فہرست مضامین
- تفسیر سورۂ الحمد
- مقام نزول
- اعداد آیات
- فضیلت
- تفسیر آیات
- تفسیر آیات
- الْحَمْدُ للّہِ
- رَبِّ الْعَالَمِينَ
- (۳) الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ۳۔جو رحمٰن و رحیم ہے۔
- 4- مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
- 5- إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
- إِيَّاكَ نَعْبُدُ
- 6- اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما
- 7- صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيہِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيہِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ.
- حوالہ جات
تفسیر سورۂ الحمد
محسن علی نجفی
بسم اللہ الرحمن الرحيم(1)
الْحَمْدُ للّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (2) الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ (3) مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (5) اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ (6) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيہِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيہِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ (7)
یہ سورہ قرآن کریم کا افتتاحیہ اور دیباچہ ہے۔ اہل تحقیق کے نزدیک قرآنی سورتوں کے نام توقیفی ہیں یعنی خود رسول کریم ﷺ نے بحکم خدا ان کے نام متعین فرمائے ہیں ۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن عہد رسالت مآب ﷺ میں ہی کتابی شکل میں مدون ہو چکا تھا، جس کا افتتاحیہ سورہ فاتحہ تھا۔ چنانچہ حدیث کے مطابق اس سورے کو فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ ‘’ کتاب کا افتتاحیہ’‘ کہا جاتا ہے۔
مقام نزول
سورہ حجر میں ارشاد ہوتا ہے :
وَ لَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ۔ [1]
اور بتحقیق ہم نے آپ کو (بار بار) دھرائی جانے والی سات (آیات) اور عظیم قرآن عطا کیا ہے۔
سبع مثانی سے مراد بالاتفاق سورہ حمد ہے اور اس بات پر بھی تمام مفسرین متفق ہیں کہ سورہ حجر مکی ہے۔ بنابریں سورۂ حمد بھی مکی ہے۔ البتہ بعض کے نزدیک یہ سورہ مدینہ میں نازل ہوا۔
اعداد آیات
تقریباً تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ سورہ حمد سات آیات پر مشتمل ہے لیکن اس بات میں اختلاف ہے کہ سو رہ حمد کا جزو ہے یا نہیں ؟بسم اللّٰہ کو سورے کا جزو سمجھنے والوں کے نزدیک صراط الذین سے آخر تک ایک آیت شمار ہوتی ہے اور جو لوگ اسے جزو نہیں سمجھتے وہ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کو ایک الگ آیت قرار دیتے ہیں۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام میں بسم اللہ الرحمن الرحيم سورہ توبہ کے علاوہ تمام سورتوں کا جزو ہے۔
فضیلت
سورۂ فاتحہ کی فضیلت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پورے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔
مروی ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے آباء طاہرین کے ذریعے سے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فاتحۃ الکتاب کی آیات میں شامل ہے اور یہ سورہ سات آیات پر مشتمل ہے جو بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے مکمل ہوتا ہے۔ میں نے رسول خدا ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ عز و جل قَالَ لِیْ: یَا مُحَمد وَ لَقَد آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَ الْقُرْآنَ الْعَظِیْمَ فَاٴفْرَدَ الْاِمْتِنَانَ عَلَیَّ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَ جَعَلَھَا بِاِزَاءِ الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَ إنَّ فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ اَشْرَفُ مَا فِیْ کُنُوْزِ الْعَرْشِ[2]
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے محمدﷺ ! بتحقیق ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم عطا کیا ہے۔ پس اللہ نے مجھے فاتحۃ الکتاب عنایت کرنے کے احسان کا علیحدہ ذکر فرمایا اور اسے قرآن کا ہم پلہ قرار دیا۔ بے شک فاتحۃ الکتاب عرش کے خزانوں کی سب سے انمول چیز ہے۔
آیت
آیت سے مراد ‘’ نشانی’‘ ہے۔ قرآن مجید کی ہر آیت مضمون اور اسلوب کے لحاظ سے اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اسی لیے اسے آیت کہا گیا ہے۔
آیات کی حد بندی توقیفی ہے،یعنی رسول خدا ﷺ کے فرمان سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مکمل آیت کتنے الفاظ اور کن عبارات پر مشتمل ہے۔ چنانچہ حروف مقطعات مثلاً کھیعص ایک آیت ہے، جب کہ اس کے برابر حروف پر مشتمل حمعسق دو آیتیں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن مجید کی کل آیات چھ ہزار چھ سو (۶۶۰۰) ہیں [3] قرآن مجید کے کل حروف تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو اکہتر( ۳۲۳۶۷۱) ہیں ،جب کہ طبرانی کی روایت کے مطابق حضرت عمر سے مروی ہے : القرآن الف الف حرف یعنی قرآن دس لاکھ (۱۰۰۰۰۰۰) حروف پر مشتمل ہے۔ [4] بنا بریں موجودہ قرآن سے چھ لاکھ چھہتر ہزار تین سو انتیس (۶۷۶۳۲۹) حروف غائب ہیں۔
حق تو یہ تھا کہ اس روایت کو خلاف قرآن قرار دے کر رد کر دیا جاتا، مگر علامہ سیوطی فرماتے ہیں :
وَ قَدْ حُمِلَ ذَلِکَ عَلَی مَا نُسِخَ رَسْمُہ مِنَ الْقُرْآنِ ایضاً اِذ الْمُْوجُوْدُ اَلْآنَ لاَ یَبْلُغُ ھَذَا الْعَدَدَ۔[5]
روایت کو اس بات پر محمول کیا گیا ہے کہ یہ حصہ قرآن سے منسوخ الرسم ہو گیا ہے کیونکہ موجودہ قرآن میں اس مقدار کے حروف موجود نہیں ہیں ۔
کتنا غیر معقول موقف ہے کہ قرآن کا دو تہائی منسوخ الرسم ہو جائے اور صرف ایک تہائی باقی رہ جائے؟!
سورہ
قرآن جس طرح اپنے اسلوب بیان میں منفرد ہے، اسی طرح اپنی اصطلاحات میں بھی منفرد ہے۔ قرآن جس ماحول میں نازل ہوا تھا،اس میں دیوان، قصیدہ، بیت اور قافیے جیسی اصطلاحات عام تھیں ، لیکن قرآن ایک ہمہ گیر انقلابی دستور ہونے کے ناطے اپنی خصوصی اصطلاحات کا حامل ہے۔قرآنی ابواب کو ‘’سورہ’‘ کا نام دیا گیا، جس کا معنی ہے ’’بلند منزلت‘‘ کیونکہ ہر قرآنی باب نہایت بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہے۔
سورہ کا ایک اور معنی فصیل شہر ہے۔ گویا قرآنی مضامین، ہر قسم کے تحریفی خطرات سے محفوظ ایک شہر پناہ کے احاطے میں ہیں۔
۱ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ بنام خدائے رحمن و رحیم
تاریخی حیثیت
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے مبارک نام سے ہر کام کا آغاز و افتتاح الٰہی سنت اور آداب خداوندی میں شامل رہا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے علم الاسماء سے نوازا گیا۔ حدیث کے مطابق اللہ کی ذات پر دلالت کرنے والے تکوینی اسماء یہی انبیاء و اوصیاء علیہم السلام ہیں۔
حضرت نوح (ع) نے کشتی میں سوار ہوتے وقت فرمایا: بِسْمِ اللّٰہِ مَجْریہا وَ مُرْسٰھا [6] حضرت سلیمان(ع) نے ملکہ سبا کے نام اپنے خط کی ابتدا بسم اللہ سے کی: اِنَّہ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَ اِنَّہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ [7]حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر جب پہلی بار وحی نازل ہوئی تو اسم خدا سے آغاز کرنے کا حکم ہوا : اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ-[8]
یہ الٰہی اصول ہر قوم اور ہر امت میں رائج ہے:
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَامَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ .[9]
اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک دستور مقرر کیا ہے تاکہ وہ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں عطا کیے ہیں۔
وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا۔ [10]
اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو۔
وَ اذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلاً۔[11]
اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں۔
قرآنی حیثیت
اس بات پر ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ جزو سورہ ہے۔ مکہ اور کوفہ کے فقہاء اور امام شافعی کا نظریہ بھی یہی ہے۔ عہد رسالت میں بتواتر ہر سورہ کے ساتھ بسم اللّہ کی تلاوت ہوتی رہی اور سب مسلمانوں کی سیرت یہ رہی ہے کہ سورہ برأت کے علاوہ باقی تمام سورتوں کی ابتدا میں وہ بِسْمِ اللّٰہ کی تلاوت کرتے آئے ہیں۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بِسْمِ اللّٰہ درج تھی، حالانکہ وہ اپنے مصاحف میں غیر قرآنی کلمات درج کرنے میں اتنی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے کہ قرآنی حروف پر نقطے لگانے سے بھی اجتناب کرتے تھے۔
عصر معاویہ تک یہ سیرت تواترسے جاری رہی۔ معاویہ نے ایک بار مدینے میں بِسْمِ اللّٰہ کے بغیر نماز پڑھائی تو مہاجرین و انصار نے احتجاج کیا :
یا معاویہ اٴسرقت الصلاۃ اٴم نسیت اَیْنَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ۔[12]
اے معاویہ! تو نے نماز چوری کی ہے یا بھول گئے ہو۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ کہاں گئی؟
معاویہ اور اموی حکام نے قرآن سے بِسْمِ اللّٰہ کو حذف کیا، لیکن ان کے مصلحت کوش پیروکاروں نے اسے ترک تو نہیں کیا، مگر آہستہ ضرور پڑھا، حالانکہ قرآن کی تمام سورتوں میں بِسْمِ اللّٰہ کے ایک الگ آیت شمار ہونے پر متعدد احادیث موجود ہیں :
۱۔ عن طلحہ بن عبید اللہ قال: قال رسول اللہ ﷺ : مَنْ تَرَکَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم فَقَدْ تَرَکَ آیَۃً مِنْ کتٰابِ اللہ [13]
طلحہ بن عبید اللہ راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جس نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم کو ترک کیا، اس نے قرآن کی ایک آیت ترک کی۔
۲۔ حضرت انس راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ آپﷺ پر غشی کی سی کیفیت طاری ہو گئی پھر مسکراتے ہوئے سر اٹھایا۔ ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کس بات پرمسکرا رہے ہیں ؟ فرمایا :
اُنْزِلَتْ عَلَیَّ آنِفَاً سُوْرَۃٌ فَقَرَاٴَ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ۔[14]
ابھی ابھی مجھ پر ایک سورہ نازل ہوا ہے۔ پھر پڑھا: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر۔
۳۔ ابن عمر راوی ہیں کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ہر سورہ کے ساتھ نازل ہوئی ہے۔ [15]
۴۔حضرت ابن عباس کہتے ہیں :
جب رسول اللہ ﷺ کے پاس جبرائیل بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لے کر نازل ہوتے تو آپﷺ کو معلوم ہو جاتا تھا کہ جدید سورہ نازل ہونے والا ہے۔[16]
لیکن بااین ہمہ امام ابوحنیفہ بسم اللہ کو سورۂ حمد سمیت کسی بھی قرآنی سورے کا جزو نہیں سمجھتے۔ مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو القرآن الکریم و روایات المدرستین از علامہ مرتضیٰ عسکری۔
بسم اللہ سورہ حمد کی ایک آیت ہے
اس بارے میں متعدد روایات موجود ہیں۔ جن کے راوی درج ذیل جلیل القدر اصحاب ہیں :
۱۔ ابن عباس کہتے ہیں :
رسو ل اللہﷺ سورۂ حمد کی ابتدا بسم اللہ سے کرتے تھے۔[17]
حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی مشہور ہے:
شیطان نے لوگوں سے قرآن کی سب سے بڑی آیت چرا لی ہے۔[18]
۲۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں :
رسول اللہ ﷺ سورہ حمد میں بسم اللہ پڑھتے تھے۔[19]
۳۔جابر [20]
۴۔ نافع [21]
۵۔ ابوہریرہ
۶۔ انس بن مالک [22]
بسم اللہ کا بالجہر (آواز سے ) پڑھنا
اس بات پر بھی کبار اصحاب کی متعدد روایات موجود ہیں کہ رسول اللہﷺ بسم اللہ کو آواز کے ساتھ پڑھتے تھے۔
۱۔ ابو ہریرہ راوی ہیں :
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ: ثم عَلَّمَنِی جِبْرائِیْلُ الصَّلَوۃَ فَقَامَ فَکَبَّرَ لنا.
رسول اللہ (ص ) نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے نماز سکھائی۔پس وہ کھڑے ہوئے،
ثمَّ قَرَاٴَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِیْمَا یُجْھَرُ بِہِ فِی کُلِّ رَکْعَۃٍ [23]
تکبیر کہی تاکہ اقتداء کی جائے، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ہر رکعت میں بالجہر پڑھی۔
۲۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں :
رسو ل اللہﷺ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو بالجہر پڑھتے تھے۔ [24]
۳۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے :
رسول اللہ ﷺ دونوں سورتوں میں کو بالجہر پڑھتے تھے۔[25]
۴۔ ابو ہریرہ کہتے ہیں :
رسول اللہﷺ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو بالجہر پڑھتے تھے مگر لوگوں نے اسے ترک کر دیا۔ [26]
۵۔ ابو طفیل امام علی بن ابی طالب (ع)سے روایت کرتے ہیں :
رسو ل اللہ ﷺ بسم اللہ کو واجب نمازوں میں بالجہر پڑھتے تھے۔[27]
۶۔ انس بن مالک کہتے ہیں :
میں نے سنا کہ رسول اللہ بسم اللّٰہ کو بالجہر پڑھتے تھے۔ [28]
۷۔ ابن عمر راوی ہیں :
میں نے نبیﷺ ،ابوبکر اور عمر کے پیچھے نمازیں پڑھیں ۔وہ سب بسم اللّٰہ کو بالجہر پڑھتے تھے۔[29]
۸۔ انس راوی ہیں :
میں نے نبیﷺ ابوبکر، عمر اور علی علیہ السلام کے پیچھے نمازیں پڑھیں۔ سب نے بسم اللّٰہ کو بالجہر پڑھا۔ [30]
اس کے علاوہ بہت سے علماء نے بسم اللّٰہ کو بالجہر پڑھنے اور اس کے ضروری ہونے پر خصوصی کتب تالیف کی ہیں مثلاً:
۱۔ کتاب البسملۃ۔ تالیف :ابن خزیمہ متوفی ۳۱۱ ھ
۲۔ کتاب الجھر بالبسملۃ۔ تالیف : خطیب بغدادی متوفی ۴۶۳ ھ
۳۔ کتاب الجھر بالبسملۃ۔ تالیف:ابو سعید بو شیخی متوفی ۵۳۶ ھ
۴۔کتاب الجھر بالبسملۃ۔ تالیف:جلال الدین محلی شافعی متوفی۸۶۴ھ
ملاحظہ ھو: القرآن و روایات المدرستین
تشریح کلمات
اسم : ( سم و) یہ لفظ اگرسمو سے مشتق ہو تواس کا معنی ‘’بلندی’‘ ہے کیونکہ ا سم اپنے معنی کو پردۂ خفا سے منصہ شہود پر لاتا ہے اور اگر و سم سے مشتق ہو تو ‘’علامت ‘‘ کے معنی میں ہے۔
اللّٰہ : ( ا ل ہ ) اَ لَہَ یعنی عَبَدَ۔ الٰہ سے مراد ہے معبود۔ حذف ہمزہ کے بعد ا ل معرفہ داخل کرنے سے اللہ بن گیا۔یہ اسم ذات ہے جو اللہ کی مقدس ذات سے مخصوص ہے۔ ھَلْ تَعْلَمُ لَہ سَمِیًّا [31] ‘’ کیا اس کا کوئی ہم نام تیرے علم میں ہے۔ ‘‘
اَلرَّحْمٰن: (ر حم ) رحمت سے صیغۂ مبالغہ ہے یعنی نہایت رحم کرنے والا ‘’ مہربان ‘‘، جس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہو۔یہ لفظ اللہ تعالیٰ کا خصوصی لقب ہے۔
الرَحِیْم: صفت رحم سے متصف ذات جس کی رحمت کثیر ہو۔ یہ ‘’ شریف ‘‘ اور ‘’ کریم ‘‘ کے وزن پر ہے اور یہ وزن ایسی صفت بیان کرنے کے لیے آتا ہے جو کسی ذات کے لاینفک لوازم میں سے ہو۔
تفسیر آیات
بِسْمِ اللّٰہِ
بسم اللہ میں باء ‘’ استعانت ‘‘کے معنی میں ہے یعنی میں سھارا اور مدد لیتا ہوں اللہ کے نام سے۔
اولاً تو لفظ اللّٰہ ہی اسم اعظم ہونے کے اعتبار سے بہت بڑا سھارا ہے۔ ثانیاً اسم سے مراد مسمی ہوتا ہے۔ جیسے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ [32] میں نام خدا کی نہیں بلکہ ذات خدا کی تسبیح مراد ہے۔
قرآن کا ہر سورہ انسانیت کے لیے صحیفۂ نجات ہے۔ اس لیے ہر سورے کی ابتدا بسم اللہ سے ہوتی ہے۔ ‘’اسم’‘ ذات کی ترجمانی کرتا ہے،کیونکہ اسم اگر قرار دادی اور اعتباری ہو تو اس کے لیے مخصوص الفاظ منتخب کیے جاتے ہیں اور اگر تکوینی ہو تو اس مقصد کے لیے مخصوص ذات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ الفاظ کی شکل میں اسم اعظم بسم اللّٰہ ہے اور ذات کی شکل میں اسم اعظم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات اقدس ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی تشریعی و تدوینی کتاب قرآن کو بسم اللّٰہ سے شروع کیا، اسی طرح اپنی تکوینی کتاب ‘’کائنات’‘ کی ابتدا ذات محمدﷺ سے کی اور تمام مخلوقات سے پہلے نور محمدی ﷺ خلق فرمایا:
اِبْتَدَاٴَ اللّٰہُ کِتَابَہ التَّدْوِیْنِی بِذِکْرِ اِسْمِہِ کَمَا اِبْتَدَاٴَ فی کِتَابَہُ التَّکْوِینِِی بِاِسْمِہِ الْاتَمْ فَخَلَقَ الْحَقِیقَۃَ الْمُحَمَّدِیَّۃَ وَ نُوْرَ النَّبِیِّ الْاَکْرَمِ قَبْلَ سَائِرِ الْمَخْلُوقِیْنَ [33]
اللہ تعالیٰ نے اپنی تدوینی کتاب کی ابتدا اپنے نام سے کی جیساکہ اس نے اپنی تکوینی کتاب کی ابتدا اپنے کامل اسم سے کی۔ چنانچہ تمام مخلوقات سے پہلے حقیقت اور نور محمدی ﷺ کو خلق کیا۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
۱۔ قرآن کی ابتدا ذکر رحمت سے ہو رہی ہے۔ خود قرآن بھی اللہ کی عظیم رحمت ہے :
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہو شِفَاءٌ وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ [34]
اور ہم قرآن میں سے ایسی چیز نازل کرتے ہیں جو مومنین کے لیے تو شفا اور رحمت ہے۔
خود رسول کریم ﷺ بھی اللہ کی عظیم رحمت ہیں :
وَ مَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ[35]
اور (اے محمد) ہم نے آپ کو عالمین کے لیے بس رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔
رحمت کی اس غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خداوند عالم نے رحمت کو اپنی ذات پر لازم قرار دے رکھا ہے:
کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۔ [36]
تمھارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے۔
۲۔رحمٰن۔بے پایاں رحم کرنے والا۔ مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس پر رحم کرنے والا ہے۔اس کا راز یہ ہے کہ اگر اس کا ذکر کر دیا جاتا تو خدا کی رحمانیت اسی کے ساتھ مخصوص ہو جاتی جب کہ ذکر نہ کرنے سے اللہ کی رحمانیت کا دائرہ وسیع رہتا ہے۔ لفظ الرحمٰن ہمیشہ کسی قید و تخصیص کے بغیر استعمال ہوتا ہے یعنی رحمٰن بالمؤمنین نہیں کہا جاتا کیونکہ خدا فقط مومنین پر ہی رحم کرنے والا نہیں ہے :
فَاِنَّ کَلِمَۃَ الرَّحْمٰن فیِ جمیع موارد استعمالھا مَحْذُوْفَۃُ الْمُتَعَلَّقِ فَیُسْتَفَادُ مِنْھا الْعُمُوْمُ وَ اٴَنَّ رَحْمَتَہُ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ۔[37]
لفظ رحمٰن جہاں بھی استعمال ہوا ہے اس کا متعلق محذوف ہے، اسی لیے اس سے عمومیت کا استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت ہر شے کو گھیرے ہوئے ہے۔
۳۔رحمن اور رحیم کو بِسْمِ اللّٰہ جیسی اہم ترین آیت میں باہم ذکر کرنے سے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آ جاتی ہے کیونکہ رحمن سے رحم کی عمومیت و وسعت وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ[38] ‘’اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے’‘ اور رَحیم سے رحم کا لازمۂ ذات ہونا مراد ہے کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ۔[39] چنانچہ اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں۔
۴۔ رحمٰن اور رََحیم ، رحمسے مشتق ہیں ،جو احتیاج، ضرورت مندی اور محرومی کے موارد میں استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی شے کے فقدان کی صورت میں احتیاج، ضرورت اور پھر رحم کا سوال پیدا ہوتا ہے اور رحم کرنے والا اس چیز کا مالک ہوتا ہے جس سے دوسرا شخص (جس پر رحم کیا جاتا ہے) محروم ہوتا ہے۔
بعض علما ء کے نزدیک رحمٰن اسم ذات ہے، کیونکہ قرآن میں بہت سے مقامات پراس لفظ سے ذات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ لِلرحمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ [40]
کہہ دیجیے : اگر رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے میں (اس کی) عبادت کرنے والا ہوں ۔
اس لیے اس لفظ کو غیر اللہ کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہر کمال اور طاقت کا سرچشمہ ہے، جب کہ انسان اور دیگر مخلوقات محتاج ا ور ضرورتمند ہیں۔ کائنات کا مالک اپنے محتاج بندوں کو یہ باور کرا رہا ہے کہ وہ سب سے پہلے رحمٰن و رَحیم ہے، کیونکہ وہی ہر فقدان کا جبران، ہر احتیاج کو پورا اور ہر کمی کو دور کرتا ہے اور اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازتا ہے۔
۵۔ نماز میں بسم اللہ کو بالجہر (آواز کے ساتھ) پڑھنا مستحب ہے۔ حدیث کے مطابق یہ مومن کی علامت ہے۔
احادیث
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے پدر بزرگوار (ع)سے روایت فرماتے ہیں :
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اٴَقْرَبُ اِلَی اسْمِ اللّٰہِ الاٴَعظَمِ مِن نَاظِرِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِھَا۔[41]
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ کے اسم اعظم سے ایسے نزدیک ہے جیسے آنکھ کا قرینہ سفیدی سے۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے :
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقْرَبُ اِلَی اِسْمِ اللّٰہِ الْاَعْظَمِ مِنْ سَوَادِ الْعَیْنِ اِلَی بَیَاضِھَ[42]
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم سے اتنی نزدیک ہے جتنی آنکھ کی سیاہی اس کی سفیدی سے قریب ہے۔
اہم نکات
۱۔ ہر کام کی ابتدا میں اپنے مہربان معبود یعنی اللہ کا نام لینا آداب بندگی میں سے ہے۔
۲۔ ہر کام کو نام خدا سے شروع کرنے سے انسان کے کائناتی موقف اور تصور حیات کا تعین ہوتا ہے کہ کائنات پر اسی کی حاکمیت ہے۔ لَاْ مُوٴَثِّرَ فِی الْوُجُوْدِ اِلَّا اللّٰہ ہر کام اور ہر چیز میں صرف اسی کا دخل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے : کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَمْ یُبْدَاٴْ بِبِسْمِ اللّٰہِ فَھُوَ اَبْتَرٌ[43] یعنی ہر وہ اہم کام جسے اللہ کے نام سے شروع نہ کیا جائے اپنے مطلوبہ انجام تک نہیں پہنچتا۔ چونکہ اس کائنات میں اللہ ہی سب کا مطلوب و مقصود ہے اور اس کے بغیر ہر کام ادھورا اور ابتر رہتا ہے، لہٰذا حصول مرام کے لیے اس کے نام سے ابتدا کرنا ضروری ہے۔
۳ رحمن سے رحمت کی عمومیت اور رحیم سے رحمت کا لازمۂ ذات ہونا، رحمن کے صیغۂ مبالغہ ہونے اور رحیم کے صفت مشبہ ہونے سے ظاہر ہے۔
۴۔ اللہ کے اوصاف میں رحمن و رحیم کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔
۵۔ اللہ کی رحمانیت سب کو شامل ہے جب کہ اس کی رحیمیت صرف مومنین کے لیے ہے۔
تحقیق مزید
الوسائل ۶ : ۵۹ باب ان البسملۃ آیۃ الوسائل ۶ : ۱۱۹۔ ۷:۱۱۹۔ ۷۔ ۱۶۹۔ مستدرک الوسائل ۴:۱۶۶۔ ۴: ۱۸۷۔ ۴: ۱۸۹۔ عوالی اللآلی ۴ : ۱۰۲
الْحَمْدُ للّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۲۔
ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
تشریح کلمات
الحمد: ( ح مد ) ثنائے کامل۔ اختیاری خوبیوں کی تعریف کرنے کو حمد کہتے ہیں۔ اَلْ کلمہ استغراق ہے۔ یعنی ساری حمد ، کوئی بھی حمد ہو۔ اس لیے ہم نے اَلْ کا ترجمہ کامل سے کیا ہے۔
رب : (ر ب ب )کسی شے کو تدریجاً ارتقائی درجات کی طرف لے جانے والا۔ رب اس مالک کو کہتے ہیں جس کے ہاتھ میں تدبیر امور ہو۔ المالک الذی بیدہ تدبیر الامور۔ العین میں مذکور ہے :و من ملک شیئاً فھو ربہ۔جو کسی چیز کا مالک بنے وہ اس کا رب کہلائے گا۔ لسان العرب میں ہے: فَلَان رَبُّ ہَذَا الشیء اَیْ مِلْکُہُ لَہُ فلاں اس چیز کا رب یعنی مالک ہے۔ بادل کو رباب کہتے ہیں ،کیونکہ اس سے برسنے والے پانی سے نباتات کی نشو و نما ہوتی ہے۔
جو شخص رب کی طرف منسوب ہوا، اسے ربانی کہتے ہیں۔ ارشاد قدرت ہے :
کُوْنُوْا رَبَّانِیّنَ [44]
اللہ والے بن جاؤ۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع)نے فرمایا :
اَنَا رَبَّانِیُّ ھٰذِہِ الْاُمَّۃ[45]
میں اس امت کا ربانی ہوں۔
تفسیر آیات
الْحَمْدُ للّہِ
الحمد دو لفظوں اَل اور حمدسے مرکب ہے۔اَل عمومیت کا معنی دیتا ہے اور حمد ثنائے کامل کو کہتے ہیں ۔ار دو زبان کی گنجائش کے مطابق اس کا مفہوم یہ بنتا ہے: ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے۔ یعنی اگر غیر خدا کے لیے بظاہر کوئی جزوی ثنا اور حمد دکھائی دیتی بھی ہے تو اس کا حقیقی سرچشمہ بھی ذات خداوندی ہے۔ بالفاظ دیگر مخلوقات کی حمد و ثنا کی بازگشت ان کے خالق کی طرف ہوتی ہے :
رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہ ثُمَّ ھَدٰی [46]
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر ہدایت دی۔
تمام موجودات معلول ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے علت العلل ہے۔ لہٰذا معلول کے تمام اوصاف علت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کا وجود جو ایک کمال ہے، وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے۔اسی لیے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ (ع) نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنے کے بعد فرمایا:
فَمَا مِنْ حَمْدِ اِلّا وَ ہو دَاخِلٌ فِیْمَا قُلْتُ [47] یعنی ہر قسم کی حمدو ثنا اس جملے اَلْحَمْدُ للّٰہ میں داخل ہے جو میں نے کہا ہے۔
رَبِّ الْعَالَمِينَ
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
شُکْرُ النِّعْمَۃِ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ تَمَامُ الشُّکْرِ قَوْلُ الرَّجُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.[48]
حرام سے اجتناب کرنا نعمت کا شکر ہے اور الحمد للّٰہ رب العالمین کہنے سے شکر کی تکمیل ہوتی ہے۔
توحید رب تمام انبیاء (ع) کی تبلیغ کا محور و مرکز رہی ہے ، ورنہ توحید خالق کے تو مشرکین بھی قائل تھے۔ ملاحظہ ہو سورۃ عنکبوت : ۶۳تا ۶۱۔ سورہ زخرف ۹،۸۷۔ لقمان: ۲۵
تربیت یعنی کسی شے کو بتدریج ارتقائی منازل کی طرف لے جانا۔ جب لفظ رب کو بلا اضافت استعمال کیا جائے تو اس کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے:
قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ ہو رَبُّ کُلِّ شَیْءٍ .[49]
کہہ دیجیے: کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا رب بناؤں ؟حالانکہ وہ ہر چیز کا رب ہے۔
البتہ غیر خدا کے لیے اضافت ضروری ہے جیسے رب البیت، رب السفینۃ وغیرہ۔
لفظ رب اس مالک کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میں مملوک کے امور کی تدبیر ہو۔ اسلامی تعلیمات کا مرکزی نکتہ خالق و مدبر کی وحدت ہے کہ جس نے خلق کیا ہے اسی کے ہاتھ میں تدبیر امور ہے : یدبّر الامر من السمآء الی الارض۔
انسانی تکامل و ارتقا کا مربی خدا ہے اور حقیقی مالک بھی وہی ہے اس لیے لفظ رب کو مقام دعا میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ تمام انبیاء (ع)کی یہ سیرت رہی ہے کہ انھوں نے اپنی دعاؤں کی ابتدا لفظرب سے کی اور اللہ کو ہمیشہ اسی لفظ سے پکارا :
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً [50] رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَ[51] رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ [52]
عالمین:اسم جمع ہے۔موجودات کی ایک صنف پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جیسےعالم الانس، عالم الارواح وغیرہ۔ اللہ کے سوا پوری کائنات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
ممکن ہے عَالَمِین سے یہاں پہلا معنی مراد ہو۔ بنابریں رَبِ الْعَالَمِیْن کا معنی یہ ہوا کہ تمام عالمین کا مربی اور ان کی ارتقا کا سرچشمہ فقط اللّٰہ ہے۔ اس جامع اور وسیع نظریہ توحید سے وہ فرسودہ توہمات بھی باطل ہو جاتے ہیں ، جن کے مطابق مشرکین تربیت و فیض کا سرچشمہ ایک ذات کی بجائے متعدد ذوات کو قرار دیتے اور ایک رب کی بجائے بہت سے ارباب کو پکارتے تھے
اہم نکات
۱۔ ہر حمد و ثنا ء کی بازگشت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ
۲۔ تمام کائنات کا مالک اور ہر ارتقا کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ ٰ ہے۔ رَبِّ الْعَالَمِیْن
۳۔ کائنات پر صرف ایک رب کی حاکمیت ہے۔
۴۔ ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربوب اپنے رب کی تعریف کرے۔
۵۔ مربی کے بغیر ارتقا ئی مرا حل طے نہیں ہو سکتے۔
۶۔ تربیت یعنی حقیقی منزل کی طرف رہنما ئی سب سے اہم کام ہے۔
۷۔ لفظ عا لمین سے ظا ہر ہے کہ تر بیت کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔
۸۔ وحدت مر بی نظام کائنات میں ہم آہنگی اور وحدت ہدف کی ضامن ہے۔
(۳) الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ۳۔جو رحمٰن و رحیم ہے۔
تفسیر کلمات
وہ اللّٰہ جو لائق حمد و ثنا ، سرچشمۂ تربیت و ارتقا اور صفت رحمانیت و رحیمیت سے متصف ہے،عالمین کا مالک اور قادر و قہار ہونے کے با وصف رحمن و رحیم بھی ہے۔
مخفی نہ رہے کہ بِسْمِ اللّٰہ میں رَحْمٰن و رَحِیْم کے ذکر کے بعد اس مقام پر دوبارہ تذکرہ بے جا تکرار نہیں بلکہ بسم اللّٰہ میں اس کا ذکر مقام الوہیت میں ہوا تھا، جب کہ یہاں مقام ربوبیت میں رَحْمٰن و رَحِیْم کا تذکرہ ہو رہا ہے۔
اللہ کی رحمت سے وہ لوگ بہرہ مند ہو سکتے ہیں جو اس کے بندوں پر رحم کرتے ہیں۔ اِرْحَمْ تُرْحَمْ۔
اہم نکات
۱۔ اللہ تعالیٰ الوہیت کے ساتھ ساتھ ربوبیت میں بھی رَحْمٰن و رَحِیْم ہے۔
۲۔ دوسروں پر رحم کر کے ہی رحمت خداوندی کا اہل بنا جا سکتا ہے۔
4- مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
۴۔ روز جزا کا مالک ہے۔
تشریح کلمات
دین: (د ی ن )جزا اور اطاعت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ شریعت کے معنی میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔
تفسیر آیات
اللہ تعالیٰ ہی کائنات کا حقیقی سرپرست، روز جزا و سزا کا مالک اور صاحب اختیار ہے۔ وہ اپنی ملکیت میں جس طرح چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ مجرم کو بخش دینا یا اسے سزا دینا اس کے اختیار میں ہے۔ وہ روز جزا کا قاضی ہی نہیں بلکہ مالک و صاحب اختیار بھی ہے۔
یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے تو پھر صرف روز جزا سے اس مالکیت کی تخصیص کیوں کی گئی ؟
اس کا جواب یہ ہے :
اولاً : دنیا میں مجازی مالک بھی ہوتے ہیں جب کہ بروز قیامت کوئی مجازی مالک نہ ہو گا:
یَوْمَ لَا تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَ الْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِِّلّٰہِ۔[53]
اس دن کسی کو کسی کے لیے کچھ (کرنے کا) اختیار نہیں ہو گا اور اس دن صرف اللہ کا حکم چلے گا۔
ثانیاً: دنیا میں تو اس مالک حقیقی کے منکر بھی موجود ہوتے ہیں ، لیکن روز جزا تو کوئی لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ[54] کا جواب دینے والا نہ ہو گا۔
ثالثاً:دنیا میں اللہ کا صرف تکوینی حکم نافذ تھا،جب کہ تشریعی احکام کی نافرمانی بھی ہوتی تھی، لیکن بروز قیامت ا س کے تمام احکام نافذ ہوں گے، کوئی نافرمانی کی جرأت نہیں کر سکے گا۔
رابعاً: دنیا میدان عمل اور دار الامتحان ہے، اس لیے بندے کو کچھ اختیارات دیے گئے ہیں ، لیکن قیامت،نتیجے اور جزائے عمل کا دن ہے،لہٰذا اس دن فقط اللہ کی حاکمیت ہو گی بندوں کو کوئی اختیار نہیں دیا جائے گا۔
روز جزا کا تصور انسانی زندگی پر گھرے اثرات مرتب کرتا ہے۔کیونکہ اس عقیدے سے دنیاوی زندگی کو قدر و قیمت ملتی ہے اور اس میں پیش آنے والی سختیوں کی توجیہ میسر آتی ہے۔ زندگی سکون و اطمینان اور صبر و استقامت سے گزرتی ہے اور انسان ناانصافیوں کو دیکھ کر مایوس نہیں ہوتا۔
حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے:
لَوْ مَاتَ مَنْ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ لَمَا اسْتَوْحَشْتُ بَعْدَ اٴَنْ یَکُونَ الْقُرْآنُ مَعِی وَ کَانَع اِذَا قَرَاٴَ ‘’ مٰالِکِ یَوْمِ الدِّینِ ‘‘ یُکَرِّرُھَا حَتَّی کَادَ اٴَنْ یَمُوتَ۔[55]
اگر مشرق و مغرب کے درمیان سب لوگ مر جائیں تو میں وحشت زدہ نہ ہوں گا اگر قرآن میرے ساتھ ہے۔ جب مالک یوم الدین کی تلاوت فرماتے تو اس کی اتنی تکرار کرتے کہ لگتا تھا جیسے جان جہاں آفریں کے سپرد ہو رہی ہے۔
اہم نکات
۱۔ قیامت کے دن مالکیت و حاکمیت صرف اللہ کی ہو گی۔
۲۔ انسانی و اخلاقی اقدار کا تعلق روز جزا سے ہے۔
۳۔ اللہ کے ہاں اخروی احتساب کا عقیدہ انسان کو دنیا میں خود احتسابی پر آمادہ کر تا ہے۔
5- إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
۵۔ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
تفسیر آیا ت
إِيَّاكَ نَعْبُدُ
کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں۔ کمال ، احسان، احتیاج اور خوف۔ اللہ تعالیٰ کی پرستش و عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں۔
کمال:اگر کسی کمال کے سامنے ہی سر تعظیم و تسلیم خم ہونا چاہیے تواس عالم ہستی میں فقط اللہ تعالیٰ ہی کمال مطلق ہے،جس میں کسی نقص کا شائبہ تک نہیں۔ تمام کمالات کا منبع اور سرچشمہ اسی کی ذات ہے۔ آسمانوں اور زمین میں بسنے والے اسی کمال مطلق کی عبودیت میں اپنا کمال حاصل کرتے ہیں :
اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا[56]
جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ اس رحمن کے حضور صرف بندے کی حیثیت سے پیش ہو گا۔
احسان: اگر کسی محسن کی احسان مندی عبادت و تعظیم کا سبب بنتی ہے تو یہاں بھی اللہ کی ذات ہی لائق عبادت ہے،کیونکہ وہی ارحم الراحمین ہے۔ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر رکھا ہے:
کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ[57]
تمھارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دیا ہے۔
احتیاج: عبادت کا سبب اگر احتیاج ہے تو یہاں بھی معبود حقیقی اللہ ہی ہے،کیونکہ وہ ہر لحاظ سے بے نیا ز ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کی محتاج ہے۔ وہ علت العلل ہے اور باقی سب موجودات معلول ہیں اور ظاہر ہے کہ علت کے مقابلے میں معلول مجسم احتیاج ہوتا ہے:
یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللّٰہِ وَ اللّٰہُ ہو الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ۔[58]
اے لوگو! تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ تو بے نیاز، لائق ستائش ہے۔
خوف:اگر وجہ تعظیم و عبادت خوف ہے تو خداوند عالم کی طرف سے محاسبے اور مؤاخذے کا خوف انسان کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ایک دن اسے اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا:
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً فَلِنَفْسِہ وَ مَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْھَا ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ۔[59]
جو نیکی کرتا ہے وہ اپنے لیے کرتا ہے اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے اس کا وبال اسی پر ہے،پھر تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
رحمن و رحیم، رب العالمین اور روز جزاء کے مالک پر ایمان لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی ہو،کیونکہ سابقہ آیات میں عبادت کے تمام عوامل بیان ہو چکے ہیں ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ سے کمال خداوندی کی نشاندہی ہوتی ہے یعنی خداوند عالم کمال کی اس منزل پر ہے کہ تمام حمدو ثنا صرف اسی کے شایان شان ہے۔
رَبِّ الْعَالَمِیْن سے عبادت کا دوسرا عامل ‘’ احتیاج ‘‘ سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی خدا ساری کائنات کا مالک، مربی اور پالنہار ہے باقی سب اس کی تربیت کے محتاج ہیں۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم سے تیسرا عامل ‘’ احسان ‘‘ آشکار ہوتا ہے۔ یعنی خدا کا احسان عام ہے اور ہر چیز کو شامل ہے۔
مٰالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے ضمن میں چوتھا عامل ‘’ خوف ‘‘ بیان کیا گیا ہے۔ یعنی قیامت کا یقین اللہ کے عدل سے خوف کا باعث بنتا ہے ورنہ ذاتِ الٰہی سے خوف کا کوئی معنی نہیں۔ وہ تو رحیم و غفور ہے۔ بنابریں ہر اعتبار سے عبادت صرف ا سی کی ہو سکتی ہے :
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوآ اِلآّ اِیَّاہُ۔ [60]
اور آپ کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔
عبادت کی تعریف
عبادت کی تعریف اور مفہوم کے بارے میں کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہے اور عبادت کی یہ تعریف کرتے ہیں۔
کسی کے تقرب اور اس کی شفاعت کے حصول کے لیے قلبی تعلق قائم کرن [61]
اس تعریف میں قلبی تعلق اور تعظیم کو عبادت قرار دیا گیا ہے اور اس غلط تعریف کی بنیاد پر یہ لوگ اکثر مسلمانوں کو مشرک قرار دیتے ہیں ، جب کہ قرآن میں غیر خدا سے قلبی تعلق اور تعظیم کرنے کی ترغیب موجود ہے :
وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ۔[62]
جو شعائر اللہ کا احترام کرتا ہے تو یہ دلوں کا تقویٰ ہے۔
والدین کے بارے میں فرمایا:
وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاح َ الذ لُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ۔ [63]
اور مھر و محبت کے ساتھ ان (والدین) کے آگے انکساری کا پہلو جھکائے رکھو۔
عبادت کی صحیح تعریف قرآنی شواہد کی روشنی میں اس طرح ہے:
کسی کو خالق یا رَب تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا۔
خود لفظ ‘’ عبادت ‘‘ سے اس کی تعریف نکل آتی ہے: چنانچہ عبد مملوک کو کہتے ہیں۔ العین میں آیا ہے: العبد المملوک۔اور مملوک اسے کہتے ہیں جس کا کوئی مالک ہو۔ چنانچہ رَب مالک کو کہتے ہیں۔ العین میں آیا ہے:
و من ملک شیئا فھو ربّہ، لا یقال بغیر الاضافۃ الا للّٰہ عز و جل۔
جو کوئی کسی چیز کا مالک بنتا ہے وہ اس کا رَب کہلائے گا اور بغیر اضافہ کے مطلق رب صرف اللہ تعالیٰ کو کہا جاتا ہے۔
لہذا عبادت رب کی ہوتی ہے، اگر کوئی رب نہیں ہے تو کوئی اس کا عبد بھی نہیں ہو گا اور جب عبد نہیں ہے تو عبادت بھی نہیں ہو گی۔ اس مطلب کو اس آیت میں بیان فرمایا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ[64]
اللہ میرا رب اور تمھارا بھی رب ہے، پس تم اس کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔
مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ مریم آیت ۶۵، سورۂ حج آیت ۷۷ ، سورۂ انبیاء آیت ۹۲۔ ان آیات میں فرمایا ہے کہ چونکہ اللّٰہ ہی تمھارا رَب ہے لہذا تم اسی کی عبادت کرو۔ ان سب آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت رَب کی ہوتی ہے۔
چنانچہ بت پرست اپنے بتوں کو رب مانتے تھے پھر ان کی پرستش کرتے تھے، اس لیے مشرک قرار پائے۔ اسی طرح کسی کو اپنا خالق تسلیم کر کے اس کی تعظیم کرنا بھی عبادت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج لَآ اِلٰہَ اَلَّا ہُوَ ج خَالِقُ کُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْہُ[65]
یہی اللہ تمھارا رب ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ ہر چیز کا خالق ہے، لہٰذا اس کی عبادت کرو۔
وَ اِیَاکَ نَسْتَعِیْن چونکہ کائنات کا مالک وہی ہے اور ہر چیز پر اسی کی حاکمیت ہے :
لَہ مَقَالِیْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ.[66]
آسمانوں اور زمین کی کنجیاں اسی کی ملکیت ہیں۔
لہٰذا جب مومن طاقت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ہوتا ہے تو تمام دیگر طاقتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور کسی دوسری طاقت سے مدد لینے کی ضرورت ہی محسو س نہیں کرتا۔
غیر اللہ سے استمداد کا مطلب یہ ہو گا کہ سلسلۂ استمداد اللہ تعالیٰ پر منتہی نہ ہو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ہو۔ لیکن اگر یہ سلسلہ اللہ تعالیٰ پر منتہی ہوتا ہو تو یہ اللہ سے براہ راست استمداد کے منافی نہیں۔ کیونکہ مخلوقات جس طرح اپنے وجود میں خالق حقیقی سے مستغنی اور بے نیاز نہیں ، اسی طرح اپنے افعال میں بھی مستقل نہیں ہیں۔ ان کا ہر عمل فیض الٰہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔ بنا بریں اگر خدا نے اپنے خاص بندوں کو وسیلہ بننے کی اجازت دے رکھی ہے تو ان سے استمداد درحقیقت خدا سے استمداد ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ جَاءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُ وا اللّٰہَ تَوَّاباً رَّحِیْمًا.[67]
اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔
یعنی اللہ سے طلب مغفرت کے لیے رسول ﷺ کے دربار میں حاضر ہو کر انھیں وسیلہ بنانا(جاؤک ) اور وسیلہ بن کر رسول کاﷺ ان کے لیے استغفار کرنا ہمارے مدعا کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
نیز فرمایا :
وَ لَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہ وَ رَسُوْلُہ۔ [68]
اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انھیں دیا ہے اگر وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی۔
نیز فرمایا:
وَ مَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰھُمُ اللّٰہُ وَ
اور انھیں صرف اس بات پر غصہ ہے
رَسُوْلُہ مِنْ فَضْلِہ۔ [69]
کہ اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے ان (مسلمانوں ) کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔
‘’ بہت کچھ عنایت کرنے’‘ اور ‘’ دولت سے مالا مال کرنے’‘ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ کے ساتھ اس کے رسولﷺ کا اس طرح ذکر کرنا کہ ‘’اللہ اور رسولﷺ نے بہت کچھ دیا ہے’‘ اور ‘’ اللہ اور رسولﷺ نے دولت سے مالا مال کر دیا ‘‘ ، شرک نہیں ہے، کیونکہ یہ عطا و بخشش اللہ تعالیٰ سے ہٹ کر نہیں ہے کہ شرک کے زمرے میں چلی جائے بلکہ یہ تو مِنْ فَضْلِہ کے ذیل میں آتی ہے۔
لہٰذا قرآنی تصریحات کے مطابق جب یہ کہنا درست ثابت ہو گیا کہ ‘’اللہ اور اس کے رسولﷺ نے دولت سے مالامال کر دیا ‘‘ تو یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ ‘’ اے رسول خدا ﷺ ! ہمیں دولت سے مالا مال فرما دیں۔ ‘‘
لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ سے حصول فیض میں وسائل اور وسائط کار فرما ہوتے ہیں ، اسی طرح اللہ سے طلب فیض کے لیے بھی اس کے مجاز وسائل اور واسطوں کا ہونا ثابت ہے۔
یھاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مخلوق سے مدد طلب کرنا شرعاً جائز ہے جیساکہ قرآن نے فرمایا ہے: فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّۃٍ [70] تم طاقت کے ساتھ میری مدد کرو، نیز فرمایا : وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی [71] نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو ، تو صرف اللہ سے مدد مانگنے کا مطلب کیا ہوا؟
اس کا ایک جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد توفیق ہے اور توفیق کسی فعل کے انجام دینے کے لیے تمام اسباب کی فراہمی کو کہتے ہیں اور صرف اللہ تمام اسباب فراہم کر سکتا ہے۔ اس لیے ہر مدد کو توفیق نہیں کہتے، بلکہ ہر توفیق مدد ہے۔ دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد سے مراد بدنی طاقت ہے جو صرف اللہ سے حاصل ہوتی ہے۔ تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو مدد غیر خدا سے لی جاتی ہے وہ درحقیقت اللہ سے ہے، چونکہ وہ اللہ کی مخلوق ہے اور اس نے جو کچھ مدد دی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔ چوتھا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مدد دینے والا خود اپنے ذات، اپنے وجود، اپنے افعال میں اللہ کا محتاج ہے، لَا حَول وَ لَا قُوۃ اِلاَّ بِاللّٰہ کا یہی مفہوم ہے ، لہٰذا اس سے مدد لینا خود اللہ سے مدد ہے۔
اہم نکات
۱۔ جس کی بندگی کی جاتی ہے، مدد بھی اسی سے طلب کی جاتی ہے۔( نَعْبد۔ نَسْتَعین )
۲۔ استعانت الٰہی کے بغیر عبادت بھی ممکن نہیں ہے۔
۳۔ عبادت اور استعانت کا حقیقی محور صرف ایک ہی کامل ذات ہے۔
۴۔ حرف خطا ب ‘’ ک ‘‘ سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ عبادت و استعانت کے وقت بندہ خود کو بارگاہ خدا میں حا ضر دیکھے۔
۵۔ نَعْبُدُ سے اجتماعی عبا دت کا تصور ملتا ہے۔
۶۔ نَسْتَعِینسے پہلے نَعْبُدُ کے ذکر سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ بندے کو استعانت سے پہلے عبودیت کی منزل پر فائز ہونا چاہیے۔
۶۔ استعا نت دلیل احتیاج ہے۔
6- اہدِنَا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما
تشریح کلمات
ہدایت: ( ھد ی) مہرو محبت سے رہنمائی کرنا۔ اسی لیے بلا معاوضہ اور خلوص و محبت سے دیا جانے والا تحفہ ہدیہ کہلاتا ہے۔
صراط: ( صر ط )اس کا لغوی معنی ‘’ نگلنا ‘‘ ہے۔ صحیح راہ پر چلنے والا منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد اس کا حصہ بن جاتا ہے۔ یہ راستہ قوت جاذبہ و ہاضمہ کی طرح سالکین کو اپنی طرف جذب کر کے انھیں اپنا جزو بنا لیتا ہے۔ اسی لیے صحیح راستے کو صراط کہا گیا ہے۔
تفسیر آیات
اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا، اس کی ربوبیت اور روز جزاء کے اعتراف اور عبادت و استعانت کا صحیح تصور قائم کرنے کے بعد انسان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، وہ ہدایت و رہنمائی ہے۔ کیونکہ انسان عبث نہیں ،بلکہ ایک اعلیٰ و ارفع ہدف کے لیے خلق ہوا ہے۔ اب خالق پر لازم ہے کہ اس اعلیٰ ہدف کی طرف اس کی رہنمائی بھی کرے۔بنا بر ایں خالق کائنات نے خلقت سے پہلے ہدایت کا انتظام فرمایا:
لَوْ لَاکَ لَمَاْ خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ [72]
اے محمدﷺ ! اے پیکر ہدایت!اگر میں نے انسانوں کی رہنمائی و ہدایت کے لیے تجھے نہ چنا ہوتا تو میں افلاک کو پیدا ہی نہ کرتا۔
صراط سے بھی حرکت اور روانی کا تصور قائم ہو جاتا ہے۔ یعنی مومن قدم بہ قدم منزل کی طرف بڑھ رہا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ.[73]
اے انسان! تو مشقت اٹھا کر یقیناً اپنے رب کی طرف جانے والا ہے پھر اس سے ملنے وا لا ہے۔
مستقیم سے اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتا یے کہ راستہ کٹھن اور دشوار گزار ہے،کیونکہ’’ صراط مستقیم’‘ کے مقابلے میں ‘’ صراط منحرف’‘ ہے جس سے بچنے کے لیے ہدایت،راہنمائی اور جہد مسلسل کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اگلی آیت سے یہ بات واضح ہو گی کہ مغضوب علیہم اور ضالین کے راستوں سے بچ کر صراط مستقیم کی تلاش اور پھر اس کی حفاظت اور اس پر پابند رہنا کوئی آسان کام نہیں۔
اَوَّلُ مٰا خَلَق اللّٰہُ نُوری۔[74] ا س کائنات میں اللہ نے سب سے پہلے نور محمدی ﷺ کو خلق فرمایا تاکہ راہ ارتقا کے متلاشی اس نور کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکیں۔
اعتراض: ہدایت کی طلب اور خواہش سے تو گمان ہوتا ہے کہ بندہ ابھی ہدایت یافتہ نہیں ہوا۔
جواب: اللہ تعالیٰ کی ذات سرچشمۂ فیض ہے۔ اس کی عنایات غیر منقطع ہوتی ہیں : عَطَآءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ [75]
وہاں منقطع نہ ہونے والی بخشش ہو گی
اور اللہ کی جانب سے فیض کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا: لَا اِنْقِطَاعَ فِی الفَیْضِ۔ دوسری طرف سے بندہ سراپا محتاج ہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی سرچشمۂ فیض سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔ ہدایت، رہنمائی اور توفیق اس کے فیوضات ہیں ، جو ہمیشہ جاری و ساری رہتے ہیں اور بندہ ہر آن جن کا محتاج ہے۔ ہدایت ایسی چیز نہیں جو خدا کی طرف سے اگر ایک بار مل جائے تو پھر بندہ بے نیاز ہو جاتا ہے، بلکہ وہ ہر آن، ہر لمحہ ہدایت الٰہی کا محتاج رہتا ہے۔
بندے کا ہر آن ہر لمحہ اللہ کی رحمت و ہدایت کا محتاج ہونا اس دعائیہ جملے سے واضح ہو جاتا ہے جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام اپنی دعاؤں میں نہایت اہتمام کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ رَبِّ لَا تَکِلْنِیْ الیٰ نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ اَبَدًا۔[76] میرے مالک! مجھے کبھی بھی چشم زدن کے لیے اپنے حال پر نہ چھوڑ۔بھلاجس سے اللہ نے ہاتھ اٹھایا ہو اسے کون ہدایت دے سکتا ہے:فَمَنْ یَّھْدِیْہِ مِنْ بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ۔[77] یعنی پس اللہ کے بعد اب اسے کون ہدایت دے گا؟ کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟
روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اسی آیت کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں :
اَدِمْ لَنَا تَوفِیقَکَ الَّذِی بِہِ اَطَعْنَاکَ فِی مَاضِیِّ اَیَامِنَا حَتَّی نُطِیْعَکَ کَذَلِکَ فِی مُسْتَقْبِلِ اَعْمَارِنَا[78]
خداوندا ! اپنی عطا کردہ توفیق کو برقرار رکھ، جس کی بدولت ہم نے ماضی میں تیری اطاعت کی ہے، تاکہ ہم آئندہ بھی تیری اطاعت کرتے رہیں۔
دوسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ہدایت کے درجات ہوتے ہیں اور ہر درجے پر فائز مسلمان بالاتر درجۂ ہدایت کے لیے دعا کر سکتا ہے ، جیساکہ ارشاد ہے:
وَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ہُدًی وَّ اٰتٰہُمْ تَقْوٰہُمْ [79]
جن لوگوں نے ہدایت حاصل کی اللہ نے ان کی ہدایت میں اضافہ فرمایا اور انھیں ان کا تقویٰ عطا کیا۔
اہم نکات
۱۔ بندے کو اللہ تعالیٰ کی مدد کی سب سے زیادہ ضرورت، ہدایت کے مسئلے میں ہوتی ہے۔
۲۔ مومن کا تصور حیات ، راہ مستقیم کی رہنمائی کے لیے دعا کرنے سے ہی متعین ہوتا ہے۔
۳۔ مومن انسان اپنی زندگی کی ایک منزل مقصود رکھتا ہے جس تک پہنچنے کے لیے ہدایت اور رہنمائی ضروری ہے۔
۴۔ انسان مومن، متحرک اور رواں دواں ہوتا ہے، اس لیے اسے ہر آن رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے،کیونکہ اگر انسان جمود و سکوت کی حالت میں ہو تو اس کے لیے کسی رہنمائی کی ضرورت پیش ہی نہیں آتی۔
7- صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمتَ عَلَيہِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيہِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ.
۷۔ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام فرمایا،جن پر نہ تیرا غضب ہوا اور نہ وہ گمراہ ہوئے۔
تشریح کلمات
مغضوب: (غ ض ب )خون قلب کا جوش مارنا۔ ارادۂ انتقام۔ غضب الٰہی سے مراد صرف انتقام ہے۔
ضالین: (ض ل ل) ضلال، ہدایت کی ضد ہے۔ یعنی سیدھے راستے سے ہٹنا۔ ضال اسم فاعل ہے جس کی جمع ضالین ہے۔
تفسیر آیات
اس آیہ شریفہ میں اسوہ کا ذکر ہے، جسے نمونہ عمل بنانا ہے اور دو انحرافی راستوں کا ذکر بھی ہے، جن سے برائت اختیار کرنا ہے۔
گویا تولیٰ اور تبریٰ کے بغیر کوئی نظریہ قائم نہیں ہو سکتا اور نہ ہی جاذبہ و دافعہ کے بغیر کوئی نظام برقرار رہ سکتا ہے۔ لہٰذا ہدایت و نجات کے لیے منعم علیھم’’ جن پر خدا کی نعمتیں نازل ہوئیں ‘‘سے محبت اور مغضوب علیہم اور ضالین سے نفرت ضروری ہے۔ جن سے محبت کرنا اور اسوہ بنانا مقصود ہے، وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہی معیار اطاعت ہیں۔
چنانچہ ارشاد الٰہی ہے :
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآءِ وَ الصّٰالِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا[80]
اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے وہ ان انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ ہو گا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے اور یہ لوگ کیا ہی اچھے رفیق ہیں۔
مغضوب علیھم سے نفرت اور برأت اختیار کرنے کے بارے میں ارشاد ہوا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ [81]
اے ایمان والو! اس قوم سے دوستی نہ رکھو جن پر اللہ غضبناک ہوا ہے۔
اور ضالین کے بارے میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ [82]
اپنے رب کی رحمت سے تو صرف گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ غَیْر کے مجرور ہونے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ ھم کا بدل ہے جو عَلَیْہِمْ میں ہے۔ یعنی غَیْرِ الْمَغْضُوب وہی لوگ ہیں جو اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ غَیْر، اَلَّذِیْن کا بدل ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ غَیْر ، اَلَّذِیْن کی صفت ہے۔[83] تینوں صورتوں میں جو ترجمہ ہم نے اختیار کیا ہے وہی صحیح ہے۔
اہم نکات
۱۔ ہدایت اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ صِرَا طَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۔
۲۔ اللہ کی نعمت سے محروم لوگ مغضوب یا ضالین (مورد غضب خداوندی یا گمراہ) ہوتے ہیں۔
۳۔ تولی و تبرّیٰ ایما ن کا اہم حصہ ہیں۔
۴۔ تولاّ و تبرّیٰ سے مراد نیکوں کی روش اپنانا اور برے لوگوں کی پیروی سے اجتناب برتنا ہے۔
(اقتباس از: الکوثر فی تفسیر القرآن (جلد اول) (از ۲۰۹ تا ص ۲۳۲) تالیف: محسن علی نجفی)
حوالہ جات
[1] حجر:۸۷
[2] البیان للامام الخوئی اردو ترجمہ ص ۴۱۸۔ امالی للصدوق ص ۱۷۵۔ عیون اخبار الرضا ج ۱ ص ۳۰۲۔
[3] الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی ۱:۱۳۴
[4] حوالہ سابق
[5] حوالہ سابق ۱: ۱۴۱
[6] ۱۱ ھود : ۴۱
[7] ۲۷ نمل : ۳۰
[8] علق: ۱
[9] حج : ۳۴
[10] اعراف : ۱۸۰
[11] دھر: ۲۵
[12] مصنف عبد الرزاق ۲: ۹۲۔کتاب الام للشافعی میں مذکورہ عبارت تھوڑے فرق کے ساتھ موجود ہے۔
[13] الدر المنثور۱ : ۲۷۔ تذکرۃ الحفاظ ۹۰۔ تقریب التہذیب ۱ : ۳۷۹
[14] صحیح مسلم کتا ب الصلوٰۃ ۱: ۳۰۰۔ سنن ابی داوٴد کتاب الصلوٰۃ ۱ : ۲۰۸ حدیث ۷۸۴۔ سنن بیہقی ۱ : ۴۳
[15] الدر المنثور ۱: ۲۶
[16] مستدرک الحاکم ۱: ۲۳۱
[17] سنن الترمذی ۲:۴۴
[18] سنن بیہقی ۲ : ۵۰
[19] مستدرک الحاکم ۲ :۲۳۲
[20] الدر المنثور ۱: ۸
[21] سنن بیہقی ۲ :۴۷ (۷) حوالہ سابق
[22] صحیح بخاری باب فضائل القرآن
[23] سنن الدار قطنی ۱ : ۳۰۷۔ اسد الغابہ ۲ :۲۲ تقریب التھذیب ۲ :۳۰۳
[24] الدر المنثور ۱ : ۲۸۔ سنن الدار قطنی ۱ : ۳۱۱
[25] حوالہ سابق
[26] حوالہ سابق
[27] حوالہ سابق ۱ : ۲۸
[28] حوالہ سابق۔ مستدرک الحاکم ۱:۲۳۳
[29] الدر المنثور ۱: ۲۸
[30] مستدرک الحاکم ۱ : ۲۳۴
[31] مریم : ۶۵
[32] اعلیٰ : ۱
[33] البیان اردو ترجمہ ص ۴۳۴
[34] اسراء: ۸۲
[35] انبیاء : ۱۰۷
[36] انعام: ۵۴
[37] البیان :
[38] اعراف:۱۵۶
[39] انعام : ۵۴
[40] زخرف : ۸۱
[41] التہذیب باب کیفیۃ الصلوۃ ص ۲۸۹
[42] بحار الانوار ۷۵ :۳۷۱ باب ۲۹ خ ۶۱۔ کشف الغمہ ۲ : ۴۳۰۔ التھذیب باب ۱۵ ص ۲۸۹ سَوَادِ کی بجائے نَاظِرِ ہے۔
[43] وسائل الشیعۃ ۷ : ۱۷۰۔ لم یبداٴ کی بجائے لم یذکر ہے۔
[44] آل عمران : ۷۹
[45] مفردات راغب مادہ ‘’ رب ‘‘۔ قال النبی ﷺ علیَ رَبَّانِیَّ ھٰذِہِ الٴُامَّۃ۔ المناقب ج ۲ ص ۴۵
[46] ۲۰ طہ : ۵۰
[47] کشف الغمۃ ج ۲ ص ۱۱۸
[48] الکافی ۲: ۹۵ باب الشکر۔ بحار الانوار ۶۸ : ۴۰ باب الشکر
[49] انعام: ۱۶۴
[50] بقرہ ۲ : ۲۰۱
[51] آل عمران ۳ : ۸
[52] بقرہ ۲ : ۱۲۹
تحقیق مزید
مجموعہ ورام ۲ : ۱۰۷۔ الکافی ۶ : ۲۲۳۔ الاستبصار ۱: ۳۱۱
[53] انفطار : ۱۹
[54] المؤمن :۱۶
[55] اصول الکافی ۲ : ۶۰۲۔ کتاب فضل القرآن
[56] مریم :۹۳
[57] انعام: ۵۴
[58] فاطر : ۱۵
[59] جاثیہ :۱۵
[60] اسراء : ۲۳
[61] محمد بن عبد الوھاب۔ کشف الشبھات
[62] حج : ۳۲
[63] بنی اسرائیل ۲۴
[64] آل عمران:۵۱
[65] انعام : ۱۰۳
[66] زمر : ۶۳
[67] نساء : ۶۴
[68] توبہ : ۵۹
[69] توبہ :۷۴
[70] کہف : ۹۵
[71] مائدہ : ۲
[72] تاویل الآیات الظاھرہ ص ۴۳۰
[73] انشقاق : ۶
[74] بحار الانوار ۱ : ۹۷ و ۱۵ : ۲۴۔ عوالی اللآلی ۴ : ۹۹
[75] ھود ۱۱ : ۱۰۸
[76] اصول الکافی ج ۲ ص ۵۸۱
[77] جاثیہ : ۲۳
[78] بحارالانوار ۲۴ :۹۔ اٴیْ اٴدِمْ لنا توفیقک الذی بہ اطعناک تفسیر امام حسن عسکری (ع) ص ۴۴
[79] محمد : ۱۷
[80] نساء : ۶۹
[81] ممتحنہ:۱۳
[82] حجر : ۵۶
[83] مجمع البیان، ذیل آیت.
٭٭٭
ماخذ:
http://www.ahlulbaytportal.com/ur.php/page,1205A2204.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید