فہرست مضامین
تبلیغی غزلیں اور ماہئے
صفدرؔ قریشی
(’جبینِ نعت‘ مجموعے سے علیٰحدہ شائع کی گئی)
اپنی چھوڑ خدا کی مان
یہ ہی دین یہی ایمان
وہ ہی خالق وہ ہی مالک
سب کا رازق ہے رحمان
ہیچ ،حقیر، ذلیل خدائی
اس کی سب سے اونچی شان
اس کی سوچ خیال اسی کا
ہر اک لمحہ ہر اک آن
اپنی چاہت اپنی مرضی
اس کی منشا پر قربان
اس کی ذات حقیقی ذات
باقی خواب خیال گمان
کھول ذرا اندر کی آنکھ
اپنے خالق کو پہچان
٭٭٭
خواب
دھوکا ہے خواب ہے
سچ پوچھئے تو زندگی ساری سراب ہے
٭٭٭
دیواروں سے سر مت پھوڑ
اس دھوکے کے گھر کو چھوڑ
توڑ دے جھوٹے رشتے توڑ
اپنے رب سے ناطہ جوڑ
من مندر میں جتنے بت ہیں
اک اک کر کے سارے توڑ
حرص و ہوا کی اس دنیا سے
اے ناداں اپنا منہ موڑ
منزل میری عہدِ پیمبرؐ
دوڑ زمانے پیچھے دوڑ
پاک نبیؐ سرور پہ صفدر
بھیج درود ہزار کروڑ
٭٭٭
دارو دوا میں ہے نہ مسیحا کے ہاتھ میں
صحت و شفا تو ہے مرے اللہ کے ہاتھ میں
دفتر،دکان،کھیتی ہیں اسبابِ ظاہری
روزی حقیقتاً تو ہے داتا کے ہاتھ میں
دکھ،درد،چین،راحت و فرحت کی صورتیں
بنتی بگڑتی رہتی ہیں مولا کے ہاتھ میں
موت و حیات ہو یا ہوں اسبابِ زندگی
مردہ کے ہاتھ میں ہیں نہ زندہ کے ہاتھ میں
جس رخ پہ چاہے سارے زمانے کو ڈال دے
ادنیٰ کی باگ ڈور ہے اعلیٰ کے ہاتھ میں
٭٭٭
اسی کے امر سے ہوتا ہے جو بھی ہوتا ہے
ہر ایک حال اسی کی طرف سے آتا ہے
یہ بات دل میں کسی طرح سے اتر جائے
کہ وہ ہی خالق و مالک ہے وہ ہی داتا ہے
وزیر ہے نہ معاون نہ اس کا کوئی مشیر
وہ اپنی مرضی کا مالک جو چاہے کرتا ہے
جہاں میں پھیلے ہوئے گوناں گون نقشوں کو
بگاڑتا بھی وہی ہے وہی بناتا ہے
اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے جہاں سارا
یہ کارخانہ اکیلے وہی چلاتا ہے
٭٭٭
بول اسی کو بول
یہ کلمہ انمول
غافل غفلت چھوڑ
ہر دم تسبیح رول
رب سے آس لگا
جان ذرا نہ ڈول
پیت کی جنس خرید
مل جائے جس مول
دنیا جھوٹ فریب
اس کا پول نہ کھول
میٹھے منہ سے کڑوی باتیں
شہد میں زہر نہ گھول
٭٭٭
سوچ سمجھ کر منہ سے بول
چھوڑ فضول مخول ٹھٹھول
کاروبار میں جھوٹ نہ بول
جب بھی تولے جھکتا تول
سانچ کو آنچ نہیں ہے بھائی
دانشمندوں کا ہے قول
غیر کے عیب ہنر نہ دیکھ
غافل اپنی پوتھی کھول
رب سائیں کو خوش کرنے کی
قیمت ہے نہ کوئی مول
٭٭٭
ہر دم لب پر رب کا نام
پاک نبیؐ پہ درود سلام
رب کی سوچ نبیؐ کا دھیان
یہ ہی وظیفہ یہ ہی کام
اللہ اللہ صل اللہ
ایک ہی تسبیح صبح و شام
ذکر کی خوشبو مشک گلاب
ذکر کی لذت شہد کا جام
جس دل میں ہو عشقِ رسولؐ
آتشِ دوزخ اس پہ حرام
اللہ نبیؐ کی مان کے چل
دنیا ہے پھر تیری غلام
٭٭٭
ہونٹوں پہ رہے یہ صبح و مسا
سبحان اللہ سبحان اللہ
دھڑکن دھڑکن ہو دل کی صدا
اللہ،اللہ،اللہ،اللہ
اکبر،اکمل،افضل،اعلیٰ
کوئی بھی نہیں اللہ کے سوا
اس بات پہ خوب دھیان جما
معبود نہیں اللہ کے سوا
جو کچھ بھی کرے جو کچھ بھی سہے
مقصود ہو بس اللہ کی رضا
اس کعبۂ دل میں جان مری
ایمان و یقین کی شمع جلا
اک بار تو اس کا ہو صفدر
پھر دیکھ کہ کیا کرتا ہے خدا
٭٭٭
فانی ہے دھن،دولت مال
باقی رہنے ہیں اعمال
کل کو تیرے کام آئیگی
نیکی کر دریا میں ڈال
کل کیا ہو گا کیسے ہو گا
دل میں اپنے روگ نہ پال
کینہ،حرص،ہوا وحسد
دل سے اپنے کھرچ نکال
جو مانگے سو رب سے مانگ
غیر کسی سے کر نہ سوال
جن کو آس امید خدا سے
ان کو نہیں ہے فکر ملال
٭٭٭
اللہ نبیؐ کی مان کے چل
دنیا کے دھوکے سے نکل
کوئی نہ بچنے پائیگا
اللہ کی تقدیر اٹل
اس دنیا میں جی نہ لگا
جیون ہے بس اک دو پل
موت کنارے آ پہنچا ہے
اب تو اے نادان سنبھل
ہر دم دھنستا جائیگا
یہ دنیا تو ہے دلدل
اے دل موت سے آگے والی
کتنی مشکل ہے منزل
٭٭٭
اندھیری رات ہے مشعل کوئی جلا جائے
بھٹک رہے ہیں ہمیں راستہ دکھا جائے
حضورؐ ہیں ،نہ صحابیؓ ،نہ تابعیؒ کوئی
فساد و فتنہ سے پھر کس طرح بچا جائے
اٹے پڑے ہیں عبادت کدے بھی نفرت سے
میں سوچتا ہوں کہ اب کس جگہ رہا جائے
حضورِؐ پاک نے جو کچھ کیا جو فرمایا
کسی طرح سے سے ہمارے عمل میں آ جائے
ہر ایک وقت اسی کا دھیان غالب ہو
کچھ اس طرح سے مری سوچ پر وہ چھا جائے
یہی ہے فکر کسی طرح سے یہ ناکارہ
نگاہِ آقاؐ میں کوئی مقام پا جائے
٭٭٭
(دیکھ کبیرا روئے)
ہنستے ساتھ ہنسے جگ سارا روتے ساتھ نہ روئے
سکھ کی ساتھی ساری دنیا دکھ کا ساتھ نہ کوئے
قسمت کے سر دوش نہ کوئی جو کرنا سو بھرنا
پھول وہ کیسے کاٹ سکے گا کانٹے جس نے بوئے
جگ سے آس لگانے والا چین کبھی نہ پائے
رب کی یاد میں جاگنے والاسکھ کی نیندر سوئے
اپنی اپنی سب کو پڑی ہے کون سنے گا تیری
حرص ہوا کی اس دنیا میں کون کسی کا ہوئے
اک اک کر کے بکھرے موتی ہاتھ نہ آئیں میرے
ٹوٹ گئی وہ مالا صفدر جس میں خواب پروئے
٭٭٭
نہیں بات بنتی زر و مال سے
سنورتے ہیں حالات اعمال سے
کسی غیر سے کیوں کہیں حالِ دل
خدا خوب واقف ہے احوال سے
ابھرتی ہیں صدیوں کی محنت کے بعد
نہیں بنتی قومیں مہ و سال سے
اے بندۂ حرص و ہوا سوچ تو
نکل پائے گا کیسے اس جال سے
سدا راضی اس کی رضا پر رہو
کرو شکر ہر حال سے قال سے
٭٭٭
یہ اک سرائے ہے ہر چیز آنی جانی ہے
یہاں کا غم بھی ہے فانی خوشی بھی فانی ہے
یہ امتحان کے لمحے گذر ہی جائیں گے
بڑی کٹھن ہے گھڑی حشر میں جو آنی ہے
وہ بے مثال ہے،یکتا ہے وہ یگانہ ہے
خدا تعالیٰ کا ہمسر نہ کوئی ثانی ہے
وہ شخص دونوں جہانوں میں کامیاب ہوا
نفس کی چھوڑ کے جس نے خدا کی مانی ہے
رکا رہے سرِ مژگاں تو ایک گوہر ہے
چھلک پڑے جو زمیں پر تو اشک پانی ہے
یہ خیرو شر کا تصادم رقابتوں کا فساد
نئی نہیں ہے کہانی بڑی پرانی ہے
٭٭٭
نہ عزت،نہ دولت نہ شہرت میں ہے
سکوں بس خدا کی عبادت میں ہے
خوشی جو ہے مہر و محبت میں ہے
قرابت، مروت ،محبت میں ہے
جہانوں کو تسخیر کرنے کا راز
خدا کی نبیؐ کی اطاعت میں ہے
اسی ایک دنیا پہ تکیہ نہ کر
جہاں سارا تیری خلافت میں ہے
اٹھا فائدہ اس کے فیضان سے
یہ قرآن تیری وراثت میں ہے
نہیں خیر دنیا کے دستور میں
بھلائی فقط دینِ فطرت میں ہے
صدارت، وزارت نہ عہدہ میں ہے
شرف تیرا تبلیغ و دعوت میں ہے
٭٭٭
کوئی کام کر نہ کوئی بات کر
نفی سب کی کر رب کا اثبات کر
دعا کر کبھی رو کے فریاد کر
ہر اک وقت اس کی مناجات کر
نہ پھیلا کسی آگے دستِ سوال
اسی آگے پیش اپنی حاجات کر
تو کس کا ہے،کس کے لئے ہے،تو کیا
یہی اپنے دل سے سوالات کر
پلک بھر بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو
دھیان اس کا اس طرح دن رات کر
بڑا سب سے دشمن ترا نفس ہے
اگر کر سکے تو اسے مات کر
ضروری ہے وعظ و نصیحت مگر
ذرا ٹھیک اپنی بھی عادات کر
اے صفدر خدا کی رضا کے لئے
فدا اپنے سارے مفادات کر
٭٭٭
وظیفہ یہی ہو مرا صبح و شام
نبیؐ اور آلِ نبیؐ پر سلام
ہے سارے زمانے کے بھلے کا پیام
حدیثِ نبی اور خدا کا کلام
یہی آرزو ہے یہی ہے دعا
ملے ان کے ہاتھوں سے کوثر کا جام
نبی پاک کے پیارے اصحاب ؓ پر
مرے اللہ تیرا کرم ہو مدام
خدا اور نبیؐ پاک ہیں عیب سے
جرح ان پہ کرنا ہے مطلق حرام
عقیدت ،محبت مری پیشوا
اور عشقِ محمدؐ ہے میرا امام
نہ کر خرقہ پوشوں سے نفرت نہ کر
تجھے کیا خبر ان کا کیا ہے مقام
الجھ نہ الجھ بحث و تکرار میں
یہی مسئلے شیطنت کے ہیں دام
٭٭٭
کوئی ضد کسی سے نہ تکرار کر
جو حق بات ہو اس کا اقرار کر
ہر اک امرِ معروف پر ہو عمل
مگر امرِ منکر کا انکار کر
جو توفیق ہو تو ہر اک کارِ خیر
بڑی تندہی سے لگاتار کر
خدا کے سوا اپنے احوال کا
غمِ دل کسی سے نہ اظہار کر
محلات مر مر کے ،ماٹی کے گھر
جو ہیں بتکدے ان کو مسمار کر
نہ لا یعنی باتوں میں دل کو لگا
نہ کوئی کبھی کارِ بے کار کر
کسے خبر کب کوچ کا امر ہو
تو زادِ سفر اپنا تیار کر
٭٭٭
تبلیغی ماہیے
اک تیرا سہارا ہے
تیرے سوا مولا
بھلا کون ہمارا ہے
٭٭٭
ساتھی نہ سہارا ہے
مان کریں کس کا
ہر سانس پرایا ہے
٭٭٭
دنیا تو سرائے ہے
کوچ کی بستی میں
کیوں جی کو لگائے ہے
٭٭٭
گردش میں ستارہ ہے
دنیا چھوڑ گئی
اب رب کا سہارا ہے
٭٭٭
یہ جال خیالوں کے
دم کا بھروسہ نہیں
منصوبے ہیں سالوں کے
٭٭٭
اک رب کا سہارا ہے
ڈوبتی سانسیں ہیں
اور دور کنارہ ہے
٭٭٭
جی بھر کے رو لینا
داغ جدائی کے
اشکوں سے دھو لینا
٭٭٭
گھر بار بنانے میں
عمر گنوا بیٹھے
دنیا کے سجانے میں
٭٭٭
اس دیس پرائے میں
بیٹھ نہیں رہنا
دنیا کی سرائے میں
٭٭٭
یہ جو خنکی ہے آنسو کی
دل کی تراوٹ ہے
اور ٹھنڈک آنکھوں کی
٭٭٭
دکھ درد و الم سہنا
رب کی رضا کے لئے
ہر حال میں خوش رہنا
٭٭٭
اس جگ کے جھمیلے میں
دل کو لگانا کیا
چند گھڑیوں کے میلے میں
٭٭٭
اللہ کا نام رہے
میرے ہونٹوں پر
صلوات و سلام رہے
٭٭٭
اس دیس پرائے میں
بیٹھ نہیں رہنا
دنیا کی سرائے میں
٭٭٭
اس جگ کے جھمیلے میں
دل کو لگانا کیا
چند گھڑیوں کے میلے میں
٭٭٭
اک نور کا ہالہ ہے
ذکر کی برکت سے
ہر سمت اجالا ہے
٭٭٭
دل کیسے سکوں پائے
چھوڑ کے در تیرا
جائے تو کدھر جائے
٭٭٭
دل چین نہیں پائے
ڈور یہ سانسوں کی
کب جانے یہ کٹ جائے
٭٭٭
مکھ چاند کا ہالہ ہے
ماہِ منور ہے
یا نور اجالا ہے
٭٭٭
مانے نہ کوئی مانے
دنیا کے سب رشتے
کبھی ساتھ نہیں جانے
٭٭٭
اندھیارا یہ چھٹ جائے
قلب و نظر پہ جو ہے
اک پردہ سا ہٹ جائے
٭٭٭
اک رب کی آس رہے
ہو نہ جدا وہ کبھی
ہر وقت وہ پاس رہے
٭٭٭
٭٭٭
شاعر کا شکریہ جنہوں نے اجازت دی اور ان پیج فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، عمل لفظی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید