FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

تفہیمِ عرفان

دوسرا حصہ

 

                نقد و نظر

 

ماخذ:عرفان صدیقی: حیات، خدمات اور شعری کائنات

                مرتّبین: عزیز نبیلؔ ۔ آصف اعظمی

 

نوٹ

 

اصل کتاب سے  یادِ عرفان (یادیں، خاکے)، شاعری کا انتخاب، اور تفہیم عرفان (عرفان صدیقی پر تنقیدی مقالے، دو حصوں میں) الگ ای بکس کے طور پر شائع کئے جا رہے ہیں۔

 

 

 

رختِ سفر اٹھا گیا کون سرائے خواب سے

رات پھر اس نواح میں گریۂ جاں بہت ہوا

 

 

 

 

 

عرفان صدیقی کا عرفان

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاہین عباس(لاہور)

 

عرفان صدیقی نے نہ صرف ہندوستان کی اردو غزل کو اپنے منفرد طرزِ سخن سے اعتبار بخشا، بلکہ پاکستانی غزل پر بھی ایک ایسے دور میں اپنے اثرات مرتب کیے، جس دور میں ایک عمومی تاثر کے تحت جدید اردو غزل کا مرکز پاکستان کو قرار دیا جاتا تھا۔ اگرچہ یہ تاثر آج بھی برقرار ہے۔ تاہم ایسا کیوں کر ممکن ہوا، تقابل و تفاخر کے باب کی یہ ایک الگ بحث ہے۔ اقبال، فیض اور ناصر کاظمی سے چل کر ظفر اقبال اور احمد مشتاق تک آتے آتے غزل کے مخالفین کی تنقید بھی غیر اہم اور غیر متعلق ہونے لگی ہے، اور اِس نیم وحشی کی وحشت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے۔ کسی بھی غزل گو شاعر کا اختصاص اور امتیاز قائم کرنے کے لیے اُس کی فکر اور جذبے کے ماخذات اور منابع تک رسائی ضروری ہوتی ہے۔ اِسی کلیے کا اطلاق ادب کی دیگر اصناف اور جانچ پرکھ کے دوسرے معیارات اور اقدار پر بھی ہوتا ہے۔ عرفان صاحب کی غزل کے منبع و ماخذ کو ایک ایسی سرشار تاریخ اور بیدار تہذیب کا نام دیا جا سکتا ہے، جن کے قائم کردہ نشانات کی نہ تو کوئی ظاہری حد ہے نہ باطنی۔ دوسرے لفظوں میں وہ تاریخ کے آدمی ہیں، سن وسال کے قدیمی جلو میں صورتِ کارواں رواں دواں، اور تاریخ در تاریخ اپنے فن کی فعالیت اور تکمیل میں سر گرم رہتے ہیں۔ مگر اِس طرح سے کہ انہوں نے شعری پیرائے میں اپنی اِس کلید کو بروئے کار لاتے ہوئے، خود کو بالعموم کسی کلیشے یا سٹیس کی نذر نہیں ہونے دیا، جس کا احتمال بعض اوقات معلوم و مقسوم کی رعایت کو من و عن تسلیم کر لینے کے عمل میں ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو منتخب ہی اِس لیے کیا گیا کہ وہ ان منطقوں کی ثقافتی حدود کو ایک تخلیقی وسعت سے ہمکنار کرتا رہے، جہاں طبعی یا غیر طبعی، مرئی یا غیر مرئی طور پر اُسے اتارا جائے۔ اس قبیل اور افتاد کے شعراء کو مدینہ، کربلا، لکھنؤ، کراچی اور لاہور، گویا خطہ بہ خطہ اور قریہ بہ قریہ سب علاقے ورقِ سادہ پر بنا بنا کر دکھا جاتے ہیں اور وہ عالم انسانی کا کچھ اِس طور نمائندہ بن کر سامنے آتے ہیں۔

سرحدیں اچھی، کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچیے، آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا !

ہم سب آئنہ در آئنہ در آئنہ ہیں

کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

عجب حریف تھا، میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مری سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

دیدنی ہے مجھے سینے سے لگانا اُسکا

اپنے شانوں سے کوئی بوجھ اتارے جیسے

اُس کی آنکھیں ہیں کہ اک ڈوبنے والا انسان

دوسرے ڈوبنے والے کو پکارے جیسے

عرفان صدیقی کے یہاں یہ معاملہ انسان دوستی سے زیادہ انسان شناسی کا ہے اور اگرچہ بعینہ تسلیم و رضا کے محدودات کا پابند نہیں، مگر مکمل طور پر تکفیر و الحاد کا بھی متحمل نہیں۔ بس اِن دو کے بین بین ہے، جس میں ارتقا بھی ہے، احیا بھی۔ روایت کی بازیافت بھی ہے اور ماورائے روایت امکانات کی دریافت کا سلسلہ بھی۔ اُن کی کلیات ’’ دریا‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مضمون نو یا شعرِ دگر کی اُس صورت گری کے قائل ہیں، جو آہستہ روی سے واضح تر ہوتی ہے اور ہمہ وقت مائل بہ تکمیل رہتی ہے۔ اُن کا تخلیقی عمل رویوں اور رجحانات کی فی زمانہ غیر فطری تیز رفتاری کے دباؤ سے آزاد ہے، مگر ہر تیز رو پر نظر جمائے ہوئے ہے۔ عرفان صاحب خیال کی اُس کڑی اور جذبے کے اُس موڑسے اپنے متخیلہ کو متحرک کرتے ہیں، جس سے آگے بات صرف اور صرف شعر ہی کی زبان میں کہی اور سنی جا سکتی ہے، کسی اور پیرائے میں نہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان کے روایتی سانچوں اور روزمرہ کی قدیم ساخت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کس طور بڑی غزل لکھی جا سکتی ہے جبکہ مذکورہ بندشوں کے ساتھ تو بڑا کام کرنے والے کر چکے۔ تو کیا زبان کو توڑ دیا جائے ؟۔ کہا جاتا ہے کہ زبان کو توڑنا ایسے ہے جیسے کسی کے عقیدے یا مسلک کو چھیڑنا۔ ایسے میں اعتقادات پر ضرب لگانے کا ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے ظاہر سے زیادہ باطن پر انحصار۔ زبان سے بڑھ کر بیان کی فکر، یعنی بالکل صوفیاء کا سا طرزِ عمل۔ بات سن بھی لی اور بات میں بات بھی رکھ دی اور پھر کہتے چلے گئے، جیسے متن سے معانی بر آمد ہوئے تو ہوتے ہی چلے گئے۔ تخلیق نے سب کو پچھاڑ دیا، ایسی تشکیل کو بھی جو خالی از تخلیق ثابت ہوئی۔ عرفان صاحب کی شاعری ایک حد تک رسمی ضرور ہے کہ آپ اگر رسم و رواج کے پابند رہیں تو فسادِ خلق کا خطرہ ٹل جاتا ہے۔ مگر یہ کلام ایک نہج پر غیر رسمی اور غیر روایتی بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔ شعر میں کچھ نیا محسوس کرنا، کچھ نیا معلوم کرنے سے زیادہ بڑا عمل خیال کیا جاتا ہے۔ اُن کی زبان مانوس اور الفاظ و تراکیب کا دروبست رسمیات کا پابند سہی، مگر بیان کی جمالیات انوکھی اور خاص اپنی طرز کی ہیں جس پر دور دور تک کسی دوسرے کی کوئی چھاپ نہیں۔ مصرع بہ مصرع علامت نگاری کا ایک مربوط اور منضبط نظام ہے جو میکانکی طرز کی جمع خرچ اور حاصل حصول سے بڑھ کر ہے۔ اُن کے پورے کلام میں جہاں ایک طرف موضوع اور سرنامہ کی اکائی کا تاثر ملتا ہے، وہاں ہر شعر اور غزل کے اپنے اپنے ذیلی اور ضمنی عنوانات بھی موجود نظر آتے ہیں، جو کلیت سے مزاحم ہیں نہ بنیادی قضیئے کے ساتھ متصادم۔ سامراجیت کا رد اِن ذیلی عنوانات کا ایک رُخ ہے، کہیں اصل کاسابقہ، کہیں لاحقہ اور کہیں از خود اصل کی صورت۔ وہ بزم سے رزم تک آتے ہیں، اور پھر واپس بزم میں لوٹ جاتے ہیں۔ وہ شکار ہوتے ہیں اور کرتے بھی ہیں، مگر غزل کو آخرِ شب کی اسٹیج کی بھگڈر یا تا دیر چورا ہوں کا ہنگامہ نہیں بننے دیتے۔ ایسا ہنگامہ جو در اندازیوں سے آغاز ہو اور لاحاصل اتھل پتھل پر منتج، عرفان صاحب کے ہاں نہیں ملتا، مگر اِس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غزل کی روایت میں اضافہ یا تبدیلی نہیں چاہتے۔ اب اُن کے دو شعر ملاحظہ ہوں

کوئی شے طشت میں ہم سر سے کم قیمت نہیں رکھتے

سو اکثر ہم سے نذرانہ طلب ہوتا ہی رہتا ہے

یہ تیر اگر کبھی دونوں کے بیچ سے ہٹ جائے

تو کم ہو فاصلۂ درمیاں ہمارا بھی

مذکورہ اشعار میں ٹریٹمنٹ کا فرق اُتنا ہی نمایاں ہے جتنا کہ آگ کی لپٹوں اور آنچ کی لو میں ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات جذبے کا فشار اعصاب پر ایسا حاوی ہو جاتا ہے کہ پھر فیتے اور فتیلے کا استعمال شعر کہنے والے کے اپنے اختیار میں نہیں رہتا۔ بعد ازاں خاکستر ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ روشنی کے نام پر کیا کام ہوا، اچھا یا برا۔ عرفان صاحب کے یہاں بھی کہیں کہیں وابستگی اور سپردگی کا معاملہ ایسا بلند آہنگ ہو گیا ہے، جس سے ما فی الضمیر تو سامنے آ جاتا ہے، مگر آرٹ اوجھل یا متاثر ہوتا ہے۔ تاہم ایسے مقامات کم ہیں۔ اور اگر ہیں بھی تو شاید اِس لئے کہ تخلیقی عمل اُن کے نزدیک داد طلبی کا نہیں نجات طلبی کا دوسرا نام ہے۔

جانتے سب ہیں کہ ہم رکھتے ہیں خم طرفِ کلاہ

اور کیوں رکھتے ہیں، یہ اہلِ ستم جانتے ہیں

سب نام دستِ ظلم، تری دسترس میں ہیں

لیکن جو نام ہے مرے اندر لکھا ہوا

مگر وہ کبھی کبھی وہ اپنی عمومی ڈگر سے کچھ ہٹ کر بھی بات کر جاتے ہیں۔ کچھ اِس طور سے کہ پہلے سے دلائی ہوئی وفا اور نباہ کی یقین دہانیوں پر بھی حرف نہیں آتا اور شعرِ اصیل کا سلسلہ بھی شروع ہونے لگتا ہے۔

میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ

تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

اور اِس صورتِ حال کو مزید اجاگر کرتا ہوا ایک اور شعر

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا ؟

ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

یوں تو شعر سے حظ اٹھانے کا کوئی ضابطہ مقرر نہیں کہ لکیر کھینچ کر کہہ دیا جائے کس حد تک کوئی جا سکتا ہے۔ ادب کی قرات و سماعت پر قاری یا سامع کے ردِ عمل کا انحصار شخصی کیفیات پر بھی ہوتا ہے اور شخصی امتیازات پر بھی۔ بڑے ادب کو عام طور پر سننے کی نہیں، پڑھے جانے کی چیز کہا جاتا ہے۔ شاید اِس لیے کہ سماعت میں بصارت شامل نہیں سمجھی جاتی اور سنا ہوا لفظ دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر بصارت میں سماعت کسی نہ کسی رنگ روغن سے بار پا کر در آتی ہے۔ حظ اور لطف کی تین ممکنہ صورتیں ہیں۔ اوّل یہ کہ آپ نے شعر پڑھا اور شعر میں باندھے گئے مضمون نے آپ کو ماضی میں وہاں لے جا کر چھوڑ دیا جہاں آپ خود بھی جانا چاہتے تھے۔ دوم، شعر میں ایسا تجربہ بیان ہواجس کی قرات سے آپ کو اپنی موجودہ حالت کی تائید کے لیے گواہی میسر آ گئی۔ سوم یہ کہ شاعر کے ساتھ ہوا کے دوش پر اڑتے ہوتے ایسی وادیِ فردا میں جا نکلے جہاں تک رسائی یا باریابی کا آپ نے سوچ رکھا تھا۔ یہ تینوں صورتیں متنِ شعر سے لطف اٹھانے میں کارگر ثابت ہو تی ہیں۔ ’’ دریا‘‘ کے شاعر نے احوال و آثار کو در اصل نئی زمانی ترتیب سے گزار کر آثار و احوال بنا دیا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ عرفان صاحب کے یہاں تہذیب کسی بنتی بگڑتی تصویر کا نام نہیں، بلکہ پھولتی اور پھیلتی ہوئی فصلِ گزشتہ ہے، جو کہ حال بھی ہے اور فردا بھی۔ یوں وہ چراغ بجھا کر اِسے دوبارہ نہیں جلاتے بلکہ چراغ سے چراغ جلاتے ہیں۔ گویا ان کے شعری اسلوب میں تخریب کے مقابلے میں تعمیر، اور تعطل کے برعکس تسلسل کی اہمیت ہے۔ ایسا تسلسل اور غیر منقسم اسلوب ہمیں اُنہی شعرا ء کے کلام میں ملتا ہے، جو روایت کو زحمت نہیں بلکہ آگے آنے والوں کی امانت سمجھتے ہیں، اور نسل در نسل جہاں جہاں اِس امانت کے اہل نظر آئیں، ان کے لیے خود مسندِ ارشاد خالی کرتے جاتے ہیں، مگر اِس طرح سے کہ ایسے امانت دار اپنے غیاب میں بھی موجود نظر آتے ہیں۔ جا کر بھی نہیں جاتے۔ آپ عرفان صاحب کی غزل کسی بھی بارہ دری کے جھروکوں میں بیٹھ کر، یا راہ میں پڑتے کسی مینار کی سیڑھیوں سے آتے جاتے ہوئے پڑھیے تو از خود آپ کا سفر طے ہوتا جاتا ہے۔ ایک محراب سے دوسری محراب، ایک برج سے دوسرا برج، یہاں تک کہ ایک سواری سے دوسری سواری تک خودبخودنشست بدلتی رہتی ہے۔ عشق کو بھی توڑیں تو اندر سے دوسرا، تیسرا عشق باہر لپکنے کو ہاتھ پاؤں مارتا نظر آتے گا۔ مگر نہ ہجر ایک سے دو میں بدلتا ہے نہ وصال۔ قبول کی یہ تکثیریت اور اصول کی یہ قطعیت مادہ سے زیادہ ورائے مادہ شخصی اور شعری تربیت و میلان کا پتہ دیتی ہے۔ عرفان صاحب اسطورہ کی قدامت کو چیلنج نہیں کرتے اور نہ اس سے وابستہ اعتقادات کو نشان زد کرتے ہیں، مگر بیچم بیچ ایک ایسی جست بھرتے ہیں کہ اسطورہ ماضی سے زیادہ حال کا ترجمان بن جاتا ہے۔ وہ ان قدیمی لہروں کا شمار کرتے کرتے کرتے اندر ہی اندر ایک زیریں لہر کا اپنی طرف سے بھی اضافہ کر دیتے ہیں، کچھ اِس طرح سے کہ اسطورہ سینہ بہ سینہ اعتقاد کی تاریخی سطح سے بلند ہو کر مذکورہ زیریں سریت کے باعث کسی جادوئی بیانیہ کے قریب ہونے لگتا ہے اور یہیں سے شاعر کی انفرادیت قائم ہونا شروع ہوتی ہے۔ یہ بیانیہ یقین کی سطح پر نان فکشن، اور گمان کی سطح پر فکشن سے متصف و مملو ہے۔

شمعِ خیمہ کوئی زنجیر نہیں ہم سفراں

جس کو جانا ہے چلا جائے، اجازت کیسی

ندی سے پھول نہ گنجِ گہر نکلتا ہے

جو طشتِ موج اٹھاتا ہوں، سر نکلتا ہے

میں تو اِس دشت میں خود آیا تھا کرنے کو شکار

کون یہ زین سے باندھے لیے جاتا ہے مجھے

مجھے کھنچی ہوئی تلوار سونپنے والے

میں کیا کروں کہ طرف دار سر کا میں بھی ہوں

بس یہی ایک لہر ہے، ، نظر نہ آنے والی لہر، جو عرفان صاحب کی اپنی اختراع ہے اور جس کا پانی جرعہ بہ جرعہ تاریخ اور تہذیب کے پانیوں کا ہم رنگ ہے۔ یہ سہ رویہ ہم رنگی کچھ اِس نوع کی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب اور کہاں ایک رنگ ختم ہوا اور دوسرا شروع۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی، غزل کا ایک نادر لہجہ

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسلم عمادی(کویت)

 

گذشتہ پچاس برس کا دور اردو غزل کے لئے تجرباتی دور میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس دور میں اظہار کے اس تنگ راستہ میں نت نئے انداز کے آہنگ اور اسلوبیاتی پہلوؤں کو بدل بدل کر نہ جانے کتنے خوبصورت اور نادر پر تو پیش کئے گئے ہیں۔ ہر لہجہ اور ہر اسلوب اپنے نئے نویلے پن کے سبب عجیب سی ساحری اور دل فریب سی کشش رکھتا ہے۔ وہیں اس مدت میں اتنا یا بس اور فاضل کلام بھی شائع ہوا کہ اس خرمن سے سوزن کا چننا کارِ دارد ہے۔ اس تخلیقات کے طوفان بے کراں میں چند ہی قابل قدر شعری فکر کے نمائندہ جزیرے نظر آتے ہیں جس سے ادب کی زندگی پر ایقان باقی رہتا ہے۔ ایسا ہی تازہ کار فکر و نظریات سے آباد ایک جزیرہ عرفان صدیقی کی شاعری ہے۔

عرفان صدیقی کے اشعار سے میرا تعلق دیر سے ہوا، لیکن دیر پا ہوا، ان کے اشعار ہمارے فکری نظام سے اس قدر مانوس کیفیات رکھتے ہیں کہ ذہن پر چسپاں ہو جاتے ہیں لیکن ان اشعار میں عمومی الفاظ بالکل جدا ملبوس اور مختلف رنگ و آہنگ میں ایسے ملتے ہیں کہ آپ جس مقصود معنی کی امید رکھ رہے تھے اس سے ہٹ کر بالکل نئی بات سے روشناس ہو جاتے ہیں۔ یہ تو بڑی خلاقیت ہے کہ سادہ الفاظ کو آپس میں ٹکرا کر یا پھر کبھی مدغم کر کے بالکل نئی ترسیلی زبان میں کچھ کہا جائے۔ عرفان اس میں امید اور سامع کی تمنا سے بڑھ کر اپنی قادر الکلامی کی دلیل پیش کرتے ہیں۔ میرے خیال میں کچھ مثالیں شاید اس تجزیے کی بہتر تشریح کریں :

ابھی زمیں پہ نشاں تھے عذاب رفتہ کے

پھر آسماں پہ ظاہر وہی ستارہ ہوا

یہ موج موج کا اک ربط درمیاں ہی سہی

تو کیا ہوا میں اگر دوسرا کنارہ ہوا

اب اس کے بعد گھنے جنگلوں کی منزل ہے

یہ وقت ہے کہ پلٹ جائیں ہمسفر میرے

ہیں اسی کوچہ میں اب تو مری آنکھیں آباد

صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا

ان اشعار میں نہ تو کوئی نو ساختہ ترکیب ہے، نہ کوئی اجنبی استعارہ یا تشبیہ! بالکل صریح سی زبان ہے لیکن لفظوں سے جھلکنے والے مطالب میں بعید از قیاس انوکھے پن کا احساس ضرور ہوتا ہے۔ ہر شعر عذاب رفتہ کے کسی المیہ کا نشان یا اشارہ بن کر یا پھر حق و باطل کے رزم سے اٹھی ہوئی آواز بن کر سامنے آتا ہے۔ موج موج کے درمیان ربط کی موہوم سی تمنا حیات سے کس قدر انسیت کی آئینہ دار ہے۔ سوچئے تو ’’آنکھیں ‘‘ کے ساتھ ’’آباد‘‘ کا لفظ اور ’’گھنے جنگلوں ‘‘ کی پیش گوئی کے غیر عمومی استعمال دونوں اشعار کس قدر تحیر آمیز لگتے ہیں۔

میرا اندازہ ہے (یقین کے ساتھ تو کہنا مشکل ہے ) کہ عرفان اپنے اشعار میں قوت شامل کرنے کے لئے الفاظ کے انتخاب میں ان کی نشست اور مناسبت کو خوب پرکھتے تھے، بڑی محنت سے ہر شعر کو اظہار کا ایک کامران پیکر بنا کر پیش کرتے تھے۔ ان کی غزلوں میں کم زور، بھرتی کے اور فقط رسمی قسم کے اشعار مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ ہر شعر ان کے زور بیاں اور منتخب اسلوب کی مثال بن گیا ہے۔

ان کی غزلوں کو پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ابھرتا ہے کہ اسی لفظ کو جو ہم سے عام ملبوس میں ملتا ہے تو مروجہ معنی سے آگے نہیں جاتا، شاعر نے اس لفظ کے حرف حرف اور صوت صوت کو خوشنمائی سے لکھ کر نئے آہنگ سے روشناس کر دیا ہے۔ وقف و تحرک کے ٹکراؤ سے اس میں ایک نئی کھنک آ گئی ہے۔ گویا یہ لفظ پھر ناطق بن گیا ہے۔ یہ فن کاری محض مشاقی سے نہیں بلکہ گہرے اسلوبیاتی مطالعہ سے ناتج ہو سکتی ہے۔ اس طرح ایسا فن پارہ سامع / قاری کو عجیب سی مسرت بخش دیتا ہے۔

ان کی شاعری کے تقریباً تمام موضوعات ان کی ذات پر مرکوز ہیں، وہ اکثر اشیاء اور تجربوں کو اپنی ذات سے منسلک / متعلق کر کے دیکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس میں خلوص بھی ہے اور داخلی حرارت بھی۔ اسی وجہ سے یہ شعر ہم خیالوں کو قریب تر لگتے ہیں۔ بہت سے لفظی استعمالات، دو لفظی، ہوئے ہیں اور دو لفظوں کے واسطے سے ایک داخلی منظر نامے کا پردہ فاش ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں بھی ملاحظہ فرمائیں :

یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم (مرا چارہ)

ترے سمند بھی مِرے غزال بھی آزاد       (مرے غزال)

ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار     (مری خزاں )

اس کو منظور نہیں ہے مری گم راہی بھی      (مری گم راہی)

عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم راہی (میرے ستارہ ادا)

اگر ان کے کلام کی اس نقطۂ نگاہ سے تحلیل کی جائے تو ایسی مبنی بر متکلم تراکیب بے شمار ہیں اور ہر ترکیب ایک جدا پہلو لئے ہوئے ہے۔ مذکورہ بالا تراکیب ہی کو لیں تو ان میں ایک غیر محسوس سا ابہام بھی ہے اور دزدیدہ کنایہ بھی۔ ’’مرا چارہ‘‘ ایک قطعاً غیر مستعمل لیکن معنی خیز سی بات ہے۔ ’’مِرے غزال‘‘ غالباً غزال تخیلات سے متعلق ہے اسی طرح ’مری خزاں ‘‘ ’’مری گم راہی‘‘ اور ’’میرے ستارہ ادا‘‘ خوب لفظی مرکبات ہیں جو اپنائیت کا رخ بھی رکھتے ہیں اور ندرت کا بھی۔ اردو شاعری میں ایسے الفاظ پر مرکوز لسانی روش بہت کم ملتی ہے۔ ظفر اقبال اور منیر نیازی نے بھی اس طرح کے لسانی تجربے کئے ہیں لیکن ان کا انداز کچھ اور ہی ہے۔ بہتر ہے کہ اس طرح کے قادر الکلام شعرا کی درجہ بندی سے احتراز کیا جائے۔ لیکن ایک طرح سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے ارادی طور پر ممیز اور جدا گانہ رکھا ہے۔ عین ممکن ہے کہ رویہ فطرتاً بھی ہو لیکن اس کی شناخت تو شاعر ہی کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار کے پڑھنے اور اور سننے والے وارفتگی کے زیر اثر آ جاتے ہیں۔ شاید یہ کلام ہمارے مزاج کی نوعی اور مخفی حرارت سے مطابقت رکھتا ہے۔

ایک اہم رخ عرفان کی شاعری میں رومانوی ماحول کا پس منظر ہے۔ عشق اور شوق جو کہ صدیوں اردو شاعری (بلکہ مشرقی شاعری) کی عنصری طاقت رہے ہیں۔ ان کی شاعری میں مختلف ڈرامائی سچویشن جیسے سین کے پیچھے بدلتی ہوئی روشنی کا کام کرتے ہیں۔ اس ڈرامے کے کردار شاید مخصوص نام اور شناخت نہیں رکھتے لیکن کسی منتخبہ جذبے کی غیر مرئی تجسیم ضرور کرتے ہیں۔ عاشق/معشوق/رقیب یہ تو پرانے کردار تھے جو اب بالکل نئے ظروف میں نظر آتے ہیں۔ ذرا عشق کے تناظر میں یہ بھی سنیں :

کسی افق پہ تو ہو،اتصال ظلمت و نور

کہ ہم خراب بھی ہوں اور وہ خوش خیال بھی آئے

 

عجیب روشنیاں تھی وصال کے اس پار

میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جانِ مراد

 

میں اس کے ساتھ رہا اور ادھر چلا بھی گیا

خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے

 

مری عاشقی، مری شاعری ہے سمندروں کی شناوری

وہی ہم کنار اسے چاہنا، وہی بے کراں اسے دیکھنا

واہ بے حد قدیم موضوع کو بے حد تازہ اسلوب میں کس خوبی سے برتا گیا ہے۔ گویا عرفان صدیقی نے ایک بے حد با وفا عاشق کے کردار کی تصویر کشی اس طرح کی ہے کہ ’’اک رنگ کا مضمون ہو تو سو رنگ سے باندھوں ‘‘ کا لطف آ گیا ہے۔

عرفان واقعات، حادثات اور مناظر کی عکاسی کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ منبع اور اصل کی طرف توجہ نہ جائے۔ اور اصل کے مقصود کی تصویر ایک آرٹ کی طرح پیش ہو جائے۔ اس کے لئے انہوں نے اپنی بے شمار غزلوں میں تلمیحاتی اظہار کا استعمال کیا ہے۔ کبھی وہ کسی غزوہ یا جنگ کا ماحول وضع کرتے ہیں تو کبھی کسی خانہ بدوش بے سمت قسم کے مسافر قبیلہ کے فرد بن جاتے ہیں کبھی وہ شہادت حسینؓ سے دلی نسبت سے سوگوار ہوتے ہیں تو کبھی بزم عرفان میں حلقہ بدوش ہو جاتے ہیں۔ وہ اکثر اہل صفا کے قافلے کے ساتھ ہوتے ہیں جو نشۂ ایماں میں مست و بے خود، تشنہ لب، ایقان بہ قلب، صدق بر لسان ظالم کے سامنے سینہ سپر ہے اس طرح حق و باطل کی جنگ میں شاعر حق کے لئے جہاد اور جستجو کر رہا ہے۔

اکثر غزلوں میں عرفان حالات حاضرہ کو اسی تناظر میں رکھ کر، اس سے متناسب زیریں روکے مدھم سر سے ابھر کر بہت کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ہر بار ان کی جذباتی صالحیت نعرہ فگن نظر آتی ہے تیر و تبر کے سامنے ان کی جری فکر سینہ سپر رہتی ہے۔ وہ اس مجسم خوبی پیمبر! امام! رہبر! مرشد! شیخ کے تابع ہیں جو محبوب تر ہے۔ ذرا شہادت حسینؑ! واقعہ کربلا کو ذہن میں لا کر عرفان کے یہ اشعار پڑھیں :

جو گرتا نہیں ہے اسے کوئی پامال کرتا نہیں

سو وہ سر بریدہ بھی پشت فرس سے اترتا نہیں

ذرا کشتگاں صبر کرتے تو آج

فرشتوں کے لشکر اترنے کو تھے

اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو

کنار آب ہے پہرہ لگا ہوا کیسا

پانی پہ کس کے دست بریدہ کی مہر ہے

کس کے لئے ہے چشمہ کوثر لکھا ہوا

پانی نہ پائیں ساقی کوثر کے اہل بیت

موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے ؟

بلاشبہ عرفان صدیقی ترسیل کی را ہوں میں شمع جلا کر اپنے مسافروں کو غزل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کوئی نا کام نامکمل ترسیل ان کے پاس نہیں ملتی۔ انہوں نے بنیادی طور پر کوئی قابل بیان فنی تجربہ نہیں کیا، نہ تو اسلوب میں نہ فارم میں۔ متوقع راستہ سے انحراف ان کا طریقہ نہیں۔ وہ زندگی کے حقائق سے قریب تر رہ کر غزل کی بنیادی تعریف اور مستند ڈکشن سے ہٹے بغیر نئی وضع اور نئی طرح سے یوں کہا ہے کہ سامع اور قاری کی توجہ نہیں ہٹتی۔

تصوف اور عرفان ذات کی را ہوں میں بھی وہ اسی قلندریت سے چلے ہیں، جنونِ شوق سے سرشار،  ’عشق‘ کو حسن کی تابناکی میں گم کرنے کے لئے کوشاں۔ یہ عارفانہ کلام بھی کچھ عام نہیں ہے اس میں بھی وہ ندرت اور قوت ملتی ہے۔ ان کی فکری کی خانقاہ بسیط اور وسیع ہے۔ ان کی بے نیازی بے مثل ہے۔ ان کی فنائیت بقا سے بلند تر ہے۔

مثلاً

ان کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز

کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا

شاخ کے بعد زمیں سے بھی فنا ہونا ہے

برگ افتادہ ابھی رقصِ ہوا ہونا ہے

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرے شریک

مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

ابھی مرا کوئی پیکر نہ کوئی مری نمود

میں خاک ہوں ہنر کو زہ گر پہ راضی ہوں

عرفان کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے ہم ایک آراستہ پیراستہ گلشن سے گذر رہے ہیں جس کے درختوں، جھاڑیوں، فضاؤں میں مناظر کی طرح کمال فن کاری سے تخلیق شدہ پھل، پھول، پتے، شگوفے سجا دیئے گئے ہیں۔

امید کہ زود فراموش اردو والے اس اہم شاعر کو فصیل فراموش گاری کے پیچھے نہیں بھیج دیں گے اور یہ کلام اردو نئی شاعری کے ہر انتخاب میں مناسب مقام پائے گا۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی کی شعری کائنات

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد اختر(وارانسی)

 

اردو شاعری کی روایت بنیادی طور پر غزل کی رہی ہے۔ میرؔ و سوداؔ کے عہد سے لے کر آج تک کی شاعری پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو یہ بات خود بخود عیاں ہو جاتی ہے۔ حسن و عشق کے معاملات کے ساتھ زندگی اور اس کے مسائل/مصائب بھی غزلیہ شاعری کے نمایاں موضوع رہے ہیں۔ غم عشق کے ساتھ غم روزگار کا مسئلہ ہو یا پھر زندگی کے اور دوسرے مسائل۔ ہر عہد کے شعرا نے ان سب موضوعات و مسائل کو اپنی شاعری میں نہایت ہنر مندی سے پیش کیا ہے، جس سے غزلیہ شاعری متنوع و متمول ہے۔

ترقی پسند تحریک سے قبل کا زمانہ ہو یا بعد کا۔ ہر جگہ سماجی، سیاسی اور معاشی مسائل موضوع بحث رہے ہیں۔ کہیں سماجی مسائل و میلانات کا غلبہ رہا، تو کہیں ادبی اقدار کی بحالی پر زور دیا گیا۔ تہذیبی اقدار کی شکست و ریخت کے ساتھ شکست ذات، تنہائی، خوف اور عدم تحفظ کے مسائل بھی ایک زمانے تک حاوی رہے ہیں، آہستہ آہستہ معاملہ مقامی و ثقافتی اقدار کی بازیافت تک آ پہنچا۔ شعرا نے بھی وقت اور حالات کے تقاضے کا ساتھ دیا۔ کبھی اپنی شناخت قائم رکھنے کے لیے، کبھی کسی جماعت کا حصہ بننے کے لیے، کبھی انعام وا کرام کی لالچ تو کہیں آئیڈیالوجی کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔ غرضیکہ تغیر و تبدیلی اور رد و قبول کا یہ معاملہ فطری عمل کے طور پر ادب میں ہمیشہ سے جاری ساری رہا ہے۔ ایک رجحان پروان چڑھتا ہے، عروج کو پہنچتا ہے اور پھر انتہا پسندی کا شکار ہو کر اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔ گویا ادب کا پورا معاملہ انحراف و انجذاب سے عبارت ہے۔

ادب برائے زندگی اور ادب برائے ادب کے برعکس معاصر شاعر/ ادیب اس فکر و شعور کا ترجمان ہے، جس سے انسان اور معاشرہ دوچار ہے۔ یہ رجحان ہی در اصل انسان اور اس کی زندگی کی تفہیم سے عبارت ہے۔ آج کا انسان مختلف واہموں، اندیشوں اور وسوسوں میں گرفتار ہے۔ کہیں سیاسی و سماجی استحصال، کہیں معاشی و جنسی استحصال، کہیں فسادات کا لا متناہی سلسلہ، گویا زندگی کے ہر موڑ پر ایک نئی مصیبت انسان کا استقبال کر رہی ہے۔ ایسی صورت حال میں شاعر/ادیب جو معاشرے کا سب سے حساس اور با شعور فرد ہے۔ اس کی بے چینی اور الجھن ایک عام انسان سے سِوا ہوتی ہے۔ انتشار و بے چینی کے اس دور میں مصائب و آلام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر جہاں مایوسی / نا امیدی پیدا کرتا ہے، وہیں انسان کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتا ہے۔ اس سچویشن میں شاعر/ادیب عوام میں یہ اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آنے والا وقت آج سے بہتر ہو گا۔ عرفان صدیقی انہی شعرا میں سے ایک ہیں، جو شام کی آمد سے گھبراتے نہیں بلکہ اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ ستارے ضرور اپنی کرامات دکھلائیں گے۔ ان کی شاعری میں مایوسی، نا امیدی اور بے بسی کے برعکس امید، خوشی اور یقین کی کیفیت زیادہ نمایاں ہے، جہاں کہیں حزن و یاس کی کیفیت نظر آتی ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے اور انسان کے اس درد و کرب کو بیان کرنا چاہتے ہیں، جو آج کے انسان کا مقدر ہے۔ چند اشعار کے ذریعہ عرفان صدیقی کی شاعری کے رجائی پہلو کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ اشعار بطور مثال درج ہیں :

 

طے ہو چکے سب آبلہ پائی کے مرحلے

اب یہ زمیں گلابوں سے ڈھک جانا چاہیے

طلوع ہونے کو ہے پھر کوئی ستارۂ غیب

وہ دیکھ پردۂ افلاک ہٹا جاتا ہے

پھر ہواؤں سے ملنا کسی امکاں کی نوید

پھر لہو میں آرزوئے تازہ تر کا جاگنا

زرد چہروں پہ بھی انجان امیدوں کی چمک

سانولے ہاتھوں پہ بھی مہندی کا لکھا روشن

سر پھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں

پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن

عرفان صدیقی کی شعری کائنات کافی وسیع ہے۔ حسن و عشق کے معاملات سے لے کر سانحۂ کربلا تک کے واقعات ان کی شاعری کا موضوع قرار پائے ہیں، لیکن جب ہم اپنی کلاسیکی روایت کے تہذیبی سیاق و سباق میں عرفان صدیقی کی شاعری کو دیکھتے ہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی شاعری نے اردو کی عشقیہ شاعری سے از سر نو اپنا رشتہ استوار کیا ہے۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق کا ایک انوکھا اور پاکیزہ تصور ہے، جو ہوس پرستی کے بجائے ناموس عشق کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ عشق سے وابستہ اقدار کی بحالی اس کا شیوہ ہے۔ چند اشعار کے ذریعہ اس پاکیزہ تصور کو سمجھا جا سکتا ہے :

دھیرے دھیرے ختم ہونا سرکا سودا، دل کا درد

رفتہ رفتہ ہر صدف کا بے گہر کرنا مجھے

پہلے ایسا تو نہ تھا ذائقہ ہجر و وصال

اس تعلق میں کیا چیز ملا دی اس نے

کیا عجب ہے کہ ہوس روح کو کر دے کندن

جسم اس آگ میں جل جائے گا جل جانے دو

وہ یہاں ایک نئے گھر کی بنا ڈالے گا

خانۂ درد کومسمار کیا ہے اس نے

عشق و عاشقی کی موجودہ صورت حال پر شاعر ماتم کناں ہے۔ خود عرفان صدیقی کا خیال ہے کہ عشق کی پاکیزگی کو گہن لگ گیا ہے، ہجر و وصال کے معنی بدل چکے ہیں۔ عاشق و معشوق دونوں کا کردار مشکوک ہو گیا ہے۔ دونوں خود غرضی اور ہوس پرستی کا شکار ہیں۔ لہٰذا حسن و عشق کی صالح روایت پر حرف آنے کے ساتھ تخلیقی سرگرمیاں بھی بڑی حد تک ماند پڑ گئی ہیں۔ تخلیقی سرگرمیوں کا ایک بڑا محور یہ حسن و عشق ہی تھا، لیکن آج ہوس پرستی میں تبدیل ہو کر غلط سمت جا پڑی ہے، جس کا انہیں ملال ہے اور شکوہ بھی۔ عرفان صدیقی کے مطابق شاعری میں جلال و جمال کی جو رنگ آمیزی تھی وہ سب عشق کے کرشمے تھے۔ اسی لیے انہوں نے فرمایا تھا:

سخن میں رنگ تمہارے خیال ہی کے تو ہیں

یہ سب کرشمے ہوائے وصال ہی کے تو ہیں

اگر تراوش زخمِ جگر نہیں کوئی چیز

تو رنگ بے ہنری میں کہاں سے آتے ہیں

یا پھر ان کا یہ فرمانا:

شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کہیے

درد ہے دل میں سو لفظوں میں اثر ہے سائیں

۔ ۔ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں ‘‘ کے برعکس دردِ دلاور زخمِ جگر کو شاعری کا سبب بیان کرنا بہت با معنی لگتا ہے۔ جب درد دلاور زخمِ جگر سِوا ہوتا ہے تو خود بخود اظہار کے راستے ڈھونڈ لیتا ہے، شاعری بھی اس درد کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ عرفان صدیقی نے اپنی کلاسیکی شعری روایت سے استفادہ کرتے ہوئے ایک خاص لب و لہجے کی پرورش کی ہے۔ ان کے یہاں محبوب کا قرب اور لمس کس طرح اپنا کرشمہ دکھاتا ہے کہ خاروخس یعنی مردہ تن میں بھی جان آ جاتی ہے۔ دو شعر بطور مثال پیش ہے :

ذرا سا لمس شرر نے عجب کمال کیا

میں سوچتا تھا مرے خار و خس میں کچھ بھی نہیں

وہ خوش بدن ہے نوید بہار میرے لیے

میں اس کو چھو لوں تو سب کچھ نیا نیا ہو جائے

عرفان صدیقی کی شاعری کا سب سے اہم اور قابل قدر موضوع عشق ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بجا ہو گا کہ ان کی شہرت کی بنیاد ہی بڑی حد تک ’’عشق نامہ ‘‘ پر قائم ہے۔ یہاں ’’عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو‘‘ والا معاملہ کار فرما ہے۔ حسن و عشق کی تمام کیفیات /واردات کو عرفان صدیقی نے قدرے جدید ڈھنگ سے برتا ہے۔ لفظیات اور ڈکشن بھی نئے وضع کیے ہیں، ساتھ ہی ساتھ پیش کش کا انداز بھی جدا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم عصروں میں منفرد اور ممتاز ہیں۔ چند اشعار کے ذریعہ عرفان صدیقی کی انفرادیت کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے :

اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا

کتنا اچھا اپنا من، اپنا بدن لگنے لگا

دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب

میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے

شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم

ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں

وقت اور حالات نے انسان کو ایسے دو را ہے پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ بہت سی چیزوں کو فراموش کر بیٹھا ہے۔ چھوٹے بڑے کے آداب، تہذیب و ثقافت، حتیٰ کہ عاشقی کے آداب تک آج کا انسان بھول بیٹھا ہے۔ عرفان صدیقی کا خیال ہے کہ عشق و عاشقی کے بھی اپنے کچھ آداب اور طور طریقے ہوتے ہیں۔ آہ و فغاں اور گریہ و زاری کی گنجائش اس میدان میں ذرا کم ہی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس میں محبوب کی رسوائی اور بدنامی کا خطرہ مسلسل بنا رہتا ہے۔ وہ تو میرؔ کی طرح ناموس عشق کی حفاظت کی بات کرتے ہیں۔ تبھی تو یہ فرماتے ہیں :

عاشقی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں

زخم کھایا ہے تو اب شور مچانے لگ جائیں

عرفان صدیقی کا محبوب /معشوق ظلم و ستم اور جور و جفا کے برعکس لطف و کرم کے صفت سے متصف ہے۔ وہ اپنے عاشق کے ساتھ حسن سلوک کا رویہ اپناتا ہے۔ اس کی عنایت اور مہربانی ہمیشہ اپنے عاشق کے ساتھ بنی رہتی ہے، جسے ہم خود سپردگی سے تعبیر کر سکتے ہیں، لیکن عرفان صدیقی کے بعض اشعار اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ ان کا محبوب/معشوق ستم پیشہ بھی ہے۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ عرفان صدیقی کے یہاں آخر یہ تضاد بیانی کیوں ہے۔ انہوں نے اس کی وضاحت خود ہی کرتے ہوے کہا ہے کہ ہماری کلاسیکی غزلیہ شاعری کی روایت یہی رہی ہے۔ اس لیے اس کی اتباع میں میں نے یہ رویہ اپنایا ہے۔ ورنہ ان کا محبوب ستمگر اور ستم پیشہ کے برعکس سراپا نیاز ہے، بقول عرفان صدیقی:

غزلوں میں تو یوں کہنے کا دستور ہے ورنہ

سچ مچ میرا محبوب ستم گر نہیں تھا

عرفان صدیقی کا محبوب عام غزلیہ شاعری کے بر عکس سراپا تسلیم و رضا اور مائل بہ کرم ہے، ہجر کے بجائے وصال کا طالب ہے۔ یہ دو شعر بہ طور خاص دیکھیے :

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے

کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے

فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے

عرفان صدیقی کی شاعری کا ایک اہم پہلو ظلم و ستم کے خلاف ان کا احتجاجی رویہ ہے۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے اس موضوع پر بھر پور روشنی ڈالی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ظلم در اصل ظالم کے خلاف مظلوم کی خاموشی سے پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔ یعنی ظلم کے فروغ میں خود مظلوم کا بھی بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ جب تک مظلوم احتجاج اور مزاحمت کا رویہ نہیں اپناتا تو ظالم کا حوصلہ بلند ہوتا جاتا ہے۔ ظلم و ستم کو خاموشی سے سہہ لینا بھی ظلم کے ساتھ تعاون ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری کا ایک بڑا حصہ ظلم و ستم کے خلاف احتجاج پر مشتمل ہے :

بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے

فقط اس خنجر دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا

یعنی ظلم کے فروغ میں صرف ظالم کا ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ مظلوم کی خاموشی بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اگر وہ اپنی خاموشی توڑے، ظالم کے خلاف احتجاج کرے تو اس کا حوصلہ پست ہو گا۔ مصلحت پسندی اور خاموشی کی وجہ سے ظالم مزید طاقتور ہو جاتا ہے۔ اس کی دادا گیری بڑھتی جاتی ہے، اگر یہ رویہ لوگ ترک کر دیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں تو ظالم خود بخود ہتھیار ڈال دے گا۔ عرفان صدیقی نے ظلم کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں ظلم کی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے، بقول عرفان صدیقی: ’’۔ ۔ ۔ زمانہ اور زمانے کے معاملات اتنے پیچیدہ ہو گئے ہیں کہ اب ظلم کو بہت آسانی کے ساتھ پہچانا نہیں جا سکتا۔ بہت سے ظلم ایسے ہیں جو بظاہر مہربانی اور عنایت نظر آتے ہیں، لیکن ہیں ظلم۔ ۔ ۔ اگر ظلم کوئی بہت آسانی۔ ۔ ۔ اور بہت خاموشی سے سہہ لیتا ہے تو وہ خود بھی ظالم ہے، وہ ظلم کا حصہ بن جاتا ہے ‘‘

اس عبارت سے عرفان صدیقی کے نظریۂ ظلم کو سمجھا جا سکتا ہے۔ موجودہ عہد میں منافقت کا جو کاروبار ہے وہ بھی ظلم ہی کا ایک حصہ ہے۔ کیوں کہ عنایات وا کرامات کے پس پردہ بھی ظلم کی کوئی نہ کوئی نوعیت پوشیدہ ہوتی ہے۔ وہ شخص جو بظاہر مخلص اور ہمدرد نظر آتا ہے، وہ بھی آپ کا دوست نما دشمن ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی نے اس طرح کے رویے کو بھی ظلم ہی کا حصہ ٹھہرایا ہے۔ اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں :

جسم کی بنیاد ڈھا دے گا یہ اندر کا سکوت

شور کرنا چاہیے، کہرام کرنا چاہیے

ایسے آشوب میں کس طرح سے چپ بیٹھا جائے

خون میں تاب و تب حوصلہ داراں بھی تو ہے

اس طرح کے اشعار عرفان صدیقی کی شاعری میں بکثرت موجود ہیں۔ فکری اور معنوی سطح پر بھی ان کی شاعری کا کینوس کافی وسیع ہے۔ عرفان صدیقی بنیادی طور پر ایک تمثال گر ہیں۔ وہ رات دن شعروں میں تمثال گری کرتے رہتے ہیں، جبکہ ان کا کوئی خیالی محبوب بھی نہ تھا۔ بقول عرفان صدیقی:

رات دن شعروں میں تمثال گری کرتا ہوں

طاق دل میں کوئی تصویر خیالی بھی نہیں

عرفان صدیقی الفاظ کی حرمت، اس کی تقدیس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ بسا اوقات تلاش و جستجو کا یہ عمل مہینوں پر محیط ہوتا تھا۔ اس سے ان کا مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ الفاظ کو اس کے صحیح تہذیبی پس منظر میں استعمال کر سکیں۔ الفاظ کے سلسلے میں ان کا خیال ہے کہ صرف لغت دیکھ کر کسی لفظ کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ Contextsبہت اہمیت رکھتا ہے۔ ہر زبان کی اپنی تہذیب و ثقافت ہوتی ہے، اس کو نظر انداز کر کے کوئی بھی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے۔

عرفان صدیقی نے تشبیہات و استعارات کے استعمال میں بھی خوب ہنر مندی دکھائی ہے۔ خاک، ہوا، سمندر، ستارہ، بادباں، چراغ، ابر اور باراں جیسے الفاظ ان کی شاعری میں بار بار آتے ہیں۔ وہ ان الفاظ کو ایک نیا معنی پہنانے پر قادر بھی ہیں۔ یہ الفاظ خارجی حقائق سے زیادہ باطنی حقائق کا حوالہ ہیں۔ جنھیں دیکھنا ان پر غور و فکر کرنا در اصل حیات و کائنات پر غور و فکر کرنا ہے۔ چند اشعار کے ذریعہ اس بات کو بحسن و خوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اشعار بطور مثال پیش ہیں :

چار دیوار عناصر کی حقیقت کتنی

یہ بھی گھر ڈوب گیا دیدۂ خونبار پہ خاک

الٹ گیا ہر اک سلسلہ نشانے پر

چراغ گھات میں ہے اور ہوا نشانے پر

وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ

اب اس طرف کوئی موج ہوا بھی آئے

سواد شب میں کسی سمت کا سراغ نہیں

یہ سیمیا ہے ستارہ نہیں، ٹھہر جاؤ

لاؤ اس حرف دعا کا بادباں لیتا چلوں

سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر سنتا ہوں میں

عرفان صدیقی نے بعض متروک الفاظ کا استعمال بھی اپنی شاعری میں بہت ہی ہنر مندی سے کیا ہے، جس سے ان کی معنویت دو چند ہو گئی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ کسی لفظ کو متروک قرار دینا در اصل اس کا قتل کرنا ہے۔ سو، تلک وغیرہ الفاظ جنہیں متروکات کے خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری میں ان الفاظ کا جو ہر قابل دید ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے :

ہوں مشت خاک مگر کوزہ گر کا میں بھی ہوں

سو منتظر اسی لمس ہنر کا میں بھی ہوں

معاصر عہد میں انسان مختلف طرح کے مسائل و مصائب سے دوچار ہے، بربادی اور آفات کا ایک سیل رواں ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ عرفان صدیقی اس صورت حال کو ایک نئے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ ظلم و ستم اور مصائب و آلام کی اس کہانی کو وہ کربلا کے تناظر میں دیکھنا سمجھنا چاہتے ہیں۔ عرفان صدیقی کی شاعری کا ایک اہم پہلو واقعہ کربلا بھی ہے۔ چند اشعار کے ذریعہ ان کے نظریے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ دو اشعار بطور مثال پیش ہیں :

خدا کرے صف سردادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

کوئی نیزہ سر فرازی دے تو کچھ آئے گا یقیں

خشک ٹہنی پر بھی آتے ہیں ثمر سنتا ہوں میں

سانحۂ کربلا ارد و شاعری کا ایک مستقل موضوع ہے۔ انیسؔ و دبیرؔ سے قبل اور بعد اس کی ایک مضبوط اور توانا روایت رہی ہے۔ عرفان صدیقی نے بھی اس موضوع کو بطور خاص اپنایا، سانحۂ کربلا کو ایک نئے استعاراتی ابعاد میں دیکھنے اور برتنے کی کاوش، ان کے یہاں بہت حد تک نمایاں ہے۔ چند اشعار کے ذریعہ ان کی اس انفرادیت کو سمجھا جا سکتا ہے :

اے لہو تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں

اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

وہ مرحلے ہیں کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں

ہم اس زمیں کو شاداب دیکھنے کے لیے

میں چاہتا ہوں کہ سب معرکے یہیں سر ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

ان اشعار میں معنی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے۔ علامات واستعارات نے معنویت کو مزید جلا بخشا ہے۔ معنی کا یہ جہاں سانحۂ کربلا کے لفظیات/تلازمات کے ذریعہ تخلیق ہوا ہے۔ لہو، مقتل، معرکے، نیزہ، چشمۂ حیراں وغیرہ اور ان جیسے بہت سے دوسرے الفاظ کربلا کے سیاق و سباق میں جہانِ دیگر کے مالک ہیں۔

ہم عصر زندگی کو کربلا کے تناظر میں دیکھنے کا ہنر بھی عرفان صدیقی کا خاص اپنا ہے۔ انہوں نے دوسرے فن کاروں کے بہ نسبت زیادہ ہنر مندی سے کربلائی صورت حال اور اس کے تہذیبی انسلاکات کو برتا ہے۔ کربلا کا استعارہ عرفان صدیقی کی شاعری کا ایک منفرد اور متنوع پہلو ہے۔ اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے آفاق عالم صدیقی لکھتے ہیں : ’’کربلا کے استعارہ کو استعمال کرنے والے فن کاروں میں عرفان صدیقی کا نام سب سے معتبر اس لیے ہے کہ انھوں نے دوسرے فن کاروں کی بہ نسبت خود کو کربلائی صورت حال اور کربلا کے تہذیبی انسلاکات سے زیادہ قریب محسوس کیا ہے۔ اگر کربلا کے استعارے کو عرفان صدیقی کی شاعری سے خارج کر دیا جائے تو یقیناً ان کی شاعری انفرادیت اور تنوع سے بہت حد تک محروم ہو جائے گی‘‘

بلاشبہ عرفان صدیقی کی شاعری کا ایک اہم حصہ واقعۂ کربلا پر مشتمل ہے۔ ایثار و جرأت، صبر و توکل اور حق و باطل کی کشمکش جیسے سوالات انہیں بار بار اس واقعے کی طرف دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ وہ ظالم کے خلاف اور مظلوم کے حمایتی ہیں۔ انسان اور انسانیت کا خیال ان کی زندگی کا طرۂ امتیاز ہے۔ انسان، انسانیت کا احترام وہ شے ہے جس پر بڑی سی بڑی چیز قربان کی جا سکتی ہے۔ یہی بنیادی سبب ہے کہ کربلا اور شہادت حسین کے ذکر سے ان کی شاعری تابندہ ہے۔ چند اشعار بطور مثال دیکھیے :

دلِ سوزاں پہ جیسے دست شبنم رکھ دیا دیکھو

علی کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو

تابندہ ہے دلوں میں لہو روشنائی سے

دنیا کے نام نامۂ سرور لکھا ہوا

ہے خاک پہ یہ کون ستارہ بدن شہید

جیسے ورق پہ حرف منور لکھا ہے

عرفان صدیقی کی رثائی شاعری کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے ان کے اس عقیدت و محبت کو سمجھیں جو انہیں اہل بیت سے تھی۔ اس سلسلے میں پہلی مدد ہمیں ان کے سلسلۂ نسب سے مل سکتی ہے۔ پھر یہ راز خود بخود منکشف ہو جائے گا کہ وہ کربلا کے واقعہ کو اتنا اہم کیوں سمجھتے ہیں اور وہ ان کی شاعری کا ایک اہم موضوع کیوں ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری کی انفرادیت اور تنوع کو اس حوالے کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔

عرفان صدیقی کے شعر مجموعے ’’کینوس‘‘ سے لے کر ’’عشق نامہ‘‘ تک پر ایک سر سری نگاہ ڈالیں تو ہر جگہ ان کا منفرد اور ممتاز لب و لہجہ نمایاں ہے۔ ان کا خاص اسلوب ہر جگہ چمکتا دمکتا نظر آتا ہے۔ چند اشعار کے ذریعہ ان کی شاعری کے تنوع اور امتیازات کو سمجھا جا سکتا ہے :

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

کر گیا روشن ہمیں پھر سے کوئی بدر منیر

ہم تو سمجھے تھے کہ سورج کو گہن لگنے لگا

خیر اگر تم سے نہ جل پائیں وفاؤں کے چراغ

تم بجھانا مت جو کوئی دوسرا روشن کرے

زمیں سے اٹھ کے مری خاکِ جاں کہاں جائے

یہ نا مراد تہہ آسماں کہاں جائے

غبار تیرہ شبی بھر گیا ہے آنکھوں میں

یہیں چراغ جلے تھے دھواں کہاں جائے

ذرا سوچو تو اس دنیا میں شاید کچھ نہیں بدلا

وہی کانٹے ببولوں میں، وہی خوشبو گلابوں میں

عرفان صدیقی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ شاعری کے ذریعہ زندگی کے دھارے کو نہیں موڑا جا سکتا ہے، لیکن شاعری زندگی کو نئی امنگ اور حوصلہ ضرور دیتی ہے، زندگی گذارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ حالات سے نمٹنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔

جدید اردو شاعری میں تہذیب و ثقافت کی شکست و ریخت، ہجرت، تنہائی، دہشت، خوف اور فسادات جیسے موضوعات بطور خاص نمایاں ہیں۔ ملک کی تقسیم کے بعد سے لے کر آج تک کے حالات کا جائزہ لیں تو صورتِ حال مزید بگڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اقلیت کو بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم اس ملک کے وفادار نہیں۔ بابری مسجد کا سانحہ ہو یا گجرات فساد جس طرح کی بر بریت اور سفا کی کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس سے انسانیت کراہ اٹھتی ہے۔ دماغ معطل ہو جاتا ہے۔ عرفان صدیقی جیسا حساس شاعر بھی اس واقعہ (گجرات)سے لرز اٹھتا ہے۔ وہ ظالموں کے بجائے خدا سے شکوہ بہ لب ہوتا ہے :

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

عرفان صدیقی کا یہ لب و لہجہ اقبال کی یاد دلاتا ہے۔ فسادات کو کم و بیش ہر شاعر و ادیب نے موضوع سخن بنایا ہے۔ بعض شعرا نے ان موضوعات کو قدرے جدید ڈھنگ سے برتا ہے۔ تشبیہات، استعارات اور علامات کا استعمال بھی ان کے یہاں انوکھا اور چونکانے والا ہے۔ عرفان صدیقی بھی ان ہی چند شعرا میں سے ایک ہیں جو اپنی انفرادیت اور لب و لہجہ سے ہر جگہ پہچان لیے جاتے ہیں۔ چند اشعار سے ان کے درد و کرب کو محسوس کیا جاتا ہے :

اے پرندو! یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا

روز اک نوحہ سر شاخ شجر سنتا ہوں میں

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

قاتلوں کے شہر میں بھی زندگی کرتے رہے

لوگ شاید یہ سمجھتے تھے کہ مر جائیں گے لوگ

عرفان صدیقی کی شخصیت متنوع اور ہمہ جہت تھی۔ وہ عالمی شہرت یافتہ شاعر کے ساتھ ایک بڑے صحافی بھی تھے۔ شعر و ادب ان کا شوق تھا اور صحافت پیشہ۔ دونوں ہی میدانوں میں انہیں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ شاعری نے انہیں بین الاقوامی شہرت بخشی اور صحافت نے عزت و ناموری، لیکن شعر و ادب کی گہما گہمی میں صحافی عرفان کہیں گم ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جبکہ صحافت کے اصول و ضوابط پر باقاعدہ ان کی کتابیں ہیں، کچھ تراجم بھی کیے۔ نوجوان صحافیوں کی ایک بڑی تعداد ہے جن کی انھوں نے تربیت کی ہے۔ مخلصانہ مشورے دئیے ہیں۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ روزنامہ ’صحافت‘ سے وابستہ ہو گئے تھے اور بطور مدیر اعلا انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھائیں۔ ان کی نظر ملکی اور عالمی مسائل پر گہری تھی۔ بابری مسجد سانحہ ہو یا پھر گجرات کا منظم فساد۔ ان موضوعات پروہ کھل کر اور مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ بسا اوقات اپنے احساسات و جذبات کی ترجمانی کے لیے شاعری کا بھی سہارا لیتے تھے۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ملک ہندوستان میں فتنہ و فساد اچانک رونما نہیں ہوتے ہیں بلکہ ان کے پیچھے ایک منظم اور مسلسل سازش ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کے لیے زمیں ہموار کی جاتی ہے۔ حالیہ فسادات اس کی کھلی مثال ہیں۔ بقول عرفان صدیقی:

اچانک دوستو! میرے وطن میں کچھ نہیں ہوتا

یہاں ہوتا ہے ہر اک حادثہ آہستہ آہستہ

عرفان صدیقی نے تقریباً تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے، لیکن ان کا اصل کارنامہ ان کی غزلوں کو کہا جا سکتا ہے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی چند نظمیں بھی بہت عمدہ ہیں، جو اردو ادب میں ایک اہم اضافہ کہی جا سکتی ہیں۔ سفر کی زنجیر، شہر خوف، نیا قصیدہ وغیرہ کا شمار ایسی ہی نظموں میں ہوتا ہے۔ ان کی نظم ’’شہر خوف‘‘ نمونے کے طور پر حاضر ہے :

گلی میں خوف

دریچوں میں خوف

آنکھ میں خوف

فصیلِ شہر پہ سفاک وقت ٹھہرا ہوا

سماعتوں میں پر اسرار آہٹوں کا ہجوم

ابھی وہ آئیں گے

میرے شکستہ زینے سے

اور اس مکان کے سارے چراغ، سارے گلاب

مری کتابیں، مرے خواب، میری تصویریں

مرے یقیں

مری نا ممکنات کی دنیا

دھواں بنا دیں گے

عجیب زہر لہو میں اترتا جاتا ہے

مگر یہ بچہ جو سوتے میں مسکراتا ہے

(شہر خوف)

ہمارا (موجودہ) عہد صارفیت اور گلوبلائزیشن کے ساتھ منافقت اور شکم پروری کا ہے، جسے زمانہ سازی کا ہنر نہیں آتا یا مکر و فریب نہیں جانتا۔ حالات، ظالم افراد سے سمجھوتہ نہیں کرتا، تو اسے بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ (عرفان صدیقی نے بھی وہ قیمت چکائی ہے ) کم تر اور دوئم درجے کے شعرا/ ادبا کو خلعت و انعام سے نوازا جاتا ہے۔ ہر طرف ان کی حوصلہ افزائی اور پذیرائی ہوتی ہے۔ اسے عہد کا سب سے بڑا شاعر اور دانشور قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت حال میں نیک طبع اور غیور شاعر/ ادیب ( جو یقیناً مستحق ہوتے ہیں ) کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ عرفان صدیقی بھی انہی خود دار اور با وضع شعرا میں سے ایک تھے جنھوں نے مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا، بلکہ زمانے کو ہمیشہ اپنی ٹھوکر میں رکھا۔ اگر وہ چاہتے تو اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے بڑے سے بڑا انعام حاصل کر سکتے تھے۔ ناقدین کی جھوٹی خوشامد سے اپنے اوپر رسائل و جرائد کے خصوصی نمبر مرتب کرواسکتے تھے۔ مگر انہوں نے اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک کہا۔ خوشا مداور منافقت سے کوسوں دور رہے اور یہ کہہ کر بات کو ختم کر دیا:

رکھنا یا فہرست میں تم میرا نام نہ رکھنا

مجھ کو اس الجھن سے کوئی کام نہ رکھنا

ہیں یوں تو اہل زر کے خزانے بھرے ہوئے

مولا کا یہ غلام ضرورت کہاں سے لائے

عرفان صدیقی طبعاً خاموش اور خلوت پسند تھے۔ محفلوں سے گریزاں اور اپنے آپ میں خرم و شاداں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی حق تلفی ہوئی، ان کی طرف نقادوں / ادیبوں نے توجہ بہت بعد میں دی، لہٰذا ان کو شہرت بھی ذرا دیر سے ملی، لیکن ان کو اس کا ذرا بھی ملال نہ تھا۔ بلکہ وہ ہمیشہ شانِ بے نیازی سے گیسوے اردو کو سنوارتے رہے اور مسلسل اس کوشش میں رہے جو انہیں اوروں سے ممتاز اور منفرد کرے۔ عرفان صدیقی کی دلی خواہش اور تمنا کیا تھی مندرجہ ذیل اشعار سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے :

کچھ تو ہو جو تجھے ممتاز کرے اوروں سے

جان لینے کا ہنر ہو کہ مسیحائی ہو

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے

مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادو ہے

شمع تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

نقش پا ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے

ہم نے ایسی تو کوئی راہ نکالی بھی نہیں

ان اشعار میں شکوہ ہے، درد ہے، تعلی اور خود نمائی کا پہلو بھی ہے۔ بلا شبہ وہ اس بات کے حق دار تھے کہ ہر بڑے شاعر و ادیب کی طرح اپنے کارنامے پر فخر کریں اور ان کا یہ فخر بجا بھی تھا۔ وہ شاعری میں کسی کو بھی اپنا شریک/ حریف نہ سمجھتے تھے، انہیں یہ احساس تھا کہ ہمعصروں میں ایک دو کو چھوڑ کر کوئی ان کا ثانی نہیں ہے۔ بلا شبہ وہ ایک منفرد اسلوب اور انداز کے مالک ہیں۔

عرفان صدیقی جھوٹی شہرت اور ناموری کے برعکس اس بات کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے کہ وہ کس طرح اپنے فن کو کمال تک پہنچائیں۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ اگر فن پارے / شاعری میں جان ہو گی تو اسے کوئی نظر انداز نہیں کر پائے گا۔ یہ ان کی خود اعتمادی ہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی شکوہ بہ لب نہ ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے عمل لانے کے لیے نئے نئے طریقے ایجاد کرتے رہے، لیکن جب کچھ لوگ ان کی آواز کو لے اڑے جسے انہوں نے مر مر کے پالا تھا تو مجبوراً انہیں کہنا پڑا:

ملالِ دولت بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں

ہم اپنی خاک سے پھر گنج زر نکالتے ہیں

میں اپنے نقد ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں

مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں

چڑھا کے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار

مرے حریف مرے آئینے اجالتے ہیں

ان اشعار میں معاصرین کی بے غیرتی اور ڈھٹائی کا شکوہ ہے اور اپنے ہنر و کمال پر فخر و مباحات بھی۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا عرفان صدیقی کا و طیرہ تھا۔ وہ بے لوث اردو زبان و ادب کی خدمت کرتے رہے۔

خلاصۂ بحث یہ کہ عرفان صدیقی معاصر اردو ادب کے ایک اہم اور منفرد شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں تشبیہات، استعارات، علامات اور تلمیحات کی جہاں ایک دنیا آباد ہے۔ وہیں بعض الفاظ کو نئے استعاراتی ابعاد میں برتنے کا کمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ بعض متروک الفاظ کا استعمال بھی ان کی شاعری میں خوب سے خوب تر ہے۔ عرفان صدیقی نے بہت ہی دانش مندی کے ساتھ ان الفاظ کو اپنی شاعری کا جز بنایا ہے۔

عرفان صدیقی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوئے اور آہستہ آہستہ وہ وہاں جا پہنچے جہاں ہر بشر کو ایک دن جانا ہے۔ شاید انھیں اپنی زندگی کے آخری لمحات کا احساس ہو گیا تھا۔ تبھی تو ان کی زبان سے یہ شعر نکل پڑا:

بجھ رہی ہیں میری شمعیں، سو رہے ہیں میرے لوگ

ہو رہی ہے صبح، قصہ مختصر کرتا ہوں میں

عرفان صدیقی کی شمعِ حیات بالآخر بجھ گئی، لیکن انہوں نے اپنے خون جگر سے جو چراغ روشن کیا تھا۔ اس سے ایک نئی روشنی مسلسل پھوٹ رہی ہے، جس سے آنے والی نسلیں مستقل مستفید ہوتی رہیں گی۔ شاید وہ یہ کہنے میں حق بجانب تھے :

جل بجھیں گے کہ ہم اس رات کا ایندھن ہی تو ہیں

خیر دیکھیں گے نئی روشنیاں دوسرے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

عہد آفریں آواز: عرفان صدیقی

(عشق نامہ کی روشنی میں)

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عاصم شہنواز شبلی (کولکاتا)

 

غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس سے والہانہ عشق بھی کیا گیا اور جس پر طعن و تشنیع کے تیر بھی چلائے گئے۔ لیکن اس نے ہر تیر کو خندہ پیشانی سے سہا اور زبان سے اُف تک نہ کی۔ نتیجے کے طور پر غزل کے شیدائیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن غزل ہر ایرے غیرے کو منہ نہیں لگاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزل کا اپنا ایک مزاج ہے۔ یہ رمز و ایما کا فن ہے۔ یہاں وضاحت سے زیادہ اشاریت سے کام لیا جاتا ہے۔ تہہ داری و معنی آفرینی اور علائم واستعارات اس کا بنیادی حسن ہیں۔ اس سے ہماری زندگی کی روایت اور تہذیب کی نمائندگی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے شاعروں کی تعداد بہت کم ہے جو اس صنف کے تقاضوں سے عہدہ بر آہوں۔ زباں پر گرفت، لطافت، دلکشی، دل پذیری، لب و لہجہ کی نرمی، جمالیاتی ذوق اور الفاظ و معانی کا توازن ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جب یہ ساری بنیادی خصوصیات ایک جگہ جمع ہو جاتی ہیں تو غزل اس کو اپنا محبوب بنا لیتی ہے اور یہ محبوب عرفان صدیقی کی صورت میں اردو شعر و ادب کو میسر آیا ہے۔

عہد قدیم سے اب تک اردو غزل نے بڑا طویل سفر طے کیا ہے۔ نئی حسیت، نئی علامتیں، نئے استعارے، نئی امیجری، منفرد طرز احساس کے ساتھ درباروں اور خانقاہوں سے گزرتی ہوئی گھر آنگن سے جڑتی ہوئی اور زندگی کے عمومی پہلوؤں سے ساز باز کرتی غزل ہماری شاعری کی محبوب ترین صنف بن چکی ہے۔ انتہائی آسان اور انتہائی مشکل صنف۔ ۔ ۔ جلوہ مستانہ بھی، نغمۂ دلنواز بھی۔ ۔ ۔ ہر عہد کے جذبے کی زبان۔ ۔ ۔ ہماری آج کی غزل قدیم روایات سے اپنا انسلاک رکھنے کے باوجود اپنے رنگ و آہنگ اور سوز و گداز میں منفرد اور ممتاز ہے۔ علامتیں اور استعارے قدیم ہوں یا جدید، غزل نے دونوں کے امتزاج سے روحِ عصر کی نمائندگی کی ہے۔ عرفان صدیقی بھی اردو غزل کی اسی خوشگوار روایات کا سلسلہ ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں جن شعراء کو ہندو پاک کی ادبی دنیا میں اعتبار حاصل ہوا ان میں ایک اہم نام عرفان صدیقی کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ میں نے کسی افہام و تفہیم اور مطالعہ و مشاہدہ کے بغیر یہ دعویٰ یا حکم صادر کر دیا ہے۔ آپ میرے ساتھ ساتھ اس سفر میں جوں جوں آگے بڑھیں گے میری رائے سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوں گے۔

عرفان صدیقی نے چہرۂ غزل کو آب و تاب دی۔ غزل ہی ان کا واحد ذریعۂ اظہار ہے۔ کلاسیکی روایات سے عرفان صدیقی کا ہمیشہ انسلاک رہا ہے، لیکن وہ ساتھ ہی نئے تقاضوں سے بھی آشنا رہے ہیں۔ نئے اور تازہ ہوا کے جھونکوں کا بھی خیر مقدم کرتے رہے اور غالباً یہیں سے ان کی طبیعت میں زبان و بیان کے سلسلے میں احتیاط کی روش نے فروغ پایا۔ عرفان صدیقی محتاط غزل گو ہیں۔ وہ جذبوں کی صداقت میں محتاط انداز اختیار کرتے ہیں۔ جذبے کی رو میں بہنا، جذباتی لہجے میں گفتگو کرنا اور ہیجان انگیز الفاظ کا انتخاب کرنا انھیں پسند نہیں۔ وہ ٹھہر ٹھہر کر سنبھل سنبھل کر سلجھے ہوئے احساسات کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر جگہ سنبھلی ہوئی کیفیات کا مظاہرہ ہے۔ مگر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس سنبھلی ہوئی کیفیت کی تہہ میں جو اضطراب، جو طوفان، جو شدت اور جو تیزی کارفرما ہے اسے محسوس کرنے کے لیے شعور و سرور اور دل و دیدہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ عرفان صدیقی نے بڑے سلیقے اور احتیاط سے اپنے محشر اضطراب کو شعر کی قالب میں ڈھالا ہے :

میں بہر حال اسی حلقۂ زنجیر میں ہوں

یوں تو آزاد کئی بار کیا ہے اس نے

تو اک چراغ جہان دگر ہے کیا جانے

ہم اس زمیں پہ کس طرح شب گزارتے ہیں

جسم سے روح تلک راہ نوردی کے لیے

ہو عنایت مرے ہونٹوں کو بھی پروانۂ لب

لپٹ سی داغِ کہن کی طرف سے آتی ہے

جب اک ہوا ترے تن کی طرف سے آتی ہے

اول اول اس سے کچھ حرف و نوا کرتے تھے ہم

رفتہ رفتہ رائے گاں کارِ سخن لگنے لگا

کہیں خرابۂ جاں کے مکیں نہیں جاتے

درخت چھوڑ کے اپنی زمیں نہیں جاتے

یوسف نہیں ہوں مصر کے بازار میں نہ بیچ

میں تیرا انتخاب ہوں ارزاں نہ کر مجھے

ہوا کا چلنا دریچوں کا باز ہو جانا

ذرا سی بات پہ دل کا گداز ہو جانا

ان مختلف اشعار میں ایک کیفیت، احساس، گہرے تجربے اور بے لاگ تجربے کی نمو ہے۔ یہ اشعار ایک خاص سادہ لب و لہجے میں ہیں۔ کہیں کہیں عرفان صدیقی نے قدیم رمز و کنایات کا سہارا لے کر ان اشعار کے معانی میں زیادہ سے زیادہ وسعتیں پیدا کر دی ہیں۔ کوزے میں سمندر بند کرنا در اصل اسی کو کہتے ہیں۔ بظاہر عرفان صدیقی کے اشعار ہمیں پہلی نظر میں بہت عام فہم اور زودرس لگتے ہیں لیکن معانی سے ایسے لبالب مفاہیم کے اعتبار سے ایسے تہہ در تہہ ہیں کہ اہلِ دانش ہی عرفان صدیقی کی غزل کا پورا لطف اٹھا سکتے ہیں اور اس کی داد دے سکتے ہیں۔

عرفان صدیقی کی غزلیں نہ صرف ہمیں نئے شعری ڈکشن سے آشنا کرتی ہیں بلکہ اس ڈکشن کے وسیع امکانات کی طرف بھی لے جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ جب تک کسی بھی صاحبِ طرز ادیب، شاعر یا فنکار کا اپنا خاص اسلوب یا لب و لہجہ نہیں ہوتا ہے اس وقت تک اس کی اپنی حیثیت یا پہچان نہیں ہو پاتی ہے۔ ایک تخلیق کار اپنے احساسات و جذبات کو کتنی سچائی کے ساتھ پیش کرتا ہے ؟ اس کا انداز فکر اور پیش کش کیسا ہے ؟ لفظیات میں کیا انفرادیت ہے ؟ مشاہدات و تجربات میں کتنی گہرائی و گیرائی ہے اور اس کی سوچ میں کتنی شدت و صداقت ہے ؟ ساتھ ہی یہ بھی کہ تخلیق کار کا اظہار عام قاری کے دل پر کیسے اثرات مرتب کرتا ہے ؟ یہ ساری چیزیں اسلوب اور لب و لہجے کو نہ صرف پر کشش بناتی ہیں بلکہ انفرادی لب و لہجے کی پہچان بھی بن جاتی ہیں۔ عرفان صدیقی کے یہاں یہ سارے لوازم و علائم بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ عرفان صدیقی کے اسلوب اور لب و لہجہ میں شبنم کے قطرے جیسی نرمی اور نغمگی بآسانی محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے جو میری گفتگو کو سندِ اعتبار بخشیں گے :

جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف

یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آ گئے ہیں

اس نے کیا دیکھا کہ ہر صحرا چمن لگنے لگا

کتنا اچھا اپنا من اپنا بدن لگنے لگا

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں

لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ سب مرے راز دانوں میں ہیں

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

قیامت استعارہ ہے اشارہ میرے قاتل کا

کہ ہم ابرو ہی کیا سارا بدن تلوار کر دیں گے

میرے اندر کا ہرن شیوۂ رم بھول گیا

کیسے وحشی کو گرفتار کیا ہے اس نے

یہ اور اس کے قبیل کے بہت سارے اشعار ہمیں عرفان صدیقی کے یہاں بغیر کسی تلاش و جستجو کے بآسانی مل جاتے ہیں۔ لفظ بدن ان کی شاعری میں اور درج بالا اشعار میں بڑی شدت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ بدن کے کئی ڈائمنشن (جہات) اور نکات سامنے آ گئے ہیں۔ ہر شعر میں بدن کو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور بعض اشعار میں تو بدن کو کئی صورتوں میں پیش کیا گیا ہے جسے اہلِ نظر بخوبی پرکھ لیں گے۔ چوں کہ عرفان صدیقی کو اظہار پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے اور موضوع کی بے پناہی اور فراوانی ہے اس لیے ان کا اسلوب اور لب و لہجہ ان کے ہمعصروں سے قدرے مختلف اور جدا گانہ ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں صرف نیا طرز احساس ہی نہیں ہے بلکہ نئی امیجری بھی ہے۔ ان کی غزلوں میں جگہ جگہ ایسے اشعار ملتے ہیں جن میں کلیدی الفاظ کے پیکر کا رنگ ڈھنگ بالکل نیا اور انوکھا ہے۔ مجھے علم ہے کہ محض فکر و خیال کی سطح پر عملی زندگی کے جزو اور ان کے مشاہدات کو برتنا کافی نہیں ہے بلکہ غالب کی زبان میں دل گداختہ میں پیوست کر لینا ہے، جذبوں میں ڈھال لینا ہے اور محسوسات میں منتقل کر لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جذبہ اور احساس اگر سچا اور شدید ہے تو اپنے نکاس کا راستہ نکال لیتا ہے۔ سچے جذبات ومحسوسات کی ترجمانی مشکل الفاظ و تراکیب یا اصطلاحات یا لغات کی محتاج نہیں ہوتی ہے۔ اور اس کی مثال عرفان صدیقی ہیں۔

عرفان صدیقی کی جہاتِ غزل کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی غزلوں نے روایت کو نئے ابعاد سے آشنا کیا ہے اور بدلے ہوئے طرز احساس اور نئے طرز اظہار کے وسیلے سے ایک نئی روایت کی بنیاد بھی ڈالی ہے۔ جذبے اور کیفیت کو ٹھوس معروض کی شکل میں پیش کر کے ایک جہت کا اضافہ کیا ہے۔ عرفان صدیقی کی غزل ایک ساتھ کئی حواس کو متحرک بھی کرتی ہے اور امیجز کے ذریعے تخلیقی حسن بھی پیدا کرتی ہے۔ ان کے ہم عصروں میں بہت کم شعراء کے یہاں امیجز اور حواس کا ایسا کار آمد امتزاج نظر آتا ہے اور غالباً یہی امیجز اور تخلیقی حسن عرفان صدیقی کو ان کے ہم عصروں میں ممتاز رکھتا ہے۔

گر گئی قیمت شمشاد قداں آنکھوں میں

شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اس نے

اپنے چاروں سمت دیواریں اٹھانا رات دن

رات دن پھر ساری دیواروں میں در کرنا مجھے

صید کرتا ہے کسی اور کی مرضی سے مجھے

خود بھی صیاد گرفتار ہے میں کیا جانوں

پاؤں کی فکر نہ کر بارِ کم و بیش اتار

اصل زنجیر تو سامان سفر ہے سائیں

تجھے پا کر بھی تیری ہی طلب سینے میں رکھتا ہوں

تماشہ کر کے میں کشکول گنجینے میں رکھتا ہوں

دشت سے دور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں

دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جا

فقیر ہوں دل تکیہ نشیں ملا ہے مجھے

میاں کا صدقہ تاج و نگیں ملا ہے مجھے

قیمت شمشاد کا گرنا، مصر کا بازار ہونا، دیواریں اٹھانا اور پھر دیواروں میں در کرنا، صید کرنا، صیاد کا گرفتار ہونا، پاؤں کی زنجیر دیکھنا اور پھر سامانِ سفر کا سوچنا، محبوب کے حصول کی خواہش کرنا، کشکول کا گنجینے میں رکھنا، دشت و جنوں اور شہر کے امتیازات، فقیر تکیہ نشیں کے توسط سے تاج و نگیں کا ملنا وغیرہ ایک روایتی موضوع سے وابستہ ہونے کے باوجود کلیشے (cliché)اور محاوراتی استعارے سے ایک گریز ہے۔ عرفان صدیقی نے پرانے، متروک اور غیر رسمی الفاظ کو نئے سیاق و سباق کے ساتھ نئے مفاہیم کے ساتھ پیش کیا ہے اور بعض نئے استعاروں کو اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے نیا حسن دیا ہے۔ صرف نیا طرز احساس ہی عرفان صدیقی کی شناخت نہیں ہے بلکہ نئی امیجری بھی ہے۔ خوشبو، رنگ، روشنی، توانائی اور زندگی اپنے ایک انفرادی رنگ کے ساتھ ہر جگہ نمایاں ہے۔ الفاظ کے بصری پیکر کا رنگ ڈھنگ بالکل نیا اور انوکھا ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ عرفان صدیقی کے ان تخلیقی رویوں اور تجربوں میں قاری شامل رہتا ہے۔

ٍ        عرفان صدیقی ان خوش قسمت شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری کو ان کے ہم عصروں نے نئے انداز سے سمجھا، پرکھا اور اس پر گفتگو کی۔ ساتھ ہی نئی نسل نے بھی ان کے تخلیقی سفر کی ستائش کی اور ان کے اشعار پر سر دھننا اپنا شیوہ بنایا۔ یہ خوش قسمتی بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے کہ ان کو ان کی زندگی میں ہی recognitionمل جائے اور آسمانِ شعر و ادب پر ان کا نام ستارے کی طرح روشن ہو جائے۔

عرفان صدیقی کی شعری شخصیت نکھری ہوئی، منفرد، صاف و شفاف ہے۔ غمِ پنہاں کی ایک ہلکی سی جھلک مدھم مدھم احتجاج، الفاظ میں درد کے پہلو اور لہجے میں انکساری، لیکن اس انکساری میں بھی خود اعتمادی نے ان کی شاعری کو ایک ایسی منزل پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں پہنچنے کی للک اور خواہش ہر شاعر کے دل میں موجزن ہے۔ لیکن یہ مرتبہ ہر کس و ناکس کے حصے میں کہاں۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے بڑے معرکے سر کرنے پڑتے ہیں، فکر و فن کی جولان گاہ کو جوان رکھنا پڑتا ہے، تصورات و تجربات کی نقش گری میں تفکر و تخیل کو برتنے کا ہنر جاننا پڑتا ہے، ایک لمبی ریاضت سے گزرنا پڑتا ہے، الفاظ و معنی کی بھٹی میں جل کر کندن بننا پڑتا ہے، زبان کے تخلیقی استعمال کے ذریعے لسانی و فنی خوش سلیقگی کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر عرفان صدیقی جیسا البیلا، سجیلا اور بان کا شاعر اردو غزل کو ملتا ہے۔

تشنہ رکھا ہے نہ سرشار کیا ہے اس نے

میں نے پوچھا ہے تو اقرار کیا ہے اس نے

کون ایسی بستیوں سے گزرتا ہے روز روز

میرے کرشمہ ساز بیاباں نہ کر مجھے

ہم تو صحرا ہوئے جاتے تھے کہ اس نے آ کر

شہر آباد کیا نہر صبا جاری کی

وہ ایک خواب سہی سایۂ سراب سہی

یہ عمر بھر کی تھکن اک شجر کے نام تمام

شاعری میں تو بہت دشت و بیابان کا ذکر

زندگی میں گلۂ دربدری آخر کیوں

عجب لوگ تھے مجھ کو جلا کے چھوڑ گئے

عجب دیا ہوں طلوعِ سحر پہ راضی ہوں

عمر کیا چیز ہے احساس زیاں کے آگے

ایک ہی شب میں بدل جاتی ہے صورت کیسی

کب سے راضی تھا بدن بے سروسامانی پر

شب میں حیران ہوا خون کی طغیانی پر

میں نے یہ اشعار عرفان صدیقی کے عشق نامہ سے کسی کوشش کے بغیر منتخب کیے ہیں۔ ہر صفحے پر آپ کو ایسے قیمتی، خوبصورت خیال انگیز اور معنی آفریں اشعار ملتے ہیں اور ایک نئی معنوی جہت کے ساتھ دل و دماغ پر اپنے گہرے اثرات مرتسم کرتے جاتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ عرفان صدیقی کی شاعری کے مختلف ڈائمنشن (جہات) ہیں اور ہر ڈائمنشن کا احاطہ کرنا مجھ جیسے ادب کے ادنیٰ طالب علم کی بات نہیں ہے۔ میں نے کوشش کی ہے کہ ان کی رنگِ سخن، ان کی انفرادیت اور زندگی سے ان کے فنکارانہ ربط کے روشن نقوش کو اپنی بساط کے مطابق بیان کر سکوں۔

بحیثیت مجموعی عرفان صدیقی کی غزلوں نے اردو غزل کو ایک نیا موڑ دیا ہے جہاں الفاظ و معنی میں ہم آہنگی ملتی ہے۔ ان کی غزلوں نے اپنی زمیں سے اپنا رشتہ استعارہ رکھا ہے۔ وہ غزل کے مزاج داں ہونے کے ساتھ ساتھ غزل اور اپنے عہد کے نباض بھی ہیں۔ طرزِ نو کی گونج ان کی غزلوں کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تازگی، جدت طرازی، تجربات کا تنوع، قدیم علامتوں اور استعاروں کے نئے مفاہیم اور نئے علائم و استعارے کی تخلیق عرفان صدیقی کی غزلوں کا بنیادی وصف ہیں۔ نئے عہد کے سراغ سے عرفان صدیقی نے غزالوں کو ہمہ جہتی عطا کی ہے۔ غزل کو زندہ اور تازہ لہو عرفان صدیقی جیسے شاعروں سے ملتا ہے۔ وگر نہ راکھ میں پھول کھلا دینا کس کی ہمت ہے :

سینے کے ویرانے میں یہ خوشبو ایک کرامت ہے

ورنہ اتنا سہل نہیں تھا راکھ میں پھول کھلا دینا

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی کی غزل

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جمال اویسی(پٹنہ)

 

ان دنوں ادب میں بہت سے معاملے فرض کئے ہوئے ہیں۔ تنقید مان کر چلتی ہے کہ کسی نکتہ کی وضاحت یوں کی جائے تو ایک نئی شکل ضرور تیار ہو جائے گی۔ حالانکہ فرض کرنا علم ریاضی کا سب سے قوت مند ہتھیار ہے اور علم ریاضی اس نکتہ کے سہارے جو کچھ پیش کرتا ہے وہ بھی کچھ نہیں کے برابر ہی ہوتا ہے۔ ان فرضیات اور واجبات سے رو گردانی کرتے ہوئے کچھ کہنے کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے تو اس کو پھیلا کر ایک اثبات کی صورت گری بھی کی جا سکتی ہے۔

عرفان صدیقی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ ان کی موت نے اردو والوں سے ایک خوش اسلوب غزل نگار شاعر چھین لیا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم بولتے بولتے چپ ہو جاتے ہیں۔ شب خون کے تازہ شمارے میں ان کا مکتوب دیکھنے کو ملا تھا جس میں وہ اپنے مداح کی غزل کی تعریف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں : ’’آپ نے اپنی نئی غزل مرے دل سے نکل گئی ہے کوئی چیز کی شکل میں میرے لیے نادر تحفہ بھیجا ہے۔ کیا کیا عمدہ اور اثر انگیز شعر کہے ہیں واقعی شاعری آپ کی محبت ہے۔ ‘‘ (شب خون شمارہ مارچ ۲۰۰۴ء نمبر ۲۷۸)

عرفان صدیقی نے شمس الرحمن فاروقی کی غزل کی تعریف کی ہے جو پچھلے کسی شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ فاروقی صاحب کی غزل کو خوب کہنے والوں میں عرفان صدیقی کے علاوہ نیر مسعود اور شہریار بھی شامل ہیں۔ یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ فاروقی شاعر اور نقاد سے زیادہ بہتر فکشن رائٹر ہیں۔ کم از کم مجھے یہ بات لکھتے ہوئے کوئی تامل نہیں کہ فاروقی کو اگلے زمانے کے لوگ ’’سوار‘‘ آفتاب زمیں اور کئی چاند تھے سر آسماں، کی نثر کے حوالے سے یاد کریں گے۔ ان شاہکاروں میں جو ادبی نثر پیش کی گئی ہے۔ اس کی نظیر پورے سو سال کے درمیان نہیں ملتی۔

لیکن مان لیجئے اگر وہ غزل کے اچھے شاعر کہے بھی جاتے ہیں تو غزل کے اچھے شاعر کا معیار متعین کرنے والا پیمانہ پچھلی ایک صدی سے نایاب ہے۔ مگر یہاں پر یہ ضرور کہنا چا ہوں گا کہ عرفان صدیقی کی غزلیہ شاعری کو اعتبار بخشنے میں فاروقی صاحب کی تنقید کی زبردست خدمات رہی ہیں۔ فاروقی صاحب کے قلم سے تعریف نکلنے کے بعد دوسرے احباب نے بھی عرفان صدیقی کی غزل کی تعریف کرنی شروع کر دی۔ اگر سنجیدگی سے ایک نکتہ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پہلے پہل عرفان صدیقی کی غزل کی خوش آہنگی نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کے بعد اس غزل کے دوسرے اسرار و رموز کھلے۔ عرفان صاحب کی غزل پر ایک طرف اقبال کی غزل کی خوش آہنگی کا اثر صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے تو دوسری طرف انہی کے نسبتاً سینئر غزل گو شاعر عبد العزیز خالد کی غزل کا پر تو بھی دکھائی دیتا ہے۔ غزل کا شاعر بہت ہشیار اور چالاک ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ وہ نئی شعری اصطلاح بنا لینے کے لیے سرمارتا ہے لیکن یہ بہت مشکل کام ہے اور آج کے غزل گو شاعروں کے لیے تقریباً نا ممکن امر ہے۔ پھر بھی جو شعرا تھوڑا بہت کامیاب ہوئے ہیں ان میں عرفان صدیقی کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ ان کی غزل ان معنوں میں بھی الگ نظر آتی ہے کہ اس کا آہنگ معاصر غزل سے میل نہیں کھاتا۔ گرچہ مسالے اور مسائل وہی رہتے ہیں جو معاصر غزل کے لیے مرغوب اور پسندیدہ ہیں۔ عرفان صدیقی کی شعور مندانہ کوشش غزل کو کچھ حد تک کامیاب بنانے میں کام کر جاتی ہے بلکہ عرفان صاحب اس ہنر میں بھی یکتا ہو گئے تھے کہ وہ معمولی سے معمولی بات کو بھی اپنے خاص رنگ میں بیان کرتے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ غزل سے متعلق بڑی بڑی با توں کی توقع ان سے نہیں رکھنی چاہیے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عرفان صاحب کی غزل میں امکانی انقلاب کی آہٹ سنائی نہیں دیتی۔ وہ زندگی کی رنگا رنگ جہتوں کے شاعر نہیں تھے۔ وہ ہر پست و بلند پر نظر نہیں رکھ سکتے تھے۔ وہ غزل کی شاعری میں نئے بشر کے بارے میں فکری یا وجدانی سطح پر کوئی حکیمانہ خیال پیش نہیں کر سکتے تھے۔ وہ اقبال کی غزل کی خوش آہنگی کو اپنانے کی شعوری کوشش کرتے ہیں لیکن اقبال کی فکری رمز فشانی کی طرح اپنا کوئی فکری نظام پیدا نہیں کرتے۔ ضروری نہیں کہ عرفان صاحب ایسا ہی کرتے تو بہتر ہوتا۔ لیکن یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ عرفان صاحب نے غزل کی خوش آہنگی کو سب کچھ مان لیا تھا اور یہ بھی عجیب حقیقت ہی ہے کہ غزل کی شاعری میں خوش آہنگی ایک طرح سے مرکزی رول ادا کرتی آئی ہے مگر میں اسے حسن کاری یا ایک حسین پردہ تصور کرتا ہوں جو کسی لطیف خیال، احساس یا فکر کو گھیرے ہوئے رہتا ہے۔

عرفان صدیقی کی انفرادیت یہ ضرور رہی ہے کہ ان کی غزل میں مسلمانوں کے تہذیبی اور ثقافتی کردار کی واضح جھلک ملتی ہے۔ عرفان صاحب کے جمالیاتی احساس میں بھی مسلم تاریخ و تمدن کی کارفرمائی ہے اور ان کی غزلوں میں جو تلمیح اور استعارہ نظر آتا ہے اس کا تعلق بھی اسلامی تاریخ اور بہت کچھ ہند اسلامی تاریخ سے ہے۔ ان کے اشعار میں دست بریدہ کے بونے کے بعد دست دعا کے تخیل اُگ آنے کا تصور بھی اسی ہند اسلامی تاریخ سے ہے۔ اپنے دور کے مسلم طبقہ کا کرب ان کے اشعار میں اشاروں اور کنایوں سے پھوٹ پڑتا ہے۔ عرفان صدیقی کی غزل صالح انسانی اقدار کی حامل بھی ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی غزل کی طرح یہاں بھی کھوئے ہوؤں کی جستجو نظر آتی ہے۔ ہندوستان میں تقسیم ہند کے بعد سیکڑوں بلکہ ہزاروں ہندو مسلم فسادات ہوئے ہیں اور ان فسادات میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہلاک ہوئی ہے۔ گجرات کا معاملہ ابھی تازہ ہے۔ ’شب خون‘ شمارہ نمبر ۲۷۲ میں عرفان صاحب کی ایک غزل شائع ہوئی تھی جس میں گجرات کے المناک حادثوں کا پورا پس منظر دکھائی دیتا ہے اس غزل کے چند شعر یہاں پیش کئے جاتے ہیں :

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا

آخراس خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

یہ امر بہت مستحسن ہے کہ ان کے دل میں اپنی قوم کی بے چارگی اور بے بسی کا احساس موجزن رہتا ہے اور انہوں نے اپنی غزل کی استواری میں اپنی قوم کے عروج و زوال کی داستان کے کردار تراشے تھے۔ اس حساب سے دیکھیں تو اقبال ہی کی طرح ان کی غزل میں بھی مسلمان قوم سے متعلق خیالات ملتے ہیں۔ بعض مرتبہ ان کی غزل ایک انوکھے لب و لہجہ کی حامل بھی نظر آتی ہے اور وہ تصویر کشی میں کامیاب ہوتے ہیں ::

یہ کس نے دست بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں وستِ دعا نکل آئے

یہ ہو کا وقت یہ جنگل گھنا یہ کالی رات

سنویہاں کوئی خطرہ نہیں ٹھہر جاؤ

عرفان صدیقی کے یہاں صوفیوں جیسی مستی اور فقر و غیور کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ دنیاداری اور دنیا پرستی دونوں سے پرہیز نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ عشق اور جنون کے مضامین بھی بڑی خوبصورتی سے ان کے یہاں نظر آتے ہیں۔ اگر وہ اپنی غزل کے مخصوص لہجہ اور دائرے کو توڑ کر باہر آتے تو یقیناً اس Excellence کو چھو لیتے جو غالب و اقبال کی غزل میں دکھائی دیتا ہے۔ عرفان صدیقی نے جس آہنگ کو پیدا کیا وہ یقیناً دامن دل کو کھنچتا تھا اور اسی آہنگ کی تعریف میں نیر مسعود، محمود ایاز اور شمس الرحمن فاروقی جیسے بلند مرتبت ادیب و ناقد لگے رہتے تھے۔ اس تعریف و توصیف کا نتیجہ یہ ہوا کہ عرفان صدیقی نے اپنے آہنگ شعری کو بہت قیمتی سمجھا اور اس کو مزید مانجھنے میں لگے رہے۔ چنانچہ عرفان صاحب کبھی بھی اپنے قائم کردہ حصار سے باہر نہیں نکل پائے۔ کچھ مخصوص بحروں میں وہ بہت خوبصورتی سے کہہ کے نکل جاتے تھے۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ جب شاعر کسی خاص محور میں مسلسل گردش کرتا ہے تو کرافٹ کے ذریعہ اپنی غزل سجاتا اور سنوارتا رہتا ہے۔ عرفان صدیقی کے کرافٹ کا بہترین نمونہ یہ غزل کہی جائے گی۔ ملحوظ رہے کہ اس غزل میں ان کی پسندیدہ بحر ہے جس کے آخری رکن کو وہ اکثر (خوش آہنگی پیدا کرنے کی خاطر) فعلان بنا دیا کرتے تھے۔ اس کرتب کو قاری کیا سمجھے گا۔ البتہ شاعر اچھی طرح سمجھتا ہے۔ غزل پیش ہے :

اسی دنیا میں مرا کوئے نگاراں بھی تو ہے

ایک گھر بھی تو ہے اک حلقہ یاراں بھی تو ہے

آ ہی جاتی ہے کوئی موج ہوائے نمناک

اس مسافت میں کہیں خطہ باراں بھی تو ہے

راستوں پر تو ابھی برگ خزاں اڑتے ہیں

خیر، اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے

کچھ نظر آتی نہیں شہر کی صورت ہم کو

ہر طرف گرد رہ شاہ سواراں بھی تو ہے

حاکم وقت کو یوں بھی نہیں گوش فریاد

اور پھر تہنیت نذر گزاراں بھی تو ہے

ایسے آشوب میں کس طرح سے چپ بیٹھا جائے

خون میں تاب و تب حوصلہ داراں بھی تو ہے

غور کرنے پر معلوم ہو گا کہ یاراں، باراں، بہاراں، سواراں کے قافیوں کو خوش آہنگی پیدا کرنے کے لیے باندھا گیا ہے۔ مذکورہ اشعار میں جمالیاتی احساس کے سوا کوئی معنی خیزی یا نکتہ آفرینی نہیں ہے۔ پانچویں شعر میں جو مضمون ہے وہ عرفان صاحب اکثر باندھا کرتے تھے۔ اس غزل کا تیسرا شعر بار بار پڑھا جائے تو ایک منظر ضرور ابھرتا ہے مگر فوراً ایک بیزاری بھی پیدا ہوتی ہے۔ اب ایسے اشعار محض خوش بیانی اور خوش ذائقگی کے لیے تو بار بار نہیں پڑھے جا سکتے۔

لیکن اتنا کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ عرفان صدیقی کی غزل محدود ہونے کے باوجود معاصر غزلیات کی بھیڑ میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ خاص کر ایسے دور میں جب دو لخت اشعار کی بہتات ہے اور بہت سے نئے شعرا اپنے لہجہ کی کرختگی کو شعری وصف سمجھ بیٹھے ہیں۔ عرفان صاحب کی غزل مدتوں نئے لکھنے والوں کو شعر بنانے کے ڈھنگ سکھاتی رہے گی اور شعر بھی ایسے جو شعری مزاج کی تربیت میں حصہ داری کریں :

ان بھیڑیوں کے بیچ بسر کر رہے ہیں ہم

جن کے لیے ہے طفل دو روزہ بھی کشتنی

جس پر تیغ چلے وہ چیخے، اور کوئی چلائے کیوں

خلق خدا سے آس نہ رکھنا خلق خدا تو پتھر ہے

سر کے سوا کیا جیتا تم نے سر کے سوا ہم ہارے کیا

آگے قسمت اپنی اپنی اب تک کھیل برابر ہے

تم اس حریف کو پامال کر نہیں سکتے

تمہاری ذات ہے دنیا نہیں ٹھہر جاؤ

یہ آخری شعر جتنا متاثر کرتا ہے۔ کاش عرفان صدیقی کی غزلوں میں ایسے اشعار کی بہتات ہوتی۔ لیکن جیسی اور جتنی بھی تعداد ایسے شعروں کی ہے وہ ان کے نام کوسر بلند رکھنے کے لیے کافی ہے اور وہ ہمیشہ اردو غزل کے خوش فکر اور خوش آہنگ شاعر سمجھے جائیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’سات سماوات‘‘ کے سات رنگ

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راشد انور راشد(علی گڑھ)

 

چاہتی ہے کہ کہیں ساتھ بہا کر لے جائے

تم سے بڑھ کر تو مجھے موجِ فنا چاہتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

اور بالآخر بیچ کی یہ دیوار ۱۵ اپریل۲۰۰۴ ء کی شب گر ہی گئی اور اپنے ساتھ موج فنا اس فن کار کو ہم سے بہت دور لے گئی جو موجودہ عہد میں اردو غزل کی آبرو تھا۔ عرفان صدیقی کی موت اردو شاعری کے لیے نا قابل تلافی نقصان ہے اور آنے والا عہد ہر مرحلے پر ان کی کمی محسوس کرتا رہے گا۔

عرفان صدیقی ۱۹۳۹ء میں بدایوں میں پیدا ہوئے اور ۶۵ سال کی کامیاب زندگی گزارنے کے بعد انھوں نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ وہ برین ٹیومر کے مرض میں مبتلا تھے جس کی تشخیص چار مہینے قبل ہی ہو پائی تھی۔ آپریشن کے بعد حالاں کہ وہ پہلے کی طرح چاق و چوبند دکھائی دینے لگے تھے اور تیزی کے ساتھ رو بہ صحت ہونے لگے تھے لیکن آخر موت سے کس کو رستگاری ہے۔ زندگی کی شام ہوتے ہی وہ خاموشی کے ساتھ اپنے ٹھکانے کو لوٹ گئے۔

ہم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہیں آزاد

گھر کو اب لوٹ چلیں، شام ہوا چاہتی ہے

عرفان صدیقی نے مرکزی حکومت میں محکمۂ پی آئی بی سے اپنی سروس کا آغاز کیا اور مختلف وقتوں میں سینٹرل انفارمیشن سروسز کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ لکھنؤ میں پی آئی بی یونٹ کے سربراہ کی حیثیت سے سبکدوش ہونے سے قبل انھوں نے دہلی میں دور درشن کے نیشنل چینل میں نیوز ایڈیٹر کی خدمات بھی انجام دی تھیں۔ مرکزی حکومت کی ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی وہ صحافت سے عملی طور پر وابستہ رہے اور لکھنؤ میں روز نامہ ’’صحافت ‘‘ کی ادارتی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ صحافت سے دیرینہ وابستگی کا ہی نتیجہ تھا کہ انھوں نے انگریزی کی ایک مشہور کتاب کا اردو میں ’’رابطۂ عامہ‘‘ کے نام سے ترجمہ بھی کیا تھا۔ انھیں سنسکرت زبان سے بھی ایک خاص لگاؤ تھا۔ انھوں نے کالی داس کی مشہور کتابوں ’مالویکا اگنی متر‘‘ اور ’’روپ سنگھار‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔

ارد و میں عرفان صدیقی کی انفرادی شناخت کا بنیادی وسیلہ غزل ہے۔ انھوں نے غزل کی بے جان ہوتی ہوئی صنف میں نئی روح پھونکنے کی کامیاب کوشش کی۔ لفظیات کی سطح پر ان کی غزل کلاسیکی شعور سے مزین دکھائی دیتی ہے، جب کہ موضوعات کی سطح پر ان کی شاعری میں موجود عہد کی دھڑکنوں کو آسانی کے ساتھ سنا جا سکتا ہے۔ کینوس، شب درمیاں، سات سماوات اور عشق نامہ ان کے چار شعری مجموعے ہیں، جنھوں نے غزل کا وقار موجودہ عہد میں قائم رکھا۔ حال ہی میں پاکستان سے ان کی کلیات ’’دریا‘‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ گزشتہ سال غالب انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے شاعری کے لیے مایہ ناز ’’غالب ایوارڈ ‘‘ سے انھیں نوازا گیا تھا۔

اپنے ہمعصروں کے مقابلے میں عرفان صدیقی کا کلام بہت بعد میں اشاعت کی منزلوں سے گزرا، لیکن جس تیزی کے ساتھ ان کے شیدائیوں کا حلقہ وسیع ہوا، اس سے اردو دنیا اچھی طرح واقف ہے۔ خود کی شناخت کا مثبت پہلو ان کی شاعری میں ایک الگ ہی جادو جگاتا ہے۔ علی گڑھ سے کوئی باقاعدہ تعلق نہ ہونے کے باوجود عرفان صدیقی یہاں کی فضا اور ماحول سے ایک خاص انسیت محسوس کرتے تھے۔ وہ بہت گرمجوشی کے ساتھ یہاں کی ادبی محفلوں میں پابندی کے ساتھ شریک ہوتے اور خوب خوب پسند کیے جاتے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عرفان صدیقی بر صغیر کے ممتاز اور اہم غزل گو شاعروں میں سے ایک تھے۔ خوشگوار حیرت ان کے لہجے کی پہچان تھی جسے پختگی کی منزلوں سے گزارنے میں انھوں نے بہت محنت کی۔ جب ان کا اولین مجموعۂ کلام۔ ۔ ’’کینوس‘‘ شائع ہوا تبھی غزل کے شیدائیوں کو یہ اندازہ ہو گیا کہ غزل کے منظر نامے پر ایک منفرد اور توانا آواز ابھری ہے۔ ’’ شب درمیاں ‘‘ کی اشاعت سے اس خیال کو مزید تقویت ملی اور جب ’’ سات سماوات‘‘ منظر عام پر آیا تو عرفان صدیقی بحیثیت شاعر لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے لگے تھے۔ ’’ سات سماوات‘‘ میں ان کی شاعری کے مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم خود بھی تطہیر کے عمل سے گزرتے ہیں۔ ’ عشق نامہ‘‘ کے ذریعے عرفان صدیقی نے جذبۂ محبت کو معنویت کی متعدد جہتوں سے آشکار کیا ہے۔ آج نہ جانے کتنے ہی شعراء ان کی تقلید کے لیے مجبور ہیں اور اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ان کی شاعری، کلاسیکی شعور اور عصری حسیت کا خوبصورت امتزاج ہے۔

موجودہ عہد کی غزلوں کے ساتھ، غزل کے کلاسیکی سرمائے کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ لفظیات کی سطح پر دونوں عہد کی غزلوں میں نمایاں فرق ہے، لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ یہ فرق عرفان صدیقی کے یہاں ختم ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ فارسی تراکیب کے ساتھ ان کے اشعار میں فارسی حسیت سے وابستہ تلازمات ایک خاص لطف پیدا کرتے ہیں۔ ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے فارسی تراکیب اور نسبتاً مشکل الفاظ کو عام فہم الفاظ کے ساتھ اس خوبصورتی سے پرویا ہے کہ شاعری کی بھیڑ میں ان کی غزل دور سے ہی صاف پہچانی جاتی ہے۔ موجودہ عہد میں اس نوع کی انفرادیت گنے چنے لوگوں کے حصے میں آئی ہے۔ واقعاتِ کربلا اور داستانوی شعور کو عرفان صدیقی نے اپنی شاعری میں مختلف سطحوں پر پیش کیا ہے، لیکن غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ کربلا، ان کی شاعری میں صرف مذہبی حوالوں کے طور پر استعمال نہیں ہوتا، بلکہ اپنی تہذیب، ثقافت اور شاندار ماضی کے نوحے کے طور پر اجاگر ہوتا ہے۔ اسی طرح داستانی شعور، ان کی شاعری میں عصری تناظر اور حسیت کا ناگزیر حصہ بن جاتا ہے، جس کی بنا پر ان کی شاعری تہہ در تہہ گہرائیوں کو سمیٹتی چلی جاتی ہے اور مطالعے کے دوران ہماری فہم کا امتحان بھی لیتی ہے، جب تک ہم سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کے لیے مجبور نہیں ہوں گے، عرفان صدیقی کی شاعری کو بہتر طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ رجزیہ آہنگ ان کے اسلوب کو انفرادیت بخشتا ہے اور غزل کے قدرے محدود موضوعات کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کرتا ہے۔ وہ شعر کہنے کے دوران اپنی ذات کو بنیادی حوالہ بناتے ہیں۔ ان معنوں میں ان کی ذات، زندگی کے مخصوص نقطۂ نظر کا اشاریہ بن جاتی ہے۔

میرا یہ مختصر مضمون عرفان صدیقی کے تیسرے مجموعۂ کلام ’’سات سماوات‘‘ کے سات منتخب اشعار پر مبنی ہے۔ میرے نزدیک یہ اشعار قوسِ قزح کے سات رنگوں کے مماثل ہیں اور ہر رنگ اپنے آپ میں انوکھا ہے۔ یہ تو ایک الگ مسئلہ ہے کہ عرفان صدیقی کی شاعری کا مجموعی رنگ ان اشعار کے ذریعے سامنے آ پاتا ہے یا نہیں۔ لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ سا توں اشعار کے متن سے گزرتے ہوئے ممکنہ مفاہیم تک رسائی حاصل کی جائے۔ ’سات سماوات‘‘ کے ان اشعار میں جذبات و احساسات کی نیرنگیوں کو واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔ اشعار ملاحظہ فرمائیں :

اگر میں فرض نہ کر لوں کہ سن رہا ہے کوئی

تو پھر مرا سخنِ بے زباں کہاں جائے

شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے

شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا

ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسندِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

غبارِ شب کے پیچھے روشنی ہے لوگ کہتے ہیں

اگر یوں ہے تو یہ منظر دو بارہ دیکھتا ہوں میں

تو نے کیا سوچ کے اس شاخ پہ وارا تھا مجھے

دیکھ میں پیرہن برگ بدل کر آیا

وادیِ ہو میں پہنچتا ہوں بیک جست خیال

دشتِ افلاک میری وحشتِ جاں سے کم ہے

مثالیں تو اور بھی پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن فی الوقت میں انھیں سات رنگوں کے حوالے سے عرفان صدیقی کی دھنک رنگ شاعری کا مختصر جائزہ پیش کرنا چا ہوں گا۔

’’سات سماوات‘‘ کا پہلا رنگ شعر و سخن کے انفرادی کرب اور نا قدریِ فن کی اذیت کو ظاہر کرتا ہے۔ سخن کے بے نوا ہونے کا شدید احساس شاعر کے ذہن پر حاوی ہے، لیکن اس المیے کو اپنے وجدان اور شعور کا حصہ بنانا اسے کسی طرح منظور نہیں۔ اس کا فن بے زباں نہیں، لیکن نا قدریِ فن کے باعث اسے یہ گمان ہو رہا ہے کہ اس کے سخن میں پوشیدہ مخصوص نوعیت کی کشش، ترنم اور آہنگ کا جادو سرد پڑنے لگا ہے۔ چہار سمت، ناقدروں کا جشن انبوہ اور یہ منظر شاعر کو مضطرب کرنے کے لیے کافی ہے، لیکن اس کا اضطراب، ذہنی انتشار کی سرحدوں میں داخل نہیں ہوتا۔ ذہنی اذیتوں کے باوجود شاعر اپنے حواس مجتمع کرتا ہے اور یہ فرض کر لیتا ہے کہ اس کے سخن سے کوئی نہ کوئی لطف اندوز ضرور ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر وہ مخاطب تو اپنے سے ہے، لیکن تسکین قلب کے لیے تصور کے دامن میں پناہ لینا نہ صرف وہ گوارہ کرتا ہے، بلکہ ذہنی طور پر، اپنے آپ کو تلخ حقائق سے لمحاتی فرار کے لیے تیار بھی کر لیتا ہے۔ فن کے قدر شناسوں کا زوال اس شعر میں بڑی فنکاری کے ساتھ اجاگر ہوتا ہے اور بحیثیت قاری ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کے لیے مجبور بھی کرتا ہے۔

دوسرا رنگ داخلی اضطراب کے سہارے اپنے انفرادی وجود کا اعلانیہ ہے۔ یہ کسی بھی ایسے حساس شخص کا تجربہ ہو سکتا ہے جو زندگی کو اپنی شرطوں پر جینے کا خواہش مند ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں شاعرانہ تعلّی، خود کی شناخت کے مثبت پہلوؤں سے وابستہ دکھائی دیتی ہے۔ ان معنوں میں ان کا انفرادی احساس، قاری کو اپنا تجربہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ عرفان صدیقی، زندگی کے متعلق کوئی حتمی نظریہ پیش نہیں کرتے، بلکہ عمومی صورتِ حال کے متضاد رویوں کو اشاروں میں بیان کر دیتے ہیں اور بہت کچھ قاری کی صواب دید پر چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ شمع تنہا کی مناسبت، صبح کے تارے سے قائم کرتے ہیں اور پھر ان دونوں کے حوالے سے اپنی انفرادیت کا جواز پیش کرتے ہیں۔ اس مثال میں قدرت کی کاری گری یعنی تارے اور انسان کی مساعی، یعنی شمع، ایک ہی نقطے پر مرتکز دکھائی دیتی ہے، جس کے ذریعے شاعر نے اپنی ذات کی موجودگی کا جواز پیش کیا ہے۔ پہلے مصرعے میں شاعر نے انھیں استعاروں کو تکمیلِ ذات کے مثبت پہلوؤں سے وابستہ کیا ہے جس کی بنا پر اس کی شخصیت لاکھوں میں ایک دکھائی دیتی ہے۔ اس نوع کی فنکاری عرفان صدیقی کے اشعار میں جا بجا دکھائی دیتی ہے، جس کی ابتدا زندگی کے متضاد رویوں سے ہوتی ہے، لیکن اس کا اختتام معنویت کی مختلف جہتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

تیسرا رنگ ضمیر کی با معنی آواز سے عبارت ہے۔ سانحۂ کربلا کا پس منظر بھی اس شعر میں اجاگر ہوتا ہے۔ حساس شخص کا ضمیر ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور قدم قدم پر اپنی موجودگی کا ثبوت پیش کرنے میں بے حد فعال بھی دکھائی دیتا ہے۔ عرفان صدیقی نے تیسرے شعر میں اسی کیفیت کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مصرعۂ اولیٰ میں اپنی ذات کو وہ مٹی سے تعبیر کرتے ہیں، لیکن مصرعۂ ثانی میں اسی معمولی شے کو جب وہ رعب اور دبدبے کا متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں تو ان کے اظہار میں ایک انفرادی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ مٹی سے الجھنے کا نتیجہ، تلوار پر خاک ڈالنے کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ یہاں مٹی اور تلوار، بالترتیب سماج کے نچلے اور اعلیٰ طبقے، اور مظلوم و ظالم کا استعارہ ہے، اور شاعر نے باطل کے خلاف حق کا احتجاج ظاہر کیا ہے۔ خنجر کا خون میں تر بتر ہونا ہی قاتل کی سرخروئی کے لیے کافی نہیں۔ اس قسم کا حقیقی عنصر تو مظلوم کے دل میں خوف و دہشت کے فطری جذبے سے نمایاں ہوتا ہے، لیکن اگر حالات اس کے بر عکس ہیں تو قاتل کو گویا اپنے مقصد میں کامیابی نہیں مل پاتی۔ ویسے بھی حق و باطل کی معرکہ آرائیوں میں بالآخر شکست باطل کی ہی ہوتی ہے۔ عرفان صدیقی کے اس شعر میں مظلوم طبقے کا رعب، زندگی کے ایک نئے حوصلے کا اشاریہ ہے، جو کسی بھی طرح حالات کے جبر سے نجات چاہتا ہے۔

چوتھا رنگ، شاعر کے تیکھے اور بے باک لہجے کا غماز ہے جس کے تحت انا نیت کی متعدد جہتیں آشکار ہوتی ہیں، لیکن انانیت کے اس لہجے میں دوسروں کی تحقیر اور خود کی بے جا توقیر کا جذبہ کارفرما نہیں ہے۔ بلکہ ہر حال میں زندگی سے مسرت کا آخری قطرہ نچوڑنے کی خواہش زیریں لہروں کی طرح موجود ہے۔ سانحۂ کربلا کا پس منظر ذہن میں رکھتے ہوئے اس چوتھے شعر کی قرأت کریں تو محسوسات کے بعض اچھوتے پہلو بھی سامنے آتے ہیں، اور مسندِ خاک پر انفرادی شان کے ساتھ جلوہ افروز ہونے والے سلطان امام حسین کی صورت میں نمایاں ہوتا ہے۔ شعر میں متن پر غور کرنے کے بعد دوسرے مفہوم کی جانب بھی رسائی ہوتی ہے۔ کچھ نہ ملنے پر بھی شاعر، حالات کی ستم ظریفی کا شکوہ نہیں کرتا اور زندگی میں قدم قدم پر تشنگی کے باوجود طمانیت کے جذبوں سے سرشار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے اپنے اندر غضب کی توانائی اور قوت کا احساس ہوتا ہے جو زندگی کے محاذ پر نئے عزم کے ساتھ ڈٹے رہنے کی تحریک دیتا ہے۔ اپنی دیگر ترکیبوں کی طرح، عرفان صدیقی نے ’’مسندِ خاک‘‘ کی ترکیب غالباً اردو غزل میں پہلی مرتبہ استعمال کی ہے۔ یوں بھی ہر جینوئن شاعر، بنے بنائے راستوں پر نہیں چلتا اور ایسی ڈگر کا انتخاب کرتا ہے، جو کارواں کے نقوش سے محروم ہو۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مصرعے میں عرفان صدیقی نے اپنی یکتائی کا دعویٰ کیا ہے، جب کہ دوسرے مصرعے میں خود اپنی ذات کو خود کے مقابل پیش کرتے ہوئے اپنے دعوے کی تردید کی ہے، لیکن شعر کے متن پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ ایسا سوچنا مناسب نہیں۔ پہلے مصرعے میں شاعر اپنے آپ کو خود اپنی ذات میں شریک کرتا ہے اور دوسرے مصرعے میں اسی جواز کے ذریعے اپنی یکتائی ظاہر کرتا ہے۔ لہٰذا عرفان صدیقی کا یہ شعر، بہ یک وقت ان کے مزاج کی بور یا نشینی اور کج کلاہی دونوں کو نمایاں کرتا ہے۔

پانچواں رنگ، خود کے محاسبے سے متعلق ہے۔ عرفان صدیقی کے اس شعر میں ’’غبارِ شب‘‘ کی ترکیب کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اور پھر اس کی مناسبت سے روشنی کا بیان ہے۔ ’’غبار شب ‘‘ سے شاعر کی مراد رات کی گرد، دھول، رات کا رنج اور ملال کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ’’غبار شب‘‘ سے رات کی گرد اور دھول مراد لیتے ہیں تو ذہن، ستم کی سیاہ رات کی جانب مبذول ہو جاتا ہے اور پھر اس حوالے سے روشنی کا بیان، حالات کے جبر سے نجات کی با معنی کوشش کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اگر ’’غبار شب‘‘ کو رات کے دکھ، غصہ، غم اور افسوس سے تعبیر کیا جائے تو پھر روشنی کا ذکر ان کیفیات کو مختلف معنوں میں پیش کرتا ہے۔ اس تناظر میں شب کی سیاہی، حسی پیکر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر مذکورہ جذبات اس کی داخلی کیفیات کا حصہ بن جاتے ہیں اور روشنی ایک ہمراز کی طرح دکھ درد میں شریک ہوتے ہوئے زندگی کی تاریک را ہوں میں رہبری کے فرائض انجام دیتی ہے۔ عرفان صدیقی نے پہلے مصرعے میں لوگوں کی رائے کو مخصوص مفروضے کی بنیاد بنایا ہے، لیکن اس رائے میں لا شعوری طور پر ان کی اندرونی آواز بھی شامل ہے۔ یعنی دنیاوی رشتوں سے وہ پوری طرح لا تعلق نہیں ہیں اور ہر مرحلے میں وہ کھلی ہوئی آنکھوں سے اپنے اطراف کا جائزہ بھی لینا چاہتے ہیں۔ انسانی نفسیات کی پیچیدہ گرہوں کو کھولنے کی کوشش بھی شاعر کے عمل سے ظاہر ہو رہی ہے۔ غبار شب ہی کے پیچھے روشنی کی موجودگی سے چوں کہ امکانات کی متعدد شمعیں، ذہن و دل میں جگمگانے لگی ہیں، لہٰذا اپنا وسوسہ دور کرنے کے لیے وہ مضطرب دکھائی دینے لگا ہے۔ دوسرے مصرعے میں اس بات کا اشارہ موجود ہے کہ بصارت کے پہلے مرحلے میں خوفناک سیاہی کا سامنا ہو چکا ہے، لیکن لاشعوری طور پر چوں کہ وہ روشنی کی فتح کا خواہش مند ہے، لہٰذا فطری طور پر وہ اپنی بصارت کا محاسبہ کرنا چاہتا ہے اور اسی بنا پر دیکھے ہوئے منظر کو دوبارہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات زندگی کے نظریے میں تھوڑی سی تبدیلی ہماری سوچ اور فکر کے دائرے میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے اور زندگی کو ہم نئے سیاق و سباق میں دیکھنے لگتے ہیں، جو کہ ایک مثبت رویہ ہے۔ شعر میں اس نکتے کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔

چھٹا رنگ، احتجاج اور مزاحمت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی اس رویے کے خلاف سخت آواز بلند کرتے ہیں جو انسان سے اس کے جینے کا بنیادی حق چھیننا چاہتی ہے۔ سرجھکا کر ظلم اور نا انصافی کو برداشت کرنا انھیں کسی طرح قبول نہیں۔ ان کا لہو قاتل کے سینے میں نمو کرنے کو بے تاب دکھائی دیتا ہے۔ ان کے اندر بغاوت کا چشمہ پتھروں سے ابلنا چاہتا ہے۔ اس شعر کا خالق ہر حال میں حزن و ہزیمت کے اندھیروں سے پناہ اور کسی بھی طرح اپنے ہاتھوں میں لفظ کا نیزہ روشن رکھنا چاہتا ہے۔ قدم قدم پر دنیا آغوشِ ہوس کو کشادہ رکھتی ہے، لیکن وہ اس حلقۂ کوتاہ میں شامل ہونا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔ عرفان صدیقی، مصلحت کے تمام تر تقاضوں سے بالا تر دکھائی دیتے ہیں۔ اس شعر میں تخلیق کار کا ضمیر اپنے مہربان سے یہ سوال کرنے میں نہیں جھجکتا کہ آخر کس بنا پر اسے مخصوص شاخ سے وابستہ کیا گیا تھا۔ استفسار کے اس رویے میں بالواسطہ طور پر کسی دوسری شاخ سے وابستگی کا تصور پوشیدہ ہے جس کی تکمیل نہ ہونے پر وہ اپنا احتجاج پیرہن برگ بدل کر ظاہر کرتا ہے۔ مخصوص شاخ سے وابستگی کے باوجود پتوں کی پوشاک تبدیل کرنے کا بیان پورے نظام سے بغاوت کا اشاریہ ہے جسے عرفان صدیقی نے غزل کے آہنگ میں فنکاری کے ساتھ برتا ہے۔

سات سماوات کا سا تواں اور آخری رنگ جنوں کی جلوہ سامانیوں اور نیرنگیوں کو گویائی عطا کرتا ہے۔ عرفان صدیقی نے اس شعر میں ’’وادیِ ہو‘‘ کی انوکھی ترکیب استعمال کی ہے۔ اس کے علاوہ دشتِ افلاک اور وحشتِ جاں کے تلازمے ان کے انفرادی تجربے کو وسعت بخش رہے ہیں۔ عرفان صدیقی نے اس شعر میں ’’وادیِ ہو‘‘ کی ترکیب کو لغوی مفاہیم کے بجائے کنایے کے طور پر برتا ہے اور ان معنوں میں ’’وادیِ ہو‘‘ سے خوف اور ڈر کی گزرگاہ کا گمان گزرتا ہے۔ دشتِ افلاک سے شاعر نے آسمان کا صحرا یا جنگل مراد لیا ہے، جب کہ وحشتِ جاں وجود کی دیوانگی اور گھبراہٹ سے عبارت ہے۔ شاعر، دشتِ افلاک کو اپنی وحشتِ جاں سے کم گردانتا ہے جس کی بنا پر اسے وادیِ ہو میں پہنچ کر ہی سکون حاصل ہوتا ہے۔ شعر کے متن پر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ شدتِ تاثیر کے لیے ’’وادیِ ہو‘‘ کے علاوہ کوئی اور ترکیب کارگر ثابت نہیں ہو پاتی، کیوں کہ ویسی صورت میں وحشتِ جاں کی شدت کا صحیح اندازہ ممکن نہ تھا۔ دشتِ افلاک کا سلسلہ بھی لامتناہی ہوتا ہے، لیکن شاعر نے یہاں دشتِ افلاک کے مقابلے میں ’وادیِ ہو‘‘ کو زیادہ وسیع تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وادیِ ہو‘‘ تک رسائی، خیال کی صرف ایک جست سے ہی ہو جاتی ہے، جو وحشتِ جاں کے لیے گوشۂ عافیت ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری میں وحشت کی متعدد جہتیں دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن اس شعر میں وحشت کی نیرنگیاں عروج پر دکھائی دیتی ہیں۔

’’سات سماوات‘‘ کے مندرجہ بالا سات رنگوں میں زندگی، اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ موجودہ صورتِ حال سے ہم آہنگ دکھائی دیتی ہے۔ تقریباً ہر شعر میں عرفان صدیقی نے قابلِ ذکر شعری ترکیبوں کو برتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ان تراکیب میں کلاسیکی شعریات کا شعور پورے دبدبے کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے، جن سے عصری حسیت نئے تناظر میں جلوہ کشا ہوتی ہے اور آگہی کے منظر نامے روشن ہونے لگتے ہیں۔

عرفان صدیقی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں، لیکن ان کی شاعری ہمیشہ ہی احساسات کو جھنجھوڑتی رہے گی۔ انھوں نے موجودہ عہد میں غزل کو اس کا کھویا ہوا وقار عطا کیا۔ اپنی قلندرانہ شان، تمکنت اور شانِ بے نیازی کے باعث زندگی کو قدرے مختلف زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی غزلوں کے ذریعے مروجہ مفاہیم کی توسیع کا کارنامہ بہت خوبصورتی کے ساتھ انجام دیا۔ اپنے بے باک لہجے اور اچھوتے خیالات کی بنا پر انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راہ نکالی، جس کی بنا پر انھیں نئے کلاسک کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔

(2004)

٭٭٭

 

 

 

 

 ’’ ہوائے دشت ماریہ ‘‘کی چند مذہبی تلمیحات

 

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید علیم اشرف جائسی (حیدر آباد)

 

میرا موضوع ہے عرفان صدیقی کے مجموعہ کلام۔ ۔ ’’ہوائے دشت ماریہ کی چند مذہبی تلمیحات‘‘ مذہبی کی قید محض اتفاقی ہے کیونکہ یہ مجموعہ اپنے موضوع، مواد اور پیشکش کے اعتبار سے غیر مذہبی تلمیحات کے لئے زیادہ گنجائش نہیں رکھتا ہے۔

عرفان صدیقی کو شاعری کے ساتھ ساتھ محبت رسول و آل رسول بھی وراثت میں ملی۔ ولائے اہل بیت ان کی گھٹی کے اجزائے ترکیبی کا حصہ تھا۔ مارہرہ کے روحانی فیضان سے معمور و مخمور اور بدایوں کی علمی و ادبی فضا نے عرفان کے نخل حب و ولا کو مزید سر سبز و شاداب کیا۔ وہ اپنے گھر اور ماحول کے اخلاق و اقدار کے وارث ہی نہیں تھے بلکہ اس کے امین و محافظ بھی تھے اور معلم و ناشر بھی۔ ان کی شاعری کا حسن و کمال اس کے موضوعات کے بجائے ان کی پیش کش میں پوشیدہ ہے اور ان کے لئے استعمال کی جانے والی مہذب زبان اور پر شکوہ لہجے میں پوشیدہ ہے جسے سنتے ہی بقول شخصے کسی متاع گم گشتہ کی بازیابی کا احساس ہوتا ہے۔

زیر نظر مجموعہ ’’ ہوائے دشت ماریہ ‘‘ ( ۱) نہ صرف اسلامی تہذیب و ثقافت سے شاعر کی گہری شناسائی کی دلیل ہے بلکہ زبان و بیان پر بھی شاعر کے غیر معمولی قدرت و تصرف کا آئینہ دار ہے۔ اس میں استعمال شدہ خوبصورت تشبیہات معنی آفرین استعارے اور کثیر الابعاد تلمیحات کے ساتھ ساتھ لفظوں کا شوکت و جلال اور معانی کی گہرائی و گیرائی عربی شاعری کا مزا دیتے ہیں۔

عربی زبان کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں یہاں اصل موضوع کو شروع کرنے سے پہلے اس سے راست طور پر کم متعلق لیکن بے حد اہم امور کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔

نجم الغنی رامپوری نے صنعت تلمیح کا بیان کرتے ہوئے ضمناً یہ بھی لکھا ہے کہ عرب اس صنعت کو سرقات شعر یہ میں شمار کرتے ہیں اور اسے علم بدیع کی ایک معنوی صنعت کے طور پر نہیں جانتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے عربی علمائے بلاغت جیسے صاحب تلخیص المفتاح خطیب قزوینی 739ھ اور صاحب مختصر المعانی علامہ تفتازانی متوفی 791ھ وغیرہ کی تنقید بھی کی ہے۔ (۲) نجم الغنی صاحب کے اس بیان کا یہ اثر ہوا کہ مشہور ہو گیا کہ یہ صنعت فارسی سے اردو میں آئی ہے (۳) اور عربی میں موجود نہیں ہے۔ جبکہ یہ بات بالکل خلاف واقعہ ہے یہ صنعت نہ صرف عربی میں بلکہ دنیا کی ہر زبان میں پائی جاتی ہے اور ہمیشہ پائی گئی ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ کسی زبان میں اسے بطور صنعت نہ جانا جاتا ہو یا اس کے لئے کوئی مستعمل اصطلاح نہ ہو۔ مثلاً عربی میں آٹھویں صدی ہجری تک تلمیح کو بطور صنعت نہیں جانا جاتا تھا لیکن نویں صدی ہجری کے آغاز میں ہی جب سید شریف جرجانی متوفی 816ھ نے جب اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ التعریفات‘‘ تصنیف کی تو صنعت تلمیح کا اس میں ذکر کیا ہے۔ ( ۴) اور اس وقت سے لے کربیسویں صدی عیسوی میں لکھی جانے والی سید محمود ہاشمی کی کتاب جواہر البلاغۃتک ہر کتاب میں تلمیح کا بطور صنعت ذکر ہے۔ در اصل رامپوری صاحب کو یہ غلط فہمی بلاغت کی ان قدیم عربی کتابوں پر اعتماد کرنے کے سبب ہوئی جن میں یہ صنعت کو کجا خود علم بدیع بھی ذکر نہیں۔ اس وقت تک صرف بیان اور معانی ہی بلاغت کے علوم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ( ۵)

عربی میں اس لفظ کا لغوی معنی ہے۔ ’’ ابصار الشیِ بنظر خفیف‘‘ یا ’’ اختلاس النظر الی شئی ‘‘ ( ۶) غیاث اللغہ کے مطابق فارسی میں اس کا معنی ہے۔ نگاہ سبک کر دن بچیزے ، اقرب الموارد کے مطابق اس کا معنی ہے۔ اشارہ کر دن بچیزے ، بعض لغت کے مطابق بگوشہ چشم اشارہ کر دن۔ اور یہ سب معنی آپس میں قریب اورایک ہی فلک میں گردش کر رہے ہیں۔

لفظ تلمیح کے لغوی معنی کی طرح اس کا اصطلاحی معنی بھی عربی فارسی اور اردو میں تقریباً ایک ہی ہے۔ قزوینی کے تلخیص المفتاح میں تلمیح کی تعریف یوں کی ہے۔ ’’ واما التلمیح فھو ان یشار الی قصہ أو شعر من غیر ذکرہ ‘‘ یعنی کسی قصے یاشعر کے ذکر کے بغیر اس کی طرف اشارہ کرنے کو تلمیح کہتے ہیں۔ بعینہ یہی تعریف سید شریف جرجانی نے بھی کی ہے۔ تفتازانی نے قصہ اور شعر کے ساتھ ضرب المثل کا اضافہ کیا ہے۔ معاصر ادیب ڈاکٹر رامیل بدیع یعقوب نے تفتازانی کی تعریف کی ہے البتہ اسے معنوی صنعت کی حیثیت سے ذکر کیا ہے۔ ( ۷) شمس الدین فقیر حدائق البلاغت میں لکھتے ہیں کہ ’’ کلام شعر باشد برواقعہ از وقائع مشہورہ یا اشارت نمایند بر چیزے کہ در کتب متداولہ مذکور یا نزد ارباب صنعتے از صناعت مشہور باشد‘‘ (۸) فارسی ویکی پیڈیا ( دانشنامہ آزاد) میں ہے کہ ’’ از جملہ صنائع معنوی بدیع است کہ دارن نویسندہ یا گویندہ در ضمن نوشتاریاگفتار خودش بہ آیہ، حدیث، داستان، یا مثل معروفی اشارہ داشتہ باشد‘‘ ( ۹) نجم الغنی رامپوری تلمیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’شاعر اپنے کلام میں کسی مسئلہ مشہور یا کسی قصے یا مثل شائع یا اصطلاح نجوم کو یا کسی ایسی بات کی طرف اشارہ کرے جس کے بغیر معلوم ہوئے اور بے سمجھے اس کلام کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں نہ آئے۔ ‘‘ ( ۱۔ ) معاصرین میں ابو الفیض سحر نے ان الفاظ میں تلمیح کی تعریف کی ہے۔ ’’ کسی مشہور تاریخی واقعے ، قصے یا مسئلے کی طرف اشارہ کرنا‘‘ ( ۱۱)

ان تعریفات کا تجزیہ کرنے پر چند اہم امور سامنے آتے ہیں ، عربی میں تلمیح صرف قصہ ، شعر اور مثل تک محدود تھی لیکن فارسی اردو میں اس میں غیر معمولی وسعت پیدا ہو گئی جب کہ اس صنعت کی حقیقت ماہیت پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تلمیح کے لئے داستان قصے یا واقعے کا ہونا ضروری ہے ، البتہ قصہ کا تاریخی ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ اساطیری ، دیومالائی یا فرضی بھی ہو سکتا ہے۔ یونہی اگر کوئی مثل ، اصطلاح ، شعر آیت یا حدیث اپنے پس منظر میں کوئی واقعہ رکھتے ہیں تو ان کے ذریعے بھی تلمیح ہو سکتی ہے۔ لہٰذا ہر وہ ادب پارہ جس میں کوئی اصطلاح آیت یا حدیث وارد ہو وہ ضروری نہیں کہ تلمیحی ہو۔

علاوہ ازیں تلمیح کا لغوی معنی ہو یا اصطلاحی معنی ہو سب کا اتفاق ہے کہ تلمیح اشارے کا نام ہے اور تصریح اور وضاحت کی ضد ہے ، لہٰذا اگر کسی ادب پارے میں کوئی واقعہ صراحت سے مذکور ہو تو اسے تلمیح نہیں کہیں گے۔ اردو بلاغت اور ادب کی کتابوں میں ایسی بہت سی مثالیں در آئی ہیں جو حقیقتاً تلمیح نہیں ہے۔ مثلاً نجم الغنی نے اس شعر کو تلمیح کے طور پر پیش کیا ہے ،

اس کی مدد سے فوج ابابیل نے کیا

لشکر تباہ کعبے پہ اصحاب فیل کا ( ۱۲)

یہاں نہ لغۃ ً تلمیح ہے نہ اصطلاحاً بلکہ صراحت کے ساتھ پورا واقعہ موجود ہے لہٰذا یہ بیان واقعہ ہے تلمیح نہیں ہے۔ یونہی نجم الغنی نے نجوم و طب کے اصطلاحات کی جو مثالیں دی ہیں ان میں سے بھی کئی تلمیح بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ ( ۱۳)

تلمیح کا استعمال نظم و نثر دونوں میں ہو سکتا ہے لہٰذا شمس الدین فقیر اور نجم الغنی خان وغیرہ کا اسے شعر کے ساتھ مقید کرنا درست نہیں ہے۔

یہاں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ ہو جائے کہ جس لفظ یا جن الفاظ سے تلمیح کی جاتی ہے خود ان پر تلمیح کا اطلاق درست نہیں ہے بلکہ وہ وسائل تلمیح ہیں لہٰذا پروفیسر شمیم حنفی صاحب کا ایک مقالہ میں اور محمود نیازی کا اپنی کتاب ’’ تلمیحات غالب ‘‘ میں لفظ اور الفاظ کو تلمیح قرار دینا میری ناقص رائے میں درست نہیں ہے الا یہ کہ یہ اطلاق محض تفہیم اور تقریب ذہن کے لئے ہو۔ ( ۱۴)

تلمیح کی بلاغی اہمیت و افادیت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ یہ ایک اہم معنوی صنعت ہے۔ دنیا کی ہر زبان میں داستان اور حکایتیں ہوتی ہیں جن میں سے کچھ اس طرح زبان زد خاص و عام ہو جاتی ہیں کہ ایک معمولی سا اشارہ بھی قاری اور سامع کے ذہن کو ان کی طرف منتقل کر دیتا ہے۔ تلمیحات سے کلام میں ایجاز و اختصار پیدا ہوتا ہے اور اس کی اثر انگیزی اور معنی آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کے ذریعہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی کی ترسیل ہو سکتی ہے۔ تلمیح کا استعمال شاعری پر قدرت اور تاریخ و تہذیب کی معرفت کی دلیل ہے۔ اورکسی بھی زبان میں تلمیحات کی کثرت اس کے مذہبی ، تاریخ اور تہذیبی طور پر متمول اور غنی ہونے کی علامت ہوتی ہے۔

عرفان صدیقی کے مجموعہ کلام ہوائے دشت ماریہ کا بنیادی و محوری موضوع مدح اہل بیت ہے لیکن کسی عام مدح خواں یا ثنا گر کی طرح نہیں بلکہ ایسے تخلیقی استعارات کی صورت میں جن میں فکر و معنی کا ایک جہاں پوشدہ ہے۔ عرفان کی مدح سرائی ایسی مدح سرائی ہے جس کا مقصد ممدوح کے مصائب پر نوحہ گری کے بجائے اس کی عظمت و آفاقیت کا اثبات ہو۔ ایسی مدح سرائی جو ماضی میں گم رکھنے کے بجائے بہتر مستقبل کی تشکیل میں معاون ہو۔ ایسی مدح سرائی جو بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ ماضی پرستی کے بجائے ماضی کی باز آفرینی کی کوشش سے عبارت ہے۔ ( ۱۵) اہل بیت کے لئے ان کی مدح سرائی کسی مادی منفعت کا ذریعہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کے اس ولا و محبت کا تقاضہ ہے جسے وہ دین سمجھتے ہیں اور اپنے عقیدے کی ضرورت مانتے ہیں اور ایک حقیقی و الہ و شیدا کی طرح اپنی محبت و ولا کو اس خدا کا عطیہ اور فضل سمجھتے ہیں جو ہر شئی پر قادر ہے۔

دل میں مرے یہ جوش ولا ہے خدا کی دین

حیرت نہ کر صدف میں سمندر کو دیکھ کر

اور ان کی یہ محبت کوئی عارضی و وقتی چیز نہیں ہے بلکہ :

گھٹی میں ہے ولا کا وہ نشہ پڑا ہوا

ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا

ظاہر ہے کہ جو نشہ گھٹی میں ملا ہو وہ بھلا کب اتر سکتا ہے۔

عرفان صدیقی نے لفظ ولا اور اس کے دوسرے مشتقات جیسے مولا اور ولایت وغیرہ کو تلمیح کے لئے استعمال کیا ہے اور اس تلمیح کی غرض سے ہی انہوں نے اپنے اس محبت نامے میں لفظ محبت کے بجائے ولا کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ یہ لفظ ایک طرف تو محبت سے زیادہ وسیع و عمیق معنی پر مشتمل ہے اور دوسرے تلمیح کا افادہ بھی کرتا ہے۔ ایسی تلمیح جو ان کی محبت علی کا باعث بھی ہے اور اس کی دلیل بھی۔

طلسم شب میری آنکھوں کا دشمن تھا سو مولا نے

لہو میں اک چراغ اسم اعظم رکھ دیا دیکھو

مولا صراط روز جزا سے گزر ہی جائے

کہتا ہوا یہ تیرا ثنا گر علی علی

ہاں اہل زر کے پاس خزانے تو ہیں بہت

مولا کا یہ فقیر ضرورت کہاں سے لائے

ان تمام اشعار میں غدیر خم کے واقعے کی جانب تلمیح ہے امام مسلم، و نسائی زید ابن ارقم سے روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو غدیر خم کے پاس نزول فرمایا۔ اور وہاں آپ نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ان اللہ مولای وانا ولی کل مومن‘‘ ثم أخذ بید علی رضی اللہ عنہ فقال: من کنت ولیہ فھذا ولیہ اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ ‘‘ (۱۶) اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : میں جس کا مولا ہوں یہ بھی اس کا مولی ہے۔ اے اللہ جو علی سے محبت و ولا رکھے تو بھی اس سے محبت و ولا رکھ اور جو علی سے عداوت کرے تو بھی اس سے عداوت فرما۔ اس حدیث کو امام احمد اور امام ترمذی نے بھی روایت کیا ہے۔ ( ۱۷) اور امام نسائی نے اپنی کتاب ’’ خصائص امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ‘‘ میں دس سے زائد مختلف طرق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان روایت کیا ہے کہ ’’ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ ‘‘ ( ۱۸) میں جس کا مولا ہوں علی اس کے مولا ہیں ) احسن جائسی فرماتے ہیں۔

عبث در معنی من کنت مولا می روی ہر سو

علی مولی بایں معنی کہ پیغمبر بود مولی

عرفان صدیقی نے شعوری طور پر محبت اور محبوب کے بجائے ولا اور مولی کا استعمال کیا ہے کیونکہ یہ مادہ قربت اور مودت کے لئے بھی آتا ہے۔ عرفان صدیقی کی یہ مولائیت کتاب و سنت کے ان کے عرفان کا نتیجہ ہے۔ ارشاد الٰہیٰ ہے۔ ’’ قل لا أسئلم علیہ اجراً الا المودۃ فی القربی‘‘ ( ۱۹) ( کہہ دیجئے کہ میں تم سے اجر رسالت نہیں چاہتا ہوں سوا اس کے کہ میرے قرابت داروں سے محبت کرو)، اور اس ضمن میں وارد بے شمار صحیح احادیث میں سے صرف ایک کا متن پیش کر رہا ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ احبوا اللہ لما یغذوکم من نعمہ و أحبونی لحب اللہ و احبوا اہل بیتی لحبی‘‘ ( ۲۔ ) (اللہ سے محبت کروکہ وہ اپنی نعمتوں میں سے تمہیں کھلاتا ہے۔ اور اللہ کی محبت کے سبب مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے سبب میری اہل بیت سے محبت کرو )

عرفان صدیقی ان نفوس قدسیہ کو رب العزت کا انتخاب سمجھتے ہیں لہٰذا انہیں لا ثانی و بے نظیر قرار دیتے ہیں۔

سب دین ہے خدا کی سو ہر دودمان شوق

چادر کہاں سے لائے ولایت کہاں سے لائے

اس خوبصورت شعر میں واقعہ کسا کی جانب تلمیح ہے۔ امام احمد اور امام ترمذی نے حضرت ام سلمی رضی اللہ عنہا سے تخریج کیا ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو ’’ أدار النبی صلی اللہ علیہ سلم کساۂ علی علی و فاطمۃ و الحسن و الحسین ، فقال اللھم ھولاء اہل بیتی فاذھب عنہم الرجس و طھر ھم تطہیر اً‘‘ ( ۲۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی چادر کو حضرت علی سیدہ فاطمہ اور امام حسن و حسین پر ڈالا اور دعا کہ اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دور فرما اور انہیں خوب پاک کر دے اس واقعہ اور حدیث کو ذہن میں رکھیں اور پھر اس شعر کو ملاحظہ فرمائیں۔

سب دین ہے خدا کی سو ہر دودمان شوق

چادر کہاں سے لائے ولایت کہاں سے لائے

اور اگر ان کی صدیقی نسبت کو پیش نظر رکھیں تو یہ شعر قند مکر ر کا مزا دے گا۔

رجعت شمس کے واقعے کو اکثر شعرا نے نظم کیا ہے خواہ تلمیح کے طور پر خواہ بیان واقعہ کے طور پر لیکن عرفان صدیقی نے ماضی کے اس واقعہ کو حال سے مربوط کر کے ایک عجب ندرت پیدا کر دی ہے۔

وہی ہیں مرجع لفظ و بیاں علی سے کہو

 

جو دل میں ہے وہ دل آزردگاں علی سے کہو

بدل چکا ہے یہی آفتاب سمت سفر

 

سو حال گردش سیارگاں علی سے کہو

گردش سیارگاں کا شکوہ باعث رجعت شمس سے کرنے کا تصور کتنا لطیف ہے یہ اہل زبان سے پوشیدہ نہیں ہے۔ رجعت شمس کا یہ واقعہ فضائل و مناقب علی کی اکثر کتابوں میں موجود ہے جس کے اعادے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ابن کثیر الدمشقی 774ھ1373ء نے البدایہ و النہایہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ (۲۲) اس کا مطلع بھی ایک عالمانہ تلمیح پر مشتمل ہے اگر یہ شعر عرفان صدیقی کا نہ ہوتا تو شاید ’’ مرجع لفظ و بیاں ‘‘ کو ایک شاعرانہ تعبیر سے زیادہ نہ سمجھتا لیکن عرفان صدیقی صرف ایک شاعر نہیں تھے بلکہ اسلامی تاریخ و ثقافت کے باب میں ایک عالمانہ شان بھی رکھتے ہیں لہٰذا یہاں کسی کا سرسری طور پر گزرنا ممکن نہیں ہے۔ حضرت علی لفظ قرآن کے مبلغ بھی تھے اور اس کے معنی کے مفسر و مؤدل بھی تھے یعنی انہیں قرآن کے لفظ و معنی دونوں کی مرجعیت حاصل تھی اور یہ صرف خوش عقیدگی نہیں بلکہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کی ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی مجلس میں تشریف لائے اور آپ کی نعل شریف کا پٹہ ٹوٹا ہوا تھا آپ نے اسے مرمت کے لئے حضرت علی کی طرف بڑھا دیا۔ اور فرمایا ’’ ان منکم رجلا یقاتل الناس علی تاویل القرآن کما قاتلتہم علی تنزیلہ، (تم میں سے ایک ایسا شخص ہے جو قرآن کی تاویل اور اس کے معنی کی تعیین کے لئے لوگوں سے اس طرح قتال کرے گا جس طرح مجھے اس کے نزول پر لوگوں سے کرنا پڑا) یہ سن کر ایک صحابی کھڑے ہوئے اور کہا: کیا یہ وہ شخص میں ہوں گا آپ نے فرمایا نہیں ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور عرض کیا کیا وہ شخص میں ہو گا؟ آپ نے فرمایا نہیں ’’ بل انہ خاصف النعل‘‘ ( ۲۳) ( بلکہ وہ میرے جوتے کی مرمت کرنے والا ہے ) یہ روایت بدر سے لے کر نہروان تک کی پوری تاریخ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔

علی کی مرجعیت لفظ و بیان میں سورہ برأت کے نزول اور اسے مکہ روانہ کرنے کی طرف بھی تلمیح ہو سکتی ہے جس کے لئے رسول خدا نے بحکم خدا شیر خدا کا انتخاب کیا تھا اور فرمایا تھا۔ ’’ علی منی و انا منہ فلا یودی عنی الا انا و علی‘‘ (۲۴) ( علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں اور میں یا علی ہی اس ذمہ داری سے عہدہ بر آہو سکتے ہیں )۔ در المنثور کی ایک روایت ہے کہ حضرت علی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کسی سے بھی قرآن کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جب کہ صحابہ میں سے تقریباً سبھی نے ان سے قرآن کے بارے میں سوال کیا ہے۔ کبھی قرآنی لفظ کی توضیح کے بارے میں سوال کیا گیا کبھی اس کے معنی کی تشریح کے بارے میں پوچھا گیا۔ ع

وہی ہیں مرجع لفظ و بیاں علی سے کہو

فاتح خیبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک ایسا لقب ہے جو اپنی شہرت و قبولیت کے اعتبار سے ان کا علم بن چکا ہے۔ لیکن اس سے اس کی تلمیحی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ لفظ ’’ فاتح خیبر ‘‘ سنتے ہی ذہن میں اس شب انتظار کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جس میں ہر صحابی اپنی آنکھوں میں یہ خواب سجائے نیم خوابیدگی اور نیم بیداری میں رات گزار رہا تھا کہ شاید اسے ہی علم فتح و ظفر ملنے کی سرخروئی حاصل ہو۔ امام بخاری ، امام مسلم اور امام احمد نے تخریج کیا ہے کہ معرکہ خیبر سے ایک شب پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ لأعطین ھذہ الرایۃ غدا رجلا یفتح اللہ علیہ ،یحب اللہ و رسولہ و یحبہ اللہ و رسولہ ‘‘( ۲۵) ( میں کل یہ علم اس شخص کو دوں گا جس کو اللہ فتح و نصرت عطا فرمائے گا جو اللہ و رسول سے محبت کرتا ہے اور جس سے اللہ و رسول بھی محبت فرماتے ہیں )۔ دوسرے دن حضرت علی کو علم دیا گیا اور آپ نے خیبر فتح فرمایا۔

یہ سب ولائے فاتح خبیر کا فیض ہے

ہم سر جھکا کے صاحب افسر بھی ہو گئے

پابستگان پہ بام و درشمس جہات کھول

اے باب علم فاتح خیبر علی علی

جن حضرات   کے نزدیک کسی واقعے سے خالی آیات و احادیث کی طرف بھی تلمیح ہو سکتی ہے۔ ان کے نزدیک باب علم ایک خوبصورت تلمیحی استعار ہو گا، اس کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس مشہور قول کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود کو شہر علم اور علی کو اس کا دروازہ قرار دیا ہے اور حکم دیا ہے کہ جو مدینہ آنا چاہتا ہے وہ دروازے کے ذریعہ اس تک پہنچے۔ جلال الدین سیوطی نے حضرت ابن عباس سے تخریج کی ہے کہ ’’ انا مدینۃ العلم و علی بابھا فمن أرادہ المدینۃ فلیاتہا من بابہا‘‘ ( ۲۶) یہی وجہ ہے کہ تمام اولیاء اللہ نے شہر علم تک پہنچنے کے لئے باب علم کا ہی راستہ اپنایا چنانچہ تصوف کے تمام سلسلے حضرت علی سے ہو کر ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تک پہنچتے ہیں۔ بقول عرفان

مردان حر کا قافلہ سالار کون ہے

خاصان رب کا کون ہے رہبر علی علی

اس منقبت کا مطلع بھی کئی تلمیحات پر مشتمل ہے۔

شان خدا روان پیمبر علی علی

حق کا ولی نبی کا برادر علی علی

روان پیغمبر یانفس پیمبر میں واقعہ مباھلہ کی طرف تلمیح ہے۔ آیت مباھلہ میں بزبان نبی علی کو۔ (انفسنا )میں شامل کیا گیا ہے یعنی اس آیت میں علی کو نفس نبی قرار د یا گیا ہے۔ امام نسائی خصائص میں یہ روایت نقل کرتے ہیں۔ ’’ لینتہین بنو ربیعۃ اولا بعثن علیہم رجلا کنفسی ینفذ فہیم امری‘‘ ( ۲۷)۔ ۔ (بنو ربیعہ باز آ جائیں ورنہ میں ان کے خلاف ایک ایسے شخص کو روانہ کروں گا جو میرے اپنے نفس جیسا ہے )، یعنی حضرت علی۔ ’’ نبی کا برادر‘‘ میں بھی واقعہ مواخاۃ کی تلمیح ہے۔ محض نسبی اخوت کا ذکر عرفان جیسے شاعر کے شایان شان نہیں۔ امام ترمذی نے اپنی سنن میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ کے درمیان اخوت و بھائی چارگی قائم فرمایا اور ہر ایک کو کسی کا بھائی ٹھہرایا تو حضرت علی اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے اپنے تمام صحابہ کے درمیان مواخاۃ فرمایا، لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ’’ انت اخی فی الدنیا و الآخرہ‘‘ ( ۲۸) (تم تو دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو)۔ اس واقعے کو سننے کے بعد ایک بار پھر اس شعر کی قرأت کریں۔

شان خدا روان پیمبر علی علی

حق کا ولی نبی کا برادر علی علی

شہ مرداں حضرت علی کا مشہور لقب ہے جسے سنتے ہی ان کی شجاعت و بہادری کے قصے ذہن میں اُبھرنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ مقولہ ’’لا فتی الا علی لا سیف الا ذو الفقار‘‘ ہر مسلمان کا ورد زبان ہے۔ صاحب روح البیان نے لکھا ہے کہ جب جنگ خندق میں حضرت علی نے عمرو بن ود کو قتل کر کے تکبیر بلند کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ مقولہ ارشاد فرمایا ( ۲۹) عرفان صدیقی لکھتے ہیں۔

شہ مرداں کے در کی گوشہ گیری کا تصدق ہے

کہ میں نے توڑ کر یہ حلقہ رم رکھ دیا دیکھو

نافذ ہوا وہی شہ مرداں کا فیصلہ

دشمن کے دستخط سہ محضر بھی ہو گئے

ہوائے دشت ماریہ کی مذہبی تلمیحات میں جن الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے ان میں حضرت علی کی کنیت بو تراب(مٹی کے باپ، گرد آلودہ) سر فہرست ہے۔ اس تلمیحی لفظ کو عرفان نے نہایت خوبصورت اور معنی خیز شعروں میں نظم کیا ہے۔ ابو تراب صرف حضرت علی کی کنیت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے وجود پذیر ہونے کے پس پشت ایک انتہائی سادہ لیکن دلنشین واقعہ ہے۔ امام مسلم اپنی صحیح میں حضرت سہل سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی کو اپنے ناموں میں سے ابو تراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہیں تھا اگر کوئی آپ کو اس نام سے پکارتا تو بہت خوش ہوتے تھے۔ وجہ تسمیہ اس کی یہ ہے کہ ایک بار اللہ کے رسول حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لائے اور حضرت علی کے بارے میں سوال کیا تو حضرت فاطمہ نے بتایا کہ وہ کسی بات پر نا خوش ہو کر باہر نکل گئے ہیں اللہ کے رسول انہیں تلاش کرتے ہوئے مسجد آئے تو دیکھا کہ وہ مسجد کے ننگے فرش پر اس طرح سور رہے ہیں کہ ان کی پشت پر غبار کا اثر آ گیا ہے۔ اللہ کے رسول ان کے قریب آ کر بیٹھے اور ان کے جسم سے غبار جھاڑتے ہوئے بڑی شفقت و محبت سے فرمانے لگے۔ ’’ قم یا ابا تراب، قم یا ابا تراب‘‘ (۳۔ ) ( اے ابو تراب اٹھیے ، اے ابو تراب اٹھیے ) اس حکایت کے بعد عرفان صدیقی کو سنیے۔

سرمہ ہے جب سے خاک در بو تراب کی

آنکھوں میں ہے قبالہ منظر لکھا ہوا

سنا ہے گرد راہ بو تراب آنے کو ہے سرپر

سو میں نے خاک پر تاج کئے و جم رکھ دیا دیکھو

عرفان صدیقی نے ثنائے علی میں ذو الفقار اور مشکل کشا وغیرہ کا استعمال کیا ہے۔ زبان کے عام رویے کے مطابق یہ سب تلمیحی اشعار ہیں۔

باطل تمام حق سے الگ ہوکے جا پڑا

کیا دست ذو الفقار تھا سچا پڑا ہوا

کھلا آشفتہ جانوں پر علم مشکل کشائی کا

ہوائے ظلم نے پیروں پہ پرچم رکھ دیا دیکھو

نصرت کی ہو چکے ہیں سزاوار ذوالفقار

میرے زمیں کے مرحب و عنتر علی علی

ہوائے دشت ماریہ میں مناقب علی مرتضی کے بعد سب سے اہم موضوع واقعہ کربلا کا بیان ہے۔ عرفان صدیقی نے ان واقعات کے بیان میں تصریح و تلمیح دونوں کا سہارا لیا ہے۔ مختلف استعارات ، تشبیہات اور علامات کے سہارے کربلا کے وقائع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ میں اختصار کے پیش نظر صرف چند تلمیحات پر اکتفا کرتا ہوں۔ مشہور روایت ہے کہ جب امام حسین کو شہید کرنے کے بعد ان کے سر کو دمشق لایا گیا ، آپ کا سر مبارک ایک ایسی جگہ سے گزرا جہاں ایک شخص قرآن کی یہ آیت تلاوت کر رہا تھا۔ ’’ أم حسبت ان اصحاب الکہف و الرقیم کانوا من آیتنا عجبا‘‘ ( کیا تمہیں پتہ ہے کہ اصحاب کہف و  رقیم میری عجیب نشانیوں میں سے تھے تو سر حسین سے یہ آواز آئی کہ ’’ ان قتلی و حملی اعجب من دلک‘ ‘( میرا قتل کیا جانا اور میرے سرکویوں اٹھانا اصحاب کہف و  رقیم سے زیادہ عجیب ہے ) اس روایت کو ابن عسا کرنے تضعیف کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ (۳۱) بعض روایتوں کے مطابق سر امام سے تلاوت قرآن بھی سنی گئی۔ ان واقعات کو ذہن میں رکھے اور ان کی جانب تلمیح پر مشتمل عرفان صاحب کے مندرجہ ذیل اشعار سے حظ اٹھائیے۔

سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

نوک سناں پہ مصحف ناطق ہے سر بلند

اونچے علم تو سب سے زیادہ ہمارے ہیں

نیزے سے ہے بلند صدائے کلام حق

کیا اوج پر ہے مصحف اطہر لکھا ہوا

سر کی ہوائے دشت نے گلبانک لا الہ

اوج سناں پہ مصحف اطہر کو دیکھ کر

ابھرتے ڈوبتے منظر میں کس کی روشنیاں

کلام حق سرنیزہ سنانے والا کون

ہوائے دشت ماریہ میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جو عام غزلوں میں ہوتے تو شاید انہیں تلمیح قرار دینا مشکل ہوتا لیکن اس مجموعے میں ہونے کے سبب ان کی تلمیحی حیثیت واضح اور متعین ہے۔ حضرت حر کی طرف یہ استعارتی تلمیح ملاحظہ فرمائیں۔

یہ کون راستہ رو کے ہوئے کھڑا تھا ابھی

اور اب یہ راہ کے پتھر ہٹانے نے والا کون

اس نوع کی چند اور خوبصورت تلمیحات ملاحظہ فرمائیں :

برگ گل سے کون سا خطرہ کمانداروں کو تھا

پھول کی گردن میں کیوں تیغ جفا مارا گیا

 

ہوائے کوفہ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمہ صبر و رضا میں زندہ ہیں

 

تم ہی صدیوں سے یہ نہریں بند کرتے آئے ہو

مجھ کو لگتی ہے تمہاری شکل پہچانی ہوئی

 

میرے بازوئے بریدہ کا کنایہ تو سمجھ

دیکھ تجھ کو میری بیعت نہیں ملنے والی

ہوائے دشت ماریہ میں ایسی استعارتی اور علامتی تلمیحات کا ایک سلسلہ ہے۔ بہت سارے اشعار میں حضرت علی اکبر حضرت عباس اور حضرت حرکی جانثاری وفدا کاری کی جانب تلمیحات ملتی ہیں لیکن اس مجموعے کا تشخص و امتیاز یہ ہے کہ قاری کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ مرثیہ پڑھ رہا ہے ، کسی مجلس میں بیٹھا ہے یا چودہ سو برس پرانی تاریخ کا مطالعہ کر رہا ہے بلکہ وہ خود کو کربلائے عصر ہی میں محسوس کرتا ہے جو کربلائے حسین سے حرارت و حیات حاصل کر رہا ہے اور یہی عرفان صدیقی مرحوم کے فن کا کمال ہے۔ آخر میں ان کے ایک دعائیہ شعر پر اپنی گفتگو ختم کرتا ہوں جس میں امام زین العابدین کی بیماری و اسیری کی طرف تلمیح بھی ہے آپ بھی آمیں کہیں۔

اے مالک کل سید سجاد کا صدقہ

یہ بند گراں کھول کہ بیمار ہیں ہم بھی

٭٭

 

حوالہ جات

 

۱۔       مطبوعہ کراچی، ادارہ تمدن اسلام ، نمبر مورخ

۲۔       بحر الفصاحت ، نئی دہلی ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،2006، 1464:2

۳۔     دیکھیے : ظہیر رحمتی ، غزل کی تنقید کی اصطلاحات ، نئی دہلی ، اے پی آفسیٹ پریس ، 2005، 187

۴۔     دیکھیے : سید شریف حرجانی، التعریفات ، باراول ، بیروت ، عالم المکتب 1987، 95

۵۔      دیکھیے : عبد القاہر  جرجانی کی اسرار البلاغہ اور سکاکی کی مفتاح العلوم وغیرہ

۶۔       دیکھیے : المعجم الوسیط ، مادہ لفظ کے تحت

۷۔      موسوعۃ علوم اللغۃ العربیۃ، بار اول، بیروت ، دار الکتب العلمیہ ، 2006، 655: 4

۸۔      منفول از ظہیر رحمتی ، غزل کی تنقید کی اصطلاحات ، مصدر سابق 188

۹۔       جلال الدین ، فنون بلاغت و صناعات ادبی ، بار سوم ، تہران ، انتشارات توس، جلد دوم

۱۔ ۔      بحر الفصاحت ، مصدر سابق ، 1464: 2

۱۱۔      درس بلاغت ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، بار چہارم ، نئی دہلی ، 2002 ، 47

۱۲۔      بحر الفصاحت ، مصدر سابق 14: 2

۱۳۔     نفس مصدر صفحات:

۱۴۔     پروفیسر شمیم حنفی ’’ تلمیحات شعر و ادب در کتاب، تلمیحات ، مرتب : مظہر احمد، نئی دہلی ، ایم آر پبلیکیشنز ،13

۱۵۔     بحوالہ مقدمہ ہوائے دشت ماریہ، از ہمایوں ظفر زیدی، مصدر سابق 56

۱۶۔      امام مسلم ، الجامع الصحیح ، بیروت دار الکتب العلمیہ ، 1992 ، حدیث رقم 8054، امام نسائی ، خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب ، بار اول ، بیروت ، دار ابن حزم،ص !54, 53

۱۷۔    دیکھیینسائی خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالب ، مصدر سابق ، ص: 54

۱۸۔    نفس مصدر صفحات : 64- 53

۱۹۔     شوری: 23

۲۔ ۔     سنن ترمذی، بیروت ، دار احیاء التراث العربی ، 664: 5 کتاب المناقب ، باب مناقب آل البیت

۲۱۔      نفس مصدر ، 351:5

۲۲۔     البدایۃ و النہایہ ، بیروت ، مکتبہ المعارف ، غبر مؤرخ ، 3: 80

۲۳۔     دیکھئے : امام نسائی خصائص امیر المومنین علی ابن علی طالب، مصدر سابق ، ۹۶

۲۴۔     نفس مصدر، عن حبشی بن الجنادۃ ، ۵۔

۲۵۔     امام بخاری الجامع الصحیح ، بیروت ، دار احیاء التراث العربی ، غیر مورخ، 6:212، حدیث رقم: 2875

۲۶۔     جلال الدین سیوطی، جامع المسانید و المراسیل ، بیروت ، دار الفکر ، 1994 ، 16: 258

۲۷۔     امام نسائی ، الخصائص ، مصدر سابق ، ۴۹

۲۸۔     سنن الترمذی ، بیروت، دار الکتب العلمیہ ، 1994، 10:168

۲۹۔     اسماعیل حقی برسوی، تفسیر روح البیان ، بیروت ، دار الکتب العلمیہ

۳۔ ۔     صحیح امام مسلم ، مصدر سابق ( بیروت ، دار لکتب العلمیہ ۱۹۹۲) حدیث رقم 6182، امام بخاری نے بھی اس حدیث کی تخریج کی ہے ، البتہ ان کے یہاں قم یا ابا تراب ،’ کے بجائے ’’ اجلس یا ابا تراب ،’ ( اے ابو تراب بیٹھو) آیا ہے۔ دیکھیے مصدر سابق حدیث رقم :3621، :7:433

۳۱۔     عبد الرؤف مناوی، فیض القدیر ، مصر ، مکتبہ التجاریہ الکبری ، بار اول ، 1356، 205:1

(2014)

٭٭٭

 

 

 

 

ہنر میں زندہ ہیں عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معین شاداب(دہلی)

 

عرفان صدیقی کی شہرت اور مقبولیت کسی ’اشتہار ‘کی رہین منت نہیں ہے اور نہ ہی انھیں عرفان صدیقی بنانے میں کسی ناقد کا کوئی عمل دخل ہے۔ پیشہ کے اعتبار سے وہ اطلاعات و نشریات کے شعبے سے ضرور وابستہ رہے لیکن سیلف پبلسٹی کی جدید تکنیک سے وہ قطعی ناواقف تھے۔ خود نمائی میں وہ یقین ہی نہیں رکھتے تھے۔ حالانکہ وہ جانتے تھے کہ بات ہنر سے نہیں عرض ہنر سے بنتی ہے :

تم بتاتے تو سمجھتی اسے دنیا عرفانؔ ؔ ؔ ؔ

فائدہ عرض ہنر میں تھا ہنر میں کیا تھا

لیکن ان کی بے نیازی انھیں خود تشہیری کے حربوں اور ہتھکنڈوں کے استعمال سے باز رکھتی ہو گی۔ وہ اپنی شان بے نیازی سے سمجھوتہ کر بھی کیسے سکتے تھے کہ یہی توکسی کھرے شاعر کی پہچان ہوتی ہے۔

عرفان صدیقی جیسے فن کار کبھی کبھی پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں ہر مکتب و مسلک اور ہر طبقے کے لوگ پسندکرتے تھے۔ ہر ادبی نظریے میں یکساں مقبول تھے۔ مقبولیت کی بنیاد صرف اور صرف ان کی شاعری ہے۔ ان کی مقبولیت کا دائرہ محبوبیت تک پہنچتا ہے۔ وہ بے شمار لوگوں کے آئیڈیل شاعر بن گئے تھے۔ اور شہرت، مقبولیت اور محبوبیت کے اس مقام پر وہ ’عرض ہنر‘ کر کے نہیں بلکہ ’ہنر‘ سے پہنچے تھے۔

مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ انھیں بار بار یہ احساس کیوں دلایا گیا کہ ان کی شہرت کچھ دیر سے ہوئی یا انھیں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حق دار تھے۔ ان کی مقبولیت کا عالم تو یہ تھا کہ سرحدوں کے پار آباد دنیا کے مختلف ممالک میں انھیں ہمارے ملک کا نمائندہ تسلیم کیا جاتا۔ وہ ہندوستان کی شان ہی نہیں بلکہ آبرو تھے۔ اچھی اور سچی شاعری کے دلدادگان میں وہ۔ ’برانڈایمبسڈر ‘ کی حیثیت رکھتے تھے۔

عرفان صدیقی کو اس بات کا احساس بھی دلایا گیا کہ انھوں نے کم لکھا ہے۔ حالانکہ چار شعری مجموعے، ایک دو کتابیں کسی شاعر کا مرتبہ طے کرنے یا کم از کم اس کا محاکمہ کرنے کے لیے کم تو نہیں ہوتے اور وہ بھی ایسے شاعر کے جو طرح دار بھی ہو۔ بعد میں ان کا کلیات بھی شائع ہوا۔ عرفان صدیقی اپنے قارئین اور سامعین کے دلوں میں پوری طرح گھر کر چکے تھے۔ نہ ان کی شہرت میں کمی تھی اور نہ انھوں نے اتنا کم لکھا کہ اس کا تذکرہ ہی نہ ہو۔ عرفان صدیقی پر لکھا بھی گیا اور ان پر بات بھی ہوئی۔ البتہ یہ سچ ہو سکتا ہے کہ بڑے تنقید نگاروں نے ان پر قلم نہ اٹھایا ہو یا پھر ان پر دیانت اور خلوص کے ساتھ نہ لکھا گیا ہو۔ ہمارے یہاں ایک رجحان زور پکڑ گیا ہے کہ کسی فن پارے یاکسی قلم کار سے متاثر ہو کر لکھنے میں لوگوں کو تکلف ہوتا ہے۔ اگر آپ کا مجموعہ کلام نہ آئے تو بھی لوگوں کونہ لکھنے کا بہانہ مل جاتا ہے۔ خواہ آپ کتنے بھی اچھے شعر کیوں نہ کہہ رہے ہوں، آپ پر اس وقت تک قلم نہیں اٹھایا جائے گا جب تک آپ ناقدین ادب کی منت سماجت نہ کریں یا ان کی رائے کے حصول کے لیے درخواست نہ گزاریں۔

ماہنامہ ’نیا دور‘[لکھنؤ]کے عرفان صدیقی نمبر (شمارہ اکتوبر۔ اکتوبر2010) میں شمس الرحمن فاروقی نے اپنے مضمون ’عرفان صدیقی کی غزل‘ میں بڑی دلچسپ بات لکھی ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری کے عرفان کے بعد میں انھوں نے یہ سوال قائم کیا ہے کہ’ کیا ہم لوگوں نے عرفان صدیقی کے ساتھ انصاف نہیں کیا؟‘

شمس الرحمن فاروقی اعتراف کرتے ہیں۔ ’’میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ عرفان صدیقی کے کلام کا ہزار قائل ہونے کے باوجود میں ان پر کبھی کوئی مضمون نہ لکھ سکا۔ ایک تبصرہ میں نے ضرور لکھا اور وہ تبصرہ خاصا مفصل تھا لیکن تبصرہ تو ایک ہی کتاب پر ہوتا ہے پوری شاعری کا حوالہ تبصرہ میں ممکن نہیں۔ کیا وجہ تھی کہ انھیں اور ان کے کلام کو بے حد چاہنے کے باوجود میں نے ان پر کچھ سیرحاصل لکھا نہیں۔ ..‘‘

شمس الرحمن فاروقی کا یہ بیان بے حد اہم ہے اور فکر کی دعوت دیتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے اسی مضمون میں عرفان صدیقی سے کیے گئے ایک انٹرویو میں نیر مسعود کے ایک سوال اور اس کے جواب کا بھی حوالہ دیا ہے۔ نیرمسعود کا سوال تھا ’’عرفان صاحب آپ کے سلسلے میں بات ہوتی ہے تو ہم لوگوں کو قائم چاندپوری کا خیال آتا ہے جو میرؔ اور سودا ؔ کا ہم پلّہ شاعر تھا، لیکن اسے وہ شہرت نہ مل سکی۔ آپ سے بھی جو لوگ واقف ہیں وہ یہاں تک کہتے ہیں کہ آپ سے بہتر شاعر ہندوستان، پاکستان میں موجود نہیں ہے۔ آپ سے ہم کو یہی شکایت ہے کہ آپ عرض ہنر نہیں کر رہے ہیں۔ آپ کے دو مجموعے ’کینوس‘ اور ’شب درمیاں ‘چھپے لیکن تقسیم ٹھیک سے نہیں ہوئی تو پہلے یہ بتائیے کہ یہ بے نیازی کیوں ؟۔ ۔ ‘‘ اس سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا تھا کہ کبھی کبھی انھیں محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کے تعارف میں بہت بڑا ہاتھ شاید اس کی شاعری کے ’و ولیوم‘ کا بھی ہوتا ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ ’پی آر‘ کے تقاضے کیا ہوتے ہیں مگر یہ کہ کچھ طبیعت ادھر نہیں آتی۔

اپنے حق میں ’رابطہ عامہ‘ کے لیے عرفان صدیقی کو اپنے مزاج سے جنگ لڑنی پڑتی اور پھر وہ اگر دن رات اسی میں لگے رہتے تو پھر وہ کارنامے کون انجام دیتا جو عرفان صدیقی کی شناخت کا حوالہ بنے۔ انھیں اپنی منصبی ذمہ داریاں بھی تو احسن طریقے سے نبھانی تھیں۔ حکومت ہند کی مرکزی اطلاعاتی سروس جیسے اہم ادارے میں انھوں نے اہم مدارج طے کیے۔ وہ اگر اپنی شاعری کو پروجیکٹ کرنے میں لگے رہتے تو کیا اپنے فرائض منصبی کے ساتھ انصاف کر پاتے ؟ کیا پھر وہ کالی داس کی نظم ’رِتوسمہارم‘ کا اردو میں منظوم ترجمہ اس شان کے ساتھ کر پاتے۔ کالی داس کے ڈرامے ’مالویکا اگنی متر‘ کا براہ راست سنسکرت سے اردو میں منظوم اور منشور ترجمہ بھی تو انہیں کا حصّہ تھا۔ مراقش کے ادیب محمد شکری کے سوانحی ناول کا اردو ترجمہ عرفان صدیقی کے ہنر کی مثال ہے۔ انھوں نے ادب، صحافت اور ثقافت پر متعدد مضامین قلم بند کیے اور ریڈیو، ٹی وی کے لیے فیچر نگاری بھی ان کی مصروفیت کا حصہ بنی رہی۔

عرفان صدیقی کو جتنا پڑھا اورسمجھا گیا ہے یا ان پر جو کچھ لکھا گیا ہے، اور اس حوالے سے جو رائے قائم ہوتی ہے، اس کی روشنی میں اگر بات کی جائے تو عرفان صدیقی جدید اردو غزل کے معماروں میں شامل ہیں۔ وہ نئی غزل کی آبرو بن گیے ہیں۔ موضوع اور اظہار کی سطح پر اردو غزل کونیا چہرہ دینے کا جو سلسلہ مجاز، فیض، جذبی، مجروح، جان نثار اختر، مخدوم محی الدین، ناصر کاظمی اور ابن انشاء وغیرہ سے شروع ہوتا ہے، وہ زیب غوری اور بانی سے ہوتے ہوئے عرفان صدیقی تک پہنچتا ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری پر بات کرنے کے لیے ناسخ و آتش کے لہجے اور انیس و دبیر کے آہنگ سے واقفیت ضروری سمجھی گئی ہے۔ متقدمین سے استفادے کو سمجھ دار اور بیدار چشم شعرا کی خصوصیت مانا جاتا ہے۔ اپنے پیش رو اساتذہ فن سے فیض اٹھاتے ہوئے موضوع کو وسعت اور اظہار کو ندرت بخش کر ہی کسی طرز کو پایا جا سکتا ہے۔ عرفان صدیقی نے اس نکتہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے آپ کو تازہ کار بنائے رکھا۔ اپنے عصر کی سچائیوں سے باخبری کے ساتھ ساتھ اساطیر، تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے واقفیت ان کے کلام کو آفاقیت عطا کرتی ہے۔ مزاج کی درویشی اور طبیعت کی تمکنت ان کی شاعری کو قلندری سے ہم آہنگ کر دیتی ہے۔ عشق کا صحت مند اور  با وقار تصور، غزل کو عرفان صدیقی کی دین ہے۔ عرفان صدیقی کی غزلوں میں ان کا عصراس طرح بولتا ہے کہ وہ اپنے عہد کی آواز بن گئے ہیں۔

فکر کی سنجیدگی، لہجے کا وقار، زبان کا انفراد، اسلوب کی تازہ کاری، کلام کا رچاؤ، احساس کی شدت، اشعار کی تہہ داری، جذبات کی وارفتگی، اظہار کا بانکپن، ذہن کا اختراع، ابہام سے پاک رمزیت، روشن علامتیں، خوش رنگ تشبیہات، جدید تر لفظیات، خود کلامی کی لذّت، تحیّر آمیز شعری فضا۔ ۔ ۔ ۔ اور، اور بھی بہت کچھ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے ان کا تخلیقی شناخت نامہ وجود پذیر ہوتا ہے۔

کسی شاعر کے یہاں بیک وقت اتنی خوبیاں اسے اپنے عہد کا بڑا شاعر بنانے کے لیے بہت ہیں۔ عرفان صدیقی کی شاعری کی ایک اور بڑی اور امتیازی خوبی کربلا کا موضوع ہے۔ جو اپنے آپ میں ایک مکمل باب ہے۔ انھوں نے تخلیقی استعارہ کے طور پرسانحۂ کربلا کوجس اندازسے استعمال کیا ہے وہ مثالی ہے۔ کربلا کے استعارے سے انھوں نے بقول شخصے احتجاج کے ساتھ ساتھ جبر کے حالات میں زندگی کرنے کا کام لیا ہے جہاں ان کا ذاتی احساس خارجی دنیا کی آواز بن کر ابھر تا ہے۔ بطوراستعارہ کربلا کے استعمال کے سلسلے میں اکثر ان کا نام افتخار عارف اور منیر نیازی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ یہاں شمس الرحمن فاروقی کا یہ خیال بھی قابل ذکر ہے کہ ’عرفان صدیقی کواس بات سے بھی نقصان ہوا کہ کچھ لوگوں نے انھیں افتخار عارف کے مقابلے میں قائم کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ دونوں نے کربلا کے استعارے کو بہت خوبی سے برتا ہے۔ اس قصّے کو آگے بڑھانے کے لیے ہمیں وقار ناصری کا یہ قول بھی دیکھنا ہو گا کہ’ کربلا کے استعارے سے تخلیق عرفان حاصل کرنا تو انھوں نے اس وقت شروع کر دیا تھا جب افتخار عارف کا آوازہ بھی نہ تھا لیکن لوگوں نے بربنائے مصلحت یاکسی اور وجہ سے اس حقیقت سے چشم پوشی کی۔ اس بات کا انھیں ملال بھی تھا مگر انھوں نے کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ ۔ ‘

ان دونوں بیانات کی روشنی میں یہ تو کہنا ہی پڑے گا جوڑ گھٹا میں کہیں نہ کہیں کوئی چوک تو ضرور ہوئی ہے۔ اور اس سوال کو نئے سرے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال اور بھی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

عرفان صدیقی کو ’شب خون‘ میں خوب جگہ ملی، لیکن جدید شعری رویوں کے علم برداروں نے انھیں اپنی صف میں جگہ نہیں دی۔ ان کی شاعری میں لوگوں کو تازگی کا احساس ہوا لیکن نئی شاعری پر لکھی گئی بہت سی کتابوں میں ان کا تذکرہ تک نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کے باوجود عرفان صدیقی کی شاعری چیخ چیخ کر، پورے دبدبے اور طنطنے کے ساتھ اپنے وجود کا احساس کرا رہی ہے۔ ان کے لہجے کا اتّباع ہو رہا ہے۔ وہ عرضِ ہنر کیے بغیر زندہ ہیں۔ ان کا ہنر ان کے لیے آبِ حیات بن گیا ہے۔ کیا عرفان صدیقی کو اب بھی کسی سند کی ضرورت ہے ؟

(2015)

٭٭٭

 

 

 

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جا وید رحمانی (نئی دہلی)

 

عرفان صدیقی جدید غزل گویوں میں منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ ان کی آواز دور سے پہچانی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ان کی شاعری میں کربلا کو عصری معنویت عطا کرنے کا میلان بڑی اہمیت رکھتا ہے تو کچھ لوگ ان کی شاعری کو عشق کی تفسیر سمجھتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ یہ دونوں رویے ان کی شاعری میں بہت واضح ہیں۔ کربلا اور واقعات کربلا کو عصری معنویت عطا کرنے کے میلان کے سلسلے میں انھوں نے خود بھی کہا ہے : ’’جب سے میں نے لکھنا شروع کیا ہے، مجھے یہ موضوع بہت اہم لگا ہے ۔ ..مظلوم کے رد عمل کے سلسلے میں نیر صاحب ایقان کا حصہ جو بات بن چکی ہے وہ یہ ہے کہ مزاحمت کسی نہ کسی سطح پر ضروری ہے وہ مزاحمت عمل سے بھی ہو سکتی ہے اور وہ مزاحمت محض خیال اور عقیدہ سے بھی ہو سکتی ہے ‘‘۔

جدید غزل گویوں میں افتخار عارف اور عرفان صدیقی نے اگرچہ خصوصیت کے ساتھ کربلا کے تاریخی واقعے کو عصری معنویت عطا کرنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں کچھ بہت خوبصورت اشعار دیے ہیں، لیکن یہ اردو غزل کو محمد علی جوہر کا فیضان ہے۔ محمد علی جوہر کے بعد کئی غزل گویوں نے اس میدان میں قدم رکھا جن میں سید سلیمان ندوی، جمیل مظہری، شکیب جلالی، شہرت بخاری، افتخار عارف اور عرفان صدیقی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

عرفان صدیقی کی عشقیہ شاعری بھی عشق کی تفسیر محض نہیں اور اس میں یکسانیت بھی نہیں۔ یہ عشق کی ہی طرح رنگا رنگ ہے اور اپنی تہہ در تہہ کیفیات کی بنا پر تعبیر کی کثرت کا تقاضا کرتی ہے، انھوں نے کہا ہے :

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

اسی خیال کو شجاع خاور نے بھی اپنے مخصوص انداز میں شعر کا پیرا یہ عطا کیا ہے، ان کا شعر ہے :

کیا ہو گئی حالت مرے انداز بیاں کی

اک اس کا سراپا ہے کہ بس میں نہیں آتا

عرفان صدیقی اور شجاع خاور کا بنیادی مسئلہ ان اشعار میں ایک ہی ہے کہ معشوق کی بوقلموں شخصیت دائرۂ اظہار میں نہیں آتی اور اس کی وجہ معشوق کی بو قلمونی ہی نہیں بلکہ اظہار کی نارسائی بھی ہے۔ مگر اس مسئلے کا بیان دونوں کے یہاں جن مختلف اسالیب میں ہوا ہے، وہ ان دونوں کی مختلف شخصیات کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ عرفان صدیقی استعارے کی تلاش میں سرگرداں ضرور ہیں، مگر اپنے انداز بیان کی متانت کا پاس اس حد تک رکھتے ہیں کہ اس کی تبدیلی انھیں گوارہ نہیں اور اظہار کی نارسی سے ہار بھی نہیں مانتے۔ اظہار کی نارسی کے احساس کی سطح پر ان کے شعری مملکت کی سرحدیں غالب سے جا ملتی ہیں۔ ہماری کلاسیکی شاعری میں غالب ہی وہ شاعر ہیں جنھوں نے اس مضمون کو بکثرت باندھا ہے :

غلطی ہائے مضامین مت پوچھ

لوگ نالے کو رساباندھتے ہیں

یہاں یہ بیان بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ عرفان صدیقی مصحفی کے بہت قائل تھے جس کا ذکر انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں یوں کیا ہے، وہ کہتے ہیں : ’’مصحفی کا دھارا بن سکتا تھا اگر میر نہ ہوتے۔ میر کا وجود خارج کر دیجئے آپ اردو شاعری سے تو مصحفی کا دھارا بہت بڑا دھارا بنتا ہے۔ لیکن ایسا تو ہے نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ میر کا چربہ ہوں ‘‘۔

اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں : ’’غالب کے ذہن کی پیچیدگی، زبردست پیچیدہ ذہن، عجیب و غریب ! لیکن میر کہیں کہیں مجھے لگتا ہے کہ اس سے زیادہ پیچیدہ ذہن کا شاعر ہے۔ سمجھ میں اب تک نہیں آتا کہ۔ ..۔ اگر گروہ ہو سکتے ہیں شاعری میں تو میں میر کے گروہ کا شاعر ہوں یا غالب کے ‘‘۔

عرفان صدیقی کی عشقیہ شاعری انھیں مصحفی سے زیادہ قریب پہنچا دیتی ہے جو اگرچہ ہیں میر ہی کے سلسلے کے شاعر، مگر میر کا چربہ محض نہیں ہیں۔ مصحفی کے سلسلے میں شمس الحق عثمانی نے لکھا ہے : ’’مصحفی خود کو جن گزشتگان کی یادگار کہتے ہیں ان میں ظاہر ہے کہ نمایاں ترین شعرا:میر تقی میر، خواجہ میر درد اور سودا ہیں۔ ان ہی کے طرز شعر نے بقول مجنوں صاحب پورے دور کو خالص تغزل یعنی داخلیت (Subjectivism)کا دور بنا دیا تھا۔ مذکورہ داخلیت کا ازلی سرنامہ عشق ہے جو ہزار شیوہ ہے۔ ‘‘

اسی بت ہزار شیوہ کی جلوہ گری قدم قدم پر عرفان صدیقی کی شاعری میں ملتی ہے اور اس کے بیان میں وہ اپنے تخلیقی لہجہ کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں کہ گجرات کے فسادات پر انھوں نے جو غزل کہی اس میں بھی بر ہنہ گفتاری کا شکار نہیں ہوئے۔ حالانکہ ایسے انسانیت سوز المیے پر کسی بھی فنکار کا برہنہ گفتاری سے پرہیز کرپانا اتنا آسان نہیں تھا۔ ان کی وہ مشہور غزل ہے :

حق فتحیاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

ان کو بیان پر جو حیرت انگیز قدرت حاصل تھی اس کا اظہار انہی لفظوں میں ملاحظہ فرمائیں :

ہم لفظ سے مضمون اٹھا لاتے ہیں جیسے

مٹی سے کوئی گوہر یک دانہ اٹھا لے

عشق ان کے ہاں ایک بنیادی قدر ہے۔ وہ میر کی ہی طرح اس جہان رنگ و بو کے تمام اجزا کو عشق کے نور سے روشن دیکھتے ہیں۔ میر نے کہا تھا :

کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق

حق شناسوں کا ہاں خدا ہے عشق

عشق سے جا کوئی نہیں خالی

دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق

 

جس طرح میر کی دنیا میں عشق کی حکم رانی ہے اسی طرح عرفان صدیقی کی شاعری بھی اسی عشق کے واسطے سے دنیا کو دیکھتی ہے۔ عشق ان کا وظیفۂ حیات ہے اور ان کی نظر میں گرفت ثابت و سیارمیں جو کچھ ہے وہ اسی جذبے کے تابع ہے۔ کر بلا کے واقعات سے ان کے خصوصی شغف کی تہہ میں بھی یہی جذبۂ عشق کار فرما ہے۔ وہ شہدائے کر بلا کی قربانیوں کو بھی اپنے مقصد سے ان کے عشق کے تناظر میں ہی دیکھتے ہیں اور حق و باطل کے تصادم کا سب سے طاقت ور استعارہ تصور کرتے ہیں :

اور کچھ دامن دل کشادہ کرو، دوستو، شکر نعمت زیادہ کرو

پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں سب خدا کے خزانوں میں ہیں

غرض کہ ثابت و سیار کے درمیان کچھ بھی نہیں جو ان کے عشق کی جولان گاہ سے باہر ہو:

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جان من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں

لامسہ، شامہ، ذائقہ، سامعہ، باصرہ سب مرے راز دانوں میں  ہیں

ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے

ہم نے ان لفظوں کے پیچھے ہی چھپا یا ہے تجھے

اور انھیں سے تیری تصویر بنا چاہتی ہے

اور وہ لفظوں کی اس کارستانی پر شرمندہ نہیں ہوتے بلکہ یہ کہتے ہیں :

ایک ہی رنگ ترے اسم دلآویز کا رنگ

اور میرے ورق سادہ میں کیا رکھا ہے

کھلا کہ تیرا ہی پیکر مثال صورت سنگ

چھپا ہوا تھا مری شاعری میں پہلے سے

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ

چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

گماں نہ کر کہ ہوا ختم کار دل زدگاں

عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی

اور کار دل زدگاں کے ختم نہ ہونے کا یہ بلیغ اظہار بھی ملاحظہ فرمائیں :

آخر شب ہوئی آغاز کہانی اپنی

ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو

یا یہ شعر:

شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی

ہوا طلوع افق پر مرے دوبارہ کوئی

وہ بدن اور تقاضائے بدن کے اظہار پر  شرمندہ نہیں ہوتے اگر چہ اسی کے اظہار کو سب کچھ سمجھتے ہوں ایسا بھی نہیں :

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

مرے بدن سے پھر آئی گئے دنوں کی مہک

اگر چہ موسم برگ و ثمر چلا بھی گیا

سیر بھی جسم کے صحرا کی خوش آتی ہے مگر

دیر تک خاک اڑانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ جاگنا مری خاک بدن میں نغموں کا

کسی کی انگلیوں کا نے نواز ہو جانا

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

خیال میں ترا کھلنا مثال بند قبا

مگر گرفت میں آنا تو راز ہو جانا

ان تمام اشعار سے ظاہر ہے کہ ان کا عشق بدن کی تہذیب سے عاری نہیں اور ان لطیف احساسات اور ہوسناکی کے درمیان جو باریک سافرق ہے اس کو وہ ہمیشہ ملحوظ رکھتے ہیں۔ اسی لیے ان اشعار میں ابتذال کا شائبہ تک نہیں۔ ان کا عشق بد نیت سے گریزاں نہیں اور خوف زدہ بھی نہیں :

ایک دن اس لمس کے اسرار کھلنا جسم پر

ایک شب اس خاک میں برق و شر ر کا جاگنا

ان تمام اشعار کی اساس جس تجربے پر رکھی گئی ہے، اس کے بیان میں بالعموم شعرا رکاکت و ابتذال کے الزام سے دوچار ہوتے رہے ہیں، مگر عرفان صدیقی اس تجربے کے شائستہ بیان پر حیرت انگیز قدرت رکھتے ہیں اور ان کی شاعری کا غالب میلان استعارہ سازی کی طرف ہے۔ اسی وصف خاص نے ان کی عشقیہ شاعری کو وہ فکری دبازت عطا کی ہے کہ وہ اکہری اور عارضی نہیں بلکہ زندگی کی طرح وسیع، تہہ در تہہ اور بو قلموں ہو گئی ہے۔ ان اشعار کا اردو غزل میں موجود معاملہ بندی کی روایت سے کوئی علاقہ نہیں۔ مشرقی شعریات میں استعارے کو بہت اہمیت حاصل ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے۔ ہمارے زمانے میں جو لوگ استعارے کے سلسلے میں محمد حسن عسکری کا ’’انشائیہ ‘‘پڑھ کر حالی اور شبلی کو بزعم خود استعارے کی اہمیت کا سبق پڑھانے کی کوشش کر تے ہیں ان کو یہ پتا ہی نہیں کہ استعارے کی اہمیت مغربی نظریہ سازوں پر ہم سے روشن ہوئی ہے۔ ابن معتز نے، جس کو علم بدیع کا مدون اول تسلیم کیا جاتا ہے، اپنی کتاب ’’البدیع‘‘274ھ مطابق 887ء میں اس جدید مکتب فکر کی، جس کی تشریح و توضیح کے لیے وہ یہ کتاب لکھ رہا تھا، تین بنیادوں کا ذکر کیا تھا جن میں پہلی یہ تھی کہ استعارہ شعر کی بنیاد ہے۔ مغربی نظریہ سازوں نے تو بہت بعد میں یہ سبق ہمارے ہی نظریہ سازوں سے پڑھا۔ مگر ہمارے کچھ نوجوان محمد حسن عسکری، سلیم احمد اور شمس الرحمن فاروقی کی انگلی پکڑ کر ان مغربی نظریہ سازوں کے حوالے سے حالی اور شبلی کو یہ سبق پڑھانا چاہتے ہیں یہ جانے بغیر کہ حالی، محمد حسین آزاد اور شبلی کی رگوں میں خون کی طرح ابن معتز، ابن سلام، جاحظ، قدامہ بن جعفر اور عبد القاہر  جرجانی کے نظریات دوڑ رہے تھے ! عرفان صدیقی کی شاعری کا استعارہ سازی کی طرف میلان یہ بتاتا ہے کہ وہ مشرقی شعریات سے گہری اور عالمانہ واقفیت رکھتے تھے۔

عرفان صدیقی کا عشق عجز کے احساس سے عاری ہے :

دل اگر لہر میں آئے تو اڑا کر لے جائے

عشق میں شکوہ بے بال و پری آخر کیوں

ان کے عشق میں کہیں کہیں تو مجازی اور حقیقی کی تقسیم بہت واضح ہے مگر کہیں کہیں یہ تقسیم اس حد تک غیر واضح ہے کہ ان کے اشعار کو حقیقی اور مجازی کے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

ان کو متضاد کیفیات و اشیا نیز الفاظ کے تقابل سے بھی بہت شغف ہے اور اس کی مدد سے ان کے اشعار قاری کے ذہن کو دیر تک اور دور تک متحرک رکھتے ہیں۔ ان سے کبھی تو کسی ایسی فضا کی تعمیر میں مدد لیتے ہیں جو ان دونوں کے ٹکراؤ سے پیدا ہوتی ہے اور کبھی حالات کی ستم ظریفی کا اظہار مقصود ہوتا ہے :

الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر

چراغ گھات میں ہے اور ہوا نشانے پر

چراغ کا استعاراتی استعمال ان کی شاعری میں بہت ہوا ہے اور بہت خوبصورت اور بامعنی ڈھنگ سے۔ متذکرہ بالا شعر میں چراغ گھات میں ہے اور ہوا نشانے پرسے حالات کی ستم ظریفی کا جو نقشہ سامنے آتا ہے اس سے پورے نظام کی ابتری کا تصور کتنی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ عرفان صدیقی متضاد کیفیات و اشیا نیز الفاظ کے تقابل سے اکثر قول محال کی کیفیت بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ رویہ فراق کی شاعری میں بھی بہت واضح ہے۔

آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے

میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں

اس شعر میں کافری کو سرمایۂ افتخار بتانے کو کچھ لوگوں نے اردو شاعری میں عرفان صدیقی کا اضافہ بتایا ہے، جو غلط ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی تو اردو اور فارسی کی ادبی روایت سے گہری واقفیت رکھتے تھے مگر ان کے ناقدین اس وصف سے محروم ہیں۔ اپنی کافری کا فخریہ اثبات اردو اور فارسی شاعری میں نیا نہیں۔ اس کا سلسلہ امیر خسرو کے ’ کافر عشقم مسلمانی مرا درکارنیست ‘تک پہنچتا ہے اور سودا کے یہاں بھی ’ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی ‘ کی شکل میں یہ رویہ بہت واضح ہے۔ عرفان صدیقی نے اس شعر میں کوئی مابعد الطبیعاتی فلسفہ بیان کیا بھی نہیں ہے بلکہ خود ساختہ خداؤں کی اطاعت سے انکار کیا ہے جو اردو شاعری میں بہت عام ہے۔ اس شعر کی ساری لطافت صنم جانتے ہیں کہ ٹکڑے میں پوشیدہ ہے جو خدائی اور کافر کی رعایت سے آیا ہے :

وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ

اب اس طرف کوئی موج ہوا نکل آئے

خواب میں بھی میری زنجیر سفر کا جاگنا

آنکھ کا کیا لگنا کہ اک سودائے سرکا جاگنا

وہ مزاحمت میں بہت یقین رکھتے ہیں۔ یہ مزاحمت خواہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو :

ایک چہکار نے سناٹے کا توڑا پندار

ایک نو برگ ہنسا دشت کی ویرانی پر

دشت کی ویرانی کے پندار کو دیکھئے اور کسی نو برگ کی چہکار کو دیکھئے۔ بظاہر دونوں میں کیا مقابلہ!مگر عرفان صدیقی اس چہکار میں دشت کی ویرانی سے نبرد آزما ہونے اور اس پر فتح پانے کا حوصلہ اور طاقت دیکھتے ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ انھوں نے ازمنۂ وسطی کی مسلم تہذیب اور اس کے کرداروں کا گہرا مطالعہ کیا ہے اسی کے ساتھ ہندوستانی تہذیب اور ہنداسلامی تہذیب اور اس کے نمائندے بھی ان کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ اس شعر میں ایک نو برگ کے ہنسنے کو جس طرح سنّاٹے کے پندار سے برسر پیکار دکھایا گیا ہے اس سے ذہن فوراً ٹیگور کے اس خیال کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کے ہر نو مولود بچہ اپنے ساتھ آسمان سے یہ بشارت لے کر آتا ہے کہ اس دنیا کا بنانے والا اب تک ہم سے مایوس نہیں ہوا ہے۔

انھوں نے اردو اور فارسی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور سنسکرت شعریات کا بھی اوراسی لیے ان کے یہاں اپنی ادبی روایت کا احترام بہت ہے۔ انھوں نے عشق کو بھی ایک تہذیبی قدر کے طور پر قبول کیا اور اس کے تمام مطالبات سے عہدہ بر آ بھی ہوئے اسی لیے وہ کہہ سکتے تھے کہ:

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمھارے سوال ہی کے تو ہیں

ان کا رشتہ اپنے ماضی سے بہت گہرا ہے اور مستقبل سے بھی بہت امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ انھیں عہد حاضر کا خرابہ پریشان بہت کرتا  ہے مگر اس پریشانی میں بھی نا امیدی کو پاس نہیں پھٹکنے دیتے :

ایسی بے رنگ بھی شاید نہ ہو کل کی دنیا

پھول سے بچوں کے چہروں سے پتا لگتا ہے

ان کو سیاہ رات کی یورش کا گہرا احساس ہے مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں :

بجھیں چراغ مگر دل رہے سدا روشن

سیاہ رات کو خطرہ اسی کمال سے ہے

اور اس کمال کی بھرپور نمائندگی شہدائے کر بلا کے کردار سے اور جذبوں سے اور قربانیوں سے ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ کردار، وہ جذبے اور وہ قربانیاں انھیں بار بار اپنی طرف متوجہ کر تی ہیں :

سنو کہ بول رہا ہے یہ سر اتارا ہوا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

یہ استعارہ عرفان صدیقی کی شاعری کی جان ہے اور اس سے حق و باطل کے معرکے میں انسان کے کردار، اس کے فکری زاویوں اور رویوں کو اجالتے بہت سے استعارے نکلے ہیں۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

جدید غزل کا مثالی لہجہ

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عمیر منظر (لکھنؤ)

 

جدید غزل کے اہم شعرا میں ایک نام عرفان صدیقی کا ہے۔ جدیدیت کے زیر اثر غزل کی روایت کا احیا کرنے والوں میں عرفان صدیقی عمر کے اعتبار سے چھوٹے ہیں مگر زبان و بیان کے اعتبار سے انھیں برتری حاصل ہے۔ بانی، ظفر اقبال، احمد مشتاق زیب غوری اور شہر یار کی شاعری کا اگر مطالعہ کیا جائے تو ان کی غزل گوئی سے حاصل جدید غزل کے امتیازات کا معتدبہ حصہ عرفان صدیقی کے کلام میں ملے گا۔ ہمارے بیشتر نقادوں نے بانی کی خوش کلامی اور لہجے کی خوش سلیقگی کی داد دی ہے۔ ظفر اقبال کی ’’بے راہ روی ‘‘احمد مشتاق کی ’’کم گوئی‘‘ اور زیب غوری کی ’’پراسراریت ‘‘سب کو معلوم ہے۔ اسے ان کی تخلیقی ہنر مندی بھی کہا جا سکتا ہے اور ان کے قارئین کے لیے عذاب و عنایت کا لمحہ بھی۔

عرفان صدیقی کی غزل نے کچھ تاخیر سے سہی مگر اپنے لیے جو جگہ بنائی ہے وہ اب تک برقرار ہے اس میں عرفان کی جادو بیانی اور کہنے کا وہ ہنر جسے بانی کی خوش سلیقگی کہا گیا ہے، کی اگلی منزل قرار دیا جا سکتا ہے۔ عرفان صدیقی کئی سطحوں پر ہمیں متاثر کرتے ہیں۔ ان کا منفرد انداز بیان:

غزل تو خیر ہر اہل سخن کا جادو ہے

مگر یہ نوک پلک میرے فن کا جادو ہے

غزل کی صنف ایسی ہے کہ اگر کسی نے ایک شعر بھی اچھا کہہ دیا تو لوگ اسے فراموش نہیں کرتے۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے یہاں موجود ہیں۔ آوارہ گرد اشعار کا سلسلہ بھی اسی کا مظہر ہے۔ البتہ وہ شعرا جو اپنے کلام کے انتخاب کے سبب نہیں بلکہ پورے کلام کی وجہ سے جانے جاتے ہیں عرفان صدیقی کا شمار انھیں شعرا میں کیا جاتا ہے۔ انھوں نے مذہبی استعاروں اور تلمیحات کے منفرد اور نادر استعمال سے بھی اپنے تخلیقی ہنر مندی کا ثبوت فراہم کیا۔ عرفان صدیقی کے کلام کو اکثر ہم کربلا کے تناظر میں دیکھتے ہیں لیکن اگر تاریخ کا حوالہ ختم کر دیا جائے تب بھی عرفان صاحب کاشعر اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔ در اصل ان تلمیحات و استعارات سے انھوں نے شعر کو مزید پر قوت بنایا ہے۔

یہ ایک صف بھی نہیں ہے وہ ایک لشکر ہے

یہاں تو معرکہ ہو گا مقابلہ کیسا

تجھے بھی یاد ہے اے آسماں کہ پچھلے برس

مری زمیں پہ گزرا ہے سانحہ کیسا

صدائے شام سر آبجو ہے کتنی دیر

یہ بازگشت بھی اے دشت ہو ہے کتنی دیر

ان اشعار کی قرأت واقعہ کربلا کے تناظر میں کی جا سکتی۔ لیکن اگر اس کو عام شعری تصورات کے پیش نظر تجزیہ و تنقید کے سان پر رکھیں تب بھی یہ اشعار کھرے اتریں گے۔ پہلے شعر سے تو معرکہ اور مقابلہ کی تعریف متعین کی جا سکتی ہے۔ عرفان صدیقی کے بارے میں جو بات عام طور پر کہی جاتی ہے وہ ان کا فنی امتیاز ہے جو انھیں خاص تخلیقی ہنر مندی کا منصب عطا کرتا ہے۔ وہ صرف الفاظ ہی منتخب نہیں کرتے بلکہ خیال کی وادی کے فاصلے بھی خاص اہتمام سے طے کرتے ہیں اور ان کا یہی اہتمام انھیں منفرد بناتا ہے۔ یہ نوک پلک جسے عرفان صدیقی نے اپنے فن کا جادو کہا ہے محض شاعرانہ تعلّی نہیں ہے۔

عرفان صدیقی کے فن کا ایک دلآویز خاکہ وہ بھی ہے جہاں فن کار عہد حاضر بلکہ حالات کے تناظر میں شاعری کرتا ہے۔ لیکن یہاں بھی انھوں نے اپنے فن کا وقار اور غزل کی فنی گرفت پر قابو رکھا ہے۔ اسے بے قابو نہیں ہونے دیا۔ گجرات نسل کشی پر جب ان کی غزل ماہ نامہ شب خون میں شائع ہوئی تو اندازہ ہوا کہ یہ پورا سانحہ ان پر کس طرح گزرا ہے۔ اہل گجرات کے زخم کی طرح عرفان صدیقی نے بھی اسے محسوس ہی نہیں کیا بلکہ اپنے وجود کا حصہ بنا لیا۔ البتہ جب اظہار کا موقع آیا تو اس طرح شعر کہے کہ اردو شاعری کے لیے وجہ امتیاز بن گئے۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو گا کہ گجرات نسل کشی کے تناظر میں بہت سے شعر کہے گئے لیکن عرفان صدیقی کی غزل حاصل کہی جا سکتی ہے۔

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا

وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے

ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ

تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

یہ ایک مسلسل غزل ہے جو انشائیہ پیرایہ میں کہی گئی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے ایک مضمون ’’شاعری کا ابتدائی سبق ‘‘میں انشا کو خبر سے بہتر قرار دیا ہے۔ یہ غزل ہمیں غالب کی اس غزل کی بھی یاد دلاتی ہے (ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے )سوالات اس سے کیے جا رہے جو دنیا کے معاملات کا ذمہ دار ہے یعنی خداوند قدوس۔ فنکار صورت حال پر سوال کرتا ہے کہ حق کیوں فتحیاب نہیں ہوا جبکہ تیری نصرت حق کے ساتھ ہے۔ رقیب کا حبیب اس سے جدا نہیں ہوا آخر ہمارے جذب عشق میں کیا کمی تھی۔ جن لوگوں کے ذہنوں میں گجرات کی نسل کشی تازہ تھی اور وہ بھی جو اس واقعہ کو خاص نہیں جانتے تھے ان کے لیے بھی غزل کی معنویت کسی دشواری کا سبب نہیں بنتی۔

واقعہ یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے اہم حادثات پر تخلیقی ہنر مندی کے جو نمایاں نقوش ثبت کیے گئے ہیں اس غزل کا شمار بھی اسی میں ہوتا ہے۔ گجرات پر پروفیسر اصغر وجاہت نے ایک افسانہ ’’شاہ عالم کیمپ کی روحیں ‘‘تحریر کیا تھا اس تناظر میں وہ بھی ایک بہت اہم فن پارہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تقسیم ہند پر جو اہم تحریریں منظر عام پر آئی تھیں اس کے بعد یہی سانحہ ہے جس پر اس قدر فنی اور فکری ہنر مندی کے ساتھ کوئی تخلیقی فن پارہ وجود میں آیا ہے۔

حالات حاضرہ اور روز مرہ کے حادثات و واقعات سے عرفان صدیقی بے نیاز نہیں رہے۔ ان کے کلام کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے اس طرح کے واقعات کو بھی اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ اور ان کی شہرت کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ اسی سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں :

یہ شہر پھونکنے والے کسی کے دوست نہیں

کسے خیال کہ تیرا مکان بیچ میں ہے

اچانک دوستو میرے وطن میں کچھ نہیں ہوتا

یہاں ہوتا ہے ہر اک حادثہ آہستہ آہستہ

خرد کے پاس فرسودہ دلیلوں کے سوا کیا تھا

پرانے شہر میں ٹوٹی فصیلوں کے سوا کیا تھا

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

اس قسم کے مزید اشعار عرفان صدیقی کے یہاں مل جائیں گے۔ ان اشعار میں جو باتیں کہی گئی ہیں وہ بہت عام ہیں مگر ان کے کہنے کا جو اسلوب ہے وہ خاص بات ہے اور اسی نے ان اشعار کو انفرادیت عطا کی ہے۔ ’’شہر پھونکنے والے کسی کے دوست نہیں ‘‘ برصغیر کا عام المیہ ہے۔ ہندستان میں تو آزادی کے بعد سے اب تک کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اس میں لوگوں نے نئے نئے ہنر آزمائے ہیں۔ نیز یہ کہ یہاں اچانک کچھ نہیں ہوتا بلکہ ہر حادثہ آہستہ آہستہ ہوتا ہے یعنی اس کے پس پشت منصوبہ بند کوشش شامل ہوتی ہے۔ مختلف سطحوں سے یہ بات سامنے آ چکی ہے اس طرح کے عناصر ایک منظم سوچ اور منصوبہ بند کوشش کے تحت تخریبی کار روائیاں انجام دیتے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سے بظاہر کسی فرقے کا نقصان تو ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر یہ چیز ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اور اسی کا زیاں ہوتا ہے۔ عرفان صدیقی کو حالات و واقعات کا ادراک ایک فن کار ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت سے ان کی وابستگی کے سبب بھی تھا۔ ان اشعار کے ساتھ اگر عرفان صدیقی کے اس اداریے پر نظر ڈال لی جائے تو انھوں نے ۱۵، دسمبر ۲۰۰۲ کے روزنامہ صحافت (لکھنؤ ایڈیشن) میں تحریر کیا تھا۔ اسی دن گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا تھا۔ عرفان صدیقی لکھتے ہیں : ان نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جب نفرت انگیزی اقلیت دشمنی، کھلے ہوئے مظالم کو جائز قرار دینے اور انسانی قدروں کی پامالی پر پوری طرح پردہ ڈال کر اکثریتی فرقہ میں نسلی غرور اور فرقہ وارانہ نفرت کے منفی جذبات بھڑکا دیے جائیں تو ترقی و امن و اتحاد جسے سارے معاملات پس پشت پڑ جاتے ہیں۔ ..گجرات میں بدی اور شرپسندی کاسہارا لے کر حاصل کی ہوئی یہ کامیابی فی الحال ایک مورچہ ہے جو ان طاقتوں نے جیتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پورے ملک میں انھیں منفی بنیادوں پر سیاسی جنگ جیتی جائے گی وی ایچ پی اور دوسری جارح پریوار اور تنظیموں کے لیڈر کھل کر کہتے رہے یں کہ گجرات کا تجربہ کامیاب ہوا ہے اور یہی تجربہ ملک میں دوسری جگہوں پر اور آنے والے عام انتخابات میں بھی دہرایا جائے گا۔ گجرات میں تجربے کا مطلب ریاست میں بے بس مسلم اقلیت کے قتل عام کے پس منظر سے سمجھنا مشکل نہیں ہے توگڑیا جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ان کا اگلا پڑاؤ دلی ہے۔ (اداریہ روزنامہ صحافت۔ لکھنؤ ایڈیشن ۱۵، دسمبر ۲۰۰۲ء )

اداریے کی ان سطروں اور اشعارسے حالات کی سفاکی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اداریے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی کے یہاں حالات و واقعات کے تجزیے کی صلاحیت اور حالات حاضرہ کے اندر جھانک کر مستبقل کا پتہ دینے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ آج اگر وہ زندہ ہوتے تو ضرور اس اداریے کو نکالا جاتا۔ شعر میں تو خیر گنجائش ہوتی ہے مگر اخباری صفحات کہاں اس کے متحمل ہوتے ہیں مگر عرفان صدیقی کا معاملہ مختلف ہے۔ اداریہ اور شعر دونوں ان کے غور و فکر اور حالات پر گہری دسترس کے عکاس ہیں۔

عرفان صدیقی کی شاعری مسلسل غور و فکر اور ریاض سے عبارت ہے۔ ان کے شعری مرکبات اور لفظوں کا فنکارانہ استعمال اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ بہت آسانی سے شعر کہنے کے قائل نہیں تھے ان پر خاصا غور و فکر کرتے تھے۔ سید عقیل حیدر نے عرفان صدیقی کے مطلع کے سلسلے میں لکھا ہے کہ : ان کے مشہور مطلع کا ایک ثانی مصرعہ ’’کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے ‘‘انھوں نے یوں ہی روانی میں ایک دن کہہ کر کسی کاغذ پر تحریر کر لیا تھا لیکن مطلع کے لیے انھوں نے مصرعہ اولی قریب چھ ماہ بعد کی کوششوں کے بعد لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس دن انھوں نے فرط مسرت سے جھومتے ہوئے میری بہن (بھنو)سے بہت اچھی چائے کی فرمائش کی اور فیملی کے ساتھ مطلع ذیل کو celebrateکیا۔

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

آج کون سا ایسا شاعر ہے جو دوسرا مصرعہ لگانے میں اتنا وقت اور اپنے آپ کو اس حد تک کھپا سکتا ہے۔ (نیا دور اکتوبر نومبر ۲۰۱۰ص :۶۳۔ ۶۴)

جدید شعرا میں عرفان صدیقی سب سے کم عمر تھے اور احمد مشتاق، ظفر اقبال کے مقابلے میں شہرت بھی کم تھی مگر انھوں نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ سلیقے سے انھیں اندازہ تھا کہ ہنر کی دنیا میں عرض ہنر کی اہمیت زیادہ ہو گئی ہے جو ہر شخص نہیں کر سکتا اور عرفان صدیقی جیسے لوگ تو قطعی نہیں کر سکتے۔ ان کا مشہور شعر ہے :

تم بتاتے تو سمجھتی اسے دنیا عرفان

فائدہ عرض ہنر میں تھا ہنر میں کیا تھا

شمس الرحمن فاروقی نے ایک مضمون میں لکھا ہے : ان کے اشعار کی تہ داری ان کی لفظیات کا داستانی لیکن گہرا داخلی رنگ، ان کے تجربۂ عشق اور تجربۂ حیات کا دبدبہ اور طنطنہ یہ ایسی باتیں نہیں جن پر لفاظی اور انشا پردازی اور زور بیانی کے ذریعہ قابو پایا جا سکے۔ (نیا دور اکتوبر نومبر ۲۰۱۰ص :۸۔ ۹)

عرفان صدیقی کو سمجھنے اور پڑھنے میں کل بھی یہ مشکل تھی اور آج بھی ہے۔ البتہ گزشتہ چند برسوں سے ان کی فنکارانہ صلاحیت کا از سر نو غور و فکر کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، اس سے ان کی ادبی خدمات کا اندازہ ہوتا ہے۔ انھوں نے جو کچھ کہا، وہ انھیں کا حصہ تھا۔ انھوں نے حالات حاضرہ کو ایک ادیب کے ساتھ ساتھ ایک صحافی کی آنکھ سے بھی دیکھا۔ اور جو کچھ محسوس کیا شاعری کے پیرائے میں صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا۔ انھوں نے نہ صرف شاعری میں اپنی الگ شناخت بنائی، بلکہ بطور صحافی بھی ان کا ایک اہم مقام ہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ عام طور سے ادیب و شاعر کو ان کی زندگی میں بہت کم سراہا جاتا ہے، جب کی وہ اس کے حقدار ہوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ عرفان صدیقی کے ساتھ بھی ہوا۔ جب کہ ان کی شاعری اس عہد کی نمائندہ شاعری ہے اور وہ متعدد جہات سے ہمیں مطالعہ پر مجبور کرتی ہے۔ بڑا فنکار وہی ہوتا ہے، جس کا فن پارہ دیر تک قاری کے ذہن میں باقی رہے۔ کچھ ایسا ہی کچھ عرفان صدیقی کو پڑھنے کے بعد ہوتا ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ فن کے ساتھ ساتھ تاریخی اعتبار سے بھی ان کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تاکہ عرفان صدیقی کے فن اور فکری ارتقا کو اس تناظر میں پرکھا اور سمجھا جا سکے۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

عرفان صدیقی کی غزل میں کلاسیکی رنگ

 

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بسمل عارفی(دہلی)

 

عظیم کلاسیکی روایات سے استفادہ آج بھی غزل کے لئے ناگزیر ہے جس میں حسن کا حوالہ اور جذبۂ عشق کی کیفیات کو معراج کا درجہ حاصل ہے۔ اب جبکہ غزل کی دنیا کا فی و سیع اور بدل چکی ہے اور اس کے دائرۂ کار سے باہر کے تصور کئے جانے والے مضامین بھی بہ حسن و خوبی جگہ پا رہے ہیں پھر بھی غزل اپنی عظیم کلاسیکی روایات سے پوری طرح آزاد نہیں ہو سکی ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ اول تا آخر غزل کے سرمائے کا مطالعہ کیا جائے تو سیکڑوں نادر اشعار ایسے نکل آئیں گے جو روایت کی بطن سے نکلے ہیں۔ کلاسیکی رنگ کی غزلوں میں جہاں حسن و عشق کے قصے بیان ہوتے ہیں، وہیں وصال و ہجر کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ جمالیات اور اس کی رنگینیِ شباب کے ساتھ بدن اور وہ تمام عضو جو کسی حد تک اپنی طرف راغب و متوجہ کرتے ہیں، ان کا ذکر بار بار اور تفصیل سے آتا ہے۔ اس سے تلذذ کے ساتھ دلی اطمینان اور بعض اوقات روحانی سکون بھی حاصل ہوتا ہے۔ شاعر اسی دنیا کا انسان ہے تو وہ باتیں بھی اس دنیا اور دنیا میں رہنے والوں کی کرے گا۔ جذبات کی وجہ سے ترجیحات بدل جاتی ہیں اور شاید اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ شاعری دل کی زبان ہے۔ وہ جو محسوس کرتا ہے لفظوں کے سہارے قارئین وسامعین کے حوالے کر دیتا ہے۔ جذبات کی ترجمانی میں الفاظ کا بڑا دخل ہے الفاظ مناسب و موزوں نہ لا سکیں تو جذبات کی گرمی بھی کوئی کمال نہیں دکھا پاتی۔

جدید غزل گو ئی کا دور جو ۱۹۵۵ کے بعد سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس میں جدیدیت کے فروغ کی وجہ سے بغاوت لازمی سمجھی جاتی ہے، اس دور میں بھی دو ایک شعرا کو چھوڑ دیں تو باقی شعرا روایت سے دامن نہیں بچاس کے اور کلاسیکی روایات کے عمدہ اشعار ان کے یہاں موجود ہیں۔ ہاں طرز اظہار بدلا ہواضرورمحسوس ہو گا اور کیوں نہ ہو جب جدید غزل کی بنیاد مستحکم ہو رہی ہو۔ میر تقی میر سے فیض احمد فیض تک اور ان کے بعد بھی محبت کی شاعری ہو رہی ہے اور اشعار نکل کر آ رہے ہیں تو ظاہر ہے کوئی نہ کوئی ایسی قوت ہے جو ایسی شاعری کروا رہی ہے اور جسے عوام بھی قبولیت کی سند سے نواز رہے ہیں۔ کلاسیکی غزل کے حوالے سے عرفان صدیقی کی غزلوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی لکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’انہوں نے کلاسیکی غزل کا ایک نیا تصور قائم کیا اور ان کی غزل کو جو بے مثال قبولیت اور شہرت ملی، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو شاعری کی دوسری صنفوں کے بر عکس غزل کی صنف انسانی صورت حال اور زبان و مکان کے تمام تغیرات کی پر چھائیاں سمیٹنے کے بعد بھی اپنے ورثے سے دستبردار نہ ہو گی۔ نئی غزل کا ایک قدم اپنی روایت کے سمٹتے پھیلے دائرے میں نہایت مضبوطی سے جما رہے گا۔ عرفان صاحب کی غزل میں حال اور مستقبل کے ادراک کے علاوہ اپنے ماضی کا احساس ایک دائمی قدر کے طور پر موجود ہے۔ ‘‘

مذکورہ اقتباس میں پروفیسرشمیم حنفی نے عرفان صدیقی کی کلاسیکی غزلوں کے حوالے سے جس تصور کی بات کی ہے، وہ ان کے یہاں ابتدا ہی سے موجود ہے اور جو فن ’’عشق نامہ‘‘ میں کمال کو پہنچا ہے اس کی جڑیں ان کے سابقہ مجموعوں میں بھی موجود ہے۔

بھلا یہ عمر کوئی کاروبار شوق کی ہے

بس اک تلافیِ مافات کرتا رہتا ہوں

عجب نہیں کسی کوشش میں کامراں ہو جاؤں

محبتوں کی شروعات کرتا رہتا ہوں

اس اقرار و اظہار کے باوجود کہ اب عمر کسی طرح کے کاروبار شوق کی نہیں رہی پھر بھی کسی کی تلاش میں شاعر کا سرگرداں رہنا ایک ایسی رغبت ظاہر کرتا ہے جو دل کے کسی کونے میں گھر کر چکی ہے اور یہ دبی دبی سی خواہش کبھی کبھی سر ابھارتی ہے اور پھر شاعر دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر پھر سے کاروبار شوق کی تمنا میں نکل پڑتا ہے۔ دوسرے شعر میں مزید وضاحت کے ساتھ وہی پہلو نمایاں ہوا ہے۔ اگر کوئی خواہش دبی نہیں ہے تو پھر یہ کوشش بے جا کا کیا مطلب اور محبتوں کی شروعات کیوں ؟

مجھے کچھ شوق نظارہ بھی ہے پھولوں کے چہرے کا

مگر کچھ پھول چہرے میری نگرانی بھی کرتے ہیں

تو مجھے کتنے ہی چہروں میں نظر آتا ہے

کوئی پوچھے تو میں کیا نام بتاؤں تیرا

تو مرے عشق کی دنیائے زیاں کا سچ ہے

کیوں کسی اور کو افسانہ سناؤں تیرا

ان اشعار میں معاملہ بندی مزید وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ پہلے شعر میں پھول جیسے چہروں کو دیکھنا اور دیکھتے رہنا ساتھ ہی یہ خدشہ بھی کہ کچھ پھول جیسے چہرے ان کی نگرانی بھی کرتے ہیں۔ غالباً عشق کی پہلی منزل کی روداد معلوم ہوتی ہے۔ جہاں عاشق کی نگاہ اپنے معشوق کی تلاش تو کرتی ہے مگر یہ بھی سوچتی ہے کہ اس کی اس حرکت پر کسی اور کی نگاہ بھی تو نہیں۔ دوسرے شعر میں عشق اپنے عروج پر نظر آتا ہے جب عاشق کو تمام صورتوں میں اپنے محبوب کی صورت نظر آتی ہے اور وہ یہ سوچ کر پریشان ہوتا ہے کہ آخر وہ اسے کس نام سے پکارے۔ اس شعر کو حقیقی معنوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب مالک حقیقی چہار طرف اپنے بندوں اور اپنے تخلیق کردہ ذرے ذرے سے نمایاں ہو تو پھر اسے کس نام سے پکارا جائے۔ آخری اور تیسرے شعر میں متکلم اپنی عشق کی دنیا کی خبر گیری کرتا ہے، جہاں اسے نقصان کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا لیکن مگر پھر بھی وہ اپنے محبوب کی شرمندگی کا احساس کرتے ہوئے، اس افسانے کو اپنے ہی تک رکھنے کا پابند ہے کہ اس افسانہ یا اس راز کے افشا ہونے سے کسی کی رسوائی ہو سکتی ہے۔

میر تقی میر سے فیض احمد فیض اور اس کے بعد جدید تر غزل گو شعرا کی کلاسیکی غزلوں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہر عہد کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ الفاظ بھی عہد کی نمائندگی کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور جن کی شاعری بھی کہیں منفرد نظر آتی ہے اس میں خیال، وسعت فکر اور جذبے کی روانی کے ساتھ الفاظ کا انتخاب بھی ضروری ہے مگر عرفان صدیقی کے یہاں معاملہ کچھ مختلف نظر آتا ہے۔ عرفان صدیقی کی غزلوں میں فارسی کے الفاظ اردو کے ساتھ اس اپنائیت کے ساتھ اشعار میں ڈھل گئے ہیں کہ اردو کے ہی معلوم ہوتے ہیں۔

اس کے بسمل ہیں سو ہم دیکھتے ہیں اس کی طرف

وہ شہ چارہ گراں کس کی طرف دیکھتا ہے

ذرا سے لمس شر ر نے عجب کمال کیا

میں سوچتا تھا مرے خاروخس میں کچھ بھی نہیں

تو ادھر کس کو ڈبونے کے لئے آئی تھی

دیکھ اے موج بلا خیز کنارہ ہے کہ ہم

عرفان صدیقی کی غزلوں میں جمالیات کی عکاسی اپنے پیش رو شعرا سے یوں مختلف ہے کہ موضوع کی یکسانیت کے باوجود الفاظ کی بدولت خیال کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔

چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا

اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن

عبارتیں جو ستاروں پہ ہم کو لکھنا تھیں

تری جبین ستارہ نما پہ لکھیں گے

سخت ہے مرحلۂ رزق یہ ہم جانتے ہیں

پر اسے معرکۂ عشق سے کم جانتے ہیں

پہلے شعر کے مصرعہ اولیٰ میں لفظ ’’ سرگوشی‘‘ نے شعر کو آفاقیت عطا کر دی ہے، کوئی عام شاعر یہ شعر کہتا تو ’’سرگوشی‘‘ کے بجائے ’’خاموشی‘‘ استعمال کرتا اور شعر سطحی نہ سہی مگر عام فہم ہو کر رہ جاتا۔ چھت پہ سرگوشی کا مہتاب نکلنے اور اس کے پازیب کی جھنکار سے زینہ کا روشن ہونا شاعر کے الفاظ برتنے کی قدرت پر دال ہے۔ پازیب کی جھنکار کی وجہ سے جو نسوانیت پیدا ہوئی ہے۔ اس نے پہلے مصرعہ سے مل کر بڑی گہرائی پیدا کر دی ہے۔ عرفان صدیقی کا یہ کمال جا بجا ان کے دوسرے شعروں میں بھی نظر آتا ہے۔ دوسرے شعر میں محبوب کی جبیں کو ’’ستارہ نما‘‘ کہنا بھی ان ہی کا حق ہے اور اس کے بعد یہ خواہش کہ جو عبارت ہمیں ستاروں میں لکھنا تھیں وہ اس جبیں پر لکھیں گے، محبت کی ایک روشن مثال پیش کرتی ہے۔ محبوب کی جبیں کسی ستارہ سے کم تو نہیں بلکہ عاشق کے نزدیک اس ستارہ کی قیمت و اہمیت محبوب کی جبیں سے کم ہی ہے۔ تیسرے شعر میں عشق کی اس آخری منزل پر گفتگو ہو رہی ہے جو ہر عاشق کی زندگی کا آخری مقصد ہوتا ہے۔ یہاں متکلم اس پر آشوب زمانہ کی تنگ نظری کا قصہ بیان کئے بغیر ہی باور کراتا ہے کہ مرحلہ رزق دشوار ضرور ہے اور یہ کسی معرکہ سر کر لینے سے کم نہیں مگر معرکۂ عشق سے معرکۂ رزق کو کم دشوار سمجھنا عشق میں حائل دشواریوں پر سے پردہ اٹھانا ہے۔ کلاسیکی روایات کی جو شمع ’’سات سماوات‘‘ میں روشن ہوئی اس کی لو ’’عشق نامہ‘‘ میں اتنی تیز ہو گئی کہ سارا جہاں منور ہو گیا اور اس مجموعہ نے ایک ایسی روایت قائم کر دی جو سابقہ روایات کی توسیع کہلائی۔ ان کی غزلیں روایت سے جڑی ہونے کے باوجود ایک ایسا بانکپن رکھتی ہیں جو کلاسیکی ادب کے پورے سرمائے کے بغور مطالعہ کے بعد ہی حاصل ہو سکتا ہے ’’عشق نامہ‘‘ میں عشق کا تجربہ مزید وسعت کے ساتھ نظر آتا ہے جسے ان کی نمائندہ لفظیات نے اور گہرا کر دیا ہے اور اس تخلیقی استعمال نے اسے انفرادیت عطا کر دی ہے جسے ہم اپنی سہولت کے لئے اور ان کے فن کی بلندی کی قدر و منزلت کے لئے نو کلاسیکیت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ ’’ عشق نامہ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر انیس اشفاق لکھتے ہیں۔ ’’عشق نامہ‘‘ میں ہم عشق کی ایک نئی دنیا سے متعارف ہوتے ہیں جہاں عشق کی جمالیات اپنے نئے رنگوں میں نظر آتی ہے۔ اس شاعری کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عشق کے موضوع کے اظہار میں عرفان صدیقی نے اپنے تمام تخلیقی سرچشموں کو تلاش کر لیا ہے۔ اداسی اور محرومی کے عالم میں اس شاعری کی قرأت سے ہم حزن و ملال کی فضا سے آزاد محسوس کرنے لگتے ہیں جو عشق کے ہاتھوں اٹھانا پڑتی ہے۔ ’’عشق نامہ ‘‘کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے معاملات عشق کی شراکت کے معاملے میں عرفان صدیقی نے مکان میر کا ایک نیا دریچہ کھول دیا ہے جہاں بیٹھ کر ہم زیادہ تازگی اور زیادہ فرحت محسوس کرتے ہیں۔ ‘‘

پروفیسرانیس اشفاق نے مذکورہ اقتباس میں ’’عشق نامہ ‘‘ کی شاعری کی جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے اگر چہ یہ خصوصیات ان کے سابقہ مجموعوں میں بھی موجود تھیں مگر وسیع تناظر میں ’’ عشق نامہ ‘‘ہی میں سامنے آئی ہیں اور واقعی جس فرحت کا احساس کراتی ہیں اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ ’’عشق نامہ‘‘ میں عشق کے ہر پہلو پر اظہار خیال اور اشعار موجود ہیں یعنی عشق کی ابتدا سے اس کے آخری مرحلے تک جہاں پہنچ کر عشق، عشق نہیں رہتا خدا ہو جاتا ہے۔ عشق کے ان تمام پہلوؤں پر اپنی گفتگو اور حوالے کے طور اشعار پیش کرنے سے قبل پروفیسر نیرمسعود کا اقتباس نقل کرنا چاہتا ہوں جس میں انھوں نے ’’عشق نامہ ‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے۔ ’’ان شعروں میں (عشق نامہ کے شعروں میں )عشق کے بہت سے روپ نظر آتے ہیں اور ہر روپ کے اظہار میں عرفان صدیقی کا مخصوص انداز بیان نظر آتا ہے جس کی وجہ سے واردات عشق کی شاعری میں ’’عشق نامہ ‘‘کو انفرادیت حاصل ہے ‘‘۔

پروفیسر نیز مسعود کی اس رائے کی اہمیت اس وجہ سے بڑھ جاتی ہے کہ وہ عرفان صدیقی کے دوستوں اور ان کے مزاج شناسوں میں تھے، انہوں نے ان کے ساتھ کئی اچھی محفلیں جن میں شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی اور اسلم محمود بھی شا مل رہے ہیں گزاری ہیں۔ عشقیہ غزلوں کی طرف عرفان صدیقی کو مائل کرنے والے بھی یہی لوگ ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے توپروفیسر نیر مسعود ’’عشق نامہ ‘‘ کی اشاعت سے قبل ہی ان کی اس شاعری سے لطف اندوز ہو چکے تھے اور اپنی مثبت رائے پیش کر دی تھی۔ انھوں نے اس اقتباس میں ’’عشق نامہ‘‘ کی وہ بات کہہ دی ہے جو ’’ عشق نامہ‘‘ کی اصل ہے یعنی اس میں عشق کے بہت سے روپ نظر آتے ہیں۔ آئیے اس عشق کے مختلف پہلوؤں پر اشعار کے حوالہ کے ساتھ گفتگو کریں۔ عشق کی پہلی منزل کے اشعار دیکھیں۔

ہم تعارف ہی سے دیوانے ہوئے جاتے ہیں

اور ابھی مرحلۂ کار وفا رکھا ہے

تیرے وصال سے کچھ کم نہیں امید وصال

سو ہم ہلاک ہوئے ہیں خوشی میں پہلے سے

ہوا گلاب کو چھو کر گزرتی رہتی ہے

سو میں بھی اتنا گنہ گار رہنا چاہتا ہوں

یہ تینوں اشعار عشق کی پہلی ہی منزل کے کہے جائیں گے جب متکلم کا تعارف اپنے محبوب سے ہوتا ہے اور وہ اسی تعارف کی سرشاری میں گم ہو جاتا ہے جبکہ ابھیس کے کئی پیچ و خم کا اندازہ نہیں ہوتا جو ابھی آنے والے ہیں۔ اس شعر میں متکلم کی سادگی دیکھتے بنتی ہے اور یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے دنیا کی خبر ہی نہیں۔ دوسرے شعر میں وہی منزل ہے مگر سفر دو قدم بڑھ چکا ہے۔ متکلم کو محبوب بے پروانے وصال کی امید دلا دی ہے اور اس امید میں وہ اتنا خوش ہے جیسے اسے وصل میسر ہو چکا ہو اور اسی خوشی میں وہ بے خود ہے۔ تیسرے شعر میں جو وصال کی امید دکھا ئی دیتی ہے وہ معدوم ہونے لگتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب وصال میسر نہ ہو پھر بے چارگی میں متکلم اپنے محبوب سے شکایت کا انداز اپناتے ہوئے کہتا ہے کہ جس طرح ہوا گلاب کو چھوکر گزر جاتی ہے بس اسی طرح میں بھی تمہیں چھونا چاہتا ہوں اور اگر یہ گناہ ہے تو اتنا گنہگار رہنا چاہتا ہوں۔ عشق کی بیتابی متکلم سے یہاں یہ کہلوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ اسے چھونا گناہ سہی مگر چھونا، اس کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ اس شعر میں جذبے کی روانی تھوڑی مدھم ضرور ہے مگر چنگاری بالکل بجھی نہیں ہے۔ کچھ اشعار اور دیکھیں۔

کیا کیا طور اسے آتے ہیں دل کو شکیبا رکھنے کے

لغزش پہ ناراض نہ ہو اور خواہش نا منظور کرے

تم تو سچے ہو مگر دل کا بھروسہ کچھ نہیں

بجھ نہ جائے یہ چراغ انتظار اگلے برس

ہم کو تو دلبر خوب ملا پر اپنی اپنی قسمت ہے

پھر بھی جو کوئی رنج اٹھانا چاہے عشق ضرور کرے

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں

ان چاروں اشعار میں عشق کی بے تابی اور شکوہ کا انداز موجود ہے۔ پہلے شعر میں متکلم اپنے محبوب کے انداز کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے صبر و تحمل سے کام لینے پر آمادہ کرنے کے کیسے کیسے طریقے معلوم ہیں۔ ایک انداز تو اس کا یہی نرالا ہے کی لغزش پہ ناراض نہ ہو اگر اس کے عاشق کا ہاتھ، ہاتھ ہی سہی اس کے جسم کے کسی حصہ سے مس ہو جاتا ہے تو وہ بظاہر ناراض نہیں ہوتا۔ یہاں ناراض نا ہونا دو باتیں ظاہر کرتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اسے اتنی چھوٹ دے رکھی ہے اور بیتاب دل کے لیے اتنی راحت کا سامان لازمی ہے اور دوسری یہ کہ اگر اسے اتنی بھی چھوٹ نہ دی جائے تو وہ خود ہی ناراض ہو کر چلا جائے گا اور پھر اسے بھی تو اس لغزش سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ جب وہ لغزش پر ناراض بھی نہیں ہوتا تو پھر خواہش کیوں نا منظور کر دیتا ہے۔ اس شعر میں محبوب کے انداز کی بھر پور نمائندگی ہوتی ہے۔ دوسرے شعر میں بڑی سادگی سے متکلم اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوے کہتا ہے کہ تم تو سچے ہو اور تمہارے وعدے پر مجھے کامل یقین بھی ہے کہ تم وعدہ وفا کرو گے مگر اس بیماریِ دل کا کوئی بھروسہ نہیں۔ کہیں یہ انتظار کرتے کرتے بجھ نہ جائے۔ یہاں دل کے لیے چراغ کہ تشبیہ بڑی معنی خیز ہے جو ’’اگلے برس ‘‘کے ٹکڑے کے ساتھ مزید پر معنی ہو گئی ہے۔ تیسرے شعر میں شاعر نے بڑی عمدہ فضا بندی کی ہے کہ ہم کو تو جو محبوب ملا ہے، وہ خوب ہے مگر یہ تو اپنی اپنی قسمت ہے کہ کسے کب، کون اور کیسا مل جائے پھر بھی جو رنج و الم اٹھانا چاہے عشق ضرور کرے، اس ٹکڑے سے اتنی وضاحت تو ہو جاتی ہے کہ عشق میں رنج اٹھانا ہی پڑتا ہے۔ اسی شعر میں شاعر نے بڑی خوبصورتی سے اپنی اپنی قسمت کا ٹکڑا پیش کر کے یہ ظاہر ہی نہیں ہونے دیا کہ متکلم کو جو محبوب ملا ہے وہ کیسا ہے اور اس سے مل کروہ مایوسی و رنج کے عالم میں ہے یا فرحت کے لمحات گزار رہا ہے۔ اس ٹکڑے کی وجہ سے اس سچائی پر پردہ ڈال دیا گیا ہے اور جس کی وجہ سے شعر بلند ہو گیا ہے۔ یہاں شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے محبت کرنے والوں کو انجام کی فکر یاد دلا کر خبردار بھی کیا ہے اور چاہت کی اس منزل کی طرف بڑھنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کاراستہ بھی کھلا رکھا ہے۔ چوتھے شعر کی ابتدا ہی سوالیہ ہے۔ ’’کہا تھا تم نے ‘‘اس ٹکڑے نے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ عشق کی تاب کے یہاں معنی یہاں گرمی، حرارت اور پیچ و خم لیے جا سکتے ہیں اور ان تینوں معنوں ہی پر اکتفا کیا جائے تو عشق کی تاب لانے کا حوصلہ ہر کس و ناکس میں نہیں ہو سکتا، عشق کی تاب میں جلناکسی عام آدمی کے جگر کی بات نہیں یہ کارنامہ تو وہی انجام دے سکتا ہے جو زمانہ کے سردو گرم سے اوپر اٹھ چکا ہو یاپھرجس کے سر میں سودا ہو۔ کیونکہ آگ اندر اندر تو سلگاتی ہے مگر باہر سے کچھ نظر نہیں آتا اور جلن کی تکلیف کسی سے بیان کرنے سے بھی وہ قاصر رہتا ہے، دوسرے مصرعے میں بے بسی کی طرف اشارہ ہے۔ عرفان صدیقی کلاسیکی روایت کا بھر پور ادراک رکھتے تھے جو انہیں غزل کی تہہ داری برقرار رکھنے اور تہذیب و ثقافت سے جڑے رہنے میں معاونت کرتی تھی۔ انھوں نے کلاسیکی روایات کا بھر پور مطالعہ بھی کیا تھا اور جس کی وجہ سے انہیں بڑی آسانی کے ساتھ خوش آہنگی بھی ہاتھ آ گئی۔ عرفان صدیقی کے یہاں جو ہمواری دیکھنے کو ملتی ہے اور واردات عشق کی ترجمانی کرتے وقت جو دھیما لہجہ وہ استعمال کرتے ہیں، وہ ان کی کامیابی کی پہلی شرط ہے۔

امیدواروں پہ کھلتا نہیں وہ باب وصال

اور اس کے شہر سے کرتا نہیں کنارہ کوئی

بیس اکیس برس پیچھے ہمیں کب تک ملتے رہنا ہے

دیکھو اب کی بار ملو تو دل کی بات بتا دینا

کیا جھلکتا ہے یہ جاناں تری خاموشی میں

حرف اقرار تو کہتا بھی نہیں تو ہم سے

میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ عرفان صدیقی نے اپنی غزلوں میں عمومی لہجہ جو اختیار کیا ہے وہ سادہ ہے، یہاں سادہ کا مطلب سپاٹ نہیں، انہوں نے جس سادگی اور اپنائیت سے واردات عشق کی ترجمانی کی ہے اور عاشق و معشوق کے اسرارورموز بیان کئے ہیں وہ بعض اوقات ہمدردانہ لہجہ اختیار کر گیا ہے۔ پہلے اور تیسرے شعر میں وہی سادگی اور ہمدردی دکھائی دیتی ہے۔ معشوق سے وصال کی تمنا لیے امیدواروں کی ایک لمبی قطار موجود ہے اور کسی کے نام سے بھی معاملہ کھل نہیں رہا ہے اور انتظار میں لوگ اس شہر سے جاتے بھی نہیں کہ کب کس کے نام قرعہ نکل آئے۔ تیسرے شعر میں ’’خاموشی ‘‘ نے شعر کو عام فہم ہونے سے بچا لیا ہے اور اس ایک لفظ نے وہ معنویت پیدا کر دی ہے جو کسی دوسرے لفظ کی بدولت نہیں حاصل کی جا سکتی تھی۔ تبھی تو کہا جاتا ہے کہ عرفان صدیقی کے پاس لفظ شناسی کاجو ہنر تھا وہ کم سے کم ان کے ہم عصروں میں کسی اور کے پاس نہیں تھا۔ اشعار دیکھیں

عشق میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرتے لیکن

کم سے کم معرکہ جاں میں نہ ہاریں گے تجھے

ہم نے کیا کیا تجھے چاہا ہے انہیں کیا معلوم

لوگ ابھی کل سے ترے چاہنے والے ہوئے ہیں

پہلے شعر میں عاشق کا دعویٰ دیکھیں، عشق میں جرات و جواں مردی کا دعویٰ کرنے والوں کی کمی نہیں۔ محبوب کی خاطر ستارہ توڑ لانے کی بات تو عام ہو چکی ہے۔ ہر کس وناکس اس نا ممکن امر پر آمادہ نظر آتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ستارہ توڑ لانے کی نوبت نہیں آتی اور اس کا محبوب اس کی سادگی پر مسکرادیتا ہے اور جذبے کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے اسے اپنے حسن کا جلوہ بھی دکھا دیتا ہے مگر اس شعر میں عاشق نے جو دعویٰ کیا ہے وہ محض ستارہ توڑنے کا نہیں بلکہ اپنی جان عزیز پر کھیل جانے کا ہے۔ لیکن اس کی معصومیت تو دیکھیے، وہ کہتا ہے کہ عشق میں ہم کوئی دعویٰ نہیں کرتے لیکن اگر معرکہ جاں سے گزر کر بھی تمہیں پانا ہو تو اس میں بھی قدم پیچھے نہیں ہوں گے۔ اس شعر میں ’کم سے کم ‘کے ٹکڑے نے وہ معنویت پیدا کر دی ہے جو عرفان صدیقی کا خاصہ ہے، میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ عرفان صدیقی اپنے بیشتر اشعار میں دو یا تین لفظوں کا ایک ایسا ٹکڑا بطور اہتمام پیش کرتے ہیں جو شعر کی معنویت بڑھا دیتی ہے۔ یہاں بھی ’’کم سے کم‘‘ کا ٹکڑا معنی کے پر کھول دیتا ہے یعنی عاشق کے لیے جان کی بازی بھی کم سے کم ہے اور وہ اس معرکہ جاں سے گزر کر بھی اپنے محبوب کو حاصل کر سکتا ہے۔ دوسرے شعر میں عشق کی ایک ایسی ہی منزل کو پیش کیا گیا ہے اور اس کے مصرعہ اولی میں بھی ایک اسی طرح کا ٹکڑا ’’ہم نے کیا کیا ‘‘ملاحظہ کریں۔ اس کیا کیا نے شعر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ حالانکہ اس شعر میں سارے الفاظ سادہ اور عام بول چال کے ہیں مگر اس کیا کیا، نے جو فضا بندی کی ہے، وہ بہت ہی قابل ستائش ہے۔ متکلم اپنے مخاطب سے کہتا ہے کہ ہم نے کیا کیا تجھے چاہا ہے انہیں یعنی دنیا اور دنیا والوں کو کیا معلوم، یہ دنیا اور دنیا والے تو ابھی کل سے تیرے چاہنے والے بنے ہیں۔ مصرعہ ثانی میں ’’کل سے ‘‘کا استعمال بھی قارئین کو ماضی کی طرف لے جاتا ہے یعنی متکلم ایک عرصہ سے اپنے محبوب کو چاہ رہا ہے اور یہ دنیا کل سے اپنی چاہت کا اظہار کر کے اس پر بر تری چاہ رہی ہے۔ کیا عشق میں یونہی برتری حاصل ہو جاتی ہے اور محبوب کا نیاز اور وصل حاصل ہو جاتا ہے۔ یہاں عاشق نے پورے معاملے کوپر اسراربنا رکھا ہے کہ وہ اپنے محبوب کو ’’کیا کیا‘‘ چاہ رہا ہے، یہاں ’’کیا کیا ‘‘کی وضاحت نہیں کی گئی ہے اور اس ’’ کیا کیا‘‘ کے معنی یہاں بہت کچھ یا سب کچھ لیا جا سکتا ہے۔ اب اس شعر میں جذبے کی حرارت کو محسوس کریں تو شعر کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے۔

عرفان صدیقی نے ’’ عشق نامہ ‘‘میں جن کلاسیکی روایات و جمالیات کی عکاسی شعروں کے حوالے سے کی ہے، وہ انہیں کئی حیثیتوں سے منفرد کرتی ہے۔ انہوں نے کلاسیکی روایات کی جو اپنے یہاں بنیاد رکھی ہے جسے کچھ لوگ نو کلاسیکیت کا نام بھی دے رہے ہیں، ان میں خیال کے ساتھ لفظوں کی بڑی اہمیت ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں نئی لفظیات نہ کے برابر ہیں۔ انہوں نے روایتی الفاظ کو اس فنکارہ حسن کے ساتھ استعمال کیا ہے کہ بے روح الفاظ میں بھی جان ڈال دی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب شاعر الفاظ کے تخلیقی استعمال کے ہنر سے واقف ہو اور یہ فن اگر اسے آتا ہے تو پرانے الفاظ بھی نئے ہو جاتے ہیں۔ ان کے کچھ مخصوص الفاظ دیکھیں جو ان کی غزلوں میں بار بار اور الگ الگ معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ سارے الفاظ وہ ہیں جو جدید غزل گو شعرا کے یہاں نہ کہ برابر ہیں لیکن مگر عرفان صدیقی نے ان لفظوں کو اپنے یہاں برت کر پھر سے انہیں زندہ کر دیا ہے۔ ان کے کچھ مخصوص الفاظ و تراکیب ملاحظہ کریں۔

گمشدگاں، کشتگاں، دل زدگاں، شاخ شجر، موج خوں، لہو، نوک نیزہ، تیر، تیغ، سپر، ابدال، سلوک، ارزانی، نواح، قریہ، حرف زن، نگارندہ، مصاف دار، نسیم رسی، طرفہ، معمورہ، کوچہ گرد، اخی، منعم، رہوار، مملکت، خاک، ناقہ، برگ و ثمر، شاخ تعلق، طلسمات، انجمن، صحرا، حجاب، پیرہن، وحشی، خیمہ، طناب، بدن، جسم، مشک، خوشبو، صدا، گلزار، قیامت، دیوار و در، زوال، سرخ، ہرن، روح، بیاباں، ارزاں، افسردگاں، جنون، مژگاں، کشکول، لشکر، محشر، مٹی، فغاں، پیادگاں، کج کلاہ، نیزہ، غزال، آزردگاں، خیمۂ شب، فانوس، ناقہ سوار، شاخ تعلق کی بہار، دیدہ تر، شہرطلسمات، چراغ انجمن، بدر منیر، وعدۂ فردا، گم گشتہ، شام زوال، نخل مراد، شمشاد قداں، خوش آثار، پیمانۂ لب، سر آشوب، کاسۂ لب، دست غائبانہ، مسافت ہجر، طلوع سحر، شام زمستاں، دشت غزالاں، شاہ بانوئے شہر، فضائے شعری، خوش نظری، شوریدہ سری، دشت ہجراں، سیارہ شکار، منصب دار، ستارہ جبیں، چشم اعتبار، آئینۂ سکوت، ستارہ ادا، ستارۂ شام، چشم غزل، شام زوال، معجزہ گر، خاک بے نمو، لوح جہاں، ستارہ بدن، تیغ جفا، نوحہ گر، حدیث دل، کوزۂ خاک، دست و گریباں، ستارۂ ہجر، خس و خاشاک، درد نہاں، نامۂ جاں، دست کمال، سیم و زر، بندۂ خاک نشاں، اندیشۂ جاں، ستم گراں وغیرہ

یہ کچھ مخصوص لفظیات اور ترکیبیں ہیں۔ جو عرفان صدیقی کی غزلوں میں جا بجا نظر آتے ہیں اور انہی لفظوں اور ترکیبوں نے عرفان صدیقی کی شعری کائنات کو روشن کر رکھا ہے۔ ان میں کچھ الفاظ تو ایسے ہیں جو اب اردو شاعری میں استعمال ہی نہیں ہوتے اور کچھ الفاظ وہ ہیں جو کم استعمال ہوتے ہیں۔ جہاں تک ترکیبوں کی بات ہے تو ان میں کچھ ترکیبیں اردو شاعری میں پہلے سے آ رہی ہیں مگر کچھ ترکیبیں عرفان صدیقی نے خود بنائی ہیں اور انہی کا استعمال ان کے یہاں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ شاعری اور خصوصاً غزل میں الفاظ کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے، بڑی سی بڑی بات اور خیال کو دو مصرعوں میں کہہ دینا معمولی ہنر کا کام نہیں، اس لئے کہا جاتا ہے کہ غزل کے شاعر کو الفاظ پر قدرت حاصل نہ ہو تو اچھا خیال بھی موزوں الفاظ کی قلت کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ عرفان صدیقی کو خیال کی ادائیگی کے لئے موزوں الفاظ کی تلاش نہیں کرنی پڑتی ہے۔ ان کے اشعار گواہ ہیں کہ خیال کی ادائیگی میں انہیں کسی لفظی کسرت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ مظہر امام عرفان صدیقی کی کلاسیکی رنگ کی غزلوں کے تعلق سے لکھتے ہیں۔ ’’عرفان صدیقی کی نازک خیالی، ان کے ڈکشن کی نفاست، ان کے شعور حیات کی رعنائی اور ان کے تصور عشق کی تہذیب ان کے اشعار سے چھلک پڑتی ہے۔ ۔ ..۔ ..۔ . ان کی تازہ غزلیں (عشق نامہ) وصال و ہجر کو نئی خصوصیت عطا کرتی ہیں۔ ان کی یہ شاعری رنگ عام کی عشقیہ شاعری نہیں ہے۔ انہوں نے عشق کو ایک مابعد الطبیعاتی جہت دی ہے۔ عشق نے انہیں ایک نئی سرشاری بخشی ہے اور ان کا تخلیقی ابال اسی جذبے کا عطیہ ہے ‘‘

مظہر امام نے مذکورہ اقتباس میں عرفان صدیقی کی شاعری کے جس گوشے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ عشق نامہ میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ اشعار دیکھیں۔

تجھی پہ ختم ہے جاناں مرے زوال کی رات

تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں

وہ خوش بدن ہے نوید بہار میرے لئے

میں اس کو چھولوں تو سب کچھ نیا نیا ہو جائے

اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں

ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے

جب سے جانا ہے کہ میں جان سمجھتا ہوں اسے

وہ ہرن چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا ہے

دل کا کیا ٹھیک ہے آنا ہے تو آ جا کہ ابھی

ہم یہ گرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

کوئے قاتل کی روایت ہی بدل دی میں نے

ورنہ دستور یہاں لوٹ کر آنے کا نہیں

کب سے مژگاں نہیں کھولے مرے ہشیاروں نے

کتنی آسانی سے طوفان کو ٹالے ہوئے ہیں

کہیں وحشت نہیں دیکھی تری آنکھوں جیسی

یہ ہرن کون سے صحراؤں کے پالے ہوئے ہیں

جیسے فانوس کسی شمع کو حلقہ میں لیے

پیار کی با ہوں میں اک چاند سا چہرہ روشن

لئے پھرتی تھی کسی شہر فراموشی میں

رات پھر کھیل رہی تھی تری خوشبو ہم سے

دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب

میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے

شہروں سے نکل کر ترے دیوانے کہاں جائیں

کم پڑنے لگے دشت غزالاں کے لئے بھی

کھیل یہ ہے کہ کسے کون سوا چاہتا ہے

جیت جاؤ گے تو جاں نذر گذاریں گے تجھے

ہوا کی طرح نہ دیکھی مری خزاں کی بہار

کھلا کے پھول مرا خوش نظر چلا بھی گیا

جان ہم کار محبت کا صلہ چاہتے ہیں

دل سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی

عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم سفری

وہ ساتھ ہو تو بیاباں میں رتجگا ہو جائے

عرفان صدیقی کے یہاں کلاسیکی روایات کے امین مذکورہ اشعار میں عشق کے وہ تمام پہلو سمٹ آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’’سات سماوات ‘‘اور اس سے قبل کے مجموعوں میں جو محبت کی چنگاری راکھ کے ڈھیر میں چھپی تھی وہ ’’عشق نامہ‘‘ میں اپنی پوری جولانی کے ساتھ دہک رہی ہے اور جس کی روشنی سے کلاسیکی ادب کی وہ روایت جو کبھی میرؔ سے چل کر فیض احمد فیض تک آئی تھی، ان کے یہاں مجموعی صفات کے ساتھ موجود ہے۔

عرفان صدیقی کی غزلوں میں بطور خاص کلاسیکی روایات و جمالیات اور پیکر تراشی والے اشعار میں جلنے اور پگھلنے کی بات بار بار دہرائی گئی ہے اور یہ دونوں صورتوں میں ہوتا ہے جب محبوب کا نیاز حاصل ہو تو بھی اور نہ ہو تو بھی مگر پہلی صورت میں زیادہ امکان روشن رہتا ہے کیونکہ جلنے اور پگھلنے کی نوبت تبھی آتی ہے جب محبوب کا نیاز حاصل ہو، گفتگو کے مواقع ملیں۔ اشعار دیکھیں۔

محبت میں ہوس کا سا مزہ ملنا کہاں ممکن

وہ صرف اک روشنی ہے جس میں جلنا چاہتا ہوں میں

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

جان وتن عشق میں جل جائیں گے جل جانے دو

ہم اسی آگ سے گھر اپنا اجالے ہوئے ہیں

عرفان صدیقی کے ان شعروں کو پڑھتے ہی جگر مراد آبادی کا وہ شعر یاد آ جاتا ہے جسے عشق کے تعارف کے طور پر ہمیشہ پیش کیا گیا اور کیا جا سکتا ہے۔

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

عرفان صدیقی کے یہاں عشق کی معنویت کچھ اسی طرح وسیع ہوئی ہے۔ اور انہوں نے عشق کو ایک نیا مفہوم دینے کی کوشش کی ہے۔ عرفان صدیقی کی غزلوں میں جب بدن کے حوالے آتے ہیں اور عشق اپنی آخری منزل میں پہنچا ہوا دکھائی دیتا ہے تو بھی وہ جنسی تلذذ نہیں آ پاتا، جو دوسرے شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدن کا ذکر کرتے ہوئے بھی وہ ایک ایسی پاکیزگی شعروں کے اوپر ڈھال دیتے ہیں جو ان شعروں کو نفسانی خواہشات سے الگ کر دیتی ہے۔ ان کے یہاں ’’لہو‘‘ ایک نئے معنی میں استعمال ہوا ہے، عام طور پر شعر اء لہو یا خون کا استعمال ایسے شعروں میں نہیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرفان صدیقی کو لفظ شناس کہا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے لفظوں کے انتخاب کے ساتھ بعض اشعار میں ان کے معنی بھی بدل دئے ہیں۔

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

یہ کون میرے بدن میں طلوع ہونے لگا

ابھی لہو کو ملا بھی نہیں اشارۂ شام

دیکھتے ہیں تو لہو جیسے رگیں توڑتا ہے

ہم تو مر جائیں گے سینے سے لگا کر اس کو

اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں

کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا

عرفان صدیقی نے ’’عشق نامہ‘‘ کی غزلوں میں بدن کو استعارہ کے طور پر خوب استعمال کیا ہے مگر کہیں بھی لذت پرستی دکھائی نہیں دیتی جیسے دوسرے جدید شعراء مثلاً ظفر اقبال، عادل منصوری، محمد علوی، ساقی فاروقی، سلیم احمد، بشیر بدر اور چند دوسرے شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبدالباری لکھتے ہیں۔ ’’۔ ..۔ ..وہ بدن کے استعارہ سے خوب کام لیتے ہیں اور مجاز سے حقیقت تک کا سفر بحسن و خوبی طے کرتے ہیں مگرمسوقیت اور لذت پرستی کی کوئی بھی پرچھائیں نہیں پڑتی۔ انسانی پیکر بہرحال خال خدا کی نفاست تخلیق کا مظہر ہے، اس لئے ہر عہد میں مرکز توجہ رہا ہے۔ عرفان صدیقی کی نگاہ سطحی نہیں بلکہ وہ گہرائیوں میں اترتی ہے اور اس طرح کے اشعار سامنے آتے ہیں۔ ، ،

ڈاکٹر سید عبدالباری عرفان صدیقی کا دفاع کرتے ہیں اور میں نے بھی محسوس کیا ہے کہ ان کے یہاں وہ لذت شعر پڑھنے کے بعد نہیں ملتی جو ان کے پیش رو اور ہم عصر شعراء کے یہاں ملتی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ بدن کے اشعار کو انہوں نے کئی معنوں میں استعمال کیا ہے۔

عشق کیا کار ہوس بھی کوئی آسان نہیں

خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

بدن کی ریت پر اب تک اسی وعدے کا سایا ہے

وہ آئیں گے تو تیرے دشت کو گلزار کر دیں گے

کل بگولے کی طرح اس کا بدن رقص میں تھا

کس قدر خوش تھی مری خاک، پریشانی پر

وہ جاگنا مری خاک بدن میں نغموں کا

کسی کی انگلیوں کا نے نواز ہو جانا

کب سے پتھر ہوں بیابان فراموشی میں

میرے ساحر مجھے چھولے کہ بدن ہو جاؤں

حیراں ہوں کہ پھر اس نے نہ کی صبر کی تاکید

بازو جو مرا بازوئے دلدار میں آیا

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

اس طرح عرفان صدیقی کی غزلیں اپنی کلاسیکی روایات، جمالیات اور بدن کے ڈائمنشن کے ساتھ عروج کو پہنچتی ہیں۔ عرفان صدیقی کی مجموعی طور پر کلاسیکی رنگ کی غزلوں کے لیے آخری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے کلاسیکی ادب کا بھر پور مطالعہ کیا ہے اور اپنے پیش رو شعرا سے الگ ایک ایسی راہ نکالی ہے جس کے وہ تنہا مسافر ہیں۔ ان کے ہم عصر یا ان کے بعد آنے والی نسل نے بھی اس طرف کوچ کی تیاری تو کیا آمادگی بھی ظاہر نہیں کی۔ ان غزلوں میں حیات و کائنات دونوں روشن ہیں اور دونوں پہلوؤں پر انہوں نے مشاہدے اور تجربے کے بعد الفاظ کو شعریت عطا کی ہے اور ایسی شعریت جو فی زمانہ کہیں اور نظر نہیں آتی۔ عرفان صدیقی کی شاعری کے رموز کو سمجھنے کے لیے اس کی گہرائی میں اترنے کی ضرورت ہو گی اور تبھی وہ راز پائے جا سکتے ہیں، سطحی مطالعہ یا اوپر اوپر تیرنے والے کو گوہر نکالنے میں یقیناً مایوسی ہو گی۔ کیونکہ جنوں جب تک نہ آئے عشق کے مفہوم واضح نہیں ہو پاتے ہے۔

دشت سے دور بھی کیا رنگ دکھاتا ہے جنوں

دیکھنا ہے تو کسی شہر میں داخل ہو جاؤ

(2014)

٭٭٭

 

 

 

 

تخلیقی قدروں کا پاسدار۔ عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سید احتشام الدین (دربھنگہ)

 

عرفان صدیقی کے اب تک چار مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ ’’کینوس‘‘، ’’شبِ درمیاں ‘‘، ’’سات سماوات‘‘ اور ’’عشق نامہ‘‘۔ اس کے علاوہ عرفان صدیقی نے سنسکرت سے ’’رت سنگھار‘‘ اور ’’مالویکا اگنی ستر‘‘ کا اردو میں منظوم ترجمہ کر کے اپنے مطالعۂ سوچ اور زبان و بیان کے ابلاغ وترسیل پر دسترس کا لوہا منوا چکے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کو (سنسکرت) مشرقی شعریات اور ہند ایرانی تہذیب سے کتنا لگاؤ ہے۔

’’سات سماوات‘‘ میں دیباچہ کے طور پر ’’نہج البلاغت کے خطبہ کا یہ حصہ بڑا ہی با معنی اور کثیر الجہات ہے۔ ملاحظہ فرمائیں : ’’۔ ..۔ ..نیچے ہوا دور تک پھیلی ہوئی تھی اور اوپر پانی ٹھاٹھیں مار ہا تھا۔ انہوں نے پانی کو یوں متھا جیسے دہی کے مشکیزے کو متھا جاتا ہے اور اسے ڈھکیلتی ہوئی تیزی سے چلی، جس طرح خلا میں چلتی ہے، اور پانی کے اول کو آخر پر اور ساکن کو متحرک پر  پلٹانے لگی، یہاں تک کہ اس متلاطم پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ تہہ بہ تہہ ہو کر کف دینے لگا۔ اللہ نے وہ کف کھلی ہوا اور بسیط فضا کی طرف اٹھایا اور اس سے سات سماوات بنائے ‘‘ (حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ)

’’سات سماوات‘‘ کی تخلیق کے سلسلے میں علیؓ نے جس عمل کو دکھایا ہے اسے پڑھ کر ذہن میں سمندر کا تصور ابھرتا ہے۔ جہاں ہوا داخل ہو کر تہ و بالا (Tide) کر کے جھاگ بنا رہا ہے اور اسی جھاگ یا کف سے سات سماوات بنائے گئے۔ کف نکالنے کے لئے پانی کو دہی کے مشکیزے کی صورت کے برتن میں رکھ کر متھا گیا۔ تو کیا سمندر کو دل میں رکھ کر متھا گیا؟ کیوں کہ دل کی شکل مشکیزے جیسی ہی ہوتی ہے جس کی وسعت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ صاحبِ دل جانتے ہیں ؂

یہی ویرانہ بچا تھا تو خدا نے آخر

رکھ دئیے دل میں مرے سات سمندر اپنے

اس قسم کی بات وہی کر سکتا ہے جس کے دل تک اللہ کی بات پہنچ چکی ہو۔ نَارُاللّٰہِ المُؤقَدَۃ الَّتِی تَطَّلِع عَلَی الَافُئِدَۃِ۔

ہندی متھ کے مطابق دیوتاؤں اور راکھچھسوں نے مل کرسمندر متھا تھا۔ اس منتھن سے امرت ملا، زندگی ملی یا آسمان یا وہ خدا جس کے پیغمبر آ آ کر ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی کی بشارت دیتے رہے۔ خیر یہ تو غیر متعلق قسم سی بات نکل پڑی ہے لیکن سوال وہیں کا وہیں ہے۔ آخر دل کیا ہے ؟ آسمان کیوں کر بنا؟ سمندر کو کہاں رکھا گیا؟ یہاں یہ بتانا مشکل ہے، کون صفت اسماء ہیں، اور کون خود قادرِ مطلق۔ یہ بات تو ہم جانتے ہیں جہاں ’’پیدائش، قیام (بالتغیر)فنا قلب علم، عدم ادراک، محسوسیت وغیرہ اوصاف کا ذکر ہو وہاں قادرِ مطلق کا ذکر نہیں ہو سکتا‘‘۔ کٹھ اُپنیشد میں برہم آنند وتی لکھتے ہیں : ’’اس یا اس آتما سے آکاش پیدا ہوا، آکاش سے وایو، وایو سے اگنی، اگنی سے جل، جل سے پرتھوی، پرتھوی سے اوشدھیاں، اوشدھیاں سے اَنّ، اَنّ سے برج (نطفہ)‘‘

یہ ایک سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ کیا ہے ؟ وہ ایک عارف ہی بتا سکتا ہے کیوں کہ وہ اپنی ذات میں ذات مطلق کا، اپنی صفات میں صفاتِ حق کا اور اپنے افعال میں افعالِ خالق کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اسی لئے کہا گیا ہے جس نے اپنے ذات کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ عرفان صدیقی محرمِ ذات کی طرح کہہ رہے ہیں ؂

زیرِ افلاک ستاروں کا سفر جاری ہے

اب کے نکلیں گے ہم اے شام زوال اور کہیں

خود کو چراغِ راہ گذر جانتا ہوں

لیکن چراغِ راہ گذر بھی اسی کا ہے

نبض عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے

کہ یہ عالم ترے ہونے کی بدولت ہی تو ہے

پیش کرتا ہے یہی داورِ محشر کے حضور

میرا سرمایہ ترے نام سے نسبت ہی تو ہے

خاک تھا اپنا بدن اور بکھرنا تھا اسے

ہاں مگر اس خاک میں کچھ گنج زر جیسا بھی تھا

اسی کا خانۂ ویراں، اسی کا طاقِ ابد

میں اک چراغ ہوں، چاہے جہاں جلائے مجھے

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

اس شعر میں آئینہ خود بینی کو ظاہر کر رہا ہے جب کہ عام طور پر شعراء کا خیال یہی ہے کہ آئینہ میں جو تصویر ابھرتی ہے وہ موہوم ہوتی ہے۔ جب تک آئینہ دیکھ رہے ہیں، اس میں خود کو اور قریب کے مناظر کو پاتے ہیں لیکن جوں ہی آپ ہٹے یا آپ کا زاویۂ نظر بدلا کہ سارا منظر ختم ہو گیا۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس میں خود سے ما ورا کچھ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ : ’’ہستی موہوم انساں کی اپنی ہستی ہے اور ہستی واقعی ما سوائے ذات یعنی اللہ ہے ‘‘

عرفان صدیقی نے مندرجہ بالا شعر میں اپنی ذات کا مشاہدہ کر کے خود بینی کا اعلان کیا ہے تو دوسری طرف باطنی اور بیرونی اسرار کا انکشاف بھی کیا ہے، اور سمجھنا چاہا ہے کہ کون کہاں کس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ یہاں یہ خود بینی کے ساتھ ما سوائے ذات یعنی مشاہدۂ حقیقی کا عرفان حاصل کر لیا ہے، اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں ؂

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے

یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

اسی پندار کے احساس کی وجہ سے انہیں دنیا کو تاہ، تنگ اور کم مایہ نظر آتی ہے ؂

دنیا نے تو آغوش ہوس کی تھی کشادہ

کچھ میں ہی نہ اس حلقۂ کوتاہ میں آیا

خیر دنیا مری وحشت کے لئے تنگ سہی

اور یہ عرصۂ باطن میں بیابان جو ہے

لطف الرحمن نے کہا تھا ؂

جب تک بِکا نہ تھا تو کوئی پوچھتا نہ تھا

تم نے خرید کر مجھے انمول کر دیا

اسی انمول بننے کی خواہش، عرفان صدیقی کو بازار لے آئی ہے۔ یہاں اس صارفی نظام میں خرید فروخت جاری ہے۔ دنیا نے انہیں بہت خریدنا چاہا بہت بڑھ چڑھ کر دام لگایا، لیکن عرفان صدیقی کسی قیمت پر نہیں بِکا۔ لیکن پھر بھی اسے کسی خریدار کا انتظار ہے جو اسے خرید کر انمول کر دے۔ عرفان صدیقی کے یہاں ایک عجیب کیفیت ہے، اعتماد، امید، تذبذب کے ملے جلے جذبے کے باوجود قیمت گھٹانے پر آمادہ نہیں۔ بازار میں جب آ ہی گیا ہے تو اسے نظر والے کے آنے کی موہوم سی تلاش بھی ہے ؂

بازار میں آئے ہیں تو کیا مول گھٹائیں

شاید کوئی اپنا بھی خریدار نکل آئے

اور نہیں تو پھر یہ اس وقت ممکن ہے، جب بلا یا جائے گا۔ یا اولیاء اللہ ھل موالیٰ اللہ (اے خدا کے چاہنے والو چلو اپنے محبوب کی طرف) یہاں پر دنیاوی تعلقات اور اس سے ملے انعام وا کرام سے انکار، غیر حق کی طرف قطع تعلق ہے اور دوسری طرف حق تعالیٰ کی معرفت کو پانا اور اس کی طرف متوجہ رہنا ہے۔

عرفان صدیقی اپنے تاریخی اور تہذیبی روایت کے ساتھ پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی واقعات کی کڑوی سچائی کو بڑی چابکدستی کے ساتھ تلمیحات و اشارات میں بیان کر دیتے ہیں ؂

یوسفِ شہر تجھے تیرے قبیلے والے   دام لگ جائے تو بازار بھی کر سکتے ہیں

روشنی میں لوگ اعلانِ وفاداری کریں

شمع گل ہوتے ہی سب چلنے کی تیاری کریں

کیا یہ آج کے دور کی سچائی نہیں ہے۔ تھوڑے سے فائدہ کے لئے ہر دور میں لوگوں نے اپنے عزیزوں کو بیچ دیا ہے۔ دوسرے شعر میں واقعہ کربلا کی تلخ حقیقت ہے اور روز کا مشاہدہ بھی لیکن یہاں تاریخی حقیقت کس قدر فنکاری کے ساتھ شعر کے سانچے میں ڈھل کر ان کے تجربے میں آئی ہے۔ عصری تجربہ روایتوں سے کس قدر جرا ہوا ہے۔ بے یقینی کی کوکھ ہی سے ذہنی انتشار پیدا ہوتا ہے۔ واقعہ کربلا کی اشاریت ذہن کو تھوڑی دیر کے لئے گرفت میں لے لیتی ہے۔ آخر اشرف المخلوقات کے کردار کا یہ کون سا رخ ہے۔ یہاں عرفان صدیقی کے طریقِ اظہار اور واقعہ کربلا کے Assimilationکا طریقہ جداگانہ ہو گیا ہے۔ اس میں نہ تو تفاخر ہے اور نہ ہی مذہبی نور کے ہالے سے مزین چکا چوند کر دینے والی روشنی۔ بس یہاں ایک کیفیت پیدا ہو گئی ہے یعنی جب مخلوقِ آدم پر سے اعتبار اور اعتماد اٹھ جائے تو روح کی تنہائی کا احساس شدید سے شدید تر ہو جاتا ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ خود کے بے مراد ہونے کے باوجود دوسرے کو با مراد، روشن، شادماں، سر سبز و شاداب اور سرفراز دیکھ کر اپنے ہونے کا یقین بڑھنا ہے۔ اس قسم کا طرزِ اظہار عام نہیں ہے۔ آپ خود ملاحظہ فرمائیں نئی غزل میں اشاریت کتنی بدلی ہوئی ہے محرومی، محزونی کے بجائے ایک طرح کی تکمیلِ ذات کے احساس سے دو چار نظر آتی ہے۔ سانحۂ کربلا کی تلخ حقیقت جمالیاتی فکر و فن میں ڈھل کر Monologueکی کیفیت اختیار کر لی ہے۔ یعنی دل کی خواہش ایسی تمنا میں ڈھل چکی ہے جو روایت پر مبنی ہے اور وہ اپنا سروے کر اس بے یقینی کے دور میں یقین حاصل کرنا چاہتے ہیں ؂

کوئی نیزہ سر فرازی دے تو کچھ آئے یقیں

خشک ٹہنی پر بھی آتے ہیں ثمر سنتا ہوں میں

مسافر دیکھ لیں شاید خلا کے اس جزیرے کو

ڈرا اونچا اٹھے سر کوئی نیزے پہ لہرائے (سہیل احمد)

دے دینا اسے اٹھتے ہوئے سر کی دعائیں

ہو جائے اگر خنجرِ بے باک سے ملنا

مندرجہ بالا اشعار میں کسی قسم کاInternalیا External Depressionکا احساس نہیں جھلک رہا ہے۔ بلکہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ اپنے مچلتے باطن کی خواہش کی تکمیل کر رہے ہوں اور جب باطن کی تکمیل ہو جاتی ہے تو اس صورت میں مرنے اور جینے کا استعارہ بدل جاتا ہے۔ ظلم واستبداد سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ظالم کے آگے سینہ سپر اور سرخرو ہونے کا جذبہ ایک توانا صورت اختیار کر لیتی ہے، تو ظلم و جبر کرنے والا خود تھرا جاتا ہے۔ ایسی صورتحال اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ہمت Concrete Shape اختیار کر لیں ؂

سنو کہ بول رہا ہے وہ سر اتارا ہوا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

دل سکۂ زر تھا کہیں مقتل میں ہوا گم

اک کاسۂ سر نذر شہنشاہ میں آیا

عصرِ نو کی ذہنی، فکری اور تخلیقی قوتِ اظہار کے تضاد کو اعجاز اعظمی نے اپنے شعر میں ڈھالا ہے جو ایک معمہ بن کر بھی اپنے جذبے اور قوتِ اظہار پر صحت مند لگام لگائے ہے ؂

دل میں شعلوں کی لپک ہے، لب پہ پھولوں کی ہنسی

اک معمہ بن گیا ہے عصرِ نو کا آدمی

عرفان صدیقی نے اپنے تجربے کے لحاظ سے روایتوں سے کس قدر ہٹ کر جمالیاتی احساس و فکر کو تخلیقی طور پر شعری پیکر میں ڈھا لا ہے ملاحظہ فرمائیں ؂

نہ موجِ خوں پہ، نہ تیغِ جفا پہ لکھیں گے

اب ایک سخن ترے رنگِ حنا پہ لکھیں گے

ترا ہی ذکر کریں گے لبِ سکوت سے ہم

ترا ہی نام بیاضِ صدا پہ لکھیں گے

بیاں کریں گے نہ کوئی سبب اداسی کا

جو کچھ بھی لکھیں گے آب و ہوا پہ لکھیں گے

آج کل ہیرو ورشپ کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔ ایک آدمی بیک وقت انسان ہے اور شیطان بھی۔ ایک ہی سانس میں وہ انسانی فلاح اور اعلیٰ قدروں کی بات کرتا ہے، تو دوسری طرف اپنے فائدہ اور اقتدار قائم رکھنے کے لئے کسی بھی سطح تک جا سکتا ہے۔ زندگی کو غیر رسمی اور حقیقی انسانی رشتے کے طور پر سمجھنے کی وجہ کر تضادات آ گئے ہیں۔ آج ہر شخص اپنی ذہنی سطح پر جینا چاہتا ہے۔ باپ ماں اور رشتۂ ازدواج میں بھی افتراق کی صورت نمایاں ہے۔ اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے یا کارزارِ حیات میں شادماں و کامراں کہلانے کے لئے کوئی بھی کسی پر اتہام تراش سکتا ہے۔ ایسے لوگ جن کی بات عوام کی پونجی ہوتی ہے، انہیں بھی مکرنے اور کچھ سے کچھ کہنے میں عار نہیں ہے۔

عرفان صدیقی کی شاعری میں بھی تضادات آئے ہیں۔ لیکن یہ تخلیقی تضاد ایک جمالیاتی اعلیٰ قدروں کی پاسداری کی آواز کی صورت میں ابھری ہے۔ انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ یہ تاریخی ادبی سرمایہ بھی بن سکتی ہے جو کئی نسل کے ذہن کی آواز ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں خلیل ماموں رقم طراز ہیں : ’’ عرفان صدیقی کی شاعری میں ’’تضادات‘‘ گھل مل کر ایک نقطۂ اتصال یا نقطۂ انجماد بن جاتے ہیں ‘‘

عرفان صدیقی کا تضاد اس دانشور کا نہیں ہے یعنی جس کی بنیاد شک پر ہو اور نہ ہی ایسے ادیب کی ہے جو نئی اور انوکھی بے ادبیوں پر جدید اور جدید تر ادب کی تعمیر کرتا ہے اور نہ ہی خود کو ایسا پڑھا لکھا فرد ظاہر کرنا چاہتا ہے جو ایمان کو جہالت اور کفر کو تہذیب اور ادب کی بنیاد قرار دے۔ یہاں اس تضاد میں ایک ایسا چیلنج اور خود نفسی ہے جس میں غالب مغلوب اور متعجب ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں خیال اور آواز نے ایک طاقت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ Negative Points، Positive Pointsپر یورش کر رہا ہے اور عقل حیرت زدہ ہے کہ کیا یہ عجیب و غریب صورت بھی ممکن ہو سکتی ہے ؂

وہ حبس ہے کہ دعا کر رہے ہیں سارے چراغ

اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے

میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں

زندہ رہنا تھا سو جان نذرِ اجل کر آئے

میں عجب عقدۂ دشوار کو حل کر آیا

الٹ گیا ہے ہر اک سلسلہ نشانے پر

چراغ گھاٹ میں ہے اور ہوا نشانے پر

پیاس نے آبِ رواں کر دیا موجِ شراب

یہ تماشا دیکھ کر دریا کو حیرانی ہوئی

یہ ہوس ہو کے محبت ہو، مگر چہرے پر

اک نیا رنگ اسی آگ میں جل کر آیا

آج کے لوگ ایسے دور میں سانس لے رہے ہیں جہاں مروت، آدمیت اور انسانیت پچھلے موسم کی باتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ جبر و استبداد کا بول بالا ہے، ہر شخص گھات میں ہے، مروت کی جگہ بے مروتی، طوطا چشمی نمایاں ہے۔ دوست دشمن کا فرق مٹ چکا ہے۔ دوسرے شاعروں نے اس دور کو کیسے محسوس کیا ہے اور اپنی شاعری میں کس طور پر برتا ہے ملاحظہ فرمائیں ؂

وہ میرا ہو کے بھی شامل ہے قاتلوں میں مرے

اس انکشاف نے تقسیم کر دیا ہے مجھے

نہ دوستوں کی طرح ہیں نہ دشمنوں کی طرح

یہ کون لوگ صفِ دوستاں میں آنے لگے

عشرت ظفر اور اکبر حمیدی کے شعروں کی روشنی میں آپ خود ملاحظہ فرمائیں کہ عرفان صدیقی کے احتجاج میں بھی کتنا احترامِ آدم ہے۔ عرفان صدیقی جس متضاد جذبے کی خواہش کر رہے ہیں اسے پڑھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے زندگی کی تکمیل اب اسی طور پر ممکن ہو سکتی ہے ؂

دل کی بے رنگی سے بہتر تھی لہو کی ایک بوند

وہ بھی اک سرمایہ تھا اے چشمِ تر جیسا بھی تھا

جی دکھایا ترے لہجے نے تو معلوم ہوا

کس طرح لفظ کو تلوار بھی کر سکتے ہیں

جب ہمیں بے مول ہاتھ آنے لگیں سچائیاں

کیا ضرورت ہے کہ خوابوں کی خریداری کریں

عذابِ جاں ہے عزیز و خیال مصرع تر

سو ہم غزل نہیں لکھتے عذاب ٹالتے ہیں

غزل میں اس کو ستم گر کہا تو روٹھ گیا

چلو یہ حرفِ ملامت لگا ٹھکانے پر

دیکھیں کب ہوں عشق میں کندن

راکھ تو کر دی کایا ہم نے

سوائے خاک مری دسترس میں کچھ بھی نہیں

کہ فرق حاصلِ عشق وہوس میں کچھ بھی نہیں

تمنا کا نتیجہ اپنے سر لینا نہیں اچھا

ذرا ٹھہرو عزیزو، استخارہ دیکھتا ہوں میں

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لئے

عرفان صدیقی نے ترقی پسندوں کی طرح صاف، شفاف Transparent اور متعین زبان کا استعمال نہیں کیا ہے اور نہ ہی جدیدیوں کی طرح جذبات واحساسات کے لطیف تر ارتعاشات کے تلازمات، استعارے کے تفاعل کی نئی راہیں نکالی ہیں اور نہ یہ ما بعد جدید کی طرح نئی فکر و آگہی سے آزاد نہ تخلیقی معاملہ کر کے کھلا ڈسکورس کیا ہے۔ عرفان صدیقی نے لفظ کو اس کے روایتی اور متعینہ منطقوں سے منسوب لفظیات کو اپنے تخلیقی تجربے کے حوالے سے برتا ہے اور اس میں اپنے مخصوص مزاج کے تحت مختلف راہ نکالی ہے اور فن کو فنکاری کی اعلیٰ منزلوں تک پہنچایا ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں برہنہ گفتاری نہیں ملتی۔ کیوں کہ انہوں نے روز مرہ کی زندگی سے غیر شعری زبان منتخب نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنے اظہار کے لئے مخصوص نوع کی Specificاور ذاتی زبان تخلیق کی ہے۔ ان کے یہاں نئی بناوٹی شعری کرتب بازی نہیں ملتی۔ یہ بات نئے فیشن زدہ ما بعد جدیدیوں کو عرفان صدیقی کے مطالعہ کے سلسلے میں بُری طرح کھٹکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے ان کا کوئی منفردMetalingual اسلوب نہیں ہے۔ اگریہ کچھ اور زیادہ حساسیت اور عصری آگہی کے ساتھ اپنے اطراف کے اشیاء و واقعات سے منسوب لفظیات اپنے تخلیقی تجربے کے حوالے سے برتتے تو ان کا منفرد Metalingual اسلوب بن سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود موضوعاتی وسعت اور علمی، ادبی، اخلاقی، تاریخی، عمرانی اور ما بعد الطبیعاتی پس منظر کی وجہ کر ان کے اشعار بلا جھجھک ما بعد جدیدیوں کے ساتھ رکھے جا سکتے ہیں ؂

بجھیں چراغ مگر دل رہے سدا روشن

سیاہ رات کو خطرہ اسی کمال سے ہے

گوشہ نشیں ہیں انجمن آرا نہیں ہیں ہم

لیکن یہ معجزہ ہے کہ تنہا نہیں ہیں ہم

سنا ہے گاؤں کے پیپل کے پاس اک پتھر

بہت دنوں سے مرا انتظار کرتا ہے

دل نے ہزیمتوں کو اٹھایا ہے اس طرح

لگتا نہیں ہے کچھ یہ بجز کوچۂ ملال

زمانے تجھ سے یہ کہنا ہے مر چکے ہم لوگ

اب اپنی لاش ترے بازوؤں میں دھر جائیں

ایسے حالات ہی نہ تھے پہلے

شیشہ جاں کو نذر بال کیا

گرد سی ہے ہر تعلق پہ جمی

تھی کبھی رشتوں میں دلداری بہت

وعدہ اس کا ہو گیا برسوں پرانا پھر بھی کیوں

ہے اسی کا منتظر، اک بے شکن بستر ابھی

عداوتوں کے طریقے بدل گئے شاید

عدو بھی ملتے ہیں اب ہم سے آشنا کی طرح

وہ چہرہ ہر طرف کھلتے ہوئے پھولوں کا موسم ہے

وہ پیکر موسموں کو رنگ خوشبو بانٹنے والا

گردشِ دوراں مجھے تجھ سے شکایت کیوں ہو

درمیاں اپنے کبھی فاصلہ ہونا تھا ہوا

لٹا انا کا ہی دامن نہ فن ہی خاک ہوا

عجیب شان سے راحت ہوا چلی مجھ میں

ہم کو پسند آ گیا ساحل کا مشورہ

کشتی کی لکڑیاں تھے شجر ہو کے رہ گئے

تم نہیں جانتے ان دل کے طلب گاروں کو

اور کچھ دیر جو رک جاتے تو سر لے لیتے

اب کوئی قصہ نہ چھیڑو پھر کبھی کرناحساب

زندگی نے ہم سے کیا چھینا ہے کیا رہنے دیا

امیدیں توڑ دے ساری اور اس دنیا سے رخصت ہو

یہی وہ کفر ہے جو ہجر کا مارا نہیں کرتا

سب اپنے تمناؤں کے نرغے میں گھرے ہیں

ان میں سے کسی سے بھی بغاوت نہیں ہو گی

آگے بھی کئی جان ہے لیکن دلِ ناداں

پہلے تو تجھے زلفِ پیچاک سے لے آؤں

اپنی وحشت کے سوا اذن و اجازت پہ نہ جاؤ

دار پر جاؤ مگر اوروں کی دعوت پر نہ جاؤ

تم سے ملے تو خود سے زیادہ

تم کو اکیلا پایا ہم نے

ایسے آشوب میں دل دینے کی فرصت کس کو

ہیں بہت لذتِ آزار سے شرمندہ ہم

کوئی حرفِ دعا میرے لئے پتوار بن جائے

بچا لے ٹوٹنے سے چشمِ تر ایسا نہیں ہو گا

عرفان صدیقی کے یہاں تخلیقی فطانت کی کمی نہیں۔ یہ شعری روایت کو تخلیقی طور پر برتنے کا ہنر جانتے ہیں۔ احساس کی مناسبت سے لفظ کو موزوں ترین تعبیرات کے مختلف ابعاد سے روشناس کراتے ہیں۔ زندگی کے معاملات ومسائل کو داخلی حوالوں سے پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں یہاں آپ کو تخیل واحساس کی پوری دنیا نظر آئے گی، جس میں تخلیقی قدروں کی پاسداری نمایاں ہے ؂

 

مرے خوابوں کے دریا خشک ہو جائیں

نہیں اے چشم تر ایسا نہیں تھا

لاؤ اس حرفِ دعا کا بادباں لیتا چلوں

سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر سنتا ہوں میں

اور اک ہی جست میں دیوار سے ٹکرائے گا سر

قید پھر قید ہے زنجیر کی وسعت پہ نہ جاؤ

یاقوت لب تو کارِ محبت کا ہے صلہ

اجرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی

پاؤں میں خاک کی زنجیر پڑی ہے کب سے

ہم کہاں چلتے ہیں نقشِ کفِ پا چلتا ہے

ابھرتا آتا ہے پانی میں عکس ویرانی

کہ ہر پرند وطن کو پلٹتا جاتا ہے

جاگتی را توں میں لہراتے ہوئے حمد کے گیت

طاقِ مسجد میں کسی دل کی تمنا روشن

یہ اس کا دل ہے کہ گم گشتگاں کی بستی ہے

کہاں چھپا ہوں کہ وہ بھی نہ ڈھونڈ پائے مجھے

شاعری چاہے براہِ راست کی جا رہی ہو یا بالواسطہ، شاعری ہی ہو گی۔ یہ اور بات ہے کہ ہر شاعرانہ تجربہ اپنے خالق کی تخلیقی قوتِ استعداد کی وجہ کر اہم اور غیر اہم مرتبہ کا حامل ہوتا ہے۔ فن پارے کی تشریح اور مطالعہ کل کی حیثیت سے ہونی چاہئے نہ کہ خانہ بند طریقے سے۔ آج شاعری اور تنقید میں بہت ساری باتیں نئے قالب بدل کے سامنے آ رہی ہیں۔ جسے بہت پہلے کلاسیکی شاعر اور ادیبوں نے چھیڑا تھا جو ہماری بے توجہی کا شکار ہو کر رہ گئیں۔ ان میں سے بہت ساری باتیں نئے نام کے ساتھ قالب بدل کر پیش کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں وبلبک ویرن رقم طراز ہیں : ’’آج کلاسیکی بلاغت، شعریات اور اوزان و بحور کی تنقیح بھی ہو رہی ہے اور مزید اس طرح ہونی چاہئے کہ انہیں جدید اصطلاحات میں بیان کیا جا سکے ‘‘۔

عرفان صدیقی کا تعلق کلاسیکی ادب سے بہت گہرا ہے۔ ان کے پاس وجدان، جذبات اور اعتقادات کی کمی نہیں، یہ فن پارے کے خارجی حسن اور فنی نزاکت کو اس کے داخلی تار و پود، خیال یا تجربے سے جدا نہیں کر سکتے۔

٭٭٭

 

 

 

 

عرفانِ جمال کا شاعر: عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رشید اشرف خان

 

عرفان صدیقی کے پہلے شعری مجموعہ ’’کینوس‘‘ میں عموماً غزلوں کی تعداد زیادہ ہے کیوں کہ غزل گوئی عرفان کی پہلی پسند تھی۔ لیکن اس مجموعے میں چند نظمیں بھی شامل ہیں جو بطور خاص غور و فکر کی متقاضی ہیں۔ وہ نظم جس میں ’’سفر کی زنجیر‘‘ کی سرخی قائم کی گئی ہے، خصوصی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس پوری نظم میں عرفان صدیقی نے اپنا تہذیبی اور ادبی پس منظر پیش کیا ہے اور اپنے وطن بدایوں کی عظمت و رفعت کو بیان کیا ہے۔ اس نظم کو مجموعۂ کلام کینوس کا ابتدائیہ قرار دیا گیا ہے۔ نظم کا آغاز غالب کے ایک شعر سے ہوتا ہے :

’’شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو کہ جہاں

جادہ، غیر از نگہ دیدۂ تصویر نہیں ‘‘

جلتی دوپہر میں پیڑی کا پُر اسرار درخت

جس سے لپٹا ہوا، گزری ہوئی صدیوں کا طلسم

پہلوئے خاک میں آسودہ کوئی مرد شہید

طاق میں رات کے افسردہ چراغوں کا دھواں

یہ گلی گنج شہیداں کی طرف جاتی ہے

مصحفیؔ نے جو کہا ہے تمھیں معلوم نہیں

سرمۂ چشم ہے یہ خاک تو خسرو کے لیے

ہم اسی مٹی سے اگنے کے لیے آئے ہیں

اس نظم کو پڑھ کر جہاں ایک طرف یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی نے استعارہ بدوش نظم اور تلمیح آمیز مصرعوں کی صورت میں اپنے وطن اور اپنے اسلاف کا تذکرہ کیا ہے وہیں ان کے شعور جمالیات نے بھی اپنی کارفرمائی شروع کر دی ہے۔ کیوں کہ ہیگل(Hegel) جمالیات کے لفظ کو فنون لطیفہ کے فلسفے کے مفہوم میں استعمال کرنے پر اصرار کرتا ہے چنانچہ نظم مذکور کے اشعار میں حسب ذیل مصرعے اسی احساس جمال کے آئینہ دار ہیں :

میں کہاں جا کے رکوں گا ؟مجھے معلوم نہیں

حسن کب تجزیۂ ذات میں ڈھل پائے گا

ظلمتیں، روشنیاں، سلسلۂ شام وسحر

سب تماشا ہے تو تقریب تماشا کیا ہے ؟

حلقہ در حلقہ پُر اسرار سفر کی زنجیر

دیکھتے جاؤ کہ تم نے ابھی دیکھا کیا ہے

ان اشعار میں شاعر نے علامتوں اور اشاریوں کے سہارے اپنے احساس جمال کی بڑی کامیاب ترجمانی کی ہے۔ آخر مصوری بھی تو ایک فن لطیف ہی ہے جو رنگوں کی شکل میں جنت نگاہ بن جایا کرتا ہے اور شاعرانہ مصوری ایسے ہی رنگین خیالات کو محاکات یا شاعرانہ مصوری کا لباس پہنا دیتے ہیں۔ یہی شعور جمال کی ایک پُر کشش فن کاری ہے۔

’’کینوس‘‘ بظاہر شاعر کے ابتدائی کلام کا مجموعہ ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شروع ہی سے عرفان کا شعور جمال کافی بالغ اور پُر جوش تھا۔ عموماً ہمارے شعرا کے یہاں حسن پرستی تو ہوتا ہے مگر شعور جمال نہیں، جب کہ حسن پرستی، شعور جمال کا صرف ایک جزو یا elementہے نہ کہ کل۔ کینوس میں شامل غزلوں کی چند مثالیں دیکھیے :

کہیں کسی کے بدن سے، بدن نہ چھو جائے

اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے

چلو زمیں نہ سہی آسمان ہی ہو گا

محبتوں میں بہر حال تنگ سا کچھ ہے

ان دو اشعار میں شاعر نے نفسیات انسانی کی ہلکی سی جھلک دکھلائی ہے۔ پہلے شعر میں وہ کہنا چاہتا ہے کہ میرا جذبۂ شوق اور شعور جمال دونوں ہی بیک وقت مجھ پر حاوی ہیں یعنی میں صرف Beauty is to See, Not to Touch والے فارمولے پر عمل کرنا چاہتا ہوں اور اسی جذبے کے ساتھ میں بوسہ بہ پیام کے بجائے لب بہ لب والی ملاقات کا خواہاں ہوں۔

کینوس میں بعض غزلیں ایسی بھی ملتی ہیں جو یقیناً پردیس میں کہی گئی ہیں۔ وطن سے دوری، شدید احساس غریب الوطنی، تنہائی اور بیتے ہوئے دنوں کی چبھتی یادیں، ان با توں نے شاعر کے دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچا رکھی ہے :

بڑھا کے ربط وفا اجنبی پرندوں سے

وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر

دنیا کا دستور ہے کہ وہ ظاہری واقعات و حوادث، خوش آیند با توں اور امید افزا ماحول کا فوری طور پر اثر لیتی ہے لیکن شاعر وہ بھی جمالیاتی ذوق رکھنے والا عرفان صدیقی جیسا شاعر واقعات و حوادث کی بنیاد، خوش آیند با توں اور امید افزا ماحول کی اصل حقیقت کو جانتا ہے تب کہیں اس مواد کو موضوعِ گفتگو بناتا ہے۔ سانحۂ کربلا کو گزرے ہوئے چودہ سو سال سے زیادہ کا عرصہ ہوا لیکن عرفان کی نگاہوں میں وہ آج بھی تازہ ہے۔ صرف سانحہ نہیں بلکہ اس کی جزئیات بھی موجود ہے۔ شاید اسی لیے انھوں نے کہا تھا:

تم، جو کچھ چا ہو، وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا؟

جمالیاتی نقطۂ نظر سے عرفان صدیقی کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت اس نکتے کو یاد رکھنا چاہیے کہ جمالیات کا حقیقی ظہور اس وقت ہوا جب فنون لطیفہ یعنی فن تعمیر، فن موسیقی، فن شاعری، فن رقاصی، فن سنگ تراشی اور فن مصوری وغیرہ کا ارتقا ہو چکا تھا۔

مذکورہ بالا تمام فنون کے آغاز میں فن کار کا احساس جمال حسن پرستی بڑی حد تک زیریں لہر کی طرح شعور میں وجود تھا لیکن پختہ جمالیاتی شعور تکمیل فن کے بعد ہی جلوہ گر ہوا۔ اجنتا ایلورا اور تاج محل کا مجرد مشاہدہ جمالیات نہیں بلکہ ان عمارتوں کو دیکھ کر جو مسرت حاصل ہو تی ہے در اصل وہی مطالعۂ جمالیات ہے۔

اس تمہید اور وضاحت کے بعد ہم سمجھ سکتے ہیں کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں جمالیاتی رنگ کہاں کہاں اور کیسے کیسے رونما ہوا ہے۔ اس عنصر نے ان کے کلام میں کس کس طرح تازگی، جدت، انفرادیت اور اثر انگیزی کے جوہر پیدا کر دیے ہیں ؟ کبھی اپنی بے چین روح اور مضطرب جوان دل کی نفسیاتی کیفیت کو پیش کرتے کرتے اپنے احساس جمال کو درد تنہائی کا مداوا بنایا ہے۔ مثلاً:

بند کمرے میں پراگندہ خیالوں کی گھٹن

اور دروازے پہ اک آوازِ پا جیسے، ہوا

پانیوں میں ڈوبتی جیسے رُتوں کی کشتیاں

ساحلوں پر چیختی کوئی صدا، جیسے ہوا

کتنا خالی ہے یہ دامن، جس طرح دامانِ دشت

کچھ نہ کچھ تو دے اسے میرے خدا، جیسے ہوا

محولۂ بالا اشعار میں بند کمرہ، پراگندہ خیالوں کی گھٹن، دروازہ، رتوں کشتیاں، چیختی صدا، دامن اور دشت وغیرہ ایسے الفاظ و  از نگہہ  گار رہنا چا  عام انتح تراکیب کا برجستہ و بر محل استعمال اور ’’ ہوا‘‘ جیسی غیر مرئی شے سے ردیف کا کام لینا اگر عرفان کی جمالیاتی تخلیق کا نادرو نایاب رنگ سخنوری نہیں تو پھر کیا ہے۔ غور کیجیے کہ شاعر کا اپنے رب کو یہ مشورہ دینا کہ دامانِ دشت کو کسی اور چیز سے بھرنا نہیں چاہتا تو کم از کم ہوا جیسی ہلکی پھلکی چیز سے ہی بھر دے۔ بظاہر یہ مشورہ کتنا مضحکہ خیز لیکن بہ باطن کس درجہ اہم شاعرانہ مشورہ ہے جو بغیر ایک لطیف تصورِ جمال کے سوچا ہی نہیں جا سکتا۔

عرفان صدیقی کی شاعری کا دوسرا دور ان کے دوسرے مجموعہ کلام ’’ شب درمیاں ‘‘ سے شروع ہوتا ہے جو ۱۹۸۴ء میں مرتب ہوا تھا۔ اس مجموعے میں سب سے پہلی چیز جو ہمارے دامن دل کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ایسے اشعار ہیں جو افتتاحیہ کی سرخی کے تحت کہے گئے ہیں۔ آغاز یوں ہوتا ہے :

مجھ کو لکھنا اگر آ جائے تو کیا کیا لکھوں

کبھی اپنا کبھی دنیا کا سراپا لکھوں

گویا شاعر کو کچھ انہونی یا اچھوتی بات کہنے کا خواہش مند ہے لیکن وہ بڑے پس و پیش اور تذبذب میں ہے کہ آخر لکھے تو کیا لکھے۔ قلم اٹھانے کے بعد بھی اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ آپ بیتی لکھے یا جگ بیتی؟اس کو اس تلخ حقیقت کا بخوبی اعتراف ہے کہ:

جو مرا دکھ ہے وہ، ہر شخص کا دکھ لگتا ہے

میں کسے غیر کہوں اور کسے اپنا لکھوں ؟

بہ الفاظ دیگر شاعر غمِ جاناں کے ساتھ غمِ دوراں کو بھی اپنے سینے سے لگائے رکھنا چاہتا ہے۔ اس خیال کے ذہن میں آتے ہی شاعر اپنی ذات کی طرف سے نظریں ہٹا کر کائنات کا جائزہ لینے لگتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ کائنات تو اپنی ذات سے بڑھ کر سیکڑوں اور ہزاروں نئے موضوعات کا خزانہ ہے۔ وہ کسی منشور یا Prismکی طرح اپنی فکر کی جمالیاتی خوردبین یا ذرہ بین (Microscope) کو گھماتا ہے تو رنگ برنگے جلوے اس کی نگاہ احساس کے سامنے آتے ہیں مثلاً:

ریت پر دھوپ، کوئی عکس تو دکھلائے کہ میں

ایک بوسہ سر پیشانیِ صحرا لکھوں

بوسہ کسی چیز یا انسان کے جسم پر لیا جاتا ہے یا ہوا میں اڑایا جاتا ہے لیکن اس شعر کو پڑھ کر ہمارے علم میں یہ اضافہ بھی ہوا کہ بوسہ سر پیشانیِ صحرا کا بھی لیا جا سکتا ہے۔ یقیناً یہ ایک بالکل نیا اور عجوبائی بیان ہے جو شاعر کے ذہن کی خالص جمالیاتی سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ شاعر کو ہر اس چیز میں جمالیاتی حسن نظر آتا ہے جو اس کے خیالات کو شعر کہنے پر اکساتی ہے خواہ وہ مناظر فطرت ہوں، پرندے ہوں یا ماضی کی حسین یادیں ہوں۔ ’’شب درمیان‘‘ کے اشعار دیکھیے :

چڑیوں، پھولوں، مہتابوں کا

مرا منظر نامہ خوابوں کا

یہی بستی میرے پُرکھوں کی

یہی رستہ ہے سیلابوں کا

اگر عرفان صدیقی اپنی غزل کے مطلع میں محض چڑیوں، پھولوں اور مہتابوں کا ذکر بھی کر دیتے تو غزل میں کافی رعنائی پیدا ہو جاتی لیکن ان چیزوں کو خوابوں کا منظر نامہ کہہ دینے سے شعر کہیں سے کہیں پہنچ گیا اسی طرح پُرکھوں کی بستی اور سیلابوں کا تذکرہ لاجواب ہے۔

شعور جمال کا ایک انعام چشم بصیرت کا کھل جانا یعنی قبل از وقت آنے والے یا وقوع پذیر حالات کی آہٹ مل جانا بھی ہے۔ جس طرح گھوڑا میلوں دور سے سانپ کے وجود کو محسوس کر کے اپنے پاؤں پٹخنے لگتا ہے یا آلۂ زلزلہ شناسی زلزلہ آنے سے پہلے اس کے وقت اور محل وقوع سے ہمیں آگاہ کر دیتا ہے وہی حالت اس شاعر کی ہے جسے اللہ نے غیر معمولی شعور جمال ودیعت فرمایا ہو۔ عرفان صدیقی کے حسب ذیل اشعار اس حقیقت کے ترجمان ہیں :

اگلے دن کیا ہونے والا تھا، یہ اب تک یاد ہے

انتظار صبح میں وہ سارے گھر کا جاگنا

آخری امید کا مہتاب جل بجھنے کے بعد

میرا سوجانا، مرے دیوار و در کا جاگنا

مذکورہ بالا اشعار میں انتظار صبح اور مرے دیوار و درکا جاگنا اسی دور اندیشی اور پیش بینی کی طرف اشارا کرتے ہیں جس کا ایک صحت مند اور مثالی احساس جمال شاعر سے مطالبہ کرتا ہے۔ دیگر بہت سے اجزائے شعور جمال کی طرح آزادیِ فکر و نظر اور تلاش ہم سفر بھی اس کی تکمیل میں از بس ضروری بلکہ لازمی ہے۔ ’’شب درمیان‘‘ کی پانچ اشعار پر مشتمل ایک غزل جو عرفان صدیقی نے اپنے دیرینہ حبیب مرحوم شہر یار کے نام معنون کی ہے، ہمارے دعوے کی انتہائی خوبصورت دلیل کہی جا سکتی ہے :

دلوں سے درد کا احساس گھٹتا جاتا ہے

یہ کشتگاں کا قبیلہ، سمٹتا جاتا ہے

کھلے پروں پہ فضا تنگ ہوتی جاتی ہے

اور آسمان زمینوں میں بنٹتا جاتا ہے

ہزار قرب کے امکان بڑھتے جاتے ہیں

مگر وہ ہجر کا رستہ جو کٹتا جاتا ہے

ان اشعار کا خلاصہ یہ ہے کہ شاعر کے ساتھ ساتھ پہلے بہت سے ایسے ہم خیال اور ہم جذبہ شعرا تھے جنھوں نے مبتلائے درد عشق میں اپنی جانیں دے دیں اور جانباز صرف گنتی کے رہ گئے۔ جغرافیائی تقسیم نے ہمیں اپنے ہم نواؤں سے دور کر دیا۔ سچ پوچھو تو مستقل ہجرت و جدائی نے ہمیں ان تکالیف کا عادی بنا دیا ہے۔ درد فرقت میں ہمیں لذت ملنے لگی۔ اب اگر کوئی ہم سے پرانے احباب کے ساتھ مل بیٹھنے پر اکساتا ہے تو ہمیں وحشت سی ہونے لگتی ہے یہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو ہمیں شعور جمال نے عطا کی ہے۔ گویا اب ہم غالبؔ کے اس شعر کو سمجھے ہیں کہ:

عشرت قطرہ ہے، دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

اطالوی مفکر کُروچے (Bendetto Croce) نے ( جو اٹلی میں نیپلز کے پاس ایک قریہ میں ۱۸۶۶ء میں پیدا ہوا )فلسفۂ جمالیات کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ اظہاریت اس کے یہاں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اس اظہاریت(Expressionalism)کو کُروچے کے جمالیات کی اساس سمجھنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے کہ دیکھنا یہ چاہیے کہ شاعر یا ا دیب کے اظہار فن کا انداز کیسا ہے۔

اس قول کی روشنی میں جب ہم عرفان صدیقی کے کلام پر عمومی نقطۂ نظر سے اور شب درمیان کی غزلوں پر خصوصی زاویۂ نگاہ سے غور کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ان کے یہاں اظہار جذبات و خیالات پر مکمل گرفت موجود ہے۔ اس گرفت کا بدیہی ثبوت یہ ہے کہ وہ اظہار کے بیشتر وسائل سے کام لیتے ہیں اور لفظ و معنی کے انتہائی دلکش ادغام سے اپنی ایک ایسی غیر معمولی شعری کائنات کے خالق بن جاتے ہیں جوان کے وضع کردہ اصولوں کے منفرد معیار کو قائم رکھ سکے۔ ہم بڑی حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری خود اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے سانچوں میں اتنی مہارت کے ساتھ ڈھلی ہے کہ وہ ہمارے سامنے فکری میلانات و رجحانات کے رنگ برنگے مرقعے پیش کر دینے پر قادر ہے۔ نمونے کے طور پر یہ اشعار ملاحظہ کیجیے :

عقدۂ جاں بھی رمزِ جفر ہے، جتنا جتنا غور کیا

جو بھی جواب تھا میرا پنہاں، میرے حرف سوال میں تھا

تیغ ستم کے گرد ہمارے خالی ہاتھ حمائل تھے

اب کے برس بھی ایک کرشمہ، اپنے دست کمال میں تھا

علم جفر کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ چند نمایاں سوال کیے جاتے ہیں جن کا جواب پوشیدہ طور پر ملتا ہے۔ شاعر اپنے عقدۂ جاں یعنی زندگی کے بارے میں کچھ جاننے کا خواہش مند ہے۔ جواب غیب سے ملتا ہے لیکن چند علامتوں کے ذریعہ۔ مختصر یہ کہ شاعر جو جاننا چاہتا ہے اس کا جواب بھی اتنا ہی نا معلوم ہے جتنا مبہم کہ اس کا سوال تھا۔ یہ ایک معمہ ہے۔ شاعر کے نزدیک معمہ بنانا اور پہیلیاں بجھا کر سننے والے کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کر دینا بھی اس کے شعور جمال کی تشنگی کو مٹا دیتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں اشعار اپنے اپنے رنگ میں اسی قبیل کے فن پارے ہیں۔

عرفان صدیقی کی شاعری کا تیسرا دور اپنی تمام تر خصوصیات و امتیازات کے ساتھ ان کے تیسرے مجموعۂ کلام ’’ سات سمٰوات‘‘میں جلوہ فگن ہے جو ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا تھا۔ سات سمٰوات کا مطالعہ کرتے وقت قاری کے دل میں جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اپنے مقام پر عجیب و غریب ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے تمثال گری (Visualisation)کے جس ہنر کے ساتھ کینوس اور شب درمیان میں شامل سخنوری کے جوہر دکھائے تھے وہ ان کی مسلسل جمالیاتی ریاضت کے نتیجہ میں نقطۂ کمال تک پہنچ گئے ہیں اور اس تیسرے مجموعے سات سمٰوات سے ثابت ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنا وہ رنگ بالآخر پا ہی لیا ہے جس کا وہ متلاشی تھا۔ یہ مجموعہ اپنے قاری پر یہ راز افشا کرتا ہے کہ اب شاعر نے سا توں آسمانوں میں بکھری ہوئی ساری آفاقیت کو اپنے شعور جمال کی مدد سے شعری استعارہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ خاک، ہوا، چاند، سورج، ستارے، شفق، قوسِ قُزح، بادل، برق و باراں، شبنم اور کہکشاں غرض کہ تمام اجرام فلکی کے حوالے بار بار ان کے اشعار میں ملتے ہیں اور ہر بار نئے مفاہیم کی طرف اشارا کرتے ہیں :

یاد آتی ہوئی خوشبو کی طرح زندہ ہم

کسی گزرے ہوئے موسم کے نمائندہ ہم

اڑ گئے آنکھ سے سب لمحۂ موجود کے رنگ

ہو گئے نقش گر رفتہ و آیندہ ہم

اس اندھیرے میں کہ پل بھر کا چمکنا بھی محال

رات بھر زندہ و رخشندہ و تابندہ ہم

ان اشعار میں ’خوشبو کی طرح زندگی‘ تشبیہ کی ندرت کا اشاریہ ہے۔ ’ گزرے ہوئے موسم‘ خوشگوار ماضی ہے۔ دوسرا شعر اس حقیقت کا غماز ہے کہ فی الحال ہم دنیا میں مشہور و معروف نہ سہی لیکن ہمارا ماضی بے حد شاندار اور مستقبل ہمارے نرالے ذوق کا آئینہ ہے۔ ہم مایوسی میں بھی رجائیت، حوصلہ مندی اور امید پیدا کر لیتے ہیں یہی ہماری زندگی اور پر جوش و با مقصد فعالیت اور سرگرمیوں کا راز سر بستہ ہے جس سے ہماری موجودہ نسل قطعاً ناواقف ہے۔

موجودہ زمانے کے بد مذاق ماحول اور تہذیبی و تمدنی زوال کا تقاضہ تو یہ تھا کہ عرفان صدیقی کی شاعری فانی کی غزل یا میر انیس کا مرثیہ بن جاتی لیکن ان کی جمال آشنا فکر نے یہاں بھی ایک نئے انداز کی شان دکھائی ہے۔ نئی تشبیہات، جدید ترین علامات واستعارات، خود ساختہ الفاظ اور تازہ بہ تازہ شعری اصطلاحات کے نئے طرزاحساس نے ان کی شاعری کو جو اچھوتا آہنگ بخشا اس میں میر و غالب کی شعری روایت بھی موجود ہے اور وہ روایت بھی جو شاعری کے نئے اور پائیدار معیار بھی قائم کرتی ہے۔

اب عرفان جمال کا شاعر، عرفان صدیقی کے آخری شعری شاہکار ’’عشق نامہ‘‘ جو ۱۹۹۷ء میں چھپا تھا عرفان کی شاعری کے تعلق سے ان کے ایک قریبی دوست سید عقیل حیدر لکھتے ہیں کہ: ’’عرفان صدیقی، دوسرے شاعروں کی طرح کسی غزل کو ایک نشست میں مکمل کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ایک ایک شعر پر کئی کئی گھنٹے اور کئی کئی دن تک غور کرتے۔ مثال کے طور پر ان کے مشہور مطلع کا ثانی مصرعہ ’’ کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے ‘‘ انھوں نے یوں ہی روانی میں ایک دن کہہ کر کسی کاغذ پر تحریر کر لیا تھا لیکن مطلع کے لیے انھوں نے مصرعۂ اولیٰ قریب چھ ماہ کی کوششوں کے بعد لگانے میں کامیابی حاصل کی‘‘ (ماہ نامہ نیا دور لکھنؤ عرفان صدیقی نمبر اکتوبر۔ نومبر۲۰۱۰ءص ۶۳)

مطلع اس طرح سے ہے :

اٹھو، یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے۔ ۔

مذکورہ غزل کا پہلا شعر جسے بیت الغزل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اسی غزل کے دوسرے شعر میں مضمون کی ندرت بے ساختہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ حریف یا رقیب کا ذکر تو اکثر شعرا کے یہاں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن عرفان کے اس شعر میں کہ ایک ایسا شخص جو اپنے حریف کی موت کو دیکھنے کے لیے خود اپنی جان گنوا بیٹھتا ہے۔ ایسی نظیر شاید ہی کسی شعرا کے یہاں نظر آئے :

عجب حریف تھا، میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

’’عشق نامہ‘‘ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عرفان نے سراپاے محبوب کی تجسیم(Personification)کے بجائے، جمال محبوب کے نقش کو کافی گہرائی عطا کی ہے اور اس مقصد کے حصول کی خاطر انھوں نے بجائے پیار کی تجسیم نہ کرتے ہوئے محبوب کے سراپا کو اس کے عمل سے مربوط کر دیا یہ ان کی غیر معمولی ہنر مندی ہی کہی جائے گی مثلاً ’’ستارہ ادا‘‘ کی ترکیب وضع کر کے اسے محبوب کے ساتھ تواتر کے ساتھ استعمال کرنا جس میں حسن، فاصلہ اور فنا پذیری کی صفت بھی شامل ہے :

عجب ہے میرے ستارہ ادا کی ہم سفری

وہ ساتھ ہو تو بیاباں میں رت جگا ہو جائے

عشق نامہ کا ایک اختصاص یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب کے لیے بانوئے شہر کی خوبصورت ترکیب وضع کی ہے :

ناقۂ حسن کی ہم رکابی کہاں ؟ خیمۂ ناز میں باریابی کہاں ؟

ہم تو اے بانوئے کشور دلبری پاسداروں میں ہیں، ساربانوں میں ہیں

مختصر یہ کہ ’’عشق نامہ‘‘ عرفان صدیقی کے دیگر تمام شعری مجموعوں سے بہ اعتبار کیفیت و کمیت مختلف ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ مرحوم نے کلاسیکی شعری روایات کو جدید ترین آہنگ شاعری کے امتزاج سے ایک نئی شعری ’’بوطیقا‘‘ مرتب کر دی ہے جو صدیوں تک اس عظیم اور طبع زاد شاعر کی یاد دلاتی رہے گی۔

عرفان صدیقی مرحوم کی شاعرانہ فتوحات ذکر کرتے ہوئے ہم ان کے مجموعہ کلام ’’ہوائے دشت ماریہ‘‘ کو یکسر فراموش نہیں کر سکتے۔ یہ مجموعہ منقبتوں، سلاموں اور نوحوں پر مشتمل ہے جسے ادارۂ تمدن اسلام(کراچی پاکستان) نے ۱۹۹۸ء میں شائع کیا تھا۔ یہ ایک وقیع تر مجموعہ ہے کیونکہ اس میں تاثر، عقیدت، سبق آموزی اور شعریت سبھی کچھ بہ یک وقت اکٹھا ہو گئے ہیں۔ پاکیزگیِ جذبات، حق گوئی اور ظلم و ستم کے خلاف مہذب احتجاج کی حیثیت سے یہ مجموعہ ہمیں ایک بالکل نئے عرفان صدیقی سے متعارف کراتا ہے۔ بے شک ہوائے دشت ماریہ میں سرکار دو عالم صلعم، ان کے اہل بیت علی الخصوص مسلمانوں کے خلیفۂ چہارم حضرت علی کے چھوٹے فرزند حضرت امام حسین اور ان خانوادے پر کربلائے معلی میں ہونے والے مظالم کا پُر درد تذکرہ ہے لیکن اس تذکرہ میں بھی عرفان صدیقی کی فکر نَو نے ہزاروں نئے گوشے پیدا کیے ہیں جو انھیں کا حصہ تھے :

دلِ سو زاں پہ جیسے دست شبنم رکھ دیا دیکھو

علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو

گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر

خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا

یہ لوگ دست جفا سے کسے پکارتے ہیں

یہ بازگشت سناتی ہے مرثیہ کیسا

مذکورہ اشعار کی پوری نظم میں اگرچہ واضح طور پر سانحۂ کربلا کی جملہ جزئیات با الترتیب بیان نہیں کی گئی ہے پھر بھی چیدہ چیدہ اشعار میں بڑا فنکارانہ ربط پایا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو بے ربطی میں ربط بھی تذکرۂ جمال کا ایک انداز ہے۔ ہر شعر میں یا تو سوالیہ طرز ہے یا علامت استفہام کی کیفیت موجود ہے۔ استعاروں کے تسلسل میں سبھی اشعار کو معنی آفریں بنا دیا ہے۔ علم بیان کی اصطلاح میں اسے خوش فضائی کہا جا سکتا ہے۔

عرفان صدیقی کے تعلق سے ایک سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے احباب اور شناساؤں کی روایت کے مطابق نہ تو انھیں اخبار ورسائل میں اپنا کلام چھپوانے کا شوق تھا نہ مشاعروں میں کلام سنانے کا۔ ان کی بیشتر غزلوں میں مقطع کہنے کا التزام بھی نہ تھا۔ وہ تو ایک قلندر صفت انسان تھے۔ بلا شبہ ان میں احساس خود داری اور حفظ مراتب بہت تھا۔ ہوائے دشت ماریہ کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں شامل ایک نظم (جو عرفان کی مشہور ترین نظموں میں شمار ہوتی ہے )ان کے تخلص سے شروع ہوتی ہے :

دست تہی میں، گوہر نصرت کہاں سے لائے ؟

عرفان! تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے ؟

پانی نہ پائیں ساقیِ کوثر کے اہلِ بیت

موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے ؟

مذکورہ بالا سلام کے سلسلے میں ڈاکٹر نیّر مسعود رضوی نے ایک عجیب و غریب واقعہ بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کو یہاں بیان کرنانامناسب نہ ہو گا۔ نّیر مسعود لکھتے ہیں : ’’مجھے اردو کے صاحب دل، مذہبی شاعر مرحوم وفا ؔ ملک پوری یاد آ رہے ہیں۔ وہ عرفان صدیقی سے اچھی طرح واقف نہیں تھے۔ میں نے انھیں یہ سلام سنایا:

عرفان!تم یہ درد کی دولت کہاں سے لائے ؟

پورا سلام مرصع ہے لیکن وفاؔ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ میں نے سلام ختم کر کے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا، چپکے چپکے رو رہے ہیں۔ کہنے لگے :صاحب میں نے پورا سلام سنا ہی نہیں۔ میں تو اس کے ایک ہی شعر میں کھو کر رہ گیا :

پانی نہ پائیں ساقیِ کوثر کے اہلِ بیت

موج فرات اشک ندامت کہاں سے لائے ؟

عرفان صدیقی بہت جلد مذہبی شاعروں کی صف اول میں آ گئے ‘‘ ( مضمون : عرفان صدیقی، کینسر، آخری ملاقاتیں۔ مشمولہ نیا دور لکھنؤ اکتوبر۔ نومبر ۲۰۱۰ءص ۸۸)

اس مضمون میں ہماری بنیادی Themeیہ تھی کہ عرفان صدیقی کی شاعری کی بنیاد جمال عاشقی پر ہے یعنی وہ زندگی کے جس شعبہ کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں اس میں فن جمالیاتAesthetics Artکی کارفرمائی کے جلووں سے ضرور کام لیتے ہیں۔ ابن آدم کی سب سے بڑی دولت کا نام احساس جمال ہے اور یہ احساس جمال کسی بھی شکل میں ظاہر ہو سکتا ہے کیوں کہ اظہاریت ہی اس کا کامیاب ترین وسیلہ ہے۔ عرفان صدیقی نے اس وسیلے سے اپنی مٹھی بھر شاعری سے جمال عاشقی کا مرقع چغتائی تیار کر دیا ہے۔

بجھ رہی ہیں میری شمعیں، سورہے ہیں میرے لوگ

ہو رہی ہے صبح، قصہ مختصر کرتا ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

طلسماتی جہان معنی کا شاعر: عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محمد زاہد الحق(حیدر آباد )

 

بیسویں صدی کے نصف آخر یعنی جدیدیت کے دورِ عروج میں جن شعرا نے اپنے منفرد لب و لہجے کی وجہ سے ہر خاص و عام کو اپنی جانب متوجہ کیا ان میں احمد مشتاق، بشیر بدر، ندا فاضلی، شہریار، ظفر اقبال، افتخار عارف کے ساتھ ساتھ عرفان صدیقی کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ عرفان صدیقی کے کلام کو کبھی احمد مشتاق تو کبھی افتخار عارف کے کلام کے سامنے رکھا جاتا اور خوب خوب بحثیں ہوتیں۔ انھی مباحث نے اردو کے عام قارئین کو عرفان صدیقی کی شاعری کے متعلق ایک نئے زاویے سے سوچنے اور ان کی شاعری پر از سر نو غور کرنے کا موقع دیا۔ اسی دوران ہمیں بڑی شدت سے یہ بات محسوس ہوئی کہ عرفان صدیقی اپنی شاعری اور اس میں مستعمل لفظیات سے ایک نیا شعری نظام تیار کر رہے تھے جو بعد میں ان کا نقطۂ امتیاز ٹھہرا۔ اس پس منظر کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ان کو بیداری یا awakening کا شاعر بھی کہا گیا۔ اسی زمانے کا ان کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں :

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

اور اسی غزل میں انھوں نے وہ شعر بھی کہا جو اپنی مثال آپ ہے۔ رقیب، دشمن، دشمنی اور حریف کے حوالے سے اردو شاعری میں بہت سے اشعار موجود ہیں مگر عرفان صدیقی نے اپنے اس شعر میں جذبۂ رقابت کی جس انتہا کو پیش کیا ہے اس کی دوسری مثال کہیں اور نظر نہیں آتی۔

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

عرفان صدیقی کا شمار

جدید شاعروں میں ہوتا ہے، تاہم روایت کی پاسداری ان کے یہاں جھلکتی ہے۔ اگر ہم اردو شاعری کی کلاسیکی روایت، جس کی بنیاد عشق پر رکھی گئی ہے، کے عناصر کو تلاش کریں تو ہمیں بڑی آسانی سے ان کے یہاں یہ عشقیہ لوازمات مل جاتے ہیں۔ عشق جو گناہ آدم کا سبب بنا، وہی کائنات کی تعمیر کا ضامن بھی ہوا۔ عشق کی تاثیر اپنی جگہ مسلم ہے اور ہر زمانے میں اس کا سکہ چلتا رہا ہے۔ عرفان صدیقی کے پاس جو عشقیہ عناصر پائے جاتے ہیں وہ قدرت کا عطیہ ہیں اور ان کا خمیر اردو کی کلاسیکی عشقیہ روایت سے اٹھا ہے، لیکن ایک بات یہ بھی قابل غور ہے کہ اس پیرائے میں بھی عرفان صدیقی کا اسلوب کلاسیکیت یا ترقی پسندی و جدیدیت سے مستعار معلوم نہیں ہوتا بلکہ اختراعی معلوم ہوتا ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ایسے اشعار وافر تعداد میں موجود ہیں جن کے ذریعہ عشقیہ اقدار پر افسوس کیا گیا ہے۔ اس کی بازیافت کی کوشش کی گئی ہے اور اسی کوشش نے ان کے یہاں منفرد احساس کو جگہ دی ہے :

وہ یہاں ایک نئے گھر کی بِنا ڈالے گا

خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اس نے

پہلے ایسا تو نہ تھا ذائقۂ ہجر و وصال

اس تعلق میں یہ کیا چیز ملا دی گئی ہے

اتنی امید نہ آتے ہوئے برسوں سے لگا ؤ

حال بھی تو کسی ماضی ہی کا مستقبل ہے

ہمارے داغ چھپائیں روایتیں کب تک

لباس بھی تو پرانا تھا پھٹ گیا

آخر عرفان صدیقی کا ذہن روایتی تھا، لیکن اس کی تربیت ترقی پسندی کے زیر اثر ہو رہی تھی۔ لہٰذا جب ذہنی بلوغ انتہا کو پہنچا تو عرفان صدیقی نے خود کو جدیدیت کی لہروں میں بہتا پایا اور ایسے عالم میں جب احساس کو لفظوں کا جامہ پہنانے کا وقت آیا تو انھیں کلاسیکیت و ترقی پسندی کا دامن تنگ نظر آنے لگا، لیکن اس مقام پر بھی انھوں نے کلاسیکیت سے انحراف نہیں کیا اور نہ ہی ترقی پسندی سے منھ موڑا۔ انھوں نے ان کے مابین اعتدال کا راستہ نکالا اور اس بات کا خیال رکھا کہ جدید و قدیم دونوں کے حسن کو شاعری میں محفوظ کر دیا جائے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ غزل نئی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ عرفان صدیقی بھی قدامت پرستی کے حصار سے نکل آئے :

کون ہم خانہ خرابوں کو کرے گا برباد

جواس آشوب میں غارت ہے سلامت ہے وہی

اب تری گرمیِ گفتار سے یاد آتا ہے

ہم نفس ہم بھی کبھی شعلہ زباں تھے کتنے

شکستہ پیرہنوں میں رنگ سا کچھ ہے

ہمارے ساتھ ابھی نام و ننگ سا کچھ ہے

نبضِ عالم میں رواں تیری حرارت ہی تو ہے

کہ یہ عالم تیرے ہونے کی بدولت ہی تو ہے

عرفان صدیقی کے یہاں روایتی عشقیہ مضامین کے علاوہ ہجر و وصال کا کرب، تشکیل کے مراحل اور زندگی کے نشیب و فراز نے کربلا کے استعارے کو بھی وجود بخشا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرفان صدیقی جدید شاعر تھے لیکن جدیدیت کے بینر تلے جس طرح کی شاعری کی جا رہی تھی عرفان صدیقی کی شاعری اس سے مختلف نظر آتی ہے۔ دنیا کی بے ثباتی، تشخص کی بازیافت، بے چینی، ذات میں گم ہونے کا احساس اور زندہ رہنے کی کسک نے جدید شاعروں کو ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جہاں ہر چیز نئی تھی اور انھیں اپنی دنیا کو خود ہی بنانا اور خود سنوارنا بھی تھا۔ اس احساس نے اس کا رشتہ سب سے پہلے قاری سے منقطع کیا اور تشخص کی بازیافت نے پرانی روایتوں کو ترک کر کے نئی ترکیبوں، نئی علامتوں اور نئے لہجے میں بات کرنے کا احساس پیدا کیا۔ لیکن ہر شاعر اس زمرے میں آئے، ایسا نہیں تھا۔

عرفان صدیقی نے روایت کو نئے زاویے سے دیکھا اور میر اور غالب کے ذریعہ رکھی گئی بنیاد پر ہی اپنی عمارت کی اینٹ رکھی۔ انھوں نے کبھی ماضی کو فراموش نہیں کیا، البتہ پرانے شاہراہ پر نئے گل بوٹے کھلانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ علامتوں، استعاروں اور ترکیبوں کا استعمال اپنے پیش روؤں سے منفرد ہوتے ہوئے بھی منفرد نہیں تھا۔ چراغ، سفر، پتھر، ستارۂ شب، عذاب رفتہ، بے نوا پتے، شاخ بے شجر، ستارۂ ہجر وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو معنی کی کئی طلسماتی جہتوں کو ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں :

طلوع ہونے کو ہے پھر کوئی ستارۂ غیب

وہ دیکھ پردۂ افلاک ہٹتا جاتا ہے

رختِ سفر اٹھا گیا کون سرائے خواب سے

رات پھر اس نواح میں گریۂ جاں بہت ہوا

ساری آوازوں کا انجام ہے چپ ہو جانا

نعرۂ ہو ہے تو کیا، شورِ سلاسل ہے تو کیا

ایک میں ہوں کہ اِس آشوبِ نوا میں چپ ہوں

ورنہ دنیا میری زخموں کی زبان بولتی ہے

درج بالا اشعار میں جتنی علامتیں، تراکیب اور استعارے استعمال ہوئے ہیں وہ سب کے سب شاعر کے منشا پر عمل کرتے ہوئے ہمارے ذہن کو اس جانب منتقل کر دیتے ہیں جدھر شاعر منتقل کرنا چاہتا ہے۔ یہ تو محض چند مثالیں ہیں جب کہ ان کے مجموعے میں اس نوع کے اشعار کی کمی نہیں ہے جو ان کی اس خوبی کی نشاندہی کریں۔

عرفان صدیقی کی شاعری کا ایک اہم وصف کربلا کا استعارہ ہے جو انھیں ان کے معاصرین کے درمیان ممتاز کرتا  ہے۔ حالاں کہ ان کے زمانے میں دوسرے شعرا نے بھی کربلا بطور استعارہ استعمال کیا ہے، تاہم جو پائداری عرفان صدیقی کے یہاں نظر آتی ہے وہ دوسروں کے یہاں ناپید ہے۔ کربلا میں جس طرح واقعات پیش آئے اس سے ہم اچھی طرح واقف ہیں، لیکن اس کے پس منظر میں عصر حاضر کا جائزہ لینا قابل تعریف ہے۔ عرفان صدیقی نے کربلا کے استعارہ کے ذریعہ آشوب جہاں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس حقیقت کو اجاگر کرنے کی سعی کی ہے کہ آج کے انسانوں کی زندگی کسی کربلا سے کم نہیں ہے۔ ایک وہ زمانہ جب حق و باطل نے اپنے ہونے کا ثبوت دیا اور اس بات کو ثابت کر دیا کہ

خبرداری کہ تاریخ حسینؓ و شمر چہ گوید

صدائے حق نہ ماندنیست از ہنگامۂ باطل

(سالک لکھنوی)

ٹھیک اسی طرح آج کا انسان بھی حرف انکار کی علامت بن چکا ہے اور کوفۂ نامہرباں کا سراغ دے رہا ہے۔ زندگی کی اس تگ و دو میں وہ اس مقام پر آ پہنچا ہے جہاں ایمانداری، بے بسی، حق گوئی، کمزوری اور مجبوری و پریشانی سے گھرے لوگوں کا خیمہ ہے تو دوسری طرف ان سے فائدہ اٹھانے والے جعلی، ظالم اور جابر لوگوں کا ہجوم ہے اور وہی مقتل ہے جہاں ان کے درمیان لڑائی ہونے والی ہے۔ کربلا کے تعلق سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

اپنے بھولے ہوئے منظر کی طرف لوٹ چلو

گم شدہ تیرو! کسی سر کی طرف لوٹ چلو

ادھر تیر چلنے کو تھے بیقرار

ادھر سارے مشکیزے بھرنے کو تھے

تو وہ شب بھر کی رونق چند خیموں کی بدولت

اب اس میدان میں سنسان ٹیلوں کے سوا کیا تھا

بڑھتے ہوئے دشمن جیسی دوپہر

نیزوں جیسی تیز نوکیلی دھوپ

پھر اک عجیب تماشا رہے گا صدیوں تک

یہ کار زارِ کمان و گلو ہے کتنی دیر

اعلی تخیل، عمدہ خیالات کو وجود بخشتا ہے اور عمدہ خیال کو کاغذ پر اتارنے کے لیے بہترین لفظیات کے انتخاب کی ضرورت پڑتی ہے۔ شاعر و ادیب اس وقت تک کسی بھی خیال کو عمدہ پیرائے میں بیان نہیں کر سکتے جب تک وہ اپنے مواد کی خاطر بہترین الفاظ کا انتخاب نہ کر لیں۔ حالیؔ نے مقدمۂ شعر و شاعری میں اس خوبی کو تفحص الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔ عرفان صدیقی کا کلام لفظیات کے عمدہ انتخاب سے مزین ہے۔ ہر شاعر کا اپنا لہجہ ہوا کرتا ہے اور لہجے کی انفرادیت شاعر کے منفرد ہونے کی دلیل پیش کرتی ہے۔ عرفان صدیقی کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس بات کو آسانی کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ لفظیات کے باب میں عرفان صدیقی نے اپنے کمالات کے جو ہر دکھائے ہیں اور بطور نمونہ اپنے کلام کو ہمارے سامنے اس طرح سے پیش کیا ہے کہ لفظوں کا در وبست معنوی سطح پر نئے نئے مفاہیم کے در وا کرتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں :

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے

اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے

اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہو گا

وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں

جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کمبخت

اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں

عرفان صدیقی نے اپنی شاعری میں قدیم و جدید یعنی کلاسیکیت سے جدیدیت تک کی بھرپور پاسداری کی ہے۔ انھوں نے نہ تو مکمل طور پر روایت سے بغاوت کی ہے اور نہ ہی جدیدیت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہے۔ ذیل کے دو شعر دیکھیں جس میں انھوں نے روایتی لب و لہجے کی پاسداری بھی کی ہے اور جدید طرز سخن کو بھی بخوبی اپنایا ہے۔ اس میں اردو شاعری کا روایتی مزاج بھی سانسیں لیتا ہوا نظر آتا ہے تو دوسری طرف چراغ کے حوالے سے ایک نیا زاویۂ نظر بھی موجود ہے :

ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے

رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

رات سے جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

عرفان صدیقی نے اپنے اشعار کے ذریعہ نہ صرف وقت اور سماج بلکہ سیاسی جبر کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ تقسیم ملک اور سرحدوں کے مضامین کو اس زمانے کے بیشتر شعرا نے قلمبند کیا ہے۔ آئیے پہلے پروفیسر اعزاز افضل کا یہ قطعہ دیکھیں :

ہزاروں سرحدوں کی بیڑیاں قدموں سے لپٹی ہیں

ہمارے پاؤں کو بھی پر بنا دیتا تو اچھا تھا

پرندوں نے کبھی روکا نہیں رستہ پرندوں کا

خدا دنیا کو چڑیا گھر بنا دیتا تو اچھا تھا

اب دیکھیے اسی نوع کے مضمون کو اپنے منفرد لب و لہجے میں عرفان صدیقی نے کس خوبصورتی سے پیش کیا ہے :

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچیے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

ان کے اشعار میں کہیں کہیں ایسے لطیف اشارے بھی موجود ہیں جن سے جسم و جان یا گوشت پوست کے ڈھانچے کی طرف کچھ مخاطبت کا پہلو نظر آتا ہے۔ کبھی کبھی تو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس مخاطبت میں ایک خاص قسم کی جنسی لپک بھی موجود ہے۔ اسی نوع کی شاعری کو لذتیت یا Eroticism کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔ دو ایک مثالیں آپ بھی دیکھتے چلیں :

کبھی شراب کبھی انگبیں کبھی زہراب

وصال کیا ہے کسی کے بدن کا جادو ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

کھلتے ہی نہیں لمس پہ اس جسم کے اسرار

سیاح عجب شہر طلسمات میں گُم ہے

جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کمبخت

اب تکلف کی یہ دیوار گرا کر دیکھیں

مذکورہ بالا اشعار پر غور کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہر شعر میں عشق کی کیفیت بدلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ استعاروں نے عشق کے رنگ کو الگ الگ ڈھنگ سے باندھا ہے۔ لفظوں کے در وبست نے اشعار کو معنیاتی سطح پر بلند کر دیا ہے۔ استاد محترم پروفیسر ابوالکلام قاسمی اسی حوالے سے لکھتے ہیں :۔ ” ان کی اب تک کی غزلوں پر سرسری نظر ڈالی جائے تو یہ اندازہ لگانے میں دقت نہیں ہوتی کہ شاعر نے غزل کی فارسیاور اردو روایت میں شامل ان تمام سر چشموں سے استفادہ کیا ہے جن کے ایجاز اور جامعیت نے غزل کو محض دو مصرعوں میں رمزیت، ارتکاز اور سلیقۂ اظہار کو سمیٹ لیا ہے "۔ (شاعری کی تنقید – ابوالکلام قاسمی،ص – 201 )

گویا عرفان صدیقی کی شاعری کا باریکی سے مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس بات کو مان لیتے ہیں کہ ان کی شاعری نہ صرف اپنے رنگ، ڈھنگ اور آہنگ کے اعتبار سے ایک منفرد قسم کی شاعری ہے بلکہ ان کی شاعری اپنے جلو میں ایک الگ طلسماتی جہان معنی اور نگار خانۂ رنگا رنگ رکھتی ہے۔ ان کی شاعرانہ آواز نے اپنے زمانے میں ہر خاص و عام کو اپنی جانب متوجہ کیا اور آئندہ بھی عرفان صدیقی کی شاعری کی طرف لوگ راغب ہوتے رہیں گے۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی کی شاعری

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حسین عیاض(دہلی)

 

تخلیقی متن کے مطالعے اور اس کی تعین قدر کے سلسلے میں تنقید کی تمام تر حصول یابیوں کے باوجود ایک سچائی یہ بھی ہے کہ نقادوں کے ذرا غیر ذمے دارانہ رویے سے نسبتاً بہت اچھے اور پر قوت متن پیچھے چلے گئے ہیں۔ اس کی مثالیں ہماری ادبی تاریخ میں جگہ جگہ مل جائیں گی۔ لیکن یہ صورتحال بہت دیر تک قائم نہیں رہتی۔ اچھا متن دیر سے ہی سہی اپنے بال وپر نکالتا ہے اور اپنے قاری پیدا کرتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تمام غیر ادبی اور غیر تنقیدی لاحقے ختم ہونے لگتے ہیں۔ عرفان صدیقی کے شعری متن کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ نئی غزل کی مختلف جہتوں پر جتنی کثرت سے لکھا گیا ہے وہ حیرت میں ڈالتا ہے لیکن اس سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ عرفان صدیقی نئی غزل کے بیشتر تنقیدی کلامیوں سے خارج ہیں۔ اس صورتحال کو پیدا کرنے میں ایک سطح پر خود عرفان صدیقی کی طبیعت  احساس تھا۔

تم بتاتے تو سمجھتی تمہیں دنیا عرفان

فائدہ عرضِ ہنر میں تھا ہنر میں کیا تھا

لیکن وہ اپنے بیشتر معاصرین سے اس معنی میں زیادہ ثروت مند ٹھہرے کہ بعد کہ شعراء نے تخلیقی سطح پران میں زیادہ دلچسپی لی، آج کا شعری منظرنامہ تو اور چونکانے والا ہے۔ اس وقت ہونے والی اچھے شاعری پر عرفان صدیقی کے جتنے گہرے اثرات نظر آتے ہیں اسے عرفان صدیقی کے شعری متن کی قوت اوراس کے نموسے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تنقید ادب میں بہت کچھ کرتی ہے لیکن سب کچھ نہیں کرتی۔ ایک حد آتی ہے کہ صرف متن رہ جاتا ہے اور آگے کاسفروہ خود طے کرتا ہے۔ عرفان صدیقی کے شعری متن نے یہ سفرپوری کامیابی کے ساتھ طے کیا ہے۔ عرفان صدیقی کے پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے ’کینوس‘’ شب درمیان‘’سات سماوات ‘’عشق نامہ‘ اور ’ہوائے دشت ماریہ‘ نام ہی عرفان صدیقی کے مختلف ذہنی رویہ کی نشان دہی کرتے ہیں۔ عرفان صدیقی کی شاعری کے بارے میں قطعی طور پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ ان کے تخلیقی فشار کو تنقیدی اصطلاحوں سے نشان زد کرنا بھی مشکل ہے۔ اس میں زندگی، جذبے اوراحساس کے اتنے رنگ روپ اور ڈائمینشن ہیں اوراس لطافت کے ساتھ شاعری کا حصہ بنے ہیں کہ قاری کے گرفت میں آتے ہیں اور چھوٹ جاتے ہیں۔ یہی وہ جہتیں ہیں جس کی طرف شمس الرحمان فاروقی نے اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ عرفان صدیقی کے کلام کا ہزار قائل ہونے کے باوجود میں ان پر کبھی کوئی مضمون نہ لکھ سکا۔ ..۔ عرفان صدیقی کے بارے میں لکھنا بہت مشکل کام تھا اور اب بھی مشکل ہے۔ ان کے اشعار کی تہہ داری اور ان کی لفظیات کاداستانی لیکن گہرا داخلی رنگ اور ان کے تجربۂ عشق اور تجربۂ حیات کا دبدبہ اور طنطنہ یہ ایسی باتیں نہیں جن پر لفاظی اور انشا پردازی اور زور بیان کے ذریعے قابو پایا جا سکے ‘‘(عرفان صدیقی کی غزل)

عرفان صدیقی پرنہ لکھے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے جس کی طرف اشارہ فاروقی کے اس اقتباس میں ملتا ہے۔ در اصل ہمارے یہاں جدید غزل پر جو گفتگو ہوئی ہے اس میں چند نقطے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں، ان میں سے بیشتر کا حوالہ موضوعاتی ہے اورکسی بھی فن پارے کا موضوعاتی مطالعہ کسی نہ کسی سطح پر خانہ بندی تک لے جاتا ہے۔ عرفان صدیقی کے شعری فکر کے سروکاربالکل نہ صحیح پھر بھی بڑی حد تک مختلف تھے۔ ان کے یہاں جدید فکریاتی مباحث اس طور پر شاعری کا حصہ نہیں بنے تھے جس طرح جدید غزل کے دوسرے شعرا کے یہاں ان کی صورت نظر آتی ہے، عشق کا ایک شدید احساس عرفان صدیقی کی فکری جہت کو ایک توازن تک لے جاتا ہے۔ نہ ہی انہوں نے زبان کی سطح پر کوئی ’’انقلابی‘‘ رول ادا کرنے کی کوشش کی، ان کا لفظیاتی نظام بے پناہ جدت کے باوجود گہراکلاسیکی رچاؤ بھی رکھتا ہے۔ جدید غزل کی تنقید کے یہ دونوں حوالے عرفان صدیقی کے یہاں بہت دھیمے ہیں، ان کے شعری متن کے سیاق میں یہ مسائل مرکزی حوالہ نہیں بنتے اس لئے جدید تنقیدی کلامیے میں عرفان صدیقی کو نظر انداز کرنے کی وجہ بہت سامنے کی ہے۔ لیکن آج یہ سب باتیں بہت اہم نہیں رہی ہیں، ہر زمانے میں تخلیقی متن سے وابستگی کی بنیادیں بھی ایک سی نہیں رہتی، آج کا قاری اورساتھ ہی تخلیقی ذہن بھی عرفان صدیقی کی طرف بار بار پلٹتا ہے اور ان کی پوری شعری فضا کو اپنی اور اپنے زمانے کی حسیت سے زیادہ قریب پاتا ہے تو اس کا مطلب جدید غزل کے ایک وقیع سرمائے سے روگردانی نہیں ہے، جدید غزل کی تمام فکری اور لسانی انتہاپسندیوں کو چھوڑنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے اس سب کا رشتہ خود عرفان صدیقی کے شعری طریق کار سے قائم ہو جاتا ہے۔ عرفان صدیقی نے اپنے عہد کی انسانی صورتحال کونسبتاً زیادہ بڑے سیاق میں رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی پوری شاعری ایک غیر مشروط ذہن کی علامیہ ہے۔ نئی غزل کی تمام فکری سروکارکی جھلک بھی عرفان صدیقی کے یہاں ملتی ہے لیکن اپنے زمانے کو وقت کی بندشوں سے آزاد ہو کر دیکھنے کا رویہ بھی ان کے شعری امتیاز کا مظہر ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری میں کربلا کے شعری استعارے کی معنویت بھی اسی سیاق میں قائم ہونی چاہیے۔ یہ اشعار دیکھیے :

پھر ایک عجیب تماشہ رہے گا صدیوں تک

یہ کاروبارِ کمان و گلو ہے کتنی دیر

یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی

تمام شہر میں نخل دعا نکل آئے

سروں کے پھول سرنوکِنیزہ ہنستے رہے

یہ فصل سوکھی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا

ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

یا مرا وہم ہے یہ نغمۂ موج گزراں

یا کوئی نہر ہے اس کوہ گراں کے پیچھے

ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے

موجِ خوں اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ

لہو میں غرق ہمارے بدن کوسہل نہ جان

یہ آفتاب ہے اور ڈوب کر نکلتا ہے

جو بھی چا ہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا ہے

خداسے آخری رشتہ بھی کٹ نہ جائے کہیں

کہ اب کے ہے  وہی دستِ دعا نشانے پر

یہ اشعار عرفان صدیقی کے معاصرین کی تخلیقی حسیت سے قریب ہوتے ہوئے بھی بہت دور ہیں اور نہ ہی انہیں کسی ادبی تحریک اور میلان کے حوالے سے کوئی نام دیا جا سکتا ہے۔ عرفان صدیقی کی یہ لفظیات بھی ان کے تجربے اور ایک ازلی کشمکش کے ادراک کو نئے تناظر کے ساتھ سامنے لاتی ہیں۔ عرفان صدیقی کے مطالعے بلکہ یہ کہا جائے کہ ان تمام شعری متون کے مطالعے میں جن میں کربلا کا استعارہ مرکزی اہمیت رکھتا ہے ایک غیر ادبی رویہ بہت حاوی رہا ہے، کہ ان کی معنویت کو کربلا تک ہی محدود کر کے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سے لوگ افتخار عارف کا نام لینے سے بچتے ہیں۔ عرفان صدیقی کے باب میں بھی کربلا کا ذکر اتنی کثرت سے کیا گیا ہے کہ اس سے آگے ذہن نہیں جاتا۔ عرفان صدیقی کی اس شعری جہت کو اس مخصوص سیاق میں سمجھا ضرور جا سکتا ہے لیکن اسے یہیں تک محدود کر دینا ایک غیر ذمے دارانہ رویہ ہے۔ پہلے شعر میں جس عجیب تماشے کا ذکر ہے اس کا مخصوص اظہاریہ اسے زمانی اور مکانی محدودیت سے باہر لے آتا ہے۔ کاروبار کمان و گلو کو خیرو شر کی ازلی کشمکش کے استعارہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ کاروبار کمان و گلو کی ترکیب بھی معنی کی ایک نئی جہت کو سامنے لاتی ہے۔ عرفان صدیقی نے نیرمسعود سے ایک گفتگو میں کہا تھا کہ وہ لفظوں کے امکانات اور ان کے آپسی رشتوں کو تلاش کرنے اور ان کے استعمال پر ہفتوں سوچتے ہیں بلا مبالغہ۔ اس بات کا اندازہ عرفان صدیقی کی لفظیات اور ان کی ترکیبوں سے صاف طور پر ہوتا ہے۔ ان کی ترکیبیں معنیاتی سطح پر بڑا کردار ادا کرتی ہیں اور صوتی اعتبار سے بھی ان میں ایک حسن اور جاذبیت ہوتی ہے۔ کمان و گلو کے ساتھ کاروبار کی تمام رسومیات کو وابستہ کر کے اس عمل کی نوعیت کی طرف بھی اشارہ مقصود ہے۔ دوسرے شعر کے معنی سے قطع نظر اس کے مخصوص اظہار سے جو تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے اور ایک پیکر خلق ہوتا ہے وہ شاعر کے تخلیقی مزاج کو سامنے لاتا ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری کی یہ خاص بات ہے کہ وہ خیال کو کوئی نہ کوئی صورت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور خالص ذہنی اور حسی تجربے ان کے یہاں بصری پیکر اختیار کر لیتے ہیں ترکیب سازی اور لفظوں کے گچھے خلق کرنے کا پورانظام اسی جہت کو سامنے لاتا ہے۔ تیسرا شعر بھی اس رخ پر جاتا ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں اس طرح کے موضوعات سے خاصی دلچسپی کا اظہار ملتا ہے در اصل یہ ان کے مزاج، شخصیت اور تربیت کا حصہ ہیں۔ وہ ظلم اور جبر کے خلاف انسان کو قائم کرنا چاہتے ہیں ان کے یہاں صداقت اور سچ ایک لازوال حقیقت بن کر ابھرتے ہیں اور کربلا کا واقعہ ہر عہد کی اسی کشمکش کا استعارہ بن جاتا ہے۔ ان دونوں شعروں میں دست بریدہ اور سروں کے پھول کے اظہاریہ کو آدمی کی شخصیت اوراس کی خودی کے اثبات کے طور بھی دیکھا جانا چاہیے۔ یہیں سے عرفان صدیقی کے یہاں وہ پہلو بھی ابھرتا ہے جسے ہم تصوف سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، انہوں نے نظریاتی سطح پر تو تصوف کو نہیں برتا نہ ہی اس طرح کے مباحث ان کے یہاں آئے ہیں جن کا ذکر عام طور پر تصوف کی شاعری کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ وہ تصوف کو عام انسانی صورتحال سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

فقیر ہوں د ل تکیہ نشیں ملا ہے مجھے

میاں کا صدقہ تاج و نگیں ملا ہے مجھے

میں بوریا اسی خاک پر کیا تھا بساط

سو یہ خریطہ زر بھی یہیں ملا ہے مجھے

زباں کو خوش نہیں آتا کسی کا آب و نمک

عجب تبرک نان جویں ملا ہے مجھے

پھر بار فقیروں کا اٹھانا میرے داتا

پہلے تو یہ کشکول فقیرا نہ اٹھا لے

کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک

مسند خاک پہ بیٹھا ہوں برابر اپنے

ان اشعار میں زیریں سطح پر احتجاج کے نشان بھی ملتے ہیں اور یہ احتجاج انسان کو اپنی ذات کے اثبات تک لے جاتا ہے۔ مذکورہ شعروں سے ایک متصوفانہ طبیعت اور قلندرانہ مزاج کی تصویر بھی بنتی ہے۔ ان میں عرفان صدیقی کے عہد کا آشوب بھی ہے اور ان کے بعد کی تمام تر غیر انسانی صورتحال کے خلاف قائم ہونے کی بنیادیں بھی۔ عرفان صدیقی کی شاعری لفظ و معنی دونوں سطحوں پر ہمیں چونکاتی ہے۔ وہ سامنے کے موضوعات ومسائل کو بھی جس سطح پر جا کر سوچتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں اور بھرپور ڈرامائیت کے ساتھ شعری پیکر عطا کرتے ہیں وہ ہمیں ایک نئے لسانی اور معنیاتی تجربے سے آشنا کراتا ہے۔ عرفان صدیقی کے شعری متن کی قرأت کا یہ ایک دلچسپ حوالہ ہے۔

عرفان صدیقی کا تخلیقی مزاج ان کی فکر پر حاوی نظر آتا ہے، ان کے یہاں باضابطہ کسی فکری نظام کی دریافت بھی مشکل ہے اور وہ عرفان صدیقی کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ انہوں نے خیرو شر کے معرکہ میں اپنا فرض تو نبھایا ہے لیکن یہ فرض انہیں کسی گہری فلسفیانہ سطح تک نہیں لے جاتا، یہاں بھی ان کے شعروں کا شدید جمالیاتی آہنگ اور تخلیقی وفور ایک دوسرے ہی ذائقے سے آشنا کراتا ہے۔ اس طرح کے مسائل عرفان صدیقی کے یہاں ہیں لیکن ان کی تہذیب اور تراش الگ قسم کی ہے۔

مرے خدا مجھے اس آگ سے نکال کہ تو

سمجھ میں آتا ہے ایقان میں نہیں آتا

مجرم ہوں اور خرابۂ جاں میں اماں نہیں

اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

پتلیاں گرمی ٔ بازار سے جل جاتی ہیں

آنکھ کی خیر میاں رونق بازار پہ خاک

یوں ہمیں روز نئی دربدری بخشتے ہیں

جیسے بیٹھے ہوں زمیں جیب میں ڈالے ہوئے لوگ

عرفان صدیقی کی شاعری کا سب سے بڑامسئلہ عشق ہے۔ انہوں نے اپنے ایک مجموعے کا نام بھی ’عشق نامہ‘ رکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ کلاسیکی شعری روایت سے گہرا تعلق بھی ہے اورساتھ ہی وہ عشق کو ایک بڑی انسانی قوت اورسرگرمی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ عشق پوری طرح ماورائی بھی نہیں ہے لیکن اس طرح زمینی بھی نہیں کہ اس کا رشتہ ہوسناکی سے قائم ہوتا ہو۔ یہ اشعار دیکھئے :

 

کہیں کسی کے بدن سے بدن نہ چھو جائے

اس احتیاط میں خواہش کا ڈھنگ سا کچھ ہے

امیدواروں پہ کھلتا نہیں وہ بابِ وصال

اوراس کے شہرسے کرتا نہیں کنارہ کوئی

سیربھی جسم کے صحرا کی خوش آتی ہے مگر

دیر تک خاک اڑانا بھی نہیں چاہتا ہے

لپٹ بھی جاتا تھا اکثر وہ میرے سینے سے

ا ور ایک فاصلہ سادرمیاں بھی رکھتا تھا

ہوا گلاب کو چھو کر گزرتی رہتی ہے

سو میں بھی اتنا گنہگار رہنا چاہتا ہوں

تیراسراپایامیراتماشاکوئی تو برج زوال میں تھا

رات چراغ ساعت ہجراں روشن طاق وصال میں تھا

روح میں کیسی تھکن ہے کوئی تدبیر کرو

شاید آسودہ سربسترتن ہو جاؤں

کسی کے وعدۂ فردا کے برگ و بار کی خیر

یہ آگ ہجر کے بن کی طرف سے آتی ہے

کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے

فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے

جب قریب آیا توہم خود سے جدا ہونے لگے

وہ حجاب درمیانِ جان و تن لگنے لگا

مذکورہ تمام شعروں میں ہجر و وصال، بدن اور روح کے درمیان ایک قسم کی کشمکش کا احساس ہوتا ہے۔ یہ کیفیت فراق کی شاعری میں بھی جگہ جگہ ملتی ہے، ان کے یہاں وصل محبوب سے ہمکنار ہونا نہیں ہے بلکہ لمحۂ وصال ہی ابدی نا آسودگی کے احساس کو اور شدید کرتا ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں اس طرح کی اداسی تو نہیں ہے لیکن لمحۂ وصل اور لمحہ ہجر کے درمیان ایک چیز ہے جسے عشق کی تہذیب کا نام دیا جا سکتا ہے۔ پہلے شعر میں جس احتیاط کا ذکر ہے اس کا وجود تبھی ممکن ہے جب اندر کسی کے بدن سے چھو جانے کی خواہش موجود ہو، ’ڈھنگ سا کچھ ہے ‘کا فقرہ بے نام سی لذتوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ عرفان صدیقی کی شاعری کی یہی وہ جہت ہے جسے تنقیدی سطح پرسمجھنا اورسمجھانا ممکن نہیں، ان کے متن میں کہی گئی با توں سے زیادہ ان کہی باتیں ہوتی ہیں، جس کی طرف اشارہ عرفان صدیقی نے ایک جگہ ’سخن بے زباں ‘کی ترکیب سے بھی کیا ہے۔ دوسرے شعر کا مضمون بہت پرانا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ عشق کے باب میں کوئی نئی بات لانا بہت مشکل ہے، اب شاعر کے لئے یہ بچتا ہے کہ وہ ان مضامین کو نئی لفظیات، نئی تراکیب اور تازہ ترحسیت کے ساتھ کس طور پر برتتا ہے۔ عرفان صدیقی کے اس شعر کاساراحسن اس کے اظہاریہ میں ہے۔ ’بابِ وصال ‘کی ترکیب اوراس کی مناسبت سے لفظ ’کھلنا ‘اس مضمون میں دلکشی اور نیا پن پیدا کرتا ہے۔ تیسرے شعر کی نوعیت بھی یہی ہے۔ جسم کے صحرا کی ترکیب سے عرفان صدیقی نے بہت کام لیا ہے اور ہر جگہ نئے امکانات روشن ہوئے ہیں۔ عشق کے متعلقات کے ذکر میں جسم اور بدن کے الفاظ ان کی شاعری میں کثرت سے ملتے ہیں۔ در اصل یہی وہ نقطہ ہے جوان کے عشق کو ارضی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ عرفان صدیقی کے یہاں بدن محبوب کا بدن ہے اور وہ اس کی تقدیس کے تمام پہلو تلاش کرتے ہیں۔

جسم سے روح تلک راہ نوردی کے لیے

ہو عنایت مرے ہونٹوں کو بھی پروانۂ لب

میں تری منزل جاں تک پہنچ توسکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

سیربھی جسم کے صحرا کی خوش آتی ہے مگر

دیر تک خاک اڑانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ خوش بدن نوید بہار میرے لئے

میں اس کو چھولوں توسب کچھ نیا نیا ہو جائے

کب سے پتھر ہوں بیابان فراموشی میں

میرے ساحرمجھے چھولے کہ بدن ہو جاؤں

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈتا رہتا ہے استعارہ کوئی

کھلتے ہی نہیں لمس پہ اس جسم کے اسرار

سیاح عجب شہر طلسمات میں گم ہے

یہ تمام شعر کاروبار عشق میں بدن کے کردار کو نشان زد کرتے ہیں۔ پہلے دونوں شعروں میں بدن روح تک پہنچنے کے ایک ذریعے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ منزل جاں تک پہنچنے کی راہ کا بدن سے ہو کر گزرنا بدن کی تقدیس کی علامت ہے۔ جسم سے روح تلک راہ نوردی کے لیے لبوں کا سہارابھی اسی جہت کو روشن کرتا ہے۔ آخری شعر میں جسم کی اسرار آمیز فضا اس پورے عمل کوہوسناکی سے بہت بلند کر دیتی ہے۔ عرفان صدیقی محبوب کے جسم اوراس کے اعضا کی صرف تعریف ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے ایک تعلق بنانا بھی چاہتے ہیں۔ اس روش کو جدید غزل میں عشق کے بدلے ہوئے تصور کے طور بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ظفر اقبال کے یہاں یہ پہلو اور واضح انداز میں ابھرتا ہے۔ عرفان صدیقی کا یہ شعر بھی دیکھیے۔

میں ڈوب گیا جب ترے پیکر میں تو ٹوٹا

یہ وہم کہ تو خود ہی مری ذات میں گم ہے

اس شعرسے دونوں کرداروں کے بیچ ایک فاصلے کا احساس ہوتا ہے۔ گویا عاشق خود اپنے وجود کو الگ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی خلا کو پر کرنے کے لیے اسے پروانۂ لب کی ضرورت ہے۔ وحشت کا موضوع کلاسیکی شعری روایت کا حصہ رہا ہے۔ جدید شعرا نے بھی اسے اپنے اپنے طور پر برتا ہے۔ عرفان صدیقی وحشت کا رشتہ اپنے باطن سے قائم کر کے نیا افق روشن کرتے ہیں۔

خیر دنیا مری وحشت کے لیے تنگ سہی

اور یہ عرصۂ باطن میں بیاباں جوہیں

ظاہر ہے باطن کے ان بیابانوں کا رشتہ عشق کی تاراجیوں سے قائم ہوتا ہے۔ یہیں سے عرفان صدیقی کی شاعری میں درد کے ایک پورے باب کا اضافہ بھی ہوتا ہے۔ درد کو عرفان صدیقی نے ایک بڑی قدر کے طور پر برتا ہے۔ یہ شعر دیکھیے۔

لشکر عشق نے جب سے خیمے کئے کچھ نہ کچھ روزسرحدبڑھالی گئی

اور پھر ایک دن دل کی ساری زمیں درد کی مملکت میں ملا لی گئی

منصب درد سے دل نے تمہیں معز ول کیا

تم سمجھتے تھے یہ جاگیر تمہارے لئے ہے

خانۂ درد ترے خاک بسر آ گئے ہیں

اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آ گئے ہیں

اس ایک نام نے بخشا ہے جو خزانۂ درد

وہ ہم نے وقف کیا بحر و برکے نام تمام

میں تو ایک دردکاسرمایہ لئے بیٹھا ہوں

یہ مری جان کا آزار ہے میں کیا جانوں

درد کی مملکت، منصب درد، دردکاسرمایہ، خزانۂ درد یہ سب ترکیبیں اسی قدر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پہلے دوسرے اورتیسرے شعرسے جو ایک واقعہ اور منظرنامہ خلق ہوتا ہے اسے عرفان صدیقی کی تخلیقی ہنر مندی سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔ ان اشعار کا ڈرامائی انداز اثر انگیزی میں اضافہ کرتا ہے۔ درد جدید شاعری کا بنیادی موضوع رہا ہے جو عشق کے ساتھ اور کئی صورتحال کا زائدہ ہے لیکن اس کا موضوع اور زبان کی سطح پر اتنا تخلیقی اور جمالیاتی اظہار بہت کم ہوا ہے۔ عرفان صدیقی کاکینوس اپنے کئی معاصرین کے مقابلے میں محدود ہے لیکن ان کے امتیاز کا اظہاراس بات سے ہوتا ہے کہ جو موضوعات بھی ان کے یہاں آئے ہیں وہ ان کی گرفت سے باہر نہیں رہتے۔ عرفان صدیقی کے یہاں بہت کم شعرایسے ہیں جوکسی نہ کسی جہت سے ہمیں متوجہ نہ کرتے ہوں۔ جدید غزل کو عرفان صدیقی کی یہ بہت بڑی عطا ہے جس کے لئے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان احمد صدیقی اور رابطۂ عامہ

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شاہ نواز فیاض(دہلی)

 

بیسویں صدی کے آخر میں ایک اہم شاعر کی حیثیت سے معروف ہونے والے عرفان صدیقی کی عام پہچان ایک شاعر کی ہی ہے، لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ حکومت کی انفارمیشن سروس سے وابستہ رہنے کی وجہ سے صحافت سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا۔ ان کی کتاب ’’رابطۂ عامہ‘‘اس کا بیّن ثبوت ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے تجربات کی روشنی میں رابطۂ عامہ کی تاریخ اور اس کے متعلق بہت سی معلومات یکجا کی ہیں۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے نہایت اہم یہ کتاب ’’رابطۂ عامہ‘‘ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ نئی دہلی سے ۱۹۷۷ میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں عرفان صدیقی نے جس طرح سے چھوٹے چھوٹے پیرائے میں بات کی ہے اس سے ان کے ذہن اور صحافت کی باریک بینی سے واقفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

آج پوری دنیا میں رابطۂ عامہ ایک ایسے فن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے جس کی افادیت اور علمی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ زندگی کا کوئی ایک ایسا گوشہ نہیں ملے گا جہاں رابطۂ عامہ کسی نہ کسی صورت میں نظر نہیں آتا ہے۔ کتاب۔ ’رابطۂ عامہ‘۱۹۷۷ میں منظر عام پر آئی۔ تب سے اب تک صحافت اپنی ترقی کی کئی منزلیں طے کرتا ہوئی آج دنیا میں ایک ایسا ذریعہ بن گئی ہے جس کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ جب یہ کتاب منظر عام پر آئی تھی تو اس وقت رابطۂ عامہ کے اتنے وسائل موجود نہیں تھے جتنے کی اب۔ سوال بھی کیا جا سکتا ہے کہ آخر اس کتاب پر لکھنے کہ کیا ضرورت ہے ؟اور نئے تقاضوں کے پیش نظریہ کتاب کس حد تک معاون ہے ؟اس کتاب کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ بہت ساری ایسی چیزیں جو اس وقت جدید تقاضوں کو پورا کرتی رہی ہوں گی آج وہ قدیم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن ذرا غور کریں کہ ’رابطۂ عامہ ‘کی بنیادی اصطلاحیں، جس زمانے میں بھی اس تعلق سے لکھا جائے گا تو ان سب چیزوں کا ذکر اسی طرح سے ضروری ہے جس طرح سے اس وقت تھا۔ البتہ اس کا امکان زیادہ ہے کہ کچھ نئی اصطلاحوں کا ذکر بھی ہو۔ جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ اسی طرح سے جب یہ کہا جائے گا کہ ’رابطۂ عامہ‘ کیا ہے ؟تو اس کا وہی جواب ہو گا جو اس وقت تھا۔ اسی طرح سے جب رابطۂ عامہ کے آغاز و ارتقاء کے متعلق لکھا جائے گا تو آج کے اس ترقی یافتہ زمانے تک پہنچنے کے لئے اس زمانے سے ہی گزرنا پڑے گا۔ اس تناظر میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کتاب جتنی معاون اس وقت تھی اتنی نہ سہی پھر بھی اس کی افادیت سے یکسر انکار ممکن نہیں۔ ۱۹۷۷ کے آس پاس اس موضوع پر جدید فن کی حیثیت سے رابطۂ عامہ کے مبادیات کے تعارف پراس طرح سے کوئی باقاعدہ تصنیف شاید ڈھونڈنے ہی سے ملے۔ اس دور کی صحافت اور آج کی صحافت کا موازنہ کیا جائے تو موجودہ دور اس اعتبار سے ایک سیلاب کے مانند ہے، جہاں طرح طرح کے وسائل موجود ہیں۔ کمپیوٹر کی مدد سے الیکٹرانک میڈیا بہت مضبوط ہو گیا ہے۔ لیکن آج سے تقریباً چالیس سال پہلے ٹیلی ویژن کی دنیا بہت محدود تھی۔ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ کے اہم وسائل میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبار اور سنیماتھے۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ زمانے میں عوامی ابلاغ کے کئی اہم وسائل ہیں، جس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ یہ کتاب کل چودہ حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب رابطۂ عامہ کی بنیادی اصطلاحوں سے لے کر جدید سائنسی ترقیات اور وسائلِ ابلاغ تک محیط ہے۔

عرفان صدیقی نے ’رابطۂ عامہ‘ کو بہت آسان اور عام فہم زبان میں لکھا ہے، تاکہ خاص و عام بغیر کسی دقت کے آسانی سے سمجھ لیں۔ ’رابطۂ عامہ کی بنیادی اصطلاحیں ‘کے تحت عرفان صدیقی نے چند اہم اور بنیادی اصطلاحوں کی وضاحت کی ہے۔ اس ضمن میں گیارہ اصطلاحوں کی وضاحت بہت چھوٹے چھوٹے پیرائے میں مع مثال بیان کی گئی ہیں۔ اصطلاح کا اصل مقصد کسی علم یا فن کے کسی خاص مفہوم کو پڑھنے یا سننے والوں تک پہچانا ہے۔ چونکہ اصطلاح کی اصل روح اس کے اختصار میں مبہم ہے، اور اس کا عملی ثبوت عرفان صدیقی نے ان اصطلاحوں کے متعلق لکھتے ہوئے دیا ہے۔ متعلق عوام (Relevant Public)کے تعلق سے انھوں نے لکھا ہے : ’’رابطۂ عامہ کے شعبے میں ’عوام‘ یا ’پبلک‘ کی اصطلاح کا مفہوم سیاسیات کی اس اصطلاح کے مفہوم سے خاصا مختلف ہے۔ کسی ادارے کے دائرہ کار میں آنے والے تمام افراد اس ادارے کے ’متعلق عوام‘ کہلاتے ہیں۔ مثلاً روز مرہ کا کوئی سامان تیار کرنے والی کسی کمپنی کے حصے دار، ملازمیں، صارفین وغیرہ سب اس کمپنی کے ’متعلق عوام‘ ہیں۔ انہیں مخاطب گروہ (Audience) بھی کہا جاتا ہے۔ ‘‘ (رابطۂ عامہ۔ عرفان صدیقی۔ مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ ۱۹۷۷۔ ص۔ ۷

درج بالا ا اقتباس سے یہ اندازہ لگانا اور بھی آسان ہو گیا ہے کہ اصطلاح کی اصل روح اختصار میں پنہاں ہے۔ یہ اقتباس اس کی واضح مثال ہے۔ عرفان صدیقی نے اس کتاب کو لکھتے وقت اس کا بھی خیال رکھا ہے کہ کوئی بھی حصہ بے ترتیب نہ ہونے پائے۔ اس لئے اصطلاح میں یہ ضروری تھا کہ یہ جانا جائے کہ اصل میں رابطۂ عامہ کیا چیز ہے ؟ اس کتاب کا دوسرا حصہ اسی موضوع(رابطۂ عامہ کیا ہے )پر ہے۔ کیونکہ رابطۂ عامہ اور صحافت میں بہت فرق ہے۔ جب کی یہ دونوں ایک ہی ماحول میں الگ الگ کام کرتے ہیں۔ رابطۂ عامہ کی توجہ کا مرکز ادارہ اور اس کے عوام ہوتے ہیں، اور صحافت سماج کے تمام افراد سے تعلق رکھتا ہے۔ صحافت کا فرض یہ ہے کہ وہ پوری عوام کی رائے کی عکاسی کرتا ہے اور رابطۂ عامہ کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے ادارے کی شخصیت کا تاثر اجاگر کرے۔ عرفان صدیقی لکھتے ہیں : ’’ کبھی کبھی پبلسٹی اور صحافت کو بھی پبلک ریلیشنز سے خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ لفظ پبلسٹی کبھی تو رابطۂ عامہ کی مجموعی سر گرمی کے ایک حصے کو ظاہر کرنے کے لئے بولا جاتا ہے اور کبھی اسے مکمل طور پر رابطۂ عامہ کا مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رابطۂ عامہ اور پبلسٹی میں امتیاز کرنا سب سے زیادہ دشوار ہے اور ان میں جو بھی فرق کیا جائے گا وہ کتابی اور نظری نوعیت کا ہو گا۔ ‘‘     ایضاً۔ ص۔ ۱۷، ۱۸

اس حصے کے بعد رابطۂ عامہ کے آغاز و ارتقا کے متعلق عرفان صدیقی نے بہت اختصار سے پوری تاریخ سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ رابطۂ عامہ کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اس متعلق ان کی یہی رائے ہے کہ رابطۂ عامہ اصطلاحی اعتبار سے جدید دور کی پیداوار ہے۔ لیکن اس کاجو مفہوم ہے اس کا تصور تو بہت پرانا ہے کم از کم اتنا پرانا کہ جب سے ریاست یا حکومت کے اداروں کا وجود ہوا ہے۔ عرفان صدیقی نے مختلف لوگوں کی رائے بھی لکھی ہے۔ تاکہ اس تاریخ کا آئینہ ہماری نظروں کے سامنے آ سکے۔ تمام مثالوں کے بعد آخر میں انھوں نے اشوک کے عبارتی ستون کا ذکر کیا ہے۔ اور اس طرح کی چیزیں نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی مل جائیں گی۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان دو طرفہ ترسیل کے عمل کی ضرورت ریاست کے تصور کا ایک لازمی حصہ ہوتی ہے۔ اس حصہ کے بعد ’’ترسیل کا عمل‘‘ کے موضوع پر ترسیل کے خاص نکات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک ترتیب سے عرفان صدیقی نے اس کے مشمولات کی فہرست بنائی ہے۔ اس ترقی یافتہ زمانے میں وسائل ابلاغ کے بہت سے ذریعہ ہیں۔ لیکن جس وقت یہ کتاب لکھی گئی تھی اس وقت نہ تو ابلاغ کے اتنے وسائل تھے اور نہ ہی اس پایہ کی کتاب۔ البتہ کچھ ضروری معلومات کے لیے کتابیں تھیں تو لیکن وہ بھی ناقص۔ رابطۂ عامہ کا ایک اہم وسیلہ ترسیل زبان ہے۔ کہیں بلا واسطہ تو کہیں بالواسطہ۔ اس متعلق عرفان صدیقی نے ایک چارٹ بنایا ہے۔ اور اس کے متعلق تقریباً ان سارے ناموں کا ذکر کیا ہے جو اس ضمن میں آتے ہیں۔ زبانی ترسیل کے متعلق عرفان صدیقی کے یہ جملے ملاحظہ ہوں : ’’زبانی ترسیل کا غالباً سب سے اہم موقع جو رابطۂ عامہ کے سلسلے میں در پیش ہوتا ہے وہ ہے پریس کانفرنس یا اخبار نویسوں سے ملاقات۔ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ پریس کانفرنس میں رابطۂ عامہ افسر کو اپنے ادارے کے سربراہ یا مدعوئین یعنی اخبار نویسوں کے مقابلے میں ثانوی نوعیت کا کردار انجام دینا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ان ملاقا توں میں اس کی حیثیت ایک درمیانی آدمی کی ہوتی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس رابطے کے رول کی تمام نزاکتوں اور باریکیوں کو بخوبی ذہن میں رکھے۔‘‘ (ایضاً۔ ص۔ ۳۱)

ٍ        یہاں عرفان صدیقی نے اس ناظم پروگرام کا ذکر کیا ہے جو ٹی وی یا ریڈیو پر اینکر کا رول ادا کرتے ہیں۔ اگر اس پیرا گراف کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات کتنی حقیقی معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ آج کے ٹی وی اینکر کی حیثیت ایک درمیانی آدمی کی ہی ہوتی ہے۔ البتہ کبھی کبھی یہ صاف لگتا ہے کہ ٹی وی اینکر کسی جماعت کی حمایت کے لئے پہلے ہی سے اپنے آپ کو تیار کر لیتا ہے۔ اسی لئے مخالف جماعت سے سوال بھی ایسے کیے جاتے ہیں جس سے الجھاؤ پیدا ہو جائے۔ اور اس الجھاؤ میں اینکر ایک کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ اور اس گروپ سے مباحثے کا جو نتیجہ اینکر اپنے ذہن میں پہلے ہی سے اخذ کر لیتا ہے، بالآ خر وہی نتیجہ اس مباحثے میں سامنے آتا ہے۔ حالانکہ مناسب تو یہ ہے کہ جتنی بھی جماعت کے ممبر کو مدعو کیا جائے وہ سب یکساں طور پر ماہر ہوں۔ ورنہ عدم مساوات میں کمزور کو لا جواب ہی ہونا ہے۔ جیسا کہ آج کل چل رہا ہے۔ عرفان صدیقی نے اسی لئے کہا تھا کہ اس درمیانی شخص کو اپنے رول کی تمام نزاکتوں اور باریکیوں کو بخوبی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اور ایسا کرنے سے ہی غیر جانب دارانہ طور پر کسی بھی مباحثے کا اختتام اچھے طریقے سے ایک با مقصد طور پر ممکن ہے۔ اس پورے حصے میں انھیں کے تعلق سے گفتگو کی گئی ہے۔ زبان ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ کیونکہ زبان سے ادا کیا ہوا لفظ اس وقت موثر ہو سکتا ہے جب وہ صاف طور پر سنا جا سکے اور اچھی طرح سمجھا جا سکے۔ حقیقت یہ کہ اگر ان دونوں میں ذرہ برابر بھی کمی رہ گئی تو بات پوری طرح عیاں نہیں ہو سکے گی۔ لہذا اس کا نتیجہ کچھ بہتر طریقے سے سامنے نہیں آ سکے گا۔

عرفان صدیقی نے ’’صحافتی روابط‘‘ کے تحت خبروں کے متعلق کئی اہم نکات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ جس طرح سے خبروں کے تین ضروری حصے ہوتے ہیں (۱۔ دلچسپی۲۔ اختصار۳۔ وضاحت)اسی طرح سے عرفان صدیقی نے اس کتاب کو لکھتے وقت ان تینوں چیزوں کا بخوبی خیال کیا ہے۔ خبروں کی ترتیب و تیاری، صحافتی پوچھ تاچھ، ہینڈ آؤٹ، پریس کانفرنس، عام تقریبات کے لئے اخبار نویسوں سے متعلق انتظامات، صحافیوں کے دورے اور خصوصی مضمون جیسے اہم نکات کی طرف عرفان صدیقی نے ضروری معلومات اکٹھا کی ہیں۔ خبر اور خصوصی مضمون کے مابین جو فرق ہے عرفان صدیقی کے الفاظ ملاحظہ ہوں : ’’خبر اور خصوصی مضمون کا فرق یہ ہے کہ خبر کا موضوع فوری ہو گا اور ہنگامی نوعیت کا ہو گا۔ خبر کسی ایسے واقعے کے بارے میں ہوتی ہے جو یا تو ابھی ہو چکا ہے یا بس ہونے ہی والا ہے۔ خصوصی مضمون اس قسم کے مضمون کو کہتے ہیں جو اکثر اخباروں کے ادارتی نوٹ والے صفحے پر شائع ہوتا ہے۔ اور جس میں ہفت روزہ جرائد اور ماہانہ رسالوں کے لئے خصوصی دل چسپی کا مواد ہوتا ہے۔ اس کا موضوع عموماً ایسا ہوتا ہے جو اس دن، اس ہفتے، اس مہینے یا اس موسم کی کسی خاص خبر سے متعلق ہوتا ہے۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص۔ ۴۶)

درج بالا اقتباس سے خبر اور خصوصی مضمون کا جو فرق ہے وہ تو واضح ہو گیا، لیکن مضمون خبر ہی کی ایک دوسری شکل ہے۔ البتہ خبر میں اختصار کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، اور خصوصی مضمون میں تفصیلی انداز میں تحریر کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس مضمون کو زیادہ مفید اور موثر بنانا ہو تو جس تعلق سے مضمون تحریر کیا گیا ہے اس کے متعلق کچھ تصاویر بھی دے دی جائیں تو اس کی اہمیت اور بڑھ جائے گی۔ یہ بات تو عام ہے کہ ہر اخبار کے اپنے مخصوص قاری ہوتے ہیں اور ہر اخبار کی اپنی پالیسی ہوتی ہے کہ اپنے صفحات میں کس قسم کی چیز چھاپی جائے۔ اخبار ات کے گہرے مطالعے سے ان کے مخصوص مزاج کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

رابطۂ عامہ کا ایک خصوصی شعبہ۔ صنعتی روابط:اس عنوان کے تحت عرفان صدیقی نے صنعتی روابط کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ صنعتی روابط جیسا کہ عنوان سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کاروبار کے ایک بہتر تصور کو پیش کرتا ہے۔ آج کے اس مقابلہ جاتی دور میں جہاں کمپنیاں اپنے پروڈکٹ کو ٹی وی، اخبار یا ریڈیو کے ذریعہ ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کے لیے بہتر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس اشتہار کا خاص طور سے بچوں پر اثر ہوتا ہے۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ زمانے میں سب سے زیادہ انسانیت پامال ہو تی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جس وقت عرفان صدیقی لکھ رہے تھے اس وقت ان کے پیش نظر اسی وقت کا سماج تھا۔ اور ان دنوں کمپٹیشن کے نام پر کچھ نہیں تھا۔ کیونکہ بسا اوقات کچھ چیزوں کے لیے کچھ خاص کمپنیاں ہی تھیں۔ لیکن آج تو ایک چیز کو بنانے والی کئی کئی کمپنیاں ہیں۔ ایسے میں امراض کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ موجودہ دور میں سو فیصد صحت مند شاید ہی کوئی ملے۔ صنعتی روابط کے متعلق عرفان صدیقی لکھتے ہیں : ’’صنعتی روابط کا تصور جدید صنعتی انقلاب کی دین ہے۔ ہندوستان میں یہ انقلاب بیسویں صدی کے ساتھ ہی شروع ہوا جب ہمارے یہاں پہلے پہل کپڑے اور فولاد کے چند بڑے کار خانے قائم ہوئے۔ تحریک آزادی کے دوران اس شعبے میں سیاسی جماعتوں کا کردار خاصا فعال رہا کیوں کہ آزادی کی جد و جہد کو محنت کش طبقے نے بڑا فروغ دیا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ آزادی سے قبل کے زمانے میں ہمارے ملک میں صنعتی روابط پرسیاسی تحریک اور سیاسی جماعتوں کا بڑا اثر رہا ہے۔ ‘‘ ( ایضاً۔ ص۔ ۴۸)

۱۹۷۵ سے آج تک بہت کچھ بدل چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں دائرۂ کار محدود تھے۔ لیکن آج کے اس ترقی یافتہ زمانے میں محدود سے لا محدود کی طرف گامزن ہے۔ کیونکہ سیاست اس طرح سے سارے کاروبار میں رچ بس گئی ہے کہ بسا اوقات یہ اندازہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کاروباری کام کے لیے کاروبار لازم ہے یا سیاست۔ اشتہاری کمپنیاں اپنے اس کام کو متوازن اور موثر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن مادیت پرستی کے اس زمانے میں انسانیت بہرحال ثانوی درجے پر پہنچ گئی ہے۔

رابطۂ عامہ میں تحقیق کا عمل :رابطۂ عامہ ایک بہت ذمے داری کا کام ہے۔ اور اسی لئے رابطۂ عامہ کا کارکن جب کسی اہم پیغام کو نشر کرتا ہے تو اس سے پہلے اس خبر کی جانچ پرکھ کرتا ہے۔ تاکہ سماج میں کوئی غلط خبر نہ پہنچ جائے۔ جیسے کہ آج کل کسی دنگے کو بھڑکانے میں لوگ مختلف ذرائع کا سہارا لے کر غلط خبر پھیلا دیتے ہیں۔ اس کے بعد اس کا انجام کتنا سنگین بر آمد ہوتا ہے وہ سب کی نظروں کے سامنے ہے۔ رابطۂ عامہ کے جب کسی ذمہ دار کو کوئی کام سونپا جاتا ہے تواس کا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے فن کو اس منزل تک پہنچا دے، جہاں وہ انسانی علوم کے تسلیم شدہ اصولوں کے ذریعہ سے حقیقت اور اعداد و شمار کو پہنچا کر، ان سے حاصل ہونے والی جانکاری کو مرتب کر سکے۔ اور اس کے بعد اس کا عملی طور پر متعلقہ تقاضوں کے مطابق اطلاق کر سکے۔ رابطۂ عامہ کے کسی بھی شعبے میں کام کرنے والا کوئی شخص جب معلومات کی کھوج کے اس مرحلے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی معلومات میں تحقیق ایک لازمی حصہ بن جاتی ہے۔ عرفان صدیقی نے لکھا ہے : ’’ادارے اور اس سے متعلق عوام کے درمیان پیغام رسانی کے اس دو طرفہ کار منصبی کو بہتر اور مکمل بنانے کی غرض سے رابطۂ عامہ کا کارکن تحقیق کی مختلف تکنیکیں استعمال کر سکتا ہے اور جب اور جس موقع پر اسے ضرورت ہو وہ ماہرین کی خدمات سے استفادہ بھی کر سکتا ہے۔ لیکن اس کی اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے کام کو بہتر طور پر انجام دینے کے لیے ضروری وسیلوں اور تکنیکوں سے پوری طرح واقفیت رکھتا ہو اور اسے یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہو کی تحقیق کا کام ایک مسلسل محنت کا عمل ہے اور اچانک کوئی بحران آ جانے پر یکایک زیادہ جوش و خروش سے کام لینا تحقیق نہیں کہلاتا۔ ‘‘( ایضاً۔ ص۵۹۔ ۶۰ )

درج بالا اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رابطۂ عامہ کے حوالے سے عرفان صدیقی کس حد تک مثبت رائے رکھتے تھے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان سارے باریک نکات سے واقف بھی تھے۔ حقیقت یہ ہے کی ایک سچے اور ایماندار صحافی کی اصل پہچان انھیں اصولوں میں مضمر ہے۔ عرفان صدیقی نے اس کتاب میں بہت ساری معلومات کو یکجا کر دیا ہے۔ موجودہ تناظر میں اگر اس کتاب کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ترقی کے اس دور میں پرانی چیزیں کتنی پیچھے چھوٹ گئی ہیں۔ لیکن جو وسائل اس زمانے میں تھے آج کے اس دور میں بہت حد تک اس میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ اضافی چیزیں انھیں پرانی چیزوں پر منحصر ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے وسائل بہت بڑھ گئے ہیں۔ لیکن ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبار اس زمانے میں بھی خبروں کے لئے اولیت کا درجہ رکھتے تھے اور موجودہ دور میں بھی انھیں وہی درجہ حاصل ہے۔ کیونکہ عرفان صدیقی اپنی آنکھوں سے روز بروز ترقی ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ اور اس ترقی کو عرفان صدیقی کس زاویے سے دیکھ رہے تھے، انھیں کی زبانی ملاحظہ ہو: ’’اس سائنس اور ٹکنالوجیکل انقلاب کی بدولت، روز بروز ایسے نئے نئے طریقے نکل رہے ہیں جن سے ترسیل کے شعبے میں انسان کی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان طریقوں کے ساتھ ساتھ، انسان کی سماجی اور ثقافتی زندگی کے مختلف شعبے بھی وسعت پا رہے ہیں۔ قصبوں اور دیہات کی ترقی اور ان میں شہری وسائل کی روز افزوں فراہمی، تعلیم اور معاشی بہبود کی سطح میں اضافہ اور انسان کی ثقافتی ضروریات اور فرصت کے اوقات میں اضافہ، یہ سب وی عناصر ہیں جو ترسیل کے شعبے میں ترقی کے لئے بڑی سازگار فضا تیار کر رہے ہیں۔ ‘‘ (ایضاً۔ ص۔ ۹۸)

درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی نے ۵۵ سال پہلے جو لکھا تھا اگر اس تحریر کا آج کے سماج سے تجزیہ کیا جائے تو بات صد فیصد درست لگتی ہے۔ کیونکہ آج ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے پوری دنیا کے لوگوں کے سامنے لا کر رکھ دیا ہے۔ سماجی اور ثقافتی زندگی سے بھی لوگ ایک دوسرے سے واقف ہو رہے ہیں۔ قصبوں اور دیہاتوں کی ترقی اور ان شہری وسائل میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تعلیم اور معاشیات میں بھی ترقی ہوئی ہے۔ گویا کہ یہ ایک ایسا ارتقائی مرحلہ ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے۔ نت نئے آلات کا وجود ہوتا جا رہا ہے اور اسی آلات پر ترقی کا پہیہ گھوم رہا ہے۔

عرفان صدیقی نے اس کتاب کو اس لئے لکھا تھا کہ اردو پڑھنے والوں کو جدید فن کی حیثیت سے مبادیاتِ رابطۂ عامہ کو متعارف کرایا جائے۔ تاکہ اس فن کے عملی پہلو لوگوں کے ذہن میں واضح ہو جائیں۔ ترقی کے اس دور میں جہاں ٹکنیکل ترقی نے لوگوں کے ذہنوں میں نئی نئی ایجاد کا خیال پیدا کیا، تو وہیں اس موضوع پر بہت ساری کتابیں بھی منظر عام پر آ گئی ہیں۔ لیکن جس نہج کے تحت یہ کتاب تصنیف کی گئی تھی میں سمجھتا ہوں کہ مصنف نے اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ کتاب کے مشمولات کو سامنے رکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ترقی کی اصل بنیاد انھیں محوروں پر ہے، جسے عرفان صدیقی نے بیان کیا ہے۔ یہ کتاب عرفان صدیقی کے تجربہ کی بنیاد ہے۔ کیونکہ کسی بھی فن کے نظری اور کتابی پہلو اس کے عملی خطوط کے مقابلے میں کچھ نہ کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن بنیادی اصولوں کی کارفرمائی بہر حال وہی رہتی ہے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ عرفان صدیقی کے اس کارنامے کو موجودہ تناظر میں دیکھا جائے، تاکہ اس کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکے۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

عرفان صدیقی کی شعری معنویت

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ساجد ذکی فہمی(دہلی)

 

غزلیہ شاعری کا سرمایہ ہمارے ادب میں کافی وقیع ہے۔ ابتدا سے لے کر اب تک غزلوں میں سیکڑوں طرح کے تجربے کیے گئے اور تقریباً ہر تجربہ میں غزل نے اپنی وسعت قلبی کا مظاہرہ کیا۔ کسی نے اسے معرفت الٰہی کا ذریعہ بنایا تو کسی نے عشق مجازی کا، کسی نے اس میں فلسفیانہ رنگ کی آمیزش کی تو کسی نے حالات حاضرہ کو موضوع سخن بنایا۔ مختصر یہ کہ زمان و مکاں کی تبدیلی کے ساتھ معنوی اعتبار سے غزل بھی اپنی رنگت بدلتی رہی۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں اتنا عرصہ گزرنے اور اتنی تبدیلیوں کے روا ہونے کے باوجود آج بھی ہماری کلاسیکی غزلیں اسی آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گی۔ کلاسیکی شاعری اور عرفان صدیقی کے حوالے سے میں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں کلاسیکی رنگ پوری طرح جلوہ گر ہے اور اس پر وہ بجا طور پر فخر بھی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ؂

ہم بیچنے کو لائے ہیں ماضی کے پیرہن

کہنہ روایتوں کے نگینے جڑے ہوئے

اسی کہنہ روایت یعنی اپنی تہذیب سے رشتہ استوار رکھنے کی وجہ سے ہی انھیں ابتدا میں نظر انداز بھی کیا گیا لیکن ان کی آواز، آواز بازگشت ثابت نہ ہوئی۔ انھیں اس کا یقین تھا کہ آج نہیں تو آنے والے وقتوں میں ان کی شاعری ضرور قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھی جائے گی۔ جب ہی تو وہ کہتے ہیں ؂

بازار میں آئیں ہیں تو کیوں مول گھٹائیں

شاید کوئی اپنا بھی خریدار نکل آئے

بہرحال ان کے تیسرے مجموعہ ’’سات سماوات‘‘ (۱۹۹۲ء) نے ان کے شہرت کے پر لگا دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی شاعری اردو حلقوں میں مقبول سے مقبول تر ہوتی چلی گئی۔

عرفان صدیقی کی شاعری میں جو چیز نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے وہ کربلائی شاعری ہے، یعنی ایسی شاعری جس کا تعلق کربلا کے واقعات سے ہو۔ یوں تو اردو شاعری میں کربلا کا ذکر ابتدا سے ہی موجود رہا ہے بلکہ ہمارے شعراء حضرات نے لفظ کربلا کو استعاراتی اور علامتی دونوں انداز میں احسن طریقے سے استعمال کیا ہے۔ لیکن عرفان صدیقی نے جس فنکاری کے ساتھ اس لفظ اور واقعہ کو اپنی شاعری میں سمویا ہے وہ دوسروں کے مقابلے انھیں ممتاز و ممیز کرتی نظر آتی ہے۔ چند شعر ملاحظہ فرمائیں ؂

اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو

کنارے آب کے پہرہ لگا ہوا کیسا

وہ مہرباں اجازت تو دے رہا ہے مگر

اب آ گئے ہیں تو مقتل سے لوٹنا کیسا

یہ ایک صف بھی نہیں، وہ ایک لشکر ہے

یہاں تو معرکہ ہو گا، مقابلہ کیسا

سنو کہ بول رہا ہے وہ سراتارا ہوا

ہمارا مرنا بھی جینے کا استعارہ ہوا

ہوائے کوفۂ نامہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں

اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

دولت سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزوں پہ سجاتا ہے مجھے

درج بالا میں پیش کیے گئے تمام اشعار ایسے ہیں جس میں معنویت کی فضا پوری طرح برقرار ہے۔ ہر لفظ اپنی جگہ موزوں ہے، بلکہ ان لفظوں کو اس انداز سے ترتیب دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ کربلا کا پورا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آ موجود ہوتا ہے۔ ایسی شاعری اسی وقت ممکن ہے جب شاعر اس منظر کو جس کو وہ پیش کرنا چاہتا ہے پوری طرح اپنے اندر جذب کر لے۔

عرفان صدیقی کی شاعری کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے طویل بحروں میں بڑی مترنم غزلیں کہی ہیں جس کی جھلک جدید غزل گو شعرا کے یہاں گاہے گاہے نظر آتی ہے۔ ان طویل بحور والی غزلوں میں انھوں نے ملک کی تقسیم، اپنے درد و غم، روزگار کے مسائل، عشق و محبت کی باتیں، سرشاری و بے کیفی، طنز کی کاٹ غرض کہ مختلف قسم کے موضوعات کو پرونے کی کوشش کی ہے۔ مثال کے طور پر طویل بحر کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؂

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمہیں کیا خبر یا اخی

کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یا اخی

شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمہارا نہ تھا

خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر بام و در یا اخی

ایک چڑیا کی آواز آتی رہی میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا گیا

میری بستی سے مجھ کو نکالا گیا میرے جنگل میں بستی بسا لی گئی

ختم ہوتا ہے اس رات کا ماجرا اب یہ کیا پوچھتے ہو کہ پھر کیا ہوا

پھر چراغوں کی آنکھیں بجھا دی گئیں پھر گلوں کی زباں کاٹ ڈالی گئی

درج بالا میں پیش کیے گئے اشعار میں سے بالخصوص پہلے دو شعر ایسے ہیں جس میں تقسیم کا کرب پوری طرح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ تقسیم کے دوران عرفان صدیقی جسمانی اور ذہنی طور پر پوری طرح بالغ تو نہ ہوئے تھے لیکن نقل مکانی، روزگار کی پریشانی، قتل و غارت، عزیزوں کا خون وغیرہ نے ان کے قلب و ذہن کو بے حد متاثر کیا تھا۔ جس کی جھلک ان کی شاعری میں با آسانی تلاش کی جا سکتی ہے۔ اپنوں سے بچھڑنے کا غم، ان کے انتظار میں راہ تکتے رہنے کا عمل یا پھر ان کی واپسی سے نا امید ہو کر خود کو صبر کی تلقین کرنا، کہ آنے والے وقت میں یہ سارے زخم آہستہ آہستہ بھر جائیں گے، ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ بعد ازیں آخری دو اشعار کو طنزیہ شاعری کا بہترین نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ بالخصوص یہ شعر ؂

ایک چڑیا کی آواز آتی رہی میرے بچوں کو مجھ سے چھڑایا گیا

میری بستی سے مجھ کو نکالا گیا میرے جنگل میں بستی بسا لی گئی

ظاہری طور پر اس شعر سے یہ مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنگلوں کو کاٹ کر نئی بستیاں بسائی گئیں جس کی وجہ سے پرندے جو یہاں بسیرا کیے بیٹھے تھے اپنی بستی یعنی جنگل کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور اس طرح ان کا خاندان منتشر ہو گیا۔ یہاں طنز کی کاٹ تھوڑی مدھم محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اسی شعر کو جب ہم موجودہ دور کے پس منظر میں دیکھنے کی سعی کرتے ہیں تو اس کی تیزی میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی بھی Metropolitan City کی جھگی جھونپڑیوں کا نقشہ ہمارے ذہن میں اگر محفوظ ہو تو شعر کے اس مفہوم تک با آسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے کہ ان جھگی جھونپڑیوں میں بھی آدمیوں کا ایک جنگل موجود ہوتا ہے جو بہرحال ان کے لیے بستی ہے۔ لیکن بعض اوقات معمولی معاوضہ دے کر یا بہ زور قوت انھیں اپنی رہائش چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سیکڑوں خاندان کو منتشر اور انھیں دربدر بھٹکنے پر مجبور کرنے کے بعد وہاں ایک اپارٹمنٹ، کمپنی، فیکٹری یا سوپر مارکیٹ قائم کر دی جاتی ہے۔ اس طرح انسانیت کے سبق کو بالائے طاق رکھ کر اپنے لیے دولت کمانے یا امرا کی خاطر آرائش و آسائش کا انتظام کیا جاتا ہے۔

روزگار کے مسائل، نقل مکانی یا اجنبیت کا احساس وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو زندہ درگور کر دیتی ہیں۔ عرفان صدیقی نے ان سارے منازل کو عبور کیا جس کی کسک آخری عمر تک ان کے دل میں کچوکے لگاتی رہی اور وہ ماضی کو یاد کر کے آہ سرد بھرتے رہے۔ ان کی پیدائش ۱۹۳۸ء کو بدایوں میں ہوئی لیکن تقسیم ملک کے بعد انھوں نے راولپنڈی (پاکستان) کو اپنا مسکن بنایا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ مٹی کی خوشبو ہمیشہ انھیں ستاتی رہی اور اس کا ذکر وہ بڑے پر درد انداز میں کرتے رہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؂

آج تک ہے اس کوچے میں نگاہیں آباد

صورتیں اچھی، چراغ اچھے، دریچہ اچھا

بدایوں تیری مٹی سے بچھڑ کر جی رہا ہوں میں

نہیں اے جان من، بار دگر ایسا نہیں ہو گا

اپنی مٹی سے جدائی کا غم تقریباً ہر بڑے شاعر کو ہوتا ہے، بلکہ وہ اس پر فخر کرتا ہے کہ میرا تعلق فلاں شہر یا فلاں ملک سے ہے۔ اردو ادب کے صدہا شعرا ء نے اس کا ذکر مختلف انداز میں کیا ہے۔ اگر ہم اردو شاعری کے ابتدائی دور کا ذکر کریں تو و ہاں بھی اس کی جھلک واضح دکھائی دیتی ہے۔ ملا وجہیؔ کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں وہ اپنے آبائی وطن خراسان کی تعریف میں یوں گویا ہے ؂

من زہند آشکارا گشتم لیک

طبع پاک من از خراسان است

بہرحال تقسیم ملک کے خوں ریز واقعہ کے بعد بچ نکلنے والے افراد نے جب ہندوستان اور پاکستان کو اپنا مسکن بنایا تو کہیں نہ کہیں انھیں اس کا اطمینان تھا کہ اب نہ یہاں کوئی جنگیں لڑی جائیں گی نہ قتل و غارت کا معرکہ ہو گا۔

وہ سب اک بجھنے والے شعلۂ جاں کا تماشا تھا

دوبارہ وہی رقص شر ر ایسا نہیں ہو گا

وہ ساری بستیاں وہ سارے چہرے خاک سے نکلے

یہ دنیا پھر سے ہو زیر و زبر ایسا نہیں ہو گا

لیکن افسوس یہ سارے قیاسات بے سود ثابت ہوئے۔ ہندو مسلم کا جھگڑا تو برسوں سے چلا آ رہا تھا۔ تقسیم کے بعد ہندو، ہندو اور مسلم، مسلم میں جھگڑے اور فسادات ہونے شروع ہو گئے۔ اسی پر عرفان صدیقی نے کہا تھا ؂

ہیولے رات بھر محراب و در میں پھرتے رہتے ہیں

میں سمجھا تھا کہ اپنے گھر میں ڈر ایسا نہیں ہو گا

اپنے ماضی سے عرفان صدیقی کو بے پناہ محبت تھی اور یہ فقط عرفان صدیقی پر ہی کیا موقوف ہر شخص کو اس کا ماضی عزیز ہوتا ہے، خواہ وہ شاعر ہو، فکشن نگار ہو یا عام انسان۔ کہنے کو تو دنیا روز افزوں ترقی کی طرف گامزن ہے لیکن سائنس اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے دنیا جس قدر ترقی کرتی جا رہی ہے ہم انسانیت کے شعبے مثلاً اخلاقیات، معاملات، معاشرت وغیرہ میں اسی قدر تنزلی کے شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ عرفان صدیقی کو اس کا شدید احساس تھا۔ اپنے اس احساس کو انھوں نے شاعری کا جامہ پہنایا اور مختلف زاویے اور انداز سے اسے بیان کرنے کی کوشش کی۔ درج ذیل میں ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں جو ان کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے نظر آتے ہیں ؂

خرابہ تھا مگر ایسا نہیں تھا

عزیزو! میرا گھر ایسا نہیں تھا

اندھیرا تھا میری گلیوں میں لیکن

پس دیوار و در ایسا نہیں تھا

زمیں نامہرباں اتنی نہیں تھی

فلک حد نظر ایسا نہیں تھا

کوئی اونچا نہیں اڑتا تھا پھر بھی

کوئی بے بال و پر ایسا نہیں تھا

پچھلے صفحات میں اس کا تذکرہ گزر چکا ہے کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں کلاسیکی عناصر پوری طرح نمایاں ہے۔ لیکن کلاسیکی انداز کو جدید پیرہن کے ساتھ انھوں نے اس خوبصورتی سے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے کہ کلاسیکیت اور جدیدیت دونوں کے امتزاج سے ایک نیا رنگ ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ مثال کے طور پر عرفان صدیقی نے ولیؔ کی زمیں میں ایک غزل کہی لیکن جدید دور کے تقاضوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اشعار کو معنوی اعتبار سے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ آئیے پہلے ولیؔ کے اشعار ملاحظہ فرمائیں تاکہ عرفان صدیقی کی شاعری اور مزاج کو سمجھنے میں پریشانی نہ ہو۔

عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں

خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

ادا و ناز سوں آتا ہے وہ روشن جبیں گھر سوں

کہ جیوں مشرق سوں نکلے آفتاب آہستہ آہستہ

ولیؔ نے اسی ردیف میں مسلسل چار غزلیں کہی ہیں لیکن یہ تمام غزلیں عشقیہ جذبات سے لبریز ہیں۔ اب عرفان صدیقی کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ؂

تم اپنی مملکت میں جرم کر دو زندگی، ورنہ

سبھی مانگیں گے اپنا خوں بہا آہستہ آہستہ

ہوا آخر وہ ہم سے ہم سخن، قدرے تکلف سے

چلی صحرا میں بھی ٹھنڈی ہوا آہستہ آہستہ

ہمیں دنیا جو دے گی ہم وہی لوٹائیں گے اس کو

گنہ بن جائے گی رسم وفا آہستہ آہستہ

اچانک دوستو میرے وطن میں کچھ نہیں ہوتا

یہاں ہوتا ہے ہر اک حادثہ آہستہ آہستہ

قارئین ان اشعار کو پڑھ کر خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس میں کلاسیکی رنگ بھی ہے اور جدید شاعری کی بو باس بھی، طنز کی کاٹ بھی ہے اور عشقیہ جذبات بھی، پیشن گوئی بھی ہے اور اسے سمجھانے کا اچھوتا انداز بھی۔

الغرض یہ کہ عرفان صدیقی کی شاعری میں تہذیبی روایت کے ساتھ جدیدیت کی طرف مراجعت دکھائی دیتی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ جدید رنگ میں انھوں نے اپنی تہذیبی روایت کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کربلا کا نوحہ ہو یا تقسیم کا کرب، اپنوں سے بچھڑنے کا غم ہو یا عشق و محبت کا ذکر ہر جگہ ان کے تجربے اور جذبات کی عکاسی بخوبی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے یہاں شاعری معنوی اعتبار سے ایک نئے فضا میں سانس لیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ گرچہ ان کے کلام میں بعض اشعار ایسے ہیں جسے ہم بھرتی کے اشعار کہہ سکتے ہیں، لیکن ان سے عرفان صدیقی کی شخصیت یا شاعری پر کوئی حرف نہیں آتا۔ ۱۹۶۔ ء کے بعد کے شعرا کی اگر فہرست تیار کی جائے تو جہاں تک میں سمجھتا ہوں عرفان صدیقی کا شمار صف اوّل کے شعرا میں کیا جائے گا۔

(2015)

٭٭٭

 

 

 

 

منفرد لب و لہجہ کا شاعر:عرفان صدیقی

 

                ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عائشہ پروین(دہلی)

 

عرفان صدیقی کی شاعری تقریباًتیس برس کے عرصہ پر محیط ہے لیکن داخلی طور پر ان کی شاعری صدیوں پرانی تہذیب، انسانی اقدار اور جذبات کی مکمل عکاس ہے۔ ان کی شاعری میں جدیدیت کے عناصر کی جھلکیاں تو ضرور ملتی ہیں لیکن جدت پسندوں کی طرح ان کے یہاں شدت پسندی نہیں ملتی۔ اور نہ ہی ان کی شاعری وجودیت اور فردیت جیسے موضوعات کے پنجرے میں قید نظر آتی ہے۔ بلکہ ان کے کلام میں ہمیں زندگی کی نیرنگیاں دکھائی دیتی ہیں، کہیں خوشی تو کہیں دکھ اور کہیں غم و غصہ کا اظہار ملتا ہے تو کہیں خوشگوار فضا دکھائی دیتی ہے۔ ان کے کلام میں روحانی فضا، تصوفانہ افکار اور عشق کی کارفرمائیاں بھی موجود ہیں۔ انھوں نے شاعری کے کلا سیکی انداز کو مسخ کیے بغیر اپنی شاعری میں انسانی زندگی کے ان جدید عناصر کو شامل کیا جو انسان کے حقیقی جذبات اور مسائل کے عکاس ہوں۔ انھوں نے اپنے رب کی عظمت اور شان میں نغمے گائے ہیں۔ اور اس کی شہادت وہ ذرہ ذرہ میں عیاں پاتے ہیں۔ کہتے ہیں :

ؔ دستِ عصائے معجزہ گر بھی اسی کا ہے

گہرے سمندروں کا سفر بھی اسی کا ہے

وہ خشک ٹہنیوں میں اگاتا ہے برگ و بار

موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ

ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

درج بالا آخری شعر ذو معنی طور پر لیا جا سکتا ہے۔ جس کے الفاظ ’اپنا اپنا فرض‘ اور ’سناں ‘واقعہ کربلا کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔ یعنی انسان حق کی خاطر اپنی جانوں پر کھیل رہا ہے، جب کہ اس کا دوسرا مطلب نہایت واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ اور یہ ہے کہ خدا ہی ہمارا خالق ہے اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔

رسول آخرالزماں اور آلِ رسولؐ سے محبت تو عرفان صدیقی کی شاعری کا نمایاں وصف ہے، نعت کے شعر کہتے ہیں تو ان کے جذبات کی شدّت کا اظہار ایک ایک شعر سے ہوتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:

سب لقب پاک ہیں سب نام ہیں نامی تیرے

روشنی لکھتی ہے اسمائے گرامی تیرے

میرے الفاظ فقط عجز بیاں کا اقرار

کعب ؔ و حسان ؔ ترے سعدیؔ و  جامیؔ تیرے

اذن معبود کا مقصود بھی نصرت تیری

مصحف نور کے آیات بھی حامی تیرے

واقعۂ کربلا اور اس کے مناظر، واقعۂ کربلا کا اصل پیغام، اس کی روح، یہ سب کچھ عرفان صدیقی کے پیدا کردہ نئے تلازمات سے اور بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ چونکہ انھوں نے ہندوستان میں بٹوارہ کے سبب پیدا شدہ حالات کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا تھا چنانچہ یہی درد اور انسانی جذبات کی تہہ در تہہ ہمیں ان کے اشعار میں جا بہ جا نظر آتی ہے۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ واقعۂ کربلا کے وسیع اور تاریخی استعارہ کو شاعر موصوف نے حقیقی زندگی سے آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کربلائی استعارہ اور تراکیب سے وہ ایک نئی دنیا پیدا کرتے ہیں اور اس سے وابستہ مسائل بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم اس تاریخی استعارہ سے نہ صرف تاریخ میں پیش آنے والے اندوہناک حادثہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں بلکہ اس میں عصری زندگی کی جھلکیاں بھی دیکھتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

اے لہو میں تجھے مقتل سے کہاں لے جاؤں

اپنے منظر ہی میں ہر رنگ بھلا لگتا ہے

دیکھئے کس صبح نصرت کی خبر سنتا ہوں میں

لشکروں کی آہٹیں تو رات بھر سنتا ہوں میں

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

درج بالا اشعار میں ’لہو، مقتل، نصرت، لشکر، ہوائے کوفۂ نا مہرباں اور صبر و رضا‘ بظاہر واقعۂ کربلاسے متعلق الفاظ معلوم ہوتے ہیں اور اس فضا کی کہانی بیان کرتے نظر آتے ہیں جو میدان کربلا اور شہدائے کربلا سے متعلق ہیں۔ لیکن ان لفظیات میں اتنی وسعت و گہرائی ہے کہ انھیں محض کسی واقعہ تک محدود نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ الفاظ دنیاوی حالات کی تصویر کشی کرنے میں بھی ممد و معاون نظر آتے ہیں۔ عرفان صدیقی نے غزلیہ شاعری کو اس کے صحت مند دائرہ میں رکھ کر واقعۂ کربلا کے تلازمات سے عصری زندگی کے مسائل بڑی حد تک واضح کیے ہیں۔ اپنی شاعری میں واقعۂ کربلا کے تلازمات استعمال کرنے والوں میں عرفان صدیقی کا نام نمایاں ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کی عمارت کی تعمیر کربلائی استعارہ پر کی ہے اور وہ بھی اس خوبی سے کہ یکسانیت اور تکرار کا احساس تک نہیں ہوتا۔ مضامین کی نوعیت کے اعتبار سے عرفان صدیقی کے کلام میں تنوع اور ندرت بیان پر بھی گفتگو کی جا سکتی ہے۔ ان کے یہاں روحانیت اور تصوف جیسے موضوعات کے علاوہ نئی زندگی سے متعلق مسائل بھی توجہ کا مرکز ہیں۔ عشق اور اس کی پیچیدگیوں سے متعلق ایک مضمون یوں باندھتے ہیں، شعر ملاحظہ ہو۔

سخت ہے مرحلۂ رزق بھی ہم جانتے ہیں

پر اسے معرکۂ عشق سے کم جانتے ہیں

جانتے سب ہیں کہ ہم رکھتے ہیں خم طرف کلاہ

اور کیوں رکھتے ہیں یہ اہل ستم جانتے ہیں

عرفان صدیقی نے جہاں اردو اور فارسی لفظیات سے اپنی شاعری میں شیرینی پیدا کی ہے وہیں ہندی لفظوں سے غزل کی فضا کو ایک نئی روشنی بخشی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں :

کوئی چٹھی لکھو رنگ بھری کوئی مٹھی کھولو پھاگ بھری

کبھی دن بیتیں بیراگ بھرے کبھی رات آئے انوراگ بھری

جہاں خاک بچھونا رات ملے ،مجھے چاند کی صورت ساتھ ملے

وہی دکھیارن وہی بنجارن وہی روپ متی وہی بھاگ بھری

درج بالا اشعار میں ہندی لفظوں کی خوبصورت ترتیب سے شاعر نے من موہک سماں پیدا کر دیا ہے۔ عشق میں مبتلا شخص کی مختلف کیفیات کو جس خوبصورتی سے بیان کیا ہے ،قابل تعریف ہے۔ ان اشعار کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ متکلم اپنے محبوب کو بہت انوکھے ڈھنگ سے یاد کرتا ہے۔ کبھی ’بیراگ ‘تو کبھی ’انوراگ ‘اس کی یادوں میں اس طرح آتے ہیں کہ پرانی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔ ان اشعار سے محبوب کی ایک انوکھی چھب ہمارے سامنے آتی ہے جسے بیان کر کے متکلم اپنے محبوب کو یاد کرتا ہے۔ یہ الفاظ نہایت سادہ اور پر اثر معلوم ہوتے ہیں جیسے ’دکھیارن‘ بنجارن روپ متی، بھاگ بھری‘ وغیرہ۔ تمام انسا نی جذبوں میں سے آزادی ایک قوی جذبہ ہے۔ جو تمام انسانیت کو عزیز ہے۔ چنانچہ شاعر بھی جو حساس دل کا مالک اور آزادی پسند کرتا ہے۔ وہ بھی آزادی کو انسانیت کی بقا تسلیم کرتا ہے اور انسانوں کی بنائی ہوئی سرحدیں قبول نہیں کرتا۔ اس کے نزدیک یہ دشمنی کی دیوار ہے جو انسانوں کا بٹوارہ کرتی ہے۔ اس معاملہ میں شاعر پرندہ کو انسان سے بہتر تصور کرتا ہے۔ چوں کہ انھوں نے اپنے لیے کسی دیوار کو حد نہیں متعین کیا ہے۔ بلکہ وہ دنیا میں کہیں بھی آنے جانے کے لیے انسانوں سے کہیں زیادہ آزاد ہیں۔ پرندے کی آزادی کی مثال دے کر شاعر انسانوں کے لیے ایک سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ ایک شعر ملاحظہ ہو:

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچیے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

روایتی عشقیہ شاعری میں عاشق اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے آہیں بھرتا اور آنسو بہاتا ہے۔ اس میں صبر و برداشت کا مادہ اس قدر ہوتا ہے کہ وہ گھٹ گھٹ کر جیتا ہے اور معشوق کے ظلم و ستم کے آگے خود کو نچھاور کر دیتا ہے۔ اور آخر کار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ عرفان صدیقی نے بھی خاصی تعداد میں عشقیہ اشعار کہے ہیں۔ لیکن یہاں وہ موضوع میں ذراسی تبدیلی کر کے ایک نیا پہلو ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ شعر ملاحظہ ہو:

تری خاطر کئی سچائیوں سے کٹ گئے رشتے

محبت میں تو یہ ترک نسب ہوتا ہی رہتا ہے

زندگی کی حقیقت کو عیاں کرتا ہوا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:

خدا رکھے تیری کھیتی ہری بھری ،لیکن

تو اس پہ اتنا بھروسہ نہ کر یہ دریا ہے

عرفان صدیقی نے ہجرت کے کرب کو اپنی شاعری میں بہترین طریقہ سے برتا ہے اور شاعری کو ان تمام سچائیوں سے روبرو کرنے کا ذریعہ بنایا ہے جنھیں انسانوں سے واسطہ رہا ہے۔ وہ انسانی شکستہ حالی پر تاسف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں :

زندہ رہنے کی خوشی کس لاش سے مل کر مناؤں

کس کھنڈر کو جا کے مژدہ دوں مرا گھر بچ گیا

رائگاں ہو گئے لمحے ترے پاس آنے کے

دکھ ابھی تازہ ہیں اوروں سے بچھڑ جانے کے

لفظ اور معانی کے نئے جہان کی تسخیر میں سرگر داں عرفان صدیقی جیسا منفرد شاعر، مغرب کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنی روشن خیالی کا مادہ ہندوستان کی تہذیبی فضا سے اخذ کرتا ہے۔

یہ درد ہی میرا چارہ ہے تجھے کیا معلوم

ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا چاہتا ہوں

میں اپنی کھوئی ہوئی لوح کی تلاش میں ہوں

کوئی طلسم مجھے چارسو پکارتا ہے

شاعر موصوف کی شاعری میں داخلی کیفیات اور معنوں کے جہاں کے ساتھ ساتھ خارجی حالات کی منظر کشائی بھی کی ہے۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ شاعری اگر دنیا کو بدل نہیں سکتی تو کم از کم لوگوں کو سوچنے پر مجبور ضرور کر سکتی ہے۔ اس مضمون سے متعلق ایک شعر ملاحظہ ہو:

رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

عرفان صدیقی نے تنوع مضامین کی ندرت کے ساتھ ساتھ زبان و بیان پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ پامال اور روایتی مضامین خواہ وہ عشقیہ ہوں یا عصری موضوعات پر ہوں، وہ اپنا ایک رنگ برقرار رکھتے ہوئے ان معنوں اور فن کی ادائیگی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ عشقیہ مضمون سے متعلق چند اشعار ملاحظہ ہوں :

آج تک معرکۂ صبر و ستم جاری ہے

کون جانے یہ تماشا اسے پیارا ہے کہ ہم

عاشقوں کے سر تسلیم کو تسلیم سے کام

اب یہ ابرو ہے کہ تلوار ہے میں کیا جانوں

صید کرتا ہے کسی اور کی مرضی سے مجھے

خود بھی صیاد گرفتار ہے میں کیا جانوں

عرفان صدیقی مضامین کہنہ کو نئے طرز میں ڈھالنے پر بے مثال قدرت رکھتے ہیں۔ وہ کلاسیکی انداز بیان کو برقرار رکھتے ہوئے نئے مضامین باندھنے پر بھی قادر نظر آتے ہیں۔ سادہ اور سلیس زبان میں ادا کیا گیا یہ اشعار آج کے موضوعات سے کس قدر مطابقت رکھتے ہیں، ملاحظہ ہو:

ایک ضد تھی مرا پندار وفا کچھ بھی نہ تھا

ورنہ ٹوٹے ہوئے رشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا

یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا

اک تعلق جو تکلف کے سوا کچھ بھی نہ تھا

عرفان صدیقی کے کلام کے مطالعہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری اور لفظیات کے پس پردہ ایک زمانہ موجود ہے جس کی نیرنگیوں کو سمجھے بغیر ان کی شاعری کو پورے طور سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان کی شاعری میں موضوعات، انداز بیان، ظاہری و باطنی معنوں کی تہہ داریوں نے اردو شاعری کی فضا کو وقیع بنا دیا ہے۔

(2015)

٭٭٭

تشکر:

عزیز نبیل، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید