FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

تفہیم القرآن

 

مولانا ابو الاعلیٰ مودودی

۱۹۔ سورۂ معارج تا سورۂ قیامہ

(۶۹) سورة المعارج

نام

تیسری آیت کے لفظ ذِی المَعَارِج سے ماخوذ ہے۔ زمانۂ نزول اس کے مضامین شہادت دیتے ہں؟ کہ اس کا نزول بھی قریب قریب اُنہی حالات مںا ہوا ہے جن مںی سورہ الحاقّہ نازل ہوئی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس مں اُن کفار کو تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے جو قیامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اڑاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چلینج دیتے تھے۔ کہ اگر تم سچے ہو اور تمہںو جھُٹلا کر ہم عذابِ جہنم کے مستحق ہو چکے ہںن تو لے آؤ وہ قیامت جس سے تم ہمںے ڈراتے ہو۔ اس سورة کی ساری تقریر اسی چیلنج کے جواب مںو ہے۔
ابتدا مںت ارشاد ہوا کہ مانگنے والا عذاب مانتا ہے۔ وہ عذاب انکار کرنے والوں پر ضرور واقع ہو کر رہے گا۔اور جب وہ واقع ہو گا تو اسے کوئی دفع نہ کر سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر واقع ہو گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہںن ہے۔ لہٰذا اِن کے مذاق اڑانے پر صبر کرو۔ یہ اُسے دور دیکھ رہے ہں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہںو۔
پھر بتا یا گیا کہ قیامت جس کے جلدی لے آنے کا مطالبہ یہ لوگ ہنسی اور کھیل کے طور پر کر رہے ہںک کیسی سخت چیز ہے اور جب وہ آئے گی تو اِن مجرمین کا کیسا بُرا حشر ہو گا۔ اُس وقت یہ اپنے بیوی بچوں، اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں تک کو فدیہ مں۔ دے ڈالنے کے لےو تیار ہو جائںا گے تا کہ کسی طرح عذاب سے بچ نکلںع، مگر نہ بچ سکںس گے۔
اس کے بعد لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اُس روز انسانوں کی قسمت فیصلہ سراسر اُن ے عقیدے اور اخلاق و اعمال کی بنیا پر کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا مںا حق سے منہ موڑا ہے اور مال سمیٹ سمیٹ کر اور سنیت سنیت کر رکھا ہے و ہ جہنم کے مستحق ہوں گے۔ ا ور جنہوں ن یہاں خدا کے عذاب کا خوف کیا ہے، آخرت کو مانا ہے، نماز کی پابندی کی ہے، اپنے مال سے خدا کے محتاج بندوں کا حق ادا کیا ہے، بدکاریوں سے دامن پاک کر رکھا ہے، امانت مںب خیانت نہںح کی ہے، عہد و پیمان اور قول و قرار کا پاس کیا ہے اور گواہی مںر راست بازی پر قائم رہے ہںں وہ جنت مں عزت کی جگہ پائںں گے۔
آخر مںہ مکہ کہ ان کفار کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑانے کے لےا چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے، خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر تم نہ مانو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلقین کی گئی ہے کہ اِن کے تمسخُر کی پروا نہ کریں، یہ اگر قیامت ہی کی ذلت دیکھنے پر مُصر ہں تو انہں اپنے بیہودہ مشغلوں مںہ پڑا رہنے دیں، اپنا بُرا انجام یہ خود دیکھ لںا گے۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

مانگنے والے نے عذاب مانگا ہے، ۱ (وہ عذاب)جو ضرور واقع ہونے والا ہے، کافروں کے لے ہے، کوئی اُسے دفع کرنے والا نہںے، اُس خدا کی طرف سے ہے جو عروج کے زینوں کا مالک ہے۔ ۲ ملائکہ اور رُوح ۳ اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہںت ۴ ایک ایسے دن مںو جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ ۵ پس اے نبیؐ، صبر کرو، شائستہ صبر۔ ۶ یہ لوگ اُسے دُور سمجھتے ہںے اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہںا۔ ۷ (وہ عذاب اُس روز ہو گا)جس ۸ روز آسمان پگھلی ہوئی چاندی کی طرح ہو جائے گا ۹ اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھُنکے ہوئے اُون جےس ہو جائں گے۔ ۱۰ اور کوئی جگری دوست اپنے جگری دوست کو نہ پوچھے گا حالانکہ وہ ایک دُوسرے کو دکھائے جائںہ گے۔ ۱۱ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لےو اپنی اولاد کو، اپنی بیوی کو، اپنے بھائی کو، اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا، اور رُوئے زمین کے سب لوگوں کو فدیہ مںا دے دے اور یہ تدبیر اُسے نجات دلا دے۔ ہر گز نہںا۔ وہ تو بھڑکتی ہوئی آگ کی لپٹ ہو گی جو گوشت پوست کو چاٹ جائے گی، پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی ہر اُس شخص کو جس نے حق سے منہ موڑا اور پیٹھ پھیری اور مال جمع کیا اور سینت سینت کر رکھا۔ ۱۲
انسان تھُڑ دِلا پیدا کیا گیا ہے، ۱۳ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اُٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بُخل کرنے لگتا ہے۔ مگر وہ لوگ (اِس عیب سے بچے ہوئے ہںت )جو نماز پڑھنے والے ہںا، ۱۴ جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہںت، ۱۵ جن کے مالوں مںپ سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے، ۱۶ جو روزِ جزا کو بر حق مانتے ہںا، ۱۷ جو اپنے ربّ کے عذاب سے ڈرتے ہںی ۱۸ کیونکہ اُن کے ربّ کا عذاب ایسی چیز نہںئ ہے جس سے کوئی بے خوف ہو، جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہںر ۱۹۔ ۔۔۔ بجز اپنی بیویوں کے یا اپنی مملوکہ عورتوں کے جن سے محفوظ نہ رکھنے مںی ان پر کو ئی ملامت نہںف، البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہںن وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہںت ۲۰۔ ۔۔۔ جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہںچ، ۲۱ جو اپنی گواہیوں مںِ راست بازی پر قائم رہتے ہں۔، ۲۲ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہںک۔ ۲۳ یہ لوگ عزت کے ساتھ جنّت کے باغوں مںس رہںق گے۔ ؏۱

تفسیر

۱: اصل الفاظ ہں۱ سَاَلَ سَا ئِلٌ۔ بعض مفسرین نے یہاں سوال کو پوچھنے کے معنی مںگ لیا ہے اور وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہںّ کہ پوچھنے والے نے پوچھا ہے کہ وہ عذاب، جس کی ہمںا خبر دی جا رہی ہے، کس پر واقع ہو گا؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ کافروں پر واقع ہو گا۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس جگہ سوال کو مانگنے اور مطالبہ کر نے کے معنی مں لیا ہے۔ نسائی اور دوسرے محدثین نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ نَضربن حارِث بن کلدہ نے کہا تھا اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلیْنَا حِجَارَةًمِّنَ السَّمَاءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ہ۔(الانفال، آیت ۳۲)۔’’خدایا اگر یہ واقعی تیری ہی طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پھتر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ۔‘‘اس کے علاوہ متعدد مقامات پر قرآن مجید مںے کفارِ مکہ کے اس چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس عذاب سے تم ہمںا ڈراتے ہو وہ لے کیوں نہںِ آتے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : یونس، آیات ۴۶ تا ۴۸۔ الانبیاء، ۳۶ تا ۴۱۔ النمل، ۲۷ تا۷۲۔ سبا، ۲۶ تا ۳۰۔ یٰس، ۴۵ تا ۵۲۔الملک، ۲۴ تا ۲۷۔
۲: اصل مںس لفظ ذِی المَعَارِجِ استعمال ہوا ہے۔ معارج، معرَج کی جمع ہے جس کے معنی زینے، یا سیڑھی، یا ایسی چیز کے ہںل جس کے ذریعے سے اوپر چڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو معارِج والا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات بہت بالا و بر تر ہے اور اس کے حضور باریاب ہونے کے لےا فرشتوں کو پے در پے بلندیوں سے گزرنا ہوتا ہے، جیسا کہ بعد والی آیت مں بیان فرمایا گیا ہے۔
۳: روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہںے اور ملائکہ سے الگ اُن کا ذکر اُن کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ سورہ شُعراء مںل فرمایا گیا ہے کہ نَزَّلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ(اس قرآن کو روحِ امین لے کر تمہارے دل پر نازل ہوئے ہںل )۔ اور سورہ بقرہ مںظ ارشاد ہوا ہے قُلْ مَن ْکَانَ عَدُوًّالِّجبرِْیْلَ فَاِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلیٰ قَلْبِکَ( کہو کہ جو شخص جبریل کا اس لےں دشمن ہو کہ اس نے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے۔ ۔۔۔)۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ روح سے مراد جبریل ہی ہں ۔
۴: یعنی بات وہ نہں ہے جو اِنہوں نے سمجھ رکھی ہے۔
۵: سورہ حج، آیت ۴۷ مںا ارشاد ہوا ہے ’’ یہ لوگ تم سے عذاب کے لےل جلدی مچا رہے ہں ۔ اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے ‘‘۔ سورہ السجدہ، آیت ۵ مںہ فرمایا گیا ہے ’’ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر (اُس کی رُوداد)اوپر اُس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن مںم جس کی مقدار تمہارے شمارے شمار سے ایک ہزار سال ہے ‘‘ اور یہاں عذاب کے مطالبہ کے جواب مںک اللہ تعالیٰ کے ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی گئی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلقین کی گئی ہے کہ جو لوگ مذاق کے طور پر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہںل ان کی باتوں پر صبر کریں اور اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اُس کو دُور سمجھتے ہںل اور ہم اُسے قریب دیکھ رہے ہںر۔ ان سب ارشادات پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر و نظر کی تنگی کے باعث خدا کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہںت، اور اُنہں سو پچاس برس کی مدت بھی بڑی لمبی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے۔ اور مدت بھی محض بطورِ مثال ہے، ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہںد۔ انہی منصوبوں مںن سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوعِ انسانی کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کے لےر ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ فلاں ساعتِ خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ کوئی انسان یہ نہںب جان سکتا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوا، کتنی مدت اس کی تکمیل کے لے طے کی گئی ہے، کون سی ساعت اس کے اختتام کے لےر مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی، اور کون سا وقت اس غرض کے لےن رکھا گیا ہے کہ آغازِ آفرینش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر اُن کا حساب لیا جائے۔ اس منصوبے کے صرف اُس حصے کو ہم کسی حد تک جانتے ہںت جو ہمارے سامنے گزر رہا ہے یا جس کے گزشتہ ادوار کی کوئی جزوی سی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے۔ رہا اُس کا آغاز و انجام، تو اسے جاننا تو درکنار، اسے سمجھنا بھی ہمارے بس سے باہر ہے، کجا کہ ہم اُن حکمتوں کو سمجھ سکںپ جو اس کے پےچھ لے آیا جائے، اور اگر ایسا نہںھ کیا جاتا تواُسے اس بات کی دلیل قرار دیتے ہںا کہ انجام کی بات ہی سرے سے غلط ہے، وہ درحقیقت اپنی ہی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہںہ (مزید تشریح کے لےق ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الحج، حواشی ۹۲۔۹۳۔ جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ ۹)۔
۶: یعنی ایسا صبر جو ایک عالی ظرف انسان کے شایان شان ہے۔
۷: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہںت۔ ایک یہ کہ یہ لوگ اُسے بعید از امکان سمجھتے ہںی اور ہمارے نزدیک وہ قریب الوقوع ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو بڑی دور کی چیز سمجھتے ہںت اور ہماری نگاہ مں وہ اس قدر قریب ہے گویا کل پیش آنے والی ہے۔
۸: مفسرین مں سے ایک گروہ نے اس فقرے کا تعلق فِیْ یَوْ مٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ سے مانا ہے اور وہ کہتے ہںں کہ پچاس ہزار سال کی مدت جس دن کی بتائی گئی ہے اُس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ مسند احمد اور تفسیر ابن جریر مںس حضرت ابو سعید خُدری سے روایت نقل کی گئی ہے ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ا س آیت کے متعلق عرض کیا گیا کہ وہ تو بڑا ہی طویل دن ہو گا۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ مںق میرے جان ہے، دنیا مںی ایک فرض نماز پڑھتے ہںا جتنا وقت لگتا ہے مومن کے لے وہ دن اس سے بھی زیادہ ہلکا ہو گا‘‘۔ یہ روایت اگر صحیح سند سے منقول ہوتی تو پھر اس کے سوا اس آیت کی کوئی دوسرے تاویل نہںھ کی جا سکتی تھی۔ لیکن اس کی سند مںد درّاج اور اس کے شیخ ابو الہثیم، دونوں ضعیف ہیں۔
۹: یعنی بار بار رنگ بدلے گا۔
۱۰: چونکہ پہاڑوں کے رنگ مختلف ہںس، اس لےر جب وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اور بے وزن ہو کر اُڑنے لگںی گے تو ایسے معلوم ہوں گے جےست رنگ برنگ کا دھُنکا ہو اون اڑ رہا ہو۔
۱۱: یعنی ایسا نہ ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہں رہے ہوں گے اس لےں نہ پوچھںگ گے نہں ، ہر ایک آنکھوں سے دیکھ رہا ہو گا کہ دوسرے پر کیا بن رہی ہے اور پھر وہ اسے نہ پوچھے گا، کیونکہ اس کو اپنی ہی پڑی ہو گی۔
۱۲: یہاں بھی سورہ الحاقّة آیات ۳۳۔۳۴ کی طرح آخرت مں آدمی کے بُرے انجام کے دو وجوہ بیان کےس گئے ہں ۔ ایک حق سے انحراف اور ایمان لانے سے انکار۔ دوسرے دنیا پرستی اور بخل، جس کی بنا پر آدمی مال جمع کرتا ہے اور اسے کسی بھلائی کے کام مںا خرچ نہںو کرتا۔
۱۳: جس بات کو ہم اپنی زبان مںا یوں کہتے ہںھ کہ ’’یہ بات انسان کی سر شت مںی ہے، ‘‘ یا ’’یہ انسان کی فطری کمزوری ہے، ‘‘اسی کو اللہ تعالیٰ اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ’’انسان ایسا پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘اس مقام پر یہ بات نگاہ مںہ رہنی چاہےے کہ قرآن مجید مں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہِ راست اختیار کر لےن والے لوگوں کوا س سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی آیات مںل بھی آ رہا ہے۔ اس سے یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابلِ تغیُّر و تبدُّل نہںم ہںل، بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنے نفس کی اصلاح کے لے عملاً کوشش کرے تو وہ ان کو دور کر سکتا ہے، اور اگر وہ نفس کی باگںا ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اُس کے اندر راسخ ہو جاتی ہںد (مزید تشریح کے لے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۴۱۔جلد چہارم، الزُّمر، حواشی ۲۳۔۲۸۔ الشوریٰ، حاشیہ ۷۵)۔
۱۴: کسی شخص کا نماز پڑھنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب اور آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہے اور اپنے اس ایمان کے مطابق عمل بھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
۱۵: یعنی کسی قسم کی سُستی اور آرام طلبی، یا مصروفیت، یا دلچسپی اُن کی نماز کی پابندی مںآ مانع نہںل ہںر۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے خدا کی عبادت بجا لانے کے لےن کھڑے ہو جاتے ہںپ۔ عَلیٰ صَلَاتھِِم دَآئِمُونَ کے ایک اور معنی حضرت عُقبہ بن عامر نے یہ بیان کےر ہںا کہ وہ پورے سکون اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہںن۔ کوّے کی طرح ٹھونگںر نہںا مارتے۔ مارا مار پڑھ کر کسی نہ کسی طرح نماز سے فارغ ہو جانے کی کوشش نہںں کرتے۔ اور نماز کے دوران مںے اِدھر اُدھر التفات بھی نہںر کرتے۔ عربی محاورے مںن ٹھیرے ہوئے پانی کو ماءِ دائم کہا جاتا ہے۔ اُسی سے یہ تفسیر ماخوذ ہے۔
۱۶: سورہ ذاریات آیت ۱۹ مںا فرمایا گیا ہے کہ ’’اُن کے مالوں مں سائل اور محروم کا حق ہے۔ ‘‘اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ ’’ان کے مالوں مںا سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔ ‘‘بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مقرر حق سے مراد فرض زکوٰۃ ہے، کیونکہ اُسی مںم نصاب اور شرح، دونوں چیزیں مقرر کر دی گئی ہںو۔ لیکن یہ تفسیر اس بنا پر قابلِ قبول نہںہ ہے کہ سورہ معارج بالاتفاق مکی ہے، اور زکوٰۃ ایک مخصوص نصاب اور شرح کے ساتھ مدینہ مں فرض ہوئی ہے۔ اس لےع مقرر حق کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے مالوں مںک سائل اور محروم کا ایک حصہ طے کر رکھا ہے جسے وہ اُن کا حق سمجھ کر ادا کرتے ہںو۔ یہی معنی حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، شَعبِی اور ابراہیم نَخَعی نے بیان کےا ہں ۔ سائل سے مراد پیشہ ور بھیک مانگنے والا نہںت بلکہ وہ حاجت مند شخص ہے جو کشی سے مدد مانگے۔ اور محروم سے مراد ایسا شخص ہے جو بے روزگار ہو، یا روزی کمانے کی کوشش کرتا ہو مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں، یا کسی حادثے یا آفت کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہو، یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسے وگوں کے متعلق جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی محروم ہںح تو ایک خدا پرست انسان اس بات کا انتظار نہںن کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگںس، بلکہ اُن کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر ا ن کی مدد کرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لےن ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفیرو سورہ ذاریات، حاشیہ ۱۷)۔
۱۷: یعنی دنیا مںع اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہںر سمجھتے، بلکہ اس بات پر یقین رکھتے ہںش کہ ایک دن انہں اپنے خدا کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔
۱۸: بالفاظ دیگر ان کا حال کفار کی طرح نہںے ہے جو دنیا مںم ہر قسم کے گناہ اور جرائم اور ظلم و ستم کر کے بھی خدا سے نہںس ڈرتے، بلکہ وہ اپنی حد تک اخلاق اور اعمال مںی نیک رویہ اختیار کرنے کے با وجود خدا سے ڈرتے رہتے ہںہ اور یہ اندیشہ اُن کو لاحق رہتا ہے کہ کہںر خدا کی عدالت مںی ہماری کوتاہیاں ہماری نیکیوں سے بڑھ کر نہ نکلں اور ہم سزا کے مستحق نہ قرار پا جائں (مزید تشریح کے لےت ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ۵۴۔جلد پنجم، الذاریات، حاشیہ ۱۹)۔
۱۹: شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد زنا سے پرہیز بھی ہے اور عریانی سے پرہیز بھی(تشریح کے لے ملاحظہ ہو تفیمہ القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ۶۔النور، حواشی۳۰۔۳۲۔جلد چہارم، الاحزاب
۲۰: تشریح کے لےا ملاحظہ ہو تفہمے القرآن، جلدسوم، المومنون، حاشیہ۷۔
۲۱: امانتوں سے مراد وہ امانتں بھی ہںد جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے سپرد کی ہںم اور وہ امانتںے بھی جو انسان کسی دوسرے انسان پر اعتماد کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ اسی طرح عہد سے مراد وہ عہد بھی ہںہ جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے، اور وہ عہد بھی جو بندے ایک دوسے سے کرتے ہںن۔ ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس و لحاظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص مں سے ہے۔ حدیث مںا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سامنے جو تقریر بھی فرماتے اس مں یہ بات ضرور ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اَلا، لا ایمانَ لمن لا امانتہ لہٗ ولا دینَ لمن لاعھدَ لہٗ۔’’خبردار رہو، جس مں امانت نہںا اس کا کوئی ایمان نہں ، اور جو عہد کا پابند نہںا اس کا کوئی دین نہںا ‘‘(بَیہقَی فی شُعَب الایمان)۔
۲۲: یعنی نہ شہادت چھپاتے ہں ، نہ اس مںو کوئی کمی بیشی کرتے ہںر۔
۲۳: اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس بلند سیرت و کردار کے لوگ خدا کی جنت کے مستحق قرار دیے گئے ہںن ان کی صفات کا ذکر نماز ہی سے شروع اور اسی پر ختم کیا گیا ہے۔ نمازی ہونا اُن کی پہلی صفت ہے، نماز کا ہمیشہ پابند رہنا ا ن کی دوسری صفت، اور نماز کی حفاظت کرنا اُن کی آخری صفت۔ نماز کی حفاظت سے بہت سی چیزیں مراد ہںش۔ وقت پر ناوز ادا کرنا۔ نماز سے پہلے یہ اطمینان کر لینا کہ جسم اور کپڑے پاک ہںل۔ با وضو ہونا اور وضو مںی اعضاء کو اچھی طرح دھونا۔ ارکان اور واجبات اور مستجباتِ نماز کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا۔ نماز کے آداب کو پوری طرح ملحوظ رکھنا۔خدا کی نا فرمانیاں کر کے اپنی نمازوں کو ضائع نہ کرنا۔ یہ سب چزمیں نماز کی حفاظت مں شامل ہںں۔

ترجمہ

پس اے نبیؐ، کیا بات ہے کہ یہ منکرین دائں اور بائں سے گروہ در گروہ تمہاری طرف دوڑے چلے آرہے ہںا ؟ ۲۴ کیا اِن مںا سے ہر ایک یہ لالچ رکھتا ہے کہ وہ نعمت بھری جنت مںا داخل کر دیا جائے گا؟ ۲۵ ہر گز نہںض ۔ ہم نے جس چیز سے اِن کو پیدا کیا اُسے یہ خود جانتے ہں ۔ ۲۶ پس نہںا، ۲۷ مںئ قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی، ۲۸ ہم اِس پر قادر ہںر کہ اِن کی جگہ اِن سے بہتر لوگ لے آئں اور کوئی ہم سے بازی لے جانے والا نہںم ہے۔ ۲۹ لہٰذا انہں اپنی بیہودہ باتوں اور اپنے کھیل مںر پڑا رہنے دو یہاں تک کہ یہ اپنے اُس دن کو پہنچ جائںِ جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے، جب یہ اپنی قبروں سے نِکل کر اِس طرح دوڑے جا رہے ہوں گے جےس اپنے بُتوں کے استھانوں کی طرف دوڑے جا رہے ہوں، ۳۰ اِن کی نگاہںِ جھکی ہوئی ہوں گی، ذلّت اِن پر چھا رہی ہو گی۔ وہ دن جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ؏۲

تفسیر

۲۴: یہ اُن لوگوں کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت و تبلیغ اور تلاوتِ قرآن کی آواز سن کر مذاق اڑانے اور آوازے کسنے کے لے چاروں طرف سے دوڑ پڑتے تھے۔
۲۵: مطلب یہ ہے کہ خدا کی جنت تو اُن لوگوں کے لےڑ ہے جن کی صفات ابھی ابھی بیان کی جا چکی ہںر۔ اب کیا یہ لوگ جو حق بات سننا تک گوارا نہںک کرتے اور حق کی آواز کو دبا دینے کے لےا یوں دوڑے چلے آرہے ہںا، جنت کے امید وار ہو سکتے ہں ؟ کیا خدا نے اپنی جنت ایسے ہی لوگوں کے لےن بنائی ہے ؟ اس مقام پر سورة القلم کی آیات۳۴۔۴۱ بھی پیش نظر رکھنی چاہںی جن مںک کفارِ مکہ کو اُن کی اِس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ آخرت اگر ہوئی بھی تو وہاں وہ اُسی طرح مزے کریں گے جس طرح دنیا مںا کر رہے ہںس اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے والے اُسی طرح خستہ حال رہںم گے جس طرح آج دنیا مںا ہں ۔
۲۶: اس مقام پر اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہں ۔ مضمونِ سابق کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس مادے سے یہ لوگ بنے ہں اس کے لحاظ سے تو سب انسان یکساں ہںگ۔ اگر وہ مادہ ہی انسان کے جنت مں جانے کا سبب ہو تو نیک و بد، ظالم و عادل، مجرم اور بے گناہ، سب ہی کو جنت مں جانا چاہےی۔ لنکے معمولی عقل ہی یہ فیصلہ کرنے کے لےب کافی ہے کہ جنت کا استحقاق انسان کے مادہ تخلیق کی بنا پر نہںص بلکہ صرف اُس کے اوصاف کے لحاظ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس فقرے کو بعد کے مضمون کی تمہید سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہمارے عذاب سے محفوظ سمجھ رہے ہںم اور جو شخص انہںل ہماری پکڑ سے ڈراتا ہے اس کا مذاق اڑاتے ہںے، حالانکہ ہم اِن کو دنیا مںے بھی جب چاہںس عذاب دے سکتے ہں اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے بھی جب چاہں اٹھا سکتے ہںا۔ یہ خود جانتے ہںم کہ نطفے کی ایک حقیر سی بُوند سے اِن کی تخلیق کی ابتدا کر کے ہم نے ان کو چلتا پھرتا انسان بنایا ہے۔ اگر اپنی اِس خلقت پر یہ غور کرتے تو اُنہںک کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوتی کہ اب یہ ہماری گرفت سے باہر ہو گئے ہںر، یا ہم اِنہںج دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہںم ہںت۔
۲۷: یعنی بات وہ نہںن ہے جو اِنہوں نے سمجھ رکھی ہے۔
۲۸: یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی قسم کھا ئی ہے۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران مںں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویے پر غروب ہوتا ہے۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات مںا پے در پے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہںن ہںم بلکہ بہت سے ہںر۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمالی اور جنوب کے مقابلے مںو ایک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب۔ اس بنا پر سورہ شعراء، آیت ۲۸، اور سورہ مزمل، آیت۱۹ مں رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہںے۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور مغرب ہں ، کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کُرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے۔ اس بنا پر سورہ رحمٰن، آیت ۱۷ مںْ رَبُّ الْمَشْرِقَینِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَینِ کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہںر (مزید تشریح کے لےا ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ۱۷)۔
۲۹: یہ ہے وہ بات جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رب المشارق و المغارب ہونے کی قسم کھائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہے کہ ہم چونکہ مشرقوں اور مغربوں کے مالک ہںح اس لے پوری زمین ہمارے قبضہ قدرت مںآ ہے اور ہماری گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس مںا نہںح ہے۔ ہم جب چاہںر تمہںی ہلاک کر سکتے ہںر اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا سکتے ہں جو تم سے بہتر ہو۔
۳۰: اصل الفاظ ہںس اِلیٰ نُصُبٍ یُّوفِضُونَ۔ نصب کے معنی ہںا مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ان مںِ سے بعض نے اس سے مراد بُت لےب ہںی اور اُن کے نزدیک اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ داورِ محشر کی مقرر کی ہوئی جگہ کی طرف اِس طرح دوڑے جا رہے ہو نگے جےسٰ آج وہ اپنے بتوں کے استحصانوں کی طرف دوڑتے ہںم۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ نشان لےآ ہںن جو دوڑ کا مقابلہ کرنے والوں کے لے لگائے جاتے ہںف تا کہ ہر ایک دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔
٭٭٭

(۷۰) سورة القلم

نام

اس کا نام سورہ "ن” بھی ہے اور "القلم” بھی۔ دونوں الفاظ سورۃ کے آغاز ہی مںم موجود ہںا۔

زمانۂ نزول

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سُورتوں مںف سے ہے، مگر اس کے مضمون سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہ اُس زمانے مںل نازل ہوئی تھی جب مکہ مں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس مں تین مضامین بیان ہوئے ہںز۔ مخالفین کے اعتراضات کا جواب، اُن کو تنبیہ اور نصیحت، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صبر و استقامت کی تلقین۔
آغازِ کلام مں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد ہوا ہے کہ یہ کفار تم کو دیوانہ کہتے ہںر، حالانکہ جو کتاب تم پیش کر رہے ہو اور اخلاق کے جس اعلیٰ مرتبے پر تم فائز ہو وہ خود ان کے اس جھوٹ کی تردید کے لےم کافی ہے۔ عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب سب ہی دیکھ لںت گے کہ دیوانہ کون تھا اور فرزانہ کون۔ لہٰذا مخالفت کا جو طوفان تمہارے خلاف اٹھایا جا رہا ہے اس کا دباؤ ہر گز قبول نہ کرو۔ دراصل یہ ساری باتںت اِس لےم کی جا رہی ہںت کہ تم کسی نہ کسی طرح دب کر ان سے مصالحت (Compromise) کرنے کے لےا تیار ہو جاؤ۔
پھر عوام کی آنکھںر کھولنے کے لےm نام لےن بغیر مخالفین مں سے ایک نمایاں شخص کا کردار پیش کیا گیا ہے جسے اہلِ مکہ خوب جانتے تھے۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پاکیزہ اخلاق بھی سب کے سامنے تھے، اور ہر دیکھنے والا یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ آپ کی مخالفت مںہ مکہ کے جو سردار پیش پیش ہںم اُن مںت کسی سیرت و کردار کے لوگ شامل ہںن۔
اس کے بعد آیت ۱۷ سے ۲۳ تک ایک باغ والوں کی مثال پیش کی گئی ہے جنہوں نے اللہ سے نعمت پا کر اُس کی نا شکری کی اور اُن کے اندر جو شخص سب سے بہتر تھا اس کی نصیحت بر وقت نہ مانی، آخر کار وہ اُس نعمت سے محروم ہو گئے اور اُن کی آنکھں اُس وقت کھلں جب اُن کا سب کچھ بر باد کر چکاتھا۔ یہ مثال دے کر اہلِ مکہ کو متنبہ کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت سے تم بھی اُسی آزمائش مں پڑ گئے ہو جس مںم وہ باغ والے پڑے تھے۔ اگر ان کی بات نہ مانو گے تو دنیا مں بھی عذاب بھگتو گے اور آخرت کا عذاب اس سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
پھر آیت ۳۴ سے ۴۷ تک مسلسل کفار کو فہمائش کی گئی ہے جس مںر کہںں تو خطاب براہ راست اُن سے ہے اور کہں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے دراصل تنبیہ اُن کو کی گئی ہے۔ اس سلسلہ مں جو باتںآ ارشاد ہوئی ہں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ آخرت کی بھلائی لازماً اُنہی لوگوں کے لے ہے جنہوں نے دنیا مںل خدا ترسی کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فرمانبرداروں کا انجام وہ ہو جو مجرموں کا ہو نا چاہےں۔ کفار کی یہ غلط فہمی قطعی بے بنیاد ہے کہ خدا اُن کے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جو وہ خود اپنے لےر تجویز کرتے ہںہ، حالانکہ اِس کے لےع اُنہں کوئی ضمانت حاصل نہں ہے۔ جن لوگوں کو دنیا مںل خدا کے آگے جھکنے کی دعوت دی جا رہی ہے اور وہ اس سے انکار کرتے ہںا، قیامت کے روز وہ سجدہ کرنا چاہںو گے بھی تو نہ کر سکںآ گے اور ذلت کا انجام انہں ی دیکھنا پڑے گا۔ قرآن کو جھٹلا کو وہ خدا کے عذاب سے بچ نہں سکتے۔ اُنہں جو ڈھیل دی جا رہی ہے اس سے وہ دھوکے مںق پڑ گئے ہں ۔ وہ سمجھتے ہںز کہ اس تکذیب کے با وجود جب اُن پر عذاب نہںں آرہا ہے تو وہ صحیح راستے پر ہںو، حالانکہ وہ بے خبری مں ہلاکت کی راہ پر چلے جا رہے ہں ۔ اُن کے پاس رسول کی مخالفت کے لےر کوئی معقول وجہ نہںک ہے، کیونکہ وہ ایک بے غرض مبلغ ہے، اپنی ذات کے لےو اُن سے کچھ نہں مانگ رہا ہے، اور وہ یہ دعویٰ بھی نہںب کر سکتے کہ اُنہںُ اُس کے رسول نہ ہونے اور اُس کی باتوں کے غلط ہونے کا علم حاصل ہے۔
آخر مں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا فیصلہ آنے تک جو سختیاں بھی تبلیغ دین کی راہ مںر پیش آئںو اُن کو صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جائںی اور اُس بے صبری سے بچں جو یونس علیہ السلام کے لے ابتلا کی موجب بنی تھی۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

ن۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہںک، ۱ تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہںا ہو۔ ۲ اور یقیناً تمہارے لےم ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہںے۔ ۳ اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو۔ ۴ عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے کہ تم مںے سے کون جنُون مںے مبتلا ہے۔ تمہارا ربّ اُن لوگوں کو بھی خُوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہںہ ، اور وہی اُن کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہِ راست پر ہں۔۔ لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دباؤ مںم ہر گز نہ آؤ۔ یہ تو چاہتے ہں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔ ۵ ہر گز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمںی کھانے والا بے وقعت آدمی ہے، ۶ طعنے دیتا ہے چُغلیاں کھاتا پھرتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، ۷ ظلم و زیادتی مںن حد سے گزر جانے والا ہے، سخت بد اعمال ہے، جفا کار ہے، ۸ اور اِن سب عیوب کے ساتھ بد اصل ہے، ۹ اِس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے۔ ۱۰ جب ہماری آیات اُس کو سُنائی جاتی ہںن تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہں ۔ عنقریب ہم اُس کی سُونڈ پر داغ لگائںا گے۔ ۱۱
ہم نے اِن (اہلِ مکّہ)کو اُسی طرح آزمائش مںے ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش مںم ڈالا تھا، ۱۲ جب اُنہوں نے قسم کھائی کے صبح و سویرے ضرور اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور وہ کوئی استثناء نہںی کر رہے تھے۔ ۱۳ رات کو وہ سوئے پڑے تھے کہ تمہارے ربّ کی طرف سے ایک بلا اُس باغ پر پھر گئی اور اُس کا ایسا حال ہو گیا جےسہ کٹی ہوئی فصل ہو۔ صبح اُن لوگوں نے ایک دوسرے کو پُکارا کہ اگر پھل توڑنے ہںر تو سویرے سویرے اپنی کھیتی کی طرف نکل چلو۔ ۱۴ چنانچہ وہ چل پڑے اور آپس مںو چُپکے چُپکے کہتے جاتے تھے کہ آج کو ئی مسکین تمہارے باغ مںا نہ آنے پائے۔ وہ کچھ نہ دینے کا فیصلہ کےہ ہوئے صبح سویرے جلدی جلدی ۱۵ اس طرح وہاں گئے جےس کہ وہ ( پھل توڑنے پر )قادر ہں ۔ مگر جب باغ کو دیکھا تو کہنے لگے ’’ ہم راستہ بھُول گئے، ۔۔۔۔نہںم، بلکہ ہم محروم رہ گئے۔ ‘‘ ۱۶ اُن مںد جو سب سے بہتر آدمی تھا اُس نے کہا ’’مںت نے تم سے کہا نہ تھا کہ تم تسبیح کیوں نہں کرتے ؟ ‘‘ ۱۷ وہ پکار اُٹھے پاک ہے ہمارا ربّ، واقعی ہم گنہگار تھے۔ پھر اُن مں سے ہر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگا۔ ۱۸ آخر کو اُنہوں نے کہا’’افسوس ہمارے حال پر، بے شک ہم سرکش ہو گئے تھے۔ بعید نہںت کہ ہمارا ربّ ہمںہ بدلے مںہ اِس سے بہتر باغ عطا فرمائے، ہم اپنے ربّ کی طرف رجوع کرتے ہںے۔ ‘‘ ایسا ہوتا ہے عذاب۔ اور آخرت کا عذاب اِس سے بھی بڑا ہے، کا ش یہ لوگ اُس کو جانتے۔ ؏۱

تفسیر

۱: امام تفسیر مُجاہد کہتے کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے ذکر، یعنی قرآن لکھا جا رہا تھا۔ اِس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ چیز جو لکھی جا رہی تھی اُس سے مراد قرآن مجید ہے۔
۲: یہ ہے وہ بات جس پر قلم اور کتاب کی قسم کھائی گئی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن جو کا تبین وحی ے ہاتھوں سے ثبت ہو رہا ہے، بجائے خود کفار کے اس بہتا ن کی تردید کے لےآ کافی ہے کہ معاذ اللہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجنون ہںا۔ حضورؐ کے دعوائے نبوت سے پہلے تو اہلِ مکہ آپ کو اپنی قوم کا بہترین آدمی مانتے تھے اور آپ کی دیانت و امانت اور عقل و فراست ہر اعتماد رکھتے تھے۔ مگر جب آپ نے اُن کے سامنے قرآن پیش کرنا شروع کیا تو وہ آپ کو دیوانہ قرار دینے لگے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ قرآن ہی اُن کے نزدیک وہ سبب تھا جس کی بنا پر اُنہوں نے آپ پر دیوانگی کی تہمت لگائی۔ اس لےا فرمایا گیا کہ قرآن ہی اِس تُہمت کی تردید کے لےے کافی ثبوت ہے۔ یہ اعلیٰ درجہ کا فصیح و بلیغ کلام، جو ایسے بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے، اِ س کا پیش کرنا تو اس بات کی دلیل ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اللہ کا خاص فصل ہوا ہے، کجا کہ اسے اس امر کی دلیل بنا یا جائے کہ آپ معاذ اللہ دیوانے ہو گے ہںا۔ اس مقام پر بات نگاہ مںہ رہنی چاہےک کہ یہاں خطاب تو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے، لیکن اصل مقصود و کفار کو ان کی تُہمت کا جواب دینا ہے۔ لہٰذا کسی شخص کو یہ شبہ نہ ہو کہ یہ آیت حضورؐ کو یہ اطمینان دلانے کے لےی نازل ہوئی ہے کہ آپ مجنون نہںس ہںا۔ ظاہر ہے کہ حضورؐ کو اپنے متعلق تو ایسا کوئی شبہ نہ تھا کہ اسے دُور کرنے کے لےو آپ کو یہ اطمینان دلانے کی ضرورت ہوتی۔ مدعا کفار سے یہ کہنا ہے کہ تم جس قرآن کی وجہ سے اُس کے پیش کرنے والے کو مجنون کہہ رہے ہو وہی تمہارے اس الزام کے جھوٹے ہونے کی دلیل ہے ( مزید تشریح کے لے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ طور، حاشیہ۲۲)۔
۳: یعنی آپ کے لےک اِس بات پر بے حساب اور لازوال اجر ہے کہ آپ خلقِ خدا کی ہدایت کے لےو جو کوششںک کر رہے ہںس اُن کے جواب مں آپ کو ایسی ایسی اذیت ناک باتںی سُننی پڑ رہی ہںا اور پھر بھی آپ اپنے اِس فرض کو انجام دیے چلے جا رہے ہںں۔
۴: اس مقام پر یہ فقرہ دو معنی دے رہا ہے۔ ایک یہ کہ آپ اخلاق کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہںع اسی وجہ سے آپ ہدایتِ خلق کے کام مںو یہ اذیتیں بر داشت کر رہے ہںا، ورنہ ایک کمزور اخلاق کا انسان یہ کام نہںس کر سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ قرآن کے علاوہ آپ کے بلند اخلاق بھی اس بات کا صریح ثبوت ہں کہ کفار آپ پر دیوانگی کی جو تُہمت رکھ رہے ہںی وہ سراسر جھوٹی ہے، کیونکہ اخلاق کی بلندی اور دیوانگی، دونوں ایک جگہ جمع نہں ہو سکتںس۔ دیوانہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا ذہنی توازُن بگڑا ہوا ہو اور جس کے مزاج مںل اعتدال باقی نہ رہا ہو۔ اس کے بر عکس آدمی کے بلند اخلاق اس بات کی شہادت دیتے ہں کہ وہ نہایت صحیح الدماغ اور سلیم الفطرت ہے اور اُس کا ذہن اور مزاج غایت درجہ مُتوازن ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق جےسم کچھ تھے، اہلِ مکہ اُن سے نا واقف نہ تھے۔ اس لےم اُن کی طرف محض اشار ہ کر دینا ہی اِ س بات کے لے کافی تھا کہ مکہ کا ہر معقول آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ وہ لوگ کس قدر بے شرم ہںد جو ایسے بلند اخلاق آدمی کو مجنون کہہ رہے ہںہ۔ اُن کی یہ بیہودگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لےل نہںخ بلکہ خود اُن کے لے نقصان دہ تھی کہ مخالفت کے جوش مںہ پاگل ہو کر وہ آپ کے متعلق ایسی بات کہہ رہے تھے جسے کوئی ذی فہم آدمی قابل تصور نہ مان سکتا تھا۔ یہی معاملہ اُن مدعیانِ علم و تحقیق کا بھی ہے جو اِس زمانے مںے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر مِرگی اور جنون کی تہمت رکھ رہے ہںو۔ قرآن پاک دنیا مںآ ہر جگہ مل سکتا ہے، اور حضور کی سیرت بھی اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ لکھی ہوئی موجود ہے۔ ہر شخص خود دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اِس بے مثل کتاب کے پیش کرنے والے اور ایےی بلند اخلاق اکھنے والے انسان کو ذہنی مریض قرار دیتے ہںا وہ عداوت کے اندھے جذبے سے مغلوب ہو کر کیسی لغو بات کہہ رہے ہںل۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اخلاق کی بہترین تعریف حضرت عائشہؓ نے اپنے اس قول مںہ فرمائی ہے کہ کان خلقہ القراٰن۔ ’’قرآن آپ کا اخلاق تھا‘‘۔امام احمد، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، اور ابن جریر نے تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اُن کا یہ قول متعدد سندوں سے نقل کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دنیا کے سامنے محض قرآن کی تعلیم ہی پیش نہں ا کی تھی بلکہ خود اس کا مجسم نمونہ بن کر دکھادیا تھا۔ جس چیز کا قرآن مںل حکم دیا گیا آپ ؐ نے خود سب سے بڑھ کر اس پر عمل کیا، جس چیز سے اس مںج روکا گیا آپ نے خود سب سے زیادہ اُس سے اجتناب فرمایا، جن اخلاقی صفات کو اس مںز فضیلت قرار دیا گیا سب سے بڑھ کر آپ کی ذات اُن سے متصف تھی، اور جن صفات کو اس مںا نا پسندیدہ ٹھیرا یا گیا سب سے زیادہ آپ اُن سے پاک تھے۔ ایک اور روایت مںا حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہںھ کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کبھی کسی خادم کونہںل مارا، کبھی کسی عورت پر ہاتھ نہ اُٹھایا، جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کبھی آپ نے اپنے ہاتھ سے کسی کو نہںی مارا، اپنی ذات کے لےا کبھی کسی ایسی تکلیف کا انتقام نہںل لیا جو آپ کو پہنچائی گئی ہو الّا یہ کہ اللہ کی حُرمتوں کو توڑا گیا ہو اور آپ نے اللہ کی خاطر اُس کا بدلہ لیا ہو، اور آپ کا طریقہ یہ تھا کہ جب دوکوموں مں سے ایک کا آپ کو انتخاب کرنا ہوتا تو آپ آسان تر کام کو پسند فرماتے تھے، الّا یہ کہ وہ گناہ ہو، اور اگر کوئی کام گناہ ہوتا تو آپ سب سے زیادہ دور رہتے تھے ‘‘(مسند احمد)۔حضرت انسؓ کہتے ہںّ کہ’’مںم نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت کی ہے۔ آپ نے کبھی میری کسی بات پر اُف تک نہ کی، کبھی میرے کسی کام پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کیوں کیا، اور کبھی کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہںا فرمایا کہ تو نے یہ کیوں نہ کیا‘‘۔(بخاری ومسلم)۔
۵: یعنی تم اسلام کی تبلیغ مںر کچھ ڈھےلے پڑ جاؤ تو یہ بھی تمہاری مخالفت مںق کچھ نرمی اختیار کر لںا، یا تم ان کی گمرائیوں کی رعایت کر کے اپنے دین مں کچھ ترمیم کرنے پر آمادہ ہو جاؤ تو یہ تمہارے ساتھ مصالحت کر لں ۔
۶: اصل مںم لفظ مَھِیْن استعمال ہوا ہے جو حقیر و ذلیل اور گھٹیا آدمی کے لےا بولا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ بہت قسمں: کھانے والے آدمی کی لازمی صفت ہے۔ وہ بات بات پر اس لے قسم کھاتا ہے کہ اُسے خود یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہںس اور اس کی اس بات پر اُ س وقت تک یقین نہںپ کریں گے جب تک وہ قسم نہ کھائے۔ اس بنا پر وہ اپنی نگاہ مںظ خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور معاشرے مںٹ بھی اس کی کوئی وقعت نہں ہوتی۔
۷: اصل مںم مَنَّاعٍ لِلْخَیْر کے الفاظ استعمال ہوئے ہں ۔ خیر عربی زبان مںت مال کو بھی کہتے ہں اور بھلائی کو بھی۔ اگر اس کو مال کے معنی مںع لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ سخت بخیل اور کنجوس آدمی ہے، کسی کو پھوٹی کوڑی دینے کا بھی روادار نہںن ۔ اور اگر خیر کو نیکی اور بھلائی کے معنی مںی لیا جائے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہر نیک کام مں رکاوٹ ڈالتا ہے، اور یہ بھی کہ وہ اسلام سے لوگوں کو روکنے مںآ بہت سرگرم ہے۔
۸: اصل مں لفظ عُتُل استعمال ہوا ہے جو عربی زبان مںا ا یسے شخص کے لےآ بولا جاتا ہے جو خوب ہٹا کٹا اور بہت کھانے پےن والا ہو، اور اس کے ساتھ نہایت بُد خُلق، جھگڑالو اور سفّاک ہو۔
۹: اصل مںن لفظ زَنِیْم استعمال ہوا ہے۔ کلامِ عرب مںب یہ لفظ اُس ولد الزنا کے لےآ بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس مںا شامل ہو گیا ہو۔ سعید بن جُبَیر ا ور شعبی کہتے ہںل کہ یہ لفظ اُس شخص کے لے بھی بولا جاتا ہے جو لوگوں مںا اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو۔ اِن آیت مںج جس شخص کے یہ اوصاف بیان کےل گئے ہںی اُس کے بارے مں مفسرین کے اقوال مختلف ہںص۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ شخص وَلید بن مغیرہ تھا۔ کسی نے اَسْود بن عَبدِ لَغُیوث کا نام لیا ہے۔ کسی نے اَخْنَس بن شُرَیق کو اس کا مصداق ٹھیرا یا ہے۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے۔ لیکن قرآن مجید مںَ نام لےک بغیر صرف اُس کے اوصاف بیان کر دیے گئے ہںھ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ مںا وہ اپنے اِن اوصاف کے لے اتنا مشہور تھا کہ اس کا نام لےنت کی ضرورت نہ تھی۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے۔
۱۰: اس فقرے کا تعلق اُوپر کے سلسلہ کلام سے بھی ہو سکتا ہے اور بعد کے فقرے سے بھی۔ پہلی صورت مں مطلب یہ ہو گا کہ ایسے آدمی کو دھونس اس بنا پر قبول نہ کرو کہ وہ بہت مال اولاد رکھتا ہے۔ دوسری صورت مںر معنی یہ ہوں گے کہ بہت مال اولاد والا ہونے کی بنا پر وہ مغرور ہو گیا ہے، جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہںل تو کہتا ہے یہ اگلے وقتوں کے افسانے ہں ۔
۱۱: چونکہ وہ اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا اس لے اس کی ناک کو سونڈ کہا گیا ہے۔ اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے۔ یعنی ہم دنیا اور آخرت مںک اس کو ایسا ذلیل و خوار کریں گے کہ ابد تک یہ عار اس کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔
۱۲: چونکہ وہ اپنے آپ کو بڑی ناک والا سمجھتا تھا اس لے اس کی ناک کو سونڈ کہا گیا ہے۔ اور ناک پر داغ لگانے سے مراد تذلیل ہے۔ یعنی ہم دناک اور آخرت مںت اس کو ایسا ذلیل و خوار کریں گے کہ ابد تک یہ عار اس کا پیچھا نہ چھوڑے گا۔
۱۳: یعنی انہںے اپنی قدرت اور اپنی اختیار پر ایسا بھروسہ تھا کہ قسم کھا کر بے تکلّف کہہ دیا کہ ہم ضرور کل اپنے باغ کے پھل توڑیں گے اور یہ کہنے کی کوئی ضرورت وہ محسوس نہں کرتے تھے کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہ کام کریں گے۔
۱۴: کھیتی کا لفظ غالباً اس لےق استعمال کیا گیا ہے کہ باغ مں درختوں کے درمیان کھیت بھی تھے۔
۱۵: اصل الفاظ ہںں عَلیٰ حَرْد۔ عربی زبان مںک روکنے اور نہ دینے کے لےر بھی بولا جاتا ہے، قصد اور طے شدہ فےصل کے لےا بھی استعمال ہوتا ہے، اور سُرعت کے معنی مںم بھی متعمل ہے۔ اسی لے ہم نے ترجمے مںپ تینوں معنوں کی رعایت ملحوظ رکھی ہے۔
۱۶: یعنی پہلے تو انہںا باغ کو دیکھ کر یینک نہ آیا کہ یہ انہی کا باغ ہے اور کہنے لگے شاید ہم راستہ بھول کر کسی اور جگہ نکل آئے ہںن، پھر جب غور کیا اور معلوم ہوا کہ یہ ان کا اپنا باغ ہی ہے تو چیخ اٹھے کہ ہماری قسمت پھوٹ گئی۔
۱۷: اس کا مطلب یہ ہے کہ جب وہ قسم کھا کر کہہ رہے تھے کہ کل ہم اپنے باغ کے پھل توڑ اُس وقت اِس شخص نے ان کو تنبیہ کی تھی کہ تم خدا کو بھول گئے، ان شاء اللہ کیوں نہں کہتے ؟ مگر انہوں نے اس کی پروا نہ کی۔ پھر جب وہ مسکینوں کو کچھ نہ دینے کا فیصلہ کر رہے تھے اُس وقت بھی اس نے انہںک نصیحت کی کہ اللہ کو یاد کر و اور اس بُری نیت سے باز آ جاؤ، مگر وہ اپنی بات پر جمے رہے۔
۱۸: یعنی ہر ایک نے دوسرے کو الزام دینا شروع کیا کہ اُس کے بہکانے سے ہم اِس خدا فراموشی اور بد نیتی مںو مبتلا ہوئے۔

ترجمہ

۱۹ یقیناً خدا ترس لوگوں کے لےل اُن کے ربّ کے ہاں نعمت بھری جنّتیں ہں ۔ کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں ؟ تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے، تم کےسم حکم لگاتے ہو؟ ۲۰ کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے ۲۱ جس مںر تم یہ پڑھتے ہو کہ تمہارے لے ضرور وہاں وہی کچھ ہے جو تم اپنے لے پسند کرتے ہو؟ یا پھر کیا تمہارے لےم روزِ قیامت تک ہم پر کچھ عہد و پیمان ثابت ہںہ کہ تمہںر وہی کچھ ملے گا جس کا تم حکم لگاؤ؟ اِن سے پوچھو تم مںا سے کون اِس کا ضامن ہے ؟ ۲۲ یا پھر اِن کے ٹھہرائے ہوئے کچھ شریک ہںے (جنہوں نے اِس کا ذمّہ لیا ہو)؟ یہ بات ہے تو لائںن اپنے شریکوں کو اگر یہ سچے ہں ۔ ۲۳
جس روز سخت وقت آ پڑے گا ۲۴ اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کر سکںی گے، اِن کی نگاہںق نیچی ہوں گی، ذِلّت اِن پر چھا رہی ہو گی۔ یہ جب صحیح و سالم تھے اُس وقت اِنہںج سجدے کے لےن بلایا جاتا تھا(اور یہ انکار کرتے تھے )۔ ۲۵
پس اے نبیؐ، تم اِس کلام کے جھٹلانے والوں کا معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔ ۲۶ ہم ایسے طریقہ سے اِن کو بتدریج تباہی کی طرف لے جائںں گے کہ اِن کو خبر بھی نہ ہو گی۔ ۲۷ مں اِن کی رسّی دراز کر رہا ہوں ، میری چال ۲۸ بڑی زبردست ہے۔
کیا تم اِن سے کوئی اجر طلب کر رہے ہو کہ یہ اس چَٹّی کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوں ؟ ۲۹ کیا اِن کے پاس غیب کا علم ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ؟ ۳۰ پس اپنے ربّ کا فیصلہ صادر ہونے تک صبر کرو ۳۱ اور مچھلی والے (یونسؑ )کی طرح نہ ہو جاؤ، ۳۲ جب اُس نے پکارا تھا اور وہ غم سے بھرا ہو۱ تھا۔ ۳۳ اگر اس کے ربّ کی مہربانی اُس کے شاملِ حال نہ ہو جاتی تو وہ مذموُم ہو کر چَٹیل میدان مں پھینک دیا جاتا۔ ۳۴ آخر کار اُس کے ربّ نے اُسے برگزیدہ فرما لیا اور اُسے صالح بندوں مںو شامل کر دیا۔
جب یہ کافر لوگ کلامِ نصیحت (قرآن)سُنتے ہں تو تمہں۔ ایسی نظروں سے دیکھتے ہںم کہ گویا تمہارے قدم اُکھاڑ دیں گے، ۳۵ اور کہتے ہںر کہ یہ ضرور دیوانہ ہے، حالانکہ یہ تو سارے جہان والوں کے لےد ایک نصیحت ہے۔ ؏۲

تفسیر

۱۹: مکّہ کہ بڑے بڑے سرادر مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہم کو یہ نعمتں۴ جو دنیا مںا مل رہی ہںہ ، یہ خدا کے ہاں ہمارے مقبول ہونے کی علامت ہںس، اور تم جس بد حالی مںے مبتلا ہو یہ اِس بات کی دلیل ہے کہ تم خدا کے مغضوب ہو۔ لہٰذا اگر کوئی آخرت ہوئی بھی، جیسا کہ تم کہتے ہو، تو ہم وہاں بھی مزے کریں گے اور عذاب تم پر ہو گا نہ کہ ہم پر۔ اس کا جواب اِن آیات مںہ دیا گیا ہے۔
۲۰: یعنی یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ خدا کا فرمانبردار اور مجرم مں تمیز نہ کرے۔ تمہاری سمجھ مںل آخر کےسو یہ بات آتی ہے کہ کائنات کا خالق کوئی اندھا راجہ ہے جو یہ نہںہ دیکھے گا کہ کن لوگوں نے دنیا مں اس کے احکام کی اطاعت کی اور بُرے کاموں سے پرہیز کیا، اور کون لوگ تھے جو اُس سے بے خوف ہو کر ہر طرح کے گناہ اور جرائم اور ظلم و ستم کرتے رہے ؟ تم نے ایمان لانے والوں کی خستہ حالی اور اپنی خوشحالی تو دیکھ لی، مگر اپنے اور اُن کے اخلاق و اعمال کا فرق نہں دیکھا اور بے تکلف حکم لگا دیا کہ خدا کے ہاں اِن فرمانبرداروں کے ساتھ تو مجرموں کا سا معاملہ کیا جائے گا، اور تم جےسا مجرموں کو جنت عطا کر دی جائے گی۔
۲۱: یعنی اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب۔
۲۲: اصل مںو لفظ زَعِیْم استعمال ہوا ہے۔ کلامِ عرب مںک زعیم اس شخص کو کہتے ہںو جو کفیل، یا ضامن یا کسی قوم کی طرف سے بولنے والا ہو۔ مطلب یہ ہے کہ تم مںک سے کون آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اللہ سے تمہارے لےے ایسا کوئی عہد و پیمان لے رکھا ہے۔
۲۳: یعنی تم اپنے حق مںم جو حکم لگا رہے ہو اس کے لےے سرے سے کوئی بنیاد نہںا ہے۔ یہ عقل کے بھی خلاف ہے۔ خدا کی کسی کتاب مںم بھی تم یہ لکھا ہوا نہںک دکھا سکتے۔ تم مںو سے کوئی یہ دعویٰ بھی نہںم کر سکتا کہ اُس نے خدا سے ایسا کوئی عہد لے لیا ہے۔ اور جن کو تم نے معبود بنا رکھا ہے اُن مںک ے بھی کسی سے تم یہ شہادت نہںس دلوا سکتے کہ خدا کے ہاں تمہںی جنت دلوا دینے کا وہ ذمّہ لیتا ہے۔ پھر یہ غلط فہمی آخر تمہںت کہاں سے لاحق ہو گئی؟
۲۴: اصل الفاظ ہںد یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ، ’’جس روز پنڈلی کھولی جائے گی‘‘۔صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ محاورے کے طور پر استعمال ہوئے ہں ۔ عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آ پڑنے کو کشفِ ساق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے بھی اس کے یہی معنی بیان کےو ہںن اور ثبوت مںے کلامِ عرب سے استشہاد کیا ہے۔ ایک اور اقوال جو ابن عباس اور ربیع بن انس سے منقول ہے اس مں کشفِ ساق سے مراد حقائق پر سے پردہ اٹھانا لیا گیا ہے۔ اس تاویل کی رو سے منیے یہ ہوں گے کہ جس روز تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائںم گی اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آ جائں گے۔
۲۵: یعنی یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ خدا کا فرمانبردار اور مجرم مںی تمیز نہ کرے۔ تمہاری سمجھ مںی آخر کےسح یہ بات آتی ہے کہ کائنات کا خالق کوئی اندھا راجہ ہے جو یہ نہںا دیکھے گا کہ کن لوگوں نے دنیا مںت اس کے احکام کی اطاعت کی اور بُرے کاموں سے پرہیز کیا، اور کون لوگ تھے جو اُس سے بے خوف ہو کر ہر طرح کے گناہ اور جرائم اور ظلم و ستم کرتے رہے ؟ تم نے ایمان لانے والوں کی خستہ حالی اور اپنی خوشحالی تو دیکھ لی، مگر اپنے اور اُن کے اخلاق و اعمال کا فرق نہںب دیکھا اور بے تکلف حکم لگا دیا کہ خدا کے ہاں اِن فرمانبرداروں کے ساتھ تو مجرموں کا سا معاملہ کیا جائے گا، اور تم جےس مجرموں کو جنت عطا کر دی جائے گی۔
۲۶: یعنی ان سے نمٹنے کی فکر مںل نہ پڑو۔ ان سے نمٹنا میرا کام ہے۔
۲۷: بے خبری مںھ کسی کو تباہی کی طرف لے جانے کی صورت یہ ہے کہ ایک دشمن حق اور ظالم کو دنیا مںئ نعمتوں سے نوازا جائے، صحت، مال، اولاد اور دنیوی کامیابیاں عطا کی جائںی ، جن سے دھوکا کھا کر وہ سمجھے کہ مں جو کچھ کر رہا ہوں خوب کر رہا ہوں، میرے عمل مںل کوئی غلطی نہںہ ہے۔ اس طرح وہ حق دشمنی اور ظلم و طغیان مںے زیادہ سے زیادہ غرق ہوتا چلا جاتا ہے اور نہںک سمجھتا کہ جو نعمتںم اسے مل رہی ہں وہ انعام نہںی ہںو بلکہ درحقیقت یہ اس کی ہلاکت کا ساما ن ہے۔
۲۸: اصل مںب لفظ کَیْد استعمال ہوا ہے جس کے معنی کسی کے خلاف خفیہ تدبیر کرنے کے لےے ہںت۔ چیز صرف اُس صورت مںک ایک بُرائی ہوتی ہے جب یہ ناحق کسی کو نقصان پہنچانے کے لے ہو۔ ورنہ بجائے خود اِس مں کوئی برائی نہںت ہے، خصوصاً جب کیس ایسے شخص کے خلاف یہ طریقہ اختیار کی جائے جس نے اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا لیا ہے۔
۲۹: سوال بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کیا جا رہا ہے، مگر اصل مخاطب وہ لوگ ہںط جو آپ کی مخالفت مںا حد سے گزرے جا رہے تھے۔ اُن سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہمارا سول تم سے کچھ مانگ رہا ہے کہ تم اس پر اتنا بگڑ رہے ہو؟ تم خود جانتے ہو کہ وہ ایک بے غرض آدمی ہے اور جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے صرف اس لےن کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک اسی مںض تمہاری بھلائی ہے۔ تم نہںش ماننا چاہتے تو نہ مانو، مگر اِس تبلیغ پر آخر اتنے چراغ پاکیوں ہوئے جا رہے ہو؟(مزید تشریح کے لےم ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ طور، حاشیہ۳۱)۔
۳۰: یہ دوسرا سوال بھی بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے مگر دراصل آپ کے مخالفین اس کے مخاطب ہں: ۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تم لوگوں نے پردہ غیب کے پےچھ جھانک کر دیکھ لیا ہے کہ یہ رسول فی الواقع خدا کا بھیجا ہوا رسول نہں ہے اور جو حقیقتیں یہ تم سے بیان کر رہا ہے وہ بھی غلط ہںا، اس لےی تم اس کو جھٹلانے مںو اتنی شدت برت رہے ہو؟( مزید تشریح کے لے ملاحظہ ہو ، تفسیر سورہ طور، حاشیہ ۳۲)۔
۳۱: یعنی وہ وقت ابھی دور ہے جب اللہ تعالیٰ تمہاری فتح و نصرت اور تمہارے اِن مخالفین کی شکست کا فیصلہ فرما دے گا۔ اُس وقت کے آنے تک جو تکلںفی اور مصںبتیو بھی اس دین کی تبلیغ مںا پیش آئں انہںہ صبر کے ساتھ برداشت کرتے چلے جاؤ۔
۳۲: یعنی یونس علیہ السلام کی طرح بے صبری سے کام نہ لوجو اپنی بے صبری کی وجہ سے مچھلی کے پیٹ پہنچا دیے گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ کا فیصلہ آنے تک صبر کی تلقین کرنے کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ یونس علیہ السلام کی طرح نہ ہو جاؤ، خود بخود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اللہ کا فیصلہ آنے سے پہلے بے صبری سے کوئی کام کیا تھا جس کی بنا پر وہ عتاب کے مستحق ہو گئے تھے۔ (تشریح کے لےش ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، آیت۹۸، حاشیہ۹۹۔جلدسو۔، الانبیاء، آیات۸۷۔۸۸۔ حواشی ۸۲ تا ۸۵۔ جلد چہارم، الصّافات، آیات۱۳۹تا ۱۴۸، حواشی۷۸ تا ۸۵)۔
۳۳: سورہ انباوء مں۳ اس کی تفصیل یہ بیان کی گئی ہے کہ مچھی۹ کے پیٹ اور سمندر کی تاریکیوں مں حضرت یونس علیہ السلام نے پکارا تھا لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ، "کوئی خدا نہں تیری پاک ذات کے سوا، مںی واقعی خطا وار ہوں "۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی فریاد سن لی اور ان کو غم سے نجات دی(آیات۸۷۔۸۸)۔
۳۴: اس آیت کو سُورہ صافّات کی آیات ۱۴۲ تا ۱۴۶ کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ مںا ڈالے گئے تھے اُس وقت تو وہ ملامت مںئ مبتلا تھے، لیکن جب انہوں نے اللہ کی تسبیح کی اور اپنے قصور کا اعتراف کا لیا تو اگرچہ وہ مچھلی کے پیٹ سے نکال کر بڑی سقیم حالت مںا ایک چٹیل زمین پر پھےنک گئے، مگر وہ اُس وقت مذمت مں مبتلا نہ تھے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُس جگہ ایک بیلدار درخت اُگا دیا، تاکہ اُس کے پتّے ان پر سایہ بھی کریں اور وہ اس کے پھل سے بھوک اور تشنگی بھی دور کر سکں ۔
۳۵: یہ ایسا ہی ہے جےسا ہم اُردو مںہ کہتے ہںر کہ فلاں شخص نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا جےست اُس کو کھا جائے گا۔ کفار مکہ کے اس جذبہ غیظ و غضب کی کیفیت سورہ بنی اسرائیل، آیات۷۳ تا۷۷ مںس بھی بیان ہوئی ہے۔
٭٭٭

(۷۱) سورة نوح

 

نام

’’نوح‘‘ اس سورة کا نام بھی ہے اور اس کے مضمون کا عنوان بھی، کیونکہ اس مںں از اوّل تا آخر حضرت نوح علیہ السلام ہی کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

یہ بھی مکہ معظمہ کے ابتدائی در کی نازل شدہ سورتوں مںن سے ہے، مگر اس کے مضمون کی داخلی شہادت اس امر کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ اُس زمانے مںم ناز ل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت و تبلیغ کے مقابلہ مںر کفارِ مکہ کی مخالفت اچھی خاصی شدت اختیار کر چکی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس مں حضرت نوحؑ کا قصہ گوئی کی خاطر بیان نہںی کیا گیا ہے، بلکہ اسے مقصود کارِ مکہ کو متنبہ کرنا ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ وہی رویہ اختیار کر رہے ہو جو حضرت نوحؑ کے ساتھ ان کی قوم نے اختیار کیا تھا، اور اس رویے سے اگر تم باز نہ آئے تو تمہںا بھی وہی انجام دیکھنا پڑے گا جو اُن لوگوں نے دیکھا۔ یہ بات پُوری سورة مںا کہںہ صاف الفاظ مںک نہںد کہی گئی ہے، لیکن جس موقع پراور جن حالات مںا یہ قصہ اہل مکہ کوسنایا گیا ہے اُس پس منظر مںب خود بخود یہ مضمون اِس سے مترشح ہوتا ہے۔
پہلی آیت مںف بتایا گیا ہے کہ حضرت نوحؑ کو جب اللہ تعالیٰ نے رسالت کے منصب پر مامور فرمایا تھا اُس وقت کیا خدمت اُن کے سپرد کی گئی تھی۔
آیات ۲۔۴ مںی مختصراً یہ بتا یا گیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی دعوت کا آغاز کس طرح کیا اور اپنی قوم کے لوگوں کے سامنے کیا بات پشو کی۔
پھر مدتہائے دراز تک دعوت و تبلیغ کی زحمتںی اُٹھانے کے بعد جو رُوداد حضرت نوح ؑ نے اپنے رب کے حضور پیش کی وہ آیات۵۔۲۰ مںا بیان کی گئی ہے۔ اس مںو وہ عرض کرتے ہںا کہ کس کس طرح انہوں نے اپنی قوم کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کںب اور قوم نے ان کا مقابلہ کس ہٹ دھرمی سے کیا۔
اس کے بعد حضرت نوحؑ کی آخری گزارش آیات ۲۱۔۲۴ مںی درج کی گئی ہے جس مں وہ اپنے رب سے عرض کرتے ہںے کہ یہ قوم میری بات قطعی طور پر رد کر چکی ہے، اس نے اپنی تکمیل اپنے رئیسوں کے ہاتھ مںہ دے دی ہے، اور اُنہوں نے بہت بڑا مکر کا جال پھیلا رکھا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ اِن لوگوں نے ہدایت کی توفیق سلب کر لی جائے۔ یہ حضرت نوحؑ کی طرف سے کسی بے صبری کا مظاہرہ نہ تھا بلکہ صدیوں تک انتہائی صبر آزما حالات مںہ تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے بعد جب وہ اپنی قوم سے پوری طرح مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ اب اس کے قوم کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان باقی نہں ہے۔ یہ رائے ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کے اپنے فےصل کے مطابق تھی۔ چنانچہ اس کے متصلاً بعد آیت ۲۵ مںے ارشاد ہوا ہے کہ اُس قوم پر اس کے کرتوتوں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہو گیا۔
آخری آیات مںچ نوح علیہ السلام کی وہ دعا درج کی گئی ہے جو انہوں نے عین نزولِ عذاب کے وقت اپنے رب سے مانگی تھی۔ اس مںہ وہ اپنے لے اور سب اہلِ ایمان کے لےہ مغفرت طلب کر تے ہں ، اور اپنی قوم کے کافروں کے بارے مںی اللہ تعالیٰ سے عرض کرتے ہںر کہ ان مںک سے کسی کو زمین پر بسنے کے لےف جیتا نہ چھوڑا جائے، کیونکہ ان کے اندر اب کوئی خیر باقی نہں رہی ہے، ان کی نسل سے جو بھی اٹھے گا کافر اور فاجر ہی اٹھے گا۔
اس سورہ کا مطالعہ کرتے ہوئے حضرت نوحؑ کے قصّے کی وہ تفصیلات نگاہ مں رہنی چاہںی، جو اس سے پہلے قرآن مجید مںر بیان ہو چکی ہںق۔ ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۵۹ تا۶۴۔ یونس، ۷۱، ۷۳۔ ہود، ۲۵تا۴۹۔ المومنون، ۲۳تا ۳۱۔ الشُعراء، ۱۰۵تا۱۲۲۔ العنکبوت، ۱۴، ۱۵۔الصّافات، ۷۵تا۸۲۔ القمر، ۹تا۱۶۔شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ہم نے نوحؑ کو اس کی قوم کی طرف بھیجا (اس ہدایت کے ساتھ)کہ اپنی قوم کے لوگوں کو خبر دار کر دے قبل اس کے کہ ان پر ایک دردناک عذاب آئے۔

ترجمہ

۱ اس نے کہا’’ اے میری قوم کے لوگو، مںف تمہارے لےن ایک صاف صاف خبردار کر دینے والا (پیغمبر)ہوں۔ ( تم کو آگاہ کرتا ہوں )کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، ۲ اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا ۳ اور تمہںل ایک وقتِ مقرر تک باقی رکھے گا۔ ۴ حقتا۲ تو یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہںا جاتا۔ ۵ کاش تمہںی اِس کا علم ہو۔‘‘ ۶
۷ اُس نے عرض کیا’’ اے میرے ربّ، مںہ نے اپنی قوم کے لوگوں کو شب و روز پکارا مگر میری پُکار نے اُن کے فرار ہی مںا اضافہ کیا۔ ۸ اور جب بھی مںش نے اُن کو بلایا تاکہ تُو انہںو معاف کر دے، ۹ انہوں نے کانوں مںا اُنگلیاں ٹھونس لں اور اپنے کپڑوں سے منہ ڈھانک لےے ۱۰ اور اپنی روش پر اَڑ گئے اور بڑا تکبّر کیا۔ ۱۱ پھر مںن نے ان کو ہانکے پکارے دعوت دی۔ پھر مںم نے علانیہ بھی ان کو تبلیغ کی اور چُپکے چُپکے بھی سمجھایا۔ مںپ نے کہا اپنے ربّ سے معافی مانگو، بے شک وہ بڑا معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر آسمان سے خوب بارشںو برسائے گا، تمہںب مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لےر نہریں جاری کر دے گا۔ ۱۲ تمہںں کیا ہو گیا کہ اللہ کے لےک تم کسی وقار کی توقع نہںک رکھتے ؟ ۱۳ حالانکہ اُس نے طرح طرح سے تمہں بنایا ہے۔ ۱۴ کیا دیکھتے نہں ہو کہ اللہ نے کس طرح سات آسمان تہ بر تہ بنائے اور اُن مںا چاند کو نُور اور سُورج کو چراغ بنایا؟ اور اللہ نے تم کو زمین سے عجیب طرح اُگایا، ۱۵ پھر وہ تمہںر اِسی زمین مں واپس لے جائے گا اور اس سے یکایک تم کو نکال کھڑا کرے گا۔ اور اللہ نے زمین کو تمہارے لےد فرش کی طرح بچھا دیا تاکہ تم اس کے اندر کھُلے راستوں مں۔ چلو۔‘‘ ؏۱

تفسیر

۱: یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں مںی وہ مبتلا ہںر وہ اُن کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اگر وہ اُن سے باز نہ آئے، اور اُن کو بتا دے کہ اُس عذاب سے بچنے کے لے انہںں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہے ۔
۲: یہ تین باتںا تھںت جو حضرت نوح ؑ نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے پیش کںت، ایک اللہ کی بندگی۔ دوسرے، تقویٰ۔ تیسرے، رسول کی اطاعت۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی بندگی و عبادت چھوڑ کر اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر کے اُسی کی پر ستش کرو اور اُسی کے احکام بجا لاؤ۔ تقویٰ کا مطلب یہ تھا کہ اُن کاموں سے پرہیز کرو جو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کے موجب ہں ، اور اپنی زندگی مںد وہ روش اختیار کرو جو خدا ترس لوگوں کو اختیار کرنی چاہےض۔ رہی تیسری بات کہ ’’میری اطاعت کرو‘‘، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ اُن احکام کی اطاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے مں تمہں دیتا ہوں۔
۳: اصل الفاظ ہںُ یَغْفِرْ لَکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ۔ اس فقرے کا مطلب یہ نہںر کہ اللہ تمہارے گناہوں مںث سے بعض کو معاف کر دے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اگر تم اُن تین باتوں کو قبول کر لو جو تمہارے سامنے پیش کی جا رہی ہں تو اب تک جو گناہ تم کر چکے ہو اُن سب سے وہ درگزر فرمائے گا۔ یہاں مِنْ تبعیض کے لےا نہں بلکہ عَن ْکے معنی مںی ہے۔
۴: یعنی اگر تم نے یہ تین باتںی مان لں تو تمہںی دنیا مںہ اُس وقت تک جےنم کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری طبعی موت کے لےْ مقر کیا ہے۔
۵: اس دوسرے وقت سے مراد وہ وقت ہے جو اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لے مقرر کر دیا ہو۔ اس کے متعلق متعدد مقامات پر قرآن مجید مںت یہ بات بصراحت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی قوم کے حق مںس نزولِ عذاب کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اُس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے تو اسے معاف نہںف کیا جاتا۔
۶: یعنی اگر تمہں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ میرے ذریعہ سے اللہ کا پیغام پہنچ جانے کے بعد اب جو وقت گزر رہا ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو تمہںو ایمان لانے کے لےا دی جا رہی ہے، اور اس مہلت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد پھر خدا کے عذاب سے بچنے کا کوئی امکان نہںا ہے، تو تم ایمان لانے مں جلدی کر و گے اور نزولِ عذاب کا وقت آنے تک اس کو ٹالتے نہ چلے جاؤ گے۔
۷: بیچ مںہ ایک طویل زمانے کی تاریخ چھوڑ کر اب حضرت نوح ؑ کی وہ عرضداشت نقل کی جا رہی ہے جو انہوں نے اپنی رسالت کے آخری دور مںس اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی۔
۸: یعنی جتنا جتنا مںآ اُن کو پکارتا گیا اتنے ہی زیادہ وہ دور بھاگتے چلے گئے۔
۹: اس مں خود بخود یہ مضمون شامل ہے کہ وہ نافرمانی کی روش چھوڑ کر معافی کے طلب گار ہوں ، کیونکہ اسی صورت مںل اُن کو اللہ تعالیٰ سے معافی مل سکتی تھی۔
۱۰: منہ ڈھانکنے کی غرض یا تو یہ تھی کہ وہ حضرت نوح ؑ کی بات سننا تو درکنار، آپ کی شکل بھی دیکھنا پسند نہ کرتے تھے، یا پھر یہ حرکت وہ اس لےض کرتے تھے کہ آپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے منہ چھپا کر نکل جائںی اور اس کی نوبت ہی نہ آنے دیں کہ آپ اُنہںہ پہچان کر اُن سے بات کرنے لگں ۔ یہ ٹھیک وہی طرزِ عمل تھا جو کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اختیار کر رہے تھے۔ سورہ ہود آیت ۵ مںئ اُن کے اِس رویے کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے۔ ’’دیکھو یہ لوگ اپنے سینوں کو موڑتے ہںک تا کہ رسول سے چھُپ جائںم۔ خبر دار!جب یہ اپنے آپ کو کپڑوں سے ڈھانکتے ہںں تو اللہ ان کے کھلے کو بھی جانتا ہے اور چھپے کو بھی، وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں سے بھی واقف ہے، (تشریح کے لےں ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ہود، حواشی۵۔۶)۔
۱۱: تکبُّر سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے حق کے آگے سر جھکا دینے اور خدا کے رسول کی نصیحت قبول کر لےن کو اپنی شان سے گری ہوئی بات سمجھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بھلا آدمی کسی بگڑے ہوئے شخص کو نصیحت کرے اور وہ جواب مںب جھٹک کر اٹھ کھڑا ہو اور پاؤں پٹختا ہوا نکل جائے تو یہ تکبُّر کے ساتھ کلامِ نصیحت کو رد کرنا ہو گا۔
۱۲: یہ بات قران مجید مںؤ متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ خدا سے بغاوت کی روش صرف آخرت ہی مںت نہںذ ، دنیا مںا بھی انسان کی زندگی کو تنگ کر دیتی ہے، اور اس کے بر عکس اگر کوئی قوم نا فرمانی کے بجائے ایمان و تقویٰ اور احکام الہیٰ کی اطاعت کا طریقہ اختیار کر لے تو یہ آخرت ہی مں نافع نہںق ہے بلکہ دنیا مںا بھی اُس پر نعمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ سورہ طٰہٰ مںع ارشاد ہوا ہے۔ ’’اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لے دنیا مںں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائں گے ‘‘۔(آیت۱۲۴)۔سورہ مائدہ مںل فرمایا گیا ہے ’’اور اگر ان اہل کتاب نے تو راة اور انجیل اور اُن دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھںل تو ان کے لےا اوپر سے رزق برستا، اور نےچج سے اُبلتا‘‘(آیت۶۶)۔ سورہ اعراف مںی فرمایا’’اور اگربستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی رو ش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ‘‘(آیت۹۶)۔سورہ ہود مںا ہے کہ حضرت ہود ؑ نے اپنی قوم کو خطاب کر کے فرمایا’’اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان سے خوب بارشںن برسائے گا اور تمہاری موجود ہ وقت پر مزید قوت پر اضافہ کرے گا‘‘(آیت۵۲)۔خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ سے بھی اسی سورہ ہود مں اہل مکہ کو مخاطب کر کے یہ بات فرمائی گئی ’’اور یہ کہ اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ ایک مقرر وقت تک تم کو اچھا سامانِ زندگی دے گا‘‘(آیت۳)۔ حدیث مںل آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قریش کے لوگوں سے فرمایا کہ ’’ایک کلمہ ہے جس کے تم قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم کے فرمانروا ہو جاؤ گے ‘‘۔ (تشریح کے لےگ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، المائدہ، حاشیہ۹۶۔جلد دوم، ہود، حواشی۳و۵۷۔جلدسوم، طٰہٰ، حاشیہ۱۰۵۔جلد چہارم، دیباچہ سورہ ص)۔ قرآن مجید کی اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک مرتبہ قحط کے موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لے نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا، امیر المومنین آپ نے بارش کے لےپ تو دعا کی ہی نہں ۔ فرمایا، مںف نے آسمان کے اُن دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے، اور پھر سورہ نوح ؑ کی یہ آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں (ابن جریر و ابن کثیر)۔ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت حسن بصری کی مجلس مں ایک شخص نے خشک سالی کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے تنگ دستی کی شکایت کی، تیسرے نے کہا میرے ہاں اولاد نہںا ہوتی، چوتھے نے کہا میری زمین کی پیداوار کم ہو رہی ہے۔ ہر ایک کو وہ یہی جواب دیتے چلے گئے کے اسغفار کرو۔ لوگوں نے کہا یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ سب کو مختلف شکایتوں کا ایک ہی علاج بتا رہے ہںے ؟ انہوں نے جواب مںف سورہ نوح ؑ کی یہ آیات سنا دیں۔ (کشّاف)۔
۱۳: مطلب یہ ہے کہ دنیا کے چھوٹے چھوٹے رئیسوں اور سرداروں کے بارے مںت تو تم یہ سمجھتے ہو کہ ان کے وقار کے خلاف کوئی حرکت کرنا خطرناک ہے، مگر خداوندِ عالم کے متعلق تم یہ توقع نہں رکھتے کہ وہ کبھی کوئی با وقار ہستی ہو گا۔ اُس کے خلاف تم بغاوت کرتے ہو، اُس کی خدائی مںو دوسروں کو شریک ٹھیرا تے ہو، اُس کے احکام کی نا فرمانیاں کرتے ہو، اور اس سے تمہںی یہ اندیشہ لاحق نہںی ہوتا کہ وہ اس کی سزا دے گا۔
۱۴: یعنی تخلیق کے مختلف مدارج اور اطوار سے گزارتا ہوا تمہںہ موجودہ حالت پر لایا ہے۔ پہلے تم ماں اور باپ کی صُلب مںی الگ الگ نطفوں کی شکل مںر تھے۔ پھر خدا کی قدرت ہی سے یہ دونوں نطفے ملے اور تمہارا استقرار حمل ہوا۔ پھر نو مہےنں تک ماں کے پیٹ مںر بتدریج نشو و نما دے کر تمہںہ پوری انسانی شکل دی گئی اور تمہارے اندر تمام وہ قوتںر پیدا کی گئںر جو دنیا مں انسان کی حیثیت سے کام کرنے کے لے تمہںی درکار تھں ۔ پھر ایک زندہ بچے کی صورت مںر تم بطن مادر سے باہر آئے اور ہر آن تمہںا ایک حالت سے دوسری حالت تک ترقی دی جاتی رہی، یہاں تک کہ تم جوانی اور کہولت کی عمر کو پہنچے۔ اِن تمام منازل سے گزرتے ہوئے تم ہر وقت پُوری طرح خد ا کے بس مںم تھے۔ وہ چاہتا تو تمہارا استقرارِحمل ہی نہ ہونے دیتا اور تمہاری جگہ کسی اور شخص کا استقرار ہوتا۔ وہ چاہتا تو ماں کے پیٹ ہی مںق تمہںن اندھا، بہرا، گونگا، یا اپاہج بنا دیتا یا تمہاری عقل مںد کوئی فتور رکھ دیتا۔ وہ چاہتا تو تم زندہ بچے کی صورت مںم پیدا ہی نہ ہوتے۔ پیدا ہونے کے بعد بھی وہ تمہں ہر وقت ہلاک کر سکتا تھا، اور اس کے ایک اشارے پر کسی وقت بھی تم کسی حادثے کے شکار ہو سکتے تھے۔ جس خدا کے بس مں تم اِس طرح بے بس ہو اُس کے متعلق تم نے یہ کےس سمجھ رکھا ہے کہ اس کی شان مںا ہر گستاخی کی جا سکتی ہے، اس کے ساتھ ہر طرح کی نمک حرامی اور احسان فراموشی کی جا سکتی ہے، اس کے خلاف ہر قسم کی بغاوت کی جا سکتی ہے اور اِن حرکتوں کا کوئی خمیازہ تمہںن بھگتنا نہںح پڑے گا۔
۱۵: یہاں زمین کے مادّوں سے انسان کی پیدائش کو نباتات کے اُگنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح کسی وقت اِس کُرے پر نباتات موجود نہ تھں اور پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں اُن کو اُگایا، اُسی طرح ایک وقت تھا جب روئے زمین پر انسان کا کوئی وجود نہ تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کی پَود لگائی۔

ترجمہ

نُوحؑ نے کہا’’ میرے ربّ، اُنہوں نے میری بات ردّ کر دی اور اُن (رئیسوں ) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پا کر اور زیادہ نامُراد ہو گےھ ہںر۔ اِن لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے۔ ۱۶ اِنہوں نے کہا ہر گز نہ چھوڑو اپنے معبُودوں کو، اور نہ چھوڑو وَدّ اور سُواع کو، اور نہ یَغُوث اور یَعُوق اور نَسر کو۔ ۱۷ انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اور تُو بھی اِن ظالموں کو گمراہی کے سوا کسی چیز مںھ ترقی نہ دے۔ ‘‘ ۱۸
اپنی خطاؤں کی بنا پر ہی وہ غرق کے گئے اور آگ مںر جھونک دیے گئے، ۱۹ پھر انہوں نے اپنے لے اللہ سے بچانے والا کوئی مددگار نہ پایا۔۲۰ اور نُوحؑ نے کہا ’’میرے ربّ، اِن کافروں مںے سے کوئی زمین پر بسنے والا نہ چھوڑ۔ اگر تُو نے اِن کو چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور اِن کی نسل سے جو بھی پیدا ہو گا بدکار اور سخت کافر ہو ہو گا۔ میرے ربّ، مجھے اور میرے والدین کو اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر مںر مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے، اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرما دے، اور ظالموں کے لےف ہلاکت کے سوا کسی چیز مںر اضافہ نہ کر۔ ؏۲

تفسیر

۱۶: مکر سے مراد اُن سرداروں اور پیشواؤں کے وہ فریب ہںک جن سے وہ اپنی قوم کے عوام کو حضرت نوحؑ کی تعلیمات کے خلا ف بہکانے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً وہ کہتے تھے کہ نوحؑ تمہی جیسا ایک آدمی ہے، کےست مان لیا جائے کہ اس پر خدا کی طرف سے وحی آئی ہے (الاعراف ۶۳۔ ہود ۲۷)۔ نوحؑ کی پیروی تو ہمارے اَراذِل نے بے سوچے سمجھے قبول کر لی ہے، اگر اس کی بات مںے کوئی وزن ہوتا تو قوم کے اکابر اس پر ایمان لاتے (ہود۲۷)۔ خدا کو اگر بھیجنا ہوتا تو کوئی فرشتہ بھیجتا (المومنون۲۴)۔ اِس شخص پر کسی جِن کا سایہ ہے جس نے اِسے دیوانہ بنا دیا ہے ( المومنون ۲۵)۔ قریب قریب یہی باتںم تھںِ جن سے قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خلاف لوگوں کو بہکا یا کرتے تھے۔
۱۷: قومِ نوح کے معبودوں مںی سے یہاں اُن معبودوں کے نام لےا گئے ہںی جنہںہ بعد مںل اہلِ عرب نے بھی پُوجنا شروع کر دیا تھا اور آغازِ اسلام کے وقت عرب مںو جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے۔ بعید نہںی کہ طوفان مںو جو لوگ بچ گئے تھے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قومِ نوح کے قدیم معبودوں کا ذکر سُنا ہو گا اور جب ازسرِ نو اُن کی اولاد مںچ جاہلیّت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بُت بنا کر انہوں نے پھر اُنہںر پُوجنا شروع کر دیا ہو گا۔ وَدّ قبیلہ قُضاعہ کی شاخ بنی کَلب بن دَبرَہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دُومَةُ الجَندَل مںح بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات مںی اس کا نام دَوَّم اَبَم (ودباپو) لکھا ہو ا ملتا ہے۔ کَلبِی کا بیا ن ہے کہ اس کا بُت ایک نہایت عظیم الجثّہ مرد کی شکل مںب بنا ہو اتھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں وُدّ تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ مںم ایک شخص کا نام عبدِ وُدّ ملتا ہے۔ سُواع قبیلۂ ہُذ َیل کی دیوی تھی اور اس کا بُت عورت کی شکل مںج بنایا گیا تھا۔ یَنبوع کے قریب رُہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔ یَغُوث قبیلۂ طَے کی شاخ اَنعُم اور قبیلۂ مَذ جِح کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ مذجح والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جُرَش کے مقام پر اس کا بُت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں میں بھی بعض کا نام عبدِ یَغُوث ملتا ہے۔ یَعُوق یمن کے علاقہ ہَمدان مںم قبیلۂ ہَمدان کی شاخ خَیوان کا معبود تھا اور اس کا بُت گھوڑے کی شکل کا تھا۔ نَسر جمیَر کے علاقے مںن قبیلۂ حمیر کی شاخ آلِ ذوالکُلاع کا معبود تھا اور بَلخع کے مقام پر اس کا بُت نصب تھا جس کی شکل گِدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں مںن اس کا نام نَسور لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس کے مندر کو وہ لوگ بَیتِ نَسور، اور اس کے پُجاریوں کو اہلِ نَسور کہتے تھے۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں مںل پائے جاتے ہںن ان مں سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گِدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔
۱۸: قومِ نوح کے معبودوں مںر سے یہاں اُن معبودوں کے نام لےب گئے ہںۂ جنہںق بعد مںر اہلِ عرب نے بھی پُوجنا شروع کر دیا تھا اور آغازِ اسلام کے وقت عرب مں جگہ جگہ اُن کے مندر بنے ہوئے تھے۔ بعید نہںو کہ طوفان مںو جو لوگ بچ گئے تےے ان کی زبان سے بعد کی نسلوں نے قومِ نوح کے قدیم معبودوں کا ذکر سُنا ہو گا اور جب ازسرِ نو اُن کی اولاد مںچ جاہلیّت پھیلی ہو گی تو انہی معبودوں کے بُت بنا کر انہوں نے پھر اُنہںا پُوجنا شروع کر دیا ہو گا۔ وَدّ قبیلہ قُضاعہ کی شاخ بنی کَلب بن دَبرَہ کا معبود تھا جس کا استھان انہوں نے دُومَةُ الجَندَل مں بنا رکھا تھا۔ عرب کے قدیم کتبات مںی اس کا نام دَوَّم اَبَم (ودباپو) لکھا ہو ا ملتا ہے۔ کَلبِی کا بیا ن ہے کہ اس کا بُت ایک نہایت عظیم الجثّہ مرد کی شکل مںب بنا ہو اتھا۔ قریش کے لوگ بھی اس کو معبود مانتے تھے اور اس کا نام ان کے ہاں وُدّ تھا۔ اسی کے نام پر تاریخ مںم ایک شخص کا نام عبدِ وُدّ ملتا ہے۔ سُواع قبیلۂ ہُذ َیل کی دیوی تھی اور اس کا بُت عورت کی شکل مںو بنایا گیا تھا۔ یَنبوع کے قریب رُہاط کے مقام پر اس کا مندر واقع تھا۔ یَغُوث قبیلۂ طَے کی شاخ اَنعُم اور قبیلۂ مَذ جِح کی بعض شاخوں کا معبود تھا۔ مذجح والوں نے یمن اور حجاز کے درمیان جُرَش کے مقام پر اس کا بُت نصب کر رکھا تھا جس کی شکل شیر کی تھی۔ قریش کے لوگوں مںے بھی بعض کا نام عبدِ یَغُوث ملتا ہے۔ یَعُوق یمن کے علاقہ ہَمدان مں قبیلۂ ہَمدان کی شاخ خَودان کا معبود تھا اور اس کا بُت گھوڑے کی شکل کا تھا۔ نَسر جمیَر کے علاقے مںب قبیلۂ حمیر کی شاخ آلِ ذوالکُلاع کا معبود تھا اور بَلخع کے مقام پر اس کا بُت نصب تھا جس کی شکل گِدھ کی تھی۔ سبا کے قدیم کتبوں مںخ اس کا نام نَسور لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس کے مندر کو وہ لوگ بَیتِ نَسور، اور اس کے پُجاریوں کو اہلِ نَسور کہتے تھے۔ قدیم مندروں کے جو آثار عرب اور اس کے متصل علاقوں مںم پائے جاتے ہںت ان مںل سے بہت سے مندروں کے دروازوں پر گِدھ کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ ۱: یعنی ان کو اس بات سے آگاہ کر دے کہ جن گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں مںہ وہ مبتلا ہں وہ اُن کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا دیں گی اگر وہ اُن سے باز نہ آئے، اور اُن کو بتا دے کہ اُس عذاب سے بچنے کے لےل انہں کون سا راستہ اختیار کرنا چاہے ۔
۲۰: یعنی اپنے جن معبودوں کو وہ اپنا حامی و مددگار سمجھتے تھے ان مںن سے کوئی بھی انہںا بچانے کے لے نہ آیا۔ یہ گویا تنبیہ تھی اہلِ مکہ کے لےی کہ تم بھی اگر خدا کے عذاب مںم مبتلا ہو گے تو تمہارے یہ معبود، جن پر تم بھروسا کےس بےٹھ ہو، تمہارے کسی کام نہ آئںن گے۔
٭٭٭

(۷۲) سورة الجن

نام

’’الجن‘‘اس سورہ کا نام بھی ہے اور اس کے مضامین کا عنوان بھی، کیونکہ اس مںس جِنوں کے قرآن سُن کر جانے اور اپنی قوم مںر اسلام کی تبلیغ کرنے کا واقعہ تفصیل کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

بخاری اور مسلم مںے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے چند اصحاب کے ساتھ بازارِ عُکاظ تشریف لے جا رہے تھے، راستے مں نَخلہ کے مقام پر آپ ؐ نے صبح کی نماز پڑھائی، اُس وقت جِنوں کا یک گروہ اُدھر سے گزر رہا تھا، تلاوت کی آواز سُن کر وہ ٹھیر گیا اور غور سے قرآن سنتا رہا۔ اِسی واقعہ کا ذکر اس سورہ مںو کیا گیا ہے۔
اکثر مفسرین نے اس روایت کی بنا پر یہ سمجھا ہے کہ یہ حضور ؐ کے مشہور سفر طائف کا واقعہ ہے جو ہجرت سے تین سال پہلے سن ۱۰ نبوی مںع پیش آیا تھا۔ لیکن یہ قیاس متعدد وجوہ سے صحیح نہں ہے۔ طائف کے اُس سفر مںخ جِنوں کے قرآن سننے کا جو واقعہ پیش آیا تھا اُس کا قصّہ سورہ اَحقاف آیات ۲۹۔۳۲ مںا بیان کیا گیا ہے۔ اُن آیات پر ایک نگاہ ڈالنے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اُس موقع پر جو جن قرآن مجید سُن کر ایمان لائے تھے وہ پہلے سے حضرت موسیٰ اور سابق کتبِ آسمانی پر ایمان رکھتے تھے۔ اس کے برعکس اِس سورہ کی آیات۲۔۷ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اِس موقع پر قرآن سننے والے جِن مشرکین اور منکرین آخرت و رسالت مںک سے تھے۔ پھر یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ طائف کے اُس سفر کے متعلق ابنِ عباس فرما رہے ہں کہ اِس مںہ چند صحابہ آپ کے ساتھ تھے۔ مزید برآں روایات اِس بات پر بھی متفق ہں کہ اُس سفر مںں جِنوں نے قرآن اُس وقت سنا تھا جب حضور ؐ طائف سے مکہ واپس تشریف لاتے ہوئے نخلہ مںق ٹھیرے تھے۔ اور اِس سفر مںا ابنِ عباس کی روایت کہ مطابق جِنوں کے قرآن سننے کا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب آپ مکہ سے عُکاظ تشریف لے جا رہے تھے۔ اِن وجوہ سے صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورہ اَحقاف اور سورہ جن مںا ایک ہی واقعہ کا ذکر نہںے کیا گیا ہے بلکہ یہ دو الگ واقعات تھے جو دو مختلف سفروں مںُ پیش آئے تھے۔
جہاں تک سورہ اَحقاف کا تعلق ہے، اُس مںے جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے مںک روایات متفق ہںا کہ وہ سن ۱۰ نبوی کے سفر طائف مںم پیش آیا تھا۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ دوسرا واقعہ کس زمانے مںو پیش آیا، اس کا کوئی جواب ہمں۱ ابن عباس ؓ کی روایت سے نہںک ملتا، نہ کسی اور تاریخی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ عُکاظ کے بازار مںس کب تشریف لے گئے تھے۔ البتہ اس سورہ کی آیات ۸۔۱۰ پر غور کرنے سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نبوت کے ابتدائی دور کا واقعہ ہی ہو سکتا ہے۔ اِن آیات مںل بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بِعثت سے پہلے جن عالمِ بالا کی خبریں معلوم کرنے کے لےل آسمان مںی سُن گُن لےنک کا کوئی نہ کوئی موقع پا لےتت تھے، مگر اس کے بعد یکا یک انہوں نے دیکھا کہ ہر طرف فرشتوں کے سخت پہلے لگ گئے ہںں اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے جس کی وجہ سے کہںن اُن کو ایسی جگہ نہںی ملتی جہاں ٹھیر کر وہ کوئی بھِنَک پا سکں ۔ اِ سے اُن کو یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ زمین مںہ ایسا کیا واقعہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کے لے یہ سخت انتظامات کے گئے ہںی۔ غالباً اُسی وقت سے جنوں کے بہت سے گروہ اِس تلاش مںی پھرتے رہے ہوں گے اور اُن مں سے ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبانِ مبارک سے قرآن سُن کر یہ رائے قائم کی ہو گی کہ یہی وہ چیز ہے جس کی خاطر جنوں پر عالمِ بالا کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہںل۔

جن کی حقیقت

اس سورے کا مطالعہ شروع کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ جِنوں کی حقیقت کیا ہے تا کہ ذہن کسی اُلجھن کے شکارہ نہ ہوں۔ موجودہ زمانے کے بہت سے لوگ اِس غلط فہمی مںر مبتلا ہںی کہ جِن کسی حقیقی چیز کا نام نہںج ہے بلکہ یہ بھی پُرانے زمانے کے اَوہام و خُرافات مںا سے ایک بے بنیاد خیا ل ہے۔ یہ رائے اُنہوں نے کچھ اِ س بنا پر قائم نہں کی ہے کہ کائنات کی ساری حقیقتوں کو وہ جان چکے ہںہ اور اُنہںن یہ معلوم ہو گیا ہے کہ جِن کہںک موجود نہںق ہںو۔ ایسے علم کا دعویٰ وہ خود بھی نہں کر سکتے۔ مگر اُنہوں نے بلا دلیل یہ فرض کر لیا ہے کہ کائنات مںج بس وہی کچھ موجود ہے جو اُن کو محسوس ہوتا ہے۔ حالانکہ انسان کے محسوسات کا دائرہ اِس عظیم کائنات کی وسعت کے مقابلہ مںں وہ نسبت بھی نہں رکھتا جو سمندر کے مقابلے مںر قطرے کی نسبت ہے۔ یہاں جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ محسوس نہںن ہے وہ موجود نہںا ہے، اور جو موجود ہے اسے لازماً محسوس ہونا چاہے ، وہ دراصل خود اپنے ذہن کی تنگی کا ثبوت دیتا ہے۔ یہ طرزِ فکر اختیار کر لیا جائے تو ایک جِن ہی کیا، انسان کسی ایسی حقیقت کو بھی نہںا مان سکتا جو براہِ راست اُس کے تجربے اور مشاہدے میں نہ آتی ہو اور اُس کے لےن خدا تک کا وجود قابلِ تسلیم نہں ہے کجا کہ وہ کسی اور غیر محسوس حقیقت کا تسلیم کرے۔
مسلمانوں مںک سے جو لوگ اِس طرز فکر سے متاثر ہں ، مگر قرآن کا انکار بھی نہںی کر سکتے انہوں نے جِن اور ابلیس اور شیطان کے متعلق قرآن کے صاف صاف بیانات کو طرح طرح کی تاویلات کا تختہ مشق بنا یا ہے۔ وہ کہتے ہںہ کہ اِس سے مراد کوئی ایسی پوشیدہ مخلوق نہںو ہے جو اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہو، بلکہ کہںں تو اس سے مراد انسان کی اپنی بہیمی قوتںی ہںہ جنہںی شیطان کہا گیا ہے، اور کہںی اس سے مراد وحشی اور جنگلی اور پہاڑی قومںا ہںع، اور کہںی اس سے مراد وہ لوگ ہںش جو چھُپ چھُپ کر قرآن سنا کرتے تھے۔ لیکن قرآن مجید کے ارشادات اس معاملہ مںں اس قدر صاف اور صریح ہںش کہ اِن تاویلات کے لےس اُن کے اندر کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہںم ہے۔
قرآن مںن ایک جگہ نہںی ، بکثرت مقامات پر جن اور انسان کا ذکر اس حیثیت سے کیا گیا ہے کہ یہ دو الگ قسم کی مخلوقات ہںا۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورہ اعراف، آیت ۳۷۔ہود، ۱۱۹۔حٰم السجدہ، آیات۲۵، ۲۹۔ الاحقاف، ۱۸۔الذّاریات، ۵۶۔الناس، ۶۔ اور سورہ رحمان تو پوری کی پوری اس پر ایسی صریح شہادت دیتی ہے کہ جنوں کو انسانوں کی کوئی قسم سمجھنے کی کوئی گنجائش ہی نہںر چھوڑتی۔
سورہ اعراف، آیت۱۲۔سورہ حجر، آیات۲۶۔۲۷، اور سورہ رحمان، آیات۱۴۔۱۵ مںی صاف صاف بتایا گیا ہے کہ انسان کا مادہ تخلیق مٹی ہے اور جِنوں کا مادہ تخلیق آگ۔
سورہ حِجر آیت۲۷ مںہ صراحت کی گئی ہے کہ جن انسان سے پہلے پیدا کےو گئے تھے۔ اسی بات پر قصہ آدم و ابلیس شہادت دیتا ہے جو قرآن مںہ سات مقامات پر بیان ہوا ہے اور ہر جگہ اُس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے وقت ابلیس موجود تھا۔ نیز سورہ کہف آیت۵۰ مںا بتایا گیا ہے کہ ابلیس جِنوں مںت سے ہے۔
سورہ اعراف آیت ۲۷ مںو بالفاظِ صریح یہ کہا گیا ہے کہ جن انسانوں کو دیکھتے ہںن مگر انسان اُن کو نہںس دیکھتے۔
سورہ حِجر آیات۱۶۔۱۸، سورہ صافّات، آیات۶۔۱۰، اور سورہ ملک آیت ۵ مںو بتا یا گیا ہے کہ جِن اگرچہ عالمِ بالا کی طرف پرواز کر سکتے ہںت ، مگر ایک حدسے آگے نہں جا سکتے۔ اُس سے اوپر جانے کی کوشش کریں اور ملاء اعلیٰ کی باتںپ سننا چاہں۸ تو انہں روک دیا جاتا ہے۔ چوری چھُپے سُن گُن لںپ تو شہاب ثاقب ان کو مار بھگاتے ہںر۔ اِس سے مشرکین عرب کے اِس خیال کی تردید کی گئی ہے کہ جِن غیب کا علم رکھتے ہںن یا خدائی کے اَسرار تک انہںا کوئی رسائی حاصل ہے۔ اِسی غلط خیال کی تردید سورہ سبا آیت ۱۴ مںے بھی کی گئی ہے۔
سورہ بقرہ، آیات۳۰۔۳۴ اور سورہ کہف آیت۵۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی خلافت اللہ تعالیٰ نے انسان کو دی ہے اور انسان جِنون سے افضل مخلوق ہںا۔ اگرچہ بعض غیر معمولی طاقتںن جنوں کو بھی بخشی گئی ہںس جن کی ایک مثال ہمں سورہ نمل آیت ۷ مںل ملتی ہے، لیکن اسی طرح بعض طاقتںو حیوانات کو بھی انسان سے زیادہ ملی ہںر، اور وہ اس بات کی کوئی دلیل نہںا ہںب کہ جانوروں کو انسان پر فضیلت حاصل ہے۔
قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ جِن انسان کی طرح ایک با اختیار مخلوق ہے اور اُس کو طاعت و معصیت اور کفر و ایمان کا ویسا ہی اختیار دیا گیا ہے جیسا انسان کو دیا گیا ہے۔ اِس پر ابلیس کا قصہ اور سورہ اَحقاف اور سورہ جن مںی بعض جِنوں کے ایمان لانے کا واقعہ صریح دلالت کرتا ہے۔
قرآن مںک بیسیوں مقامات پر یہ حقیقت بھی بیان کی گئی ہے کہ ابلیس نے تخلیق آدم کے وقت ہی یہ عزم کر لیا تھا کہ وہ نوع انسانی کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور اُسی وقت سے شیاطینِ جِن انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہں ، مگر وہ اپس پر مُسلّط ہو کر زبردستی اُس سے کوئی کام کر ا لےنی کی طاقت نہں رکھتے، بلکہ وہ اُس کے دل مںں وَسوَسے ڈالتے ہںّ، اُس کو بہکاتے ہںئ اور بدی و گمراہی کو اس کے سامنے خوشنما بنا کر پیش کرتے ہں ۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل آیات ملاحظہ ہوں :ں النساء، ۱۱۷تا ۱۲۰۔الاعراف، ا اتا۱۷۔ابراہیم، ۲۲۔الحجر۳۰تا۴۲۔النحل، ۹۸تا۱۰۰۔بنی اسرائیل، ۶۱تا۶۵۔
قرآن مںن یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشرکینِ عرب زمانہ جاہلیت مںن جِنوں کو خدا کا شریک ٹھیراتے تھے، اُن کی عبادت کرتے تھے، اور اُن کا نسب خدا سے ملاتے تھے۔ ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۱۰۰۔سبا، آیات۴تا۴۱۔ الصّٰفّٰت، ۱۵۸۔
اِن تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ جِن اپنا ایک مستقل خارجی وجود رکھتے ہںن اور وہ انسان سے الگ ایک دوسری ہی نوع کی پوشیدہ مخلوق ہںہ۔ اُن کی پُر اسرار صفات کی وجہ سے جاہل لوگوں نے ان کی ہستی اور ان کی طاقتوں کے متعلق بڑے مبالغہ آمیز تصورات قائم کر رکھے ہںع، حتیٰ کہ ان کی پرستش تک کر ڈالی گئی ہے، مگر قرآن نے ان کی اصل حقیقت پوری طرح کھول کر بیان کر دی ہے جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کیا ہںٰ اور کیا نہںن ہںک۔

موضوع اور مباحث

اس سورہ مںح پہلی آیت سے لے کر آیت ۱۵ تک یہ بتایا گیا ہے کہ جِنوں کے ایک گروہ نے قرآن سُن کر اُس کا کیا اثر لیا اور پھر واپس جا کر اپنی قوم کے دوسرے جِنوں سے کیا کیا باتں کہںن۔ اِس سلسلے مںت اللہ تعالیٰ نے اُن کی ساری گفتگو نقل نہںا کی ہے، بلکہ صرف وہ خاص خاص باتں نقل فرمائی ہںا جو قابلِ ذکر تھںہ۔ اسی لےٰ طرزِ بیان ایک مسلسل گفتگو کا سا نہںت ہے، بلکہ اُن کے مختلف فقروں کو اِس طرح نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے یہ کہا اور یہ کہا۔جِنوں کی زبان سے نکلے ہوئے اِن فقروں کو اگر آدمی بغور پڑھے تو بآسانی یہ بات سمجھ مںف آ جاتی ہے کہ اُن کے ایمان لانے کے اِس واقعے اور اپنی قوم کے ساتھ اُن کی اِس گفتگو کا ذکر قرآن مںے کس غرض کے لے کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے حواشی مں ان کے اقوال کی جو تشریحات کی ہںم وہ اس کا مقصد سمجھنے مںج مزید مددگار ہوں گی۔
اس کے بعد آیت ۱۶ سے ۱۸ تک لوگوں کو فہمائش کی گئی ہے کہ وہ شرک سے باز آ جائںت اور راہِ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ چلںآ تو ان پر نعمتوں کی بارش ہو گی ورنہ اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت سے مُنہ موڑنے کا انجام یہ ہو گا کہ وہ سخت عذاب سے دو چار ہوں گے۔ پھر آیت ۱۹ سے ۲۳ تک کفارِ مکّہ کو اس بات پر ملامت کی گئی ہے کہ جب اللہ کا رسول دعوت الی اللہ کی آواز بلند کرتا ہے تو وہ اِس پر ٹوٹ پڑنے کے لےک تیار ہو جاتے ہںک، حالانکہ رسول کا کام صرف اللہ کے پیغامات پہنچا دینا ہے۔ پھرآیات۲۴۔۲۵ مںس کفار کو متنبہ کیا گیا ہے کہ آج وہ رسول کو بے یاومددگار دیکھ کر اسے دبا لےنز کی کوشش کر رہے ہں ، لیکن ایک وقت آئے گا جب انہں معلوم ہو جائے گا کہ اصل مںگ بے یار و مدد گار کون ہے۔ وہ وقت دور ہے یا قریب، رسول کو اس کا علم نہںق ہے، مگر بہرحال اسے آنا ضرور ہے۔ آخر مںغ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ رسول کو صرف وہ علم حاصل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اسے دینا چاہتا ہے۔ یہ علم اُن امور سے متعلق ہوتا ہے جو فرائض رسالت کی انجام دہی کے لےف ضروری ہوتے ہں ۔ اور یہ علم ایسے محفوظ طریقہ سے دیا جاتا ہے جس مںٰ کسی بیرونی مداخلت کا امکان نہںں ہوتا۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

اے نبیؐ، کہو، میری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ جِنّوں کے ایک گروہ نے غور سے سُنا ۱ پھر (جا کر اپنی قوم کے لوگوں سے)کہا:’’ ہم نے ایک بڑا ہی عجیب قرآن سُنا ہے ۲ راہِ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اِس لے ہم اُس پر ایمان لے آئے ہںو اور اب ہم ہرگز اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہںو کریں گے۔ ‘‘ ۳ اور یہ کہ’’ ہمارے ربّ کی شان بہت اعلیٰ و ارفع ہے، اُس نے کسی کو بیوی یا بیٹا نہںج بنایا ہے۔ ‘‘ ۴
اور یہ کہ’’ ہمارے نادان لوگ ۵ اللہ کے بارے مںی بہت خلافِ حق باتںا کہتے رہے ہںے۔ ‘‘اور یہ کہ ’’ہم نے سمجھا تھا کہ انسان اور جِن کبھی خدا کے بارے مں جھوٹ نہںب بول سکتے۔ ‘‘ ۶ اور یہ کہ’’انسانوں مں سے کچھ لوگ جِنوں مں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے، اِس طرح اُنہوں نے جِنّوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔‘‘ ۷ اور یہ کہ’’انسانوں نے بھی وہی گمان کیا جیسا تمھارا گمان تھا کہ اللہ کسی کو رسُول بنا کر نہ بھےج گا۔‘‘ ۸
اور یہ کہ ’’ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پَٹا پڑا ہے اور شہابوں کی بارش ہو رہی ہے۔ ‘‘ اور یہ کہ ’’پہلے ہم سُن گُن لےنہ کے لے آسمان مں بےٹھن کی جگہ پا لےتا تھے، مگر اب جو چوری چھُپے سُننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لےل گھات مںگ ایک شہابِ ثاقب لگا ہوا پاتا ہے۔ ‘‘ ۹
اور یہ کہ ’’ہماری سمجھ مںگ نہ آتا تھا کہ آیا زمین والوں کے ساتھ کوئی بُرا معاملہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے یا اُن کا ربّ اُنہں راہِ راست دکھانا چاہتا ہے۔ ‘‘ ۱۰ اور یہ کہ ’’ہم مں سے کچھ لوگ صالح ہں اور کچھ اس سے فرو تر ہںّ، ہم مختلف طریقوں مں بٹے ہوئے ہںث۔ ‘‘ ۱۱ اور یہ کہ ’’ہم سمجھتے تھے کہ نہ زمین مںا ہم اللہ کو عاجز کر سکتے ہں اور نہ بھاگ کر اُسے ہرا سکتے ہںر۔ ‘‘ ۱۲ اور یہ کہ ’’ہم نے جب ہدایت کی تعلیم سُنی تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اب جو کوئی بھی اپنے ربّ پر ایمان لے آئے گا اسے کسی حق تلفی یا ظلم کا خوف نہ ہو گا۔‘‘ ۱۳
اور یہ کہ ’’ہم مںر سے کچھ مسلم(اللہ کے اطاعت گزار)ہں اور کچھ حق سے منحرف۔ تو جنہوں نے اسلام (اطاعت کا راستہ)اختیار کر لیا انہوں نے نجات کی راہ ڈھونڈ لی، اور جو حق سے منحرف ہںف وہ جہنّم کا ایندھن بننے والے ہں ۔ ‘‘ ۱۴
۱۵ اور (اے نبیؐ ) کہو، مجھ پر یہ وحی بھی کی گئی ہے کہ) لوگ اگر راہِ راست پر ثابت قدمی سے چلتے تو ہم اُنہں خوب سیراب کرتے، ۱۶ تاکہ اس نعمت سے ان کی آزمائش کریں۔ ۱۷ اور جو اپنے ربّ کے ذکر سے منہ موڑے گا ۱۸ اس کا ربّ اسے سخت عذاب مںم مبتلا کر دے گا۔ اور یہ کہ مسجدیں اللہ کے لےی ہںج، لہٰذا اُن مں۱ اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔ ۱۹ اور یہ کہ جب اللہ بندہ ۲۰ اُس کو پکارنے کے لےر کھڑا ہوا تو لوگ اُس پر ٹُوٹ پڑنے کے لےٰ تیار ہو گےو۔ ؏۱

تفسیر

۱: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جِن اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نظر نہںے آرہے تھے اور آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ قرآن سن رہے ہں ، بلکہ بعد مں وحی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کواس واقعہ کی خبر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس بھی اِس قصّے کو بیان کرتے ہوئے صراحت فرماتے ہں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جِنوں کے سامنے قرآن نہں پڑھا تھا، نہ آپ نے ان کو دیکھا تھا ‘‘(مسلم۔ ترمذی۔ مُسند احمد۔ ابنِ جریر)۔
۲: اصل الفاظ مں قُرُاٰناً عَجَبًا۔ قرآن کے معنی ہںئ۔ ’’پڑھی جانے والی چیز‘‘ اور یہ لفظ غالباً جِنوں نے اِسی معنی مںہ ا ستعمال کیا ہو گا کیونکہ وہ پہلی مرتبہ اس کلام سے متعارف ہوئے تھے اور شاید اُس وقت اُن کو یہ معلوم نہ ہو گا کہ جو چیز وہ سُن رہے ہںن اس کا نام قرآن ہی ہے۔ عَجَب مبالغہ کا صیغہ ہے اور یہ لفظ عربی زبان مں بہت زیادہ حیرت انگیز چیز کے لے ل بولا جاتا ہے۔ پس جِنوں کے قول کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ایسا کلام سُن کر آئے ہںت جو اپنی زبان اور اپنے مضامین کے اعتبار سے بے نظیر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جِن نہ صرف یہ کہ انسانوں کی باتں سنتے ہںن بلکہ ان کی زبان بخوبی سمجھتے بھی ہںل۔ اگر چہ یہ ضروری نہں ہے کہ تمام جِن تمام انسانی زبانںم جانتے ہوں۔ ممکن ہے کہ اُن مںا سے جو گروہ زمین کے جس علاقے مں رہتے ہوں اُسی علاقے کے لوگوں کی زبان سے وہ واقف ہوں۔ لیکن قرآن کے اِس بیان سے بہر حال یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جِن جنہوں نے اُس وقت قرآن سنا تھا وہ عربی زبان اتنی اچھی جانتے تھے کہ انہوں نے اِس کلام کی بے مثل بلاغت کو بھی محسوس کیا اور اُس کے بلند پا یہ مضامین کو بھی خوب سمجھ لیا۔
۳: اس سے کئی باتںک معلوم ہوئںب۔ ایک یہ کہ جن اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کے رب ہونے کے منکر نہںے ہںآ۔ دوسرے یہ کہ ان مںک بھی مشرکین پائے جاتے ہں جو مشرک انسانوں کی طرح اللہ کے ساتھ دوسروں کو خدائی مںا شریک ٹھیراتے ہںہ ، چنانچہ جِنوں کی یہ قوم جس کے افراد قرآن سُن کر گئے تھے مُشرک ہی تھی۔تیسرے یہ کہ نبوت اور کتبِ آسمانی کے نزول کا سلسلہ جِنوں کے ہاں جاری نہںا ہوا ہے، بلکہ ان میں سے جو جِن بھی ایمان لاتے ہںت وہ انسانوں مںو آنے والے انبیاء اور ان کی لائی ہوئی کتابوں پر ہی ایمان لاتے ہںس۔ یہی بات سورہ احقاف آیات۲۹۔۳۱ سے بھی معلوم ہوتی ہے جن مںن بتایا گیا ہے کہ وہ جِن جنہوں نے اُس وقت قرآن سُنا تھا، حضرت موسیٰ کے پیرووں مںہ سے تھے اور انہوں نے قرآن سُننے کے بعد اپنی قوم کو دعوت دی تھی کہ اب جو کلام خدا کی طرف سے پچھلی کتبِ آسمانی کی تصدیق کرتا ہوا آیا ہے اُس پر ایمان لاؤ۔ سورہ رحمان بھی اِسی بات پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ اس کا پُورا مضمون ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علہس و سلم کی دعوت کے مخاطب انسان اور جِن دونوں ہںھ۔
۴: اِس سے دو باتں معلوم ہوئںا۔ ایک یہ کہ یہ جِن یا تو عیسائی جِنوں مںر سے تھے، یا ان کا کوئی اور مذہب تھا جس مں اللہ تعالیٰ کو بیوی بچوں والا سمجھا جاتا تھا۔ دوسرے یہ کہ اُس وقت رسول اللہ علیہ و سلم نماز مںر قرآن پاک کا کوئی ایسا حصّہ پڑھ رہے تھے جسے سُن کر ان کو اپنے عقیدے کی غلطی معلوم ہو گیع اور انہوں نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ کی بلند و برتر ذات کی طرف بیوی بچوں کو منسوب کرنا سخت جہالت اور گستاخی ہے۔
۵: اصل مںس لفظ سَفِیْھُنَا استعمال کیا گیا ہے جو ک فرد کے لے بھی بولا جا سکتا ہے اور ایک گروہ کے لےہ بھی۔اگر اسے ایک نادان فرد کے معنی مںا لیا جائے تو مراد ابلیس ہو گا۔ اور اگر ایک گروہ کے معنی مںو لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جِنوں مںا بہت سے احمق اور بے عقل لوگ ایسی باتں کہتے تھے۔
۶: یعنی اُن کی غلط باتوں سے ہمارے گمراہ ہونے وجہ یہ تھی کہ ہم کبھی یہ سوچ ہی نہںت سکتے تھے کہ انسان یا جن اللہ کے بارے مںف جھوٹ گھڑنے کی جرأت بھی کر سکتے ہںل، لیکن اب یہ قرآن سُن کر ہمں معلوم ہو گیا کہ فی الواقع وہ جھوٹے تھے۔
۷: ابن عباس ؓ کہتے ہںط کہ جاہلیت کے زمانے مںو جب عرب کسی سُنسان وادی مںل رات گزارتے تھے تو پُکار کر کہتے ’’ہم اِس وادی کے مالک جِن کی پناہ مانگتے ہںئ ‘‘۔ عہدِ جاہلیت کی دوسری روایات مںُ بھی بکثرت اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً اگر کسی جگہ پانی اور چارہ ختم ہو جاتا تو خانہ بدوش بدّو اپنا ایک آدمی کوئی دوسری جگہ تلاش کرنے کے لےن بھےجت جہاں پانی اور چارہ مل سکتا ہو، پھر اُس کی نشان دہی پر جب یہ لوگ نئی جگہ پہنچتے تو وہاں اُترنے سے پہلے پکار پکار کر کہتے ’’کہ ہم اس وادی کے رب کی پناہ مانگتے ہںد تا کہ یہاں ہم ہر آفت سے محفوظ رہںے ‘‘۔ ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہر غیر آباد جگہ کسی نہ کسی جن کے قبضے مںک ہے اور اس کی پناہ مانگے بغیر وہاں کوئی ٹھیر جائے تو وہ جن یا تو خود ستا تا ہے یا دوسرے جِنوں کو ستانے دیتا ہے۔ اسی بات کی طرف یہ ایمان لانے والے جِن اشارہ کر رہے ہںد۔ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جب زمین کے خلیفہ انسان نے اُلٹا ہم سے ڈرنا شروع کر دیا اور خدا کو چھوڑ کر وہ ہم سے پناہ مانگنے لگا تو ہماری قوم کے لوگوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہو گیا، ان کا کبر و غرور اور کفر و ظلم اور زیادہ بڑھ گیا، اور وہ گمراہی مںی زیادہ جری ہو گئے۔
۸: اصل الفاظ ہںی اَنْ لَّنْ یَّبْعَثَ اللہ ُ اَحَدًا۔ اِس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہںن۔ ایک وہ جو ہم نے ترجمہ مںو اختیار کےف ہںے۔ دوسرے یہ کہ ’’اللہ کسی کو مرنے کے بعد دوبارہ نہ اٹھائے گا‘‘۔ چونکہ الفاظ جامع ہںہ اس لےر ان کا یہ مطلب لیا جا سکتا ہے کہ انسانوں کی طرح جِنوں مںے بھی رسالت اور آخرت دونوں کا انکار پا یا جاتا تھا۔ لیکن آگے کے مضمون کی مناسبت سے پہلا مفہوم ہی زیادہ قابلِ تر جیح ہے، کیونکہ اس مںت یہ ایمان لانے والے جِن اپنی قوم کے لوگوں کو بتاتے ہںس کہ تمہارا یہ خیال غلط نکلا کہ اللہ کسی رسول کو مبعوث کرنے والا نہںش ہے، آسمانوں کے دروازے ہم پر اسی وجہ سے بند کےس گئے ہںَ کہ اللہ نے ایک رسول بھیج دیا ہے۔
۹: یہ ہے وہ وجہ جس کی بنا پر یہ جِن اِس تلاش مں نکلے تھے کہ آخر زمین پر ایسا کیا معاملہ پیش آیا ہے یا آنے والا ہے جس کی خبروں کو محفوظ رکھنے کے لےن اس قدر سخت انتظامات کےل گئے ہں کہ اب ہم عالمِ بالا مںا سُن گُن لےنا کا کوئی موقع نہںخ پاتے اور جدھر بھی جاتے ہں مار باہ ئے جاتے ہں ۔
۱۰: اس سے معلوم ہوا کہ عالمِ بالا مںو اِس قسم کے غیر معمولی انتظامات دو ہی حالتوں مں کےا جاتے تھے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین پر کوئی عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہو اور منشائے الٰہی یہ ہو کہ اس کے نزول سے پہلے جِن اُس کی بنَک پا کر اپنے دوست انسانوں کو خبردار نہ کر دیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے زمین مں کسی رسول کو مبعوث فرمایا ہو اور تحفظ کے اِن انتظامات سے مقصود یہ ہو کہ رسول کی طرف جو پیغامات بھےجی جا رہے ہںا اُن مںے نہ تو شیاطین کسی قسم کی خلل اندازی کر سکںس اور نہ قبل از وقت یہ معلوم کر سکںی کہ پیغمبر کو کیا ہدایات دی جا رہی ہں ۔ پس جِنوں کے اِس قول کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے اسمان مںم یہ چوکی پہرے دیکھے اور شہابوں کی اِس بارش کا مشاہدہ کیا تو ہمںی یہ معلوم کرنے کی فکر لاحق ہوئی کہ ان دونوں صورتوں مںی سے کون سی صورت در پیش ہے۔ آیا اللہ تعالیٰ نے زمین مںہ کسی قوم پر یکایک عذاب نازل کر دیا ہے ؟ یا کہںا کوئی رسول مبعوث ہوا ہے ؟ اسی تلاش مںج ہم نکلے تھے کہ ہم نے وہ حیرت انگیز کلام سنا جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور ہمںل معلوم ہو گیا کہ اللہ نے عذاب نازل نہںت کیا ہے بلکہ خلق کو راہِ راست دکھانے کے لےہ ایک رسول مبعوث فرما دیا ہے (مزید تشریح کے لےٰ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الحجر، حواشی۸تا ۱۲۔جلد چہارم، الصّافّات، حاشیہ۷، جلد ششم، المُلک، حاشیہ۱۱)۔
۱۱: یعنی اخلاقی حیثیت سے بھی ہم مں اچھے اور بُرے دونوں طرح کے جِن پائے جاتے ہںا ، اور اعتقادات مں بھی ہمارا کوئی ایک مذہب نہں ہے بلکہ ہم مختلف گروہوں مںح منقسم ہں۸۔ یہ بات کہہ کر یہ ایمان لانے والے جِن اپنی قوم کے جِنوں کو یہ سمجھا نا چاہتے ہںت کہ ہم راہِ راست معلوم کرنے کے یقیناً محتاج ہںے۔ اِس سے ہم بے نیاز نہں ہو سکتے۔
۱۲: مطلب یہ ہے کہ ہمارے اِسی خیال نے ہمںِ نجات کی راہ دکھا دی۔ ہم چونکہ اللہ سے بے خوف نہ تھے اور ہمں یقین تھا کہ اگر ہم نے اس کی نافرمانی کی تو اس کی گرفت سے کسی طرح بچ نہ سکںہ گے، اس لےے جب وہ کلام ہم نے سُناجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے راہِ راست بتانے آیا تھا تو ہم یہ جر أ ت نہ کر سکے کہ حق معلوم ہو جانے کے بعد بھی اُنہی عقائد پر جمے رہتے جو ہمارے نادان لوگوں نے ہم مںس پھیلا رکھے تھے۔
۱۳: حق تلفی سے مراد یہ ہے کہ اپنی نیکی پر وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اُس سے کم دیا جائے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسے نیکی کا کوئی اجر نہ دیا جائے اور جو قصور اس سے سر زد ہوں ان کی زیادہ سزا دے ڈالی جائے۔ یا بلا قصور ہی کسی کو عذاب دے دیا جائے۔ کسی ایمان لانے والے کے لےج اللہ تعالیٰ کے ہاں اِس قسم کی کسی بے انصافی کا خوف نہںن ہے۔
۱۴: سوال کیا جا سکتا ہے کہ قرآن کی رُو سے جن تو خود آتشںی مخلوق ہںز ، پھر جہنم کی آگ سے ان کو کیا تکلیف ہو سکتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کی رُو سے تو آدمی بھی مٹی سے بنا ہے، پھر اگر اسے مٹی کا ڈھیلا کھینچ مارا جائے تو اس کو چوٹ کیوں لگتی ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا پُورا جسم اگرچہ زمین کے مادوں سے بنا ہے، مگر جب اُن سے گوشت پوست کا زندہ انسان وجود مںی آ جاتا ہے تو وہ ان مادوں سے بالکل مختلف چیز بن جاتا ہے اور انہی مادوں سے بنی ہوئی دوسری چیزیں اس کے لےخ اذیت کا ذریعہ بن جاتی ہںہ۔ ٹھیک اسی طرح جِن بھی اگرچہ اپنی ساخت کے اعتبار سے آتشںی مخلوق ہںی، لیکن آگ سے جب ایک زندہ اور صاحبِ احساس مخلوق وجود مںن آ جاتی ہے تو وہی آگ اس کے لےں تکلیف کی موجب بن جاتی ہے (مزید تشریح کے لےہ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ۱۵)۔
۱۵: اوپر جِنوں کی بات ختم ہو گئی۔ اب یہاں سے اللہ تعالیٰ کے اپنے ارشادات شروع ہوتے ہںا۔
۱۶: یہ وہی بات ہے جو سورہ نوح مں فرمائی گئی ہے کہ اللہ سے معافی مانگو تو وہ تم پر آسمان سے خوب بارشںے بر سائے گا(تشریح کے لے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد ششم، تفسیر سورہ نوح، حاشیہ۱۲)۔ پانی کی کثرت کو نعمتوں کی کثرت کے لےش بطورِ کنا یہ استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ پانی ہی آبادی کا انحصار ہے۔ پانی نہ ہو تو سرے سے کوئی بستی بس ہی نہںر سکتی، نہ انسان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو سکتی ہںن، اور نہ انسان کی صنعتں چل سکتی ہںت۔
۱۷: یعنی یہ دیکھیں کہ وہ نعمت پا کر بھی شکر گزار رہتے ہںن یا نہں ، اور ہماری دی ہوئی نعمت کا صحیح استعمال کرتے ہںن یا غلط۔
۱۸: ذکر سے مُنہ موڑنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آدمی اللہ کی بھیجی ہوئی نصیحت کو قبول نہ کرے، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کا ذکر سننا ہی گوارا نہ کرے، اور یہ بھی کہ وہ اللہ کی عبادت سے رُوگردانی کرے۔
۱۹: مفسرین نے بالعموم’’مساجد‘‘کو عبادت گاہوں کے معنی مںہ لیا ہے اور اس معنی کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ عبادت گاہوں مںر اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ حضرت حسن بصری کہتے ہںن کہ زمین پوری کی پوری عباد ت گاہ ہے اور آیت کا منشا یہ ہے کہ خدا کی زمین پر کہںن بھی شرک نہ کیا جائے۔ ان کا استدلال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے ہے کہ جعلت فی الارض مسجد اوطھورا۔’’میرے لےی پُوری زمین عبادت کی جگہ اور طہارت حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ‘‘۔ حضرت سعید بن جُبَیر نے مساجد سے مراد وہ اعضاء لےی ہںک جن پر آدمی سجدہ کرتا ہے، یعنی ہاتھ، گھٹنے، قدم اور پیشانی۔ اِس تفسیر کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ اعضاء اللہ کے بنائے ہوئے ہںے۔ اِن پر اللہ کے سوا کسی اور کے لےص سجدہ نہ کیا جائے۔
۲۰: اللہ کے بندے سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہںر۔

ترجمہ

اے نبیؐ، کہو کہ ’’مںر تو اپنے ربّ کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہںے کرتا۔‘‘ ۲۱ کہو’’ مںے تم لوگوں کے لےض نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں نہ کسی بھلائی کا۔‘‘ کہو ’’مجھے اللہ کی گرفت سے کوئی نہںس بچا سکتا اور نہ مں اُس کے دامن کے سوا کوئی جائے پناہ پا سکتا ہوں۔ میرا کام اس کے سوا کچھ نہںی ہے کہ اللہ کی بات اور اس کے پیغامات پہنچا دوں۔ ۲۲ اب جو بھی اللہ اور اس کے رسُول کی بات نہ مانے گا اس کے لےر جہنّم کی آگ ہے اور ویسے لوگ اس مںے ہمیشہ رہںج گے۔ ‘‘ ۲۳
(یہ لوگ اپنی اِس روش سے باز نہ آئںا گے ) یہاں تک کہ جب اُس چیز کو دیکھ لںں گے جس کا اِن سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو انہںی معلوم ہو جائے گا کہ کس کے مددگار کمزور ہں اور کس کا جتھا تعداد مں کم ہے۔ ۲۴ کہو’’ مںن نہں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا میرا ربّ اس کے لے کوئی لیب مدّت مقرر فرماتا ہے۔ ۲۵ وہ عالم الغیب ہے، اپنے غیب پر کسی کو مطلّع نہںے کرتا، ۲۶ سوائے اُس رسُول کے جسے اُس نے (غیب کا کوئی علم دینے کے لےہ ) پسند کر لیا ہو، ۲۷ تو اُس کے آگے اور پےچھ وہ محافظ لگا دیتا ہے۔ ۲۸ تاکہ وہ جان لے کہ انہوں نے اپنے ربّ کے پیغامات پہنچا دیے، ۲۹ اور اُن کے پُورے ماحول کا احاطہ کےس ہوئے ہے اور ایک ایک چیز کو اس نے گِن رکھا ہے۔ ‘‘ ۳۰ ؏۲

تفسیر

۲۱: یعنی خدا کو پکارنا تو کوئی قابلِ اعتراض کام نہںے ہے جس پر لوگوں کو اس قدر غصّہ آئے، البتہ بری بات اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص خدا کے ساتھ کسی اور کو خدائی مںر شریک ٹھیرائے، اور یہ کام مںر نہں کرتا بلکہ وہ لوگ کرتے ہں جو خدا کا نام سُن کر مجھ پر ٹوٹے پڑ رہے ہںر۔
۲۲: یعنی میرا یہ دعویٰ ہر گز نہںو ہے کہ خدا کی خدائی مںا میرا کوئی دخل ہے، یا لوگوں کی قسمتںں بنانے اور بگاڑنے کا کوئی اختیار مجھے حاصل ہے۔ مں تو صرف ایک رسول ہوں اور جو خدمت میرے سپرد کی گئی ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہںُ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغامات تمہںر پہنچا دوں۔ باقی رہے خدا ئی اختیارات، تو وہ سارے کے سارے اللہ ہی کے ہاتھ مںئ ہںا۔ کسی دوسرے کو نفع یا نقصان پہنچانا تو درکنار، مجھے تو خود اپنے نفع و نقصان کا اختیار بھی حاصل نہں ۔ اللہ کی نافرمانی کروں تو اس کی پکڑ سے بچ کر کہںہ پناہ نہں لے سکتا، اور اللہ کے دامن کے سوا کوئی ملجا و ماویٰ میرے لےف نہںہ ہے (مزید تشریح کے لےہ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ۷)۔
۲۳: اس کا یہ مطلب نہںی ہے کہ ہر گنا ہ اور معصیت کی سزا ابدی جہنم ہے، بلکہ جس سلسلہ کلام مںہ یہ بات فرمائی گئی ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے توحید کی جو دعوت دی گئی ہے اس کو جو شخص نہ مانے اور شرک سے باز نہ آئے اس کے لے ابدی جہنم کی سزا ہے۔
۲۴: اِس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ اُس زمانے مںب قریش کے جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت الی ٰ اللہ کو سنتے ہی آپ پر ٹوٹ پڑتے تھے وہ اس زعم مںم مبتلا تھے کہ اُن کا جتھا بڑا زبر دست ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ چند مٹھی بھر آدمی ہںب اس لے وہ بآسانی آپ کو دبا لںے گے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ آج یہ لوگ رسول کو بے یار و مدد گار اور اپنے آپ کو کثیر التعداد دیکھ کر حق کی آواز کو دبانے کے لے بڑے دلیر ہو رہے ہں ، مگر جب وہ بُرا وقت آ جائے گا جس سے اِن کو ڈرایا جا رہا ہے تو ان کو پتہ چل جائے گا کہ بے یارو مددگار حقیقت مںگ کون ہے۔
۲۵: اندازِ بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک سوال کا جواب ہے جو سوال نقل کےئ بغیر دیا گیا ہے۔ غالباً اوپر کی بات سُن کر مخالفین نے طنز اور مذاق کے طور پر سوال کیا ہو گا کہ وہ وقت جس کا ڈراوا آپ دے رہے ہںئ آخر کب آئے گا؟ اس کے جواب مں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم دیا گیا کہ ان لوگوں سے کہو، اُس وقت کا آنا تو یقینی ہے مگر اس کے آنے کی تاریخ مجھے نہںم بتائی گئی۔ یہ بات اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے کہ آیا وہ جلدی آنے والا ہے یا اس کے لےر ایک طویل مدت مقرر کی گئی ہے۔
۲۶: یعنی غیب کا پُورا علم اللہ تعالیٰ کے لےم مخصوص ہے، اور یہ مکمل علمِ غیب وہ کسی کو بھی نہںح دیتا۔
۲۷: یعنی رسول بجائے خود عالم الغیب نہںس ہوتا کہ بلکہ اللہ تعالیٰ جب اس کورسالت کا فریضہ انجام دینے کے لےں منتخب فرماتا ہے تو غیب کے حقائق مںی سے جن چیزوں کا علم وہ چاہتا ہے اسے عطا فرما دیتا ہے۔
۲۸: محافظوں سے مرد فرشےم ہںل ۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ سے غیب کے حقائق کا علم رسول کے پاس بھیجتا ہے تو اس کی نگہبانی کرنے کے لےت ہر طرف فرشتے مقرر کر دیتا ہے تا کہ وہ علم نہایت محفوظ طریقے سے رسول تک پہنچ جائے اور اس مںو کسی قسم کی آمیزش نہ ہونے پائے۔ یہ وہی بات ہے جو اوپر آیات ۸۔ ۹ مںل بائن ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بعثت کے بعد جِنوں نے اپنے لےو عالمِ بالا تک رسائی کے تمام دروازے بند پائے اور انہوں نے دیکھا کہ سخت چوکی پہرے لگ گئے ہںک جن کے باعث کہںا ذا سی سُن گُن لےنم کا موقع بھی اُن کو نہںل ملتا۔
۲۹: اس کے تین معنی ہو سکتے ہںل ۔ ایک یہ کہ رسول یہ جان لے کر فرشتوں نے اُس کو اللہ تعالیٰ کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے ہںم۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لے کر فرشتوں نے اپنے رب کے پیغامات اس کے رسول تک صحیح صحیح پہنچا دیے ہں ۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ یہ جان لے کہ رسولوں نے اس کے بندوں تک اپنے رب کے پیغامات ٹھیک ٹھیک پہنچا دیے۔ آیت کے الفاظ اِن تینوں معنوں پر حاوی ہںر اور بعید نہںا کہ تینوں ہی مراد ہوں۔ اس کے علاوہ یہ آیت دو مزید باتوں پر بھی دلالت کرتی ہے۔ پہلی بات یہ کہ رسول کو وہ علمِ غیب عطا کیا جاتا ہے جو فریضہ رسالت کی انجام دہی کے لےت اس کو دینا ضروری ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو فرشتے نگہبانی کے لے مقرر کےا جاتے ہںج وہ صرف اِس بات کی نگہبانی نہںل کرتے کہ رسول تک وحی محفوظ طریقے سے پہنچ جائے بلکہ اِس بات کی نگہبانی بھی کرتے ہں کہ رسول اپنے رب کے پیغامات اس کے بندوں تک بے کم و کاست پہنچا دے۔
۳۰: یعنی رسول پر بھی اور فرشتوں پر بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اس طرح محیط ہے کہ اگر بال برابر بھی اس کی مرضی کے خلاف جنبش کریں تو فوراً گرفت مںپ آ جائںی۔ اور جو پیغامات اللہ تعالی ٰ بھیجتا ہے ان کا حرف حرف گِنا ہوا ہے، رسولوں اور فرشتوں کی یہ مجال نہںئ ہے کہ ان مںے ایک حرف کی کمی بیشی بھی کر سکںا۔
٭٭٭

۷۳۔ سورة المزمل

نام

پہلی آیات کے لفظ المُزّمِّل کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام ہے اس کے مضامین کا عنوان نہںب ہے۔

زمانۂ نزول

اس سورۃ کے دو رکوع دو الگ زمانوں مں نازل ہوئے ہںہ۔
پہلا رکُوع بالاتفاق مکّی ہے۔ اس کے مضامین اور احادیث کی روایات دونوں سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ مکّی زندگی کے کس دور میں نازل ہوا ہے، اِس کا جواب ہمیں روایات سے تو نہیں ملتا، لیکن اِس رکوع کے مضامین کی داخلی شہادت اِس کا زمانہ متعین کرنے میں بڑی مدد دیتی ہے:
اوّلاً، اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تا کہ آپ کے اندر نبوّت کے بارِ عظیم کو اٹھانے اوراس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ حکم حضورؐ کی نبوت کے ابتدائی دور ہی میں نازل ہوا ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اِس منصب کے لیے آپ کی تربیت کی جا رہی تھی۔
ثانیاً، اِس میں حکم دیا گیا ہے کہ نمازِ تہّجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔ یہ ارشاد خود بخود اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اُس وقت قرآن مجید کا کم از کم اتنا حصّہ نازل ہو چکا تھا کہ اس کی طویل قرأت کی جا سکے۔
ثالثاً ، اِس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخالفین کی زیادیتوں پر صبر کی تلقین کی گئی ہے اور کفّارِ مکّہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ رکوع اُس زمانے میں نازل ہوا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع کر چکے تھے اور مکّہ میں آپ کی مخالفت زور پکڑ چکی تھی۔
دوسرے رکوع کے متعلق اگرچہ بہت سے مفسّرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ بھی مکہ ہی میں نازل ہوا ہے، لیکن بعض دوسرے مفسرین نے اسے مدنی قرار دیا ہے، اور اس رکوع کے مضامین سے اِسی خیال کی تائید ہوتی ہے، کیونکہ اس میں قتال فی سبیل اللہ کا ذکر ہے، اور ظاہر ہے کہ مکہ میں اس کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، اور اس میں فرض زکوٰۃ ادا کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، اور یہ بات ثابت ہے کہ زکوٰۃ ایک مخصوص شرح اور نصاب کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔

موضوع اور مضامین

پہلی سات آیات میں رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ جس کارِ عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمّہ داریاں سنبھالنے کے لیے آپ اپنے آپ کو تیار کریں، اور اُس کی عملی صورت یہ بتائی گئی ہے کہ راتوں کو اُٹھ کر آپ آدھی آدھی رات، یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔
آیت ۸ سے ۱۴ تک حضورؐ کو تلقین کی گئی ہے کہ سب سے کٹ کر اُس خدا کے ہو رہیں جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اُسی کے سُپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین جو باتیں آپ کے خلاف بنا رہے ہیں انر صبر کریں، اُن کے منہ نہ لگیں اور ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دیں کہ وہی اُن سے نمٹ لے گا۔
اس کے بعد آیات ۱۴ سے ۱۹ تک مکّہ کے اُن لوگوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت کر رہے تھے، مُتَنَبِّہ کیا گیا ہے کہ ہم نے اُسی طرح تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف بھیجا تھا، پھر دیکھ لو کہ جب فرعون نے اللہ کے رسول کی بات نہ مانی تو وہ کس انجام سے دو چار ہوا۔ اگر فرض کر لو کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ آیا تو قیامت کے روز تم کفر کی سزا سے کیسے بچ نکلو گے؟
یہ پہلے رکوع کے مضامین ہیں۔ دوسرا رکوع حضرت سعید بن جُبیَر کی روایت کے مطابق اُس کے دس سال بعد نازل ہوا اور اس میں نمازِ تہجّد کے متعلق اُس ابتدائی حکم کے اندر تخفیف کر دی گئی جو پہلے رکوع کے آغاز میں دیا گیا تھا ۔ اب یہ حکم دیا گیا کہ جہاں تک تہجّد کی نماز کا تعلق ہے وہ تو جتنی بآسانی پڑھی جا سکے پڑھ لیا کرو، لیکن مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ پنجوقتہ فرض نماز پُوری پا بندی کے ساتھ قائم رکھیں، فریضہ زکوٰۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کے ساتھ صرف کریں۔ آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ جو بھلائی کے کام تم دنیا میں انجام دو گے وہ ضائع نہیں جائیں گے بلکہ اُن کی حیثیت اُس سامان کی سی ہے جو ایک مسافر اپنی مستقل قیام گاہ پر پہلے سے بھیج دیتا ہے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب کچھ موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے ، اور پیشگی سامان نہ صرف یہ کہ اُس سامان سے بہت بہتر ہے جو تمہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے، بلکہ اللہ کے ہاں تمہیں اپنے بھیجے ہوئے اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر بھی ملے گا۔

ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، ۱ رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، ۲ آدھی رات ، یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا دو، ۳ اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ۴ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ ۵ درحقیقت رات کا اُٹھنا ۶ نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر ۷ اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ ۸ دن کے اوقات میں تو تمہارے لیے بہت مصروفیات ہیں۔ اپنے ربّ کے نام کا ذکر کیا کرو ۹ اور سب سے کٹ کر اسی کے ہو رہو۔ وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، لہٰذا اُسی کو اپنا وکیل بنا لو۔۱۰ اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاوٴ۔ ۱۱ اِن جھُٹلانے والے خوشحال لوگوں سے نمٹنے کا کام تم مجھ پر چھوڑ دو ۱۲ اور اِنہیں ذرا کچھ دیر اِسی حالت میں رہنے دو۔ ہمارے پاس (اِن کے لیے) بھاری بیڑیاں ہیں ۱۳ اور بھڑکتی ہوئی آگ اور حلق میں پھنسنے والا کھانا اور دردناک عذاب۔ یہ اُس دن ہو گا جب زمین اور پہاڑ لرز اُٹھیں گے اور پہاڑوں کا حال ایسا ہو جائے گا جیسے ریت کے ڈھیر جو بکھرے جا رہے ہیں۔ ۱۴
۱۵ تم لوگوں کے پاس ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا۱۶ ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسُول بھیجا تھا۔ (پھر دیکھ لو کہ جب) فرعون نے اُس رسُول کی بات نہ مانی تو ہم نے اس کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑ لیا۔ اگر تم ماننے سے انکار کرو گے تو اُس دن کےسی بچ جاوٴ گے جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۱۷ اور جس کی سختی سے آسمان پھٹا جا رہا ہو گا؟ اللہ کا وعدہ تو پُور ا ہو کر ہی رہنا ہے۔ یہ ایک نصیحت ہے ، اب جس کا جی چاہے اپنے ربّ کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔ ؏۱

 

تفسیر

 

۱: ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کو اے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

۲: اِس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رات نماز  میں کھڑے رہ کر گزار و اور اس کا کم حصّہ سونے میں صرف کرو۔ دوسرا یہ کہ پوری رات نماز میں گزار دینے کا مطالبہ تم سے نہیں ہے بلکہ آرام بھی کرو اور رات کا ایک قلیل حصّہ عبادت میں بھی صرف کرو۔ لیکن آگے کے مضمون سے پہلا مطلب ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی کی تائید سورہ دہر کی آیت ۲۶ سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلا ً طَوِیْلاً، ’رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو اور رات کا طویل حصّہ اُس کی تسبیح کرنے ہوئے گزارو‘۔

۳: یہ اُس مقدارِ وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دی گیا تھا۔ اِس میں آپ ؐ کی اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نما ز میں صرف کریں، یا اس سے کچھ کم کر دیں، یا اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترجیح آدھی رات ہے، کیونکہ اُسی کو معیار قرار دے کر کمی و بیشی کا اختیار دیا گیا ہے۔

۴: یعنی تیز تیز رواں دواں نہ  پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تا کہ ذہن پُوری طرح کلام الہیٰ کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکّر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر  اور تدبُّر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرأ ت کا طریقہ حضرت اَنَس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتا یا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے(بخاری)۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور ؑ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤ۔ترمذی)۔دوسری ایک روایت میں حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور  ؐ ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے( ترمذی۔نسائی)۔ حضرت حْذیفہ بن یَمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور ؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے(مسلم، نسائی)۔ حضرت ابو ذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور ؐ اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُم عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِر لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح  ہو گئی(مسند احمد ، بخاری)۔

۵: مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اُس کے تحمّل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھانا، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے  میں اٹھنا، اور اس کے مطابق عقائد و افکار، اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کے پورے نظام میں انقلاب بر پا کر دینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بنا پر بھی  اس کو بھا ری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحّمّل بڑا دشوار کام ہے۔ حضرت زید ؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی  اِس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ میرے زانو پر اس  وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اَب  ٹوٹ جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نےسخت سردی کے زمانے میں حضور ؐ پر وحی نازل ہوتے  دیکھی ہے، آپ کی پیشانی سے اُس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا( بخاری، مسلم، مالک، ترمِذی، نسَائی)۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کر سکتی تھی جب تک نزولِ وحی کا سلسلہ ختم نہ ہو جاتا(مسند احمد، حاکم،ابن جریر)۔

۶: اصل میں لفظ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسّرین اور اہل  لغت کے چار مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ ہے، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا۔ اور چوتھا قول یہ ہے  کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اُٹھنے پر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اور مجاہد ؒ نے اِسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے۔

۷: اصل میں لفظ اَشَدُّ وَطْأً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی سوعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اُس وقت آرام کا  مطالبہ کرتا ہے ، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کے دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ اِس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلّط حاصل کر کے  اپنی اِس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کے اِن اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسراحائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی  آواز ہوتی ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کار گر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لا محالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا، اس میں ریا کاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے  اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے۔

۸: اصل میں اَقْوَمُ قِیْلاً ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے‘۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اُس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ  سکتا ہے۔ ابن عباس ؓ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ  اجد ران یفقہ فی القرآن، یعنی ’وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور د خوض کرے‘(ابو داؤد)۔

۹: دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد کہ ’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو‘ خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،الاحزاب، حاشیہ۶۳)۔

۱۰: ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کو اے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

۱۱: الگ ہو جا ؤ  کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو، اور ان کی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصّے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو، بلکہ اُس طرح کا احتراز ہو جو طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سُن کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور دل پر مَیل تک نہیں آنے دیتا ۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرزِ عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس  لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو یہ ہدایت فرمائی۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اِسی طریقے پر عمل فرما رہے تھے، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتا دیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔

۱۲:  اِن الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکّہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھُٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات اُبھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے، پیٹ بھرے، خوشحال لوگ تھے، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام  کی اِس دعوتِ  اصلاح کی زد پڑ رہی تھی۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگِ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۶۰۔۶۶۔۸۸۔المومنون،۳۳۔ سبا،۳۴۔۳۵۔ الزُّخْرُف،۲۳۔

۱۳: جہنم میں بھاری بیڑیاں مجرموں کے پا ؤ ں  میں اس لیے نہیں ڈالی جائیں گی کہ وہ بھاگ نہ سکیں، بلکہ ا س لیے ڈالی جائیں گی کہ وہ اٹھ نہ سکیں۔ یہ فرار سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب کے لیے ہونگی۔

۱۴: چونکہ اُس وقت پہاڑوں کے اجزاء کو باندھ کر رکھنے والی کشش ختم ہو جائے گی، اس لیے پہلے تو وہ باریک بھُربھری ریت کے ٹیلے بن جائیں گے، پھر جو زلزلہ زمین کو ہلا رہا ہو گا اس کی وجہ سے یہ ریت بکھر جائے گی اور ساری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ اسی آخری کیفیت کو سُورہ طٰہٰ آیات۱۰۵ تا ۱۰۷ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ اِن پہاڑوں کا کیا بنے گا۔ کہو، میرا رب اِن کو دھُول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے‘۔

۱۵: اب مکّہ کے اُن  کفار کو خطاب کیا جا رہا ہے  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھُٹلا رہے تھے اور آپ کی مخالفت میں سر گرم تھے۔

۱۶: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ دنیا میں اُن کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق کی شہادت دیں، اور یہ بھی کہ آخرت میں جب اللہ تعالیٰ کی عدالت برپا  ہو گی اُس وقت آپ یہ گواہی دیں کہ میں نے اِن لوگوں کے سامنے حق پیش کر دیا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ النساء، حاشیہ۶۴۔جلد دوم، النحل، آیات۸۴، ۸۹۔جلد چہارم، الاحزاب،حاشیہ۸۲۔جلد پنجم، الفتح، حاشیہ۱۴)۔

۱۷: یعنی اوّل تو تمہیں ڈرنا چاہیے کہ اگر ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی بات تم نے نہ مانی تو  وہ بُرا انجام تمہیں دُنیا ہی میں دیکھنا ہوگا جو فرعون اس سے پہلے اِسی جرم کے نتیجے میں دیکھ چکا ہے۔ لیکن اگر فرض کر و کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ بھی بھیجا گیا تو روزِ قیامت کے عذاب سے کیسے بچ نکلو گے؟

 

ترجمہ

 

۱۸ اے نبیؐ ، تمہارا ربّ جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو،۱۹ اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔ ۲۰ اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے ، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات  کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ ۲۱ اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے، کچھ دُوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، ۲۲ اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ ۲۳ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے  پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ۲۴ دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ ۲۵ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاوٴ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ ۲۶ اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ؏۲

 

تفسیر

 

۱۸: یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجّد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے ، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مُسند احمد ، مسلم اور ابو داؤد  میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے  ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے ۸ مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو  ابن ابی حاتم نے انہی  سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے بیان کیے گئے ہیں۔ ابو داؤد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک سال کی مدّت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جُبَیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے(ابن جریر و ابن ابی حاتم)۔ ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے ، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اُس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور ؐ  کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفّار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ اِن دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے۔

۱۹: اگرچہ ابتدائی حکم آدھی رات یا اس کے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں، اس لیے کبھی دو تہائی رات  تک عبادت میں گزر جاتی تھی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ایک تہائی رہ جاتی تھی۔

۲۰: ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کو خطاب کیا گیا تھا، اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اُس وقت حضور ؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر اکثر صحابہ کرام بھی اِس نماز کا اہتمام کرتے تھے۔

۲۱: چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرأت  ہی سے ہوتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تہجّد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگر چہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجّد فرض نہیں بلکہ نفل ہے۔ حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے  پر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا اس کے سوا کبھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے ؟ جواب میں ارشاد ہوا ’الّا یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ پڑھو‘(بخاری و مسلم)۔             اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قر أ ت بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع  یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرأت کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اِس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا ، وضو کرنا ، اور ستر چھپانا واجب نہیں ہے اور اس میں قیام و تعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں۔

۲۲: جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۲۳: یہاں اللہ تعالیٰ نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ اِن دونوں کاموں کو نماز تہجّد سے معانی  یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مامن جالبٍ یجلبُ طعامًا الیٰ بلد من بلدٍ ان المسْلمین فیبیعہ لِسِعْرِ یو مہٖ الا کانت منزلتہٗ عند اللہ ثم قر أ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و اٰ خرون یضربون فی الارض….’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلّہ لے کر آیا اور اُس روز کے بھا ؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہوگا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی آیت پڑھی‘(ابن مَرْدُوْیَہ)۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احبّ الی من ان  یا تینی و انا بین شِعبتَی جبل التمس من فضل اللہ و قر أ ھٰذا الاٰ یتہ۔’جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی‘(بَیْہَقی فی شُعَب الایمان)۔

۲۴: مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔

۲۵: ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد  فی سبیل اللہ ہو ، یا بندگانِ خدا کی مدد ہو، یا رفاہِ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۶۷۔ المائدہ، حاشیہ۳۳۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ۱۶۔

۲۶: ‘مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا  وہ تمہارے لیے اُس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا ہی میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پو چھا ایکم مالہ احب الیہ من مال وارثہ؟’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے؟‘ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔فرمایا اعملو ا ما تقولون۔’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ  ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا: انما مال احد کم ما قدّم ومال وارثہٖ ما اخّر۔’تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم  نے اپنی آخرت کے لیے بھیج دیا ۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘۔(بخاری۔نسائی۔ مُسند احمد ابویَعلیٰ)

٭٭٭

 

 

 

۷۴۔سورة المدثر

 

نام

 

پہلی آیت کے لفظ الْمُدَّثِّر کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی صرف نام ہے، مضامین کا عنوان نہیں ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس کی پہلی سات آیات مکّہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ ہیں۔ بعض روایات جو بخاری، مسلم،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ ہیں حضرت جابر بن عبس اللہ سے منقول ہیں اُن میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کی اوّلین آیات ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر  نازل ہوئیں۔ لیکن امّت میں یہ بات قریب قریب بالاتفاق مسلم ہیں کہ پہلی وحی جو حضورؐ پر نازل ہوئی وہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ سے مَا لَمْ یَعْلَمْ تک ہے۔ البتہ صحیح روایات سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اِس وحی کے بعد کچھ مدّت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، پھر اس وقفہ کے بعد جب از سرِ نو نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اُس کا آغاز سُورہ مُدَّثِّر کی اِنہی آیات سے ہوا تھا۔ امام زُہرْیؒ اِس کی تفصیل یُوں بیان کرتے ہیں:

’ایک مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی  کا نزول بند رہا اور اُس زمانہ میں آپ پر اس قدر شدید غم کی کیفیت طاری رہی کہ بعض اوقات آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرا دینے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ لیکن جب کبھی آپ کسی چوٹی کے کنارے پر  پہنچتے جبریل علیہ السّلام نمودار ہو کر آپ سے کہتے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس سے آپ کے دل کو سکون حاصل ہو جاتا تھا اور وہ اضطراب کی کیفیت دُور ہو جاتی تھی۔‘(ابن جریر)

’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فَتْرۃُ الوحی(وحی بند رہنے کے زمانے) کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا: ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا۔ یکایک میں نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت  دہشت زدہ ہو گیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اُڑھا ؤ، مجھے اُڑھاؤ۔ چنانچہ گھر والوں نے مجھ پر لحاف (یا کمبل) اُڑھا دیا۔ اُس وقت اللہ نے وحی نازل کی یٰاَیّھَُا الْمُدَّثِّرُ ….۔ پھر لگا تار مجھ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا‘۔(بخاری۔ مسلم۔مُسنَد احمد۔ ابن جریر)۔

سوُرۃ کا باقی ماندہ حصہ آیت ۸ سے آخر تک اُس وقت نازل ہوا جب اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع ہو جانے کے بعد مکّہ میں پہلی مرتبہ حج کا موقع آیا۔ اس کا مفصل واقعہ سیرت ابنِ ہشام میں بیان کیا گیا ہے جسے آگے چل کر ہم نقل کریں گے۔

 

موضوع اور مضمون

 

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو بھیجی گئی تھی وہ سورہ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل تھی جس میں صرف یہ فرمایا گیا تھا کہ :

’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا ہے جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘

یہ نزول وحی کا پہلا تجربہ تھا جو اچانک حضور ؐ کو پیش آیا تھا ۔ اِس پیغام میں آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ کس کا رِ عظیم پر مامور ہوئے ہیں اور آگے کیا کچھ آپ کو کرنا ہے، بلکہ صرف ایک ابتدائی تعارف کرا کے آپ کو کچھ مدّت کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا تا کہ آپ کی طبیعت پر جو شدید بار اِس پہلے تجربے سے پڑا ہے اس کا (اثر دُور ہو جائے اور آپ ذہنی طور پر آئندہ وحی وصول کرنے اور نبوت کے فرائض سنبھالنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس وقفہ کے بعد جب دوبارہ نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اِس سورہ کی ابتدائی سات آیتیں نازل کی گئیں اور ان میں پہلی مرتبہ آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ اٹھیں اور خلقِ خدا کو اُس روش کے انجام سے ڈرائیں جس پر وہ چل رہی ہے، اور اِس دنیا میں ، جہاں دوسروں کی بڑائی کے ڈنکے بج رہے ہیں، خدا کی بڑائی کا اعلان کریں۔ اس کے ساتھ آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ اب جو کام آپ کو کرنا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی ہر لحاظ سے انتہائی پاکیزہ ہو اور آپ تمام دنیوی فائدوں سے قطع نظر کر کے کامل اخلاص کے ساتھ خلقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ پھر آخری فقرے میں آپ کی تلقین کی گئی کہ اِس فریضہ کی انجام  دہی میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن پر آپ اپنے رب کی خاطر صبر کریں۔

اس فرمانِ الہیٰ کی تعمیل میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور قرآن مجید کی پے در پے نازل ہونے والی سورتوں کو آپ نے سنانا شروع کیا تو مکّہ میں کھلبلی مچ گئی اور مخالفتوں کا  ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ چند مہینے اِس حال پر گزرے تھے کہ حج کا زمانہ آگیا اور مکّہ کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہو ئی کہ اِس موقع پر تمام عرب سے حاجیوں کے قافلے آئیں گے ، اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِن قافلوں کی قیام گاہوں پر جا جا کر آنے والے حاجیوں سے ملاقاتیں کیں اور حج کے اجتماعات میں جگہ جگہ کھڑے ہو کر قرآن  جیسا بے نظیر اور مؤثر کلام سنانا شروع کر دیا، تو عرب کے ہر گوشے تک ان کی دعوت پہنچ جائے گی اور نہ معلوم کون کون اِس سے متاثر ہو جائے۔ اس لیے قریش کے سرداروں نے ایک کانفرنس کی جس میں طے کیا گیا  کہ حاجیوں کے آتے ہی اُن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔اِس پر اتفاق ہو جانے کے بعد ولید بن مُغیرہ نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کے متعلق مختلف باتیں لوگوں سے کہیں تو ہم سب کا اعتبار جاتا رہے گا۔ اس لیے کوئی ایک بات طے کر لیجیے جسے سب بالاتفاق کہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن کہیں گے۔ ولید نے کہا، نہیں ، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہیں، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، جیسی باتیں وہ گُنگناتے ہیں اور جس طرح کے فقرے وہ جوڑتے ہیں، قرآن کو ان سے  کوئی  دُور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ کچھ اور لوگ بولے، انہیں مجنون کہا جائے۔ ولید نے کہا وہ مجنون بھی نہیں ہیں۔ ہم نے دیوانے اور پاگل دیکھے ہیں۔ اس حالت میں آدمی جیسی بہکی بہکی باتیں اور الٹی سیدھی حرکات کرتا ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ کون باور کرے گا کہ محمدؐ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ دیوانگی کی بڑ ہے یا جنون کے دورے میں آدمی  یہ باتیں کر سکتا ہے؟ لوگوں نے کہا اچھا تو پھر ہم شاعر کہیں گے۔ ولید نے کہا ، وہ شاعر بھی نہیں ہیں۔ ہم شعر کی ساری اقسام سے واقف ہیں۔ اِس کلام پر شاعری کی قسم کا اطلاق بھی نہیں ہو سکتا۔ لوگ بولے، تو ان کو ساحر کہا جائے۔ ولید نے کہا وہساحر بھی نہیں ہیں۔ جادوگروں کو ہم جانتے ہیں اور اپنے جادو کے لیے جو طریقے وہ اختیار کرتے ہیں ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ یہ بات بھی محمد ؐ پر چسپا ں نہیں ہوتی ۔ پھر  ولید نے کہا اِن باتوں میں سے جو بات بھی کرو گے لوگ اس کو ناروا الزام سمجھیں گے۔ خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت ہے، اس کی جڑ بڑی گہری اور اس کی ڈالیاں بڑی ثمر دار ہیں۔ اس پر ابو جہم ولید کے سر ہو گیا اور اس نے کہا تمہاری قوم تم سے راضی نہ ہو گی جب تک تم محمد ؐ کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا اچھا مجھے سوچ لینے دو۔ پھر سوچ سوچ کر بولا قریب ترین بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تم عرب کے لوگوں سے کہو یہ شخص جادوگر ہے۔ یہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو آدمی کو اُس کے بات، بھائی، بیوی بچو ں اور سارے خاندان سے جدا کر دیتا ہے۔ ولید کی اِس بات کو سب نے قبول کر لیا۔ پھر ایک منصوبے کے مطابق حج کے زمانے میں قریش کے وفود حاجیوں کے درمیان پھیل گئے اور انہوں نے آنے والے زائرین کو خبر دار کرنا شروع کیا کہ یہاں ایک ایسا شخص اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو بڑا جادوگر ہے اور اس کا جادو خاندانوں میں تفریق ڈال دیتا ہے، اُس سے ہوشیار رہنا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام خود ہی سارے عرب میں مشہور کر دیا(سیرۃ ابن ہشام، جلد اوّل، صفحہ ۲۸۸۔۲۸۹۔ اِس قصے کا یہ حصّہ کہ ابو جہل کے اصرار پر ولید نے یہ بات کہی تھی عِکْرِمہ کی روایت سے ابن جریر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے)۔

یہی واقعہ ہے جس پر اس سُورہ کے دوسرے حصّہ میں تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اُس کے مضامین کی ترتیب یہ ہے:

آیت ۸ سے ۱۰ تک منکرینِ حق کو خبر دار کیا گیا ہے کہ آج جو کچھ وہ کر رہے ہیں ا س کا بُرا انجام وہ قیامت کے روز دیکھ لیں گے۔

آیت ۱۱ سے ۲۶ تک ولید بن مُغِیرہ کا نام لیے بغیر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس شخص کو کیا کچھ نعمتیں دی تھیں اور اُنکا جواب اِس نے کیسی حق دشمنی کے ساتھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں اُس کی ذہنی کشمکس کی پُوری تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ ایک طرف دل میں وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا، مگر دوسری طرف اپنی قوم میں اپنی ریاست و وجاہت کو بھی خطرے میں نہ ڈالنا چاہتا تھا ، اس لیے نہ صرف یہ کہ وہ ایمان لانے سے باز رہا ، بلکہ کافی دیر تک اپنے ضمیر سے لڑنے جھگڑنے کے بعد آخر کار یہ بات بنا کر لا یا کہ خلقِ  خدا کو اِس کلام پر ایمان لانے سے باز رکھنے کے لیے اِسے جادو قرار دینا چاہیے۔ اُس کی اِس صریح بد باطنی کا بے نقاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اپنے اِس کرتوت کے بعد بھی یہ شخص چاہتا ہے کہ اِسے مزید انعامات سے نوازا جائے، حالانکہ اب یہ انعام کا نہیں بلکہ دوزخ کا سزاوار ہو چکا ہے۔

اس کے بعد آیت ۲۷ سے۴۸ تک دوزخ کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس اخلاق اور کر دار کے لوگ اس کے مستحق ہیں۔

پھر آیات ۴۹۔۵۳ میں کفار کے مرض کی اصل جڑ بتا دی گئی ہے کہ وہ چونکہ آخرت سے بے خوف ہیں اور اِسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ قرآن سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے شیر سے ڈر کر جنگلی گدھے بھاگے جا رہے ہوں ، اور ایمان لانے کے لیے طرح طرح کی غیر معقول شرطیں پیش کرتے ہیں، حالانکہ خواہ ان کی کوئی شرط بھی پوری کر دی جائے، انکارِ آخرت کے ساتھ وہ ایمان کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔

آخر میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے کہ خدا کو کسی کے ایمان کی کوئی ضرورت نہیں پڑ گئی ہے کہ وہ اس کی شرطیں پُوری کرتا پھرے۔ قرآن کو عام نصیحت ہے جو سب کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کر لے۔ خدا اِس کا مستحق ہے کہ لوگ اُس کی نافرمانی سے ڈریں، اور اسی یہ شان ہے کہ جو شخص بھی تقویٰ اور خدا ترسی کو رویّہ اختیار کر لے اسے وہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ پہلے کتنی ہی نافرمانیاں کر چکا ہو۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، ۱ اُٹھو اور خبر دار کرو۔ ۲ اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو۔ ۳ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ ۴ اور گندگی سے دُور رہو۔ ۵ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔ ۶ اور اپنے ربّ کی خاطر صبر کرو۔ ۷

اچھا، جب صُور میں پھُونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، ۸ کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ ۹ چھوڑ دو مجھے اور اُس شخص کو ۱۰ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، ۱۱ بہت سامال اُس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، ۱۲ اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دُوں۔ ۱۳ ہر گز نہیں، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواوٴں گا۔ اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی ، تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے  کی کوشش کی۔ ہاں ، خدا کی مار اُس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف)دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور مُنہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبُّر میں پڑ گیا۔ آخر کار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادُو جو پہلے سے چلا آ رہا ہے، یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔ ۱۴ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ ۱۵ کھال جھُلس دینے والی۔ ۱۶ اُنّیس کارکن اُس پر مقرر ہیں ۔۔۔۔ ۱۷ ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں، ۱۸ اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے، ۱۹ تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آ جائے ۲۰ اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے، ۲۱ اور اہلِ کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار ۲۲ اور کفّار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ ۲۳ اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے۔ ۲۴ اور تیرے ربّ کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۲۵ ۔۔۔۔ اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔ ۲۶    ؏۱

 

تفسیر

 

۱: اوپر دیباچے میں ہم اِن آیات کے نزول کا جو پس منظر بیا ن کر آئے ہیں اس پر غور کرنےسے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یٰاَیّھَُا الرَّسُوْلُ یا یٰاَیّھَُا النَّبِیُّ کہہ کر مخاطب کرنے کے بجائے یٰاَیّھَُا المُدَّثِّرُ کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے ۔ چونکہ حضور ؐ یکا یک جبریل علیہ السلام کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھا ؤ ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یٰاَیّھَُا الْمُدَّثِّر کہہ کر خطاب فرمایا۔ اس  لطیف طرز خطاب سےخود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اَے مریے پیارے بندے، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہا گئے، تم پر تو ایک کارِ عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پُورے عزم کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

۲: یہ اُسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح علیہ السّلام کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ اَنْذِر قَوْ مَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ عَذَاب اَلِیْم  ۔’اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرا ؤ قبل اس کے کہ  ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے‘۔(نوح۔۱۔)۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور تمہارے گرد وپ یش خدا کے جو بندے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اُن کو چَونکا دو۔ انہیں اُس انجام سے ڈرا ؤ جس سے یقیناً وہ دو چار ہوں گے اگر اِسی حالت میں مبتلا رہے ۔ انہیں خبر دار کر دو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ  اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پُرس نہ ہو۔

۳: یہ ایک نبی کا اولین کام ہے جسے اِس دنیا میں اُسے انجام دینا ہوتا ہے ۔ اُس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں  اُن سب کو نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا  بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اِس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر  کے اعلان سے ہوتی ہے ۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے  اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیازی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔           اس مقام پر ایک اور لطیف  نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ اِن آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہو چکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبّوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی  کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیر تھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اُس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھو کا کام تھا۔ اسی لیے ’اٹھو اور خبر دار کرو‘ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ ’اپنے رب کی بڑائی  کا اعلان کرو‘ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اِس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اُن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے ۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی  کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرّہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔

۴: یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اِن کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم ولباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے  وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضورؐ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضورؐ نے نوعِ انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو  ’طہارت‘کا ہم معنی ہو۔بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپا کی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم اِن الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف سُتھرا رکھو۔ راہبانہ تصوّرات نے دنیا مین مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ مَیلا کُچیلا ہو اتنا ہی زیادہ وہ مقدّس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اُجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیا دار انسان ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت مَیل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حِس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی ہے  مانوس ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اُس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔ تیسرا مفہوم اِس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس سُتھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش، ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اوّلین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ رئیسوں اور نوابوں کے  لباس، مذہبی پیشہ وروں کے  لباس، متکبّر اور بر خود غلط لوگوں کے لباس، چھچورے اور کم ظرف لوگوں کےلباس، بد قوار اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کر لے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی بُرائی میں مبتلا نہیں ہے۔           چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں  سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس،ابراہیم نَخَعی، شَعبی، عطاء،مجاہد،قتادہ،سعیدبن جُبَیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاھر الثیاب و فلان طاھر الذیل،’فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے‘۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے بر عکس کہتے ہیں فلانٌ دَنِس الثیاب،’اس شخص کے کپڑے گندے ہیں‘ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں۔

۵: گندگی سے مراد ہو قسم کی گندگی ہے خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو، یا اخلاق و اعمال کی ، یا جسم و لباس اور رہن سہن کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش سارے معاشرے میں طرح طرح کی جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں ان سب سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔ کوئی شخص کبھی تم پر یہ حرف نہ رکھ سکے کہ جن بُرائیوں سے تم لوگوں کو روک رہے ہو ان میں سے کسی کا بھی کوئی شائبہ تمہاری اپنی زندگی میں پایا  جاتا ہے۔

۶: اصل الفاظ ہیں وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ اِن کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اِن کا ترجمہ کر کے پورا مطلب ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پر بھی احسان کر دے غرضانہ  نہ کرے۔ تمہاری عطا اور بخشش اور سخاوت اور حُسنِ سلوک محض اللہ کے یے ہو، اس میں کوئی شائبہ  اِس خواہش کا نہ ہو کہ احسان کے بدلے میں تمہیں کسی قسم کے دنیوی فوائد حاصل ہوں۔ بالفاظِ دیگر اللہ کے لیے احسان کرو، فائدہ حاصل کرنے کے لیے  کو ئی احسان نہ کرو۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبوت کا جو کام تم کر رہے ہو یہ اگرچہ اپنی جگہ ایک بہت بڑااحسان ہے کہ تمہاری بدولت خلق خدا کو ہدایت نصیب ہو رہی ہے، مگر اس کا کوئی احسان لوگوں پر نہ جتا ؤ اور اس کا کوئی فائدہ اپنی ذات کے لیے حاصل نہ کرو۔           تیسرا مفہوم یہ ہے کہ  تم اگرچہ ایک بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہو، مگر اپنی نگاہ میں اپنے   کو کبھی بڑا عمل نہ سمجھو اور کبھی یہ خیال تمہارے دل میں نہ آئے کہ نبوت کا یہ فریضہ انجام دے کر ، اور اس کام میں جان لڑا کر اپنے رب پر کوئی احسان کر رہے ہو۔

۷: یعنی یہ کام جو تمہارے سُپر د کیا جا رہا ہے، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہو جائے گا۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے ، اپنے رب  کی خاطر اِس پر صبر کرنا  اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف، طمع، لالچ،دوستی، دشمنی،محبت ہر چیز تمہارے راستے  میں حائل ہوگی۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا۔           یہ تھیں وہ اوّلین ہدایات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اُس وقت دی تھیں جب اُس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغاز فرما دیں۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اِس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جا سکتی تھیں۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اِس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہییں، اور یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت، کس ذہنیت اور طرزِ فکر کے ساتھ انجام دیں ، اور اس بات سے بھی خبر دار کر دیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہوگا۔ آج جو لوگ تعصّب میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ معاذاللہ صَرع کے دَوروں میں یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری  ہو جایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر اِن فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صَرع کے کسی دَورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے؟

۸: جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، اِس سورہ کا یہ حصّہ ابتدائی آیات کے چند مہینے بعد اُس وقت نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عَلانیہ تبلیغِ اسلام شروع ہو جانے کے بعد پہلی مرتبہ حج کا زمانہ آیا اور سردارانِ قریش نے ایک کانفرنس کر کے یہ طے کیا کہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بد گمان کرنے کے لیے پروپیگنڈا کی ایک زبردست مہم چلائی جائے۔ اِن آیات میں کفار کی اِسی کاروائی پر  تبصرہ کیا گیا ہے اور اِس تبصرے کا آغاز اِن الفاظ سے کیا گیا ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ اچھا، یہ حرکتیں جو تم کرنا چاہتے ہو کر لو، دنیا میں اِن سے کوئی مقصد برا ری تم نے کر بھی لی تو اُس روز اپنے بُرے انجام سے کیسے بچ نکلو گے جب صور میں پھونک ماری جائے گی اور قیامت برپا ہوگی۔ (صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، الانعام، حاشیہ۴۷۔جلد دوم، ابراہیم،حاشیہ۵۷۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۷۸۔الحج،حاشیہ۱۔جلد چہارم،یٰس،حواشی۴۶۔۴۷۔الزُّمُر، حاشیہ۷۹۔جلد پنجم،ق،حاشیہ۵۲۔)۔۹

: اِس ارشاد سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دن ایمان لانے والوں کے لیے ہلکا ہوگا اور اس کی سختی صرف حق کا انکار کرنے والوں کے لیے مخصوص ہوگی۔ مزید بر اں یہ ارشاد اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ اُس دن کی سختی کافروں کے لیے مستقل سختی ہو گی، وہ ایسی سختی نہ ہوگی جس کے بعد کبھی اُس کے نرمی سے بدل جانے کی امید کی جا سکتی ہو۔

۱۰: یہ خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اَے نبی، کفار کی اس کانفرنس میں جس شخص (ولید بن مغیرہ) نے تمہیں بدنام کرنے کے لیے یہ مشورہ دیا ہے کہ تمام عرب سے آنے والے حاجیوں میں تمہیں جادوگر مشہور کیا جائے، اُس کا معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اُس سے  نمٹنا اب میرا کام ہے، تمہیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

۱۱: اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ جب میں نے اُسے پیدا کیا تھا اُس وقت یہ کوئی مال اور اولاد اور وجاہت اور ریاست لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ اُس کا پیدا کرنے والا اکیلا میں ہی تھا، وہ دوسرے معبود، جن کی خدائی قائم رکھنے کے لیے یہ تمہاری دعوتِ توحید کی مخالفت  میں اس قدر سر گرم ہے، اُس کو پیدا کرنے میں میرے ساتھ شریک نہ تھے۔۱۲: ولید بن مغیرہ کے دس بارہ لڑکے تھے جن میں سے حضرت خالد بن ولید تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ اِن بیٹوں کے لیے  شُہود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو کہیں اپنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ اور سفر کرنے کی حاجت پیش نہیں آتی ، ان کے گھر کھانے کو اتنا موجود ہے کہ ہر وقت باپ کے پا سموجود اور اس کی مدد کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے سب بیٹے نامور اور با اثر ہیں، مجلسوں اور محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہو تے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اِس مرتبے کے لوگ ہیں کہ معاملات میں ان کی شہادت قبول کی جاتی ہے۔

۱۳: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اِس پر بھی اس کی حرص ختم نہیں ہوئی۔ اتنا کچھ پانے کے بعد بھی وہ بس اسی فکر میں لگا ہوا ہے کہ اُسے دنیا بھر کی نعمتیں عطا کر دی جائیں۔ دوسرا مطلب حضرت حسن بصری اور بعض  دوسرے بزرگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر واقعی محمدؐ کا یہ بیان سچاہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی جنت بھی ہو گی تو وہ جنّت میرے ہی لیے بنائی گئی ہے۔

۱۴: یہ اُس واقعہ کا ذکر ہے جو کفارِ مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا۔ اس کی جو تفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلامِ الہیٰ ہونے کا قائل ہو چکا تھا۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست بر قرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود اُن تمام  الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے تھے تو اسے مجبُور  کیا گیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضور ؐ کو بدنام کیا جا سکتا ہو۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پُور ی تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے۔

۱۵: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو شخص بھی اس میں ڈالا جائے گا اسے وہ جلا کر خاک کر دے گی مگر مر کر بھی اس کا پیچھا نہ چھوٹے گا بلکہ وہ پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر جلا یا جائے گا۔ اسی مضمون کو دوسری جگہ اس طرح ادا کیا گیا ہے کہ لاَ یَمُوْتُ فِیْھَا وَلاَ یَحْییٰ ’وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گیا‘(الاعلیٰ۔۱۳)۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دے گی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے،  اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔

۱۶: یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا  الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیر ضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایا ں کر نے والی چیز  دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بد نمائی اُسے سب سے زیادہ کھلتی ہے۔ اندرونی اعضاء میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بد نما ہو جائے، یا اس کے جسم کے کھلے حصّوں کی جلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص اُس سے  گھِن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شاندار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں ، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہر وش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھُلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلا کر کوئلے کی طرح سیاہ کر دی جائے گی۔

۱۷: یہاں سے لے کر ’تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی  نہیں جانتا‘ تک کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر اُن معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف ۱۹ ہو گی ، اس کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا۔ اُن کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف تو ہم سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں  اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف ۱۹ کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قریش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا،’بھائیوں ، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ایک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے؟‘بنی جُمحَ کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے’۱۷ سے میں تو اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا‘۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں۔

۱۸: یعنی اُن کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں۔

۱۹: کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اُس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں  کے بارے میں، یا وحی ورسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد وحساب مجرم جنوں اور انسانوں کو صرف ۱۹ سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فرداً فرداً ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فوراً کھل کر باہر آ جائے گا۔ ***** یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔

۲۰: بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سُن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے اوّل  یہ کے یہود نصاریٰ کو جو مذہبی کتابیں دنیا میں پا ئی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں  یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ۱۹ ہے۔ دوسرے، قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سےدوزخ کے ۱۹ فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑا یا جائے گا، لیکن اس کے با وجود جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق ااستہزاء کی ذرّہ برابر پر وا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء  کی شانسے نا واقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہا یا نا پسند۔ اس بنا پر اہلِ کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرزِ عمل بار ہا  نظارہ ہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلّف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کی کہ اس حیرت انگیز قصّے کو  سُن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے۔

۲۱: یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شکّ و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ  چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفا داری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران، آیت۱۷۳۔جلد دوم، الانفال، آیت۲، حاشیہ ۲۔ التوبہ، آیات۱۲۴۔۱۲۵۔حاشیہ۱۲۵۔ جلد چہارم، الاحزابِ،آیت۲۲، حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الفتح آیت ۴، حاشیہ۷)۔

۲۲: قرآن مجید میں چونکہ بالعموم ’دل کی بیماری‘سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکّہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ،جلدسوم میں صفحہ۶۷۲،۶۷۴، اور۶۸۰تا۶۸۲ پر واضح کر چکے ہیں۔دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو ایک خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں یہ معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اُس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں آخر کون سا موقع تھا کہ اِس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ  میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا، آخرت ، وحی، رسالت، جنت ،دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں، اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو  اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں، آخرت ہوگی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر  وحی آتی تھی یا نہیں، یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گیا ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں  کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر اِن حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرّہ برابر بھی عقل کا مادّہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اِن امُور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور اِنہیں قطعاً خارج از امکان قرار دے دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔

۲۳: اس کے معنی  یہ نہیں ہیں کہ وہ اِسے اللہ کا کلام  تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی۔ بلکہ دراصل  وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے۔۲۴: یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ایک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اُس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اُسی بات کو ایک ہٹ دھرم، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اُس کا ٹیڑھا مطلب نکلا کر اسے حق سے دُور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا بنا لیتا ہے۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت بخش دیتا ہے،کیونکہ  اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات  ملاحظہ ہوں :جلد اوّل، البقرہ،حواشی۲۰،۱۹،۱۶،۱۰۔النساء،حاشیہ۱۷۳۔الانعام،حواشی۹۰،۲۸،۱۷ جلد دوم، یونس،حاشیہ۱۳۔جلد سوم، الکہف، حاشیہ۵۴۔القصص،حاشیہ۷۱)۔

۲۵: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کُرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدا ئی کا کارخانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصّور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔

۲۶: یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آ جائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں۔

 

ترجمہ

 

۲۷ ہرگز نہیں، قسم ہے چاند کی ، اور رات کی جبکہ وہ پلٹتی ہے، اور صبح کی جبکہ وہ روشن ہوتی ہے، یہ دوزخ بھی بڑی چیزوں میں سے ایک ہے، ۲۸ انسانوں کے لیے ڈرا وا، تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے ڈراوا جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے۔ ۲۹

ہر متنفّس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، ۳۰ دائیں بازو والوں کے سوا،۳۱ جو جنّتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ مجرموں سے پوچھیں گے ۳۲ ’ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘وہ کہیں گے’ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے  نہ تھے، ۳۳ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، ۳۴ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔ اور روزِ جزا کو جھُوٹ قرار دیتے تھے ، یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا۔‘ ۳۵  اُس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ ۳۶

آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اِس نصیحت سے مُنہ موڑ رہے ہیں گویا یہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں۔ ۳۷ بلکہ اِن میں سے تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے نام کھُلے خط بھیجے جائیں۔ ۳۸ ہر گز نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ ۳۹ ہر گز نہیں، ۴۰ یہ تو ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اس سبق حاصل کر لے۔ اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔۴۱ وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے ۴۲ اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے۔ ۴۳    ؏۲

 

تفسیر

 

۲۷: یعنی یہ کوئی ہوا ئی بات نہیں ہے جس کا اِس طرح مذاق اُڑا یا جائے۔

۲۸: یعنی جس طرح چاند ، اور رات اور دن اللہ تعالیٰ  کی قدرت کے عظیم نشانات ہیں اُسی طرح دوزخ بھی عظائمِ قدرت میں سے ایک چیز ہے۔ اگر چاند کا وجود غیر ممکن نہ تھا، اگر رات اور دن کا اس باقاعدگی کے ساتھ آنا غیر ممکن نہ تھا، تو دوزخ کا وجود، آخر کیوں تمہارے خیال میں غیر ممکن ہو گیا؟ اِن چیزوں کو چونکہ تم رات دن دیکھ رہے ہو اس لیے تمہیں ان پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ، ورنہ اپنی ذات میں یہ بھی اللہ کی قدرت کے نہایت حیرت انگیز معجزے ہیں ، جو اگر تمہارے  مشاہدے میں نہ آئے ہوتے ، اور کوئی تمہیں خبر دیتا کہ چاند جیسی ایک چیز بھی دنیا میں موجود ہے، یا سورج ایک چیز ہے جس کے چھپنے سے دنیا میں اندھیرا  ہو جا تا ہے، اور جس کے نکل آنے سے دنیا چمک اٹھتی ہے ،تو تم جیسے لوگ اِس بات کو سُن کر بھی اُسی طرح ٹھٹھے مارتے جس طرح دوزخ کا ذکر سُن کر ٹھٹھے مار رہے ہو۔

۲۹: مطلب یہ ہے  کہ اس چیز سے لوگوں کو ڈرا دیا گیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس سے ڈر کر بھلائی کے راستے پر آگے بڑھے اور جس کا جی چاہے پیچھے ہٹ جائے۔

۳۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔

۳۱: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔

۳۲: اس سے پہلے کئی مقامات پر قرآن مجدی میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اہلِ جنت اور اہل دوزخ ایک دوسرے سے ہزاروں لوکھوں میل دُور ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے کو کسی آلے کی مدد کے بغیر دیکھ سکیں گے اور ایک دوسرے سے براہِ راست گفتگو کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات۴۴تا ۵۰، حاشیہ۳۵۔ جلد چہارم، الصّافّات، آیات۵۰تا۵۷،حاشیہ۳۲۔

۳۳: مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو مان کر خدا کا وہ اوّلین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے، یعنی نماز۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اُس وقت تک پڑھ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو ۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو ملتزم ہے ۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کر دی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو۔

۳۴: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کو بھوک میں مبتلا دیکھنا اور قدرت رکھنے کے باوجود اس کو کھانا نہ کھلانا اسلام کی نگاہ میں کتنا بڑا گناہ ہے کہ آدمی کے دوزخی ہونے کے اسباب میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

۳۵: یعنی مرتے دم تک ہم اِسی روش پر قائم رہے یہاں تک کہ وہ یقینی چیز ہمارے سامنے آ گئی جس سے ہم غافل تھے۔ یقینی چیز سے مراد موت بھی ہے اور آخرت بھی۔

۳۶: یعنی ایسے لوگ جنہوں نے مرتے دم تک یہ روش اختیار کیے رکھی ہو ان کے حق میں اگر کوئی شفاعت کرنے والا شفاعت کرے بھی تو اسے معافی نہیں مل سکتی۔ شفاعت کے مسئلے کو قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ شفاعت کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا ، کس حالت میں کی جاسکتی ہے اور کس حالت میں نہیں کی جا سکتی، کس کے لیے کی جا سکتی ہے اور کس کے لیے نہیں کی جا سکتی ، اور کس کے حق میں وہ نافع ہے اور کس کے حق میں نافع نہیں ہے۔ دنیا  میں چونکہ لوگوں کی گمراہی کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں ، اس لیے قرآن نے اس مسئلے کو اتنا کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ،۲۵۵۔ الانعام،۹۴۔ الاعراف،۳۵۔یونس،۳۔۱۸۔ مریم،۸۷۔ طٰہٰ،۱۰۹۔ الانبیاء،۲۸۔ سبا،۲۳۔ الزُّمَر،۴۳۔۴۴۔ المومن،۱۸۔ الدُّخان،۸۶ ۔ النجم۲۶۔ النبا،۳۷۔۳۸۔ تفہیم القرآن میں جہاں جہاں یہ آیات آئی ہیں ہم نے  ان کی اچھی طرح تشریح کر دی ہے۔

۳۷: یہ ایک عربی محاورہ ہے ۔جنگلی گدھوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے  کہ خطرہ بھانپتے ہی وہ اِس قدر بد حواس ہو کر بھاگتے ہیں کہ کوئی دوسرا جانور اس طرح نہیں بھاگتا ۔ اس لیے اہلِ عرب غیر معمولی طور پر بد حواس ہو کر بھاگنے والے کو اُن جنگلی گدھوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو شیر کی بُو یا شکاریوں کی آہٹ پاتے ہی بھاگ پڑے ہوں۔

۳۸: یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی مقرر فرمایا ہے تو وہ مکہ کے ایک ایک سردار اور ایک ایک شیخ کے نام ایک خط لکھ کر بھیجے کہ محمد ؐ ہمارے نبی ہیں، تم ان کی پیروی قبول کرو، اور  یہ خط ایسے ہوں جنہیں دیکھ کر انہیں یقین آ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے یہ لکھ کر بھیجے ہیں۔ ایک اور عام مقام پر قرآن مجید میں کفارِ مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’ہم نہ مانیں گے جب تک وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے‘(الانعام،۱۲۴)۔ایک دوسری جگہ ان کا یہ مطالبہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لا کر ہمیں دیں جسے ہم پڑھیں(بنی اسرائیل۔۹۳)۔

۳۹: یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے یہ مطالبے پُورے نہیں کیے جاتے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت سے بے خوف ہیں۔ انہوں نے سب چکھ اسی دنیا  کو سمجھ رکھا ہے اور انہیں یہ خیال نہیں  ہے کہ اِس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں اِن کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اسی چیز نے اِن کو دنیا میں بے فکر اور غیر ذمّہ دار بنا دیا ہے ۔ یہ حق اور باطل کے سوال کو سرے سے بے  معنی سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں دنیا میں کوئی حق ایسا نظر نہیں آتا جس کی پیروی کا نتیجہ لازماً دنیا میں اچھا ہی نکلتا ہو، اور نہ کوئی باطل ایسا نظر آتا ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ضرور بُرا  ہی نکلا کرتا ہو۔ اس لیے یہ اِس مسئلے پر غور کرنا لا حاصل سمجھتے ہیں کہ فی الواقع حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ قابلِ غور اگر ہو سکتا ہے تو صرف اُس شخص کے لیے جو دنیا کی موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی سمجھتا ہو اور یہ تسلیم کرتا ہو کہ اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں حق کا انجام لازماً اچھا اور باطل کا انجام لازماً بُرا ہوگا۔ ایسا شخص تو اُن معقول دلائل اور اُن پاکیزہ تعلیمات کو دیکھ کر ایمان لائے گا جو قرآن میں پیش کی گئی ہیں اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ قرآن جن عقائد اور اعمال کو غلط کہہ رہا ہے ان میں فی الواقع کیا غلطی ہے۔ لیکن آخرت کا منکر جو سرے سے تلاشِ حق میں سنجیدہ ہی نہیں ہے وہ ایمان نہ لانے کے لیے آئے دن نتِ نئے مطالبے پیش کرے گا، حالانکہ اس کا خواہ کوئی مطالبہ بھی پورا کر دیا جائے، وہ انکار کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانا ڈھونڈ نکالے گا۔ یہی  بات ہے جو سورہ انعام میں فرمائی گئی ہے کہ ’اے نبی، اگر ہم تمہارے اوپر کاغذ میں لکھی لکھائی کوئی کتاب بھی اُتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھُو کر بھی دیکھ لیتے تو جنہوں نے حق  کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے‘ (الانعام،۷)۔

۴۰: یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔

۴۱: یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔

۴۲: یعنی تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچنے کی جو نصیحت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ کو اِس کی ضرورت ہے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو اُس سے اللہ کا کوئی نقصان  ہوتا ہے،بلکہ یہ نصیحت اس بنا پر کی جا رہی ہے کہ اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا چاہیں اور اس کی مرضی کے خلاف نہ چلیں۔

۴۳: یعنی یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں ، جس وقت بھی وہ اپنی اِس روش سے باز آ جائے اللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی  جذبۂ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں درگزر ہی نہ کرے اور انہیں سزا دیے بغیر چھوڑے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۷۵۔سورة القیٰمۃ

 

 

نام

 

پہلی ہی آیت کے  لفظ اَلْقِیٰمَۃ کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ، اور یہ صرف نام ہی نہیں ہے۔بلکہ اس سُورہ کا عنوان بھی ہے۔ کیونکہ اس میں قیامت ہی پر بحث کی گئی ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اگرچہ  کسی روایت سے اِس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہوتا ، لیکن اِس کے مضمون میں ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ آیت ۱۵ کے بعد یکایک سلسلہ کلام توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے کہ’اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرأت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دنیا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے‘۔ اس کے بعد آیت ۲۰ سے پھر وہی مضمون شروع ہو جاتا ہے جو ابتدا سے آیت ۱۵ تک چلا آ رہا تھا۔ یہ جملہ معترضہ اپنے موقع و محل سے بھی اور روایات کی رُو سے بھی اِس بنا پر دورانِ کلام میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبریلؑ  یہ سورہ حضورؐ کو سنا رہے تھے اُس وقت آپ اِس اندیشے سے کہ کہیں بعد میں  بھول نہ جائیں، اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دُہراتے جا رہے تھے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ واقعہ اُس زمانہ کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولِ وحی کا نیا نیا تجربہ ہو رہا تھا اور ابھی آپ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اچھی طرح نہیں پڑی تھی۔ قرآن مجید میں اس کی دو مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ ایک سورہ طٰہٰ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا  ہے وَلاَ تَجْعَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰیٓ اِلَیْکَ وَحْیُہٗ،’اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے‘(آیت۱۱۴)۔دوسرے سورہ اعلیٰ میں جہاں حضور ؐ  کو اطمینان دلا یا گیا ہے کہ سَنُقْرِ ئُکَ فَلاَ تَنْسیٰ،’ہم عنقریب تم کو پڑھو ا دیں گے پھر تم بھولو گے نہیں‘(آیت۶)۔ بعد میں جب حضور ؐ کو وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق ہو گئی تو اِس طرح کی ہدایات دینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی لیے قرآن میں اِن تین مقامات کے سوا اِس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

 

موضوع اور مضمون

 

یہاں سے آخرِ کلام اللہ تک جو سُورتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر اپنے مضمون اور انداز بیان سے اُس زمانہ کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں جب سورہ مُدثِّر کی ابتدائی سات آیات کے بعد نزول قرآن کا سلسلہ بارش کی طرح شروع ہوا اور پے در پے نازل ہونے والی سُورتوں میں ایسے پُرزور اور مؤثر طریقہ سے نہایت جامع اور مختصر فقروں میں اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا اور اہل مکہ کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کیا گیا جس سے قریش کے سردار بَوکھلا گئے اور پہلا حج آنے سے پہلے حضورؐ کو زک دینے کی تدبیریں سوچنے کے لیے انہوں نے وہ کانفرنس منعقد کی جس کا ذکر ہم سورہ مدّثِر کے دیباچہ میں کر چکے ہیں۔

اس سُورہ میں منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اور آخرت کے امکان، وقوع اور وجوب کا ثبوت دیا گیا ہے، اور یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں  ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی عقل اسے ناممکن سمجھتی ہے، بلکہ اس کا اصل محِرّک یہ ہے کہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اسے ماننا نہیں چاہتیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو خبر دار کر دیا گیا ہے کہ جس وقت کے آنے کا تم انکار کر رہے ہو وہ آ کر رہے گا، تمہارا سب کیا دھرا تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا، اور حقیقت میں تو اپنا نامہ اعمال دیکھنے سے بھی پہلے تم میں سے ہر شخص  کو خود معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ سے ناواقف نہیں ہوتا، خواہ وہ دنیا کو بہکانے اور اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے اپنی حرکات کے لیے کتنے ہی بہانے اور عذرات تراشتا رہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

نہیں،  ۱ میں  قسم کھاتا ہوں  قیامت کے دن کی، اور نہیں ،  میں  قسم کھاتا ہوں  ملامت کرنے والے نفس کی، ۲ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اُس کی ہڈیوں  کو جمع نہ کر سکیں  گے ؟ ۳ کیوں  نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں  کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔  ۴ مگر انسان چاہتا یہ ہے کہ آگے بھی بد اعمالیاں  کرتا رہے۔  ۵ پوچھتا ہے ’’ آخر کب آنا ہے وہ قیامت کا دن؟‘‘ ۶ پھر جب دِیدے پتھرا جائیں  گے ۷ اور چاند بے نور ہو جائے گا  اور چاند سُورج ملا کر ایک کر دیے جائیں  گے ۸ اُس وقت یہی انسان کہے گا’’ کہاں  بھاگ کر جاؤں ؟‘‘ ہر گز نہیں،  وہاں  کوئی جائے پناہ نہ ہو گی، اُس روز تیرے ربّ ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہو گا۔ اُس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا۔ ۹ بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں  پیش کرے ۱۰۔ ۔۔۔ ۱۱ اے نبیؐ،  اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے،  لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں  ۱۲ اُس وقت تم اِس کی قرأت کو غور سے سُنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے ۱۳۔ ۔۔۔ ہر گز نہیں، ۱۴ اصل بات  یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز ( یعنی دنیا)سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ ۱۵ اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے،  ۱۶ اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں  گے۔  ۱۷ اور کچھ چہرے اُداس ہوں  گے اور سمجھ رہے ہوں  گے کہ اُن کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔  ہر گز نہیں،  ۱۸ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی، اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھُونک کر نے والا، ۱۹ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جُدائی کا وقت ہے،  اور پنڈلی سے پنڈلی جُڑ جائے گی، ۲۰ وہ دن ہو گا تیرے ربّ کی طرف روانگی کا۔   ؏۱

 

تفسیر

 

۱: کلام کی ابتدا نہیں   سے کرنا خود بخود اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں  یہ سُورۃ نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی  ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں  تھی جس کا اہلِ مکہ انکار کر رہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑا رہے تھے۔  اس طرزِ  بیان کو  اِس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ا گر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں  تو آپ کہیں  گے ’’خدا کی قسم رسول برحق ہے ‘‘۔ لیکن اگر کچھ لوگ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں  تو آپ جواب میں  اپنی بات یُوں  شروع کر یں  گے کہ ’’نہیں ،  خدا کی قسم رسول بر حق ہے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ صحیح نہیں  ہے،  میں  قسم کھا کر کہتا ہوں  کہ اصل بات یہ ہے۔

۲: قرآن مجید میں  نفسِ انسانی کی تین قسموں  کا ذکر کیا گیا ہے۔  ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں  پر اکساتا ہے۔  اس کا نام نفس اَمارہ ہے۔  دوسرا نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بُری نیت رکھنے پر نادم ہو تا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے۔  اس کا نام نفسِ لوّامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں  ضمیر کہتے ہیں۔  تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں  اطمینان محسوس کرتا ہے۔  اس کا نام نفسِ مطمئنّہ ہے۔  اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اُسے بیان نہیں  کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔  قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور  وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔  اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر اِن دو چیزوں  کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے ؟ جہاں  تک روزِ قیامت کا تعلق ہے،  اُس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے۔  پوری کائنات کا نظام اِس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ اِس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔  انسان کی عقل پہلے بھی اِس گمانِ بے اصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تھی کہ یہ ہر آن بدلنے والی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے،  لیکن جتنا جتنا اِس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اِس ہنگامہ ہست و بود کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا۔ اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے،  اور یہ ایسی ہی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں  شک کر رہا ہو، خطاب کر کے کہیں  کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو،  یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے۔            لیکن روز قیامت کی قَسم صرف اِس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔  رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا بُرا نتیجہ دیکھے گا،  تو اس کے لیے دوسری قسم نفسِ لوّامہ کی کھائی گئی ہے۔  کوئی انسان دنیا میں  ایسا موجود نہیں  ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اِس ضمیر میں  لازماً بھلائی اور بُرائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور بُرائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان  نرا حیوان نہیں ا ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے،  اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے،  وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے  اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے،  اور جس بُرائی کا ارتکاب اُس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہولے،  تو اس کے بر عکس  صورت میں  جبکہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اُس کے ساتھ کیا ہو، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اِس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔  اب اگر انسان کے وجود میں  اِس طرح کے ایک نفسِ لوّامہ کی موجود گی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے،  تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفسِ لوّامہ زندگی بعدِ موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں  موجود ہے۔  کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے اُن کی جزا یا سزا اُس کو ضرور ملنی چاہیے،  زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں  پُورا نہیں  ہو سکتا۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہو جائے ہو اُس کی بہت سی بھلائیاں  ایسی ہیں  جن کے اجر سے وہ لازماً محروم رہ جائے گا، اور اس کی بہت سی بُرائیاں  ایسی ہیں  جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا۔ اس لیے جب تک آدمی اِس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظامِ کائنات میں  پیدا ہو گیا ہے،  اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں  جنم لے  بیٹھا ہے جو بنیا دی طور پر اپنے  پُورے نظام میں  اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں  رکھتی،  اُس وقت تک وہ حیات بعدِ موت کا انکار نہیں  کر سکتا۔  اسی طرح تنا سُخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اِس مطالبے کا جواب نہیں  ہے۔  کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں  جنم لیتا چلا جائے تو ہر جنم میں  وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سے جزا وسزا کے متقاضی ہوں  گے اور اس لامتناہی سلسلے میں  بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چُک سکے،  اُلٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں  پُورا ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں  انسان کی صرف ایک زندگی ہو، اور پھر پُوری نوعِ انسانی کا خاتمہ ہو جانے کے بعد ایک دوسری زندگی  ہو جس میں  انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دے دی جائے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہمہ القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۳۰)۔

۳: اوپر کی دو دلیلیں ،  جو قسم کی صور ت میں  بیان کی گئی ہیں،  صرف دو باتیں  ثابت کرتی ہیں۔  ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ )ایک یقینی امر ہے۔  دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی اور فطری تقاضے پُورے نہیں  ہو سکتے،  اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے،  کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اِس پر گواہی دے رہی ہے۔  اب یہ تیسری دلیل  یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی بعدِ موت ممکن  ہے۔  مکہ میں  جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ  بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں  ہزاروں  برس گزر چکے ہوں،  جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں  مل کر پراگندہ ہو چکا ہو، جن  کی ہڈیاں  تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں  کہاں  کہاں  منتشر ہو چکی ہوں ،  جن میں  سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں   کے پیٹ میں  جا چکا ہو، کوئی سمندر میں  غرق ہو کر مچھلیوں  کی غذا بن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہو جائیں  اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے کبھی  وہ تھا؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی  پر زور جواب اللہ تعالیٰ نے اِس مختصر سے سوال کی شکل میں  دے دیا ہے کہ ’’کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں  کو کبھی  جمع نہ کر سکیں  گے ‘‘؟یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہو جائیں  گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ جی اٹھو گے،  تو بلا شبہ تمہارا اِس  نا ممکن سمجھنا بجا ہوتا۔مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں  ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرتے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو،  اِس کام سے عاجز ہے ؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں  کوئی شخص جو خدا کو خالقِ کائنات مانتا ہو، نہ اُس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی نے وقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم آج جس جسم میں  اِس وقت موجود ہو اس کے بے شمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہا ں  کہاں  سے جمع کر کے اُسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزاء کو جمع نہیں  کر سکتا؟

۴: یعنی بڑی بڑی ہڈیوں  کو جمع کر کے تمہارا  ڈھانچہ پھر سے کھڑا کر دینا تو درکنار، ہم تو اس بات پر  بھی قادر ہیں  کہ تمہارے نازک ترین اجزائے جسم حتیٰ کہ تمہاری انگلیوں  کی پوروں  تک پھر ویسا ہی بنا دیں  جیسی وہ پہلے تھیں۔

۵: اِس چھوٹے سے فقرے میں  منکرینِ آخرت کے اصل مرض کی صاف صاف تشخیص کر دی گئی ہے۔  اِن لوگوں  کو جو چیز آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے وہ دراصل یہ نہیں  ہے کہ فی الواقع وہ قیامت اور آخرت کو نا ممکن سمجھتے ہیں،  بلکہ اُن کے اِس انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت کو ماننے سے لازماً اُن پر کچھ اخلاقی پابندیاں  عائد ہوتی ہیں،  اور انہیں  یہ پابندیاں  ناگوار ہیں۔  وہ چاہتے ہیں  کہ جس طرح وہ اب تک زمین میں  بے نَتھے بیل کی طرح پھرتے رہے ہیں  اُسی طرح آئندہ بھی پھر تے رہیں۔  جو ظلم،  جو بے ایمانیاں،  جو فسق و فجور، جو بد کر داریاں  برتنے سے نہ روکنے پائے کہ ایک دن انہیں  اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اِن اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ اس لیے دراصل اُن کی عقل اُنہیں  آخرت پر ایمان لانے سے نہیں  روک رہی ہے بلکہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اِس میں  مانع ہیں۔

۶: یہ سوال استفسار کے طور پر نہیں  بلکہ انکار اور استہزاء کے طور پر تھا۔ یعنی وہ یہ پوچھنا نہیں  چاہتے تھے کہ قیامت کس روز آئے گی، بلکہ مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ حضرت !جس دن کی آپ کو خبر دے رہے ہیں  آخر وہ آتے آتے رہ کہاں  گیا ہے ؟

۷: اصل میں  بَرِقَ الْبَصَرُ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں  جن کے لُغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں  کے چُندھیا جانے کے ہیں۔  لیکن عربی محاورے میں  یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں  ہیں  بلکہ خوف زدگی، حیرت، یا کسی اچانک حادثہ سے دوچار ہو جانے کی صورت میں  اگر آدمی ہَکَ دَک رہ جائے اور اس کی نگاہ اُس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آ رہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔  اِسی مضمون کو قرآن مجید میں  ایک دوسری جگہ یُوں  بیان کیا گیا ہے۔ :اِنَّمَا یُؤَ خِّرُ ھُمْ لِیَوْمٍتَشْخَصُ فِیْہِ الْاَ بْصَارُ، ’’اللہ تو انہیں  ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ جائیں  گی‘‘(ابراہیم، ۴۲)۔

۸: یہ قیامت کے پہلے مرحلے میں  نظامِ عالم کے درہم برہم ہو جانے کی کیفیت کا ایک مختصر بیا ن ہے۔  چاند کے بے نور ہو جانے اور چاند سورج کے مل کر ایک ہو جانے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف چاند ہی کی روشنی ختم نہ ہو گی جو سورج سے ماخوذ ہے بلکہ خود سورج بھی تاریک ہو جائے گا اور بے نُور ہو جانے میں  دونوں  یکساں  ہو جائیں  گے۔  دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زمین یکایک اُلٹی چل پڑے گی اور اُس دن چاند اور سُورج دونوں  بیک وقت مغرب سے طلوع ہوں  گے۔  اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ چاند یک لخت زمین کی گرفت سے چھوٹ کر نکل جائے گا اور سورج میں  جا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ اس کا کوئی اور مفہوم بھی ہو جس کو آج ہم نہیں  سمجھ سکتے۔

۹: اصل میں  الفاظ ہیں  بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ۔ یہ بڑا جامع فقرہ ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں  اور غالباً وہ سب ہی مراد ہیں۔  ایک معنی اس کے یہ ہیں  کہ آدمی کو اُس روز یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں  مرنے سے پہلے کیا نیکی  یا بدی کما کر اُس نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجی تھی اور یہ حساب بھی اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ اپنے اچھے یا بُرے اعمال کے کیا اثرات وہ اپنے پیچھے دنیا میں  چھوڑ آیا تھا جو اس کے بعد مدتہائے دراز تک آنے والی نسلوں  میں  چلتے رہے۔  دوسرے معنی یہ ہیں  کہ اسے وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو اُسے کر نا چاہیے تھا مگر اُس نے نہیں  کیا اور جو کچھ نہ کرنا چاہیے تھا مگر اُس نے کر ڈالا۔ تیسرے معنی یہ ہیں  کہ جو کچھ اس نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں  کیا اس کا پُورا حساب تاریخ وار اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ چوتھے معنی یہ ہیں  کہ جو نیکی یا بدی اس نے کی وہ بھی اسے بتا دی جائے گی اور جس نیکی یا بدی کے کرنے سے وہ باز رہا اُس سے بھی اسے آگاہ کر دیا جائے گا۔

۱۰: یعنی آدمی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھنے کی غرض درحقیقت یہ نہیں  ہو گی کہ مجرم کو اس کا جُرم بتا یا جائے،  بلکہ ایسا کرن تو اس وجہ سے ضروری ہو گا کہ انصاف کے تقاضے بر سرِ عدالت جرم کا ثبوت پیش کیے بغیر پُورے نہیں  ہوتے۔  ورنہ ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے۔  اپنے آپ کو جاننے کے لیے وہ اِس کا محتاج نہیں  ہو تا کہ کوئی دوسرا اُسے بتائے کہ وہ کیا ہے۔  ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکہ دے سکتا ہے،  لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔  ایک چور لاکھ حیلے اپنی چوری کو چھپانے کے لیے اختیار کر سکتا ہے،  مگر اس کے اپنے نفس سے تو یہ بات مخفی نہیں  ہوتی کہ وہ چور ہے۔  ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں  پیش کر کے لوگوں  کو یہ یقین دلا سکتا ہے۔  کہ وہ جس کفر یا دہریّت یا شرک کا قائل ہے وہ درحقیقت اس کی ایماندارانہ رائے ہے،  لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں  ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں  جما ہوا ہے اور ان کی غلطی سمجھنے اور تسلیم کرنے سے دراصل کیا چیز اسے روک رہی ہے۔  ایک ظالم، ایک بد دیانت، ایک بد کر دار، ایک حرام خور، اپنی  بد اعمالیوں  کے لیے طرح طرح کی معذرتیں  پیش کر کے خود اپنے ضمیر تک کا منہ بند کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تا کہ  وہ اسے ملامت کرنے سے باز آ جائے اور یہ مان لے کہ واقعی کچھ مجبوریاں،  کچھ مصلحتیں ،  کچھ ضرورتیں  ایسی ہیں  جن کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے،  لیکن اس کے با وجود اُس کو یہ علم تو بہر حال ہوتا ہی ہے کہ اس نے کس پر کیا ظلم کیا ہے،  کس کا حق مارا ہے،  کس کی عصمت خراب کی ہے،  کس کو دھوکا دیا ہے،  اور کِن ناجائز طریقوں  سے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔  اس لیے آخرت کی عدالت میں  پیش ہوتے وقت ہر کافر، ہر منافق، ہر فاسق وف اجر اور مجرم خود جانتا ہو گا کہ وہ کیا کر کے آیا ہے اور کس حیثیت میں  آج اپنے خدا کے سامنے کھڑا ہے۔

۱۱:  یہاں  سے لے کر ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے ‘‘تک  کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیچ میں  توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے،  جیسا کہ ہم دیباچہ مین بیان کر آئے ہیں ،  نبوت کے ابتدائی دور میں ،  جبکہ حضورؐ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں  ہوئی تھی، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلامِ الہیٰ آپ کو سنا رہے ہیں  وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں،  اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگتے تھے۔  ایسی ہی صورت اُس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے۔  چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں  بلکہ غور سے سنتے رہیں،  اسے یاد کرا دینا اور بعد میں  ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے،  آپ مطمئن رہیں  کہ اس کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں  گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں  غلطی کر سکیں  گے۔  یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام ’’ہر گز نہیں،  اصل بات یہ ہے ‘‘ سے شروع ہو جاتا ہے۔  جو لوگ اِس پس منظر سے واقف نہیں  ہیں  وہ اس مقام پر اِن فقروں  کو دیکھ کر  یہ محسوس کر تے ہیں  کہ اس سلسلہ کلام میں  یہ بالکل بے جوڑ ہیں۔  لیکن اِس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں  کوئی بے ربطی محسوس نہیں  ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالب علم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالب علم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے۔  یہ درس اگر جوں   کا تُوں  نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس واقعہ سے واقف نہ ہوں  گے وہ اس سلسلہ تقریر میں  اِس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں  گے۔  لیکن جو شخص اُس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں  آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جُوں  کا تُوں  نقل کیا گیا ہے،  اُسے نقل کرنے میں  کوئی کمی بیشی نہیں  ہوئی ہے۔            اوپر اِن آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں  ہے،  بلکہ معتبر روایات میں  اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے۔  مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں  سے حضرت عبد للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضورؐ  پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اِس خوف سے کہ کہیں  کوئی چیز بھول نہ جائیں،  جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دُہرانے لگتے تھے۔  اس پر فرمایا گیا کہ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَآ نَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔۔۔۔۔ یہی بات شَعْبِی، ابنِ زید، ضَحّاک، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے۔

۱۲: اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو جبریل علیہ السّلام قرآن پڑھ کر سُناتے تھے،  لیکن چونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پڑھتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں ‘‘۔

۱۳: اِس سے گمان ہوتا ہے،  اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اِس گمان کا اظہار کیا ہے،  کہ غالباً ابتدائی زمانے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نزولِ وحی کے دوران ہی میں  قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے،  اس لیے حضور ؐ کو نہ صرف یہ ہدایات کی گئی  کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں،  اور نہ صرف یہ  اطمینان دلایا گیا کہ اُس کا لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں   محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اُسی طرح پڑھ سکیں  گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے۔  بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور ہر ارشاد کا منشا اور مدّعا بھی پُوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا۔            یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصلی باتیں  ثابت ہوتی ہیں  جنہیں  اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اُن گمراہیوں  سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں  اور آج پھیلا رہے ہیں۔            اوّلاً، اِس سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں  ہوتی تھی جو قرآن میں  درج ہے،  بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں  درج نہیں  ہے۔  اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین،  اُس کے اشارات، اُس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات  کا جو مفہوم و مدعا حضورؐ  کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں  درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے،  کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں  مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالبِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہر حال الفاظِ قرآن کے ما سواتھی۔ یہ وحیِ خَفِی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں  قرآن سے ملتا ہے (قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب’’سنّت کی آئینی حیثیت‘‘ میں  صفحات۹۴۔۹۵۔ اور صفحات۱۱۸تا۱۲۵ میں  پیش کر دیے ہیں )           ثانیاً، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کے ا حکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو بتائی گئی تھی آخر اِسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اُس کے مطابق لوگوں  کو قرآن سمجھائیں  اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھاَئیں۔  اگر یہ اُس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں  تو یہ ایک بے کار کام تھا، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں  اِس سے کوئی مدد نہیں  مل سکتی تھی۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہ سکتا ہے کہ تشریح علم سرے سے کوئی تشریعی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ نحل آیت ۴۴ میں  فرمایا ہے وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُمَیِّنَ لِلنّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ، ’’اور اے نبی،  یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں  کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کر تے جا ؤ  جو اُن کے لیے اُتار ی گئی ہے ‘‘۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، النحل، حاشیہ۴۰۔اور قرآن میں  چار جگہ اللہ تعالی ٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اِس کتاب کی تعلیم دنیا بھی تھا۔(البقرہ، آیات ۱۲۹، ۱۵۱۔آلِ عمران، ۱۶۴۔الجمعہ، ۲۔ ان سب آیات کی تشریح ہم’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں  صفحہ ۷۴سے ۷۷ تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں ) اس کے بعد کوئی  ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے  فرما دی ہے،  کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں  ہے  بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے۔  اس کو چھوڑ کر  یا اُس سے ہٹ کر  جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیا ن کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صافِ ایمان آدمی نہیں  کر سکتا۔                ثالثاً، قرآن کا سر سری مطالعہ بھی اگر کسی شخس نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں  رہ سکتا کہ اس میں  بکثرت باتیں  ایسی ہیں  جنہیں  ایک عربی داں  آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں  جا ن سکتا کہ اُن کا حقیقی مدعا کیا ہے اور اُن مں ت جو حکم بیان کیا گیا ہے  اس پر کیسے عمل کیا جائے۔  مثال کے طور پر لفظ صلوٰۃ ہی کو لے لیجیے۔  قرآن مجید میں  ایمان  کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دی گیا ہے تو وہ صلوٰۃ ہے۔  لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعیّن نہیں  کر سکتا۔ قرآن میں  اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اِس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں  استعمال کیا گیا ہے،  اور اس ے مراد غالباً کوئی خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے۔  سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلّم کو مقرر کر کے اپنی اِس اصطلاح کا مفہوم اُسے ٹھیک ٹھیک نہ بتا یا ہوتا اور صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کر نے کا  طریقہ پُوری وضاحت کے ساتھ اے نہ سکھا دیا ہوتا،  تو کیا صرف قرآن کو پڑھ  کر دینا میں  کوئی دو مسلمان  بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکمِ صلوٰۃ پر عمل کرنے کی کسی ایک شکل پر متفق ہو جاتے ؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں  عمل کر رہے ہیں،  اس کی وجہ یہی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں  فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی اپ کو پوری طرح سمجھادیا تھا، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ اُن سب لوگوں  کو دیتے چلے گئے جنہوں  نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا۔           رابعاً، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسولؐ کو بتائی اور رسولؐ  نے اپنے قول اور عمل سے اس کی جو تعلیم امّت کو دی، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنّت کے سوا اور  کوئی نہیں  ہے۔  حدیث سے مراد وہ روایات ہیں  جو حضورؐ کی قولی و عملی تعلیم سے مُسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں  رائج ہوا،  جس کی تفصیلات معتبر روایتوں  سے بھی بعد کی نسلوں  کو اگلی نسلوں  سے ملیں،  اور بعد کی نسلون نے اگلی نسلوں  میں  اس پر عمل درآمد ہوتے بھی دیکھا۔ اِس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخص انکار کر تا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَا نَہٗ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمّہ داری لی تھی۔ اسے پورا کرنے میں  معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا، کیونکہ یہ ذمّہ داری محض رسولؐ کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھا نے کے لیے نہیں  لی گئی تھی، بلکہ اس غرض کے لیے لی گئی تھی کہ رسولؐ کے ذریعہ سے اُمّت کر کتابِ الہیٰ کا مطلب سمجھا یا جائے،  اور حدیث و سنّت کے ماخذِ قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آ جاتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اِس ذمہ دار کو پُورا نہیں  کر سکا ہے،  اعاذبا اللہ من ذالک۔ اس کے جواب میں  جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہت سے لوگوں  نے حدیثیں  گھڑ بھی تو لی تھیں،  اُس سے ہم کہیں  گے کہ حدیثوں  کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں  پُوری امّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی،  ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں  کو جھوٹی حدیثیں  گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں  پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکّے تو جعلی بناتے ہیں  جن کا بازار میں  چلن ہو۔ جن نوٹوں  کی بازار میں  کوئی قیمت نہ ہو انہیں  کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا؟ پھر ایسی بات کہنے والوں  کو شاید یہ معلوم نہیں  ہے کہ اِس امّت نے اول روز سے اِس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاکؐ کے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں  اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے،  اور جتنا جتنا غلط باتوں  کے اُس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اِس امّت کے خیر خواہ اِس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کر تے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیّز کیا جائے۔  صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں  کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں  کیا ہے۔  سخت بد نصیب ہیں  وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں  آ کر حدیث و سنت کو نا قابلِ اعتبار ٹھیراتے ہیں  اور نہیں  جانتے کہ اپنی اِس جاہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

۱۴: یہاں  سلسلہ کلام پھر اُسی مضمون کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جو بیچ کے جملہ معترضہ سے پہلے چلا آ رہا تھا۔ ہر گز نہیں  کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے انکارِ آخرت کی اصل وجہ یہ نہیں  ہے کہ تم خالقِ کائنات کو قیامت بر پا کرنے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے سے عاجز سمجھتے ہو، بلکہ اصل وجہ یہ ہے۔

۱۵: وہ انکار آخرت کی دوسری وجہ ہے پہلی وجہ آیت نمبر ۵ میں  بیان کی گئی تھی کہ انسان چونکہ فجور کی کھُلی چھوٹ چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیو سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازماً اس پر عائد ہوتی ہے اس لیے دراصل خواہشات نفس اسے انکار آخرت پر اُبھارتی ہے اور پھر وہ عقلی دلیلیں  بگاڑتا ہے تا کہ اپنے  اس انکار کو معقول ثابت کرے اب دوسری وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے  منکرینِ آخرت چونکہ تنگ نظر اور کوتاہ بیں  ہیں  اس لیے اُن کی نگاہ میں  ساری اہمیت انہیں  نتاَئج کی ہیں  جو اسی دنیا میں  ظاہر ہوتے ہیں   اور اُن نتائج کو وہ کوئی اہمیت نہیں  دیتے  جو آخرت میں  ظاہر ہونے والے ہیں۔  وہ سمجھتے ہیں  کہ جو فائدہ یا زلت یا خوشیاں  حاصل ہو جائے اسی کی طلب میں  ساری محنتیں  اور کوششیں  کھپا دینی چاہیں  کیونکہ اسے پا لیا تو گویا سب کچھ پا لیا، خواہ آخرت میں  اس کا انجام کتنا ہی برا ہو۔ اسی طرح ان کا خیال یہ ہے کہ جو نقصان یا تکلیف یا رنج و غم یہاں  پہنچ جائے وہی  دراصل بچنے کے قابل چیز ہے، قطعِ نظر اس سے کے اُس کو بر داشت کر لینے کا کتنا ہی بڑا اجر آخرت میں  مل سکتا ہو وہ نقد سودا چاہتے ہیں  آخرت جیسی دور کی چیز کے لیے وہ نہ آج کے کسی نفع کو چھوڑ سکتے ہیں  نہ کسی نقصان کو گوارہ کر سکتے ہیں  اس اندازِ فکر کے ساتھ جب وہ آخرت کے مسئلے پر عقلی بحثیں  کرتے  ہیں  تو دراصل وہ خالص عقلیت نہیں  ہوتی بلکہ اس کے پیچھے یہ اندازِ فکر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بہر حال یہی ہوتا ہے کہ آخرت کو نہیں  ماننا ہے،  خواہ اندرسے ان کا ضمیر پکار پکار کر کہہ رہا ہوں  کہ آخرت کے امکان وقوع اور وجوب کی جو دلیلیں  قرآن میں  دی گئی ہیں  وہ نہایت معقول  ہیں  اور اس کے خلاف جو استدلال وہ کر رہے ہیں  وہ نہایت بودا ہے۔

۱۶: یعنی خوشی سے دمک رہے ہوں گے، کیونکہ جس آخرت پر وہ ایمان لائے تھے وہ ٹھیک اُن کے یقین کے مطابق سامنے موجودگی، اور جس آخرت پر ایمان لا کر انہوں  نے دنیا کے ناجائز فائدے چھوڑے اور بر حق  نقصان بر داشت کیے تھے اس کو فی الواقع اپنی آنکھوں  کے سامنے بر پا ہوتے دیکھ کر انہیں  یہ اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ انہوں  نے اپنے رویّہ زندگی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا، اب وہ وقت آ گیا ہے جب وہ اس کا بہترین انجام دیکھیں  گے۔

۱۷: مفسرین میں  سے بعض نے اسے مجازی معنی میں  لیا ہے وہ کہتے ہیں  کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اُس سے توقعات وابسطہ کرنے،  اس کے فیصلہ کا انتظار  کرنے،  اس کے کرم کا امید وار ہونے کے معنی میں  بولے جاتے ہیں،  حتیٰ کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہ میں  تو فلاں  شخص کی طرف لگی ہوئی ہے کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے۔  لیکن بکثرت احادیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی جو تفسری منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں  اللہ کے مقرم بندوں  کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہو گا۔ بخاری کی روایت ہے کہ  اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیَاناً۔’’تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے۔ ‘‘مسلم اور ترمذی میں  حضرت صُہیب کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں   داخل ہو جائیں  گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں  تمہیں  مزید کچھ دُوں ؟ وہ عرض کریں  گے کہ تم  نے ہمارے چہرے روشن نہیں  کر دیے ؟ کیا آپ نے ہمیں  جنت میں  داخل نہیں  کر دیا اور جہنم  سے بچا نہیں  لیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ پر دہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں  کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں  سے کوئی انعام بھی انہیں  اس سے زیادہ محبوب نہ ہو گا کہ وہ اپنے رب کی  دیدسے مشرف ہوں،  اور یہی وہ مزید انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں  فرمایا گیا ہے کہ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْ الْحُسْنیٰ وَزِیَادَۃ یعنی ’’جن لوگوں  نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی ‘‘۔(یونس۔۲۶)بخاری ومسلم میں  حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت ابو ہُریرہ سے  روایت ہے کہ لوگوں  نے پوچھا  یا رسول اللہ،  کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھیں  گے ؟ حضورؐ نے فرمایا کیا تمہیں  سورج اور چاند کو دیکھنے میں  کوئی دقّت ہوتی ہے  جبکہ بیچ میں  بادل بھی نہ ہوں  ؟ لوگوں  نے عرض کیا، نہیں ۔  آپ نے فرمایا اس طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے۔  اس مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری ومسلم میں  حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے۔ مسند احمد، ترمذی، دارقُطنی، ابنِ جریر ابن المنذر، طبرانی، بَیْقَہی، ابن ابی شَیْبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہلِ جنت میں  کم سے کم درجہ کو جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وصیت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا،  اور ان میں  سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھیں  گے پھر حضورؐ نے یہی آیت پڑھی کہ’’اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے،  اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ‘‘۔ابن ماجہ میں  حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں  گے،  پھر جب تک اللہ ان سے پر دہ نہ فرما لے گا اس وقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں  گے اور اسی کی طرف دیکھتے رہے گے۔  یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں  جن کی بنا پر اہلسنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں  کہ آخرت میں  اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔  اور اس کی تاکید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کَلَّآ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبّھِِمْ یَوْمَئِذ لَّمَحْجُوْبُوْنَ’’ہر گز نہیں،  وہ (یعنی فُجّار) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے ‘‘(المُطففین۔۱۵)۔اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فُجّار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے

یہاں  یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے ؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت،  مقام، شکل اور رنگ میں  سامنے موجود ہو، روشنی کی شعاعیں  اُس سے مُنعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں  اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کو تصویر  منتقل ہو۔ کیا  اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اِس طرح قابلِ دید ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکے ؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔  اس میں  دو چیزوں  کے درمیان فرق نہیں  کیا گیا ہے۔  ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی خاص صورت جس سے ہم اِس دنیا میں  آشنا ہیں۔  دیکھنے کی حقیقت  یہ ہے کہ دیکھنے والے میں  بنا ئی کی صفت موجود ہو، وہ نابینا نہ ہو،  اور دیکھی جانے والی چیز اُس پر عیاں  ہو، اس سے مخفی نہ ہو۔ لیکن دنیا میں  ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس  سے کوئی انسان یا حیوان بالفصل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے،  اور اس کے لے  لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں  آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو،  اُس عضو میں   بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو، اُس کے سامنے ایک ایسی  محدُود مجسمّ رنگ دار  چیز حاضر ہو جس سے روشنی کی شعاعیں  منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں،  اور آنکھ میں  اس کی شکل سما سکے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اُسی خاص صورت میں  ہو سکتا ہے جس سے ہم اِس دنیا میں  واقف ہیں  تو یہ خود اُس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے،  ورنہ درحقیقت خدا کی خدائی میں  دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں  ممکن ہیں  جن کا ہم تصوّر بھی نہیں  کر سکتے۔  اس مسئلے میں  جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتاَئے کہ اس کا خدا بینا ہے یا نابینا؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک  عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں  انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں ،  اور اس سے بینائی کے فعل کا صُدور اُسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں  ہے،  اور جب اس کا جواب نفی میں  ہے تو آخر کسی صاحب عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں  کیوں  مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں  اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار اس مخصوص شکل میں  نہیں  ہو گا جس میں  انسان دنیا میں  کسی چیز کو دیکھتا ہے،  بلکہ وہاں  دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہو گی جس کام ہم یہاں  ادراک نہیں  کر سکتے ؟  واقعہ یہ ہے  کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اُس سے  سابقہ پیش آنا ہے۔

۱۸: اس ’’ہرگز نہیں ‘‘کا تعلق اسی سلسلۂ کلام سے ہے جو اوپر سے چلا آرہا ہے، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہیں  مر کر فنا ہو جانا ہے اور اپنے رب کے حضور واپس جانا نہیں  ہے۔

۱۹: اصل میں  لفظ رَاق استعمال ہوا ہے جو رُقیہ سے بھی ماخوذ ہو سکتا ہے جس کے معنی تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کے ہیں ،  اورَتی سے بھی،  جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔  اگر پہلے معنی لیے جائیں  تو مطلب یہ ہو گا کہ آخر وقت میں  جب مریض کے تیمار داری ہر دوا دارو سے مایوس ہو جائیں  گے تو کہیں  گے کہ ارے کسی جھاڑ پھونک کرنے والے ہی کو تلاش کرو جو اس کی جان بچا لے۔  اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں  تو مطلب یہ ہو گا کہ اس وقت فرشتے کہیں  کہ اس روح کو کیسے لے کر جانا ہے ؟ ملائکہ عذاب کو یا ملائکہ رحمت کو ؟ بالفاظ دیگر اسی وقت یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ مرنے والاکس حیثیت میں  عالمِ آخرت کی طرف جا رہا ہے نیک انسان ہو گا تو ملائکہ رحمت ہی سے لے جائیں  گے،  اور بد انسان ہو گا تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہ پھٹکیں  گے اور عذاب کے فرشتے اسے گرفتار کر کے لے جائیں  گے۔

۲۰: مفسرین میں  سے بعض نے لفظ ساق(پنڈلی) کو عام لُغوی معنی میں  لیا ہے اور اس کے لحاظ سے مردہ یہ ہے کہ مرنے کے وقت جب ٹانگیں  سوُکھ کر ایک دوسری سے جڑ جائیں  گی۔ اور بعض نے عربی محاورے کے مطابق ایسے شدت اور سختی  اور  مصیبت کے معنی میں  لیا ہے،  یعنی اس وقت دو مصیبتیں  ایک ساتھ جمع ہو جائیں  گی، ایک دنیا اور اس کی ہر چیز سے جدا ہو جانے کی مصیبت اور دوسری عالمِ آخرت میں  ایک مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو کر جانے کی مصیبت، جس سے ہر کافر و منافق اور ہر فاسق و فاجر کو سابقہ پیش آئے گا۔

 

ترجمہ

 

مگر اُس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی، بلکہ جھُٹلا یا اور پلٹ گیا، پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں  کی طرف چل دیا۔ ۲۱ یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔  ہاں  یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔  ۲۲

۲۳ کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یُونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ ۲۴ کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں  )ٹپکا جاتا ہے ؟  پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے،  پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں  بنائیں۔  کیا وہ اِس پر قادر نہیں  ہے کہ مرنے والوں  کو پھر سے زندہ کر دے ؟  ۲۵ ؏۲

 

تفسیر

 

۲۱: مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سُنا جو اوپر کی آیات میں  بیان کیا گیا ہے،  مگر پھر بھی وہ اپنے انکار ہی پر اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد  اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ مجاہد، قتادہ اور ابنِ زید کہتے ہیں  کہ یہ شخص ابوجہل تھا۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک شخص تھا جس نے سورہ قیامہ کی مذکورہ بالا آیات سننے کے بعد یہ طرزِ عمل اختیار کیا۔           اس آیت کے یہ الفاظ کہ ’’ اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی‘‘ خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں۔  ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کرنے کا اوّلین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے۔ شریعت الہیٰ کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد ہی میں  آتی ہے،  لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدّت نہیں  گزرتی کہ نماز کا وقت آ جاتا ہے اور اُسی وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان ے جس چیز کے ماننے کا اقرار کیا ہے وہ واقعی اس کے دل کی آواز ہے  یا محض ایک ہوا ہے جو اُس نے چند الفاظ کی شکل میں  مُنہ سے نکال دی ہے۔

۲۲: مفسرین نے اَوْلیٰ لَکَ کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔  تُف ہے تجھ پر۔  ہلاکت ہے تیرے لیے۔  خرابی، یا تباہی،  یا کمبختی ہے تیرے لیے۔  لیکن ہمارے نزدیک موقع و محل کے لحاظ سے اس کا مناسب ترین مفہوم وہ ہے جو حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں  بیان کیا ہے کہ ’’جب تو اپنے خالق کفر کرنے کی جُرأت کر چکا ہے تو پھر تجھ جیسے آدمی یہی چال زیب دیتی ہے جو تو چل رہا ہے۔ ‘‘یہ اسی طرح کا طنزیہ کلام ہے جسے قرآن مجید میں  ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں  عذاب دیتے ہوئے مجرم انسان سے کہا جائے گا کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ، ’’لے چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو۔ ‘‘(الدخان، ۔۴۹)

۲۳: اب کلام کو ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کا  اعادہ کیا جا رہا ہے جس سے کلام کا آغاز کیا گیا تھا، یعنی زندگی بعدِ موت ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔

۲۴: عربی زبان میں   اِبِل سُدی اُس اونٹ کے لیے بولتے ہیں  جو یونہی چھوٹا پھر رہا ہو، جدھر چاہے چڑھتا پھرے،  کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہ ہو۔ اسی معنی میں  ہم شُتر بے مہار کا لفظ بولتے ہیں ۔  پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انسان نے اپنے آپ کو شُتر بے مہار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خالق نے اس زمین میں  غیر ذمّہ دار بنا کر چھوڑ دیا ہو ؟ کوئی فرض اس پر عائد نہ ہو؟ کوئی چیز اس کے لیے ممنوع نہ ہو؟ اور کوئی وقت ایسا آنے والا نہ ہو جب اس سے اس کے اعمال کی باز پُرس کی جائے ؟ یہی بات ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید میں  اس طرح بیان کی گئی ہے کے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ۔’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں  فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں  کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں  آنا ہے ؟‘‘(المومنون۔۱۱۵)۔ ان دونوں  مقامات پر زندگی بعدِ موت کے واجب ہونے کی دلیل سوال کی شکل میں  پیش کی گئی ہے۔  سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تم نے اپنے آپ کو جانور سمجھ رکھا ہے ؟ کیا تمہیں  اپنے اور جانور میں  یہ کھلا فرق نظر نہیں  آتا کہ وہ بے اختیار ہیں  اور تم با اختیار،  اس کے افعال میں  اخلاقی حُسن و قبح کا سوال پیدا نہیں  ہوتا اور تمہارے افعال میں  یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے ؟ پھر تم نے اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ لیا کہ جس طرح جانور غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ ہیں۔  اسی طرح تم بھی ہو؟ جانوروں  کے دوبارہ زندہ کر کے نہ اُٹھائے جانے کی مقبول وجہ تو سمجھ میں  آتی ہے کہ اس نے صرف اپنی جِبِلت کے  لگے بندھے تقاضے پورے کیے ہیں،  اپنی عقل سے کام لے کر کوئی فلسفہ تصنیف نہیں  کیا، کوئی مذہب ایجاد نہیں  کیا، کسی معبود نہیں  بنایا نہ خود کسی کا معبود بنا، کوئی کام ایسا نہیں  کیاجسے نیک یا بد کہا جا سکتا ہو، کوئی اچھی یا بُری سنت جاری نہیں  کی جس کے اثرات نسل در نسل چلتے رہیں  اور وہ ان پر کسی اجر یا سز ا کا مستحق ہو۔ لہٰذا وہ اگر مر کر فنا ہو جائے تو یہ سمجھ میں  آنے کے قابل بات ہے کیونکہ اس پر اپنے کسی عمل کی ذمہ داری عائد ہی نہیں  ہوتی جس کی بازپُرس کے لیے اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے کی کوئی حاجت ہو۔ لیکن تم حیات بعدِ موت سے کیسے معاف کیے جا سکتے ہو جبکہ عین اپنی موت کے وقت تک تم ایسے اخلاقی افعال کرتے رہتے ہو جن کے نیک یا بد ہونے اور جزا یا سزا کے مستو جب ہونے کا تمہاری عقل خود حکم  لگاتی ہے ؟ جس آدمی نے کسی بے گناہ قتل کیا اور فوراً ہی اچانک کسی حادثے کا شکار ہو گیا، کیا تمہارے نزدیک اس کونِلوُہ free) (Scot چھوٹ جانا چاہیے اور اس ظالم کا بدلہ اسے کبھی نہ ملنا چاہیے ؟ جو آدمی دنیا میں  کسی ایسے فساد کا بیج بو گیا جس کا خمیازہ اس کے بعد صدیوں  تک انسانی نسل بھگتی رہیں،  کیا تمہاری عقل واقعی اس بات پر مطمئن ہے کہ اسے بھی کسی بھُنگے یا ٹڈے کی طرح مر کر فنا ہو جانا چاہیے اور کبھی اٹھ کر اپنے ان کرتوتوں  کی جواب دہی نہیں  کرنی چاہیے جن کی بدولت ہزاروں لاکھوں  انسانوں  کی زندگیاں  خراب ہوئیں ؟ جس آدمی نے عمر بھر حق و انصاف اور خیر و صلاح کے لیے اپنی جان لڑائی ہو اور جیتے جی مصیبتیں  ہی بھگتا رہا ہو کیا تمہارے خیال میں  وہ بھی حشرات الارض ہی کی قسم کی کوئی مخلوق ہے جسے اپنے اس اعمال کی جزا پانے کا کوئی حق نہیں  ہے ؟

۲۵: یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی دلیل ہے۔  جہاں  تک اُن لوگوں  کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں  کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق ک آغاز کر کے پُور ا انسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں،  کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھِٹائی برتیں،  ان کی عقل تسلیم کرنے سے انکار نہیں  کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں  پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں  لے آنے پر  قادر ہے۔  رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،  وہ اگر ہٹ دھرمی پر تُلے ہوئے نہیں  ہیں  تو آخر ان  کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغازِ آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور ہر قوم میں  کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں  لڑکوں  اور لڑکیوں  کی پیدائش مسلسل اِس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں  کسی زمانے میں  بھی ایسا نہیں  ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں  صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں  ہی پیدا ہوتی چلی جائیں  اور آئندہ اُس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے ؟ اتنا بڑا دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک،  ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی۲۷ تا ۳۰۔جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۷۷)۔           متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کے جواب میں  کبھی بَلیٰ (کیو ں  نہیں )، کبھی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ فبلی (پاک ہے تیری ذات، خداوند، کیوں  نہیں ) اور کبھی سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ فرمایا کرتے تھے (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو داؤد)۔ ابو داؤد میں  حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب تم سورہ تین میں  آیت اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْن (کیا اللہ سب حاکموں  سے بڑا حاکم نہیں  ہے ؟) پڑھو تو کہو بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذَالِکَ مِنَ الشَّا ھِدِیْنَ (کیوں  نہیں ،  میں  اِس پر گواہی دینے والوں  میں  سے ہوں )۔ اور جب سورہ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بَلیٰ۔ اور جب سورہ مرسَلات کی آیت فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ (اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں  گے ؟) پڑھو تو کہو اٰمَنَّا بِا للہِ ( ہم اللہ پر ایمان لائے )۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد، ترمذی، ابن المُنذر، ابن مردُوْیہ، بَیْقَہی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں۔

٭٭٭

 

 

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین،  عبد الحمید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

تفسیر

 

۱: ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کو اے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

۲: اِس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ رات نماز  میں کھڑے رہ کر گزار و اور اس کا کم حصّہ سونے میں صرف کرو۔ دوسرا یہ کہ پوری رات نماز میں گزار دینے کا مطالبہ تم سے نہیں ہے بلکہ آرام بھی کرو اور رات کا ایک قلیل حصّہ عبادت میں بھی صرف کرو۔ لیکن آگے کے مضمون سے پہلا مطلب ہی زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی کی تائید سورہ دہر کی آیت ۲۶ سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے وَمِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلا ً طَوِیْلاً، ’رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو اور رات کا طویل حصّہ اُس کی تسبیح کرنے ہوئے گزارو‘۔

۳: یہ اُس مقدارِ وقت کی تشریح ہے جسے عبادت میں گزارنے کا حکم دی گیا تھا۔ اِس میں آپ ؐ کی اختیار دیا گیا کہ خواہ آدھی رات نما ز میں صرف کریں، یا اس سے کچھ کم کر دیں، یا اس سے کچھ زیادہ۔ لیکن اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ قابلِ ترجیح آدھی رات ہے، کیونکہ اُسی کو معیار قرار دے کر کمی و بیشی کا اختیار دیا گیا ہے۔

۴: یعنی تیز تیز رواں دواں نہ  پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تا کہ ذہن پُوری طرح کلام الہیٰ کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذبات تشکّر سے لبریز ہو جائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لیے نہیں بلکہ غور و فکر  اور تدبُّر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرأ ت کا طریقہ حضرت اَنَس ؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتا یا کہ آپ اللہ، رحمان اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے(بخاری)۔ حضرت ام سلمہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضور ؑ ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مسند احمد۔ ابو داؤ۔ترمذی)۔دوسری ایک روایت میں حضرت ام سلمہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضور  ؐ ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے( ترمذی۔نسائی)۔ حضرت حْذیفہ بن یَمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضور ؐ کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعا مانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے(مسلم، نسائی)۔ حضرت ابو ذر کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضور ؐ اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُم عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِر لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ۔ (اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تُو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح  ہو گئی(مسند احمد ، بخاری)۔

۵: مطلب یہ ہے کہ تم کو رات کی نماز کا یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ ایک بھاری کلام ہم تم پر نازل کر رہے ہیں جس کا بارا ٹھانے کے لیے تم میں اُس کے تحمّل کی طاقت پیدا ہونی ضروری ہے، اور یہ طاقت تمہیں اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ راتوں کو اپنا آرام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھو اور آدھی آدھی رات یا کچھ کم و بیش عبادت میں گزارا کرو۔ قرآن کو بھاری کلام اس بنا پر بھی کہا گیا ہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تعلیم کا نمونہ بن کر دکھانا، اس کی دعوت کو لے کر ساری دنیا کے مقابلے  میں اٹھنا، اور اس کے مطابق عقائد و افکار، اخلاق و آداب اور تہذیب و تمدن کے پورے نظام میں انقلاب بر پا کر دینا ایک ایسا کام ہے جس سے بڑھ کر کسی بھاری کام کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس بنا پر بھی  اس کو بھا ری کلام کہا گیا ہے کہ اس کے نزول کا تحّمّل بڑا دشوار کام ہے۔ حضرت زید ؓ بن ثابت کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی  اِس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ اپنا زانو میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے تھے۔ میرے زانو پر اس  وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا اَب  ٹوٹ جائے گا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نےسخت سردی کے زمانے میں حضور ؐ پر وحی نازل ہوتے  دیکھی ہے، آپ کی پیشانی سے اُس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا( بخاری، مسلم، مالک، ترمِذی، نسَائی)۔ ایک اور روایت میں حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ جب کبھی آپ پر اس حالت میں وحی نازل ہوتی کہ آپ اونٹنی پر بیٹھے ہوں تو اونٹنی اپنا سینہ زمین پر ٹکا دیتی تھی اور اس وقت تک حرکت نہ کر سکتی تھی جب تک نزولِ وحی کا سلسلہ ختم نہ ہو جاتا(مسند احمد، حاکم،ابن جریر)۔

۶: اصل میں لفظ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ استعمال کیا گیا ہے جس کے متعلق مفسّرین اور اہل  لغت کے چار مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول یہ ہے کہ ناشئہ ہے، یعنی وہ شخص جو رات کو اٹھے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رات کے اوقات ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس کے معنی ہیں رات کو اٹھنا۔ اور چوتھا قول یہ ہے  کہ اس لفظ کا اطلاق محض رات کو اٹھنے پر نہیں ہوتا بلکہ سو کر اُٹھنے پر ہوتا ہے۔ حضرت عائشہ ؓ اور مجاہد ؒ نے اِسی چوتھے قول کو اختیار کیا ہے۔

۷: اصل میں لفظ اَشَدُّ وَطْأً استعمال ہوا ہے جس کے معنی میں اتنی سوعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اسے ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اُس وقت آرام کا  مطالبہ کرتا ہے ، اس لیے یہ فعل ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کے دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ اِس طریقے سے جو شخص اپنے آپ پر قابو پا لے اور اپنے جسم و ذہن پر تسلّط حاصل کر کے  اپنی اِس طاقت کو خدا کی راہ میں استعمال کرنے پر قادر ہو جائے وہ زیادہ مضبوطی کے ساتھ دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا مؤثر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کے اِن اوقات میں بندے اور خدا کے درمیان کوئی دوسراحائل نہیں ہوتا اور اس حالت میں آدمی جو کچھ زبان سے کہتا ہے وہ اس کے دل کی  آواز ہوتی ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کار گر ذریعہ ہے، کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر عبادت کے لیے اٹھے گا وہ لا محالہ اخلاص ہی کی بنا پر ایسا کرے گا، اس میں ریا کاری کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ چوتھا مطلب یہ ہے کہ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی بہ نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے  اس لیے اس کا التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے ، وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور اس راہ کی مشکلات کو زیادہ استقامت کے ساتھ برداشت کر سکتا ہے۔

۸: اصل میں اَقْوَمُ قِیْلاً ارشاد ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’قول کو زیادہ راست اور درست بناتا ہے‘۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ اُس وقت انسان قرآن کو زیادہ سکون و اطمینان اور توجہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھ  سکتا ہے۔ ابن عباس ؓ اس کا مفہوم یہ بیان کرتے ہیں کہ  اجد ران یفقہ فی القرآن، یعنی ’وہ اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ آدمی قرآن میں غور د خوض کرے‘(ابو داؤد)۔

۹: دن کے اوقات کی مصروفیتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ ارشاد کہ ’اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کرو‘ خود بخود یہ مفہوم ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں ہر طرح کے کام کرتے ہوئے بھی اپنے رب کی یاد سے کبھی غافل نہ ہو اور کسی نہ کسی شکل میں اس کا ذکر کرتے رہو (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم،الاحزاب، حاشیہ۶۳)۔

۱۰: ان الفاظ کے ساتھ حضور ؐ کو مخاطب کرنے اور پھر یہ حکم دینے سے کہ آپ اٹھیں اور راتوں کو عبادت کے لیے کھڑے رہا کریں، یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت یا تو آپ سو چکے تھے یا سونے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹ گئے تھے۔ اِس موقع پر آپ کو اے نبی ؐ، یا اے رسول کہہ کر خطاب کرنے کے بجائے ’اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے‘ کہہ کر پکارنا ایک لطیف اندازِ خطاب ہے جس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اب وہ دَور گزر گیا جب آپ آرام سے پا ؤ ں پھیلا کر سوتے تھے۔ اب آپ پر ایک کارِ عظیم کا بوجھ ڈال دی گیا ہے جس کے تقاضے کچھ اور ہیں۔

۱۱: الگ ہو جا ؤ  کا مطلب یہ نہیں ہے کہ  ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو، اور ان کی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصّے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو، بلکہ اُس طرح کا احتراز ہو جو طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سُن کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور دل پر مَیل تک نہیں آنے دیتا ۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طرزِ عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس  لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو یہ ہدایت فرمائی۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اِسی طریقے پر عمل فرما رہے تھے، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتا دیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔

۱۲:  اِن الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکّہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھُٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات اُبھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے، پیٹ بھرے، خوشحال لوگ تھے، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام  کی اِس دعوتِ  اصلاح کی زد پڑ رہی تھی۔قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگِ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف، آیات۶۰۔۶۶۔۸۸۔المومنون،۳۳۔ سبا،۳۴۔۳۵۔ الزُّخْرُف،۲۳۔

۱۳: جہنم میں بھاری بیڑیاں مجرموں کے پا ؤ ں  میں اس لیے نہیں ڈالی جائیں گی کہ وہ بھاگ نہ سکیں، بلکہ ا س لیے ڈالی جائیں گی کہ وہ اٹھ نہ سکیں۔ یہ فرار سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب کے لیے ہونگی۔

۱۴: چونکہ اُس وقت پہاڑوں کے اجزاء کو باندھ کر رکھنے والی کشش ختم ہو جائے گی، اس لیے پہلے تو وہ باریک بھُربھری ریت کے ٹیلے بن جائیں گے، پھر جو زلزلہ زمین کو ہلا رہا ہو گا اس کی وجہ سے یہ ریت بکھر جائے گی اور ساری زمین ایک چٹیل میدان بن جائے گی۔ اسی آخری کیفیت کو سُورہ طٰہٰ آیات۱۰۵ تا ۱۰۷ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ’لوگ تم سے پُوچھتے ہیں کہ اِن پہاڑوں کا کیا بنے گا۔ کہو، میرا رب اِن کو دھُول بنا کر اڑا دے گا اور زمین کو ایسا ہموار چٹیل میدان بنا دے گا کہ اس میں تم کوئی بَل اور سَلوَٹ نہ دیکھو گے‘۔

۱۵: اب مکّہ کے اُن  کفار کو خطاب کیا جا رہا ہے  جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو جھُٹلا رہے تھے اور آپ کی مخالفت میں سر گرم تھے۔

۱۶: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ دنیا میں اُن کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق کی شہادت دیں، اور یہ بھی کہ آخرت میں جب اللہ تعالیٰ کی عدالت برپا  ہو گی اُس وقت آپ یہ گواہی دیں کہ میں نے اِن لوگوں کے سامنے حق پیش کر دیا تھا(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۱۴۴۔ النساء، حاشیہ۶۴۔جلد دوم، النحل، آیات۸۴، ۸۹۔جلد چہارم، الاحزاب،حاشیہ۸۲۔جلد پنجم، الفتح، حاشیہ۱۴)۔

۱۷: یعنی اوّل تو تمہیں ڈرنا چاہیے کہ اگر ہمارے بھیجے ہوئے رسول کی بات تم نے نہ مانی تو  وہ بُرا انجام تمہیں دُنیا ہی میں دیکھنا ہوگا جو فرعون اس سے پہلے اِسی جرم کے نتیجے میں دیکھ چکا ہے۔ لیکن اگر فرض کر و کہ دنیا میں تم پر کوئی عذاب نہ بھی بھیجا گیا تو روزِ قیامت کے عذاب سے کیسے بچ نکلو گے؟

 

ترجمہ

 

۱۸ اے نبیؐ ، تمہارا ربّ جانتا ہے کہ تم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہو،۱۹ اور تمہارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ عمل کرتا ہے۔ ۲۰ اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے ، اُسے معلوم ہے کہ تم لوگ اوقات  کا ٹھیک شمار نہیں کر سکتے، لہٰذا اس نے تم پر مہربانی فرمائی، اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔ ۲۱ اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے، کچھ دُوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، ۲۲ اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ ۲۳ پس جتنا قرآن بآسانی پڑھا جاسکے  پڑھ لیا کرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ۲۴ دو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ ۲۵ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاوٴ گے، وہی زیادہ بہتر ہے اور اس کا اجر بہت بڑا ہے۔ ۲۶ اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ؏۲

 

تفسیر

 

۱۸: یہ آیت جس کے اندر نمازِ تہجّد کے حکم میں تخفیف کی گئی ہے ، اس کے بارے میں روایات مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ سے مُسند احمد ، مسلم اور ابو داؤد  میں یہ روایت منقول ہے کہ پہلے حکم کے بعد یہ دوسرا حکم ایک سال کے بعد نازل ہوا اور رات کا قیام فرض سے نفل کر دیا گیا۔ دوسری روایت حضرت عائشہ ؓ ہی سے  ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے یہ نقل کی ہے کہ یہ حکم پہلے حکم کے ۸ مہینہ بعد آیا تھا، اور ایک تیسری روایت جو  ابن ابی حاتم نے انہی  سے نقل کی ہے اس میں سولہ مہینے بیان کیے گئے ہیں۔ ابو داؤد، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے ایک سال کی مدّت نقل کی ہے۔ لیکن حضرت سعید بن جُبَیر کا بیان ہے کہ اس کا نزول دس سال بعد ہوا ہے(ابن جریر و ابن ابی حاتم)۔ ہمارے نزدیک یہی قول زیادہ صحیح ہے ، اس لیے کہ پہلے رکوع کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ وہ مکہ معظمہ میں نازل ہوا ہے اور وہاں بھی اُس کا نزول ابتدائی دور میں ہوا ہے جبکہ حضور ؐ  کی نبوت کا آغاز ہونے پر زیادہ سے زیادہ چار سال گزرے ہوں گے۔ بخلاف اس کے یہ دوسرا رکوع اپنے مضامین کی صریح شہادت کے مطابق مدینہ کا نازل شدہ معلوم ہوتا ہے جب کفّار سے جنگ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا اور زکوٰۃ کی فرضیت کا حکم بھی آ چکا تھا۔ اس بنا پر لا محالہ اِن دونوں رکوعوں کے زمانہ نزول میں کم از کم دس سال کا فاصلہ ہی ہونا چاہیے۔

۱۹: اگرچہ ابتدائی حکم آدھی رات یا اس کے کچھ کم و بیش کھڑے رہنے کا تھا، لیکن چونکہ نماز کی محویت میں وقت کا اندازہ نہ رہتا تھا، اور گھڑیاں بھی موجود نہ تھیں کہ اوقات ٹھیک ٹھیک معلوم ہو سکیں، اس لیے کبھی دو تہائی رات  تک عبادت میں گزر جاتی تھی اور کبھی یہ مدت گھٹ کر ایک تہائی رہ جاتی تھی۔

۲۰: ابتدائی حکم میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہی کو خطاب کیا گیا تھا، اور آپ ہی کو قیام لیل کی ہدایت فرمائی گئی تھی، لیکن مسلمانوں میں اُس وقت حضور ؐ کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بنا پر اکثر صحابہ کرام بھی اِس نماز کا اہتمام کرتے تھے۔

۲۱: چونکہ نماز میں طول زیادہ تر قرآن کی طویل قرأت  ہی سے ہوتا ہے، اس لیے فرمایا کہ تہجّد کی نماز میں جتنا قرآن بسہولت پڑھ سکو پڑھ لیا کرو، اس سے نماز کی طوالت میں آپ سے آپ تخفیف ہو جائے گی۔ اس ارشاد کے الفاظ اگر چہ بظاہر حکم کے ہیں، لیکن یہ امر متفق علیہ ہے کہ تہجّد فرض نہیں بلکہ نفل ہے۔ حدیث میں بھی صراحت ہے کہ ایک شخص کے پوچھنے  پر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ اس نے پوچھا، کیا اس کے سوا کبھی کوئی چیز مجھ پر لازم ہے ؟ جواب میں ارشاد ہوا ’الّا یہ کہ تم اپنی خوشی سے کچھ پڑھو‘(بخاری و مسلم)۔             اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ نماز میں جس طرح رکوع و سجود فرض ہے اسی طرح قرآن مجید کی قر أ ت بھی فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح دوسرے مقامات پر رکوع  یا سجود کے الفاظ استعمال کر کے نماز مراد لی ہے، اسی طرح یہاں قرآن کی قرأت کا ذکر کیا ہے اور مراد اس سے نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اِس استنباط پر اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے کہ جب نماز تہجد خود نفل ہے تو اس میں قرآن پڑھنا کیسے فرض ہو سکتا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ نفل نماز بھی جب آدمی پڑھے تو اس میں نماز کی تمام شرائط پوری کرنا اور اس کے تمام ارکان و فرائض ادا کرنا لازم ہوتا ہے۔ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ نفل نماز کے لیے کپڑوں کی طہارت، جسم کا پاک ہونا ، وضو کرنا ، اور ستر چھپانا واجب نہیں ہے اور اس میں قیام و تعود اور رکوع و سجود بھی نفل ہی ہیں۔

۲۲: جائز اور حلال طریقوں سے رزق کمانے کے لیے سفر کرنے کو قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۲۳: یہاں اللہ تعالیٰ نے پاک رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر جس طرح ایک ساتھ کیا ہے اور بیماری کی مجبوری کے علاوہ اِن دونوں کاموں کو نماز تہجّد سے معانی  یا اس میں تخفیف کا سبب قرار دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میں جائز طریقوں سے روزی کمانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مامن جالبٍ یجلبُ طعامًا الیٰ بلد من بلدٍ ان المسْلمین فیبیعہ لِسِعْرِ یو مہٖ الا کانت منزلتہٗ عند اللہ ثم قر أ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و اٰ خرون یضربون فی الارض….’جو شخص مسلمانوں کے کسی شہر میں غلّہ لے کر آیا اور اُس روز کے بھا ؤ پر اسے بیچ دیا اس کو اللہ کا قرب نصیب ہوگا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہی آیت پڑھی‘(ابن مَرْدُوْیَہ)۔ حضرت عمر ؓ نے ایک مرتبہ فرمایا ما من حال یا تینی علیہ الموت بعد الجھاد فی سبیل اللہ احبّ الی من ان  یا تینی و انا بین شِعبتَی جبل التمس من فضل اللہ و قر أ ھٰذا الاٰ یتہ۔’جہاد فی سبیل اللہ کے بعد اگر کسی حالت میں جان دینا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو وہ یہ حالت ہے کہ میں اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے کسی پہاڑی درے سے گزر رہا ہوں اور وہاں مجھ کو موت آ جائے، پھر انہوں نے یہی آیت پڑھی‘(بَیْہَقی فی شُعَب الایمان)۔

۲۴: مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد پنجوقتہ فرض نماز اور فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہے۔

۲۵: ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال خدا کی راہ میں صرف کرنا ہے، خواہ وہ جہاد  فی سبیل اللہ ہو ، یا بندگانِ خدا کی مدد ہو، یا رفاہِ عام ہو، یا دوسرے بھلائی کے کام۔ اللہ کو قرض دینے اور اچھا قرض دینے کے مطلب کی تشریح ہم اس سے پہلے متعدد مقامات پر کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۶۷۔ المائدہ، حاشیہ۳۳۔ جلد پنجم، الحدید، حاشیہ۱۶۔

۲۶: ‘مطلب یہ ہے کہ تم نے آگے اپنی آخرت کے لیے جو کچھ بھیج دیا  وہ تمہارے لیے اُس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا ہی میں روک رکھا اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔ حدیث میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے  کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پو چھا ایکم مالہ احب الیہ من مال وارثہ؟’تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے؟‘ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔فرمایا اعملو ا ما تقولون۔’سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو‘۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ  ہمارا حال واقعی یہی ہے۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا: انما مال احد کم ما قدّم ومال وارثہٖ ما اخّر۔’تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم  نے اپنی آخرت کے لیے بھیج دیا ۔ اور جو کچھ تم نے روک کر رکھا وہ تو وارث کا مال ہے‘۔(بخاری۔نسائی۔ مُسند احمد ابویَعلیٰ)

٭٭٭

 

 

 

۷۴۔سورة المدثر

 

نام

 

پہلی آیت کے لفظ الْمُدَّثِّر کو اِس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی صرف نام ہے، مضامین کا عنوان نہیں ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اس کی پہلی سات آیات مکّہ معظمہ کے بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ ہیں۔ بعض روایات جو بخاری، مسلم،ترمذی اور مسند احمد وغیرہ ہیں حضرت جابر بن عبس اللہ سے منقول ہیں اُن میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ یہ قرآن مجید کی اوّلین آیات ہیں جو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر  نازل ہوئیں۔ لیکن امّت میں یہ بات قریب قریب بالاتفاق مسلم ہیں کہ پہلی وحی جو حضورؐ پر نازل ہوئی وہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ سے مَا لَمْ یَعْلَمْ تک ہے۔ البتہ صحیح روایات سے جو کچھ ثابت ہے وہ یہ ہے کہ اِس وحی کے بعد کچھ مدّت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی، پھر اس وقفہ کے بعد جب از سرِ نو نزول وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اُس کا آغاز سُورہ مُدَّثِّر کی اِنہی آیات سے ہوا تھا۔ امام زُہرْیؒ اِس کی تفصیل یُوں بیان کرتے ہیں:

’ایک مدت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر وحی  کا نزول بند رہا اور اُس زمانہ میں آپ پر اس قدر شدید غم کی کیفیت طاری رہی کہ بعض اوقات آپ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر اپنے آپ کو گرا دینے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ لیکن جب کبھی آپ کسی چوٹی کے کنارے پر  پہنچتے جبریل علیہ السّلام نمودار ہو کر آپ سے کہتے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ اس سے آپ کے دل کو سکون حاصل ہو جاتا تھا اور وہ اضطراب کی کیفیت دُور ہو جاتی تھی۔‘(ابن جریر)

’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فَتْرۃُ الوحی(وحی بند رہنے کے زمانے) کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا: ایک روز میں راستے سے گزر رہا تھا۔ یکایک میں نے آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں یہ دیکھ کر سخت  دہشت زدہ ہو گیا اور گھر پہنچ کر میں نے کہا مجھے اُڑھا ؤ، مجھے اُڑھاؤ۔ چنانچہ گھر والوں نے مجھ پر لحاف (یا کمبل) اُڑھا دیا۔ اُس وقت اللہ نے وحی نازل کی یٰاَیّھَُا الْمُدَّثِّرُ ….۔ پھر لگا تار مجھ پر وحی کا نزول شروع ہو گیا‘۔(بخاری۔ مسلم۔مُسنَد احمد۔ ابن جریر)۔

سوُرۃ کا باقی ماندہ حصہ آیت ۸ سے آخر تک اُس وقت نازل ہوا جب اسلام کی عَلانیہ تبلیغ شروع ہو جانے کے بعد مکّہ میں پہلی مرتبہ حج کا موقع آیا۔ اس کا مفصل واقعہ سیرت ابنِ ہشام میں بیان کیا گیا ہے جسے آگے چل کر ہم نقل کریں گے۔

 

موضوع اور مضمون

 

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی جو بھیجی گئی تھی وہ سورہ عَلَق کی ابتدائی پانچ آیات پر مشتمل تھی جس میں صرف یہ فرمایا گیا تھا کہ :

’پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے، جس نے قلم سے علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا ہے جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘

یہ نزول وحی کا پہلا تجربہ تھا جو اچانک حضور ؐ کو پیش آیا تھا ۔ اِس پیغام میں آپ کو یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ آپ کس کا رِ عظیم پر مامور ہوئے ہیں اور آگے کیا کچھ آپ کو کرنا ہے، بلکہ صرف ایک ابتدائی تعارف کرا کے آپ کو کچھ مدّت کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا تا کہ آپ کی طبیعت پر جو شدید بار اِس پہلے تجربے سے پڑا ہے اس کا (اثر دُور ہو جائے اور آپ ذہنی طور پر آئندہ وحی وصول کرنے اور نبوت کے فرائض سنبھالنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اس وقفہ کے بعد جب دوبارہ نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اِس سورہ کی ابتدائی سات آیتیں نازل کی گئیں اور ان میں پہلی مرتبہ آپ کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ اٹھیں اور خلقِ خدا کو اُس روش کے انجام سے ڈرائیں جس پر وہ چل رہی ہے، اور اِس دنیا میں ، جہاں دوسروں کی بڑائی کے ڈنکے بج رہے ہیں، خدا کی بڑائی کا اعلان کریں۔ اس کے ساتھ آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ اب جو کام آپ کو کرنا ہے اس کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی ہر لحاظ سے انتہائی پاکیزہ ہو اور آپ تمام دنیوی فائدوں سے قطع نظر کر کے کامل اخلاص کے ساتھ خلقِ خدا کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ پھر آخری فقرے میں آپ کی تلقین کی گئی کہ اِس فریضہ کی انجام  دہی میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں اُن پر آپ اپنے رب کی خاطر صبر کریں۔

اس فرمانِ الہیٰ کی تعمیل میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی تبلیغ شروع کی اور قرآن مجید کی پے در پے نازل ہونے والی سورتوں کو آپ نے سنانا شروع کیا تو مکّہ میں کھلبلی مچ گئی اور مخالفتوں کا  ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ چند مہینے اِس حال پر گزرے تھے کہ حج کا زمانہ آگیا اور مکّہ کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہو ئی کہ اِس موقع پر تمام عرب سے حاجیوں کے قافلے آئیں گے ، اگر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اِن قافلوں کی قیام گاہوں پر جا جا کر آنے والے حاجیوں سے ملاقاتیں کیں اور حج کے اجتماعات میں جگہ جگہ کھڑے ہو کر قرآن  جیسا بے نظیر اور مؤثر کلام سنانا شروع کر دیا، تو عرب کے ہر گوشے تک ان کی دعوت پہنچ جائے گی اور نہ معلوم کون کون اِس سے متاثر ہو جائے۔ اس لیے قریش کے سرداروں نے ایک کانفرنس کی جس میں طے کیا گیا  کہ حاجیوں کے آتے ہی اُن کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر دیا جائے۔اِس پر اتفاق ہو جانے کے بعد ولید بن مُغیرہ نے حاضرین سے کہا کہ اگر آپ لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، کے متعلق مختلف باتیں لوگوں سے کہیں تو ہم سب کا اعتبار جاتا رہے گا۔ اس لیے کوئی ایک بات طے کر لیجیے جسے سب بالاتفاق کہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کاہن کہیں گے۔ ولید نے کہا، نہیں ، خدا کی قسم وہ کاہن نہیں ہیں، ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے، جیسی باتیں وہ گُنگناتے ہیں اور جس طرح کے فقرے وہ جوڑتے ہیں، قرآن کو ان سے  کوئی  دُور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ کچھ اور لوگ بولے، انہیں مجنون کہا جائے۔ ولید نے کہا وہ مجنون بھی نہیں ہیں۔ ہم نے دیوانے اور پاگل دیکھے ہیں۔ اس حالت میں آدمی جیسی بہکی بہکی باتیں اور الٹی سیدھی حرکات کرتا ہے وہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔ کون باور کرے گا کہ محمدؐ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ دیوانگی کی بڑ ہے یا جنون کے دورے میں آدمی  یہ باتیں کر سکتا ہے؟ لوگوں نے کہا اچھا تو پھر ہم شاعر کہیں گے۔ ولید نے کہا ، وہ شاعر بھی نہیں ہیں۔ ہم شعر کی ساری اقسام سے واقف ہیں۔ اِس کلام پر شاعری کی قسم کا اطلاق بھی نہیں ہو سکتا۔ لوگ بولے، تو ان کو ساحر کہا جائے۔ ولید نے کہا وہساحر بھی نہیں ہیں۔ جادوگروں کو ہم جانتے ہیں اور اپنے جادو کے لیے جو طریقے وہ اختیار کرتے ہیں ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ یہ بات بھی محمد ؐ پر چسپا ں نہیں ہوتی ۔ پھر  ولید نے کہا اِن باتوں میں سے جو بات بھی کرو گے لوگ اس کو ناروا الزام سمجھیں گے۔ خدا کی قسم اس کلام میں بڑی حلاوت ہے، اس کی جڑ بڑی گہری اور اس کی ڈالیاں بڑی ثمر دار ہیں۔ اس پر ابو جہم ولید کے سر ہو گیا اور اس نے کہا تمہاری قوم تم سے راضی نہ ہو گی جب تک تم محمد ؐ کے بارے میں کوئی بات نہ کہو۔ اس نے کہا اچھا مجھے سوچ لینے دو۔ پھر سوچ سوچ کر بولا قریب ترین بات جو کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ تم عرب کے لوگوں سے کہو یہ شخص جادوگر ہے۔ یہ ایسا کلام پیش کر رہا ہے جو آدمی کو اُس کے بات، بھائی، بیوی بچو ں اور سارے خاندان سے جدا کر دیتا ہے۔ ولید کی اِس بات کو سب نے قبول کر لیا۔ پھر ایک منصوبے کے مطابق حج کے زمانے میں قریش کے وفود حاجیوں کے درمیان پھیل گئے اور انہوں نے آنے والے زائرین کو خبر دار کرنا شروع کیا کہ یہاں ایک ایسا شخص اُٹھ کھڑا ہوا ہے جو بڑا جادوگر ہے اور اس کا جادو خاندانوں میں تفریق ڈال دیتا ہے، اُس سے ہوشیار رہنا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نام خود ہی سارے عرب میں مشہور کر دیا(سیرۃ ابن ہشام، جلد اوّل، صفحہ ۲۸۸۔۲۸۹۔ اِس قصے کا یہ حصّہ کہ ابو جہل کے اصرار پر ولید نے یہ بات کہی تھی عِکْرِمہ کی روایت سے ابن جریر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے)۔

یہی واقعہ ہے جس پر اس سُورہ کے دوسرے حصّہ میں تبصرہ کیا گیا ہے ۔ اُس کے مضامین کی ترتیب یہ ہے:

آیت ۸ سے ۱۰ تک منکرینِ حق کو خبر دار کیا گیا ہے کہ آج جو کچھ وہ کر رہے ہیں ا س کا بُرا انجام وہ قیامت کے روز دیکھ لیں گے۔

آیت ۱۱ سے ۲۶ تک ولید بن مُغِیرہ کا نام لیے بغیر یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس شخص کو کیا کچھ نعمتیں دی تھیں اور اُنکا جواب اِس نے کیسی حق دشمنی کے ساتھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں اُس کی ذہنی کشمکس کی پُوری تصویر کھینچ دی گئی ہے کہ ایک طرف دل میں وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کی صداقت کا قائل ہو چکا تھا، مگر دوسری طرف اپنی قوم میں اپنی ریاست و وجاہت کو بھی خطرے میں نہ ڈالنا چاہتا تھا ، اس لیے نہ صرف یہ کہ وہ ایمان لانے سے باز رہا ، بلکہ کافی دیر تک اپنے ضمیر سے لڑنے جھگڑنے کے بعد آخر کار یہ بات بنا کر لا یا کہ خلقِ  خدا کو اِس کلام پر ایمان لانے سے باز رکھنے کے لیے اِسے جادو قرار دینا چاہیے۔ اُس کی اِس صریح بد باطنی کا بے نقاب کر کے فرمایا گیا ہے کہ اپنے اِس کرتوت کے بعد بھی یہ شخص چاہتا ہے کہ اِسے مزید انعامات سے نوازا جائے، حالانکہ اب یہ انعام کا نہیں بلکہ دوزخ کا سزاوار ہو چکا ہے۔

اس کے بعد آیت ۲۷ سے۴۸ تک دوزخ کی ہولناکیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس اخلاق اور کر دار کے لوگ اس کے مستحق ہیں۔

پھر آیات ۴۹۔۵۳ میں کفار کے مرض کی اصل جڑ بتا دی گئی ہے کہ وہ چونکہ آخرت سے بے خوف ہیں اور اِسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ قرآن سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے شیر سے ڈر کر جنگلی گدھے بھاگے جا رہے ہوں ، اور ایمان لانے کے لیے طرح طرح کی غیر معقول شرطیں پیش کرتے ہیں، حالانکہ خواہ ان کی کوئی شرط بھی پوری کر دی جائے، انکارِ آخرت کے ساتھ وہ ایمان کی راہ پر ایک قدم بھی نہیں بڑھ سکتے۔

آخر میں صاف صاف فرما دیا گیا ہے کہ خدا کو کسی کے ایمان کی کوئی ضرورت نہیں پڑ گئی ہے کہ وہ اس کی شرطیں پُوری کرتا پھرے۔ قرآن کو عام نصیحت ہے جو سب کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس کو قبول کر لے۔ خدا اِس کا مستحق ہے کہ لوگ اُس کی نافرمانی سے ڈریں، اور اسی یہ شان ہے کہ جو شخص بھی تقویٰ اور خدا ترسی کو رویّہ اختیار کر لے اسے وہ معاف کر دیتا ہے خواہ وہ پہلے کتنی ہی نافرمانیاں کر چکا ہو۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، ۱ اُٹھو اور خبر دار کرو۔ ۲ اور اپنے ربّ کی بڑائی کا اعلان کرو۔ ۳ اور اپنے کپڑے پاک رکھو۔ ۴ اور گندگی سے دُور رہو۔ ۵ اور احسان نہ کرو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔ ۶ اور اپنے ربّ کی خاطر صبر کرو۔ ۷

اچھا، جب صُور میں پھُونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، ۸ کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ ۹ چھوڑ دو مجھے اور اُس شخص کو ۱۰ جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، ۱۱ بہت سامال اُس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، ۱۲ اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دُوں۔ ۱۳ ہر گز نہیں، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواوٴں گا۔ اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی ، تو خدا کی مار اس پر، کیسی بات بنانے  کی کوشش کی۔ ہاں ، خدا کی مار اُس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی۔ پھر (لوگوں کی طرف)دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور مُنہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبُّر میں پڑ گیا۔ آخر کار بولا کہ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک جادُو جو پہلے سے چلا آ رہا ہے، یہ تو ایک انسانی کلام ہے۔ ۱۴ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا۔ اور تم کیا جانو کہ کیا ہے وہ دوزخ ؟ نہ باقی رکھے نہ چھوڑے۔ ۱۵ کھال جھُلس دینے والی۔ ۱۶ اُنّیس کارکن اُس پر مقرر ہیں ۔۔۔۔ ۱۷ ہم نے دوزخ کے یہ کارکن فرشتے بنائے ہیں، ۱۸ اور ان کی تعداد کو کافروں کے لیے فتنہ بنا دیا ہے، ۱۹ تاکہ اہلِ کتاب کو یقین آ جائے ۲۰ اور ایمان لانے والوں کا ایمان بڑھے، ۲۱ اور اہلِ کتاب اور مومنین کسی شک میں نہ رہیں، اور دل کے بیمار ۲۲ اور کفّار یہ کہیں کہ بھلا اللہ کا اِس عجیب بات سے کیا مطلب ہوسکتا ہے۔ ۲۳ اِس طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے۔ ۲۴ اور تیرے ربّ کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۲۵ ۔۔۔۔ اور اس دوزخ کا ذکر اِس کے سوا کسی غرض کے لیے نہیں کیا گیا کہ لوگوں کو اس سے نصیحت ہو۔ ۲۶    ؏۱

 

تفسیر

 

۱: اوپر دیباچے میں ہم اِن آیات کے نزول کا جو پس منظر بیا ن کر آئے ہیں اس پر غور کرنےسے یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یٰاَیّھَُا الرَّسُوْلُ یا یٰاَیّھَُا النَّبِیُّ کہہ کر مخاطب کرنے کے بجائے یٰاَیّھَُا المُدَّثِّرُ کہہ کر کیوں مخاطب کیا گیا ہے ۔ چونکہ حضور ؐ یکا یک جبریل علیہ السلام کو آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھے دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور اسی حالت میں گھر پہنچ کر آپ نے اپنے اہل خانہ سے فرمایا تھا کہ مجھے اڑھا ؤ ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یٰاَیّھَُا الْمُدَّثِّر کہہ کر خطاب فرمایا۔ اس  لطیف طرز خطاب سےخود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اَے مریے پیارے بندے، تم اوڑھ لپیٹ کر لیٹ کہا گئے، تم پر تو ایک کارِ عظیم کا بار ڈالا گیا ہے جسے انجام دینے کے لیے تمہیں پُورے عزم کے ساتھ اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔

۲: یہ اُسی نوعیت کا حکم ہے جو حضرت نوح علیہ السّلام کو نبوت کے منصب پر مامور کرتے ہوئے دیا گیا تھا کہ اَنْذِر قَوْ مَکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْ تِیَھُمْ عَذَاب اَلِیْم  ۔’اپنی قوم کے لوگوں کے ڈرا ؤ قبل اس کے کہ  ان پر ایک درد ناک عذاب آ جائے‘۔(نوح۔۱۔)۔آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور تمہارے گرد وپ یش خدا کے جو بندے خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اُن کو چَونکا دو۔ انہیں اُس انجام سے ڈرا ؤ جس سے یقیناً وہ دو چار ہوں گے اگر اِسی حالت میں مبتلا رہے ۔ انہیں خبر دار کر دو کہ وہ کسی اندھیر نگری میں نہیں رہتے ہیں جس میں وہ  اپنی مرضی سے جو کچھ چاہیں کرتے رہیں اور ان کے کسی عمل کی کوئی باز پُرس نہ ہو۔

۳: یہ ایک نبی کا اولین کام ہے جسے اِس دنیا میں اُسے انجام دینا ہوتا ہے ۔ اُس کا پہلا کام ہی یہ ہے کہ جاہل انسان یہاں جن جن کی بڑائی مان رہے ہیں  اُن سب کو نفی کر دے اور ہانکے پکارے دنیا  بھر میں یہ اعلان کر دے کہ اِس کائنات میں بڑائی ایک خدا کے سوا اور کسی کی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں کلمہ اللہ اکبر کو سب الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے اور بار بار اللہ اکبر  کے اعلان سے ہوتی ہے ۔ نماز میں بھی مسلمان تکبیر کے الفاظ کہہ کر داخل ہوتا ہے  اور بار بار اللہ اکبر کہہ کر اٹھتا اور بیٹھتا ہے۔ جانور کے گلے پر چھری بھی پھیرتا ہے تو بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر پھیرتا ہے۔ نعرہ تکبیر آج ساری دنیا میں مسلمان کا سب سے زیادہ نمایاں امتیازی شعار ہے کیونکہ اس امت کے نبیؐ نے اپنا کام ہی اللہ کی تکبیر سے شروع کیا تھا۔           اس مقام پر ایک اور لطیف  نکتہ بھی ہے جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ جیسا کہ اِن آیات کی شانِ نزول سے معلوم ہو چکا ہے، یہ پہلا موقع تھا جب رسول صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبّوت کا عظیم الشان فریضہ انجام دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ اور یہ بات ظاہر تھی  کہ جس شہر اور معاشرے میں یہ مشن لے کر اٹھنے کا آپ کو حکم دیا جا رہا تھا وہ شرک کا گڑھ تھا۔ بات صرف اتنی ہی نہ تھی کہ وہاں کے لوگ عام عربوں کی طرح مشرک تھے، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ تھی کہ مکہ معظمہ مشرکین عرب کا سب سے بڑا تیر تھ بنا ہوا تھا اور قریش کے لوگ اُس کے مجاور تھے۔ ایسی جگہ کسی شخص کا تن تنہا اٹھنا اور شرک کے مقابلے میں توحید کا علم بلند کر دینا بڑے جان جوکھو کا کام تھا۔ اسی لیے ’اٹھو اور خبر دار کرو‘ کے بعد فوراً ہی یہ فرمانا کہ ’اپنے رب کی بڑائی  کا اعلان کرو‘ اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ جو بڑی بڑی ہولناک طاقتیں اِس کام میں تمہیں مزاحم نظر آتی ہیں ان کی ذرا پروا نہ کرو اور صاف صاف کہہ دو کہ میرا رب اُن سب سے زیادہ بڑا ہے جو میری اس دعوت کا راستہ روکنے کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ بڑی سے بڑی ہمت افزائی ہے جو اللہ کا کام شروع کرنے والے کسی شخص کی کی جاسکتی ہے ۔ اللہ کی کبریائی کا نقش جس آدمی  کے دل پر گہرا جما ہوا ہو وہ اللہ کی خاطر اکیلا ساری دنیا سے لڑ جانے میں بھی ذرّہ برابر ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے گا۔

۴: یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جن کے مفہوم میں بڑی وسعت ہے۔ اِن کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپنے لباس کو نجاست سے پاک رکھو، کیونکہ جسم ولباس کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایک پاکیزہ روح گندے جسم اور ناپاک لباس میں نہیں رہ سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس معاشرے میں اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تھے  وہ صرف عقائد اور اخلاق کی خرابیوں ہی میں مبتلا نہ تھا بلکہ طہارت و نظافت کے بھی ابتدائی تصورات تک سے خالی تھا، اور حضورؐ کا کام ان لوگوں کو ہر لحاظ سے پاکیزگی کا سبق سکھانا تھا۔ اس لیے آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ اپنی ظاہری زندگی میں بھی طہارت کا ایک اعلیٰ معیار قائم فرمائیں۔ چنانچہ یہ اسی ہدایت کا ثمرہ ہے کہ حضورؐ نے نوعِ انسانی کو طہارتِ جسم و لباس کی وہ مفصل تعلیم دی ہے جو زمانہ جاہلیت کے اہل عرب تو درکنار، آج اس زمانے کی مہذب ترین قوموں کو بھی نصیب نہیں ہے، حتیٰ کہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ایسا کوئی لفظ تک نہیں پایا جاتا جو  ’طہارت‘کا ہم معنی ہو۔بخلاف اس کے اسلام کا حال یہ ہے کہ حدیث اور فقہ کی کتابوں میں اسلامی احکام کا آغاز ہی کتاب الطہارت سے ہوتا ہے جس میں پاکی اور ناپا کی کے فرق اور پاکیزگی کے طریقوں کو انتہائی تفصیلی جزئیات کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔ دوسرا مفہوم اِن الفاظ کا یہ ہے کہ اپنا لباس صاف سُتھرا رکھو۔ راہبانہ تصوّرات نے دنیا مین مذہبیت کا معیار یہ قرار دے رکھا تھا کہ آدمی جتنا زیادہ مَیلا کُچیلا ہو اتنا ہی زیادہ وہ مقدّس ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ذرا اُجلے کپڑے ہی پہن لیتا تو سمجھا جاتا تھا کہ وہ دنیا دار انسان ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت مَیل کچیل سے نفرت کرتی ہے اور شائستگی کی معمولی حِس بھی جس شخص کے اندر موجود ہو وہ صاف ستھرے انسان ہی ہے  مانوس ہوتا ہے۔ اِسی بنا پر اللہ کے راستے کی طرف دعوت دینے والے کے لیے یہ بات ضروری قرار دی گئی کہ اُس کی ظاہری حالت بھی ایسی پاکیزہ اور نفیس ہونی چاہیے کہ لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور اس کی شخصیت میں کوئی ایسی کثافت نہ پائی جائے جو طبائع کو اس سے متنفر کرنے والی ہو۔ تیسرا مفہوم اِس ارشاد کا یہ ہے کہ اپنے لباس کو اخلاقی عیوب سے پاک رکھو ۔ تمہارا لباس سُتھرا اور پاکیزہ تو ضرور ہو، مگر اس میں فخر و غرور ، ریاء اور نمائش، ٹھاٹھ باٹھ اور شان و شوکت کا شائبہ تک نہ ہونا چاہیے۔ لباس وہ اوّلین چیز ہے جو آدمی کی شخصیت کا تعارف لوگوں سے کراتی ہے۔ جس قسم کا لباس کوئی شخص پہنتا ہے اس کو دیکھ کر لوگ پہلی نگاہ ہی میں یہ اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے ۔ رئیسوں اور نوابوں کے  لباس، مذہبی پیشہ وروں کے  لباس، متکبّر اور بر خود غلط لوگوں کے لباس، چھچورے اور کم ظرف لوگوں کےلباس، بد قوار اور آوارہ منش لوگوں کے لباس، سب اپنے پہننے والوں کے مزاج کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اللہ کی طرف بلانے والے کا مزاج ایسے سب لوگوں سے فطرۃً مختلف ہوتا ہے، اس لیے اس کا لباس بھی ان سب سے لازماً مختلف ہونا چاہیے۔ اس کو ایسا لباس پہننا چاہیے جسے دیکھ کر ہر شخص یہ محسوس کر لے کہ وہ ایک شریف اور شائستہ انسان ہے جو نفس کی کسی بُرائی میں مبتلا نہیں ہے۔           چوتھا مفہوم اس کا یہ ہے کہ اپنا دامن پاک رکھو۔ اردو زبان کی طرح عربی زبان میں بھی پاک دامنی کے ہم معنی الفاظ اخلاقی برائیوں  سے پاک ہونے اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہونے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ابن عباس،ابراہیم نَخَعی، شَعبی، عطاء،مجاہد،قتادہ،سعیدبن جُبَیر، حسن بصری اور دوسرے اکابر مفسرین نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے کہ اپنے اخلاق پاکیزہ رکھو اور ہر قسم کی برائیوں سے بچو۔ عربی محاورے میں کہتے ہیں کہ فلان طاھر الثیاب و فلان طاھر الذیل،’فلاں شخص کے کپڑے پاک ہیں یا اس کا دامن پاک ہے‘۔ اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہیں ۔ اس کے بر عکس کہتے ہیں فلانٌ دَنِس الثیاب،’اس شخص کے کپڑے گندے ہیں‘ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بد معاملہ آدمی ہے، اس کے قول قرار کا کوئی اعتبار نہیں۔

۵: گندگی سے مراد ہو قسم کی گندگی ہے خواہ وہ عقائد اور خیالات کی ہو، یا اخلاق و اعمال کی ، یا جسم و لباس اور رہن سہن کی۔ مطلب یہ ہے کہ تمہارے گرد و پیش سارے معاشرے میں طرح طرح کی جو گندگیاں پھیلی ہوئی ہیں ان سب سے اپنا دامن بچا کر رکھو۔ کوئی شخص کبھی تم پر یہ حرف نہ رکھ سکے کہ جن بُرائیوں سے تم لوگوں کو روک رہے ہو ان میں سے کسی کا بھی کوئی شائبہ تمہاری اپنی زندگی میں پایا  جاتا ہے۔

۶: اصل الفاظ ہیں وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ۔ اِن کے مفہوم میں اتنی وسعت ہے کہ کسی ایک فقرے میں اِن کا ترجمہ کر کے پورا مطلب ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جس پر بھی احسان کر دے غرضانہ  نہ کرے۔ تمہاری عطا اور بخشش اور سخاوت اور حُسنِ سلوک محض اللہ کے یے ہو، اس میں کوئی شائبہ  اِس خواہش کا نہ ہو کہ احسان کے بدلے میں تمہیں کسی قسم کے دنیوی فوائد حاصل ہوں۔ بالفاظِ دیگر اللہ کے لیے احسان کرو، فائدہ حاصل کرنے کے لیے  کو ئی احسان نہ کرو۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ نبوت کا جو کام تم کر رہے ہو یہ اگرچہ اپنی جگہ ایک بہت بڑااحسان ہے کہ تمہاری بدولت خلق خدا کو ہدایت نصیب ہو رہی ہے، مگر اس کا کوئی احسان لوگوں پر نہ جتا ؤ اور اس کا کوئی فائدہ اپنی ذات کے لیے حاصل نہ کرو۔           تیسرا مفہوم یہ ہے کہ  تم اگرچہ ایک بہت بڑی خدمت انجام دے رہے ہو، مگر اپنی نگاہ میں اپنے   کو کبھی بڑا عمل نہ سمجھو اور کبھی یہ خیال تمہارے دل میں نہ آئے کہ نبوت کا یہ فریضہ انجام دے کر ، اور اس کام میں جان لڑا کر اپنے رب پر کوئی احسان کر رہے ہو۔

۷: یعنی یہ کام جو تمہارے سُپر د کیا جا رہا ہے، بڑے جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس میں سخت مصائب اور مشکلات اور تکلیفوں سے تمہیں سابقہ پیش آئے گا۔ تمہاری اپنی قوم تمہاری دشمن ہو جائے گی۔ سارا عرب تمہارے خلاف صف آرا ہو جائے گا۔ مگر جو کچھ بھی اس راہ میں پیش آئے ، اپنے رب  کی خاطر اِس پر صبر کرنا  اور اپنے فرض کو پوری ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ انجام دینا۔ اس سے باز رکھنے کے لیے خوف، طمع، لالچ،دوستی، دشمنی،محبت ہر چیز تمہارے راستے  میں حائل ہوگی۔ ان سب کے مقابلے میں مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہنا۔           یہ تھیں وہ اوّلین ہدایات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اُس وقت دی تھیں جب اُس نے آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ اٹھ کر نبوت کے کام کا آغاز فرما دیں۔ کوئی شخص اگر ان چھوٹے چھوٹے فقروں پر اور ان کے معانی پر غور کرے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ ایک نبی کو نبوت کا کام شروع کرتے وقت اِس سے بہتر کوئی ہدایات نہیں دی جا سکتی تھیں۔ ان میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو کام کیا کرنا ہے، اور یہ بھی سمجھا دیا گیا کہ اِس کام کے لیے آپ کی زندگی اور آپ کے اخلاق اور معاملات کیسے ہونے چاہییں، اور یہ تعلیم بھی دے دی گئی کہ یہ کام آپ کس نیت، کس ذہنیت اور طرزِ فکر کے ساتھ انجام دیں ، اور اس بات سے بھی خبر دار کر دیا گیا کہ اس کام میں آپ کو کن حالات سے سابقہ پیش آتا ہے اور ان کا مقابلہ آپ کو کس طرح کرنا ہوگا۔ آج جو لوگ تعصّب میں اندھے ہو کر یہ کہتے ہیں کہ معاذاللہ صَرع کے دَوروں میں یہ کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری  ہو جایا کرتا تھا وہ ذرا آنکھیں کھول کر اِن فقروں کو دیکھیں اور خود سوچیں کہ یہ صَرع کے کسی دَورے میں نکلے ہوئے الفاظ ہیں یا ایک خدا کی ہدایات ہیں جو رسالت کے کام پر مامور کرتے ہوئے وہ اپنے بندے کو دے رہا ہے؟

۸: جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر آئے ہیں ، اِس سورہ کا یہ حصّہ ابتدائی آیات کے چند مہینے بعد اُس وقت نازل ہوا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عَلانیہ تبلیغِ اسلام شروع ہو جانے کے بعد پہلی مرتبہ حج کا زمانہ آیا اور سردارانِ قریش نے ایک کانفرنس کر کے یہ طے کیا کہ باہر سے آنے والے حاجیوں کو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بد گمان کرنے کے لیے پروپیگنڈا کی ایک زبردست مہم چلائی جائے۔ اِن آیات میں کفار کی اِسی کاروائی پر  تبصرہ کیا گیا ہے اور اِس تبصرے کا آغاز اِن الفاظ سے کیا گیا ہے جن کا مطلب یہ ہے کہ اچھا، یہ حرکتیں جو تم کرنا چاہتے ہو کر لو، دنیا میں اِن سے کوئی مقصد برا ری تم نے کر بھی لی تو اُس روز اپنے بُرے انجام سے کیسے بچ نکلو گے جب صور میں پھونک ماری جائے گی اور قیامت برپا ہوگی۔ (صور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اوّل، الانعام، حاشیہ۴۷۔جلد دوم، ابراہیم،حاشیہ۵۷۔جلد سوم،طٰہٰ، حاشیہ۷۸۔الحج،حاشیہ۱۔جلد چہارم،یٰس،حواشی۴۶۔۴۷۔الزُّمُر، حاشیہ۷۹۔جلد پنجم،ق،حاشیہ۵۲۔)۔۹

: اِس ارشاد سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دن ایمان لانے والوں کے لیے ہلکا ہوگا اور اس کی سختی صرف حق کا انکار کرنے والوں کے لیے مخصوص ہوگی۔ مزید بر اں یہ ارشاد اپنے اندر یہ مفہوم بھی رکھتا ہے کہ اُس دن کی سختی کافروں کے لیے مستقل سختی ہو گی، وہ ایسی سختی نہ ہوگی جس کے بعد کبھی اُس کے نرمی سے بدل جانے کی امید کی جا سکتی ہو۔

۱۰: یہ خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اَے نبی، کفار کی اس کانفرنس میں جس شخص (ولید بن مغیرہ) نے تمہیں بدنام کرنے کے لیے یہ مشورہ دیا ہے کہ تمام عرب سے آنے والے حاجیوں میں تمہیں جادوگر مشہور کیا جائے، اُس کا معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ اُس سے  نمٹنا اب میرا کام ہے، تمہیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

۱۱: اس فقرے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں صحیح ہیں ۔ ایک یہ کہ جب میں نے اُسے پیدا کیا تھا اُس وقت یہ کوئی مال اور اولاد اور وجاہت اور ریاست لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ اُس کا پیدا کرنے والا اکیلا میں ہی تھا، وہ دوسرے معبود، جن کی خدائی قائم رکھنے کے لیے یہ تمہاری دعوتِ توحید کی مخالفت  میں اس قدر سر گرم ہے، اُس کو پیدا کرنے میں میرے ساتھ شریک نہ تھے۔۱۲: ولید بن مغیرہ کے دس بارہ لڑکے تھے جن میں سے حضرت خالد بن ولید تاریخ میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ اِن بیٹوں کے لیے  شُہود کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو کہیں اپنی روزی کے لیے دوڑ دھوپ اور سفر کرنے کی حاجت پیش نہیں آتی ، ان کے گھر کھانے کو اتنا موجود ہے کہ ہر وقت باپ کے پا سموجود اور اس کی مدد کے لیے حاضر رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کے سب بیٹے نامور اور با اثر ہیں، مجلسوں اور محفلوں میں اس کے ساتھ شریک ہو تے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ اِس مرتبے کے لوگ ہیں کہ معاملات میں ان کی شہادت قبول کی جاتی ہے۔

۱۳: اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اِس پر بھی اس کی حرص ختم نہیں ہوئی۔ اتنا کچھ پانے کے بعد بھی وہ بس اسی فکر میں لگا ہوا ہے کہ اُسے دنیا بھر کی نعمتیں عطا کر دی جائیں۔ دوسرا مطلب حضرت حسن بصری اور بعض  دوسرے بزرگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اگر واقعی محمدؐ کا یہ بیان سچاہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی جنت بھی ہو گی تو وہ جنّت میرے ہی لیے بنائی گئی ہے۔

۱۴: یہ اُس واقعہ کا ذکر ہے جو کفارِ مکہ کی مذکورہ بالا کانفرنس میں پیش آیا تھا۔ اس کی جو تفصیلات ہم دیباچے میں نقل کر چکے ہیں ان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ شخص دل میں قرآن کے کلامِ الہیٰ ہونے کا قائل ہو چکا تھا۔ لیکن اپنی قوم میں محض اپنی وجاہت و ریاست بر قرار رکھنے کے لیے ایمان لانے پر تیار نہ تھا۔ جب کفار کی اس کانفرنس میں پہلے اس نے خود اُن تمام  الزامات کو رد کر دیا جو قریش کے سردار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر لگا رہے تھے تو اسے مجبُور  کیا گیا کہ وہ خود کوئی ایسا الزام تراشے جسے عرب کے لوگوں میں پھیلا کر حضور ؐ کو بدنام کیا جا سکتا ہو۔ اس موقع پر جس طرح وہ اپنے ضمیر سے لڑا ہے اور جس شدید ذہنی کشمکش میں کافی دیر مبتلا رہ کر آخر کار اس نے ایک الزام گھڑا ہے اس کی پُور ی تصویر یہاں کھینچ دی گئی ہے۔

۱۵: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو شخص بھی اس میں ڈالا جائے گا اسے وہ جلا کر خاک کر دے گی مگر مر کر بھی اس کا پیچھا نہ چھوٹے گا بلکہ وہ پھر زندہ کیا جائے گا اور پھر جلا یا جائے گا۔ اسی مضمون کو دوسری جگہ اس طرح ادا کیا گیا ہے کہ لاَ یَمُوْتُ فِیْھَا وَلاَ یَحْییٰ ’وہ نہ اس میں مرے گا نہ جیے گیا‘(الاعلیٰ۔۱۳)۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب کے مستحقین میں سے کسی کو باقی نہ رہنے دے گی جو اُس کی گرفت میں آئے بغیر رہ جائے،  اور جو بھی اس کی گرفت میں آئے گا اسے عذاب دیے بغیر نہ چھوڑے گی۔

۱۶: یہ کہنے کے بعد کہ وہ جسم میں کچھ جلائے بغیر نہ چھوڑے گی، کھال جھلس دینے کا  الگ ذکر کرنا بظاہر کچھ غیر ضروری سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن عذاب کی اس شکل کو خاص طور پر الگ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ آدمی کی شخصیت کو نمایا ں کر نے والی چیز  دراصل اس کے چہرے اور جسم کی کھال ہی ہوتی ہے جس کی بد نمائی اُسے سب سے زیادہ کھلتی ہے۔ اندرونی اعضاء میں خواہ اسے کتنی ہی تکلیف ہو، وہ اس پر اتنا زیادہ رنجیدہ نہیں ہوتا جتنا اس بات پر رنجیدہ ہوتا ہے کہ اس کا منہ بد نما ہو جائے، یا اس کے جسم کے کھلے حصّوں کی جلد پر ایسے داغ پڑ جائیں جنہیں دیکھ کر ہر شخص اُس سے  گھِن کھانے لگے۔ اسی لیے فرمایا گیا کہ یہ حسین چہرے اور بڑے بڑے شاندار جسم لیے ہوئے جو لوگ آج دنیا میں اپنی شخصیت پر پھولے پھر رہے ہیں ، یہ اگر اللہ کی آیات کے ساتھ عناد کی وہر وش برتیں گے جو ولید بن مغیرہ برت رہا ہے تو ان کے منہ جھُلس دیے جائیں گے اور ان کی کھال جلا کر کوئلے کی طرح سیاہ کر دی جائے گی۔

۱۷: یہاں سے لے کر ’تیرے رب کے لشکروں کو خود اُس کے سوا کوئی  نہیں جانتا‘ تک کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں سلسلہ کلام کو توڑ کر اُن معترضین کے جواب میں ارشاد فرمایا گیا ہے جنہوں نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے یہ سن کر کہ دوزخ کے کارکنوں کی تعداد صرف ۱۹ ہو گی ، اس کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا تھا۔ اُن کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک طرف تو ہم سے یہ کہا جا رہا ہے کہ آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر قیامت تک دنیا میں جتنے انسانوں نے بھی کفر اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کیا ہے وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے، اور دوسری طرف ہمیں یہ خبر دی جا رہی ہے کہ اتنی بڑی دوزخ میں  اتنے بے شمار انسانوں کو عذاب دینے کے لیے صرف ۱۹ کارکن مقرر ہوں گے۔ اس پر قریش کے سرداروں نے بڑے زور کا ٹھٹھا مارا۔ ابو جہل بولا،’بھائیوں ، کیا تم اتنے گئے گزرے ہو کہ تم میں سے دس دس آدمی مل کر بھی دوزخ کے ایک ایک سپاہی سے نمٹ نہ لیں گے؟‘بنی جُمحَ کے ایک پہلوان صاحب کہنے لگے’۱۷ سے میں تو اکیلا نمٹ لوں گا، باقی دو کو تم سب مل کر سنبھال لینا‘۔ انہی باتوں کے جواب میں یہ فقرے بطور جملہ معترضہ ارشاد ہوئے ہیں۔

۱۸: یعنی اُن کی قوتوں کو انسانی قوتوں پر قیاس کرنا تمہاری حماقت ہے۔ وہ آدمی نہیں، فرشتے ہونگے اور تم اندازہ نہیں کر سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی زبردست طاقتوں کے فرشتے پیدا کیے ہیں۔

۱۹: کی یہ تعداد اس لیے بیان کر دی ہے کہ یہ ہر اُس شخص کے لیے فتنہ بن جائے جو اپنے اندر کوئی کفر چھپائے بیٹھا ہو۔ ایسا آدمی چاہے ایمان کی کتنی ہی نمائش کر رہا ہو، اگر وہ خدا کی خدائی اور اس کی عظیم قدرتوں  کے بارے میں، یا وحی ورسالت کے بارے میں شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل کے کسی گوشے میں لیے بیٹھا ہو تو یہ سنتے ہی کہ خدا کی اتنی بڑی جیل میں بے حد وحساب مجرم جنوں اور انسانوں کو صرف ۱۹ سپاہی قابو میں بھی رکھیں گے اور فرداً فرداً ایک ایک شخص کو عذاب بھی دیں گے، تو اس کا کفر فوراً کھل کر باہر آ جائے گا۔ ***** یہ طنزیہ اندازِ بیان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے جن کرتُوتوں پر وہ آج بہت خوش ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم بہت خوب کام کر رہے ہیں ، انہیں بتا دو کہ تمہارے ان اعمال کا انجام یہ ہے۔

۲۰: بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ) کے ہاں چونکہ ان کی اپنی کتابوں میں بھی دوزخ کے فرشتوں کی یہی تعداد بیان کی گئی ہے، اس لیے یہ بات سُن کر ان کو یقین آ جائے گا کہ یہ بات فی الواقع اللہ تعالیٰ ہی کی فرمائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے اوّل  یہ کے یہود نصاریٰ کو جو مذہبی کتابیں دنیا میں پا ئی جاتی ہیں ان میں تلاش کے باوجود ہمیں  یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ۱۹ ہے۔ دوسرے، قرآن مجید میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جو اہلِ کتاب کے ہاں اُن کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کر دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کر لی ہیں۔ ان وجوہ سے ہمارے نزدیک اس ارشاد کا صحیح مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اچھی طرح معلوم تھا کہ میری زبان سےدوزخ کے ۱۹ فرشتوں کا ذکر سن کر میرا خوب مذاق اڑا یا جائے گا، لیکن اس کے با وجود جو بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی وحی میں بیان ہوئی تھی اسے انہوں نے کسی خوف اور جھجک کے بغیر علی الاعلان لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اور کسی کے مذاق ااستہزاء کی ذرّہ برابر پر وا نہ کی۔ جہلائے عرب تو انبیاء  کی شانسے نا واقف تھے، مگر اہل کتاب خوب جانتے تھے کہ انبیاء کا ہر زمانے میں یہی طریقہ رہا ہے کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آتا تھا اسے وہ جوں کا توں لوگوں تک پہنچا دیتے تھے خواہ وہ لوگوں کو پسند ہا یا نا پسند۔ اس بنا پر اہلِ کتاب سے یہ بات زیادہ متوقع تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِس طرز عمل کو دیکھ کر انہیں یقین آ جائے گا کہ ایسے سخت مخالف ماحول میں ایسی بظاہر انتہائی عجیب بات کو کسی جھجک کے بغیر پیش کر دینا ایک نبی ہی کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ طرزِ عمل بار ہا  نظارہ ہوا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ نمایاں مثال معراج کا واقعہ ہے جسے آپؐ نے کفار کے مجمع عام میں بلا تکلّف بیان کر دیا اور اس بات کی ذرّہ برابر پروا نہ کی کہ اس حیرت انگیز قصّے کو  سُن کر آپ کے مخالفین کیسی کیسی باتیں بنائیں گے۔

۲۱: یہ بات اس سے پہلے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان ہو چکی ہے کہ ہر آزمائش کے موقع پر جب ایک مومن اپنے ایمان پر ثابت قدم رہتا ہے اور شکّ و انکار یا اطاعت سے فرار یا دین سے بے وفائی کی راہ  چھوڑ کر یقین و اعتماد اور اطاعت و فرمانبرداری اور دین سے وفا داری کی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ایمان کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے(تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران، آیت۱۷۳۔جلد دوم، الانفال، آیت۲، حاشیہ ۲۔ التوبہ، آیات۱۲۴۔۱۲۵۔حاشیہ۱۲۵۔ جلد چہارم، الاحزابِ،آیت۲۲، حاشیہ۳۸۔جلد پنجم، الفتح آیت ۴، حاشیہ۷)۔

۲۲: قرآن مجید میں چونکہ بالعموم ’دل کی بیماری‘سے مراد منافقت لی جاتی ہے، اس لیے یہاں اس لفظ کو دیکھ کر بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ یہ آیت مدینہ میں نازل ہوئی ہے کیونکہ منافقین کا ظہور مدینہ ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ خیال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے۔ اول تو یہ دعویٰ ہی غلط ہے کہ مکّہ میں منافق موجود نہ تھے، اور اس کی غلطی ہم تفہیم القرآن ،جلدسوم میں صفحہ۶۷۲،۶۷۴، اور۶۸۰تا۶۸۲ پر واضح کر چکے ہیں۔دوسرے یہ طرز تفسیر ہمارے نزدیک درست نہیں ہے کہ ایک سلسلہ کلام جو ایک خاص موقع پر خاص حالات میں ارشاد ہوا ہو، اس کے اندر یکایک کسی ایک فقرے کے متعلق یہ کہہ دیا جائے کہ وہ کسی دوسرے موقعہ پر نازل ہوا تھا اور یہاں لا کر کسی مناسبت کے بغیر شامل کر دیا گیا۔ سورہ مدثر کے اس حصے کا تاریخی پس منظر ہمیں یہ معتبر روایات سے معلوم ہے۔ یہ ابتدائی مکی دور کے ایک خاص واقعہ کے بارے میں نازل ہوا ہے۔ اُس کا پورا سلسلہ کلام اس واقعہ کے ساتھ صریح مناسبت رکھتا ہے۔ اِس مضمون میں آخر کون سا موقع تھا کہ اِس ایک فقرے کو، اگر وہ کئی سال بعد مدینہ  میں نازل ہوا تھا، اس جگہ لا کر چسپاں کر دیا جاتا؟ اب رہا یہ سوال کہ یہاں دل کی بیماری سے مراد کیا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد شک کی بیماری ہے۔ مکہ ہی میں نہیں، دنیا بھر میں پہلے بھی اور آج بھی کم لوگ ایسے تھے اور ہیں جو قطعیت کے ساتھ خدا، آخرت ، وحی، رسالت، جنت ،دوزخ وغیرہ کا انکار کرتے ہوں، اکثریت ہر زمانے میں انہی لوگوں کی رہی ہے جو  اس شک میں مبتلا رہے ہیں کہ معلوم نہیں خدا ہے یا نہیں، آخرت ہوگی یا نہیں، فرشتوں اور جنت اور دوزخ کا واقعی کوئی وجود ہے یا محض افسانے ہیں، اور رسول واقعی رسول تھے اور ان پر  وحی آتی تھی یا نہیں، یہی شک اکثر لوگوں کو کفر کے مقام پر کھینچ لے گیا ہے، ورنہ ایسے بے وقوف دنیا میں  کبھی زیادہ نہیں رہے جنہوں نے بالکل قطعی طور پر اِن حقائق کا انکار کر دیا ہو، کیونکہ جس آدمی میں ذرّہ برابر بھی عقل کا مادّہ موجود ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اِن امُور کے صحیح ہونے کا امکان بالکل رد کر دینے اور اِنہیں قطعاً خارج از امکان قرار دے دینے کے لیے ہر گز کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔

۲۳: اس کے معنی  یہ نہیں ہیں کہ وہ اِسے اللہ کا کلام  تو مان رہے تھے مگر تعجب اس بات پر ظاہر کر رہے تھے کہ اللہ نے یہ بات کیوں فرمائی۔ بلکہ دراصل  وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ جس کلام میں ایسی بعید از عقل و فہم بات کہی گئی ہے وہ بھلا اللہ کا کلام کیسے ہو سکتا ہے۔۲۴: یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے کلام اور اپنے احکام و فرامین میں وقتاً فوقتاً ایسی باتیں ارشاد فرما دیتا ہے جو لوگوں کے لیے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہوتی ہے جسے ایک راستی پسند، سلیم الطبع اور صحیح الفکر آدمی سنتا ہے اور سیدھے طریقے سے اُس کا سیدھا مطلب سمجھ کر سیدھی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ اُسی بات کو ایک ہٹ دھرم، کج فہم اور راستی سے گریز کرنے والا آدمی سنتا ہے اور اُس کا ٹیڑھا مطلب نکلا کر اسے حق سے دُور بھاگ جانے کے لیے ایک نیا بہانا بنا لیتا ہے۔ پہلا آدمی چونکہ خود حق پسند ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ اسے ہدایت بخش دیتا ہے،کیونکہ  اللہ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ ہدایت چاہنے والے کو زبردستی گمراہ کرے۔ اور دوسرا آدمی چونکہ خود ہدایت نہیں چاہتا بلکہ گمراہی کو ہی اپنے لیے پسند کرتا ہے اس لیے اللہ اسے ضلالت ہی کے راستوں پر دھکیل دیتا ہے، کیونکہ اللہ کا یہ طریقہ بھی نہیں ہے کہ جو حق سے نفرت رکھتا ہو وہ اسے جبراً کھینچ کر حق کی راہ پر لائے۔( اللہ کے ہدایت دینے اور گمراہ کرنے کے مسئلے پر تفہیم القرآن میں بکثرت مقامات پر وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات  ملاحظہ ہوں :جلد اوّل، البقرہ،حواشی۲۰،۱۹،۱۶،۱۰۔النساء،حاشیہ۱۷۳۔الانعام،حواشی۹۰،۲۸،۱۷ جلد دوم، یونس،حاشیہ۱۳۔جلد سوم، الکہف، حاشیہ۵۴۔القصص،حاشیہ۷۱)۔

۲۵: یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس کائنات میں کیسی کیسی اور کتنی مخلوقات پیدا کر رکھی ہیں، اور ان کو کیا کیا طاقتیں اس نے بخشی ہیں، اور ان سے کیا کیا کام وہ لے رہا ہے، ان باتوں کو اللہ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا۔ ایک چھوٹے سے کُرہ زمین پر رہنے والا انسان اپنی محدود نظر سے اپنے گرد و پیش کی چھوٹی سی دنیا کو دیکھ کر اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ خدا کی خدائی میں بس وہی کچھ ہے جو اسے اپنے حواس یا اپنے آلات کی مدد سے محسوس ہوتا ہے، تو یہ اس کی اپنی ہی نادانی ہے۔ ورنہ یہ خدا ئی کا کارخانہ اتنا وسیع و عظیم ہے کہ اس کی کسی ایک چیز کا بھی پورا علم حاصل کر لینا انسان کے بس میں نہیں ہے، کجا کہ اس کی ساری وسعتوں کا تصّور اس کے چھوٹے سے دماغ میں سما سکے۔

۲۶: یعنی لوگ اپنے آپ کو اس کا مستحق بنانے اور اس کے عذاب کا مزا چکھنے سے پہلے ہوش میں آ جائیں اور اپنے آپ کو اس سے بچانے کی فکر کریں۔

 

ترجمہ

 

۲۷ ہرگز نہیں، قسم ہے چاند کی ، اور رات کی جبکہ وہ پلٹتی ہے، اور صبح کی جبکہ وہ روشن ہوتی ہے، یہ دوزخ بھی بڑی چیزوں میں سے ایک ہے، ۲۸ انسانوں کے لیے ڈرا وا، تم میں سے ہر اُس شخص کے لیے ڈراوا جو آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے رہ جانا چاہے۔ ۲۹

ہر متنفّس اپنے کسب کے بدلے رہن ہے، ۳۰ دائیں بازو والوں کے سوا،۳۱ جو جنّتوں میں ہوں گے۔ وہاں وہ مجرموں سے پوچھیں گے ۳۲ ’ تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟‘وہ کہیں گے’ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے  نہ تھے، ۳۳ اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، ۳۴ اور حق کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ مل کر ہم بھی باتیں بنانے لگتے تھے۔ اور روزِ جزا کو جھُوٹ قرار دیتے تھے ، یہاں تک کہ ہمیں اُس یقینی چیز سے سابقہ پیش آگیا۔‘ ۳۵  اُس وقت سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ ۳۶

آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اِس نصیحت سے مُنہ موڑ رہے ہیں گویا یہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں۔ ۳۷ بلکہ اِن میں سے تو ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اُس کے نام کھُلے خط بھیجے جائیں۔ ۳۸ ہر گز نہیں، اصل بات یہ ہے کہ یہ آخرت کا خوف نہیں رکھتے۔ ۳۹ ہر گز نہیں، ۴۰ یہ تو ایک نصیحت ہے، اب جس کا جی چاہے اس سبق حاصل کر لے۔ اور یہ کوئی سبق حاصل نہ کریں گے اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔۴۱ وہ اس کا حق دار ہے کہ اُس سے تقویٰ کیا جائے ۴۲ اور وہ اس کا اہل ہے کہ (تقویٰ کرنے والوں کو) بخش دے۔ ۴۳    ؏۲

 

تفسیر

 

۲۷: یعنی یہ کوئی ہوا ئی بات نہیں ہے جس کا اِس طرح مذاق اُڑا یا جائے۔

۲۸: یعنی جس طرح چاند ، اور رات اور دن اللہ تعالیٰ  کی قدرت کے عظیم نشانات ہیں اُسی طرح دوزخ بھی عظائمِ قدرت میں سے ایک چیز ہے۔ اگر چاند کا وجود غیر ممکن نہ تھا، اگر رات اور دن کا اس باقاعدگی کے ساتھ آنا غیر ممکن نہ تھا، تو دوزخ کا وجود، آخر کیوں تمہارے خیال میں غیر ممکن ہو گیا؟ اِن چیزوں کو چونکہ تم رات دن دیکھ رہے ہو اس لیے تمہیں ان پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ، ورنہ اپنی ذات میں یہ بھی اللہ کی قدرت کے نہایت حیرت انگیز معجزے ہیں ، جو اگر تمہارے  مشاہدے میں نہ آئے ہوتے ، اور کوئی تمہیں خبر دیتا کہ چاند جیسی ایک چیز بھی دنیا میں موجود ہے، یا سورج ایک چیز ہے جس کے چھپنے سے دنیا میں اندھیرا  ہو جا تا ہے، اور جس کے نکل آنے سے دنیا چمک اٹھتی ہے ،تو تم جیسے لوگ اِس بات کو سُن کر بھی اُسی طرح ٹھٹھے مارتے جس طرح دوزخ کا ذکر سُن کر ٹھٹھے مار رہے ہو۔

۲۹: مطلب یہ ہے  کہ اس چیز سے لوگوں کو ڈرا دیا گیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے اس سے ڈر کر بھلائی کے راستے پر آگے بڑھے اور جس کا جی چاہے پیچھے ہٹ جائے۔

۳۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔

۳۱: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ،جلد پنجم، تفسیر سورہ طور،حاشیہ۱۶۔

۳۲: اس سے پہلے کئی مقامات پر قرآن مجدی میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اہلِ جنت اور اہل دوزخ ایک دوسرے سے ہزاروں لوکھوں میل دُور ہونے کے باوجود جب چاہیں گے ایک دوسرے کو کسی آلے کی مدد کے بغیر دیکھ سکیں گے اور ایک دوسرے سے براہِ راست گفتگو کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، الاعراف، آیات۴۴تا ۵۰، حاشیہ۳۵۔ جلد چہارم، الصّافّات، آیات۵۰تا۵۷،حاشیہ۳۲۔

۳۳: مطلب یہ ہے کہ ہم ان لوگوں میں سے نہ تھے جنہوں نے خدا اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کو مان کر خدا کا وہ اوّلین حق ادا کیا ہو جو ایک خدا پرست انسان پر عائد ہوتا ہے، یعنی نماز۔ اس مقام پر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ نماز کوئی شخص اُس وقت تک پڑھ ہی نہیں سکتا جب تک وہ ایمان نہ لایا ہو ۔ اس لیے نمازیوں میں سے ہونا آپ سے آپ ایمان لانے والوں میں سے ہونے کو ملتزم ہے ۔ لیکن نمازیوں میں سے نہ ہونے کو دوزخ میں جانے کا سبب قرار دے کر یہ بات واضح کر دی گئی کہ ایمان لا کر بھی آدمی دوزخ سے نہیں بچ سکتا اگر وہ تارکِ نماز ہو۔

۳۴: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی انسان کو بھوک میں مبتلا دیکھنا اور قدرت رکھنے کے باوجود اس کو کھانا نہ کھلانا اسلام کی نگاہ میں کتنا بڑا گناہ ہے کہ آدمی کے دوزخی ہونے کے اسباب میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

۳۵: یعنی مرتے دم تک ہم اِسی روش پر قائم رہے یہاں تک کہ وہ یقینی چیز ہمارے سامنے آ گئی جس سے ہم غافل تھے۔ یقینی چیز سے مراد موت بھی ہے اور آخرت بھی۔

۳۶: یعنی ایسے لوگ جنہوں نے مرتے دم تک یہ روش اختیار کیے رکھی ہو ان کے حق میں اگر کوئی شفاعت کرنے والا شفاعت کرے بھی تو اسے معافی نہیں مل سکتی۔ شفاعت کے مسئلے کو قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ کسی شخص کو یہ جاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی کہ شفاعت کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا ، کس حالت میں کی جاسکتی ہے اور کس حالت میں نہیں کی جا سکتی، کس کے لیے کی جا سکتی ہے اور کس کے لیے نہیں کی جا سکتی ، اور کس کے حق میں وہ نافع ہے اور کس کے حق میں نافع نہیں ہے۔ دنیا  میں چونکہ لوگوں کی گمراہی کے بڑے اسباب میں سے ایک سبب شفاعت کے بارے میں غلط عقائد بھی ہیں ، اس لیے قرآن نے اس مسئلے کو اتنا کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اس میں کسی اشتباہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی۔ مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں : البقرہ،۲۵۵۔ الانعام،۹۴۔ الاعراف،۳۵۔یونس،۳۔۱۸۔ مریم،۸۷۔ طٰہٰ،۱۰۹۔ الانبیاء،۲۸۔ سبا،۲۳۔ الزُّمَر،۴۳۔۴۴۔ المومن،۱۸۔ الدُّخان،۸۶ ۔ النجم۲۶۔ النبا،۳۷۔۳۸۔ تفہیم القرآن میں جہاں جہاں یہ آیات آئی ہیں ہم نے  ان کی اچھی طرح تشریح کر دی ہے۔

۳۷: یہ ایک عربی محاورہ ہے ۔جنگلی گدھوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے  کہ خطرہ بھانپتے ہی وہ اِس قدر بد حواس ہو کر بھاگتے ہیں کہ کوئی دوسرا جانور اس طرح نہیں بھاگتا ۔ اس لیے اہلِ عرب غیر معمولی طور پر بد حواس ہو کر بھاگنے والے کو اُن جنگلی گدھوں سے تشبیہ دیتے ہیں جو شیر کی بُو یا شکاریوں کی آہٹ پاتے ہی بھاگ پڑے ہوں۔

۳۸: یعنی یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اگر واقعی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نبی مقرر فرمایا ہے تو وہ مکہ کے ایک ایک سردار اور ایک ایک شیخ کے نام ایک خط لکھ کر بھیجے کہ محمد ؐ ہمارے نبی ہیں، تم ان کی پیروی قبول کرو، اور  یہ خط ایسے ہوں جنہیں دیکھ کر انہیں یقین آ جائے کہ اللہ تعالیٰ ہی نے یہ لکھ کر بھیجے ہیں۔ ایک اور عام مقام پر قرآن مجید میں کفارِ مکہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’ہم نہ مانیں گے جب تک وہ چیز خود ہم کو نہ دی جائے جو اللہ کے رسولوں کو دی گئی ہے‘(الانعام،۱۲۴)۔ایک دوسری جگہ ان کا یہ مطالبہ نقل کیا گیا ہے کہ آپ ہمارے سامنے آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے ایک لکھی لکھائی کتاب لا کر ہمیں دیں جسے ہم پڑھیں(بنی اسرائیل۔۹۳)۔

۳۹: یعنی ان کے ایمان نہ لانے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کے یہ مطالبے پُورے نہیں کیے جاتے، بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ آخرت سے بے خوف ہیں۔ انہوں نے سب چکھ اسی دنیا  کو سمجھ رکھا ہے اور انہیں یہ خیال نہیں  ہے کہ اِس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے جس میں اِن کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اسی چیز نے اِن کو دنیا میں بے فکر اور غیر ذمّہ دار بنا دیا ہے ۔ یہ حق اور باطل کے سوال کو سرے سے بے  معنی سمجھتے ہیں، کیونکہ انہیں دنیا میں کوئی حق ایسا نظر نہیں آتا جس کی پیروی کا نتیجہ لازماً دنیا میں اچھا ہی نکلتا ہو، اور نہ کوئی باطل ایسا نظر آتا ہے جس کا نتیجہ دنیا میں ضرور بُرا  ہی نکلا کرتا ہو۔ اس لیے یہ اِس مسئلے پر غور کرنا لا حاصل سمجھتے ہیں کہ فی الواقع حق کیا ہے اور باطل کیا ۔ یہ مسئلہ سنجیدگی کے ساتھ قابلِ غور اگر ہو سکتا ہے تو صرف اُس شخص کے لیے جو دنیا کی موجودہ زندگی کو ایک عارضی زندگی سمجھتا ہو اور یہ تسلیم کرتا ہو کہ اصلی اور ابدی زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں حق کا انجام لازماً اچھا اور باطل کا انجام لازماً بُرا ہوگا۔ ایسا شخص تو اُن معقول دلائل اور اُن پاکیزہ تعلیمات کو دیکھ کر ایمان لائے گا جو قرآن میں پیش کی گئی ہیں اور اپنی عقل سے کام لے کر یہ سمجھنے کی کوشش کرے گا کہ قرآن جن عقائد اور اعمال کو غلط کہہ رہا ہے ان میں فی الواقع کیا غلطی ہے۔ لیکن آخرت کا منکر جو سرے سے تلاشِ حق میں سنجیدہ ہی نہیں ہے وہ ایمان نہ لانے کے لیے آئے دن نتِ نئے مطالبے پیش کرے گا، حالانکہ اس کا خواہ کوئی مطالبہ بھی پورا کر دیا جائے، وہ انکار کرنے کے لیے کوئی دوسرا بہانا ڈھونڈ نکالے گا۔ یہی  بات ہے جو سورہ انعام میں فرمائی گئی ہے کہ ’اے نبی، اگر ہم تمہارے اوپر کاغذ میں لکھی لکھائی کوئی کتاب بھی اُتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھُو کر بھی دیکھ لیتے تو جنہوں نے حق  کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے‘ (الانعام،۷)۔

۴۰: یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔

۴۱: یعنی ان کا ایسا کوئی مطالبہ ہر گز پورا نہ کیا جائے گا۔

۴۲: یعنی تمہیں اللہ کی ناراضی سے بچنے کی جو نصیحت کی جا رہی ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ کو اِس کی ضرورت ہے اور اگر تم ایسا نہ کرو تو اُس سے اللہ کا کوئی نقصان  ہوتا ہے،بلکہ یہ نصیحت اس بنا پر کی جا رہی ہے کہ اللہ کا یہ حق ہے کہ اس کے بندے اس کی رضا چاہیں اور اس کی مرضی کے خلاف نہ چلیں۔

۴۳: یعنی یہ اللہ ہی کو زیب دیتا ہے کہ کسی نے خواہ اس کی کتنی ہی نافرمانیاں کی ہوں ، جس وقت بھی وہ اپنی اِس روش سے باز آ جائے اللہ اپنا دامن رحمت اس کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔ اپنے بندوں کے لیے کوئی  جذبۂ انتقام وہ اپنے اندر نہیں رکھتا کہ ان کے قصوروں سے وہ کسی حال میں درگزر ہی نہ کرے اور انہیں سزا دیے بغیر چھوڑے۔

٭٭٭

 

 

 

 

۷۵۔سورة القیٰمۃ

 

 

نام

 

پہلی ہی آیت کے  لفظ اَلْقِیٰمَۃ کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ، اور یہ صرف نام ہی نہیں ہے۔بلکہ اس سُورہ کا عنوان بھی ہے۔ کیونکہ اس میں قیامت ہی پر بحث کی گئی ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

اگرچہ  کسی روایت سے اِس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہوتا ، لیکن اِس کے مضمون میں ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ آیت ۱۵ کے بعد یکایک سلسلہ کلام توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے کہ’اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرأت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دنیا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے‘۔ اس کے بعد آیت ۲۰ سے پھر وہی مضمون شروع ہو جاتا ہے جو ابتدا سے آیت ۱۵ تک چلا آ رہا تھا۔ یہ جملہ معترضہ اپنے موقع و محل سے بھی اور روایات کی رُو سے بھی اِس بنا پر دورانِ کلام میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبریلؑ  یہ سورہ حضورؐ کو سنا رہے تھے اُس وقت آپ اِس اندیشے سے کہ کہیں بعد میں  بھول نہ جائیں، اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دُہراتے جا رہے تھے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ  یہ واقعہ اُس زمانہ کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولِ وحی کا نیا نیا تجربہ ہو رہا تھا اور ابھی آپ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اچھی طرح نہیں پڑی تھی۔ قرآن مجید میں اس کی دو مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ ایک سورہ طٰہٰ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا  ہے وَلاَ تَجْعَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰیٓ اِلَیْکَ وَحْیُہٗ،’اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے‘(آیت۱۱۴)۔دوسرے سورہ اعلیٰ میں جہاں حضور ؐ  کو اطمینان دلا یا گیا ہے کہ سَنُقْرِ ئُکَ فَلاَ تَنْسیٰ،’ہم عنقریب تم کو پڑھو ا دیں گے پھر تم بھولو گے نہیں‘(آیت۶)۔ بعد میں جب حضور ؐ کو وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق ہو گئی تو اِس طرح کی ہدایات دینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی لیے قرآن میں اِن تین مقامات کے سوا اِس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

 

موضوع اور مضمون

 

یہاں سے آخرِ کلام اللہ تک جو سُورتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر اپنے مضمون اور انداز بیان سے اُس زمانہ کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں جب سورہ مُدثِّر کی ابتدائی سات آیات کے بعد نزول قرآن کا سلسلہ بارش کی طرح شروع ہوا اور پے در پے نازل ہونے والی سُورتوں میں ایسے پُرزور اور مؤثر طریقہ سے نہایت جامع اور مختصر فقروں میں اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا اور اہل مکہ کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کیا گیا جس سے قریش کے سردار بَوکھلا گئے اور پہلا حج آنے سے پہلے حضورؐ کو زک دینے کی تدبیریں سوچنے کے لیے انہوں نے وہ کانفرنس منعقد کی جس کا ذکر ہم سورہ مدّثِر کے دیباچہ میں کر چکے ہیں۔

اس سُورہ میں منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اور آخرت کے امکان، وقوع اور وجوب کا ثبوت دیا گیا ہے، اور یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں  ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی عقل اسے ناممکن سمجھتی ہے، بلکہ اس کا اصل محِرّک یہ ہے کہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اسے ماننا نہیں چاہتیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو خبر دار کر دیا گیا ہے کہ جس وقت کے آنے کا تم انکار کر رہے ہو وہ آ کر رہے گا، تمہارا سب کیا دھرا تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا، اور حقیقت میں تو اپنا نامہ اعمال دیکھنے سے بھی پہلے تم میں سے ہر شخص  کو خود معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ سے ناواقف نہیں ہوتا، خواہ وہ دنیا کو بہکانے اور اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے اپنی حرکات کے لیے کتنے ہی بہانے اور عذرات تراشتا رہے۔

 

ترجمہ

 

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے

 

نہیں،  ۱ میں  قسم کھاتا ہوں  قیامت کے دن کی، اور نہیں ،  میں  قسم کھاتا ہوں  ملامت کرنے والے نفس کی، ۲ کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اُس کی ہڈیوں  کو جمع نہ کر سکیں  گے ؟ ۳ کیوں  نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں  کی پور پور تک ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔  ۴ مگر انسان چاہتا یہ ہے کہ آگے بھی بد اعمالیاں  کرتا رہے۔  ۵ پوچھتا ہے ’’ آخر کب آنا ہے وہ قیامت کا دن؟‘‘ ۶ پھر جب دِیدے پتھرا جائیں  گے ۷ اور چاند بے نور ہو جائے گا  اور چاند سُورج ملا کر ایک کر دیے جائیں  گے ۸ اُس وقت یہی انسان کہے گا’’ کہاں  بھاگ کر جاؤں ؟‘‘ ہر گز نہیں،  وہاں  کوئی جائے پناہ نہ ہو گی، اُس روز تیرے ربّ ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہو گا۔ اُس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیا کرایا بتا دیا جائے گا۔ ۹ بلکہ انسان خود ہی اپنے آپ کو خوب جانتا ہے چاہے وہ کتنی ہی معذرتیں  پیش کرے ۱۰۔ ۔۔۔ ۱۱ اے نبیؐ،  اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے،  لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں  ۱۲ اُس وقت تم اِس کی قرأت کو غور سے سُنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے ۱۳۔ ۔۔۔ ہر گز نہیں، ۱۴ اصل بات  یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز ( یعنی دنیا)سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ ۱۵ اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے،  ۱۶ اپنے ربّ کی طرف دیکھ رہے ہوں  گے۔  ۱۷ اور کچھ چہرے اُداس ہوں  گے اور سمجھ رہے ہوں  گے کہ اُن کے ساتھ کمر توڑ برتاؤ ہونے والا ہے۔  ہر گز نہیں،  ۱۸ جب جان حلق تک پہنچ جائے گی، اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھُونک کر نے والا، ۱۹ اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جُدائی کا وقت ہے،  اور پنڈلی سے پنڈلی جُڑ جائے گی، ۲۰ وہ دن ہو گا تیرے ربّ کی طرف روانگی کا۔   ؏۱

 

تفسیر

 

۱: کلام کی ابتدا نہیں   سے کرنا خود بخود اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں  یہ سُورۃ نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی  ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں  تھی جس کا اہلِ مکہ انکار کر رہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑا رہے تھے۔  اس طرزِ  بیان کو  اِس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ا گر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں  تو آپ کہیں  گے ’’خدا کی قسم رسول برحق ہے ‘‘۔ لیکن اگر کچھ لوگ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں  تو آپ جواب میں  اپنی بات یُوں  شروع کر یں  گے کہ ’’نہیں ،  خدا کی قسم رسول بر حق ہے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ صحیح نہیں  ہے،  میں  قسم کھا کر کہتا ہوں  کہ اصل بات یہ ہے۔

۲: قرآن مجید میں  نفسِ انسانی کی تین قسموں  کا ذکر کیا گیا ہے۔  ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں  پر اکساتا ہے۔  اس کا نام نفس اَمارہ ہے۔  دوسرا نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بُری نیت رکھنے پر نادم ہو تا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے۔  اس کا نام نفسِ لوّامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں  ضمیر کہتے ہیں۔  تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں  اطمینان محسوس کرتا ہے۔  اس کا نام نفسِ مطمئنّہ ہے۔  اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اُسے بیان نہیں  کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔  قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور  وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔  اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر اِن دو چیزوں  کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے ؟ جہاں  تک روزِ قیامت کا تعلق ہے،  اُس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے۔  پوری کائنات کا نظام اِس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ اِس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔  انسان کی عقل پہلے بھی اِس گمانِ بے اصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تھی کہ یہ ہر آن بدلنے والی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے،  لیکن جتنا جتنا اِس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اِس ہنگامہ ہست و بود کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا۔ اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے،  اور یہ ایسی ہی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں  شک کر رہا ہو، خطاب کر کے کہیں  کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو،  یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے۔            لیکن روز قیامت کی قَسم صرف اِس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔  رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا بُرا نتیجہ دیکھے گا،  تو اس کے لیے دوسری قسم نفسِ لوّامہ کی کھائی گئی ہے۔  کوئی انسان دنیا میں  ایسا موجود نہیں  ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اِس ضمیر میں  لازماً بھلائی اور بُرائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور بُرائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان  نرا حیوان نہیں ا ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے،  اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے،  وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے  اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے،  اور جس بُرائی کا ارتکاب اُس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہولے،  تو اس کے بر عکس  صورت میں  جبکہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اُس کے ساتھ کیا ہو، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اِس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔  اب اگر انسان کے وجود میں  اِس طرح کے ایک نفسِ لوّامہ کی موجود گی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے،  تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفسِ لوّامہ زندگی بعدِ موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں  موجود ہے۔  کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے اُن کی جزا یا سزا اُس کو ضرور ملنی چاہیے،  زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں  پُورا نہیں  ہو سکتا۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہو جائے ہو اُس کی بہت سی بھلائیاں  ایسی ہیں  جن کے اجر سے وہ لازماً محروم رہ جائے گا، اور اس کی بہت سی بُرائیاں  ایسی ہیں  جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا۔ اس لیے جب تک آدمی اِس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظامِ کائنات میں  پیدا ہو گیا ہے،  اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں  جنم لے  بیٹھا ہے جو بنیا دی طور پر اپنے  پُورے نظام میں  اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں  رکھتی،  اُس وقت تک وہ حیات بعدِ موت کا انکار نہیں  کر سکتا۔  اسی طرح تنا سُخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اِس مطالبے کا جواب نہیں  ہے۔  کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں  جنم لیتا چلا جائے تو ہر جنم میں  وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سے جزا وسزا کے متقاضی ہوں  گے اور اس لامتناہی سلسلے میں  بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چُک سکے،  اُلٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں  پُورا ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں  انسان کی صرف ایک زندگی ہو، اور پھر پُوری نوعِ انسانی کا خاتمہ ہو جانے کے بعد ایک دوسری زندگی  ہو جس میں  انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دے دی جائے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہمہ القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۳۰)۔

۳: اوپر کی دو دلیلیں ،  جو قسم کی صور ت میں  بیان کی گئی ہیں،  صرف دو باتیں  ثابت کرتی ہیں۔  ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ )ایک یقینی امر ہے۔  دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی اور فطری تقاضے پُورے نہیں  ہو سکتے،  اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے،  کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اِس پر گواہی دے رہی ہے۔  اب یہ تیسری دلیل  یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی بعدِ موت ممکن  ہے۔  مکہ میں  جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ  بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں  ہزاروں  برس گزر چکے ہوں،  جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں  مل کر پراگندہ ہو چکا ہو، جن  کی ہڈیاں  تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں  کہاں  کہاں  منتشر ہو چکی ہوں ،  جن میں  سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں   کے پیٹ میں  جا چکا ہو، کوئی سمندر میں  غرق ہو کر مچھلیوں  کی غذا بن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہو جائیں  اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے کبھی  وہ تھا؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی  پر زور جواب اللہ تعالیٰ نے اِس مختصر سے سوال کی شکل میں  دے دیا ہے کہ ’’کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں  کو کبھی  جمع نہ کر سکیں  گے ‘‘؟یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہو جائیں  گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ جی اٹھو گے،  تو بلا شبہ تمہارا اِس  نا ممکن سمجھنا بجا ہوتا۔مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں  ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرتے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو،  اِس کام سے عاجز ہے ؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں  کوئی شخص جو خدا کو خالقِ کائنات مانتا ہو، نہ اُس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی نے وقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم آج جس جسم میں  اِس وقت موجود ہو اس کے بے شمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہا ں  کہاں  سے جمع کر کے اُسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزاء کو جمع نہیں  کر سکتا؟

۴: یعنی بڑی بڑی ہڈیوں  کو جمع کر کے تمہارا  ڈھانچہ پھر سے کھڑا کر دینا تو درکنار، ہم تو اس بات پر  بھی قادر ہیں  کہ تمہارے نازک ترین اجزائے جسم حتیٰ کہ تمہاری انگلیوں  کی پوروں  تک پھر ویسا ہی بنا دیں  جیسی وہ پہلے تھیں۔

۵: اِس چھوٹے سے فقرے میں  منکرینِ آخرت کے اصل مرض کی صاف صاف تشخیص کر دی گئی ہے۔  اِن لوگوں  کو جو چیز آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے وہ دراصل یہ نہیں  ہے کہ فی الواقع وہ قیامت اور آخرت کو نا ممکن سمجھتے ہیں،  بلکہ اُن کے اِس انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت کو ماننے سے لازماً اُن پر کچھ اخلاقی پابندیاں  عائد ہوتی ہیں،  اور انہیں  یہ پابندیاں  ناگوار ہیں۔  وہ چاہتے ہیں  کہ جس طرح وہ اب تک زمین میں  بے نَتھے بیل کی طرح پھرتے رہے ہیں  اُسی طرح آئندہ بھی پھر تے رہیں۔  جو ظلم،  جو بے ایمانیاں،  جو فسق و فجور، جو بد کر داریاں  برتنے سے نہ روکنے پائے کہ ایک دن انہیں  اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اِن اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ اس لیے دراصل اُن کی عقل اُنہیں  آخرت پر ایمان لانے سے نہیں  روک رہی ہے بلکہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اِس میں  مانع ہیں۔

۶: یہ سوال استفسار کے طور پر نہیں  بلکہ انکار اور استہزاء کے طور پر تھا۔ یعنی وہ یہ پوچھنا نہیں  چاہتے تھے کہ قیامت کس روز آئے گی، بلکہ مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ حضرت !جس دن کی آپ کو خبر دے رہے ہیں  آخر وہ آتے آتے رہ کہاں  گیا ہے ؟

۷: اصل میں  بَرِقَ الْبَصَرُ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں  جن کے لُغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں  کے چُندھیا جانے کے ہیں۔  لیکن عربی محاورے میں  یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں  ہیں  بلکہ خوف زدگی، حیرت، یا کسی اچانک حادثہ سے دوچار ہو جانے کی صورت میں  اگر آدمی ہَکَ دَک رہ جائے اور اس کی نگاہ اُس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آ رہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔  اِسی مضمون کو قرآن مجید میں  ایک دوسری جگہ یُوں  بیان کیا گیا ہے۔ :اِنَّمَا یُؤَ خِّرُ ھُمْ لِیَوْمٍتَشْخَصُ فِیْہِ الْاَ بْصَارُ، ’’اللہ تو انہیں  ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب آنکھیں  پھٹی کی پھٹی رہ جائیں  گی‘‘(ابراہیم، ۴۲)۔

۸: یہ قیامت کے پہلے مرحلے میں  نظامِ عالم کے درہم برہم ہو جانے کی کیفیت کا ایک مختصر بیا ن ہے۔  چاند کے بے نور ہو جانے اور چاند سورج کے مل کر ایک ہو جانے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف چاند ہی کی روشنی ختم نہ ہو گی جو سورج سے ماخوذ ہے بلکہ خود سورج بھی تاریک ہو جائے گا اور بے نُور ہو جانے میں  دونوں  یکساں  ہو جائیں  گے۔  دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زمین یکایک اُلٹی چل پڑے گی اور اُس دن چاند اور سُورج دونوں  بیک وقت مغرب سے طلوع ہوں  گے۔  اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ چاند یک لخت زمین کی گرفت سے چھوٹ کر نکل جائے گا اور سورج میں  جا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ اس کا کوئی اور مفہوم بھی ہو جس کو آج ہم نہیں  سمجھ سکتے۔

۹: اصل میں  الفاظ ہیں  بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ۔ یہ بڑا جامع فقرہ ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں  اور غالباً وہ سب ہی مراد ہیں۔  ایک معنی اس کے یہ ہیں  کہ آدمی کو اُس روز یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں  مرنے سے پہلے کیا نیکی  یا بدی کما کر اُس نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجی تھی اور یہ حساب بھی اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ اپنے اچھے یا بُرے اعمال کے کیا اثرات وہ اپنے پیچھے دنیا میں  چھوڑ آیا تھا جو اس کے بعد مدتہائے دراز تک آنے والی نسلوں  میں  چلتے رہے۔  دوسرے معنی یہ ہیں  کہ اسے وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو اُسے کر نا چاہیے تھا مگر اُس نے نہیں  کیا اور جو کچھ نہ کرنا چاہیے تھا مگر اُس نے کر ڈالا۔ تیسرے معنی یہ ہیں  کہ جو کچھ اس نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں  کیا اس کا پُورا حساب تاریخ وار اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ چوتھے معنی یہ ہیں  کہ جو نیکی یا بدی اس نے کی وہ بھی اسے بتا دی جائے گی اور جس نیکی یا بدی کے کرنے سے وہ باز رہا اُس سے بھی اسے آگاہ کر دیا جائے گا۔

۱۰: یعنی آدمی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھنے کی غرض درحقیقت یہ نہیں  ہو گی کہ مجرم کو اس کا جُرم بتا یا جائے،  بلکہ ایسا کرن تو اس وجہ سے ضروری ہو گا کہ انصاف کے تقاضے بر سرِ عدالت جرم کا ثبوت پیش کیے بغیر پُورے نہیں  ہوتے۔  ورنہ ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے۔  اپنے آپ کو جاننے کے لیے وہ اِس کا محتاج نہیں  ہو تا کہ کوئی دوسرا اُسے بتائے کہ وہ کیا ہے۔  ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکہ دے سکتا ہے،  لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔  ایک چور لاکھ حیلے اپنی چوری کو چھپانے کے لیے اختیار کر سکتا ہے،  مگر اس کے اپنے نفس سے تو یہ بات مخفی نہیں  ہوتی کہ وہ چور ہے۔  ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں  پیش کر کے لوگوں  کو یہ یقین دلا سکتا ہے۔  کہ وہ جس کفر یا دہریّت یا شرک کا قائل ہے وہ درحقیقت اس کی ایماندارانہ رائے ہے،  لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں  ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں  جما ہوا ہے اور ان کی غلطی سمجھنے اور تسلیم کرنے سے دراصل کیا چیز اسے روک رہی ہے۔  ایک ظالم، ایک بد دیانت، ایک بد کر دار، ایک حرام خور، اپنی  بد اعمالیوں  کے لیے طرح طرح کی معذرتیں  پیش کر کے خود اپنے ضمیر تک کا منہ بند کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تا کہ  وہ اسے ملامت کرنے سے باز آ جائے اور یہ مان لے کہ واقعی کچھ مجبوریاں،  کچھ مصلحتیں ،  کچھ ضرورتیں  ایسی ہیں  جن کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے،  لیکن اس کے با وجود اُس کو یہ علم تو بہر حال ہوتا ہی ہے کہ اس نے کس پر کیا ظلم کیا ہے،  کس کا حق مارا ہے،  کس کی عصمت خراب کی ہے،  کس کو دھوکا دیا ہے،  اور کِن ناجائز طریقوں  سے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔  اس لیے آخرت کی عدالت میں  پیش ہوتے وقت ہر کافر، ہر منافق، ہر فاسق وف اجر اور مجرم خود جانتا ہو گا کہ وہ کیا کر کے آیا ہے اور کس حیثیت میں  آج اپنے خدا کے سامنے کھڑا ہے۔

۱۱:  یہاں  سے لے کر ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے ‘‘تک  کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیچ میں  توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے،  جیسا کہ ہم دیباچہ مین بیان کر آئے ہیں ،  نبوت کے ابتدائی دور میں ،  جبکہ حضورؐ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں  ہوئی تھی، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلامِ الہیٰ آپ کو سنا رہے ہیں  وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں،  اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگتے تھے۔  ایسی ہی صورت اُس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے۔  چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں  بلکہ غور سے سنتے رہیں،  اسے یاد کرا دینا اور بعد میں  ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے،  آپ مطمئن رہیں  کہ اس کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں  گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں  غلطی کر سکیں  گے۔  یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام ’’ہر گز نہیں،  اصل بات یہ ہے ‘‘ سے شروع ہو جاتا ہے۔  جو لوگ اِس پس منظر سے واقف نہیں  ہیں  وہ اس مقام پر اِن فقروں  کو دیکھ کر  یہ محسوس کر تے ہیں  کہ اس سلسلہ کلام میں  یہ بالکل بے جوڑ ہیں۔  لیکن اِس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں  کوئی بے ربطی محسوس نہیں  ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالب علم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالب علم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے۔  یہ درس اگر جوں   کا تُوں  نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس واقعہ سے واقف نہ ہوں  گے وہ اس سلسلہ تقریر میں  اِس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں  گے۔  لیکن جو شخص اُس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں  آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جُوں  کا تُوں  نقل کیا گیا ہے،  اُسے نقل کرنے میں  کوئی کمی بیشی نہیں  ہوئی ہے۔            اوپر اِن آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں  ہے،  بلکہ معتبر روایات میں  اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے۔  مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں  سے حضرت عبد للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضورؐ  پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اِس خوف سے کہ کہیں  کوئی چیز بھول نہ جائیں،  جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دُہرانے لگتے تھے۔  اس پر فرمایا گیا کہ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَآ نَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔۔۔۔۔ یہی بات شَعْبِی، ابنِ زید، ضَحّاک، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے۔

۱۲: اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو جبریل علیہ السّلام قرآن پڑھ کر سُناتے تھے،  لیکن چونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں  بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پڑھتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں ‘‘۔

۱۳: اِس سے گمان ہوتا ہے،  اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اِس گمان کا اظہار کیا ہے،  کہ غالباً ابتدائی زمانے میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم نزولِ وحی کے دوران ہی میں  قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے،  اس لیے حضور ؐ کو نہ صرف یہ ہدایات کی گئی  کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں،  اور نہ صرف یہ  اطمینان دلایا گیا کہ اُس کا لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں   محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اُسی طرح پڑھ سکیں  گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے۔  بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور ہر ارشاد کا منشا اور مدّعا بھی پُوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا۔            یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصلی باتیں  ثابت ہوتی ہیں  جنہیں  اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اُن گمراہیوں  سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں  اور آج پھیلا رہے ہیں۔            اوّلاً، اِس سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں  ہوتی تھی جو قرآن میں  درج ہے،  بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں  درج نہیں  ہے۔  اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین،  اُس کے اشارات، اُس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات  کا جو مفہوم و مدعا حضورؐ  کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں  درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے،  کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں  مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالبِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہر حال الفاظِ قرآن کے ما سواتھی۔ یہ وحیِ خَفِی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں  قرآن سے ملتا ہے (قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب’’سنّت کی آئینی حیثیت‘‘ میں  صفحات۹۴۔۹۵۔ اور صفحات۱۱۸تا۱۲۵ میں  پیش کر دیے ہیں )           ثانیاً، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کے ا حکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کو بتائی گئی تھی آخر اِسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اُس کے مطابق لوگوں  کو قرآن سمجھائیں  اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھاَئیں۔  اگر یہ اُس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں  تو یہ ایک بے کار کام تھا، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں  اِس سے کوئی مدد نہیں  مل سکتی تھی۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہ سکتا ہے کہ تشریح علم سرے سے کوئی تشریعی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ نحل آیت ۴۴ میں  فرمایا ہے وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُمَیِّنَ لِلنّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ، ’’اور اے نبی،  یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں  کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کر تے جا ؤ  جو اُن کے لیے اُتار ی گئی ہے ‘‘۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، النحل، حاشیہ۴۰۔اور قرآن میں  چار جگہ اللہ تعالی ٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اِس کتاب کی تعلیم دنیا بھی تھا۔(البقرہ، آیات ۱۲۹، ۱۵۱۔آلِ عمران، ۱۶۴۔الجمعہ، ۲۔ ان سب آیات کی تشریح ہم’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں  صفحہ ۷۴سے ۷۷ تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں ) اس کے بعد کوئی  ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے  فرما دی ہے،  کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں  ہے  بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے۔  اس کو چھوڑ کر  یا اُس سے ہٹ کر  جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیا ن کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صافِ ایمان آدمی نہیں  کر سکتا۔                ثالثاً، قرآن کا سر سری مطالعہ بھی اگر کسی شخس نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں  رہ سکتا کہ اس میں  بکثرت باتیں  ایسی ہیں  جنہیں  ایک عربی داں  آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں  جا ن سکتا کہ اُن کا حقیقی مدعا کیا ہے اور اُن مں ت جو حکم بیان کیا گیا ہے  اس پر کیسے عمل کیا جائے۔  مثال کے طور پر لفظ صلوٰۃ ہی کو لے لیجیے۔  قرآن مجید میں  ایمان  کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دی گیا ہے تو وہ صلوٰۃ ہے۔  لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعیّن نہیں  کر سکتا۔ قرآن میں  اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اِس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں  استعمال کیا گیا ہے،  اور اس ے مراد غالباً کوئی خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے۔  سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلّم کو مقرر کر کے اپنی اِس اصطلاح کا مفہوم اُسے ٹھیک ٹھیک نہ بتا یا ہوتا اور صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کر نے کا  طریقہ پُوری وضاحت کے ساتھ اے نہ سکھا دیا ہوتا،  تو کیا صرف قرآن کو پڑھ  کر دینا میں  کوئی دو مسلمان  بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکمِ صلوٰۃ پر عمل کرنے کی کسی ایک شکل پر متفق ہو جاتے ؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں  عمل کر رہے ہیں،  اس کی وجہ یہی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں  فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی اپ کو پوری طرح سمجھادیا تھا، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ اُن سب لوگوں  کو دیتے چلے گئے جنہوں  نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا۔           رابعاً، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسولؐ کو بتائی اور رسولؐ  نے اپنے قول اور عمل سے اس کی جو تعلیم امّت کو دی، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنّت کے سوا اور  کوئی نہیں  ہے۔  حدیث سے مراد وہ روایات ہیں  جو حضورؐ کی قولی و عملی تعلیم سے مُسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں  رائج ہوا،  جس کی تفصیلات معتبر روایتوں  سے بھی بعد کی نسلوں  کو اگلی نسلوں  سے ملیں،  اور بعد کی نسلون نے اگلی نسلوں  میں  اس پر عمل درآمد ہوتے بھی دیکھا۔ اِس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخص انکار کر تا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَا نَہٗ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمّہ داری لی تھی۔ اسے پورا کرنے میں  معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا، کیونکہ یہ ذمّہ داری محض رسولؐ کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھا نے کے لیے نہیں  لی گئی تھی، بلکہ اس غرض کے لیے لی گئی تھی کہ رسولؐ کے ذریعہ سے اُمّت کر کتابِ الہیٰ کا مطلب سمجھا یا جائے،  اور حدیث و سنّت کے ماخذِ قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آ جاتا ہے  کہ اللہ تعالیٰ اِس ذمہ دار کو پُورا نہیں  کر سکا ہے،  اعاذبا اللہ من ذالک۔ اس کے جواب میں  جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہت سے لوگوں  نے حدیثیں  گھڑ بھی تو لی تھیں،  اُس سے ہم کہیں  گے کہ حدیثوں  کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں  پُوری امّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی،  ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں  کو جھوٹی حدیثیں  گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں  پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکّے تو جعلی بناتے ہیں  جن کا بازار میں  چلن ہو۔ جن نوٹوں  کی بازار میں  کوئی قیمت نہ ہو انہیں  کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا؟ پھر ایسی بات کہنے والوں  کو شاید یہ معلوم نہیں  ہے کہ اِس امّت نے اول روز سے اِس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاکؐ کے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں  اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے،  اور جتنا جتنا غلط باتوں  کے اُس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اِس امّت کے خیر خواہ اِس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کر تے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیّز کیا جائے۔  صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں  کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں  کیا ہے۔  سخت بد نصیب ہیں  وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں  آ کر حدیث و سنت کو نا قابلِ اعتبار ٹھیراتے ہیں  اور نہیں  جانتے کہ اپنی اِس جاہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

۱۴: یہاں  سلسلہ کلام پھر اُسی مضمون کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جو بیچ کے جملہ معترضہ سے پہلے چلا آ رہا تھا۔ ہر گز نہیں  کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے انکارِ آخرت کی اصل وجہ یہ نہیں  ہے کہ تم خالقِ کائنات کو قیامت بر پا کرنے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے سے عاجز سمجھتے ہو، بلکہ اصل وجہ یہ ہے۔

۱۵: وہ انکار آخرت کی دوسری وجہ ہے پہلی وجہ آیت نمبر ۵ میں  بیان کی گئی تھی کہ انسان چونکہ فجور کی کھُلی چھوٹ چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیو سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازماً اس پر عائد ہوتی ہے اس لیے دراصل خواہشات نفس اسے انکار آخرت پر اُبھارتی ہے اور پھر وہ عقلی دلیلیں  بگاڑتا ہے تا کہ اپنے  اس انکار کو معقول ثابت کرے اب دوسری وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے  منکرینِ آخرت چونکہ تنگ نظر اور کوتاہ بیں  ہیں  اس لیے اُن کی نگاہ میں  ساری اہمیت انہیں  نتاَئج کی ہیں  جو اسی دنیا میں  ظاہر ہوتے ہیں   اور اُن نتائج کو وہ کوئی اہمیت نہیں  دیتے  جو آخرت میں  ظاہر ہونے والے ہیں۔  وہ سمجھتے ہیں  کہ جو فائدہ یا زلت یا خوشیاں  حاصل ہو جائے اسی کی طلب میں  ساری محنتیں  اور کوششیں  کھپا دینی چاہیں  کیونکہ اسے پا لیا تو گویا سب کچھ پا لیا، خواہ آخرت میں  اس کا انجام کتنا ہی برا ہو۔ اسی طرح ان کا خیال یہ ہے کہ جو نقصان یا تکلیف یا رنج و غم یہاں  پہنچ جائے وہی  دراصل بچنے کے قابل چیز ہے، قطعِ نظر اس سے کے اُس کو بر داشت کر لینے کا کتنا ہی بڑا اجر آخرت میں  مل سکتا ہو وہ نقد سودا چاہتے ہیں  آخرت جیسی دور کی چیز کے لیے وہ نہ آج کے کسی نفع کو چھوڑ سکتے ہیں  نہ کسی نقصان کو گوارہ کر سکتے ہیں  اس اندازِ فکر کے ساتھ جب وہ آخرت کے مسئلے پر عقلی بحثیں  کرتے  ہیں  تو دراصل وہ خالص عقلیت نہیں  ہوتی بلکہ اس کے پیچھے یہ اندازِ فکر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بہر حال یہی ہوتا ہے کہ آخرت کو نہیں  ماننا ہے،  خواہ اندرسے ان کا ضمیر پکار پکار کر کہہ رہا ہوں  کہ آخرت کے امکان وقوع اور وجوب کی جو دلیلیں  قرآن میں  دی گئی ہیں  وہ نہایت معقول  ہیں  اور اس کے خلاف جو استدلال وہ کر رہے ہیں  وہ نہایت بودا ہے۔

۱۶: یعنی خوشی سے دمک رہے ہوں گے، کیونکہ جس آخرت پر وہ ایمان لائے تھے وہ ٹھیک اُن کے یقین کے مطابق سامنے موجودگی، اور جس آخرت پر ایمان لا کر انہوں  نے دنیا کے ناجائز فائدے چھوڑے اور بر حق  نقصان بر داشت کیے تھے اس کو فی الواقع اپنی آنکھوں  کے سامنے بر پا ہوتے دیکھ کر انہیں  یہ اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ انہوں  نے اپنے رویّہ زندگی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا، اب وہ وقت آ گیا ہے جب وہ اس کا بہترین انجام دیکھیں  گے۔

۱۷: مفسرین میں  سے بعض نے اسے مجازی معنی میں  لیا ہے وہ کہتے ہیں  کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اُس سے توقعات وابسطہ کرنے،  اس کے فیصلہ کا انتظار  کرنے،  اس کے کرم کا امید وار ہونے کے معنی میں  بولے جاتے ہیں،  حتیٰ کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہ میں  تو فلاں  شخص کی طرف لگی ہوئی ہے کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے۔  لیکن بکثرت احادیث میں  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی جو تفسری منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں  اللہ کے مقرم بندوں  کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہو گا۔ بخاری کی روایت ہے کہ  اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیَاناً۔’’تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے۔ ‘‘مسلم اور ترمذی میں  حضرت صُہیب کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں   داخل ہو جائیں  گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں  تمہیں  مزید کچھ دُوں ؟ وہ عرض کریں  گے کہ تم  نے ہمارے چہرے روشن نہیں  کر دیے ؟ کیا آپ نے ہمیں  جنت میں  داخل نہیں  کر دیا اور جہنم  سے بچا نہیں  لیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ پر دہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں  کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں  سے کوئی انعام بھی انہیں  اس سے زیادہ محبوب نہ ہو گا کہ وہ اپنے رب کی  دیدسے مشرف ہوں،  اور یہی وہ مزید انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں  فرمایا گیا ہے کہ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْ الْحُسْنیٰ وَزِیَادَۃ یعنی ’’جن لوگوں  نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی ‘‘۔(یونس۔۲۶)بخاری ومسلم میں  حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت ابو ہُریرہ سے  روایت ہے کہ لوگوں  نے پوچھا  یا رسول اللہ،  کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھیں  گے ؟ حضورؐ نے فرمایا کیا تمہیں  سورج اور چاند کو دیکھنے میں  کوئی دقّت ہوتی ہے  جبکہ بیچ میں  بادل بھی نہ ہوں  ؟ لوگوں  نے عرض کیا، نہیں ۔  آپ نے فرمایا اس طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے۔  اس مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری ومسلم میں  حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے۔ مسند احمد، ترمذی، دارقُطنی، ابنِ جریر ابن المنذر، طبرانی، بَیْقَہی، ابن ابی شَیْبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہلِ جنت میں  کم سے کم درجہ کو جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وصیت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا،  اور ان میں  سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھیں  گے پھر حضورؐ نے یہی آیت پڑھی کہ’’اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے،  اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ‘‘۔ابن ماجہ میں  حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں  گے،  پھر جب تک اللہ ان سے پر دہ نہ فرما لے گا اس وقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں  گے اور اسی کی طرف دیکھتے رہے گے۔  یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں  جن کی بنا پر اہلسنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں  کہ آخرت میں  اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔  اور اس کی تاکید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کَلَّآ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبّھِِمْ یَوْمَئِذ لَّمَحْجُوْبُوْنَ’’ہر گز نہیں،  وہ (یعنی فُجّار) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے ‘‘(المُطففین۔۱۵)۔اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فُجّار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے

یہاں  یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے ؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت،  مقام، شکل اور رنگ میں  سامنے موجود ہو، روشنی کی شعاعیں  اُس سے مُنعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں  اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کو تصویر  منتقل ہو۔ کیا  اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اِس طرح قابلِ دید ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکے ؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔  اس میں  دو چیزوں  کے درمیان فرق نہیں  کیا گیا ہے۔  ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی خاص صورت جس سے ہم اِس دنیا میں  آشنا ہیں۔  دیکھنے کی حقیقت  یہ ہے کہ دیکھنے والے میں  بنا ئی کی صفت موجود ہو، وہ نابینا نہ ہو،  اور دیکھی جانے والی چیز اُس پر عیاں  ہو، اس سے مخفی نہ ہو۔ لیکن دنیا میں  ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس  سے کوئی انسان یا حیوان بالفصل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے،  اور اس کے لے  لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں  آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو،  اُس عضو میں   بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو، اُس کے سامنے ایک ایسی  محدُود مجسمّ رنگ دار  چیز حاضر ہو جس سے روشنی کی شعاعیں  منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں،  اور آنکھ میں  اس کی شکل سما سکے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اُسی خاص صورت میں  ہو سکتا ہے جس سے ہم اِس دنیا میں  واقف ہیں  تو یہ خود اُس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے،  ورنہ درحقیقت خدا کی خدائی میں  دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں  ممکن ہیں  جن کا ہم تصوّر بھی نہیں  کر سکتے۔  اس مسئلے میں  جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتاَئے کہ اس کا خدا بینا ہے یا نابینا؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک  عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں  انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں ،  اور اس سے بینائی کے فعل کا صُدور اُسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں  ہے،  اور جب اس کا جواب نفی میں  ہے تو آخر کسی صاحب عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں  کیوں  مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں  اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار اس مخصوص شکل میں  نہیں  ہو گا جس میں  انسان دنیا میں  کسی چیز کو دیکھتا ہے،  بلکہ وہاں  دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہو گی جس کام ہم یہاں  ادراک نہیں  کر سکتے ؟  واقعہ یہ ہے  کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اُس سے  سابقہ پیش آنا ہے۔

۱۸: اس ’’ہرگز نہیں ‘‘کا تعلق اسی سلسلۂ کلام سے ہے جو اوپر سے چلا آرہا ہے، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہیں  مر کر فنا ہو جانا ہے اور اپنے رب کے حضور واپس جانا نہیں  ہے۔

۱۹: اصل میں  لفظ رَاق استعمال ہوا ہے جو رُقیہ سے بھی ماخوذ ہو سکتا ہے جس کے معنی تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کے ہیں ،  اورَتی سے بھی،  جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔  اگر پہلے معنی لیے جائیں  تو مطلب یہ ہو گا کہ آخر وقت میں  جب مریض کے تیمار داری ہر دوا دارو سے مایوس ہو جائیں  گے تو کہیں  گے کہ ارے کسی جھاڑ پھونک کرنے والے ہی کو تلاش کرو جو اس کی جان بچا لے۔  اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں  تو مطلب یہ ہو گا کہ اس وقت فرشتے کہیں  کہ اس روح کو کیسے لے کر جانا ہے ؟ ملائکہ عذاب کو یا ملائکہ رحمت کو ؟ بالفاظ دیگر اسی وقت یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ مرنے والاکس حیثیت میں  عالمِ آخرت کی طرف جا رہا ہے نیک انسان ہو گا تو ملائکہ رحمت ہی سے لے جائیں  گے،  اور بد انسان ہو گا تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہ پھٹکیں  گے اور عذاب کے فرشتے اسے گرفتار کر کے لے جائیں  گے۔

۲۰: مفسرین میں  سے بعض نے لفظ ساق(پنڈلی) کو عام لُغوی معنی میں  لیا ہے اور اس کے لحاظ سے مردہ یہ ہے کہ مرنے کے وقت جب ٹانگیں  سوُکھ کر ایک دوسری سے جڑ جائیں  گی۔ اور بعض نے عربی محاورے کے مطابق ایسے شدت اور سختی  اور  مصیبت کے معنی میں  لیا ہے،  یعنی اس وقت دو مصیبتیں  ایک ساتھ جمع ہو جائیں  گی، ایک دنیا اور اس کی ہر چیز سے جدا ہو جانے کی مصیبت اور دوسری عالمِ آخرت میں  ایک مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو کر جانے کی مصیبت، جس سے ہر کافر و منافق اور ہر فاسق و فاجر کو سابقہ پیش آئے گا۔

 

ترجمہ

 

مگر اُس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی، بلکہ جھُٹلا یا اور پلٹ گیا، پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں  کی طرف چل دیا۔ ۲۱ یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔  ہاں  یہ روش تیرے ہی لیے سزاوار ہے اور تجھی کو زیب دیتی ہے۔  ۲۲

۲۳ کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ یُونہی مہمل چھوڑ دیا جائے گا؟ ۲۴ کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر میں  )ٹپکا جاتا ہے ؟  پھر وہ ایک لوتھڑا بنا، پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضا درست کیے،  پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں  بنائیں۔  کیا وہ اِس پر قادر نہیں  ہے کہ مرنے والوں  کو پھر سے زندہ کر دے ؟  ۲۵ ؏۲

 

تفسیر

 

۲۱: مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سُنا جو اوپر کی آیات میں  بیان کیا گیا ہے،  مگر پھر بھی وہ اپنے انکار ہی پر اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد  اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ مجاہد، قتادہ اور ابنِ زید کہتے ہیں  کہ یہ شخص ابوجہل تھا۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک شخص تھا جس نے سورہ قیامہ کی مذکورہ بالا آیات سننے کے بعد یہ طرزِ عمل اختیار کیا۔           اس آیت کے یہ الفاظ کہ ’’ اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی‘‘ خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں۔  ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کرنے کا اوّلین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے۔ شریعت الہیٰ کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد ہی میں  آتی ہے،  لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدّت نہیں  گزرتی کہ نماز کا وقت آ جاتا ہے اور اُسی وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان ے جس چیز کے ماننے کا اقرار کیا ہے وہ واقعی اس کے دل کی آواز ہے  یا محض ایک ہوا ہے جو اُس نے چند الفاظ کی شکل میں  مُنہ سے نکال دی ہے۔

۲۲: مفسرین نے اَوْلیٰ لَکَ کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔  تُف ہے تجھ پر۔  ہلاکت ہے تیرے لیے۔  خرابی، یا تباہی،  یا کمبختی ہے تیرے لیے۔  لیکن ہمارے نزدیک موقع و محل کے لحاظ سے اس کا مناسب ترین مفہوم وہ ہے جو حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں  بیان کیا ہے کہ ’’جب تو اپنے خالق کفر کرنے کی جُرأت کر چکا ہے تو پھر تجھ جیسے آدمی یہی چال زیب دیتی ہے جو تو چل رہا ہے۔ ‘‘یہ اسی طرح کا طنزیہ کلام ہے جسے قرآن مجید میں  ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں  عذاب دیتے ہوئے مجرم انسان سے کہا جائے گا کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ، ’’لے چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو۔ ‘‘(الدخان، ۔۴۹)

۲۳: اب کلام کو ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کا  اعادہ کیا جا رہا ہے جس سے کلام کا آغاز کیا گیا تھا، یعنی زندگی بعدِ موت ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔

۲۴: عربی زبان میں   اِبِل سُدی اُس اونٹ کے لیے بولتے ہیں  جو یونہی چھوٹا پھر رہا ہو، جدھر چاہے چڑھتا پھرے،  کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہ ہو۔ اسی معنی میں  ہم شُتر بے مہار کا لفظ بولتے ہیں ۔  پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انسان نے اپنے آپ کو شُتر بے مہار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خالق نے اس زمین میں  غیر ذمّہ دار بنا کر چھوڑ دیا ہو ؟ کوئی فرض اس پر عائد نہ ہو؟ کوئی چیز اس کے لیے ممنوع نہ ہو؟ اور کوئی وقت ایسا آنے والا نہ ہو جب اس سے اس کے اعمال کی باز پُرس کی جائے ؟ یہی بات ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید میں  اس طرح بیان کی گئی ہے کے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ۔’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں  فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں  کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں  آنا ہے ؟‘‘(المومنون۔۱۱۵)۔ ان دونوں  مقامات پر زندگی بعدِ موت کے واجب ہونے کی دلیل سوال کی شکل میں  پیش کی گئی ہے۔  سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تم نے اپنے آپ کو جانور سمجھ رکھا ہے ؟ کیا تمہیں  اپنے اور جانور میں  یہ کھلا فرق نظر نہیں  آتا کہ وہ بے اختیار ہیں  اور تم با اختیار،  اس کے افعال میں  اخلاقی حُسن و قبح کا سوال پیدا نہیں  ہوتا اور تمہارے افعال میں  یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے ؟ پھر تم نے اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ لیا کہ جس طرح جانور غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ ہیں۔  اسی طرح تم بھی ہو؟ جانوروں  کے دوبارہ زندہ کر کے نہ اُٹھائے جانے کی مقبول وجہ تو سمجھ میں  آتی ہے کہ اس نے صرف اپنی جِبِلت کے  لگے بندھے تقاضے پورے کیے ہیں،  اپنی عقل سے کام لے کر کوئی فلسفہ تصنیف نہیں  کیا، کوئی مذہب ایجاد نہیں  کیا، کسی معبود نہیں  بنایا نہ خود کسی کا معبود بنا، کوئی کام ایسا نہیں  کیاجسے نیک یا بد کہا جا سکتا ہو، کوئی اچھی یا بُری سنت جاری نہیں  کی جس کے اثرات نسل در نسل چلتے رہیں  اور وہ ان پر کسی اجر یا سز ا کا مستحق ہو۔ لہٰذا وہ اگر مر کر فنا ہو جائے تو یہ سمجھ میں  آنے کے قابل بات ہے کیونکہ اس پر اپنے کسی عمل کی ذمہ داری عائد ہی نہیں  ہوتی جس کی بازپُرس کے لیے اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے کی کوئی حاجت ہو۔ لیکن تم حیات بعدِ موت سے کیسے معاف کیے جا سکتے ہو جبکہ عین اپنی موت کے وقت تک تم ایسے اخلاقی افعال کرتے رہتے ہو جن کے نیک یا بد ہونے اور جزا یا سزا کے مستو جب ہونے کا تمہاری عقل خود حکم  لگاتی ہے ؟ جس آدمی نے کسی بے گناہ قتل کیا اور فوراً ہی اچانک کسی حادثے کا شکار ہو گیا، کیا تمہارے نزدیک اس کونِلوُہ free) (Scot چھوٹ جانا چاہیے اور اس ظالم کا بدلہ اسے کبھی نہ ملنا چاہیے ؟ جو آدمی دنیا میں  کسی ایسے فساد کا بیج بو گیا جس کا خمیازہ اس کے بعد صدیوں  تک انسانی نسل بھگتی رہیں،  کیا تمہاری عقل واقعی اس بات پر مطمئن ہے کہ اسے بھی کسی بھُنگے یا ٹڈے کی طرح مر کر فنا ہو جانا چاہیے اور کبھی اٹھ کر اپنے ان کرتوتوں  کی جواب دہی نہیں  کرنی چاہیے جن کی بدولت ہزاروں لاکھوں  انسانوں  کی زندگیاں  خراب ہوئیں ؟ جس آدمی نے عمر بھر حق و انصاف اور خیر و صلاح کے لیے اپنی جان لڑائی ہو اور جیتے جی مصیبتیں  ہی بھگتا رہا ہو کیا تمہارے خیال میں  وہ بھی حشرات الارض ہی کی قسم کی کوئی مخلوق ہے جسے اپنے اس اعمال کی جزا پانے کا کوئی حق نہیں  ہے ؟

۲۵: یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی دلیل ہے۔  جہاں  تک اُن لوگوں  کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں  کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق ک آغاز کر کے پُور ا انسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں،  کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھِٹائی برتیں،  ان کی عقل تسلیم کرنے سے انکار نہیں  کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں  پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں  لے آنے پر  قادر ہے۔  رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں،  وہ اگر ہٹ دھرمی پر تُلے ہوئے نہیں  ہیں  تو آخر ان  کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغازِ آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور ہر قوم میں  کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں  لڑکوں  اور لڑکیوں  کی پیدائش مسلسل اِس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں  کسی زمانے میں  بھی ایسا نہیں  ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں  صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں  ہی پیدا ہوتی چلی جائیں  اور آئندہ اُس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے ؟ اتنا بڑا دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک،  ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی۲۷ تا ۳۰۔جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۷۷)۔           متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ  و سلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کے جواب میں  کبھی بَلیٰ (کیو ں  نہیں )، کبھی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ فبلی (پاک ہے تیری ذات، خداوند، کیوں  نہیں ) اور کبھی سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ فرمایا کرتے تھے (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو داؤد)۔ ابو داؤد میں  حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب تم سورہ تین میں  آیت اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْن (کیا اللہ سب حاکموں  سے بڑا حاکم نہیں  ہے ؟) پڑھو تو کہو بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذَالِکَ مِنَ الشَّا ھِدِیْنَ (کیوں  نہیں ،  میں  اِس پر گواہی دینے والوں  میں  سے ہوں )۔ اور جب سورہ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بَلیٰ۔ اور جب سورہ مرسَلات کی آیت فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ (اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں  گے ؟) پڑھو تو کہو اٰمَنَّا بِا للہِ ( ہم اللہ پر ایمان لائے )۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد، ترمذی، ابن المُنذر، ابن مردُوْیہ، بَیْقَہی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں۔

٭٭٭

 

 

ماخذ:

http://www.urduquran.net

http://www.tafheemonline.com/tafheem.asp

http://ur.wikipedia.org

تشکر: سبط الحسین

جمع و ترتیب: سبط الحسین، اعجاز عبید

مزید ٹائپنگ: مخدوم محی الدین، کلیم محی الدین،  عبد الحمید

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید