فہرست مضامین
ترجمہ و تفسیر قرآن
حصہ ۷: نحل تا نور
ترجمہ: حافظ نذر احمد
اس ترجمہ قرآن میں تحت اللفظ ترجمہ حافظ نذر احمد صاحب کے ’’ترجمہ قرآن‘‘ سے لیا گیا ہے، اور ہر سورۃ کا تعارف مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا آسان ترجمہ قرآن(توضیح القرآن)سے پیش کیا گیا ہے، قرآن کریم کی جو آیتیں بغیر تشریحات کے سمجھ میں آ جاتی ہیں وہاں تشریح کے بجائے صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے، اور جن آیتوں کو سمجھنے کے لئے تشریحات ضروری ہیں وہاں پر توضیح القرآن، معارف القرآن اور تفسیر عثمانی سے مختصر تشریح کی گئی ہے۔
۱۶۔ سورۃالنحل
تعارف
اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالی کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالی نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لئے پیدا فرمائی ہیں، اسی لئے اس سورت کو سورۃ النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے، عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی ہیں، اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالی کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے، اس طرح اللہ تعالی کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے، ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالی کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے، یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم وستم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے تھے، آیت نمبر ۴۲ میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے، اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہو گا اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑا اجر و ثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالی پر بھروسہ رکھیں، سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونی چاہئیں، نحل عربی میں شہد کو کہتے ہیں، اس سورت کی آیت نمبر ۶۸ میں اللہ تعالی نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے، اسی لئے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۲۸ رکوعات:۱۶
اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے
آ پہنچا اللہ کا حکم سو اس کی جلدی نہ کرو، وہ پاک ہے اور اس سے برتر جو وہ (اللہ کا) شریک بناتے ہیں۔ (۱)
تشریح: یعنی خدا کا یہ حکم کہ "پیغمبر علیہ السلام کی جماعت غالب و منصور اور حق کے مخالف مغلوب و ذلیل ہوں گے، جنہیں دنیا میں مسلمان مجاہدین کے ہاتھوں اور آخرت میں براہ راست احکم الحاکمین کے دربار سے شرک و کفر کی سزا ملے گی” اس حکم کے وقوع کا وقت قریب آ پہنچا۔ اور قیامت کی گھڑی بھی دور نہیں ہے۔ جس چیز کا آنا یقینی ہو اسے آئی ہوئی سمجھنا چاہیے پھر جلدی مچانے کی کیا ضرورت ہے۔ کفار از راہ تکذیب و استہزاء کہا کرتے تھے کہ جس عذاب یا قیامت کے آنے کا تم وعدہ کرتے ہو، وہ جلد کیوں نہیں آ جاتا انہیں متنبہ فرمایا کہ تمہارے ایسا کہنے سے وہ ٹلنے والا نہیں۔ بلکہ حتمی اور یقینی طور پر جلد آیا چاہتا ہے جس قدر دیر لگ رہی ہے وہ بھی ایک طرح سے تمہارے حق میں مفید ہے ممکن ہے بعض کو اصلاح و توبہ کی توفیق مل جائے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ فرشتے اپنے حکم کے ساتھ نازل کرتا ہے اپنے بندوں میں سے جس پر وہ چاہتا ہے کہ تم ڈراؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس مجھ ہی سے ڈرو۔ (۲)
تشریح: یہاں، روح” سے مراد وحی الٰہی ہے جو خدا کی طرف سے پیغمبروں کی طرف غیر مرئی طریق پر بطور ایک بھید کے آتی ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا "یُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ” (المؤمن، رکوع٢، آیت ١٣) ایک جگہ قرآن کی نسبت فرمایا "وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا” (شوریٰ رکوع٥، آیت ٥٢) قرآن یا وحی الٰہی کو "روح” سے تعبیر فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح مادی اجسام کو نفخ روح سے ظاہری حیات حاصل ہوتی ہے، اسی طرح جو قلوب جہل و ضلال کی بیماریوں سے مردہ ہو چکے تھے وہ وحی الٰہی کی روح پا کر زندہ ہو جاتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے پیدا کئے آسمان اور زمین حکمت کے ساتھ وہ اس سے برتر ہے جو وہ شریک کرتے ہیں۔ (۳)
تشریح: یعنی زمین و آسمان کا نظام ایسا درست و استوار بنایا ہے جسے دیکھ کر لامحالہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ تمام کائنات کا سلسلہ صرف ایک ہی مالک مختار کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ بلکہ کئی آزاد خداؤں کی کشمکش باہمی سرے سے اس نظام عالم کو موجود ہی نہ ہونے دیتی "لَوْکَانَ فِیْہِمَا اٰلِہۃٌ اِلاَّ اللہ لَفَسَدَتَا” (انبیاء، رکوع٢، آیت ٢٢) "اِذًالَّذَھبَ کُلُّ اِلٰہٍمبِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ” (المومنون، رکوع٥، آیت ٩١) ۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے انسان کو پیدا کیا نطفے سے، پھر وہ کھلا جھگڑالو ہو گیا۔ (۴)
تشریح: یعنی علویات و سفلیات کا انتظام درست کر کے تم کو پیدا کیا۔ تم خود اپنی خلقت میں غور کرو تو حق تعالیٰ کی عجیب و غریب صنعت و قدرت کا سبق ملے گا۔ تمہاری اصل کیا تھی؟ ایک قطرہ بے جان، جس میں نہ حس و حرکت تھی نہ شعور و ارادہ، نہ وہ بات کرنے کے قابل تھا، نہ اس لائق تھا کہ کسی معاملہ میں جھگڑ کر اپنا حق منوا دے یا دوسروں پر غالب آ جائے۔ اب دیکھو حق تعالیٰ نے اسی قطرہ ناچیز کو کیا سے کیا بنا دیا۔ کیسی عجیب صورت عطا کی۔ اور کیسی اعلیٰ قوتیں اور کمالات اس پر فائض کیے جو ایک حرف بولنے پر قادر نہ تھا وہ کیسے لیکچر دینے لگا جس میں ادنیٰ حس و حرکت نہ تھی، اب کس طرح بات بات میں جھگڑے کرنے اور حجتیں نکالنے لگا۔ حتی کہ بعض اوقات مخلوق سے گزر کر خالق کے مقابلہ میں خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا، یہ بھی یاد نہ رکھا کہ میری اصل کیا تھی اور کیسے یہ طاقت حاصل ہوئی "اَوَلَمْ یَرَالْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنَاہُ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلاً وَّنَسِیَ خَلْقَہ، قَالَ مَنْ یُّحْيِ الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیْمٌ، قُلْ یُحْیِیْہَا الَّذِیْ اَنْشَاَ ہَا اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلیمٌ” (یٰس، رکوع٥، آیت ٧٧، ٧٨، ٧٩) ۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس نے چوپائے پیدا کئے تمہارے لئے، ان میں گرم سامان (جڑاول) اور فائدے ہیں، اور ان میں سے (بعض کو) تم کھاتے ہو۔ (۵)
تشریح: یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ، بکری تمہارے لیے پیدا کئے۔ ان میں سے بعض کے بال یا اون وغیرہ سے کمبل دُسے، ڈیرے، خیمے اور سردی سے بچنے کے لیے مختلف قسم کے لباس تیار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی کا دودھ پیا جاتا ہے، کسی کو ہل میں چلایا جاتا ہے۔ گھی مکھن وغیرہ کی ساری افراط ان ہی جانوروں کی بدولت ہے۔ ان کے چمڑے سے کیسے کیسے عمدہ اور بیش قیمت سامان تیار کیے جاتے ہیں۔ جن جانوروں کا گوشت کھانے میں کوئی معتدبہ بدنی یا اخلاقی مضرت نہیں ہے ان کا گوشت کھایا جاتا ہے، کتنے غریبوں کی شکم پروری ان سے ہوتی ہے اور جو دوسری غذائیں ہم کھاتے ہیں ان کی تیاری میں بھی ان حیوانات کو کس قدر دخل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور تمہارے لئے ان میں خوبصورتی اور شان ہے جس وقت شام کو چرا کر لاتے ہو اور جس وقت صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ (۶)
تشریح: جب ڈھور ڈنگر گھر میں بندھے کھڑے ہوں یا جنگل میں غائب ہوں اس وقت انعام الٰہی کا ایسا صاف مظاہرہ نہیں ہوتا۔ ہاں جب چرنے کے لیے گھر سے نکلتے یا شام کو جنگل سے شکم سیر ہو کر گھر کی طرف لوٹتے ہیں اس وقت ایک عجیب رونق اور چہل پہل ہوتی ہے۔ مالک خود بھی دیکھ کر خوش ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی کہتے ہیں کہ خدا نے فلاں زمیندار کو کیسا دھن دولت دیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ تمہارے بوجھ ان شہروں تک لے جاتے ہیں جہاں جانیں ہلکان کئے بغیر تم پہنچنے والے نہ تھے، بیشک تمہارا رب مہربان نہایت رحم والا ہے۔ (۷)
تشریح: یعنی جہاں تم جریدہ بدون سامان و اسباب کے بڑی مشکل سے پہنچ سکتے تھے یہ جانور تم کو اور تمہارے بھاری بھاری سامانوں کو کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ یہ خدا کی کتنی بڑی شفقت اور مہربانی ہے کہ ان حیوانات کو تمہاری خدمت میں لگا دیا اور ان سے کام لینے کی اجازت دی اور بڑی سخت اور مشکل مہمات ان جانوروں کے ذریعہ سے آسان کر دیں۔ "اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِّمَّاعَمِلَتْ اَیْدِیْنَا اَنْعَاماً فَہُمْ لَہَا مَالِکُوْنَ وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوْبُہُمْ وَمِنْہَا یَاکُلُوْنَ۔ ” (یٰس، رکوع٥، آیت ٧١، ٧٢) ۔
(تفسیرعثمانی)
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لئے (پیدا کئے) اور وہ پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ (۸)
تشریح:یعنی اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی بہت سی سواریاں وہ ہیں جن کا ابھی تمہیں پتہ نہیں ہے، اس طرح آیت کریمہ نہ یہ خبر دی ہے کہ اگرچہ فی الحال تم صرف گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو سواری کے لئے استعمال کرتے ہو، لیکن اللہ تعالی آئندہ نئی نئی سواریاں پیدا کرے گا، اور اس طرح اس آیت میں ان ساری سواریوں کا ذکر آ گیا ہے جو نزول قرآن کے بعد پیدا ہوئیں، مثلاً کاریں بسیں ریلیں ہوائی جہاز اور بحری جہاز وغیرہ، بلکہ قیامت تک جتنی سواریاں مزید پیدا ہوں وہ سب اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں، عربی زبان کے قاعدے کے مطابق اس جملے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں ابھی علم نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
اور سیدھی راہ اللہ تک پہنچتی ہے اور ان میں سے (کوئی) راہ ٹیڑھی ہے اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔ (۹)
تشریح: مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے انسان کو دنیا کے راستے طے کرنے کے لئے سواریاں پیدا کی ہیں اسی طرح آخرت کا روحانی سفر طے کرنے کے لئے سیدھا راستہ دکھانے کی ذمہ داری بھی لی ہے، کیونکہ لوگوں نے اس کام کے لئے بہت سے ٹیڑھے راستے بنا رکھے ہیں، ان سے بچانے کے لئے اللہ تعالی لوگوں کو سیدھا راستہ اپنے پیغمبروں اور اپنی کتابوں کے ذریعے دکھاتا ہے، البتہ وہ کسی کو زبردستی اٹھا کر اس راستے پر نہیں لے جاتا، اگر چہ وہ چاہتا تو یہ بھی کر سکتا تھا، لیکن اس دنیا میں انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کے دکھائے ہوئے راستے پر اپنے اختیار سے چلے زبردستی نہیں، اس لئے اللہ تعالی اپنے رسولوں کے ذریعے راستہ دکھانے پر اکتفا فرماتا ہے۔
(توضیح القرآن)
وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، اس سے تمہارے لئے پینے کو ہے اور اس سے درخت (سیراب ہوتے) ہیں اور اسی میں (مویشی) چرتے ہیں۔ (۱۰)
تشریح:یعنی پانی پینے کے قابل بنایا اور اسی سے درخت، گھاس وغیرہ نباتات اگائے جس سے تمہارے جانور چرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اس سے تمہارے لئے اگاتا ہے کھیتی، اور زیتون اور کھجور اور انگور اور ہر قسم کے پھل، بیشک اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۱)
تشریح:یعنی ایک ہی پانی سے مختلف قسم کے پھل اور میوے اگاتا رہتا ہے جن کی شکل و صورت، رنگ و بو، مزہ اور تاثیر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اس میں غور کرنے والوں کے لیے خدا کی قدرت کاملہ اور صنعت غریبہ کا بڑا نشان ہے کہ ایک زمین، ایک آفتاب، ایک ہوا، اور ایک پانی سے کیسے رنگ برنگ کے پھول پھل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس نے تمہارے لئے مسخر کیا رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو اور ستارے مسخر (کام میں لگے ہوئے) ہیں اس کے حکم سے، بیشک اس میں عقل سے کام لینے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۲)
تشریح:رات اور دن برابر ایک دوسرے کے پیچھے لگے چلے آتے ہیں تاکہ دنیا کا کاروبار چلے اور لوگ سکون و آرام حاصل کر سکیں۔ اسی طرح چاند سورج ایک معین نظام کے ماتحت نکلتے اور چھپتے رہتے ہیں۔ رات، دن کی آمد و شد اور شمس و قمر کے طلوع و غروب کے ساتھ انسانوں کے بیشمار فوائد وابستہ ہیں۔ بلکہ غور سے دیکھا جائے تو ان کے بدون انسان کی زندگی محال ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے اقتدار کامل سے چاند سورج اور کل ستاروں کو ادنیٰ مزدوروں کی طرح ہمارے کاموں پر لگا رکھا ہے۔ مجال نہیں کہ ذرا سستی یا سرتابی کر سکیں۔ لیکن چونکہ رات دن اور چاند سورج سے بالکل صریح طور پر ہمارے کام متعلق ہیں اور دوسرے ستاروں سے ہمارے فوائد و مصالح کی وابستگی اس قدر واضح نہیں ہے، شاید اس لیے ان کو جدا کر کے دوسرے عنوان سے بیان فرمایا۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور تمہارے لئے زمین میں پیدا کیں مختلف (چیزیں) رنگ بہ رنگ کی بیشک اس میں سوچنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۳)
تشریح:یعنی جس بلند و برتر ہستی نے آسمانی چیزوں کو تمہارے کام میں لگایا اسی نے تمہارے فائدہ کے لیے زمین میں مختلف قسم کی مخلوقات پیدا کیں جو ماہیت، شکل و صورت، رنگ و بو اور منافع و خواص میں ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ ہیں۔ اس میں سب حیوانات، نباتات، جمادات، بسائط و مرکبات شامل ہو گئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہی ہے جس نے دریا کو مسخر کیا تاکہ تم اس سے (مچھلیوں کا) گوشت کھاؤ اور اس سے زیور نکالو جو تم پہنتے ہو، اور تم دیکھتے ہو اس میں کشتیاں پانی کو چیر کر چلتی ہیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو۔ (۱۴)
تشریح:یعنی ایسے ٹھاٹھیں مارنے والے خوفناک سمندر کو بھی جس کے سامنے انسان ضعیف البنیان کی کچھ بساط نہیں تمہارے کام میں لگا دیا کہ اس میں بے تکلف مچھلی کا شکار کر کے نہایت لذیذ اور تر و تازہ گوشت حاصل کرتے ہو۔ اور اس کے بعض حصوں میں سے موتی اور مونگا نکالتے ہو جس کے قیمتی زیور تیار کیے جاتے ہیں بھلا سمندر کی موجوں کو دیکھو جن کے سامنے بڑے بڑے جہازوں کی ایک تنکہ کے برابر حقیقت نہیں۔ لیکن ایک چھوٹی سی کشتی کس طرح ان موجوں کو چیرتی پھاڑتی چلی جاتی ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا نمونہ ہے کہ اس نے انسان کو عقل دی اور ایسی چیزیں تیار کر لینے کی ترکیب سمجھائی جن کے ذریعہ سے گویا سمندروں کو پایاب کر لیا گیا۔
جہازوں اور کشتیوں پر تجارتی مال لاد کر ایک ملک سے دوسرے ملک اور ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں پہنچاؤ، اور خدا کے فضل سے بڑی فراخ روزی حاصل کرو، پھر خدا کا احسان مان کر اس کی نعمتوں کے شکر گزار رہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس نے زمین پر پہاڑ رکھے کہ تمہیں لے کر (زمین) جھک نہ پڑے اور نہریں اور راستے (بنائے) تاکہ تم راہ پاؤ۔ (۱۵)
تشریح:یعنی خدا تعالیٰ نے زمین پر بھاری پہاڑ رکھ دئیے تاکہ زمین اپنی اضطرابی حرکت سے تم کو لے کر بیٹھ نہ جائے۔ روایات و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین ابتدائے آفرینش میں مضطربانہ طور پر ہلتی اور کانپتی تھی۔ خدا تعالیٰ نے اس میں پہاڑ پیدا کیے جن سے اس کی کپکپی بند ہوئی۔ آجکل جدید سائنس نے بھی اقرار کیا ہے کہ پہاڑوں کا وجود بڑی حد تک زلزلوں کی کثرت سے مانع ہے۔ بہرحال زمین کی حرکت و سکون کا مسئلہ جو حکماء میں مختلف فیہ رہا ہے اس سے آیت کا نفیاً یا اثباتاً کچھ تعلق نہیں، کیونکہ پہاڑوں کے ذریعہ سے جس حرکت کو بند کیا ہے وہ یہ دائمی حرکت نہیں جس میں اختلاف ہو رہا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
ندیوں اور نہروں کا سرچشمہ کہیں پہاڑوں میں ہوتا ہے لیکن وہ میدانوں اور پہاڑوں کو قطع کرتی ہوئی سینکڑوں ہزاروں میل کی مسافت پر خدا کے حکم سے ان بستیوں تک پہنچتی ہیں جن کا رزق ان کے پانی سے متعلق کیا گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور علامتیں (بنائیں) اور ستاروں سے راستہ پاتے ہیں۔ (۱۶)
تشریح:یعنی پہاڑ، چشمے، درخت، ریت کے ٹیلے غرض مختلف قسم کی علامتیں قائم کر دی ہیں جن سے مسافروں کے قافلے ٹھیک راستہ کا سراغ نکال سکیں۔ میں نے خود بعض اعراب (بدوؤں) کو دیکھا کہ مٹی کو سونگھ کر راستہ کا پتہ لگا لیتے ہیں۔
رات کے وقت دریا اور خشکی کے سفر میں بعض ستاروں کے ذریعہ سے راستہ کا پتہ لگا لیا جاتا ہے۔ "قطب نما” سے جو راہنمائی ہوتی ہے وہ بھی بالواسطہ ستارہ سے تعلق رکھتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا جو (اللہ) پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرتا، پس کیا تم غور نہیں کرتے؟۔ (۱۷)
تشریح: یعنی سوچنا چاہیے یہ کس قدر حماقت ہے کہ جو چیزیں ایک مکھی کا پر اور مچھر کی ٹانگ بلکہ ایک جو کا دانہ یا ریت کا ذرہ پیدا کرنے پر قادر نہ ہوں انہیں معبود و مستعان ٹھہرا کر خداوند قدوس کے برابر کر دیا جائے۔ جو مذکورہ بالا عجیب و غریب مخلوقات کا پیدا کرنے والا اور ان کے محکم نظام کو قائم رکھنے والا ہے اس گستاخی کو دیکھو اور خدا کے انعامات کو خیال کرو۔ حقیقت میں انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرو تو انہیں پورا نہ گن سکوگے، بے شک اللہ بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۱۸)
تشریح:یعنی جو نعمتیں اوپر بیان ہوئیں "مشتے نمونہ از خروارے” تھیں۔ باقی خدا کی نعمتیں تو اس قدر ہیں جن کا تم کسی طرح شمار نہیں کر سکتے۔
ان بے شمار نعمتوں کا شکر پوری طرح کس سے ادا ہو سکتا تھا۔ لہٰذا ادائے شکر میں جو کوتاہی رہ جاتی ہے خدا اس سے درگزر کرتا اور تھوڑے سے شکر پر بہت سا اجر عطا فرما دیتا ہے۔ یا یہ کفر ان نعمت کے بعد جو شخص توبہ کر کے شکر گزار بن جائے حق تعالیٰ اس کی پچھلی کوتاہیوں کو بخشتا اور آئندہ کے لیے رحمت مبذول فرماتا ہے۔ بلکہ ناشکری کی حالت میں بھی اپنی رحمت واسعہ سے اس کو بالکلیہ محروم نہیں کرتا۔ ہزاروں طرح کی نعمتیں دنیا میں فائض کرتا رہتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو۔ (۱۹)
تشریح:یعنی حق تعالیٰ تمام ظاہری و باطنی احوال سے خبردار ہے، وہ خوب جانتا ہے کہ کون شخص اس کی نعمتوں پر کس حد تک دل سے اور کس حد تک جوارح سے شکر گزار بنتا ہے اور کون ایسا ہے جس کا ظاہر و باطن ادائے حق نعمت سے خالی رہتا ہے، یا مذکورہ بالا دلائل و نعم کو سن کر کون ہے جو سچے دل سے اس پر ایمان لاتا ہے اور کون ہے جو ظاہر میں دلائل سے لاجواب ہو کر بھی حق کو قبول نہیں کرتا۔ خدا کے علم میں جس کا جو حال ہو گا اسی کے موافق معاملہ کرے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ جنہیں پکارتے ہیں اللہ کے سوا وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں۔ (۲۰)
تشریح: خدا تو وہ ہے جس کے عظیم الشان اور غیر محصور انعامات کا اوپر تذکرہ ہوا۔ اب مشرکین کی حماقت ملاحظہ ہو کہ ایسے عالم الکل اور خالق الکل خدا کا شریک ان چیزوں کو ٹھہرا دیا جو ایک گھاس کا تنکا پیدا نہیں کر سکتیں، بلکہ خود ان کا وجود بھی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
مردے ہیں زندہ نہیں (بے جان ہیں) اور وہ نہیں جانتے وہ کب اٹھائے جائیں گے۔ (۲۱)
تشریح:یعنی جن چیزوں کو خدا کے سوا پوجتے ہیں سب مردے (بے جان) ہیں۔ خواہ دواماً مثلاً بت، یا فی الحال مثلاً جو بزرگ مر چکے اور ان کی پوجا کی جاتی ہے یا انجام و مال کے اعتبار سے مردہ ہیں۔ مثلاً حضرت مسیح، روح القدس اور ملائکۃ اللہ، جس کی بعض فرقے پرستش کرتے تھے بلکہ جن و شیطان بھی جن کو بعض ممسوخ الفطرت پو جتے ہیں سب پر ایک وقت موت طاری ہونے والی ہے۔ پس جس چیز کا وجود دوسرے کا عطا کیا ہوا ہو اور وہ جب چاہے چھین لے، اسے خدا کس طرح کہہ سکتے ہیں؟ یا عبادت کے لائق کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ عجیب خدا ہیں جنہیں کچھ خبر نہیں کہ قیامت کب آئے گی اور وہ خود یا ان کے پرستار کب حساب و کتاب کے لیے اٹھائے جائیں گے۔ ایسی بے جان اور بے خبر ہستیوں کو خدا بتلانا انتہا درجہ کی حماقت اور جہل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
تمہارا معبود، معبود یکتا ہے، پس جو لوگ ایمان نہیں رکھتے آخرت پر، ان کے دل منکر (انکار کرنے والے) ہیں، اور وہ مغرور (تکبر کرنے والے) ہیں۔ (۲۲)
تشریح:یعنی جو دلائل و شواہد اوپر بیان ہوئے ایسے صاف اور واضح ہیں جس میں ادنیٰ غور کرنے سے انسان توحید کا یقین کر سکتا ہے لیکن غور و طلب تو وہ کرے جسے اپنی عاقبت کی فکر اور انجام کا ڈر ہو۔ جن کو بعد الموت کا یقین ہی نہیں نہ انجام کی طرف دھیان ہے وہ دلائل پر کب کان دھرتے اور ایمان و کفر کے نیک و بدانجام کی طرف کب التفات کرتے ہیں۔ پھر دلوں میں توحید کا اقرار اور پیغمبر کے سامنے تواضع سے گردن جھکانے کا خیال آئے تو کہاں سے آئے۔
(تفسیرعثمانی)
یقینی بات ہے اللہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (۲۳)
تشریح:یعنی خوب سمجھ لو کبر و غرور کوئی اچھی اور پسندیدہ چیز نہیں، اس کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا، توحید کا انکار جو تم دلوں میں رکھتے ہو اور غرور و تکبر جس کا اظہار تمہاری چال ڈھال اور طور و طریق سے ہو رہا ہے، سب خدا کے علم میں ہے۔ و ہی ہر کھلے چھپے جرم کی سزا تم کو دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ان سے کہا جائے کیا نازل کیا تمہارے رب نے ؟تو وہ کہتے ہیں پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (۲۴)
تشریح: یعنی ناواقف اشخاص بغرض تحقیق یا واقف لوگ از راہِ امتحان جب ان مکذبین سے کہتے ہیں یا وہ مکذبین خود آپس میں ایک دوسرے سے از راہِ تمسخر و استہزاء سوال کرتے ہیں کہ ” کہو تمہارے رب نے کیا چیز اتاری ہے”؟ مطلب یہ کہ قرآن جسے پیغمبر علیہ السلام خدا کا اتارا ہوا بتلاتے ہیں تمہارے نزدیک کیا چیز ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دعوے میں کہاں تک سچے ہیں؟ تو کہتے ہیں کہ (معاذ اللہ) قرآن میں رکھا ہی کیا ہے بجز اس کے کہ کتب سابقہ اور ملل سابقہ کی کچھ پرانی بے سند باتیں (توحید، نبوت، جنت و دوزخ وغیرہ) اور چند قصے کہانیاں نقل کر دی گئی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
انجام کار وہ اپنے پورے بوجھ اٹھائیں گے قیامت کے دن، اور کچھ ان کے بوجھ جنہیں وہ بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں، خوب سن لو، برا ہے جو وہ لادتے ہیں۔ (۲۵)
تشریح:یعنی اس کہنے سے غرض یہ ہے کہ (معاذ اللہ) قرآن عزیز کو بے وقعت ٹھہرا کر اپنے ساتھ دوسروں کو گمراہ کریں اور اس طرح اپنے کفر و ضلال کی پوری پوٹ کے ساتھ کچھ بوجھ ان لوگوں کے اضلال و اغواء کا بھی سر پر رکھیں۔ جنہیں اپنی نادانی اور جہالت سے گمراہ کر رہے ہیں۔ خیال کرو کیسی بدی کی پوٹ سر پر رکھ رہے ہیں۔ حدیث میں ہے "وَمَنْ دَعَا اِلٰی ضَلَالَۃٍ کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِثْمِ مِثْلُ اٰثَامِ مَنِ اتَّبَعَہ، لَا یَنْقُصُ ذٰلِکَ مِنْ اٰثَامِہِمْ شَیْئًا۔ ” قال اللہ تعالیٰ "وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَہُمْ وَاَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ” (عنکبوت، رکوع١، آیت ١٣) ۔
(تفسیرعثمانی)
جو ان سے پہلے تھے انہوں نے مکاری کی پس ان کی عمارت پر اللہ (کا عذاب) بنیادوں سے آیا، پس چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی، اور ان پر عذاب آیا جہاں سے انہیں خیال نہ تھا۔ (۲۶)
تشریح:یعنی لوگوں کو گمراہ کرنے اور پیغام حق کو پست کرنے کی جو تدبیریں آج کی جا رہی ہیں ان سے پہلے دوسری قومیں بھی انبیاء علیہم السلام کے مقابلہ میں ایسی تدبیریں کر چکی ہیں۔ انہوں نے مکر و تلبیس کے بڑے اونچے محل کھڑے کر دیے، پھر جب خدا کا حکم پہنچا تو اس نے پکڑ کر بنیادیں ہلا دیں۔ آخر عذاب الٰہی کے ایک جھٹکے میں ان کے تیار کیے ہوئے محل ان ہی پر آ پڑے جن کی چھتوں کے نیچے سب دب کر رہ گئے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی تدبیریں خود ان ہی پر الٹ دی گئیں۔ اور جو سامان غلبہ و حفاظت کا کیا تھا وہ فنا و ہلاکت کا سبب بن گیا۔ بلکہ بعض اقوام کی بستیاں حسی طور پر بھی تہ و بالا کر دی گئیں۔
(تفسیرعثمانی)
پھو وہ انہیں قیامت کے دن رسوا کرے گا، اور کہے گا کہاں ہیں؟ میرے وہ شریک جن کے بارے میں تم جھگڑتے تھے، علم والے کہیں گے بیشک آج کے دن رسوائی اور برائی ہے کافروں پر۔ (۲۷)
تشریح:یعنی جن شرکاء کی حمایت میں ہمارے پیغمبروں سے ہمیشہ لڑتے جھگڑتے تھے آج وہ کہاں ہیں۔ تمہاری مدد کو کیوں نہیں آتے "ھلْ یَنْصُرُوْنَکُمْ اَوْیَنْتَصِرُوْنَ” (شعراء، رکوع٥، آیت ٩٣) "فَمَالَہ مِنْ قُوَّۃٍ وَّلَاناَصِرٍ” (طارق، رکوع١، آیت١٠) یہ کہنا ہی ان کو رسوا کرنا ہے۔ یا رسوائی سے مراد جہنم میں داخل کرنا اور ان کی خفیہ مکاریوں کا پردہ فاش کرنا ہے۔ "اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلَ النَّارَ فَقَدْاَخْزَیْتَہ، ” (آل عمران، رکوع٢٠، آیت ١٩٢) وہ تو کیا جواب دے سکتے۔ البتہ انبیاء علیہم السلام اور دوسرے باخبر لوگ اس وقت ان مکار دغا بازوں کو سنا کر کہیں گے کہ دیکھ لیا جو ہم کہا کرتے تھے۔ آج کے دن ساری برائی اور رسوائی صرف منکرین حق کے لیے ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جن کی جان فرشتے (اس حال میں) نکالتے ہیں کہ وہ اپنے اوپر ظلم کر رہے ہوتے ہیں، پھر وہ اطاعت کا پیغام ڈالیں گے کہ ہم کو ئی برائی نہ کرتے تھے، ہاں ہاں ! اللہ جاننے والا ہے جو تم کرتے تھے۔ (۲۸)
سو تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو، اس میں ہمیشہ رہو گے، البتہ تکبر کرنے والوں کا برا ٹھکانہ ہے۔ (۲۹)
تشریح:یعنی شرک و کفر اختیار کر کے اپنے حق میں برا کرتے رہے۔ آخر اسی حالت میں موت کے فرشتے جان نکالنے کو آ گئے۔ خلاصہ یہ کہ خاتمہ حالت کفر و شرک پر ہوا۔ العیاذ باللہ۔
اس وقت ساری فوں فاں نکل جائے گی۔ جو شرارت و بغاوت دنیا میں کرتے تھے سب کا انکار کر کے اطاعت و فاداری کا اظہار کریں گے کہ ہم نے کبھی کوئی بری حرکت نہیں کی ہمیشہ نیک چلن رہے۔ "یَوْمَ یَبْعَثُہُمُ اﷲ جَمِیْعًا فَیَحْلِفُوْنَ لَہ، کَمَایَحْلِفُوْنَ لَکُمْ وَیَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ عَلٰی شَیْ ءٍ اَلا اِنَّہُمْ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ” (مجادلہ، رکوع٣، آیت ١٨) کیا جھوٹ بول کر خدا کو فریب دینا چاہتے ہو؟ جس کے علم میں تمہاری ساری حرکات ہیں آج تمہارا کوئی مکر اور جھوٹ خدائی سزا سے نہیں بچا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ اپنی کرتوت کا مزہ چکھو۔
(تفسیرعثمانی)
اور پرہیز گاروں سے کہا گیا تمہارے رب نے کیا اتارا؟ وہ بولے بہترین (کلام) ، جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لئے اس دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت کا گھر (سب سے) بہتر ہے، اور کیا خوب ہے پرہیز گاروں کا گھر۔ (۳۰)
تشریح: یہ مستکبرین کے مقابلہ میں متقین (پرہیزگاروں) کا حال بیان فرمایا کہ جب ان سے قرآن کے متعلق دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے رب نے کیا چیز اتاری تو نہایت عقیدت و ادب سے کہتے ہیں کہ "نیک بات جو سراپا خیر و برکت ہے” ایسے لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس نے بھلائی کی دنیا میں اسے بھلائی کا خوشگوار پھل مل کر رہے گا۔ خدا کے یہاں کسی کی محنت اور ذرہ برابر نیکی ضائع نہیں جاتی۔
آخرت کی بھلائیوں اور نعمتوں کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ دنیا و ما فیھا کی نعمتیں وہاں کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ہمیشگی کے باغات، جن میں وہ داخل ہوں گے، ان کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہاں جو وہ چاہیں گے ان کے لئے ہو گا، اللہ پرہیز گاروں کو ایسی ہی جزا دیتا ہے۔ (۳۱)
تشریح: یعنی جنتی جس قسم کی جسمانی راحت اور روحانی مسرت چاہیں گے وہاں حاصل ہو گی "وَفِیْہَا مَا تَشْتَہِیْہِ الْاَنْفُسُ وَتَلَذُّ الاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ” (زخرف، رکوع٧، آیت ٧١) ان تمام لوگوں کو جو کفر و شرک اور فسوق و عصیان سے پرہیز کرتے ہیں ایسا اچھا بدلہ ملے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جن کی جان فرشتے (اس حال میں) نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں، وہ (فرشتے) کہتے ہیں تم پر سلامتی ہو، اپنے اعمال کے بدلے جنت میں داخل ہو۔ (۳۲)
تشریح: یعنی ان کی جانیں موت کے وقت تک کفرو شرک کی نجاست سے پاک اور فسق و فجور کے میل کچیل سے صاف رہیں۔ اور حق تعالیٰ کی صحیح معرفت و محبت کی وجہ سے نہایت خوشدلی اور انشراح بلکہ اشتیاق کے ساتھ اپنی جان جاں آفریں کے حوالہ کی۔
ایک حیثیت سے روحانی طور پر تو انسان مرنے کے بعد ہی جنت یا دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔ ہاں جسمانی حیثیت سے پوری طرح دخول حشر کے بعد ہو گا۔ ممکن ہے اس بشارت میں دونوں قسم کے دخول کی طرف اشارہ ہو۔
تمہارا عمل سبب عادی ہے دخول جنت کا۔ باقی سب حقیقی رحمت الٰہیہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا۔ "اِلاَّ اَنْ یَّتَغَمَّدَ نِیَ اللہُ بِرَحْمَتِہٖ۔ ”
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ صرف (یہ ) انتظار کرتے ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں، یا تیرے رب کا حکم آئے، ایسا ہی ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے، اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔ (۳۳)
تشریح: جنت کی خوبیاں اور اس کا تفوق و امتیاز بیان فرمانے کے بعد ان غافلوں کو تنبیہ کی جاتی ہے جو محض دنیاوی سامانوں پر مست ہو کر آخرت کو بھلائے بیٹھے ہیں اور اپنا انجام سدھارنے کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ یعنی کیا یہ لوگ اس کے منتظر ہیں کہ جس وقت فرشتے جان نکالنے کو آ جائیں گے یا خدا کے حکم کے موافق قیامت قائم ہو جائے گی۔ یا مجرموں کی سزا دہی کا حکم پہنچ جائے گا اور جوتا سر پر پڑنے لگے گا، تب ایمان لا کر اپنی حالت درست کریں گے، حالانکہ اس وقت کا ایمان یا توبہ و رجوع کچھ نافع نہ ہو گا۔ ضرورت تو اس کی ہے کہ موت سے پہلے بعد الموت کی تیاری کی جائے اور عذاب آنے سے پیشتر بچاؤ کی تدبیر کر لیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس انہیں پہنچیں ان کے اعمال کی برائیاں، اور انہیں گھیر لیا اس (عذاب) نے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۳۴)
تشریح:یعنی اگلے معاندین بھی اسی طرح غرور و غفلت کے نشے میں پڑے رہے تھے۔ باطل پرستی میں تمادی ہوتی رہی، توبہ کے وقت توبہ نہ کی، اخیر تک انبیاء کی تکذیب و مخالفت پر تلے رہے اور ان کی باتوں کی ہنسی اڑاتے رہے۔ آخر جو کیا تھا سامنے آیا اور عذاب الٰہی وغیرہ کی جن خبروں سے ٹھٹھا کیا کرتے تھے وہ آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان کا استہزاء و تمسخر انہی پر الٹ پڑا، بھاگ کر جان بچانے کی کوئی سبیل نہ رہی اپنی شرارتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ جو بویا تھا سو کاٹا۔ خدا کو ان سے کوئی بیر نہ تھا نہ اس کے یہاں ظلم و تعدی کا امکان ہے۔ ان لوگوں نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری کسی کا کیا بگڑا انہی کا نقصان ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اور کہا جن لوگوں نے شرک کیا (مشرکوں نے) اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم پرستش کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اس کے ساتھ کسی شے کی، اور ہم اس کے حکم کے سوا کوئی شے حرام نہ ٹھہراتے، اسی طرح ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے، پس کیا ہے رسولوں کے ذمے؟مگر صاف صاف پہنچا دینا۔ (۳۵)
تشریح: ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالی چاہتا توہم شرک نہ کرتے سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی تھا، کیونکہ اس طرح ہر مجرم یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالی چاہتا تو میں یہ جرم نہ کرتا، ایسی باتیں قابل جواب نہیں ہوتیں، اس لئے اللہ تعالی نےاس کا جواب دینے کے بجائے صرف یہ فرما دیا کے رسولوں کی ذمہ داری پیغام پہنچانے کی حد تک محدود ہے، ان کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ ایسے ضدی لوگ راہ راست پر آ ہی جائیں، اور انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ ہم کوئی چیز حرام قرار نہ دیتے، اس سے ان جانوروں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے بتوں کے نام پر حرام کر رکھے تھے، اس کی تفصیل سورۂانعام (۶۔ ۱۳۹تا۱۴۵ ) میں گزر چکی ہے۔
(توضیح القرآن)
اور تحقیق ہم نے ہر امت بھیجا کوئی نہ کوئی رسول کہ اللہ کی عبادت کرو اور سرکش سے بچو، سو ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت دی، اور ان میں سے بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی، پس زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کیسا انجام ہوا جھٹلانے والوں کا۔ (۳۶)
تشریح: طاغوت شیطان کو بھی کہتے ہیں اور بتوں کو بھی، لہذا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیطان کے پیچھے نہ چلو اور یہ بھی کہ بت پرستی سے اجتناب کرو۔
(توضیح القرآن)
اگر تم ان کی ہدایت کے لئے للچاؤ تو بیشک اللہ ہدایت نہیں دیتا جسے وہ گمراہ کرتا ہے، اور ان کا کوئی مدد گار نہیں۔ (۳۷)
تشریح: یعنی جس کو قصورِ استعداد اور سوءِ اختیار کی بناء پر خدا گمراہ کرے اسے کوئی ہدایت نہیں کر سکتا نہ اسے خدائی سزا سے کوئی بچا سکتا ہے۔ آپ کا ان کی ہدایت پر حریص ہونا بھی کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ پھر آپ ان کے غم میں اپنے کو اس قدر کیوں گھلاتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اللہ کی قسم کھائی اپنی سخت (پر زور) قسم کہ جو مر جاتا ہے اسے اللہ (روز قیامت) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں اس پر وعدہ سچا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ (۳۸)
تشریح: تمہارے انکار اور اٹکل پچو قسمیں کھانے سے خدا کا پکا وعدہ ٹل نہیں سکتا، وہ تو ہو کر رہے گا۔ البتہ تم ایسی حقائق ثابتہ کا انکار کر کے اپنے جہل کا ثبوت دے رہے ہو۔ جو شخص خدا کے علم محیط اور شؤن قدرت و حکمت، تکوین کے راز اور اس کی غرض و غایت سے آگاہ ہو گا وہ کبھی بعث بعد الموت کا انکار نہیں کر سکتا۔ سچ ہے۔ "الناس اعداء ماجہلوا”۔
(تفسیرعثمانی)
تاکہ ان کے لئے ظاہر کر دے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں، اور تاکہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ (۳۹)
تشریح:یعنی معاد (قیامت وغیرہ کا آنا) عین حکمت ہے۔ اگر موت کے بعد دوسری زندگی نہ ہو تو دنیا میں جو مختلف اعمال و احوال پائے جاتے ہیں ان کے صاف اور مکمل نتائج کیسے ظاہر ہوں گے۔ یہاں کے جھگڑوں کا دو ٹوک فیصلہ تو وہیں ہو گا اور اس وقت منکرین معلوم کر لیں گے کہ قسمیں کھا کر جن باتوں کا انکار کرتے تھے وہ سچی تھیں۔ اور قسم کھانے والے جھوٹے تھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی اس جہان میں بہت باتوں کا شبہ رہا اور کسی نے اللہ کو مانا کوئی منکر رہا تو دوسرا جہان ہونا لازم ہے کہ جھگڑے تحقیق ہوں، سچ اور جھوٹ جدا ہو اور مطیع و منکر اپنا کیا پائیں۔ ‘‘
(تفسیرعثمانی)
جب ہم کسی چیز کا ارادہ کریں تو ہمارا فرمانا اس کے سوا نہیں کہ ہم اس کو کہتے ہیں کہ ہو جا تووہ ہو جاتا ہے۔ (۴۰)
تشریح: پچھلی آیت میں آخرت کی دوسری زندگی کا مقصد بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کو تم اس لئے ناممکن سمجھ رہے ہو کہ وہ تمہارے تصور سے باہر ہے، لیکن اللہ تعالی کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، کسی چیز کے پیدا کرنے کے لئے اسے کوئی محنت کرنی نہیں پڑتی، وہ تو ایک حکم دیتا ہے اور وہ چیز پیدا ہو جاتی ہے۔
(توضیح القرآن)
اور جن لوگوں نے اللہ کے لئے ہجرت کی اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا، ہم انہیں ضرور جگہ دیں گے دنیا میں اچھی، اور بیشک آخرت کا اجر بہت بڑا ہے، کاش وہ (ہجرت سے رہ جانے والے) جانتے۔ (۴۱)
تشریح: یعنی سلسلہ مجازات (طاعت و معصیت کا پورا نتیجہ ظاہر کرنے) کے لیے بعث بعد الموت ضروری ہے۔ بہت سے خدا کے وفادار بندے مصائب و شدائد جھیلتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، کیا ان کی قربانیاں ضائع کی جا سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں جن لوگوں نے حق کی حمایت اور خدا کی رضا جوئی کے لیے ظالموں کی سختیاں برداشت کیں اور انواع و اقسام کے ظلم و ستم اٹھائے حتی کہ مجبور ہو کر گھر بار، خویش و اقارب اور عزت و راحت سب چیزوں کو خدا کے راستہ میں تج دیا، ان کی محنت و وفاداری کا صلہ یقیناً مل کر رہے گا۔ اول تو ان میں سے جو جیتے بچیں گے دنیا ہی میں اپنی قربانیوں کا تھوڑا سا پھل چکھ لیں گے۔ یعنی گھر چھوڑنے والوں کو بہترین ٹھکانہ دیا جائے گا۔ گھر سے اچھا گھر وطنی بھائیوں سے بڑھ کر دردمند بھائی، روزی سے بہتر روزی، عزت سے زیادہ عزت ملے گی۔ بلکہ وطن سے نکالنے والوں پر غالب، دنیا کے حاکم اور پرہیزگاروں کے امام بن جائیں گے۔ پھر اس سب کے بعد جو بلند مقامات اور عظیم الشان مدارج آخرت میں ملیں گے ان کا تو اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہاں کے اجر و ثواب کا پورا یقین ہو جائے تو دوسرے لوگ بھی جو ہجرت کی سعادت سے محروم ہیں تمام گھر بار چھوڑ کر خدا کے راستہ میں نکل کھڑے ہوں۔ (تنبیہ) آیت کے عموم الفاظ پر نظر کرتے ہوئے ہم نے یہ تقریر کی ہے (وھومنقول فی روح المعانی عن بعضہم) عامہ مفسرین نے اس کو ان اسّی صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں رکھا ہے جو کفار مکہ کی زیادتیوں سے تنگ آ کر ابتداء حبشہ کو ہجرت کر گئے تھے۔ کیونکہ اکثر کے نزدیک آیت مکی ہے جو ہجرت الی المدینہ سے پہلے نازل ہوئی ہے۔ ان ہجرت کرنے والوں کو آخرکار خدا تعالیٰ نے اچھا ٹھکانہ مدینہ میں دیا۔ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ۔
(تفسیرعثمانی)
جن لوگوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۴۲)
تشریح: یعنی کسی ظلم اور سختی سے نہیں گھبرائے۔ وطن محبوب اور خویش و اقارب کے چھوٹنے کی پروا نہ کی۔ رضائے الٰہی کے راستہ میں ذرا قدم نہیں ڈگمگایا۔ ہر طرف سے ٹوٹ کر ایک خدا کے ہو رہے۔ خالص اسی کی امداد اور اٹل وعدوں پر بھروسہ کیا۔ یہاں تک کہ دیکھ لیا کہ جو خدا کا ہو رہتا ہے کس طرح خدا اس کا ہو جاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے تم سے پہلے مردوں کے سوا (رسول) نہیں بھیجے، ہم وحی کرتے ہیں ان کی طرف، یاد رکھنے والوں سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے (ان رسولوں کو ہم نے بھیجا تھا) ۔ (۴۳)
تشریح: یعنی پیغمبر کے مظلوم ساتھیوں کو جب وہ صبر و توکل کی راہ میں ثابت قدم ہوں، دارین میں غالب و منصور کرنا ہماری کوئی نئی عادت نہیں۔ پہلے بھی ہم نے انسانوں میں سے رسول بھیجے جن کا کام یہ تھا کہ خدا کے احکام اور نیکی بدی کے انجام سے لوگوں کو خبردار کر دیں۔ اب اگر تمہیں معلوم نہیں تو جاننے والوں سے جو امم سابقہ اور ان کے پیغمبروں کے تاریخی واقعات کا علم رکھتے ہیں تحقیق کر لو کہ فی الواقع پہلے کچھ آدمی پیغمبری کے منصب پر بینات و زبر (معجزے اور کتابیں) دے کر بھیجے گئے یا نہیں۔ اور یہ کہ ان کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا کیا حشر ہوا۔ اہل حق صبر و توکل کی بدولت کس طرح منصور و کامیاب ہوئے۔ اور ظالم معاندین اتمام حجت کے بعد کیسے تباہ کیے گئے۔ وَتَمَّتْ کَلِمۃُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہ، وَمَاکَانُوْا یَعْرِشُوْنَ” (اعراف، رکوع١٦، آیت:١٣٧)
(تفسیرعثمانی)
نشانیوں اور کتابوں کے ساتھ، اور ہم نے تمہاری طرف کتاب نازل کی ہے تاکہ لوگوں کے لئے واضح کر دو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے، تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ (۴۴)
تشریح:”یادداشت” سے مراد ہے قرآن کریم جو اگلی امتوں کے ضروری احوال و شرائع کا محافظ، انبیائے سابقین کے علوم کا جامع، اور ہمیشہ کے لیے خدائی احکام اور فلاح دارین کے طریقوں کو یاد دلانے والا اور خواب غفلت سے بیدار کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ جس طرح پہلے رسول بھیجے گئے، کتابیں اتاری گئیں، آج تم کو (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہم نے ایسی کتاب دے کر بھیجا جو تمام کتب سابقہ کا خلاصہ اور انبیائے سابقین کے علوم کی مکمل یادداشت ہے۔ آپ کا کام یہ ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں کے لیے اس کتاب کے مضامین خوب کھول کر بیان فرمائیں اور اس کی مشکلات کی شرح اور مجملات کی تفصیل کر دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کا مطلب و ہی معتبر ہے جو احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہو۔
(تفسیرعثمانی)
جن لوگوں نے برے داؤ کئے کیا وہ اس سے بےخوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسادے؟ یا ان پر عذاب آ جائے جہاں سے ان کو خبر ہی نہ ہو۔ (۴۵)
تشریح: یعنی اگلے انبیاء اور ان کی قوموں کا حال سننے اور قرآن جیسی مکمل یادداشت پہنچ جانے کے بعد بھی کیا کفار مکہ حق کے مقابلہ میں اپنی مکاریوں اور داؤ فریب سے باز نہیں آتے، کیا یہ امکان نہیں کہ خدا انہیں قارون کی طرح زمین میں دھنسا دے۔ یا ایسی طرف سے کوئی آفت بھیج دے جدھر سے انہیں وہم و گمان بھی نہ ہو۔ چنانچہ "بدر” میں مسلمان غازیوں کے ہاتھوں سے ایسی سزا دلوائی جو اپنی قوت و جمعیت اور مسلمانوں کے ضعف و قلت کو دیکھتے ہوئے ان کے تصور میں بھی نہ آسکتی تھی۔
(تفسیرعثمانی)
یا انہیں پکڑ لے چلتے پھرتے، پس وہ (اللہ کو) عاجز کرنے والے نہیں۔ (۴۶)
تشریح: یعنی یہ بھی ضروری نہیں کہ پہلے سے کچھ اہتمام کیا جائے یا فوجیں مقابلہ کے لیے روانہ کی جائیں۔ خدا تو اس پر بھی قادر ہے کہ تمہیں چلتے پھرتے کام کاج کرتے یا بستروں پر کروٹیں بدلتے ہوئے ایک دم پکڑ لے اور بالکل عاجز و بے بس کر دے۔ اس کو سب قدرت ہے وہ تم کو عاجز کر سکتا ہے تم اسے نہیں تھکا سکتے۔
(تفسیرعثمانی)
یا انہیں ڈرانے کے بعد پکڑ لے، پس بیشک تمہارا رب مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ (۴۷)
تشریح:یعنی اچانک نہ پکڑے۔ بلکہ آگاہ کرنے اور مبادیِ عذاب بھیجنے کے بعد ایسی حالت میں پکڑ لے جب کہ لوگ اطلاع پا کر اور آثار عذاب دیکھ کر طبعاً خوف کھا رہے ہوں یا آس پاس کے لوگوں کو آفات سماویہ میں مبتلا دیکھ کر ڈر رہے ہوں، لیکن یہ خوف محض طبعی ہو۔ ندامت اور توبہ کے ساتھ نہ ہو جو دافع عذاب ہو سکتا ہے۔ بعض نے "تخوف” کے معنی "تنقص” (آہستہ آہستہ کم کرنے) کے لیے ہیں۔ یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ دفعتاً ہلاک نہ کرے آہستہ آہستہ تم کو گھٹائے اور پست کرتا رہے۔
خدا سب کچھ کر سکتا ہے مگر کیوں نہیں کرتا، اس کی نرمی اور مہربانی مانع ہے کہ مجرمین پر فوراً عذاب نازل کر دے، اس کی رافت و رحمت مقتضی ہے کہ مجرمین کو مہلت اور اصلاح کا مواقع دیا جائے یا یہ جملہ صرف "یَاْخُذَہُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ” سے متعلق ہے بحالیکہ "تخوف” کو بمعنٰی "تنقص” لیا جائے، تو مطلب یہ ہو گا کہ آہستہ آہستہ کم کرنا اور دفعۃً ہلاک نہ کرنا اس کی رحمت و شفقت کی وجہ سے ہے، ورنہ ایک آن میں نیست و نابود کر دیتا۔
(تفسیرعثمانی)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ جو چیز اللہ نے پیدا کی ہے، اس کے سائے ڈھلتے ہیں، دائیں سے اور بائیں سے، اللہ کے لئے سجدہ کرتے ہوئے، اور وہ عاجزی کرنے والے ہیں۔ (۴۸)
تشریح: یعنی جب تکوینی طور پر ہر چیز خدا کے سامنے عاجز اور مطیع و منقاد ہے۔ حتی کہ سایہ دار چیزوں کا سایہ بھی اسی کے حکم اور قانون قدرت کے موافق گھٹتا بڑھتا اور ادھر یا ادھر رہتا ہے پھر ایسے قدرت والے خدا کو عذاب بھیجنے سے کون سی طاقت روک سکتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ باختیار خود اس کے احکام تشریعیہ کے سامنے گردن جھکا دے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ہر چیز ٹھیک دوپہر میں کھڑی ہے اس کا سایہ بھی کھڑا ہے۔ جب دن ڈھلا، سایہ جھکا، پھر جھکتے جھکتے شام تک زمین پر پڑ گیا، جیسے نماز میں کھڑے سے رکوع، رکوع سے سجدہ اسی طرح ہر چیز آپ کھڑی ہے اپنے سایہ سے نماز کرتی ہے۔ کسی ملک میں کسی موسم میں داہنی طرف جھکتا ہے کہیں بائیں طرف۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو بھی آسمانوں میں ہے اور جو بھی جانداروں میں سےزمین میں ہے اور فرشتے بھی، اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ (۴۹)
تشریح: پہلے کھڑی چیزوں کا جو سایہ دار ہوں سجدہ بیان ہوا تھا، یہاں عام جانداروں بالخصوص فرشتوں کا سجدہ بیان کر کے متنبہ فرمایا کہ ایسی مقرب و معظم ہستیاں بھی اس کے آگے سربسجود ہیں کوئی شیخی یا غرور ان میں نہیں، جو اپنے مالک کے سامنے سر جھکانے سے رکے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "مغرور لوگوں کو سر رکھنا زمین پر مشکل ہوتا ہے۔ نہیں جانتے کہ بندہ کی بڑائی اسی میں ہے” مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللہُ۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں (جو) ان کے اوپر ہے، اور وہ وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (۵۰)
تشریح: یعنی فرشتے باوجود اس قدر قرب و وجاہت کے اپنے رب کے جلال سے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم پاتے ہیں فوراً بجا لاتے ہیں۔ موضح القرآن میں ہے کہ "ہر بندہ کے دل میں ہے کہ میرے اوپر اللہ ہے اپنے آپ کو نیچے سمجھتا ہے، یہ سجدہ فرشتوں کا بھی ہے اور سب کا۔ ”
(تفسیرعثمانی)
یہ آیت سجدہ ہے، یعنی جو شخص بھی یہ آیت عربی زبان میں پڑھے، اس پر سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے، اسے سجدۂ تلاوت کہتے ہیں، جو نماز کے سجدے کے علاوہ ہے، البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا آیت کو پڑھے بغیر صرف دیکھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔
(توضیح القرآن)
اور اللہ نے کہا نہ بناؤ دو معبود، اس کے سوا نہیں کہ وہ معبود یکتا ہے، پس مجھ ہی سے ڈرو۔ (۵۱)
تشریح:یعنی جب تمام آسمانی و زمینی مخلوق ایک خدا کے سامنے بے اختیار سر بسجود اور عاجز و مقہور ہے، پھر عبادت میں کوئی دوسرا شریک کہاں سے آ گیا۔ جو سارے جہان کا مالک و مطاع ہے تنہا اسی کی عبادت ہونی چاہیے اور اسی سے ڈرنا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے اور اسی کے لئے طاعت و عبادت لازمی ہے، تو کیا اللہ کے سوا (کسی اور سے) تم ڈرتے ہو۔ (۵۲)
تشریح:یعنی تکوینی طور پر ہر چیز خالص اسی کی عبادت اور اطاعت پر مجبور ہے "اَفَغَیْرَ دِیْنِ اللّٰہِ یَبْغُوْنَ وَلَہ، اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضِ طَوْعًا وَّکَرْہًا وَّاِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ۔ ” (آل عمران، رکوع٩، آیت:٨٣) یا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ اسی کی عبادت کرنا لازم ہے "اَ لَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ” (زمر، رکوع١، آیت:٣) اور بعض نے "دین” کو "جزاء” کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی نیک و بد کا دائمی بدلہ اسی ایک خدا کی طرف سے ملے گا۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور تمہارے پاس جو کوئی نعمت ہے سواللہ کی طرف سے ہے، پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تواسی کی طرف تم روتے چلاتے ہو۔ (۵۳)
تشریح:یعنی سب بھلائیاں اور نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور ہر ایک برائی یا سختی کا دفع کرنا بھی اسی کے قبضہ میں ہے۔ چنانچہ جب کوئی سخت مصیبت انسان کو چھو جاتی ہے تو کٹر سے کٹر مشرک بھی اس وقت سب سہارے چھوڑ کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ گویا فطرت انسانی شہادت دیتی ہے کہ مصائب اور سختیوں سے بچانا خدائے واحد کے سوا کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ پھر جس کے قبضہ میں ہر ایک نعمت و نقمت اور ہر قسم کا نفع و ضرر ہے، دوسرا کون ہے جو اس کی الوہیت میں حصہ دار بن سکے۔ یا جس سے انسان خوف کھائے اور امیدیں باندھے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ جب تم سے سختی دور کر دیتا ہے تو تم میں سے ایک فریق اس وقت اپنے رب کے ساتھ شریک کرنے لگتا ہے۔ (۵۴)
تاکہ وہ اس کی ناشکری کریں جو ہم نے انہیں دیا، تو تم فائدہ اٹھا لو، پس عنقریب تم جان لو گے۔ (۵۵)
تشریح: یعنی جہاں سختی دور ہوئی منعم حقیقی کو بھلا بیٹھے اور نہایت بے حیائی سے خدائی کے حصے بخرے کرنے لگے۔ شرم نہ آئی کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے عاجز ہو کر کسے پکار رہے تھے۔ نہ محسن حقیقی کا احسان مانا نہ یہ اندیشہ کیا کہ ناشکری کی سزا میں پکڑے جائیں گے، یا کم از کم کفران نعمت سلب نعمت کا موجب ہو جائے گا۔ گویا خدائے وحدہ لا شریک لہ نے جو انعام فرمایا تھا بالکل اس کے انکار پر تل گئے۔ بہتر ہے چند روز کی انہیں مہلت دی جاتی ہے۔ خوب دنیا کے مزے اڑا لیں آخر معلوم ہو جائے گا کہ اس مشرکانہ کفران نعمت کی کیسی سزا ملتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے وہ ان کے لئے حصہ مقرر کرتے ہیں، جن (معبودوں) کو وہ نہیں جانتے، اللہ کی قسم تم سے اس (کے بارے) میں ضرور پوچھا جائے گا جو تم جھوٹ باندھتے تھے۔ (۵۶)
تشریح:یہ ان کو فرمایا جو اپنے کھیت میں، مویشی میں، تجارت میں اللہ کے سوا کسی دوسرے کی نیاز ٹھہراتے ہیں (موضح القرآن) جیسا کہ مشرکین عرب کا دستور تھا جس کا ذکر آٹھویں پارہ کے تیسرے رکوع میں گزر چکا "مالا یعلمون”سے مراد و ہی اصنام وغیرہ ہیں جنہیں مشرکین جہالت اور بے خبری سے معبود یا مالک نفع و ضرر سمجھتے تھے، حالانکہ اس کی کوئی دلیل یا سند ان کے پاس نہ تھی، پھر شرکاء بھی تجویز کیے گئے، پتھر کے بت جو ہر قسم کے علم و شعور سے کورے ہیں۔ اِنَّ ہٰذَا لَشَیْ ءٌ عُجَابٌ۔ قیامت میں ان افتراء پردازیوں کی تم سے ضرور باز پرس ہو گی۔ خدا کے دیے ہوئے مال میں کیا حق تھا کہ دوسروں کو شریک و سہیم بناؤ۔ (باقی کسی کو ثواب پہنچانے کا مسئلہ جداگانہ ہے وہ اس آیت کے تحت میں داخل نہیں)
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اللہ کی بیٹیاں ٹھہراتے ہیں، وہ پاک ہے، اور اپنے لئے وہ جو ان کا دل چاہتا ہے۔ (۵۷)
تشریح:یعنی وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے اولاد ثابت کی جائے۔ خاص کر بیٹیاں۔ تعجب ہے یہ لوگ حق تعالیٰ کی نسبت ایسی جرأت کس طرح کرتے ہیں۔ اس آیت میں "بنو خزاعہ” کا رد ہوا جو فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے (العیاذ باللہ) خود اپنے لیے بیٹیاں دیے جانے پر رضا مند نہیں جب مانگیں گے بیٹا مانگیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ سے بھر جاتا ہے۔ (۵۸)
تشریح:یعنی ان میں سے کسی کو اگر خبر دی جائے کہ تیرے گھر میں لڑکی پیدا ہوئی ہے تو نفرت و غم سے تیوری چڑھ جائے اور دن بھر ناخوشی سے چہرہ بے رونق اور دل گھٹتا رہے کہ یہ ناشدنی مصیبت کہاں سے سر پر آئی۔
(تفسیرعثمانی)
لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس برائی کی خوشخبری کے سبب جو اسے دی گئی (اب سوچتا ہے) آیا اس کو رسوائی کے ساتھ رکھے یا اس کو مٹی میں دفن کر دے، یاد رکھو برا ہے جو وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ (۵۹)
تشریح:یعنی رسمی ننگ و عار کے تصور سے کہ لڑکی زندہ رہی تو کسی کو داماد بنانا پڑے گا۔ لوگوں کو منہ دکھانا نہیں چاہتا ادھر ادھر چھپتا پھرتا ہے۔ شب و روز ادھیڑ بن میں لگا ہوا ہے اور تجویزیں سوچتا ہے کہ دنیا کی عار قبول کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں اتار دے، یعنی ہلاک کر ڈالے۔ جیسا کہ جاہلیت میں بہت سے سنگدل لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے یا زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ اسلام نے آ کر اس قبیح رسم کو مٹایا اور ایسا قلع قمع کیا کہ اسلام کے بعد سارے ملک میں اس بے رحمی کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ بعض نے اَیُمْسِکُہ عَلٰی ہُوْنٍ کے معنی یوں کیے ہیں "روکے رکھے لڑکی کو ذلیل و خوار کر کے” یعنی زندہ رہنے کی صورت میں ایسا ذلیل معاملہ کرے گویا وہ اس کی اولاد ہی نہیں۔ بلکہ آدمی بھی نہیں۔ لڑکیوں کے متعلق جو ظالمانہ فیصلہ ان کا تھا اس سے زیادہ برا فیصلہ یہ ہے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کریں، پھر اولاد بھی "اناث” جس سے خود اتنا گھبراتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کا حال برا ہے اور اللہ کی شان بلند ہے، اور وہ غالب حکمت والا ہے۔ (۶۰)
تشریح:یعنی مشرکین جنہیں اپنے ظلم اور گستاخیوں کے انجام پر یقین نہیں۔ بری مثال یا بری صفت و حالت ان ہی کی ہے و ہی اولاد کے محتاج ہیں۔ دکھ اور ضعیفی وغیرہ میں کام آنے کے لیے ان کو لڑکوں کا سہارا چاہیے۔ دفع عار یا افلاس وغیرہ کے ڈر سے لڑکیوں کو ہلاک کرنا ان کا شیوہ ہے۔ آخر میں ظلم و شرک وغیرہ کا جو برا انجام ہونا چاہیے اس سے بھی وہ بچ نہیں سکتے۔ غرض ہر نہج سے بری مثال اور نقص و عیب کی نسبت ان ہی کی طرف ہونی چاہیے۔ حق تعالیٰ کی طرف ان صفات کی نسبت کرنا جو مخلوق کا خاصہ ہیں اور (معاذ اللہ) بیٹے بیٹیاں تجویز کر کے حقیر اور پست مثالیں دینا اس کی شان عظیم و رفیع کے منافی ہے۔ اس کے لیے تو و ہی مثالیں اور صفات ثابت کی جا سکتی ہیں جو اعلیٰ سے اعلیٰ اور ہر بلند چیز سے بلند تر ہوں۔ زبردست تو ایسا ہے کہ تمہاری گستاخیوں کی سزا ہاتھوں ہاتھ دے سکتا ہے۔ لیکن فوراً سزا دینا اس کی حکمت کے مناسب نہیں۔ لہٰذا ڈھیل دی جاتی ہے کہ اب بھی باز آ جائیں اور اپنا رویہ درست کر لیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر اللہ گرفت کرے لوگوں کی ان کے ظلم کے سبب تووہ زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑے، لیکن وہ انہیں ڈھیل دیتا ہے ایک مدت مقررہ تک، پھر جب ان کا وقت آ گیا، نہ وہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ آگے بڑھیں گے۔ (۶۱)
تشریح: یعنی اگر خدا تعالیٰ لوگوں کی گستاخی اور نا انصافی پر دنیا میں فوراً پکڑنا اور سزا دینا شروع کر دے تو چند گھنٹے بھی زمین کی یہ آبادی نہیں رہ سکتی، کیونکہ دنیا میں بڑا حصہ ظالموں اور بدکاروں کا ہے۔ اور چھوٹی چھوٹی خطا و قصور سے تو کوئی خالی ہو گا؟ (کُلُّکُمْ خَطَّاءُ وْنَ) جب خاطی و بدکار فوراً ہلاک کر دیے گئے تو صرف معصوم انبیاء کے زمین پر بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی، بلکہ ان کا ملائکہ معصومین کے ساتھ رہنا موزوں ہے۔ جب نیک و بد انسان دونوں زمین پر نہ رہے تو دوسرے حیوانات کا رکھنا بے فائدہ ہو گا، کیونکہ وہ سب بنی آدم کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ نیز فرض کیجیے خدا نے انسانوں کے ظلم و عدوان پر بارش بند کر دی تو کیا آدمیوں کے ساتھ جانور نہیں مریں گے۔ بہرحال خدا اگر بات بات پر دنیا میں پکڑے اور فوراً سزا دے تو اس دنیا کا سارا قصہ منٹوں میں تمام ہو جائے۔ مگر وہ اپنے حلم و حکمت سے ایسا نہیں کرتا۔ بلکہ مجرموں کو توبہ و اصلاح کا موقع دیتا ہے اور وقت موعود تک انہیں ڈھیلا چھوڑتا ہے۔ جب وقت آ پہنچا، پھر ایک سکینڈ اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا۔ (تنبیہ) بعض مفسرین نے "ماَتَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَآبَّۃٍ” سے خاص دابہ ظالمہ مراد لیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہو تو مطلب واضح ہے کوئی اشکال نہیں۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اللہ کے لئے ٹھہراتے ہیں جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہیں اور ان کی زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ ان کے لئے بھلائی ہے، لازمی بات ہے کہ ان کے لئے جہنم ہے، ، بیشک وہ (جہنم میں) آگے بھیجے جائیں گے۔ (۶۲)
تشریح: یعنی جو چیزیں بری سمجھ کر اپنے لیے پسند نہیں کرتے مثلاً بیٹیاں یا اپنے ملک میں کسی اجنبی کی شرکت یا استہزاء و استخفاف کا معاملہ۔ وہ خداوند قدوس کے لیے ثابت کرتے ہیں۔ باوجود ایسی گستاخیوں کے زبان پر یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ ہم تو دنیا میں بھی بھلی چیزوں کے لائق ہیں اور اگر آخرت وغیرہ کے قصے سچے ہوئے تو وہاں بھی خوب چین اڑائیں گے۔ "وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّامِنْم بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ہٰذَالِیْ وَمَا اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً وَّلَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّ لِیْ عِنْدَہ، لَلْحُسْنٰی” (حم السجدہ، رکوع٦، آیت:٥٠) ان گستاخیوں کے ساتھ ایسی باطل آرزوئیں رکھنا ہی اس کی دلیل ہے کہ ان کے لیے کوئی خوبی اور بھلائی تو کیا ہوتی، البتہ دوزخ تیار ہے جس کی طرف وہ بڑھائے جا رہے ہیں اور جہاں پہنچ کر گویا بالکل بھلا دیے جائیں گے۔ یعنی ابدا لآباد تک کبھی مہربانی کی نظر ان پر نہ ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ان کو فرمایا جو ناکارہ چیزیں اللہ کے نام دیں اور اس پر یقین کریں کہ ہم کو بہشت ملے گی۔ حالانکہ وہ روز بروز دوزخ کی طرف بڑھتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ کی قسم !تحقیق ہم نے بھیجے تم سے پہلے امتوں کی طرف (رسول) پھر شیطان نے ان کے عمل انہیں اچھے کر دکھائے، پس آج وہ ان کا رفیق ہے، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۶۳)
تشریح: کفار مکہ کی گستاخیوں اور لغو و بیہودہ دعاوی کا ذکر کر کے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تسلی دیتے ہیں کہ آپ ان کی حرکتوں سے دلگیر اور رنجیدہ نہ ہوں۔ ہم نے آپ سے پہلے بھی مختلف امتوں کی طرف پیغمبر بھیجے ہیں لیکن ہمیشہ یہی ہوا کہ شیطان لعین مکذبین کو ان کے عمل اچھے کر کے دکھاتا رہا۔ اور وہ برابر شرارت میں بڑھتے رہے۔ آج وہ سب خدائی عذاب کے نیچے ہیں۔ اور شیطان جو ان کا رفیق ہے کچھ کام نہیں آتا۔ نہ ان کی فریاد کو پہنچ سکتا ہے۔ یہی انجام آپ کے مکذبین کا ہو گا۔ بعض نے "فَہُوَ وَلِیُّہُمُ الْیَوْمَ” کا یہ مطلب لیا ہے کہ شیطان جس نے اگلوں کو بہکایا تھا و ہی آج ان کفار مکہ کا رفیق بنا ہوا ہے۔ لہٰذا جو حشر ان کا ہوا ان کا بھی ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے تم پر کتاب نہیں اتاری مگر (صرف) اس لئے کہ ان کے لئے واضح کر دو جس میں انہوں نے اختلاف کیا، اور ہدایت و رحمت ان کے لئے جو ایمان لائے۔ (۶۴)
تشریح: یعنی قرآن صرف اس لیے اتارا گیا ہے کہ جن سچے اصولوں میں لوگ اختلاف کر رہے ہیں اور جھگڑے ڈال رہے ہیں (مثلاً توحید و معاد اور احکام حلال و حرام وغیرہ) ان سب کو وضاحت و تحقیق کے ساتھ بیان کر دے۔ کوئی اشکال و خفا باقی نہ رہے۔ گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بذریعہ قرآن تمام نزاعات کا دو ٹوک فیصلہ سنا دیں اور بندوں پر خدا کی حجت تمام کر دیں۔ آگے ماننا نہ ماننا خود مخاطبین کا کام ہے جسے توفیق ہو گی قبول کرے گا۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ فیصلہ اور بیان تو سب کے لیے ہے لیکن اس کی ہدایت سے منتفع ہونا اور رحمت الٰہی کی آغوش میں آنا انہی کا حصہ ہے جو اس فیصلہ کو صدق دل سے تسلیم کرتے ہیں اور بطوع و رغبت ایمان لاتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے آسمانوں سے پانی اتارا، پھر اس سے زمین کو اس کی موت (بنجر ہونے) کے بعد زندہ کیا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سنتے ہیں۔ (۶۵)
تشریح:یعنی خشک زمین کو آسمانی بارش سے سرسبز کر دیا گویا خشک ہونا زمین کی موت اور سرسبز و شاداب ہونا حیات ہے۔
اسی طرح قرآن سے جاہلوں کو عالم اور مردہ دلوں کو زندہ کر دے گا۔ اگر توجہ قلبی اور انصاف سے سنیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (مقام) عبرت ہے، ہم تمہیں پلاتے ہیں دودھ خالص اس سے جو گوبر اور خون کے درمیان ان کے پیٹوں میں ہے، پینے والوں کے لئے خوشگوار۔ (۶۶)
تشریح: یعنی اونٹ گائے، بھینس وغیرہ جانور جو گھاس چارہ کھاتے ہیں۔ وہ پیٹ میں پہنچ کر تین چیزوں کی طرف مستحیل ہو جاتا ہے۔ قدرت نے ان حیوانات کے جسم کے اندرونی حصہ میں ایسی مشین لگا دی ہے جو غذا کے کچھ اجزاء کو تحلیل کر کے فضلہ (گوبر) کی شکل میں باہر پھینک دیتی ہے اور کچھ اجزاء کو خون بنا کر عروق میں پھیلا دیتی ہے جو ان کی حیات و بقا کا سبب بنتا ہے۔ اور اسی مادہ میں سے جس کے بعض اجزاء گوبر اور بعض خون بن گئے۔ ان دو گندی چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز (دودھ) تیار کرتی ہے جو نہایت پاک طیب اور خوشگوار چیز ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کھجور اور انگور کے پھلوں سے (رس) تم اس سے شراب بناتے ہو، اور اچھا رزق (حاصل کرتے ہو) بیشک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ (۶۷)
تشریح: یہ سورت مکی ہے، جب یہ نازل ہوئی تو اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی، لیکن اس آیت میں شراب کو پاکیزہ رزق کے مقابلے میں ذکر فرما کر ایک لطیف اشارہ اس طرف کر دیا یا تھا کہ شراب پاکیزہ رزق نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
یہاں "یَعْقِلُوْنَ” کا لفظ جو عقل سے مشتق ہے "سکراً” کے تذکرہ سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ چونکہ نشہ عقل کو زائل کر دیتا ہے۔ اس لیے اشارہ فرما دیا کہ آیات کا سمجھنا عقل والوں کا کام ہے نشہ پینے والوں کا نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا لے، اور درختوں میں اور اس جگہ میں جہاں وہ چھتریاں بناتے ہیں۔ (۶۸)
تشریح:یعنی انگور کی بیل چڑھانے کو جو ٹٹیاں باندھتے ہیں یا جو عمارتیں لوگ تیار کرتے ہیں۔ شہد کی مکھی کو حکم دینے کا یہ مطلب ہے کہ اس کی فطرت ایسی بنائی جو باوجود ادنیٰ حیوان ہونے کے نہایت کاریگری اور باریک صنعت سے اپنا چھتہ پہاڑوں، درختوں اور مکانوں میں تیار کرتی ہے۔ ساری مکھیاں ایک بڑے مکھی کے ماتحت رہ کر پوری فرمانبرداری کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ان کے سردار کو "یعْسُوب”کہا جاتا ہے۔ جس کے ساتھ مکھیوں کا جلوس چلتا ہے۔ جب کسی جگہ مکان بناتی ہیں تو سب خانے "مسدس متساوی الاضلاع” کی شکل پر ہوتے ہیں بدون مسطر و پرکار وغیرہ کے اس قدر صحت و انضباط کے ساتھ ٹھیک ٹھیک ایک ہی شک پر تمام خانوں کا رکھنا آدمی کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ حکماء کہتے ہیں کہ مسدس کے علاوہ کوئی دوسری شکل اگر اختیار کی جاتی تو لامحالہ درمیان میں کچھ جگہ فضول خالی رہتی۔ فطرت نے ایسی شکل کی طرف راہنمائی کی جس میں ذرا سا فرجہ بھی بیکار نہ رہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر کھا ہرقسم کے پھل، پھر اپنے رب کے نرم و ہموار راستوں پر چل، ان کے پیٹوں سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) اس کے رنگ مختلف ہیں، اس میں لوگوں کے لئے شفا ہے، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانی ہے جو سوچتے ہیں۔ (۶۹)
تشریح:یعنی غذا حاصل کرنے اور کھا پی کر چھتہ کی طرف واپس آنے کے راستے صاف کھلے پڑے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ مکھیاں غذا کی تلاش میں بعض اوقات بہت دور نکل جاتی ہیں پھر بے تکلف اپنے چھتہ میں واپس جاتی ہیں۔ ذرا راستہ نہیں بھولتیں۔ مختلف رنگ کا شہد نکلتا ہے، سفید، سرخ، زرد، کہتے ہیں کہ رنگتوں کا اختلاف موسم، غذا اور مکھی کی عمر وغیرہ کے اختلاف سے پیدا ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہت سی بیماریوں میں صرف شہد خالص یا کسی دوسری دوا میں شامل کر کے دیا جاتا ہے جو باذن اللہ مریضوں کی شفا یا بی کا ذریعہ بنتا ہے۔ حدیث صحیح میں ہے کہ ایک شخص کو دست آرہے تھے اس کا بھائی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے شہد پلانے کی رائے دی۔ شہد پینے کے بعد اسہال میں ترقی ہو گئی۔ اس نے پھر حاضر ہو کر عرض کیا کہ حضرت دست زیادہ آنے لگے فرمایا۔ "صَدَقَ اللہُ وَ کَذَبَ بَطْنُ اَخِیْکَ” (اللہ سچا ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے) پھر پلاؤ۔ دوبارہ پلانے سے بھی وہی کیفیت ہوئی۔ آپ نے پھر وہی فرمایا۔ آخر تیسری مرتبہ پلانے سے دست بند ہو گئے اور طبیعت صاف ہو گئی۔ اطباء نے اپنے اصول کے موافق کہا ہے کہ بعض اوقات پیٹ میں "کیموس” فاسد ہوتا ہے جو پیٹ میں پہنچنے والی ہر ایک غذا اور دوا کوفاسد کر دیتا ہے اس لیے دست آتے ہیں اس کا علاج یہ ہی ہے کہ مسہلات دی جائیں تاکہ وہ "کیموس فاسد” خارج ہو۔ شہد کے مسہل ہونے میں کسی کو کلام نہیں گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ اس طبی اصول کے موافق تھا۔ مامون رشید کے زمانہ میں ثمامہ عبسی کو جب اسی قسم کا مرض لاحق ہوا تو اس زمانہ کے شاہی طبیب یزید بن یوحنا نے مسہل سے اس کا علاج کیا اور یہ ہی وجہ بتلائی۔ آجکل کے اطباء شہد کے استعمال کو استطلاقِ بطن کے علاج میں بیحد مفید بتلاتے ہیں۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے اور تم میں سے بعض کو ناکارہ عمر کی طرف پہنچایا جاتا ہے تاکہ وہ کچھ علم کے بعد بے علم ہو جائے، بیشک اللہ جاننے والا قدرت والا ہے۔ (۷۰)
تشریح:قدرت کے بہت سے خارجی نشان بیان فرما کر انسان کو متنبہ کرتے ہیں کہ خود اپنے اندرونی حالات پر غور کرے۔ وہ کچھ نہ تھا، خدا نے وجود بخشا پھر موت بھیجی اور دی ہوئی زندگی واپس لے لی یہ کچھ نہ کر سکا اور بعضوں کو موت سے پہلے ہی پیرانہ سالی کے ایسے درجہ میں پہنچا دیا کہ ہوش و حواس ٹھکانے نہ رہے۔ نہ ہاتھ پاؤں میں طاقت رہی، بالکل نکما ہو گیا۔ نہ کوئی بات سمجھی ہوئی یاد رکھ سکتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ علم و قدرت اسی خالق و مالک کے خزانہ میں ہے۔ جب اور جس قدر چاہے دے اور جب چاہے واپس کر لے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے فضیلت دی تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں، پس جن لوگوں کو فضیلت دی گئی وہ اپنا رزق لوٹا نے (دینے) والے نہیں، اُنہیں جن کے مالک ان کے ہاتھ ہیں (اپنے مملوکوں کو) کہ وہ اس میں برابر ہو جائیں، پس کیا وہ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں؟۔ (۷۱)
تشریح: یعنی خدا کی دی ہوئی روزی اور بخشش سب کے لیے برابر نہیں۔ بلحاظ تفاوتِ استعداد و احوال کے اس نے اپنی حکمت بالغہ سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ کسی کو مالدار اور با اقتدار بنایا جس کے ہاتھ تلے بہت سے غلام اور نوکر چاکر ہیں۔ جن کو اسی کے ذریعہ سے روزی پہنچتی ہے۔ ایک وہ غلام ہیں جو بذاتِ خود ایک پیسہ یا ادنیٰ اختیار کے مالک نہیں، ہر وقت آقا کے اشاروں کے منتظر رہتے ہیں۔ پس کیا دنیا میں کوئی آقا گوارا کرے گا کہ غلام یا نوکر چاکر جو بہرحال اسی جیسے انسان ہیں بدستور غلامی کی حالت میں رہتے ہوئے اس کی دولت، عزت، بیوی وغیرہ میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ غلام کا حکم تو شرعاً یہ ہے کہ بحالت غلامی کسی چیز کا مالک بنایا جائے تب بھی نہیں بنتا آقا ہی مالک رہتا ہے اور فرض کرو آقا غلامی سے آزاد کر کے اپنی دولت وغیرہ میں برابر کا حصہ دار بنا لے تو مساوات بیشک ہو جائے گی، لیکن اس وقت غلام غلام نہ رہا۔ بہر کیف غلامی اور مساوات جمع نہیں ہو سکتی۔ جب دو ہم جنس اور متحد النوع انسانوں کے اندر مالک و مملوک میں شرکت و مساوات نہیں ہو سکتی، پھر غضب ہے کہ خالق و مخلوق کو معبودیت وغیرہ میں برابر کر دیا جائے اور ان چیزوں کو جنہیں خدا کی مملوک سمجھنے کا اقرار خود مشرکین بھی کرتے تھے۔ اِلاَّشَرِیْکًا ہُوَلَکَ تَمْلِکُہُ وَمَامَلَکَ مالک حقیقی کا شریک و سہیم ٹھہرا دیا جائے۔ کیا منعم حقیقی کی نعمتوں کا یہی شکریہ ہے کہ جس بات کے قبول کرنے سے خود ناک بھوں چڑھاتے ہوں اس سے زیادہ قبیح و شنیع صورت اس کے لیے تجویز کی جائے۔ نیز جس طرح روزی وغیرہ میں حق تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی، سب کو ایک درجہ میں نہیں رکھا، اگر علم و عرفان اور کمالات نبوت میں کسی ہستی کو دوسروں سے فائق کر دیا تو خدا کی اس نعمت سے انکار کرنے کی بجز ہٹ دھرمی کے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
(تفیسرعثمانی)
اور اللہ نے تم سے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنائیں، اور تمہاری عورتوں سے تمہارے لئے پیدا کئے بیٹے اور پوتے، اور تمہیں پاک چیزیں عطا کیں، تو کیا وہ باطل کو مانتے ہیں؟اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں۔ (۷۲)
تشریح:یعنی نوع انسان ہی سے تمہارا جوڑا پیدا کیا تاکہ الفت و موانست قائم رہے۔ اور تخلیق کی غرض پوری ہو۔ "وَمِنْ اٰیٰاتِہٖ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْآ اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً” (الروم، آیت:٢١)
تو کیا وہ باطل کو مانتے ہیں؟اور اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں:بتوں کا احسان مانتے ہیں کہ بیماری سے چنگا کیا، یا روزی دی، اور یہ سب جھوٹ اور وہ جو سچ دینے والا ہے اس کے شکر گزار نہیں۔ کذافی الموضح۔ اور شاید یہ بھی اشارہ ہو کہ فانی و زائل زندگانی کی بقائے نوعی و شخصی کے اسباب کو تو مانتے ہو اور خدا کی سب سے بڑی نعمت (پیغمبر علیہ السلام کی ہدایات) کو جو بقائے ابدی اور حیات جاودانی کا واحد ذریعہ ہے، تسلیم نہیں کرتے اَلاَ کُلُّ شَیْ ءٍ مَاخَلَا اللہَ بَاطِلٌ۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ کے سوا ان کی پرستش کرتے ہیں، جنہیں اختیار نہیں ان کے لئے رزق کا آسمانوں اور زمین سے کچھ بھی، اور نہ وہ قدرت رکھتے ہیں۔ (۷۳)
تشریح:یعنی نہ آسمان سے مینہ برسانے کا خدائی اختیار رکھتے ہیں نہ زمین سے غلہ اگانے کا۔ پھر قادرِ مطلق کے شریک معبودیت میں کس طرح بن گئے؟۔
(تفسیرعثمانی)
پس چسپاں نہ کرو اللہ پر مثالیں، بے شک، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (۷۴)
اللہ نے ایک مثال بیان کی (کسی کی) ملک میں آئے ہوئے غلام کی جو کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا، اور (دوسرا) وہ جسے ہم نے اچھا رزق دیا سووہ اس سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا ہے، کیا وہ (دونوں) برابر ہیں؟تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، بلکہ (لیکن) ان میں سے اکثر نہیں جانتے۔ (۷۵)
اور اللہ نے دو آدمیوں کی ایک مثال بیان کی، ان میں سے ایک گونگا ہے، وہ اختیار نہیں رکھتا کسی چیز پر، اور وہ اپنے آقا پر بوجھ ہے، وہ جہاں کہیں اسے بھیجے وہ کوئی بھلائی نہ لائے، کیا برابر ہے یہ اور وہ جو انصاف کا حکم دیتا ہے، اور وہ سیدھی راہ پر ہے۔ (۷۶)
تشریح:مشرکینِ عرب بعض اوقات اپنے شرک کی تائید میں یہ مثال دیتے تھے کہ جس طرح دنیا کا بادشاہ تنہا اپنی حکومت نہیں چلاتا، بلکہ اسے حکومت کے بہت سے کام اپنے مددگاروں کو سونپنے پڑتے ہیں، اسی طرح (معاذاللہ) اللہ تعالی نے بھی اپنی خدائی کے بہت سے کام اپنے مددگاروں کو سونپ رکھے ہیں۔ اور ان معاملات میں وہ خود مختار ہو گئے ہیں، ان آیتوں میں اُن سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی کے لئے دنیا کے بادشاہوں کی بلکہ کسی بھی مخلوق کی مثال دنیا انتہائی جہالت کی بات ہے، اس کے بعد آیت نمبر۷۴ تا ۷۶ میں اللہ تعالی نے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ اگر مخلوقات ہی کی مثال لینی ہے تو ان دو مثالوں سے ظاہر ہے کہ مخلوق مخلوق میں بھی فرق ہوتا ہے، کوئی مخلوق اعلی درجے کی ہے، کوئی ادنیٰ درجے کی، جب مخلوق مخلوق میں اتنا فرق ہے تو خالق اور مخلوق میں کتنا فرق ہو گا، پھر کسی مخلوق کو خالق کے ساتھ عبادت میں کیسے شریک کیا جا سکتا ہے؟
(توضیح القرآن)
اور اللہ کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں، اور قیامت کا آنا صرف ایسے ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، یا وہ اس سے بھی زیادہ قریب ہے، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت والا ہے۔ (۷۷)
تشریح: یعنی ساری مخلوق یکساں نہ ہوئی۔ ایک آدمی کا حال دوسرے سے بے انتہا مختلف ہوا۔ سب چیزیں ایک سطح مستوی پر کھڑی نہیں کی گئیں۔ اس کا بھید اور ہر ایک کی پوشیدہ استعداد اور مخفی حالت کا علم خدا ہی کے پاس ہے۔ چنانچہ وہ اپنے علم محیط کے موافق قیامت میں ہر ایک کے ساتھ جداگانہ معاملہ کرے گا۔ اور مختلف احوال پر مختلف نتائج مرتب فرمائے گا۔ قیامت کے آنے کو مستبعد مت سمجھو، خدا کے آگے کوئی چیز مشکل نہیں۔ تمام لوگوں کو جب دوبارہ پیدا کرنا چاہے گا تو پلک جھپکنے کی دیر بھی نہ لگے گی، ادھر سے ارادہ ہوتے ہی چشم زدن میں ساری دنیا دوبارہ موجود ہو جائے گی۔
(تنبیہ) "کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْہُوَ اَقْرَبُ” کا مطلب یہ ہے کہ عام لوگوں کے محسوسات کے موافق تو اس کی سرعت کو آنکھ جھپکنے سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ لیکن واقعی اس سے بھی کم میں قیامت قائم ہو جائے گی۔ کیونکہ "لمح بصر” بہرحال زمانی چیز ہے اور ارادہ خداوندی پر مراد کا ترتب آنی ہو گا۔ جس کے علم محیط کا وہ حال ہو کہ آسمان و زمین کے سارے بھید اس کے سامنے حاضر ہیں اور جس کی قدرتِ کاملہ ذرہ ذرہ پر محیط ہو، بھلا اس کا ہمسر کون ہو سکتا ہے؟ اور اس کی پوری مثال کہاں سے لا سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا تم کچھ بھی نہ جانتے تھے، اور اللہ نے تمہارے بنائے کان اور آنکھیں اور دل تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (۷۸)
تشریح: یعنی پیدائش کے وقت تم کچھ جانتے اور سمجھتے نہ تھے، خدا تعالیٰ نے علم کے ذرائع اور سمجھنے والے دل تم کو دیے۔ جو بذات خود بھی بڑی نعمتیں ہیں اور لاکھوں نعمتوں سے متمتع ہونے کے وسائل ہیں۔ اگر آنکھ، کان، عقل وغیرہ نہ ہو تو ساری ترقیات کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔ جوں جوں آدمی کا بچہ بڑا ہوتا ہے اس کی علمی و عملی قوتیں بتدریج بڑھتی جاتی ہیں۔ اس کی شکر گزاری یہ تھی کہ ان قوتوں کو مولیٰ کی طاعت میں خرچ کرتے، اور حق شناسی میں سمجھ بوجھ سے کام لیتے، نہ یہ کہ بجائے احسان ماننے کے الٹے بغاوت پر کمر بستہ ہو جائیں۔ اور منعم حقیقی کو چھوڑ کر اینٹ پتھروں کی پرستش کرنے لگیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا آسمان کی فضا میں حکم کے پابند، انہیں (کوئی) نہیں تھامتا سوائے اللہ کے، بیشک اس میں ایمان لانے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۷۹)
تشریح: یعنی جیسے آدمی کو اس کے مناسب قویٰ عنایت فرمائے، پرندوں میں ان کے حالات کے مناسب فطری قوتیں ودیعت کیں، ہر ایک پرندہ اپنی اڑان میں قانون قدرت کا تابع اور خدا تعالیٰ کے تکوینی احکام سے وابستہ ہے۔ اسے کسی درسگاہ میں اڑنے کی تعلیم نہیں دی گئی، قدرت نے اس کے پر اور بازو اور دم وغیرہ کی ساخت ایسی بنائی ہے کہ نہایت آسانی سے آسمانی فضا میں اڑتے رہتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ ان کا جسم ثقیل ہوائے لطیف کو چیر پھاڑ کر بے اختیار نیچے آ پڑے۔ یا زمین کی عظیم الشان کشش انہیں اپنی طرف کھینچ لے اور طیران سے منع کر دے۔ کیا خدا کے سوا کسی اور کا ہاتھ ہے جس نے ان کو بے تکلف فضائے آسمانی میں روک رکھا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے تمہارے لئے بنایا تمہارے گھروں کو رہنے کی جگہ، اور تمہارے لئے چوپایوں کی کھالوں سے ڈیرے بنائے، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے قیام کے دن، اور ان کی اون اور پشم اور ان کے با لوں سے (بنائے) سامان اور برتنے کی چیزیں ایک مدت مقررہ تک۔ (۸۰)
تشریح: مِّنْ بُيُوْتِكُمْ سَکَنًا : یعنی اینٹ، پتھر، لکڑی وغیرہ کے مکان۔
(تفسیرعثمانی)
مِّنْ جُلُوْدِ الْأَنْعَامِ بُيُوْتًا:ان گھروں سے مراد وہ خیمے ہیں جو چمڑے سے بنائے جاتے ہیں، اور عرب کے لوگ انہیں سفر میں ساتھ لے جاتے تھے تاکہ جہاں چاہیں انہیں نصب کر کے پڑاؤ ڈالیں۔
(توضیح القرآن)
وَأَوْبَارِہا :یعنی اونٹ کی پشم سے۔
ان چیزوں سے کتنے سامان رہائش اور آسائش کے تیار کئے جاتے ہیں جو ایک وقت معین یا مدتِ دراز تک کام دیتے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ آنکھ، کان اور ترقی کرنے والے دل و دماغ نہ دیتا، کیا یہ سامان میسر آسکتے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے جو پیدا کیا اس سے تمہارے لئے سائے بنائے اور تمہارے لئے بنائیں پہاڑوں سے پنا گاہیں، اور تمہارے لئے کرتے بنائے جو تمہارے لئے گرمی کا بچاؤ ہیں اور کرتے (زرہیں) جو تمہارے لئے بچاؤ ہیں تمہارے لڑائی میں، اسی طرح وہ تم پر اپنی نعت مکمل کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔ (۸۱)
تشریح: مِّمَّا خَلَقَ ظِلَالًا :مثلاً بادل، درخت، مکان اور پہاڑ وغیرہ کا سایہ قانون قدرت کے موافق زمین پر پڑتا ہے جس میں مخلوق آرام پاتی ہے۔
مِّنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا: جہاں سر چھپا کر بارش، دھوپ یا دشمن وغیرہ سے اپنی حفاظت کر سکتے ہو۔
سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمُ الْحَرَّ :حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جن کرتوں میں گرمی کا بچاؤ ہے، سردی کا بھی بچاؤ ہے۔ پر اس ملک میں گرمی زیادہ تھی اس کا ذکر خصوصیت سے فرمایا۔ ”
وَسَرَابِيْلَ تَقِيْكُمْ بَأْسَكُمْ :یعنی زرہیں جو لڑائی میں زخمی ہونے سے بچاتی ہیں۔
کَذٰلِکَ يُتِمُّ نِعْمَتَہ عَلَيْكُمْ: یعنی دیکھو! کس طرح تمہاری ہر قسم کی ضروریات کا اپنے فضل سے انتظام فرمایا اور کیسی علمی و عملی قوتیں مرحمت فرمائیں جن سے کام لے کر انسان عجیب و غریب تصرفات کرتا رہتا ہے۔ پھر کیا ممکن ہے کہ جس نے مادی اور جسمانی دنیا میں اس قدر احسانات فرمائے، روحانی ترتیب و تکمیل کے سلسلے میں ہم پر اپنا احسان پور انہ کرے گا۔ بیشک پورا کر چکا "اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْناً” (مائدہ، رکوع١، آیت:٣) ضروری ہے کہ سب لوگ اس کے احسان کے آگے گردنیں جھکا دیں اور اس منعم حقیقی اور محسن اعظم کے مطیع و منقاد ہو کر رہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر وہ پھر جائیں تواس کے سوا نہیں کہ تم پر (تمہارا ذمہ) صرف کھول کر پہنچا دینا ہے۔ (۸۲)
تشریح: یعنی اگر اس قدر احسانات سن کر بھی خدا کے سامنے نہ جھکیں تو آپ کچھ غم نہ کھائیے۔ آپ اپنا فرض ادا کر چکے، کھول کھول کر تمام ضروری باتیں سنا دیں گئیں۔ آگے ان کا معاملہ خدا کے سپرد کیجئے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اللہ کی نعمت پہچانتے ہیں، پھر اس کے منکر ہو جاتے ہیں، اور ان میں سے اکثر ناشکرے ہیں۔ (۸۳)
تشریح: یعنی بیشک بعضے بندے شکر گزار بھی ہیں "وَقَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ” (سبا، رکوع٢، آیت:١٣) لیکن اکثروں کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتے اور اس کے احسانات کو سمجھتے ہیں، مگر جب شکر گزاری اور اظہار اطاعت کا وقت آتا ہے تو سب بھول جاتے ہیں۔ گویا دل سے سمجھتے ہیں اور عمل سے انکار کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جس دن ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھائیں گے، پھر نہ اجازت دی جائے گی کافروں کو اور نہ ان سے عذر قبول کئے جائیں گے۔ (۸۴)
تشریح: یہاں سے کفر و ناشکری کا انجام بتلاتے ہیں۔ یہ یاد رکھو! وہ دن بھی آنے والا ہے جب تمام اگلی پچھلی امتیں احکم الحاکمین کی آخری عدالت میں کھڑی ہوں گی اور ہر امت کا نبی بطور گواہ کھڑا کیا جائے گا تاکہ اپنی امت کے نیک و بد اور مطیع و عاصی کی نسبت شہادت دے کہ کس نے کیسا معاملہ حق کے پیغام اور پیغامبر کے ساتھ کیا ہے۔ اس وقت منکروں کو اجازت نہ ہو گی کہ کچھ لب کشائی کر سکیں یا اب بعد از وقت توبہ کر کے سزا سے چھوٹ جائیں اور لب کشائی کاہے میں کریں گے، درآنحالیکہ انہیں اپنے مجرم ہونے اور کسی کی معذرت نہ چل سکنے کا پورا انکشاف ہو جائے گا۔ وہ یہ بھی سمجھ لیں گے کہ یہ "دار جزاء” ہے "دار عمل” نہیں جو اب توبہ کر کے خطائیں معاف کرا لیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب ظالم عذاب دیکھیں گے پھر نہ ان سے (عذاب) ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ (۸۵)
تشریح: یعنی نہ عذاب کی سختی میں کمی ہو گی اور نہ درمیان میں وقفہ ہو گا کہ تھوڑی دیر مہلت مل جائے، پھر از سر نو عذاب شروع ہو۔ بعض نے "وَلَا یُنْظَرُوْنَ” سے یہ مراد لیا ہے کہ جہنم کو دیکھنے کے بعد ایک منٹ کی ڈھیل نہ ملے گی۔ جہنم فوراً مجرمین کو اس طرح اچک لے گی جیسے پرند ایک دم دانہ اٹھا کر نگل جاتا ہے۔ گویا سرعت دخول کی طرف اشارہ ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب مشرک اپنے شریکوں کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے اے ہمارے رب! یہ ہیں ہمارے شریک جنہیں ہم تیرے سوا پکارتے تھے، پھر وہ (ان کے شریک) ان کی طرف ڈالیں گے قول (جواب دیں گے کہ) بیشک تم جھوٹے ہو۔ (۸۶)
تشریح: قَالُوْا رَبَّنَا ہٰٓؤُلَآءِ شُرَکَآؤُنَا: یعنی ہم تو ان کی بدولت مارے گئے۔ شاید یہ مطلب ہو کہ ہم بذاتِ خود بے قصور ہیں، یا یہ کہ انہیں دوہری سزا دیجئے۔
فَأَلْقَوْا إِلَيْہمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَکَاذِبُوْنَ :یعنی جھوٹے ہو جو ہم کو خدا کا شریک ٹھہرا لیا۔ ہم نے کب کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو۔ فی الحقیقت تم محض اپنے اوہام و خیالات کو پوجتے تھے جس کے نیچے کوئی حقیقت نہ تھی، یا جن و شیاطین کی پرستش کرتے تھے۔ مگر وہاں شیطان بھی یہ کہہ کر الگ ہو جائے گا "وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطٰانٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ فَلاَ تَلُوْمُوْنِیْ وَلُوْمُوْآ اَنْفُسَکُمْ” (ابراہیم، رکوع٤، آیت ٢٢) غرض جن چیزوں کو مشرکین نے معبود بنا رکھا تھا، سب اپنی علیحدگی اور بیزاری کا اظہار کریں گے۔ کوئی سچ کوئی جھوٹ۔ پتھر کے بتوں کو تو سرے سے کچھ خبر ہی نہ تھی۔ ملائکہ اور بعض انبیاء و صالحین ہمیشہ شرک سے سخت نفرت و بیزاری اور اپنی خالص بندگی کا اظہار کرتے رہے۔ رہ گئے شیاطین سو ان کا اظہار نفرت گو جھوٹ ہو گا، تاہم اس سے مشرکین کو کلی طور پر مایوسی ہو جائے گی کہ آج بڑے سے بڑا رفیق بھی کام آنے والا نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اس دن اللہ کے سامنے عاجزی (کا پیغام) ڈالیں گے اور ان سے گم ہو جائے گا (بھول جائیں گے) جو وہ جھوٹ گھڑتے تھے۔ (۸۷)
تشریح:یعنی ساری طمطراق اور افتراء پردازیاں اس وقت غائب ہو جائیں گی سب عاجز و مقہور ہو کر خدا کے سامنے اپنی اطاعت وا نقیاد کا اظہار کریں گے "اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْیَوْمَ یَاْتُوْنَنَا” (مریم، رکوع٢، آیت ٣٨) ۔
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکا ہم ان کے لئے عذاب پر عذاب بڑھا دیں گے، کیونکہ وہ فساد کرتے تھے۔ (۸۸)
تشریح:یعنی ایک عذاب تو انکارِ حق پر، دوسرا اس پر کہ اوروں کو خدا کی راہ سے روکا۔ یا ایک عذاب صدورِ جرم پر دوسرا اس کی عادت ڈالنے پر۔ بہرحال آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح جنت میں اہل جنت کے منازل و مدارج متفاوت ہوں گے، جہنمیوں کا عذاب بھی کمًّا و کیفًا و نوعاً متفاوت ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جس دن ہم اٹھائیں گے ہر امت میں ان پر ان ہی میں سے ایک گواہ، اور ہم آپ کو ان پر گواہ لائیں گے، اور ہم نے آپ پر قرآن مجید نازل کیا، ہر شے کا مفصل بیان اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری مسلمانوں کے لئے۔ (۸۹)
تشریح: وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ كُلِّ أُمَّۃٍ شَہيْدًا: یعنی وہ ہولناک دن یاد رکھنے کے قابل ہے جب ہر ایک پیغمبر اپنی امت کے معاملات کے متعلق بارگاہِ احدیت میں بیان دے گا۔ اور آپ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) اس امت کی حالت بتلائیں گے بلکہ بعض مفسرین کے قول کے موافق آپ ان تمام شہداء کے لیے شہادت دیں گے کہ بیشک انہوں نے اپنا فرض منصبی بخوبی ادا کیا۔ حدیث میں آیا ہے کہ امت کے اعمال ہر روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیے جاتے ہیں۔ آپ اعمالِ خیر کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں اور بد اعمالیوں پر مطلع ہو کر نالائقوں کے لیے استغفار فرماتے ہیں۔
وَنَزَّلْنَا عَلَيْکَ الْكِتَابَ :قرآن کریم میں تمام علوم ہدایت اور اصول دین اور فلاح دارین سے متعلق ضروری امور کا نہایت مکمل اور واضح بیان ہے۔ اس میں قیامت کے یہ واقعات بھی آ گئے جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اندریں صورت جس پیغمبر پر ایسی جامع کتاب اتاری گئی اس کی مسؤلیت اور ذمہ داری بھی بہت بھاری ہو گی گویا "شَہِیْدًا عَلٰی ہٰؤُلَآء” کے بعد "وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ” فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مرتبہ اور اسی مرتبہ کے مناسب مسؤلیت کی طرف لطیف اشارہ فرما دیا۔ "فَلَنَسْئَلَنَّ الَّذِیْنَ اُرْسِلَ اِلَیْہِمْ وَلَنَسْئَلَنَّ الْمُرْسَلِیْنَ” (اعراف، رکوع١، آیت ٦) ابن کثیر نے اس کو ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وَّہدًى وَّرَحْمَۃً وَّبُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ :یہ کتاب سارے جہان کے لیے سر تا پا ہدایت اور مجسم رحمت ہے فرمانبردار بندوں کو شاندار مستقبل کی خوشخبری سناتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اللہ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا، اور منع کرتا ہے بے حیائی سے اور نا شائستہ کاموں سے اور سرکشی سے، تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم دھیان کرو۔ (۹۰)
تشریح: قرآن کو "تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ” فرمایا تھا۔ یہ آیت اس کا ایک نمونہ ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک خیرو شر کے بیان کو اس آیت میں اکٹھا کر دیا ہے۔ گویا کوئی عقیدہ، خلق، نیت، عمل، معاملہ اچھا یا برا ایسا نہیں جو امراً ونہیاً اس کے تحت میں داخل نہ ہو گیا ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر قرآن میں کوئی دوسری آیت نہ ہوتی تو تنہا یہی آیت "تبیاناً لکل شیئٍ” کا ثبوت دینے کے لیے کافی تھی۔ شاید اسی لیے خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے خطبہ جمعہ کے آخر میں اس کو درج کر کے امت کے لیے اسوہ حسنہ قائم کر دیا۔ اس آیت کی جامعیت سمجھانے کے لیے تو ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ تاہم تھوڑا سا اندازہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ آیت میں تین چیزوں کا امر فرمایا ہے۔ (۱) عدل (۲) احسان (۳) ایتاءِ ذی القربیٰ۔
عدل”کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے تمام عقائد، اعمال، اخلاق، معاملات، جذبات، اعتدال و انصاف کے ترازو میں تلے ہوں، افراط و تفریط سے کوئی پلہ جھکنے یا اٹھنے نہ پائے۔ سخت سے سخت دشمن کے ساتھ بھی معاملہ کرے تو انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو، جو بات اپنے لیے پسند نہ کرتا ہو اپنے بھائی کے لیے بھی پسند نہ کرے۔
"احسان” کے معنیٰ یہ ہیں کہ انسان بذات خود نیکی اور بھلائی کا پیکر بن کر دوسروں کا بھلا چاہے۔ مقام عدل و انصاف سے ذرا اور بلند ہو کر فضل و عفو اور تلطّف و ترحمّ کی خو اختیار کرے۔ فرض ادا کرنے کے بعد تطوُّع کی طرف قدم بڑھائے، انصاف کے ساتھ مروت کو جمع کرے۔ اور یقین رکھے کہ جو کچھ بھلائی کرے گا خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ ادھر سے بھلائی کا جواب ضرور بھلائی کی صورت میں ملے گا۔ "اَ لْاِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَاللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ یَرَاکَ” (صحیح بخاری) ہَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا ا لْاِحْسَانُ” (رحمن، رکوع٣، آیت٦٠) ۔
ایتاءِ ذی القربیٰ:یہ دونوں خصلتیں (یعنی عدل و احسان یا بالفاظ دیگر انصاف و مروت) تو اپنے نفس اور ہر ایک خویش و بیگانہ اور دوست و دشمن سے متعلق تھیں۔ لیکن اقارب کا حق اجانب سے کچھ زائد ہے۔ جو تعلقات قرابت قدرت نے باہم رکھ دیئے ہیں انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ بلکہ اقارب کی ہمدردی اور ان کے ساتھ مروت و احسان اجانب سے کچھ بڑھ کر ہونا چاہیے۔ صلہ رحم ایک مستقل نیکی ہے جو اقارب ذوی الارحام کے لیے درجہ بدرجہ استعمال ہونی چاہیے۔ گویا "احسان” کے بعد ذوی القربی کا بالتخصیص ذکر کر کے متنبہ فرما دیا کہ عدل و انصاف تو سب کے لیے یکساں ہے، لیکن مروت و احسان کے وقت بعض مواقع بعض سے زیادہ رعایت و اہتمام کے قابل ہیں۔ فرق مراتب کو فراموش کرنا ایک طرح قدرت کے قائم کیے ہوئے قوانین کو بھلا دینا ہے۔ اب ان تینوں لفظوں کی ہمہ گیری کو پیش نظر رکھتے ہوئے سمجھ دار آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کون سی فطری خوبی، بھلائی اور نیکی دنیا میں ایسی رہ گئی ہے جو ان تین فطری اصولوں کے احاطہ سے باہر ہو۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ۔
منع بھی تین چیزوں سے کیا۔ فحشاء، منکر، بغی، کیونکہ انسان میں تین قوتیں ہیں۔ جن کے بے موقع اور غلط استعمال سے ساری خرابیاں اور برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ (۱) قوت بہیمیہ شہوانیہ (۲) قوت وہمیہ شیطانیہ (۳) قوت غضبیہ سبیعہ: غالباً "فحشاء” سے وہ بے حیائی کی باتیں مراد ہیں جن کا منشاء شہوت و بہیمیت کی افراط ہو "منکر” معروف کی ضد ہے۔ یعنی نامعقول کام جن پر فطرت سلیمہ اور عقل صحیح انکار کرے۔ گویا قوت وہمیہ شیطانیہ کے غلبہ سے قوت عقلیہ ملکیہ دب جائے۔ تیسری چیز "بغی” ہے۔ یعنی سرکشی کر کے حد سے نکل جانا۔ ظلم و تعدی پر کمر بستہ ہو کر درندوں کی طرح کھانے پھاڑنے کو دوڑنا، اور دوسروں کے جان و مال یا آبرو وغیرہ لینے کے واسطے ناحق دست درازی کرنا۔ اس قسم کی تمام حرکات قوتِ سبعیہ غضبیہ کے بے جا استعمال سے پیدا ہوتی ہیں۔ الحاصل آیت میں تنبیہ فرما دی کہ انسان جب تک ان تینوں قوتوں کو قابو میں نہ رکھے اور قوت عقلیہ ملکیہ کو ان سب پر حاکم نہ بنائے، مہذب اور پاک نہیں ہو سکتا۔
اکثم بن صفی نے اس آیت کریمہ کو سن کر اپنی قوم سے کہا "میں دیکھتا ہوں کہ یہ پیغمبر تمام عمدہ اور اعلیٰ اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور کمینہ اخلاق و اعمال سے روکتے ہیں۔ تو تم اس کے ماننے میں جلدی کرو۔ فَکُوْنُوْا فِیْ ہٰذَا الْاَمْرِ رُءُوْسًا وَّ لَاتَکُوْنُوْا فِیْہِ اَذْنَاباً (یعنی تم اس سلسلہ میں سر بنو، دم نہ بنو) حضرت عثمان بن مظعون فرماتے ہیں کہ اسی آیت کو سن کر میرے دل میں ایمان راسخ ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جاگزین ہوئی۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب تم (پختہ) عہد کر لو تو اللہ کا عہد پورا کرو، اور قسمیں پختہ کرنے کے بعد نہ توڑو، اور تحقیق تم نے اپنے اوپر اللہ کو ضامن بنایا ہے، بےشک اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۹۱)
تشریح:اوپر کی آیت میں جن چیزوں کے کرنے یا چھوڑنے کا حکم تھا ان کے بعض افراد کو بالتخصیص بیان فرماتے ہیں۔ یعنی ایفائے عہد کی تاکید اور غدر و بد عہدی سے ممانعت کی یہ چیز علاوہ فی نفسہ مہتم بالشان ہونے کے اس وقت مخاطبین کے بہت زیادہ مناسب حال تھی جس کا مسلم قوم کے عروج و ترقی اور مستقبل کی کامیابی پر بے انتہاء اثر پڑنے والا تھا۔ اسی لیے حکم دیا کہ جب خدا کا نام لے کر اور قسمیں کھا کر معاہدے کرتے ہو تو خدا کے نام پاک کی حرمت قائم رکھو۔ کسی قوم سے یا کسی شخص سے معاہدہ ہو (بشرطیکہ خلاف شرع نہ ہو) مسلمان کا فرض ہے کہ اسے پورا کرے، خواہ اس میں کتنی ہی مشکلات اور صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ "قول مرداں جان دارد” خصوصاً جب خدا کا نام لے کر اور حلف کر کے ایک معاہدہ کیا ہے تو سمجھنا چاہیے کہ قسم کھانا گویا خدا کو اس معاملہ کا گواہ یا ضامن بنانا ہے۔ وہ جانتا ہے جب تم اسے گواہ بنا رہے ہو، اور یہ بھی جانتا ہے کہ کہاں تک اس گواہی کا لحاظ رکھتے ہو۔ اگر تم نے خیانت اور بدعہدی کی۔ وہ اپنے علم محیط کے موافق پوری سزا دے گا۔ کیونکہ تمہاری کسی قسم کی کھلی چھپی دغا بازی اس سے مخفی نہیں رہ سکتی۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے اپنا سوت مضبوط کرنے (کاتنے) کے بعد ٹکڑے ٹکڑے توڑ ڈالا، تم بناتے ہو اپنی قسموں کو اپنے درمیان دخل دینے کا بہانہ کہ ایک گروہ دوسرے گروہ پر غالب آ جائے، اس کے سوا نہیں کہ اللہ تمہیں آزماتا ہے، اور وہ روز قیامت تم پر ظاہر کر دے گا جس میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (۹۲)
تشریح: یعنی عہد باندھ کر توڑ ڈالنا ایسی حماقت ہے جیسے کوئی عورت دن بھر سوت کاتے، پھر کتا کتایا سوت شام کے وقت توڑ کر پارہ پارہ کر دے۔ چنانچہ مکہ میں ایک دیوانی عورت ایسا ہی کیا کرتی تھی، مطلب یہ ہے کہ معاہدات کو محض کچے دھاگے کی طرح سمجھ لینا کہ جب چاہا کاتا اور جب چاہا انگلیوں کی ادنیٰ حرکت سے بے تکلف توڑ ڈالا، سخت ناعاقبت اندیشی اور دیوانگی ہے۔ بات کا اعتبار نہ رہے تو دنیا کا نظام مختل ہو جائے۔ قول و قرار کی پابندی ہی سے عدل کی ترازو سیدھی رہ سکتی ہے۔ جو قومیں قانون عدل و انصاف سے ہٹ کر محض اغراض و خواہشات کی پوجا کرنے لگتی ہیں، ان کے یہاں معاہدات صرف توڑنے کے لیے رہ جاتے ہیں، جہاں معاہد قوم کو اپنے سے کمزور دیکھا، سارے معاہدات ردی کی ٹوکری میں پھینک دیے گئے۔
معاہدوں اور قسموں کو فریب و دغا، مکاری اور حیلہ سازی کا آلہ مت بناؤ۔ جس طرح اہل جاہلیت کی عادت تھی کہ ایک جماعت کو اپنے سے طاقتور دیکھ کر معاہدہ کر لیا پھر جس وقت کوئی جماعت اس سے بڑھ کر معزز اور طاقتور سامنے آئی، پہلا معاہدہ توڑ کر نئی جماعت سے عہد و پیمان گانٹھ لیے۔ پھر چند روز بعد ان خلفاء کو کمزور بنانے اور اپنے کو بڑھانے کا موقع پایا تو فوراً معاہدات توڑ ڈالے اور سب قسمیں اور حلف بالائے طاق رکھ دیئے۔ بعینہ جس طرح آجکل یورپین اقوام کا معمول ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر اللہ چاہتا تو البتہ تمہیں ایک امت بنا دیتا، لیکن وہ گمراہ کرتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے اور ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے، اور تم سے اس کی بابت ضرور پوچھا جائے گا جو تم کرتے تھے۔ (۹۳)
اور اپنی قسموں کو نہ بناؤ اپنے درمیان دخل کا بہانہ کہ کوئی قدم اپنے جم جانے کے بعد پھسل جائے اور تم اس کے نتیجے میں وبال چکھو کہ تم نے روکا اللہ کے راستے سے اور تمہارے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۹۴)
تشریح:یعنی عہد شکنی کر کے اور قسمیں توڑ کر بدعہدی کی راہ مت نکالو۔ اور مسلمان قوم کو بدنام نہ کرو کہ تمہارے خراب اور پست کیرکٹر کو دیکھ کر یقین لانے والے شک میں پڑ جائیں اور غیر مسلم قومیں اسلام میں داخل ہونے سے رکنے لگیں۔ اور تم پر خدا کی راہ سے روکنے کا گناہ چڑھے جس کی سزا بڑی سخت ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم اللہ کے عہد کے بدلے نہ لو تھوڑا مول (مال دنیا) بے شک جو اللہ کے پاس ہے اگر تم جانو تو وہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ (۹۵)
تشریح:پہلے مذکور تھا آپس میں قول توڑنے کا۔ اب اللہ سے قول توڑنے کا ذکر ہے یعنی مال کی طمع سے خلاف شرع حکم مت کرو، انجام کار ایسا مال وبال لائے گا۔ جو موافق شرع ہاتھ لگے، تمہارے حق میں و ہی بہتر ہے۔ (موضح القرآن) یا ایفائے عہد کا جو اجر خدا کے یہاں ملے گا وہ اس ثمن قلیل سے کہیں بہتر ہے۔ ثمن کو قلیل اس لیے کہا کہ اگر ساری دنیا بھی مل جائے تب بھی آخرت کے مقابلہ میں قلیل و حقیر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ (ہمیشہ) باقی رہنے والا ہے، اور جن لوگوں نے صبر کیا ہم ضرور انہیں ان کا اجر دیں گے اس سے بہتر جو وہ (اعمال) کرتے تھے۔ (۹۶)
تشریح: جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ (ہمیشہ) باقی رہنے والا ہے، پھر باقی و دائم کو چھوڑ کر فانی و زائل کا پسند کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ جو لوگ خدا کے عہد پر ثابت قدم رہیں گے اور تمام مشکلات اور صعوبتوں کو صبر کے ساتھ برداشت کریں گے، ان کا اجر ضائع ہونے والا نہیں۔ ایسے بہترین عمل کا بدلہ ضرور ہمارے یہاں سے مل کر رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
جس نے کوئی نیک عمل کیا وہ مرد ہو یا عورت، جبکہ ہو وہ مؤمن توہم ضرور اسے (دنیا میں) پاکیزہ زندگی دیں گے اور (آخرت) میں ان کا اجر ضرور اس سے بہتر دیں گے جو (اعمال) وہ کرتے تھے۔ (۹۷)
تشریح: جمہور مفسرین کے نزدیک یہاں حیات طیبہ سے مراد دنیا کی پاکیزہ اور با لطف زندگی ہے، اور بعض ائمہ تفسیر نے اس سے آخرت کی زندگی مراد لی ہے، اور جمہور کی تفسیر کے مطابق بھی اس سے یہ مراد نہیں کہ اس کو کبھی فقر وفاقہ یا بیماری پیش نہ آئے گی، بلکہ مراد یہ ہے کہ مؤمن کو اگر کبھی معاشی تنگی یا تکلیف بھی پیش آتی ہے تو دو چیزیں اس کو پریشان نہیں ہونے دیتیں، ایک قناعت اور سادہ زندگی کی عادت، جو تنگدستی میں بھی چل جاتی ہے، دوسرے اس کا یہ عقیدہ کہ مجھےاس تنگی اور بیماری کے بدلے میں آخرت کی عظیم الشان دائمی نعمتیں ملنے والی ہیں، بخلاف کافر و فاجر کے، کہ اگر اس کو تنگدستی اور بیماری پیش آتی ہے تو اس کے لئے کوئی تسلی کا سامان نہیں ہوتا، عقل و ہوش کھو بیٹھتا ہے بعض اوقات خود کشی کی نوبت آ جاتی ہے اور اگر اس کو فراخی عیش بھی نصیب ہو تو اس کو زیادتی کی حرص کسی وقت چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، وہ کروڑ پتی ہو جاتا ہے تو ارب پتی بننے کی فکر اس کے عیش کو خراب کرتی رہتی ہے۔ (معارف القرآن)
حاصل یہ ہے کہ جو کوئی مرد یا عورت نیک کاموں کی عادت رکھے، بشرطیکہ وہ کام صرف صورۃً نہیں بلکہ حقیقتہً نیک ہوں۔ یعنی ایمان اور معرفت صحیحہ کی روح اپنے اندر رکھتے ہوں تو ہم اس کو ضرور پاک، ستھری اور مزیدار زندگی عنایت کریں گے۔ مثلاً دنیا میں حلال روزی، قناعت و غنائے قلبی، سکون و طمانیت، ذکر اللہ کی لذت، حب الٰہی کا مزہ، ادائے فرض عبودیت کی خوشی، کامیاب مستقبل کا تصور، تعلق مع اللہ کی حلاوت۔
(تفسیر عثمانی)
پس جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کی پناہ لو شیطان مردود سے۔ (۹۸)
تشریح:پچھلی آیتوں میں نیک عمل کی فضیلت بیان فرمائی گئی تھی، چونکہ نیکی کے کاموں میں سب سے زیادہ خلل شیطان کے اثر سے پڑتا ہے، اس لئے اس آیت میں اس کا یہ علاج بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان سے اللہ تعالی کی پناہ مانگ لی جائے یعنی اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ: پڑھا جائے۔ تلاوت قرآن کا ذکر خاص طور پر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم ہی تمام نیک کاموں کی ہدایت دینے والا ہے، ، لیکن شیطان سے پناہ مانگنا صرف تلاوت ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، ہر نیک کام کے وقت پناہ مانگ لی جائے تو ان شاء اللہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہے گی۔
(توضیح القرآن)
بیشک اس کا کوئی زور نہیں ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ (۹۹)
تشریح: یعنی جس نے خدا پر بھروسہ کیا اور اس کی پناہ ڈھونڈی اس پر شیطان زور سے حاوی نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا شخص کسی وقت محض تھوڑی دیر کے لیے بمقتضائے بشریت شیطان کے چکمہ میں آیا بھی تب بھی شیطان اپنا قبضہ اور تسلط اس پر نہیں جما سکتا۔ بہت جلد اس کی آنکھ کھل جائے گی اور غفلت میں تمادی نہ ہو گی۔ "اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طَا ئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰانِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاہُمْ مُّبْصِرُوْنَ وَاِخْوَانُہُمْ یَمُدُّوْنَہُمْ فِی الْغَیِّ ثُمَّ لَا یُقْصِرُوْنَ” (الاعراف، رکوع٢٤، آیت ٢٠١، ٢٠٢)
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا نہیں کہ اس کا زور ان لوگوں پر ہے جو اس کو دوست بناتے ہیں اور جو لوگ اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ (۱۰۰)
تشریح: یعنی جو لوگ از خود شیطان کو اپنا رفیق بنا لیں اور بجائے ایک خدا پر بھروسہ کرنے کے اس پر بھروسہ رکھیں۔ گویا اس کو خدائی کا شریک ٹھہرا لیں یا اس کے اغواء سے دوسری چیزوں کو خدا کا شریک مانیں، انہی پر شیطان کا پورا قبضہ اور تسلط ہے کہ جس طرح چاہتا ہے انگلیوں پر نچاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ہم کوئی حکم کسی دوسرے حکم کی جگہ بدلتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ نازل کرتا ہے، وہ (کافر) کہتے ہیں اس کے سوا نہیں کہ تم (خود) گھڑ لیتے ہو (نہیں) بلکہ ان میں اکثر علم نہیں رکھتے۔ (۱۰۱)
تشریح: اللہ تعالی مختلف حالات کے لحاظ سے اپنے احکام میں کبھی کبھی تبدیلی فرماتے تھے، جیسا کہ قبلے کے احکام کے متعلق سورۂ بقرہ میں تفصیل گزر چکی ہے، اس پر کفار اعتراض کرتے تھے کہ یہ احکام کیوں بدلے جاتے ہیں ؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ (معاذ اللہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے یہ تبدیلیاں کر رہے ہیں، اس آیت میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس وقت کونسا حکم نازل کیا جائے۔
(توضیح القرآن)
آپ کہہ دیں کہ اسے جبرئیل امین نے تمہارے رب کی طرف سے اتارا ہے حق کے ساتھ تاکہ مؤمنوں کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت و خوشخبری ہے۔ (۱۰۲)
تشریح:یعنی میرا یا کسی بشر کا بنایا ہوا کلام نہیں۔ یہ تو وہ کلام ہے جو بلاشبہ میرے رب نے روح القدس (پاک فرشتہ جبرئیل امین) کے ذریعہ سے عین حکمت و مصلحت کے موافق مجھ پر نازل فرمایا گویا "مِنْ رَّبِّکَ” کہہ کر متنبہ فرما دیا کہ اس کی نازل کرنے والی وہ ہستی ہے جس نے خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر حیرت انگیز طریقہ سے ایسے اعلیٰ و اکمل اخلاق پر تربیت فرمائی جو تمہارے سامنے ہے۔ اور "روح القدس” کا واسطہ بیان فرما کر شاید اس طرف اشارہ کرنا ہو کہ جس کلام کا حامل "روح القدس” بنایا گیا، وہ روحانیت، پاکیزگی اور ملکوتی خصال کا پیکر ہونا چاہیے۔ چنانچہ دیکھ لو ان اوصاف میں اس شان کا کیا کوئی دوسرا کلام آسمان کے نیچے نظر آتا ہے۔
موقع بموقع اور بتدریج احکام و آیات کا نزول دیکھ کر ایمان والوں کے دل قوی اور اعتقاد پختہ ہوتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارے ہر حال اور زندگی کے ہر ایک دور سے پورا خبردار ہے اور نہایت حکمت سے ہماری تربیت کرتا ہے۔ جیسے حالات پیش آئیں ان کے موافق ہدایت و رہنمائی کرتا اور ہر کام پر اس کے مناسب خوشخبری سناتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ اس کے سوا نہیں کہ اسے ایک آدمی سکھاتا ہے، جس کی طرف وہ نسبت کرتے ہیں اس کی زبان عجمی (غیر عربی) ہے، اور یہ واضح عربی زبان ہے۔ (۱۰۳)
تشریح: مکہ مکرمہ میں ایک لوہار تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں دل لگا کر سنا کرتا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اس کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہ کبھی کبھی آپ کو انجیل کی کوئی بات بھی سنادیا کرتا تھا، مکہ مکرمہ کے بعض کافروں نے اس کو بنیاد بنا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ قرآن اس لوہار سے سیکھتے ہیں، یہ آیت کریمہ اس اعتراض کی لغویت کو بیان کر رہی ہے کہ وہ بیچارہ لوہار تو عرب نہیں ہے، عجمی ہے، وہ عربی زبان کے اس فصیح و بلیغ کلام کا مصنف کیسے ہو سکتا ہے۔
(توضیح القرآن)
بیشک جو لوگ ایمان نہیں لاتے اللہ کی آیتوں پر، اللہ انہیں ہدایت نہیں دیتا، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (۱۰۴)
تشریح: یعنی کھلے دلائل کے باوجود جو شخص یہی دل میں ٹھان لے کہ یقین نہیں کروں گا، خدا تعالیٰ بھی اس کو مقصد پر پہنچنے کی راہ نہیں دیتا۔ جتنا سمجھائیے کبھی نہ سمجھے گا۔ بد اعتقاد آدمی ہدایت سے محروم رہ کر آخر سخت سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا نہیں کہ وہی لوگ جھوٹ بہتان باندھتے تھے جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔ (۱۰۵)
تشریح:یعنی آپ کو کہتے ہیں "اِنَّمَا اَنْتَ مُفْتَرٍ” حالانکہ آپ کی امانت و راستبازی پہلے سے مسلم اور ہر ایک چال ڈھال سے ظاہر تھی۔ کیا جھوٹ بنانے والوں کا چہرہ اور طور و طریق ایسا ہوتا ہے؟ جھوٹ بنانا تو ان اشقیاء کا شیوہ ہے جو خدا کی باتیں سن کر اور اس کے نشانات دیکھ کر بھی یقین نہ کریں۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا کہ آدمی خدا کی باتوں کو جھوٹا کہے۔
(تفسیرعثمانی)
جو اللہ کا منکر ہوا اس (اللہ) پر ایمان کے بعد، سوائے اس کے جو مجبور کیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل مطمئن ہو، بلکہ جو کفر کے لئے سینہ کشادہ کرے (من مرضی سے کفر کرے) تو ان پر اللہ کا غضب ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۱۰۶)
تشریح: ایک تو وہ مجرم ہیں جو سینکڑوں دلائل و آیات سن کر بھی یقین نہ لائیں۔ مگر ان سے بڑھ کر مجرم وہ ہیں جو یقین لانے اور تسلیم کرنے کے بعد شیطانی شبہات و وساوس سے متاثر ہو کر صداقت سے منکر ہو جائیں۔ جیسا کہ عبداللہ بن ابی سرح نے کیا تھا کہ ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا۔ العیاذ باللہ۔ ایسے لوگوں کی سزا آگے بیان فرمائی ہے۔ درمیان میں "اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ” الخ سے ایک ضروری استثناء کر دیا گیا۔ یعنی اگر کوئی مسلمان صدق دل سے برابر ایمان پر قائم ہے ایک لمحہ کے لیے بھی ایمانی روشنی اور قلبی طمانیت اس کے قلب سے جدا نہیں ہوئی صرف کسی خاص حالت میں بہت ہی سخت دباؤ اور زبردستی سے مجبور ہو کر شدید ترین خوف کے وقت گلو خلاصی کے لیے محض زبان سے منکر ہو جائے یعنی کوئی کلمہ اسلام کے خلاف نکال دے بشرطیکہ اس وقت بھی قلب میں کوئی تردد نہ ہو، بلکہ زبانی لفظ سے سخت کراہیت و نفرت ہو، ایسا شخص مرتد نہیں بلکہ مسلمان ہی سمجھا جائے گا۔ ہاں اس سے بلند مقام وہ ہے کہ آدمی مرنا قبول کرے مگر منہ سے بھی ایسا لفظ نہ نکالے جیسا کہ حضرت بلال حضرت یاسر حضرت سمیہ، حضرت خبیب بن زید انصاری اور حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کے واقعات تاریخوں میں موجود ہیں۔ بنظر اختصار ہم یہاں درج نہیں کر سکتے ابن کثیر میں دیکھ لیے جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت پر پسند کیا اور یہ کہ اللہ ہدایت نہیں دیتا کافر لوگوں کو۔ (۱۰۷)
تشریح:یعنی ایسے منکروں کو جو حیاتِ دنیا ہی کو کعبہ مقصود ٹھہرا لیں، کامیابی کا راستہ کہاں ملتا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جو کوئی ایمان سے پھرا ہے تو دنیا کی غرض کو، جان کے ڈر سے یا برادری کی خاطر سے یا زر کے لالچ سے جس نے دنیا عزیز رکھی اس کو آخرت کہاں؟ اگر جان کے ڈر سے لفظ کہے تو چاہیے جب ڈر کا وقت جا چکے پھر توبہ و استغفار کر کے ثابت ہو جائے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
یہی لوگ ہیں اللہ نے مہر لگا دی ہے جن کے دلوں پر، اور ان کے کانوں پر، اور ان کی آنکھوں پر، اور یہی لوگ غافل ہیں۔ (۱۰۸)
تشریح:یعنی دنیا طلبی اور ہوا پرستی کے نشہ میں ایسے مست و بیہوش ہیں جن کے ہوش میں آنے کی کوئی امید نہیں۔ خدا کی دی ہوئی قوتیں انہوں نے سب بیکار کر دیں۔ آخر کانوں سے حق کی آواز سننے، آنکھوں سے حق کے نشان دیکھنے، اور دلوں سے حق بات سمجھنے اور سوچنے کی توفیق سلب ہو گئی۔ مہر کرنے کا مطلب پہلے سورہ بقرہ وغیرہ میں گزر چکا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کچھ شک نہیں کہ یہی لوگ آخرت میں خسارہ (نقصان) اٹھانے والے ہیں۔ (۱۰۹)
تشریح:یعنی جو لوگ اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے خدا کی بخشی ہوئی قوتیں تباہ کر ڈالیں اور دنیا ہی کو قبلہ مقصود بنا لیں، ان سے بڑھ کر خراب انجام کس کا ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر بیشک تمہارا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے ہجرت کی، اس کے بعد کہ وہ ستائے گئے اور پھر انہوں نے جہاد کیا اور صبر کیا، بیشک تمہارا رب اس کے بعد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۰)
تشریح:مکہ میں بعضے لوگ کافروں کے ظلم سے بچل گئے تھے۔ یا صرف زبانی لفظ کفر کہہ لیا تھا۔ اس کے بعد جب ہجرت کی، جہاد کیا، اور بڑے استقلال و پامردی سے اسلام پر قائم رہے، اتنے کام ایمان کے کیے، وہ تقصیر بخشی گئی اور خدا کی مہربانی مبذول ہوئی ایک بزرگ تھے، عمار” ان کے باپ تھے "یاسر” اور ماں "سمیہ” دونوں ظلم اٹھاتے مر گئے، پر لفظ کفر نہ کہا۔ یہ مسلمانوں کا پہلا خون تھا جو خدا کی راہ میں گرا۔ بیٹے (عمار) نے خوفِ جان سے لفظ کہہ دیا، پھر روتے ہوئے حضرت کے پاس آئے۔ تب یہ آیتیں اتریں۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
(تفسیرعثمانی)
جس دن ہر شخص اپنی ( ہی) طرف سے جھگڑا کرتا آئے گا اور ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کیا اور ان پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ (۱۱۱)
تشریح:یعنی ہر شخص اپنی فکر میں پڑا ہو گا کہ کس طرح خدا کے عذاب سے مخلصی حاصل کرے۔ طرح طرح کے جھوٹے سچے عذر برأت کے لیے تراشے گا جواب و سوال کر کے چاہے گا رستگاری حاصل کرے۔ وَتُوْفَّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ: اور ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کیا:نیکی کے ثواب میں کمی نہ ہو گی اور بدی کی سزا استحقاق سے زائد نہ دی جائے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان کی وہ مطمئن بے خوف تھی، ہر جگہ سے اس کے پاس رزق با فراغت آ جاتا تھا، پھر اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی، تو اللہ نے اس کے بدلے جو وہ کرتے تھے اس کو بھوک اور خوف کے لباس کا مزہ چکھایا (بھوک اور خوف ان کا لبادہ بن گیا) (۱۱۲)
تشریح:یعنی نہ باہر سے دشمن کا کھٹکا، نہ اندر سے کسی طرح کی فکر و تشویش۔ خوب امن چین سے زندگی گزرتی تھی، کھانے کے لیے غلے اور پھل وغیرہ کھنچے چلے آتے تھے ہر چیز کی افراط تھی، گھر بیٹھے دنیا کی نعمتیں ملتی تھیں۔ اس بستی کے رہنے والوں نے خدا کے انعامات کی قدر نہ پہچانی، دنیا کے مزوں میں پڑ کر ایسے غافل اور بدمست ہوئے کہ منعم حقیقی کا دھیان بھی نہ آیا۔ بلکہ اس کے مقابلہ میں بغاوت کی ٹھان لی۔ آخر خدا تعالیٰ نے ان کی ناشکری اور کفرانِ نعمت کا مزہ چکھایا۔ یعنی امن چین کی جگہ خوف و ہراس نے اور فراخ روزی کی جگہ بھوک اور قحط کی مصیبت نے ان کو اس طرح گھیر لیا جیسے کپڑا پہننے والے کے بدن کو گھیر لیتا ہے۔ ایک دم کو بھوک اور ڈر ان سے جدا نہ ہوتا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک ان کے پاس ان ہی میں سے ایک رسول آیا سو انہوں نے اسے جھٹلایا تو عذاب نے انہیں آ پکڑا اور وہ ظالم تھے۔ (۱۱۳)
تشریح: ظاہری نعمتوں کے علاوہ جو اوپر مذکور ہوئیں ایک بڑی بھاری باطنی نعمت بھی ان کو دی گئی تھی، یعنی انہی کی قوم و نسب میں سے ایک رسول بھیجا گیا۔ جس کا اتباع کر کے وہ خدا کی خوشنودی کے بڑے اونچے مقامات حاصل کر سکتے تھے انہوں نے اتباع و تصدیق کی جگہ اس کی تکذیب و مخالفت پر کمر باندھ لی اور اس طرح پستی میں گرتے چلے گئے۔ آخر قدیم سنت اللہ کے موافق ظالموں اور گنہگاروں کو عذاب نے آ پکڑا پھر کسی کی کوئی تدبیر پیش نہ گئی۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ان آیات میں کسی معین بستی کا تذکرہ نہیں۔ محض بطور تمثیل کسی تباہ شدہ بستی کا لاعلی التعیین حوالہ دے کر یا ایک ایسی بستی کا وجود فرض کر کے کفار مکہ کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تم نے ایسا کیا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ ہو سکتا ہے۔ کفران نعمت اور تکذیب و عداوت رسول کی سزا سے بے فکر نہ ہوں۔ بعض علماء کے نزدیک اس مثال میں بستی سے مراد مکہ معظمہ ہے جہاں ہر قسم کا امن چین تھا اور باوجود وادی غیر ذی زرع ہونے کے طرح طرح کے پھل اور میوے کھینچے چلے آتے تھے۔ اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّہُمْ حَرَماً اٰمِنًا یُّجْبٰ ی اِلَیْہِ ثَمَرَاتُ کُلِّ شَیْئٍ” (القصص، رکوع٦، آیت ٥٧) اہل مکہ نے ان نعمتوں کی کچھ قدر نہ جانی۔ شرک و عصیان، بے حیائی اور اوہام پرستی میں منہمک ہو گئے۔ پھر خدا تعالیٰ نے سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بھیجی۔ اس کے انکار و تکذیب میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ "اَلَمْ تَرَاِلَی الَّذِیْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ کُفْراً وَّاَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَالْبَوَارِ” (ابراہیم، رکوع٥، آیت ٢٨) آخر خدا تعالیٰ نے امن و اطمینان کے بجائے مسلمان مجاہدین کا خوف اور فراخ روزی کی جگہ سات سال کا قحط ان پر مسلط کر دیا۔ جس میں کتے اور مردار تک کھانے کی نوبت آ گئی۔ پھر "بدر” کے معرکہ میں غازیان اسلام کے ہاتھوں خدا کا عذاب ان پر ٹوٹ پڑا۔ ادھر تو یہ ہوا دوسری طرف جو لوگ ان ظالموں کے جور وستم سے تنگ آ کر گھر بار چھوڑ بھاگے تھے ان کو خدا نے بہتر ٹھکانہ دیا، دشمنوں کے خوف سے مامون و مصؤن بنایا، روزی کے دروازے کھول دیے، زبردست دشمنوں پر فتح عنایت کی، بلکہ اقلیموں کا بادشاہ اور متقیوں کا امام بنا دیا۔ شاید اسی لیے ان آیات میں مکہ والوں کا حال سنا کر اگلی آیت "فَکُلُواْ مِمَّارَزَقَکُمُ اللہُ” الخ میں مسلمانوں کو خطاب فرمایا ہے۔ کہ تم اس قسم کی حرکات سے بچتے رہنا جن کی بدولت مکہ والوں پر مصیبت ٹوٹی۔
(تفسیرعثمانی)
پس جو اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے حلال اور پاک کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو۔ (۱۱۴)
تشریح:یعنی جس کو خدا کی پرستش کا دعویٰ ہو اسے لائق ہے کہ خدا کی دی ہوئی حلال و طیب روزی سے تمتع کرے اور اس کا احسان مان کر شکر گزار بندہ بنے۔ حلال کو حرام نہ سمجھے اور نعمتوں سے منتفع ہوتے وقت منعم حقیقی کو نہ بھولے۔ بلکہ اس پر اور اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر ایمان لائے اور اسی کے احکام و ہدایت کی پابندی کرے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کےسوا نہیں کہ اللہ نے تم پر حرام کیا ہے مردار، اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جس پر اللہ کے علاوہ (کسی اور) کا نام پکارا جائے، پس جو لاچار ہو جائے نہ سرکشی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ہو تو بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۵)
تشریح:اس آیت کی تفسیر سورہ ” بقرہ ” اور "انعام” وغیرہ میں گزر چکی وہاں دیکھ لی جائے، یہاں غرض یہ ہے کہ جس طرح پہلی آیت میں اشارہ تھا کہ حلال کو اپنے اوپر حرام نہ کرے، اس آیت میں تنبیہ کی گئی کہ حرام چیزوں کو حلال نہ ٹھہرائے۔ خلاصہ یہ کہ کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانا اسی کا حق ہے جس نے یہ چیزیں پیدا کی ہیں۔ چنانچہ آئندہ آیات میں نہایت وضاحت سے یہ مضمون بیان ہوا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور نہ کہو تم وہ جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام، کہ تم اللہ پر جھوٹ بہتان باندھو، بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں، وہ فلاح (دو جہان میں کامیابی) نہ پائیں گے۔ (۱۱۶)
تشریح:یعنی بدون کسی سند شرعی کے کسی چیز کے متعلق منہ اٹھا کر کہہ دینا کہ حلال ہے یا حرام بڑی سخت جسارت اور کذب و افتراء ہے۔ حلال و حرام تو وہ ہی ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ نے حلال یا حرام کہا ہو۔ اگر کوئی شخص محض اپنی رائے سے کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہراتا ہے اور خدا کی طرف اس کی نسبت کرتا ہے، جیسے مشرکین مکہ کرتے تھے، جس کا ذکر سورہ "انعام” میں گزر چکا وہ فی الحقیقت خدا پر بہتان باندھتا ہے۔ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ کبھی ایسا رویہ اختیار نہ کریں۔ جس چیز کو خدا نے حلال اور جس کو حرام کیا حرام سمجھیں۔ بدون ماخذ شرعی کے حلت و حرمت کا حکم نہ لگائیں۔
(تفسیرعثمانی)
(ان کیلئے) فائدہ تھوڑا ہے اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے۔ (۱۱۷)
تشریح:یعنی مشرکین مکہ جو حضور کو معاذ اللہ مفتری کہتے تھے یاد رکھیں کہ وہ خود مفتری ہیں۔ از راہِ کذب و افتراء جس چیز کو چاہیں حلال یا حرام کہہ کر خدا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں ان کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ یہ روش اختیار کر کے کسی بھلائی کو نہیں پہنچ سکتے۔ تھوڑے دن اور دنیا کا مزہ اڑا لیں، پھر دائمی جیل خانہ تیار ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور یہودیوں پر ہم نے حرام کیا تھا جو اس سے قبل ہم نے تم سے بیان کیا ہے اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔ (۱۱۸)
تشریح:سورہ "انعام” آیت "وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا کُلَّ ذِیْ ظُفُرٍ وَّمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَیْہِمْ شُحُوْمَہُمَا۔ الخ” کے فوائد میں اس کا بیان گزر چکا، ملاحظہ کر لیا جائے یہاں مقصد یہ ہے کہ جو چیز خدا تعالیٰ نے سب کے لیے یا کسی خاص قوم کے لیے معین وقت تک حرام کی ہے، عین حکمت ہے کسی بشر کو حق نہیں کہ اس میں تصرف کر کے حرام کو حلال یا حلال کو حرام بنائے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر بیشک تمہارا رب ان لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی سے برے عمل کئے پھر اس کے بعد انہوں نے توبہ کی اور اصلاح کر لی، بیشک تمہارا رب اس کے بعد بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۱۱۹)
تشریح:یعنی کفریات سے توبہ کر کے مسلمان ہو جانے اور آئندہ کے لیے اپنی حالت درست کر لینے پر حق تعالیٰ تمام گذشتہ گناہ معاف فرما دیتا ہے خواہ کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک ابراہیم امام تھے، اللہ کے فرمانبردار، یک رخ (سب کو چھوڑ کر ایک اللہ کہ ہو رہنے والے) اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (۱۲۰)
تشریح: مشرکین عرب کی شرکیات کا رد کر کے امام الموحدین ابو الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا طریقہ یاد دلاتے ہیں، کیونکہ عرب کے لوگ ان کی نسل سے تھے اور دین ابراہیمی پر ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے۔ حالانکہ ملت ابراہیمی سے انہیں دور کی نسبت بھی نہ رہی تھی۔ انہیں بتلایا گیا کہ ابراہیم علیہ السلام موحدین کے امام، نیکی کے معلم، تمام دنیا کے مشرکین کے مقابلہ میں تن تنہا ایک امت عظیم کے برابر تھے جن کی ذاتِ واحد میں حق تعالیٰ نے وہ سب خوبیاں اور کمالات جمع کر دیے تھے جو کسی بڑے مجمع میں متفرق طور پر پائے جاتے ہیں۔ لَیْسَ عَلیَ اللہِ بِمُسْتَنْکَرٍ اَنْ یَّجْمَعَ الْعَالَمَ فِیْ وَاحِدٖ : ابراہیم خدا کا کامل مطیع و فرمانبردار بندہ تھا جو ہر طرف سے ٹوٹ کر ایک خدا کا ہو رہا تھا۔ ممکن نہ تھا کہ بدون حکم الٰہی کسی چیز کو محض اپنی طرف سے حلال یا حرام ٹھہرا دے۔ وہ خود تو معاذ اللہ شرک کا ارتکاب کہاں کر سکتا، مشرکین کی جماعت اور بستی میں رہنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ پھر جو لوگ آپ کو "حنیف” کہتے اور دین ابراہیمی پر بتاتے ہیں انہیں شرم کرنی چاہیے کہ خدا پر افتراء باندھ کر حلال کو حرام یا حرام کو حلال کہنا اور شرک کی حمایت میں پیغمبروں سے لڑنا، کیا ایک "حنیف” اور ابراہیمی کی شان ہو سکتی ہے؟ یاد رکھو! حلال و حرام کے بیان اور اصول دین میں اصل ملت ابراہیمی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی ملت کی اقامت و اشاعت اور بسط و تفصیل کے لیے تشریف لائے ہیں اگر اصلی دین ابراہیم پر چلنا چاہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اختیار کرو۔
(تفسیرعثمانی)
اس کی نعمتوں کے شکر گزار (اللہ نے) انہیں چن لیا اور ان کی رہنمائی کی سیدھی راہ کی طرف۔ (۱۲۱)
تشریح:یعنی ابراہیم خدا کا شکر گزار بندہ تھا۔ تم سخت ناسپاس اور کفران نعمت کرنے والے ہو جیسا کہ ضَرَبَ اللہُ مَثَلاً قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً الخ کے فوائد میں لکھا جا چکا ہے۔ پھر اس کی راہ پر کیونکر ہوئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے انہیں دنیا میں بھلائی دی اور بیشک وہ آخرت میں نیکو کاروں میں سے ہیں۔ (۱۲۲)
تشریح: یعنی نبوت، فراخِ روزی، اولاد، اور وجاہت و مقبولیت عامہ کہ تمام اہل ادیان بالاتفاق ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اور ہر فرقہ چاہتا ہے کہ اپنا سلسلہ ابراہیم علیہ السلام سے ملائے۔
انہوں نے اپنی حق میں جو دعا کی تھی۔ وَاَلْحِقْنِیْ بِالصَّالِحِیْنَ قبول ہوئی، بیشک وہ آخرت میں صالحین کے اعلیٰ طبقہ میں شامل ہوں گے۔ جو انبیاء علیہم السلام کا طبقہ ہے۔ (تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی کہ ہر ایک سے جدا ہو رہنے والے (یک رخ) ابراہیم کی پیروی کرو اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔ (۱۲۳)
تشریح: اس کا بیان سورہ "انعام” آیت "دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا وَّمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ” کے تحت میں گزر چکا وہاں ملاحظہ کیا جائے مقصد یہ ہے کہ حلال و حرام اور دین کی باتوں میں اصل ملت ابراہیم ہے۔ درمیان میں یہود و نصاریٰ کو ان کے حالات کے مناسب بعض مخصوص احکام دیے گئے۔ آخر آپ کو خاتم الانبیاء بنا کر بھیجا، تاکہ اصل ملت ابراہیمی کو جو غفلت اور تحریف و تصرف بیجا کی دستبرد سے ضائع ہو چکی تھی۔ از سر نو زندہ اور روشن کیا جائے، اور شرک کی تمام رگیں کاٹ دی جائیں حدیث میں ہے۔ "بُعِثْتُ بِالسَّمْحَۃِ الْحَنَفِیَّۃِ الْبَیْضَآء” اس کی پوری شرح و تفصیل حضرت شاہ ولی اللہ نے "حجۃ اللہ البالغہ” میں کی ہے جو قابل دید ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا نہیں کہ ہفتہ ان لوگوں پر (عظمت کا دن) مقرر کیا گیا جنہوں نے اس میں اختلاف کیا تھا، اور بیشک تمہارا رب البتہ قیامت کے دن ان کے درمیان اس (بات) کا فیصلہ کر دے گاجس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (۱۲۴)
تشریح:یعنی اصل ملت ابراہیمی میں ہفتہ کا حکم نہ تھا، اس امت پر بھی نہیں ہے۔ البتہ درمیان میں "یہود” نے اپنے پیغمبر موسٰی علیہ السلام کے ارشادات سے اختلاف کر کے جب اپنے لیے یہ دن انتخاب کیا تو حکم ہوا کہ اچھا اسی کی تعظیم کرو اور مچھلی کا شکار اس روز مت کرو! یہ حکم کسی نے مانا کسی نے نہ مانا۔ نہ ماننے والے دنیا میں بندر اور سور بنائے گئے اور آخرت میں جو فیصلہ ہو گا وہ الگ رہا۔ ایک اسی پر کیا منحصر ہے وہاں تو سارے اختلافات اور جھگڑے چکا دیے جائیں گے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کی نسبت کوئی "یہودی” بتلاتا تھا کوئی "نصرانی” حالانکہ حق تعالیٰ نے آگاہ کر دیا کہ وہ "حنیف مسلم” تھے۔ بہرحال آخرت میں سب اختلافات کا فیصلہ ہو جائے گا اور ہر شخص آنکھوں سے دیکھ لے گا کہ کون غلطی پر تھا کون راستی پر۔
(تفسیرعثمانی)
اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ دانائی سے، اور اچھی نصیحت سے، اور ان سے ایسے بحث کرو جو سب سے بہتر ہو، بیشک تمہارا رب اس کو خوب جاننے والا ہے جو اللہ کے راستے سے گمراہ ہوا، اور وہ راہ پانے والوں کو خوب جاننے والا ہے۔ (۱۲۵)
تشریح: اوپر کی آیتوں میں مخاطبین کو آگاہ کرنا تھا کہ یہ پیغمبر اصل ملت ابراہیمی لے کر آئے ہیں، اگر کامیابی چاہتے ہو اور "حنیف” ہونے کے دعوے میں سچے ہو تو اس راستہ پر چل پڑو۔ اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ الخ سے خود پیغمبر علیہ السلام کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ لوگوں کو راستہ پر کس طرح لانا چاہیے، اس کے تین طریقے بتلائے۔ حکمت، موعظت، حسنہ، جدال بالتی ہی احسن "حکمت” سے مراد یہ ہے کہ نہایت پختہ اور اٹل مضامین مضبوط دلائل و براہین کی روشنی میں حکیمانہ انداز سے پیش کیے جائیں۔ جن کو سن کر فہم و ادراک اور علمی ذوق رکھنے والا طبقہ گردن جھکاس کے۔ دنیا کے خیالی فلسفے ان کے سامنے ماند پڑ جائیں اور کسی قسم کی علمی و دماغی ترقیات وحی الٰہی کی بیان کردہ حقائق کا ایک شوشہ تبدیل نہ کر سکیں۔ "موعظت حسنہ” موثر اور رقت انگیز نصیحتوں سے عبارت ہے جن میں نرم خوئی اور دلسوزی کی روح بھری ہو۔ اخلاص، ہمدردی اور شفقت و حسن اخلاق سے خوبصورت اور معتدل پیرایہ میں جو نصیحت کی جاتی ہے، بسا اوقات پتھر کے دل بھی موم ہو جاتے ہیں، مردوں میں جانیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک مایوس و پژمردہ قوم جھر جھری لے کر کھڑی ہو جاتی ہے، لوگ ترغیب و ترہیب کے مضامین سن کر منزل مقصود کی طرف بیتابانہ دوڑنے لگتے ہیں۔ اور بالخصوص جو زیادہ عالی دماغ اور ذکی و فہیم نہیں ہوتے، مگر طلب حق کی چنگاری سینے میں رکھتے ہیں، ان میں موثر وعظ و پند سے عمل کی ایسی اسٹیم بھری جا سکتی ہے جو بڑی اونچی عالمانہ تحقیقات کے ذریعہ سے ممکن نہیں۔ ہاں دنیا میں ہمیشہ سے ایک ایسی جماعت بھی موجود رہی ہے جن کا کام ہر چیز میں الجھنا اور بات بات میں حجتیں نکالنا اور کج بحثی کرنا ہے یہ لوگ نہ حکمت کی باتیں قبول کرتے ہیں نہ وعظ و نصیحت سنتے ہیں۔ بلکہ چاہتے ہیں کہ ہر مسئلہ میں بحث و مناظرہ کا بازار گرم ہو۔ بعض اوقات اہل فہم و انصاف اور طالبین حق کو بھی شبہات گھیر لیتے ہیں اور بدون بحث کے تسلی نہیں ہوتی اس لیے وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ھیَ اَحْسَنُ فرما دیا کہ اگر ایسا موقع پیش آئے تو بہترین طریقہ سے تہذیب، شائستگی، حق شناسی اور انصاف کے ساتھ بحث کرو۔ اپنے حریف مقابل کو الزام دو تو بہترین اسلوب سے دو، خواہی نخواہی دل آزار اور جگر خراش باتیں مت کرو۔ جن سے قضیہ بڑھے اور معاملہ طول کھینچے، مقصود تفہیم اور احقاق حق ہونا چاہیے۔ خشونت، بد اخلاقی، سخن پروری اور ہٹ دھرمی سے کچھ نتیجہ نہیں۔ طریق دعوت و تبلیغ میں تم کو خدا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا چاہیے۔ اس فکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں کہ کس نے مانا کس نے نہیں مانا۔ نتیجہ کو خدا کے سپرد کرو۔ وہی راہ پر آنے والوں اور نہ آنے والوں کے حالات کو بہتر جانتا ہے جیسا مناسب ہو گا ان سے معاملہ کرے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تم تکلیف دو تو ایسی ہی تکلیف دو، جیسی تمہیں تکلیف دی گئی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لئے بہتر ہے۔ (۱۲۶)
تشریح:یعنی دعوت و تبلیغ کی راہ میں اگر تم کو سختیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں تو قدرت حاصل ہونے کے وقت برابر کا بدلہ لے سکتے ہو، اجازت ہے، لیکن صبر کا مقام اس سے بلند تر ہے۔ اگر صبر کرو گے تو اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اور دیکھنے والوں کے بلکہ خود زیادتی کرنے والوں کے حق میں بہتر ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ ہی کی مدد سے ہے اور غم نہ کھاؤ ان پر اور وہ جو فریب کرتے ہیں اس سے تنگی میں (دل تنگ) نہ ہو۔ (۱۲۷)
تشریح: یعنی مظالم و شدائد پر صبر کرنا، سہل کام نہیں۔ خدا ہی مدد فرمائے تو ہو سکتا ہے کہ آدمی ظلم سہتا رہے اور اُف نہ کرے۔
(تفسیرعثمانی)
بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے پرہیز گاری کی اور وہ لوگ جو نیکو کار ہیں۔ (۱۲۸)
تشریح:یعنی انسان جس قدر خدا سے ڈر کر تقویٰ، پرہیزگاری اور نیکی اختیار کرے گا، اسی قدر خدا کی امداد و اعانت اس کے ساتھ ہو گی۔ سو ایسے لوگوں کو کفار کے مکر و فریب سے تنگ دل اور غمگین ہونے کی کوئی وجہ نہیں حق تعالیٰ اس عاجز ضعیف کو بھی متقین و محسنین کے ساتھ اپنے فضل و رحمت سے محشور فرمائے۔ تم سورۃ النحل بعونہ وتوفیقہ وللہ الحمد۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۱۷۔ سورۃ بنی اسرائیل
تعارف
اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتارہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے، اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا، اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا، اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے، اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کاسامنا کرنا پڑا، اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے باز آ جائیں، ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آسکتا ہے، کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کر رہی ہے (آیت نمبر:۹) پھر آیت نمبر ۲۲ سے ۲۸ تک مسلمانوں کو ان کے دینی، معاشرتی اور اخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایت دی گئی ہیں، اور مشرکین کے نامعقول اور معاندانہ طرز عمل کی مذمت کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔
چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لئے سورت کا نام سورۂ بنی اسرائیل ہے، اور اس کا دوسرا نام سورۃ الاسراء بھی ہے، اسراء سفرمعراج کو اور خاص طور پر اس سفر کے اس حصے کہا جاتا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا، سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے اس لئے اس کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۱۱ رکوعات:۱۲
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو راتو ں رات مسجد حرام (خانہ کعبہ سے) مسجد اقصی (بیت المقدس) تک لے گیا، جس کے ارد گرد (اطراف) کو ہم نے برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی نشانیاں دکھا دیں، بیشک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (۱)
تشریح:اس سے معراج کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور رات کے وقت انہیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر وہاں سے حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کو ساتوں آسمانوں پر لے گئے، ہر آسمان پر آپ کی ملاقات پچھلے پیغمبروں میں کسی پیغمبر سے ہوئی، اس کے بعد جنت کے ایک درخت سدرۃ المنتہی پر تشریف لے گئے، اور آپ کو اللہ تعالی سے براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا ہوا، اسی موقع پر اللہ تعالی نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں، پھر رات ہی رات میں آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، اس آیت میں اس سفر کے صرف پہلے حصے کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ آنے والے تذکرے سے اسی کا تعلق زیادہ تھا، البتہ سفر کے دوسرے حصے کا تذکرہ سورہ نجم: ۲۷۔ ۱۳تا۱۸ میں آیا ہے، صحیح روایات کے مطابق یہ معجزانہ سفر بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس طرح اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی آپ کو دکھا ئی گئی تھی، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ واقعہ بیداری کے بجائے خواب میں دکھایا گیا، کیونکہ یہ بات صحیح احادیث کے تو خلاف ہے ہی قرآن کریم کا اسلوب واضح طور پر یہ بتا رہا ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جسے اللہ تعالی نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے، اگر یہ صرف ایک خواب کا واقعہ ہوتا تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہے، پھر اسے اپنی ایک نشانی قرار دینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا کہ میرےسوا ( کسی کو) کارساز نہ ٹھہراؤ۔ (۲)
تشریح: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فضل و شرف بیان فرما کر سلسلہ کلام حضرت موسٰی علیہ السلام کے ذکر کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ چونکہ "اسراء” کے ذیل میں، مسجد اقصیٰ” (بیت المقدس) تک جانا مذکور ہوا تھا، آگے "مسجد اقصیٰ” اور اس کے قدیم متولیوں (بنی اسرائیل) پر جو مختلف دور گزرے، مسلمانوں کی عبرت اور خود بنی اسرائیل کی نصیحت کے لیے ان کا بیان کیا جاتا ہے، یہ آیت اسی کی تمہید ہے۔ واقعہ "اسراء” میں اشارہ تھا کہ حجازی پیغمبر کی امت ہی آئندہ اس امانت الٰہی کی مالک بننے والی ہے جو شام کی مبارک سرزمین میں ودیعت کی گئی تھی۔ ان آیات میں بنی اسرائیل کو متنبہ کرنا ہے کہ اگر خیریت چاہتے ہیں تو اب پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو، حق تعالیٰ ان کے حال پر مہربانی فرمائے گا۔ ورنہ پہلے کی طرح پھر شرارتوں پر سزا ملے گی اور مسجد اقصیٰ کی تولیت سے محروم کر دیئے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اے (ان لوگوں کی) اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا، بیشک وہ شکر گزار بندہ تھا۔ (۳)
تشریح:یعنی تم ان کی اولاد ہو جو نوح کے ساتھ کشتی پر سوار ہو کر عذابِ الٰہی سے بچے تھے۔ جو احسان تمہارے بڑوں پر کیا گیا اسے فراموش مت کرو۔ دیکھو نوح علیہ السلام جن کی اولاد میں تم ہو کیسے احسان شناس اور شکر گذار بندے تھے۔ تم کو بھی ان ہی کی راہ پر چلنا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں صاف کہہ سنایا، البتہ تم فساد کرو گے زمین میں دو مرتبہ اور تم ضرور زور پکڑو گے (سرکشی کرو گے) ۔ (۴)
تشریح:تورات میں یا کسی دوسری آسمانی کتاب میں یہ پیشین گوئی کی گئی تھی کہ یہ قوم (بنی اسرائیل) دو مرتبہ ملک میں سخت خرابی پھیلائے گی اور ظلم و تکبر کا شیوہ اختیار کر کے سخت تمرد و سرکشی کا مظاہرہ کرے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہر مرتبہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دردناک سزا کا مزہ چکھنا پڑا۔ جس کا ذکر آگے آتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس جب دونوں میں سے پہلے وعدہ ( کا وقت) آیا تو ہم نے تم پر اپنے سخت لڑائی والے بندے بھیجے وہ شہروں کے اندر گھس گئے (پھیل گئے) اور یہ ایک وعدہ تھا پورا ہونے والا۔ (۵)
تشریح: جب بنو اسرائیل کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئی تھیں تو بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ان پر حملہ کر کے ان کا قتل عام کیا تھا اور جو زندہ رہ گئے تھے، انہیں گرفتار کر کے فلسطین سے بابل لے گیا تھا جہاں مدت دراز تک وہ اس کی غلامی میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے رہے، اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
پھر ہم نے ان پر تمہاری باری پھیر دی (تمہیں غلبہ دیا) اور مالوں سے اور بیٹوں سے ہم نے تمہیں مدد دی اور ہم نے تمہیں بڑا جتھا (لشکر) کر دیا۔ (۶)
تشریح: تقریباً ستر سال تک بخت نصر کی غلامی میں رہنے کے بعد اللہ تعالی نے ان پر اس طرح رحم فرمایا کہ ایران کے بادشاہ اخسویرس نے بابل پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا، اس موقع پر اسے ان یہودیوں کی حالت زار پر رحم آیا اور اس نے ان کو آزاد کر کے دوبارہ فلسطین میں بسادیا، اس طرح ان کو دوبارہ خوشحالی ملی، اور ایک مدت تک وہ بڑی تعداد میں وہاں آباد رہے، مگر جب خوشحالی ملنے پر انہوں نے دوبارہ بد اعمالیوں پر کمر باندھی تو وہ دوسرا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے۔
(توضیح القرآن)
اگر تم نے بھلائی کی تو اپنی جانو ں کیلئے اور اگر تم نے برائی کی تو ان (اپنی جانوں) کے لئے، پھر (یاد کرو) جب دوسرے وعدہ (کا وقت) آیا کہ وہ (دشمن) تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور وہ مسجد (اقصی) میں گھس جائیں جیسے وہ پہلی بار گھسے تھے اور یہ کہ جہاں غلبہ پائیں، پوری طرح برباد کر ڈالیں۔ (۷)
امید ہے (بعید نہیں) کہ تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم پھر وہی کرو گے تو ہم (بھی) وہی کریں گے اور ہم نے جہنم کافروں کے لئے قید خانہ بنایا ہے۔ (۸)
تشریح: بعض حضرات نے تو کہا ہے کہ اس دوسرے دشمن سے مراد انتیو کس ایپی فانیوس ہے جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے کچھ پہلے دوبارہ بیت المقدس پر حملہ کر کے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد روم کے شاہ طیطوس کا حملہ ہے، اگرچہ بنی اسرائیل پر مختلف زمانوں میں بہت سے دشمن مسلط رہے ہیں، لیکن ان دو دشمنوں کا ذکر اللہ تعالی نے خاص طور پر اس لئے فرمایا ہے کہ ان کے حملوں میں انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، اور ان میں سے پہلا دشمن یعنی بخت نصر ان پر اس وقت مسلط کیا گیا جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی خلاف ورزی کی، اور دوسرا دشمن اس وقت مسلط کیا گیا جب انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی اور آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرو گے تو تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک دوبارہ کیا جائے گا۔
(توضیح القرآن)
بیشک یہ قرآن اس راہ کی رہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھی ہے، اور مؤمنوں کو بشارت دیتا ہے جو اچھے عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے۔ (۹)
اور یہ کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے، ہم نے ان کے لئے تیار کیا ہے عذاب دردناک۔ (۱۰)
تشریح:یعنی یوں تو "تورات” بھی بنی اسرائیل کو راہ بتانے والی تھی جیسا کہ پہلے فرمایا "ہُدًی لِّبَنِی اِسْرَائِیْلَ” لیکن یہ قرآن ساری دنیا کو سب سے زیادہ اچھی، سیدھی اور مضبوط راہ بتاتا ہے۔ تمام "قویم راہیں” اس "اقوم” کے تحت میں مندرج ہو گئی ہیں۔ لہٰذا اگر کامیابی اور نجات چاہتے ہو تو خاتم الانبیاء کی پیروی میں اسی سیدھی سڑک پر چلو۔ جو لوگ قلب و جوارح یعنی ایمان و عمل صالح سے اس صاف و کشادہ راہ پر چلیں گے قرآن ان کو دنیا میں حیاتِ طیبہ کی اور آخرت میں جنت کی عظیم الشان بشارت سناتا ہے۔ باقی جنہیں انجام کا کچھ خیال نہیں۔ اندھا دھند دنیا کی لذات و شہوات میں غرق ہیں۔ آخرت کی اصلاً فکر نہیں رکھتے، ان کا انجام آیت:۱۰ میں بیان کیا گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور انسان برائی کی دعا کرتا ہے جیسے وہ بھلائی کی دعا کرتا ہے اور انسان جلد باز ہے۔ (۱۱)
تشریح:یعنی قرآن تو لوگوں کو سب سے بڑی بھلائی کی طرف بلاتا، اجر کبیر کی بشارتیں سناتا اور بدی کے مہلک نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ لیکن حضرت انسان کا حال یہ ہے کہ وہ سب کچھ سننے کے بعد بھی اپنے لیے برائی کو اسی اشتیاق و الحاح سے طلب کرتا ہے جس طرح کوئی بھلائی مانگتا ہو، یا جیسے بھلائی طلب کرنا چاہیے۔ وہ انجام کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بڑی تیزی کے ساتھ گناہوں اور برائیوں کی طرف لپکتا ہے بلکہ بعض بدبخت تو صاف لفظوں میں زبان سے کہہ اٹھتے ہیں۔ "اَللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ” (خداوندا! اگر پیغمبر اپنے دعوے میں سچے ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا دیجئے یا اور کوئی سخت عذاب نازل کیجئے) بعض بیوقوف غصہ سے جھنجھلا کر اپنے حق میں یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بے سوچے سمجھے بددعا کر بیٹھتے ہیں۔ بعض دنیا کے نفع عاجل کو معبود بنا کر ہر ایک حلال و حرام طریقہ سے اس کی طرف دوڑتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ اس لہلہاتے پودے کے نیچے سانپ بچھو بھی چھپے ہوئے ہیں۔ جو انجام کار ہلاکت کے گڑھے میں پہنچا کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اپنی جلد بازی سے کسی چیز کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو دیکھ لیتا ہے، بدی کے دور رس نتائج پر غور نہیں کرتا۔ بس جو بات کسی وقت سانح ہوئی فوراً کہہ ڈالی یا ایک دم کر گزرا۔ جدھر قدم اٹھ گیا بے سوچے سمجھے ادھر ہی بڑھتا چلا گیا۔ اگر جلد بازی چھوڑ کر متانت، تدبر اور انجام بینی سے کام لے تو کبھی ایسی غلطیاں نہ کرے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، پھر ہم نے رات کی نشانی کو مٹا دیا (ماند کر دیا) اور ہم نے دن کی نشانی کو دکھانے والی بنایا تاکہ تم اپنے رب کا فضل (روزی) تلاش کرو، اور تاکہ برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرو اور ہر چیز کو ہم نے تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔ (۱۲)
تشریح: یعنی دن اور رات کا ایک دوسرے کے بعد تسلسل کے ساتھ آنا اللہ تعالی کی قدرت اور رحمت و حکمت کی نشانی ہے، رات کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے، تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں اور دن کے وقت روشنی ہوتی ہے تاکہ لوگ اپنا روز گار تلاش کر سکیں، جس کو قرآن کریم "اللہ کا فضل” سے تعبیر کرتا ہے اور رات اور دن کے بدلنے ہی سے تاریخوں کا تعین ہوتا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے ہر انسان کی قسمت اس کی گردن میں لٹکا دی، اور ہم اس کے لئے نکالیں گے روز قیامت ایک نوشتہ وہ اسے کھلا ہوا پائے گا۔ (۱۳)
تشریح: ہر شخص کے تمام اعمال ہر لمحے لکھے جا رہے ہیں جو اس کے اچھے یا برے انجام کی نشان دہی کرتے ہیں، اور جب قیامت آئے گی تو یہ سارا اعمال نامہ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا جسے وہ خود پڑھ سکے گا، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں ان پڑھ تھا قیامت کے دن اسے بھی اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی صلاحیت دے دی جائے گی۔
(توضیح القرآن)
اپنا نامۂ اعمال پڑھ لے آج تو خود اپنے اوپر کافی ہے حساب لینے والا (محتسب) ۔ (۱۴)
تشریح:یعنی نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا کہ خود پڑھ کر فیصلہ کر لے، جو کام عمر بھر میں کیے تھے کوئی رہا تو نہیں یا زیادہ تو نہیں لکھا گیا۔ ہر آدمی اس وقت یقین کرے گا کہ ذرہ ذرہ عمل بلا کم و کاست اس میں موجود ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جس نے ہدایت پائی اس نے صرف اپنے لئے ہدایت پائی اور جو کوئی گمراہ ہوا تو وہ گمراہ ہوا صرف اپنے برے کو اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا، اور جب تک ہم کوئی رسول نہ بھیجیں ہم عذاب دینے والے نہیں۔ (۱۵)
تشریح:یعنی سیدھی راہ خدا نے سب کو بتلا دی اب جو کوئی اس پر چلے یا نہ چلے، اپنا بھلا برا خود سوچ لے۔ کیونکہ اپنے طریق عمل کا نفع یا نقصان اسی کو پہنچے گا۔ ایک کے گناہوں کی گٹھڑی دوسرے کے سر پر نہیں رکھی جائے گی۔
بلاشبہ برے عمل آفت لاتے ہیں، پر حق تعالیٰ بغیر سمجھائے نہیں پکڑتا اسی واسطے رسول بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بے خبر اور غافل نہ رہنے دیں۔ نیک و بد سے پوری طرح آگاہ کر دیں۔ جن باتوں کو آدمی محض عقل و فطرت کی راہنمائی سے سمجھ سکتا ہے (مثلاً وجود باری یا توحید) ان کی مزید تشریح و توثیق پیغمبروں کی زبانی کر دی جائے اور جن چیزوں کے ادراک میں محض عقل کافی نہ ہو انہیں وحی و الہام کی روشنی میں پیش کیا جائے۔ اسی لیے ابتدائے آفرینش سے حق تعالیٰ نے وحی و رسالت کا سلسلہ جاری رکھا تاآنکہ انبیاء علیہم السلام کے انوار و فیوض نے دنیا میں ایسی فضا پیدا کر دی کہ کوئی معذب قوم دنیا یا آخرت میں جہل و بے خبری کا عذر پیش کر کے عذابِ الٰہی سے رستگاری حاصل نہیں کر سکتی۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ہم نے کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہا توہم نے اس کے خوشحال لوگوں کو حکم بھیجا تو انہوں نے اس میں نافرمانی کی پھر ان پر پوری ہو گئی بات (حکم ثابت ہو گیا) پھر ہم نے انہیں بری طرح ہلاک کر دیا۔ (۱۶)
تشریح:یعنی جب بداعمالیوں کی بدولت کسی بستی کو تباہ کرنا ہوتا ہے تو یوں ہی دفعۃً پکڑ کر ہلاک نہیں کر دیتے، بلکہ اتمام حجت کے بعد سزا دی جاتی ہے۔ اول پیغمبر یا اس کے نائبین کی زبانی خدائی احکام ان کو پہنچائے جاتے ہیں۔ خصوصاً وہاں کے امراء اور با رسوخ لوگوں کو جن کے ماننے نہ ماننے کا اثر جمہور پر پڑتا ہے، آگاہ کیا جاتا ہے۔ جب یہ بڑی ناک والے سمجھ بوجھ کر خدائی پیغام کو رد کر دیتے اور کھلے بندوں نافرمانیاں کر کے تمام بستی کی فضا کو مسموم و مکدر بنا دیتے ہیں، اس وقت وہ بستی اپنے کو اعلانیہ مجرم ثابت کر کے عذاب الٰہی کی مستحق ہو جاتی ہے – (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا) ۔ (تنبیہ) وَقَالَ بَعْضُ السَّلَفِ اَنَّ الْاَمْرَ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی "اَمَرْنَا مُتْرَفِیْہَا” اَمْرٌ تَکْوِیْنِیٌّ قَدْرِیٌّ بِالْفِسْقِ وَقَوْلُہ، تَعَالٰی "اِنَّ اللہَ لاَ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ” مَعْنَاہُ نَفْیُ الْاَمْرِ التَّشْرِیْعِیِّ فَلَاَ مُنَافَاۃَ۔ فَافْہَمْ۔ (تفسیرعثمانی)
اور ہم نے نوح کے بعد کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں اور تیرا رب کافی ہے اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا دیکھنے والا ہے۔ (۱۷)
تشریح:آدم و نوح کے درمیانی زمانہ میں سب آدمی اسلام پر رہے۔ پھر شرک و بت پرستی شروع ہوئی۔ نوح علیہ السلام ان کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے، سینکڑوں برس سمجھایا، نہ مانے، آخر سب ہلاک کئے گئے۔ اس کے بعد بہت سی قومیں (عاد و ثمود وغیرہ) تباہ ہوئیں۔ حاصل یہ کہ قوموں کے ہلاک کیے جانے کا سلسلہ بعثت نوح کے بعد سے شروع ہوا۔
کسی کو بے قصور نہیں پکڑتا نہ غیر مناسب سزا دیتا ہے۔ بلکہ ہر ایک کے گناہوں کو دیکھ کر اور اس کے اوضاع و اطوار کو پوری طرح جان کر موزوں و مناسب برتاؤ کرتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جو کوئی جلدی (دنیا میں) چاہتا ہے، ہم اس کو جتنا چاہیں جلدی (دنیا میں) دے دیں گے، پھر ہم نے اس کے لئے جہنم بنا دیا ہے وہ اس میں داخل ہو گا مذمت کیا ہوا دھکیلا ہوا۔ (۱۸)
تشریح: یہ اس شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دنیا کی بہتری کو بنا رکھا ہے اور آخرت پر یا تو ایمان نہیں، یا اس کی کوئی فکر نہیں، نیز اس قسم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو کوئی نیکی کا کام دنیا کی دولت یا شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے، اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لئے نہیں، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا کے یہ فوائد ملنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، نہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ جتنے فائدے وہ چاہ رہے ہیں وہ سب مل جائیں، البتہ ان میں سے جن کو ہم مناسب سمجھتے ہیں دنیا میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے۔
(توضیح القرآن)
اور جو کوئی آخرت چاہے اور اس کے لئے اس کی سی کوشش کرے، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو، پس یہی لوگ ہیں جن کی کوشش مقبول ہوئی۔ (۱۹)
تشریح:یعنی جس کے دل میں ایمان و یقین موجود ہو اور نیک نیتی سے خدا کی خوشنودی اور ثواب اخروی کی خاطر پیغمبر کے بتلائے ہوئے راستہ پر عملی دوڑ دھوپ کرے۔ اس کی کوشش ہرگز ضائع ہونے والی نہیں۔ یقیناً بارگاہِ احدیت میں حسن قبول سے سرفراز ہو کر رہے گی۔
(تفسیرعثمانی)
ہم تیرے رب کی بخشش سے اِن کو بھی اور اُن کو بھی ہر ایک کو دیتے ہیں اور تیرے رب کی بخشش (کسی پر) روکی جانے والی نہیں۔ (۲۰)
تشریح: یہاں عطا سے مراد دنیا کا رزق ہے یعنی مؤمن و کافر اور متقی اور فاسق ہر شخص کو دنیا میں اللہ تعالی رزق عطا فرماتے ہیں، یہ رزق کسی پر بند نہیں۔
(توضیح القرآن)
دیکھو!ہم نے کس طرح ان کے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی اور البتہ آخرت کے درجے سب سے بڑے اور فضیلت میں سب سے برتر ہیں۔ (۲۱)
تشریح: یعنی دنیا میں کسی کو اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے تحت زیادہ رزق عطا فرمایا ہے، اور کسی کو کم، البتہ جس چیز کے لئے انسان کو پوری کوشش کرنی چاہئے وہ آخرت کے فوائد ہیں کیونکہ وہ دنیا کے فوائد کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ ہیں۔
(توضیح القرآن)
اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ ٹھہرا، پس تو بیٹھ رہے گا مذمت کیا ہوا بے بس ہو کر۔ (۲۲)
تشریح:یعنی شرک ایسی ظاہر البطلان چیز ہے جس کے اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے، بلکہ دنیا کے ہر عقلمند کے نزدیک تم مذموم و ملزم ٹھہرو گے۔ چنانچہ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ جن مذاہب میں شرک صریح کی تعلیم تھی وہ بھی دانش مندوں کی سوسائٹی میں جگہ حاصل کرنے کے لیے اپنی ترمیم و اصلاح کر کے آہستہ آہستہ توحید کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں۔ ہر ایک عاقل یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اشرف المخلوقات انسان کے لیے یہ چیز سخت ذلت و رسوائی کی موجب ہے کہ اپنے سے کمتر یا کسی عاجز مخلوق کے سامنے سربسجود ہو جائے۔ خصوصاً ان چیزوں کے سامنے دست سوال دراز کرے جو خود اسی کی تراشی ہوئی ہیں۔ جو آدمی خدا کو چھوڑ کر غیر اللہ کے سامنے جھکتا ہے، خدائے بے نیاز حقیقی نصرت و برکت کا دروازہ اس پر بند کر کے کمزوری اور بے کسی کی حالت میں چھوڑ دیتا ہے چنانچہ سخت کٹھن وقت میں جب کہ اسے اعانت و امداد کی بڑی ضرورت ہو گی، کوئی یارومددگار نہ ملے گا "ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ”
(تفسیرعثمانی)
اور تیرے رب نے حکم فرما دیا کہ اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو، اور ماں باپ سے حسن سلوک کرو، اور ان میں سے ایک یا وہ دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں نہ کہو ا ُ ف (بھی) اور انہیں نہ جھڑ کو، اور ان سے ادب کے ساتھ بات کہو (کرو) ۔ (۲۳)
تشریح: خدا تو حقیقۃً بچہ کو وجود عطا فرماتا ہے، والدین اس کی ایجاد کا ظاہری ذریعہ ہیں۔ اس لیے کئی آیتوں میں خدا تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ والدین کے حقوق ذکر کیے گئے۔ حدیث میں آیا ہے کہ وہ شخص خاک میں مل گیا جس نے اپنے والدین کو پایا اور ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی۔ ” ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ والدین کے ساتھ بھلائی کرنا یہ ہے کہ زندگی میں ان کی جان و مال سے خدمت اور دل سے تعظیم و محبت کرے۔ مرنے کے بعد ان کا جنازہ پڑھے، ان کے لیے دعاء و استغفار کرے۔ ان کے عہد تا مقدور پورے کرے، ان کے دوستوں کے ساتھ تعظیم و حسن سلوک سے اور ان کے اقارب کے ساتھ صلہ رحمي سے پیش آئے وغیرہ ذالک۔
بڑھاپے میں خدمت کی احتیاج زیادہ ہوتی ہے جس سے بعض اوقات اہل و عیال بھی اکتانے لگتے ہیں زیادہ پیرانہ سالی میں ہوش و حواس بھی ٹھکانے نہیں رہتے۔ بڑی سعادت مند اولاد کا کام ہے کہ اس وقت بوڑھے والدین کی خدمت گزاری و فرمانبرداری سے جی نہ ہارے۔ قرآن نے تنبیہ کی کہ جھڑکنا اور ڈانٹنا تو کجا ان کے مقابلہ میں زبان سے "ہوں” بھی مت کر۔ بلکہ بات کرتے وقت پورے ادب و تعظیم کو ملحوظ رکھو۔ ابن مسیب نے فرمایا ایسی طرح بات کرو جیسے ایک خطاوار اور غلام سخت مزاج آقا سے کرتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان کے لئے عاجزی کے ساتھ بازو جھکا دو مہربانی سے اور کہو اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی (۲۴)
تشریح:یعنی جب میں بالکل کمزور و ناتواں تھا انہوں نے میری تربیت میں خون پسینہ ایک کر دیا۔ اپنے خیال کے موافق میرے لیے ہر ایک راحت و خوبی کی فکر کی۔ ہزارہا آفات و حوادث سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ بارہا میری خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈالی، آج ان کی ضعیفی کا وقت آیا ہے، جو کچھ میری قدرت میں ہے ان کی خدمت و تعظیم کرتا ہوں۔ لیکن پورا حق ادا نہیں کر سکتا۔ اس لیے تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بڑھاپے میں اور موت کے بعد ان پر نظر رحمت فرما۔
(تفسیرعثمانی)
تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے، اگر تم نیک ہو گے تو بیشک وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔ (۲۵)
تشریح:یعنی والدین کی تعظیم اور ان کے سامنے تواضع و فروتنی صمیم قلب سے ہونی چاہیے۔ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ کون کیسے دل سے ماں باپ کی خدمت کرتا ہے۔ اگر فی الواقع تم دل سے نیک اور سعادت مند ہو گے اور خدا کی طرف رجوع ہو کر اخلاص و حق شناسی کے ساتھ ان کی خدمت کرو گے تو وہ تمہاری کوتاہیوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ فرض کرو اگر کسی وقت باوجود نیک نیتی کے تنگ دلی یا تنگ مزاجی سے کوئی فروگزاشت ہو گئی، پھر توجہ و رجوع کیا تو اللہ بخشنے والا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور دو قرابت دار کو اس کا حق اور مسکین اور مسافر کو اور اندھا دھند فضول خرچی نہ کرو۔ (۲۶)
تشریح:یعنی قرابت والوں کے مالی و اخلاقی ہر قسم کے حقوق ادا کرو۔ محتاج و مسافر کی خبر گیری رکھو اور خدا کا دیا ہوا مال فضول بے موقع مت اڑاؤ۔ فضول خرچی یہ ہے کہ معاصی اور لغویات میں خرچ کیا جائے یا مباحات میں بے سوچے سمجھے اتنا خرچ کر دے جو آگے چل کر تفویت حقوق اور ارتکاب حرام کا سبب بنے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک فضول خرچ شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔ (۲۷)
تشریح:یعنی مال خدا کی بڑی نعمت ہے جس سے عبادت میں دلجمعی ہو، بہت سی اسلامی خدمات اور نیکیاں کمانے کا موقع ملے۔ اس کو بے جا اُڑانا ناشکری ہے جو شیطان کی تحریک و اغواء سے وقوع میں آتی ہے اور آدمی ناشکری کر کے شیطان کے مشابہ ہو جاتا ہے۔ جس طرح شیطان نے خدا کی بخشی ہوئی قوتوں کو عصیان و اضلال میں خرچ کیا۔ اس نے بھی حق تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو نافرمانی میں اڑایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تو اپنے رب کی رحمت (فراخ دستی) کے انتظار میں جس کی تو امید رکھتا ہے، ان سے منہ پھیر لے تو ن سے کہہ دیا کر نرمی کی بات۔ (۲۸)
تشریح:یعنی جو کوئی ہمیشہ سخاوت کرتا ہے اور ایک وقت اس کے پاس نہیں ہے تو اللہ کے ہاں امید والے کا محروم جانا خوش نہیں آتا۔ اس محتاج کی قسمت سے اللہ سخیوں کو بھیج دیتا ہے۔ سو اس واسطے اگر ایک وقت تو نہ دے سکے تو نرم اور میٹھے طریقہ سے معذرت کر دے۔ مثلاً یہ کہہ دیا جائے کہ جب خدا ہم کو دے گا انشاء اللہ ہم تمہاری خدمت کریں گے۔ سختی اور بد اخلاقی سے جواب دینے میں اندیشہ ہے کہ کہیں اگلی خیراتیں بھی برباد نہ ہو جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنا ہاتھ اپنی گردن تک بندھا ہوا نہ رکھ (کنجوس نہ ہو جا) اور نہ اسے کھول پوری طرح (بالکل ہی) کہ پھر تو ملامت زدہ تھکا ہارا بیٹھا رہ جائے۔ (۲۹)
تشریح: سب الزام دیں کہ کنجوس مکھی چوس ہے یا یہ کہ اتنا کیوں دیا کہ آپ محتاج رہ گیا۔ غرض ہر معاملہ میں توسط و اعتدال مرعی رکھنا چاہیے۔ نہ ہاتھ اس قدر کھینچے کہ گردن سے لگ جائے اور نہ طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنے میں ایسی کشادہ دستی دکھلائے کہ پھر بھیک مانگنی پڑے اور ہاتھ کھلے کا کھلا رہ جائے۔ ابن کثیر لکھتے ہیں "فَتُعْطِیْ فَوْقَ طَاقَتِکَ وَتُخْرِجَ اَکْثَرُ مِنْ دَخَلِکَ” یعنی طاقت سے بڑھ کر یا آمدنی سے زائد خرچ کرنا بھی "ولاتبسطہا کل البسط” کے تحت میں داخل ہے۔ حدیث میں ہے "مَاعَالَ مَنِ اقْتَصَدَ” (جس نے میانہ روی اختیار کی محتاج نہیں ہوا) ۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک تیرا رب جس کی چاہتا ہے روزی فراخ کر دیتا ہے اور (جس کی چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کو خبر رکھنے والا دیکھنے والا ہے۔ (۳۰)
تشریح:یعنی تمہارے ہاتھ روکنے سے تم غنی اور دوسرا فقیر نہیں ہو جاتا۔ نہ تمہاری سخاوت سے وہ غنی اور تم فقیر بن سکتے ہو۔ فقیر و غنی بنانا اور روزی کا کم و بیش کرنا محض خدا کے قبضہ میں ہے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ افسوس آج ہمارے پاس نہیں ہے، یہ فقیر جو امید لے کر آیا تھا کیا کہے گا۔ فقر و غنی کے مختلف احوال بھیجنا اسی مالک علی الاطلاق کے قبضہ میں ہے۔ تمہارا کام میانہ روی سے امتثالِ حکم کرنا ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی محتاج کو دیکھ کر بالکل بیتاب نہ ہو جا۔ اس کی حاجت روائی تیرے ذمہ نہیں۔ اللہ کے ذمہ پر ہے۔ لیکن یہ باتیں پیغمبر علیہ السلام کو فرمائی ہیں جو بیحد سخی واقع ہوئے تھے۔ باقی جس کے جی سے مال نہ نکل سکے اس کو پابند کیا ہے دینے کا۔ حکیم بھی گرمی والے کو سرد دوا دیتا ہے اور سردی والے کو گرم۔ ”
ہر ایک بندے کے ظاہری و باطنی احوال و مصالح سے خبردار ہے۔ اسی کے موافق معاملہ کرتا ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا کہ میرے بعض بندے وہ ہیں جن کی درستی حال فقیر رہنے میں ہے۔ اگر میں اس کو غنی کر دیتا تو اس کا دین تباہ ہو جاتا۔ اس کے برعکس بعض بندے ہیں جن کو غنی بنایا، اگر فقیر بنا دیا جاتا تو دین پر قائم نہ رہ سکتے۔ اس کے علاوہ بعض اشقیاء کے حق میں غنائے ظاہری محض امہال و استدراج کے طور پر یا فقر و تنگدستی عقوبت اور سزا کے طریقہ سے ہے۔ (عیاذا باللہ من ہذا وہذا) ہم پہلے کئی جگہ اس کی تقریر کر چکے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو ہم ہی انہیں رزق دیتے ہیں اور تم کو (بھی) بیشک ان کا قتل بڑا گناہ ہے۔ (۳۱)
تشریح: مشرکین عرب بعض اوقات تو لڑکیوں کو اس لئے دفن کر دیتے تھے کہ اپنے گھر میں لڑکی کے وجود ہی کو وہ باعث شرم سمجھتے تھے، اس کے علاوہ بعض مرتبہ اولاد کو اس لئے قتل کر دیتے تھے کہ ان کو کھلانے سے مفلس ہو جانے کا احتمال تھا۔
(توضیح القرآن)
اور زنا کے قریب نہ جاؤ بیشک یہ بے حیائی ہے اور برا راستہ۔ (۳۲)
تشریح: یعنی زنا کرنا تو بڑی چیز ہے۔ اس کے پاس بھی مت جاؤ۔ گویا لاتقربوا میں مبادی زنا سے بچنے کی ہدایت کر دی گئی۔ مثلاً اجنبی عورت کی طرف بدون عذر شرعی نظر کرنا یا بوس و کنار وغیرہ۔
کیونکہ زنا سے انساب میں گڑ بڑ ہوتی ہے اور بہت طرح کی لڑائیاں اور جھگڑے کھڑے ہوتے ہیں اور سب کے لیے بری راہ نکلتی ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اگر یہ راہ نکلی تو ایک شخص دوسرے کی عورت پر نظر کرے، کوئی دوسرا اس کی عورت پر کرے گا۔ ” مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجئے۔ حاضرین نے اسے ڈانٹ بتلائی کہ (پیغمبر خدا کے سامنے ایسی گستاخی؟) خبردار چپ رہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا کہ میرے قریب آؤ۔ وہ قریب آ کر بیٹھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو یہ حرکت اپنی ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ میں سے کسی کی نسبت پسند کرتا ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! خدا مجھ کو آپ پر قربان کرے ہرگز نہیں۔ فرمایا دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں، بیٹیوں، بہنوں، پھوپھیوں اور خالاؤں کے لیے یہ فعل گوارا نہیں کرتے۔ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ الٰہی اس کے گناہ کو معاف فرما اور اس کے دل کو پاک اور شرمگاہ کو محفوظ کر دے۔ "ابو اُمامہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کے بعد اس شخص کی یہ حالت ہو گئی کہ کسی عورت وغیرہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا تھا۔ "اللہم صل علی سیدنا محمدٍ و بارک وسلم”
(تفسیرعثمانی)
اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق پر، اور جو مظلوم مارا گیا تو تحقیق ہم نے اس کے وارث کے لئے ایک اختیار (قصاص) دیا ہے، بس وہ حد سے نہ بڑھے قتل میں، بیشک وہ مدد دیا گیا ہے۔ (۳۳)
تشریح:صحیحین میں ہے کہ کسی مسلمان کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں، جان کے بدلے جان، یا زانی محصن یا جو شخص دین کو چھوڑ کر جماعت سے علیحدہ ہو جائے۔
اولیائے مقتول کو اختیار ہے کہ حکومت سے کہہ کر خون کا بدلہ لیں، لیکن بدلہ لیتے وقت حد سے نہ گزریں۔ مثلاً قاتل کی جگہ غیر قاتل کو سزا دلوانے لگیں یا قاتل کے ساتھ دوسرے بے گناہوں کو بھی شامل کر لیں۔ یا قاتل کے ناک، کان وغیرہ کو کاٹنے اور مثلہ کرنے لگیں۔ خدا نے اس کی مدد کی کہ بدلہ لینے کا حق دیا اور حکام کو امر فرمایا کہ حق دلوانے میں کمی نہ کریں۔ بلکہ ہرکسی کو لازم ہے کہ خون کا بدلہ دلانے میں مدد کرے۔ نہ یہ کہ الٹا قاتل کی حمایت کرنے لگے۔ اور وارث کو بھی چاہیے کہ ایک کے بدلے دو نہ مارے یا قاتل ہاتھ نہ لگا تو اس کے بیٹے بھائی کو نہ مار ڈالے جیسے جاہلیت میں رواج تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ (تصرف نہ کرو) مگر اس طریقہ سے جو سب سے بہتر ہو، یہاں تک کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچ جائے، اور عہد کو پورا کرو، بیشک عہد ہے پر سش کیا جانے والا (ضرور پرسش ہو گی) ۔ (۳۴)
تشریح:یہ یتیم کے رشتہ داروں اور خاص طور پر اس کے سرپرستوں کو خطاب ہو رہا ہے کہ اگر یتیم کو اپنے مرحوم باپ سے میراث میں کوئی مال ملا ہو تو اسے امانت سمجھو اور اس میں وہی تصرف تمہارے لئے جائز ہے جو یتیم کے حق میں فائدہ مند ہو، کوئی ایسا کام جائز نہیں جس میں اس کو نقصان پہنچ جائے، یعنی بالغ ہو کر اسے اتنی سمجھ آ جائے کہ وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھنے لگے تو اس وقت اس کا مال اسی کے حوالے کر دینا واجب ہے، یہ مسئلہ قرآن کریم نے تفصیل کے ساتھ سوۂ نساء (۴:۲) میں بیان فرمایا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور جب تم ماپ کر دو تو پیمانہ پورا کرو، اور وزن کرو سیدھی ترازو کے ساتھ، یہ بہتر ہے اور سب سے اچھا ہے انجام کے اعتبار سے۔ (۳۵)
تشریح: ناپ تول میں کمی کرنے سے معاملات کا نظام مختل ہو جاتا ہے۔ قوم شعیب کی ہلاکت کا قصہ پہلے کئی جگہ آچکا ہے ان کا بڑا عملی گناہ یہ ہی بیان کیا گیا ہے۔ روایات میں ہے کہ جو شخص کسی حرام پر قدرت پا کر محض خدا کے خوف سے رک جائے تو خدا تعالیٰ اسی دنیا میں آخرت سے پہلے اس کو نعم البدل عطا فرمائے گا۔
دغا بازی اول چلتی ہے پھر لوگ خبردار ہو کر اس سے معاملہ نہیں کرتے۔ اور پورا حق دینے والا سب کو بھلا لگتا ہے۔ اللہ اس کی تجارت خوب چلاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں، بیشک کان اور آنکھ اور دل، ان میں سے ہر ایک پرسش کیا جانے والا ہے (ہر ایک کی پرسش ہو گی) ۔ (۳۶)
تشریح:یعنی بے تحقیق بات زبان سے مت نکال، نہ اس کی اندھا دھند پیروی کر۔ آدمی کو چاہیے کہ کان، آنکھ اور دل و دماغ سے کام لے کر اور بقدر کفایت تحقیق کر کے کوئی بات منہ سے نکالے یا عمل میں لائے۔ سنی سنائی باتوں پر بے سوچے سمجھے یوں ہی اٹکل پچو سے کوئی قطعی حکم نہ لگائے یا عمل درآمد شروع نہ کرے۔ اس میں جھوٹی شہادت دینا، غلط تہمتیں لگانا، بے تحقیق چیزیں سن کر کسی کے درپے آزار ہونا یا بغض و عداوت قائم کر لینا، باپ دادا کی تقلید یا رسم و رواج کی پابندی میں خلاف شرع اور ناحق باتوں کی حمایت کرنا، ان دیکھی یا ان سنی چیزوں کو دیکھی یا سنی ہوئی بتلانا۔ غیر معلوم اشیاء کی نسبت دعویٰ کرنا کہ میں جانتا ہوں یہ سب صورتیں اس آیت کے تحت میں داخل ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قیامت کے دن تمام قویٰ کی نسبت سوال ہو گا کہ ان کو کہاں کہاں استعمال کیا تھا، بے موقع تو خرچ نہیں کیا؟
(تفسیرعثمانی)
اور زمین میں اتراتا ہوا نہ چل بیشک تو زمین کو ہر گز نہ چیر ڈالے گا، اور نہ پہاڑ کی بلندی کو پہنچے گا۔ (۳۷)
تشریح: یعنی متکبروں کی چال چلنا انسان کو زیبا نہیں نہ تو زور سے پاؤں مار کر وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے نہ گردن ابھارنے اور سینہ تاننے سے اونچا ہو کر پہاڑوں کے برابر ہو سکتا ہے۔ پھر ایسے ضعف و عجز اور اس بساط پر اپنے کو اس قدر لمبا کھینچنے سے کیا فائدہ؟
(تفسیرعثمانی)
یہ تمام برائیاں تیرے رب کے نزدیک نا پسندیدہ ہے۔ (۳۸)
تشریح:یعنی جن باتوں کو اوپر منع کیا ان کے کرنے میں رب کی بیزاری ہے اور جن کا حکم کیا ان کے نہ کرنے میں بیزاری ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ حکمت کی (ان باتوں) میں سے ہے جو تیرے رب نے تیری طرف وحی کی ہے، اور نہ بنا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود، کہ پھر تو جہنم میں ڈال دیا جائے ملامت زدہ دھکیلا ہوا (راندۂ درگاہ) ۔ (۳۹)
تشریح:یعنی اوپر جو پر مغز اور بیش بہا نصیحتیں کی گئیں، یہ وہ علم و حکمت اور تہذیب اخلاق کی باتیں ہیں جنہیں عقل سلیم قبول کرتی ہے۔ اور جو وحی کے ضمن میں نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاواسطہ اور امت امیہ کی طرف بواسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھیجی گئیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تمہیں چن لیا تمہارے رب نے بیٹوں کے لئے اور اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا، بیشک تم بڑا بول بولتے ہو۔ (۴۰)
تشریح: پیچھے کئی مرتبہ گزرا ہے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، حالانکہ خود اپنے لئے بیٹیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے تھے، اور اپنے لئے ہمیشہ بیٹوں کی تمنا کیا کرتے تھے، اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ تمہارے خیال کے مطابق تمہیں تو اللہ تعالی نے بیٹے دینے کے لئے چن لیا ہے اور خود بیٹیاں رکھی ہیں جو تمہارے خیال کے مطابق باپ کے لئے باعث عار ہوا کرتی ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان کیا ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں اور (اس سے) انہیں نہیں بڑھتی مگر نفرت۔ (۴۱)
تشریح:یعنی قرآنِ کریم مختلف عنوانوں اور رنگ برنگ کے دلائل و شواہد سے ان مشرکین کو فہمائش کرتا ہے۔ لیکن بجائے نصیحت حاصل کرنے کے یہ بدبخت اور زیادہ بدکتے اور وحشت کھا کر بھاگتے ہیں۔
(تفسیر عثمانی)
کہہ دیں اگر جیسے وہ کہتے ہیں اس کے ساتھ اور معبود ہوتے تو اس صورت میں وہ عرش کے مالک کی طرف ضرور ڈھونڈتے کوئی راستہ۔ (۴۲)
تشریح:یعنی پرایا محکوم رہنا کیوں پسند کرتے، سب مل کر خدا تعالیٰ کے تخت سلطنت کو الٹ ڈالتے۔ اگر کہا جائے کہ صاحب عرش کے مقابلہ میں ان کی کچھ چلتی نہیں تو ایک عاجز مخلوق کی عبادت کرنا پرلے درجہ کی حماقت ہے یا اگر وہ معبود خود رب العرش کو خوش رکھنا اور اس کا قرب حاصل کرنا اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے پوجنے والوں کے لیے اور بھی زیادہ ضروری ہوا کہ خدائے اکبر کو خوش رکھنے کی فکر کریں۔ لیکن خدائے بزرگ تمام انبیاء کی زبانی اور فطرتِ انسانی کی معرفت شرک سے اپنی کامل بیزاری کا اظہار فرما چکا۔ پھر تعجب ہے کہ یہ احمق کس راستہ پر اندھا دھند چلے جا رہے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اس سے بے نہایت پاک ہے اور برتر جو وہ کہتے ہیں۔ (۴۳)
اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں ساتوں آسمان اور زمین اور جو ان میں ہے، کوئی چیز نہیں مگر (ہر شے) پاکیزگی بیان کرتی ہے، اس کے حمد کے ساتھ، لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ (۴۴)
تشریح: یعنی ہر ایک مخلوق زبان سے یا حال سے اس کی پاکی اور خوبیاں بیان کرتی ہے لیکن تم اسے سمجھتے نہیں۔ خواہ فکر و تامل نہ کرنے کی وجہ سے یا اس قوت کے فقدان کی وجہ سے جس کے ذریعہ بعض مخلوقات کی تسبیح قالی سنی اور سمجھی جا سکتی ہے۔ اور اگر کوئی شخص باوجود سمجھنے کے قبول نہ کرے یا اس کے مقتضیٰ پر عمل نہ کرے۔ تو یہ سمجھنا نہ سمجھنے ہی کے حکم میں ہے۔
تمام مخلوقات جس کی پاکی بیان کریں تم اس کے لیے شرکاء، اولاد اور بیٹیاں تجویز کرو۔ یہ ایسی گستاخی تھی کہ تم کو فوراً ہلاک کر دیا جاتا لیکن وہ اپنے حلم سے شتاب نہیں پکڑتا اور توبہ کر لو تو بخش دیتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب تم قرآن پڑھتے ہو ہم تمہارے اور ان کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے کر دیتے (ڈال دیتے ) ہیں ایک چھپا ہوا (دبیز) پردہ۔ (۴۵)
تشریح:جو شخص آخرت کو نہ مانے اور اپنے بھلے برے انجام کی کچھ فکر نہ رکھے وہ نصیحت کی طرف کیوں دھیان کرنے لگا۔ جب اسے نجات ہی کی فکر نہیں تو نجات دلانے والے پیغمبر کے احوال و اقوال میں غور کرنے اور بارگاہِ رسالت تک پہنچنے کی کیا ضرورت ہو گی۔ بس یہی عدم ایمانِ بالآخرت اور انجام کی طرف سے بے فکری وہ معنوی پردہ ہے جو اس شخص کے اور نبی (من حیث ہو نبی) کے درمیان لٹکا دیا جاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے کہ وہ نہ سمجھیں، اور ان کے کانوں میں گرانی ہے اور جب تم قرآن میں اپنے یکتا رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ پیٹھ پھیر کر نفرت کرتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ (۴۶)
تشریح: پہلے پیغمبر کی صداقت تک نہ پہنچ سکنے کا ذکر کیا تھا۔ یہاں فہم قرآن تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کا بیان ہے یعنی اس قرآن میں ایسی قوی تاثیر ہے، اور کافروں پر اثر نہیں ہوتا، یہ سبب ہے کہ اوٹ میں ہیں۔ آفتاب سے سارا جہان روشن ہے لیکن اگر کوئی شخص تہ خانہ میں تمام دروازے اور تابدان بند کر کے بیٹھ جائے، بلکہ آنکھیں بھی بند کر لے تو اس کے اعتبار سے آفتاب کی روشنی کہیں بھی نہیں۔
جب بہ نیت انتفاع وا ستفادہ سننا نہیں چاہتے تو گویا سنتے ہی نہیں (تنبیہ) خدا تعالیٰ نے جو حجاب اور پردے وغیرہ ڈالے یہ وہی ہیں جن کا وجود انہوں نے خود اپنے لیے بڑی خوشی اور فخر سے ثابت کیا تھا۔ "وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ مِّمَّاتَدْعُوْنَا اِلَیْہِ وَفِیْ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْ بَیْنِنَا وَبَیْنَکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عَامِلُوْنَ” (حم السجدہ، رکوع١، آیت:٥) آخرت پر ایمان نہ رکھنا اور انجام سے بے فکر رہنا، خدائے واحد کے ذکر سے چڑنا، پیغمبروں کے ساتھ تمسخر کرنا، وہ چیزیں ہیں جو حجاب، کنان اور وقر کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اور چونکہ خالق ہر چیز کا خدا تعالیٰ ہے اس لیے ان کے خلق کی نسبت بھی اس کی طرف کی جاتی ہے۔
خدائے واحد کے ذکر سے چڑتے، بدکتے اور پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں، ہاں ان کے معبودوں کا تذکرہ آئے تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ "وَاِذَا ذُکِرَ اللہُ وَحْدَہُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِیْنَ لَا یُوْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ وَاِذَا ذُکِرَ الَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ اِذَاہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ” (زمر، رکوع٥، آیت:٤٥)
(تفسیرعثمانی)
ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ اس کو کس غرض سے سنتے ہیں جب وہ تمہاری طرف کان لگاتے ہیں اور جب وہ سرگوشی کرتے ہیں (یعنی) جب کہتے ہیں ظالم کہ تم پیروی نہیں کرتے مگر ایک سحر زدہ آدمی کی۔ (۴۷)
تشریح: یعنی قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سن کر گئے۔ پھر آپس میں مشورہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کیا کہنا چاہیے۔ آخر کہنے لگے کہ یہ شخص جادو کا مارا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ یعنی جادو کے اثر سے مجنون ہو گیا، دماغ ٹھکانے نہیں رہا (العیاذ باللہ العظیم) بعض نے "مسحور” کو یہاں "ساحر” کے معنی میں لیا ہے گویا اس کی باتوں میں جادو کا اثر ہے۔ (تنبیہ) لفظ "مسحور” سے جو مطلب وہ لیتے تھے اس کی نفی سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی پر کسی قسم کے سحر کا کسی درجہ میں عارضی طور پر بھی اثر نہ ہو سکے یہ آیت مکی ہے۔ مدینہ میں آپ پر یہود کے جادو کرانے کا واقعہ صحاح میں مذکور ہے۔ جس کا اثر چند روز تک صرف اتنا رہا کہ بعض دنیاوی کاموں میں کبھی کبھی ذہول ہو جاتا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
دیکھو! انہوں نے تم پر کیسی مثالیں چسپاں کیں سو وہ گمراہ ہوئے، پس وہ کوئی اور راہ نہیں پاتے۔ (۴۸)
تشریح: یعنی کبھی شاعر کہتے، کبھی جادو گر، کبھی کاہن، کبھی مسحور یا مجنون، غرض بہکی بہکی باتیں کرتے رہتے ہیں کسی ایک بات پر جماؤ نہیں جس وقت جو منہ میں آیا بک دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ باوجود جدوجہد کے طعن و تشنیع کا کوئی ایسا راستہ انہیں نہیں مل سکتا جس پر چل کر وہ اپنے مقصد اغواء و اضلال میں کامیاب ہو سکیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو گئے، کیا ہم پھر نئی پیدائش (از سر نو) جی اٹھیں گے۔ (۴۹)
تشریح: یعنی آپ پر مسحور و مجنون یا شاعر و کاہن وغیرہ کی مثالیں چسپاں کرنا تو تعجب انگیز تھا ہی، اس سے زیادہ قابل تعجب وہ دلیل ہے جو (معاذ اللہ) مسحور و مجنون ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے تھے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ موت کے بعد ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ آدمی کا بدن گل سڑ کر سفید ہڈیاں رہ جاتی ہیں تھوڑے دنوں بعد وہ بھی ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل جاتی ہیں۔ کیا کوئی ذی ہوش یہ تجویز کر سکتا ہے کہ یہ ہڈیوں کا چورہ اور خاک کے ریزے دوبارہ جی اٹھیں گے؟ اور انسانی حیات ان منتشر ذرات میں عود کر آئے گی؟ اگر پیغمبر ایسی ناممکن بات کی خبر دیتے ہیں تو ثابت ہوتا ہے کہ (العیاذ باللہ) ان کی دماغی صحت بحال نہیں ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کہہ دیں تم پتھر یا لوہا ہو جاؤ۔ (۵۰)
یا کوئی اور مخلوق جو تمہارے خیالوں میں اس سے بھی بڑی ہو، پھر اب کہیں گے ہمیں کون لوٹائے گا؟ فرما دیں وہ جس نے تمہیں پیدا کیا پہلی بار، تو وہ تمہاری طرف اپنے سر مٹکائیں گے اور کہیں گے یہ کب ہو گا ؟ (قیامت کب آئے گی) آپ فرما دیں شاید کہ نزدیک ہی ہو۔ (۵۱)
تشریح: یعنی یہ ریزے اور چورا تو بہرحال انسانی لاش کا ہے جس میں پیشتر زندگی رہ چکی ہے۔ اور خود مٹی کے ذرات میں بھی آثارِ حیات کا پیدا ہو جانا چنداں مستبعد نہیں۔ میں اس سے بڑھ کر تم کو اجازت دیتا ہوں کہ ہڈیوں کا چورا نہیں، اگر ممکن ہو تو پتھر یا لوہا بن جاؤ۔ جو آثارِ حیات کے قبول کرنے سے بالکل محروم نظر آتے ہیں، بلکہ کوئی ایسی سخت چیز بن کر تجربہ کر لو جس کا زندہ ہونا لوہے اور پتھر سے بھی زیادہ مشکل معلوم ہو حتیٰ کہ مجسم موت بن کر دیکھ لو کہ پھر بھی اس قادر مطلق کو تمہارا زندہ کر دینا کس قدر آسان ہے۔
جس نے پہلی بار تم کو مٹی یا نطفہ سے پیدا کیا اور جمادِ لایعقل پر روحِ انسانی فائض کر دی۔ کیا اب اس میں قدرت نہیں رہی کہ خاک کے ذرات اور مردہ لاش کے اجزاء کو جمع کر کے دوبارہ زندگی عنایت کر دے۔
استہزاء و تمسخر سے سر ہلا کر کہتے ہیں کہ ہاں صاحب! بوسیدہ ہڈیوں کے ریزوں میں کب جان پڑے گی۔ اور کب مردے قبروں سے حساب کے لیے اٹھائے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
جس دن وہ تمہیں پکارے گا تو تم اس کی تعریف کے ساتھ تعمیل کرو گے (قبروں سے نکل آؤ گے) اور تم خیال کرو گے کہ تم (دنیا میں) رہے ہو صرف تھوڑی دیر۔ (۵۲)
تشریح: یعنی قیامت کا ٹھیک وقت حق تعالیٰ نے کسی کو نہیں بتلایا ہاں اس کے مستقبل قریب میں آنے کی تم امید ظاہر کر سکتے ہو۔ گویا دنیا کی بقیہ عمر اس سے کم ہے جتنی گزر چکی ہے۔ جس وقت خدا کی طرف سے آواز دی جائے گی ایک ڈانٹ میں سب مردے زمین سے نکل کر میدانِ حشر میں جمع ہو جائیں گے کسی کو سرتابی کی مجال نہ ہو گی۔ ہر ایک انسان اس وقت مطیع و منقاد ہو کر خدا کی حمد و ثنا کرتا ہوا حاضر ہو گا۔ گو کافر کو اس وقت کی اضطراری حمدو ثنا سے کچھ فائدہ نہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ مومنین کی زبان پر یہ الفاظ ہوں گے۔ "الحمد للہ الذی اذہب عنا الحزن”
(تفسیرعثمانی)
اور میرے بندوں کو فرما دیں کہ (بات) وہ کہیں جو سب سے اچھی ہو، بیشک شیطان ان کے درمیان فساد ڈال دیتا ہے، بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (۵۳)
تشریح: اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ جب ان کی کافروں کے ساتھ گفتگو ہوتو ان کے ساتھ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ بات کیا کریں کیونکہ غصے کے عالم میں سخت قسم کی باتوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور ایسی باتیں شیطان اس لئے کہلواتا ہے کہ ان سے فساد پیدا ہو۔
(توضیح القرآن)
تمہارا رب تمہیں خوب جانتا ہے، اگر وہ چاہے تو تم پر رحم کرے یا اگر وہ چاہے تو تمہیں عذاب دے اور ہم نے تمہیں ان پر داروغہ (بنا کر) نہیں بھیجا۔ (۵۴)
اور تمہارا رب خوب جانتا ہے، جو کوئی آسمانوں میں اور زمین میں ہے، اور تحقیق ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی، اور ہم نے داؤد کو زبور دی۔ (۵۵)
تشریح: یعنی ہم اپنے علم محیط کے موافق ہر ایک کے ساتھ معاملہ کر تے ہیں۔ جس کو مناسب جانا آدمیوں میں سے پیغمبر بنایا۔ پھر جس پیغمبر کو چاہا دوسرے پیغمبروں پر کلی یا جزئی فضیلت عنایت کی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی بعضے نبی تھے کہ (امت کی حد سے زیادہ شرارتوں پر آخرکار) جھنجھلا گئے۔ آپ کا حوصلہ ان سے زیادہ رکھا ہے۔ (اور سب پر فضیلت دی ہے، لہٰذا آپ کی خوش اخلاقی اپنے مرتبہ عالی کے موافق ہونی چاہیے) اور خصوصیت سے داؤد کا ذکر کیا۔ کیونکہ دونوں چیزیں رکھتے تھے، جہاد بھی اور زبور بھی، سمجھانے کو (وفی الحدیث کَانَ لَا یَفِرَّ اِذَا لَاقٰی) وہ دونوں باتیں یہاں بھی ہیں” قرآن اور جہاد۔ بعض نے کہا کہ یہاں "زبور” کا ذکر کر کے حضور کی فضیلت کلیہ اور امت محمدیہ کے فضل و شرف کی طرف اشارہ فرما دیا، کیونکہ حضور کے خاتم الانبیاء اور اس امت کے اشرف الامم ہونے پر زبور شریف کے مضامین مشتمل تھے۔ "وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُہَا عبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ” (انبیاء، رکوع٨، آیت:١٠٥) یعنی محمدًا وامۃ المرحومہ۔
(تفسیرعثمانی)
کہہ دیں پکارو انہیں جن کو تم اس کے سوا (معبود) گمان کرتے ہو، پس وہ اختیار نہیں رکھتے تم سے تکلیف دور کرنے کا اور نہ بدلنے کا۔ (۵۶)
وہ لوگ جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ (خود) ڈھونڈتے ہیں اپنے رب کی طرف وسیلہ کہ ان سے کون زیادہ قریب ہے، اور اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، بیشک تیرے رب کا عذاب ڈر (ہی) کی بات ہے۔ (۵۷)
تشریح:اس سے مراد بت نہیں بلکہ وہ فرشتے اور جنات ہیں جن کو مشرکین عرب خدائی کا درجہ دیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ یہ خدا تو کیا ہوتے خود اللہ تعالی کی مخلوق ہیں، اور اس کے تقرب کے راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور کوئی (نافرمان) بستی نہیں مگر ہم اسے ہلاک کرنے والے ہیں، قیامت کے دن سے پہلے، یا اسے سخت عذاب دینے والے ہیں، یہ کتاب میں ہے لکھا ہوا۔ (۵۸)
تشریح:یعنی اگر کافروں پر ابھی جلدی سے کوئی عذاب نہیں آ رہا ہے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیشہ کے لئے عذاب سے بچ گئے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ یا تو ان پر کوئی سخت عذاب دنیا ہی میں آ جائے گا، ورنہ قیامت سے پہلے پہلے سبھی کو ہلاک ہونا ہے، اور پھر آخرت میں ان کافروں کو دائمی عذاب ہو کر رہے گا۔
(توضیح القرآن)
اور ہمیں نشانیاں بھیجنے سے نہیں روکا، مگر (اس بات نے) کہ ان کو اگلوں نے جھٹلایا، اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی ذریعۂ بصیرت و عبرت، انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں نہیں بھیجتے مگر (صرف) ڈرانے کو۔ (۵۹)
تشریح:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد معجزات دیکھنے کے باوجود مشرکین آپ سے نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، یہ ان مطالبات کا جواب ہے :فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی کی سنت یہ ہے کہ جب کافروں کو کوئی فرمائشی معجزہ دکھا دیا جاتا ہے، اور وہ اس کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو انہیں عذاب سے ہلاک کر دیا جاتا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ قوم ثمود کے مطالبے پر پہاڑ سے اونٹنی نکال دی تھی، مگر وہ پھر بھی نہ مانے اس لئے عذاب کا شکار ہوئے، اللہ تعالی کو معلوم ہے کہ یہ مشرکین عرب بھی فرمائشی معجزہ دیکھنے کے باوجود اسی طرح پیغمبر کو جھٹلاتے رہیں گے جس طرح پچھلی قوموں نے جھٹلایا تھا، چونکہ ابھی ان کو ہلاک کرنا اللہ تعالی کی حکمت کو منظور نہیں ہے، اس لئے فرمائشی معجزات نہیں دکھائے جا رہے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور جب ہم نے تم سے کہا کہ بیشک تمہارا رب لوگوں کو (احاطہ) قابو کئے ہوئے ہے، اور جو دکھاوا ہم نے تمہیں دکھایا وہ ہم نے نہیں کیا مگر آزمائش کے لئے، اور تھوہر کا درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے، اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو انہیں بڑھتی ہے صرف بڑی سرکشی۔ (۶۰)
تشریح:یعنی اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا کہ اللہ تعالی کے علم میں ہے کہ یہ ہٹ دھرم لوگ کسی صورت میں ایمان نہیں لائیں گے، چنانچہ ان کی ہٹ دھرمی کی دو مثالیں دی گئی ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کے موقع پر جو نظارہ دکھایا وہ آپ کے پیغمبر ہونے کی کھلی دلیل تھی، کافروں نے آپ سے بیت المقدس کے بارے میں مختلف سوالات کئے، اور آپ نے سب کے ٹھیک ٹھیک جوابات دے دئیے، جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ واقعی آپ نے راتوں رات یہ سفر کیا ہے، لیکن اتنی کھلی ہوئی بات سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے، دوسری مثال یہ ہے کہ قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ زقوم کا درخت دوزخیوں کی غذا ہو گی، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ درخت جہنم ہی میں پیدا ہوتا ہے، اس پر کافروں نے ایمان لانے کے بجائے مذاق اڑانا شروع کیا کہ بھلا آگ میں درخت کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور یہ نہ سوچا کہ جس ذات نے آگ پیدا کی ہے، اگر وہ اسی آگ میں کوئی درخت بھی پیدا کر دے جس کی خاصیت عام درختوں سے مختلف ہو تو بھلا اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔
(توضیح القرآن)
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا ان سب نے سجدہ کیا، اس نے کہا کیا میں اسے سجدہ کروں؟ جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔ (۶۱)
تشریح:یہ قصہ کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہاں اس پر متنبہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کا بے چون و چرا ماننا فرشتوں کا اور اس میں شبہات نکالنا شیطان کا کام ہے۔ یہ کافر بھی اس کی چال چل رہے ہیں۔ جو بات بات میں کج بحثیاں کرتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جو ان کے امام ابلیس لعین کا ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نہ کہا بھلا دیکھ تو یہ ہے وہ ؟ جسے تو نے مجھ پر عزت دی ہے، البتہ اگر تو مجھے روز قیامت تک ڈھیل دے تو میں چند ایک کے سوا اس کی اولاد کو جڑ سے اکھاڑ دوں گا۔ (۶۲)
تشریح:یعنی تھوڑے سے چھوڑ کر باقی سب کو اپنا مسخر کر لوں جیسے گھوڑے کو لگام دے کر قابو کر لیا جاتا ہے، پھر جو میرے سامنے اتنا کمزور ہے اسے مجھ پر فضیلت دینا کس طرح جائز ہو گا؟ (تفسیرعثمانی)
اس نے فرمایا جا، پس ان میں سے جس نے تیری پیروی کی تو بیشک جہنم تمہاری سزا ہے، سزا بھی بھر پور۔ (۶۳)
تشریح:یعنی جا! جتنا زور لگا سکتا ہے لگا لے، یہاں بھی تیرے اور تیرے ساتھیوں کے واسطے جیل خانہ تیار ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور پھسلالے جس پر ان میں سے اپنی آواز سے، تیرا بس چلے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا، اور ان سے ساجھا کر لے مال اور اولاد میں، اور ان سے وعدے کر، اور ان سے شیطان کا وعدہ صرف دھوکہ ہے۔ (۶۴)
تشریح: بِصَوْتِکَ :آواز سے بہکانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں گناہ کے وسوسے پیدا کرے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد گانے بجانے کی آواز ہے جو انسان کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے۔
وَأَجْلِبْ عَلَيْہمْ بِخَيْلِکَ :شیطان کو دشمن کی فوج سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک فوج میں ساروں کے بھی دستے ہوتے ہیں اور پیدل چلنے والے دستے بھی، اسی طرح شیطان اپنی ایک فوج رکھتا ہے جس میں شریر جنات اور انسان شامل ہیں، یہ سب مل کر انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی مدد کرتے ہیں۔
وَشَارِكْہمْ فِی الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ :اس میں اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مال اور اولاد کو اللہ تعالی کے احکام کے خلاف حاصل کرتا یا انہیں ناجائز کاموں میں استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے مال اور اولاد میں شیطان کا حصہ لگا لیا ہے۔
(توضیح القرآن)
بیشک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں اور تیرا رب کار ساز ہے۔ (۶۵)
تشریح:میرے بندوں سے مراد مخلص بندے ہیں جو اللہ تعالی کی فرماں برداری کی فکر رکھتے ہیں۔ (توضیح القرآن)
تمہارا رب ہے جو کہ تمہارے لئے دریا میں کشتی چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل (روٹی) تلاش کرو، بیشک وہ تم پر نہایت مہربان ہے۔ (۶۶)
اور جب تمہیں دریا میں تکلیف پہنچتی ہے گم ہو جاتے ہیں (بھول جاتے ہیں) جنہیں اس کے سوا تم پکارتے تھے، پھر جب وہ تمہیں بچا لایا، خشکی کی طرف تو تم پھر جاتے ہو، اور انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (۶۷)
تشریح: فَلَمَّا نَجَّاكُمْ إِلَى الْبَرِّ أَعْرَضْتُمْ :یعنی مصیبت سے نکلتے ہی محسن حقیقی کو بھول جاتا ہے چند منٹ پہلے دریا کی موجوں میں خدا یاد آ رہا تھا کنارہ پر قدم رکھا اور بے فکر ہو کر سب فراموش کر بیٹھا۔ اس سے بڑھ کر ناشکر گذاری کیا ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
سو کیا تم نڈر ہو گئے ہو کہ وہ زمین میں دھنسا دے تمہیں خشکی کی طرف (لے جا کر) یا تم پر پتھر برسانے والی ہوا بھیجے، پھر تم اپنے لئے کوئی کارساز نہ پاؤ۔ (۶۸)
تشریح:یعنی سمندر کے کنارے خشکی پر دھنسا دے۔ مثلاً زلزلہ آ جائے اور زمین شق ہو کر قارون کی طرح اس میں دھنس جاؤ۔ خلاصہ یہ کہ ہلاک کرنا کچھ دریا کی موجوں پر موقوف نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
یا تم بے فکر ہو گئے ہو کہ وہ دوبارہ اس (دریا) میں لے جائے، پھر تم پر ہوا کا سخت جھونکا (طوفان) بھیج دے، پھر تمہیں ناشکری کے بدلے میں غرق کر دے، پھر تم اپنے لئے اس پر ہمارا کوئی پیچھا کرنے والا نہ پاؤ۔ (۶۹)
تشریح: ثُمَّ لَا تَجِدُوْا لَكُمْ عَلَيْنَا بِہٖ تَبِيْعًا: یعنی اس معاملہ میں نہ کوئی ہم سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتا ہے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو کیوں ہلاک کیا، اور نہ کوئی ہمارے فیصلے کو ٹالنے کے لئے ہمارا پیچھا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور تحقیق ہم نے اولاد آدم کو عزت بخشی، اور ہم نے انہیں خشکی اور دریا میں سواری دی، اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بڑائی دے کر فضیلت دی۔ (۷۰)
تشریح:یعنی آدمی کو حسنِ صورت، نطق، تدبیر اور عقل و حواس عنایت فرمائے جن سے دنیاوی و اخروی مضار و منافع کو سمجھتا اور اچھے برے میں تفریق کرتا ہے۔ ہر طرف ترقی کی راہیں اس کے لیے کھلی ہیں دوسری مخلوقات کو قابو میں لا کر اپنے کام میں لگاتا ہے۔ خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر یا دوسری طرح طرح کی گاڑیوں میں سفر کرتا اور سمندروں کو کشتیوں اور جہازوں کے ذریعہ بے تکلف طے کرتا چلا جاتا ہے۔ قسم قسم کے عمدہ کھانے، کپڑے، مکانات اور دنیاوی آسائش و رہائش کے سامانوں سے منتفع ہوتا ہے۔ ان ہی آدمیوں کے سب سے پہلے باپ آدم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے مسجودِ ملائکہ اور ان کے آخری پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کل مخلوقات کا سردار بنایا۔ غرض نوع انسانی کو حق تعالیٰ نے کئی حیثیت سے عزت اور بڑائی دے کر اپنی بہت بڑی مخلوق پر فضیلت دی۔ اوپر کے رکوع میں آدم کی نسبت شیطان کا ہٰذَا الَّذِی کَرَّمْتَ عَلَیَّ کہنا اور ملائکہ کا آدم کو سجدہ کرنا، پھر بنی آدم کو کشتی کے ذریعہ دریائی سفر طے کرانا مذکور تھا۔ اس آیت کا مضمون مضامین مذکورہ بالا سے صاف طور پر مربوط ہے (تنبیہ) مفسرین نے اس آیت کے تحت میں یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ ملائکہ اور بشر میں کون افضل ہے کون مفضول۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ آیت سے اس مسئلہ کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ حنفیہ کی رائے یہ نقل کی ہے کہ "رسل بشر”، "رسل ملائکہ” سے افضل ہیں اور رسل ملائکہ (باستثنائے رسل بشر کے) باقی تمام فرشتوں اور آدمیوں سے افضل ہیں۔ اور عام فرشتوں کو عام آدمیوں پر فضیلت حاصل ہے واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
جس دن ہم تمام لوگوں کو بلائیں گے، ان کے پیشواؤں کے ساتھ، پس جس کو اس کی کتاب (اعمال نامہ) دائیں ہاتھ میں دی گئی تو وہ لوگ اپنا اعمال نامہ پڑھیں گے اور وہ ظلم نہ کئے جائیں گے ایک دھاگے کے برابر (بھی) ۔ (۷۱)
تشریح:یہاں یہ بتلانا ہے کہ دنیا میں فطری حیثیت سے انسان کو جو عزت و فضیلت بخشی تھی اس نے کہاں تک قائم رکھی اور کتنے ہیں جنہوں نے انسانی عز و شرف کو خاک میں ملا دیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن ہر فرقہ اس چیز کی معیت میں حاضر ہو گا جس کی پیروی اور اتباع کرتا تھا۔ مثلاً مومنین کے نبی، کتاب، دینی پیشوا، یا کفار کے مذہبی سردار، بڑے شیطان اور جھوٹے معبود، جنہیں فرمایا ہے "وَجَعَلْنَاہُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ (القصص رکوع٤، آیت:٤١) اور حدیث میں ہے "لتتبع کل امۃٍ ماکانت تعبد” اس وقت تمام آدمیوں کے اعمالنامے ان کے پاس پہنچا دیے جائیں گے۔ کسی کا اعمالنامہ سامنے سے داہنے ہاتھ میں اور کسی کا پیچھے سے بائیں ہاتھ میں پہنچ جائے گا۔ گویا یہ ایک حسی علامت ان کے مقبول یا مردود ہونے کی سمجھی جائے گی۔ "اصحابِ یمین” (داہنے ہاتھ میں اعمالنامہ پکڑنے والے) وہ ہوں گے جنہوں نے دنیا میں حق کو قبول کر کے اپنی فطری شرافت اور انسانی کرامت کو باقی رکھا۔ جس طرح دنیا میں انہوں نے دیکھ بھال کر اور سوچ سمجھ کر کام کیے، آخرت میں ان کی وہ احتیاط کام آئی۔ اس دن وہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں گے، بڑے سرور و انبساط سے اپنا اعمالنامہ پڑھیں گے اور دوسروں کو کہیں گے "ہَاؤُمُ اقْرَءُوْا کِتَابِیَہْ” (الحاقہ، رکوع١، آیت:١٩) کہ آؤ میری کتاب پڑھ لو۔ باقی دوسرے لوگ یعنی "اصحابِ شمال” ان کا کچھ حال اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے (بعض نے لفظ "امام” سے خود اعمالنامہ مراد لیا ہے کیونکہ وہاں لوگ اس کے پیچھے چلیں گے) -وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا :کھجور کی گٹھلی کے درمیان جو ایک باریک دھاگا سا ہوتا ہے، اتنا ظلم بھی وہاں نہ ہو گا۔ ہر ایک کی محنت کا پورا بلکہ پورے سے زیادہ پھل ملے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو اس دنیا میں اندھا رہا پس وہ آخرت میں (بھی) اندھا (اٹھے گا) اور راستے سے بہت بھٹکا ہوا۔ (۷۲)
تشریح: یہاں اندھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں حق کو دیکھنے سے محروم رہا، چنانچہ وہ آخرت میں بھی نجات کا راستہ نہیں دیکھ سکے گا۔
(توضیح القرآن)
اور اس وحی سے جو ہم نے تمہاری طرف کی ہے قریب تھا کہ وہ تمہیں اس سے بچلا دیں (پھسلادیں) تاکہ پر ہم اس (وحی) کے سوا تم جھوٹ باندھو، اور اس صورت میں البتہ وہ تمہیں دوست بنا لیتے۔ (۷۳)
تشریح:یعنی بعض اندھے ایسے شریر ہیں کہ خود تو راہ پر کیا آتے بڑے بڑے سوانکھوں کو بچلانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ کفار مکہ کی اس بے حیائی اور جسارت کو دیکھئے کہ آپ پر ڈورے ڈالتے ہیں کہ خدا نے جو احکام دیے اور وحی بھیجی اس کا ایک حصہ ان کی خاطر سے آپ (معاذ اللہ) چھوڑ دیں یا بدل ڈالیں۔ کبھی حکومت، دولت اور حسین عورتوں کا لالچ دیتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ ہم آپ کے تابع ہو جائیں گے، قرآن میں سے صرف وہ حصہ نکال دیجئے جو شرک و بت پرستی کے رد میں ہے۔ اگر آپ (العیاذ باللہ) بفرض محال ایسا کر گزرتے تو بیشک وہ آپ کو گاڑھا دوست بنا لیتے۔ لیکن آپ کا جواب یہ تھا کہ خدا کی قسم اگر تم چاند اتار کر میری ایک مٹھی میں اور سورج اتار کر دوسری مٹھی میں رکھ تو تب بھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اس چیز کو چھوڑنے والا نہیں جس کے لیے خدا نے اسے کھڑا کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنا کام پورا کرے یا اس راستہ سے گزر جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر ہم تمہیں ثابت قدم نہ رکھتے تو البتہ تم ان کی طرف جھکنے لگتے کچھ تھوڑا۔ (۷۴)
اس صورت میں ہم تمہیں زندگی میں دوگنی (سزا) چکھاتے اور دوگنی موت (کے بعد) پھر تم اپنے لئے نہ پاتے ہمارے مقابلہ میں کوئی مدد گار۔ (۷۵)
تشریح: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے ہر قسم کے گناہوں سے معصوم بنایا تھا، جس کی بنا پر آپ ہر موقع پر ثابت قدم رہے، اگرچہ آپ سے کافروں کی بات ماننے کا دور دور احتمال نہیں تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی فرضی نافرمانی کی صورت میں سزا کا تذکرہ کر کے اللہ تعالی نے یہ بات واضح فرما دی کہ کسی بھی شخص کے لئے اللہ تعالی کی بارگاہ میں مقرب ہونے کا اصل مدار اس کے اعمال پر ہے، اور کوئی شخص کتنا ہی مقرب ہو اگر گناہ کا ارتکاب کرے گا تو سزا کا مستحق ہو گا، بلکہ مقرب ہونے کی وجہ سے اسے دگنی سزا دی جائے گی۔
(توضیح القرآن)
اور تحقیق قریب تھا کہ وہ تمہیں سر زمین مکہ سے پھسلا ہی دیں تاکہ وہ تمہیں یہاں سے نکال دیں اس صورت میں وہ تمہارے پیچھے نہ ٹھہر پاتے مگر تھوڑا (عرصہ) ۔ (۷۶)
تشریح:یعنی چاہتے ہیں کہ تجھے تنگ کر کے اور گھبرا کر مکہ سے نکال دیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ ایسا کیا تو وہ خود زیادہ دنوں تک یہاں نہ رہ سکیں گے چنانچہ اسی طرح واقع ہوا۔ ان کے ظلم و ستم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا سبب بنے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ سے تشریف لے جانا تھا کہ تقریباً ڈیڑھ سال بعد مکہ کے بڑے بڑے نامور سردار گھروں سے نکل کر میدان "بدر” میں نہایت ذلت کے ساتھ ہلاک ہوئے۔ اور اس کے پانچ چھ سال بعد مکہ پر اسلام کا قبضہ ہو گیا۔ کفار کی حکومت و شوکت تباہ ہو گئی اور بالآخر بہت قلیل مدت گزرنے پر مکہ بلکہ پورے جزیرۃ العرب میں پیغمبر علیہ السلام کا ایک مخالف بھی باقی نہ رہا۔
(تفسیرعثمانی)
آپ سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے (یہی) سنت (چلی آ رہی ) ہے اور تم ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔ (۷۷)
تشریح:یعنی ہمارا یہ ہی دستور رہا ہے کہ جب کسی بستی میں پیغمبر خدا کو نہ رہنے دیا تو بستی والے خود نہ رہے۔ (تفسیرعثمانی)
سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کریں اور صبح کا قرآن، بیشک صبح کا قرآن (پڑھنے میں فرشتے) حاضر ہوتے ہیں۔ (۷۸)
تشریح: سورج ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی چار نمازوں کی طرف اشارہ ہے، اور فجر کی نماز کا ذکر الگ سے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کو نماز کے لئے اٹھنا پڑتا ہے، جس میں دوسری نمازوں کے مقابلے میں زیادہ مشقت ہوتی ہے، اس لئے اس کو خاص اہمیت کے ساتھ الگ ذکر فرمایا گیا ہے۔
إِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہوْدًا : اکثر مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ صبح کی نماز میں جو تلاوت کی جاتی ہے اس میں فرشتوں کا مجمع حاضر ہوتا ہے، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی نگرانی کے لئے جو فرشتے مقرر ہیں وہ باری باری اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، چنانچہ ایک جماعت فجر کے وقت آتی ہے جو سارے دن اپنے فرائض انجام دیتی ہے، اور دوسری جماعت شام کو عصر کے وقت آتی ہے، پہلی جماعت فجر کی نماز میں آ کر شریک ہوتی ہے، اور بعض مفسرین نے اس سے نمازیوں کی حاضری مراد لی ہے، یعنی فجر کی نماز میں چونکہ نمازیوں کو حاضری کا موقع دینے کے لئے اس نماز میں لمبی تلاوت کرنی چاہئے۔
(توضیح القرآن)
اور رات کا کچھ حصہ قرآن کی تلاوت کے ساتھ بیدار رہیں، اور تمہارے لئے زائد ہے، قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود میں کھڑا کر دے۔ (۷۹)
تشریح: بعض مفسرین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اضافی طور پر فرض تھی، عام مسلمانوں کے لئے فرض نہیں تھی اور بعض مفسرین نے اضافی عبادت کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی نفلی عبادت ہے۔
مقام محمود کے لفظی معنی قابل تعریف مقام، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا وہ منصب ہے جس کے تحت آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔
(توضیح القرآن)
اور کہیں اے میرے رب! مجھے داخل کر سچا داخل کرنا، اور مجھے نکال سچا نکالنا (اچھی طرح) اور اپنی طرف سے میرے لئے عطا کر غلبہ، مدد دینے والا۔ (۸۰)
تشریح: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر قرار دینے کا حکم ہوا تھا، اس وقت آپ کو یہ دعا مانگنے کی تلقین فرمائی گئی تھی اور اس میں داخل کرنے سے مدینہ منورہ میں داخل کرنا اور نکالنے سے مکہ مکرمہ سے نکالنا مراد ہے، لیکن الفاظ عام ہیں اس لئے یہ دعا ہر اس موقع پر کی جا سکتی ہے جب کوئی کسی نئی جگہ جانے یا نیا کام شروع کرنے کا ارادہ کر رہا ہو۔
(توضیح القرآن)
اور کہہ دیں حق آیا اور باطل نابود ہو گیا، ، بیشک باطل ہے ہی مٹنے والا (نیست و نابود ہونے والا) ۔ (۸۱)
تشریح: اس آیت کریمہ میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ حق یعنی اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہونے والا ہے، چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ فتح کر لیا اور حرم میں داخل ہو کر کعبے میں بنے ہوئے بت گرائے تو اس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہی آیات تھیں۔
(توضیح القرآن)
اور ہم قرآن نازل کرتے ہیں جو مؤمنوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے، اور ظالموں کے لئے زیادہ نہیں ہوتا گھاٹے کے سوا۔ (۸۲)
تشریح:یعنی جس طرح حق کے آنے سے باطل بھاگ جاتا ہے، قرآن کی آیات سے جو بتدریج اترتی رہتی ہیں روحانی بیماریاں دور ہوتی ہیں، دلوں سے عقائد باطلہ، اخلاقِ ذمیمہ اور شکوک و شبہات کے روگ مٹ کر صحت باطنی حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ بسا اوقات اس کی مبارک تاثیر سے بدنی صحت بھی حاصل کی جاتی ہے جیسا کہ "روح المعانی” اور "زادالمعاد” وغیرہ میں اس کا فلسفہ اور تجربہ بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال جو لوگ ایمان لائیں یعنی اس نسخہ شفا کو استعمال کریں گے، تمام قلبی و روحانی امراض سے نجات پا کر خدا تعالیٰ کی رحمت خصوصی اور ظاہری و باطنی نعمتوں سے سرفراز ہوں گے۔ ہاں جو مریض اپنی جان کا دشمن طبیب اور علاج سے دشمنی ہی کی ٹھان لے تو ظاہر ہے کہ جس قدر علاج و دوا سے نفرت کر کے دور بھاگے گا اسی قدر نقصان اٹھائے گا۔ کیونکہ مرض امتدادِ زمانہ سے مہلک ہوتا جائے گا جو آخر جان لے کر چھوڑے گا۔ تو یہ آفت قرآن کی طرف سے نہیں، خود مریض ظالم کی طرف سے آئی کما قال تعالیٰ۔ "وَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِم مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا اِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کَافِرُوْنَ” (توبہ، رکوع١٦، آیت:١٢٥)
(تفسیرعثمانی)
اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں وہ رو گردان ہو جاتا ہے، اور پہلو پھیر لیتا ہے، اور جب اسے برائی پہنچتی ہے تو وہ مایوس ہو جاتا ہے۔ (۸۳)
تشریح:یعنی انسان کا عجیب حال ہے خدا تعالیٰ اپنے فضل سے نعمتیں دیتا ہے تو احسان نہیں مانتا۔ جتنا عیش و آرام ملے اسی قدر منعم حقیقی کی طرف سے اس کی غفلت و اعراض بڑھتا ہے اور فرائض بندگی سے پہلو بچا کر کھسکنا چاہتا ہے۔ پھر جب سخت اور برا وقت آیا تو ایک دم آس توڑ کر اور نا امید ہو کر بیٹھ رہتا ہے۔ گویا دونوں حالتوں میں خدا سے بے تعلق رہا۔ کبھی غفلت کی بناء پر، کبھی مایوسی کی (نعوذ باللہ من کلا الحالین) ۔ یہ مضمون غالباً اس لیے بیان فرمایا کہ قرآن جو سب سے بڑی نعمت الٰہی ہے، بہت لوگ اس کی قدر نہیں پہچانتے بلکہ اس کے ماننے سے اعراض و پہلو تہی کرتے ہیں۔ پھر جب اس کفرانِ نعمت اور اِعراض و انکار کا برا نتیجہ سامنے آئے گا اس وقت قطعاً مایوسی ہو گی کسی طرف امید کی جھلک نظر نہ پڑے گی۔
(تفسیرعثمانی)
کہہ دیں ہر ایک اپنے طریقے پر کام کرتا ہے، سو تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے کون زیادہ صحیح راستہ پر ہے؟ (۸۴)
تشریح:یعنی ہر ایک کافر و مومن اور معرض و مقبل اپنے اپنے طریقے، نیت، طبیعت اور مذہب پر چلتا اور اسی میں مگن رہتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ خدا کے علم محیط سے کسی شخص کا کوئی عمل باہر نہیں ہو سکتا وہ ہر ایک کے طریق عمل اور حرکات و سکنات کو برابر دیکھ رہا ہے اور بخوبی جانتا ہے کہ کون کتنا سیدھا چلتا ہے اور کس میں کس قدر کجروی اور کجراہی ہے ہر ایک کے ساتھ اسی کے موافق برتاؤ کرے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں روح میرے رب کے حکم سے ہے، اور تمہیں علم نہیں دیا گیا مگر تھوڑا سا۔ (۸۵)
تشریح: صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اور جواب میں اتنی ہی بات بیان فرمائی گئی ہے جو انسان کی سمجھ میں آسکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہ راست اللہ تعالی کے حکم سے ہوئی ہے، انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آ جاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ تعالی کے حکم سے وجود میں آتی ہے، اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے فرما دیا گیا ہے کہ تمہیں بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور اگر ہم چاہیں تو البتہ ہم لے جائیں (سلب کر لیں) جو وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے، پھر تم اس کے لئے اپنے واسطے نہ پاؤ ہمارے مقابلہ پر کوئی مدد گار۔ (۸۶)
مگر تمہارے رب کی رحمت سے ہے (کہ ایسا نہیں ہوتا) بیشک تم پر اس کا بڑا فضل ہے۔ (۸۷)
تشریح:انسان کو جس قدر بھی علم ملا ہے وہ بھی اس کا ذاتی نہیں، اللہ تعالی چاہیں تو اس کو بھی سلب کر سکتے ہیں، اس لئے اس کو چاہئے کہ موجودہ علم پر اللہ کا شکر ادا کرے اور فضول ولا یعنی تحقیقات میں وقت ضائع نہ کرے، خصوصاً جبکہ مقصود تحقیق کرنا بھی نہ ہو بلکہ دوسرے کا امتحان لینا یا اس کو خفیف کرنا مقصود ہو، اگر اس نے ایسا کیا تو کچھ بعید نہیں کہ اس کج روی کے نتیجے میں جتنا علم حاصل ہے وہ سب سلب ہو جائے، اس آیت میں خطاب اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے مگر اصل سنانا امت کو مقصود ہے کہ جب رسول کا علم بھی ان کے اختیار میں نہیں تو دوسروں کا کیا کہنا ہے۔
(ماخوذ معارف القرآن)
آپ کہہ دیں اگر تمام انسان اور جن (اس بات) پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مانند لے آئیں تو وہ اس کے مانند نہ لاس کیں گے، اگرچہ ان کے بعض، بعض کے لئے (وہ ایک دوسرے کے) مددگار ہو جائیں۔ (۸۸)
تشریح: یہ مضمون قرآن مجید کی چند آیات میں آیا ہے جس میں پوری دنیائے انسانیت کو خطاب کر کے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اگر تم قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے، بلکہ کسی انسان کا بنایا ہوا مانتے ہو تو پھر تم بھی انسان ہو اس کی مثال بنا کے دکھلا دو، اس آیت میں اس دعوی کے ساتھ یہ بھی فرما دیا گیا کہ صرف انسان نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ ملالو، اور پھر تم سب مل کر قرآن کی ایک سورت بلکہ ایک آیت کی مثال بھی نہ بنا سکوگے۔
(معارف القرآن)
اور ہم نے لوگوں کے لئے طرح طرح سے بیان کر دی ہے ہر مثال، پس اکثر لوگوں نے ناشکری کے سوا قبول نہ کیا۔ (۸۹)
تشریح: اگرچہ قرآن کریم کا معجزہ اتنا کھلا ہوا ہے کہ اس کے بعد کسی سوال اور شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، مگر ہو یہ رہا ہے کہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے، نعمتِ قرآن کی بھی قدر نہیں پہچانتے اس لئے گمراہی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
(معارف القرآن)
اور وہ بولے کہ ہم تجھ پر ہر گز ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ تو ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ رواں کر دے۔ (۹۰)
یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو، پس تو اس کے درمیان بہتی نہریں رواں کر دے۔ (۹۱)
یا جیسے تو کہا کرتا ہے ہم پر آسمان سے ٹکڑے گرا دے، یا اللہ کو اور فرشتوں کو روبرو لے آوے۔ (۹۲)
یا تیرے لئے ایک سونےکا گھر ہو، یا تو آسمان پر چڑھ جائے، اور ہم ہر گز تیرا چڑھنا نہ مانیں گے جب تک تو ہم پر ایک کتاب نہ اتارے جسے ہم پڑھ لیں، آپ کہہ دیں پاک ہے میرا رب، میں صرف ایک آدمی ہوں (اللہ کا) رسول۔ (۹۳)
تشریح: ان آیات میں مشرکین مکہ کے وہ مطالبات بیان فرمائے گئے ہیں جو محض ضد کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے، آپ کے متعدد معجزات ان پر ظاہر ہو چکے تھے، لیکن وہ پھر بھی نت نئی فرمائشوں سے باز نہیں آتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان ساری فرمائشوں کا یہ مختصر جواب دینے کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ میں خدا نہیں ہوں کہ یہ سارے کام میرے اختیار میں ہوں، میں تو ایک انسان ہوں، البتہ اللہ تعالی نے مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، لہذا اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے تحت جو معجزات مجھے عطا فرما دئیے ہیں ان سے زیادہ اپنے اختیار میں کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔
(توضیح القرآن)
اور لوگوں کو (کسی بات نے) نہیں روکا کہ وہ ایمان لائیں جب ان کے پاس ہدایت آ گئی، مگر یہ کہ انہوں نے کہا کیا اللہ نے ایک آدمی کو رسول (بنا کر) بھیجا ہے؟۔ (۹۴)
تشریح:یعنی نور ہدایت پہنچنے کے بعد آنکھیں نہ کھلیں یہ ہی کہتے رہے کہ آدمی ہو کر رسول کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر خدا کو پیغمبر بھیجنا تھا تو آسمان سے کوئی فرشتہ اتارتا۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں، اگر ہوتے زمین میں فرشتے چلتے پھرتے، اطمینان سے رہتے، تو ہم ضرور ان پر آسمانوں سے فرشتے رسول (بنا کر) اتارتے۔ (۹۵)
تشریح: مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی جنس سے ہو جس کی طرف وہ بھیجا جا رہا ہے، تاکہ وہ ان کی فطری ضروریات کو سمجھ کر اور ان کی نفسیات سے واقف ہو کر ان کی رہنمائی کرے، چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہے، اس لئے آپ کا انسان ہونا قابل اعتراض نہیں، بلکہ حکمت کے عین مطابق ہے، ہاں اگر دنیا میں فرشتے آباد ہوتے تو بیشک ان کے پاس فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔
(توضیح القرآن)
آپ کہہ دیں میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ کافی ہے، بیشک وہ اپنے بندوں کا خبر رکھنے والا، دیکھنے والا ہے۔ (۹۶)
تشریح:وہ جو کہتے تھے "اَوْتَاْتِیَ بِاللّٰہِ وَالْمَلٰئِکَۃِ قَبِیْلًا” یعنی خدا سامنے آ کر تصدیق کر دے تب مانیں۔ تو فرمایا کہ خدا اب بھی اپنے فعل سے میری تصدیق کر رہا ہے۔ آخر وہ مجھ کو دیکھتا ہے کہ میں نبوت کا دعویٰ کر رہا ہوں اور میرے ظاہری و باطنی احوال سے پورا خبردار ہے۔ اس پر بھی میرے ہاتھ اور زبان پر برابر وہ علمی و عملی نشانات ظاہر فرماتا رہتا ہے۔ جو خارق عادت اور اس کے عام قانون قدرت سے کہیں بلند و برتر ہیں۔ میرے مقاصد کو یوماً فیوماً کامیاب اور وسیع الاثر بناتا ہے اور تکذیب کرنے والوں کو قدم قدم پر متنبہ کرتا ہے کہ اس رفتار سے تم فلاح نہیں پا سکتے کیا یہ خدا کی طرف سے کھلی ہوئی فعلی شہادت نہیں کہ میں اپنے دعوے میں سچا ہوں؟ کیا ایک مفتری کے ساتھ ایسا معاملہ خدا کا ہو سکتا تھا؟
(تفسیرعثمانی)
اور ہم قیامت کے دن انہیں ان کے چہروں کے بل اندھے اور گونگے اور بہرے اٹھائیں گے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے، جب کبھی جہنم کی آگ بجھنے لگے گی ہم ان کے لئے اور بھڑکا دیں گے۔ (۹۷)
تشریح: یعنی خدا کی توفیق و دستگیری ہی سے آدمی راہ حق پر چل کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔ جس کی بدبختی اور تعنت کی وجہ سے خدا دستگیری نہ فرمائے اسے کون ہے جو ٹھیک راستہ پر لگاس کے۔
وَنَحْشُرُہمْ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ :قیامت کے بعض مواطن میں کافر منہ کے بل اندھے گونگے کر کے چلائے جائیں گے۔ حدیث میں ہے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! منہ کے بل کس طرح چلیں گے فرمایا جس نے آدمی کو پاؤں سے چلایا وہ قادر ہے کہ سر سے چلا دے۔ باقی فرشتوں کا جہنمیوں کو منہ کے بل گھسیٹنا، وہ دوزخ میں داخل ہونے کے بعد ہو گا۔ "یَوْمَ یُسْحَبُوْنَ فِیْ النَّارِ عَلٰی وُجُوھِہِمْ” (القمر، رکوع٣آیت:٤٨)
كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاہمْ سَعِيْراً :عذاب معین اندازہ سے کم نہیں ہونے دیں گے۔ اگر بدن جل کر تکلیف میں کمی ہونے لگے گی تو پھر نئے چمڑے چڑھا دئیے جائیں گے۔ "کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنَا ہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا۔ ” (نساء، رکوع٨، آیت:٥٦)
(تفسیرعثمانی)
یہ ان کی سزا ہے کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور انہوں نے کہا کیا جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، کیا ہم از سر نو پیدا کر کے ضرور اٹھائے جائیں گے؟۔ (۹۸)
تشریح:یعنی دنیا میں دلیل سے تو نہ مانا تھا، اب آنکھ سے بار بار دیکھ لو کہ کس طرح جل جل کر ازسر نو تیار کیے جا رہے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
کیا انہوں نے نہیں دیکھا؟کہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس پر قادر ہے کہ ان جیسے پیدا کرے، اور اس نے ان کے لئے مقرر کیا ایک وقت، اس میں کوئی شک نہیں، ظالموں نے ناشکری کے سوا قبول نہ کیا۔ (۹۹)
تشریح:یعنی جس نے اتنے بڑے اجسام پیدا کیے، اسے تم جیسی چھوٹی سی چیز کا پیدا کر دینا کیا مشکل ہے، بیشک وہ تم کو اور تمہارے جیسے سب آدمیوں کو بے تکلف پیدا کر سکتا ہے۔ شاید یہ کہو کہ آخر اتنے آدمی مر چکے ہیں وہ اب تک کیوں نہیں اٹھائے گئے۔ تو فرما دیا کہ سب کے واسطے قبروں سے اٹھنے اور دوبارہ زندہ ہونے کا ایک وقت مقرر ہے وہ ضرور آ کر رہے گا۔ تاخیر دیکھ کر انکار کرنا حماقت ہے۔ "وَمَانُؤَخِّرُہ، اِلَّا لِاَجَلٍ مَّعْدُوْدٍ” (ہود، رکوع٩، آیت:١٠٤) ۔ ایسے واضح مضامین و دلائل سن کر بھی نا انصافوں کے کفر و ضلال اور ناشکری میں ترقی ہی ہوتی ہے، ذرا نہیں پسیجتے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں اگر تم مالک ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے، تو تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے ضرور بند رکھتے، اور انسان بہت تنگ دل ہے۔ (۱۰۰)
تشریح: رحمت کے خزانوں سے یہاں مراد نبوت عطا کرنے کا اختیار ہے، کفار مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں دی گئی ؟ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو نبوت ہماری مرضی سے دینی چاہئیے تھی، اللہ تعالی اس آیت میں فرما رہے ہیں کہ اگر نبوت عطا کرنے کا اختیار تمہیں دے دیا جاتا تو تم اس میں اسی طرح بخل سے کام لیتے جیسے دنیوی دولت کے معاملے میں بخل کرتے ہو کہ خرچ ہونے کے ڈر سے کسی کو نہیں دیتے۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں، پس بنی اسرائیل سے پوچھو، جب وہ (موسی) ان کے پاس آئے تو فرعون نے اس کو کہا بیشک میں گمان کرتا ہوں تم پر جادو کیا گیا ہے (سحر زدہ ہو) ۔ (۱۰۱)
تشریح: ایک صحیح حدیث میں ان نو نشانیوں کی تفسیر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نو احکام تھے: شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، کسی پر جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل یا سزا کے لئے پیش نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو، اور جہاد میں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگو۔
(ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ از توضیح القرآن)
اس نے کہا، البتہ تو جان چکا ہے اس کو نازل نہیں کیا مگر زمین اور آسمانوں کے پروردگار نے بصیرت (سمجھ بوجھ کی باتیں) اور اے فرعون ! بیشک میں تجھے گمان کرتا ہوں ہلاک شدہ (ہلاک ہوا چاہتا ہے) ۔ (۱۰۲)
تشریح:یعنی گو زبان سے انکار کرتا ہے مگر تیرا دل خوب جانتا ہے کہ یہ عظیم الشان نشان تیری آنکھیں کھولنے کے لیے اسی خدائے قادر و توانا نے دکھلائے ہیں جو آسمان و زمین کا سچا مالک ہے۔ اب جو شخص جان بوجھ کر محض ظلم و تکبر کی راہ سے حق کا انکار کرے اس کی نسبت بجز اس کے کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ تباہی کی گھڑی اس کے سر پر آ پہنچی۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ "ایمان” جاننے کا نام نہیں، ماننے کا نام ہے۔ "وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا” (النمل، رکوع١، آیت١٤) ۔
(تفسیرعثمانی)
پس اس نے ارادہ کیا کہ انہیں سر زمین (مصر) سے نکال دے تو ہم نے اسے اور جو اس کے ساتھ تھے سب کو غرق کر دیا۔ (۱۰۳)
تشریح:جب فرعون نے دیکھا کہ موسٰی کا اثر بڑھتا جاتا ہے۔ سمجھا کہ بنی اسرائیل کہیں زور نہ پکڑ جائیں اس لیے ان کو اور زیادہ ستانا شروع کیا کہ یہ مصر میں امن چین سے رہنے نہ پائیں۔ آخر ہم نے اسی کو نہ رہنے دیا اور بحر قلزم میں سب ظالموں کا بیڑہ غرق کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے کہا اس کے بعد بنی اسرائیل کو تم اس ملک میں رہو، پھر جب آخرت کا وعدہ آئے گا ہم تم سب کو لے آئیں گے جمع کر کے (سمیٹ کر) ۔ (۱۰۴)
تشریح:یعنی خدا نے ظالم کی جڑ کاٹ دی اور تم کو غلامی سے نجات دی۔ اب مصر و شام میں جہاں چاہو آزادی سے رہو۔ جب قیامت آئے گی پھر ایک مرتبہ تم سب کو اور تمہارے تباہ شدہ دشمنوں کو اکٹھا کر کے شقی وسعید اور ہالک و ناجی کا دائمی فیصلہ کر دیا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اس ( قرآن کو) حق کے ساتھ نازل کیا اور وہ سچائی کے ساتھ نازل ہوا اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر خوشخبری دینے والا، ڈر سنانے والا۔ (۱۰۵)
تشریح: موسٰی علیہ السلام کے معجزات وغیرہ کا ذکر فرما کر روئے سخن پھر قرآنِ کریم کی طرف پھیر دیا گیا۔ یعنی معجزاتِ موسوی بجائے خود تھے، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معجزات باہرہ عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا علمی معجزہ یہ قرآن کریم ہے جو ہم نے عین حکمت کے موافق، اپنے علم عظیم اور اعلیٰ درجہ کی سچائی پر مشتمل کر کے اتارا ہے اور ٹھیک اسی سچائی کے ساتھ وہ آپ تک پہنچ گیا، درمیان میں ادنیٰ ترین تغیر و تبدل بھی نہیں ہوا۔ "فَاعْلَمُوْآ اَنَّمَا اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللہِ وَاَن لَّا اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَ” (ہود، رکوع٢، آیت:١٤) ماننے والوں کو خوشخبری اور نہ ماننے والوں کو عذاب الٰہی کی دھمکی سنا دیجئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور قرآن ہم نے جدا جدا کر کے (تھوڑا تھوڑا) نازل کیا تاکہ تم لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے آہستہ آہستہ (بتدریج) نازل کیا۔ (۱۰۶)
تشریح:انزالِ قرآن سے مقصود اصلی مطلب سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے جسے تدبر و تذکر کہتے ہیں۔ لیکن اس کے نفس الفاظ و حروف بھی نور و برکت سے خالی نہیں۔ "کِتَابٌ اَنْزَلْنَاہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْا اٰیٰتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوْا الْاَلْبَابِ” (ص، رکوع٣، آیت:٢٩) اسی لیے سورتیں اور آیتیں جدا جدا رکھیں تاکہ وظیفہ کے طور پر تلاوت کرنا بھی سہل ہو اور سننے والوں کے لیے حفظ و فہم میں بھی آسانی رہے۔ اور آہستہ آہستہ اس لیے اتارا کہ جیسے حالات پیش آئیں ان کے مناسب ہدایات حاصل کرتے رہیں۔ تاکہ وہ جماعت جسے آگے چل کر تمام دنیا کا معلم بننا تھا ہر آیت و حکم کے موقع محل کو بخوبی ذہن نشین کر کے یاد رکھ سکے اور آنے والی نسلوں کے لیے کسی آیت کے بے موقع استعمال کرنے کی گنجائش نہ چھوڑے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ کہہ دیں تم اس پر ایمان لاؤ یا نہ لاؤ، بیشک جنہیں اس سے قبل علم دیا گیا ہے، جب وہ ان کے سامنے پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں۔ (۱۰۷)
اور وہ کہتے ہیں ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ ضرور پورا ہو کر رہنے والا ہے۔ (۱۰۸)
تشریح:یعنی مانو یا نہ مانو، قرآن کی حقانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق وہ منصف مزاج اہل علم کر رہے ہیں جنہیں کتب سابقہ کی بشارات سے آگاہی ہے، وہ اس کلام کو سن کر ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں کہ سبحان اللہ کیا عجیب و غریب کلام ہے۔ بیشک خدا کا وعدہ پورا ہونا تھا جو موسٰی علیہ السلام کی زبانی تورات کتاب استثناء میں کیا گیا تھا کہ ” (اے بنی اسرائیل) میں تمہارے بھائیوں (بنی اسماعیل) میں سے ایک نبی اٹھاؤں گا جس کے منہ میں اپنا کلام ڈالوں گا، بلاشبہ وہ یہی کلام ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک میں ڈالا گیا۔ جب اہل علم کو قرآن کی تصدیق سے چارہ نہیں رہا، تب انکار کرنا جاہل کا کام ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر پڑتے ہیں اور یہ (قرآن) ان میں عاجزی اور زیادہ کرتا ہے۔ (۱۰۹)
تشریح:یعنی قرآن کو سن کر رقت طاری ہو جاتی ہے سجدہ کرتے ہیں تو اور عاجزی بڑھتی ہے۔ اذقان (ٹھوڑیوں) کے لفظ میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ سجود میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے ہیں گویا ٹھوڑیاں بھی زمین سے ملا دیتے ہیں، یا محض سجود علی الوجہ سے کنایہ ہو۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
یہ سجدہ تلاوت کی آیت ہے، یہ آیت جب بھی عربی زبان میں پڑھی جائے سجدہ کرنا واجب ہے، البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا دل میں زبان ہلائے بغیر پڑھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔
(توضیح القرآن)
آپ کہہ دیں تم پکارو اللہ (کہہ کر) یا پکارو رحمن (کہہ کر) جو کچھ بھی پکارو گے اسی کے لئے ہیں سب سے اچھے نام، اور نہ اپنی نماز میں (آواز بہت) بلند کرو اور نہ اس میں بالکل پست کرو (بلکہ) اس کے درمیان کا راستہ ڈھونڈو۔ (۱۱۰)
تشریح: قُلِ ادْعُوْا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ:اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عرب کے مشرکین اللہ تعالی کے نام رحمن کو نہیں مانتے تھے چنانچہ جب مسلمان یا اللہ یا رحمن کہہ کر دعا کرتے تو وہ مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ اللہ ایک ہے، اور دوسری طرف دو خداؤں کو پکار رہے ہو، ایک اللہ کو اور ایک رحمن کو، اس آیت میں ان کے لغو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دونوں اللہ ہی کے نام ہیں بلکہ اس کے اور بھی اچھے اچھے نام ہیں جنہیں اسمائے حسنی کہا جاتا ہے ان میں سے کسی بھی نام سے اس کو پکارا جا سکتا ہے اس سے عقیدۂ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔
(توضیح القرآن)
وَلَا تَجْہرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہا :نماز میں جب بلند آواز سے تلاوت کی جاتی تو مشرکین شور مچا کر مذاق اڑاتے اور اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے فرمایا گیا ہے کہ بہت اونچی آواز سے تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یوں بھی معتدل آواز زیادہ پسندیدہ ہے۔ (توضیح القرآن)
اور آپ کہہ دیں تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہ جس نے کوئی اولاد نہیں بنائی، اور سلطنت میں اس کا کوئی شریک نہیں، اور نہ اس کا کوئی مددگار ہے ناتوانی کے سبب، اور خوب اس کی بڑائی (بیان) کرو۔ (۱۱۱)
تشریح: بہت سے کافروں کا یہ خیال تھا کہ جس ذات کا نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہو، وہ تو بڑی کمزور ذات ہو گی، اس آیت نے واضح فرما دیا کہ اولاد اور مددگاروں کی حاجت اس کو ہوتی ہے جو کمزور ہو، اور اللہ تعالی کی ذات اتنی قوی ہے کہ اسے کمزوری دور کرنے کے لئے نہ کسی اولاد کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی حاجت۔
(توضیح القرآن)
۱۸۔ سورۃالکھف
تعارف
حافظ ابن جریر طبری ؒ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سورت کا شان ِنزول یہ نقل کیا ہے کہ مکہ مکرمہ کے کچھ سرداروں نے دو آدمی مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لئے بھیجے کہ تورات اور انجیل کے یہ علماء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں، یہودی علماء نے ان سے کہا کہ آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوالات کیجئے، اگر وہ صحیح جواب نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی نبوت کا دعوی صحیح نہیں ہے، پہلا سوال یہ تھا کہ ان نوجوانوں کا وہ عجیب واقعہ بیان کریں جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لئے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے، دوسرے اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا، تیسرے ان سے پوچھیں کے روح کی حقیقت کیا ہے، چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تین سوال پوچھے، تیسرے سوال کا جواب تو پچھلی سورت (۱۵۔ ۸۵) میں آ چکا ہے اور پہلے دو سوالوں کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی جس میں غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، انہی کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے، کہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اصحابِ کہف کے معنی ہوئے غار والے، اور اسی غار کے نام پر سورت کو سورۃ الکہف کہا جاتا ہے، دوسرے سوال کے جواب میں سورت کے آخر میں ذوالقرنین کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے جنہوں مشرق و مغرب کا سفر کیا تھا۔
اس کے علاوہ اسی سورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے جس میں وہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تشریف لے گئے تھے، اور کچھ عرصہ ان کی معیت میں سفر کیا تھا، یہ تین واقعات تو اس سورت کا مرکزی موضوع ہیں، ان کے علاوہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو خد اکا بیٹا قرار دے رکھا تھا، اس سورت میں بطور خاص اس کی تردید بھی ہے اور حق کا انکار کرنے والوں کو وعیدیں بھی سنائی گئی ہیں، اور حق کے ماننے والوں کو نیک انجام کی خوشخبری بھی دی گئی ہے۔
سورۂ کہف کی تلاوت کے کئی فضائل احادیث میں آئے ہیں، خاص طور پر جمعہ کے دن اس کی تلاوت کی بڑی فضیلت آئی ہے، اور اسی لئے بزرگان دین کا معمول رہا ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کا خاص اہتمام کرتے تھے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۱۰ رکوعات:۱۲
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے اپنے بندہ پر (یہ) کتاب ناز ل کی، اور اس میں کوئی کجی نہ رکھی۔ (۱)
تشریح:یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ تعریف اور شکر کا مستحق وہ ہی خدا ہو سکتا ہے جس نے اپنے مخصوص و مقرب ترین بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے اعلیٰ و اکمل کتاب اتاری اور اس طرح زمین والوں کو سب سے بڑی نعمت سے مشرف و ممتاز فرمایا۔ بیشک اس کتاب میں کوئی ٹیڑھی ترچھی بات نہیں۔ عبارت انتہائی سلیس و فصیح، اسلوب بیان نہایت موثر و شگفتہ، تعلیم نہایت متوسط و معتدل جو ہر زمانہ اور ہر طبیعت کے مناسب اور عقل سلیم کے بالکل مطابق ہے۔ کسی قسم کی افراط و تفریط کا اس میں شائبہ نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ٹھیک سیدھی تاکہ ڈر سنائے اس کی طرف سے سخت عذاب سے، اور مؤمنوں کو خوشخبری دے، جو اچھے عمل کرتے ہیں کہ ان کے لئے اچھا اجر ہے۔ (۲)
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۳)
اور وہ ان لوگوں کو ڈرائے جنہوں نے کہا اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے۔ (۴)
تشریح:خدا کے لیے اولاد تجویز کرنے میں سب سے زیادہ مشہور اور پیش پیش تو نصاریٰ ہیں اور جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان ہی سے حاملین قرآن کو قیامت تک زیادہ سابقہ پڑنا ہے۔ تاہم عموم الفاظ میں بعض فِرق یہود جو عزیز علیہ السلام کو خدا کا بیٹا، یا بعض مشرکین جو ملائکۃ اللّٰہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے وہ بھی داخل ہو گئے۔ گویا اس جگہ اولاد تجویز کرنے والے کافروں کو بالخصوص اور نصاریٰ کو اخص خصوص کے طور پر متنبہ کیا گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کا نہ انہیں کوئی علم ہے، نہ ان کے باپ دادا کو تھا، بڑی ہے بات (جو) ان کے منہ سے نکلتی ہے، وہ نہیں کہتے مگر جھوٹ۔ (۵)
تشریح:یعنی کوئی تحقیق اور علمی اصول ان کے ہاتھ میں نہیں، نہ ان کے باپ دادوں کے ہاتھ میں تھا۔ جن کی اندھی تقلید میں ایسی بھاری بات زبان سے نکال رہے ہیں۔ گویا خداوند تعالیٰ کی شان قدوسیت و سبوحیت کی ان لوگوں کو کچھ خبر نہیں جو اس کی جناب میں ایسی گستاخیاں کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے۔ دلائل و براہین کی جگہ ان کے ذخیرہ میں یہ ہی باقی رہ گیا ہے کہ زبان سے ایک جھوٹی اور بدیہ البطلان بات کہتے چلے جائیں اور جب ثبوت مانگو تو کہہ دیں کہ یہ مذہب کا ایک راز ہے جس کے ادراک تک عقل انسانی کی رسائی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
تو شاید آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کرنے والے ہیں، اگر وہ ایمان نہ لائے اس بات پر، غم کے مارے۔ (۶)
تشریح: یعنی اگر یہ کافر قرآن کی باتوں کو نہ مانیں تو آپ ان کے غم میں اپنے کو بالکل گھلائیے نہیں۔ آپ تبلیغ و دعوت کا فرض ادا کر چکے اور کر رہے ہیں، کوئی نہ مانے تو آپ کو اس قدر دل میں گھٹنے اور غمگین ہونے کی ضرورت نہیں۔ نہ پچھتانا مناسب ہے، کہ ہم نے ایسی کوشش کیوں کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ آپ تو بہرحال کامیاب ہیں۔ دعوت و تبلیغ اور شفقت و ہمدردی خلائق کے جو کام کرتے ہیں وہ آپ کے رفع مراتب اور ترقی مدارج کا ذریعہ ہیں۔ اشقیاء اگر قبول نہ کریں تو ان ہی کا نقصان ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جو کچھ زمین میں ہے بیشک ہم نے اس کے لئے زینت بنایا ہے تاکہ انہیں آزمائیں کہ ان میں کون ہے عمل میں بہتر۔ (۷)
تشریح:یعنی اس کی رونق پر دوڑتا ہے یا اسے چھوڑ کر آخرت کو پکڑتا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ ابن عمر نے سوال کیا یا رسول اللہ "اَحْسَنُ عَمَلاً” کون لوگ ہیں؟ فرمایا "اَحْسَنُکُمْ عَقْلاً وَّاَوْرَعُکُمْ عَنْ مَحَارِمِ اللہِ وَاَسْرَعُکُمْ فِیْ طَاعَتِہٖ سُبْحَانَہ، ” (جس کی سمجھ اچھی ہو، حرام سے زیادہ پرہیز کرے اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کی طرف زیادہ جھپٹے) ۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو کچھ اس (زمین ) پر ہے، بیشک ہم اسے (نابود کر کے) صاف چٹیل میدان کرنے والے ہیں۔ (۸)
تشریح: یعنی ایک روز سب گھاس پھونس درخت وغیرہ چھانٹ کر زمین کو چٹیل میدان بنا دیا جائے گا۔ جو لوگ اس کے بناؤ سنگار پر ریجھ رہے ہیں وہ خوب سمجھ لیں کہ یہ زرق برق کوئی باقی رہنے والی چیز نہیں۔ دنیا کے زمینی سامان خواہ کتنے ہی جمع کر لو اور مادی ترقیات سے ساری زمین کو لالہ و گلزار بنا دو، جب تک آسمانی اور روحانی دولت سے تہی دست رہو گے، حقیقی سرور و طمانیت اور ابدی نجات و فلاح سے ہم آغوش نہیں ہو سکتے۔ آخری اور دائمی کامیابی انہی کے لیے ہے جو مولائے حقیقی کی خوشنودی پر دنیا کی ہر ایک زائل و فانی خوشی کو قربان کر سکتے ہیں اور راہ حق کی جادہ پیمائی میں کسی صعوبت سے نہیں گھبراتے نہ دنیا کے بڑے بڑے طاقتور جباروں کی تخویف و ترہیب سے ان کا قدم ڈگمگاتا ہے۔ اسی سلسلہ میں آگے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرمایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی بھی کر دی کہ آپ ان بدبختوں کے غم میں اپنے کو نہ گھلائیے۔ جس دنیا کی زندگی اور عیش و بہار پر مغرور ہو کر یہ حق کو ٹھکراتے ہیں وہ سب کاٹ چھانٹ کر برابر کر دی جائے گی اور آخرکار سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہو گا۔ اس وقت سارے جھگڑے چکا دیئے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تم نے گمان کیا کہ کہف (غار) اور رقیم والے ہماری نشانیوں میں سے عجیب تھے۔ (۹)
تشریح:یعنی حق تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کے لحاظ سے اصحاب کہف کا قصہ جو آگے مذکور ہے کوئی اچنبھا نہیں جسے حد سے زیادہ عجیب سمجھا جائے۔ زمین، آسمان، چاند، سورج وغیرہ کا پیدا کرنا، ان کا محکم نظام قائم رکھنا، انسان ضعیف البنیان کو سب پر فضیلت دینا، انسانوں میں انبیاء کا بھیجنا، ان کی قلیل و بے سروسامان جماعتوں کو بڑے بڑے متکبرین کے مقابلہ میں کامیاب بنانا، خاتم الانبیاء اور رفیق غار حضرت ابوبکر صدیق کو دشمنوں کے نرغہ سے نکال کر "غار ثور” میں تین روز ٹھہرانا، کفار کا غار کے منہ تک تعاقب کرنا پھر انکو بے نیل و مرام واپس لوٹانا، آخر گھر بار چھوڑنے والے مٹھی بھر بے سروسامانوں کو تمام جزیرۃ العرب بلکہ مشرق و مغرب میں اس قدر قلیل مدت کے اندر غالب و منصور کرنا، کیا یہ اور اس قسم کی بیشمار چیزیں "اصحاب کہف کے قصہ سے کم عجیب ہیں؟ اصل یہ ہے کہ یہود نے قریش کو مشورہ دیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے آزمائش کے لیے تین سوال کریں۔ روح کیا ہے؟ اصحاب کہف کا قصہ کیا تھا؟ اور ذوالقرنین کی سرگزشت کیا تھی؟ اصحاب کہف کے قصہ کو عجیب ہونے کی حیثیت سے انہوں نے خاص اہمیت دی تھی۔ اسی لیے اس آیت میں بتلایا گیا کہ وہ اتنا عجیب نہیں جیسے تم سمجھتے ہو، اس سے کہیں بڑھ کر عجیب و غریب نشاناتِ قدرت موجود ہیں۔ آگے "اصحاب کہف” کا قصہ اول مجملاً پھر مفصلاً بیان فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ چند نوجوان روم کے کسی ظالم و جابر بادشاہ کے عہد میں تھے، جس کا نام بعض نے "دقیانوس” بتلایا ہے۔ بادشاہ سخت غالی بت پرست تھا اور جبر و اکراہ سے بت پرستی کی اشاعت کرتا تھا۔ عام لوگ سختی اور تکلیف کے خوف اور چند روزہ دنیاوی منافع کی طمع سے اپنے مذاہب کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرنے لگے اور اس وقت چند نوجوانوں کے دلوں میں جن کا تعلق عمائدین سلطنت سے تھا، خیال آیا کہ ایک مخلوق کی خاطر خالق کو ناراض کرنا ٹھیک نہیں۔ ان کے دل خشیت الٰہی اور نور تقویٰ سے بھرپور تھے۔ حق تعالیٰ نے انہیں صبر و استقلال اور توکل و تبتل کی دولت سے انہیں مالامال کیا تھا۔ بادشاہ کے روبرو جا کر بھی انہوں نے "لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُوْنِہٖ اِلٰہًا لَّقَدْ قُلْنَا اِذًا شَطَطًا” کا نعرہ مستانہ لگایا اور ایمانی جرأت و استقلال کا مظاہرہ کر کے دیکھنے والوں کو مبہوت و حیرت زدہ کر دیا۔ بادشاہ کو کچھ ان کی نوجوانی پر رحم آیا اور کچھ دوسرے مشاغل و مصالح مانع ہوئے کہ انہیں فوراً قتل کر دے۔ چند روز کی مہلت دی کہ وہ اپنے معاملہ میں غور و نظر ثانی کر لیں۔ انہوں نے مشورہ کر کے طے کیا کہ ایسے فتنہ کے وقت جب کہ جبرو تشدد سے عاجز ہو کر قدم ڈگمگا جانے کا بہرحال خطرہ ہے مناسب ہو گا کہ شہر کے قریب کسی پہاڑ میں رو پوش ہو جائیں (اور واپسی کے لیے مناسب موقع کا انتظار کریں) دعا کی کہ خداوندا تو اپنی خصوصی رحمت سے ہمارا کام بنا دے اور رشد و ہدایت کی جادہ پیمائی میں ہمارا سب انتظام درست کر دے۔ آخر شہر سے نکل کر کسی قریبی پہاڑ میں پناہ لی اور اپنے میں سے ایک کو مامور کیا کہ بھیس بدل کر کسی وقت شہر میں جایا کرے تاکہ ضروریات خرید کر لاس کے اور شہر کے احوال و اخبار سے سب کو مطلع کرتا رہے۔ جو شخص اس کام پر مامور تھا اس نے ایک روز اطلاع دی کہ آج شہر میں سرکاری طور پر ہماری تلاش ہے اور ہمارے اقارب و اعزہ کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہمارا پتہ بتلائیں۔ یہ مذاکرہ ہو رہا تھا کہ حق تعالیٰ نے ان سب پر دفعۃً نیند طاری کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری آدمیوں نے بہت تلاش کیا پتہ نہ لگا۔ تھک کر بیٹھ رہے اور بادشاہ کی رائے سے ایک سیسہ کی تختی پر ان نوجوانوں کے نام اور مناسب حالات لکھ کر خزانہ میں ڈال دیئے گئے تاکہ آنے والی نسلیں یاد رکھیں کہ ایک جماعت حیرت انگیز طریقہ سے لا پتہ ہو گئی ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر اس کا کچھ سراغ نکلے۔ اور بعض عجیب واقعات کا انکشاف ہو۔ یہ نوجوان کس مذہب پر تھے؟ اس میں اختلاف ہوا ہے بعض نے کہا کہ نصرانی یعنی اصل دین مسیحی کے پیرو تھے۔ لیکن ابن کثیر نے قرائن سے اس کو ترجیح دی ہے کہ اصحاب کہف کا قصہ حضرت مسیح علیہ السلام سے پہلے کا ہے واللہ اعلم (تنبیہ) "رقیم” پہاڑی کی کھوہ کو کہتے ہیں اور بمعنی "مرقوم” بھی آتا ہے یعنی لکھی ہوئی چیز۔ مسند عبد بن حُمَید کی ایک روایت میں جسے حافظ نے علیٰ شرط البخاری کہا ہے، ابن عباس سے "رقیم” کے دوسرے معنی منقول ہیں۔ یعنی "اصحاب کہف” اور "اصحاب رقیم” ایک ہی جماعت کے دو لقب ہیں۔ غار میں رہنے کی وجہ سے "اصحاب کہف” کہلاتے ہیں اور چونکہ ان کے نام و صفت وغیرہ کی تختی لکھ کر رکھ دی گئی تھی، اس لیے "اصحاب رقیم” کہلائے۔ مگر (تفسیرعثمانی کے) مترجم محقق رحمہ اللہ نے پہلے معنی لیے ہیں اور بہر صورت "اصحاب کہف” و "اصحاب رقیم” کو ایک ہی قرار دیا ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ "اصحاب رقیم” کا قصہ قرآن میں مذکور نہیں ہوا، محض عجیب ہونے کے لحاظ سے اصحاب کہف کے تذکرہ میں اس کا حوالہ دے دیا گیا۔ اور فی الحقیقت اصحاب رقیم (کھوہ والے) وہ تین شخص ہیں جو بارش سے بھاگ کر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے تھے، اوپر سے ایک بڑا پتھر آ پڑا، جس نے غار کا منہ بند کر دیا اس وقت ان میں سے ہر شخص نے اپنی عمر کے مقبول ترین عمل کا حوالہ دے کر حق تعالیٰ سے فریاد کی اور بتدریج غار کا منہ کھل گیا۔ امام بخاری نے اصحاب کہف کا ترجمہ منعقد کرنے کے بعد حدیث الغار کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور اس میں ان تین شخصوں کا قصہ مفصل درج کر کے شاید اسی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ "اصحاب رقیم” یہ لوگ ہیں۔ طبرانی اور بزار نے باسنادِ حسن نعمان بن بشیر سے مرفوعاً روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "رقیم” کا ذکر فرماتے تھے اور یہ قصہ تین شخصوں کا بیان کیا۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
جب ان جوانوں نے غار میں پناہ لی تو انہوں نے کہا، اے ہمارے رب! ہمیں اپنی طرف سے رحمت دے، اور ہمارے کام میں درستی مہیا کر۔ (۱۰)
پس ہم نے پردہ ڈالا، ان کے کانوں پر (سلایا) غار میں کئی سال۔ (۱۱)
تشریح:مطلب یہ ہے کہ گہری نیند طاری کر دی، وجہ یہ ہے کہ نیند کے شروع میں کان آواز یں سنتے رہتے ہیں اور ان کا سننا اسی وقت بند ہوتا ہے جب نیند گہری ہو گئی ہو۔
(توضیح القرآن)
پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ ہم دیکھیں دونوں گروہوں میں سے کس نے خوب یاد رکھا ہے کہ وہ کتنی مدت (غار میں) رہا۔ (۱۲)
تشریح:سالہاسال کے بعد حق تعالیٰ نے ان کو جگا دیا۔ تاکہ ظاہر ہو جائے کہ اختلاف کرنے والوں میں سے کسی نے ان کی مدتِ نوم کا زیادہ صحیح اندازہ رکھا۔ ظاہر ہے کہ ایسی نوم طویل کے بعد جب بیدار ہوئے تو قدرتی طور پر خود سونے والوں میں اور دوسرے دیکھنے والوں میں بھی اختلافات اور چہ میگوئیاں ہوں گی کوئی کم مدت بتلائے گا کوئی زیادہ۔ کوئی اقرار کرے گا۔ کوئی مستبعد سمجھ کر انکار کر دے گا تو انہیں جگا کر یہ دیکھنا تھا کہ کون سی جماعت ٹھیک حقیقت پر پہنچتی ہے اور اس حقیقت پر پہنچ کر "بعث بعد الموت” کا عقدہ حل کرتی ہے جس میں اس وقت لوگ جھگڑ رہے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
ہم تجھ سے ٹھیک ٹھیک ان کا حال بیان کرتے ہیں:وہ چند نوجوان تھے، وہ ایمان لائے اپنے رب پر اور ہم نے انہیں ہدایت اور زیادہ دی۔ (۱۳)
اور ہم نے ان کے دلوں پر گرہ لگا دی (دل پختہ کر دئیے) جب وہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا ہمارا رب پروردگار ہے آسمانوں کا اور زمین کا، ہم اس کے سوا کسی کو معبود نہ پکاریں گے (ورنہ) البتہ اس وقت ہم نے بے جا بات کہی۔ (۱۴)
تشریح:وَرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِہمْ:ابن کثیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بادشاہ کو ان کے عقیدے کا پتہ لگا تو اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیا اور ان سے ان کے عقیدے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے بڑی بے باکی سے توحید کا عقیدہ بیان کیا جس کا ذکر آگے آ رہا ہے، دل کی مضبوطی کا حوالہ اس آیت میں دیا گیا ہے۔ (توضیح القرآن)
یہ ہے ہماری قوم، اس نے اس کے سوا اور معبود بنا لئے وہ ان پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ پس کون ہے اس سے بڑا ظالم جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے۔ (۱۵)
تشریح:جیسے موحدین توحید پر صاف صاف دلیلیں پیش کرتے ہیں، اگر مشرکین اپنے دعوے میں سچے ہیں تو کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے۔ لائیں کہاں سے؟ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو گا کہ خدا کے شریک ٹھہرائے جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب تم نے ان سے اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے ہیں ان سےکنارہ کر لیا ہے، تو غار میں پناہ لو تمہارا رب تمہارے لئے اپنی رحمت پھیلا دے گا، اور تمہارے کام میں سہولت مہیا کرے گا۔ (۱۶)
تشریح:یعنی جب مشرکین کے دین سے ہم علیحدہ ہیں تو ظاہری طور پر بھی ان سے علیحدہ رہنا چاہیے۔ اور جب ان کے باطل معبودوں سے کنارہ کیا تو ہر طرف سے ٹوٹ کر تنہا اپنے معبود کی طرف جھکنا اور اسی سے رحمت و تلطف کا امیدوار رہنا چاہیے۔ آپس میں یہ مشورہ کر کے پہاڑی کی کھوہ میں جا بیٹھے۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم دیکھو گے جب دھوپ نکلتی ہے، وہ ان کی غار سے دائیں طرف بچ کر جاتی ہے اور جب وہ ڈھلتی ہے تو ان سے بائیں طرف کو کترا جاتی ہے، اور وہ غار کی کھلی جگہ میں ہیں، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے، جسے ہدایت دے اللہ، سو وہی ہدایت یافتہ ہے اور جسے گمراہ کرے تو اس کے لئے ہر گز کوئی رفیق، سیدھی راہ دکھانے والا نہ پائے گا۔ (۱۷)
تشریح:یعنی خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں ایسے ٹھکانے کی طرف راہنمائی کی جہاں مامون و مطمئن ہو کر آرام کرتے رہیں نہ جگہ کی تنگی سے جی گھٹے، نہ کسی وقت دھوپ ستائے۔ غار اندر سے کشادہ اور ہوا دار تھا اور جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا شمال رویہ ہونے کی وجہ سے ایسی وضع و ہئیت پر واقع تھا جس میں دھوپ بقدر ضرورت پہنچتی اور بدون ایذاء دئیے نکل جاتی تھی۔
مَنْ يَّہدِ اللّٰہ فَہوَالْمُہتَدِ : ظاہری و باطنی راہنمائی سب اسی کے قبضہ میں ہے۔ دیکھ لو جب دنیا بچل رہی تھی کس طرح اصحاب کہف کو راہِ ہدایت پر ثابت قدم رکھا اور ظاہری طور پر بھی کیسے عجیب غار کی راہ بتلائی۔
(تفسیرعثمانی)
اور تو انہیں بیدار سمجھے حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم انہیں دائیں اور بائیں طرف (کروٹ) بدلواتے ہیں، اور ان کا کتا دونوں ہاتھ (نیچے) پھیلائے ہوئے ہے دہلیز پر، اگر تو ان پر جھانکے تو ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگتا، اور ان سے دہشت میں بھر جاتا۔ (۱۸)
تشریح: کہتے ہیں سوتے میں ان کی آنکھیں کھلی رہتی تھیں اور اس قدر طویل نیند کا اثر ان کے ابدان پر ظاہر نہیں ہوا۔ اس سے کوئی دیکھے تو سمجھے جاگتے ہیں اور حق تعالیٰ نے ان لوگوں میں شان ہیبت و جلال اور اس مکان میں دہشت رکھی تاکہ لوگ تماشہ نہ بنائیں کہ وہ بے آرام ہوں۔ ان کے ساتھ ایک کتا بھی لگ گیا تھا۔ اس پر بھی صحبت کا کچھ اثر پہنچا اور صدیوں تک زندہ رہ گیا۔ اگرچہ کتا رکھنا برا ہے لیکن لاکھ بروں میں ایک بھلا بھی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اسی طرح انہیں اٹھایا تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں، ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم (یہاں) کتنی دیر رہے؟ انہوں نے کہا ہم رہے ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ، انہوں نے کہا تمہارا رب خوب جانتا ہے تم کتنی مدت رہے ہو، پس اپنے میں سے ایک کو اپنا یہ روپیہ دے کر بھیجو شہر کی طرف، پس وہ دیکھے کون سا کھانا پاکیزہ تر ہے، تو وہ اس سے تمہارے لئے آئے اور نرمی کرے اور کسی کو تمہاری خبر نہ دے بیٹھے۔ (۱۹)
بیشک اگر وہ تمہاری خبر پالیں گے تو تمہیں سنگسار کر دیں گے یا تمہیں لوٹا لیں گے اپنی ملت میں، اور اس صورت میں تم ہر گز کبھی فلاح نہ پاؤ گے۔ (۲۰)
تشریح: جس طرح اپنی قدرت سے اتنی لمبی نیند سلایا تھا، اسی طرح بروقت جگا دیا۔ اٹھے تو آپس میں مذاکرہ کرنے لگے کہ ہم کتنی دیر سوئے ہوں گے؟ بعض نے کہا "ایک آدھ دن۔ ” یعنی بہت کم۔ دوسرے بولے کہ (اس بے فائدہ بحث میں پڑنے سے کیا فائدہ؟) یہ تو خدا ہی کے علم میں ہے کہ ہم کتنی مدت سوئے۔ اب تم اپنا کام کرو۔ ایک آدمی کو یہ روپیہ دے کر شہر بھیجو کہ وہ کسی دکان سے حلال اور ستھرا کھانا دیکھ کر خرید لائے۔ یہ ضروری ہے کہ اسے نہایت ہوشیاری سے جانا آنا اور نرمی و تدبیر سے معاملہ کرنا چاہیے کہ کسی شہر والے کو ہمارا پتہ نہ لگے، ورنہ بڑی سخت خرابی ہو گی۔ اگر ظالم بادشاہ کو پتہ چل گیا تو ہم کو یا سنگسار کیا جائے گا یا بجبر و اکراہ دین حق سے ہٹایا جائے گا۔ العیاذ باللہ، ایسا ہوا تو جو اعلیٰ کامیابی و فلاح ہم چاہتے ہیں، وہ کبھی حاصل نہ ہو سکے گی۔ کیونکہ دین حق سے پھر جانا گو بجبر و اکراہ ہو اولو العزم مومنین کا کام نہیں ہو سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اسی طرح ہم نے (لوگوں کو) ان پر خبر دار کیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں، (یاد کرو) جب وہ ان کے معاملے میں آپس میں جھگڑتے تھے، تو انہوں نے کہا ان پر ایک عمارت بناؤ ان کا رب انہیں خوب جانتا ہے، جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے انہوں نے کہا ہم ضرور بنائیں گے ان پر ایک مسجد (عبادت گاہ) ۔ (۲۱)
تشریح:ایک ان میں سے روپیہ لے کر شہر میں داخل ہوا۔ وہاں سب چیز اوپری دیکھی۔ اس مدت میں کئی قرن بدل چکے تھے۔ شہر کے لوگ اس روپیہ کا سکہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ کس بادشاہ کا نام ہے اور کس عہد کا ہے۔ سمجھے کہ اس شخص نے کہیں سے پرانا گڑا ہوا مال پا لیا ہے۔ شدہ شدہ معاملہ بادشاہ تک پہنچا۔ اس نے وہ پرانی تختی طلب کی جس پر چند نام اور پتے لکھے تھے کہ یہ لوگ دفعۃً نامعلوم طریقے سے فلاں سنہ میں غائب ہو گئے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ یہ وہی مفقود الخبر جماعت ہے۔ اس وقت شہر میں "بعث بعد الموت” کے متعلق بڑا جھگڑا ہو رہا تھا کوئی کہتا تھا کہ مرنے کے بعد جینا نہیں کوئی کہتا تھا کہ محض روحانی بعث ہے جسمانی نہیں۔ کوئی معاد روحانی و جسمانی دونوں کا قائل تھا۔ بادشاہ وقت حق پرست اور منصف تھا، چاہتا تھا کہ ایک طرف کی کوئی ایسی نظیر ہاتھ لگے جس سے سمجھانے میں آسانی رہے اور استبعادِ عقلی کم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نظیر بھیج دی۔ آخر منکرین آخرت بھی یہ حیرت انگیز ماجرا دیکھنے سننے کے بعد آخرت پر یقین لائے۔ یہ نظارہ خاص طور پر ان کی طبائع پر اثر انداز ہوا سمجھے کہ حق تعالیٰ نے ہم کو تنبیہ کی ہے کہ یہ قصہ بھی دوسری بار جینے سے کم نہیں۔
(تنبیہ) بعض نے "اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَہُمْ اَمْرَہُمْ” کا مطلب یہ لیا ہے کہ حق تعالیٰ نے اصحاب کہف کے حال سے لوگوں کو اس وقت آگاہ کیا جب کہ اصحاب کہف کے متعلق چرچے اور جھگڑے ہو رہے تھے کہ وہ چند نوجوان جنہیں مدت دراز سے سنتے آئے ہیں کہ یک بیک غائب ہو گئے تھے پھر کچھ پتہ نہ چلا کہاں گئے ہوں گے؟ کہاں ان کی نسل پھیلی ہو گی؟ اب تک زندہ تو کیا ہوتے۔ سب مر گل کر برابر ہو گئے ہوں گے؟ اس مسئلہ میں کوئی کچھ کہتا تھا دوسرا کچھ خیال ظاہر کرتا تھا کہ دفعۃً حق تعالیٰ نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔ اور سب اختلافات ختم کر دیے۔
یہ پتہ نہیں کہ اس کے بعد اصحاب کہف زندہ رہے یا انتقال کر گئے؟ انتقال ہوا تو کب ہوا، زندہ رہے تو کب تک رہے یا کب تک رہیں گے۔ بہرحال اہل شہر نے ان کے عجیب و غریب احوال پر مطلع ہو کر فرط عقیدت سے چاہا کہ اس غار کے پاس کوئی مکان بطور یادگار تعمیر کر دیں جس سے زائرین کو سہولت ہو۔ اس میں اختلاف رائے ہوا ہو گا کہ کس قسم کا مکان بنایا جائے۔ اس اختلاف کی تفاصیل تو خدا ہی کو معلوم ہیں اور یہ بھی اس کے علم میں ہے کہ یہ تجویز ان کی موت کے بعد ہوئی یا اس سے قبل دوبارہ نیند طاری ہونے کی حالت میں اور لوگوں کو غار تک پہنچ کر ان کی ملاقات میسر ہو سکی یا نہیں۔ تاہم جو با رسوخ اور ذی اقتدار لوگ تھے ان کی رائے یہ قرار پائی کہ غار کے پاس عبادت گاہ تعمیر کر دی جائے۔ اصحاب کہف کی نسبت بجز اس کے پکے موحد اور متقی تھے، یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ کس نبی کی شریعت کے پیرو تھے۔ لیکن جن لوگوں نے معتقد ہو کر وہاں مکان بنایا وہ نصاریٰ تھے۔ ابو حیان نے "بحر محیط” میں اصحاب کہف کا مقام متعین کرنے کے لیے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ من شاء فلیراجعہ۔
(تفسیرعثمانی)
یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ ان کی وفات کی جگہ مسجد بنانے کی یہ تجویز اس زمانے کے اصحاب اقتدار نے دی تھی، قرآن کریم نے اس تجویز کی تائید نہیں فرمائی، لہذا اس آیت سے مقبرے بنانے یا قبروں کو عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں اس عمل سے منع فرمایا ہے۔
(توضیح القرآن)
اب (کچھ) کہیں گے وہ تین میں چوتھا ان کا کتا ہے، اور (کچھ) کہیں گے وہ پانچ ہیں اور ان کا چھٹا ہے ان کا کتا، بن دیکھے بات پھینکتے ہیں (اٹکل کے تکے چلا رہے ہیں) کچھ کہیں گے وہ ساتھ ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے آپ کہہ دیں میرا رب خوب جانتا ہے ان کی تعداد، انہیں صرف تھوڑے جانتے ہیں پس سرسری بحث کے سوا، ان کے (بارے میں) نہ جھگڑو اور نہ پوچھو ان کے بارے میں ان میں سے کسی کو۔ (۲۲)
تشریح: یعنی سامعین "اصحاب کہف” کا قصہ سن کر جیسا کہ لوگوں کی عادت ہے، اٹکل کے تیر چلائیں گے، کوئی کہے گا کہ وہ تین تھے چوتھا کتا تھا، کوئی پانچ بتلا کر چھٹا کتے کو شمار کرے گا۔ لیکن یہ سب اقوال ایسے ہیں جیسے کوئی بے نشانہ دیکھے پتھر چلاتا رہے۔ ممکن ہے مختلف باتیں کہنے سے جہل کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان کرنا بھی مقصود ہو کہ دیکھیں یہ اس معاملہ میں کیا کہتے ہیں۔ کیونکہ احتمال ہے کہ یہود نے ان کو صحیح تعداد سات کی بتلائی ہو جس کی طرف آگے قرآن نے اشارہ کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہر گز کسی کام کو نہ کہنا کہ میں کل کرنے والا ہوں (کل کر دوں گا) ۔ (۲۳)
مگر یہ کہ اللہ چاہے (انشاءاللہ) اور جب تو بھول جائے تو اپنے رب کو یاد کر اور کہو امید ہے کہ میرا رب مجھے ہدایت دے اس سے زیادہ قریب کی بھلائی کی۔ (۲۴)
تشریح: جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اصحاب کہف اور ذولقرنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، اس وقت آپ نے سوال کرنے والوں سے ایک طرح کا وعدہ کر لیا تھا کہ میں اس سوال کا جواب کل دوں گا، اس وقت آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے تھے اور آپ کو یہ امید تھی کہ کل تک وحی کے ذریعے آپ کو ان واقعات سے باخبر کر دیا جائے گا، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے یہ مستقل ہدایت عطا فرمائی کہ کسی بھی مسلمان کو آئندہ کے بارے میں کوئی بات ان شاء اللہ کہے بغیر نہیں کہنی چاہئے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں چونکہ آپ نے ان شاء اللہ نہیں فرمایا تھا اس لئے اگلے روز وہی نہیں آئی، بلکہ کئی روز کے بعد وحی آئی اور اس میں یہ ہدایت بھی دی گئی۔
وَقُلْ عَسٰى أَنْ يَّہدِيَنِ رَبِّيْ :اصحاب کہف کا واقعہ سوال کرنے والوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل کے طور پر پوچھا تھا، اس آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو نبوت کے اور بھی دلائل عطا فرمائے ہیں جو اصحاب کہف کا واقعہ سنانے سے زیادہ واضح ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور وہ اس غار میں تین سو سال رہے، اور ان کے اوپر نو سال (۳۰۹ سال) ۔ (۲۵)
آپ کہہ دیں اللہ خوب جانتا ہے وہ کتنی مدت ٹھہرے، اسی کو ہے آسمانوں اور زمین کا غیب، کیا (خوب) وہ دیکھتا ہے اور کیا (خوب) وہ سنتا ہے، ان کے لئے اس کے سوا کوئی مدد گار نہیں، وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (۲۶)
تشریح: اگرچہ اللہ تعالی نے اصحاب کہف کے بارے میں یہ بتلا دیا کہ وہ غار میں تین سو نو سال تک سوتے رہے، لیکن آگے پھر وہی بات ارشاد فرما ئی کہ محض قیاسات کی بنیاد پر اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اور ا گر کوئی اس مدت سے اختلاف کرے تو یہ کہہ کر بحث کا دروازہ بند کر دو کہ اللہ تعالی ہی اس مدت کو خوب جانتا ہے، اس نے جو مدت بتا دی ہے، وہی درست ہے۔
(توضیح القرآن)
اور آپ پڑھیں جو آپ کی طرف آپ کے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور تم ہر گز نہ پاؤ گے اس کے سوا کوئی پناہ گاہ۔ (۲۷)
تشریح:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خطاب در حقیقت ان کافروں کو سنانے کے لئے ہے جو آپ سے یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ آپ اس قرآن میں ہماری خواہش اور عقیدے کے مطابق تبدیلیاں کر لیں تو ہم آپ کو ماننے کے لئے تیار ہیں، ان کا یہ مطالبہ پیچھے سورۂ یونس (۱۰۔ ۱۵) میں گزر چکا ہے، یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالی کے کلام میں تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے اللہ تعالی کے عذاب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ میسر نہیں آسکتی۔
(توضیح القرآن)
اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے (لگائے) رکھو جو اپنے رب کو پکارتے ہیں صبح اور شام، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں، اور تمہاری آنکھیں ان سے نہ پھریں کہ تم دنیا کی آرائش کے طلبگار ہو جاؤ، اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے پڑ گیا اور اس کا کام حد سے بڑھا ہوا ہے۔ (۲۸)
تشریح: بعض کفار کا مطالبہ یہ بھی تھا کہ جو غریب اور کم حیثیت لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے ہیں، اگر آپ انہیں اپنے پاس سے ہٹا دیں تو ہم آپ کی بات سننے کو تیار ہوں گے، موجودہ حالت میں ہم ان غریبوں کے ساتھ بیٹھ کر آپ کی کوئی بات نہیں سن سکتے، یہ آیت اس مطالبے کو رد کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دے رہی ہے کہ آپ اس مطالبے کو نہ مانیں اور اپنے غریب صحابہ کی رفاقت نہ چھوڑیں، اور اس ضمن میں ان غریب صحابہ کرام کی فضیلت اور ان کے مقابلے میں ان مالدار کافروں کی برائی بیان فرمائی گئی ہے۔ یہی مضمون سورۂ انعام (۶۔ ۵۲) میں بھی گزر چکا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور آپ کہہ دیں حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے سو ایمان لائے اور جو چاہے سو نہ مانے، ہم نے بیشک تیار کی ہے ظالموں کے لئے آگ، اس کی قناتیں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ فریاد کریں گے تو پگھلے ہوئے تانبے کے مانند (کھولتے) پانی سے داد رسی کئے جائیں گے، وہ ان کے منہ بھون ڈالے گا، برا ہے ان کا مشروب اور بری ہے (ان کی) آرام گاہ (جہنم) ۔ (۲۹)
تشریح: یعنی حق کے واضح ہو جانے کے بعد دنیا میں کسی کو ایمان لانے پر زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا، البتہ جو شخص ایمان نہیں لائے گا، اس کو آخرت میں بیشک ایک خوفناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(توضیح القرآن)
گرمی کی شدت سے پیاس لگے گی تو العطش پکاریں گے۔ تب تیل کی تلچھٹ یا پیپ کی طرح کا پانی دیا جائے گا۔ جو سخت حرارت اور تیزی کی وجہ سے منہ کو بھون ڈالے گا۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل کئے نیک، یقیناً ہم اس کا اجر ضائع نہیں کریں گے جس نے اچھا عمل کیا۔ (۳۰)
تشریح:یعنی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی کم نہ ہو گی۔ پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (تفسیرعثمانی)
یہی لو گ ہیں ان کے لئے ہمیشگی کے باغات ہیں، بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں، اس میں انہیں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور وہ کپڑے پہنیں گے سبز باریک ریشم کے اور دبیز ریشم کے، اس میں مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے، اچھا ہے بدلہ اور خوب ہے آرام گاہ۔ (۳۱)
تشریح:تاکہ دکھلا دیا جائے کہ اصلی اور دائمی دولت مند کون لوگ ہیں۔ کنگن یا ریشمی کپڑوں اور اسی طرح جنت کی تمام نعمتوں کی خاص کیفیت کو ہم دنیا میں نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ ہماری محسوسات میں اس موطن کی کوئی پوری مثال موجود نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان کے لئے دو آدمیوں کا حال بیان کریں ہم نے ان میں سے ایک کے لئے دو باغ بنائے انگوروں کے، اور ہم نے انہیں کھجوروں کے درختوں (کی باڑ) سے گھیر لیا، اور ان کے درمیان کھیتی رکھی۔ (۳۲)
تشریح:یہ کافر غنی اور مومن فقیر کی مثال بیان فرمائی، جس کے ضمن میں دنیا کی بے ثباتی، کفر و تکبر کی بد انجامی اور ایمان و تقویٰ کی مقبولیت پر متنبہ کرنا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
دونوں باغ اپنے پھل لائے، اور اس (پیداوار) میں کچھ کمی نہ کرتے تھے، اور ہم نے ان دونوں کے درمیان میں ایک نہر جاری کر دی۔ (۳۳)
تشریح:یعنی یہ نہیں کہ ایک باغ پھلا دوسرا نہ پھلا۔ یا ایک درخت زیادہ آیا دوسرا کم۔ باغوں کے درمیان نہر کا پانی قرینہ سے پھر رہا تھا کہ منظر فرحت بخش رہے اور بارش نہ ہو تب بھی باغ وغیرہ خشکی سے خراب نہ ہونے پائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس کے لئے (بہت) پھل تھا، تو وہ اپنے ساتھی سے باتیں کرتے ہوئے بولا، میں مال میں تجھ سے زیادہ تر ہوں، اور آدمیوں (جتھے) کے لحاظ سے زیادہ با عزت ہوں۔ (۳۴)
تشریح:وَکَانَ لَہ ثَمَرٌ:یعنی جو خرچ کیا یا کمائی کی اس کا پھل خوب ملا۔ اور ہر قسم کے سامان عیش و رفاہیت جمع ہو گئے نکاح کیا تو اس کا پھل بھی اچھا پایا اولاد کثرت سے ہوئی۔
أَنَا أَكْثَرُ مِنْکَ مَالًا وَّأَعَزُّ نَفَراً :یعنی مال و دولت اور جتھا میرے پاس تجھ سے کہیں زائد ہے۔ اگر میں مشرکانہ اطوار اختیار کرنے میں باطل پر ہوتا تو اس قدر آسائش اور فراخی کیوں ملتی۔ اس کے مشرک ہونے کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ آفت آنے کے بعد پچتا کر کہتا تھا "یَالَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْ اَحَدًا” معلوم ہوتا ہے کہ اس کا غریب ساتھی جو پکا موحد تھا شرک کے باطل ہونے کا اظہار اور شرک سے تائب ہونے کی نصیحت کر رہا ہو گا۔ جس کے جواب میں یہ کہا کہ میں تجھ سے مال میں، جتھے میں، ہر چیز میں زیادہ ہوں کس طرح یقین کر لوں کہ میں باطل پر ہوں اور تجھ جیسا مفلس قلاش حق پر ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اپنے باغ میں داخل ہوا (اس حال میں کہ) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہا تھا، وہ بولا میں گمان نہیں کرتا کہ یہ کبھی برباد ہو گا۔ (۳۵)
تشریح: یعنی شرک میں مبتلا تھا۔ کبر و غرور کا نشہ دماغ میں بھرا ہوا تھا، دوسروں کو حقیر جانتا تھا، اور خدا کی قدرت و جبروت پر نظر نہ تھی۔ نہ یہ سمجھتا تھا کہ آگے کیا انجام ہونے والا ہے۔ بس یہی باغ اس کی جنت تھی جس کو وہ ابدی سمجھ رہا تھا۔
(ماخوذتفسیرعثمانی)
اور میں گمان نہیں کرتا کہ قیامت برپا ہونے والی ہے، اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا گیا تو میں ضرور اس سے بہتر لوٹنے کی جگہ پاؤں گا۔ (۳۶)
تشریح:یعنی اب تو آرام سے گزرتی ہے۔ اور میں نے اب انتظامات ایسے مکمل کر لیے ہیں کہ میری زندگی تک ان باغوں کے تباہ ہونے کا بظاہر کوئی کھٹکا نہیں۔ رہا بعد الموت کا قصہ، سو اول تو مجھے یقین نہیں کہ مرنے کے بعد ہڈیوں کے ریزوں کو دوبارہ زندگی ملے گی؟ اور ہم خدا کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ لیکن اگر ایسا ہوا تو یقیناً ًمجھے یہاں سے بہتر سامان وہاں ملنا چاہیے۔ اگر ہماری حرکات خدا کو ناپسند ہوتیں تو دنیا میں اتنی کشائش کیوں دیتا۔ گویا یہاں کی فراخی علامت ہے کہ وہاں بھی ہم عیش اڑائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے ساتھی نے اس سے کہا اور وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، کیا تو اس کے ساتھ کفر کرتا ہے؟جس نے تجھے مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے، پھر تجھے بنایا (پورا) مرد۔ (۳۷)
لیکن میں (کہتا ہوں) وہی اللہ میرا رب ہے، اور میں اپنے رب کےساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (۳۸)
تشریح:یعنی جس خدا نے تیری اصل (آدم علیہ السلام) کو بے جان مٹی سے پھر تجھ کو زمینی پیداوار کے خلاصہ اور ایک قطرہ ناچیز سے پیدا کر کے زندگی بخشی اور جسمانی و روحانی قوتیں دے کر ہٹا کٹا مرد بنایا، کیا تجھے انکار ہے کہ وہ تیرے مرے پیچھے دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا؟ یا دی ہوئی نعمت چھین نہیں سکتا؟ میرا تو یہ عقیدہ نہیں۔ بلکہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ تنہا ہمارا رب ہے۔ اس کی خدائی میں کوئی حصہ دار نہیں۔ پھر بھلا اس کے حکم و اختیار کے سامنے کون دم مار سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کیوں نہ جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں، تو نے کہا ماشاء اللہ (جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے) کوئی قوت نہیں مگر اللہ کی (دی ہوئی) اگر تو مجھے اپنے سے کم دیکھتا ہے مال میں اور اولاد میں۔ (۳۹)
تشریح:یعنی مال تو اللہ کی نعمت ہے۔ پر اترانے اور کفر بکنے سے آفت آتی ہے۔ چاہیے تھا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت "مَااَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ہٰذِہٖ اَبَدًا” کی جگہ "مَاشَآءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ” کہتا۔ یعنی خدا جو چاہے عطا فرمائے، ہم میں جو کچھ زور و قوت ہے اسی کی امداد و اعانت سے ہے۔ وہ چاہے تو ایک دم میں سلب کر لے۔ روایات میں ہے کہ جب آدمی کو اپنے گھر بار میں آسودگی نظر آئے تو یہ ہی لفظ کہے۔ "مَاشَآءَ اللہُ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ” (تفسیرعثمانی)
تو قریب ہے کہ میرا رب مجھے تیرے باغ سے بہتر دے اور اس (تیرے باغ ) پر آفت بھیجےآسمان سے، پھر وہ مٹی کا چٹیل میدان ہو کر رہ جائے۔ (۴۰)
یا اس کا پانی خشک ہو جائے، اور تو ہر گز نہ کر سکے اس کو تلاش۔ (۴۱)
تشریح:یعنی ایک گرم بگولا اٹھے یا اور کوئی آفت سماوی نازل ہو جو تیرے تکبر و تجبر کی سزا میں باغ کو تہس نہس کر کے صاف چٹیل میدان بنا دے۔ یا نہر کا پانی خشک ہو کر رہ جائے۔ پھر باوجود کوشش کے جاری نہ ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس کے پھل (عذاب میں ) گھیر لئے گئے اور اس میں جو اس نے خرچ کیا تھا وہ اس پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ (باغ) اپنی چھتریوں پر گرا ہوا تھا اور وہ کہنے لگا اے کاش، میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا۔ (۴۲)
تشریح:یعنی کفِ افسوس ملتا رہ گیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں آخر اس کے باغ پر و ہی ہوا جو اس مرد نیک کی زبان سے نکلا تھا۔ رات کو آفت سماوی آگ کی صورت میں آئی۔ سب جل کر ڈھیر ہو گیا۔ مال خرچ کیا تھا پونجی بڑھانے کو وہ اصل بھی کھو بیٹھا۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اور یہ افسوس و ندامت بھی خدا سے ڈر کر نہیں، محض دنیاوی ضرر پہنچنے کی بنا پر تھی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس کے لئے کوئی جماعت نہ ہوئی کہ اللہ کے سوا اس کی مدد کرتی، اور وہ بدلہ لینے کے قابل نہ تھا۔ (۴۳)
تشریح: یعنی نہ جتھا کام آیا، نہ اولاد، نہ فرضی معبود جنہیں خدائی کا شریک ٹھہرا رکھا تھا۔ اور نہ خود اپنی ذات میں اتنی طاقت تھی کہ خدا کے عذاب کو روک دیتا یا بدلہ لے سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
یہاں اختیار، اللہ برحق کے لئے ہے، وہی بہتر ہے ثواب دینے میں اور بہتر ہے بدلے دینے میں۔ (۴۴)
تشریح:یعنی جس عمل کا جو بدلہ کسی کو دے وہی ٹھیک ہے۔ یہاں اور وہاں ہر جگہ اختیار اسی کا چلتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے فیصلہ میں دخل دے سکے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان کے لئے بیان کریں دنیا کی مثال (وہ ایسے ہے) جیسے ہم نے آسمان سے ایک پانی اتارا، پھر اس کے ذریعہ زمین کا سبزہ مل جل گیا (خوب گھنا اُگا) پھر وہ چورا چورا ہو گیا کہ اس کو ہوائیں اڑاتی ہیں، اور اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۴۵)
تشریح:یعنی دنیا کی عارضی بہار اور فانی و سریع الزوال تر و تازگی کی مثال ایسی سمجھو کہ خشک اور مردہ زمین پر بارش کا پانی پڑا، وہ یک بیک جی اٹھی، گنجان درخت اور مختلف اجزاء سے رلا ملا سبزہ نکل آیا۔ لہلہاتی کھیتی آنکھوں کو بھلی معلوم ہونے لگی۔ مگر چند روز ہی گزرے کہ زرد ہو کر سوکھنا شروع ہو گئی۔ آخر ایک وقت آیا کہ کاٹ چھانٹ کر برابر کر دی گئی۔ پھر ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں اڑائی گئی۔ یہ ہی حال دنیا کے دیدہ زیب و ابلہ فریب بناؤ سنگار کا سمجھو۔ چند روز کے لیے خوب ہری بھری نظر آتی ہے، آخر میں چورہ ہو کر ہوا میں اڑ جائے گی۔ اور کٹ چھٹ کر سب میدان صاف ہو جائے گا جیسا کہ آگے "وَیَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً” میں اشارہ کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں، اور باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک بہتر ہیں ثواب میں اور بہتر ہیں آرزو میں۔ (۴۶)
تشریح: یعنی مرنے کے بعد مال و اولاد وغیرہ کام نہیں آتے صرف وہ نیکیاں کام آتی ہیں جن کا اثر یا ثواب آئندہ باقی رہنے والا ہو۔ حدیث میں "سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہ وَلَا اِلٰـہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ” ان کلمات کو باقیات صالحات فرمایا۔ یہ محض مثال کے طور پر ہے۔ ورنہ تمامی اعمال حسنہ اس میں داخل ہیں۔ (تفسیرعثمانی)
اور جس دن ہم پہاڑ چلائیں گے اور تو زمین کو صاف میدان دیکھے گا اور ہم انہیں جمع کر لیں گے، پھر ہم ان میں سے کسی کو نہ چھوڑیں گے۔ (۴۷)
تشریح:یعنی جب قیامت آئے گی پہاڑ جیسی سخت مخلوق بھی اپنی جگہ سے چلائی جائے گی۔ بلکہ اس کی بھاری بھاری چٹانیں دھنی ہوئی اون کی طرح فضا میں اڑتی پھریں گی۔ غرض زمین کے سارے ابھار مٹا کر سطح ہموار اور کھلی ہوئی رہ جائے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ تیرے رب کے سامنے صف بستہ پیش کئے جائیں گے، (آخر) البتہ تم ہمارے سامنے آ گئے، جیسے ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا، جبکہ تم سمجھتے تھے کہ ہم تمہارے لئے ہرگز کوئی وقت موعود نہ ٹھہرائیں گے۔ (۴۸)
تشریح:منکرین بعث کو تقریع و توبیخ کے طور پر یہ کہا جائے گا کہ تم تو قیامت وغیرہ کو محض ڈھکوسلہ سمجھتے تھے۔ آج سب جتھا اور اثاثہ چھوڑ کر ننگ دھڑنگ کہاں آ پہنچے۔ اور "جیسا بنایا تھا پہلی بار” میں یہ بھی داخل ہے کہ بدن میں کچھ زخم و نقصان وغیرہ نہ رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ محشر میں کل ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اسی امت محمدیہ کی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور رکھی جائے گی کتاب، جو اس میں (لکھا ہو گا) سو تم مجرموں کو اس سے ڈرتے ہوئے دیکھو گے، اور وہ کہیں گے ہائے ہماری شامت اعمال! کیسی ہے یہ تحریر! یہ نہیں چھوڑتی چھوٹی سی بات اور نہ بڑی بات، مگر اسے قلم بند کئے ہوئے ہے، اور وہ پالیں گے جو انہوں نے کیا (اپنے) سامنے، اور تمہارا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔ (۴۹)
تشریح:یعنی اعمالنامہ ہر ایک کے ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس میں اپنے گناہوں کی فہرست پڑھ کر مجرم خوف کھائیں گے کہ دیکھئے آج کیسی سزا ملتی ہے۔ ذرہ ذرہ عمل آنکھوں کے سامنے ہو گا اور ہر ایک چھوٹی بڑی بدی یا نیکی اعمالنامہ میں مندرج پائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تم سجدہ کرو آدم کو تو (اُن) سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، وہ (قوم) جنّ سے تھا، اور وہ اپنے رب کے حکم سے باہر نکل گیا، سو کیا تم اس کو اور اس کی اولا دکو میرے سوا دوست بناتے ہو؟اور وہ تمہارے دشمن ہیں، برا ہے ظالموں کے لئے بدلا۔ (۵۰)
تشریح:راجح یہی ہے کہ ابلیس نوع جن سے تھا، عبادت میں ترقی کر کے گروہ ملائکہ میں شامل ہو گیا۔ اسی لیے فرشتوں کو جو حکم سجود ہوا اس کو بھی ہوا۔ اس وقت اس کی اصل طبیعت رنگ لائی۔ تکبر کر کے خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری سے بھاگ نکلا، آدم کے سامنے سر جھکانے میں کسر شان سمجھی۔ تعجب ہے کہ آج آدم کی اولاد اپنے رب کی جگہ اسی دشمن ازلی اور اس کی اولاد و اتباع کو اپنا رفیق و خیر خواہ اور مددگار بنانا چاہتی ہے اس سے بڑھ کر بے انصافی اور ظلم کیا ہو گا۔ یہ قصہ پہلے کئی جگہ مفصل گزر چکا ہے۔ یہاں اس پر متنبہ کرنے کے لیے لائے ہیں کہ دنیائے فانی کی ٹیپ ٹاپ پر مغرور ہو کر آخرت سے غافل ہو جانا شیطان کی تحریک و تسویل سے ہے۔ چاہتا ہے کہ ہم اپنے اصلی و آبائی وطن (جنت) میں واپس نہ جائیں۔ اس کا مطمح نظر یہ ہے کہ دوست بن کر ہم سے پرانی دشمنی نکالے۔ آدمی کو لازم ہے کہ ایسے چالاک دشمن سے ہوشیار رہے۔ جو لوگ دنیاوی متاع پر مغرور ہو کر ضعفاء کو حقیر سمجھتے اور اپنے کو بہت لمبا کھینچتے ہیں، وہ تکبر و تفاخر میں شیطان لعین کی راہ پر چل رہے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
میں نے انہیں نہ آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے (کے وقت) حاضر کیا (بلایا) اور نہ خود انہیں پیدا کرتے (وقت) ، میں گمراہ کرنے والوں کو (دست و) بازو بنانے والا نہیں ہوں۔ (۵۱)
تشریح:یعنی زمین و آسمان پیدا کرتے وقت ہم نے ان شیاطین کو بلایا نہ تھا کہ ذرا آ کر دیکھ جائیں، ٹھیک بنا ہے یا کچھ اونچ نیچ رہ گئی۔ غرض نہ ان سے تکوین و ایجاد عالم میں کچھ مشورہ لیا گیا نہ مدد طلب کی گئی بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش کے وقت تو سرے سے یہ موجود ہی نہ تھے۔ خود ان کو پیدا کرتے وقت بھی نہیں پوچھا گیا کہ تمہیں کیسا بنایا جائے۔ یا تمہارے دوسرے ہم جنسوں کو کس طرح پیدا کروں ذرا آ کر میری مدد کرو۔ اور بفرض محال مدد بھی لیتا اور قوت بازو بھی بناتا تو کیا ان بدبخت اشقیاء کو؟ جنہیں جانتا ہوں کہ لوگوں کو میری راہ سے بہکانے والے ہیں۔ پھر خدا جانے آدمیوں نے ان کو خدائی کا درجہ کیسے دے دیا اور اپنے رب کو چھوڑ کر انہیں کیوں رفیق و مددگار بنانے لگے۔ "سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی عَمَّا یَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ عُلُوًّا کَبِیْراً۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور جس دن وہ (اللہ) فرمائے گا: بلاؤ میرے شریکوں کو جنہیں تم نے ( معبود) گمان کیا تھا، پس وہ انہیں پکاریں گے تو وہ جواب نہ دیں گے، اور ہم ان کے درمیان ہلاکت کی جگہ بنا دیں گے۔ (۵۲)
تشریح:یعنی جن کو میرا شریک بنا رکھا تھا، بلاؤ! تاکہ اس مصیبت کے وقت تمہاری مدد کریں۔ اس وقت رفاقت اور دوستی کی ساری قلعی کھل جائے گی۔ ایک دوسرے کے نزدیک بھی نہ جاس کیں گے۔ کام آنا تو درکنار دونوں کے بیچ میں عظیم و وسیع خندق آگ کی حائل ہو گی (اعاذنا اللہ منہا)
(تفسیرعثمانی)
اور دیکھیں گے مجرم آگ تو وہ سمجھ جائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں، اور وہ اس سے (بچ نکلنے کی) کوئی راہ نہ پائیں گے۔ (۵۳)
تشریح:یعنی شروع شروع میں شاید کچھ معافی کی امید ہو گی لیکن جہنم کو دیکھتے ہی یقین ہو جائے گا کہ اب اس میں گرنا ہے اور فرار کا کوئی راستہ نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ہم نے البتہ اس قرآن میں لوگوں کے لئے پھیر پھیر کر ہر قسم کی مثالیں بیان کی ہیں، اور انسان ہر شے سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ (۵۴)
تشریح:یعنی قرآن کریم کس طرح مختلف عنوانات اور قسم قسم کے دلائل و امثلہ سے سچی باتیں سمجھاتا ہے مگر انسان کچھ ایسا جھگڑالو واقع ہوا ہے کہ صاف اور سیدھی باتوں میں بھی کٹ حجتی کیے بغیر نہیں رہتا۔ جب دلائل کا جواب بن نہیں پڑتا تو مہمل اور دور از کار فرمائشیں شروع کر دیتا ہے کہ فلاں چیز دکھاؤ تو مانوں گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور لوگوں کو (کسی بات نے) نہیں روکا کہ وہ ایمان لے آئیں جبکہ ان کے پاس ہدایت آ گئی اور وہ اپنے رب سے بخشش مانگیں، بجز اس کے کہ ان کے پاس پہلوں کی روش آئے یا ان کے پاس آئے سامنے کا عذاب۔ (۵۵)
تشریح:یعنی ان کے ضد و عناد کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن ایسی عظیم الشان ہدایت پہنچ جانے کے بعد ایمان نہ لانے اور توبہ نہ کرنے کا کوئی معقول عذر ان کے پاس باقی نہیں۔ آخر قبول حق میں اب کیا دیر ہے اور کا ہے کا انتظار ہے۔ بجز اس کے کہ پہلی قوموں کی طرح خدا تعالیٰ ان کو بکلی تباہ کر ڈالے۔ یا اگر تباہ نہ کیے جائیں تو کم ازکم مختلف صورتوں میں عذابِ الٰہی آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم رسول نہیں بھیجتے مگر خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے، اور جھگڑا کرتے ہیں کافر ناحق کی باتوں کے ساتھ، تاکہ وہ اس سے حق (بات) کو پھسلادیں، اور انہوں نے بنایا میری آیتوں کو اور جس سے وہ ڈرائے گا ایک مذاق۔ (۵۶)
تشریح:ان کو یہ اختیار نہیں کہ جب تم مانگو یا جب وہ چاہیں عذاب لا کھڑا کریں۔ جھوٹے جھگڑے اٹھا کر اور کٹ حجتی کر کے چاہتے ہیں کہ حق کی آواز پست کر دیں اور جھوٹ کے زور سے سچائی کا قدم ڈگمگا دیں۔ ایسا کبھی نہ ہو گا۔ کلام اللہ سے ٹھٹھا کرتے ہیں اور جس عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اس کی ہنسی اڑاتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس سے بڑا ظالم کون جسے اس کے رب کی آیتوں سے سمجھایا گیا تو اس نے اس سے منہ پھیر لیا اور وہ بھول گیا جو اس کے دونوں ہاتھوں نے (اس سے) آگے بھیجا ہے، بیشک ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دئیے ہیں کہ وہ اس (قرآن) کو سمجھ سکیں، اور ان کے کانوں میں گرانی ہے (بہرے ہیں) اور اگر تم انہیں ہدایت کی طرف بلاؤ تو جب بھی وہ ہر گز ہدایت نہ پائیں گے کبھی بھی۔ (۵۷)
تشریح: یعنی کبھی بھول کر بھی خیال نہ آیا کہ تکذیب حق اور استہزاء و تمسخر کا جو ذخیرہ آگے بھیج رہا ہے اس کی سزا کیا ہے۔ ان کے جدال بالباطل اور استہزاء بالحق کی وجہ سے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے اور کانوں میں ڈاٹ ٹھونک دی۔ اب نہ حق کو سنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں بالکل مسخ ہو گئے۔ پھر حق کی طرف متوجہ ہوں تو کیسے ہوں اور انجام کا خیال کریں تو کیسے کریں۔ ایسے بدبختوں کے راہ پر آنے کی کبھی توقع نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور تمہارا رب بخشنے والا، رحمت والا ہے، اگر ان کے کئے پر وہ ان کا مواخذہ کرے تو وہ جلد بھیج دے ان کے لئے عذاب، بلکہ ان کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور وہ ہرگز اس کے ورے پناہ کی جگہ نہ پائیں گے۔ (۵۸)
تشریح: یعنی کرتوت تو ان کے ایسے کہ عذاب پہنچنے میں ایک گھنٹہ کی تاخیر نہ ہو، مگر حق تعالیٰ کا حلم و کرم فوراً تباہ کر ڈالنے سے مانع ہے، اپنی رحمت عامہ سے خاص حد تک درگزر فرماتا ہے اور سخت سے سخت مجرم کو موقع دیتا ہے کہ چاہے تو اب بھی توبہ کر لے پچھلی خطائیں بخشوا لے۔ اور ایمان لا کر رحمت عظیمہ کا مستحق بن جائے۔ یہ تاخیر عذاب ایک وقت معین تک ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی مجرم سزا کا وعدہ آنے سے پیشتر کہیں ادھر ادھر کھسک جائے۔ جب وقت آئے گا سب بندھے چلے آئیں گے، مجال نہیں کوئی روپوش ہو سکے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان بستیوں کو جب انہوں نے ظلم کیا ہم نے ہلاک کر دیا اور ہم نے ان کی تباہی کے لئے ایک وقت مقرر کیا۔ (۵۹)
تشریح: یعنی عاد و ثمود کی بستیاں جن کے واقعات مشہور و معروف ہیں دیکھ لو جب ظلم کیے کس طرح اپنے وقت معین پر تباہ و برباد کر دی گئیں۔ اسی طرح تم کو ڈرتے رہنا چاہیے کہ وقت آنے پر عذاب الٰہی سے کہیں پناہ نہ ملے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا میں ہٹوں گا نہیں (چلتا رہوں گا) یہاں تک کہ پہنچ جاؤں دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ (سنگم پر) یا مدت دراز چلتا رہوں گا۔ (۶۰)
تشریح: اوپر ذکر ہوا تھا کہ مغرور کافر مفلس مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ ان کو پاس نہ بٹھائیں تو ہم بیٹھیں۔ اسی پر دو شخصوں کی کہاوت سنائی، پھر دنیا کی مثال اور ابلیس کا کبر و غرور سے خراب ہونا بیان کیا۔ اب موسٰی اور خضر کا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ اللہ والے اگر سب سے افضل اور بہتر بھی ہوں تو اپنے آپ کو بہتر نہیں کہتے۔ اور کبھی بھول چوک سے کہہ گزریں تو حق تعالیٰ کی طرف سے تادیب و تنبیہ کی جاتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام اپنی قوم کو نہایت موثر اور بیش بہا نصیحتیں فرما رہے تھے ایک شخص نے پوچھا۔ اے موسیٰ! کیا روئے زمین پر آپ اپنے سے بڑا عالم کسی کو پاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہ جواب واقع میں صحیح تھا کیونکہ موسٰی اولوالعزم پیغمبروں میں سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے زمانہ میں اسرار شرعیہ کا علم ان سے زیادہ کس کو ہو سکتا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ کو ان کے الفاظ پسند نہ آئے، گو مراد صحیح تھی۔ تاہم عنوان جواب کے عموم سے ظاہر ہوتا تھا کہ روئے زمین پر من کل الوجوہ اپنے کو اعلم الناس خیال کرتے ہیں۔ خدا کی مرضی یہ تھی کہ جواب کو اس کے علم محیط پر محمول کرتے۔ مثلاً یہ کہتے کہ اللہ کے مقرب و مقبول بندے بہت سے ہیں، سب کی خبر اسی کو ہے۔ تب وحی آئی کہ جس جگہ دو دریا ملے ہیں اس کے پاس ہمارا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے (دو دریا سے کون سے دریا مراد ہیں؟ بعض نے کہا کہ بحر فارس اور بحر روم لیکن یہ دونوں ملتے نہیں۔ شاید ملاپ سے مراد قرب ہو گا یعنی جہاں دونوں کا فاصلہ کم سے کم رہ جائے۔ بعض افریقہ کے دو دریا مراد لیتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک "مجمع البحرین” وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر دجلہ اور فرات خلیج فارس میں گرتے ہیں۔ (واللہ اعلم) بہرحال موسٰی علیہ السلام نے درخواست کی کہ مجھے اس کا پورا پتہ نشان بتایا جائے تاکہ میں وہاں جا کر کچھ علمی استفادہ کروں۔ حکم ہوا کہ اس کی تلاش میں نکلو تو ایک مچھلی تل کر ساتھ رکھ لو، جہاں مچھلی گم ہو وہیں سمجھنا کہ وہ بندہ موجود ہے گویا "مجمع البحرین” سے جو ایک وسیع قطعہ مراد ہو سکتا تھا اس کی پوری تعیین کے لیے یہ علامت مقرر فرما دی۔ موسٰی علیہ السلام نے اسی ہدایت کے موافق اپنے خادم خاص حضرت یوشع کو ہمراہ لے کر سفر شروع کر دیا۔ اور یوشع کو کہہ دیا کہ مچھلی کا خیال رکھنا۔ میں برابر سفر کرتا رہوں گا یہاں تک کہ منزل مقصود پر پہنچ جاؤں۔ اگر فرض کرو برس اور قرن بھی گزر جائیں گے بدون مقصد حاصل کیے سفر سے نہ ہٹوں گا۔ (تنبیہ) جوان سے مراد حضرت یوشع ہیں جو ابتداءً موسٰی علیہ السلام کے خادم خاص تھے، پھر ان کے روبرو پیغمبر اور ان کے بعد خلیفہ ہوئے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب وہ دونوں (دریاؤں) کے سنگم پر پہنچے تو وہ اپنی مچھلی بھول گئے تو اس (مچھلی) نے اپنا راستہ بنالیا دریا میں سرنگ کی طرح۔ (۶۱)
تشریح:وہاں پہنچ کر ایک بڑے پتھر کے قریب جس کے نیچے آب حیات کا چشمہ جاری تھا، حضرت موسٰی علیہ السلام سو رہے۔ یوشع علیہ السلام نے دیکھا کہ بھنی ہوئی مچھلی باذن اللہ زندہ ہو کر زنبیل سے نکل پڑی اور عجیب طریقہ سے دریا میں سرنگ بناتی چلی گئی۔ وہاں پانی میں خدا کی قدرت سے ایک طاق سے کھلا رہ گیا۔ یوشع کو دیکھ کر تعجب آیا۔ چاہا کہ موسٰی بیدار ہوں تو ان سے کہوں۔ وہ بیدار ہوئے تو دونوں آگے چل کھڑے ہوئے۔ یوشع نہ معلوم کن خیالات میں پڑ کر کہنا بھول گئے۔ روایات میں ہے کہ موسٰی علیہ السلام نے جب ان کو مچھلی کی خبر گیری کے لیے کہا تھا تو ان کی زبان سے نکلا کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں۔ لہٰذا متنبہ کیا گیا کہ چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی آدمی کو محض اپنے نفس پر بھروسہ نہیں چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب وہ آگے چلے تو موسیٰ نے اپنے شاگرد سے کہا ہمارے لئے صبح کا کھانا لاؤ، البتہ ہم نے اس سفر سے بہت ( تکلیف) تھکان پائی۔ (۶۲)
تشریح:حضرت موسٰی علیہ السلام پہلے نہیں تھکے۔ جب مطلب چھوٹ رہا تھا اس وقت چلنے سے تکان محسوس کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا کیا آپ نے دیکھا، جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تو بیشک میں مچھلی بھول گیا اور مجھے نہیں بھلایا مگر شیطان نے، کہ میں (آپ سے) اس کا ذکر کروں، اور اس نے بنا لیا اپنا راستہ دریا میں عجیب طرح سے۔ (۶۳)
تشریح: یعنی مطلب کی بات بھول جانا اور عین موقع یادداشت پر ذہول ہونا، شیطان کی وسوسہ اندازی سے ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نہ کہا یہی ہے (وہ مقام) جو ہم چاہتے ہیں، پھر وہ دونوں لوٹے اپنے نشاناتِ قدم پر دیکھتے ہوئے۔ (۶۴)
تشریح:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہی علامت بتائی گئی تھی کہ جس جگہ پر مچھلی گم ہو گی وہیں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہو گی، اس لئے حضرت یوشع علیہ السلام نے تو ڈرتے ڈرتے یہ واقعہ ذکر کیا تھا، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام اسے سن کر خوش ہوئے کہ منزل مقصود کا پتہ لگ گیا۔
(توضیح القرآن)
پھر انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ (خضر) کو پایا، اسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی، اور ہم نے اسے اپنے پاس سے علم دیا۔ (۶۵)
وہ بندہ حضرت خضر علیہ السلام تھے۔ جن کو حق تعالیٰ نے رحمت خصوصی سے نوازا اور اسرار کونیہ کے علم سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔
موسٰی علیہ السلام حضرت خضر سے ملے۔ علیک سلیک کے بعد خضر نے پوچھا۔ موسٰی نے آنے کا سبب بتلایا۔ خضر نے کہا اے موسیٰ! بلاشبہ اللہ نے تمہاری تربیت فرمائی۔ پر بات یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ایک علم (جزئیات کونیہ کا) مجھ کو ملا ہے جو (اتنی مقدار میں) تم کو نہیں ملا۔ اور ایک علم (اسرار تشریع کا) تم کو دیا گیا ہے جو (اتنی بہتات سے) مجھ کو نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد ایک چڑیا دکھا کر جو دریا میں سے پانی پی رہی تھی، کہا کہ میرا، تمہارا بلکہ کل مخلوقات کا سارا علم اللہ کے علم میں سے اتنا ہے جتنا دریا کے پانی میں سے وہ قطرہ جو چڑیا کے منہ کو لگ گیا ہے (یہ بھی محض تفہیم کے لیے تھا ورنہ متناہی کو غیر متناہی سے قطرہ اور دریا کی نسبت بھی نہیں)
( ملخص تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے اس سے کہا کیا میں تمہارےساتھ چلوں؟اس (بات) پر کہ تم مجھے سکھادو اس بھلی راہ میں سے جو تمہیں سکھائی گئی ہے۔ (۶۶)
تشریح:یعنی اجازت ہو تو چند روز آپ کے ہمراہ رہ کر اس مخصوص علم کا کچھ حصہ حاصل کروں۔
(تفسیرعثمانی)
اس (خضر) نے کہا بیشک تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔ (۶۷)
اور تو اس پر کیسے صبر کر سکے گا جس کا تو نے واقفیت سے احاطہ نہیں کیا (جس سے تو واقف نہیں) ۔ (۶۸)
تشریح:حضرت خضر نے موسٰی علیہ السلام کے مزاج وغیرہ کا اندازہ کر کے سمجھ لیا کہ میرے ساتھ ان کا نباہ نہ ہو سکے گا۔ کیونکہ وہ مامور تھے کہ واقعات کونیہ کو جزئی علم پا کر اسی کے موافق عمل کریں اور موسٰی علیہ السلام جن علوم کے حامل تھے ان کا تعلق تشریعی قوانین و کلیات سے تھا بنا بریں جن جزئیات میں عوارض و خصوصیات خاصہ کی وجہ سے بظاہر عام ضابطہ پر عمل نہ ہو گا حضرت موسٰی اپنی معلومات کی بناء پر ضرور روک ٹوک کریں گے اور خاموشی کا مسلک دیر تک قائم نہ رکھ سکیں گے۔ آخری نتیجہ یہ ہو گا کہ جدا ہونا پڑے گا۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے کہا اگر اللہ نے چاہا تو تم مجھے پاؤ گے صبر کرنے والا، اور میں تمہاری کسی بات کی نافرمانی نہ کروں گا۔ (۶۹)
تشریح:یہ وعدہ کرتے وقت غالباً موسٰی علیہ السلام کو اس کا تصور بھی نہ ہو سکتا تھا کہ ایسے مقرب و مقبول بندہ سے کوئی ایسی حرکت دیکھنے میں آئے گی جو اعلانیہ ان کی شریعت بلکہ عام شرائع و اخلاق کے خلاف ہو۔ غنیمت ہوا کہ انہوں نے "انشاء اللہ” کہہ لیا تھا۔ ورنہ ایک قطعی وعدہ کی خلاف ورزی کرنا اولو العزم پیغمبر کی شان کے لائق نہ ہوتا۔
(تفسیرعثمانی)
خضر نے کہا پس اگر تجھے میرے ساتھ چلنا ہے تو مجھ سے نہ پوچھنا کسی چیز سے متعلق، یہاں تک کہ میں خود تجھ سے ذکر کروں۔ (۷۰)
تشریح:یعنی کوئی بات اگر بظاہر ناحق نظر آئے تو مجھ سے فوراً باز پرس نہ کرنا، جب تک میں خود اپنی طرف سے کہنا شروع نہ کروں۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ جب وہ دونوں کشتی میں سوار ہوئے، اس (خضر ) نے اس میں سوراخ کر دیا، موسیٰ نے کہا تم نے اس میں سوراخ کر دیا کہ اس کے سواروں کو غرق کر دو، البتہ تم نے ایک بھاری (خطرہ کی) بات کی ہے۔ (۷۱)
تشریح:جب اس کشتی پر چڑھنے لگے ناؤ والوں نے خضر کو پہچان کر مفت سوار کر لیا۔ اس احسان کے بدلہ یہ نقصان دیکھ کر موسٰی کو اور زیادہ تعجب ہوا۔ لیکن کشتی پوری طرح کنارہ کے قریب پہنچ کر توڑی۔ لوگ ڈوبنے سے بچ گئے اور توڑنا یہ تھا کہ ایک تختہ نکال ڈالا۔ گویا عیب دار کر دی۔
(تفسیرعثمانی)
خضر نے کہا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ ہر گز صبر نہ کر سکے گا۔ (۷۲)
موسیٰ نے کہا اس پر میرا مواخذہ نہ کریں جو میں بھول گیا، اور میرے معاملہ میں مجھ پر مشکل نہ ڈالیں۔ (۷۳)
تشریح:یعنی اگر بھول چوک پر بھی گرفت کرو گے تو میرا تمہارے ساتھ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ پہلا پوچھنا حضرت موسٰی سے بھول کر ہوا۔ اور دوسرا اقرار کرنے کو اور تیسرا رخصت ہونے کو۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ دونوں چلے! یہاں تک کہ وہ ایک لڑکے کو ملے، تو خضر نے اسے قتل کر دیا، موسیٰ نے کہا کیا تم نے ایک پاک جان کو جان کے (بدلے کے) بغیر قتل کر دیا، البتہ تم نے ایک ناپسندیدہ کام کیا۔ (۷۴)
ایک گاؤں کے قریب چند لڑکے کھیل رہے تھے، ان میں سے ایک کو جو زیادہ خوبصورت اور سیانا تھا پکڑ کر مار ڈالا۔
اول تو نابالغ قصاص میں بھی قتل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر مزید یہ کہ یہاں قصاص کا بھی کوئی قصہ نہ تھا۔ پھر اس سے بڑھ کر معقول بات کون سی ہو گی۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
خضر نے کہا کہ کیا میں نے تجھ سے نہیں کہا تھا کہ تو میرے ساتھ صبر نہ کر سکے گا۔ (۷۵)
تشریح:کیونکہ ایسے حالات و واقعات دیکھنے میں آئیں گے جن پر تم خاموشی کے ساتھ صبر نہیں کر سکو گے۔ آخر وہی ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے کہا اگر اس کے بعد میں تم سے کسی چیز سے (متعلق) پوچھوں تو تم مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا، البتہ تم میری طرف سے پہنچ گئے ہو (حدِ) عذر کو۔ (۷۶)
تشریح:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اندازہ ہو گیا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے تحیر خیز حالات و واقعات کا چپ چاپ مشاہدہ کرتے رہنا بہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ اس لیے آخری بات کہہ دی کہ اس مرتبہ اگر سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں ایسا کرنے میں آپ معذور ہوں گے اور میری طرف سے کوئی الزام آپ پر عائد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ تین مرتبہ موقع دے کر آپ حجت تمام کر چکے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں والوں کے پاس آئے، انہوں نے اس کے باشندوں سے کھانا مانگا تو انہوں نے انکار کر دیا ان کی ضیافت کرنے سے، پھر انہوں نے وہاں ایک دیوار دیکھی جو گر ا چاہتی تھی تو خضر نے اسے سیدھا کر دیا، موسیٰ نے کہا اگر تم چاہتے تو اس پر تم اجرت لے لیتے۔ (۷۷)
تشریح: یعنی ایک بستی میں پہنچ کر وہاں کے لوگوں سے ملے اور چاہا کہ بستی والے مہمان سمجھ کر کھانا کھلائیں۔ مگر یہ سعادت ان کی قسمت میں نہ تھی، انہوں نے موسٰی علیہ السلام و خضر علیہ السلام جیسے مقربین کی مہمانی سے انکار کر دیا۔ یہ معاملہ دیکھ کر چاہیے تھا کہ ایسے تنگ دل اور بے مروت لوگوں پر غصہ آتا، مگر حضرت خضر علیہ السلام نے غصہ کے بجائے ان پر احسان کیا۔ بستی میں ایک بڑی بھاری دیوار جھکی ہوئی تھی قریب تھا کہ زمین پر آرہے، لوگ اس کے نیچے گزرتے ہوئے خوف کھاتے تھے، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ لگا کر سیدھی کر دی اور منہدم ہونے سے بچا لیا۔
قَالَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْہ أَجْراً :یعنی بستی والوں نے مسافر کا حق نہ سمجھا کہ مہمانی کریں ان کی دیوار مفت بنا دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر کچھ معاوضہ لے کر دیوار سیدھی کرتے تو ہمارے کھانے پینے کا کام چلتا اور ان تنگ دل بخیلوں کو ایک طرح کی تنبیہ ہو جاتی، شاید اپنی بد اخلاقی اور بے مروتی پر شرماتے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا یہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ہے، اب میں تمہیں تعبیر (حقیقت حال) بتائے دیتا ہوں جس پر تم صبر نہ کر سکے۔ (۷۸)
تشریح:یعنی حسب و عدہ اب مجھ سے علیحدہ ہو جائیے، آپ کا نباہ میرے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن جدا ہونے سے پہلے چاہتا ہوں کہ ان واقعات کے پوشیدہ اسرار کھول دوں۔ جن کے چکر میں پڑ کر آپ صبر و ضبط کی شان قائم نہ رکھ سکے۔
(تفسیرعثمانی)
رہی کشتی! سو وہ چند غریب لوگوں کی تھی جو دریا میں کام (محنت مزدوری) کرتے تھے اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر (اچھی) کشتی کو زبردستی پکڑ لیتا (چھین لیتا) تھا، سو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کر دوں۔ (۷۹)
تشریح:یعنی جدھر کشتی جانے والی تھی اس طرف ایک ظالم بادشاہ جو اچھی کشتی دیکھتا چھین لیتا، یا بیگار میں پکڑ لیتا تھا میں نے چاہا کہ عیب دار کر دوں، تاکہ اس ظالم کی دستبرد سے محفوظ رہے اور ٹوٹی ہوئی خراب کشتی سمجھ کر کوئی تعرض نہ کرے۔ بعض آثار میں ہے کہ خطرہ کے مقام سے آگے نکل کر پھر حضرت خضر نے کشتی اپنے ہاتھ سے درست کر دی۔
(تفسیرعثمانی)
اور رہا لڑکا! تو اس کے ماں باپ دونوں مؤمن تھے، سو ہمیں اندیشہ ہوا کہ وہ انہیں سرکشی اور کفر میں نہ پھنسادے۔ (۸۰)
پس ہم نے ارادہ کیا کہ ان دونوں کو ان کا رب بدلہ دے (جو پاکیزگی) میں اس سے بہتر اور شفقت میں زیادہ قریب ہو۔ (۸۱)
تشریح:یعنی لڑکے کے مارے جانے سے اس کے والدین کا ایمان محفوظ ہو گیا اور جو صدمہ ان کو پہنچا، حق تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی تلافی ایسی اولاد سے کر دے جو اخلاق پاکیزگی میں مقتول لڑکے سے بہتر ہو، ماں باپ اس پر شفقت کریں۔ وہ ماں باپ کے ساتھ محبت و تعظیم اور حسن سلوک سے پیش آئے۔ کہتے ہیں اس کے بعد خدا تعالیٰ نے نیک لڑکی دی جو ایک نبی سے منسوب ہوئی اور ایک نبی اس سے پیدا ہوئے جس سے ایک امت چلی۔
(تفسیرعثمانی)
اور رہی دیوار! سو وہ تھی شہر کے دو یتیم بچوں کی اور اس کے نیچے ان دونوں کے لئے خزانہ تھا، اور ان کا باپ نیک تھا، سو تمہارے رب نے چاہا کہ وہ اپنی جوانی کو پہنچیں تو وہ دونوں تمہارے رب کی رحمت سے خزانہ نکالیں اور یہ میں نے نہیں کیا اپنی مرضی سے، یہ ہے (وہ) حقیقت! جس پر تم صبر نہ کر سکے۔ (۸۲)
تشریح:یعنی اگر دیوار گر پڑتی تو یتیم بچوں کا جو مال وہاں گڑا ہوا تھا ظاہر ہو جاتا اور بدنیت لوگ اٹھا لیتے۔ بچوں کا باپ مرد صالح تھا اس کی نیکی کی رعایت سے حق تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ بچوں کے مال کی حفاظت کی جائے میں نے اس کے حکم سے دیوار سیدھی کر دی کہ بچے جوان ہو کر باپ کا خزانہ پاس کیں۔ کہتے ہیں اس خزانہ میں دوسرے اموال کے علاوہ ایک سونے کی تختی تھی جس پر "محمد رسول اللہ” (صلی اللہ علیہ وسلم) لکھا ہوا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
ذٰلِکَ تَأْوِيْلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَّلَيْہ صَبْراً:یہ ہے (وہ) حقیقت! جس پر تم صبر نہ کر سکے:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت خضر علیہ السلام سے ملوانے اور یہ واقعات دکھانے کا اصل مقصد ایک اہم حقیقت کا مشاہدہ کرانا تھا اور اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ واقعہ ہمارے لئے بیان فرمایا ہے، اسلامی شریعت کی رو سے کسی کے لئے یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی تصرف کرے، خاص طور پر اس کی تو ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی کے اس کی ملکیت کو کوئی نقصان پہنچا دے، چاہے وہ نقصان خود مالک کے فائدے کی نیت ہی سے پہنچایا گیا ہو لیکن حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی والوں کی اجازت کے بغیر اس کا تختہ نکال دیا، اسی طرح کسی بے گناہ کو قتل کرنا شریعت میں انتہائی سنگین جرم ہے خاص طور پر کسی نابالغ لڑکے کو قتل کرنا تو حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کوئی فساد مچائے گا، تب بھی اس وقت اسے قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام ان پر خاموش نہیں رہ سکے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نے شریعت کے بالکل خلاف یہ کام کیسے کئے، اس سوال کا جواب جاننے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کائنات میں جتنے واقعات ہوتے ہیں چاہے وہ ہماری نظر میں اچھے معلوم ہوتے ہو ں یا برے ان کا تعلق ایک ایسے جہاں سے ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے، اور جسے اصطلاح میں عالم تکوین کہا جاتا ہے جو براہ راست اللہ تعالی کی حکمت اور اس کے تکوینی احکام کے ذری کنٹرول ہو رہا ہے، کس شخص کو کتنے عرصے زندہ رہنا ہے؟ اور کب اس کی موت واقع ہو گی، وہ کتنے عرصے صحت مند رہے گا اور کب بیمار ہو جائے گا، اسے کب کونسا روز گار نصیب ہو گا ؟اور اس کے ذری وہ کتنی روزی کماس کے گا؟ اس قسم کے سارے معاملات اللہ تعالی براہ راست طے فرماتے ہیں اور ان فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے کچھ کارندے مقرر فرما رکھے ہیں جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر اللہ تعالی کے ان تکوینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں، مثلاً جب اللہ تعالی نے یہ طے فرما لیا کہ فلاں شخص کی موت کا وقت آ گیا ہے تو اللہ تعالی کی طرف سے موت کا فرشتہ اس شخص کی روح قبض کرنے کے لئے پہنچ جاتا ہے، جب وہ اللہ تعالی کے تکوینی حکم کی تعمیل میں کسی کی موت واقع کر رہا ہوتا ہے تو وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے، لیکن جس فرشتے کو اللہ تعالی نے اسی کام پر مقرر فرمایا ہے اس کے لئے یہ کوئی جرم نہیں۔ اللہ تعالی کے تکوینی احکام کو نافذ کرنے کے لئے عام طور سے فرشتے مقرر ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالی جس کو چاہیں یہ فریضہ سونپ سکتے ہیں، حضرت خضر علیہ السلام اگرچہ انسان تھے، لیکن اللہ تعالی نے ان کو فرشتوں کی طرح عالم تکوین کا پیغمبر بنا دیا تھا، انہوں نے جو کچھ کیا اللہ تعالی کے تکوینی حکم کے ذریعے کیا، لہذا جس طرح موت کے فرشتے پر یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے ایک بے گناہ کی جان لے کر گناہ کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے اسی بات کے لئے مامور تھا، اسی طرح حضرت خضر علیہ السلام بھی اس کشتی کو عیب لگانے اور اس لڑکے کو قتل کرنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تکوینی طور پر مامور تھے، اس لئے ان کا یہ عمل کوئی جرم نہیں تھا، البتہ ہم لوگ دنیا میں رہتے ہوئے شریعت کے احکام کے پابند ہیں اور ہمیں عالم تکوین کا نہ علم عطا کیا گیا ہے اور نہ اس عالم سے متعلق ہمیں کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لئے ہم انہی احکام کے مکلف ہیں جو اس جیتی جاگتی زندگی میں ہمیں آنکھوں سے نظر آتے ہیں، چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسی جیتی جاگتی دنیا کے پیغمبر تھے، اور جو شریعت ان کو دی گئی تھی، اسی کے پابند تھے، اس لئے وہ نہ حضرت خضر علیہ السلام کی ان باتوں پر خاموش رہ سکے اور نہ آئندہ ان کے ساتھ چل سکے، ان تین واقعات کے بعد وہ سمجھ گئے کہ ان صاحب کا دائرے کار میرے دائرہ کار سے بالکل الگ ہے اور میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، البتہ اس طرح انہیں یہ حقیقت کھلی آنکھوں دکھا دی گئی کہ اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پیچھے اللہ تعالی کی لا محدود حکمت کار فرما ہے، اگر ہمیں کسی واقعہ کی وجہ سمجھ میں نہ آئے تو اس کی بنا پر اللہ تعالی کے فیصلے پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جس عالم تکوین میں اس کی حکمت واضح ہو سکتی ہے وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے، روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے منظر ایسے نظر آتے ہیں جن پر ہمارا دل دکھتا ہے بہت سے انسانوں کی مظلومیت کو دیکھ کر بعض اوقات دل میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں، حضرت خضر علیہ السلام کے ذریعے عالم تکوین کی ایک جھلک دکھا کر ایک مؤمن کے لئے ایسے شکوک و شبہات کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، البتہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عالم تکوین اور اس کے کارندے ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، حضرت خضر علیہ السلام بھی اس طرح پوشیدہ تھے، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عالم تکوین کی ایک جھلک دکھانے کے لئے وحی کے ذریعے ان کا پتہ بتا دیا گیا، اب جبکہ وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہے کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ یقینی طور پر تکوین کے کسی کارندے تک رسائی حاصل کر سکے، اور نہ نظر آنے والی دنیا میں کوئی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ وہ تکوین کا کارندہ ہے، اور اسےتکوینی اختیارات حاصل ہیں، لہذا جن لوگوں نے حضرت خضر علیہ السلام کے واقعے کی بنیا د پر شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے سراسر گمراہی پھیلائی ہے، مثلاً بعض نام نہاد درویشوں کا تصوف وغیرہ کے نام لے کر یہ کہنا کہ شریعت کے احکام ظاہر بیں لوگوں کے لئے ہیں، اور ہم ان سے مستثنی ہیں، پر لے درجے کی گمراہی ہے، آج کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ شریعت کے احکام سے مستثنی ہو سکے۔
(توضیح القرآن)
اور آپ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کی بابت، فرما دیں، میں تمہارے سامنے ابھی اس کا کچھ حال پڑھتا ہوں (بیان کرتا ) ہوں۔ (۸۳)
بیشک ہم نے اس کو زمین میں قدرت دی اور ہم نے اس کو ہر شے کا سامان دیا تھا۔ (۸۴)
تشریح: اس سورت کے تعارف میں گزر چکا ہے کہ مشرکین نے حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوالات کئے تھے، ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ اس شخص کا حال بتائیں جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا، یہاں سے اس سوال کا جواب دیا جا رہا ہے، قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اس شخص کا نام ذوالقرنین تھا، ذوالقرنین کے لفظی معنی ہیں دو سینگوں والا، یہ کسی نا معلوم وجہ سے ایک بادشاہ کا لقب تھا، قرآن کریم نے اس بادشاہ کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ وہ کون تھا اور کس زمانے میں تھا البتہ ہمارے زمانے کے بیشتر محققین کا رجحان یہ ہے کہ وہ ایران کا بادشاہ سائرس تھا، جس نے بنی اسرائیل کو بابل کی جلا وطنی سے نجات دلا کر انہیں دوبارہ فلسطین میں آباد کیا تھا، قرآن کریم نے اتنا بتایا ہے کہ انہوں نے تین لمبے سفر کئے تھے، پہلا دنیا کی انتہائی مغربی آبادی تک، دوسرا انتہائی مشرقی آبادی تک، اور تیسرا انتہائی شمالی علاقے تک، جہاں انہوں نے یاجوج ماجوج کے وحشیانہ حملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک دیوار تعمیر کی تھی۔
(توضیح القرآن)
سو وہ ایک سامان کے پیچھے پڑا (۸۵)
یہاں تک کہ وہ سورج کے غروب ہونے کے مقام پر پہنچا اس نے اسے پایا (دیکھا) کہ وہ دلدل کی ندی میں ڈوب رہا ہے، اور اس کے نزدیک اس نے ایک قوم پائی، ہم نے کہا اے ذوالقرنین! (تجھے اختیار ہے) چاہے تو سزا دے چاہے ان سے کوئی بھلائی اختیار کرے۔ (۸۶)
تشریح: یہ ان کے پہلے سفر کا ذکر ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اس وقت مغرب میں دنیا کی جو آخری آبادی تھی، ذوالقرنین وہاں تک پہنچے، وہ ایسی جگہ تھی کہ اس کے بعد کوئی آبادی نہیں تھی، اور حد نظر تک سمندر پھیلا ہوا تھا، اور سمندر کی شکل بھی ایک سیاہ رنگ کی دلدل جیسی تھی اور شام کے وقت جب سورج غروب ہوتا تو دیکھنے والے کو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دلدل نما چشمے میں ڈوب رہا ہے۔ اس علاقے میں کافر لوگ آباد تھے، اور حضرت ذوالقرنین نے اسے فتح کر لیا تھا، اللہ تعالی نے ان سے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو دوسرے فاتحوں کی طرح تم بھی ان لوگوں کو قتل عام کر کے تکلیف میں مبتلا کر سکتے ہو، اور اگر چاہو تو ان کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کر سکتے ہو، دوسری صورت کو اچھا رویہ قرار دے کر اللہ تعالی نے اشارہ فرما دیا کہ یہ صورت بہتر ہے۔
ذوالقرنین کے بارے میں یہ بات یقینی نہیں ہے کہ وہ پیغمبر تھے یا نہیں، اگر وہ پیغمبر تھے تو اللہ تعالی نے یہ بات ان سے براہ راست وحی کے ذریعے فرمائی ہو گی، اور وہ پیغمبر نہیں تھے، تو ان کو اس زمانے کے کسی پیغمبر کے ذریعے یہ بات پہنچائی ہو گی، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وحی کے بجائے الہام کے ذریعے ان کے دل میں یہ بات ڈالی ہو گی واللہ اعلم۔
(توضیح القرآن)
اس نے کہا اچھا جس نے ظلم کیا تو جلد ہم اسے سزا دیں گے پھر وہ اپنے رب کی طرف لوٹایا جائے گا تو وہ اسے سخت عذاب دے گا۔ (۸۷)
اور اچھا جو ایمان لایا اور اس نے عمل کئے نیک تو اس کے لئے بدلہ ہے بھلائی اور عنقریب ہم اس کے لئے اپنے کام میں آسانی (کی بات) کہیں گے۔ (۸۸)
تشریح: ذوالقرنین کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ میں انہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دوں گا جو لوگ اس دعوت کو قبول نہ کر کے ظلم کا ارتکاب کریں گے انہیں تو میں سزا دوں گا اور جو لوگ دعوت قبول کر کے ایمان عمل صالح اختیار کر لیں گے ان کے ساتھ میں آسانی کا معاملہ کروں گا۔
(توضیح القرآن)
پھر وہ ایک (اور) سامان کے پیچھے پڑا۔ (۸۹)
یہاں تک کہ وہ سورج کے طلوع ہونے کے مقام تک پہنچا تو اس کو پایا (دیکھا) وہ ایک ایسی قوم پر طلوع کر رہا ہے جن کے لئے ہم نے اس (سورج) کے آگے نہیں بنایا تھا کوئی پردہ (اوٹ) ۔ (۹۰)
یہ ہے (حقیقت) اور جو کچھ اس کے پاس تھا اس کی خبر ہمارے احاطہ (علم) میں ہے۔ (۹۱)
تشریح: یہ ذوالقرنین کے دوسرے سفر کا ذکر ہے، اس سفر میں وہ دنیا کی انتہائی مشرقی آبادی تک جا پہنچے تھے، یہاں کچھ غیر متمدن لوگ رہتے تھے، ان میں مکان بنانے اور چھتیں ڈالنے کا دستور نہیں تھا، سب کھلے میدان میں رہتے تھے، اس لئے دھوپ سے بچاؤ کے لئے کوئی اوٹ نہیں تھی، بلکہ سورج کی کرنیں ان پر براہ راست پڑتی تھیں۔
(توضیح القرآن)
پھر وہ (ایک اور ) سامان کے پیچھے پڑا۔ (۹۲)
یہاں تک کہ جب وہ پہنچا دو پہاڑوں کے درمیان، اس نے ان دونوں کے درے میں ایک قوم پائی، وہ لگتے نہ تھے کہ کوئی بات سمجھیں۔ (۹۳)
تشریح: یہ ذوالقرنین کا تیسرا سفر ہے، قرآن کریم نے اس سفر کی سمت متعین نہیں فرمائی، لیکن بیشتر مفسرین کا خیال یہ ہے کہ یہ سفر شمال میں دنیا کی انتہائی آبادی کی طرف ہوا تھا، یہاں کے لوگوں کی زبان بالکل مختلف تھی، اور شاید حلیہ بھی ایسا ہو کہ ان میں سمجھ کے آثار نظر نہ آتے ہوں، اور آگے ان سے جو گفتگو ہوئی ہے وہ یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہوئی ہو گی یا اشاروں سے۔
(توضیح القرآن)
انہوں نے کہا اے ذوالقرنین! بیشک یاجوج اور ماجوج زمین میں فسادی ہیں، تو کیا ہم تیرے لئے (جمع) کر دیں کچھ مال؟ تاکہ تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دے۔ (۹۴)
تشریح: یا جوج ماجوج دو وحشی قبیلے تھے جوان پہاڑوں کے پیچھے رہتے تھے اور تھوڑے تھوڑے وقفوں سے وہ پہاڑوں کے درمیان درے سے اس علاقے میں آ کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیتے تھے، علاقے کے لوگ ان سے پریشان تھے، اس لئے انہوں نے ذوالقرنین کو دیکھا کہ وہ بڑے وسائل کے مالک ہیں تو ان سے درخواست کی کہ پہاڑوں کے درمیان جو درہ ہے اسے ایک دیوار بنا کر بند کر دیں، تاکہ یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہو جائے، اور وہ یہاں آ کر فساد نہ پھیلاس کیں، اس کا م کے لئے انہوں نے کچھ مال کی بھی پیش کش کی۔
(توضیح القرآن)
اس نے کہا جس پر مجھے میرے رب نے قدرت دی وہ بہتر ہے، پس تم میری مدد کرو قوت (بازو) سے، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک آڑ بنا دوں گا۔ (۹۵)
تشریح: حضرت ذوالقرنین نے کوئی معاوضہ لینے سے انکار کر دیا البتہ یہ کہا کہ تم اپنی افرادی طاقت سے میری مدد کرو تو میں یہ دیوار بلا معاوضہ بنا دوں گا۔
(توضیح القرآن)
مجھے لوہے کے تختے لادو، یہاں تک کہ جب اس نے برابر کر دیا دونوں پہاڑوں کے درمیان، اس نے کہا (اب) دھونکو، یہاں تک کہ جب (دھونک کر) اسے آگ کر دیا، اس نے کہا میرے پاس لاؤ میں اس پر پگھلا ہوا تانبہ ڈالوں۔ (۹۶)
پھر وہ (یاجوج ماجوج) اس پر نہ چڑھ سکیں گے، اور نہ اس میں نقب لگاس کیں گے۔ (۹۷)
تشریح: ذوالقرنین نے پہلے لوہے کی بڑی بڑی چادریں پہاڑوں کے درمیان رکھ کر درے کو پاٹ دیا، پھر ان چادروں کو آگ سے گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا تانبہ ڈالا، تاکہ وہ چادروں کی درمیانی درازوں میں جا کر بیٹھ جائے اور اس طرح یہ دیوار نہایت مضبوط بن گئی۔
(توضیح القرآن)
اس نے کہا یہ میرے رب کی (طرف سے) رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ (مقررہ وقت) آئے گا، اس کو ہموار کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے۔ (۹۸)
تشریح: ذوالقرنین نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے کے بعد دو حقیقتوں کو واضح کیا، ایک یہ کہ یہ سارا کارنامہ میرے قوت بازو کا کرشمہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی کی رحمت سے مجھے اس کی توفیق ہوئی ہے، اور دوسرے یہ کہ اگر چہ اس وقت یہ دیوار بہت مستحکم بن گئی ہے، لیکن اللہ تعالی کے لئے اسے توڑنا کچھ مشکل نہیں ہے، جب تک اللہ تعالی کو منظور ہو گا یہ قائم رہے گی، اور جب وہ وقت آ جائے گا جس میں اللہ تعالی نے اس کا ٹوٹنا مقرر کر رکھا ہے تو یہ ٹوٹ کر زمین کے برابر ہو جائے گی، اس طرح قرآن کریم سے یہ بات یقینی طور پر معلوم نہیں ہوتی کہ یہ دیوار قیامت تک قائم رہے گی، بلکہ اس کا قیامت سے پہلے ٹوٹنا بھی ممکن ہے، چنانچہ بعض محققین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ دیوار روس کے علاقے داغستان میں در بند کے مقام پر بنائی گئی تھی، اور اب وہ ٹوٹ چکی ہے، یاجوج ماجوج کے مختلف ریلے تاریخ کے مختلف زمانوں میں متمدن آبادیوں پر حملہ آور ہوتے رہے ہیں، اور پھر وہ ان متمدن علاقوں میں پہنچ کر خود بھی متمدن ہوتے رہے ہیں، البتہ ان کا آخری ریلا قیامت کے کچھ پہلے نکلے گا، اس موضوع کی مفصل تحقیق حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب قصص القرآن اور حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر معارف القرآن میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اور آگے ذوالقرنین نے جو یہ فرمایا کہ میرے رب کا وعدہ بالکل سچا ہے، اس سے مراد قیامت کا وعدہ ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ تو ابھی معلوم نہیں ہے کہ اس دیوار کے ٹوٹنے کے لئے اللہ تعالی نے کونسا وقت مقرر فرمایا ہے، لیکن ایک وعدہ واضح طور پر معلوم ہے کہ ایک وقت قیامت آنے والی ہے، اور جب وہ آئے گی تو ہر مضبوط سے مضبوط چیز بھی ٹوٹ پھوٹ کر فنا ہو جائے گی، ذوالقرنین نے اس پر قیامت کا جو حوالہ دیا اس کی مناسبت سے اللہ تعالی نے آگے قیامت کے کچھ حالات بیان فرمائے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور ہم چھوڑ دیں گے ان کے بعض کو اس دن دوسرے کے اندر ریلا مارتے ہوئے، اور صور پھونکا جائے گا، پھر ہم ان سب کو جمع کریں گے۔ (۹۹)
اور ہم اس دن جہنم سامنے کر دیں گے کافروں کے، بالکل سامنے۔ (۱۰۰)
اور میرے ذکر سے ان کی آنکھیں پردۂ (غفلت) میں تھیں، وہ سننے کی طاقت نہ رکھتے تھے (سن نہ سکتے تھے) ۔ (۱۰۱)
تشریح: اس سے مراد یاجوج ماجوج کا وہ ریلا بھی ہو سکتا ہے جو قیامت کے قریب نکلے گا اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ قیامت کے قریب نکلیں گے تو ایک غیر منظم بھیڑ کی شکل میں نکلیں گے اور موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قیامت کے وقت عام لوگوں کی بد حواسی کا بیان ہو کہ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر لوگ بدحواسی میں ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے۔
(توضیح القرآن)
جن لوگوں نے کفر کیا، کیا وہ گمان کرتے ہیں؟ کہ وہ میرے بندوں کو بنا لیں گے میرے سوا کار ساز، بیشک ہم نے کافروں کے لئے جہنم کو ضیافت تیار کیا ہے۔ (۱۰۲)
تشریح:یعنی کیا منکرین یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے خاص بندوں (مسیح، عزیر، روح القدس، فرشتوں) کی پرستش کر کے اپنی حمایت میں کھڑا کر لیں گے۔ "کَلاَّسَیَکْفُرُوْنَ بِعِبَادَتِہِمْ وَیَکُوْنُوْنَ عَلَیْہِمْ ضِدًّا” (ہرگز نہیں! وہ خود تمہاری حرکات سے بیزاری کا اظہار فرمائیں گے اور تمہارے مقابل مدعی بن کر کھڑے ہوں گے) اس دھوکہ میں مت رہنا! وہاں تم کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ ہاں ہم تمہاری مہمانی کریں گے۔ دوزخ کی آگ اور قسم قسم کے عذاب سے (اعاذنا اللہ منہا) ۔
(تفسیرعثمانی)
فرما دیں کیا ہم تمہیں بتلائیں اعمال کے لحاظ سے بدترین گھاٹے میں کون ہیں۔ (۱۰۳)
وہ لوگ جن کی کوششیں دنیا کی زندگی میں برباد ہو گئی، اور وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں۔ (۱۰۴)
تشریح: اس آیت کریمہ نے یہ بڑی حقیقت واضح فرمائی ہے کہ کسی عمل کے مقبول ہونے کے لئے صرف خلوص نیت کافی نہیں ہے، بلکہ راستے کا سیدھا ہونا بھی ضروری ہے، بہت سے کافر خلوص کے ساتھ ایک کام کو اچھا سمجھ کر کرتے ہیں، لیکن چونکہ وہ کام انہوں نے خود اپنی طرف سے گھڑا ہوتا ہے، اللہ تعالی یا اس کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کی طرف اس کام کی کوئی سند نہیں ہوتی، اس لئے وہ ساری محنت اکارت ہو کر رہ جاتی ہے۔
(توضیح القرآن)
یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں کا اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، پس اکارت گئے ان کے عمل، پس قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن قائم نہ کریں گے (دونوں کے عمل بے وزن ہوں گے) (۱۰۵)
یہ ان کا بدلہ ہے جہنم، اس لئے کہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں کو اور میرے رسولوں کو ہنسی مذاق ٹھہرایا۔ (۱۰۶)
تشریح: یعنی نہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو مانا، نہ خیال کیا کہ کبھی اس کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ کافر کی حسنات مردہ ہیں اس ابدی زندگی میں کسی کام کی نہیں۔ اب محض کفریات وسیئات رہ گئیں۔ سو ایک پلہ کیا تُلے تولنا تو موازنہ کیلئے تھا۔ موازنہ متقابل چیزوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سیئات کے بالمقابل حسنہ کا وجود ہی نہیں۔ پھر تولنے کا کیا مطلب۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے ضیافت ہیں فردوس (بہشت) کے باغات۔ (۱۰۷)
ان میں ہمیشہ رہیں گے، وہ وہاں سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔ (۱۰۸)
تشریح:یعنی ہمیشہ رہنے سے اکتائیں گے نہیں۔ ہر دم تازہ بتازہ نعمتیں ملیں گی۔ کبھی خواہش نہ کریں گے کہ ہم کو یہاں سے منتقل کر دیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
فرما دیں اگر سمندر میرے رب کی باتیں (لکھنے کیلئے) روشنائی بن جائے تو سمندر (کا پانی) ختم ہو جائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم اس کی مدد کو اس جیسا (اور سمندر بھی ) لے آئیں۔ (۱۰۹)
تشریح:اللہ تعالی کی باتوں سے مراد اللہ تعالی کی صفات اور کمالات کا تذکرہ ہے، یعنی اللہ تعالی کی قدرت اس کی حکمت اور اس کے کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو قلم بند کیا جائے تو بڑے بڑے سمندروں کو روشنائی بنا کر لکھا جائے، تو سمندر کے سمندر خشک ہو جائیں گے اور اللہ تعالی کی صفات اور کمالات کا بیان ختم نہیں ہو گا۔
(توضیح القرآن)
فرما دیں کہ میں تم جیسا بشر ہوں (البتہ) میری طرف وحی کی جاتی ہے، تمہارا معبود معبود واحد ہے، سو جو اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہئے کہ وہ اچھے عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔ (۱۱۰)
تشریح:یعنی میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں، خدا نہیں، جو خودبخود ذاتی طور پر تمام علوم و کمالات حاصل ہوں، ہاں اللہ تعالیٰ علوم حقہ اور معارف قدسیہ میری طرف وحی کرتا ہے جن میں اصل اصول علم توحید ہے۔ اسی کی طرف میں سب کو دعوت دیتا ہوں۔ جس کسی کو اللہ تعالیٰ سے ملنے کا شوق یا اس کے سامنے حاضر کیے جانے کا خوف ہو اسے چاہیے کہ کچھ بھلے کام شریعت کے موافق کر جائے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ظاہر اً و باطناً کسی کو کسی درجہ میں بھی شریک نہ کرے۔ یعنی شرک جلی کی طرح ریا وغیرہ شرکِ خفی سے بھی بچتا رہے۔ کیونکہ جس عبادت میں غیر اللہ کی شرکت ہو وہ عابد کے منہ پر ماری جائے گی۔ "اَللّٰہُمَّ اَعِذْنَا مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا” اس آیت میں اشارہ کر دیا کہ نبی کا علم بھی متناہی اور عطائی ہے، علم خداوندی کی طرح ذاتی اور غیر متناہی نہیں۔
تم سورۃالکہف بفضل اللہ تعالیٰ ومنہ ولِلّٰہ الحمدا ولًا واٰخراً۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۱۹۔ سورۃمریم
تعارف
اس سورت کا بنیادی مقصد حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں صحیح عقائد کی وضاحت اور ان کے بارے میں عیسائیوں کی تردید ہے، اگرچہ مکہ مکرمہ میں جہاں یہ سورت نازل ہوئی عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں تھی، لیکن مکہ مکرمہ کے بت پرست کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوائے نبوت کی تردید کے لئے عیسائیوں سے مدد لیا کرتے تھے، اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے، جہاں عیسائی مذہب کی حکمرانی تھی، اس لئے ضروری تھا کہ مسلمان حضرت عیسی، حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحیی علیہم السلام کی صحیح حقیقت سے واقف ہوں، چنانچہ اس سورت میں ان حضرات کے واقعات اسی سیاق وسباق میں بیان ہوئے ہیں، اور چونکہ یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں ہیں جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ وہ انبیائے کرام ہی کے مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہیں، اس لئے بعض دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کا بھی مختصر تذکرہ اس سورت میں آیا ہے، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت اور اس وقت حضرت مریم علیہا السلام کی کیفیات سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوئی ہیں، اس لئے اس کا نام سورۂ مریم رکھا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۹۸ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
كٓہٰيٰعٓصٓ (۱) یہ تذکرہ ہے تیرے رب کی رحمت کا اس کے بندے زکریا پر۔ (۲)
تشریح: كٓہٰيٰعٓصٓ:جیسا کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آئے ہیں، ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔
(توضیح القرآن)
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہ زَکَرِيَّا: حضرت زکریا علیہ السلام "بنی اسرائیل” کے جلیل القدر انبیاء میں سے ہیں۔ نجاری (بڑھئی) کا پیشہ کرتے تھے اور اپنے ہاتھ سے محنت کر کے کھاتے تھے۔ ان کا قصہ پہلے سورہ آلِ عمران میں گزر چکا۔ وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
(یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو آہستہ سے پکارا۔ (۳)
تشریح:کہتے ہیں رات کی تاریکی اور خلوت میں پست آواز سے دعاء کا اصل قاعدہ ہے۔ "اُدْعُوْارَبَّکُمْ تَضَرُّعًاوَّخُفْیَۃً” (اعراف، رکوع٧، آیت:٥٥) ایسی دعاء ریا سے دور اور کمال اخلاص سے معمور ہوتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میرے رب! بیشک (بڑھاپے سے) میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں، اور میرا سر سفید بالوں سے شعلہ مارنے لگا ہے (بالکل سفید ہو گیا ہے) اور میں (کبھی) تجھ سے مانگ کر اے میرے رب محروم نہیں رہا ہوں۔ (۴)
اور البتہ میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں سے ڈرتا ہوں، اور میری بیوی بانجھ ہے، تو مجھے عطا فرما اپنے پاس سے ایک وارث۔ (۵)
تشریح: یعنی میری کوئی اولاد تو ہے نہیں، اور میرے پیچھے میرے چچازاد بھائی اپنے علم اور تقوی کے اعتبار سے اس مقام پر نہیں ہیں کہ وہ میرے مشن کو آگے جاری رکھ سکیں، اس لئے مجھے ان سے اندیشہ ہے کہ وہ دین کی خدمت نہیں کر سکیں گے، لہذا مجھے ایسا بیٹا عطا فرما دیجئے جو میرے علوم نبوت کا وارث ہو، حضرت زکریا علیہ السلام کی اس دعا اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کے جواب میں بیٹا عطا فرمانے کا تذکرہ پیچھے سورۂ آل عمران (۳:۳۸تا۴۰) میں بھی گزر چکا ہے ان آیتوں کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لئے جائیں۔
(توضیح القرآن)
وہ وارث ہو میرا، اور اولاد یعقوب کا، اور اے میرے رب! اسے پسندیدہ بنا دے۔ (۶)
تشریح: یعنی میں بوڑھا ہوں، بیوی بانجھ ہے، ظاہری سامان اولاد ملنے کا کچھ نہیں لیکن تو اپنی لامحدود قدرت و رحمت سے اولاد عطا فرما جو دینی خدمات کو سنبھالے اور تیری مقدس امانت کا بوجھ اٹھاس کے۔ میں اس ضعف و پیروی میں کیا کر سکتا ہوں، جی یہ چاہتا ہے کہ کوئی بیٹا اس لائق ہو جو اپنے باپ داداؤں کی پاک گدی پر بیٹھ سکے۔
(تفسیرعثمانی)
ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میراث پانے سے حضرت زکریا علیہ السلام کا مطلب مال و دولت کی میراث نہیں تھا، بلکہ علوم نبوت کی میراث پانا مراد تھا، کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے مالی وراثت پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہذا انکی دعا اس اصول کے خلاف نہیں جو معروف حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کا ترکہ ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا۔
(توضیح القرآن)
(ارشاد ہوا) اے زکریا! بیشک ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں، اس کا نام یحیی ہے، ہم نے اس سے قبل کسی کو اس کا ہم نام نہیں بنایا۔ (۷)
تشریح: یعنی دعاء قبول ہوئی اور لڑکے کی بشارت پہنچی۔ جس کا نام (یحییٰ) قبل از ولادت حق تعالیٰ نے تجویز فرما دیا۔ نام بھی ایسا انوکھا جو ان سے پہلے کسی کا نہ رکھا گیا تھا۔ بعض سلف نے یہاں "سمی” کے معنی "شبیہ” کے لیے ہیں۔ یعنی اس شان و صفت کا کوئی شخص ان سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ شاید یہ مطلب ہو کہ بوڑھے مرد اور بانجھ عورت سے کوئی ایسا لڑکا اس وقت تک پیدا نہیں کیا گیا تھا۔ یا بعض خاص احوال و صفات (مثلاً رقت قلب اور غلبہ بکا وغیرہ) میں ان کی مثال پہلے نہ گزری ہو گی۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے رب میرے لڑکا کیسے ہو گا؟ جبکہ میری بیوی بانجھ ہے، اور میں پہنچ گیا ہوں بڑھاپے کی انتہائی حد کو۔ (۸)
تشریح:آدمی کا قاعدہ ہے کہ جب غیر متوقع اور غیر معمولی خوشخبری سنے تو مزید طمانیت و استلذاذ کے لیے بارہا پوچھتا اور کھود کرید کیا کرتا ہے۔ اس تحقیق و تفحّص سے لذت تازہ حاصل ہوتی اور بات خوب پکی ہو جاتی ہے یہ ہی منشاء حضرت زکریا علیہ السلام کے سوال کا تھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "انوکھی چیز مانگتے تعجب نہ آیا۔ جب سنا کہ ملے گی تب تعجب کیا۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اسی طرح تیرا رب فرماتا ہے، یہ (امر) مجھ پر آسان ہے اور اس سے قبل میں نے تجھے پیدا کیا، جبکہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ (۹)
تشریح: یہ فرشتہ نے کہا۔ یعنی تمہارے نزدیک ظاہری اسباب کے اعتبار سے ایک چیز مشکل ہو تو خدا کے یہاں مشکل نہیں۔ اس کی قدرت عظیمہ کے سامنے سب آسان ہے۔ انسان اپنی ہستی ہی کو دیکھ لے۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ کوئی چیز نہ تھی اس کا نام و نشان بھی کوئی نہ جانتا تھا۔ حق تعالیٰ اس کو پردہ عدم سے وجود میں لایا۔ پھر جو قادر مطلق لاشی محض کو شی بنا دے کیا وہ بوڑھے مرد اور بانجھ عورت سے بچہ پیدا نہیں کر سکتا۔ اس پر تو بطریق اولیٰ قدرت ہونی چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میرے رب! میرے لئے کوئی نشانی (مقرر) کر دے، فرمایا تیری نشانی (یہ ہے) کہ تو لوگوں سے بات نہ کرے گا تین رات (دن) ٹھیک (ہونے کے باوجود) ۔ (۱۰)
تشریح:یعنی باوجود تندرست ہونے کے جب کامل تین رات دن لوگوں کے ساتھ زبان سے بات چیت نہ کر سکے اس وقت سمجھ لینا کہ حمل قرار پا گیا ہے۔ اس کے متعلق مفصل کلام "آل عمران” کے فوائد میں گزر چکا۔ ملاحظہ کر لیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ محرابِ (عبادت) سے اپنی قوم کے پاس نکل کر ( آیا ) تو اس نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ اس کی پاکیزگی بیان کرو صبح و شام۔ (۱۱)
تشریح:یعنی جب وہ وقت آیا تو زبان گفتگو کرنے سے رک گئی۔ حجرہ سے باہر نکل کر لوگوں کو اشارہ سے کہا کہ صبح و شام اللّٰہ کو یاد کرو۔ نمازیں پڑھو۔ تسبیح و تہلیل میں مشغول رہو۔ یہ کہنا یا تو حسب معمول سابق وعظ و نصیحت کے طور پر ہو گا یا نعمت الٰہیہ کی خوشی محسوس کر کے چاہا کہ دوسرے بھی ذکر و شکر میں ان کے شریک حال ہوں۔ کیونکہ جیسا "آل عمران” میں گزرا حضرت زکریا کو حکم تھا کہ ان تین دن میں خدا کو بہت کثرت سے یاد کریں۔ اور خاص تسبیح کا لفظ شاید اس لیے اختیار کیا ہو کہ اکثر عجیب و غریب سماں دیکھنے پر آدمی "سبحان اللہ” کہا کرتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
(ارشاد الٰہی ہوا) اے یحیی! کتاب کو مضبوطی سے تھام لو، اور ہم نے اسے بچپن (ہی) سے نبوت و دانائی دے دی۔ (۱۲)
تشریح:یعنی تورات اور دوسرے آسمانی صحیفوں کو جو تم پر یا دوسرے انبیاء پر نازل کیے گئے ہوں، خوب مضبوطی اور کوشش سے تھامے رکھو۔ ان کی تعلیمات پر خود عمل کرو اور دوسروں سے کراؤ۔
ۖ وَاٰتَيْنَاہ الْحُكْمَ صَبِيًّا:حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی علم کتاب لوگوں کو سکھلانے لگے زور سے۔ یعنی باپ ضعیف تھے اور یہ جوان۔ ” لڑکپن ہی میں ان کو حق تعالی نے فہم و دانش علم و حکمت فراست صادقہ احکام کتاب اور آداب عبودیت و خدمت کی معرفت عطا فرما دی تھی لڑکوں نے ایک مرتبہ انہیں کھیلنے کو بلایا کہا ہم اس واسطے نہیں بنائے گئے۔ بہت سے علماء کے نزدیک اللہ تعالی نے عام عادت کے خلاف ان کو لڑکپن ہی میں نبوت بھی عطا فرما دی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی (عطا کی) اور وہ پرہیز گار تھا۔ (۱۳)
تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو شوق و ذوق، رحمت و شفقت، رقت و نرم دلی، محبت اور مجبوبیت عنایت فرمائی تھی، اور صاف ستھرا، پاکیزہ رُو، پاکیزہ خو، مبارک و سعید متقی و پرہیزگار بنایا، حدیث میں ہے کہ یحییٰ نے نہ کبھی گناہ کیا نہ گناہ کا ارادہ کیا۔ خدا کے خوف سے روتے روتے رخساروں پر آنسوؤں کی نالیاں سی بن گئی تھیں۔ علیہ وعلٰی نبینا الصلوٰۃ والسلام۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا، اور نہ تھا گردن کش نافرمان۔ (۱۴)
تشریح:یعنی متکبر، سرکش اور خود سر نہ تھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی آرزو کے لڑکے اکثر ایسے ہوا کرتے ہیں۔ ” وہ ویسا نہ تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور سلام (سلامتی) ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا، اور جس دن وہ فوت ہو گا، اور جس دن وہ زندہ ہو کر اٹھایا جائے گا۔ (۱۵)
تشریح: اللہ جو بندہ پر سلام بھیجے محض تشریف و عزت افزائی کے لیے ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس پر کچھ گرفت نہیں۔ یہاں "یَوْمَ وُلِدَوَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا” سے غرض تعمیم اوقات و احوال ہے۔ یعنی ولادت سے لے کر موت تک اور موت سے قیامت تک کسی وقت اس پر خوردہ گیری نہیں۔ خدا کی پکڑ سے ہمیشہ مامون و مصؤن ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کتاب (قرآن) میں مریم کا ذکر کرو، جب وہ اپنے گھر والوں سے یکسو ہو گئی ایک مشرقی مکان میں۔ (۱۶)
پھر ڈال لیا ان کی طرف سے پردہ، پھر ہم نے اس کی طرف اپنے فرشتہ کو بھیجا، وہ اس کے لئے ٹھیک ایک آدمی کی شکل بن کر آیا۔ (۱۷)
تشریح: فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہمْ حِجَابًا:علیحدہ جا کر پردہ ڈالنے کی وجہ بعض مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ غسل کرنا چاہتی تھیں، اور بعض نے کہا ہے کہ عبادت کے لئے تنہائی اختیار کرنا مقصود تھا، علامہ قرطبی نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
(توضیح القرآن)
فَأَرْسَلْنَا إِلَيْہا رُوْحَنَا :حضرت جبرئیل نوجوان خوبصورت مرد کی شکل میں پہنچے، جیسا کہ فرشتوں کی عادت ہے کہ عموماً خوش منظر صورتوں میں متمثل ہوتے ہیں۔ اور ممکن ہے یہاں حضرت مریم علیہا السلام کی انتہائی عفت و پاکبازی کا امتحان بھی مقصود ہو کہ ایسے زبردست دواعی و محرکات بھی ان کے جذباتِ عفاف و تقویٰ کو ادنیٰ ترین جنبش نہ دے سکے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولی بیشک میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں، اگر تو پرہیز گار ہے (یہاں سے ہٹ جا) ۔ (۱۸)
تشریح:مریم نے اول وہلہ میں سمجھا کہ کوئی آدمی ہے۔ تنہائی میں دفعتاً ایک مرد کے سامنے آ جانے سے قدرتی طور پر خوفزدہ ہوئیں اور اپنی حفاظت کی فکر کرنے لگیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ فرشتہ کے چہرہ پر تقویٰ و طہارت کے انوار چمکتے دیکھ کر اسی قدر کہنا کافی سمجھا کہ میں تیری طرف سے رحمان کی پناہ میں آتی ہوں۔ اگر تیرے دل میں خدا کا ڈر ہو گا (جیسا کہ پاک و نورانی چہرہ سے روشن تھا) تو میرے پاس سے چلا جائے گا اور مجھ سے کچھ تعرض نہ کرے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اس کے سوا نہیں کہ میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں، تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ (۱۹)
تشریح:یعنی گھبراؤ نہیں میری نسبت کوئی برا خیال آیا ہو تو دل سے نکال دو۔ میں آدمی نہیں، تیرے اس رب کا (جس کی تو پناہ ڈھونڈتی ہے) بھیجا ہوا فرشتہ ہوں۔ اس لیے آیا ہوں کہ خداوند قدوس کی طرف سے تجھ کو ایک پاکیزہ، صاف ستھرا اور مبارک و مسعود لڑکا عطا کروں۔ "غُلَامًا زَکِیًّا” (پاکیزہ لڑکا) کہنے میں اشارہ ہو گیا کہ وہ حسب و نسب اور اخلاق وغیرہ کے اعتبار سے بالکل پاک و صاف ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولی میرے لڑکا کیسے ہو گا ؟جبکہ نہ مجھے کسی بشر نے چھوا، اور نہ میں بد کار ہوں۔ (۲۰)
تشریح:مریم علیہا السلام کے دل میں خدا نے یقین ڈال دیا کہ بیشک یہ فرشتہ ہے، مگر تعجب ہوا کہ جس عورت کا شوہر نہیں جو اس کو حلال طریقہ سے چھو سکتا، اور بدکار بھی نہیں کہ حرام طریقہ سے بچہ حاصل کر لے، اس کو بحالت راہنہ پاکیزہ اولاد کیونکر مل جائے گی، جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اس سے کم عجیب بشارت پر سوال کیا تھا۔ (تفسیرعثمانی)
اور تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے ایک نشانی بنائیں، اور اپنی طرف سے رحمت، اور یہ ہے ایک طے شدہ امر۔ (۲۱)
تشریح:یعنی یہ کام ضرور ہو کر رہے گا، پہلے سے طے شدہ ہے، تخلف نہیں ہو سکتا۔ ہماری حکمت اسی کو مقتضی ہے کہ بدون مس بشر کے محض عورت کے وجود سے بچہ پیدا کیا جائے۔ اور وہ دیکھنے اور سننے والوں کے لیے ہماری قدرت عظیمہ کی ایک نشانی ہو کیونکہ تمام انسان مرد و عورت کے ملنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ آدم علیہ السلام دونوں کے بدون پیدا ہوئے اور حوا کو صرف مرد کے وجود سے پیدا کیا گیا۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ جو حضرت مسیح میں ظاہر ہوئی کہ مرد کے بدون صرف عورت کے وجود سے ان کا وجود ہوا۔ اس طرح پیدائش کی چاروں صورتیں واقع ہو گئیں۔ پس حضرت مسیح علیہ السلام کا وجود قدرت الٰہیہ کا ایک نشان اور حق تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لیے بڑی رحمت کا سامان ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اسے حمل رہ گیا، پس وہ اسے لے کر ایک دور جگہ چلی گئی۔ (۲۲)
پھر درد زہ اسے کھجور کے درخت کی طرف لے آیا، وہ بولی اے کاش! میں اس سے قبل مر چکی ہوتی، اور میں ہو جاتی بھولی بسری۔ (۲۳)
تشریح:یعنی درد زہ کی تکلیف سے ایک کھجور کی جڑ کا سہارا لینے کے لیے اس کے قریب جا پہنچی۔ اس وقت درد کی تکلیف، تنہائی و بیکسی، سامان ضرورت و راحت کا فقدان، اور سب سے بڑھ کر ایک مشہور پاکباز عفیفہ کو دینی حیثیت سے آئندہ بدنامی اور رسوائی کا تصور سخت بے چین کیے ہوئے تھا۔ حتی کہ اسی کرب و اضطراب کے غلبہ میں کہہ اٹھی "یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا” (کاش میں اس وقت کے آنے سے پہلے ہی مر چکی ہوتی کہ دنیا میں میرا نام و نشان نہ رہتا اور کسی کو بھولے سے بھی یاد نہ آتی) شدت کرب و اضطراب میں گذشتہ بشارات بھی جو فرشتہ سے سنی تھیں یاد نہ آئیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے نیچے (وادی) سے (فرشتے نے) آواز دی تو گھبرا نہیں، تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ (جاری) کر دیا ہے۔ (۲۴)
اور کھجور کا تنا اپنی طرف ہلا، تجھ پر تازہ کھجوریں جھڑ پڑیں گی۔ (۲۵)
تشریح:وہ مقام جہاں حضرت مریم علیہا السلام کھجور کے نیچے تشریف رکھتی تھیں قدرے بلند تھا، اس کے نیچے سے پھر اسی فرشتہ کی آواز سنائی دی کہ غمگین و پریشان مت ہو، خدا کی قدرت سے ہر قسم کا ظاہری و باطنی اطمینان حاصل کر۔ نیچے کی طرف دیکھ، اللہ تعالیٰ نے کیسا چشمہ یا نہر جاری کر دی ہے۔ یہ تو پینے کے لیے ہوا، کھانے کے لیے اسی کھجور کو ہلاؤ، پکی اور تازہ کھجوریں ٹوٹ کر گریں گی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دیے کہ میں نے رحمن کے لئے روزہ کی نذر مانی ہے، پس آج کسی آدمی سے کلام نہ کروں گی۔ (۲۶)
تشریح: یعنی تازہ کھجوریں کھا کر چشمہ کے پانی سے سیراب ہو، اور پاکیزہ بیٹے کو دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کر، آگے کا غم نہ کھا، خدا تعالیٰ سب مشکلات کو دور کرنے والا ہے۔ اگر کوئی آدمی سوال کرے تو اشارہ وغیرہ سے ظاہر کر دینا کہ میں روزہ سے ہوں۔ مزید گفتگو نہیں کر سکتی۔ ان کے دین میں یہ نیت درست تھی کہ نہ بولنے کا بھی روزہ رکھتے تھے۔ ہماری شریعت میں ایسی نیت درست نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ اسے اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لائی، وہ بولے اے مریم! تو لائی ہے غضب کی شے۔ (۲۷)
تشریح:یعنی جب بچہ کو گود میں اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے سامنے آئی تو لوگ ششدر رہ گئے، کہنے لگے "مریم (علیہا السلام) تو نے غضب کر دیا، یہ بناوٹ کی چیز کہاں سے لے آئی۔ اس سے زیادہ جھوٹ طوفان کیا ہو گا کہ ایک لڑکی کنواری رہتے ہوئے دعویٰ کرے کہ میرے بچہ پیدا ہوا ہے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اے ہارون کی بہن! تیرا باپ برا آدمی نہ تھا، اور نہ تیری ماں ہی بدکار تھی۔ (۲۸)
تشریح:یعنی بدگمان ہو کر کہنے لگے کہ تیرے ماں باپ اور خاندان والے ہمیشہ سے نیک رہے ہیں، تجھ میں یہ بری خصلت کدھر سے آئی؟ بھلوں کی اولاد کا برا ہونا محل تعجب ہے (تنبیہ) مریم علیہا السلام کو "اخت ہارون” اس لیے کہا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ گویا "اُخت ہارون” سے مراد "اُخت قوم ہارون” ہوئی۔ جیسے "وَاذْکُرْاَخَاعَادٍ” میں ہود علیہ السلام کو "عاد” کا بھائی کہا ہے۔ حالانکہ "عاد” ان کی قوم کے مورث اعلیٰ کا نام تھا۔ اور ممکن ہے "اُخت ہارون” کے ظاہری معنی لیے جائیں جیسا کہ بعض احادیث صحیحہ سے ظاہر ہوتا ہے یعنی مریم کے بھائی کا نام ہارون تھا۔ جیسے ہمارے زمانہ میں رواج ہے۔ اس وقت بھی لوگ انبیاء و صالحین کے ناموں پر نام رکھتے تھے۔ کہتے ہیں کہ مریم کا وہ بھائی ایک مرد صالح تھا۔ تو حاصل کلام یہ ہوا کہ تیرا باپ پاکباز تھا، ماں پارسا تھی، بھائی ایسا نیک ہے اوپر جا کر تیرانسب ہارون علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے، پھر یہ حرکت تجھ سے کیونکر سرزد ہوئی۔
(تفسیرعثمانی)
تو مریم نے اس (بچہ) کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم گہوارہ (گود) کے بچے سے کیسے بات کریں؟۔ (۲۹)
تشریح: یعنی مریم علیہا السلام نے ہاتھ سے بچہ کی طرف اشارہ کیا کہ خود اس سے دریافت کرو۔
قَالُوْا کَيْفَ نُکَلِّمُ :اس شرمناک حرکت پر یہ ستم ظریفی؟ کہ بچہ سے پوچھ لو۔ بھلا ایک گود کے بچہ سے ہم کیسے سوال و جواب کر سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
بچے نے کہا بیشک میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا ہے۔ (۳۰)
تشریح:قوم کی طرف سے یہی گفتگو ہو رہی تھی کہ خود مسیح علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے گویا کر دیا۔ آپ نے اس وقت جو کچھ فرمایا اس میں تمام غلط اور فاسد خیالات کا رد تھا جو آئندہ ان کی نسبت قائم ہونے والے تھے۔ "میں بندہ ہوں اللہ کا ” یعنی خود اللہ یا اللہ کا بیٹا نہیں جیسا کہ اب نصاریٰ کا عقیدہ ہے، چنانچہ اسی عقیدہ کی تردید کے لیے پہلے حضرت مسیح کی ولادت وغیرہ کے تفصیلی حالات بیان فرمائے۔ اور "مجھ کو خدا نے نبی بنایا” یعنی مفتری اور کاذب نہیں جیسا کہ یہود گمان کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب تک میں زندہ رہوں مجھے حکم دیا ہے نماز کا اور زکوٰۃ کا۔ (۳۱)
تشریح:یعنی جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں گا مجھ پر نماز اور زکوٰۃ فرض رہے گی۔ (تفسیرعثمانی)
اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے کا، اور اس نے مجھے نہیں بنایا سرکش بد نصیب۔ (۳۲)
تشریح:چونکہ باپ کوئی نہ تھا اس لیے صرف ماں کا نام لیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی اس خارقِ عادت گفتگو سے اور ان اوصاف و خصال سے جو بیان کیے نہایت بلاغت کے ساتھ اس ناپاک تہمت کا رد ہو گیا جو ان کی والدہ ماجدہ پر لگائی جاتی تھی۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
اور سلامتی ہو مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا، اور جس دن میں مروں گا اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔ (۳۳)
تشریح:اس جملہ کے ہم معنی جملہ پہلے حضرت یحییٰ کے ذکر میں گزر چکا۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں خود حق تعالیٰ کی طرف سے کلام تھا۔ یہاں حق تعالیٰ نے مسیح کی زبان سے و ہی بات فرمائی۔ نیز "سَلَامٌ” اور "اَلسَّلَامُ” کا فرق بھی قابل لحاظ ہے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ ہیں عیسیٰ ابن مریم، سچی بات جس میں وہ (لوگ) شک کرتے ہیں۔ (۳۴)
تشریح:یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی شان و صفت یہ ہے جو اوپر بیان ہوئی۔ ایک سچی اور کھلی ہوئی بات میں لوگوں نے خواہ مخواہ جھگڑے ڈال لیے۔ اور طرح طرح کے اختلافات کھڑے کر دیے۔ کسی نے ان کو خدا بنا دیا کسی نے خدا کا بیٹا، کسی نے کذاب و مفتری کہا، کسی نے نسب وغیرہ پر طعن کیا۔ سچی بات و ہی ہے جو ظاہر کر دی گئی کہ خدا نہیں، خدا کے مقرب بندے ہیں۔ جھوٹے مفتری نہیں، سچے پیغمبر ہیں۔ ان کا حسب نسب سب سے پاک و صاف ہے۔ خدا نے ان کو "کلمۃ اللہ” فرمایا ہے اور ممکن ہے "قول الحق” کے معنی بھی یہاں "کلمۃ اللہ” کے ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ کے لئے (سزا وار ) نہیں ہے کہ ہو کوئی بیٹا بنائے وہ پاک ہے، جب وہ کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے سوا نہیں کہ وہ کہتا ہے ہو جا پس وہ ہو جاتا ہے۔ (۳۵)
تشریح: جس کے ایک "کُنْ” (ہو جا) کہنے میں ہر چیز موجود ہو، اسے بیٹے پوتوں کی کیا ضرورت لاحق ہو گی۔ کیا (العیاذ باللّٰہ) اولاد ضعیفی میں سہارا دے گی؟ یا مشکلات میں ہاتھ بٹائے گی؟ یا اس کے بعد نام چلائے گی؟ اور اگر شبہ ہو کہ عموماً آدمی ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کا باپ کسے کہیں؟ اس کا جواب بھی اسی جملہ "کُنْ فَیَکُوْنُ” میں آ گیا۔ یعنی ایسے قادر مطلق کے لیے کیا مشکل ہے کہ ایک بچہ کو بن باپ پیدا کر دے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے، پس اس کی عبادت کرو، یہ سیدھا راستہ ہے۔ (۳۶)
(پھر اہل کتاب کے) فرقوں نے اختلاف کیا باہم، پس خرابی ہے کافروں کے لئے (قیامت کے) بڑے دن کی حاضری سے۔ (۳۷)
تشریح:یعنی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کتاب میں مریم و مسیح کا حال سنا کر جو مذکور ہو چکا، کہہ دو کہ میرا اور تمہارا سب کا رب اللہ ہے۔ تنہا اسی کی بندگی کرو۔ بیٹے، پوتے مت بناؤ۔ سیدھی راہ توحید خالص کی ہے جس میں کچھ ایچ پیچ نہیں۔ سب انبیاء اسی کی طرف ہدایت کرتے آئے لیکن لوگوں نے بہت سے فرقے بنا لیے اور جُدی جُدی راہیں نکال لیں۔ سو جو لوگ توحید کا انکار کر رہے ہیں، انہیں بڑے ہولناک دن (روز قیامت) کی تباہی سے خبردار رہنا چاہیے جو یقیناً پیش آنے والی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا کچھ سنیں گے، اور کیا کچھ دیکھیں گے، جس دن وہ ہمارے سامنے آئیں گے، لیکن آج کے دن ظالم کھلی گمراہی میں ہیں۔ (۳۸)
تشریح: یعنی آج تو جبکہ سننا اور دیکھنا مفید تھا، بالکل اندھے، بہرے بنے ہوئے ہیں اور قیامت کے دن جب دیکھنا سننا کچھ فائدہ نہ دے گا، آنکھیں اور کان خوب کھل جائیں گے اس وقت وہ باتیں سنیں گے جن سے جگر پھٹ جائیں اور وہ منظر دیکھیں گے جس سے چہرے سیاہ ہو جائیں نعوذ باللّٰہ منہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیں، جب کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا، لیکن وہ غفلت میں ہیں، اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ (۳۹)
تشریح: کافروں کو پچھتانے کے بہت مواقع پیش آئیں گے۔ آخری موقع وہ ہو گا جب موت کو مینڈھے کی صورت میں لا کر بہشت و دوزخ کے درمیان سب کو دکھا کر ذبح کیا جائے گا اور ندا آئے گی کہ بہشتی بہشت میں اور دوزخی دوزخ میں ہمیشہ کے لیے رہ پڑے، اس کے بعد کسی کو موت آنے والی نہیں۔ اس وقت کافر بالکل نا امید ہو کر حسرت سے ہاتھ کاٹیں گے۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ اِس وقت انہیں یقین نہیں کہ واقعی ایسا دن آنے والا ہے وہ غفلت کے نشہ میں مخمور ہیں اور بڑی بھاری بھول میں پڑے ہیں۔ کاش اِس وقت آنکھیں کھولتے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھتے اُس دن پچھتانے سے حسرت و افسوس کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ "اَلْئٰنَ قَدْ نَدِمْتَ وَمَایَنْفَعُ النَّدَمُین”
(تفسیرعثمانی)
بیشک ہم وارث ہوں گے زمین کے اور جو کچھ اس پر ہے اور وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے۔ (۴۰)
تشریح:یعنی کسی کا مُلک یا مِلک باقی نہ رہے گی۔ ہر چیز براہ راست مالک حقیقی کی طرف لوٹ جائے گی۔ وہی بلاواسطہ حاکم و متصرف علی الاطلاق ہو گا۔ جس چیز میں جس طرح چاہے گا اپنی حکمت کے موافق تصرف کرے گا۔ دنیا کے جن سامانوں نے تم کو غفلت میں ڈال رکھا ہے سب کا ایک ہی وارث باقی رہ جائے گا۔ مُلک یا مِلک کے لمبے چوڑے دعوے رکھنے والے سب فنا کے گھاٹ اتار دیے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بیشک وہ سچے نبی تھے۔ (۴۱)
تشریح:گذشتہ رکوع میں حضرت مسیح و مریم کا قصہ بیان فرما کر نصاریٰ کا رد کیا گیا تھا جو ایک آدمی کو خدا بنا رہے ہیں۔ اس رکوع میں مشرکین مکہ کو شرمانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ سنایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے باپ تک کو کس طرح شرک و بت پرستی سے روکا۔ اور آخرکار وطن و اقارب کو چھوڑ کر خدا کے واسطے ہجرت اختیار کی۔ مشرکین مکہ کا دعویٰ تھا کہ وہ ابراہیم کی اولاد ہیں اور اسی کے دین پر ہیں۔ انہیں بتلایا گیا کہ بت پرستی کے متعلق تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا رویہ کیا رہا ہے۔ اگر آباؤ اجداد کی تقلید کرنا چاہتے ہو تو ایسے باپ کی تقلید کرو۔ اور مشرک باپ دادوں سے اسی طرح بیزار ہو جاؤ۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام ہو گئے تھے۔
"صدیق” کے معنی ہیں "بہت زیادہ سچ کہنے والا” جو اپنی بات کو عمل سے سچا کر دکھائے۔ یا وہ راستباز پاک طینت جس کے قلب میں سچائی کو قبول کرنے کی نہایت اعلیٰ و اکمل استعداد موجود ہو۔ جو بات خدا کی طرف سے پہنچے بلا توقف اس کے دل میں اتر جائے۔ شک و تردد کی گنجائش ہی نہ رہے۔ ابراہیم علیہ السلام ہر ایک معنی سے صدیق تھے اور چونکہ صدیقیت کے لیے نبوت لازم نہیں اس لیے آگے "صِدِّیْقًا”کے ساتھ "نَبِیًّا” فرما کر نبوت کی تصریح کر دی۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے ابا !تم کیوں اس کی پرستش کرتے ہو؟ جو نہ کچھ سنے اور نہ کچھ دیکھے اور نہ کام آئے تمہارے کچھ بھی۔ (۴۲)
تشریح:یعنی جو چیز دیکھتی سنتی ہو اور مشکلات میں کچھ کام آسکے مگر واجب الوجود نہ ہو، اس کی عبادت بھی جائز نہیں۔ چہ جائیکہ ایک پتھر کی بے جان مورتی جو نہ سنے نہ دیکھے نہ ہمارے کسی کام آئے، خود ہمارے ہاتھ کی تراشی ہوئی، اس کو معبود ٹھہرا لینا کسی عاقل اور خود دار کا کام نہیں ہو سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے ابا ! بیشک میرے پاس وہ علم (وحی) آیا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا، پس میری بات مانو، میں تمہیں ٹھیک سیدھا راستہ دکھاؤں گا۔ (۴۳)
تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھ کو توحید و معاد وغیرہ کا صحیح علم دیا اور حقائق شریعت سے آگاہ کیا ہے۔ اگر تم میری پیروی کرو گے تو سیدھی راہ پر لے چلوں گا جو رضائے حق تک پہنچانے والی ہے۔ اس کے سوا سب راستے ٹیڑھے ترچھے ہیں جن پر چل کر کوئی شخص نجات حاصل نہیں کر سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے ابا! شیطان کی پرستش نہ کر، بیشک شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ (۴۴)
تشریح: بتوں کو پوجنا شیطان کے اغواء سے ہوتا ہے اور شیطان اس حرکت کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بتوں کی پرستش گویا شیطان کی پرستش ہوئی اور نافرمان کی پرستش رحمان کی انتہائی نافرمانی ہے۔ شاید لفظ "عصٰی” میں ادھر بھی توجہ دلائی ہو کہ شیطان کی پہلی نافرمانی کا اظہار اس وقت ہوا تھا جب تمہارے باپ آدم کے سامنے سربسجود ہونے کا حکم دے دیا گیا۔ لہٰذا اولاد آدم کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ رحمٰن کو چھوڑ کر اپنے اس قدیم ازلی دشمن کو معبود بنا لیں۔
(تفسیرعثمانی)
اے میرے ابا ! بیشک میں ڈرتا ہوں کہ رحمن کا عذاب تجھے (نہ) آ پکڑے، پھر تو ہو جائے شیطان کا ساتھی۔ (۴۵)
تشریح:یعنی رحمان کی رحمت عظیمہ تو چاہتی ہے کہ تمام بندوں پر شفقت و مہربانی ہو، لیکن تیری بداعمالیوں کی شامت سے ڈر ہے کہ ایسے حلیم و مہربان خدا کو غصہ نہ آ جائے اور تجھ پر کوئی سخت آفت نازل نہ کر دے جس میں پھنس کر تو ہمیشہ کے لیے شیطان کا ساتھی بن جائے یعنی کفر و شرک کی مزاولت سے آئندہ ایمان و توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو اور اولیاء الشیطان کے گروہ میں شامل کر کے دائمی عذاب میں دھکیل دیا جائے۔ عموماً مفسرین نے یہ ہی معنی لیے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی کفر کے وبال سے کچھ آفت آئے اور تو مدد مانگنے لگے شیطان سے یعنی بتوں سے، اکثر لوگ ایسے ہی وقت شرک کرتے ہیں۔ ” واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے ابراہیم! کیا تو میرے معبودوں سے روگرداں ہے؟ اگر تو باز نہ آیا تو میں تجھے ضرور سنگسار کر دوں گا، اور مجھے ایک مدت کے لئے چھوڑ دے۔ (۴۶)
تشریح:باپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تقریر سن کر کہا "معلوم ہوتا ہے کہ تو ہمارے معبودوں سے بدعقیدہ ہے۔ بس اپنی بد اعتقادی اور وعظ و نصیحت کو رہنے دے، ورنہ تجھ کو کچھ اور سننا پڑے گا بلکہ میرے ہاتھوں سنگسار ہونا پڑے گا۔ اگر اپنی خیر چاہتا ہے تو میرے پاس سے ایک مدت (عمر بھر) کے لیے دور ہو جا۔ میں تیری صورت دیکھنا نہیں چاہتا۔ اس سے پہلے کہ میں تجھ پر ہاتھ اٹھاؤں یہاں سے روانہ ہو جا۔
(تفسیرعثمانی)
ابراہیم نے کہا تجھ پر سلام ہو، میں ابھی تیرے لئے اپنے رب سےبخشش مانگوں گا، بیشک وہ مجھ پر مہربان ہے۔ (۴۷)
تشریح: یہ رخصت یا متارکت کا سلام ہے۔ جیسے ہمارے محاورات میں ایسے موقع پر کہہ دیتے ہیں کہ "فلاں بات یوں ہے تو ہمارا سلام لو۔ ” دوسری جگہ فرمایا "وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغْوا اَعْرَضُوْا عَنْہُ وَقَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ لَا نبتغی الْجَاہِلِیْنَ” (القصص، رکوع٦، آیت:٥٥) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "معلوم ہوا اگر دین کی بات سے ماں باپ ناخوش ہوں اور گھر سے نکالنے لگیں اور بیٹا ماں باپ کو میٹھی بات کہہ کر نکل جائے، وہ بیٹا عاق نہیں۔ ”
سَأَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّيْ :امید ہے اپنی مہربانی سے میرے باپ کے گناہ معاف فرما دے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کا وعدہ ابتداء کیا تھا۔ چنانچہ استغفار کرتے رہے جب اللہ کی مرضی نہ دیکھی تب موقوف کیا۔ یہ بحث سورہ توبہ (برأۃ) میں "مَاکَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ الخ” کے تحت میں گزر چکی ہے۔ ملاحظہ کر لی جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور میں کنارہ کشی کرتا ہوں تم سے اور اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو، اور میں اپنے رب کی عبادت کروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کی عبادت سے محروم نہ رہوں گا۔ (۴۸)
تشریح:یعنی میری نصیحت کا جب کوئی اثر تم پر نہیں، بلکہ الٹا مجھے دھمکیاں دیتے ہو، تو اب میں خود تمہاری بستی میں رہنا نہیں چاہتا۔ تم کو اور تمہارے جھوٹے معبودوں کو چھوڑ کر وطن سے ہجرت کرتا ہوں تاکہ یکسو ہو کر اطمینان سے خدائے واحد کی عبادت کر سکوں۔ حق تعالی کے فضل و رحمت سے کامل امید ہے کہ اس کی بندگی کر کے میں محروم و ناکام نہیں رہوں گا۔ غربت و بیکسی میں جب اس کو پکاروں گا، ادھر سے ضرور اجابت ہو گی۔ میرا خدا پتھر کی مورتی نہیں کہ کتنا ہی چیخو چلاؤ سن ہی نہ سکے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب وہ (ابراہیم) ان سے اور اللہ کے سوا وہ جن کی پرستش کرتے تھے ان سے کنارہ کش ہو گئے، ہم نے اس کو اسحا ق اور یعقوب عطا کئے، اور (ان) سب کو ہم نے نبی بنایا۔ (۴۹)
تشریح: یعنی اللہ کی راہ میں ہجرت کی اور اپنوں سے دور پڑے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے بہتر اپنے دیے تاکہ غریب الوطنی کی وحشت دور ہو اور انس و سکون حاصل کریں۔ شاید یہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ وہ ان کے پاس نہیں رہے۔ بچپن ہی میں جدا کر دیے گئے تھے۔ نیز ان کا مستقل تذکرہ آگے آنے والا ہے۔ (تنبیہ) حضرت اسحاق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے ہیں۔ ان ہی سے سلسلہ بنی اسرائیل کا چلا۔ جن میں سینکڑوں نبی ہوئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اپنی رحمت سے انہیں (بہت کچھ) عطا کیا، اور ہم نے ان کا ذکر جمیل نہایت بلند کیا۔ (۵۰)
تشریح: یعنی اپنی رحمت خاصہ سے ان کو بڑا حصہ عنایت فرمایا اور دنیا میں بول بالا کیا اور ہمیشہ کے لیے ان کا ذکر خیر جاری رکھا۔ چنانچہ تمام مذاہب و ملل ان کی تعظیم و توصیف کرتے ہیں اور امت محمدیہ دائماً اپنی نمازوں میں پڑھتی ہے۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمْدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْم وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدُ مَّجِیْدٌ” فی الحقیقت یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء "وَاجْعَل لِّی لِسَانَ صِدْقٍ فِیْ الْاٰخِرِیْنَ” کی مقبولیت کا ثمرہ ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ برگزیدہ تھے، اور رسول نبی تھے۔ (۵۱)
تشریح:یعنی قرآن کریم میں جو حال موسٰی علیہ السلام کا بیان کیا جا رہا ہے لوگوں کے سامنے ذکر کیجئے کیونکہ اسحاق و یعقوب علیہما السلام کی نسل سے اسرائیلی سلسلہ کے اولوالعزم پیغمبر اور مشرّع اعظم ہوئے ہیں۔ اور جس طرح حضرت یحییٰ و عیسٰی علیہما السلام کے تذکرہ میں خصوصیت کے ساتھ عیسائیوں کی اصلاح اور ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں مشرکین مکہ کو متنبہ کرنا مقصود تھا، حضرت موسٰی و ہارون علیہما السلام کے تذکرہ سے شاید "یہود” کو بتانا ہو کہ قرآن کس قدر کشادہ دلی سے ان کے مقتدائے اعظم کے واقعی کمالات و محاسن کا اعلان کرتا ہے۔ یہود کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے اس جلیل القدر پیغمبر کی صریح پیشین گوئی کے موافق اسمٰعیلی نبی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت و نبوت کا کھلے دل سے اعتراف کریں شاید اسی لیے حضرت موسٰی کے بعد روئے سخن حضرت اسماعیل کی طرف پھیر دیا گیا۔
جس آدمی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئے وہ "نبی” ہے انبیاء میں سے جن کو خصوصی امتیاز حاصل ہو، یعنی مکذبین کے مقابلہ پر جداگانہ امت کی طرف مبعوث ہوں یا نئی کتاب اور مستقل شریعت رکھتے ہوں وہ "رسول نبی” یا "نبی رسول” کہلاتے ہیں۔ شرعیات میں جزئی تصرف مثلاً کسی عام کی تخصیص یا مطلق کی تقیید وغیرہ رسول کے ساتھ مخصوص نہیں عام انبیاء بھی کر سکتے ہیں۔ باقی غیر انبیاء پر رسول یا مرسل کا اطلاق جیسا کہ قرآن کے بعض مواضع میں پایا جاتا ہے وہ اس معنی مصطلح کے اعتبار سے نہیں۔ وہاں دوسری حیثیات معتبر ہیں۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اسے کوہِ طور کی داہنی جانب سے پکارا، اور اسے راز بتلانے کو نزدیک بلایا۔ (۵۲)
تشریح:یعنی موسٰی علیہ السلام جب آگ کی چمک محسوس کر کے "طور” پہاڑ کی اس مبارک و میمون جانب میں پہنچ گئے جو ان کے دائیں ہاتھ مغرب کی طرف واقع تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان کو پکارا اور ہمکلامی کا شرف بخشا۔ تفصیل سورہ "طہٰ” میں آئے گی۔ کہتے ہیں کہ موسٰی علیہ السلام اس وقت ہر جہت اور ہر بُن مُو سے خدا کا کلام سن رہے تھے جو بدون توسط فرشتے کے ہو رہا تھا۔ اور روحانی طور پر اس قدر قرب و علو حاصل تھا کہ غیبی قلموں کی آواز سنتے تھے جس سے تورات نقل کی جا رہی تھی۔ وحی کو "بھید” اس لیے فرمایا کہ اس وقت کوئی بشر استماع میں شریک نہ تھا۔ گو بعد میں اوروں کو بھی خبر کر دی گئی۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کا بھائی ہارون عطا کیا۔ (۵۳)
تشریح:یعنی ہارون علیہ السلام حضرت موسٰی کے کام میں مددگار ہوئے جیسے کہ انہوں نے خود درخواست کی تھی۔ وَاَخِیْ ہَارُوْنَ ہُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَاناًفَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِی (القصص، رکوع٤، آیت: ٣٤) اور وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِیْراًمِّنْ اَہْلِیْ ہَارُوْنَ اَخِیْ الخ (طہٰ رکوع٢، آیت:٢٩، ٣٠) حق تعالیٰ نے درخواست قبول فرمائی اور ہارون علیہ السلام کو نبی بنا کر ان کی اعانت و تقویت کے لیے دے دیا۔ ویسے عمر میں حضرت ہارون علیہ السلام بڑے تھے کہتے ہیں کہ دنیا میں کسی نے اپنے بھائی کے لیے اس سے بڑی شفاعت نہیں کی جو موسٰی علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کے لیے کی تھی۔
(تفسیرعثمانی)
اور کتاب میں اسمٰعیل کو یا د کرو، بیشک وہ وعدہ کے سچے تھے، اور رسول نبی تھے۔ (۵۴)
تشریح: اس سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فضیلت حضرت اسحاق علیہ السلام پر ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ ان کو صرف نبی فرمایا اور اسماعیل علیہ السلام کو رسول نبی کہا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے۔ "اِنَّ اللہَ اصْطَفٰی مِنْ وُّلْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِسْمَاعِیْلَ” (ابراہیم کی اولاد میں سے اللہ نے اسماعیل کو چن لیا) حضرت اسماعیل علیہ السلام عرب حجاز کے مورث اعلیٰ اور ہمارے پیغمبر علیہ السلام کی اجداد میں سے ہیں جو ابراہیمی شریعت دے کر” بنی جرہم” کی طرف مبعوث ہوئے۔ ان کا صادق الوعد ہونا مشہور تھا۔ خدا سے یا بندوں سے جو وعدہ کیا پورا کر کے دکھلایا۔ ایک شخص سے وعدہ کیا کہ جب تک تو آئے میں اسی جگہ رہوں گا۔ کہتے ہیں وہ ایک برس نہ آیا، یہ وہیں رہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی منقول ہے کہ "قبل از بعثت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عبداللہ بن ابی الحمساء نے کہا کہ آپ یہاں ٹھہریے میں ابھی آتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین دن تک اسی جگہ رہے۔ جب وہ واپس آیا تو فرمایا کہ تو نے ہم کو تکلیف دی۔ میں حسب وعدہ تین دن سے یہیں ہوں۔ ” حضرت اسماعیل علیہ السلام کے وعدہ کی انتہائی سچائی اس وقت ظاہر ہوئی جب اپنے باپ ابراہیم سے کہا تھا۔ "یَآاَبَتِ افْعَلْ مَاتُؤمَرُسَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللہُ مِنَ الصَّابِرِیْنَ” (صآفات، رکوع٣، آیت:١٠٢) اور اسی طرح کر کے دکھایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے۔ (۵۵)
کیونکہ گھر والے قریب ہونے کی وجہ سے ہدایت کے اول مستحق ہیں، ان سے آگے کو سلسلہ چلتا ہے۔ اسی لیے دوسری جگہ فرمایا "وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصطبر عَلَیْہَا” (طہٰ، رکوع٨، آیت:١٣٢) اور "یَااَیُّہَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَاراً” (تحریم، رکوع١، آیت:٦) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہی ارشاد ہوا "وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ” (شعراء، رکوع١١، آیت:٢١٤) بعض کہتے ہیں کہ یہاں "اہل” سے ان کی ساری قوم مراد ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو، بیشک وہ سچے نبی تھے۔ (۵۶)
اور ہم نے اسے ایک بلند مقام پر اٹھا لیا۔ (۵۷)
تشریح:راجح یہ ہے کہ ادریس علیہ السلام حضرت آدم اور نوح علیہما السلام کے درمیانی زمانہ میں گزرے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں نجوم و حساب کا علم، قلم سے لکھنا، کپڑا سینا، ناپ تول کے آلات اور اسلحہ کا بنانا اول ان سے چلا۔ واللہ اعلم۔ شبِ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھے آسمان پر ان سے ملاقات ہوئی۔
وَرَفَعْنَاہ مَکَانًا عَلِيًّا :یعنی قرب و عرفان کے بہت بلند مقام اور اونچی جگہ پر پہنچایا۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت مسیح کی طرح وہ بھی زندہ آسمان پر اٹھائے گئے اور اب تک زندہ ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ آسمان پر لے جا کر روح قبض کی گئی۔ ان کے متعلق بہت سی اسرائیلیات مفسرین نے نقل کی ہیں۔ ابن کثیر نے ان پر تنقید کی ہے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
یہ ہیں نبیوں میں سے وہ جن پر اللہ نے انعام کیا اولاد آدم میں سے، اور ان میں سے جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا، اور ابراہیم اور یعقوب کی اولاد میں سے، اور ان میں سے جنہیں ہم نے ہدایت دی، اور چنا، جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں وہ (زمین پر) گر پڑتے سجدہ کرتے اور روتے ہوئے۔ (۵۸)
تشریح: یعنی جن انبیاء کا ابتدائی سورت سے یہاں تک ذکر ہوا۔ اسی قسم کے لوگوں پر حق تعالیٰ نے اپنے انعامات کی بارش کی ہے۔ یہ سب آدم کی اولاد ہیں اور ادریس علیہ السلام کے سوا باقی سب ان کی اولاد بھی ہیں جنہیں نوح علیہ السلام کے ساتھ ہم نے کشتی پر سوار کیا تھا۔ اور بعض ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں ہیں۔ مثلاً اسحق، یعقوب، اسماعیل علیہم السلام اور بعض اسرائیل (یعقوب) علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ مثلاً موسیٰ، ہارون، زکریا، یحییٰ، عیسٰی علیہم السلام۔
طریق حق کی طرف ہدایت کی اور منصب نبوت و رسالت کے لیے پسند کر لیا۔ باوجود اس قدر علو مقام اور معراج کمال پر پہنچنے کے شانِ عبودیت و بندگی میں کامل ہیں۔ اللہ کا کلام سن کر اور اس کے مضامین سے متأثر ہو کر نہایت عاجزی اور خشوع کے ساتھ سجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اس کو یاد کر کے روتے ہیں۔ اسی لیے علماء کا اجماع ہے کہ اس آیت پر سجدہ کرنا چاہیے۔ تاکہ ان مقربین کے طرزِ عمل کو یاد کر کے ایک طرح کی مشابہت ان سے حاصل ہو جائے۔ روایات میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے سورہ مریم پڑھ کر سجدہ کیا اور فرمایا "ہذا السجود فاین البکی” (یہ تو سجدہ ہوا، آگے بکاء کہاں ہے) بعض مفسرین نے یہاں "آیات الرحمن”سے خاص آیات سجود اور "سجدًا”سے سجود تلاوت مراد لیا ہے۔ مگر ظاہر وہی ہے جو تقریر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ قرآن کی تلاوت کرو اور روؤ، اگر رونا نہ آئے تو (کم ازکم) رونے کی صورت بنا لو۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ان کے بعد چند نا خلف جانشین ہوئے، انہوں نے نماز گنوا دی، اور خواہشات (نفسانی) کی پیروی کی، پس عنقریب انہیں گمراہی (کی سزا) ملے گی۔ (۵۹)
تشریح: وہ تو اگلوں کا حال تھا یہ پچھلوں کا ہے کہ دنیا کے مزوں اور نفسانی خواہشات میں پڑھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو گئے۔ نماز جو اہم العبادات ہے اسے ضائع کر دیا۔ بعض تو فرضیت ہی کے منکر ہو گئے۔ بعض نے فرض جانا مگر پڑھی نہیں۔ بعض نے پڑھی تو جماعت اور وقت وغیرہ شروط و حقوق کی رعایت نہ کی ان میں سے ہر ایک درجہ بدرجہ اپنی گمراہی کو دیکھ لے گا کہ کیسے خسارہ اور نقصان کا سبب بنتی ہے اور کس طرح کی بدترین سزا میں پھنساتی ہے۔ حتی کہ ان میں سے بعض کو جہنم کی اس بدترین وادی میں دھکیلا جائے گا جس کا نام ہی” غیّ” ہے۔
(تفسیرعثمانی)
مگر جس نے توبہ کی، اور نیک عمل کئے، پس یہی لوگ ہیں جو جنت میں داخل ہوں گے، اور ذرہ بھر بھی ان کا نقصان نہ کیا جائے گا۔ (۶۰)
تشریح:یعنی توبہ کا دروازہ ایسے مجرموں کے لیے بھی بند نہیں جو گناہ گار سچے دل سے توبہ کر کے ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر لے اور اپنا چال چلن درست رکھے بہشت کے دروازے اس کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ توبہ کے بعد جو نیک اعمال کرے گا سابق جرائم کی بنا پر اس کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جائے گی نہ کسی قسم کا حق ضائع ہو گا۔ حدیث میں ہے۔ "اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنبِ کَمَن لَّا ذَنبَ لَہ، ” (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا) اللّٰہم تب علینا انک انت التواب الرحیم۔
(تفسیرعثمانی)
ہمیشگی کے باغات ہیں، جن کا وعدہ رحمن نے غائبانہ اپنے بندوں سے کیا، بیشک اس کا وعدہ آنے والا ہے۔ (۶۱)
تشریح:جب یہ بندے اَن دیکھی چیزوں پر پیغمبروں کے فرمانے سے ایمان لائے، بن دیکھے خدا کی عبادت کی، تو اللہ نے ان سے جنت کی اَن دیکھی نعمتوں کا وعدہ فرما لیا۔ جو ضرور بالضرور پورا ہو کر رہے گا۔ کیونکہ خدا کے وعدے بالکل حتمی اور اٹل ہوتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ بات نہ سنیں گے اور ان کے لئے اس میں صبح و شام ان کا رزق ہے۔ (۶۲)
تشریح:یعنی جنت میں لغو و بیکار اور بیہودہ شور و شغب نہ ہو گا۔ ہاں فرشتوں اور مومنین کی طرف سے "سَلَامٌ عَلَیْکَ” کی آوازیں بلند ہوں گی۔ صبح و شام سے جنت کی صبح و شام مراد ہے۔ وہاں دنیا کی طرح طلوع و غروب نہ ہو گا جس سے رات دن اور صبح شام مقرر کی جائے۔ بلکہ خاص قسم کے انوار کا توارُد و تنوع ہو گا۔ جس کے ذریعہ سے صبح و شام کی تحدید و تعیین کی جائے گی۔ حسب عادت و معمول صبح و شام جنت کی روزی پہنچے گی۔ ایک منٹ کے لیے بھوک کی تکلیف نہیں ستائے گی۔ وہ روزی کیا ہو گی؟ اس کی کیفیت خدا ہی جانے۔ حدیث میں ہے۔ "یُسَبِّحُوْنَ اللہَ بُکْرَۃً وَّعَشِیّاً” (جنتی صبح و شام حق تعالیٰ کی تسبیح کہیں گے) گویا جسمانی غذا کے ساتھ روحانی غذا بھی ملتی رہے گی۔
(تفسیرعثمانی)
یہ وہ جنت ہے جس کا ہم اپنے (اُن) بندوں کو وارث بنائیں گے جو پرہیز گار ہوں گے۔ (۶۳)
تشریح:یعنی میراثِ آدم کی کہ اول ان کو بہشت ملی ہے۔ اور شاید لفظ میراث اس لیے اختیار فرمایا کہ اقسام تملیک میں یہ سب سے زیادہ اتم و احکم قسم ہے جس میں نہ فسخ کا احتمال نہ لوٹائے جانے کا نہ ابطال و اقالہ کا۔
(تفسیرعثمانی)
اور (فرشتوں نے کہا) ہم تمہارے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے، اسی کے لئے ہے جو ہمارے آگے، اور ہمارے پیچھے ہے اور جو اس کے درمیان ہے، اور تمہارا رب بھولنے والا نہیں۔ (۶۴)
وہ رب ہے آسمانوں کا اور زمین کا اور جو ان کے درمیان ہے، پس اس کی عبادت کرو، اور اس کی عبادت پر ثابت قدم رہو، کیا تو کوئی اس کا ہم نام جانتا ہے ؟ (۶۵)
تشریح: صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا، اس پر بعض کفار نے آپ کا مذاق بھی بنایا کہ اللہ تعالی نے آپ کو (معاذاللہ) چھوڑ دیا ہے، چنانچہ جب جبرئیل علیہ السلام آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ آپ جلدی جلدی ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ؟اس پر اللہ تعالی نے اس آیت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا جواب نقل فرمایا ہے کہ ہمارا اتر کر آنا ہمیشہ اللہ تعالی کے حکم کے تحت ہوتا ہے، ساری کائنات کی مصلحتیں وہی جانتا ہے، کیونکہ آسمان، زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات سب اسی کے قبضے میں ہیں، اور کسی وقت دیر ہوتی ہے تو کسی حکمت کی وجہ سے ہوتی ہے جسے اللہ تعالی ہی جانتا ہے، اور دیر کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ (معاذاللہ) وہ وحی نازل کرنا بھول گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور (کافر) انسان کہتا ہے کیا جب میں مرگیا تو پھر میں زندہ (کر کے زمین سے) نکالا جاؤں گا! (۶۶)
تشریح:گذشتہ رکوع میں نیکوں اور بدوں کا انجام فرمایا تھا جو مرنے کے بعد ہو گا۔ جو لوگ مر کر زندہ ہونے کو محال یا مستبعد سمجھتے ہیں یہاں ان کے شبہات کا جواب دیا جاتا ہے۔ یعنی آدمی انکار و تعجب کی راہ سے کہتا ہے کہ مرگل کر جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو گئیں اور مٹی میں مل کر مٹی بن گئے۔ کیا اس کے بعد پھر ہم قبروں سے زندہ کر کے نکالے جائیں گے۔ اور پردہ عدم سے نکل کر پھر منصہ وجود پر جلوہ گر ہوں گے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا انسان یاد نہیں کرتا (کیا اسے یاد نہیں) کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کیا، جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا۔ (۶۷)
تشریح:یعنی آدمی ہو کر اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتا کہ چند روز پہلے وہ کوئی چیز نہ تھا۔ حق تعالیٰ نے نابود سے بود کیا۔ کیا وہ ذات جو لاشئی کو شئی اور معدوم محض کو موجود کر دے، اس پر قادر نہیں کہ ایک چیز کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کر سکے۔ آدمی کو اپنی پہلی ہستی کی کیفیت یاد نہیں رہی جو دوسری ہستی کا مذاق اڑاتا ہے وَہُوَ الَّذِیْ یَبْدَاُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہ، وَہَو اَہْوَنُ عَلَیْہِ (الروم، رکوع٣، آیت٢٧)
(تفسیرعثمانی)
سو تمہارے رب کی قسم ہم انہیں اور شیطانوں کو ضرور جمع کریں گے، پھر ہم انہیں ضرور حاضر کر لیں گے جہنم کے گرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے۔ (۶۸)
تشریح:یعنی یہ منکرین ان شیاطین کی معیت میں قیامت کے دن خدا کے سامنے حاضر کیے جائیں گے جو اغواء کر کے انہیں گمراہ کرتے تھے، ہر مجرم کا شیطان اس کے ساتھ پکڑا ہوا آئے گا۔ مارے دہشت کے کھڑے سے گر پڑیں گے اور چین سے بیٹھ بھی نہ سکیں گے۔ یہی ہوا گھٹنوں پر گرنا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہر گروہ میں سے ہم اسے ضرور کھینچ نکالیں گے جو ان میں اللہ رحمن سے بہت زیادہ سرکشی کرنے والا تھا۔ (۶۹)
پھر ہم البتہ ان سے خوب واقف ہیں جو اس (جہنم) میں داخل ہونے کے زیادہ مستحق ہیں۔ (۷۰)
تشریح:یعنی منکرین کے ہر فرقہ میں جو زیادہ بدمعاش، سرکش اور اکڑ باز تھے، انہیں عام مجرموں سے علیحدہ کر لیا جائے گا۔ پھر ان میں بھی جو بہت زیادہ سزا کے لائق اور دوزخ کا حقدار ہو گا وہ خدا کے علم میں ہے اس کو دوسرے مجرموں سے پہلے آگ میں جھونکا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم میں سے کوئی نہیں مگر اسے یہاں سے گزرنا ہو گا، یہ تمہارے پروردگار پر لازم مقرر کیا ہوا ہے۔ (۷۱)
پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جنہوں نے پرہیز گاری کی اور ہم ظالموں کو اس میں چھوڑ دیں گے گھٹنوں کے بل گرے ہوئے۔ (۷۲)
تشریح:یعنی ہر نیک و بد، مجرم و برَی، اور مومن و کافر کے لیے حق تعالیٰ قسم کھا چکا اور فیصلہ کر چکا ہے کہ ضرور بالضرور دوزخ پر اس کا گزر ہو گا، کیونکہ جنت میں جانے کا راستہ ہی دوزخ کو گیا ہے جسے عام محاورات میں "پل صراط” کہتے ہیں، اس پر لامحالہ سب کا گزر ہو گا خدا سے ڈرنے والے مومنین اپنے اپنے درجہ کے موافق وہاں سے صحیح سلامت گزر جائیں گے اور گنہگار الجھ کر دوزخ میں گر پڑیں گے۔ (العیاذ باللہ) پھر کچھ مدت کے بعد اپنے اپنے عمل کے موافق، نیز انبیاء ملائکہ اور صالحین کی شفاعت سے، اور آخر میں براہِ راست ارحم الراحمین کی مہربانی سے وہ سب گنہگار جنہوں نے سچے اعتقاد کے ساتھ کلمہ پڑھا تھا۔ دوزخ سے نکالے جائیں گے، صرف کافر باقی رہ جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں ہر شخص کو داخل کیا جائے گا مگر صالحین پر وہ آگ بردو سلام بن جائے گی، وہ بے کھٹکے اس میں سے گزر جائیں گے۔ واللہ اعلم۔ امام فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں اس دخول کی بہت سی حکمتیں بیان کی ہیں۔ فلیراجع۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ان پر ہماری واضح آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو جنہوں نے کفر کیا وہ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں دونوں فریق میں سے کس کا مقام (مرتبہ) بہتر اور مجلس اچھی ہے؟۔ (۷۳)
تشریح:یعنی کفار قرآن کی آیتیں سن کر جن میں ان کا برا انجام بتلایا گیا ہے ہنستے ہیں اور بطور استہزاء و تفاخر غریب مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ تمہارے زعم کے موافق آخرت میں جو کچھ پیش آئے گا دونوں فریق کی موجود حالت اور دنیاوی پوزیشن پر منطبق نہیں ہوتا۔ کیا آج ہمارے مکانات، فرنیچر، اور بود و باش کے سامان تم سے بہتر نہیں اور ہماری مجلس (یا سوسائٹی) تمہاری سوسائٹی سے معزز نہیں یقیناً ہم جو تمہارے نزدیک باطل پر ہیں، تم اہل حق سے زیادہ خوشحال اور جتھے والے ہیں۔ جو لوگ آج ہم سے خوف کھا کر کوہ صفا کی گھاٹی میں نظر بند ہوں، کیا گمان کیاجا سکتا ہے کہ کل وہ چھلانگ مار کر جنت میں جا پہنچیں گے؟ اور ہم دوزخ میں پڑے جلتے رہیں گے؟
(تفسیرعثمانی)
اور ان سے پہلے ہم کتنے ہی گروہ ہلاک کر چکے ہیں، وہ سامان اور نمود میں (ان سے) اچھے تھے۔ (۷۴)
تشریح:یہ ان کی بات کا جواب دیا کہ پہلے ایسی بہت قومیں گزر چکی ہیں جو دنیا کے سازو سامان اور شان و نمود میں تم سے کہیں بڑھ چڑھ کر تھیں۔ لیکن جب انہوں نے انبیاء کے مقابلہ میں سرکشی کی اور تکبرو تفاخر کو اپنا شعار بنا لیا، خدا تعالیٰ نے ان کی جڑ کاٹ دی اور دنیا کے نقشہ میں ان کا نشان بھی باقی نہ رہا۔ پس آدمی کو چاہیے کہ دنیا کی فانی ٹیپ ٹاپ اور عارضی بہار سے دھوکہ نہ کھائے۔ عموماً متکبر دولت مند ہی حق کو ٹھکرا کر نہنگ ہلاکت کا لقمہ بنا کرتے ہیں۔ مال اولاد یا دنیاوی خوشحالی مقبولیت اور حسن انجام کی دلیل نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کہہ دیجئے جو گمراہی میں ہے تو اس کو اللہ گمراہی میں اور خوب ڈھیل دے رہا ہے، یہاں تک کہ وہ دیکھ لیں گے خواہ عذاب خواہ قیامت، جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے، پس اب وہ جان لیں گے کون ہے بدتر مقام (مرتبہ) میں اور کمزور تر لشکر میں۔ (۷۵)
تشریح: یعنی جو خود گمراہی میں جا پڑا اسے گمراہی میں جانے دے۔ کیونکہ دنیا جانچنے کی جگہ ہے۔ یہاں ہر ایک کو عمل کی فی الجملہ آزادی دی گئی ہے، خدا تعالیٰ کی عادت اور حکمت کا اقتضاء یہ ہے کہ جو اپنے کسب و ارادہ سے کوئی راستہ اختیار کر لے اس کو نیک و بد سے خبردار کر دینے کے بعد اسی راستہ پر چلنے کے لیے ایک حد تک آزاد چھوڑ دے۔ اسی لیے جو بدی کی راہ چل پڑا اس کے حق میں دنیا کی مرفّہ الحالی اور درازیِ عمر وغیرہ تباہی کا پیش خیمہ سمجھنا چاہیے۔ نیک و بد یہاں رلے ملے ہیں آخرت میں پوری طرح جدا ہوں گے۔ اصلی بھلائی برائی وہاں ملے گی۔
کفار مسلمانوں کو ذلیل و کمزور اور اپنے کو معزز و طاقتور سمجھتے ہیں۔ اپنے عالیشان محلات اور بڑی بڑی فوجوں اور جتھوں پر اتراتے ہیں۔ کیونکہ خدا نے ابھی ان کی باگ ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے جس وقت گلا دبایا جائے گا خواہ دنیاوی عذاب کی صورت میں یا قیامت کے بعد، تب پتہ لگے گا کہ کس کا مکان برا ہے اور کس کی جمعیت کمزور ہے۔ اس موقع پر تمہارے سامان اور لشکر کچھ کام نہ آئیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی اللہ انہیں اور زیادہ ہدایت دیتا ہے، اور تمہارے پروردگار کے نزدیک باقی رہنے والی نیکیاں بہتر ہیں باعتبار ثواب اور بہتر ہیں باعتبار انجام۔ (۷۶)
تشریح: یعنی جیسے گمراہوں کو گمراہی میں لمبا چھوڑ دیتا ہے، ان کے بالمقابل جو سوجھ بوجھ کی راہِ ہدایت اختیار کر لیں ان کی سوجھ بوجھ اور فہم و بصیرت کو اور زیادہ تیز کر دیتا ہے جس سے وہ حق تعالیٰ کی خوشنودی کے راستوں پر بگ ٹُٹ اڑے چلے جاتے ہیں۔
دنیا کی رونق رب کے ہاں کام کی نہیں۔ نیکیاں سب رہیں گی اور دنیا نہ رہے گی۔ آخرت میں ہر نیکی کا بہترین بدلہ اور بہترین انجام ملے گا۔
(تفسیرعثمانی)
پس کیا تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہمارے حکموں کا انکار کیا؟اور کہا میں ضرور مال اور اولاد دیا جاؤں گا۔ (۷۷)
تشریح:یعنی کفر کے باوجود آپ نے یہ جرأت دیکھی، ایک کافر مالدار ایک مسلمان لوہار کو کہنے لگا تو مسلمانی سے منکر ہو تو تیری مزدوری دوں۔ اس نے کہا اگر تو مرے اور پھر جئے تو بھی میں منکر نہ ہوں۔ اس نے کہا اگر مر کر پھر جیوں گا تو یہ ہی مال و اولاد بھی ہو گا، تجھ کو مزدوری وہاں دے دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی وہاں دولت ملتی ہے ایمان سے، کافر چاہے کہ یہاں کی دولت وہاں ملے، یا کفر کے باوجود اُخروی عیش و تنعم کے مزے اڑائے یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ غیب پر مطلع ہو گیا ہے ؟یا اس نے اللہ رحمن سے لے لیا ہے کوئی عہد۔ (۷۸)
تشریح:یعنی ایسے یقین و وثوق سے جو دعویٰ کر رہا ہے کیا غیب کی خبر پا لی ہے؟ یا خدا سے کوئی وعدہ لے چکا ہے؟ ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک بات بھی نہیں۔ ایک گندے کافر کی کیا بساط کہ وہ اس طرح کی غیبیات تک رسائی حاصل کر لے؟ رہا خدا کا وعدہ، وہ ان لوگوں سے ہو سکتا ہے جنہوں نے اپنا عہد پورا کر کے "لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ”اور عمل صالح کی امانت خدا کے پاس رکھ دی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
ہر گز نہیں! جو وہ کہتا ہے اب ہم لکھ لیں گے اس کو عذاب اور لمبا بڑھا دیں گے۔ (۷۹)
تشریح:یعنی یہ قول بھی شامل مسل کر لیا جائے گا۔ اور مال و اولاد کی جگہ اس کی سزا بڑھا دی جائے گی۔ (تفسیرعثمانی)
اور ہم وارث ہوں گے (لے لیں گے) جو وہ کہتا ہے اور وہ ہمارے پاس اکیلا آئے گا۔ (۸۰)
تشریح:”جو بتلا رہا ہے” یعنی مال اور اولاد۔ چنانچہ اس کافر کے دونوں بیٹے مسلمان ہوئے (کذافی الموضح) یا یہ مطلب ہے کہ یہ چیزیں اس سے الگ کر لی جائیں گی۔ قیامت میں اکیلا حاضر ہو گا نہ مال کام آئے گا نہ اولاد ساتھ دے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اللہ کے سوا (اوروں کو) معبود بنا لیا ہے، تاکہ ان کے لئے موجب عزت ہوں۔ (۸۱)
تشریح:یعنی مال و اولاد سے بڑھ کر اپنے جھوٹے معبودوں کی مدد کے امیدوار ہیں کہ وہ ان کو خدا کے ہاں بڑے بڑے درجے دلائیں گے۔ حالانکہ ہرگز ایسا ہونے والا نہیں۔ محض سودائے خام ہے جو اپنے دماغوں میں پکا رہے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
ہر گز نہیں، جلد ی وہ ان کی بندگی سے انکار کریں گے اور ان کے مخالف ہو جائیں گے۔ (۸۲)
تشریح:یعنی وہ معبود مدد تو کیا کرتے، خود ان کی بندگی سے بیزار ہوں گے۔ اور ان کے مدمقابل ہو کر بجائے عزت بڑھانے کے اور زیادہ ذلت و رسوائی کا سبب بنیں گے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ "وَاِذَا حُشِرَالنَّاسُ کَانُوْا لَہُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِہِمْ کَافِرِیْنَ” (الاحقاف، رکوع١، آیت:٦)
(تفسیرعثمانی)
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ بیشک ہم نے شیطان بھیجے ہیں کافروں پر، وہ انہیں خوب اکساتے رہتے ہیں۔ (۸۳)
سو تم ان پر (نزول عذاب کی) جلدی نہ کرو ہم تو صرف ان کی گنتی پوری کر رہے ہیں (ان کے دن گن رہے ہیں) ۔ (۸۴)
تشریح:یعنی شیطان انہی بدبختوں کو گمراہی کا بڑھاوا دیتا اور انگلیوں پر نچاتا ہے جنہوں نے خود کفر وانکار کا شیوہ اختیار کر لیا۔ اگر ایسے اشقیاء شیطان کی تحریص و اغواء سے گمراہی میں لمبے جائیں تو جانے دیجئے، آپ ان کی سزا دہی میں جلدی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی باگ ڈھیلی چھوڑ رکھی ہے تاکہ ان کی زندگی کے گنے ہوئے دن پورے ہو جائیں۔ ان کی ایک ایک سانس، ایک ایک لمحہ اور ایک ایک عمل ہمارے یہاں گنا جا رہا ہے۔ ادنیٰ سے ادنیٰ حرکت بھی ہمارے احاطہ علمی اور دفاتر اعمال سے باہر نہیں ہو سکتی۔ تمام عمر کے اعمال ایک ایک کر کے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
(یاد کرو) جس دن ہم پرہیز گاروں کو اللہ رحمن کی طرف مہمان بنا کر جمع کر لائیں گے۔ (۸۵)
اور گنہگاروں کو ہانک کر لے جائیں گے جہنم کی طرف پیاسے۔ (۸۶)
وہ شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے جس نے اللہ رحمن سے لیا ہو اقرار۔ (۸۷)
تشریح:یعنی جن کو اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا وعدہ دیا مثلاً ملائکہ، انبیاء، صالحین وغیرہم، وہ ہی درجہ بدرجہ سفارش کریں گے، بدون اجازت کسی کو زبان ہلانے کی طاقت نہ ہو گی۔ اور سفارش بھی ان ہی لوگوں کی کر سکیں گے جن کے حق میں سفارش کیے جانے کا وعدہ دے چکے ہیں۔ کافروں کے لیے شفاعت نہ ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ کہتے ہیں اللہ رحمن نے بیٹا بنا لیا ہے۔ (۸۸)
تشریح:بہت آدمیوں نے تو غیر اللہ کو معبود ہی ٹھہرایا تھا، لیکن ایک جماعت وہ ہے جس نے خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کی۔ مثلاً نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کو۔ بعض یہود نے عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہا اور بعض مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
تحقیق تم ( زبان پر) بری بات لائے ہو۔ (۸۹)
قریب ہے (بعید نہیں) کہ اس سے آسمان پھٹ پڑیں اور زمین ٹکرے ٹکڑے ہو جائے اور پہاڑ پارہ پارہ ہو کر گر پڑیں۔ (۹۰)
کہ انہوں نے اللہ کے لئے منسوب کیا بیٹا (۹۱)
تشریح:یعنی یہ ایسی بھاری بات کہی گئی اور ایسا سخت گستاخانہ کلمہ منہ سے نکالا گیا جسے سن کر اگر آسمان زمین اور پہاڑ مارے ہول کے پھٹ پڑیں اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں تو کچھ بعید نہیں۔ اس گستاخی پر اگر غضب الٰہی بھڑک اٹھے تو عالم تہ و بالا ہو جائے اور آسمان و زمین تک کے پرخچے اڑ جائیں۔ محض اس کا حلم مانع ہے کہ ان بیہودگیوں کو دیکھ کر دنیا کو ایک دم تباہ نہیں کرتا۔ جس خداوند قدوس کی توحید پر آسمان، زمین، پہاڑ، غرض ہر علوی و سفلی چیز شہادت دے رہی ہے، انسان کی یہ جسارت کہ اس کے لیے اولاد کی احتیاج ثابت کرنے لگے۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
جبکہ رحمن کی شایان نہیں کہ وہ بیٹا بنائے۔ (۹۲)
تشریح:اس کی شانِ تقدیس و تنزیہ اور کمال غنا کے منافی ہے کہ وہ کسی کو اولاد بنائے۔ نصاریٰ جس غرض کے لیے اولاد کے قائل ہوئے ہیں یعنی کفارہ کے مسئلہ، خدا تعالیٰ کو "رحمان” مان کر اس کی ضرورت نہیں رہتی۔
(تفسیرعثمانی)
نہیں کوئی جوآسمانوں میں ہے اور زمین میں، مگر رحمن کے (حضور) بندہ ہو کر آتا ہے۔ (۹۳)
تشریح:یعنی سب خدا کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اور بندے ہی بن کر اس کے سامنے حاضر ہوں گے پھر بندہ بیٹا کیسے ہو سکتا ہے؟ اور جس کے سامنے سب محکوم و محتاج ہوں اسے بیٹا بنانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے ان کو گھیر لیا ہے اور گن کران کا شمار کر لیا ہے۔ (۹۴)
اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے سامنے اکیلا آئے گا۔ (۹۵)
تشریح: یعنی ایک فرد بشر بھی اس کی بندگی سے باہر نہیں ہو سکتا۔ سب کو خدا کے سامنے جریدہ حاضر ہونا ہے اس وقت تمام تعلقات اور سازو سامان علیحدہ کر لیے جائیں گے فرضی معبود اور بیٹے، پوتے کام نہ دیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے ان کے لئے پیدا کر دے گا رحمن (دلوں میں) محبت۔ (۹۶)
تشریح:یعنی ان کو اپنی محبت دے گا، یا خود ان سے محبت کرے گا، یا خلق کے دل میں ان کی محبت ڈالے گا۔ احادیث میں ہے کہ جب حق تعالیٰ کسی بندہ کو محبوب رکھتا ہے تو اول جبرائیل کو آگاہ کرتا ہے کہ میں فلاں بندہ سے محبت کرتا ہوں تو بھی کر، وہ آسمانوں میں اس کا اعلان کرتے ہیں۔ آسمانوں سے اترتی ہوئی اس کی محبت زمین پر پہنچ جاتی ہے اور زمین والوں میں اس بندہ کو حسن قبول حاصل ہوتا ہے۔ یعنی بے تعلق لوگ جن کا کوئی خاص نفع و ضرر اس کی ذات سے وابستہ نہ ہو، اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اس قسم کے حسن قبول کی ابتداء مومنین صالحین اور خدا پرست لوگوں سے ہوتی ہے، ان کے قلوب میں اول اس کی محبت ڈالی جاتی ہے، بعدہٗ قبول عام حاصل ہو جاتا ہے۔ ورنہ ابتداء محض طبقہ عوام میں حسنِ قبول حاصل ہونا اور بعد میں بعض خدا پرست صالحین کا بھی کسی غلط فہمی وغیرہ سے اس کی طرف جھکنا، مقبولیت عند اللہ کی دلیل نہیں، خوب سمجھ لو۔ (تنبیہ) یہ آیت مکی ہے اور مکہ میں جن مسلمانوں سے یہ وعدہ کیا گیا تھا، تھوڑے دنوں بعد اسی طرح پورا ہوا کہ دنیا حیرت زدہ ہو گئی۔ حق تعالیٰ نے ان کی وہ محبت و الفت اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کر دی جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس اس کےسوا نہیں کہ ہم نے (قرآن) کو آپ کی زبان پر آسان کر دیا تاکہ اس سے آپ پرہیز گاروں کو خوشخبری دیں اور جھگڑالو لوگوں کو اس سے ڈرائیں۔ (۹۷)
تشریح:یعنی قرآن کریم نہایت سہل و صاف زبان میں کھول کھول کر پرہیزگاروں کو بشارت سناتا اور جھگڑالو لوگوں کو بد کرداریوں کے خراب نتائج سے خبردار کرتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان سے قبل ہم نے کتنے ہی گروہ ہلاک کر دئیے، کیا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو؟ یا ان کی آہٹ سنتے ہو؟ (۹۸)
تشریح: یعنی کتنی ہی بدبخت قومیں اپنے جرائم کی پاداش میں ہلاک کی جا چکیں۔ جن کا نام و نشان صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ آج ان کے پاؤں کی آہٹ یا ان کی لن ترانیوں کی ذرا سی بھٹک بھی سنائی نہیں دیتی۔ پس جو لوگ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے برسر مقابلہ ہو کر آیات اللہ کا انکار و استہزاء کر رہے ہیں، وہ بے فکر نہ ہوں۔ ممکن ہے ان کو بھی کوئی ایسا ہی تباہ کن عذاب آ گھیرے جو چشم زدن میں تہس نہس کر ڈالے۔ تم سورت مریم بحسن توفیقہ ونصرہ فللہ الحمدوالمنہ۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۲۰۔ سورۃطٰہٰ
تعارف
یہ سورت مکہ مکرمہ کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھی، مستند روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سورت کو سن کر اسلام لائے تھے، ان کی بہن حضرت فاطمہ اور ان کے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما ان سے پہلے خفیہ طور پر اسلام لا چکے تھے جس کا انہیں پتہ نہیں تھا، ایک روز وہ گھر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے نکلے، راستے میں نعیم بن عبداللہ نامی ایک صاحب انہیں ملے، انہوں نے حضرت عمر سے کہا کہ آپ پہلے اپنے گھر کی خبر لیں، جہاں آپ کی بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں، ، حضرت عمر غصے کے عالم میں واپس آئے تو بہن اور بہنوئی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے سورہ طہ پڑھ رہے تھے، حضرت عمر کو آتے دیکھا تو انہوں نے وہ صحیفہ جس پر سورۂ طہ لکھی ہوئی تھی کہیں چھپا دیا، لیکن حضرت عمر پڑھنے کی آواز سن چکے تھے، انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم مسلمان ہو چکے ہو، اور یہ کہہ کر بہن اور بہنوئی دونوں کو بہت مارا، اس وقت ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمیں کوئی بھی سزا دیں ہم مسلمان ہو چکے ہیں، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلام اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوا ہے وہ پڑھ رہے تھے، حضرت عمر نے کہا کہ اچھا مجھے دکھاؤ وہ کیسا کلام ہے، بہن نے ان سے غسل کروا کر صحیفہ ان کو دکھایا جس میں سورہ طہ لکھی ہوئی تھی، اسے پڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مبہوت رہ گئے، اور انہیں یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا نہیں اللہ تعالی کا کلام ہے، حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں اسلام لانے کی ترغیب دی اور بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ہے کہ اللہ تعالی ابوجہل یا عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو اسلام کی توفیق دے کر اسلام کی قوت کا سامان پیدا فرما دے، چنانچہ اسی وقت وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔
جس زمانے میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مسلمانوں کے لئے بڑی آزمائش اور تکلیفوں کا زمانہ تھا کفارِ مکہ نے ان پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا تھا، اس لئے اس سورت کا بنیادی مقصد ان کو تسلی دینا تھا کہ اس قسم کی آزمائشیں حق تعالی کے علم برداروں کو ہر زمانے میں پیش آئی ہیں، لیکن آخری انجام انہی کے حق میں ہوا ہے، چنانچہ اسی سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ تفصیل کے ساتھ اس سورت میں بیان ہوا ہے، جس سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں، یہ بھی کہ ایمان والوں کو آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ بھی کہ آخری فتح انہی کی ہوتی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ثابت کرنا مقصود ہے کہ تمام انبیاء کرام کی بنیادی دعوت ایک ہی ہوتی ہے کہ انسان خدائے واحد پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ
آیات:۱۳۵ رکوعات:۸
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
طٰہٰ (۱) ہم نے قرآن تم پر اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ (۲)
تشریح: بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ طہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے گرامی میں سے ایک نام ہے، اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ ان حروف مقطعات میں سے ہے جو مختلف سورتوں کے شروع میں آئے ہیں اور ان کے ٹھیک ٹھیک معنی اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
(توضیح القرآن)
مگر اس کے لئے نصیحت ہے جو ڈرتا ہے۔ (۳)
تشریح:یعنی قرآن کریم اس لیے اتارا گیا ہے کہ جن کے دل نرم ہوں اور خدا سے ڈرتے ہوں، وہ اس کے بیانات سے نصیحت حاصل کریں اور روحانی فیوض و برکات سے محروم نہ رہیں۔ یہ غرض نہیں کہ قرآن نازل کر کے خواہ مخواہ تم کو کسی محنت شاقہ اور تکلیف شدت میں مبتلا کیا جائے۔ نہ وہ ایسی چیز ہے جس کا حامل و عامل کبھی محروم و ناکام رہے۔ آپ تکذیب کرنے والوں کی باتیں سن کر ملول اور تنگدل نہ ہوں۔ نہ ان کے پیچھے پڑ کر زیادہ تکلیف اٹھائیں۔ حق کا علمبردار ہی آخر کامیاب ہو کر رہے گا۔ آپ توسط کے ساتھ عبادت کرتے رہئیے۔ بعض روایات میں ہے کہ ابتداء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شب کو نماز میں کھڑے ہو کر بہت زیادہ قرآن پڑھتے تھے۔ کفار آپ کی محنت و ریاضت دیکھ کر کہتے کہ قرآن کیا اترا بیچارے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سخت تکلیف اور محنت میں پڑ گئے، اس کا جواب ان آیات میں دیا گیا کہ فی الحقیقت قرآن محنت و شقاء نہیں، رحمت و نور ہے، جس کو جتنا آسان ہو اسی قدر نشاط کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ فَاقْرَءُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ۔
(تفسیرعثمانی)
ناز ل کیا ہوا (اس کی طرف) جس نے زمین اور اونچے آسمان بنائے۔ (۴)
تشریح:اس لیے ضروری ہے کہ مخلوق نہایت خوشی کے ساتھ اس کو اپنے سر آنکھوں پر رکھے اور شہنشاہانہ احکام کی خلاف ورزی نہ کرے۔
(تفسیرعثمانی)
رحمن عرش پر قائم ہے۔ (۵)
تشریح:استواء علی العرش کا مفصل بیان سورہ "اعراف” کے فوائد میں دیکھ لیا جائے۔ "عرش” کے متعلق نصوص سے اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ اس کے پائے ہیں اور خاص فرشتے اٹھانے والے ہیں اور آسمان کے اوپر قبہ کی طرح ہے۔ صاحب روح المعانی نے "عرش” اور "استواء علی العرش” پر اس آیت کے تحت میں نہایت مبسوط کلام کیا ہے۔ من شاء فلیراجعہ۔
(تفسیرعثمانی)
اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو گیلی مٹی (آخری کرۂ ارض) کے نیچے ہے۔ (۶)
تشریح:یعنی و ہی ایک خدا بلا شرکت غیرے آسمانوں سے زمین تک اور زمین سے تحت الثریٰ تک تمام کائنات کا مالک و خالق ہے۔ اسی کی تدبیر و انتظام سے کل سلسلے قائم ہیں۔ (تنبیہ) آسمان و زمین کی درمیانی مخلوق سے یا تو کائنات جوّ مراد ہیں جو دائماً دونوں کے درمیان ہی رہتی ہیں۔ مثلاً ہوا، بادل وغیرہ اور یا وہ چیزیں بھی اس میں شامل ہوں جو اکثر ہوا میں پرواز کرتی ہیں جیسے پرند جانور اور "ثریٰ” (گیلی زمین) سے زمین کے نیچے کا طبقہ مراد ہے جو پانی کے قرب و اتصال کی وجہ سے تر رہتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تو پکار کر کہے بات تو بیشک وہ بھید جانتا ہے اور نہایت پوشیدہ (بات کو بھی) ۔ (۷)
تشریح:پہلے عموم قدرت و تصرف کا بیان تھا۔ اس آیت میں علم الٰہی کی وسعت کا تذکرہ ہے۔ یعنی جو بات زور سے پکار کر کہی جائے، وہ اس علام الغیوب سے کیونکر پوشیدہ رہ سکتی ہے۔ جس کو ہر کھلی چھپی بلکہ چھپی سے زیادہ چھپی ہوئی باتوں کی خبر ہے۔ جو بات تنہائی میں آہستہ کہی جائے، اور جو دل میں گزرے ابھی زبان تک نہ آئی ہو اور جو ابھی دل میں بھی نہیں گزری آئندہ گزرنے والی ہو، حق تعالیٰ کا علم ان سب کو محیط ہے۔ اسی لیے بلا ضرورت بہت زور سے چلاّ کر ذکر کرنے کو بھی علمائے شریعت نے منع کیا ہے۔ جن مواقع میں ذکر با آواز بلند منقول ہے یا بعض مصالح معتبرہ کی بناء پر تجربہ کاروں کے نزدیک نافع سمجھا گیا ہے، وہ عموم نہی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کے لئے ہے سب اچھے نام۔ (۸)
تشریح:آیات بالا میں جو صفات حق تعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں۔ (یعنی اس کا خالق الکل، مالک علی الاطلاق، رحمان، قادر مطلق اور صاحب علم محیط ہونا) ان کا اقتضاء یہ ہے کہ الوہیت بھی تنہا اسی کا خاصہ ہو بجز اس کے کسی دوسرے کے آگے سر عبودیت نہ جھکایا جائے۔ کیونکہ نہ صرف صفات مذکورہ بالا بلکہ کل عمدہ صفات اور اچھے نام اسی کی ذات منبع الکمالات کے لیے مخصوص ہیں۔ کوئی دوسری ہستی اس شان و صفت کی موجود نہیں جو معبود بن سکے۔ نہ ان صفتوں اور ناموں کے تعدد سے اس کی ذات میں تعدد آتا ہے۔ جیسا کہ بعض جہال عرب کا خیال تھا کہ مختلف ناموں سے خدا کو پکارنا دعوائے توحید کے مخالف ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور کیا تمہارے پاس موسیٰ کی خبر آئی۔ (۹)
تشریح:یہاں سے حضرت موسٰی علیہ السلام کا قصہ بہت بسط و تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے تاکہ سامعین سمجھ جائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قرآن کی وحی بھیجنا کوئی انوکھی بات نہیں۔ جس طرح پیشتر موسٰی علیہ السلام کو وحی مل چکی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملی، جیسے موسٰی علیہ السلام کی وحی توحید وغیرہ کی تعلیم پر مشتمل تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں بھی ان ہی اصول پر زور دیا گیا ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے تبلیغ حق میں جو صعوبات و شدائد برداشت کیں، آپ کو بھی برداشت کرنی پڑیں گی اور جس طرح ان کو آخرکار کامیابی اور غلبہ نصیب ہوا اور دشمن مقہور و مخذول ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یقیناً غالب و منصور ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تباہ و ذلیل کیے جائیں گے چونکہ سورت کا آغاز انزال قرآن کے ذکر سے کیا گیا تھا اس کے مناسب نبوتِ موسوی کے آغاز کا قصہ بیان فرماتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جب اس نے آگ دیکھی تو اپنے گھر والوں سے کہا تم ٹھہرو، بے شک میں نے دیکھی ہے آگ، شائد میں تمہارے پاس اس سے چنگاری لے آؤں، یا میں آگ کے راستہ (کا پتہ) پالوں۔ (۱۰)
پس جب وہ وہاں آئے تو آواز آئی اے موسی۔ (۱۱)
تشریح:اس قصہ کے مختلف اجزاء سورہ قصص، سورہ طہٰ اور سورہ اعراف میں سے جمع کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں مدین سے مصر کی طرف واپسی کا واقعہ مذکور ہے۔ مدین میں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی سے حضرت موسٰی علیہ السلام کا نکاح ہو گیا تھا۔ کئی سال وہاں مقیم رہنے کے بعد حضرت موسٰی علیہ السلام نے مصر جانے کا ارادہ کیا، حاملہ بیوی ہمراہ تھی رات اندھیری تھی، سردی کا شباب تھا، بکریوں کا گلہ بھی ساتھ لے کر چلے تھے۔ اس حالت میں راستہ بھول گئے۔ بکریاں متفرق ہو گئیں اور بیوی کو درد زہ شروع ہو گیا۔ اندھیرے میں سخت پریشان تھے سردی میں تاپنے کے لیے آگ موجود نہ تھی۔ چقماق مارنے سے بھی آگ نہ نکلی۔ ان مصائب کی تاریکیوں میں دفعتاً دور سے ایک آگ نظر آئی۔ وہ حقیقت میں دنیاوی آگ نہ تھی۔ اللہ کا نورِ جلال تھا یا حجاب ناری تھا (جس کا ذکر مسلم کی حدیث میں آیا ہے) موسٰی علیہ السلام نے ظاہری آگ سمجھ کر گھر والوں سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو۔ میں جاتا ہوں شاید اس آگ کا ایک شعلہ لا سکوں، یا وہاں پہنچ کر کوئی راستہ کا پتہ بتلانے والا مل جائے۔ کہتے ہیں کہ اس پاک میدان میں پہنچ کر عجیب نظارہ دیکھا۔ ایک درخت میں زور شور سے آگ لگ رہی ہے۔ اور آگ جس قدر زور سے بھڑکتی ہے درخت اسی قدر زیادہ سر سبز ہو کر لہلہاتا ہے۔ اور جوں جوں درخت کی سرسبزی و شادابی بڑھتی ہے آگ کا اشتعال تیز ہوتا جاتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے آگ کے قریب جانے کا قصد کیا کہ درخت کی کوئی شاخ جل گرے تو اٹھا لائیں لیکن جتنا وہ آگے سے نزدیک ہونا چاہتے آگ دور ہٹتی جاتی اور جب گھبرا کر ہٹنا چاہتے تو آگ تعاقب کرتی۔ اسی حیرت و ہشت کی حالت میں آواز آئی "اِنِّی اَنَارَبُّکَ” الخ گویا وہ درخت بلاتشبیہ اس وقت غیبی ٹیلیفون کا کام دے رہا تھا۔ امام احمد نے وہب سے نقل کیا ہے کہ موسٰی علیہ السلام نے جب "یاموسیٰ” سنا تو کئی بار "لبیک” کہا اور عرض کیا کہ میں تیری آواز سنتا ہوں اور آہٹ پاتا ہوں مگر یہ نہیں دیکھتا کہ تو کہاں ہے۔ آواز آئی "میں تیرے اوپر ہوں، تیرے ساتھ ہوں، تیرے سامنے ہوں، تیرے پیچھے ہوں، اور تیری جان سے زیادہ تجھ سے نزدیک ہوں۔ ” کہتے ہیں کہ موسٰی علیہ السلام ہر جہت سے اور اپنے ایک ایک بال سے اللہ کا کلام سنتے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو اپنی جوتیاں اتار لو، بیشک تم طوی کے پاک میدان میں ہو۔ (۱۲)
تشریح:کوہ طور کے دامن میں جو وادی ہے اس کا نام طوی ہے، اور یہ ان مقامات میں سے ہے جنہیں اللہ تعالی نے خصوصی تقدس عطا فرمایا ہے، اور جوتے اتارنے کا حکم ایک تو اس وادی کے تقدس کی وجہ سے تھا اور دوسرے یہ موقع جب کہ اللہ تعالی کے ساتھ ہم کلامی کا شرف مل رہا تھا، ادب اور عجز و نیاز کے اظہار کا موقع تھا، اس لئے بھی جوتے اتاردینا مناسب تھا۔
(توضیح القرآن)
اور میں نے تمہیں پسند کیا پس جو وحی کی جائے اس کی طرف کان لگا کر سنو۔ (۱۳)
تشریح:”پسند کیا ہے” یعنی تمام جہان میں سے نبوت و رسالت اور شرف مکالمہ کے لیے چھانٹ لیا۔ اس لیے آگے جو احکام دیئے جائیں انہیں غور و توجہ سے سنو۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو، اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (۱۴)
تشریح:اس میں خالص توحید اور ہر قسم کی بدنی و مالی عبادت کا حکم دیا۔ نماز چونکہ اہم العبادات تھی اس کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا اور اس پر بھی متنبہ فرما دیا گیا کہ نماز سے مقصود اعظم خدا تعالیٰ کی یادگاری ہے۔ گویا نماز سے غافل ہونا خدا کی یاد سے غافل ہونا ہے اور ذکر اللہ (یاد خدا) کے متعلق دوسری جگہ فرما دیا۔ "وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ” یعنی کبھی بھول چوک ہو جائے تو جب یاد آ جائے اسے یاد کرو۔ یہ ہی حکم نماز کا ہے کہ وقت پر غفلت و نسیان ہو جائے تو یاد آنے پر قضا کر لے۔ "فَلْیُصَلِّہَا اِذَاذَکَرَہَا”
(تفسیرعثمانی)
میں چاہتا ہوں کہ اسے پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص کو بدلہ دیا جائے اس کوشش کا جو وہ کرے۔ (۱۵)
تشریح:یعنی اس کے آنے کا وقت سب سے مخفی رکھنا چاہتا ہوں، قیامت کا آنا اس لیے ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کے نیک و بد کا بدلہ ملے اور مطیع و عاصی میں کوئی التباس و اشتباہ باقی نہ رہے یہ توحید و عبادت کے بعد عقیدہ معاد کی تعلیم ہوئی۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
پس تجھے اس سے وہ نہ روک دے، جو اس پر ایمان نہیں رکھتا، اور اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے، پھر تو ہلاک ہو جائے۔ (۱۶)
تشریح:نہ روک دے اس سے یعنی قیامت پر یقین رکھنے سے یا نماز سے۔ اللہ نے موسٰی علیہ السلام کو برے کی صحبت سے منع کیا تو اور کوئی کس شمار میں ہے۔ کذافی الموضح۔ غرض یہ ہے کہ دنیا پرست کافر کی چاپلوسی یا زیادہ نرمی اور مداہنت اختیار نہ کی جائے۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ آدمی بلند مقام سے نیچے پٹک دیا جائے۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیر عثمانی)
اور اے موسی! یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے؟ (۱۷)
تشریح:یہاں سے منصب رسالت کی تمہید شروع ہوتی ہے۔ چونکہ معجزات دے کر فرعون کی طرف بھیجے جانے والے تھے اس لیے اولاً معجزہ عصا کا ذکر فرماتے ہیں۔ یہ سوال کہ تیرے ہاتھ میں کیا چیز ہے۔ اس غرض سے تھا کہ موسٰی علیہ السلام اپنی لاٹھی کی حقیقت اور اس کے منافع کو خوب مستحضر کر لیں تاکہ جو خارق عادت چیز پیش آنے والی تھی اس کا معجزہ ہونا پوری طرح واضح، مستحکم اور اوقع فی النفس ہو۔ یعنی اس وقت خوب دیکھ بھال کر اور جانچ تول کر بتلاؤ، تمہارے ہاتھ میں کیا چیز ہے؟ مباداسانپ بن جانے پر وہم کرنے لگو کہ شاید میں غلطی سے ہاتھ میں لاٹھی نہ لایا ہوں کچھ اور لے آیا ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا یہ میرا عصا ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں، اور اس سے پتے جھاڑتا ہوں اپنی بکریوں پر، اور اس میں میرے اور بھی کئی فائدے ہیں۔ (۱۸)
تشریح:یعنی اس میں شبہ کیا ہے۔ وہ لاٹھی ہے جسے ہمیشہ ہاتھ میں رکھتا ہوں، اس پر ٹیک لگاتا ہوں، بکریوں کے لیے پتے جھاڑتا ہوں، دشمن کو اور موذی جانوروں کو دفع کرتا ہوں اور بہت سی ضرورتوں میں لاٹھی کا کام لیتا ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے فرمایا اے موسیٰ اسے ( زمین پر) ڈال دے۔ (۱۹)
پس اس نے اسے ڈال دیا، تو ناگاہ وہ دوڑتا ہوا سانپ (بن گیا) ۔ (۲۰)
تشریح:یعنی لاٹھی کا زمین پر ڈالنا تھا کہ لاٹھی کی جگہ ایک اژدہا نظر آیا جو پتلے سانپ کی طرح تیزی سے دوڑتا تھا۔ موسٰی علیہ السلام ناگہاں یہ انقلاب دیکھ کر بمقتضائے بشریت خوفزدہ ہو گئے۔
(تفسیرعثمانی)
فرمایا اسے پکڑ لے، اور نہ ڈر، ہم جلد اسے اس کی پہلی حالت میں لوٹا دیں گے۔ (۲۱)
تشریح:یعنی ہاتھ میں آ کر پھر لاٹھی ہو جائے گی۔ کہتے ہیں ابتداء میں موسٰی علیہ السلام کو پکڑنے کی ہمت نہ ہوتی تھی آخر کپڑا ہاتھ میں لپیٹ کر پکڑنے لگے۔ فرشتہ نے کہا "موسیٰ کیا خدا اگر بچانا نہ چاہے تو یہ چیتھڑا تجھے بچا سکتا ہے؟ موسٰی نے کہا "نہیں، لیکن میں کمزور مخلوق ہوں، اور ضعف سے پیدا کیا گیا ہوں۔ ” پھر حضرت موسٰی نے ہاتھ سے کپڑا ہٹا کر اژدھے کے منہ میں دے دیا۔ ہاتھ ڈالنا تھا کہ وہی لاٹھی ہاتھ میں دیکھی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنا ہاتھ اپنے بغل میں لگا لے، وہ کسی عیب کے بغیر سفید (چمکتا ہوا) نکلے گا (یہ) دوسری نشانی ہے۔ (۲۲)
تشریح:یعنی ہاتھ گریبان میں ڈال کر اور بغل سے ملا کر نکالو گے تو نہایت روشن سفید چمکتا ہوا نکلے گا۔ اور یہ سفیدی برص وغیرہ کی نہ ہو گی جو عیب سمجھی جائے۔
(تفسیرعثمانی)
تاکہ ہم تجھے دکھائیں اپنی بڑی نشانیوں میں سے۔ (۲۳)
تشریح:یعنی عصا اور ید بیضا کے معجزے ان بڑی نشانیوں میں سے دو ہیں جن کا دکھلانا تم کو منظور ہے۔ (تفسیرعثمانی)
تو فرعون کی طرف جا، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ (۲۴)
تشریح:اپنے رسول کو دو عظیم الشان معجزوں سے مسلح کرنے کے بعد ان کو حکم دیا گیا کہ فرعون سرکش کو دعوت ایمان دینے کے لئے چلے جائیں۔
(معارف القرآن)
موسیٰ نے کہا، اے میرے رب! میرے لئے کشادہ کر دے میرا سینہ۔ (۲۵)
اور میرے لئے میرا کام آسان کر دے۔ (۲۶)
اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ (۲۷)
کہ وہ میری بات سمجھ لیں۔ (۲۸)
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِیْ :یعنی حلیم و بردبار اور حوصلہ مند بنا دے کہ خلافِ طبع دیکھ کر جلد خفا نہ ہوں اور ادائے رسالت میں جو سختیاں پیش آئیں ان سے نہ گھبراؤں بلکہ کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے برداشت کروں۔
وَيَسِّرْ لِيْ أَمْرِیْ :یعنی ایسا سامان فراہم کر دے کہ یہ عظیم الشان کام آسان ہو جائے۔
وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِيْ :زبان لڑکپن میں جل گئی تھی (جس کا قصہ تفاسیر میں ہے) صاف نہ بول سکتے تھے۔ اس لیے یہ دعا کی۔
(تفسیرعثمانی)
اور میرے لئے میرے خاندان سے میرا وزیر (معاون) بنا دے۔ (۲۹)
میرا بھائی ہارون۔ (۳۰)
اس سے میری قوت مضبوط کر دے۔ (۳۱)
اور اسے شریک کر دے میرے کام میں۔ (۳۲)
تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں۔ (۳۳)
اور کثرت سے تجھے یاد کریں۔ (۳۴)
بیشک تو ہمیں خوب دیکھتا ہے۔ (۳۵)
تشریح:یعنی دونوں مل کر دعوت و تبلیغ کے موقع پر بہت زور شور سے تیری پاکی اور کمالات بیان کریں اور مواضع دعوت سے قطع نظر جب ہر ایک کو دوسرے کی معیت سے تقویت قلب حاصل ہو گی، تو اپنی خلوتوں میں نشاط و طمانیت کے ساتھ تیرا ذکر بکثرت کر سکیں گے۔
إِنَّکَ كُنْتَ بِنَا بَصِيْراً :ہمارے تمام احوال کو خوب دیکھ رہا ہے اور جو دعاء میں کر رہا ہوں یہ بھی تجھے خوب معلوم ہے کہ اس کا قبول فرمانا ہمارے لیے کہاں تک مفید ہو گا۔ اگر تجھے ہمارے حال و استعداد کی پوری خبر نہ ہوتی تو نبوت و رسالت کے لیے ہم کو منتخب ہی کیوں کرتا اور ایسے سخت دشمن (فرعون) کی طرف کیوں بھیجتا۔ یقیناً جو کچھ آپ نے کیا خوب دیکھ بھال کر کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اے موسی! جو تو نے مانگا تحقیق تجھے دے دیا گیا۔ (۳۶)
اور تحقیق ہم نے تجھ پر ایک بار اور بھی احسان کیا تھا۔ (۳۷)
تشریح:یعنی جو کچھ تم نے مانگا، خدا تعالیٰ کی طرف سے تم کو دیا گیا۔ ہم تو پہلے ایک مرتبہ بے مانگے تجھ پر بڑا بھاری احسان کر چکے ہیں، پھر اب ایک مناسب چیز مانگنے پر کیوں نہ دیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
جب ہم نے تیری والدہ کو الہام کیا جو الہام کرنا تھا۔ (۳۸)
تشریح:یعنی خواب میں یا بیداری میں بطور الہام کے یا اس زمانہ کے کسی نامعلوم الاسم نبی کی زبانی تیری ماں کو وہ حکم بھیجا۔ جس کا بھیجا جانا مناسب تھا (اس کی تفصیل آگے مذکور ہے۔ "اَنِ اقْذِفِیْہِ” الخ) (تنبیہ) لفظ "ایحاء” سے حضرت موسٰی کی والدہ کا نبیّہ ہونا ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ تقریر بالا سے ظاہر ہے۔ نبی وہ ہے جس کی طرف احکام کی وحی آئے اور ان کی تبلیغ کا مامور ہو۔ یہاں یہ تعریف صادق نہیں آتی۔
(تفسیرعثمانی)
کہ تو اسے صندوق میں ڈال، پھر صندوق دریا میں ڈال دے، پھر دریا اسے ساحل پر ڈال دے گا، میرا اور اس کا دشمن اس کو لے لے گا (دریا سے نکال لے گا) اور میں نے ڈال دی تجھ پر محبت اپنی طرف سے (کہ مخلوق تجھے محبت کرے) تاکہ تو میرے سامنے پرورش پائے۔ (۳۹)
تشریح: یعنی موسٰی کو (جو اس وقت نوزائیدہ بچہ تھے) صندوق میں رکھ کر صندوق کو دریا میں چھوڑ دے، دریا کو ہمارا حکم ہے کہ اسے بحفاظت تمام ایک خاص کنارہ پر لگائے گا، جہاں سے اس کو وہ شخص اٹھا لے گا جو میرا بھی دشمن ہے اور اس بچہ کا بھی، واقعہ یہ ہے کہ فرعون اس سال نجومیوں کے کہنے سے بنی اسرائیل کے بیٹوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔ جب موسٰی پیدا ہوئے ان کی والدہ کو خوف ہوا کہ فرعون کے سپاہی خبر پائیں گے تو بچہ کو مار ڈالیں گے اور والدین کو بھی ستائیں گے کہ ظاہر کیوں نہیں کیا۔ اس وقت حق تعالیٰ کی طرف سے یہ تدبیر الہام ہوئی۔ موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے صندوق نہر میں ڈال دیا۔ دریا کی ایک شاخ فرعون کے باغ میں گزرتی تھی اس میں سے ہو کر صندوق کنارے جا لگا۔ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ نے (جو نہایت پاکباز اسرائیلی خاتون تھی) بچہ کو اٹھا کر فرعون کے سامنے پیش کیا کہ آؤ ہم تم اسے بیٹا بنا لیں۔ فرعون کو بھی دیکھ کر محبت آئی۔ گو اس نے بیٹا بنانے سے انکار کیا (جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے) مگر آسیہ کی خاطر اسے بیٹوں کی طرح پرورش کیا اور اس طرح حق تعالیٰ کی عجیب و غریب قدرت کا ظہور ہوا۔ (تنبیہ) فرعون کو خدا کا دشمن اس لیے کہا کہ وہ حق کا دشمن تھا اور خدا کے بالمقابل خدائی کا دعویٰ کرتا تھا اور موسیٰ کا دشمن اس لیے فرمایا کہ فی الحال تمام اسرائیلی بچوں کے ساتھ سخت دشمنی کر رہا تھا۔ اور آئندہ چل کر خاص موسٰی علیہ السلام کے ساتھ اعلانیہ دشمنی کا اظہار کرنے والا تھا۔
وَأَلْقَيْتُ عَلَيْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّيْ :ہم نے اپنی طرف سے اس وقت مخلوق کے دلوں میں تیری محبت ڈال دی کہ جو دیکھے محبت اور پیار کرے یا اپنی ایک خاص محبت تجھ پر ڈال دی کہ تو محبوب خدا بن گیا۔ پھر جس سے خدا محبت کرے بندے بھی محبت کرنے لگتے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں تیری محبت ڈال دینا اس غرض سے تھا کہ ہماری نگرانی و حفاظت میں تیری پرورش کی جائے۔ ایسے سخت دشمن کے گھر میں تربیت پاتے ہوئے بھی کوئی تیرا بال بیکا نہ کر سکے۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کر) جب تیری بہن جا رہی تھی تو (فرعون سے) کہہ رہی تھی کیا میں تمہیں (اس کا پتہ) بتاؤں جو اس کی پرورش کرے؟ پس ہم نے تجھے تیری ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کرے، اور تو نے ایک شخص کا قتل کر دیا، تو ہم نے تجھے غم سے نجات دی، اور تجھے کئی آزمائشوں سے آزمایا، پھر تو کئی سال مدین والوں میں ٹھہرا رہا، پھر اے موسی! تو وقت مقررہ پر (مطابق تقدیر الہی) آیا۔ (۴۰)
تشریح: پورا قصہ دوسری جگہ آئے گا۔ حضرت موسٰی کی والدہ صندوق نہر میں چھوڑنے کے بعد بمقتضائے بشریت بہت غمگین اور پریشان تھیں کہ بچہ کا کیا حشر ہوا ہو گا، معلوم نہیں زندہ ہے یا جانوروں نے کھا لیا۔ حضرت موسٰی کی بہن کو کہا کہ خفیہ طور پر پتہ لگا۔ ادھر مشیت ایزدی سے یہ سامان ہوا کہ حضرت موسٰی کسی عورت کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ بہت سی انائیں بلائی گئیں، کامیابی نہ ہوئی۔ موسٰی کی بہن جو تاک میں لگی ہوئی تھی بولی کہ میں ایک عورت کو لا سکتی ہوں، امید ہے کہ کسی طرح دودھ پلا کر بچہ کو پال سکے گی۔ حکم ہوا بلاؤ۔ وہ موسٰی کی والدہ کو لے کر پہنچی۔ چھاتی سے لگاتے ہی بچہ نے دودھ پینا شروع کر دیا۔ فرعون کے گھر بڑی خوشیاں منائی جانے لگیں۔ موسٰی کی والدہ نے کہا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتی اجازت دو کہ اپنے گھر میں لے جاؤں اور پوری حفاظت و اہتمام سے بچہ کو پرورش کروں۔ آخر فرعون کی طرف سے بطور دایہ کے بچہ کی تربیت پر مامور ہو کر اپنے گھر لے آئیں اور شاہانہ اعزازو اکرام کے ساتھ موسٰی کی تربیت میں لگی رہیں۔
یہ پورا قصہ سورہ قصص میں آئے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جوان ہونے کے بعد موسٰی علیہ السلام کے ہاتھ سے ایک قبطی مارا گیا تھا، موسٰی علیہ السلام ڈرے کہ دنیا میں پکڑا جاؤں گا اور آخرت میں بھی ماخوذ ہوں گا۔ دونوں قسم کی پریشانی سے خدا تعالیٰ نے نجات دی، اُخروی پریشانی سے اس طرح کہ توبہ کی توفیق بخشی جو قبول ہو گئی اور دنیاوی سے اس طرح کہ موسٰی علیہ السلام کو مصر سے نکال کر مدین پہنچا دیا جہاں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی سے ان کا نکاح ہو گیا۔ پورا قصہ دوسری جگہ آئے گا۔
وَفَتَنَّاکَ فُتُوْنًا :اللہ تعالیٰ نے تم کو کئی طرح جانچا۔ جس میں تم کھرے ثابت ہوئے۔
ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ يَّا مُوْسٰى: اب مدین سے نکل کر راستہ بھولا اور تقدیر سے یہاں پہنچ گیا جس کا تجھے وہم و گمان بھی نہ تھا، سچ ہے خدا کی دین کا موسٰی سے پوچھیے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیغمبری مل جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے تجھے خاص اپنے لئے بنایا۔ (۴۱)
تم اور تمہارا بھائی دونوں جاؤ میری نشانیوں کے ساتھ، اور میری یاد میں سستی نہ کرنا۔ (۴۲)
تشریح: وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِيْ :یعنی اپنی وحی و رسالت کے لیے تیار کر کے اپنے خواص و مقربین میں داخل کیا اور جس طرح خود چاہا تیری پرورش کرائی۔
(تفسیرعثمانی)
اذْہبْ أَنْتَ وَأَخُوْکَ :جس کام کے لیے بنائے گئے ہو، وقت آ گیا ہے کہ اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لے کر اس کے لیے نکل کھڑے ہو اور جو دلائل و معجزات تم کو دیے گئے ہیں ضرورت کے وقت ظاہر کرو۔ چونکہ موسٰی علیہ السلام پیشتر دعا کرتے وقت کہہ چکے تھے "کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْراً وَّنَذْکُرَکَ کَثِیْراً” یہاں”وَلَاتَنِیَافِیْ ذِکْرِیْ” کہہ کر وہ بات یاد دلا دی۔ یعنی اللہ کے نام کی تبلیغ میں پوری مستعدی دکھلاؤ اور تمام احوال و اوقات میں عموماً اور دعوت تبلیغ کے وقت خصوصاً اللہ کو کثرت سے یاد کرو کہ اہل اللہ کے لیے کامیابی کا بڑا ذریعہ اور دشمن کے مقابلہ میں بہترین ہتھیار یہی ہے۔ حدیث میں ہے۔ "وان عبدی کل عبدی الذی یذکرنی وہومنا جزقرنہ”۔
(تفسیرعثمانی)
تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بیشک وہ سرکش ہو گیا ہے۔ (۴۳)
تشریح:پہلے جانے کا حکم دیا تھا۔ اب مقام بتلا دیا کہ کہاں کس کے پاس جانا ہے اور یہ جملہ آگے آنے والے کلام کی تمہید ہے۔
(تفسیرعثمانی)
تم اس کو نرم بات کہو شائد وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ (۴۴)
تشریح:یعنی دعوت و تبلیغ وعظ و نصیحت کے وقت نرم، آسان، رقت انگیز اور بلند بات کہو۔ گو اس کے تمرد و طغیان کو دیکھتے ہوئے قبول کی امید نہیں۔ تاہم تم یہ خیال کر کے کہ ممکن ہے کہ وہ کچھ سوچ سمجھ کر نصیحت حاصل کر لے یا اللہ کے جلال و جبروت کو سن کر ڈر جائے اور فرمانبرداری کی طرف جھک پڑے، گفتگو نرمی سے کرو۔ اس سے دعاۃ و مبلغین کے لیے بہت بڑا دستور العمل معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ دوسری جگہ صاف ارشاد ہے۔ "اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ” (نحل، رکوع١٦، آیت:١٢٥) ۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے، اے ہمارے رب! بیشک ہم ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی (نہ) کرے یا حد سے (نہ) بڑھے۔ (۴۵)
تشریح:یعنی اس کے ڈرنے کی امید تو بعد کو ہو گی، فی الحال اپنی بے سروسامانی اور اس کے جاہ و جلال پر نظر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ وہ ہماری بات سننے کے لیے بھی آمادہ ہو گا یا نہیں۔ ممکن ہے ہماری پوری بات سننے سے پہلے ہی وہ بھبک پڑے یا سننے کے بعد غصہ میں بپھر جائے اور تیری شان میں زیادہ گستاخی کرنے لگے۔ یا ہم پر دست درازی کرے جس سے اصل مقصد فوت ہو جائے۔ (تنبیہ) موسٰی علیہ السلام کے اس خوف اور شرح صدر میں کچھ منافات نہیں۔ کاملین بلاء کے نزول سے پہلے ڈرتے ہیں اور استعاذہ کرتے ہیں لیکن جب آ پڑتی ہے اس وقت پورے حوصلہ اور کشادہ دلی سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے فرمایا تم ڈرو نہیں، بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں، میں سنتا اور دیکھتا ہوں۔ (۴۶)
تشریح:یعنی جو باتیں تمہارے اور اس کے درمیان ہوں گی یا جو معاملات پیش آئیں گے وہ سب میں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں مَیں کسی وقت تم سے جدا نہیں، میری حمایت و نصرت تمہارے ساتھ ہے۔ گھبرانے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس اس کے پاس جاؤ اور کہو بیشک ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں سزا نہ دے، ہم تیرے رب کی نشانی کے ساتھ آئے ہیں، اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی۔ (۴۷)
تشریح:اس میں تین چیزوں کی طرف دعوت دی گئی۔ (١) فرعون کا اور سب مخلوقات کا کوئی رب ہے جو رسول بھیجتا ہے (٢) ہم دونوں اس کے رسول ہیں لہٰذا ہماری اطاعت اور رب کی عبادت کرنی چاہیے۔ گویا اس جملہ میں اصل ایمان کی دعوت دی گئی اس کو "نازعات” میں اس طرح ادا کیا ہے۔ "فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکیّٰ وَاَہْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی” آگے (٣) تیسری چیز وہ ہے جس کی اس وقت خاص ضرورت تھی۔ یعنی بنی اسرائیل کو فرعونیوں کی ذلت آمیز اور درد انگیز غلامی سے نجات دلانا۔ مطلب یہ ہے کہ اس شریف و نجیب الاصل خاندان پر ظلم و ستم مت توڑ اور ذلیل ترین غلامی سے آزادی دے کر ہمارے ساتھ کر دے۔ جہاں چاہیں آزادانہ زندگی بسر کریں۔ ہمارا دعویٰ رسالت بے دلیل نہیں بلکہ اپنی صداقت پر خدائی نشان لے کر آئے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ عذاب ہے اس پر جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔ (۴۸)
تشریح:یعنی جو ہماری بات مان کر سیدھی راہ چلے گا اس کے لیے دونوں جہان میں سلامتی ہے۔ اور جو تکذیب یا اعراض کرے گا اس کے لیے عذاب یقینی ہے۔ خواہ صرف آخرت میں یا دنیا میں بھی۔ اب تم اپنا انجام سوچ کر جو راستہ چاہو اختیار کر لو۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے موسی! پس تمہارا رب کون ہے؟ (۴۹)
تشریح:یعنی تم اپنے کو جس رب کا بھیجا ہوا بتلاتے ہو وہ رب کون ہے اور کیسا ہے (اس سوال سے مترشح ہوتا ہے کہ فرعون دہری عقیدہ کی طرف مائل ہو گا یا محض دق کرنے کے لیے ایسا سوال کیا ہو) ۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کواس کی شکل و صورت عطا کی پھر اس کی رہنمائی کی۔ (۵۰)
تشریح:یعنی ہر چیز کو اس کی استعداد کے موافق شکل صورت، قویٰ، خواص وغیرہ عنایت فرمائے۔ اور کمال حکمت سے جیسا بنانا چاہیے تھا بنایا۔ پھر مخلوقات میں سے ہر چیز کے وجود و بقاء کے لیے جن سامانوں کی ضرورت تھی، مہیا کیے اور ہر چیز کو اپنی مادی ساخت اور روحانی قوتوں اور خارجی سامانوں سے کام لینے کی راہ سجھائی۔ پھر ایسا محکم نظام دکھلا کر ہم کو بھی ہدایت کر دی کہ مصنوعات کے وجود سے صانع کے وجود پر کسی طرح استدلال کرنا چاہیے فللہ الحمد والمنہ۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی کھانے پینے کو ہوش دیا۔ بچہ کو دودھ پینا وہ نہ سکھائے تو کوئی نہ سکھاس کے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا پھر پہلی جماعتوں کا کیا حال ؟ (۵۱)
موسیٰ نے کہا اس کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں ہے، میرا رب نہ غلطی کرتا ہے، اور نہ بھولتا ہے۔ (۵۲)
تشریح:یعنی اگر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایسی روشن دلیلیں قائم ہو چکی ہیں اور جس چیز کی طرف تم بلاتے ہو، وہ حق ہے تو گذشتہ اقوام کے تفصیلی حالات تم کو ضرور معلوم ہونے چاہئیں، یہ سب لایعنی اور دور از کار قصے فرعون نے اس لیے چھیڑے کہ حضرت موسٰی کے مضامین ہدایت کو ان فضول باتوں میں رلا دے۔ حضرت موسٰی نے فرما دیا کہ پیغمبر کو تمام چیزوں کا تفصیلی علم ہونا ضروری نہیں، ہر قوم کے حالات کا تفصیلی علم حق تعالیٰ کو ہے جو بعض مخفی مصالح کی بناء پر کتاب (لوح محفوظ) میں ثبت بھی کر دیا گیا۔ اللہ کے علم سے نہ کوئی چیز ابتداءً غائب ہو سکتی ہے اور نہ علم میں آئی ہوئی چیز کو ایک سیکنڈ کے لیے بھول سکتا ہے۔ جو اعمال کسی قوم نے کسی وقت کیے ہیں سب کا ذرہ ذرہ حساب لکھا ہوا موجود ہے جو وقت پر پیش کر دیا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور تمہارے لئے چلائیں اس میں راہیں، اور آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس سے سبزی کی مختلف اقسام نکالیں۔ (۵۳)
تشریح:یعنی وادیوں دریاؤں اور پہاڑوں کے بیچ میں سے زمین پر راہیں نکال دیں جن پر چل کر ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ سکتے ہو۔ پانی کے ذریعہ سے طرح طرح کی سبزیاں، غلے اور پھل پھول پیدا کر دیئے۔
(تفسیرعثمانی)
تم کھاؤ اور اپنے مویشی چراؤ، بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۵۴)
اس (زمین) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا، اور اس میں تمہیں لوٹا دیں گے، اور اسی سے ہم تمہیں دوسری بار نکالیں گے۔ (۵۵)
تشریح:سب کے باپ آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے۔ پھر جن غذاؤں سے آدمی کا بدن پرورش پاتا ہے وہ بھی مٹی سے نکلتی ہیں، مرنے کے بعد بھی عام آدمیوں کو جلد یا بدیر مٹی میں مل جانا ہے۔ اسی طرح حشر کے وقت بھی ان اجزاء کو جو مٹی میں مل گئے تھے دوبارہ جمع کر کے از سر نو پیدا کر دیا جائے گا اور جو قبروں میں مدفون تھے وہ ان سے باہر نکالے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اسے (فرعون کو) اپنی تمام نشانیاں دکھائیں تو اس نے جھٹلایا اور انکار کیا۔ (۵۶)
تشریح:یعنی جو آیات اس کو دکھلانا منظور تھیں، سب دکھلا دیں مثلاً القائے عصاء اور ید بیضا وغیرہ مع اپنے متعلقات و تفاصیل کے۔ اس پر بھی بدبخت نہ مانا اور حجود و تکذیب پر اڑا رہا۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے موسی!کیا تو ہمارے پاس آیا ہے کہ تو ہمیں اپنے جادو کے ذریعہ ہماری زمین (ملک) سے نکال دے۔ (۵۷)
تشریح:فرعون نے یہ بات اپنی قوم "قبط” کو موسٰی علیہ السلام کی طرف سے نفرت اور اشتعال دلانے کے لیے کہی۔ یعنی موسٰی علیہ السلام کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ جادو کے زور سے ہم کو نکال باہر کرے اور ساحرانہ ڈھونگ بنا کر عوام کی جمعیت اپنے ساتھ کر لے اور اس طرح قبطیوں کے تمام املاک و اموال پر قابض ہو جائے۔
(تفسیرعثمانی)
پس ہم تیرے مقابل ضرور لائیں گے اس جیسا ایک جادو، پس ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کر لے کہ نہ ہم اس کے خلاف کریں اور نہ تو، ایک ہموار میدان (میں مقابلہ ہو گا) ۔ (۵۸)
تشریح:یعنی تو اس ارادہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا، ہمارے یہاں بھی بڑے بڑے ماہر جادوگر موجود ہیں۔ بہتر ہو گا کہ ان سے مقابلہ ہو جائے۔ پس جس دن اور جس جگہ مقابلہ کرنا چاہے تجھے اس کی تعیین کا اختیار دیا جاتا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ جو وقت معین ہو جائے اس سے کوئی فریق گریز نہ کرے اور جگہ ایسی ہو جہاں فریقین کو آنے اور بیٹھنے میں یکساں سہولت حاصل ہو۔ نشست وغیرہ میں راعی و رعایا یا حاکم و محکوم اور بڑے چھوٹے کا کوئی سوال نہ ہو، ہر ایک فریق آزادی سے اپنی قوت کا مظاہرہ کر سکے اور میدان بھی کھلا، ہموار اور صاف ہو کہ تماشا دیکھنے والے سب بے تکلف مشاہدہ کر سکیں۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے کہا تمہارا وعدہ میلے کا دن ہے اور یہ کہ لوگ دن چڑھے جمع کئے جائیں۔ (۵۹)
تشریح:پیغمبروں کے کام میں کوئی تلبیس و تلمیع نہیں ہوتی، ان کا معاملہ کھلم کھلا صاف صاف ہوتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ بہتر ہے جو بڑا میلہ اور جشن تمہارے یہاں ہوتا ہے اسی روز جب دن چڑھ جائے اس وقت میدانِ مقابلہ قائم ہو۔ یعنی میلہ میں جہاں زیادہ سے زیادہ مخلوق جمع ہو گی اور دن کے اجالے میں یہ کام کیا جائے، تاکہ دیکھنے والے بکثرت ہوں اور روزِ روشن میں کسی کو اشتباہ والتباس نہ ہو۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "دنگل میں مقابلہ کرنے سے دونوں کی غرض تھی۔ وہ چاہے کہ ان کو ہرا دے سب کے روبرو، یہ چاہیں کہ وہ ہارے۔ جشن کا دن سارے مصر کے شہروں میں مقرر تھا فرعون کی سالگرہ کا۔ ”
(تفسیرعثمانی)
پھر لوٹ گیا فرعون، سو اس نے اپنا داؤ (جادو کاسامان) جمع کیا پھر آیا۔ (۶۰)
تشریح:یعنی یہ طے کر کے فرعون مجلس سے اٹھ گیا اور ساحروں کو جمع کرنے اور مہم کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کی تدبیریں اور داؤ گھات کرنے لگا۔ اور آخرکار مکمل تیاری کے بعد پوری طاقت کے ساتھ وقت معین پر میدانِ مقابلہ میں حاضر ہو گیا۔ ساحروں کی بڑی فوج اس کے ہمراہ تھی، انعام و اکرام کے وعدے ہو رہے تھے اور ہر طرح موسٰی کو شکست دینے اور حق کو مغلوب کر لینے کی فکر تھی۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے ان سے کہا تم پر خرابی ہو، اللہ پر نہ گھڑو جھوٹ، کہ وہ تمہیں عذاب سے ہلاک کر دے اور جس نے جھوٹ باندھا وہ نا مراد ہوا۔ (۶۱)
تشریح:معلوم ہوتا ہے کہ اس مجمع میں حضرت موسٰی علیہ السلام نے ہر شخص کو اس کے حسبِ حال نصیحت فرمائی۔ چونکہ جادوگر حق کا مقابلہ جادو سے کرنے والے تھے، ان کو تنبیہ کر دی کہ دیکھو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔ خدا کے نشانوں اور انبیاء کے معجزات کو سحر بتلانا اور بے حقیقت کی چیزوں کو ثابت شدہ حقائق کے مقابلہ میں پیش کرنا گویا اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ جھوٹ باندھنے والوں کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ بلکہ اندیشہ ہے کہ ایسے لوگوں پر کوئی آسمانی آفت آ پڑے۔ جو ان کی بیخ و بنیاد تک نہ چھوڑے۔
(تفسیرعثمانی)
تو وہ (جادو گر) باہم اپنے کام میں جھگڑنے لگے اور انہوں نے چھپ کر مشورہ کیا۔ (۶۲)
تشریح:موسٰی علیہ السلام کی تقریر نے ساحروں کی جماعت میں کھلبلی ڈال دی۔ آپس میں جھگڑنے لگے کہ اس شخص کو کیا سمجھا جائے۔ اس کی باتیں ساحروں جیسی معلوم نہیں ہوتیں۔ غرض باہم بحث و مناظرہ کرتے رہے اور سب سے الگ ہو کر انہوں نے مشورہ کیا۔ آخر اختلاف و نزاع کے بعد فرعون کے اثر سے متاثر ہو کر وہ کہا جو آگے مذکور ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ کہنے لگے تحقیق یہ دونوں جادوگر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری سر زمین سے نکال دیں اپنے جادو کے ذریعہ، اور تمہارا اچھا طریقہ لے جائیں (نابود کر دیں) ۔ (۶۳)
تشریح:یعنی تمہارا جو دین اور رسوم پہلے سے چلی آتی ہیں ان کو مٹا کر اپنا دین اور طور و طریق رائج کر دیں اور جادو کے فن کو بھی جس سے ملک میں تمہاری عزت اور کمائی ہے، چاہتے ہیں کہ دونوں بھائی تم سے لے اڑیں اور تن تنہا خود اس پر قابض ہو جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق آج وہی کامیاب ہو گا جو غالب رہا۔ (۶۴)
تشریح:یعنی موقع کی اہمیت کو سمجھو، وقت کو ہاتھ سے نہ جانے دو، پوری ہمت و قوت سے سب مل کر ان کے گرانے کی تدبیر کرو۔ اور دفعتاً ایسا متفقہ حملہ کر دو کہ پہلے ہی وار میں ان کے قدم اکھڑ جائیں کہ آج کا معرکہ فیصلہ کن معرکہ ہے، آج کی کامیابی دائمی کامیابی ہے۔ جو فریق آج غالب رہے گا وہ ہمیشہ کے لیے منصور و مفلح سمجھا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے اے موسی! یا تو (پہلے اپنا داؤ) ڈال یا ہم پہلے ڈالیں۔ (۶۵)
اس نے کہا (نہیں) بلکہ تم ڈالو، تو ناگہاں ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں اس (موسی) کے خیال میں آئیں (ایسے نمودار ہوئیں) ان کے جادو سے، گویا کہ وہ دوڑ رہی ہیں۔ (۶۶)
تشریح:موسٰی علیہ السلام نے نہایت بے پروائی سے جواب دیا کہ نہیں، تم پہلے اپنے حوصلے نکال لو اور اپنے کرتب دکھا لو۔ تاکہ باطل کی زور آزمائی کے بعد حق کا غلبہ پوری طرح نمایاں ہو۔ یہ قصہ سورہ اعراف میں گزر چکا وہاں کے فوائد ملاحظہ کر لیے جائیں۔
ساحرین کی نظر بندی سے موسٰی علیہ السلام کو یوں خیال ہونے لگا گویا رسیاں اور لاٹھیاں سانپوں کی طرح دوڑ رہی ہیں، اور واقعہ میں ایسا نہ تھا۔
(تفسیرعثمانی)
تو موسیٰ نے اپنے دل میں کچھ خوف محسوس کیا۔ (۶۷)
تشریح:کہ جادو گروں کا یہ سوانگ دیکھ کر کہیں بیوقوف لوگ دھوکہ میں نہ پڑ جائیں اور سحر و معجزہ میں فرق نہ کر سکیں۔ ایسی صورت میں حق کا غلبہ واضح نہ ہو گا۔ خوف کا یہ مطلب آگے جواب سے ظاہر ہوتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
ہم نے کہا تم ڈرو نہیں، بیشک تم ہی غالب رہو گے۔ (۶۸)
تشریح:یعنی ڈر کو دل سے نکال دو۔ اس قسم کے وسوسے مت لاؤ۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب اور سربلند رکھنے والا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور آج جو تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے ڈالو وہ نگل جائے گا جو کچھ انہوں نے بنایا ہے، بیشک (جو کچھ) انہوں نے بنایا ہے وہ جادو کا فریب ہے، اور وہ جادو گر کہیں آئے وہ کامیاب نہیں ہوتا۔ (۶۹)
تشریح: یعنی اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دو جو ان کے بنائے ہوئے سوانگ کا ایک دم لقمہ کر جائے گی۔ جادوگر کے ڈھکوسلے چاہے کہیں ہوں اور کسی حد تک پہنچ جائیں، حق کے مقابل کامیاب نہیں ہو سکتے نہ جادوگر کبھی فلاح پا سکتا ہے۔ اسی لیے حدیث میں ساحر کے قتل کا حکم دیا گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس جادوگر سجدہ میں ڈال دئیے گئے (گر پڑے) ، وہ بولے ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ (۷۰)
تشریح:ساحرین فن کے جاننے والے تھے۔ اصول فن کے اعتبار سے فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر نہیں ہو سکتا، یقیناً سحر سے اوپر کوئی اور حقیقت ہے، دل میں ایمان آیا اور سجدہ میں گر پڑے۔ یہ قصہ سورہ اعراف میں گزر چکا۔
(تفسیرعثمانی)
فرعون نے کہا تم اس پر ایمان لے آئے (اس سے) پہلے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ (موسی) تمہارا بڑا ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، پس میں ضرور کاٹ ڈالوں گا تمہارے ہاتھ پاؤں (جانب) خلاف سے (ایک طرف کا ہاتھ دوسری طرف کا پاؤں) اور میں ضرور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا، اور تم خوب جان لو گے ہم میں کون عذاب میں سخت ہے، اور تا دیر رہنے والا ہے۔ (۷۱)
تشریح:یعنی ہم سے بے پوچھے ہی ایمان لے آئے۔ ہمارے فیصلہ کا بھی انتظار نہ کیا۔ معلوم ہو گیا کہ یہ تمہاری اور موسٰی کی ملی بھگت ہے، جنگ زر گری کر کے عوام کو دھوکہ دینا چاہتے ہو۔ (تفسیرعثمانی)
تم ایمان لا کر سمجھے ہو کہ ہم ہی ناجی ہیں اور دوسرے لوگ (یعنی فرعون اور اس کے ساتھی) سب ابدی عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ سو ابھی تم کو معلوم ہوا چاہتا ہے کہ کس کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر تک رہنے والا ہے۔ (تفسیرعثمانی)
انہوں نے کہا ہم تجھے ہر گز ترجیح نہ دیں گے ان واضح دلائل پر جو ہمارے پاس آئے ہیں اور اس پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے، پس تو کر گزر جو تو کرنے والا ہے، اس کے سوا نہیں کہ تو (صرف) اس دنیا کی زندگی میں کرے گا۔ (۷۲)
بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور اس کے بارے میں جو ت ونے ہمیں جادو سے مجبور کیا، اور اللہ بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ (۷۳)
تشریح:یعنی ہم ایسے صاف دلائل کو تیری خاطر سے نہیں چھوڑ سکتے اور اپنے خالق حقیقی کی خوشنودی کے مقابلہ میں تیری کچھ پروا نہیں کر سکتے۔ اب جو تو کر سکتا ہے کر گزر۔ تیرا بڑا زور یہ ہی چل سکتا ہے کہ ہماری اس فانی زندگی کو ختم کر دے۔ سو کچھ مضائقہ نہیں، ہم پہلے ہی دار الفناء کے مقابلہ میں دار القرار کو اختیار کر چکے ہیں۔ ہم کو اب یہاں کے رنج و راحت کی فکر نہیں۔ تمنا صرف یہ ہے کہ ہمارا مالک ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے عام گناہوں کو خصوصاً اس گناہ کو جو تیری حکومت کے خوف سے زبردستی کرنا پڑا (یعنی حق کا مقابلہ جادو سے) معاف فرما دے۔ کہتے ہیں کہ جادوگر حضرت موسٰی کے نشان دیکھ کر سمجھ گئے تھے کہ یہ جادو نہیں۔ مقابلہ نہ کرنا چاہیے، پھر فرعون کے ڈر سے کیا۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک وہ جو اپنے رب کے سامنے آیا مجرم بن کر تو بیشک اس کے لئے جہنم ہے نہ وہ اس میں مرے گا اور نہ جئے گا۔ (۷۴)
تشریح:یعنی انسان کو چاہیے کہ اول آخرت کی فکر کرے۔ لوگوں کا مطیع بن کر خدا کا مجرم نہ بنے۔ اس کے مجرم کا ٹھکانہ بہت برا ہے جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہیں۔ دنیا کی تکلیفیں کتنی ہی شاق ہوں موت آ کر سب کو ختم کر دیتی ہے۔ لیکن کافر کو دوزخ میں موت بھی نہیں آئے گی جو تکالیف کا خاتمہ کر دے، اور جینا بھی جینے کی طرح کا نہ ہو گا، زندگی ایسی ہو گی کہ موت کو ہزار درجہ اس پر ترجیح دے گا، العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو اس کے پاس مؤمن بن کر آیا، اور اس نے اچھے عمل کئے، پس یہی لوگ ہیں جن کے درجے بلند ہیں۔ (۷۵)
ہمیشہ رہنے والے باغات، جاری ہیں ان کے نیچے نہریں، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ جزا ہے (اس کی) جو پاک ہوا۔ (۷۶)
اور تحقیق ہم نے وحی کی موسیٰ کو کہ راتوں رات میرے بندوں کو (نکال) لے جا، ان کے لئے دریا میں (عصا مار کر) خشک راستہ بنا لینا، نہ پکڑنے کا خوف ہو گا اور نہ (غرق ہونے کا) ڈر ہو گا۔ (۷۷)
پھر فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا تو انہیں دریا (کی موجوں) نے ڈھانپ لیا، جیسا کہ ڈھانپ لیا (بالکل غرق کر دیا) ۔ (۷۸)
تشریح: جب فرعونیوں نے میدان مقابلہ میں شکست کھائی، ساحرین مشرف بایمان ہو گئے۔ بنی اسرائیل کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ اور موسٰی علیہ السلام نے سالہا سال تک اللہ تعالیٰ کی آیات باہرہ دکھلا کر ہر طرح حجت تمام کر دی۔ اس پر بھی فرعون حق کو قبول کرنے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ تب حق تعالیٰ نے حکم دیا کہ سب بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر رات کے وقت مصر سے ہجرت کر جاؤ تاکہ اس طرح بنی اسرائیل کی مظلومیت اور غلامی کا خاتمہ ہو۔ راستہ میں سمندر (بحر قلزم) حائل ہو گا لیکن تم جیسے اولوالعزم پیغمبر کے راستہ میں سمندر کی موجیں حائل نہیں ہونی چاہئیں۔ ان ہی کے اندر سے اپنے لیے خشک راستہ نکال لو۔ جس سے گزرتے ہوئے نہ غرق ہونے کا اندیشہ کرو اور نہ اس بات کا کہ شاید دشمن پیچھے سے تعاقب کرتا ہوا آ پکڑے۔ چنانچہ موسٰی علیہ السلام نے اسی ہدایت کے موافق سمندر میں لاٹھی ماری جس سے پانی پھٹ کر راستہ نکل آیا۔ خدا نے ہوا کو حکم دیا کہ زمین کو فوراً خشک کر دے۔ چنانچہ آناً فاناً سمندر کے بیچ خشک راستہ تیار ہو گیا جس کے دونوں طرف پانی کے پہاڑ کھڑے ہوئے تھے "فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ” بنی اسرائیل اس پر سے بے تکلف گزر گئے۔ پیچھے سے فرعون اپنے عظیم الشان لشکر کو لیے تعاقب کرتا آ رہا تھا۔ خشک راستہ دیکھ کر ادھر ہی گھس پڑا۔ جس وقت بنی اسرائیل عبور کر گئے اور فرعونی لشکر راستہ کے بیچوں بیچ پہنچا، خدا تعالیٰ نے سمندر کو ہر طرف سے حکم دیا کہ ان سب کو اپنی آغوش میں لے لے۔ پھر کچھ نہ پوچھو کہ سمندر کی موجوں نے کس طرح ان سب کو ہمیشہ کے لیے ڈھانپ لیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا اور ہدایت نہ دی۔ (۷۹)
تشریح:یعنی دعوے تو زبان سے بہت کیا کرتا تھا۔ "وَمَا اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ” لیکن اس نے اپنی قوم کو کیسا اچھا راستہ بتلایا۔ و ہی مثال سچی کر دی کہ "ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ ” جو حال دنیا میں ہوا تھا وہی آخرت میں ہو گا۔ یہاں سب کو لے کر سمندر میں ڈوبا تھا وہاں سب کو ساتھ لے کر جہنم میں گرے گا۔ "یَقْدُمُ قَوْمَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَاَوْرَدَہُمُ النَّارَ” (ھود، رکوع٩، آیت:٩٨) ۔
(تفسیرعثمانی)
اے بنی اسرائیل (اولاد یعقوب) ! تحقیق ہم نے تمہارے دشمن سے تمہیں نجات دی اور کوہ طور کے دائیں جانب تم سے (توریت عطا کرنے کا) وعدہ کیا اور ہم نے تم پر اتارا من اور سلوی۔ (۸۰)
جو ہم نے تمہیں دیا اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ، اور اس میں سرکشی نہ کرو کہ تم پر اترے میرا غضب، اور جس پر میرا غضب اترا وہ نیست و نابود ہوا۔ (۸۱)
تشریح:یہ حق تعالیٰ بنی اسرائیل کو نصیحت فرماتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تم پر کیسے کیسے احسان و انعام کیے، چاہیے کہ ان کا حق ادا کرو۔ کیا یہ تھوڑی بات ہے کہ ایسے سخت جابر و قاہر دشمن کے ہاتھوں سے تم کو نجات دی اور اس کو کیسے عبرتناک طریقہ سے تمہاری آنکھوں کے سامنے ہلاک کیا۔ پھر بتوسط حضرت موسٰی علیہ السلام کے تم سے وعدہ ٹھہرا کہ مصر سے شام کو جاتے ہوئے کوہ "طور” کا جو مبارک و میمون حصہ داہنے ہاتھ پڑتا ہے وہاں آؤ تم کو "تورات” عطا کی جائے گی۔ "تِیہ” کے لق و دق میدان میں تمہارے کھانے کے لیے من و سلویٰ اتارا گیا (جس کا ذکر سورہ بقرہ میں گزر چکا ہے) ان احسانات کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حلال طیب لذیذ اور ستھری چیزیں عنایت فرمائیں ہیں انہیں شوق سے استعمال کرو۔ لیکن اس معاملہ میں حد سے نہ گزرو مثلاً ناشکری یا فضول خرچی کرنے لگو۔ یا اس فانی تنعم پر اِترانے لگو۔ یا اس میں سے حقوق واجبہ ادا نہ کرو۔ یا اللہ کی دی ہوئی دولت معاصی میں خرچ کرنے لگو۔ یا جہاں اور جس وقت جوڑ کر رکھنے کی ممانعت ہے وہاں جوڑنے کے پیچھے پڑ جاؤ، غرض خدا کی نعمتوں کو طغیان و عصیان کا آلہ نہ بناؤ۔ زیادتی کرو گے تو اللہ کا غضب تم پر نازل ہو گا اور ذلت و عذاب کے تاریک غاروں میں پٹک دیئے جاؤ گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک میں بڑا بخشنے والا ہوں اس کو جس نے توبہ کی، اور وہ ایمان لایا اور اس نے عمل کیا نیک، پھر ہدایت پر رہا۔ (۸۲)
تشریح:مغضوبین کے بالمقابل یہ مغفورین کا بیان ہوا۔ یعنی کتنا ہی بڑا مجرم ہو اگر سچے دل سے تائب ہو کر ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر لے اور اسی پر موت تک مستقیم رہے تو اللہ کے یہاں بخشش اور رحمت کی کمی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اے موسی! اور کیا چیز تجھے اپنی قوم سے جلد لائی (کیوں جلدی کی) ؟ (۸۳)
اس نے کہا وہ یہ میرے پیچھے (آرہے ہیں) میں نے تیری طرف (آنے میں) جلدی کی تاکہ تو راضی ہو۔ (۸۴)
تشریح:حضرت موسٰی علیہ السلام حسب وعدہ نہایت اشتیاق کے ساتھ کوہِ طور پر پہنچے۔ شاید قوم کے بعض نقباء کو بھی ہمراہ لے جانے کا حکم ہو گا وہ ذرا پیچھے رہ گئے۔ حضرت موسٰی شوق میں آگے بڑھے چلے گئے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ! ایسی جلدی کیوں کی کہ قوم کو پیچھے چھوڑ آئے۔ عرض کیا کہ اے پروردگار! تیری خوشنودی کے لیے جلد حاضر ہو گیا۔ اور قوم بھی کچھ زیادہ دور نہیں یہ میرے پیچھے چلی آ رہی ہے۔ کذا فی التفاسیر و یحتمل غیر ذلک واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا پس ہم نے تحقیق تیری قوم کو آزمائش میں ڈالا، اور انہیں سامری نے گمراہ کیا۔ (۸۵)
تشریح:یعنی تم تو ادھر آئے اور ہم نے تیری قوم کو ایک سخت آزمائش میں ڈال دیا، جس کا سبب عالم اسباب میں سامری بنا ہے کیونکہ اس کے اغواء و اضلال سے بنی اسرائیل نے موسٰی علیہ السلام کی غیبت میں بچھڑا پوجنا شروع کر دیا تھا۔ جس کا قصہ سورہ اعراف میں گزر چکا ہے۔ (تنبیہ) سامری کا نام بھی بعض کہتے ہیں موسٰی تھا۔ بعض کے نزدیک یہ اسرائیلی تھا بعض کے نزدیک قبطی۔ بہرحال جمہور کی رائے یہ ہے کہ یہ شخص حضرت موسٰی علیہ السلام کے عہد کا منافق تھا اور منافقین کی طرح فریب اور چالبازی سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی فکر میں رہتا تھا۔ ابن کثیر کی روایت کے موافق کتب اسرائیلیہ میں اس کا نام ہارون ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس موسیٰ اپنی قوم کی طرف لوٹے، غصہ میں بھرے ہوئے، افسوس کرتے ہوئے، کہا اے میری قوم! کیا تم سے تمہارے رب نے اچھا وعدہ نہیں کیا تھا؟ کیا طویل ہو گئی تم پر (میری جدائی کی) مدت؟ یا تم نے چاہا کہ تم پر تمہارے رب کا غضب اترے؟ پھر تم نے خلاف کیا میرے وعدہ کے (وعدہ خلافی کی) ۔ (۸۶)
تشریح: یعنی میری اتباع میں تم کو دینی و دنیاوی ہر طرح کی بھلائی پہنچے گی۔ چنانچہ بہت سی عظیم الشان بھلائیاں ابھی ابھی تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو اور جو باقی ہیں وہ بھی عنقریب ملنے والی ہیں۔ کیا اس وعدہ کو بہت زیادہ مدت گزر گئی تھی کہ تم پچھلے احسانات کو بھول گئے اور اگلے انعامات کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہو؟ یا جان بوجھ کر تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کی؟ اور دین توحید پر قائم نہ رہ کر خدا کا غضب مول لیا (کذا فسرہ ابن کثیر رحمہ اللہ) یا یہ مطلب لیا جائے کہ تم سے حق تعالیٰ نے تیس چالیس روز کا وعدہ کیا تھا کہ اتنی مدت موسٰی علیہ السلام "طور” پر معتکف رہیں گے، تب تورات شریف ملے گی۔ تو کیا بہت زیادہ مدت گزر گئی کہ تم انتظار کرتے کرتے تھک گئے؟ اور گوسالہ پرستی اختیار کر لی، یا عمداً یہ حرکت کی ہے تاکہ غضب الٰہی کے مستحق بنو۔ اور "اَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ” سے مراد وہ وعدہ ہے جو بنی اسرائیل نے موسٰی علیہ السلام سے کیا تھا کہ آپ ہم کو خدا کی کتاب لا دیجئے ہم اسی پر عمل کیا کریں گے۔ اور آپ کے اتباع پر مستقیم رہیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے ہم نے اپنے اختیار سے تمہارے وعدہ کے خلاف نہیں کیا، بلکہ ہم پر بوجھ لادا گیا (فرعون) کی قوم کے زیور کا، توہم نے اسے (آگ میں) ڈال دیا، پھر اسی طرح سامری نے ڈالا۔ (۸۷)
تشریح:یعنی ہم نے اپنے اختیار سے از خود ایسا نہیں کیا، یہ حرکت ہم سے سامری نے کرائی۔ صورت یہ ہوئی کہ قوم فرعون کے زیورات کا جو بوجھ ہم پر لدا ہوا تھا اور سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اسے کیا کریں۔ وہ ہم نے باہمی مشورہ کے بعد اپنے سے اتار پھینکا۔ اس کو آگ میں پگھلا کر سامری نے ڈھال لیا اور بچھڑے کی صورت بنا کر کھڑی کر دی۔ یہ قصہ سورہ اعراف میں گزر چکا ہے وہاں اس کے فوائد دیکھ لیے جائیں۔ (تنبیہ) قوم فرعون کے یہ زیورات کس طرح بنی اسرائیل کے ہاتھ آئے تھے؟ یا ان سے مستعار لیے تھے۔ یا مال غنیمت کے طور پر ملے یا اور کوئی صورت ہوئی۔ اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ کوئی صورت بھی ہو، بنی اسرائیل ان کا استعمال اپنے لیے جائز نہیں سمجھتے تھے، لیکن غضب ہے کہ اس کا بت بنا کر پوجنا جائز سمجھا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے ہم نے اپنے اختیار سے تمہارے وعدہ کے خلاف نہیں کیا، بلکہ ہم پر بوجھ لادا گیا (گویا) ایک قالب جس کی آواز گائے کی تھی، پھر انہوں نے کہا یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا معبود ہے، وہ (موسی) تو بھول گیا ہے۔ (۸۸)
تشریح:یعنی موسٰی سے بھول ہوئی کہ خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کے لیے طور پر گئے۔ خدا تو یہاں موجود ہے۔ یعنی یہ ہی بچھڑا العیاذ باللہ۔ شاید یہ قول ان میں سے سخت غالیوں کا ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
بھلا کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ (بچھڑا) ان کی طرف بات نہیں پھیرتا (ان کو جواب نہیں دیتا) نہ ان کے نقصان کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نفع کا۔ (۸۹)
تشریح:یعنی اندھوں کو اتنی موٹی بات بھی نہیں سوجھتی کہ جو مورتی نہ کسی سے بات کر سکے نہ کسی کو ادنیٰ ترین نفع نقصان پہنچانے کا اختیار رکھے، وہ معبود یا خدا کس طرح بن سکتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق ان سے ہارون نے اس سے پہلے کہا تھا کہ اے میری قوم! اس کے سوا نہیں کہ تم اس سے آزمائے گئے ہو اور بیشک تمہارا رب رحمن ہے سو میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔ (۹۰)
تشریح:یعنی حضرت ہارون نرمی سے زبانی فہمائش کر چکے تھے کہ جس بچھڑے پر تم مفتون ہو رہے ہو، وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ تمہارا پروردگار اکیلا رحمان ہے۔ جس نے اب تک خیال کرو کس قدر رحمتوں کی بارش تم پر کی ہے۔ اسے چھوڑ کر کدھر جا رہے ہو۔ میں موسٰی کا جانشین ہوں اور خود نبی ہوں اگر اپنا بھلا چاہتے ہو تو لازم ہے کہ میری راہ چلو اور میری بات مانو۔ سامری کے اغواء میں مت آؤ۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے کہا ہم ہر گز اس سے جدا نہ ہوں گے جمے ہوئے (بیٹھے رہیں گے) یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف لوٹے۔ (۹۱)
تشریح:یعنی موسٰی کے واپس آنے تک تو ہم اس سے ٹلتے نہیں ان کے آنے پر دیکھا جائے گا جو کچھ مناسب معلوم ہو گا کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس (موسی) نے کہا اے ہارون! جب تو نے دیکھا وہ گمراہ ہو گئے ہیں تجھے کس چیز نے روکا (۹۲)
میری پیروی کرنے سے ؟ تو کیا تو نے میرے حکم کی نافرمانی کی۔ (۹۳)
تشریح:یعنی تم کو اپنا خلیفہ بنا کر اور حکم کر کے گیا تھا کہ میری غیبت میں ان کی اصلاح کرنا اور مفسدین کے راستہ پر نہ چلنا۔ پھر تم نے کیا اصلاح کی؟ کیوں اپنے موافقین کو ساتھ لے کر ان گوسالہ پرستوں کا سختی سے مقابلہ نہ کیا؟ اگر یہ نہ ہو سکتا تھا تو ان سے منقطع ہو کر میرے پاس کیوں نہیں چلے آئے؟ غرض تم نے ایسی صریح گمراہی کو دیکھ کر میرے طریق کار کی پیروی کیوں نہیں کی؟
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میرے ماں جائے! میری داڑھی اور سر (کے بال) نہ پکڑیں، بے شک میں ڈرا کہ تم کہو کہ تو نے تفرقہ ڈال دیا بنی اسرائیل کے درمیان، اور میری بات کا خیال نہ رکھا۔ (۹۴)
تشریح: حضرت موسٰی علیہ السلام نے فرطِ جوش میں ہارون علیہ السلام کی داڑھی اور سر کے بال پکڑ لیے تھے۔ اس کی مفصل بحث سورہ اعراف کے فوائد میں گزر چکی۔ میری سمجھ میں یہ ہی آیا کہ تمہارے آنے کا انتظار کرنا اس سے بہتر ہے کہ تمہارے پیچھے کوئی ایسا کام کروں جس سے بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑ جائے۔ کیونکہ ظاہر ہے اگر مقابلہ یا انقطاع ہوتا تو کچھ لوگ میرے ساتھ ہوتے اور بہت سے مخالف رہتے۔ مجھے ڈر ہوا کہ تم آ کر یہ الزام نہ دو کہ میرا انتظار کیوں نہ کیا؟ اور قوم میں ایسا تفرقہ کیوں ڈال دیا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "چلتے وقت موسٰی ہارون کو نصیحت کر گئے تھے کہ سب کو متفق رکھیو۔ اس لیے انہوں نے بچھڑا پوجنے والوں کا مقابلہ نہ کیا۔ زبان سے البتہ سمجھایا وہ نہ سمجھے "بلکہ ان کے قتل پر تیار ہونے لگے "وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ”
(تفسیرعثمانی)
(پھر موسیٰ نے سامری سے) کہا اے سامری! تیرا کیا حال ہے۔ (۹۵)
تشریح:ادھر سے فارغ ہو کر موسٰی علیہ السلام نے سامری کو ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ اب تو اپنی حقیقت بیان کر۔ یہ حرکت تو نے کس وجہ سے کی؟ اور کیا اسباب پیش آئے کہ بنی اسرائیل تیری طرف جھک پڑے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولا میں نے وہ دیکھا جس کو انہوں نے نہیں دیکھا، پس میں نے فرشتے کے نقش قدم سے ایک مٹھی بھر لی تو میں نے وہ (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دی، اور اسی طرح میرے نفس نے مجھے پھسلایا۔ (۹۶)
تشریح:سامری نے کہا کہ مجھ کو ایک ایسی چیز نظر پڑی جو اوروں نے نہیں دیکھی تھی۔ یعنی خدا کے بھیجے ہوئے فرشتہ (جبرائیل) کو گھوڑے پر سوار دیکھا۔ شاید یہ اس وقت ہوا ہو جب بنی اسرائیل دریا میں گھسے اور پیچھے پیچھے فرعون کا لشکر گھسا اس حالت میں جبرئیل دونوں جماعتوں کے درمیان میں کھڑے ہو گئے تاکہ ایک کو دوسرے سے ملنے نہ دیں۔ بہرحال سامری نے کسی محسوس دلیل سے یا وجدان سے یا کسی قسم کے تعارفِ سابق کی بناء پر سمجھ لیا کہ یہ جبرئیل ہیں ان کے پاؤں یا ان کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی۔ وہ ہی اب سونے کے بچھڑے میں ڈال دی۔ کیونکہ اس کے جی میں یہ بات آئی کہ روح القدس کی خاکِ پا میں یقیناً کوئی خاص تاثیر ہو گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے، اس میں مٹی پڑی برکت کی، حق اور باطل مل کر ایک کرشمہ بن گیا کہ جاندار کی طرح کی روح اور آواز اس میں ہو گئی۔ ” ایسی چیزوں سے بہت بچنا چاہیے۔ اسی سے بت پرستی بڑھتی ہے۔ (تنبیہ) آیت کی جو تفسیر اوپر بیان ہوئی، صحابہ و تابعین اور علمائے مفسرین سے یہ ہی منقول ہے۔ بعض زائغین نے اس پر جو طعن کیے ہیں اور آیت کی دور از صواب تاویلیں کی ہیں، ان کا کافی جواب صاحب روح المعانی نے دیا ہے۔ یہاں اس قدر بسط کا موقع نہیں۔ من شآء فلیراجعہ۔
(تفسیرعثمانی)
موسیٰ نے کہا پس تو جا بیشک تیرے لئے زندگی میں (یہ سزا) ہے تو کچھ کہتا پھرے کہ نہ چھونا مجھے، اور بیشک تیرے لئے ایک وقت مقرر ہے، ہر گز تجھ سے خلاف نہ ہو گا (نہ ٹلے گا) اور آپ نے معبود کی طرف دیکھ جس پر تو (بیٹھا) رہتا تھا جما ہوا، ہم اسے البتہ جلا دیں گے پھر اس (کی راکھ) اڑا کر دریا میں ضرور بکھیر دیں گے۔ (۹۷)
تشریح: یعنی مجھے ہاتھ مت لگاؤ مجھ سے علیحدہ رہو، چونکہ اس نے بچھڑا کا ڈھونگ بنایا تھا حُبِ جاہ و ریاست سے کہ لوگ اس کے ساتھ ہوں اور سردار مانیں اس کے مناسب سزا ملی کہ کوئی پاس نہ پھٹکے، جو قریب جائے وہ خود دور رہنے کی ہدایت کر دے۔ اور دنیا میں بالکل ایک ذلیل، اچھوت اور وحشی جانور کی طرح زندگی گزارے۔
حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "دنیا میں اس کو یہ ہی سزا ملی کہ لشکر بنی اسرائیل سے باہر الگ رہتا۔ اگر وہ کسی سے ملتا یا کوئی اس سے تو دونوں کو تپ چڑھتی، اسی لیے لوگوں کو دور دور کرتا۔ اور یہ جو فرمایا کہ ایک وعدہ ہے جو خلاف نہ ہو گا۔ شاید مراد عذاب آخرت ہے اور شاید دجال کا نکلنا، وہ بھی یہود میں سامری کے فساد کی تکمیل کرے گا۔ جیسے ہمارے پیغمبر مال بانٹتے ہیں، ایک شخص نے کہا انصاف سے بانٹو۔ فرمایا "اس کی جنس کے لوگ نکلیں گے” وہ خارجی نکلے کہ اپنے پیشواؤں پر لگے اعتراض پکڑنے، جو کوئی دین کے پیشواؤں پر طعن کرے ایسا ہی ہے۔ ”
تیری سزا تو یہ ہوئی۔ اب تیرے جھوٹے معبود کی قلعی بھی کھولے دیتا ہوں۔ جس بچھڑے کو تو نے خدا بنایا اور دن بھر وہاں دل جمائے بیٹھا رہتا تھا، ابھی تیری آنکھوں کے سامنے توڑ پھوڑ کر اور جلا کر راکھ کر دوں گا۔ پھر راکھ کو دریا میں بہا دوں گا۔ تاکہ اس کے پجاریوں کو خوب واضح ہو جائے کہ وہ دوسروں کو تو کیا نفع نقصان پہنچا سکتا، خود اپنے وجود کی بھی حفاظت نہیں کر سکتا۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے سوا نہیں کہ تمہارا معبود اللہ ہے، وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اس کا علم ہر شے پر محیط ہے۔ (۹۸)
تشریح:باطل کو مٹانے کے ساتھ ساتھ حضرت موسٰی علیہ السلام قوم کو حق کی طرف بلاتے جاتے ہیں یعنی بچھڑا تو کیا چیز ہے کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی معبود نہیں بن سکتی، سچا معبود تو وہ ہی ایک ہے جس کے سوا کسی کی بندگی عقلاً و نقلاً و فطرۃً روا نہیں اور جس کا لامحدود علم ذرہ ذرہ کو محیط ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اسی طرح ہم تم سے (وہ) احوال بیان کرتے ہیں جو گزر چکے، اور تحقیق ہم نے تمہیں اپنے پاس سے کتاب نصیحت (قرآن) دیا۔ (۹۹)
تشریح: یعنی موسٰی و فرعون کی طرح اور بہت سی گذشتہ اقوام کے واقعات ہم تجھ کو اور تیرے ذریعہ سے تمام دنیا کو سناتے رہتے ہیں جس میں بہت سے فوائد ہیں مثلاً علم کی توقیر، معجزات کی تکثیر، پیغمبر اور مسلمانوں کی تسلی، عقلمندوں کے لیے عبرت و تذکیر اور معاندین کے حق میں تہدید و ترہیب کا سامان ہوتا ہے۔ وَقَدْ اٰتَيْنَاکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِكْراً :قرآنِ کریم جو ان عبرت آموز واقعات و حقائق پر مشتمل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جس نے اس سے منہ پھیرا وہ بے شک لادے گا قیامت کے دن بھاری بوجھ۔ (۱۰۰)
وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور برا ہے ان کے لئے قیامت کے دن کا بوجھ۔ (۱۰۱)
تشریح:یعنی اعراض و تکذیب سے جو گناہوں کا بوجھ قیامت کے دن ان پر لادا جائے گا، کبھی ہلکا نہ ہو گا۔ ہمیشہ اس کے نیچے دبے رہیں گے، پھر اس کا اٹھانا کوئی ہنسی کھیل نہیں جب اٹھائیں گے تو پتہ چلے گا کہ کیسے برے اور سخت بوجھ کے نیچے دبائے گئے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جس دن صور میں پھونک ماری جائے گی اور ہم مجرموں کو اکھٹا کریں گے اس دن (ان کی) آنکھیں نیلی (بے نور ہوں گی) ۔ (۱۰۲)
تشریح:یعنی محشر میں لائے جانے کے وقت اندھے ہوں گے۔ یا شاید یوں ہی آنکھیں نیلی ہوں بد نمائی کے واسطے، بہرحال اگر پہلے معنی لیے جائیں تو یہ ایک خاص وقت کا ذکر ہے۔ پھر آنکھیں کھول دی جائیں گی تاکہ دوزخ وغیرہ کو دیکھ سکیں۔ وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ الایہ (الکہف، رکوع٧، آیت:٥٣) اَسْمِعْ بِہِمْ وَاَبْصِرْ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا (مریم، رکوع٢، آیت:٣٨) ۔
(تفسیرعثمانی)
آپس میں آہستہ آہستہ کہیں گے تم (دنیا میں) صرف دس دن رہے ہو۔ (۱۰۳)
تشریح:یعنی آخرت کا طول اور وہاں کے ہولناک احوال کی شدت کو دیکھ کر دنیا میں یا قبر میں رہنا اتنا کم نظر آئے گا کہ گویا ہفتہ عشرہ سے زیادہ نہیں رہے۔ بڑی جلدی دنیا ختم ہو گئی۔ یہاں کے مزے اور لمبی چوڑی امیدیں سب بھول جائیں گے۔ بیہودہ عمر ضائع کرنے پر ندامت ہو گی۔ یا شاید معذرت کے طور پر ایسا کہیں گے۔ یعنی دنیا میں بہت ہی کم ٹھہرنا ہوا۔ موقع نہ ملا کہ آخرت کے لیے کچھ سامان کرے جیسے دوسری جگہ فرمایا: وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ یُقْسِمُ الْمُجْرِمُوْنَ مَالَبِثُوْا غَیْرَ سَاعَۃٍ۔ الیٰ آخرہ (روم، رکوع٦، آیت:٥٥) ۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جو کہتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں جب ان کا سب سے اچھی راہ والا (ہوشمند) کہے گا تم صرف ایک دن رہے ہو۔ (۱۰۴)
تشریح:جو ان میں زیادہ عقلمند، صاحب الرائے اور ہوشیار ہو گا وہ کہے گا کہ یہاں دس دن بھی کہاں؟ صرف ایک ہی دن سمجھو۔ اس کو زیادہ عقلمند اور اچھی راہ روش والا اس لیے فرمایا کہ دنیا کے زوال و فنا اور آخرت کی بقاء و دوام اور شدتِ ہول کو اس نے دوسروں سے زیادہ سمجھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ آپ سے پہاڑوں سے متعلق دریافت کرتے ہیں، تو کہہ دیں میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ (۱۰۵)
اسے (زمین کو) ایک ہموار میدان کر چھوڑے گا۔ (۱۰۶)
اور تو نہ دیکھے گا اس میں کوئی کجی (نا ہمواری) اور نہ کوئی بلندی۔ (۱۰۷)
تشریح:یعنی قیامت کے ذکر پر منکرین حشر، استہزاءً کہتے ہیں کہ ایسے ایسے سخت اور عظیم الشان پہاڑوں کا کیا حشر ہو گا؟ کیا یہ بھی ٹوٹ پھوٹ جائیں گے؟ اس کا جواب دیا کہ حق تعالیٰ کی لامحدود قدرت کے سامنے پہاڑوں کی کیا حقیقت ہے ان سب کو ذرا سی دیر میں کوٹ پیس کر ریت کے ذرات اور دھنی ہوئی روئی کی طرح ہوا میں اڑا دیا جائے گا اور زمین بالکل صاف و ہموار کر دی جائے گی جس میں کچھ ایچ پیچ اور اونچ نیچ نہ رہے گی، پہاڑوں کی رکاوٹیں ایک دم میں صاف کر دی جائیں گی۔
(تفسیرعثمانی)
اس دن سب پیچھے چلیں گے ایک پکارنے والے کے، اس کے لئے کوئی کجی نہ ہو گی، اور اللہ کے سامنے آوازیں پست ہو جائیں گی، پس تو صرف پست آواز سنے گا۔ (۱۰۸)
تشریح:یعنی جدھر فرشتہ آواز دے گا یا جہاں بلائے جائیں گے سیدھے تیر کی طرح ادھر دوڑے جائیں گے۔ نہ بلانے والے کی بات ٹیڑھی ہو گی اور نہ دوڑنے والوں میں کچھ ٹیڑھا ترچھا پن رہے گا۔ کاش یہ لوگ دنیا میں اللہ کے داعی کی آواز پر اسی طرح سیدھے جھپٹتے تو وہاں کام آتا۔ پر یہاں اپنی بدبختی اور کجروی سے ہمیشہ ٹیڑھی چال چلتے رہے۔
محشر کی طرف چلنے کی کھسکھساہٹ کے سوا اس وقت رحمان کے خوف و ہیبت کے مارے کسی کی آواز نہ سنائی دے گی، اگر کوئی کچھ کہے گا بھی تو اس قدر آہستہ جیسے کانا پھوسی کرتے ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اس دن کوئی شفاعت نفع نہ دے گی مگر جس کو اللہ اجازت دے، اور اس کی بات پسند کرے۔ (۱۰۹)
تشریح: یعنی اس کی سفارش چلے گی جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سفارش کی اجازت ملے۔ اس کا بولنا خدا کو پسند ہو اور بات ٹھکانے کی کہے اور ایسے شخص کی سفارش کرے جس کی بات (لا الہ الا اللہ) خدا کو پسند آ چکی ہے، کافر کے حق میں کوئی سعی سفارش نہیں چلے گی۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے اور ان کے پیچھے ہے، اور وہ (اپنے علم میں) اس کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ (۱۱۰)
تشریح:یعنی خدا کا علم سب کو محیط ہے لیکن بندوں کا علم اس کو یا اس کی معلومات کو محیط نہیں۔ اس لیے و ہی اپنے علم محیط سے جانتا ہے کہ کس کو کس کے لیے شفاعت کا موقع دینا چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور چہرے جھک جائیں گے حی و قیوم (زندہ و قائم) کے سامنے اور نامراد ہوا وہ جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا۔ (۱۱۱)
تشریح:یعنی اس روز بڑے بڑے سرکش متکبروں کے سر بھی اعلانیہ اسی حیّ و قیّوم کے سامنے ذلیل قیدیوں کی طرح جھکے ہوں گے۔ جنہوں نے کبھی خدا کے آگے پیشانی نہ ٹیکی تھی اس وقت بڑی عاجزی سے گردن جھکائے چلے آئیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو کوئی نیکی کرے، بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو نہ اسے کسی ظلم کا خوف ہو گا اور نہ کسی نقصان کا۔ (۱۱۲)
اور اسی طرح ہم نے اس پر عربی قرآن نازل کیا اور ہم نے اس میں طرح طرح سے ڈراوے بیان کئے تاکہ وہ پرہیز گار ہو جائیں یا وہ ان کے لئے کوئی نصیحت پیدا کر دے۔ (۱۱۳)
تشریح:یعنی جیسے یہاں محشر کے احوال اور نیک و بد کے نتائج صاف صاف سنا دیے۔ اسی طرح ہم نے پورا قرآن صاف زبان عربی میں نازل کیا تھا جو لوگ اس کے اولین مخاطب ہیں اس کو پڑھ کر خدا سے ڈریں۔ اور تقویٰ کی راہ اختیار کریں، اور اتنا نہ ہو تو کم از کم ان کے دلوں میں اپنے انجام کی طرف سے کچھ سوچ تو پیدا ہو جائے۔ ممکن ہے یہی سوچ اور غور و فکر آگے بڑھتے بڑھتے ہدایت پر لے آئے اور ان کے ذریعہ سے دوسروں کو ہدایت ہو۔
(تفسیرعثمانی)
سو اللہ بلند تر ہے سچا بادشاہ اور تم قرآن (پڑھنے) میں جلدی نہ کرو، اس سے قبل کہ تمہاری طرف پوری کی جائے اس کی وحی، اور کہئے اے میرے رب! مجھے اور زیادہ علم دے۔ (۱۱۴)
اور ہم نے اس سے قبل آدم کی طرف حکم بھیجا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں پختہ ارادہ نہ پایا۔ (۱۱۵)
تشریح:یعنی جب قرآن ایسی مفید و عجیب چیز ہے تو جس طرح ہم اس کو بتدریج آہستہ آہستہ اتارتے ہیں، تم بھی اس کو جبرئیل سے لینے میں جلدی نہ کیا کرو۔ جس وقت فرشتہ وحی پڑھ کر سنائے، تم عجلت کر کے اس کے ساتھ ساتھ نہ پڑھو۔ ہم ذمہ لے چکے ہیں کہ قرآن تمہارے سینے سے نکلنے نہ پائے گا۔ پھر اس فکر میں کیوں پڑتے ہو کہ کہیں بھول نہ جاؤں اس فکر کے بجائے یوں دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ قرآن کی اور زیادہ سمجھ اور بیش از بیش علوم و معارف عطا فرمائے۔ دیکھو آدم نے ایک چیز میں بے موقع تعجیل کی تھی اس کا انجام کیا ہوا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ ” جبرئیل جب قرآن لاتے تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پڑھنے کے ساتھ آپ بھی پڑھنے لگتے کہ بھول نہ جاؤں، اس کو پہلے منع فرمایا تھا سورہ قیامۃ میں "لَاتُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہ، وَقُرْاٰنَہ، ” اور تسلی کر دی تھی کہ اس کا یاد رکھوانا اور لوگوں تک پہنچوانا ہمارے ذمہ ہے۔ لیکن بندہ بشر ہے، شاید بھول گئے ہوں اس لیے پھر اس آیت سے تقید کیا اور بھولنے پر آگے مثل بیان فرمائی آدم کی۔ ”
(تفسیرعثمانی)
اور یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں کو کہا کہ تم آدم کو سجدہ کرو، توسب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا۔ (۱۱۶)
پس ہم نے کہا اے آدم! بیشک یہ تمہاری بیوی کا کھلا دشمن ہے، سو تمہیں نکلوا نہ دے جنت سے، پھر تکلیف میں پڑ جاؤ۔ (۱۱۷)
بیشک تمہارے لئے (جنت میں) یہ ہے کہ اس میں نہ بھوکے رہو، نہ ننگے۔ (۱۱۸)
اور یہ کہ تم نہ پیاسے رہو گے اور نہ دھوپ میں تپو گے۔ (۱۱۹)
تشریح:انسان کی یہی بڑی ضرورتیں ہیں، کھانا، پینا، پہننا اور رہنے کے لیے مکان جس میں دھوپ بارش کا بچاؤ ہو۔ جنت میں اس طرح کی کوئی تکلیف نہیں۔ ہر طرح راحت ہی راحت ہے۔ ” بہشت آنجا کہ آزارے نباشد” یہاں راحت کا ذکر نہیں کیا۔ صرف تکلیفوں کی نفی کی شاید متنبہ کرنے کے لیے کہ یہاں سے نکلے تو ان سب چیزوں کی تکلیف اٹھاؤ گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے آدم! کیا میں تیری رہنمائی کروں ہمیشگی کے درخت پر؟ اور وہ بادشاہت جو زوال پذیر نہ ہو؟ (۱۲۰)
تشریح:یعنی ایسا درخت بتاؤں، جس کے کھانے سے کبھی موت نہ آئے اور لازوال بادشاہت ملے۔
(تفسیرعثمانی)
پس ان دونوں نے اس سے کھا لیا تو ان پر ان کی شرمگاہیں ظاہر ہو گئیں، اور اپنے (جسم کے ) اوپر جنت کے پتے ڈھانپنے لگے، اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بہک گیا۔ (۱۲۱)
یہ سب قصہ سورہ اعراف وغیرہ میں مفصل گزر چکا ہے۔ (تفسیرعثمانی)
اس کے رب نے اسے رحمت سے چن لیا پھر اس پر (رحمت سے) توجہ فرمائی (توبہ قبول کی) اور اسے راہ دکھائی۔ (۱۲۲)
تشریح:یعنی جب حکم الٰہی کے امتثال میں غفلت و کوتاہی ہوئی تو اپنی شان کے موافق عزم و استقامت کی راہ پر ثابت قدم نہ رہے۔ اسی کو غوایت و عصیان سے تغلیظاً تعبیر فرمایا ہے بقاعدہ "حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ” اس کی بحث بھی پہلے گزر چکی۔ یعنی شیطان کا تسلط نہیں ہونے دیا، بلکہ فوراً توبہ کی توفیق بخشی، خلعت قبول سے نوازا، اور بیش از بیش مہربانی سے اس کی طرف متوجہ ہوا اور اپنی خوشنودی کے راستہ پر قائم کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
فرمایا تم دونوں یہاں سے اتر جاؤ تمہاری (اولاد میں سے) بعض بعض کے دشمن ہوں گے، پس اگر (جب بھی) میری طرف سے تمہارے پاس میری ہدایت آئے، تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ بد بخت ہو گا۔ (۱۲۳)
تشریح:اگر یہ خطاب صرف آدم و حوا کو ہے تو یہ مراد ہو گی کہ ان کی اولاد آپس میں ایک دوسرے کی دشمن رہے گی۔ جیسا رفاقت کر کے گناہ کیا تھا۔ اس رفاقت کا بدلہ یہ ملا کہ اولاد آپس میں دشمن ہوئی اور اگر خطاب آدم و ابلیس کو ہے تو یہ مطلب ہو گا کہ دونوں کی ذریت میں یہ دشمنی برابر قائم رہے گی۔ شیاطین ہمیشہ بنی آدم کو ضرر پہنچانے کی کوشش کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جس نے میری یاد (نصیحت ) سے منہ موڑا تو بیشک اس کی معیشت (گزران) تنگ ہو گی اور ہم اسے اٹھائیں گے قیامت کے دن اندھا۔ (۱۲۴)
تشریح: جو آدمی اللہ کی یاد سے غافل ہو کر محض دنیا کی فانی زندگی ہی کو قبلہ مقصود سمجھ بیٹھا ہے، اس کی گزران مکدّر اور تنگ کر دی جاتی ہے گو دیکھنے میں اس کے پاس بہت کچھ مال و دولت اور سامان عیش و عشرت نظر آئیں۔ مگر اس کا دل قناعت و توکل سے خالی ہونے کی بناء پر ہر وقت دنیا کی مزید حرص، ترقی کی فکر اور کمی کے اندیشہ میں بے آرام رہتا ہے۔ کسی وقت ننانوے کے پھیر سے قدم باہر نہیں نکلتا۔ موت کا یقین اور زوالِ دولت کے خطرات الگ سوہانِ روح رہتے ہیں۔ یورپ کے اکثر متنعّمین کو دیکھ لیجئے کسی کو رات دن میں دو گھنٹے اور کسی خوش قسمت کو تین چار گھنٹے سونا نصیب ہوتا ہو گا۔ بڑے بڑے کروڑ پتی دنیا کے مخمصوں سے تنگ آ کر موت کو زندگی پر ترجیح دینے لگتے ہیں۔ اس نوع کی خود کشی کی بہت مثالیں پائی گئی ہیں۔ نصوص اور تجربہ اس پر شاہد ہیں کہ اس دنیا میں قلبی سکون اور حقیقی اطمینان کسی کو بدون یادِ الٰہی کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اَلَابِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ” لیکن ” ذوق این بادہ ندانی بخدا تانہ چشی” بعض مفسرین نے "معیشۃِ ضنک” کے معنی لیے ہیں وہ زندگی جس میں خیر داخل نہ ہو سکے۔ گویا خیر کو اپنے اندر لینے سے تنگ ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ ایک کافر جو دنیا کے نشہ میں بدمست ہے اس کا سارا مال و دولت اور سامان عیش و تنعم آخرکار اس کے حق میں وبال بننے والا ہے۔ جس خوشحالی کا انجام چند روز کے بعد دائمی تباہی ہو۔ اسے خوشحالی کہنا کہاں زیبا ہے بعض مفسرین نے "مَعِیْشَۃً ضَنْکًا” سے قبر کی برزخی زندگی مراد لی ہے۔ یعنی قیامت سے پہلے اس پر سخت تنگی کا ایک دور آئے گا جبکہ قبر کی زمین بھی اس پر تنگ کر دی جائے گی۔ "معیشۃ ضنکا” کی تفسیر عذاب قبر سے بعض صحابہ نے کی ہے بلکہ بزار نے باسناد جید ابوہریرہ رضی اللہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ بہرحال "معیشۃً ضنکًا” کے تحت میں یہ سب صورتیں داخل ہو سکتی ہیں۔ واللہ اعلم۔
وَّنَحْشُرُہ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ أَعْمٰى :آنکھوں سے اندھا کر کے محشر کی طرف لایا جائے گا۔ اور دل کا بھی اندھا ہو گا کہ کسی حجت کی طرف راستہ نہ پائے گا۔ یہ ابتدائے حشر کا ذکر ہے پھر آنکھیں کھول دی جائیں گی۔ تاکہ دوزخ وغیرہ احوالِ محشر کا معائنہ کرے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ کہے گا، اے میرے رب!تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟میں دنیا میں بینا ( دیکھتا) تھا۔ (۱۲۵)
تشریح:یعنی جو کافر دنیا میں ظاہری آنکھیں رکھتا تھا تعجب سے سوال کرے گا کہ آخر مجھ سے کیا قصور ہوا جو آنکھیں چھین لی گئیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو نے انہیں بھلا دیا اور اسی طرح آج ہم تجھے بھلا دیں گے۔ (۱۲۶)
تشریح:یعنی دنیا میں ہماری آیات دیکھ سن کر یقین نہ لایا نہ ان پر عمل کیا۔ ایسا بھولا رہا کہ سب سنی ان سنی کر دی۔ آج اسی طرح تجھ کو بھلایا جا رہا ہے۔ جیسے وہاں اندھا بنا رہا تھا، یہاں اسی کے مناسب سزا ملنے اور اندھا کر کے اٹھائے جانے پر تعجب کیوں ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اسی طرح ہم (اس کو) بدلہ دیتے ہیں جو حد سے نکل جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے اور البتہ آخرت کا عذاب شدید ترین ہے اور زیادہ دیر تک رہنے والا ہے۔ (۱۲۷)
تشریح:یعنی اسی طرح ہر ایک مجرم کو اس کے مناسب حال سزا دی جائے گی۔ اس لیے بڑی حماقت ہو گی کہ یہاں کی تکلیف سے گھبرائیں اور وہاں کے عذاب سے بچنے کی فکر نہ کریں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی یہ عذاب اندھا ہونے کا حشر میں ہے اور دوزخ میں اور زیادہ”
(تفسیرعثمانی)
کیا (اس حقیقت نے بھی ) انہیں ہدایت نہ دی کہ ان سے قبل ہم نے کتنی ہی جماعتیں ہلاک کر دیں وہ ان کے مساکن میں چلتے پھرتے ہیں، البتہ بیشک اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ (۱۲۸)
تشریح:یعنی آخرت میں جو سزا ملے گی اگر اس پر یقین نہیں آتا تو کیا تاریخی واقعات سے بھی سبق حاصل نہیں کرتے۔ ان ہی مکہ والوں کے آس پاس کتنی قومیں اپنے کفر و طغیان کی بدولت تباہ کی جا چکی ہیں جن کے افسانے لوگوں کی زبان پر باقی ہیں اور جن میں سے بعض کے کھنڈرات پر ملک شام وغیرہ کا سفر کرتے ہوئے خود ان کا گزر بھی ہوتا ہے۔ جنہیں دیکھ کر ان غارت شدہ قوموں کی یاد تازہ ہو جانا چاہیے کہ کس طرح انہی مکانوں میں چلتے پھرتے ہلاک کر دیے گئے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تمہارے رب کی (طرف ) سے ایک بات (طے) نہ ہو چکی ہوتی اور میعاد مقرر (نہ ہوتی) تو عذاب ضرور (نازل) ہو جاتا۔ (۱۲۹)
تشریح:یعنی حق تعالیٰ کی رحمت غضب پر سابق ہے۔ اسی لیے مجرم کو دیر تک اصلاح کا موقع دیتے ہیں اور پوری طرح اتمام حجت کے بدون ہلاک نہیں کرتے۔ بلکہ اس امت کے متعلق تو یہ بھی فرما دیا ہے۔ "وَمَاکَانَ اللہُ لِیُعَذِبَہُمْ وَاَنْتَ فِیْہِمْ” الخ اور اپنی خاص مہربانی سے عذاب عام مستأصل کو اس امت سے اٹھا لیا ہے۔ یہ بات ہے جو تیرے رب کی طرف سے نکل چکی اگر یہ نہ ہوتی اور ہر ایک مجرم قوم کے عذاب کا ایک خاص وقت مقرر نہ ہوتا تو لازمی طور پر ان کو عذاب آ گھیرتا۔ کیونکہ ان کا کفر و شرارت اسی کو مقتضی ہے کہ فوراً ہلاک کر دیے جائیں۔ صرف مصالح مذکورہ بالا مانع ہیں جن سے اس قدر توقف ہو رہا ہے۔ آخر قیامت میں عذاب عظیم کا مزا چکھنا پڑے گا۔ اور جب وقت آئے گا تو دنیا میں بھی اس گھمسان کا نمونہ دیکھ لیں گے۔ چنانچہ بدر میں مسلمانوں سے مڈ بھیڑ ہوئی تو تھوڑا سا نمونہ دیکھ لیا۔
(تفسیرعثمانی)
پس وہ جو کہتے ہیں اس پر صبر کریں، تعریف کے ساتھ اپنے رب کی تسبیح کریں (پاکیزگی بیان کریں) ، طلوع آفتاب سے پہلے، اور غروب آفتاب سے پہلے، اور کچھ رات کی گھڑیوں میں، پس اس کی تسبیح کریں، اور دن کے کنارے (دوپہر ظہر کے وقت) تاکہ تم خوش ہو جاؤ۔ (۱۳۰)
تشریح: یعنی عذاب اپنے وقت پر ہو کر رہے گا۔ تاخیر و امہال کو دیکھ کر یہ لوگ جو کچھ بکیں بکنے دو۔ آپ فی الحال ان کی باتوں کو سہتے رہیے اور صبر و سکون سے آخری نتیجہ کا انتظار کیجئے۔ ان کے کلماتِ کفر پر حد سے زیادہ مضطرب ہونے کی ضرورت نہیں۔
قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہا :یہ فجر اور عصر کی نمازیں ہوئیں۔ یعنی احمقوں اور شریروں کی باتوں پر دھیان نہ کرو۔ صبر و سکون کے ساتھ اپنے رب کی عبادت میں لگے رہو۔ کیونکہ خدا کی مدد صبر و صلوٰۃ دو چیزوں سے حاصل ہوتی ہے۔ "وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَالصَّلٰوۃِ”
وَمِنْ اٰنَاءِ اللَّيْلِ اس میں مغرب و عشاء بلکہ بعض تفاسیر کے موافق نماز تہجد بھی داخل ہے۔
وَأَطْرَافَ النَّہارِ: یہ ظہر کی نماز ہوئی، کیونکہ اس وقت دن کے نصف اول اور نصف آخر کی حدیں ملتی ہیں۔ بلکہ صحاح و قاموس وغیرہ میں تصریح کی ہے کہ "طرف” طائفۃ من الشئی” یعنی کسی شئے کے حصہ کو کہتے ہیں۔ خاص حد اور کنارہ کے معنی نہیں اس صورت میں نہار کو جنس مان کر ہر دن کا ایک خاص حصہ مراد ہو سکتا ہے، جہاں دن کی تنصیف ہوتی ہے۔
لَعَلَّکَ تَرْضٰى :یعنی ایسا طرزِ عمل رکھو گے تو ہمیشہ دنیا و آخرت میں راضی رہو گے۔ اس عمل کا بڑا بھاری اجر ملے گا اور امت کی مدد ہو گی دنیا میں اور بخشش ہو گی آخرت میں آپ کی سفارش سے جسے دیکھ کر آپ خوش ہوں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنی آنکھیں (ان چیزوں کی) طرف نہ پھیلانا، جو ہم نے برتنے کو دی ہیں ان کے جوڑوں کو، دنیا کی زندگی کی آرائش و زیبائش (بنا کر) تاکہ ہم اس میں انہیں آزمائیں، اور تیرے رب کا عطیہ بہتر ہے اور سب سے زیادہ تا دیر رہنے والا ہے۔ (۱۳۱)
تشریح:یعنی دنیا میں قسم قسم کے کافروں مثلاً یہود، نصاریٰ، مشرکین، مجوسی وغیرہ کو ہم نے عیش و تنعم کے جو سامان دیے ہیں ان کی طرف آپ کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھئے (جیسے اب تک نہیں دیکھا) یہ محض چند روزہ بہار ہے جس کے ذریعہ سے ہم ان کا امتحان کرتے ہیں کہ کون احسان مانتا ہے اور کون سرکشی کرتا ہے، جو عظیم الشان دولت حق تعالیٰ نے (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کے لیے مقدر کی ہے مثلاً قرآن کریم، منصب رسالت، فتوحاتِ عظیمہ، رفع ذکر اور آخرت کے اعلیٰ ترین مراتب اس کے سامنے ان فانی اور حقیر سامانوں کی کیا حقیقت ہے۔ آپ کے حصہ میں جو دولت آئی وہ ان کی دولتوں سے کہیں بہتر ہے اور بذاتِ خود یا اپنے اثر کے اعتبار سے ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ بہرحال آپ نہ ان کی تکذیب و اعراض سے مضطرب ہوں نہ ان کے سازو سامان اور مال و دولت کی طرف نظر التفات اٹھائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر قائم رہو، ہم تجھ سے نہیں مانگتے رزق (بلکہ) ہم تجھے رزق دیتے ہیں اور انجام (بخیر) اہل تقوی کے لئے ہے۔ (۱۳۲)
تشریح:یعنی اپنے متعلقین اور اتباع کو بھی نماز کی تاکید فرماتے رہیے۔ حدیث میں آپ نے فرمایا کہ بچہ جب سات برس کا ہو جائے تو (عادت ڈالنے کے لیے) نماز پڑھواؤ۔ جب دس برس کا ہو تو مار کر پڑھاؤ۔
دنیا میں مالک غلاموں سے روزی کمواتے ہیں۔ وہ مالک بندگی چاہتا ہے اور غلاموں کو روزی خود دیتا ہے (کذافی الموضح) غرض ہماری نماز سے اس کا کچھ فائدہ نہیں، البتہ ہمارا فائدہ ہے کہ نماز کی برکت سے روزی ملتی ہے "وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَل لَّہ، مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ” (طلاق، رکوع١، آیت:٢، ٣) اسی لیے اگر فرض نماز اور کسب معاش میں تعارض ہو تو اللہ تعالیٰ اجازت نہیں دیتا کہ کسب معاش کے مقابلہ میں نماز ترک کر دو۔ نماز بہرحال ادا کرنی ہے۔ روزی پہنچانے والا وہ خدا ہے جس کی نماز پڑھتے ہیں۔ الحاصل کسب معاش کے ان ذرائع کا خدا تعالیٰ نے حکم نہیں دیا جو ادائے فرائض عبودیت میں مخل و مزاحم ہوں۔ انسان کو چاہیے کہ پرہیزگاری اختیار کرے۔ انجام کار دیکھ لے گا کہ خدا کس طرح اس کی مدد کرتا ہے۔
(تفیسر عثمانی)
اور وہ کہتے ہیں ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے اپنے رب کی طرف سے، کیا ان کے پاس (وہ) واضح نشانی نہیں آئی جو پہلے صحیفوں میں ہے۔ (۱۳۳)
تشریح: یعنی کوئی ایسی کھلی نشانی کیوں نہیں دکھلاتے جس کے بعد ہم کو انکار کی گنجائش ہی نہ رہے۔ ورنہ اس روز روز کی تہدید و تخویف سے کیا فائدہ۔
بہترین تفسیر میرے نزدیک وہ ہے جو ابن کثیر وغیرہ نے اختیار کی۔ یعنی یہ لوگ ہٹ دھرمی سے کہتے ہیں کہ کوئی نشانی کیوں نہیں لایا۔ کیا اور سینکڑوں نشانات کے علاوہ سب سے بڑا عظیم الشان یہ قرآن ان کے پاس نہیں آچکا جو اگلی کتابوں کے ضروری مضامین کا محافظ اور ان کی صداقت کے لیے بطور حجت اور گواہ کے ہے اور جس کا اعجاز آفتاب سے زیادہ روشن ہے وَقَالُوْا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَاتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ ِانَّمَا الْاٰیَاتُ عِنْدَاللّٰہِ وَاِنَّمَا اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ اَوَلَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۔ (عنکبوت، رکوع٥، آیت:) ۔ (ملخص تفسیرعثمانی)
اور اگر ہم انہیں ہلاک کر دیتے (رسولوں کے) آنے سے قبل کسی عذاب سے، تو وہ کہتے اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا؟تو ہم اس سے قبل کہ ذلیل اور رسوا ہوں ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے۔ (۱۳۴)
آپ کہہ دیں سب منتظر ہیں پس تم (بھی) انتظار کرو، سو عنقریب تم جان لو گے، کون سیدھے راستہ والے، اور کون ہے جس نے ہدایت پائی۔ (۱۳۵)
تشریح:یعنی ایسا عظیم الشان نشان دیکھنے کے بعد تو کہتے ہیں کہ کوئی نشان کیوں نہ لایا۔ اور فرض کرو ہم یہ نشان نہ دکھاتے، یعنی قرآن نازل نہ کرتے، بس انزال کتاب اور ارسال رسول سے پہلے ہی کفر و شرک کی سزا میں ان کو دھر گھسیٹتے، تو شور مچاتے کہ صاحب! سزا دینے سے بیشتر ہمارے پاس کوئی کتاب اور سمجھانے والا تو بھیجنا تھا کہ ہم کو ذلت و رسوائی اُٹھانے سے قبل آگاہ کر دیتا۔ پھر دیکھتے کہ ہم آپ کے کہنے پر کیسا چلتے۔ غرض قرآن نہ آتا تو یوں کہتے، اب آیا تو اسے چھوڑ کر دوسری من گھڑت نشانیوں کا مطالبہ کرنے لگے۔ ان کا مقصود ہدایت حاصل کرنا ہی نہیں۔ فضول حیلے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ سو خیر ان سے کہہ دو کہ ہم اور تم دونوں انتظار کرتے ہیں کہ عنقریب پردہ غیب سے کیسا مستقبل سامنے آتا ہے۔ اس وقت سب حقیقت آشکارا ہو جائے گی کہ کس جماعت کا راستہ سیدھا ہے؟ اور کون اس راستہ پر ٹھیک چل رہا ہے؟ تم سورۃ طٰہٰ بتوفیقہ وعونہ فلہ الحمد اولاً وآخراً وعلٰی نبیہ الصلوٰۃ والتسلیم وافراً متکاثراً۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۲۱۔ سورۃالانبیاء
تعارف
اس سورت کا بنیادی مقصد اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کا اثبات ہے، اور ان عقائد کے خلاف کفار مکہ جو اعتراضات اٹھایا کرتے تھے، سورت میں ان کا جواب بھی دیا گیا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ان لوگوں کا ایک اعتراض یہ تھا کہ ایک ہم جیسے انسان کو پیغمبر بنا کر کیوں بھیجا گیا ہے، اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ انسانوں کے پاس انسان ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجنا مناسب تھا، اور اس ضمن میں بہت سے پچھلے پیغمبروں کا حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ سب انسان ہی تھے، اور انہوں نے اپنی اپنی قوموں کو انہی عقائد کی تعلیم دی تھی جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد ہیں، انبیائے کرام کے اسی حوالے کی بنا پر اس سورت کا نام سورۃ الانبیاء رکھا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیہ:۷۳
آیات:۱۱۲ رکوعات:۷
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
لوگوں کے لئے ان کے حساب (کا وقت) قریب آ گیا، اور و ہ غفلت میں (اس سے) منہ پھیر رہے ہیں۔ (۱)
تشریح:یعنی حساب و کتاب اور مجازات کی گھڑی سر پر کھڑی ہے، لیکن یہ لوگ (مشرکین وغیرہ) سخت غفلت و جہالت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی تیاری قیامت کی جوابدہی کے لیے نہیں کرتے۔ اور جب آیات اللہ سنا کر خواب غفلت سے چونکائے جاتے ہیں تو نصیحت سن کر نہایت لاپرواہی کے ساتھ ٹلا دیتے ہیں۔ گویا کبھی ان کو خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونا اور حساب دینا ہی نہیں۔ سچ ہے "اَلنَّاسُ فِیْ غَفَلَاتِہِمْ وَرَحَی الْمَنِیَّۃِ تَطْحَنُ”
(تفسیرعثمانی)
ان کے پاس ان کے رب (کی طرف) سے کوئی نئی نصیحت نہیں آتی مگر وہ اسے کھیلتے ہوئے (بے پرواہ ہو کر) سنتے ہیں۔ (۲)
ان کے دل غفلت میں ہیں اور ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشی کی کہ یہ (محمدرسول اللہ ہیں) کیا ہیں؟ مگر ایک بشر تم ہی جیسے، کیا (پھر بھی) تم جادو کے پاس آؤ گے؟جبکہ تم دیکھتے ہو۔ (۳)
تشریح:یعنی قرآن کی بڑی بیش قیمت نصیحتوں کو محض ایک کھیل تماشہ کی حیثیت سے سنتے ہیں جن میں اگر اخلاص کے ساتھ غور کرتے تو سب دین و دنیا درست ہو جاتی۔ لیکن جب دل ہی ادھر سے غافل ہیں اور کھیل تماشہ میں پڑے ہیں تو غور کرنے کی نوبت کہاں سے آئے۔
جب نصیحت سنتے سنتے تنگ آ گئے تو چند بے انصافوں نے خفیہ میٹنگ کر کے قرآن اور پیغمبر کے متعلق کہنا شروع کیا کہ یہ پیغمبر تو ہمارے جیسے ایک آدمی ہیں، نہ فرشتہ ہیں نہ ہم سے زیادہ کوئی ظاہری امتیاز رکھتے ہیں۔ البتہ ان کو جادو آتا ہے۔ جو کلام پڑھ کر سناتے ہیں وہ ہو نہ ہو جادو کا کلام ہے۔ پھر تم کو کیا مصیبت نے گھیرا کہ آنکھوں دیکھتے ان کے جادو میں پھنستے ہو۔ لازم ہے کہ ان کے قریب نہ جاؤ۔ قرآن کو جادو شاید اس کی قوت تاثیر اور حیرت انگیز تصرف کو دیکھ کر کہا۔ اور خفیہ میٹنگ اس لیے کی کہ آئندہ حق کے خلاف جو تدابیر کرنے والے تھے یہ اس کی تمہید تھی۔ اور ظاہر ہے کہ ہوشیار دشمن اپنی معاندانہ کاروائیوں کو قبل از وقت طشت ازبام کرنا پسند نہیں کرتا، اندر ہی اندر آپس میں پروپیگنڈا کیا کرتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ نے فرمایا میرا رب جانتا ہے ہر بات جو آسمانوں میں اور زمین میں (ہوتی ہے) اور وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۴)
تشریح:پیغمبر نے فرما دیا کہ تم کتنے ہی چھپا کر مشورے کرو، اللہ کو سب خبر ہے وہ تو آسمان و زمین کی ہر بات کو جانتا ہے پھر تمہارے راز اور سازشیں اس سے کہاں پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
بلکہ انہوں نے کہا (یہ) پریشان خواب ہیں، بلکہ اس نے گھڑ لیا ہے، بلکہ وہ تو ایک شاعر ہے، پس وہ ہمارے پاس کوئی نشانی لائے جیسے پہلے (نبی نشانیاں دے کر) بھیجے گئے تھے۔ (۵)
تشریح:قرآن سن کر ضد اور ہٹ دھرمی سے ایسے بدحواس ہو جاتے تھے کہ کسی ایک رائے پر قرار نہ تھا، کبھی اسے جادو بتاتے، کبھی پریشان خوابیں کہتے، کبھی دعویٰ کرتے کہ آپ اپنے جی سے کچھ باتیں جھوٹ گھڑ لائے ہیں۔ جن کا نام قرآن رکھ دیا ہے۔ نہ صرف یہی بلکہ آپ ایک عمدہ شاعر ہیں اور شاعروں کی طرح تخیل کی بلند پروازی سے کچھ مضامین موثر اور مسجع عبارت میں پیش کر دیتے ہیں۔ اگر واقع میں ایسا نہیں تو چاہیے کہ آپ کوئی ایسا کھلا معجزہ دکھلائیں جیسے معجزات پہلے پیغمبروں نے دکھلائے تھے۔ یہ کہنا بھی محض عناد سے دق کرنے کے لیے تھا۔ کیونکہ اول تو مکہ کے یہ جاہل مشرک پہلے پیغمبروں اور ان کے معجزات کو کیا جانتے تھے، دوسرے آپ کے بیسیوں کھلے کھلے نشان دیکھ چکے تھے جو انبیائے سابقین کے نشانات سے کسی طرح کم نہ تھے جن میں سب سے بڑھ کر یہ ہی قرآن کا معجزہ تھا۔ وہ دل میں سمجھتے تھے کہ نہ یہ جادو کی مہمل عبارتیں ہیں، نہ بیہودہ خواب ہیں، نہ شاعری ہے۔ اسی لیے جب کوئی ایک بات چسپاں نہ ہوتی تو اسے چھوڑ کر دوسری بات کہنے لگتے تھے۔ "اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلاً” (فرقان، رکوع١، آیت:٩) ۔
(تفسیرعثمانی)
ان سے قبل کوئی بستی جس کو ہم نے ہلاک کیا (نشانیاں دیکھ کر بھی) ایمان نہیں لائی تو کیا یہ ایمان لے آئیں گے؟ (۶)
تشریح:یعنی پہلی قوموں کو فرمائشی نشان دکھلائے گئے۔ وہ انہیں دیکھ کر بھی نہ مانے آخر سنت اللہ کے موافق ہلاک کیے گئے۔ اگر ان مشرکین مکہ کی فرمائشیں پوری کی جائیں تو ظاہر ہے یہ ماننے والے تو ہیں نہیں۔ لامحالہ حق تعالیٰ کی عام عادت کے موافق تباہ کیے جائیں گے اور ان کی بالکلیہ تباہی مقصود نہیں۔ بلکہ حکمت الٰہیہ فی الجملہ ان کے باقی رکھنے کو مقتضی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے (رسول) نہیں بھیجے تم سے پہلے مگر مرد، ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے، پس یاد رکھنے والوں سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔ (۷)
یہ ان کے قول "ہَلْ ہٰذَآ اِلَّابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ” کا جواب ہوا۔ یعنی پہلے بھی جو پیغمبر آئے جن کی مانند نشانیاں دکھلانے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے ہو، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح بشر تھے فرشتے نہ تھے۔ اگر اتنی مشہور و مستفیض بات کی بھی اپنی جہالت کی وجہ سے تم کو خبر نہیں، تو خبر رکھنے والوں سے دریافت کر لو۔ آخر یہود و نصاریٰ اہل کتاب سے تمہارے تعلقات ہیں، اتنی موٹی بات ان سے ہی پوچھ لینا کہ پہلے زمانوں میں جو انبیاء و رسل تشریف لائے وہ بشر تھے یا آسمان کے فرشتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں، اور وہ نہ تھے ہمیشہ رہنے والے۔ (۸)
تشریح:یعنی بشری خصائص ان میں موجود تھیں، نہ فرشتوں کی طرح ان کا بدن ایسا تھا کہ کبھی کھانا نہ کھا سکتے نہ وہ خدا تھے کہ کبھی موت اور فنا نہ آئے ہمیشہ زندہ رہا کریں۔ (تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے ان سے اپنا وعدہ سچا کر دیا، پس ہم نے انہیں بچا لیا، اور جس کو ہم نے چاہا، اور ہم نے حد سے بڑھنے والوں کو ہلاک کر دیا۔ (۹)
تشریح:ان کا امتیاز دوسرے بندوں سے یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے مخلوق کی ہدایت و اصلاح کے لیے کھڑے کیے گئے تھے، خدا ان کی طرف وحی بھیجتا اور باوجود بے سروسامانی کے مخالفین کے مقابلہ میں ان کی حمایت و نصرت کے وعدے کرتا تھا، چنانچہ اللہ نے اپنے وعدے سچے کر دکھائے۔ ان کو مع رفقاء کے محفوظ رکھا اور بڑے بڑے متکبر دشمن جو ان سے ٹکرائے تباہ و غارت کر دیئے گئے۔ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی بشر ہیں۔ لیکن اسی نوع کے بشر ہیں جن کی اعانت و حمایت ساری دنیا کے مقابلہ میں کی جاتی ہے، ان کے مخالفین کو چاہیے کہ اپنا انجام سوچ رکھیں اور پہلی قوموں کی مثالوں سے عبرت حاصل کریں۔ کہیں آخرت کے حساب سے پہلے دنیا ہی میں حساب شروع نہ کر دیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
تحقیق ہم نے تمہاری طرف ایک کتاب نازل کی اس میں تمہارا ذکر ہے، تو کیا تم سمجھتے نہیں؟ (۱۰)
تشریح:یعنی قرآن کے ذریعہ سے تم کو ہر قسم کی نصیحت و فہمائش کر دی گئی اور سب برا بھلا انجام سمجھا دیا گیا۔ اگر کچھ بھی عقل ہو گی تو عذاب الٰہی سے اپنے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو گے اور قرآن کی قدر پہچانو گے جو فی الحقیقت تمہارے مجدو شرف کی ایک بڑی دستاویز ہے۔ کیونکہ تمہاری زبان میں اور تمہاری قوم کے ایک فرد کامل پر اترا اور دنیا میں تم کو شہرت دائمی عطا کی۔ اگر اپنے ایسے محسن کو نہ مانو گے تو دنیا میں ذلیل ہو گے اور آخرت کا عذاب الگ رہا، آگے ان قوموں کا دنیاوی انجام بیان فرماتے ہیں جنہوں نے انبیاء سے دشمنی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کیے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ہلاک کر دیں کتنی ہی بستیاں، کہ وہ ستم گار تھیں، اور ہم نے ان کے بعد دوسرے گروہ (اور لوگ) پیدا کئے۔ (۱۱)
تشریح:یعنی یہ نہیں کہ ان کے نیست و نابود کر دینے سے اللہ کی زمین اجڑ گئی وہ گئے دوسروں کو انکی جگہ بسا دیا گیا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب انہوں نے ہمارے عذاب کی آہٹ پائی تو اس وقت اس سے بھاگنے لگے۔ (۱۲)
مت بھاگو اور لوٹ جاؤ اس طرف جہاں تمہیں آسائش دی گئی تھی، اور اپنے گھروں کی طرف، تاکہ تمہاری پوچھ گچھ ہو۔ (۱۳)
تشریح: یعنی جب عذاب الٰہی سامنے آ گیا تو چاہا کہ وہاں سے نکل بھاگیں اور بھاگ کر جان بچا لیں۔ اس وقت تکوینی طور پر کہا گیا کہ بھاگتے کہاں ہو، ٹھہرو، اور ادھر ہی واپس چلو جہاں عیش کیے تھے اور جہاں بہت سے سامانِ تنعم جمع کر رکھے تھے۔ شاید وہاں کوئی تم سے پوچھے کہ حضرت! وہ مال و دولت اور زور و قوت کا نشہ کیا ہوا؟ وہ سامان کدھر گئے؟ اور جو نعمتیں خدا نے دے رکھی تھیں ان کا شکر کہاں تک ادا کیا تھا؟ یا یہ کہ آپ بڑے آدمی تھے جن کی ہر موقع پر پوچھ ہوتی تھی، اب بھی وہیں چلیے۔ بھاگنے کی ضرورت نہیں تاکہ لوگ اپنے مہمات میں آپ سے مشورے کر سکیں اور آپ کی رائیں دریافت کر سکیں؟ (یہ سب باتیں تحکماً کہی گئی ہیں) ۔
(تفسیرعثمانی)
وہ کہنے لگے ہائے ہماری شامت! بیشک ہم ظالم تھے۔ (۱۴)
پس (برابر) ان کی یہ پکار رہی، یہاں تک کہ ہم نے انہیں کٹی ہوئی کھیتی اور بجھی ہوئی آگ (کی طرح ڈھیر) کر دیا۔ (۱۵)
تشریح: یعنی جب عذاب آنکھوں سے دیکھ لیا تب اپنے جرموں کا اعتراف کیا اور برابر یہ ہی چلاتے رہے کہ بیشک ہم ظالم اور مجرم ہیں۔ لیکن ” اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ” یہ وقت قبول توبہ کا نہ تھا۔ اعتراف و ندامت اس وقت سب بیکار چیزیں تھیں آخر اس طرح ختم کر دیئے گئے جیسے کھیتی ایک دم میں کاٹ کر ڈھیر کر دی جاتی ہے یا آگ میں جلتی ہوئی لکڑی بجھ کر راکھ رہ جاتی ہے۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے نہیں پیدا کیا آسمان اور زمین کو اور جو ان کے درمیان میں ہے کھیلتے ہوئے (فعل عبث) ۔ (۱۶)
تشریح:یعنی جس میں کوئی معتدبہ حکمت اور غرض صحیح نہ ہو۔ اس لیے عقلمند کو چاہیے کہ آفرینش عالم کی غرض کو سمجھے اور دنیا کو محض کھیل تماشا سمجھ کر انجام سے غافل نہ ہو، بلکہ خوب سمجھ لے کہ دنیا آخرت کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ہر نیک و بد کی جزا ملنا اور ذرہ ذرہ کا حساب ہونا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اگر ہم کوئی کھلونا بنانا چاہتے تو ہم اس کو اپنے پاس سے بنا لیتے، اگر ہم کرنے والے ہوتے (اگر ہمیں یہ کرنا ہوتا) ۔ (۱۷)
بلکہ ہم پھینک مارتے ہیں حق کو باطل پر پس وہ اس کا بھیجا (کچومر) نکال دیتا ہے، تو وہ اسی وقت نابود ہو جاتا ہے، اور تمہارے لئے اس (بات) سے خرابی ہے جو تم بناتے ہو۔ (۱۸)
تشریح:یعنی اگر ایسے لہو و لعب کے کام بالفرض ہماری شان کے لائق ہوتے اور ہم ارادہ بھی کرتے کہ یوں ہی کوئی مشغلہ اور کھیل تماشا بنا کر کھڑا کر دیں تو یہ چیز ہم بذات خود اپنی قدرت سے کر گزرتے۔ تمہاری داروگیر اور پکڑ دھکڑ سے اس کو کچھ سروکار نہ ہوتا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دنیا محض کھیل تماشا نہیں بلکہ میدانِ کارزار ہے۔ جہاں حق و باطل کی جنگ ہوتی ہے۔ حق حملہ آور ہو کر باطل کا سر کچل ڈالتا ہے۔ اسی سے تم اپنی مشرکانہ اور سفیہانہ باتوں کا انجام سمجھ لو کہ حق و صداقت کا گولا جب پوری قوت سے تم پر گرے گا اس وقت کیسی خرابی اور بربادی تمہارے لیے ہو گی۔ اور کون سی طاقت بچانے آئے گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے، اور جو اس کے پاس ہیں وہ سرکشی نہیں کرتے اس کی عبادت سے اور نہ وہ تھکتے ہیں۔ (۱۹)
تشریح:پھر وہ تباہ کرنا چاہے تو کون بچا سکتا ہے اور کہاں پناہ مل سکتی ہے۔ (تفسیرعثمانی)
اور رات دن تسبیح (اس کی پاکیزگی) بیان کرتے ہیں سستی نہیں کرتے۔ (۲۰)
تشریح:یعنی فرشتے باوجود مقربین بارگاہ ہونے کے ذرا شیخی نہیں کرتے۔ اپنے پروردگار کی بندگی اور غلامی کو فخر سمجھتے ہیں، وظائف عبودیت کے ادا کرنے میں کبھی سستی یا کاہلی کو راہ نہیں دیتے۔ شب و روز اس کی تسبیح اور یاد میں لگے رہتے ہیں۔ نہ جھکتے ہیں نہ اکتاتے ہیں۔ بلکہ تسبیح و ذکر ہی ان کی غذا ہے۔ جس طرح ہم ہر وقت سانس لیتے ہیں اور دوسرے کام بھی کرتے رہتے ہیں، یہی کیفیت ان کی تسبیح و ذکر کی سمجھو۔ وہ کسی کام پر مامور ہوں، کسی خدمت کو بجا لا رہے ہوں ایک منٹ ادھر سے غافل نہیں ہوتے جب معصوم و مقرب فرشتوں کا یہ حال ہے تو خطاکار انسان کو کہیں زیادہ اپنے رب کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا انہوں نے زمین سے کوئی اور معبود بنا لئے ہیں کہ وہ انہیں (مرنے کے بعد) دوبارہ اٹھا کھڑا کریں گے۔ (۲۱)
تشریح:یعنی آسمان والے فرشتے تو اس کی بندگی سے کتراتے نہیں بلکہ ہمہ وقت اس کی یاد اور بندگی میں مشتغل رہتے ہیں، پھر کیا زمین میں کچھ ایسی ہستیاں ہیں جن کو خدا کے بالمقابل معبود ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اور جب خدا ان کے پجاریوں کو اپنے عذاب سے مار ڈالے تو وہ ان کو پھر جِلا اٹھائیں یا ہلاکت سے بچا لیں؟ ہرگز نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اگر ان دونوں (آسمان و زمین) میں اور معبود ہوتے اللہ کے سوا تو البتہ (زمین وآسمان) درہم برہم ہو جاتے، پس عرش عظیم کا رب اللہ اس سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۲۲)
تشریح:تعددِ آلہہ کے ابطال پر یہ نہایت پختہ اور واضح دلیل ہے جو قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کی۔ اس کو یوں سمجھو کہ عبادت نام ہے کامل تذلل کا۔ اور کامل تذلل صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کیا جا سکتا ہے جو اپنی ذات و صفات میں ہر طرح کامل ہو، اسی کو ہم "اللہ” یا "خدا” کہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ خدا کی ذات ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، نہ وہ کسی حیثیت سے ناقص ہو نہ بیکار، نہ عاجز ہو نہ مغلوب، نہ کسی دوسرے سے دبے نہ کوئی اس کے کام میں روک ٹوک کر سکے۔ اب اگر فرض کیجئے آسمان و زمین میں دو خدا ہوں تو دونوں اسی شان کے ہوں گے، اس وقت دیکھنا یہ ہے کہ عالم کی تخلیق اور علویات و سفلیات کی تدبیر دونوں کے کلی اتفاق سے ہوتی ہے یا گاہ بگاہ باہم اختلاف بھی ہو جاتا ہے اتفاق کی صورت میں دو احتمال ہیں۔ یا تو اکیلے ایک سے کام نہیں چل سکتا تھا اس لیے دونوں نے مل کر انتظام کیا تو معلوم ہوا کہ دونوں میں سے ایک بھی کامل قدرت والا نہیں اور اگر تنہا ایک سارے عالم کا کامل طور پر انجام کر سکتا تھا تو دوسرا بیکار ٹھہرا حالانکہ خدا کا وجود اسی لیے ماننا پڑا ہے کہ اس کے مانے بدون چارہ ہی نہیں ہو سکتا اور اگر اختلاف کی صورت فرض کریں تو لامحالہ مقابلہ میں ایک مغلوب ہو کر اپنے ارادہ اور تجویز کو چھوڑ بیٹھے گا۔ وہ خدا نہ رہا۔ اور یا دونوں بالکل مساوی و متوازی طاقت سے ایک دوسرے کے خلاف اپنے ارادہ اور تجویز کو عمل میں لانا چاہیں گے۔ اول تو (معاذ اللہ) خداؤں کی اس رسہ کشی میں سرے سے کوئی چیز موجود ہی نہ ہو سکے گی اور موجود چیز پر زور آزمائی ہونے لگی تو اس کشمکش میں ٹوٹ پھوٹ کر برابر ہو جائے گی۔ یہاں سے یہ نتیجہ نکلا کہ اگر آسمان و زمین میں دو خدا ہوتے تو آسمان و زمین کا یہ نظام کبھی کا درہم برہم ہو جاتا۔ ورنہ ایک خدا کا بیکار یا ناقص و عاجز ہونا لازم آتا ہے جو خلافِ مفروض ہے۔
جو عرش (تخت شاہی) کا اکیلا مالک ہے، اس کے ملک میں شرکت کی گنجائش ہی نہیں۔ دو خود مختار بادشاہ جب ایک اقلیم میں نہیں سما سکتے جن کی خود مختاری بھی محض مجازی ہے تو دو مختارِ کل اور قادرِ مطلق خدا ایک قلمرو میں کیسے شریک ہو سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس سے باز پرس نہیں اس کے (متعلق) جو وہ کرتا ہے، بلکہ وہ باز پرس کئے جائیں گے۔ (۲۳)
تشریح:یعنی "خدا” تو اس ہستی کا نام ہے جو قادر مطلق ہے۔ جو قادر مطلق اور مختارِ کل ہو اس کی قدرت و مشیت کو روکنا تو کجا کوئی پوچھ پاچھ بھی نہیں کر سکتا کہ آپ نے فلاں کام اس طرح کیوں کیا۔ ہاں اس کو حق ہے کہ وہ ہر شخص سے مواخذہ اور باز پرس کر سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا انہوں نے اس کے سوا اور معبود بنائے ہیں؟ فرما دیں پیش کرو اپنی دلیل، یہ کتاب ہے (ان کی) جو میرے ساتھ ہیں، اور کتاب (ان کی) جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں، البتہ ان میں اکثر نہیں جانتے حق کو، پس وہ روگردانی کرتے ہیں۔ (۲۴)
تشریح:پہلے توحید پر دلیل عقلی قائم کی گئی تھی۔ اب مشرکین سے ان کے دعوے پر دلیل صحیح کا مطالبہ ہے یعنی خدا کے سوا جو معبود تم نے تجویز کیے ہیں ان کا اثبات کس دلیل عقلی یا نقلی سے ہوا۔ اگر موجود ہو تو پیش کرو۔ ظاہر ہے ان کے پاس بجز اوہام و ظنون اور باپ دادوں کی کورانہ تقلید کے کیا رکھا تھا۔ شرک کی تائید میں نہ کوئی دلیل عقلی مل سکتی ہے، نہ نقلی جسے پیش کر سکتے۔ کذا قال المفسرون۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ پہلے ان معبودوں کو فرمایا تھا کہ جن کو خدا کے برابر کوئی سمجھے کہ ایسے وہ حاکم ہوتے تو جہاں خراب ہو جاتا۔ اب ان کا ذکر فرماتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نیچے چھوٹے چھوٹے خدا بطور نائبین اور ماتحت حکام کے ٹھہراتے ہیں۔ سو ان کو مالک کی سند چاہیے۔ سند بغیر نائب کیونکر بن سکتے ہیں۔ اگر سند ہے تو پیش کرو۔
میری امت اور پہلی خدا پرست امتوں کی یہ ہی ایک بات ہے کہ اس رب العرش کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں جس کی عقلی دلیل پہلے بیان ہو چکی۔ تم اگر ملل سماویہ کے اس اجماعی عقیدہ کے خلاف کوئی دلیل رکھتے ہو تو پیش کرو۔ میرا دعویٰ یہ ہے کہ یہ امت اور پہلی امتیں اس امت کی کتاب (قرآن کریم) اور پہلی امتوں کی آسمانی کتابیں تورات، انجیل وغیرہ) سب اس میں دعوائے توحید پر متفق رہی ہیں۔ چنانچہ آج بھی باوجود بیشمار تحریفات کے پہلی کتابوں کی ورق گردانی کرو توحید کا اعلان اور شرک کا رد صاف صاف پاؤ گے مگر یہ جاہل اس بات کو کیا سمجھیں، اگر سمجھ ہوتی تو حق بات کو سن کر ہرگز نہ ٹلاتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم سے پہلے ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر ہم نے وحی بھیجی اس کی طرف کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، پس میری عبادت کرو۔ (۲۵)
تشریح:یعنی تمام انبیاء ومرسلین کا اجماع عقیدہ توحید پر رہا ہے کسی پیغمبر نے کبھی ایک حرف اس کے خلاف نہیں کہا۔ ہمیشہ یہ ہی تلقین کرتے آئے کہ ایک خدا کے سوا کسی کی بندگی نہیں تو جس طرح عقلی اور فطری دلائل سے توحید کا ثبوت ملتا ہے اور شرک کا رد ہوتا ہے۔ ایسے ہی نقلی حیثیت سے انبیاء علیہم السلام کا اجماع دعوائے توحید کی حقیقت پر قطعی دلیل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
ان (مشرکوں) نے کہا اللہ نے ایک بیٹا بنا لیا ہے وہ اس (تہمت) سے پاک ہے، بلکہ (فرشتے) معزز بندے ہیں۔ (۲۶)
تشریح:عرب کے بعض قبائل ملائکۃ اللہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے، سو بتلا دیا کہ یہ خدا کی شانِ رفیع کے لائق نہیں کہ بیٹے بیٹیاں بنائے۔ اسی میں نصاریٰ کا رد بھی ہو گیا جو حضرت مسیح علیہ السلام کو "ابن اللہ” کہتے ہیں نیز یہود کے اس فرقہ کا بھی جو حضرت عزیز کو خدا کا بیٹا کہتا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بات میں اس سے سبقت نہیں کرتے، اور وہ اس کے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ (۲۷)
تشریح:یعنی جن برگزیدہ ہستیوں کو تم خدا کی اولاد بتلاتے ہو وہ اولاد نہیں۔ ہاں اس کے معزز بندے ہیں اور باوجود انتہائی معزز و مقرب ہونے کے ان کے ادب و اطاعت کا حال یہ ہے کہ جب تک اللہ کی مرضی اور اجازت نہ پائیں اس کے سامنے خود آگے بڑھ کر لب نہیں ہلا سکتے اور نہ کوئی کام اس کے حکم کے بدون کر سکتے ہیں۔ گویا کمال عبودیت و بندگی ہی ان کا طغرائے امتیاز ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے اور ان کے پیچھے ہے، اور وہ سفارش نہیں کرتے، مگر جس کے لئے اس کی رضا ہو، اور وہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔ (۲۸)
تشریح: حق تعالیٰ کا علم ان کے تمام ظاہری و باطنی احوال کو محیط ہے۔ ان کی کوئی حرکت اور کوئی قول و فعل اس سے پوشیدہ نہیں، چنانچہ وہ مقرب بندے اسی حقیقت کو سمجھ کر ہمہ وقت اپنے احوال کا مراقبہ کرتے رہتے ہیں کہ کوئی حالت اس کی مرضی کے خلاف نہ ہو۔
اس کی مرضی معلوم کیے بدون کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے چونکہ مومنین موحدین سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے اس لیے ان کے حق میں دنیا و آخرت میں استغفار کرنا ان کا وظیفہ ہے۔
پھر ان کو خدا کیسے کہا جا سکتا ہے۔ جب خدا نہیں تو خدا کے بیٹے یا بیٹیاں بھی نہیں بن سکتے۔ کیونکہ صحیح اولاد جنس والدین سے ہونی چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو کوئی یہ کہے کہ بے شک اس کے سوا میں معبود ہوں پس اس شخص ک وہم سزائے جہنم دیں گے، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیتے ہیں۔ (۲۹)
تشریح:یعنی جن کو تم خدا کی اولاد یا خدا بنا رہے ہو اگر بفرض محال ان میں سے کوئی اپنی نسبت (معاذ اللہ) ایسی بات کہہ گزرے تو وہی دوزخ کی سزا جو حد سے گزرنے والے ظالموں کو ملتی ہے ہم ان کو بھی دیں گے۔ ہمارے لا محدود اقتدار و جبروت سے وہ بھی باہر نہیں جا سکتے، پھر بھلا خدا کیسے ہو سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا کافروں نے نہیں دیکھا؟کہ آسمان اور زمین دونوں (بارش اور روئیدگی سے) بند تھے، پس ہم نے دونوں کو کھول دیا، اور ہم نے پانی سے ہر شے کو زندہ کیا، تو کیا (پھر بھی) تم ایمان نہیں لاتے؟ (۳۰)
تشریح:”رتق” کے اصل معنے ملنے اور ایک دوسرے میں گھسنے کے ہیں۔ ابتداءً زمین و آسمان دونوں ظلمت عدم میں ایک دوسرے سے غیر متمیز پڑے تھے پھر وجود کے ابتدائی مراحل میں دونوں خلط ملط رہے، بعدہٗ قدرت کے ہاتھ نے دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کیا۔ اس تمیز کے بعد ہر ایک کے طبقات الگ الگ بنے، اس پر بھی منہ بند تھے، نہ آسمان سے بارش ہوتی تھی نہ زمین سے روئیدگی، آ کر خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے دونوں کے منہ کھول دیے، اوپر سے پانی کا دہانہ کھلا، نیچے سے زمین کے مسام کھل گئے۔ اسی زمین میں سے حق تعالیٰ نے نہریں اور کانیں اور طرح طرح کے سبزے نکالے، آسمان کو کتنے بے شمار ستاروں سے مزین کر دیا جن میں سے ہر ایک کا گھر جدا اور چال جدی رکھی۔
عموماً جاندار چیزیں جو تم کو نظر آتی ہیں بالواسطہ پانی سے بنائی گئیں۔ پانی ہی ان کا مادہ ہے الاّ کوئی ایسی مخلوق جس کی نسبت ثابت ہو جائے کہ اس کی پیدائش میں پانی کو دخل نہیں وہ مستثنیٰ ہو گی۔ تاہم للا کثر حکم الکل کے اعتبار سے یہ کلیہ صادق رہے گا۔ قدرت کے ایسے کھلے نشان اور محکم انتظامات کو دیکھ کر بھی کیا لوگوں کو خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت پر یقین نہیں آتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے تاکہ وہ ان (لوگوں) کے ساتھ جھک نہ پڑے، اور ہم نے اس میں کشادہ راستے بنائے تاکہ وہ راہ پائیں۔ (۳۱)
تشریح: وَجَعَلْنَا فِی الْأَرْضِ رَوَاسِيَ :اس کی تقریر سورہ نحل میں گزر چکی۔ وَجَعَلْنَا فِیْہا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّہمْ يَہتَدُوْنَ: ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک والوں سے مل سکیں۔ اگر پہاڑ ایسے ڈھب پر پڑتے کہ راہیں بند ہو جاتیں تو یہ بات کہاں ہوتی (کذا فی الموضح) ان ہی کشادہ راہوں کو دیکھ کر انسان حق تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور توحید کی طرف راہ پا سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے بنائے آسمان ایک محفوظ چھت اور وہ اس کی نشانیوں سے روگردانی کرتے ہیں۔ (۳۲)
تشریح:یعنی نہ گرے نہ ٹوٹے پھوٹے نہ بدلی جائے اور شیاطین کے استراق سمع سے بھی محفوظ ہے۔ اور چھت اس لیے کہا کہ دیکھنے میں چھت کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ کیسی مضبوط و محکم اور وسیع و بلند چھت اتنی مدت سے بدون ستون اور کھمبے کے کھڑی ہے۔ ذرا سا رنگ و روغن اور پلاسٹر بھی نہیں جھڑتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہی ہے جس نے پیدا کیا رات اور دن کو اور سورج اور چاند کو، سب (اپنے اپنے) مدار میں تیر رہے ہیں۔ (۳۳)
تشریح:یعنی سورج چاند بلکہ ہر سیارہ اپنے مدار پر پڑا چکر کھا رہا ہے۔ "یَسْبَحُوْنَ” کے لفظ سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیارات اللہ کے حکم سے بذات خود چلتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کے لئے ہمیشہ رہنا نہیں (تجویز) کیا، پس اگر آپ انتقال کر گئے تو کیا وہ ہمیشہ رہیں گے؟ (۳۴)
اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی سے آزمائش میں مبتلا کریں گے اور ہماری طرف ہی تم لوٹ کر آؤ گے۔ (۳۵)
تشریح:یعنی جس طرح مذکورہ بالا مخلوقات کا وجود حق تعالیٰ کی ایجاد سے ہوا۔ تمام انسانوں کی زندگی بھی اسی کی عطا کردہ ہے جس وقت چاہے گا چھین لے گا۔ موت ہر ایک پر ثابت کر دے گی کہ تمہاری ہستی تمہارے قبضہ میں نہیں۔ چند روز کی چہل پہل تھی جو ختم ہوئی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "کافر حضور کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے یہ دنیا سے رخصت ہوئے پھر کچھ نہیں” اس سے اگر ان کی غرض یہ تھی کہ موت آنا نبوت کے منافی ہے تو اس کا جواب دیا۔ "وَمَاجَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ” یعنی انبیاء و مرسلین میں سے کون ایسا ہے جس پر کبھی موت طاری نہ ہو ہمیشہ زندہ رہے۔ اور اگر محض آپ کی موت کے تصور سے اپنا دل ٹھنڈا کرنا ہی مقصود تھا تو اس کا جواب "اَفَاِن مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ” میں دے دیا۔ یعنی خوشی کا ہے کی؟ کیا آپ کا انتقال ہو جائے تو تم کبھی نہیں مرو گے قیامت کے بوریے سمیٹو گے؟ جب تم کو بھی آگے پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے۔ اس راستہ سے تو سب کو گزرنا ہے کون ہے جس کو کبھی موت کا مزہ چکھنا نہیں پڑے گا گویا توحید اور دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں مسئلہ نبوت کی طرف روئے سخن پھیر دیا گیا۔ دنیا میں سختی، نرمی، تندرستی، بیماری، تنگی، فراخی اور مصیبت و عیش وغیرہ مختلف احوال بھیج کر تم کو جانچا جاتا ہے تاکہ کھرا کھوٹا الگ ہو جائے اور اعلانیہ ظاہر ہو جائے کہ کون سختی پر صبر اور نعمتوں پر شکر ادا کرتا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو مایوسی یا شکوہ شکایت اور ناشکری کے مرض میں مبتلا ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب کافر تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہیں صرف ایک ہنسی مذاق ٹھہراتے ہیں کہ کیا یہ ہے؟ وہ جو تمہارے معبودوں کو (برائی سے) یاد کرتا ہے، اور وہ اللہ کے ذکر کے منکر ہیں۔ (۳۶)
تشریح:یعنی انجام سے بالکل بے فکر ہو کر یہ لوگ پیغمبر علیہ السلام کی ہنسی اڑاتے ہیں اور ان سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ چنانچہ استہزاء و تحقیر سے کہتے ہیں "اَہٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِہَتَکُمْ” کیا یہ ہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا برائی سے ذکر کرتا ہے۔ انہیں شرم نہیں آتی کہ خود حقیقی معبود کے ذکر اور "رحمن” کے نام تک سے چڑتے ہیں، اس کی سچی کتاب کے منکرین، اور جھوٹے معبودوں کی برائی سن کر چیں بجبیں ہوتے ہیں۔ اندریں صورت ہنسی کے قابل ان کی حالت ہوئی یا فریق مقابل کی؟
(تفسیرعثمانی)
انسان کو پیدا کیا گیا ہے جلد باز، عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہوں سو تم جلدی نہ کرو۔ (۳۷)
تشریح:شاید کفار کے سفیہانہ استہزاء و تمسخر کو سن کر بعضوں کا جی چاہا ہو گا کہ ان بے حیاؤں پر فوراً عذاب آ جائے تو اچھا ہو، اور خود کفار بھی بطور استہزاء جلدی مچایا کرتے تھے کہ اگر واقعی ہم تمہارے نزدیک مستحق عذاب ہیں تو وہ عذاب فوراً کیوں نہیں لے آتے۔ دونوں کو بتلایا کہ انسان بڑا جلد باز ہے گویا اس کے خمیر میں جلدی پڑی ہے، چاہیے کہ تھوڑا سا صبر کرو عنقریب میں اپنے قہر و انتقام کی نشانیاں تم کو دکھلا دوں گا۔
(تفسیرعثمانی)
عنقریب میں تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہوں سو تم جلدی نہ کرو اور وہ کہتے ہیں کہ وعدہ (عذاب) کب (آئے گا) ؟اگ رتم سچے ہو۔ (۳۸)
تشریح:یعنی کہتے رہتے ہو کہ قیامت آئے گی اور سب کافر ہمیشہ کے لیے دوزخ میں جلیں گے۔ آخر یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر سچے ہو تو قیامت اور جہنم کو ابھی کیوں نہیں بلا لیتے۔
(تفسیرعثمانی)
کاش کافر اس گھڑی کو جان لیتے جب وہ نہ روک سکیں گے (دوزخ کی) آگ کو اپنے چہروں سے، اور نہ اپنی پیٹھوں سے، اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔ (۳۹)
بلکہ (قیامت) ان پر اچانک آئے گی تو انہیں حیران (بد حواس) کر دے گی، پس انہیں اس کو لوٹانے کی سکت نہ ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جائے گی۔ (۴۰)
تشریح: یعنی اگر ان پر حقیقت منکشف ہو جائے اور اس ہولناک گھڑی کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لیں تو کبھی ایسی درخواست نہ کریں۔ یہ باتیں اس وقت بے فکری میں سوجھ رہی ہیں، جب وہ وقت سامنے آ جائے گا کہ آگے پیچھے ہر طرف سے آگ گھیرے ہو گی تو نہ کسی طرف سے اس کو دفع کر سکیں گے، نہ کہیں سے مدد پہنچے گی، نہ مہلت ملے گی، نہ پہلے سے اس کا کامل اندازہ ہو گا۔ اس کے اچانک سامنے آ جانے سے ہوش باختہ ہو جائیں گے تب پتہ چلے گا کہ جس چیز کی ہنسی کرتے تھے وہ حقیقت ثابتہ تھی۔
(تفسیرعثمانی)
اور البتہ مذاق اڑائی گئی آپ سے پہلے رسولوں کی، پس ان میں سے جنہوں نے مذاق اڑایا انہیں اس ( عذاب نے) آ گھیرا جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے۔ (۴۱)
تشریح:یعنی جس چیز سے ٹھٹھا کرتے تھے اس کی سزا نے گھیر لیا اور ان کی ہنسی ان پر ہی الٹ دی گئی۔ (تفسیرعثمانی)
فرما دیں، رحمن (کے عذاب) سے دن رات تمہاری کون نگہبانی کرتا ہے؟ بلکہ وہ اپنے رب کی یاد سے روگردانی کرتے ہیں۔ (۴۲)
تشریح:یعنی رحمان کے غصہ اور عذاب سے تمہاری حفاظت کرنے والا دوسرا کون ہے، محض اس کی رحمت واسعہ ہے جو فوراً عذاب نازل نہیں کرتا، لیکن ایسے رحمت والے حلیم و بردبار کے غصہ سے ڈرنا بھی بہت چاہیے۔ نعوذباللہ من غضب الحلیم۔
رحمان کی حفاظت کا ان کو احساس و اعتراف نہیں۔ عیش و تنعم اور پر امن زندگی نے پروردگارِ حقیقی کی یاد سے غافل کر رکھا ہے۔ اسی لیے جب اس کی طرف سے کوئی نصیحت کی جاتی ہے تو منہ پھیر لیتے ہیں کہ یہ کہاں کی باتیں شروع کر دیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا ہمارے سوا ان کے کچھ اور معبود ہیں؟ جو انہیں (مصائب سے) بچاتے ہیں، وہ سکت نہیں رکھتے اپنی مدد کی (بھی) اور نہ وہ ہم سے (بچانے کے لئے) ساتھی پائیں گے۔ (۴۳)
تشریح:یعنی کیا اپنے فرضی معبودوں کی نسبت خیال ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرتے ہیں؟ اور موقع آنے پر خدا تعالیٰ کے غضب سے بچا لیں گے؟ سو وہ مسکین ان کی مدد اور حفاظت تو درکنار خود اپنے وجود کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے، اگر ان کو کوئی توڑنے پھوڑنے لگے یا کچھ چیز ان کے پاس سے چھین کر لے جائے تو اتنی قدرت نہیں کہ مدافعانہ تحفظ کے لیے خود ہاتھ پاؤں ہلاس کیں یا اپنے بچاؤ کی خاطر ہماری امداد و رفاقت حاصل کر لیں۔
(تفسیرعثمانی)
بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو ساز وسامان دیا، یہاں تک کہ ان کی عمر دراز ہو گئی، پس کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے ہیں (منکروں پر تنگ کرتے) آرہے ہیں، پھر کیا وہ غالب آنے والے ہیں۔ (۴۴)
تشریح:یعنی رحمان کی کلاءت و حفاظت اور بتوں کا عجز و بیچارگی ایسی چیز نہیں جس کو یہ لوگ سمجھ نہ سکیں۔ بات یہ ہے کہ پشت ہا پشت سے یہ لوگ بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ کوئی جھٹکا عذاب الٰہی کا نہیں لگا۔ اس پر مغرور ہو گئے اور غفلت کے نشہ میں چور ہو کر حق تعالیٰ کا پیغام اور پیغمبروں کی نصیحت قبول کرنے سے منہ موڑ لیا۔
عرب کے ملک میں اسلام پھیلنے لگا ہے اور کفر گھٹنے لگا۔ آہستہ آہستہ وہاں کی زمین کافروں پر تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ ان کی حکومتیں اور سرداریاں ٹوٹتی جا رہی ہیں۔ کیا ایسے کھلے ہوئے آثار و قرائن دیکھ کر بھی انہیں اپنا انجام نظر نہیں آتا۔ اور کیا ان مشاہدات کے باوجود وہ اسی کے امیدوار ہیں کہ پیغمبر علیہ السلام اور مسلمانوں پر ہم غالب ہوں گے۔ اگر چشم عبرت ہے تو چاہیے کہ عقل سے کام لیں اور قرائن و احوال سے مستقبل کا اندازہ کریں۔ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ان کے گردو پیش کی بستیاں انبیاء کی تکذیب و عداوت کی سزا میں تباہ کی جا چکی ہیں اور ہمیشہ آخرکار خدا کے وفاداروں کا مشن کامیاب رہا ہے۔ پھر سید المرسلین اور مومنین کاملین کے مقابلہ میں غالب آنے کی ان کو کیا توقع ہو سکتی ہے۔ وَلَقَدْ اَہْلَکْنَا مَاحَوْلَکُمْ مِّنَ الْقُرٰی وَصَرَّفْنَا الْاٰیٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ (احقاف، رکوع٤، آیت:٢٧) (تنبیہ) اس مضمون کی آیت سورہ رعد کے آخر میں گزر چکی وہاں کے فوائد ملاحظہ کیے جائیں۔
(تفسیرعثمانی)
فرما دیں اس کے سو ا نہیں کہ میں تمہیں وحی سے ڈراتا ہوں، اور بہرے پکار نہیں سنتے جب بھی انہیں ڈرایا جائے۔ (۴۵)
تشریح:یعنی ہمارا کام وحی الٰہی کے موافق نصیحت سنا دینا اور انجام سے آگاہ کر دینا ہے۔ دل کے بہرے اگر اس پکار کو نہ سنیں تو ہمارا قصور نہیں۔ وہ خود اپنے بہرے پن کا خمیازہ بھگتیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر انہیں تیرے رب کے عذاب کی ایک لپیٹ چھوئے تو وہ ضرور کہیں گے ہائے ہماری شامت! ہم ظالم تھے۔ (۴۶)
تشریح:یعنی یہ لوگ جو بہرے بنے ہوئے ہیں، صرف اس وقت تک ہے کہ ذرا زور سے کھٹکھٹائے نہ جائیں۔ اگر عذاب الٰہی کی ذرا سی بھنک کان میں پڑ گئی یا خدا کے قہر و انتقام کی ادنیٰ بھاپ بھی ان کو چھو گئی تو آنکھ کان سب کھل جائیں گے، اس وقت بدحواس ہو کر چلائیں گے کہ بیشک ہم بڑے بھاری مجرم تھے جو ایسی کم بختی آئی۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم قیامت کے دن میزان عدل قائم کریں گے، تو کسی شخص پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا، اور اگر (کوئی عمل) رائی کے ایک دانہ کے برابر بھی ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے، اور کافی ہیں ہم حساب لینے والے۔ (۴۷)
تشریح:اس آیت نے واضح فرمایا ہے کہ قیامت کے دن صرف یہی نہیں کہ تمام لوگوں سے انصاف ہو گا، بلکہ اس بات کا بھی اہتمام کیا جائے گا کہ انصاف سب لوگوں کو آنکھوں سے نظر آئے، اس غرض کے لئے اللہ تعالی ایسی ترازویں برسر عام نصب فرمائیں گے جن میں انسانوں کے اعمال کو تولا جائے گا اور اعمال کے وزن کے حساب سے انسانوں کے انجام کا فیصلہ ہو گا، انسان جو عمل بھی کرتا ہے اس دنیا میں اگرچہ ان کا نہ کوئی جسم نظر آتا ہے اور نہ ان میں کسی وزن کا احساس ہوتا ہے، لیکن آخرت میں اللہ تعالی ان کا وزن کرنے کی ایسی صورت پیدا فرمائیں گے جن سے ان اعمال کی حقیقت واضح ہو جائے، اگر انسان سردی گرمی جیسی چیزوں کو تولنے کے لئے نئے نئے آلات ایجاد کر سکتا ہے تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالی اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ ان اعمال کو تولنے کا عملی مظاہرہ فرما دیں۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو (حق و باطل میں) فرق کرنے والی (کتاب) اور روشنی عطا کی، اور پرہیز گاروں کے لئے نصیحت۔ (۴۸)
تشریح:یعنی تورات شریف جو حق و باطل، ہدایت و ضلالت اور حلال و حرام کے قضیے چکانے والی اور جہل و غفلت کی اندھیریوں میں روشنی پہنچانے والی اور خدا سے ڈرنے والوں کو نصیحت سنانے والی کتاب تھی۔
(تفسیرعثمانی)
جو لوگ اپنے رب سے بغیر دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ قیامت سے خوف کھاتے ہیں۔ (۴۹)
تشریح:قیامت کا خطرہ بھی اسی لیے رکھتے ہیں کہ ان کے دل میں خدا کا ڈر ہے۔ ہر وقت دل میں کھٹکا لگا رہتا ہے کہ دیکھئے وہاں کیا صورت پیش آئے گی۔ کہیں العیاذ باللہ حق تعالیٰ کی ناراضی اور عذاب کے مورد نہ بن جائیں۔ ظاہر ہے ایسے ہی لوگ نصیحت سے منتفع ہوتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور یہ بابرکت نصیحت ہے (جو) ہم نے نازل کی ہے تو کیا تم اس کے منکر ہو؟ (۵۰)
تشریح:یعنی ایک نصیحت کی کتاب یہ قرآن تمہارے سامنے موجود ہے جس کا جلیل القدر عظیم النفع اور کثیر الخیر ہونا، تورات سے بھی زیادہ روشن ہے۔ کیا ایسی واضح اور روشن کتاب کے تم منکر ہوتے ہو جہاں انکار کی گنجائش ہی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق البتہ ہم نے اس سے قبل ابراہیم کو فہم سلیم دی تھی، اور ہم اس کے جاننے والے تھے۔ (۵۱)
تشریح:یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسٰی و ہارون علیہما الصلوٰۃ والسلام سے پیشتر ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو ان کی اعلیٰ قابلیت و شان کے مناسب رشد و ہدایت دی تھی، بلکہ جوانی سے پہلے ہی بچپن میں انہیں نیک راہ پر ڈال دیا تھا، جو ایسے اولوالعزم انبیاء کے شایان شان ہو۔ ان کی استعداد و اہلیت اور کمالات علمیہ کی پوری خبر ہم ہی رکھتے ہیں۔ اسی لیے جو رشدو و ہدیٰ ان کے حسب حال تھی ہم نے عطا کر دی۔
(تفسیرعثمانی)
جب اس نے کہا اپنے باپ سےاور اپنی قوم سے، کیا ہیں یہ مورتیاں؟ جن کے لئے جمے بیٹھے ہو۔ (۵۲)
تشریح:یعنی ذرا ان کی اصلیت اور حقیقت تو بیان کرو۔ آخر پتھر کی خود تراشیدہ مورتیاں خدا کسی طرح بن گئیں۔ (تفسیرعثمانی)
وہ بولے ہم نے پایا اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے۔ (۵۳)
تشریح:یعنی عقل و فطرت اور نقل معتدبہ کی کوئی شہادت ہماری تائید میں نہیں ہے نہ سہی لیکن بڑی بھاری دلیل بت پرستی کے حق و صواب ہونے کی یہ ہے کہ اوپر سے ہمارے باپ دادا ان ہی کی پوجا کرتے چلے آئے ہیں۔ پھر ہم اپنے بڑوں کا طریقہ کیسے چھوڑ دیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس (ابراہیم) نے کہا تحقیق تم اور تمہارے باپ دادا صریح گمراہی میں رہے۔ (۵۴)
تشریح:یعنی اس دلیل سے تمہاری حقانیت اور عقلمندی ثابت نہ ہوئی۔ ہاں یہ ثابت ہوا کہ تمہارے باپ دادا بھی تمہاری طرح گمراہ اور بیوقوف تھے جن کی کورانہ تقلید میں تم تباہ ہو رہے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
وہ بولے کیا تم ہمارے پاس حق لائے ہو، یا دل لگی کرنے والوں میں سے ہو۔ (۵۵)
تشریح:تمام قوم کے عقیدہ کے خلاف ابراہیم علیہ السلام کی ایسی سخت گفتگو سن کر ان میں اضطراب پیدا ہو گیا کہنے لگے کیا سچ مچ تیرا خیال اور عقیدہ یہ ہی ہے یا محض ہنسی اور دل لگی کرتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا بلکہ تمہارا رب مالک ہے آسمانوں کا اور زمین کا، وہ جس نے انہیں پیدا کیا اور اس بات پر میں گواہوں میں سے (گواہ) ہوں۔ (۵۶)
تشریح:یعنی میرا عقیدہ ہی یہ ہے اور پورے یقین و بصیرت سے اس کی شہادت دیتا ہوں کہ میرا تمہارا سب کا رب و ہی ایک خدا ہے جس نے آسمان زمین پیدا کیے اور ان کی دیکھ بھال رکھی۔ کوئی دوسری چیز اس کی خدائی میں شریک نہیں ہو سکتی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ کی قسم! البتہ میں تمہارے بتوں سے ضرور چال چلوں گا، اس کے بعد جبکہ تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے۔ (۵۷)
تشریح:یہ بات ذرا آہستہ کہی کہ بعض نے سنی، بہتوں نے نہ سنی، جنہوں نے سنی اس کی کچھ پروا نہ کی، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ تنہا ایک نوجوان ساری قوم کے معبودوں کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پس اس نے ان کے ایک بڑے کے سوا سب کو ریزہ ریزہ کر ڈالا، تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ (۵۸)
تشریح:جب وہ لوگ شہر سے باہر ایک میلہ میں گئے تب ابراہیم علیہ السلام نے بت خانہ میں جا کر بتوں کو توڑ ڈالا۔ صرف ایک بت کو باقی رہنے دیا جو باعتبار جثہ کے یا تعظیم و تکریم کے ان کے نزدیک سب سے بڑا تھا، اور جس کلہاڑی سے توڑا تھا وہ اس بڑے کے گلے میں لٹکا دی، تاکہ وہ لوگ جب واپس آ کر یہ صورت حال دیکھیں تو قدرتی طور پر ان کا خیال اس بڑے بت کی طرف ہو یا الزاماً اس کی طرف رجوع کرایا جاس کے۔
(تفسیرعثمانی)
کہنے لگے کون ہے جس نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ کیا؟بیشک وہ تو ظالموں میں سے ہے۔ (۵۹)
تشریح:یعنی یہ گستاخی اور بے ادبی کی حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ کس نے کی، یقیناً ًجس نے یہ کام کیا بڑا ظالم اور شریر ہے (استغفراللہ) یہ شاید ان لوگوں نے کہا ہو گا جن کے کان تک "تَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ” کی آواز نہ پہنچی تھی۔
(تفسیرعثمانی)
بولے ہم نے سنا ہے ایک جوان (بتوں) کے بارے میں باتیں کرتا ہے، اس کو ابراہیم کہا جاتا ہے۔ (۶۱)
تشریح:یہ کہنے والے وہ لوگ ہوں گے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جملے سن چکے تھے۔ یعنی و ہی ایک شخص ہے جو ہمارے معبودوں کا ذکر برائی سے کیا کرتا ہے، یقیناً ًیہ کام اسی نے کیا ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
بولے تو اسے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لے آؤ تاکہ وہ دیکھیں۔ (۶۱)
تشریح:یعنی اس کو بلا کر برملا مجمع عام میں بیان لیا جائے۔ تاکہ معاملہ کو سب لوگ دیکھ کر خود اس کی باتیں سن کر گواہ رہیں کہ جو سزا اس کو قوم کی طرف سے دی جائے گی بیشک وہ اس کا مستحق تھا۔ یہ تو ان کی غرض تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقصود بھی یہ ہی ہو گا کہ مجمع عام میں ان کو موقع ملے کہ مشرکین کو عاجز و مبہوت کریں اور علیٰ رؤس الاشہاد غلبہ حق کا اظہار ہو۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے کہا اے ابراہیم! کیا یہ تو نے ہمارے معبودوں کے ساتھ کیا ہے؟ (۶۲)
اس نے کہا بلکہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے، تو ان (ہی) سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہیں۔ (۶۳)
تشریح:یعنی مجھ سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ یہ فرض کر لیا جائے کہ اس بڑے گرو گھنٹال نے جو صحیح سالم کھڑا ہے اور توڑنے کا آلہ بھی اس کے پاس موجود ہے، یہ کام کیا ہو گا۔ لیجئے بحث و تحقیق کے وقت بطور الزام و تبکیت میں یہ دعویٰ کیے لیتا ہوں کہ بڑے بت نے سب چھوٹوں کو توڑ ڈالا۔ اب آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ ایسا نہیں ہوا۔ کیا دنیا میں ایسا ہوتا نہیں کہ بڑے سانپ چھوٹے سانپوں کو، بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل جاتی ہے۔ اور بڑے بادشاہ چھوٹی سلطنتوں کو تباہ کر ڈالتے ہیں، اس لیے بہترین صورت میرے تمہارے درمیان فیصلہ کی یہ ہے کہ تم خود اپنے ان معبودوں ہی سے دریافت کر لو کہ یہ ماجرا کس طرح ہوا، اگر یہ کچھ بول سکتے ہیں تو کیا ایسے اہم معاملہ میں بول کر میرے جھوٹ سچ کا فیصلہ نہ کر دیں گے؟ (تنبیہ) ہماری تقریر سے ظاہر ہو گیا کہ "بَلْ فَعَلَہ، کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا” کہنا خلاف واقعہ خبر دینے کے طور پر نہ تھا جسے حقیقتہً جھوٹ کہا جائے بلکہ ان کی تحمیق و تجہیل کے لیے ایک فرضی احتمال کو بصورت دعویٰ لے کر بطور تعریض و الزام کلام کیا گیا تھاجیسا کہ عموماً بحث و مناظرہ میں ہوتا ہے اس کو جھوٹ نہیں کہہ سکتے۔ ہاں بظاہر صورت جھوٹ کی معلوم ہوتی ہے اسی لیے بعض احادیث میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق صورۃً کیا گیا ہے۔ مفسرین نے اس کی توجیہ میں اور بھی کئی محمل بیان کیے ہیں۔ مگر ہمارے نزدیک یہی تقریر زیادہ صاف بے تکلف اور اقرب الی الروایات ہے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
پس وہ سوچ میں پڑ گئے اپنے دلوں میں، پھر انہوں نے کہا بیشک تم ہی ظالم ہو (ناحق پر ہو) ۔ (۶۴)
تشریح:یعنی سمجھے کہ بیکار پتھر پوجنے سے کیا حاصل یا یہ مطلب ہو کہ تم نے خود اپنے اوپر ظلم کیا کہ باوجود ابراہیم علیہ السلام کی دھمکی سننے کے یوں ہی لاپروائی سے بت خانہ کھلا چھوڑ کر چلے گئے اپنے معبودوں کی حفاظت کا کوئی سامان کر کے نہ گئے کذا قال ابن کثیر۔
(تفسیرعثمانی)
پھر وہ اپنے سروں پر اوندھے کئے گئے (سروں کے بل جھک گئے) تو خوب جانتا ہے یہ جو کچھ بولتے ہیں۔ (۶۵)
اس نے کہا کیا تم پھر اللہ کے سوا ان کی پرستش کرتے ہو؟جو نہ تمہیں کچھ نفع پہنچاس کیں اور نہ نقصان پہنچاس کیں۔ (۶۶)
تف ہے تم پر! اور (ان بتوں پر) جن کی تم اللہ کے سوا پرستش کرتے ہو، کیا تم پھر (بھی ) نہیں سمجھتے۔ (۶۷)
تشریح:یعنی پھر تم کو ڈوب مر جانا چاہیے کہ جو مورتی ایک لفظ نہ بول سکے، کسی آڑے وقت کام نہ آسکے، ذرہ برابر نفع و نقصان اس کے اختیار میں نہ ہو، اسے خدائی کا درجہ دے رکھا ہے، کیا اتنی موٹی بات بھی تم نہیں سمجھ سکتے۔ (تفسیرعثمانی)
وہ کہنے لگے تم اسے جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔ (۶۸)
تشریح:یعنی بحث و مناظرہ میں تو اس سے جیت نہیں سکتے۔ اب صرف ایک ہی صورت ہے کہ (جو معبود ہماری بلکہ خود اپنی مدد نہیں کر سکتے) ہم ان کی مدد کریں اور ان کے دشمن کو سخت ترین سزا دیں۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو ہم نے کچھ کام نہ کیا۔ چنانچہ اس مشورہ کے موافق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جلانے کی سزا تجویز ہوئی۔ گویا جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑ کر ان کے دل جلائے تھے، یہ ان کو آگ میں جلا ڈالیں۔ آخر ظالموں نے جمع ہو کر نہایت اہتمام اور بے رحمی کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سخت بھڑکتی ہوئی آگ کی نذر کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
ہم نے حکم دیا، اے آگ!تو ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی۔ (۶۹)
تشریح:یعنی تکویناً آگ کو حکم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہو جا۔ لیکن اس قدر ٹھنڈی نہیں کہ برودت سے تکلیف پہنچنے لگے۔ ایسی معتدل ٹھنڈی ہو جو جسم و جان کو خوشگوار معلوم ہونے لگے (تنبیہ) آگ کا ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈا ہو جانا ان کا معجزہ تھا۔ معجزہ کی حقیقت یہی ہے کہ حق تعالیٰ اپنی عام عادت کے خلاف سبب عادی کو مسبب سے یا مسبب کو سبب سے جدا کر دے، یہاں احراق کا سبب (آگ) موجود تھی، مگر مسبب اس پر مرتب نہ ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اس کے ساتھ فریب کا ارادہ کیا تو ہم نے انہیں کر دیا انتہائی زیاں کار۔ (۷۰)
تشریح:یعنی ابراہیم علیہ السلام کا برا چاہتے تھے، لیکن خود ناکامی، ذلت اور خسارہ میں پڑ گئے حق کی صداقت برملا ظاہر ہوئی اور اللہ کا کلمہ بلند ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سر زمین کی طرف (بھیج کر) بچا لیا، جس میں ہم نے جہانوں کے لئے برکت رکھی۔ (۷۱)
تشریح:یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مع حضرت لوط علیہ السلام کے صحیح سالم ملک شام میں لے گئے جہاں بہت سی ظاہری و باطنی برکات ودیعت کی گئی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اس کو عطا کیا اسحاق (بیٹا) اور یعقوب پوتا، اور ہم نے ان سب کو نیکو کار بنایا۔ (۷۲)
تشریح:یعنی بڑھاپے میں بیٹا مانگا تھا، ہم نے پوتا بھی دے دیا۔ یعنی یعقوب علیہ السلام۔
ابراہیم، لوط، اسحاق، یعقوب علیھم السلام اعلیٰ درجہ کے نیک بندوں میں ہیں۔ کیونکہ سب نبی ہوئے اور انبیاء سے بڑھ کر نیکی کس میں ہو سکتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا، وہ ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے اور ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی نیک کام کرنے کی، اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی، اور وہ ہماری ہی عبادت کرنے والے تھے۔ (۷۳)
تشریح:یعنی ایسے کامل تھے کہ دوسروں کی تکمیل بھی کرتے تھے۔ ان کی طرف وحی بھیجی جس میں ان امور کی تاکید تھی۔ یہ ان کا کمال علمی ہوا۔ شب و روز ہماری بندگی میں لگے رہتے تھے کسی دوسری طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ یہ ہی انبیاء کی شان ہوتی ہے کہ ان کا ہر کام خدا کی بندگی کا پہلو لیے ہوتا ہے۔ یہ عملی کمال ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے لوط کو حکم دیا (حکمت و نبوت) اور علم (دیا) اور ہم نے اسے اس بستی سے بچا لیا جو گندے کام کرتی تھی، بیشک وہ تھے برے اور بدکار لوگ۔ (۷۴)
تشریح:بستی سے مراد "سدوم” اور اس کے ملحقات ہیں۔ (تفسیرعثمانی)
یوں تو یہ قوم بہت سے گندے کاموں میں مبتلا تھی، لیکن ان کی جس گھناؤنی حرکت کا قرآن کریم نے خاص طو ر پر ذکر کیا ہے وہ ہم جنس پرستی یعنی مردوں کا مردوں سے جنسی لذت حاصل کرنا ہے، اس کا مفصل تذکرہ سورۂ ہود (۱۱۔ ۷۷، ۸۳) میں گزر چکا ہے۔
(توضیح القرآن)
اور ہم نےاسے اپنی رحمت میں داخل کیا، بے شک وہ نیکو کاروں میں سے ہے۔ (۷۵)
تشریح:یعنی جب لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب بھیجا تو لوط علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ہم نے اپنی مہربانی اور رحمت کی چادر میں ڈھانپ لیا۔ تاکہ نیکوں کا اور بدوں کا انجام الگ الگ ظاہر ہو جائے۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب اس سے قبل نوح نے پکارا توہم نے اس کی (دعا) قبول کر لی، پھر ہم نے اسے اور اس کے لوگوں کو نجات دی بڑی بے چینی (سختی) سے۔ (۷۶)
اور ہم نے اس کو مدد دی ان لوگوں پر جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا، بے شک وہ بُرے لوگ تھے، پھر ہم نے ان سب کو غرق کر دیا۔ (۷۷)
تشریح:نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک قوم کو سمجھاتے رہے اتنی طویل مدت میں سخت زہرہ گداز سختیاں اٹھائیں۔ آخر دعا کی "اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ” (قمر، رکوع١، آیت:١٠) اور "رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّاراً۔ ” (نوح، رکوع٢، آیت:٢٦) حق تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی۔ کافروں کو طوفان سے غرق کر دیا اور نوح علیہ السلام کو مع ہمراہیوں کے طوفان کی گھبراہٹ اور کفار کی ایذا دہی سے بچا لیا۔ ان کا مفصل قصہ پہلے گزر چکا۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب داؤو اور سلیمان ایک کھیتی کے بارہ میں فیصلہ کر رہے تھے، جب اس میں رات کے وقت ایک قوم کی بکریاں چر گئیں اور ہم ان کے فیصلے کے وقت موجود تھے۔ (۷۸)
اور ہر ایک کو ہم نے حکم (حکمت و نبوت) اور علم دیا، اور ہم نے پہاڑوں کو داؤد کا مسخر کر دیا، وہ تسبیح کرتے تھے اور پرندے (بھی مسخر کئے) اور کرنے والے ہم تھے۔ (۷۹)
تشریح: حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے پیغمبر تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ان کے صاحبزادے ہیں، اور خود نبی ہیں دونوں کو اللہ تعالیٰ نے حکومت، قوتِ فیصلہ اور علم و حکمت عنایت فرمائے تھے۔ حضرت سلیمان بچپن ہی میں اس قدر غیر معمولی سمجھ کی باتیں کرتے تھے کہ سننے والے حیران رہ جائیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا کہ ایک شخص کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں آ گھسیں کھیتی کا نقصان ہوا، حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ بکریوں کی قیمت اس مالیت کے برابر ہے جس کا کھیت والے نے نقصان اٹھایا تھا، یہ فیصلہ کیا کہ بکریاں کھیتی والے کو دے دی جائیں۔ حضرت سلیمان نے فرمایا کہ میرے نزدیک کھیتی والا بکریاں اپنے پاس رکھے اور دودھ پئے اور بکریوں والے کھیت کی آبپاشی اور تردد کریں جب کھیتی جیسی تھی ویسی ہو جائے تو بکریاں لوٹا دیں اور کھیتی لے لیں اس میں دونوں کا نقصان نہ ہو گا۔ حضرت داؤد نے بھی یہ فیصلہ سن کر تحسین فرمائی اور اپنے اجتہاد سے رجوع کیا۔ گویا اصول فقہ کی اصطلاح میں سلیمان علیہ السلام کے استحسان کو اپنے قیاس کے مقابلہ میں قبول فرما لیا۔ باپ بیٹے دونوں نے جو فیصلہ شرکائے مقدمہ کے حق میں کیا وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تھا اور دونوں ہی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے فیصلہ کرنے کی قوت اور سمجھ عنایت کی تھی۔ لیکن اصل گر کی بات اس نے سلیمان علیہ السلام کو سجھا دی وہ اس نتیجہ پر پہنچے جو اللہ کے نزدیک اصلح و اصوب تھا، اور جسے آخرکار داؤد علیہ السلام نے بھی قبول کیا۔ اس واقعہ سے ظاہر ہوا کہ انبیاء علیہم السلام بادشاہ ہو کر بھی مخلوق کے چھوٹے چھوٹے معاملات کی طرف اسی قدر توجہ فرماتے ہیں جیسے بڑے مہم کاموں کی طرف۔
حضرت داؤد علیہ السلام بے انتہا خوش آواز تھے اس پر پیغمبرانہ تاثیر، حالت یہ ہوتی تھی کہ جب جوش میں آ کر زبور پڑھتے یا خدا کی تسبیح و تحمید کرتے تو پہاڑ اور پرند جانور بھی ان کے ساتھ آواز سے تسبیح پڑھنے لگتے تھے۔ تعجب نہ کرو کہ پتھر اور جانور کیسے بولتے اور تسبیح پڑھتے ہوں گے یہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا تھا، بھلا ہماری لا محدود قوت کے لحاظ سے یہ باتیں کیا مستبعد سمجھی جا سکتی ہیں۔
(تفسرعثمانی)
اور ہم نے اسے تمہارے لئے ایک لباس (بنانے) کی کاریگری سکھائی تاکہ وہ تمہیں تمہاری لڑائی سے بچائے، پس کیا تم شکر کرنے والے ہو؟ (۸۰)
تشریح:حق تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھ میں لوہا موم کر دیا تھا۔ اسے موڑ کر نہایت ہلکی مضبوط، جدید قسم کی زرہیں تیار کرتے تھے جو لڑائی میں کام دیں۔ فَہلْ أَنْتُمْ شَاكِرُوْنَ۔ تمہارے فائدہ کے لیے ہم نے داؤد علیہ السلام کے ذریعہ سے ایسی عجیب صنعت نکال دی، سوچو کہ تم اس قسم کی نعمتوں کا کچھ شکر ادا کرتے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے تیز چلنے والی ہواسلیمان کیلئے (مسخر کی) وہ اس کے حکم سے اس سر زمین (شام) کی طرف چلتی، جس میں ہم نے برکت دی، اور ہم ہر شے کو جاننے والے ہیں۔ (۸۱)
تشریح:حضرت سلیمان علیہ السلام نے دعاء کی تھی: رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًالَّا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْم بَعْدِیْ (ص، رکوع٣، آیت:٣٥) اللہ تعالی نے ہوا اور جن ان کے لیے مسخر کر دیے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک تخت تیار کرایا تھا جس پر مع اعیان دولت بیٹھ جاتے اور ضروری سامان بھی بار کر لیا جاتا، پھر ہوا آتی، زور سے اس کو زمین سے اٹھاتی، پھر اوپر جا کر نرم ہوا ان کی ضرورت کے مناسب چلتی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ "رُخَآءً حَیثُ اَصَابَ” (ص، رکوع٣، آیت: ٣٦) یمن سے شام کو اور شام سے یمن کو مہینہ کی راہ دوپہر میں پہنچا دیتی۔ تعجب ہے کہ آج عجیب و غریب ہوائی جہازوں کے زمانہ میں بہت سے زائغین اس قسم کے واقعات کا انکار کرتے ہیں۔ کیا یورپ جو کام اسٹیم اور الیکٹرک سے کر سکتا ہے خدا تعالیٰ ایک پیغمبر کی خاطر اپنی قدرت سے نہیں کر سکتا۔ کہ کس کو کس قسم کا امتیاز دینا مناسب ہے، اور ہوا وغیرہ عناصر سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور شیطانوں میں سے (مسخر کئے) جو غوطہ لگاتے تھے اس کے لئے، اور اس کےسوا اور کام (بھی) کرتے تھے، اور ہم ان کو سنبھالنے والے تھے۔ (۸۲)
تشریح:شیاطین سے مراد سرکش جن ہیں، ان سے حضرت سلیمان علیہ السلام دریا میں غوطہ لگواتے تاکہ موتی اور جواہر اس کی تہ میں سے نکالیں اور عمارات میں بھاری کام کرواتے اور حوض کے برابر تانبے کے لگن اور بڑی عظیم الشان دیگیں جو اپنی جگہ سے ہل نہ سکیں بنوا کر اٹھواتے تھے اور سخت سخت کام ان سے لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس قسم کے حیرت انگیز کام اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مادی قوتوں سے کرائے ہیں اس وقت مخفی اور روحی قوتوں سے کرائے جاتے تھے۔
ہم نے اپنے اقتدارِ کامل سے ان شیاطین کو سلیمان کی قید میں اس طرح تھام رکھا تھا کہ جو چاہتے ان سے بیگار لیتے تھے۔ اور وہ کوئی ضرر سلیمان علیہ السلام کو نہیں پہنچا سکتے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (۸۳)
تو ہم نے قبول کر لی اس کی (دعا) پس اسے جو تکلیف تھی ہم نے کھول دی ( دور کر دی) اور ہم نے اسے اس کے گھر والے دئیے، اور ان کے ساتھ ان جیسے (اور بھی) رحمت فرما کر اپنے پاس سے، اور عبادت کرنے والوں کے لئے نصیحت۔ (۸۴)
تشریح: حضرت ایوب علیہ السلام کو حق تعالیٰ نے دنیا میں سب طرح آسودہ رکھا تھا، کھیت، مواشی، لونڈی، غلام، اولاد صالح اور عورت مرضی کے موافق عطا کی تھی۔ حضرت ایوب علیہ السلام بڑے شکر گزار بندے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، کھیت جل گئے، مویشی مر گئے، اور اولاد اکٹھی دب مری، دوست آشنا الگ ہو گئے، بدن میں آبلے پڑ کر کیڑے پڑ گئے، ایک بیوی رفیق رہی، آخر وہ بیچاری بھی اکتانے لگتی۔ مگر حضرت ایوب علیہ السلام جیسے نعمت میں شاکر تھے ویسے ہی بلا میں صابر رہے۔ جب تکلیف و اذیت اور دشمنوں کی شماتت حد سے گزر گئی۔ بلکہ دوست بھی کہنے لگے کہ یقیناً ایوب علیہ السلام نے کوئی ایسا سخت گناہ کیا ہے جس کی سزا ایسی ہی سخت ہو سکتی تھی، تب دعا کی "رَبِّ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ” رب کو پکارنا تھا کہ دریائے رحمت امنڈ پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے مری ہوئی اولاد سے دگنی اولاد دی، زمین سے چشمہ نکالا۔ اسی سے پانی پی کر اور نہا کر تندرست ہوئے۔ بدن کا سارا روگ جاتا رہا۔ اور جیسا کہ حدیث میں ہے سونے کی ٹڈیاں برسائیں، غرض سب طرح درست کر دیا۔ ایوب علیہ السلام پر یہ مہربانی ہوئی اور تمام بندگی کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت اور یادگار قائم ہو گئی کہ جب کسی بندے پر دنیا میں برا وقت آئے تو ایوب علیہ السلام کی طرح صبرو استقلال دکھلانا اور صرف اپنے پروردگار سے فریاد کرنا چاہیے۔ حق تعالیٰ اس پر نظر عنایت فرمائے گا۔ اور محض ایسے ابتلاء کو دیکھ کر کسی شخص کی نسبت یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اللہ کے یہاں مبغوض ہے۔ (تفسیرعثمانی)
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔ (۸۵)
اور ہم نے انہیں اپنی رحمت میں داخل کیا، بیشک وہ نیکو کاروں میں سے تھے۔ (۸۶)
تشریح:حضرت اسماعیل اور حضرت ادریس علیہما السلام کا ذکر تو پہلے سورۂ مریم میں گزر چکا ہے، حضرت ذوالکفل کا قرآن کریم میں صرف نام آیا ہے ان کا کوئی واقعہ قرآن کریم نے بیان نہیں فرمایا، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ یہ بھی کوئی پیغمبر تھے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حضرت یسع علیہ السلام کے خلیفہ تھے، اور نبی تو نہیں تھے، لیکن بڑے اونچے درجے کے ولی تھے، واللہ اعلم۔
(توضیح القرآن)
اور (یاد کرو) جب مچھلی والے (یونس اپنی قوم سے) غصہ میں بھر کر چل دئیے، پس اس نے گمان کیا کہ ہم ہر گز اس پر تنگی (گرفت) نہ کریں گے، (جب مچھلی نگل گئی) تواس نے اندھیروں میں پکارا کہ (اے اللہ) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پاک ہے، بیشک میں ظالموں (قصور واروں) میں سے تھا۔ (۸۷)
پھر ہم نے اس کی (دعا) قبول کر لی اور ہم نے اسے غم سے نجات دی، اور اسی طرح ہم مؤمنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ (۸۸)
تشریح:”مچھلی والا” فرمایا حضرت یونس علیہ السلام کو۔ ان کا مختصر قصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہر نینویٰ کی طرف (جو موصل کے مضافات میں سے ہے) مبعوث فرمایا تھا۔ یونس علیہ السلام نے ان کو بت پرستی سے روکا اور حق کی طرف بلایا۔ وہ ماننے والے کہاں تھے، روز بروز ان کا عناد و تمرد ترقی کرتا رہا۔ آخر بددعا کی اور قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصہ میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے، حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا، ان کے نکل جانے کے بعد قوم کو یقین ہوا کہ نبی کی بددعا خالی نہیں جائے گی، کچھ آثار بھی عذاب کے دیکھے ہوں گے۔ گھبرا کر سب لوگ بچوں اور جانوروں سمیت باہر جنگل میں چلے گئے اور ماؤں کو بچوں سے جدا کر دیا۔ میدان میں پہنچ کر سب نے رونا چلانا شروع کیا، بچے اور مائیں، آدمی اور جانور سب شور مچا رہے تھے، کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، تمام بستی والوں نے سچے دل سے توبہ کی، بت توڑ ڈالے۔ خدا تعالیٰ کی اطاعت کا عہد باندھا اور حضرت یونس علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے کہ ملیں تو ان کے ارشاد پر کاربند ہوں۔ حق تعالیٰ نے آنے والا عذاب ان پر سے اٹھا لیا۔ "فَلَوْلَا کَاَنْت قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَا اِیْمَانُہَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّا اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ۔ ” (یونس، رکوع١٠، آیت:٩٨) ادھر یونس علیہ السلام بستی سے نکل کر ایک جماعت کے ساتھ کشتی پر سوار ہوئے وہ کشتی غرق ہونے لگی۔ کشتی والوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ارادہ کیا کہ ایک آدمی کو نیچے پھینک دیا جائے (یا اپنے مفروضات کے موافق یہ سمجھے کہ کشتی میں کوئی غلام مولا سے بھاگا ہوا ہے) بہرحال اس آدمی کی تعیین کے لیے قرعہ ڈالا۔ وہ یونس علیہ السلام کے نام نکلا۔ دو تین مرتبہ قرعہ اندازی کی ہر دفعہ یونس علیہ السلام کے نام پر نکلتا رہا۔ یہ دیکھ کر یونس علیہ السلام دریا میں کود پڑے۔ فوراً ایک مچھلی آ کر نگل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو حکم دیا کہ یونس علیہ السلام کو اپنے پیٹ میں رکھ، اس کا ایک بال بیکا نہ ہو۔ یہ تیری روزی نہیں بلکہ تیرا پیٹ ہم نے اس کا قید خانہ بنایا ہے۔ اس کو اپنے اندر حفاظت سے رکھنا۔ اس وقت یونس علیہ السلام نے اللہ کو پکارا۔ "لَا اِلٰـہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ۔ ” اپنی خطا کا اعتراف کیا کہ بیشک میں نے جلدی کی کہ تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ گو یونس علیہ السلام کی یہ غلطی اجتہادی تھی جو امت کے حق میں معاف ہے، مگر انبیاء کی تربیت و تہذیب دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس معاملہ میں وحی آنے کی امید ہو، بدون انتظار کیے قوم کو چھوڑ کر چلا جانا ایک نبی کی شان کے لائق نہ تھا۔ اسی مناسب بات پر داروگیر شروع ہو گئی۔ آخر توبہ کے بعد نجات ملی مچھلی نے کنارہ پر آ کر اگل دیا۔ اور اس بستی کی طرف صحیح سالم واپس کیے گئے۔
وَکَذٰلِکَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِيْنَ: یعنی یونس علیہ السلام کے ساتھ مخصوص نہیں، جو ایماندار لوگ ہم کو اسی طرح پکاریں گے ہم ان کو بلاؤں سے نجات دیں گے۔ احادیث میں اس دعا کی بہت فضیلت آئی ہے۔ اور امت نے شدائد و نوائب میں ہمیشہ اس کو مجرب پایا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور (یاد کرو) جب زکریا نے اپنے رب کو پکارا، اے میرے رب! مجھے اکیلا (لا وارث) نہ چھوڑ اور تو (سب سے) بہتر وارث ہے۔ (۸۹)
پھر ہم نے اس کی (دعا) قبول کر لی اور ہم نے اسے عطا کیا یحیی اور ہم نے اس کے لئے اس کی بیوی کو درست (اولاد کے قابل) کر دیا، بیشک وہ سب نیک کاموں میں جلدی کرتے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔ (۹۰)
تشریح:حضرت زکریا علیہ السلام کی کوئی اولاد نہیں تھی، انہوں نے اللہ تعالی سے بیٹے کے لئے دعا کی تو انہیں حضرت یحیی علیہ السلام جیسا بیٹا عطا فرمایا گیا، اس واقعے کی تفصیل سورۂ آل عمران (۳:۳۷ تا۴۰) میں گزر چکی ہے۔ (توضیح القرآن)
وَأَصْلَحْنَا لَہ زَوْجَہ:یعنی ان کی بیوی بانجھ تھیں، اللہ تعالی نے ان میں اولاد کی صلاحیت پیدا فرما دی۔
بعض متصوفین کہا کرتے ہیں کہ جو کوئی اللہ کو پکارے توقع سے یا ڈر سے وہ اصلی محب نہیں۔ یہاں سے ان کی غلطی ظاہر ہوئی۔ انبیاء سے بڑھ کر خدا کا محب کون ہو سکتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
(اور یاد کرو مریم کو) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی، پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی، اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے کو جہانوں کے لئے نشانی بنایا۔ (۹۱)
تشریح:مراد حضرت مریم علیہ السلام ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کر کے انہیں اپنی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی بنادیا تھا۔
(توضیح القرآن)
بیشک یہ ہے تمہاری امت (ملت) یکتا امت، اور میں تمہارا رب ہوں، پس میری عبادت کرو۔ (۹۲)
تشریح:یعنی خدا بھی ایک اور تمہارا اصل دین بھی ایک ہے۔ تمام انبیاء اصول میں متحد ہوتے ہیں جو ایک کی تعلیم ہے وہ ہی دوسروں کی ہے۔ رہا فروع کا اختلاف وہ زمان و مکان کے اختلاف کی وجہ سے عین مصلحت و حکمت ہے۔ اختلاف مذموم وہ ہے جو اصول میں ہو، پس لازم ہے کہ سب مل کر خدا کی بندگی کریں اور جن اصول میں تمام انبیاء متفق رہے ہیں ان کو متحدہ طاقت سے پکڑیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اپنا کام (دین) باہم ٹکڑے ٹکڑے کر لیا، سب ہماری طرف رجوع کرنے والے (لوٹنے والے) ہیں۔ (۹۳)
تشریح:ہم نے تو اصول کے اعتبار سے ایک دین دیا تھا۔ لوگوں نے خود اختلاف ڈال کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر لیے اور آپس میں پھوٹ ڈال دی۔
(تفسیرعثمانی)
پس جو کچھ نیک کام کرے اور وہ ایمان والا ہو تو اکارت نہیں (جائے گی) اس کی کوشش، اور بیشک ہم اس کے لکھ لینے والے ہیں۔ (۹۴)
تشریح: نیکی کا میٹھا پھل مومن کو مل کر رہے گا۔ کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ نیکی بھی ضائع نہ ہو گی، ہر چھوٹا بڑا عمل ہم اس کے اعمال نامہ میں ثبت کر دیتے ہیں جو قیامت کے دن کھول دیئے جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس بستی پر (دنیا میں لوٹ کر آنا) حرام ہے جسے ہم نے ہلاک کر دیا کہ وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ (۹۵)
تشریح:کافر لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد دوبارہ زندگی آنے والی ہے تو جو کافر پہلے مر چکے ہیں انہیں زندہ کر کے ابھی ان کا حساب کیوں نہیں لے لیا جاتا ؟یہ آیت اس کا جواب دے رہی ہے کہ حساب و کتاب اور جزا وسزا کے لئے اللہ تعالی نے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے اس سے پہلے کسی کا زندہ ہو کر اس دنیا میں آ جانا ممکن نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دئے جائیں گے، اور ہر ٹیلہ سے دوڑتے آئیں گے۔ (۹۶)
تشریح:مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنا اس وقت ہو گا جب قیامت آئے گی، اور اس کی ایک علامت یہ ہو گی کہ یاجوج اور ماجوج کے وحشی قبیلے بہت بڑی تعداد میں دنیا پر حملہ آور ہوں گے اور ایسا محسوس ہو گا کہ وہ ہر بلند جگہ سے پھسلتے ہوئے آرہے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور سچا وعدہ قریب آ جائے گا تو اچانک منکروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی، ہائے ہماری شامت!تحقیق ہم اس سے غفلت میں تھے، بلکہ ہم ظالم تھے۔ (۹۷)
تشریح:یعنی جزاء و سزا کا وعدہ جب نزدیک آ لگے گا اس وقت منکروں کی آنکھیں مارے شدتِ ہول کے پھٹی رہ جائیں گی اور اپنی غفلت پردست حسرت ملیں گے کہ افسوس آج کے دن ہم کیسے بے خبر رہے جو ایسی کم بختی آئی۔ کاش ہم دنیا میں اس آفت سے بچنے کی فکر کرتے۔ بے خبری بھی کیسے کہیں، آخر انبیاء علیہم السلام نے کھول کھول کر آگاہ کر دیا تھا۔ لیکن ہم نے خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کیا کہ ان کا کہا نہ مانا اور برابر شرارتوں اور گناہوں پر اصرار کرتے رہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک تم اور وہ جن کی تم پرستش کرتے ہو اللہ کے سوا، جہنم کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔ (۹۸)
تشریح: پتھر کے جن بتوں کی یہ مشرکین عبادت کرتے تھے ان کو بھی سزا کے طور پر نہیں بلکہ اس لئے جہنم میں ڈالا جائے گا تاکہ اس بات کا عملی مظاہرہ کیا جائے کہ جن بتوں کو تم خدا سمجھتے تھے وہ آخر کار کتنے بے بس ثابت ہوئے۔
(توضیح القرآن)
اگر یہ معبود ہوتے تو اس میں داخل نہ ہوتے، اور وہ سب اس میں سدا رہیں گے۔ (۹۹)
ان کے لئے وہاں چیخ پکار ہے، اور وہ اس میں کچھ نہ سن سکیں گے۔ (۱۰۰)
تشریح:یعنی شدتِ ہول اور عذاب کی سخت تکلیف اور اپنے چلانے کے شور سے کچھ سنائی نہ دے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ سے منقول ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہر دوزخی کو ایک لوہے کے صندوق میں بند کر کے اوپر میخیں ٹھونک دی جائیں گی۔ اور جہنم کی تہ میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔ شاید کچھ نہ سن سکنا اس وقت کا حال ہو۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے پہلے (ہی) بھلائی ٹھہر چکی وہ لوگ اس سے دور رکھے جائیں گے۔ (۱۰۱)
تشریح: یعنی ایک بار پل صراط پر سے گزر کر پھر ہمیشہ دور رہیں گے اور اس پر سے گزرتے ہوئے کبھی دوزخ کی تکلیف و الم سے قطعاً دوری ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
وہ نہ سنیں گے اس کی آہٹ (بھی) اور ان کے دل جو چاہیں گے وہ اس (آرام و راحت) میں ہمیشہ رہیں۔ (۱۰۲)
تشریح:جنتیوں کو دوزخ سے اس قدر بُعد ہو گا کہ اس کی آہٹ تک محسوس نہ کریں گے اور نہایت عیش و آرام کے ساتھ ہمیشہ جنت کے مزے لوٹیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
انہیں غمگین نہ کرے گی بڑی گھبراہٹ، اور فرشتے انہیں لینے آئیں گے، یہ ہے (وہ) دن جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ (۱۰۳)
تشریح:یعنی اس دن جب خلقت کو سخت گھبراہٹ ہو گی اللہ تعالیٰ ان کو رنج و غم سے محفوظ رکھے گا۔ قبروں سے اٹھنے یا جنت میں داخل ہونے کے وقت فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور کہیں گے کہ جس دائمی مسرت و راحت کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا آج اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
جس دن ہم آسمان لپیٹ دیں گے، جیسے تحریر کا طومار لپیٹا جاتا ہے، جیسے ہم نے پہلی بار پیدائش کی تھی ہم اسے پھر لوٹا دیں گے یہ وعدہ ہم پر (ہمارے ذمے) ہے، بیشک ہم پورا کرنے والے ہیں۔ (۱۰۴)
تشریح:یعنی جب قیامت آئے گی تو آسمانوں کی صفیں لپیٹ دی جائیں گی جس طرح دستاویز کا لکھا ہوا کاغذ لپیٹ کر رکھ دیا جاتا ہے
کَمَا بَدَأْنَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُہ:جیسی سہولت سے دنیا کو پہلی بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوبارہ پیدا کر دی جائے گی۔ یہ حتمی وعدہ ہے جو یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھا کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔ (۱۰۵)
تشریح: یعنی آخرت میں ساری زمین پر کسی کافر کا کوئی حصہ نہیں ہو گا، بلکہ وہ اللہ تعالی کے نیک بندوں ہی کو ملے گی۔
(توضیح القرآن)
کامل وفادار بندوں سے حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو دنیا و آخرت کی کامیابی اور اس زمین اور جنت کی زمین کا وارث بنائے گا چنانچہ فرمایا۔ "اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُہَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمَتَّقِیْنَ” (اعراف، رکوع١٥، آیت:١٢٨) اور "اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ اٰمَنُوْا فِیْ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ” (مومن، رکوع٦، آیت:٥١) اور "وَعَدَاللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِیْ الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ” (نور، رکوع٧، آیت:٥٥) یہ ایسا حتمی اور قطعی وعدہ ہے جس کی خبر اس نے اپنی کتب شرعیہ اور کتب قدریہ میں دی۔ "لوحِ محفوظ، اور "ام الکتاب” میں یہ وعدہ درج کیا اور انبیاء علیہم السلام کی زبانی بار بار اعلان کرایا۔ داؤد علیہ السلام کی کتاب "زبور” ٣٧-٢٩ میں ہے کہ "، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ ” چنانچہ اس امت میں کے کامل وفادار اور صادق بندے مدت دراز تک زمین کے وارث رہے، شرق و غرب میں انہوں نے آسمانی بادشاہت قائم کی، عدل و انصاف کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ دین حق کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجا دیا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی ان کے ہاتھوں پر پوری ہوئی۔ "اِنَّ اللہَ تَعَالٰی زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَأَ یْتُ مَشَارِقَہَا وَمَغَارِبَہَا وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُہَا مَازَوٰی لِیْ مِنْہَا”اور اسی قسم کی دوسری پیشین گوئی امام مہدی علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں پوری ہو کر رہے گی۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اس میں عبادت گزار لوگوں کے لئے (بشارت) پہنچا دینا ہے۔ (۱۰۶)
تشریح:یعنی اس قسم کی بشارات سن کر خدائے واحد کی بندگی کرنے والے اپنے مطلب کو پہنچتے ہیں، یا اس قرآن کریم میں جو ایسی عظیم بشارات و ہدایت پر مشتمل ہے بندگی کرنے والوں کے لیے کافی منفعت اور کامیابی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت۔ (۱۰۷)
تشریح:یعنی آپ تو سارے جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اگر کوئی بدبخت اس رحمت عامہ سے خود ہی منتفع نہ ہو تو یہ اس کا قصور ہے۔ آفتابِ عالمتاب سے روشنی اور گرمی کا فیض ہر طرف پہنچتا ہے، لیکن کوئی شخص اگر اپنے اوپر تمام دروازے اور سوراخ بند کر لے تو یہ اس کی دیوانگی ہو گی۔ آفتاب کے عموم فیض میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا اور یہاں تو رحمۃً للعالمین کا حلقہ فیض اس قدر وسیع ہے کہ جو محروم القسمت مستفید ہونا نہ چاہے اس کو بھی کسی نہ کسی درجہ میں بے اختیار رحمت کا حصہ پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ دنیا میں علوم نبوت اور تہذیب و انسانیت کے اصول کی عام اشاعت سے ہر مسلم و کافر اپنے اپنے مذاق کے موافق فائدہ اٹھاتا ہے۔ نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرما لیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو اپنے اپنے مذاق کے موافق فائدہ اٹھانا ہے، نیز حق تعالی نے وعدہ فرما لیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو عام ومستاصل عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
فرما دیں اس کے سوا نہیں کہ میری طرف وحی کی گئی ہے کہ بس تمہارا معبود معبود یکتا ہے، پس کیا تم حکم بردار ہو؟ (۱۰۸)
تشریح:یہ رسالت کے ساتھ توحید کا بیان ہوا۔ یعنی جو رحمت عظیمہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اس کا لب لباب توحید کامل ہے اور یہ ایسا صاف و واضح مضمون ہے جس کے قبول کرنے میں آدمی کو کچھ پس و پیش نہ ہونا چاہیے۔ پس کیا تم حکم ماننے اور حق کے سامنے گردن ڈال دینے کے لیے تیار ہو؟ اگر ہو تو فبہا و نعمت، ورنہ میں تبلیغ کر کے بری الذمہ ہو چکا۔ تم اپنا انجام سوچ لو۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو میں نے تمہیں خبر دار کر دیا ہے برابری پر (یکساں طور سے) اور میں نہیں جانتا جو تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ قریب ہے یا دور؟ (۱۰۹)
تشریح:یعنی اس قدر اتمام حجت کے بعد بھی نہ مانو، تو میں تم کو خبر کر چکا کہ اب میں تم سے بیزار اور تم مجھ سے علیحدہ، تمہارا عمل تمہارے ساتھ اور میرا عمل میرے ساتھ۔ ہر ایک کا جو نتیجہ ہو گا سامنے آ جائے گا حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "دونوں طرف برابر یعنی ابھی تم دونوں بات کر سکتے ہو (قبول کرو یا رد کرو) ایک طرف کا زور نہیں آیا۔ ” تمہارے نہ ماننے پر جو عذاب کا وعدہ ہے وقوع تو اس کا ضرور بالضرور ہو کر رہے گا۔ لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ جلد ہو گا یا بدیر۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک وہ جانتا ہے پکار کر کہی ہوئی بات کو (بھی) اور وہ (بھی) جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو۔ (۱۱۰)
تشریح:و ہی ہر ایک کھلی چھپی بات کو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کس بات کی کیا جزاء ملنی چاہیے اور کب ملنی چاہیے۔
(تفسیرعثمانی)
اور میں نہیں جانتا شاید (عذاب میں تاخیر) تمہارے لئے آزمائش ہو اور ایک مدت تک فائدہ پہنچانا ہو۔ (۱۱۱)
تشریح:یعنی تاخیر عذاب میں ممکن ہے تم کو جانچنا ہو کہ اس مدت میں کچھ سمجھ لو اور شرارتوں سے باز آ جاؤ۔ یا محض ڈھیل دینا ہو کہ ایک مدت تک دنیا میں پھنس کر شقاوت کا پیمانہ پوری طرح لبریز کر لو۔
(تفسیرعثمانی)
نبی نے کہا اے میرے رب! تو حق کے ساتھ فیصلہ فرما، اور ہمارا رب نہایت مہربان ہے، اس سے مدد طلب کی جاتی ہے (ان باتوں) پر جو تم بیان کرتے (بناتے) ہو۔ (۱۱۲)
تشریح:یعنی جیسے ہر معاملہ کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا آپ کی شان ہے، اسی کے موافق میرے اور میری قوم کے درمیان جلدی فیصلہ فرما دیجئے۔ اسی سے ہم فیصلہ چاہتے ہیں اور کافروں کی خرافات کے مقابلہ میں اسی سے مدد مانگتے ہیں۔ اسی طرح کی دعاء انبیاء علیہم السلام کیا کرتے تھے "رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ” (اعراف، رکوع١١، آیت:٨٩) کیونکہ انہیں اپنی حقانیت و صداقت اور حق تعالی کے عدل و انصاف پر پورا وثوق و اعتماد ہوتا تھا۔ تم سورۃ الانبیاء واللہ الحمد والمنۃ۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۲۲۔ سورۃالحج
تعارف
اس سورت کا کچھ حصہ مدنی ہے اور کچھ مکی، مطلب یہ ہے کہ اس سورت کا نزول مکہ مکرمہ میں ہجرت سے پہلے شروع ہو چکا تھا اور تکمیل ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوئی، اسی سورت میں یہ بتایا گیا ہے کہ حج کی عبادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں کس طرح شروع ہوئی، اور اس کے بنیادی ارکان کیا ہیں، اسی وجہ سے اس کا نام سورۂ حج ہے، مکہ مکرمہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو طرح طرح کے ظلم کا نشانہ بنایا تھا، وہاں مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی جاتی تھی، لیکن مدینہ منورہ آنے کے بعد اسی سورت میں پہلی بار مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کے مقابلے میں جہاد کی اجازت دی گئی، اور فرمایا گیا کہ جن کافروں نے مسلمانوں پر ظلم کر کے انہیں اپنا وطن اور گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا ہے اب مسلمان ان کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں، اس طرح جہاد کو ایک عبادت قرار دے کر یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ نہ صرف اس کا ثواب آخرت میں ملے گا، بلکہ دنیا میں بھی مسلمانوں کو ان شاء اللہ فتح نصیب ہو گی، اس کے علاوہ اسلام کے بنیادی عقائد بھی بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ سورت کا آغاز آخرت کے بیان سے ہوا ہے، جس میں قیامت کا ہولناک منظر بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مدنیۃ
آیات:۷۸ رکوعات:۱۰
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی بھاری چیز ہے۔ (۱)
جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی جس (بچہ) کو دودھ پلاتی ہے، اسے بھول جائے گی، اور ہر حاملہ اپنا حمل گرا دے گی، اور تو لوگوں کو دیکھے گا (جیسے وہ) نشے میں ہوں حالانکہ وہ نشہ میں نہ ہوں گے، لیکن اللہ کا عذاب سخت ہے۔ (۲)
تشریح:قیامت کے عظیم الشان زلزلے (بھونچال) دو ہیں۔ ایک عین قیام قیامت کے وقت یا نفخہ ثانیہ کے بعد، دوسرا قیامت سے کچھ پیشتر جو علامات قیامت میں سے ہے۔ اگر یہاں دوسرا مراد ہو تو آیت اپنے ظاہر معنیٰ پر رہے گی اور پہلا مراد ہو تو دونوں احتمال ہیں، حقیقتہً زلزلہ آئے اور دودھ پلانے والی یا حاملہ عورتیں اپنی اسی ہیئت پر محشور ہوں۔ یا زلزلہ سے مراد وہاں کے احوال و شدائد ہوں اور "یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ” الخ کو تمثیل پر حمل کیا جائے یعنی اس قدر گھبراہٹ اور سختی ہو گی کہ اگر دودھ پلانے والی عورتیں موجود ہوں تو مارے گھبراہٹ اور شدتِ ہول کے اپنے بچوں کو بھول جائیں اور حاملہ عورتوں کے حمل ساقط ہو جائیں۔ اس وقت لوگ اس قدر مدہوش ہوں گے کہ دیکھنے والا شراب کے نشہ کا گمان کرے، حالانکہ وہاں نشہ کا کیا کام۔ خدا کے عذاب کا تصور اور احوال و شدائد کی سختی ہوش گم کر دے گی۔ (تنبیہ) اگر یہ گھبراہٹ سب کو عام ہو تو "لَایَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ” میں نفی باعتبار اکثر احوال کے اور یہاں اثبات باعتبار ساعت قلیلہ کے لیا جائے گا۔ اور اگر آیت حاضرہ اکثر ناس کے حق میں ہو، سب کے حق میں نہ ہو تو سرے سے اشکال ہی نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارہ میں بے جانے بوجھے جھگڑا کرتے ہیں، اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ (۳)
تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ جن باتوں کی خبر دیتا ہے ان میں یہ لوگ جھگڑتے اور کج بحثیاں کرتے ہیں اور جہل و بے خبری سے عجیب احمقانہ شبہات پھیلاتے ہیں۔ چنانچہ قیامت، بعث بعد الموت اور جزاء و سزا وغیرہ پر ان کا بڑا اعتراض یہ ہے کہ جب آدمی مر کر گل سڑ گیا اور ہڈیاں تک ریزہ ریزہ ہو گئیں تو یہ کیسے سمجھ میں آئے کہ وہ پھر زندہ ہو کر اپنی اصلی حالت پر لوٹ آئے گا۔
وَّيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَرِيْدٍ :جن یا آدمیوں میں کا جو شیطان اس کو اپنی طرف بلائے یہ فوراً اسی کے پیچھے چل پڑتا ہے۔ گویا گمراہ ہونے کی ایسی کامل استعداد رکھتا ہے کہ کوئی شیطان کسی طرف پکارے یہ اس پر لبیک کہنے کے لیے تیار رہتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کی نسبت لکھ دیا گیا کہ جو اس سے دوستی کرے گا تو وہ بیشک اسے گمراہ کر دے گا اور اسے دوزخ کے عذاب کی طرف راہ دکھائے گا۔ (۴)
تشریح:یعنی شیطانِ مَرید کے متعلق یہ طے شدہ امر ہے کہ جو اس کی رفاقت اور پیروی کرے وہ اپنے ساتھ اسے بھی لے ڈوبتا ہے اور گمراہ کر کے دوزخ سے ورے نہیں چھوڑتا۔
(تفسیرعثمانی)
اے لوگو! اگر تم (قیامت کے دن) جی اٹھنے سے شک میں ہو تو (سوچو) ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے پھر جمے ہوئے خون سے، پھر گوشت کی بوٹی سے، صورت بنی ہوئی اور بغیر صورت بنی (ادھوری) ، تاکہ ہم تمہارے لئے (اپنی قدرت) ظاہر کر دیں اور ہم (ماؤں کے) رحموں میں جو چاہیں ایک مدت تک ٹھہراتے ہیں، پھر ہم تمہیں نکالتے ہیں بچہ (کی صورت میں) تاکہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، اور تم میں کوئی (عمر طبعی سے قبل) فوت ہو جاتا ہے، اور تم میں سے کوئی پہنچتا ہے نکمی عمر تک، تاکہ وہ جاننے کے بعد کچھ نہ جانے (ناسمجھ ہو جائے) ، اور تو زمین کو دیکھتا ہے خشک پڑی ہوئی، پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تو وہ تر و تازہ ہو گئی، اور ابھر آئی، اور وہ اگا لائی ہر (قسم) کا جوڑا رونق دار۔ (۵)
تشریح: یعنی اگر یہ دھوکا لگ رہا ہے کہ ریزہ ریزہ ہو کر دوبارہ کیسے جی اٹھیں گے تو خود اپنی پیدائش میں غور کرو کس طرح ہوئی ہے۔ اول تمہارے باپ آدم کو مٹی سے، پھر تم کو قطرہ منی سے بنایا، یا یہ مطلب ہے کہ مٹی سے غذا نکالی جس سے کئی منزلیں طے ہو کر نطفہ بنا، پھر نطفہ سے کئی درجے طے کر کے تمہاری تشکیل و تخلیق ہوئی۔ نطفہ سے جما ہوا خون اور خون سے گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ جس پر ایک وقت آتا ہے کہ آدمی کا پورا نقشہ (ہاتھ، پاؤں، آنکھ، ناک وغیرہ) بنا دیا جاتا ہے۔ اور ایک وقت ہوتا ہے کہ ابھی تک نہیں بنایا گیا۔ یا یہ مطلب ہے کہ بعض کی پیدائش مکمل کر دی جاتی ہے اور بعض یونہی ناقص صورت میں گر جاتا ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ بعض بے عیب ہوتا ہے، بعض عیب دار۔
لِّنُبَيِّنَ لَكُمْ : خود تمہاری اصل کیا تھی اور کتنے روز گزرنے کے بعد آدمی بنے ہو۔ اسی کو سمجھ کر بہت سے حقائق کا انکشاف ہو سکتا ہے۔ اور بعث بعد الموت کا امکان بھی سمجھ میں آسکتا ہے۔
وَنُقِرُّ فِی الْأَرْحَامِ: جتنی مدت جس کو رحم مادر میں ٹھہرانا مناسب ہوتا ہے ٹھہراتے ہیں۔ کم ازکم چھ مہینے اور زیادہ سے زیادہ دو برس یا چار برس علیٰ اختلاف الاقوال۔
ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا :جس طرح اندر رہ کر بہت سے مدارج طے کیے ہیں، باہر آ کر بھی تدریجاً بہت منازل میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایک بچپن کا زمانہ ہے جب آدمی بالکل کمزور و ناتواں ہوتا ہے اور اس کی تمام قوتیں چھپی رہتی ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ کامن (پوشیدہ) قوتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ جسمانی حیثیت سے ہر چیز کمال شباب کو پہنچ جاتی ہے۔ پھر بعض تو جوانی ہی میں مر جاتے ہیں اور بعض اس عمر کو پہنچتے ہیں جہاں پہنچ کر آدمی کے اعضاء و قویٰ جواب دے دیتے ہیں، وہ سمجھدار بننے کے بعد ناسمجھ اور کارآمد ہونے کے بعد نکما ہو جاتا ہے۔ یاد کی ہوئی چیزیں بھول جاتا ہے اور جانی ہوئی چیزوں کو کچھ نہیں جانتا۔ گویا بوڑھا ہو کر پھر بچہ بن جاتا ہے۔
وَتَرَى الْأَرْضَ ہامِدَۃً :زمین مردہ پڑی تھی، رحمت کا پانی پڑتے ہی جی اٹھی اور تر و تازہ ہو کر لہلہانے لگی۔ قسم قسم کے خوش منظر، فرحت بخش اور نشاط افزا پودے قدرت نے اگا دیے۔
(تفسیرعثمانی)
یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی برحق ہے اور یہ کہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور یہ کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۶)
اور یہ کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں شک نہیں، اور یہ کہ اللہ اٹھائے گاجو قبروں میں ہے۔ (۷)
تشریح:انسان کی پیدائش اور کھیتی کی مثالوں سے جو اوپر مذکور ہوئیں چند باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ (١) یہ کہ یقیناً اور بالتحقیق اللہ موجود ہے ورنہ ایسی منظم متّیقن اور حکیمانہ صنعتیں کہاں سے ظاہر ہوئیں۔ (٢) یہ کہ خدا تعالیٰ مردہ اور بے جان چیزوں کو زندہ اور جان دار بنا دیتا ہے۔ چنانچہ مشتِ خاک یا قطرہ آب سے انسان بنا دینا اور افتادہ زمین میں روح نباتی پھونک دینا اس پر شاہد ہے، پھر دوبارہ پیدا کر دینا اس کو کیا مشکل ہے (٣) یہ کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اگر ہر چیز اس کی قدرت کے نیچے نہ ہوتی تو ہرگز یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ (٤) یہ کہ قیامت ضرور آنی چاہیے اور اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی ضرور ملنی چاہیے کیونکہ اتنے بڑے انتظامات یوں ہی لغو اور بے کار نہیں ہو سکتے۔ جس حکیم مطلق اور قادر علی الاطلاق نے اپنی حکمت بالغہ اور قدرتِ کاملہ سے انسان کو ایسی عجیب و غریب صفت کے ساتھ پیدا کیا، کیا خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس نے اس کی زندگی بیکار بنائی ہو گی؟ ہرگز نہیں یقیناً انسان کی یہ محدود زندگی جس میں سعادت و شقاوت نیکی بدی اور رنج و راحت باہم مخلوط رہتے ہیں اور امتحان و انتقام کی صورتیں ایک دوسرے سے مکمل اور نمایاں طور پر متمیز نہیں ہوتیں، اس کو مقتضی ہے کہ کوئی دوسری زندگی ہو۔ جہاں سعید و شقی، مجرم و وفادار اور صاف طور پر الگ الگ ہوں اور ہر ایک اس مقام پر پہنچایا جائے جہاں پہنچنے کے لیے بنایا گیا ہے اور جس کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے۔ مادی حیثیت سے منی کے جن اجزاء میں نطفہ بننے کی استعداد تھی ان سے نطفہ بنا اسی طرح نطفہ کی پوشیدہ قوتیں علقہ میں، علقہ کی مضغہ میں، مضغہ کی طفل میں آئیں اور جوانی کے وقت ان کا پورا ظہور ہوا۔ یا زمین کی پوشیدہ قوتیں بارش کا چھینٹا پڑنے سے ظہور پذیر ہوئیں۔ اسی طرح ضروری ہے کہ انسان میں سعادت و شقاوت کی جو روحانی قوتیں ودیعت کی گئیں یا نیکی اور بدی میں پھولنے پھلنے کی جو زبردست استعداد رکھی ہے وہ اپنے پورے شباب کو پہنچے اور کامل ترین اشکال و صورتیں ظاہر ہوں۔ اس کا نام بعث بعد الموت ہے جو دنیا کی زندگی کا موجودہ دور ختم کرنے کے بعد وقوع پذیر ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور لوگوں میں کوئی (ایسا بھی ہے) جو اللہ کے بارے میں جھگڑتا ہے، بغیر کسی علم کے، اور بغیر کسی دلیل کے، اور بغیر کسی کتاب روشن کے۔ (۸)
تشریح:یعنی ایسے واضح دلائل و شواہد سننے کے بعد بھی بعض کجرو اور ضدی لوگ اللہ کی باتوں میں یوں ہی بے سند جھگڑے کرتے رہتے ہیں۔ ان کے پاس نہ کوئی علم ضروری ہے، نہ دلیل عقلی، نہ دلیل سمعی، محض اوہام و ظنون کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
(تکبر سے) اپنی گردن موڑے ہوئے تاکہ اللہ کے راستہ سے گمراہ کرے، اس کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ہم اسے روز قیامت جلتی آگ کا عذاب چکھائیں گے۔ (۹)
تشریح:یعنی جو شخص بدون حجت و دلیل محض عناد سے خدا کی باتوں میں جھگڑتا ہے اور غرض یہ ہو کہ دوسرے لوگوں کو ایمان و یقین کی راہ سے ہٹا دے، اس کو دنیا میں خدا تعالیٰ ذلیل کرے گا اور آخرت کا عذاب رہا سو الگ۔
(تفسیرعثمانی)
یہ اسی سبب سے جو تیرے ہاتھوں نے (آگے) بھیجا (تیرے اعمال) اور یہ کہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں۔ (۱۰)
تشریح:یعنی جب سزا دیں گے تو کہا جائے گا کہ خدا کی طرف سے کسی پر ظلم و زیادتی نہیں۔ تیرے ہاتھوں کی کرتوت ہے۔ جس کا مزہ آج چکھ رہا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور لوگوں میں (کوئی ایسا بھی ہے) جو ایک کنارے پر اللہ کی بندگی کرتا ہے، پھر اگر اسے بھلائی پہنچ گئی تو اس (عبادت) سے اطمینان پا لیا، اور اسے اگر کوئی آزمائش پہنچی تو اپنے منہ کے بل پلٹ گیا، دنیا اور آخرت کے گھاٹے میں رہا، یہی ہے کھلا گھاٹا۔ (۱۱)
تشریح:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد کئی واقعات ایسے پیش آئے کہ کچھ لوگ اس لالچ میں اسلام لائے کہ اسلام کی وجہ سے انہیں دنیا میں کچھ فوائد حاصل ہوں گے، لیکن جب ان کی توقع پوری نہیں ہوئی، بلکہ کوئی آزمائش آ گئی تو دوبارہ کفر کی طرف لوٹ گئے، یہ آیت ان کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ یہ لوگ حق کو حق ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کرتے، بلکہ دنیا کے مفادات کی خاطر قبول کرتے ہیں، اور ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی جنگ میں اس نیت سے ایک کنارے کھڑا ہو گیا ہو کہ دونوں لشکروں میں سے جس کا پلہ بھاری نظر آئے گا اس کے ساتھ ہو جاؤں گا، تاکہ کچھ مفادات حاصل کر سکوں، سبق یہ دیا گیا ہے کہ اسلام پر عمل اس لالچ میں نہ کرو کہ اس دنیا ہی میں تمہیں کوئی فائدہ مل جائے گا، بلکہ اس لئے کرو کہ وہ برحق ہے، اور اللہ تعالی کی بندگی کا تقاضا یہی ہے، جہاں تک دنیا کے مفادات کا تعلق ہے وہ اللہ تعالی کی حکیمانہ مشیت ہے کہ کس کو کیا دیا جائے، چنانچہ اسلام لانے کے بعد دنیوی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جن پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہئے اور کوئی آزمائش بھی آسکتی ہے جس میں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور اللہ تعالی سے دعا کرنی چاہئے کہ مصیبت دور فرما کر آزمائش سے نکال دے۔
(توضیح القرآن)
وہ اللہ کے سوا پکارتا ہے (اس کو) جو نہ اسے نقصان پہنچاس کے اور نہ اسے نفع پہنچاس کے، یہی ہے انتہا درجہ کی گمراہی۔ (۱۲)
تشریح:یعنی خدا کی بندگی چھوڑی، دنیا کی بھلائی نہ ملنے کی وجہ سے اب پکارتا ہے ان چیزوں کو جن کے اختیار میں نہ ذرہ برابر بھلائی ہے نہ برائی۔ کیا خدا نے جو چیز نہیں دی تھی وہ پتھروں سے حاصل کرے گا؟ اس سے بڑھ کر کھلی حماقت کیا ہوں گی۔
(تفسیرعثمانی)
وہ پکارتا ہے اس کو جس کا ضرر اس کے نفع سے زیادہ قریب ہے، بیشک برا ہے (یہ) دوست، اور برا ہے (یہ) رفیق۔ (۱۳)
تشریح:یعنی بتوں سے نفع کی تو امید موہوم ہے (بت پرستوں کے زعم کے موافق) لیکن ان کو پوجنے کا جو ضرر ہے وہ قطعی اور یقینی ہے اس لیے فائدہ کا سوال تو بعد کو دیکھا جائے گا، نقصان ابھی ہاتھوں ہاتھ پہنچ گیا۔ جب قیامت میں بت پرستی کے نتائج سامنے آئیں گے تو بت پرست بھی یہ کہیں گے "لَبِئْسَ الْمَوْلٰی وَلَبِئْسَ الْعَشِیْرُ” یعنی جن سے بڑی امداد و رفاقت کی توقع تھی وہ بہت ہی برے رفیق اور مددگار ثابت ہوئے کہ نفع تو کیا پہنچاتے الٹا ان کے سبب سے نقصان پہنچ گیا۔
(تفسیرعثمانی)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے درست عمل کئے، بیشک اللہ انہیں ان باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، بیشک اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ (۱۴)
تشریح:منکرین مجادلین اور مذبذبین کے بعد یہاں مومنین مخلصین کا انجام نیک بیان فرمایا۔
إِنَّ اللہَ يَفْعَلُ مَا يُرِيْدُ :جس کو مناسب جانے سزا دے اور جس پر چاہے انعام فرمائے۔ اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
جو شخص گمان کرتا ہے کہ اللہ اس (رسول) کی ہرگز مدد نہ کرے گا دنیا اور آخرت میں، تو اسے چاہئے کہ ایک رسی آسمان کی طرف تانے پھر اسے کاٹ ڈالے (اپنے گلے میں پھندا ڈال لے) (۱۵)
تشریح: "لَنْ یَّنْصُرَہُ” میں ضمیر مفعول نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف راجع ہے جن کا تصور قرآن پڑھنے والے کے ذہن میں گویا ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ کیونکہ آپ ہی قرآن کے اولین مخاطب ہیں۔ گویا مومنین کا انجام ذکر کرنے کے بعد یہ ان کے پیغمبر کے مستقبل کا بیان ہوا۔ حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ اپنے رسول سے دنیاوی اور اخروی فتح و نصرت کے جو وعدے کر چکا ہے وہ ضرور پورے ہو کر رہیں گے، خواہ کفار و حاسدین کتنا ہی غیظ کھائیں اور نصرتِ ربانی کے روکنے کی کیسی ہی تدبیریں کر لیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و کامیابی کسی طرح رک نہیں سکتی یقیناً آ کر رہے گی۔ اگر ان کفار و حاسدین کو اس پر زیادہ غصہ ہے اور سمجھتے ہیں کہ ہم کسی کوشش سے خدا کی مشیت کو روک سکیں گے تو اپنی انتہائی کوشش صرف کر کے دیکھ لیں، حتی کہ ایک رسی اوپر چھت میں لٹکا کر گلے میں ڈال لیں اور خود پھانسی لے کر غیظ سے مر جائیں، یا ہو سکتا ہو تو آسمان میں رسی تان کر اوپر چڑھیں اور وہاں سے آسمانی امداد کو منقطع کر آئیں، پھر دیکھیں کہ ان تدبیروں سے وہ چیز آنی بند ہو جاتی ہے۔ جس پر انہیں اس قدر غصہ اور پیچ و تاب ہے۔ اکثر مفسرین نے آیت کی تفسیر اسی طرح کی ہے لیکن حضرت شاہ صاحب نے آیت کو "وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللہَ عَلٰی حَرْفٍ” الخ کے مضمون سے مربوط کر کے نہایت لطیف تقریر فرمائی ہے۔ ان کے نزدیک "مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہُ الخ” میں ضمیر مفعول "من” کی طرف لوٹتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا کی تکلیف میں جو کوئی خدا سے نا امید ہو کر اس کی بندگی چھوڑ دے اور جھوٹی چیزیں پوجنے لگے وہ اپنے دل کے ٹھہرانے کو یہ قیاس کر لے جیسے ایک شخص اونچی لٹکتی رسی سے لٹک رہا ہے، اگر چڑھ نہیں سکتا توقع تو ہے کہ رسی اوپر کھینچے تو چڑھ جائے۔ جب رسی توڑ دی تو کیا توقع رہی، کیا خدا کی رحمت سے نا امید ہو کر کامیابی حاصل کر سکے گا؟ گویا "رسی” کہا اللہ کی امید کو، اس کا کاٹ دینا نا امید ہو جانا اور آسمان سے مراد بلندی ہے۔ واللہ اعلم۔
(تفسیر عثمانی)
اور اسی طرح ہم نے اس (قرآن) کو اتار ا روشن آیتیں اور یہ کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ (۱۶)
تشریح:یعنی کیسی صاف صاف مثالیں اور کھلی باتیں ہیں۔ مگر سمجھتا وہ ہی ہے جسے خدا سمجھ دے۔
(تفسیرعثمانی)
بے شک جو لوگ ایمان لائے اور جو یہودی ہوئے، اور ستارہ پرست، اور نصاریٰ اور آتش پرست، اور مشرک، بےشک اللہ فیصلہ کر دے گا روز قیامت ان کے درمیان، بے شک اللہ ہر چیز پر مطلع ہے۔ (۱۷)
تشریح:یعنی تمام مذاہب و فرق کے نزاعات کا عملی اور دو ٹوک فیصلہ حق تعالیٰ کی بارگاہ سے قیامت کے دن ہو گا۔ سب جدا کر کے اپنے اپنے ٹھکانے پر پہنچا دئیے جائیں گے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون کس مقام یا کس سزا کا مستحق ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ کے لئے سجدہ کرتا ہے جو (بھی) آسمانوں میں اور جو (بھی) زمین میں ہے، اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور بہت سے انسان (بھی) اور بہت سے ہیں کہ ثابت ہو گیا ہے اس پر عذاب، اور جسے اللہ ذلیل کرے اس کے لئے کوئی عزت دینے والا نہیں اور بیشک اللہ کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ (۱۸)
تشریح: ان مخلوقات کے سجدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اللہ تعالی کی تابع فرمان ہیں، اور ہر چیز اس کے ہر حکم کے آگے سر جھکائے ہوئے ہے، نیز اس سے عبادت کا سجدہ بھی مراد ہو سکتا ہے، کیونکہ اتنی سمجھ کائنات کی ہر چیز میں موجود ہے کہ اسے اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے، اور اسی کی عبادت کرنی چاہئے، البتہ ہر چیز کے سجدے کی صورت مختلف ہے، اس پوری کائنات میں انسان ہی ایسی مخلوق ہے جس کے تمام افراد عبادت کا سجدہ نہیں کرتے، بلکہ بہت سے کرتے ہیں بعض نہیں کرتے اس لئے انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا گیا ہے کہ بہت سے انسان بھی۔ یاد رہے کہ یہ سجدہ کی آیت ہے، جو شخص اصل عربی میں یہ آیت تلاوت کرے یا سنے اس پر سجدہ واجب ہے۔
(توضیح القرآن)
یہ دونوں فریق اپنے رب کے بارے میں جھگڑے، پس جنہوں نے کفر کیا ان کے لئے آگ کے کپڑے قطع کئے گئے (بیونتے گئے) ان کے سروں کے اوپر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ (۱۹)
تشریح:یعنی پہلے "اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا َوالصَّابِئِیْنَ” الیٰ آخرہ میں جن فرقوں کا ذکر ہوا ان سب کو حق و باطل پر ہونے کی حیثیت سے دو فریق کہہ سکتے ہیں۔ ایک مومنین کا گروہ جو اپنے رب کی سب باتوں کو من و عن تسلیم کرتا اور اس کے احکام کے آگے سربسجود رہتا ہے۔ دوسرے کفار کا مجمع جس میں یہود، نصاریٰ، مجوس، مشرکین، صابئین وغیرہ ہم سب شامل ہیں۔ جو ربانی ہدایات کو قبول نہیں کرتے اور اس کی اطاعت کے لیے سر نہیں جھکاتے، یہ دونوں فریق دعاوی میں، بحث و مناظرہ میں اور جہاد و قتال کے مواقع میں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل رہتے ہیں۔ جیسا کہ "بدر” کے میدان مبارزہ میں حضرت علی، حضرت حمزہ اور عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم تین کافروں (عتبہ ابن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ) کے مقابلہ پر نکلے تھے، آگے دونوں فریق کا انجام بتلاتے ہیں۔
فَالَّذِيْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ :یعنی جس طرح لباس آدمی کے بدن کو ڈھانپ لیتا ہے۔ جہنم کی آگ اسی طرح ان کو محیط ہو گی۔ یا کسی ایسی چیز کے کپڑے پہنائے جائیں گے جو آگ کی گرمی سے بہت سخت اور بہت جلد تپنے والے ہوں۔
(تفسیرعثمانی)
اس سے پگھل جائے گا جو ان کے پیٹوں میں ہے (۲۰)
اور (ان کی) کھالیں (بھی) اور ان کے لئے لوہے کے گرز ہیں۔ (۲۱)
تشریح:دوزخیوں کے سر ہتھوڑے سے کچل کر کھولتا ہوا پانی اوپر سے ڈالا جائے گا جو دماغ کے راستہ سے پیٹ میں پہنچے گا جس سے سب انتڑی اوجھڑی کٹ کٹ کر نکل پڑے گی اور بدن کی بالائی سطح کو جب پانی مس کرے گا تو بدن کا چمڑا گل کر گر پڑے گا۔ پھر اصلی حالت کی طرف لوٹائے جائیں گے اور بار بار یہ ہی عمل ہوتا رہے گا۔ "کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَ ہَا لِیُذُوْقُوْا الْعَذَابَ” (نسآء، رکوع٨، آیت:٥٦) اللّٰہم اعذنا من غضبک و عذابک۔
(تفسیرعثمانی)
جب بھی وہ غم کے مارے اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے اور (کہا جائے گا) جلنے کا عذاب چکھو۔ (۲۲)
تشریح:یعنی دوزخ میں گُھٹ گُھٹ کر چاہیں گے کہ کہیں کو نکل بھاگیں، آگ کے شعلے ان کو اوپر کی طرف اٹھائیں گے پھر فرشتے آہنی گرز مار کر نیچے دھکیل دیں گے اور کہا جائے گا کہ دائمی عذاب کا مزہ چکھتے رہو جس سے نکلنا کبھی نصیب نہ ہو گا۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے بیشک اللہ انہیں باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں، اس میں انہیں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے، اور اس میں ان کا لباس ریشم (کا ہو گا) ۔ (۲۳)
تشریح:پہلے "قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍ”میں دوزخیوں کا لباس مذکور ہوا تھا، اس کے بالمقابل یہاں جنتیوں کا پہناوا بیان فرماتے ہیں کہ ان کی پوشاک ریشم کی ہو گی۔ (تنبیہ) احادیث میں ہے کہ جو مرد یہاں ریشم کا لباس پہنے گا آخرت میں نہیں پہنے گا اگر وہ پہننے والا کافر ہے تب تو ظاہر ہے کہ وہ جنت میں داخل ہی نہ ہو گا کہ جنتیوں کا لباس پہنے۔ ہاں اگر مومن ہے تو شاید کچھ مدت تک اس لباس سے محروم رکھا جائے پھر ابد الآباد تک پہنتا رہے اور اس لا متناہی مدت کے مقابلہ میں یہ قلیل زمانہ غیر معتدبہ سمجھا جائے۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
اور انہیں ہدایت کی گئی پاکیزہ بات کی طرف، اور ہدایت کی گئی تعریفوں کے سزا وار (اللہ) کے راستہ کی طرف۔ (۲۴)
تشریح:وَہدُوْٓا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ :دنیا میں بھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہا، قرآن پڑھا، خدا کی تسبیح و تحمید کی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کیا اور آخرت میں بھی کہ فرشتے ہر طرف سے سلام کریں گے اور جنتی آپس میں ایک دوسرے سے ستھری باتیں کرتے ہوں گے، بک بک جھک جھک نہ ہو گی اور نعمائے جنت پر شکر خداوندی بجا لائیں گے۔ مثلاً کہیں گے "اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہ، وَاَوْرَثَنَا الْجَنَّۃَ” سورہ فاطر میں ہے "یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًا وَّلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ وَقَالُوْا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ” الآیہ۔ اس سے آیت حاضرہ کی تفسیر ہوتی ہے۔ نبہ علیہ فی الروح۔
(تفسیرعثمانی)
وَہدُوْٓا إِلٰی صِرَاطِ الْحَمِيْدِ : یعنی اللہ کی راہ پائی جس کا نام اسلام ہے یہ راہ خود بھی حمید ہے اور راہ والا بھی حمید ہے۔ یا راہ پائی اس جگہ کی جہاں پہنچ کر آدمی کو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہوتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جن لوگوں نے کفر کیا اور وہ روکتے ہیں اللہ کے راستہ سے اور بیت اللہ سے جسے ہم نے مقرر کیا ہے سب لوگوں کے لئے، اس میں رہنے والے اور پردیسی برابر ہیں (حقوق میں) اور جو اس میں ظلم سے گمراہی کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔ (۲۵)
پہلے "ہٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوْا” الخ میں مومنین اور کفار کے اختصام (جھگڑے) کا ذکر تھا۔ اس اختصام کی بعض صورتوں کو یہاں بیان فرمایا ہے۔ یعنی ایک وہ لوگ ہیں جو خود گمراہ ہونے کے ساتھ دوسروں سے مزاحم ہوتے ہیں۔ چاہتے ہیں کہ کوئی شخص اللہ کے راستہ پر نہ چلے۔ حتی کہ جو مسلمان اپنے پیغمبر کی معیت میں عمرہ ادا کرنے کے لیے مکہ معظمہ جا رہے تھے ان کا راستہ روک دیا۔ حالانکہ مسجد حرام (یا حرم شریف کا وہ حصہ جس سے لوگوں کی عبادات و مناسک کا تعلق ہے) سب کے لیے یکساں ہے۔ جہاں مقیم و مسافر اور شہری و پردیسی کو ٹھہرنے اور عبادت کرنے کے مساویانہ حقوق حاصل ہیں۔ ہاں وہاں سے نکالے جانے کے قابل اگر ہیں تو وہ لوگ جو شرک اور شرارتیں کر کے اس بقعہ مبارکہ کی بے تعظیمی کرتے ہیں۔ (تنبیہ) بیوت مکہ کی ملکیت اور بیع و شراء وغیرہ کا مسئلہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی کافی تفصیل روح المعانی وغیرہ میں کی گئی ہے۔ یہاں اس کے بیان کا موقع نہیں۔
جو شخص حرم شریف میں جان بوجھ کر بالارادہ بے دینی اور شرارت کی کوئی بات کرے گا اس کو اس سے زیادہ سخت سزا دی جائے گی جو دوسری جگہ ایسا کام کرنے پر ملتی ہے۔ اسی سے ان کا حال معلوم کر لو جو ظلم و شرارت سے مومنین کو یہاں آنے سے روکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
(۲۶)
تشریح:کہتے ہیں کعبہ شریف کی جگہ پہلے سے بزرگ تھی، پھر مدتوں کے بعد نشان نہ رہا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوا کہ بیت اللہ تعمیر کرو۔ اس معظم جگہ کا نشان دکھلایا گیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ (تنبیہ) "مسجد حرام” کا ذکر پہلے آیا تھا اس کی مناسبت سے کعبہ کی بناء کا حال اور اس کے متعلق بعض احکام دور تک بیان کیے گئے ہیں۔
اس گھر کی بنیاد خالص توحید پر رکھو، کوئی شخص یہاں آ کر اللہ کی عبادت کے سوا کوئی مشرکانہ رسوم نہ بجا لائے۔ کفار مکہ نے اس پر ایسا عمل کیا کہ وہاں تین سو ساٹھ بت لا کر کھڑے کر دیئے۔ العیاذ باللہ جن کی گندگی سے ہمیشہ کے لیے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے گھر کو پاک کیا۔ فللّٰہ الحمد والمنہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو کہ وہ تیرے پاس پیدل اور دبلی اونٹنیوں پر (بھی) آئیں، وہ آتی ہیں ہر دور دراز راستہ سے۔ (۲۷)
تشریح:جب کعبہ تعمیر ہو گیا تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پکارا کہ لوگو! تم پر اللہ نے حج فرض کیا ہے حج کو آؤ۔ حق تعالیٰ نے یہ آواز ہر طرف ہر ایک روح کو پہنچا دی (بلا تشبیہ جیسے آجکل ہم امریکہ یا ہندوستان میں بیٹھ کر لندن کی آوازیں سن لیتے ہیں) جس کے لیے حج مقدر تھا اس کی روح نے لبیک کہا۔ و ہی شوق کی دبی ہوئی چنگاری ہے کہ ہزاروں آدمی پا پیادہ تکلیفیں اٹھاتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں اور بہت سے اتنی دور سے سوار ہو کر آتے ہیں کہ چلتے چلتے اونٹنیاں تھک جاتی اور دبلی ہو جاتی ہیں، بلکہ عموماً حاجیوں کو عمدہ سانڈنیاں کہاں ملتی ہیں ان ہی سوکھے دبلے اونٹوں پر منزلیں قطع کرتے ہیں۔ یہ گویا اس دعا کی مقبولیت کا اثر ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی "فَاجَعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ اِلَیْہِمْ” (ابراہیم، رکوع٦، آیت:٣٧)
(تفسیرعثمانی)
تاکہ وہ اپنے فائدوں کی جگہ آ موجود ہوں، اور وہ اللہ کا نام لیں مقررہ دنوں میں (ذبح کرتے وقت) ان مویشی چوپائیوں پر جو ہم نے انہیں دئیے ہیں، پس ان میں سے تم (خود بھی) کھاؤ اور بد حال محتاج کو (بھی ) کھلاؤ۔ (۲۸)
تشریح:اصل مقصد تو دینی و اخروی فوائد کی تحصیل ہے مثلاً حج و عمرہ اور دوسری عبادات کے ذریعہ حق تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا اور روحانی ترقیات کے بلند مقامات پر فائز ہونا۔ لیکن اس عظیم الشان اجتماع کے ضمن میں بہت سے سیاسی، تمدنی اور اقتصادی فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ کما لایخفی۔
"ایام معلومات” سے بعض کے نزدیک ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور بعض کے نزدیک تین دن قربانی کے مراد ہیں۔ بہرحال ان ایام میں ذکر اللہ کی بڑی فضیلت آتی ہے۔ اسی ذکر کے تحت میں خصوصیت کے ساتھ یہ بھی داخل ہے کہ قربانی کے جانوروں کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام لیا جائے اور بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ کہا جائے۔ ان دنوں میں بہترین عمل یہ ہی ہے اللہ کے نام پر ذبح کرنا۔ (تفسیرعثمانی)
بعض کفار کا خیال تھا کہ قربانی کا گوشت خود قربانی کرنے والے کو نہ کھانا چاہیے۔ اس کی اصلاح فرما دی کہ شوق سے کھاؤ، دوستوں کو دو اور مصیبت زدہ محتاجوں کو کھلاؤ۔
(تفسیرعثمانی)
پھر چاہئیے کہ اپنا میل کچیل دور کریں، اور اپنی نذریں (منتیں) پوری کریں، اور قدیم گھر (بیت اللہ ) کا طواف کریں۔ (۲۹)
تشریح:جہاں سے لبیک شروع کرتے ہیں حجامت نہیں بنواتے، ناخن نہیں لیتے، بالوں میں تیل نہیں ڈالتے، بدن پر میل اور گرد و غبار چڑھ جاتا ہے زیادہ مل دَل کر غسل نہیں کرتے۔ ایک عجیب عاشقانہ و مستانہ حالت ہوتی ہے، اب دسویں تاریخ کو سب قصے تمام کرتے ہیں، حجامت بنوا کر غسل کر کے سلے ہوئے کپڑے پہن کر طواف زیارت کو جاتے ہیں، جس کو ذبح کرنا ہو پہلے ذبح کر لیتا ہے۔ اور اپنی منتیں پوری کرنے سے یہ مراد ہے کہ اپنی مرادوں کے واسطے جو منتیں مانی ہوں ادا کریں۔ اصل منت اللہ کی ہے اور کسی کی نہیں۔ بعض کے نزدیک "نذور” کے لفظ سے مناسک حج یا واجبات حج مراد ہیں۔ اور یہ ہی اقرب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ (تنبیہ) "عتیق” کے معنی قدیم پرانے کے ہیں، اور بعض کے نزدیک "بیت عتیق” اس لیے کہا کہ اس گھر کو برباد کرنے کی غرض سے جو طاقت اٹھے گی حق تعالیٰ اس کو کامیاب نہ ہونے دے گا۔ تاآنکہ خود اس کا اٹھا لینا منظور ہو۔
(تفسیرعثمانی)
یہ (ہے حکم) اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرے، پس وہ (تعظیم ) اس کے رب کے نزدیک اس کے لئے بہتر ہے، اور تمہارے لئے مویشی حلال قرار دئے گئے ان کے سوا جو تم پر پڑھ دئیے گئے (سنادئے گئے ) پس تم بچو (کنارہ کش رہو) بتوں کی گندگی سے، اور بچو جھوٹی بات سے۔ (۳۰)
تشریح:ذٰلِکَ وَمَنْ يُّعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللہِ فَہوَخَيْرٌ لَّہ عِنْدَ رَبِّہٖ :یعنی حرام چیزوں کو بھاری سمجھ کر چھوڑ دینا یا اللہ نے جن چیزوں کو محترم قرار دیا ہے ان کا ادب و تعظیم قائم رکھنا بڑی خوبی اور نیکی کی بات ہے جس کا انجام نہایت اچھا ہو گا۔ محترم چیزوں میں قربانی کا جانور، بیت اللہ، صفا مروہ، منیٰ، عرفات، مسجدیں، قرآن، بلکہ تمام احکام الٰہیہ آ جاتے ہیں۔ خصوصیت سے یہاں مسجد حرام اور ہدی کے جانور کی تعظیم پر زور دینا ہے کہ خدائے واحد کے پرستاروں کو وہاں آنے سے نہ روکیں نہ قربانی کے آئے ہوئے جانوروں کو واپس جانے پر مجبور کریں بلکہ قیمتی اور موٹے تازے جانور قربان کریں۔ ان کے ذبح کرنے کا حکم تعظیم حرمات اللہ کے خلاف نہیں۔ کیونکہ جس مالک نے ایک چیز کی حرمت بتلائی تھی اسی کی اجازت سے اور اسی کے نام پر وہ قربان کی جاتی ہے۔
وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلٰی عَلَيْكُمْ :اور تمہارے لئے مویشی حلال قرار دئے گئے ان کے سوا جو تم پر پڑھ دئیے گئے (سنادئے گئے ) یعنی جن جانوروں کا حرام ہونا وقتاً فوقتاً تم کو سنایا جاتا رہا ہے جیسا کہ سورہ "انعام” میں تفصیلاً گزر چکا وہ حلال نہیں۔
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ:جانور اللہ کی مخلوق و مملوک ہیں، اس کی اجازت سے اسی کے نام پر ذبح کیے جا سکتے ہیں اور اسی کے کعبہ کی نیاز ہو سکتے ہیں، جو جانور کسی بت یا دیوی دیوتا کے استھان پر ذبح کیا گیا وہ مردار ہوا۔ ایسی شرکیات اور گندے کاموں سے بچنا ضروری ہے۔
وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ: جھوٹی بات زبان سے نکالنا، جھوٹی شہادت دینا، اللہ کے پیدا کیے ہوئے جانور کو غیر اللہ کے نامزد کر کے ذبح کرنا، کسی چیز کو بلا دلیل شرعی حلال و حرام کہنا، سب”قَوْلَ الزُّوْرِ” میں داخل ہے۔ "قَوْلَ الزُّوْرِ” کی برائی کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ حق تعالیٰ نے اس کو یہاں شرک کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور دوسری جگہ ارشاد ہوا۔ "وَاَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَالَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَالَاتَعْلَمُوْنَ” (اعراف، رکوع٤، آیت:٣٣) احادیث میں بڑی تاکید و تشدید سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرمایا ہے۔
اللہ کے لئے یک رخ ہو کر (کسی کو) نہ شریک کرنے والے اس کے ساتھ، اور جو کوئی اللہ کا شریک کرے گا تو گویا وہ آسمان سے گرا، پھر اسے (مردار خوار) پرندے اچک لے جاتے ہیں، یا پھینک دیتی ہے اس کو ہوا کسی دور دراز کی جگہ میں۔ (۳۱)
تشریح:یعنی ہر طرف سے ہٹ کر ایک اللہ کے ہو کر رہو۔ تمہارے تمام افعال و نیّات بالکلیہ بلا شرکت غیرے خالص خدا کے لیے ہونے چاہئیں۔
وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰہِ :یہ شرک کی مثال بیان فرمائی، خلاصہ یہ ہے کہ توحید نہایت اعلیٰ اور بلند مقام ہے۔ اس کو چھوڑ کر جب آدمی کسی مخلوق کے سامنے جھکتا ہے تو خود اپنے کو ذلیل کرتا اور آسمانِ توحید کی بلندی سے پستی کی طرف گراتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قدر اونچے سے گر کر زندہ بچ نہیں سکتا۔ اب یا تو اہواء و افکار ردیہ کے مردار خوار جانور چاروں طرف سے اس کی بوٹیاں نوچ کر کھائیں گے یا شیطان لعین ایک تیز ہوا کے جھکڑ کی طرح اس کو اڑا لے جائے گا اور ایسے گہرے کھڈ میں پھینکے گا جہاں کوئی ہڈی پسلی نظر نہ آئے۔ یا یوں کہو کہ مثال میں دو قسم کے مشرکوں کا الگ الگ حال بیان ہوا ہے۔ جو مشرک اپنے شرک میں پوری طرح پکا نہیں مذبذب ہے، کبھی ایک طرف جھک جاتا ہے کبھی دوسری طرف، وہ "فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ” کا، اور جو مشرک اپنے شرک میں پوری طرح پکا اٹل ہو، وہ "تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ” کا مصداق ہے یا تَخْطَفُہُ الطَّیْرُ سے مراد لوگوں کے ہاتھوں مارا جانا اور تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ سے طبعی موت مرنا مراد ہو، اکثر مفسرین نے وجہ تشبیہ کے بیان میں اسی طرح کے احتمالات ذکر کیے ہیں۔ لیکن حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ جس کی نیت ایک اللہ پر ہے وہ قائم ہے اور جہاں نیت بہت طرف گئی وہ سب اس کو (پریشان کر کے) راہ میں سے اچک لیں گی۔ یا سب سے منکر ہو کر دَہری ہو جائے گا۔ ”
(تفسیرعثمانی)
یہ (ہے حکم) اور جو شعائر اللہ کی تعظیم کرے گا تو بیشک یہ (اللہ کی نشانیوں کی تعظیم) دلوں کی پرہیز گاری سے ہے۔ (۳۲)
تشریح:یعنی شعائر اللہ کی تعظیم شرک میں داخل نہیں۔ جس کے دل میں پرہیزگاری کا مضمون اور خدائے واحد کا ڈر ہو گا وہ اس کے نام لگی چیزوں کا ادب ضرور کرے گا۔ یہ ادب کرنا شرک نہیں بلکہ عین توحید کے آثار میں سے ہے کہ خدا کا عاشق ہر اس چیز کی قدر کرتا ہے جو بالخصوص اس کی طرف منسوب ہو جائے۔
(تفسیرعثمانی)
تمہارے لئے ان (مویشیوں) میں ایک مدت مقررہ تک فائدے (حاصل کرنا جائز) ہے، پھر ان کے پہنچنے کا مقام بیت قدیم (بیت اللہ) تک ہے۔ (۳۳)
تشریح:قدیم گھر بیت اللہ شریف ہے اور یہاں شاید توسعًا سارا حرم مراد ہو، یعنی اونٹ، گائے، بکری وغیرہ سے تم بہت فوائد حاصل کر سکتے ہو۔ مثلاً سواری کرو، دودھ پیو، نسل چلاؤ، اُون وغیرہ کو کام میں لاؤ، مگر یہ اس وقت کہ ان کو ہدی نہ بناؤ۔ "ہدی” بننے کے بعد اس قسم کا انتفاع (بدون شدید ترین ضرورت کے) نہیں کر سکتے۔ اب تو اس کا عظیم الشان اخروی فائدہ یہ ہی ہے کہ کعبہ کے پاس لے جا کر خدا تعالیٰ کے نام پر قربان کر دو۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ اللہ کا نام لیں (ذبح کرتے وقت) ان مویشیوں چوپائیوں پر جو ہم نے انہیں دئیے ہیں، پس تمہارا معبود، معبود یکتا ہے، پس اس کے فرمانبردار ہو جاؤ، اور (اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ) عاجزی سے گردن جھکانے والوں کو خوشخبری دیں۔ (۳۴)
تشریح:یعنی اللہ کی نیاز کے طور پر مویشی قربان کرنا ہر دین سماوی میں عبادت قرار دی گئی ہے۔ اگر یہ عبادت غیر اللہ کی نیاز کے طور پر کرو گے تو شرک ہو جائے گا جس سے بہت پرہیز کرنا چاہیے۔ موحد کا کام یہ ہے کہ قربانی اکیلے اسی خدا کے لیے کرے جس کے نام پر قربان کرنے کا تمام شرائع میں حکم رہا ہے۔ اس کے حکم سے باہر نہ ہو۔
وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ:ان لوگوں کو رضائے الٰہی کی بشارت سنا دیجئے جو صرف اسی ایک خدا کا حکم مانتے ہیں اسی کے سامنے جھکتے ہیں اسی پر ان کا دل جمتا ہے اور اسی کے جلال و جبروت سے ڈرتے رہتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ (جن کی کیفیت یہ ہے) جب اللہ کا نام لیا جائے ان کے دل ڈر جاتے ہیں، اور صبر کرنے والے ہیں، اس پر جو انہیں پہنچے، اور نماز قائم کرنے والے ہیں، اور جو ہم نے انہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ (۳۵)
تشریح:یعنی مصائب و شدائد کو صبر و استقلال سے برداشت کریں، کوئی سختی اٹھا کر راہ حق سے قدم نہ ڈگمگائے۔ بیت اللہ تک پہنچنے میں بہت مصائب و شدائد پیش آتے ہیں، سفر میں اکثر نمازوں کے فوت ہونے یا قضا ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے، شاید اسی مناسبت سے ان اوصاف و خصال کا یہاں ذکر فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لئے شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) مقرر کئے، تمہارے لئے ان میں بھلائی ہے، پس اللہ کا نام لو (ذبح کرتے وقت) ان پر قطار باندھ کر، پھر جب ان کے پہلو (زمین پر ) گر جائیں (ذبح ہو جائیں) لو ان میں سے (خود بھی) کھاؤ اور کھلاؤ، سوال نہ کرنے والوں کو، اور سوال کرنے والوں کو، اسی طرح ہم نے انہیں تمہارے لئے مسخر (زیر فرمان) کیا ہے تاکہ تم شکر کرو (احسان مانو) ۔ (۳۶)
تشریح:پہلے مطلق شعائر اللہ کی تعظیم کا حکم تھا۔ اب تصریحاً بتلا دیا کہ اونٹ وغیرہ قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ میں سے ہیں۔ جن کی ذوات میں اور جن کو ادب کے ساتھ قربانی کرنے میں تمہارے لیے بہت سی دنیاوی و اخروی بھلائیاں ہیں، تو عام ضابطہ کے موافق چاہیے کہ اللہ کا نام پاک لے کر ان کو ذبح کرو۔ بالخصوص اونٹ کے ذبح کا بہترین طریقہ نحر ہے کہ اس کو قبلہ رخ کھڑا کر کے اور ایک ہاتھ داہنا یا بایاں باندھ کر سینہ پر زخم لگائیں جب سارا خون نکل چکا وہ گر پڑا تب ٹکڑے کر کے استعمال کریں اور بہت اونٹ ہوں تو قطار باندھ کر کھڑا کر لیں۔
وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ :یہ محتاج کی دو قسمیں بتلائیں۔ ایک جو صبر سے بیٹھا ہے، سوال نہیں کرتا۔ تھوڑا مل جائے تو اسی پر قناعت کرتا ہے دوسرا جو بے قرار ہو کر سوال کرتا پھرتا ہے کچھ مل جائے تب بھی قرار نہیں۔
کَذٰلِکَ سَخَّرْنَاہا لَكُمْ :ایسے بڑے بڑے جانور جو تم سے جثہ میں اور قوت میں کہیں زیادہ ہیں، تمہارے قبضہ میں کر دیے کہ تم ان سے طرح طرح کی خدمات لیتے ہو اور کیسی آسانی سے ذبح کر لیتے ہو۔ یہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے جس کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ یہ کہ شرک کر کے الٹی ناشکری کرو۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ کو ہر گز نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا خون، بلکہ اس کو پہنچتا ہے تقوی (تمہارے دلوں کی پرہیز گاری ) اسی طرح ہم نے انہیں تمہارے لئے مسخر (زیر فرمان) کیا، تاکہ تم اللہ کو بڑائی سے یاد کرو اس پر جو اس نے تمہیں ہدایت دی، اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیں۔ (۳۷)
تشریح:اس میں قربانی کا اصل فلسفہ بیان فرمایا۔ یعنی جانور کو ذبح کر کے محض گوشت کھانے کھلانے یا اس کا خون گرانے سے تم اللہ کی رضاء کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔ نہ گوشت اور خون اٹھ کر اس کی بارگاہ تک پہنچتا ہے اس کے یہاں تو تمہارے دل کا تقویٰ اور ادب پہنچتا ہے کہ کیسی خوش دلی اور جوشِ محبت کے ساتھ ایک قیمتی اور نفیس چیز اس کی اجازت سے اس کے نام پر اس کے بیت کے پاس لے جا کر قربان کی۔ گویا اس قربانی کے ذریعہ سے ظاہر کر دیا کہ ہم خود بھی تیری راہ میں اسی طرح قربان ہونے کے لیے تیار ہیں۔ بس یہی وہ تقویٰ ہے جس کا ذکر "وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ” میں کہا گیا تھا۔ اور جس کی بدولت خدا کا عاشق اپنے محبوب حقیقی کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے۔
"بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ لَکَ وَمِنْکَ” کہہ کر ذبح کرو اور اللہ کا شکر ادا کرو کہ اس نے اپنی محبت و عبودیت کے اظہار کی کیسی اچھی راہ سجھا دی، اور ایک جانور کی قربانی کو گویا خود تمہاری جان قربان کرنے کے قائم مقام بنا دیا۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اللہ دور کرتا ہے مؤمنوں سے (دشمنوں کے ضرر) بیشک اللہ کسی بھی دغا باز (خائن) ناشکرے کو پسند نہیں کرتا۔ (۳۸)
تشریح:مکہ مکرمہ میں کافروں کی طرف سے مسلمانوں پر جو ظلم توڑے جا رہے تھے، شروع میں قرآن کریم ہی نے انہیں بار بار صبر سے کام لینے کا حکم دیا تھا، اب اس آیت میں یہ تسلی دی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کے لئے یہ صبر آزما مرحلہ اب ختم ہونے والا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ ان ظالموں کے ظلم کا جواب دیا جائے، چنانچہ اگلی آیت میں مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی گئی ہے، لیکن اس سے پہلے یہ خوشخبری دے دی گئی ہے کہ اللہ تعالی خود مسلمانوں کا دفاع کرے گا اس لئے وہ اب بے خوف ہو کر لڑیں اور وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں سے لڑائی ہونی ہے وہ دغا باز اور ناشکرے لوگ ہیں، جنہیں اللہ تعالی پسند نہیں کرتا، اس لئے وہ ان کے خلاف مسلمانوں ہی کی مدد کرے گا۔
(توضیح القرآن)
جن سے (کافر) لڑتے ہیں ا ن لوگوں کو اذن (جہاد) دیا گیا کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ ان کی مدد پر ضرور قدرت رکھتا ہے۔ (۳۹)
تشریح: مکہ مکرمہ میں تئیس سال تک صبر و ضبط کی تلقین کے بعد یہ پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو کافروں کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی، اس سے پہلے مسلمانوں کو کفار کے ظلم وستم کا کوئی جواب دینے کی اجازت نہیں تھی، بلکہ ہر زیادتی پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
(توضیح القرآن)
جو لوگ نکالے گئے اپنے شہروں سے ناحق، صرف (اس بنا پر) کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے، اور اگر اللہ دفع نہ کرتا لوگوں کو ایک دوسرے سے تو صومعے (راہبوں کے خلوت خانے) اور (نصاریٰ کے) گرجے اور (یہود کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی ) مسجدیں ڈھا دی جاتیں، جن میں اللہ کا نام بکثرت لیا جاتا ہے، اور البتہ اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے، بیشک اللہ توانا غالب ہے۔ (۴۰)
تشریح:اس آیت میں جہاد کی حکمت بیان فرمائی گئی ہے اور وہ یہ کہ جتنے انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں آئے ہیں، اپنے اپنے وقت میں انہوں نے صرف اللہ تعالی کی عبادت کی تعلیم دی، اور اس کے لئے عبادت گاہیں بنائیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اس کام کے لئے خانقاہیں اور کلیسا بنائے گئے جنہیں عربی میں صومعہ اور بیعہ کہا جاتا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیرووں نے جو عبادت گاہیں بنائیں ان کو صلوات کہا گیا ہے اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مسجد کہا جاتا ہے، جو لوگ ان آسمانی مذاہب کے مخالف تھے وہ ان عبادت گاہوں کو مٹانے کے درپے رہے، اگر ان کے خلاف جہاد کی اجازت نہ ہوتی تو وہ ان عبادت گاہوں کو مسمار کر ڈالتے۔
(توضیح القرآن)
وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں ملک میں دسترس (اختیار) دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور نیک کاموں کا حکم دیں، اور برائی سے روکیں، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کہ لئے ہے۔ (۴۱)
تشریح:یہ ان ہی مسلمانوں کا بیان ہے جن پر ظلم ہوئے اور جن کو گھروں سے نکالا گیا۔ یعنی خدا ان کی مدد کیوں نہ کرے گا جب کہ وہ ایسی قوم ہے کہ اگر ہم اسے زمین کی سلطنت دے دیں تب بھی خدا سے غافل نہ ہوں۔ بذات خود بدنی و مالی نیکیوں میں لگے رہیں۔ اور دوسروں کو بھی اسی راہ پر ڈالنے کی کوشش کریں۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے ان کو زمین کی حکومت عطاء کی اور جو پیشین گوئی کی تھی حرف بحرف سچی ہوئی۔ فللّٰہ الحمد علیٰ ذالک۔ اس آیت سے صحابہ رضی اللہ عنہم خصوصاً مہاجرین اور ان میں اخص خصوص کے طور پر حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی حقانیت اور مقبولیت و منقبت ثابت ہوئی۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر یہ تمہیں جھٹلائیں تو ان سے قبل جھٹلایا نوح کی قوم نے اور عاد اور ثمود نے۔ (۴۲)
اور ابراہیم کی قوم نے اور قوم لوط نے۔ (۴۳)
اور مدین والوں نے اور موسیٰ کو (بھی) جھٹلایا گیا، پس میں نے کافروں کو ڈھیل دی، پھر میں نے انہیں پکڑ لیا، تو کیسا ہوا میرے انکار (کا انجام) ! (۴۴)
تشریح:یعنی مسلمانوں کے غلبہ و نصرت کے جو وعدے کیے جا رہے ہیں، کفار اپنی موجودہ کثرت و قوت کو دیکھتے ہوئے ان کی تکذیب نہ کریں، یہ خدا کی ڈھیل ہے۔ پہلی قوموں نے بھی خدا کی چند روزہ ڈھیل سے دھوکہ کھا کر اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا تھا۔ آخر جب پکڑے گئے تو دیکھ لو ان کا حشر کیسا ہوا۔ اور خدا نے اپنے عذاب سے ڈرا کر ان کی شرارتوں پر جو انکار فرمایا تھا وہ کس طرح سامنے آ گیا۔ اگلی آیت میں اسی کی تفصیل ہے۔
(تفسیرعثمانی)
سو کتنی ہی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا اور وہ ظالم تھیں، تو یہ (اب) اپنی چھتوں پر گری پڑی ہیں، اور (کتنے ہی) کنوئیں بے کار پڑے ہیں، اور بہت سے گچ کاری کے (پختہ) محل (ویران پڑے ہیں) ۔ ( ۴۵)
تشریح:یعنی بنیادیں ہلنے سے اول چھتیں گر پڑیں پھر دیواریں اور سارا مکان گر کر چھت کے ڈھیر پر آ رہا۔ یہ ان کے تہ و بالا ہونے کا نقشہ کھینچا ہے۔ کنویں جن پر پانی کھینچنے والوں کی بھیڑ رہتی تھی۔ آج ان میں کوئی ڈول پھانسنے والا نہ رہا۔ اور بڑے بڑے پختہ، بلند عالیشان، قلعی چونے کے محل ویران کھنڈر بن کر رہ گئے۔ جن میں کوئی بسنے والا نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ زمین میں چلتے پھرتے نہیں جو ان کے دل (ایسے) ہو جاتے کہ ان سے سمجھنے لگتے، یا ان کے کان (ایسے ہو جاتے کہ) ان سے سننے لگتے، کیونکہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں، بلکہ دل جو سینوں میں ہیں اندھے ہو جایا کرتے ہیں۔ (۴۶)
تشریح: یعنی ان تباہ شدہ مقامات کے کھنڈر دیکھ کر کبھی غور و فکر نہ کیا، ورنہ ان کو سچی بات کی سمجھ آ جاتی اور کان کھل جاتے۔
آنکھوں سے دیکھ کر اگر دل سے غور نہ کیا تو وہ نہ دیکھنے کے برابر ہے۔ گو اس کی ظاہری آنکھیں کھلی ہوں پر دل کی آنکھیں اندھی ہیں۔ اور حقیقت میں زیادہ خطرناک اندھا پن وہی ہے جس میں دل اندھے ہو جائیں۔ (العیاذ باللہ)
(تفسیرعثمانی)
اور وہ تم سے عذاب جلدی مانگتے ہیں اور ہر گز اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہ کرے گا اور بیشک تمہارے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے مانند ہے اس سے جو تم گنتے ہو (تمہارے حساب میں) ۔ (۴۷)
تشریح:یعنی عذاب اپنے وقت پر یقیناً آ کر رہے گا۔ استہزاء و تکذیب کی راہ سے جلدی مچانا فضول ہے۔ تمہارے ہزار برس اس کے یہاں ایک دن کے برابر ہیں۔ جیسے مجرم آج اس کے قبضہ میں ہے ہزار برس گزرنے کے بعد بھی اسی طرح اس کے قبضہ و اقتدار کے نیچے ہے۔ کہیں بھاگ کر نہیں جا سکتا۔ یا یہ مطلب کہ ہزار برس کا کام وہ ایک دن میں کر سکتا ہے۔ مگر کرتا وہی ہے جو اس کی حکمت و مصلحت کے موافق ہو۔ کسی کے جلدی مچانے سے وہاں کچھ اثر نہیں ہوتا۔ یا یوں کہا جائے کہ اخروی عذاب کا وعدہ ضرور آ کر رہے گا۔ یعنی قیامت آئے گی اور تم کو پوری سزا ملے گی۔ آگے قیامت کے دن کا بیان ہوا کہ وہ ایک دن اپنی شدت و ہول کے لحاظ سے ہزار سال کے برابر ہو گا پھر ایسی مصیبت کو بلانے کے لیے کیوں جلدی مچاتے ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور کتنی ہی بستیاں ہیں میں نے ان کو ڈھیل دی اور وہ ظالم تھیں، پھر میں نے انہیں پکڑا، اور میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ (۴۸)
تشریح:یعنی کیا ڈھیل دینے سے وہ کہیں نکل کر بھاگ گئیں، آخر سب کو لوٹ کر ہماری ہی طرف آنا پڑا اور ہم نے ان کو پکڑ کر تباہ کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
فرما دیں، اے لوگو! اس کے سوا نہیں کہ میں تمہارے لئے آشکارا ڈرانے والا ہوں۔ (۴۹)
تشریح:یعنی میرا کام آگاہ و ہوشیار کر دینا ہے۔ عذاب کا لے آنا میرے قبضہ میں نہیں خدا ہی کے قبضہ میں ہے کہ سب مطیع و عاصی کا فیصلہ کرے گا اور ہر ایک کو اس کے مناسب حال جگہ پر پہنچائے۔
(تفسیرعثمانی)
پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے، ان کے لئے بخشش اور با عزت روزی ہے۔ (۵۰)
تشریح:یعنی جنت میں میوے پھل اور عمدہ عمدہ الوانِ نعمت اور حق تعالیٰ کا دیدار نصیب ہو گا۔ (تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے کوشش کی (اپنے زعم میں) ہماری آیات کے ہرانے میں، وہی ہیں دوزخ والے۔ (۵۱)
اور ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی، مگر جب اس نے آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈالا، پس شیطان جو ڈالتا ہے، اللہ مٹا دیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیات کو مضبوط کر دیتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۵۲)
تاکہ (اس وسوسہ کو) جو شیطان ڈالا ان لوگوں کے لئے آزمائش بنا دے جن کے دلوں میں روگ ہے، اور ان کے دل سخت ہیں، اور بیشک ظالم البتہ سخت ضد میں ہیں۔ (۵۳)
اور تاکہ جان لیں وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہ یہ تمہارے رب (کی طرف سے) حق ہے تو اس پر ایمان لے آئیں، اور اس کے لئے جھک جائیں ان کے دل، اور بیشک اللہ ان لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت دینے والا ہے جو ایمان لائے۔ (۵۴)
تشریح: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ کے مخالفین کی طرف سے جن شکوک و شبہات کا اظہار ہو رہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، بلکہ پچھلے انبیاء کرام کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ جب وہ لوگوں کو اللہ تعالی کا کلام پڑھ کر سناتے تو شیطان کافروں کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر دیتا جس کی بنا پر وہ لوگ ایمان نہیں لاتے تھے، لیکن چونکہ یہ شکوک و شبہات اصل میں بے بنیاد ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالی ان کا کوئی اثر مخلص مسلمانوں پر باقی نہیں رہنے دیتا، بلکہ انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے۔
(ملخص توضیح القرآن)
اور وہ ہمیشہ رہیں گے اس سے شک میں جن لوگوں نے کفر کیا، یہاں تک کہ ان پر اچانک قیامت آ جائے، یا ان پر آ جائے منحوس دن کا عذاب۔ (۵۵)
تشریح:یعنی نفس قیامت کا ہولناک حادثہ اچانک آ پہنچے یا اسی قیامت کے دن کا عذاب مراد ہو۔ یعنی دنیا ہی میں سزا مل جائے جس سے کوئی رستگاری کی شکل نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اس دن بادشاہی اللہ کے لئے ہے، وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا، پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے وہ نعمت کے باغات میں ہوں گے۔ (۵۶)
تشریح:یعنی قیامت کے دن اکیلے خدا کی بادشاہت کام کرے گی۔ کسی کی ظاہری و مجازی حکومت برائے نام بھی باقی نہ رہے گی۔ اس وقت سب دنیا کا بیک وقت عملی فیصلہ ہو جائے گا۔ جس کی تفصیل آگے مذکور ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا انہی کے لئے ہے ذلت کا عذاب۔ (۵۷)
اور جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی، پھر مارے گئے (شہید ہو گئے) یا مر گئے، اللہ البتہ انہیں اچھا رزق دے گا، اور اللہ بے شک سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ (۵۸)
وہ البتہ انہیں ضرور ایسے مقام میں داخل کرے گا جسے وہ پسند فرمائیں گے، اور اللہ بیشک علم والا، حلم والا ہے۔ (۵۹)
تشریح:مومنین کا انجام پہلے بتلایا تھا، یہاں ان میں سے ایک ممتاز جماعت کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا۔ یعنی جو لوگ خدا کے راستہ میں گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے خواہ وہ لڑائی میں شہید ہوں یا طبعی موت سے مریں دونوں صورتوں میں اللہ کے ہاں ان کی خاص مہمانی ہو گی۔ کھانا پینا، رہنا سہنا سب ان کی مرضی کے موافق ہو گا۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کس چیز سے راضی ہوں گے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کن لوگوں نے خالص اس کے راستہ میں اپنا گھر بار ترک کیا ہے۔ ایسے مہاجرین و مجاہدین کی فرو گذاشتوں پر حق تعالیٰ تحمل کرے گا۔ اور شانِ عفو سے کام لے گا یا "علیم” و "حلیم” کی صفات اس غرض سے ذکر کیں کہ اللہ سب کو جانتا ہے ان کو بھی جنہوں نے ایسے مخلص بندوں کو تکلیفیں دے کر گھر چھوڑنے پر مجبور کیا۔ لیکن اپنی بردباری کی وجہ سے فوراً سزا نہیں دیتا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جس نے دشمن کو (اسی قدر) ستایا جیسے اسے ستایا گیا تھا، پھر اس پر زیادتی کی گئی تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا، بیشک اللہ البتہ معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔ (۶۰)
تشریح: اوپر آیت ۳۹ میں مسلمانوں کو ان کافروں سے لڑنے کی اجازت دی گئی تھی، جنہوں نے ان پر ظلم ڈھائے تھے، حالانکہ اس سے پہلے ان کے ظلم کے جواب میں صبر اور درگزر کے احکام دئیے جاتے رہے تھے، اب یہاں صرف جنگ ہی کے معاملے میں نہیں بلکہ ہر قسم کے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی جا رہی ہے، بشرطیکہ وہ اتنا ہو جتنا ظلم ہوا، اور بتایا جا رہا ہے کہ اگرچہ درگزر کا معاملہ زیادہ افضل ہے، لیکن برابر کا بدلہ لینا بھی جائز ہے، اور اس پر بھی اللہ تعالی کی طرف سے مدد کاو عدہ ہے، بلکہ یہاں اور آگے بڑھ کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر برابر کا بدلہ لینے کے بعد ظالم دوبارہ زیادتی کرے تو اس پر بھی اللہ تعالی مدد فرمائیں گے۔
(توضیح القرآن)
یہ اس لئے ہے کہ اللہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور یہ کہ اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (۶۱)
تشریح:یعنی وہ اتنی بڑی قدرت والا ہے کہ رات دن کا الٹ پلٹ کر اور گھٹانا بڑھانا اسی کے ہاتھ میں ہے اسی کے تصرف سے کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں بڑی ہوتی ہیں۔ پھر کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ایک مظلوم قوم یا شخص کو امداد دے کر ظالموں کے پنجہ سے نکال دے بلکہ ان پر غالب و مسلط کر دے۔ پہلے مسلمان مہاجرین کا ذکر تھا اس آیت میں اشارہ فرما دیا کہ عنقریب حالات رات دن کی طرح پلٹا کھانے والے ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو دن میں لے لیتا ہے اسی طرح کفر کی سرزمین کو اسلام کی آغوش میں داخل کر دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
یہ اس لئے ہے کہ اللہ ہی حق ہے اور یہ کہ جسے وہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے، اور یہ کہ اللہ ہی بلند مرتبہ، بڑا ہے۔ (۶۲)
تشریح:یعنی اللہ کے سوا ایسے عظیم الشان انقلابات اور کس سے ہو سکتے ہیں۔ واقع میں صحیح اور سچا خدا تو وہی ایک ہے باقی اس کو چھوڑ کر خدائی کے جو دوسرے پاکھنڈ پھیلائے گئے ہیں سب غلط جھوٹ اور باطل ہیں۔ اسی کو خدا کہنا اور معبود بنانا چاہیے جو سب سے اوپر اور سب سے بڑا ہے اور یہ شان بالاتفاق اسی ایک اللہ کی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمانوں سے پانی اتارا تو زمین سر سبز ہو گئی، بے شک اللہ نہایت مہربان، خبر رکھنے والا ہے۔ (۶۳)
تشریح:اسی طرح کفر کی خشک و ویران زمین کو اسلام کی بارش سے سبزہ زار بنا دے گا۔ وہ ہی جانتا ہے کہ کس طرح بارش کے پانی سے سبزہ اُگ آتا ہے۔ قدرت اندر ہی اندر ایسی تدبیر و تصرف کرتی ہے کہ خشک زمین پانی وغیرہ کے اجزاء کو اپنے اندر جذب کر کے سرسبز و شاداب ہو جائے اسی طرح وہ اپنی مہربانی، لطیف تدبیر و تربیت، اور کمال خبرداری و آگاہی سے قلوب بنی آدم کو فیوض اسلام کا مینہ برسا کر سرسبز و شاداب بنا دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے، اور جو کچھ زمین میں ہے اور بیشک اللہ وہی بے نیاز، تمام خوبیوں والا ہے۔ (۶۴)
تشریح:یعنی آسمان و زمین کی تمام چیزیں جب اسی کی مملوک و مخلوق ہیں اور سب کو اس کی احتیاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں تو ان میں جس طرح چاہے تصرف اور ادل بدل کرے، کوئی مانع و مزاحم نہیں ہو سکتا۔ البتہ باوجود غنائے نام اور اقتدارِ کامل کے کرتا و ہی ہے جو سراپا حکمت و مصلحت ہو۔ اس کے تمام افعال محمود ہیں اور اس کی ذات تمام خوبیوں اور صفاتِ حمیدہ کی جامع ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے تمہارے لئے مسخر کیا جو کچھ زمین میں ہے، اور کشتی اس کے حکم سے دریا میں چلتی ہے، اور وہ آسمانوں کو روکے ہوئے ہے کہ وہ زمین پر نہ گر پڑے، مگر اس کے حکم سے، بیشک اللہ لوگوں پر بڑا شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۶۵)
تشریح:شفقت و مہربانی دیکھو کہ کس طرح خشکی اور تری کی چیزوں کو تمہارے قابو میں کر دیا۔ پھر اسی نے اپنے دست قدرت سے آسمان، چاند، سورج اور ستاروں کو اس فضائے ہوائی میں بدون کسی ظاہری کھمبے یا ستون کے تھام رکھا ہے جو اپنی جگہ سے نیچے نہیں سرکتے۔ ورنہ گر کر اور ٹکرا کر تمہاری زمین کو پاش پاش کر دیتے۔ جب تک اس کا حکم نہ ہو یہ کُرات یوں ہی اپنی جگہ قائم رہیں گے مجال نہیں کہ ایک انچ سرک جائیں۔ "اِلَّابِاِذْنِہِ” کا استثناء محض اثبات قدرت کی تاکید کے لیے ہے۔ یا شاید قیامت کے واقعہ کی طرف اشارہ ہو۔ واللہ اعلم۔
(ملخص تفسیرعثمانی)
اور وہی ہے جس نے تمہیں زندہ کیا، پھر تمہیں مارے گا، پھر تمہیں زندہ کرے گا، بے شک انسان بڑا ناشکرا ہے۔ (۶۶)
تشریح: اسی طرح کفر و جہل سے جو قوم روحانی موت مر چکی تھی، ایمان و معرفت کی روح سے اس کو زندہ کر دے گا۔ اتنے احسانات و انعامات دیکھ کر بھی اس کا حق نہیں مانتا منعم حقیقی کو چھوڑ کر دوسروں کے سامنے جھکنے لگتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
ہم نے ہر امت کے لئے ایک طریقِ عبادت مقرر کیا ہے، وہ اس پر (اسی کے مطابق) بندگی کرتے ہیں، سوچاہئیے کہ اس معاملہ میں نہ جھگڑیں، اور اپنے رب کی طرف بلائیں، بیشک تم ہو سیدھی راہ پر۔ (۶۷)
اور اگر وہ تم سے جھگڑیں تو آپ کہہ دیں اللہ خوب جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔ (۶۸)
اللہ روز قیامت تمہارے درمیان اس بات کا فیصلہ کرے گا، جس میں تم اختلاف کرتے تھے۔ (۶۹)
تشریح:تمام انبیاء اصولِ دین میں متفق رہے ہیں۔ البتہ ہر امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے بندگی کی صورتیں مختلف زمانوں میں مختلف مقرر کی ہیں۔ جن کے موافق وہ امتیں خدا کی عبادت بجا لاتی رہیں۔ اس امت محمدی کے لیے بھی ایک خاص شریعت بھیجی گئی لیکن اصل دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا۔ بجز اللہ کے کبھی کسی دوسری چیز کی عبادت مقرر نہیں کی گئی۔ اس سے توحید وغیرہ کے ان متفق علیہ کاموں میں جھگڑا کرنا کسی کو کسی حال زیبا نہیں۔ جب ایسی کھلی ہوئی چیز میں بھی حجتیں نکالی جائیں تو آپ کچھ پروا نہ کریں۔ آپ جس سیدھی راہ پر قائم ہیں لوگوں کو اسی طرف بلاتے رہیے۔ اور خواہ مخواہ کے جھگڑے نکالنے والوں کا معاملہ خدائے واحد کے سپرد کیجئے۔ وہ خود ان کی تمام حرکات سے واقف ہے۔ قیامت کے دن ان کے تمام اختلافات اور جھگڑوں کا عملی فیصلہ کر دے گا۔ آپ دعوت و تبلیغ کا فرض ادا کر کے ان کی فکر میں زیادہ درد سری نہ اٹھائیں۔ ایسے ضدی معاندین کا علاج خدا کے پاس ہے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ جانتا ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے، بیشک یہ کتاب میں ہے، بے شک یہ اللہ پر آسان ہے۔ (۷۰)
تشریح:یعنی کچھ ان کے اعمال پر منحصر نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا علم تو زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو محیط ہے اور بعض مصالح اور حکمتوں کی بناء پر اسی علم کے موافق تمام واقعات ” لوح محفوظ” میں اور بنی آدم کے تمام اعمال ان کے اعمالناموں میں لکھ بھی دیے گئے ہیں۔ اس کے موافق قیامت کے دن فیصلہ ہو گا۔ اور اتنی بے شمار چیزوں کا ٹھیک ٹھیک جاننا اور لکھ دینا اور اسی کے مطابق ہر ایک کا فیصلہ کرنا، ان میں سے کوئی بات اللہ کے ہاں مشکل نہیں، جس میں کچھ تکلیف یا دقت اٹھانی پڑے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ اللہ کے سوا (اس کی ) بندگی کرتے ہیں جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری، اور اس کی جس کا (خود) انہیں کوئی علم نہیں، اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں۔ (۷۱)
تشریح:محض باپ دادوں کی کورانہ تقلید میں ایسا کرتے ہیں، کوئی نقلی یا عقلی دلیل نہیں رکھتے۔ سب سے بڑا ظلم اور بے انصافی یہ ہے کہ خدا کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے۔ سو ایسے ظالم اور بے انصاف لوگ خوب یاد رکھیں کہ ان کے شرکاء مصیبت پڑنے پر کچھ کام نہ آئیں گے نہ اور کوئی اس وقت مدد کر سکے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب ان پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو تم کافروں کے چہروں پر ناخوشی (کے آثار) پہچان لو گے، قریب ہے کہ وہ ان پر حملہ کر دیں جو ان پر ہماری آیتیں پڑھتے ہیں، فرما دیں کیا میں تمہیں بتلاؤں اس سے بدتر ہے، وہ دوزخ، جس کا اللہ نے کافروں سے وعدہ کیا اور برا ہے (وہ) ٹھکانا (۷۲)
تشریح:یعنی قرآن کی آیتیں (جو توحید وغیرہ کے صاف بیانات پر مشتمل ہیں) سن کر کفار و مشرکین کے چہرے بگڑ جاتے اور مارے ناخوشی کے تیوریاں بدل جاتی ہیں۔ حتی کہ شدتِ غیظ و غضب سے پاگل ہو کر چاہتے ہیں کہ آیات سنانے والوں پر حملہ کر دیں۔ چنانچہ بعض اوقات کر بھی گزرتے ہیں۔
تمہارے اس غیظ و غضب اور ناگواری سے بڑھ کر جو آیات اللہ کے پڑھے جانے پر پیدا ہوتی ہے، ایک سخت بری ناگوار چیز اور ہے جس پر کسی طرح صبر ہی نہ کر سکو گے اور وہ دوزخ کی آگ ہے جس کا وعدہ کافروں سے کیا جا چکا ہے۔ دونوں کا موازنہ کر کے فیصلہ کر لو کہ کون سا تلخ گھونٹ پینا تم کو نسبۃً آسان ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے پس اس کو (کان کھول کر) سنو، بیشک جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ ہرگز ایک مکھی (بھی) نہ پیدا کر سکیں گے خواہ اس کے لئے وہ سب جمع ہو جائیں، اور اگر مکھی ان سے چھین لے تو وہ اس سے نہ چھڑاس کیں گے (کتنا) بودا ہے چاہنے والا، اور جس کو چاہا (وہ بھی) ۔ (۷۳)
تشریح:یہ توحید کے مقابلہ میں شرک کی شناعت و قبح ظاہر کرنے کے لیے مثال بیان فرمائی جسے کان لگا کر سننا اور غور و فکر سے سمجھنا چاہیے تاکہ ایسی رکیک و ذلیل حرکت سے باز رہو۔ مکھی بہت ہی ادنیٰ اور حقیر جانور ہے۔ جن چیزوں میں اتنی بھی قدرت نہیں کہ سب مل کر ایک مکھی پیدا کر دیں، یا مکھی ان کے چڑھاوے وغیرہ میں سے کوئی چیز لے جائے تو اس سے واپس لے سکیں ان کو "خالق السموات والارضین” کے ساتھ معبودیت اور خدائی کی کرسی پر بٹھا دینا کس قدر بے حیائی، حماقت اور شرمناک گستاخی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ مکھی بھی کمزور، مکھی سے زیادہ ان کے بت کمزور، اور بتوں سے بڑھ کر ان کا پوجنے والا کمزور ہے، جس نے ایسی حقیر اور کمزور چیز کو اپنا معبود و حاجت روا بنا لیا۔
(تفسیرعثمانی)
انہوں نے اللہ کی قدر نہ جانی (جیسے) اس کی قدر کرنے کا حق تھا، بیشک اللہ قوت والا غالب ہے۔ (۷۴)
تشریح: یعنی کیسےبے وقوف احسان فراموش ہیں، ان لوگوں نے اللہ کی کچھ قدر نہ پہچانی کہ ایسے عظیم الشان قدرت والے کے ساتھ بے بس بے شعور پتھروں کو برابر کر دیا، واللہ اعلم۔
(معارف القرآن)
اللہ فرشتوں میں سے اور آدمیوں میں سے پیغام پہنچانے والا چن لیتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔ (۷۵)
تشریح:کونسے فرشتے پیغمبروں کے پاس وحی کا پیغام لے کر جائیں، اور کن انسانوں کو پیغمبری کے مقام پر سرفراز کیا جائے، ان سب باتوں کا تعین اللہ تعالی ہی کرتے ہیں۔
(توضیح القرآن)
وہ جانتا ہے جو ان کے آگے اور جو ان کے پیچھے ہے اور اللہ (ہی) کی طرف سارے کاموں کی باز گشت ہے۔ (۷۶)
اے ایمان والو! تم رکوع کرو، اور سجدہ کرو، اور عبادت کرو اپنے رب کی اور اچھے کام کرو تاکہ تم دو جہان میں کامیابی پاؤ (۷۷)
تشریح:شرک کی تقبیح اور مشرکین کی تفضیح کے بعد مومنین کو خطاب فرماتے ہیں کہ تم اکیلے اپنے رب کی بندگی پر لگے رہو۔ اسی کے آگے جھکو، اسی کے حضور میں پیشانی ٹیکو، اور اسی کے لیے دوسرے بھلائی کے کام کرو۔ تاکہ دنیا اور آخرت میں تمہارا بھلا ہو۔
(تفسیرعثمانی)
اور (اللہ کی راہ میں) کوشش کرو (جیسے) کوشش کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں چنا، اور تم پر دین میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، (یعنی) تمہارے باپ ابراہیم کا دین، اس نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے قبل (بھی) اور اس (قرآن) میں بھی، تاکہ رسول (اکرم) تمہارے نگران و گواہ ہوں اور تم نگران و گواہ ہو لوگوں پر، پس نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور اللہ (کی رسی) کو مضبوطی سے تھام لو، وہ تمہارا کار ساز ہے، سو کیا ہی اچھا ہے کار ساز اور کیا ہی اچھا ہے مددگار۔ (۷۸)
تشریح: وَجَاہدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِہادِہٖ:اپنے نفس کو درست رکھنے اور دنیا کو درستی پر لانے کے لیے پوری محنت کرو جو اتنے بڑے اہم مقصد کے شایان شان ہو۔ آخر دنیاوی مقاصد میں کامیابی کیلئے کتنی محنتیں اٹھاتے ہو۔ یہ تو دین کا اور آخرت کی دائمی کامیابی کا راستہ ہے جس میں جس قدر محنت برداشت کی جائے انصافاً تھوڑی ہے (تنبیہ) لفظ "مجاہدہ” میں ہر قسم کی زبانی، قلمی، مالی، بدنی کوشش شامل ہے۔ اور "جہاد” کی تمام قسمیں (جہاد مع النفس، جہاد مع الشیطان، جہاد مع الکفار، جہاد مع البغات، جہاد مع المبطلین) اس کے نیچے مندرج ہیں۔
ہوَ اجْتَبَاكُمْ :کہ سب سے اعلیٰ و افضل پیغمبر دیا اور تمام شرائع سے اکمل شریعت عنایت کی، تمام دنیا میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے تم کو چھانٹ لیا اور سب امتوں پر فضیلت بخشی۔
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ :دین میں کوئی ایسی مشکل نہیں رکھی جس کا اٹھانا کٹھن ہو۔ احکام میں ہر طرح کی رخصتوں اور سہولتوں کا لحاظ رکھا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ تم خود اپنے اوپر ایک آسان چیز کو مشکل بنا لو۔
مِلَّۃَ أَبِيْكُمْ إِبْرَاہيْمَ:ابراہیم علیہ السلام چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اجداد میں ہیں اس لیے ساری امت کے باپ ہوئے، یا یہ مراد ہو کہ عربوں کے باپ ہیں کیونکہ اولین مخاطب قرآن کے و ہی تھے۔
ہوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ہٰذَا :یعنی اللہ نے پہلی کتابوں میں اور اس قرآن میں تمہارا نام "مسلم” رکھا (جس کے معنی حکمبردار اور وفا شعار کے ہیں) یا ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تمہارا یہ نام رکھا تھا جب کہ دعاء میں کہا "وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ” (بقرہ، رکوع١٥، آیت:١٢٨) اور اس قرآن میں شاید ان ہی کے مانگنے سے یہ نام پڑا ہو۔ بہرحال تمہارا نام "مسلم”ہے۔ گو اور اُمتیں بھی مسلم تھیں مگر لقب یہ تمہارا ہی ٹھہرا ہے سو اس کی لاج رکھنی چاہیے۔
لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہدَآءَ عَلَى النَّاسِ : یعنی پسند کیا تم کو اس واسطے کہ تم اور امتوں کو سکھاؤ اور رسول تم کو سکھائے۔ اور یہ امت جو سب سے پیچھے آئی یہی غرض ہے کہ تمام امتوں کی غلطیاں درست کرے اور سب کو سیدھی راہ بتائے۔ گویا جو مجدو شرف اس کو ملا ہے اسی وجہ سے ہے کہ یہ دنیا کے لیے معلم بنے اور تبلیغی جہاد کرے۔ (تنبیہ) دوسرے مفسرین نے "شہید” اور "شہداء” کو بمعنی "گواہ” لیا ہے۔ قیامت کے دن جب دوسری امتیں انکار کریں گی کہ پیغمبروں نے ہم کو تبلیغ نہیں کی اور پیغمبروں سے گواہ مانگے جائیں گے تو وہ امت محمدیہ کو بطور گواہ پیش کریں گے، یہ امت گواہی دے گی کہ بیشک پیغمبروں نے دعوت و تبلیغ کر کے خدا کی حجت قائم کر دی تھی۔ جب سوال ہو گا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا۔ جواب دیں گے کہ ہمارے نبی نے اطلاع کی جس کی صداقت پر خدا کی محفوظ کتاب (قرآن کریم) گواہ ہے۔ گویا یہ فضل و شرف اس لیے دیا گیا کہ تم کو ایک بڑے عظیم الشان مقدمہ میں بطور معزز گواہ کے کھڑا ہونا ہے۔ لیکن تمہاری گواہی کی سماعت اور وقعت بھی تمہارے پیغمبر کے طفیل میں ہے کہ وہ تمہارا تزکیہ کریں گے۔
فَأَقِيْمُوا الصَّلَاۃَ وَاٰتُوا الزَّکَاۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ہوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِيْرُ: یعنی انعامات الٰہیہ کی قدر کرو، اپنے نام و لقب اور فضل و شرف کی لاج رکھو، اور سمجھو کہ تم بہت بڑے کام کے لیے کھڑے کیے گئے ہو۔ اس لیے اول اپنے کو نمونہ عمل بناؤ۔ نماز، زکات (بالفاظ دیگر بدنی و مالی عبادات) میں کوتاہی نہ ہونے پائے، ہر کام میں اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو۔ ذرا بھی قدم جادہ حق سے ادھر ادھر نہ ہو۔ اس کے فضل و رحمت پر اعتماد رکھو۔ تمام کمزور سہارے چھوڑ دو، تنہا اسی کو اپنا مولیٰ اور مالک سمجھو، اس سے اچھا مالک و مددگار اور کون ملے گا؟ "رَبِّ اجْعَلْنَا مِنْ مُّقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَمُؤْتِی الزَّکٰوۃِ وَالْمُعْتَصِمِیْنَ بِکَ وَالْمَتَوَکِّلِیْنَ عَلَیْکَ فَاَنْتَ مَوْلَانَا وناصِرُنَا فَنِعْمَ الْمَوْلٰی اَنْتَ وَنِعْمَ الْنَّصِیْرُ” ثم سورۃ الحج بفضلہ ومنہ فللّٰہ الحمد وعلیٰ نبیہ الصلوٰۃ والتسلیم۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۲۳۔ سورۃالمؤمنون
تعارف
اس سورت کے شروع میں اللہ تعالی نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہئیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کر لے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا، اسی لئے اس سورت کا نام مؤمنون ہے یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہئیے، نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے ؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سورۂمؤمنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرما دیں کہ یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف تھے، سورت کا بنیادی مقصد انسان کواس کی اصلیت کی طرف متوجہ کر کے اس بات پر غور و فکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے اور بالآخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے اس میں انسان کا انجام کیا ہو گا ؟اس کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوکہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا انہیں اللہ تعالی کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا، مرنے کے بعد اللہ تعالی انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں گے اور ہر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے جزا وسزا کا سامنا کرنا پڑے گا، اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خدا وندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کر کے ثابت کیا گیا ہے۔
(توضیح القرآن)
مکیۃ
آیات:۱۱۸ رکوعات:۶
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
(دونوں جہان میں) کامیاب ہوئے وہ مؤمن جو اپنی نمازوں میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ (۱)
تشریح:”خشوع” کے معنی ہیں کسی کے سامنے خوف و ہیبت کے ساتھ ساکن اور پست ہونا، چنانچہ ابن عباسؓ نے "خَاشِعُوْنَ” کی تفسیر "خائفون ساکنون” سے کی ہے۔ اور آیت "تَرَی الْاَرْضَ خَاشِعَۃً فَاِذَا اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ” بھی دلالت کرتی ہے کہ "خشوع” میں ایک طرح کا سکون و تذلل معتبر ہے۔ قرآنِ کریم میں "خشوع” کو وجوہ، ابصار، اصوات وغیرہ کی صفت قرار دیا ہے۔ اور ایک جگہ آیت "اَلَمْ یَأنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِاللہ۔ "میں قلب کی صفت بتلائی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصل خشوع قلب کا ہے اور اعضائے بدن کا خشوع اس کے تابع ہے۔ جب نماز میں قلب خاشع و خائف اور ساکن و پست ہو گا تو خیالات ادھر ادھر بھٹکتے نہیں پھریں گے، ایک ہی مقصود پر جم جائیں گے۔ پھر خوف و ہیبت اور سکون و خضوع کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہوں گے، مثلاً بازو اور سرجھکانا، نگاہ پست رکھنا، ادب سے دست بستہ کھڑا ہونا، ادھر ادھر نہ تاکنا، کپڑے یا ڈاڑھی وغیرہ سے نہ کھیلنا، انگلیاں نہ چٹخانہ، اور اسی قسم کے بہت افعال و احوال لوازم خشوع میں سے ہیں۔ احادیث میں حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ نماز میں ایسے ساکن ہوتے تھے جیسے ایک بیجان لکڑی، اور کہا جاتا تھا کہ یہ نماز خشوع ہے، فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا نماز بدون خشوع کے صحیح و مقبول ہوتی ہے یا نہیں۔ صاحب روح المعانی نے لکھا ہے کہ خشوع اجزائے صلوٰۃ کے لیے شرط نہیں۔ ہاں قبول صلوٰۃ کے لیے شرط ہے، میرے نزدیک یوں کہنا بہتر ہو گا کہ حسن قبول کے لیے شرط ہے۔ واللہ اعلم۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں۔ احیاء العلوم اور اس کی شرح میں تفصیل ملاحظہ کی جائے، بہرحال انتہائی فلاح اور اعلیٰ کامیابی ان ہی مومنین کو حاصل ہو گی جو خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور ان اوصاف سے موصوف ہیں جو آگے بیان کیے گئے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ جو بیہودہ باتوں سے منہ پھیر نے والے ہیں۔ (۳)
تشریح:یعنی فضول و بیکار مشغلوں میں وقت ضائع نہیں کرتے کوئی دوسرا شخص لغو اور نکمی بات کہے تو ادھر سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کو وظائف عبودیت سے اتنی فرصت ہی نہیں ہوتی کہ ایسے بے فائدہ جھگڑوں میں اپنے کو پھنسائیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ جو زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ (۴)
تشریح:یعنی ان کی عادت ہے کہ ہمیشہ زکات ادا کرتے رہتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کبھی دی کبھی نہ دی، غالباً اسی لیے "یُؤدُّوْنَ الزکوٰۃ” کی جگہ "لِلزَّکوٰۃِ فَاعِلُوْنَ” کی ترکیب اختیار فرمائی۔ گویا بتلا دیا کہ زکات ادا کرنا ان کا مستمرکام ہے۔ مترجم محقق قدس اللہ روحہ نے "دیا کرتے ہیں، کہہ کر ادھر اشارہ کر دیا۔ بعض مفسرین نے یہاں زکات کو "طہارت” (پاکیزگی) یا تزکیہ نفس کے معنی میں لیا ہے۔ گویا آیت حاضرہ کو "قَدْ اَفْلَخَ مَنْ تَزَکّٰی اور قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا” کے مشابہ قرار دیا ہے۔ اگر یہ مراد ہو تو اس کے مفہوم کو عام رکھا جائے جس میں بدن کا، دل کا اور مال کا پاک رکھنا سب داخل ہو۔ زکات و صدقات بھی ایک قسم کی مالی تطہیر ہے۔ "خُذْمِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُ ہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا” (توبہ، رکوع١٣، آیت ١٠٣) یہ کہنا کہ آیت مکی ہے اور مکہ میں زکات فرض نہ ہوئی تھی، ابن کثیر نے اس کا جواب دیا ہے کہ اصل زکات کی مشروعیت مکہ میں ہو چکی تھی۔ ہاں مقادیر و نصب وغیرہ کی تشخیص مدینہ پہنچ کر ہوئی واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۵)
مگر اپنی بیویوں سے یا جن کے مالک ہوئے ان کے دائیں ہاتھ (کنیزوں سے) بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (۶)
تشریح: أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُہمْ:اس سے مراد وہ کنیزیں ہیں جو شرعی احکام کے مطابق کسی کی ملکیت میں آئی ہوں لیکن آج کل ایسی کنیزوں کا کوئی وجود نہیں رہا۔
(توضیح القرآن)
پس جو ان کے سوا چاہے تو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے۔ (۷)
تشریح:یعنی اپنی منکوحہ عورت یا باندی کے سواء کوئی اور راستہ قضائے شہوت کا ڈھونڈے، وہ حلال کی حد سے آگے نکل جانے والا ہے۔ اس میں زنا، لواطت اور استمناء بالید وغیرہ سب صورتیں آ گئیں، بلک بعض مفسرین نے حرمت متعہ پر بھی اس سے استدلال کیا ہے وفیہ کلام طویل لایسعہ المقام۔ راجع روح المعانی تحت ہذہ الایۃ الکریمہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور (کامیاب ہیں وہ مؤمن) وہ جو اپنی امانتوں کی اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ (۸)
تشریح:یعنی امانت اور قول و قرار کی حفاطت کرتے ہیں، خیانت اور بدعہدی نہیں کرتے نہ اللہ کے معاملہ میں نہ بندوں کے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۹)
تشریح:نمازیں اپنے اوقات پر آداب و حقوق کی رعایت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ بندوں کے معاملات میں پڑ کر عبادت الٰہی سے غافل نہیں ہوتے۔ یہاں تک مومنین مفلحین کی چھ صفات و خصال بیان کیں۔ (١) خشوع و خضوع سے نمازیں پڑھنا، یعنی بدن اور دل سے اللہ کی طرف جھکنا۔ (٢) باطل لغو اور نکمی باتوں سے علیحدہ رہنا۔ (٣) زکات یعنی مالی حقوق ادا کرنا یا اپنے بدن، نفس اور مال کو پاک رکھنا۔ (٤) شہواتِ نفسانی کو قابو میں رکھنا۔ (٥) امانت و عہد کی حفاظت کرنا گویا معاملات کو درست رکھنا۔ (٦) اور آخر میں پھر نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرنا کہ اپنے وقت پر آداب و شروط کی رعایت کے ساتھ ادا ہوں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا حق تعالیٰ کے یہاں کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیز ہے کہ اس سے شروع کر کے اسی پر ختم فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
یہی لوگ ہیں جو وارث ہوں گے۔ (۱۰)
جو وارث ہوں گے (جنت) فردوس کے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (۱۱)
تشریح: جنت کو مؤمنوں کی میراث اس لئے کہا گیا ہے کہ ملکیت کے اسباب میں سے میراث ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ایک چیز خود بخود اس طرح انسان کی ملکیت میں آ جاتی ہے کہ اس ملکیت کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اشارہ اس طرف ہے کہ جنت کے مل جانے کے بعد اس کے چھن جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔
(توضیح القرآن)
اور البتہ ہم نے انسان کو چنی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (۱۲)
تشریح:کیونکہ سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام منتخب مٹی سے پیدا ہوئے اور ویسے بھی تمام بنی آدم نطفہ سے پیدا ہوتے ہیں اور نطفہ بھی مٹی سے نکلی ہوئی غذاؤں کا خلاصہ ہے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے اسے مضبوط جگہ میں نطفہ ٹھہرایا (۱۳)
پھر ہم نے نطفہ کو جما ہوا خون بنایا، پھر ہم نے بنایا جمے ہوئے خون (لوتھڑے) کو بوٹی، پھر ہم نے بوٹی سے ہڈیاں بنائیں، پھر ہم نے ہڈیوں کو گوشت پہنایا، پھر ہم نے اسے نئی صورت میں اٹھا کر کھڑا کیا، پس اللہ بابرکت ہے بہتر ین پیدا کرنے والا۔ (۱۴)
تشریح:یعنی کچھ حصہ گوشت کا سخت کر کے ہڈیاں بنا دیں۔ اور ہڈیوں کے ڈھانچے پر پھر گوشت پوست منڈھ دیا۔ سورہ "حج” میں اسی کے قریب کیفیت تخلیق انسان کی بیان ہو چکی ہے۔ روح حیات پھونک کر ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیا۔ جس پر آگے چل کر بچپن، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کے بہت سے احوال و ادوار گزرتے ہیں۔
فَتَبَارَکَ اللّٰہ أَحْسَنُ الْخَالِقِيْنَ:جس نے نہایت خوبصورتی سے تمام اعضاء و قویٰ کو بہترین سانچے میں ڈھالا اور اس کی ساخت عین حکمت کے موافق نہایت موزوں متناسب بنائی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر بیشک اس کے بعد تم ضرور مرنے والے ہو۔ (۱۵)
تشریح:یعنی تمہارا وجود ذاتی اور خانہ زاد نہیں، مستعار اور دوسرے کا عطیہ ہے۔ چنانچہ موت آ کر سب نقشہ بگاڑ دیتی ہے۔ تم اس وقت اس کے زبردست پنجہ سے اپنی ہستی کو نہیں بچا سکتے۔ یقیناً کوئی اور قاہر طاقت تمہارے اوپر ہے جس نے وجود کی باگ اپنے ہاتھ میں تھام رکھی ہے جب چاہے ڈھیلی چھوڑ دے، جب چاہے کھینچ لے۔
(تفسیرعثمانی)
پھر بلا شبہ تم روزِ قیامت اٹھائے جاؤ گے۔ (۱۶)
تشریح:جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا و ہی دوبارہ بنا کر کھڑا کرے گا۔ تاکہ پہلے وجود کی مستور قوتیں اور اعمال کے نتائج اپنی کامل ترین صورتوں میں ظاہر ہو کر ثابت کر دیں کہ یہ اتنا بڑا کارخانہ کوئی بیکار اور بے نتیجہ ڈھونگ نہیں بنایا گیا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق ہم نے تمہارے اوپر بنائے سات راستے اور ہم پیدائش سے غافل نہیں۔ (۱۷)
تشریح:”طرائق” کے معنی بعض مفسرین و لغویین کے نزدیک طبقات کے ہیں۔ یعنی آسمان کے ساتھ طبقے اوپر نیچے بنائے۔ فہذا کما قال "کَیْفَ خَلَقَ اللہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقاً” (نوح، رکوع١، آیت ١٥) اور بعض نے طرائق کو راستوں کے معنی میں لیا ہے۔ یعنی سات آسمان بنائے جو فرشتوں کی گزرگاہیں ہیں۔ بعض معاصر مصنفین نے "سبع طرائق” سے سات سیاروں کے مدارات مراد لیے ہیں۔ واللہ اعلم۔
وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِيْنَ: ہر چیز پورے انتظام و احکام اور خبرداری سے بنائی ہے اور اس کی حفاظت و بقاء کے طریقوں سے ہم پورے باخبر ہیں۔ اجرامِ سماویہ اور مخلوقاتِ سفلیہ میں کوئی چیز نہیں جو ہمارے احاطہ علم و قدرت سے باہر ہو۔ ورنہ سارا انتظام ہی درہم برہم ہو جائے۔ ” یَعْلَمُ مَایَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَایَخْرُجُ مِنْہَا وَمَایَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا”الخ (حدید، رکوع١، آیت ٤٠) ۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے آسمانوں سے پانی اتارا ایک اندازہ کے ساتھ، پھر اس کو ہم نے زمین میں ٹھہرایا، اور بیشک ہم اس کو لے جانے پر (بھی) قادر ہیں۔ (۱۸)
تشریح:نہ اس قدر زیادہ کہ دنیا بے وقت اور بے موقع تباہ ہو جائے۔ اور نہ اتنا کم کہ ضروریات کو کافی نہ ہو۔ بارش کا پانی زمین اپنے اندر جذب کر لیتی ہے جس کو ہم کنواں وغیرہ کھود کر نکالتے ہیں۔ نہ اتارنا چاہیں تو نہ اتاریں اور اتارنے کے بعد تم کو اس سے منتفع ہونے کی دسترس نہ دیں مثلاً اس قدر گہرا کر دیں کہ تم نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکو، یا خشک کر کے ہوا میں اڑا دیں، یا کھاری اور کڑوا کر دیں، تو ہم سب کچھ کر سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس ہم نے پیدا کئے اس سے تمہارے لئے کھجوروں اور انگوروں کے باغات، تمہارے لئے ان میں بہت سے میوے ہیں، اور اس سے تم کھاتے ہو۔ (۱۹)
تشریح:یعنی ان کی بہار دیکھ کر خوش ہوتے ہو اور بعض کو بطور تفکہ اور بعض کو بطور غذا استعمال کرتے ہو۔ (تفسیرعثمانی)
اور درخت (زیتون) جو طور سینا سے نکلتا ہے، وہ اگتا ہے تیل اور سالن لئے ہوئے کھانے والوں کی لئے۔ (۲۰)
تشریح:یعنی زیتون کا درخت جس میں سے روغن نکلتا ہے جو مالش وغیرہ کے کام آتا ہے اور بہت ملکوں کے لوگ سالن کی جگہ اس کا استعمال کرتے ہیں۔ اس درخت کا ذکر خصوصیت سے فرمایا، کیونکہ اس کے فوائد کثیر ہیں اور خاص فضل و شرف رکھتا ہے۔ اسی لیے سورہ ” التین” میں اس کی قسم کھائی گئی۔ جبل طور کی طرف نسبت کرنا بھی اس کی فضیلت و برکت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ وہاں اس کی پیداوار زیادہ ہوتی ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں مقام عبرت ہے، ہم تمہیں ان سے پلاتے ہیں (دودھ) جو ان کے پیٹوں میں ہے، اور تمہارے لئے ان میں (اور) بہت سے فائدے ہیں، اور ان میں سے (بعض ) تم کھاتے ہو۔ (۲۱)
تشریح:نباتات کے بعد یہ حیوانات کا ذکر ہوا، یعنی جانوروں کا دودھ ہم اپنی قدرت سے تم کو پلاتے ہیں۔ اور بہت کچھ فائدے تمہارے لیے ان کی ذات میں رکھ دیے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض جانوروں کا گوشت کھانا بھی حلال کر دیا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ان میں (بعض ) تم کھاتے ہو، اور ان پر اور کشتی پر سوار کئے جاتے ہو (۲۲)
تشریح:یعنی خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر اور دریا میں جہازوں اور کشتیوں پر سوار ہو کر کہیں سے کہیں نکل جاتے ہو اور بڑے بڑے وزنی سامان ان پر بار کرتے ہو۔ کشتی کی مناسبت سے آگے نوح علیہ السلام کا قصہ ذکر فرماتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان سے کشتی بنوائی جو طوفانِ عظیم کے وقت مومنین کی نجات کا ذریعہ بنی۔ پھر نوح علیہ السلام کی مناسبت سے بعض دوسرے انبیاء کے واقعات بھی ذکر فرما دیئے۔ شاید یہاں ان قصص کے بیان میں یہ بھی اشارہ ہو گا کہ جس طرح اوپر کی آیات میں تمہاری جسمانی ضروریات کا انتظام مذکور تھا اسی طرح خداوند رحمان نے تمہاری روحانی حوائج و ضروریات کا سرا نجام کرنے کے لیے ابتدائے دنیا سے وحی و رسالت کا سلسلہ بھی قائم فرما دیا۔ یا یوں کہہ لو کہ اوپر قدرت کے نشانات بیان فرما کر توحید کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے یہاں سے سلسلہ نبوت کا بیان شروع کر دیا۔ جس کے ضمن میں انبیاء اور ان کے متبعین کی خوش انجامی اور مکذبین و معاندین کی بد انجامی بھی ذہن نشین کر دی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارے لئے کوئی معبود نہیں، تو کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۲۳)
تو اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کیا، بولے یہ (کچھ بھی) نہیں مگر تم جیسا ایک بشر ہے، وہ چاہتا ہے کہ تم پر بڑا بن بیٹھے، اور اگر اللہ چاہتا تو اتارتا فرشتے، ہم نے اپنے پہلے باپ دادا سے یہ (کبھی) نہیں سنا۔ (۲۴)
تشریح: تو اس کی قوم کے جن سرداروں نے کفر کیا، بولے :اس میں اور تم میں فرق کیا ہے جو یہ رسول بن جائے تم نہ بنو۔ بڑا بن کر رہنا چاہتا ہے اس لیے یہ سب ڈھونگ بنایا ہے۔ ورنہ خدا کسی کو رسول بنا کر بھیجتا تو کیا یہی اس کام کے لیے رہ گیا تھا۔ ہم نے ایسی عجیب بات کبھی نہیں سنی کہ ایک ہماری طرح کا معمولی آدمی خدا کا رسول بن جائے اور تمام دیوتاؤں کو ہٹا کر تنہا ایک خدا کی حکومت منوانے لگے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ (کچھ بھی) نہیں مگر ایک آدمی ہے جس کو جنون ہو گیا ہے سو تم اس کا ایک مدت تک انتظار کرو۔ (۲۵)
تشریح:معلوم ہوتا ہے کہ اس غریب کا دماغ چل گیا۔ بھلا ساری قوم کے خلاف اور اپنے باپ دادوں کے خلاف ایسی بات زبان سے نکالنا جو کوئی شخص باور نہ کر سکے کھلا جنون نہیں تو اور کیا ہو گا بہتر ہے چند روز صبر کرو اور انتظار کرو، شاید کچھ دنوں کے بعد اسے ہوش آ جائے اور جنون کے دورہ سے افاقہ ہو یا یوں ہی مر مرا کر قصہ ختم ہو جائے۔ (العیاذ باللہ) ۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے کہا اے میرے رب ! میری مدد فرما اس پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا۔ (۲۶)
تشریح:یعنی جب نوح کی ساری کوششیں بیکار ثابت ہوئیں، ساڑھے نو سو برس سختیاں جھیل کر بھی ان کو راہِ راست پر لانے میں کامیاب نہ ہوئے تو خدا سے فریاد کی کہ اب ان اشقیاء کے مقابلہ میں میری مدد فرمایئے۔ کیونکہ بظاہر یہ لوگ میری تکذیب سے باز آنے والے نہیں۔ اوروں کو بھی خراب کریں گے۔
(تفسیرعثمانی)
تو ہم نے وحی بھیجی اس کی طرف کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے حکم سے کشتی بناؤ، پھر جب ہمارا حکم آئے اور تنور ابلنے لگے، تو اس (کشتی ) میں ہر قسم کے جوڑوں میں سے دو (ایک نر ایک مادہ) رکھ لو، اور اپنے گھر والے (بھی سوار کر لو) اس کے سوا (اس کے غرق ہونے پر) حکم ہو چکا ہے ان میں سے، اور مجھ سے ان کے بارے میں بات نہ کرنا جنہوں نے ظلم کیا ہے، بیشک وہ غرق کئے جانے والے ہیں۔ (۲۷)
تشریح:تنور چولھے کو بھی کہتے ہیں اور سطح زمین کو بھی، بعض روایات میں ہے کہ طوفان نوح اس طرح شروع ہوا تھا کہ ایک چولھے سے پانی ابلنے لگا، اوپر سے بارش شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ وہ ایک ہولناک طوفان میں بدل گیا، حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ سورۂ ہود (۱۱۔ ۲۵تا ۴۸) میں گزر چکا ہے۔
(توضیح القرآن)
پھر جب بیٹھ جاؤ کشتی پر تم اور تمہارے ساتھی، تو کہنا تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہ جس نے ہمیں نجات دی ظالموں کی قوم سے۔ (۲۸)
تشریح:یعنی ہم کو ان سے علیحدہ کر کے عذاب سے مامون رکھ۔ (تفسیرعثمانی)
اور کہو اے میرے رب! مجھے مبارک (جگہ) منزل پر اتار، اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔ (۲۹)
تشریح:یعنی کشتی میں اچھی آرام کی جگہ دے اور کشتی سے جہاں اتارے جائیں وہاں بھی کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہر طرح اور ہر جگہ تیری رحمت و برکت شامل حال رہے۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں، اور بیشک ہم آزمائش کرنے والے ہیں۔ (۳۰)
تشریح:کہ کون ان نشانوں کو سن کر عبرت و نصیحت حاصل کرتا ہے کون نہیں کرتا۔ کما قال تعالیٰ "وَلَقَدْتَرَکْنٰہَآ اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ” (قمر، رکوع١، آیت ١٥) ۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے ان کے بعد پیدا کیا دوسرا گروہ۔ (۳۱)
پھر ہم نے ان کے درمیان انہی میں سے رسول بھیجے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لئے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر کیا تم ڈرتے نہیں؟ (۳۲)
تشریح:یہاں قرآن کریم نے پیغمبر کا نام نہیں لیا، لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت صالح علیہ السلام ہیں جنہیں قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا تھا، کیونکہ آگے آیت نمبر۴۰ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی قوم کو چنگھاڑ سے ہلاک کیا گیا تھا، اور بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ شاید حضرت ہود علیہ السلام مراد ہوں، جنہیں قوم عاد کی طرف بھیجا گیا تھا اور چنگھاڑ سے مراد ہوا کا عذاب ہے جس کے ساتھ یقیناً خوفناک آواز بھی ہو گی، ان دونوں کی واقعات سورۂ اعراف (۷۔ ۶۵تا۷۳) اور سورہ ہود ( ۱۱۔ ۵۰ تا ۶۱) میں گزر چکے ہیں۔
(توضیح القرآن)
اور اس کی قوم کے ان سرداروں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، اور آخرت کی حاضری کو جھٹلایا، اور ہم نے انہیں دنیا کی زندگی میں عیش دیا تھا، یہ نہیں ہے مگر تمہیں جیسا ایک بشر ہے، وہ اسی میں سے کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو، اور اسی میں سے پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔ (۳۳)
تشریح:یعنی اس کے معتقد نہ تھے کہ مرنے کے بعد ایک دن خدا سے ملنا ہے۔ بس دنیا کی زندگی اور اس کا عیش و آرام ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تم نے اپنے جیسے ایک بشر کی اطاعت کی، تو بیشک تم اس وقت گھاٹے میں رہو گے۔ (۳۴)
تشریح:یعنی اس سے بڑی خرابی اور ذلت کیا ہو گی کہ اپنے جیسے ایک معمولی آدمی کو خواہ مخواہ مخدوم و مطاع ٹھہرا لیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ تمہیں وعدہ دیتا ہے کہ جب تم مر گئے اور تم مٹی اور ہڈیاں ہو گئے تو تم (پھر) نکالے جاؤ گے۔ ( ۳۵)
بعید ہے، بعید ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ (۳۶)
تشریح:یعنی کس قدر بعید از عقل بات کہتا ہے کہ ہڈیوں کے ریزے مٹی کے ذرات میں مل جانے کے بعد پھر قبروں سے آدمی بن کر اٹھیں گے؟ ایسی مہمل بات ماننے کو کون تیار ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
(اور کچھ) نہیں مگر یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہم نہیں ہیں پھر اٹھائے جانے والے۔ (۳۷)
تشریح:یعنی کہاں کی آخرت، اور کہاں کا حساب کتاب۔ ہم تو جانیں یہ ہی ایک دنیا کا سلسلہ اور یہ ہی ایک مرنا اور جینا ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہتا ہے۔ کوئی پیدا ہوا، کوئی فنا ہو گیا آگے کچھ نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
وہ (کچھ) نہیں مگر ایک آدمی ہے، اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، اور ہم نہیں ہیں اس پر ایمان لانے والے۔ (۳۸)
تشریح:کہ میں اس کا پیغمبر ہوں اور وہ مردوں کو دوبارہ زندہ کر کے عذاب و ثواب دے گا۔ یہ دونوں دعوے ایسے ہیں جن کو ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ خواہ مخواہ جھگڑنے اور درد سری کرنے سے کیا فائدہ؟
(تفسیرعثمانی)
اس نے عرض کیا اے میرے رب! اس پر میری مدد فرما کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ (۳۹)
تشریح:یعنی آخر پیغمبر نے کفار کی طرف سے نا اُمید ہو کر دعا کی۔
(تفسیرعثمانی)
اس نے فرمایا وہ بہت جلد ضرور پچھتاتے رہ جائیں گے۔ (۴۰)
تشریح:یعنی عذاب آیا چاہتا ہے جس کے بعد پچھتائیں گے، اور وہ پچھتانا نفع نہ دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
پس انہیں چنگھاڑ نے وعدۂ حق کے مطابق آ پکڑا، سو ہم نے انہیں خس و خاشاک کی طرح کر دیا، پس مار ہو ظالموں کی قوم کے لئے۔ (۴۱)
تشریح:جیسے سیلاب خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے، اس طرح عذاب الٰہی کے سیل میں بہے چلے گئے۔ (تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے ان کے بعد اور امتیں پیدا کیں۔ (۴۲)
کوئی امت اپنی (مقررہ) میعاد سے نہ سبقت کرتی ہے اور نہ پیچھے رہ جاتی ہے۔ (۴۳)
تشریح:یعنی ہر ایک قوم جس نے پیغمبروں کی تکذیب کی ٹھیک اپنے اپنے وعدہ پر ہلاک کی جاتی رہی، جو میعاد کسی قوم کی تھی ایک منٹ اس سے آگے پیچھے نہ ہوئی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے پے درپے رسول بھیجے جب بھی کسی امت میں اس کا رسول آیا انہوں نے اسے جھٹلایا تو ہم (ہلاک کرنے کے لئے) پیچھے لائے (بھولی بسری باتیں) ان میں سے ایک کو دوسرے کے، اور ہم نے انہیں افسانے بنایا سو (اللہ کی) مار ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لائے۔ (۴۴)
تشریح:یعنی رسولوں کا تانتا باندھ دیا یکے بعد دیگرے پیغمبر بھیجتے رہے اور مکذبین میں بھی ایک کو دوسرے کے پیچھے چلتا کرتے رہے۔ ادھر پیغمبروں کی بعث کا اور ادھر ہلاک ہونے والوں کا نمبر لگا دیا۔ چنانچہ بہت قومیں ایسی تباہ و برباد کی گئیں جن کے قصے کہانیوں کے سوا کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ آج ان کی داستانیں محض عبرت کے لیے پڑھی اور سنی جاتی ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پھر ہم نے بھیجا موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلے دلائل کے ساتھ۔ (۴۵)
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔ (۴۶)
تشریح:اس لیے خدائی پیغام کو خاطر میں نہ لائے۔ کبر و غرور کے نشہ نے ان کے دماغوں کو بالکل مختل کر رکھا تھا۔
(تفسیرعثمانی)
پس انہوں نے کہا کیا ہم اپنے جیسے (ان) دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں؟ اور ان کی قوم (کے لوگ) ہماری خدمت کرنے والے تھے۔ (۴۷)
تشریح:یعنی موسٰی و ہارون کی قوم (بنی اسرائیل) تو ہماری غلامی کر رہی ہے ان میں کے دو آدمیوں کو ہم اپنا سردار کس طرح بنا سکتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس انہوں نے دونوں کو جھٹلایا تو وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہو گئے۔ (۴۸)
اور تحقیق ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تاکہ وہ لوگ ہدایت پالیں۔ (۴۹)
تشریح:یعنی فرعونیوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے ان کو تورات شریف مرحمت کی تاکہ لوگ اس پر چل کر جنت اور رضائے الٰہی کی منزل تک پہنچ سکیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسی) اور ان کی ماں کو ایک نشانی بنایا اور ہم نے انہیں ٹھکانہ دیا ایک بلند ٹیلہ پر جو ٹھہرنے کا مقام اور جاری پانی کی (شاداب) جگہ تھی۔ (۵۰)
تشریح: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کی قدرت کی ایک نشانی کے طور پر بغیر باپ کے بیت اللحم کے مقام پر پیدا ہوئے تھے، بیت اللحم کا بادشاہ ان کی والدہ کا دشمن ہو گیا تھا، اس لئے حضرت مریم علیہاالسلام کو وہاں سے نکل کر کسی ایسی جگہ اپنے آپ کو اور اپنے صاحبزادے کو چھپانا پڑا جہاں اس بادشاہ کی پہنچ نہ ہو، قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ایک ایسی بلند جگہ پر پناہ دی جو ان کے لئے پرسکون بھی تھی، اور وہاں چشمے کا پانی بھی بہتا تھا جو ان کی ضروریات پوری کر سکے۔
(توضیح القرآن)
اے رسولو! پاک چیزوں میں سے کھاؤ، اور نیک عمل کرو، بیشک جو تم کرتے ہو میں اسے جاننے والا ہوں (جانتا ہوں) ۔ (۵۱)
تشریح:یعنی سب پیغمبروں کے دین میں یہی ایک حکم رہا کہ حلال کھانا حلال راہ سے کما کر۔ اور نیک کام کرنا۔ نیک کام سب خلق جانتی ہے۔ چنانچہ تمام پیغمبر نہایت مضبوطی اور استقامت کے ساتھ اکل حلال، صدق مقال اور نیک اعمال پر مواظبت اور اپنی امتوں کو اسی کی تاکید کرتے رہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ اسی طرح کا حکم جو یہاں رسولوں کو ہوا، عامہ مومنین کو دیا گیا ہے۔ اس میں نصاریٰ کی رہبانیت کا بھی رد ہو گیا جو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ذکر سے خاص مناسبت رکھتا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کا کھانا پینا، حرام کا ہو، اسے اپنی دعاء کے قبول ہونے کی توقع نہیں رکھنا چاہیے۔ اور بعض احادیث میں ہے کہ جو گوشت حرام سے اُگا ہو، دوزخ کی آگ اس کی زیادہ حق دار ہے۔ العیاذ باللہ۔
حلال کھانے اور نیک کام کرنے والوں کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے تمام کھلے چھپے احوال و افعال سے باخبر ہے۔ اسی کے موافق ہر ایک سے معاملہ کرے گا۔ یہ رسولوں کو خطاب کر کے امتوں کو سنایا۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک یہ تمہاری امت ایک امت واحدہ ہے، اور میں تمہارا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو۔ (۵۲)
پھر انہوں نے آپس میں اپنا کام ٹکڑے ٹکڑے کاٹ لیا، (پھر) ہر گروہ والے اس پر جو ان کے پاس ہے خوش ہیں۔ (۵۳)
تشریح:یعنی اصول کے اعتبار سے تمام انبیاء کا دین و ملت ایک اور سب کا خدا بھی ایک ہے جس کی نافرمانی سے ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے۔ لیکن لوگوں نے پھوٹ ڈال کر اصل دین کو پارہ پارہ کر دیا اور جدی جدی راہیں نکال لیں۔ اس طرح آراء وا ہواء کا اتباع کر کے سینکڑوں فرقے اور مذہب بن گئے۔ یہ تفریق انبیاء نے نہیں سکھلائی۔ ان کے یہاں ازمنہ وامکنہ وغیرہ کے اختلاف سے صرف فروعی اختلاف تھا۔ اصول دین میں سب بالکلیہ متفق رہے ہیں۔ عموماً مفسرین نے آیت کی تقریر اسی طرح کی ہے۔ لیکن حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "ہر پیغمبر کے ہاتھ اللہ تعالیٰ نے جو اس وقت کے لوگوں میں بگاڑ تھا، اس کا سنوار فرمایا۔ پیچھے لوگوں نے جانا ان کا حکم جدا جدا ہے۔ آخر ہمارے پیغمبر کی معرفت سب بگاڑ کا سنوار (اور سب خرابیوں کا علاج) اکٹھا بتا دیا اب سب دین مل کر ایک دین ہو گیا۔ ” اور سب قومیں ایک جھنڈے تلے جمع کر دی گئیں۔
(تفسیرعثمانی)
پس انہیں ان کی غفلت میں ایک مدت مقررہ تک چھوڑ دے۔ (۵۴)
تشریح:یعنی جن لوگوں نے انبیاء کی متفقہ ہدایات میں رخنے ڈال کر الگ الگ فرقے اور ملتیں قائم کر دیں ہر فرقہ اپنے ہی عقائد و خیالات پر دل جمائے بیٹھا ہے۔ کسی طرح اس سے ہٹنا نہیں چاہتا، خواہ آپ کتنی ہی نصیحت فرمائیں تو آپ بھی ان کے غم میں زیادہ نہ پڑیے بلکہ تھوڑی سی مہلت دیجئے کہ یہ اپنی غفلت و جہالت کے نشہ میں ڈوبے رہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھڑی آ پہنچے جب ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔ یعنی موت یا عذاب الٰہی ان کے سروں پر منڈلانے لگے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا وہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ ان کی مدد کر رہے ہیں مال اور اولاد کے ساتھ۔ (۵۵)
ہم ان کے لئے بھلائی میں جلدی کر رہے ہیں، (نہیں) بلکہ وہ سمجھ نہیں رکھتے۔ (۵۶)
تشریح: بہت سے کفار اپنے حق پر ہونے کی یہ دلیل دیتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالی نے بہت سامال و دولت دے رکھا ہے، ہماری اولاد بھی خوشحال ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی ہم سے خوش ہے، اور ہمیں آئندہ بھی خوشحال رکھے گا، اگر ناراض ہوتا تو یہ مال اور اولاد ہمیں میسر نہ ہوتا، یہ آیت ان کا جواب دے رہی ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں مال و دولت مل جانا اللہ تعالی کی رضا مندی کی دلیل نہیں ہے، کیونکہ وہ کافروں اور نافرمانوں کو بھی رزق دیتا ہے اس کے بجائے وہ ان لوگوں سے خوش ہے، اور ان کا انجام بہتر کرے گا جن کے حالات آیت نمبر:۵۷ تا ۶۰ میں بیان فرمائے گئے ہیں۔
(توضیح القرآن)
بیشک جو لوگ اپنے رب کے ڈر سے سہمے ہوئے ہیں۔ (۵۷)
تشریح:یعنی باوجود ایمان و احسان کے کفار و مغرورین کی طرح "مکر اللہ” سے مامون نہیں ہمہ وقف خوف خدا سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں کہ نہ معلوم دنیا میں جو انعامات ہو رہے ہیں استدراج تو نہیں۔ حسن بصری کا مقولہ ہے۔ "اِنَّ الْمُومِنَ جمع اِحْسَانًا وَّشَفْقَۃً وَّاِنَّ الْمُنَافِقَ جَمَعَ اِسَاءَ ۃً وَاَمْنَا۔ ” (مومن نیکی کرتا اور ڈرتا رہتا ہے اور منافق بدی کر کے بے فکر ہوتا ہے)
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ (۵۸)
تشریح:یعنی آیاتِ کونیہ و شرعیہ دونوں پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ ادھر سے پیش آئے عین حکمت اور جو خبر دی جائے بالکل حق اور جو حکم ملے وہ بہمہ وجوہ صواب و معقول ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ (۵۹)
تشریح:یعنی خالص ایمان و توحید پر قائم ہیں۔ ہر ایک عمل صدق و اخلاص سے ادا کرتے ہیں۔ شرک جلی یا خفی کا شائبہ بھی نہیں آنے دیتے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ دیتے ہیں، جو کچھ وہ دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (۶۰)
تشریح:یعنی کیا جانے وہاں قبول ہوا یا نہ ہوا، آگے کام آئے یا نہ آئے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کر کے یہ کھٹکا لگا رہتا ہے، اپنے عمل پر مغرور نہیں ہوتے، نیکی کرنے کے باوجود ڈرتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
یہی لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور وہ ان کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں۔ (۶۱)
تشریح:دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ کما قال تعالیٰ۔ "فَاَتَاہُمُ اللہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاَخِرَۃِ” (آل عمران، رکوع١٥، آیت ١٤٨) تو درحقیقت اصلی بھلائی اعمال صالحہ، اخلاق حمیدہ اور ملکات فاضلہ میں ہوئی نہ کہ اموال و اولاد میں، جیسے کفار کا گمان تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق، اور ہمارے پاس (اعمال کا) ایک رجسٹر ہے ٹھیک ٹھیک بتلاتا ہے، اور ان پر ظلم نہ ہو گا۔ (۶۲)
تشریح:یعنی اوپر جو اعمال و خصال بیان کیے گئے کوئی ایسے مشکل کام نہیں جن کا اٹھانا انسانی طاقت سے باہر ہو۔ ہماری یہ عادت نہیں کہ لوگوں کو تکلیف مالایطاق دی جائے۔ یہ سب باتیں وہ ہیں جن کو اگر توجہ کرو تو بخوبی حاصل کر سکتے ہو۔ اور جو لوگ سابقین کاملین کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتے انہیں بھی اپنی وسعت و ہمت کے موافق پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسی کے مکلف ہیں۔ ہمارے یہاں صحائف اعمال میں درجہ بدرجہ ہر ایک کے اعمال لکھے ہوئے موجود ہیں جو قیامت کے دن سب کے سامنے کھول کر رکھ دیئے جائیں گے اور ان ہی کے موافق جزا دی جائے گی جس پر رتی برابر ظلم نہ ہو گا نہ کسی کی نیکی ضائع ہو گی۔ نہ اجر کم کیا جائے گا، نہ بے وجہ بے قصور دوسرے کا بوجھ اس پر ڈالا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
بلکہ ان کے دل اس (حقیقت) سے غفلت میں ہیں اور ان کے اس کے علاوہ (اور بھی برے عمل ہیں) جو وہ کرتے ہیں۔ (۶۳)
تشریح:یعنی آخرت کے حساب کتاب سے یہ لوگ غافل ہیں اور دنیا کے دوسرے دھندوں میں پڑے ہیں جن سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں ہوتی جو آخرت کی طرف توجہ کریں۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان کے دل شک و تردد اور غفلت و جہالت کی تاریک موجوں میں غرقاب ہیں۔ بڑا گناہ تو یہ ہوا، باقی اس سے ورے اور بہت سے گناہ ہیں جن کو وہ سمیٹ رہے ہیں۔ ایک دم کو ان سے جدا نہیں ہوتے، اور جدا بھی کیونکر ہوں، جو کام ان کی سوءِ استعداد کی بدولت مقدر ہو چکے ہیں وہ کر کے رہیں گے اور لامحالہ ان کا خمیازہ بھی اٹھانا پڑے گا۔
(تفسیرعثمانی)
یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے خوشحال لوگوں کو پکڑا عذاب میں تو اس وقت وہ فریاد کرنے لگے۔ (۶۴)
آج فریاد نہ کرو تم ہماری (طرف) سے، مدد نہ دئیے جاؤ گے (مطلق مدد نہ پاؤ گے) ۔ (۶۵)
تشریح:یعنی جب دنیاوی یا اخروی عذاب میں پکڑے جائیں گے تو چلائیں گے اور شور مچائیں گے کہ ہمیں اس آفت سے بچاؤ۔ بھلا وہاں بچانے والا کون؟ حکم ہو گا کہ چلاؤ نہیں، یہ سب چیخ پکار بیکار ہے۔ آج کوئی تمہاری مدد کو نہیں پہنچ سکتا، نہ ہمارے عذاب سے چھڑا سکتا ہے۔ چنانچہ اس عذاب کا ایک نمونہ کفارِ مکہ کو بدر میں دکھلایا گیا جہاں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے یا قید ہو گئے۔ عورتیں مہینوں تک ان کا نوحہ کرتی رہیں، سر کے بال کٹوا کر ماتم کیے گئے، روئے پیٹے، چیخے چلائے، کچھ بن نہ پڑا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مظالم سے تنگ آ کر بددعا فرمائی تو سات سال کا قحط مسلط ہوا مردار کی ہڈیاں اور چمڑے کھانے اور خون پینے کی نوبت آ گئی، آخر رحمۃً للعالمین سے رحم کا واسطہ دے کر دعا کی درخواست کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے وہ عذاب اٹھایا۔ اس وقت نہ "لات و منات” کام آئے نہ ہبل و نائلہ۔
(تفسیرعثمانی)
البتہ میری آیتیں تم پر پڑھی جاتی تھیں، تو تم اپنی ایڑیوں کے بل (الٹے) پھر جاتے تھے۔ (۶۶)
تشریح:یعنی اب کیوں شور مچاتے ہو، وہ وقت یاد کرو جب خدا کے پیغمبر آیات پڑھ کر سناتے تھے تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے، سننا بھی گوارا نہ تھا۔ تمہاری شیخی اور تکبر اجازت نہ دیتا تھا کہ حق کو قبول کرو اور پیغمبروں کی بات پر کان دھرو۔
(تفسیرعثمانی)
تکبر کرتے ہوئے اس کےساتھ افسانہ گوئی کرتے، بیہودہ بکواس کرتے ہوئے۔ (۶۷)
تشریح:یعنی پیغمبر کی مجلس سے ایسے بھاگتے تھے گویا کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے یا سَامِراً تَہْجُرُوْنَ کا مطلب یہ ہے کہ رات کے وقت حرم میں بیٹھ کر پیغمبر علیہ السلام اور قرآن کریم کی نسبت باتیں بناتے اور طرح طرح کے قصے گھڑتے تھے، کوئی جادو کہتا تھا، کوئی شاعری، کوئی کہانت، کوئی کچھ اور۔ اسی طرح کی بکواس اور بیہودہ ہذیان کیا کرتے تھے۔ آج اس کا مزہ چکھو۔ چیخنے چلانے سے کچھ حاصل نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا پس انہوں نے (اس) کلام (حق) پر غور نہیں کیا؟ یا ان کےپاس وہ آیا جو نہیں آیا تھا ان کے پہلے باپ دادا (بڑوں) کے پاس۔ (۶۸)
تشریح:یعنی قرآن کی خوبیوں میں غور و فکر نہیں کرتے۔ ورنہ حقیقت حال منکشف ہو جاتی کہ بلاشبہ یہ کام اللہ جل شانہ، کا ہے جس میں ان کی بیماریوں کا صحیح علاج بتلایا گیا ہے۔ نصیحت کرنے والے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں، پیغمبر ہوئے یا پیغمبر کے تابع ہوئے۔ آسمانی کتابیں بھی برابر اترتی رہی ہیں۔ کبھی کہیں، کبھی کہیں۔ سو یہ کوئی انوکھی بات نہیں جس کا نمونہ پیشتر سے موجود نہ ہو۔ ہاں جو اکمل ترین و اشرف ترین کتاب اب آئی اس شان و مرتبہ کی پہلے نہ آئی تھی تو اس کا مقتضی یہ تھا کہ اور زیادہ اس نعمت کی قدر کرتے اور آگے بڑھ کر اس کی آواز پر لبیک کہتے۔ جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہی۔ (تنبیہ) شاید یہاں "آباء اولین” سے آباء ابعدین مراد ہوں۔ اور سورہ "یس” میں جو آیا ہے۔ "لتنذرقوما ماانذر اٰبآؤہم” وہاں آباء اقربین کا ارادہ کیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
یا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا تو اس لئے ان کے منکر ہیں۔ (۶۹)
تشریح:یعنی کیا اس لیے اعراض و تکذیب پر تلے ہوئے ہیں کہ ان کو پیغمبر کے احوال سے آگاہی نہیں، حالانکہ سارا عرب جانتا ہے کہ آپ بچپن سے صادق و امین اور عفیف و پاکباز تھے۔ چنانچہ حضرت جعفر نے بادشاہ حبشہ کے سامنے، حضرت مغیرہ ابن شعبہ نے تائب کسریٰ کے آگے اور ابو سفیان نے بحالت کفر قیصر روم کے دربار میں اسی چیز کا اظہار کیا۔ پھر ایسے مشہور و معروف راست باز بندہ کی نسبت کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ (العیاذ باللہ) خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے لگے۔
(تفسیرعثمانی)
یا وہ کہتے ہیں اس کو دیوانگی ہے؟بلکہ وہ ان کےپاس حق بات کے ساتھ آیا ہے اور ان میں سے اکثر حق بات سے نفرت رکھنے والے ہیں۔ (۷۰)
تشریح:یعنی سودائیوں اور دیوانوں کی باتیں کہیں ایسی کھری اور سچی ہوتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ بھی محض زبان سے کہتے تھے، دل ان کا جانتا تھا کہ بیشک جو کچھ آپ لائے ہیں حق ہے۔ پر حق بات چونکہ ان کی اغراض و خواہشات کے موافق نہ تھی۔ اس لیے بری لگتی تھی اور قبول کرنے کے لیے آمادہ نہ ہوتے تھے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر اللہ تعالی ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو البتہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے درہم برہم ہو جاتا، بلکہ ہم ان کے پاس ان کی نصیحت لائے ہیں، پھر وہ اپنی نصیحت (کی بات سے) روگردانی کرنے والے ہیں۔ (۷۱)
تشریح:یعنی سچی بات بری لگتی ہے تو لگنے دو۔ سچائی ان کی خوشی اور خواہش کے تابع نہیں ہو سکتی۔ اگر سچا خدا ان کی خوشی اور خواہش ہی پر چلا کرے تو وہ خدا ہی کہاں رہے۔ معاذ اللہ بندوں کے ہاتھ میں ایک کٹ پتلی بن جائے۔ ایسی صورت میں زمین و آسمان کے یہ محکم انتظامات کیونکر قائم رہ سکتے ہیں۔ اگر ایک چھوٹے سے گاؤں کا انتظام محض لوگوں کی خواہشات کے تابع کر دیا جائے، وہ بھی چار دن قائم نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ زمین و آسمان کی حکومت۔ کیونکہ عام خواہشات نظام عقلی کے مزاحم اور باہم دگر بھی متناقض واقع ہوئی ہیں۔ عقل و ہوٰی کی کشمکش اور اہوائے مختلفہ کی لڑائی میں سارے انتظامات درہم برہم ہو جائیں گے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تم ان سے اجر مانگتے ہو؟تو تمہارے رب کا اجر بہتر ہے، اور وہ بہتر روزی دہندہ ہے۔ (۷۲)
تشریح:یعنی آپ دعوت و تبلیغ اور نصیحت و خیر خواہی کر کے ان سے کسی معاوضہ کے بھی طلبگار نہیں۔ خدا تعالیٰ نے دارین کی جو دولت آپ کو مرحمت فرمائی ہے وہ اس معاوضہ سے کہیں بہتر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک تم انہیں بلاتے ہو راہِ راست کی طرف۔ (۷۳)
اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں لاتے، بیشک وہ راہِ حق سے ہٹے ہوئے ہیں۔ (۷۴)
تشریح:یعنی آپ کے صدق و امانت کا حال سب کو معلوم ہے۔ جو کلام آپ لائے اس کی خوبیاں اظہر من الشمس ہیں۔ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خلل دماغ نہیں، ان سے کسی معاوضہ کے طالب نہیں، جس راستہ کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاتے ہیں بالکل سیدھا اور صاف راستہ ہے جس کو ہر سیدھی عقل والا بسہولت سمجھ سکتا ہے کوئی ایچ پیچ نہیں ٹیڑھا ترچھا نہیں۔ ہاں اس پر چلنا ان ہی کا حصہ ہے جو موت کے بعد دوسری زندگی مانتے ہوں اور اپنی بدانجامی سے ڈرتے ہوں، جسے انجام کا ڈر اور عاقبت کی فکر ہی نہیں وہ کب سیدھے راستہ پر چلے گا، یقیناً ٹیڑھا رہے گا۔ اور سیدھی سی بات کو بھی اپنی کجروی سے کج بنا لے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو ان پر تکلیف ہے وہ دور کر دیں تو وہ اپنی سرکشی پر اڑے رہیں، بھٹکتے پھریں۔ (۷۵)
تشریح:یعنی تکلیف سے نکال کر آرام دیں۔ تب بھی احسان نہ مانیں اور شرارت و سرکشی سے باز نہ آئیں۔ حضرت کی دعا سے ایک مرتبہ مکہ والوں پر قحط پڑا تھا، پھر حضرت ہی کی دعا سے کھلا۔ شاید یہ اسی کو فرمایا، یا یہ مطلب ہے کہ اگر ہم اپنی رحمت سے ان کے نقصان کو دور کر دیں۔ یعنی قرآن کی سمجھ دے دیں۔ تب بھی یہ لوگ اپنے ازلی خسران اور سوءِ استعداد کی وجہ سے اطاعت و انقیاد اختیار کرنے والے نہیں کمال قال تعالیٰ "وَلَوْعَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْراً لَأ سْمَعَہُمْ وَلَوْاَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَہُمْ مُعْرِضُونَ۔ ” (انفال، رکوع٣)
(تفسیرعثمانی)
اور البتہ ہم نے انہیں عذاب میں پکڑا پھر نہ انہوں نے عاجزی کی اور نہ وہ گڑ گڑائے۔ (۷۶)
تشریح:مثلاً قحط وغیرہ آفات مسلط ہوئیں۔ تب بھی عاجزی کر کے خدا کی بات نہ مانی۔ (تفسیرعثمانی)
ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا تو اس وقت وہ اس میں مایوس ہو گئے۔ (۷۷)
تشریح:اس سے یا تو آخرت کا عذاب مراد ہے یا شاید وہ دروازہ لڑائیوں کا کھلا جس میں تھک کر عاجز ہوئے۔
(تفسیرعثمانی)
رکوع 5 ؟؟
اے میرے رب ! جو ان سے وعدہ کیا جاتا ہے اگر تو مجھے دکھا دے۔ (۹۳)
اے میرے رب! پس تو مجھے ظالم لوگوں میں (شامل) نہ کرنا۔ (۹۴)
تشریح:یعنی حق تعالیٰ کی جناب میں ایسی گستاخی کی جاتی ہے تو یقیناً کوئی سخت آفت آ کر رہے گی۔ اس لیے ہر مومن کو ہدایت ہوئی کہ اللہ کے عذاب سے ڈر کر یہ دعاء مانگے کہ جب ظالموں پر عذاب آئے تو الٰہی مجھ کو اس کے ذیل میں شامل نہ کرنا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا "وَاِذَا اَرَدْتَ بِقَوْمٍ فِتْنَۃً فَا قْبِضْنِیْ غَیْرَ مَفْتُونٍ” کا مطلب یہ ہے کہ خداوندا ہم کو ایمان و احسان کی راہ پر مستقیم رکھ۔ کوئی ایسی تقصیر نہ ہو کہ العیاذ باللہ تیرے عذاب کی لپیٹ میں آ جائیں۔ جیسے دوسری جگہ ارشاد ہوا۔ "وَاتَّقُوا فِتْنَۃً لَّاتُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَآصَّۃً” (انفال، رکوع٣، آیت ٢٥) ۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا ہے اور یہ قرآنِ کریم کی عام عادت ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور بیشک ہم اس پر قادر ہیں کہ ہم ان سےجو وعدہ کر رہے ہیں تمہیں دکھا دیں۔ (۹۵)
سب سے اچھی بھلائی سے برائی کو دفع کرو، ہم خوب جانتے ہیں جو وہ بیان کرتے ہیں۔ (۹۶)
تشریح:یعنی ہم کو قدرت ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے دنیا ہی میں ان کو سزا دے دیں لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے مقامِ بلند اور اعلیٰ اخلاق کا مقتضی یہ ہے کہ ان کی برائی کو بھلائی سے دفع کریں، جہاں تک اس طرح دفع ہو سکتی ہے۔ اور ان کی بیہودہ بکواس سے مشتعل نہ ہوں۔ اس کو ہم خوب جانتے ہیں، وقت پر کافی سزا دی جائے گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اغماض اور نرم برتاؤ کا اثر یہ ہو گا کہ بہت سے لوگ گرویدہ ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف جھکیں گے اور دعوت و اصلاح کا مقصود حاصل ہو گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور آپ فرما دیں، اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں شیطان کے وسوسوں سے۔ (۹۷)
تشریح:پہلے شیاطین الانس کے ساتھ برتاؤ کرنے کے طریقہ بتلایا تھا۔ لیکن شیاطین الجن اس طریقہ سے متأثر نہیں ہو سکتے۔ کوئی تدبیر یا نرمی ان کو رام نہیں کر سکتی۔ اس کا علاج صرف استعاذہ ہے یعنی اللہ کی پناہ میں آ جانا، تاکہ وہ قادرِ مطلق ان کی چھیڑخانی اور شر سے محفوظ رکھے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ شیطان کی چھیڑ یہ ہے کہ دین کے سوال و جواب میں بے موقع غصہ چڑھے اور لڑائی ہو پڑے۔ اسی پر فرمایا کہ برے کا جواب دے اس سے بہتر۔
(تفسیرعثمانی)
اور میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ (۹۸)
تشریح:یعنی کسی حال میں بھی شیطان کو میرے پاس نہ آنے دیجئے کہ مجھ پر وہ اپنا وار کر سکے۔ (تفسیرعثمانی)
(وہ غفلت میں رہتے ہیں) یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہتا ہے، اے میرے رب! مجھے (پھر دنیا میں) واپس بھیج دے۔ (۹۹)
ہرگز نہیں یہ تو ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے اور ان کے آگے ایک برزخ (آڑ) ہے جس دن (قیامت) تک کہ وہ اٹھائے جائیں گے۔ (۱۰۰)
تشریح:یعنی آپ ان کفار کی برائیوں کو بھلے طریقہ سے دفع کرتے رہیے۔ اور جو باتیں یہ بناتے ہیں ان کو ہمارے حوالہ کیجئے یہاں تک کہ ان میں سے بعض کی موت کا وقت آ پہنچے اور نزع کی حالت میں مبادی عذاب کا معائنہ کر کے پچھتاوا شروع ہو۔ اس وقت تمنا کریں گے کہ اے پروردگار! قبر کی طرف لے جانے کے بجائے ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس کر دو۔ تاکہ گذشتہ زندگی میں جو تقصیرات ہم نے کی ہیں اب نیک عمل سے ان کی تلافی کر سکیں۔ آئندہ ہم ایسی خطائیں ہرگز نہیں کریں گے۔ کما قال تعالیٰ۔ "وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَا کُمْ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتَ فَیَقُولُ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْ اِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصَّالحِیْنَ (منافقون، رکوع٢، آیت ١٠) ۔ اجل آ جانے کے بعد اس کام کے لیے ہرگز واپس نہیں کیا جا سکتا اور بالفرض واپس کر دیا جائے تو ہرگز نیک کام نہ کرے گا۔ وہی شرارتیں پھر سوجھیں گی۔ "وَلَوْرُدُّوا لْعَادُوا لِمَانُہُوا عَنْہُ وَاِنَّہُمْ لَکَاذِبُونَ ” (انعام، رکوع٣، آیت ٢٨) یہ محض اس کی بات ہے جو زبان سے بنا رہا ہے اور غلبہ حسرت و ندامت کی وجہ سے خاموش نہیں رہ سکتا، وہی اپنی طرف سے یہ بات کہتا ہے، کہتا رہے، ہمارے یہاں شنوائی نہیں ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
پھر جب صور پھونکا جائے گا تو نہ رشتے رہیں گے اس دن ان کے درمیان اور نہ کوئی ایک دوسرے کو پوچھے گا۔ (۱۰۱)
تشریح:یعنی عالم برزخ کے بعد قیامت کی گھڑی ہے۔ دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے بعد تمام خلائق کو ایک میدان میں لا کھڑا کریں گے۔ اس وقت ہر ایک شخص اپنی فکر میں مشغول ہو گا۔ اولاد ماں باپ سے، بھائی بھائی سے اور میاں بیوی سے سروکار نہ رکھے گا۔ ایک دوسرے سے بیزار ہوں گے۔ کوئی کسی کی بات نہ پوچھے گا۔ "یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَینِیْہِ لِکُلِّ امْرِیٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئذٍ شَاْنٌ یُغْنِیْہِ” (عبس رکوع١، آیت ٣٤ تا ٣٧) اس کے بعد دوسرے وقت ممکن ہے بعض قرابتوں سے کچھ نفع پہنچ جائے کما قال تعالیٰ "وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا وَتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَتُہُمْ وَمَآاَلْتَنَاہُمْ مِنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ۔ ” (طور، رکوع١، آیت ٢٠) (تنبیہ) بعض احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سارے نسب اور دامادی کے تعلقات منقطع ہو جائیں گے (یعنی کام نہ دیں گے) "اِلَّانَسَبِیْ وَصِہْرِی” (بجز میرے نسب اور صہر کے) معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات عموم سے مستثنیٰ ہیں۔ اسی حدیث کو سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب سے نکاح کیا، اور چالیس ہزار درہم مہر باندھا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "وہاں باپ بیٹا ایک دوسرے کو شامل نہیں، ہر ایک سے اس کے عمل کا حساب ہے۔ ”
(تفسیرعثمانی)
پس جس (کے اعمال ) کا پلہ بھاری ہوا پس وہی لوگ فلاح (نجات) پانے والے ہوں گے۔ ( ۱۰۲)
اور جس (کے اعمال) کا پلہ ہوا تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارہ میں ڈالا، وہ جہنم میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ (۱۰۳)
آگ ان کے چہرے جھلس دے گی اور وہ اس میں تیوری چڑھائے ہوں گے۔ (۱۰۴)
تشریح:جلتے جلتے بدن سوج جائے گا، نیچے کا ہونٹ لٹک کر ناف تک اور اوپر کا پھول کر کھوپڑی تک پہنچ جائے گا، اور زبان باہر نکل کر زمین میں لٹکتی ہو گی جسے دوزخی پاؤں سے روندیں گے (اللہم احفظنا منہ ومن سآئر انواع العذاب) ۔
(تفسیرعثمانی)
کیا میری آیتیں تم پر نہ پڑھی جاتی (سنائی جاتی) تھیں؟پس تم انہیں جھٹلاتے تھے۔ (۱۰۵)
تشریح:یعنی اس وقت ان سے یوں کہیں گے۔ گویا جن باتوں کو دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے، اب آنکھوں سے دیکھ لو سچی تھیں یا جھوٹی؟
(تفسیرعثمانی)
وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بد بختی غالب آ گئی، اور ہم راستے سے بھٹکے ہوئے لوگ تھے۔ ( ۱۰۶)
اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال لے پھر اگر ہم نے دوبارہ (وہی) کیا تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔ (۱۰۷)
تشریح:یعنی اعتراف کریں گے کہ بیشک ہماری بدبختی نے دھکا دیا جو سیدھے راستہ سے بہک کر اس ابدی ہلاکت کے گڑھے میں آ پڑے۔ اب ہم نے سب کچھ دیکھ لیا۔ از راہِ کرم ایک دفعہ ہم کو یہاں سے نکال دیجئے۔ پھر کبھی ایسا کریں تو گنہگار، جو سزا چاہیے دیجئے گا۔
(تفسیرعثمانی)
فرمائے گا :پھٹکارے ہوئے اس میں پڑے رہو اور مجھ سے کلام نہ کرو۔ (۱۰۸)
تشریح: یعنی بک بک مت کرو، جو کیا تھا اب اس کی سزا بھگتو۔ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جواب کے بعد پھر فریاد منقطع ہو جائے گی۔ بجز زفیر و شہیق کے کچھ کلام نہ کر سکیں گے۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک ہمارے بندوں کا ایک گروہ تھا وہ کہتے تھے اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے سو ہمیں بخش دے، اور ہم پر رحم فرما، اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (۱۰۹)
پس تم نے انہیں ٹھٹھا بنا لیا، یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں میری یاد بھلا دی اور تم ان ےس ہنسی کیا کرتے تھے۔ (۱۱۰)
تشریح:یعنی دنیا میں مسلمان جب اپنے رب کے آگے دعاء و استغفار کرتے تو تم کو ہنسی سوجھتی تھی۔ اس قدر ٹھٹھا کرتے اور ان کی نیک خصلتوں کا اتنا مذاق اڑاتے تھے کہ ان کے پیچھے پڑ کر تم نے مجھے بھی یاد نہ رکھا، گویا تمہارے سر پر کوئی حاکم ہی نہ تھا جو کسی وقت ان حرکتوں پر نوٹس لے اور ایسی سخت شرارتوں کی سزا دے سکے۔
(تفسیرعثمانی)
اس کے بدلے کہ انہوں نے صبر کیا بیشک میں نے آج انہیں جزا دی، بیشک وہی مراد کو پہنچنے والے ہیں۔ (۱۱۱)
تشریح:بیچارے مسلمانوں نے تمہاری زبانی اور عملی ایذاؤں پر صبر کیا تھا، آج دیکھتے ہو تمہارے بالمقابل ان کو کیا پھل ملا۔ ان کو ایسے مقام پر پہنچا دیا گیا جہاں وہ ہر طرح کامیاب اور ہر قسم کی لذتوں اور مسرتوں سے ہمکنار ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
(اللہ تعالی) فرمائے گا تم دنیا میں سالوں کے حساب سے کتنی مدت رہے؟ (۱۱۲)
وہ کہیں گے ہم ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ رہے، پس شمار کرنے والوں سے پوچھ لے۔ (۱۱۳)
فرمائے گا تم صرف تھوڑا عرصہ رہے کاش! تم (یہ حقیقت دنیا میں) جانتے ہوتے۔ (۱۱۴)
تشریح:یعنی واقعی دنیا کی عمر تھوڑی ہی تھی۔ لیکن اگر اس بات کو پیغمبروں کے کہنے سے دنیا میں سمجھ لیتے تو کبھی اس متاع فانی پر مغرور ہو کر انجام سے غافل نہ ہوتے اور وہ گستاخیاں اور شرارتیں نہ کرتے جن کا دنیا کی زائل و فانی لذتوں میں پڑ کر ارتکاب کیا۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا؟ اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے۔ (۱۱۵)
تشریح:یعنی دنیا میں تو نیکی بدی کا پورا نتیجہ نہیں ملتا۔ اگر اس زندگی کے بعد دوسری زندگی نہ ہو تو گویا یہ سب کارخانہ محض کھیل تماشہ اور بے نتیجہ تھا۔ سو حق تعالیٰ کی جناب اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی نسبت ایسا رکیک خیال کیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تم خیال کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بےکار پیدا کیا ؟ اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے، پس بلند تر ہے اللہ حقیقی بادشاہ، اس کےسوا کوئی معبود نہیں، عزت والا عرش کا مالک۔ (۱۱۶)
تشریح:جب وہ بالا و برتر، شہنشاہ مالک علی الاطلاق ہے تو ہو نہیں سکتا کہ وفاداروں اور مجرموں کو یوں کس مپرسی کی حالت میں چھوڑ دے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو کوئی پکارے اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود، اس کے پاس اس کے لئے کوئی سند نہیں سواس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے، بیشک کامیابی نہیں پائیں گے کافر۔ (۱۱۷)
اور آپ کہیں، اے میرے رب! بخش دے، اور رحم فرما اور تو بہترین رحم کرنے والا ہے۔ (۱۱۸)
تشریح:یعنی ہماری تقصیرات سے درگزر فرما اور اپنی رحمت سے دنیا و آخرت میں سرفراز کر۔ تیری رحمت بے نہایت کے سامنے کوئی چیز مشکل نہیں۔ "افحسبتم” سے ختم سورت تک کی یہ آیتیں بہت بڑی فضیلت اور تاثیر رکھتی ہیں، جس کا ثبوت بعض احادیث سے ہوا ہے اور مشائخ نے تجربہ کیا ہے۔ چاہیے کہ ان آیات کا ورد رکھا جائے، خاتمہ پر وہ دعاء تبرکاً "و تفاؤلاًنقل کرتا ہوں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق کو تلقین فرمائی کیونکہ اس کے الفاظ ان آیات کے مناسب ہیں۔ "اَللّٰہُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْراً وَاِنَّہ، لَایَغْفِرُ الذُّنُوبِ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِی مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِی اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیْم”۔
تم سورۃ المومنون بفضلہ ومنہ وحسن توفیقہ ونرجومنہ اکمال بقیۃ الفوائد۔
(تفسیرعثمانی)
٭٭
۲۴۔ سورۃالنور
تعارف
اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت و عصمت کو فروغ دینے کے لئے ضروری ہدایات اور احکام دینا، پچھلی سورت کے شروع میں مؤمنوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی گئی تھیں، ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی با عفت زندگی گزارتے ہیں، اب اس سورت میں با عفت زندگی گزارنے کے ضروری تقاضے بیان فرمائے گئے ہیں، چنانچہ سورت کے شروع ہی میں زنا کی شرعی سزا بیان فرمائی گئی ہے اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح زنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے اسی طرح کسی بے گناہ پر شرعی ثبوت کے بغیر زنا کا الزام لگانا بھی نہ صرف سخت گناہ ہے، بلکہ اس پر بھی سخت قانونی سزا مقرر فرمائی گئی ہے، غالب گمان یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت کے بعد چھٹے سال نازل ہوئی، اس سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب کے ایک قبیلے بنو المصطلق کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر جمع کر رہا ہے، آپ نے اس کے حملے سے پہلے ہی پیش قدمی کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا، اسی سفر سے واپسی پر منافقین نے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خلاف بڑی کمینگی کے ساتھ ایک بے بنیاد تہمت لگائی، اور اسے مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر شہرت دی، جس سے کچھ مخلص مسلمان بھی متاثر ہو گئے، اس سورت کی آیات :۱۱تا ۲۰ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی براءت کا اعلان کرنے کے لئے نازل ہوئیں، اور جن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤنا جرم کیا تھا، ان کو اور معاشرے میں عریانی و فحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں، نیز عفت و عصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دئے گئے ہیں اور دوسروں کے گھر جانے کے لئے ضروری آداب و احکام کی وضاحت فرمائی گئی ہیں۔
(توضیح القرآن)
مدنیۃ
آیات:۶۴ رکوعات:۹
اللہ کے نام سے جو رحم کرنے والا، نہایت مہربان ہے
یہ ایک سورۃ ہے جو ہم نے نازل کی، اور اس (کے احکام) کو لازم کیا، اور ہم نے اس میں واضح آیتیں نازل کیں، تاکہ تم یاد رکھو (دھیان دو) ۔ (۱)
تشریح:یہ سورت بعض نہایت ضروری احکام و حدود، امثال و مواعظ، حقائق توحید اور بہت ہی اہم تنبیہات و اصلاحات پر مشتمل ہے اس کا سب سے زیادہ ممتاز اور سبق آموز حصہ وہ ہے جس کا تعلق قصہ "افک” سے ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین نے جو جھوٹی تہمت لگائی تھی اس میں بعض سادہ دل اور مخلص مسلمانوں کے پائے استقامت کو بھی قدرے لغزش ہو گئی تھی۔ جس کا خطرناک اثر نہ صرف عائشہ صدیقہ کی پوزیشن پر پڑتا تھا، بلکہ ایک حیثیت سے خود پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہِ مجدد شرف تک پہنچتا تھا، اس لیے ضروری ہوا کہ قرآن کریم پورے اہتمام اور قوت سے ایسی خوفناک غلط کاری یا غلط فہمی کی اصلاح کرے اور ہمیشہ کے لیے ایمانداروں کے کان کھول دے کہ آئندہ کبھی دشمنوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر ایسی ٹھوکر نہ کھائیں۔ پیغمبر علیہ السلام کا مرتبہ رفیع یا امہات المومنین کی پاک و محترم حیثیت ایسی نہیں جس کے سمجھنے اور یاد رکھنے میں کوئی مسلمان کسی وقت بھی ذرا سا تساہل روا رکھے۔ شاید اسی لیے سورت کا آغاز ان الفاظ سے فرمایا۔ ” سُورَۃٌ اَنْزَلْنَاہَا وَفَرَضَنَاہَا الخ” تاکہ مخاطبین سمجھ لیں کہ اس کے مضامین ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں اور بہت زیادہ محفوظ رکھنے اور لازم پکڑنے کے مستحق ہیں۔ اور جو صاف صاف نصیحتیں اور کھری کھری باتیں اس سورت میں بیان فرمائی گئی ہیں، اس لائق ہیں کہ ہر مسلمان ان کو حرز جان بنائے اور یاد رکھے۔ ایک منٹ کے لیے اس سے غفلت نہ کرے ورنہ دین و دنیا کی تباہی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
بد کار عورت اور بد کار مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو، اور ان پر نہ کھاؤ ترس، اللہ کا حکم (چلانے) میں، اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان کی سزا (کے وقت) حاضر ہومسلمانوں کی ایک جماعت۔ (۲)
تشریح:بد کار عورت اور بد کار مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو:یہ سزا اس زانی اور زانیہ کی ہے جو آزاد، عاقل، بالغ اور نکاح کیے ہوئے نہ ہو، یا نکاح کرنے کے بعد ہم بستری نہ کر چکے ہوں، اور جو آزاد نہ ہو اس کے پچاس درے لگتے ہیں، اس کا حکم پانچویں پارہ کے اول رکوع کے ختم پر مذکور ہے۔ اور جو عاقل یا بالغ نہ ہو وہ مکلف ہی نہیں، اور جس مسلمان میں تمام صفتیں موجود ہوں (حریت، بلوغ، عقل، نکاح اور ہم بستری سے فراغ) ایسے شخص کو "محصن”کہتے ہیں۔ اس کی سزا "رجم” (سنگسار کرنا) ہے، جیسا کہ سورہ مائدہ میں "تورات” کے حوالہ سے فرمایا "وَکَیْفَ یُحَکِّمُونَکَ وَعِنْدَہُمْ التَّوراۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللہِ الخ” اور وہ حکم رجم کا تھا جیسا کہ وہاں کے فوائد میں گزر چکا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کے موافق فیصلہ کیا اور فرمایا "اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَوَّلُ مَنْ اَحْیَآ اَمْرَکَ اِذَامَاتُوہ، ” (خدایا! میں پہلا شخص ہوں جس نے تیرے حکم کو زندہ کیا جبکہ وہ اسے مٹا چکے تھے) پھر نہ صرف ان یہود کو بلکہ جس قدر واقعات اس قسم کے پیش آئے ان سب میں زانی محصن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی رجم کی سزا دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل برابر اسی قانونِ رجم پر رہا۔ بلکہ اہل سنت و الجماعت میں کسی ایک شخص نے بھی اس سے اختلاف کی جرأت نہ کی۔ گویا سنت متواترہ اور اجماع اہل حق نے بتلا دیا کہ اس مسئلہ میں شریعت محمدیہ نے تورات کے حکم کو باقی رکھا ہے جیسا کہ قتل عمد کی سزا قتل ہونا قرآن کریم نے بحوالہ تورات بیان فرمایا تھا "وَکَتَبْنَا عَلَیہِمْ فِیْہَا اَنَّ النَّفْسَ بِالَّنفْسِ” الخ۔ اور مرتدین کے قتل کا بنی اسرائیل کو حکم دینا سورہ "بقرہ” میں بیان کیا گیا۔ "فَتُوبُوا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوآ اَنْفُسَکُمْ” پھر ان ہی احکام کو امت محمدیہ کے حق میں بھی قائم رکھا گیا۔ شاید رجم محصن اور مسئلہ قصاص کو نقل کرنے کے بعد جو بڑی شدت و تاکید سے ترک حکم بما انزل اللہ کی برائی بیان فرمائی اور آخر میں ارشاد ہوا "وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًالِّمَابَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتَابِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰہُ الخ” اس سے یہی غرض ہو کہ تورات کے یہ احکام اب قرآن کے زیر حفاظت ہیں جن کے قائم رکھنے میں پیغمبر کو کسی اہواء و آراء کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پروا کی نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء نے۔ حتیٰ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جب رجم محصن کے متعلق یہ اندیشہ ہوا، بلکہ مکشوف ہو گیا کہ آگے چل کر بعض زائغین اس کا انکار کرنے لگیں گے (چنانچہ خوارج نے اور ہمارے زمانے کے ایک ممسوخ فرقہ نے کیا) تو آپ نے منبر پر چڑھ کر صحابہ و تابعین کے مجمع میں اس حکم خداوندی کا بہت شدومد سے اعلان فرمایا اور اس میں قرآن کی ایک آیت کا حوالہ دیا جس میں رجم محصن کا صریح حکم تھا اور جس کی تلاوت گو بعد میں منسوخ ہو گئی مگر حکم برابر باقی رہا۔ (تنبیہ) کسی آیت کا محض منسوخ التلاوت ہونا اور حکم باقی رہنا یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جس کی تحقیق ان مختصر فوائد میں درج نہیں ہو سکتی۔
وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِہمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِيْنِ اللہِ:اگر اللہ پر یقین رکھتے ہو تو اس کے احکام و حدود جاری کرنے میں کچھ پس و پیش نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ مجرم پر ترس کھا کر سزا بالکل روک لو یا اس میں کمی کرنے لگو یا سزا دینے کی ایسی ہلکی اور غیر موثر طرز اختیار کرو کہ سزا سزا نہ رہے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ حکیم مطلق اور تم سے زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے اس کا کوئی حکم سخت ہو یا نرم مجموعہ عالم کے حق میں حکمت و رحمت سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اگر تم اس کے احکام و حدود کے اجراء میں کوتاہی کرو گے تو آخرت کے دن تمہاری پکڑ ہو گی۔
(تفسیرعثمانی)
بدکار مرد بد کار عورت یا مشرکہ کے سوا نکاح نہیں کرتا، اور بدکار عورت (بھی) بدکار یا شرک کرنے والے مرد کے سوا (کسی سے) نکاح نہیں کرتی، اور یہ (ایسا نکاح) مؤمنوں پر حرام کیا گیا ہے۔ (۳)
تشریح:زنا کی سزا ذکر کرنے کے بعد اس فعل کی غایت شناعت بیان فرماتے ہیں۔ یعنی جو مرد یا عورت اس عادت شنیع میں مبتلا ہیں حقیقت میں وہ اس لائق نہیں رہتے کہ کسی عفیف مسلمان سے ان کا تعلق ازدواج و ہمبستری قائم کی جائے ان کی پلید طبیعت اور میلان کے مناسب تو یہ ہے کہ ایسے ہی کسی بدکار و تباہ حال مرد عورت سے یا ان سے بھی بدترکسی مشرک و مشرکہ سے ان کا تعلق ہو۔ کما قال تعالیٰ۔ اَلْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُونَ لِلْخَبِیْثَاتِ وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبَاتِ۔ (سورہ نور، آیت ٢٦) کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔ کبوتر با کبوتر باز با باز۔ ان کی حرکت کا اصلی اقتضاء تو یہ ہی تھا۔ اب یہ جداگانہ امر ہے کہ حق تعالیٰ نے دوسری مصالح و حکم کی بنا پر کسی نام نہاد مسلمان کا مشرک و مشرکہ سے عقد جائز نہیں رکھا۔ یا مثلاً بدکار مرد کا پاکباز عورت سے نکاح ہو جائے تو بالکل باطل نہیں ٹھہرایا۔ (تنبیہ) آیت کی جو تقریر ہم نے کی وہ بالکل سہل اور بے تکلف ہے اس میں "لاینکح” کے معنی وہ لیے گئے جو "اَلْسُلْطَانُ لاَیَکْذِبُ” وغیرہ محاورات میں لیے جاتے ہیں۔ یعنی نفی لیاقت فعل کو نفی فعل کی حیثیت دے دی گئی۔ فاَفْہَمْ وَ اسْتَقِمْ۔
زنا مومنین پر حرام ہے۔ ایک مومن مومن رہتے ہوئے یہ حرکت کیسے کرے گا۔ حدیث میں ہے "لاَیَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَہُوَ مُوْمِنُ ” یا یہ مطلب ہو کہ زانیہ سے نکاح کرنا ان پاکباز مردوں پر حرام کر دیا گیا ہے جو صحیح اور حقیقی معنوں میں مومنین کہلانے کے مستحق ہیں۔ یعنی تکوینی طور پر ان کے پاک نفوس کو ایسی گندی جگہ کی طرف مائل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ اس وقت "حرم” کے معنی وہ ہوں گے جو "حَرَّمْنَا عَلَیہِ الْمَرَاضِعَ” میں، یا "حَرَامٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنَا ہَا” میں لیے گئے ہیں۔ واللہ اعلم۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر، پھر وہ (اس پر) چار گواہ نہ لائیں تو تم انہیں اسی کوڑے مارو، اور تم قبول نہ کرو کبھی انکی گواہی، یہی نافرمان لوگ ہیں۔ (۴)
تشریح:یعنی ایسی پاکدامن عورتوں کو زنا کی تہمت لگائیں جن کا بدکار ہونا کسی دلیل یا قرینہ شرعیہ سے ثابت نہیں۔ اس کی سزا بیان فرماتے ہیں اور یہی حکم پاکباز مردوں پر تہمت لگانے کا ہے۔ چونکہ یہ آیات ایک عورت کے قصہ میں نازل ہوئیں، اس لیے ان ہی کا ذکر فرمایا۔ اگر چار گواہ پیش کر دیے اور ان کی شہادت بقاعدہ شریعت پوری اتری تو مقذوف یا مقذوفہ پر حد زنا جاری کی جائے گی۔
اور جو لوگ تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر، پھر وہ (اس پر) چار گواہ نہ لائیں تو تم انہیں اسی کوڑے مارو:یہ سزا قاذف (تہمت لگانے والے) کی ہوئی کہ (مقذوف کے مطالبہ پر) اسی درے لگائے جائیں اور آئندہ ہمیشہ کے لیے (معاملات) میں مردود الشہادت قرار دیا جائے۔ حنفیہ کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی شہادت معاملات میں قبول نہیں کی جا سکتی۔
اگر واقعی جان بوجھ کر جھوٹی تہمت لگائی تھی تب تو ان کا فاسق و نافرمان ہونا ظاہر ہے اور اگر واقعی سچ بیان کیا تھا لیکن جانتے تھے کہ چار گواہوں سے ہم اپنا دعویٰ ثابت نہیں کر سکیں گے تو ایسی بات کا اظہار کرنے سے بجز ایک مسلمان کی آبرو ریزی اور پردہ دری کے کیا مقصود ہوا جو بجائے خود ایک مستقل گناہ ہے اور علماء نے اس کو کبائر میں شمار کیا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کر لی اور انہوں نے اصلاح کر لی، تو بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۵)
تشریح:یعنی توبہ اور اصلاح حال کے بعد اللہ کے نافرمان بندوں میں اس کا شمار نہ رہے گا۔ گو پچھلے قذف کی سزا میں مردود الشہادت پھر بھی رہے۔ یہی مذہب سلف میں سے قاضی شریح، ابراہیم نخعی، سعید بن جبیر، مکحول، عبدالرحمن بن زید بن جابر، حسن بصری، محمد بن سیرین اور سعید بن المسیب رحمہم اللہ کا ہے۔ کما فی الدرالمنثو وابن کثیر۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور خود ان کے سوا ان کے گواہ نہ ہوں، تو ان میں سے ہر ایک کی گواہی یہ ہے کہ اللہ کی قسم کے ساتھ چار بار گواہی دے کہ وہ سچ بولنے والوں میں سے ہے (سچا ہے) ۔ (۶)
تشریح:یعنی زنا کی تہمت لگائے یا اپنے بچہ کو کہے کہ یہ میرے نطفہ سے نہیں۔ (تفسیرعثمانی)
اور پانچویں بار یہ کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہے (جھوٹا ہے) ۔ (۷)
اور اس عورت سے ٹل جائے گی سزا اگر وہ چار بار اللہ کی قسم کے ساتھ گواہی دے کے وہ (مرد) البتہ جھوٹوں میں سے ہے (جھوٹا ہے) ۔ (۸)
اور پانچویں بار یہ کہ اس عورت پر (مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر وہ سچوں میں سے ہے (سچا ہے) (۹)
تشریح:یعنی جو اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اولاً اس سے چار گواہ طلب کیے جائیں گے، اگر پیش کر دے تو عورت پر حد زنا جاری کر دی جائے گی۔ اگر گواہ نہ لا سکا تو اس کو کہا جائے گا کہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ وہ اپنے دعوے میں سچا ہے (یعنی جو تہمت اپنی بیوی پر لگائی ہے اس میں جھوٹ نہیں بولا) گویا چار گواہوں کی جگہ خود اس کی یہ چار حلفیہ شہادتیں ہوئیں اور آخر میں پانچویں مرتبہ یہ الفاظ کہنے ہوں گے کہ "اگر وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہو تو اس پر خدا کی لعنت اور پھٹکار” اگر الفاظ مذکورہ بالا کہنے سے انکار کرے تو حبس کیا جائے گا اور حاکم اس کو مجبور کرے گا کہ یا اپنے جھوٹے ہونے کا اقرار کرے، تو حد قذف لگے گی جو اوپر گزری۔ اور یا پانچ مرتبہ و ہی الفاظ کہے جو اوپر مذکور ہوئے۔ اگر کہہ لیے تو پھر عورت سے کہا جائے گا کہ وہ چار مرتبہ قسم کھا کر بیان کرے کہ "یہ مرد تہمت لگانے میں جھوٹا ہے” اور پانچویں دفعہ یہ الفاظ کہے کہ "اللہ کا غضب آوے اس عورت پر اگر یہ مرد اپنے دعوے میں سچا ہو” تاوقتیکہ عورت یہ الفاظ کہے گی اس کو قید میں رکھیں گے اور مجبور کریں گے کہ یا صاف طور پر مرد کے دعوے کی تصدیق کرے تب تو حد زنا اس پر جاری ہو گی، اور یا بالفاظ مذکورہ بالا اس کی تکذیب کرے۔ اگر اس نے بھی مرد کی طرح یہ الفاظ کہہ دیے اور "لعان” سے فراغت ہوئی تو اس عورت سے صحبت اور داعی صحبت سب حرام ہو گئے۔ پھر اگر مرد نے اس کو طلاق دے دی فبہا ورنہ قاضی ان میں تفریق کر دے۔ گو دونوں رضا مند نہ ہوں۔ یعنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے ان میں تفریق کی۔ اور یہ تفریق طلاقِ بائن کے حکم میں ہو گی۔ (تنبیہ) زوجین سے اس طرح الفاظ کہلوانے کو شریعت میں "لعان” کہتے ہیں اور لعان صرف قذفِ ازواج کے ساتھ مخصوص ہے عام محصنات کے قذف کا و ہی حکم ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہو چکا۔
(تفسیرعثمانی)
اگر دونوں نے قسم کھالیں تو کسی پر دنیا میں سزا جاری نہیں ہو گی، البتہ اس کے بعد قاضی دونوں کے درمیان نکاح فسخ کر دے گا اور اگر کوئی بچہ پیدا ہوا اور شوہر اسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کرے تو وہ صرف ما ں کی طرف منسوب ہو گا۔
(توضیح القرآن)
اور اگر تم پر نہ ہوتا اللہ کا فضل اور اس کی رحمت (تو یہ مشکل حل نہ ہوتی) اور یہ کہ اللہ توبہ قبول کرنے والا، حکمت والا ہے۔ (۱۰)
تشریح:یعنی اگر یہ حکم لعان مشروع نہ ہوتا تو قذف کے عام قاعدہ کے موافق زوج پر حد قذف آتی اور یا ساری عمر خون کے گھونٹ پیتا۔ کیونکہ ممکن ہے وہ سچا ہو۔ بخلاف غیر شوہر کے کہ وہ اظہار میں مضطر نہیں، اس لیے اس کے قانون میں ان امور کی رعایت ضروری نہیں۔ دوسری طرف اگر محض خاوند کے قسمیں کھانے پر زنا کا ثبوت ہو جایا کرتا تو عورت کی سخت مصیبت تھی، حالانکہ ممکن ہے و ہی سچی ہو۔ اسی طرح اگر عورت کو قسمیں کھانے پر یقیناً بری سمجھ لیا جاتا تو مرد پر حد قذف واجب ہو جاتی باوجود یہ کہ اس کے صادق ہونے کا بھی مساوی احتمال موجود ہے، پس ایسے طور پر لعان کا مشروع کرنا کہ سب کی رعایت رہے۔ یہ اثر ہے حق تعالیٰ کے فضل و رحمت اور حکمت کا کیونکہ فریقین میں سے جو سچا ہو وہ بے محل سزا سے بچ گیا۔ اور جھوٹے کی دنیا میں پردہ پوشی کر کے مہلت دی گئی کہ شاید توبہ کرے۔ پھر اس کی توبہ کاقبول کر لینا یہ اثر صفت توابیت کا ہوا۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ بڑا بہتان لائے تم (ہی) میں سے ایک جماعت ہیں، تم اسے اپنے لئے برا گمان نہ کرو، بلکہ وہ تمہارے لئے بہتر ہے، ان میں سے ہر آدمی کے لئے جتنا اس نے کیا (اتنا) گناہ ہے، اور جس نے اس کا بڑا (طوفان) اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۱۱)
تشریح:یہاں سے اس طوفان کا ذکر ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ پر اٹھایا گیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٦ھ میں غزوہ بنی المصطلق سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ بھی ہمراہ تھیں، ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، وہ ہودہ میں پردہ چھوڑ کر بیٹھ جاتیں۔ جمال ہودے کو اونٹ پر باندھ دیتے۔ ایک منزل پر قافلہ ٹھہرا ہوا تھا، کوچ سے ذرا پہلے حضرت عائشہ کو قضاء حاجت کی ضرورت پیش آئی۔ جس کے لیے قافلہ سے علیحدہ ہو کر جنگل کی طرف تشریف لے گئیں، وہاں اتفاق سے ان کا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ اس کی تلاش میں دیر لگ گئی۔ یہاں پیچھے کوچ ہو گیا۔ جمال حسب عادت اونٹ پر ہودہ باندھنے آئے، اور اس کے پردے پڑے رہنے سے گمان کیا کہ حضرت عائشہ اس میں تشریف رکھتی ہیں۔ اٹھاتے وقت بھی شبہ نہ ہوا۔ کیونکہ ان کی عمر تھوڑی تھی اور بدن بہت ہلکا پھلکا تھا۔ غرض جمالوں نے ہودہ باندھ کر اونٹ کو چلتا کر دیا۔ حضرت عائشہ واپس آئیں تو وہاں کوئی نہ تھا۔ نہایت استقلال سے انہوں نے یہ رائے قائم کی کہ یہاں سے اب جانا خلاف مصلحت ہے۔ جب آگے جا کر میں نہ ملوں گی تو یہیں تلاش کرنے آئیں گے۔ آخر وہیں قیام کیا، رات کا وقت تھا، نیند کا غلبہ ہوا وہیں لیٹ گئیں حضرت صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ گرے پڑے کی خبر گیری کی غرض سے قافلہ کے پیچھے کچھ فاصلہ سے رہا کرتے تھے، وہ اس موقع پر صبح کے وقت پہنچے۔ دیکھا کوئی آدمی پڑا سوتا ہے۔ قریب آ کر پہچانا کہ حضرت عائشہ ہیں (کیونکہ پردہ کا حکم آنے سے پہلے انہوں نے ان کو دیکھا تھا) دیکھ کر گھبرا گئے اور "اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا ِالَیْہِ رَاجِعُون”پڑھا۔ جس سے ان کی آنکھ کل گئی فوراً چہرہ چادر سے ڈھانک لیا۔ حضرت صفوان نے اونٹ ان کے قریب لا کر بٹھلا دیا۔ یہ اس پر پردہ کے ساتھ سوار ہو گئیں۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر دوپہر کے وقت قافلہ سے جا ملایا۔ عبداللہ بن ابی بڑا خبیث، بد باطن، اور دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، اسے ایک بات ہاتھ لگ گئی اور بدبخت نے واہی تباہی بکنا شروع کیا۔ اور بعض بھولے بھالے مسلمان بھی (مثلاً مردوں میں سے حضرت حسان، حضرت مسطح، اور عورتوں میں سے حضرت حمنہ بنت جحش) منافقین کے مغویان پراپیگنڈا سے متاثر ہو کر اس قسم کے افسوس ناک تذکرے کرنے لگے۔ عموماً مسلمانوں کو اور خود جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے واہیات تذکروں اور شہرتوں سے سخت صدمہ تھا۔ ایک مہینہ تک یہ ہی چرچا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سنتے اور بغیر تحقیق کچھ نہ کہتے، مگر دل میں خفا رہتے۔ ایک ماہ بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس شہرت کی اطلاع ہوئی شدت غم سے بیتاب ہو گئیں اور بیمار پڑ گئیں۔ شب و روز روتی تھیں۔ ایک منٹ کے لیے آنسو نہ تھمتے تھے۔ اسی دوران میں بہت سے واقعات پیش آئے اور گفتگوئیں ہوئیں جو صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہیں اور پڑھنے کے قابل ہیں۔ آخر حضرت صدیقہ کی برأت میں خود حق تعالیٰ نے قرآن کریم میں سورہ "نور” کی یہ آیتیں "اِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وَبِالْاِ فْکِ” الخ سے دور تک نازل فرمائیں جس پر عائشہ صدیقہ فخر کیا کرتی تھیں اور بلاشبہ جتنا فخر کریں تھوڑا تھا۔
عُصْبَۃٌ مِّنْكُمْ :طوفان اٹھانے والے خیر سے وہ لوگ ہیں جو جھوٹ یا سچ اسلام کا نام لیتے اور اپنے کو مسلمان بتلاتے ہیں۔ ان میں سے چند آدمیوں نے مل کر یہ سازش کی اور کچھ لوگ نادانستہ ان کی عیارانہ سازش کا شکار ہو گئے۔ تاہم خدا کا احسان ہے کہ جمہور مسلمان ان کے جال میں نہیں پھنسے۔
بَلْ ہوَ خَيْرٌ لَّكُمْ :یہ خطاب ان مسلمانوں کی تسلی کے لیے ہے جنہیں اس واقعہ سے صدمہ پہنچا تھا بالخصوص عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ان کا گھرانا کہ ظاہر ہے وہ سخت غمزدہ اور پریشان تھے۔ یعنی گو بظاہر یہ چرچا بہت مکروہ، رنجیدہ اور ناخوشگوار تھا۔ لیکن فی الحقیقت تمہارے لیے اس کی تہ میں بڑی بہتری چھپی ہوئی تھی۔ آخر اتنی مدت تک ایسے جگر خراش حملوں اور ایذاؤں پر صبر کرنا کیا خالی جا سکتا ہے۔ کیا یہ شرف تھوڑا ہے کہ خود حق تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں تمہاری نزاہت و برأت اتاری۔ اور دشمنوں کو رسوا کیا اور قیامت تک کے لیے تمہارا ذکر خیر قرآن پڑھنے والوں کی زبان پر جاری کر دیا۔ اور مسلمانوں کو پیغمبر علیہ السلام کی ازواج و اہل بیت کا حق پہچاننے کے لیے ایسا سبق دیا جو کبھی فراموش نہ ہو سکے۔ فَلِلّٰہ الحمد علٰی ذلک۔
لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْہمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ :جس شخص نے اس فتنہ میں جس قدر حصہ لیا اسی قدر گناہ سمیٹا اور سزا کا مستحق ہوا۔ مثلاً بعض خوش ہو کر اور خوب مزے لے کر ان واہیات باتوں کا تذکرہ کرتے تھے۔ بعض اظہار افسوس کے طرز میں، بعض چھیڑ کر مجلس میں چرچا اٹھا دیتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود چپکے سنا کرتے۔ بعض سن کر تردد میں پڑ جاتے، بہت سے خاموش رہتے اور بہت سے سن کر جھٹلا دیتے۔ ان پچھلوں کو پسند فرمایا اور سب کو درجہ بدرجہ کم و بیش الزام دیا۔ اور بڑا بوجھ اٹھانے والا منافقوں کا سردار عبداللہ بن ابی تھا جیسا کہ روایات کثیرہ میں تصریح ہے۔ یہ ہی خبیث لوگوں کو جمع کرتا اور ابھارتا اور نہایت چالاکی سے خود دامن بچا کر دوسروں سے اس کی اشاعت کرایا کرتا تھا۔ اس کے لیے آخرت میں بڑا عذاب تو ہے ہی، دنیا میں بھی ملعون خوب ذلیل و رسوا ہوا اور قیامت تک اسی ذلت و خواری سے یاد کیا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
جب تم نے وہ (بہتان ) سنا تو کیوں نہ گمان کیامسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں نے اپنوں کے بارے میں (گمانِ) نیک اور انہوں نے (کیوں نہ) کہا یہ صریح بہتان ہے۔ (۱۲)
تشریح:مسلمان کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ حسن ظن رکھے۔ اور جب سنے کہ لوگ ایک نیک شخص پر یوں ہی رجماً بالغیب بری تہمتیں لگاتے ہیں تو اپنے دل میں ایسے خیالات کو راہ نہ دے، بلکہ ان کو جھٹلائے۔ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو کوئی پیٹھ پیچھے بھائی مسلمان کی مدد کرے۔ اللہ پیٹھ پیچھے اس کی مدد کرے گا۔ بے تحقیق تہمتیں تراشنا ایمان سے بعید ہے۔ چاہیے کہ آدمی خود اپنی آبرو پر دوسروں کی آبرو کو قیاس کر لے۔ جیسا کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ وغیرہ نے قصہ "افک” میں کیا۔ ایک روز ان کی بیوی نے کہا کہ لوگ عائشہ صدیقہ کی نسبت ایسا کہتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ جھوٹے ہیں۔ کیا ایسا کام تو کر سکتی ہے؟ بولی ہرگز نہیں۔ فرمایا پھر (صدیق کی بیٹی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی) عائشہ صدیقہ تجھ سے کہیں بڑھ کر پاک و صاف اور طاہر و مطہر ہیں، ان کی نسبت بے وجہ ایسا گمان کیوں کیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ کیوں نہ لائے اس پر چار گواہ، پس جب وہ گواہ نہ لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ (۱۳)
تشریح:یعنی اللہ کے حکم اور اس کی شریعت کے موافق وہ لوگ جھوٹے قرار دیے گئے ہیں۔ جو کسی پر بدکاری کی تہمت لگا کر چار گواہ پیش نہ کر سکیں اور بدون کافی ثبوت کے ایسی سنگین بات زبان سے بکتے پھریں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تم پر دنیا و آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جس (شغل میں) تم پڑے تھے تم پر ضرور پڑتا بڑا عذاب۔ (۱۴)
تشریح:یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو پیغمبر کے طفیل دنیا کے عذابوں سے بچایا ہے۔ نہیں تو یہ بات قابل تھی عذاب کے۔ (موضح القرآن) نیز تم میں سے مخلصین کو توبہ کی توفیق دے کر خطا معاف کر دی ورنہ منافقین کی طرح وہ بھی قیامت کے دن عذابِ عظیم میں گرفتار ہوتے۔ (العیاذ باللہ) ۔
(تفسیرعثمانی)
جب تم ( ایک دوسرے سے سن کر) اسے اپنی زبان پر لاتے تھے، اور تم اپنے منہ سے کہتے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہ تھا، اور تم اسے ہلکی بات گمان کرتے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے۔ (۱۵)
تشریح:یعنی عذابِ عظیم کے مستحق کیوں نہ ہوتے جبکہ تم ایسی بے تحقیق اور ظاہر البطلان بات کو ایک دوسرے کی طرف چلتا کر رہے تھے۔ اور زبان سے وہ اٹکل پچو باتیں نکالتے تھے جن کی واقعیت کی تمہیں کچھ خبر نہ تھی۔ پھر طرفہ یہ ہے کہ ایسی سخت بات کو (یعنی کسی محصنہ خصوصاً پیغمبر علیہ السلام کی زوجہ مطہرہ اور مومنین کی روحانی والدہ کو متہم کرنا) جو اللہ کے نزدیک بہت بڑا سنگین جرم ہے محض ایک ہلکی اور معمولی بات سمجھنا، یہ اصل جرم سے بھی بڑھ کر جرم تھا۔
(تفسیرعثمانی)
اور جب تم نہ وہ سنا کیوں نہ کہا؟ کہ ہمارے لئے (زیبا) نہیں ہے کہ ہم ایسی بات کہیں (اے اللہ ) تو پاک ہے، یہ بڑا بہتان ہے۔ (۱۶)
تشریح:یعنی اول تو حسن ظن کا اقتضاء یہ تھا کہ دل میں بھی یہ خیال نہ گزرنے پائے۔ جیسا کہ اوپر ارشاد ہوا۔ لیکن اگر شیطانی اغواء سے فرض کیجئے کسی کے دل میں کوئی برا وسوسہ گزرے تو پھر یہ جائز نہیں کہ ایسی ناپاک بات زبان پر لائی جائے۔ چاہیے کہ اس وقت مومن اپنی حیثیت اور دیانت کو ملحوظ رکھے اور صاف کہہ دے کہ ایسی بے سروپا بات کا زبان سے نکالنا مجھ کو زیب نہیں دیتا۔ اے اللہ تو پاک ہے۔ کسی طرح لوگ ایسی نامعقول بات منہ سے نکالتے ہیں۔ بھلا جس پاکباز خاتون کو تو نے سید الانبیاء اور راس المتقین کی زوجیت کے لیے چنا، کیا وہ (معاذ اللہ) خود بے آبرو ہو کر پیغمبر کی آبرو کو بٹہ لگائے گی (حاشاہا ثم حاشاہا) ہو نہ ہو دشمنوں نے ایک بے قصور پر بہتان باندھا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، (مبادا) ایسا کام پھر کبھی کرو، اگر تم ایمان والے ہو۔ (۱۷)
تشریح:یعنی مومنین کو پوری طرح چوکس اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ بد باطن منافقین کے چکموں میں کبھی نہ آئیں۔ ہمیشہ پیغمبر علیہ السلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کی عظمت شان کو ملحوظ رکھیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ تمہارے لئے احکام (صاف صاف) بیان کرتا ہے، اور اللہ بڑا جاننے والا، حکمت والا ہے۔ (۱۸)
تشریح:یعنی پتہ اس کا کہ یہ طوفان اٹھایا کس نے۔ معلوم ہوا کہ منافقین نے جو ہمیشہ چھپے دشمن تھے۔ اگلی آیت میں پتہ بتلا دیا۔ (کذافی الموضح) عموماً مفسرین نے آیات سے مراد احکام، نصائح، حدود اور قبول توبہ وغیرہ کے مضامین لیے ہیں۔ اس وقت صفات علم و حکمت کے ذکر سے یہ غرض ہو گی کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے مخلصین کی ندامت قلبی کا حال خوب جانتا ہے۔ اس لیے توبہ قبول کی اور چونکہ حکیم مطلق ہے اس لیے نہایت حکمت و دانائی کے ساتھ تمہاری سیاست کی گئی۔
(تفسیرعثمانی)
بے شک جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مؤمنوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ (۱۹)
تشریح: یعنی بدکاری پھیلے یا بدکاری کی خبریں پھیلیں۔ یہ چاہنے والے منافقین تھے۔ لیکن ان کا تذکرہ کر کے مومنین کو بھی متنبہ فرما دیا کہ اگر فرض کرو کسی کے دل میں ایک بات کا خطرہ گزرا اور بے پروائی سے کوئی لفظ زبان سے بھی کہہ گزرا تو چاہیے کہ اب ایسی مہمل بات کا چرچا کرتا نہ پھرے۔ اگر خواہی نہ خواہی کسی مومن کی آبروریزی کرے گا تو خوب سمجھ لے کہ اس کی آبرو بھی محفوظ نہ رہے گی۔ حق تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑے گا۔ کما فی حدیث احمد رحمہ اللہ۔
(تفسیرعثمانی)
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی (تو کیا کچھ نہ ہو جاتا) اور یہ کہ اللہ شفقت کرنے والا، نہایت مہربان ہے۔ (۲۰)
تشریح:یعنی یہ طوفان تو ایسا اٹھا تھا کہ نہ معلوم کون کون اس کی نذر ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و رحمت اور شفقت و مہربانی سے تم سے تائبین کی توبہ کو قبول فرمایا اور بعض کو حد شرعی جاری کر کے پاک کیا اور جو زیادہ خبیث تھے ان کو ایک گو نہ مہلت دی۔
(تفسیرعثمانی)
اے مؤمنو! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، اور جو شیطان کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو وہ (شیطان) حکم دیتا ہے بے حیائی کا اور بری بات کا، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی آدمی کبھی بھی پاک نہ ہوتا، اور لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے، اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ (۲۱)
تشریح:یعنی شیطان کی چالوں سے ہوشیار رہا کرو۔ مسلمان کا یہ کام نہیں ہونا چاہیے کہ شیاطین الانس و الجن کے قدم بقدم چلنے لگے۔ ان ملعونوں کا تو مشن ہی یہ ہے کہ لوگوں کو بے حیائی اور برائی کی طرف لے جائیں۔ تم جان بوجھ کر کیوں ان کے بھرے میں آتے ہو۔ دیکھ لو شیطان نے ذرا سا چرکا لگا کر کتنا بڑا طوفان کھڑا کر دیا اور کئی سیدھے سادھے مسلمان کس طرح اس کے قدم پر چل پڑے۔ شیطان تو سب کو بگاڑ کر چھوڑتا ایک کو بھی سیدھے راستہ پر نہ رہنے دیتا۔ یہ تو خدا کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ وہ اپنے مخلص بندوں کی دستگیری فرما کر بہتیروں کو محفوظ رکھتا ہے اور بعض کو مبتلا ہو جانے کے بعد توبہ کی توفیق دے کر درست کر دیتا ہے۔ یہ بات اسی خدائے واحد کے اختیار میں ہے اور و ہی اپنے علم محیط اور حکمت کاملہ سے جانتا ہے کہ کون بندہ سنوارے جانے کے قابل ہے اور کس کی توبہ قبول ہونی چاہیے۔ وہ سب کی توبہ وغیرہ کو سنتا اور ان کی قلبی کیفیات سے پوری طرح آگاہ ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور قسم نہ کھائیں تم میں سے فضیلت والے، اور (مال میں) وسعت والے کہ وہ قرابت داروں کو، مسکینوں کو، اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے، اور چاہئیے کہ وہ معاف کر دیں، اور درگزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے؟ اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۲۲)
تشریح:حضرت عائشہ پر طوفان اٹھانے والوں میں بعض مسلمان بھی نادانی سے شریک ہو گئے۔ ان میں سے ایک حضرت مسطح تھے جو ایک مفلس مہاجر ہونے کے علاوہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بھانجے یا خالہ زاد بھائی ہوتے ہیں۔ قصہ "افک” سے پہلے حضرت صدیق اکبر ان کی امداد اور خبر گیری کیا کرتے۔ جب یہ قصہ ختم ہوا اور عائشہ صدیقہ کی برأت آسمان سے نازل ہو چکی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ آئندہ مسطح کی امداد نہ کروں گا۔ شاید بعض دوسرے صحابہ کو بھی ایسی صورت پیش آئی ہو۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ یعنی تم میں سے جن کو اللہ تعالیٰ نے دین کی بزرگی اور دنیا کی وسعت دی ہے انہیں لائق نہیں کہ ایسی قسم کھائیں ان کا ظرف بہت بڑا اور ان کے اخلاق بہت بلند ہونے چاہیں۔ محتاج رشتہ داروں اور خدا کے لیے وطن چھوڑنے والوں کی اعانت سے دستکش ہو جانا بزرگوں اور بہادروں کا کام نہیں۔ اگر قسم کھا لی ہے تو ایسی قسم کو پورا مت کرو۔ اس کا کفارہ ادا کر دو۔ تمہاری شان یہ ہونی چاہیے کہ خطا کاروں کی خطا سے اغماض اور درگزر کرو۔ ایسا کرو گے تو حق تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں سے درگزر کرے گا۔ کیا تم حق تعالیٰ سے عفو و درگزر کی امید اور خواہش نہیں رکھتے؟ اگر رکھتے ہو تو تم کو اس کے بندوں کے معاملہ میں یہ ہی خو اختیار کرنی چاہیے۔ گویا اس میں "تخلق بِاَخْلَاق اللہِ” کی تعلیم ہوئی۔ احادیث میں ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب سنا "الاتُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ ” (کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو معاف کرے؟) تو فوراً بول اٹھے۔ "بَلٰی یَارَبَّنَا اِنَّا نُحِبُّ” (بیشک اے پروردگار! ہم ضرور چاہتے ہیں) یہ کہہ کر مسطح کی جو امداد کرتے تھے بدستور جاری فرما دی، بلکہ بعض روایات میں ہے کہ پہلے سے دگنی کر دی۔ رضی اللہ عنہ۔
(تفسیرعثمانی)
بیشک جو لوگ پاکدامن، انجان مؤمن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے۔ (۲۳)
صحیحین کی حدیث میں ہے۔ "اِجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوْبِقَات الشِّرْکِ بِاللّٰہ وَقَتْلَ النَّفْسُ الَّتِی حَرَّمَ اللہ اِلَّا بِالْحَقِّ وَاَکْلَ الرِّبٰوا وَاَکْلَ مَالِ الْیَتِیْم وَالتَّوَلّی یَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُوْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ۔ ” اس سے ظاہرہوتا ہے کہ قذفِ محصنات مطلقاً مہلکات میں سے ہے۔ پھر ان میں سے بھی ازواج مطہرات بالخصوص ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ کا قذف تو کس درجہ کا گناہ ہو گا، علماء نے تصریح کی ہے کہ ان آیات کے نزول کے بعد جو شخص عائشہ صدیقہ یا ازواج مطہرات میں سے کسی کو متہم کرے وہ کافر، مکذبِ قرآن اور دائرہ اسلام سے خارج ہے اور طبرانی کی ایک حدیث میں ہے۔ "قَذَفَ الْمُحْصَنَۃِ یَہْدِمُ عَمَلَ مِائَۃِ سَنَۃٍ” (محصنہ پر تہمت لگانا سو برس کے عمل کو ڈھا دیتا ہے) ۔ العیاذ باللہ۔
(تفسیرعثمانی)
جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف گواہی دیں گے اس کی جو وہ کرتے تھے۔ (۲۴)
تشریح:یعنی مجرم منہ سے بولنا اور ظاہر کرنا نہ چاہے گا۔ مگر خود زبان اور ہاتھ پاؤں بولیں گے اور ان میں سے ہر عضو اس عمل کو ظاہر کرے گا جو اس کے ذریعہ سے کیا گیا تھا (لطیفہ) قاذف نے زبان سے تہمت لگائی تھی اور چار گواہوں کا اس سے مطالبہ تھا جو پورا نہ کر سکا۔ اس کے بالمقابل یہاں یہی پانچ چیزیں ذکر ہوئیں۔ ایک زبان جو قذف کا اصلی آلہ ہے اور چار ہاتھ پاؤں جو اس کی شرارت کے گواہ ہوں گے۔
(تفسیرعثمانی)
اس دن اللہ انہیں ان کی سزا ٹھیک ٹھیک پوری دے گا، اور جان لیں گے کہ اللہ ہی برحق ہے (حق کو) ظاہر کرنے والا ہے۔ (۲۵)
تشریح:جو رتی رتی عمل کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے اور جس کا حساب بالکل صاف ہے اس کے ہاں کسی طرح کا ظلم و تعدی نہیں۔ یہ مضمون قیامت کے دن سب کو مکشوف و مشہود ہو جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
گندی عورتیں گندے مردوں کیلئے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لئے ہیں، اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لئے ہیں، اور پاک مرد پاک عورتوں کے لئے ہیں، یہ لوگ اس سے مبرا (بری) ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے۔ (۲۶)
تشریح:یعنی بدکار اور گندی عورتیں گندے اور بدکار مردوں کے لائق ہیں۔ اسی طرح بدکار اور گندے مرد اس قابل ہیں کہ ان کا تعلق اپنے جیسی گندی اور بدکار عورتوں سے ہو۔ پاک اور ستھرے آدمیوں کا ناپاک بدکاروں سے کیا مطلب۔ ابن عباس نے فرمایا کہ پیغمبر کی عورت بدکار (زانیہ) نہیں ہوتی، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ناموس کی حفاظت فرماتا ہے۔ نقلہ فی موضح القرآن۔ (تنبیہ) آیت کا یہ مطلب تو ترجمہ کے موافق ہوا۔ مگر بعض مفسرین سلف سے یہ منقول ہے کہ "الخبیثات” اور "الطیبات” سے یہاں عورتیں مراد نہیں۔ بلکہ اقوال و کلمات مراد ہیں۔ یعنی گندی باتیں گندوں کے لائق ہیں۔ اور ستھری باتیں ستھرے آدمیوں کے۔ پاکباز اور ستھرے مرد و عورت ایسی گندی تہمتوں سے بری ہوتے ہیں جیسا کہ آگے "اُوْلٰئِکَ مُبَرَّءُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُونَ”سے ظاہر ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ گندی باتیں گندوں کی زبان سے نکلا کرتی ہیں تو جنہوں نے کسی پاکباز کی نسبت گندی بات کہی، سمجھ لو کہ وہ خود گندے ہیں۔ ستھرے آدمی ان باتوں سے بری ہیں جو یہ گندے لوگ بکتے پھرتے ہیں۔
برا کہنے سے وہ برے نہیں ہو جاتے، بلکہ جب وہ اس پر صبر کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی خطاؤں یا لغزشوں کا کفارہ بنتی ہے۔ اور یہاں مفسد لوگ جس قدر ان کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں وہاں اس کے بدلہ میں عزت کی روزی ملتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اے مؤمنو! تم اپنے گھروں کے سوا (دوسرے) گھروں میں داخل نہ ہو، یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو سلام کر لو، یہ تمہارے لئے بہتر، تاکہ تم نصیحت پکڑو۔ (۲۷)
تشریح:یعنی خاص اپنے ہی رہنے کا جو گھر ہو اس کے سوا کسی دوسرے کے رہنے کے گھر میں یوں ہی بے خبر نہ گھس جائے، کیا جانے وہ کس حال میں ہو اور اس وقت کسی کا اندر آنا پسند کرتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اندر جانے سے پہلے آواز دے کر اجازت حاصل کرے اور سب سے بہتر آواز سلام کی، حدیث میں ہے کہ تین مرتبہ سلام کرے اور اجازت داخل ہونے کی لے۔ اگر تین بار سلام کرنے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلا جائے۔ فی الحقیقت یہ ایسی حکیمانہ تعلیم ہے کہ اگر اس کی پابندی کی جائے تو صاحب خانہ اور ملاقاتی دونوں کے حق میں بہتر ہے۔ مگر افسوس آج مسلمان ان مفید ہدایات کو ترک کرتے جاتے ہیں۔ جن کو دوسری قومیں ان ہی سے سیکھ کر ترقی کر رہی ہیں۔ (ربط) شروع سورت سے احکامِ زنا و قذف وغیرہ بیان ہوئے تھے۔ چونکہ بسا اوقات بلا اجازت کسی کے گھر میں چلا جانا ان امور کی طرف مفضی ہو جاتا ہے، اس لیے ان آیات میں مسائل استیذان کو بیان فرمایا۔
(تفسیرعثمانی)
پھر اگراس (گھر) میں تم کسی کو نہ پاؤ تو اس میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ تمہیں اجازت دی جائے، اور اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو تم لوٹ جایا کرو، یہی تمہارے لئے زیادہ ستھرا ہے، اور جو تم کرتے ہو اللہ جاننے والا ہے۔ (۲۸)
تشریح:اگر یہ معلوم ہوا ہو کہ گھر میں کوئی موجود نہیں تب بھی دوسرے کے گھر میں بدون مالک و مختار کی اجازت کے مت جاؤ۔ کیونکہ ملک غیر میں بدون اجازت تصرف کا کوئی حق نہیں۔ نہ معلوم بے اجازت چلے جانے سے کیا جھگڑا پیش آ جائے ہاں صراحتًا یا دلالۃً اجازت ہو تو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
وَإِنْ قِيْلَ لَكُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا: ایسا کہے سے برا نہ مانو۔ بسا اوقات آدمی کی طبیعت کسی سے ملنے کو نہیں چاہتی یا حرج ہوتا ہے یا کوئی ایسی بات کر رہا ہے جس پر غیر کو مطلع کرنا پسند نہیں کرتا تو تم کو کیا ضرورت ہے کہ خواہ مخواہ اس پر بوجھ ڈالو۔ اس طرح بارِ خاطر بننے سے تعلقات صاف نہیں رہتے۔
وَاللّٰہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ :وہ تمہارے تمام اعمال قلبیہ و قالبیہ سے باخبر ہے جیسا کچھ کرو گے اور جس نیت سے کرو گے حق تعالیٰ اس کے مناسب جزا دے گا۔ اور اس نے اپنے علم محیط سے تمام امور کی رعایت کر کے یہ احکام دیے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
تم پر (اس میں) کوئی گناہ نہیں اگر تم ان گھروں میں داخل ہو جن میں کسی کی سکونت (رہائش) نہیں، جس میں تمہاری کوئی چیز ہو اور اللہ (خوب) جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم چھپاتے ہو۔ (۲۹)
تشریح:یعنی جن مکانوں میں کوئی خاص آدمی نہیں رہتا، نہ کوئی روک ٹوک ہے مثلاً مسجد، مدرسہ، خانقاہ، سرائے وغیرہ۔ اگر وہاں تمہاری کوئی چیز ہے یا تم کو چندے اس کے برتنے کی ضرورت ہے تو بیشک وہاں جا سکتے ہو اور اس کے لیے استیذان کی ضرورت نہیں۔ اس طرح کے مسائل کی تفصیل فقہ میں دیکھی جائے۔
اس نے تمہارے تمام کھلے چھپے حالات کی رعایت سے یہ احکام مشروع کیے ہیں جن سے مقصود فتنہ و فساد کے مداخل کو بند کرنا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ اپنے دل میں اسی غرض کو پیش نظر رکھ کر عمل کرے۔
(تفسیرعثمانی)
آپ فرما دیں مؤمن مردوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے زیادہ ستھرا ہے بیشک اللہ اس سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۳۰)
تشریح:بد نظری عموماً زنا کی پہلی سیڑھی ہے۔ اسی سے بڑے بڑے فواحش کا دروازہ کھلتا ہے۔ قرآن کریم نے بدکاری اور بے حیائی کا انسداد کرنے کے لیے اول اسی سوراخ کو بند کرنا چاہا۔ یعنی مسلمان مرد و عورت کو حکم دیا کہ بد نظری سے بچیں اور اپنی شہوات کو قابو میں رکھیں۔ اگر ایک مرتبہ بے ساختہ مرد کی کسی اجنبی عورت پر یا عورت کی کسی اجنبی مرد پر نظر پڑ جائے تو دوبارہ ارادہ سے اس طرف نظر نہ کرے۔ کیونکہ یہ دوبارہ دیکھنا اس کے اختیار سے ہو گا، جس میں وہ معذور نہیں سمجھا جا سکتا۔ اگر آدمی نگاہ نیچی رکھنے کی عادت ڈال لے اور اختیار و ارادہ سے ناجائز امور کی طرف نظر اٹھا کر نہ دیکھا کرے تو بہت جلد اس کے نفس کا تزکیہ ہو سکتا ہے، چونکہ پہلی مرتبہ دفعتاً جو بیساختہ نظر پڑتی ہے از راہِ شہوت و نفسانیت نہیں ہوتی۔ اس لیے حدیث میں اس کو معاف رکھا گیا ہے۔ شاید یہاں بھی من ابصارہم میں من کو تبعیضیہ لے کر اسی طرف اشارہ ہو۔
وَيَحْفَظُوْا فُرُوْجَہمْ:حرام کاری سے بچیں اور سترکسی کے سامنے نہ کھولیں۔ اِلَّاعِنْدَ مَنْ اَبَاحَہ، الشَّارِعُ مِنَ الْاَزْوَاجِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانَہُمْ۔
ۗ إِنَّ اللہَ خَبِيْرٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ:آنکھ کی چوری اور دلوں کے بھید اور نیتوں کا حال اس کو سب معلوم ہے لہٰذا اس کا خیال کر کے بد نگاہی اور ہر قسم کی بدکاری سے بچو۔ ورنہ وہ اپنے علم کے موافق تم کو سزا دے گا۔ "یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَاتُخْفِی الصُّدُورِ” (مومن، رکوع٢، آیت ١٩) ۔
(تفسیرعثمانی)
اور آپ فرما دیں مؤمن عورتوں کو کہ وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت (کے مقامات) کو ظاہر کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہوا (جس کا ظاہر ہونا ناگزیر ہے) اور وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زینت (کے مقام) ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر، یا اپنے باپ، یا اپنے خسر، یا اپنے بیٹوں، یا اپنے شوہر کے بیٹوں، یا اپنے بھائیوں پر، یا اپنے بھتیجوں پر، یا اپنے بھانجوں، یا اپنی مسلمان عورتوں، یا اپنی کنیزوں، یا وہ خدمت گار مرد جو (عورتوں سے) غرض نہ رکھنے والے ہوں، یا وہ لڑکے جو ابھی واقف نہیں عورتوں کے پردے (کے معاملات سے) اور وہ اپنے پاؤں (زمین پر) نہ ماریں کہ وہ اپنی زینت چھپائے ہوئے ہیں پہچان لی جائے، اے ایمان والو! تم سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم دو جہان کی کامیابی پاؤ۔ (۳۱)
تشریح: خلاصہ مطلب یہ ہے کہ عورت کو کسی قسم کی خلقی یا کسبی زیبائش کا اظہار بجز محارم کے جن کا ذکر آگے آتا ہے کسی کے سامنے جائز نہیں۔ ہاں جس قدر زیبائش کا ظہور ناگزیر ہے اور اس کے ظہور کو بسبب عدم قدرت یا ضرورت کے روک نہیں سکتی، اس کے بمجبوری یا بضرورت کھلا رکھنے میں مضائقہ نہیں (بشرطیکہ فتنہ کا خوف نہ ہو) حدیث و آثار سے ثابت ہوتا ہے کہ چہرہ اور کفین (ہتھیلیاں) "اِلَّامَاظَہَرَ مِنْہَا” میں داخل ہیں۔ کیونکہ بہت سی ضروریات دینی و دنیاوی ان کے کھلا رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اگر ان کے چھپانے کا مطلقاً حکم دیا جائے تو عورتوں کے لیے کاروبار میں سخت تنگی اور دشواری پیش آئے گی۔ آگے فقہا نے قدمین کو بھی ان ہی اعضاء پر قیاس کیا ہے اور جب یہ اعضاء مستثنیٰ ہوئے تو ان کے متعلقات مثلاً انگوٹھی، چھلا یا مہندی، کاجل وغیرہ کو بھی استثناء میں داخل ماننا پڑے گا۔ لیکن واضح رہے کہ "اِلَّا مَاظَہَرَمِنْہَا” سے صاف عورتوں کو بضرورت ان کے کھلا رکھنے کی اجازت ہوئی۔ نامحرم مردوں کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ آنکھیں لڑایا کریں اور ان اعضاء کا نظارہ کیا کریں۔ شاید اسی لیے اس اجازت سے پیشتر ہی حق تعالیٰ نے غض بصر کا حکم مومنین کو سنا دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک طرف سے کسی عضو کے کھولنے کی اجازت اس کو مستلزم نہیں کہ دوسری طرف سے اس کو دیکھنا بھی جائز ہو۔ آخر مرد جن کے لیے پردہ کا حکم نہیں اسی آیت بالا میں عورتوں کو ان کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیا۔ نیز یاد رکھنا چاہیے کہ ان آیات میں محض ستر کا مسئلہ بیان ہوا ہے یعنی اس سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ اپنے گھر کے اندر ہو یا باہر، عورت کو کس حصہ بدن کا کس کے سامنے کن حالات میں کھلا رکھنا جائز ہے۔ باقی مسئلہ "حجاب” یعنی شریعت نے اس کو کن حالات میں گھر سے باہر نکلنے اور سیروسیاحت کرنے کی اجازت دی، یہاں مذکور نہیں۔ اس کی کچھ تفصیل انشاء اللہ سورہ احزاب میں آئے گی۔ اور ہم نے فتنہ کا خوف نہ ہونے کی جو شرط بڑھائی وہ دوسرے دلائل اور قواعد شرعیہ سے ماخوذ ہے جو ادنیٰ تامل اور مراجعت نصوص سے دریافت ہو سکتی ہیں۔
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِہنَّ عَلٰی جُيُوْبِہنَّ :بدن کی خلقی زیبائش میں سب سے زیادہ نمایاں چیز سینہ کا ابھار ہے، اس کے مزید تستر کی خاص طور پر تاکید فرمائی اور جاہلیت کی رسم کو مٹانے کی صورت بھی بتلا دی۔ جاہلیت میں عورتیں خمار (اوڑھنی) سر پر ڈال کر اس کے دونوں پلے پشت پر لٹکا لیتی تھیں۔ اس طرح سینہ کی ہیئت نمایاں رہتی تھی۔ یہ گویا حسن کا مظاہرہ تھا۔ قرآن کریم نے بتلا دیا کہ اوڑھنی کو سر پر سے لا کر گریبان پر ڈالنا چاہیے تاکہ اس طرح کان، گردن اور سینہ پوری طرح مستور رہے۔
إِلَّا لِبُعُوْلَتِہنَّ أَوْ اٰبَآئِہنَّ :چچا اور ماموں کا بھی یہی حکم ہے اور ان محارم میں پھر فرق مراتب ہے، مثلاً جو زینت خاوند کے آگے ظاہر کر سکتی ہے دوسرے محارم کے سامنے نہیں کر سکتی۔ ابدائے زینت کے درجات ہیں جن کی تفصیل تفاسیر اور کتب فقہ میں دیکھنی چاہیے۔ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ جس قدر تستر کا اہتمام اجنبیوں سے تھا، اتنا محارم سے نہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک عضو کو ان میں سے ہر ایک کے آگے کھول سکتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
أَوْ نِسَآئِہنَّ :بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں لہذا غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ ضروری ہے، لیکن چونکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ غیر مسلم عورتیں ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتی تھیں، اس لئے امام رازی اور علامہ آلوسی نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اپنی عورتوں سے مراد اپنے میل جول کی عورتیں ہیں چاہے مسلمان ہو یا کافر ان سے پردہ واجب نہیں ہے۔ (معارف القرآن از توضیح القرآن)
أَوْ مَا مَلَکَتْ أَيْمَانُہنَّ: اپنی لونڈیاں (باندیاں) اور بعض سلف کے نزدیک مملوک غلام بھی اس میں داخل ہے اور ظاہر قرآن سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ لیکن جمہور ائمہ اور سلف کا یہ مذہب نہیں۔
أَوِ التَّابِعِيْنَ غَيْرِ أُوْلِي الْإِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ :کمیرے خدمت گار جو محض اپنے کام سے کام رکھیں اور کھانے سونے میں غرق ہوں، شوخی نہ رکھتے ہوں یا فاترالعقل پاگل جن کے حواس وغیرہ بھی ٹھکانے نہ ہوں، محض کھانے پینے میں گھر والوں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔
أَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ يَظْہرُوْا عَلٰی عَوْرَاتِ النِّسَآءِ :یا جن لڑکوں کو ابھی تک نسوانی سرائر کی کوئی تمیز نہیں، نہ نفسانی جذبات رکھتے ہیں۔
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِہنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِیْنَ مِنْ زِيْنَتِہنَّ :چال ڈھال ایسی نہ ہونی چاہیے کہ زیور وغیرہ کی آواز سے اجانب کو ادھر میلان اور توجہ ہو۔ بسا اوقات اس قسم کی آواز صورت دیکھنے سے بھی زیادہ نفسانی جذبات کے لیے محرک ہو جاتی ہے۔
وَتُوْبُوْٓا إِلَى اللہِ جَمِيْعًا أَيُّہ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ:پہلے جو کچھ حرکات ہو چکیں ان سے توبہ کرو اور آئندہ کے لیے ہر مرد و عورت کو خدا سے ڈر کر اپنی تمام حرکات و سکنات اور چال چلن میں انابت اور تقویٰ کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ اس میں دارین کی بھلائی اور کامیابی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور تم نکاح کرو اپنی بیوہ عورتوں کا اور اپنے نیک غلاموں، اور اپنی کنیزوں کا، اگر وہ تنگدست ہوں تو اللہ انہیں غنی کر دے گا اپنے فضل سے، اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (۳۲)
تشریح:اوپر استیذان، غض بصر اور تستر وغیرہ کے احکام بیان ہوئے تھے، تاکہ بے حیائی اور بدکاری کی روک تھام کی جائے۔ اس آیت میں یہ حکم دیا کہ جن کا نکاح نہیں ہوا یا ہو کر بیوہ اور رنڈوے ہو گئے تو موقع مناسب ملنے پر ان کا نکاح کر دیا کرو۔ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ "اے علی! تین کاموں میں دیر نہ کر، نماز فرض کا جب وقت آ جائے، جنازہ جب موجود ہو، اور بیوہ عورت جب اس کا کفو مل جائے۔ ” جو قومیں بیواؤں کے نکاح پر ناک بھوں چڑھاتی ہیں سمجھ لیں کہ ان کا ایمان سلامت نہیں۔
باندی غلام کو اگر اس لائق سمجھو کہ حقوق زوجیت ادا کر سکیں گے اور نکاح ہو جانے پر مغرور ہو کر تمہاری خدمت نہ چھوڑ بیٹھیں گے تو ان کا بھی نکاح کر دو۔
بعض لوگ نکاح میں اس لیے پس و پیش کیا کرتے ہیں کہ نکاح ہو جانے کے بعد بیوی بچوں کا بار کیسے اٹھے گا۔ انہیں سمجھا دیا کہ ایسے موہوم خطرات پر نکاح سے مت رکو۔ روزی تمہاری اور بیوی بچوں کی اللہ کے ہاتھ میں ہے کیا معلوم ہے کہ خدا چاہے تو ان ہی کی قسمت سے تمہارے رزق میں کشایش کر دے۔ نہ مجرد رہنا غنا کا موجب ہے اور نہ نکاح کرنا فقر و افلاس کو مستلزم ہے۔ یہ باتیں حق تعالیٰ کی مشیت پر ہیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا۔ "وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمْ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِاِ انْ شَآءَ” (توبہ، رکوع٤، آیت ٢٨) اور ظاہری اسباب کے اعتبار سے بھی یہ چیز معقول ہے کہ نکاح کر لینے یا ایسا ارادہ کرنے سے آدمی پر بوجھ پڑتا ہے اور وہ پہلے سے بڑھ کر کمائی کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔ ادھر بیوی اور اولاد ہو جائے تو وہ بلکہ بعض اوقات بیوی کے کنبہ والے بھی کسب معاش میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ بہرحال روزی کی تنگی یا وسعت نکاح یا تجرد پر موقوف نہیں۔ پھر یہ خیال نکاح سے مانع کیوں ہو۔
(تفسیرعثمانی)
(۳۳)
تشریح: وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰى يُغْنِيَہمُ اللّٰہ مِنْ فَضْلِہٖ: یعنی جن کو فی الحال اتنا بھی مقدور نہیں کہ کسی عورت کو نکاح میں لاس کیں تو جب تک خدا تعالیٰ مقدور دے چاہیے کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھیں۔ اور عفیف رہنے کی کوشش کریں۔ کچھ بعید نہیں کہ اسی ضبط نفس اور عفت کی برکت سے حق تعالیٰ ان کو غنی کر دے اور نکاح کے بہترین مواقع مہیا فرما دے۔
وَالَّذِیْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَکَتْ أَيْمَانُكُمْ فَکَاتِبُوْہمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہمْ خَيْراً : کسی کا غلام یا لونڈی کہے یا مزید توثیق کے لیے لکھوانا چاہے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر مال تجھ کو کما دوں تو مجھے آزاد کر دے، تو مالک کو چاہیے کہ قبول کر لے اور لکھ دے (اس معاملہ کو "مکاتبت” کہتے ہیں اور یہ غلاموں کے آزاد کرانے کی ایک خاص صورت ہے) لیکن یہ مالک کو اس وقت قبول کرنا چاہیے جبکہ وہ سمجھے کہ واقعی اس غلام یا لونڈی کے حق میں آزادی بہتر ہو گی۔ قید غلامی سے چھوٹ کر چوری یا بدکاری یا اور طرح کی بد معاشیاں کرتا نہ پھرے گا۔ اگر یہ اطمینان ہو تو بیشک اس کو آزادی کا موقع دینا چاہیے۔ تاکہ وہ آزاد ہو کر اپنی فلاح کے میدانوں میں خوب ترقی کر سکے اور کہیں نکاح کرنا چاہے تو باختیار خود نکاح کر لے۔ غلامی کی وجہ سے میدان تنگ نہ ہو۔
وَّاٰتُوْہمْ مِّنْ مَّالِ اللہِ الَّذِیْٓ اٰتَاكُمْ : یہ دولت مند مسلمانوں کو فرمایا کہ ایسی لونڈی غلام کی مالی امداد کرو خواہ زکات سے یا عام صدقات و خیرات وغیرہ سے، تاکہ وہ جلدی آزادی حاصل کر سکیں، اور اگر مالک بدلِ کتابت کا کوئی حصہ معاف کر دے، یہ بھی بڑی امداد ہے (تنبیہ) مصارف زکات میں جو وفی الرقاب کا ایک مد رکھا ہے وہ ان ہی غلاموں کے آزاد کرانے کا فنڈ ہے۔ خلفائے راشدین کے عہد میں بیت المال سے ایسے غلاموں کی امداد ہوتی تھی۔
وَلَا تُكْرِہوْا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيَاۃِ الدُّنْيَا : جاہلیت میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین کے پاس کئی لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کرا کر روپیہ حاصل کرتا تھا۔ ان میں بعض مسلمان ہو گئیں تو اس فعل شنیع سے انکار کیا۔ اس پر وہ ملعون زد و کوب کرتا تھا، یہ آیت اسی قصہ میں نازل ہوئی۔ اور اسی شان نزول کی رعایت سے مزید تقبیح کے لیے "اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا”اور "لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا” کی قیود بڑھائی ہیں ورنہ لونڈیوں سے بدکاری کرانا بہرحال حرام ہے اور اس طرح جو کمائی کریں سب ناپاک ہے۔ خواہ لونڈیاں یہ کام رضاء و رغبت سے کریں یا زبردستی اور ناخوشی سے۔ ہاں اگر لونڈیاں نہ چاہیں اور یہ محض دنیا کے حقیر فائدے کے لیے زبردستی مجبور کرے تو اور بھی زیادہ وبال اور انتہائی وقاحت اور بے شرمی کی دلیل ہے۔
وَمَنْ يُّكْرِہہنَّ فَإِنَّ اللہَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاہہنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ: زنا ایسی بری چیز ہے جو جبر و اکراہ کے بعد بھی بری رہتی ہے لیکن حق تعالیٰ محض اپنی رحمت سے "مکرہہ” کی بے بسی اور بیچارگی کو دیکھ کر درگزر فرماتا ہے۔ اس صورت میں مکرِہ (زبرستی کرنے والے) پر سخت عذاب ہو گا اور مکرَہ پر (جس پر زبردستی کی گئی) رحم کیا جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اور تحقیق ہم نے تمہاری طرف نازل کئے واضح احکام، اور ان لوگوں کی مثالیں جو تم سے پہلے گزرے ہیں اور نصیحت پرہیز گاروں کے لئے۔ (۳۴)
تشریح:یعنی قرآن میں سب کچھ نصیحتیں، احکام اور گذشتہ اقوام کے عبرتناک واقعات بیان کر دیے گئے ہیں تاکہ خدا کا ڈر رکھنے والے سن کر نصیحت و عبرت حاصل کریں اور اپنے انجام کو سوچیں۔ یامثلاً من الذین خلوا سے مراد یہ ہو کہ پہلی امتوں پر بھی اسی طرح کی حدود اور احکام جاری کیے گئے تھے جو اس سورت میں مذکور ہوئے۔ اور بعض قصے بھی اسی قصہ "افک” کے مشابہ پیش آئے جو سورت ہذا میں بیان کیا گیا ہے۔ پس جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم صدیقہ اور حضرت یوسف صدیق کی دشمنوں کے بہتان سے برأت ظاہر فرمائی، عائشہ صدیقہ بنت الصدیق کی برأت اور بزرگی بھی تا قیام قیامت صادقین کے قلوب میں نقش فی الحجر کر دی۔ اور دشمنوں کا منہ کالا کیا۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ نور ہے زمین اور آسمانوں کا، اس کے نور کی مثال (ایسی ہے) جیسے ایک طاق ہو، اس میں ایک چراغ ہو، چراغ ایک شیشہ کی (قندیل میں) ہو، وہ شیشہ گویا ایک چمکدار ستارہ ہے، وہ روشن کیا جاتا ہے مبارک زیتون سے (جس کا رخ) نہ مشرق ہے، نہ مغرب، قریب ہے کہ اس کا تیل روشن ہو جائے خواہ اسے آگ نہ چھوئے، نور علی نور (سراسر روشنی) ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راہ نمائی کرتا ہے، اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے، اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۳۵)
تشریح:یعنی اللہ سے رونق اور بستی ہے زمین اور آسمان کی، اس کی مدد نہ ہو تو سب ویران ہو جائیں (موضح القرآن) سب مخلوق کو نور وجود اسی سے ملا ہے۔ چاند، سورج، ستارے، فرشتے اور انبیاء و اولیاء میں جو ظاہری یا باطنی روشنی ہے اسی منبع النور سے مستفاد ہے۔ ہدایت و معرفت کا جو چمکارا کسی کو پہنچتا ہے اسی بارگاہِ رفیع سے پہنچتا ہے۔ تمام علویات و سفلیات اس کی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ سے منور ہیں۔ حسن و جمال یا خوبی و کمال کی کوئی چمک اگر کہیں نظر پڑتی ہے وہ اسی کے وجہ منور اور ذاتِ مبارک کے جمال و کمال کا ایک پر تو ہے۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ طائف میں جب لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا تو یہ دعا زبان پر تھی۔ "اَعُوذُبِنُورِ وَجْہِکَ الَّذِیْ اَشْرَقْتَ لَہ، الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالْاَخِرَۃِ اَنْ یَحِلَّ بِیْ غَضَبُکَ اَوْیَنْزِلُ بِیْ سَخَطُکَ لَکَ الْعُتْبَی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔ ” رات کی تاریکی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کو "انت نور السموات والارض” کہہ کر پکارا کرتے اور اپنے کان، آنکھ، دل، ہر ہر عضو بلکہ بال بال میں اس سے نور طلب فرماتے تھے اور اخیر میں بطور خلاصہ فرماتے۔ "وَاَعْظِمْ لِی نُوراً” یا "وَاجْعَلْنِی نُوْراً”یعنی میرے نور کو بڑھا بلکہ مجھے نور ہی نور بنا دے۔ اور ایک حدیث میں ہے۔ "اِنَّ اللہ خَلَقَ خَلْقَہُ فِی ظُلْمَۃٍ ثُمَّ اَلْقٰی عَلَیْہِمْ مِنْ نُّورِہٖ فَمَنْ اَصَابَہ، مِنْ نُورِہٖ یَوْمَئِذٍ اہْتَدَی وَمَنْ اَخْطَاہ، ضَلَّ” (فتح الباری، ص ٦/٤٣٠) یعنی جس کو اس وقت اللہ کے نور (توفیق) سے حصہ ملا وہ ہدایت پر آیا اور جو اس سے چوکا گمراہ رہا۔ واضح رہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات مثلاً سمع بصر وغیرہ کی کوئی کیفیت بیان نہیں کی جا سکتی۔ ایسے ہی صفت نور بھی ہے ممکنات کے نور پر قیاس نہ کیا جائے تفصیل کے لیے امام غزالی کا رسالہ "مشکوٰۃ الانوار” دیکھو۔ ”
یوں تو اللہ تعالیٰ کے نور سے تمام موجودات کی نمود ہے۔ لیکن مومنین مہتدین کو نورِ الٰہی سے ہدایت و عرفان کو جو خصوصی حصہ ملتا ہے اس کی مثال ایسی سمجھو گویا مومنِ قانت کا جسم ایک طاق کی طرح ہے جس کے اندر ایک ستارہ کی طرح چمک دار شیشہ (قندیل) رکھا ہو۔ یہ شیشہ اس کا قلب ہوا جس کا تعلق عالم بالا سے ہے۔ اس شیشہ (قندیل) میں معرفت و ہدایت کا چراغ روشن ہے، یہ روشنی ایسے صاف و شفاف اور لطیف تیل سے حاصل ہو رہی ہے جو ایک نہایت ہی مبارک درخت (زیتون) سے نکل کر آیا ہے اور زیتون بھی وہ جو کسی حجاب سے نہ مشرق میں ہو نہ مغرب میں یعنی کسی طرف دھوپ کی روک نہیں کھلے میدان میں کھڑا ہے جس پر صبح و شام دونوں وقت کی دھوپ پڑتی ہے۔ تجربہ سے معلوم ہوا کہ ایسے زیتون کا تیل اور بھی زیادہ لطیف و صاف ہوتا ہے۔ غرض اس کا تیل اس قدر صاف اور چمکدار ہے کہ بدون آگ دکھلائے ہی معلوم ہوتا ہے کہ خود بخود روشن ہو جائے گا۔ یہ تیل میرے نزدیک ایک اسی حسن استعداد اور نورِ توفیق کا ہوا جو نور مبارک کے القاء سے بدء فطرت میں مومن کو حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ اوپر کے فائدہ میں گزر چکا اور جس طرح شجرہ مبارکہ کو "لا شَرْقِیَّۃٍ وَلَا غَرْبِیَّۃٍ” فرمایا تھا وہ نور ربانی بھی جہت کی قید سے پاک ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ مومن کا شیشہ دل نہایت صاف ہوتا ہے اور خدا کی توفیق سے اس میں قبولِ حق کی ایسی زبردست استعداد پائی جاتی ہے کہ بدون دیا سلائی دکھائے ہی جل اٹھنے کو تیار ہوتا ہے۔ اب جہاں ذرا آگ دکھائی یعنی وحی و قرآن کی تیز روشنی نے اس کو مس کیا فوراً اس کی فطری روشنی بھڑک اٹھی۔ اسی کو "نُوْرٌعَلٰی نُوْرٍ”فرمایا۔ باقی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے، جس کو چاہے اپنی روشنی عنایت فرمائے اور و ہی جانتا ہے کہ کس کو یہ روشنی ملنی چاہیے کس کو نہیں۔ ان عجیب و غریب مثالوں کا بیان فرمانا بھی اسی غرض سے ہے کہ استعداد رکھنے والوں کو بصیرت کی ایک روشنی حاصل ہو۔ حق تعالیٰ ہی تمثیل کے لیے مناسب موقع و محل کو پوری طرح جانتا ہے، کسی دوسرے کو قدرت کہاں کہ ایسی موزوں و جامع مثال پیش کر سکے۔ آگے فرمایا کہ وہ روشنی ملتی ہے اس سے کہ جن مسجدوں میں کامل لوگ صبح و شام بندگی کرتے ہیں وہاں دھیان لگا رہے۔ (تنبیہ) مفسرین نے تشبیہ کی تقریر بہت طرح کی ہے، حضرت شاہ صاحب نے بھی موضح القرآن میں نہایت لطیف و عمیق تقریر فرمائی ہے مگر بندہ کے خیال میں جو توجیہ آئی وہ درج کر دی۔ وللناس فیما یعشقون مذاہب۔ واضح رہے کہ "یوقد” اور "وَلَوْلَمْ تَمْسَسْہ نَارٌ” میں جس نار کی طرف اشارہ ہے میں نے مشبہ میں اس کی جگہ وحی و قرآن کو رکھا ہے۔ اس کا ماخذ وہ فائدہ ہے جو حضرت شاہ صاحب نے "مَثَلَہُمْ کَمَثَلِ الَّذِیْ اسْتَوْقَدَنَاراً” پر لکھا ہے اور جس کی تائید صحیحین کی ایک حدیث سے ہوتی ہے جس میں آپ نے یہ الفاظ فرمائے ہیں۔ "اِنَّمَا مَثَلِی وَ مَثَلَ النَّاسِ کَرَجُلٍ اسْتَوْقَدَنَاراً فَلَمَّا اَضَآءَت مَاحَوْلَہٌ جَعَلَ الفَرَاش وَہٰذِہِ الدَّوَابَّ الَّتِی یَقَعْنَ فِیْہَا الخ” (تفسیرعثمانی)
(یہ روشنی ہے) ان گھروں میں (جن کی نسبت) اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے وہ ان میں صبح و شام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ (۳۶)
تشریح:ان کی تعظیم و تطہیر کا حکم دیا یعنی ان کی خبر گیری کی جائے اور ہر قسم کی گندگی اور لغو افعال و اقوال سے پاک رکھا جائے۔ مساجد کی تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ وہاں پہنچ کر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے۔
وَيُذْکَرَ فِیْہا اسْمُہ:تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن وغیرہ سب اذکار اس میں شامل ہیں۔
يُسَبِّحُ لَہ فِیْہا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ :یعنی تمام مناسب اوقات میں خدا کو یاد کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے کہا کہ "غدو” سے صبح کی نماز مراد ہے اور "آصال” میں باقی چاروں نمازیں داخل ہیں۔ کیونکہ اصیل زوال شمس سے صبح تک کے اوقات پر بولا جاتا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
وہ لوگ (جنہیں) غافل نہیں کرتی کوئی تجارت، نہ خرید و فروخت اللہ کی یاد سے نماز قائم رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے، وہ اس دن سے ڈرتے ہیں، جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں، تاکہ اللہ ان کے اعمال کی بہتر جزا دے، اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ (۳۷)
تشریح:یعنی معاش کے دھندے ان کو اللہ کی یاد اور احکام الٰہیہ کی بجا آوری سے غافل نہیں کرتے۔ بڑے سے بڑا بیوپار یا معمولی خریدو فروخت کوئی چیز خدا کے ذکر سے نہیں روکتی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہی شان تھی۔
يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہ الْقُلُوْبُ وَالْأَبْصَارُ :یعنی اس روز دل وہ باتیں سمجھ لیں گے جو ابھی تک نہ سمجھے تھے اور آنکھیں وہ ہولناک واقعات دیکھیں گی جو کبھی نہ دیکھے تھے۔ قلوب میں کبھی نجات کی توقع پیدا ہو گی، کبھی ہلاکت کا خوف۔ اور آنکھیں کبھی داہنے کبھی بائیں دیکھیں گی کہ دیکھئے کس طرف سے پکڑے جائیں، یا کس جانب سے اعمالنامہ ہاتھ میں دیا جائے۔
(تفسیرعثمانی)
تاکہ اللہ ان کے اعمال کی بہتر سے بہتر جزا دے، اور انہیں اپنے فضل سے زیادہ دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔ (۳۸)
تشریح: یعنی اچھے کاموں کا جو صلہ مقرر ہے وہ ملے گا۔ اور حق تعالیٰ کے فضل سے اور زیادہ دیا جائے گا جس کی تفصیل و تعیین ابھی نہیں کی جا سکتی۔ وَاللّٰہ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ :یعنی اس کے ہاں کیا کمی ہے، اگر جنتیوں کو بیحدو حساب عنایت فرمائے تو کچھ مشکل نہیں۔
(تفسیرعثمانی)
اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اعمال سراب (چمکتے ریت کے دھوکے) کی طرح ہیں چٹیل میدان میں، پیاسا اسے پانی گمان کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ وہاں آتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں پاتا، اور اس نے اللہ کو اپنے پاس پایا تو اللہ نے اس کا حساب پورا کر دیا، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ (۳۹)
تشریح:کافر دو قسم کے ہیں ایک وہ جو اپنے زعم اور عقیدہ کے موافق کچھ اچھے کام کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے۔ حالانکہ اگر کوئی کام بظاہر اچھا بھی ہو تو کفر کی شامت سے وہ عند اللہ مقبول و معتبر نہیں۔ ان فریب خوردہ کافروں کی مثال ایسی سمجھو کہ دوپہر کے وقت جنگل میں ایک پیاسے کو دور سے پانی دکھائی دیا اور وہ حقیقت میں چمکتی ہوئی ریت تھی۔ پیاسا شدت تشنگی سے بیتاب ہو کر وہاں پہنچا، دیکھا تو پانی وانی کچھ نہ تھا، ہاں ہلاکت کی گھڑی سامنے تھی اور اللہ تعالیٰ عمر بھر کا حساب لینے کے لیے موجود تھا، چنانچہ اسی اضطراب و حسرت کے وقت اللہ نے اس کا سب حساب ایک دم میں چکا دیا۔ کیونکہ وہاں حساب کرتے کیا دیر لگتی ہے۔ ہاتھوں ہاتھ عمر بھر کی شرارتوں اور غفلتوں کا بھگتان کر دیا گیا۔ دوسرے وہ ہیں جو سر سے پاؤں تک دنیا کے مزوں میں غرق اور جہل و کفر، ظلم و عصیان کی اندھیروں میں پڑے غوطے کھا رہے ہیں ان کی مثال آگے بیان فرمائی۔ ان کے پاس روشنی کی اتنی بھی چمک نہیں جتنی سراب پر دھوکہ کھانے والے کو نظر آتی تھی۔ یہ لوگ خالص اندھیریوں اور تہ بر تہ ظلمات میں بند ہیں کسی طرف سے روشنی کی شعاع اپنے تک نہیں پہنچنے دیتے۔ نعوذ باللہ منہا۔
(تفسیرعثمانی)
(یا ان کے اعمال ایسے ہیں) جیسے گہرے دریا میں اندھیرے، جنہیں ڈھانپ لیتی ہے موج اس کے اوپر دوسری موج اس کے اوپر بادل، اندھیرے ہیں ایک پر دوسرا، جب وہ اپنا ہاتھ نکالے تو توقع نہیں کہ اسے دیکھ سکے، اور جس کے لئے اللہ نور نہ بنائے اس کے لئے کوئی نور نہیں۔ (۴۰)
تشریح: یعنی سمندر کی تہ میں خود دریا کا اندھیرا، اس پر طوفانی لہریں جو ایک پر ایک چڑھی آتی ہیں۔ پھر سب کو اوپر گھٹا بادل کا اندھیرا، اور رات کا وقت فرض کیا جائے تو ان اندھیریوں میں اور اضافہ ہو جائے گا۔ اپنا ہاتھ اٹھا کر آنکھوں سے قریب کر کے دیکھے تو اندھیرے کی وجہ سے نظر نہ آئے جس کو ہمارے یہاں کہتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں پہچانتا۔
وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰہ لَہ نُوْراً فَمَا لَہ مِنْ نُّوْرٍ :اوپر مومنین کے ذکر میں جو "یَہْدِی اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَا ءُ، فرمایا تھا، یہ جملہ اس کے مقابل ہوا یعنی جس کو خدا تعالیٰ نورِ توفیق نہ دے اسے اور کون روشنی پہنچا سکتا ہے۔ ان کی استعداد خراب تھی توفیق نہ ملی۔ اور دریا کی تہ میں گر کر انہوں نے سب دروازے روشنی کے اپنے اوپر بند کر لیے۔ پھر نور آئے تو کدھر سے آئے۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تو نے نہیں دیکھا؟کہ اللہ کی پاکیزگی بیان کرتا ہے جو (ابھی) آسمانوں اور زمین میں ہے، اور پھیلائے ہوئے پرندے (بھی) ہر ایک نے جان لی ہے اپنی دعا، اور اپنی تسبیح، اور اللہ جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں۔ (۴۱)
تشریح:سورۂ بنی اسرائیل (۱۷۔ ۴۴) میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالی کی تسبیح کرتی ہے، لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، یہاں اللہ تعالی نے اشارہ فرما دیا ہے کہ ہر چیز کے تسبیح کرنے کا طریقہ مختلف ہے، اور کائنات کی تمام چیزیں اپنے اپنے مخصوص انداز میں اللہ تعالی کی تسبیح کر رہی ہیں، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل کے حاشیے میں عرض کیا گیا، قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں بے حس سمجھتے ہیں ان سب میں کچھ نہ کچھ حس موجود ہے، اور یہ بات اب رفتہ رفتہ موجودہ سائنس بھی تسلیم کر رہی ہے۔
(توضیح القرآن)
اور اللہ (ہی) کی بادشاہت ہے آسمانوں کی اور زمین کی اور اللہ (ہی) کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (۴۲)
تشریح:یعنی جیسے اس کا علم سب کو محیط ہے، اس کی حکومت بھی تمام علویات و سفلیات پر حاوی ہے اور سب کو آخرکار اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔ آگے اپنے حاکمانہ اور قادرانہ تصرفات کو بیان فرماتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل چلاتا ہے، پھر انہیں آپس میں ملاتا ہے، پھر وہ انہیں تہہ بہ تہہ کر دیتا ہے، پھر تو دیکھے ان کے درمیان سے بارش نکلتی ہے، اور آسمانوں (میں جو اولوں کے) پہاڑ ہیں ان سے اتارتا ہے اولے، پھر وہ جس پر چاہے اسے ڈال دیتا ہے، اور جس سے چاہے وہ اسے پھیر دیتا ہے، قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں (کی بینائی) لے جائے۔ (۴۳)
تشریح:یعنی ابتداء میں بادل کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اٹھتے ہیں پھر مل کر بڑا بادل بن جاتا ہے۔ پھر بادلوں کی تہ پر تہ جما دی جاتی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ رات اور دن کو بدلتا ہے، بیشک اس میں عبرت ہے عقلمندوں کے لئے۔ (۴۴)
تشریح:یعنی دن کے بعد رات اور رات کے بعد دن اسی کی قدرت سے آتا ہے۔ وہی کبھی رات کو کبھی دن کو گھٹاتا بڑھاتا رہتا ہے، اور ان کی گرمی کو سردی سے، سردی کو گرمی سے تبدیل کرتا ہے۔ چاہیے کہ قدرت کے ایسے عظیم الشان نشانات دیکھ کر آدمی بصیرت و عبرت حاصل کرے اور اس شہنشاہِ حقیقی کی طرف سچے دل سے رجوع ہو جس کے قبضہ میں ان تمام تصرفات و تقلبات کی باگ ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور اللہ نے ہر جانور پانی سے پیدا کیا پس ان میں سے کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے، اور ان میں سے کوئی چار پاؤں پر چلتا ہے، اللہ پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (۴۵)
تشریح:اور اللہ نے ہر جانور پانی سے پیدا کیا پس ان میں سے کوئی اپنے پیٹ پر چلتا ہے:جیسے سانپ اور مچھلی۔ اور ان میں سے کوئی دو پاؤں پر چلتا ہے:جیسے آدمی اور طیور۔ ، اور ان میں سے کوئی چار پاؤں پر چلتا ہےجیسے گائے بھینس وغیرہ۔ اللہ پیدا کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے یعنی کسی جانور کو چار سے زائد پاؤں دیے ہوں تو بعید نہیں، بیشک اللہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے، اس کی لامحدود قدرت و مشیت کو کوئی محصور نہیں کر سکتا۔
(ماخوذتفسیرعثمانی)
تحقیق ہم نے واضح آیتیں نازل کیں، اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ (۴۶)
تشریح:یعنی آیات تکوینیہ و تنزیلیہ تو اس قدر واضح ہیں کہ انہیں دیکھ کر اور سن کر چاہیے کوئی آدمی نہ بہکے لیکن سیدھی راہ پر چلتا وہ ہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے ہدایت کی توفیق دی ہو۔ لاکھوں آدمی یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھتے ہیں پر نتیجہ کے اعتبار سے ان کا دیکھنا نہ دیکھنا برابر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے حکم مانا، پھر اس کے بعد ان میں سے ایک فریق پھر گیا، اور وہ ایمان والے نہیں۔ (۴۷)
تشریح: منافقین چونکہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے خلاف معاندانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہتی تھیں، چنانچہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ بشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہو گیا، یہودی جانتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حق کا فیصلہ کریں گے اس لئے اس نے بشر کو پیشکش کی کہ چلو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرا لیں، بشر کے دل میں چور تھا، اس لئے اس نے آپ سے فیصلہ کرانے کے بجائے ایک یہودی سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی، اس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔
(ابن جریر طبری از توضیح القرآن)
اور جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو ناگہاں ان میں سے ایک فریق منہ پھیر لیتا ہے۔ (۴۸)
اور اگر ان کے لئے حق (پہنچتا ) ہو تو وہ اس کی طرف گردن جھکائے (خوشی سے) چلے آتے ہیں۔ (۴۹)
تشریح:یعنی اگر ان کا جھگڑا کسی سے ہو گیا اور سمجھتے ہوں کہ ہم ناحق پر ہیں اس وقت اگر دوسرا فریق کہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چل کر اس معاملہ کو طے کرا لو تو یہ منافق رضا مند نہیں ہوتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یقیناً بلا رو رعایت حق کے موافق فیصلہ کریں گے۔ جو ان کے مفاد کے خلاف پڑے گا۔ حالانکہ پہلے سے یہ دعویٰ کر رہے تھے کہ ہم اللہ و رسول پر ایمان لانے اور ان کا حکم ماننے کو تیار ہیں۔ اب وہ دعویٰ کہاں گیا۔ ہاں فرض کیجئے اگر کسی معاملہ میں حق ان کی جانب ہو تو اس وقت بہت جلدی سے گردن جھکا کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہو جائیں اور فیصلہ کا انحصار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک پر کر دیں گے۔ کیونکہ سمجھتے ہیں عدالت سے ہمارے موافق فیصلہ ہو گا۔ تو یہ ایمان و اسلام کیا ہوا، محض ہوا پرستی ہوئی۔
(تفسیرعثمانی)
کیا ان کے دلوں میں روگ ہے، یا وہ شک میں پڑے ہیں، یا وہ ڈرتے ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم کریں گے، (نہیں) بلکہ وہی ظالم ہیں۔ (۵۰)
تشریح:روگ یہ کہ خدا اور رسول کو سچ مانا لیکن حرص نہیں چھوڑتی کہ کہے پر چلیں جیسے بیمار چاہتا ہے چلے اور پاؤں نہیں اٹھتا۔
خدا اور رسول کی بابت کوئی دھوکہ لگا ہوا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یا اللہ کے وعدہ وعید میں کوئی شک و شبہ ہے؟ یا یہ گمان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان کے معاملات کا خلاف انصاف فیصلہ کریں گے؟ اس لیے ان کی عدالت میں مقدمہ لے جانے سے کتراتے ہیں۔ سویاد رکھو وہاں تو ظلم و بے انصافی کا احتمال ہی نہیں۔ ہاں خود ان ہی لوگوں نے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے۔ چاہتے ہیں کہ اپنا حق پورا وصول کر لیں اور دوسروں کا ایک پیسہ نہ دیں۔ اسی لیے ان معاملات کو خدائی عدالت میں لانے سے گھبراتے ہیں جن میں سمجھتے ہیں کہ رسول کا منصفانہ فیصلہ ہمارے مطلب کے خلاف ہو گا۔ یہ تو منافقین کا ذکر تھا، آگے ان کے بالمقابل مخلصین کی اطاعت و فرمانبرداری کو بیان فرماتے ہیں۔
(تفسیرعثمانی)
مؤمنوں کی بات اس کےسوا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جا تے ہیں تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں، تو وہ کہتے ہیں ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی اور وہی ہیں فلاح (دو جہان کی کامیابی) پانے والے۔ (۵۱)
تشریح:یعنی سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہیے کہ جب کسی معاملہ میں ان کو خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے خواہ اس میں بظاہر ان کا نفع ہو یا نقصان۔ ایک منٹ کا توقف نہ کریں۔ فی الفور "سمعاً وطاعۃ” کہہ کر حکم ماننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اسی میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاں کا راز مضمر ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے، اور پرہیزگاری کرے، پس وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (۵۲)
تشریح:یعنی جو فی الحال فرمانبردار ہو، گذشتہ تقصیرات پر نادم ہو کر اور خدا سے ڈر کر توبہ کرے اور آئندہ برے راستہ سے بچ کر چلے، اسی کے لیے دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور انہوں نے اللہ کی زور دار قسمیں کھائیں کہ اگر آپ انہیں حکم دیں تو وہ ضرور (جہاد کیلئے) نکل کھڑے ہوں گے، آپ فرما دیں تم قسمیں نہ کھاؤ، پسندیدہ اطاعت (مطلوب ہے) بیشک اللہ اس کی خبر رکھتا ہے وہ جو تم کرتے ہو۔ (۵۳)
تشریح:یعنی منافقین بڑی سخت تاکیدی قسمیں کھا کر آپ کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم کو آپ حکم دیں تو سب گھر بار چھوڑ کر خدا کے راستہ میں نکل جانے کے لیے تیار ہیں ذرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرمائیں تو سب مال و دولت اللہ کے راستہ میں لُٹا کر الگ ہو جائیں۔ اس پر فرمایا کہ اس قدر منہ بھر کر لمبی چوڑی قسمیں کھانے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری فرمانبرداری کی حقیقت سب معلوم ہو چکی کہ زبان سے دعوے بہت کیا کرتے ہو۔ اور عمل کا وقت آئے تو آہستہ سے کھسک جاتے ہو۔ چاہیے کہ سچے مسلمانوں کے دستور کے موافق حکم برداری کر کے دکھلاؤ زبانی قسمیں کھانے سے کوئی فائدہ نہیں۔ فرض کرو تم قسمیں کھا کر بندوں کو اپنی بات کا یقین دلا دو۔ لیکن اللہ کے آگے کسی کی چالاکی اور فریب نہیں چل سکتا۔ وہ تو تمام ظاہر اور پوشیدہ باتوں کی خبر رکھتا ہے۔ آگے چل کر تمہاری مکاری کا پردہ فاش کر دے گا۔
(تفسیرعثمانی)
آپ فرما دیں تم اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، پھر اگر تم پھر گئے تو اس کے سوا نہیں کہ رسول پر اسی قدر ہے جو اس کے ذمے کیا گیا ہے اور تم پر (لازم ہے) جو تمہارے ذمے کیا گیا ہے، اگر تم اس کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پالو گے، اور رسول پر صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (۵۴)
تشریح:یعنی پیغمبر پر خدا کی طرف سے تبلیغ کا جو بوجھ رکھا گیا ہے، سو اس نے پوری طرح ادا کر دیا۔ اور تم پر جو بوجھ ڈالا گیا وہ تصدیق و قبول حق کا ہے، اور یہ کہ اس کے ارشاد کے موافق چلو۔ اگر تم اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے اس کے احکام کی تعمیل کرو گے تو کامیابی دارین کی راہ پاؤ گے اور دنیا و آخرت میں خوش رہو گے ورنہ پیغمبر کا کچھ نقصان نہیں، تمہاری شرارت و سرکشی کا خمیازہ تم کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ پیغمبر تو اپنا فرض ادا کر کے عند اللہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکے۔ آگے اطاعت رسول کے بعض ثمرات بیان فرماتے ہیں جن کا سلسلہ دنیا ہی میں شروع ہو جائے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے انہیں ضرور خلافت (سلطنت) دے گا زمین میں، جیسے ان کے پہلوں کو خلافت دی، اور البتہ ان کے لئے ان کا دین ضرور قوت (استحکام) دے گا، جواس نے ان کے لئے پسند کیا، اور البتہ ان کے لئے خوف کے بعد ضرور امن بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرا شریک نہ کریں گےکسی شے کو، اور جس نے اس کے بعد ناشکری کی، پس وہی لوگ نافرمان ہیں۔ (۵۵)
تشریح:یہ خطاب فرمایا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگوں کو یعنی جو ان میں اعلیٰ درجہ کے نیک اور رسول کے کامل متبع ہیں رسول کے بعد ان کو زمین کی حکومت دے گا اور جو دین اسلام خدا کو پسند ہے ان کے ہاتھوں سے دنیا میں ان کو قائم کرے گا۔ گویا جیسا کہ لفظ استخلاف میں اشارہ ہے وہ لوگ محض دنیاوی بادشاہوں کی طرح نہ ہوں گے۔ بلکہ پیغمبر کے جانشین ہو کر آسمانی بادشاہت کا اعلان کریں گے اور دین حق کی بنیادیں جمائیں گے اور خشکی و تری میں اس کا سکہ بٹھلا دیں گے۔ اس وقت مسلمانوں کو کفار کا خوف مرعوب نہ کرے گا وہ کامل امن و اطمینان کے ساتھ اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہیں گے اور دنیا میں امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ اور ان مقبول و معزز بندوں کی ممتاز شان یہ ہو گی کہ وہ خالص خدائے واحد کی بندگی کریں گے جس میں ذرہ برابر شرک کی آمیزش نہ ہو گی۔ شرک جلی کا تو وہاں ذکر کیا ہے شرک خفی کی ہوا بھی ان کو نہ پہنچے گی۔ صرف ایک خدا کے غلام ہوں گے، اسی سے ڈریں گے اسی سے امید رکھیں گے۔ اسی پر بھروسہ کریں گے اسی کی رضا میں ان کا جینا اور مرنا ہو گا۔ کسی دوسری ہستی کا خوف و ہراس ان کے پاس نہ پھٹکے گا۔ نہ کسی دوسرے کی خوشی ناخوشی کی پروا کریں گے۔ الحمدللہ۔ کہ یہ وعدہ الٰہی چاروں خلفاء رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر پورا ہوا۔ اور دنیا نے اس عظیم الشان پیشین گوئی کے ایک ایک حرف کا مصداق اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ خلفائے اربعہ کے بعد بھی کچھ بادشاہان اسلام وقتاً و فوقتاً اس نمونہ کے آتے رہے اور جب اللہ چاہے گا آئندہ بھی آئیں گے۔ احادیث سے معلوم ہوا کہ آخری خلیفہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ ہوں گے جن کے متعلق عجیب و غریب بشارات سنائی گئی ہیں۔ وہ خدا کی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور خارق عادت جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے اسلام کا کلمہ بلند کریں گے۔ "اَللّٰہُمَّ احْشُرْنَا فِی زُمْرَتِہٖ وَارْزُقْنَا شَہَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ اِنَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ وَذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ ”
(تنبیہ) اس آیت استخلاف سے خلفائے اربعہ کی بڑی بھاری فضیلت و منقبت نکلتی ہے۔ ابن کثیر نے اس کے تحت میں عہد نبوت سے لے کر عہد عثمانی تک کی فتوحات کو درجہ بدرجہ بیان کیا ہے اور آخر میں یہ الفاظ لکھے ہیں: "وَجُبِیَ الْخَرَاجُ مِنَ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ اِلٰی حَضْرۃِ اَمِیْرِ الْمُوْمِنِیْنَ عُثْمَانْ بِنْ عَفَانِ رَضِیَ اللہ عَنْہُ وَذٰلِکَ بِبَرْکَۃِ تِلَاوَتِہٖ وَدَرَاسَتِہٖ وَجَمْعہ الْاُمَّۃِ عَلٰی حِفْظِ الْقُرْاٰنِ وَلِہٰذَا ثَبَتَ فِی الصَّحِیْحِ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اللہَ زَوٰی لِی الْاَرْضِ فَرَأیْتَ مَشَارِقِہَا وَمَغَارِبِہَا وَسَیَبْلُغُ مُلْکُ اُمَّتِی مَازُوِیَ لِی مِنْہَا فَہَا نَحْنُ نَتَقَلَّبُ فِیْمَا وَعَدْنَا اللہُ وَرَسُولِہٖ وَصَدَقَ اللہ وَرَسُولُہ فَنَسْئَالَ اللہ الْاِیْمَانَ بِہٖ وَبِرَسُولِہٖ وَالْقِیَامَ بِشُکْرِہٖ عَلٰی الْوجْہِ الَّذِیْ یُرْضِیہ عَنَّا۔ ”
ایسے انعامات عظیمہ کے بعد ناشکری کرنا بہت ہی بڑے نافرمان اور ہیکڑ مجرم کا کام ہے حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جو کوئی خلفائے اربعہ کی خلافت (اور ان کے فضل و شرف) سے منکر ہوا۔ ان الفاظ سے اس کا حال سمجھا گیا۔ رَبَّنَا اَغْفِرْلَنَا وَلِاِ خْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُونَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجَعَلْ فِی قُلُوبِنَا غِلاَّ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا رَبَّنَا اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ۔ ” (تفسیرعثمانی)
اور تم نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ (۵۶)
تشریح:یعنی خدا کی رحمت سے حصہ لینا چاہتے ہو تم بھی ان ہی مقبول بندوں کی روش اختیار کرو۔ اور روش یہ ہی ہے نمازیں قائم کرنا، زکات دیتے رہنا اور تمام شعب زندگی میں رسول کے احکام پر چلنا۔ "اَللّٰہُمَّ ارْزُقْنَا مُتَابِعَۃَ رَسُولِکَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَتَوَفَّنَا عَلَیْہَا وَاَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِیْنَ۔ ” آمین۔
(تفسیرعثمانی)
ہر گز گمان نہ کرنا کہ کافر زمین میں عاجز کرنے والے ہیں، اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور (وہ) برا ٹھکانہ ہے۔ (۵۷)
تشریح: یہ نیک بندوں کے بالمقابل مردود و مغضوب لوگوں کا انجام بتلایا۔ یعنی جبکہ نیکوں کو ملک کی حکومت اور زمین کی خلافت عطا کی جاتی ہے، کافروں اور بدکاروں کی ساری مکاریاں اور تدبیریں شکست ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے ارادہ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر تمام خدائی میں ادھر ادھر بھاگتے پھریں تب بھی وہ خدائی سزا سے اپنے کو نہیں بچا سکتے۔ یقیناً ان کو جہنم کے جیل خانہ میں جانا پڑے گا۔
(تفسیرعثمانی)
اے ایمان والو! چاہئیے کہ تمہارے غلام تم سے اجازت لیں، اور وہ جو نہیں پہنچے تم میں سے ( حد ) شعور کو، تین وقت (یعنی) نماز فجر سے پہلے اور جب تم اپنے کپڑے اتار کر رکھ دیتے ہو دوپہر کو، اور نماز عشاء کے بعد، تمہارے لئے (یہ) تین پردے (کے اوقات) ہیں، نہیں تم پر اور نہ ان پر ان کے بعد کوئی گناہ، تم میں سے بعض، بعض کے پاس پھیرا کرتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام واضح کرتا ہے، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۵۸)
تشریح: آیات ۲۷تا ۲۹ میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ کسی دوسرے کے گھر میں اجازت مانگے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئیے، عام طور سے مسلمان اس حکم پر عمل کرنے لگے تھے لیکن کسی گھر کے غلام باندیوں اور نابالغ لڑکے لڑکیوں کو چونکہ بکثرت گھروں میں آنا جانا رہتا تھا، اس لئے وہ اس حکم کی پابندی نہیں کرتے تھے، چنانچہ بعض واقعات ایسے پیش آئے کہ یہ لوگ کسی کے گھر میں ایسے وقت بلا اجازت داخل ہو گئے جو اس کے آرام اور تنہائی کا وقت تھا، جس سے نہ صرف یہ کہ اس کو تکلیف ہوئی بلکہ بے پردگی بھی ہوئی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور ان میں یہ واضح کر دیا گیا کہ کم از کم تین اوقات میں ان لوگوں کو بھی بلا اجازت گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہئیے، یہ تین اوقات وہ ہیں جن میں عام طور سے انسان تنہائی پسند کرتا ہے اور بے تکلفی سے صرف ضروری کپڑوں میں رہنا چاہتا ہے، اور ایسے میں کسی کے اچانک آ جانے سے بے پردگی کا بھی احتمال رہتا ہے، البتہ دوسرے اوقات میں چونکہ یہ خطرہ نہیں ہے اس لئے ضرورت کی وجہ سے ان کو بلا اجازت بھی چلے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
(توضیح القرآن)
اور جب تم میں سے لڑکے پہنچیں حد شعور کو، چاہئیے کہ وہ اجازت لیں جیسے ان سے پہلے اجازت لیتے تھے، اسی طرح اللہ واضح کرتا ہے تمہارے لئے اپنے احکام، اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔ (۵۹)
تشریح:یعنی لڑکا جب تک نابالغ ہے تین وقتوں کے سوا باقی اوقات میں بلا اجازت لیے آ جا سکتا ہے۔ جس وقت حد بلوغ کو پہنچا پھر اس کا حکم ان ہی مردوں جیسا ہو گیا جو اس سے پہلے بالغ ہو چکے ہیں اور جن کا حکم پیشتر آیت "یَآاَیُّہَاالَّذِیْنَ آمَنُوا لاَ تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْ نِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلٰی اَہْلِہَا” میں گزر چکا ہے۔
(تفسیرعثمانی)
اور جو خانہ نشین بوڑھی عورتیں نکاح کی آرزو نہیں رکھتیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ اپنے (زائد) کپڑے اتار رکھیں، زینت (سنگھار) ظاہر نہ کریں، اور اگر وہ (اس سے بھی) بچیں تو ان کے لئے بہتر ہے، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔ (۶۰)
تشریح:یہ ان بوڑھی عورتوں کا حکم ہے جن کی طرف نہ کسی کو رغبت ہوتی ہے، نہ وہ نکاح کے قابل ہوتی ہیں، ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ عام عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کے لئے جو چادر یا برقع وغیرہ استعمال کرتی ہیں، یہ بوڑھی عورتیں ان کے بغیر بھی نامحرم مردوں کے سامنے جا سکتی ہیں، بشرطیکہ بن سنور کر اور سنگھار کر کے نہ جائیں، اس سہولت کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ ان کے لئے بھی احتیاط اس میں ہے کہ وہ بھی دوسری عورتوں کی طرح پردہ کریں۔
(توضیح القرآن)
کوئی گناہ نہیں نابینا پر اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے، اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تم پر کہ تم کھاؤ اپنے گھروں سے، یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا جس گھر کی کنجیاں تمہارے قبضہ میں ہوں، یا اپنے دوست کے گھر سے، تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اکھٹے مل کر کھاؤ، یا جدا جدا، پھر جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، دعائے خیر اللہ کے ہاں سے، بابرکت، پاکیزہ، اسی طرح اللہ تمہارے لئے احکام واضح کرتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ (۶۱)
تشریح:ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بعض افراد جو نابینا یا پاؤں سے معذور یا بیمار ہوتے تھے وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے سے اس لئے شرماتے تھے کہ شاید دوسروں کو ان کے ساتھ کھاتے ہوئے کراہیت محسوس ہو، اور بعض معذور افراد یہ بھی سوچتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ جگہ گھیر لیں یا نا بینا ہونے کی بنا پر دوسروں سے زیادہ کھالیں، دوسری طرف صحت مند لوگ بھی بعض اوقات یہ خیال کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں کا ساتھ نہ دے سکیں کم کھائیں اور مشترک کھانے میں سے اپنا مناسب حصہ نہ لے سکیں، یہ احساس ان حضرات کے دل میں اسلام کے ان احکام نے پیدا کیا جن کی رو سے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے ادنیٰ سی تکلیف پہنچانا گناہ قرار دیا گیا ہے، نیز مشترک چیزوں کے استعمال میں احتیاط کی تاکید کی گئی ہے، ان آیات نے یہ واضح فرمایا کہ بے تکلف مقامات پر اتنی باریک بینی کی ضرورت نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
عرب کے لوگوں میں یہ عام رواج تھا کہ ان کے گھروں میں آنے والے یہ رشتہ دار جن کا اس آیت میں ذکر ہے اگر ان کی اجازت کے بغیر بھی ان کے گھر سے کچھ کھا لیتے تو وہ نہ صرف یہ کہ برا نہیں مناتے تھے، بلکہ خوش ہوتے تھے، جب یہ احکام آئے کہ کسی کی چیز اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں تو بعض صحابہ یہاں تک پرہیز کرنے لگے کہ اگر کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے گھر جاتے اور اس کی بیوی بچے ان کی کچھ خاطر تواضع کرتے تو ان کو کھانے میں تردد ہوتا تھا کہ گھر کا اصل مالک تو موجود نہیں ہے اس لئے ہمیں اس کی اجازت کے بغیر کھانا نہیں چاہئیے، اس آیت نے واضح فرما دیا کہ جہاں یہ بات یقینی ہو کہ اصل مالک ہمارے کھانے سے خوش ہو گا، وہاں کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے، البتہ جہاں یہ بات مشکوک ہو وہاں یہ حکم نہیں ہے چاہے کتنے قریبی رشتہ دار کا گھر ہو۔
(روح المعانی و معارف القرآن از توضیح القرآن)
بعض حضرات جب جہاد کے لئے جاتے تو اپنے گھر کی چابیاں ایسے معذور افراد کے حوالے کر جاتے جو جہاد میں جانے کے لائق نہیں تھے، اور ان کو یہ بھی کہہ جاتے تھے کہ ہمارے گھر کی کوئی چیز اگر آپ کھانا چاہیں تو کھا لیا کریں، اس کے باوجود یہ معذور حضرات احتیاط کی وجہ سے کھانے سے پرہیز کرتے تھے، اس آیت نے ان کو بھی یہ ہدایت فرما دی کے اتنی احتیاط کی ضرورت نہیں ہے، جب مالک کی طرف سے چابیاں تک آپ کے حوالے کر دی گئیں ہیں اور اجازت بھی دے دی گئی ہے تو اب کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔
(توضیح القرآن)
اس کےسوا نہیں کہ مؤمن وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول پر یقین کیا، اور جب وہ کسی جمع ہو کر کرنے کے کام میں (شرکت کیلئے) اس کے ساتھ (رسول کے پاس) ہوتے ہیں تو جب تک وہ اس سے اجازت نہ لے لیں چلے نہیں جاتے، بیشک جو لوگ آپ سے اجازت مانگتے ہیں یہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں، پس جب وہ تم سے اپنے کسی کام کے لئے اجازت مانگیں تو اجازت دے دیں جس کو آپ چاہیں، اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگیں، بیشک اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (۶۲)
تشریح: یہ آیت غزوۂ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کر جاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آ جاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہو جاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔
(توضیح القرآن)
تم نہ بنا لو اپنے درمیان رسول کو بلاناجیسے تم ایک دوسرے کو بلاتے ہو، تحقیق اللہ جانتا ہے ان لوگوں کو جو تم سے نظر بچا کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں، جو لوگ اس کے حکم کے خلاف کرتے ہیں چاہئیے کہ ڈریں کہ ان پر کوئی آفت پہنچیں یا ان کو دردناک عذاب پہنچے۔ (۶۳)
تشریح: برابر کے آدمی جب ایک دوسرے کو بلاتے ہیں تو اس کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی، اگر کوئی اس کے جواب میں نہ جائے تو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا، اور اگر چلا بھی جائے تو بغیر اجازت کے واپس آ جانے کو بھی گوارا کر لیا جاتا ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں تو اسے آپس کا بلانا نہ سمجھو، چاہے گئے چاہے نہ گئے، بلکہ اہتمام کر کے جانا ہی ضروری ہے، دوسرےیہ بات بھی معمولی نہ سمجھو کہ جب چاہو بلا اجازت اٹھ کر چلے آؤ، بلکہ جب کہیں جانا ہو تو آپ سے اجازت لے کر جاؤ۔ اسی آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ممکن ہے کہ جب تم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرو تو اس طرح نہ کرو جیسے ایک دوسرے کو نام لے کر مخاطب کرتے ہو، لہذا یا محمد کہہ کر نہ بلاؤ، بلکہ آپ کو تعظیم کے ساتھ یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب کرو۔
(توضیح القرآن)
یاد رکھو! بیشک اللہ کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں اور زمین میں ہے، تحقیق وہ جانتا ہے جس (حال) پر تم ہو، اور اس دن کو جب اس کی طرف وہ لوٹائے جائیں گے، پھر وہ انہیں بتائے گاجو کچھ انہوں نے کیا، اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے۔ (۶۴)
تشریح:یعنی ممکن ہے مخلوق سے آنکھ بچا کر کوئی کام کر گزرو، لیکن حق تعالیٰ سے تمہارا کوئی حال پوشیدہ نہیں رہ سکتا، نہ اس کی زمین و آسمان میں سے نکل کر کہیں بھاگ سکتے ہو۔ وہ جس طرح تمہارے احوال موجودہ سے باخبر ہے ایسے ہی اس دن کی کیفیت مجازات سے بھی پورا آگاہ ہے۔ جب تمام مخلوق حساب و کتاب کے لیے اس کی طرف لوٹائی جائے گی اور ہر ایک کے سامنے اس کا ذرہ ذرہ عمل کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ایسے علیم الکل اور مالک الکل کی سزا سے مجرم کس طرح اپنے کو بچا سکتا ہے۔ ” تَمَّ سُورَۃٌ النُّوْرِ بِفَضْلِ اللہِ وَتُوفِیقِہٖ اَللّٰہُمَّ نَوِّرْ قُلُوبَنَا بِاا لْاِ یْمَانِ وَالْاِحْسَانِ وَنَوِّرْ قُبُورَنَا وَاَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْر وَبِاْلِاجَابَۃِ جَدِیْرٌ۔ ”
(تفسیرعثمانی)
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید