FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ترجمہ و تفسیر قرآن

 

حصہ ۹: فرقان تا  عنکبوت

 

                ترجمہ: حافظ نذر احمد

 

 

 

اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے ، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے ، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے ، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔

 

 

 

 

 

۲۵۔ سورۃالفرقان

 

                تعارف

 

یہ سورت مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی تھی، اور اس کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور ان کے بارے میں کفارِ مکہ کے مختلف اعتراضات کا جواب دینا ہے ، نیز اللہ تعالی نے کائنات میں انسان کے لئے جو بیشمار نعتیں پیدا فرمائی ہیں، انہیں یاد دلا کر اللہ تعالی کی فرماں برداری، اس کی توحید کے اقرار اور شرک سے علیحدگی کی طرف دعوت دی گئی ہے ، سورت کے آخر میں اللہ تعالی کے نیک بندوں کی خصوصیات بیان فرمائی گئی ہیں، اور ان کے صلے میں اللہ تعالی نے ان کے لئے آخرت میں جو اجر و ثواب رکھا ہے اس کا بیان فرمایا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات:۷۷  رکوعات:۶

 

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنے بندہ پر فرقان (اچھے برے میں فرق اور فیصلہ کرنے والی کتاب قرآن) کو نازل کیا تاکہ وہ سارے جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو۔ (۱)

تشریح: تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ :”فرقان” (فیصلہ کی کتاب) قرآن کریم کو فرمایا جو حق و باطل کا آخری فیصلہ اور حرام و حلال کو کھلے طور پر ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ یہ ہی کتاب ہے جس نے اپنے اتارنے والے کی عظمت شان علو صفات اور اعلیٰ درجہ کی حکمت و رافت کو انتہائی مشکل میں پیش کیا اور تمام جہان کی ہدایت و اصلاح کا تکفل اور ان کو خیر کثیر اور غیر منقطع برکت عطا کرنے کا سامان بہم پہنچایا۔

عَلٰی عَبْدِہٖ :یعنی اپنے اس کامل و اکمل بندہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر جن کا ممتاز لقب ہی کمالِ عبودیت کی وجہ سے ”عبداللہ ” ہو گیا۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ۔

لِيَكُوْنَ لِلْعَالَمِيْنَ نَذِیْرًا: یعنی قرآن کریم سارے جہان کو کفر و عصیان کے انجام بد سے آگاہ کرنے والا ہے۔ چونکہ سورتِ ہذا میں مکذبین و معاندین کا ذکر بکثرت ہوا ہے ، شاید اسی لیے یہاں صفت ”نذیر” کو بیان فرمایا۔ ”بشیر” کا ذکر نہیں کیا۔ اور ”للعالمین” کے لفظ سے بتلا دیا کہ یہ قرآن صرف عرب کے امیوں کے لیے نہیں اترا بلکہ تمام جن و انس کی ہدایت و اصلاح کے واسطے آیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس کی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمین کی، اور اس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور اس کا کوئی شریک نہیں سلطنت میں، اور اس نے ہر شے کو پیدا کیا، پھر اس کا ایک (مناسب) اندازہ کیا۔ (۲)

تشریح:یعنی ہر چیز کو ایک خاص اندازہ میں رکھا کہ اس سے وہی خواص و افعال ظاہر ہوتے ہیں جن کے لیے پیدا کی گئی ہے اپنے دائرہ سے باہر قدم نہیں نکال سکتی نہ اپنی حدود میں عمل و تصرف کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ غرض ہر چیز کو ایسا ناپ تول کر پیدا فرمایا کہ اس کی فطری موزونیت کے لحاظ سے ذرا کمی بیشی یا انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ بڑے بڑے سائنس داں حکمت کے دریا میں غوطہ لگاتے ہیں اور آخرکار ان کو یہ ہی کہنا پڑتا ہے۔ ”صُنْعَ اللہِ الَّذِی اَتْقَنَ کُلَّ شَیْئٍ” اور ”فَتَبَارَکَ اللہ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ”۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے اس کے علاوہ بنا لئے ہیں اور معبود، وہ کچھ نہیں پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ اپنے لئے اختیار نہیں رکھتے کسی نقصان کا، اور نہ کسی نفع کا، اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں کسی موت کا اور نہ کسی زندگی کا۔ (۳)

تشریح:یعنی کس قدر ظلم اور تعجب و حیرت کا مقام ہے کہ ایسے قادر مطلق، مالک الکل، حکیم علی الاطلاق کی زبردست ہستی کو کافی نہ سمجھ کر دوسرے معبود اور حاکم تجویز کر لیے گئے جو گویا خدا کی حکومت میں حصہ دار ہیں۔ حالانکہ ان بیچاروں کا خود اپنا وجود بھی اپنے گھر کا نہیں۔ نہ وہ ایک ذرہ کے پیدا کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، نہ مارنا جلانا ان کے قبضہ میں ہے ، نہ اپنے مستقل اختیار سے کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ بلکہ خود اپنی ذات کے لیے بھی ذرہ برابر فائدہ حاصل کرنے یا نقصان سے محفوظ رہنے کی قدرت نہیں رکھتے ایسی عاجز و مجبور ہستیوں کو خدا کا شریک ٹھہرانا کس قدر سفاہت اور بے حیائی ہے۔ (ربط) یہ تو قرآن نازل کرنے والے کی صفات و شؤن کا ذکر تھا اور اس کے متعلق مشرکین جو بے تمیزی کر رہے تھے اس کی تردید تھی۔ آگے خود قرآن اور حامل قرآن کی نسبت سفیہانہ نکتہ چینیوں کا جواب ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے اس کے علاوہ بنا لئے ہیں اور معبود، وہ کچھ نہیں پیدا کرتے بلکہ وہ (خود) پیدا کئے گئے ہیں، اور وہ اپنے لئے اختیار نہیں رکھتے کسی نقصان کا، اور نہ کسی نفع کا، اور نہ وہ اختیار رکھتے ہیں کسی موت کا، اور نہ کسی زندگی کا، اور پھر (جی) اٹھنے کا۔ (۴)

تشریح:یعنی یہ سب کہنے کی باتیں ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے۔ معاذ اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے چند یہودیوں کی مدد سے ایک کلام تیار کر لیا اور اس کو جھوٹ طوفان خدا کی طرف منسوب کر دیا۔ پھر ان کے ساتھی لگے اس کی اشاعت کرنے ، بس کل حقیقت اتنی ہے۔

یعنی اس سے بڑھ کر ظلم اور جھوٹ کیا ہو گا کہ ایسے کلام معجز اور کتاب حکیم کو جس کی عظمت و صداقت آفتاب سے زیادہ روشن ہے ، کذب و افتراء کہا جائے۔ کیا چند یہودی غلاموں کی مدد سے ایسا کلام بنایا جا سکتا ہے جس کے مقابلہ میں تمام دنیا کے فصیح و بلیغ عالم و حکیم بلکہ جن و انس ہمیشہ کے لیے عاجز رہ جائیں۔ اور جس کے علوم و معارف کی تھوڑی سی جھلک بڑے بڑے عالی دماغ عقلاء و حکماء کی آنکھوں کو خیرہ کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے کہا کہ یہ پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں، اس نے انہیں لکھ لیا ہے پس وہ اس پر پڑھی جاتی ہیں (سنائی جاتی ہیں) صبح اور شام۔ (۵)

تشریح:یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب سے کچھ قصے کہانیاں سن کر نوٹ کر لی ہیں۔ یا کسی سے نوٹ کرا لی ہیں۔ وہ ہی شب و روز ان کے سامنے پڑھی اور رٹی جاتی ہیں۔ نئے نئے اسلوب سے ان ہی کا الٹ پھیر رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اول نماز کے دو وقت مقرر تھے صبح اور شام۔ مسلمان حضرت کے پاس جمع ہوتے جو نیا قرآن اترا ہوتا لکھ لیتے یاد کرنے کو۔ اس کو کافر یوں کہنے لگے۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اس کو نازل کیا ہے اس نے جو آسمانوں اور  زمین کے راز جانتا ہے ، بیشک وہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۶)

تشریح:یعنی کتاب خود بتلا رہی ہے کہ وہ کسی ایک انسان یا کمیٹی کی بنائی ہوئی نہیں، بلکہ اس خدا کی اتاری ہوئی ہے جس کے احاطہ علمی سے زمین و آسمان کی کوئی چیز باہر نہیں ہو سکتی۔ اس کلام کی معجزانہ فصاحت و بلاغت، علوم و معارف، اخبار غیبیہ، احکام و قوانین اور وہ اسرار مکنونہ جن کی تہ تک بدون توفیق الٰہی کے عقول و افہام کی رسائی نہیں ہو سکتی صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کسی محدود علم والے آدمی یا سازشی جماعت کا کلام نہیں۔

اپنی بخشش اور مہر سے ہی قرآن اتارا (موضح القرآن) پھر جو لوگ ایسی روشن حقیقت کے منکر ہیں باوجود ان کے جرائم کا تفصیلی علم رکھنے کے فوراً سزا نہیں دیتا۔ یہ بھی اس کی بخشش اور مہر ہی کا پرتو ہے۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے کہا کیسا ہے یہ رسول (جو) کھانا کھاتا ہے ، اور چلتا پھرتا ہے بازاروں میں، اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ وہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا۔ (۷)

تشریح:یعنی جب ہماری طرح کھانا کھائے اور ہماری طرح خرید و فروخت کے لیے بازاروں میں جائے تو ہم میں اس میں فرق کیا رہا۔ اگر واقعی رسول تھا تو چاہیے تھا کہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے اور طلب معاش کے بکھیڑوں سے فارغ ہوتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

یا اس کی طرف اتارا جاتا کوئی خزانہ، یا اس کے لئے کوئی باغ ہوتا کہ وہ اس سے کھاتا، اور ظالموں نے کہا تم پیروی کرتے ہو صرف جادو کے مارے ہوئے آدمی کی۔ (۸)

تشریح:یعنی اگر فرشتوں کی فوج نہیں تو کم از کم خدا کا ایک آدھ فرشتہ ان کو سچا ثابت کرنے اور رعب جمانے کے لیے ساتھ رہتا جسے دیکھ کر خواہ مخواہ لوگوں کو جھکنا پڑتا۔ یہ کیا کہ کس مپرسی کی حالت میں اکیلے دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں۔ یا اگر فرشتے بھی ہمراہ نہ ہوں تو کم از کم آسمان سے سونے چاندی کا کوئی غیبی خزانہ مل جاتا کہ لوگوں کو بے دریغ مال خرچ کر کے ہی اپنی طرف کھینچ لیا کرتے۔ اور خیر یہ بھی نہ سہی معمولی رئیسوں اور زمینداروں کی طرح انگور کھجور وغیرہ کا ایک باغ تو ان کی ملک میں ہوتا جس سے دوسروں کو نہ دیتے تو کم از کم خود بے فکری سے کھایا پیا کرتے جب اتنا بھی نہیں تو کس طرح یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ نے رسالت کے عہدہ جلیلہ پہ معاذ اللہ ایسی معمولی حیثیت کے آدمی کو مامور کیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے نبی! دیکھو تو انہوں نے تمہارے لئے کیسی باتیں بیان کی ہیں، سو ہ بہک گئے ہیں، لہذا وہ کوئی راستہ نہیں پا سکتے۔ (۹)

تشریح:یعنی کبھی کہتے ہیں کہ ان کی باتیں محض مفتریات ہیں۔ کبھی دعوے کرتے ہیں کہ نہیں دوسروں سے سیکھ کر اپنے سانچے میں ڈھال لی ہیں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسحور بتلاتے ہیں کبھی ساحر، کبھی کاہن، کبھی شاعر، کبھی مجنوں، یہ اضطراب خود بتلاتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منطبق نہیں ہوتی۔ اسی لیے کسی ایک بات پر قرار نہیں۔ اور الزام لگانے کا کوئی راستہ ہاتھ نہیں آتا۔ جو لوگ انبیاء کی جناب میں اس طرح کی گستاخیاں کر کے گمراہ ہوتے ہیں ان کے راہِ راست پر آنے کی کوئی توقع نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بڑی برکت والا ہے وہ، اگر وہ چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر بنا دے ، (ایسے ) باغات جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور تمہارے لئے محل بنا دے۔ (۱۰)

تشریح:یعنی اللہ کے خزانہ میں کیا کمی ہے ، وہ چاہے تو ایک باغ کیا، بہت سے باغ اس سے بہتر عنایت فرما دے جس کا یہ لوگ مطالبہ کرتے ہیں۔ بلکہ اس کو قدرت ہے کہ آخرت میں جو باغ اور نہریں اور حورو قصور ملنے والے ہیں وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی دنیا میں عطا کر دے۔ لیکن حکمت الٰہی بالفعل اس کو مقتضی نہیں۔ اور معاندین کے سارے مطالبات اور فرمائشیں بھی اگر پوری کر دی جائیں تب بھی یہ حق و صداقت کو قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ باقی پیغمبر علیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لیے جو دلائل و معجزات پیش کیے جا چکے وہ کافی سے زیادہ ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ انہوں نے جھٹلایا قیامت کو، اور جس نے قیامت کو جھٹلایا ہم نے اس کے لئے دوزخ تیار کیا ہے۔ (۱۱)

تشریح:یعنی یہ لوگ جن چیزوں کا مطالبہ کر رہے ہیں، فی الحقیقت طلب حق کی نیت نہیں۔ محض شرارت اور تنگ کرنے کے لیے ہے۔ اور شرارت کا سبب یہ ہے کہ انہیں ابھی تک قیامت اور سزا و جزاء پر یقین نہیں آیا۔ سو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے جھٹلانے سے کچھ نہیں بنتا، قیامت آ کر رہے گی اور ان مکذبین کے لیے آگ کا جو جیل خانہ تیار کیا گیا ہے اس میں ضرور رہنا پڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جب وہ (دوزخ) انہیں دیکھے گی دور جگہ سے ، وہ اسے جوش مارتا، چنگھاڑتا سنیں گے۔ (۱۲)

تشریح:یعنی دوزخ کی آگ محشر میں جہنمیوں کو دور سے دیکھ کر جوش میں بھر جائے گی اور اس کی غضبناک آوازوں اور خوفناک پھنکاروں سے بڑے بڑے دلیروں کے پتے پانی ہو جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب وہ اس (دوزخ) کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے جائیں گے (باہم زنجیروں سے ) جکڑے ہوئے ، تو وہاں موت کو پکاریں گے۔ (۱۳)

تشریح:یعنی دوزخ میں ہر مجرم کے لیے خاص جگہ ہو گی جہاں سے ہل نہ سکے گا۔ اور ایک نوعیت کے کئی کئی مجرم ایک ساتھ زنجیروں میں جکڑے ہوں گے۔ اس وقت مصیبت سے گھبرا کر موت کو پکاریں گے کہ کاش موت آ کر ہماری ان دردناک مصائب کا خاتمہ کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

 

(کہا جائے گا) آج ایک موت کو نہ پکارو، بلکہ تم پکارو بہت سی موتوں کو۔ (۱۴)

تشریح:یعنی ایک بار مریں تو چھوٹ جائیں۔ دن میں ہزار بار مرنے سے بد تر حال ہوتا ہے۔ (موضح القرآن)

(تفسیرعثمانی)

 

فرما دیں کیا یہ بہتر ہے یا ہمیشگی کے باغ، جن کا وعدہ پرہیز گاروں سے کیا گیا ہے ، وہ ان کے لئے اجر ہے اور لوٹ کر جانے کی جگہ ہے۔ (۱۵)

تشریح:یعنی مکذبین کا انجام سن لیا۔ اب خود فیصلہ کر لو کہ یہ پسند ہے یا وہ جس کا وعدہ مومنین متقین سے کیا گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں ان کے لئے جو وہ چاہیں گے (موجود ہو گا) ہمیشہ رہیں گے ، یہ ایک وعدہ ہے تیرے رب کے ذمے مانگا ہوا (مانگنے کے لائق ہے )۔ (۱۶)

تشریح:اور چاہیں گے وہی جو ان کے مرتبہ کے مناسب ہو گا۔ ”وَعْدًا مَّسْئُولاً” سے مراد حتمی وعدہ ہے جو خدا تعالیٰ نے محض فضل و عنایت سے اپنے ذمہ لازم کر لیا۔ یا یہ مطلب کہ اس وعدہ کے افاء کا متقین سوال کریں گے۔ جو یقینا پورا کیا جائے گا جیسا کہ دعا میں ہے۔ ”رَبَّنَا وَاَتِنَا مَاوَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن وہ انہیں جمع کرے گا اور جن کی وہ پرستش کرتے ہیں اللہ کے سوا، تو وہ کہے گا کیا تم میرے ان بندوں کو گمراہ کیا؟ یا وہ خود راستہ سے بہک گئے۔ (۱۷)

تشریح:یعنی عابدین کو سنا کر معبودوں سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے ان کو شرک کی اور اپنی پرستش کرانے کی ترغیب دی تھی یا یہ خود اپنی حماقت و جہالت اور غفلت و بے توجہی سے گمراہ ہوئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہیں گے تو پاک ہے ، ہمارے لئے سزاوار نہ تھا کہ بناتے تیرے سوا اوروں کو مددگار، لیکن تو نے انہیں اور ان کے باپ دادا کو آسودگی دی، یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے اور وہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔ (۱۸)

تشریح:یعنی ہماری کیا مجال تھی کہ تجھ سے ہٹ کر کسی دوسرے کو اپنا رفیق و مددگار سمجھتے۔ پھر جب ہم اپنے نفس کے لیے تیرے سوا کوئی سہارا نہیں رکھتے تو دوسروں کو کیسے حکم دیتے کہ ہم کو اپنا معبود اور حاجت روا سمجھیں۔

اصل یہ ہے کہ یہ بدبخت اپنی سوءِ استعداد سے خود ہی تباہ ہونے کو پھر رہے تھے ہلاکت ان کے لیے مقدر ہو چکی تھی، ظاہری سبب اس کا یہ ہوا کہ عیش و آرام میں پڑ کر اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر آپ کی یاد کو بھلا بیٹھے ، کسی نصیحت پر کان نہ دھرا، پیغمبروں کی ہدایت و ارشاد کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں اور دنیاوی تمتع پر مغرور ہو گئے۔ آپ نے اپنی نوازش سے جس قدر ان کو اور ان کے باپ دادوں کو دنیا کے فائدے پہنچائے ، یہ اسی قدر غفلت و نسیان میں ترقی کرتے گئے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ انعامات الٰہیہ کو دیکھ کر منعم حقیقی کی بندگی اور شکر گزاری اختیار کرتے ، الٹے مغرور و مفتون ہو کر فکر و عصیان پر تل گئے۔ گویا جو امرت تھا، بدبختی سے ان کے حق میں زہر بن گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس انہوں نے تمہاری بات جھٹلا دی، پس اب نہ تم (عذاب) پھیر سکتے ہو، اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہو، اور جو تم میں سے ظلم کرے گا، ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔ (۱۹)

تشریح:یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ لو! جن کی اعانت پر تم کو بڑا بھروسہ تھا وہ خود تمہارے دعاوی کو جھٹلا رہے اور تمہاری حرکات سے اعلانیہ بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب نہ عذابِ الٰہی کو پھیر سکتے ہو نہ بات کو پلٹ سکتے ہو نہ ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہو، جس کو جو سزا ملنے والی ہے اس کا پڑے مزہ چکھتے رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے تم سے پہلے رسول نہیں بھیجے مگر یقیناً وہ کھاتے تھے کھانا، اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے ، اور ہم نے تم میں سے کسی کو بنایادوسروں کے لئے آزمائش، کیا تم صبر کرو گے ، اور تمہارا رب دیکھنے والا ہے۔ (۲۰)

تشریح:یہ جواب ہوا۔ ”مَالِہٰذَا الرَّسُولِ یَاکُلُ الطَّعَامِ” الخ کا۔ یعنی آپ سے پہلے جتنے پیغمبر دنیا میں آئے سب آدمی تھی۔ آدمیوں کی طرح کھاتے پیتے اور معاشی ضروریات کے لیے بازار بھی جاتے تھے۔ ان کو فرشتہ بنا کر نہیں بھیجا جو کھانے پینے اور حوائج بشریہ سے مستغنی ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے لیے بازاروں میں پھرنا شانِ تقدس اور بزرگی کے منافی نہیں۔ بلکہ اگر بازار نہ جانے کا منشاء کبر و  خود بینی ہو تو یہ بزرگی کے خلاف ہے۔

وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً أَتَصْبِرُوْنَ ۗ :یعنی پیغمبر ہیں کافروں کا ایمان جانچنے کو۔ اور کافر ہیں پیغمبروں کا صبر جانچنے کو۔ اب دیکھیں کافروں کے سفیہانہ طعن و تشنیع اور لغو اعتراضات سن کر تم کس حد تک صبر واستقلال دکھاتے ہو۔

وَکَانَ رَبُّکَ بَصِيْرًا :یعنی کافروں کو کفر و ایذاء دہی اور صابروں کا صبر و تحمل سب اس کی نظر میں ہے۔ ہر ایک کو اس کے کیے کا پھل دے کر رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے انہوں نے کہا: ہم پر فرشتے کیوں نہ اتارے گئے ؟یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیتے ، تحقیق انہوں نے (اپنے زعم میں اپنے آپ کو) بڑا سمجھا، اور بڑی سرکشی کی۔ (۲۱)

تشریح:یعنی جن کو یہ امید نہیں کہ ایک روز ہمارے روبرو حاضر ہو کر حساب و کتاب دینا ہے وہ سزا کے خوف سے بالکل بے فکر ہو کر معاندانہ اور گستاخانہ کلمات زبان سے بکتے ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہم پر فرشتے وحی لے کر کیوں نہ اترے۔ یا خدا تعالیٰ سامنے آ کر ہم سے ہمکلام کیوں نہیں ہو گیا۔ کم از کم فرشتے تمہاری تصدیق ہی کے لیے آ جاتے یا خود خداوند رب العزت کو ہم دیکھتے کہ سامنے ہو کر تمہارے دعوے کی تائید و تصدیق کر رہا ہے کما فی موضوع آخر۔ ”قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَآاُوْتِیَ رُسُلُ اللہِ” (انعام، رکوع١٥’آیت ١٢٤) وفی سورۃ الاسراء۔ ”اَوْتَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلَائِکَۃِ قَبِیْلاً ” (اسرائ، رکوع١٠’آیت ٩٢) انہوں نے اپنے دل میں اپنے کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے جو وحی اور فرشتوں کے آنے کی تمنا رکھتے ہیں، شرارت و سرکشی کی حد ہو گئی کہ باوجود ایسی سیاہ کاریوں کے دنیا میں ان آنکھوں سے خداوند قدوس کو دیکھنے اور شرفِ ہم کلامی سے مشرف ہونے کا مطالبہ کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن وہ دیکھیں گے فرشتوں کو اس دن مجرموں کے لئے کوئی خوشخبری نہیں ہو گی اور وہ کہیں گے کوئی آڑ ہو روکی ہوئی ہو، (پناہ ہو۔ پناہ)۔ (۲۲)

تشریح:یعنی گھبراؤ نہیں، ایک دن آنے والا ہے جب فرشتے تم کو نظر پڑیں گے ، لیکن ان کے دیکھنے سے تم جیسے مجرموں کو کچھ خوشی حاصل نہ ہو گی، بلکہ سخت ہولناک مصائب کا سامنا ہو گا۔ حتی کہ جو لوگ اس وقت فرشتوں کے نزول کا مطالبہ کرنے والے ہیں اس وقت ”حِجْرًا مَحْجُورًا” کہہ کر پناہ طلب کریں گے ، اور چاہیں گے کہ ان کے اور فرشتوں کے درمیان کوئی سخت روک قائم ہو جائے کہ وہ ان تک نہ پہنچ سکیں، لیکن خدا کا فیصلہ کب رک سکتا ہے۔ فرشتے بھی حِجْرًا مَحْجُوْراً کہہ کر بتلا دیں گے کہ آج مسرت و کامیابی ہمیشہ کے لیے تم سے روک دی گئی ہے۔

(تنبیہ) ممکن ہے یہ تذکرہ احتضار (موت) کے وقت کا ہو۔ کماقال تعالیٰ ”وَلَوْتَرٰ ی اذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلآئِکَۃُ یَضْرِبُوْن وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ ” (انفال، رکوع٧’آیت ٥٠) وقال تعالیٰ ” وَلَوْتَرٰی اِذِالظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآَئِکَۃِ بَاسِطُوْا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ۔ ” (انعام، رکوع١١’آیت ٩٣) گویا یہ کیفیت اس کے بالمقابل ہو گی۔ جو دوسری جگہ مومنین کی بیان ہوئی ہے۔ ”اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلائِکَۃُ اَنْ لاَّ تَخَافُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجِنَّۃِ الَّتِی کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۔ ” الخ (حم السجدہ، رکوع٤’آیت ٣٠) اور ممکن ہے یہاں قیامت کے دن کا ذکر ہو۔ واللہ سبحانہ و  تعالیٰ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم متوجہ ہوں گے ان کے کئے ہوئے کاموں کی طرف تو ہم انہیں پراگندہ غبار کی طرح کر دیں گے۔ (۲۳)

تشریح:یعنی وہ ہم کو بلاتے تھے تو ہم بھی آ پہنچے ، مگر ان کی عزت بڑھانے کو نہیں، بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اپنے زعم باطل کے موافق جو بھلے کام کیے تھے جن پر بڑا بھروسہ تھا انہیں ہم قطعاً ملیامیٹ کر دیں اور اس طرح بے حقیقت کر کے اڑا دیں جیسے خاک کے حقیر ذرات ہوا میں ادھر ادھر اڑ جایا کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اعمال روح اخلاص و ایمان سے یکسر خالی یا طریق حق کے بالکل متضاد واقع ہوئے ہیں۔ قال تعالیٰ ”مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِ اْشتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِی یَوْمٍ عَاصِفٍ۔ ” (ابراہیم، رکوع٣’آیت ١٨) وغیرہ ذلک من الآیات۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس دن بہشت والے بہت اچھے ٹھکانے میں اور بہترین آرام گاہ میں ہوں گے۔ (۲۴)

تشریح:یعنی یہ لوگ تو اس روز اس مصیبت میں گرفتار ہوں گے اور جن کی ہنسی اڑایا کرتے تھے وہ جنت میں خوب عیش و آرام کے مزے لوٹیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن بادل سے آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے بکثرت۔ (۲۵)

تشریح:قیامت کے دن آسمانوں کے پھٹنے کے بعد اوپر سے بادل کی طرح کی ایک چیز اترتی نظر آئے گی جس میں حق تعالیٰ کی ایک خاص تجلی ہو گی۔ اسے ہم چتر شاہی سے تعبیر کیے لیتے ہیں۔ شاید یہ وہی چیز ہو جسے ابورزین کی حدیث میں ”عَمَاء” سے اور نسائی کی ایک روایت میں جو معراج سے متعلق ہے ”غَیَابَہُ” سے تعبیر کیا ہے۔ واللہ اعلم۔ اس کے ساتھ بیشمار فرشتوں کا ہجوم ہو گا اور آسمانوں کے فرشتے اس روز لگاتار مقام محشر کی طرف نزول فرمائیں گے۔ دوسرے پارہ کے نصف کے قریب آیت ”ہَلْ یَنْظُرَوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاتِیَہُمُ اللّٰہُ فِی ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلاَئِکَۃُ ” الخ میں بھی اسی طرح کا مضمون گزر چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن آسمان پھٹ جائے گا اور فرشتے اتارے جائیں گے بکثرت۔ (۲۵)

تشریح:یعنی ظاہراً و باطناً، صورۃً معنیً، من کل الوجوہ اکیلے رحمان کی بادشاہت ہو گی اور صرف اسی کا حکم چلے گا۔ ”لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ۔ ” (مومن، رکوع٢’آیت ١٦) پھر جب رحمان کی حکومت ہوئی تو جو مستحق رحمت ہیں ان کے لیے رحمت کی کیا کمی، بے حساب رحمتوں سے نوازے جائیں گے مگر باوجود ایسی لامحدود رحمت کے کافروں کے لیے وہ دن بڑی سخت مشکل اور مصیبت کا ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا اور کہے گا اے کاش ! میں نے رسول کے ساتھ راستہ پکڑ لیا ہوتا۔ (۲۷)

تشریح:یعنی مارے حسرت و ندامت کے اپنے ہاتھ کاٹے گا اور افسوس کرے گا کہ میں نے کیوں دنیا میں رسولِ خدا کا راستہ اختیار نہ کیا اور کیوں شیاطین الانس و الجن کے بہکائے میں آ گیا جو آج یہ روز بد دیکھنا پڑا۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہائے میری شامت !کاش میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (۲۸)

تشریح:یعنی جن کی دوستی اور اغواء سے گمراہ ہوا تھا یا گمراہی میں ترقی کی تھی، اس وقت پچھتائے گا کہ افسوس ایسوں کو میں نے اپنا دوست کیوں سمجھا۔ کاش میرے اور ان کے درمیان کبھی دوستی اور رفاقت نہ ہوئی ہوتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

البتہ اس نے مجھے نصیحت سے بہکایا اس کے بعد جبکہ وہ میرے پاس پہنچ گئی، اور شیطان انسان کو (عین وقت پر) تنہا چھوڑ جانے والا ہے۔ (۲۹)

تشریح:یعنی پیغمبر کی نصیحت مجھ کو پہنچ چکی تھی جو ہدایت کے لیے کافی تھی، اور امکان تھا کہ میرے دل میں گھر کر لے۔ مگر اس کم بخت کی دوستی نے تباہ کیا اور دل کو ادھر متوجہ نہ ہونے دیا۔ بیشک شیطان بڑا دغا باز ہے آدمی کو عین وقت پر دھوکا دیتا اور بری طرح رسوا کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رسول فرمائے گا اے میرے رب! بیشک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرا لیا (متروک کر رکھا)

تشریح:اگرچہ سیاق وسباق کی روشنی میں یہاں قوم سے مراد کافر لوگ ہیں، لیکن یہ مسلمانوں کے لئے بھی ڈر نے کا مقام ہے کہ اگر مسلمان ہونے کے باوجود قرآن کریم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو کہیں وہ بھی اس سنگین جملے کا مصداق نہ بن جائیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کے بجائے شکایت پیش کریں، والعیاذ باللہ العلی العظیم۔

(توضیح القرآن)

 

اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لئے دشمن بنائے گنہگاروں میں سے ، اور تمہارا رب کافی ہے ہدایت کرنے والا اور مددگار۔ (۳۱)

تشریح: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ کفار مکہ آپ کے ساتھ جو دشمنی کر رہے ہیں، یہ کوئی نئی بات نہیں، ہر پیغمبر کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے ، پھر جن کے مقدر میں ہدایت قبول کرنا ہوتا ہے ، اللہ تعالی ان کو ہدایت دے دیتے ہیں اور اپنے پیغمبروں کی مدد فرماتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور کافروں نے کہا کیوں نہ اس پر قرآن ایک ہی بار نازل کیا گیا، اسی طرح (ہم نے بتدریج نازل کیا) تاکہ اس سے تمہارا دل مضبوط کریں اور ہم نے اس کو پڑھ کر (سنایا) ٹھہر ٹھہر کر۔ (۳۲)

تشریح:یعنی نبی کے دشمن لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ایسے ایسے اعتراض چھانٹتے ہیں کہ صاحب! دوسری کتابوں کی طرح پورا قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا، برسوں میں جو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا، کیا اللہ میاں کو کچھ سوچنا پڑتا تھا، اس سے تو شبہ ہوتا ہے کہ خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم سوچ سوچ کر بناتے ہیں۔ پھر موقع مناسب دیکھ کر تھوڑا تھوڑا سناتے رہتے ہیں۔

کَذٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہٖ فُؤَادَکَ ۖ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِيْلًا :یہ کیا ضروری ہے کہ تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنا اس سبب سے ہو جو تم نے سمجھا۔ اگر غور کرو گے تو اس طرح نازل کرنے میں بہت سے فوائد ہیں جو دفعتاً نازل کرنے کی صورت میں پوری طرح حاصل نہ ہوتے۔ مثلاً اس صورت میں قرآن کا حفظ کرنا زیادہ آسان ہوا، سمجھنے میں سہولت رہی، کلام پوری طرح منضبط ہوتا رہا اور جن مصالح و حکم کی رعایت اس میں کی گئی تھی، لوگ موقع بہ موقع ان کی تفاصیل پر مطلع ہوتے رہے۔ ہر آیت کی جداگانہ شان نزول کو دیکھ کر اس کا صحیح مطلب متعین کرنے میں مدد ملی۔ ہر ضرورت کے وقت ہر بات کا بروقت جواب ملتے رہنے سے پیغمبر اور مسلمانوں کے قلوب تسکین پاتے رہے اور ہر آیت کے نزول پر گویا دعویٰ اعجاز کی تجدید ہوتی رہی۔ اس سلسلہ میں جبرئیل کا بار بار آنا جانا ہوا جو ایک مستقل برکت تھی، وغیر ذلک من الفوائد۔ ان ہی میں سے بعض فوائد کی طرف یہاں اشارہ فرمایا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ تمہارے پاس کوئی بات نہیں لاتے ، مگر ہم تمہیں ٹھیک جواب اور بہترین وضاحت پہنچا دیتے ہیں۔ (۳۳)

تشریح:یعنی کفار جب کوئی اعتراض قرآن پر یا کوئی مثال آپ پر چسپاں کرتے ہیں تو قرآن اس کے جواب میں ٹھیک ٹھیک بات بتلا دیتا ہے جس میں کسی قسم کا ہیر پھیر نہیں ہوتا۔ بلکہ صاف واضح، معتدل اور بے غل و غش بات ہوتی ہے ہاں جن کی عقل اوندھی ہو گئی ہو وہ سیدھی اور صاف بات کو بھی ٹیڑھی سمجھیں، یہ الگ چیز ہے ، ایسوں کا انجام اگلی آیت میں بیان فرمایا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو لوگ اپنے مونہوں کے بل جہنم کی طرف جمع کئے جائیں گے ، وہی لوگ ہیں بدترین مقام میں اور بہت بہکے ہوئے راستے سے۔ (۳۴)

تشریح:یہ وہی لوگ ہیں جن کی عقل اوندھی ہو گئی اور علویات کو چھوڑ کر سفلی خواہشات پر جھک پڑے۔ آگے ایسی چند اقوام کا جو حشر ہوا عبرت کے لیے اس کو بیان فرماتے ہیں

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے ساتھ اس کے بھائی ہارون کو معاون بنایا۔ (۳۵)

پس ہم نے کہا تم دونوں اس قوم کی طرف جاؤ جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں بُری طرح ہلاک کر کے تباہ کر دیا۔ (۳۶)

تشریح:یعنی آیات تکوینیہ کو جو اللہ کی توحید وغیرہ پر دال ہیں اور انبیائے سابقین کے متفقہ بیانات کو جن کا تھوڑا بہت چرچا پہلے سے چلا آتا تھا، جھٹلا کر خدائی کے دعوے کرنے لگے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور قوم نوح نے جب رسولوں کو جھٹلایا تو ہم نے انہیں غرق کر دیا، اور ہم نے انہیں لوگوں کے لئے ایک نشانی (عبرت) بنایا، اور ہم نے ظالموں کے لئے تیار کیا ہے ایک دردناک عذاب۔ (۳۷)

تشریح:ایک پیغمبر کا جھٹلانا سب کا جھٹلانا ہے۔ کیونکہ اصول دین میں سب انبیاء متحد ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور عاد اور ثمود اور کنویں والے اور ان کے درمیان بہت سی جماعتیں۔ (۳۸)

تشریح:”اصحاب الرس” (کنوئیں والے ) کون تھے ؟ اس میں سخت اختلاف ہوا ہے۔ ”روح المعانی” میں بہت سے اقوال نقل کر کے لکھا ہے۔ ”وَمُلَخِّصُ الْاَقْوَال اِنَّہُمْ قَوْمٌ اَہْلَکَہُمُ اللہُ بِتَکْذِیْب مَنْ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ ” (یعنی خلاصہ یہ ہے کہ وہ کوئی قوم تھی جو اپنے پیغمبر کی تکذیب کی پاداش میں ہلاک ہوئی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”ایک امت نے اپنے رسول کو کنوئیں میں بند کیا پھر ان پر عذاب آیا تب وہ رسول آزاد ہوا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ہر ایک کو مثالیں بیان کیں (مگر انہوں نے نصیحت نہ پکڑی) اور ہم نے ہر ایک کو تباہ کر کے مٹا دیا۔ (۳۹)

تشریح:یعنی پہلے سب کو اچھی طرح سمجھایا۔ جب کسی طرح نہ مانا تو تختہ الٹ دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تحقیق وہ (قوم لوط کی) اس بستی پر آئے جس پر (پتھروں کی) بُری بارش برسائی گئی، تو کیا وہ اسے دیکھتے نہیں رہتے ؟بلکہ وہ (دوبارہ) جی اٹھنے کی امید نہیں رکھتے۔ (۴۰)

تشریح:یعنی عبرت کہاں سے ہوتی جب ان کے نزدیک یہ احتمال ہی نہیں کہ مرنے کے بعد پھر جی اٹھنا اور خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ عبرت تو وہ ہی حاصل کرتا ہے جس کے دل میں تھوڑا بہت ڈر ہو اور انجام کی طرف سے بالکل بے فکر نہ ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب وہ تمہیں دیکھتے ہیں تو وہ تمہارا صرف ٹھٹھا اڑاتے ہیں (کہتے ہیں) کیا یہ ہے وہ جسے اللہ نے رسول (بنا کر) بھیجا؟ (۴۱)

قریب تھا کہ وہ ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتا، اگر ہم اس پر جمے نہ رہتے ، اور وہ جلد جان لیں گے ، جب وہ عذاب دیکھیں گے ، کون ہے راہِ (راست) سے بدترین گمراہ !۔ (۴۲)

تشریح:یعنی بجائے عبرت حاصل کرنے کے ان کا مشغلہ تو یہ ہے کہ پیغمبر سے ٹھٹھا کیا کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر استہزاءاً کہتے ہیں کہ کیا یہ بزرگ ہیں جن کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا؟ بھلا یہ حیثیت اور منصب رسالت؟ کیا ساری خدائی میں سے یہ ہی اکیلے رسول بننے کے لیے رہ گئے تھے ؟ آخر کوئی بات تو ہو۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کی تقریر جادو کا اثر رکھتی ہے۔ قوت فصاحت اور زور تقریر سے رنگ تو ایسا جمایا تھا کہ بڑے بڑوں کے قدم پھسل گئے ہوتے۔ قریب تھا کہ اس کی باتیں ہم کو ہمارے معبودوں سے برگشتہ کر دیتیں۔ وہ تو ہم پکے ہی ایسے تھے کہ برابر جمے رہے ان کی کسی بات کا اثر قبول نہ کیا۔ ورنہ یہ ہم سب کو کبھی کا گمراہ کر کے چھوڑتے (العیاذ باللہ) عذابِ الٰہی کو آنکھوں سے دیکھیں گے تب ان کو پتہ لگے گا کہ واقع میں کون گمراہی پر تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے تو کیا تم اس پر نگہبان ہو جاؤ گے ؟ (۴۳)

تشریح:یعنی آپ ایسے ہوا پرستوں کو راہ ہدایت پر لے آنے کی کیا ذمہ داری کر سکتے ہیں جن کا معبود ہی محض خواہش ہو کہ جدھر خواہش لے گئی ادھر ہی جھک پڑے جو بات خواہش کے موافق ہوئی قبول کر لی، جو مخالف ہوئی رد کر دی۔ آج ایک پتھر اچھا معلوم ہوا اسے پوجنے لگے کل دوسرا اس سے خوبصورت مل گیا پہلے کو چھوڑ کر اس کے آگے سر جھکا دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر سنتے یا عقل سے کام لیتے ہیں؟وہ نہیں ہیں مگر چوپایوں جیسے ، بلکہ راہِ (راست) سے بدترین گمراہ ہیں۔ (۴۴)

تشریح:یعنی کیسی ہی نصیحتیں سنائیے ، یہ تو چوپائے جانور ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر، انہیں سننے یا سمجھنے سے کیا واسطہ چوپائے تو بہرحال اپنے پرورش کرنے والے مالک کے سامنے گردن جھکا دیتے ہیں۔ اپنے محسن کو پہچانتے ہیں، نافع و مضر کی کچھ شناخت رکھتے ہیں۔ کھلا چھوڑ دو تو اپنی چراگاہ اور پانی پینے کی جگہ پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ نہ اپنے خالق و رازق کا حق پہچانا، نہ اس کے احسانات کو سمجھا۔ نہ بھلے برے کی تمیز کی، نہ دوست دشمن میں فرق کیا، نہ غذائے روحانی اور چشمہ ہدایت کی طرف قدم اٹھایا۔ بلکہ اس سے کوسوں دور بھاگے اور جو قوتیں خدا تعالیٰ نے عطا کی تھیں ان کو معطل کیے رکھا بلکہ بے موقع صرف کیا۔ اگر ذرا بھی عقل و فہم سے کام لیتے تو اس کارخانہ قدرت میں بیشمار نشانیاں موجود تھیں جو نہایت واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید و تنزیہ اور اصول دین کی صداقت و حقانیت کی طرف رہبری کر رہی ہیں جن میں سے بعض نشانیوں کا ذکر آئندہ آیات میں کیا گیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا تم نے اپنے رب کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا، اس نے کیسے سایہ دراز کیا؟اور اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر ایک رہنما بنایا۔ (۴۵)

پھر ہم نے اس (سایہ) کو سمیٹا اپنی طرف آہستہ آہستہ کھینچ کر۔ (۴۶)

تشریح:صبح سے طلوع شمس تک سب جگہ سایہ رہتا ہے اگر حق تعالیٰ سورج کو طلوع نہ ہونے دیتا تو یہ ہی سایہ قائم رہتا، مگر اس نے اپنی قدرت سے سورج نکالا جس سے دھوپ پھیلنی شروع ہوئی اور سایہ بتدریج ایک طرف کو سمٹنے لگا۔ اگر دھوپ نہ آتی تو سایہ کو ہم سمجھ بھی نہ سکتے۔ کیونکہ ایک ضد کے آنے سے ہی دوسری ضد پہچانی جاتی ہے۔ ”قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمْ الَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ مِنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللہِ یَاْتِیْکُمْ بِضِیآء”’ الخ (قصص، رکوع٧’آیت ٧١) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ”اول ہر چیز کا سایہ لمبا پڑتا ہے۔ پھر جس طرف سورج چلتا ہے اس کے مقابل سایہ ہٹا جاتا ہے جب تک کہ جڑ میں آ لگے۔ ” اپنی طرف کھینچ لیا کا یہ مطلب ہے کہ اپنی اصل کو جا لگتا ہے۔ سب کی اصل اللہ ہے۔ ” (موضح القرآن) پھر زوال کے بعد سے ایک طرف سے دھوپ سمٹنا شروع ہوتی ہے اور دوسری طرف سایہ لمبا ہونے لگتا ہے حتی کہ آخر نہار میں دھوپ غائب ہو جاتی ہے۔ یہ ہی مثال دنیا کی ہستی کی سمجھو۔ اول عدم تھا، پھر نور وجود آیا، پھر آخرکار کتم عدم میں چلی جائے گی۔ اور اسی جسمانی نور و ظل کے سلسلہ پر روحانی نور و ظلمت کو قیاس کر لو۔ اگر کفر و عصیان اور جہل و طغیان کی ظلمات میں آفتاب نبوت کی روشنی اللہ تعالیٰ نہ بھیجتا تو کسی کو معرفت صحیحہ کا راستہ ہاتھ نہ آتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہی ہے جس نے تمہارے لئے رات کو پردہ، اور نیند کو راحت بنایا اور دن کو اٹھ (کھڑے ہونے ) کا وقت بنایا۔ (۴۷)

تشریح:یعنی رات کی تاریکی چادر کی طرح سب پر محیط ہو جاتی ہے جس میں لوگ کاروبار چھوڑ کر آرام کرتے ہیں، پھر دن کا اجالا ہوتا ہے تو نیند سے اٹھ کر ادھر ادھر چلنے پھرنے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح موت کی نیند کے بعد قیامت کی صبح آئے گی جس میں سارا جہان دوبارہ اٹھ کھڑا ہو گا اور یہ حالت اس وقت پیش آتی ہے جب انبیاء علیہم السلام وحی و الہام کی روشنی سے دنیا میں اجالا کرتے ہیں، تو جہل و غفلت کی نیند سے سوئی ہوئی مخلوق ایک دم آنکھیں مل کر اٹھ بیٹھتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہی ہے جس نے اپنی رحمت کے آگے ہوائیں خوشخبری (سنائی ہوئی) بھیجیں، اور ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا۔ (۴۸)

تاکہ ہم اس سے مردہ شہر کو زندہ کر دیں، اور ہم اس سے پلائیں (انہیں) جو ہم نے پیدا کئے ہیں، بہت سے چوپائے اور آدمی۔ (۴۹)

تشریح:یعنی اول برساتی ہوائیں بارش کی خوشخبری لاتی ہیں، پھر آسمان کی طرف سے پانی برستا ہے جو خود پاک اور دوسروں کو پاک کرنے والا ہے۔ پانی پڑتے ہی مردہ زمینوں میں جان پڑ جاتی ہے ، کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں سبزہ زار بن جاتا ہے۔ اور کتنے جانور اور آدمی بارش کا پانی پی کر سیراب ہوتے ہیں۔ اسی طرح قیامت کے دن ایک غیبی بارش کے ذریعہ مردہ جسموں کو جو خاک میں مل چکے تھے زندہ کر دیا جائے گا اور دنیا میں بھی اسی طرح جو دل جہل و عصیان کی موت سے مر چکے تھے ، وحی الٰہی کی آسمانی بارش ان کو زندہ کر دیتی ہے جو روحیں پلیدی میں پھنس گئی تھیں۔ روحانی بارش کے پانی سے دھل کر پاک و صاف ہو جاتی ہیں اور معرفت و وصول الی اللہ کی پیاس رکھنے والے اس کو پی کر سیراب ہوتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے اسے ان کے درمیان تقسیم کیا تاکہ وہ نصیحت پکڑیں، پس اکثر لوگوں نے قبول نہ کیا، مگر ناشکری کو۔ (۵۰)

تشریح:یعنی بارش کا پانی تمام زمینوں اور آدمیوں کو یکساں نہیں پہنچتا بلکہ کہیں کم کہیں زیادہ، کہیں جلد کہیں بدیر، جس طرح اللہ کی حکمت مقتضی ہو پہنچتا رہتا ہے۔ تاکہ لوگ سمجھیں کہ اس کی تقسیم کسی قادر مختار و حکیم کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن بہت لوگ پھر بھی نہیں سمجھتے اور نعمت الٰہی کا شکر ادا نہیں کرتے۔ الٹے کفر اور ناشکری پر اتر آتے ہیں۔ یہی حال روحانی بارش کا ہے کہ جس کو اپنے استعداد اور ظرف کے موافق جتنا حصہ ملنا تھا مل گیا اور بہت سے اس نعمت عظمیٰ کا کفران ہی کرتے رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم چاہتے تو ہر بستی میں ایک ڈرانے والا بھیج دیتے۔ (۵۱)

پس آپ کافروں کا کہا نہ مانیں اور اس (حکم الہی) کے ساتھ ان سے بڑا جہاد کریں۔ (۵۲)

تشریح:یعنی نبی کا آنا تعجب کی چیز نہیں۔ اللہ چاہے تو اب بھی نبیوں کی کثرت کر دے کہ ہر بستی میں علیحدہ نبی ہو۔ مگر اس کو منظور ہی یہ ہوا کہ اب آخر میں سارے جہان کے لیے اکیلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجے۔ سو آپ کافروں کے احمقانہ طعن و تشنیع اور سفیہانہ نکتہ چینیوں کی طرف التفات نہ فرمائیں۔ اپنا کام پوری قوت اور جوش سے انجام دیتے رہیں اور قرآن ہاتھ میں لے کر ان منکرین کا مقابلہ زور و شور کے ساتھ کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیاب کرنے والا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو ملایا (ملا کر چلایا) یہ (اس طرف کا پانی) خوشگوار شیریں ہے ، اور یہ (دوسرا) تلخ بدمزہ ہے ، اور اس نے ان دونوں کے درمیان (ایک غیر محسوس) پردہ اور مضبوط آڑ بنائی۔ (۵۳)

تشریح: دریاؤں اور سمندروں کے سنگھم پر یہ نظارہ ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ دو الگ الگ قسم کے پانی ساتھ ساتھ چلتے ہیں، لیکن ایک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے ، بلکہ دور تک ان کی خصوصیات الگ الگ دیکھی اور محسوس کی جا سکتی ہیں، یہی وہ عجیب و غریب آڑ ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کی سرحد عبور کرنے نہیں دیتی۔

( توضیح القرآن)

 

اور وہی ہے جس نے پیدا کیا پانی سے بشر، پھر بنائے اس کے نسب (نسبی رشتے ) اور سسرال اور تیرا رب قدرت والا ہے۔ (۵۴)

اور وہ بندگی کرتے ہیں اللہ کے سوا اس کی جو انہیں نہ نفع پہنچائے اور نہ ان کا نقصان کرسکے اور کافر اپنے رب کے خلاف پشت پناہی کرنے والا ہے۔ (۵۵)

تشریح:دیکھ لو! کس طرح اپنی قدرتِ کاملہ سے ایک قطرہ آب کو عاقل و کامل آدمی بنا دیا۔ پھر آگے اس سے نسلیں چلائیں اور دامادی اور سسرال کے تعلقات قائم کیے۔ ایک ناچیز قطرہ کو کیا سے کیا کر دیا اور کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ لیکن یہ حضرت تھوڑی ہی دیر میں اپنی اصل کو بھول گئے اور رب قدیر کو چھوڑ کر عاجز مخلوق کو خدا کہنے لگے۔ اپنے پروردگار کا حق تو کیا پہچانتے اس سے منہ موڑ کر اور پیٹھ پھیر کر شیطان کی فوج میں جا شامل ہوئے۔ تاکہ اغواء و اضلال کے مشن میں اس کی مدد کریں اور مخلوق کو گمراہ کرنے میں اس کا ہاتھ بٹائیں۔ نَعُوذُ بِاللّٰہ مِنْ شُرُور اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر (صرف) خوشخبری دینے والا، اور ڈرانے والا۔ (۵۶)

آپ فرما دیں میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر مگر جو شخص چاہے کہ اپنے رب تک راستہ اختیار کر لے۔ (۵۷)

تشریح:یعنی آپ کا کام خدا تعالیٰ کی وفاداری پر بشارات سنانا اور غداروں کو خراب نتائج و عواقب سے آگاہ کر دینا ہے۔ آگے کوئی مانے یا نہ مانے ، آپ کو کچھ نقصان نہیں۔ آپ ان سے کچھ فیس یا مزدوری تھوڑی طلب کر رہے تھے کہ ان کے نہ ماننے سے اس کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ آپ تو ان سے صرف اتنا ہی چاہتے ہیں کہ جو کوئی چاہے خدا کی توفیق پا کر اپنے رب کا راستہ پکڑ لے۔ اسی کو چاہو فیس کہہ لو یا مزدوری۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس ہمیشہ رہنے والے پر بھروسہ کر جسے موت نہیں، اور اس کی تعریف کے ساتھ پاکیزگی بیان کر، اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا کافی ہے۔ (۵۸)

تشریح:یعنی آپ تنہا خدا پر بھروسہ کر کے اپنا فرض (تبلیغ و دعوت وغیرہ) ادا کیے جائیے۔ کسی کی مخالفت یا موافقت کی پروا نہ کریں۔ فانی چیزوں کا کیا سہارا۔ سہارا تو اسی کا ہے جو ہمیشہ زندہ رہے کبھی نہ مرے۔ اسی پر توکل رکھیے اور اسی کی عبادت اور حمدو ثنا کرتے رہیے۔ ان مجرموں سے وہ خود نبٹ لے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے آسمانوں کو پیدا کیا اور زمین کو، اور جو ان کے درمیان ہے چھ دن میں، پھر عرش پر قائم ہوا، جو رحم کرنے والا ہے ، تو اس کے متعلق کسی باخبر سے پوچھو۔ (۵۹)

تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ کی شانوں اور رحمتوں کو کسی جاننے والے سے پوچھو۔ یہ جاہل مشرک اسے کیا جانیں۔ ”وَمَاقَدَرُوا اللہ حَقَّ قَدْرِہٖ” اپنی شؤن و کمالات کا پوری طرح جاننے والا تو خدا ہی ہے۔ ”اَنْتَ کَمَآ اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ” لیکن مخلوق میں سب سے بڑے جاننے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی ذاتِ گرامی میں حق تعالیٰ نے اولین و آخرین کے تمام علوم جمع کر دیئے ، خدا تعالیٰ کی شانوں کو کوئی ان سے پوچھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ان سے کہا جائے کہ تم رحمن کو سجدہ کرو تو وہ کہتے ہیں کیا ہے رحمن؟کیا تو جسے سجدہ کرنے کو کہے ہم اسے سجدہ کریں؟اس (بات) نے ان کا بدکنا اور بڑھا دیا۔ (۶۰)

تشریح:یعنی یہ جاہل مشرک رحمان کی عظمت شان کو کیا سمجھ سکتے ہیں جن کو اس نام سے بھی چڑ ہے۔ جب یہ نام سنتے ہیں تو انتہائی جہل یا بے حیائی اور تعنت سے ناواقف بن کر کہتے ہیں کہ رحمان کون ہے جس کو ہم سے سجدہ کراتا ہے کیا محض تیرے کہہ دینے سے ایسی بات مان لیں؟ بس تم نے ایک نام لے دیا اور ہم سجدہ میں گر پڑے۔ غرض جس قدر انہیں رحمان کی اطاعت و انقیاد کی طرف توجہ دلائے اسی قدر زیادہ بدکتے اور بھاگتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بڑی برکت والا ہے وہ جس نے برج بنائے اور اس میں بنایا سورج اور روشن چاند۔ (۶۱)

تشریح:یعنی بڑے بڑے ستارے ، یا آسمانی قلعے جن میں فرشتے پہرہ دیتے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ آسمان کے بارہ حصے ، ان کا نام برج، ہر ایک پر ستاروں کا پتہ، یہ حدیں رکھی ہیں حساب کو۔ (موضح)۔ سورج کو شاید نور و حرارت کے جمع ہونے اور صفت احراق رکھنے کی وجہ سے چراغ فرمایا۔ ”وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْہِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا” (نوح، رکوع١’آیت ١٦)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہی ہے جس نے رات دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا، یہ اس کے (سمجھنے ) کے لئے ہیں جو چاہے کہ وہ نصیحت پکڑے ، یا شکر گزار بننا چاہے۔ (۶۲)

تشریح:  یعنی چاند سورج وغیرہ کا الٹ پھیر اور رات دن کا ادل بدل اس لیے ہے کہ اس میں دھیان کر کے لوگ خداوند قدیر کی معرفت کا سراغ لگائیں کہ یہ سب تصرفات و تقلبات عظیمہ اسی کے دست قدرت کی کارسازیاں ہیں۔ اور رات دن کے فوائد و انعامات کو دیکھ کر اس کی شکر گزاری کی طرف متوجہ ہوں۔ چنانچہ رحمان کے مخلص بندے جن کا ذکر آگے آتا ہے ، ایسا ہی کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر چلتے ہیں آہستہ آہستہ، اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو وہ بس (سلام) کہتے ہیں۔ (۶۳)

تشریح:یعنی مشرکین کی طرح رحمان کا نام سن کر ناک بھویں نہیں چڑھاتے ،بلکہ ہر فعل و قول سے بندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کی چال ڈھال سے تواضع، متانت، خاکساری اور بے تکلفی ٹپکتی ہے۔ متکبروں کی طرح زمین پر اکڑ کر نہیں چلتے۔ یہ مطلب نہیں کہ ریاء و تصنع سے بیماروں کی طرح قدم اٹھاتے ہیں۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو رفتار احادیث میں منقول ہے ، اس کی تائید نہیں کرتی۔

کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو وصفح سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحب سلامت کہہ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے۔ نہ ان میں شامل ہوں نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں جو جاہلیت میں کسی نے کہا تھا۔ اَلاَ لاَ یَجْہَلَنَ اَحَدَعَلَیْ نَا فَنَجْہَلْ فَوْقَ جَہْلِ الْجَاھلِیْنَا، یہ تو رحمان کے ان مخلص بندوں کا دن تھا، آگے رات کی کیفیت بیان فرماتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ اپنے رب کے لئے رات کاٹتے ہیں (رات بھر لگے رہتے ہیں) سجدہ کرتے اور قیام کرتے۔ (۶۴)

تشریح:یعنی رات کو جب غافل بندے نیند اور آرام کے مزے لوٹتے ہیں، یہ خدا کے آگے کھڑے اور سجدہ میں پڑے ہوئے گذارتے ہیں۔ رکوع چونکہ قیام و سجود کے درمیان واقع ہے ، شاید اسی لیے اس کو علیحدہ ذکر نہیں کیا۔ گویا ان ہی دونوں کے بیچ میں آ گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے ، بے شک اس کا عذاب لازم ہو جانے والا ہے (جدا نہ ہونے والا ہے )۔ (۶۵)

بیشک وہ بُری ہے ٹھہرنے کی جگہ اور بُرا ہے مقام۔ (۶۶)

تشریح:یعنی اتنی عبادت پر اتنا خوف بھی ہے۔ یہ نہیں کہ تہجد کی آٹھ رکعت پڑھ کر خدا کے عذاب و قہر سے بے فکر ہو گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں (ان کی روش) اس کے درمیان اعتدال کی ہے۔ (۶۷)

تشریح: یعنی موقع دیکھ بھال کر میانہ روی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں۔ نہ مال کی محبت نہ اس کی اضاعت۔ کما قال تعالٰی۔ ”وَلاَ تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلاَ تَبْسُطْہَا کُلَ الْبَسْطِ۔ ” (بنی اسرائیل، رکوع٣’آیت ٢٩)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے دوسرا (کوئی اور ) معبود اور اس جان کو قتل نہیں کرتے جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے ، مگر جہاں حق ہو، اور وہ زنا نہیں کرتے ، اور جو یہ کرے گا وہ بڑی سزا سے دوچار ہو گا۔ (۶۸)

تشریح: مثلاً قتل عمد کے بدلہ قتل کرنا، یا بدکاری کی سزا میں زانی محصن کو سنگسار کرنا، یا جو شخص دین چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے اس کو مار ڈالنا، یہ سب صورتیں ”الا بالحق”میں شامل ہیں۔ کما ورد فی الحدیث۔

اور وہ زنا نہیں کرتے ، اور جو یہ کرے گا وہ بڑی سزا سے دوچار ہو گا :بڑا سخت گناہ کیا جس کی سزا مل کر رہے گی۔ بعض روایات میں آیا کہ ”آثام” جہنم کی ایک وادی کا نام ہے جس میں بہت ہی ہولناک عذاب بیان کیے گئے ہیں۔ اعاذنا اللہ منہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

روزِ قیامت اس کے لئے عذاب دوچند کر دیا جائے گا، اور وہ اس میں ہمیشہ رہے گا، خوار ہو کر۔ (۶۹)

تشریح:یعنی اور گناہوں سے یہ گناہ بڑے ہیں۔ عذاب بھی ان پر بڑا ہو گا اور دم بدم بڑھتا رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سوائے اس کے جس نے توبہ کی، اور وہ ایمان لایا، اور اس نے نیک عمل کئے ، پس اللہ ان لوگوں کی بُرائیاں بدل دے گا بھلائیوں سے ، اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۷۰)

تشریح:یعنی گناہوں کی جگہ نیکیوں کی توفیق دے گا اور کفر کے گناہ معاف کرے گا۔ یا یہ کہ بدیوں کو مٹا کر توبہ اور عمل صالح کی برکت سے ان کی تعداد کے مناسب نیکیاں ثبت فرمائے گا۔ کما یظہر من بعض الاحادیث۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس نے توبہ کی اور نیک عمل کئے تو بیشک وہ رجوع کرتا ہے اللہ کی طرف (جیسے ) رجوع کرنے کا مقام (حق) ہے۔ (۷۱)

تشریح: پہلے ذکر تھا کافر کے گناہوں کا جو پیچھے ایمان لے آیا۔ یہ ذکر ہے اسلام میں گناہ کرنے کا۔ وہ بھی جب توبہ کرے یعنی پھر برے کام سے تو اللہ کے یہاں جگہ پائے۔ معلوم ہوا کہ سورہ نسآء میں جو فرمایا ”وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہ، جَہَنَّمُ خَالِدًا فِیْہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعْنَہ، وَاَعَدَّلَہ، عَذَاباً عَظِیمًا۔ ” (نسا، رکوع١٣’آیت ٩٣) وہ غیر تائب کے حق میں ہے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ جو جھوٹ کی گواہی نہیں دیتے اور جب بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزریں تو گزرتے ہیں بزرگانہ (سنجیدگی کے انداز سے )۔ (۷۲)

تشریح:  یعنی نہ جھوٹ بولیں نہ جھوٹی شہادت دیں۔ نہ باطل کاموں اور گناہ کی مجلسوں میں حاضر ہوں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی گناہ میں شامل نہیں، اور کھیل کی باتوں کی طرف دھیان نہیں کرتے نہ اس میں شامل نہ ان سے لڑیں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ کہ جب انہیں ان کے رب کے احکام سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان بہروں اور اندھوں کی طرح نہیں گر پڑتے۔ (۷۳)

تشریح: بلکہ نہایت فکرو تدبر اور دھیان سے سنیں اور سن کر متاثر ہوں مشرکین کی طرح پتھر کی مورتیں نہ بن جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں بنا دے پرہیز گاروں کا پیشوا۔ (۷۴)

تشریح: یعنی بیوی بچے ایسے عنایت فرما جنہیں دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی اور قلب مسرور ہو۔ اور ظاہر ہے مومن کامل کا دل اسی وقت ٹھنڈا ہو گا۔ جب اپنے اہل و عیال کو طاعت الٰہی کے راستہ پر گامزن اور علم نافع کی تحصیل میں مشغول پائے۔ دنیا کی سب نعمتیں اور مسرتیں اس کے بعد ہیں۔ ایسا بنا دے کہ لوگ ہماری اقتداء کر کے متقی بن جایا کریں۔ حاصل یہ کہ ہم نہ صرف بذاتِ خود مہتدی، بلکہ دوسروں کے لیے ہادی ہوں۔ اور ہمارا خاندان تقویٰ و طہارت میں ہماری پیروی کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان لوگوں کو ان کی صبر کی بدولت (جنت کے ) بالاخانے انعام دئے جائیں گے اور وہ اس میں دعائے خیر اور سلام سے پیشوائی کئے جائیں گے۔ (۷۵)

تشریح: یعنی جنت میں اوپر کے درجے ملیں گے اور فرشتے دعا و سلام کہتے ہوئے ان کا استقبال کریں گے اور آپس کی ملاقاتوں میں یہ ہی کلمات سلام و دعا ان کی تکریم و عزت افزائی کے لیے استعمال ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، (کیا ہی) اچھی ہے آرام گاہ اور اچھا مسکن۔ (۷۶)

تشریح:یعنی ایسی جگہ تھوڑی دیر ٹھہرنا ملے تو بھی غنیمت ہے ان کا تو وہ گھر ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اگر تم اس کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ نہیں رکھتا، تم نے جھٹلایا، پس عنقریب (اس کی سزا) لازمی ہو گی۔ (۷۷)

تشریح:یعنی تمہارے نفع نقصان کی باتیں سجھا دیں۔ بندہ کو چاہیے مغرور اور بیباک نہ ہو، خدا کو اس کی کیا پروا، ہاں اس کی التجاء پر رحم کرتا ہے ، نہ التجا کرو گے اور بڑے بنے رہو گے تو مڈ بھیڑ کے لیے تیار ہو جاؤ جو عنقریب ہونے والی ہے۔ کافر جو حق کو جھٹلا چکے۔ یہ تکذیب عنقریب ان کے گلے کا ہار بنے گی۔ اس کی سزا سے کسی طرح چھٹکارا نہ ہو گا۔ آخرت کی ابدی ہلاکت تو ہے ہی، دنیا میں بھی اب جلدی مڈ بھیڑ ہونے والی ہے۔ یعنی لڑائی جہاد۔ چنانچہ غزوہ ”بدر” میں اس مٹھ بھیڑ کا نتیجہ دیکھ لیا۔ تم سورۃ الفرقان وللہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

 

۲۶۔ سورۃالشعراء

 

                تعارف

 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت سورۂ واقعہ (سورت نمبر:۵۶) کے بعد نازل ہوئی تھی، یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا وہ زمانہ تھا جس میں کفار مکہ آپ کی دعوت کے بڑے زور و شور سے مخالفت کرتے ہوئے آپ سے اپنی پسند کے معجزات دکھانے کا مطالبہ کر رہے تھے ، اس سورت کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے اور کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلا کر اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی کے دل میں انصاف ہو اور وہ سچے دل سے حق کی تلاش کرنا چاہتا ہو تو اس کے لئے اللہ تعالی کی قدرت کی یہ نشانیاں اس کی توحید کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں، اور اسے کسی اور معجزے کی تلاش کی ضرورت نہیں ہے ، اسی ضمن میں پچھلے انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعات یہ بیان کرنے کے لئے سنائے گئے ہیں کہ ان قوموں نے جو معجزات مانگے تھے ، انہیں وہی معجزات دکھائے گئے ، لیکن وہ پھر بھی نہ مانے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب الہی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ جب منہ مانگے معجزات دیکھنے کے باوجود کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے ، اس بنا پر کفار مکہ کو مہلت دی جا رہی ہے کہ وہ نت نئے معجزات کا مطالبہ کرنے کے بجائے توحید ورسالت کے دوسرے دلائل پر کھلی آنکھوں سے غور کر کے ایمان لائیں اور ہلاکت سے بچ جائیں۔

کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کاہن کہتے تھے کبھی جادوگر اور کبھی آپ کو شاعر کا نام دیتے تھے ، سورت کے آخری رکوع میں ان باتوں کی مدلل تردید فرمائی گئی ہے ، اور کاہنوں اور شاعروں کی خصوصیات بیان کر کے جتایا گیا ہے کہ ان میں سے کوئی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں پائی جاتی، اسی ضمن میں آیت :۲۲۷ نے شعراء کی خصوصیات بیان کی ہیں، اسی وجہ سے سورت کا نام شعراء رکھا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات:۲۲۷       رکوعات:۱۱

 

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

طسم۔ (۱) یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں۔ (۲)

تشریح:یعنی اس کتاب کا اعجاز کھلا ہوا ہے۔ احکام واضح ہیں اور حق کو باطل سے الگ کرنے والی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

شاید آپ (اُن کے غم میں) اپنے تئیں ہلاک کر لیں گے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۳)

تشریح:یعنی اب بدبختوں کے غم میں اپنے کو اس قدر گھلانے کی ضرورت نہیں کیا ان کے پیچھے آپ اپنی جان کو ہلاک کر کے رہیں گے۔ دلسوزی اور شفقت کی بھی آخر ایک حد ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگر ہم چاہیں تو ان پر آسمان سے کوئی نشانی اتار دیں، تو اس کے آگے ان کی گردنیں پست   ہو جائیں۔ (۴)

تشریح:یعنی یہ دنیا ابتلاء کا گھر ہے جہاں بندوں کے انقیاد و تسلیم اور سرکشی کو آزمایا جاتا ہے۔ اسی لیے حکمت الٰہی مقتضی نہیں کہ ان کا اختیار بالکل سلب کر لیا جائے۔ ورنہ خدا چاہتا تو کوئی ایسا آسمانی نشان دکھلاتا کہ اس کے آگے زبردستی سب کی گردنیں جھک جاتیں۔ بڑے بڑے سرداروں کو بھی انکار و انحراف کی قدرت باقی نہ رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا تو نہیں کیا، ہاں وہ نشان بھیجے جنہیں دیکھ کر آدمی حق کو سمجھنا چاہے تو باآسانی سمجھ سکے۔ اور کبھی کبھی مغلوب ہو کر گردن جھکانے سے مفر بھی نہ ملے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان کے پاس رحمن کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اس سے رو گردان ہو جاتے ہیں۔ (۵)

تشریح:یعنی آپ جن کے غم میں پڑے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ رحمان اپنی رحمت و شفقت سے جب ان کی بھلائی کے لیے کوئی پند و نصیحت بھیجتا ہے یہ ادھر متوجہ نہیں ہوتے بلکہ منہ پھیر کر بھاگتے ہیں گویا کوئی بہت بری چیز سامنے آ گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس بیشک انہوں نے جھٹلایا تو جلد ان کے پاس اس کی خبریں آئیں گی (حقیقت معلوم ہو جائے گی) جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۶)

تشریح:یعنی صرف معمولی اعراض ہی نہیں۔ تکذیب و استہزاء بھی ہے سو عنقریب دنیا اور آخرت میں اپنی کرتوت کی سزا بھگتیں گے۔ تب اس چیز کی حقیقت کھلے گی جس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا؟ کہ ہم نے اس میں کس قدر عمدہ عمدہ ہر قسم کی چیزیں جوڑا جوڑا اُگائی ہیں۔ (۷)

بیشک اس میں البتہ نشانی ہے ، اور ان میں اکثر نہیں ہیں ایمان لانے والے۔ (۸)

تشریح:یعنی یہ مکذبین اگر ایک پیش پا افتادہ زمین ہی کے احوال میں غور کرتے تو مبداء و معاد کی معرفت حاصل کرنے کے لیے کافی ہو سکتی تھی۔ کیا دیکھتے نہیں کہ اسی کرکری اور حقیر مٹی سے کیسے عجیب و غریب رنگ برنگ پھول پھل اور قسم قسم کے غلے اور میوے ایک مضبوط نظام تکوین کے ماتحت پیدا ہو تے ہیں۔ کیا یہ اس کی دلیل نہیں کہ کسی لامحدود قوت و حکمت رکھنے والے صانع نے اس پر رونق چمن کی گلکاریاں کی ہیں جس کے قبضہ میں وجود کی باگ ہے اور و ہی جب چاہے اسے ویران کر سکتا اور ویرانی کے بعد دوبارہ آباد کر سکتا ہے۔ پھر ان آیات تکوینیہ کو سمجھ لینے کے بعد آیات تنزیلیہ کی تصدیق میں کیا اشکال رہ جاتا ہے۔ ہاں ماننا ہی منظور نہ ہو تو الگ بات ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب ہے ، نہایت مہربان۔ (۹)

تشریح:یعنی زبردست تو ایسا ہے کہ نہ ماننے پر فوراً عذاب بھیج سکتا تھا، مگر رحم کھا کر تاخیر کرتا ہے کہ ممکن ہے اب بھی مان لیں۔ آگے عبرت کے لیے مکذبین کے چند واقعات بیان فرمائے ہیں جن سے ظاہر ہو گا کہ خدا نے ان کو کہاں تک ڈھیل دی، جب کسی طرح نہ مانے تو پھر کیسے تباہ و برباد کیا۔ ان میں پہلا قصہ قوم فرعون کا ہے جو پیشتر سورہ ”اعراف” اور سورہ ”طہٰ” وغیرہ میں بالتفصیل گزر چکا۔ وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آیت ۱۰ تا ۳۳؟؟

 

فرعون نے اپنے ارد گرد کے سرداروں سے کہا بیشک یہ ماہر جادوگر ہے۔ (۳۴)

وہ چاہتا ہے کہ تمہیں اپنے جادو (کے زور) سے تمہاری سرزمین سے نکال دے تو تم کیا مشورہ دیتے ہو؟ (۳۵)

تشریح:یا تو خدائی کے دعوے تھے ، یا اتنی جلد ایسا حواس باختہ ہو گیا کہ اپنے غلاموں اور پرستاروں کے احکام پر چلنے کے لیے آمادہ ہو گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دے ، اور شہروں میں نقیب بھیج۔ (۳۶)

کہ تیرے پاس تمام بڑے ماہر جادوگر لے آئیں۔ (۳۷)

پس جادو گر جمع ہو گئے ایک معین دن وقت مقررہ پر۔ (۳۸)

اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم جمع ہو گے ؟ (۳۹)

تاکہ ہم پیروی کریں جادو گروں کی، اگر وہ غالب ہوں۔ (۴۰)

تشریح:یعنی سب کو اکٹھا ہونا چاہیے۔ امید قوی ہے کہ ہمارے جادوگر غالب آئیں گے۔ اس وقت ہم موسٰی کی شکست اور مغلوبیت دکھلانے کے لیے اپنے ساحرین ہی کی راہ پر چلیں گے۔ تو یا یہ ظاہر کرنا تھا کہ اس میں ہماری کوئی خود غرضی نہیں۔ جب مقابلہ میں ہمارا پلہ بھاری رہے گا تو انصافاً کسی کو ہمارے طریقہ سے منحرف ہونے کی گنجائش نہیں رہ سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

جب جادوگر آئے تو انہوں نے فرعون سے کہا کیا ہمارے لئے یقینی طور پر کچھ انعام ہو گا؟ اگر ہم غالب آئے۔ (۴۱)

اس نے کہا ہاں! تم اس وقت بیشک (میرے ) مقربین میں سے ہو گے۔ (۴۲)

تشریح:یعنی نہ صرف مالی انعام و اکرام، بلکہ تم میرے خاص مصاحبوں میں رہو گے۔ ان آیات کا مفصل بیان ”اعراف” اور ”طہٰ” میں گزر چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کہا موسیٰ نے ان سے (اپنا داؤ) ڈالو جو تم ڈالنے والے ہو۔ (۴۳)

تشریح:یعنی جب ساحرین نے کہا کہ موسٰی پہلے اپنی لاٹھی ڈالتے ہو، یا ہم ڈالیں، اس کے جواب میں فرمایا کہ تم ہی اپنی قوت خرچ کر دیکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور وہ بولے فرعون کے اقبال سے بیشک ہم ہی غالب آنے والے ہیں۔ (۴۴)

تشریح:بعض نے ”بِعِزَّۃِ فِرْعَوْن” کو قسم کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی فرعون کے اقبال کی قسم ہم ہی غالب ہو کر رہیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ ناگاہ نگلنے لگا جو انہوں نے ڈھکوسلا بنایا تھا۔ (۴۵)

تشریح:شیخ اکبر نے لکھا ہے کہ خالی رسیاں اور لاٹھیاں رہ گئیں جو سانپوں کی صورتیں انہوں نے بنائی تھیں، موسٰی کا عصا ان کو نگل گیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جادو گر سجدہ کرتے ہوئے گر پڑے۔ (۴۶)

وہ بولے ہم سارے جہانوں کے رب پر ایمان لائے۔ (۴۷)

(جو) رب ہے موسیٰ اور ہارون کا۔ (۴۸)

فرعون نے کہا تم اس پر (اس سے ) پہلے ایمان لے آئے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ البتہ تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے ، پس تم جلد جان لو گے ، میں ضرور تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالوں گا، دوسری طرف کے (ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پاؤں) اور ضرور تم سب کو سولی دوں گا۔ (۴۹)

تشریح:یعنی موسٰی تمہارا بڑا استاد ہے ، آپس میں سازش کر کے آئے ہو کہ تم یہ کرنا، ہم یوں کہیں گے اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”تمہارا بڑا” کہا رب کو ”یعنی موسٰی اور تم ایک استاد کے شاگرد ہو” واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے کچھ حرج نہیں بیشک ہم اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (۵۰)

تشریح:یعنی بہرحال مر کر خدا کے یہاں جانا ہے ، اس طرح مریں گے ، شہادت کا درجہ ملے گا، یہ سب مضامین سورہ ”اعراف” وغیرہ میں گزر چکے ہیں۔ وہاں دیکھ لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے کہ ہم پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ (۵۱)

تشریح:یعنی موسٰی علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے بعد بھرے مجمع میں ظالم فرعون کے روبرو سب سے پہلے ہم نے قبول حق کا اعلان کیا۔ اس سے امید ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ ہماری گذشتہ تقصیرات کو معاف فرمائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو لے کر نکل بیشک تم پیچھا کئے جاؤ گے (تمہارا تعاقب ہو گا)۔ (۵۳)

تشریح:یعنی جب ایک مدت مدید تک سمجھانے اور آیات دکھلاتے رہنے کے بعد بھی فرعون نے حق کو قبول نہ کیا اور ”بنی اسرائیل” کو ستانا نہ چھوڑا، تو ہم نے موسٰی کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو لے کر رات میں یہاں سے ہجرت کر جاؤ۔ اور دیکھنا یہ فرعونی لوگ تمہارا پیچھا کریں گے (گھبرانا نہیں)۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس فرعون نے شہروں میں نقیب بھیجے۔ (۵۳)

تشریح:تاکہ تمام قبطیوں کو جمع کر کے بنی اسرائیل کا تعاقب کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک یہ لوگ ایک تھوڑی (چھوٹی سی) جماعت ہیں۔ (۵۴)

اور بیشک ہمیں غصہ میں لانے والے (غصہ دلا رہے ہیں) (۵۵)

اور بیشک ہم ایک جماعت ہیں مسلح محتاط۔ (۵۶)

تشریح:یعنی ان تھوڑے سے آدمیوں نے تم کو تنگ کر رکھا ہے۔ حالانکہ ان کی ہستی کیا ہے جو تمہارے مقابلہ میں عہدہ برآ ہو سکیں۔ یہ باتیں قوم کو غیرت اور جوش دلانے کے لیے کہیں۔ یا ہم کو غصہ دلا رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان کی کم بختی نے دھکا دیا ہے۔ تو اس روز روز کے خطرہ کا قلع قمع ہی کر دو۔ بعض مفسرین نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ ہماری بڑی جمعیت ہے جو محتاط یا مسلح ہے تو یہ الفاظ دل بڑھانے کے لیے ہوں گے۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

(ارشاد الہی ہے ) پس ہم نے انہیں باغات سے اور چشموں سے نکالا۔ (۵۷) اور خزانوں سے اور عمدہ ٹھکانوں سے نکالا۔ (۵۸)

اسی طرح ہم نے ان کا وارث بنایا بنی اسرائیل کو۔ (۵۹)

تشریح:یعنی اس طرح قبطی گھر بار، مال و دولت، باغ اور کھیتیاں چھوڑ کر بنی اسرائیل کے تعاقب میں ایک دم نکل پڑے۔ جنہیں پھر لوٹنا نصیب نہ ہوا۔ گویا اس تدبیر سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نکال باہر کیا۔ یا تو اس کے بعد ہی یہ چیزیں بنی اسرائیل کے ہاتھ لگیں اور یا ایک مدت بعد سلیمان علیہ السلام کے عہد میں ملک مصر بھی ان کی سلطنت میں شامل ہوا۔ واللہ اعلم۔ پہلے اس کے متعلق اختلاف گزر چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس انہوں نے سورج نکلتے (صبح سویرے ) ان کا پیچھا کیا۔ (۶۰) پس جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو موسیٰ کے ساتھی کہنے لگے ، یقیناً ہم پکڑ لئے گئے۔ (۶۱)

تشریح:یعنی بحر قلزم کے کنارہ پہنچ کر بنی اسرائیل پار ہونے کی فکر کر رہے تھے کہ پیچھے سے فرعونی لشکر نظر آیا گھبرا کر موسٰی علیہ السلام سے کہنے لگے کہ اب ان کے ہاتھ سے کیسے بچیں گے۔ آگے سمندر حائل ہے اور پیچھے سے دشمن دبائے چلا آ رہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

موسیٰ نے کہا، ہر گز نہیں، بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے جلد (بچ نکلنے کی) راہ دکھائے گا۔ (۶۲)

تشریح:یعنی گھبراؤ نہیں، اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھو، اس کی حمایت و نصرت میرے ساتھ ہے۔ وہ یقیناً ہمارے لیے کوئی راستہ نکال دے گا۔ ناممکن ہے کہ دشمن ہم کو پکڑ سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تو اپنا عصا دریا پر مار (انہوں نے مارا) تو دریا پھٹ گیا، پس ہر حصہ بڑے بڑے پہاڑ کی طرح ہو گیا۔ (۶۳) اور ہم نے اس جگہ دوسروں کو (فرعونیوں کو) قریب کر دیا۔ (۶۴)

تشریح:پانی بہت گہرا تھا۔ بارہ جگہ سے پھٹ کر خشک راستے بن گئے۔ بارہ قبیلے بنی اسرائیل کے الگ الگ ان میں سے گزرے اور بیچ میں پانی کے پہاڑ کھڑے رہ گئے۔ (کذا فی موضح القرآن)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے موسیٰ کو اور جو ان کے ساتھ تھے سب کو بچا لیا۔ (۶۵) پھر ہم نے دوسروں کو غرق کر دیا۔ (۶۶)

تشریح:یعنی فرعونی لشکر بھی قریب آ گیا اور دریا میں راستے بنے ہوئے دیکھ کر بنی اسرائیل کے بعد بے سوچے سمجھے گھس پڑا۔ جب تمام لشکر دریا کی لپیٹ میں آ گیا، فوراً خدا کے حکم سے پانی کے پہاڑ ایک دوسرے سے مل گئے۔ یہ قصہ پہلے گزر چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اس میں ایک نشانی ہے ، اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۶۷)

اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۶۸)

تشریح:یعنی جب اکثروں نے حق قبول نہ کیا تو آخر میں قدرت نے یہ نشان دکھلایا۔ جس سے صادقین اور مکذبین کے انجام کا دنیا ہی میں الگ الگ پتہ چل جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہیں ابراہیم کا واقعہ پڑھ کر (سنائیں) (۶۹)

جب انہوں نے اپنے باپ کو کہا اور اپنی قوم کو، تم کس کی پرستش کرتے ہو؟ (۷۰)

انہوں نے کہا   ہم بتوں کی پرستش کرتے ہیں، پس ہم ان کے پاس جمے بیٹھے رہتے ہیں۔ (۷۱)

تشریح:یعنی تم ہمارے معبودوں کو جانتے نہیں، جو ایسی تحقیر سے سوال کر رہے ہو۔ ہم ان مورتوں کو پوجتے ہیں اور اس قدر وقعت و عقیدت ہمارے دل میں ہے کہ دن بھر آسن جما کر ان ہی کو لگے بیٹھے رہتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا  کیا وہ تمہاری سنتے ہیں جب تم پکارتے ہو؟ (۷۲) یا وہ تمہیں نفع پہنچاتے ہیں؟ (۷۳)

تشریح:یعنی اتنا پکارنے پر کبھی تمہاری بات سنتے ہیں؟ اگر نہیں سنتے (جیسا کہ ان کے جماد ہونے سے ظاہر ہے ) تو پکارنا فضول ہے۔

کیا پوجنے پر کچھ نفع یا نہ پوجنے کی صورت میں کچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے جو اپنے اوپر سے مکھی تک نہ اڑا سکیں وہ دوسرے کو کیا نفع نقصان پہنچا سکیں گے ؟ پھر ایسی عاجز و لایعقل چیز کو معبود بنانا کہاں کی عقلمندی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے (نہیں تو) بلکہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے پایا ہے۔ (۷۴)

تشریح:یعنی ان منطقی بحثوں اور کج حجتیوں کو ہم نہیں جانتے ، نہ ہماری عقیدت اور پرستش کا مدار ان باتوں پر ہے بس سو دلیلوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ ہمارے بڑے اسی طرح کرتے چلے آئے۔ یا ہم ان سب کو احمق سمجھ لیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

ابراہیم نے کہا کیا پس تم نے دیکھا (غور بھی کیا) کس کی تم پرستش کرتے تھے۔ (۷۴) تم اور تمہارے پہلے باپ دادا۔ (۷۶)

تشریح:یعنی ان کا پوجنا ایک پرانی حماقت ہے ، ورنہ جس کے اختیار اور قبضہ میں ذرہ برابر نفع نقصان نہ ہو اس کی عبادت کیسی؟

(تفسیرعثمانی)

 

تو بیشک وہ میرے دشمن ہیں مگر (میں عبادت کرتا ہوں) سارے جہانوں کے رب کی۔ (۷۷)

تشریح:یعنی لو! میں بے خوف و خطر اعلان کرتا ہوں کہ تمہارے ان معبودوں سے میری لڑائی ہے۔ میں ان کی گت بنا کر رہوں گا۔ ”وَتَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ۔ ” (انبیاء، رکوع٥’آیت ٥٧) اگر ان میں کوئی طاقت ہے تو مجھ کو نقصان پہنچا دیکھیں۔ کما قال تعالیٰ فی موضع آخر۔ ”وَلاَ اَخَافُ مَاتُشْرِکُونَ بِہاِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ رَبِّی شَیَئًا۔ ” الآیۃ (انعام، رکوع٩’آیت ٨٠) وقال نوح علیہ السلام ”فَاجْمِعُوْ ا اَمَرَکُمْ وَشُرَکَآءَکُمْ۔ ” (یونس، رکوع ٨ ‘آیت ٧١) وقال ہود علیہ السلام ”فَکِیْدُونِی جَمِیَعًا ثُمَّ لاَ تُنْظِرُونِ ” (ہود، رکوع٥’آیت ٥٥) اور بعض مفسرین نے کہا کہ یہ نہایت موثر و لطیف پیرایہ میں مشرکین پر تعریض ہے۔ یعنی جن کی تم عبادت کر رہے ہو میں ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ اگر نعوذ باللہ ان کی پرستش کروں تو سراسر نقصان ہے۔ اسی سے سمجھ لو کہ تم بھی ان کی عبادت کر کے نقصان اٹھا رہے ہو۔ رب العٰلمین  ہی میرا معبود، دوست اور مددگار ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس نے مجھے پیدا کیا پس وہی مجھے راہ دکھاتا ہے۔ (۷۸) اور وہی جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔ (۷۹)

تشریح:یعنی فلاح دارین کی راہ دکھاتا اور اعلیٰ درجہ کے فوائد و منافع کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جو مجھے موت (سے ہمکنار) کرے گا، پھر مجھے زندہ کرے گا۔ (۸۱)

تشریح:یعنی کھلانا پلانا، مارنا جِلانا اور بیماری سے اچھا کرنا، سب اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ مجھے روز قیامت میری خطائیں بخش دے گا۔ (۸۲)

تشریح:یعنی کسی معاملہ میں بھول چوک یا اپنے درجہ کے موافق خطاء و تقصیر ہو جائے تو اس کی مہربانی سے معافی کی توقع ہو سکتی ہے ، کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ آگے حق تعالیٰ کے کمالات اور مہربانیوں کا ذکر کرتے کرتے حضرت ابراہیم نے غلبہ حضور سے دعا شروع کر دی جو کمال عبدیت کے لوازم میں سے ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میرے رب! مجھے حکم و حکمت عطا فرما اور مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دے۔ (۸۳)

تشریح:یعنی مزید علم و حکمت اور درجاتِ قرب و قبول مرحمت فرما، اور اعلیٰ درجہ کے نیکوں کے زمرہ میں (جو انبیاء علیہم السلام ہیں) شامل رکھ۔ کما قال نبینا صلی اللہ علیہ وسلم ”اَللّٰہُمَّ فِی الرَّفِیقِ الْاَعْلٰی” اس دعا سے اپنی کامل احتیاج اور حق تعالیٰ کی غناء کا اظہار مقصود ہے یعنی نبی ہو یا ولی، اللہ تعالیٰ کسی کے معاملہ میں مجبور و مضطر نہیں، ہمہ وقت اس کے فضل و رحمت سے کام چلتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور میرا ذکر خیر (جاری) رکھ بعد میں آنے والوں میں۔ (۸۴)

تشریح:یعنی ایسے اعمالِ مرضیہ اور آثارِ حسنہ کی توفیق دے کر پیچھے آنے والی نسلیں ہمیشہ میرا ذکر خیر کریں اور میرے راستہ پر چلنے کی طرف راغب ہوں۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آخر زمانے میں میرے گھرانے سے نبی ہو اور امت ہو، اور میرا دین تازہ کریں۔ چنانچہ یہی ہوا کہ حق تعالیٰ نے ابراہیم کو دنیا میں قبولِ عام عطا فرمایا۔ ان کی نسل سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا جنہوں نے ملت ابراہیمی کی تجدید کی اور فرمایا کہ میں ابراہیم کی دعا ہوں، آج بھی ابراہیم کا ذکرِ خیر اہل ملل کی زبانوں پر جاری ہے اور امت محمدیہ تو ہر نماز میں ”کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ” اور ”کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ ” پڑھتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور مجھے نعمتوں والی بہشت کے وارثوں میں سے بنا دے۔ (۸۵)

اور میرے باپ کو بخش دے ، بیشک وہ گمراہوں میں سے ہے۔ (۸۶)

تشریح:سورۂ مریم (۱۹:۴۷) میں گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالی سے اس کی مغفرت کی دعا کریں گے ، لیکن جب اللہ تعالی کی طرف سے ممانعت آ گئی اور معلوم ہو گیا کہ وہ کبھی ایمان نہیں لائے گا تو انہوں نے بھی اس سے براءت کا اظہار فرما دیا، جیسا کہ سورۂ توبہ (۹:۱۱۴) میں گزر چکا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور مجھے اس دن رسوا نہ کرنا جب سب اٹھائے جائیں گے۔ (۸۷) جس دن نہ کام آئے گا مال اور نہ بیٹے۔ (۸۸)

مگر جو اللہ کے پاس پاک (بے عیب) دل لے کر آیا۔ (۸۹)

تشریح:یعنی بھلا چنگا بے روگ دل جو کفر و نفاق اور فاسد عقیدوں سے پاک ہو گا وہی وہاں کام دے گا۔ نرے مال و اولاد کچھ کام نہ آئیں گے۔ اگر کافر چاہے کہ قیامت میں مال و اولاد فدیہ دے کر جان چھڑا لے ، تو ممکن نہیں۔ یہاں کے صدقات و خیرات اور نیک اولاد سے بھی کچھ نفع کی توقع اسی وقت ہے جب اپنا دل کفر کی پلیدی سے پاک ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جنت پرہیز گاروں کے نزدیک کر دی جائے گی (۹۰)

اور دوزخ ظاہر کر دی جائے گی گمراہوں کے لئے۔ (۹۱)

تشریح: یعنی محشر میں جنت مع اپنی انتہائی آرائش و زیبائش کے متقین کو قریب نظر آئے گی۔ جسے دیکھ کر داخل ہونے سے پہلے ہی مسرور و محفوظ ہوں گے۔ اسی طرح دوزخ کو مجرموں کے پاس لے آئیں گے تاکہ داخل ہونے سے پیشتر ہی خوف کھا کر لرزنے لگیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہیں کہا جائے گا کہاں ہیں وہ جن کی تم پرستش کرتے تھے۔ (۹۲)

اللہ کے سوا، کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں، یا (خود) بدلہ دے سکتے ہیں؟ (۹۳)

تشریح:یعنی اب وہ فرضی معبود کہاں گئے کہ نہ تمہاری مدد کر کے اس عذاب سے چھڑا سکتے ہیں نہ بدلہ لے سکتے ہیں، بلکہ خود اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس وہ اور گمراہ اس (جہنم ) میں اوندھے منہ ڈالے جائیں گے۔ (۹۴)

اور ابلیس کے لشکر سب کے سب۔ (۹۵)

وہ کہیں گے جب کہ وہ جہنم میں (باہم) جھگڑتے ہوں گے۔ (۹۶)

اللہ کی قسم! بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ (۹۷)

جب ہم تمہیں سارے جہانوں کے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے تھے۔ (۹۸)

اور ہمیں صرف مجرموں نے گمراہ کیا۔ (۹۹)

پس ہمارا کوئی سفارش کرنے والا نہیں۔ (۱۰۰)

اور نہ کوئی   غم خواردوست ہے۔ (۱۰۱)

تشریح:یعنی بت اور بت پرست اور ابلیس کا سارا لشکر، سب کو دوزخ میں اوندھے منہ گرا دیا جائے گا۔ وہاں پہنچ کر آپس میں جھگڑیں گے۔ ایک دوسرے کو الزام دے گا اور آخرکار اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے کہ واقعی ہم سے بڑی سخت غلطی ہوئی کہ تم کو (یعنی بتوں کو یا دوسری چیزوں کو جنہیں خدائی کے حقوق و اختیار دے رکھے تھے ) رب العالمین کے برابر کر دیا۔ کیا کہیں یہ غلطی ہم سے ان بڑے شیطانوں نے کرائی، اب ہم اس مصیبت میں گرفتار ہیں نہ کوئی بت کام دیتا ہے نہ شیطان مدد کو پہنچتا ہے۔ وہ خود ہی دوزخ کے کندے بن رہے ہیں۔ کوئی اتنا بھی نہیں کہ خدا کے یہاں ہماری سفارش کر دے یا کم از کم اس آڑے وقت میں کوئی دوست دلسوزی و ہمدردی کا اظہار کرے۔ سچ ہے ”اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدَوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ۔ ” (زخرف، رکوع٦’آیت ٦٧)۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس کاش ہمارے لئے دوبارہ (دنیا میں) لوٹنا ہوتا تو ہم مؤمنوں میں سے ہوتے۔ (۱۰۲)

تشریح:یعنی اگر ایک مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس جانے کا موقع دیا جائے تو اب وہاں سے پکے ایماندار بن کر آئیں لیکن یہ کہنا بھی جھوٹ ہے۔ ” وَلَوْ رُدُّوْا لْعَادُوْا لِمَا نُہُوا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ۔ ” (انعام، رکوع٣’آیت ٢٨)۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اس میں البتہ ایک نشانی ہے ، اور ان میں اکثر ایمان لانے والے نہیں۔ (۱۰۳)

تشریح:یعنی ابراہیم کے اس قصہ میں توحید وغیرہ کے دلائل اور مشرکین کا عبرتناک انجام دکھلایا گیا ہے مگر لوگ کہاں مانتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب ہے ، نہایت مہربان ہے۔ (۱۰۴)

نوح کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۰۵)

(یاد کرو) جب ان کے بھائی نوح نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۰۶)

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۰۷)

پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۰۸)

تشریح:یعنی نہایت صدق و امانت کے ساتھ حق تعالیٰ کا پیغام بلا کم و کاست تم کو پہنچاتا ہوں۔ لہٰذا واجب ہے کہ پیغام الٰہی سن کر خدا سے ڈرو۔ اور میرا کہا مانو۔

(تفسیرعثمانی)

 

میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۰۹)

پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۱۰)

وہ بولے کیا ہم تجھ پر ایمان لے آئیں ؟جبکہ تیری پیروی رذیلوں نے کی ہے۔ (۱۱۱)

تشریح:یعنی تھوڑے سے کمینے اور نیچ قوم کے لوگ اپنی نمود کے لیے تیرے ساتھ ہو گئے ہیں، بھلا یہ کیا اونچے کام کریں گے اور ہمارا فضل و شرف کب اجازت دے سکتا ہے کہ ان کمینوں کے دوش بدوش تمہاری مجلس میں بیٹھا کریں، پہلے تو آپ ان کو اپنے یہاں سے کھسکائیے۔ پھر ہم سے بات کرنا۔

(تفسیرعثمانی)

 

نوح نے کہا مجھے کیا خبر وہ کیا (کام کاج) کرتے تھے۔ (۱۱۲)

ان کا حساب صرف میرے رب پر ہے ، اگر تم سمجھو۔ (۱۱۳)

اور میں مؤمنوں کو (اپنے پاس سے ) دور کرنے والا نہیں۔ (۱۱۴)

میں تو صرف صاف صاف طور پر ڈرانے والا ہوں۔ (۱۱۵)

تشریح:یعنی مجھے ان کا صدق و ایمان قبول ہے ، ان کے پیشے یا نیت اور اندرونی کاموں کے جاننے سے کیا مطلب۔ اس کا فیصلہ اور حساب تو پروردگار کے یہاں ہو گا۔ باقی میں تمہاری خاطر سے غریب ایمانداروں کو اپنے پاس سے دھکے نہیں دے سکتا۔ میرا فرض تم کو آگاہ کر دینا تھا سو کر چکا، تمہاری لغو فرمائشیں پوری کرنا میرے ذمہ نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بولے اے نوح!اگر تم باز نہ آئے تو ضرور سنگسار کر دئے جاؤ گے۔ (۱۱۶)

تشریح:یعنی بس اب ہم کو اپنی نصیحت سے معاف رکھو، اگر اس روش سے باز نہ آئے تو سنگسار کیے جاؤ گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

 

نوح نے کہا اے میرے رب! بیشک میری قوم نے مجھے جھٹلایا۔ (۱۱۷)

پس میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ فرما دے اور مجھے نجات دے اور جو میرے ساتھی ایمان والے ہیں۔ (۱۱۸)

تشریح: یعنی میرے اور ان کے درمیان عملی فیصلہ فرما دیجئے۔ اب ان کے راہِ راست پر آنے کی توقع نہیں۔ مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو الگ کر کے ان کا بیڑا غرق کر۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ بھری ہوئی کشتی میں سوار تھے (انہیں) نجات دی۔ (۱۱۹)

پھر اس کے بعد ہم نے باقیوں کو غرق کر دیا۔ (۱۲۰)

بیشک اس میں ایک نشانی ہے ، اور ان کے اکثر نہ تھے ایمان لانے والے۔ (۱۲۱)

اور بیشک تمہارا رب غالب ہے ، نہایت مہربان۔ (۱۲۲)

اس قصہ کی تفصیل پہلے کئی جگہ گزر چکی۔

(تفسیرعثمانی)

 

( قوم) عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۲۳)

جب ان سے ان کے بھائی ہود نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۲۴)

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۲۵)

سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۲۶)

میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۲۷)

کیا تم ہر بلندی پر بلا ضرورت ایک نشانی تعمیر کرتے ہو؟ (۱۲۸)

اور تم بناتے ہو مضبوط، شاندار محل کہ شاید تم ہمیشہ رہو گے۔ (۱۲۹)

تشریح:ان لوگوں کو بڑا شوق تھا اونچے مضبوط منارے بنانے کا جس سے کچھ کام نہ نکلے ، مگر نام ہو جائے اور رہنے کی عمارتیں بھی بڑے تکلف کی بناتے تھے مال ضائع کرنے کو۔ ان میں بڑی کاریگریاں دکھلاتے گویا یہ سمجھتے تھے کہ ہمیشہ یہیں رہنا ہے اور یہ یادگاریں اور عمارتیں کبھی برباد نہ ہوں گی۔ (لیکن آج دیکھو تو ان کے کھنڈر بھی باقی نہیں)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب تم (کسی پر) گرفت کرتے ہو تو جابر (ظالم) بن کر گرفت کرتے ہو۔ (۱۳۰)

تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۳۱)

تشریح:یعنی ظلم و ستم سے زیر دستوں اور کمزوروں کو تنگ کر رکھا ہے۔ گویا انصاف اور نرمی کا سبق ہی نہیں پڑھا۔ خدا کی ضعیف مخلوق کو جبرو تعدی کا تختہ، مشق بنا رکھا ہے۔ سو اللہ سے ڈرو، ظلم و تکبر سے باز آؤ، اور میری بات مانو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس سے ڈرو جس نے اس سے تمہاری مدد کی جو تم جانتے ہو۔ (۱۳۲)

(یعنی ) مویشیوں اور بیٹوں سے تمہاری مدد کی۔ (۱۳۳)

اور باغات اور چشموں سے۔ (۱۳۴)

بیشک میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ (۱۳۵)

تشریح:یعنی اتنا تو سوچو کہ آخر یہ سا مان تم کو کس نے دیے ہیں؟ کیا اس منعم حقیقی کا تمہارے ذمہ کوئی حق نہیں۔ اگر تمہاری یہ ہی شرارت اور سرکشی رہی تو مجھے اندیشہ ہے کہ پہلی قوموں کی طرح کسی سخت آفت میں گرفتار نہ ہو جاؤ۔ دیکھو! میں تم کو نصیحت کر چکا۔ اپنے انجام کو خوب سوچ لو۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے برابر ہے ہم پر خواہ تم نصیحت کرو یا نصیحت کرنے والوں میں سے نہ ہو۔ (۱۳۶)

(کچھ بھی) نہیں ہے ، مگر عادت ہے اگلے لوگوں کی۔ (۱۳۷)

اور ہم عذاب دئے جانے والوں میں سے نہیں۔ (۱۳۸)

تشریح:یعنی تمہاری نصیحت بیکار ہے۔ یہ جادو ہم پر چلنے والا نہیں۔ قدیم سے یہ عادت چلی آتی ہے کہ کچھ لوگ نبی بن کر عذاب سے ڈرایا کرتے ہیں اور مرنے جینے کا سلسلہ بھی پہلے سے چلا آتا ہے تو اس سے ہم کو کیا اندیشہ ہو سکتا ہے ، رہا جو طریقہ ہمارا ہے وہ ہی ہمارے اگلے باپ دادوں کا تھا۔ ہم اس سے کسی طرح ہٹنے والے نہیں۔ نہ عذاب کی دھمکیوں کو خاطر میں لا سکتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر انہوں نے اسے جھٹلایا اور ہم نے انہیں ہلاک کر دیا، بیشک اس میں نشانی ہے اور نہ تھے ان کے اکثر ایمان لانے والے۔ (۱۳۹)

اور بیشک تمہارا رب غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۴۰)

ان کا قصہ بھی پہلے ”اعراف” وغیرہ میں مفصل گزر چکا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

( قوم) ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۴۱)

جب ان سے ان کے بھائی صالح نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۴۲)

تشریح:  قوم ثمود اور حضرت صالح علیہ السلام کا تعارف پیچھے سورۂ اعراف (۷۔ ۷۲) اور سورۂ ہود (۱۱۔ ۶۱تا ۶۸) میں گزر چکا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۴۳)

سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۴۴)

میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۴۵)

کیا تم یہاں کی چیزوں (نعمتوں) میں بے فکر چھوڑ دئے جاؤ گے ؟ (۱۴۶)

باغات اور چشموں میں۔ (۱۴۷)

اور کھیتیوں میں اور نرم و نازک خوشوں والی کھجوروں میں۔ (۱۴۸)

اور تم خوش ہو کر پہاڑوں سے گھر تراشتے ہو۔ (۱۴۹)

سو اللہ سے ڈرو ا ور میری اطاعت کرو۔ (۱۵۰)

تشریح:یعنی کیا یہ خیال ہے کہ ہمیشہ اسی عیش و آرام اور باغ و بہار کے مزے لوٹو گے ؟ اور پہاڑوں کو تراش کر جو تکلف کے مکان تیار کیے ہیں ان سے کبھی نہ نکلو گے ؟ یا یہ مضبوط اور سنگین عمارتیں تم کو خدا کے عذاب سے بچا لیں گی؟ اس سودائے خام کو دل سے نکال ڈالو۔ اور خدا تعالیٰ سے ڈر کر میرا کہا مانو۔ میں تمہارے بھلے کی کہتا ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور حد سے بڑھ جانے والوں کا کہا نہ مانو۔ (۱۵۱)

جو فساد کرتے ہیں زمین میں اور اصلاح نہیں کرتے۔ (۱۵۲)

تشریح:یہ عوام کو فرمایا کہ تم ان بڑے مفسد شیطانوں کے پیچھے چل کر تباہ نہ ہو۔ یہ تو زمین میں خرابی پھیلانے والے ہیں۔ اصلاح کرنے والے اور نیک صلاح دینے والے نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

انہوں نے کہا اس کے سوا نہیں کہ تم سحر زدہ لوگوں میں سے ہو۔ (۱۵۳)

تم نہیں مگر (صرف) ہم جیسے ایک بشر ہو، پس اگر تم سچے لوگوں میں سے ہو (سچے ہو) تو کوئی نشانی لے آؤ۔ (۱۵۴)

تشریح:یعنی ہم سے کون سی بات تجھ میں زائد ہے جو نبی بن گیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے جادو کر دیا ہے جس سے تیری عقل ماری گئی (العیاذ باللہ) اگر نبی ہے اور ہم سے ممتاز درجہ رکھتا ہے تو اللہ سے کہہ کر کوئی ایسا نشان دکھلا جسے ہم بھی تسلیم کر لیں پھر فرمائش کی کہ اچھا پتھر کی اس چٹان میں سے ایک اونٹنی نکال دے جو ایسی اور ایسی ہو۔ حضرت صالح نے دعا فرمائی، حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ نشان دکھلا دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

صالح نے فرمایا یہ اونٹنی ہے ایک معین دن اس کے لئے پانی پینے کی باری ہے اور (ایک دن) تمہارے لئے پانی پینے کی باری ہے۔ (۱۵۵)

تشریح:حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”اونٹنی پیدا ہوئی پتھر میں سے اللہ کی قدرت سے ، حضرت صالح کی دعا سے وہ چھوٹی پھرتی، جس جنگل میں چرنے یا جس تالاب پر پانی پینے جاتی سب مواشی بھاگ کر کنارے ہو جاتے۔ تب یوں ٹھہرا دیا کہ ایک دن اس پانی پر وہ جائے ، ایک دن اوروں کے مواشی جائیں۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں آ پکڑے گا ایک بڑے دن کا عذاب۔ (۱۵۶)

تشریح:یعنی اونٹنی کے ساتھ برائی سے پیش نہ آنا ورنہ بڑی سخت آفت ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پس پشیمان رہ گئے۔ (۱۵۷)

پھر انہیں عذاب نے آ پکڑا، بیشک اس (واقعہ) میں البتہ نشانی (بڑی عبرت) ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں۔ (۱۵۸)

اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۵۹)

تشریح:ایک بدکار عورت کے گھر مواشی بہت تھے ، چارے اور پانی کی تکلیف سے اپنے ایک آشنا کو اکسایا، اس نے اونٹی کے پاؤں کاٹ کر ڈال دیے ، اس کے تین دن بعد عذاب آیا (موضح القرآن) یہ قصہ بھی پہلے مفصل گزر چکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

قوم لوط نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۶۰)

جب ان سے ان کے بھائی لوط نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۶۱)

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۶۲)
پس تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۶۳)

میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۶۴)

کیا تم مردوں کے پاس (بد فعلی) کے لئے آتے ہو؟دنیا جہانوں میں سے۔ (۱۶۵)

تشریح:یعنی سارے جہان میں سے مرد ہی تمہاری شہوت رانی کے لیے رہ گئے ، یا یہ کہ سارے جہان میں سے تم ہی ہو جو اس فعل شنیع کے مرتکب ہوتے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم چھوڑ دیتے ہو (انہیں) جو تمہارے رب نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں، (نہیں) بلکہ تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہو۔ (۱۶۶)

تشریح:یعنی یہ خلافِ فطرت کام کر کے آدمیت کی حد سے بھی نکل چکے ہو۔ (تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے اے لوط ! اگر تم باز نہ آئے تو ضرور (بستی سے ) نکالے جاؤ گے۔ (۱۶۷)

تشریح:یعنی یہ وعظ و نصیحت رہنے دو۔ اگر آئندہ ہمیں تنگ کرو گے تو تم کو بستی سے نکال باہر کریں گے۔ (تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا بیشک میں تمہارے فعل (بد) سے نفرت کرنے والا ہوں۔ (۱۶۸)

تشریح:اس لئے ضرور اس پر اظہارِ نفرت کروں گا اور نصیحت سے باز نہیں آسکتا۔ (تفسیرعثمانی)

 

اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو اس (کے وبال سے ) نجات دے جو وہ کرتے ہیں۔ (۱۶۹)

تو ہم نے اسے نجات دی اور اس کے سب گھر والوں کو۔ (۱۷۰)

تشریح:یعنی ان کی نحوست اور وبال سے ہم کو بچا اور انہیں غارت کر۔ (تفسیرعثمانی)

 

سوائے ایک بڑھیا کے رہ گئی پیچھے رہ جانے والوں میں۔ (۱۷۱) پھر ہم نے دوسروں کو ہلاک کر دیا۔ (۱۷۲)

تشریح:یہ ان کی بیوی تھی جو ان بدمعاشوں سے مل رہی تھی۔ جب عذاب آیا تو یہ بھی ہلاک ہوئی۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ان پر (پتھروں کی) بارش برسائی، پس کیا ہی بُری بارش (اُن پر جنہیں عذاب سے ) ڈرایا گیا۔ (۱۷۳)

تشریح:یعنی ان کی بستیاں الٹ دیں اور آسمان سے پتھروں کا برساؤ کیا۔ سو ڈھیر ہو کر رہ گئے۔ ان کا قصہ مفصل بھی اعراف وغیرہ میں گزر چکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اس میں ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۱۷۴)

اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۷۵)

ایکہ (بن) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (۱۷۶)

(یاد کرو) جب شعیب نے ان سے کہا کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۱۷۷)

تشریح:ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ”اصحاب ایکہ” وہ ہی قوم مدین ہے۔ ”ایکہ” ایک درخت تھا جسے یہ لوگ پوجتے تھے ، اسی نسبت سے ”اصحاب الایکہ” کہا گیا۔ اور اسی لیے شعیب کو ”اَخُوہُمْ” سے تعبیر نہیں فرمایا۔ کیونکہ انبیاء کی اخوت محض قومی و نسبی تعلقات پر مبنی تھی۔ اگر ”مدین” کہتے تو ”اَخُوہُم”کہنا موزوں تھا۔ جب ”اصحاب الایکہ” کہہ کر ایک مذہبی نسبت سے ذکر کیا تو اس حیثیت سے ”اَخُوہُم” فرمانا حضرت شعیب کی شان کے مناسب نہ تھا۔ بہرحال ”مدین” اور ”اصحاب ایکہ” ایک قوم ہے اور شعیب اسی قوم کی طرف مبعوث ہوئے تھے پہلے بھی اس کے متعلق کچھ بحث گزر چکی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک میں تمہارے لئے امانت دار رسول ہوں۔ (۱۷۸)

سو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ (۱۷۹)

میں اس پر تم سے نہیں مانگتا کوئی اجر، میرا اجر تو صرف (اللہ) رب العالمین پر ہے۔ (۱۸۰)

تم ماپ پورا کرو اور نقصان دینے والوں میں سے نہ ہو۔(۱۸۱)

اور وزن کرو ٹھیک سیدھی ترازو سے۔ (۱۸۲)

تشریح:یعنی معاملات میں خیانت اور بے انصافی مت کرو جس طرح لینے کے وقت پورا ناپ تول کر لیتے ہو دیتے وقت بھی پورا ناپ تول کر دو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو، اور زمین میں نہ پھرو فساد مچاتے ہوئے۔ (۱۸۳)

تشریح:یعنی ملک میں ڈاکے مت ڈالو اور لوگوں کے حقوق نہ مارو۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور ڈرو اس (ذات پاک) سے جس نے تمہیں پیدا کیا اور پہلی مخلوق کو۔ (۱۸۴)

کہنے لگے اس کے سوا نہیں کہ تو سحرزدگان میں سے ہے۔ (۱۸۵)

اور تو صرف ہم جیسا ایک بشر ہے ، اور البتہ ہم تجھے جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ (۱۸۶)

سو تو ہم پر آسمان کا ایک ٹکڑا گرا دے اگر تو سچوں میں سے ہے (سچا ہے )۔ (۱۸۷)

تشریح:  اگر سچا ہے تو آسمان کا یا بادل کا کوئی ٹکڑا گروا کر ہم کو ہلاک کیوں نہیں کر دیتا۔ (تفسیرعثمانی)

 

شعیب نے فرمایا، میرا رب خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ (۱۸۸)

تشریح:یعنی و ہی جانتا ہے کہ کس جرم پر کس وقت اور کتنی سزا ملنی چاہیے۔ عذاب دینا ہمارا کام نہیں۔ ہمارا کام ہوشیار کر دینا تھا، سو کر چکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو انہوں نے اسے جھٹلایا، پس انہیں (آگ کے ) سائبان والے دن عذاب نے آ پکڑا، بیشک وہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔ (۱۸۹)

تشریح:سائبان کی طرح ابر آیا اس میں سے آگ برسی، نیچے سے زمین کو بھونچال آیا اور سخت ہولناک آواز آئی۔ اس طرح سب قوم تباہ ہو گئی۔ ان کا قصہ بھی پہلے مفصل گزر چکا ہے۔ ایک نظر وہاں کے فوائد پر ڈال لی جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک اس میں ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (۱۹۰) اور بیشک تمہارا رب البتہ غالب، نہایت مہربان ہے۔ (۱۹۱)

 

اور بیشک یہ ( قرآن) سارے جہانوں کے رب کا اتارا ہوا ہے۔ (۱۹۲)

اس کو لے کر اترا ہے جبرئیل امین۔ (۱۹۳)

تمہارے دل پر، تاکہ تم ڈر سنانے والوں میں سے ہو۔ (۱۹۴)

تشریح: آغازِ سورت میں قرآنِ کریم کا ذکر تھا اور اس کی تکذیب پر دھمکی دی گئی تھی، درمیان میں مکذبینِ حق کے واقعات بیان ہوئے ، یہاں سے پھر مضمونِ سابق کی طرف عود کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کریم وہ مبارک اور عظیم الشان کتاب ہے جسے رب العالمین نے اتارا، جبرئیل امین لے کر اترے اور آپ کے پاک و صاف قلب پر اتاری گئی کیونکہ یہی قلب تھا جو اللہ کے علم میں اس بھاری امانت کو اٹھانے اور سنبھالنے کے لائق تھا۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

روشن واضح عربی زبان میں۔ (۱۹۵)

اور بیشک یہ (اس کا ذکر) پہلے پیغمبروں کے صحیفوں میں ہے۔ (۱۹۶)

تشریح:یعنی قرآن کی اور اس کے لانے والے کی خبر پہلی آسمانی کتابوں میں موجود ہے۔ انبیائے سابقین برابر پیشین گوئی کرتے چلے آئے ہیں۔ چنانچہ باوجود بہت سی تحریف و تبدیلی کے اب تک بھی ایک ذخیرہ اس قسم کی پیشین گوئیوں کا پایا جاتا ہے۔ اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ اس قرآن کے بیشتر مضامین اجمالاً یا تفصیلاً اگلی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ خصوصاً قصص، توحید، رسالت، معاد وغیرہ مضامین جن پر تمام کتب سماویہ اور انبیاء و مرسلین کا اتفاق رہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا یہ ان کے لئے ایک نشانی نہیں؟ کہ اسے جانتے ہیں علمائے بنی اسرائیل۔ (۱۹۷)

تشریح:یعنی علمائے بنی اسرائیل خوب جانتے ہیں کہ یہ وہ ہی کتاب اور پیغمبر ہے جس کی خبر پہلے سے آسمانی صحیفوں میں دی گئی تھی۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے اعلانیہ اور بعض نے اپنی خصوصی مجلسوں میں امر حق کا اقرار کیا ہے اور بعض انصاف پسند اسی علم کی بناء پر مسلمان ہو گئے۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن سلام وغیرہ، غرض ایک منصف فہیم کے لیے جس کا دل حق کی طلب رکھتا اور خدا سے ڈرتا ہو، اس چیز میں بڑی نشانی ہے کہ دوسرے مذاہب کے علماء بھی اپنے دلوں میں قرآن کی حقانیت کو سمجھتے ہیں، گو کسی وجہ سے بعض اوقات اعلان و اقرار کی جرأت نہ کر سکیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر ہم اسے کسی غیر عربی (زبان میں) پر نازل کرتے ، پھر وہ اسے ان کے سامنے پڑھتا (پھر بھی) وہ اس پر ایمان لانے والے نہ ہوتے (ایمان نہ لاتے ) (۱۹۹)

تشریح:یعنی آپ تو فصحائے عرب میں سے ہیں۔ ممکن ہے مشرکین مکہ یوں کہہ دیں کہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصنیف کر لیا ہو گا (حالانکہ قرآن اس حد اعجاز کو پہنچا ہوا ہے جس کا مثل تمام جن و انس بھی بنا کر نہیں لا سکتے ) تاہم کہنے کو یہ احتمال پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کی ہٹ دھرمی، شقاوت اور بدبختی کا حال تو یہ ہے کہ اگر یہ قرآن فرض کرو ہم کسی غیر فصیح عرب یا عجمی انسان پر اتارتے تو جو ایک حرف عربی کا بولنے پر قادر نہ ہوتا، تب بھی یہ لوگ اس کے ماننے والے نہ تھے۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

اسی طرح ہم نے مجرموں کے دلوں میں انکار داخل کر دیا ہے۔ (۲۰۰) وہ اس پر ایمان نہ لائیں گے جب تک وہ دردناک عذاب (نہ) دیکھ لیں۔ (۲۰۱)

تشریح:یعنی جو آدمی جرائم اور گناہوں کا خوگر ہو جاتا ہے اور اپنے قویٰ کو شرارت اور سرکشی میں لگا دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی عادت کے موافق ڈھیل چھوڑ دیتا ہے اور اس کے دل میں انکار و تکذیب کے اثر کو جاگزین کر دیتا ہے۔ یہ تقریر ترجمہ کے موافق ہوئی۔ لیکن بہت سے مفسرین نے ”سلکناہ” کی ضمیر قرآن کی طرف راجع کی ہے۔ یعنی قرآن کو ہم نے اس طرح مجرمین کے دل میں گھسا دیا ہے کہ وہ دل میں خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کلام بشر نہیں ہو سکتا۔ پھر بھی ہٹ دھرمی سے ایمان نہیں لا سکتے اور تکذیب کیے چلے جاتے ہیں تاآنکہ دنیا یا آخرت میں دردناک عذاب کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں، اس وقت مانیں گے کہ ہاں پیغمبر سچے تھے اور جو کتاب لائے تھے وہ سچی تھی، مگر اس وقت ماننا کچھ نفع نہ دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو وہ ان پر اچانک آ جائے گا اور انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ (۲۰۲)

پھر وہ کہیں گے کیا ہمیں مہلت دی جائے گی۔ (۲۰۳)

تشریح:یعنی جب عذابِ الٰہی ایک دم سر پر پہنچ جائے گا اس وقت کہیں گے کیا ہمیں تھوڑی سی مہلت دی جا سکتی ہے کہ اب توبہ کر کے اپنا چال چلن درست کر لیں اور پیغمبروں کا اتباع کر کے دکھلائیں۔ دنیا میں تو عذاب کی جلدی مچا رہے تھے اب مہلت طلب کرنے لگے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس کیا وہ ہمارے عذاب کو جلدی چاہتے ہیں۔ (۲۰۴)

کیا تم نے دیکھا، (ذرا دیکھو) اگر ہم انہیں برسوں فائدہ پہنچائیں۔ (۲۰۵)

پھر ان پر پہنچیں جس کی انہیں وعید کی جاتی تھی۔ (۲۰۶)

جس سے وہ فائدہ اٹھاتے تھے ان کے کیا کام آئے گا ؟ (۲۰۷)

تشریح:یعنی سالہا سال کی ڈھیل اور مہلت بھی جو دی گئی تھی اس وقت کچھ کام نہ آئے گی۔ اس وقت یہ برسوں کی مہلت کا لعدم معلوم ہو گی اور سمجھیں گے کہ واقعی بہت ہی جلدی پکڑے گئے۔ ”کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوآ اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْضُحَاھا” (نازعات، رکوع٢، آیت ٤٦)۔

(تفسیرعثمانی)

 

ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا، مگر اس کے لئے ڈرانے والے۔ (۲۰۸)

نصیحت کے لئے (پہلے بھیجے ) اور ہم ظلم کرنے والے نہ تھے۔ (۲۰۹)

تشریح:یعنی کسی قوم کا تختہ یوں ہی ایک دم نہیں الٹ دیا گیا۔ عذاب بھیجنے سے پہلے کافی مہلت دی گئی اور ہوشیار کرنے والے پیغمبر بھیجے گئے کہ لوگ غفلت میں نہ رہیں، جب کسی طرح نہ مانے آخر غارت کیے گئے العیاذ باللہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نہیں اترے۔ (۲۱۰)

اور ان کو سزا وار نہیں (وہ اس کے قابل نہیں) اور نہ وہ (ایسا) کرسکتے ہیں۔ (۲۱۱)

تشریح:درمیان میں مکذبین کے احوال بیان فرما کر پھر اصل مضمون ”وَاِنَّہ، لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ” کی تکمیل و تمیم فرماتے ہیں۔ یعنی یہ کتاب خدا تعالیٰ کے ہاں سے جبرئیل امین لائے ہیں۔ شیاطین کی سکھلائی ہوئی چیز نہیں۔ بھلا شیاطین سے کہاں ممکن ہے کہ ایسی کتاب بن آئے۔ ان کی طبائع کا خاصہ تو گمراہی، فساد، اور ظلمت پھیلانا ہے۔ اور یہ کتاب اول سے آخر تک رشد و صلاح اور نورِ ہدایت سے بھری ہوئی ہے جس کی تعلیم سے وہ جماعت تیار ہوئی۔ جس سے زیادہ آسمان کے نیچے بجز انبیاء کے کوئی پاک باز، صادق، خدا ترس اور خدا پرست جماعت نہیں تو اس کتاب کے علوم اور شیاطین کی طبائع میں کوئی مناسبت نہیں۔ نہ وہ اس لائق ہیں کہ اس عظیم الشان، متبرک بارِ امانت کو اٹھا سکیں۔ ”لَوْاَنْزَلْنَا ھذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشِیَۃِ اللّٰہِ۔ ” (حشر، رکوع٣’آیت ١٦) روایات میں ہے کہ بعض مشرکین کا خیال تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی جن آ کر یہ قرآن سکھلا جاتا ہے۔ بخاری میں ہے کہ ایک مرتبہ وحی آنے میں کچھ دیر ہوئی تو ایک عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا (نعوذ باللہ) ان آیات میں اسی خیال کی تردید ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بے شک  وہ سننے (کے مقام) سے دور کر دئے گئے ہیں۔ (۲۱۲)

پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ پکارو کہ مبتلائے عذاب لوگوں میں سے ہو جاؤ۔ (۲۱۳)

تشریح:یعنی نزول قرآن کے زمانہ میں اس کی حفاظت کے لیے ایسے غیبی پہرے بٹھائے گئے ہیں کہ شیاطین پاس بھی نہیں پھٹک سکتے نہ ایک حرف اچک سکتے ہیں کما قال تعالیٰ ”وَاِنَّا کُنَّا نَقْعُدُ مِنْہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمْعِ فَمَنْ یَّسْتَمِع الاٰنَ یَجِدْلَہ، شِہَاباً رَّصَداً۔ ” (جن، رکوع١’) وقال تعالیٰ ”فَاِنَّہ، یَسْلُکْ مِنْ  بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا۔ ” (جن، رکوع٢’آیت ٢٧) وقال تعالیٰ ”لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ  بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ۔ ” (حم السجدہ، رکوع٥’آیت ٤٢)۔

(تنبیہ) شیاطین کے غیبی خبریں سننے کی کوشش کرنے اور ناکام رہنے کے متعلق سورہ حجر کے شروع میں مفصل کلام کیا جا چکا ہے وہاں مطالعہ کرنا چاہیے۔

فَلَا تَدْعُ مَعَ اللہِ إِلٰہًا آخَرَ :یہ فرمایا رسول کو اور سنایا اوروں کو یعنی جب یہ کتاب بلا شک  و شبہ خدا کی اتاری ہوئی ہے ، شیطان کا اس میں ذرہ بھر دخل نہیں تو چاہیے کہ اس کی تعلیم پر چلو جس میں اصل اصول توحید ہے۔ شرک و کفر اور تکذیب کی شیطانی راہ اختیار مت کرو۔ ورنہ عذاب الٰہی سے رستگاری کی کوئی سبیل نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ۔ (۲۱۴)

اور اس کے لئے اپنے بازو جھکاؤ جس نے تمہاری پیروی کی مؤمنوں میں سے۔ (۲۱۵)

تشریح:یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے پہلی بار تبلیغ کا حکم ہوا اور یہ ہدایت دی گئی کہ تبلیغ کا آغاز اپنے قریبی خاندان کے لوگوں سے فرمائیں، چنانچہ اسی آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ نے اپنے خاندان کے قریبی لوگوں کو جمع کر کے ان کو دین حق کی دعوت دی، اس میں یہ سبق بھی دیا گیا ہے کہ اصلاح کرنے والے کو سب سے پہلے اپنے گھر اور اپنے خاندان سے شروع کرنا چاہئیے۔

(توضیح القرآن)

 

پھر اگر تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دیں جو تم کرتے ہو بیشک میں اس سے بیزار ہوں۔ (۲۱۶)

اور بھروسہ کرو غالب، نہایت مہربان پر۔ (۲۱۷)

جو تمہیں دیکھتا ہے جب تم (نماز میں) کھڑے ہوتے ہو اور نمازیوں میں تمہارا پھرنا (بھی دیکھتا ہے )۔ (۲۱۹) بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے۔ (۲۲۰)

تشریح:یعنی نافرمانی کرنے والے کوئی ہوں اور کتنے ہی ہوں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ سب سے بیزار ہو کر ایک خدا پر بھروسہ رکھئے جو زبردست بھی ہے کسی کی اس کے مقابلہ میں چل نہیں سکتی، اور مہربانی فرمانے والا بھی۔ چنانچہ اپنی مہربانی سے آپ کے حال پر ہر وقت نظر عنایت رکھتا ہے۔

(ملخص تفسیرعثمانی)

 

کیا میں تمہیں بتاؤں کس پر شیطان اترتے ہیں۔ (۲۲۱)

وہ اترتے ہیں ہر بہتان لگانے والے گنہگار پر۔ (۲۲۲)

(شیطان) سنی سنائی بات (ان کے کان میں) ڈال دیتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں۔ (۲۲۳)

تشریح:یعنی شیاطین کی باتوں پر بھروسہ کرنے والے کوئی نیک لوگ نہیں، گنہگار لوگ ہوتے ہیں اور ان شیاطین کا یہ دعوی بھی بالکل لغو ہے کہ انہیں غیب کی خبریں معلوم ہیں، ہوتا یہ ہے کہ کبھی فرشتوں کی کوئی بات ان کے کانوں میں پڑ جاتی ہے تو وہ اس میں بہت سے جھوٹ شامل کر کے اپنے معتقدین کو آ کر بتا دیتے ہیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور (رہے ) شاعر ان کی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں۔ (۲۲۴)

کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ ہر وادی میں سرگرداں پھرتے ہیں۔ (۲۲۵)

اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں۔ (۲۲۶)

تشریح: یہ کفار کی دوسری بات کی تردید ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معاذاللہ شاعر ہیں اور قرآن کریم شاعری کی کتاب ہے ، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ شاعری تو ایک تخیلاتی چیز ہے جس کا بسا اوقات حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا، چنانچہ وہ اپنی خیالی وادیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں، طرح طرح کے مبالغے کرتے ہیں اور تشبیہات اور استعاروں میں حد سے گزر جاتے ہیں، اس لئے جو لوگ شاعری ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں، ان کو کوئی بھی اپنا دینی پیشوا نہیں بناتا، اور اگر کوئی ان کو اپنا مقتدا بناتا بھی ہے تو وہ جو خود گمراہ ہو، اور حقیقت کے بجائے خیالی دنیا میں رہنا چاہتا ہو۔

(توضیح القرآن)

 

اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو وہ کرتے نہیں۔ (۲۲۶)

تشریح:یعنی اپنی شیخی بگھارتے ہوئے ایسے دعوے کرتے ہیں جن کا ان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ (توضیح القرآن)

 

سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور اللہ کو بکثرت یاد کیا، اور انہوں نے اس کے بعد بدلہ لیا کہ ان پر ظلم ہوا، اور جن لوگوں نے ظلم کیا وہ عنقریب جان لیں گے کہ کس کروٹ انہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (۲۲۷)

تشریح:یہ استثناء ذکر فرما کر اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ اگر شاعری میں یہ خرابیاں نہ ہوں اور ایمان اور عمل صالح کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوئی شاعری کرے اور اپنے شاعرانہ تخیلات کو دین و مذہب کے خلاف استعمال نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، اور ظلم کا بدلہ لینے کا ذکر بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ اس زمانے میں شاعری پروپیگنڈے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھی جاتی تھی، کوئی شاعر کسی کے خلاف کوئی شاندار ہجویہ قصیدہ کہہ دیتا تو وہ لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتا تھا، چنانچہ بعض بد نہاد کافروں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی اس قسم کے اشعار کہہ کر مشہور کر دئے تھے ، بعض صحابہ مثلاً حضرت حسان بن ثابت اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہما نے اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں نعتیہ قصیدے کہے اور ان میں کفار کے اعتراضات کا جواب دیا ،بلکہ ان کی اپنی حقیقت واضح فرمائی، اس آیت میں ان حضرات کی شاعری کی تائید کی گئی ہے۔

( توضیح القرآن)

٭٭

 

 

 

۲۷۔ سورۃالنمل

 

                تعارف

 

 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کے مطابق یہ سورت پچھلی سورت یعنی سورۂ شعراء کے فوراً بعد نازل ہوئی تھی، دوسری مکی سورتوں کی طرح اس کا موضوع بھی اسلام کے بنیادی عقائد کا اثبات اور کفر کے برے نتائج کا بیان ہے ، حضرت موسیٰ اور حضرت صالح علیہما السلام کے واقعات کی طرف مختصر اشارہ کرتے ہوئے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کی قوموں نے اس بنا پران کی بات نہیں مانی کہ انہیں اپنی دولت اور اپنے سماجی رتبے پر گھمنڈ تھا، اسی طرح کفار مکہ بھی گھمنڈ میں مبتلا ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار کر رہے تھے ، دوسری طرف حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالی نے ہر طرح کی دولت اور بے نظیر بادشاہت سے نوازا تھا، لیکن یہ دولت اور بادشاہت ان کے لئے اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرنے سے مانع نہیں ہوئی، اسی طرح سبأ کی ملکہ بلقیس بھی دولت مند تھی، لیکن حق واضح ہونے کے بعد اس نے اس کو فوراً قبول کر لیا، اس سیاق میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور سبأ کی ملکہ کا واقعہ اس سورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ، اور اس کے بعد کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کو بڑے مؤثر انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے ، جس سے اللہ تعالی کی وحدانیت ثابت ہوتی ہے ، نمل کے معنی عربی میں چیونٹی کے ہوتے ہیں اور چونکہ اس سورت کی آیت نمبر:۱۸ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ چیونٹیوں کی وادی کے پاس سے گزرے تھے اس لئے اس کا نام سورۂ نمل رکھا گیا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات:۹۳        رکوعات:۷

 

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

یہ آیتیں ہیں قرآن اور روشن واضح کتاب کی۔ (۱)

ہدایت اور خوشخبری مؤمنوں کیلئے۔ (۲)

جو لوگ نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ (۳)

بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے ، ہم نے ان کے عمل ان کے لئے آراستہ کر دکھائے ہیں، پس وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔ (۴)

یہی ہیں وہ لوگ جن کے لئے بُرا عذاب ہے ، اور وہ آخرت میں سب سے بڑھ کر خسارہ اٹھانے والے ہیں۔ (۵)

تشریح:یعنی جن کو انجام کی کوئی فکر اور مستقبل کا خیال نہ ہو، وہ اسی دنیائے فانی کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ ان کی تمام کوشش کا مرکز یہی چند روزہ زندگی ہے جو کتاب یا پیغمبر ادھر سے ہٹا کر عاقبت کی طرف توجہ دلائے ، اس پر کیوں کان دھرنے لگے۔ وہ دنیا کے عشق میں غرق ہو کر ہادیوں پر آوازیں کستے ہیں۔ آسمانی صحیفوں کو موردِ طعن بناتے ہیں۔ پیغمبروں کے ساتھ ٹھٹھا کرتے ہیں۔ اور یہی کام ہیں، جن کو اپنے نزدیک بہت اچھا سمجھ کر برابر گمراہی میں ترقی کرتے جاتے ہیں، آخرت میں سب سے زیادہ خسارہ میں یہ ہی لوگ ہوں گے۔

(ماخوذ تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک تمہیں قرآن حکمت والے ، علم والے کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ (۶)

تشریح:یعنی اب بدبختوں کو تیہ ضلالت میں بھٹکنے دو۔ جب انہوں نے قرآن مبین کی قدر نہ پہچانی اور اس کی ہدایات و بشارات سے فائدہ نہ اٹھا یا تو یہ ہی حشر ہونا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا کا شکر کیجئے کہ اس علیم و حکیم کی سب سے زیادہ عظیم الشان کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت کی گئی ہے جس سے ہر وقت تازہ با تازہ فوائد پہنچ رہے ہیں جس میں مومنین کے لیے بشارتیں ہیں اور مکذبین کو عبرتناک واقعات سنائے گئے ہیں تاکہ سچوں کا دل مضبوط و قوی ہو اور جھوٹ کی حمایت کرنے والے اپنی بد انجامی پر مطلع ہو جائیں۔ چنانچہ ان ہی اغراض کے لیے آگے حضرت موسٰی علیہ السلام اور فرعونیوں کا قصہ سنایا جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

(یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے گھر والوں سے کہا، بیشک میں نے ایک آگ دیکھی ہے ، میں ابھی تمہارے پاس اس کی کوئی خبر لاتا ہوں، یا آگ کا انگارہ تمہارے پاس لاتا ہوں، تاکہ تم سینکو۔ (۷)

تشریح:یہ ”مدین” سے جاتے ہوئے وادی ”طوٰی” کے قریب پہنچ کر کہا جبکہ سخت سردی کی اندھیری رات میں راستہ بھول گئے تھے مفصل واقعہ سورہ ”طہٰ” کے فوائد میں گزر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس جب وہ آگ کے پاس آیا (اللہ تعالی کی طرف سے ) ندا دی گئی کہ برکت دیا گیا جو آگ میں (جلوہ افروز) ہے جو اس کے آس پاس ہے (موسیٰ) اور پاک ہے اللہ سارے جہانوں کا پروردگار۔ (۸)

تشریح:وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ دنیا کی آگ نہیں، بلکہ غیبی اور نورانی آگ ہے جس کے اندر نورِ الٰہی ظاہر ہو رہا تھا، یا اس کی بجلی چمک رہی تھی۔ شاید وہ ہی ہو جس کو حدیث میں فرمایا ”حِجَابُہُ النَّار” یا ”حِجَابُہُ النُّوْرُ” پھر غیب سے آواز آئی۔ ”اَنْ بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا۔ ” یعنی زمین کا یہ ٹکڑا مبارک، آگ میں جو تجلی ہے وہ بھی مبارک، اور اس کے اندر یا اس کے آس پاس جو ہستیاں ہیں مثلاً فرشتے یا خود موسٰی علیہ السلام وہ سب مبارک ہیں۔ یہ غالباً موسٰی علیہ السلام کو مانوس کرنے کے لیے بطور اعزاز و اکرام کے فرمایا۔

وَسُبْحَانَ اللہِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ :یعنی مکان، جہت، جسم، صورت اور رنگ وغیرہ سماعت حدوث سے اللہ کی ذات پاک ہے۔ آگ میں اس کی تجلی کے یہ معنی نہیں کہ معاذ اللہ اس کی ذات پاک آگ میں حلول کر آئی؟ آفتابِ عالمتاب قلعی دار آئینہ میں متجلی ہوتا ہے لیکن کون احمق کہہ سکتا ہے کہ اتنا بڑا کرہ شمسی چھوٹے سے آئینہ میں سما گیا؟

(تفسیرعثمانی)

 

اے موسیٰ! حقیقت یہ ہے کہ میں ہی اللہ غالب حکمت والا ہوں۔ (۹)

تشریح:یعنی اس وقت تجھ سے کلام کرنے والا میں ہوں، یہ سب واقعہ مفصلاً سورہ ”طہٰ” میں گزر چکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تو اپنا عصا (نیچے ) ڈال دے ، پس جب اسے لہراتا ہوا دیکھا گویا وہ سانپ ہے تو (موسیٰ) پیٹھ پھیر کر لوٹ گیا اور اس نے مڑ کر نہ دیکھا، (ارشاد ہوا) ا ے موسیٰ! تو خوف نہ کھا، بیشک میرے پاس رسول خوف نہیں کھاتے۔ (۱۰)

تشریح:یعنی اس مقام حضور و اصطفاء میں پہنچ کر ایسی چیزوں سے ڈرنے کا کیا مطلب۔ مرسلین کو لائق نہیں کہ ہماری بارگاہِ قرب میں پہنچ کر لاٹھی یا سانپ یا کسی مخلوق سے ڈریں۔ وہاں تو دل کو انتہائی سکون و طمانیت حاصل ہونا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

مگر جس نے ظلم کیا پھر اس نے بُرائی کے بعد بھلائی بدل ڈالی تو میں بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔ (۱۱)

تشریح:یہ استثناء منقطع ہے یعنی خدا کے حضور میں پہنچ کر خوف و اندیشہ صرف اس کو ہونا چاہیے جو کوئی زیادتی یا خطاء و تقصیر کر کے آیا ہو۔ اس کے متعلق بھی ہمارے ہاں یہ قاعدہ ہے کہ برائی کیے بعد اگر دل سے توبہ کر کے اپنی روش درست کر لی اور نیکیاں کر کے برائی کا اثر مٹا دیا تو حق تعالیٰ اپنی رحمت سے معاف فرمانے والا ہے حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”موسیٰ علیہ السلام سے چوک کر ایک کافر کا خون ہو گیا تھا اس کا ڈر تھا ان کے دل میں، ان کو وہ معاف کر دیا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

اور اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال وہ کسی عیب کے بغیر سفید روشن (ہو کر) نکلے گا، نو نشانیوں میں (سے یہ دو معجزے لے کر) فرعون اور اس کی قوم کی طرف (جا) بیشک وہ نافرمان لو گ ہیں۔ (۱۲)

تشریح:نو نشانیوں کا بیان سورہ ”بنی اسرائیل” کی آیت ”وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیَاتٍم بَیِّنَاتٍ فاَسْئَلْ بَنِی اِسْرَائیْلَ اِذَ جَآءَھمْ” الخ کے تحت میں دیکھو۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب ان کے پاس آئیں آنکھیں کھولنے والی ہماری نشانیاں، وہ بولے یہ کھلا جادو ہے۔ (۱۳)

حالانکہ ان کے دلوں کو اس کا یقین تھا، انہوں نے اس کا انکار کیا ظلم اور تکبر سے ، تو دیکھو فساد کرنے والوں کا کیسا انجام ہوا؟ (۱۴)

تشریح:یعنی جب وقتاً فوقتاً ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے وہ نشانیاں دکھلائی گئیں تو کہنے لگے کہ یہ سب جادو ہے حالانکہ ان کے دلوں میں یقین تھا کہ موسٰی علیہ السلام سچے ہیں اور جو نشانیاں دکھلا رہے ہیں یقیناً خدائی نشان ہیں۔ جادو، شعبدہ اور نظر بندی نہیں مگر محض بے انصافی اور غرور تکبر سے جان بوجھ کر اپنے ضمیر کے خلاف حق کی تکذیب اور سچائی کا انکار کر رہے تھے ، پھر کیا ہوا چند روز بعد پتہ لگ گیا کہ ایسے ہٹ دھرم مفسدوں کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ سب کو بحر قلزم کی موجوں نے کھا لیا، کسی کو گور و کفن بھی نصیب نہ ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے دیا داؤد اور سلیمان کو بڑا علم، اور انہوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہ جس نے ہمیں فضیلت دی اکثر اپنے مؤمن بندوں پر۔ (۱۵)

تشریح:حضرت سلیمان حضرت داؤد علیہ السلام کے صاحبزادہ ہیں۔ باپ بیٹے میں سے ہر ایک کو اس کی شان کے لائق اللہ تعالیٰ نے علم کا خاص حصہ عطا فرمایا۔ شرائع و احکام اور اصول سیاست و حکمرانی وغیرہ کے علوم سب اس لفظ کے تحت میں داخل ہو گئے۔

حق تعالیٰ نے جو علم داؤد سلیمان علیہما السلام کو دیا تھا اسی کا اثر یہ تھا کہ حق تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کرتے تھے۔ کسی نعمت الٰہی پر شکر ادا کرنا اصل نعمت سے بڑی نعمت ہے۔

فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یہ اس لیے کہا کہ بہت بندگانِ خدا کو ان پر فضیلت دی گئی ہے۔ باقی تمام مخلوق پر فضیلت کلی تو سارے جہان میں ایک ہی بندے کو حاصل ہوئی جن کا نام مبارک ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا اور اس نے کہا اے لوگو! مجھے سکھائی گئی ہے پرندوں کی بولی، اور ہمیں ہر چیز سے (ہر نعمت) دی گئی ہے ، بیشک یہ کھلا فضل ہے۔ (۱۶)

تشریح: یاد رہے کہ ایک صحیح حدیث کے مطابق انبیاء علیہم السلام کا ترکہ ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا، اس لئے یہاں وراثت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ نبوت اور سلطنت میں وہ اپنے والد حضرت داؤد علیہ السلام کے جانشین ہوئے۔

(توضیح القرآن)

 

حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پرندوں کی بولیاں سکھادی تھیں، جس کی وجہ سے ان کو پتہ چل جاتا تھا کہ و ہ کیا کہہ رہے ہیں، بلکہ آگے چیونٹی کا جو واقعہ آ رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں پرندوں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی بولی سکھائی گئی تھی، بعض معاصرین نے نہ جانے اس بات کو تسلیم کرنے میں کیا دشواری محسوس کی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ان آیتوں میں دور اَز کار تاویلات کا دروازہ کھول دیا ہے ، حالانکہ یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ جانوروں کی ایک بولی ہوتی ہے ہم چاہیں اسے نہ سمجھیں، لیکن جس پروردگار نے انہیں پیدا کیا ہے اور بولنے پر قدرت عطا فرمائی ہے ، ظاہر ہے کہ وہ ان کی بولی کو بھی جانتا اور سمجھتا ہے ، لہذا اگر وہ بولی اپنے کسی پیغمبر کو سکھادے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور سلیمان کے لئے اس کا لشکر جنوں، انسانوں اور پرندوں کا جمع کیا گیا، پس وہ روکے جاتے تھے۔ (۱۷)

تشریح:یعنی سلیمان علیہ السلام جب کسی طرف کوچ کرتے تو جن، انس، طیور تینوں قسم کے لشکروں میں سے حسب ضرورت و مصلحت ساتھ لیے جاتے تھے۔ اور ان کی جماعتوں میں خاص نظم و ضبط قائم رکھا جاتا تھا۔ مثلاً پچھلی جماعتیں تیز چل کر یا اڑ کر اگلی جماعتوں سے آگے نہیں نکل سکتی تھیں۔ نہ کوئی سپاہی اپنے مقام اور ڈیوٹی کو چھوڑ کر جا سکتا تھا۔ جس طرح آج بری، بحری اور ہوائی طاقتوں کو ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ کام میں لایا جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہاں تک کہ وہ چیونٹیوں کے میدان میں آئے ، ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو! تم اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ، (کہیں) سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں روند نہ ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔ (۱۸)

تشریح:یعنی سلیمان کا اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ایسے میدان کی طرف گزر ہوا جہاں چیونٹیوں کی بڑی بھاری بستی تھی۔ (تنبیہ) جہاں چیونٹیاں مل کر خاص سلیقہ سے اپنا گھر بناتی ہیں اسے زبان عرب میں ”قریۃ النمل” کہتے ہیں۔ (چیونٹیوں کی بستی) مفسرین نے مختلف بلاد میں کئی ایسی وادیوں کا پتہ بتلایا ہے جہاں چیونٹیوں کی بستیاں بکثرت تھیں، ان میں سے کسی ایک پر حسب اتفاق حضرت سلیمان علیہ السلام کا گزر ہوا۔

وَہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ :یعنی یہ ایسے تو نہیں جو جان بوجھ کر تم کو ہلاک کریں، ہاں ممکن ہے بے خبری میں پس جاؤ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”چیونٹی کی آواز کوئی (آدمی) نہیں سنتا، انہیں (سلیمان علیہ السلام کو) معلوم ہو گئی” یہ ان کا معجزہ ہوا۔

(تنبیہ) علمائے حیوانات نے سالہا سال جو تجربے کیے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حقیر ترین جانور اپنی حیاتِ اجتماعی اور نظام سیاسی میں بہت ہی عجیب اور شؤن بشریہ سے بہت قریب واقعہ ہوا ہے۔ آدمیوں کی طرح چیونٹیوں کے خاندان اور قبائل ہیں ان میں تعاون باہمی کا جذبہ، تقسیم عمل کا اصول اور نظام حکومت کے ادارات نوع انسانی کے مشابہ پائے جاتے ہیں۔ محققین یورپ نے مدتوں ان اطراف میں قیام کر کے جہاں چیونٹیوں کی بستیاں بکثرت ہیں بہت قیمتی معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ افسوس ہے ان مختصر فوائد میں ان کی گنجائش نہیں۔ محض مقام کی مناسب سے ”دائرۃ المعارف المصریہ” کے آخری جملے نقل کرتا ہوں۔ ”فَمَتٰی دَاہَمَ عَدُّوٌّ قَرْیَۃً لِلنَّمْلِ اِخْتَفَتِ الْنَمَلَۃُ وَخَرَجَتِ الْجُنُودُ لِلْقِتَالِ وَالنِّضَالِ فَیَخْرُجُ اَوْلَا وَاحِدٌ مِّنْہَا لِلْاِسْتِطْلاَعِ ثُمَّ یَعُودُ مُخْبِرًا بِمَارَأ ی وَبَعْدَ ہَنِیْہَۃٍ تَخْرُجُ ثَلاَثَۃٌ اَوْ اَرْبَعْۃٌ یَتْبَعُہَا عَدَدٌ کَثِیْفٌ مِنَ الْجُیُوشِ بَادِیَۃً عَلَیْہِمْ عَلآئِمُ الْحَنَقِ فَتَلْدَعُ کُلَّ مَاصَادَفَتْہُ وَلَاتَفْلَتُ مَنْ تَلْدَغُہ، وَلَوْقَطَعَتْ اَرْباً ارباً فَاِذًا اِنْتَہٰی الْقِتَالُ رَجَعَ الْفَعَلَۃُ فَاَعَادُوْ بِنَآء مَاتَہَدَّمَ یَتَخَلَّلُہَا عَدَدٌ مِنَ الْجُنُودِ لِلْحَرَاسَۃِ لَا لِلْعَمَلِ۔ ” متذکرہ جملوں میں بتلایا ہے کہ خطرہ کی آہٹ پا کر اول ایک چیونٹی باہر نکلتی اور واپس جا کر اپنی قوم کو اپنی معلومات سے آگاہ کرتی ہے۔ باقی سلیمان علیہ السلام کا پتہ لگا لینا اور سلیمان کا اس کی بات پر مطلع ہو جانا بطریق خرق عادت تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو وہ ہنستے ہوئے مسکرایا، اس کی بات سے اور کہا اے میرے رب ! مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام فرمائی ہے ، اور میرے ماں باپ پر، اور یہ کہ میں نیک کام کروں جو تو پسند کرے ، اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرما لے۔ (۱۹)

تشریح:اس چیونٹی کی بات سمجھ کر تعجب ہوا اور فرطِ سرورو نشاط سے ادائے شکر کا جذبہ جوش میں آیا۔

رَبِّ أَوْزِعْنِيْٓ أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَکَ :یعنی حیران ہوں تیرے انعاماتِ عظیمہ کا شکر کس طرح ادا کروں، پس آپ ہی سے التجاء کرتا ہوں کہ مجھے پورا شاکر بنا دیجئے زبان سے بھی اور عمل سے بھی۔ اور اعلیٰ درجہ کے نیک بندوں میں (جو انبیاء و مرسلین ہیں) محشور فرمائیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہا کیا (بات ) ہے میں ہد ہد کو نہیں دیکھتا، کیا وہ غائب ہو جانے والوں میں سے ہے ؟ (۲۰)

تشریح:کسی ضرورت سے سلیمان علیہ السلام نے اڑنے والی فوج کا جائزہ لیا، ہد ہد ان پر نظر نہ پڑا۔ فرمایا کیا بات ہے ہد ہد کو میں نہیں دیکھتا۔ آیا پرندوں کے جھنڈ میں مجھ کو نظر نہیں آیا، یا حقیقت میں غیر حاضر ہے ؟ (تنبیہ) پرندوں سے حضرت سلیمان مختلف کام لیتے تھے مثلاً ہوائی سفر میں ان کا پرے باندھ کر اوپر سایہ کرتے ہوئے جانا، یا ضرورت کے وقت پانی وغیرہ کا کھوج لگانا، یا نامہ بری کرنا وغیرہ۔ ممکن ہے اس وقت ہد ہد کی کوئی خاص ضرورت پیش آئی ہو۔ مشہور ہے کہ جس جگہ زمین کے نیچے پانی قریب ہو ہد ہد کو محسوس ہو جاتا ہے اور یہ کچھ مستبعد نہیں کہ حق تعالیٰ کسی جانور کو کوئی خاص حاسہ انسانوں اور دوسرے جانوروں سے تیز عنایت فرما دے۔ اسی ہد ہد کی نسبت معتبر ثقات نے بیان کیا کہ زمین میں جس جگہ مٹی کے نیچے کینچوا ہو اسے محسوس کر کے فوراً نکال لیتا ہے حتی کہ کبھی کبھی ایک دو بالشت زمین کھودتا ہے تب وہاں سے کینچوا نکلتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

البتہ میں اسے ضرور سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا، یا اسے ضرور کوئی وجہ میرے پاس لانی (پیش کرنی) چاہئیے۔ (۲۱)

سو اس (ہد ہد) نے تھوڑی سی دیر کی، پھر کہا میں نے معلوم کیا ہے وہ جو تم کو معلوم نہیں، اور میں تمہارے پاس سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں۔ (۲۲)

تشریح:حضرت سلیمان کو اس ملک کا حال مفصل نہ پہنچا تھا۔ اب پہنچا۔ سبا ایک قوم کا نام ہے ان کا وطن عرب میں تھا ”یمن” کی طرف (موضح القرآن) گویا ہد ہد کے ذریعہ سے حق تعالیٰ نے متنبہ فرما دیا کہ بڑے سے بڑے انسان کا علم بھی محیط نہیں ہو سکتا دیکھو جن کی بابت خود فرمایا تھا ”وَلَقَدْ اٰتَیْنَادَاؤدَ وَسُلَیْمَانَ عِلْمًا” ان کو ایک جزئی کی اطلاع ہد ہد نے کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے وہ ان پر بادشاہت کرتی ہے اور (اسے ) ہر شے دی گئی ہے اور اس کے لئے ایک بڑا تخت ہے۔ (۲۳)

تشریح:وَأُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ :ہر ایک چیز میں، مال، اسباب، فوج، اسلحہ، اور حسن و جمال سب آ گیا۔ اس ملکہ کے بیٹھنے کا تخت ایسا  مرصع اور بیش قیمت تھا کہ اس وقت کسی بادشاہ کے پاس نہ تھا، مفسرین ملکہ کا نام ”بلقیس” لکھتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کے سوا (اللہ کو چھوڑ کر) سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے ، اور شیطان نے انہیں آراستہ کر دکھائے ہیں ان کے عمل، پس انہیں (سیدھے ) راستے سے روک دیا ہے سو وہ راہ نہیں پاتے۔ (۲۴)

تشریح:یعنی وہ قوم مشرک آفتاب پرست ہے۔ شیطان نے ان کی راہ مار دی، اور مشرکانہ رسوم و اطوار کو ان کی نظر میں خوبصورت بنا دیا۔ اسی لیے وہ راہ ہدایت نہیں پاتے۔ ہد ہد نے یہ کہہ کر گویا سلیمان علیہ السلام کو اس قوم پر جہاد کرنے کی ترغیب دی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ کو (کیوں) سجدہ نہیں کرتے ؟وہ جو آسمانوں میں اور زمین میں چھپی ہوئی (چیزوں کو) نکالتا ہے ، اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (۲۵)

تشریح:غالباً یہ ہُد ہُد کے کلام کا تتمہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جانور اپنے خالق کی صحیح معرفت فطرۃً رکھتے ہیں۔ یا بطور خرق عادت اسی ہد ہد کو اس طرح کی تفصیلی معرفت عطا کی گئی ہو۔ خدا چاہے تو ایسی معرفت ایک خشک لکڑی میں پیدا کر دے۔ باقی جانوروں میں فطری طور پر اس قسم کی عقل و معرفت کا موجود ہونا جسے صدر شیرازی نے ”اسفار اربعہ” میں ”علم حضوری” یا ”شعورِ بسیط” سے تعبیر کیا ہے اس کو مستلزم نہیں کہ ان کی طرف انبیاء مبعوث ہوں۔ کیونکہ یہ فطری معرفت کسبی نہیں، جبلی ہے۔ اور بعث انبیاء کا تعلق کسبیات سے ہوتا ہے نیز یہ صحیح نہیں کہ جس چیز میں کوئی درجہ عقل و شعور کا ہو وہ مکلف بھی ہو۔ مثلاً شریعت حقہ نے صبی کو مکلف قرار نہیں دیا۔ حالانکہ قبل از بلوغ اس میں خاصا درجہ عقل کا موجود ہے ، اسی سے حیوانات کی عاقلیت کا اندازہ کر لو۔ (تنبیہ) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ہد ہد کی روزی ہے ریت سے کیڑے نکال نکال کر کھانا۔ نہ دانہ کھائے نہ میوہ، اس کو اللہ کی اسی قدرت سے کام ہے۔ ” شاید اسی لیے یُخْرِجُ الْخَبْ ءَ کا خاص طور پر ذکر کیا۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عرش عظیم کا مالک ہے۔ (۲۶)

تشریح:یعنی اس کے عرشِ عظیم سے بلقیس کے تخت کو کیا نسبت۔ (تفسیرعثمانی)

 

سلیمان نے کہا ہم ابھی دیکھ لیں گے کیا تو نے سچ کہا ہے ؟یا تو جھوٹوں میں سے ہے (جھوٹا ہے )۔ (۲۷)

تشریح:یعنی تیرے جھوٹ سچ کا امتحان کرتا ہوں۔ (تفسیرعثمانی)

 

میرا یہ خط لے جا، پس یہ ان کی طرف ڈال دے ، پھر اُن سے لوٹ آ، پھر دیکھ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔ (۲۸)

تشریح:یعنی سلیمان نے ایک خط لکھ کر ہد ہد کے حوالہ کیا کہ ملکہ ”سبا” کو پہنچا دے اور جواب لے کر آ۔ اور دیکھنا خط پہنچا کر وہاں سے ایک طرف ہٹ جانا۔ کیونکہ قاصد کا وہیں سر پر کھڑا رہنا آدابِ شاہانہ کے خلاف ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”یعنی آپ کو چھپا، لیکن وہاں کا ماجرا دیکھ، ہد ہد خط لے گیا، بلقس جہاں اکیلی سوتی تھی۔ روزن میں سے جا کر اس کے سینہ پر رکھ دیا۔ ” (موضح)۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ عورت کہنے لگی، اے سردارو! بیشک میری طرف ایک با وقعت خط ڈالا گیا ہے۔ (۲۹)

بیشک وہ سلیمان (کی طرف) سے ہے اور بیشک وہ (یوں ہے ) اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۳۰)

تشریح:بلقیس نے خط پڑھ کر اپنے مشیروں اور درباریوں کو جمع کیا، کہنے لگی کہ میرے پاس یہ خط عجیب طریقہ سے پہنچا ہے جو ایک بہت بڑے معزز و محترم بادشاہ (سلیمان) کی طرف سے آیا ہے۔ غالباً حضرت سلیمان کا نام اور ان کی بے مثال حکومت و شوکت کا شہرہ پہلے سے سن چکی ہو گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ کہ مجھ پر (میرے مقابلہ میں) سرکشی نہ کرو، اور میرے پاس فرمانبردار ہو کر آؤ۔ (۳۱)

تشریح:ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یمن کا یہ علاقہ بھی اصل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت تھا، لیکن کسی وقت اس عورت نے خفیہ طور پر یہاں اپنی حکومت قائم کر لی تھی، جس کی خبر آ کر ہد ہد نے دی اسی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس مختصر مگر نہایت بلیغ خط میں کوئی تفصیلی بات کرنے کے بجائے بلقیس اور اس کی قوم کو سرکشی سے باز رہنے اور تابع دار بننے کا حکم دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولی، اے سردارو! میرے معاملے میں مجھے رائے دو، میں کسی معاملہ میں فیصلہ کرنے والی نہیں (فیصلہ نہیں کرتی) جب تک تم موجود (نہ) ہو۔ (۳۲)

تشریح:یعنی مشورہ دو کیا جواب دیا جائے اور کیا کارروائی کی جائے جیسا کہ تمہیں معلوم ہے میں کسی اہم معاملہ کا فیصلہ بدون تمہارے مشورہ کے نہیں کرتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے ہم قوت والے بڑے لڑنے والے ہیں، اور فیصلہ تیرے اختیار میں ہے ، تو دیکھ لے تجھے کیا حکم کرنا ہے۔ (۳۳)

تشریح:یعنی ہمارے پاس زور و طاقت اور سامانِ حرب کی کمی نہیں۔ نہ کسی بادشاہ سے دبنے کی ضرورت، تیرا حکم ہو تو ہم سلیمان سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ آگے تو مختار ہے سوچ سمجھ کر حکم دے۔ ہماری گردن اس کے سامنے خم ہو گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ درباریوں کی صلاح لڑائی کرنے کی تھی مگر ملکہ نے اس میں تعجیل مناسب نہ سمجھی اور ایک بین بین صورت اختیار کی جس کا ذکر آگے آتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولی، بیشک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ کر دیتے ہیں، اور وہاں کے معززین کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں اور وہ اسی طرح کرتے ہیں۔ (۳۴)

اور بیشک میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجنے والی ہوں، پھر دیکھتی ہوں کیا جواب لے کر لوٹتے ہیں قاصد۔ (۳۵)

تشریح:معلوم ہوتا ہے کہ مضمونِ خط کی عظمت و شوکت اور دوسرے قرائن و آثار سے بلقیس کو یقین ہو گیا کہ اس بادشاہ پر ہم غالب نہیں آسکتے اور کم از کم اس کا قوی احتمال تو ضرور تھا۔ اس نے بتلایا کہ ایسی شان و شکوہ رکھنے والے بادشاہ سے لڑنا کھیل نہیں۔ اگر وہ غالب آ گئے (جیسا کہ قوی امکان ہے ) تو ملوکِ و سلاطین کی عام عادت کے موافق تمہارے شہروں کو تہ و بالا کر کے رکھ دیں گے۔ اور وہ انقلاب ایسا ہو گا جس میں بڑے عزت والے سرداروں کو ذلیل و خوار ہونا پڑے گا۔ لہٰذا میرے نزدیک بہتر ہے کہ ہم جنگ کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ ان کی طاقت، طبعی، رجحانات، نوعیت حکومت اور اس بات کا پتہ لگائیں کہ ان کی دھمکیوں کی پشت پر کون سی قوت کار فرما ہے۔ اور یہ کہ واقعی طور پر وہ ہم سے کیا چاہتے ہیں، اگر کچھ تحائف و ہدایا دے کہ ہم آنے والی مصیبت کو اپنے سر سے ٹال سکیں تو زیادہ اچھا ہو گا ورنہ جو کچھ رویہ معلوم ہو جائے گا ہم اس کے مناسب کارروائی کریں گے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”بلقیس نے چاہا کہ اس بادشاہ کا شوق دریافت کرے کس چیز سے ہے۔ مال، خوبصورت آدمی، یا نادر سامان، سب قسم کی چیزیں تحفہ میں بھیجی تھی۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

پس جب سلیمان کے پاس قاصد آیا تو اس نے کہا کہ کیا تم مال سے میری مدد کرتے ہو؟پس جو اللہ نے مجھے دیا ہے وہ بہتر ہے اس سے جو اس نے تمہیں دیا ہے ، بلکہ تم اپنے تحفے سے خوش ہوتے ہو۔ (۳۶)

تشریح:یعنی یہ تحفہ تمہیں ہی مبارک رہے ، کیا تم نے مجھے محض ایک دنیاوی بادشاہ سمجھا جو مال و متاع کا لالچ دیتے ہو، تم کو معلوم ہونا چاہیے کہ حق تعالی نے جو روحانی و مادی دولت مجھے عطا فرمائی ہے وہ تمہارے ملک و دولت سے کہیں بڑھ کر ہے ان سامانوں کی ہمیں کیا پروا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو ان کی طرف لوٹ جا، سوہم ان پر ضرور لائیں گے ایسا لشکر جس (کے مقابلے ) کی انہیں طاقت نہ ہو گی، اور ہم ضرور انہیں وہاں سے ذلیل کر کے نکال دیں گے ، اور وہ خوار ہوں گے۔ (۳۷)

تشریح:یعنی قیدی بنیں گے ، جلا وطن ہوں گے اور ذلت و خواری کے ساتھ دولت و سلطنت سے دستبردار ہونا پڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سلیمان نے کہا اے سردارو! تم میں سے کون اس کا تخت میرے پاس لائے گا؟اس سے قبل کہ وہ میرے پاس فرمانبردار ہو کر آئیں۔ (۳۸)

تشریح:قاصد نے واپس جا کر پیغام جنگ پہنچا دیا۔ بلقیس کو یقین ہو گیا کہ یہ کوئی معمولی بادشاہ نہیں ان کی قوت خدائی زور سے ہے۔ جدال و قتال سے کچھ فائدہ نہ ہو گا، نہ کوئی حیلہ اور زور ان کے روبرو چل سکتا ہے آخر اظہارِ اطاعت و انقیاد کی غرض سے بڑے سازو سامان کے ساتھ حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضری دینے کے لیے روانہ ہو گئی۔ جب ملک شام کے قریب پہنچی، حضرت سلیمان نے اپنے درباریوں سے فرمایا ”کوئی ہے جو بلقیس کا تخت شاہی اس کے پہنچنے سے پیشتر میرے سامنے حاضر کر دے۔ ” اس میں بھی حضرت سلیمان کو کئی طرح بلقیس پر اپنی خدا داد عظمت و قوت کا اظہار مقصود تھا۔ تاکہ وہ سمجھ لے کہ یہ نرے بادشاہ نہیں، کوئی اور فوق العادت باطنی طاقت بھی اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ (تنبیہ) ”قَبْلَ اَنْ یَّاتُونِی مُسْلِمِیْنَ” سے معلوم ہوا کہ اسلام و انقیاد سے پہلے حربی کا مال مباح ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کہا جنات میں سے ایک قوی ہیکل نے ، بیشک میں اس کو آپ کے پاس اس سے قبل لے آؤں گا کہ آپ اپنی جگہ سے کھڑے ہوں، اور میں بیشک اس پر البتہ قوت والا، امانت دار ہوں۔ (۳۹)

تشریح: یہ کوئی جن تھا جس نے یہ پیشکش کی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار ختم کرنے سے پہلے ہی وہ تخت اٹھا لائے گا، اور اطمینان دلایا کہ نہ صرف یہ کہ اس میں اتنی طاقت ہے بلکہ وہ امانت دار بھی ہے اس لئے اس تخت میں جو سونا چاندی یا ہیرے جواہرات لگے ہوں گے ، ان میں کوئی خرد برد نہیں کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس شخص نے کہا جس کے پاس کتاب (الہی) کا علم تھا، میں اس کو تمہارے پاس اس سے قبل لے آؤں گا کہ تمہاری آنکھ پلک جھپکے ، پس جب سلیمان نے (اچانک) اسے اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا، تو اس نے کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے ، تاکہ وہ مجھے آزمائے آیا میں شکر کرتا ہوں   یا ناشکری کرتا ہوں اور جس نے شکر کیا تو پس وہ اپنی ذات کے لئے شکر کرتا ہے ، اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم کرنے والا ہے۔ (۴۰)

تشریح:قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ: راحج یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص حضرت سلیمان کے صحابی اور وزیر آصف بن برخیا ہیں جو کتب سماویہ کے عالم اور اللہ کے اسماء اور کلام کی تاثیر سے واقف تھے ، انہوں نے عرض کیا کہ میں چشم زدن میں تخت کو حاضر کر سکتا ہوں۔ آپ کسی طرف دیکھئے ، قبل اس کے آپ ادھر سے نگاہ ہٹائیں تخت آپ کے سامنے رکھا ہو گا۔

قَالَ ہٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ :یعنی یہ ظاہر کے اسباب سے نہیں آیا اللہ کا فضل ہے کہ میرے رفیق اس درجہ کو پہنچے ، جن سے ایسی کرامات ظاہر ہونے لگیں۔ اور چونکہ ولی کی خصوصاً صحابی کی کرامت اس کے نبی کا معجزہ اور اس کے اتباع کا ثمرہ ہوتا ہے ، اس لیے حضرت سلیمان پر بھی اس کی شکر گزاری عائد ہوئی۔ (تنبیہ) معلوم ہوا کہ اعجاز و کرامت فی الحقیقت خداوند قدیر کا فعل ہے جو ولی یا نبی کے ہاتھ پر خلافِ معمول ظاہر کیا جاتا ہے۔ پس جس کی قدرت سے سورج یا زمین کا کرہ ایک لمحہ میں ہزاروں میل کی مسافت طے کر لیتا ہے اسے کیا مشکل ہے کہ تخت بلقیس کو پلک جھپکنے میں ”مارَب” سے ”شام” پہنچا دے۔ حالانکہ تخت بلقیس کو سورج اور زمین سے ذرہ اور پہاڑ کی نسبت ہے۔

حضرت سلیمان ہر ہر قدم پر حق تعالیٰ کی نعمتوں کو پہچانتے اور ہمہ وقت شکر گزاری کے لیے تیار رہتے تھے گویا یہ ”اِعْمَلُوْا اٰلَ دَاؤدَ شُکْرًا”کے حکم کی تعمیل تھی۔

وَمَنْ شَکَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِہٖ:شکر گذاری کا نفع شاکر ہی کو پہنچتا ہے کہ دنیا و آخرت میں مزید انعامات مبذول ہوتے ہیں، ناشکری کرے گا تو خدا کا کیا نقصان، وہ ہمارے شکریوں سے قطعاً بے نیاز اور بذاتِ خود کامل الصفات اور منبع الکمالات ہے۔ ہمارے کفرانِ نعمت سے اس کی کسی صفت کمالیہ میں کمی نہیں آ جاتی۔ یہ بھی اس کا کرم ہے کہ ناشکروں کو فوراً سزا نہیں دیتا۔ ایسے کریم کی ناشکری کرنے والا پرلے درجہ کا بے حیا اور احمق ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا اس (ملکہ کے امتحان کے لئے ) اس کے تخت کی وضع بدل دو ہم دیکھیں کہ آیا وہ سمجھ جاتی ہے یا ان لوگوں میں سے ہوتی ہے جو نہیں سمجھتے۔ (۴۱)

تشریح:یعنی تخت کا رنگ روپ تبدیل کر دو۔ اور اس کی وضع و ہیئت بدل ڈالو، جسے دیکھ کر بلقیس باآسانی نہ سمجھ سکے۔ اس سے بلقیس کی عقل و فہم کو آزمانا تھا کہ ہدایت پانے کی استعداد اس میں کہاں تک موجود ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولی گویا کہ یہ وہی ہے اور ہمیں اس سے قبل ہی علم دیا گیا (علم ہو گیا تھا) اور ہم ہیں مسلمان (فرمانبردار)۔ (۴۲)

تشریح: بلقیس سمجھ گئی کہ اس تخت کی شکل میں کچھ رد و بدل کیا گیا ہے اس لئے اس نے ایک طرف تو یقین ظاہر کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ایسا لگتا ہے ، لیکن دوسری طرف یہ بھی ظاہر کر دیا کہ وہ اپنے تخت کو پہچان گئی ہے۔

وَأُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہَا وَكُنَّا مُسْلِمِيْنَ :یعنی مجھے آپ کی سچائی کا یقین کرنے کے لئے یہ معجزہ دیکھنے کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ آپ کے ایلچیوں کے ذریعے آپ کے جو حالات مجھے معلوم ہوئے تھے ان کی وجہ سے مجھے پہلے ہی آپ کی سچائی کا علم حاصل ہو گیا تھا اور ہم نے آپ کی تابع داری میں سرجھکانے کا ارادہ کر لیا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

اور سلیمان نے اس کو اس سے روکا جس کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی تھی، بیشک وہ کافروں کی قوم سے تھی۔ (۴۳)

تشریح:یعنی حق تعالیٰ نے یا سلیمان علیہ السلام نے حق تعالیٰ کے حکم سے ملکہ بلقیس کو آفتاب وغیرہ کی پرستش سے روک دیا۔ جس میں وہ بمعیت اپنی قوم کے مبتلا تھی۔ یا یہ مطلب ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے تک جو اعلانیہ اسلام کا اظہار نہیں کیا اس کا سبب یہ ہے کہ جھوٹے معبودوں کے خیال اور قوم کفار کی تقلید و صحبت نے اس کو ایسا کرنے سے روک رکھا تھا۔ نبی کی صحبت میں پہنچ کر وہ روک جاتی رہی۔ ورنہ سلیمان علیہ السلام کی صداقت کا اجمالی علم اس کو پہلے ہی ہو چکا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس سے کہا گیا کہ محل میں داخل ہو جب اس (ملکہ) نے اس (کے فرش) کو دیکھا تو اسے گہرا پانی سمجھا اور (پائنچے اٹھا کر) اپنی پنڈلیاں کھول دیں، اس نے کہا بیشک یہ شیشوں سے جڑا ہوا محل ہے ، وہ بولی اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور (اب) میں سلیمان کے ساتھ (سلیمان کے طریق پر) تمام جہانوں کے رب پر ایمان لائی۔ (۴۴)

تشریح: حضرت سلیمان علیہ السلام نے دنیا پرستوں پر رعب ڈالنے کے لئے ایک شیش محل بنوایا تھا جس کے صحن میں ایک پانی کا حوض تھا، اور اس پر بھی مہین اور شفاف شیشے کی چھت اس طرح ڈال دی تھی کہ غور سے دیکھے بغیر شیشہ نظر نہیں آتا تھا اور سرسری نظر سے دیکھیں تو وہ کھلا ہوا حوض معلوم ہوتا تھا، محل میں داخل ہونے کے لئے اسی حوض کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا، چنانچہ جب بلقیس محل میں داخل ہونے کے لئے چلی تو سامنے وہ حوض نظر آیا جس کا پانی گہرا نہیں تھا، اس لئے اس نے حوض سے گزرنے کے لئے اپنے پائینچے چڑھا لئے ، اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے بتایا کہ پائینچے چڑھانے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ اس حوض کے اوپر شیشہ چڑھا ہوا ہے اور اس پر سے گزرتے ہوئے پانی میں بھیگنے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔

ملکہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کی سچائی کی تو پہلے ہی قائل ہو چکی تھی، محل کی شان و شوکت دیکھ کر اس کے دل میں آپ کی مزید عظمت پیدا ہوئی کہ اللہ تعالی نے ان کو دنیا کے لحاظ سے بھی ایسی شان و شوکت سے نوازا ہے اس لئے وہ بالکل فرماں بردار ہو کر رہی، اس واقعے کو ذکر فرما کر اللہ تعالی نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالی کے نیک بندے دنیا کے مال و دولت اور اقتدار حاصل کرنے کے بعد ناشکری کرنے کے بجائے اللہ تعالی کی اور زیادہ اطاعت کرتے ہیں اور دنیا کی رنگینیاں ان کو اللہ تعالی کی اطاعت سے نہیں روکتیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور تحقیق ہم نے (قوم) ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو، پس ناگہاں وہ دوفریق ہو گئے باہم جھگڑنے لگے۔ (۴۵)

تشریح:یعنی ایک ایمان والے اور ایک منکر، جیسے مکہ کے لوگ پیغمبر کے آنے سے جھگڑنے لگے۔ قوم ”ثمود” کے جھگڑنے کی قدرے تفصیل سورہ ”اعراف” کی ان آیات میں گزر چکی۔ ”قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَکْبَرُوا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ” الخ (اعراف، رکوع١٠’آیت ٧٥)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا، اے میری قوم! تم بھلائی سے پہلے بُرائی کے لئے کیوں جلدی کرتے ہو؟تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ؟تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (۴۶)

تشریح:حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو بہت سمجھایا۔ ہر طرح فرمائش کی اور آخر میں عذاب کی دھمکی دی۔ جس پر وہ کہنے لگے ”یَا صَالِحُ ائتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ” (اعراف، رکوع١٠’آیت ٧٧) یعنی سچا ہے تو عذاب الٰہی ہم پر لے آ، دیر کس بات کی ہے۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ کم بختو! ایمان و توبہ اور بھلائی کی راہ تو اختیار نہیں کرتے جو دنیا و آخرت میں کام آئے۔ الٹے برائی طلب کرنے میں جلدی مچا رہے ہو۔ برا وقت آ پڑے گا تو ساری طمطراق ختم ہو جائے گی۔ ابھی موقع ہے کہ گناہوں سے توبہ کر کے محفوظ ہو جاؤ۔ کیوں توبہ و استغفار نہیں کرتے جو حق تعالیٰ عذاب کی جگہ اپنی رحمتیں تم پر نازل فرمائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ بولے ہم نے تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے بُرا شگون لیا ہے ، اس نے کہا تمہاری بد شگونی اللہ کے پاس (اللہ کی طرف) ہے ، بلکہ تم ایک قوم ہو (جو) آزمائے جاتے ہو۔ (۴۷)

تشریح: قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَّعَکَ :یعنی جب سے تیرا منحوس قدم آیا ہے اور یہ باتیں شروع کی ہیں ہم پر قحط وغیرہ کی سختیاں پڑتی جاتی ہیں اور گھر گھر میں لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے۔

قَالَ طَآئِرُكُمْ عِنْدَ اللہِ  بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ: یعنی یہ سختیاں یا برائیاں میری وجہ سے نہیں۔ تمہاری بدقسمتی سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری شرارتوں اور بد اعمالیوں کے سبب سے مقدر کی ہیں۔ کفر کی شامت سے تم پر سختی پڑی ہے کہ دیکھیں سمجھتے ہو یا نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور شہر میں تھے نو شخص وہ ملک میں فساد کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے۔ (۴۸)

تشریح:یہ نو شخص شاید نو جماعتوں کے سردار ہوں گے جن کا کام ملک میں فساد پھیلانے اور خرابی ڈالنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ اصلاح و درستی کی طرف ان کا قدم کبھی نہ اٹھتا تھا۔ مکہ میں بھی کافروں کے نو سردار تھے جو ہمہ وقت اسلام کی بیخ کنی اور پیغمبر کی دشمنی میں ساعی رہتے تھے۔ بعض مفسرین نے ان کے نام لکھے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ کہنے لگے باہم اللہ کی قسم کھاؤ، البتہ ہم ضرور اس پر اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے ، اور پھر اس کے وارثوں کو کہہ دیں گے ، ہم اس کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے۔ (۴۹)

تشریح:یعنی آپس میں معاہدے اور حلف ہوئے کہ سب مل کر رات کو حضرت صالح کے گھر پر ٹوٹ پڑو اور کسی کو زندہ نہ چھوڑو۔ پھر جب کوئی ان کے خون کا دعویٰ کرنے والا ہو تو کہہ دینا ہمیں خبر نہیں۔ ہم سچ کہتے ہیں کہ اس کے گھر کی تباہی ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھی۔ گویا ہم خود تو ایسی حرکت کیا کرتے اس وقت موقع پر موجود بھی نہ تھے۔ اس طرح کی متفقہ سازش اور دروغ گوئی سے ہم میں ایک بھی ملزم نہ ٹھہر سکے گا جس سے ان کے حمایتی خون بہا وصول کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور انہوں نے ایک مکر کیا اور ہم نے (بھی) ایک خفیہ تدبیر کی، اور وہ نہ جانتے تھے (بے خبر تھے )۔ (۵۰)

تشریح:ان کا مکر تو وہ جھوٹی سازش تھی اور خدا کا مکر تھا ان کو ڈھیل دینا کہ خوب دل کھول کر اپنی شرارتوں کی تکمیل کر لیں تاکہ مستحق عذابِ عظیم ہونے میں کوئی حجت و عذر باقی نہ رہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم حضرت صالح کا قصہ ختم کر رہے ہیں، یہ خبر نہ تھی کہ اندر اندر ان ہی کی جڑ کٹ رہی ہے اور ان ہی کا قصہ ختم ہو رہا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”ان کی ہلاکت کے اسباب پورے ہونے تھے ، شرارت جب تک حد کو نہ پہنچے ہلاکت نہیں آتی۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

پس دیکھو ان کے مکر کا انجام کیسا ہوا! کہ ہم نے انہیں اور ان کی قوم سب کو ہلاک کر ڈالا۔ (۵۱)

تشریح:ان نو اشخاص نے اول اتفاق کر کے اونٹنی کو ہلاک کیا۔ حضرت صالح نے فرمایا کہ اب تین دن سے زیادہ مہلت نہیں عذاب آ کر رہے گا۔ تب آپس میں ٹھہرایا کہ ہم تو خیر تین دن کے بعد ہلاک کیے جائیں گے ان کا تین دن سے پہلے ہی کام تمام کر دو۔ چنانچہ شب کے وقت حضرت صالح کے گھر پر چھاپہ مارنے اور ان کو مع اہل و عیال کے قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ یہ نو آدمی اس ناپاک مقصد کے لیے تیار ہو کر نکلے باقی کفار ان کے تابع یا معین تھے۔ حق تعالیٰ نے حضرت صالح کی حفاظت فرمائی۔ فرشتوں کا پہرہ لگا دیا، آخر وہ تو عذاب سماوی سے تباہ ہوئے اور اپنے ساتھ قوم کو بھی تباہ کرایا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اب یہ ان کے گھر ہیں گرے پڑے ، ان کے ظلم کے سبب، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو جانتے ہیں۔ (۵۲)

تشریح:مکہ والے شام کا سفر کرتے تو راستہ پر ”وادی القریٰ” میں ثمود کی بستیوں کے کھنڈر دیکھتے تھے۔ ”فَتِلْکَ بُیُوتُہُمْ خَاوِیَۃ” الخ میں ان ہی کی طرف اشارہ ہے۔ جانے والوں کو چاہیے کہ ان واقعات ہائلہ سے عبرت حاصل کریں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو ایمان لائے اور وہ پرہیز گاری کرتے تھے۔ (۵۳)

تشریح:یعنی حضرت صالح کے رفقاء جو ایمان لائے اور کفر و عصیان سے بچتے تھے۔ ہم نے ان کو عذاب کی لپیٹ سے بچا دیا۔ خدا کی قدرت ہے تو چن چن کر کافروں کو ہلاک کرتا ہے مومن کو نہیں چھوتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (یاد کرو) جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کیا تم بے حیائی پر اتر آئے ہو؟اور تم دیکھتے ہو۔ (۵۴)

کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس شہوت رانی کے لئے آتے ہو؟بلکہ تم لوگ جہالت کرتے ہو۔ (۵۵)

پس اس کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ لوط کے لوگوں کو نکال دو اپنے شہر سے بیشک یہ لوگ پاکیزگی پسند کرتے ہیں۔ (۵۶)

سو ہم نے اس کی بیوی کے سوائے اور اس کے گھر والوں کو بچا لیا، ہم نے اسے پیچھے رہ جانے والوں میں سے ٹھہرایا تھا۔ (۵۷)

ا ور ہم نے ان پر ایک بارش برسائی، سوکیا ہی بری بارش ڈرائے گئے لوگوں پر۔ (۵۸)

تشریح:یعنی آسمان سے پتھر برسائے اور شہر کا تختہ الٹ دیا۔ حضرت شاہ صاحب مذکورہ بالا تین قصوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان کے قصہ میں فرمایا ”ہم لائیں گے لشکر جس کا سامنا نہ کر سکیں گے ، وہ ہی بات ہوئی رسول میں اور مکہ والوں میں۔ اور حضرت صالح پر نو شخص متفق ہوئے کہ رات کو جا پڑیں۔ اللہ نے ان کو بچایا اور ان کو غارت کیا۔ مکہ کے لوگ بھی یہ ہی چاہ چکے ، لیکن نہ بن پڑا، جس رات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی، کتنے کافر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر گھیرے بیٹھے تھے کہ صبح کو اندھیرے میں نکلیں تو سب مل کر مار لیں (کسی ایک کو خون بہا نہ دینا پڑے ) حضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاف بچ کر نکل گئے۔ ان کو نہ سوجھا۔ اور قوم لوط نے چاہا کہ پیغمبر کو شہر سے نکال دیں، یہ ہی مکہ والے بھی چاہ چکے۔ اللہ نے آپ سے نکلنا بتایا کہ خود اپنے اختیار سے شہر چھوڑ کر نکل جاؤ۔ اور اسی میں کام نکالا۔ ”

(تفسیرعثمانی)

 

آ پ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور اس کے بندوں پر سلام ہو جنہیں اس نے چن لیا، کیا اللہ بہتر ہے ؟یا وہ جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں؟ (۵۹)

تشریح:قصص سے فارغ ہو کر آگے ” آٰللہُ خَیْرٌا مَّا یُشْرِکُونَ” سے توحید کا بیان فرمانا ہے۔ یہ الفاظ بطور خطبہ کے تعلیم فرمائے جو بیان شروع کرنے سے قبل ہونا چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”اللہ کی تعریف اور پیغمبر پر سلام بھیج کر اگلی بات شروع کرنی لوگوں کو سکھلا دی۔ ” (موضح) اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے جو کمالات و احسانات اوپر بضمن قصص مذکور ہوئے ہیں ان پر پیغمبر کو حکم ہوا کہ اللہ کی حمد و ثنا کریں اور شکر بجا لائیں اور اس کے مقبول بندوں پر جن میں سے بعضوں کا اوپر نام لیا گیا ہے۔ سلام بھیجیں۔

یہاں سے توحید کا وعظ شروع کیا گیا ہے یعنی قصص مذکورہ بالا سن کر اور دلائل تکوینہ و تنزیلیہ میں غور کر کے تم ہی بتلاؤ کہ ایک خدائے وحدہ لا شریک لہ کا ماننا بہتر اور نافع اور معقول ہے یا اس کی خدائی میں اس کی عاجز ترین مخلوق کو شریک ٹھہرانا۔ یہ مسئلہ اب کچھ ایسا مشکل تو نہیں رہا جس کا فیصلہ کرنے میں کچھ وقت ہو یا دیر لگے۔ تاہم مزید تذکیر و تنبیہ کی غرض سے آگے اللہ تعالیٰ کی بعض شؤن و صفات بیان کی جاتی ہیں جو توحید پر دال ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا کون ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لئے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے با رونق باغ اگائے ، تمہارے لئے (ممکن) نہ تھا کہ تم ان کے درخت اگا سکو، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ؟بلکہ وہ لوگ کج روی کرتے ہیں۔ (۶۰)

تشریح:سرے سے درختوں کا اگانا تمہارے اختیار میں نہیں۔ چہ جائیکہ اس کا پھل پھول لانا اور بار آور کرنا۔ تمام دنیا جانتی ہے اور خود یہ مشرکین بھی مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنا، بارش برسانا، درخت اگانا بجز اللہ تعالیٰ کے کسی کا کام نہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ قرآن میں ان کا اقرار و اعتراف مذکور ہے پھر یہاں پہنچ کر راستہ سے کیوں کترا جاتے ہیں۔ جب اللہ کے سوا کوئی ہستی نہیں جو خلق و تدبیر کر سکے یا کسی چیز کا مستقل اختیار رکھے تو اس کی الوہیت و معبودیت میں وہ کس طرح شریک ہو جائے گی۔ ”عبادت انتہائی تذلل کا نام ہے سو وہ اس کی ہونی چاہیے جو انتہائی درجہ میں کامل اور با اختیار ہو۔ کسی ناقص یا عاجز مخلوق کو معبودیت میں خالق کے برابر کر دینا انتہائی ظلم اور ہٹ دھرمی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا کون ہے ؟جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا، اور اس کے درمیان ندی نالے (جاری کئے ) اور اس کے لئے پہاڑ پیدا کئے ، اور دو دریاؤں کے درمیان حد فاصل بنائی، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ؟بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔ (۶۱)

تشریح: یعنی کوئی اور با اختیار ہستی ہے جس سے یہ کام بن پڑیں اور اس بناء پر وہ معبود بننے کے لائق ہو۔ جب نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ یہ مشرکین محض جہالت اور ناسمجھی سے شرک و مخلوق پرستی کے غار عمیق میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا کون ہے ، جو بیقرار (کی دعا) قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور بُرائی دور کرتا ہے ، اور تمہیں زمین میں نائب بناتا ہے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے ؟تھوڑے ہیں جو نصیحت پکڑتے ہیں۔ (۶۲)

تشریح:یعنی جب اللہ چاہے اور مناسب جانے تو بے کس اور بیقرار کی فریاد سن کر سختی کو دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:”فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآءَ۔ ” (انعام، رکوع٤’آیت ٤١) گویا اسی نے دعا کو بھی اسباب عادیہ میں سے ایک سبب بنایا ہے۔ جس پر مسبب کا ترتب بمشیت الٰہی استجماعِ شروط اور ارتفاعِ موانع کے بعد ہوتا ہے اور علامہ طیبی وغیرہ نے کہا کہ آیت میں مشرکین کو تنبیہ ہے کہ سخت مصائب و شدائد کے وقت تو تم بھی مضطر ہو کر اسی کو پکارتے ہو اور دوسرے معبودوں کو بھول جاتے ہو، پھر فطرت اور ضمیر کی اس شہادت کو امن و اطمینان کے وقت کیوں یاد نہیں رکھتے۔

وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْأَرْضِ :یعنی ایک قوم یا نسل کو اٹھا لیتا اور اس کی جگہ دوسری کو آباد کرتا ہے جو زمین میں مالکانہ اور بادشاہانہ تصرف کرتے ہیں۔ پوری طرح دھیان کرتے تو دور جانے کی ضرورت نہ پڑتی انہی اپنی حوائج و ضروریات اور قوموں کے ادل بدل کو دیکھ کر سمجھ سکتے تھے جس کے ہاتھ میں ان امور کی باگ ہے تنہا اسی کی عبادت کرنی چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا کون ہے جو خشکی (جنگل) اور دریا کے اندھیروں میں تمہیں راہ دکھاتا ہے ؟اور کون ہے جو اس کی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری دینے والی ہوائیں چلاتا ہے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ، اللہ برتر ہے اس سے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔ (۶۳)

تشریح:یعنی خشکی اور دریا کی اندھیریوں میں ستاروں کے ذریعہ سے تمہاری راہنمائی کرتا ہے۔ خواہ بلاواسطہ یا بالواسطہ قطب نما وغیرہ آلات کے۔ بارانِ رحمت سے پہلے ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی آمد آمد کی خوشخبری سناتی ہیں۔ کہاں وہ قادرِ مطلق اور حکیم برحق اور کہاں عاجز و ناقص مخلوق، جسے اس کی خدائی کا شریک بتلایا جا رہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بھلا کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے ؟پھر وہ اسے دوبارہ زندہ کرے گا اور کون ہے جو تمہیں رزق دیتا ہے ؟آسمانوں اور زمین سے ، کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور ) معبود ہے ؟ آپ فرما دیں لے آؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو۔ (۶۴)

تشریح:ابتداء پیدا کرنا تو سب کو مسلم ہے کہ اللہ کا کام ہے۔ موت کے بعد دوبارہ پیدا کرنے کو بھی اس سے سمجھ لو۔ منکرین ”بعث بعد الموت” بھی اتنا سمجھتے تھے کہ اگر بالفرض دوبارہ پیدا کیے گئے تو یہ کام اسی کا ہو گا جس نے اول پیدا کیا تھا۔ کون ہے جو آسمانی اور زمینی اسباب کے ذریعہ سے اپنی حکمت کے موافق تم کو روزی پہنچاتا ہے۔ اگر اتنے صاف نشانات اور واضح دلائل سننے کے بعد بھی تم خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور شرک کی قباحت کو تسلیم نہیں کرتے تو جو کوئی دلیل تم اپنے دعوے باطل کے ثبوت میں رکھتے ہو پیش کرو۔ ابھی تمہارا جھوٹ سچ کھل جائے گا۔ مگر وہاں دلیل و برہان کہاں محض اندھی تقلید ہے۔ ”وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللہِ اِلٰہاً اٰخَرَ لاَ بُرْہَانَ لَہ، بِہٖ فَاِنَّمَا حِسَابُّہ، عِنْدَ رَبِّہٖ” (مومنون، رکوع٦’ آیت ١١٧)۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں جو (بھی) آسمانوں اور زمین میں ہے ، اللہ کے سوا غیب (کی باتیں) نہیں جانتا، اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کب (جی) اٹھائے جائیں گے۔ (۶۵)

تشریح:اللہ تعالی اپنے پیغمبروں کو غیب کی بہت سی باتیں وحی کے ذریعے بتا دیتے ہیں، اور اس سلسلے میں سب سے زیادہ غیب کی خبریں حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی گئی تھیں، لیکن مکمل علم غیب اللہ تعالی کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے اس لئے اس کے سوا کسی کو عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا۔

(توضیح القرآن)

 

بلکہ آخرت کے بارہ میں ان کا علم تھک کر رہ گیا ہے (کچھ بھی نہیں) بلکہ وہ اس سے شک میں ہیں، بلکہ وہ اس سے اندھے ہیں۔ (۶۶)

تشریح:یعنی عقل دوڑا کر تھک گئے ، آخرت کی حقیقت نہ پائی۔ کبھی شک کرتے ہیں کبھی منکر ہوتے ہیں (موضح) اور بعض مفسرین نے یوں تقریر کی ہے کہ آخرت کے ادراک تک ان کے علم کی رسائی نہ ہوئی اور عدم علم کی وجہ سے صرف خالی الذہن رہے بلکہ اس کے متعلق شک و تردد میں پڑ گئے ، اور نہ صرف شک و تردد بلکہ ان دلائل و شواہد سے بالکل آنکھیں بند کر لیں جن میں غور و تامل کرتے تو شک رفع ہو سکتا تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کافروں نے کہا کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا مٹی ہو جائیں گے کیا ہم (قبروں سے ) نکالے جائیں گے۔ (۶۷)

تحقیق ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے اس سے قبل کہا گیا تھا، یہ صرف اگلوں کی کہانیاں ہیں۔ (۶۸)

تشریح:یعنی پہلے ہمارے بڑوں سے یہی وعدے کیے گئے تھے۔ جو پہلے کہہ گئے ان ہی کی نقل آج یہ پیغمبر بھی اتار رہے ہیں۔ لیکن کتنے قرن گزر چکے ہم نے تو آج تک نہ دیکھا نہ سنا کہ کوئی مردہ مٹی میں مل جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہوا ہو اور اس کو سزا ملی ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کیسا مجرموں کا انجام ہوا! (۶۹)

تشریح:یعنی کتنے مجرموں کو دنیا ہی میں عبرتناک سزائیں مل چکی ہیں اور پیغمبروں کا فرمانا پورا ہو کر رہا۔ اسی پر قیاس کر لو کہ بعث بعد الموت اور عذابِ اخروی کی جو خبر انبیاء دیتے چلے آئے ہیں یقیناً پوری ہو کر رہے گی یہ کارخانہ یوں ہی بے سرا نہیں کہ اس پر کوئی حاکم نہ ہو، وہ اپنی رعایا کو یوں ہی مہمل نہ چھوڑے گا جب سب مجرموں کو یہاں پوری سزا نہیں ملتی تو یقیناً کوئی دوسری زندگی ہو گی جہاں ہر ایک اپنی کیف کردار کو پہنچے اگر تمہاری یہی تکذیب رہی تو مکذبین کا جو انجام دنیا میں ہوا تمہارا بھی ہو سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ غم نہ کھائیں اور دل تنگ نہ ہوں اس سے جو وہ مکر و فریب کرتے ہیں۔ (۷۰)

تشریح:یعنی ان کو سمجھا کر اور بدی کے انجام پر متنبہ کر کے الگ ہو جائیے اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو آپ بہت زیادہ غم و تاسف نہ کریں اور نہ ان کے مکر و فریب اور حق کے خلاف تدبیریں کرنے سے تنگدل اور خفا ہوں، آپ اپنا فرض ادا کر چکے ، اللہ تعالیٰ ایسے ضدی مجرموں سے خود نبٹ لے گا اور جس طرح پہلے مجرموں کو سزائیں دی گئی ہیں ان کو بھی دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا   ہو گا؟اگر تم سچے ہو۔ (۷۱)

تشریح:یعنی آخر وہ قیامت کب آئے گی؟ اور جس عذاب کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں کب نازل ہو گا؟

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں شاید وہ (عذاب) تمہارے قریب آ گیا ہو جس کی تم جلدی کرتے ہو۔ (۷۲)

تشریح:یعنی گھبراؤ نہیں، وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ اور کچھ بعید نہیں کہ وعدہ کا کچھ حصہ قریب ہی آ لگا ہو (چنانچہ زیادہ دن نہ گزرے کہ ”بدر” میں سزا کی ایک قسط پہنچ گئی) رہی قیامت کبریٰ، سو اس کے بھی بعض آثار و علامات ظاہر ہونے شروع ہو گئے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور بیشک تمہارا رب البتہ لوگوں پر فضل والا ہے ، لیکن ان کے اکثر شکر نہیں کرتے۔ (۷۳)

تشریح:یعنی حق تعالیٰ اپنے فضل سے اگر عذاب میں تاخیر کرتا ہے تو چاہیے تھا اس مہلت کو غنیمت سمجھتے اور اس کی مہربانی کے شکر گزار ہو کر ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کرتے ،لیکن وہ اس کے خلاف ناشکری کرتے اور اپنے منہ سے عذاب مانگتے ہیں۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور بیشک تمہارا رب خوب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں چھپی ہے اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (۷۴)

اور کچھ پوشیدہ نہیں زمین وآسمان میں مگر وہ کتاب روشن میں (لکھی ہوئی) ہے۔ (۷۵)

تشریح:یعنی تمہارے ظاہری و پوشیدہ اعمال، دلوں کے بھید نیتیں، ارادے اور زمین و آسمان کے چھپے سے چھپے راز سب اللہ تعالیٰ کے علم میں حاضر اور اس کے دفتر میں درج ہیں۔ ہر بات اسی کے موافق اپنے اپنے وقت پر وقوع پذیر ہو گی۔ جلدی مچانے یا دیر لگانے سے کچھ حاصل نہیں۔ جو چیز علم الٰہی میں طے شدہ ہے جلد یا بدیر اپنے وقت پر آئے گی اور ہر ایک کو اس کے عمل اور نیت و عزم کے موافق پھل مل کر رہے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل پر (بنی اسرائیل کے سامنے ) اکثر وہ باتیں بیان کرتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۷۶)

اور بیشک یہ (قرآن) البتہ ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔ (۷۷)

تشریح: یعنی ابھی عملی فیصلہ کا وقت نہیں آیا، البتہ قرآن قولی و عملی فیصلہ کے لیے آیا ہے۔ اس وقت سماوی علوم اور مذہبی چیزوں کے سب سے بڑے عالم ”بنی اسرائیل” سمجھے جاتے تھے مگر عقائد، احکام اور قصص و روایات کے متعلق ان کے شدید اختلافات کا فیصلہ کن تصفیہ بھی قرآن نے سنایا۔ فی الحقیقت قرآن ہی وہ کتاب ہے جس نے دنیا کو خداوند قدوس کا آخری پیغام پہنچایا۔ اور ایمان لانے والوں کی رہبری کی ،تاکہ لوگ اس دن کے لیے تیاری کر رکھیں۔ جبکہ ہر معاملہ کا عملی فیصلہ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تمہارا رب اپنے حکم سے ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہے ، اور وہ البتہ غالب، علم والا ہے۔ (۷۸)

تشریح: یعنی قرآن تو آیا ہے سمجھانے اور آگاہ کرنے کو، باقی تمام معاملات کا حکیمانہ اور حاکمانہ فیصلہ خدائے قادر و توانا کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس اللہ پر بھروسہ کرو، بے شک تم صریح حق پر ہو۔ (۷۹)

تشریح: یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی کے اختلاف و تکذیب سے متاثر نہ ہوں۔ خدا پر بھروسہ کر کے اپنا کام کیے جائیں۔ جس صحیح و صاف راستہ پر آپ چل رہے ہیں اس میں کوئی کھٹکا نہیں، آدمی جب صحیح راستہ پر ہو اور خدائے واحد پر بھروسہ رکھے پھر کیا غم ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تم مردوں کو نہیں سنا سکتے نہ بہروں کو (اپنی) پکار سنا سکتے ہو (خصوصاً) جب وہ پیٹھ پھیر کر مڑ جائیں۔ (۸۰)

اور تم اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہدایت دینے والے نہیں، تم صرف (اس کو) سنا سکتے ہو جو ایمان لاتا ہے ہماری آیتوں پر، پس وہ فرماں بردار ہیں۔ (۸۱)

تشریح: یعنی جس طرح ایک مردہ کو خطاب کرنا یا کسی بہرے کو پکارنا خصوصاً جبکہ وہ پیٹھ پھیرے چلا جا رہا ہو اور پکارنے والے کی طرف قطعاً ملتفت نہ ہو ان کے حق میں سودمند نہیں یہی حال ان مکذبین کا ہے جن کے قلوب مر چکے ہیں اور دل کے کان بہرے ہو گئے ہیں اور سننے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے کہ ان کے حق میں کوئی نصیحت نافع اور کارگر نہیں۔ ایک نپٹ اندھے کو جب تک آنکھ نہ بنوائے تم کس طرح راستہ یا کوئی چیز دکھلا سکتے ہو۔ یہ لوگ بھی دل کے اندھے ہیں اور چاہتے بھی نہیں کہ اندھے پن سے نکلیں۔ پھر تمہارے دکھلانے سے وہ دیکھیں تو کیسے دیکھیں۔ نصیحت سنانا ان کے حق میں نافع ہے جو سن کر اثر قبول کریں۔ اور اثر قبول کرنا یہی ہے کہ خدا کی باتوں پر یقین کر کے فرماں بردار بنیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب اُن پر وعدۂ عذاب پورا ہو جائے گا تو ہم ان کے لئے نکالیں گے زمین سے ایک جانور، وہ اُن سے باتیں کرے گا کیونکہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہ کرتے تھے۔ (۸۲)

تشریح: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”قیامت سے پہلے صفا پہاڑ مکہ کا پھٹے گا اس میں سے ایک جانور نکلے گا جو لوگوں سے باتیں کرے گا کہ اب قیامت نزدیک ہے اور سچے ایمان والوں کو اور چھپے منکروں کو نشان دے کر جدا کر دے گا۔ ” (موضح) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل آخر زمانہ میں طلوع الشمس من المغرب کے دن ہو گا۔ قیامت تو نام ہی اس کا ہے کہ عالم کا سب موجودہ نظام درہم برہم کر دیا جائے لہٰذا اس قسم کے خوارق پر کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیے جو قیامت کی علاماتِ قریبہ اور اس کے پیش خیمہ کے طور پر ظاہر کی جائیں گی۔ شاید ”دابۃ الارض” کے ذریعہ سے یہ دکھلانا ہو کہ جس چیز کو تم پیغمبروں کے کہنے سے نہ مانے تھے ، آج وہ ایک جانور کی زبانی ماننی پڑ رہی ہے۔ مگر اس وقت کا ماننا نافع نہیں۔ صرف مکذبین کی تجہیل و تحمیق مقصود ہے۔ ماننے کا جو وقت تھا گزر گیا۔ (تنبیہ) ”دابۃ الارض” کے متعلق بہت سے رطب و یابس اقوال و روایات تفاسیر میں درج کی گئی ہیں۔ مگر معتبر روایات سے تقریباً اتنا ہی ثابت ہے جو حضرت شاہ صاحب نے لکھا۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک گروہ جمع کریں گے اُن میں سے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے ، پھر ان کی جماعت بندی کی جائے گی۔ (۸۳)

تشریح:ہر گناہ والوں کے جتھے اور جماعتیں الگ الگ ہوں گی۔ (تنبیہ) عموماً مفسرین نے ”فَہُمْ یُوزَعُونَ” کے معنی روکنے کے لیے ہیں۔ یعنی ہر امت کے مکذبین کو محشر کی طرف لے چلیں گے اور وہ اتنی کثرت سے ہوں گے کہ پیچھے چلنے والوں کو آگے بڑھنے سے روکا جائے گا۔ جیسے انبوہ کثیر میں انتظام قائم رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہاں تک کہ جب وہ آ جائیں گے (اللہ تعالی) فرمائے گا کیا تم نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تم ان کو (اپنے) احاطۂ علم میں بھی نہیں لائے تھے (یا بتلاؤ) تم کیا کرتے تھے۔ (۸۴)

تشریح: یعنی پوری طرح سمجھنے اور تمام اطراف و جوانب پر نظر ڈالنے کی کوشش بھی نہ کی، پہلے ہی جھٹلانا شروع کر دیا۔ یا بولو! ‘یہ نہیں تو اور کیا کرتے تھے۔ ” یعنی اس کے سوا تمہارا کام ہی کیا تھا۔ اور ممکن ہے یہ مطلب ہو کہ بے سوچے سمجھے تکذیب ہی کی تھی؟ یا بولو! اس کے سوا اور بھی کچھ گناہ سمیٹے تھے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ان پر وعدۂ عذاب پورا ہو گیا، اس لئے کہ انہوں نے ظلم کیا تھا، پس وہ بول نہ سکیں گے۔ (۸۵)

تشریح: یعنی ان کی شرارتوں کا یقینی ثبوت ہو چکا اور خدا کی حجت تمام ہو چکی۔ اب آگے وہ کیا بول سکتے ہیں۔ باقی بعض آیات میں جو ان کا عذر پیش کرنا مذکور ہے وہ شاید اس سے پہلے ہو چکے گا۔ بہرحال نفی و اثبات کو اختلاف مواطن پر حمل کیا جائے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایا کہ وہ اس میں آرام حاصل کریں اور دن دیکھنے کو (روشن بنایا) بے شک اس میں البتہ اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۸۶)

تشریح: یعنی کیسے کھلے کھلے نشان اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دکھلائے ، پر ذرا بھی غور نہ کیا۔ ایک رات دن کے روزانہ ادل بدل ہی میں غور کر لیتے تو اللہ کی توحید پیغمبروں کی ضرورت اور بعث بعد الموت، سب کچھ سمجھ سکتے تھے۔ آخر وہ کون ہستی ہے جو ایسے مضبوط و محکم انتظام کے ساتھ برابر دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن کو نمودار کرتا ہے اور جس نے ہماری ظاہری بصارت کے لیے شب کی تاریکی کے بعد دن کا اجالا کیا، کیا وہ ہماری باطنی بصیرت کے لیے اوہام و اہواء کی تاریکیوں میں معرفت و ہدایت کی روشنی نہ بھیجتا۔ پھر رات کیا ہے ؟ نیند کا وقت ہے جسے ہم موت کا ایک نمونہ قرار دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد دن آیا پھر آنکھیں کھول کر ادھر ادھر پھرنے لگے۔ اسی طرح اگر حق تعالیٰ ہم پر موت طاری کرے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھا لے تو اس میں کیا استحالہ ہے۔ غرض یقین کرنے والوں کے لیے اسی ایک نشان میں تمام ضروری چیزوں کا حل موجود ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی تو گھبرا جائے گا جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے سوائے اس کے جسے اللہ چاہے اور سب اس کے آگے عاجز ہو کر آئیں گے۔ (۸۷)

تشریح: صور پھونکنے والا فرشتہ اسرافیل ہے جو حکم الٰہی کے انتظار میں صور لیے تیار کھڑا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ”اِلَّا مَنْ شَآءَ اللہُ” جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت ہیں۔ اور بعض نے شہداء کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔

حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”ایک بار صور پھونکے گا جس سے خلق مر جائے گی۔ دوسرا پھونکے گا تو جی اُٹھیں گے اس کے بعد پھونکے گا تو گھبرا جائیں گے ‘ پھر پھونکے گا تو بے ہوش ہو جائیں گے اور پھر پھونکے گا تو ہشیار ہوں گے۔ صور پھونکنا کئی بار ہے۔ ” (موضح) اور بہت سے علماء صرف دو نفخے مانتے ہیں یعنی کل دو مرتبہ پھونکے گا۔ اور سب احوال کو انہی دو میں درج کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے تو انہیں (اپنی جگہ) جما ہوا خیال کرتا ہے ، اور وہ (قیامت کے دن) بادلوں کی طرح چلیں گے (اُڑتے پھریں گے ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر شے کو خوبی سے بنایا ہے بیشک وہ اس سے خبر دار ہے جو تم کرتے ہو۔ (۸۸)

تشریح: یعنی جن بڑے بڑے پہاڑوں کو تم اس وقت دیکھ کر خیال کرتے ہو کہ ہمیشہ کے لیے زمین میں جمے ہوئے ہیں کبھی اپنی جگہ سے جنبش نہ کھا سکیں گے ، قیامت کے دن یہ روئی کے گالوں کی طرح فضا میں اڑتے پھریں گے اور بادل کی طرح تیز رفتار ہوں گے۔ ”وبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا فَکَانَتْ ہَبَآءً مُّنْبَثًّا (واقعہ، رکوع١’آیت ٦’٥) ”وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ۔ ” (القارعہ، رکوع١’آیت ٥) ”فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّی نَسْفًا” (طہٰ، رکوع٥’آیت ١٠٥) (تنبیہ) آیت ہذا کو زمین کی حرکت و سکون کے مسئلہ سے کچھ علاقہ نہیں جیسا کہ بعض متنورین نے سمجھا ہے۔

صُنْعَ اللہِ الَّذِیْٓ أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ :یعنی جس نے ہر چیز کو نہایت حکمت سے درست کیا اسی نے آج پہاڑوں کو ایسا بھاری اور مضبوط بنایا ہے اور وہی ان کو ایک دن ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا۔ وہ اڑانا محض تباہ کرنے کی غرض سے نہ ہو گا بلکہ عالم کو توڑ پھوڑ کر اس درجہ پر پہنچانا ہو گا جہاں پہنچانے کے لیے ہی اسے پیدا کیا ہے۔ تو یہ اسی صانع حقیقی کی کاریگری ہوئی جس کا کوئی تصرف حکمت سے خالی نہیں۔

إِنَّہٗ خَبِيْرٌ بِمَا تَفْعَلُوْنَ :یعنی اس توڑ پھوڑ اور انقلاب عظیم کے بعد بندوں کا حساب کتاب ہو گا اور چونکہ حق تعالیٰ بندوں کے ذرہ ذرہ عمل سے خبردار ہے تو ہر ایک کو ٹھیک اس کے عمل کے موافق جزا و سزا دی جائے گی۔ نہ ظلم ہو گا نہ حق تلفی ہو گی۔ آگے اسی کے قدرے تفصیل ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو آیا کسی نیکی کے سا تھ تو اس کے لئے (اس کا اجر) اس سے بہتر ہے اور وہ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ ہوں گے۔ (۸۹)

تشریح: یعنی ایک نیکی کا بدلہ کم از کم دس نیکیوں کے حساب سے دیا جائے گا۔ جو کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور جو بُرائی کے ساتھ آیا تو وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں گے ، تم صرف (وہی) بدلہ دئیے جاؤ گے (بدلہ پاؤ گے ) جو تم کرتے تھے۔ (۹۰)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ زیادتی نہیں۔ جو کرنا، سو بھرنا، خود کردہ را چہ علاج۔

(تفسیرعثمانی)

 

(آپ فرما دیں) اس کے سوا نہیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جسے اس نے محترم بنایا ہے اور اسی کے لئے ہے ہر شے اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں مسلمانوں (فرمانبرداروں) میں سے رہوں۔ (۹۱)

تشریح:شہر سے مراد ہے مکہ معظمہ جسے خدا تعالیٰ نے معظم و محترم بنایا۔ اسی تخصیص و تشریف کی بناء پر رب کی اضافت اس کی طرف کی گئی ورنہ یوں ہر چیز کا رب اور مالک و ہی ہے۔

وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ : ان لوگوں میں رہوں جو حق تعالیٰ کی کامل فرمانبرداری کرنے والے اور اپنے کو ہمہ تن اس کے سپرد کر دینے والے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ کہ میں قرآن کی تلاوت کروں (سنادوں) پس اس کے سوا نہیں کہ جو ہدایت پاتا ہے وہ اپنی ذات کے لئے ہدایت پاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو آپ فرما دیں کہ اس کے سوا نہیں کہ میں تو ڈرانے والا ہوں۔ (۹۲)

تشریح:یعنی بذاتِ خود اللہ کی بندگی اور فرمانبرداری کرتا رہوں اور دوسروں کو قرآن سنا کر اللہ کا راستہ بتلاتا رہوں۔

وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَآ أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ :میں نصیحت کر کے فارغ الذمہ ہو چکا، نہ سمجھو تو تمہارا ہی نقصان ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہ تمہیں جلد دکھا دے گا اپنی نشانیاں، پس تم جلد انہیں پہچان لو گے اور تمہارا رب اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔ (۹۳)

تشریح: وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ :یعنی اللہ کا ہزاروں ہزار شکر جس نے مجھ کو ہادی و مہتدی بنایا۔ فی الحقیقت تعریف کے لائق اسی کی ذات ہے۔ جس کو خوبی یا کمال ملا وہیں سے ملا۔

سَيُرِيْكُمْ اٰيَاتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا : آگے چل کر حق تعالیٰ تمہارے اندر یا تم سے باہر اپنی قدرت کے وہ نمونے اور میری صداقت کے ایسے نشان دکھلائے گا جنہیں دیکھ کر سمجھ لو گے کہ بیشک یہ اللہ کی و ہی آیات ہیں جن کی خبر پیغمبر نے دی تھی باقی اس وقت کا سمجھنا تم کو نافع ہو یا نہ ہو، جداگانہ چیز ہے۔ علامات قیامت وغیرہ سب اس کے تحت میں آ گئیں۔

وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ :جو عمل اور معاملہ تم کرتے ہو، سب اس کی نظر میں ہے۔ اسی کے موافق آخرکار بدلہ ملے گا۔ اگر سزا وغیرہ میں تاخیر ہو تو نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ ہماری کرتوت سے بے خبر ہے ، تم سورۃ النمل وللّٰہ الحمد والمنہ۔

(تفسیرعثمانی)

٭٭

 

 

 

 

۲۸۔ سورۃ القصص

 

                تعارف

 

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے کہ یہ سورت سورۂ نمل (سورت نمبر:۲۷) کے بعد نازل ہوئی تھی، اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آخری سورت ہے جو مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے نازل ہوئی، کیونکہ اس کی آیت نمبر:۸۵ اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہو چکے تھے ، سورت کا مرکزی موضوع حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی دعوت کی سچائی کو ثابت کرنا ہے ، سورت کی پہلی ۴۳ آیتوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ابتدائی زندگی کی وہ تفصیلات بیان فرمائی گئی ہیں جو کسی اور سورت میں بیان نہیں ہوئیں، اس واقعے کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد آیات ۴۴ تا ۴۷ میں اللہ تعالی نے اشارہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ان واقعات کو اتنی تفصیل سے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اس کے باوجود جب آپ یہ واقعات بیان فرما رہے ہیں تو اس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ آپ پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی آتی ہے ، کفار مکہ کی طرف سے آپ کی نبوت اور رسالت پر جو اعتراضات کئے جاتے تھے ، اُن کا شافی جواب بھی اس سورت میں دیا گیا اور آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں ان کے طرز عمل کی کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی، پھر کفار مکہ جن جھوٹے خداؤں پر ایمان رکھتے ہیں ان کی تردید کی گئی ہے ، قریش کے بڑے بڑے سردار اپنی دولت پر غرور کی وجہ سے بھی آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرتے تھے ، اُن کی عبرت کے لئے آیات ۷۶ تا ۸۲ میں قارون کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سب سے زیادہ دولت مند شخص تھا، لیکن اس کی دولت اسے تباہی سے نہ بچا سکی جو غرور اور ضد کے نتیجے میں اُس پر آ کر رہی، سورت کے آخر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگرچہ اس وقت آپ بے سروسامانی کی حالت میں مکہ مکرمہ چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں، لیکن اللہ تعالی آپ کو فاتح کی حیثیت سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آنے کا موقع عنایت فرمائے گا۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

 

آیات:۸۸        رکوعات:۹

 

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

 

طٰسٓمّٓ۔ (۱) یہ واضح کتاب (قرآن) کی آیتیں ہیں۔ (۲)

ہم تم پر پڑھتے ہیں (تمہیں سناتے ہیں) کچھ احوال موسیٰ اور فرعون کا ٹھیک ٹھیک، ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۳)

تشریح: یعنی مسلمان لوگ اپنا حال قیاس کر لیں ظالموں کے مقابلہ میں (موضح) جس طرح حضرت موسٰی علیہ السلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو باوجود کمزوری کے فرعونیوں کی طاقت کے مقابلہ میں منصور و کامیاب کیا۔ ایسے ہی مسلمان جو فی الحال مکہ میں قلیل اور ضعیف و ناتواں نظر آتے ہیں اپنے بیشمار طاقتور حریفوں کے مقابلہ پر کامیاب ہوں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک فرعون ملک میں سرکشی کر رہا تھا، اور اس نے اس کے باشندوں کو الگ الگ گروہ کر دیا تھا ان میں سے ایک گروہ (بنی اسرائیل) کو کمزور کر رکھا تھا، ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا، اور زندہ چھوڑ دیتا تھا ان کی عورتوں (بیٹیوں) کو، بیشک وہ مفسدوں میں سے (فسادی) تھا۔ (۴)

تشریح:  یعنی ”مصر” میں قبطی بھی آباد تھے جو فرعون کی قوم تھی اور سبطی بھی جو ”بنی اسرائیل” کہلاتے تھے ، لیکن فرعون ظلم و تکبر کی راہ سے ”بنی اسرائیل” کو پنپنے اور ابھرنے نہیں دیتا تھا۔ گویا سب قبطی آقا بنے ہوئے تھے اور پیغمبروں کی اولاد بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ ان سے ذلیل کام اور بیگاریں لیتے اور کسی طرح اس قابل نہ ہونے دیتے کہ ملک میں وہ کوئی قوت و وقعت حاصل کر سکیں۔

کہتے ہیں فرعون نے کوئی خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر کاہنوں نے یہ دی کہ کسی اسرائیلی کے ہاتھ سے تیری سلطنت برباد ہو گی۔ اس لیے پیش بندی کے طور پر یہ احمقانہ اور ظالمانہ تدبیر سوچی کہ بنی اسرائیل کو ہمیشہ کمزور کرتے رہنا چاہیے کہ انہیں حکومت کے مقابلہ کا حوصلہ ہی نہ ہو اور آئندہ جو لڑکے ان کے پیدا ہوں ان کو ایک طرف سے ذبح کر ڈالنا چاہیے۔ اس طرح آنے والی مصیبت رک جائے گی۔ البتہ لڑکیوں سے چونکہ کوئی خطرہ نہیں، انہیں زندہ رہنے دیا جائے۔ وہ بڑی ہو کر باندیوں کی طرح ہماری خدمت کیا کریں گی۔ اور ابن کثیر لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل آپس میں حضرت ابراہیم خلیل کی ایک پیشین گوئی کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ جس میں خبر دی گئی تھی کہ ایک اسرائیلی جو ان کے ہاتھ پر اس سلطنت مصر کی تباہی مقدر ہے۔ شدہ شدہ یہ تذکرے فرعون کے کانوں تک پہنچ گئے اس احمق نے قضاء و قدر کی روک تھام کے لیے ظلم و ستم کی یہ اسکیم جاری کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم چاہتے تھے کہ ان لوگوں پر ا حسان کریں جو ملک میں کمزور کر دئے گئے تھے ، اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہیں (ملک کا) وارث بنائیں۔ (۵)

اور ہم انہیں حکومت دیں ملک میں اور ہم فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر کو ان (کمزوروں کے ہاتھوں) دکھا دیں جس چیز سے وہ ڈرتے تھے۔ (۶)

تشریح: ”ہامان” وزیر تھا فرعون کا جو ظلم و ستم میں اس کا شریک اور آلہ کار بنا ہوا تھا۔ جس خطرہ کی وجہ سے انہوں نے بنی اسرائیل کے ہزارہا بچوں کو ذبح کر ڈالا تھا۔ ہم نے چاہا کہ وہ ہی خطرہ ان کے سامنے آئے۔ فرعون نے امکانی کوشش کر دیکھی اور پورے زور خرچ کر لیے کہ کسی طرح اسرائیلی بچہ سے مامون ہو جائے۔ جس کے ہاتھ پر اس کی تباہی مقدر تھی، لیکن تقدیر الٰہی کہاں ٹلنے والی تھی۔ خداوند قدیر نے اس بچہ کو اسی کی گود میں اسی کے بستر پر اسی کے محلات کے اندر شاہانہ ناز و نعم سے پرورش کرایا۔ اور دکھلا دیا کہ خدا جو انتظام کرنا چاہے ، کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے موسیٰ کی ماں کو الہام کیا کہ وہ اس کو دودھ پلاتی رہے ، پھر جب اس پر (اس کے بارے میں) ڈرے تو اسے دریا میں ڈال دے ، اور نہ ڈرے اور نہ غم کھائے ، بیشک ہم اسے تیری طرف لوٹا دیں گے ، اور اسے بنا دیں گے رسولوں میں سے (رسول)۔ (۷)

تشریح: ان کی ماں کو الہام ہوا یا خواب دکھایا اور کسی ذریعہ سے معلوم کرا دیا گیا کہ جب تک بچہ کے قتل کا اندیشہ نہ ہو برابر دودھ پلاتی رہیں، جب اندیشہ ہو تو صندوق میں رکھ کر دریائے نیل میں چھوڑ دیں۔ سورہ ”طہٰ” میں یہ قصہ گزر چکا ہے۔

فَأَلْقِيْہِ فِی الْيَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِيْٓ:ماں کی تسلی کر دی کہ ڈرے مت، بے کھٹکے دریا میں چھوڑ دے ، بچہ ضائع نہیں ہو سکتا۔ اور بچہ کی جدائی سے غمگین بھی مت ہو ہم بہت جلد اس کو تیری ہی آغوش شفقت میں پہنچا دیں گے خدا کو اس سے بڑے کام لینے ہیں۔ وہ منصب رسالت پر سرفراز کیا جائے گا۔ کوئی طاقت اللہ کے ارادہ میں حائل و مانع نہیں ہو سکتی۔ تمام رکاوٹیں عبور کر کے وہ مقصد پورا کرتا ہے جو اس محترم بچہ کی پیدائش سے متعلق ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر فرعون کے گھر والوں نے اسے اٹھا لیا تاکہ (آخر کار) وہ ان کے لئے دشمن اور غم کا باعث ہو، بیشک فرعون اور ہامان اور ان کا لشکر خطاکار تھے۔ (۸)

تشریح: آخر ماں نے بچہ کو لکڑی کے صندوق میں ڈال کر چھوڑ دیا۔ صندوق بہتا ہوا ایسی جگہ جا لگا جہاں سے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کے ہاتھ لگ گیا۔ ان کو اس پیارے بچہ کی پیاری صورت بھلی معلوم ہوئی۔ آثار نجابت و شرافت سے نظر آئے۔ پالنے کی غرض سے اٹھا لیا۔ مگر اس اٹھانے کے آخری نتیجہ یہ ہونا تھا کہ وہ بچہ بڑا ہو کر فرعون اور فرعونیوں کا دشمن ثابت ہو، اور ان کے حق میں سوہان روح بنے ، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھانے کا موقع دیا۔ فرعون لعین کو کیا خبر تھی کہ جس دشمن کے ڈر سے ہزار ہا معصوم بچے تہہ تیغ کرا چکا ہوں وہ یہ ہی ہے جسے بڑے چاؤ پیار سے آج ہمارے ہاتھوں میں پرورش کرایا جا رہا ہے۔ فی الحقیقت فرعون اور اس کے وزیر و مشیر اپنے ناپاک مقصد کے اعتبار سے بہت چوکے کہ بیشمار اسرائیلی بچوں کو ایک شبہ پر قتل کر نے کے باوجود موسٰی کو زندہ رہنے دیا۔ لیکن نہ چوکتے تو کیا کرتے ، کیا خدا کی تقدیر کو بدل سکتے تھے یا مشیت ایزدی کو روک سکتے تھے ان کی بڑی چوک تو یہ تھی کہ سمجھے کہ قضاء و قدر کے فیصلوں کو انسانی تدبیروں سے روکا جا سکتا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہا فرعون کی بیوی نے ، یہ آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لئے اور تیرے لئے ، اسے قتل نہ کر شاید ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور وہ (حقیقت حال ) نہیں جانتے تھے۔ (۹)

تشریح: یعنی کیسا پیارا بچہ ہے ، ہمارے کوئی لڑکا نہیں، لاؤ اسی سے دل بہلائیں اور آنکھیں ٹھنڈی کیا کریں۔ بعض روایات میں ہے کہ فرعون نے کہا ”لَکِ لاَ لِی” (تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گی میری نہیں) تقدیر ازلی یہ الفاظ اس ملعون کی زبان سے کہلا رہی تھی۔ آخر و ہی ہوا۔ یہ تو خبر نہ تھی کہ بڑا ہو کر کیا کرے گا۔ سمجھے کہ بنی اسرائیل میں سے کسی نے خوف سے ڈالا ہے ایک لڑکا نہ مارا تو کیا ہوا۔ کیا ضرور ہے کہ یہی وہ بچہ ہو جس سے ہمیں خوف ہے۔ پھر جب ہم پرورش کریں گے وہ خود ہی ہم سے شرمائے گا۔ کس طرح ممکن ہے کہ ہم سے ہی دشمنی کرنے لگے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ یہ اس کا دوست ہو گا جو سارے جہان کا پرورش کرنے والا ہے اور تم چونکہ اس کے دشمن ہو اس لیے مجبور ہو گا کہ پروردگارِ حقیقی کے حکم سے تمہاری مخالفت کرے۔ تم اپنی ظاہری تربیت پر تو ایسی اچھی امیدیں باندھتے ہو، مگر شرم نہیں آتی کہ اس رب حقیقی کے مقابلہ میں ”اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی”کی آواز بلند کر رہے ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور موسیٰ کی ماں کا دل بے قرار ہو گیا، تحقیق قریب تھا کہ وہ اس کو ظاہر کر دیتی اگر ہم نے اس کے دل پر گرہ نہ لگائی ہوتی کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے رہے۔ (۱۰)

تشریح: موسٰی علیہ السلام کی والدہ بچہ کو دریا میں ڈال آئیں مگر ماں کی مامتا کہاں چین سے رہنے دیتی۔ موسٰی کا رہ رہ کر خیال آتا تھا۔ دل سے قرار جاتا رہا۔ موسٰی کی یاد کے سوا کوئی چیز دل میں باقی نہ رہی، قریب تھا کہ صبرو ضبط کا رشتہ ہاتھ سے چھوٹ جائے اور عام طور پر ظاہر کر دیں کہ میں نے اپنا بچہ دریا میں ڈالا ہے کسی کو خبر ہو تو لاؤ۔ لیکن خدائی الہام ”اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ” کو یاد کر کے تسلی پاتی تھی۔ یہ خدا ہی کا کام تھا کہ اس کے دل کو مضبوط باندھ دیا کہ خدائی راز قبل از وقت کھلنے نہ پائے۔ اور تھوڑی دیر بعد خود موسٰی کی والدہ کو عین الیقین حاصل ہو جائے کہ اللہ کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہتا ہے۔

(تفسیر عثمانی)

 

اور موسیٰ کی والدہ نے اس کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے جا، پھر اسے دور سے دیکھتی رہ، اور وہ (حقیقت حال) نہ جانتے تھے۔ (۱۱)

تشریح:یعنی جب فرعون کے محل سرا میں صندوق کھلا اور بچہ برآمد ہوا تو شہر میں شہرت ہو گئی۔ موسٰی کی والدہ نے اپنی بیٹی کو (جو موسٰی کی بہن تھی) حکم دیا کہ بچہ کا پتہ لگانے کے لیے چلی جا اور علیحدہ رہ کر دیکھ کیا ماجرہ ہوتا ہے۔ لڑکی ہوشیار تھی، جہاں بچہ کے گرد بھیڑ لگی تھی وہاں بے تعلق اجنبی بن کر دور سے دیکھتی رہی۔ کسی کو پتہ نہ لگا کہ اس بچہ کی بہن ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے پہلے سے اس سے دائیوں (دودھ پلانے والیوں) کو روک رکھا تھا، موسیٰ کی بہن بولی کیا میں تمہیں ایک گھر والے بتلاؤں جو تمہارے لئے اس کی پرورش کریں اور وہ اس کے خیر خواہ ہوں۔ (۱۲)

تشریح: یعنی فرعون کی بیوی نے اس ملعون کو بھی بچہ کی پرورش پر راضی کر لیا تو دودھ پلانے کی فکر ہوئی اور دائیاں طلب کی گئیں۔ مگر قدرت نے پہلے ہی سے بند لگا دیا تھا کہ موسٰی اپنی ماں کے سوا کسی کا دودھ نہ پکڑے۔ سخت تشویش تھی کہ کہاں سے مرضعہ لائی جائے جس کا دودھ بچہ منہ کو لگا سکے۔ کسی عورت کا دودھ نہ پیتے تھے۔ فرعون کے آدمی اسی فکر و تجسس میں تھے کہ موسٰی کی بہن نے کہا میں تم کو ایک گھرانے کا پتہ بتا سکتی ہوں جو امید ہے بچہ کو پال دیں گے اور جہاں تک ان کی طبائع کا اندازہ ہے بہت خیر خواہی اور غور و پرداخت سے پالیں گے کیونکہ شریف گھرانا ہے اور بادشاہ کے گھر سے انعام و اکرام کی بڑی توقعات ہوں گی، پھر تربیت میں کمی کیوں کرنے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی کے مشورہ کے موافق حضرت موسٰی کی والدہ طلب کی گئیں۔ بس بچہ کو چھاتی سے لگانا تھا کہ اس نے دودھ پینا شروع کر دیا۔ فرعون کے گھر والوں کو بہت غنیمت معلوم ہوا کہ بچہ نے ایک عورت کا دودھ قبول کر لیا ہے ، بڑی خوشیاں منائی گئیں اور انعام و اکرام کیے گئے۔ مرضعہ نے عذر کیا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی، اپنے گھر لے جا کر اس کی پرورش کروں گی۔ چنانچہ موسٰی علیہ السلام امن و اطمینان کے ساتھ پھر آغوش مادری میں پہنچ گئے۔ اور فرعون کے یہاں سے جو روزینہ ان کی مال کا مقرر ہوا وہ مفت میں رہا۔

(تفسیرعثمانی)

 

تو ہم نے اس کو اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا، تاکہ ٹھنڈی رہے اس کی آنکھ اور وہ غمگین نہ ہو، اور تاکہ جان لے کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اور لیکن ان کے اکثر و بیشتر نہیں جانتے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی ”اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکَ وَجَاعِلُوہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ” میں جو دو وعدے کیے تھے ایک تو آنکھوں سے دیکھ لیا کس حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا۔ اور دوسرے کو اسی پر قیاس کرنے کا موقع ملا کہ بلاشبہ وہ بھی اپنے وقت پر پورا ہو کر رہے گا۔

وعدہ اللہ کا پہنچ کر رہتا ہے۔ ہاں بیچ میں بڑے بڑے پھیر پڑ جاتے ہیں۔ اس میں بہت لوگ بے یقین ہونے لگتے ہیں (موضح)۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب (موسیٰ) اپنی جوانی کو پہنچا اور پوری طرح توانا ہو گیا توہم نے اسے حکمت اور علم عطا کیا، اور ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں۔ (۱۴)

تشریح: یعنی موسٰی علیہ السلام جب اپنی بھرپور جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو بہت حکمت کی باتیں سجھائیں اور خصوصی علم و فہم عطا فرمایا کیونکہ بچپن ہی سے وہ نیک کردار تھے۔ ایسے ہونہار کو ہم اسی طرح نوازا کرتے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ شہر میں داخل ہوا غفلت کے وقت جبکہ اس کے باشندے (بے خبر سوئے ہوئے تھے ) تو اس نے دو آدمیوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا، ایک اس کی برادری سے تھا اور دوسرا اس کے دشمنوں میں سے تھا، تو جو اس کی برادری سے تھا اس نے اس (کے مقابلے ) پر جو اس کے دشمنوں میں سے تھا موسیٰ سے مدد مانگی تو موسیٰ نے اس کو ایک مکا مارا، پھر اس کا کام تمام کر دیا، اس (موسیٰ) نے کہا یہ کام شیطان (کی حرکت) سے ہوا، بیشک وہ دشمن ہے کھلا بہکانے والا۔ (۱۵)

تشریح: چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جان بوجھ کر اسے قتل نہیں کیا تھا بلکہ وہ بلا ارادہ مارا گیا، اس لئے اصل میں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام معذور تھے ، لیکن بہر حال کسی کا قتل ہو جانا ایک سنگین معاملہ ہے اور ایک ہونے والے پیغمبر کے شایان شان نہیں، اس لئے وہ شرمندہ بھی ہوئے اور اللہ تعالی سے معافی بھی مانگی، اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس جگہ مسلمان اور غیر مسلم آپس میں امن کے ساتھ رہ رہے ہوں، خواہ وہاں حکومت غیر مسلموں ہی کی ہو، وہاں مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی غیر مسلم کو قتل کرے یا اس کی جان ومال کو کسی اور  طرح نقصان پہنچائے۔

(توضیح القرآن)

 

ا س سے عرض کی اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، پس مجھے بخش دے تو اس نے اسے بخش دیا، بیشک وہی بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۶)

اس نے کہا اے میرے رب! جیسا کہ تو نے مجھ پر انعام کیا ہے تو میں ہرگز نہ ہوں گا (کبھی) مجرموں کا مددگار۔ (۱۷)

تشریح: اب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے ساتھ رہ رہے تھے اور اس کے ساتھ آتے جاتے تھے ، اس واقعہ نے ان کے دل میں ایک انقلاب پیدا کر دیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ یہ سارا جھگڑا در حقیقت فرعون کے جابرانہ طرز حکومت کا نتیجہ ہے ، جس کی وجہ سے مصریوں کو اسرائیلیوں پر ظلم ڈھانے کی جرأت ہوئی ہے ، اس لئے اس واقعے کے بعد انہوں نے تہیہ کر لیا کہ آئندہ میں فرعون اور اس کے اہل کاروں سے مکمل علیحدگی اختیار کر لوں گا تاکہ اس کی بالواسطہ بھی کسی بھی قسم کی مدد کا، ارتکاب نہ ہو۔

(توضیح القرآن)

 

پس شہر میں اس کی صبح ہوئی ڈرتے ہوئے انتظار کرتے ہوئے (کہ دیکھیں اب کیا ہوتا ہے ) تو ناگہاں وہی جس نے کل اس سے مدد مانگی تھی، (دیکھا کہ) وہ پھر اس سے فریاد کر رہا ہے ، موسیٰ نے اس کو کہا بیشک تو گمراہ ہے کھلا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی لڑائی بھڑائی تمہارا روز کا وطیرہ معلوم ہوتا ہے کہ کل کسی اور سے لڑے تھے اور آج اس شخص سے لڑ رہے ہو۔

(توضیح القرآن)

 

پھر جب اس نے چاہا کہ اس پر ہاتھ ڈالے جو ان دونوں کا دشمن تھا تو اس نے کہا اے موسیٰ!کیا تو چاہتا ہے کہ تو مجھے قتل کر دے جیسے تو نے کل ایک آدمی کو قتل کیا تھا، تو صرف (یہی) چاہتا ہے کہ تو اس سر زمین میں زبردستی کرتا پھرے اور تو نہیں چاہتا کہ مصلحین (اصلاح کرنے والوں ) میں سے ہو۔ (۱۹)

تشریح: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ہاتھ تو اس مصری کی طرف بڑھایا تھا، تاکہ اسے مارنے سے روکیں ،لیکن اسرائیلی نے جب ان کا یہ جملہ سناکہ کہ تم بڑے شریر آدمی ہو تو وہ یہ سمجھا کہ وہ اس کو مارنے کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہیں، اس لئے اس نے یہ بات کہی۔

(توضیح القرآن)

 

اور ایک آدمی شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا ہوا آیا، اس نے کہا، اے موسیٰ! بے شک سردار تیرے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں تاکہ تجھے قتل کر ڈالیں، پس تو (یہاں سے ) نکل جا، بیشک میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں۔ (۲۰)

پس وہ نکلا وہاں سے ڈرتے ہوئے اور انتظار کرتے ہوئے (کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ) اس نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار !مجھے ظالموں کی قوم سے بچا لے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی خون کی خبر فرعون کو پہنچ گئی۔ وہاں مشورے ہوئے کہ غیر قوم کے آدمی کا یہ حوصلہ ہو گیا ہے کہ شاہی قوم کے افراد اور سرکاری ملازموں کو قتل کر ڈالے۔ سپاہی دوڑائے گئے کہ موسٰی کو گرفتار کر کے لائیں۔ شاید مل جاتے تو قتل کرتے ، اسی مجمع میں سے ایک نیک طینت کے دل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کی خیر خواہی ڈال دی۔ وہ جلدی کر کے مختصر راستہ سے بھاگا ہوا آیا۔ اور حضرت موسٰی کو واقعہ کی اطلاع کر کے مشورہ دیا کہ تم فوراً شہر سے نکل جاؤ۔ حضرت شاہ صاحب’ لکھتے ہیں کہ یہ سنایا ہمارے پیغمبر کو کہ لوگ ان کی جان لینے کی فکر کریں گے اور وہ بھی وطن سے نکلیں گے۔ چنانچہ کافر سب اکٹھے ہوئے تھے کہ ان پر مل کر چوٹ کریں، اسی رات میں آپ وطن سے ہجرت کر گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب اس نے مدین کی طرف رخ کیا تو کہا امید ہے میرا رب مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا۔ (۲۲)

تشریح: مدین حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی تھی اور وہ علاقہ فرعون کی حکومت سے باہر تھا اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے وہاں جانے کا ارادہ کیا لیکن شاید راستہ پوری طرح معلوم نہیں تھا، محض اندازے سے چل رہے تھے اس لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی مجھے صحیح راستے پر ڈال دے گا۔

(توضیح القرآن)

 

اور جب وہ مدین کے پانی (کے کنویں) پر آیا تو اس نے لوگوں کے ایک گروہ کو پانی پلاتے ہوئی پایا، اور اس نے دیکھا دو عورتیں ان سے علیحدہ (اپنی بکریاں) روکے ہوئے (کھڑی) ہیں، اس نے کہا تمہارا کیا حال ہے ؟وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتیں جب تک چرواہے (اپنے جانوروں کو پانی پلا کر) واپس نہ لے جائیں ا ور ہمارے ابا بوڑھے ہیں۔ (۲۳)

تشریح: مطلب یہ تھا کہ ہمارے والد بوڑھے ہونے کی وجہ سے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے نہیں آسکتے اور ہم چونکہ عورت ذات ہیں اس لئے مردوں میں گھس کر پانی نہیں پلا سکتیں، اس لئے انتظار میں ہیں کہ مرد چلے جائیں اور کنواں خالی ہو جائے توہم اپنے جانوروں کولے جا کر پانی پلائیں، واضح رہے کہ ان عورتوں کے والد حضرت شعیب علیہ السلام تھے جنہیں مدین کے لوگوں کی اصلاح کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا، اور جن کا واقعہ سورۂ اعراف، سورۂ ہود وغیرہ میں تفصیل سے آ چکا ہے۔

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت خواتین کا کسی کام کے لئے باہر نکلنا جائز ہے ، البتہ اگر مرد کام انجام دے سکتے ہوں تو مردوں ہی کو انجام دینا چاہئے ، اسی لئے انہوں نے اپنے آنے کی وجہ یہ بیان کی کہ ہمارے والد ضعیف ہیں، اور گھر میں کوئی اور مرد نہیں ہے ، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین سے بات کرنا جائز ہے ، خاص طور پر انہیں کسی مشکل میں مبتلا دیکھیں تو ان کی مدد کے لئے ان کا حال پوچھ کر حتی الامکان ان کی مدد کرنی چاہئے ، بشرطیکہ کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔

(توضیح القرآن)

 

تو اس نے ان کی (بکریوں کو) پانی پلایا، پھر سایہ کی طرف پھر آیا، پھر عرض کیا اے میرے پروردگار!بیشک جو نعمت تو میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ (۲۴)

تشریح: پیغمبروں کے فطری جذبات و ملکات ایسے ہوتے ہیں، تھکے ماندے ، بھوکے پیاسے تھے مگر غیرت آئی کہ میری موجودگی میں یہ صنف ضعیف ہمدردی سے محروم رہے۔ اٹھے اور مجمع کو ہٹا کر یا ان کے بعد کنوئیں سے تازہ پانی نکال کر لڑکیوں کے جانوروں کو سیراب کیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی، وہ بولی، بیشک میرے والد تمہیں بلا رہے ہیں کہ تمہیں اس کا صلہ دیں جو تم نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے ، پس جب موسیٰ اس (شعیب) کے پاس آیا اور اس سے احوال بیان کیا تو اس نے کہا ڈرو نہیں تم ظالموں کی قوم سے بچ آئے ہو۔ (۲۵)

تشریح: حضرت موسٰی اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کر رہے تھے۔ اس نے اپنے فضل سے غیر متوقع طور پر خیر بھیجی، تو قبول کیوں نہ کرتے۔ اٹھ کر عورت کے ساتھ ہو لیے۔ لکھتے ہیں کہ چلتے وقت اس کو ہدایت فرمائی کہ میں آگے چلوں گا تم پیچھے آؤ۔ مبادا اجنبیہ پر عمداً نظر کرنے کی نوبت آئے۔ چنانچہ وہ پیچھے پیچھے راستہ بتلاتی ان کو لے کر گھر پہنچی۔

موسٰی علیہ السلام نے حضرت شعیب کو اپنی ساری سرگذشت کہہ سنائی۔ انہوں نے تسلی دی اور فرمایا کہ اب تو اس ظالم قوم کے پنجہ سے بچ نکلا۔ انشاء اللہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ (مدین فرعون کی حدود و سلطنت سے باہر تھا)۔

(تفسیرعثمانی)

 

ان میں سے ایک بولی، اے میرے باپ! اسے ملازم رکھ لیں، بے شک جسے تم ملازم رکھو بہتر (وہ ہے ) جو طاقتور امانت دار ہو۔ (۲۶)

تشریح:یہ وہی خاتون تھیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بلانے گئی تھیں ان کا نام صفورا تھا، اور پھر انہی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نکاح ہوا، گھر میں ایک ایسے مرد کی ضرورت تھی جو گھر کے باہر کے کاموں کی دیکھ بھال کرے اور عورتوں کو بکریاں چرانے اور انہیں پانی پلانے کی ضرورت نہ پڑے ، اس لئے انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ انہیں اس کام پر رکھ لیں اور اس کی باقاعدہ اجرت طے کر لیں، اور خاتون کا یہ جملہ کہ:آپ کسی سے اجرت پر کام لیں تو اس کے لئے بہترین شخص وہ ہے جو طاقتور بھی ہو، امانت دار بھی، ان کی کمال عقل مندی کا ثبوت ہے ، اللہ تعالی نے ان کا یہ جملہ نقل فرما کر ملازمت کے فیصلے کے لئے بہترین معیار عطا فرما دیا ہے کہ ایک اچھے ملازم میں یہی دو بنیادی خصوصیات ہونی چاہئیں، ایک یہ کہ جو فرائض اس کے سپرد کئے گئے ہیں وہ ان کو بجا لانے کی جسمانی اور ذہنی طاقت رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ امانت دار ہو۔

(توضیح القرآن)

 

إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِيْنُ :یعنی موسٰی میں دونوں باتیں موجود ہیں۔ زور دیکھا، ڈول نکالنے یا مجمع کو ہٹا دینے سے ، اور امانتدار سمجھا بے طمع اور عفیف ہونے سے۔

(تفسیرعثمانی)

 

شعیب نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تم سے اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح اس شرط پر کر دوں کہ تم آٹھ سال میری ملازمت کرو، اگر دس (سال) پورے کر لو تو (وہ) تمہاری طرف سے (نیکی) ہو گی، میں نہیں چاہتا کہ میں تم پر مشقت ڈالوں، اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب مجھے خوش معاملہ لوگوں میں سے پاؤ گے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی لڑکیوں کے والد حضرت شعیب علیہ السلام نے خود ہی اپنی طرف سے اپنی لڑکی کو ان کے نکاح میں دینے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ لڑکیوں کے ولی کو چاہئے کہ کوئی مرد صالح ملے تو اس کا انتظار نہ کرے کہ اسی کی طرف سے نکاح کے معاملہ کی تحریک ہو، بلکہ خود بھی پیش کر دینا سنت انبیاء ہے ، جیسا کہ حضرت عمرؓ بن خطاب نے اپنی صاحبزادی حضرت حفصہؓ کے بیوہ ہو جانے کے بعد از خود ہی حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ سے ان کے نکاح کی پیش کش کی تھی۔

(قرطبی از معارف القرآن)

 

موسیٰ نے کہا یہ میرے درمیان اور تمہارے درمیان (عہد) ہے ، میں دونوں میں جو مدت پوری کروں مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں، اور اللہ گواہ ہے اس پر جو ہم کہہ رہے ہیں۔ (۲۸)

تشریح: یعنی مجھے اختیار ہو گا کہ آٹھ برس رہوں یا دس برس۔ بہرحال جو معاہدہ ہو چکا خدا کے بھروسہ پر مجھے منظور ہے۔ اللہ کو گواہ بنا کر معاملہ ختم کرتا ہوں۔ احادیث میں ہے کہ حضرت موسٰی نے بڑی مدت (یعنی دس برس) پورے کیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب موسیٰ نے اپنی مدت پوری کر دی تو اپنی گھر والی (بیوی) کو ساتھ لے کر چلا اس نے دیکھی کوہِ طور کی طرف سے ایک آگ، اس نے اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بیشک میں نے آگ دیکھی ہے ، شاید میں اس سے تمہارے لئے (راستہ کی) کوئی خبر یا آگ کی چنگاری لاؤں تاکہ تم آگ تاپو۔ (۲۹)

پھر جب وہ اس کے پاس آیا تو ندا (آواز) دی گئی برکت والی جگہ میں، دائیں میدان کے کنارہ سے ، ایک درخت (کے درمیان) سے ، کہ اے موسیٰ!بیشک میں اللہ ہوں، تمام جہانوں کا پروردگار۔ (۳۰)

اور یہ کہ تو اپنا عصا (زمین پر) ڈال، پھر جب اس نے اسے دیکھا لہراتے ہوئے ، گویا کہ وہ سانپ ہے ، وہ پیٹھ پھیر کر لوٹا، اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے فرمایا) اے موسیٰ ! آگے آ اور ڈر نہیں، بیشک تو امن پانے والوں میں سے ہے۔ (۳۱)

تو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال، وہ سفید روشن ہو کر نکلے گا، کسی عیب کے بغیر، پھر اپنا بازو خوف (دور ہونے کی غرض) سے اپنی طرف ملا لینا (سکیڑ لینا) ، پس (عصا اور ید بیضا) دونوں دلیلیں ہیں، تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، بیشک وہ ایک نافرمان گروہ ہیں۔ (۳۲)

تشریح: شروع رکوع جسے یہاں تک کے مفصل واقعات سورہ ”طہٰ” وغیرہ میں گزر چکے ملاحظہ کر لیے جائیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

اس نے کہا اے میرے رب!بیشک میں نے ان میں سے ایک شخص کومار ڈالا ہے ، سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ (۳۳)

اور میرا بھائی ہارون زبان (کے اعتبار) مجھے سے زیادہ فصیح ہے ، سواسے میرے ساتھ مددگار (بنا کر) بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کرے ، بیشک میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی کوئی تصدیق و تائید کرنے والا ساتھ ہو تو فطرۃً دل مضبوط و قوی رہتا ہے۔ اور ان کے جھٹلانے پر اگر بحث و مناظرہ کی نوبت آ جائے تو میری زبان کی لکنت ممکن ہے بولنے میں رکاوٹ ڈالے۔ اس وقت ہارون کی رفاقت مفید ہو گی۔ کیونکہ ان کی زبان زیادہ صاف اور تیز ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

فرمایا ہم ابھی تیرے بھائی سے تیرے بازو کو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کے لئے عطا کریں گے غلبہ، پس وہ ہماری نشانیوں کے سبب تم دونوں تک نہ پہنچ سکیں گے ، تم دونوں اور جو تمہاری پیروی کرے غالب رہو گے۔ (۳۵)

تشریح: یعنی دونوں درخواستیں منظور ہیں، ہارون تمہارے قوت بازو رہیں گے اور فرعونیوں کو تم پر کچھ دسترس نہ ہو گی۔ ہماری نشانیوں کی برکت سے۔ تم اور تمہارے ساتھی ہی غالب و منصور رہیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب موسیٰ ہماری واضح نشانیوں کے ساتھ ان کے پاس آیا تو وہ بولے یہ کچھ بھی نہیں مگر ایک افترا کیا ہوا (گھڑا ہوا) جادو ہے ، اور ہم نے ایسی بات اپنے اگلے باپ داداؤں سے نہیں سنی ہے۔ (۳۶)

تشریح: یعنی معجزات دیکھ کر کہنے لگے جادو ہے اور جو باتیں خدا کی طرف منسوب کر کے کہتا ہے وہ بھی جادو کی باتیں ہیں جو خود تصنیف کر کے لے آیا، اور دعویٰ کرنے لگا کہ خدا نے مجھ پر وحی کی ہے۔ حقیقت میں وحی وغیرہ کچھ نہیں۔ محض ساحرانہ تخییل و افتراء ہے۔

جو باتیں یہ کرتا ہے (مثلاً ایک خدا نے ساری دنیا کو پیدا کیا، اور ایک وقت سب کو فنا کر کے دوبارہ زندہ کرے گا پھر حساب کتاب ہو گا اور مجھ کو اس نے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ، وغیرہ وغیرہ) اپنے اگلے بزرگوں سے ہمارے کانوں میں یہ چیزیں کبھی نہیں پڑیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور موسیٰ نے کہا میرا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لایا ہے ، اور جس کے لئے آخرت کا اچھا گھر (بہشت ) ہے ، بیشک ظالم (کبھی ) فلاح (کامیابی) نہیں پائیں گے۔ (۳۷)

تشریح: یعنی خدا خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں اور اسی کے پاس سے ہدایت لایا ہوں اس لیے انجام میرا ہی بہتر ہو گا۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کھلی نشانیاں دیکھ کر اور دلائل صداقت سن کر نا انصافی سے حق کو جھٹلاتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ انجام کار ان کو ذلت و ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور فرعون نے کہا اے سردارو! میں نہیں جانتا تمہارے لئے اپنے سوا کوئی معبود، پس اے ہامان ! میرے لئے مٹی (کی اینٹوں) پر آگ جلا، پھر (ان پختہ اینٹوں سے ) میرے لئے تیار کر ایک بلند محل تاکہ میں (وہاں سے ) موسیٰ کے معبود کو جھانکوں، اور میں تو اسے جھوٹوں میں سے سمجھتا ہوں۔ (۳۸)

تشریح: یعنی اپنے وزیر ہامان کو کہا کہ اچھا اینٹوں کا ایک پزاوہ لگواؤ تاکہ پکی اینٹوں کی خوب اونچی عمارت بنوا کر اور آسمان کے قریب ہو کر میں موسٰی کے خدا کو جھانک آؤں کہ کہاں ہے اور کیسا ہے۔ کیونکہ زمین میں تو مجھے کوئی خدا اپنے سوا نظر نہیں پڑتا۔ آسمان میں بھی خیال تو یہ ہے کہ کوئی نہ ہو گا، تاہم موسٰی کی بات کا جواب ہو جائے گا۔ یہ بات ملعون نے استہزاء و تمسخر سے کہی اور ممکن ہے اس قدر بدحواس و پاگل ہو گیا ہو کہ اس طرح کی لچر پوچ اور مضحکہ خیز تجویزیں سوچنے لگا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ اور اس کا لشکر دنیا میں ناحق مغرور   ہو گیا اور وہ سمجھ بیٹھے کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے۔ (۳۹)

تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو پکڑا اور انہیں دریا میں پھینک دیا، سو دیکھو کیسا ظالموں کا انجام ہوا؟ (۴۰)

تشریح: یعنی انجام سے بالکل غافل ہو کر لگے ملک میں تکبر کرنے یہ نہ سمجھا کہ کوئی ان کی گردن نیچی کرنے والا اور سر توڑنے والا بھی موجود ہے۔ آخر خداوند قہار نے اس کو لاؤ لشکر سمیت بحر قلزم میں غرق کر دیا تاکہ یادگار رہے کہ بدبخت ظالموں کا جو انجام سے غافل ہوں ایسا انجام ہوا کرتا ہے۔ غرق وغیرہ کے واقعات کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے انہیں سردار بنایا وہ جہنم کی طرف بلاتے رہے ، اور روز قیامت وہ نہ مدد دئیے جائیں گے (ان کی مدد نہ ہو گی)۔ (۴۱)

تشریح:یعنی یہاں ضلالت و طغیان میں پیش پیش تھے اور لوگوں کو دوزخ کی طرف بلاتے تھے وہاں بھی ان کو دوزخیوں کے آگے امام بنا کر رکھا جائے گا۔ ”یَقْدُمُ قَوْمَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارُ وَبِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ” (ہود، رکوع٩،آیت ٩٨)

یہاں کے لشکر وہاں کام نہ دیں گے نہ کسی طرف سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ اپنے لاؤ لشکر سمیت جہنم میں جھونک دیے جائیں گے۔ کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور روز قیامت وہ بدحال لوگوں میں سے ہوں گے۔ (۴۲)

تشریح:یعنی آخرت کی برائی اور بد انجامی تو الگ رہی، دنیا ہی میں لوگ رہتی دنیا تک ایسوں پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو توریت عطا کی اور اس کے بعد کہ ہم نے پہلی امتیں ہلاک کیں لوگوں کے لئے بصیرت (آنکھیں کھولنے والی) اور ہدایت و رحمت، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۴۳)

تشریح: یعنی تورات جو موسٰی علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ بڑی فہم و بصیرت عطا کرنے والی، لوگوں کو راہ ہدایت پر چلانے والی، اور مستحق رحمت بنانے والی کتاب تھی تاکہ لوگ اسے پڑھ کر اللہ کو یاد رکھیں۔ احکام الٰہی سیکھیں اور پند و نصیحت حاصل کریں، سچ تو یہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد ہدایت میں تورات شریف ہی کا درجہ ہے اور آج جب کہ اس کے پیروؤں نے اسے ضائع کر دیا، قرآن ہی اس کے ضروری علوم و ہدایات کی حفاظت کر رہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ (کوہ طور کے ) مغربی جانب نہ تھے جب ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی اور آپ) اس واقعہ کے ) دیکھنے والوں میں سے نہ تھے۔ (۴۴)

تشریح: یہاں سے آیت نمبر:۶۱ تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی سچائی کا بیان ہے ، پہلے یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جو واقعات قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں، مثلاً کوہِ طور کے مغربی کنارے پر ان کو تورات دیا جانا، اور صحرائے سینا میں ان کو پکار کر نبوت عطا کرنا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عرصۂ دراز تک مدین میں رہنا، یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت موجود تھے کہ ان واقعات کو دیکھتے اور نہ ان کو معلوم کرنے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ تھا، اس کے باوجود آپ یہ واقعات اتنی تفصیل سے بیان فرما رہے ہیں تو اس کا کوئی مطلب سوائے اس کے نہیں ہو سکتا کہ آپ پر اللہ تعالی کی طرف سے وحی آئی ہے جس نے آپ کو ان واقعات سے با خبر کیا۔

(توضیح القرآن)

 

اور لیکن ہم نے بہت سی امتیں پیدا کیں، پھر طویل ہو گئی ان کی مدت، اور آپ اہل مدین میں رہنے والے نہ تھے کہ ان پر ہمارے احکام پڑھتے (انہیں ہمارے احکام سناتے ) لیکن ہم رسول بنا کر بھیجنے والے تھے۔ (۴۵)

اور جب ہم نے پکارا آپ طور کے کنارے نہ تھے لیکن آپ کے رب کی رحمت سے (نبوت عطا ہوئی) تاکہ آپ اس قوم کو ڈر سنائیں جس کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۴۶)

اور اگر (یہ) نہ ہوتا کہ انہیں ان کے اعمال کے سبب کوئی مصیبت پہنچے تو وہ کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا، پس ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے اور ہم ہوتے ایمان لانے والوں میں سے۔ (۴۷)

تشریح: یعنی پیغمبر کا ان میں بھیجنا خوش قسمتی ہے۔ اگر بدون پیغمبر بھیجے اللہ تعالیٰ ان کی کھلی ہوئی بے عقلیوں اور بے ایمانیوں پر سزا دینے لگتا تب بھی ظلم نہ ہوتا، لیکن اس نے احسان فرمایا اور کسی قسم کی معقول عذر داری کا موقع نہیں چھوڑا۔ ممکن تھا سزا دہی کے وقت کہنے لگتے کہ صاحب ہمارے پاس پیغمبر تو بھیجا نہیں جو ہم کو ہماری غلطیوں پر کم از کم متنبہ کر دیتا، ایک دم پکڑ کر عذاب میں دھر گھسیٹا۔ اگر کوئی پیغمبر آتا تو دیکھ لیتے ہم کیسے نیک اور ایماندار ثابت ہوتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آ گیا کہنے لگے (ہمیں) کیوں نہ دیا گیا جیسے موسیٰ کو دیا گیا تھا، کیا انہوں نے اس کا انکار نہیں کیا ؟جو اس سے قبل موسیٰ کو دیا گیا، انہوں نے کہا وہ دونوں جادو ہیں، اور وہ دونوں ایک دو سرے کے پشت پناہ ہیں، اور انہوں نے کہا بیشک ہم ہر ایک کا انکار کرنے والے ہیں۔ (۴۸)

تشریح: یعنی جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پوری تورات ایک ہی مرتبہ عطا کر دی گئی تھی، اسی طرح آپ ک سارا قرآن ایک ہی مرتبہ کیوں نہیں دے دیا گیا، اس اعتراض کا یہ جواب آگے دیا گیا ہے کہ تم لوگ تورات پر کونسا ایمان لے آئے تھے جو قرآن کے بارے میں یہ مطالبہ کر رہے ہو؟

(توضیح القرآن)

 

آپ فرما دیں تم اللہ کے پاس سے کوئی کتاب لاؤ جو ان دونوں (قرآن اور توریت) سے زیادہ ہدایت ہو کہ میں اس کی پیروی کروں، اگر تم سچے ہو۔ ( ۴۹)

تشریح: یعنی آسمانی کتابوں میں سب سے بڑی اور مشہور یہ ہی دو کتابیں تھیں جن کی ہمسری کوئی کتاب نہیں کر سکتی۔ اگر یہ دونوں جادو ہیں تو تم کوئی کتاب الٰہی پیش کر دو جو ان سے بہتر اور ان سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی ہو۔ بفرض محال اگر ایسی کتاب لے آئے تو میں اسی کی پیروی کرنے لگوں گا، لیکن تم قیامت تک نہیں لا سکتے۔ اس سے زیادہ بدبختی کیا ہو گی کہ خود ہدایت ربانی سے قطعی تہی دست ہو اور جو کتاب ہدایت آتی ہے اسے جادو کہہ کر رد کر دیتے ہو۔ جب یہ ایک انسان کا بنایا ہوا جادو ہے تو تم سارے جہان کے جادو گروں کو جمع کر کے اس سے بڑا جادو لے آتے۔ آخر جادو ایسی چیز تو نہیں کہ اس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔

(تفسیر عثمانی)

 

پھر اگر وہ آپ کی بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ وہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہے جس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی، اللہ کی طرف سے (منجانب اللہ) ہدایت کے بغیر، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (۵۰)

تشریح: یعنی جب یہ لوگ نہ ہدایت کو قبول کرتے ہیں اور نہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز پیش کر سکتے ہیں تو یہی اس کی دلیل ہے کہ ان کو راہ ہدایت پر چلنا مقصود ہی نہیں محض اپنی خواہشات کی پیروی ہے ، جس چیز کو دل چاہا مان لیا۔ جس کو اپنی مرضی اور خواہش کے خلاف پایا رد کر دیا۔ بتلائیے ایسے ہوا پرست ظالموں کو کیا ہدایت ہو سکتی ہے۔ اللہ کی عادت اسی قوم کو ہدایت کرنے کی ہے جو ہدایت پانے کا ارادہ کرے اور محض ہوا و ہوس کو حق کا معیار نہ بنا لے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم نے پیہم بھیجا ان کے لئے اپنا کلام تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔ (۵۱)

تشریح: یعنی ہماری وحی کا سلسلہ پہلے سے چلا آتا ہے۔ ایک وحی کی تصدیق و تائید میں دوسری وحی برابر بھیجتے رہے ہیں۔ اور قرآن کو بھی ہم نے بتدریج نازل کیا۔ ایک آیت کے پیچھے دوسری آیت میں سہولت ہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

جن لوگوں کو ہم نے اس سے قبل کتاب دی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔ (۵۲)

اور جب ان کے سامنے (قرآن) پڑھا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے ، بیشک یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے ، بیشک ہم پہلے ہی اس کے فرمانبردار تھے۔ (۵۳)

تشریح: یعنی ان جاہل مشرکین کا حال تو یہ ہے کہ نہ اگلی کتابوں کو مانیں نہ پچھلی کو، اور ان کے بالمقابل انصاف پسند اہل کتاب کو دیکھو کہ وہ دونوں کو تسلیم کرتے جاتے ہیں پہلے تورات و انجیل پر یقین رکھتے تھے۔ جب قرآن پاک آیا تو بول اٹھے کہ بلاشبہ یہ کتاب برحق ہے ، ہمارے رب کی اتاری ہوئی، ہم اس پر اپنے یقین و اعتقاد کا اعلان کرتے ہیں، ہم تو پہلے بھی اللہ کی باتوں کو مانتے تھے آج بھی قبول کرتے ہیں۔ فی الحقیقت ہم آج سے مسلمان نہیں بہت پہلے سے مسلمان ہیں۔ کیونکہ کتب سابقہ پر ہمارا ایمان تھا جن میں پیغمبر آخر الزمان اور قرآن کریم کے متعلق صاف بشارات موجود تھیں۔ لہٰذا ان پیشین گوئیوں پر بھی ہمارا پہلے سے اجمالی ایمان ہوا۔ آج اس کی تفصیل اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہی لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوہرا دیا جائے گا، اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ بھلائی سے برائی کو دور کرتے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (۵۴)

تشریح: یعنی مغرور و مستغنی ہو کر قبول حق سے گریز نہیں کیا بلکہ جس وقت جو حق پہنچا بے تکلف گردن تسلیم جھکا دی۔

وَيَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّيِّئَۃَ:  کوئی دوسرا ان کے ساتھ برائی سے پیش آئے تو یہ اس کے جواب میں مروت و شرافت سے کام لے کر بھلائی اور احسان کرتے ہیں۔ یا یہ مطلب کہ کبھی ان سے کوئی برا کام ہو جائے تو اس کا تدارک بھلائی سے کر دیتے ہیں تاکہ حسنات کا پلہ سیأت سے بھاری رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے عمل اور تمہارے لئے تمہارے عمل، تم پر سلام ہو، ہم جاہلوں سے (الجھنا) نہیں چاہتے۔ (۵۵)

تشریح: یعنی کوئی جاہل لغو بیہودہ بات کہے تو اس سے الجھتے نہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ بس صاحب! تمہاری باتوں کو ہمارا دور سے سلام۔ یہ جہالت کی پوٹ تمہی رکھو ہم کو ہمارے مشغلہ میں رہنے دو۔ تمہارا کیا تمہارے ، اور ہمارا کیا ہمارے سامنے آ جائے گا۔ ہم کو تم جیسے بے سمجھ لوگوں سے الجھنے کی ضرورت نہیں۔ محمد بن اسحاق نے سیرت میں لکھا ہے کہ قیام مکہ کے زمانہ میں تقریباً بیس اشخاص حبشہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر سن کر آئے کہ تحقیق کریں کیسے شخص ہیں۔ آپ سے بات چیت کی، اور بڑے زور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی، جب مشرف با ایمان ہو کر واپس ہونے لگے تو ابوجہل وغیرہ مشرکین نے ان پر آوازے کسے کہ ایسے احمقوں کا قافلہ آج تک کہیں نہ دیکھا ہو گا۔ جو ایک شخص کی تحقیق حال کرنے آئے تھے اور اس کے غلام بن کر اور اپنا دین چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ”سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ لاَ نُجَاہِلُکُمْ لَنَا مَانَحْنُ عَلَیْہِ وَلَکُمْ مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ لَمْ نَاْلُ اَنْفُسَنَا خَیْرًا۔ ” (بس ہم تم کو سلام کریں، معاف رکھو ہم تمہاری جہالت کا جواب جہالت سے دینا نہیں چاہتے ، ہم اور تم میں سے جو جس حال پر ہے اس کا و ہی حصہ ہے ، ہم نے اپنے نفس کا بھلا چاہنے میں کچھ کوتاہی نہیں کی) اسی کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب’ لکھتے ہیں کہ جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھائے پر لگے گا اس سے کنارہ ہی بہتر ہے (موضح)۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے ، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ، اور ہدایت پانے والوں کو وہ خوب جانتا ہے۔ (۵۶)

تشریح: صحیح مسلم میں ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، کہ آپ کی بڑی تمنا یہ تھی کہ وہ کسی طرح ایمان قبول کر لیں اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بتایا گیا کہ کسی کو مؤمن بنا دینا آپ کی قدرت میں نہیں۔ تفسیرروح المعانی میں ہے کہ ابوطالب کے ایمان وکفر کے مقابلے میں بے ضرورت گفتگو اور بحث و مباحثہ سے اور ان کو برا کہنے سے اجتناب کرنا چاہئیے کہ اس سے   آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی ایذاء کا احتمال ہے ، واللہ اعلم۔

(معارف القرآن)

 

اور وہ کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو ہم اپنی سرزمین سے اچک لئے جائیں گے ، کیا ہم نے انہیں حرمت والے مقامِ  امن میں ٹھکانہ نہیں دیا، اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں پھل ہر قسم کے ، ہماری طرف سے بطور رزق، لیکن ان میں اکثر نہیں جانتے۔ (۵۷)

تشریح: بعض کافروں نے اسلام لانے میں یہ رکاوٹ ظاہر کی تھی کہ اسلام لانے کے بعد عرب کے لوگ ہماری عزت کرنا چھوڑ دیں گے اور ہمارے خلاف قتل و غارت گری کا بازار گرم کر کے ہمیں یہاں سے نکال باہر کریں گے ، قرآن کریم نے اس کے تین جواب دئے ہیں، پہلا جواب تو اسی آیت میں یہ دیا ہے کہ ہم نے ان کے کفر کے باوجود ان کو حدود حرم میں اتنا محفوظ بنایا ہوا ہے کہ سارے عرب میں قتل و غارت گری ہو رہی ہے لیکن حرم والوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا، بلکہ چاروں طرف سے ہر قسم کے پھل کھنچ کھنچ کر وہاں آتے ہیں اور حرم آنے والے کسی سامان پر کوئی ڈاکا نہیں ڈالتے ، جب تمہارے کفر کے باوجود اللہ تعالی نے تمہیں یہ حفاظت بخشی ہوئی ہے تو جب تم ایمان لے آؤ گے تو کیا اس وقت اللہ تعالی تمہاری حفاظت نہیں کرے گا، پھر آیت ۵۸ میں دوسراجواب یہ دیا گیا ہے کہ بربادی تو اللہ تعالی کی نافرمانی سے آتی ہے ، چنانچہ تم سے پہلی جن قوموں نے کفر کی راہ اختیار کی، آخر کار وہی تباہ ہوئیں، نہ کہ وہ لوگ جو ایمان لے آئے تھے ، پھر آیت نمبر ۶۰ میں تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگر بالفرض اسلام لانے کے نتیجے میں تمہیں دنیا کے اندر کچھ تکلیفیں پہنچ بھی جائیں تو وہ آخرت کی تکلیفوں کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور کتنی (ہی) بستیاں ہم نے ہلاک کر دیں، جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں، سو یہ ہیں ان کے مسکن، نہ آباد ہوئے ان کے بعد مگر قلیل (مدت) اور ہم ہی ہوئے وارث۔ (۵۸)

تشریح: یعنی عرب کی دشمنی سے کیا ڈرتے ہو، اللہ کے عذاب سے ڈرو، دیکھتے نہیں کتنی قومیں گزر چکی ہیں جنہیں اپنی خوش عیشی پر غرہ ہو گیا تھا۔ جب انہوں نے تکبر اور سرکشی اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے کس طرح تباہ و برباد کر ڈالا کہ آج صفحہ ہستی پر ان کا نام و نشان باقی نہ رہا۔ یہ کھنڈر ان کی بستیوں کے پڑے ہیں جن میں کوئی بسنے والا نہیں بجز اس کے کہ کوئی مسافر تھوڑی دیر سستانے یا قدرتِ الٰہی کا عبرتناک تماشہ دیکھنے کے لیے وہاں جا اترے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہارا رب نہیں ہے بستیوں کو ہلاک کرنے والا، جب تک اس کی بڑی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج دے ، وہ ان پر ہماری آیات پڑھے ، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں جب تک ان کے رہنے والے ظالم (نہ) ہوں۔ (۵۹)

تشریح: یہ بیچ میں کفار عرب کے ایک اور اعتراض کا جواب دیا گیا ہے ، وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالی ہمارے مذہب اور طریق کار سے ناراض ہے تو جس طرح اس نے پچھلی قوموں کو ہلاک کیا ہے جن کا حوالہ پچھلی آیت میں بھی دیا گیا ہے اسی طرح ہم کو اب تک کیوں ہلاک نہیں کیا؟جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کو معاذ اللہ لوگوں کو ہلاک کرنے کا کوی شوق نہیں ہے ، وہ سب سے پہلے اپنا کوئی پیغمبر ان کے مرکزی علاقے میں بھیجتا ہے جو انہیں سیدھے راستے کی دعوت دے اور بار بار دیتا رہے ، تاکہ وہ راہ راست پر آئیں اور انہیں سزا دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے ، اگر وہ اپنی گمراہی سے باز آ جاتے ہیں تو انہیں ہلاک نہیں کیا جاتا، البتہ اگر وہ اپنی ظالمانہ روش پر اڑے رہتے ہیں تب انہیں سزا دی جاتی ہے ، یہی معاملہ پچھلی قوموں کے ساتھ ہوا، اور وہی سلوک تمہارے ساتھ ہو رہا ہے کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں بار بار حق قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اور تمہیں مہلت دی جا رہی ہے ، اس کا یہ مطلب لینا پرلے درجے کی نادانی ہے کہ اللہ تعالی تم سے خوش ہیں اور تمہیں کبھی سزا نہیں ملے گی۔

(توضیح القرآن)

 

اور تمہیں کوئی چیز دی گئی ہے سو وہ (صرف) دنیا کی زندگی کا سامان اور اس کی زینت ہے ، اور جو اللہ کے پاس ہے وہ بہتر ہے اور تا دیر باقی رہنے والا ہے ، سو کیا تم سمجھتے نہیں۔ (۶۰)

تشریح: یعنی آدمی کو عقل سے کام لے کر اتنا سمجھنا چاہیے کہ دنیا میں کتنے دن جینا ہے اور یہاں کی بہار اور چہل پہل کا مزہ کب تک اٹھا سکتے ہی۔ فرض کرو دنیا میں عذاب بھی نہ آئے ، تاہم موت کا ہاتھ تم سے یہ سب سامان جدا کر کے رہے گا۔ پھر خدا کے سامنے حاضر ہونا اور ذرہ ذرہ عمل کا حساب دینا اگر وہاں کا عیش و آرام میسر ہو گیا تو یہاں کا عیش اس کے سامنے محض ہیچ اور لاشئ ہے۔ کون عقلمند ہو گا جو ایک مکدرو منغض زندگی کے بے غل و غش زندگی پر اور ناقص و فانی لذتوں کو کامل و باقی نعمتوں پر ترجیح دے۔

(عثمانی)

 

سو جس سے ہم نے اچھا وعدہ کیا پھر وہ اس کو پانے والا ہے ، کیا وہ اس شخص کی طرح ہے جسے ہم نے دنیا کی زندگی کے سامان سے بہرہ مند کیا، پھر وہ روزِ قیامت (گرفتار ہو کر) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہوا۔ (۶۱)

تشریح: یعنی مومن و کافر دونوں انجام کے اعتبار سے کس طرح برابر ہو سکتے ہیں۔ ایک کے لیے دائمی عیش کا وعدہ جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا اور دوسرے کے لیے چند روزہ عیش کے بعد گرفتاری کا وارنٹ اور دائمی جیل خانہ، العیاذ باللہ! ایک شخص خواب میں دیکھے کہ میرے سر پر تاج شاہی رکھا ہے ، خدم و حشم پرے باندھے کھڑے ہیں اور الوان نعمت دسترخوان پر چنے ہوئے ہیں جن سے لذت اندوز ہو رہا ہوں، آنکھ کھلی تو دیکھا انسپکٹر پولیس گرفتاری کا وارنٹ اور بیڑی ہتھکڑی لیے کھڑا ہے۔ بس وہ پکڑ کر لے گیا اور فوراً ہی پیش ہو کر حبس دوام کی سزا مل گئی۔ بتاؤ اسے وہ خواب کی بادشاہت اور پلاؤ قورمے کی لذت کیا یاد آئے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن وہ انہیں پکارے گا، کہے گا کہاں ہیں میرے شریک جنہیں تم (میرا شریک) گمان کرتے تھے۔ (۶۲)

تشریح: یعنی وہ خدائی کے حصہ دار کہاں ہیں، ذرا اپنی تائید و حمایت کے لیے لاؤ تو سہی۔

(تفسیرعثمانی)

 

(پھر) کہیں گے وہ جن پر حکمِ عذاب ثابت ہو گیا کہ اے ہمارے رب! یہ ہیں وہ جنہیں ہم نے بہکایا، ہم نے انہیں (ویسے ہی) بہکایا، جیسے ہم ( خود ) بہکے تھے ، ہم تیری طرف (تیرے حضور سب سے ) بیزاری کرتے ہیں، وہ ہماری بندگی نہ کرتے تھے۔ (۶۳)

تشریح:یعنی سوال تو مشرکین سے تھا، مگر بہکانے والے شرکاء سمجھ جائیں گے کہ فی الحقیقت ہمیں بھی ڈانٹ بتلائی گئی ہے۔ اس لیے سبقت کر کے جواب دیں گے کہ خداوندا! بیشک ہم نے ان کو بہکایا اور یہ بہکانا ایسا ہی تھا جیسے ہم خود بہکے۔ یعنی جو ٹھوکر بہکنے کے وقت کھائی تھی اسی کی تکمیل بہکانے سے کی۔ کیونکہ بہکانا بھی بہکنے کی انتہائی منزل ہے۔ پس اس جرم اغواء کا تو ہمیں اعتراف ہے۔ لیکن ان مشرکین پر کوئی جبر و اکراہ ہمارا نہ تھا کہ زبرستی اپنی بات منوا لیتے فی الحقیقت ان کی ہوا پرستی تھی جو ہمارے بہکانے میں آ گئے۔ اس اعتبار سے یہ ہم کو نہیں پوجتے تھے ،بلکہ اپنے اہواء و ظنون کی پرستش کرتے تھے ہم ان کی عبادت سے آج آپ کے سامنے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ کذا قال بعض المفسرین۔ اور حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”یہ شیطان بولیں گے۔ بہکایا تو ہے انہوں نے پر نام لے کر نیکوں کا۔ اسی سے کہا کہ ہم کو نہ پوجتے تھے۔ ” واللہ تعالیٰ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کہا جائے گا تم اپنے شریکوں کو پکارو، سو وہ انہیں پکاریں گے ، تو وہ انہیں جواب نہ دیں گے ، اور وہ عذاب دیکھیں گے ، کاش وہ ہدایت یافتہ ہوتے۔ (۶۴)

تشریح: یعنی کہا جائے گا کہ اب مدد کو بلاؤ، مگر وہ کیا مدد کر سکتے خود اپنی مصیبت میں گرفتار ہوں گے۔ کذا قال المفسرون۔ اور حضرت شاہ صاحب کی تحریر کا حاصل یہ ہے کہ شیاطین جب نیکوں کا نام لیں گے تو مشرکین سے کہا جائے گا کہ ان نیکوں کو پکارو! وہ کچھ جواب نہ دیں گے۔ کیونکہ وہ ان مشرکانہ حرکات سے راضی نہ تھے یا خبر نہ رکھتے تھے۔ اس وقت عذاب کو دیکھ کر یہ آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں سیدھی راہ چلتے تو یہ مصیبت کیوں دیکھنی پڑتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو فرمائے گا تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا؟ (۶۵)

پس ان کو کوئی بات نہ سوجھے گی اس دن، پس وہ آپس میں (بھی) سوال نہ کرسکیں گے۔ (۶۶)

تشریح: پہلے سوالات توحید کے متعلق تھے ، یہ سوال رسالت کی نسبت ہوا۔ یعنی اپنی عقل سے تم نے اگر حق کو نہ سمجھا تھا تو پیغمبروں کے سمجھانے سے سمجھا ہوتا، بتلاؤ ان کے ساتھ تم نے کیا برتاؤ کیا۔ اس وقت کسی کو جواب نہ آئے گا۔ اور بات کرنے کی راہیں بند ہو جائیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو جس نے توبہ کی اور وہ ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کئے تو امید ہے کہ وہ کامیابی پانے والوں میں سے ہو۔ (۶۷)

تشریح:یعنی وہاں کی کامیابی صرف ایمان و عمل صالح سے ہے۔ اب بھی جو کوئی کفر و شرک سے توبہ کر کے ایمان لایا اور نیکی اختیار کی، حق تعالیٰ اس کی پہلی خطائیں معاف کر کے فائز المرام کرے گا۔ (تنبیہ) ”عسٰی اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْن۔ ” وعدہ ہے شہنشاہانہ انداز میں یعنی اس کو فلاح کی امید رکھنا چاہیے۔ گو ہم پر کسی کا دباؤ نہیں کہ ناچار ایسا کرنے پر مجبور ہوں۔ محض فضل و کرم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہارا رب پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور (جو) وہ پسند کرتا ہے ، نہیں ہے ان کے لئے (ان کا کوئی) اختیار، اللہ اس سے پاک ہے اور برتر ہے اس سے جو وہ شریک کرتے ہیں۔ (۶۸)

تشریح:یعنی ہر چیز کا پیدا کرنا بھی اسی کی مشیت و اختیار سے ہے اور کسی چیز کو پسند کرنے یا چھانٹ کر منتخب کر لینے کا حق بھی اسی کو حاصل ہے۔ جو اس کی مرضی ہو احکام بھیجے۔ جس شخص کو مناسب جانے کسی خاص منصب و مرتبہ پر فائز کرے۔ جس کسی میں استعداد دیکھے راہِ ہدایت پر چلا کر کامیاب فرما دے اور مخلوقات کی ہر جنس میں سے جس نوع کو یا نوع میں سے جس فرد کو چاہے اپنی حکمت کے موافق دوسرے انواع و افراد سے ممتاز بنا دے۔ اس کے سوا کسی دوسرے کو اس طرح کے اختیار و انتخاب کا حق حاصل نہیں۔ حافظ ابن القیم نے زادالمعاد کے اوائل میں اس مضمون کو بہت بسط سے لکھا ہے فلیراجع۔

تخلیق و تشریع اور اختیار مذکور میں حق تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں لوگوں نے اپنی تجویز و انتخاب سے جو شرکاء ٹھہرا لیے ہیں سب باطل اور بے سند ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تمہارا رب جانتا ہے جو ان کے سینوں میں چھپا ہے ا ور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ (۶۹)

تشریح: یعنی دل میں جو فاسد عقیدے یا بری نیتیں رکھتے ہیں اور زبان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ سے جو کام کرتے ہیں سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں اور وہ ہی ہر ایک شخص کی پوشیدہ استعداد و قابلیت سے آگاہ ہے اسی کے موافق معاملہ کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہی ہے اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لئے ہیں تمام تعریفیں دنیا میں اور آخرت میں اور اسی کے لئے ہے فرماں روائی، اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۷۰)

تشریح: یعنی جس طرح تخلیق و اختیار اور علم محیط میں وہ منفرد ہے الوہیت میں بھی یگانہ ہے۔ بجز اس کے کسی کی بندگی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اسی کی ذات منبع الکمالات میں تمام خوبیاں جمع ہیں۔ دنیا اور آخرت میں جو تعریف بھی ہو خواہ وہ کسی کے نام رکھ کر کی جائے حقیقت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کا حکم چلتا ہے اسی کا فیصلہ ناطق ہے۔ اسی کو اقتدار کلی حاصل ہے اور انجام کار سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ آگے بتلاتے ہیں کہ رات دن میں جس قدر نعمتیں اور بھلائیاں تم کو پہنچتی ہیں اسی کے فضل و انعام سے ہیں بلکہ خود رات اور دن کا ادل بدل کرنا بھی اس کا مستقل احسان ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بھلا دیکھو تو اگر اللہ روزِ قیامت کے لئے تم پر ہمیشہ رات رکھے تو اللہ کے سوا اور کون معبود ہے جو تمہارے لئے (دن کی) روشنی لے آئے ، تو کیا تم سنتے نہیں۔ (۷۱)

تشریح: مثلاً سورج کو طلوع نہ ہونے دے یا اس سے روشنی سلب کر لے تو اپنے کاروبار کے لیے ایسی روشنی کہاں سے لا سکتے ہو۔ یہ بات ایسی روشن اور صاف ہے کہ سنتے ہی سمجھ میں آ جائے۔ تو کیا تم سنتے بھی نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں بھلا تم دیکھو تو اگر اللہ تم پر رکھے روزِ قیامت تک کے لئے دن (کو روزِ روشن) اللہ کے سوا اور کون معبود ہے جو تمہارے لئے رات لے آئے ؟کہ تم اس میں آرام کرو، تو کیا تمہیں سوجتا نہیں؟ (۷۲)

تشریح: یعنی اگر آفتاب کو غروب نہ ہونے دے ہمیشہ تمہارے سروں پر کھڑا رکھے تو جو راحت و سکون اور دوسرے فوائد رات کے آنے سے حاصل ہوتے ہیں ان کا سامان کون سی طاقت کر سکتی ہے۔ کیا ایسی روشن حقیقت بھی تم کو نظر نہیں آتی۔

(تنبیہ) ”اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ”، ”اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ النَّہَارَ سَرْمَدًا”کے مناسب ہے ، کیونکہ آنکھ سے دیکھنا عادتاً روشنی پر موقوف ہے جو دن میں پوری طرح ہوتی ہے۔ رات کی تاریکی میں چونکہ دیکھنے کی صورت نہیں، ہاں سننا ممکن ہے ، اس لیے ” اِنْ جَعَلَ اللہُ عَلَیْکُمُ الَّیْلَ سَرْمَدًا”کے ساتھ اَفَلاَ تَسْمَعُوْنَ فرمانا ہی موزوں تھا۔ واللہ اعلم۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ اس (رات) میں آرام کرو اور (دن میں) روزی تلاش کرو، اور تاکہ تم (اللہ کا) شکر کرو۔ (۷۳)

تشریح: یعنی رات دن کا الٹ پھیر کرتا رہتا ہے تاکہ رات کی تاریکی اور خنکی میں سکون و راحت بھی حاصل کر لو، اور دن کے اجالے میں کاروبار بھی جاری رکھ سکو۔ اور روز و شب کے مختلف النوع انعامات پر حق تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو وہ کہے گا کہاں ہیں وہ جن کو تم میرا شریک گمان کرتے تھے۔ (۷۴)

اور ہم ہر امت میں سے ایک گواہ نکال کر لائیں گے ، پھر ہم کہیں گے اپنی دلیل پیش کرو، سو وہ جان لیں گے کہ سچی بات اللہ کی ہے ، اور گم ہو جائیں گی (وہ سب باتیں) جو وہ گھڑتے تھے۔ (۷۵)

تشریح: وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّۃٍ شَہِيْدًا: احوال بتلانے والا پیغمبر یا ان کے نائب جو نیک بخت تھے۔ (موضح) وہ بتلائیں گے کہ لوگوں نے شرائع سماویہ اور احکام الٰہیہ کے ساتھ کیا برتاؤ کیا۔

فَقُلْنَا ہَاتُوْا بُرْہَانَكُمْ:  یعنی خدا تعالیٰ کے شریک کس سند اور دلیل سے ٹھہرائے اور حلال و حرام وغیرہ کے احکام کس مأخذ صحیح سے لیے تھے۔ پیغمبروں کو تو تم نے مانا نہیں، پھر کس نے بتلایا کہ خدا کا یہ حکم ہے ، یہ نہیں۔

فَعَلِمُوْٓا أَنَّ الْحَقَّ لِلّٰہِ وَضَلَّ عَنْہُمْ مَّا کَانُوْا يَفْتَرُوْنَ: یعنی اس وقت نظر آ جائے گا کہ سچی بات اللہ کی ہے۔ اور معبودیت صرف اسی کا حق ہے۔ کوئی اس کا شریک نہیں۔ دنیا میں پیغمبر جو بتلاتے تھے و ہی ٹھیک ہے۔ مشرکین نے جو عقیدے گھڑ رکھے تھے اور جو باتیں اپنے دل سے جوڑی تھیں اس روز سب کافور ہو جائیں گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک قارون تھا موسیٰ کی قوم سے ، سو اس نے ان پر زیادتی کی، اور ہم نے اس کو اتنے خزانے دئے تھے کہ اس کی کنجیاں ایک زور آور جماعت پر (بھی) بھاری ہوتی تھیں، جب اس کو اس کی قوم نے کہا اترا نہیں بیشک اللہ پسند نہیں کرتا اترانے والوں کو۔ (۷۶)

تشریح: إِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى :اتنی بات تو خود قرآن کریم سے واضح ہے کہ قارون بنو اسرائیل ہی کا ایک شخص تھا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چچا زاد بھائی تھا، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت سے پہلے فرعون نے اس کو بنو اسرائیل کی نگرانی پر متعین کیا ہوا تھا، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے پیغمبر بنایا اور حضرت ہارون علیہ السلام آپ کے نائب قرار پائے تو اسے حسد ہوا اور بعض روایات میں ہے کہ اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ بھی کیا کے اسے کوئی منصب دیا جائے ، لیکن اللہ تعالی کو یہ منظور نہیں تھا کہ اسے کوئی منصب ملے ، اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے معذرت کر لی، اس پر حسد کی آگ اور زیادہ بھڑک اٹھی، اور اس نے منافقت شروع کر دی۔

فَبَغٰى عَلَيْہِمْ : قرآن کریم نے یہاں جو لفظ استعمال فرمایا ہے اس کے معنی ظلم و زیادتی کرنے کے بھی ہو سکتے ہیں، اور تکبر رکنے کے بھی، کہتے ہیں کہ جب اس کو فرعون کی طرف سے بنو اسرائیل کی نگرانی سونپی گئی تھی تو اس نے اپنے ہی قوم کے لوگوں پر زیادتیاں کی تھیں۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو تجھے اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر طلب کر (آخرت کی فکر کر) اور اپنا حصہ نہ بھول دنیا سے (آخرت کی زادِ راہ) اور نیکی کر جیسے تیرے ساتھ اللہ نے نیکی کی ہے ، اور فساد نہ چاہ زمین میں، بے شک اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (۷۷)

تشریح:وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ :مطلب یہ ہے کہ مال و دولت کو اللہ تعالی کے احکام کے مطابق استعمال کرو جس کے نتیجے میں آخرت کا ثواب حاصل ہو۔

وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا :یعنی آخرت کا گھر بنانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دنیا کی ضروریات بالکل نظر انداز کر دو، بلکہ ضرورت کے مطابق دنیا کا ساز وسامان رکھنے اور کمانے میں بھی کچھ گناہ نہیں ہے ، البتہ دنیا اس انداز سے نہ کماؤ جس سے آخرت میں نقصان اٹھانا پڑے۔

وَأَحْسِنْ کَمَآ أَحْسَنَ اللّٰہُ إِلَيْکَ :یہاں اشارہ فرما دیا گیا کہ جو مال و دولت تمہیں دنیا میں ملا ہے ، حقیقت میں وہ اللہ تعالی کی ملکیت ہے ، اور اس نے تم پراحسان کر کے تمہیں عطا فرمایا ہے ، اسی طرح تم بھی لوگوں پر احسان کر کے انہیں اس مال و دولت میں شریک کرو۔

(توضیح القرآن)

 

کیا وہ نہیں جانتا کہ اس سے قبل اللہ نے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر دیا ہے ، جو اس سے زیادہ سخت تھیں قوت میں، اور زیادہ تھیں جمعیت میں، ان کے گناہوں کی بابت سوال نہ کیا جائے گا مجرموں سے۔ (۷۸)

تشریح: ایک طرف تو قارون یہ دعوی کر رہا تھا کہ میں نے جو مال و دولت حاصل کیا ہے اپنے علم و ہنر سے حاصل کیا ہے ، اور دوسری طرف اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ علم کا کوئی اعلی درجہ تو درکنار اسے اتنی معمولی بات بھی معلوم نہیں تھی کہ اگر بالفرض اس نے اپنے علم و ہنر ہی سے یہ سب کچھ حاصل کیا تو وہ علم و ہنر کس کا دیا ہوا تھا؟نیز یہ بات بھی اس نے نظر انداز کر دی کہ اللہ تعالی ایسے بہت سے انسانوں کو ہلاک کر چکا ہے ، جو اس سے زیادہ مضبوط تھے ، اور اسی قسم کے دعوے کیا کرتے تھے۔

یعنی اللہ تعالی کو مجرموں کے حالات کا پورا علم ہے ، اس لئے اس کو حالات جاننے کے لئے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں آخرت میں ان سے جو سوالات ہوں گے وہ ان کا جرم خود ان پر ثابت کرنے کے لئے ہوں گے۔

(توضیح القرآن)

 

پھر وہ (قارون) اپنی قوم کے سامنے زیب و زینت کے ساتھ نکلا تو ان لوگوں نے کہا جو طالب تھے دنیا کی زندگی کی، جو قارون کو دیا گیا ہے اے کاش ایسا ہمارے پاس (بھی) ہوتا، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے۔ (۷۹)

تشریح: یعنی لباس فاخرہ پہن کر بہت سے خدم و حشم کے ساتھ بڑی شان و شکوہ اور ٹیپ ٹاپ سے نکلا، جسے دیکھ کر طالبین دنیا کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ کہنے لگے کاش ہم بھی دنیا میں ایسی ترقی اور عروج حاصل کرتے جو اس کو حاصل ہوا۔ بیشک یہ بڑا ہی صاحب اقبال اور بڑی قسمت والا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ورجن لوگوں کو علم (دین) دیا گیا تھا انہوں نے کہا افسوس ہے تم پر ! اللہ کا ثواب (اجر) بہتر ہے ، اس کے لئے جو ایمان لایا اور اس نے اچھا عمل کیا، اور وہ صبر کرنے والوں کے سوا (کسی کو) کو نصیب نہیں ہوتا۔ (۸۰)

تشریح: یعنی سمجھدار اور ذی علم لوگوں نے کہا کہ کم بختو! اس فانی چمک دمک میں کیا رکھا ہے جو ریجھے جاتے ہو۔ مومنین صالحین کو اللہ کے ہاں جو دولت ملنے والی ہے اس کے سامنے یہ ٹیپ ٹاپ محض ہیچ اور لاشے ہے اتنی بھی نسبت نہیں جو ذرہ کو آفتاب سے ہوتی ہے۔ دنیا سے آخرت کو بہتر و ہی جانتے ہیں جن سے محنت سہی جاتی ہے۔ اور بے صبر لوگ حرص کے مارے دنیا کی آرزو پر گرتے ہیں۔ نادان آدمی دنیا کی آسودگی دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس کی بڑی قسمت ہے اس کی شب و روز کی فکر و تشویش، درد سری اور آخرت کی ذلت کو اور سو جگہ خوشامد کرنے کو نہیں دیکھتا اور یہ نہیں دیکھتا کہ دنیا میں کچھ آرام ہے تو دس بیس برس، اور مرنے کے بعد کاٹنے ہیں ہزاروں برس۔ (موضح بتغییر یسیر)۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو زمین میں دھنسا دیا، سو اس کے لئے کوئی جماعت نہ ہوئی جو اللہ کے سوا (اللہ سے بچانے میں) اس کی مدد کرتی، اور نہ وہ (خود) ہوا بدلہ لینے والوں میں سے۔ (۸۱)

تشریح: یعنی نہ کوئی دوسرا اپنی طرف سے مدد کو پہنچا، نہ یہ کسی کو بلا سکا۔ نہ اپنی ہی قوت کام آئی نہ دوسروں کی۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور کل تک جو لوگ اس کے درجہ کی تمنا کرتے تھے ، صبح کے وقت کہنے لگے ہائے شامت! اپنے بندوں میں سے اللہ جس کے لئے چاہے رزق فراخ کر دیتا ہے اور (جس کے لئے چاہے ) تنگ کر دیتا ہے ، اگر اللہ ہم پر احسان نہ کرتا تو البتہ ہمیں (بھی) دھنسا دیتا، ہائے شامت!کافر فلاح (دو جہان کا کامیابی) نہیں پاتے۔ (۸۲)

تشریح: یعنی جو لوگ قارون کی ترقی و ترفع کو دیکھ کر کل یہ آرزو کر رہے تھے کہ کاش ہم کو بھی ایسا عروج حاصل ہوتا، آج اس کا یہ برا انجام دیکھ کر کانوں پر ہاتھ دھرنے لگے۔ اب ان کو ہوش آیا کہ ایسی دولت حقیقت میں ایک خوبصورت سانپ ہے جس کے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے۔ کسی شخص کی دنیاوی ترقی و عروج کو دیکھ کر ہم کو ہرگز یہ فیصلہ نہیں کر لینا چاہیے کہ اللہ کے ہاں وہ کچھ عزت و وجاہت رکھتا ہے۔ یہ چیز کسی بندے کے مقبول و مردود ہونے کا معیار نہیں بن سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ جس پر مناسب جانے روزی کے دروازے کھول دے جس پر چاہے تنگ کر دے۔ مال و دولت کی فراخی مقبولیت اور خوش انجامی کی دلیل نہیں۔ بلکہ بسا اوقات اس کا نتیجہ تباہی اور ابدی ہلاکت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے سچ ہے : کَمْ عَاقِلٍ عَاقِلٍ اَعْیَتْ مَذَاہِبُہ، وَکَمْ جَاہِلٍ جَاہِلٍ تَلْقَاہُ مَرْزُوْقاً ہٰذَا الَّذِیْ تَرَکَ الْاَوْہَامَ حَائِرَۃً وَصَیَّرَ الْعَالِمَ النَّحْرِیْرَ زِنْدِیْقًا

خدا تعالیٰ کا احسان ہے اس نے ہم کو قارون کی طرح نہ بنایا، ورنہ یہی گت ہماری بنتی، اپنی طرف سے تو ہم حرص کے مارے ”یَالَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنَ”کی آرزو کر ہی چکے تھے۔ خدا نے خیر کی کہ ہماری آرزو کو پورا نہ کیا۔ اور نہ ہماری حرص پر سزا دی۔ بلکہ قارون کا حشر آنکھوں سے دکھلا کر بیدار فرما دیا، اب ہمیں خوب کھل گیا کہ محض مال و زر کی ترقی سے حقیقی فلاح و کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی، اور یہ کہ ناشکر گزار منکروں کے لیے عذاب الٰہی سے چھٹکارا نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ آخرت کا گھر ہے ، ہم ان لوگوں کے لئے تیار کرتے ہیں جو نہیں چاہتے زمین (ملک) میں برتری اور نہ فساد اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے۔ (۸۳)

تشریح: یعنی قارون کی دولت کو نادانوں نے کہا کہ اس کی بڑی قسمت ہے ، بڑی قسمت یہ نہیں، آخرت کا ملنا بڑی قسمت ہے۔ سو وہ ان کے لیے ہے جو اللہ کے ملک میں شرارت کرنا اور بگاڑ ڈالنا نہیں چاہتے اور اس فکر میں نہیں رہتے کہ اپنی ذات کو سب سے اونچا رکھیں۔ بلکہ تواضع و انکسار اور پرہیزگاری کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ ان کی کوشش بجائے اپنی ذات کو اونچا رکھنے کی یہ ہوتی ہے کہ اپنے دین کو اونچا رکھیں، حق کا بول بالا کریں اور اپنی قوم مسلم کو ابھارنے اور سر بلند کرنے میں پوری ہمت صرف کر ڈالیں۔ وہ دنیا کے حریص نہیں ہوتے۔ آخرت کے عاشق ہوتے ہیں۔ دنیا خود ان کے قدم لیتی ہے۔ اب سوچ لو کہ دنیا کا مطلوب کیا دنیا کے طالب سے اچھا نہیں ہے ؟ صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھ لو! وہ سب سے زیادہ ترک الدنیا تھے مگر متروک الدنیا نہ تھے۔ بہرحال مومن کا مقصد اصلی آخرت ہے۔ دنیا کا جو حصہ اس مقصد کا ذریعہ بنے وہ ہی مبارک ہے ورنہ ہیچ۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو نیکی کے ساتھ آیا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ) ہے ، اور جو بُرائی کے ساتھ آیا، تو ان لوگوں کو جنہوں نے بُرے عمل کئے اس کے سوا بدلہ نہ ملے گا جو وہ کرتے تھے۔ (۸۴)

تشریح: یعنی جو بھلائی یہاں کرے گا اس سے کہیں بہتر بھلائی وہاں کی جائے گی۔ ایک نیکی کا جو مقتضی ہو گا کم از کم اس سے دس گناہ ثواب پائے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں نیکی پر وعدہ دیا نیکی کا، وہ یقیناً ملنا ہے ، اور برائی پر برائی کا وعدہ نہیں فرمایا کہ ضرور مل کر رہے گی کیونکہ ممکن ہے معاف ہو جائے۔ ہاں یہ فرما دیا کہ اپنے کیے سے زیادہ سزا نہیں ملتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک جس نے تم پر قرآن (پر عمل اور تبلیغ) کو لازم کیا ہے ، وہ تمہیں ضرور لوٹنے کی جگہ (مکہ مکرمہ) پھیر لائے گا، آپ فرما دیں میرا رب خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت کے ساتھ آیا اور کون کھلی گمراہی میں ہے۔ (۸۵)

تشریح: قرآن کریم میں اصل لفظ ‘‘معاد’’ استعمال ہوا ہے ، بعض مفسرین کے نزدیک یہ ‘‘عادت’’ سے نکلا ہے ، یعنی وہ جگہ جس میں رہنے اور آنے جانے کا انسان عادی اور اس سے مانوس ہو، اور بعض مفسرین نے اس کے معنی ‘‘لوٹنے کی جگہ’’ بیان کئے ہیں، دونوں صورتوں میں اس سے مکہ مکرمہ مراد ہے ، اور یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم   مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے جا رہے تھے ، جب جحفہ کے قریب اس جگہ پہنچے جہاں سے مکہ مکرمہ کا راستہ الگ ہو جاتا تھا، تو آپ کو اپنے وطن سے جدائی کا احساس ہوا، اس موقع پر اس آیت کے ذریعے اللہ تعالی نے تسلی دی، اور وعدہ فرمایا کہ آپ کو دوبارہ اس سرزمین میں فاتح کی حیثیت سے لایا جائے گا، چنانچہ آٹھ سال کی مدت میں یہ وعدہ پورا ہو گیا اور مکہ مکرمہ میں آپ فاتح بن کر داخل ہوئے ، اور بعض مفسرین نے انسیت کی جگہ یا لوٹنے کی جگہ سے مراد جنت لی ہے اور آیت کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ کو اگرچہ اس دنیا میں تکلیفیں پہنچ رہی ہیں، لیکن آخر کار آپ کا مقام جنت ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ تمہاری طرف کتاب اتاری جائے گی، مگر تمہارے رب کی رحمت سے (نزول ہوا) سو تم ہرگز ہرگز نہ ہونا کافروں کے لئے مددگار۔ (۸۶)

تشریح: یعنی آپ پہلے سے کچھ پیغمبری کے انتظار میں نہ تھے ، محض رحمت و موہبت الٰہیہ ہے جو حق تعالیٰ نے پیغمبری اور وحی سے سرفراز فرمایا۔ وہ ہی اپنی مہربانی اور رحمت سے دنیا و آخرت میں کامیاب فرمائے گا لہٰذا اسی کی امداد پر ہمیشہ بھروسہ رکھیے۔

حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں یعنی اپنی قوم کو اپنا نہ سمجھ جنہوں نے تجھ سے یہ بدی کی (کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا) اب جو تیرا ساتھ دے وہ ہی اپنا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ تمہیں ہرگز اللہ کے احکام سے نہ روکیں، اس کے بعد جبکہ نازل کئے گئے تمہاری طرف، اور آپ اپنے رب کی طرف بلائیں، اور ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہونا۔ (۸۷)

تشریح: یعنی دین کے کام میں اپنی قوم کی خاطر اور رعایت نہ کیجئے اور نہ آپ کو ان میں گنیے گو کہ اپنے قرابت دار ہوں۔ ہاں ان کو اپنے رب کی طرف بلاتے رہیے اور خدا کے احکام پر جمے رہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ کے ساتھ نہ پکارو کوئی دوسرا معبود اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے ، اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔ (۸۸)

تشریح: كُلُّ شَيْءٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہٗ: اس آیت میں ‘‘وجہہ‘‘ سے مراد ذات حق سبحانہ و تعالی ہے ، اور معنی یہ ہیں ذات حق سبحانہ و تعالی کے سوا ہر چیز ہلاک و فنا ہونے والی ہے ، اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ وجہہ سے مراد وہ عمل ہے جو خالص اللہ کے لئے کیا جائے ، وہی باقی رہنے والا ہے ، باقی سب فانی ہے ، واللہ سبحانہ و تعالی اعلم۔

(معارف القرآن)

٭٭

 

 

 

۲۹۔ سورۃالعنکبوت

 

                تعارف

 

یہ سورت مکہ مکرمہ کے اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ہاتھوں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھانی پڑ رہی تھیں، بعض مسلمان ان تکلیفوں کی شدت سے بعض اوقات پریشان ہوتے ، اور ان کی ہمت ٹوٹنے لگتی تھی، اس سورت میں اللہ تعالی نے ایسے مسلمانوں کو بڑی قیمتی ہدایات عطا فرمائی ہیں، اول تو سورت کے بالکل شروع میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے مؤمنوں کے لئے جنت تیار فرمائی ہے ، وہ اتنی سستی نہیں ہے کہ کسی تکلیف کے بغیر حاصل ہو جائے ، ایمان لانے کے بعد انسان کو مختلف آزمائشوں سے گزرنا ہی پڑتا ہے ، دوسرے یہ تسلی بھی دی گئی ہے کہ یہ ساری تکلیفیں عارضی نوعیت کی ہیں، اور آخر کار ایک وقت آنے والا ہے جب ظالموں کو ظلم کرنے کی طاقت نہیں رہے گی، اور غلبہ اسلا م اور مسلمانوں ہی کو حاصل ہو گا، اس پس منظر میں اللہ تعالی نے اس سورت میں پچھلے کئی انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات سنائے ہیں، جن میں سے ہر واقعے میں یہی ہوا کہ شروع میں ایمان لانے والوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن آخر کار اللہ تعالی نے ظالموں کو برباد کیا، اور مظلوم مؤمنوں کو فتح عطا فرمائی، مکی زندگی کے اسی زمانے میں کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ اولاد مسلمان ہو گئی اور والدین کفر پر بضد رہے اور اپنی اولاد کو واپس کفر اختیار کرنے پر مجبور کرنے لگے ، ان کا کہنا تھا کہ والدین ہونے کی وجہ سے ان کی اولاد کو دین و مذہب کے معاملے میں بھی ان کی فرمان برداری کرنی چاہئیے ، اس سورت کی آیت نمبر:۸ میں اللہ تعالی نے اس سلسلے میں یہ معتدل اور برحق اصول بیان فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ انسان کا فرض ہے ،لیکن اگر وہ کفر یا اللہ تعالی کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے ، جن مسلمانوں کے لئے صرف مکہ مکرمہ کے کافروں کا ظلم وستم ناقابل برداشت ہو رہا تھا ان کو اس سوت میں نہ صرف اجازت بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے ایسی جگہ چلے جائیں جہاں وہ اطمینان کے ساتھ اپنے دین پر عمل کرسکیں، بعض کافر لوگ مسلمانوںپر زور دیتے تھے کہ دین اسلام کو چھوڑ دو، اور اس کے نتیجے میں تم پر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی سزا آئی تو تمہاری طرف سے ہم اسے بھگت لیں گے ، اس سورت کی آیات :۱۲ و ۱۳ میں اس لغو پیشکش کی حقیقت واضح کر دی گئی ہے کہ آخرت میں کوئی شخص   کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گا، اس کے علاوہ توحید، رسالت اور آخرت کے دلائل بھی اس سورت میں بیان ہوئے ہیں، اور اس سلسلے میں جو اعتراضات کافروں کی طرف سے اٹھائے جاتے تھے ، ان کا جواب بھی دیا گیا ہے ، عنکبوت عربی میں مکڑی کو کہتے ہیں اور اس سورت کی آیت نمبر:۴۱ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مشرکین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے مکڑی کے جالے پر بھروسہ کر رکھا ہو، اس لئے اس سورت کا نام سورۂ عنکبوت ہے۔

(توضیح القرآن)

 

مکیۃ

آیات۶۹    رکوعات:۷

 

اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے

الف۔ لام۔ میم۔ (۱) کیا لوگوں نے گمان کر لیا ہے کہ وہ (اتنے پر) چھوڑ دئیے جائیں گے کہ انہوں کہہ دیا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ (۲)

تشریح: یعنی زبان سے ایمان کا دعویٰ کرنا کچھ سہل نہیں جو دعویٰ کرے امتحان و ابتلاء کے لیے تیار ہو جائے یہ ہی کسوٹی ہے جس پر کھرا کھوٹا کسا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ سب سے سخت امتحان انبیاء کا ہے ، ان کے بعد صالحین کا، پھر درجہ بدرجہ ان لوگوں کا جو ان کے ساتھ مشابہت رکھے ہوں۔ نیز امتحان آدمی کا اس کی دینی حیثیت کے موافق ہوتا ہے۔ جس قدر کوئی شخص دین میں مضبوط اور سخت ہو گا اسی قدر امتحان میں سختی کی جائے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم نے ان سے پہلے لوگوں کو آزمایا، تو اللہ ضرور معلوم کرے گا ان لوگوں کو جو سچے ہیں، اور ضرور معلوم کرے گا جھوٹوں کو۔ (۳)

تشریح: یعنی پہلے نبیوں کے متبعین بڑے بڑے سخت امتحانوں میں ڈالے جا چکے ہیں۔ بخاری میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں فریاد کی کہ حضرت! ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کیجئے اور دعاء فرمایے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں پر سختی اور ظلم و ستم کی انتہاء کر رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے ایک (زندہ) آدمی کو زمین کھود کر (کھڑا) گاڑ دیا جاتا تھا۔ پھر اس کے سر پر آرہ چلا کر بیچ سے دو ٹکڑے کر دیتے تھے ، بعضوں کے بدن میں لوہے کہ کنگھیاں پھرا کر چمڑا اور گوشت ادھیڑ دیا جاتا تھا۔ تاہم یہ سختیاں ان کو دین سے نہ ہٹا سکیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اگرچہ اللہ تعالی کو شروع ہی سے معلوم ہے کہ کون فرماں بردار ہو گا، اور کون نافرمان، لیکن اللہ تعالی اس ازلی علم کی بنیاد پر جزا وسزا کا فیصلہ کرنے کے بجائے لوگوں پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے ہدایت یا گمراہی کا راستہ خود چنیں، اور یہاں یہی دیکھنا مراد ہے کہ کس نے کونسا راستہ عملاً چنا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

جو لوگ بُرے کام کرتے ہیں کیا انہوں نے گمان کیا ہے کہ وہ ہم سے بچ باہر نکلیں گے ، بُرا ہے جو وہ فیصلہ (خیال) کر رہے ہیں۔ (۴)

تشریح:  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ”پہلی دو آیتیں مسلمانوں کے متعلق تھیں جو کافروں کی ایذاؤں میں گرفتار تھے اور یہ آیت ان کافروں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو ستا رہے تھے۔ ” (موضح) یعنی مومنین کے امتحانات کو دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ ہم مزے سے ظلم کرتے رہیں گے اور سختیوں سے بچے رہیں گے۔ وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتے ہیں۔ جو سخت ترین سزا ان کو ملنے والی ہے اس کے سامنے مسلمانوں کے امتحان کی سختی کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔ اگر اس وقت کی عارضی مہلت سے انہوں نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ہم ہمیشہ مامون رہیں گے اور سزا دہی کے وقت خدا کے ہاتھ نہ آئیں گے تو حقیقت میں بہت ہی بری بات طے کی ایسا احمقانہ فیصلہ آنے والی مصیبت کو روک نہیں سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

جو کوئی اللہ سے ملاقات (ملنے ) کی امید رکھتا ہے تو بیشک اللہ کا وعدہ ضرور آنے والا ہے ، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۵)

تشریح: یعنی جو شخص اس توقع پر سختیاں اٹھا رہا ہے کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے جہاں بات بات پر پکڑ ہو گی۔ ناکامیاب ہوا تو یہاں کی سختیوں سے کہیں بڑھ کر سختیاں جھیلنی پڑیں گی اور کامیاب رہا تو ساری کلفتیں ڈھل جائیں گی اللہ کی خوشنودی اور اس کا دیدار نصیب ہو گا۔ ایسا شخص یاد رکھے کہ اللہ کا وعدہ آرہا ہے ، کوئی طاقت اسے پھیر نہیں سکتی۔ اس کی اعلیٰ توقعات پوری ہو کر رہیں گی اور اس کی آنکھیں ضرور ٹھنڈی کی جائیں گی۔ اللہ سب کی باتیں سنتا اور جانتا ہے کسی کی محنت رائگاں نہ کرے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو کوئی کوشش کرتا ہے تو صرف اپنی ذات کے لئے کوشش کرتا ہے ، بیشک اللہ البتہ جہان والوں سے بے نیاز ہے۔ (۶)

تشریح: یعنی اللہ تعالیٰ کو کسی کی اطاعت سے کیا نفع اور معصیت سے کیا نقصان۔ وہ تو کلی طور پر بے نیاز ہے۔ ہاں بندہ اپنے پروردگار کی طاعت میں جس قدر محنت اٹھائے گا اس کا پھل دنیا و آخرت میں اسی کو ملے گا، پس مجاہدے کرنے والے یہ خیال کبھی نہ آنے دیں کہ ہم خدا کے راستہ میں اتنی محنت کر کے کچھ اس پر احسان کر رہے ہیں؟ (العیاذ باللہ) اس کا احسان ہے کہ خود تمہارے فائدہ کے لیے طاعت و ریاضت کی توفیق بخشے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اس میں دین کے راستے میں کی ہوئی ہر محنت داخل ہے ، چاہے وہ نفس اور شیطان کا مقابلہ کرنے کی محنت ہو یا تبلیغ و دعوت کی محنت یا اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کی محنت۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے البتہ ہم ضرور ان سے ان کی بُرائیاں دور کر دیں گے ، اور ہم ضرور انہیں (ان کے اعمال کی) زیادہ بہتر جزا دیں گے۔ (۷)

تشریح: یعنی جہاں سے بے پروا اور بے نیاز ہونے کے باوجود اپنی رحمت و شفقت سے تمہاری محنت کو ٹھکانے لگاتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”یعنی ایمان کی برکت سے نیکیاں ملیں گی اور برائیاں معاف ہوں گی۔ ”

اور ہم نے انسان کو ماں باپ سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اور اگر وہ تجھ سے کوشش کریں (زور ڈالیں) کہ تو (کسی کو) میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کوئی علم نہیں، تو ان کا کہنا نہ مان، تمہیں میری طرف لوٹ کر آنا ہے ، تو میں تمہیں ضرور بتلاؤں گا، وہ جو تم کرتے تھے۔ (۸)

تشریح: یعنی تمام کائنات میں ایسی کوئی چیز ہے ہی نہیں جو خدا کی شریک ہو سکے۔ پھر اس کی خبر کسی کو کہاں سے ہوئی۔ جو لوگ شرکاء ٹھہراتے ہیں محض جاہلانہ اوہام اور بے سند خیالات کی پیروی کر رہے ہیں۔ واقعہ کی خبر انہیں کچھ بھی نہیں۔

دنیا میں ماں باپ سے زیادہ حق کسی کا نہیں۔ پر اللہ کا حق ان سے زیادہ ہے۔ ان کی خاطر دین نہ چھوڑے۔ (موضح) حدیث میں ہے کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کی والدہ نے جو مشرکہ تھی بیٹے کے اسلام کی خبر سن کر عہد کیا کہ دانہ پانی کچھ نہ چکھوں گی نہ چھت کے نیچے آرام کروں گی، تاوقتیکہ سعد (معاذ اللہ) اسلام سے نہ پھر جائے ، چنانچہ کھانا پینا ترک کر دیا اور بالکل نڈھال ہو گئی۔ لوگ زبردستی منہ چیر کر کھانا پانی دیتے تھے۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ گویا بتلا دیا کہ والدین کا اس طرح خلاف حق پر مجبور کرنا یہ بھی ایک ابتلاء و امتحان ہے ، چاہیے کہ مومن کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہو۔

سب کو عدالت میں حاضر ہونا ہے اس وقت بتلا دیا جائے گا کہ اولاد اور والدین میں سے کس کی زیادتی اور کون حق پر تھا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جو لوگ ایمان لائے ، اور انہوں نے اچھے عمل کئے ، ہم انہیں ضرور نیک بندوں میں داخل کریں گے۔ (۹)

تشریح: یعنی جو اس قسم کی زبردست رکاوٹوں کے باوجود بھی ایمان اور نیکی کی راہ پر قائم رہے حق تعالیٰ ان کا حشر اپنے خاص نیک بندوں میں کرے گا۔ ابن کثیر لکھتے ہیں یعنی اولاد نے اگر ناحق بات میں والدین کا کہا نہ مانا اور والدین ناحق پر قائم رہے تو اولاد کا حشر صالحین کے زمرہ میں ہو گا، ان والدین کے زمرہ میں نہ ہو گا گو طبعی و نسبی تعلقات کی بناء پر وہ اس سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ معلوم ہوا”اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ”میں حب دینی مراد ہے ، حب طبعی مراد نہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تمہارے رب کی طرف سے کوئی مدد آئے تو (اس وقت) وہ ضرور کہتے ہیں، بیشک ہم تمہارے ساتھ ہیں، کیا اللہ خوب جاننے و الا نہیں جو دنیا جہان والوں کے دلوں میں ہے۔ (۱۰)

تشریح: یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو زبان سے اپنے کو مومن کہتے تھے۔ مگر دلوں میں ایمان راسخ نہیں تھا۔ ان کو جہاں اللہ کے راستہ میں کوئی تکلیف پہنچی یا دین کی وجہ سے لوگوں نے ستایا تو آزمائش کو خدائی عذاب سمجھنے لگے۔ جس طرح آدمی عذاب الٰہی سے گھبرا کر جان بچانا چاہتا اور اپنے پہلے دعوؤں سے دستبردار ہونے لگتا ہے اور ناچار اعتراف کرتا ہے کہ میں غلطی پر تھا، یہ ہی حال ان ضعفاء القلوب کا ہے۔ جہاں دین کے معاملہ میں کوئی سختی پہنچی بس گھبرا کر دعویٰ ایمان سے دستبردار ہونا شروع کر دیا، اور زبان سے یا عمل سے گویا اقرار کرنے لگے کہ ہم اس دعوے میں غلطی پر تھے یا ایسا دعویٰ کیا ہی نہ تھا۔

اگر مسلمان کی کوئی کامیابی اور عروج دیکھیں تو باتیں بنانے لگیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے اور اب بھی تمہارے اسلامی بھائی ہیں۔ خصوصاً اگر مسلمانوں کو فتح ہو اور فرض کیجیے یہ لوگ کفار کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے ہاتھ میں قید ہو جائیں، پھر تو نفاق و تملق کی کوئی حد نہ رہے۔ جیسے کچھ یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ ہیں اللہ کو سب معلوم ہے۔ کیا زبانی دعوے کر کے اللہ سے اپنے دلوں کا حال چھپا سکتے ہیں؟

(تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ ضرور معلوم کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور ضرور معلوم کرے گا منافقوں کو۔ (۱۱)

تشریح: یعنی معلوم تو اسے پہلے ہی سے سب کچھ ہے لیکن اب تمہارے اعمال و افعال کو دیکھ لے گا کہ کون اپنے کو سچا مومن ثابت کرتا ہے اور کون جھوٹا دغا باز منافق ہے (تنبیہ) اس قسم کے مواضع میں ”لَیَعْلَمَنْ اللہُ” کے معنی ”لَیُرِیَنَّ اللہُ” کے لینا ابن عباس سے منقول ہے کہ کما فی تفسیر ابن کثیر۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور کافروں نے ایمان والوں کو کہا تم ہماری راہ چلو، اور ہم تمہارے گناہ اٹھا لیں گے ، حالانکہ وہ ان کے گناہ اٹھانے والے نہیں کچھ بھی، بیشک وہ جھوٹے ہیں۔ (۱۲)

تشریح:  یعنی مسلمان کو چاہیے ایمان پر مضبوط رہے ، نہ کوئی تکلیف و ایذاء دہی اس کو طریق استقامت سے ہٹا سکے اور نہ کفار کی احمقانہ استمالت سے متاثر ہو، مثلاً کفار مسلمانوں سے کہے ہیں کہ تم اسلام چھوڑ کر اپنی برادری میں آ ملو اور ہماری راہ پر چلو، تمام تکلیفوں اور ایذاؤں سے بچ جاؤ گے مفت میں کیوں مصیبتیں جھیل رہے ہو۔ اور اگر ایسا کرنے میں گناہ سمجھتے اور مؤاخذہ کا اندیشہ رکھتے ہو تو خدا کے ہاں بھی ہمارا نام لے دینا کہ انہوں نے ہم کو یہ مشورہ دیا تھا۔ اگر ایسی صورت پیش آئی تو ساری ذمہ داری ہم اٹھا لیں گے ، اور تمہارے گناہ کا بوجھ اپنے سر رکھ لیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ البتہ ضرور اپنے بوجھ اٹھائیں گے اور (بھی) بہت سے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ، اور قیامت کے دن البتہ ان سے ضرور اس (کے بارے میں) باز پُرس ہو گی جو وہ جھوٹ گھڑتے تھے۔ (۱۳)

تشریح: یعنی جھوٹے ہیں، تمہارا بوجھ رتی برابر بھی ہلکا نہیں کر سکتے۔ ہاں اپنا بوجھ بھاری کر رہے ہیں۔ ایک تو ان کے ذاتی گناہوں کا بار تھا، اب دوسروں کے اغواء و اضلال کے بار نے اس میں مزید اضافہ کر دیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ”کوئی چاہے کہ رفاقت کر کے کسی کے گناہ اپنے اوپر لے لے ، یہ نہیں ہو گا۔ مگر جس کو گمراہ کیا اور اس کے بہکائے سے اس نے گناہ کیا، وہ گناہ اس پر بھی اور اس پر بھی۔ ” (موضح) جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں تو جو کوئی کسی کو (ناحق) قتل کرے ، اس کے گناہ کا حصہ آدم کے پہلے بیٹے (قابیل) کو پہنچتا ہے جس نے اول یہ بری راہ نکالی۔

جو جھوٹی باتیں بناتے ہیں کہ ہم تمہارا بوجھ اٹھا لیں گے ، یہ خود مستقل گناہ ہے جس پر ماخوذ ہوں گے۔ آگے چند قصص کے ضمن میں متنبہ کیا گیا ہے کہ سچوں کے مقابلہ میں ہمیشہ سے جھوٹے اغواء اور شرارت کرتے رہیں اور سچوں کو مدتوں تک امتحان و ابتلاء کے دور میں سے گزرنا پڑا ہے۔ مگر آخری نتیجہ انہی کے حق میں بہتر ہوا، منکر اور شریر لوگ خائب و خاسر رہے سچے کامیاب و سربلند ہوئے۔ اشقیاء کے تمام مکائد تار عنکبوت سے زیادہ ثابت نہ ہوئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا، تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہے ، پھر انہیں طوفان نے آ پکڑا، اور وہ ظالم تھے۔ (۱۴)

تشریح: ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت نوح چالس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔ ساڑھے نو سو برس دعوت و تبلیغ اور سعی و اصلاح میں مصروف رہے۔ پھر طوفان آیا، طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے اس طرح کل عمر ایک ہزار پچاس سال ہوئی۔

جب گناہوں اور شرارتوں سے باز نہ آئے تو طوفان نے سب کو گھیر لیا۔ بجز چند نفوس کے سب ہلاک ہو گئے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر ہم نے اسے اور کشتی والوں کو بچا لیا اور اس (کشتی) کو جہان والوں کے لئے ایک نشانی بنایا۔ (۱۵)

تشریح: یعنی جو آدمی یا جانور جہاز پر سوار تھے ان کو نوح علیہ السلام کی معیت میں ہم نے محفوظ رکھا۔ سورہ ”ہود” میں یہ قصہ مفصل گزر چکا۔ کہتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کا جہاز مدت دراز تک ”جودی” پر لگا رہا تاکہ دیکھنے والوں کے لیے عبرت ہو اور اب جو جہاز اور کشتیاں موجود ہیں یہ بھی ایک نشانی ہے جسے دیکھ کر سفینہ نوح کی یاد تازہ ہوتی اور قدرتِ الٰہی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ یا شاید یہ مراد ہو کہ کشتی کے اس قصہ کو ہم نے ہمیشہ کے لیے عبرت بنا دیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”جس وقت یہ سورت اتری ہے حضرت کے بہت سے اصحاب کافروں کی ایذاؤں سے تنگ آ کر جہاز پر سوار ہو کر ملک حبشہ کی طرف گئے تھے جب حضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کر آئے تب وہ جہاز والے صحابہ بھی سلامتی سے آملے۔ ” (موضح بتغییر یسیر) گویا نوح و سفینہ نوح کی تاریخ اس رنگ میں دہرائی گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنی قوم کو کہا تم اللہ کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم جانتے ہو یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ (۱۶)

ا س کے سوا نہیں کہ تم پرستش کرتے ہو اللہ کے سوا بتوں کی، اور تم جھوٹ گھڑتے ہو، بیشک اللہ کے سوا تم جن کی پرستش کرتے ہو وہ تمہارے لئے رزق کے مالک نہیں، پس تم اللہ کے پاس (سے ) رزق تلاش کرو، اور اس کی عبادت کرو، اور اس کا شکر کرو، اسی کی طرف تمہیں لوٹ کر جانا ہے۔ (۱۷)

تشریح: یعنی جھوٹے عقیدے تراشتے ہو اور جھوٹے خیالات و اوہام کی پیروی کرتے ہو، چنانچہ اپنے ہاتھوں سے یہ بت بنا کر کھڑے کر لیے ہیں۔ جنہیں جھوٹ موٹ خدا کہنے لگے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں ”اکثر خلق روزی کے پیچھے ایمان دیتی ہے۔ سو جان رکھو کہ اللہ کے سوا روزی کوئی نہیں دیتا وہ ہی دیتا ہے۔ اپنی خوشی کے موافق۔ ”لہٰذا اس کے شکر گزار بنو اور اسی کی بندگی کرو۔ وہیں تم کو لوٹ کر جانا ہے ، آخر اس وقت کیا منہ دکھاؤ گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اگر تم جھٹلاؤ گے تو جھٹلا چکی ہیں بہت سی امتیں تم سے پہلی (بھی) اور رسول کے ذمے نہیں مگر صرف صاف طور پہنچا دینا۔ (۱۸)

تشریح: یعنی جھٹلانے سے میرا کچھ نہیں بگڑتا، میں صاف صاف تبلیغ و نصیحت کر کے اپنا فرض ادا کر چکا، بھلا برا سمجھا چکا، نہ مانو گے نقصان اٹھاؤ گے جیسے ”عاد” و ”ثمود” وغیرہ تم سے پہلے اٹھا چکے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کیسے اللہ پیدائش کی ابتداء کرتا ہے ! پھر دوبارہ اس کو پیدا کرے گا، بیشک اللہ پر یہ آسان ہے۔ (۱۹)

تشریح: یعنی خود اپنی ذات میں غور کرو، پہلے تم کچھ نہ تھے ، اللہ نے تم کو پیدا کیا اسی طرح مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کر دے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ ”شروع تو دیکھتے ہو، دوہرانا اسی سے سمجھ لو۔ ” اللہ کے نزدیک تو کوئی چیز بھی مشکل نہیں۔ البتہ تمہارے سمجھنے کی بات ہے کہ جس نے بدون نمونہ کے اول ایک چیز کو بنایا، نمونہ قائم ہونے کے بعد بنانا تو اور زیادہ آسان ہونا چاہیے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر دیکھو اس نے کیسے پیدائش کی ابتدا کی پھر اللہ اٹھائے گا دوسری اٹھان (دوسری بار) بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۲۰)

تشریح: یعنی اپنی ذات کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کی پیدائش میں بھی غور کرو اور چل پھر کر دیکھو کہ کیسی کیسی مخلوق خدا نے پیدا کی ہے۔ اسی پر دوسری زندگی کو قیاس کر لو۔ اس کی قدرت اب کچھ محدود نہیں ہو گئی۔

(تفسیرعثمانی)

 

وہ جس کو چاہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہے رحم فرماتا ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔ (۲۱)

تشریح: یعنی دوبارہ پیدا کر کے جسے اپنی حکمت کے موافق چاہے گا سزا دے گا اور جس پر چاہے گا اپنے فضل و کرم سے مہربانی فرمائے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور تم زمین میں عاجز کرنے والے نہیں اور نہ آسمان میں، اور تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہے اور نہ کوئی مددگار۔ (۲۲)

تشریح: یعنی جس کو اللہ تعالیٰ سزا دینا چاہے وہ نہ زمین کے سوراخوں میں گھس کر سزا سے بچ سکتا ہے نہ آسمان میں اڑ کر، کوئی بلندی یا پستی خدا کے مجرم کو پناہ نہیں دے سکتی نہ کوئی طاقت اس کی حمایت اور مدد کو پہنچ سکتی ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے اللہ کی نشانیوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا یہی لوگ میری رحمت سے ناامید ہوئے ، اور یہی ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۲۳)

تشریح: یعنی جنہوں نے اللہ کی باتوں کا انکار کر دیا اور اس سے ملنے کی امید نہیں رکھی۔ (کیونکہ وہ بعث بعد الموت کے قائل ہی نہ ہوئے ) انہیں رحمت الٰہی کی امید کیونکر ہو سکتی ہے۔ لہٰذا وہ آخرت میں بھی محرم و مایوس ہی رہیں گے۔ یہ گویا ”مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللہِ لَاٰتٍ” کا عکس ہوا۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا نہ تھا کہ اسے قتل کر ڈالو یا اس کو جلادو، سو اللہ نے اس کو آگ سے بچالیا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ (۲۴)

تشریح: یعنی ابراہیم کی تمام معقول باتیں اور دلائل و براہین سن کر جب ان کے ہم قوم جواب سے عاجز ہوئے تو قوت کے استعمال پر اتر آئے اور آپس میں مشورہ کیا کہ یا تو قتل کر کے ایک دم ان کا قصہ ہی تمام کر دو اور یا آگ میں جلاؤ شاید تکلیف محسوس کر کے اپنی باتوں سے باز آ جائے تو نکال لیں گے ورنہ راکھ کا ڈھیر ہو کر رہ جائے گا۔ انہوں نے مشورہ کر کے آگ میں ڈال دیا، مگر حق تعالیٰ نے آگ کو گلزار بنا دیا۔ جیسا کہ سورہ ”انبیاء” میں مفصلاً گزر چکا ہے۔ اس واقعہ سے سمجھا دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کو کس طرح بچا لیتا ہے۔ اور مخالفین حق کو کس طرح خائب و خاسر کرتا ہے۔ نیز یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز کی تاثیر اس کے حکم سے ہے۔ جب حکم نہ ہو تو آگ جیسی چیز جلا نہیں سکتی۔

(تفسیرعثمانی)

 

ا ور ابراہیم نے کہا اس کے سوا نہیں کہ تم نے اللہ کے سوا بت بنا لئے ہیں، دنیا کی زندگی میں آپس کی دوستی (کی وجہ) سے ، پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک دوسرے کا مخالف ہو جائے گا، اور تم میں ایک دوسرے پر لعنت (ملامت) کرے گا، اور تمہارا ٹھکانہ جہنم ہے ، اور تمہارے لئے کوئی مددگار نہیں۔ (۲۵)

تشریح: اس کا ایک مطلب تویہ ہے کہ جو لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں، انہوں نے اسی بت پرستی کی بنیاد پر دوستیاں قائم کر رکھی ہیں، اور دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں نے بت پرستی سوچ سمجھ کر اختیار نہیں کی، بلکہ اپنے دوستوں کو دیکھا کہ وہ بت پرستی کر رہے ہیں تو انہی کے طریقے پر چل پڑے ، اور صرف دوستی قائم رکھنے کے لئے اس مذہب کو اپنا لیا، سبق یہ دیا گیا ہے کہ حق و باطل کے معاملے میں دوستوں اور رشتہ داروں کی مروت میں کوئی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ بصیرت کے ساتھ وہی راستہ اختیار کرنا چاہئے جو حق ہو۔

(توضیح القرآن)

 

پس اس پر لوط ایمان لایا، اور اس نے کہا بیشک میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا (وطن چھوڑنے والا ہوں) بیشک وہی غالب حکمت والا ہے۔ (۲۶)

تشریح: حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھانجے تھے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وطن یعنی عراق میں اُن پر حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی ایمان نہیں لایا تھا، چنانچہ انہوں نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی، لیکن بعد میں اللہ تعالی نے اُن کو بھی پیغمبر بنا کر سدوم اور عمورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا تھا۔

(توضیح القرآن)

 

وَقَالَ إِنِّيْ مُہَاجِرٌ إِلٰی رَبِّيْٓ: مطلب یہ ہے کہ میں اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جا رہا ہوں۔

(توضیح القرآن)

 

اور ہم نے اس (ابراہیم) کو عطا فرمائے اسحاق اور یعقوب اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی، اور ہم نے اس کو اس کا اجر دیا دنیا میں، اور بیشک وہ آخرت میں البتہ نیکو کاروں میں سے ہے۔ (۲۷)

تشریح: یعنی اسحاق بیٹا اور یعقوب پوتا دیا۔ جن کی نسل ”بنی اسرائیل” کہلاتی ہے۔ حضرت ابراہیم کے بعد بجز ان کی اولاد کے کسی کو کتابِ آسمانی اور پیغمبری نہ دی جائے گی۔ چنانچہ جس قدر انبیاء ان کے بعد تشریف لائے ان ہی کی ذریت سے تھے۔ اسی لیے ان کو ”ابو الانبیاء” کہا جاتا ہے۔

وَاٰتَيْنَاہُ أَجْرَہٗ فِی الدُّنْيَا:یعنی ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کی راہ میں قربانیوں اور دوسرے اعمال صالحہ کی جزا دنیا میں بھی دے دی کہ ان کو تمام مخلوق میں مقبول و امام بنا دیا، یہودی، نصرانی، بت پرست سبھی ان کی عزت کرتے ہیں، اور اپنا مقتداء مانتے ہیں، اور آخرت میں وہ صالحین اہل جنت میں سے ہوں گے ، اس سے معلوم ہوا کہ اعمال کی اصل جزا تو آخرت میں ملے گی، مگر اس کا کچھ حصہ دنیا میں بھی نقد دیا جاتا ہے ، جیسا کہ احادیث معتبرہ میں بہت سے اچھے اعمال کے دنیوی فوائد اور بُرے اعمال کے دنیوی مفاسد کا بیان آیا ہے ، ایسے اعمال کو سیدی حضرت حکیم الامت نے ایک مستقل رسالہ جزاء الاعمال میں جمع فرما دیا ہے۔

(معارف القرآن)

 

اور (ہم نے بھیجا) لوط کو، (یاد کرو) جب اس نے کہا اپنی قوم کو، بیشک تم بے حیائی کا (ایسا کام) کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں کسی نہ نہیں کیا۔ (۲۸)

تشریح: یعنی یہ فعل شنیع تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ یہ ہی اس کی دلیل ہے کہ فطرت انسانی اس سے نفور ہے۔ ایسے خلاف فطرت و شریعت کام کی بنیاد تم نے ڈالی۔

(تفسیرعثمانی)

 

سو اس کی قوم کا جواب اس کے سوا نہ تھا کہ انہوں نے کہا ہم پر اللہ کا عذاب لے آ، اگر تو ہے سچے لوگوں میں سے۔ (۲۹)

لوط نے کہا اے میرے رب ! مفسد لوگوں پر میری مدد فرما۔ (۳۰)

تشریح: اس جگہ حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کے تین سخت گناہوں کا ذکر کیا، اول مرد کی مرد کے ساتھ بد فعلی، دوسرے قطع طریق یعنی مسافروں پر ڈاکہ زنی، تیسرے اپنی مجلسوں میں اعلاناً سب کے سامنے گناہ کرنا، قرآن کریم نے اس تیسرے گناہ کی تعیین نہیں فرمائی، اس سے معلوم ہوا کہ ہر گناہ جو اپنی ذات میں گناہ ہے ، اگر اس کو علانیہ بے پروائی سے کیا جائے تو یہ دوسرا مستقل گناہ ہو جاتا ہے وہ کوئی بھی گناہ ہو، بعض ائمہ تفسیر نے اس جگہ ان گناہوں کو شمار کیا ہے جو یہ بے حیا اپنی مجلسوں میں سب کے سامنے کیا کرتے تھے ، مثلاً راستہ چلتے لوگوں کو پتھر مارنا اور ان کا استہزاء کرنا جیسا کہ ام ہانی کی ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے ، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ جو بے حیائی ان کی مشہور تھی اس کو وہ کہیں چھپ کر نہیں کھلی مجلسوں میں ایک دوسرے کے سامنے کرتے تھے ، العیاذ باللہ۔ جن تین گناہوں کا اس آیت میں ذکر ہے ان سب میں اشد پہلا گناہ ہے ، جو ان سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا تھا اور جنگل کے جانور بھی اس سے پرہیز کرتے ہیں، باتفاق امت یہ گناہ زنا سے زیادہ شدید ہے (کذا فی الروح)۔

(معارف القرآن)

 

اور جب آئے ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر، انہوں نے کہا بیشک ہم اس بستی کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے ہیں، بیشک اس (بستی) کے لوگ بڑے شریر ہیں۔ (۳۱)

تشریح: لوط علیہ السلام کی دعا پر فرشتوں کو اس بستی کے تباہ کرنے کا حکم ہوا۔ فرشتے اول حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس پہنچے ، ان کو بڑھاپے میں بیٹے کی بشارت سنائی اور اطلاع دی کہ ہم اس بستی (سُدُوم) کو تباہ و برباد کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ وہاں کے لوگ کسی طرح اپنی حرکات شنیعہ سے باز نہیں آتے۔ ان واقعات کی تفصیل سورہ اعراف، ہود اور حجر وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ (تنبیہ) شاید ہلاکت کی خبر کے ساتھ بیٹے کی بشارت دینے کا مطلب یہ ہو کہ ایک قوم سے اگر خدا کی زمین خالی کی جانے والی ہے تو دوسری طرف حق تعالیٰ ایک عظیم الشان قوم ”بنی اسرائیل” کی بنیاد ڈالنے والا ہے۔ نبہ علیہ العلامۃ النیسابوری فی تفسیرہ۔

(تفسیرعثمانی)

 

ابراہیم نے کہا اس (بستی) میں لوط (بھی ہے ) وہ (فرشتے ) بولے ہم خوب جانتے ہیں اس کو جو اس (بستی) میں ہے ، البتہ ہم اس کو اور اس کے گھر والوں کو اس کی بیوی کے سوا ضرور بچا لیں گے (کہ) وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (۳۲)

تشریح: یعنی کیا لوط کی موجودگی میں بستی کو تباہ کیا جائے گا؟ یا انہیں وہاں سے علیحدہ کر کے تعذیب کی کارروائی عمل میں لائی جائے گی؟ غالباً حضرت ابراہیم کو از راہِ شفقت خیال آیا کہ لوط کی آنکھوں کے سامنے یہ آفت نازل ہوئی تو عجب نہیں کہ عذاب کا ہولناک منظر دیکھنے سے وحشت اور گھبراہٹ ہو، فرشتوں نے اپنے کلام میں کوئی استثناء کیا نہ تھا، اس سے ان کے ذہن میں یہ ہی شق آئی ہو گی کہ لوط کی موجودگی میں کارروائی کریں گے۔ واللہ اعلم۔

فرشتوں نے اطمینان دلایا کہ ہم سب کو جانتے ہیں جو وہاں رہتے ہیں اور جو ان میں خدا کے مجرم ہیں۔ تنہا لوط نہیں، بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے گا۔ سب کو عذاب کے مواقع سے علیحدہ کر لیں گے صرف اس کی ایک عورت وہاں رہ جائے گی۔ کیونکہ اس پر بھی عذاب آنا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے وہ اُن (کے آنے ) سے پریشان ہوا، اور ان کی وجہ سے دل تنگ ہوا، اور وہ بولے ڈرو نہیں اور غم نہ کھاؤ، بیشک ہم تیری بیوی کے سوا تجھے اور تیرے گھر والوں کو بچانے والے ہیں (کہ) وہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے۔ (۳۳)

تشریح: فرشتے نہایت حسین و جمیل مردوں کی شکل میں وہاں پہنچے۔ حضرت لوط نے اول پہچانا نہیں۔ بہت تنگدل اور ناخوش ہوئے کہ اب ان مہمانوں کی عزت قوم کے ہاتھ سے کس طرح بچاؤں گا۔ اگر اپنے یہاں نہ ٹھہراؤں تو اخلاق و مروت اور مہمان نوازی کے خلاف ہے۔ ٹھہراتا ہوں تو اس بدکار قوم سے آبرو کس طرح محفوظ رہے گی۔

(تفسیرعثمانی)

 

بیشک ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں، اس وجہ سے کہ وہ بدکاری کرتے تھے۔ (۳۴)

تشریح: یعنی اپنی قوم کی شرارت سے ڈریے مت۔ یہ کچھ نہیں کر سکتی اور ہمارے بچاؤ کے لیے غمگین نہ ہو ہم آدمی نہیں، فرشتے ہیں، جو تجھ کو اور تیرے ہم مشرب گھر والوں کو بچا کر اس قوم کو غارت کرنے کے لیے آئے ہیں۔ یہ قصہ پہلے کئی جگہ گزر چکا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ ہم نے اس (بستی) سے کچھ واضح نشان ان لوگوں کے لئے چھوڑے (باقی رکھے ) جو عقل رکھتے ہیں۔ (۳۵)

تشریح: یعنی ان کی الٹی ہوئی بستیوں کے نشان مکہ والوں کو ملک شام کے سفر میں دکھائی دیتے ہیں۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور مدین (والوں ) کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) پس اس نے کہا اے میری قوم! تم اللہ کی عبادت کرو اور آخرت کے دن کے امیدوار رہو، اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ (۳۶)

تشریح:يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ :یعنی آخرت کی طرف سے غافل نہ بنو۔ اکیلے خدائے واحد کی پرستش کرو۔

وَلَا تَعْثَوْا فِی الْأَرْضِ مُفْسِدِيْنَ: خرابی (فساد) مچانے سے شاید مراد ہے لین دین میں دغا بازی کرنا، سود بٹہ لگانا، جیسا کہ ان کی عادت تھی۔ اور ممکن ہے رہزنی بھی کرتے ہوں۔ وقیل غیر ذلک۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر انہوں نے اس کو جھٹلایا تو اُن کو آ پکڑا زلزلہ نے ، پس وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ (۳۷)

اور (ہم نے ہلاک کیا) عاد اور ثمود کو، اور تحقیق تم پر ان کے رہنے کے مقامات واضح ہو گئے ہیں، اور شیطان نے ان کے اعمال ان کے لئے (انہیں) بھلے کر دکھائے ، پھر انہیں راہِ (حق) سے روک دیا، حالانکہ وہ سمجھ بوجھ والے تھے۔ (۳۸)

تشریح: وَقَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسَاكِنِہِمْ :یعنی ان کی بستیوں کے کھنڈر تم دیکھ چکے ہو ان سے عبرت حاصل کرو۔

وَکَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ :یعنی دنیا کے کام میں ہشیار تھے اور اپنے نزدیک عقلمند تھے پر شیطان کے بہکائے سے نہ بچ سکے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور (ہم نے ہلاک کیا) قارون اور فرعون اور ہامان کو، اور ان کے پاس موسیٰ کھلی نشانیوں کے ساتھ آئے ، تو انہوں نے تکبر کیا زمین میں، اور وہ بچ کر بھاگ نکلنے والے نہ تھے۔ (۳۹)

تشریح: یعنی کھلی نشانیاں دیکھ کر بھی حق کے سامنے نہ جھکے اور کبر و غرور نے ان کی گردن نیچے نہ ہونے دی۔ پھر نتیجہ کیا ہوا؟ کیا بڑے بن کر سزا سے بچ گئے ؟ یا العیاذ باللہ خدا کو تھکا دیا۔

(تفسیرعثمانی)

 

پس ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ پر پکڑا تو ان میں سے (بعض وہ ہیں) جن پر ہم نے پتھروں کی بارش بھیجی، اور ان میں سے بعض کو چنگھاڑ نے آ پکڑا، اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، اور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کر دیا، اور اللہ (ایسا) نہیں کہ ان پر ظلم کرتا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۴۰)

تشریح:فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ : ( پس ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ پر پکڑا ) یعنی ان میں سے ہر ایک کو اس کے جرم کے موافق سزا دی گئی۔

فَمِنْہُمْ مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْہِ حَاصِبًا: (تو ان میں سے (بعض وہ ہیں) جن پر ہم نے پتھروں کی بارش بھیجی) یہ قوم لوط ہے اور بعض نے ”عاد” کو بھی اس میں داخل کیا ہے۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ أَخَذَتْہُ الصَّيْحَۃُ (اور ان میں سے بعض کو چنگھاڑ نے آ پکڑا) یہ ”ثمود” تھے اور اہل مدین بھی۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْأَرْضَ (اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا) یعنی قارون کو جیسا کہ سورہ قصص میں گزرا۔

وَمِنْہُمْ مَّنْ أَغْرَقْنَا : (اور ان میں سے بعض کو ہم نے غرق کر دیا) یہ فرعون و ہامان ہوئے اور بعض نے قوم نوح کو بھی اس میں داخل کیا ہے۔

وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِيَظْلِمَہُمْ وَلٰكِنْ کَانُوْٓا أَنْفُسَہُمْ يَظْلِمُوْنَ : (اور اللہ (ایسا) نہیں کہ ان پر ظلم کرتا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ) یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یہ نہیں کہ کوئی نا انصافی یا بے موقع کام کرے ، اس کی بارگاہ عیوب و نقائص سے بکلی مبرا ومنزہ ہے۔ ظلم تو وہاں متصور ہی نہیں، ہاں بندے خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، یعنی ایسے کام کرتے ہیں جن کا نتیجہ لا محالہ ان کے حق میں برا ہو۔

(ماخوذ تفسیرعثمانی)

 

ان لوگوں کی مثال جنہوں نے بنائے اللہ کے سوا اور مددگار، مکڑی کی مانند ہے ، اس نے ایک گھر بنایا، اور گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہے ، کاش وہ جانتے ہوتے۔ (۴۱)

تشریح: یعنی کاش یہ لوگ جانتے کہ جن جھوٹے خداؤں پر انہوں نے بھروسہ کیا ہوا ہے وہ مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہیں، اور انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔

(توضیح القرآن)

 

بے شک اللہ جانتا ہے جو وہ پکارتے ہیں، اس کے سوا کوئی چیز، اور وہ غالب، حکمت والا ہے۔ (۴۲)

اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لئے ، اور انہیں نہیں سمجھتے جاننے والوں کے سوا۔ (۴۳)

تشریح: مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ”مکڑی” اور ”مکھی” وغیرہ حقیر چیزوں کی مثالیں بیان کرتا ہے جو اس کی عظمت کے منافی ہیں اس کا جواب دیا، کہ مثالیں اپنے مواقع کے لحاظ سے نہایت موزوں اور ممثل لہ پر پوری منطبق ہیں۔ مگر سمجھدار ہی اس کا مطلب ٹھیک سمجھتے ہیں۔ جاہل بیوقوف کیا جانیں۔ مثال کا انطباق مثال دینے والے کی حیثیت پر نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ جس کی مثال ہے اس کی حیثیت کو دیکھو، اگر وہ حقیر و کمزور ہے تو تمثیل بھی ایسی ہی حقیر و کمزور چیزوں سے ہو گی۔ مثال دینے والے کی عظمت کا اس سے کیا تعلق۔ (تفسیرعثمانی)

 

اور اللہ نے آسمان اور زمین پیدا کئے حکمت کے ساتھ، بیشک اس میں ایمان والوں کے لئے نشانی ہے۔ (۴۴)

آپ پڑھیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے ، اور نماز قائم کریں، بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے ، اور البتہ اللہ کی یاد سب سے بڑی بات ہے ، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۴۵)

تشریح: یعنی اگر انسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے ، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اُسے بے حیائی اور ہر بُرے کام سے روکے گی، اس لئے کہ انسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اللہ تعالی کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے ، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا، پھر ہر رکعت میں وہ اللہ تعالی کے سامنے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ یا اللہ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں، لہذا جب اس کے بعد کسی گناہ کا خیال اُس کے دل میں آئے تو اگر اُس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اُسے اپنا عہد یاد آنا چاہئیے ، جو یقیناً اُسے گناہ سے روکے گا، نیز رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت وسکون میں اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہوئے زبان حال سے اپنے آپ کو اللہ تعالی کا فرماں بردار بنا کر پیش کرتا ہے ، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اُس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہئیے یقیناً اُسے برائیوں سے روکے گی۔

( توضیح القرآن)

 

اور تم اہل کتاب سے نہ جھگڑو، مگر اس طریقہ سے جو بہتر ہو، بجز ان میں سے جن لوگوں نے ظلم کیا، اور تم کہو ہم اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا، اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا، اور ہمارا معبود تمہارا معبود ایک ہے اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں۔ (۴۶)

تشریح: یوں تو دعوتِ اسلام میں ہر جگہ یہی تعلیم دی گئی ہے کہ وہ شائستگی کے ساتھ ہو، لیکن خاص طور پر اہل کتاب یعنی یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں اس لئے یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ آسمانی کتابوں پر فی الجملہ ایمان رکھتے ہیں، اس لئے بت پرستوں کے مقابلے میں وہ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں، تاہم اگر زیادتی اُن کی طرف سے ہوتو ترکی بہ ترکی جواب دینے کی بھی اجازت دی گئی ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور اسی طرح ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی، پس جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ ایمان لاتے ہیں اس پر، اور اہل مکہ میں سے بعض اس پر ایمان لاتے ہیں، اور ہماری آیتوں سے انکار صرف کافر کرتے ہیں۔ (۴۷)

تشریح: یعنی اس کتاب میں آخر تمہاری کتابوں سے کونسی بات کم ہے جو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جس طرح انبیائے سابقین پر کتابیں اور صحیفے ایک دوسرے کے بعد اترتے رہے ، پیغمبر آخرالزماں پر یہ کتاب لاجواب اتری اس کے ماننے سے اتنا انکار کیوں ہے۔  جن اہل کتاب نے اپنی کتاب ٹھیک سمجھی وہ اس کتاب کو بھی مانیں گے اور انصافاً ماننا چاہیے۔ چنانچہ ان میں سے جو منصف ہیں، وہ اس کی صداقت دل سے تسلیم کرتے ہیں۔ اور نہ صرف اہل کتاب بلکہ عرب کے بعض لوگ بھی جو کتب سابقہ کا کچھ علم نہیں رکھتے اس قرآن کو مانتے جا رہے ہیں۔ حقیقت میں قرآن کریم کی صداقت کے دلائل اس قدر روشن ہیں کہ بجز سخت حق پوش نافرمان کے کوئی ان کی تسلیم سے انکار نہیں کر سکتا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور آپ اس سے (نزول قرآن سے ) قبل کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے اسے لکھتے تھے ، اس صورت میں البتہ حق ناشناس شک کرتے۔ (۴۸)

تشریح: نزول قرآن سے پہلے آپ کی عمر کے چالیس سال ان ہی مکہ والوں میں گزرے۔ سب جانتے ہیں کہ اس مدت میں نہ آپ کسی استاد کے پاس بیٹھے نہ کوئی کتاب پڑھی نہ کبھی ہاتھ میں قلم پکڑا، ایسا ہوتا تو ان باطل پرستوں کو شبہ نکالنے کی جگہ رہتی کہ شاید اگلی کتابیں پڑھ کر یہ باتیں نوٹ کر لی ہوں گی، ان ہی کو اب آہستہ آہستہ اپنی عبارت میں ڈھال کر سنا دیتے ہیں۔ گو اس وقت بھی یہ کہنا غلط ہوتا، کیونکہ کوئی پڑھا لکھا انسان بلکہ دنیا کے تمام پڑھے لکھے آدمی مل کر اور کل مخلوق کی طاقت کو اپنے ساتھ ملا کر بھی ایسی بے نظیر کتاب تیار نہیں کر سکتے ، تاہم جھوٹوں کو بات بنانے کا ایک موقع ہاتھ لگ جاتا لیکن جب کہ آپ کا امی ہونا مسلمات میں سے ہے تو اس سرسری شبہ کی بھی جڑ کٹ گئی اور یوں ضدی لوگ کہنے کو تو اس کو بھی کہتے تھے۔ ”اساطیر الاولین اکتتبھا فھی تملیٰ علیہ بکرۃ واصیلا۔ ” (فرقان۔ رکوع١)۔

(تفسیرعثمانی)

 

بلکہ یہ واضح آیتیں ان لوگوں کے سینوں میں (محفوظ) ہیں جنہیں علم دیا گیا، اور ہماری آیتوں کا انکار صرف ظالم کرتے ہیں۔ (۴۹)

تشریح: یعنی پیغمبر نے کسی سے لکھا پڑھا نہیں۔ بلکہ یہ وحی جو ان پر آئی ہمیشہ کو بن لکھے سینہ بسینہ جاری رہے گی۔ اللہ کے فضل سے علماء اور حفاظ و قراء کے سینے اس کے الفاظ و معانی کی حفاظت کریں گے اور آسمانی کتابیں حفظ نہ ہوتی تھیں۔ یہ کتاب حفظ ہی سے باقی ہے۔ لکھنا اس پر افزود ہے (موضح با ضافۂ یسیر)

وَمَا يَجْحَدُ بِاٰيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُوْنَ :یعنی نا انصافی کا کیا علاج۔ ایک شخص یہ ہی ٹھان لے کہ میں کبھی سچی بات نہ مانوں گا۔ وہ روشن سے روشن چیز کا بھی انکار کر دے گا۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ بولے اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں (معجزات) کیوں نہ نازل کی گئیں، آپ فرما دیں کہ اس کے سوا نہیں نشانیاں (معجزات) اللہ کے پاس ہیں، اور اس کے سوا نہیں کہ میں صاف صاف ڈرانے والا ہوں۔ (۵۰)

تشریح:  یعنی میرے قبضہ میں نہیں کہ جو نشان تم طلب کیا کرو وہی دکھلا دیا کروں نہ کسی نبی کی تصدیق اس بات پر موقوف ہو سکتی ہے۔ میرا کام تو یہ ہے کہ بدی کے نتائج سے تم کو صاف لفظوں میں آگاہ کرتا رہوں، باقی حق تعالیٰ میری تصدیق کے لئے جو نشان چاہے دکھلا دے ، یہ اس کے اختیار میں ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا ان لوگوں کے لئے کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل کی جو ان پر پڑھی جاتی ہے ، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے رحمت اور نصیحت ہے جو ایمان لاتے ہیں۔ (۵۱)

تشریح: یعنی کیا یہ نشان کافی نہیں جو کتاب انہیں دن رات پڑھ کرسنائی جاتی ہے اس سے بڑا نشان کون سا ہو گا۔ دیکھتے نہیں کہ اس کتاب کے ماننے والے کس طرح سمجھ حاصل کرتے جاتے ہیں اور اللہ کی رحمت سے بہرہ ور ہو رہے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

آپ فرما دیں اللہ کافی ہے میرے اور تمہارے درمیان گواہ، وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے ، اور جو لوگ باطل پر ایمان لائے اور وہ منکر ہوئے ، وہی لوگ ہیں گھاٹے پانے والے۔ (۵۲)

تشریح: یعنی خدا کی زمین پر اس کے آسمان کے نیچے ، میں اعلانیہ دعویٰ رسالت کر رہا ہوں جسے وہ سنتا اور دیکھتا ہے پھر روز بروز مجھے اور میرے ساتھیوں کو غیر معمولی طریقہ سے بڑھا رہا ہے۔ برابر میرے دعوے کی فعلی تصدیق کرتا ہے۔ میری زبان پر اور ہاتھوں پر قدرت کے وہ خارق عادت نشان ظاہر کئے جاتے ہیں جن کی نظیر پیش کرنے سے تمام جن و انس عاجز ہیں۔ کیا میری صداقت پر اللہ کی گواہی کافی نہیں۔

وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ :آدمی کی بڑی شقاوت اور خسران یہ ہے کہ جھوٹی بات کو خواہ کتنی ہی بدیہی البطلان ہو فوراً قبول کر لے اور سچی بات سے گو کتنی ہی صاف روشن ہو انکار کرتا رہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور وہ آپ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں، اور اگر میعاد نہ ہوتی مقرر، تو ان پر عذاب آ چکا ہوتا، اور وہ ان پر ضرور اچانک آئے گا اور انہیں خبر (بھی) نہ ہو گی۔ (۵۳)

اور وہ آپ سے عذاب کی جلدی کرتے ہیں اور بیشک جہنم کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ (۵۴)

تشریح: یعنی آخرت کا عذاب تو فضول مانگتے ہیں، اس عذاب میں تو پڑے ہی ہیں۔ یہ کفر اور برے کام دوزخ نہیں تو اور کیا ہے جس نے ہر طرف سے انہیں گھیر رکھا ہے۔ موت کے بعد حقیقت کھل جائے گی کہ دوزخ کس طرح جلاتی ہے جب یہی اعمال جہنم کی آگ اور سانپ بچھو بن کر لپٹیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

جس دن انہیں ڈھانپ لے گا عذاب، ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ، اور (اللہ تعالی) کہے گا (اس کا مزہ) چکھو جو تم کرتے تھے۔ (۵۵)

تشریح: یہ اللہ تعالیٰ کہے گا، یا وہ عذاب ہی بولے گا جیسے زکات نہ دینے والے کا مال۔ حدیث میں آیا ہے کہ سانپ ہو کر گلے میں پڑے گا، گلے چیرے گا اور کہے گا میں تیرا مال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو، بیشک میری زمین وسیع ہے ، پس تم میری ہی عبادت کرو۔ (۵۶)

تشریح: جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، یہ سورت اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب کفار مکہ نے مسلمانوں پر ظلم وستم کی انتہا کر رکھی تھی، اور بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس صورت حال سے پریشان تھے ، اس سورت کے شروع میں تو انہیں صبر واستقامت کی تلقین فرمائی گئی ہے ، اور اب اس آیت میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر مکہ مکرمہ میں دین پر عمل کرنا مشکل ہو رہا ہے تو اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ، ہجرت کر کے کسی اور ایسی جگہ چلے جاؤ، جہاں امن وسکون کے ساتھ اللہ تعالی کی عبادت کرسکو۔

(توضیح القرآن)

 

ہر شخص کو موت (کا مزہ) چکھنا ہے ، پھر تم ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (۵۷)

تشریح: یعنی اگر ہجرت کرنے سے اس لئے رُکاوٹ محسوس ہو کہ اپنے عزیزوں دوستوں کو چھوڑنا پڑے گا تو یہ جدائی کبھی نہ کبھی تو ہونی ہی ہے ، کیونکہ ہر انسان کو موت آنی ہے ، پھر جب سب ہمارے پاس واپس آ جاؤ گے تو پھر کبھی جدائی نہیں ہو گی۔

(توضیح القرآن)

 

اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ، ہم ضرور انہیں جگہ دیں گے جنت کے بالاخانوں میں، اس کے نیچے نہریں جاری ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ، کیا ہی اچھا اجر ہے کام کرنے والوں کا۔ (۵۸)

جن لوگوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۵۹)

تشریح: یعنی جو صبر واستقلال سے اسلام و ایمان کی راہ پر جمے رہے اور خدا پر بھروسہ کر کے گھر بار چھوڑ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے ان کو اس وطن کے بدلے وہ وطن ملے گا اور یہاں کے گھروں سے بہتر گھر دیے جائیں گے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور بہت سے جانور ہیں (جو) نہیں اٹھاتے (پھرتے ) اپنی روزی، اللہ انہیں روزی دیتا ہے ، اور تمہیں بھی، اور وہ سننے و الا، جاننے و الا ہے۔ (۶۰)

تشریح: ہجرت کرنے میں ایک خوف ہو سکتا تھا کہ یہاں تو ہمارے روزگار کا ایک نظام موجود ہے ، کہیں اور جا کر معلوم نہیں کوئی مناسب روزگار ملے یا نہ ملے ، اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں کتنے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق ساتھ لئے نہیں پھرتے ، بلکہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں اللہ تعالی وہیں ان کے رزق کا انتظام فرماتا ہے ، لہذا جو لوگ اللہ تعالی کے حکم کی اطاعت میں وطن چھوڑیں گے ، کیا اللہ تعالی ان کے رزق کا انتظام نہیں فرمائے گا ؟ البتہ رزق کی کمی اور زیادتی تمام تر اللہ تعالی کی مشیت اور حکمت پر موقوف ہے ، لہذا وہی فیصلہ فرماتا ہے کہ کس کو کس وقت کتنا رزق دینا ہے۔

(توضیح القرآن)

 

اور البتہ اگر تم ان سے پوچھو کس نے زمین اور آسمان کو بنایا؟اور سورج اور چاند کو کام میں لگایا، تو وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ، پھر کہاں وہ الٹے پھرے جاتے ہیں۔ (۶۱)

اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی فراخ کرتا ہے اور (جس کے لئے چاہے ) اس کے لئے تنگ کر دیتا ہے ، بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے و الا ہے۔ (۶۲)

تشریح:یعنی رزق کے تمام اسباب (سماویہ و ارضیہ) اسی نے پیدا کئے سب جانتے ہیں، پھر اس پر بھروسہ نہیں کرتے کہ و ہی پہنچا بھی دے گا۔ مگر جتنا وہ چاہے نہ جتنا تم چاہو۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور البتہ اگر تم ان سے پوچھو کس نے آسمانوں سے پانی اتارا، پھر اس سے زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کر دیا، وہ ضرور کہیں گے اللہ نے ، آپ فرما دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، لیکن ان میں اکثر عقل سے کام نہیں لیتے۔ (۶۳)

تشریح: یعنی مینہ بھی ہر کسی پر برابر نہیں برستا اور اسی طرح حال بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ذرا دیر میں مفلس سے دولتمند کر دے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور یہ دنیا کی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ نہیں، اور بیشک آخرت کا گھر ہی (اصل) زندگی ہے ، کاش وہ جانتے ہوتے۔ (۶۴)

تشریح: یعنی آدمی کو چاہیے یہاں کی چند روزہ زندگی سے زیادہ آخرت کی فکر کرے کہ اصلی و دائمی زندگی وہ ہے۔ دنیا کے کھیل تماشے میں غرق ہو کر عاقبت کو بھول نہ بیٹھے۔ بلکہ یہاں رہ کر وہاں کی تیاری اور سفر آخرت کے لئے تو شہ درست کرے۔

(تفسیرعثمانی)

 

پھر جب وہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کو پکارتے ہیں خالص اسی پر اعتقاد رکھتے ہوئے ، پھر جب وہ انہیں خشکی کی طرف نجات دیتا (بچا لاتا) ہے تو وہ فوراً شرک کرنے لگتے ہیں۔ (۶۵)

تاکہ اس کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں دیا ہے ، اور تاکہ وہ فائدہ اٹھائیں، پس عنقریب وہ جان لیں گے۔ (۶۶)

تشریح: یعنی چاہیے تو یہ تھا کہ آدمی دنیا کے مزوں میں پڑ کر خدا کو اور آخرت کو فراموش نہ کرے۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب کشتی طوفان میں گھر جائے تو بڑی عقیدت مندی سے اللہ کو پکارتے ہیں۔ پھر جہاں آفت سر سے ٹلی اور خشکی پر قدم رکھا، اللہ کے احسانوں سے مکر کر جھوٹے دیوتاؤں کو پکارنا شروع کر دیا۔ گویا غرض یہ ہوئی کہ اللہ کی نعمتوں کا کفران کرتے رہیں اور دنیا کے مزے اڑاتے رہیں۔ خیر بہتر ہے چند روز دل کے ارمان نکال لیں، عنقریب پتہ لگ جائے گا کہ اس بغاوت و شرارت، احسان فراموشی اور ناسپاسی کا نتیجہ کیا ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم (سر زمین مکہ) کو امن کی جگہ بنایا، جبکہ اور اس کے ارد گرد کے لوگ اچک لئے جاتے ہیں، پس کیا وہ باطل پر ایمان لاتے ہیں اور اللہ کی نعمت کی ناشکری کرتے ہیں۔ (۶۷)

تشریح: مکہ کے لوگ اللہ کے گھر کے طفیل دشمنوں سے پناہ میں تھے۔ حالانکہ سارے ملک عرب میں فساد اور کشت و خون کا بازار گرم تھا۔ بتوں کے جھوٹے احسان مانتے ہیں اللہ کا یہ سچا احسان نہیں مانتے۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور اس سے بڑا ظالم کون ہے ؟ جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا، یا جب حق اس کے پاس آیا اس نے اسے جھٹلایا، کیا جہنم میں کافروں کے لئے ٹھکانہ نہیں ؟۔ (۶۸)

تشریح: یعنی سب سے بڑی نا انصافی یہ ہے کہ اللہ کا شریک کسی کو ٹھہرائے۔ یا اس کی طرف وہ باتیں منسوب کرے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ یا پیغمبر جو سچائی لے کر آئے ہیں اسے سنتے ہی جھٹلانا شروع کر دے۔ کیا ان ظالموں کو معلوم نہیں کہ منکروں کا ٹھکانا دوزخ ہے جو ایسی بیباکی اور بے حیائی سے عقل و انصاف کے گلے پر چھری پھیرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔

(تفسیرعثمانی)

 

اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں کوشش کی، ہم ضرور انہیں ہدایت دیں گے اپنے راستوں کی، اور بیشک اللہ نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔ (۶۹)

تشریح: یعنی جو لوگ اللہ کے واسطے محنت اٹھاتے اور سختیاں جھیلتے ہیں اور طرح طرح کے مجاہدات میں سرگرم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ایک خاص نور بصیرت عطا فرماتا اور اپنے قرب و رضا یا جنت کی راہیں سجھاتا ہے۔ جوں جوں وہ ریاضات و مجاہدات میں ترقی کرتے ہیں۔ اسی قدر ان کی معرفت و انکشاف کا درجہ بلند ہوتا جاتا ہے اور وہ باتیں سوجھنے لگتی ہیں کہ دوسروں کو ان کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اللہ کی حمایت و نصرت نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

(تفسیرعثمانی)

 

یہ ان لوگوں کے لئے بڑی عظیم خوشخبری ہے جو اللہ تعالی کے دین پر خود چلنے اور دوسروں کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں، جب تک انسان اس راستے میں کوشش جاری رکھے اور مایوس ہو کر نہ بیٹھ جائے ، اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ اس کی مدد فرما کر ضرور منزل تک پہنچا دیں گے ، لہذا راستے کی مشکلات سے ہار مان کر بیٹھنے کے بجائے نئے عزم و ہمت کے ساتھ یہ کوشش ہمیشہ جاری رہنی چاہئیے ، اللہ تعالی ہم سب کو اس کی مکمل توفیق عطا فرمائیں، امین۔

(توضیح القرآن)

٭٭٭

ماخذ:

http://anwar-e-islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید