FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

    تراحم میں لِپٹا نان کباب

 

 

 

سمیع آہوجہ

 

 

 

 

سمے انتہائی بھیانک اور المناکی سوانگ دھارے پُورے پنجاب پرچھایا ہوا تھا۔

اسی دہشت ناکی میں موسیٰ نے سیلاب کی منہ زوری سے تباہ حال اینٹوں کے بھٹے کی آدھی گری چھت والی تنہا بچی کوٹھری میں جنم لیا، موسیٰ کے باپ کا نام تو کبھی خیر دین رکھا گیا تھا مگر وہ نجانے کِس کھیت کی مٹی میں گُم ہوا بس ہونٹوں کا چھجا بنے چار لمبے لمبے چوڑے دانتوں کی بدولت خیرو دوندل بنا اور پھر وقت کی چاشنی چوستے لمحوں میں گھِس گھِسا کر صرف دوندل رہ گیا۔ دوندل اور اُس کی بیوی دونوں ہی رنج و الم میں رنگے ہوئے تھے۔شادی کے آٹھ سال خزاں زدگی کی زد میں آئی اپنی گود پر بہار کھِلنے کی آس امید میں بندھے، درگاہوں کی چوکھٹ چومتے،منتوں میں رنگے، تاگے باندھتے،گڑگڑاتے، ناک رگڑتے بڑی دعاؤں منتوں کے بعد اک لمبی آس لگائی مدت میں موسیٰ اُن کی زندگی میں آیا، مگر کیسی زندگی ؟کم از کم اُن کی اپنی تو نہ تھی،جو نہ نظر آتی زنجیروں کی جکڑ بندی، دوندل اور اُس کی بیوی دونوں ہی کے وجود میں آتے جاتے سانس بھی بِک بِکا کر، غیر محسوس طریقے سے غلامی کا طوق اُن کے گلے میں آ پڑا،جو دونوں ہی نے آمنّا و صدّقنا کہتے قبول کر لیا، اور کیوں نہ کرتے ! مجبوری تھی،دوندل کے بزرگوں کی جو چھوٹی سی کشاورزی کی زمین تھی وہ بڑوں کی موت فوت اور دو بہنوں کی شادی بیاہ کے لین دین کی بدولت ساہوکار کے پاس رہن رکھنی پڑ گئی تھی اور لی ہوئی رقم کے ہندسے سُود در سُودکی بدولت اصل سے بھی اونچے نکل گئے،اب آڑا اُڑی تو آتی نہ تھی، نہ ہی لیتے وقت امضاء کیا، انگوٹھے بھی نہ کٹے، بس نیلم نیلی روشنائی میں بھِیگے ضرور۔ اور لی ہوئی پہاڑ رقم تو ایک طرف،سودبھی چُکایا نہ جاسکا۔ اسی عدم ادائیگی کی بدولت وہ زمین ہاتھ سے نکل گئی۔اور راوی کے منہ زور سیلاب میں بہہ جانے والے مکان کا بچا کیا؟ صرف سفیدہ!تو وہ بھی واہی بیجی کی زمین کے ساتھ ہی ساہوکار کے پاس رہن رکھا ہوا تھا۔مگر پانچ سال کی دن رات کی محنت مزدوری کے باوجود صرف مکان پر لیا قرض اور اس کے سود کی رقم بھی نہ نمٹائی جاسکی،بلکہ دن بدن کمر پر لدا کُب،اپنے دن بدن بڑھتے بوجھ سے کوہان میں بدل گیا پھر پتہ تو اُس روز لگا جب وہ کوہان سارے بدن سے بھی بھاری،اُٹھائے نہیں اُٹھتا تھا۔ راوی کے تندسیلابی ریلے اور لگاتار بارش سے نہ صرف دونوں میاں بیوی گرسنگی کی لپیٹ میں آئے،بلکہ گاؤں کی مجموعی آبادی بھی لُٹ پُٹ گئی،اور تو اور۔۔؟

بھٹہ مالک۔۔؟

جو اُن دونوں کا بھی کبھی آقا بنا تھا لیکن کب۔۔؟؟

اُس کی آنکھوں میں انا اور غرور کا ملمع چڑھا قہر ہواؤں سے آنکھیں لڑانے میں مگن رہتا۔مگر جب بھی کسی،گردن کی اکڑاہٹ کے باوجود، کے لیے زمین کا قبضہ چھڑانا مقصود ہوتا تو،گردن کی اکڑاہٹ کے باوجود، زد و کوب کرنے کا حُکم صادر کرتے وہی قہر! آبشار بن کر گرتا۔۔ !

سمے کے پھونکے جاتے صور کے جلال میں غربت کی عریانی۔۔؟

اُس کی امارت اور غرورسے لپٹ کر سب کچھ چاٹ گئی۔۔

راوی کی منہ زوری نے آگ لگے بھٹے اور اس میں پکنے کے لیے جمائی گئی اینٹیں گھنٹہ بھر میں ہی برابر کر دیں۔اور جب بھٹے میں آگ لگائی جائے تو مالک کا بال بال قرضے میں جکڑا جاتا ہے،لیکن اس قرضے سے نہال تو تب ہی ہوتا ہے جب اینٹوں بھری پہلی کرانچی بھٹے سے نکلے اورکیسہ سکّوں کی جھنکار سے چھلکنے لگے،لیکن دوندل کے مالک کی تباہی اور اس میں قرضے سے لگائی گئی آگ! اپنی لپٹوں میں اُسے ہی سوخت کر گئی،باقی جو بچا تھا وہ تند کانگ سب کچھ سمیٹ کر لے گئی،ورنہ۔؟

ورنہ پہلے بھٹے کے بننے سے قبل اُس کی آبائی کشاورزی کی تھوڑی بہت زمین دوسرے چھوٹے کسانوں جیسی تھی،جس سے اُس مشکل وقت میں پیٹ روٹی چل سکتی تھی مگر۔۔؟

مگر باپ دادا کی لُوٹ مار کی تمکنت بھی اُس کے روئیں میں ایسی بسی ہوئی تھی،چلتے پھرتے، اکڑ فوں میں کندھوں پر تھوکتے نکلتا،اپنی آبائی زمین پر واہی بیجی کو وہ کمّی کمینوں کا کام سمجھتے،روزِ اول سے ہی مُستاجری پر چڑھا دی تھی۔جس سے چلت اور شکم سیری کا بہت بڑا آسرا بنا رہا،اور سننے میں تو یہ بات نجانے کب سے نصیحت آمیزی میں محنت مزدوری کی تلقین کرتی کہ جُوا ؟نہ ہوا کسی کا،مگر اپنے یاروں کی شہ پر وہ لالچ میں بندھ گیا،اور اپنے آپے کوقسم میں باندھتے ٹھٹھا مارا۔

ہار جیت کی تو بات ہی نہیں،پانسے کی سواری ہو یا گھُڑ سواری،دونوں میں سورما ہی گرتے ہیں۔چسکے کے لیے پہلی اور آخری بار،وہ بھی تم سب کا دل رکھنے کی خاطر،ورنہ بد معاشی کے اور بھی تو شطرنجی خانے ہیں،کیا وہ کافی نہیں۔۔!

اور پھر آنکھیں زورسے مِیچتے جو کچھ بھی مُستاجری سے ملا،بلا سوچے سمجھے اُس نے ٹِگڑی پر پاسہ پھینکنے پر لگا دی،لگا تار اُنیس ہاتھ پانسہ پھینکنے پر بھی اُس پر چڑھا رنگ بھرپور جولانی بخش گیا،آخر کار مقابل کے سارے جواری خالی کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے تواس کے سارے جوشیلے پن کی حدِ نگاہ تو دیکھیے کہ ٹگڑی کی نال نکل جانے کے باوجود جھنکار سے بھرے پانچ بھاری تَوڑے بھی ساتھ ہی کرانچی میں لدوا کر ہی گاؤں میں لوٹا،اور راہ میں اُس کی اور باپ دادا کی سورمائی کی بدولت کوئی ڈاکا بھی نہ پڑا،مگر۔۔؟

یہ سب کچھ تو بہت ہی پہلے کی بات ہے۔ دوندل اور اُس کی بیوی رہن زمین پر ساہوکارکے قرض تلے دبے،چند اناج کی بوریوں کے بدلے واہی بیجی کرتے،جس سے دو وقت کے صرف چند لقمے ہی شکم میں اُتار سکتے تھے۔سِیر شکمی کا تصور تو محال ہو چکا تھا۔مگر ساہوکار سے لیے قرض کی ادائیگی تو دور کی بات ہے وہ دونوں مل کر بھی سود کی رقم کا بوجھ کبھی ہلکا نہ کرسکے،اور زمین تو وہ بالآخرساہوکار کی ہو گئی اور رہن مکان۔؟

تو وہ رہنے کے لیے،مستقل واہی بیجی کرنے کی بدولت مل گیا،مگر ملکیت۔۔؟

دونوں کے وجود میں گھُٹی سسکیاں۔!

اور صبر شکر کرتے اُن سسکیوں کو وہ دونوں ہی اپنا خون پلاتے رہ گئے۔۔!!

بَھٹے کا بھانبھڑ اُس وقت اُس کے دماغ میں بھڑک اُٹھا جب اُٹھائی گیر یاروں کے سنگ دُور کے اک گاؤں میں گشت کرتے،سن ڈاکا مارنے کے لیے ہدف ڈھونڈتے،اک سرسری نظر ایسی اک بھٹے پر پڑی کہ خواہشوں میں لِپٹی اُس کے اندر دھواں نکالتی چمنی جمی کی جمی رہ گئی اور پھر بھٹے کے لمبے مال سے جوئے کی بُوٹوں سے اکٹھی ہوتی رقم سے نکلی نال سے ٹگڑی چلتے دیکھ کر ایسی چٹک لگی،کہ سارا وجود بھٹہ بن کر اندر ہی اندر اینٹیں پکانے لگا۔ بھٹے کی دیکھ بھال کی اونچ نیچ دیکھتے،نوک پلک اور صلا ح کار یاروں نے گُڈ ی چڑھا دی۔ بس پھر کیا تھا! اِس پیچواں صلاح کاری سے کشاورزی کی زمین۔۔ ؟

تو وہ زرعی زمین گئی بھاڑ میں،بھٹے اینٹوں کا کام کھرے سونے کے برابر وزنی ہے،کچے کوٹھے کی رہائشی زمین پر پوری دیکھ بھال سے بھٹے کا پلان بنا ڈالا،جوئے والی بھاری تھیلیوں کی رقم اور مستاجری والی زمین کو بیچ باچ اور باقی ماندہ تھوڑا بہت جواریوں سے منافع پر قرضے کی لکھت کی بدولت،سیانوں کی سُوجھ بُوجھ اور نوک پلک کی دیکھ بھال سے،اُس زمانے کے،متوسط سائزکے بھٹے نے سر نکالا،اور چمنی دھواں اُگلنے لگی،مگر وافر کمائی کی بجائے ایک ہاتھ آگے اور ایک پیچھے تنگی میں ہی پھنسا رہ گیا،اور مٹی گوندھاتے آپ مٹی و مٹی، اور ہر با ر بھٹے کو آگ دکھانے کے بعد،اینٹوں کی بھری بھری کرانچیاں نکلنے کے باوجود،چھوٹے چھوٹے قرضوں کے سُود کی رقم، کار کی نا تجربے کی بدولت،کاریگروں اور مزدوروں کی مزدوری دے دِلا کر پلّے کیا رہ جاتا وہی نون پیاز،اسی لیے دوجے بھٹوں کے مالکان پر نظر اُن کا سبق پڑھنے کو ٹِک گئی اور بھٹہ مزدوروں کو اُن کا غلام بنے دیکھ کراُس کے اندر بھی غلام بنانے کی خواہش بیدار ہو گئی۔لیکن اگلی راہ۔۔؟

قرضے کی رقم سے گردن میں پڑتا شکنجہ۔۔؟

اُس کے لیے۔۔؟ ؟

اس کے لیے کھِیسے کا منہ بھاڑ کھلا اور جھنکار سے گونجتا رہے تو ہی۔۔!

مگر ہر لمحے سوچ بچار کا کزدم ڈنکتا،اور اس کی زہریلی کڑھن سے پھوٹتی بیزاری اپنی انتہا پر پہنچنے والی تھی کہ چھاونی کی بیرکس کے لیے اینٹوں کی ڈونڈی پِٹ گئی،اور اُن کا تعمیراتی گماشتہ ٹھیکے دار،ملکہ کے کراؤن کندھوں پر سجائے فوجی گورے کی ہم رکابی میں چل کر آیا اور ہلا شیری دے کر ایڈوانس کی رقم کا توڑا، چھنک کی گونج سے بھرا پھینکا گیا،جو اس کی کمر پر گرا اور اُس کی جھنکار نے اُسے اپنے بوجھ تلے داب لیا، وہ کوئی چُوں چراں کیے بنا سر پھینک اینٹوں کی سپلائی پر جُت گیا۔ سال بھر میں ہی قرضوں کی تمسک پر چڑھی اصل رقم کے علاوہ سود کی پائی پائی ادا ہوتے ہی وہ پھر سے پھیل گیا مگر قدرتی عذاب کا رُخ کون موڑ سکتا ہے۔تیجے سال ہی ساون کی تیز و تند بارشیں اور راوی کا منہ زور سیلاب، نہ صرف ڈھلوان پر بسی دہی آبادی کو بہا لے گیا، بلکہ لوگوں کی کھڑی فصلوں کا تنکا تنکا بہہ جانے سے وہ سب کو فاقوں میں باندھ گیا۔جانور تو صرف چند لوگوں کے بچے،جواُس ہڑ کی منہ زوری کے وقت سب کچھ ہی بھول کر بچوں اور جانوروں کو ہی بچاتے چٹیل ٹیلے پر چڑھ گیے۔ اور اُ س کا بھٹہ۔۔؟

اُس کے شملے کو مائع سے اکڑاتے، سر اونچا کر کے غرور بھری چال بخشنے لگا تھا۔اُس بھٹے کی زمین بھی نشیب میں تھی، بھٹہ سیلاب میں ایسا خُرد بُرد ہوا کہ صرف ایک رہائشی کوٹھری بچی وہ بھی کیچڑ بھری،ٹوٹ پھوٹ کے ہاتھوں آدھی پانیوں کے شکم میں ہی غائب ہو گئی،اسی کوٹھڑی میں موسیٰ کے ماں باپ کو پناہ ملی۔اور اُس کے اندر پلتا، غلام پالنے کا احساس تو بیدار ہوا،مگر وہ وقت کے خونخوار دانتوں میں بھنچا خود اس وقت اک شکار تھا۔ بس وہ سارے جنون کا وِس اُس سمے گُوٹتا گھولتا رہ گیا۔ بھٹہ مالک دوجوں کو وقت پڑے پراسی عذاب میں قریب الدم دیکھ کر،اُن ہی کو لُوٹ لینے کے پیچواں راستے سے پیچھے نہیں ہٹا،وہ اپنی غربت کی برستی آگ کی تپش کو بھی بھول گیا،کہ سیلاب میں تباہ ہو جانے والے بھٹے نے تو اُسے ہاتھ میں کشکول پکڑا کر بڑے فوجی صاحب کے در پر بھیک کا سوالی بنا کر گِڑگڑانے کے لیے چھوڑ دیا تھا،اور وہ دربدر خانہ بسر،اپنے آپ سے لڑتا،کبھی ساہوکار کی حویلی لُوٹنے کے لیے آوارہ سورماؤں کا دستہ بنا کر پِل پڑنے کا نقشہ بناتا اور کبھی گورے صاحب کی چوکھٹ پکڑنے کے لیے ڈھے جاتا،اور کافی کشمکش کے دوران ہی اک ہیولہ سا اُس کی سوچوں کے بیچ سے پھوٹ پڑا، گورے صاحب کی چوکھٹ نے دھُتکارا نہیں بس پچکارا، اسی پچکار کا پلو تھامے وہ جا گِرا بوٹوں کی دھمک بیچ،بھیک کی پہلی صدا لگانے سے پہلے ہی،باہوں سے پکڑ کر سیدھاکھڑا کیا گیا، بھیک کے لیے اُٹھا کشکول بھر دیا گیا۔بھٹے کی تباہی اُسے مال و مال کر گئی۔ گوری فوجی سرکار نے اپنی ضرورت کے تحت اُسے بھٹے کے لیے زمین بھی دی اور معاشی طور پر اتنا نوازا کہ وہ سال بھرمیں دو بھٹوں کا مالک بن گیا۔مگر خون میں جد کی لوٹ مار کی خونخواری سرد نہ ہوئی، اپنی گزری لاچارگی اور بےچارگی کو اتنا گہرا دفن کیا کہ باقی جو کچھ اس کے دماغ میں بچا رہا وہ۔۔؟

وہ انتہا درجے کی،بے درد،سرتا پا بے حسی بخشتی درندگی تھی۔۔!

پچھواڑے کے گاؤں کی نصف آبادی دو تین سال میں موسی کے ماں باپ کی طرح پیٹ پر پٹی باندھ کر اپنی واہی بیجی کی زمینیں صاف کر کے مانگے تانگے کے ہل اور جانوروں سے زمین جوت کر سبزہ زار بنانے میں لگے رہے۔پیٹ روٹی تو جیسے تیسے چل پڑی مگر زمینوں کو رہن رکھ کر،لیے ہوئے قرضے میں پھنسی تقریباً پونی سے زیادہ آبادی۔۔؟

بھٹہ مالک اورساہوکاروں سے اپنی زمینیں واپس نہ چھڑا سکے۔ تباہ ہوا بھٹہ،دوجے بھٹوں کے لیے لکڑیوں کا گودام بن چُکا تھا۔ دوندل کا جدی مکان تو کب کا ساہوکار کی ملکیت بن چُکا تھا اور سفیدہ اب اُن کے کس کام کا۔۔!

جو تھوڑا بہت سامان تھا وہ راوی کے اُسی منہ زور سیلاب میں بہہ گیا۔ ایک چھوٹے کسان کا آنہ ٹکا جوڑ جوڑ کر بنائی گئی، گھریلو ضرورتوں کے نِک شُک کے علاوہ اور ہوتا ہی کیا ہے !جب وہ ہی نہ رہا تو پھر واویلا کرنے کا سبب بھی ہاتھ میں نہ رہ سکا۔سر پر اب چھت کیسی !تنی نیلی چھتری،سونے بیٹھنے کو بے بہائی مفت کی کھلی زمین۔ وہ کچھ عرصہ ایسے ہی کاٹ کر کوئی دوجا آسرا ضرور ڈھونڈ ہی لیتے مگر دوندل ایسے سمے میں بیوی کو ساتھ لیے لیے نہیں پھر سکتا تھا۔دونوں اک دوجے کے مشوروں سے بھٹہ مالک کے قدموں میں جا گرے۔ اور بڑی لجاجت اور گریہ زاری پر بھٹہ مالک نے ننگے آسمان کے گِرتے قہر سے آدھ گِری چھت والی کوٹھڑی میں جگہ دے دی۔رہنے بیٹھنے کے لیے آدھی چھت والی کوٹھری مِل تو گئی۔مگر آدھی گری چھت کا بقایا ڈھے جانے کے خوفناک الجھاؤسے خود بخود ہی سلجھاؤ بھی پھوٹ پڑا، کرم کرنے والے کی برکت سے ایک نیا زمین دوز مکمل تحفظ یوں نکل آیا،کہ نئے بھٹے پر دونوں کو مٹی گوندھتے اور پکائی کے لیے سانچے سے نکلی کچی اینٹوں کی پال بنانے کے بعد جو وقت بھی بچتا، وہ دونوں دل لگا کر کوٹھری کی صفائی میں جیِت جاتے،آخر آنے والے موسیٰ کے لیے جگہ تو صاف ستھری ہونی چاہیے،اسی صفائی اور کونوں کھدروں کوکھُرچتے  کھرچاتے اک دیوار کی بغل میں اونچائی پر اک گندے طاق کو صاف کرتے جھٹکا لگا،اک چھُپا ہوا ہینڈل نمودار ہو گیا،اُسے دیوار سے نکالنے کے لیے دوندل نے پورا زور لگا کر کھینچا تو دیوار نے اپنا شکم کھول دیا۔دیوار میں اک پوشیدہ دروازہ اور نیچے اُترتے زینے،نیچے اچھا خاصہ بڑا،زیرِ زمین،پرانے رہائشی مکان کے نیچے اک خفیہ تہہ خانہ، وہ بھی ایسا ہتھے لگا کہ جس کی مالک کو بھی خبر نہ تھی۔گاؤں کے دارے میں گھومتی چُہل بازی اور پرانے قصوں میں یہ رنگ بھی بکھرا ہوا تھا کہ بھٹے کے مالک کے دادا پڑ دادا نامی گرامی ڈاکو تھے اور سرکار سے آئے دن ٹکر لیتے رہتے،لُوٹ میں جو مال ہتھے چڑھتا وہ بول بانٹ کے بعد بقیہ بچت زیر زمینی خفیہ تہہ خانے کے شِکم میں پوشیدہ اُتار ڈالتے۔گروہ کے علاوہ کسی کو اُس کی ہوا تک نہ لگتی۔گروہ کی تلاش میں سرگرداں دو سرکاری دستوں کی جھپٹ میں گروہ کے دو ایک ساتھیوں کے علاوہ کوئی نہ باقی بچا،سب نے بڑی جگر دوزی سے مقابلے میں اپنی اپنی موت کو چوم لیا۔ بس اُس کے بعد تہہ خانے اور اُس میں پڑے خزانے کی سُو میں کافی لوگوں نے تگ و دو بھی کی،مگر۔۔؟

بسیار تلاش کے باوجود کسی کھوجی کے بھی ہتھے اُس ہتھی کا نشان نہ لگ سکا۔ تہہ خانے سے موسیٰ کے ما ں باپ کے ہاتھ ایک چھدام بھی نہ لگ سکا،دوندل کا خیال تھا کہ وہ ڈاکوؤں کے بچے کھُچے ساتھی ہی نکال کر لے گئے،اب اُس تہہ خانے میں کیا رکھا تھا،سوائے کاٹھ کباڑ کے،جو میاں بیوی کی نظر میں مال غنیمت سے کم نہیں تھا،جس کا سب کچھ ہی لُٹ گیا ہو، وہ کاٹھ کباڑ بھی ضرورتوں کے لیے نِک شُک،اور اسی کے بل بوتے کسی ڈھارے پر،ہتھ پُرانے کھسوسڑے بسنتے ہوروں کی ذاتی کوٹھری بنانے کا آسرا بن جاتا ہے۔بھٹہ مالک کے جوان ہونے پر اُسے بھی مال و دولت کی جہان بانی کا قصہ ترشح کرتے،اُسے اشرفیوں کی لالچ میں نہلاتے، ساہوکاروں کے مال و دولت کے قصوں سے چٹخارہ چٹاتے تلاش کی دعوتیں بھی دی گئیں۔ مگر اُس نے ایک کان سے سُنی اور دوجے سے نکال دی۔وہ تو حاضر گھوڑے پر زین کَسنے کو تیار بیٹھا رہتا، مگر خواب میں سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر کوڑے کی مزید ایک اور ضرب سے ہی چند ثانیوں میں دوگنی رفتار،اور وہ گھوڑے پر سوار، دوجے ساتھیوں کی لالچ کی پھینکی گئی کوڑیوں کی جانب نگاہ ڈالے بنا نظروں سے اوجھل۔

موسیٰ عمر کے چوتھے سال کے وسط سے ماں کا مٹی گوندھنے میں ہاتھ بٹانے لگا۔ پھر مٹی گوندھتے، سانچے نکالتے آٹھویں سال کے شروع سے ہی محنت اور اُٹھتی نو عمری کے ممیرے نے آنکھوں کی چمک دو بالا کر دی۔ ہاتھ پیرکی بڑھوتی نے اس کی عمر کو معدوم کر ڈالا۔اُن ہی دنوں، اماوس کی ایک رات میں ہڑ بونگ مچ گئی۔آوے کی بیرونی گرتی دیوار میں گورا صاحب کی بگی کا پہیہ پھنس گیا،وہ دونوں ہڑبڑا کر اُٹھے اور نیم خوابیدہ موسیٰ کو بستر پر ہی چھوڑ کر گھوڑوں کی ہنہناہٹ کی جانب لپکے،موسیٰ بھی ہڑبڑا اُن کے پیچھے دوڑ پڑا۔

قریب پہنچنے پر بگی کو نکالنے کی سعی کرتے ہاتھ رک گئے۔سائیس، بچوں کی آیا، میم صاحب کے ساتھ کوئی اور جوان لڑکی،جو شاید دونوں میں سے کسی ایک کی بہن تھی اور بذات خود گورا صاحب،اُن تینوں کے دوڑتے قدموں کی چاپ سنتے ہی وہ یک دم بگی کے آگے پیچھے چھپنے لگے۔ گورا صاحب لپکتا ہوا آیا اور دوندل اور اُس کی بیوی کے قدموں میں گِر کر گِڑگڑانے لگا۔

مین۔۔!

ہمیں بچا لو، تمھیں اپنے ماننے والے خدا رسول، رام سیتا اور جِیززکا واسطہ، بچا لو۔۔

ہمیں بچا لو۔۔

جنایت کاروں کا مرڈرر غنڈہ لوگ،ہمارے پیچھے لگا ہوا ہے۔۔

مین !

ہم تمھیں انعام دلائے گا برٹش سرکار سے !

ہم کو بچا لو، وہ کسی وقت بھی۔۔

ابھی اُس کے ہونٹوں کی تھرتھراہٹ نے جملہ مکمل نہیں کیا تھا کہ دور سے روشن مشعلیں لیے درندگی سے اَٹے شور مچاتے انبوہ کی غضبناک غراہٹیں اُن کے کانوں پر جھپٹ کر اندر چیرتی اُتریں تو گورے صاحب کے ہم جولی،اُسے پکارتے بھاگنے لگے۔ موسیٰ کے باپ دوندل نے فوری انہیں آوازیں دے کر روکا۔

تم لوگ چاہے جتنا بھی تیزی سے بھاگو گے، وہ تمھیں پکڑ ہی لیں گے،جلدی کرو ہمارے چوکیدار بھی جاگ جائیں،پہلے اس بگی کا پہیہ نکالو۔سب نے مل کر زور لگایا تو بگّی نکل آئی،سائیس نے بگی پر چڑھ کر اپنی نشست پر بیٹھتے ہی،گھوڑوں کی لگامیں کھنچیں،صاحب کی سُنی ان سُنی کرتے، چھاونی سے کمک آنے تک وہیں چھُپے رہنے کی تاکید کی تو دوندل نے بغیر کسی تاخیر کے بیوی کو ان سب کو تہہ خانے میں اُتارنے کا اشارہ دیا۔ موسیٰ کی ماں تہہ خانے میں انہیں موسیٰ سمیت اُتار کر،بلا آواز پڑے رہنے کی ہدایات دیتے،نجانے کیا سوچ بچار کرتی پلٹی۔ گھوڑوں پر چابک برسنے کی آوازوں کے ساتھ ہی،سائیس کی دوجی ضرب سے گھوڑے، بگّی سمیت بگٹٹ بھاگ نکلے، مگر بھٹے کا عصا بردار چوکیدار،نیند سے اپنا آپا چھڑاتا، آنکھیں ملتا،خبردار، ہوشیار کی آوازیں بلند کرتا،بگّی کے موہوم تاریکی کو سمیٹتے،بکھیرتے تیزی سے دور ہوتے ہیولے کو تکتے، اُن کی طرف لپکا۔۔

خبر دار خبردار کی آوازوں سنگ اُبلتا تحکمی استفساری لہجہ۔۔!

کون تھے۔۔؟

یہ سارا شور غوغا کیا ہے۔۔؟؟

لیکن جب تک آنے والوں نے بگّی کے تقریباً معدوم ہوتے اُبھرتے ہیولیٰ کو تکتے اُن تینوں کا گھراؤ کر لیا۔بھٹے کے چوکیدار کو اُس لمحے تک کچھ بھی پتہ نہ چلا اور نہ ہی آنے والوں کی سوالیہ غراہٹوں سے معاملے کی تہہ سے کوئی لُوٹی گئی گِنّی ہاتھ لگی، مگر گھیراؤ کرتے ہجوم کی جھنجھلائی باتوں کی درزوں سے تھوڑی بہت ہوشیاری ٹپک پڑی،اور اُسے اپنی جان بھی پھنستی محسوس ہوئی تو وہ یک دم چِلّا اُٹھا۔

ان دونوں کو ان کی کوٹھری میں لے جا کر پوچھ گچھ کرو۔۔

اُن کے تعاقب میں کوٹھری کی جانب اُٹھتے قدموں سے بنتے دائرے نے اندر گھُستے ہی اُن تینوں کو بیچ میں کھینچ لیا،اور ساتھ ہی کئی ایک نے تلواریں نکال لیں۔سوالوں کا گولہ اُن کے سروں پر پھٹنے سے پہلے ہی چوکیدار فوراََ بلبلا اُٹھا۔۔

میں بھٹوں کا چوکیدار ہوں م م میر۔۔!

میرا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں،میں تو چوکیدار ہوں بھٹوں کا، پچھلے دونوں بھٹوں کا چکر لگا کر لوٹا ہوں۔اصل مجرم تو یہ ہیں، انہوں نے ہی گوروں کو بیرکوں کی جانب فرار کروایا ہو گا۔مجھے تو بالکل بھی کچھ پتا نہیں،یہ دونوں مجرم،سازشی گوروں کے ساتھ مِلے ہوئے ہو سکتے ہیں۔

پُوچھ گچھ کی گھڑی میں اٹکتی لرزیدہ آوازیں، مبہم سے جوابوں نے گھراؤ کرنے والوں کو بھڑکا دیا، ترکھے نوجوان کماندار نے تلوار کھینچی اور اندھے سوال جواب کی لڑکھڑاہٹ بھول بھلیوں میں خود جا چھُپی تو۔۔؟

اس نے اس الجھاؤ کو ختم کرنے کے لیے دونوں کا جھٹکا۔۔؟

پلک جھپک میں ایک ہی وار سے دونوں کی گردنیں کَٹ گئیں۔۔

اُن کو تلاش کرنے کی بجائے، ان خنگ بھیک منگوں کی فضول باتوں میں کیوں وقت کھوٹی کریں،چلو،سب نکلو۔۔!

ہلکی سی چیخ نما سسکاری دونوں میں سے کسی کے ہونٹوں سے پھوٹی اور اُن سب کے بھاگتے دور ہوتے قدموں کی ہڑبونگ میں نیچے کے پناہ گیر اک دوجے سے چمٹے، منہ پر تالہ لگائے، اوپر سے آتی موہوم آوازوں پر کان لگائے رہے،اور چراغ کی مدھم لو میں پہلے تو موسیٰ پنجرے میں اسیر شیر کی طرح جھنجھلایا ادھر اُدھر قدم مارتا پھرتا رہا، لیکن دور ہوتے قدموں میں وہ تلملاتے ایکا ایکی رُکا اور پھر زینوں کی طرف لپکا، مگر پاؤں ایسا رپٹا کہ آخری سیڑھی سے وہ لڑکھڑاتا،بارہ فُٹ نیچے پکے فرش پر اُلٹے کندھے اور گردن کے بل آ گرا،چوٹ ایسی شدید تھی کہ وہ زور سے چیختے بے ہوش ہو گیا۔

بھٹے سے نکل کر اینٹوں سے لدی کرانچیوں کی قطاریں پکی سڑک پر چڑھیں اور رُخ موسیٰ کے زیر تعمیر تین تین مرلہ کے چھوٹے چھوٹے رہائشی مکانوں کی جانب، کرانچیوں کی رفتار، وہی گلے میں پڑے ٹَل بجاتے جھومتے بیلوں کی جوڑی کی سی،تیز رفتاری تو۔۔ ؟

مگر۔۔!

یہ آج کی تازہ نسل کو کیا خبر کہ اینٹوں سے لدی کرانچی کیا ہوتی ہے۔ ان سب نے تو اینٹوں سے لدے ٹرک ٹرالیاں دیکھی ہیں۔

دور نزدیک بھٹوں سے آتی اینٹوں سے بھری کرانچیاں باباموسیٰ جو اُس وقت جوانی کی دہلیز چھونے کے قریب پہنچا تھا کہ مشن اور میم صاحبہ نے چھوٹے مکانوں کی تعمیر اور اُس کا اپنا مکان بنتے ہوئے نظر رکھنے کی ساری فہم اُس کے اندر اُتار ڈالی،جب بھی وہ چرچ سے دلہن کے ساتھ نکلتا،تو وہ دلہن کو لیے لیے کہاں پھرتا،وہ اسی تکمیل شدھ دو منزلہ مکان ہی میں پہلا قدم رکھتی، اور چھوٹے چھوٹے مکانات گرمی سردی میں گھر کے اخراجات کے لیے، کرائے سے آتی لگی بندھی رقوم۔ کسی چیز کی کمی کا احساس دل میں کیسے جاگزیں ہوسکے گا۔بس اُسی لمحے وہ تعمیرات کے محلِ وقوع پر موجود۔سورج کی تپش سے بچاؤ کے لیے ایک بڑی چھتری کے نیچے! اور اس کی ایک نظرسڑک پر آتی کرانچیوں کی اینٹوں سے لدی قطاروں کے ساتھ سڑک کنارے کی ڈھلوان سے اُتر کر گلی کی نکڑ سے ہوتے،تعمیر ہونے والے گھروں کے باہر،اینٹیں اُترتے اور ردّے جُڑتے،اور تپتی دھوپ میں چھاتے کے زیر سایہ کھڑے اینٹوں سے زقند بھرتیں،اور روز موز کے مزدوروں،

کاری گروں سے ہوتیں گھروں کی بلند ہوتی دیواروں کے اوپر چڑھ کر واپس چھلانگ لگاتی،اور گھریلو ملازم رحمت خاں پر لپکتیں جو اینٹوں کی لگتی پالوں کو گنتے،منشی کو اینٹوں کی تفصیل لکھوا رہا تھا۔ یہ اُس زمان کی بات ہے جب پنجاب کے مقبوضہ بن جانے کے بعد نہروں کی کھدائی شروع ہوئی اور جا بہ جا مختلف شہروں میں چھاونیوں کے پڑاؤ کو مستقل کرنے کے لیے بیرکس بننے لگیں عمر کے مختلف زمان کی تصاویر بڑی ہی صاف،بابا موسیٰ کی آنکھوں میں تیرتے ہچکولے کھاتے،جھلملاتے آنسوؤں سے ڈھانپے پردے پر رقصاں اور۔ یاد داشتوں کی ایک ایک حرکات وسکنات کے کھلے تھان کے تھان لپٹتے اور چاہت اور آرزوؤں اور منہ زور خواہشوں میں پھر سے کھُلتے۔۔!

موجودہ میاں میر ریلوے پھاٹک کے پار کیولری کا علاقہ پنجاب کے مقبوضہ بن جانے کے فوری بعد چھولداریوں کی چھاونی میں تبدیل کر دیا گیا اور چھولداریوں کا جنگل مجروح زمین نے کلّر کی کڑواہٹ نمک میں سفید ہوتے،ہوا میں پھیلی تعمیراتی بدبو متلی میں پیچ و تاب کھاتے جو کچھ اُگلی تھی وہ تعمیراتی بُو میں تلخی گھولتے،موسم کی شدت سے پناہ لینے کے لیے کیولری میں بیرکس کی تعمیر کے لیے نزدیک اور دور اینٹوں کے بھٹے اینٹیں اگلنے لگے،جو انگریزی سرکار کے مراعات یافتہ جوتے چاٹ بدقماش چہیتوں کے نام لکھے گئے،اور سرکاری گود میں آسودگی کا دودھ چُسرتے چھوٹے بڑے ٹھیکیداروں نے پورے زور شور سے تعمیر ہوتی بیرکس اور بے حسابی سے بٹورا جاتا مال۔؟یہ جو موجودہ میاں میر کا پُل ہے نا،اس جگہ ریلوے کا ٹریک بچھا،بچھانے والے ماہرِ تعمیرات نے قرب و دور کی تمام خستہ حال عمارات کو مسمار کرتے اس ٹریک کے نیچے اینٹوں کا ہی ملبہ بچھایا تھا،اسی جگہ پہلے ریلوے پھاٹک بنایا گیاجو ٹرینوں کی آمدو رفت کے وقت بند کر دیا جاتا اور دونوں طرف تانگوں بگیوں،بیل گاڑیوں،بوجھ لدے گدھوں،اونٹوں اور خچر گاڑیوں اور گھڑ سواروں کے علاوہ پیدل پینڈا مارنے والوں کے علاوہ گائے بھینسوں،اور بکریوں دنبوں کا انبوہ۔۔

بھورے بھائی کمال الدین سوڈا واٹر والے کے بند شو روم کے آگے،بندوق والے کا اونچا چبوترہ،اس تکونی فٹ پاتھ پر جمی چوسر کی بازی،اس چوکڑی کو دیکھنے کی خواہش اتنی زور آور کہ پھنکارتی،لپکتی،سینگ جھکائے،راہ میں سَد اُسارنے والی تمام مجبوریوں کا شکم چاک کرنے کو بیتاب، جو اندر کے کھولتے لاوے سے سینہ خالی کرنے کی تمنا،دوجے کے کانوں میں ٹہلتے ہوئے باتیں انڈیلنا تو کھولتے لاوے کے باہر نکالنے کی راہ بنانے کے مترادف،مگر منمناتی آواز میں تمناؤں کا اظہار تو بدن پر چھاتی سُستی کاہلی دور کرنے کی لٹک چھٹک میں ٹانگیں سیدھی کرنا اک بہانا تھا۔ باباموسیٰ اپنے ملازم رحمت خان کے سنگ مسلمان کرائے داروں کے لیے محلے میں اپنی ہی تعمیر کردہ مسجد سے عشاء کی نماز ختم ہونے پر اُس کے لگے کانوں میں پڑتی بھنک سے ہی ٹانگیں سیدھی کرنے کے بول بچن کے نام چڑھاوا چڑھاتے، اپنی آبنوسی،سانپ بل کھاتی چھڑی کی آہنی نوک کو ہر دوجے قدم پر پہلے دباؤ سے اُٹھا کر داہنے پاؤں کے پنجے سے کوئی چھ گرہ آگے پختہ سڑک پر رکھ کر سارے کانگڑی کھنگر وجود کاسہج دباتا بوجھ ڈالتے جھولتے ہوئے، داہنا ہاتھ جو رحموں کے کمند ہاتھ میں نہایت غیر محسوس گرفت میں جکڑا کھنچتے ہوئے وہ پختہ سڑک پر اُترتا،لیکن رحموں کی آس پاس کی نظارگی میں پھنستی آنکھوں کی بدولت،اُس کی بھٹکتی سوچ سے جنبش میں اکڑاؤ اُبھرتا تو وہ زور سے چلا اُٹھتا،اوئے کھوتے دے پُترا،تیرے تے کوئی چَھٹ تے نہیں لدی، تو وہ سنبھل کر مختلف باتوں میں ملفوف خبر وں کی الجھی ڈور سُلجھاتے، اُس کے آٹھوں پہر باتوں کے پیاس سے جلتے کانوں کی لپک سے پھر پیچ ڈال دیتا،اور چوک کی اوٹ میں شیو جی کے مندر کے باہر بیٹھے گامش کی طرف نگاہ اٹھتے ہی سیڑھیوں پر بھجن گاتی ٹولی کی تال سنگ اُٹھتے قدموں سے تال ملاتے،بھجن گنگناتے، رحموں دیکھ کچھ شرم کر یہ ٹولی وقت بے وقت اپنے گلیارے میں ہُن برسانے کی خواہش دابے بیٹھے ہیں،اور اک تُو ہے جِسے چرچ نے پال پوس کر بڑا کیا،تیری شادی کی،اور میرے جیسے مالک کے پلے باندھا۔ مگر، تُو۔!

تو اُس کا سوالیہ تمسخر جاگ اُٹھتا۔۔؟

تو پھر بابا آپ۔۔؟؟

اوئے کھوتے دے کھُرا،میرا کیا ہے۔۔!

میں مہینے پندرہ دن کے بعد اتوار کی سروس میں بھی شامل ہو جاتا ہوں،دراصل۔۔؟

چرچ والوں سے تو رشتہ ہی ٹوٹ چکا ہے،جب سے اُسے امریکا۔۔!

اور پھر اک لمبی چُپ اور دھیرج سے اُٹھتے قدم۔۔

اور خان بابا کبابیے پر نظر پڑتے ہی اپنے آپ کو الجھاؤ سے کھینچتے تیز تیز بڑھنے کی کوشش کرنے لگتا،مگر رفتار تو اُس کی وہی تھی،وہ اُس کی طرف بڑھنے لگتا،تاکہ فرائی تکوں اور کبابوں کا رات کی شکم سیری کے لیے آڈر دے ڈالے،تاکہ بنوانے میں جو بھی وقت لگے، وہ چوسر بازی کی چال کے لیے چال والے کے گرتے دانوں کی گنتی پر فقرے مار سکے۔اُس روز بھی وہ حسبِ معمول اسی سبب سے نکلا،مگر صدر بازار چوک پر شیوا جی مندر کی سیڑھیوں سے بھجن کی تال ملاتے جیسے ہی مُڑا اُس کی ٹانگیں ٹھٹک کر رُک گئیں،خان بابا کبابیے کے روبرو، سڑک کے کنارے بنی سرخ اینٹوں والی فٹ پاتھ پر لوگوں کا بھنبھناتا، آہستہ آہستہ رام،استغفار پڑھتا،کراس کھینچتا انبوہ کانوں میں اُترتا اور آنکھوں میں مصوری رنگ روپ سنگ اُتر کر اُسے غم و اندوہ سے حلق تک بھر گیا۔اور چند ہی ثانیوں میں بھٹکتی متلاشی سوالوں سے لدی پھندی آنکھیں لوٹیں،یہ جمگھٹاکیسا ہے۔؟سوال کی چھمک پڑتے ہی وہ بے تابی میں بیدار،ٹھٹکے، رُکے قدموں تک چلنے کا اشارہ بجلی کی رو میں پیر گیا،رحموں تو اس کے اشارے کا منتظر تھا۔موسیٰ بابا کی ایک کڑک سے ہجوم پھٹا اور اینٹوں کے فٹ پاتھ پر اک بے سُدہ نوجوان پڑا تھا،بابا یہ تو وہی ہے جو چوبارے کے ایک کمرے میں تین چار دن پہلے آبسا ہے ! ہاں ہاں دیکھو جیتا ہے یا ؟ نبض اور رگوں کو ٹٹولتے ہی وہ چِلایا،بابا یہ جیتا ہے،مگر ہے تو بے ہوش، مگر نبض کی رفتار بڑی ہی کمزور ہے،اوئے تو پھر اس پر پانی کے چھینٹے مار،ہاتھ پاؤں کی تلیاں ملو،اور دو چار نوجوانوں کی سعی سے وہ اُٹھ بیٹھا،پانی کا ایک پور ا گلاس چڑھانے کے بعد وہ سب کا شکریہ ادا کرتے اُٹھا تو کبابوں کی خوشبو اُس سے لِپٹ گئی، اُس کا پورا وجود گھوما،اور آنکھیں خان بابا کے کبابوں پرجا بیٹھیں،اس نے دہن بھرے پانی کو حلق میں اُتارا، اور جانا ہی چاہتا تھا بابا نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اُسے ٹھہرایا۔اور خان کبابیے نے چار کباب اور ایک نان لپیٹ کر اُس کی طرف بڑھا دیا۔لیکن وہ بِلبلا اُٹھا نہیں نہیں میں اس کی قیمت نہیں چُکا سکتا،اور بابا نے وہ بندھا ہوا نان کباب کھولا اور پلیٹ میں رکھ کر اُسے کھانے کی طرف متوجہ کیا تو ا س کی بھرائی ہوئی،ملتجی آواز میں کراہتی لہریے لیتی ہوا میں ڈولتی کٹی پتنگ۔۔؟

بابا میں ان کی قیمت دینے سے معذور ہوں۔۔

مگر نظریں پلیٹ میں جمی، نان کباب کی خوشبو سے بوجھل،اوپر نہ اُٹھ سکیں۔۔

بابا۔۔!

وظیفے کے پیسے دوچار دن میں آ جائیں گے تو یہ سب کچھ مجھ پر حلال ہو گا۔۔!

وہ بات کے خاتمے سے پہلے ہی تہہ تک جا پہنچا،اُس نے کھال میں مَڑا ہڈیوں بھرا ہاتھ اُس کے سر پر پھیرا، بابا بھی کہتے ہو اور قیمت کی بات کرتے ہو،کھاؤ اور پیٹ بھر کر کھاؤ، تمھارا بابا ابھی زندہ ہے، آنسوؤں کی لڑی پروتے،کباب اور نان ختم ہونے کے قریب ہی تھے کہ موسیٰ بابا کی اپنی آنکھیں اُس کی بھوک کی گرج چمک سے آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ اُن میں ایک آٹھ نو سالہ بچے کا دو دن کا بھوکا پیاسالرزتاخونخوارہیولہ،کباب کو دیکھتے،شکار پر لپکتا بھیڑیا،خان بابا کے باپ کے روبرو نان کباب کے لیے بلبلاتا چیختا،خان بابا کی گالیوں بھری دھُتکار میں،بھوک سے مجبور جب اُترے کبابوں کی گاہکوں طرف جاتی پلیٹ میں سے اُس نے جھپٹ کر ایک کباب مٹھی میں بھنچ کر گرم گرم ہی منہ میں ڈال لیا تو اسی کبابی خان کے باپ نے اپنے ٹھیے سے اُتر کراُسے اپنے بھاری بھرکم ہاتھ سے ایک ایسا تھپڑ مارا کہ وہ چکرا کر گر پڑا،کبابیئے نے اُسے بالوں سے پکڑ کر اُٹھایا اور مارنے کے لیے دوسرا تھپڑ اُٹھایا ہی تھا کہ اُس کا گھومتا بازو کلائی سے پکڑا گیا،کیوں بچے کو مارتا ؟ صاحب یہ چور ہے، پیسے کے بغیر کباب مانگتا ہے، نہیں دیا تو چوری کر کے بھاگ رہا تھا۔اتنے میں وہ بچہ کباب حلق سے اُتار چُکا تھا،اسی گورا صاحب نے لہریے لیتے ہیولہ بچے سے پوچھا،کباب اور مانگتا ؟،اور جیسے ہی اُس نے اثبات میں سر ہلایا تو چار کباب سیخ سے اُتر کراُس کے سامنے رکھی پلیٹ میں نان سمیت اُتر آئے، جب شکم سِیر ہو چکا تو پیسے ادا کرنے کے بعد وہ اُسے بازو سے پکڑ کر پردہ پڑی ٹم ٹم کے پاس لایا،پردہ اُٹھا کر پوچھا کہ کیا یہ وہی بچہ ہے۔؟

موسیٰ لانے والے گورے کو تو نہیں پہچان پایا،نا ہی یہ آواز ہسپتال جاتے وقت کی بے سُدھ ہوتے کانوں میں پڑی آواز سے مشابہت رکھتی تھی،مگر اُن تینوں کو دیکھتے ہی دل کی کلی کھِل گئی ششدر آنکھوں سے تینوں کی پہچان اندر اُتر کر اُس سے لِپٹ گئی،اور آیا کا تمتماتا چہرہ تہہ خانے کا جوش مارتا پیار اُسے شرابور کرنے کو بیتاب، مگر وہ سارے جذبہ کو اندر ہی سمیٹے چُپکا رہا،کہ پہچان کی کرن اُن کو جگا گئی تو نجانے یہ پہچان اک نئے عذاب کاکیسادردناک دروازہ کھول دے۔بند پر ہونے والا تشدد اُس کے اندر سے پہچان اور محبت کے تمام تر رس کو نچوڑ کر نفرت میں حلول کر چُکا تھا۔فیصلہ تواُسے بس’ اک چُپ سو سُکھ‘ کے کھُونٹے کے ٹھور ٹھکانے پر باندھ گیا۔

گورے کا سوال نامہ پھر سے کھُل گیا۔

بتاؤ نا،کیا یہ وہی بچہ ہے۔؟

تو میم صاحب نے سر اثبات میں ہلاتے آیا کی طرف چہرہ گھماتے پوچھا۔۔

ہم کو لگتا، وہی، سَیم چائلڈ،تم کیا بولتا بائی۔۔؟

ہاں میم صاحب بچہ تو وہی ہے،بالکل اپنی ماں کی تصویر!

بس تو پھر گرفتار مٹی کھودنے والوں کے ڈونکی کنٹریکٹر سردارسے بھی شناخت پوچھنا مانگتا۔

یک دم آیا کوموسیٰ اپنے ہاتھوں کی مضبوط جمی گرفت سے کھسکتا ہوا محسوس ہوا، اُس نے تو جھپٹ کر کلائی دبوچی تھی مگر وہ بھی مٹھی سے نکلتی، چھُٹتی، کھِسکتی ریت لگی، بچے کے لیے اُمنڈے پیار پر باغی آ پڑے،وہ بے بس روہانسا بِلبلا اُٹھی۔۔

نہیں نہیں میم صاحب! وہ کیوں شناخت کرے گا۔آج تک تو شکنجے تلے مان کر نہیں دیا کہ نا صرف یہ بچہ،دیگر مختلف مغویہ بچوں کے ساتھ نہر کی کھدائی سے نکلی مٹی بھرے بوروں سے لدے گدھے بند تک لے جاتے،اور پھر خالی گدھوں سمیت کھدی نہر پر واپسی۔۔؟

میم صاحب،آپ بھی تو اڑھائی سال تک اسی بچے کے لیے کتنی آزردہ رہیں ہیں۔پھر آپ نے بھی تو میرے ساتھ،بچے کی تلاش میں وہ جگہ دیکھی ہے،آپ تو دہشت سے کانپ اُٹھی تھیں۔وہ تو اتفاق سے ایکسین کے پٹہ دار نے اپنے بچے کو پہچان لیا۔ گرفتاریوں کے وقت اس سمیت کئی ایک بچے نجانے کیا سمجھ کر نکل بھاگے۔۔

موسیٰ کی پہچان تو اس کے الٹے کندھے کا نشان ہے۔۔

یاد نہیں لکڑیوں کے گودام کے پیچھے تہ خانے کی سیڑھیاں تیزی سے چڑھتے ہوئے،نجانے کیسے لڑھک کر نیچے آ گرا  تھا اور کندھے کا زخم کوئی دوائی نہ ہونے کی بدولت اُپلہ جلا کر ہلکی سی کُن کُنی گرم راکھ اُس کے زخم پر میں نے ہی تو باندھی تھی،میم صاحب آپ کو یاد ہے نہ،راکھ باندھتے ہی کتنا تڑپ تڑپ کر اُچھلا تھا،اوپر جنایت کاروں کے متلاشی شور غوغے،اس کے ماں باپ سے ہم لوگوں کے متعلق پوچھ گچھ کرتے، اذیتیں دیتے، قتل کر دیا تھا،اور عین اُسی وقت وہ سارے ہڑبرنگ مچاتے، کھڑ بڑاتے دھمکاتے پیروں کی ملی جلی آوازوں سے ڈراتے سِٹک لیے،اُس وقت تک میں نے اس کے منہ کو دبائے رکھا تھا۔ اور پھر ہم کتنے دن بلا آواز نکالے،تہہ خانے میں ان کی ہی جمع کی ہوئی،بھُنی ہوئی مکئی گڑ اور پانی پر گزارہ کرتے رہے،اور اس نے جب بے ہوشی سے ہوش وحواس میں قدم رکھا،تو بھی زخم کی جان لیوا ٹیسوں سے کلبلاتا رہا۔۔

باغیوں کی منہ زوری اور نفرت کا یہ عالم تھا کہ کیولری اور قلعے کی برطانوی فوج کو اک دوجے سے کافی مدت تک کاٹے رکھا،اور اسی سبب سے لاہور نہر بننے کا ایک تاریخی ورق لکھا گیا جو شاید واسا کے فائلنگ سٹورکی کسی الماری میں ایک قدیمی فائل جو”سینی ٹیشن اینڈ واٹر سپلائی سسٹم آف لاہور “ کے نام سے پرانے پلندوں میں موجود ہونی چاہیے،بشرطے وہ خستہ حال پلندے اب بھی محفوظ ہوں۔اس میں ہے کہ غیر منظم باغیوں نے ایک مدت تک کیولری کی برطانوی فوج جو قلعے میں خزانے ایمونیشن کی حفاظت کے لیے موجود برطانوی فوج سے تعداد میں نصف تھی،جب اک دوجے کی کُمک کے لیے راستہ مکمل رک گیا تو کیولری کمانڈر نے اپنے نقصان کی پرواہ نہ کرتے بڑے کیلکولیٹڈحساب سے راوی کا اِس سمت کا ایک قدیمی حفاظتی بند توڑ ڈالا اور راوی کا وہ غیر معمولی بہاؤ باغیوں کو بہا کر لے گیا اور پھر خفیہ دید بانی کے لیے نہر بنا دی گئی۔اسی واقع سے ایک میدانی جنگ نمائی اور ٹیکٹکس کے تاریخی ورق سے ایک بڑے بھرپور جملے نے بیشمار اور بے مثال جنگ نامے کَھول دیے۔کہ جری اور صاحبِ فہم جرنیل کمزور فوج کو بھی لڑا دیتا ہے اور بزدل اور راج ہنسوں کا پخ پخ کرتا جھپٹتا،غراتا مغرور جرنیل طاقتور فوج کو بھی ہروا دیتا ہے۔دکھ تو یہ ہے کہ اٹھارا سو ستاون میں کو ئی صاحب فہم اور آرگنائزر لیڈر باغیوں کو میسر نہ آسکا۔ورنہ مُٹھی بھر برطانوی فوج کی کیا حیثیت تھی،ساری نفری تو لالچ اور چُرلو پھیرتی مکارانہ چالبازی کے بل بوتے مقامی گماشتے اور جانیں قُربان کرنے کو مقامی سپاہ۔اور ایسی ہی مثال یو ایس ایس آر کی بھی ہے،مکمل ماسکو اور پیڑز گراڈ تباہ ہو چکے تھے اور لیکن سٹالن کی قابلیت کے بل بوتے ہٹلر کا غرور مٹی میں ایسا مِلا کہ اُسے خود کشی پر مجبور کر دیا،ورنہ کہنے والی بات ہے ڈھائی کروڑ مخلوق اور فوج قُربان ہو چکی تھی۔مگر ہٹلر کے ہاتھوں بے بس اتحادیوں نے پراپیگینڈے کے بل اس فتح کو اپنے نام لکھ لیا۔۔

اِسی اٹھارہ سو ستاون زمانے کی کتھاؤں میں سے اک کتھا۔۔؟

صاحب اور میم اور اُن کی چھوٹی بہن کی آنکھوں کے پردہ سکرین پر جان پر بنی وحشت ناکی بیک وقت اُتر آئی، خوفناک مناظر یکے بعد دیگرے کچوکے دیتے گزرتے چلے گئے۔اور جب چھاونی کا دوبارہ کنڑول ہو گیا تواُسی سمے ایک دن اوپر سائیس کے ساتھ چند فوجی بوٹوں کی دھمک کے ساتھ سائیس سے انگریزی میں سوا ل جواب سنتے ہی صاحب ہڑبڑا کر سیڑھیا ں چڑھا،اوپر کی ناب سے دروازہ شق ہوا تو دونوں لاشوں سے اُٹھتے تعفن کی بدولت اُس نے ناک پر میلا کُچیلا رومال رکھا مگر آنکھیں تیز روشنی کی جھلملاہٹ سے دو ایک دقیقے نہ کھُل سکیں اور جب حواسوں میں پلٹتے آنکھیں ملتے ہوئے کھولیں تو روبرو سٹیشن کمانڈر۔وہ اُسے زندہ دیکھتے،حواس باختہ،کھلی باہوں سے لپک کر اُسے اپنے شکنجے میں جکڑتے باقیوں کاسوال کرتے ہی اُس کے اشارے پر مشعلیں روشن کرتے، نیچے اُتر گئے اور چند ہی لمحوں کے بعد ایک نوجوان گورا فوجی بے سُدھ زخمی لڑکے کو کندھے پر ڈالے نمودار ہوا اور اُس کے پیچھے آیا سمیت تین عورتوں کی بے رنگ اُجاڑ صورتوں کی ٹولی۔

لڑکے کے متعلق جب سوال سے اُس کے پروٹیکٹر ہونے کا جوا ب ملا توسٹریچر اُٹھائے ہسپتال کے دو اردلی لپکتے ہوئے لے جانے کے لیے آ پہنچے، گورا صاحب اپنی تمکنت بھری آواز میں بیدار ہو گیا۔

”دی بوائے شُڈ بی ٹریٹڈ ویری ویل ایز مائی فیملی اینڈ رپورٹ ٹو می“۔

موسیٰ کے نیم سُدھ کانوں نے اُس کی آخری آواز سُنی اور پھر وہ خصوصی توجہ کی بدولت صحت مند تو جلد ہی ہو گیا مگرہسپتال سے ڈسچار ج ہونے میں تین چار ایام کا وقفہ حائل ہو گیا۔تھیراپِسٹ کی ہدایت کے مطابق ہسپتال کے لان میں ٹہلتے ہوئے زور زور سے بازو گھُماتے، آگے پیچھے ہلانے کی ورزش کرتے چہل قدمی کر رہا تھا کہ مغرب کا ملگجا اندھیراآہستہ آہستہ گرد و نواح پر اُتر تا محسوس ہونے لگا۔ وہ ہسپتال کے برآمدے کی سیڑھیوں کی جانب گھوما ہی تھا کہ اُس پر ہسپتال کا کلیجی رنگ کمبل آ گرا اور دہانے پر چوڑے چکلے ہاتھ کی سد چڑھ گئی، شکنجے کی جکڑ بندی نے اُس کی ہولناکی میں لپٹی بے اختیار چیخیں اُبلنے سے پہلے ہی سلب کر لیں،اگلے لمحے میں سانس پر بھی پہرا آ لگا۔اور جب ہچکولوں سے آوازیں گڈمڈ ہوتی ہڑبونگ مچاتی کانوں پر اُتریں تو دھیرے دھیرے اس کی گرفت میں آتی چھن چھن کر گرتی سمجھ بوجھ صرف اتنی ہموار ہوئی کہ وہ سواری کے جانور کی پہچان تراش گئی، وہ گدھے کی پُشت پر سینے کے بل رسیوں میں کسا ہوا تھا،دہانے اور آنکھوں پر کَسی پٹیاں،دھیرے دھیرے آوازوں کا مصور مختلف رنگوں سے کانوں پر اشکال کو جنم دیتا چلا گیا،وہ اکیلا گدھے پر بندھا ہوا نہیں تھا،آگے پیچھے گدھوں کی قطاریں اور چند ایک آتے جاتے بھاری قدموں کی چاپ کے علاوہ،گدھوں کی آگے بڑھتی قطار میں اُس کا گدھا سب سے آگے،بالکل شروع میں،قطار کے پہلے گدھے کے ساتھ ساتھ مختلف لوگوں کی باتیں، بِنا اپنی تعداد کا اپرچر کھولے، لب و لہجے کے تفاوت سے اُن کے پیدائشی علاقے کا تشخص بانٹ رہی تھیں،کوہستانِ نمک، پوٹھوہار،چھچھ اور ڈیرہ اسماعیل خاں کے ہندکو کے مختلف لہجے انتہائی درشت،اکھڑ اور چیختے تنک مزاج لہجے میں آوازوں کے زیر و بم سے اُن کے سخت جفا کش جثوں کے مضبوط اعضاء کی تصویر کشی ہو رہی تھی،لیکن باتوں کا مفہوم سمجھ میں آنے سے قاصر،اور سوا ل سُنے بنا ہی وہ چابک ضربوں کی دید بانی کے اشارے کے روشن زور پر کھدی مٹی سے لدے گدھوں کو ہانکتا اور اونچے بند پر مٹی کی ایک اور تہہ جماتا رہا، لوٹ کر وہی مٹی لدے گدھے کے پیچھے چڑھائی۔رات کو پنڈلی پرکسی قفل لگی آہنی لمبی زنجیر جو کھونٹے پر مقفل دیگر لڑکوں کی طرح۔ کھانا کھاتے،یا پانی پیتے دوسرے لڑکوں میں سے کسی سے کوئی سوال کیا جاتا، تو جواب۔۔ ؟

مطلُوب لڑکے کے ہونٹوں سے جواب اُبلنے سے پہلے ہی کمر پر برستے شلاک،ساتھ ہی پہرے دار کی کڑکتی آواز۔۔!

’چُپ شا“

” بات وات کرو گے تو اسی بند میں زندہ دفن کر دوں گا۔“

یہ مٹی کھودتے،گدھوں پر بوجھ اُٹھاتے،چھوٹی موٹی چوریوں اور لوٹ مار کے علاوہ،راہ گزر سے نکلنے والے قافلوں کو لُوٹ لیتے، مسلح لوگوں سے دوبدو ہونے کی نوبت پر وہ اپنی جان بچاتے بھاگ کر پہاڑوں میں چھُپ جاتے، انگریز فوجی،سینے پر سجائے تمغے اور کندھوں سوار سِلے چڑھے ستاروں نے انہیں بخوبی پہچانا، انہیں پٹہ ڈالے بنا کھلا چھوڑ دیا گیا،کیونکہ مقاوت پرستوں کی نقل و حرکت کی مُخبری اور مقابل شلوغ کرنے والوں کی ضرورت بے حد لازم،اور انجانے میں پیسے کی لالچ میں گُتھے وہی گوری فوج کے ہراول دستے ثابت ہوتے، اور ان ہی کے بھائی بندھ تھے کہ جنہوں نے کالا خان کی مخبری کی اور اُس کی رسد گاہ کو لُوٹ لیا،اور پشت سے حملہ آور انگریز فوج،لیکن وہ رسد کم ہو جانے پربھی جی جان سے لڑے اور اُن کے فوجی جرنیل،اور ایک لمبی تعداد فوجیوں کو یم دوت کے ہاتھوں سونپتے، اُس پار اُتارتے،بچے کھُچے لوگوں نے کالا خان کے اشارے پر منہ زور دریائے سوہان میں چھلانگ لگا دی۔اور اُسی جرنیل کی یاد میں برطانوی حاکموں نے پہاڑی ٹیلے پراک لاٹ اور توپ لگا دی گئی۔ا ور یہ مکروہ لوگ جن کا آگا پیچھا، رخت خواب پر  برطانوی لومڑوں کے لیے کھُل جاتا رہا،اور اس کا بڑا بھر پُور معاوضہ؟گماشتہ! لمبی چوڑی زمینوں کی حوالگی اور اونچی ناک !!۔یہ انگریز کے پالتو کُتے، خصیہ بردار،چاپلُوس درندہ صف، کہ جنہیں مقاومت کرنے والی قوموں کو دربدر کرتے،انہیں مختلف علاقوں سے لا کر،مراعات یافتگی کا مساج کرتے،وفادار رہنے کے لیے جھولی بھر آب و دانہ اور ڈھیرقسمیں اندر اُتارتے،اِن علاقوں میں آباد کر کے اس علاقے کی پہچان گُم کر ڈالی،مگر۔۔؟

مگر نام وہی رہا۔۔!

اور جیسے ہی لڑکے کی پہچان کی تصدیق ملی،تو بے اولاد میم صاحبہ نے اُسے متبنیٰ بنانے کے لیے شوہر کی رضامندی کی طالب ہوئی۔مگر ریٹائرمنٹ کے آخری چار پانچ سال کی سرحد پر کھڑے برطانوی فوجی مارشل جج کی تیوری چڑھ گئی۔اور اپنی گوری رنگت کے تفاخر اور لارڈ فیملی نژاد ہونے کے سبب رعونت اور تمکنت سے بلڈی غلام سے بھری نفرت اُس پر انڈیل دی،اپنی آیا کی لڑکی جو مشن میں موجود ہے، چرچ کو انسٹریکشن دے دوکہ جوان ہونے پر اُس سے اِس کی شادی کر دیں،اگلے سالوں میں جب ہم ریٹائر ہو کر واپس انگلینڈ چلے جائیں گے،وہاں مختلف مقبوضہ جاتی وار میں تاج برطانیہ پر جان دینے والے کافی فوجی تھے،ان کے یتیم انگریز بچے قابلِ توجہ ہیں،اُن میں سے کسی کو ایڈاپٹ کر لینا،اس طرح ہمارے ٹیوڈر خاندانی رشتوں میں ناک اونچی رہے گی۔ میں اس حرامی بلیکی کو اپنے ساتھ گھسیٹنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ یہ لوگ طلائی چمک کو دیکھ کر وہیں اپنا سب کچھ لٹانے پر مر مٹتے ہیں،یہاں تم نے کسی صاحبِ نسب کو دیکھا ہے،یہ سب تو دم ہلاتے کُتے، ہمارے پھینکے پارچوں پر آپس میں لڑتے اک دوجے کو کاٹ کر رکھ دیتے ہیں۔نو نو اس حرامی موقعہ شناس،احسان فراموش مخلُوق سے کوئی رشتہ نہیں جوڑنا چاہتا۔اُس کی جوانی کے نام پر انعام و اکرام لکھے گئے ہیں،اور اس کے علاوہ سوئیٹ ہارٹ!تم نے خود اپنی  جان کی خیرات میں سے آباد کاری کے لیے روپے پیسے کی جھنکار کے رنگ رس میں رنگتے کئی ایک مشوروں سے نوازا۔اور زمین کے ٹکڑے پر چھوٹے چھوٹے مکانات کے علاوہ اس کا دو منزلہ مکان اپنی ہدایت پر تعمیراتی ٹھیکدار سے بنوا ڈالے۔ اور ایک ٹکڑا زرعی زمین کا بھی لکھ دیا گیا ہے۔اور موسیٰ۔؟اُسے چرچ کے مشنری سکول میں داخلہ دلا دیا، جس کے ہوسٹل میں وہ اٹھارہ سال کی عمر تک رہائش پذیر رہے گا، اور مفت تعلیم ملے گی،پھر شادی کر کے دونوں کو اُن کے نو تعمیر گھر میں بھجوا دیا جائے گا،جہاں زندگی کی تمام آسائشیں میسر۔۔!

بس اُسے اور کیا چاہیے،احسان کی قیمت تو ادا کر دی ہم دونوں نے۔۔!

مگر۔۔؟

مگر موسیٰ کو ایک مدت تک اس ساری مراعات اور میم کی اپنائیت کا سبب نہ کھُل سکا۔کُنڈی کھولی تو اُس کی بیوی نے۔۔

بند دروازے پر اجنبی دستک۔۔؟

پہلی دستک،بڑی بے رحمی سے وجود کھُرچتی،خوابیدہ جوڑ جوڑ کو بیدار کرتی۔۔!

اور پھر دوجی،ایسی آبدار لپکتی مانوس لپٹتی دستک۔۔!!

بوڑھے موسیٰ کی پژمردہ آنکھوں میں ایک چمک سی اُٹھی،بیساختہ اُس کا چہرہ لیٹے لیٹے ہی دروازے کی اَور گھوم گیا۔مانوس دستک سے اُس کی پژمردہ یادیں پانی لگتے ہی تر و تازہ۔ شاید بدبخت کو باپ کی یاد آ ہی گئی، اور وہ بڑبڑاتا ہوا چارپائی سے اُٹھا کچھ دیر کمر سیدھی کرنے میں لگ گئی۔ دروازہ دوبارہ بجا تو وہ جھنجلایا ہوا بلغمی آواز میں بلبلا اُٹھا۔بھاگ جاؤ یہاں سے، یہاں کوئی نہیں رہتا۔اور اُسی لمحے جھک کر پائے سے اٹکے ہوئے عصا کو اُٹھایا۔ ابھی آ کر  تمھاراسر پھاڑتا ہوں، اور زور زور سے گالیوں کا طومار امریکہ اور یورپ کے ہر ملک اور مشن کو دیتا،آہستہ آہستہ صحن پار کر کے دروازے کے روبرو رُکا۔اگر تُو ہے مُنڈی کے تو لپک لے،یہاں کوئی تیرا آیا جایا نہیں رہتا نہ ہی یہاں تیرے لیے کوئی جگہ ہے اور نہ ہی مجھے تیرے کسی چھدام کی ضرورت،کمائی کے لیے کوارٹروں اور دو چوباروں کا کرایہ مجھ کم کوس کے لیے کافی ہے۔اب تُو لوٹ جا۔لیکن جیسے ہی قدموں کی چاپ دروازے سے دور ہوئی تو اُس نے بیتابی سے کُنڈی کھولی سینے میں بھڑکتا الاؤ،روم روم کو جلاتا،بس برکھا کا اک چھینٹا پڑنے سے ٹھنڈا پڑ سکتاتھا جو اس کی آواز کی تانگ میں چھُپا بیٹھا تھا،کہے تو کس سے کہے،بیوی اُس کی جدائی کی اذیت ناکی جھیلتے دم دے گئی اور اُس کی پیڑا کو سہن کرنے والا اب کون ہوسکتا تھا،بس اک وہی،دنیا جہان پر قدرت کی فیاضی گھن گرج سے برسی لیکن ایک میرے گھر سے دُور پار ہی برسی۔ اُس کے جنم جمان کے بعد میری بیوی ہی کی کوک پر سوکھا پڑ گیا۔اگر دوجا ہوتا تو شاید یہ جدائی،تنہائی۔۔؟

اُن کا بیٹا مشن کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی سے دونوں کی اجازت اور مشن کے اساتذہ کی تھپکی اور مالی اعانت سے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلا گیا،چھ ماہ تک تو اس کے خطوط آتے رہے اور پھر۔۔ ؟

مشنری کے کارندوں کی طویل تلاش کے بعدایک ہسپتال سے اُس کی موت کی خبر ملی تو اُس کی ماں دیوانہ ہو گئی اوروہ اُس کو ڈھونڈتی زیر زمین جا نکلی اور بابا موسیٰ۔۔؟؟

یک دم بابا موسیٰ نے کپکپاتے ہاتھوں سے چرچراتے ہوئے دروازے کو کھولا تو سورج کی روشنی نے اُس کی آنکھوں میں اُتر کر بوسہ دیا، مگر دونوں دیدنی کے در روشنی اور تپش سے روبرو ہوتے ہی اپنی درماندگی کے بَل مچمچا اُٹھیں،سفید پلکوں کی چلمن کی درزوں سے اُس نے بچوں کے دنگے فساد اور ہنگام سے اُبلتی گلی میں کھوجتی نظریں اُتاریں۔کو ن ہے بھئی ؟دور ہوتا نوجوان پلٹا جی مَیں۔!آپ کے لیے اجنبی ہوں اور۔۔؟اور وہ آواز اور چہرہ اور چال بیٹے کی تصویر بن گئے،ابھی اجنبی نوجوان کی آواز میں اتنے ہی الفاظ،صوت میں رنگے،ٹھنڈے میٹھے، اُس کے کانوں میں اُترے ہی تھے کہ پڑوسیوں کی آنکھوں کے نُور،مگر گلی میں اُترتے ہی ہڑبونگ مچاتی مشینیں، جہاں چھٹی ہوتی تو گلی میں وہی نور چشمی،زرد چہروں والے لڑکے بالے،ان سب کی معاشی بے بسیوں اور لاچاریوں کی وحشت زدہ سہمی آنکھوں کے انبوہ میں ذرا سی خوشیاں،خرا فاتی موسم کی تند آندھی میں ٹپکتے گرتے کچے پکے پھل۔سب نے نوجوان اجنبی کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اُسے اپنے جھرمٹ میں لے لیا اور سوالوں کی پچکاریاں اُس پر ترشح کر ڈالیں۔کہو کہو تم کون ہو اور اس بڈھے نانا ابا سے کیا چاہتے ہو؟یہ تو ہم سب کا درخش ہے،جو تم باہر کی دنیا والے کیا جانو۔!اور پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اُس کے گرد چکر لگاتے،ناچتے، یک آواز حلق پھاڑتے،گانے لگے۔ بڈھا پھوس پُرانا ابا، سب توں اچھا نانا ابا،اس کے پوپلے پچکے گالوں کی بدولت اسے اکیلا مت سمجھنا۔ پہلے تو وہ انہیں ڈانٹتا رہا اور پھر گانے کے شور میں اُسے گھر میں اندر لے گیا۔ جھلنگی چارپائی پر بٹھاتے،حقے کی نال تھما دی۔مَیں تمھیں اس لیے اندر لے آیا کہ وہ کوئی بات نہیں کرنے دیتے۔۔!

اب دھیان سے سُنو۔۔!

اس گھر میں میرے دو ملازم ہیں اور دونوں ہی شادی کی جکڑ بندی میں قید ہیں، گھرکی صفائی، باورچی خانے میں تینوں وقتوں کا کھانا پکانے اور مجھے کھلانے، اور کپڑے دھونے کے لیے بیوی اور باہر کے اوپری کام کاج کے لیے اور چوکیدار کے لیے اس کا شوہر ہے اور اپنے کوارٹر میں رہتے ہیں۔ تم ٹھنڈا شربت یا چائے جب بھی پینا چاہو گے،وہ تُرنت لے آئے گی۔ بس تمھارے ہونٹ ہلانے کی دیر ہو گی۔

جی نہیں۔۔!

میرا مطلب ہے کہ میں تو دراصل اوپر والے خالی چوبارے کے ایک خالی ہونے والے کمرے کے لیے آیا تھا تاکہ مَیں اُسے کرائے پر لے سکوں،مَیں دراصل یہاں۔۔؟

خیر خیر کوئی بات نہیں، وہ تو مَیں سُن ہی لوں گا۔مگر فی الحال تم میری سُنو۔!!

مگر کمرہ۔۔؟

وہ تمھارا ہوا،مگر۔۔!!

مگر اب میری بات سُنو۔!!!

اُس نے سنناکیا تھا آس امید میں پھنسا،اپنی ضرورت کے حل کی لُکن میٹی میں چھوت دے رہا تھا، اور بابے نے سنانا کیا تھا وہ تو اپنی تنہائی کے سبب، اندر پھیلے گھاؤ کی مرہم ڈھونڈ تا تھا۔ کہ کوئی آئے اور اُس کے بولنے سننے کی پیاس کو بجھا دے۔ورنہ گھر میں بیٹھے یا گھومتے پھرتے وقت کوئی جان پہچان والا اپنا کان اُس کے ہونٹوں سے نہیں چِپکا سکتا تھا،سب اُسے دیکھتے دوچار فقروں میں اُس کی سنتے جواب دیتے ہی بڑبڑاتے ہمیشہ دُور سے کنی کترا جاتے۔

وہ سامان لینے گیا تو اُس نے کمرہ اپنی ملازمہ سے دھلوا کر صاف کروایا اور پھر جب وہ تانگے پرسامان لے کر پہنچا،تو تانگے کا کرایہ اُس نے لڑکے کو نہیں دینے دیا اور خود اپنی جیب سے ادائیگی کرتے نوکر سے اُس کا سامان اپنی نگرانی میں اوپر پہنچوایا،اور سامان تو تھا ہی کتنا ایک ہولڈال میں بستر اور ایک لوہے کا چھوٹا سا ٹرنک۔مگر ساتھ ہی موسیٰ کی تنبیہ چلتی رہی۔

مَیں نے تمہیں کہا بھی تھا کہ کمرے ومرے کو بھول جاؤ اور میرے ساتھ ہی نیچے رہو مگر تم !نجانے کِس مٹی کے بنے ہو، بزرگوں کا کہا بھی نہیں مانتے،اب کھانے پینے کی فکر مت کرنا، نیچے میرے ساتھ ہی کھاؤ گے۔لیکن۔۔؟

لیکن وہ بھی شاید عزتِ نفس کا سبق گھر سے پڑھ کر ہی نکلا تھا اور۔؟؟

٭٭٭

ماخذ:

http://ijrakarachi.wordpress.com/2013/07/02/%D8%AA%D8%B1%D8%A7%D8%AD%D9%85-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D9%84%D9%90%D9%BE%D9%B9%D8%A7-%D9%86%D8%A7%D9%86-%DA%A9%D8%A8%D8%A7%D8%A8/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید