FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

…..کتاب کا نمونہ پڑھیں

 

 

تذکرۂ خواتین

حصہ اول

 

یعنی ان عورتوں کا کلام جو ریختہ میں شعر کہتی تھیں

 

مصور درد مولانا

عبد الباری آسیؔ

الدنی

 

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

اگر بہ نظر غور و تعمق دیکھا جائے تو شاید یہ بات غلطی سے دور ہو گی کہ زمانۂ موجودہ میں تذکرہ لکھنا ایک قسم کی تحصیل حاصل ہے، اس لئے کہ لکھنے والوں نے اس فن شریف کو معراج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ اتنے اتنے اور ایسے ایسے تذکرے لکھے گئے کہ اس کے بعد تذکرہ لکھنا ایک حد تک منہ چڑانا ہے مگر غور سے دیکھنے پر بھی ایک بات دل میں تیر بن کر کھٹکتی ہے. وہ یہ کہ تذکروں میں جوہر تنقید کی کمی پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے۔ یہ کمی ایک ایسی سخت کمی ہے جس کی تلافی غیر ممکن اور دشوار ہے بجز اس کے کہ کچھ نہ کچھ ایسے ایسے تذکرے لکھے جائیں جن میں نقد و بحث ہو۔

دوسرے یہ کہ اتفاق سے جس قدر تذکرے دیکھے گئے ان میں زیادہ تر حصہ مردوں کے کلام کا ہوتا ہے بلکہ زیادہ کیا تمام تذکروں کی بنا اسی پر ہے مگر حقیقتاً یہ ایک قسم کی نا انصافی ہے۔ کوئی سبب نہیں معلوم ہوتا کہ اس دور ترقی میں جب ہر شے برابر ترقی پذیر ہے اس خیال کو صرف دماغ تک محدود رکھا جائے یقیناً یہ ایک صریحی ظلم ہو گا۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ یہ صنف نازک جس کے جذبات مردوں سے زیادہ نازک اور دلکش، جن کی زبان صاف شستہ بے تصنع اور محفوظ ہے، جن کے اکثر خیالات حیا کے عطروں سے مہک رہے ہیں، جن کے پہلوؤں میں مردوں سے زیادہ دردمند اور جلد سے جلد متاثر ہونے والا دل ہے، جن کی صورت، خو، بو، آواز، چال، ڈھال، رفتار سب میں فطرتی اور خلقی دل کشی ہے، ان کے کلام میں کیوں نہ دل کشی ہو گی۔ ہو گی اور ضرور ہو گی کیونکہ دل کشی کلام کے لئے چند چیزوں کی ضرورت ہے جو مستورات میں بصورت احسن موجود ہیں۔

(1) زبان صاف شستہ ہو، با محاورہ ہو، تصنع اور حشو و زوائد سے دور ہو۔

(2) مقفّی اور مسجّع نہ ہو تاکہ آورد نہ معلوم ہو اور آمد کا لطف اس میں موجود ہو۔

(3) فضول بلند خیالیوں اور کوہ کندن کاہ برآوردن سے پاک ہو۔ میرا یہ خیال ہے کہ ہر وہ شاعر جو اسی فکر میں رہے گا کہ میں ایسی نئی بات کہوں جو اب تک کسی نے نہ کہی ہو تو وہ یقینی مہمل گو ہو گا اور اس کے اکثر مضامین قابل مضحکہ ہوں گے۔ اول تو یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی آدمی ایسی بات کہے کہ جو کسی نے نہ کہی ہو کیونکہ انسان میں فطرتاً قوت ابداع نہیں رکھی گئی، وہ تراش خراش کر سکتا ہے مگر یہ ممکن نہیں کہ کوئی نئی بات پیدا کر سکے۔

(4) خیالات صاف ہوں، الجھے ہوئے الفاظ بھی نہ ہوں۔ پیچیدہ بندشیں بھی نہ ہوں۔

(5) جذبات درد و اثر سے لبریز ہوں۔

(6) عامیانہ اور سوقیانہ خیالات نہ ہوں۔

اور ایسی ہی چند باتیں شاعری کی خوبیوں کی جان کہی جا سکتی ہیں۔ یہ سب باتیں طبقۂ نسواں میں اعلیٰ درجہ پر موجود ہیں۔

ان کی زبان میں تصنع نہیں، ضلع جگت تشبیہہ اور استعاروں وغیرہ کی بھرمار سے زیادہ تر ان کا کلام پاک و صاف ہے، مقفی اور مسجع نہیں ہے۔ وہ یہ کوشش نہیں کرتیں کہ آن ہوئی بات کہی جائے، ان کے خیالات صاف ہیں۔ وہ رقیق القلب اور نازک دل ہوتی ہیں اس لیے کوئی سبب نہیں ہے کہ ان کے کلام میں درد و اثر نہ ہو۔ عامیانہ اور سوقیانہ بندشیں بھی ان کو نہ پسند ہو سکتی ہیں اور نہ میسر آ سکتی ہیں۔ اس لیے کہ فطرت نے حیا کو ان کے خیال کی بے راہ روی کا محافظ اور ان کی یادہ گوئی کا زبردست نگہبان بنایا ہے۔ وہ جعفر زٹلی اور چرکین وغیرہ کی یادہ گوئی سے غالباً ہمیشہ کے لئے محفوظ ہیں۔

بہرحال یہ سب قدرتی مواد جمع ہے کوئی سبب نہیں کہ ان کے کلام کو جمع نہ کیا جائے۔ ہاں میرے لئے سب سے زیادہ مایوس کن یہ بات ہے کہ نہ تو سوائے دو تین چھوٹے چھوٹے تذکروں کے کوئی تذکرہ ملتا ہے اور نہ یہی ممکن ہے کہ خط و کتابت کر کے کلام حاصل کیا جائے۔ ان سے خط و کتابت کرنا جانبین کو الجھنوں اور مصیبتوں میں ڈال دینا ہے۔ اسی طرح ان کے صحیح صحیح حالات ملنا دشوار تر ہیں چونکہ نہ وہ خود بتا سکتی ہیں نہ کوئی اور نہ دل کے راز معلوم کرنے کا ابھی تک کوئی ایسا آلہ دریافت ہوا جو گھر بیٹھے ہر شاعرہ کا حال ہم پر آئینہ کر دے اور اگر فی المثل کوئی راز معلوم ہو بھی جائے تو افشائے راز نہایت ہی سفیہانہ حرکت اور بے ہودگی ہے لہذا میں اول تو صرف نام وغیرہ پر ہی اکتفا کروں گا اور جہاں کہیں ضرورت ہو گی تو معمولی معمولی حالات لکھ دوں گا البتہ جہاں تک ممکن ہو گا ان کے کلام کے انتخاب کی بہترین کوشش کروں گا۔

چونکہ فن شعر گوئی ایک وہبی فن اور عطیۂ قدرت ہے اس واسطے اس میں ہر قوم اور ہر فرقہ کے آدمی شامل ہیں اور ہو سکتے ہیں۔ ہم اس سے مجبور ہیں کہ جس صنف میں ایک عالی خاندان شریف مستورہ عفت نشین یا ایک نوجوان دوشیزہ مہ جبین والا دودمان کا ذکر ہو، وہیں ایک حسین بازاری بھی ہو مگر کیا کیا جائے۔

بندۂ عشق شدی ترک نسب کن جامی
کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست

پھر بھی اتنا خیال رکھا گیا ہے کہ ہر ایک طوائف یا اسی قسم کی شاعرہ کے نام کے ساتھ ہی (ط) کا نشان دے دیا گیا ہے۔

حالات کم ہوں گے اور مجھے کم ہی دستیاب بھی ہوئے البتہ ضرورت اور محل کے موافق اس میں لطائف شامل کرتا جاؤں گا تاکہ ناظرین کی دلچسپی کا ایک خاص ذریعہ نکل آئے۔

غزلوں، نظموں، قصیدوں وغیرہ غرض کہ ہر قابل انتخاب چیز کا انتخاب ہو گا، صرف ایک شے پر انحصار نہ ہو گا۔

چونکہ تذکرہ کم، حالات کی فراہمی اور بہم رسانی میں دشواریاں تحقیق میں مصیبتیں ہیں لہذا ممکن ہے کہ کہیں کوئی غلطی ہو جس کے لیے میں پہلے ہی معافی مانگتا ہوں۔

یہ تذکرہ ردیف وار ہو گا تاکہ ترتیب بے کار نہ ہو اور کسی تخلص کو ڈھونڈنے میں تمام کتاب کی ورق گردانی کی زحمت بے جا گوارا نہ کرنی پڑے۔

ہر جگہ یہ ترتیب ملحوظ رہتی ہے کہ پہلے ان عفت مآب خواتین کا کلام درج ہوتا جو اعلیٰ طبقوں اور والا خاندانوں سے متعلق ہیں، اس کے بعد دوسرے فرقہ کو درج کیا جاتا۔ ترجیح بلا مرجح سمجھ کر اس خیال کو چھوڑ دیا۔

جن کا کلام اردو میں دستیاب نہ ہو گا ان کا جس زبان میں کلام دستیاب ہوا ہے وہی لکھ دیا جائے گا اور جس صنف میں کلام ملے گا اسی کو داخل تذکرہ کیا جائے گا مگر جہاں تک ممکن ہو گا اردو کی غزل کو بنظر ترجیح دیکھا جائے۔

(مؤلّف)

٭٭٭

 

 

 

الف

 

اچپلؔ

ہینگن جان طوائف کا تخلص تھا جو اپنے زمانہ کی ہم پیشہ عورتوں میں نہایت ہی مشہور تھی۔ موسیقی میں اس کو کامل مہارت تھی یہاں تک کہ جب شب کو تعلیم لیتی تھی تو گویا راستہ چلنے والوں کو عشق و عاشقی کی تعلیم دیتی تھی۔ برآمدہ کے نیچے ایک ہجوم عام ہوتا تھا۔ اکثر عاشقان رنگین مزاج اس کے ہاتھ سے تباہی کی حدوں میں جا پہنچے تھے، ہر قسم کے لوگوں کا مجمع رہتا تھا۔ صورت پرست شاعر بھی جاتے تھے، اپنا اپنا کلام اس کو دیتے اور موسیقی کے ساتھ سنتے تھے۔ انھیں کے فیض صحبت نے بمصداق کہ رنگ ہمنشیں در من اثر کرد شاعر بھی بنا دیا تھا وگرنہ من ہمان حاکم کہ ہستم کا مضمون تھا، بارہ سو ساٹھ کے بعد انتقال ہوا۔

مصنف تذکرۂ چمن انداز و تذکرۃ الشاعرات نے صرف ایک شعر نقل کیا ہے۔

ہے عیش اس کے جی کو اجی غم بہت ہے یاں
شادی وہاں رچائی ہے ماتم بہت ہے یاں

مگر میری معلومات کا ذریعہ اس سے کچھ زیادہ وسیع ہے۔ مجھ سے جن بزرگ نے یہ حالات بیان کیے وہ آج ہزاروں من خاک کے نیچے سو رہے ہیں۔ وہ مدتوں خود اس کے مکان پر گئے، اس کا گانا سنا، اس کا کلام سنا۔ اکثر یاد کیا کرتے تھے، کبھی ہنس ہنس کر یہ شعر بھی پڑھتے تھے اور آپ ہی آپ مزہ لیتے تھے۔

آپ سے بات بھی کرے کوئی
یہ بھلا کیا مجال ہے صاحب

جان کوئی خوش سے دیتا ہے
کیا  نِرالا  سوال  ہے  صاحب

خاک سے ٹُک اٹھائیے اُس کو
دل  مرا   پائمال  ہے  صاحب

 

احمدیؔ

سونی پت جو نواح دہلی میں مشہور و معروف مردم خیز قصبہ ہے اس میں یہ شاعرۂ نادرہ پیدا ہوئی۔ اولاً تعلیم و تعلم کی طرف طبیعت راغب رہی۔ اس کے بعد شعر و شاعری کی طرف طبیعت کھنچ آئی۔ ایک شریف گھرانے سے تھی اور ایک تعلیم یافتہ امیر زادہ کے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ پورا دیوان مرتب کر لیا تھا مگر چونکہ ان کے شوہر کو شاعری کی طرف میلان نہ تھا، نہ اس زمانہ میں شریف مستورات کی شاعری کچھ استحسانی نظر سے دیکھی جاتی تھی, اس واسطے سنا گیا ہے کہ ان کا دیوان غائب کر دیا گیا اور اسی غم میں احمدی بیگم بیمار ہوئیں، غم کی فراوانی سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہمیشہ تپ رہنے لگی۔ ہوتے ہوتے انجام وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ دِق ہوئی اور انتقال کر گئیں۔ دو شعر موجود ہیں جو لکھے دیتا ہوں۔

اُسے اس خطا پر پشیماں کیا
محبت نے انساں کو انساں کیا
چمن میں بھی مجنون نے احمدی
گلوں کی طرح چاک داماں کیا

اؔختر

نواب اختر محل کا تخلص ہے جو خاندان تیموریہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ نہایت ہی ذکی ذہین طباع نیک مزاج تھیں۔ اکثر نعت و منقبت وغیرہ میں شاغل رہتی تھیں۔ اسی صنف میں کلام ملتا ہے مگر شاید تفنن طبع کے خیال سے کبھی کبھی غزل بھی  کہتی تھیں۔ 1292ھ تک بقید حیات تھیں اس وقت تذکرۂ مرآت خیالی میں یہ کلام درج کیا گیا ہے، لفظ لفظ سے مشق کلام کا پتہ چلتا ہے۔ کلام ملاحظہ ہو۔ قدسی کی اُس غزل کو جس کا ایک ایک مصرع مشہور خاص و عام ہے تضمین کر کے داد خوش گوئی دی ہے۔

تجھ پہ قربان ہوں اے ہاشمی و مطلبی
کہ ہے مشہور دو عالم تری عالی نسبی
دیکھ رتبہ کو ترے شوکتِ افلاک دبی
مرحبا    سیدِ  مکی  مدنی  العربی
دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی

وہ ترا نور ہے ماہ فلک و مہر کرم
تیرے جلوہ سے منور ہوئے دونوں عالم
تاب یوسف کو کہاں ہے کہ ترے دیکھے قدم
من بیدل بجمال تو عجب حیرانم
اللہ اللہ چہ جمال ست بدیں بو العجبی

واہ کیا درجہ ہے کیا شان ہے اور کیا رتبہ
خالق ارض و سما خود ہی ترا مدح سرا
انبیا کہتے ہیں سب صلی علی صل علی
نسبتے نیست بذاتِ تو بنی آدم را
برتر از آدم و عالم تو چہ عالی نسبی

تو ہے نیسان کرم اور سحابِ اکرام
بھر دیا موتیوں سے دامن امیدِ انام
بار آور ترے باعث سے ہے نخلِ اسلام
نخل بستانِ مدینہ زتو سر سبز مدام
زاں شدہ شہرہ آفاق بہ شیریں رطبی

سب سے پہلے کیا پیدا ترا اللہ نے نور
پردہ ذات میں اس نور کو رکھا مستور
اور اس نور کا اظہار ہوا جب منظور
ذات پاک تو دریں ملک عرب کردہ ظہور
زاں سبب آمدہ قرآں بہ زبان عربی

ہے ترے نور سے پر نور زمیں دشت بدشت
گلشن چرخ تیرے ہی پئے گلگشت
تیرے ہی واسطے ہیں خاص یہ جنات ہشت
شب معراج عروج توز افلاک گذشت
بہ مقامے کہ رسیدی نہ رسد ہیج نبی

قدسیاں آنکھیں بچھاتے ہیں ترے زیر قدم
خاک پا تیری ہی ہے سرمہ چشم عالم
بخش دیجو مری تقصیر برائے شاہ امم
نسبت خود بہ سگت کردم و بس منفلعم
زانکہ نسبت بہ سگ کوے تو شد بے ادبی

سختی حشر سے گھبرائی گی جب مخلوقات
اور نہ بن آئے گی اے ابر کرم کوئی بھی بات
انبیا سب تجھے کہویں گے کہ اے ابر نجات
اہمہ تشنہ لبا نیم توئی آب حیات
لطف فرما کہ زحدمی گزرد تشنہ لبی

ہو گئی لہو ولہب ہی میں مری عمر بسر
یاد خالق میں نہ مصروف ہوئی میں دم بھر
گھستی ہوں ناصیہ عجز کو تیرے در پر
چشم رحمت بکشا سوی من انداز نظر
اے قریشی لقبی ہاشمی و مطلبی

درد عصیاں کے سبب سے ہی میری جان چلی
اور بچنے کی نہیں سوجھتی تدبیر کوئی
عرض اختر کی بھی قدسی کی طرح سے ہے یہی
سیدی انت حبیبی و طیب قلبی

آمدہ سوئے تو قدسی پے درماں طلبی

غزل کے میدان میں بھی ذہانت اور خداداد طبعیت کی روانی کے جوہر دکھائے ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔

لکھ کر جو میرا نام زمیں پر مٹا دیا
ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا

اک آہ شعلہ بار سے دل کو جلا دیا
لو آج ہم نے اس کا بھی جھگڑا مٹا دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آستاں پر ترے پیشانی کو گھستے گھستے
سر ہی غائب ہوا جس میں کہ ترا سودا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خط لے کے نامہ بر سے جو ٹکرے اڑا دیے
غیروں نے آج ان کے تئیں کچھ پڑھا دیا

تقصیر یار کی نہ قصور عدو ہے کچھ
اختر ہمارے دل ہی نے ہم کو جلا دیا

ایک زمانے میں ایک ماہوار رسالہ حدیث قدسی نکلا کرتا تھا اس میں اختر کا اکثر کلام ملتا ہے۔

 

آرائشؔ ( ط )

دہلی کی ایک شاندار بازاری تھی مگر پردہ نشینوں کو بھی مات کر دیا کہ مصنف تذکرہ چمن انداز کو اس کا حال اس کا نام اس کے زمانے میں بھی معلوم نہ ہو سکا۔ بالفاظ دیگر صرف یہی لکھ کر سبکدوش ہو گئے کہ پہلے بازاری تھیں اب خانہ نشین ہیں۔ کبھی زیب بازار تھیں اب آرائش خانہ ہیں۔ صرف ایک شعر مل سکا ہے اسی کو بطریق یادگار یا خانہ پری درج کرتا ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ایک شعر کے لکھنے سے نہ تسلی ہوئی اور نہ شعر لکھنے کے قابل تھا مگر پھر بھی سچی اور دل کو لگنے والی بات کہی ہے مجبوراً سنیے۔

جوانی میں بھلی معلوم ہوتی تھی یہ آرایش
بڑھاپے میں تو منھدی مسی کی ہے خاک زیبایش

 

اسیرؔ

امیر بیگم نام تھا۔ شاہ فخر الدین صاحب قدس سترہ (جو دلی کے ایک مشہور و معروف بزرگ تھے) کی شاگرد تھیں، بیگم چغتائیہ میں تھیں۔ حاضر جواب بذلہ سنج لطیفہ گو خوش مذاق شاعرہ تھیں۔

کسی دن ایک شخص نے ان کو یہ مصرع سنایا ع

بیقراری قرار ہے اپنا

اس حاضر جواب شوخ مزاج نے فوراً اس پر یہ مصرع لگایا اور سنایا۔ بدقسمتی سے اس وقت میں صرف وہی دو شعر پیش کر سکتا ہوں جو فی البدیہہ کہے گئے تھے۔

عشق دار و مدار ہے اپنا
بیقراری قرار ہے اپنا
خاک میں مل گئی ہوں جس پہ اسیرؔ
اسی دل میں غبار ہے اپنا

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جو ہوا چلتی ہے اس کے اثر سے کوئی محفوظ نہیں رہتا۔ پردہ نشین ہیں مگر یہ بھی صنعت مراعات النظیر کے جال میں الجھی ہوئی ہیں۔ دوسرا شعر صاف اس کی گواہی دیتا ہے۔

 

اشکؔ

دلی کی ایک عالی قدر سخن سنج شہزادی کا تخلص تھا جو بارہ سو ترانوے ہجری میں زندہ تھیں زیادہ حال معلوم نہ ہو سکا مصنف تذکرہ مرات خیالی و چمن انداز نے دو شعر نقل کئے ہیں اگرچہ یہ شعر اس سے پہلے بھی میرے حافظہ میں تھے مگر وہ اور کسی شاعر کے تھے۔ آج سمجھا ہوں کہ یا میری یاد اور میرا خیال غلط تھا یا مصنف مذکور کی تحقیقات نے دھوکا دیا۔ بہرحال شعر ملاحظہ فرمائیے۔

نہ بوسہ دینا آتا ہے نہ دل بہلانا آتا ہے
تجھے تو او بت کافر فقط ترسانا آتا ہے

کسی عاشق کا بےشک استخواں ہے میں نہ مانوں گا
کہ شانہ تیرے رخ تک اتنا بے باکانہ آتا ہے

امراؤؔ

حسینی بیگم نام تھا۔ خاک پاک دہلی میں قیام تھا۔ عہد بادشاہ بہادر شاہ ظفر میں بقید حیات تھیں بادشاہ کی غزل پر غزل کہی تھی جس کے دو شعر اہل تذکرہ کی مہربانی سے دستبرد زمانہ سے ابھی تک محفوظ ہیں وہی میں بھی لکھے دیتا ہوں۔

 

باغ عالم میں چھڑانا تھا اگر اپنوں سے
پہلے ہی سبزہ بیگانہ بنایا ہوتا

گرچہ منظور نہ تھی خانہ نشینی میری
تو مجھے ساکن ویرانہ بنایا ہوتا

خود ظفر مرحوم کی غزل بھی مسلسل ہے جو اکثر نظروں سے گزری ہو گی۔ بالکل اسی انداز میں انھوں نے بھی غزل کہی ہے۔ آخری شعر میں اگر کی بجائے اگرچہ لکھا ہے جو صحیح نہیں ہے مگر عورتوں کی شاعری اور ان کی زبان کے لئے سب معاف ہے۔

 

امراؤ ( ط )

لکھنو کی ایک شاہد بازاری تھی جس کا یہی تخلص ہے اور یہی نام ہے اور یہ اس کا نمونہ کلام ہے

گر مجھ کو سر کاکل خمدار نہ ہوتا
تو یوں میں بلاؤں میں گرفتار نہ ہوتا

 

امراؤ ( ط )

دہلی میں ایک طوائف امیر جان تھی جو نہایت مشہور تھی علی بخش والی کے نام سے معروف تھی۔ امراؤ اس کی لڑکی کا نام تھا جو نہایت حسین و خوبصورت تھی۔ اہل تذکرہ نے اس کا ایک شعر نقل کیا ہے جو واقعات اور حالات حاضرہ کا ایک عمدہ ثبوت اور شاہد عادل ہے۔

آئے امراؤ دن ترے اچھے
دن بدن مفلسی جو گھٹتی ہے

تعجب ہے کہ اس میں مفلسی کے گھٹنے کو اچھے دنوں سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ ضرورت تھی کہ امیر جان کی طرح امیر ہو جانا چاہیے تھا۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا جو بے ساختہ سپرد قلم کرتا ہوں۔

لطیفہ

ایک حسینہ دوشیزہ عصمت فروش لڑکی کو کسی دل چلے نے ایک روپیہ نذر کر دیا۔ اس نے اس نیاز عاشقی کی نذر و نیاز کو قبول تو ضرور کر لیا مگر اس خیال سے کہ اس کا چھپانا ذرا دشوار ہو گا، آ کر اپنی ماں کو دے دیا۔ ماں ایک گرگ باراں دیدہ، گہے عاشق گہے معشوق بودہ، تجربہ کار، سرد و گرم چشیدہ، بلند و پست کا لطف اٹھائے ہوئے تھی، سمجھ گئی اور پوچھا کہ تیرے پاس یہ روپیہ کہاں سے آیا۔ لڑکی نے جھینپتی ہوئی شرمیلی سخن گو نگاہوں کو جھکائے ہوئے جواب دیا کہ ابھی ابھی جو بازار میں فلاں کام کے لئے گئی تھی تو یہ روپیہ راستہ میں پڑا ہوا ملا۔ ماں تو اس کی ماں تھی، تبسم زیر لبی کے ساتھ کہنے لگی واہ بیٹی ایک ہی روپیہ ملا۔ اس عمر میں تو کبھی کبھی ہمیں پانچ پانچ روپیہ ایک ساتھ پڑے ہوئے ملتے تھے۔ ایسے ہی میں کہتا ہوں کہ عالم شباب میں اگر عصمت فروشی کی مفلسی گھٹی تو کیا گھٹی اس کو تو مالدار ہو جانا چاہیے تھا۔

 

امیر (ط )

اسی مجموعہ ناز و خوبی جس کا ابھی ابھی ذکر ہوا  (یعنی امراؤ جان) کی ماں کا نام ہے جو علی بخش والی کے نام سے مشہور ڈیرہ دار تھی ایک شعر درج تذکرہ ہے جو میں بھی لکھتا ہوں۔ جذبات نسوانی کا صحیح فوٹو اور صاف نقشہ ہے۔

غصہ سے  چہرا  میرا  گل نار  ہو گیا
بس بار مجھ پہ طعنہ اغیار ہو گیا

مصنف تذکرہ چمن انداز کو ان کے دوست میر عباس تاجر کتب دہلی نے سنایا تھا اور مجھے اس تذکرہ سے ملا۔

 

امیرؔ (ط)

لکھنو کی ایک مجموعہ ناز و انداز طوائف تھی جو بارہ سو ستر اور اسی کے درمیان زندہ تھی نہایت ذہین اور طباع تھی، اشعار میں انتہائی سوز و گداز ہے۔ اگر وہ اپنے دعوائے تصنیف میں سچی تھی تو یقینی بہترین کہنے والیوں میں اس کا شمار کیا جا سکتا ہے جو مطلع لکھا جاتا ہے اس کی آمد اس کے جذبات کی تعریف محال ہے۔

 

جدھر کے دیکھنے سے جان زار جاتی ہے
اسی طرف کو نظر بار بار جاتی ہے

یہ بغض تھا کہ نہ چھوڑا تمہارے کوچہ میں      صبا لئے میرا مشت غبار جاتی ہے

یہ محو دید رخ گل ہے بلبل شیدا
نہیں خبر کہ چمن سے بہار جاتی ہے

مولوی عبد الغفور صاحب نساخ مصنف تذکرہ سخن شعرا بھی اس سے ایک مرتبہ ملے تھے۔ تذکرہ میں اس سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

بائے تازی

 

بستیؔ (ط)

اکبر آباد یعنی آگرہ کی رہنے والی تھی بارہ سو ترانوے ۱۲۹۳ء میں زندہ تھی ایک شعر ملا ہے خوب بلکہ بہت خوب کہا ہے۔

بستی ضرور چاہیے اسباب ظاہری
دنیا کے لوگ دیکھنے والے ہوا کے ہیں

 

بسم اللہؔ

بسم اللہ تخلص تھا۔ نام بسم اللہ بیگم۔ دہلی کی رہنے والی تھیں ان کی والدہ ولایت زا تھیں مگر یہ دلی میں پیدا ہوئیں ابتدائے سن شور سے شعر گوئی کا شوق تھا اور منشی انعام اللہ خان یقین شاگرد مرزا جان جاناں مظہر کی شاگرد تھیں منشی انعام اللہ خان یقین حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں تھے اسلاف سرہند کے رہنے والے تھے مگر ان کا مولد و مسکن دہلی ہی تھا۔ احمد شاہ بادشاہ کے عہد میں ان پر زنا کی تہمت لگائی گئی اور اپنے والد ماجد کے ہاتھ سے بیگناہ قتل ہو کر شہید ہوئے۔ ان کی طبعیت میں حد درجہ کا سوز و گداز تھا۔ کلام میں درد و اثر اس قدر تھا کہ دیکھنے والا اب بھی آہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ صاحب دیوان تھے۔ اب دیوان نایاب ہے لہذا ہم مناسب موقع سمجھ کر یقین مرحوم کا بھی تھوڑا سا کلام یہاں درج کریں گے۔ پہلے بسم اللہ کے کلام سے بسم اللہ کرتے ہیں۔

تری الفت میں یہ حاصل ہوا ہے
گہے مضطر ہے دل گاہے طپاں ہے
نہ کیجیے ناز حسن عارضی پر
نہ سمجھو یہ بہار بے خزاں ہے

اب دو چار شعر انعام اللہ خان یقین کے سنیے۔

اتنا کوئی جہاں میں کبھو بے وفا نہ تھا
ملتے ہی تیرے مجھ سے یہ دل آشنا نہ تھا

جو کچھ کہیں ہیں تجھ کو یقین ہے سزا تری
بندہ جو تو بتوں کا ہوا کیا خدا نہ تھا

ولہ

سریر سلطنت سے آستان یار بہتر تھا
ہمیں ظل ہما سے سایہ دیوار بہتر تھا

ولہ

کعبہ بھی ہم گئے نہ گیا پر بتوں کا عشق
اس درد کی خدا کے بھی گھر میں دوا نہیں

 

بنوؔ (ط)

دلی کی ایک پردہ نشین عفت فروش تھی حسن ظاہری سے نہایت ہی آراستہ تھی۔ گلاب سنگھ کھتری متخلص بہ آشفتہ دہلوی جو خود بھی ایک حسین طرحدار جوان تھے اس پر فریفتہ تھے۔ مگر یہ ظالم قتالہ عالم کبھی ادھر ملتفت نہ ہوتی تھی۔ اور بعض تذکرہ نویس کہتے ہیں کہ بنو بھی آشفتہ پر شیفتہ تھی۔ کچھ دن وصل و وصال میں بسر ہوئے۔ مگر آخر کار فلک تفرقہ انداز رنگ لایا۔ عاشق و معشوق کو جدا کر دیا۔ آشفتہ کی طرف سے اگرچہ وصل اور صفائی کی سینکڑوں تدبیریں کی گئیں مگر سب بے سود اور بے کار ثابت ہوئیں آخر کار ایک خنجر آبدار سے اپنا کام تمام کر لیا۔ اور خون کی سرخ چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے محو خوابِ عدم ہو گئے۔ مگر عشق صادق کا جذب کامل آخر کار رنگ لایا۔ اور بنّو بھی اس واقعہ سے آشفتہ رہنے لگی۔ ہر وقت کے رنج فراق اور سوز جگر نے رفتہ رفتہ حرارت قائم کر دی۔ تپ لازم ہو گئی اور رفتہ رفتہ دِق پر نوبت پہنچی اسی میں کام تمام ہو گیا۔ 1256 ھ یا 57 ھ میں یہ سانحۂ جانگداز پیش آیا۔ شاہ عالم اکبر ثانی کے عہد میں بنّو اور آشفتہ دونوں زندہ تھے۔ محققین کی رائے ہے کہ بنّو کو صرف آشفتہ کے فیض صحبت نے شاعر بنا دیا تھا۔ بہر حال بنّو کے چند شعر سن لیجیے۔ اور اندازہ کیجیے کہ عشق صادق کس طرح پتھر کو موم بنا دیتا ہے۔ یہ وہ شعر ہیں جو آشفتہ کے مرثیہ میں بطریق نوحہ خوانی بنّو نے کہے تھے۔

چھوڑ کر مجھ کو کہاں او بت گمراہ چلا
تو چلا کیا کہ یہ دل بھی ترے ہمراہ چلا

چھٹ گیا غم سے مرا کشتۂ ابرد مر کر
اک چھری میرے گلے پر بھی مری آہ چلا

ولہ

 

موت آتی ہے نہ ہے زیست کا یارا مجھ کو
ہائے آشفتہ ترے مرنے نے مارا مجھ کو

موت پر بس نہیں چلتا ہے کروں کیا ورنہ
تو نہیں ہے تو نہیں زیست گوارا مجھ کو

اب کسے چین کہاں عیش کدھر بستر خواب
نہیں مخمل بھی کم از بستر خارا مجھ کو

ہے غضب وہ تو مَرے اور جیوں میں بنّو
موت آ جائے تو ہو عمر دوبارہ مجھ کو

ولہ

نعش آشفتہ کو بے رحموں نے پھونکا آگ سے
آتش غم ہی جوانا مرگ کی کچھ کم نہ تھی

بعض تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ جیسے ہی بنّو نے مقتول آشفتہ کی جان دہی کا حال سنا دیوانوں کی طرح بے سروپا ہو کر آشفتہ کا یہ شعر پڑھتی ہوئی آشفتہ کے دیکھنے کے لئے بھاگی۔

بچتا نہیں ہے کوئی بھی بیمار عشق کا
یا رب نہ ہو کسی کو یہ آزار عشق کا

مگر گھر کے لوگوں نے دیوانہ سمجھ کر جانے نہ دیا۔ پھر بھی بنّو پر یہ اثر پڑا کہ اسی دن ممنوعات و منہیات سے توبہ کر کے بیٹھ گئی اور چھ مہینہ کے عرصے کے بعد ہمیشہ کے لئے آشفتہ کی روح کو وصال دائمی سے مسرور کر دیا۔

 

بہوؔ

معروف بہ بہو بیگم صاحبہ مرحومہ مغفورہ محل خاص یوسف علی خاں صاحب بہادر مرحوم و مغفور سابق والی رامپور متخلص بہ ناظم نہایت خوب فرماتی تھیں۔ یہ دو شعر تذکرۂ چمن انداز سے نقل کیے جاتے ہیں۔ جو بصورت قطعہ ہیں۔

 

شب بزم ملاقات میں ہر چند یہ چاہا
آنکھیں تو لڑاؤں ذرا اس رشک قمر سے
پر خوف مرے دل میں یہی آیا کہ ہے ہے
نازک ہے نہ دب جائے کہیں تارِ نظر سے

 

بیگمؔ

میر تقی میرؔ کی دختر نیک اختر کا تخلص ہے جو شادی کے چند ہی روز بعد دنیا سے رخصت ہوئیں اور جن کی جوانا مرگی پر میرؔ ایسے مستغنی المزاج شاعر کو خون کے آنسو بہا کر یہ شعر کہنا پڑا۔

اب آیا دھیان اے آرام جاں اس نا مرادی میں
کفن دینا تمھیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں

بعض لوگ اس واقعہ کی طرف اس شعر کو بھی منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ شعر بھی میر صاحب کے دیوان میں موجود ہے۔

 

دریں حدیقہ بہار و خزاں ہم آغوش است
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش است

مگر مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ شعر کسی ایرانی شاعر کے یہاں دیکھا ہے۔ حافظہ یاری نہیں کرتا کہ لکھوں معلوم نہیں کہ میری تحقیقات اور معلومات صحیح ہے یا عقیدت مندوں نے میر صاحب کے لئے اس شعر کو طغرائے امتیاز بنایا ہے۔ بہر حال مرحومہ کے شعر یہ ہیں۔ ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ یہ صاحب دیوان تھیں۔ مگر افسوس کہ اب صرف یہ تین شعر ملتے ہیں۔

برسوں خم گیسو میں گرفتار تو رکھا
اب کہتے ہو کیا تم نے مجھے مار تو رکھا

کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا

اتنا بھی غنیمت ہے تری طرف سے ظالم
کھڑکی نہ رکھی روزنِ دیوار تو رکھا

بیگمؔ

تارا بیگم نام تھا اور یہ نمونۂ کلام تھا اور کچھ حال معلوم نہیں۔

کیوں وصل میں چھپاتا ہے تو ہم سے یار پیٹ
رکھتا ہے سو بہار کی اک یہ بہار پیٹ

بیگمؔ

یہ ایک پنجابن باکمال رقاصہ کا تخلص ہے جو اپنے ہنر اور اپنے حسن و صورت و سیرت سے سودھ کے عیاش مزاج نیک دل سلطان واجد علی شاہ مرحوم کے محل تک پہنچی اور ان کی ممتوعہ ہو کر رشک محل کا خطاب پایا۔ لکھنؤ اور کلکتہ دونوں جگہ بادشاہ کے ساتھ رہی۔ مرتے مرتے حق رفاقت ادا کیا۔ شاعری سے ذوق خاص تھا اور لطف یہ کہ وہ اپنی اصلی بول چال میں شاعری کرتی تھی یعنی اول اول ریختی گوئی کا شوق تھا۔ بعد کو نہ معلوم کیوں اس شاعری کو چھوڑ کر مردانہ شاعری کی طرف مائل ہوئیں۔ یہ شعر مصنف تذکرۃ الشاعرات کے پاس بھیجے تھے اور اب تک اس تذکرہ میں درج ہیں۔

ہے منظور باجی ستانا تمھارا
گلا کرتی ہے جو دُگانا تمھارا
نہ بھیجوں گی سسرال میں تم کو خانم
نہیں مجھ کو دو بھر ہے کھانا تمھارا
مری کنگھی چوٹی کی لیتی خبر ہو
یہ احساں ہے سر پر دُگانا تمھارا
——————————————————

ہوا بال بیکا جو مرزا ہمارا
تو پھر سنگ ہے اور شادا تمہارا
گھر سہ گا نہ کے دوگانا مری مہمان گئی
میں یہ انگاروں پہ لوٹی کہ مری جان گئی

٭٭٭

 

 

 

بائے فارسی

 

پارساؔ

پارساؔ تخلص ہے نواب میرزا محد تقی خاں ہوس کی دختر نیک اختر کا۔ جو اپنے وقت کے نہایت ہی مشہور و معروف شاعر تھے۔ بعض تذکرہ والے لکھتے ہیں کہ یہ نواب آصف الدولہ کے عزیز قریب تھے اور زمرۂ مصاحبین میں ایک ممتاز درجہ رکھتے تھے۔ صاحب دیوان تھے۔ مثنوی لیلی مجنون کے مصنف ہیں جو مطبع منشی نو لکشور لکھنو میں شائع ہو چکی ہے۔ بعض غلط نویسوں نے لکھ دیا ہے کہ ان کا کوئی شعر لیلی مجنوں کے واقعات سے خالی نہیں ہوتا۔ مگر یہ سراسر غلط ہے۔ ان کے سینکڑوں شعر ان دونوں ناموں سے خالی ہیں۔ مگر ہاں بحر متقارب اور متدارک میں ان کا کلام بیشتر ہے

چمن انداز کا مصنف ایک عجیب و غریب روایت بیان کرتا ہے کہ پارسا کی شادی عمر بھر اس خیال سے نہیں کی گئی تھی کہ ان کے والد یعنی میر تقی ہوس اس بات کو عار سمجھتے تھے کہ کوئی داماد آئے۔ نمونۂ کلام

تن صورت حباب بنا اور بگڑ گیا
یہ قصر لاجواب بنا اور بگڑ گیا
چلتا نہیں ہے ابلق ایام ایک چال
اکثر یہ بد رکاب بنا اور بگڑ گیا

پٹہ بازؔ

کہا جاتا ہے کہ غدر سے پہلے یہ ناظورہ عصمت فروش سہارن پور میں موجود تھی۔ اور خوبیوں میں اس کی شاعری نے اضافہ کر دیا تھا

کرتیاں جالی کی پہنے ہیں جوانان حسین
حسن کی فوج میں دیکھے یہ زرہ پوش نئے

پرویںؔ

عزیزہ عابدہ خانم نام ہے۔ اکثر گلدستوں میں نظمیں وغیرہ شائع ہوتی رہتی ہیں۔ نظموں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ نہایت اچھا شعر کہہ سکتی ہیں۔ 1927ء جب کہ میں تذکرہ میں آپ کا ذکر کر رہا ہوں اس وقت تک اپنی سخن سنجی سے سامعہ نوازی کا اہل ذوق کو موقع دیتی ہیں۔ زمانہ حال کی خوش گو شاعرہ ہیں۔ تفصیل کے ساتھ حال معلوم نہ ہو سکا۔ چند رباعیاں جو سرما کے متعلق ہی لکھتا ہوں۔

 

ورود سرما

رباعی

برسات گئی تو فصل سرما آئی
با دامنِ تر نسیم دریا آئی
اللہ ری سرد مہری وادی نجد
بردِ یمنی میں چھپ کے لیلیٰ آئی

باغوں میں وہ لطف سیر کا بھی نہ رہا
برفاب کا ذوق جانفزا بھی نہ رہا
سردی نے نشاط صبح پانی کر دی
جمنا پہ نہانے کا مزا بھی نہ رہا

گرما میں وہ سرگرمی احباب کہاں
وہ جلوۂ بحر و موج و سیماب کہاں
آسودگیِ لحاف رنگیں معلوم
نظارۂ تاج و شب مہتاب کہاں

دل سرد ہے جا بادۂ عنابی لا
سونے کے لئے حسین مہتابی لا
دس بجنے کو آئے نیند کا نام نہیں
اے اوّل شب لباس شب خوابی لا

اب غزل کے چند اشعار درج کرتا ہوں جو میرے اندازہ میں حد مشق شاعری کا پتہ دیتے ہیں۔

خبر میری نہ لی برباد کر کے فتنہ گر تو نے
میں تکتی رہ گئی اور پھیر لی اپنی نظر تو نے
پتا ہے اے صبا میرا نہ گلشن میں نہ مدفن میں
نہ جانے میری مٹی پھینک دی ظالم کدھر تو نے
سزا ملتی ہے لیکن بے وفا ایسی نہیں ملتی
ذرا سے جرم الفت پر ستایا عمر بھر تو نے
فریبِ کامیابی اے دلِ مضطر مبارک ہو
اک امید اثر پر آہ کھینچی رات بھر تو نے
تجھے تو صبحِ محشر کی گرانجانی سے لرزہ ہے
ابھی میری مصیبت کی کہاں دیکھی سحر تو نے
ابھی اک تیر سا سینہ میں آ کر کر گیا زخمی
کیا تھا کیا خدا معلوم سینہ تان کر تو نے
لطائف رہگذار برج کے کچھ تو سنا پرویںؔ
علی گڑھ سے کیا ہے خوب متھرا کا سفر تو نے

غالباً نومبر 24 ء کی کے رسالۂ پیمانہ میں ساغر صاحب ایڈیٹر پیمانہ نے اپنی ایک تصویر (ساغر عالم رنگ و بوم) کے عنوان سے شائع کی تھی جس کو دیکھ کر پروین نے یہ نظم کہی۔ نظم نقل کرنے سے پہلے مجھے یہ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آج کل ملک کے موقر رسالے جو خواتین ہند کی عریاں نویسی کے عنوان سے متواتر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان کی بانی ایسی ہی نظمیں ہو سکتی ہیں جو بلا شک صنف نازک کے لئے مخرب اخلاق کہی جا سکتی ہیں۔

 

پہلا رخ

یہ وقار یہ متانت یہ ترا کم صباحت
یہ جبین صبح طلعت یہ تلاطم لیاقت
یہ حسین وضع و تمکین یہ نظر کی دل فریبی
یہ تناسب مؤثر یہ فسون جامہ زیبی
لب رنگ آفریں میں یہ چھپا ہوا تبسم
یہ دہان غنچہ پیرا یہ تراوش تکلم

دوسرا رخ

یہ لگاوٹیں یہ شوخی یہ ادائے بے حجابی
کسی کنج گل میں جیسے ہو پڑا کوئی شرابی
یہ غدار بوس کاکل یہ نمائش پریشاں
کہ شراب جیسے اڑ کر بنے آتش گلستاں

یہ کھلا ہوا گریباں یہ نمود جوشِ مستی
یہ خمار ریز آنکھیں یہ شباب مے پرستی
تری مستیاں وہ سمجھے جو خراب رنگ و بو ہو
ارے او جوان ساغر یہ جہاں ہو اور تو ہو

پری (ط)

بی سیرہ نام عرف بی میجو۔ کلکتہ کی ایک یہودن تھی۔ خوش صورت۔ خوش سیرت تھی۔ انگریزی بھی جانتی تھی۔ اردو فارسی میں بھی مہارت رکھتی تھی۔ تھوڑی بہت عربی سے بھی باخبر تھی۔ کبھی کبھی اردو میں فکر شعر کرتی 1299 ھ میں زندہ موجود تھی۔

نمونۂ کلام یہ ہے۔

سن کے میرا غصۂ و غم ہنس کے کہتا ہے وہ شوخ
ہم نہ سمجھے کچھ کہ اس قصہ کا حاصل کیا ہوا

اب کسی کے پاؤں میں ایسے کڑے پڑتے نہیں
بعد میرے ناز و اندازِ سلاسل کیا ہوا

ہم ہیں اور آپ ہیں خلوت میں کوئی غیر نہیں
کیا عجب چین سے ہو جائے بس وصل کی رات

پری (ط)

بچن جان نام اکبر آباد کی ایک شاہد بازاری کا تخلص تھا۔ منشی فدا حسین امیر (جن کا کہیں تذکروں میں پتا نہیں چلا) کی شاگرد تھیں۔ انھیں سے مشق سخن کرتی تھیں اور اردو میں اکثر فکر شعر کرتی تھیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

گیسو پُر پیچ جاناں کے حضور
پیچ کی لیتا ہے تو سنبل عبث

سلسلہ زنجیر کا اچھا نہیں
ہے خیال گیسو و سنبل عبث

پکھراج (ط)

پکھراج بیگم نام تھا۔ اکبر آباد مولد اور اٹاوہ مسکن تھا۔ اردو میں شعر کہتی تھیں۔ شعروں سے پتہ چلتا ہے کہ بہت عمدہ طبیعت پائی تھی۔ آمد کا کلام میں خاص خیال رکھتی تھیں۔

ہمیں ہر طرح ٹھہرتے ہیں خطاوار ان کے
جب بگڑتی ہے کوئی بات بنا دیتے ہیں

خواب میں سیر کیا کرتی ہیں آنکھیں ان کی
جب و سوتے ہیں تو جادو کو جگا دیتے ہیں

ولہ

ساتھ لے جاتے غم یار نہ کیونکر پس مرگ
ایسے بے زاد سفر قصدِ سفر کیا کرتے

بار اٹھ سکتا نہیں موئے کمر کا ان سے
پھر وہ شمشیر گراں زیب کمر کیا کرتے

یہ ملاحت رخ دل کش کی کہاں سے لاتے
ہمسری تجھ سے بھلا شمس و قمر کیا کرتے

ساتھ ہم لے گئے سرمایہ عدم کو اپنا
درد دل دیتے کسے سوز جگر کیا کرتے
۔۔۔

جدا نہ غم سے رہا زیر آسماں کوئی
بچا نہ ہاتھ سے اس پیر کے جواں کوئی
۔۔۔

دنیا میں مثل خواب ہماری حیات ہے
کیونکر خیال یار نہ پیش نظر رہے

تاریکی عمل سے کیا گور میں مقام
منزل میں شب ہوئی تو سرا میں اتر رہے

پکھراجؔ بعد مرگ بھی غم ساتھ لے چلو
بہتر ہے پاس اپنے جو زادِ سفر رہے

پنہاںؔ

تخلص ہے سپہر آرا خاتون نام ہے۔ رابعہ خطاب ہے۔ آپ بریلی کے ایک معزز خاندان سے ہیں۔ مولوی عبد الاحد خاں صاحب جو الہ آباد کے سر رشتہ تعلیم سے تعلق رکھتے تھے اور جن کی ادبی خدمات ہر طرح قابل توجہ ہیں۔ ان کی صاحبزادی ہیں۔ زمانۂ موجودہ کی بہترین شاعرہ ہیں۔ نظم و نثر میں کافی مہارت رکھتی ہیں۔ بلکہ نظم و نثر کے علاوہ آپ زبان فارسی میں بھی نہایت اچھے شعر کہتی ہیں۔ زنانہ رسالوں کے علاوہ بھی کوئی ادبی رسالہ آپ کے فیض سخن سے محروم نہیں ہے۔ میں جملہ اقسام کلام کا کچھ نمونہ پیش کرتا ہوں۔ غزل کا نمونہ

سینہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے
دل رنگ گلستان تمنا لیے ہوئے
ہے آہ درد و سوز کی دنیا لیے ہوئے
طوفان اشک خون ہے گریا لیے ہوئے
اک کشتۂ فراق کی تربت پہ نوحہ گر
داغ جگر میں شمع تمنا لیے ہوئے
میں اک طرف ہوں شکل خزاں پائمال یاس
اک سمت وہ بہار کا جلوا  لیے ہوئے
جانا سنبھل کے اے دل بے تاب بزم میں
ہے چشم ناز محشر غم زا لیے ہوئے
سوزاں نہ یہ چمن ہو مرے نور آہ سے
او گلشن جمال کا جلوا لیے ہوئے
مجنوں سے تو حقیقت صحرائے نجد پوچھ
ہے ذرہ ذرہ جلوۂ لیلا لیے ہوئے
عشق جنوں نواز چلا بزم ناز میں
اک اضطراب و شوق کی دنیا لیے ہوئے
میری تو ہر نگاہ ہے وقف عبودیت
وہ ہر ادا میں حسن کلیسا لیے ہوئے
مرہم سے بے نیاز ہیں پنہاںؔ یہ زخمِ دل
کیا کیا فسوں ہے چشمِ دل آرا لیے ہوئے

ایک نظم کے دو چار شعر لکھتا ہوں جو انھوں نے اپنے والد جناب مولوی عبد الاحد خاں صاحب مرحوم کے انتقال کے صدمہ سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ تمام و کمال نظم لکھ دوں مگر چونکہ بہت طویل ہے اس لئے دو چار شعر منتخب کر کے لکھتا ہوں۔

آہ وہ ایام عشرت ہائے وہ لیل و نہار
واپس آ سکتے نہیں اس زندگی میں زینہار
نالے آتش ریز آہیں خون میں ڈوبی ہوئی
آنکھ غم آگیں نگاہیں خون میں ڈوبی ہوئی
سوزشِ پنہاں سے پڑتے ہیں زباں میں آبلے
ہونٹ تھر تھر کانپتے ہیں گفتگو کرتے ہوئے
کیا خبر تھی اس طرح لٹ جائے گا یہ کارواں
کیا خبر تھی در پئے آزار ہو گا آسماں
اے اجل کیوں تو نے لوٹے میرے اسباب نشاط
ابر غم سے ہو گیا بے نور مہتاب نشاط
آ نہیں سکتا پھر اب وہ وقت اے پنہاں کبھی
صبح دم بستر سے میں اٹھتی ہوں با صد خرمی
پڑھ رہے ہیں تخت پر وہ میرے ابا جاں نماز
اور جبین نور افشاں سے ٹپکتا ہے نیاز
چھاؤں میں تاروں کی بے فکری سے ہیں لیٹے ہوئے
گرد سب بچے ہیں ان کے شادماں بیٹھے ہوئے
ہائے ابا جان اک دم اس طرح پھیری نگاہ
اس جہاں میں اف ہمیں چھوڑا تڑپتا آہ آہ
رابعہ صدقے گئی یہ بند آنکھیں کھولئے
آہ ان معجز نما ہونٹوں سے کچھ تو بولئے
ہائے سینہ سے لگا لیجے ہمیں پھر ایک بار
ہو رہے ہیں دیکھئے ہم لوگ کتنے بے قرار
اے اجل تجھ کو مبارک ہوں یہ ظلم آرائیاں
لوٹ لے دل کھول کر ظالم یہ گلزار جہاں
ہے مزین اپنی ہستی سے ترے دریائے ظلم
ہے ہمارے خون سے لبریز یہ مینائے ظلم
میری بربادی میں مضمر تیرا راز زندگی
سوز ہے مظلوم کا ظالم کا ساز زندگی
آہ ہو جائے شکستہ کاش یہ تار نفس
ہو کہیں آزاد یہ مرغ گرفتار قفس
کر دے اے باد اجل گل اب میری شمع حیات
میری روزِ زندگی کی کاش اب ہو جائے رات

ایک فارسی غزل کے اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے۔ خسرو کی نکالی ہوئی زمین پر آپ نے بھی نہایت عمدہ طریقہ سے طبع آزمائی کی ہے۔

جمالش زینت دل بود شب جائیکہ من بودم
بہ چشمم دہر باطل بود شب جائیکہ من بودم
زفیض جنبش ابروے آں شوخ کماں سازی
دل من نیم بسمل بود شب جائیکہ من بودم
نگاہم بر تجّلائے رخ آئینہ رخسارے
سرم بر پائے قاتل بود شب جائیکہ من بودم
بپرس از رہرو کامل طریق عشق و الفت را
سر تلوار منزل بود شب جائیکہ من بودم
خودش را من ندانستم چہ دانم صدر را صوفی
گل صد برگ محفل بود شب جائیکہ من بودم
دلم پرداخت با بادِ جمال دوست و او با من
وجود غیر باطل بود شب جائیکہ من بودم
چساں دل محو میسازد زیادم کیف دوشینہ
دلم نخچیر قاتل بود شب جائیکہ من بودم
زفیض نرگس مستان ساقی شد بپا محشر
جہان بیخبر دل بود شب جائیکہ من بودم
خط رنگیں کہ بر پیشانی بسمل کشیدہ تیغ
نشان عشق کامل بود شب جائیکہ من بودم
خم زلف نگارے کرد پنہاںؔ طرفہ اعجازے
خیالم در سلاسل بود شب جائیکہ من بودم

پیاری تخلص (ط)

پیاری جان نام تھا۔ وادہواں رنگ محل متعلقہ گجرات کی رہنے والی تھیں۔ شاہد بازاری اور بازار کی زینت افزا تھیں۔

1299 ھ میں غالباً زندہ تھیں۔ ایک شعر تذکرۂ شمیم سخن میں ملا ہے۔ جو درج تذکرہ ہے۔

کچھ نہ پوچھو اشتیاق وقت نزع
دو قدم جاتی ہے پھر آتی ہے روح

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل