FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

تفہیم القرآن

 

 

 

۸۔ سورۂ الانبیاء، سورۂ الحج،   سورۂ المومنون

 

                   مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

 

 

 

 

 

 

۲۱۔ سورۂ الْانبیاء

 

نام

 

اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں ہے۔ چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیاء کا ذکر آیا ہے،  اس لیے اس کا نام ’’ الانبیاء‘‘ رکھ دیا گیا۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ سے سورۃ کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مضمون اور انداز بیان، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے۔ اس کے پس منظر میں حالات کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایا ں طور پر محسوس ہوتی ہے۔

 

موضوع و مضمون

 

اس سورہ میں ہو کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور سرداران قریش کے درمیان برپا تھی۔ وہ لوگ آں حضرتؐ کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوت توحید و عقیدہ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ انکی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ در اصل تمہارے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔

دوران تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں :

۱) کفار مکہ کی یہ غلط فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے۔

۲) ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر مختصر مگر نہایت پر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے۔

۳) ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہو جانا ہے،  اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ہے،  کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ چیز چونکہ اس عجلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے،  اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے۔

۴) شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جوان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشین دلائل دیے گئے ہیں۔

۵) ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی جھوٹا ہے اور عذاب الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں  سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت،  دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کے بعد انبیاء الیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دورا ن میں خدا کی طرف سے آئے تھے تھے،  انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے ہیں۔ اُلوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ بتھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ انبیاء پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں،  اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششیں کی ہیں،  مگر آخر کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام انبیاء کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے،  اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں۔

آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار  کرنے پر ہے۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے ور زمین کے وارث ہوں گے۔اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعہ سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی کی آمد کو اپنے لیے رحمت کے بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

قریب آ گیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت،  ۱ اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ۲ ان کے پاس جو تازہ نصیحت ہی ان کے ربّ کی طرف سے آتی ہے ۳ اُس کو بے تکلف سُنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں، ۴ دل اُن کے ( دوسری ہی فکروں میں)منہمک ہیں۔ اور ظالم آپس میں سرگوشیاں کرتےہیں کہ ’’یہ شخص آخر تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے، پھر کیا تم آنکھوں دیکھتے جادُو کے پھندے میں پھنس جاؤ گے؟‘‘  ۵ رسُولؐ نے کہا،  میرا ربّ ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے۔ ۶ وہ کہتے ہیں ’’بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں،  بلکہ یہ اِس کی من گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے۔ ۷ ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسُول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔‘‘ حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا، ایمان نہ لائی۔ اب کیا یہ ایمان لائیں گے؟ ۸

اور اے محمدؐ،  تم سے پہلے بھی ہم نے انسانوں ہی کو رسُول بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی کیا کرتے تھے۔ ۹ تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ کتاب سے پوچھ لو۔ ۱۰ اُن رسُولوں  کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں، اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ پھر دیکھ لو کہ آخر کار ہم نے اُن کے ساتھ اپنے وعدے پُورے کیے، اور اُنہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچا لیا، اور حد سے گزر جانے والوں کو ہلاک کر دیا۔ ۱۱ لوگو، ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے،  کیا تم سمجھتے نہیں  ہو؟ ۱۲  ؏١

 

تفسیر

 

۱: مراد ہے قریب قیامت۔ یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا  حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دَور میں داخل ہو رہی ہے۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ؐ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا   بُعِثتُ انا وَ السَّا عَۃُ کَھَا تَیْنِ،  ’’ میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت اِن دو انگلیوں کی طرح ہیں۔‘‘  یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جا ؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے۔

۲: یعنی کسی تنبیہ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ نہ خود سوچتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہونا ہے اور نہ اُس پیغمبر کی بات سُنتے ہیں جو انہیں خبردار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۴: وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اوپر ترجمہ میں اختیار کیا گیا ہے،  اور اس میں کھیل سے مراد یہی زندگی کا کھیل ہے جسے خدا اور آخرت سے غافل لوگ کھیل رہے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے سنجیدگی  کے ساتھ نہیں سنتے بلکہ کھیل اور مذاق کے طور پر سُنتے ہیں۔

۵: ’’پھنسے جاتے ہو‘‘  بھی ترجمہ ہو سکتا ہے،  اور دونوں ہی مطلب صحیح ہیں۔ سرگوشیاں کفارِ مکہ کہ وہ بڑے بڑے سردار آپس میں بیٹھ بیٹھ کر کیا کرتے تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر نے کی بڑی فکر لاحق تھی۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص بہر حال نبی تو ہو نہیں سکتا،  کیونکہ ہم ہی جیسا انسان ہے، کھاتا ہے، پیتا ہے، بازاروں میں چلتا پھرتا ہے،  بیوی بچے رکھتا ہے۔ آخر اِس میں وہ نِرالی بات کیا ہے جو اس کو ہم سے ممتاز کرتی ہون اور ہماری بہ نسبت اِس کو خدا سے ایک غیر معمولی تعلق کا مستحق بناتی ہو؟ البتہ اس شخص کی باتوں میں اور اس کی شخصیت میں ایک جادو ہے کہ جو اس کی بات کان لگا کر سنتا ہے اور اس کے قریب جاتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو نہ اس کی سنو اور نہ اس سے میل جو ل رکھو،  کیونکہ اس کی باتیں سننا اور اس کے قریب جانا گویا آنکھوں دیکھتے  جادو کے پھندے میں پھنسنا ہے۔ جس چیز کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ’’سحر‘‘  کا الزام چسپاں کرتے تھے اس کی چند مثالیں آپ کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق (متوفی سن ۱۵۲ ھ) نے بیان کی ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ ایک دفعہ عُتْبَہ بن رَبِیعہ (ابو سفیان کے خسر، ہند جگر خوار کے باپ) نے سردارانِ قریش سے کہا، اگر آُ لوگ پسند کریں تو میں جا کر محمد ؐ سے ملوں اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں۔ یہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کے بعد کا واقعہ ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی تعداد روز بروز بڑھتی دیکھ کر اکابرِ قریش سخت پریشان ہو رہے تھے۔ لوگوں نے کہا ابو الولید،  تم پر پورا اطمینان ہے، ضرور جا کر اس سے بات کرو۔ وہ حضور ؐ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، ’’ بھتیجے، ہمارے ہاں تم کو جو عزّت حاصل تھی،  تم خود جانتے ہو، اور نسب میں بھی تم ایک شریف ترین گھرانے کے فرد ہو۔ تم اپنی قوم پر یہ کیا مصیبت لے آئے ہو؟ تم نے جماعت میں تفرقہ ڈال دیا۔ ساری قوم کو بے وقوف ٹھیرایا۔ اس کے دین اور اس کے معبُودوں کی بُرائی کی۔ باپ دادا جو مر چکے ہیں ان سب کو تم نے گمراہ اور کافر بنایا۔ بھتیجے، اگر ان باتوں سے تمہارا مقصد دنیا میں اپنی بڑائی قائم کرنا ہے تو آؤ ہم سب مل کر تم کو اتنا روپیہ دے دیتے ہیں کہ تم سب سے زیادہ مال دار ہو جاؤ۔ سرداری  چاہتے ہو تو ہم تمہیں سردار  مانے لیتے ہیں۔ بادشاہی چاہتے ہو تو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اور اگر تمہیں کوئی بیماری  ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تم کو واقعی سوتے یا جاگتے  میں کچھ نظر آنے لگا ہے تو ہم سب مِل کر بہترین طبیبوں سے تمہارا علاج کرائے دیتے ہیں ‘‘۔ یہ باتیں وہ کرتا رہا  اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاموش سنتے رہے۔ جب وہ خوب بول چکا تو آپؐ نے فرمایا ’’ ابو الولید،  جو کچھ آپ کہنا چاہتے تھے کہہ چکے ہیں یا اور کچھ کہنا ہے؟ ‘‘  اس نے کہا بس مجھے جو کچھ  کہنا تھا میں  نے کہہ دیا۔ آپؐ نے فرمایا اچھا اب   میری سُنو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، حٰمٓ،  تَنْزِیْلٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اس کے بعد  کچھ دیر تک مسلسل آپؐ  سورۂ حٰم السجدہ  کی تلاوت فرماتے رہے اور عتبہ پیچھے زمین پر ہاتھ ٹیکے غور سے سنتا رہا۔ اڑتیسویں آیت پر پہنچ کر آپؐ نے سجدہ کیا،  اور پھر سر اُٹھا کر عُتبہ سے فرمایا، ’’ابو الولید،   جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ آپ نے سُن لیا،  اب آپ جانیں اور آپ کا کام‘‘۔ عتبہ یہاں اُٹھ کر سردارانِ قریش کی طرف پلٹا تو لوگوں  نے دُور سے ہی اس کو آتے دیکھ کر کہا ’’خدا کی قسم، ابوالولید کا چہرا بدلا ہوا ہے۔ یہ وہ صورت نہیں ہے  جسے لے کر وہ گیا تھا‘‘۔ اس کے  پہنچتے ہی لوگوں نے سوال کیا،  ’’ کہو ابوالولید، کیا کر آئے ہو‘‘ ؟ اس نے کہا ’’ خدا کی قسم، آج میں نے ایسا کلام سُنا ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہ سُنا تھا۔ واللہ یہ شعر نہیں ہے،  نہ سحر ہے اور نہ کہانت۔ اے معشر قریش،  میری بات مانو اور اس شخص کو اس کے حال پر چھوڑ دو۔ اس کی باتیں جو میں نے سُنی ہیں رنگ لا کر رہیں گی۔ اگر عرب اس پر غالب آ گئے تو اپنے بھائی کا خون تمہاری گردن پر نہ ہو گا،  دوسروں پر ہو گا۔ اور اگر  یہ عرب پر غالب آ گیا تو  اس کی حکومت تمہاری حکومت  ہو گی  اور اس کی عزّت تمہاری عزّت ‘‘۔ لوگوں نے کہا ’’واللہ،  ابو الولید  تم پر بھی اس کا جادو چل گیا ‘‘۔ اس نے کہا ’’ یہ میری رائے ہے،  اب تم جانو اور تمہارا کام‘‘۔ (ابنِ ہشام، جلد اوّل، ص ۳۱۳ – ۳۱۴)۔ بیہقی نے اِس واقعہ کے متعلق جو روایات جمع کی ہیں ان میں سے ایک  روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضور ؐ سورۂ حٰم السجدہ کی تلاوت کرتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے کہ    فَاِنْ اَعْرَضُوْ ا فَقُلْ اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃً مِّثْلَ صَا عِقَۃِ عَادٍ وَّ ثَمُوْدٍ،  تو عتبہ نے بے اختیار آگے بڑھ کر آپ کے منہ  پر ہاتھ رکھ دیا  اور کہنے لگا کہ خدا کے لیے اپنی قوم پر رحم کرو۔ ’’دوسرا واقعہ ابن اسحاق نے یہ بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ قبیلۂ اَرَاش کا ایک شخص کچھ اُونٹ لے کر مکّہ آیا۔ ابو جہل نے اس کے اُونٹ خرید لیے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اَرَاشی نے تنگ آ کر ایک روز حرمِ کعبہ میں قریش کے سرداروں کو جا پکڑا اور مجمعِ عام میں فریاد شروع کر دی۔ دوسرے طرف حرم کے ایک گوشے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم تشریف  فرما تھے۔ سردارانِ قریش نے اس شخص سے کہا کہ ’’ہم کچھ نہیں کر سکتے، دیکھو، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں، ان سے جا کر کہو، وہ تم کو تمہارا روپیہ دلوا دیں گے‘‘۔ اراشی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف چلا، اور قریش کے سرداروں نے آپس میں کہا ’’آج لطف آئے گا‘‘۔ اراشی نے جا کر حضور سے اپنی شکایت بیان کی۔ آپؐ اسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اسے ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان  کی طرف روانہ ہو گئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک آدمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے اس کی خبر لا کر دے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدھے ابو جہل کے دروازے  پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ اس نے پوچھا ’’کون‘‘ ؟ آپؐ نے جواب دیا ’’محمد ؐ‘‘۔ وہ حیران ہو کر باہر نکل آیا۔ آپؐ نے اس سے کہا ’’ اس شخص کا حق ادا کر دو‘‘۔ اس نے جواب میں کوئی چون و چرا نہ کی،  اندر گیا اور اس کے اُونٹوں کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ  حال دیکھ کر حرم کی طرف دوڑا اور سرداروں کو سارا ماجرا سُنا دیا اور کہنے لگا کہ واللہ آج وہ عجیب معاملہ دیکھا ہے کہ جو کبھی نہ دیکھا تھا،  حَکَم بن ہِشام (ابو جہل) جب نکلا ہے تو محمد ؐ کو دیکھتے ہی اُس کا  رنگ فق ہو گیا اور جب محمد ؐ نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کر دو تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے حکم بن ہشام  کے جسم میں جان نہیں ہے۔(ابن ہشام،  جلد ۲، ص ۲۹ – ۳۰) یہ تھا شخصیت اور سیرت و کردار کا اثر اور وہ تھا کلام کا اثر، جس کو وہ لوگ جادو قرار دیتے تھے اور ناواقف لوگوں کو یہ کہہ کہہ کر ڈراتے تھے کہ اس شخص کے پاس نہ جانا ورنہ جادو کر دے گا۔

۶: یعنی رسول نے کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے اور سرگوشیوں کی اس مہم (Whispering Campaign ) کا جواب اس کے سوا نہ دیا کہ ’’تم لوگ جو کچھ باتیں بناتے ہو سب خدا سنتا اور جانتا ہے،  خواہ زور سے کہو، خواہ چپکے چپکے کانوں میں پھونکو‘‘۔ وہ کبھی بے انصاف دشمنوں کے مقابلے میں ترکی بہ ترکی جواب دینے پر نہ اُتر آیا۔

۷: ’’اس کا پس منظر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا اثر جب پھیلنے لگا تو مکہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ طے کیا کہ آپ کے مقابلے میں پروپیگنڈا کی ایک مہم شرو ع  کی جائے اور ہر اس شخص کو،  جو مکہ میں زیارت کے لیے آئے آپ کے خلاف پہلے ہی سے اتنا بدگمان  کر دیا جائے کہ وہ آپ کی بات سننے کے لیے آمادہ  ہی نہ ہو۔ یہ مہم ویسے تو بارہ مہینے جاری رہتی تھی،   مگر خاص طور پر حج کے زمانے میں کثرت سے آدمی پھیلا دیے جاتے تھے جو تمام بیرونی زائرین کے خیموں میں پہنچ کر ان کو خبر دار کرتے تھے کہ یہاں ایسا ایسا ایک آدمی ہے،  اس سے ہوشیار رہنا۔ ان گفتگوؤں میں طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی تھیں۔ کبھی کہا جاتا کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ ایک کلام اس نے خود گھڑ  رکھا ہے، اور کہتا ہے کہ خدا کا کلام ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ اجی وہ کلام کیا ہے،  دیوانوں کی بڑ اور پراگندہ خیالات کا پلندا ہے۔ کبھی کہا جاتا کہ شاعرانہ  تخیلات اور تُک بندیاں ہیں جن کا نام اس نے کلامِ الہٰی رکھا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو بہکایا جائے۔ صداقت کا ان کے سامنے سرے سے کوئی سوال ہی نہ تھا کہ جم کر کوئی ایک قطعی اور جچی تُلی رائے ظاہر کرتے۔ لیکن اس جھوٹے پروپیگنڈے کا حاصل جو کچھ ہُوا وہ یہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام انہوں نے خود ملک کے گوشے گوشے میں پہنچا دیا۔ آپ کی جتنی شہرت مسلمانوں کی کوششوں سے سالہا سال میں بھی نہ ہو سکتی تھی وہ قریش کی اس مخالفانہ مہم سے تھوڑی مدّت  ہی کے اندر ہو گئی۔ ہر شخص کے دل میں  ایک سوال پیدا ہو گیا کہ آخر معلوم تو ہو  وہ کون ایسا آدمی ہے جس کے خلاف یہ طوفان برپا ہے، اور بہت سے سوچنے والوں نے سوچا کہ اس شخص کی بات سُنی تو جائے۔ ہم کوئی بچے تو نہیں ہیں کہ خواہ مخواہ بہک جائیں گے۔ اس کی دلچسپ مثال طُفَیل بن عَمر و دَوسی کا قصہ ہے جسے  ابن اسحاق  نے خود ان کی روایت سے بڑی تفصیل کے ساتھ نقل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں قبیلۂ دَوس کا ایک شاعر تھا۔ کسی کام سے مکہ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی قریش کی چند لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف خوب میرے کان بھرے یہاں تک کہ میں آپ سے سخت بدگمان ہو گیا اور میں نے یہ طے کر لیا کہ  آپ سے بچ کر ہی رہوں گا۔ دوسرے روز میں نے حرم میں حاضری دی تو آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے۔ میرے کونوں میں چند جملے جو پڑے تو میں نے محسُوس کیا کہ یہ تو کوئی بڑا اچھا کلام ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں شاعر ہوں، جوان مرد ہوں، عقل رکھتا ہوں، کوئی بچہ نہیں ہوں کہ صحیح اور غلط میں تمیز نہ کر سکوں۔ آخر کیوں نہ اس شخص سے مل کر معلوم کروں کہ یہ  کیا کہتا ہے۔ چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو کر واپس چلے تو میں آپ کے پیچھے پیچھے ہو لیا اور آ پ کے مکان پر پہنچ کر میں نے عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے متعلق مجھ سے یہ کچھ کہا تھا، اور میں آپ سے اس قدر بدگمان ہو گیا تھا کہ میں نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی تاکہ آپ کی آواز نہ سننے پاؤں۔ لیکن ابھی  جو چند کلمے میں نے آپ کی زبان سے سُنے ہیں وہ مجھے کچھ اچھے معلوم ہوئے ہیں۔ آپ مجھے ذرا تفصیل سے بتائیے،  آپ کیا کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب میں مجھ کر قرآن کا ایک حصہ سُنایا اور میں اس سے  اس قدر متاثر ہوا کہ اسی وقت ایمان لے آیا۔ پھر واپس جا کر میں نے اپنے باپ اور بیوی کو مسلمان کیا۔ اس کے بعد اپنے قبیلے میں مسلسل اشاعتِ اسلام کرتا رہا، یہاں تک کہ غزوۂ خندق کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے میرے قبیلے کے ستّر اسّی گھرانے مسلمان ہو گئے۔ (ابن ہشام، جلد ۲،  ص ۲۲ – ۲۴) ایک اور روایت جو ابن اسحاق نے نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سردارانِ قریش  اپنی محفلوں میں خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ جو باتیں وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بناتے ہیں وہ محض جھوٹ ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ایک مجلس میں نَضر بن حارِث نے تقریر کی کہ ’’ تم لوگ محمد ؐ کا مقابلہ جس طرح کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔ وہ جب تمہارے درمیان نو عمر  جوان تھا تو تمہارا سب سے زیادہ خوش اطوار آدمی تھا۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑ ھ کر امین سمجھا جاتا تھا۔ اب کہ اس کے بال سفید ہونے  کو آ گئے،  تم کہتے ہو  یہ ساحر ہے، کاہن ہے، شاعر ہے، مجنون ہے۔ بخدا وہ ساحر نہیں ہے، ہم نے ساحروں کو دیکھا ہے اور ان کی جھاڑ پھونک سے ہم واقف ہیں۔ بخدا وہ کاہن بھی نہیں ہے،   ہم نے کاہنوں کی تک بندیاں سُنی ہیں اور جیسی گول مول باتیں وہ کیا کرتے ہیں ان کا ہمیں علم ہے۔ بخدا وہ شاعر بھی نہیں ہے،  شعر کی تمام اصناف سے ہم واقف ہیں اور اُس کا کلام ان میں سے کسی صنف میں نہیں آتا۔ بخدا وہ مجنون بھی نہیں ہے،  مجنون کی جو حالت ہوتی ہے اور جیسی بے تکی بڑ وہ ہانکتا ہے کیا اس سے ہم بے خبر ہیں؟ اے سردارانِ قریش،  کچھ اَور بات سوچو، جس چیز کا مقابلہ تمہیں درپیش ہے وہ اس سے زیادہ بڑی ہے کہ یہ باتیں بنا کر تم اسے شکست دے سکو‘‘۔ اس  کے بعد اُس نے  یہ تجویز پیش کی کہ عجم سے رستم و اسفند یار کے قصّے لا کر پھیلائے جائیں تاکہ لوگ ان میں دلچسپی لینے لگیں اور وہ انہیں قرآن سے زیادہ عجیب معلوم ہوں۔ چنانچہ کچھ دنوں اس پر عمل کیا گیا  اور خود نَضر نے داستان گوئی شروع کر دی۔ (ابن ہشام،  جلد اوّل،  ص ۳۲۰ – ۳۲۱)

۸: اس  مختصر سے جملے میں نشانی کی مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسُولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو،  مگر یہ بھُول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ اُن نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ  لائے تھے۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ  جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے۔ تیسرے یہ کہ تمہاری  منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں؟

۹: یہ جواب ہے ان کے اس قول کا کہ ’’یہ شخص تم جیسا ایک بشر ہی تو ہے‘‘۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بشریت کو اس بات کی دلیل قرار دیتے تھے کہ آپ نبی نہیں ہو سکتے۔ جواب دیا گیا ہے کہ پہلے زمانے کے  جن لوگوں کو تم خود مانتے ہو کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے،  وہ سب بھی بشر ہی تھے اور بشر ہوتے ہوئے  ہی خدا کی وحی سے سرفراز ہوئے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  یٰسین،  حاشیہ نمبر ۱۱)۔

۱۰: یعنی یہ یہودی،  جو آج اسلام کی دشمنی میں تمہارے ہم نوا ہیں اور تم کو مخالفت کے داؤ  پیچ سکھایا کرتے ہیں، انہی سے پوچھ لو کہ   موسیٰ اور دوسرے انبیاء ِ بنی اسرائیل کون تھے۔ انسان ہی تھے یا کوئی اور مخلوق؟

۱۱: یعنی پچھلی تاریخ کا سبق صرف اتنا ہی نہیں بتاتا کہ  پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ انسان تھے،  بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی نصرت و تائید کے،   اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو ہلاک کر دینے کے،  جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ سب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ اب تم اپنا انجام خود سوچ لو۔

۱۲: یہ اکٹھا جواب ہے کفار مکہ کے ان مضطرب اقوال کا جو وہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ شاعری ہے، یہ ساحری ہے،  یہ پراگندہ خواب ہیں، یہ من گھڑت افسانے ہیں، وغیرہ۔ اس پر فرمایا  جا رہا ہے کہ اس کتاب میں آخر وہ کونسی نرالی بات ہے جو تمہاری سمجھ میں نہ آتی ہو، جس کی وجہ سے اس کے متعلق تم اتنی متضاد راہیں قائم کر رہے ہو۔ اس میں تو تمہارا اپنا ہی حال بیان کیا گیا ہے۔ تمہارے ہی نفسیات اور تمہارے ہی معاملاتِ زندگی  زیرِ بحث ہیں۔ تمہاری ہی فطرت اور ساخت اور آغاز و انجام پر گفتگو ہے۔ تمہارے ہی ماحول سے وہ نشانیاں چن چن کر پیش کی گئی ہیں جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ اور تمہارے ہی اخلاقی اوصاف  میں سے فضائل اور قبائح کا فرق نمایاں کر کے دکھا یا جا رہا ہے جس کے صحیح ہونے پر تمہارے اپنے ضمیر گواہی دیتے ہیں۔ ان سب باتوں میں کیا چیز ایسی گنجلک اور پیچیدہ ہے کہ اِس کو سمجھنے سے تمہاری عقل عاجز ہو؟

 

ترجمہ

رجمہ

ئش کے آغاز میں دیا گیا تحا

کتنی ہی ظالم بستیاں ہیں جن کو ہم نے پِیس کر رکھ دیا اور اُن کے بعد دوسری کسی قوم کو اُٹھایا۔ جب اُن کو ہمارا عذاب محسوس ہوا ۱۳ تو لگے وہاں سے بھاگنے۔ (کہا گیا) ’’بھاگو نہیں، جاؤ اپنے اُنہی گھروں اور عیش کے سامانوں میں جن کے اندر تم چین کر رہے تھے، شاید کہ تم سے پوچھا جائے۔ ‘‘  ۱۴ کہنے لگے ’’ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔‘‘  اور وہ یہی پکارتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اُن کو کھلیان کر دیا، زندگی کا ایک شرارہ تک اُن میں نہ رہا۔

ہم نے اِس آسمان اور زمین کو اور جو کچھ بھی ان میں ہے کچھ کھیل کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ ۱۵ اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے اور بس یہی کچھ ہمیں کرنا ہوتا تو اپنے ہی پاس سے کر لیتے۔ ۱۶ مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مِٹ جا تا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ ۱۷

زمین اور آسمانوں میں جو مخلوق بھی ہے اللہ کی ہے۔ ۱۸ اور جو (فرشتے)اُس کے پاس ہیں ۱۹ وہ نہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر اُس کی بندگی سے سرتابی کرتے ہیں اور نہ ملُول ہوتے ہیں۔ ۲۰ شب و روز اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، دَ م نہیں لیتے۔ کیا اِن لوگوں کے بنائے ہوئے ارضی خدا ایسے ہیں کہ ( بے جان کو جان بخش کر)اُٹھا کھڑا کرتے ہوں؟ ۲۱

اگر آسمان و زمین میں ایک اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو ( زمین اور آسمان)دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ ۲۲ پس پاک ہے اللہ ربّ العرش ۲۳ اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ وہ اپنے کاموں کے لیے ( کسی کے آگے)جواب دہ نہیں ہے اور سب جواب دہ ہیں۔ کیا اُسے چھوڑ کر انہوں نے دوسرے خدا بنا لیے ہیں؟ اے محمد ؐ،  ان سے کہو کہ ’’لاؤ اپنی دلیل، یہ کتاب بھی موجود ہے جس میں میرے دور کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے اور وہ کتابیں بھی موجود ہیں جن میں مجھ سے پہلے لوگوں کے لیے نصیحت تھی۔ ‘‘  ۲۴ مگر ان میں سے اکثر لوگ حقیقت سے بے خبر ہیں، اس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ ۲۵ ہم نے تم سے پہلے جو رسُول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔

یہ کہتے ہیں ’’رحمٰن اولاد رکھتا ہے۔‘‘  ۲۶ سُبحان اللہ، وہ تو بندے ہیں جنہیں عزت دی گئی ہے۔ اُس کے حضور بڑھ کر نہیں بولتے اور بس اُس کے حکم پر عمل کرتے ہیں جو کچھ اُن کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے  اوجھل ہے اُس سے بھی وہ باخبر ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سُننے پر اللہ راضی ہو، اور وہ اُس کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں۔ ۲۷ اور جو اُن میں سے کوئی کہہ دے کہ اللہ کے سوا میں بھی ایک خدا ہوں، تو اُسے ہم جہنّم کی سزا دیں، ہمارے ہاں ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۳: یعنی جب عذابِ الہٰی سر پر آ گیا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ آ گئی شامت۔

۱۴: نہایت معنی خیز فقرہ ہے اور اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، مثلاً: ذرا اچھی طرح اِس عذاب کا معائنہ کرو تا کہ کل کوئی اس کی کیفیت پوچھے تو ٹھیک بتا سکو۔ اپنے وہی ٹھا ٹھ جما کر پھر مجلسیں گرم کرو، شاید اب بھی تمہارے خدم و حشم ہاتھ باندھ کر پوچھیں کہ حضور کیا حکم ہے۔ اپنی وہی کونسلیں اور کمیٹیاں جمائے بیٹھے رہو،  شاید اب بھی تمہارے عاقلانہ مشوروں اور مدبرانہ آراء سے استفادہ کرنے  کے لیے دنیا حاضر ہو۔

۱۵: یہ تبصرہ ہے اُن کے اُس پورے نظریۂ حیات پر جس کی وجہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر توجہ نہ کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ انسان دنیا میں بس یونہی آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو کچھ چاہے کرے اور جس طرح چاہے جیے، کوئی باز پرس اس سے نہیں ہونی ہے۔ کسی کو اسے حساب نہیں دینا ہے۔ چند روز کی بھلی بُری زندگی گزار کر سب کو بس یونہی فنا ہو جانا ہے۔ کوئی دوسری زندگی نہیں ہے جس میں بھلائی کی جزا اور بُرائی کی سزا ہو۔ یہ خیال در حقیقت اِس بات کا ہم معنی  تھا کہ کائنات کا یہ سارا نظام محض کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے جس کا کوئی سنجیدہ مقصد نہیں ہے۔ اور یہی خیال دعوتِ پیغمبر سے ان کی بے اعتنائی کا  اصل سبب  تھا۔

۱۶: یعنی ہمیں کھیلنا ہی ہوتا تو کھلونے بنا کر ہم خود ہی کھیل لیتے۔ اِس صورت میں یہ ظلم تو ہر گز نہ کیا جاتا کہ خواہ مخواہ ایک ذی حِس،  ذی شعور، ذمہ دار مخلوق کو پیدا کر ڈالا جاتا، اُس کے درمیان حق و باطل کی یہ کشمکش اور کھینچا تانیاں کرائی جاتیں، اور محض اپنے لطف و تفریح کے لیے ہم دوسروں کو بلاوجہ تکلیفوں میں ڈالتے۔ تمہارے خدا نے یہ دنیا کچھ رومی اکھاڑے(Coliseum ) کے طور پر نہیں بنائی ہے کہ بندوں کی درندوں سے لڑوا کر اور ان کی بوٹیاں نچوا کر خوشی کے ٹھٹھے لگائے۔

۱۷: یعنی ہم بازی گر نہیں ہیں،  نہ ہمارا کام کھیل تماشا کرنا ہے۔ ہماری یہ دنیا ایک سنجیدہ نظام ہے جس میں کوئی باطل چیز نہیں جم سکتی۔ باطل یہاں جب بھی سر اُٹھاتا ہے، حقیقت  سے اس کا تصادم ہو کر رہتا ہے اور آخر کار وہ مٹ کر ہی رہتا ہے۔ اس دنیا کو اگر تم تماشا گاہ سمجھ کر جیو گے،   یا حقیقت  کے خلاف باطل نظریات پر کام کرو گے تو نتیجہ تمہاری اپنی ہی تباہی ہو گا۔ نوع انسانی کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لو کہ دنیا کو محض ایک تماشا گاہ،  محض ایک خوانِ  یغما، محض ایک عیش کدہ سمجھ کر جینے والی، اور انبیاء کی بتائی ہوئی حقیقت سے منہ موڑ کر باطل نظریات پر کام کرنے والی قومیں پے در پے کس انجام سے دوچار ہوتی رہی ہیں۔ پھر یہ کونسی عقلمندی ہے کہ جب سمجھانے والا سمجھائے تو اس کا مذاق اُڑاؤ، اور جب اپنے ہی کیے کرتُوتوں کے نتائج عذاب الہٰی کی صورت میں سر پر آئیں تو چیخنے لگو کہ ’’ہائے ہمارے کم بختی، بے شک ہم خطا وار تھے‘‘۔

۱۸: یہاں سے توحید کے اثبات اور شرک کے ابطال پر گفتگو شروع ہوتی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مشرکینِ مکہ کے درمیان اصل بنائے نزاع تھی۔ اب مشرکین کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ کائنات کا یہ نظام جس میں تم جی رہے ہو (جس کے متعلق ابھی یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھلونا نہیں ہے،  جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہ ایک سنجیدہ اور با مقصد اور مبنی بر حقیقت نظام ہے،  اور جس کے متعلق یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ اس میں باطل ہمیشہ حقیقت سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتا ہے) اِس کی حقیقت یہ ہے کہ اس پورے نظام کا خالق، مالک، حاکم اور ربّ صرف ایک خدا ہے، اور اس حقیقت کے مقابلے میں باطل یہ ہے کہ اسے بہت سے خداؤں کی مشترک سلطنت سمجھا جائے،  یا یہ خیال کیا جائے کہ ایک بڑے خدا کی خدائی میں دوسرے چھوٹے چھوٹے خداؤں کا بھی کچھ دخل ہے۔

۱۹: یعنی وہی فرشتے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی اولاد سمجھ کر، یا خدائی میں دخیل مان کر معبود بنائے ہوئے تھے۔

۲۰: عنی خدا کی بندگی کرنا  ان کو ناگوار بھی نہیں ہے کہ بادل نا خواستہ بندگی کرتے کرتے وہ ملول ہو جاتے ہوں۔ اصل میں لفظ  لا یستحسرون استعمال کیا گیا ہے۔ استحسار میں تکان کا مبالغہ پایا جاتا ہے۔ اور اس سے مراد وہ تکان ہے جو کسی ناگوار کام کے کرنے سے لاحق ہو تی ہے۔

۲۱: اصل میں لفظ ’’یُنشرون‘‘  استعمال ہوا ہے جو ’’اِنشار‘‘  سے مشتق ہے۔ اِنشار کے معنی ہیں بے جان پڑی ہوئی چیز کو اُٹھا کھڑا کرنا۔ اگرچہ اس لفظ کو قرآن مجید میں بالعموم زندگی بعدِ موت کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن اصطلاحی مفہوم سے قطع نظر، اصل لغوی معنی کے اعتبار سے یہ لفظ بے جان مادّے میں زندگی  پھونک دینے کے لیے مستعمل ہوتا ہے۔ اور موقع  و محل کو دیکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ یہاں اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جن ہستیوں کو انہوں نے خدا قرار دے رکھا ہے اور اپنا معبود بنایا ہے،  کیا ان میں کوئی ایسا ہے جو مادّۂ غیر ذی حیات میں زندگی پیدا کرتا ہو؟ اگر ایک اللہ کے سوا کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اور مشرکینِ عرب خود  مانتے تھے کہ کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ تو پھر وہ اُن  کو خدا اور معبود کس لیے مان رہے ہیں؟

۲۲: یہ استدلال سادہ بھی ہے اور بہت گہرا بھی۔ سادہ سی بات،  جس کو ایک بدوی،  ایک دیہاتی، ایک موٹی  سی سمجھ کا آدمی بھی بآسانی سمجھ سکتا ہے،  یہ ہے کہ ایک معمولی گھر کا نظام بھی چار دن بخیریت نہیں چل سکتا اگر اس کے دو صاحبِ خانہ ہوں۔ اور گہری بات یہ ہے کہ کائنات کا پورا نظام، زمین کی تہوں  سے لے کر بعید ترین سیاروں تک، ایک ہمہ گیر قانون پر چل رہا ہے۔ یہ ایک لمحہ کے لیے بھی قائم نہیں رہ سکتا اگر اس کی بے شمار مختلف قوتوں اور بے حد و حساب چیزوں کے درمیان تناسب اور توازن اور ہم آہنگی اور تعاون نہ ہو۔ اور یہ سب کچھ اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ کوئی اٹل اور غالب و قاہر ضابطہ اِن بے شمار اشیاء  اور قوتوں کو پوری مناسبت کے ساتھ باہم تعاون کرتے رہنے پر مجبور کر رہا ہو۔ اب یہ کس طرح تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مطلق العنان فرمانرواؤں کی حکومت میں ایک ضابطہ اس باقاعدگی کے ساتھ چل سکے ؟ نظم کا وجود خود ہی ناظم کی وحدت کو مستلزم ہے۔ قانون اور ضابطہ کی ہمہ گیری آپ ہی اس بات پر شاہد ہے کہ اختیارات ایک ہی حاکمیت میں مرکوز ہیں اور وہ حاکمیت مختلف حاکموں میں بٹی ہوئی نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن،  جلد دوم، بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، المومنون، حاشیہ نمبر ۸۵)۔

۲۳: ربّ العرش،  یعنی کائنات کے تختِ سلطنت کا مالک۔

۲۴: پہلے دو استدلال عقلی تھے۔ اور یہ استدلال  نقلی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آج تک جتنی کتابیں بھی خدا کی طرف سے دنیا  کے کسی ملک میں کسی قوم کے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں،  ان میں سے کسی میں یہ نکال کر دکھا دو کہ ایک اللہ، خالقِ زمین و آسمان  کے سوا کوئی دوسرا بھی خدائی کا کوئی شائبہ رکھتا ہے اور کسی اور کو بھی بندگی و عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ پھر یہ کیسا مذہب تم لوگوں نے بنا رکھا ہے  جس کی تائید میں نہ عقل سے کوئی دلیل ہے اور نہ آسمانی کتابیں ہی جس کے لیے کوئی شہادت فراہم کرتی ہیں۔

۲۵: یعنی نبی کی بات پر اِن کا توجہ نہ کران علم پر نہیں بلکہ جہل پر مبنی ہے۔ حقیقت سے بے خبر ہیں اس لیے سمجھانے والے کی بات کو ناقابلِ التفات سمجھتے ہیں۔

۲۶: یہاں پھر فرشتوں ہی کا ذکر ہے جن کو مشرکینِ عرب خدا کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ بعد کی تقریر سے یہ بات خود ظاہر ہو جاتی ہے۔

۲۷: مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے۔ ایک یہ کہ ان کے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خدا کے ہاں اپنا شفیع(سفارشی ) بنانا چاہتے تھے۔ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُ لَآءِ شُفَعَآ ؤُ نَا عِنْدَاللہِ (یونس،  آیت ۱۸)۔ اور   مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّ بُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفًا  (الزمر، آیت ۳)۔ ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے۔ اِس جگہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو بھی جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہیں اور اُن باتوں کو بھی جو اُن سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ آخر ان کو سفارش کر نے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتا ہے جبکہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں۔ اس لیے خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین،  ہر ایک  کا اختیار ِ شفا لازماً اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے۔ بطورِ خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا  بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سرِ نیاز جھکایا جائے اور دستِ سوال دراز کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، طٰہٰ،  حاشیہ نمبر ۸۵ – ۸۶)۔

 

ترجمہ

 

کیا وہ لوگ جنہوں نے ( نبی کی بات ماننے سے )انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، ۲۸ اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ ۲۹ کیا وہ ( ہماری اِس خلاقی کو )نہیں مانتے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تا کہ وہ اِنہیں لے کر ڈھلک نہ جائے، ۳۰ اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، ۳۱ شاید کہ یہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں۔ ۳۲ اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، ۳۳ مگر یہ ہیں کہ اس کی نشانیوں کی طرف ۳۴ توجہ ہی نہیں کرتے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سُورج اور چاند کو پیدا کیا۔ سب ایک ایک فلک میں تَیر رہے ہیں۔ ۳۵

۳۶ اور اے محمدؐ،  ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی ہے۔ اگر تم مر گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے؟ ہر جاندار کو موت کا مزّہ چکھنا ہے، ۳۷ اور ہم اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ ۳۸ آخر کار تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔ یہ منکرینِ حق جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں۔ کہتے ہیں ’’ کیا یہ ہے وہ شخص جو تمہارے خداؤں کا ذکر کیا کرتا ہے؟‘‘  ۳۹ اور ان کا اپنا حال یہ ہے کہ رحمٰن کے ذکر سے منکر ہیں۔ ۴۰

انسان جلد باز مخلوق ہے۔ ۴۱ ابھی میں تم کو اپنی نشانیاں دکھائے دیتا ہوں، جلدی نہ مچاؤ ۴۲۔۔۔۔ یہ لوگ کہتے ہیں ’’آخر یہ دھمکی پُوری کب ہو گی اگر تم سچے ہو؟‘‘  کاش اِن کافروں کو اُس وقت کا کچھ علم ہوتا جب کہ یہ نہ اپنے منہ آگ سے بچا سکیں گے نہ اپنی پیٹھیں، اور نہ ان کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔ وہ بلا اچانک آئے گی اور انہیں اس طرح یک لخت دبوچ لے گی کہ یہ نہ اُس کو دفع کر سکیں گے اور نہ ان کو لمحہ بھر مہلت ہی مل سکے گے۔ مذاق تم سے پہلے بھی رسُولوں کا اُڑایا جا چکا ہے مگر اُن کا مذاق اُڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اُڑاتے تھے۔ ؏۳

 

تفسیر

 

۲۸: اصل میں لفظ ’’رتق‘‘  اور ’’فتق‘‘  کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رَتق کے معنی ہیں یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاصق ہونا۔ اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جدا کرنے کے ہیں۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass ) کی سی تھی،  بعد میں اُس کے الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اَجرامِ فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم،  حٰمٓ السجدہ،  حاشیہ نمبر ۱۳ – ۱۴ – ۱۵)۔

۲۹: اس سے جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ پانی کو خدا نے سببِ زندگی اور اصلِ حیات بنایا، اُسی میں اور اُسی سے زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جگہ اس مطلب کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے،  وَاللہُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّۃٍ مِّنْ مَآ ءٍ  (النور، آیت نمبر ۴۵) ’’اور خدا نے ہر  جاندار کو پانی سے پیدا کیا‘‘۔

۳۰: اس کی تشریح سورۂ نحل حاشیہ نمبر ۱۲ میں گزر چکی ہے۔

۳۱: یعنی پہاڑوں کے درمیان ایسے درے  رکھ دیے اور دریا نکال دیے جن کی وجہ سے پہاڑی علاقوں سے گزرنے اور زمین کے ایک خطے سے دوسرے خطے کی طرف عبور کرنے کے راستے نکل آتے ہیں۔ اِسی طرح زمین کے دوسرے حصوں کی ساخت بھی ایسی رکھی ہے کہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچنے کے لیے راہ بن جاتی ہے  یا بنا لی جا سکتی ہے۔

۳۲: ذو معنی فقرہ ہے۔ یہ مطلب بھی ہے کہ لوگ زمین میں چلنے کے لیے  راہ پائیں،  اور یہ بھی کہ وہ اِس حکمت اور اس کاریگری اور اِس انتظام کو دیکھ کر حقیقت تک پہنچنے کا راستہ پالیں۔

۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سُورۂ  الحِجر، حواشی نمبر ۸،  ۱۰، ۱۱، ۱۲۔

۳۴: یعنی اُن نشانیوں کی طرف جو آسمان میں ہیں۔۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۳۶: یہاں سے پھر سلسلۂ تقریر اُس کشمکش کی طرف مڑتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے مخالفین کے درمیان برپا تھی۔۳: یعنی قرآن کی ہر نئی سورت جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوتی ہے اور انہیں سُنائی جاتی ہے۔

۳۸: یعنی راحت اور رنج،  مفلسی اور امیری، غلبہ اور مغلوبی، قوت اور ضعف، صحت اور بیماری،  غرض تمام مختلف حالات میں تم لوگوں کی آزمائش کی جا رہی ہے،  تاکہ دیکھیں  تم اچھے حالات میں متکبّر، ظالم،  خدا فراموش، بندۂ نفس تو نہیں بن جاتے،  اور بُرے حالات میں کم ہمتی کے ساتھ پست اور ذلیل طریقے اور ناجائز راستے تو اختیار نہیں کرنے لگتے۔ لہٰذا کسی صاحبِ عقل آدمی کو اِن مختلف  حالات کو سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ جو حالت بھی اُسے پیش آئے،  اُس کے امتحانی اور آزمائشی پہلو کو نگاہ میں رکھنا چاہیے  اور اس سے بخیریت گزرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ صرف ایک احمق اور کم ظرف آدمی کا کام ہے کہ جب اچھے حالات آئیں تو فرعون بن جائے اور جب بُرے حالات پیش آ جائیں تو زمین پر ناک رگڑنے لگے۔

۳۹: یعنی برائی کے ساتھ اُن کا ذکر کرتا ہے۔ یہاں  اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ یہ فقرہ ان کے مذاق کا مضمون نہیں بتا رہا ہے، بلکہ مذاق اُڑانے کی وجہ اور بنیاد پر روشنی ڈال رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ فقرہ بجائے خود کوئی مذاق کا فقرہ نہیں ہے۔ مذاق تو وہ دوسرے ہی الفاظ میں اُڑاتے ہوں گے اور کچھ اور ہی طرح کے آوازے کستے اور فقرے چُست کرتے ہوں گے۔ البتہ یہ سارا دل کا بخار جس وجہ سے نکالا جاتا تھا وہ یہ تھی کہ آپ ان کو خود ساختہ معبودوں کی خدائی کا رد کرتے تھے۔

۴۰: یعنی بتُوں اور بناوٹی خداؤں کی مخالفت تو انہیں اس قدر ناگوار ہے کہ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمہاری تضحیک و تذلیل کرتے ہیں،  مگر انہیں خود اپنے حال پر شرم نہیں آتی کہ خدا سے پھرے ہوئے ہیں اور اس کا ذکر سُن کر آگ بگولا ہو جاتے ہیں۔

۴۱: اصل میں خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’ انسان جلد بازی سے بنایا گیا ہے،  یا پیدا کیا گیا ہے ‘‘۔ لیکن یہ لفظی معنی اصل مقصود کلام نہیں ہیں۔ جس طرح ہم اپنی زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص عقل کا پُتلا ہے،  اور فلاں شخص حرفوں کا بنا ہوا ہے، اُسی طرح عربی زبان میں کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز سے پیدا کیا گیا ہے، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ فلاں چیز اُس کی سرشت میں ہے۔ یہی بات جس کو یہاں خُلِقَ الْاِ نْسَانُ مِنْ عَجَلٍ کہہ کر ادا کیا گیا ہے،  دوسری جگہ وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا،  ’’انسان جلد باز واقع ہوا ہے‘‘  (بنی اسرائیل،  آیت ۱۱) کے الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔

۴۲: بعد کی تقریر صاف بتا رہی ہے کہ یہاں ’’نشانیوں‘‘  سے کیا مراد ہے۔ وہ لوگ جن باتوں کا مذاق اُڑاتے تھے اُن میں سے ایک عذاب ِ الہٰی،  اور قیامت اور جہنم کا مضمون بھی تھا۔ وہ کہتے تھے کہ یہ شخص آئے دن ہمیں ڈراوے دیتا ہے کہ میرا انکار کرو گے تو خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا، اور قیامت میں تم پر یہ بنے گی اور تم لوگ یوں جہنم کے ایندھن بنائے جاؤ گے۔ مگر ہم روز انکار کرتے ہیں اور دندناتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی عذاب آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ کوئی قیامت ہی ٹوٹی پڑ رہی ہے۔ اسی  کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے۔

 

ترجمہ

 

اے محمدؐ،  ان سے کہو ’’ کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمٰن سے بچا سکتا ہو؟‘‘  ۴۳ مگر یہ اپنے ربّ کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں۔ کیا یہ کچھ ایسے خدا رکھتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کے حمایت کریں؟ وہ تو نہ خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری ہی تائید ان کو حاصل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو اور ان کے آبا و اجداد کو ہم زندگی کا سر و سامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ ان کو دن لگ گئے۔ ۴۴ مگر کیا انہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آرہے ہیں؟ ۴۵ پھر کیا یہ غالب آ جائیں گے؟ ۴۶ ان سے کہہ دو کہ ’’میں تو وحی کی بنا پر تمہیں متنبہ کر رہا ہوں‘‘۔۔۔۔مگر بہرے پُکار کو نہیں سُنا کرتے جب کہ انہیں خبر دار کیا جائے۔ اور اگر تیرے ربّ کا عذاب ذرا سا انہیں چھُو جائے ۴۷ تو ابھی چیخ اُٹھیں کہ ہائے ہماری کم بختی، بے شک ہم خطاوار تھے۔

قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے،  پھر کسی شخص پر ذرا برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا ہو ہم سامنے لے آئیں گے۔ اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں۔ ۴۸ ۴۹ پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ’’ذکر‘‘  ۵۰ عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھلائی کے لیے ۵۱ جو بے دیکھے اپنے ربّ سے ڈریں اور جن کو ( حساب کی )اُس گھڑی ۵۲ کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ اور اب یہ بابرکت( ذکر)ہم نے ( تمہارے لیے)نازل کیا ہے۔ پھر کیا تم اس کو قبول کرنے سے انکاری ہو؟  ؏ ۴

 

تفسیر

 

۴۳: یعنی اگر  اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبردست  ہاتھ تم پر پڑ جائے تو آخر  وہ کونسا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا؟

۴۴: یعنی ہماری اِس مہربانی اور پرورش سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ اِن کا کوئی ذاتی استحقاق ہے جس کا چھیننے والا کوئی نہیں۔ اپنی خوشحالیوں اور سرداریوں کو یہ لازوال سمجھنے لگے ہیں اور ایسے سرمست ہو گئے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے۔

۴۵: یہ مضمون اس سے پہلے سُورۂ رعد آیت ۴۱ میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۶۰)۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کارفرمائی کے  یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں،  کبھی وبا کی شکل میں،  کبھی سیلاب کی شکل میں،  کبھی زلزلے کی شکل میں،  کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی  آ جاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ لہلہاتی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے۔ غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہو جاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد ۴، السجدہ، حاشیہ نمبر ۳۳)۔

۴۶: یعنی  جب کہ اِن  کے تمام وسائلِ زندگی ہمارے ہاتھ میں ہیں،  جس چیز کو چاہیں گھٹا دیں اور جسے چاہیں روک لیں،  تو کیا یہ  اتنا بل بوتا رکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں غالب آ جائیں اور ہماری پکڑ سے بچ نکلیں؟ کیا یہ آثار ان کی یہی اطمینان دلا رہے ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال اور تمہارا عیش غیر فانی ہے اور کوئی تمہیں پکڑنے والا نہیں ہے۔

۴۷: وہی عذاب جس کے لیے یہ جلدی مچاتے ہیں اور مذاق کے انداز میں کہتے ہیں کہ لاؤ نا وہ عذاب کیوں نہیں وہ ٹوٹ پڑتا۔

۴۸: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۸ – ۹۔ ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل  ہے کہ اس ترازو کی نوعیت کیا ہو گی۔ بہر حال وہ کوئی ایسی چیز ہو گی جو مادّی چیزوں کو تولنے کے بجائے انسان کے اخلاقی اوصاف و اعمال اور اس کی نیکی و بدی کو تولے گی اور ٹھیک ٹھیک وزن کر کے بتا دے گی کہ اخلاقی حیثیت سے کس شخص کا کیا پایہ ہے۔ نیک ہے تو کتنا نیک ہے اور بد ہے تو کتنا بد۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہماری زبان  کے دوسرے الفاظ کو چھوڑ کر ’’ترازو‘‘  کا لفظ یا تو اس وجہ سے انتخاب  فرمایا ہے کہ اس کی نوعیت ترازو سے اشبہ ہو گی،  یا اس انتخاب کا مقصد یہ تصوّر دلانا ہے کہ جس طرح ایک ترازو کے پلڑے دو چیزوں کے وزن کا فرق ٹھیک ٹھیک بتا دیتے ہیں،  اسی طرح ہماری میزان عدل بھی ہر انسان کے کارنامۂ زندگی کو جانچ کر بے کم و کاست بتا دے گی کہ اس میں نیکی کا پہلو غالب ہے یا بدی کا۔

۴۹: یہاں سے انبیاء علیہم السّلام کا ذکر شروع ہوتا ہے اور  پے در پے بہت سے انبیاء کی زندگی کے مفصل یا مختصر واقعات کی طرف اشارے کیے جاتے ہیں۔ یہ ذکر جس سیاق و سباق میں آیا ہے اُس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حسب ِ ذیل باتیں ذہن نشین کرنی مقصود ہیں: اوّل یہ کہ تمام پچھلے انبیاء بھی بشر ہی تھے، کوئی نِرالی مخلوق نہ تھے۔ تاریخ میں یہ کوئی نیا واقعہ آج پہلی مرتبہ ہی پیش تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔ دوم یہ کہ پہلے انبیاء بھی اسی کام کے لیے آئے تھے جو کام اب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کر رہے ہیں۔ یہی ان کا مشن تھا اور یہی ان کی تعلیم تھی۔ سوم یہ کہ انبیاء  علیہم السّلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا خاص معاملہ رہا ہے۔ بڑے بڑے مصائب سے رہ گزرے ہیں۔ سالہا سال مصاءً میں مبتلا رہے ہیں۔ شخصی اور ذاتی مصائب میں بھی اور اپنے مخالفوں کے ڈالے ہوئے مصائب میں بھی، مگر آخر کار اللہ کی نصرت و تائید ان کو حاصل ہوئی ہے،  اس نے اپنے فضل و رحمت  سے اُن کو نوازا ہے، ان کی دعاؤں کو قبول کیا ہے، ان کی تکلیفوں کو رفع کیا ہے،  ان کے مخالفوں کو نیچا دکھایا ہے، اور معجزانہ طریقوں پر ان کی مدد کی ہے۔ چہارم یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقبول ِ بارگاہ ہونے کے باوجود،  اور اس کی طرف سے بڑی بڑی حیرت انگیز طاقتیں پانے کے باوجود، تھے وہ بندے اور بشر ہی۔ الوہیّت ان میں سے کسی کو حاصل نہ تھی۔ رائے اور فیصلے میں ان سے غلطی بھی ہو جاتی تھی۔ بیمار بھی  وہ ہوتے تھے۔ آزمائشوں میں بھی ڈالے جاتے تھے۔ حتّٰیٰ کہ قصور بھی ان سے ہو جاتے تھے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مواخذہ بھی ہوتا تھا۔

۵۰: تینوں الفاظ توراۃ کی تعریف میں استعمال ہوئے ہیں۔ یعنی وہ حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی، وہ انسان کو زندگی کا سیدھا راستہ دکھانے والی روشنی تھی، اور وہ اولادِ آدم کو اس کا بھُولا ہوا سبق یاد دلانے والی نصیحت تھی۔

۵۱: یعنی اگرچہ بھیجی گئی تھی وہ تمام انسانوں کے لیے، مگر اس سے فائدہ عملاً وہی لوگ اُٹھا سکتے تھے جو اِن  صفات سے متصف ہوں۔

۵۲: جس کا ابھی اُوپر ذکر گزرا ہے،  یعنی قیامت۔

 

ترجمہ

 

اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوشمندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔ ۵۳ ۵۴ یاد کرو  وہ موقع جب کہ اُس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’ یہ مورتیں کیسی ہیں جن کے تم لوگ گرویدہ ہو رہے ہو؟‘‘  انہوں نے جواب دیا ’’ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی عبادت کرتے پایا ہے۔‘‘  اس نے کہا ’’ تم بھی گمراہ ہو اور تمہارے باپ دادا بھی صریح گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘  انہوں نے کہا ’’ کیا تُو ہمارے سامنے اپنے اصلی خیالات پیش کر رہا ہے یا مذاق کرتا ہے؟‘‘  ۵۵ اُس نے جواب دیا ’’ نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارا ربّ وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا ربّ  اور اُن کا پیدا کرنے والا ہے۔ اِس پر میں تمہارے سامنے گواہی دیتا ہوں۔ اور خدا کی قسم میں تمہاری غیر موجودگی میں ضرور تمہارے بُتوں کی خبر لوں گا۔‘‘  ۵۶ چنانچہ اس نے اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ۵۷ اور صرف ان کے بڑے کو  چھوڑ دیا تاکہ شاید وہ اس کی طرف رُجوع کریں۔ ۵۸ (اُنہوں نے آ کر بُتوں کا یہ حال دیکھا تو)کہنے لگے ’’ ہمارے خداؤں کا یہ حال کس نے کر دیا؟ بڑا ہی کوئی ظالم تھا وہ۔‘‘ (بعض لوگ)بولے ’’ ہم نے ایک نوجوان کو ان کا ذکر کرتے سُنا تھا جس کا نام ابراہیمؑ ہے۔‘‘  اُنہوں نے کہا ’’تو پکڑ لاؤ اُسے سب کے سامنے تاکہ لوگ دیکھ لیں( اُس کی کیسی خبر لی جاتی ہے)۔‘‘  ۵۹ (ابراہیمؑ کے آنے پر)اُنہوں نے پوچھا ’’ کیوں ابراہیمؑ، تُو نے ہمارے خداؤں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟‘‘  اُس نے جواب دیا ’’ بلکہ یہ سب کچھ اِن کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پُوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔‘‘  ۶۰ یہ سُن کر وہ لوگ اپنے ضمیر کی طرف پلٹے اور (اپنے دِلوں میں)کہنے لگے ’’ واقعی تم خود ہی ظالم ہو۔‘‘  مگر پھر اُن کی مت پلٹ گئی ۶۱ اور بولے ’’تُو جانتا ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں۔‘‘  ابراہیمؑ نے کہا ’’پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اُن چیزوں کو پُوج رہے ہو جو نہ تمہیں نفع پہنچانے پر قادر ہیں نہ نقصان۔ تُف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبودوں پر جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پُوجا کر رہے ہو۔ کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟‘‘  اُنہوں نے کہا ’’جلا ڈالو اِس کو اور حمایت کرو اپنے خداؤں کی اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم نے کہا ’’اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔‘‘  ۶۲ وہ چاہتے تھے کہ ابراہیمؑ کے ساتھ بُرائی کریں۔ مگر ہم نے اُن کو بُری طرح ناکام کر دیا۔ اور ہم اُسے اور لوطؑ ۶۳ کو بچا کر اُس سر زمین کی طرف نکال لے گئے جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی ہیں۔ ۶۴ اور ہم نے اسے اسحاقؑ عطا کیا اور یعقوبؑ اس پر مزید، ۶۵ اور ہر ایک کو صالح بنایا۔ اور ہم نے اُن کو امام بنا دیا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے۔ اور ہم نے اُنہیں وحی کے ذریعہ نیک کاموں کی اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کی ہدایت کی، اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ ۶۶

اور لُوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا ۶۷ اور اُسے اُس بستی سے بچا کر نکال دیا جو بد کاریاں کرتی تھی۔۔۔۔ درحقیقت وہ بڑی ہی بُری،  فاسق قوم تھی۔۔۔۔ اور لُوط ؑ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا، وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۵۳: ’’ہوشمندی‘‘  ہم نے ’’ رشید‘‘  کا ترجمہ کیا ہے جس کے معنی ہیں ’’صحیح و غلط میں تمیز کر کے صحیح بات یا طریقے کو اختیار کرنا اور غلط بات یا طریقے سے احتراز کرنا‘‘۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ’’رشد‘‘  کا ترجمہ ’’راست روی‘‘  بھی ہو سکتا ہے، لیکن چونکہ رُشد کا لفظ محض راست روی کو نہیں بلکہ اُس راست روی کو  ظاہر کرتا ہے جو نتیجہ ہو فکر صحیح اور عقلِ سلیم کے استعمال کا،  اس لیے ہم نے ’’ہوشمندی‘‘  کے لفظ کو اس کے مفہوم سے اقرب سمجھا ہے۔ ’’ابراہیم کو اُس کی ہوشمندی بخشی‘‘  یعنی جو ہوشمندی اس کو حاصل تھی وہ ہماری عطا کر دہ تھی۔ ’’ہم اُس کو خوب جانتے تھے‘‘  یعنی ہماری یہ بخشش کوئی اندھی بانٹ نہ تھی۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ کیسا آدمی ہے، اس لیے ہم نے اس کو نوازا۔ اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَا لَتَہٗ، ’’ اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کس کے حوالے کرے‘‘۔ (الانعام،  آیت نمبر ۱۲۴)۔ اس میں ایک لطیف اشارہ ہے سردارانِ قریش کے اُس اعتراض کی طرف جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آخر اِس شخص میں کون سے سرخاب  کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ ہم کو چھوڑ کر اسے رسالت کے منصب پر مقرر کرے۔ اس کا جواب مختلف مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں  دیا گیا ہے۔ یہاں صرف اِس لطیف اشارے پر اکتفا کیا گیا کہ یہی سوال ابراہیم کے متعلق بھی ہو سکتا تھا، پوچھا جا سکتا تھا کہ سارے ملکِ عراق میں ایک ابراہیم ہی کیوں اس نعمت سے نوازا گیا، مگر ہم جانتے تھے کہ ابراہیم میں کیا اہلیّت ہے،  اس لیے ان کی پوری قوم میں سے اُن کو اِس نعمت کے لیے منتخب کیا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سیرتِ پاک کے مختلف پہلو اِس سے پہلے سُورۂ بقرہ آیات ۱۲۴ تا ۱۴۱ – ۲۵۸ – ۲۶۰۔ الانعام،  آیات ۱۲۰ تا ۱۳۳ میں گزر چکے ہیں جن پر ایک نگاہ ڈال لینا مفید ہو گا۔

۵۴: جس واقعہ کا آگے ذکر کیا  جا رہا ہے اس کو پڑھنے سے پہلے یہ بات اپنے ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ قریش کے لوگ حضرت ابراہیم کی اولاد تھے، کعبہ انہی کا تعمیر کردہ تھا کہ یہ اولادِ ابراہیم ہیں اور کعبۂ ابراہیمی کے مجاور ہیں۔ آج اِس زمانے اور عرب سے دُور دراز کے ماحول میں تو حضرت ابراہیم کا یہ قصہ صرف ایک سبق آموز تاریخی واقعہ ہی نظر آتا ہے،  مگر جس زمانے اور ماحول میں اوّل اوّل یہ بیا کیا گیا تھا،  اس کو نگاہ میں رکھ کر دیکھیے تو محسوس ہو گا کہ قریش کے مذہب اور ان کی برہمنیت پر ایک ایسی کاری ضرب تھی جو ٹھیک اس کی جڑ پر جا کر لگتی تھی۔

۵۵: اِس فقرے  کا لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’کیا تُو ہمارے سامنے حق پیش کر رہا ہے یا کھیلتا ہے‘‘۔ لیکن اصل مفہوم وہی ہے جس کی ترجمانی اوپر کی گئی ہے۔ ان لوگوں کو اپنے دین کے برحق ہونے کا اتنا یقین تھا کہ وہ یہ تصوّر کرنے کے لیے بھی تیار نہ تھے کہ یہ باتیں کوئی شخص سنجیدگی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ یہ تم محض مذاق اور کھیل کر رہے ہو یا واقعی تمہارے یہی خیالات ہیں۔

۵۶: یعنی اگر تم استدلال سے بات نہیں سمجھتے ہو تو میں عملاً تمہیں مشاہدہ کرا دوں گا  کہ یہ بے بس ہیں،  ان کے پاس کچھ بھی اختیارات نہیں ہیں،  اور ان کو خدا بنانا غلط ہے۔ رہی یہ بات کہ عملی تجربے اور مشاہدے سے یہ بات وہ کس طرح ثابت کریں گے،  تو اس کی کوئی تفصیل حضرت ابراہیم نے اُس موقع پر نہیں بتائی۔

۵۷: یعنی موقع  پا کر جب کہ پجاری اور مجاور موجود نہ تھے،  حضرت ابراہیم ان کے مرکزی بت خانے میں گھس گئے،  اور سارے بُتوں کو توڑ ڈالا۔

۵۸: ’’اُس کی طرف‘‘  کا اشارہ بڑے بُت کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور خود حضرت ابراہیم کی طرف بھی۔ اگر پہلی بات ہو تو یہ حضرت ابراہیم ؑ  کی طرف سے اُن کے عقائد پر ایک طنز کا ہم معنی ہے۔ یعنی اگر اِن کے نزدیک واقعی یہ خدا ہیں تو انہیں اپنے بڑے خدا کے متعلق یہ شبہ ہونا چاہیے کہ شاید بڑے حضرت ان چھوٹے حضرتوں سے کسی بات پر بگڑ گئے ہوں اور سب کا کچومر بنا ڈالا ہو۔ یا پھر بڑے حضرت سے یہ پوچھیں کہ حضور، آپ کی موجودگی میں یہ کیا ہوا؟ کون یہ کام کر گیا؟ اور  آپ نے اسے روکا کیوں نہیں ؟ اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو حضرت ابراہیم کا منشا اس کاروائی سے یہ تھا کہ اپنے بتوں کا یہ حال دیکھ کر شاید اِن کا ذہن میری ہی طرف منتقل ہو گا اور یہ مجھ سے پوچھیں گے تو مجھ کو پھر ان سے صاف صاف بات کرنے کا موقع مل جائے گا۔

۵۹: یہ گویا حضرت ابراہیم کی منہ مانگی مراد تھی، کیونکہ وہ بھی  یہی چاہتے تھے کہ بات صرف پروہتوں اور پُجاریوں ہی کے سامنے نہ ہو بلکہ عام لوگ بھی موجود ہوں اور سب دیکھ لیں کہ یہ بُت جو اُن کے قاضی الحاجات بنا کر رکھے گئے ہیں کیسے بے بس ہیں اور خود یہ پروہت حضرات ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ اِس طرح اِن پجاریوں سے بھی وہی حماقت سرزد ہوئی جو فرعون سے سرزد ہوئی تھی۔ اس نے بھی جادوگروں سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرانے کے لیے ملک بھر کی خلقت جمع کرائی تھی اور اِنہوں نے بھی حضرت ابراہیم کا مقدمہ سننے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لیا۔ وہاں حضرت موسیٰ کو سب  کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ لائے ہیں وہ جادو نہیں  معجزہ ہے۔ اور یہاں حضرت ابراہیم کو ان کے دشمنوں نے آپ ہی یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ عوام کے سامنے اُن کے مکر و فریب کا طلسم توڑ دیں۔

۶۰: یہ آخری فقرہ خود ظاہر کر رہا ہے کہ پہلے فقرے میں حضرت ابراہیم نے بُت شکنی کے اِس فعل کو بڑے بُت کی طرف جو منسُوب کیا ہے اِس سے اُن کا مقصد جھوٹ بولنا نہ تھا، بلکہ وہ اپنے مخالفین پر حجّت قائم کر رہے تھے۔ یہ بات انہوں نے اس لیے کہی تھی کہ وہ لوگ جو اب میں خود ان کا اقرار کریں کہ ان کے یہ معبُود بالکل بے بس ہیں اور اُن سے کسی فعل کی توقع تک نہیں کی جا سکتی۔ ایسے مواقع پر ایک شخص استدلال کی خاطر جو خلافِ واقعہ بات کہتا ہے اس کو جھُوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا،  کیونکہ نہ وہ خود جھُوٹ کی نیّت سے ایسی بات کہتا ہے اور نہ اس کے مخاطب ہی اِسے جھُوٹ سمجھتے ہیں۔ کہنے والا اسے حجّت قائم کرنے کے لیے کہتا ہے اور سننے والا بھی اُسے اسی معنی میں لیتا ہے۔ بد قسمتی سے حدیث کی ایک روایت میں یہ بات آ گئی ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنی زندگی میں تین مرتبہ جھوٹ بولے ہیں۔ ان میں سے ایک ’’جھوٹ ‘‘ تو یہ ہے،  اور دوسرا ’’جھوٹ‘‘  سورۂ صافات میں حضرت ابراہیم کا قول ا اِنِّیْ  سَقِیْمٌ، اور تیسرا ’’جھوٹ‘‘  اُن کا اپنی بیوی کو بہن کہنا ہے جس کا ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائیبل  کی کتاب پیدائش میں آیا ہے۔ ایک گروہ روایت پرستی میں غلو کر کے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اسے بخاری و مسلم کے چند راویوں کی صداقت زیادہ عزیز ہے اور اس بات کی پروا نہیں  ہے کہ اس سے ایک نبی پر جھوٹ کا الزام عائد ہوتا ہے۔ دوسرا گروہ اس ایک روایت کے لے کر پورے ذخیرۂ حدیث پر حملہ آور ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری ہی حدیثوں کو اٹھا کر پھینک دو کیونکہ ان میں ایسی ایسی روایتیں پائی جاتی ہیں۔ حالانکہ نہ ایک یا چند روایات میں کسی خرابی کے پائے جانے سے یہ لازم آتا ہے کہ ساری ہی روایات ناقابلِ اعتماد ہوں۔ اور نہ فنِ حدیث کے نقطۂ نظر سے کسی روایت کی سند کا مضبوط ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ اس کا متن خواہ کتنا ہی قابلِ اعتراض ہو مگر اسے ضرور آنکھیں بند کر کے صحیح مان لیا جائے۔ سند کے قوی اور قابلِ اعتماد ہونے کے باوجود بہت سے اسباب ایسے ہو سکتے ہیں جن کی وجہ سے ایک متن غلط صورت میں نقل ہو جاتا ہے اور ایسے مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جن کی قباحت خود پکار رہی ہوتی ہے کہ یہ باتیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی فرمائی ہوئی نہیں ہو سکتیں۔ اس لیے سند کے ساتھ ساتھ متن کو دیکھنا بھی ضروری ہے،  اور اگر متن میں واقعی کوئی قباحت ہو تو پھر خواہ مخواہ اس کی صحت پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ حدیث،  جس میں حضرت ابراہیم کے تین ’’جھوٹ‘‘  بیان کیے گئے ہیں، صرف اِسی وجہ سے قابلِ اعتراض نہیں ہے کہ یہ ایک نبی کو جھوٹا قرار دے رہی ہے۔ بلکہ اس بنا پر بھی غلط ہے کہ اس میں جن تین واقعات کا ذکر کیا گیا ہے وہ تینوں ہی محلِّ نظر ہیں۔ اُن میں سے ایک ’’جھوٹ‘‘  کا حال ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ کوئی معمولی عقل و خرد کا آدمی بھی اِس سیاق و سباق میں حضرت ابراہیم کے اس قول پر لفظ ’’جھوٹ‘‘  کا اطلاق نہیں کر سکتا، کجا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معاذاللہ اس سخن نا شناسی  کی توقع کریں۔ رہا اِنِّیْ  سَقِیْمٌ  والا واقعہ تو اس کا جھُوٹ ہونا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک  یہ ثابت نہ ہو جائے کہ حضرت ابراہیم فی الواقع اُس وقت بالکل صحیح و تندرست تھے اور کوئی ادنیٰ سی شکایت بھی اُن کو نہ تھی۔ یہ بات نہ قرآن میں کہیں بیان ہوئی ہے اور نہ اِس زیر بحث روایت کے سوا کسی دوسری معتبر روایت میں اس کا ذکر آیا ہے۔ اب رہ جاتا ہے بیوی کو  بہن قرار دینے کا واقعہ تو وہ بجائے خود ایسا مہمل ہے کہ ایک شخص اس کو سنتے ہی کہ کہہ دے گا کہ یہ ہر گز واقعہ نہیں ہو سکتا۔ قصّہ اُس وقت کا بتایا جا تا ہے جب حضرت ابراہیم  اپنی بیوی حضرت سارہ کے ساتھ مصر گئے ہیں۔ بائیبل  کی رو سے اس وقت حضرت ابراہیم کی عمر ۷۵ اور حضرت سارہ کی عمر ۶۵ برس سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ اور اس عمر میں حضرت ابراہیم کو یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اس خوبصورت خاتون کو حاصل کرنے کی خاطر مجھے قتل کر دے گا۔ چنانچہ وہ بیوی سے کہتے ہیں کہ جب مصری تمہیں پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانے لگیں تو تم بھی مجھے اپنا بھائی بتانا اور میں بھی تمہیں اپنی بہن بتاؤں گا تاکہ میری جان  تو بچ جائے (پیدائش،  باب ۱۲)۔ حدیث کی زیرِ بحث روایت میں تیسرے ’’جھوٹ‘‘  کی بنیاد اِسی صریح لغو اور مہمل اسرائیلی روایت  پر ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے کہ جس حدیث کا متن ایسی باتوں پر مشتمل ہو اس کو بھی ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسُوب کرنے پر صرف اس لیے اصرار کریں کہ اس کی سند مجروح نہیں ہے؟ اسی طرح کی  اِفراط پسندیاں پھر معاملے کو بگاڑ کر اُس تفریط  تک نوبت پہنچا دیتی ہیں جس کا مظاہرہ منکرینِ حدیث کر رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب رسائل و مسائل،  جلد دوم، ص ۳۵ تا  ۳۹)۔

۶۱: اصل میں  نُکِسُوْ ا عَلیٰ رُءُ وْ سِھِمْ (اوندھا دیے گئے اپنے سروں کے بل) فرمایا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ انہوں نے خجالت کے مارے سر جھکا لیے۔ لیکن موقع و محل اور اسلوبِ بیان اس معنی کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے۔ صحیح مطلب،  جو سلسلۂ  کلام  اور اندازِ کلام پر نظر کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے،  یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کا جواب سنتے ہی پہلے تو انہوں نے اپنے دلوں  میں سوچا کہ واقعی ظالم تو تم خود ہو،  کیسے بے بس  اور بے اختیار معبودوں کو خدا بنائے بیٹھے ہو جو اپنی زبان سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ان پر کیا بیتی اور کون انہیں مار کر رکھ گیا، آخر یہ ہماری کیا مدد کریں گے جب کہ خود اپنے آپ کو بھی نہیں بچا سکتے۔ لیکن اس کے بعد فوراً ہی ان پر ضد  اور جہالت سوار ہو گئی اور،  جیسا کہ ضد کا خاصہ ہے،  اس کے سوار ہوتے ہی ان کی عقل اوندھ گئی۔ دماغ سیدھا  سوچتے سوچتے یکایک اُلٹا سوچنے لگا۔

۶۲: الفاظ صاف بتا رہے ہیں،  اور سیاق و سباق بھی اس مفہوم کی تائید کر رہا ہے کہ انہوں نے واقعی اپنے اس فیصلے پر عمل کیا،  اور جب آک کا الاؤ تیار کر کے اُنہوں نے حضرت ابراہیم ؑ کو اس میں پھینکا تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جائے اور بے ضرر بن کر رہ جائے۔ پس صریح طور پر یہ بھی اُن معجزات میں سے ایک ہے جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ان معجزات کی اس لیے تاویلیں کرتا ہے کہ اس کے نزدیک خدا کے لیے بھی نظامِ عالم کے معمول() سے ہٹ کر کوئی غیر معمولی کام کرنا ممکن نہیں ہے،  تو آخر وہ خدا کو ماننے  ہی کی زحمت  کیوں اُٹھاتا ہے۔ اور اگر وہ اس طرح کی تاویلیں اس لیے کرتا ہے کہ جدید زمانے کے نام نہاد عقلیت پرست ایسی باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں،  تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ بندۂ خدا، تیرے اوپر یہ فرض کس نے عائد کیا تھا کہ تو کسی نہ کسی طرح انہیں منوا کر ہی چھوڑے ؟ جو شخص قرآن کو، جیسا کہ وہ  ہے،  ماننے کے لیے تیار نہیں ہے،  اسے اس کے حال پر چھوڑ و۔ اسے منوانے کی خاطر قرآن کو اس کے خیالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا، جبکہ قرآن کے الفاظ قدم قدم پر اِس ڈھلائی کی مزاحمت کر رہے ہوں، آخر کس قسم کی تبلیغ ہے اور کون معقول آدمی اسے جائز سمجھ سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ عنکبوت،  حاشیہ نمبر ۳۹)۔

۶۳: بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم ؑ کے دو بھائی تھے، نَحور اور حاران۔ حضرت لوط ؑ حاران کے بیٹے تھے (پیدائش باب ۱۱، آیت ۲۶)۔ سُورۂ عنکبوت میں حضرت ابراہیم کا جو تذکرہ آیا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی قوم میں سے صرف ایک حضرت لوط ؑ ہی ان پر ایمان لائے تھے (ملاحظہ ہو آیت ۲۶)۔

۶۴: یعنی شام و فلسطین کی سرزمین۔ اس کی برکتیں مادّی بھی ہیں او ر روحانی بھی۔ مادی حیثیت سے وہ دنیا کے زرخیز ترین علاقوں میں سے ہے۔ اور روحانی حیثیت سے وہ ۲ ہزار برس تک انبیاء علیہم السّلام کا مہبط رہی ہے۔ دنیا کے کسی دوسرے خطے میں اتنی کثرت سے انبیاء مبعوث نہیں ہوئے ہیں۔

۶۵: یعنی بیٹے کے بعد پوتا بھی ایسا ہو ا جسے نبوت سے سرفراز کیا گیا۔

۶۶:  حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کے اس اہم  واقعے کا بائیبل میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بلکہ ان کی زندگی کے عراقی دور کا کوئی واقعہ بھی اس کتاب میں جگہ نہیں پا سکا ہے۔ نمرود سے ان کی مد بھیڑ، باپ اور قوم سے ان کی کشمکش،  بت پرستی کے خلاف ان کی جدو جہد،  آگ میں ڈالے جانے کا قصہ،  اور بالآخر ملک چھوڑ نے پر مجبور ہونا،  ان میں سے ہر چیز بائیبل کی کتاب ’’پیدائش‘‘  کے مصنف کی نگاہ میں ناقابل التفات تھی۔ وہ صرف ان کی ہجرت کا ذکر کرتا ہے،  مگر وہ بھی اس انداز سے کہ جیسے ایک خاندان تلاش معاش میں ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا کر آباد ہو رہا ہے۔ قرآن اور بائیبل کا اس سے بھی زیادہ دلچسپ اختلاف یہ ہے کہ قرآن کے بیان کی رو سے حضرت ابراہیمؑ کا مشرک باپ ان پر ظلم کرنے میں پیش پیش تھا، اور بائیبل کہتی ہے کہ ان کا باپ خود اپنے بیٹوں،  پوتوں اور بہوؤں کو لے کر حاران میں جا بسا (باب  ۱۱۔ آیات  ۲۷ تا  ۳۲)۔ اس کے بعد یکایک خدا حضرت ابراہیم سے کہتا ہے کہ تو حاران کو چھوڑ کر کنعان میں جا کر بس جا اور ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور برکت دوں گا اور تیرا نام سر فراز کروں گا، سو تو باعث برکت ہو، جو تجھے مبارک کہیں ان کو میں برکت دوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اس پر میں لعنت کروں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘  (باب  ۱۲۔ آیت ۱۔ ۳)۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اچانک حضرت ابراہیم پر یہ نظر عنایت کیوں ہو گئی۔ تَلْمود میں البتہ سیرت ابراہیمی کے عراقی دور کی وہ بیشتر تفصیلات ملتی ہیں جو قرآن کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ مطر دونوں کا تقابل کرنے سے نہ صرف یہ کہ قصے کے اہم اجزاء میں بین تفاوت نظر آتا ہے،  بلکہ ایک شخص صریح طور پر یہ محسوس کر سکتا ہے کہ تلمود کا بیان بکثرت بے جوڑ اور خلاف قیاس باتوں سے بھرا ہوا ہے اور اس کے برعکس قرآن بالکل منقح صورت میں حضرت ابراہیمؑ کے اہم واقعات زندگی کو پیش کرتا ہے جن میں کوئی لغو بات آنے نہیں پائی ہے،  توضیح مدعا کے لیے ہم یہاں تلمود کی داستاں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں تاکہ ان لوگوں کی غلطی پوری طرح کھل جائے جو قرآن کو بائیبل اور یہودی لٹریچر کا خوشہ چیں قرار دیتے ہیں۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیدائش کے روز نجومیوں نے آسمان پر ایک علامت دیکھ کر نمرود کو مشورہ دیا تھا کہ تارح کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا ہے اسے قتل کر دے۔ چنانچہ وہ ان کے قتل کے درپے ہوا۔ مگر تارح نے اپنے ایک غلام کا بچہ ان کے بدلے میں دے کر انہیں بچا لیا۔ اس کے بعد تارح نے اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں لے جا کر چھپا دیا جہاں  ۱۰ سال تک وہ رہے۔ گیارھویں سال حضرت ابراہیم کو تارح نے حضرت نوحؑ کے پاس پہنچا دیا اور  ۳۹ سال تک وہ حضرت نوحؑ اور ان کے بیٹے سام کی تربیت میں رہے۔ اسی زمانے میں حضرت ابراہیمؑ  کی بھتیجی تھیں۔ نیز وہ دونوں کے درمیان عمر کا فرق بھی صرف  ۱۰ سال بتاتی ہے۔ پیدائش۔ باب  ۱۱۔ آیت  ۲۹۔ اور باب  ۱۷۔ آیت ۱۷ )۔ پھر تلمود کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم پچاس سال کی عمر میں حضرت نوح کا گھر چھوڑ  کر اپنے باپ کے ہاں آ گئے۔ یہاں انہوں نے دیکھا کہ باپ بت پرست ہے اور گھر میں سال کے بارہ مہینوں کے حساب سے  ۱۲ بت رکھے ہیں۔ انہوں نے پہلے تو باپ کو سمجھانے کی کوشش کی، اور جب اس کی سمجھ میں بات نہ آئی تو ایک روز موقع پا کر اس گھریلو بت خانے کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ تارح نے آ کر اپنے خداؤں کا یہ حال جو دیکھا تو سیدھا نمرود نے بلا کر حضرت ابراہیم سے باز پرس کی۔ انہوں نے سخت جوابات دیے۔ نمرود نے ان کو تو فوراً جیل بھیج دیا اور پھر معاملہ اپنی کونسل میں پیش کیا تاکہ صلاح مشورے سے اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔ کونسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ اس شخص کو آگ میں جلا دیا جائے۔ چنانچہ آگ کا ایک بڑا الاؤ تیار کرایا گیا اور حضرت ابراہیمؑ اس میں پھینک دیے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ان کے بھائی اور خسر، حاران کو بھی پھینکا  گیا، کیونکہ نمرود نے تارح سے جب پوچھا کہ تیرے اس بیٹے کو تو میں پیدائش ہی کے روز قتل کرنا چاہتا تھا، تو نے اس وقت اسے بچا کر دوسرا بچہ کیوں اس کے بدلے قتل کرایا، تو اس نے کہا کہ میں نے حاران کے کہنے سے یہ حرکت کی تھی۔ اس لیے خود اس فعل کے مرتکب کو تو چھوڑ دیا گیا اور مشورہ دینے والے کو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ آگ میں پھینکا گیا۔ آگ میں گرتے ہی حاران فوراً جل بھن کر کوئلہ ہو گیا مگر حضرت ابراہیمؑ کو لگوں نے دیکھا کہ ’’ آسمانی خدا کے بندے،  آگ سے نکل آ اور میرے سامنے کھڑا ہو جا‘‘۔ حضرت ابراہیم باہر آ گئے۔ نمرود ان کا معتقد ہو گیا اور اس نے بہت سے قیمتی نذرانے ان کو دے کر رخصت کر دیا۔ اس کے بعد تلمود کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیمؑ دو سال تک وہاں رہے۔ پھر نمرود نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا اور اس کے نجومیوں نے اس کی تعبیر یہ بتائی کہ ابراہیم تیری سلطنت کی تباہی کا موجب بنے گا، اسے قتل کرا دے۔ اس نے ان کے قتل کے لیے آدمی بھیجے،  مگر حضرت ابراہیمؑ کو خود نمرود ہی کے عطا کیے ہوئے ایک غلام،  الیعزر نے قبل از وقت اس منصوبے کی اطلاع دے دی اور حضرت ابراہیمؑ نے بھاگ کر حضرت نوح کے ہاں پناہ لی۔وہاں تارح آ کر ان سے خفیہ طور پر ملتا رہا اور آخر باپ بیٹوں کی یہ صلاح ہوئی کہ ملک چھوڑ دیا جائے۔ حضرت نوح اور سام نے بھی اس تجویز کو پسند کیا۔ چنانچہ تارح اپنے بیٹے ابراہیم اور پوتے لوط اور پوتی اور بہو سارا کو لے کر اُر سے حارن چلا گیا۔ (منتخبات تلمود از ایچ پولونو، لندن۔ صفحہ ۳۰ تا  ۴۲۔ )۔ کیا اس داستان کو دیکھ کر کوئی معقول آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ یہ قرآن کا ماخذ ہو سکتی ہے؟

۶۷: ’’حکم اور علم بخشنا‘‘  بالعموم قرآن مجید میں نبوت عطا کر نے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ’’حکم‘‘  سے مراد حکمت بھی ہے، صحیح قوت فیصلہ بھی،  اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے سند حکمرانی (Authority ) حاصل ہونا  بھی۔ رہا ’’علم‘‘  تو اس سے مراد وہ علم  حق ہے جو وحی کے ذریعہ عطا  کیا گیا ہو۔ حضرت لوط ؑ  کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف،  آیات ۸۰ تا ۸۴۔ ھود،  آیات ۶۹ تا ۸۳۔ الحِجر،  آیات ۵۷ تا ۷۶۔

 

ترجمہ

 

اور یہی نعمت ہم نے نُوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اُس نے ہمیں پکارا ۶۸ تھا۔ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کَربِ عظیم ۶۹ سے نجات دی اور اُس قوم کے مقابلے میں اُس کی مدد کی جس نے ہماری آیات کو جھُٹلا دیا تھا۔ وہ بڑے بُرے لوگ تھے،  پس ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔اور اسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ و سلیمانؑ  کو سرفراز کیا۔ یاد کرو وہ موقع جبکہ وہ دونوں ایک کھیت کے مقدمے میں فیصلہ کر رہے تھے جس میں رات کے وقت دُوسرے لوگوں کی بکریاں پھیل گئی تھیں، اور ہم اُن کی عدالت خود دیکھ رہے تھے۔ اُس وقت ہم نے صحیح فیصلہ سلیمان کو سمجھا دیا، حالانکہ حکم اور علم ہم نے دونوں ہی کو عطا کیا تھا۔ ۷۰

داؤدؑ کے ساتھ ہم نے پہاڑوں اور پرندوں کو مسخر کر دیا تھا جو تسبیح کرتے تھے، ۷۱ اِس فعل کے کرنے والے ہم ہی تھے۔ اور ہم نے اُس کے تمہارے فائدے کے لیے زرہ بنانے کی صنعت سکھا دی تھی، تاکہ تم کو ایک دُوسرے کی مار سے بچائے، ۷۲ پھر کیا تم شکر گزار ہو؟ ۷۳ اور سلیمانؑ کے لیے ہم نے تیز ہوا کو مسخّر کر دیا تھا جو اس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں، ۷۴ ہم ہر چیز کا علم رکھنے والے تھے۔ اور شیاطین میں سے ہم نے ایسے بہت سوں کو اس کا تابع بنا دیا تھا جو اس کے لیے غوطے لگاتے اور اس کے سوا دُوسرے کام کرتے تھے۔ ان سب کے نگراں ہم ہی تھے۔ ۷۵ اور یہی (ہوشمندی اور حکم و علم کی نعمت)ہم نے ایوبؑ ۷۶ کو دی تھی۔ یاد کرو، جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تُو ارحم الراحمین ہے۔‘‘  ۷۷ ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور جو تکلیف اُسے تھی اس کو دُور کر دیا، ۷۸ اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیے بلکہ ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، اپنی خاص رحمت کے طور پر، اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے۔ ۷۹

اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ ۸۰   اور ذوالکفلؑ ۸۱ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ان کو  ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا کہ وہ صالحوں میں سے تھے۔ اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا۔ ۸۲ یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا ۸۳ اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔ ۸۴ آخر کو اُس نے تاریکیوں میں سے پکارا ’’ ۸۵ نہیں ہے کوئی خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قُصور کیا۔‘‘  تب ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور غم سے اس کو نجات بخشی، اور اِسی طرح ہم مومنوں کو بچا لیا کرتے ہیں۔

اور زکریاؑ کو،  جبکہ اس نے اپنے ربّ کو پکارا کہ ’’ اے پروردگار،  مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے۔‘‘  پس ہم نے اس کی دُعا قبول کی اور اسے یحییٰ عطا کیا اور اس کی بیوی کو اس کے لیے درست کر دیا۔ ۸۶ یہ  لوگ نیکی کے کاموں میں دوڑ دھُوپ کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف کے ساتھ پکارتے تھے، اور ہمارے آگے جھُکے ہوئے تھے۔ ۸۷ اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی۔ ۸۸ ہم نے اُس کے اندر اپنی رُوح سے پھُونکا ۸۹ اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو دُنیا بھر کے لیے نشانی بنا دیا۔ ۹۰

یہ تمہاری اُمّت حقیقت میں ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔ مگر (یہ لوگوں کی کارستانی ہے کہ )انہوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۹۱۔۔۔۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔ ؏ ٦

 

تفسیر

 

۶۸: اشارہ ہے حضرت نوح ؑ  کی اُس دُعا کی طرف جو ایک مدت دراز تک اپنی قوم کی اصلاح کے لیے مسلسل کوشش کر تے رہنے کے بعد آخر کا تھک کر انہوں نے مانگی تھی کہ  اَنِّیْ مَغْلُوْ بٌ فَا نْتِصِرْ،  ’’پروردگار،  میں مغلوب ہو گیا ہوں، اب میری مدد کو پہنچ‘‘  (القمر۔ آیت ۱۰)۔ اور  رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا،  ’’پروردگار،  زمین پر ایک کافر باشندہ بھی نہ چھوڑ‘‘ (نوح۔ آیت ۲۶)۔

۶۹: کَربِ عظیم سے مراد یا تو ایک بدکردار قوم کے درمیان زندگی بسر کرنے کی مصیبت ہے،  یا پھر طوفان۔ حضرت نوح ؑ کے قصّے کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو۔ الاعراف،  آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس، آیات ۷۱  تا ۷۳۔ ھُود،  آیات ۲۵ تا ۴۸، بنی اسرائیل،  آیت ۳۔

۷۰: اس واقعے کا ذکر بائیبل میں نہیں ہے،  اور یہودی لٹریچر میں بھی ہمیں اس کا کوئی نشان نہیں ملا۔ مسلمان مفسرین نے اس کو جو تشریح کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص کے کھیت میں دوسرے شخص کی بکریاں رات کے وقت گھُس گئی تھیں۔ اُس نے حضرت داؤد کے ہاں ستغاثہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اُس کی بکریاں چھین کر اِسے دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے اس سے اختلاف کیا  اور یہ رائے دی کہ بکریاں اُن وقت تک کھیت والے پاس رہیں جب تک بکری والا اُس کے کھیت کو پھر سے تیار نہ کر دے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ یہ فیصلہ ہم نے سلیمان ؑ کو سمجھایا تھا۔ مگر چونکہ مقدمے کی یہ تفصیل قرآن میں بیان نہیں ہوئی ہے اور نہ کسی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی تصریح نقل ہوئی ہے،  اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس طرح کے مقدمے میں یہی ثابت شدہ اسلامی قانون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ اور دوسرے فقہائے اسلام کے درمیان اس امر میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ اگر کسی کا کھیت دوسرے شخص کے جانور خراب کر دیں تو کوئی تاوان عائد ہو گا یا نہیں اور عائد ہو گا تو کس صورت میں ہو گا اور کس صورت میں نہیں،  نیز یہ کہ تاوان کی شکل کیا ہو گی۔ اس سیاق و سباق میں حضرت داؤد و سلیمان کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنے سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ انبیاء علیہم السّلام نبی ہونے اور اللہ کی طرف سے غیر معمولی طاقتیں اور قابلیتیں پانے کے باوجود ہوتے انسان ہی  تھے،  الوہیت کا کوئی شائبہ ان میں نہ ہوتا تھا۔ اس مقدمے میں حضرت داؤد کی رہنمائی وحی کے ذریعہ سے نہ کی گئی تھی اور وہ فیصلہ  کرنے کرنے میں غلطی کر گئے،  حضرت سلیمان کی رہنمائی کی گئی اور انہوں نے صحیح فیصلہ کیا، حالانکہ نبی دونوں ہی تھے۔ آگے ان دونوں بزرگوں کے جن کمالات کا ذکر کیا گیا ہے وہ بھی یہی بات سمجھانے کے لیے ہے کہ یہ وہی  کمالات تھے اور اس طرح کے کمالات کسی کو خدا نہیں بنا دیتے۔ ضمنًا اِس آیت سے عدالت کا یہ اصول بھی معلوم ہوا کہ اگر دو جج ایک مقدمے کا فیصلہ کریں، اور دونوں کے فیصلے مختلف ہوں،  تو اگر چہ صحیح فیصلہ ایک ہی کا ہو گا،  لیکن دونوں برحق ہوں گے، بشرطیکہ عدالت کرنے کی ضروری استعداد دونوں میں موجود ہو، ان میں سے کوئی جہالت اور نا تجربہ کاری کے ساتھ عدالت کرنے نہ بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی احادیث میں اس بات کو اور زیادہ کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ بخاری میں عمر ؓ و بن العاص کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا   اذا ا جتھد الحاکم فاصاب فلہ اجران و اذا اجتھد فا خطأ فلہ اجرٌ۔ ’’اگر حاکم اپنی حد تک فیصلہ کرنے کی پوری کوشش کرے تو صحیح فیصلہ کرنے کی صورت میں اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور غلط فیصلہ کرنے کی صورت میں اکہرا اجر‘‘۔ ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بُرَیْدَہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’قاضی تین قسم کے ہیں، ایک ان میں سے جنتی ہے اور دو جہنمی۔ جنتی وہ قاضی ہے جو حق کو پہچان  جائے  تو اس کے مطابق فیصلہ دے۔ مگر جو شخص حق کو پہچاننے کے باوجود خلاف حق فیصلہ دے تو وہ جہنمی ہے۔ اور اسی طرح وہ بھی جہنمی ہے جو علم کے بغیر لوگوں کے فیصلے کرنے کے لیے بیٹھ جائے۔

۷۱: مَعَ دَاؤدَ   کے الفاظ ہیں،  لِدَاؤدَ   کے الفاظ نہیں ہیں، یعنی ’’ داؤد علیہ السّلام کے لیے‘‘  نہیں بلکہ ’’ان کے ساتھ‘‘  پہاڑ اور پرندے مسخر کیے گئے تھے،  اور اس تسخیر کا حاصل یہ تھا کہ وہ بھی حضرت ممدُوح کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتے تھے۔ یہی بات سورہ ص میں بیان کی گئی ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِا لْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ o   وَاطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌ o  ’’ہم نے اس کے ساتھ پہاڑوں کو مسخر کر دیا تھا کہ صبح و شام تسبیح کرتے تھے، اور پرندے بھی مسخر کر دیے تھے جو اکٹھے ہو جاتے تھے، سب اس کی تسبیح کو دوہراتے ‘‘۔ سورۂ سبا میں اس کی مزید وضاحت یہ ملتی ہے  یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ  ’’پہاڑوں کو ہم نے حکم دیا کہ اس کے ساتھ تسبیح دُہراؤ اور یہی حکم پرندوں کو دیا‘‘۔ اِن ارشادات سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد جب اللہ کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے تو ان کی بلند اور سریلی آواز سے پہاڑ گونج اُٹھتے تھے، پرندے ٹھیر جاتے تھے اور ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ اس معنی  کی تائید اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ذکر آیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری،  جو غیر معمولی طور پر خوش آواز بزرگ تھے،  قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ نبی  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ادھر سے گزرے  تو اُن کی آواز سُن کر کھڑے ہو گئے اور دیر تک سُنتے رہے۔ جب وہ ختم کر چکے تو آپ ؐ نے فرمایا   لقد اوتی مزمارًا من مزا میر اٰل داؤد،  یعنی اس شخص کو داؤد کی خوش آوازی کا ایک حصّہ ملا ہے۔

۷۲: سورۂ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے :  وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْفِیْ السَّرْدِ، ’’اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا  (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک انداز ے سے کڑیاں جوڑ‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی،  اور خاص طور پر جنگی اغراض کے لیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( Iron – Age ) سن ۱۲۰۰ اور سن ۱۰۰۰ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے،  اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے۔ اوّل اوّل شام اور ایشیائے کوچک کو حِتّی قوم (Hittites ) کو جس کے عروج کا زمانہ سن ۲۰۰۰ ق م سے سن ۱۲۰۰ ق م تک رہا ہے،  لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہو ا  اور وہ  شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فِسِتِیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حِتّیوں اور فِلِستیوں نے بنی اسرائیل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریباً بے دخل کر دیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتےتھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیا ر بھی تھے ( یشوع باب ۱۷۔ آیت ۱۶۔ قُضاۃ باب ۱۔ آیت ۱۹۔ باب ۴۔ آیت ۲ – ۳) سن ۱۰۲۰ ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصّہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (سن ۱۰۰۴ – سن ۹۶۵ ق م) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصّے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی۔ اس زمانہ میں آہن سازی  کا  وہ راز جو حتّیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں۔ فلسطین کے جنوب میں اَدُوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore ) کی دولت سے مالا مال ہے،    اور حال میں آثار ِ قدیمہ کی جو کھُدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عَقَبہ اور اَیلَہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندر گاہ عِصیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ  کیا گیا ہے کہ اس میں بعض و ہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace ) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدّت پہلے آس پاس کی دُشمن قوموں نے اِسی لوہے کے ہتھیاروں سے اُن کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔

۷۳: حضرت داؤد کے متعلق مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۲۵۱، بنی اسرائیل حاشیہ نمبر ۷ – ۶۳۔

۷۴: اس کی تفصیل سورۂ سبا میں یہ آئی ہے : وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوّھَُا شَھْرٌ وَّ رَوَ احھَُا شَھْرٌ،  ’’اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اُس کا چلنا شام کو۔‘‘  پھر اس کی مزید تفصیل سورۂ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَ مْرِہٖ رُخَآ ءً حَیْثُ یَشَآءُ،  ’’پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اِس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ اُن کی مرضی کے مطابق بادِ موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے  وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دَور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ایک طرف عِصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحرِ روم کے بندرگاہوں سے ان بیڑہ (جسے بائیبل میں ’’ترسیسی بیڑہ‘‘  کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے میں کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں اَدوم کے علاقۂ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا  کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں استعمال  کیا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ  جہاز سازی میں بھی استعمال  کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اُس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۂ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ   وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ ’’ اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا‘‘۔ نیز اِس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک  مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ’’مسخر‘‘ کرنے کا کیا مطلب ہے۔ اُس زمانے میں بحری سفر کا انحصار  بادِ موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرمِ خاص تھا کہ وہ ہمیشہ اُن کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی  مرضی کے مطابق ملتی تھی۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو،  جیسا کہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے،  تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔ اپنے جس بندے کو جو اختیارات  چاہے دے سکتا ہے۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دِل دُکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔

۷۵:سورہ سَبَا میں اس کی تفصیل یہ آئی ہے : وَمِنَ الْجِنِّ مَنْ یَّعْمَلُ بَیْنَ یَدَیْہِ بِاِ ذْنِ رَبِّہٖ وَمَنْ یَّزِغُ مِنْھُمْ عَنْ اَمْرِنَا نُذِقْہُ مِنْ عَذَابِ السَّعِیْرِ۔ ہ۔ یَعْمَلُوْنَ لَہٗ مَا یَشَآ ءُ مِنْ مَّحَارِیْبَ وَ تَمَاثِیْلَ وَجِفَانٍ کَالْجَوَابِ وَقُدُوْرٍ رَّ اسِیَاتٍ ……………….. فَلَمَّا قَضَیْنَا عَلَیْہِ الْمَوْتَ مَا دَ لَّہُمْ عَلٰ مَوْتِہٖٓ اِلَّا دَآبَّۃُ الْاَرْضِ تَاْ کَلُ مِنْسَاَتَہٗ فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ کَا نُوْ ا یَعْلَمُوْ نَ الْغَیْبَ مَلَبِثُوْ ا فِی الْعَذَابِ الْمُھِیْنِ ’’ اور جنوں میں سے ایسے جن ہم نے اس کے لیے مسخر کر دیے تھے جو اس کے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے،  اور جو ہمارے حکم سے کوئی ان میں سے انحراف کر تا تو ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزا چکھاتے۔ وہ اس کے لیے جیسے وہ چاہتا قصر اور مجسمے اور حوض جیسے بڑے بڑے لگن اور بھاری جمی ہوئی دیگیں بناتے تھے ……………………. پھر جب ہم نے سلیمان کو وفات دے دی تو ان جنوں کو اس کی موت پر مطلع کرنے والی کوئی چیز نہ تھی مگر زمین کا کیڑا (یعنی گھن) جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا۔ پس جب وہ گر پڑا تو جنوں کو پتہ چل گیا کہ اگر وہ واقعی غیب داں ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں اتنی مدت تک مبتلا نہ رہتے ‘‘۔ اس آیت سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جو شیاطین حضرت سلیمان کے لیے مسخر ہوئے تھے،  اور جو ان کے لیے مختلف خدمات انجام دیتے تھے،  وہ سن تھے،  اور جن بھی جن جن کے برے میں مشرکین عرب کا یہ عقیدہ تھا، اور جو خود اپنے بارے میں بھی یہ غلط فہمی رکھتے تھے کہ انکو علم غیب حاصل ہے۔ اب ہر شخص جو قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھے،  اور اس کو اپنے تعصبات اور پیشگی قائم کیے ہوئے نظریات کا تابع بنائے بغیر پڑھے،  یہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جہاں قرآن مطلق ’’ شیطان ‘‘ اور ’’جن ‘‘کے الفاظ استعمال کرتا ہے وہاں اس کی مراد کونسی مخلوق ہوتی ہے،  اور قرآن کی رو سے وہ کون سے جِن ہیں جن کو مشرکین عرب عالم الغیب سمجھتے تھے۔
جدید زمانے کے مفسرین یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں کہ وہ جن اور شیاطین جو حضرت سلیمان کے لیے مسخر کیے گئے تھے،  انسان تھے اور آس پاس کی قوموں میں سے فراہم ہوئے تھے۔ لیکن صرف یہی نہیں ہ قرآن کے الفاظ میں ان کی اس تاویل کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے،  بلکہ قرآن میں جہا ں جہاں بھی یہ قصہ آیا ہے وہاں کا سیاق و سباق اور انداز بیان اس تاویل کو راہ دینے صاف انکار کرتا ہے۔ حضرت سلیمان کے لیے عمارتیں بنانے والے اگر انسان ہی تھے تو آخر یہ ان ہی کی کونسی خصوصیت تھی جس کو اس شان سے قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ اہرام مصری سے لے کر نیویارک کی فلک شگاف عمارتوں تک کس چیز کو انسان نے نہیں بنایا ہے اور کس بادشاہ یا رئیس یا ملک التجار کے لیے وہ ’’جن‘‘ اور ’’ شیاطین‘‘ فراہم نہیں ہوئے جو آپ حضرت سلیمان کے لیے فراہم کر رہے ہیں ؟

 

۷۶: حضرت ایوبؑ کی شخصیت،  زمانہ،  قومیت،  ہر چیز کے بارے میں اختلاف ہے۔ جدید زمانے کے محققین میں سے کوئی ان کو اسرائیلی قرار دیتا ہے،  کوئی مصری اور کوئی عرب۔ کسی کے نزدیک ان کا زمانہ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے کا ہے، کوئی انہیں حضرت داؤد و سلیمان کے زمانے کا آدمی قرار دیتا ہے،  اور کوئی ان سے بھی متاخر۔ لیکن سب کے قیاسات کی بنیاد اُس سِفرِ ایّوب یا صحیفۂ ایّوب پر ہے جو بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں شامل ہے۔ اسی کی زبان،  اندازِ بیان، اور کلام کو دیکھ کر یہ مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں،  نہ کہ کسی اور تاریخی شہادت پر۔ اور اس سِفرِ ایّوب کا حال یہ ہے کہ اس کے اپنے مضامین میں بھی تضاد ہے اور اس کا بیان قرآن مجید کے بیان سے بھی اتنا مختلف ہے کہ دونوں کو بیک وقت نہیں مانا جا سکتا۔ لہٰذا ہم اس پر قطعاً اعتماد نہیں کر سکتے۔ زیادہ سے زیادہ قابلِ اعتماد شہادت اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ یسعیاہ نبی اور حزقی ایل نبی کے صحیفوں میں ان کا ذکر آیا ہے، اور یہ صحیفے تاریخی حیثیت سے زیادہ مستند ہیں۔ یسعیاہ نبی آٹھویں صدی یا اس سے پہلے کے بزرگ ہیں۔ رہی ان کی قومیت تو سورۂ نساء آیت ۱۶۳ اور سورۂ انعام آیت ۸۴ میں جس طرح ان کا ذکر آیا ہے اس سے گمان تو یہی ہوتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے تھے، مگر وہب بن  مُنَبِّہ کا یہ بیان بھی کچھ بعید ازقیاس نہیں ہے کہ وہ حضرت اسحاق کے بیٹے عیسُو کی نسل سے تھے۔

۷۷: دعا کا انداز کس قدر لطیف ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں اپنی تکلیف کا ذکر کرتے ہیں اور اس کے بعد بس یہ کہہ کر رہ جاتے ہیں کہ ’’تُو ارحم الراحمین ہے‘‘۔ آگے کوئی شکوہ یا شکایت  نہیں،  کوئی عرض مدّعا نہیں،  کسی چیز کا مطالبہ نہیں۔ اس طرزِ دعا میں کچھ ایسی شان نظر آتی ہے جیسے کوئی انتہائی صابر و قانع اور شریف و خوددار آدمی پے در پے فاقوں سے بے تاب ہو اور کسی نہایت کریم النفس ہستی کے سامنے بس اتنا کہہ کر رہ جائے کہ ’’میں بھوکا ہوں اور آپ فیاض ہیں‘‘،  آگے کچھ اس کی زبان سے نہ نکل سکے۔

۷۸: سورۂ ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا   اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ، ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِ دٌ وَّشَرَابٌ،  ’’ اپنا پاؤں مارو، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے نہانے کو اور پینے کو‘‘۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہی اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی  میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہو گئی۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جِلدی بیماری ہو گئی تھی،  اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا (ایوب،  باب ۲، آیت ۷)۔

۷۹: اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اِس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں، اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے۔ لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفرِ ایّوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت،  اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اُس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں ’’نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا‘‘۔ ’’میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا‘‘۔ ’’میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی‘‘۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ ’’ قادرِ مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں،  میری رُوح انہی کے زہر کو پی رہی ہے،  خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں‘‘۔ ’’اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں؟ تُو  نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تُو میرا گناہ کیوں نہیں معاف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دُور کر دیتا ‘‘ ؟ ’’میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھیرا، مجھے بتا کہ تُو مجھ سے کیوں جھگڑتا  ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے‘‘ ؟ اُس کے تین دوست اسے آ کر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں،  مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اِس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم  ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکوکار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں،  اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سُن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب  کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ ’’اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھیرایا‘‘۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دوبدو بحث ہوتی ہے۔ اِس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اُس صبرِ مجسّم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصّہ کچھ کہہ رہا ہے،  بیچ کا حصّہ کچھ،  اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکل آتا ہے۔ تینوں حصّوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ابتدائی حصّہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز،  خدا ترس اور نیک شخص تھا، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ ’’اہلِ مشرق میں وہ سب سے  بڑا آدمی تھا‘‘۔ ایک روز خدا کے ہاں اُس کے (یعنی خود اللہ میاں کے ) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہا ر کیا۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور  کیا کرے گا۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے، وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘  نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں۔ خدا نے کہا ’’اچھا،  اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچائیو۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کر دیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا ’’ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو‘‘۔ پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی۔ اُن کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا۔ شیطان نے کہا،  جناب،  ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی ’’تکفیر‘‘  کرے گا۔ اللہ میاں نے فرمایا، اچھا،  جا،  اُس کو تیرے اختیار میں دیا گیا،  بس اس کی جان محفوظ رہے۔ چنانچہ شیطان واپس ہوا اور آ کر اس نے ’’ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دُکھ دیا‘‘۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا ’’کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا‘‘۔ اس نے جواب دیا ’’تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں‘‘۔ یہ ہے سِفرِ ایّوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ۔ لیکن اس کے بعد تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بے صبری اور خدا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے، اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خدا کا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا۔ پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کر لینے کے بعد، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر،  ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں دور کر دیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دو چند دے دیتے ہیں۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت  آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں،  اور پھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کر لیا ہے  تا کہ شیطان کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو۔ یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے،  نہ خود حضرت ایوب کا۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصۂ ایوب کو بنیاد بنا کر ’’یوسف زلیخا‘‘  کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایُوب،  الیفز تَیمانی، سوخی بِلدو، نعماتی ضوفر، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو، چند کیریکٹر ہیں جن کی زبان سے نظامِ کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے۔ اس کی شاعری اور اس کے زور ِ بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے،  مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفۂ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے  کوئی معنی نہیں۔ ایوب علیہ السّلام کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا ’’یوسف زلیخا‘‘  کا تعلق سیرت ِ یوسفی سے ہے، بلکہ شاید اُتنا بھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصّے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں اُن میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہو گا  جو اس زمانے میں مشہور ہوں گی، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہو گا جو اب ناپید ہے۔

۸۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، سورۂ مریم، حاشیہ نمبر ۳۳۔

۸۱: ذوالکفل کا لفظی ترجمہ ہے ’’صاحب ِ نصیب‘‘،  اور مراد ہے اخلاقی بزرگی اور ثواب ِ آخرت کے لحاظ سے صاحبِ نصیب، نہ کہ دنیوی فوائد و منافع کے لحاظ سے۔ یہ ان بزرگ کا نام نہیں بلکہ لقب ہے۔ قران مجید میں دو جگہ ان کا ذکر آیا ہے  اور دونوں جگہ ان کو اسی لقب سے یاد کیا گیا ہے۔ نام نہیں  لیا گیا۔ مفسرین کے اقوال اس معاملہ میں بہت مضطرب ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں، کس ملک اور قوم سے تعلق رکھتے ہیں، اور کس زمانے میں گزرے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ حضرت زکریا کا دوسرا نام ہے (حالانکہ یہ صریحاً غلط ہے،  کیونکہ ان کا ذکر ابھی آگے آ رہا ہے)، کوئی کہتا ہے  یہ حضر ت الیاس ہیں، کوئی یوشع بن نون کا نام لیتا ہے، کوئی کہتا ہے  یہ الیسع ہیں، (حالانکہ یہ بھی غلط ہے،  سورۂ ص میں ان کا ذکر الگ کیا گیا ہے اور ذوالکفل کا الگ)، کوئی انہیں حضرت الیسع کا خلیفہ بتاتا ہے،  اور کسی کا قول ہے کہ یہ حضرت ایوب کے بیٹے تھے جو ان کے بعد نبی ہوئے اور ان کا اصلی نام بِشر تھا۔ آلوسی نے روح المعانی میں لکھا ہے کہ ’’یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ حِزقیال (حِزقِی اِیل) نبی ہیں جو بنی اسرائیل کی اسیری (سن ۵۹۷ ق م) کے زمانے میں نبوت پر سرفراز ہوئے اور نہر خابُور کے کنارے پر ایک بستی میں فرائض نبوت انجام دیتے رہے‘‘۔ ان مختلف اقوال کی موجودگی میں یقین و اعتماد کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ فی الواقع یہ کون سے نبی ہیں۔ موجودہ زمانے میں مفسرین نے اپنا میلان حِزقی ایل نبی کی طرف ظاہر کیا ہے،  لیکن ہمیں کوئی معقول دلیل ایسی نہیں ملی جس کی بنا پر یہ رائے قائم کی جا سکے۔ تاہم اگر اس کے لیے کوئی دلیل مل سکے تو یہ رائے قابلِ ترجیح ہو سکتی ہے، کیونکہ بائیبل کے صحیفۂ حزقی ایل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع وہ اس تعریف کے مستحق ہیں جو اس آیت میں کی گئی ہے،  یعنی صابر اور صالح۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو یروشلم کی آخری تباہی سے پہلے بخت نصر کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے تھے۔ بخت نصر نے عراق میں اسرائیلی قیدیوں کی ایک نو آبادی دریائے  خابور کے کنارے قائم کر دی تھی جس کا نام تَل ابیِب تھا۔ اِسی مقام پر سن ۵۹۴ ق م میں حضرت حزقی ایل نبوت کے منصب پر سرفراز ہوئے،  جبکہ ان کی عمر ۳۰ سال تھی، اور مسلسل ۲۲ سال ایک طرف گرفتارِ بلا اسرائیلیوں کو اور دوسری طرف یروشلم کے غافل و سرشار باشندوں اور حکمرانوں کو چونکا نے کی خدمت انجام دیتے رہے۔ اس کارِ عظیم میں ان کے انہماک کا جو حال تھا اُس کا اندازہ اِس بات سے  کیا جا سکتا ہے کہ نبوت کے نویں سال اُن کی بیوی،  جنہیں وہ خود ’’منظورِ نظر‘‘  کہتے ہیں، انتقال کر جاتی ہیں، لوگ ان کی تعزیت کے لیے جمع ہوتے ہیں، اور یہ اپنا دُکھڑا چھوڑ کر اپنی مِلّت کو اُس عذاب سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں جو اس کے سر پر تُلا کھڑا تھا(باب ۲۴۔ آیات ۱۵ – ۲۷)۔ بائیبل کا صحیفۂ حزقی ایل  اُن صحیفوں میں سے ہے جنہیں پڑھ کر واقعی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ الہامی کلام ہے۔

۸۲: مراد ہیں حضرت یونس ؑ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ’’ذو النون‘‘  اور  ’’صاحب الحوت‘‘  یعنی  ’’مچھلی والے‘‘   کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا اُنہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا،  جیسا کہ سورۂ صافات آیت ۱۴۲ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  یونس، حواشی ۹۸ تا ۱۰۰۔ الصٰفّٰت، حواشی ۷۷ تا ۸۵۔

۸۳: یعنی وہ اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے قبل اِس کے کہ خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم آتا اور اُن کے لیے اپنی ڈیوٹی چھوڑنا جائز ہوتا۔

۸۴: انہوں نے خیال کیا کہ اس قوم پر  تو عذاب آنے والا ہے، اب مجھے کہیں چل کر پناہ لینی چاہیے تاکہ خود بھی عذاب میں نہ گھِر جاؤں۔ یہ بات بجائے خود تو قابلِ گرفت نہ تھی مگر پیغمبر کا اذن ِ الہٰی کے بغیر ڈیوٹی سے ہٹ جانا قابلِ گرفت تھا۔

۸۵: یعنی مچھلی کے پیٹ میں سے جو خود تاریک تھا، اور اوپر سے سمندر کی تاریکیاں مزید۔

۸۶: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، آل عمران آیات نمبر ۳۷ تا ۴۱ مع حواشی۔ جلد سوم، مریم، آیات نمبر ۲ تا ۱۵ مع حواشی۔ بیوی کو درست کر دینے سے مراد ان کا بانجھ پن دُور کر دینا اور سن رسیدگی کے باوجود حمل کے قابل بنا دینا ہے۔ ’’بہترین وارث تو تُو ہی ہے‘‘،  یعنی تُو اولاد نہ بھی دے تو غم نہیں، تیری ذات پاک وارث ہونے کے لیے کافی ہے۔

۸۲: مراد ہیں حضرت یونس ؑ۔ کہیں ان کا نام لیا گیا ہے اور کہیں ’’ذو النون‘‘  اور  ’’صاحب الحوت‘‘  یعنی  ’’مچھلی والے‘‘   کے القاب سے یاد کیا گیا ہے۔ مچھلی والا اُنہیں اس لیے نہیں کہا گیا کہ وہ مچھلیاں پکڑتے یا بیچتے تھے، بلکہ اس بنا پر کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا تھا،  جیسا کہ سورۂ صافات آیت ۱۴۲ میں بیان ہوا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  یونس، حواشی ۹۸ تا ۱۰۰۔ الصٰفّٰت، حواشی ۷۷ تا ۸۵۔

۸۸: مراد ہیں حضرت مریم علیہا السّلام۔

۸۹: حضرت آدم علیہ السّلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا  ہے کہ  اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ، فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سَا جِدِیْنَ، ( ص۔ آیات ۷۱ – ۷۲) ’’ میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں،  پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا‘‘۔ اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا   رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَا اِلیٰ مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ، (آیت ۱۷۱) ’’ اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا  اور اس کی طرف سے ایک روح‘‘۔ اور سورۂ  تحریم میں ارشاد ہوا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (آیت ۱۲)۔ ’’اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اُس میں اپنی رُوح سے ‘‘۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی  پیشِ نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت  عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے،  چنانچہ سُورۂ آل عمران میں فرمایا   اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَ مَ،  خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ،  (آیت ۵۹)۔ ’’ عیسیٰ کے مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ’’ ہو جا‘‘  اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقۂ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ  کسی کو براہِ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو  ’’اپنی روح سے پھونکنے‘‘  کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ اس رُوح کی نسبت اللہ کی طرف غالباً اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی  شان رکھتا ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل،  النساء،  حواشی ۲۱۲ – ۲۱۳۔

۹۰: یعنی یہ دونوں ماں بیٹے خدا یا خدائی میں شریک نہ تھے بلکہ خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے۔ ’’نشانی‘‘  وہ کس معنی میں تھے،  اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم،  حاشیہ نمبر ۲۱۔ اور سورۂ المومنون،  حاشیہ نمبر ۴۳۔

۹۱: ’’تم ‘‘  کا خطاب تمام انسانوں کی طرف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے انسانو! تم سب حقیقت میں ایک ہی اُمت اور ایک ہی ملت تھے، دنیا میں جتنے نبی بھی آئے  وہ سب ایک ہی دین  لے کر آئے تھے، اور وہ اصل دین یہ تھا کہ صرف ایک اللہ ہی انسان کا ربّ ہے اور اکیلے اللہ ہی کی بندگی و پرستش کی جانی چاہیے۔ بعد میں جتنے مذاہب پیدا ہوئے  وہ اسی دین کو بگاڑ کر بنا لیے گئے۔ اُ س کی کوئی چیز کسی نے لی، اور کوئی دوسری چیز کسی  اور نے، اور پھر ہر ایک نے ایک جُز اُس کا لے کر بہت سی چیزیں اپنی طرف سے اس کے ساتھ ملا ڈالیں۔ اس طرح یہ بے شمار ملتیں وجود میں آئیں۔ اب یہ خیال کرنا کہ فلاں نبی فلاں مذہب کا بانی تھا اور فلاں نبی نے فلاں مذہب کی بنا ڈالی، اور انسانیت میں یہ مِلتوں اور مذہبوں کا تفرقہ انبیاء کا ڈالا ہوا ہے،  محض ایک غلط خیال ہے۔ محض یہ بات کہ یہ مختلف مِلّتیں اپنے آُ کو مختلف زمانوں اور مختلف ملکوں کے انبیاء کی طرف منسوب کر رہی ہیں،  اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ملّتوں اور مذہبوں کا یہ اختلاف انبیاء کا ڈالا ہوا ہے۔ خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء دس مختلف مذہب نہیں بنا سکتے تھے اور نہ ایک خدا کے سوا کسی اور کی بندگی سکھا سکتے تھے۔

 

ترجمہ

 

پھر جو نیک عمل کرے گا، اِس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو اس کے کام کی ناقدری نہ ہو گی، اور اُسے ہم لکھ رہے ہیں۔ اور ممکن نہیں ہے کہ جس بستی کو ہم نے ہلاک کر دیا ہو وہ پلٹ سک ۹۲ ے۔ یہاں تک کہ جب یاجُوج و ماجُوج کھول دیے جائیں گے اور ہر بلندی سے وہ نکل پڑیں گے اور وعدہٴِ بر حق کے پُورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا ۹۳ تو یکایک اُن لوگوں کے دے دے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے جنہوں نے کُفر کیا تھا۔ کہیں گے ’’ ہائے ہماری کم بختی، ہم اِس چیز کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے، بلکہ ہم خطا کار تھے۔‘‘  ۹۴ بے شک تم اور تمہارے وہ معبُود جنہیں تم پُوجتے ہو، جہنّم کا ایندھن ہیں، وہیں تم کو جانا ہے۔ ۹۵ اگر یہ واقعی خدا ہوتے تو وہاں نہ جاتے۔ اب سب کو ہمیشہ اسی میں رہنا ہے۔ وہاں وہ  پھُنکارے ماریں گے ۹۶ اور حال یہ ہو گا کہ اس میں کان پڑی آواز نہ سُنائی دے گی۔ رہے وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہو گا، تو وہ یقیناً  اُس سے دُور رکھے جائیں گے، ۹۷ اُس کی سرسراہٹ تک نہ سُنیں گے۔ اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔ وہ انتہائی گھبراہٹ کا وقت اُن کو ذرا پریشان نہ کرے گا، ۹۸ اور ملائکہ بڑھ کر اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے کہ ’’ یہ تمہارا وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔‘‘

وہ دن جبکہ آسمان کو ہم یوں لپیٹ کر رکھ دیں گے جیسے طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح پہلے ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذِمّے، اور یہ کام ہمیں بہر حال کرنا ہے۔ اور زَبُور میں ہم نصیحت کے بعد یہ لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ اِس میں ایک بڑی خبر ہے عبادت گزار لوگوں کے لیے۔ ۹۹

اے محمدؐ،  ہم نے جو تم کو بھیجا ہے  تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے۔ ۱۰۰   اِن سے کہو ’’میرے پاس جو وحی آتی ہے وہ یہ ہے کہ تمہارا صرف ایک خدا ہے،  پھر کیا تم سرِ اطاعت جھُکاتے ہو؟‘‘  اگر ہو منہ پھیریں تو کہہ دو کہ ’’ میں نے علی الاعلان تم کو خبر دار کر دیا ہے۔ اب یہ میں نہیں جانتا کہ وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے ۱۰۱ قریب ہے  یا دُور۔ اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو بآواز ِ بلند کہی جاتی ہیں اور وہ بھی جو تم چھُپا کر کرتے ہو۔ ۱۰۲ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ (دیر)تمہارے لیے ایک فتنہ ہے ۱۰۳ اور تمہیں ایک وقت ِ خاص تک کے لیے مزے کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے۔‘‘ (آخر کار) رسُولؐ نے کہا کہ ’’ اے میرے ربّ، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور لوگو، تم جو باتیں بناتے ہو اُن کے مقابلے میں ہمارا ربِّ رحمٰن ہی ہمارے لیے مدد کا سہارا ہے۔‘‘  ؏ ۷

 

تفسیر

 

۹۲: اس آیت کے تین مطلب ہیں: ایک یہ کہ جس قوم پر ایک مرتبہ عذابِ الہٰی نازل ہو چکا ہو وہ پھر کبھی نہیں اُٹھ سکتی۔ اس کی نشاۃ ثانیہ اور اس کی حیاتِ نَو ممکن نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ہلاک ہو جانے کے بعد پھر اِس دنیا میں اُس کا پلٹنا اور اسے دوبارہ امتحان کا موقع ملنا غیر ممکن ہے۔ پھر تو اللہ کی عدالت ہی میں اُس کی پیشی ہو گی۔ تیسرے یہ ہے جس قوم کی بد کاریاں اور زیادتیاں اور ہدایت ِ حق سے پیہم رو گردانیاں اس حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو جاتا ہے، اُسے پھر رجوع اور توبہ و انابت کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اُس کے لیے پھر یہ ممکن نہیں رہتا کہ ضلالت سے ہدایت کی طرف پلٹ سکے۔

۹۳: ’’یاجوج ماجوج کی تشریح سورۂ کہف حاشیہ ۶۲، ۶۹ میں کی جا چکی ہے۔ اُن کے  کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا  پر اس طرح ٹُوٹ پڑیں گے جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ’’وعدۂ حق پورا ہونے کا وقت قریب آ لگے گا‘‘  کا اشارہ صاف طور پر اِس طرف ہے کہ یاجوج ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانہ میں ہو گی اور اس کے بعد جلدی ہی قیامت آ جائے گے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول  دیتا ہے جو مسلم نے حُذَیفہ بن اَسِید الغِفَاری کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ’’قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو: دھُواں، دجّال، داّبتہ الارض، مغرب سے سُورج کا طلوع، عیسیٰ ابن مریم کا نزول، یاجوج و ماجوج کی یورش، اور تین بڑے خسوف (زمین کا دھنسنا یا  Landslide ) ایک مشرق میں،  دوسرا مغرب میں، اور تیسرا جزیرۃ العرب میں، پھر سب سے آخر میں یمن سے ایک سخت آگ اُٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی (یعنی بس اس کے بعد قیامت آ جائے گی )۔ ایک اور حدیث میں یاجوج ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور  ؐ نے فرمایا اُس وقت قیامت اِس قدر قریب ہو گی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ کب وہ بچہ جن دے، رات کو یا دن کو (کالحا مل المتم لا یدری اھلھا متی تفجؤ ھم بولدھا لیلا اونھارًا)۔ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں یاجوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیا ن کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا  پر ٹُوٹ پڑیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑ جائیں اور پھر ان کی لڑائی ایک عالمگیر فساد کی موجب بن جائے۔۹۴: ’’غفلت‘‘  میں پھر ایک طرح کی معذرت پائی جاتی ہے،  اس لیے وہ اپنی غفلت کا ذکر کرنے کے بعد پھر خود ہی صاف صاف اعتراف کریں گے کہ ہم کو انبیاء نے آ کر اِس دن سے خبردار کیا تھا، لہٰذا درحقیقت ہم غافل و بے خبر نہ تھے بلکہ خطا کار تھے۔۹۵: روایات میں آیا ہے کہ  اس آیت پر عبداللہ بن الزَّ بَعری نے اعتراض کیا کہ اس طرح تو صرف ہمارے ہی معبود نہیں، مسیح اور عُزیر اور ملائکہ بھی جہنم میں جائیں گے، کیونکہ دنیا میں ان کی بھی عبادت کی جاتی ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، نعم،  کل من احبّ ان یعبد من دون اللہ فھو مع من عبدہٗ،   ’’ہاں،  ہر وہ شخص جس نے پسند کیا کہ اللہ کے بجائے اُس کی بندگی کی جائے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے اس کی بندگی کی ‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے خلقِ خدا کو خدا پرستی کی تعلیم دی تھی اور لوگ انہی کو معبود بنا بیٹھے،  یا جو غریب اِس بات سے بالکل بے خبر ہیں کہ دنیا میں ان کی بندگی کی جا رہی ہے اور اس فعل میں ان کی خواہش اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ہے، ان کے جہنم میں جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ وہ اس شرک کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ البتہ جنہوں نے خود معبود بننے کی کوشش کی اور جن کا خلق خدا کے اِس شرک میں واقعی دخل ہے وہ سب اپنے عابدوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔ اِسی طرح وہ لوگ بھی جہنم میں جائیں گے جنہوں نے اپنی اغراض کے لیے غیر اللہ کو معبود بنوایا، کیونکہ اس صورت میں مشرکین کے اصلی  معبود ہی قرار پائیں گے نہ کہ وہ جن کو اِن اَشرار نے بظاہر معبود بنوایا تھا۔ شیطان  بھی اسی ذیل میں آتا ہے، کیونکہ اُس کی تحریک پر جن ہستیوں کو معبود بنایا جاتا ہے، اصل معبود  وہ نہیں بلکہ خود شیطان ہوتا ہے جس کے امر کی اطاعت میں یہ فعل کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پتھر اور لکڑی کے بُتوں اور دوسرے سامانِ پرستش کو بھی مشرکین کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جائے گا تاکہ وہ ان پر آتشِ جہنم کے اور زیادہ بھڑکنے کا سبب بنیں اور یہ دیکھ کر انہیں مزید تکلیف ہو کہ جن سے  وہ شفاعت کی اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے وہ اُن پر اُلٹے عذاب کی شدّت کے موجب بنے ہوئے ہیں۔ ( ابنِ ہشام- جلد دوم-صفحہ ۱۶۵، طبع جدید)۹۶: اصل میں لفظ  زَفِیْر  استعمال ہوا ہے۔ سخت گرمی،  محنت اور تکان کی حالت میں جب آدمی لمبا  سانس لے کر اس کو ایک پھُنکار کی شکل میں نکالتا ہے تو اسے عربی میں زفیر کہتے ہیں۔۹۷: اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی اور سعادت کی راہ اختیار کی۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ  پہلے ہی یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ وہ اس کے عذاب سے محفوظ رہیں گے اور ان کو نجات دی جائے گی۔۹۸: یعنی روز ِ محشر اور خدا کے حضور پیشی کا وقت، جو عام لوگوں کے لیے انتہائی گھبراہٹ اور پریشانی کا وقت ہو گا، اس وقت  نیک لوگوں پر ایک اطمینان کی کیفیت طاری رہے گی۔ اس لیے کہ سب کچھ اُن کی توقعات کے مطابق ہو رہا ہو گا۔ ایمان و عملِ صالح کی جو پونجی لیے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہوئے تھے وہ اُس وقت خدا کے فضل سے اُن کی ڈھارس بندھائے گی اور خوف و حزن کے بجائے ان کے دلوں  میں اُمید پیدا کر ے گی کہ عنقریب وہ اپنی سعی کے نتائج خیر سے ہم کنار ہو نے والے ہیں۔۹۹: ’’اِس آیت کا مطلب سمجھنے میں بعض لوگوں نے سخت ٹھوکر کھائی ہے اور اس سے ایک ایسا مطلب نکال لیا ہے جو پورے قرآن  کی تردید  اور پورے نظام ِ دین کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔ وہ آیت کا  مطلب یہ لیتے ہیں کہ دنیا کی موجودہ زندگی میں زمین کی وراثت (یعنی حکومت و فرمانروائی اور زمین کے وسائل پر تصرف) صرف صالحین کو ملا کرتی ہے اور انہی کو اللہ تعالیٰ اس نعمت سے نوازتا ہے۔ پھر اس قاعدۂ کلیہ سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صالح اور غیر صالح کے فرق و امتیاز کا معیار یہی وراثت ِ زمین ہے، جس کو یہ وراثت ملے وہ صالح ہے اور جس کو نہ ملے وہ غیر صالح۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھ کر  اُن قوموں پر نگاہ ڈالتے ہیں  جو دُنیا میں پہلے وارثِ زمین رہی ہیں اور آج اس وراثت کی مالک بنی ہوئی ہیں۔ یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ کافر، مشرک، دہریے، فاسق،  فاجر، سب یہ وراثت پہلے بھی پاتے رہے ہیں اور آج بھی پا رہے ہیں۔ جن قوموں میں وہ تمام اوصاف پائے گئے ہیں اور آج پائے جاتے ہیں جنہیں قرآن صاف الفاظ میں کفر، فسق،  فجور، معصیت اور بدی سے تعبیر کرتا ہے، وہ اس وراثت سے محروم نہیں ہوئیں بلکہ نوازی گئیں اور آج بھی نوازی گئیں اور آج بھی نوازی جا رہی ہیں۔ فرعون و نمرود سے لے کر اس زمانے کے کمیونسٹ فرمانرواؤں تک کتنے ہی ہیں جو کھلم کھلا  خدا کے منکر،  مخالف،  بلکہ مدِّ مقابل بنے ہیں اور پھر بھی وارثِ زمین ہوئے ہیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر وہ یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ قرآن کا بیان کر دہ قاعدۂ کلیہ تو غلط نہیں ہو سکتا، اب لامحالہ غلطی جو کچھ ہے وہ ’’صالح‘‘     کے مفہوم میں ہے جو اب تک مسلمان سمجھتے رہے ہیں۔ چنانچہ وہ صلاح کا ایک نیا تصوّر تلاش کرتے ہیں جس کے مطابق زمین کے وارث ہونے والے سب لوگ یکساں ’’صالح‘‘  قرار پا سکیں،  قطع نظر اس سے کہ وہ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق ہوں یا چنگیز اور ہلاکو۔ اس نئے تصوّر  کی تلاش میں ڈارو ن کا نظریۂ  ارتقاء ان کی رہنمائی کرتا ہے اور وہ قرآن کے تصوّرِ ’’اصلاح‘‘  کو ڈاردینی تصوّرِ ’’صلاحیت‘‘  (Fitness ) سے لے جا کر ملا دیتے ہیں۔ اس نئی تفسیر کی رو سے آیت زیرِ بحث کے معنی یہ قرار پاتے ہیں کہ جو شخص اور گروہ بھی ممالک کو فتح کرنے اور اُن پر زورو قوت کے ساتھ اپنی حکومت چلانے اور زمین کے وسائل کو کامیابی کے ساتھ استعمال کرنے کی قابلیت رکھتا ہو وہی ’’خدا کا صالح بندہ‘‘  ہے اور اس کا یہ فعل تمام ’’عابد‘‘  انسانوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ’’عبادت‘‘  اِس چیز کا نام ہے جو یہ شخص اور گروہ کر رہا ہے،  اگر یہ عبادت تم نہیں کرتے اور نتیجہ میں وراثتِ زمین سے محرُوم رہ جاتے ہو تو نہ تمہارا شمار صالحین میں ہو سکتا ہے اور نہ تم کو خدا کا عبادت گزار بندہ کہا جا سکتا ہے۔ یہ معنی اختیار کرنے کے بعد ان حضرات کے سامنے یہ سوال آیا کہ اگر ’’صلاح‘‘  اور ’’عبادت‘‘  کا تصوّر یہ ہے  تو پھر وہ ایمان (ایمان  باللہ،  ایمان بالیوم الآخر، ایمان بالرُّسل اور ایمان بالکُتُب) کیا ہے جس کے بغیر، خود اِسی قرآن کی رُو سے،   خدا کے ہاں کوئی عملِ صالح مقبول نہیں ؟ اور پھر قرآن کی اِس دعوت کے کیا معنی ہیں کہ اُس نظامِ اخلاق اور قانون ِ زندگی کی پیروی کرو جو خدا نے اپنے رسول کے ذریعہ بھیجا ہے؟  اور پھر قرآن کا بار بار یہ کہنا کیا معنی رکھتا ہے کہ جو رسول کو نہ مانے اور خدا کے نازل کردہ احکام کا اتباع نہ کرے وہ کافر، فاسق،  عذاب کا مستحق اور مغضُوب ِ بارگاہِ خداوندی ہے؟ یہ سوالات ایسے تھے کہ اگر یہ لوگ ان پر ایمانداری کے ساتھ غور کرتے تو محسوس کر لیتے کہ ان سے اس آیت کا مطلب سمجھنے اور صلاح کا ایک نیا تصور قائم کرنے میں غلطی ہوئی ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی غلطی محسوس کرنے کے بجائے پوری جسارت کے ساتھ ایمان، اسلام،  توحید،  آخرت،  رسالت،  ہر چیز کے معنی بدل ڈالے تاکہ وہ سب اُن کی اِس ایک آیت کی تفسیر کے مطابق ہو جائیں۔ اور اس ایک چیز کو ٹھیک بٹھانے کی خاطر انہوں نے قرآن کی ساری تعلیمات کو اُلٹ پلٹ کر ڈالا۔ اس پر لطیفہ یہ ہے کہ جو لوگ ان کی اس مرمّتِ دین سے اختلاف کرتے ہیں اُن کو  یہ اُلٹا الزام دیتے ہیں کہ ’’خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں‘‘۔ یہ دراصل مادّی ترقی کی خواہش کا ہیضہ ہے جو بعض لوگوں کو اس بُری طرح لاحق ہو گیا ہے کہ وہ قرآن کی معنوی تحریف کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے۔ ان کی اس تفسیر میں پہلی بنیادی غلطی یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جو قرآن کی مجموعی تعلیمات کی خلاف پڑتی ہے، حالانکہ اصولاً قرآن کی  ہر آیت کی وہی تفسیر صحیح ہو سکتی ہے جو اس کے دوسرے بیانات اور اس کے مجموعی نظامِ فکر سے مطابقت رکھتی ہو۔ کوئی شخص جس نے کبھی قرآن کو ایک دفعہ بھی سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کی ہے،  اس بات سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ قرآن جس چیز کو نیکی اور تقویٰ اور بھلائی کہتا ہے وہ ’’مادّی ترقی اور حکمرانی کی صلاحیت‘‘  کی ہم معنی نہیں ہے، اور ’’صالح ‘‘  کو اگر ’’صاحبِ صلاحیت‘‘  کے معنی میں لے لیا جائے تو یہ ایک آیت پورے قرآن سے ٹکڑا جاتی ہے۔ دوسرا سبب، جو اس غلطی کا موجب ہوا ہے،  یہ ہے کہ یہ لوگ ایک آیت کو اس کے سیاق و سباق سے الگ کر کے بے تکلّف جو معنی چاہتے ہیں اس کے الفاظ سے نکال لیتے ہیں،  حالانکہ ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق و سباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر  سے جو مضمون مسلسل چلا آرہا ہے وہ عالمِ آخرت میں مومنین صالحین اور کفار و مشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کونسا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا  ہے۔ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں،  جس کا ذکر اس سے پہلے  کی آیت  میں ہوا ہے،  زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اُس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظامِ زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ مضمون سورۂ مومنون آیات ۱۰ – ۱۱ میں بھی ارشاد ہوا ہے اور اس سے زیادہ صریح الفاظ میں سورۂ زُمَر کے خاتمہ پر بیان کیا گیا ہے جہاں اللہ تعالیٰ قیامت اور نفخِ صورِ اوّل و ثانی کا ذکر کرنے کے بعد اپنی عدالت کا ذکر فرماتا ہے،  پھر کفر کا انجام بیان کر کے نیک لوگوں کا انجام یہ بتاتا ہے کہ  وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْ ا رَبَّہُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًا ط حتیٰ اِذَا جَآ ءُ وْ ھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابھَُا وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتھَُا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَا دْخُلُوْ ھَا خٰلِدِیْنَ o وَقَالُوْ ا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ  وَاَوْرَ ثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّ اُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآ ءُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ o ’’اور جن لوگوں نے اپنے رب کے خوف سے تقویٰ اختیار کیا تھا وہ جنت کی طرف گروہ در گروہ  لے جائے جائیں گے  یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچ جائیں گے تو ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور ان کے منتظم ان سے کہیں گے کہ سلام ہو تم کو، تم بہت اچھے رہے،  آؤ اب اس میں ہمیشہ رہنے کے لیے داخل ہو جاؤ۔ اور  وہ کہیں گے کہ حمد ہے اُس خدا کی جس نے ہم سے اپنا  وعدہ پورا کیا اور ہم کو زمین  کا وارث   کر دیا، اب ہم جنت میں جہاں چاہیں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں پس بہترین اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے ‘‘۔ دیکھیے، یہ دونوں آیتیں ایک ہی مضمون بیان کر رہی ہیں،  اور دونوں جگہ وراثتِ زمین کا تعلق عالمِ آخرت سے ہے نہ کہ اس دنیا سے۔ اب زَبُور کو لیجیے جس کا حوالہ آیت زیرِ بحث میں دیا گیا ہے۔ اگرچہ ہمارے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ بائیبل کے مجموعۂ کتب مقدسہ میں زبور کے نام سے جو کتاب اِس وقت پائی جاتی ہے  یہ اپنی اصلی غیر محَرّف صورت میں ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں مزامیر داوٗد  کے علاوہ دوسرے لوگوں کے مزامیر بھی خلط ملط ہو گئے ہیں اور اصلی زبور کا نسخہ کہیں موجود نہیں ہے۔ تاہم جو زبور اس وقت موجود ہے اس میں بھی نیکی اور راستبازی اور توکّل کی نصیحت کے بعد ارشاد ہوتا ہے: ’’کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کو خداوند کی آس ہے ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا، تُو اُس کی جگہ کو غور سے دیکھے گا پر وہ نہ  ہو گا، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادماں رہیں گے۔۔۔۔۔۔ ان کی میراث ہمیشہ کے لیے ہو گی۔۔۔۔۔۔ صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اس میں ہمیشہ بسے رہیں گے ‘‘  (۳۷ داؤد کا مزمور۔ آیات ۹ – ۱۰ – ۱۱ – ۱۸ – ۲۹)۔ دیکھیے، یہاں راستباز لوگوں کے لیے زمین کی دائمی وراثت کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ آسمانی کتابوں کی رو سے خلود اور ابدی زندگی کا تعلق آخرت سے ہے نہ کہ اِس دنیا کی  زندگی سے۔ دنیا میں زمین کی عارضی وراثت جس قاعدے پر تقسیم ہوتی ہے اسے سورۂ اعراف میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثھَُا مَنْ یَّشَآ ءُ مِنْ عَبَادِ ہٖ۔ (آیت ۱۲۸) ’’زمین اللہ کی ہے،  اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے‘‘۔ مشیت الہٰی کے تحت یہ وراثت مومن  اور کافر،  صالح اور فاسق،  فرماں بردار اور نافرمان،  سب کو ملتی ہے،  مگر جزائے اعمال کے طور پر نہیں بلکہ امتحان کے طور پر،  جیسا کہ اِسی آیت  کے بعد دوسری آیت میں فرمایا وَ یَسْتَخْلِفَنَّکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْلَمُوْنَ o (آیت ۱۲۹) ’’اور وہ تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا  پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو‘‘۔ اس وراثت میں دوام اور ہمیشگی نہیں ہے۔ یہ مستقل اور دائمی بندوبست نہیں ہے۔ یہ محض ایک امتحان کا موقع ہے جو خدا کے ایک ضابطے کے مطابق دنیا میں مختلف قوموں کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اِس کے برعکس آخرت میں اِسی زمین کا دوامی بندوبست ہو گا، اور قرآن کے متعدّد واضح ارشادات کی روشنی میں وہ اِس قاعدے پر ہو گا کہ ’’زمین اللہ کی ہے اور وہ اپنے بندوں میں سے  صرف مومنینِ صالحین کو اس کا وارث بنائے گا،  امتحان کے طور پر نہیں،  بلکہ اُس نیک رویّے کی ابدی جزاء کے طور پر جو انہوں نے دنیا میں اختیار کیا‘‘۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  النور، حاشیہ نمبر ۸۳)۔

۱۰۰: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم نے تم کو دنیا والوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے ‘‘۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت دراصل نوع انسانی کے لیے خدا کی رحمت اور مہربانی ہے،  کیونکہ آپ نے آ کر غفلت میں پڑی ہوئی دنیا کو چونکا یا ہے، اور اسے وہ علم دیا ہے جو حق اور باطل کا فرق واضح کرتا ہے،  اور اس کو بالکل غیر مشتبہ طریقہ سے بتا دیا ہے کہ اس کے لیے تباہی کی راہ کونسی ہے اور سلامتی کی راہ کونسی۔ کفارِ مکّہ حضور ؐ  کی بعثت کو اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شخص نے ہماری قوم میں پھُوٹ ڈال دی ہے، ناخُن سے گوشت جدا کر  کے رکھ دیا ہے۔ اس پر فرمایا  گیا کہ نادانو، تم جسے زحمت سمجھ رہے ہو یہ درحقیقت  تمہارے لیے  خدا کی رحمت ہے۔

۱۰۱: یعنی خدا کی پکڑ جو دعوتِ رسالت کو رد کر دینے کی صورت میں آئے گی، خواہ کسی نوعیت کے عذاب کی شکل میں آئے۔

۱۰۲: اشارہ  ہے اُن مخالفانہ باتوں اور سازشوں اور سرگوشیوں کی طرف جن کا آغاز ِ سورہ میں ذکر کیا گیا تھا۔ وہاں بھی رسول کی زبان سے اِن کا یہی جواب دلوایا گیا تھا کہ جو باتیں تم بنا رہے ہو وہ سب خدا سُن رہا ہے اور جانتا ہے۔ یعنی اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ یہ ہوا میں اُڑ گئیں اور کبھی ان کی باز پرس نہ ہو گی۔

۱۰۳: یعنی تم اس تاخیر کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو۔ تاخیر تو اس لیے کی جا رہی ہے کہ تمہیں سنبھلنے کے لیے کافی مہلت دی جائے اور جلد بازی کر کے فوراً ہی نہ  پکڑ لیا جائے۔ مگر تم اِس سے اِس غلط فہمی میں پڑ گئے ہو کہ نبی کی سب باتیں جھوٹی ہیں ورنہ اگر یہ سچا نبی ہوتا اور خدا ہی کی طرف سے آیا ہوتا تو اس کو جھٹلا دینے کے بعد ہم کبھی کے  دھر لیے گئے ہوتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۲۔ سورۂ الحج

 

 

 

نام

 

چوتھے رکوع کی دوسری آیت وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِا لْحَجِّ سے ماخوذ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس سورے میں مکی اور مدنی سورتوں کی خصوصیات ملی جلی پائی جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے مفسرین میں اس امر پر اختلاف ہوا ہے کہ یہ مکی ہے کہ مدنی۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کے مضامین اور انداز بیان کا یہ رنگ اس وجہ سے ہے کہ اس کا ایک حصہ مکی دور کے آخر میں اور دوسرا حصہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوا ہے۔ اس لیے دونوں ادوار کی خصوصیات اس میں جمع ہو گئی ہیں۔

ابتدائی حصے کا مضمون اور انداز بیان صاف بتاتا ہے کہ یہ مکہ میں نازل ہوا ہے اور اغلب یہ ہے کہ مکہ زندگی کے آخری دور میں ہجرت سے کچھ پہلے نازل ہوا ہو۔ یہ حصہ آیت ۲۴ (وَھُدُوْ آ اِلَی الظَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓ اِلیٰ صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ) پر ختم ہوتا ہے۔

اس کے بعد : اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا وَیَصُدُّ وْ نَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ سے یک لخت مضمون کا رنگ بدل جاتا ہے اور صاف محسو ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر تک کا حصہ مدینہ طیبہ میں نازل ہوا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ ہجرت کے بعد پہلے ہی سال ذی الحجہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ آیت ۲۵  سے ۴۱ تک کا مضمون اسی بات کی نشان دہی کرتا ہے،  اور آیت ۳۹۔ ۴۰ کی شان نزول بھی اس کی مؤید ہے۔ اس وقت مہاجرین ابھی تازہ تازہ ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے میں آئے تھے۔ حج کے زمانے میں ان کو اپنا شہر اور حج کا اجتماع یاد آ رہا ہو گا اور یہ بات بری طرح کھل رہی ہو گی کہ مشرکین قریش نے ان پر مسجد حرام کا راستہ تک بند کر دیا ہے۔ اس زمانے میں وہ اس بات کے بھی منتظر ہوں گے کہ جن ظالموں نے ان کو گھروں سے نکالا،  مسجد حرام کی زیارت سے محروم کیا،  اور خدا کا راستہ اختیار کرنے پر ان کی زندگی تک دشوار  کر دی،  ان کے خلاف جنگ کرنے کی اجازت مل جائے۔ یہ ٹھیک نفسیاتی موقع تھا  ان آیات کے نزول کا۔ ان میں پہلے تو حج کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسجد حرام اس لیے بنائی گئی تھی اور یہ حج کا طریقہ اس لیے شروع کیا گیا تھا کہ دنیا میں کدائے واحد کی بندگی کی جائے، مگر آج وہاں شرک ہو رہا ہے اور خدائے واحد کی بندگی کرنے والوں کے لیے اس کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ وہ ان ظالموں کے خلاف جنگ کریں اور انہیں بے دخل کر کے ملک میں وہ نظام صالح قائم کریں جس میں برائیاں دبیں اور نیکیاں فروغ پائیں۔ ابن عباس،  مجاہد،  عَرْوَہ بن زُبَیر،  زید بن اسلم، مقاتل بن حیان،  قَآتَدہ اور دوسرے اکابر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی۔ اور حدیث و سیرت کی روایات سے ثابت ہے کہ اس اجازت کے بعد فوراً ہی قریش کے خلاف عملی سرگرمیاں شروع کر دی گئیں اور پہلی مہم صفر ۲ ھ میں ساحل بحر احمر کی طرف روانہ ہوئی جو غزوہ ود ان یا غزوہ اَبَواء کے نام سے مشہور ہے۔

 

موضوع و مبحث

 

اس سورہ میں تین گروہ مخاطب ہیں۔ مشرکین مکہ، مذبذب اور متردد مسلمان، اور مومنین صادقین۔

مشرکین سے خطاب کی ابتدا مکے میں کی گئی اور مدینے میں اس کا سلسلہ پورا کیا گیا۔ اس خطاب میں ان کو پورے زور کے ساتھ متنبہ کیا گیا ہے کہ تم نے ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے بے بنیاد جاہلانہ خیالات پر اصرار کیا، خدا کو چھوڑ کر ان معبودوں پر اعتماد کیا جن کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے،  اور خدا کے رسول کو جھٹلا دیا۔ اب تمہارا انجام وہی کچھ ہو کر رہے گا جو  تم سے پہلے اس روش پر چلنے والوں کا ہو چکا ہے۔ نبی کو جھٹلا کر اور اپنی قوم کے صالح ترین عنصر کو نشانہ ستم بنا کر تم نے اپنی ہی کچھ بگاڑی۔ اس کے نتیجے میں خدا کا جو غضب تم پر نازل ہو گا اس سے تمہارے بناوٹی معبود تمہیں نہ بچا سکیں گے۔ اس تنبیہ و اِنذار کے ساتھ افہام و تفہیم کا پہلو بالکل خالی نہیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ پوری سورۃ میں جگہ جگہ تذکیر اور نصیحت بھی ہے اور شرک کے خلاف اور توحید و آخرت کے حق میں مؤثر دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں۔

مذبذب مسلمان،  جو خدا کی بندگی قبول تو کر چکے تھے مگر اس راہ میں کوئی خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھے،  ان کو خطاب کرتے ہوئے سخت سرزنش کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ یہ آخر کیسا ایمان ہے کہ راحت، مسرت،  عیش نصیب ہو تو خدا تمہارا خدا اور تم اس کے بندے۔ مگر جہاں خدا کی راہ میں مصیبت آئی اور سختیاں جھیلنی پڑیں،  پھر نہ خدا تمہارا خدا رہا اور نہ تم اس کے بندے رہے۔ حالانکہ تم اپنی اس روش سے کسی ایسی مصیبت اور نقصان اور تکلیف کو نہیں ٹال سکتے جو خدا نے تمہارے نصیب میں لکھ دی ہو۔

اہل ایمان سے خطاب دو طریقوں پر کیا گیا ہے۔ ایک خطاب ایسا ہے  جس میں وہ خود بھی مخاطب ہیں اور عرب کی رائے عام بھی۔ اور دوسرے خطاب میں صرف اہل ایمان مخاطب ہیں۔

پہلے خطاب میں مشرکین مکہ کی اس روش پر گرفت کی گئی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے،  حالانکہ مسجد حرام ان کی ذاتی جائداد نہیں ہے اور وہ کسی کو حج سے روکنے کا حق نہیں رکھتے۔ یہ اعتراض نہ صرف یہ کہ بجائے خود حق بجانب تھا، بلکہ سیاسی حیثیت سے یہ قریش کے خلاف ایک بہت بڑا حربہ بھی تھا۔ اس سے عرب کے تمام دوسرے قبائل کے ذہن میں یہ سوال پیدا کر دیا گیا کہ قریش حرم کے مجاور ہیں یا مالک ؟ اگر آج اپنی ذاتی دشمنی کی بنا پر وہ ایک گروہ کو حج سے روک دیتے ہیں اور اس کو برداشت کر لیا جاتا ہے تو کیا بعید ہے کہ کل جس سے بھی ان کے تعلقات خراب ہوں اس کو وہ حدود حرم میں داخل ہونے سے روک دیں اور اس کا عمرہ و حج بند کر دیں۔ اس سلسلے میں مسجد حرام کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک طرف یہ بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب خدا کے حکم سے اس کو تعمیر کیا تھا تو  سب لوگوں کو حج کا اذن عام دیا تھا، اور وہاں اول روز سے مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق یکساں قرار دیے گئے تھے۔ دوسری طرف یہ بتایا گیا ہے کہ گھر شرک کے لیے نہیں بلکہ خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ اب یہ کیا غضب ہے کہ وہاں ایک خدا کی بندگی تو ہو ممنوع اور بتوں کی پرستش کے لیے ہو پوری آزادی۔

دوسرے خطاب میں مسلمانوں کو قریش کے ظلم کا جواب طاقت سے  دینے کی اجازت عطا کی گئی ہے اور ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب تمہیں اقتدار حاصل ہو تو تمہاری روش کیا ہونی چاہیے اور اپنی حکومت میں تم کو کس مقصد کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یہ مضمون سورہ کے وسط میں بھی ہے اور آخر میں بھی۔ آخر میں گروہ اہل ایمان کے لیے ’’ مسلم‘‘ کے نام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا  گیا ہے کہ ابراہیمؑ کے اصل جانشین تم لوگ ہو،  تمہیں اس خدمت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے کہ دنیا میں شہادت علی الناس کے مقام پر کھڑے ہو، اب تمہیں اقامت صلوٰۃ،  ایتائے زکوٰۃ اور فعل الخیرات سے اپنی زندگی کو بہترین نمونے کی زندگی بنانا چاہیے۔

اس موقعہ پر سورہ بقرہ اور سورہ انفال کے دیباچوں پر بھی نگاہ ڈال لی جائے تو سمجھنے میں زیادہ سہولت ہو گی۔

 

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

لوگو، اپنے ربّ کے غضب سے بچو،  حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی( ہولناک)چیز ہے۔ ۱ جس روز تم اُسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دُودھ پلانے والی اپنے دُودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی، ۲ ہر حاملہ کا حمل گِر جائے گا، اور لوگ تم کو مدہوش نظر آئیں گے، حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۔ ۳

بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں ۴ اور ہر شیطان ِ سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں، حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا  اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذابِ جہنّم کا راستہ دکھائے گا۔ لوگو، اگر تمہیں زندگی بعدِ موت کے بارے میں کچھ شک ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ہے، پھر نطفے سے ۵،  پھر خون کے لوتھڑے سے،   پھر گوشت کی بوٹی سے جو شکل والی بھی ہوتی ہے اور بے شکل بھی۔ ۶ (یہ ہم اِس لیے بتا رہے ہیں)تاکہ تم پر حقیقت واضح  کریں۔ ہم جس (نطفے)کو چاہتے ہیں ایک وقتِ خاص تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں، پھر تم کو ایک بچے کی صُورت میں نکال لاتے ہیں( پھر تمہیں پرورش کرتے ہیں)تاکہ تم اپنی پُوری جوانی کو پہنچو۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بُلا لیا جاتا ہے اور کوئی بدترین عمر کی طرف پھیر دیا جاتا ہے تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔ ۷ اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سُوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پَھبک اُٹھی اور پھُول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اُگلنی شروع کر دی۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے، ۸ اور وہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے،  اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ ( اِس بات کی دلیل ہے )کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں،  اور اللہ ضرور اُن لوگوں کو اُٹھائے گا جو قبروں میں جاچ کے ہیں۔ ۹

بعض اور لوگ ایسے ہیں کہ کسی علم ۱۰ اور ہدایت ۱۱ اور روشنی بخشنے والی کتاب ۱۲ کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے ۱۳،  خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ خدا سے بھٹکا دیں۔ ۱۴ ایسے شخص کے لیے دنیا میں رُسوائی ہے اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔۔۔۔ یہ ہے تیرا وہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱: یہ زلزلہ قیامت کی ابتدائی کیفیات میں سے ہے اور اغلب یہ ہے کہ اس کا وقت وہ ہو گا جب کہ زمین یکایک اُلٹی پھرنی شروع ہو جائے گی اور سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گا۔ یہی بات قدیم مفسرین میں سے عَلْقَمَہ اور شَعْبِی نے بیا ن کی ہے کہ  یکون ذلک عند طلوعِ الشمس من مغربھا۔ اور یہی بات اُس طویل حدیث سے معلوم ہوتی ہے کہ نفخِ صور کے تین واقع ہیں۔ ایک نفخِ فَزَع،  دوسرا نفخِ صَعْق اور تیسرا نفخِ قیام الربّ العالمین۔ یعنی پہلا نفخِ عام سراسیمگی پیدا کرے گا،   دوسرے نفخ پر سب مر کر گر جائیں  گے اور تیسرے نفخ پر سب لوگ زندہ ہو کر خدا کے حضور پیش ہو جائیں گے۔ پھر پہلے نفخ کی تفصیلی کیفیت بیان کرتے ہوئے آپ بتاتے ہیں کہ اُس وقت زمین کی حالت اُس کشتی کی سی ہو گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو، یا اُس معلق قندیل کی سی جس کو ہوا کے جھونکے بُری طرح جھنجھوڑ رہے ہوں۔ اُس وقت زمین کی آبادی پر جو کچھ گزرے گی اُس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ مثلاً: فَاِذَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَ ۃً وَحُمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَ ۃً فَیَوْ مَئیذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ۔ (الحاقہ) پس جب صور میں ایک پھونک مار دی جائے گی اور زمین اور پہاڑ اُٹھا کر ایک ہی چوٹ میں توڑ دیے جائیں گے تو وہ واقعہ ۂ عظیم پیش آ جائے گا۔ اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا، وَ اَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَھَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَا لَھَا۔ (الزلزال) جبکہ زمین پوری کی پوری ہلا ماری جائے گی، اور وہ اپنے پیٹ کے بوجھ نکال  پھینکے گی،  اور انسان کہے گا کہ یہ اس کو کیا ہو رہا ہے۔ یَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃ، قُلُوْبٌ یُّوْمَئیذٍ وَّاجِفَہ، اَبْصَارُ ھَا خَاشِعَۃٌ۔ (النازعات ) جس روز ہلا مارے گا زلزلے کا ایک جھٹکا اور اس کے بعد دوسرا جھٹکا، اس دن دل کانپ رہے ہوں گے اور نگاہیں خوف زدہ ہوں گی۔ اَذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ھَبَآءً مَّنْبَثًّا۔ (الواقعہ) جس روز زمین جھنجھوڑ ڈالی جائے گی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر غبار کی طرح اُڑنے لگیں گے۔ فَکَیْفَ تَتَّقُوْنَ اِن ْ کَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیْبَا نِ  السَّمَآ ءُ مُنْفَطِرٌ بِہٖ۔ (الزلزال) اگر تم نے پیغمبر کی بات نہ مانی تو کیسے بچو گے اُس دن کی آفت سے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا اور جس کی شدت سے آسمان پھٹا پڑتا ہو گا۔                اگرچہ بعض مفسرین نے اس زلزلے کا وقت وہ بتایا ہے جبکہ مُردے زندہ ہو کر اپنے ربّ کے حضور پیش ہوں گے،  اور اس کی تائید میں متعدّد احادیث بھی نقل کی ہیں، لیکن  قرآن کا صریح بیان ان روایات کو قبول کرنے میں مانع ہے۔ قرآن اِس کا وقت وہ بتا رہا ہے جبکہ مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوں گی،  اور پیٹ والیوں کے پیٹ گر جائیں گے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ آخرت کی زندگی میں نہ کوئی عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی اور نہ کسی حاملہ کے وضع حمل یا اسقاط کا کوئی موقع ہو گا، کیونکہ قرآن  کی واضح تصریحات کی رو سے وہاں سب رشتے منقطع ہو چکے ہوں گے اور ہر شخص  اپنی انفرادی حیثیت سے خدا کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑا ہو گا۔ لہٰذا قابل ترجیح وہی روایت ہے جو ہم نے پہلے نقل کی ہے۔ اگرچہ اس کی سند ضعیف ہے مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دُور کر دیتی ہے۔ اور یہ دوسری روایات گو سند اً قوی تر ہیں،  لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدمِ مطابقت ان کو ضعیف کر دیتی ہے۔

۲: آیت میں مُرْضِع کے بجائے مُرْ ضِعَہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربیت کے لحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہے کہ مُرضِعْ اُس عورت کو کہتے ہیں جو دودھ پلانے والی ہو، اور مُرْضِعَہ اُس حالت میں بولتے ہیں جبکہ وہ بالفعل دودھ پلا رہی ہو اور بچہ اس کی چھاتی منہ میں لیے ہوئے ہو۔ پس یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ جب وہ قیامت کا زلزلہ آئے گا تو مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتے پلاتے چھوڑ کر بھاگ نکلیں گی اور کسی ماں کو یہ ہوش نہ رہے گا کہ اس کے لاڈلے پر کیا گزری۔

۳: واضح رہے کہ یہاں اصل مقصودِ کلام قیامت کا حال بیان کر نا نہیں ہے بلکہ خدا کے عذاب کا خوف دلا کر اُن باتوں سے بچنے کی تلقین کرنا ہے جو اس کے غضب کی موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا قیامت کی اِس مختصر کیفیت کے بعد آگے اصل مقصود پر گفتگو شروع ہوتی ہے۔

۴: آگے کی تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ کے بارے میں ان کے جس جھگڑے پر گفتگو کی جا رہی ہے وہ اللہ کی ہستی اور اس کے  وجود کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے حقوق اور اختیارات  اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات کے بارے میں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اُن سے توحید اور آخرت منوانا چاہتے تھے،  اور اسی پر وہ آپ سے جھگڑ تے تھے۔ ان دونوں عقیدوں پر جھگڑا آخر کار جس چیز پر جا کر ٹھیرتا تھا وہ یہی تھی کہ خدا کیا کر سکتا ہے اور کیا نہیں کر سکتا،  اور یہ کہ کائنات میں آیا خدائی صرف ایک خدا ہی کی ہے یا کچھ دوسری ہستیوں کی بھی۔

۵: اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ہر انسان اُن مادّوں سے پیدا کیا جاتا ہے جو سب کے سب  زمین سے حاصل ہوتے ہیں اور اِس تخلیق کی ابتدا نطفے سے ہوتی  ہے۔ یا یہ کہ نوعِ انسانی کا آغاز آدم علیہ السّلام سے کیا گیا جو براہِ راست مٹی سے بنائے گئے تھے،  اور پھر آگے نسلِ انسانی کا سلسلہ نطفے سے چلا، جیسا کہ سُورۂ سجدہ میں فرمایا وَبَدَ ءَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّھِیْنٍ۔ (آیات ۷ – ۸)’’ انسان کی تخلیق مٹی سے شروع کی، پھر اس کی نسل ایک سَت سے چلائی جو حقیر  پانی کی شکل میں نکلتا ہے‘‘۔

۶: یہ اشارہ ہے اُن مختلف ادوار کی طرف جن سے ماں کے پیٹ میں بچہ گزرتا ہے۔ ان کی وہ تفصیلات بیان نہیں کی گئی  جو آج کل صرف طاقت ور خورد بینوں ہی سے نظر آ سکتی ہیں، بلکہ ان بڑے بڑے نمایاں تغیرات کا ذکر کیا گیا ہے جن سے اُس زمانے کے عام بدّو بھی واقف تھے۔ یعنی نطفہ قرار پانے کے بعد ابتداءً جمے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا سا ہوتا ہے، پھر وہ گوشت کی ایک بوٹی میں تبدیل ہو تا ہے جس میں پہلے شکل صورت کچھ نہیں ہوتی اور آگے چل کر انسانی شکل نمایاں ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِسقاطِ حمل کی مختلف  حالتوں میں چونکہ تخلیق انسانی کے یہ سب مراحل لوگوں کے مشاہدے میں آتے تھے، اس لیے انہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے علم الجنین کی تفصیلی تحقیقات کی نہ اُس وقت ضرورت تھی نہ آج ہے۔

۷: یعنی بڑھاپے کی وہ حالت جس میں آدمی کو اپنے تن بدن کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ وہی شخص جو دوسروں کو عقل بتاتا تھا،  بوڑھا ہو کر اُس حالت کو پہنچ جاتا ہے جو بچے کی حالت سے مشابہ ہوتی ہے۔ جس علم و واقفیت اور تجربہ کاری و جہاں دیدگی پر اس کو ناز تھا وہ ایسی بے خبری میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ بچے تک اس کی باتوں پر ہنسنے لگتے ہیں۔

۸: اس سلسلۂ  کلام میں یہ فقرہ تین معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ ہی سچا ہے اور تمہارا یہ گمان محض باطل ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا کوئی امکان نہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ کا وجود محض ایک خیالی اور فرضی وجود نہیں ہے جسے بعض عقلی مشکلات رفع کرنے کی خاطر مان لیا گیا ہو۔ وہ نرا فلسفیوں کے خیال کا آفریدہ،  واجب الوجود اور علّت العلل (First Cause ) ہی نہیں ہے بلکہ وہ حقیقی فاعلِ مختار ہے جو ہر آن اپنی قدرت،  اپنے ارادے،  اپنے علم اور اپنی حکمت  سے پوری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کی تدبیر کر رہا ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ کھلنڈرا نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے کھلونے بنائے اور پھر یونہی توڑ پھوڑ کر خاک میں ملا دے۔ وہ حق ہے، اس کے سب کام سنجیدہ اور با مقصد اور پُر حکمت ہیں۔

۹: اِن آیات میں انسان کی پیدائش کے مختلف اطوار، زمین پر بارش کے اثرات،  اور نباتات کی پیداوار کو پانچ حقیقتوں کی نشان دہی کرنے والے دلائل قرار دیا گیا ہے: (۱)یہ کہ اللہ ہی حق ہے، (۲) یہ کہ وہ مُردوں کو زندہ کر تا ہے، (۳) یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے، (۴) یہ کہ قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی، اور (۵) یہ کہ اللہ ضرور اُن سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں۔ اب دیکھیے کہ یہ آثار ان پانچوں حقیقتوں کی کس طرح نشان دہی کرتے ہیں۔ پورے نظامِ کائنات کو چھوڑ کر آدمی صرف اپنی ہی پیدائش پر غور کرے تو معلوم ہو جائے  کہ ایک ایک انسان کی ہستی میں اللہ کی حقیقی اور واقعی تدبیر ہر وقت بالفعل کا ر فرما ہے اور ہر ایک کے وجود اور نشو  ور  سلسلہنما کا ایک ایک مرحلہ اس کے ارادی فیصلے پر ہی طے ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک لگے بندھے قانون پر ہو رہا ہے جس کو ایک اندھی بہری بے علم و بے ارادہ فطرت چلا رہی ہے۔ لیکن وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے  کہ ایک ایک فرد انسانی جس طرح وجود میں آتا ہے اور پھر جس طرح وہ وجود کے مختلف مراحل  سے گزرتا ہے اس میں ایک حکم و قادرِ مطلق ہستی کا ارادی فیصلہ کس شان سے کام کر رہا ہے۔ آدمی جو غذا کھاتا ہے اس میں کہیں انسانی تخم موجود نہیں ہوتا، نہ اُس میں کوئی چیز ایسی ہوتی ہے جو نفسِ انسانی کے خواص پیدا کرتی ہو۔ یہ غذا جسم میں جا کر کہیں بال، کہیں گوشت اور  کہیں ہڈی بنتی ہے،  اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر یہی اُس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے جس کے اندر انسان بننے کی استعداد رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ ان تخموں کی کثرت کا حال یہ ہے کہ ایک وقت میں ایک مرد سے جتنا نطفہ خارج ہوتا ہے اُس کے اندر کئی کروڑ تخم پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بیضۂ انثٰی سے مِل کر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر یہ کسی حکیم و قدیر اور حاکمِ مطلق کا فیصلہ ہے جو ان بے شمار امیدواروں میں سے کسی ایک کو کسی خاص وقت پر چھانٹ کر بیضۂ انثٰی سے ملنے کا موقع دیتا ہے اور اس طرح استقرارِ حمل رونما ہوتا ہے۔ پھر استقرار کے وقت مرد کے تخم اور عورت کے بیضی خلیے () کے ملنے سے جو چیز ابتداءً بنتی ہے وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ حقیر سی چیز ۹ مہینے  اور چند روز میں رحم کے اندر پرورش پا کر جن بے شمار مرحلوں سے گزرتی ہوئی ایک جیتے جاگتے انسان کی شکل اختیار کرتی ہے  اُن میں سے ہر مرحلے پر غور کرو تو تمہارا دل گواہی دے گا کہ یہاں ہر آن ایک حکیمِ فعال کا ارادی فیصلہ کام کرتا رہا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کسے تکمیل کو پہنچانا ہے اور کسے خون کے لوتھڑے،  یا گوشت کی بوٹی، یا نا تمام بچے کی شکل  میں ساقط کر دینا ہے۔ وہی فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو زندہ نکالنا ہے اور کس کو مردہ۔ کس کو معمولی انسان کی صورت و ہیئت میں نکالنا ہے اور کسے اَن گنت غیر معمولی صورتوں میں سے کوئی صورت دے دینی ہے۔ کس کو صحیح و سالم نکالنا ہے اور کسے اندھا، بہرا، گُونگا یا ٹُنڈا اور لُنجا بنا کر پھینک دینا ہے۔ کس کو خوبصورت بنانا ہے اور کسے بدصورت۔ کس کو مرد بنانا ہے اور کس کو عورت۔ کس کو اعلیٰ درجے کی قوتیں اور صلاحیتیں دے کر بھیجنا ہے اور کسے کوَدن اور کُند ذہن پیدا کرنا ہے۔ یہ تخلیق و تشکیل کا عمل، جو ہر روز کروڑوں عورتوں کے رحموں میں ہو رہا ہے،  اِس کے دَوران میں کسی وقت کسی مرحلے پر بھی ایک خدا کے سوا دنیا کی کوئی طاقت ذرّہ برابر اثر انداز نہیں ہو سکتی، بلکہ کسی کو یہ  بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کس پیٹ میں کیا چیز بن رہی ہے اور کیا بن کر نکلنے والی ہے۔ حالانکہ انسانی آبادیوں کی قسمت کے کم از کم ۹۰ فیصدی فیصلے انہی مراحل میں ہو جاتے ہیں اور یہیں افراد ہی کے نہیں،  قوموں کے،  بلکہ پوری نوع ِ انسانی کے مستقبل کی شکل بنائی  اور بگاڑی جاتی ہے۔ اس کے بعد جو بچے دنیا میں آتے ہیں،  ان میں سے ہر ایک کے بارے میں یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کسے زندگی کا پہلا سانس لیتے ہی ختم ہو جانا ہے، کسے بڑھ کر جوان ہونا ہے،  اور کس کو قیامت کے بوریے سمیٹنے ہیں؟ یہاں بھی ایک غالب ارادہ کار فرما  نظر آتا ہے اور غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُس کی کارفرمائی کسی عالمگیر تدبیر و حکمت پر مبنی ہے جس کے مطابق وہ افراد ہی کو نہیں، قوموں اور ملکوں کی قسمت کے بھی فیصلے کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی اگر کسی کو اس امر میں شک ہے کہ اللہ ’’حق ‘‘ہے اور صرف اللہ ہی ’’حق‘‘ ہے تو بے شک وہ عقل کا اندھا ہے۔ دوسری بات جو پیش کردہ آثار سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اللہ مُردوں کو زندہ کرتا ہے‘‘۔ لوگوں کو تو یہ سُن کر اچنبھا ہوتا ہے کہ اللہ کسی وقت مُردوں کو زندہ کرے گا،  مگر وہ آنکھیں کھول کر دیکھیں تو انہیں نظر آئے  کہ وہ تو ہر وقت مُردے جِلا رہا ہے۔ جن مادّوں سے آپ کا جسم بنا ہے اور جن غذاؤں سے وہ پرورش پاتا ہے اُن کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ کوئلہ، لوہا، چونا، کچھ نمکیات، کچھ ہوائیں، اور ایسی ہی چند چیزیں اور ہیں۔ ان میں سے کسی چیز میں بھی حیات اور نفسِ انسانی کے خواص موجود نہیں ہیں۔ مگر انہی مردہ،  بے جان اور مادوں کو جمع کر کے آپ کو جیتا جاگتا وجود بنا دیا گیا ہے۔ پھر انہی مادّوں کی غذا آپ کے جسم میں جاتی ہے اور وہاں اس سے مَردوں میں وہ تخم اور عورتوں میں وہ بیضی خلیے بنتے ہیں جن کے ملنے سے آپ ہی جیسے جیتے جاگتے انسان روز بن بن کر نکل رہے ہیں۔ اس کے بعد ذرا اپنے گردو پیش کی زمین پر نظر ڈالیے۔ بے شمار مختلف چیزوں کے بیج  تھے جن کو ہواؤں اور پرندوں نے جگہ جگہ پھیلا دیا تھا، اور بے شمار مختلف چیزوں کی جڑیں تھیں جو جگہ جگہ پیوندِ خاک ہوئی پڑی تھیں۔ ان میں کہیں بھی بناتی زندگی کو کوئی ظہور موجود نہ تھا۔ آپ کے گرد و پیش کی سوکھی زمین ان لاکھوں مُردوں کی قبر بنی ہوئی تھی۔ مگر جونہی کہ پانی کا ایک چھینٹا  پڑا، ہر طرف زندگی لہلہانے لگی، ہر مُردہ جڑ اپنی قبر سے جی اُٹھی، اور ہر بے جان بیج ایک زندہ پودے کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ احیائے اموات کا عمل ہر برسات میں آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ تیسری چیز جو ان مشاہدات سے ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ’’اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر صرف اپنی اِسی زمین کو لے لیجیے،  اور زمین کے بھی تمام حقائق و واقعات کو چھوڑ کر صرف انسان اور نباتات ہی کی زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیجیے۔ یہاں اُس کی قدرت کے جو کرشمے آپ کو نظر آتے ہیں کیا انہیں دیکھ کو کوئی صاحبِ عقل آدمی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدابس وہی کچھ کر سکتا ہے جو آج ہم اسے کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور کل اگر وہ کچھ اور کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا؟ خدا تو خیر بہت بلند و برتر ہستی ہے،  انسان کے متعلق پچھلی  صدی تک لوگوں کے یہ اندازے تھے کہ یہ صرف زمین ہی پر چلنے والی گاڑی بنا سکتا ہے،  ہوا پر اڑنے والی گاڑیاں بنانا اس کی قدرت میں نہیں ہے۔ مگر آج کے ہوائی جہازوں نے بتا دیا ہے کہ انسان کے ’’امکانات‘‘ کی حدیں تجویز کرنے میں ان کے اندازے  کتنے غلط تھے۔ اب اگر کوئی شخص خدا کے لیے اُس کے صرف آج کے کام دیکھ کر امکانات کی کچھ حدیں تجویز کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے  اس کے سوا وہ کچھ  نہیں کر سکتا،  تو وہ صرف اپنے ہی ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے، خد ا کی قدرت بہر حال اس کی باندھی ہوئی حدوں میں بند نہیں ہو سکتی۔ چوتھی اور پانچویں بات،  یعنی یہ کہ ’’قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ ضرور ان سب لوگوں کو زندہ کر کے اُٹھائے گا جو مر چکے ہیں‘‘،اُن تین مقدمات کا عقلی نتیجہ ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔ اللہ کے کاموں کو اس کی قدرت کے پہلو سے دیکھیے تو دل گواہی دے گا کہ  وہ جب چاہے قیامت بر پا کر سکتا ہے اور جب چاہے اُن سب مرنے والوں کو پھر سے زندہ کر سکتا ہے جن کو پہلے وہ عدم سے وجود میں لایا تھا۔ اور اگر اُس کے کاموں کو اس کی حکمت کے پہلو سے دیکھیے تو عقل شہادت دے گی کہ دونوں کام بھی وہ ضرور کر کے رہے گا کیونکہ ان کے بغیر حکمت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور ایک حکیم سے یہ بعید ہے کہ وہ ان تقاضوں کو پور ا نہ کرے۔ جو محدود سی حکمت و دانائی انسان کو حاصل ہے اس کا یہ نتیجہ ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی اپنا مال یا جائداد یا  کاروبار جس کے سپرد بھی کرتا ہے  اس سے کسی نہ کسی وقت حساب ضرور لیتا ہے۔ گویا امانت  اور محاسبے کے درمیان ایک لازمی عقلی رابطہ ہے جس کو انسان کی محدود حکمت بھی کسی حال میں نظر انداز نہیں کرتی۔ پھرا سی حکمت کی بنا پر آدمی اِرادی اور غیر اِرادی افعال کے درمیان فرق کرتا ہے،  اِرادی  افعال کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری کا تصوّر وابستہ کرتا ہے، افعال میں نیک اور بد کی تمیز کرتا ہے،  اچھے افعال کا نتیجہ تحسین اور انعام کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہے،  اور بُرے افعال پر سزا کا تقاضا کرتا ہے ،  حتیٰ کہ خود ایک نظام ِ عدالت اِس غرض کے لیے وجود میں لاتا ہے۔ یہ حکمت جس خالق نے انسان میں پیدا کی ہے،  کیا باور کیا جا سکتا ہے کہ وہ خود اس حکمت سے عاری ہو گا؟ کیا مانا جا سکتا ہے کہ اپنی اتنی بڑی دنیا اتنے سروسامان اور اس قدر اختیارات کے ساتھ انسان کے سپرد کر کے وہ بھُول گیا ہے، اس کا حساب وہ کبھی نہ لے گا؟ کیا کسی صحیح الدماغ آدمی کی عقل یہ گواہی دے سکتی ہے کہ انسان کے جو بُرے اعمال سزا سے بچ نکلے ہیں،  یا جن برائیوں کی متناسب سزا اسے نہیں مل سکی ہے ان کی باز پرس کے لیے کبھی عدالت قائم نہ ہو گی،  اور جو بھلائیاں اپنے منصفانہ انعام سے محروم رہ گئی ہیں وہ ہمیشہ محروم ہی رہیں گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قیامت اور زندگی بعدِ موت خدائے حکیم کی حکمت کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کا پورا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا  سراسر بعید از عقل ہے۔

۱۰: یعنی وہ ذاتی واقفیت جو براہِ راست مشاہدے اور تجربے سے حاصل ہوئی ہو۔

۱۱: یعنی وہ واقفیت جو کسی دلیل سے حاصل ہوئی ہو یا کسی علم رکھنے والے کی رہنمائی سے۔

۱۲: یعنی وہ واقفیت جو خد ا کی نازل کردہ کتاب سے حاصل ہو ئی ہو۔

۱۳: اس میں تین کیفیتیں شامل ہیں: جاہلانہ ضد اور ہٹ دھرمی۔ تکبر اور غرور ِ نفس۔ اور کسی سمجھانے والے کی بات کی طرف التفات نہ کرنا۔

۱۴: پہلے ان لوگوں کا ذکر تھا جو خود گمراہ ہیں۔ اور اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو خود ہی گمراہ نہیں ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرنے پر تُلے  رہتے ہیں۔

 

ترجمہ

 

اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ بندگی کرتا ہے، ۱۵ اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو اُلٹا پھر گیا۔ ۱۶ اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔ ۱۷ پھر وہ اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکارتا ہے جو نہ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ، یہ ہے گمراہی کی انتہا۔ وہ اُن کو پکارتا ہے جن کا نقصان اُن کے نفع سے قریب تر ہے، ۱۸ بدترین ہے اُس کا مولیٰ اور بدترین ہے اُس کا رفیق۔ ۱۹ (اِس کے برعکس)اللہ اُن لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے، ۲۰ یقیناً ایسی جنتّوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ ۲۱ جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کر ے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کے ناگوار ہے ۲۲۔۔۔۔ ایسی ہی کھُلی کھُلی باتوں کے ساتھ ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے، اور ہدایت اللہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔ جو لوگ ایمان لائے، ۲۳ اور جو یہوُدی ہوئے، ۲۴ اور صابئی، ۲۵ اور نصاریٰ، ۲۶ اور مجوس ۲۷،  اور جن لوگوں نے شرک کیا، ۲۸ ان سب کے درمیان اللہ قیامت کے روز فیصلہ کر دے گا، ہر چیز اللہ کی نظر میں ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سر بسجُود ہیں ۳۰ وہ سب جو آسمانوں میں ہیں ۳۱ اور جو زمین میں ہیں؟ سُورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان ۳۲ اور بہت سے وہ لوگ بھی جو عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں۔ ۳۳ اور جسے اللہ ذلیل و خوار کر دے اُسے پھر کوئی عزّت دینے والا نہیں ہے ۳۴،  اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔ ۳۵     ۵ السجدة

یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ ۳۶ اِن میں سے وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا اُن کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں، ۳۷ اُن کے سروں پر کھَولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے اُن کی کھالیں ہی نہیں پیٹ کے اندر کے حصّے تک گل جائیں گے، اور اُن کو خبر لینے کے لیے لوہے کے گُرز ہوں گے۔ جب کبھی وہ گھبرا کر جہنّم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھّو اب جلنے کی سزا کا مزہ۔ ؏ ۲

 

تفسیر

 

۱۵: یعنی دائرۂ دین کے وسط میں نہیں بلکہ کنارے پر،  یا بالفاظِ دیگر کفر و اسلام کی سرحد پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے۔ جیسے ایک مذبذب آدمی کسی فوج کے کنارے پر کھڑا ہو،  اگر فتح ہوتی دیکھے تو ساتھ آملے اور شکست ہوتی دیکھے تو چپکے سے سٹک جائے۔

۱۶: اس سے مراد ہیں وہ خام سیرت،  مضطرب العقیدہ اور بندۂ نفس لوگ جو اسلام قبول تو کرتے ہیں مگر فائدے کی شرط کے ساتھ۔ ان کا ایمان اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے کہ ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں،  ہر طرح چین ہی چین نصیب ہو،  نہ خدا کا دین ان سے کسی قربانی کا مطالبہ کرے،  اور نہ دنیا میں ان کی کوئی خواہش اور آرزو پوری ہونے سے رہ جائے۔ یہ ہو تو خدا سے وہ راضی ہیں اور اس کا دین ان کے نزدیک بہت اچھا ہے۔ لیکن جہاں کوئی آفت آئی، یا خدا کی راہ میں کسی مصیبت اور مشقت اور نقصان سے سابقہ پیش آ گیا، یا کوئی تمنا پوری ہونے سے رہ گئی،  پھر ان کو خدا کی  خدائی اور رسول کی رسالت اور دین  کی حقانیت، کسی چیز پر بھی اطمینان نہیں رہتا۔ پھر وہ ہر اُس آستانے پر جھکنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جہاں سے ان کو فائدے کی امید اور نقصان سے بچ جانے کی توقع ہو۔

۱۷: یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جو چند لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے۔ مذبذب مسلمان کا حال درحقیقت سب سے بدتر  ہوتا ہے۔ کافر اپنے ربّ سے بے نیاز،  آخرت سے بے پروا،  اور قوانینِ الٰہی کی پابندیوں سے آزاد ہو کر جب یکسُوئی کے ساتھ مادّی فائدوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے تو  چاہے وہ اپنی آخرت کھودے، مگر دنیا تو کچھ نہ کچھ بنا ہی لیتا ہے۔ اور مومن جب پورے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کے ساتھ خدا کے دین  کی پیر وی کرتا ہے تو اگر چہ دنیا کی کامیابی بھی آخر کار اس کے قدم چوم کر ہی رہتی ہے،  تاہم اگر دنیا بالکل ہی اس کے ہاتھ سے جاتی رہے،  آخرت میں بہر حال اس کی فلاح  و کامرانی یقینی ہے۔ لیکن یہ مذبذب مسلمان نہ اپنی دنیا ہی بنا سکتا ہے اور نہ آخرت ہی میں اس کے لیے فلاح کا کوئی امکان ہے۔ دنیا کی طرف لپکتا ہے تو کچھ نہ کچھ خدا اور آخرت کے ہونے کا گمان  جو اس کے دل و دماغ کے کسی کونے میں رہ گیا ہے، اور کچھ نہ کچھ اخلاقی حدُود کا لحاظ جو اسلام سے تعلق نے پیدا کر دیا ہے، اس کا دامن کھینچتا رہتا ہے،  اور خالص دنیا طلبی کے لیے جس یکسُوئی و استقامت کی ضرورت ہے وہ کافر کی طرح اسے بہم نہیں پہنچتی۔ آخرت کا خیال کرتا ہے تو دنیا کے فائدوں کا لالچ اور نقصانات کا خوف، اور خواہشات پر پابندیاں قبول کرنے سے طبیعت کا انکار اُس طرف جانے نہیں دیتا بلکہ دنیا پرستی اس کے عقیدے اور عمل کو اتنا کچھ بگاڑ دیتی ہے کہ آخرت میں اس کا عذاب سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ اس طرح وہ دنیا بھی کھوتا ہے اور آخر ت بھی۔

۱۸: پہلی آیت میں معبودانِ غیر اللہ کے نافع و ضار ہونے کی قطعی نفی کی گئی ہے، کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کسی نفع و ضرر کی قدرت نہیں رکھتے۔ دوسری آیت میں اُن کے نقصان کو اُن کے نفع سے قریب تر بتایا گیا ہے، کیونکہ ان سے دعائیں مانگ کر اور ان کے آگے حاجت روائی کے لیے ہاتھ پھیلا کر وہ اپنا ایمان تو فوراً اور یقیناً کھو دیتا ہے۔ رہی  یہ بات کہ وہ نفع اسے حاصل ہو جس کی امید پر اس نے انہیں پکارا تھا، تو حقیقت سے قطع نظر،  ظاہر حال کے لحاظ سے بھی وہ خود مانے گا کہ  اس کا حصول نہ تو یقینی ہے اور نہ قریب الوقوع۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس کو مزید فتنے میں ڈالنے کے لیے کسی آستانے پر اس کی مراد  بر لائے، اور ہو سکتا ہے کہ اُس آستانے پر وہ اپنا ایمان بھی بھینٹ چڑھا آئے اور اپنی مراد بھی نہ پائے۔

۱۹: یعنی جس نے بھی  اس کو اس راستے پر ڈالا،  خواہ وہ کوئی انسان ہو یا شیطان،  وہ بدترین کار ساز و سرپرست اور بدترین دوست اور ساتھی ہے۔

۲۰: یعنی جن کا حال اس مطلب پرست،  مذبذب اور بے یقین مسلمان کا سا نہیں ہے، بلکہ جو ٹھنڈے دل سے خوب سوچ سمجھ کر خدا  اور رسول اور آخرت کو ماننے کا فیصلہ کر تے ہیں، پھر ثابت قدمی کے ساتھ راہِ حق پر چلتے رہتے ہیں،  خواہ اچھے حالات سے سابقہ پیش آئے یا بُرے حالات سے،  خواہ مصائب کے پہاڑ  ٹوٹ پڑیں یا انعامات کی بارشیں ہونے لگیں۔

۲۱: یعنی اللہ کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ دنیا میں، یا آخرت میں،  یا دونوں جگہ،  وہ جس  کو جو کچھ چاہتا ہے دیتا ہے اور جس سے جو کچھ چاہتا ہے روک لیتا ہے۔ وہ دینا چاہے تو کوئی روکنے والا نہیں۔ نہ دینا چاہے تو کوئی دِلوانے والا نہیں۔

۲۲: اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے: (۱) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کر لے۔ (۲)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جانے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔ (۳)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا  سلسلہ منقطع کر نے کی کوشش کر دیکھے۔ (۴)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔ (۵) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا  وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خودکشی کر لے۔ (۶) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا  وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے۔ ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق و سباق سے غیر متعلق ہیں۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق و سباق سے قریب تر ہیں،  لیکن کلام کے ٹھیک مدّعا تک نہیں پہنچتے۔ سلسلۂ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے،  اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے، یا کسی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے،  تو خدا سے پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ قضائے الٰہی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سررشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جا رہا ہے کہ کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے،  حتیٰ کہ آگر آسمان کو پھاڑ کر تھِگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر ِ الٰہی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش  جس کا انسان تصوّر کر سکتا ہو۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے۔

۲۳: یعنی’’مسلمان‘‘ جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خدا کے تمام انبیاء،  اور اس کی کتابوں کو مانا، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں جنہوں نے پچھلے انبیاء کے ساتھ آپ پر بھی ایمان لانا قبول کیا۔ ان میں صادق الایمان بھی شامل تھے اور وہ بھی  تھے جو ماننے والوں میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر ’’کنارے ‘‘ پر رہ کر بندگی کرتے تھے، اور کفر و ایمان کے درمیان مذبذب تھے۔

۲۴: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اوّل، النساء، حاشیہ نمبر ۷۲۔

۲۵: صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے۔ ایک حضرت یحییٰ علیہ السلام کے پیرو، جو بالائی عراق (یعنی الجزیرہ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے، اور حضرت یحییٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہماالسلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیّاروں کی اور سیّاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے۔ ان کا مرکز حَرّاں تھا اور عراق کے مختلف حصّوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اور فنِ طِب کے کمالات کے کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزولِ قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا۔

۲۶: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  المائدہ،  حاشیہ نمبر ۳۶۔

۲۷: یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زردشت کا پیرو کہتے تھے۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مَزْدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا،  حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پایا گیا تھا۔

۲۸: یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورۂ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مُشْرِکِیْن اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْ کے اصطلاحی ناموں سے یاد کر تا ہے، اگرچہ اہلِ ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا۔

۳۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الرعد، حاشیہ نمبر ۲۴ – ۲۵، النحل، حاشیہ نمبر ۴۱ – ۴۲۔

۳۱: عنی فرشتے، اَجرامِ فلکی،  اور وہ سب مخلوقات جو زمین کے ماورا ء دوسرے جہانوں میں ہیں خواہ  وہ انسان  کی طرح ذی عقل و اختیار ہوں،  یا حیوانات،  نباتات،  جمادات اور ہوا روشنی کی طرح بے عقل و بے اختیار۔

۳۲: یعنی وہ جو محض مجبوراً ہی نہیں بلکہ بالارادہ  اور بطوع و رغبت  بھی اُس کو سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسرا انسانی گروہ جس کا بعد کے فقرے میں ذکر آ رہا ہے، وہ ہے جو اپنے ارادے سے خدا کے آگے جھکنے سے انکار کرتا ہے،  مگر دوسری بے اختیار مخلوقات کی طرح وہ بذھی قانونِ فطرت کی گرفت سے آزاد نہیں ہے اور سب کے ساتھ مجبوراً سجدہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس کے مستحق عذاب ہونے کی وجہ یہی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں بغاوت کی روش اختیار کرتا ہے۔

۳۳: مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ان مختلف گروہوں کے جھگڑے کا فیصلہ تو قیامت ہی کے روز چکایا جائے گا، لیکن کوئی آنکھیں رکھتا ہو تو وہ آج بھی دیکھ سکتا ہے کہ حق پر کون ہے اور آخری فیصلہ کس کے حق میں ہونا چاہیے۔ پوری کائنات کا نظام اس بات پر شاہد ہے کہ  زمین سے آسمانوں تک ایک ہی خدا کی خدائی پورے زور اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ چل رہی ہے۔ زمین کے ایک ذرے سے لے کر آسمان کے بڑے بڑے سیّاروں تک سب ایک قانون میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے بال برابر بھی جنبش کرنے کا کسی  کو یارا نہیں ہے۔ مومن تو خیر دل سے اس کے آگے سر جھکاتا ہے،  مگر وہ دہریہ جو اس کے وجود تک کا انکار کر رہا ہے اور وہ مشرک جو ایک ایک بے اختیار ہستی کے آگے جھک رہا ہے وہ بھی اُس کی اطاعت پر اُسی طرح مجبور ہے جس طرح ہوا اور پانی۔ کسی فرشتے، کسی جن، کسی نبی اور ولی،  اور کسی دیوی یا دیوتا کے پاس خدائی کی صفات اور اختیارات کا ادنیٰ شائبہ تک نہیں ہے کہ اس کو الوہیت اور معبودیت کا مقام دیا جا سکے،  یا خداوند ِ عالم کا ہم جنس یا مثیل ٹھیرایا جا سکے۔ کسی قانون ِ بے حاکم اور فطرتِ بے صانع اور نظامِ بے ناظم کے لیے یہ ممکن  ہی نہیں ہے کہ اتنی بڑی کائنات کو وجود میں لا سکے اور باقاعدگی کے ساتھ خود ہی چلاتا رہے او ر قدرت و حکمت کے وہ حیرت انگیز کرشمے دکھا سکے جو اس کائنات کے گوشے گوشے میں ہر طرف نظر آرہے ہیں۔ کائنات کی یہ کھلی کتاب سامنے ہوتے ہوئے بھی جو شخص انبیاء کی بات نہیں مانتا اور مختلف خود ساختہ عقیدے اختیار کر کے خدا کے بارے میں جھگڑتا ہے اس کا برسر ِ باطل ہونا آج بھی اسی طرح ثابت ہے جس طرح قیامت کے روز ثابت ہو گا۔

۳۴: یہاں ذلت اور عزّت سے مراد حق  کا انکار اور اس کی پیروی ہے،  کیونکہ اس کا لازمی نتیجہ ذلّت اور عزّت ہی کی شکل میں ظاہر ہونا ہے۔ جو شخص کھلے کھلے اور روشن حقائق کو آنکھیں کھول کر نہ دیکھے، اور سمجھانے والے کی بات بھی سن کر نہ دے وہ خود ہی ذلت و خواری کو اپنے اوپر دعوت دیتا ہے،  اور اللہ وہی چیز اس کے نصیب میں لکھ دیتا ہے جو اس نے خود مانگی ہے۔ پھر جب اللہ ہی نے اس کو پیروی ِ حق کی عزت نہ دی تو اب کون ہے جو اس کو اِس عزت سے سرفراز کر دے۔

۳۵: یہاں سجدہ ۂ تلاوت واجب ہے،  اور سورۂ حج کا   یہ سجدہ متفق علیہ ہے۔ سجدہ ۂ تلاوت کی حکمت اور اس کے احکام کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، حاشیہ نمبر ۱۵۷۔

۳۶: یہاں خدا کے بارے میں جھگڑا کرنے والے تمام گروہوں کو ان کی کثرت کے باوجود دو فریقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ایک فریق وہ جو انبیاء کی بات مان کر خدا کی صحیح بندگی اختیار کرتا ہے۔ دوسرا وہ جو ان کی بات نہیں مانتا اور کفر کی راہ اختیار کرتا ہے،  خواہ اس کے اندر آپس میں کتنے ہی اختلافات ہوں اور اس کے کفر نے کتنی ہی مختلف صورتیں اختیار کر لی ہوں۔

۳۷: مستقبل میں جس چیز کا پیش آنا بالکل قطعی اور یقینی ہو اس کو زور دینے کے لیے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ گویا وہ پیش آ چکی ہے۔ آگ کے کپڑوں سے مراد غالباً وہی چیز ہے جسے سُورۂ ابراہیم آیت ۵۰ میں  سَرَ ابِیْلُھُمْ مِنْ قَطِرَانٍ  فرمایا گیا ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  ابراہیم، حاشیہ نمبر ۵۸۔

 

ترجمہ

 

(دُوسری طرف)جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اُن کو اللہ ایسی جنتّوں میں داخل کرے گا جِن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیے جائیں گے ۳۸ اور ان کے لباس ریشم کے ہوں گے۔ ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی ۳۹ اور انھیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا۔ ۴۰

جن لوگوں نے کُفر کیا ۴۱ اور جو (آج)اللہ کے راستے سے روک رہے ہیں اور اُس مسجدِ حرام کی زیارت میں مانع ہیں ۴۲ جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے بنایا ہے، جس میں مقامی باشندوں اور باہر سے آنے والوں کے حقوق برابر ہیں ۴۳ (اُن کی روِش یقیناً سزا کی مستحق ہے)۔ اِس (مسجدِ حرام)میں جو بھی راستی سے ہٹ کر ظلم کا طریقہ اختیار کرے گا ۴۴ اسے ہم دردناک عذاب کا مزا چکھائیں   گے۔ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۳۸: اِس سے یہ تصور دلانا  مقصُود ہے کہ اُن کو شاہانہ لباس پہنائے جائیں گے۔ نزولِ قرآن کے زمانے میں بادشاہ اور بڑے بڑے رئیس سونے اور جواہر کے زیور پہنتے تھے،  اور خود ہمارے زمانے میں بھی ہندوستان کے راجہ اور نواب ایسے زیور پہنتے رہے ہیں۔

۳۹: اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں، مگر مراد ہے وہ کلمۂ طیبہ اور عقیدۂ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر ہو مومن ہوئے۔

۴۰: جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے،  ہمارے نزدیک یہاں سُورے کا وہ حصّہ ختم ہو جاتا ہے جو مکّی دَور میں نازل ہو ا تھا۔اِس حصّے کا مضمون اور اندازِ بیان وہی ہے جو مکّی سورتوں کا ہوا کر تا ہے، اور اس میں کوئی  علامت بھی ایسی نہیں  ہے جس کی  بنا پر  یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصّہ،  یا اِس کا کوئی جُز مدینے میں نازل ہوا ہو۔ صرف آیت ھٰذٰنِ خَصْمٰنِ اخْتَصَمُوْ ا فِیْ رَبِّھِمْ۔ (یہ دونوں فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب  کے بارے میں جھگڑا ہے) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت  مدنی ہے۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ  ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگِ بدر کے فریقین ہیں، اور یہ کوئی  مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو۔ الفاظ عام ہیں،  اور سیاق ِ عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اُس نزاعِ عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جنگِ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق   ہوتا تو اس کی جگہ سورۂ انفال میں تھی نہ کہ اِس  سورے میں اور اِس سلسلہ ۂ  کلام میں۔ یہ طریقِ تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر اُن کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یونہی جہاں چاہا لگا دیا گیا۔ حالانکہ قرآن  کا نظمِ کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے۔

۴۱: یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کو ماننے  سے انکار کر دیا۔ آگے کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ اِن سے مراد کفارِ مکہ ہیں۔

۴۲: یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے پیرووں کو حج  اور عمرہ نہیں کرنے دیتے۔

۴۳: یعنی جو کسی شخص یا خاندان یا قبیلے کی جائداد نہیں ہے، بلکہ وقفِ عام ہے اور جس کی زیارت سے روکنے کا کسی کا حق نہیں ہے۔ یہاں فقہی نقطۂ نظر سے دو سوال پیدا ہوتے ہیں جن کے بارے میں فقہائے اسلام کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں: اوّل یہ کہ ’’مسجد حرام‘‘ سے مراد کیا ہے ؟ آیا صرف مسجد یا پورا حرم مکّہ؟ دوم یہ ہے کہ اس میں عاکف (رہنے والے) اور باد (بارہ سے آنے والے) کے حقوق برابر ہونے کا کیا مطلب ہے؟ ایک گروہ کہتا ہے کہ اس سے مراد صرف مسجد ہے نہ کہ پورا حرم،  جیسا کہ قرآن کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے۔ اور اس میں حقوق کے مساوی ہونے سے مراد عبادت کے حق میں مساوات ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ   یا بنی عبد مناف من ولی منکم من امور الناس شیئا فلا یمنعن احدًا طاف بھٰذا البیت او صلّٰی اَیَّۃَ ساعۃ شاء من لیل او نھار۔’’ اے اولاد عبد مناف، تم میں سے جو کوئی لوگوں کے معاملات پر کسی اقتدار کا مالک ہوا سے چاہیے کہ کسی شخص کو رات اور دن کے کسی وقت میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کرنے یا نماز پڑھنے سے منع نہ کرے۔‘‘ اس رائے کے حامی کہتے ہیں کہ مسجدِ حرام سے پورا  حرام مراد لینا اور پھر وہاں جملہ حیثیات سے مقامی باشندوں اور باہر  سے آنے والوں کے حقوق برابر قرار دینا غلط ہے۔ کیونکہ مکّہ کے مکانات اور زمینوں پر لوگوں کے حقوقِ ملکیت و وراثت اور حقوقِ بیع و اجارہ اسلام سے پہلے قائم تھے اور اسلام کے بعد بھی قائم رہے،  حتّٰیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صَفوان بن اُمَیَّہ کا مکان مکہ میں جیل کی تعمیر کے لیے چار ہزار درہم میں خریدا گیا۔ لہٰذا یہ مساوات صرف عبادت ہی کے معاملہ میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔ یہ امام شافعی ؒ اور ان کے ہم خیال اصحاب کا قول ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے۔ اس  کی پہلی دلیل یہ ہے کہ خود اس آیت میں جس چیز پر مشرکین مکّہ کو ملامت کی گئی ہے وہ مسلمانوں کے حج میں مانع ہونا ہے، اور ان کے اس فعل کو یہ کہہ کر رد کیا گیا ہے کہ وہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حج صرف مسجد ہی میں نہیں ہوتا بلکہ صفا اور مروہ سے لے کر مِنٰی،  مُزدلفہ،  عرفات، سب  مناسک حج کے مقامات ہیں۔ پھر قرآن میں ایک جگہ نہیں  متعدد  مقامات پر مسجد حرام بول کر پورا حرم مراد لیا گیا ہے۔ مثلاً فرمایا   وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللہِ، ’’ مسجد حرام سے روکنا اور اس کے باشندوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک ماہِ حرام میں جنگ کرنے سے بڑا گناہ ہے‘‘۔ (بقرہ۔ آیت ۲۱۷)۔ ظاہر ہے کہ یہاں مسجد سے نماز پڑھنے والوں کو نکالنا نہیں بلکہ مکّہ  سے مسلمان باشندوں کو نکالنا مراد ہے۔ دوسری جگہ فرمایا   ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلَہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، ’’یہ رعایت اُس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے رہنے والے نہ ہوں‘‘۔ (البقرہ۔ آیت ۱۹۶)۔ یہاں بھی مسجد حرام سے مراد پورا حرمِ مکّہ ہے نہ کہ محض مسجد۔ لہٰذا ’’مسجد حرام‘‘ میں مساوات  کو صرف مسجد میں مساوات تک محدود نہیں کیا جا سکتا،  بلکہ یہ حرمِ مکّہ میں مساوات ہے۔ پھر یہ گروہ کہتا ہے کہ یہ مساوات صرف عبادت اور تعظیم و حرمت ہی میں نہیں ہے،  بلکہ حرمِ مکّہ میں تمام حقوق کے اعتبار سے ہے۔ یہ سرزمین خدا کی طرف سے وقفِ عام ہے لہٰذا اس پر اور اس کی عمارات پر کسی کے حقوقِ ملکیّت نہیں ہیں۔ ہر شخص ہر جگہ ٹھیر سکتا ہے، کوئی کسی کو نہیں روک سکتا اور نہ کسی بیٹھے ہوئے کو اُٹھا سکتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ لوگ بکثرت احادیث اور آثار پیش کرتے ہیں۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر کی روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا  مکۃ مناخٌ لا تُبَاع ربا عھا  و لا تؤ اجر بیوتھا، ’’مکّہ مسافروں کے اُترنے کی جگہ ہے، نہ اس کی زمینیں بیچی جائیں اور نہ اس کے مکان کرائے پر چڑھائے جائیں‘‘۔ ابراہیم نَخعی کی مُرسَل روایت کہ حضور ؐ نے فرمایا   مکۃ حرمھا اللہ لا یحل بیع رباعھا ولا اجارۃ بیوتھا، ’’مکّہ کو اللہ  نے حرم قرار دیا ہے،  اس کی زمین کو بیچنا اور اس کے مکانوں کا کرایہ وصول کرنا حلال نہیں ہے‘‘۔ (واضح رہے کہ ابراہیم نخعی کی مُرسَلات حدیث مرفوع کے حکم میں ہیں، کیونکہ اُن کا یہ قاعدہ مشہور و معروف ہے کہ جب وہ مرسَل روایت کرتے ہیں تو دراصل عبد اللہ بن مسعُود ؓ  کے واسطے سے روایت کرتے ہیں)۔ مجاہد نے بھی تقریباً  انہی الفاظ میں ایک روایت نقل کی ہے۔ عَلْقَمہ بن نَضْلَہ کی روایت کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  اور ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں مکّے کی زمینیں سوائب (افتادہ زمینیں یا شاملات) سمجھی جاتی تھیں، جس کو ضرورت ہوتی وہ رہتا تھا اور جب ضرورت نہ رہتی دوسرے کو ٹھیرا دیتا تھا‘‘۔ عبداللہ بن عمر کی روایت کہ حضرت عمر نے حکم دے دیا تھا کہ حج کے زمانے میں مکّے کا کوئی شخص اپنا دروازہ بند نہ کرے۔ بلکہ مجاہد کی روایت تو یہ ہے کہ حضرت عمر نے اہلِ مکّہ کو اپنے مکانات کے صحن کھلے چھوڑ دینے کا حکم دے رکھا تھا اور وہ ان پر دروازے لگانے سے منع کرتے تھے  تاکہ آنے والا جہاں چاہے ٹھیرے۔ یہی روایت عطا کی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ صرف سُہیل بن عَمْرو کو فاروق اعظم نے صحن پر دروازے لگانے کی اجازت دی تھی کیونکہ ان کو تجارتی کاروبار کے سلسلے میں اپنے اونٹ وہاں بند کرنے  ہوتے تھے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کا قول کہ جو شخص مکّہ کے مکانات کا کرایہ وصول کرتا ہے وہ اپنا پیٹ آگ سے بھرتا ہے۔ عبداللہ بن عباس ؓ کا قول کہ اللہ نے پورے حرم مکّہ کو مسجد بنا دیا ہے جہاں سب کے حقوق برابر ہیں۔ مکّہ والوں کو باہر والوں سے کرایہ وصول کرنے کا حق نہیں ہے۔ عمر بن عبد العزیز کا فرمان امیر مکّہ کے نام کہ مکّے کے مکانات پر کرایہ نہ لیا جائے کیونکہ یہ حرام ہے۔ ان روایات کی بنا پر بکثرت تابعین اس طرف گئے ہیں،  اور فقہا میں سے امام مالک،  امام ابو حنیفہ، سُفیان ثوری، امام احمد بن حنبل، اور اسحاق بن رَاھَوَ یْہ کی بھی یہی رائے ہیں کہ اراضی مکّہ کی بیع،  اور کم از کم موسمِ حج میں مکّے کے مکانوں کا کرایہ جائز نہیں۔ البتہ بیشتر فقہاء نے مکّہ کے مکانات پر لوگوں کی ملکیت تسلیم کی ہے اور ان کی بحیثیت عمارت، نہ کہ بحیثیت زمین بیع کو بھی جائز قرار دیا ہے۔ یہی مسلک کتاب اللہ و سنت رسول اللہ اور سنت خلفاء راشدین سے قریب تر معلوم ہوتا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کہ مسلمانوں پر حج اس لیے فرض نہیں کیا ہے کہ یہ اہلِ مکّہ کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنے اور جو مسلمان احساس ِ فرض سے مجبور ہو کر وہاں جائیں انہیں وہاں کے مالکانِ زمین اور مالکانِ مکانات خوب کرائے وصول کر کر کے لُوٹیں۔ وہ ایک وقفِ عام ہے تمام اہلِ ایمان کے لیے۔ اس کی زمین کسی کی ملکیت نہیں ہے۔ ہر زائر کو حق ہے کہ جہاں  جگہ پائے ٹھیر جائے۔

۴۴: اس سے ہر وہ فعل مراد ہے جو راستی سے ہٹا ہوا ہو اور ظلم کی تعریف میں آتا ہو، نہ کہ کوئی خاص فعل۔ اس طرح کے افعال اگرچہ ہر حال میں گناہ ہیں، مگر حرم میں ان کا ارتکاب زیادہ شدید گناہ ہے۔ مفسرین نے بلا ضرورت قسم کھا نے تک کو الحاد فی الحرم  میں شمار کیا ہے اور اس آیت کا مصداق ٹھیرایا ہے۔ ان عام گناہوں کے علاوہ حرم کی حرمت کے متعلق جو خاص احکام ہیں ان کی خلاف ورزی بدرجۂ اولیٰ اس تعریف میں آتی ہے۔ مثلاً: حرم کے باہر جس شخص نے کسی کو قتل کیا ہو، یا کوئی اور ایسا جرم کیا ہو جس پر حد لازم آتی ہو، اور پھر وہ حرم میں پناہ لے لے، تو جب تک وہ وہاں رہے اس پر ہاتھ نہ ڈالا جائے گا۔ حرم کی حیثیت حضرت ابراہیم ؑ کے زمانے سے چلی آتی ہے،  اور فتح مکّہ کے روز صرف ایک ساعت کے لیے اُٹھائی گئی،  پھر ہمیشہ کے لیے قائم ہو گئی۔ قرآن کا ارشاد ہے  وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا، ’’جو اس میں داخل ہو گیا وہ امن میں آ گیا‘‘۔ حضرت عمر،  عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کے یہ اقوال معتبر روایات میں آئے ہیں کہ اگر ہم اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہاں پائیں تو اسے ہاتھ نہ لگائیں۔ اسی لیے جمہور تابعین اور حنفیہ اور حنابلہ اور اہلِ حدیث اس کے قائل ہیں کہ حرم کے باہر کیے ہوئے جرم کا قصاص حرم میں نہیں لیا جا سکتا۔ وہاں جنگ اور خونریز ی حرام ہے۔ فتح مکّہ کے دوسرے روز جو خطبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا اس میں آپؐ نے اعلان فرما دیا تھا کہ ’’لوگو، اللہ نے مکّے کو ابتدائے آفرینش سے حرام کیا ہے اور یہ قیامت تک کے لیے اللہ کی حرمت سے حرام ہے۔ کسی شخص کے لیے،  جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں ہے کہ یہاں کوئی خون بہائے‘‘۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ  ’’اگر میری اِس جنگ کو دلیل بنا کر کوئی شخص اپنے لیے یہاں خونریزی کو جائز ٹھیرائے تو اس سے کہو کہ اللہ نے اپنے رسولؐ کے لیے اس کو جائز کیا تھا نہ کہ تمہارے لیے۔ اور میرے لیے بھی یہ صرف ایک دن کی ایک ساعت کے لیے حلال کیا گیا تھا، پھر آج اُس کی حرمت اُسی طرح قائم ہو گئی جیسی کل تھی‘‘۔ وہاں کے قدرتی درختوں کو نہیں کاٹا جا سکتا، نہ خود رو گھاس اُکھاڑی جا سکتی ہے، نہ پرندوں اوردوسرے  جانوروں کا شکار کیا جا سکتا ہے، اور نہ شکار کی غرض سے وہاں جانوروں کو بھگایا جا سکتا ہے تاکہ حرم کے باہر اس کا شکار کیا جائے۔ اِس سے صرف سانپ بچھو اور دوسرے مو ذی جانور مستثنٰی ہیں۔ اور خود رو گھاس سے اِذْخِر اور خشک گھاس مستثنٰی کی گئی ہے۔ اِن امور کے متعلق صحیح احادیث میں صاف صاف احکام وارد ہوئے ہیں۔ وہاں کی گری پڑی چیز اُٹھا نا ممنوع ہے، جیسا کہ ابوداؤد میں آیا ہے   ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھٰی عن لقطۃ الحاج،  یعنی ’’آپؐ نے حاجیوں کی گِری پڑی چیز اُٹھانے سے منع فرما دیا تھا‘‘۔ وہاں جو شخص بھی حج یا عُمرے کی نیت سے آئے وہ اِحرام کے بغیر داخل نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ دوسری کسی غرض سےداخل ہونے والے کے لیے بھی احرام باندھ کر جانا ضروری ہے یا نہیں۔ ابن عباس کا مذہب یہ ہے کہ کسی حال میں بِلا احرام داخل نہیں ہو سکتے۔ امام احمد اور امام شافعی کا بھی ایک ایک قول اسی کو مؤید ہے۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ صرف وہ لوگ اِحرام کی قید سے مستثنٰی ہیں جن کو بار بار  اپنے کام کے لیے وہاں جانا آنا پڑتا ہو۔ باقی سب کو احرام بند  جانا چاہیے۔ یہ امام احمد اور شافعی کا دوسرا قول ہے۔ تیسرا مذہب یہ ہے کہ جو شخص میقاتوں کے حدود میں رہتا ہو وہ مکّہ میں بِلا احرام داخل ہو سکتا ہے،  مگر جو حدودِ میقات سے باہر کا رہنے والا ہو وہ بِلا اِحرام نہیں جا سکتا۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ   کا قول ہے۔

 

ترجمہ

 

یاد کرو وہ وقت جبکہ ہم نے ابراہیمؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ)کی جگہ تجویز کی تھی اِس  ہدایت کے ساتھ)کہ ’’میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو، ۴۵ اور لوگوں کو حج کے لیے اِذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں ۴۶ پر سوار آئیں، ۴۷ تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں، ۴۸ اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے انھیں بخشے ہیں، ۴۹ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں، ۵۰ پھر اپنا مَیل کچَیل دُور کریں ۵۱ اور اپنی نذریں پُوری کریں، ۵۲ اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔ ۵۳یہ تھا (تعمیرِ کعبہ کا مقصد)اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حُرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے ربّ کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے۔ ۵۴

اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے، ۵۵ ماسوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جاچکی ہیں۔ ۵۶ پس بُتوں کی گندگی سے بچو، ۵۷ جھُوٹی باتوں سے پرہیز کرو، ۵۸ یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گِر گیا، اب یا تو اُسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے۔ ۵۹

یہ ہے اصل معاملہ( اِسے سمجھ لو)اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر ۶۰ کا احترام کرے  تو یہ دِلوں کے تقویٰ سے ہے۔ ۶۱تمہیں ایک وقتِ مقرر تک اُن (ہدی کے جانوروں)سے فائدہ اُٹھانے کا حق ہے، ۶۲ پھر اُن (کے قربان کرنے)کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے۔ ۶۳ ؏ ۴

 

تفسیر

 

۴۵: بعض مفسرین نے ’’پاک رکھو‘‘ پر اُس فرمان کو ختم کر دیا ہے جو حضرت ابراہیم ؑ کو دیا گیا تھا، اور ’’حج کے لیے اذنِ عام دے دو‘‘  کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف مانا ہے۔ لیکن اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ خطاب بھی حضرت ابراہیم ؑ ہی کی طرف ہے اور اُسی حکم کا ایک حصّہ ہے جو اُن کو خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت دیا گیا تھا۔ علاوہ بریں مقصودِ کلام بھی یہاں یہی بتانا ہے کہ اوّل روز ہی سے یہ گھر خدائے واحد کی بندگی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور تمام خدا پرستوں کو یہاں حج کے لیے آنے کا اذنِ عام تھا۔

۴۶: اصل میں لفظ ’’ضامر‘‘  استعمال ہوا ہے جو خاص طور پر دُبلے اُونٹوں کے لیے بولتے ہیں۔ اس سے اُن مسافروں کی تصویر کھینچنا مقصود ہے جو دور دراز مقامات سے چلے آرہے ہوں اور راستے میں اُن کے اُونٹ چارہ پانی نہ ملنے کی وجہ سے دُبلے ہو گئے ہوں۔

۴۷: یہاں وہ حکم ختم ہوتا ہے جو ابتداءً حضرت ابراہیمؑ کو دیا گیا تھا، اور آگے کا ارشاد اس پر اضافہ ہے جو بطور تشریح مزید کیا گیا ہے۔ ہماری اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ اِس کلام کا خاتمہ’’اِس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘ پر ہوا ہے، جو ظاہر ہے کہ تعمیر خانۂ کعبہ کے وقت نہ فرمایا گیا ہو گا۔ (حضرت ابراہیم ؑ کی تعمیر خانۂ  کعبہ کے متعلق مزید تفصیلات  کے لیے ملاحظہ ہو،  سورۂ بقرہ، آیات ۱۲۵ – ۱۲۹۔ آل ِ عمران،  آیات ۹۶ – ۹۷۔ ابراہیم، آیات ۳۵ – ۴۱)۔

۴۸: اس سے مراد صرف دینی فائدے ہی نہیں ہیں بلکہ دنیوی فائدہ بھی ہیں۔ یہ اسی خانہ ۂ کعبہ اور اس کے حج کی برکت تھی کہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ سے لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے تک ڈھائی ہزار برس کی مدت میں عربوں کو ایک مرکزِ وحدت حاصل رہا جس نے اُن کی عربیت کو قبائلیت میں بالکل گم  ہو جانے سے بچائے رکھا۔ اس کے مرکز سے وابستہ ہونے اور حج کے لیے ہر سال ملک کے تمام حصوں سے آتے رہنے کی بدولت  ان کی زبان ایک رہی، ان کی تہذیب ایک رہی، ان کے اندر عرب ہونے کا احساس باقی رہا، اور ان کو خیالات،  معلومات اور تمدنی طریقوں کی اشاعت کے مواقع ملتے رہے۔ پھر یہ بھی اسی حج کی برکت تھی کہ عرب کی اس عام بد امنی میں کم از کم  چار مہینے ایسے امن کے میسر آ جاتے تھے جن میں ملک کے ہر حصّے کا آدمی سفر کر سکتا تھا اور تجارتی قافلے بھی بخیریت  گزر سکتے تھے۔ اس لیے عرب کی معاشی زندگی کے لیے بھی حج  ایک رحمت تھا۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  آلِ عمران، حواشی ۸۰ – ۸۱۔ المائدہ،  حاشیہ  ۱۱۳)۔ اسلام کے بعد حج کے دینی فائدوں کے ساتھ  اس کے دنیوی فائدے بھی کئی گنے زیادہ ہو گئے۔ پہلے وہ صرف عرب کے لیے رحمت تھا۔ اب وہ ساری دنیا کے  اہلِ توحید کے لیے رحمت ہو گیا۔

۴۹: جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں،  یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ،  بکری،  جیسا کہ سورۂ انعام آیات ۱۴۲ – ۱۴۴ میں بصراحت بیا ن ہوا ہے۔ اُن پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اُس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے،  جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم ’’جانور پر اللہ کا نام لینے‘‘ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ  کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کر ے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا،  اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔ ایّام معلومات (چند مقرر دنوں) سے مراد  کون سے دن ہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباس ؓ،  حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے  یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام  شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی ۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابنِ عباس ؓ، ابن عمر ؓ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء  کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں، اور امام شافعی ؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں،  یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر،  علی، ابن عمر، ابن عباس، انس بن مالک، ابوہریرہ، سعید بن مُسَیَّب وار سعید بن جُبَیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہاء میں سے سُفیانؒ ثوری، امام مالکؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمد ؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتویٰ ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں، مثلاً کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے،کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا  مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے۔

۵۰: ’’بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب  ہیں، کیونکہ حکم بصیغۂ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے،  اور کھلانا اس لیے پسندیدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد و اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری، عطاء، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ  فَکُلُوْ ا مِنْھَا میں صیغۂ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا  ہی ہے جیسے فرمایا  وَاِ ذَا حَلَلْتُمْ فَا صطَادُوْا، ’’ جب تم حالتِ اِحرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو‘‘۔(المائدہ۔ آیت ۲) اور فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰ ۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ، ’’پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ‘‘(الجمعہ۔ آیت ۱۰)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکار کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے ہیں اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں، اسے کھاؤ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ تنگ دست فقیر کو کھلانے کے متعلق جو فرمایا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غنی کو نہیں کھلایا جا سکتا۔ دوست، ہمسائے، رشتہ دار، خواہ محتاج  نہ ہوں، پھر بھی انہیں قربانی کے گوشت میں سے دینا جائز ہے۔ یہ بات صحابۂ کرام کے عمل سے ثابت ہے۔ عَلْقَمَہ کا بیان ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے میرے ہاتھ قربانی کے جانور بھیجے اور ہدایت فرمائی کہ یوم النحر کو انہیں ذبح کرنا،  خود بھی کھانا، مساکین کو بھی دینا اور میرے بھائی کے گھر بھی بھیجنا۔ ابن عمر کا بھی یہی قول ہے کہ ایک حصّہ کھاؤ، ایک حصّہ ہمسایوں کو دو، اور ایک حصّہ مساکین میں تقسیم کرو۔

۵۱: یعنی یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ ) کو قربانی  سے فارغ ہو کر احرام کھول دیں، حجامت کرائیں، نہائیں،  دھوئیں اور وہ پابندیاں ختم کر دیں جو احرام کی حالت میں عائد ہو گئی تھیں۔ لغت میں تَفَث کے اصل معنی اُس غبار اور مَیل کچیل کے ہیں جو سفر میں آدمی پر چڑھ جاتا ہے۔ مگر حج کے سلسلے میں جب میل کچیل دُور کرنے کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا مطلب وہی لیا جائے گا جو اوپر بیان ہوا ہے۔ کیونکہ حاجی جب تک مناسِک حج اور قربانی سے فارغ نہ ہو جائے،  وہ نہ بال  ترشوا سکتا ہے،  نہ ناخن کٹوا سکتا ہے،  اور نہ جسم کی دوسری صفائی کر سکتا ہے۔ (اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قربانی سے فراغت کے بعد دوسری تمام پابندیاں تو ختم ہو جاتی ہیں، مگر بیوی کے پاس جانا اُس وقت تک جائز نہیں ہوتا جب تک آدمی طوافِ افاضہ نہ  کر لے)۔

۵۲: یعنی جو نذر بھی کسی نے اِس موقع کے لیے مانی ہو۔

۵۳: کعبہ کے لیے ’’بیتِ عتیق‘‘ کا لفظ بہت معنی خیز ہے۔’’عتیق‘‘ عربی زبان میں تین معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک قدیم۔ دوسرے آزاد، جس پر کسی کی ملکیت نہ ہو۔ تیسرے،  مکرم اور معزّز۔ یہ تینوں ہی معنی اس پاک گھر پر صادق آتے ہیں۔ طواف سے مراد طوافِ  افاضہ، یعنی طوافِ زیارت ہے جو یوم النحر کو قربانی کرنے اور اِحرام کھول دینے کے بعد کیا جاتا ہے۔ یہ ارکانِ حج میں سے ہے۔ اور چونکہ قضائے تَفَث کے حکم سے متصل اس کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے یہ ارشاد اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ طواف قربانی کرنے اور اِحرام کھول کر نہا دھو لینے کے بعد کیا جانا چاہیے۔

۵۴: بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے، مگر اس سلسلہ ۂ کلام میں وہ حرمتیں بدرجۂ اولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرمِ مکّہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسکِ حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کر کے  اُن بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السّلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں۔

۵۵: اس موقع  پر مویشی جانوروں کی حِلّت کا ذکر کرنے سے مقصُود  دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اوّل یہ کہ قریش اور مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت ِ احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اُس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا  کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے۔

۵۶: اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورۂ انعام اور سورۂ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ (اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے)۔ (الانعام، آیت ۱۴۵۔ النحل، آیت ۱۱۵)۔

۵۷: یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھِن کھاتا ہے اور دُور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہی آدمی اُن سے نجس اور پلید ہو جائے گا۔

۵۸: ’’اگرچہ الفاظ عام ہیں، اور ان سے ہر جھوٹ، بہتان، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر اس سلسلۂ کلام میں خاص طور پر اشارہ اُن باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیا دہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات،  صفات،  اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا  وہ سب بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی براہِ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے، جیسا کہ سورۂ نحل میں فرمایا   وَلَا نَقُوْلُوْ ا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ،  ’’اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلا ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو‘‘۔( آیت ۱۱۶) اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا    عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہ، ’’جھُوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے‘‘،اور پھر آپؐ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اُ س کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمر ؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا   یُضْرب ظھرہ و یحلق راۂ سہ و یسخم و جھہ و یطال حبسہ، ’’اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے‘‘۔ عبداللہ بن عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو انہوں نے اس کو ایک دن برسرِ عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے،  اِسے پہچان لو، پھر اس کو قید  کر دیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تشہیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے۔

۵۹: اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اُس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کر لے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے،  اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے نہ کہ پستیوں کی طرف۔ لیکن شرک (اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے۔ ایک یہ کہ شیاطین اور گمراہ کرنے والے انسان،  جن کا اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک  اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشاتِ نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے، اسے اُڑائے اُڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اُس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں۔ سَحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں۔ کسی جگہ کو سحیق اُس صورت میں کہیں گے جبکہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہو جائے۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پُرزے اُڑ جائیں۔

۶۰: یعنی خدا پرستی کی علامات،  خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز،  روزہ، حج وغیرہ،  یا اشیاء ہوں جیسے  مسجد اور رَہدی کے اونٹ وغیرہ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل،  المائدہ، حاشیہ نمبر ۵۔

۶۱: یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے تبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے،  یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اُتر آیا ہے۔

۶۲: پہلی آیت میں شعائر اللہ کے احترام کا عام حکم دینے اور اسے دل کے تقویٰ کی علامت ٹھیرانے کے بعد یہ فقرہ ایک غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ شعائر اللہ میں ہدی کے جانور بھی داخل ہیں، جیسا کہ اہلِ عرب مانتے تھے اور قرآن خود بھی آگے چل کر کہتا ہے کہ  وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآ ءِ رِ اللہِ، ’’اور ان ہدی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے ‘‘۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم کا جو حکم اوپر دیا گیا ہے کیا اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہدی کے جانوروں کو بیت اللہ کی طرف جب لے جانے لگیں  تو ان کو کسی طرح بھی استعمال نہ کیا جائے ؟ ان پر سوار ی کرنا،  یا سامان لادنا، یا ان کے دودھ پینا تعظیم شعائر اللہ کے خلاف تو نہیں ہے ؟ عرب کے لوگوں کا یہی خیال تھا۔ چنانچہ وہ ان جانوروں کو بالکل کوتَل لے جاتے تھے۔ راستے میں ان سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا ان کے نزدیک گناہ تھا۔ اِسی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ قربانی کی جگہ پہنچنے تک تم ان جانوروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، ایسا کرنا تعظیم شعائر اللہ کے  خلاف نہیں ہے۔ یہی بات اُن احادیث سے معلوم ہوتی ہے جس اس مسئلے میں حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت انس ؓ سے مروی ہیں۔ ان میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص اونٹ کی مہار تھامے پیدل چلا جا رہا ہے اور سخت تکلیف میں ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس پر سوار ہو جاؤ۔ اُس نے عرض کیا یہ ہَدی کا اونٹ ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ارے سوار ہو جا‘‘۔ مفسرین میں سے ابن عباس، قتادہ، مجاہد، ضَحّاک اور عطاء خراسانی اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں ’’ایک وقت مقرر تک‘‘ سے مراد ’’جب تک جانور کو قربانی کے لیے نامزد اور ہدی سے موسوم نہ کر دیا جائے‘‘ ہے۔ اس تفسیر کی رُو سے آدمی ان جانوروں سے صرف اس وقت تک فائدہ اُٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ اسے ہَدی کے نام سے موسوم نہ کر دے۔ اور جونہی کہ وہ اسے ہدی بنا کر بیت اللہ لے جانے کی نیت کر لے،  پھر  اسے کوئی فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں رہتا۔ لیکن یہ تفسیر کسی طرح صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ اوّل تو اس صورت میں استعمال اور استفادے کی اجازت دینا ہی  بے معنی ہے۔ کیونکہ ’’ہدی‘‘ کے سوا دوسرے جانوروں سے استفادہ کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک پیدا ہی کب ہوا تھا کہ اسے اجازت کی تصریح سے رفع کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ پھر آیت صریح طور پر کہہ رہی ہے کہ اجازت ان جانوروں کے استعمال کی دی جا رہی ہے جن پر ’’شعائر اللہ‘‘ کا اطلاق ہوا،  اور ظاہر ہے کہ یہ صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ انہیں ہدی قرار دے دیا جائے۔ دُوسرے مفسرین،  مثلاً عُرْوَہ بن زبیر اور عطاء بن ابی رَباح کہتے ہیں کہ’’ وقتِ مقرر ‘‘ سے مراد ’’قربانی کا وقت‘‘ ہے۔ قربانی سے پہلے ہدی کے جانوروں کو سواری کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں،  ان کے دودھ بھی پی سکتے ہیں،  ان کے بچے بھی لے سکتے ہیں اور اُن کا اون، صوف، بال وغیرہ بھی اتار سکتے ہیں۔ امام شافعیؒ نے اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ اگرچہ پہلی تفسیر کے قائل ہیں،  لیکن وہ اس میں اتنی گنجائش نکال دیتے ہیں کہ بشرطِ ضرورت استفادہ جائز ہے۔

۶۳: جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا   ھَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَۃِ (المائدہ۔ آیت نمبر ۹۵) اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ کعبہ پر،  یا مسجد حرام میں قربانی کی جائے، بلکہ حرام کے حدود میں قربانی کرنا مراد ہے۔ یہ ایک اور دلیل ہے اس امر کی کہ قرآن کعبہ،  یا بیت اللہ،  یا مسجد حرام بول کر بالعموم حرمِ مکّہ مراد لیتا ہے نہ کہ صرف وہ عمارت۔

 

ترجمہ

 

ہر اُمّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس اُمّت کے )لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے ان کو بخشے ہیں۔ ۶۴ (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے)پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیعِ فرمان بنو۔ اور اے نبیؐ،  بشارت دے دے عاجزانہ روِش اختیار کرنے والوں کو، ۶۵ جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اُٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ۶۶ اور (قربانی کے )اُونٹوں ۶۷ کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے،  تمہارے لیے اُن میں  بھلائی ہے ۶۸،  پس انھیں کھڑا کر کے ۶۹ ان پر اللہ کا نام لو، ۷۰ اور جب (قربانی کے بعد)ان کی پیٹھیں زمین پر ٹِک جائیں ۷۱ تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھِلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں۔ اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا تاکہ تم شکریہ ادا کرو۔ ۷۲ نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ ۷۳ اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو۔ ۷۴ اور اے نبیؐ،  بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو۔ ۷۵ یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں۔ ۷۶ یقیناً اللہ کسی خائن کافرِ نعمت کو پسند نہیں کرتا۔ ۷۷ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۶۴: اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الٰہیہ کے نظامِ عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیراللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائع الٰہیہ نے اسے اللہ کے لیے خاص کر دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ انسان نے معبودانِ باطل کی تیرتھ یا ترا کی ہے۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مَقْدِس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبُودوں کے لیے جانوروں کی قربانی بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں،  مگر سب کی رُوح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے۔

۶۵: اصل میں لفظ ’’مُخْبِتِیْن‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں۔ استکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اُس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا۔

۶۶: اس سے پہلے ہم اس امر کی تصریح کی چکے ہیں کہ اللہ نے کبھی حرام و ناپاک مال کو اپنا رزق نہیں فرمایا ہے۔ اس لیے آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو پاک رزق ہم نے انہیں بخچا ہے اور جو حلال کمائیاں ان کو عطا کی ہیں ان میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پھر خرچ سے مراد بھی ہر طرح کا خرچ نہیں ہے بلکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جائز ضروریات پوری کرنا، رشتہ داروں اور ہمسایوں اور حاجت مند لوگوں کی مدد کرنا، رفاہِ عام کے کاموں میں حصّہ لینا، اور اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے مالی ایثار کرنا مراد ہے۔ بے جا خرچ، اور عیش و عشرت کے خرچ، اور ریا کارانہ خرچ وہ چیز نہیں ہے جسے قرآن ’’انفاق‘‘ قرار دیتا ہو، بلکہ یہ اس کی اصطلاح میں اسراف اور تبذیر ہے۔ اسی طرح کنجوسی اور تنگ دلی کے ساتھ جو خرچ کیا جائے، کہ آدمی اپنے اہل و عیال کو بھی تنگ رکھے، اور خود بھی اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ضرورتیں پوری نہ کرے، اور خلق خدا کی مدد بھی اپنی استطاعت کے مطابق کرنے سے جی چُرائے،  تو اس صورت میں اگرچہ آدمی خرچ تو کچھ نہ کچھ کرتا ہے ہے،  مگر قرآن کی زبان میں اس خرچ کا نام ’’اِنفاق‘‘ نہیں ہے۔ وہ اس کو ’’بخل‘‘ اور’’ شُحِّ نفس‘‘ کہتا ہے۔

۶۷: اصل میں لفظ ’’بدُن‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں اونٹوں کے لیے مخصوص ہے۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے حکم میں گائے کو بھی اُونٹوں کے ساتھ شامل فرما دیا ہے۔ جس طرح ایک اونٹ کی قربانی سات آدمیوں کے لیے کافی ہوتی ہے،  اسی طرح ایک گائے کی قربانی بھی سات آدمی مل کر کرسکتے ہیں۔ مسلم میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ   امر نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان نشترک فی الا ضاحی البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ،’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم قربانیوں میں شریک ہو جایا کریں، اونٹ سات آدمیوں کے لیے اور گائے سات آدمیوں کے لیے‘‘۔

۶۸: یعنی تم ان سے بکثرت فائدے اُٹھاتے ہو۔ یہ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ تمہیں ان کی قربانی کیوں کرنی چاہیے۔ آدمی خدا کی بخشی ہوئی جن جن چیزوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے ان میں سے ہر ایک کی قربانی اس کو اللہ کے نام پر کرنی چاہیے، نہ صرف شکرِ نعمت کے لیے،  بلکہ اللہ کی برتری اور مالکیت تسلیم کر نے کے لیے بھی،  تاکہ آدمی دل میں بھی اور عمل سے بھی اس امر کا اعتراف کرے کہ یہ سب کچھ خدا کا ہے جو اُس نے ہمیں عطا کیا ہے۔ ایمان اور اسلام نفس کی قربانی ہے۔ نماز او ر روزہ جسم اور اس کی طاقتوں کی قربانی ہے۔ زکوٰۃ اُن اموال کی قربانی ہے جو مختلف شکلوں میں ہم کو اللہ  نے دیے ہیں۔ جہاد وقت اور ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کی قربانی ہے۔ قتال فی سبیل اللہ جان کی قربانی ہے۔ یہ سب ایک ایک طرح کی نعمت اور ایک ایک عطیے کے شکریّے ہیں۔ اسی طرح جانوروں کی قربانی بھی ہم پر عائد کی گئی ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی اِس عظیم الشان نعمت پر اُس کا شکر ادا  کریں اور اس کی بڑائی مانیں کہ اس نے اپنے پیدا کیے ہوئے بکثرت جانوروں کو ہمارے لیے مسخر فرمایا جن پر ہم سوا ہوتے ہیں جن سے کھیتی باڑی اور بار برداری کی خدمت لیتے ہیں،  جن کے گوشت کھاتے ہیں،  جن کے دودھ پیتے ہیں، جن کی کھالوں  اور بالوں اور خون اور ہڈی، غرض ایک ایک چیز سے بے حساب فائدے اُٹھاتے ہیں۔

۶۹: واضح رہے کہ اُونٹ کی قربانی اس کو کھڑا کر کے کی جاتی ہے۔ اُس کا ایک پاؤں باندھ دیا جاتا ہے،  پھر اس کے حلقوم میں زور سے نیزہ مارا جاتا ہے جس سے خون کا ایک فوارہ نکل پڑتا ہے، پھر جب کافی خون نکل جاتا ہے تب اُونٹ زمین پر گر پڑتا ہے۔ یہی مفہوم ہے صَوَافّ کا۔ ابن عباس،  مجاہد، ضحّاک وغیرہ نے اس کی یہی تشریح کی ہے۔ بلکہ بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی یہی منقول ہے۔ چنانچہ مسلم اور بخاری میں روایت ہے کہ ابنِ عمر نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنے اونٹ کو بٹھا کر قربانی کر رہا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا العثھا قیاما مقیدۃ سنۃ ابی القاسم صلی اللہ علیہ وسلم۔’’ اس کو پاؤں  باندھ کر کھڑا کر، یہ  ہے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت‘‘۔ ابوداؤد میں جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ اونٹ کا بایاں پاؤں باندھ کر باقی تین پاؤوں پر اُسے کھڑا کرتے تھے، پھر اس کو نحر کرتے تھے۔ اِسی مفہوم کی طرف خود قرآن بھی اشارہ کر رہا ہے:  اِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا، ’’جب ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں‘‘۔ اُسی صورت میں بولیں گے جبکہ جانور کھڑا ہو اور پھر زمین پر گرے۔ ورنہ لٹا کر قربانی کرنے کی صورت میں تو پیٹھ ویسے ہی ٹکی ہوئی ہوتی ہے۔

۷۰: یہ الفاظ پھر اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنے سے کوئی جانور حلال نہیں ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ ان کو ’’ذبح کرو‘‘ کہنے کے بجائے ’’ان پر اللہ کا نام لو‘‘ فرما رہا ہے، اور مطلب اس کا جانوروں کو ذبح کرنا ہے۔ اس سے  خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ اسلامی شریعت میں جانور کے ذبح کرنے کا کوئی تصوّر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے سوا نہیں ہے۔ ذبح کرتے وقت  بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَر  کہنے کا طریقہ بھی اسی مقام سے ماخوذ ہے۔ آیت ۳۶ میں فرمایا    فَا ذْ کُرُو ا اسْمَ اللہِ عَلَیْھَا، ’’ان پر اللہ کا نام لو‘‘۔ اور آیت ۳۷ میں فرمایا    لِتُکَبِّرُوْ االلہَ عَلیٰ مَا ھَدٰ کُمْ ’’تا کہ اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت  پر تم اس کی تکبیر کرو‘‘۔ قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینے کی مختلف صورتیں احادیث میں منقول ہیں۔ مثلاً (۱) بِسْمِ اللہِ وَ اللہُ اَکْبَر،  اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ ’’اللہ کے نام کے ساتھ، اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ (۲) اللہ اکبر لا الٰہ الا اللہ الّٰھُمّ منک ولک،’’اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ (۳) اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلوٰ تِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمیْنَ،  اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ، ’’میں نے یکسُو ہو کر اپنا رُخ اس ذات کی طرف کر لیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز اور قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سرِ اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں۔ خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔

۷۱: ٹِکنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ وہ زمین پر گر جائیں، بلکہ یہ بھی ہے کہ وہ گِر ٹھیر جائیں،  یعنی تڑپنا بند کر دیں اور جان پوری طرح نِکل جائے۔ ابوداؤد، ترمذی اور مُسْنَد احمد میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ   ما قُطع (اَومابان) من البھیمۃ وھی حیۃ فھو میتۃ، یعنی ’’جانور سے جو گوشت اس حالت میں کاٹا جائے کہ ابھی وہ زندہ ہو وہ مردار ہے‘‘۔

۷۲: یہاں پھر اشارہ ہے اِس مضمون کی طرف کہ قربانی کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ فرمایا، اس لیے کہ یہ شکریہ ہے اُس عظیم الشان نعمت کا جو اللہ نے مویشی جانوروں کو تمہارے لیے مسخّر کر کے تمہیں بخشی ہے۔

۷۳: جاہلیت کے زمانے میں اہلِ عرب جس طرح بتوں کی قربانی کا  گوشت بتوں پر لے کا چڑھاتے تھے، اُسی طرح اللہ کے نام کی قربانی کا گوشت کعبہ کے سامنے لا کر رکھتے اور خون اس کی دیواروں پر لتھیڑتے تھے۔ اُن کے نزدیک یہ قربانی گویا اس لیے کی جاتی تھی کہ اللہ کے حضور اس کا خون اور گوشت  پیش کیا جائے۔ اس جہالت  کا پردہ چاک کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل چیز جو اللہ کے حضور پیش ہوتی ہے وہ جانور کا خون یا گوشت نہیں،  بلکہ تمہارا تقویٰ ہے۔ اگر تم شکرِ نعمت کے جذبے کی بنا پر خالص نیت کے ساتھ صرف اللہ کے لیے قربانی کرو گے تو اس جذبے اور نیت اور خلوص کا نذرانہ اس کے حضور پہنچ جائے گا، ورنہ خون اور گوشت یہیں دھرا رہ جائے گا۔ یہی بات ہے جو حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ آپؐ نے فرمایا   ان اللہ لا ینظر الیٰ صورکم و لا الیٰ الوانکم ولکن ینظر الیٰ قلوبکم و اعمالکم، ’’اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے رنگ نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے‘‘۔

۷۴: یعنی دل سے اس کی بڑائی  اور برتری مانو  اور عمل  سے اس کا اعلان و اظہار کرو۔ یہ پھر حکم قربانی کی غرض اور علت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قربانی صرف اسی لیے واجب نہیں کی گئی ہے کہ یہ تسخیر ِ حیوانات کی نعمت پر اللہ کا شکریہ ہے،  بلکہ اس لیے بھی واجب کی گئی ہے کہ جس کے یہ جانور ہیں،  اور جس نے  انہیں  ہمارے لیے مسخر کیا ہے،  اس کے حقوقِ مالکانہ کا ہم دل سے بھی اور عملاً بھی اعتراف کریں،  تاکہ ہمیں کبھی یہ بھول لاحق نہ ہو جائے کہ یہ سب کچھ ہمارا اپنا مال ہے۔ اسی مضمون کو وہ فقرہ ادا کرتا ہے جو قربانی کرتے وقت کہا جا تا ہے کہ  اللھم منک ولک، ’’خدایا تیرا ہی مال ہے اور تیرے ہی لیے حاضر ہے‘‘۔ اس مقام پر یہ جان لینا چاہیے کہ اس پیراگراف میں قربانی کا  جو حکم دیا گیا ہے وہ صرف حاجیوں کے لیے ہی نہیں ہے، اور صرف مکّے میں حج ہی کے موقع پر ادا کرنے کے لیے نہیں ہے بلکہ تمام ذی استطاعت مسلمانوں کے لیے عام ہے، جہاں بھی وہ ہوں، تاکہ وہ تسخیرِ حیوانات کی نعمت پر شکریہ  اور تکبیر کا فرض بھی ادا کریں اور ساتھ ساتھ اپنے اپنے مقامات پر حاجیوں کے شریک حال بھی ہو  جائیں۔ حج کی سعادت میسر نہ آئی  نہ سہی، کم از کم حج کے دنوں میں ساری دنیا  کے مسلمان وہ کام تو کر رہے ہوں جو حاجی جوارِ بیت اللہ میں کریں۔ اس مضمون کی تصریح متعدد صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور بکثرت معتبر روایات سے بھی ثابت ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود مدینۂ طیّبہ کے پورے زمانۂ قیام میں ہر سال بقر عید  کے موقع پر قربانی کرتے رہے اور مسلمانوں میں آپؐ ہی کی سنت سے یہ طریقہ جاری ہوا۔ مُسند احمد اور ابن ماجہ میں ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: من وجد سعۃ فلم یُضَحِّ فلا یقربن مصَلّانا۔ جو شخص استطاعت رکھتا ہو، پھر قربانی نہ کرے،  وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ محدثین میں صرف اس امر پر اختلاف ہے کہ یہ مرفوع روایت ہے یا موقوف۔ ترمذی میں ابنِ عمرؓ کی روایت ہے : اقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالمدینۃ عشر سنین یُضَحِّی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ میں دس سال رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔ بخاری میں حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقر عید کے روز فرمایا: من کان ذبح قبل الصلوٰۃ فلیعُد و من ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین۔ جس نے عید کی نماز سے پہلے ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے، اور جس نے نماز کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پو ری ہو گئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پا لیا۔ اور یہ معلوم ہے کہ یوم النحر کو مکّے میں کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس سے پہلے قربانی کرنا سنت مسلمین کے خلاف ہو اور بعد کرنا اس کے مطابق۔ لہٰذا لا محالہ یہ ارشاد مدینے ہی میں ہوا ہے نہ کہ حج کے موقع پر مکے میں۔ مسلم میں جابر ؓ بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینے میں بقر عید کی نماز پڑھائی اور بعض لوگوں نے یہ سمجھ کر کہ آپ قربانی کر چکے ہیں، اپنی اپنی قربانیاں کر لیں۔ اس پر آپؐ نے حکم دیا کہ مجھ سے پہلے جن لوگوں نے قربانی کر لی ہے وہ پھرا عادہ کریں۔ پس یہ بات شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بقر عید کے روز جو قربانی عام مسلمان دنیا  بھر میں کرتے ہیں، یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کی جاری کی ہوئی سنت ہے۔ البتہ اگر اختلاف ہے تو اس امر میں ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا صرف سنت۔ ابراہیم نخعی،  امام ابو حنیفہ، امام مالک،  امام محمد اور ایک روایت کے مطابق امام ابو یوسف بھی،  اس کو واجب مانتے ہیں۔ مگر امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سنتِ مسلمین ہے، اور سُفیان ثَوری بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی نہ کرے تو مضائقہ نہیں۔ تاہم علماء امت  میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ اگر تمام مسلمان متفق ہو کر اسے چھوڑ دیں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ نئی اُپج صرف ہمارے زمانے کے بعض لوگوں کو سُوجھی ہے جن کے لیے ان کا نفس ہی قرآن بھی ہے اور سنت بھی۔

۷۵: یہاں سے تقریر کا رُخ ایک دوسرے مضمون کی طرف پھرتا ہے۔ سلسلۂ کلام کو سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ یہ تقریر اس وقت کی  ہے جب ہجرت کے بعد پہلی مرتبہ حج کا موسم آیا تھا۔ اس وقت ایک طرف تو مہاجرین اور انصار مدینہ، دونوں کو یہ بات سخت شاق گزر رہی تھی کہ وہ حج کی نعمت سے محروم کر دیے گئے ہیں اور ان پر زیارتِ حرم کا راستہ زبردستی بند کر دیا گیا ہے۔ اور دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں پر نہ صرف اُس ظلم کے داغ تازہ تھے  جو مکّے میں ان پر کے گئے تھے بلکہ اس بات پر بھی وہ سخت رنجیدہ تھے کہ گھر بار چھوڑ کر جب وہ مکّے سے نِکل گئے تو اب مدینے میں بھی ان کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر جو تقریر فرمائی گئی  اس کے پہلے حصّے میں کعبے کی تعمیر، اور حج کے ادارے اور قربانی کے طریقے پر مفصل گفتگو کر کے بتایا گیا کہ ان سب چیزوں کا اصل مقصد کیا تھا اور جاہلیت نے ان کو بگاڑ  کر کیا سے کیا کردیا ہے۔ اس طرح مسلمانوں میں یہ جذبہ پیدا کر دیا گیا کہ انتقام کی نیت سے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اِس صورت ِ حال  کو بدلنے کے لیے اُٹھیں۔ نیز اس کے ساتھ مدینے میں قربانی کا طریقہ جاری کر کے مسلمانوں کو یہ موقع بھی فراہم کر دیا گیا   کہ حج کے زمانے میں اپنے اپنے گھروں پر ہی قربانی کر کے اس سعادت میں حصّہ لے سکیں جس سے دشمنوں نے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی ہے، اور حج سے الگ ایک مستقل سنت کی حیثیت سے قربانی جاری کر دی تا کہ جو حج کا موقع نہ پائے وہ بھی اللہ کی نعمت کے شکر اور اس کی تکبیر کا حق ادا  کر سکے۔ اس کے بعد اب دوسرے حصّے میں مسلمانوں کو اس ظلم کے خلا ف تلوار اُٹھانے کی اجازت دی جا رہی ہے جو ان پر کیا گیا تھا اور کیا جا رہا تھا۔

۷۶: ‘‘مدافعت دفع کر سے ہے جس کے اصل معنی کسی چیز کو ہٹانے اور دُور کرنے کے ہیں۔ مگر جب دفع کرنے کے بجائے مدافعت کرنا بولیں گے تو اس میں  دو مفہوم اور شامل ہو جائیں گے۔ ایک یہ کہ کوئی دشمن طاقت  ہے جو حملہ آور ہو رہی ہے اور مدافعت کرنے والا اس کا مقابلہ کر رہا  ہے۔ دوسرے یہ کہ یہ مقابلہ بس ایک دفعہ ہی ہو کر نہیں رہ گیا بلکہ جب بھی وہ حملہ کرتا ہے یہ اس کو دفع کرتا ہے۔ ان دو مفہومات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اہلِ ایمان کی طرف سے اللہ تعالیٰ  کی مدافعت کرنے کا مطلب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کفر اور ایمان کی کشمکش میں اہلِ ایمان یکہ و تنہا نہیں ہوتے بلکہ اللہ خود ان کے ساتھ ایک فریق ہوتا ہے۔ وہ ان کی تائید اور حمایت فرماتا ہے، ان کے خلاف دشمنوں کی چالوں کا توڑ کرتا ہے اور موذیوں کے  ضرر کو اُن سے دفع کرتا رہتا ہے۔ پس یہ آیت حقیقت میں اہلِ حق کے لیے ای بہت بڑے بشارت ہے جس سے بڑھ کر ان کا دل مضبوط کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔

۷۷: یہ وجہ ہے ا س بات  کی کہ اِس کشمکش میں اللہ کیوں اہلِ حق کے ساتھ ایک فریق بنتا ہے۔ اس لیے کہ حق کے خلاف کشمکش کرنے والا دوسرا فریق خائن ہے، اور کافرِ نعمت ہے۔ وہ ہر اس امانت  میں خیانت کر رہا ہے  جو اللہ نے اس کے سپرد کی ہے، اور ہر  اس نعمت کا جواب نا شکری اور کفران اور نمک حرامی سے دے رہا ہے جو اللہ نے اس کو بخشی ہے۔ لہٰذا اللہ اس کو ناپسند فرماتا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنے والے حق پرستوں کی تائید کرتا ہے۔

 

ترجمہ

 

اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں،  ۷۸ اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ ۷۹ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے ۸۰ صرف اِس قصُور  پر کہ وہ کہتے تھے ’’ہمارا ربّ اللہ ہے۔‘‘ ۸۱ اگر اللہ  لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد ۸۲ اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے،  سب مِسمار کر ڈالی جائیں۔ ۸۳ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ ۸۴ اللہ بڑا طاقتور اور زبر دست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ ۸۵ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ۸۶  اے نبیؐ،  اگر وہ تمہیں جھُٹلاتے ہیں ۸۷ تو اُن سے پہلے قومِ نوحؐ اور عاد اور ثمود اور قومِ ابراہیمؐ  اور قومِ لوطؑ اور اہلِ مَدیَن بھی جھُٹلا چکے ہیں اور موسیٰؑ بھی جھٹلائے جا چکے ہیں۔ ان سب منکرینِ حق کو میں نے پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ ۸۸ اب دیکھ لو کہ میری عقوبت کیسی تھی۔ ۸۹ کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا ہے اور آج وہ اپنی چھتوں پر اُلٹی پڑی ہیں، کتنے ہی کنوئیں ۹۰ بےکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِن کے دل سمجھنے والے اور اِن کے کان سُننے والے ہوتے؟ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ ۹۱

یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ ۹۲ اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے ربّ کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے۔ ۹۳ کتنی ہی بستیاں ہیں جو ظالم تھیں، میں نے ان کو پہلے مہلت دی، پھر پکڑ لیا۔ اور سب کو واپس تو میرے ہی پاس آنا ہے۔ ؏ ٦

 

تفسیر

 

۷۸: جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا جا چکا ہے،  یہ قتال فی  سبیل اللہ کے بارے میں اوّلین آیت ہے جو نازل ہوئی۔ اس آیت میں صرف اجازت دی گئی تھی۔ بعد میں سورۂ بقرہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں جنگ کا حکم دے دیا گیا، یعنی    وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْ نَکُمْ، (آیت ۱۹۰) اور وَاقْتُلُوْ ھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْ ھُمْ وَاَ خْرِ جُوْ ھُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْ کُمْ (آیت ۱۹۱) اور   وَقَاتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (آیت ۱۹۳) اور   کُتِبَ عَلَیْکُمْ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ (آیت ۲۱۶) اور   وَقَاتِلُوْ ا فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَا عْلَمُوْآ اَنَّ اللہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (آیت ۲۴۴)۔ اجازت اور حکم میں صرف چند مہینوں کا فصل ہے۔ اجازت ہماری تحقیق کے مطابق ذی الحجہ سن ۱ ھ  میں نازل ہوئی،  اور حکم جنگ ِ بدر سے کچھ پہلے رجب یا شعبان سن ۲ ھ میں نازل ہوا۔

۷۹: یعنی اس کے باوجود  کہ یہ چند مٹھی بھر آدمی ہیں،  اللہ ان کو تمام مشرکین ِ عرب پر غالب کر سکتا ہے۔ یہ بات نگاہ میں رہے کہ جس وقت تلوار اُٹھانے کی یہ اجازت دی جا رہی تھی،  مسلمانوں کی ساری طاقت صرف مدینے کے ایک معمولی قصبے تک محدود تھی اور مہاجرین و انصار مل کر بھی ایک ہزار کی تعداد تک نہ پہنچتے تھے۔ او ر اس حالت میں چیلنج دیا جا رہا تھا قریش کو جو تنہا نہ تھے بلکہ عرب کے دوسرے مشرک قبائل بھی ان کی پشت پر تھے اور بعد میں یہودی بھی ان کے ساتھ مل گئے۔ اس موقع پر یہ ارشاد ہوا کہ ’’اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے‘‘ نہایت بر محل تھا۔ اس سے ان مسلمانوں کی بھی ڈھارس بندھائی گئی جنہیں پورے عرب کی طاقت کے مقابلے میں تلوار لے اُٹھ کھڑے ہونے کے لیے اُبھارا جا رہا تھا، اور کفارِ  کو بھی متنبہ کر دیا گیا کہ تمہارا مقابلہ دراصل  ان مٹھی بھر مسلمانوں سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اس کے مقابلے کی ہمت ہو تو سامنے آ جاؤ۔

۸۰: یہ آیت تصریح کرتی ہے کہ سورۂ حج کا یہ حصّہ لازماً ہجرت کے بعد نازل ہوا ہے۔

۸۱: جس  ظلم کے ساتھ یہ لوگ نکالے گئے اس کا اندازہ کرنے کے لیے ذیل کے چند واقعات ملاحظہ ہوں: حضرت صُہَیب رومی جب ہجرت کرنے لگے تو کفار ِ قریش نے ان سے کہا کہ تم  یہاں خالی ہاتھ آئے تھے اور اب خوب مال دار ہو گئے ہو۔ تم جانا چاہو تو خالی ہاتھ ہی جا سکتے ہو۔ اپنا مال نہیں لے جا سکتے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کمایا تھا اپنے ہاتھ کی محنت سے کمایا تھا، کسی کا دیا نہیں  کھاتے تھے۔ آخر وہ غریب دامن جھاڑ کر کھڑے ہو گئے اور سب کچھ ظالموں کے حوالے کر کے اس حال میں مدینے پہنچے کہ تن کے کپڑوں کے سوا اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ حضرت اُمِ سَلَمہ اور ان کے شوہر ابو سَلَمہ اپنے دودھ پیتے بچے کو لے کر ہجرت کے لیے نکلے۔ بنی مَغِیرہ (اُم سَلَمہ کے خاندان)  نے راستہ روک لیا اور ابو سلمہ سے کہا کہ تمہارا جہاں جی چاہے  پھرتے رہے،  مگر ہماری لڑکی کو لے کر  نہیں جا سکتے۔ مجبوراً بے چارے بیوی کو چھوڑ کر چلے گئے۔ پھر بنی عبد الاسد (ابو سَلَمہ کے خاندان والے) آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ بچہ ہمارے قبیلے کا ہے،  اسے ہمارے حوالے کر دو۔ اس طرح بچہ بھی ماں اور باپ دونوں سے چھین لیا گیا۔ تقریباً ایک سال  تک حضرت اُم سلمہ بچے اور شوہر  کے غم میں تڑپتی رہیں،  اور آخر بڑی مصیبت سے اپنے بچے کو حاصل کر کے مکّے سے اس حال میں نکلیں کہ اکیلی عورت گود میں بچہ لیے اونٹ پر سوار تھی اور ان راستوں پر جا رہی تھی  جن سے مسلح قبائل  بھی گزرتے ہوئے ڈرتے تھے۔ عیّاش بن رَبِیعہ، ابوجہل کے ماں جائے بھائی تھے۔ حضرت عمرؓ کے ساتھ ہجرت کر کے مدینے پہنچ گئے۔ پیچھے پیچھے ابو جہل اپنے ایک بھائی کو ساتھ لے کر جا پہنچا  اور بات بنائی کہ امّاں جان نے قسم کھا لی ہے کہ جب تک عیاش کی صورت نہ دیکھ لوں گی نہ دھوپ سے سائے میں جاؤں گی اور نہ سر میں کنگھی کروں گی۔ اس لیے تم  بس چل کر اُنہیں صورت دکھا دو، پھر واپس آ جانا۔ وہ بیچارے ماں کی محبت میں ساتھ ہو لیے۔ راستے میں دونوں بھائیوں نے ان کو قید کر لیا اور مکّے میں انہیں لے کر اس طرح داخل ہوئے کہ وہ رسیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور دونوں بھائی پکارتے جا رہے تھے کہ ’’اے اہلِ مکّہ، اپنے اپنے نالائق لونڈوں کو یوں سیدھا کرو جس طرح ہم نے کیا ہے‘‘۔ کافی مدّت تک بیچارے قید رہے اور آخر کار ایک جانباز مسلمان ان کو نکال لانے میں کامیاب ہوا۔ اس طرح کے مظالم سے قریب قریب ہر اس شخص کو سابقہ پیش آیا جس نے مکّے سے مدینے کی طرف ہجرت کی۔ ظالموں نے گھر بار چھوڑتے وقت بھی ان غریبوں کو خیریت سے نہ نکلنے دیا۔

۸۲: اصل میں  صَوَ امِعُ  اور   بِیَعٌ  اور   صَلَواتٌ   کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ صومعہ اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں راہب اور سنیاسی اور تارک الدنیا فقیر رہتے ہوں۔ بِیعہ کا لفظ عربی زبان میں عیسائیوں کی عبادت گاہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ صَلَوات سے مراد یہودیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے۔ یہودیوں کے ہاں اس کا نام صلوتا تھا جو آرامی زبان کا لفظ ہے۔ بعید نہیں کہ انگریزی لفظ (Salute ) اور (Salutation ) اسی سے نِکل کر لاطینی میں اور پھر انگریزی میں پہنچا ہو۔

۸۳: یعنی یہ اللہ کا بڑا فضل ہے کہ اس نے کسی ایک گروہ یا قوم کو دائمی اقتدار کا پٹہ لکھ کر نہیں دے دیا، بلکہ وہ وقتاً فوقتاً دنیا میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعہ سے دفع کر تا رہتا ہے۔ ورنہ اگر ایک ہی گروہ کو کہیں پٹہ مل گیا ہوتا تو قلعے اور قصر اور ایوان سیاست اور صنعت و تجارت کے مرکز ہی تباہ نہ کر دیے جاتے بلکہ عبادت گاہیں تک دست درازیوں سے نہ بچتیں۔ سورہ بقرہ میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے   وَلَوْ لَا دَفْعُ اللہِ النَّاسَ بَعْضُھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰکِنَّ اللہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ،’’اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین میں فساد مچ جاتا۔ مگر اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل  فرمانے والا ہے‘‘۔ (آیت ۲۵۱)۔

۸۴: یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو لوگ خلقِ خدا کو توحید کی طرف بلانے اور دینِ حق کو قائم کرنے اور شر کی جگہ خیر کو فروغ دینے کی سعی  و جہد کرتے ہیں وہ دراصل اللہ کے مددگار ہیں، کیونکہ یہ اللہ کا کام ہے جسے انجام دینے میں وہ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۵۰)۔

۸۵: یعنی اللہ کے مددگار اور اُس کی تائید و نصرت کے مستحق لوگوں کی صفات یہ ہیں کہ اگر دنیا میں انہیں حکومت و فرمانروائی بخشی جائے تو ان کا ذاتی کردار فسق و فجور اور کبر و غرور کے بجائے اقامتِ صلوٰۃ ہو، اُن کی دولت عیاشیوں اور نفس پرستیوں کے بجائے ایتائے زکوٰۃ میں صرف ہو، ان کی حکومت نیکی کو دبانے کے بجائے اُسے فروغ دینے کی خدمت انجام دے، اور ان کی طاقت بدیوں کو پھیلانے کے بجائے اُن کے دبانے میں استعمال ہو۔ اس یک فقرے میں اسلامی حکومت کے نصب العین اور اس کے کارکنوں  اور  کارفرماؤں کی خصوصیات کا جو ہر نکال کر رکھ دیا گیا ہے۔ کوئی سمجھنا چاہے تو اسی ایک فقرے سے سمجھ سکتا ہے کہ اسلامی حکومت فی الواقع کس چیز کا نام ہے۔

۸۶: یعنی یہ فیصلہ کہ زمین کا انتظام کس وقت  کسے سونپا جائے دراصل اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ مغرور بندے اس غلط فہمی میں ہیں کہ زمین اور اس کے بسنے والوں کی قسمتوں کے فیصلے کرنے والے وہ خود ہیں۔ مگر جو  طاقت ایک ذرا سے بیج کو تنا ور درخت بنا دیتی ہے اور ایک تناور درخت کو ہی زم سوختنی میں تبدیل کر دیتی ہے،  اسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ جن کے دبدبے کو دیکھ کر لوگ خیال کرتے ہوں کہ بھلا  ان کو کون ہلا سکے گا اُنہیں ایسا گرائے کہ دنیا کے لیے نمونہ ۂ عبرت بن جائیں، اور جنہیں دیکھ کر  کوئی گمان بھی نہ کر سکتا ہو کہ یہ کبھی اُٹھ سکیں گے اُنہیں ایسا سربلند کرے کہ دنیا میں اُن کی عظمت و بزرگی کے ڈنکے بج جائیں۔

۸۷: یعنی کفارِ مکّہ۔

۸۸: ’’یعنی ان میں سے کسی قوم کو بھی نبی کی تکذیب کرتے ہی فوراً نہیں پکڑ لیا گیا تھا، بلکہ ہر ایک کو سوچنے سمجھنے کے لیے کافی وقت دیا گیا اور گرفت اُس وقت کی گئی جبکہ انصاف کے تقاضے پورے ہو چکے تھے۔ اسی طرح کفارِ مکّہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ ان کی شامت آنے میں جو دیر لگ رہی ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ نبی کی تنبیہات محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ درحقیقت یہ مہلتِ غور و فکر جو اللہ اپنے قاعدے کے مطابق ان کو دے رہا ہے اور اس مہلت سے اگر انہوں  نے فائدہ نہ اُٹھایا تو ان کا انجام بھی وہی ہو کر رہنا ہے جو ان کے پیش روؤں کا ہو چکا ہے۔

۸۹: اصل میں لفظ  نکیر استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم عقوبت یا کسی دوسرے لفظ سے ادا نہیں ہوتا۔ یہ لفظ دو معنی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ کسی شخص کی بُری روش پر ناخوشی کا اظہار کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اُس کو ایسی سزا دی جائے، جو اس کی حالت دگر گوں کر دے۔ اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے۔ کوئی دیکھے تو پہچان نہ سکے کہ  یہ وہی شخص ہے۔ ان دونوں مفہومات کے لحاظ سے اس فقرے کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ اب دیکھ لو کہ ان کی اس روش پر جب میرا غضب بھڑکا تو پھر میں نے ان کی حالت کیسی دگرگوں کر دی‘‘۔

۹۰: عرب میں کُنواں اور بستی قریب قریب ایک دوسرے کے ہم معنی ہیں۔ کسی قبیلے کی بستی کا نام لینا ہو تو کہتے ہیں    ماء بنی فلان  یعنی فلاں قبیلے کا کنواں۔ ایک عرب کے سامنے جب یہ کہا جائے گا کہ کنوئیں بیکار پڑے ہیں تو اس کے ذہن میں اس کا یہ مطلب آئے گا کہ بستیاں اُجڑی پڑی ہیں۔

۹۱: خیال رہے کہ قرآن سائنس کی زبان میں نہیں بلکہ ادب کی زبان میں کلام کرتا ہے۔ یہاں خواہ مخواہ ذہن اس سوال میں نہ اُلجھ جائے کہ سینے والا دل کب سوچا کرتا ہے۔ ادبی زبان میں احساسات،  جذبات،  خیالات،  بلکہ قریب قریب تمام ہی افعالِ دماغ سینے اور دل ہی کی طرف منسُوب کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ کسی چیز کے ’’یاد ہونے‘‘ کو بھی یوں کہتے ہیں کہ ’’وہ تو میرے سینے میں محفوظ ہے‘‘۔

۹۲: یعنی بار بار چیلنج کر رہے ہیں کہ میاں اگر تم سچے نبی ہو تو کیوں نہیں آجاتا ہم پر وہ عذاب جو خدا کے بھیجے ہوئے   نبی بر حق کے جھٹلانے پر آنا چاہیے ،  اور جس  کی دھمکیاں بھی تم بار ہا ہم کو دے چکے ہو۔

۹۳: یعنی انسانی تاریخ میں خدا کے فیصلے تمہاری گھڑیوں اور جنتریوں کے لحاظ سے نہیں ہوتے کہ آج ایک صحیح یا غلط روش اختیار کی  اور کل اس کے اچھے یا بُرے نتائج ظاہر ہو گئے۔ کسی قوم سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں طرزِ عمل اختیار کرنے کا انجام تمہاری تباہی کی صورت میں نکلے گا تو وہ بڑی ہی احمق ہو گی اگر جواب میں یہ استدلال کرے کہ جناب اس طرزِ عمل کو اختیار کیے ہمیں دس، بیس یا پچاس برس ہو چکے ہیں،  ابھی تک تو ہمارا کچھ بگڑا نہیں۔ تاریخی نتائج کے لیے دن اور مہینے اور سال تو درکنار صدیاں بھی کوئی بڑی چیز نہیں ہیں۔

 

ترجمہ

 

اے محمدؐ،  کہہ دو کہ ’’لوگو، میں تو تمہارے لیے صرف وہ شخص ہوں جو (بُرا وقت آنے سے پہلے)صاف صاف خبردار کر دینے والا ہو۔ ۹۴ پھر جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے اُن کے لیے مغفرت ہے اور عزّت کی روزی۔ ۹۵ اور جو ہماری آیات کو نیچا دکھانے کی کوشش کریں گے وہ دوزخ کے یار ہیں۔ اور اے محمدؐ،  تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی رسُول ایسا بھیجا ہے نہ نبی ۹۶ (جس کے ساتھ یہ معاملہ نہ پیش آیا ہو کہ)جب اُس نے تمنا کی ۹۷،  شیطان اس کی تمنّا میں خلل انداز ہو گیا۔ ۹۸ اِس طرح جو کچھ بھی شیطان خلل اندازیاں کرتا ہے  اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو پختہ کر دیتا ہے، ۹۹ اللہ علیم ہے اور حکیم۔ ۱۰۰ (وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے )تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے اُن لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو ( نفاق کا )روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل  کھوٹے ہیں۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دُور نکل گئے ہیں۔۔۔۔ اور علم سے بہرہ مند لوگ جان لیں کہ یہ حق ہے تیرے ربّ کی طرف سے اور وہ اس پر ایمان لے آئیں اور ان کے دل اس کے آگے جُھک جائیں، یقیناً اللہ ایمان لانے والوں کو ہمیشہ سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ ۱۰۱ انکار کرنے والے تو اس کی طرف سے شک ہی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ یا تو اُن پر قیامت کی گھڑی اچانک آ جائے، یا ایک منحوس دن ۱۰۲ کا عذاب نازل ہو جائے۔ اُس روز بادشاہی اللہ کی ہو گی، اور وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ جو ایمان رکھنے والے اور عملِ صالح کرنے والے ہوں گے وہ نعمت بھری جنتّوں میں جائیں گے، اور جنہوں نے کُفر کیا  ہو گا اور ہماری آیات کو جھُٹلایا ہو گا اُن کے لیے رُسوا کُن عذاب ہو گا۔  ؏ ۷

 

تفسیر

 

۹۴: یعنی میں تمہاری قسمتوں کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں، بلکہ صرف خبردار کرنے والا ہوں۔ میرا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ شامت آنے سے پہلے تم کو متنبہ کر دوں۔ آگے فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے۔ وہی طے کرے گا کہ کس کو کب تک مہلت دینی ہے اور کب کس صورت میں اس پر عذاب لانا ہے۔

۹۵: ’’مغفرت‘‘ سے مراد ہے خطاؤں اور کمزوریوں اور لغزشوں سے چشم پوشی و درگزر۔ اور ’’رزقِ کریم‘‘ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عمدہ رزق دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ عزّت کے ساتھ بٹھا کر دیا جائے۔

۹۶: رسول اور نبی کے فرق کی تشریح سورۂ مریم حاشیہ نمبر ۳۰ میں کی جا چکی ہے۔

۹۷: تمنّٰی کا لفظ عربی زبان میں دو معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ایک معنی تو وہی ہیں جو اُردو میں لفظ تمنّا کے ہیں، یعنی کسی چیز کی خواہش اور آرزو۔ دوسرے معنی تلاوت کے ہیں، یعنی کسی چیز کو پڑھنا۔

۹۸: ’’تمنّا‘‘   کا لفظ اگر  پہلے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ شیطان نے اس کی آرزو پوری ہونے میں رخنے ڈالے اور رکاوٹیں پیدا کیں۔ دوسرے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہو گی کہ جب بھی اُس نے کلامِ الٰہی لوگوں کو سنایا،  شیطان نے اس کے بارے میں طرح طرح کے شبہے اور اعتراضات پیدا کیے، عجیب عجیب معنی اس کو پہنائے،  اور ایک صحیح مطلب کے سوا ہر طرح کے اُلٹے سیدھے مطلب لوگوں کو سمجھائے۔

۹۹: پہلے معنی کے لحاظ سے  اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شیطان کی خلل اندازیوں کے باوجود آخر کار نبی کی تمنا کو(آخری نبی کی تمنا اس کےسوا کیا ہو سکتی ہے کہ اس کی مساعی بار آور ہوں اور اس کا مشن فروغ پائے) پورا کرتا ہے اور اپنی آیات کو (یعنی ان وعدوں کو جو اس نے نبی سے کیے تھے) پختہ اور اٹل وعدے ثابت کر دیتا ہے۔ دوسرے معنی کے لحاظ سے مطلب یہ نکلتا ہے کہ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات و اعتراضات کو اللہ رفع کر دیتا ہے اور ایک آیت کے بارے میں جو الجھنیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالتا ہے انہیں بعد کی کسی واضح تر آیت سے صاف کر دیا جاتا ہے۔

۱۰۰: یعنی وہ جانتا ہے کہ شیطان نے کہاں کیا خلل اندازی کی اور اس کے کیا  اثرات ہوئے۔ اور اس کی حکمت ہر شیطانی فتنے کا توڑ کر دیتی ہے۔

۱۰۱: یعنی شیطان کی ان فتنہ پردازیوں کو اللہ نے لوگوں کی آزمائش،  اور کھرے کو کھوٹے سے جدا کرنے کا ایک ذریعہ بنا دیا ہے۔ بگڑی ہوئی ذہنیت کے لوگ اِنہی چیزوں سے غلط نتیجے اخذ کرتے ہیں اور یہ ان کے لیے گمراہی کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ صاف ذہن کے لوگوں کو یہی باتیں نبی اور کتاب اللہ کے برحق ہونے کا یقین دلاتی ہیں اور وہ محسوس کر لیتے ہیں کہ یہ سب شیطان کی شرارتیں ہیں اور یہ چیز انہیں مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ دعوت یقیناً خیر اور راستی کی دعوت ہے،  ورنہ شیطان اس پر اس قدر نہ تلْملاتا۔ سلسلۂ کلام کو نظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو اِن آیات کا مطلب صاف سجھ میں آ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس وقت جس مرحلے میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بیں نگاہیں یہ دھوکا کھا رہی تھیں کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے ہیں۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہی تھا کہ ایک شخص،  جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لائے،  وہ تیرہ برس معاذاللہ سرمارنے کے بعد آخر کار اپنے مٹھی بھر پیرووں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اس صورتِ حال میں جب لوگ آپؐ کے اس بیان کو دیکھتے  تھے کہ میں اللہ کا نبی ہوں اور اس کی تائید میرے ساتھ ہے، اور قرآن کے ان اعلانات کو دیکھتے تھے کہ نبی کو جھٹلا دینے والی قوم پر عذاب آ جاتا ہے،  تو انہیں آپؐ کی اور قرآن کی صداقت مشتبہ  نظر آنے لگتی تھی،  اور آپؐ کے مخالفین اس پر بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے تھے کہ کہاں گئی وہ خدا کی تائید،  اور کیا ہوئیں وہ عذاب کی وعیدیں،  اب کیوں نہیں آ جاتا وہ عذاب جس کے ہم کو ڈراوے دیے جا تے تھے۔ انہی باتوں کا جواب اس سے پہلے کی آیتوں میں دیا گیا تھا اور انہی کے جواب میں یہ آیات بھی ارشاد ہوئی ہیں۔ پہلے کی آیتوں میں جواب کا رُخ کفار کی طرف تھا اور اِن آیتوں میں اُس کا رُخ ان لوگوں کی طرف ہے جو کفار کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے تھے۔ پورے جوب کا خلاصہ یہ ہے کہ: ’’کسی قوم کا اپنے پیغمبر کی تکذیب کرنا انسانی تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہ، پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ پھراس تکذیب کا جو انجام ہوا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے تباہ شدہ قوموں کے آثارِ قدیمہ کی صورت میں موجود ہے۔ سبق لینا چاہو تو اس سے لے سکتے ہو۔ رہی یہ بات کہ تکذیب کرتے ہی وہ عذاب کیوں نہ آ گیا جس کی وعیدیں قرآن کی بکثرت آیتوں میں کی گئی تھیں، تو آخر یہ کب کہا گیا تھا کہ ہر تکذیب فوراً ہی عذاب لے آتی ہے۔ اور نبی نے یہ کب کہا تھا کہ عذاب لانا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کا فیصلہ تو خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ جلد باز نہیں ہے۔ پہلے بھی وہ عذاب لانے سے پہلے قوموں کو مہلت دیتا رہا ہے اور اب بھی دے رہا ہے۔ مہلت کا یہ زمانہ اگر صدیوں تک بھی دراز ہو تو یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ سب وعیدیں خالی خولی دھمکیاں ہی تھیں جو پیغمبر کے جھٹلانے والوں پر عذاب آنے کے متعلق کی گئی تھیں۔ پھر یہ بات بھی کوئی نئی نہیں ہے کہ پیغمبر کی آرزوؤں اور تمناؤں کے بر آنے میں رکاوٹیں واقع ہوں،، یا اس کی دعوت کے خلاف جھوٹے الزامات اور طرح طرح کے شبہات و اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہو۔ یہ سب کچھ بھی تمام پچھلے پیغمبروں کی دعوتوں کے مقابلے میں ہو چکا ہے۔ مگر آخر کار اللہ تعالیٰ اِن شیطانی فتنوں کا استیصال کر دیتا ہے۔ رکاوٹوں کے باوجود دعوتِ حق فروغ پاتی ہے، اور محکم آیات کے ذریعے شبہات کے رخنے بھر دیے جاتے ہیں۔ شیطان اور اس کے چیلے ان تدبیروں سے اللہ تعالیٰ کی آیات کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں، مگر اللہ انہی کو انسانوں کے درمیان کھوٹے اور کھرے کی تمیز کا ذریعہ بنا دیتا ہے۔ اس ذریعہ سے کھرے آدمی دعوت حق کی طرف کھِنچ آتے ہیں اور کھوٹے لوگ چھَٹ کر الگ ہو جاتے ہیں۔‘‘ یہ ہے وہ صاف اور سیدھا مفہوم جو سیاق و سباق کی روشنی میں اِن آیات سے حاصل ہوتا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ ایک روایت نے ان کی تفسیر میں اتنا بڑا گھپلا ڈال دیا کہ نہ صرف ان کے معنی کچھ سے کچھ ہو گئے، بلکہ سارے دین کی بنیاد ہی  خطرے میں پڑ گئی۔ ہم اس کا ذکر یہاں اس لیے کرتے ہیں کہ قرآن کے طالب ِ علم فہمِ قرآن میں روایات سے مدد لینے کے صحیح اور غلط طریقوں کا فرق اچھی طرح سمجھ سکیں اور انہیں معلوم ہو جائے کہ روایت پرستی میں ناروا غلو کیا  نتائج پیدا کرتا ہے، اور قرآن کی غلط تفسیر کرنے والی روایات پر تنقید کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہے۔ قصّہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دل میں یہ تمنا پیدا ہوئی کہ کاش قرآن میں کوئی ایسی بات نازل ہو جائے جس سے اسلام کے خلاف کفارِ قریش کی نفرت دُور ہو اور وہ کچھ قریب آ جائیں۔ یا کم از کم اُن کے دین کے خلاف ایسی سخت تنقید نہ ہو جو انہیں بھڑکا دینے والی ہو۔ یہ تمنا آپؐ کے دل ہی میں تھی کہ ایک روز قریش کی ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے آپؐ پر سورۂ نجم نازل ہوئی اور آپؐ نے اسے پڑھنا شروع کیا۔ جب آپؐ   اَفَرَ اَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزّٰیo وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْریٰo پر پہنچے تو یکایک آپؐ کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے   تلک الغرانقۃ العلی، وان شفاعتھن لترجیٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے)۔ اس کے بعد آگے پھر آپؐ سورۂ نجم کی آیات پڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب اختتامِ سورہ پر آپؐ نے سجدہ کیا تو مشرک اور مسلمان سب سجدہ میں گر گئے۔ کفارِ قریش نے کہا کہ اب ہمارا محمد سے  کیا اختلاف باقی رہ گیا۔ ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خالق و رازق اللہ ہی ہے،  البتہ ہمارے یہ معبود اس کے حضور میں ہمارے شفیع ہیں۔ شام کو جبریل آئے اور انہوں نے کہا یہ آپ  نے کیا کیا؟ یہ دونوں فقرے تو میں نہیں لایا تھا۔ اس پر آپؐ سخت مغموم ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے وہ آیت نازل کی جو سورۂ بنی اسرائیل،  رکوع ۸ میں ہے کہ  وَاِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ لِتَفْتَرِیَ عَلَیْنَا غَیْرَہٗ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ عَلَیْنَا نَصِیْرًا۔ یہ چیز برابر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو رنج و غم میں مبتلا کیے رہی یہاں تک کہ سورۂ حج کی یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں آنحضرتؐ کو تسلی دی گئی کہ تم سے پہلے بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ اُدھر یہ واقعہ کہ قرآن سن کر آنحضرتؐ کے ساتھ قریش کے لوگوں نے بھی سجدہ کیا، مہاجرینِ حبشہ تک اس رنگ میں پہنچا کہ آنحضرتؐ اور کفارِ مکّہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔ چنانچہ بہت سے مہاجرین مکّہ واپس آ گئے۔ مگر یہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ  صُلح کی خبر غلط تھی، اسلام اور کُفر کی دشمنی جُوں کی تُوں قائم ہے۔ یہ قصہ ابن جَریر اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں،  ابن سعد نے طبقات میں،  الواحدی نے اسباب النزُول میں،  موسیٰ بن عُقبہ نے مَغازِی میں، ابن اسحاق نے سیرت میں،  اور ابن ابی حاتم، ابن المُنْذِر،  بَزار، ابنِ مَرْدُوْییہ اور طَبرَانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ہے وہ محمد بن قیس، محمد بن کعب قُرظِی، عُروہ بن زبیر، ابو صالح، ابو العالیہ، سعید بن جُبَیر، ضَحّاک، ابوبکر بن عبد الرحمٰن بن حارث، قَتَادہ، مجاہد، سُدِّی، ابن ِ شہاب زُہْرِی، اور ابن عباس پر ختم ہوتی ہیں (ابن عباس کے سوا ان میں سے کوئی صحابی نہیں ہے)۔ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کو چھوڑ کر دو بہت بڑے اختلافات ہیں۔ ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں جو کلمات بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ قریب قریب  ہر روایت میں دوسری روایت سے مختلف ہیں۔ ہم نے ان کا استقصاء کرنے کی کوشش کی تو ۱۵ عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ کسی روایت کی رُو سے یہ الفاظ دورانِ وحی میں شیطان نے آپؐ پر القا کر دیے اور آپؐ سمجھے کہ یہ جبریل لائے ہیں۔ کسی روایت میں ہے کہ یہ الفاظ اپنی اُس خواہش کے زیرِ اثر سہواً آپؐ کی زبان سے نِکل گئے۔ کسی میں  ہے کہ اُس وقت آپؐ کو اُونگھ آ گئی تھی اور اس حالت میں یہ الفاظ نکلے۔ کسی کا بیان ہے کہ آپؐ نے یہ قصداً کہے مگر استفہام انکاری کے طور پر کہے۔ کسی کا قول ہے کہ شیطان نے آپؐ کی آواز میں آواز مِلا کر یہ الفاظ کہہ دیے اور سمجھا  یہ گیا کہ آپؐ نے کہے ہیں۔ اور کسی کے نزدیک کہنے والا مشرکین میں سے کوئی شخص تھا۔ اِبنِ کَثِیر، بَیْہقی، قاضی عیاض، ابن خُزَیمہ، قاضی ابوبکر ابن العربی، امام رازی، قُرطُبی، بدر الدین عینی، شوکانی، آلوسی وغیرہ حضرات اس قصے کو بالکل غلط قرار دیتے ہیں۔ ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ ’’جتنی سندوں سے یہ روایت ہوا ہے، سب مُرسَل اور منقطع ہیں، مجھے کسی صحیح متصل سند سے یہ نہیں ملا۔‘‘بیہقی کہتے ہیں کہ ’’ازروئے نقل یہ قصّہ ثابت  نہیں ہے۔‘‘ ابنِ خُذیمہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’یہ زنادقہ کا گھڑا ہو ا ہے۔‘‘ قاضی عیاض کہتے  ہیں کہ ’’اس کی کمزوری اسی سے ظاہر ہے کہ صحاح ستہ کے مؤلفین میں سے کسی نے بھی اس کو اپنے ہاں نقل نہیں کیا اور نہ یہ کسی صحیح متصل بے عیب سند کے ساتھ ثقہ راویوں سے منقول ہوا ہے۔‘‘ امام رازی،  قاضی ابوبکر اور آلوسی نے اس پر مفصل بحث کر کے اسے بڑے پر زور طریقے سے رد کیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حَجَر جیسے بلند پایہ محدث اور ابوبکر جَصّاص جیسے نامور فقیہ اور زَمَحشَرِی جیسے عقلیت پسند مفسِّر، اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت ِ زیرِ بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر کا محدّثانہ استدلال یہ ہے کہ: ’’سعید بن جُبَیر کے طریق کے سوا باقی جن طریقوں سے یہ روایت آئی ہے وہ یا تو ضعیف ہیں یا منقطع، مگر طریقوں کی کثرت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کی کوئی اصل ہے ضرور۔ علاوہ بریں یہ ایک طریقہ سے متصلاً بسندِ صحیح بھی نقل ہوا ہے جسے بزّار نے نکالا ہے (مراد ہے یوسف بن حمّاد عن اُمَیَّہ بن خالد عن شُعْبَہ عن ابی بِشْر عن سعید بن حُبَیر عن ابن عباس ) اور دو طریقوں سے یہ اگرچہ مرسل ہے مگر اس کے راوی صحیحین کی شرط کے مطابق ہیں۔ یہ دونوں روایتیں طَبرَی نے نقل کی ہیں۔ ایک بطریق یونس بن یزید عن ابن شہاب، دوسری بطریق مُعتَمِر بن سلیمان و حماد بن سَلَمہ عن داؤد بن ابی ہند عن ابی العالیہ‘‘۔ جہاں تک موافقین کا تعلق ہے، وہ تو اسے صحیح مان ہی بیٹھے ہیں۔ لیکن مخالفین نے بھی بالعموم اس پر تنقید کا حق ادا نہیں کیا ہے۔ ایک گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس کی سند  اس کی نزدیک قوی نہیں ہے۔ اس  کے معنی یہ ہوئے کہ اگر سند قوی ہوتی تو یہ حضرات اس قصّے کو مان لیتے۔ دوسرا گروہ اسے اس لیے رد کرتا ہے کہ اس سے تو سارا دین ہی مشتبہ ہوا جاتا ہے اور دین کی ہر بات کے متعلق   شک پیدا ہو جاتا ہے  کہ نہ معلوم اور کہاں کہاں شیطانی اغوا یا نفسانی آمیزشوں کا دخل ہو گیا ہو۔ حالانکہ اس نوعیت  کا استدلال ان لوگوں کو تو مطمئن کر سکتا ہے جو ایمان لانے کے عزم پر قائم ہوں، مگر دوسرے لوگ جو پہلے ہی شکوک میں مبتلا ہیں،  یا جواَب تحقیق کر کے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں،  ان کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا نہیں ہو سکتا  کہ جن جن چیزوں سے یہ دین مشتبہ قرار پاتا ہوا نہیں رد کر دیں۔ وہ تو کہیں گے کہ جب کم از کم ایک نام ور صحابی اور بکثرت تابعین و تبع تابعین،  اور متعدد و معتبر راویانِ حدیث کی روایت سے ایک واقعہ ثابت ہو رہا ہے تو اسے صرف اس بنا پر کیوں رد کر دیا جائے کہ ان سے آپ کا دین مشتبہ ہُوا جاتا ہے ؟ اس کے بجائے آپ کے دین کو مشتبہ کیوں نہ سمجھا جائے جبکہ یہ واقعہ اسے مشتبہ ثابت کر ہی رہا ہے؟ اب دیکھنا چاہیے کہ تنقید کا وہ صحیح طریقہ کیا ہے جس سے اگر اس قصے کو پرکھ کر دیکھا جائے تو یہ ناقابلِ قبول قرار پاتا ہے،  چاہے اس کی سند کتنی ہی قوی ہو، یا قوی ہوتی۔ پہلی چیز خود اُس کی اندرونی شہادت ہے جو اُسے غلط ثابت کرتی ہے۔ قصّے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ہجرت حبشہ ہو چکی تھی، اور اس واقعے کی خبر پا کر مہاجرین حبشہ میں سے ایک گروہ مکّہ واپس آ گیا۔ اب ذرا تاریخوں کا فرق ملاحظہ کیجیے: —- ہجرت حبشہ معتبر تاریخی روایتوں کی رو سے رجب سن ۵ نبوی میں واقع ہوئی،  اور مہاجرین ِ حبشہ کا ایک گروہ مصالحت کی غلط خبر سُن کر تین مہینے  بعد (یعنی اسی سال تقریباً شوال کے مہینے میں) مکّے واپس آ گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ واقعہ لامحالہ سن ۵ نبوی کا ہے۔ —- سورۂ بنی اسرائیل جس کی ایک آیت کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ وہ بنی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فعل پر بطورِ عتاب نازل ہوئی تھی،  معراج کے بعد اتری ہے، اور معراج کا زمانہ معتبر ترین روایات کی رُو سے سن ۱۱ یا سن۱۲ نبوی کا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اس فعل پر پانچ چھ سال جب گزر چکے تب اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا۔ —- اور زیرِ بحث آیت،  جیسا کہ اس کا سیاق و سباق صاف بتا رہا ہے  سن ۱ ہجری میں نازل ہوئی ہے۔ یعنی عتاب پر بھی جب مزید دو ڈھائی سال گزر لیے تب اعلان کیا گیا کہ یہ آمیزش تو القائے شیطانی سے ہو گئی تھی، اللہ نے اسے منسُوخ کر دیا ہے۔ کیا کوئی صاحبِ عقل آدمی باور کر سکتا ہے کہ آمیزش کا فعل آج ہو، عتاب چھ سال بعد، اور آمیزش کی تنسیخ کا اعلان ۹ سال بعد؟ پھر اس قصّے میں بیان کیا گیا ہے   کہ یہ آمیزش سورۂ نجم میں ہوئی تھی اور اس طرح ہوئی کہ ابتدا سے آپ اصل سورۃ کے الفاظ پڑھتے چلے آرہے تھے، یکایک مَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی پر پہنچ کر آپ نے بطورِ خود یا شیطانی اغوا سے یہ فقرہ ملایا،  اور آگے پھر سورۂ نجم  کی اصل آیات پڑھتے چلے گئے۔ اس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ کفارِ مکّہ اسے سن کر خوش ہو گئے اور  انہوں نے کہا کہ اب ہمارا اور محمدؐ کا اختلاف ختم ہو گیا۔ مگر سورۂ نجم کے سلسلۂ کلام میں اس الحاقی فقرے کے شامل کر کے تو دیکھیے: ’’پھر تم نے کچھ غور کیا اِن  لات اور عُزّیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر؟ یہ بلند پایہ دیویاں ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ کیا تمہارے لیے تو ہوں بیٹے اور اس (یعنی اللہ) کے لیے ہوں بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہے مگر چند نام  جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں۔ اللہ نے ان کے لیے کوئی سند نازل نہیں  کی۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں، حالانکہ ان کے ربّ کی طرف سے صحیح رہنمائی آ گئی ہے‘‘۔ دیکھیے، اس عبارت میں خط کشیدہ فقرے نے کیسا صریح تضاد پیدا کر دیا ہے۔ ایک سانس میں کہا جاتا ہے کہ واقعی تمہاری یہ دیویاں بلند مرتبہ رکھتی ہیں، ان کی شفاعت ضرور متوقع ہے۔ دوسرے ہی سانس میں پلٹ کر اُن پر چوٹ کی جاتی ہے کہ بے وقوفو، یہ تم نے خدا کے لیے بیٹیاں کیسی تجویز کر رکھی ہیں؟ اچھی دھاندلی ہے کہ تمہیں تو ملیں بیٹے اور خدا کے حصّے میں آئیں بیٹیاں! یہ سب تمہاری من گھڑت ہے جسے خدا کی طرف سے کوئی سند اعتبار حاصل نہیں ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو جانے دیجیے کہ یہ صریح بے تکی باتیں کسی مرد عاقل کی زبان سے نِکل بھی سکتی ہیں یا نہیں۔ مان لیجیے کے شیطان نے غلبہ پا کر یہ الفاظ زبان سے نکلوا دیے۔ مگر کیا قریش کا وہ سارا مجمع جو اسے سُن رہا تھا،  بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا کہ بعد کے فقروں میں ان تعریفی کلمات کی کھلی کھلی تردید سُن کر بھی وہ یہی سمجھتا رہا کہ ہماری دیویوں کی واقعی تعریف کی گئی ہے ؟ سورۂ نجم کے آخر تک کا پورا مضمون اس ایک تعریفی فقرے کے بالکل خلا ف ہے۔ کس طرح باور کیا جا سکتا ہے کہ قریش کے لوگ اسے آخر تک سُننے کے بعد یہ پکار اُٹھے ہوں گے کہ چلو آج ہمارا اور محمد ؐ  کا اختلاف ختم ہو گیا؟ یہ تو ہے اس قصّے کی اندرونی شہادت جو اس کے سراسر لغو اور مہمل ہونے کی گواہی دے رہی ہے۔ اس کے بعد دوسری چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ اس میں تین آیتوں کی جو شانِ نزول بیان کی جا رہی ہے آیا قرآن کی ترتیب بھی اس کو قبول کرتی ہے؟ قصّے میں بیان یہ کیا جا رہا ہے کہ آمیزش سورۂ نجم میں کی گئی تھی،  جو سن ۵ نبوی میں نازل ہوئی۔ اس آمیزش پر سورۂ بنی اسرائیل والی آیت میں عتاب فرمایا گیا، اور پھر اس کی تنسیخ اور واقعہ کی توجیہ سورۂ حج کی زیرِ بحث آیت میں کی گئی۔ اب لا محالہ دو صورتوں میں سے کوئی ایک ہی صورت پیش آئی ہو گی۔ یا تو عتاب اور تنسیخ والی آیتیں بھی اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں جبکہ آمیزش کا واقعہ پیش آیا، یا پھر عتاب والی آیت سورۂ بنی اسرائیل کے ساتھ اور تنسیخ والی آیت سورۂ حج کے ساتھ نازل ہوئی ہو۔ اگر پہلی صورت ہے تو یہ کس قدر عجیب بات ہے کہ یہ دونوں آیتیں سورہ نجم ہی میں نہ شامل کی گئیں بلکہ عتاب والی آیت کو چھ سال تک یوں ہی ڈالے رکھا گیا اور سورۂ بنی اسرائیل جب نازل ہوئی  تب کہیں اس میں لا کر چپکا دیا گیا۔ پھر تنسیخ والی آیت مزید دو ڈھائی برس تک پڑی رہی اور سورۂ حج کے نزول تک اسے کہیں نہ چسپاں کیا گیا۔ کیا قرآن کی ترتیب اسی طرح ہوئی ہے کہ ایک موقع کی نازل شدہ آیتیں الگ الگ بکھری پڑی رہتی تھیں اور برسوں کے بعد کسی کو کسی سورت میں اور کسی کو کسی دوسری سورت میں ٹانک دیا جاتا تھا؟ لیکن اگر دوسری صورت ہے کہ عتاب والی آیت واقعہ کے ۶ سال بعد اور تنسیخ والی آیت آٹھ نو سال بعد نازل ہوئی، تو علاوہ اُس بے تُکے پن کے جس کا ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں، یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ حج میں ان کے نزول کا موقع کیا ہے۔ یہاں پہنچ کر نقدِ صحیح کا تیسرا قاعدہ ہمارے سامنے آتا ہے،  یعنی یہ کہ کسی آیت کی جو تفسیر بیان کی جا رہی ہو اسے دیکھا جائے کہ آیا قرآن کا سیاق و سباق بھی اسے قبول کرتا ہے یا نہیں۔ سورۂ بنی اسرائیل کا آٹھواں رکوع پڑھ کر دیکھیے، اور اس سے پہلے اور بعد کے مضمون پر بھی نگاہ ڈال لیجیے۔ اس  سلسلۂ کلام میں آخر کیا موقع اس بات کا نظر آتا ہے کہ چھ سال پہلے کے ایک واقعہ پر نبی کو ڈانٹ بتائی جائے(قطع نظر اس سے کہ آیت   اِنْ کَادُوْ ا لَیَفْتِنُوْنَکَ میں نبی پر کوئی ڈانٹ ہے بھی یا نہیں،  اور آیت  کے الفاظ کفار کے فتنے میں نبی کے مبتلا ہو جانے کی تردید کر رہے یا تصدیق)۔ اسی طرح سورۂ حج آپ کے سامنے موجود ہے۔ آیت زیر بحث سے پہلے کا مضمون بھی پڑھیے اور بعد کا بھی دیکھیے۔ کیا کوئی معقول وجہ آپ کی سمجھ میں آتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں یکایک یہ مضمون کیسے آ گیا کہ ’’اے نبی ۹ سال پہلے قرآن میں آمیزش کر بیٹھنے کی جو حرکت تم سے ہو گئی تھی اُس پر گھبراؤ نہیں، پہلے انبیاء سے بھی شیطان یہ حرکتیں کراتا رہا ہے، اور جب کبھی انبیاء اس طرح کا فعل کر جاتے ہیں تو اللہ اس کو منسُوخی کر کے اپنی آیات کو پھر پختہ کر دیتا ہے۔‘‘ ہم اس سے پہلے بار ہا کہہ چکے ہیں، اور یہاں پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں کہ کوئی روایت،  خواہ اس کی سند آفتاب سے بھی زیادہ روشن ہو، ایسی صورت  میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی جبکہ اس کا متن اس کے غلط ہونے کی کھلی کھلی شہادت دے رہا ہو اور قرآن کے الفاظ، سیاق و سباق،  ترتیب،  ہر چیز اُسے قبول کرنے سے انکار کر رہے ہو۔ یہ دلائل تو ایک مشکک اور بے لاگ محقق کو بھی مطمئن کر دیں گے کہ یہ قصّہ غلط ہے۔ رہا مومن، تو وہ اسے ہر گز نہیں مان سکتا جبکہ وہ علانیہ یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی ایک نہیں بیسیوں آیتوں سے ٹکراتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے یہ مان لینا بہت آسان ہے کہ خود اس روایت کے راویوں کو شیطان نے بہکا دیا، بہ نسبت اس کے  کہ وہ یہ مان لے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی اپنی خواہش ِ نفس سے قرآن میں ایک لفظ بھی ملا سکتے تھے، یا حضورؐ کے دل میں کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی یہ خیال آسکتا تھا کہ توحید کے ساتھ شرک کی کچھ آمیزش  کر کے کفار کو راضی کیا جائے، یا آپ اللہ تعالیٰ کے فرامین کے بارے میں کبھی یہ آرزو  کر سکتے تھے کہ کاش اللہ میاں ایسی کوئی بات نہ فرما بیٹھیں جس سے کفار ناراض ہو جائیں، یا یہ کہ آپ پر وحی کسی ایسے غیر محفوظ اور مشتبہ طریقے سے آتی تھی کہ جبریل کے ساتھ شیطان بھی آپ پر کوئی لفظ القا کر جائے اور آپ اسی غلط فہمی میں رہیں کہ یہ بھی جبریل ہی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک  ایک بات قرآن کی کھلی کھلی تصریحات  کے خلاف ہے اور اُن ثابت شدہ عقائد کے خلا ف ہے جو ہم قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں رکھتے ہیں۔ خدا کی پنا ہ اُس روایت پرستی سے جو محض سند کا اتصال  یا راویوں کی ثقاہت یا طُرقِ روایت  کی کثرت دیکھ کر کسی مسلمان کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بارے میں ایسی سخت باتیں بھی تسلیم کرنے پر آمادہ کر دے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اُس شک کو بھی دُور کر دیا جائے جو راویانِ حدیث کی اتنی بڑی تعداد کو اس قصّے کی روایت میں مبتلا ہوتے دیکھ کر دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ ایک شخص سوال کر سکتا ہے کہ اگر اس قصّے کی کوئی اصلیت نہیں ہے تو نبیؐ اور قرآن پر اتنا بڑا بہتا ن حدیث  کے اتنے راویوں کے ذریعہ سے،  جن میں بعض بڑے نامور ثقہ بزرگ ہیں، اشاعت کیسے پا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس  کے اسباب  کا سراغ ہم کو خود حدیث ہی کے ذخیرے میں مل جاتا ہے۔ بخار ی،  مسلم، ابوداؤد، نسائی اور مسند احمد  میں اصل واقعہ اس طرح آیا ہے کہ  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی، اور خاتمے پر جب آپ نے سجدہ کیا تو تمام حاضرین، مسلم اور مشرک سب، سجدے میں گر گئے۔ واقعہ بس اتنا ہی تھا۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ اوّل تو قرآن کا زورِ کلام اور انتہائی پُر تاثر اندازِ بیان، پھر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے اس کا ایک ملہمانہ شان کے ساتھ ادا ہونا، اس کو سُن کر اگر پورے مجمع پر ایک وجد کی سی کیفیت  طاری ہو گئی ہو اور آپ کے ساتھ سارا مجمع سجدے میں گر گیا ہو تو کچھ بعید نہیں ہے۔ یہی تو  وہ چیز تھی جس پر قریش کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ شخص جادوگر ہے۔ البتہ معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں قریش کے لوگ اپنے اس وقتی تاثر پر کچھ پشیمان سے ہوئے ہوں گے اور ان میں سے کسی نے یا بعض لوگوں نے اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کی ہو گی کہ صاحب، ہمارے کانوں نے تو محمدؐ کی زبان سے اپنے معبودوں کی تعریف میں کچھ کلمات سُنے تھے اس لیے ہم بھی ان کے ساتھ سجدے میں گر گئے۔ دوسری طرف یہی واقعہ مہاجرینِ حبشہ تک اس شکل میں پہنچا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قریش کے درمیان صلح ہو گئی ہے،  کیونکہ دیکھنے والے نے آپ کو اور مشرکین و مومنین سب کو ایک ساتھ سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ یہ افواہ ایسی گرم ہوئی کہ مہاجرین میں سے تقریباً ۳۳ آدمی مکّے میں واپس آ گئے۔ ایک صدی کے اندر یہ تینوں باتیں، یعنی قریش، اسجدہ، اس سجدے کی یہ توجیہ،  اور مہاجرین ِ حبشہ کی واپسی،  مِل جل کر ایک قصے کی شکل اختیار کر گئیں اور بعض ثقہ لوگ تک اس کی روایت میں مبتلا ہو گئے۔ انسان آخر انسان ہے۔ بڑے سے بڑے نیک اور ذی فہم آدمی سے بھی بسا اوقات لغزش ہو جاتی ہے اور اس کی لغزش عام لوگوں کی لغزش سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ عقیدت میں بے جا غلو رکھنے والے ان بزرگوں کی صحیح باتوں کے ساتھ ان کی غلط باتوں کو بھی آنکھیں بند کر کے ہضم کر جاتے ہیں۔ اور بد طینت لوگ چھانٹ چھانٹ کر ان کی غلطیاں جمع کرتے ہیں اور انہیں اس بات کے لیے دلیل بناتے ہیں کہ سب کچھ جو ان کے ذریعے سے ہمیں پہنچا ہے،  نذر ِ آتش کر دینے کے لائق ہے۔

۱۰۲: اصل میں لفظ ’’عَقِیْم‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’’بانجھ‘‘ ہے۔ دن کو بانجھ کہنے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ایسا منحوس دن ہو جس میں کوئی تدبیر کار گر نہ ہو، ہر کوشش اُلٹی پڑے، اور ہر اُمید مایوسی میں تبدیل ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ ایسا دن ہو جس کے بعد رات دیکھنی نصیب نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں مراد ہے وہ دن جس میں کسی قوم کی بربادی کا فیصلہ ہو جائے۔ مثلاً جس روز قومِ نوح پر طوفان آیا، وہ ان کے لیے ’’بانجھ‘‘ دن تھا۔ اسی طرح عاد، ثمود، قومِ لوط، اہلِ مَدیَن، اور دوسرے سب تباہ شدہ قوموں کے حق میں عذابِ الٰہی کے نزول کا دن بانجھ ہی ثابت ہُوا۔ کیونکہ اُس  ’’امروز‘‘ کا کوئی ’’فردا‘‘ پھر وہ نہ دیکھ  سکے، اور کوئی چارہ گری اُن کے لیے ممکن نہ ہوئی جس سے وہ اپنی قسمت کی بگڑی بنا سکتے۔

 

ترجمہ

 

اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی،  پھر قتل کر دیے گئے یا مر گئے، اللہ ان کو اچھا رزق دے گا۔ اور یقیناً اللہ ہی بہترین رازق ہے۔ وہ اُنہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے۔ بے شک اللہ علیم اور حلیم ہے۔ ۱۰۳ یہ تو ہے اُن کا حال، اور جو کوئی بدلہ لے،  ویسا ہی جیسا اُس کے ساتھ کیا گیا، اور پھر اس پر زیادتی بھی کی گئی ہو، تو اللہ اس کی مدد ضرور کرے گا۔ ۱۰۴ اللہ معاف کرنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ ۱۰۵

۱۰۶یہ اس لیے کہ رات سے دن اور دن سے رات نکالنے والا اللہ ہی ہے ۱۰۷ اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ ۱۰۸ یہ اِس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور سب باطل ہیں جنہیں اللہ کو چھوڑ کر یہ لوگ پکارتے ہیں ۱۰۹ اور اللہ ہی بالادست اور بزرگ ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور اس کی بدولت زمین سرسبز ہو جاتی ہے؟ ۱۱۰ حقیقت یہ ہے کہ وہ لطیف و خبیر ہے۔ ۱۱۱ اُسی کی ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ بے شک وہی غنی و حمید ہے۔ ۱۱۲ ؏ ۸

 

تفسیر

 

۱۰۳: ’’علیم‘‘ ہے،  یعنی وہ جانتا ہے کہ کس نے فی الحقیقت اُسی کی راہ میں گھر بار چھوڑا ہے اور وہ کس انعام کا مستحق ہے۔ ’’حلیم‘‘ ہے یعنی ایسے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں اور کمزوریوں کی وجہ سے ان کی بڑی بڑی خدمات اور قربانیوں پر پانی پھیر دینے والا نہیں ہے۔ وہ ان سے درگزر فرمائے گا اور ان کے قصور معاف کر دے گا۔

۱۰۴: پہلے ان مظلوموں کا ذکر تھا جو ظلم کے مقابلے میں کوئی جوابی کارروائی نہ کر سکے ہوں، اور یہاں اُن کا ذکر ہے جو ظالموں کے مقابلے میں قوت استعمال کریں۔ امام شافعیؒ نے اس آیت سے یہ استدلال کیا ہے کہ قصاص اُسی شکل میں لیا جائے گا جس شکل میں ظلم کیا گیا ہو۔ مثلاً کسی شخص نے اگر آدمی کو ڈبو کر مارا ہے تو اسے بھی ڈبو کر مارا جائے گا، اور کسی نے جلا کر مارا ہے تو اسے بھی جلا کر مارا جائے گا۔ لیکن حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ قاتل  نے قتل خواہ کسی طریقے سے کیا ہو، اس سے قصاص ایک ہی معروف طریقے پر لیا جائے گا۔

۱۰۵: اس آیت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور غالباً دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ ظلم کہ مقابلے میں جو کشت و خون کیا جائے وہ اللہ کے ہاں معاف ہے، اگرچہ کشت و خون بجائے خود اچھی چیز نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ جس کے تم بندے ہو،  عفو و درگزر کرنے والا ہے، اس لیے تم کو بھی، جہاں تک بھی تمہارے بس میں ہو، عفو و درگزر سےکام لینا چاہیے۔ اہلِ ایمان کے اخلاق کا زیور یہی ہے کہ وہ حلیم، عالی ظرف اور متحمل ہوں۔ بدلہ لینے کا حق اُنہیں ضرور حاصل ہے،  مگر بالکل منتقانہ ذہنیت اپنے اوپر طاری کر لینا ان کے لیے موزوں نہیں ہے۔

۱۰۶: اس پیراگراف  کا تعلق اوپر کے پورے پیراگراف سے ہے نہ کہ صرف قریب کے آخری فقرے  سے۔ یعنی کفر و ظلم کی روش اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کرنا، مومن و صالح بندوں کو انعام دینا، مظلوم اہلِ حق کی داد رسی کرنا، اور طاقت سے ظلم کا مقابلہ کرنے والے اہلِ حق کی نصرت فرمانا، یہ سب کسی وجہ سے ہے؟ اس لیے کہ اللہ کی صفات یہ اور یہ ہیں۔

۱۰۷: یعنی تمام نظامِ کائنات پر وہی حاکم ہے اور گردشِ لیل و نہار اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ اس ظاہری معنی کے ساتھ اِس فقرے میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو خدا رات کی تاریکی میں سے  دن کی روشنی نکال لاتا ہے اور چمکتے ہوئے دن پر رات کی ظلمت طاری کر دیتا ہے، وہی خدا اس پر بھی قادر ہے کہ آج جن کے اقتدار کا سورج نصف النہار ہے ہے اُن کے زوال و غروب کا منظر بھی دنیا کو جلدی ہی دکھا دے، اور کفر و جہالت کی جو تاریکی اِس وقت حق و صداقت کی فجر کا راستہ روک رہی ہے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے حکم سے چھَت جائے اور وہ دن نِکل آئے جس میں راستی اور علم و معرفت کے نُور سے دنیا روشن ہو جائے۔

۱۰۸: یعنی وہ دیکھنے اور سننے والا خدا ہے، اندھا بہرا نہیں ہے۔

۱۰۹: یعنی حقیقی اختیارات کا مالک اور واقعی ربّ وہی ہے، اس لیے اس کی بندگی کرنے والے خائب و خاسر نہیں رہ سکتے۔ اور دوسرے تمام معبود سراسر بے حقیقت ہیں،  ان کو جن صفات اور اختیارات کا مالک سمجھ لیا گیا ہے اُن کی سرے سے کوئی اصلیت نہیں ہے،  اس لیے خدا سے منہ موڑ کر اُن کے اعتماد پر جینے والے کبھی فلاح و کامرانی سے ہم کنار  نہیں ہو سکتے۔

۱۱۰: یہاں پھر ظاہر مفہوم کے پیچھے ایک لطیف اشارہ چھپا ہوا ہے۔ ظاہر مفہوم تو محض اللہ کی قدرت کا بیان ہے۔ مگر لطیف اشارہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح خدا کی برسائی ہوئی بارش کا ایک چھینٹا پڑتے ہی تم دیکھتے ہو کہ سوکھی پڑی  ہوئی زمین یکایک لہلہا اُٹھتی ہے،  اسی طرح یہ وحی کا بارانِ رحمت جو آج ہو رہا ہے، عنقریب تم کو یہ منظر دکھانے والا ہے کہ یہی عرب کا بنجر ریگستان علم اور اخلاق اور تہذیب صالح کا وہ گلزار بن جائے گا جو چشمِ فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔

۱۱۱: ’’لطیف‘‘ ہے،  یعنی غیر محسوس طریقوں سے اپنے ارادے پورے کرنے والا ہے۔ اس کی تدبیریں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ اُن کے آغاز میں کبھی اُن کے انجام کا تصوّر تک نہیں کر سکتے۔ لاکھوں بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، کون جان سکتا ہے کہ ان میں سے کون ابراہیم ہے جو تین چوتھائی دنیا کا روحانی پیشوا ہو گا اور کون چنگیز ہے جو ایشیا اور یورپ کو تہ و بالا کر ڈالے گا۔ خوردبین جب ایجاد ہوئی تھی اس وقت کون تصور کر سکتا تھا کہ یہ ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم تک نوبت پہنچائے گی۔ کولمبس جب سفر کو نکل رہا تھا تو کسے معلوم تھا کہ یہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی بنا ڈالی جا رہی ہے۔ غرض خدا کے منصوبے ایسے ایسے دقیق اور ناقابلِ ادراک طریقوں سے پورے ہوتے ہیں کہ جب تک وہ تکمیل کو نہ پہنچ جائیں کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ یہ کس چیز کے لیے کام ہو رہا ہے۔ ’’خیبر‘‘ ہے،  یعنی وہ اپنی دنیا کے حالات، مصالح اور ضروریات سے باخبر ہے، اور جانتا ہے کہ اپنی خدائی کا کام کس  طرح کرے۔

۱۱۲: وہی ’’غنی‘‘ ہے،  یعنی صرف اسی کی ذات ایسی ہے جو کسی کی محتاج نہیں۔ اور وہی ’’حمید‘‘ ہے، یعنی تعریف اور حمد اسی کے لیے ہے اور وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے، خواہ کوئی حمد کرے  یا نہ کرے۔

 

ترجمہ

 

کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اُس نے وہ سب کچھ تمہارے لیے مسخّر کر رکھا ہے جو زمین میں ہے،  اور اُسی نے کشتی کو قاعدے کا پابند بنایا ہے کہ وہ اُس کے حکم سے سمندر میں چلتی ہے، اور وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اُس کے اِذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گِر سکتا؟ ۱۱۳ واقعہ یہ ہے کہ اللہ لوگوں کے حق میں بڑا شفیق اور رحیم ہے۔ وہی ہے جس نے تمہیں زندگی بخشی ہے،  وہی تم کو موت دیتا ہے اور وہی پھر تم کو زندہ کرے گا۔ سچ یہ ہے کہ انسان بڑا ہی منکرِ حق ہے۔ ۱۱۴ ہر اُمّت ۱۱۵ کے لیے ہم نے ایک طریقِ عبادت  ۱۱۶ مقرر کیا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ،  وہ اِس معاملے میں تم سے جھگڑا نہ کریں۔ ۱۱۷ تم اپنے ربّ کی طرف دعوت دو، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو۔ ۱۱۸ اور اگر وہ تم سے جھگڑے تو کہہ دو کہ ’’جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کو خوب معلوم ہے، اللہ قیامت کے روز تمہارے درمیان اُن سب باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘ کیا تم نہیں جانتے کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے؟ سب کچھ ایک کتاب میں درج ہے۔ اللہ کے لیے یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ ۱۱۹ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کر رہے ہیں جن کے لیے نہ تو اُس نے کوئی سَنَد نازل کی ہے اور نہ یہ خود اُن کے بارے میں کوئی علم رکھتے ہیں۔ ۱۲۰ اِن ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔ ۱۲۱ اور جب اِن کو ہماری صاف صاف آیات سُنائی جاتیں ہیں تو تم دیکھتے ہو کہ منکرینِ حق کے چہرے بگڑنے لگتے ہیں، اور ایسا محسوس ہوتا ہے،  کہ ابھی وہ اُن لوگوں پر ٹُوٹ پڑیں گے جو انھیں ہماری آیات سُناتے ہیں۔اِن سے کہو ’’میں بتاؤں تمہیں کہ اِس سے بد تر چیز کیا ہے؟ ۱۲۲ آگ، اللہ نے اسی کا وعدہ ان لوگوں کے حق میں کر رکھا ہے، جو قبولِ حق سے انکار کریں، اور بہت ہی بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘ ؏ ۹

 

تفسیر

 

۱۱۳: آسمان سے مراد یہاں پورا عالمِ بالا ہے جس کی ہر چیز اپنی اپنی جگہ تھمی ہوئی ہے۔

۱۱۴: یعنی یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اُس حقیقت کا انکار کیے جاتا ہے جسے انبیاء علیہم السّلام نے پیش کیا ہے۔

۱۱۵: یعنی ہر نبی کی اُمّت۔

۱۱۶: یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظامِ عبادت کے معنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ ’’قربانی کا قاعدہ‘‘ کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ ’’تاکہ لوگ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں‘‘ اس کے وسیع معانی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کی تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض ’’قربانی‘‘ کے معنی میں لینے کی کو ئی وجہ نہیں  ہے۔ بلکہ عبادت کو بھی اگر ’’پرستش‘‘ کے بجائے ’’بندگی‘‘ کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا۔ اس طرح منسک (طریقِ زندگی) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہو گا جو سورۂ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْ عَتً وَّمِنْھَاجًا،  ’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل مقرر کی‘‘ (آیت ۴۸)۔

۱۱۷: یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دَور کی اُمتوں کے لیے ایک ’’منسک‘‘ لائے تھے، اسی طرح اس دَور کی اُمت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق  حاصل نہیں ہے، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک ِ حق ہے۔ سُورۂ جاثیہ میں اِس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے:  ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلیٰ شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَا تَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ  اَھْوَ آءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت ۱۸) ’’پھر (انبیاء بنی اسرائیل کے بعد) اَے محمدؐ ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک شریعت (طریقے) پر قائم کیا،  پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے‘‘۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد چہارم، الشوریٰ،  حاشیہ نمبر ۲۰)۔

۱۱۸: یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں۔

۱۱۹: سلسلۂ کلام سے اس پیراگراف کا تعلق سمجھنے کے لیے اس سُورے کی آیات  ۵۵  تا  ۵۷ نگاہ میں رہنی چاہییں۔

۱۲۰: یعنی نہ تو خدا کی کسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے فلاں فلاں کو اپنے ساتھ خدائی میں شریک کیا ہے لہٰذا ہمارے ساتھ تم ان کی بھی عبادت کیا کرو، اور نہ ان کو کسی علمی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ واقعی الوہیت میں حصّہ دار ہیں اور اس بنا پر ان کو عبادت کا حق پہنچتا ہے۔ اب یہ جو طرح طرح کے معبود گھڑے گئے ہیں، اور ان کی صفات اور اختیارات کے متعلق قسم قسم کے عقائد تصنیف کر لیے گئے ہیں، اور ان کے آستانوں پر جَبہ سائیاں ہو رہی ہیں،  دعائیں مانگی جا رہی ہیں،  چڑھاوے چڑھ رہے ہیں، نیازیں دی جا رہی ہیں، طواف کیے جا رہے ہیں اور اعتکاف ہو رہے ہیں،یہ سب جاہلانہ گمان کی پیروی کے سوا آخر  اور کیا ہے۔

۱۲۱: یعنی یہ احمق لوگ سمجھ رہے ہیں کہ یہ معبود دنیا اور آخر ت میں ان کے مددگار ہیں، حالانکہ حقیقت  میں ان کا کوئی بھی مددگار نہیں ہے۔ نہ یہ معبود،  کیونکہ ان کےپاس مدد کی کوئی طاقت نہیں، اور نہ اللہ، کیونکہ اس سے یہ بغاوت اختیار کر چکے ہیں۔ لہٰذا اپنی اس حماقت سے یہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کر رہے ہیں۔

۱۲۲: یعنی کلامِ الٰہی کی آیات سُن کر جو غصے کی جلن تم کو لاحق ہوتی ہے اس سے شدید تر چیز،  یا یہ کہ ان آیات کو سنانے والوں کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ برائی تم کر سکتے ہو اس سے زیادہ بدتر چیز،  جس سے تمہیں سابقہ پیش آنے والا ہے۔

 

ترجمہ

 

لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سُنو۔ جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھُڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔ ۱۲۳ اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قوت اور عزّت والا تو اللہ ہی ہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے، اور انسانوں میں سے بھی۔ ۱۲۴ وہ سمیع  اور بصیر ہے، جو کچھ ان کے سامنے ہے اُسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اُس سے بھی وہ واقف ہے ۱۲۵،  اور سارے معاملات اُسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ ۱۲۶ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اورسجدہ کرو، اپنے ربّ کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ ۱۲۷ اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔ ۱۲۸ اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چُن لیا ہے ۱۲۹ اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ ۱۳۰ قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملّت پر ۱۳۱۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام ’’مسلم‘‘ رکھا تھا اور اس (قرآن)میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ۱۳۲ )۔ تاکہ رسولؐ تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ ۱۳۳ پس نماز قائم کرو،  زکوٰۃ دو، اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ۔ ۱۳۴ وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار۔ ؏ ١۰

 

تفسیر

 

۱۲۳: یعنی مدد چاہنے والا تو اس لیے کسی بالاتر طاقت کی طرف  استمداد کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے کہ وہ کمزور ہے۔ مگرا س غرض کے لیے یہ جن کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں ان کی کمزوری کا حال یہ ہے کہ وہ ایک مکھی سے بھی عہدہ برا نہیں ہوسکتے۔ اب غور کرو کہ اُن لوگوں کی کمزوری کا کیا حال ہو گا جو خود بھی کمزور ہوں اور ان کی امیدوں کے سہارے بھی کمزور۔

۱۲۴: مطلب یہ ہے کہ مشرکین نے مخلوقات میں سے جن جن ہستیوں کو معبود بنایا ہے ان میں افضل ترین مخلوق یا ملائکہ ہیں یا انبیاء۔ اور ان کی حیثیت بھی اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ وہ اللہ کے احکام پہنچانے کا ذریعہ ہیں جن کو اس نے اس خدمت کے لیے چُن لیا ہے۔ محض یہ فضیلت ان کو خدا، یا خدائی میں اللہ کا شریک تو نہیں بنا دیتی۔

۱۲۵: یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے  ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذات خود  حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سُننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے،  ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اور کیا مناسب نہیں ہے،  لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے۔

۱۲۶: یعنی تدبیرِ امر بالکل اس کے اختیار میں ہے۔ کائنات کے کسی  چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع  کوئی دوسرا نہیں ہے کہ اس کے پاس تم اپنی درخواستیں لے جاؤ۔ ہر معاملہ اسی کے آگے فیصلے کے لیے پیش ہوتا ہے۔ لہٰذا دست طلب بڑھانا ہے تواس کی طرف بڑھاؤ۔ ان بے اختیار ہستیوں سے کیا مانگتے ہو جو خود اپنی بھی کوئی حاجت آپ پوری کر لینے پر قادر نہیں ہیں۔

۱۲۷: یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہی روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن جو شخص بھی یہ روش اختیار کرے اُسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہ میں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا،  بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب  ہی کوئی شخص فلاح پا سکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس  کی بات نہیں ہے۔ ’’شاید کہ تم  کو فلاح نصیب ہو‘‘ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے  کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ دراصل یہ شاہانہ اندازِ بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے،  تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہربان آقا سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفادار خادم کو مایوس کرے۔ امام شافعی، امام احمد، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورۂ حج کی یہ آیت بھی آیت ِ سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ،  امام مالک،  حسن بصری،  سعید بن  المسیَّب، سعید بن جُبَیر، ابراہیم نَخعی اور سُفیان ثَوری اس جگہ سجدہ ۂ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں۔ پہلے گروہ کا اوّلین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عُقْبہؓ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن مردُویَہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ قلت یا رسُول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجد تین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقر اۂ ھما۔’’ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ،  کیا سورۂ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں،  پس جو اُن پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے‘‘۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ بن عاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو سورۂ حج میں دو سجدے سکھائے تھے۔ چوتھی دلیل یہ ہے کہ حضرات عمرؓ،  علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ، ابوالدرداؓء، ابو موسیٰؓ اشعری اور عمّارؓ بن یاسِر سے یہ بات منقول ہے کہ سورۂ حج میں دو سجدے ہیں۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن  میں رکوع وسجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عُقْبہ بن عامر کی روایت  کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لہیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو المصعب تو ہو شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمر و بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایۂ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن مُنَین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوالِ صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس  نے سورۂ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتاتا ہے کہ   الاولیٰ عزمۃ و الاخرۃ تعلیم،  یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے،  اور دوسرا سجدہ تعلیمی۔

۱۲۸: جہاد سے مراد محض ’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ جدوجہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش  کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدوجہد  مطلوب ہے۔ اس اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ بندگی اور اس کی رضا جوئی میں،  اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں، اور جدوجہد کا مقصُود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی  اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی  کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اوّلین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا    قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر۔’’تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آ گئے ہو‘‘۔ عرض کیا گیا  وہ بڑا جہاد کیا ہے؟ فرمایا   مجاھدۃ العبد ھواہ۔’’آدمی کی خود اپنی خواہشِ نفس کے خلاف جدوجہد‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا و ہ حقِ جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

۱۲۹: یعنی تمام نوعِ انسانی میں سے تم لوگ اُس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گئے ہو جس کا اوپر  ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ بقرہ میں فرمایا جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (آیت ۱۴۳)۔ اور سورۂ آل ِ عمران میں فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِ جَتْ لِلنَّاسِ (آیت ۱۱۰)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ اُن آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور اُن لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہِ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس خطاب بالتبع پہنچتا ہے۔

۱۳۰: یعنی تمہاری زندگی  کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دیا گیا ہے جو پچھلی اُمتوں کے فقیہوں او فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدّن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان  کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ یَاْ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئیثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَ ھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ،  ’’یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کا حکم دیتا ہے،  اور ان بُرائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرتِ انسانی انکار کرتی ہے، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ (اعراف۔ آیت ۱۵۷)۔

۱۳۱: اگرچہ اسلام کو مِلّت نوح، ملّتِ موسیٰ، ملّتِ عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملّتِ ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملّتِ ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اوّلین مخاطب اہلِ عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس  طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ،  روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسُوخ و اثر رچا ہوا تھا  وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان،  مشرکینِ عرب،  اور شرق اوسط کے صابِئی، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملّتوں کی پیدائش سےپہلے گزرے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور صابِئیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکینِ عرب،  تو وہ بھی  یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بُت پرستی کا رواج عَمرو بن  لُحَیّ  سے شروع ہوا جو بنی خُزاعہ کا سردار تھا اور مُآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اُس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ مِلّت  بھی حضرت ابراہیمؑ کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملّتوں کے بجائے مِلّت ابراہیم ؑ کو اختیار کرو،  تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ برحق اور برسرِ ہدایت تھے ،  اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے،  تو لامحالہ پھر وہی ملّت اصل مِلّتِ حق ہے نہ کہ یہ بعد کی مِلّتیں، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت اُسی مِلّت کی طرح ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حواشی ۱۳۴ – ۱۳۵۔ آل عمران،  حواشی ۵۸ – ۷۹۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ ۱۲۰۔

۱۳۲: ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر سرف اُنہی اہلِ ایمان کی طرح نہیں ہے جو اِس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے،  یا اس کے بعد اہلِ ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغازِ  تاریخِ انسانی سے توحید،  آخرت، رسالت اور کتبِ الٰہی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدّعا یہ ہے  کہ اِس ملّتِ حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’نوحی‘‘،’’ابراہیمی‘‘،’’موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ ان کا نام’’مسلم‘‘(اللہ کا تابع فرمان) تھا، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ’’مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معمّا بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا۔

۱۳۳: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اِس مضمون پر ہم نے اپنے رسالۂ ’’شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے۔

۱۳۴: یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانونِ زندگی بھی اسی سے  لو، اطاعت بھی  اسی کی کرو، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو،  مدد کے لیے بھی اسی کی آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

۲۳۔ سورۂ الْمؤمنون

 

 

نام

 

پہلی ہی آیت اَدْ اَ فْلَحَ الْمُؤْ مِنُوْنَ سے ماخوذ ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

انداز بیان اور مضامین،  دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے۔ پس  منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے،  لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے۔ آیت ۷۵۔ ۷۶ سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا۔ عروہ بن زُبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے،  اور جب حضورؐ اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں (احمد، ترمذی،  نسائی، حاکم)۔

 

موضوع اور مباحث

 

اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔

آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے،  ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں،  اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔

اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے،  جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے  پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے۔

پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں،  جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں،  لیکن در اصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں :

اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے،  جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تھے۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟

دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔

سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔

چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے۔

ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی،  مال و دولت، آل داد لاد چشم و خَدَمِ قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خد اکے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے،  اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہیں چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد کے ساتھ ہیں،  ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے،  اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے۔

اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے،  یہ ایک تنبیہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔

پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو  آگاہ کر رہا ہ،  کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟

پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں،  تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی  تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔

خاتمہ کلام پر مخالفینِ حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق و راس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ۱ جو: ۲ اپنی نماز میں خشوع ۳ اختیار کرتے ہوں، لغویات سے دُور رہتے ہیں۔ ۴ زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔ ۵ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، ۶ سوائے اپنی بیویوں کے اور اُن عورتوں کے جو ان کی مِلکِ یمین میں ہوں کہ ان پر (محفوظ رکھنے میں)وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں، البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں، ۷ اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیمان کا پاس رکھتے ہیں، ۸ اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔ ۹ یہی لوگ وہ وارث ہیں جو میراث میں فردوس ۱۰ پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ ۱۱

ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا،  پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنا دیا، پھر بوٹی کو ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، ۱۲ پھر اسے ایک دُوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ ۱۳ پس بڑا ہی بابرکت ہے ۱۴ اللہ، سب کاریگروں سے اچھا کاریگر۔ پھر اس کے بعد تم کو ضرور مرنا ہے، پھر قیامت کے روز یقیناً تم اُٹھائے جاؤ گے۔ اور تمہارے اُوپر ہم نے سات راستے بنائے، ۱۵ تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے۔ ۱۶ اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اُتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ۱۷ ہم اُسے جس طرح چاہیں غائب کر سکتے ہیں۔ ۱۸ پھر اس پانی کے ذریعہ سے ہم نے تمہارے لیے کھجُور اور انگور کے باغ پیدا کر دیے، تمہارے لیے ان باغوں میں بہت سے لذیز پھل ہیں ۱۹ اور ان سے تم روزی حاصل کرتے ہو۔ ۲۰ اور وہ درخت بھی ہم نے پیدا کیا جو طوُرِ سیناء سے نکلتا ہے، ۲۱ تیل بھی لیے ہوئے اُگتا ہے اور کھانے والوں کے لیے سالن بھی۔

اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے۔ ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں، ۲۲ اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دُوسرے فائدے بھی ہیں۔ اُن کو تم کھاتے ہو اور اُن پر اور کشتیوں پر سوار بھی کیے جاتے ہو۔ ۲۳ ؏ ١

 

تفسیر

 

۱: ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی  اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کر لی، آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اُس طریقِ زندگی کی پیروی پر راضی ہو گئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خُسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی، اس کی حالت اچھی ہو گئی۔ قَدْ اَفْلَحَ  ’’یقیناً فلاح پائی‘‘۔ آغازِ کلام اِن الفاظ سے کرنے کی معنویت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک  وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اُس وقت ایک طرف دعوتِ اسلامی کے مخالف سردارانِ مکّہ تھے  جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں،  جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی،  جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے،  اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بدحال کر دیا تھا۔ اس صورتِ حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ’’یقیناً فلاح پائی ایمان لانے والوں نے‘‘  تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے،  تمہارے اندازے غلط ہیں،  تمہاری نگاہ دور رَس نہیں ہے، تم اپنے جس عاری و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوتِ حق کو مان کو انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بُرے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدّعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

۳: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک  جانا،  دب جانا، اظہارِ عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اُس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے،  اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں، نگاہ پست  ہو جائے، آواز دب جائے،  اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اُس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا   لوخشع قلبہ خشعت جوارحہٗ ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا  تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔ اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورۂ  بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیارِ خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی  دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشۂ چشم سے اِدھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے،  مگر مالیکہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگا ہ سامنے کی طرف رہی چاہیے)۔ نماز میں ہلنا  اور مختلف  سمتوں میں جھُکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا،  یا ان کو جھاڑنا،  یا اُن سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں  جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یہ سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا،   یا قرأت میں گانا بھی آداب نماز کے خلا ف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہے کہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل،  مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کر نا ممنوع ہے۔ ان ظاہری آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفسِ انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ  وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل  سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آ جائیں تو جس وقت بھی آدمی کو اُس کا احساس ہو اُسی وقت اسے اپنی توجہ اُن سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔

۴: ’’لغو‘‘  ہر اس بات  اور کام کو کہتے ہیں جو فضول،  لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی  مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ’’لغویات‘‘  ہیں۔ ’’معرضون‘‘  کا ترجمہ ہم نے  ’’دُور رہتے ہیں‘‘  کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ ان میں کو ئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصّہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آ ہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نِکل جاتے ہیں،  یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ   وَاِذَا مَرُّوْ ا بِاللَّغْوِ مَرُّوْ ا کِرَ اماً۔ (الفرقان۔ آیت۷۲) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں،  یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں۔ یہ چیز،  جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے،  دراصل مومن کی اہم ترین  صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یا د کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تُلی مدّت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اُس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اُس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی  کے لےی فیصلہ کُن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ اُن گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کا کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو اُنہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی اُن چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اُسے تیار کرنے والی ہوں۔ اُس کے نزدیک وقت ’’کانٹے‘‘  کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خوش ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا،  گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا، تفریحی گفتگوؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا۔ اُس کے لیے تو وہ سوسائیٹی ایک مستقل عذاب ہوتتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالیوں سے،   غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے،   گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اُس کی نعمتوں میں اے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ   لَا تَسمَعُ فِیْھَا لَاغِیَہ۔ ’’وہاں تُو کوئی لغو بات نہ سُنے گا‘‘۔

۵: ’’زکوٰۃ دینے‘‘  اور  ’’زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے‘‘  میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کا معروف انداز چھوڑ کر لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرزِ بیان اختیار  کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ’’پاکیزگی‘‘۔ دوسرے ’’نشو نما‘‘۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں اُن کو دُور کرنا،  اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا،  یہ دو تصوّرات مِل کر زکوٰۃ کا پورا تصوّر بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں  پر ہوتا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصدِ تزکیہ  کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ  کا فعل۔ اگر یُؤْ تُوْنَ الزَّکوٰ ۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصّہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات  صرف مال دینے تک محدود ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر لِلزَّکٰوۃَ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ  ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیۂ نفس،  تزکیۂ اخلاق، تزکیۂ زندگی، تزکیۂ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہو جائے گی۔ اور مزید براں،  اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہو گا کہ ’’وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں،‘‘ یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں، اپنے اندر بھی جوہرِ انسانیت کو نشو نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ اعلیٰ میں فرمایا   قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo وَذَکَرَاسْمِ ربِّہٖ فَصَلّٰی o ’’ فلاح پائی اُس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور پانے ربّ کا نام یاد کر کے نماز پڑھی‘‘۔ اور سورۂ شمس میں فرمایا    قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o ’’با مراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں، اور یہ بجائے خود فعل تز کیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی،  دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے۔

۶: اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں،  یعنی عریانی سے پرہیز  کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں،  یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النور،  حواشی ۳۰ – ۳۲)۔

۷: یہ جملۂ معترضہ ہے جو اُس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو ’’شرمگاہوں کی حفاظت‘‘  کے لفظ  سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے  اور آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوتِ شہوانی  بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی  سے کیوں نہ ہو،  بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہلِ ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بندر ہتے ہیں، راہب اور سنیاسی  قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملۂ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہشِ نفس پوری کرنا کوئی قابلِ ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔ اس جملۂ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار  کے ساتھ  یہاں بیان کرتے ہیں۔ (۱) شرمگاہوں کی حفاظت  کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ  کیا گیا ہے۔ ایک ازواج،  دوسرے  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانھُمْ۔ ’’ازواج‘‘  کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف اُن عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی  اردو لفظ ’’بیوی‘‘  کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ  مَا مَلَکَتْ اَیْمَانھُمْ،  تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے،  یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک میں ہو۔ اِس طرح یہ آیت صاف تصریح کر دیتی ہے کہ منکوحہ  بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی  سے بھی صنفی تعلق جائز ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ مِلک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ا زواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے،  سورۂ نساء کی آیت  وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤ مِنٰتِ   (آیت ۲۵) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جا سکتا ہے،  کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی متحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو۔ لیکن اِن لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کر لے لیتے ہیں، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا  ان کے مدّعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایت  جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں:-   فَا نْکِحُوْ ھُنَّ بِاِزْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْ ھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ،  ’’پس ان (لونڈیوں) سے نکاح کر لو اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اور اُن کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو‘‘۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیرِ بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیرِ بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کر سکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہوتو اس کے وہ ’’اہل‘‘  (سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو؟ مگر قرآن سے کھیلنے  والے صرف   فَا نْکِحُوْ ھُنَّ  کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی  بِاِ ذْنَ اَھْلِھِنَّ  کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو  وہ سورۂ نساء، آیت ۳ – ۲۵، سورۂ احزاب، آیت ۵۰ – ۵۲، اور سورۂ معارج، آیت ۳۰ کو سورۂ  مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۴۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ ۲۹۰ تا ۳۲۴۔ رسائل و مسائل، جلد اوّل، صفحہ ۳۲۴ تا ۳۳۳)۔ (۲) اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَا نھُمْ   میں لفظ  عَلیٰ  اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اس جملۂ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات   قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر   خٰلِدُوْنَ  تک،  مذکّر کی ضمیروں کے باوجود مردو عورت   دونوں کو شامل ہیں، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے  تو ضمیر مذکر ہی استعمال  کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں   لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے  عَلیٰ  کا لفظ استعمال کر کے بات واضح کر دی گئی  کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر ’’ان پر‘‘  کہنے کے بجائے ’’اُن سے ‘‘  محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہو سکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابۂ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ   تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہٖ ’’ اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا‘‘۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظِ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اِس حکم سے مستثنیٰ ہو گئیں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔ اس طرح اس حکمِ استثنا ء کا اثر عملاً  صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہو جاتا ہے، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اِس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش ِ نفس پوری کر سکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوّام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی  رہ جاتی ہے۔ (۳) ’’البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘،  اِس فقرے نے مذکورۂ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہشِ نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا،  خواہ وہ زنا ہو، یا عملِ قومِ لوط یا وطیِ بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید(Masturbation ) کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے،  لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہو جائے تو اُمید ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔ (۴) بعض مفسرین نے مُتعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہےکہ ممنوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدّت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں  کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ ’’بیوی‘‘  اور  ’’لونڈی‘‘  دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ ’’ان کے علاوہ کچھ اور‘‘  میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن ’’حد سے گزرنے والا‘‘  قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے، مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکّہ کے سال دیا ہے،  اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمتِ متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکّی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے فتح مکّہ تک جائز  رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کر دینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آ گیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے۔ اوّل یہ کہ اس  کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر ؓ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ  اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضورؐ نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا،  اس لیے حضرت عمر ؓ  نے اس کی عام اشاعت کی  اور بذریعۂ  قانون اس کو نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھیرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے ا س کے لیے  تو بہر حال نصوص کتاب و سنت میں  سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صر ف اضطرار  اور  شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح ِ مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس ؓ،  جن کا نام قائلینِ جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے، اپنے مسلک کی توضیح خود اِن الفاظ میں کرتے ہیں کہ   ما ھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں) اور اس فتوے سے بھی وہ اُس وقت باز آ گئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباسؓ اور ان کے ہم خیال چند گنے چُنے اصحاب نے  ا س مسلک سے رجُوع کر لیا تھا یا نہیں،  تو اُن کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالتِ اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے۔ مطلق اباحت،  اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممنوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوقِ سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمۂ اہلِ بیت کو اس سے متّہِم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ ا س کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنانِ بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اُٹھانا خوشحال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اور کیا خدا  اور  اس کے رسول سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل  کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزّتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی؟

۸: ’’امانات‘‘  کا لفظ جامع  ہے اُن تمام امانتوں کے لیے جو خداوندِ عالم نے،  یا معاشرے نے،  یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان،  یا انسان اور انسان کے درمیان،  یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم  اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے  لا ایمان لمن لا امانۃ لہٗ ولا دین  لمن لا  عھد لہ، ’’جو امانت  کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا، اور جو عہد کا پس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا‘‘۔ (بیہقی فی شعب الایمان )۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ’’ چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی  ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک  کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے۔ جب عہد کرے تو توڑ دے۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے‘‘۔

۹: اوپر خشوع کے ذکر میں ’’نماز‘‘  فرمایا تھا اور یہاں ’’نمازوں‘‘  بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہاں جنسِ نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ ’’نمازوں کی محافظت‘‘  کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقاتِ نماز،  آدابِ نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں،  وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے، نہ اِس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک  دینا ہے۔

۱۰: فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی  زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیشَا، قدیم کلدانی زبان میں پَر دیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا، عبرانی میں پَردیس، ارمنی میں پَردیز، سُریانی میں فَردیسو، یونانی میں پارادائسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ  کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ  سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ کہف میں ارشاد ہوا    کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً،  ’’ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کے وارث ِ فردوس ہونے پر سُورۂ طٰہٰ (حاشیہ نمبر ۸۳)، اور سُورۂ انبیاء (حاشیہ نمبر ۹۹ )میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔

۱۱: اِن آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں: اوّل یہ  کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویّے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ  کہ فلاح محض اقرارِ ایمان،  یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے۔ جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔ سوم یہ کہ فلاح دنیوی اور مادّی خوشحالی اور محدود قتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالتِ خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائیدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر ہوتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل  صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کُلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوشحالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے اِن اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشن کی صداقت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلۂ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغازِ میں تجربی دلیل ہے،  یعنی یہ کہ اس کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائیٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے بعد مشاہداتی  دلیل ہے،  یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے برحق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔

۱۲: تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورۂ حج کے حواشی نمبر ۵، نمبر۶ اور نمبر ۹۔

۱۳: یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے دیکھ کر یہ تصور نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھائے گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوست کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضعِ حمل کے آغاز تک زندگی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت،  نہ بصارت، نہ گویائی،  نہ عقل و خرد، نہ اور کوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع اور بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی اُبھرنی شروع ہو تی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتانی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے اُس کی ذات میں یہ ’’چیز ے دیگر‘‘  ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جو ان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت  کچھ اَور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اَور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم ایس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے،  اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ  پچاس ساٹھ برس پلے  ایک روز جو بوند ٹپک کر ر حم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی  جو آگے کے فقرے میں آ رہی ہے۔

۱۴: اصل میں   فَتَبَارَکَ اللہُ   کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے۔ لغت اور استعاملاتِ زبان  کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزّہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور  خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اُس کا اندازہ کرو اُس سے زیادہ ہی اُس کو پاؤ  حتیٰ کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الفرقان، حواشی نمبر ۱ اور ۱۹)۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیقِ انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد  فَتَبَارَکَ اللہُ  کا فقرہ محض  ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجۂ دلیل بھی ہے۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی  کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے  وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزّہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے،  اور اس سے بدرجہا مقدس ہے کہ اُسی انسان کو پھر پیدا  نہ کر سکے،  اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں،  اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے۔

۱۵: اصل میں لفظ   طرائق  استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیّاروں کی گردش کے راستے ہیں،  اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا۔ اِس کے معنی بہر حال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں۔ اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو  سَبْعَ طَرَآئیقَ  کا وہی مفہوم ہو گا  جو  سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (سات آسمان طبق بر طبق) کا مفہوم ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر‘‘  ہم نے سات راستے بنائے،  تو اس کا  ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے،  اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا کہ لَخَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ۔ ’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے‘‘۔ (المومن۔ آیت ۵۷)۔

۱۶: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے، یا نہیں ہیں۔‘‘  متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے،  یہ بس یونہی کسی اناڑی  کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظامِ کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے،  اور اس کار گاہِ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیّت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل، اور کسی حالت  سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور ایک ایک ذرے اور پتّے کی حالت سے ہم باخبر  رہے ہیں۔

۱۷: اس سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے،  اور وہ یہ ہے کہ آغازِ آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا  جو قیامت تک اِس کُرے کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھا۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصّوں میں ٹھیر گیا جس سے سمندر اور بُحَیرے وجود میں آئے اور آبِ زیرِ زمین(Sub-soil Water ) پیدا ہوا۔ اب یہ اسی پانی کا اُلٹ پھیر ہے جو گرمی، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے، اسی کو بارشیں،  برف پوش پہاڑ، دریا، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصّوں میں پھیلاتے رہتے ہیں، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے  کی کمی ہوئی  اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی،  جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن،  دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا؟ اور کون ہے جو اب انہی دونوں گیسوں کو اُس خاص تناسب کے ساتھ نہیں ملنے دیتا جس سے پانی بنتا ہے، حالانکہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہو جانے سے روکے رکھتا ہے؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ اور کیا پانی اور ہوا گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی  جواب رکھتے ہیں؟

۱۸: یعنی اسے غائب کر دینے کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے، بے شمار صورتیں ممکن ہیں،  اور ان میں سے جس کو ہم جب چاہیں اختیار کر کے تمہیں زندگی کے اس اہم ترین وسیلے سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ آیت  سورۂ مُلک کی اُس آیت سے وسیع تر مفہوم رکھتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ    قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآءُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْ تِیْکُمْ بَمَآءٍمَّعِیْنٍ۔ ’’ان سے کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر تمہارا  یہ پانی زمین میں بیٹھ جائے تو کون ہے جو تمہیں بہتے چشمے لادے گا؟‘‘

۱۹: یعنی کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی طرح طرح کے میوے اور پھل۔

۲۰: ‘‘ یعنی اِن باغوں کی پیداوار سے،  جو پھل،  غلّے،  لکڑی اور دوسری  مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو۔ مِنْھَا تَاْکُلُوْنَ میں منھا  کی ضمیر جنّات کی ضمیر کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو، بلکہ  یہ بحیثیتِ مجمُوعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے۔ جس طرح ہم اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے،  اُسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں  فلان یاکل من حرفتہٖ۔

۲۱: مراد ہے زیتون،  جو بحرِ روم کے گردو پیش کے علاقے کی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔ اس کا درخت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار برس تک چلتا ہے، حتیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے سے اب تک چلے  آرہے ہیں۔ طورِ سیناء کی طرف اس کو منسُوب کر نے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہی علاقہ جس کا مشہور ترین اور نمایاں ترین مقام طورِ سینا ہے، اس درخت کا وطنِ اصلی ہے۔

۲۲: یعنی دودھ جس کے متعلق قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ خون اور گوبر کے درمیان یہ ایک تیسری چیز ہے جو جانور کی غذا سے پیدا کر دی جاتی ہے۔ (النحل،  آیت ۶۶)۔

۲۳: مویشیوں اور کشتیوں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے  کہ اہلِ عرب سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اُونٹ استعمال کرتے تھے، اور اونٹوں کے لیے ’’خشکی کے جہاز‘‘  کا استعارہ بہت پرانا ہے۔ جاہلیت کا شاعر ذوالرُّ مَّہ کہتا ہے: ؏     سفینۃ  برٍّ تحت  خدی  زما  مھا

 

ترجمہ

 

ہم نے نوحؑ  کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۲۴ اس نے کہا ’’اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبُود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟‘‘  ۲۵ اس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا وہ کہنے لگو کہ ’’ یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ ۲۶ اِس کی غرض یہ ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ ۲۷ اللہ کو اگر بھیجنا ہوتا تو فرشتے بھیجتا۔ ۲۷الف یہ بات تو ہم نے کبھی اپنے باپ دادا کے وقتوں میں سُنی ہی نہیں (کہ بشر رسُول بن کر آئے)۔ کچھ نہیں،  بس اس آدمی کو ذرا جنون لاحق ہو گیا ہے۔ کچھ مدّت اور دیکھ لو (شاید افاقہ ہو جائے)۔‘‘  نوحؑ نے کہا ’’ پروردگار، اِن لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تُو ہی میری نُصرت فرما۔‘‘  ۲۸ ہم نے اس پر وحی کی کہ ’’ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی تیار کر۔ پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنُور اُبل پڑے ۲۹ تو  ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اس میں سوار ہو جا، اور اپنے اہل و عیال کو بھی ساتھ لے سوائے اُن کے جن کے خلاف پہلے فیصلہ ہو چکا ہے، اور ظالموں کے معاملہ میں مجھ سے کچھ نہ کہنا، یہ اب غرق ہونے والے ہیں۔ پھر جب تُو اپنے ساتھیوں سمیت کشتی پر سوار ہو جائے تو کہہ، شکر ہے اُس خدا کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دی۔ ۳۰ اور کہہ، پروردگار،  مجھ کو برکت والی جگہ اُتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے۔‘‘  ۳۱اِس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں،  ۳۲ اور آزمائش تو ہم کر کے ہی رہتے ہیں۔ ۳۳ان کے بعد ہم نے ایک دُوسرے دور کی قوم اُٹھائی۔ ۳۴ پھر اُن میں خود انہی کی قوم کا ایک رسُول بھیجا جس نے انہیں دعوت دی)کہ اللہ کی بندگی کرو، تمہارے لیے اُس کے سوا کوئی معبُود نہیں ہے، کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟    ؏۲

 

تفسیر

 

۲۴: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس،   آیات ۷۱ تا ۷۳۔ ہُود، آیات ۲۵ تا ۴۸۔ بنی اسرائیل، آیت ۳۔ الانبیاء، آیات ۷۶ و ۷۷۔

۲۵: یعنی کیا تمہیں اپنے اصلی اور حقیقی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ؟ کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ جو تمہارا اور سارے جہان کا مالک و فرمانروا ہے اُس کی سلطنت میں رہ کر اس کے بجائے دوسروں کی بندگی و اطاعت کرنے اور دوسروں کی ربوبیت و خداوندی تسلیم کرنے کے کیا نتائج ہوں گے؟

۲۶: یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ اسی  لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصوّر کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء  انسان تھے اور انسانوں کے لیے  انسان ہی نبی ہونا چاہیے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ں الاعراف، آیات ۶۳ – ۶۹۔ یونس، آیت ۲۔ ہُود، ۲۷ – ۳۱۔ یوسف  ۱۰۹۔ الرعد ۳۸۔ ابراہیم ۱۰ – ۱۱۔ النحل ۴۳۔ بنی اسرائیل ۹۴ – ۹۵۔ الکہف ۱۱۰۔ الانبیاء ۳ – ۳۴۔ المومنون ۳۳ – ۳۴ – ۴۷۔ الفرقان ۷ – ۲۰۔ الشعراء ۱۵۴ – ۱۸۶۔ یٰسین ۱۵۔ حٰم السجدہ ۶۔ مع حواشی)۔

۲۷: یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اُٹھے اُس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہی الزام فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اُٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے،    تکون لکما الکبر یا ء فی الارض (یونس آیت ۷۸)۔ یہی حضرت عیسیٰؑ پر لگایا  گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپؐ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ’’اپوزیشن‘‘  چھوڑ کر ’’حزبِ اقتدار‘‘  میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادّی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں اُن کے لیے یہ تصوّر کرنا بہت مشکل  بلکہ نا ممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اورا صلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ  میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب  کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا، یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ ان کا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ’’اقتدار کی بھوک‘‘  کا یہ الزام ہمیشہ برسر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے، ا س کے حاصل کرنے اور اس پر قابض  رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں، البتہ نہایت قابلِ ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ’’غذا‘‘  پیدائشی حق نہ تھی اور اب  یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ’’بھوک‘‘  محسوس کر رہے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۶)۔ اس جگہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظامِ زندگی کی خرابیوں کو دُور کرنے کے لیے اُٹھے گا اوار اس کے مقابلے میں اصلاحی نظر یہ و نظام پیش کرے گا،  اس کے لیے بہر حال  یہ بات نا گزیر ہو گی کہ اصلا ح کی راہ میں جو طاقتیں بھِ سدِّ راہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور اُن طاقتوں کو برسرِ اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی،  ا س کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا  و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیرووں کے ہاتھ ان پر قابض ہو ں گے۔ آخر انبیاء  اور مصلحینِ عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا،  ا ور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا  نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنانِ حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور  کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق  جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ  دونوں بالارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے،  تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت، دونوں کے طریق کا ر اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحبِ عقل آدمی ڈاکو  کو ڈاکو اور ڈاکٹر  کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔

۲۷a: یہ اس امر کا کھُلا ہُوا ثبوت ہے کہ قومِ نوح ؑ اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ ربّ العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع  فرمان ہیں۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکارِ خدا۔ وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اُس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتی تھی۔

۲۸: یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:  فَدَعَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَا نْتَصِرْ، ’’پس نوح نے اپنے ربّ کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں،  اب تُو ان سے بدلہ لے‘‘  (القمر آیت ۱۰)۔ اور سُورۂ  نوح مین فرمایا:  وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِٖ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ ا عِبَادَ کَ وَلَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَا جِرًا کَفَّارًا۔ ’’ اور نوح نے کہا، اے میرے پروردگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تُو نے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرینِ حق ہی پیدا ہوں گے‘‘ (آیت ۲۶)۔

۲۹: بعض لوگوں نے  تنور  سے مراد زمین لی ہے، بعض نے زمین کا بلند ترین حصّہ مراد لیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ  فَار َ التَّنُّور  کا مطلب طلوعِ فجر ہے، اور بعض کی رائے میں یہ  حمی الوطیس  کی طرح ایک استعارہ ہے ’’ہنگامہ گرم ہو جانے‘‘  کے معنی میں۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ کو بغیر کسی قرینے کے مجازی معنوں میں لیا جائے  جبکہ ظاہری مفہوم لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز  اس کے نیچے سے پانی اُبلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے کہ جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی اُبل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رُخ سے لاتا ہے جدھر  اس کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔

۳۰: یہ کسی قوم کی انتہائی بد اطواری اور خباثت و شرارت کا ثبوت ہے کہ اس کی تباہی پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔

۳۱: ’’اتارنے‘‘  سے مراد محض اتارنا ہی نہیں ہے،  بلکہ عربی محاورے کے مطابق اِس میں ’’میزبانی‘‘  کا مفہوم بھی شامل ہے۔ گویا اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدا یا اب ہم تیرے مہمان ہیں اور تُو ہی ہمارا میزبان ہے۔

۳۲: یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک  پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر،  اور یہ کہ آج وہی صورتِ حال مکّہ میں درپیش ہے جو کسی وقت حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اُس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے،  اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخر کار ہو کر رہتا ہے اور وہ لازماً اہلِ حق کے حق میں اور اہلِ باطل کے خلاف ہوتا ہے۔

۳۳: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہو تھی‘‘  یا ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے‘‘۔ تینوں صورتوں میں مدّعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا،  بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا  رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہے ہے۔ قومِ نوح کے ساتھ جو کچھ ہُوا اسی قانون کے مطابق ہُوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوانِ یغما  پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے  سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔

۳۴: بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے، کیونکہ آگے چل کر  ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صَیْحَہ کے عذاب سے تباہ کی گئی،  اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود و ہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا، (ہُود، ۶۷۔الحجر، ۸۳۔القمر، ۳۱)۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے، کیونکہ قرآن کی رُو سے قومِ نوح کے بعد یہی قوم اُٹھا ئی گئی تھی،   وَاذْ کُرُوْ آ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (اعراف، آیت ۶۹)۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے کہ،  کیونکہ ’’قومِ نوح کے بعد‘‘  کا اشارہ اسی طرح رہنمائی کرتا ہے۔ رہا  صَیْحَہ (چیخ،  آوازہ، شور، ہنگامۂ عظیم) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اُس آوازۂ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کی موجب ہو، اُسی طرح اُس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سببِ ہلاکت کچھ بھی ہو۔

 

ترجمہ

 

اُس کی قوم کے جن سرداروں نے ماننے سے انکار کیا اور آخرت کی پیشی کو جھُٹلایا، جن کو ہم نے دنیا کی زندگی میں آسُودہ کر رکھا تھا، ۳۵ وہ کہنے لگو ’’یہ شخص کچھ نہیں ہے مگر ایک بشر تم ہی جیسا۔ جو کچھ تم کھاتے ہو وہی یہ کھاتا ہے اور جو کچھ تم پیتے ہو وہی یہ پیتا ہے۔ اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کر لی تو تم گھاٹے ہی میں رہے۔ ۳۶ یہ تمہیں اطلاع دیتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے اُس وقت تم (قبروں سے )نکالے جاؤ گے؟ بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے۔ زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دنیا کی زندگی۔ یہیں ہم کو مرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں۔ یہ شخص خدا کے نام پر محض جھُوٹ گھڑ رہا ہے ۳۶الف اور ہم کبھی اس کی ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘  رسُول  نے کہا ’’پروردگار، اِن لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر تُو ہی میری نُصرت فرما۔‘‘  جواب میں ارشاد ہوا ’’ قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے۔‘‘  آخر کار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامہ ٴ عظیم نے ان کو آ لیا اور ہم نے ان کو کچرا ۳۷ بنا کر پھینک دیا۔۔۔۔ دُور ہو ظالم قوم! پھر ہم نے اُن کے بعد دُوسری قومیں اُٹھائیں۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھہر سکی۔ پھر ہم نے پے درپے رسُول بھیجے۔ جس قوم کے پاس بھی اس کا رسُول آیا، اُس نے اُسے جھُٹلایا، اور ہم ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے حتیٰ کہ ان کو بس افسانہ ہی بنا کر چھوڑا۔۔۔۔ پِھٹکار اُن لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے! ۳۸

پھر ہم نے موسیٰؑ اور اس کے بھائی ہارونؑ کو اپنی نشانیوں اور کھُلی سَنَد ۳۹ کے ساتھ فرعون اور اس کے اَعیانِ سلطنت کی طرف بھیجا۔ مگر انہوں نے تکبّر کیا اور بڑی دوں کی لی۔ ۴۰ کہنے لگے ’’کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟ ۴۰الف اور آدمی بھی وہ جن کی قوم ہماری بندی ہے۔‘‘  ۴۱ پس اُنہوں نے دونوں کو جھُٹلایا اور ہلاک ہونے والوں میں جا ملے۔ ۴۲ اور موسیٰؑ کو ہم نے کتاب عطا فرمائی تاکہ لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں۔ اور ابنِ مریمؑ  اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا ۴۳ اور ان کو ایک سطحِ مُرتَفَع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے۔ ۴۴ ؏ ۳

 

تفسیر

 

۳۵: یہ خصوصیات لائقِ غور ہیں۔ پیغمبر کی  مخالفت کے لیے اُٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قوم کی سرداری حاصل تھی۔ ان سب کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے،  اس لیے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری و جواب دہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا،  اور اسی لیے وہ دنیا کی اِس زندگی پر فریفتہ تھے اور ’’مادّی فلاح و بہبُود‘‘  سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کر دیا تھا وہ خوشحالی و آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ، وہ نظامِ اخلاق،  اور وہ طرزِ زندگی غلط بھی ہو سکتا ہے  جس پر چل کر انہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دُہراتی رہی ہے کہ دعوتِ حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ اِنہی تین خصوصیات  کے حامل لوگ ہوئے ہیں۔ اور یہی اُس وقت کا منظر بھی تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکّے میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے۔

۳۶: یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے یہ لوگ بھی منکر نہ تھے، ان کی بھی اصل گمراہی شرک ہی تھی۔ دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں اس قوم کا یہی جرم بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو الاعراف،  آیت ۷۰۔ ہُود، آیات ۵۳ – ۵۴۔ حمٰ السجدہ، آیت ۱۴۔ الاحقاف، آیات ۲۱ -۲۲۔

۳۷: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک  جانا،  دب جانا، اظہارِ عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اُس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے،  اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں، نگاہ پست  ہو جائے، آواز دب جائے،  اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اُس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا   لوخشع قلبہ خشعت جوارحہٗ ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا  تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔ اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورۂ  بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیارِ خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی  دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشۂ چشم سے اِدھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے،  مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہی چاہیے)۔ نماز میں ہلنا  اور مختلف  سمتوں میں جھُکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا،  یا ان کو جھاڑنا،  یا اُن سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں  جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یہ سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا،   یا قرأ ت میں گانا بھی آداب نماز کے خلا ف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہےکہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل،  مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کر نا ممنوع ہے۔ ان ظاہری آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفسِ انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ  وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل  سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آ جائیں تو جس وقت بھی آدمی کو اُس کا احساس ہو اُسی وقت اسے اپنی توجہ اُن سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔

۳۷: اصل میں لفظ غُثَاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ کوڑا کرکٹ جو سیلاب کے ساتھ بہتا ہوا آتا ہے اور پھر کناروں پر لگ لگ کر پڑا سڑتا رہتا ہے۔

۳۸: یا بالفاظِ دیگر پیغمبروں کی بات نہیں مانتے۔

۳۹: ’’نشانیوں‘‘  کے بعد ’’کھلی سند‘‘  سے مراد یا تو یہ ہے  کہ ان نشانیوں کا اُن کے ساتھ ہونا ہی اس باک کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گئے تھے، اور کھلی سند سے مراد عصا ہے،  کیونکہ اس  کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے اُن کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی  مامور من اللہ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف حواشی ۴۳ – ۴۴)۔

۴۰: اصل میں وَکَانُوْ ا قَوْمًا عَالِیْنَ کے الفاظ ہیں،  جن کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بڑے گھمنڈی،  ظالم اور دراز دست تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے اُونچے بنے اور انہوں نے بڑی دون کی لی۔

۴۰a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۶۔

۴۱: اصل الفاظ ہیں ’’جن کی قوم ہماری عابد ہے‘‘۔ عربی زبان میں کسی کا ’’مطیع ِ فرمان‘‘  ہونا اور ’’اس کا عبادت گزار‘‘  ہونا،  دونوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ جو کسی کی بندگی و اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے۔ اس سے بڑی اہم روشنی پڑتی ہے  لفظ ’’عبادت‘‘  کے معنی پر اور انبیاء علیہم السّلام کی اِس دعوت پر کہ صرف اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عباد ت چھوڑ دینے کی تلقین جو وہ کرتے تھے اس کا پورا مفہوم کیا تھا۔ ’’عبادت‘‘  ان کے نزدیک صرف ’’پوجا‘‘  نہ تھی۔ ان کی دعوت یہ نہیں تھی کہ صرف پوجا اللہ کی کرو، باقی بندگی و اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ وہ انسان کو اللہ کا پرستار بھی بنانا چاہتے تھے اور مطیع فرمان بھی، اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے دوسروں کی عبادت کو غلط ٹھیراتے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حاشیہ ۵۰)۔

۴۲: قصّۂ موسیٰؑ و فرعون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ،  آیات ۴۹ – ۵۰۔ الاعراف، آیات ۱۰۳ تا ۱۳۶۔ یونس آیات ۷۵ تا ۹۶۔ ہُود آیات ۹۶ تا ۹۹۔ بنی اسرائیل آیات ۱۰۱ تا ۱۰۴۔ طٰہٰ آیات ۹ تا ۸۰۔

۴۳: یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا۔ بلکہ فرمایا  یہ کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ باپ کے بغری ابنِ مریمؑ کا پیدا ہونا،  اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم ؑ کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتا ہے۔ جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش  ِ بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے؟ (مزید تفصیل کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران،  حواشی ۴۴ – ۵۳۔ النساء، حواشی ۱۹۰ – ۲۱۲ – ۲۱۳۔ جلد سوم، مریم، حواشی ۱۵ تا ۲۲۔ الانبیاء،  حواشی ۸۹ – ۹۰)۔ یہاں دوباتیں اور بھی قابل توجہ ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدۂ  ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا اُن پر تو ایمن لانے سے یہ کہہ کر انکار  کر دیا گیا  کہ تم بشر ہو، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے۔ مگر حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اُٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش،  اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھُلا کھُلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی اُن کو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونۂ عبرت بن گئی۔

۴۴: مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق  کہتا ہے، کوئی الرَّ مْلَہ،  کوئی بیت المَقدِس، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرودیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر اَرْخِلاؤس کے عہدِ حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی ۲ – ۱۳ تا ۲۳ )۔ اب یہ بات یقین  کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں رَبْوَہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار  ہو اور اپنے گرد و پیش  کے علاقے  سے اُونچی ہو۔ ذاتِ قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو۔ اور مَعیِن سے مراد ہے بہتا ہُوا  پانی یا چشمۂ  جاری۔

 

ترجمہ

 

اے پیغمبرو، ۴۵ کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح، ۴۶ تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خُوب جانتا ہوں۔ اور یہ تمہاری اُمّت ایک ہی اُمّت ہے اور میں تمہارا ربّ ہوں،  پس مجھی سے ڈرو۔ ۴۷ مگر بعد میں لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر لیا۔ ہر گروہ کے پاس جو کچھ ہے اُسی میں وہ مگن ہے ۴۸۔۔۔۔ اچھا، تو چھوڑو انھیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں ایک وقتِ خاص تک۔۴۹ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو اِنہیں مال اولاد سے مدد دیے جا رہے ہیں تو گویا اِنہیں بھلائیاں دینے میں سرگرم ہیں؟ نہیں،  اصل معاملے کا اِنہیں شعُور نہیں ہے۔ ۵۰ بھلائیوں کی طرف دوڑنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے ۵۰الف والے تو در حقیقت وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ کے خوف سے ڈرے رہتے ہیں، ۵۱ جو اپنے ربّ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، ۵۲ جو اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے، ۵۳ اور جن کا حال یہ ہے  کہ دیتے ہیں جو کچھ  بھی دیتے ہیں اور دل اُن کے اِس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ربّ کی طرف پلٹنا ہے۔ ۵۴ ہم کسی شخص کو ۵۴الف اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، ۵۵ اور ہمارے  پاس ایک کتاب ہے،  جو (ہر ایک کا حال )ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے، ۵۶ اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا۔ ۵۷ مگر یہ  لوگ اس معاملے سے بے خبر ہیں۔ ۵۸ اور ان کے اعمال بھی اُس طریقے سے (جس کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے)مختلف ہیں۔ وہ اپنے یہ کرتُوت کیے چلے جائیں گے یہاں تک کہ جب ہم اُن کے عیّاشوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے ۵۹ تو پھر وہ ڈکرانا شروع کر دیں گے ۶۰۔۔۔۔ ۶۱ اب بند کرو اپنی فریاد و فغاں، ہماری طرف سے اب کوئی مدد تمہیں نہیں ملنی۔ میری آیات سُنائی جاتی تھیں تو تُم (رسُول کی آواز سُنتے ہی)اُلٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے، ۶۲ اپنے گھمنڈ میں اُس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے ۶۳ اور بکواس کیا کرتے تھے۔ تو کیا اِن لوگوں نے کبھی اِس کلام پر غور نہیں کیا؟ ۶۴ یا وہ کوئی ایسی بات لایا ہے جو کبھی ان کے اسلاف کے پاس نہ آئی تھی؟ ۶۵ یا یہ اپنے رسُول سے کبھی کے واقف نہ تھے کہ (اَن جانا آدمی ہو نے کے باعث)اُس سے بِدَکتے ہیں؟ ۶۶ یا یہ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ مجنُون ہے؟ ۶۷ نہیں، بلکہ وہ حق لایا ہے اور حق ہی ان کی اکثریت کو ناگوار ہے۔۔۔۔ اور حق اگر کہیں اِن کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا ۶۸۔۔۔۔ نہیں، بلکہ ہم ان کا اپنا ہی ذکر اُن کے پاس لائے ہیں اور وہ اپنے ذکر سے منہ موڑ رہے ہیں۔ ۶۹

کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے ربّ کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔ ۷۰ تُو تو ان کو سیدھے راستے کی طرف بُلا رہا ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے وہ راہِ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔ ۷۱ اگر ہم اِن پر رحم کریں اور وہ تکلیف جس میں آج کل یہ مُبتلا ہیں،  دُور کر دیں تو یہ اپنی سرکشی میں بالکل ہی بہک جائیں گے۔ ۷۲ اِن کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے اِنہیں تکلیف میں مبتلا کیا، پھر بھی یہ اپنے ربّ کے آگے نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ البتہ جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے گی کہ ہم اِن پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں  تو یکایک تم دیکھو گے کہ اس حالت میں یہ ہر خیر سے مایوس ہیں۔ ۷۳    ؏ ۴

 

تفسیر

 

۴۵: پچھلے دو رکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب  یٰٓاَ یّھُا الرُّسُلُ کہہ کہ تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے  کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا مو جود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف  قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کی یہی ہدایت کی گئی تھی،  اور سب کے سب  اختلاف زمانہ و مقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک اُمّت،  ایک جماعت، ا یک گروہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے طرزِ بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ  کھنچ جائے گا۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دے جا رہی ہے۔ مگر اس طرزِ کلام کی لطافت اس دَور کے بعض کُند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے نہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ؐ کے بعد بھی سلسلۂ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ تعجب ہے،  جو لوگ زبان و ادب کے ذوقِ لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر  کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔

۴۶: پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں،  اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔ عملِ صالح سے پہلے طیبات کھانے  کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عملِ صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آدمی رزقِ حلال کھائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ لوگو،  اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا   الرجل یطیل السفر اشعت اغبر  و مطعمہ حرام و مشربہ حرام  و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدیدیہ الی السماء یا رب  یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ’’ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعائیں مانگتا ہے، یارب،  یارب، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام،  کپڑے اس کے حرام، او رجسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو‘‘۔ (مسلم، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہریرہ ؓ)۔

۴۷: ’’تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے‘‘،   یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو۔ ’’امت‘‘  کا لفظ اُس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصلِ مشترک پر جمع ہو۔ انبیاء چونکہ اختلافِ زمانہ و مقام کے باوجود ایک عقیدے،  ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی اُمّت ہے۔ بعد کا فقرہ  خود بتا رہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۱۳۰ تا ۱۳۳ – ۲۱۳۔ آل عمران، ۱۹ – ۲۰ – ۳۳ – ۳۴ – ۶۴ – ۷۹ تا ۸۵۔ النساء، ۱۵۰ تا ۱۵۲۔ الاعراف ۵۹ – ۶۵ – ۷۳ – ۸۵۔ یوسف، ۳۷ تا ۴۰۔ مریم، ۴۹ تا ۵۹۔ الانبیاء، ۷۱ تا ۹۳۔

۴۸: یہ محض بیان واقعہ  ہی نہیں ہے بلکہ اُس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغازِ سورہ سے چلا آ رہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السّلام سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدۂ  آخرت  کی تعلیم دیتے رہے ہیں،  تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوعِ انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے،  اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو اُن مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں،  نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے۔

۴۹: پہلے فقرے  اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ  خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سال سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے،  دلائل سے بات سمجھا رہا ہے،  تاریخ سے نظیریں پیش کر رہا ہے، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملاً  نگاہوں کے سامنے آرہے ہیں،  اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا  ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اُس باطل میں مگن ہیں جو اُن کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اِس حد تک بھی نہیں کہ وہ اُس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے،  بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعیِ حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن،  ملامت،  ظلم، جھوٹ، غرض کوئی بُری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کو وحدت،  اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ’’چھوڑ و انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں‘‘،  خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ’’اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑ انہیں‘‘۔ اس ’’چھوڑو‘‘  کو بالکل لفظی معنوں میں  لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ ’’اب تبلیغ ہی نہ کرو‘‘،  کلام کے تیوروں سے ناآشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے  کہی جایا کرتی ہے۔ پھر ’’ایک وقتِ خاص تک‘‘  کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا،  ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی۔

۵۰: اس مقام پر آغازِ سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈالی لیجیے۔ اُسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دُہرایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ’’فلاح‘‘  اور ’’خیر‘‘  اور ’’خوشحالی‘‘  کا ایک محدود مادّی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر  پا لیا،  جو مال و اولاد سے نوازا گیا،  اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسُوخ و اثر حاصل ہو گیا، اس نے  بس فلاح پائی۔ اور جو اس سے محروم  رہ گیا  وہ ناکام و نامراد  رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہِ راست  پر ہے،  بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ  محروم نظر آ رہا ہے  وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خداؤں) کے غضب میں گرفتار ہے۔ اس غلط فہمی کو،جو در حقیقت مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے،  قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے،  مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے،  اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۱۲۶، ۲۱۲۔ الاعراف ۳۲۔ التوبہ ۵۵ – ۶۹ – ۸۵۔ یونس ۱۷۔ ہُود ۳ – ۲۷ تا ۳۱ – ۳۹۔ الرعد ۲۶۔ الکہف ۲۸ – ۳۲ تا ۴۳۔ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔ مریم ۷۷ تا ۸۰۔ طٰہٰ، ۱۳۱ تا ۱۳۲۔ الانبیاء ۴۴، مع حواشی)۔ اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ اوّل یہ  کہ ’’انسان کی فلاح‘‘  اِس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادّی خوشحالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔ دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پا ہی نہیں سکتا۔ سوم یہ کہ دنیا فی الاصل  دار الجزاء نہیں بلکہ دار الامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مِل رہی ہے وہ ’’انعام‘‘  ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوب ِ ربّ ہونے کا ثبوت ہے،  اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ ’’سزا‘‘  ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے،  غیر صالح ہے،  اور مغضوبِ بارگاہِ  خداوندی ہے،  یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالبِ حقیقت کو اوّ ل قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں  سے افراد کا،  قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات،  اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے، اور انہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہو نے کی علامات قرار دے لیا جائے۔ چہارم یہ  کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے،  اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے  کہ باطل اور بدی کا انجام خساران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی  فلاح، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے،  اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السّلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں،  انسانی عقلِ عام(genocide) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک وجدانی تصوّرات اُس پر گواہی دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو،  اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو،  تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے،  اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’’انعام‘‘  یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت  و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسال دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں  پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں،  تو یہ خدا کے غضب کی نہیں  اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنا ر اس سونے کو تپا رہا ہے تا کہ خوب نِکھر جائے اور  دنیا  پر اس کا کامل  العیار ہونا  ثابت ہو جائے۔ دینا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اُٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا   کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو  رکھتے  ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائیٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق  نواز ے جائیں۔

۵۰a: اردو زبان کی رعایت سے ہم نے آیت ۶۱ کا ترجمہ پہلے کر دیا ہے اور آیت ۵۷ تا ۶۰ کا ترجمہ بعد میں  کیا ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے۔

۵۱: یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے  خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پر پکڑنے والا ہے، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کا خوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے۔

۵۲: آیات سے مراد دونوں طرح کی آیات ہیں، وہ بھی جو خدا کی طرف سے اس کے انبیاء پیش کرتے ہیں،  اور وہ بھی جو انسان کے اپنے نفس میں اور ہر طرف آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آیاتِ کتاب پر ایمان لانا اُن کی تصدیق کر نا ہے، اور آیاتِ آفاق و اَنْفُس پر ایمان لانا اُن حقیقتوں پر ایمان لانا ہے جن پر وہ دلالت کر رہی ہیں۔

۵۳: اگرچہ آیات پر ایمان سے خود ہی یہ لازم آتا ہے کہ انسان  توحید کا قائل و معتقد ہو، لیکن اس کے باوجود شرک نہ کرنے کا ذکر الگ اس لیے کیا گیا ہے کہ بسا اوقات انسان آیات کو مان کر بھی کسی نہ کسی طور کے  شرک میں مبتلا رہتا ہے۔ مثلاً ریا، کہ وہ بھی ایک طرح کا مشرک ہے۔ یا انبیاء اور اولیاء کی تعلیم میں ایسا مبالغہ جو شرک تک پہنچا دے۔ یا غیراللہ سے دُعا اور استعانت۔ یا برضا و رغبت   اربابٌ مِن دُون اللہ  کی بندگی و اطاعت اور غیر الہٰی قوانین کا اتباع۔ پس ایمان بآیات  اللہ کے بعد شرک کی نفی کا الگ ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اپنی بندگی،  اطاعت، اور عبودیت کو بالکل خالص کر لیتے ہیں، اس کے ساتھ کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک لگا نہیں رکھتے۔

۵۴: عربی زبان  میں ’’دینے‘‘  (ایتاء) کا لفظ صرف مال  یا کوئی  مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں  دینے کے معنی میں بھی بولا جا تا ہے۔ مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ   اٰتیتہٗ من نفسی القبول  کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے لیے کہتے ہیں   اٰتیتہ من نفسی الابا ئۃ۔ پس اِس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال دیتے ہیں،  بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور  طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں،  جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں،  ان پر وہ  پھُولتے نہیں ہیں، غرورِ تقویٰ اور پندارِ خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ یہی مطلب ہےجس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد،  ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ! کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے‘‘ ؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ اسے  یَاْ تُوْ نَ مَا اَتَوْ  کے معنی میں لے رہی تھیں، یعنی ’’کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں‘‘۔ جواب میں  نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا      لا یا بنت الصدیق  ولٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق و ھو یخاف اللہ عزّو جلّ،  ’’نہیں، اے صدیق کی بیٹی، اس سے مراد  وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے،  روزے رکھتا ہے،  زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزّ و جلّ سے ڈرتا رہتا ہے۔‘‘  اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت   یَاْتُوْنَ نہیں بلکہ  یُؤْ تُوْنَ  ہے، اور یہ  یُؤْ تُوْنَ صرف مال  دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجا لانے کے وسیع معنی میں ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کسی قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر ؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب  دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا  ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے  پھر بھی ڈرتا رہتا ہے،  اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔

۵۴a: واضح رہے کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ  آیات ۵۷ سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہاں سے آیت ۶۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے۔

۵۵: اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح  سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت  کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اُس رویّے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو،  اور اُس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہلِ ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویّوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، تو کل اپنی  اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اُس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو  تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔

۵۶: کتاب سے مراد ہے نامۂ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے،  جس میں اُس کی ایک ایک  بات، ایک ایک حرکت، خنٰی کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے۔ اسی کے متعلق سورۂ کہف  میں فرمایا گیا ہے کہ    وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَ ی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا لْکِتٰبِ لَا یُغَادِ رُ صَغِیْرَ ۃً وَّلَا کَبِیْرَ ۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ج وَوَ جَدُوْا مَا عَمِلُوْ ا حَاضِرًا ط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا  o ’’اور    نامۂ اعمال  سامنے رکھ دیا جائے گا،  پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اُس کے اندراجات  سے ڈر رہے  ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی،  یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا  بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے،  اور تیرا ربّ کسی پر ظلم  کرنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (آیت ۴۹)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط  کر دیا ہے۔

۵۷: یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ در حقیقت قصور وار نہ ہو،  نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جس کے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بے جا  سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا۔

۵۸: یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں،  کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے۔

۵۹: ’’عیّاش‘‘  یہاں ’’مُتْرَ فِیْنَ‘‘  کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’مترفین‘‘  اصل میں اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو دُنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیّاش سے ادا ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف  شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔               عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اِسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے۔

۶۰: ’’اصل میں لفظ ’’جُؤَار‘‘  استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اُس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد وہ فغاں کے معنی میں نہیں بلکہ اُس شخص کی فریاد  و فغاں  کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہو ا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ’’اچھا‘‘،   اب جو اپنے کرتُوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے۔‘‘

۶۱: یعنی اُس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔

۶۲: یعنی اس کی بات سننا تک تمہیں گوارا نہ تھا۔ یہ تک برداشت نہ کرتے تھے کہ اس کی آواز کان میں پڑے۔

۶۳: اصل میں لفظ ’’سٰمِرًا‘‘  استعمال کیا گیا ہے۔ سمر کے معنی ہیں رات کے وقت بات چیت کرنا۔ گپیں ہانکنا، قصّے کہانیاں کہنا۔ دیہاتی اور قصباتی زندگی میں یہ راتوں کی گپیں عموماً چوپالوں میں ہوا کرتی ہیں۔ اور یہی اہلِ مکّہ کا بھی دستور تھا۔

۶۴: یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے  نہیں مانتے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے، کیس ناقابلِ فہم زبان میں نہیں ہے۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع ِ کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ وہ اس  کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے، نہ اس  لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا۔

۶۵: یعنی کیا کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا،  کتابیں لے کر آنا، توحید کی دعوت دینا، آخرت کی باز پرس  سے ڈرانا، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا،  اِن میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی  مرتبہ رونما ہوئی ہو، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سُنا گیا ہو۔ ان کے گردو پیش عراق، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ خود ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام آئے،  ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں، ان کو یہ خود فرستادۂ الہٰی مانتے ہیں، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے۔ اس لیے در حقیقت اِن کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سُن رہے ہیں جو کبھی نہ سُنی گئی  تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان، حاشیہ نمبر ۸۴، السجدہ حاشیہ نمبر ۵، سباء، حاشیہ نمبر ۳۵)۔

۶۶: یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ  یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے،  اچانک ان کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے۔ جو شخص یہ دعوت  پیش کر رہا ہے  وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے۔ ا س کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے۔ اس کی صداقت سے،   اس کی راستبازی سے،  اس کی امانت سے،   اس کی بے داغ سیرت سے یہ  خوب واقف ہیں۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے۔ ا س کے بدترین دشمن تک یہ مانتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں  بولتا ہے۔ اس کی پوری جوانی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ گزری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے۔ حلیم ہے، حق پسند ہے۔ امن پسند ہے۔ جھگڑوں سے کنارہ کش ہے۔ معاملے میں کھرا ہے۔ قول  و قرار کا پکا ہے۔ ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔ کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اُس نے کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ ہر مصیبت  زدہ، بے کس،  حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ  ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوّت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات  نہ سنی تھی  جس سے یہ شبہہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں  کی جا رہی ہیں۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد  سے آ ج تک  وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے۔ کوئی پلٹی اُس نے نہیں کھائی ہے۔ کوئی رد و بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعووں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے  کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے۔ اس کے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ ا س کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں اور چبانے کے اور۔ وہ دینے کے باٹ الگ  اور لینے کے باٹ الگ نہیں رکھتا۔ ایسے جانے بوجھے  اور جانچے  پرکھے آدمی  کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’صاحب دودھ کا جلا چھاچھ  کو پھونک پھونک کر پیتا ہے،  بڑے بڑے فریبی  آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اوّل اوّل اعتبار جما لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ  سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا، یہ صاحب بھی یا خبر اصل  میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نِکل آئے، ا س لیے ان کو مانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا  ٹھنکتا ہے‘‘۔ (اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۱۔ یونس،  حاشیہ نمبر ۲۱،  بنی اسرائیل،  حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔

۶۷: یعنی کیا اِن کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ واقعی وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مجنون سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ابھی اصل وجہ نہیں ہے، کیونکہ زبان سے چاہے وہ کچھ  ہی کہتے رہیں،  دلوں میں تو  اُن کی دانائی وزیر کی کے  قائل  ہیں۔ علاوہ بریں ایک پاگل اور ایک ہوشمند آدمی کا فرق کوئی ایسا چھپا ہوا تو نہیں ہوتا کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہو۔ آخر ایک ہٹ دھرم،  اور بے حیا آدمی کے  سوا کون اِس کلام کو سُن کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی دیوانے کا کلام ہے، اور اس شخص کی زندگی کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کر سکتا ہے کہ یہ کسی مخبوط الحواس آدمی کی زندگی ہے؟ بڑا ہی عجیب  ہے وہ جنون (یا مستشرقینِ مغرب کی بکواس  کے مطابق مرگی کا  دَورہ) جس میں آدمی کو زبان سے قرآن جیسا کلام نکلے اور جس میں آدمی ایک تحریک  کی ایسی کامیاب راہ نمائی کر ے کہ اپنے ہی ملک کی نہیں،  دنیا بھر کی قسمت بدل ڈالے۔

۶۸: اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا اِن  کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ  خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور  کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھیلا کریں اور ہرآن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے،  اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات،  خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے،  اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے  کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے،  اُس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔

۶۹: یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں: (۱) ذکر بمعنی بیانِ فطرت۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالَم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں،  تا کہ وہ اپنے اِس بھُولے  ہوئے سبق کو یاد کریں، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے۔ (۲) ذکر بمعنیٰ نصیحت۔ اس کی رُو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش  کیا جا رہا ہے یہ انہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے۔ (۳) ذکر بمعنیٰ شرف و اعزاز۔ اِس معنی کو  اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں ج سے یہ قبول کریں تو انہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اَور چیز سے نہیں، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اُٹھان کے ایک زرین موقع سے روگردانی ہے۔

۷۰: یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیشِ نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں، بلکہ جان تک کے لالے  پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گئے ہیں  جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اُٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن  ہو گیا ہے،  حتیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش  کرتا،  نہ کہ وہ بات لے کر اُٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے، بلکہ سرے سے اُس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکینِ عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم  ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السّلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۹۰۔ یونس ۷۲۔ ہُود، ۲۹ – ۵۱۔ یوسف ۱۰۴۔ الفرقان، ۵۷۔ شعراء، ۱۰۹ – ۱۲۷ – ۱۴۵ – ۱۶۴ – ۱۸۰۔ سباء، ۴۷۔ یٰسین، ۲۱۔ ص، ۸۶۔ الشوریٰ،  ۲۳۔ النجم ۴۰ مع  حواشی۔

۷۱: یعنی آخرت کے انکار نے ان کو غیر ذمہ دار،  اور احساس ذمہ داری کے فقدان نے ان کو بے فکر بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب وہ سرے سے یہی نہیں سمجھتے کہ ان کی اس زندگی کا کوئی مآل اور نتیجہ بھی ہے اور کسی کے سامنے اپنے اس پورے کارنامۂ حیات کا حساب بھی دینا ہے، تو پھر انہیں اس کی کیا فکر ہو سکتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ جانوروں کی طرح ان کی بھی غایتِ مقصود بس یہ ہے کہ ضروریات ِ نفس و جسم خوب اچھی طرح پوری ہوتی رہیں۔ یہ مقصود حاصل ہو تو پھر حق و باطل کی بحث ان کے  لیے محض لا یعنی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول میں کوئی خرابی رونما ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ جو کچھ سوچیں گے وہ صرف یہ کہ اُس خرابی کا سبب کیا ہے اور اسے کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے۔ راہِ راست اس ذہنیت کے لوگ نہ چاہ سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں۔

۷۲: اشارہ ہے اُس تکلیف و  مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دَور میں اہلِ مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت  کے آغاز  سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا ہجرت کے کئی سال بعد جبکہ ثُمامہ بن اُثال نے یَمامہ سے مکّے کی طرف غلّے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی  یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور ؐ نے دعا کہ کہ  اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف،  ’’خدایا، ان کے مقابلے میں میری مدد  یوسف  کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر‘‘۔ چنانچہ ایسا سخت  قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آ گئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام، ۴۲ تا ۴۴۔ الاعراف ۹۴ تا ۹۹۔ یُونس، ۱۱ – ۱۲ – ۲۱۔ النحل،  ۱۱۲ – ۱۱۳۔ الدخان، ۱۰ تا ۱۶ مع حواشی۔

۷۳: اصل میں لفظ  مُبْلِسُوْن استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا۔ بَلَس اور  اِبْلَاس کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہو جانا۔ رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہو جانا۔ ہر طرف سے نا اُمید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا۔ اور اسی کا ایک پہلو مایوسی و نامرادی کی وجہ سے برافروختہ (Desperate ) ہو جانا بھِ ہے جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے۔ اس نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی (Frustration ) کی بنا پر اُس کا زخمی تکبّر اس قدر بر انگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تُلا ہوا ہے۔

 

ترجمہ

 

وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سُننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیے۔ مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ ۷۴ وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا، اور اُسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔ وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے۔ گردشِ لیل و نہار اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ ۷۵ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی؟ ۷۶ مگر یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو ان کے پیش رو کہہ چکے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ’’کیا جب ہم مر کر مٹی ہو جائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جائیں گے توہم کو پھر زندہ کر کے اُٹھا یا جائے گا؟ ہم نے بھی یہ وعدے بہت سُنے ہیں اور ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا بھی سُنتے رہے ہیں۔ یہ محض افسانہائے پارینہ ہیں۔‘‘  ۷۷ ان سے کہو، بتاؤ، اگر تم جانتے ہو، کہ یہ زمین اور اس کی ساری آبادی کس کی ہے؟ یہ ضرور کہیں گے،  اللہ کی۔ کہو، پھر تم ہوش میں کیوں نہیں آتے؟ ۷۸ اِن سے پوچھو، ساتوں آسمانوں اور عرشِ عظیم کا مالک کون ہے؟ یہ ضرور کہیں گے اللہ۷۹۔ کہو، پھر تم ڈرتے کیوں نہیں؟ ۸۰ اِن سے کہو، بتاؤ اگر تم جانتے ہو کہ ہر چیز پر اقتدار ۸۱ کس کا ہے؟  اور کون ہے جو پناہ دیتا ہے اور اُس کے مقابلے میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ بات تو اللہ ہی کے لیے ہے۔ کہو، پھر کہاں سے تم کو دھوکا لگتا ہے؟ ۸۲ جو امرِ حق ہے  وہ ہم ان کے سامنے لے آئے ہیں، اور کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں۔ ۸۳ اللہ نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا ہے، ۸۴ اور کوئی دوسرا خدا اُس کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ ۸۵ پاک ہے اللہ اُن باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔ کھُلے اور چھُپے کا جاننے والا، ۸۶ وہ بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں۔ ؏ ۵

 

تفسیر

 

۷۴: مطلب یہ ہے کہ بد نصیبو،  یہ آنکھ کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ ان سے بس و ہ کام لو جو حیوانات  لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو اور ہر وقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہو سکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن  کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں،  جن کانوں سے سب کچھ سُنا جائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سُنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے، حیف ہے اگر وہ پھر ایک بیل کے بجائے ایک انسان کے  ڈھانچے میں ہوں۔

۷۵: ’’علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرف ِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشاندہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کھُلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے،  تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کر سکتا  ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی  جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نِرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مر کر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔

۷۶: واضح رہے کہ یہاں توحید  اور حیات بعد الموت،  دونوں پر ایک ساتھ استدلال کیا جا رہا ہے،  اور آگے تک جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اُن سے شرک کے ابطال اور انکارِ آخرت کے ابطال دونوں پر دلیل لائی جا رہی ہے۔

۷۷: خیال رہے کہ اُن کا آخرت کو مستبعد سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہ تھا، خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار تھا۔

۷۸: یعنی کیوں یہ بات نہیں سمجھتے کہ پھر اس کے سوا کوئی بندگی کا مستحق بھی نہیں ہے،  اور اس کے لیے زمین کی اس آبادی کو دوبارہ پیدا کر دینا بھی مشکل نہیں ہے۔

۷۹: اصل میں لفظ  لِلہ  استعمال ہوا ہے،  یعنی ’’یہ سب چیزیں بھی اللہ کی ہیں‘‘۔ ہم نے ترجمے میں محض اُردو زبان کے حُسنِ کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے۔

۸۰: یعنی، پھر کیوں تمہیں اُس سے بغاوت کرتے اور  اُس کے سوا  دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ اور کیوں تم  کو یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین کے فرمانروا نے اگر کبھی ہم سے حساب لیا تو  ہم کیا جواب دیں گے؟

۸۱: اصل میں لفظ   مَلَکُوْت استعمال ہوا ہے جس میں مُلک (بادشاہی) اور مِلک (مالکیت)،  دونوں  مفہوم شامل ہیں، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کر دہ سوال کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز  پر پورے پورے مالکانہ اختیارات  کس کو حاصل ہیں‘‘ ؟

۸۲: اصل الفاظ ہیں اَنّٰی تُسْخَرُوْنَ، جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’کہاں سے تم مسحور کیے جاتے ہو‘‘۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اُس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہا ہے۔ پس آیت میں جو سوا ل کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کس نے تم پر یہ سحر کر دیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ  جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحبِ اقتدار کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے  والا نہیں ہے  اُس سے غدّاری و بے وفائی کرتے ہو اور پھر بھروسہ اُن کی پناہ پر کر رہے ہو جو اُس سے تم کو نہیں بچا سکتے؟ کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال  دیا ہے کہ جو  ہر چیز  کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال  کیا، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے  کیسے  مجاز ہو گئے؟ سوا ل کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سحر کا الزام رکھتے تھے۔ اس طرح گویا  سوال کے انہی الفاظ میں یہ مضمون بھی  ادا ہو گیا کہ بیوقوفو! جو شخص تمہیں اصل حقیقت (وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر،  اور جو لوگ تمہیں رات دن حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں،  حتیٰ کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف، تجربے اور مشاہدے کے خلاف، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف،  سراسر جھوٹی  اور بے اصل باتوں کا معتقد بنا دیا ہے۔ ا ُن کے بارے میں کبھی تمہیں یہ شبہہ نہیں ہوتا کہ اصل جادوگر تو وہ ہیں۔

۸۳: یعنی اپنے اس قول  میں جھوٹے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی  الوہیت (خدائی کی صفات،  اختیارات  اور حقوق، یا ان میں سے کوئی حصّہ) حاصل ہے۔ اور اپنے اس قول میں جھوٹے کہ زندگی بعد ِ موت ممکن نہیں ہے۔ اُن کا جھوٹ اُن کے اپنے اعترافات سے ثابت ہے۔ ایک طرف یہ ماننا کہ زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کی ہر چیز کا مختار اللہ ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدائی تنہا  اسی ی نہیں ہے بلکہ دوسروں کا بھی ( جولا محالہ اُس کے مملوک ہی ہوں گے) اُس میں کوئی حصّہ ہے، یہ دونوں باتیں صریح طور پر ایک دوسرے  سے متناقض ہیں۔ اسی طرح ایک طرف یہ کہنا کہ ہم کو اور اِس عظیم الشان  کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدا  اپنی ہی پیدا کردہ  مخلوق کو دوبارہ پیدا  نہیں کر سکتا، صریحاً خلافِ عقل ہے۔ لہٰذا ان کی اپنی مانی ہوئی صداقتوں  سے یہ ثابت ہے کہ شرک اور انکارِ آخرت،  دونوں ہی جھوٹے عقیدے ہیں جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں۔

۸۴: یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے۔ نہیں،  مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے،  اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی ہیں ان کے شریک حال رہے ہیں۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدۂ ’’ابن اللہ‘‘  زیادہ مشہور ہو گیا ہے ا س لیے بعض اکابر مفسرین تک  کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفارِ مکّہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رُخ پھر جانا  بے معنی ہے۔ البتہ ضمناً اس میں اُن تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خد ا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین ِ عرب یا کوئی  اور۔

۸۵: یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظامِ  عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حدو حساب چیزوں میں،  اَن گنت تاروں اور سیّاروں میں پا رہے ہو۔ نظام کی باقاعدگی  اور اجزائے نظا م کی ہم آہنگی اقتدار  کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالت کر رہی ہے۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہو تا تو اصحابِ اقتدار  میں اختلاف رونما ہو نا یقیناً ناگزیر تھا۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی مضمون سورۂ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا  ہے کہ   لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا، (آیت ۲۲) ’’ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے  خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔ اور یہی استدلال سُورۂ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ   لَوْ کَانَ  مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّا بْتَغَوْ ا اِلٰی ذِی الْعَرْ شِ سَبِیْلًا  o (آیت ۴۲) ’’اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ  کہتے ہیں، تو ضرور وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے‘‘۔ ( تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جدل دوم،  بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، الانبیاء،  حاشیہ نمبر ۲۲)۔

۸۶: اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اُس خاص قسم کے شرک کی طر ف جس نے پہلے شفاعت  کے مشرکانہ عقیدے کی،  اور پھر غیر اللہ کے لیے علمِ غیب (علم ما کان و مایکون) کے اثبات کی شکل اختیار کر لی۔ یہ آیت اِس شرک کے دونوں پہلوؤں کی تردید کر دیتی ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم،  طٰہٰ، حواشی ۸۵ – ۸۶۔ الانبیاء،  حاشیہ ۲۷)۔

 

ترجمہ

 

اے محمدؐ، دعا کرو کہ ’’پروردگار، جس عذاب کی اِن کو دھمکی دی جا رہی ہے وہ اگر میری موجودگی میں تُو لائے، تو اے مرے ربّ، مجھے اِن ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو۔‘‘  ۸۷ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم تمہاری آنکھوں کے سامنے ہی وہ چیز لے آنے کی پُوری قدرت رکھتے ہیں جس کی دھمکی ہم انہیں دے رہے ہیں۔ اے محمدؐ، بُرائی کو اُس طریقہ سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ جو کچھ باتیں وہ تم پر بناتے ہیں وہ ہمیں خُوب معلوم ہیں۔ اور دعا کرو کہ ’’پروردگار،  میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بلکہ اے میرے ربّ، میں تو اِس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘  ۸۸ (یہ لوگ اپنی کرنی سے باز نہ آئیں گے)یہاں تک کہ جب اِن میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کرے گا کہ ’’ اے میرے ربّ، مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے ۸۹ جسے میں چھوڑ آیا ہوں، اُمید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا ۹۰ ‘‘۔۔۔۔ ہر گز نہیں، ۹۱ یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ بَک رہا ہے۔ ۹۲ اب ان سب(مرنے والوں)کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔ ۹۳ پھر جونہی کہ صُور پھونک دیا گیا، اِن کے درمیان پھر کوئی رشتہ نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ ۹۴ اُس وقت جن کے پلڑے بھاری ہوں گے ۹۵ وہی فلاح پائیں گے۔ اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈال لیا۔ ۹۶ وہ جہنّم میں ہمیشہ رہیں گے۔ آگ اُن کے چہروں کی کھال چاٹ جائے گی اور اُن کے جبڑے باہر نکل آئیں گے۔۔۔۔ ’’ ۹۷ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو کہ میری آیات تمہیں سُنائی جاتی تھیں تو تم اُنہیں جھُٹلاتے تھے؟‘‘  وہ کہیں گے ’’اے ہمارے ربّ، ہماری بد بختی ہم پر چھا گئی تھی۔ ہم واقعی گُمراہ لوگ تھے۔ اے پروردگار، اب ہمیں یہاں سے نکال دے پھر ہم ایسا قصُور کریں تو ظالم ہوں گے۔‘‘  اللہ تعالیٰ جواب دے گا ’’دُور ہو میرے سامنے سے،  پڑے رہو اِسی میں اور مجھ سے بات نہ کرو۔ ۹۸ تم وہی لوگ تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار، ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کر دے، ہم پر رحم کر، تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے، تو تم نے ان کا مذاق بنالیا۔ یہاں تک کہ ان کی زِد نے تمہیں یہ بھی بھُلا دیا کہ میں بھی کوئی ہوں، اور تم اُن پر ہنستے رہے۔ آج اُن کے اُس صبر کا میں نے یہ پھل دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں۔‘‘  ۹۹ پھر اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھے گا ’’بتاؤ، زمین میں تم کتنے سال رہے؟‘‘  وہ کہیں گے ’’ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ ہم وہاں ٹھہرے ہیں، ۱۰۰ شُمار کرنے والوں سے پوچھ لیجیے۔‘‘  اِرشاد ہو گا ’’تھوڑی ہی دیر ٹھہرے ہونا۔ کاش تم نے یہ اُس وقت جانا ہوتا۔ ۱۰۱ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضُول ہی پیدا کیا ہے ۱۰۲ اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘

پس بالا و برتر ہے ۱۰۳ اللہ، پادشاہِ حقیقی، کوئی خدا اُس کے سوا نہیں، مالک ہے عرشِ بزرگ کا۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبُود کو پکارے، جس کے لیے اُس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۱۰۴ تو اُس کا حساب اُس کے ربّ کے پاس ہے۔ ۱۰۵ ایسے کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ۱۰۶ اے محمدؐ کہو ’’میرے ربّ درگزر فرما، اور رحم کر،  اور تُو سب رحیموں سے اچھا رحیم ہے۔‘‘  ۱۰۷ ؏ ٦

 

تفسیر

 

۸۷: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہ معاذاللہ اُس عذاب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبتلا ہو جانے کا فی الواقع کوئی خطرہ تھا، یا یہ کہ اگر آپ یہ دعا مانگتے تو اس میں مبتلا ہو جاتے۔ بلکہ اس طرح کا انداز بیان یہ تصور دلانے کے اختیار کیا گیا ہے  کہ خدا کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق چیز۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا مطالبہ کیا جائے، اور اگر اللہ اپنی رحمت اور اپنے حلم کی وجہ سے اس کے لانے میں دیر کر ے تو  اطمینان کے ساتھ شرارتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ درحقیقت وہ ایسی خوفناک چیز ہے کہ  گناہ گاروں ہی کو نہیں، نیکوکاروں کو بھی اپنی ساری نیکیوں کے باوجود اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ علاوہ بریں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی گناہوں کی پاداش میں جب عذاب کی چکّی چلتی ہے تو صرف بُرے  لوگ ہی اس میں نہیں پِستے،  بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بھلے لوگ بھی بسا اوقات لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک گمراہ اور بدکار معاشرے میں رہنے والے ہر نیک آدمی کو ہر وقت خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ کچھ خبر نہیں کہ کس صورت میں ظالموں پر قہر  الہٰی کا کوڑا برسنا شروع ہو جائے اور کون اس کی زد میں آ جائے۔

۸۸: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، الانعام، حواشی ۷۱، ۷۲۔ جلد دوم، الاعراف، حواشی ۱۳۸ – ۱۵۰ تا ۱۵۳۔ یونس، حاشیہ ۳۹۔ الحجر، حاشیہ ۴۸۔ النحل، حواشی ۱۲۲ تا ۱۲۴۔ بنی اسرائیل، حواشی ۵۸ تا ۶۳۔ حٰم السجدہ، حواشی  ۳۶ تا ۴۱۔

۸۹: اصل میں   رَبِّ ارْجِعُوْنِ  کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے۔ اور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرارِ دُعا کا تصوّر دلانے کے لیے ہے، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ  اِرْجِعْنِیْ (مجھے واپس بھیج دے، مجھے واپس بھیج دے) کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ  بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور   ارْجِعُوْنِ  کا خطاب اُن فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے۔ یعنی  بات یوں ہے : ’’ہائے میرے ربّ،  مجھ کو واپس کر دو‘‘۔

۹۰: یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل  بجہنم ہونے تک،  بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے، اب ہماری توبہ ہے، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے، اب ہم سیدھی را ہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات ۲۷، ۲۸۔ الاعراف، ۵۳۔ ابراہیم،  ۴۴، ۴۵۔ المومنون، ۱۰۵ تا ۱۱۵۔ الشعراء، ۱۰۲۔ السجدہ، ۱۲ تا ۱۴۔ فاطر، ۳۷۔ الزمر، ۵۸ – ۵۹۔ المومن، ۱۰ تا ۱۲۔ الشوریٰ، ۴۴۔ مع حواشی)۔

۹۱: یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ از سرِ نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس  بھیجا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذ ہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر  صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق  کو پہچان کر اسے مانتا ہے کہ نہیں،  اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو  پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے۔ ا س کے بعد  کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے۔ جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہوچکا ہے اُسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لا حاصل ہے، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۲۸۔ الانعام، حواشی ۶ – ۱۳۹ – ۱۴۰۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۶)۔

۹۲: یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابلِ التفات نہیں ہے۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اِسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا۔

۹۳: ’’برزخ‘‘   فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘    کا معرّب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب اِن کے اور دنیا کے درمییان ایک روک ہے جو انہیں واپس  جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اِس حد ِ فاصل میں ٹھیرے رہیں گے۔

۹۴: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باپ باپ نہ رہے گا اور بیٹا بیٹا ہ رہے گا۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ  اُس وقت نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا نہ بیٹا باپ کے۔ ہر ایک اپنے حال میں کچھ اس طرح گرفتار ہو گا کہ دوسرے کو پوچھنے تک کا ہوش نہ ہو گا کجا کہ اس کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اُس کی کوئی مدد کر سکے۔ دوسرے مقامات پر اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا،  ’’کوئی جگری دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا‘‘۔ (المعارج،  آیت ۱۰) اور یَوَدُّ الْمُجْرِ مُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْ مَئیذٍم بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَ خِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْ وِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ، ’’اس روس مجرم کا جی چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیے میں دے دے  اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے‘‘  (المعارج آیات ۱۱ تا ۱۴) اور   یَوْ مَ یَفِرُّ الْمَرْ ءُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِ ئی مِّنْھُمْ یَوْمَئیذٍ شَانٌ یُّغْنِیْہِ، ’’وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔ اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہو گا کہ اسے کسی کا ہوش نہ رہے گا‘‘  (عبس، آیات ۳۴ تا ۳۷)۔

۹۵: یعنی جن کے قابلِ قدر اعمال وزنی ہوں گے۔ جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہو گا۔

۹۶: آغاز سورہ میں،  اور پھر  چوتھے رکوع میں فلاح اور خسران کا جو معیار پیش کیا جا چکا ہے اسے ذہن میں پھر تازہ کر لیجیے۔

۹۷: اصل میں لفظ  کَا لِحُوْنَ  استعمال کیا گیا ہے۔ کالح عربی زبان میں اس چہرے کو کہتے ہیں جس کی کھال الگ ہو گئی ہو اور دانت باہر آ گئے ہوں جیسے بکرے کی بھُنی ہوئی سری۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کالح کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا   اَلَمْ تَرَ اِلَی الرأ س المشیط؟ ’’ کیا تم نے بھُنی ہوئی سری نہیں دیکھی‘‘ ؟

۹۸: یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہو گا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔ مگر یہ بات بظاہر  قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے۔ لہٰذا  یا تو یہ روایات غلط ہیں، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد  وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے۔

۹۹: پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ فلاح کا مستحق کون ہے اور خسران کا مستحق کون۔

۱۰۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ نمبر ۸۰۔

۱۰۱: یعنی دنیا میں ہمارے نبی تم کو بتاتے رہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض  امتحان کی چند گنی چنی ساعتیں ہیں، اِنہی کو اصل زندگی اور بس ایک ہی زندگی نہ سمجھ بیٹھو۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہاں کے وقتی فائدوں اور عارضی لذتوں کی خاطر وہ کام نہ کرو جو آخرت کی ابدی زندگی میں تمہارے مستقبل کو برباد کر دینے والے ہوں۔ مگر اُس وقت تم نے ان کی بات سن کر نہ دی۔ تم اِس عالم ِ آخرت کا  انکار کرتے رہے۔ تم نے زندگی بعدِ موت کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھا۔ تم اپنے اِس خیال پر مُصِر رہے کہ جینا  اور مرنا  جو کچھ ہے بس سی دنیا میں ہے، اور جو کچھ مزے لوٹنے ہیں یہیں لوٹ لینے چاہییں۔ اب پچھتانے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوش آنے کا وقت تو وہ تھا جب تم دنیا کی چند روزہ زندگی کے لطف پر یہاں کی ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر رہے تھے۔

۱۰۲: اصل میں  عَبَثًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے،  جس کا ایک مطلب تو ہے ’’کھیل کے طور پر‘‘۔ اور دوسرا مطلب ہے ’’کھیل کے لیے‘‘۔ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے، ’’کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی بطور ِ تفریح بنا دیا ہے،  تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے‘‘۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا،  ’’کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح  اور ایسی لاحاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے‘‘۔

۱۰۳: یعنی بالا و برتر ہے اِس سے کہ فعل  ِ عبث کا ارتکاب اس سے ہو، اور بالا و برتر ہے  اِس سے کہ اس کے بندے اور مملوک اس کی خدائی میں اس کے شریک ہوں۔

۱۰۴: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اُس کے لیے اپنے اس فعل کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔

۱۰۵: یعنی وہ محاسبے  اور باز پرس سے بچ نہیں سکتا۔

۱۰۶: یہ پھر اسی مضمون کا اعادہ  ہے کہ اصل میں فلاح پانے والے کون ہیں اور اس سے محروم  رہنے والے کون۔

۱۰۷: یہاں  اِس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آ چکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابۂ  کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے، تم ان کا مذاق اُڑا تے تھے۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اور ضمناً صحابہ کرام کو بھی ) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اُڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا  خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین۔ کلیم محی الدین

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید