بے قراری سی بے قراری ہے
گوہر شہوار
Gohareshahwar07@gmail.com
مکمل حصہ پڑھنے کے لیے
حصہ چہارم: بے قراری سی بے قراری ہے
کہتے ہیں خود کشی ہی واحد سنجیدہ فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ کافی سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اب خود کشی کر لینی چاہیے۔ مجھے اپنی زندگی یونانی دیو مالا کے کردار سسی فس جیسی لگنے لگی۔
سسی فس کو دیوتاؤں نے یہ سزا دی کہ وہ بہت مشقت کر کے پتھر پہاڑ کی چوٹی تک لے جائے۔ جیسے ہی وہ چوٹی پر پہنچتا ہے اسے نیچے لڑھکا دیا جاتا۔ اس کی ساری محنت اور کوشش بے معنی ہو جاتی۔ پھر بھی وہ باز نہیں آتا۔ جانتے بھوجتے دوبارہ صفر سے سٹارٹ کر دیتا۔ سنا ہے سسی فس اس کام میں خوش ہے۔
سسی فس تو شاید خوش ہو گا، میں نہیں ہوں۔
میں نے شعوری طور پر تسلیم کر لیا کہ میرا ہونا یا نہ ہونابے معنی ہے۔
کئی سال تک میرے اندر ایک کائناتی خلا تھا۔ پھر اچانک ایسی بیچینی نے گھیر لیا ہے۔ میں مستقبل میں کسی بہتری کی خاطر خود کو مزید دھوکے میں نہیں رکھ سکتا۔ اپنے اندر کے خلا کے ساتھ تو شاید میں زندہ رہ لیتا۔ پر اس بے چینی کے ساتھ مشکل ہے۔
ہر واقعہ میری بے چینی کو بڑھاتا ہی چلا گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں یورپ کے ٹرپ کے بعد میں تھک گیا۔ یہاں کے پینڈگ کاموں نے مجھے کئی ہفتوں تک الجھائے رکھا۔ اس دوران ہمارے اسلامی فیشن والے بزنس کی لانچنگ بھی ہو گئی۔ لانچنگ کی تقریب دبئی میں ہوئی اور بہت ہی کامیاب رہی۔ لوگوں کا ریسپانس بہت ہی حوصلہ افزا تھا۔ اس سارے عرصہ میں مجھے عبیر کا خیال کئی بار آیا، پر ہمیشہ مصروفیت کی وجہ سے بھول جاتا۔
مجھے اپنی ہفتہ وار میٹنگز کی کمی تو محسوس ہوتی پر بزنس کی اپنی مجبوریاں تھیں۔ میں نے سوچا ایک بار آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔ جب لانچنگ سیریمنی میں بھی عبیر کہیں نظر نہ آئی تو مجھے عجیب لگا۔ اس سے پہلے کئی اہم ٹیکینکل میٹنگز میں بھی وہ غائب رہی۔ ایسے موقع پر غائب ہونا بنتا نہیں ہے۔
کچھ عرصہ بعد میں نے اسے کال ملائی تو اس کا نمبر بند تھا۔ ضرور کوئی گڑ بڑ تھی۔
ایلف اور اس کی ٹیم ممبرز مصروفیت کی وجہ سے دن رات کام میں لگے ہوئے تھے۔ لانچنگ کے بعد بہت بڑی تعداد میں آرڈر ملنا شروع ہو گئے۔ چھوٹی سی ٹیم بڑھ کر چار پانچ گنا ہو گئی۔ ایسے میں ایلف سے میٹنگ ہی نہ ہو پاتی۔
کافی دنوں بعد ایک میٹنگ کے بعد کیژول گپ شپ چل پڑی۔ ایلف کے چہرے پر کام کی وجہ سے تھکن تھی۔ میں نے اس کے کام کی جینؤین تعریف کی تو وہ کھل اٹھی۔ یہ آرٹسٹ ٹائپ کے لوگ پیسے سے زیادہ اپنے کام کی پزیرائی چاہتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد میں نے لاپرواہی سے وہ بات پوچھی جو میں کافی عرصہ سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔
ایلف یہ عبیر کہاں ہے؟ میں کافی عرصہ سے دیکھ رہا ہوں وہ نہ کسی میٹنگ میں نہیں ہوتی۔
میرا سوال سنتے ہی ایلف کا مسکراتا چہرہ بجھ گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک اداسی کی لہر اٹھی۔
سر عبیر اب ہمارے ساتھ نہیں رہی۔
کیا مطلب ہمارے ساتھ نہیں رہی؟ کیا اس نے ریزائن کر دیا ہے؟ میں نے اپنی آواز کو اونچا ہونے سے روکا۔
نہیں سر! عبیر اب اس دنیا میں ہی نہیں رہی۔
یہ کہتے ہی ایلف کی آنکھوں سے آں سو چھلک پڑے۔
یہ بات سن کر میرے دل میں اداسی کی ایک لہر اٹھی۔ اکثر ہم کئی تعلقات کو معمولی جانتے ہیں۔ سمجھتے ہیں، ان کی ہماری زندگی میں کوئی اہمیت نہیں۔ جب وہ شخص ہماری زندگی سے چلا جاتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی شدید غم ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
یہ تو بہت افسوس ناک بات ہے۔ پر یہ اچانک ہوا کیسے؟ میں نے پوری کوشش کی کہ میری آواز سے جذبات نہ چھلکیں۔
ایلف نے اپنے آنسوؤں کو پوچھا اور رندھی ہوئی آواز میں بتانے لگی۔
آپ کے جانے کے بعد عبیر کافی دن دفتر نہیں آئی۔ کئی بار کال کی تو اس نے گھر شفٹ ہونے کا بہانہ کیا۔ کام کے پریشر کی وجہ سے میں چاہتی تھی وہ جلد از جلد آفس آئے۔ جب کچھ دن بعد وہ آفس آئی تو بجھی بجھی تھی۔ اس کی وہ پہلے والی شوخی اور انرجی ختم ہو گئی۔ میں نے پوچھا تو اس نے گھریلو ٹینشنز کا بہانہ کر کے ٹال دیا۔
کچھ دن بعد میں نے اسے کسی جاب کے لیے سی وی بھیجتے دیکھا۔
میں سمجھ گئی، عبیر کی پریشانی کا تعلق اس جاب سے بھی ہے۔
عبیر ہماری سب سے ٹیلنٹڈ ممبر تھی، میں اسے ہر قیمت پر رکھنا چاہتی تھی۔ اگر اسے اس جاب میں پیسوں کا یا کوئی اور مسئلہ تھا۔ تو میں آپ سے بات کر کے حل کرادیتی۔ میرے بے حد اصرار پر اس نے اپنی دکھ بھری داستاں سنائی۔
بیچاری عبیر نے پے درپے غموں کو سہا۔ پہلے اس کی شادی لیٹ ہوئی، اس کا منگیتر ٹریننگ کے لیے امریکہ چلا گیا۔ اسی دوران ان کے گھر ڈاکا ڈلا جس میں اس کے والد ہلاک ہوئے۔ لوگوں نے عبیر اور اس کی بہن کی طرف غلط نظریں اور ہاتھ بڑھانا شروع کیے۔ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے عبیر نے نوکری کرنا شروع کی۔ اسی دوران پتا نہیں کیوں اس کے سسرال والوں نے اس کی جاسوسی شروع کروا دی۔
عبیر بہت معصوم اور سیدھی سادھی لڑکی تھی۔ اس نے تو اپنا چہرہ بھی کسی کو نہیں دکھایا۔ بس ویک اینڈ پرکبھی کبھار اپنے یونیورسٹی ٹیچر کے گھر آرٹ پر ڈسکشن کرنے جاتی تھی۔
اس کے سسرال والوں نے عبیر پراس شخص کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر منگنی توڑ دی۔
عبیر یہ صدمہ نہ سہہ سکی اور اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا۔
بدنامی کے خوف سے انھوں نے گھر چھوڑ دیا۔
عبیر اب یہ شہر چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانا چاہتی تھی۔ اسی لیے مختلف نوکریوں پر اپلائی کر رہی تھی۔ مجھے اس سے شدید ہمدردی ہوئی۔ میں نے اسے کئی کمپنیوں میں ریکیمنڈ کیا۔ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر وہ ایک ٹرکش کمپنی میں سلیکٹ ہو گئی۔
ترکی جانے سے کچھ دن پہلے اس نے نوکری سے ریزائن کر دیا۔ میں نے اسے کہا کہ ترکی جا کر بھی رابطے میں رہے۔
اس کے بعد میں اپنے کاموں میں اتنا پھنسی کہ کچھ خیال نہ رہا۔
اس نے جب دو مہینوں تک رابطہ نہ کیا، تو میں نے پریشانی میں اس کی کمپنی والوں سے اس کے بارے میں معلومات لیں۔
انھوں نے بتایا کہ عبیر نے تو جوائننگ ہی نہیں دی۔
مجھے شدید پریشانی لاحق ہو گئی۔ اس کی بہن کا نمبر بھی مسلسل آف جا رہا تھا۔ انھوں نے کرائے کا مکان بھی ترکی جانے سے پہلے چھوڑ دیا تھا۔
میں نے پریشانی میں پولیس رپورٹ درج کروا نے کا سوچا۔ پر لوگوں نے مجھے سمجھایا کہ پولیس کے جھمیلے لمبے ہو جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے عبیر بغیر بتائے کہیں روپوش ہو گئی ہو۔ اگر ایسی بات تھی تو کم از کم ایک میسیج ہی چھوڑ جاتی کہ میں جہاں بھی ہوں خیریت سے ہوں۔
بہرحال میرے ایک جونئیر نے یہ ذمہ داری لی کہ وہ اپنے کسی ذریعے سے پتہ کروا لے گا۔ کچھ دنوں بعد اس نے یہ افسوس ناک خبر دی کہ ائر پورٹ جاتے ہوئے عبیر اور اس کی فیملی ایک خطرناک ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئی تھی۔
حادثہ شام کے وقت ہائی وے پر مسافر بس اور ٹیکسی کے درمیاں ہوا۔ تیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ عبیر اور اس کی فیملی کی لاشیں کوئی کلیم کرنے نہ آیا اور انھیں لاوارث کہہ کر دفنا دیا گیا۔ یہ کہہ کر ایلف پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
وہ بالکل میری بیٹی جیسی تھی، پتہ نہیں اسے کس جرم کی سزا ملی۔
آخر زندگی میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس فقرے نے وقت کا پہیا الٹا گھما دیا۔
دادا کیوں محبت سے محروم رہے، اماں کیوں پاگل ہوئیں، ابا کیوں نشہ کرنے لگے۔ عنبر کیوں عشق کی ناکامی نہ سہہ سکی، گلاب خان کیوں اندھا ہوا، شنو کیوں رونق بازار بن گئی، میں کیوں خدا سے محروم ہوا، اور اب عبیر کیوں مر گئی۔
ہر کیوں کے پیچھے ایک اور کیوں پھن پھیلائے کھڑی ہوتی ہے۔ کوئی بھی حتمی جواب نہیں ملتا جو تسلی دے دے۔
پھر اک دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
لوگ ہر چیز کو خدا کی حکمت اور شیطان کی سازش قرار دے کر خوش ہولیتے ہیں۔ پر سوچنے والا ذہن اس پر نہیں رک سکتا۔ اگر خدا کی مصلحت پر سوال اٹھانا منع ہے تو پھر اس نے ہمیں سوال کرنے والا یہ ذہن کیوں دیا ہے۔
میرے دل میں شدید بے چینی اور بے قراری پیدا ہوئی۔ میرے اندر کے خلا میں بگ بینگ دھماکہ ہو گیا اور لاموجود کا سکوت ٹوٹ گیا۔
پہلے نہ کسی خلا پر اختیار تھا، نہ اب کسی بے قراری پر اختیار رہا۔
سالوں سے خشک پڑے میری آنکھوں کے چشمے جاری ہو گئے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
عبیر کی موت کوئی بھلا دینے والا واقعہ نہ ثابت ہوئی۔ میری چھوٹی سی کائنات تہہ و بالا ہو گئی۔ ہر دم اس کا خیال کسی آسیب کی طرح مجھ پر سوار رہتا۔ میری بے چینی بے سبب نہیں تھی۔
عبیر کا مرنا اتفاق ہو سکتا تھا۔ پر اس کا بدنام ہونا، اس کی منگنی ٹوٹنا، اس کا نروس بریک ڈاؤں ہونا، اس کا نوکری چھوڑنے کا سوچنا یہ سب محض اتفاق نہیں تھا۔ شاید اس نے ایلف کو اصل بات نہیں بتائی، وہ اپنے کسی یونیورسٹی ٹیچر سے ملنے پر بدنام نہیں ہوئی۔
وہ میرے مجبور کرنے پر میرے گھر آتی تھی۔ وہ میری وجہ سے ہی یہ نوکری چھوڑنا چاہتی تھی۔ وہ مجھ سے دور جانا چاہتی تھی۔ وہ مجھ سے ملنے پر بدنام ہوئی تھی۔
نہ جانے کیوں میں خود پر اختیار کھو گیا تھا۔
میں نے خود سے عہد کیا تھا کبھی پروفیشنل اور پرسنل لائف کو مکس نہیں کروں گا۔ کبھی کسی معصوم لڑکی کو اپنے اندر کی تاریکیوں کا راز دار نہیں بناؤں گا۔ کبھی کسی کو محبت کا فریب نہیں دوں گا۔
پر اس کی شخصیت اور تیکھی تیکھی باتیں مجھے اس کے ساتھ وقت بتانے پر اکساتیں۔
کبھی وہ ایک سہمی ہوئی ہرنی ہوتی تو کبھی غصیلہ شیرنی۔ اسے اکسانے میں مزا آنے لگا۔
اس کے نقاب کی وجہ سے اس کا چہرہ تو نہ دکھتا۔ پر اس کی باڈی لینگوج اس کے سارے جذبات کا اظہار کر دیتی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو اپنی بات چھپا ہی نہیں سکتے۔
میں نے درمیاں میں کئی بار سوچا کہ بس اس سے آگے نہیں بڑھنا۔ میں جیسے ہی پیچھے ہٹا تو اس نے میری ذات کو کریدنا شروع کیا۔
مجھے اسی وقت اسے روک دینا چاہیے تھا۔ پر میں نے بہت بڑی بے وقوفی کی اور اپنی تاریک دنیا کے دروازے اس کے لیے کھول دیے۔
میں اب بھی حیران ہوں میں نے ایسا کیوں کیا؟ شاید اندر سے مجھے بھی سمجھے جانے اور چاہے جانے کی خواہش ہے۔
کہیں میرا لاشعور یہ تو نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے میری خامیوں کے باوجود قبول کرے۔
کہیں میں لاشعوری طور پر اس بے معنی زندگی کے خلا کو کم کرنے کا خواہش مند تو نہیں ہوں۔
میں شعوری طور پر جانتا تھا یہ ممکن نہیں۔ ہھر بھی خود کو بے مقصد ہاتھ پیر مارنے سے نہ روک سکا۔
میری تاریک دنیا سے آگاہ ہونے کے بعد اس کی میرے بارے میں نفرت برقرار رہی۔ اس کے لیے میں ایک بھیڑیا ہی رہا۔ ایسا بھیڑیا جس پر صرف تشدد کیا جا سکتا ہے۔ جو خود سے قریب ہونے والے کو نقصان پہچاتا ہے۔ وہ جان گئی کہ بدنصیبی میرے مقدر میں لکھ دی گئی ہے۔ جو بھی میرے قریب ہوتا ہے یہ بدنصیبی اس کے حصے میں بھی آ جاتی ہے۔
اس کی موجودگی میں میرے اندر کی دنیا تبدیل ہو جاتی۔ جب وہ غصے سے مجھ پر تشدد کرتی تو درد کی انتہا پر سکون کی لہریں اٹھتیں۔ یہ زندہ ہونے کا احساس کافی دیر تک مجھ پر چھایا رہتا۔ اس کی کپکپاتی انگلیاں جب میرے زخموں پر مرحم لگاتیں تو جلن سے آگے کچھ محسوس ہوتا۔
میرے لیے یہ آگہی عذاب بن گئی کہ عبیر کے ساتھ جو ہوا اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ ایک پچھتاوا مجھے ہر دم اپنی لپیٹ میں لیے رکھتا، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں نے کئی بار سوچا کہ جو ہونا تھا ہو گیا اب کچھ نہیں کیا جا سکتا، پر میری ساری دلیلیں میری جذباتی کیفیت کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہیں۔ جیسے پہلے اپنے اندر کے خلا کا کوئی علاج نہ ملا ایسے ہی اس بے چینی کا بھی کوئی حل نہیں تھا۔
آخر میرا یہ سارا پیسہ اور طاقت کس کام کا جب کہ میں اندر سے ویسا ہی ہوں جیسا پیسہ آنے سے پہلے تھا۔ ہم اپنے اندر کی کا قیدی کیوں ہوتے ہیں۔ میں اپنی قید سے کیوں نہیں نکل جاتا۔ میں کیوں اپنے ماضی کا اسیر ہوں۔ میرا خود پر اور اپنے حالات پر کوئی اختیار کیوں نہیں ہے؟
اگر یہ جبر ہے تو میں کس لیے یہ جبر برداشت کروں؟ اس تماشے کو ختم کیوں نہ کر دوں۔ اپنی جان لے کر ایک کائناتی خاموشی اور بے معنویت کا حصہ کیوں نہ بن جاؤں؟
میں نے اس کا چہرہ بھی کبھی نہیں دیکھا، جانے وہ کیسی دکھتی ہو گی۔ میں چشم تصور سے دشت امکاں میں چہرے تراشتا، ہر چہرے میں کہیں نہ کہیں عنبر کا عکس جھلکتا۔ اسی لیے مجھے کسی بھی تصور پر یقین نہ رہا۔ میری یاداشت بھی تو دھوکہ کھا سکتی تھی۔ میرا اور اس کا نفرت کا رشتہ بھی کتنا خالص تھا۔
کتنی ہی لڑکیاں اس کمرے میں آئیں مگر اس جیسی کوئی نہ تھی۔ سب مجھے ایک کلائنٹ کے طور پر ٹریٹ کرتیں جو انھیں پیسے دے کر خود ازیتی کہ لذت اٹھاتا ہے۔ انھیں اس بات میں رتی بھر بھی دلچسپی نہ تھی، کہ میں ایسا کیوں کرتا ہوں۔ ان کے بیشتر امیر کلائنٹ اس سے بھی عجیب حرکتیں کروا تے۔ ان کے سینوں میں دفن رازوں کو کھول دیا جائے تو قیامت برپا ہو۔
ہم جب ان جسم فروشوں کو دور سے دیکھتے ہیں تو ان کے بارے میں عجیب سی ہمدردی محسوس کرتے ہیں۔ ہماری یہ ہمدردی بھی در اصل اپنی برتری کا اظہار ہوتی ہے۔ ہم ہمدردی محسوس کر کے خود کو بہت اچھا سمجھتے ہیں۔ شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم ان جیسے نہیں ہیں۔
کیوں بھئی ان ذلیل لوگوں کا کیا قصور ہے جو انھیں یہ عذاب سہنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ ایسا ہی شکر ایک ایسے بندے نے بھی ادا کیا تھا جس کے بیوی بچے اس کی آنکھوں کے سامنے مر گئے مگر وہ بچ گیا۔
شکر ہے میں بچ گیا
دوسری جنگ عظیم سے پہلے کی بات ہے۔ جرمنی میں دو یہودی دوست تھے۔ ایک کا نام آرون اور دوسرے کا ڈینیل تھا۔ دونوں ہی شیوا (یہودیوں کی درس گاہ) میں مذہبی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ آرون بہت تیز ذہن کا تھا، تعلیم حاصل کرتے وہ یہودیت اور خدا سے متعلق ایسے ایسے سوال اٹھاتا کہ ٹیچر بھی لاجواب ہو جاتے۔ اپنی باغیانہ طبیعت کی وجہ سے تعلیم مکمل کرنے سے پیہلے ہی اسے شیوا سے نکال دیا گیا۔ شیوا سے نکلنے کے بعد آرون نے لٹریچر کی تعلیم حاصل کی اور شاعر بن گیا۔
اس کا دوست ڈینیل اتنا ذہین نہیں تھا، مگر اس نے اعزاز کے ساتھ مذہبی تعلیم مکمل کی اور شیوا میں ہی استاد لگ گیا۔ کچھ سالوں میں دونوں نے ہی اپنی اپنی فیلڈ میں نام بنا لیا۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم چھڑ گئی۔ جرمنی کی فضا یہودیوں کے لیے ناموافق ہو گئی۔ لاتعداد یہودی چن چن کر کنسنٹریشن کیمپس میں ڈال دیے گئے۔ بیشتر کی موت گیس چیمبرز میں ہوئی۔
آرون خود تو گرفتاری سے بچ کر فرانس بھاگ گیا۔ اس کے بیوی بچے گیس چیمبر کا مقدر بنے۔ اس واقعہ نے آرون کا خدا پر یقین مکمل طور پر اٹھادہا۔
ڈینیل اور اس کی فیملی بھی گرفتار ہو کر کنسنٹریشن کیمپ پہنچی۔ کچھ ماہ بعد سوائے ڈینیل کے کوئی بھی نہ بچ سکا۔ ڈینیل نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیوی بچوں کو راکھ بنتے دیکھا اور اس کا خدا پر ایمان مزید پختہ ہو گیا۔ وہ اسی ایمان کے ساتھ کئی سال بامشقت قید کاٹ کر چھوٹا۔
جنگ کے بہت سالوں بعد دونوں اتفاق سے امریکہ میں ملے۔ پرانی خوشیاں اور تلخیاں لوٹ آئیں۔ مسئلہ پھر خدا کے وجود تک آپہنچا۔ ڈینیل نے بڑے فخر سے کہا کہ میرا کنسنٹریشن کیمپ میں زندہ بچ جانا ایک معجزہ تھا۔ اسی وجہ سے میرا ایمان خدا پر پختہ ہو گیا۔
آرون نے چلا کر کہا ” تمھارے بیوی بچوں کا معجزہ کدھر ہے؟ کیا وہ صرف اسی لیے مرے کہ تمھارا خدا پر یقین پختہ ہو جائے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ جسم فروش ہمارے رحم کی بھیک کے مستحق کیوں ہیں۔ ہم انھیں مکمل جذبات و احساسات والا برابر انسان کیوں نہیں تسلیم کرتے۔ جس کا یہ حق ہے وہ زندگی کے ہر رنگ کو سب انسانوں کی طرح محسوس کرے۔
میں نے ان جسم فروشوں کو جتنا قریب سے دیکھا میرا احساس برتری ختم ہو گیا۔ میں ان پر رحم نہیں کھا سکتا۔ مجھے وہ بھی خامیوں، خوبیوں، نیکیوں، اور بدیوں کا مجموعہ نظر آئے۔ وہ نہ تو فرشتہ ہوتے اور نہ ہی شیطان۔ بس سب کی طرح مجبوریوں میں جکڑے ہوئے زندگی گزارتے لوگ ہوتے۔ شاید وہ زندگی کو ہم سے زیادہ گہرائی سے گزارتے ہیں۔
میرے کمرے میں آنے والی لڑکیاں کوئی غریب اور مجبور نہ ہوتیں۔ نہ تو یہ ان کا خاندانی پیشہ ہوتا اور نہ ہی کسی نے انھیں اغوا کر کے اس کام پر ڈالا ہوتا۔ وہ یہ کام اپنی بڑی بڑی خواہشات کی تکمیل کے لیے کرتیں۔ وہ اچھے لائف سٹائل کی اتنی رسیا ہوتیں کہ ان کے بغیر ان کا گزرار مشکل ہوتا۔
تھائی لینڈ کے قحبہ خانے بڑے ہی ایڈوانس ہیں جہاں لڑکیاں سجی سنوری شیشے کے باکس میں ایسے بیٹھی ہوتی ہیں جیسے انسان نہیں کوئی ربڑ کی گڑیا ہو۔ ان کی بولیاں لگتی ہیں۔ وہ خود کو مظلوم نہیں سمجھتیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش کرتی۔ تاکہ اپنی مارکیٹ ویلیو کم ہونے سے پہلے کچھ بچا سکیں۔
یہ رزیل کام کرنے والے بھی انوکھے ہوتے ہیں۔ طوائفوں، زنخوں، خاکرو بوں، گورکنوں، جلادوں، اور غسالوں وغیرہ کا ذکر بھی بہت شرمندگی سے کیا جاتا ہے۔ جیسے ان کا وجود دھرتی پر ایک بوجھ ہو۔ ہم اپنی بدصورتی اور گند ان لوگوں سے منسوب کر دیتے ہیں۔ کیا غلیظ مگر ضروری کام بھی انتہائی دیانت داری سے نہیں کیا جا سکتا۔ کیا اس میں بھی اعلیٰ درجے کی مہارت نہیں ہو سکتی۔
میں ایک ارزل نسل سے کیوں ہوں؟
معاشرے کے ارزل لوگوں سے مجھے خاص دلچسپی رہی۔ بچپن میں انھیں دیکھ کر سوچتا ,آخر یہ کیا سوچتے اور محسوس کرتے ہوں گے۔ ان کے خواب,امیدیں اور امنگیں کیسے ہوں گے۔ ہمارے گاؤں سے باہر خاکرو بوں کے کچھ کچے گھر تھے۔ جو بارشوں اور سیلاب میں بہہ جاتے۔ ان لوگوں کی بہت عجیب زندگی تھی۔ گندگی اور غلاظت سے منسلک ہر کام ان لوگوں کے سپرد تھا۔ یہ سارے گاؤں کا گند اٹھاتے اور لوگوں کے ٹکڑوں پر جیتے۔ جب کوئی جانور مر جاتا تو انھیں بلایا جاتا۔ یہ اسے اٹھا کر لے جاتے۔ چمڑہ بیچ کر مردار گوشت خود کھا لیتے۔ لوگوں کو ان کے وجود سے ایک عجیب قسم کی آلکس آتی۔
انھیں کبھی گھر کے برتنوں کو ہاتھ نہیں لگانے دیا جاتا۔ ان کی عورتیں بچے بھی مزدوری کرتے۔ یہ لوگ پڑھائی لکھائی کی طرف کم ہی آتے۔ پھر بھی کبھی کبھار ایک آدھا ذہین بچہ پیدا ہوہی جاتا تھا۔ ایسا ہی ایک لڑکا جوزف بھی تھا۔
جوزف حد درجے کا ذہین تھا۔ وہ مزدوری بھی کرتا اور پڑھائی بھی۔ اس کے پاس پہننے کو صاف یونیفارم بھی نہ ہوتا۔ لڑکے اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے۔ کبھی کبھار تو پٹائی بھی لگاتے۔ اسے نلکے والا گلاس استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ جوزف ان سب باتوں کے باوجود ہنس مکھ تھا۔ اس کے مذاق لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کر دیتے۔ اس نے اپنی محرومیوں اور تلخیوں کو مزاح کا رنگ دے دیا۔
نہ جانے کیسے ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔ شاید میں نے کبھی اسے باقی لوگوں کی طرح ناپاک نہیں سمجھا۔ میرا ذہن شروع سے ہی الٹا تھا۔ باقی لوگوں کو سمجھ آنے والی باتیں مجھے سمجھ ہی نہ آتیں۔
ایک بار سکول کے پاس کنسٹرکشن کا کام ہو رہا تھا، جس میں اس کی بہن اور ماں مزدوری کر رہی تھیں۔ اس کی ماں خوشی خوشی اسے دیکھنے کلاس میں آئی۔ اہنی ماں کو ان گندے کپڑوں میں دیکھ کر اس کا رنگ اڑ گیا۔ شرمندگی کے شدید جذبات اس کے چہرے پر آ کر مستقل طور پر ٹھہر گئے۔
انھی دنوں ایک اور حادثہ بھی ہوا۔ اسے ساتھ والے سکول کی ایک لڑکی پسند آ گئی۔ جوزف اور میں ہر روز اس لڑکی کی راہ تکا کرتے۔ سکول کے سفید کپڑوں میں وہ بالکل ایک کبوتری لگتی۔ اس کی آنکھوں کی معصومیت اور حیرانگی جوزف کا سکون چھین کر لے گئی۔ وہ عمر ہوتی بھی ایسی ہے جب کسی پر قربان ہونا اچھا لگتا ہے۔ جوزف ہر دم اسے دیکھنے کو بے چین رہتا، ہر اس کے سامنے کبھی نہ آتا۔ اسے لگتا کہ اس کا کالا رنگ اور پھٹے پرانے کپڑے اسے پہلی ہی نظر میں ناپسندیدہ بنا دیں گے۔
اس کی صرف ایک خواہش تھی کسی طرح نیا سوٹ پہن کر اس لڑکی کے سامنے جائے۔ مہینوں گزر گئے اور اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ مجھ سے وہ پیسے نہ لیتا، کہتا جس دن میں نے تجھ سے پیسے لے لیے ہمارے دوستی ختم ہو جائے گی۔ اس کی اپنی ہی منطق تھی۔ اچانک جوزف نے سکول آنا چھوڑ دیا اور اپنے باپ کے ساتھ مزدوری کرنے لگا۔ اس کا پورا رویہ تبدیل ہو گیا۔ اب اس کے چہرے سے شرمندگی کی جگہ مردگی آ گئی۔ وہ مجھے ایسے ملا جیسے کوئی لاش ہو۔ میں نے اسے بہت کریدا مگر وہ کچھ نہ بولا۔ بہت سالوں بعد مجھے حقیقت معلوم ہوئی۔
ایک دن سکول سے جاتے ہی جوزف کے باپ نے اسے حکم دیا کہ اس کے ساتھ چلے، ایک گھر کا گٹر بند ہو گیا ہے۔ ایسے کاموں سے جوزف ہمیشہ بھاگتا تھا۔ مگر اس دن باپ کی طبیعت بھی خراب تھی اور گھر میں پیسے بھی نہیں تھے۔ کچھ پیسے ملتے تو رات کی روٹی بنتی۔ مجبوراً وہ چل پڑا۔ اس نے باپ سے نہیں پوچھا وہ کہاں جا رہے ہیں۔
کام شروع کرتے ہی اسے شدید شرمندگی ہوئی کہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے: یہ تو وہی لڑکا ہے جو سکول بھی جاتا ہے۔ مگر باپ کی ڈانٹ ڈپٹ نے اسے کام میں مگن کر دیا۔ تین گھنٹے بعد جب گٹٹر اور نالی صاف کر کے وہ فارغ ہوئے تو ان کے چہرے اور جسموں پر گند ہی گند تھا۔ سب اہل خانہ ناکوں پر کپڑے رکھ کر ان سے پرے ہٹ گئے۔ تبھی اس کی نظر اوپر چھت پر پڑی تو اس کا وجود کٹ کر آدھا رہ گیا۔
وہی کبوتری اوپر اپنی بہنوں کے ساتھ کھڑی آلکس سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کی نظروں میں وہی کراہت تھی جو کسی غلیظ چیز کو دیکھ کر آتی ہے۔ اس دن اس کی دنیا لٹ گئی۔ وہی نظریں جس کے سامنے وہ سب سے اچھے کپڑے پہن کر آنا چاہتا تھا اسے گند میں لتھڑا دیکھ رہی تھیں۔ وہ چاہ کر بھی اس کی نظروں میں مقام نہیں پیدا کر سکتا تھا۔
شاید وہ چاہ کر بھی کسی شخص کی نظروں میں مقام نہیں پیدا کر سکتا۔ لوگ اسے ہمیشہ ایک گند اٹھانے والا ہی سمجھیں گے۔ اس کی ساری تعلیم اور ڈگریاں فضول ہیں۔ یہ معاشرہ پہلے ہی اس کے مقام کا تعین کر چکا ہے۔ اس نے بھی سوچا آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
میں ایک ارزل نسل سے کیوں ہوں؟ کیا میں اسلیے برا ہوں کہ لوگوں کا گند اٹھاتا ہوں؟ یہ طبقاتی نظام خدا کا بنایا ہوا ہے یا انسانوں کا؟
کیا میری اس ذلت بھری زندگی کا کوئی مقصد ہے؟
نہیں تیمور میری اس زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہ ایک بھیانک مذاق ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے ذاتی طور پر ترس کھا کر کسی کو خیرات نہیں دیتا، میرے نزدیک ایسا کرنا بے معنی ہے، اگر مجھے اس کام سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور نہ ہی کوئی دلی سکون ملتا ہے تو میں اسے کیوں کروں۔ پر میری کمپنیاں ٹیکس سے بچنے اور مارکیٹنگ ٹیکٹک کے طور پر ایسا کرتیں۔ وہ کسی نہ کسی ادارے کو خیرات کے چیک دیتیں۔ اس میں بھی بہت دو نمبری ہوتی، پیسے کم دیے جاتے اور مارکیٹنگ کیمپین کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرایا جاتا کہ ہم لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ مجھے بھی مجبوراً ان تقریبات میں شرکت کرنا پڑتی، فیک مسکراہٹ کے ساتھ چیک تقسیم کرنا پڑتے، غریب بچیوں کی اجتماعی شادیوں میں جانا پڑتا، مریضوں کی عیادت کرنا پڑتی، غریب خاندانوں میں راشن تقسیم کرنا پڑتے۔
اپنی بے چینی کے بعد نہ جانے کیوں میں ایسی تقریبات میں زیادہ شرکت کرنے لگا۔ میں نے اپنے پیسے بھی خرچ کرنا شروع کر دیے۔ اپنے ایڈوائزرز کے مشورے کے خلاف خیراتی بجٹ بڑھا دیا۔
مجھے اپنے اس رویے کی بالکل سمجھ نہ آئی۔ پر ایسا کرتے مجھے تھوڑا سا سکون ملتا۔ میں نے سب سے پہلے یتیم، بے سہارا بچے اور بچیوں کے لیے ایک ادارہ بنایا۔ شاید میرے فیصلے کا سبب میرے بچپن کی پرچھائیاں تھیں۔ میں نے یہ ادارہ کسی کو دکھانے یا ٹیکس سے بچنے کے لیے نہیں بنایا۔ اس بے مقصد زندگی میں ایک یہی ایسا کام نظر آیا جسے میں بغیر کسی فائدے کے کر سکتا ہوں۔
اس ادارے کی تعمیر سے لے کر آغاز تک سارے کاموں کی نگرانی میں نے خود کی۔ میرے ایڈوائزرز بھی میرے اس رویے پر کچھ پریشان ہوئے، کہ آخر میں ایسا گھاٹے کا سودا کیوں کر رہا ہوں۔ میں اس کام میں کسی عبادت کی طرح مگن ہو گیا۔ میرے کئی امیر دوستوں نے اس کام میں تعاون کرنے کی کوشش کی مگر میں نے سب سے معزرت کر لی۔
میں نے اس ادارے کا نام آشیانہ رکھا۔
میری سوچ تھی کہ یہاں موجود بچوں اور عورتوں کو گھر جیسا تحفظ ملے۔ انھیں زندگی کی بنیادی سہولیات کے لیے بھیک اور جسم فروشی نہ کرنی پڑے۔ وہ جب تک چاہیں یہاں رہیں اور یہ کوئی جیل نہ ہو۔ اس کا انتظام بھی ایسے لوگ چلائیں جو اس کام کو مجبوری سمجھ کر نہ کریں۔
اگرچہ ہمارے معاشرے میں بہت خرابی ہے، برائی زیادہ اور اچھائی کم ہے۔ پر کہیں کہیں کچھ ہیرے بھی مل جاتے ہیں۔ پہلے خیال تھا شاید مجھے ادارے کو چلانے والے مخلص لوگ نہ ملیں لیکن یہ میری خام خیالی ثابت ہوئی۔
کہیں بھی سب لوگ مکمل اچھے یا برے نہیں ہو سکتے۔
آشیانہ کی افتتاحیہ تقریب بہت سادگی سے ہوئی۔ کسی سیاسی و سماجی شخصیت یا میڈیا کو نہیں بلایا گیا۔ کوئی لمبی لمبی تقیریریں نہیں ہوئیں۔ جب تک میں اس آشیانے کو بناتا رہا حیرت انگیز طور پر مجھے کسی بے چینی اور بے مقصدیت کا احساس نہ ہوا۔ افتتاحیہ تقریب میں ایک انجانی خوشی میرے اندر پھوٹنے لگی۔ یہ محسوسات میرے اختیار میں نہیں۔ میں انھیں کسی ریموٹ کنڑول کی طرح آن آف نہیں کر سکتا۔ یہ بھی پرندوں کی طرح اپنی مرضی سے آتے ہیں اور اپنی مرضی سے اڑ جاتے ہیں۔
یہ چھوٹا سا ادارہ جس میں کچھ یتیم بچے اور کچھ بے سہارا خواتین تھیں میرے سکون کا خوشی کا ذریعہ بن گیا۔ میں جب بھی فارغ ہوتا، وہاں چلا جاتا۔ بچے اور عورتیں حیرانگی اور پریشانی سے مجھے دیکھتیں۔ شروع شروع میں شرم، ججھک اور ادب آڑے آتا۔ وہ میرے شرمندہ شرمندہ ہوتے، جیسے میں انھیں جج کر رہا ہوں۔ رفتہ رفتہ ان کا رویہ نارمل ہو گیا۔ میں خاموشی سے ان کی باتیں سنتا، وہ اپنی دکھ بھری کہانیاں سناتے روپڑتیں۔ زیادہ تر کا تعلق معاشرے کے انتہائی پسے ہوئے طبقے سے تھا۔ انھیں کبھی دو وقت کی روٹی اور کپڑے میسر نہیں آئے۔ ان کی گفتگو میں بھی وہ شائستگی نہ ہوتی۔ ان کا اپنی بھوک، نفرت، خوشی اور غم کا اظہار بڑا ہی کھلا اور نفیس طبیعت پر گراں گزرنے والا ہوتا۔ یہاں وہ سب انسانی ڈرامہ ہوتا جو کہیں اور ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ آپس میں لڑائیاں کرتے، الزامات لگاتے، ایکدوسرے کا حصہ چھیننے کی کوشش کرتے، حتکہ ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی بھی کوشش کرتے۔
میں نے ہدایات جاری کی تھیں کہ ان لوگوں کو قبائلی انسان یا جانور نہ سمجھا جائے۔ انھیں سدھار کر تہزیبی انسان نہ بنایا جائے۔ ان لوگوں کی اچھایاں برائیاں ہماری معاشرے کی دی ہوئی ہیں۔ ان لوگوں نے ساری عمر دیکھا ہی یہ سب ہے، تو اس سے باز کیسے آئیں۔ یہ اپنے پیاروں کے ڈسے ہوئے ہیں تو اجنبیوں پر اعتبار کیوں کریں۔
حالات انسان کی شخصیت پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ہماری شخصیت کی تعمیر میں ان کا رول نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جس نے ساری زندگی نفرت اور دھوکہ دیکھا ہو وہ محبت اور شفقت کو بھی شک کی نگاہ سے ہی دیکھے گا جیسے یہ حقیقی نہ ہوں۔
کچھ مہنیوں کی فراوانی اور سکون دیکھنے کے بعد ان لوگوں کے رویے میں نمایاں تبدیلی آنے لگی۔ وہ اپنے قریبی انسانوں پر بھروسا کرنے لگے۔ انھوں نے کھانے پر چھینا چھپٹی چھوڑ دی۔ ان کے لہجوں کا کھردرا پن نرمی میں بدلنے لگا۔ وہ بے وجہ کا غصہ کہیں دھیما پڑھ گیا۔ ہر کچھ عرصہ بعد کوئی نہ کوئی گھر سے بھاگی، یا نکالی ہوئی خاتون ادارے میں پناہ لیتی۔ مجھے اتفاق یا خوش قسمتی سے ادارہ چلانے کے لیے بہت ہی مخلص اور قابل ٹیم ملی۔ میں تو بس پیسہ ہی دیتا ان کے ذہن میں کچھ نئے آئیڈیاز ہوتے۔
وہ عورتوں بچوں کو ایسا بنانا چاہتے کہ وہ کسی پر بوجھ نہ رہیں۔ عورتوں کو اپنی صلاحیت کے مطابق ٹیلرنگ، میک اپ، نرسنگ، آئی ٹی، کوکنگ، وغیرہ کی تربیت دی جاتی۔ کئی کو تو یونیورسٹی بھی بھیجا جاتا۔ سب سے بڑھ کر انھیں موٹی ویشنل لیکچرز سے یہ باور کرایا جاتا کہ وہ اتنی بے سہارا نہیں ہیں جتنی وہ خود کو سمجھتی ہیں۔ وہ اگر عزم کریں تو اس معاشرے میں بھی وہ ایک کامیاب زندگی گزار سکتی ہیں۔ میں نے کچھ ہی مہینوں میں کئی خواتیں کو اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے اور ادارہ چھوڑتے دیکھا۔ ان کے چہروں سے یوں محسوس ہوتا انھیں نئی زندگی مل گئی ہو۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
اپنی اس ننھی سی دنیا میں مصروف ہو کر مجھے بزنس کے علاوہ دوسری مصروفیات بھول گئیں۔ ایک دو بار اپنی پرانی فرینڈز کو بلایا پر ان کا ساتھ مجھے مزید بے چین کرگیا۔ جیسے میرے اندر کسی لڑکی کی طلب رہی ہی نہیں۔
کسی کا حسن، کسی کی ہنسی، کسی کی خوشبو، کسی کی کھنکھناہٹ مجھے متاثر ہی نہ کرتی۔ کیا میں اندر سے مرچکا ہوں۔ ہر چہرے میں عبیر کا چہرہ ہی دکھتا۔ مجھے ان تیکھی باتوں کی طلب ہوتی۔ میں عبیر کے علاوہ کسی سے تشدد نہ کروا پاتا۔ اب میرے جسم پر کیڑیاں رینگنا بند ہو گئیں۔
مجھے شدت سے اس کی نفرت کی کمی محسوس ہوتی۔ اتنے عرصے میں بھی اس کی یاد کی آگ مدھم نہیں ہوئی۔ میں ہر چہرے میں اسی کا عکس ڈھونڈتا۔ اسی کی انگلیوں کا لمس میری کمر پر محسوس ہوتا۔
میں لائبریری میں بیٹھے خالی صوفے پر عبیر کو بیٹھا محسوس کرتا۔ یاد آتا، کہ اس کی موجودگی کا میٹھا میٹھا احساس میرے لیے کتنا اہم تھا۔ اس کے ہوتے میں نے کبھی اس طرح نہیں سوچا، کہیں یہ سب میرے اس بے چین ذین کا تماشا تو نہیں۔ وہ لائبریری جو کبھی زمانے سے میری پناہ گاہ تھی اب اس کی ویرانی اور تنہائی کاٹ کھانے کو دوڑتی۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
کیا میرے جذبات کو محبت کا نام دیا جا سکتا ہے؟
پر عبیر کی محبت، عنبر کی محبت اور یاد جیسی کیوں نہیں ہے۔ کیا ہر محبت کا رنگ مختلف ہوتا ہے؟
مجھے عنبر سے پہلی نظر میں ہی محبت ہو گئی تھی۔ میرے لیے وہ کسی شہزادی جیسی تھی، ایک ایسی شہزادی جو مجھ جیسے غلام کے نصیب میں نہیں آ سکتی۔ میں چھپ چھپ کر اس کی پوجا کرتا۔ میں اپنے خوابوں میں بھی صرف اس کے قدموں میں بچھا رہنے کا سوچتا۔ اس محبت میں شروع سے ہی لاحاصل پن شامل تھا۔ تشدد کے بہانے اس کے قریب رہنا میری سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس کی موجودگی میں میرے اندر کا خلا کم ہو جاتا۔ زندگی اتنی بے معنی نہ لگتی۔ اس کے جاتے میرے اندر کا خلا بڑھ کر مجھے ہی بے وقعت کرگیا۔ میری ساری کائنات خالی ہو گئی۔
اس کے مقابلے میں عبیر خاموشی سے میری زندگی میں آئی۔ جیسے کوئی چور چپکے سے گھر میں داخل ہوتا ہے۔ میں نے اس کی موجودگی کو کبھی اس طرح سے محسوس نہیں کیا۔ وہ تو کسی اور کی زندگی میں شامل ہونے والی تھی۔ وہ بہت کم عرصہ میں میری زندگی کے تاریک گوشوں سے بھی آگاہ ہو گئی۔ میں خود کو یہی سمجھاتا رہا کہ باقی لڑکیوں کی طرح میرا اس سے بھی دل بھر جائے گا۔ پر ہر ملاقات کے بعد اس سے ملنے کا اشتیاق بڑھ جاتا۔ اس کی انگلیوں کا لمس میری کمر سے میرے دل میں اتر گیا۔
اس کی موجودگی میں تو میں نے اپنے جذبات کو کوئی نام نہ دیا۔ پر اس کے جانے کے بعد احساس ہوا، دل میں کوئی گوشہ اس کے نام سے دھڑکتا تھا۔ اس کے جاتے ہی مجھے شدید بے چینی شروع ہو گئی۔ ایسی بے چینی جس میں بے بسی، پچھتاوا، اور لاحاصل محبت سب شامل ہو۔ ایسی بے چینی جس کی وجہ آپ جانتے بھی ہیں اور نہیں بھی جانتے۔ یہ احساس عنبر کی جدائی کے احساس سے بھی بڑھ گیا۔
تیرے جاتے ہی اس خرابے سے
شور گریہ ہزار اٹھتا ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ویک اینڈ پر میں اپنی تنہائی اور بے چینی سے بھاگتا آشیانے میں پہنچ جاتا۔ ان لوگوں کی موجودگی ہی میرے زخموں کا مرہم ہوتی۔ میں انھی کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا۔ کھانے سے متعلق میری ہدایات یہی تھیں کہ ہمیشہ اچھا بنایا جائے۔ ان عورتوں بچوں کو احساس کو کبھی یہ احساس نہ دلایا جائے کہ ان پر ترس کھاکر ایسا کیا جا رہا ہے۔ کھانا بنانے کا کام بھی انھی عورتوں کے ذمہ تھا۔ کئی تو ان میں پروفیشنل کوکنگ کے کورس کر کے ہوٹلوں میں شیف کے طور پر کام کر رہی تھیں۔
انھیں معلوم ہوتا کہ میں نے آنا ہے تو ہر بار کوئی نہ کوئی انوکھی ڈش کا تجربہ کیا جاتا۔ میں ان کی ان کوششوں کو دلچسپی سے دیکھتا۔ یہ بھی گھر جیسا ہی لگتا۔ انھی دنوں میرے برسوں کے شیف ارشد کو ہارٹ اٹیک ہوا اور اس کی ڈیتھ ہو گئی۔ سالوں سے اس تعلق کی وجہ سے مجھے دکھ ہوا۔
ارشد بھی انوکھا کردار تھا۔ اس سے میری ملاقات اس دور میں ہوئی جب میں کاروبار میں ٹھوکریں کھا رہا تھا۔ وہ اس وقت ایک تھری سٹار ہوٹل میں باورچی تھا۔ ارشد کی شخصیت بجھی بجھی اور اداس سی تھی۔ وہ بہت کم باتیں کرتا۔ اس کے پاس اظہار کا ذریعہ صرف اس کی کوکنگ تھی۔ وہ معمولی سے معمولی چیز میں بھی ایسا ذائقہ پیدا کر دیتا کہ آپ سوچیں میں نے یہ چیز پہلے کبھی کھائی ہی نہیں۔ ارشد کی خاموشی کی وجہ اس کا سقوط ڈھاکہ کے بعد اکیلے پاکستان آنا بھی تھا۔ اس نے اپنی کہانی میرے اصرار کرنے کے باوجود بھی نہیں سنائی۔ جب میری ملاقات اس سے ہوئی تو اس کی عمر پچاس کے قریب تھی، اس نے دوبارہ کبھی شادی نہیں کی۔
وہ شخص صرف کھانوں کے ذائقوں اور خوشبوؤں میں جیتا تھا۔ اسے کھانا بنانے اور کھلانے کا جنوں تھا۔ مگر زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا جذبہ اس کے اندر مرگیا تھا۔ اسی لیے گزر اوقات کے لیے ایک تھری سٹار ہوٹل میں کوکنگ کرتا تھا۔ مجھے اس کے ہاتھوں بنے کھانے کا چسکا پڑ گیا۔ میرے پاس جب پیسے آئے تو میں نے سب سے پہلے ارشد سے کہا کہ وہ ہوٹل کی مشکل نوکری چھوڑے اور اس سے زیادہ پیسوں پر میرے پاس آ جائے۔ پہلے تو ارشد نے ٹال مٹول سے کام لیا۔ میرے بار بار اصرار پر مان گیا۔ میں نے کبھی اسے ملازم کے طور پر نہیں سمجھا۔ اس نے آخری وقت تک مجھے اپنے کھانوں سے سرپرائز کرنا نہیں چھوڑا۔ کاش وہ کوئی اپنا شاگرد ہی چھوڑ جاتا۔
ارشد کی فوتگی پر مجھے دلی طور پر افسوس ہوا۔ اس کے ساتھ بھی ایک انوکھا تعلق تھا۔ اس کی اداس شخصیت گھر کی اداسی میں گھل مل سی گئی تھی۔ شاید ہم دونوں ایک دوسرے کے دکھ کو بنا کہے سمجھ چکے تھے۔
آشیانے میں لذید قیمہ کریلے کھاتے میں نے ویسے ہی کہہ دیا: ایسا کھانا بنانے والا کوئی مجھے بھی ڈھونڈ دو۔ بہت دنوں سے ہوٹل کے کھانے کھا کھا کر تنگ آ گیا ہوں۔
ادارے کی ہیڈ لبنی شمسی بہت بے تکلف تھیں۔ انھوں نے مجھے اکساتے ہوئے کہا۔ تیمور یہ شیف ویف کا جنجھٹ چھوڑو اور مستقل طور پر ایک کھانا بنانے والی لے آؤ۔ تمھیں اب ایک اچھی لڑکی کی شدید ضرورت ہے۔
میں نے ہنس کر لبنی کی بات کو ٹال دیا۔
وہ بھی لے آئیں گے بھابھی آپ فی الحال تو کسی اچھے شیف کا بندوبست کریں۔
بھائی ہمارے پاس اتنی لڑکیاں پروفیشنل شیف بن رہی ہیں، تم جسے چاہو پسند کر لو۔ ۔ اگر کھانا پسند آیا تو آگے بھی بات چلا لیں گے۔۔
ان کی بات سن کر ساری عورتیں ہی ہنس پڑیں۔
انھیں تو جیسے ایک اور موضوع مل گیا۔ یعنی تیمور درانی جیسا شخص غیر شادی شدہ ہے۔
اب میں ان کے سٹوپڈ مگر پرخلوص سوالوں اور مشوروں پر انھیں شٹ اپ بھی نہیں کہہ سکتا۔ سمجھانا اس سے بھی زیادہ مشکل تھا۔
لبنی شمسی نے میرے لیے بہت مصیبت کھڑی کر دی۔ اب میں جب بھی ادھر آؤں گا، کسی نہ کسی بہانے سے یہی بات چھیڑی جائے گی۔ ویسے بھی شادی اور بچے ایسا موضوع ہے کہ عورتیں ان سے کبھی بور نہیں ہوتیں۔
لبنی شمسی نے کہا ہر لڑکی آپ کے شیف بننا پسند کرے گی، آپ اپنی مرضی سے منتخب کر لیں۔
بھابی پلیز مجھے اس انتخاب کرنے کی مصیبت میں نہ ڈالیں۔ جو بھی اچھی شیف ہو اسے بھیج دیں اور اس کی تنخواہ بھی سیٹ کر لیں۔ ارشد کے جانے کے بعد اس کا کمرہ خالی ہے وہ وہاں رہے۔ پر دیکھیے کوئی ایسی لڑکی نہ بھیجیے گا جس کی وجہ سے بعد میں کوئی پرابلم ہو، یو نو واٹ آئی مین۔ میری ریپوٹیشن کی تو خیر ہے یہ ادارہ بدنام نہیں ہونا چاہیے۔
میں سمجھ گئی تیمور صاحب۔ آپ بے فکر رہیں ایسی لڑکی آئے گی جو کھانا بھی عمدہ بنائے اور آپ کی پرائیویٹ لائف میں دخل بھی نہ دے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اگلے ہی دن ایک لڑکی شیف کے طور پر میرے گھر پہنچا دی گئی۔ لبنی نے بتایا یہ لڑکی پچھلے چھ مہینے سے ادارے کے ساتھ ہے۔ اس کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں صرف اتنا پتا ہے کہ یہ دو تین خیراتی مینٹل ہاسپٹلز میں رہی ہے۔ کسی صدمے یا ٹریٹمنٹ کی وجہ سے اس کی یاداشت چلی گئی۔ اپنے کام سے کام رکھتی ہے۔ آج تک اس کے بارے میں کوئی شکایت یا ایبنارملٹی نظر نہیں آئی۔ بس کبھی کبھی سوتے ہیں کلمہ پڑھتے اٹھ پڑتی ہے۔ کوکنگ کورس بھی کمپلیٹ کر چکی ہے اور کمال کی شیف ہے۔ ایک دو ہوٹلوں میں اس کی نوکری کی بات بھی چل رہی ہے۔
اسے یہاں بھیجنے والے نے اس کا نام کوئی نہیں بتایا۔ ہم اس کے کھانوں کی مہک کی وجہ سے اسے مہک بلاتے ہیں۔
یہ نام سنتے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا۔
عبیر کے نام کا مطلب بھی تو خوشبو ہی تھا۔
یہ کیا تماشا ہے کہ میں اس نام کو جتنا بھلانے کی کوشش کرتا ہوں یہ کسی نہ کسی حوالے سے میرے سامنے آ جاتا ہے۔
یادوں کا ایک سیلاب امنڈ آیا، ارد گرد اداسی چھا گئی۔
میری بے چینی پھر لوٹ آئی۔
ایک نیزہ میرے دل کو چیر گیا۔
نہیں۔ ۔ یہ لڑکی اگر میرے گھر میں رہی تو دن رات مجھے اس کا نام میرے زخم ہرے کرتا رہے گا۔
میں نے لبنی شمسی کو سمجھانے کی ایک ناکام سی کوشش کی۔
میرے سارے اعتراضات خود مجھے فضول لگے۔ دلیلیں میرا ساتھ چھوڑ گئیں۔ پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہی ہو گی۔
تیمور میں نے بہت سوچ سمجھ کر اس لڑکی کا انتخاب کیا ہے۔ ایک تو اس کی کوکنگ بہت اچھی ہے، دوسرا یہ اپنے کام سے کام رکھتی ہے باقی لڑکیوں کی طرح کسی کی ٹوہ میں نہیں رہتی۔ یہ تمھاری پرسنل لائف میں انٹرفئیر نہیں کرے گی۔ یہ گوں گی تو نہیں پر گونگوں جیسی ہی ہے۔
میں خود اس کے بارے میں پریشان تھی کہ اس کا کیا بنے گا، اس میں انڈیپینڈنٹ رہنے والی بات ہی کوئی نہیں۔ تمھارے گھر میں یہ سکون سے رہ لے گی۔
میں اپنے تمام اعتراضات اندر ہی اندر دبا کر رہ گیا۔ مجھے اس لڑکی کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔
میں نے حتی الامکان کوشش کی کہ ناپسندیدگی کے تاثرات میرے چہرے پر نہ ابھریں۔ پھر بھی عورتیں کچھ نہ کچھ بھانپ لیتی ہیں
تیمور میری خاطر کچھ عرصہ کے لیے اسے اپنے گھر رکھ لو۔ اگر اس کی کوکنگ یا رویہ تمھیں پسند نہ آیا تو میں تمھارے لیے اس سے بہتر شیف ڈھونڈ دوں گی۔
میں سرد آہ بھر کر رہ گیا۔
بھابھی اب آپ کی بات کو کون ٹال سکتا ہے۔
تھوڑی دیر بعد لبنی شمسی کے ساتھ چادر میں لپٹی ایک سہمی ہوئی لڑکی اندر داخل ہوئی۔ اس نے ایک سیفد رنگ کی کھلی ڈلی شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ چادر سے پلو ایسے نکالا تھا کہ چہرہ ڈھکا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا اور مؤدبانہ انداز سے کھڑی ہو گئی۔ لبنی شمسی نے اسے صوفے پر بٹھایا۔ وہ صوفے پر بیٹھ کر بھی نیچے دیکھنے لگی۔ مجھے چادر سے باہر اس کی خوبصورت انگلیاں نظر آئیں جنھیں اس نے فوراً اندر کر لیا۔
اسے مہک کہتے نام میری زبان پر اٹک گیا۔ ۔
اسے ضروری باتیں لبنی شمسی نے پہلے ہی سمجھا دی تھیں، میں نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا۔ خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
پتا نہیں اس نے بات سمجھی بھی ہے کہ نہیں؟
مجھے اس لڑکی سے اچھے کھانے کی کچھ زیادہ توقع نہیں تھی۔ پتا نہیں کیسا بناتی ہو گی۔ اب کچھ دن تو برداشت کرنا پڑے گا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
رات میں گھر کتنا ویران سا لگتا جیسے کوئ آسیب زدہ حویلی۔ اس گھر میں بھی تو میرے ماضی کے آسیب اور خوف راج کرتے ہیں۔ انھوں نے مجھے قید کر کے رکھا ہے۔ نہ ہی مارتے ہیں اور نہ ہی چھوڑتے ہیں۔ اس گھر کے درو دیوار صرف نوحہ کرتے ہیں۔ نہ کوئی سوال پوچھتا ہے نہ کوئی جواب دیتا ہے۔ ایک کونے میں کہیں تیمور درانی اپنے دادا کی طرح بیٹھا بے مقصدیت کی بے چینی کو برداشت کرتا ہے۔
زندہ اور خوش گھر ایک سے ہوتے ہیں، ویران اور اداس گھروں کا اپنا اپنا علیحدہ رنگ ہوتا ہے۔ اداسی اور ویرانی کے بھی درجے اور قسمیں ہوتی ہیں۔
اس گھر میں رات شب ہجراں کی طرح لمبی ہی ہو جاتی۔ پتا نہیں کس بات کا انتظار تھا۔ ایک ایسی بے چینی ہے جو کسی حال میں خوش نہیں رہنے دیتی۔
کوئی مل جائے تب بھی بے چینی، نہ ملے تب بھی بے چینی۔
غریبی تھی تب بھی بے چینی تھی، امیری ہے تب بھی بے چینی ہے۔
محبوب پاس تھا تب بھی بے چینی تھی۔ بچھڑ گیا ہے تب بھی بے چینی ہے۔
خدا کو ماننے میں بھی بے چینی، اور نہ ماننے میں بھی بے چینی۔
یہ وجودی مسئلہ کب حل ہو گا
بے قراری سی بے قراری ہے
وصل ہے اور فراق جاری ہے
اس سے کہیو کے دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہم انسان بھی اس کائناتی تنہائی میں کسی نامعلوم چیز کے انتظار میں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم وہ چیز کیا ہے۔
وہ ہمیں کب اور کیسے ملے گی۔
مل جائے گی تو پھر کیا ہو گا؟
ہم انسان بس زندگی کی بے منزل شاہراہ پر کھڑے مختلف کھیلوں اور کھلونوں سے جی بہلاتے رہتے ہیں۔
رات کے وقت گھر میں داخل ہوتے ہی بریانی کی خوشبو نے میرا استقبال کیا۔ مجھے یاد آیا میں نے تو ناشتے کے علاوہ کچھ کھایا ہی نہیں۔ فریش ہو کر جیسے ہی کھانے کی ٹیبل پر پہنچا تو مہک بڑی نفاست سے کھانا سجا رہی تھی۔ کھانے کی گرم گرم مہک نے اشتہا بڑھا دی۔ میرے سامنے پلیٹ رکھتے اس کے کی بائیں کلائی پر کسی پرانی زخم کا نشان نظر آیا۔ پتا نہیں زخم تھا یا اس نے کبھی خود کشی کی کوشش کی تھی۔ وہ کھانا لگا کر چلی گئی۔
میں نے جیسے ہی بریانی کو چھکا تو چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کوکنگ بھی ایک کمال فن ہے۔ ہر ہاتھ کا ذائقہ مختلف ہوتا ہے، میں یہی مانتا تھا کہ ارشد کے بعد مجھے کوئی اچھا شیف نہیں مل سکتا، مگر یہاں اسی کے مقابلے کی خاتون آ گئ۔ فرائڈ فش اور مونگ کی دال نے بھی رنگ جمایا۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ضرورت سے زیادہ کھا گیا۔
اس کھانے کی ذاتی طور پر تعریف بنتی تھی۔
جب وہ برتن اٹھانے آئی تو میں نے اسے بیٹھنے کو کہا۔
وہ تذبذب کا شکار ہوئی پر بیٹھ گئی۔ چادر کی وجہ سے اس کا چہرہ اور آنکھیں تو نظر نہ آئیں۔ اس کی انگلیوں کی جکڑ اور پاؤں کی حرکت یہ بتانے لگی وہ اندر سے بے چین اور ڈری ڈری ہے۔
میں نے اسے تسلی دی۔
ڈرو مت ! میں نے صرف یہ بتانا ہے کہ کھانا بہت عمدہ ہے، آئندہ بھی ایسا ہی بنانا۔
مینو ارشد خود بناتا تھا، اب تمھاری مرضی ہے۔
کسی بھی نوکر سے کہہ کر سامان منگوالو یا خود چلی جایا کرو۔ جس دن میں نے گھر نہ آنا ہوا یا نہ کھانا ہوا تو میں تمھیں پہلے ہی بتادوں گا۔ تمھیں فون بھی مل جائے گا۔ کوئی ضرورت یا مسئلہ ہو مجھے بتا دینا۔
تمھیں یہاں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
یہ بول نہیں سکتی یا بولنا نہیں چاہتی؟
صدمے بھی انسانون پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔
بہر حال کچھ دن اس پر نظر رکھنی پڑے گی۔
کچھ دن بعد اس لڑکی نے کچن کا سارا کام سنبھال لیا۔ میں جس وقت بھی گھر آتا، گرم کھانا میری ٹیبل پر پڑا ہوتا، یہ شیف بھی لوگوں کو اپنے ہاتھ کے ذائقے کے عادی کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھ کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا۔ ایک ہی مہینے میں مجھے اس کے ہاتھوں کھانے کی اتنی عادت ہو گئی کہ ارشد کے ہاتھ کا ٹیسٹ بھی بھولنے لگا۔
لبنی شمسی مذاقاً کہتی، تیمور اب تم ہمارے ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے۔ کیا جادو چلایا ہے مہک کے کھانوں کی مہک نے؟
میں مسکرا کر خاموش ہو جاتا۔
دوسرے ملازمین نے بھی اسے قبول کر لیا۔ میری پرانی ملاذمہ آسیہ کو میں نے اس پر نظر رکھنے کو کہا۔
صاحب جی! یہ لڑکی بہت بھولی بھالی ہے، سوائے کام کے کوئی بات نہیں کرتی، اتنا کم بولتی ہے کہ لگتا ہے گوں گی ہے۔ اپنے ماضی اور زندگی کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتی۔ میں نے کئی بار کر دینے کی کوشش کی مگر کہتی ہے اسے اپنی زندگی کے بارے میں کچھ یاد نہیں۔ پتا نہیں کیا کہانی ہے اس کی۔ میرے ساتھ مل کر گھر کی صفائی بھی کر دیتی ہے۔ میں ویسے بھی زیادہ کام سے تھک جاتی ہوں۔ پہلے میں اسے لائبریری میں جانے نہیں دیتی تھی کہ آپ نے کسی بھی چیز کو چھیڑنے سے منع کیا ہے۔ میں نے اسے بھی سمجھا دیا۔ وہ بس کتابوں کو دیکھ کر ادھر ہی رکھ دیتی ہے۔ شاید یاداشت کھونے سے پہلے اسے پڑھنے کا شوق ہو۔ پر میں نے اسے کہا کہ وہ صاحب کی کسی کتاب کو ہاتھ نہ لگائے۔
نہیں اسے منع نہ کیا کرو۔۔
کتاب پڑھنے سے ویسے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے، اتنی کتابیں گلنے سڑنے کے لیے تو نہیں منگوائیں۔ ویسے بھی سارا دن گھر میں بور ہو جاتی ہو گی۔ تم اسے کہہ دو لائبریری میں بیٹھ کر پڑھ لیا کرے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
عبیر کی گمنام قبر پر پھول پھینکتے ایک شدید اداسی میرے دل پر چھاگئی۔
کیا اس کی زندگی تب بھی ایسی ہی ہوتی۔ ۔
اگر وہ ترکی چلی گئی ہوتی۔۔
اگر وہ بدنام نہ ہوتی۔۔
اگر وہ میری زندگی کی تاریکیوں کو نہ جانتی۔۔
اگر وہ اس دن میری کہانی سنے بغیر ہی لائبریری سے نکل جاتی۔۔
اگر اس دن عبیر کے بجائے ایلف میٹنگ میں جاتی
اگر سلیکشن کمیٹی اس کی جگہ کسی اور کو سلیکٹ کر لیتی
اگر اس کو نوکری ہی نہ کرنی پڑتی
اگر اس کا منگیتر امریکہ نہ جاتا
اگر اس کا باپ ڈاکوؤں کے ہاتھوں ہلاک نہ ہوتا
اگر وہ فیشن ڈیزائننگ ہی نہ کرتی
اگر وہ پیدا ہی نہ ہوتی۔
ہوئی مدت کے غالب مرگیا پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پہ کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا
زندگی کا ہر واقعہ شطرنج کی چال جیسا ہے جس کے بعد سوچنے کی حد تک تو لاتعداد امکانات اور چالیں ہوتی ہیں مگر حقیقت میں ایک ہی غلط چال آپ کی قسمت کا فیصلہ کر چکی ہوتی ہے۔
رئیالٹی اور اکٹیولیٹی میں بہت فرق ہوتا ہے۔
عبیر ! ہر گزرتا دن میری بے چینی اور پچھتاوے میں اضافہ کرتا ہے۔ میں جو بھی کروں یہ پچھتاوا میری جان نہیں چھوڑتا۔ میں چاہ کر بھی تم سے معافی نہیں مانگ سکتا۔
میں خود کو یہ بھی یقین نہیں دلا سکتا کہ تم کسی دوسرے جہاں میں دکھوں سے آزاد خود ہو گی۔
تمھارا شعور اس کائناتی تاریکی میں گم ہو گیا ہے۔ تم صرف میرے تصور کی تخلیق رہ گئی ہو۔
میں اپنی تصور میں تم سے ہر وقت معافی مانگتا ہوں مگر تم پتھر کی بت بنی کھڑی رہتی ہو۔ میں تصور میں بھی تمھارا چہرہ نہیں دکھ پاتا۔ کاش کوئی یوم حشر ہوتا جہاں تم مجھے سزا دے سکتیں۔
غم اور بے بسی سے میری آںکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ میرے آنسو اس کی قبر کے پیروں کی مٹی میں جذب ہو گئے۔
میں خیالوں میں گم جیسے ہی لائبریری میں داخل ہوا تو سامنے صوفے پر آنکھیں موندے ایک انتہائی خوبصورت وجود بیٹھا تھا۔ اس کی چادر ڈھلکنے کی وجہ سے اس کی کالے بالوں کی ایک لٹ اس کے چہرے پر ناگن کی طرح لٹک رہی تھی۔ میں کچھ لمحوں کے لیے اس کے خوبصورت چہرے میں کھو سا گیا۔ میں دھیمے پاؤں چلتا اس کے پاس کے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کی سانس بہت دھیمے انداز سے چل رہی تھی جیسے کوئی ندی بہتی ہو۔
ایسا حسن ایسی معصومیت۔
اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
اس کے سامنے شاعری کی کوئی کتاب کھلی پڑی تھی جسے پڑھتے پڑھتے شاید اس کی آنکھ لگ گئی۔
پتا نہیں میں کتنی دیر تک بت بنا اس کو دیکھتا رہا۔ میں نے سانس بھی دھیرے دھیرے لی کہ کہیں وہ اٹھ کر اس جادوی لمحے کو ختم نہ کر دے۔ میں تو اس لمحے کو ختم نہ کرتا مگر اس کے چہرے پرسکون تاثرات بگڑنے لگے جیسے کسی چیز سے ڈر رہی ہو۔
اس کے ہونٹ کچھ بڑبڑانے لگے۔ کچھ دیر بعد یہ بڑبڑاہٹ واضح ہوئی تو معلوم ہوا یہ کلمہ پڑھ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں سے آںسو نکلنے لگے۔ یہ کیفیت جب اپنے عروج پر پہنچی تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔
مجھے اپنے سامنے پا کر تو کچھ دیر کے لیے وہ سکتے میں چلی گئی۔ پھر جیسے ہی ہوش آیٰا سب سے پہلے اپنا سر اور چہرہ چادر میں ڈھانپ کر جلدی سے کھڑی ہو گئی۔ اس نے کچھ بولا تو نہیں مگر اس کے انداز سے شرمندگی تھی۔ میں نے اس ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔
وہ سمٹ کر چھوئی موئی کی طرح بیٹھ گئی۔
یہ تمھیں سوتے میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں نے ہمدردانہ انداز سے پوچھا۔
پر وہ نہ بولی۔
کیا ہوا تھا تمھارے ساتھ؟ کہاں سے آئی ہو تم؟
میرے بار بار اصرار پر بھی وہ کچھ نہ بولی۔
اچھا ٹھیک ہے تمھاری مرضی، پر مجھے تمھارا لائبریری میں آنا بالکل برا نہیں لگا۔ تم جب چاہے مرضی یہاں آو اور اپنی مرضی کی کتاب پڑھ لیا کرو۔
اس نے میری بات پر سر ہلایا اور خاموشی سے لائبریری سے چلی گئی۔
میں اس کے حسن کا ڈسا مفلوج بیٹھا رہا۔ یہ حسن بھی کیا چیز ہے۔ اس کی آنکھیں کتنی جانی پہچانی لگتی ہیں۔ بالکل عبیر جیسی۔
یعنی مہک نامی لڑکی کی آںکھیں عبیر جیسی لگتی ہیں۔ واہ تیمور درانی واہ۔ ۔
تمھیں پہلے ہر چہرے میں عنبر کا چہرہ دکھتا تھا اب ہر چہرے میں عبیر دکھتی ہے۔ یہ ذہن پر بھی بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔ کب کوئی بھی خواب اس طرح دکھائے کے حقیقت سے بھی زیادہ حقیقی لگے۔ عبیر مرچکی ہے اور میری خواہش اسے واپس نہیں لا سکتی۔
عبیر اب نہیں ہے۔ ۔
وہ بالکل ایسے ہی نہیں ہے جیسے عنبر نہیں ہے
جیسے اماں نہیں ہے
جیسے کچھ ہفتوں بعد میں بھی نہیں رہوں گا۔
شاید اب مزید زندہ رہنے کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مجھے جانے سے پہلے کچھ ضروری کام نپٹانے ہیں۔ اپنی ساری کمپنیاں ایک ٹرسٹ کے نام لگانی ہیں۔
مجھے جلد از جلد خود کشی کرنی ہے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مجھے کافی عرصہ بعد اپنے کلینک میں دیکھ کر سائکیٹرسٹ اشفاق کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔
تیمور اس دن کے بعد جب تم نہیں آئے تو مجھے یقین ہو گیا، بابا جی سے ملاقات نے تمھارا ڈیپریشن کم کر دیا ہے۔
آج سناؤ کیسے آنا ہوا؟ کیا اندر کا خالی پن لوٹ آیا۔۔
آہ ! اشفاق صاحب آُپ کے بابا جی کی ایک بات پر مجبوری سے عمل شروع کیا تو تھوڑا بہت سکون ملا۔ یعنی مخلوق کی بے لوث خدمت۔
میں نے سوچا اپنی بے مقصد مصروفیات میں ایک یہ مصروفیت بھی سہی۔ میں نے غریب اور بے سہارا بچوں اور عورتوں کا ایک ادارہ بنایا جہاں جا کر تھوڑی سی خوشی ملتی ہے۔
باقی مسائل ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ بابا جی کی بات ٹھیک نہیں ہوئی۔ میرا کفر لوٹنے والی لڑکی شاید ابھی پیدا نہی ہوئی۔
ناخدا ہی ملا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
رہے دل میں ہمارے یہ رنج و الم، نہ ادھر کے ہوئے نہ ادھر کے ہوئے
میرے شعر پر اشفاق نے قہقہہ لگایا۔
ضرور ملے گی تیمور، تھوڑا صبر تو کرو۔ یہ اللہ والوں کی باتیں ایسی سیدھی نہیں ہوتیں۔ یہ کالے بادل کی طرح اوپر چلتی رہتی ہیں اور تب برستی ہیں جب ہمیں یقین ہی نہیں ہوتا۔
اشفاق صاحب یہ مذہب کا کاروبار انتظار پر ہی تو چل رہا ہے۔ اچھے زمانے کا انتظار، قیامت کا انتظار، حساب کتاب کا انتظار، جنت کا انتظار، اسم اعظم ملنے کا انتظار، مشاہدہ حق کا انتظار۔
یہ مذہبی پیشوا اور بابے پیسے لیتے ہوئے کبھی نہیں کہتے کہ اس کام میں بھی انتظار کیا جا سکتا ہے۔ یہ ہماری پوری زندگی انتظار ہی تو ہے۔ لیکن معلوم نہیں کس چیز ہے۔
میں نے اس بے مقصد انتظار کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
میری بات سن کر اشفاق کی آںکھوں میں سنجیدگی آ گئی۔ تیمور کیا تم مجھے اپنے خود کشی کے فیصلے سے آگاہ کر رہے ہو۔
اشفاق صاحب اب یہ باتیں بے معنی ہیں۔ میں آپ کے پاس اپنے سلسلے میں نہیں آیا۔
تیمور ! مجھے افسوس ہے میں تمھارے مسئلے کا حل نہیں کر سکا۔ میرا علم ابھی ناقص ہے۔ میری دوائیں تمھیں وقتی سکون تو دے سکتی ہیں مگر تمھارے مرض کے بارے میں میرا علم محدود ہے۔ سائکیٹری کا تعلق ہی مادے سے ہے اور مادے سے آگے کی باتوں کو یہ بغیر سنے ہی رد کر دیتی ہے۔
بہر حال میری گزارش ہے کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے آخری بار بابا جی سے ضرور مل لینا، شاید ان کی دعا ان ہونی کو ہونی میں بدل دے۔
اس کے علاوہ بتاؤ میں تمھاری کیا خدمت کر سکتا ہوں؟
میں نے آپ کو آشیانہ کے بارے میں بتایا تھا۔ وہاں ایک بے گھر لڑکی آئی، جو ویسے تو نارمل ہے اور ایک پروفیشنل شیف بھی ہے۔ اس کے ماضی کے بارے میں اسے خود بھی نہیں معلوم۔ اس کو داخل کروا نے والے نے صرف اتنا بتایا کہ یہ لڑکی کچھ عرصہ مینٹل انسٹی ٹیوٹس میں رہی جہاں ٹریٹمنٹ کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہو گئی۔ وہ بولتی بھی نہیں ہے، شاید صدمے کا اثر ہے یا کچھ اور۔ اسے کبھی کبھار دورے بھی پڑتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں آپ اس کا علاج کریں۔
انفیکٹ وہ ابھی باہر ہی بیٹھی ہے، آپ کہتے ہیں تو اسے اندر بھجوا دیتا ہوں۔
مہک کو اندر بھیج کر میں خود باہر بیٹھ گیا۔
پچھلے کچھ دنوں سے مہک کے دورے بڑھ گئے۔ وہ راتوں کو روتے ہوئے اٹھ بیٹھتی۔ پہلے تو مجھے خیال آیا اسے واپس ادارے میں بھجوا دوں کہ لبنی شمسی اس کیس کو خو ددیکھیں۔ پر مجھے اس لڑکی سے شدید ہمدردی ہو گئی۔ پتہ نہیں شاید میں آج کل ویسے ہی وہ نہیں رہا جو پہلے تھا۔ اب لوگوں کا دکھ دیکھ کر مجھے رحم آنے لگا ہے۔
کبھی اکیلے بیٹھے میرے آنکھوں سے آنسو بھی نکل پڑتے ہیں۔ بے چینی اور غم کی یہ کیفیت کئی کئی گھنٹے مجھ پر طاری رہتی ہے۔
اس لڑکی کا خوبصورت چہرہ اور ایسی حالت میرا دل چیر گئی۔ اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا جو یہ اس حال تک پہنچ گئی۔ کیا اس کا کوئی بھی عزیز اقارب اس دنیا میں نہیں ہے۔
ہمارے ارد گرد پاگل بھی ایک مظلوم مخلوق ہیں۔ انھیں اچھوت سمجھ کر پاگل خانوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ جیسے ان کے پاگل پن سے معاشرے کو خطرہ ہے۔ زیادہ تر پاگل کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
المیہ یہ ہے کہ انھیں پاگل نہیں کہا جاتا جو کوئی نہ کوئی مذہب یا نظریہ لوگوں پر زبردستی تھوپتے ہیں اور پھر اس کی خاطر لاکھوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔ ان کو کوئی پاگل نہیں کہتا، ان کو ہیرو اور لیڈر کا مرتبہ دیا جاتا ہے۔ ان کی تصویریں ہر جگہ فخر سے لگائی جاتی ہیں۔ بے گناہوں کے خون کا حساب کوئی نہیں لیتا
کب نظر آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھنے دھلیں کے کتنی برساتوں کے بعد
فیض صاحب کی تو خواہش تھی کہ خون کے دھبے کسی برسات میں دھل جائیں مگر شاید۔ ظلم و ستم کا حساب اس دنیا میں ممکن نہیں ہے۔
فیض صاحب آپ نے تو چاہا تھا لیکن
خون کے دھبے نہیں دھلتے کسی برسات میں
اس لڑکی کو بھی اس کے گھر والے پاگل سمجھ کر چھوڑ گئے ہوں گے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میرا خود کشی کا پلان لیٹ ہی ہوتا گیا۔ اس کی وجہ مہک کا علاج تھا۔ اشفاق صاحب نے ابتدائی طور پر تشخیص کی کہ مہک کی یہ حالت مستقل نہیں ہے۔ اسے کوئی شدید صدمہ پہنچا تھا جس کی وجہ سے اس کے ذہن پر گہرا اثر پڑا۔ زیادہ مسئلہ الیکٹرک شاک ٹریٹمنٹ سے ہوا۔ ہمارے ہاں کے ڈاکٹر بھی اپنی جان چھڑوانے کے لیے ہر مریض کو بنا تشخیص کے الیکٹرک شاک ٹریٹمنٹ کروا دیتے ہیں۔ اس سے ذہن کے نیورونز جل جاتے ہیں اور کئی کیسسز میں تو ریکوری ممکن نہیں رہتی۔ مہک کے نیورونز پرماننٹ ڈیمج نہیں ہوئے۔ یہ ریگولر میڈیسن اور کونسلنگ سے ٹھیک ہو سکتی ہے۔ اس کے کے علاوہ اسے ایسا ماحول فراہم کیا جائے جہاں اسے محبت اور شفقت سے اس کا ماضی یاد دلایا جائے۔
اشفاق صاحب کی باتیں سن کر میں اس دن پر پچھتانے لگا جب میں نے لبنی شمسی سے شیف کی بات کی تھی۔ اب میں اس لڑکی کا کیا کروں۔ آشیانہ میں طرح طرح کی عورتوں میں اس کو ٹینشن فری ماحول مل بھی پائے گا یا نہیں۔ اب میں اسے گھر جیسا ماحول کیسے فراہم کروں۔ نوکروں پر بھی کام نہیں چھوڑا جا سکتا۔
مجھے شش و پنج میں دیکھ کر اشفاق صاحب مسکرائے۔ تیمور میں سمجھتا ہوں تم پریشان ہو اور اس لڑکی کو مصیبت سمجھ رہے ہو، جو تمھاری زندگی میں بلا وجہ گھس آئی ہے۔ تم چاہو تو اسے مینٹل ہاسپٹل میں داخل کروا دو۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ میں بس یہ سوچ رہا تھا کہ اگر اسے ایسی کئیر مل بھی جائے تو یہ کتنی دیر میں ٹھیک ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہے اس کی یاداشت واپس آ جائے تو شاید یہ اپنے گھر والوں کے بارے میں بتا سکے۔
تیمور شفا تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی تمام رپورٹس دیکھ کر مجھے یقین ہے یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی۔ میں جانتا ہوں تم خدا کو نہیں مانتے۔ پر شاید اس معصوم کی خدمت کرنے سے ہی اللہ تم پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
آہ ! پھر وہی خدا کا مسئلہ۔
تین ہزار سال ہو گئے یہ مسئلہ انسان کے سر پر سوار ہے۔ مشہور فلسفی نٹشے نے سوا صدی پہلے یہ اعلان کیا تھا
"خدا مرگیا ہے ”
اب اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ واقعی خدا مرگیا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ انسان مرگیا ہے جس میں خدا کو ماننے کی صلاحیت تھی۔ پرانے انسان کی راکھ سے ایک جدید انسان نکلا جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ خود خدا ہے۔
لیکن ستم زریفی یہ ہے کہ قدیم انسان کے مزار پر بھی یہی خدا کا سوال مجاور بنا بیٹھا ہے۔
مجبوراً مجھے ہی اس لڑکی کو ٹھیک کروا نا پڑے گا تاکہ میں سکون سے مر سکوں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مکمل حصہ پڑھنے کے لیے
بے قراری سی بے قراری ہے یہ نا ول مکمل نہیں ہے کسی بھی حصہ میں مکمل کب تک ہو گا؟