا۔ جس طرح بٹن دبانے سے ایک دم بجلی کی روشنی ہوتی ہے۔ اسی طرح سورج کی شعاعیں دیکھتے ہی دیکھتے ہی اس پہاڑی علاقے میں پھیل گئی جس کا نام ٹیٹوال تھا۔

اس علاقے میں کافی دیر سے لڑائی جاری تھی۔ ایک ایک پہاڑی کے لیے درجنوں جوانوں کی جان جاتی تھی، پھر بھی قبضہ غیریقینی ہوتا تھا۔ آج یہ پہاڑی ان کے پاس ہے، کل دشمن کے پاس، پرسوں پھر ان کے قبضے میں اس سے دوسرے روز وہ پھر دوسروں کے پاس چلی جاتی تھی۔

صوبیدار ہرنام سنگھ نے دوربین لگا کر آس پاس کا جائزہ لیا۔ سامنے پہاڑی سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ چائے وغیرہ تیار ہو رہی ہے ادھر بھی ناشتے کی فکر ہو رہی تھی۔ آگ سلگائی جا رہی تھی۔ ادھر والوں کو بھی یقیناً اِدھر سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا۔

ناشتے پر سب جوانوں نے تھوڑا تھوڑا کتے کو دیا جس کو اس نے خوب پیٹ بھر کے کھایا۔ سب اس سے دلچسپی لے رہے تھے جیسے وہ اس کو اپنا دوست بنانا چاہتے ہیں۔ اس کے آنے سے کافی چہل پہل ہو گئی تھی۔ ہر ایک اس کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پچکار کر ’’چپڑ جُھن جُھن‘‘ کے نام سے پکارتا اور اسے پیار کرتا۔

شام کے قریب دوسری طرف پاکستانی مورچے میں صوبیدار ہمت خان اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو جن سے بے شمار کہانیاں وابستہ تھیں، مروڑے دے کر ٹیٹوال کے نقشے کا بغور مطالعہ کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی وائرلیس آپریٹر بیٹھا تھا اور صوبیدار ہمت خاں کے لیے پلاٹون کمانڈر سے ہدایات وصول کر رہا تھا۔ کچھ دور ایک پتھر سے ٹیک لگائے اور اپنی بندوق لیے بشیر ہولے ہولے گنگنا رہا تھا۔

چن کِتھے گوائی آئی رات وے۔۔ ۔۔ ۔۔ چن کتھے گوائی آئی

بشیر نے مزے میں آ کر ذرا اونچی آواز کی تو صوبیدار ہمت خان کی کڑک بلند ہوئی۔ ’’اوئے کہاں رہا ہے تو رات بھر؟‘‘

بشیر نے سوالیہ نظروں سے ہمت خان کو دیکھنا شروع کیا۔ جو بشیر کے بجائے کسی اور سے مخاطب تھا۔ ’’بتا اوئے۔‘‘

بشیر نے دیکھا۔ کچھ فاصلے پر وہ آوارہ کتا بیٹھا تھا جو کچھ دن ہوئے ان کے مورچے میں بن بلائے مہمان کی طرح آیا تھا اور وہیں ٹک گیا تھا۔ بشیر مسکرایا اور کتے سے مخاطب ہو کر بولا۔

’’چن کتھے گوائی آئی رات وے۔۔ ۔۔ ۔۔ چن کتھے گوائی آئی؟

کتنے نے زور سے دم ہلانا شروع کر دی جس سے پتھریلی زمین پر جھاڑوسی پھرنے لگی۔

صوبیدار ہمت خاں نے ایک کنکر اٹھا کر کتے کی طرف پھینکا۔ ’’سالے کو دم ہلانے کے سوا اور کچھ نہیں آتا!‘‘

بشیر نے ایک دم کتے کی طرف غور سے دیکھا۔ ’’اس کی گردن میں کیا ہے؟‘‘یہ کہہ کروہ اٹھا، مگر اس سے پہلے ایک اور جوان نے کتے کو پکڑ کر اس کی گردن میں بندھی ہوئی رسی اتاری۔ اس میں گتے کا ایک ٹکڑا پرویا ہوا تھا۔ جس پر کچھ لکھا تھا۔ صوبیدار ہمت خاں نے یہ ٹکڑا لیا اور اپنے جوانوں سے پوچھا۔ ’’لنڈے ہیں۔ جانتا ہے تم میں سے کوئی پڑھنا۔‘‘

بشیر نے آگے بڑھ کر گتے کا ٹکڑا لیا۔ ’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ کچھ کچھ پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ اور اس نے بڑی مشکل سے حرف جوڑ جوڑ کر یہ پڑھا۔ ’’چپ۔۔ ۔۔ ۔۔ چپڑ۔۔ ۔۔ ۔۔ جُھن جُھن۔۔ ۔۔ ۔۔ چپڑ جُھن جُھن۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ کیا ہوا؟‘‘

صوبیدار ہمت خاں نے اپنی بڑی بڑی تاریخی مونچھوں کو زبردست مروڑا دیا۔ ’’کوڈ ورڈ ہو گا کوئی۔‘‘ پھر اس نے بشیر سے پوچھا۔ ’’کچھ اور لکھا ہے بشیرے۔‘‘

بشیر نے جو حروف شناسی میں مشغول تھا۔ جواب دیا۔ ’’جی ہاں۔۔ یہ۔۔ ۔۔ ۔ ہند۔۔ ۔۔ ۔۔ ہند۔۔ ۔۔ ۔۔ ہندوستانی۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ ہندوستانی کتا ہے!‘‘

صوبیدار ہمت خاں نے سوچنا شروع کیا۔ ’’مطلب کیا ہوا اس کا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا پڑھا تھا تم نے۔۔ ۔۔ ۔۔ چپڑ؟؟‘‘

بشیر نے جواب دیا۔ ’’چپڑ جُھن جُھن!‘‘

ایک جوان نے بڑے عاقلانہ انداز میں کہا۔ ’’جو بات ہے اسی میں ہے۔‘‘

صوبیدار ہمت خان کو یہ بات معقول معلوم ہوئی۔ ’’ہاں کچھ ایسا لگتا ہے۔‘‘

بشیر نے گتے پر لکھی ہوئی عبارت پڑھی۔ ’’چپڑ جھن جھن۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ ہندوستانی کتا ہے!‘‘

صوبیدار ہمت خان نے وائرلیس سیٹ لیا اور کانوں پر ہیڈ فون جما کر پلاٹوں کمانڈر سے خود اس کتے کے بارے میں بات چیت کی۔ وہ کیسے آیا تھا۔ کس طرح ان کے پاس کئی دن پڑا۔ پھر ایکا ایکی غائب ہو گیا اور رات بھر غائب رہا۔ اب آیا ہے تو اس کے گلے میں رسی نظر آئی جس میں گتے کا ایک ٹکرا تھا۔ اس پر جو عبارت لکھی تھی وہ اس نے تین چار مرتبہ دہرا کر پلاٹون کمانڈر کو سنائی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔

بشیر الگ کتے کے پاس بیٹھ کر اسے کبھی پچکار کر، کبھی ڈرا دھمکا کر پوچھتا رہا کہ وہ رات کہاں غائب رہا تھا اور اس کے گلے میں وہ رسی اور گتے کا ٹکڑا کس نے باندھا تھا مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ وہ جو سوال کرتا، اس کے جواب میں کتا اپنی دم ہلا دیتا۔ آخر غصے میں آ کر بشیر نے اسے پکڑ لیا اور زور سے جھٹکا دیا۔ کتا تکلیف کے باعث چاؤں چاؤں کرنے لگا۔

وائرلیس سے فارغ ہو کر صوبیدار ہمت خان نے کچھ دیر نقشے کا بغور مطالعہ کیا پھر فیصلہ کن انداز میں اٹھا اور سگریٹ کی ڈبیا کا ڈھکنا کھول کر بشیر کو دیا۔ ’’بشیرے، لکھ اس پر گورمکھی میں۔۔ ۔۔ ۔۔ ان کیڑے مکوڑوں میں۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

بشیر نے سگرٹ کی ڈبیا کا گتا لیا اور پوچھا۔ ’’کیا لکھوں صوبیدار صاحب۔‘‘

صوبیدار ہمت خاں نے مونچھوں کو مروڑے دے کر سوچنا شروع کیا۔ ’’لکھ دے۔۔ ۔۔ ۔۔ بس لکھ دے!‘‘ یہ کہہ اس نے جیب سے پنسل نکال کر بشیر کودی، ’’کیا لکھنا چاہیے؟‘‘

بشیر پنسل کے منہ کو لب لگا کر سوچنے لگا!پھر ایک دم سوالیہ انداز میں بولا ’’سپڑ سُن سُن؟۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ لیکن فوراً ہی مطمئن ہو کر اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا ’’ٹھیک ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ چپڑ جُھن جُھن کا جواب سپڑ سُن سُن ہی ہو سکتا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا یاد رکھیں گے اپنی ماں کے سکھڑے۔‘‘

بشیر نے پنسل سگرٹ کی ڈبیا پر جمائی۔ ’’سپر سن سن؟‘‘

’’سولہ آنے۔۔ ۔۔ ۔۔ لکھ۔۔ ۔۔ ۔۔ سب۔۔ ۔۔ ۔۔ سپر۔۔ ۔۔ ۔۔ سن سن!‘‘ یہ کہہ کر صوبیدار ہمت خاں نے زور کا قہقہہ لگایا۔ ’’اور آگے لکھ۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ پاکستانی کتا ہے!‘‘

صوبیدار ہمت خاں نے کتا بشیر کے ہاتھ سے لیا۔ پنسل سے اس میں ایک طرف چھید کیا اور رسی میں پرو کر کتے کی طرف بڑھا۔ ’’لے جا، یہ اپنی اولاد کے پاس!‘‘

یہ سن کر سب خوب ہنسے۔ صوبیدار ہمت خاں نے کتے کے گلے میں رسی باندھ دی۔ وہ اس دوران میں اپنی دم ہلاتا رہا۔ اس کے بعد صوبیدار نے اسے کچھ کھانے کو دیا اور بڑے ناصحانہ انداز میں کہا۔ ’’دیکھو دوست غداری مت کرنا۔۔ ۔۔ ۔۔ یاد رکھو غدار کی سزا موت ہوتی ہے!‘‘

کتا دم ہلاتا رہا۔ جب وہ اچھی طرح کھا چکا تو صوبیدار ہمت خاں نے رسی سے پکڑ کر اس کا رخ پہاڑی کی اکلوتی پگڈنڈی کی طرف پھیرا اور کہا۔ ’’جاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ ہمارا خط دشمنوں تک پہنچا دو۔۔ ۔۔ ۔۔ مگر دیکھوواپس آ جانا۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ تمہارے افسر کا حکم ہے سمجھے؟‘‘

کتے نے اپنی دم ہلائی اور آہستہ آہستہ پگڈنڈی پر جو بل کھاتی ہوئے نیچے پہاڑی کے دامن میں جاتی تھی چلنے لگا۔ صوبیدار ہمت خاں نے اپنی بندوق اٹھائی اور ہوا میں ایک فائر کیا۔

فائر اور اس کی باز گشت دوسری طرف ہندوستانیوں کے مورچے میں سنی گئی۔ اس کا مطلب اُن کی سمجھ میں نہ آیا۔ جمعدار ہرنام سنگھ معلوم نہیں کس بات پر چڑچڑا ہو رہا تھا، یہ آواز سن کر اور بھی چڑچڑا ہو گیا۔ اس نے فائر کا حکم دے دیا۔ آدھے گھنٹے تک چنانچہ دونوں مورچوں سے گولیوں کی بیکار بارش ہوتی رہی۔ جب اس شغل سے اکتا گیا تو جمعدار ہرنام سنگھ نے فائر بند کرا دیا اور داڑھی میں کنگھا کرنا شروع کر دیا۔ اس سے فارغ ہو کر اس نے جالی کے اندرسارے بال بڑے سلیقے سے جمائے اور بنتا سنگھ سے پوچھا۔ ’’اوئے بنتاں سیاں! چپڑ جُھن جُھن کہاں گیا؟‘‘

بنتا سنگھ نے چیڑ کی خشک لکڑی سے بروزہ اپنے ناخنوں سے جدا کرتے ہوئے کہا۔ ’’کتے کو گھی ہضم نہیں ہوا؟‘‘

بنتا سنگھ اس محاورے کا مطلب نہ سمجھا۔ ’’ہم نے تو اسے گھی کی کوئی چیز نہیں کھلائی تھی۔‘‘

یہ سن کر جمعدار ہرنام سنگھ بڑے زور سے ہنسا۔ ’’اوئے ان پڑھ۔ تیرے ساتھ تو بات کرنا پچانویں کا گھاٹا ہے!‘‘

اتنے میں وہ سپاہی جو پہرے پر تھا اور دور بین لگائے اِدھر سے اُدھر دیکھ رہا تھا۔ ایک دم چلایا۔ ’’وہ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ آ رہا ہے!‘‘

سب چونک پڑے۔ جمعدار ہرنام سنگھ نے پوچھا۔ ’’کون؟‘‘

پہرے کے سپاہی نے کہا۔ ’’کیا نام تھا اس کا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ چپڑ جُھن جُھن!‘‘

’’چپڑ جُھن جُھن؟‘‘ یہ کہہ کر جمعدار ہرنام سنگھ اٹھا۔ ’’کیا کر رہا ہے۔‘‘

پہرے کے سپاہی نے جواب دیا۔ ’’آ رہا ہے۔‘‘

جمعدار ہرنام سنگھ نے دور بین اس کے ہاتھ میں لی اور دیکھنا شروع کیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ’’ادھر ہی آ رہا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ رسی بندھی ہوئی ہے گلے میں۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ تو اُدھرسے آ رہا ہے دشمن کے مورچے سے۔‘‘یہ کہہ کر اس نے کتے کی ماں کو بہت بڑی گالی دی۔ اس کے بعد اس نے بندوق اٹھائی اور شست باندھ کر فائر کیا۔ نشانہ چُوک گیا۔ گولی کتے سے کچھ فاصلے پر پتھروں کی کرچیں اڑاتی زمین میں دفن ہو گئی۔ وہ سہم کر رُک گیا۔

دوسرے مورچے میں صوبیدار ہمت خاں نے دور بین میں سے دیکھا کہ کتا پگڈنڈی پر کھڑا ہے۔ ایک اور فائر ہوا تو وہ دم دبا کر الٹی طرف بھاگا۔ صوبیدار ہمت خاں کے مورچے کی طرف۔ وہ زور سے پکارا۔ ’’بہادر ڈرا نہیں کرتے۔۔ ۔۔ ۔۔ چل واپس‘‘ اور اس نے ڈرانے کے لیے ایک فائر کیا۔ کتا رک گیا۔ ادھر سے جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق چلائی۔ گولی کتے کے کان سے سنساتی ہوئی گزر گئی۔ اس نے اچھل کر زور زور سے دونوں کان پھڑپھڑانے شروع کیے۔ ادھر سے صوبیدار ہمت خاں نے دوسرا فائر کیا جو اس کے اگلے پنجوں کے پاس پتھروں میں پیوست ہو گیا۔ بوکھلا کر کبھی وہ ادھر دوڑا، کبھی ادھر۔ اس کی اس بوکھلاہٹ سے ہمت خاں اور ہرنام دونوں مسرور ہوئے اور خوب قہقہے لگاتے رہے۔ کتے نے جمعدار ہرنام سنگھ کے مورچے کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ اس نے یہ دیکھا تو بڑے تاؤ میں آ کر موٹی سی گالی دی اور اچھی طرح شِست باندھ کر فائر کیا۔ گولی کتے کی ٹانگ میں لگی۔ ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ اس نے اپنا رخ بدلا۔ لنگڑا لنگڑا کر صوبیدار ہمت خاں کے مورچے کی طرف دوڑنے لگا تو اُدھر سے بھی فائر ہوا، مگر وہ صرف ڈرانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ہمت خاں فائر کرنے ہی چلایا۔ ’’بہادر پروا نہیں کیا کرتے زخموں کی۔۔ ۔۔ ۔۔ کھیل جاؤ اپنی جان پر۔۔ ۔۔ ۔۔ جاؤ۔۔ ۔۔ ۔۔ جاؤ!‘‘

کتا فائر سے گھبرا کر مڑا۔ ایک ٹانگ اس کی بالکل بیکار ہو گئی تھی۔ باقی تین ٹانگوں کی مدد سے اس نے خود کو چند قدم دوسری جانب گھسیٹا کہ جمعدار ہرنام سنگھ نے نشانہ تاک کر گولی چلائی جس نے اسے وہیں ڈھیر کر دیا۔

صوبیدار ہمت خاں نے افسوس کے ساتھ کہا۔ ’’چچ چچ۔۔ ۔۔ ۔۔ شہید ہو گیا بے چارہ!‘‘

جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق کی گرم گرم نالی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا۔ ’’وہی موت مرا جو کتے کی ہوتی ہے!‘‘

***

 

 

 

 

ٹوبہ ٹیک سنگھ

 

 

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے۔

معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہو گیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دیے گئے تھے۔ جو باقی تھے، ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو، سکھ  جا چکے تھے اسی لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو، سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے۔

ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مے گوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔ ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔

اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔ ’’سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا رہا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘

دوسرا مسکرایا۔ ’’مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ہندوستانی بڑے شیطانی، اکڑ اکڑ پھرتے ہیں۔‘‘

ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔

بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر، پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگوؤں سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائد اعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا، اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔۔ ۔۔ ۔۔ اگرہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے!

اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصے پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے!

ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان۔ اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا جھاڑو دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا۔ ’’میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔۔ ۔۔ ۔۔ میں اس درخت پر ہی رہوں گا۔‘‘

بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائیں گے۔

ایک ایم۔ ایس۔ سی پاس ریڈیو انجنیئر میں جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ، باغ کی ایک خاص روش پر، سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا، یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دیے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔

چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سو مرتبہ نہایا کرتا تھا، یک لخت یہ عادت ترک کر دی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا۔

لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا، مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دیے۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔

جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے، اس کو ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔

یورپین وارڈ میں اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہو گی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔

ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ’’اوپڑ دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال اف دی لالٹین۔‘‘ دیکھتا تھا رات کو۔ پہریداروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔

ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں، مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا تھا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔‘‘

لیکن بعد میں ’’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ کی جگہ ’’اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لی لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے، خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے، کیا پتہ ہے کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہو جائیں۔

اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا، اس لیے داڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے، جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے، وہ اس کے متعلق جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔

اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔

مہینے میں ایک بار ملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔

اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا، نکلوا کے پہنتا اور یوں سج کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ’’اوپر دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔

اس کی ایک لڑکی تھی جوہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔

پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔

اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لیے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ تو وہ اسے یقیناً بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں، جہاں اس کی زمینیں ہیں۔

پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا ’’وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘

بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دیدے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو، مگر وہ بہت مصروف تھا اس لیے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا: ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف وا ہے گورو جی دا خالصہ اینڈ وا ہے گورو جی کی فتح۔۔ ۔۔ ۔۔ جو بولے سو نہال، ست سری اکال۔‘‘

اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمان کے خدا ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔

تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا، ملاقات کے لیے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا، مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ ’’یہ تم سے ملنے آیا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ تمہارا دوست فضل دین ہے۔‘‘

بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا‘‘ میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔۔ ۔۔ ۔۔ تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھ سے جتنی مدد ہو سکی، میں نے کی۔۔ ۔۔ ۔۔ تمہاری بیٹی روپ کور۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

وہ کچھ کہتے کہتے روک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔ ’’بیٹی روپ کور!‘‘

فضل دین نے رک رک کر کہا ’’ہاں۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی۔‘‘

بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا ’’انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا۔۔ ۔۔ ۔۔ اور بہن امرت کور سے بھی۔۔ ۔۔ ۔۔ بھائی بلبیر سے کہنا فضل دین راضی خوشی ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے، ان میں سے ایک نے کٹا دیا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور دوسری کے کٹی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ اور۔۔ ۔۔ ۔۔ میرے لائق جو خدمت ہو کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور یہ تمہارے لیے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں۔‘‘

بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟‘‘

فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ’’کہاں ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ وہیں ہے جہاں تھا۔‘‘

بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ ’’پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘

’’ہندوستان میں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہیں نہیں، پاکستان میں۔‘‘ فضل دین بوکھلا سا گیا۔

بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی در فٹے منہ۔‘‘

تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔

سخت سردیاں تھیں، جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو، سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کار روائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔

پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضا مند ہوئے تھے، ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا کیوں کہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے، جو ننگے تھے، ان کو کپڑے پہنائے جاتے وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔

پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی، اس لے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر یہاں پھینکا جا رہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے۔ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا کیوں کہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرہ سن کر طیش آ گیا تھا۔

جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘

متعلقہ افسر ہنسا۔ ’’پاکستان میں۔‘‘

یہ سن کر بشن سنگھ اچھی کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔

پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا: ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘ اور زور زور سے چلانے لگا۔ ’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان۔‘‘

اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا، مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں بلا سکے گی۔

آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی۔ اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔

سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔۔ ۔۔ ۔۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا!

***

 

 

 

 

 

ٹھنڈا گوشت

 

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا۔ کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کر دی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔

کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا، ہاتھ میں کرپان لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی میں گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا، اور وہ دونوں ٹانگیں پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا۔

کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کولہے، تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھرپور کچھ بہت ہی زیادہ اوپر کو اٹھا ہواسینہ، تیز آنکھیں۔ بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار، ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑ لے کی عورت ہے۔

ایشر سنگھ گوسرنیوڑھائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا۔ سرپر اس کی کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہو رہی تھی۔ اس کے ہاتھ جو کرپان تھامے ہوئے تھے۔ تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے، گمڑی اس کے قد و قامت اور خد و خال سے پتہ چلتا تھا کہ کلونت کور جیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔

چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی سے گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی۔ لیکن تیز تیز آنکھوں کو بچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی۔ ’’ایشر سیاں۔‘‘

ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کور کی طرف دیکھا، مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔

کلونت کور چلائی۔ ’’ایشر سیاں۔‘‘ لیکن فوراً ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ پر سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی۔ ’’کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘

ایشر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔ ’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘

کلونت کور بھنا گئی۔ ’’یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے؟‘‘

ایشر سنگھ نے کرپان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی طرف دیکھا۔ جواب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’جانی کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘

ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا، اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کو ٹٹولنا شروع کیا۔ ’’کلونت!‘‘

آواز میں درد تھا۔ کلونت کور ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آ گئی۔ ’’ہاں جانی‘‘ کہہ کر وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔

ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کی طرف سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا، اس کے گوشت بھرے کولھے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔ ’’یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔‘‘

جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ ’’ایشر سیاں، کہاں رہے تم اتنے دن؟‘‘

’’بُرے کی ماں کے گھر۔‘‘ ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتاً دونوں ہاتھوں سے اس کے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ ’’قسم واہگورو کی بڑی جاندار عورت ہے۔‘‘

کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیے اور پوچھا۔ ’’تمہیں میری قسم بتاؤ، کہاں رہے؟۔۔ ۔۔ ۔۔ شہر گئے تھے؟‘‘

ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔

’’نہیں۔‘‘

کلونت کور چڑ گئی۔ ’’نہیں تم ضرور شہر گئے تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ اور تم نے بہت سا روپیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو۔‘‘

’’وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے۔‘‘

کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئی، لیکن فوراً ہی بھڑک اٹھی۔

’’لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا، اس رات تمہیں کیا ہوا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے، مجھے تم نے وہ تمام گہنے پنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری بھپیاں لے رہے تھے، پر جانے ایک دم تمہیں کیا ہوا، اٹھے اور کپڑے پہن کر باہر نکل گئے۔‘‘

ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا۔ ’’دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ایشر سیاں، قسم واہگورو کی، ضرور کچھ دال میں کالا ہے؟‘‘

’’تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں۔‘‘

ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا، بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ’’ایشر سیاں، کیا بات ہے۔ تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟‘‘

ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا، جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنو مند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ اسے بھنبھوڑنا شروع کر دیا۔ ’’جانی میں وہی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ گھٹ گھٹ پا جپھیاں، تیری نکلے ہڈیاں دی گرمی۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور نے مزاحمت نہ کی، لیکن وہ شکایت کرتی رہی۔ ’’تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا؟‘‘

’’برے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔‘‘

’’بتاؤ گے نہیں؟‘‘

’’کوئی بات ہو تو بتاؤں۔‘‘

’’مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولو۔‘‘

ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیے۔ مونچھوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھسے تو اسے چھینک آ گئی۔ دونوں ہنسنے لگے۔

ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔ ’’آ جاؤ، ایک بازی تاش کی ہو جائے!‘‘

کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں پھوٹ آئیں، ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ ’’چل دفان ہو۔‘‘

ایشر سنگھ نے اس کے بھرے ہوئے کولہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ ’’نہ کر ایشر سیاں، میرے درد ہوتا ہے۔‘‘

ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کے پھینک دیا اور کہا۔ ’’لو، پھر ہو جائے تُرپ چال۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا، ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیض کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں، اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا، پھراس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے اس کے بازو پر چٹکی بھرتے ہوئے کہا۔ ’’کلونت، قسم واہگورو کی، بڑی کراری عورت ہے تو۔‘‘

کلونت کور اپنے بازو پر ابھرتے ہوئے لال دھبے کو دیکھنے لگی۔ ’’بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں۔‘‘

ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا۔ ’’ہونے دے آج ظلم؟‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کیے۔ کلونت کور کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لووں کو کاٹا، ابھرے ہوئے سینے کو بھنبھوڑا، ابھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح ابلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گر اور جتنے داؤ اسے یاد تھے۔ سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیے۔ پر کوئی کارگر نہ ہوا۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تار تن کر خود بخود بج رہے تھے۔ غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آ کر کہا۔ ’’ایشر سیاں، کافی پھینٹ چکا ہے، اب پتا پھینک!‘‘

یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سرد پسینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کور نے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی۔ مگر ناکام رہی، اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہوتا رہا تھا لیکن جب کلونت کور کے منتظر بہ عمل اعضا کو سخت نا امیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی، اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر اور نتھنے پھلا کر، بپھرے ہوئے لہجے میں کہا ’’ایشر سیاں، وہ کون حرامزادی ہے، جس کے پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے۔ جس نے تجھے نچوڑ ڈالا ہے؟‘‘

ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹا ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔

کلونت کور غصے سے ابلنے لگی۔ ’’میں پوچھتی ہوں؟ کون ہے چڈو۔۔ ۔۔ ۔۔ کون ہے وہ الفتی۔۔ ۔۔ ۔۔ کون ہے وہ چورپتا؟‘‘

ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ ’’کوئی بھی نہیں کلونت، کوئی بھی نہیں۔‘‘

کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا ایشر سیاں، میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔۔ ۔۔ ۔۔ کھا واہگورو جی کی قسم۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘

ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا، مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی۔ ’’قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ تکا بوٹی کر دوں گی، اگر تو نے جھوٹ بولا۔۔ ۔۔ ۔۔ لے اب کھا واہگورو جی کی قسم۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں؟‘‘

ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا، کلونت کور بالکل دوانی ہو گئی۔ لپک کر کونے میں سے کرپان اٹھائی، میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ پر وار کر دیا۔

آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کو موٹی موٹی گالیاں دیتی رہیں۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔ ’’جانے دے اب کلونت! جانے دے۔‘‘

آواز میں بلا کا درد تھا، کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔

خون، ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا، اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گِلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔ ’’میری جان! تم نے بہت جلدی کی۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔‘‘

کلونت کور کا حسد پھر بھڑکا۔ ’’مگر وہ کون ہے تمہاری ماں؟‘‘

لہو، ایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا، جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ گئی۔

’’اور میں۔۔ ۔۔ ۔۔ اور میں۔۔ ۔۔ ۔۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ اسی کرپان سے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی۔ ’’میں پوچھتی ہوں، کون ہے وہ حرامزادی؟‘‘

ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں، ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔ ’’گالی نہ دے اس بھڑوی کو۔‘‘

کلونت چلائی۔ ’’میں پوچھتی ہوں، وہ ہے کون؟‘‘

ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی۔ ’’بتاتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اس پر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ ’’انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔‘‘

کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی۔ ’’ایشر سیاں، تو مطلب کی بات کر۔‘‘

ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔۔ ۔۔ ۔۔ ’’مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ گلا چرا ہے ماں یا میرا۔۔ ۔۔ ۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔‘‘

اور جب وہ بات بنانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے۔

کلونت! میری جان۔۔ ۔۔ ۔۔ میں تمہیں نہیں بتا سکتا، میرے ساتھ کیا ہوا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ گہنے پاتے اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمہیں دے دیے۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی۔‘‘

ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی۔ اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔ ’’کون سی بات؟‘‘

ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔ جس مکان پر۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے دھاوا بولا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ اس میں سات۔۔ ۔۔ ۔۔ اس میں سات آدمی تھے۔۔ ۔۔ ۔۔ چھ میں نے۔۔ ۔۔ ۔۔ قتل کر دیے۔۔ ۔۔ ۔۔ اسی کرپان سے جس سے تو نے مجھے۔۔ ۔۔ ۔۔ چھوڑ اسے۔۔ ۔۔ ۔۔ سن۔۔ ۔۔ ۔۔ ایک لڑکی تھی بہت سندر۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کو اٹھا میں اپنے ساتھ لے آیا۔‘‘

کلونت کور، خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہو اڑایا۔ ’’کلونت جانی، میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا۔ ’’نہیں، ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر روز مزے لیتا ہے، یہ میوہ بھی بھی چکھ دیکھ۔‘‘

کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔ ’’ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔!‘‘

اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ راستے میں۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا کہہ رہا تھا میں؟۔۔ ۔۔ ۔۔ ہاں راستے میں۔۔ ۔۔ ۔۔ نہر کی پٹڑی کے پاس، تھوہڑ کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔۔ ۔۔ ۔۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں ’’۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ کہتے کہتے ایشر سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔

کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے۔ ’’میں نے۔۔ ۔۔ ۔۔ میں نے پتا پھینکا۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن۔‘‘

اس کی آواز ڈوب گئی۔

کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کیجسم یک طرف دیکھا، جس کی بوٹی بوٹی تھرک رہی تھی۔ ’’وہ۔۔ ۔۔ ۔۔ وہ مری ہوئی تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ لاش تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ بالکل ٹھنڈا گوشت۔۔ ۔۔ ۔۔ جانی مجھے اپنا ہاتھ دے۔۔ ۔۔ ۔۔‘‘

کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا، جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔

***

 

 

 

 

کھول دو

 

 

امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ اِدھر اُدھر بھٹک گئے۔

صبح دس بجے۔۔ ۔۔ ۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہو گئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔

گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ، آگ۔۔ ۔۔ ۔۔ بھاگم بھاگ۔۔ ۔ اسٹیشن۔۔ ۔ گولیاں۔۔ ۔۔ ۔۔ رات اور سکینہ۔۔ ۔۔ ۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔

پورے تین گھنٹے وہ ’’سکینہ سکینہ‘‘ پکارتا کیمپ میں خاک چھانتا رہا۔ مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتا نہ ملا۔ چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی تھی۔ کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی ماں۔ کوئی بیوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ اور گیا اور حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا۔ جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔

سکینہ کی ماں مر چکی تھی۔ اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا۔ لیکن سکینہ کہاں تھی جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا ’’مجھے چھوڑو اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘

سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا ’’ابا جی۔۔ ۔۔ ۔۔ چھوڑیئے۔‘‘ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔ ۔۔ ۔۔ سکینہ کا وہی پٹہ تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ لیکن سکینہ کہاں تھی؟

سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟۔۔ ۔۔ ۔۔ راستہ میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہو گیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کر لے گئے؟

سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا۔ مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔

چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔ ’’گورا رنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔ ۔۔ ۔۔ عمر سترہ برس کے قریب ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ آنکھیں بڑی بڑی۔۔ ۔۔ ۔۔ بال سیاہ، دہنے گال پر موٹا سا تل۔۔ ۔۔ ۔۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لاؤ۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘

رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہو گی۔

آٹھوں نوجوان نے کوشش کی۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر وہ امرتسر گئے۔ کئی عورتوں، کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انھوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا۔ دس روز گزر گئے مگر انھیں سکینہ کہیں نہ ملی۔

ایک روز وہ اسی خدمت کے لیے لاری پر امرتسر جا رہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انھیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ اری کی آواز سن کروہ بد کی اور بھاگنا شروع کر دیا۔ رضا کاروں نے موٹر رکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انھوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ دہنے گال پر موٹا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا ’’گھبراؤ نہیں۔۔ ۔۔ ۔۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟‘‘

لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہو گیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسا دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اور اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی سکینہ ہے۔

آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا۔ دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔ ایک نے اپنا کوٹ اتار کر اسے دے دیا۔ کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کر رہی تھی۔ اور بار بار بانہوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔

کئی دن گزر گئے۔۔ ۔۔ ۔۔ سراج الدین کو سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا۔ جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند دنوں ہی میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔

ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا۔ ’’بیٹا، میری سکینہ کا پتہ چلا؟‘‘

سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ’’چل جائے گا، چل جائے گا۔‘‘ اور لاری چلا دی۔

سراج الدین نے ایک بار پھر ان نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہو گیا۔

شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اس کے پاس ہی کچھ گڑبڑسی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لا رہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں۔ سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتاً روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا۔ ’’سکینہ!‘‘

ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘

سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا۔ ’’جی میں۔۔ ۔۔ ۔۔ جی میں۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کا باپ ہوں!‘‘

ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا ’’کھڑکی کھول دو۔‘‘

سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔ ’’زندہ ہے۔۔ ۔۔ ۔۔ میری بیٹی زندہ ہے‘‘۔۔ ۔۔ ۔۔ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہو گیا۔

***

 

 

 

 

 

موذیل

 

 

ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔ چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لیے اڈوانی چیمبرز کے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حدِ نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں ترلوچن کے لیے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی مکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کر دیتی تھی۔ صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا۔ رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تر و تازگی چوس کر خوش ہو رہا تھا۔ جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا۔ لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کر رہا تھا۔ کسی حد تک ٹھنڈا ہو گیا تھا وہ اب صاف طور پر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔ محلے میں تھا۔ جو کٹّر مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہو گیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔ غالباً اڑتالیس گھنٹوں کا۔ اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک قسم کے مسلمان۔ اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آ رہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ۔ مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جا سکتا تھا۔ کرپال کی ماں اندھی تھی۔ باپ مفلوج۔ بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیو لالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لیے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کر دیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ نرنجن، یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو۔ ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمہارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے۔ اول تو یہاں سے اٹھ جاؤ، اور میرے یہاں چلے آؤ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیا کرتا ہے۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرا دیا۔

’’تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔ میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امرتسر یا لاہور نہیں بمبئے ہے۔ بمبئے۔ تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔ بارہ برس سے۔‘‘

جانے نرنجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے۔ اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود زائل ہو جاتا ہے۔ جیسے اس کے پاس چھو منتر ہے۔ یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آ سکتی۔ مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔ محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے اخباروں میں یہ بھی پڑھنے کے لیے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں باپ قتل ہو چکے ہیں۔ اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ مر جاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔ وہاں دیولالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو وہ بھی اچھا تھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہو جاتا۔ خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا کھنگر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تو وہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔ صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔ ترلوچن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کر رہا تھا۔ مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔ کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کنگھر سنگھ کی بہن تھی، مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گٹھاؤ، وہ مردانہ پن نہیں تھا جو دیہات کی عام سِکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنھیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح، اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔ ترلوچن اسی کے گاؤں کا تھا۔ مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھر وہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اسکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہو گئی۔ اس دوران میں وہ کئی مرتبہ۔ لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا، شاید اس لیے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔ کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما۔ سنگاپور۔ ہانگ کانگ۔ پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی۔ جو بُری نہیں تھی۔ خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دیے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔ کرپال کور کا سوچتے سوچتے وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی۔ اس سے ترلوچن کو، گوڈے گوڈے عشق ہو گیا تھا۔ ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے اے پر فلیٹ لیا، اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی جو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے۔ بے حد پریشان۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لباس سفید چغہ پہنے تھے۔ جس کے کھلے گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں تین چوتھائی کے قریب نظر آ رہی تھیں۔ بانہیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔ ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔ ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ میں ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔ جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی۔ کھڑاؤں پہنے تھی۔ ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔ ترلوچن بوکھلا گیا۔ جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا۔ موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آ رہی۔ جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چُغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی۔ بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں اور۔ جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔ ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔ ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں سے اس معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرا دی۔

’’یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے۔‘‘

اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کی ساتھ والی انگلی پھنساتی کوڑی ڈور سے باہر چلی گئی۔ ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو۔ لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی۔ اس سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی۔ سارا سارا دن اس کے ساتھ جوہو پر نہاتی تھی۔ لیکن جب وہ بانہوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی۔ کچھ اس طور پر اسے گُھرکتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔ ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوتی تھی۔ لاہور میں، برما میں، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لیے خرید لیا کرتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئی پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الھڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں

’’گوڈے گوڈے‘‘

دھنس جائے گا۔ وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی۔ اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہو جاتی تھی۔ مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کر دیتی۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لیے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔ ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔ ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لیے پر تکلف کھانے منگوائے ہیں، مگراس کو کوئی اپنا پرانا دوست نظر آ گیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ ترلوچن بعض اوقات بھنا جاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی کا جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہو سکتا۔ جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی۔

’’تم سکھ ہو۔ یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔‘‘

ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔

’’کون سی نازک باتیں۔ تمہارے پرانے یاروں کی؟‘‘

موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کر دیتی اور کہتی۔

’’یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو۔ ہاں وہ میرے یار ہیں۔ اور مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔‘‘

ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا۔

’’اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی‘‘

موذیل زور کا قہقہہ لگاتی۔

’’تم سچ مچ سِکھ ہو۔ ایڈیٹ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔ اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کر لو۔ میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔‘‘

ترلوچن نرم ہو جاتا۔ در اصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہش مند تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی۔ معمولی معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا۔ مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ ا س کو موذیل پسند تھی۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا۔

’’گوڈے گوڈے‘‘

اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔ دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا۔ لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی۔ اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر پوچھا۔

’’موذیل۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔‘‘

موذیل اس کے بازوؤں سے جدا ہو گئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں جھپکا کر کہا۔

’’میں سکھ سے محبت نہیں کر سکتی۔‘‘

ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

’’موذیل! تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔ یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔‘‘

موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔

’’تم شیو کرالو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔ تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔ تم خوبصورت ہو۔‘‘

ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کر دیے۔ موذیل نے ایک دم ’’پھوں پھوں‘‘ کی اور اس کی گرفت سے علیحدہ ہو گئی۔

’’میں صبح اپنے دانتوں پر برش کر چکی ہوں۔ تم تکلیف نہ کرو۔‘‘

ترلوچن چلایا۔

’’موذیل۔‘‘

موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آ گئی تھیں۔

’’خدا کی قسم۔ تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔ ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلوسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کر سکتے ہیں۔ بس تھوڑا سا پٹرول لگانے کی ضرورت ہو گی۔‘‘

ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موذیل بھی آ گئی اور اس نے ترلوچن کی داڑھی کھولنی شروع کر دی۔ اس میں جو پنیں لگی تھیں۔ وہ اس نے ایک ایک کر کے اپنے دانتوں تلے دبا لیں۔ ترلوچن خوبصورت تھا۔ جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کو کھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اور فرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کر دے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔ جب داڑھی پوری کھل گئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔

’’یہ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘

دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی۔

’’تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔ میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلو سکرٹ صاف ہو سکے گا۔ ترلوچن۔ تم یہ مجھے دے دو۔ میں انھیں گوندھ کر اپنے لیے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گی۔‘‘

اب ترلوچن کی داڑھی میں چنگاریاں بھڑکنے لگی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا۔

’’میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔ دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔ میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا۔ مگر صرف اس لیے کرتا رہا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔ کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔‘‘

موذیل نے ترلوچن کی داڑھی سے کھیلنا بند کر دیا۔

’’مجھے معلوم ہے۔‘‘

’’پھر۔‘‘

ترلوچن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کیے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔

’’تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’مجھے معلوم ہے۔‘‘

بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی۔

’’میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔‘‘

ترلوچن اچھل پڑا۔

’’سچ‘‘

موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لحظے کے لیے چمکے۔

’’ہاں!‘‘

ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔

’’تو۔ تو کب؟‘‘

موذیل الگ ہٹ گئی۔

’’جب۔ تم اپنے یہ بال کٹوا دو گے!‘‘

ترلوچن اس وقت ’جو ہو سو ہو‘ بنا تھا۔ اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔

’’میں کل ہی کٹوا دوں گا۔‘‘

موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی۔

’’تم بکواس کرتے ہوئے ترلوچن۔ تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔‘‘

اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔

’’تم دیکھ لو گی۔‘‘

’’دیکھ لوں گی۔‘‘

اور وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور ’’پھوں پھوں‘‘ کرتی باہر نکل گئی۔ ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔ وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے، اس لیے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوا دیے اور داڑھی بھی منڈوا دی۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔ جب سارا معاملہ صاف ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہاجس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لیے غور کرنے پر مجبور ہو جاتی۔ ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی۔ اس نے ٹیریس پر تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔ بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے، تھوڑی دیر کے لیے آ جائے۔ موذیل آئی۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر کے دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کے لیے ٹھٹکی۔ پھر ’’مائی ڈارلنگ ترلوچن‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کر دیا۔ اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔ موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کر دیا۔ ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس سے کہا۔

’’نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔‘‘

موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا۔

’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔ ایسے ہی چلتا ہے۔‘‘

ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آ گیا۔ جب وہ اور موذیل دونوں ٹکرا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہو گئے تھے۔ مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا۔

’’شادی کل ہو گی!‘‘

’’ضرور۔‘‘

موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔ طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی۔ اس لیے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کار روائی تھی۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں۔ دوسرے روز انھیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہو جانا تھا۔ موذیل، فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔ ترلوچن وقت مقر رہ پر وہاں پہنچا۔ ڈیڑھ گھٹنہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے، دیولالی چل گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لیے وہیں رہے گی۔ ترلوچن پر کیا گزری؟۔ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بھُول گیا۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہو گئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے تھے اور جوچڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو ایک گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کدکڑے لگاتی غائب ہو جاتی تھی۔ وہ بے حیا تھی۔ بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا، پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لیے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ وہ دیو لالی میں اتنے عرصے سے کیا کر رہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے۔ جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہو گی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔ وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے۔ ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے، مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مارماٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انھیں خرید دے۔ ترلوچن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے۔ کس آب و گل سے بنی ہے۔ وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی۔ اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا۔ مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی۔

’’تم سکھ ہو۔ مجھے تم سے نفرت ہے!‘‘

ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی۔ برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں تھا۔ وہ کبھی دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی۔ دو ٹوک فیصلہ کر دیتی۔ انڈر ویئر اس کو ناپسند تھے۔ اس لیے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔ ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا وہ چڑ جاتی تھی۔

’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔ اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کر لیا کرو۔ تم مجھے یہ بتاؤ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہو سکتا۔ یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہو سکتیں۔ مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔ تم سکھ ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلکی سا انڈر ویئر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔ یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح مذہب میں شامل ہے۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔ اتنے بڑے ہو گئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈر ویئر میں چھپا بیٹھا ہے!‘‘

ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا۔ مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرا دیا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔ پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کر دیا۔ کرپا کور۔ ایک پاکیزہ لڑکی۔ جس سے اس کو محبت ہوئی تھی۔ خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہو چکی تھیں۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا۔ مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے۔ اس چالی کے مسلمان ہی اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کور، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کر سکتے تھے۔ ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہو گئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس داڑھی تیزی سے بڑھی تھی۔ مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔ فورٹ میں ایک باربر تھا وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔ اٹھنے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہو سکتا ہے؟۔ بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جو سب کی سب گھر میں کھڑاؤں پہنتی تھیں۔ آواز قریب آتی گئی۔ یکلخت اس نے دوسری ٹیکنی کے پاس موذیل کو دیکھا، جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا لمبا کرتا پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔ اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔ ترلوچن، پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا۔

’’یہ ایکا ایکی کہاں سے نمودار ہو گئی۔ اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟‘‘

موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔ اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔ ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے۔ وہ زور سے کھانسا موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا۔ کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی داڑھی دیکھنے لگی۔

’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن؟‘‘

داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔ موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔

’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیو بلوسکرٹ صاف کر سکے۔ مگر وہ تو وہیں دیو لالی میں رہ گئی ہے۔‘‘

ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی۔

’’بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟‘‘

ترلوچن اپنی پچھلی بیوقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تاہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایک صرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔ ترلوچن نے اس سے پوچھا۔

’’بیمار رہی ہو؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔

’’پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟‘‘

’’میں ڈائٹنگ کر رہی ہوں۔‘‘

موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔

’’تم گویا کہ۔ اب پھر۔ نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔‘‘

ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔

’’ہاں!‘‘

’’مبارک ہو۔‘‘

موذیل نے ایک کھڑاؤں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے لگی۔

’’کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کی؟‘‘

ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔

’’ہاں!‘‘

’’مبارک ہو۔ اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’یہ بہت بری بات ہے۔‘‘

موذیل کھڑاؤں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی۔

’’ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘

ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اٹھ کر اس کی داڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا۔

’’کیا اسی لڑکی نے تمہیں یہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

ترلوچن بڑی الجھن محسوس کر رہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی داڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے

’’نہیں‘‘

کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔ موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گاؤں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کر دیے ہیں۔ مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔

’’تم اب یہ داڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم سے شادی کر لوں گی۔‘‘

ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طینت کنواری لڑکی سے محبت کر رہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔ موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے۔ بد صورت ہے۔ بے وفا ہے۔ بے مروت ہے مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔ اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔

’’موذیل! میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ میرے گاؤں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔ جو مذہب کی پابند ہے۔ اسی کے لیے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘

موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی، لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑاؤں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔

’’وہ مذہب کی پابند ہے تو تمہیں کیسے قبول کرے گی؟۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟‘‘

’’اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔ داڑھی میں نے تمہارے دیو لالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کر دی تھی۔ محض انتقامی طور پر۔ اسے کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے‘‘

ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔ موذیل نے لمبا کرتہ اٹھا کر اپنی گوری دبیز ران کھجلانی شروع کی۔

’’یہ بہت اچھا ہے۔ مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔ دیکھو، کس زور سے کاٹا ہے۔‘‘

ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہو گئی۔

’’کب ہو رہی ہے تمہاری شادی؟‘‘

’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘

یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہو گیا۔ چند لمحات تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکر کا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔

’’ترلوچن۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘

ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔ خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنا دیا۔ موذیل ہنسی۔

’’تم اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ جاؤ اس کو لے آؤ۔ ایسی کیا مشکل ہے؟‘‘

’’مشکل!۔ موذیل، تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔ کسی بھی معاملے کی نزاکت۔ تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے، جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔‘‘

موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔

’’افسوس بی ڈیمڈ۔ سلی ایڈیٹ۔ تم یہ سوچو کہ تمہاری اُس۔ کیا نام ہے اس کا۔ اس محلے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔ تم بیٹھ گئے ہو تعلقات کا رونا رونے۔ تمہارے میرے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔ اور بہت ڈرپوک۔ مجھے نڈر مرد چاہیے۔ لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔ چلو آؤ، تمہاری اس کور کو لے آئیں!‘‘

اس نے ترلوچن کا بازو پکڑ لیا۔ ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا۔

’’کہاں سے؟‘‘

’’وہیں سے، جہاں وہ ہے۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔ چلو آؤ میرے ساتھ۔‘‘

’’مگر سنو تو۔ کرفیو ہے۔‘‘

’’موذیل کے لیے نہیں۔ چلو آؤ۔‘‘

وہ ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرح کھلتا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی داڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔ ترلوچن نے پوچھا۔

’’کیا بات ہے؟‘‘

موذیل نے کہا۔

’’یہ تمہاری داڑھی۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔ اتنی بڑی نہیں ہے۔ ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھو۔‘‘

’’ننگے سر!‘‘

ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔

’’میں ننگے سر نہیں جاؤں گا۔‘‘

موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔

’’کیوں؟‘‘

ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی۔

’’تم سمجھتی نہیں ہو۔ میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔‘‘

’’کیوں ٹھیک نہیں۔‘‘

’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘

موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں دروازے کی دہلیز پر ماری۔

’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔ گدھے کہیں کے۔ اس کی جان کا سوال ہے۔ کیا نام ہے، تمہاری اس کور کا، جس سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘

ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔

’’موذیل، وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔ اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔‘‘

موذیل چڑ گئی۔

’’اوہ، تمہاری محبت بی ڈیمڈ۔ میں پوچھتی ہوں۔ کیا سارے سکھ تمہارے طرح کے بے وقوف ہوتے ہیں۔ اس کی جان کو خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔ اور شاید وہ اپنا انڈرویئر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔‘‘

ترلوچن نے کہا۔

’’وہ تو میں ہر وقت پہنے ہوتا ہوں۔‘‘

’’بہت اچھا کرتے ہو۔ مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی میاں بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اور بڑے بڑے موالی۔ تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کر دیے جاؤ گے۔‘‘

ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔

’’مجھے اس کی پروا نہیں۔ اگر میں تمہارے ساتھ وہاں جاؤں گا تو پگڑی پہن کر جاؤں گا۔ میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا!‘‘

موذیل جھنجھلا گئی۔ اس زور سے اس نے پیچ و تاپ کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بھڑ بھڑ گئیں۔

’’گدھے۔ تمہاری محبت ہی کہاں رہے گی۔ جب تم نہ ہو گے۔ تمہاری وہ۔ کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔ جب وہ بھی نہ رہے گی۔ اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔ تم سکھ۔ خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو!‘‘

ترلوچن بھنا گیا۔

’’بکواس نہ کرو!‘‘

موذیل زور سے ہنسی۔ مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانہیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جھول کر کہا۔

’’ڈارلنگ چلو، جیسے تمہاری مرضی۔ جاؤ پگڑی پہن آؤ۔ میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا۔

’’تم کپڑے نہیں پہنو گی!‘‘

موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔

’’نہیں۔ چلے گا اسی طرح۔‘‘

یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اتر گئی۔ ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑاؤں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کر کے نیچے اتر گیا۔ باہر فٹ پاتھ پر موذیل اپنی تکڑی ٹانگیں چوڑی کیے سگرٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں۔ جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔ ترلوچن نے غصے میں کہا۔

’’تم بہت ذلیل ہو۔‘‘

موذیل مسکرائی۔

’’یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ اس سے پہلے اور کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔‘‘

پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔

’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے تمہارے کیس ہیں‘‘

بازار بالکل سنسان تھا۔ ایک صرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بھی بہت دھیرے دھیرے۔ جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی۔ عام طور پر اس وقت ٹریمیں چلنی شروع ہو جاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہو جاتی تھی۔ اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔‘‘

موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑاؤں کھٹ کھٹ کر رہی تھی۔ یہ آواز، اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑاؤں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑاؤں اتار دو اور ننگے پاؤں چلو۔ مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔ اس لیے خاموش رہا۔ ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتا کھڑکتا تو اس کے دل دھک سے رہ جاتا تھا۔ مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جا رہی تھی۔ سگرٹ کا دھواں اڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدمی کر رہا ہے۔ چوک میں پہنچے تو پولیس میں کی آواز گرجی۔

’’اے۔ کدھر جا رہا ہے۔‘‘

ترلوچن سہم گیا۔ موذیل آگے بڑھی اور پولیس میں کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔

’’اوہ، تم۔ ہم کو پہچانا نہیں تم نے۔ موذیل۔‘‘

پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔

’’ادھر اس باجو۔ ہمارا بہن رہتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔ ڈاکٹر لے کر جا رہا ہے۔‘‘

سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور ایک سگرٹ نکال کر اس کو دیا۔

’’لو پیو۔‘‘

سپاہی نے سگرٹ لے لیا۔ موذیل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگرٹ نکالا اور اس سے کہا

’’ہیر از لائٹ!‘‘

سپاہی نے سگرٹ کا کش لیا۔ موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔ جس میں سے گزر کر انھیں۔ محلے جانا تھا۔ ترلوچن خاموش تھا، مگر وہ محسوس کر رہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کر کے ایک عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس کر رہی ہے۔ خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ جب جوہو پر اس کے ساتھ جاتی تھی تو اس کے لیے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔ سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دور تک نکل جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ وہ کہیں ڈوب نہ جائے۔ جب واپس آتی تو اس کا جسم سیپوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے۔ ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہو جائے۔ موذیل رک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اس نے سمجھانے کے انداز میں اسے کہا۔

’’ترلوچن ڈیئر۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔ سچ کہتی ہوں، یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔‘‘

ترلوچن خاموش رہا۔ جب وہ گلی طے کر کے دوسری گلی میں پہنچے۔ جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی، جس میں کرپال کور رہتی تھی تو موذیل چلتے چلتے ایک دم رک گئی۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مار واڑی کی دکان لوٹی جا رہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے اس نے معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا۔

’’کوئی بات نہیں۔ چلو آؤ۔‘‘

دونوں چلنے لگے۔ ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اٹھائے چلا آ رہا تھا۔ ترلوچن سے ٹکرا گیا۔ پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا۔ کہ موذیل آ گئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چور ہے اس نے زور سے اس کو آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔

’’اے کیا کرتا ہے۔ اپنے بھائی کو مارتا ہے۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔‘‘

پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔

’’کریم۔ اٹھاؤ، یہ پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔‘‘

اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنکھوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا۔

’’عیش کر سالی۔ عیش کر‘‘

پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا، وہ جا۔ ترلوچن بڑبڑایا۔

’’کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے!‘‘

موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔

’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔ سب چلتا ہے۔ آؤ۔‘‘

اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کر دیے۔ یہ گلی طے کر کے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے۔ جہاں کرپال کور رہتی تھی۔ موذیل نے پوچھا۔

’’کس گلی میں جانا ہے؟‘‘

ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔

’’تیسری گلی میں۔ نکڑ والی بلڈنگ!‘‘

موذیل نے اس طرف چلنا شروع کر دیا۔ یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔ ایک آدمی بڑے سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انھوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئی۔

’’موذیل ٹھٹک گئی تھی۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہو جائے۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔

’’ترلوچن ڈیئر۔ یہ پگڑی اتار دو!‘‘

ترلوچن نے جواب دیا۔

’’میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا!‘‘

موذیل جھنجھلا گئی۔

’’تمہاری مرضی۔ لیکن تم دیکھتے نہیں، سامنے کیا ہو رہا ہے‘‘

سامنے جو کچھ ہو رہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ صاف گڑ بڑ ہو رہی تھی اور بڑی پراسرار قسم کی۔ دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی۔ موذیل اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ غالباً وہ سوچ رہی تھی۔ جب یہ دونوں آدمی گلی کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہو گئے تو اس نے ترلوچن سے کہا۔

’’دیکھو، ایسا کرو۔ میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔ تم میرے پیچھے آنا۔ بڑی تیزی سے، جیسے تم میرا پیچھا کر رہے ہو۔ سمجھے۔ مگر یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔‘‘

موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار نہ کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑاؤں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی۔ ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ چند لمحوں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔ سیڑھیوں کے پاس۔ ترلوچن ہانپ رہا تھا۔ مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے ترلوچن سے پوچھا۔

’’کون سا مالا؟‘‘

ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔

’’دوسرا۔‘‘

’’چلو۔‘‘

یہ کہہ وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ترلوچن اس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہو رہا تھا۔ دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔ ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی۔

’’مہنگا سنگھ جی۔ مہنگا سنگھ جی!‘‘

اندر سے مہین آواز آئی۔

’’کون؟‘‘

’’ترلوچن!‘‘

دروازہ دھیرے سے کھلا۔ ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا۔ وہ لپک کر آئی دونوں اندر داخل ہوئے۔ موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا۔ جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا۔ موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرنے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔ ترلوچن سرخ ہو گیا۔ موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا۔

’’ڈرو نہیں، ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔‘‘

کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہو گئی۔ ترلوچن نے اس سے کہا۔

’’سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہو جائیں۔ اور اپنی ماتا جی سے بھی۔ لیکن جلدی کرو۔‘‘

اتنے میں اوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ چلا رہا ہے اور دھینگا مشتی ہو رہی ہے۔ کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔

’’اسے پکڑ لیا انھوں نے!‘‘

ترلوچن نے پوچھا۔

’’کسے؟‘‘

کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑا اور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔

’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا۔ تم یہ کپڑے اتارو۔‘‘

کرپال کور ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آنا فانا اس کی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانہوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور سخت وحشت زدہ ہو گئی۔ ترلوچن نے منہ دوسری طرف منہ موڑ لیا۔ موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا اتارا اور اس کو پہنا دیا۔ خود وہ ننگ دھڑنگ تھی۔ جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا ازار بند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اتار کر، ترلوچن سے کہنے لگی۔

’’جاؤ، اسے لے جاؤ۔ لیکن ٹھہرو۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دیے اور اس سے کہا۔

’’جاؤ۔ جلدی نکل جاؤ۔‘‘

ترلوچن نے اس سے کہا۔

’’آؤ۔‘‘

مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانہوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔

’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘

موذیل کے لہجے میں چڑچڑا پن تھا۔ ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔

’’اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔‘‘

’’جہنم میں جائیں وہ۔ تم اسے لے جاؤ۔‘‘

’’اور تم؟‘‘

’’میں آ جاؤں گی۔‘‘

ایک دم اوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے۔ دروازے کے پاس آ کر انھوں نے اسے کوٹنا شروع کر دیا جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔ کرپال کور کی اندھی ماں اور اس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔ موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف سا جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا۔

’’سنو۔ اب صرف ایک ہی ترکیب سمجھ میں آتی ہے۔ میں دروازہ کھولتی ہوں۔‘‘

کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔

’’دروازہ۔‘‘

موذیل، ترلوچن سے مخاطب رہی۔

’’میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔ تم میرے پیچھے بھاگنا۔ میں اوپر چڑھ جاؤں گی۔ تم بھی اوپر چلے آنا۔ یہ جو لوگ جو دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔‘‘

ترلوچن نے پھر پوچھا۔

’’پھر؟‘‘

موذیل نے کہا۔

’’یہ تمہاری۔ کیا نام ہے اس کا۔ موقعہ پا کر نکل جائے۔ اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔‘‘

ترلوچن نے جلدی جلدی کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔ موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔ سب بوکھلا گئے۔ اٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اس کے پیچھے بھاگا۔ سب ایک طرف ہٹ گئے۔ موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ کھڑاؤں اس کے پیروں میں تھی۔ وہ جو لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کر رہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے۔ موذیل کا پاؤں پھسلا۔ اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی، لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آ رہی۔ پتھریلے فرش پر۔ ترلوچن ایک دم نیچے اترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ کانوں کے رستہ بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہو گئے۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔ سب خاموش تھے اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے۔ جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔ ترلوچن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی۔

’’موذیل۔ موذیل۔‘‘

موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہو رہی تھیں اور مسکرائی۔ ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھرمسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منہ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔

’’جاؤ، دیکھو۔ میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔ میرا مطلب ہے وہ۔‘‘

ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصے میں کہا۔

’’تم سچ مچ سکھ ہو۔ جاؤ دیکھ کر آؤ۔‘‘

ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا

’’یہ میاں بھائی ہے۔ لیکن بہت دادا قسم کا۔ میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔‘‘

ترلوچن واپس آ گیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتا دیا کہ کرپال کور  جا چکی ہے۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا

’’اوہ ڈیم اٹ۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔

’’آل رائٹ ڈارلنگ۔ بائی بائی۔‘‘

ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا، مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔ موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔

’’لے جاؤ اس کو۔ اپنے اس مذہب کو۔‘‘

اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔

***

 

 

 

 

 

وہ لڑکی

 

 

سوا چار بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی۔ اس نے بالکنی میں آ کر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اس کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی قربت چاہتا ہے، حالانکہ وہ اس موسم میں کسی کی قربت کی بھی خواہش نہ کر سکتا تھا۔ موسم بہت واہیات قسم کا تھا۔ سوا چار بج چکے تھے۔ سورج غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ لیکن موسم نہایت ذلیل تھا۔ پسینہ تھا کہ چمٹا جا رہا تھا۔ خدا معلوم کہاں سے مساموں کے ذریعے اتنا پانی نکل رہا تھا۔ سریندر نے کئی مرتبہ غور کیا تھا کہ پانی اس نے زیادہ سے زیادہ چار گھنٹوں میں صرف ایک گلاس پیا ہو گا مگر پسینہ بلا مبالغہ چار گلاس نکلا ہو گا۔ آخر یہ کہاں سے آیا! جب اس نے لڑکی کو درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے دیکھا تو اس نے سوچا کہ دنیا میں سب سے خوش یہی ہے جسے دھوپ کی پرواہ ہے نہ موسم کی۔ سریندر پسینے میں لت پت تھا۔ اس کی بنیان اس کے جسم کے ساتھ بہت بری طرح چمٹی ہوئی تھی۔ وہ کچھ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے اس کے بدن پر کسی نے موبل آئل مل دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود جب اس نے درخت کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کو دیکھا تو اس کے جسم میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اس کے پسینے کے ساتھ گھل مل جائے، اس کے مساموں کے اندر داخل ہو جائے۔ آسمان خاکستری تھا۔ کوئی بھی وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ بادل ہیں یا محض گرد و غبار۔ بہر حال، اس گرد و غبار یا بادلوں کے باوجود دھوپ کی جھلک موجود تھی اور وہ لڑکی بڑے اطمینان سے پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی سستا رہی تھی۔ سریندر نے اب کی غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کا رنگ گہرا سانولا مگر نقش بہت تیکھے کہ وہ سریندر کی آنکھوں میں کئی مرتبہ چبھے۔ مزدور پیشہ لڑکی معلوم ہوتی تھی۔ یہ بھی ممکن تھا کہ بھکارن ہو۔ لیکن سریندر اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکا تھا۔ اصل میں وہ یہ فیصلہ کر رہا تھا کہ آیا اس لڑکی کو اشارہ کرنا چاہیے یا نہیں۔ گھر میں وہ بالکل اکیلا تھا۔ اس کی بہن مری میں تھی۔ ماں بھی اس کے ساتھ تھی۔ باپ مر چکا تھا۔ ایک بھائی، اس سے چھوٹا، وہ بورڈنگ میں رہتا تھا۔ سریندر کی عمر ستائس اٹھائیس سال کے قریب تھی۔ اس سے قبل وہ اپنی دو ادھیڑ عمر کی نوکرانیوں سے دو تین مرتبہ سلسلہ لڑا چکا تھا۔ معلوم نہیں کیوں، لیکن موسم کی خرابی کے باوجود سریندر کے دل میں یہ خواہش ہو رہی تھی کہ وہ پیپل کی چھاؤں میں بیٹھی ہوئی لڑکی کے پاس جائے یا اسے اوپر ہی سے اشارہ کرے تاکہ وہ اس کے پاس آ جائے، اور وہ دونوں ایک دوسرے کے پسینے میں غوطہ لگائیں اور کسی نامعلوم جزیرے میں پہنچ جائیں۔ سریندر نے بالکنی کے کٹہرے کے پاس کھڑے ہو کر زور سے کھنکارا مگر لڑکی متوجہ نہ ہوئی۔ سریندر نے جب کئی مرتبہ ایسا کیا اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو اس نے آواز دی۔

’’ارے بھئی۔ ذرا ادھر دیکھو!‘‘

مگر لڑکی نے پھر بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔ وہ اپنی پنڈلی کھجلاتی رہی۔ سریندر کو بہت الجھن ہوئی۔ اگر لڑکی کی بجائے کوئی کتا ہوتا تو وہ یقیناً اس کی آواز سن کر اس کی طرف دیکھتا۔ اگر اسے اس کی یہ آواز ناپسند ہوتی تو بھونکتا مگر اس لڑکی نے جیسے اس کی آواز سنی ہی نہیں تھی۔ اگر سنی تھی تو ان سنی کر دی تھی۔ سریندر دل ہی دل میں بہت خفیف ہو رہا تھا۔ اس نے ایک بار بلند آواز میں اس لڑکی کو پکارا۔

’’اے لڑکی!‘‘

لڑکی نے پھر بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔ جھنجھلا کر اس نے اپنا ململ کا کرتا پہنا اور نیچے اترا۔ جب اس لڑکی کے پاس پہنچا تو وہ اسی طرح اپنی ننگی پنڈلی کھجلا رہی تھی۔ سریندر اس کے پاس کھڑا ہو گیا۔ لڑکی نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور شلوار نیچی کر کے اپنی پنڈلی ڈھانپ لی۔ سریندر نے اس سے پوچھا۔

’’تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘

لڑکی نے جواب دیا۔

’’بیٹھی ہوں۔‘‘

’’کیوں بیٹھی ہو؟‘‘

لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’لو، اب کھڑی ہو گئی ہوں!‘‘

سریندر بوکھلا گیا۔

’’اس سے کیا ہوتا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ تم اتنی دیر سے یہاں بیٹھی کیا کر رہی تھیں؟‘‘

لڑکی کا چہرہ اور زیادہ سنولا ہو گیا۔

’’تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

سریندر نے تھوڑی دیر اپنے دل کو ٹٹولا۔

’’میں کیا چاہتا ہوں۔ میں کچھ نہیں چاہتا۔ میں گھر میں اکیلا ہوں۔ اگر تم میرے ساتھ چلو تو بڑی مہربانی ہو گی۔‘‘

لڑکی کے گہرے سانولے ہونٹوں پر عجیب و غریب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’مہربانی۔ کا ہے کی مہربانی۔ چلو!‘‘

اور دونوں چل دیے۔ جب اوپر پہنچے تو لڑکی صوفے کی بجائے فرش پر بیٹھ گئی اور اپنی پنڈلی کھجلانے لگی۔ سریندر اس کے پاس کھڑا سوچتا رہا کہ اب اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ خوبصورت نہیں تھی۔ لیکن اس میں وہ تمام قوسیں اور وہ تمام خطوط موجود تھے جو ایک جوان لڑکی میں موجود ہوتے ہیں۔ اس کے کپڑے میلے تھے، لیکن اس کے باوجود اس کا مضبوط جسم اس کے باہر جھانک رہا تھا۔ سریندر نے اس سے کہا۔

’’یہاں کیوں بیٹھی ہو۔ ادھر صوفے پر بیٹھ جاؤ!‘‘

لڑکی نے جواب میں صرف اس قدر کہا۔

’’نہیں!‘‘

سریندر اس کے پاس فرش پر بیٹھ گیا۔

’’تمہاری مرضی۔ لو اب یہ بتاؤ کہ تم کون ہو اور درخت کے نیچے تم اتنی دیر سے کیوں بیٹھی تھیں؟‘‘

’’میں کون ہوں اور درخت کے نیچے میں کیوں بیٹھی تھی۔ اس سے تمہیں کوئی مطلب نہیں۔‘‘

لڑکی نہ یہ کہہ کر اپنی شلوار کا پائنچہ نیچے کر لیا اور پنڈلی کھجلانا بند کر دی۔ سریندر اس وقت اس لڑکی کی جوانی کے متعلق سوچ رہا تھا۔ وہ اس کا اور ان دو ادھیڑ عمر کی نوکرانیوں کا مقابلہ کر رہا تھا جن سے اس کا دو تین مرتبہ سلسلہ ہو چکا تھا۔ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کے مقابلے میں ڈھیلی ڈھالی تھیں، جیسے برسوں کی استعمال کی ہوئی سائیکلیں۔ لیکن اس کا ہر پرزہ اپنی جگہ پر کسا ہوا تھا۔ سریندر نے ان ادھیڑ عمر کی نوکرانیوں سے اپنی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ خود اس کو کھینچ کر اپنی کوٹھڑیوں میں لے جاتی تھیں۔ مگر سریندر اب محسوس کرتا تھا کہ یہ سلسلہ اس کو اب خود کرنا پڑے گا، حالانکہ اس کی تکنیک سے قطعات ناواقف تھا۔ بہر حال۔ اس نے اپنے ایک بازو کو تیار کیا اور اسے لڑکی کی کمر میں حمائل کر دیا۔ لڑکی نے ایک زور کا جھٹکا دیا۔

’’یہ کیا کر رہے ہو تم؟‘‘

سریندر ایک بار پھر بوکھلا گیا۔

’’میں۔ میں۔ کچھ بھی نہیں۔‘‘

لڑکی کے گہرے سانولے ہونٹوں پر عجیب قسم کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’آرام سے بیٹھے رہو!‘‘

سریندر آرام سے بیٹھ گیا۔ مگر اس کے سینے میں ہلچل اور زیادہ بڑھ گئی۔ چنانچہ اس نے ہمت سے کام لے کر لڑکی کو پکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔ لڑکی نے بہت ہاتھ پاؤں مارے، مگر سریندر کی گرفت مضبوط تھی۔ وہ فرش پر چت گر پڑی۔ سریندر اس کے اوپر تھا۔ اس نے دھڑا دھڑ اس کے گہرے سانولے ہونٹ چومنے شروع کر دیے۔ لڑکی بے بس تھی۔ سریندر کا بوجھ اتنا تھا کہ وہ اسے اٹھا کر پھینک نہیں سکتی تھی۔ بوجہ مجبوری وہ اس کے گیلے بوسے برداشت کرتی رہی۔ سریندر نے سمجھا کہ وہ رام ہو گئی ہے، چنانچہ اس نے مزید دراز دستی شروع کی۔ اس کی قمیض کے اندر ہاتھ ڈالا۔ وہ خاموش رہی۔ اس نے ہاتھ پاؤں چلانے بند کر دیے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے مدافعت کو اب فضول سمجھا ہے۔ سریندر کو اب یقین ہو گیا کہ میدان اسی کے ہاتھ رہے گا، چنانچہ اس نے دراز دستی چھوڑ دی اور اس سے کہا۔

’’چلو آؤ، پلنگ پر لیٹتے ہیں۔‘‘

لڑکی اٹھی اور اس کے ساتھ چل دی۔ دونوں پلنگ پر لیٹ گئے۔ ساتھ ہی تپائی پر ایک طشتری میں چند مالٹے اور ایک تیز چھری پڑی تھی۔ لڑکی نے ایک مالٹا اٹھایا اور سریندر سے پوچھا۔

’’میں کھالوں؟‘‘

’’ہاں ہاں۔ ایک نہیں سب کھا لو!‘‘

سریندر نے چھری اٹھائی اور مالٹا چھیلنے لگا، مگر لڑکی نے اس سے دونوں چیزیں لے لیں۔

’’میں خود چھیلوں گی!‘‘

اس نے بڑی نفاست سے مالٹا چھیلا۔ اس کے چھلکے اتارے۔ پھانکوں پر سے سفید سفید جھلی ہٹائی۔ پھر پھانکیں علیحدہ کیں۔ ایک پھانک سریندر کو دی، دوسری اپنے منہ میں ڈالی اور مزہ لیتے ہوئے پوچھا۔

’’تمہارے پاس پستول ہے؟‘‘

سریندر نے جواب دیا۔

’’ہاں۔ تمہیں کیا کرنا ہے؟‘‘

لڑکی کے گہرے سانولے ہونٹوں پر پھر وہی عجیب و غریب مسکراہٹ نمودار ہوئی

’’میں نے ایسے ہی پوچھا تھا۔ تم جانتے ہو نا کہ آج کل ہندو مسلم فساد ہو رہے ہیں۔‘‘

سریندر نے دوسرا مالٹا طشتری میں سے اٹھایا۔

’’آج سے ہو رہے ہیں۔ بہت دنوں سے ہو رہے ہیں۔ میں اپنے پستول سے چار مسلمان مار چکا ہوں۔ بڑے خونی قسم کے!‘‘

’’سچ؟‘‘

یہ کہہ کر لڑکی اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’مجھے ذرا وہ پستول تو دکھانا!‘‘

سریندر اٹھا۔ دوسرے کمرے میں جا کر اس نے اپنے میز کا دراز کھولا اور پستول لے کر باہر آیا۔

’’یہ لو۔ لیکن ٹھہرو!‘‘

اور اس نے پستول کا سیفٹی کیچ ٹھیک کر دیا کیوں کہ اس میں گولیاں بھری تھیں۔ لڑکی نے پستول پکڑا اور سریندر سے کہا۔

’’میں بھی آج ایک مسلمان ماروں گی‘‘

یہ کہہ کر اس نے سیفٹی کیچ کو ایک طرف کیا اور سریندر پر پستول داغ دیا۔ وہ فرش پر گر پڑا اور جان کنی کی حالت میں کراہنے لگا۔

’’یہ تم نے کیا کیا؟‘‘

لڑکی کے گہرے سانولے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

’’وہ چار مسلمان جو تم نے مارے تھے، ان میں میرا باپ بھی تھا۔!‘‘

***

 

 

 

 

ہرنام کور

 

 

نہال سنگھ کو بہت ہی الجھن ہو رہی تھی۔ سیاہ و سفید اور پتلی مونچھوں کا ایک گچھا اپنے منہ میں چوستے ہوئے وہ برابر دو ڈھائی گھنٹے سے اپنے جوان بیٹے بہادر کی بابت سوچ رہا تھا۔ نہال سنگھ کی ادھیڑ مگر تیز آنکھوں کے سامنے وہ کھلا میدان تھا جس پر وہ بچپن میں بنٹوں سے کبڈی تک تمام کھیل کھیل چکا تھا۔ کسی زمانے میں وہ گاؤں کا سب سے نڈر اور جیالا جوان تھا۔ کماد اور مکئی کے کھیتوں میں نے اس کئی ہٹیلی مٹیاروں کو کلائی کے ایک ہی جھٹکے سے اپنی مرضی کا تابع بنایا۔ تھوک پھینکتا تھا تو پندرہ گز دور جا کے گرتی تھی۔ کیا رنگیلا سجیلا جوان تھا۔ لہریا پگڑی باندھ کر اور ہاتھ میں چھوی لے کر جب میلے ٹیلے کو نکلتا تو بڑے بوڑھے پکار اٹھتے۔

’’کسی کو سندر جاٹ دیکھنا ہے تو سردار نہال سنگھ کو دیکھ لے۔‘‘

سندر جاٹ تو ڈاکو تھا۔ بہت بڑا ڈاکو جس کے گانے ابھی تک لوگوں کی زبان پر تھے لیکن نہال سنگھ ڈاکو نہیں تھا۔ اس کی جوانی میں در اصل کرپان کی سی تیزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ ہرنام کور کا قصہ تو ابھی گاؤں میں مشہور تھا کہ اس بجلی نے کیسے ایک دفعہ سردار نہال سنگھ کو قریب قریب بھسم کر ڈالا تھا۔ نہال سنگھ نے ہرنام کور کے متعلق سوچا تو ایک لحظے کے لیے اس کی ادھیڑ ہڈیوں میں بیتی ہوئی جوانی کڑکڑا اٹھی۔ کیا پتلی چھمک جیسی نار تھی۔ چھوٹے چھوٹے لال ہونٹ جن کو وہ ہر وقت چوستی رہتی۔ ایک روز جب کہ بیریوں کے بیر پکے ہوئے تھے۔ سردار نہال سنگھ سے اس کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ وہ زمین پر گرے ہوئے بیر چن رہی تھی اور اپنے چھوٹے چھوٹے لال ہونٹ چوس رہی تھی۔ نہال سنگھ نے آوازہ کسا۔ کیہڑے یار دا تتا ددھ پیتا۔ سڑگیآں لال بُلّیاں؟ ہرنام کور نے پتھر اٹھایا اور تان کر اس کو مارا۔ نہال سنگھ نے چوٹ کی پروا نہ کی اور آگے بڑھ کر اس کی کلائی پکڑ لی۔ لیکن وہ بجلی کی سی تیزی سے مچھی کی طرح تڑپ کر الگ ہو گئی اور یہ جا وہ جا۔ نہال سگھ کو جیسے کسی نے چاروں شانے چت گرا دیا۔ شکست کا یہ احساس اور بھی زیادہ ہو گیا۔ جب یہ بات سارے گاؤں میں پھیل گئی۔ نہال سنگھ خاموش رہا۔ اس نے دوستوں دشمنوں سب کی باتیں سنیں پر جواب نہ دیا۔ تیسرے روز دوسری بار اس کی مڈبھیڑ گوردوارہ صاحب سے کچھ دور بڑ کی گھنی چھاؤں میں ہوئی۔ ہر نام کور اینٹ پر بیٹھی اپنی گرگابی کو کیلیں اندر ٹھونک رہی تھی۔ نہال سنگھ کو پاس دیکھ کر وہ بد کی۔ پر اب کے اس کوئی پیش نہ چلی۔ شام کو جب لوگوں نے نہال سنگھ کو بہت خوش خوش اونچے سروں میں۔ فی ہر نام کورے، اونارے۔ گاتے سنا تو ان کو معلوم ہو گیا۔ کون سا قلعہ سر ہوا ہے۔ لیکن دوسرے روز نہال سنگھ زنا بالجبر کے الزام میں گرفتار ہوا اور تھوڑی سی مقدمے بازی کے بعد اسے چھ سال کی سزا ہو گئی۔ چھ سال کے بجائے نہال سنگھ کو ساڑھے سات کی قید بھگتنی پڑی۔ کیونکہ جیل میں اس کا دو دفعہ جھگڑا ہو گیا تھا۔ لیکن نہال سنگھ کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ قید کاٹ کر جب گاؤں روانہ ہوا اور ریل کی پٹڑی طے کر کے مختلف پگڈنڈیوں سے ہوا ہوا گوردوارے کے پاس سے گزر کر بڑ کے گھنے درخت کے قریب پہنچا تو اس نے کیا دیکھا کہ ہرنام کور کھڑی ہے۔ اور اپنے ہونٹ چوس رہی ہے۔ اس سے پیشتر کہ نہال سنگھ کچھ سوچنے یا کہنے پائے۔ وہ آگے بڑھی اور اس کی چوڑی چھاتی کے ساتھ چمٹ گئی۔ نہال سنگھ نے اس کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور گاؤں کے بجائے کسی دوسری طرف چل دیا۔ ہر نام کور نے پوچھا۔

’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘

نہال سنگھ نے نعرہ لگایا۔

’’جو بولے سو نہال ست سری اکال۔‘‘

دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ نہال سنگھ نے ہرنام کور سے شادی کر لی اور چالیس کوس کے فاصلے پر دوسرے گاؤں میں آباد ہو گیا۔ یہاں بڑی منتوں سے چھ برس کے بعد بہادر پیدا ہوا اور بیساکھی کے روز جب کہ وہ ابھی پورے ڈھائی مہینے کا بھی نہیں ہوا تھا۔ ہر نام کور کے ماتا نکلی اور وہ مر گئی۔ نہال سنگھ نے بہادر کی پرورش اپنی بیوہ بہن کے سپرد کر دی جس کی چار لڑکیاں تھیں چھوٹی چھوٹی۔ جب بہادر آٹھ برس کا ہوا تو نہال سنگھ اسے اپنے پاس لے آیا۔ چار برس ہو چلے تھے کہ بہادر اپنے باپ کی نگرانی میں تھا۔ شکل صورت میں وہ بالکل اپنی ماں جیسا تھا اسی طرح دبلا پتلا اور نازک۔ کبھی کبھی اپنے پتلے پتلے لال لال ہونٹ چوستا تو نہال سنگھ اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔ نہال سنگھ کو بہادر سے بہت محبت تھی۔ چار برس اس نے بڑے چاؤ سے نہلایا دھلایا۔ ہر روز دہی سے خود اس کے کیس دھوتا۔ اسے کھلاتا۔ باہر سیر کے لیے لے جاتا۔ کہانیاں سناتا۔ ورزش کراتا مگر بہادر کو ان چیزوں سے کوئی رغبت نہ تھی۔ وہ ہمیشہ اداس رہتا۔ نہال سنگھ نے سوچا اتنی دیر اپنی پھوپھی کے پاس جو رہا ہے۔ اس لیے اداس ہے۔ چنانچہ پھر اس کو اپنی بہن کے پاس بھیج دیا اور خود فوج میں بھرتی ہو کر لام پر چلا گیا۔ چار برس اور گزر گئے۔ لڑائی بند ہوئی اور نہال سنگھ جب واپس آیا تو وہ پچاس برس کے بجائے ساٹھ باسٹھ برس کا لگتا تھا۔ اس لیے اس نے جاپانیوں کی قید میں ایسے دکھ جھیلے تھے کہ سن کر آدمی کے رونگٹے کھڑے ہوتے تھے۔ اب بہادر کی عمر نہال سنگھ کے حساب کے مطابق سولہ کے لگ بھگ تھی مگر وہ بالکل ویسا ہی تھا جیسا چار برس پہلے تھا۔ دبلا پتلا۔ لیکن خوبصورت۔ نہال سنگھ نے سوچا کہ اس کی بہن نے بہادر کی پرورش دل سے نہیں کی۔ اپنی چار لڑکیوں کا دھیان رکھا جو بچھیریوں کی طرح ہر وقت آنگن میں کڈکڑے لگاتی رہتی ہیں۔ چنانچہ جھگڑا ہوا اور وہ بہادر کو وہاں سے اپنے گاؤں لے گیا۔ لام پر جانے سے اس کے کھیت کھلیان اور گھر بار کا ستیاناس ہو گیا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے نہال سنگھ نے ادھر دھیان دیا اور بہت ہی تھوڑے عرصہ میں سب ٹھیک ٹھاک کر لیا اس کے بعد اس نے بہادر کی طرف توجہ دی۔ اس کے لیے ایک بھوری بھینس خریدی۔ مگر نہال سنگھ کو اس بات کا دکھ ہی رہا کہ بہادر کو دودھ، دہی اور مکھن سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جانے کیسی اوٹ پٹانگ چیزیں اسے بھاتی تھیں۔ کئی دفعہ نہال سنگھ کو غصہ آیا مگر وہ پی گیا۔ اس لیے کہ اسے اپنے لڑکے سے بے انتہا محبت تھی۔ حالانکہ بہادر کی پرورش زیادہ تر اس کی پھوپھی نے کی تھی مگر اس کی بگڑی ہوئی عادتیں دیکھ کر لوگ یہی کہتے تھے کہ نہال سنگھ کے لاڈ پیار نے اسے خراب کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کی طرح محنت مشقت نہیں کرتا۔ گو نہال سنگھ کی ہرگز خواہش نہیں تھی کہ اس کا لڑکا مزدوروں کی طرح کھیتوں میں کام کرے اور صبح سے لے کر دن ڈھلنے تک ہل چلائے۔ واہگورو جی کی کرپا سے اس کے پاس بہت کچھ تھا۔ زمینیں تھیں۔ جن سے کافی آمدن ہو جاتی تھی۔ سرکار سے جو اب پنشن مل رہی تھی۔ وہ الگ تھی۔ لیکن پھر بھی اس کی خواہش تھی۔ دلی خواہش تھی کہ بہادر کچھ کرے۔ کیا؟ یہ نہال سنگھ نہیں بتا سکتا تھا۔ چنانچہ کئی بار اس نے سوچا کہ وہ بہادر سے کیا چاہتا ہے۔ مگر ہر بار بجائے اس کے کہ اسے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا۔ اس کی بیتی ہوئی جوانی کے دن ایک ایک کر کے اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگتے اور وہ بہادر کو بھول کر اس گزرے ہوئے زمانے کی یادوں میں کھو جاتا۔ لام سے آئے نہال سنگھ کو دو برس ہو چلے تھے۔ بہادر کی عمر اب اٹھارہ کے لگ بھگ تھی۔ اٹھارہ برس کا مطلب یہ ہے کہ بھرپور جوانی۔ نہال سنگھ جب یہ سوچتا تو جھنجھلا جاتا۔ چنانچہ ایسے وقتوں میں کئی دفعہ اس نے اپنا سر جھٹک کر بہادر کو ڈانٹا۔

’’نام تیرا میں نے بہادر رکھا ہے۔ کبھی بہادری تو دکھا۔‘‘

اور بہادر ہونٹ چوس کر مسکرا دیتا۔ نہال سنگھ نے ایک دفعہ سوچا کہ بہادر کی شادی کر دے۔ چنانچہ اس نے اِدھر اُدھر کئی لڑکیاں دیکھیں۔ اپنے دوستوں سے بات چیت بھی کی۔ مگر جب اسے جوانی یاد آئی تو اس نے فیصلہ کر لیا کہ نہیں، بہادر میری طرح اپنی شادی آپ کرے گا۔ کب کرے گا۔ یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ اس لیے کہ بہادر میں ابھی تک اس نے وہ چمک نہیں دیکھی تھی۔ جس سے وہ اندازہ لگاتا کہ اس کی جوانی کس مرحلے میں ہے۔ لیکن بہادر خوبصورت تھا۔ سندر جاٹ نہیں تھا۔ لیکن سندر ضرور تھا۔ بڑی بڑی کالی آنکھیں، پتلے پتلے لال ہونٹ، ستواں ناک، پتلی کمر۔ کالے بھونرا ایسے کیس مگر بال بہت ہی مہین۔ گاؤں کی جوان لڑکیاں دور سے اسے گھور گھور کے دیکھتیں۔ آپس میں کانا پھوسی کرتیں مگر وہ ان کی طرف دھیان نہ دیتا۔ بہت سوچ بچار کے بعد نہال سنگھ اس نتیجے پر پہنچا۔ شاید بہادر کو یہ تمام لڑکیاں پسند نہیں اور یہ خیال آتے ہی اس کی آنکھوں کے سامنے ہرنام کور کی تصویر آ گئی۔ بہت دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اس کو ہٹا کر اس نے گاؤں کی لڑکیاں لیں۔ ایک ایک کر کے وہ ان تمام کو اپنی آنکھوں کے سامنے لایا مگر ہر نام کور کے مقابلے میں کوئی بھی پوری نہ اتری۔ نہال سنگھ کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔

’’بہادر میرا بیٹا ہے۔ ایسی ویسیوں کی طرف تو وہ آنکھ اٹھا بھی نہیں دیکھے گا۔‘‘

دن گزرتے گئے۔ بیریوں کے بیر کئی دفعہ پکے۔ مکئی کے بوٹے کھیتوں میں کئی دفعہ نہال سنگھ کے قد کے برابر جوان ہوئے۔ کئی ساون آئے مگر بہادر کی یاری کسی کے ساتھ نہ لگی اور نہال سنگھ کی الجھن پھر بڑھنے لگی۔ تھک ہار کر نہال سنگھ دل میں ایک آخری فیصلہ کر کے بہادر کی شادی کے متعلق سوچ ہی رہا تھا کہ ایک گڑ بڑ شروع ہو گئی۔ بھانت بھانت کی خبریں گاؤں میں دوڑنے لگیں۔ کوئی کہتا انگریز جا رہا ہے۔ کوئی کہتا روسیوں کا راج آنے والا ہے۔ ایک خبر لاتا کانگرس جیت گئی ہے۔ دوسرا کہتا نہیں ریڈیو میں آیا ہے کہ ملک بٹ جائے گا۔ جتنے منہ، اتنی باتیں۔ نہال سنگھ کا تو دماغ چکرا گیا۔ اسے ان خبروں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ سچ پوچھئے تو اسے اس جنگ سے بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جس میں وہ پورے چار برس شامل رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ آرام سے بہادر کی شادی ہو جائے اور گھر میں اس کی بہو آ جائے۔ لیکن ایک دم جانے کیا ہوا۔ خبر آئی کہ ملک بٹ گیا ہے۔ ہندو مسلمان الگ الگ ہو گئے ہیں بس پھر کیا تھا چاروں طرف بھگدڑ سی مچ گئی۔ چل چلاؤ شروع ہو گیا اور پھر سننے میں آیا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔ سینکڑوں لڑکیاں اغواء4 کی جا رہی ہیں۔ لاکھوں کا مال لوٹا جا رہا ہے۔ کچھ دن گزر گئے تو پکی سڑک پر قافلوں کا آنا جانا شروع ہوا۔ گاؤں والوں کو جب معلوم ہوا تو میلے کا سماں پیدا ہو گیا۔ لوگ سو سو، دو دو سو کی ٹولیاں بنا کر جاتے۔ جب لوٹتے تو ان کے ساتھ کئی چیزیں ہوتیں۔ گائے، بھینس، بکریاں، گھوڑے، ٹرنک، بستر اور جوان لڑکیاں۔ کئی دنوں سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ گاؤں کا ہر جوان کوئی نہ کوئی کارنامہ دکھا چکا تھا حتیٰ کہ کھیا کا ناٹا اور کبڑا لڑکا دریام سنگھ بھی۔ اس کی پیٹھ پر بڑا کوہان تھا۔ ٹانگیں ٹیڑھی تھیں، مگر یہ بھی چار روز ہوئے پکی سڑک پر سے گزرنے والے ایک قافلے پر حملہ کر کے ایک جوان لڑکی اٹھا لایا تھا۔ نہال سنگھ نے اس لڑکی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ خوبصورت تھی۔ بہت ہی خوبصورت تھی۔ لیکن نہال سنگھ نے سوچا کہ ہرنام کور جتنی خوبصورت نہیں ہے۔ گاؤں میں کئی دنوں سے خوب چہل پہل تھی۔ چاروں طرف جوان شراب کے نشے میں دھت بولیاں گاتے پھرتے تھے۔ کوئی لڑکی بھاگ نکلتی تو سب اس کے پیچھے شور مچاتے دوڑتے کبھی لوٹے ہوئے مال پر جھگڑا ہو جاتا تو نوبت مرنے مارنے پر آ جاتی۔ چیخ و پکار تو ہر گھڑی سنائی دیتی تھی۔ غرضیکہ بڑا مزیدار ہنگامہ تھا۔ لیکن بہادر خاموش گھر میں بیٹھا رہتا۔ شروع شروع میں تو نہال سنگھ بہادر کی اس خاموشی کے متعلق بالکل غافل رہا۔ لیکن جب ہنگامہ اور زیادہ بڑھ گیا اور لوگوں نے مذاقیہ لہجے میں اس سے کہنا شروع کیا

’’کیوں سردار نہال سیاں، تیرے بہادر نے سنا ہے بڑی بہادریاں دکھائی ہیں؟‘‘

تو وہ پانی پانی ہو گیا۔ چوپال پر ایک شام کو یرقان کے مارے ہوئے حلوائی بشیشر نے دون کی پھینکی اور نہال سنگھ سے کہا۔

’’دو تو میرا گنڈا سنگھ لایا ہے۔ ایک میں لایا ہوں بند بوتل، اور یہ کہتے ہوئے بشیشر نے زبان سے پٹاخے کی آواز پیدا کی جیسے بوتل میں سے کاگ اڑتا ہے۔

’’نصیبوں والا ہی کھولتا ہے ایسی بند بوتلیں سردار نہال سیاں۔‘‘

نہال سنگھ کا جی جل گیا۔ کیا تھا بشیشر اور کیا تھا گنڈا سنگھ؟ ایک یرقان کا مارا ہوا، دوسرا تپ دق کا۔ مگر جب نہال سنگھ نے ٹھنڈے دل سے سوچا تو اس کو بہت دکھ ہوا۔ کیونکہ جو کچھ بشیشر نے کہا حقیقت تھی۔ بشیشر اور اس کا لڑکا گنڈا سنگھ کیسے بھی تھے۔ مگر تین جوان لڑکیاں، ان کے گھر میں واقعی موجود تھیں اور چونکہ بشیشر کا گھر اس کے پڑوس میں تھا۔ اس لیے کئی دنوں سے نہال سنگھ ان تینوں لڑکیاں کے مسلسل رونے کی آواز سن رہا تھا۔ گوردوارے کے پاس ایک روز دو جواں باتیں کر رہے تھے اور ہنس رہے تھے۔

’’نہال سنگھ کے بارے میں تو بڑی باتیں مشہور ہیں۔‘‘

’’ارے چھوڑ۔ بہادر تو چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھا ہے۔‘‘

نہال سنگھ سے اب نہ رہا گیا۔ گھر پہنچ کر اس نے بہادر کو بہت غیرت دلائی اور کہا۔

’’تو نے سنا لوگ کیا کہتے پھرتے ہیں۔ چوڑیاں پہن کر گھر میں بیٹھا ہے تو۔ قسم واہگورو جی کی، تیری عمر کا تھا توسینکڑوں لڑکیاں میری ان ٹانگوں۔‘‘

نہال سنگھ ایک دم خاموش ہو گیا۔ کیونکہ شرم کے مارے بہادر کا چہرہ لال ہو گیا تھا۔ باہر نکل کر وہ دیر تک سوچتا چلا گیا اور سوچتا سوچتا کنویں کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ اس کی ادھیڑ مگر تیز آنکھوں کے سامنے وہ کھُلا میدان تھا۔ جس پر بنٹوں سے لے کر کبڈی تک تمام کھیل کھیل چکا تھا۔ بہت دیر تک نہال سنگھ اس نتیجے پر پہنچا کہ بہادر شرمیلا ہے اور یہ شرمیلا پن اس میں غلط پرورش کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اس نے دل ہی دل میں اپنی بہن کو بہت گالیاں دیں اور فیصلہ کیا کہ بہادر کے شرمیلے پن کو کسی نہ کسی طرح توڑا جائے اور اس کے لیے نہال سنگھ کے ذہن میں ایک ہی ترکیب آئی۔ خبر آئی کہ رات کو کچی سڑک پر سے ایک قافلہ گزرنے والا ہے۔ اندھیری رات تھی۔ جب گاؤں سے ایک ٹولی اس قافلے پر حملہ کرنے کیلیے نکلی تو نہال سنگھ بھی ٹھا ٹھا باندھ کر ان کے ساتھ ہولیا۔ حملہ ہوا۔ قافلے والے نہتے تھے۔ پھر بھی تھوڑی سی جھپٹ ہوئی۔ لیکن فوراً ہی قافلے والے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ حملہ کرنے والی ٹولی نے اس افراتفری سے فائدہ اٹھایا اور لوٹ مار شروع کر دی۔ لیکن نہال سنگھ کو مال و دولت کی خواہش نہیں تھی۔ وہ کسی اور ہی چیز کی تاک میں تھا۔ سخت اندھیرا تھا گو گاؤں والوں نے مشعلیں روشن کی تھیں مگر بھاگ دوڑ اور لوٹ کھسوٹ میں بہت سی بجھ گئی تھیں۔ نہال سنگھ نے اندھیرے میں کئی عورتوں کے سائے دوڑتے دیکھے مگر فیصلہ نہ کر سکا کہ ان میں سے کس پر ہاتھ ڈالے۔ جب کافی دیر ہو گئی اور لوگوں کی چیخ و پکار مدھم پڑنے لگی تو نہال سنگھ نے بے چینی کے عالم میں ادھر ادھر دوڑنا شروع کیا۔ ایک دم تیزی سے ایک سایہ بغل میں گٹھڑی دبائے اس کے سامنے سے گزرا۔ نہال سنگھ نے اس کا تعاقب کیا۔ جب پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لڑکی ہے اور جوان۔ نہال سنگھ نے فوراً اپنے گاڑھے کی چادر نکالی اور اس پر جال کی طرح پھینکی۔ وہ پھنس گئی۔ نہال سنگھ نے اسے کاندھوں پر اٹھا لیا اور ایک ایسے راستے سے گھر کا رخ کیا کہ اسے کوئی دیکھ نہ لے۔ مگر گھر پہنچا تو بتی گُل تھی۔ بہادر اندر کوٹھری میں سو رہا تھا۔ نہال سنگھ نے اسے جگانا مناسب خیال نہ کیا۔ کواڑ کھولا۔ چادر میں سے لڑکی نکال کر اندر دھکیل، باہر سے کنڈی چڑھا دی۔ پھر زور زور سے کواڑ پیٹے۔ تاکہ بہادر جاگ پڑے۔ جب نہال سنگھ نے مکان کے باہر کھٹیا بچھائی۔ اور بہادر اور اس لڑکی کی مڈبھیڑ کی کپکپاہٹ پیدا کرنے والی باتیں سوچنے کیلیے لیٹنے لگا تو اس نے دیکھا کہ بہادر کی کوٹھڑی کے روشن دانوں میں دیے کی روشنی ٹمٹما رہی ہے۔ نہال سنگھ اچھل پڑا۔ اور ایک لحظے کیلیے محسوس کیا کہ وہ جوان ہے۔ کماد کے کھیتوں میں مٹیاروں کو کلائی سے پکڑنے والا نوجوان۔ ساری رات نہال سنگھ جاگتا رہا اور طرح طرح کی باتیں سوچتا رہا۔ صبح جب مُرغ بولنے لگے تو وہ اٹھ کر کوٹھڑی میں جانے لگا۔ مگر ڈیوڑھی سے لوٹ آیا۔ اس نے سوچا کہ دونوں تھک کر سو چکے ہوں گے اور ہو سکتا ہے۔ نہال سنگھ کے بدن پر جھرجھری سی دوڑ گئی اور وہ کھاٹ پر بیٹھ کر مونچھوں کے بال منہ میں ڈال کر چوسنے اور مسکرانے لگا۔ جب دن چڑھ گیا اور دھوپ نکل آئی تو اس نے اندر جا کر کنڈی کھولی۔ سٹرپٹر کی آوازیں سی آئیں۔ کواڑ کھولے تو اس نے دیکھا کہ لڑکی چارپائی پر کیسری دوپٹہ اوڑھے بیٹھی ہے۔ پیٹھ اس کی طرف تھی۔ جس پر یہ موٹی کالی چٹیا سانپ کی طرح لٹک رہی تھی۔ جب نہال سنگھ نے کوٹھڑی کے اندر قدم رکھا تو لڑکی نے پاؤں اوپر اٹھا لیے اور سمٹ کر بیٹھ گئی۔ طاق میں دیا ابھی تک جل رہا تھا۔ نہال سنگھ نے پھونک مار کر اسے بجھایا اور دفعتہً اسے بہادر کا خیال آیا۔ بہادر کہاں ہے؟۔ اس نے کوٹھڑی میں اِدھر اُدھر نظر دوڑائی مگر وہ کہیں نظر نہ آیا۔ دو قدم آگے بڑھ کر اس نے لڑکی سے پوچھا۔

’’بہادر کہاں ہے؟‘‘

لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ ایک دم سٹرپٹرسی ہوئی اور چارپائی کے نیچے سے ایک اور لڑکی نکلی۔ نہال سنگھ ہکّا بکّا رہ گیا۔ لیکن اس نے دیکھا۔ اس کی حیرت زدہ آنکھوں نے دیکھا کہ جو لڑکی چارپائی سے نکل کر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ باہر دوڑ گئی تھی۔ اس کے داڑھی تھی، منڈی ہوئی داڑھی۔ نہال سنگھ چارپائی کی طرف بڑھا لڑکی جو کہ اس پر بیٹھی تھی اور زیادہ سمٹ گئی مگر نہال سنگھ نے ہاتھ کے ایک جھٹکے سے اس کا منہ اپنی طرف کیا۔ ایک چیخ نہال سنگھ کے حلق سے نکلی اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔

’’ہرنام کور!‘‘

زنانہ لباس، سیدھی مانگ، کالی چٹیا۔ اور بہادر ہونٹ بھی چوس رہا تھا۔

***

 

 

 

 

 

آخری سیلوٹ

 

یہ کشمیر کی لڑائی بھی عجیب و غریب تھی۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا۔ جنگ کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔ پچھلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا۔ مارنا اور مرنا جانتا تھا۔ چھوٹے بڑے افسروں کی نظروں میں اس کی بڑی توقیر تھی، اس لیے کہ وہ بڑا بہادر، نڈر اور سمجھدار سپاہی تھا۔ پلاٹون کمانڈر مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سونپتے تھے اور وہ ان سے عہدہ بر آ ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تھا۔ دل میں بڑا ولولہ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پروا صرف ایک ہی لگن تھی، دشمن کا صفایا کر دینے کی، مگر جب اس سے سامنا ہوتا، تو جانی پہچانی صورتیں نظر آتیں۔ بعض دوست دکھائی دیتے، بڑے بغلی قسم کے دوست، جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش، اتحادیوں کے دشمنوں سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے۔ صوبیدار رب نواز سوچتا تھا کہ یہ سب خواب تو نہیں۔ پچھلی بڑی جنگ کا اعلان۔ بھرتی، قدر آور چھاتیوں کی پیمائش، پی ٹی، چاند ماری اور پھر محاذ۔ ادھر سے ادھر، ادھر سے ادھر، آخر جنگ کا خاتمہ۔ پھر ایک دم پاکستان کا قیام اور ساتھ ہی کشمیر کی لڑائی۔ اوپر تلے کتنی چیزیں۔ رب نواز سوچتا تھا کہ کرنے والے نے یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہے تاکہ دوسرے بوکھلا جائیں اور سمجھ نہ سکیں۔ ورنہ یہ بھی کوئی بات تھی کہ اتنی جلدی اتنے بڑے انقلاب برپا ہو جائیں۔ اتنی بات تو صوبیدار رب نواز کی سمجھ میں آتی تھی کہ وہ کشمیر حاصل کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں۔ کشمیر کیوں حاصل کرنا ہے، یہ بھی وہ اچھی طرح سمجھتا تھا اس لیے کہ پاکستان کی بقاء4 کے لیے اس کا الحاق اشد ضروری ہے، مگر نشانہ باندھتے ہوئے اسے جب کوئی جانی پہچانی شکل نظر آ جاتی تھی تو وہ کچھ دیر کے لیے بھول جاتا تھا کہ وہ کس غرض کے لیے لڑ رہ ہے، کس مقصد کے لیے اس نے بندوق اٹھائی ہے۔ اور وہ یہ غالباً اسی لیے بھولتا تھا کہ اسے بار بار خود کو یاد کرانا پڑتا تھا کہ اب کی وہ صرف تنخواہ زمین کے مربعوں اور تمغوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے وطن کی خاطر لڑ رہا ہے۔ یہ وطن پہلے بھی اس کا وطن تھا، وہ اسی علاقے کا رہنے والا تھا جو اب پاکستان کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ اب اسے اپنے اسی ہم وطن کے خلاف لڑنا تھا جو کبھی اس کا ہمسایہ ہوتا تھا، جس کے خاندان سے اس کے خاندان کے پشت ہا پشت کے دیرینہ مراسم تھے۔ اب اس کا وطن وہ تھا جس کا پانی تک بھی اس نے کبھی نہیں پیا تھا، پر اب اس کی خاطر، ایک دم اس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ جاؤ، یہ جگہ جہاں تم نے ابھی اپنے گھر کے لیے دو اینٹیں بھی نہیں چنیں، جس کی ہوا اور جس کے پانی کا مزا ابھی تک تمہارے منہ میں ٹھیک طور پر نہیں بیٹھا، تمہارا وطن ہے۔ جاؤ اس کی خاطر پاکستان سے لڑو۔ اس پاکستان سے جس کے عین دل میں تم نے اپنی عمر کے اتنے برس گزارے ہیں۔ رب نواز سوچتا تھا کہ یہی دل ان مسلمان فوجیوں کا ہے جو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں ان سے سب کچھ چھین لیا گیا تھا یہاں آ کر انھیں اور تو کچھ نہیں ملا۔ البتہ بندوقیں ملی گئی ہیں۔ اسی وزن کی، اسی شکل کی، اسی مار کے اور چھاپ کی۔ پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑتے تھے جن کو انھوں نے پیٹ اور انعام و اکرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کر لیا تھا۔ اب وہ خود دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوجی کہلاتے تھے۔ اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوجی تھے۔ رب نواز جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کے دماغ میں ایک عجیب گڑبڑ سی پیدا ہو جاتی۔ اور جب وہ کشمیر کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا۔ پاکستانی فوجی کشمیر کے لیے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مسلمانوں کے لیے؟ اگر انھیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کے لیے لڑایا جاتا تھا تو حیدر آباد، اور جونا گڑھ کے مسلمانوں کے لیے کیوں انھیں لڑنے کے لیے نہیں کہا جاتا تھا۔ اور اگر یہ جنگ ٹھیٹ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی ملک ہیں وہ اس میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ رب نواز اب بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ باریک باریک باتیں فوجی کو بالکل نہیں سوچنا چاہئیں۔ اس کی عقل موٹی ہونی چاہیے۔ کیونکہ موٹی عقل والا ہی اچھا سپاہی ہو سکتا ہے، مگر فطرت سے مجبور کبھی کبھی وہ چور دماغ سے ان پر غور کر ہی لیتا تھا اور بعد میں اپنی اس حرکت پر خوب ہنستا تھا۔ دریائے کشن گنگا کے کنارے اس سڑک کے لیے جو مظفر آباد سے کرن جاتی ہے۔ کچھ عرصے سے لڑائی ہو رہی تھی۔ عجیب و غریب لڑائی تھی۔ رات کو بعض اوقات آس پاس کی پہاڑیاں فائروں کے بجائے گندی گندی گالیوں سے گونج اٹھتی تھیں۔ ایک مرتبہ صوبیدار رب نواز اپنی پلاٹوں کے جوانوں کے ساتھ شب خون مارنے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ دور نیچے ایک کھائی سے گالیوں کا شور اٹھا۔ پہلے تو وہ گھبرا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت سے بھوت مل کر ناچ رہے ہیں۔ اور زور زور کے قہقہے لگا رہے ہیں۔ وہ بڑبڑایا۔

’’خنریر کی دُم۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔‘‘

ایک جوان نے گونجتی ہوئی آوازوں سے مخاطب ہو کر یہ بڑی گالی دی اور رب نواز سے کہا۔

’’صوبیدار صاحب گالیاں دے رہے ہیں۔ اپنی ماں کے یار۔‘‘

رب نواز یہ گالیاں سن رہا تھا جو بہت اکسانے والی تھیں۔ اس کے جی میں آئی کہ بزن بول دے مگر ایسا کرنا غلطی تھی، چنانچہ وہ خاموش رہا۔ کچھ دیر جوان بھی چپ رہے، مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو انھوں نے بھی گلا پھاڑ پھاڑ کے گالیاں لڑھکانا شروع کر دیں۔ رب نواز کے لیے اس قسم کی لڑائی بالکل نئی چیز تھی۔ اس نے جوانوں کو دو تین مرتبہ خاموش رہنے کے لیے کہا، مگر گالیاں ہی کچھ ایسی تھیں کہ جواب دیے بنا انسان سے نہیں رہا جاتا تھا۔ دشمن کے سپاہی نظر سے اوجھل تھے۔ رات کو تو خیر اندھیرا تھا، مگر وہ دن کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ صرف ان کی گالیاں نیچے پہاڑی کے قدموں سے اٹھتی تھیں اور پتھروں کے ساتھ ٹکڑا ٹکڑا کر ہوا میں حل ہو جاتی تھیں۔ رب نواز کی پلاٹون کے جوان جب ان گالیوں کا جواب دیتے تھے تو اس کو ایسا لگتا تھا کہ وہ نیچے نہیں جاتیں، اوپر کو اڑ جاتی ہیں۔ اس سے اس کو خاصی کوفت ہوتی تھی۔ چنانچہ اس نے جھنجھلا کر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رب نواز کو وہاں کی پہاڑیوں میں ایک عجیب بات نظر آئی تھی۔ چڑھائی کی طرف کوئی پہاڑی درختوں اور بوٹوں سے لدی پھندی ہوتی تھی اور اترائی کی طرف گنجی۔ کشمیری ہتو کے سر کی طرح۔ کسی کی چڑھائی کا حصہ گنجا ہوتا تھا اور اترائی کی طرف درخت ہی درخت ہوتے تھے۔ چیز کے لیے لمبے تناور درخت۔ جن کے بٹے ہوئے دھاگے جیسے پتوں پر فوجی بوٹ پھسل پھسل جاتے تھے۔ جس پہاڑی پر صوبیدار رب نواز کی پلاٹون تھی، اس کی اترائی درختوں اور جھاڑیوں سے بے نیاز تھی۔ ظاہر ہے کہ حملہ بہت ہی خطرناک تھا مگر سب جوان حملے کے لیے بخوشی تیار تھے۔ گالیوں کا انتقام لینے کے لیے وہ بے تاب تھے۔ حملہ ہوا اور کامیاب رہا۔ دو جوان مارے گئے۔ چار زخمی ہوئے۔ دشمن کے تین آدمی کھیت رہے۔ باقی رسد کا کچھ سامان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ صوبیدار رب نواز اور اس کے جوانوں کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ دشمن کا کوئی زندہ سپاہی ان کے ہاتھ نہ آیا جس کو وہ خاطر خواہ گالیوں کا مزا چکھاتے۔ مگر یہ مورچہ فتح کرنے سے وہ ایک بڑی اہم پہاڑی پر قابض ہو گئے تھے۔ وائرلیس کے ذریعے سے صوبیدار رب نواز نے پلاٹون کمانڈر میجر اسلم کو فوراً ہی اپنے حملے کے اس نتیجے سے مطلع کر دیا تھا اور شاباش وصول کر لی تھی۔ قریب قریب ہر پہاڑی کی چوٹی پر پانی کا ایک تالاب سا ہوتا تھا۔ اس پہاڑی پربھی تالاب تھا، مگر دوسری پہاڑیوں کے تالابوں کے مقابلے میں زیادہ بڑا۔ اس کا پانی بھی بہت صاف اور شفاف تھا۔ گوموسم سخت سرد تھا، مگر سب نہائے۔ دانت بجتے رہے مگر انھوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ وہ ابھی اس شغل میں مصروف تھے کہ فائر کی آواز آئی۔ سب ننگے ہی لیٹ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد صوبیدار رب نواز خاں نے دور بین لگا کر نیچے ڈھلوانوں پر نظر دوڑائی، مگر اسے دشمن کے چھپنے کی جگہ کا پتا نہ چلا۔ اس کے دیکھتے دیکھتے ایک اور فائر ہوا۔ دور اترائی کے فوراً بعد ایک نسبتاً چھوٹی پہاڑی کی داڑھی سے اسے دھواں اٹھتا نظر آیا۔ اس نے فوراً ہی اپنے جوانوں کو فائر کا حکم دیا۔ ادھر سے دھڑا دھڑ فائر ہوئے۔ ادھر سے بھی جواباً گولیاں چلنے لگیں۔ صوبیدار رب نواز نے دوربین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ غالباً بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی۔ زیادہ دیر تک وہ جمے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی اِدھر اُدھر ہٹتا، اس کا صوبیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔ تھوڑی دیر فائر ہوتے رہے۔ اس کے بعد رب نواز نے اپنے جوانوں کو منع کر دیا کہ وہ گولیاں ضائع نہ کریں صرف تاک میں رہیں۔ جونہی دشمن کا کوئی سپاہی پتھروں کی دیوار سے نکل کر ادھر یا ادھر جانے کی کوشش کرے اس کو اڑا دیں۔ یہ حکم دے کراس نے اپنے الف ننگے بدن کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا۔

’’خنزیر کی دُم۔ کپڑوں کے بغیر آدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔‘‘

لمبے لمبے وقفوں کے بعد دشمن کی طرف سے اِکا دُکا فائر ہوتا رہا۔ یہاں سے اس کا جواب کبھی کبھی دے دیا جاتا۔ یہ کھیل پورے دو دن جاری رہا۔ موسم یک لخت بہت سرد ہو گیا۔ اس قدر سرد کہ دن کو بھی خون منجمد ہونے لگتا تھا، چنانچہ صوبیدار رب نواز نے چائے کے دور شروع کرا دیے۔ ہر وقت آگ پر کیتلی دھری رہتی۔ جونہی سردی زیادہ ستاتی ایک دور اس گرم گرم مشروب کا ہو جاتا۔ ویسے دشمن پر برابر نگاہ تھی۔ ایک ہٹتا تو دوسرا اس کی جگہ دوربین لے کر بیٹھ جاتا۔ ہڈیوں تک اتر جانے والی سرد ہوا چل رہی تھی۔ جب اس جوان نے جو پہرے دار تھا، بتایا کہ پتھروں کی دیوار کے پیچھے کچھ گڑبڑ ہو رہی ہے۔ صوبیدار رب نواز نے اس سے دوربین لی اور غور سے دیکھا۔ اسے حرکت نظر نہ آئی لیکن فوراً ہی ایک آواز بلند ہوئی اور دیر تک اس کی گونج آس پاس کی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتی رہی۔ رب نواز اس کا مطلب نہ سمجھا۔ اس کے جواب میں اُس نے اپنی بندوق داغ دی۔ اس کی گونج دبی تو پھر ادھر سے آواز بلند ہوئی، جو صاف طور پر ان سے مخاطب تھی۔ رب نواز چلایا۔

’’خنزیر کی دُم۔ بول کیا کہتا ہے تو! فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ رب نواز کے الفاظ دشمن تک پہنچ گئے، کیونکہ وہاں سے کسی نے کہا۔

’’گالی نہ دے بھائی۔‘‘

رب نواز نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا اور بڑے جھنجھلائے ہوئے تعجب کے ساتھ کہا۔

’’بھائی؟۔‘‘

پھر وہ اپنے منہ کے آگے دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر چلایا۔

’’بھائی ہو گا تیری ماں کا جنا۔ یہاں سب تیری ماں کے یار ہیں!‘‘

ایک دم اُدھر سے ایک زخمی آواز بلند ہوئی۔

’’رب نواز!‘‘

رب نواز کانپ گیا۔ یہ آواز آس پاس کی پہاڑیوں سے سر پھوڑتی رہی اور مختلف انداز میں، رب نواز۔ رب نواز، دہراتی بالآخر خون منجمد کر دینے والی سرد ہوا کے ساتھ جانے کہاں اڑ گئی۔ رب نواز بہت دیر کے بعد چونکا۔

’’یہ کون تھا۔‘‘

پھر وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔

’’خنزیر کی دم!‘‘

اس کو اتنا معلوم تھا ٹیٹوال کے محاذ پر سپاہیوں کی اکثریت 6/9 رجمنٹ کی ہے۔ وہ بھی اسی رجمنٹ میں تھا۔ مگر یہ آواز تھی کس کی؟ وہ ایسے بیشمار آدمیوں کو جانتا تھا۔ جو کبھی اس کے عزیز ترین دوست تھے۔ کچھ ایسے بھی جن سے اس کی دشمنی تھی، چند ذاتی اغراض کی بناء4 پر۔ لیکن یہ کون تھا جس نے اس کی گالی کا بُرا مان کر اسے چیخ کر پکارا تھا۔ رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا، مگر پہاڑی کی ہلتی ہوئی چھدری داڑھی میں اسے کوئی نظر نہ آیا۔ دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر اس نے زور سے اپنی آواز ادھر پھینکی۔

’’یہ کون تھا؟۔ رب نواب بول رہا ہے۔ رب نواز۔ رب نواز۔‘‘

یہ رب نواز، بھی کچھ دیر تک پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتا رہا۔ رب نواز بڑبڑایا۔

’’خنزیر کی دُم!‘‘

فوراً ہی ادھر سے آواز بلند ہوئی۔

’’میں ہوں۔ میں ہوں رام سنگھ!‘‘

رب نواز یہ سن کر یوں اچھلا جیسے وہ چھلانگ لگا کر دوسری طرف جانا چاہتا ہے۔ پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا۔

’’رام سنگھ؟‘‘

پھر حلق پھاڑ کے چلایا۔

’’رام سنگھ؟۔ اوے رام سنگھا۔ خنزیر کی دُم!‘‘

’’خنزیر کی دم‘‘

ابھی پہاڑیوں کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر پوری طرح گم نہیں ہوئی تھی کہ رام سنگھ کی پھٹی پھٹی آواز بلند ہوئی۔

’’اوے کمہار کے کھوتے!‘‘

رب نواز پھوں پھوں کرنے لگا۔ جوانوں کی طرف رعب دار نظروں سے دیکھتے ہوئے وہ بڑبڑایا۔

’’بکتا ہے۔ خنزیر کی دُم!‘‘

پھر اس نے رام سنگھ کو جواب دیا۔

’’اوئے بابا ٹل کے کڑاہ پرشاد۔ اوئے خنزیر کے جھٹکے۔‘‘

رام سنگھ بے تحاشا قہقہے لگانے لگا۔ رب نواز بھی زور زور سے ہنسنے لگا۔ پہاڑیاں یہ آوازیں بڑے کھلنڈرے انداز میں ایک دوسرے کی طرف اچھالتی رہیں۔ صوبیدار رب نواز کے جو ان خاموش تھے۔ جب ہنسی کا دور ختم ہوا تو ادھر سے رام سنگھ کی آواز بلند ہوئی۔

’’دیکھو یار۔ ہمیں چائے پینی ہے!‘‘

رب نواز بولا۔

’’پیو۔ عیش کرو۔‘‘

رام سنگھ چلایا۔

’’اوئے عیش کس طرح کریں۔ سامان تو ہمارا اُدھر پڑا ہے۔‘‘

رب نواز نے پوچھا۔

’’کدھر۔‘‘

رام سنگھ کی آواز آئی۔

’’اُدھر۔ جدھر تمہارا فائر ہمیں اڑا سکتا ہے۔‘‘

رب نواز ہنسا۔

’’تو کیا چاہتے ہو تم۔ خنزیر کی دُم!‘‘

رام سنگھ بولا۔

’’ہمیں سامان لے آنے دے۔‘‘

’’لے آ!‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔ رام سنگھ کی تشویش بھری آواز بلند ہوئی۔

’’تو اڑا دے گا، کمہار کے کھوتے!‘‘

رب نواز نے بھنا کر کہا۔

’’بک نہیں اوئے سنتوکھ سر کے کچھوے۔‘‘

رام سنگھ ہنسا۔

’’قسم کھا نہیں مارے گا!‘‘

رب نواز نے پوچھا۔

’’کس کی قسم کھاؤں!‘‘

رام سنگھ نے کہا۔

’’کسی کی بھی کھا لے!‘‘

رب نواز ہنسا۔

’’اوئے جا۔ منگوا لے اپنا سامان۔‘‘

چند لمحات خاموش رہی۔ دور بین ایک جوان کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے معنی خیز نظروں سے صوبیدار رب نواز کی طرف دیکھا۔ بندوق چلانے ہی والا تھا کہ رب نواز نے اسے منع کیا۔

’’نہیں۔ نہیں!‘‘

پھر اس نے دور بین لے کر خود ہی دیکھا۔ ایک آدمی ڈرتے ڈرتے پنجوں کے بل پتھروں کے عقب سے نکل کر جا رہا تھا۔ تھوڑی دور اس طرح چل کر وہ اٹھا اور تیزی سے بھاگا۔ اور کچھ دور جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔ دو منٹ کے بعد واپس آیا تو اس کے دونوں ہاتھوں میں کچھ سامان تھا۔ ایک لحظے کے لیے وہ رکا۔ پھر تیزی سے اوجھل ہوا تو رب نواز نے اپنی بندوق چلا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ہی رب نواز کا قہقہہ بلند ہوا۔ یہ دونوں آوازیں مل کر کچھ دیر جھنجھناتی رہیں۔ پھر رام سنگھ کی آواز آئی

’’تھینک یو۔‘‘

’’نو مینشن۔‘‘

رب نواز نے یہ کہہ کر جوانوں کی طرف دیکھا۔

’’ایک راؤنڈ ہو جائے۔‘‘

تفریح کے طور پر دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں۔ پھر خاموشی ہو گئی۔ رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا۔ پہاڑی کی داڑھی میں سے دھواں اٹھ رہا تھا۔ وہ پکارا۔

’’چائے تیار کر لی رام سنگھا؟‘‘

جواب آیا۔

’’ابھی کہاں اوئے کمہار کے کھوتے!‘‘

رب نواز ذات کا کمہار تھا۔ جب کوئی اس کی طرف اشارہ کرتا تھا تو غصے سے اس کا خون کھولنے لگتا تھا۔ ایک صرف رام سنگھ کے منہ سے وہ اسے برداشت کر لیتا تھا اس لیے کہ وہ اس کا بے تکلف دوست تھا۔ ایک ہی گاؤں میں وہ پل کر جوان ہوئے تھے۔ دونوں کی عمر میں صرف چند دن کا فرق تھا۔ دونوں کے باپ، پھر ان کے باپ بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک ہی اسکول میں پرائمری تک پڑھتے تھے اور ایک ہی دن فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور پچھلی بڑی جنگ میں کئی محاذوں پر اکٹھے لڑے تھے۔ رب نواز اپنے جوانوں کی نظروں میں خود کو خفیف محسوس کر کے بڑبڑایا

’’خنزیر کی دم۔ اب بھی باز نہیں آتا۔‘‘

پھر وہ رام سنگھ سے مخاطب ہوا۔

’’بک نہیں اوئے کھوتے کی جُوں۔‘‘

رام سنگھ کا قہقہہ بلند ہوا۔ رب نواز نے ایسے ہی شست باندھی ہوئی تھی۔ تفریحاً اس نے لبلبی دبا دی۔ تڑاخ کے ساتھ ہی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ رب نواز نے فوراً دور بین لگائی اور دیکھا کہ ایک آدمی، نہیں، رام سنگھ پیٹ پکڑے، پتھروں کی دیواروں سے ذرا ہٹ کر دوہرا ہوا اور گر پڑا۔ رب نواز زور سے چیخا۔

’’رام سنگھ!‘‘

اور اچھل کر کھڑا ہو گیا، اُدھر سے بیک وقت تین چار فائر ہوئے۔ ایک گولی رب نواز کا دایاں بازو چاٹتی ہوئی نکل گئی۔ فوراً ہی وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے فائر شروع ہو گئے۔ ادھر کچھ سپاہیوں نے گڑ بڑ سے فائدہ اٹھا کر پتھروں کے عقب سے نکل کر بھاگنا چاہا۔ ادھر سے فائر جاری تھے۔ مگر نشانے پر کوئی نہ بیٹھا۔ رب نواز نے اپنے جوانوں کو اترنے کا حکم دیا۔ تین فوراً ہی مارے گئے، لیکن افتاں و خیزاں باقی جوان دوسری پہاڑی پر پہنچ گئے۔ رام سنگھ خون میں لت پت پتھریلی زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔ گولی اس کے پیٹ میں لگی تھی۔ رب نواز کو دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ مسکرا کر اس نے کہا۔

’’اوئے کمہار کے کھوتے، یہ تُو نے کیا کیا۔‘‘

رب نواز، رام سنگھ کا زخم اپنے پیٹ میں محسوس کر رہا تھا، لیکن وہ مسکرا کر اس پر جھکا اور دو زانو ہو کر اس کی پیٹی کھولنے لگا۔

’’خنزیر کی دم۔‘‘

تم سے کس نے باہر نکلنے کو کہا تھا۔‘‘

پیٹی اتارنے سے رام سنگھ کو سخت تکلف ہوئی۔ درد سے وہ چلا چلا پڑا۔ جب پیٹی اتر گئی اور رب نواز نے زخم کا معائنہ کیا جو بہت خطرناک تھا تو رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ دبا کر کہا۔

’’میں اپنا آپ دکھانے کے لیے باہر نکلا تھا کہ تُو نے۔ اوئے رب کے پُتر۔ فائر کر دیا۔‘‘

رب نواز کا گلا رندھ گیا۔

’’قسم وحدہٗ لا شریک کی۔ میں نے ایسے ہی بندوق چلائی تھی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ تُو کھوتے کا سنگھ باہر نکل رہا ہے۔ مجھے افسوس ہے!‘‘

رام سنگھ کا خون کافی بہہ نکلا تھا۔ رب نواز اور اس کے ساتھی کئی گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ اس عرصے تک تو ایک پوری مشک خون کی خالی ہو سکتی تھی۔ رب نواز کو حیرت تھی کہ اتنی دیر تک رام سنگھ زندہ رہ سکا ہے۔ اس کو امید نہیں تھی کہ وہ بچے گا۔ ہلانا جلانا غلط تھا، چنانچہ اس نے فوراً وائرلیس کے ذریعے سے پلاٹون کمانڈر سے درخواست کی کہ جلدی ایک ڈاکٹر روانہ کیا جائے۔ اس کا دوست رام سنگھ زخمی ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کا وہاں تک پہنچنا اور پھر وقت پر پہنچنا بالکل محال تھا۔ رب نواز کو یقین تھا کہ رام سنگھ صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہے۔ پھر بھی وائرلیس پر پیغام پہنچا کر اس نے مسکرا کر رام سنگھ سے کہا۔

’’ڈاکٹر آ رہا ہے۔ کوئی فکر نہ کر!‘‘

رام سنگھ بڑی نحیف آواز میں سوچتے ہوئے بولا۔

’’فکر کسی بات کی نہیں۔ یہ بتا میرے کتنے جوان مارے ہیں تم لوگوں نے؟‘‘

رب نواز نے جواب دیا۔

’’صرف ایک!‘‘

رام سنگھ کی آواز اور زیادہ نحیف ہو گئی۔

’’تیرے کتنے مارے گئے؟‘‘

رب نواز نے جھوٹ بولا۔

’’چھ!‘‘

اور یہ کہہ کر اس نے معنی خیز نظروں سے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔

’’چھ۔ چھ!‘‘

رام سنگھ نے ایک ایک آدمی اپنے دل میں گنا۔

’’میں زخمی ہوا تو وہ بہت بد دل ہو گئے تھے۔ پر میں نے کہا۔ کھیل جاؤ اپنی اور دشمن کی جان سے۔ چھ۔ ٹھیک ہے!‘‘

وہ پھر ماضی کے دھندلکوں میں چلا گیا۔

’’رب نواز۔ یاد ہیں وہ دن تمہیں۔‘‘

اور رام سنگھ نے بیتے دن یاد کرنے شروع کر دیے۔ کھیتوں کھلیانوں کی باتیں۔ اسکول کے قصے 6/9 جاٹ رجمنٹ کی داستانیں۔ کمانڈنگ افسروں کے لطیفے اور باہر کے ملکوں میں اجنبی عورتوں سے معاشقے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے رام سنگھ کو کوئی بہت دلچسپ واقعہ یاد آ گیا۔ ہنسنے لگا تو اس کے ٹیس اٹھی مگر اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زخم سے اوپر ہی اوپر ہنس کر کہنے لگا۔

’’اوئے سؤر کے تل۔ یاد ہے تمہیں وہ میڈم۔‘‘

رب نواز نے پوچھا۔

’’کون؟‘‘

رام سنگھ نے کہا۔

’’وہ۔ اِٹلی کی۔ کیا نام رکھا تھا ہم نے اس کا۔ بڑی مارخور عورت تھی!‘‘

رب نواز کو فوراً ہی وہ عورت یاد آ گئی۔

’’ہاں، ہاں۔ وہ۔ میڈم منیتا فنتو۔ پیسہ ختم، تماشا ختم۔ پر تجھ سے کبھی کبھی رعایت کر دیتی تھی مسولینی کی بچی!‘‘

رام سنگھ زور سے ہنسا۔ اور اس کے زخم سے جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا باہر نکل آیا۔ سرسری طور پر رب نواز نے جو پٹی باندھی تھی۔ وہ کھسک گئی تھی۔ اسے ٹھیک کر کے اس نے رام سنگھ سے کہا۔

’’اب خاموش رہو۔‘‘

رام کو بہت تیز بخار تھا۔ اس کا دماغ اس کے باعث بہت تیز ہو گیا تھا۔ بولنے کی طاقت نہیں تھی مگر بولے چلا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی رک جاتا۔ جیسے یہ دیکھ رہا ہے کہ ٹینکی میں کتنا پٹرول باقی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی، لیکن کچھ ایسے وقفے بھی آتے تھے کہ اس کے ہوش و حواس سلامت ہوتے تھے۔ انہی وقفوں میں اس نے ایک مرتبہ نواز سے سوال کیا۔

’’یارا سچو سچ بتاؤ، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیے!‘‘

رب نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا۔

’’ہاں، رام سنگھا!‘‘

رام سنگھ نے اپنا سر ہلایا۔

’’نہیں۔ میں نہیں مان سکتا۔ تمہیں ورغلایا گیا ہے۔‘‘

رب نواز نے اس کو یقین دلانے کے انداز میں کہا۔

’’تمہیں ورغلایا گیا ہے۔ قسم پنجتن پاک کی۔‘‘

رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’قسم نہ کھا یارا۔ ٹھیک ہو گا۔‘‘

لیکن اس کا لہجہ صاف بتا رہا تھا کہ اس کو رب نواز کی قسم کا یقین نہیں۔ دن ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے پلاٹون کمانڈنٹ میجر اسلم آیا۔ اس کے ساتھ چند سپاہی تھے، مگر ڈاکٹر نہیں تھا۔ رام سنگھ بے ہوشی اور نزع کی حالت میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ مگر آواز اس قدر کمزور اور شکستہ تھی کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ میجر اسلم بھی 6/9 جاٹ رجمنٹ کا تھا اور رام سنگھ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ رب نواز سے سارے حالات دریافت کرنے کے بعد اس نے رام سنگھ کو بلایا۔

’’رام سنگھ۔ رام سنگھ!‘‘

رام سنگھ نے اپنی آنکھیں کھولیں لیٹے لیٹے اٹینشن ہو کر اس نے سیلوٹ کیا۔ لیکن پھر آنکھیں کھول کر اس نے ایک لحظے کے لیے غور سے میجر اسلم کی طرف دیکھا۔ اس کا سیلوٹ کرنے والا اکڑا ہوا ہاتھ ایک دم گر پڑا۔ جھنجھلا کر اس نے بڑبڑانا شروع کیا۔

’’کچھ نہیں اوئے رام سیاں۔ بھول ہی گیا تو سؤر کے نلا۔ کہ یہ لڑائی۔ یہ لڑائی؟‘‘

رام سنگھ اپنی بات پوری نہ کر سکا۔ بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے اس نے رب نواز کی طرف نیم سوالیہ انداز میں دیکھا اور سرد ہو گیا۔

***

 

 

 

 

 

شریفن

 

 

جب قاسم نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا۔ تو اسے صرف ایک گولی کی جلن تھی جو اس کی دہنی پنڈلی میں گڑ گئی تھی۔ لیکن اندر داخل ہو کر جب اس نے اپنی بیوی کی لاش دیکھی تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ قریب تھا کہ وہ لکڑیاں پھاڑنے والے گنڈاسے کو اٹھا کر دیوانہ وار نکل جائے اور قتل و گری کا بازار گرم کر دے کہ دفعتہً اسے اپنی لڑکی شریفن کا خیال آیا۔

’’شریفن، شریفن‘‘

اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔ سامنے دالان کے دونوں دروازے بند تھے۔ قاسم نے سوچا۔ شاید ڈر کے مارے اندر چھپ گئی ہو گی۔ چنانچہ وہ اس طرف بڑھا اور درز کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔

’’شریفن، شریفن۔ میں ہوں تمہارا باپ۔‘‘

مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ قاسم نے دونوں ہاتھوں سے کواڑ کو دھکا دیا۔ پَٹ کھلے اور وہ اوندھے منہ دالان میں گر پڑا۔ سنبھل کر جب اس نے اٹھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی۔ قاسم چیخ کیساتھ بیٹھا۔ ایک گز کے فاصلے پر ایک جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔ بالکل ننگی گورا گورا سڈول جسم، چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے چھوٹے پستان۔ ایک دم قاسم کا سارا وجود ہل گیا۔ اس کی گہرائیوں سے ایک فلک شگاف چیخ اٹھی۔ لیکن اس کے ہونٹ اس قدر زور سے بھینچے ہوئے تھے کہ باہر نہ نکل سکی۔ اس کی آنکھیں خود بخود بند ہو گئی تھیں۔ پھر بھی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ مردہ سی آواز اس کے منہ سے نکلی۔

’’شریفن۔‘‘

اور اس نے آنکھیں بند کیے دالان میں اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر کچھ کپڑے اٹھائے اور انھیں شریفن کی لاش پر گرا کر وہ یہ دیکھے بغیر ہی باہر نکل گیا کہ وہ اس سے کچھ دور گرے تھے۔ باہر نکل کر اس نے اپنی بیوی کی لاش نہ دیکھی۔ بہت ممکن ہے اسے نظر ہی نہ آئی ہو۔ اس لیے کہ اس کی آنکھیں شریفن کی ننگی لاش سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے کونے میں پڑا ہوا لکڑیاں پھاڑنے والا گنڈاسا اٹھایا اور گھرسے باہر نکل گیا۔ قاسم کی دہنی پنڈلی میں گولی گڑی ہوئی تھی۔ اس کا احساس گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے دل و دماغ سے محو ہو گیا تھا۔ اس کی وفادار پیاری بیوی ہلاک ہو چکی تھی۔ اس کا صدمہ بھی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں موجود نہیں تھا۔ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی تصویر آتی تھی۔ شریفن کی۔ ننگی شریفن کی۔ اور وہ نیزے کی انی بن بن کر اس کی آنکھوں کو چھیدتی ہوئی اس کی روح میں بھی شگاف ڈال دیتی۔ گنڈاسا ہاتھ میں لیے قاسم سنسان بازاروں میں ابلتے ہوئے لاوے کی طرح بہتا چلا جا رہا تھا۔ چوک کے پاس اس کی مڈبھیڑ ایک سکھ سے ہوئی۔ بڑا کڑیل جوان تھا۔ لیکن قاسم نے کچھ ایسے بک تکے پن سے حملہ کیا اور ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ تیز طوفان میں اکھڑے ہوئے درخت کی طرح زمین پر آ رہا۔ قاسم کی رگوں میں اس کا خون اور زیادہ گرم ہو گیا۔ اور بجنے لگا۔ تڑتڑ تڑ تڑ۔ جیسے جوش کھاتے ہوئے تیل پر پانی کا ہلکا سا چھینا پڑ جائے۔ دور سڑک کے اس پار اسے چند آدمی نظر آئے۔ تیرکی طرح وہ ان کی طرف بڑھا اسے دیکھ کر ان لوگوں نے

’’ہر ہر مہا دیو‘‘

کے نعرے لگائے۔ قاسم نے جواب میں اپنا نعرہ لگانے کے بجائے انھیں ماں باپ کی موٹی موٹی گالیاں دیں اور گنڈاسا تانے ان میں گھس گیا۔ چند منٹوں ہی کے اندر تین لاشیں سڑک پر تڑپ رہی تھیں۔ دوسرے بھاگ گئے لیکن قاسم کا گنڈاسا دیر تک ہوا میں چلتا رہا۔ اصل میں اس کی آنکھیں بند تھیں۔ گنڈاسا گھماتے گھماتے وہ ایک لاش کے ساتھ ٹکرایا اور گر پڑا۔ اس نے سوچا کہ شاید اسے گرا لیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے گندی گندی گالیاں دے کر چلانا شروع کیا۔

’’مار ڈالو مجھے، مار ڈالو مجھے۔‘‘

لیکن جب کوئی ہاتھ اسے گردن پر محسوس نہ ہوا اور کوئی ضرب اس کے بدن پر نہ پڑی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ سڑک پر تین لاشوں اور اس کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک لحظے کے لیے قاسم کو مایوسی ہوئی۔ کیونکہ شاید وہ مر جانا چاہتا تھا لیکن ایک دم شریفن۔ ننگی شریفن کی تصویر اس کی آنکھوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر گئی اور اس کے سارے وجود کو بارود کا جلتا ہوا فلیتہ بنا گئی۔ وہ فوراً اٹھا۔ ہاتھ میں گنڈاسا لیا اور پھر کھولتے ہولے لاوے کی طرح سڑک پر بہنے لگا۔ جتنے بازار قاسم نے طے کیے سب خالی تھے۔ ایک گلی میں وہ داخل ہوا۔ لیکن اس میں سب مسلمان تھے۔ اس کو بہت کوفت ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنے لاوے کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔ ایک بازار میں پہنچ کر اس نے اپنا گنڈاسا اونچا ہوا میں لہرایا اور ماں بہن کی گالیاں اگلنا شروع کیں۔ لیکن ایک دن اسے بہت ہی تکلیف دہ احسان ہوا کہ اب تک وہ صرف ماں بہن کی گالیاں ہی دیتا رہا تھا۔ چنانچہ اس نے فوراً بیٹی کی گالی دینا شروع کی اور ایسی جتنی گالیاں اسے یاد تھیں سب کی سب ایک ہی سانس میں باہر لاٹ دیں۔ پھر بھی اس کی تشفی نہ ہوئی۔ جھنجھلا کر وہ ایک مکان کی طرف بڑھا۔ جس کے دروازے کے اوپر ہندی میں کچھ لکھا تھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ قاسم نے دیوانہ وار گنڈاسا چلانا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں کوارٹر ریزہ ریزہ ہو گئے۔ قاسم اندر داخل ہوا۔ چھوٹا سا گھر تھا۔ قاسم نے اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر پھر گالیاں دینا شروع کیں۔

’’باہر نکلو۔ باہر نکلو۔‘‘

سامنے دالان کے دروازے میں چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ قاسم اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر گالیاں دیتا رہا۔ دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی نمودار ہوئی۔ قاسم کے ہونٹ بھینچ گئے۔ گرج کر اس نے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

لڑکی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور جواب دیا۔

’’ہندو۔‘‘

قاسم تن کر کھڑا ہو گیا۔ شعلہ بار آنکھوں سے اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جس کی عمر چودہ یا پندرہ برس کی تھی اور ہاتھ سے گنڈاسا گرا دیا۔ پھر وہ عقاب کی طرح جھپٹا اور اس لڑکی کو دھکیل کر اندر دالان میں لے گیا۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے دیوانہ وار کپڑے نوچنے شروع کیے۔ دھجیاں اور چندیاں یوں اڑنے لگیں جیسے کوئی روئی دھنک رہا۔ تقریباً آدھ گھنٹہ قاسم اپنا انتقام لینے میں مصروف رہا۔ لڑکی نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس لیے کہ وہ فرش پر گرتے ہی بیہوش ہو گئی تھی۔ جب قاسم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے دونوں ہاتھ لڑکی کی گردن میں دھنسے ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے کے ساتھ انھیں علیحدہ کر کے وہ اٹھا پسینے میں غرق اس نے ایک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا تاکہ اس کی اور تشفی ہو سکے۔ ایک گز کے فاصلے پر اس جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔ بالکل ننگی۔ گورا گورا سڈول جسم چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے پستان۔ قاسم کی آنکھیں ایک دم بند ہو گئیں۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ بدن پر گرم گرم پسینہ برف ہو گیا اور اس کی رگوں میں کھولتا ہوا لاوا پتھر کی طرح منجمد ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی تلوار سے مسلح مکان کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ دالان میں کوئی شخص آنکھیں بند کیے لرزتے ہاتھوں سے فرش پر پڑی ہوئی چیز پر کمبل ڈال رہا ہے۔ اس نے گرج کر اس سے پوچھا۔

’’کون ہو تم؟‘‘

قاسم چونکا۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں مگر اسے کچھ نظر نہ آیا۔ مسلح آدمی چلایا۔

’’قاسم!‘‘

قاسم ایک بار پھر چونکا۔ اس نے اپنے سے کچھ دور کھڑے آدمی کو پہچاننے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ مسلح آدمی نے گھبراتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔

’’کیا کر رہے ہو تم یہاں؟‘‘

قاسم نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے فرش پر پڑے ہوئے کمبل کی طرف اشارہ کیا اور کھوکھلی آواز میں صرف اتنا کہا۔

’’شریفن۔‘‘

جلدی سے آگے بڑھ کر مسلح آدمی نے کمبل ہٹایا۔ ننگی لاش دیکھ کر پہلے وہ کانپا، پھر ایک دم اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ ’’بملا بملا‘‘ کہتا لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکل گیا۔

٭٭٭

تشکر: مرتب جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

داؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل