فہرست مضامین
- بینچ پر بیٹھی تنہائی
- ہم دونوں
- نظم
- نظم
- نظم
- نظم
- تم کہاں ہو
- ذیشان ساحل کے لئے ایک نظم
- علی رضا کے آنسو
- تین عورتیں
- نظم
- ایک نظم
- سمندر کی کشتی
- میں عورت ہوں
- سنو علیا
- رسمی دعوت
- غیبت
- ڈیفولز
- بدصورت دیو
- وہ بولتی ہے
- کن میلئے
- جہنم
- ان کے کتے
- احتیاط لازم ہے
- ایک چپ لگی ہے
- جلتے ہوئے دئے کے نیچے
- جیت کس کی ہو گی
- سنہرا دن
- شاعری سے کہا
- ڈرنا منع ہے
- جلا وطن ہونے سے پہلے
- اوپر والی منزل
- زبانیں
- ہنس کر ٹال دو
- کرکراہٹ
- پانی کو بہنا ہے
- وہ سب
- میرے ہونٹ کہاں ہیں
- سر
- ماں
- زوال
- دھند
- شب ماتم
- کوما
- ایک پرانی نظم (کن ماؤں کے نام)
- توصیف کا خواب
- پتہ
- دل
- تم،میں ،وہ،ہم
- کہاں سے لائیں
- وعدہ
- زمین
- رودالی
- وہ کہتے ہیں
- تبدیلی
- بری خبر
- ایک پرانی نظم (جو پرانی نہیں رہی)
- کوشش
- محبت
- غزا
- نامراد دنیا
- ایک موت
- نفرت
- کہنے دو
- کھنڈر
- نا معلوم لوگ
- مقدر
- ہولی
- چلو بھر
- من وسلویٰ
- تم کون
- زندگی کو
- لمحات
- زمانہ ۔۔
- گونج
- تنہائی
بینچ پر بیٹھی تنہائی
عذرا عبّاس
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ہم دونوں
ہم دونوں اکٹھے رہتے ہیں
ہمارے دکھ سکھ ایک ہیں
ہماری آنکھیں ایک دوسرے کے خواب دیکھ لیتی ہیں
ہم کہیں بھی ہوں
ایک دوسرے کے نام سے جانے جاتے ہیں
ہمارے گھر آنے والے اپنی دستک میں
دونوں کا نام شامل کر لیتے ہیں
دن کے پہلے حصے میں ہماری آنکھیں ایک دوسرے کو خوش آمدید کہتی ہیں
اب لفظ ہمارے درمیان
چپ رہتے ہیں
ہماری سانسوں کا ردم
جسموں کی حرکت سے
ایک دوسرے کے ہونے کا اطمینان دلا تا ہے
ہم اکثر ایک دوسرے کی نیند سو لیتے ہیں
لیکن
اس کے باوجود اکثر
گہری راتوں میں
ہمارے دل
اپنے اپنے سینوں میں الگ الگ دھڑکتے ہوئے
سنائی دیتے ہیں
٭٭٭
نظم
جمی ہوئی ہے کائی ان دراڑوں میں
جنھوں نے زندگی کو زندگی سے علیحدہ کر دیا ہے
ایک باس پھیلی ہوئی ہے
جو ان دراڑوں سے اٹھ رہی ہے
اور نتھنوں میں گھس کر وبائی مرض بن رہی ہے
کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں ہے
کوئی بھی نہیں
آنکھیں ڈھونڈھ رہی ہیں
دستگیر
فالج زدہ ہاتھوں سے کون کس کو تھامے
بس دراڑوں میں جمی ہوئی کائی فاتح ہے
اپنی تمام تر سڑانڈ کے ساتھ
٭٭٭
نظم
قہر سے لبریز ہے زمانہ
پچھاڑیں کھا رہی ہے زندگی
مہلت کے عوض کیا لے گی یہ موت
اندیشوں سے بھرے یہ راستے
پاوؤں کے نشان بھی کہیں تڑپ رہے ہیں
یہ ہے زندگی ؟
پوچھتی ہے زندگی دوسری زندگی سے
یہاں تو چھپنا بھی محال ہے
موت تو سرگوشیاں بھی سن لیتی ہے
سانس کی آواز بھی دبا سادھے بیٹھی ہے
لیکن یہ کون ہے ؟
جس نے موت کو اتنی چھوٹ دے رکھی ہے
یہ کون ہے جس کے ہاتھ میں چابک ہے
یہ کون ہے جو روند رہا ہے زندگی کو
کیا لاچاری ایسے کہتے ہیں
زندگی چیخنا چاہتی ہے
لیکن آواز نہیں نکل رہی
٭٭٭
نظم
عجب وضع قطع کے ہیں یہ لوگ
یہ جو میرے چاروں طرف لال بیگوں کی طرح گھومتے ہیں
یہ جیسے ایک گٹر میں رہتے ہیں لیکن کچھ دن
پھر بدل لیتے ہیں دوسرا گٹر
گٹر میں جب کیڑے بار دوائیں ڈالی جاتی ہیں تب
یہ مرتے کھپتے ہیں
پوری کوشش کرتے ہیں گٹر سے باہر بھاگنے کی
لیکن کیا ہوتا ہے
یہ بھاگ کے دوسرے گٹر میں
اس طرح یہ بھاگتے رہتے ہیں بھاگتے رہتے ہیں
عجب وضع قطع کے ہیں یہ لوگ
یہ جو میرے چاروں اور رہتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں
٭٭٭
نظم
فریادی ہے رنگ اس خوف کا
جو دلوں میں سانس لیتا ہے
فریادی ہے روپ ان خوابوں کا جو تکیوں میں منہ چھپا لیتے ہیں
فریادی ہیں لفظ جو زبان ادا نہیں کر پاتی
فریادی ہیں وہ اشارے جو دماغ سمجھا نہیں پاتا
پھر رہ کیا جا تا ہے
ایک جسم کو پناہ کہاں ملتی ہے کیا ان آنسوؤں میں
جن کی مژگاں پاسداری کرتی ہیں
یا ان آندھیوں میں جو
پاؤں کے نقش بھی مٹا دیتی ہیں
کیا یہ فریاد جاری رہے گی
کبھی ختم نہ ہونے کے لئے
٭٭٭
تم کہاں ہو
تم ایک بار میری زندگی میں آئے تھے
اور میں حیران ہو رہی تھی
ان سوالوں کے درمیان
کیا تم میری زندگی کو چھو رہے ہو
یا میری زندگی تمہیں
میں اپنے ارد گرد دیکھ رہی تھی
میری زندگی بدل رہی تھی
ایسے جیسے
آسمان کے کسی کونے سے
ایک بادل سوکھی زمین کو جل تھل کر دے
میری زندگی بدل رہی تھی
لیکن بس اتنی ہی سی دیر
جوں
سورج کی ایک دن کی مسافت کے برابر
پھر تم کہاں تھے
میں خود کو چھو کر دیکھتی ہوں
میں وہاں ہوں جہاں تھی
یا وہاں جہاں تم ہو گے
٭٭٭
ذیشان ساحل کے لئے ایک نظم
چڑیوں کی یادداشت کا خزانہ
اور سفید قالین کی بنت کا ہنر
تمھاری مٹھی میں تھا
ایک آزردہ محبت کی کہانی
جس کا سحر میرے کانوں میں
ایک ایسے آبشار کی آواز کی طرح گونجتا تھا
جو میں نے کبھی نہیں دیکھا
تمھاری آنکھوں میں پھیلے اس محبت کے بادل
اور گاہے بگاہے
ان سے گرتی بارش
میرے کندھے بھگو دیتی تھی
وہ محبت
جو تمھاری شاعری میں
ایک نویلی رقاصہ کی طرح
رقص کرتی رہتی تھی
تم ہوتے تو دیکھتے
وہ آج
ہمارے دلوں کی دہلیز پر
ایک منجھی ہوئی رقاصہ کی طرح
کیسے رقص کر رہی ہے
٭٭٭
علی رضا کے آنسو
علی رضا کے آنسو
بہتے ہیں اس کے گالوں پر
جب کوئی اس سے پوچھتا ہے
تم کیوں ناریل بیچتے ہو
تم اس کول کیوں نہیں جاتے
علی رضا سوچتا ہے اور روتا ہے
روتا ہے اور سوچتا ہے
میں کیوں ناریل بیچتا ہوں
میں کیوں اس کول نہیں جاتا
علی رضا آنسو بہنے دیتا ہے
پوچھنے والا پھر پوچھتا ہے
تم کیوں روتے ہو
اس کے آنسو اس کے ہونٹوں کے کونوں میں چھپنے لگتے ہیں
میں کب روتا ہوں
یہ تو ہوا ہے
کیا ہوا علی رضا سے کہتی ہے
مت کہنا
کیوں روتے ہو
٭٭٭
تین عورتیں
تصویر میں چپ بیٹھی ہیں تینوں بے لباس ہیں
ایک کے قدموں میں مور بیٹھا ہے
ایک کے ہاتھ میں تیر کمان ہے
ایک بچے کو دودھ پلا رہی ہے
تینوں عورتیں اس یقین سے مسکرا رہی ہیں
جیسے تصویر کا مرد
ان کو سیب دے گا جو اس کے ہاتھ میں ہے
تصویر نہیں بتاتی
مرد کس کو سیب دے گا
٭٭٭
نظم
میں نے اپنے ہاتھوں سے ان پھولوں کو
گرنے نہیں دیا
جن کی خوشبو
رات کی رانی کی سی مہک رکھتی ہے
میں نے اپنی آنکھوں سے
ان جگنوؤں کو اڑنے نہیں دیا
جن کی روشنی اندھیروں کو چکا چوند کرتی ہے
میں نے اپنی ہونٹوں کو ان لفظوں سے سجائے رکھا
جو تمھیں دعوتِ گناہ دیتے ہیں
میں نے خود کو ایک مرتبان میں چھپا کر رکھ دیا
جس پر تمھاری نظر نہ پڑے
٭٭٭
ایک نظم
جب بہار آتی ہے تو
خزاں کیوں یاد آتی ہے
جب خزاں آتی ہے تو
بہار کیوں یاد آتی ہے
کیا یہ نہیں ہو سکتا
کہ ہم ہر موسم میں ڈوب جائیں
لیکن اگر ڈوب گئے تو
باہر کیسے آئیں گے
٭٭٭
سمندر کی کشتی
سمندر اپنی کشتی میں سو رہا ہے
سمندر اپنی بوسیدہ جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی کشتی سے
بہت محبت کرتا ہے
اس کی لہریں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں
وہ آپس میں ایک دوسرے پر غرا رہی ہیں
سمندر اپنی نیند خراب کرنا نہیں چاہتا
اس نے شاید سونے سے پہلے بہت پی لی ہے
ورنہ وہ ان لہروں کو تنبیہ کرتا
لیکن اگر کشتی ٹوٹ گئی
اور سمندر سوتا رہ گیا
تو سمندر کہاں جائے گا
٭٭٭
میں عورت ہوں
جی ہاں
میں بھی ایک عورت ہوں
ایک مرد کے ساتھ رہتی ہوں
مرد جب خود کو ظاہر کرتا ہے
مرد
میں عورت نہیں رہتی
چولا بدل لیتی ہوں
دل ہی دل میں کہتی ہوں
سارے کام تو میں
مردوں والے کرتی ہوں
پھر مجھ میں اور مرد میں کیا فرق ہے
پہلی بار جب مجھ سے کہا گیا تھا
تم تو لڑکی ہو
باہر نہ جایا کرو
تو وہ دن سارا میں نے باہر گزارا تھا
پہلی بار جب مجھ سے کہا گیا تھا خود کو چھپا لو
تو میں نے روشندان کی کھڑکی سے منہ باہر ڈال کر
لو گوں کو سارا دن تاڑا تھا
پہلی بار
جب مرد نے جو میرے ساتھ رہتا ہے
کہا تھا یہ بچے میرے ہیں
میں ہنس دی تھی
عورت میں کتنی طاقت ہے
اگر وہ چاہے تو
اس کا بیان بدل دے
مرد منہ دیکھتا رہ جائے
٭٭٭
سنو علیا
میں وہیں ہوں
تمھارے آس پاس
غور سے دیکھو
جاؤ
میرے کمرے میں
شاید کوئی کتاب
ہاں ابھی میں خالد جاوید کی ناول پڑھ رہی تھی
شاید شبل کے پاس ہوں گی
وہ میرے پیٹ پر چڑھا
اپنی زبان میں کچھ کہہ رہا ہو گا
ڈھونڈھتی تو ہو نہیں مجھے
بس یاد کرتی ہو
تم آنے کی بات کرتی ہو
پگلی میں گئی کہاں ہوں
اپنے کمرے میں ہوں
تمھارے پاس
٭٭٭
رسمی دعوت
زہر صرف پینے کے لئے نہیں
اور پی کے مرنے کے لئے نہیں
زہر کی کئی قسمیں ہیں
کچھ تو یوں
جو تمھاری سماعت کے ذریعے تمھارے جسم کو نیلا کر دیتا ہے
کچھ صرف آنکھوں سے گھولا جا تا ہے
اور کچھ میں بس ہونٹوں کی جنبش کافی ہے
آپ کو آپ کی لحد تک پہنچانے کے لئے
مرنے کے بعد سوچا جا سکتا ہے
کس نے مارا؟
سب سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں
اور مرنے والے کی موت کے کھانے کو
اپنی پانچوں انگلیوں سے چاٹ چاٹ کر کہتے ہیں
ہٹا کٹا تھا کیوں مر گیا
ایک اور کوئی
اپنی تیسری انگلی کو تین بار چاٹنے کے بعد
چوتھی انگلی کو اسی طرح گھورتا ہے
جس طرح اس نے مرنے والے کو اس کے مرنے سے پہلے گھورا تھا
اور کہتا ہے
یہ تو ایک ہی دفعہ میں مر گیا
٭٭٭
غیبت
آؤ مرنے والوں کی غیبت کریں
کون کیسا تھا
اور زندہ ہوتا تو اب کیسا ہوتا
وہ باتیں اس کی بیان کریں جو روپوش ہو چکی ہیں
وہ قصے اور کہانیاں
جو ہمیں اسے بے وقوف کہنے پر اکساتی تھیں
وہ باتیں جو اسے ظالم کہلواتی تھیں
کیا تم میں ہمت ہے
نہیں !
تو سنو
مرنے والا اگر ظالم تھا
تو تم آج بھی اس سے ڈرتے ہو
اور اس کی تعریفوں کے پل باندھتے ہو
اور مرنے والا اگر بے وقوف تھا
تو تم آج بھی اس کا مذاق اڑاتے ہو
اور مرنے والا جھوٹا تھا
تو تم اس کی مداح سرائی کرتے ہو
وہ جو بھی جھوٹ اپنی زندگی میں گھول کر گیا ہے
تم اس کو سراہتے ہو
اتنا اتنا کہ تم خود اس کے جھوٹ کے ملبے میں دفن ہو جاتے ہو
٭٭٭
ڈیفولز
ڈیفوڈلز
بہت سنا تھا تمھارا نام
بہت سے شاعروں نے اپنی شاعری میں
تمھیں پکار کر نظموں کوسجایا تھا
ڈیفوڈلز
ورڈزورتھ نے مجھے تم سے متعارف کرایا تھا
جب میں نے کنوار پن میں تمھارا نام سنا تھا
نام سنتے ہی تمھاری خوشبو
میرے چاروں طرف پھیل گئی تھی
یہ خوشبو
میں نے اپنی پہلی محبت کے لئے چھپا لی تھی
تب تمھارا رنگ
میری آنکھوں کی پتلیوں نے خود پینٹ کیا تھا
آج بارنٹ کی سڑکوں پر چلتے ہوئے
جب تمھیں دیکھا
تو یہ جانے بغیر کہ تم ہی ہو ڈیفوڈلز
میرے قدم
تمھارے پاس سے گزرتے ہوئے رک گئے
تم نے مجھے خوش آمدید کہا
اور تمھارے رنگ نے
جو بہت پہلے
پیچھے کے ایک زمانے میں
اس کول کی ایک ٹیچر کی آواز کے ساتھ
میرے کانوں میں رنگ گھولنے لگے
تم ہی ہو ڈیفوڈلز؟
تم نے اشارے سے کہا
میں ہی ہوں ڈیفوڈلز
یاد کرو
جب کنوار پن کی دہلیز پر
ایک نظم پڑھتے ہوئے تم نے
مجھے اپنے ہاتھوں سے اپنی پہلی محبت کو پیش کیا تھا
ڈیفوڈلز تم ہنس رہے ہو
آج میں وہاں ہوں
جہاں تم ہو
اس پرانے سمبندھ میں کوئی خلا بھی نہیں آیا
تمھارے رنگ میری پتلیوں سے نکل کر
تم کو سجا رہے ہیں
خوشگوارسرد ہوائیں
میرے ارد گرد
تمھاری بے یقین خوشبو کو
یقین میں بدل رہی ہیں
۔۔۔۔۔
(ایک پرانی نظم)
٭٭٭
بدصورت دیو
جب تمھاری سواری گزرتی ہے
تم سب ملیا میٹ کرتے چلے جاتے ہو
وقت کا زیاں ،لوگوں کے آنسوؤں کا زیاں
دن کا زیاں ،رات کا ہاں رات کا زیاں
ہاں ہاں وقت کو نچوڑو تو بچتا کیا ہے
مسافر ادھ موا ہو جا تا ہے
اور وہ جو انتظار کی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں
مردہ خانے جانے والے
مُردے
ہسپتال جانے والے زندے
سب ایک حُلیے میں کھڑے ہوتے ہیں
اور حُلیہ کیا
جانو
پرانے زمانے کی کہانیوں کے غلام
جن کو بدصورت دیو اپنی مٹھی میں رکھتا تھا
مٹھی ؟ہاں ہاں مٹھی اس کا قید خانہ
کیا تم بادشاہ ہو
یا تم وہ بدصورت دیو ہو
کیوں ایسا کرتے ہو
کیا تم کو ہمیشہ وہاں رہنا ہے
جہاں تم رہتے ہو
زمین تو ان کی بھی ہے
زمین تو ہماری بھی ہے
زمین تو میری بھی ہے
تم اپنی بدصورتی سے آزاد ہو جاؤ
ورنہ
ورنہ ؟
ارے خواب تو دیکھنے دو
ہم اپنے خوابوں میں تو ان کو تہس نہس کر سکتے ہیں
٭٭٭
وہ بولتی ہے
ماں کہتی تھی
یہ شیاما کبھی ایک عورت ہو گی
جب بھی یہ بولتی ہے
لگتا ہے اپنے دکھڑے رو رہی ہے
اکثر یہ چہکتی بھی ہے
لیکن کبھی کبھی
سنو تو لگتا ہے
ہاں مجھے اب لگتا ہے
جب میں گھر کے پڑوس میں لگے درخت پر بولتی اس چڑیا کو سنتی ہوں
چہک چہک کر کچھ کہہ رہی ہوتی ہے
تیز آواز میں جلدی جلدی
جیسے کوئی عورت سروتے سے چھالیہ کتر رہی ہو
جیسے کہہ رہی ہو
میں اس دنیا کو بدل دیتی
اگر میں چڑیا نہیں ہوتی
تو
میری ہنسی چھوٹ جاتی ہے
بکتی ہے
عورت بنتی
تو اس کو آٹے دال کا بھاؤ پتہ چلتا
تو کیا ہوتا
میں بولنے والی چڑیا سے کہتی ہوں
تم تو انڈے دیتی ہو
بچے کب دیتی ہو
وہ کہتی ہے
ہاں ہاں
انڈے دینے کا موسم اور بچے جننے کا موسم ایک سا ہوتا ہے
تم کیا جا نو
حاملہ تم بھی ہوتی ہو حاملہ میں بھی ہوتی ہوں
جب تک یہ بڑے نہیں ہوتے
میری اڑان پست ہو جاتی ہے
جب یہ اڑ جاتے ہیں ؟
تب ! کچھ نہیں
میں چپ ہو جاتی ہوں
اپنے گھونسلے میں
انتظار کرتی ہوں ان کے واپس آنے کا
ہاں ایسے سمے میں بہت بولتی ہوں
تم عورتوں کی طرح
میں ہنستی ہوں ہنستی رہتی ہوں
یہاں تک کے مجھے اچھو ہو جا تا ہے
پاگل ہوں
ایک چڑیا سے باتیں کر رہی ہوں
وہ کیا سنتی ہو گی
ماں بھی کیسی باتیں کرتی تھی
٭٭٭
کن میلئے
جنابِ والی
ہمیں آپ شکریہ کی چٹھی بھیجیں
آپ اپنے تن من دھن سے شکریہ کہیں
ہم نے آپ کی اور آپ کے بہی خواہوں کی کائیں کائیں سننے کے لئے
اپنے کان صاف کروا لئے ہیں
جی ہاں پہلے اس لئے نہیں کہ شاید
کوٹ مٹھن میں میری آنکھوں دیکھا الو ہوں آپ
لیکن نہیں آپ تو اس لومڑی سے بھی آگے کی چیز ہیں
جس نے کوّے کے منہ سے روٹی کا ٹکڑا بھی گروا دیا تھا
اور ہم کس غلط فہمی میں ہیں
بھلا آپ تن من دھن سے ہمارا شکریہ کیسے ادا کرسکتے ہیں
من تو آپ نے تن میں لگایا ہوا ہے
اور رہا دھن
تو وہ آپ ہمارا ہی رکھے ہیں
اس کے لوٹانے کا کیا کوئی سوال بنتا ہے
نہیں بنتا نا!
اب آپ ہی بتائیں
کس منہ سے ہمارا شکریہ ادا کریں گے
لیکن ہم نے تو اپنے کان کن میلئے سے صاف کروا لئے ہیں
تاکہ آپ کی اور آپ کے بہی خواہوں کی
کائیں کائیں ہمیں جوں کی توں سنائی دے
٭٭٭
جہنم
سب کہتے ہیں
مجھے جہنم میں رکھا جائے گا
کہیں میں جنت کی عورتوں کو خراب نہیں کر دوں
سب کہتے ہیں
مجھے جہنم بھی وہ درجہ نہیں دے گی جو دوسرے جہنمیوں کو ملے گا
وہ سب اپنے اپنے گناہوں کی پوٹلی سر پر رکھے ہوئے داخل ہوں گے
جہنم سب کو تاڑ رہی ہو گی
اور میں خالی ہاتھ ہوں
میں نے ایک دن اپنی پوٹلی سرمد کی بیوہ کو دے دی تھی
وہ بہت نیک عورت تھی اور نیکی کی مار کھاتی تھی
اس نے مار سے بچنے کے لئے وہ پوٹلی رکھ لی
وہ پھر میری پوٹلی سمیت غائب ہو گئی
سب کہتے ہیں
جہنم میں تمھیں ہم نہیں آنے دیں گے
تم ہمارا جینا بھی حرام کر دو گی
ہمارے گناہ تم چوری کر لو گی
میں کہتی ہو ں کیوں ؟
یہاں کی جہنم سے تو میری دوستی ہے
وہ میری سفارش کر دے گی
ہاں
میں ڈھونڈوں گی سرمد کی بیوہ کو
بس مجھے ڈر ہے
وہ میری پوٹلی کہیں رکھ کر بھول نہ گئی ہو
یا پھر
کوئی اور راستہ جو مجھے جہنم میں پہنچائے گا
٭٭٭
ان کے کتے
کیا تم بتا سکتے ہو
ہمارے بچنے کا کوئی طریقہ
سنا ہے ہمارے مارے جانے کا ارادہ باندھ لیا گیا ہے
ہم ان کی لسٹ میں ہیں
یہ بھی سنا ہے
ہم کو ڈھونڈھنے کے لئے انھوں نے اپنے کتے چھوڑ دیئے ہیں
ہم نے بالکنیوں سے اپنے کپڑے اتار لئے ہیں
اور ان کی گٹھری زمین میں دفن کر دی ہے
پہنے ہوئے کپڑوں میں ہم نے کافور لگا لیا ہے
کہیں ان کے کتے ہم تک نہ پہنچ جائیں
جلد یا بدیر یہ تو ہونا تھا
ہم نے بھی تو کوئی کسر نہیں چھوڑی
جب ہم بھوکے تھے تب ہم نے ان کے کتوں کے آگے کا راتب چھین لیا تھا
جب ہم ننگے تھے ہم نے ان کے
دروازوں پر بینر لگا دیا تھا
ایک دن ،کوئی ایک دن تمھارا لباس بھی تار تار ہو گا
ہر موت جو ان کے گناہوں میں اضافہ کرتی تھی
ہم دہائی دیتے تھے
تاکہ ان کی نیندیں ادھڑے ہوئے لحافوں میں بدل جائیں
ان کے آرام دہ بستروں میں ہمارے لفظ لال بیگوں کی شکل میں داخل ہو گئے ہیں
اور تو اور ہمارے لفظ ان کے کانوں میں مچھروں کے گیت الاپ رہے ہیں
اب اگر تم کو دور یا نزدیک سے
ان کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں
تو ہم کو بتا دینا
کہ موت ہمارے دروازے پر کھڑی ہے
٭٭٭
احتیاط لازم ہے
ہم چھلانگیں لگا رہے ہیں
پچھل پہری ہواؤں میں
ہم کود رہے ہیں اس زمین پر
جہاں ظلم پنپتا ہے
ہم اب صدمے کی لغت پھاڑ دیں گے
لگا تار پچھل پہری ہوائیں ہمارے زخموں کو ہرا کرتی رہتی ہیں
ان کے بیانوں میں ان کا لتھڑا ہوا تھوک
شرمساری سے عاری ہے
ہمارے لئے ایک انتہا ہے
ان کے جھوٹ ان کے منہ پر ماریں
اور روتے بلکتے ہوئے جسموں کو اکٹھا کریں
اور نکل جائیں گے ان میدانوں کی طرف
جہاں ان کا گزر کبھی نہیں ہوتا
لیکن ہم اپنی قبروں کے ساتھ ساتھ ان کی قبریں بھی کھودیں
احتیاط لازم ہے
٭٭٭
ایک چپ لگی ہے
ایک چپ لگی ہے
یہ چپ جو تمھارے ہونٹوں سے لے کر
میرے ناخنوں تک اتر گئی ہے
شور جو میرے انگ انگ سے پھوٹتا تھا
اب شکلیں بنا بنا کر
دیواروں پر گھومتا ہے
آنکھیں ،ہونٹ اور تمام اعضا
مجھے ڈ ر لگتا ہے
پلستر کی ہوئی دیواروں میں جذب ہو کر
یہ میرا منہ چڑا تا ہے
چپ کا سناٹا
مجھے آہستہ سنبھل سنبھل کر چلنے پر
مجبور کرتا ہے
یہ میرے قدموں سے لپٹ گیا ہے
جب کبھی میں اس چپ سے باہر جھانکتی ہوں
کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہو
کوئی چل رہا ہو
شور ہو رہا ہو
کان سنی ان سنی کر دیتے ہیں
بچوں کی آوازیں
دھیرے دھیرے چلتی ہوئی فلم کی طرح
میرے کانوں سے ٹکراتی ہیں
جب میں تم کو دیکھتی ہوں
تم مجھ سے کچھ کہہ رہے ہوتے ہو
میں کہتی ہوں
چپ ہو جاؤ
تم تاسف سے میرے جسم کا
احاطہ کر لیتے ہو
اور چپ سادھ لیتے ہو
٭٭٭
جلتے ہوئے دئے کے نیچے
جلتے ہوئے دئیے کے نیچے
اونچے نیچے پھیلتے اور سکڑتے
سائے
ان آنکھوں کو دیکھتے ہیں
جو ان پر رینگتی رہتی ہیں
منہ سے ٹپکتا ہوا لعاب
جب ہجرت کرتا ہے
زمین پر
تمھارے لعاب کے ساتھ بنا لیتا ہے
ایک چھوٹا سا جل
بن پانی کی مچھلیاں
جس میں تیرتی ہیں
پتے گرنے کے موسم میں
پھول نہیں کھلتے
پر تولتے ہیں پرندے
پھر
سب بے خبر نیند سوتے ہیں
جاگ رہا ہوتا ہے
بس اک دیا
جس کے نیچے اندھیرا ہے
٭٭٭
جیت کس کی ہو گی
کسی کونے سے نکلتا ہے
ایک خوف
اور رقص کرنے لگتا ہے
میرے سامنے
جیسے کوئی ماہرِ رقص
بتا رہا ہو بھاؤ تاؤ
یا کوئی گہرا راز
زندگی اور موت کا
۔۔
پھر پردہ گرتا ہے
جانے کب
خوف میرے سینے پر چڑھ آتا ہے
میں چلانے لگتی ہوں
جاگتے اور سوتے میں
لڑتی ہی رہتی ہوں
اس جنگ میں
جیت کس کی ہو گی
٭٭٭
سنہرا دن
ہم گنتیوں کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں
ایک سال ،دوسال سال سال سال
کتنے سال گزر گئے
سنہرے دنوں کے انتظار میں
وہ باہر چبوترے پر بیٹھا نظام الدین
بچی کچھی راکھ جو جلائے بیٹھا تھا
اپنے حقے میں
ابھی کچھ دن پہلے
چلا گیا
انتظار کی دھول اوڑھے اوڑھے
کہتا تھا
آئے گا
ایک دن جو سنہرا ہو گا
جانے کیا مطلب تھا اس کا
سنہرے سے
خواب تو ہم بھی دیکھتے ہیں
وہ تو اپنے خاتمے پر ملگجے ہو جاتے ہیں
پوچھو پاپڑ بیچنے والے سے
اور ازاربند بیچنے والے سے
کس دن کا انتظار کرتے ہو
وہ کہتے ہیں ہم خواب نہیں دیکھتے
بھوکے پیٹ خواب کون دیکھتا ہے
ایک بڑے آدمی کا گارڈ کہتا ہے
سنہرا دن وہ ہوتا ہے
جب صاحب خوش ہوتا ہے
ماسی رضیہ بھی
خوش ہوتی ہے تو کہتی ہے
آج سنہرا دن ہے
میں پوچھتی ہوں کیوں
کہتی ہے آج ہمیں تم نے اپنے آگے کا بچا ہوا کھانا نہیں دیا
آج کا کھانا تازہ بھی ہے
آج کا دن اچھا ہے
٭٭٭
شاعری سے کہا
میں نے ایک دن شاعری سے کہا
میں تمہیں چھوڑ دوں گی
تم تنہا رہ جاؤ گی
وہ مچل گئی
ایسا کیسے ہو سکتا ہے
ایسا ہی ہو گا
میں کیسے تمہیں اپنے ساتھ رکھوں
یہاں بچا کیا ہے
اس دنیا میں
جس میں میں اتنے عرصے ٹھہر گئی
دیکھو
میرے چاروں دیکھو
مصنوعی سانس لیتے ہوئے
ماسک لگے چہرے
یہ تو میرا سمندر بھی ہڑپ کر گئے
سب کچھ ہی تو
یہاں تو صرف شور ہے
بے ہنگم آوازوں کا شور
اور اس میں دبا ہوا
بدصورت سناٹا
دیکھوبس
اور کیا ہے
کیسے رکھوں تمہیں اپنے پاس
لفظوں کی ہیرا پھیری کرنے والی دنیا
کیا تمھارے لئے ہے
تم جاؤ
تم اب جا سکتی ہو
اس نے میری گردن،میرے ماتھے
میرے ہونٹوں پر
اداسی سے اپنے ہونٹ رکھ دئے
وہ مجھ سے کھیلنے لگی
میرا دل بہلاتے ہوئے کہنے لگی
دھیرج رکھو
دھیرج
انتظار کرو
یہ سب کچھ ہمیشہ تو نہیں
یہ دنیا بدلے گی
۔۔۔۔
(ایک پرانی نظم)
٭٭٭
ڈرنا منع ہے
کیا بہت مجبور ہو
یہ مجبوری بیماری نہ بننے دینا
تندور نہ بننے دینا اس مجبوری کو
جو تمھارے جسموں کو جلانے لگے
تم یہ کر سکتے ہو اصل کو نقل کے نیچے دبا دو
سارا نقشہ بدل جائے گا جھوٹ کو سچ کے اوپر لے آؤ
پھر دیکھو
وہ بھی خوش رہیں گے
جن کا شجرہ ان ہی حرکتوں سے شروع ہوتا ہے
تم بھی ایک ایسی زمین کے مالک ہو جاؤ گے
جہاں تمھاری سات پشتیں اس میں کھو کھو کھیلیں گی
ڈرنا نہیں
یہ سب کرتے ہوئے تو وہ ڈرتے ہیں
جنہوں نے جدی پشتی کسی کے دسترخوان پر صرف اپنے حصے کی روٹی کھائی ہے
تم کو عادی ہونا ہو گا
یا ہو جاؤ گے
دوسرے کی روٹی چرانے کے
نہیں نہیں پکڑے نہیں جاؤ گے
یہ یہاں کا دستور نہیں ہے
یہاں چوروں کی آمدورفت ہے
اور انہیں کا راج ہے
اور کچھ نہیں
ڈرو نہیں
ڈرنا منع ہے
٭٭٭
جلا وطن ہونے سے پہلے
اس خبر کے آنے کے بعد
میں اپنے گھر کی کھڑکیاں بند کرتی ہوں
بجلی کے تمام سوئچ آف کر دیتی ہوں
فریج میں رکھا ہوا کھانا
پڑوس میں دے دیتی ہوں
بچا ہوا دودھ گلی کی بلی کے آگے
ڈال دیتی ہوں
اور ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیتی ہوں
تمام دروازے لا ک کر کے
سڑک پر نکل جاتی ہوں
دوپہر سے پہلے یا رات کے کسی پہر
سرکاری گاڑی میں
سرکاری مردہ خانے میں
مجھے باقی جلا وطنوں کے ساتھ
پھینک دیا جائے گا
اور ایک خبر چھپے گی
ملزمہ فلاں بنتِ فلاں کے گھر
پرانے صندوق میں
پرانے کپڑوں کی تہوں میں
بہت سی نظمیں
قابلِ اعتراض حالت میں پائی گئیں
۔۔۔
ایک پرانی نظم
٭٭٭
اوپر والی منزل
کرائے کا مکان
جب ڈھونڈنے جاتے ہیں
وہاں بس دو منزلے دکھائے جاتے ہیں
اوپر کی منزل اور نیچے کی منزل
ہم اوپر کی منزل دیکھنے جاتے ہیں
وہاں کو ئی نظر نہیں آتا
ہم ایک سوراخ سے جھانکتے ہیں
کوئی ہے
تو سوراخ سے ادھر ایک آواز آتی ہے
ادھر آنا منع ہے
لیکن کیوں ہے
تم نہیں جانتیں
یہ ہمارے لئے مختص ہے
تم کون ہو
تم ہم کو نہیں جانتیں
ہم وہ لوگ ہیں جو پیدا ہوتے ہیں
دوسروں کا خون پینے کے لئے
تمھاری کھالوں کو تمھارے جسموں سے اتار کر
ہم اپنی عیاشیاں ان میں ٹھونس دیتے
لیکن یہ بھی ضروری ہے
کہ ان جسموں پر گاہے بہ گاہے
نمک چھڑکتے رہیں
تاکہ وہ چیخیں بھی
تو اس نمک کی تکلیف پر
اور وہ دوسری منزل
وہاں وہ سب لوگ ہیں
جو وہیں رہنے کے لئے پیدا ہوتے ہیں
جہاں بھوک اور کھری زمین اور اندھیرے
ان کو اور ان کی نسلوں کو ملتے ہیں
اور وہ بیماریاں
جو ہم پیدا کرتے رہتے ہیں
ہمیشہ ان کے لئے
تاکہ وہ ختم ہوتے رہیں
پیدا ہونے سے تو ہم نہیں روک سکتے
٭٭٭
زبانیں
وہ عہد نامے جن کی جگالی ان کی زبانیں کر رہی تھیں
اب ان کی بتیسی سے باہر آ کر لطیفوں کا مزہ دے رہی ہیں –
جن سے وہ سب کہا جا رہا تھا
کیا وہ ہنس رہے ہیں
آؤ دیکھتے ہیں
ارے یہ تو ابھی بھی بھوکے سو رہے ہیں
غور سے دیکھو
سو رہے ہیں ؟
یا
اب آسان زندگی کی طرف چلے گئے
اب انھیں دیکھو
کیا وہ آج بھی جگالی کر رہے ہیں
لفظوں کی چیر پھاڑ کے باوجود
کیا ان کے منہ میں پڑی یہ بتیسیاں بھی ان کے ساتھ ہیں
یہ بارش کے پانی میں گری نہیں
یہ عاجز نہیں ہوئیں
ان کے جھوٹے عہد ناموں سے
اور ان کی زبانیں
کیا وہ بھی ان کے ساتھ ہے
یہ دیکھتے ہوئے بھی
کہ اُن مرے ہوؤں کی قبریں ان کی زبانوں کو کوس رہی ہیں
جو اپنے عہد سے مکر گئے
اگر وہ اندھیرے
جو یہ اپنی زبانوں سے ہماری طرف پھینک رہی ہیں
ان کے پیٹوں میں چلے جائیں
تو کیسا دھمال ہو
٭٭٭
ہنس کر ٹال دو
ہنس کر ٹال دو
سب کچھ
جو سہنا اور دیکھنا پڑتا ہے
موت اور زندگی
یہ تو کھیل ہیں
سانس لینے کے درمیان
ایک وقفہ
کھیل ختم ہونے تک
سب کچھ سہنااور دیکھنا پڑتا ہے
جیسے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے
ہنس کر ٹال دو
کون آیا
کون گیا
آنے والوں کو دیکھنا
حیرت سے
اور جانے والے پر ایک آخری نظر ڈالنا
یہ سب تو ہوتا ہے
ساری ہی باتیں
جیسے جل جائے ہاتھ
تیز بھاپ سے
لیکن کیا ہوتا ہے ؟
ہنس کر ٹال دو
سہنے اور ہنسنے میں
جال سا بُن دیا ہے
چہرے پر دکھ نے
اب اچھا لگتا ہے
یہ جال
اور اس کے بیچ
ڈگ مگ ڈولتی آنکھیں
اور وقفے کے درمیان
جلتی بجھتی آنکھیں
پر یہ سب تو کھیل ہے
کھیل ختم ہونے تک
ہنس کر ٹال دو
یہ سب کچھ
٭٭٭
کرکراہٹ
یہ جو آوازیں ہیں
جو تسلی کے لاؤڈ اسپیکر سے کھیل رہی ہیں
اور پُھسلا رہی ہیں
ان آوازوں میں کِرکِراہٹ ہے
یہ کرکراہٹ ان کے پیٹوں سے لپٹی ہوئی ہے
یہ وہ پیٹ ہیں جو روٹیوں سے پٹے ہوئے ہیں
یہ کس کا کھانا ہے
یہ کس کی روٹیاں ہیں
جو ان کے پیٹوں کو پاٹتی رہتی ہیں
سوچو
سوچو تو جانے
آؤ چلیں
ان بے بستر کے لوگوں کی طرف
جن کی چھتیں بارش اور ہوا گھسیٹ لے گئی
وہ گیلی مٹی پر پڑے ہیں
ان کے ڈھانچے بتائیں گے
کون کون لے گیا ان کے حصے کی روٹی
کون بتائے گا ؟
بتانے والے تو چلے گئے مشترکہ قبروں میں
اور آوازوں کی کرکراہٹ ختم نہیں ہوئی
یہ جھینگروں کی آوازوں سے مل گئی ہیں جو
ہماری نیندوں کو برباد کر رہی ہیں
کب تک
لیکن کب تک
وہ دیکھو
سنو
قبروں سے ننھے بچوں کے رونے کی آوازیں آ رہی ہیں
مگر کو ن سنے گا
یہ جو کرکراہٹ سے لبریز آوازیں ہیں
جن میں جھینگر بھی حصہ لے رہے ہیں
یہ کچھ سننے نہیں دے رہی ہیں
ان بچوں کی بلبلاہٹ کو بھی
٭٭٭
پانی کو بہنا ہے
کچھ پتہ نہیں
کس طرف لے جا رہا ہے
یہ پانی
جب تک سانس اُکھڑ نہیں جاتی
پانی میں کھڑے نہیں ہو سکتے
اس کے ساتھ بہنا
ضروری ہے
سانس اُکھڑ جانے کے بعد
یہ خود
تمہیں پھینک دے گا
کسی کنارے ٭٭٭
وہ سب
وہ سب انتظار کی چوکھٹوں پر بیٹھے ہیں
اپنے اپنے بستے گلے میں ڈالے ہوئے
اپنے اپنے یونیفارم پہنے ہوئے
آج ان کااس کول کھل گیا ہے
ماں نے ناشتہ تیار کر دیا ہو گا
جہاں وہ بیٹھے ہیں وہاں سے آگے ان کاراستہ بند ہے
شاید برف گری ہے
شاید وہ بھول گئے ہیں اپنے اس کول کا راستہ
لیکن کوئی تو ان کو لینے آئے گا
وہ دلاسہ دے رہے ہیں ایک دوسرے کو
یہ جانتے ہوئے بھی
کہ راستہ بھٹک گیا ہے
وہ راستہ جو اس کول لے جا تھا تھا
وہاں دھند کھڑی ہے
راستے کو راستہ سجھائی نہیں دے رہا ہو گا
جبھی تو ان تک نہیں پہنچا
ورنہ وہ بھی آج اس کول جاتے
انتظار کی چوکھٹوں پر یوں نہ بیٹھے رہ جاتے
٭٭٭
میرے ہونٹ کہاں ہیں
ایک بار تم نے مجھے ساحلوں پر چوما تھا
تم نے پہلی بار مجھے چوم کر کہا تھا
یہ اتفاق ہے
اور یہ اتفاق میں نے اپنے ہونٹوں پر
لگا رہنے دیا
ایک بار اس دیوار کے پیچھے
جہاں صرف دیوار دیکھ رہی تھی
ایک بار وہاں
جہاں دھواں اُڑاتا ٹرک
ہمارے قریب سے گزرا تھا
میں نے تمام چاہے جانے والی
لڑکیوں کی طرح
اپنے ہونٹ تمہارے سپرد کر دئیے تھے
لیکن ایک دن
جب تمھاری جیب میں
کسی دوسرے کے ہونٹ رکھے ہوئیے تھے
میں نے اپنے ہونٹ تمھاری جیب میں رکھ دئیے
اور وہ دوسرے لگا لئیے
میں آج تک
دوسرے ہونٹوں کے ساتھ پھرتی ہوں
۔۔۔
ایک پرانی نظم
٭٭٭
سر
تیز ہواؤں نے ان کی گردنوں سے ان کے سر اڑا دئیے
ان کے پاس اب صرف ان کے دھڑ ہیں
آئندہ دنوں میں ان کی نسلیں بھی صرف دھڑوں کے ساتھ پیدا ہوں گی
ان کی زبانیں
ایک دوسرے کے کندھوں پر ٹنگی ہوئی ہیں
اور وہ جو ان کی زبانوں سے ٹپکتے ہوئے لعاب کو
اپنی اپنی بالٹیوں میں بھر رہے تھے
خوشخبری سمجھ کر
اب سر نیہوڑائے بیٹھے ہیں
اور ایک دوسرے کو پرسا دے رہے ہیں
ان خوابوں کا جو تیز ہواؤں میں
ان کے سروں کے ساتھ غائب ہیں
جو اپنی زبانوں سے لعاب پھینک رہے تھے
اور وہ
جو بتا بھی نہیں سکتے تھے
کہ وہ بھوکے ہیں
ان کی مائیں ان کی لاشوں کو اپنی ہتھیلیوں پر رکھے بیٹھی ہیں
ان کے پستان تو خشک سالی کا شکار ہیں
وہ کہاں جائیں ان سروں کو ڈھونڈھنے
جو اپنی زبانیں بھی درختوں کی شاخوں میں پھینک گئے
٭٭٭
ماں
جب ماں نے مجھے پہلی بار ڈانٹا
تو مجھے پتہ چلا کہ ماں ڈانٹتی بھی ہے
جب مجھے پہلی بار ماں نے پیٹا تو میں نے جانا کہ
ماں مارتی بھی ہے
ماں نے محبت کی آنکھوں سے مجھے کبھی نہیں دیکھا
میں جب جب ماں کی جانب دیکھتی
ایسے وقتوں میں جب میں کوئی اچھا کام کرتی
ماں کی نگاہیں جھکی ہوئی ملتیں
میں جان گئی کہ ماں محبت نہیں کرتی
اس وقت میں نہیں جانتی تھی کہ
دشمن کی نظر کیسی ہوتی ہے
لیکن جب دشمنوں سے میرا واسطہ پڑا
تب میں جان گئی
وہ ماں کی نظروں سے ملتی جلتی ہوتیں
میں اکثراداس ہو جاتی
جب میں دشمن نظروں کے بارے میں سوچتی تھی
لیکن وہ دن جب لیبر روم میں اپنے پہلے بچے کو جنم دے رہی تھی
اور دردِزہ کی آزمائش کو جھیل رہی تھی
ماں میرے پہلو میں بیٹھی تھی
اور اس کے بہتے ہوئے آنسو
اور ہونٹوں پر پھیلی ہوئی دعائیں
جو میرے ارد گرد منڈلا رہی تھیں
مجھ سے کہہ رہی تھیں
ماں محبت بھی کرتی ہے
٭٭٭
زوال
اب آ گیا لفظوں کے زوال کا وقت
بہت شوریدہ سر
دلوں کو کچلتے ہوئے
سروں کو روندتے ہوئے
نکلے تھے
اب خاموشی اور سناٹے کے
درمیان
یہ ٹکر ٹکر دیکھیں گے
جب ایک دوسرے سے ٹکراتی چیزوں
کی آوازیں بھی
ان کاساتھ نہیں دیں گی
بہے گا پانی
ایک موج بھی نہیں دے گی انہیں
جواب
سب دھکیل دیں گے انہیں
سمندر میں
خاموشی سے
یہی ہے ان کا مقدر
۔۔۔۔
(ایک پرانی نظم )
٭٭٭
دھند
دور تک پھیلی ہے دھند
تہہ پر تہہ
آگے آتے آتے دھواں
چہرے چھپ گئے
تابڑ توڑ
لفظوں کی سیاہی چہروں پر پھیل گئی
غور سے دیکھو کوئی پہچانا جا رہا ہے ؟
کوئی نہیں نہ تم نہ میں نہ وہ
وہ جو ڈھول بجا رہے تھے
بجا بجا کر ان کے ہاتھ تھکے جا رہے تھے
اب گم سم منہ بسورے بیٹھے ہیں
نہ روتے ہیں نہ ہنستے ہیں
ایسا لگتا ہے جیسے ان کے حصے کی روٹی کتا لے گیا ہو
کتابوں کی دکان پر کھڑی ہوئی میں سوچ رہی ہوں
لفظوں کو سمیٹوں یا
خود کو اس دھوئیں سے بچاؤں
جو میرے نتھنوں سے گزر کر
میرے معدے کو چھلنی کر رہا ہے
واردات سے پہلے اور واردات کے بعد
کیا بچتا ہے
آہ و بکا کرتے ہوئے لفظ
سڑی ہوئی لاشوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں
بند دروازوں سے دوسری طرف
گولیوں کی جھنکار سنائی دیتی ہے
جو بچوں کو پیدا ہونے سے روکتی ہے
٭٭٭
شب ماتم
و ہ کہتے ہیں
ہیپی نیو ایر
وہ بھی کہتے ہیں نیا سال مبارک
ہم کیا کہیں
کیا ہم یہ کہنے کی جرات کر سکتے ہیں
انھیں جو اپنے بچے گنوا بیٹھے
یا انھیں جن کے گھر جل گئے
یا انھیں جو بے روزگاری کے کنویں میں ڈھکیل دئے گئے
کس کس سے کہیں کہ جشن مناؤ
نئے سال کا
جھوٹ کے کونڈے میں کہی گزری دہی بن گئی ہے
جس پر پھپھوند اپنا بچھونا بچھا رہی ہے
یہ تو ہو سکتا ہے
کہ سال کے پہلے دن اور اس کی شروعات پر
ایک دوسرے کو مبارک باد دیں
ہم نئے سال میں آ گئے
جو پچھلے سالوں کی طرح ہمارے پرخچے اڑانے کے لئے
آن پہنچا
ہم سب ماتم گسار شبِ ماتم میں صفِ ماتم بچھائیں
ان کے لئے جن کو ہم نے کھو دیا
٭٭٭
کوما
یہ سال گزر گیا
میرے ملک کو کو مے میں چھوڑ کر
کیسے چلا گیا
آنے والے دنوں کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر
کتنے سال ہو گئے
تمہیں معلوم ہے
میں بھی کومے میں چلی جاتی
اُس دن
اگر میرا شوہر لگاتار میرے گال تھپتھپاتا نہیں
میں جب جب آنکھیں موندتی
وہ مجھے مرنے نہ دینے کے ارادے سے
میرا گال تھپتھپاتا رہا
لیکن میرے ملک کو کوئی نہیں ملا
جو اس کے گال تھپتھپاتا
اور میں جب جب آنکھیں بند کرتی
مجھے وہ نظر آتے
جو پیاس کے مارے مر گئے
جو بھوکے پیٹ چلے گئے
اگر تم ان کی قبروں میں جھانکو
تو وہ کلکاریاں لینا نہیں بھولے
اور وہ جو بھوکے تھے
ان کے پیٹ آج بھی غذا کی بھیک مانگ رہے ہیں
وہ اتنے ہیں کہ تم اور میں گن بھی نہیں سکتے
گال کی تھپتھپی نے میری آنکھ کھول دی
لیکن کوما مجھے مارنے پر تلا تھا
اور میرا شوہر مجھے جگانے پر
باربار یہ ہو رہا تھا
نیند جو مجھے موت کی طرف لے جا رہی تھی
مجھ سے کہہ رہی تھی جانے سے پہلے دیکھو
یہ کس طرح مارے جا رہے ہیں
ہر طرف موت کی رنگا رنگی ہے
ایک دھوم دھڑکا، ایک شور شرابا
چاروں طرف قہقہے ہیں
ہاں ہاں موت کے
وہ تھپتھپا کر میری آنکھ پھر کھول دیتا ہے
اور میں ہر بار نیند کے جھونکوں میں سوچ رہی تھی
کیا کوئی ایسا ہو گا
جو مرے ملک کو تھتھپا کر اس کومے سے نکال سکے
ورنہ تو!
٭٭٭
ایک پرانی نظم (کن ماؤں کے نام)
وہ جب دور دراز علاقے میں چلا گیا
تب بھی اس کی ماں اس کے ساتھ رہتی ہے
وہ اسے کبھی تنہا نہیں چھوڑتی ہے
دور دراز علاقے اور اس کی ماں کے درمیان
ایک طویل فاصلہ ہے
لیکن جب وہ سانس لیتا ہے
تو اس کی ماں کی مہک اس کے قریب منڈلاتی ہے
اور وہ سوچتا ہے
ماں اگر پرچھائیں بن سکتی
یا کسی پینٹنگ میں اتار ی جاسکتی
یا اس کے قمیض کے بٹن جتنی ہوتی
تو کتنا اچھا ہوتا
اپنی مصروف ترین زندگی میں بھی
اس کی ماں اس کے جسم پر روئیں کی طرح
چمٹی رہتی
کبھی کبھی وہ اپنے کمرے میں
ماں کو بٹھا دیتا
اور خود اس کو فون کرنے چلا جاتا
فون کی گھنٹی پر اس کی ماں ہی دوسری طرف سے اٹھاتی
اور پوچھتی
اس کی خیریت
وہ ماں سے کہتا ہے
تمہیں ابھی اپنے کمرے میں بٹھا کر آیا ہوں
تم تو ہر وقت میرے ساتھ رہتی ہو
مگر تمھاری آوازسننے کے لئے –
اس کی ماں روہانسی آواز میں کہتی ہے
میں جانتی ہوں
میں تو تمھاری آواز بھی سنتی ہوں
لیکن تم نے میرے خوابوں میں آنا کیوں چھوڑ دیا
وہ ہنستا ہے
لیکن تم تو ہر وقت میرے ساتھ رہتی ہو
تم سوتی کب ہو؟
٭٭٭
توصیف کا خواب
توصیف کی ماں
توصیف کو پیدا نہیں کر سکی
یہ نہیں کہ
توصیف پیدا ہوتے ہوئے مر گیا
نہ یہ ہوا
کہ توصیف اپنی ماں کے پیٹ میں مر گیا
توصیف تو اپنی ماں کے ساتھ
کپاس کے کھیت میں کھیل رہا تھا
اپنی ماں کی آنکھوں میں پھرتے خوابوں میں
کپاس کے پھولوں جیسا
توصیف کی ماں
ان ماؤں میں نہیں تھی
جو توصیف کو نو مہینے اپنے پیٹ میں
گھومنے پھرنے دیتی
توصیف کی ماں تو کنواری تھی
اور توصیف کا خواب دیکھتے دیکھتے
کنواری ہی مر گئی
لیکن توصیف آج بھی کپاس کے کھیت میں
کپاس کے پھولوں کے سے کھیل رہا ہے
اور اپنی ماں کا انتظار کر رہا ہے
جو اسے لینے نہیں آئی
٭٭٭
پتہ
وہ درخت سے گرا اور ہوا اس کا شریر
اس درخت سے دور لے گئی
جس سے وہ برسوں سے جڑا ہوا تھا
اور جڑے جڑے
اس نے دیکھا تھا
وہ درخت اس کو کتنے پیار سے اپنے آپ سے جوڑے ہوئے تھا
بالکل باپ جیسا
نہیں نہیں ماں جیسے
نہیں نہیں باپ ہی جیسا
ہوا ایسے دور لے جا رہی تھی
دور بہت دور
اب وہ زمین پر پڑا تھا
زمین کے پاؤں بہت سخت تھے
زمین پر گرتے ہی اس کے تمام جوڑ کھل گئے
وہ تباہی کے دھانے پر تھا
کچھ نہیں بچا تھا
اس کا دایاں بایاں
درمیان بھی
ساری زندگی جو نزاکتوں سے انگڑائیاں لیتا رہا
اور اس کے انگ انگ کو ایسی مستی میں رکھتا
کہ وہ اتر اترا کر نہیں تھکتا
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا
کہ ایک بوٹوں میں پھنسا پاؤں
اس کے رہے سہے کس بل بھی بکھیر گیا
وہ چلایا
لیکن آواز کہاں تھی
وہ تو درخت سے گرتے ہی اسے چھوڑ گئی تھی
اس کے آنسو اگر خشک نہیں ہو گئے ہو تے
تو اس کے بچے ہوئے جسم کو بھگو دیتے
ہائے
اس کے دل سے نکلی
اور اس کے سینے سے نکلی ہوئی ہائے نے اسے وہاں سے اڑا دیا
یہاں وہاں ،کہاں کہاں
وہ اڑ رہا تھا
اڑے جا رہا تھا
اس نے آنکھیں بند کر لیں
جب اس کی آنکھ کھلی
وہ ایک تنے سے چپکا ہوا تھا
اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں
اور سکون سے سو گیا
٭٭٭
دل
میرے جسم کے اندر ایک مقام ہے
دل
دل میں ایک جگہ محبت گمڑی مارے پڑی رہتی تھی
یہ محبت دل سے کھلواڑ کرتی تھی
چپکے سے میرے دل کو چھوڑ کر باہر نکل جاتی تھی
بغیر اسے بتائے
اپنی جگہ ڈال جاتی تھی ایک کمبل جو اس نے دل سے ہی مانگا تھا
دل نے مجھ سے چرا کر اسے دیا تھا
اس رات میں سوئی نہیں تھی
میں اپنی بالکنی میں کھڑی اپنے دل کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی
آج کل وہ کچھ پریشان لگتا ہے
لیکن دل نے مجھے دھوکا دیا
میرا کمبل محبت کو دے دیا
وہ رات میں ٹٹھر ٹھٹر کے سوئی
اور گالیاں دیتی رہی محبت کو
جو مجھے اور میرے دل کو چرکا دے کر نکل گئی تھی
بہت دن ہم نے مل کر اس کا انتظار کیا
مجھے دل پر ترس آتا تھا
دل مجھ پر ترس کھاتا تھا
ہمارے کئی دن اس کی تلاش میں گزرے
کہاں کہاں ہم مارے مارے پھرے
ہم نے سنا ہے
محبت بہت دور کسی پہاڑ کے دل میں اتر گئی ہے
اور وہاں گمڑی مارے پڑی ہے
اور ہمارے لئے
ہڑک رہی ہے
شاید وہ راستہ بھول گئی ہے
ہم یہ نہیں جانتے وہ ہمیں بلکنے ے لئے کیوں چھوڑ گئی تھی
٭٭٭
تم،میں ،وہ،ہم
جب ان کے گلے کٹ رہے تھے
ہم کہاں تھے
جب ا ن پر گولیاں اپنے تیور دکھا رہی تھیں
ہم کہاں تھے
ہم شاید بے خبر کسی ریسٹورینٹ میں چائے کی چسکیوں کا چسکا لے رہے ہوں گے
یا اپنے اپنے بستروں میں سردی اوڑھ رہے ہوں گے
یا اپنے چوتڑوں کے نیچے پڑی کرسی کو دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے تھامے ہوئے
اپنے مخالف کی ماں بہن ایک کر رہے ہوں
یہ بھی ہو سکتا ہے
ہم اس منصوبہ بندی میں شامل ہونے کا ارادہ باندھ رہے ہوں
جو کسی آشوب کا راستہ کھول رہی ہو
ہم ،و،ہ یہ ،تو ،میں
میرا اور تیرا
اس چکر میں
ہم ڈھکیل رہے تھے
ان کو
جو ابھی ابھی ذبح کئے گئے
ان کے خون سے ہم ڈیکوریٹ کریں گے اپنے گھروں کے رنگ
لیکن جب یہ سب ہو رہا تھا
کیا کر رہی تھیں ان کی مائیں
کیا
اپنے اپنے اپنے باورچی خانوں میں ان کے انتظار کے ساتھ
کسٹرڈ بنا رہی تھیں
ان مسکراہٹوں کے ساتھ جوان کے خیالوں میں
ان کی شرارتوں کے جھمگٹے سے لبریز ہوں گی
یا اپنی دعاؤں کے دھاگوں میں یکے بعد دیگرے گرہیں باندھ رہی ہوں گی
ان کے لوٹنے کے انتظار میں
٭٭٭
کہاں سے لائیں
کہاں سے لائیں اچھی خبر
اپنے گھروں میں
محلے میں
شہر میں
ملک میں
کہاں سے لائیں
وہ دھُن جو ان موت کے رکھوالوں کو
اپنے پیچھے پیچھے لے جائے
اور ان ہی کے کھودے ہوئے موت کے کنویں میں دھکیل دے
کیا یہ ممکن ہے
یہ ہمارے ہاتھ لگ جائیں اور ہم ان کو برہنہ کر کے
ان کی مردانگی کو سرے عام کچل دیں
ہم ان کو جھونک دیں اسی آگ میں
جو یہ جنگل کی لکڑیوں سے مستعار لائیں ہیں
اب شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے
کہ دائیں بائیں ہم دیکھیں
تو یہ ہمارے کاندھے سے کاندھا ملا کر چل رہے ہیں
ہمارے ہی جیسے چہرے چڑھا کر ہمارے ساتھ گھوم رہے ہیں
اس موقع کی تاک میں
کب یہ ہم کو سہولت کے ساتھ موت کے کنوئیں میں ڈھکیل
٭٭٭
وعدہ
ماؤں سے کہا جا رہا ہے
وہ یوگا کریں
باپوں سے کہا جا رہا ہے وہ چارسو میٹر کی ریس دوڑیں
وہ اپنے اپنے ہاتھ دھو لیں
اس خون سے جو ان کے بچوں کے کپڑوں سے ان کے ہاتھوں میں لگا ہے
یہ بھی کہا جا رہا ہے
ہماری طرح قہقہے لگائیں
آپ اپنے غموں کو بھول جائیں گے
جب ہم قہقہے لگا رہے تھے
آپ نے دیکھا
ہماری آنکھیں کیسے چمک رہی تھیں
ہمیں ایک بار پھر اپنی غلیلیں تیار کرنے کا موقع مل گیا
وہ کہہ رہے ہیں
ہماری طرح کھو کھو کھیلیں
یا پٹھو کھلیں
یا پتنگ اڑائیں
تاکہ ہم اپنی اپنی چھتوں سے
اپنی اپنی ڈوروں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹ دیں
وہ کہہ رہے ہیں ہمیں وقت چاہئے
آپ کے غموں کو سوڈا واٹر کی بوتلوں میں گھول کر
پی جانے کے بعد
ہم وہ کریں گے
جو آپ چاہتے ہیں
ہم آپ کوملیامیٹ کرنے والوں کو ضرور ڈھونڈھ نکالیں گے
یہ ہمارا وعدہ ہے
ہم کہہ نہیں سکتے کہ کتنی دہائیاں اس میں لگیں گے
ہاں آپ کو ایک مشورہ ہے
اپنے بچوں کی قبروں پر مّٹی ڈالنے سے پہلے
اگر آپ بیلے ڈانس کی پریکٹس کریں
تو آپ کے آنسو خشک ہو جائیں گے
اور آپ بھی ہماری طرح قہقہے لگائیں گے
اس غم کو بھول جائیں گے
جو ابھی ابھی آپ کو ملا ہے
٭٭٭
زمین
زوال کی پہل فصل کاٹ چکے ہیں
اب بیٹھے ہیں دائروں میں
ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کئے ہوئے
ٹانگیں پھیلائے
انھیں منہ بھی ایک دوسرے سے چھپانا ہے
جب وہ ذبح کا دن منا رہے تھے
وہ کون ؟
وہ جو ہمیں قربانی سے مستفید کر رہے ہیں
اور ہمیں شہادت کے درجوں تک پہنچا رہے ہیں
ان کے علاقے میں ہمیں مارنا ثواب ہے
اور ہمارے علاقے میں ان کے ہاتھوں مرنا عین ثواب ہے
ان کے پاس بھی ایک جنت ہے
ان کے ہاتھوں مر کر ہم بھی ان کے برابر کی زمین پر ایک جنت کا ٹھیکہ لے چکے ہیں
وہ بھی خوش ہیں
ہم بھی خوش ہیں
بس یہ دیکھنا ہے کس کے حصے میں کتنی زمین آئے گی
٭٭٭
رودالی
آؤ ہم بین کرتے ہیں اتنا کہ آسمان ہم سے پوچھے
کیوں رو رہے ہو
آؤ ہم
اتنا روئیں کہ ایک اور سمندر امڈ آئے
آؤ ہم
دو منٹ کی خاموشی اختیار کریں ان کے لئے
جن کی لاشوں کو ہم نے اپنے کندھوں پر رکھا ہوا ہے
کہ درختوں میں ٹکے پرندے چہچہانا بھول جائیں
آؤ ہم ایک دن کی بھوک سے اپنے پیٹوں کو بے نیاز کر دیں
اور وہ کھانا مرنے والوں کی لاشوں پرسے صدقہ کر کے
ان کو دیدیں جو عرصہ دراز سے بھوکے پیٹ زندہ ہیں
آؤ ہم اپنی جیبیں
شیطانی چالوں سے خالی کر دیں
آؤ ہم بے چین کر دیں اپنی نیندوں کو ان کے لئے
جنھوں نے ابھی خواب دیکھنا بھی شروع نہیں کئے تھے
آؤ ہم وہ کریں جو ہم نے ابھی تک نہیں کیا
آؤ ہم وہ سنیں جوہ مارے کان سننا نہیں چاہتے تھے
آؤ ہم ایک بار سوچیں کہ
اپنی کندھوں پر لدی ہوئی
ان لاشوں کا قرض کیسے اتار یں گے
ہماری رودالی ہمارے جھوٹے آنسوؤں میں نہیں ڈوب جائے
اس سے پہلے کہ
٭٭٭
وہ کہتے ہیں
وہ کہتے ہیں ہم ان کا جینا حرام کر دیں گے
وہ کہتے ہیں ہم اس کی دہشت گردی کو مٹا دیں گے
وہ کہتے ہیں
وہ کیا کہتے ہیں
زبانی خرچی میں کیا جا تا ہے
آج جب کل بن جا تا ہے
آج جب مرنے والوں کا خون زمین میں پیوست ہو جا تا ہے
اور کل دانت نکال کر کھڑا ہو جا تا ہے
وہ بھی دہشت گردی کی بغل میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں
موت ان کا ہتھیار بن جاتی ہے
آج تین مر گئے کل پانچ مر گئے
موت سے ان کی دوستی ہے
وہ موت کے پیچھے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں
اور اس کے پیچھے سے منہ نکال نکال کر کہتے ہیں
ہم سوگ مناتے ہیں
ان کا جو مر گئے
زبانی خرچی سے کیا ہو گا
اس سوگ کے دوران وہ اپنے دسترخوانوں پر بچھے ہوئے انواع و اقسام کے کھانے
دونوں ہاتھوں سے کھاتے ہیں
اور خود کو قائم رکھنے کے لئے
وہ کھاتے ہیں ہمارے بچوں کا گوشت
وہ پیتے ہیں ہمارے بچوں کا خون
موت ان کی پشت پناہی کرتی ہے
ُ٭٭٭
تبدیلی
تبدیلی ایک مشکل عمل ہے
اپنے آپ سے جڑے ہوئے اپنے تمام اعضا کو آہستہ آہستہ
الگ کرنا
اپنے وجود سے
نا ممکن ہے
لیکن اگر یہ ناگزیر ہو تو؟
اب سوچا جائے
کہ اس کا نعم البدل کیا ہو
پہلے تو وہ پیمانہ
جو گزشتہ زندگی سے پیوست رہا تھا
اس سے مکمل نفی
کسی چیز کی نفی
اس تبدیلی کا حصہ ہے
یہ اچانک نہیں ہوتا
بہت پہلے سے شروع ہو جا تا ہے
یہ سب کچھ
جن چیزوں کو آپ اپنے آپ سے علیحدہ کر رہے ہوں
پہلے ان کا راضی ہونا ضروری ہے
اور پھر آپ کا تیار ہونا
یا پھر یوں کہ
آپ کا راضی ہونا
پھر ان کا تیار ہونا
کیا دونوں ایک ہی بات پر متفق ہیں
اس نتیجے تک پہنچتے پہنچتے
آپ کی روح بدحال ہو جاتی ہے
لیکن تبدیلی نا گزیر ہے
ورنہ گزشتہ سے پیوست رہتے رہتے
چیزیں اداس ہونا شروع کر دیتی ہیں
خزاں کے بعد بہار کا موسم
اور ان کے درمیان
وہ جو اس تبدیلی کی زد میں آ جاتے ہیں
وہ تو کچلے جاتے ہیں
پاؤں کے نیچے
مگر کون سا پیمانہ ڈھونڈا جائے
ایک نئی شروعات کے لئے
ایک نئی شروعات
یوں تو کہیں سے بھی شروع کی جا سکتی ہے
وہاں سے بھی جہاں سے آپ کے پاؤں
کچلنے والوں کے ساتھ ہوں
٭٭٭
بری خبر
نیند میرے کاندھے پر ٹوٹ رہی ہے
والٹر فرنانڈیز نے دوسرے منزل سے
چھلانگ لگا دی
اس کا اگلا حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا
میں والٹرفرنانڈیز کو نہیں جانتی
وہ میرے فلیٹس میں رہتا ہے
نیند میرے جسم کو لبدا کئے ہوئے ہے
والٹرفرنانڈیز
شراب سے چور تھا
اس نے اپنی ماں کو مارا
اور حکومت کی پالیسیوں کو
نفرت سے بھری گالیاں دیتے ہوئے
خودکشی کی کوشش کی
نیند میری ٹانگوں میں پھنسی ہوئی ہے
کوئی گھنٹی بجا رہا ہے
باہر شور مچا ہے
بچاؤ،اٹھاؤ،مر گیا
واٹر فرنانڈیز مرا نہیں
موت اسے نہیں آتی جو مرنا چاہتا ہے
رات کا ایک بجا ہے
بہت تیز گھنٹی بج رہی ہے
میں دروازہ کھولتی ہوں
مر گیا!
نہیں بچ گیا
اس کا صرف منہ ٹوٹا ہے
میں ٹھنڈی سانس لیتی ہوں
میں کوئی بری خبر سننا چاہتی تھی
نیند ابھی تک میرے کاندھوں پر
چڑھی ہوئی ہے
٭٭٭
ایک پرانی نظم (جو پرانی نہیں رہی)
ڈر لگتا ہے
اس کی بسیار خوری بڑھتی جا رہی ہے
ہم خندقیں کھود نے پر مجبور ہیں
اس کی برق رفتاری سے عاجز ہونے کے سوا ہم کیا کرسکتے
اس کے قدم ایک دوسرے سے اتنی دور پر پڑتے ہیں کہ اس کی مثال دی جا سکتی ہے
آنا فانا میں ایک گلی سے دوسری گلی میں ایک کوچے سے دوسرے کوچے میں
اس کی بسیار خوری کی رفتار تیز ہے
وہ فور ہنڈریڈ میٹر کی ریس میں لگتا ہے
کبھی حصہ لیتی ہو گی
ہم سوچ رہے ہیں اس کے لئے ایک کنواں تیار کریں
اور اس میں بہت سا کھانا بھر دیں
اور جب وہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے کنویں میں جھانکے
ہم اس کو دھکا دے دیں
اور بند کر دیں اسے اس گہرے کوئیں میں
اُف یہ تو ہم بھول جاتے ہیں
کہ اس کی بھوک کا نشانہ تو ہم ہیں
وہ صرف انسانوں کو کھاتی ہے
لیکن ہمیں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ انسانوں سے ہی سپاری لیتی ہے
انسانوں کو کھانے کے لئے
ہم اس کا نام بھی نہیں لیتے
ہمیں موت کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے
٭٭٭
کوشش
ہمیں محتاط ہو نا ہو گا
کہاں ؟
جہاں زندگی گندے پانی میں کود نے پر تیار ہے
ہم ان علاقوں میں نہیں جائیں گے
جہاں زنانے دھڑ والے لوگ موجود ہیں
ہمیں کوشش کرنا ہو گی
ان علاقوں کو خالی کرا لیں
جہاں بھوک برہنہ موج اڑا رہی ہے
ہمیں ان سڑکوں پر نہیں چلنا
جہاں من موجی گدھ انسانوں کا گوشت کھانے پر بضد ہوں
ہمیں ا ن لوگوں سے دور رہنا ہے
جو بدبو دار جسموں کو سجانے کا ارادہ رکھتے ہیں
ہماری کھالوں کے کاروبار سے
وہ جو چہروں پر پلاسٹک کوٹنگ کروا کر
در پردہ اس بھوک کا جشن مناتے ہیں
جس کی فصل وہ ہمیشہ کاٹتے ہیں
اور بچوں کی ہڈیوں سے اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بڑھاتے ہیں
جو بھوک کے ہاتھوں مارے گئے
اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے
تو ہمیں خودکشی کرنا لازمی ہے
ہمیں ان کے ہاتھوں نہیں مرنا
جو ہمیں کسی حیلہ بہانے سے ما ر دینا چاہتے ہیں
٭٭٭
محبت
محبت مجھے اکثر نظر آتی ہے
ایک خاکی پتلون میں گھومتی ہوئی
جو اس کے چوتڑوں سے پھٹی ہوئی ہے
ایک ایسی قمیض میں
جس کا کالر چھوٹے چھوٹے پیوندوں سے جوڑ کر بنایا گیا ہے
وہ مجھے اکثر نظر آتی ہے
اس کی آنکھیں نہ نیلی ہیں نہ کالی اور نہ بھوری
بس دیکھو تو آنکھیں ہیں
وہ کبھی کبھی ٹھنڈی ہواؤں میں گیلی بینچوں پر بیٹھے ہوئے
لرزیدہ جوڑوں کے بیچ میں گھس جاتی ہے
اور ان کی سرگوشیوں کو تہس نہس کر دیتی ہے
محبت مجھے اکثر ننگے پاؤں نظر آتی ہے
اس پانی سے کھیلتی
جو بارش نے ابھی ابھی ننھے ننھے گڑھوں میں بھرا ہے
کبھی کبھی اونچے بوٹوں میں اس کی ٹانگیں کسی ہوتی ہیں
جو جگہ جگہ سے سوراخ دار نظر آتے ہیں
حیلے بہانے سے
وہ لوگوں کو اپنی ٹھوکروں پر رکھتی ہے
محبت کبھی شام میں ٹیمز کے کنارے
بک شاپ پر کھڑی
بھور ے بالوں والی لڑکی کے آدھے کھلے پستانوں کو
ہوا کی طرح چھوتی ہوئی گزرتی ہے
اس سنیچر
جب بار کے سامنے والی بینچ پر بیٹھا
خوبصورت بوڑھا
جو اپنے آگے کے حصے کو کھجانے میں مصروف تھا
محبت اس کے سامنے رکھی وائن کو غٹا غٹ
پی جانا چاہتی تھی
لیکن بوڑھے کی کھجلی اور وائن کی پیاس نے
اسے موقع نہیں دیا
اور وہ بوڑھے کو گندی گالی دیتی ہوئی
آگے بڑھ گئی
شاید بوڑھے نے وہ گالی سن لی
اس نے نگاہیں وائن کے گلاس سے ہٹا ک راوپر دیکھا
جہاں ایک کبوتر
اس کے سر پر بیٹ کر رہا تھا
محبت آناًفاناً میں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی
وہاں جاتی ہے
جہاں اسے جانا چاہئے
وہاں جہاں ایک عورت بارش کے قطروں کو
اپنے آنسوؤں میں ملا کر پی رہی ہے
اور ساتھ ہی ساتھ
بجھے ہوئے سگریٹ کو بار بار جلانے کی کوشش کر رہی ہے
محبت ہوا کے ساتھ شامل ہو کر
عورت کے سگریٹ کو بجھانے میں لگ گئی
لیکن زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہری
عورت کی بسورتی آنکھیں اسے گمراہ کر رہی ہیں
کہ وہ اس کے پاس سے ہٹ جائے
٭٭٭
غزا
اداسیوں کی بھیڑ میں
اداس ہو تے ہیں خواب
غم کی سرشاری میں ڈوبے ہوئے لفظ
اپنی آخری کتھا سناتے ہوئے
مجبوری کا دوشالہ اوڑھ لیتے ہیں
وہ مجبوریوں ہی میں پیدا ہوتے ہیں
اور ان کے درمیان ہی گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں
کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں ہوتا
کبھی دردِ زہ کے دوران ہی ان کا دم گھٹ جا تا ہے
کبھی ایک دن کی بھوک سے
اور جب جب ان کی مائیں بھوک سے نبرد آزما رہیں گی
موت کیسے باز آئے گی
موت اپنی ضیافت کی جستجو میں رہتی ہے
اس کو معلوم ہے
بھوک اس کے لئے تیار کرتی رہتی ہے
روز ایک دن کی غذا
بھوک کی سیوا کرنے والے ہاتھ
فراہم کرتے ہیں
بلا ناغہ بھوک سے مر جانے والے
وہ لوگ ،جن کو پیاس بھر پانی بھی نہیں ملتا
وہ کیسے لڑ سکتے ہیں اس موت سے
جبکہ اس کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے
جن کے ذخیرے ان کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے
لبا لب بھرے ہیں
٭٭٭
نامراد دنیا
ہم میلے کپڑوں کے میل کو چھپانے کے لئے
اپنے کپڑوں کو الٹا کر کے پہن لیتے ہیں
اور تھوڑی دیر کی شان دکھانے کے لئے
یہ بھول جاتے ہیں کہ
جن کے لئیے ہم نے یہ کایا پلٹ کی ہے
ان کی آنکھیں مسخروں سے مستعار لی گئیں ہیں
اگرچہ کہ ان مسخروں کی اب ہڈیاں بھی گل چکی ہوں گی
لیکن
اب یہ کہنا بے کار ہے
کہ وہ ہمیں پہچان گئے کہ ہمارے پاس اتنا بھی پانی نہیں ہے
کہ ہم آب دست کر سکیں
وہ غلط فہمی میں ہیں
ان کو معلوم نہیں کہ ہم اپنے اپنے پسینوں کو جمع کرتے رہتے ہیں
اور اپنے معمولات میں استعمال کرتے ہیں
سوائے پینے کا پانی
وہ ہمیں نہیں ملتا
زندگی کو آسان بنانے کے لئے ہم جھوٹ بولتے ہیں
اپنے آپ سے
اور گولا گنڈا بیچنے والے کی آخری برف کو بھی ہم اپنے اپنے پیالوں میں بھیک کی شکل میں گھر لے آتے ہیں
ہماری اس کارکردگی پر مائیں بہت خوش ہوتی ہیں
کہ اس نامراد دنیا میں ہم کو جینا آ گیا
ہم روز یہی کرتے ہیں
بس اس دن نہیں جب ہمارے درمیان سے کوئی گولے والے کی اس برف کو پینے سے مر جا تا ہے
ہمیں حیرانی نہیں ہوتی اور دکھ بھی
کیونکہ ہم جانتے ہیں
ہم لوگوں کی موت اسی طرح لکھی ہے
جب تک ہم زندہ ہیں
ہم اس عافیت پر ماؤں کے بتائے ہوئے
خدا کے شکرگزار رہتے ہیں
اور اکثر اس کے نام پر ہم اپنی برف
اس کو بانٹ دیتے ہیں جو اس دن وہ برف حاصل نہیں کرتا ہے
٭٭٭
ایک موت
ایک موت ضروری ہے
اگر یہ زندگی ایسی نہیں گزرتی
تو تمہیں کیسے پتہ چلتا
ایک زندگی ایسی بھی گزرتی ہے
لیکن ایک زندگی تو کا فی نہیں
سب کچھ جاننے کے لئے
کئی زندگیاں گزاری جائیں
اور ہر بار
ایک زندگی گزارنے کے لئے
ایک موت ضروری ہے
٭٭٭
نفرت
نفرت شرط ہے
ایک جنگ کے لئے
دو نفرتوں کا ہونا ضروری ہے
دو نفرتوں سے ایک جنگ لڑی جا سکتی ہے
آقا ہو یا غلام
ظالم ہو یا مظلوم
جس کی نفرت زیادہ ہو گی
وہی فاتح ہو گا
٭٭٭
کہنے دو
کہنے دو
کب تک کہیں گے یہ
کب تک چھینے گے یہ وہ جو تمہیں درکار ہے
کب تک ان کے بلڈوزر تمہیں کچلنے کے ارادے باندھتے رہیں گے
کرنے دو جو یہ چاہتے ہیں
اپنے اپنے محلوں کی جھریوں سے جھانکتی ان کی آنکھیں
یہ دیکھنے کے لئیے
کہ اب کتنے بچے ہیں
یہ جھانکتے جھانکتے کھو دیں گی اپنی بصارت
ان کے جسم تبدیل ہو جائیں گے
استخوانوں میں
پوسٹ مارٹم کے دوران
یہ پتہ چلے گا
ان کے کان سماعت سے نا آشنا تھے
ان کے پیٹ تمھارے آگے کی روٹی کھا کھا کرپھٹ گئے تھے
ان کی حسرت زدہ آنکھیں پوسٹ مارٹم کے دوران نہیں ملیں
کسی کو پتہ نہیں
وہ آج بھی ان جھریوں میں پڑی ہیں
یہ دیکھنے کے لئیے
کہ تم کتنے بچے ہو
قبرستان
بے بسی کے نرغے میں
معذور ہوتے ہوئے جسم
سب اپنے اپنے رکھوالوں کو کھوج رہے ہیں
کون ہو جو انھیں بچائے اس بے درداداسی سے
جو آنے والے دنوں میں ان سے چھین لے گی
ان سے جینے کا اختیار
کیا اس نرغے کو توڑا نہیں جا سکتا
مگر کون
معذوروں کے قبیلے آباد ہو رہے ہیں
یہ کیسے معذور ہیں
یہ سن نہیں سکتے
یہ دیکھ نہیں سکتے
یہ بول نہیں سکتے
یہ بھاگ تو سکتے ہیں
نہیں ان کے پاؤں اس کھوٹے سے باندھ دئیِے گئے ہیں
جسے کمزوری کہتے ہیں
کیسی کمزوری؟
جس کو ڈر کہتے ہیں
کیسا ڈر؟
موت کا ڈر
تو کیا ہوا ؟ یوں بھی انھیں مرنا ہے
بھوکے ننگے رہ کر
اگر جیتے جی یہ ڈر قے کی شکل میں نکال دیں
ان کے منہ پر جو ان کو کمزوری کے کھوٹے سے باندھے ہیں
تو؟ تو تو شاید یہ بچ بھی جائیں
ورنہ ، ورنہ تو
ایک قبرستان تو آباد ہونے کے لئیے تیار ہے
بغیر کتبوں کا
٭٭٭
کھنڈر
قرینے سے رکھو
ان خواہشوں کو جو تمھارے دل میں جگہ بناتی ہیں
سنبھال کر رکھو اپنے خوابوں کو
جو روز ایک نئے پیکار سے تم کو ہمکنار کرتے ہیں
خوش رہو اتنا کہ غم تمھارا منہ تکیں
پچھاڑ دو ان کے ارادے جو تم کو روندنا چاہتے ہیں
ہنسو اتنا اتنا کہ تم پر ظلم ڈھانے والے
تمھاری ہنسی کی آوازوں سے بہرے ہو جائیں
اگر اس زندگی پر ،جو تم کو پریشان کر رہی ہے
تم کو رونا آئے
تو رونا ضرور
مگر ایسا کہ سمندر شرمندہ ہو جائیں
اگر تم نے ایسا نہیں کیاتو
تمھاری آبادی ختم ہو جائے گی
اور
تاریخ کو آنے والے دنوں میں
تمھاری خواہشوں کے کھنڈر ملیں گے
٭٭٭
نا معلوم لوگ
نا معلوم بستی میں
نامعلوم لوگ بستے ہیں
ان کے پاس ہتھیار نہیں ہیں
ان کے پاس سڑکیں نہیں ہیں
بے گھری کے نکڑ پر ان کے گھر
آباد ہیں
ان کی آرام گاہوں میں تشدد زدہ خواب ہیں
وہ اکثر سہم سہم کر زندگی گزارتے ہیں
وہ نہیں جانتے
کچھ معلوم لوگ
جو سینہ زوری جانتے ہیں
وہ اپنے ہتیار ان پر آزمانا چاہتے ہیں
وہ ان نامعلوم لوگوں سے ڈرتے ہیں
کہیں وہ ان سے روٹی نہ مانگ
لیکن ایسا نہیں ہے
وہ صرف ڈرتے ہیں
ان کے تشدد زدہ خوابوں سے
ان پر تشدد کے باوجود
ان کو نڈھال کرنے کے باوجود
وہ ان سے ڈرتے ہیں
کب یہ زخمی خواب والے لوگ
نامعلوم سے معلوم کا رخ کر لیں
٭٭٭
مقدر
گرم ہوا کے جھونکے
منہ پر تھپڑ مارتے رہتے ہیں
جلد سرخ ہوتی ہے
گرم زمین کے بستر پر سب سونے والے
بچھا لیتے ہیں اپنے اپنے خواب اپنے سرہانے اونچے کرنے کے لئے
رات کے اندھیروں میں
چپکے چپکے اٹھ اٹھ کر ایک دوسرے کی سانسیں ٹٹولتے ہیں
زندہ رہنے کی خواہش ابھی باقی ہے
وہ جو دن اور رات پیچھے چھوڑ آئے
وہ دن اور رات
وہ سب سر نہیوڑائے بیٹھے ہیں
اور سسکیاں لے رہے ہیں
اور سوچ رہے ہیں
کتنی اداس شامیں اور جلتے دن تھے
جب یہ ہمارے پاس سے گزر رہے تھے
ان کی پلیٹیں ہمیشہ خالی رہتی تھیں
ان کے دستر خوان کی روٹی کتے کھا جاتے تھے
کتے بڑے چالاک ہیں
یہ بھوکوں کی روٹی بھی کھا جاتے ہیں
اب یہ سب آگے آنے والے دن اور راتوں کو غمزدہ کرنے جا رہے ہیں
یہ نہیں جانتے
گرم اور اداس شامیں ان مقدر ہے
کیونکہ ان کے حصے کا مقدر بھی ان کتوں نے آپس میں بانٹ لیا ہے
٭٭٭
ہولی
میں انھیں گالی نہیں دینا چاہتی
جو جھوٹ کی کھٹیا پر
پاؤں پسارے پڑے ہیں
میں ا ن پر نفرت سے تھوک بھی نہیں سکتی
اس بڑھتی ہوئی جوکروں کی آبادی روکنے ٹوکنے کا
میں نے کوئی ٹھیکہ تو نہیں لیا
وہ زمین جس نے مجھے جوان ہوتے ہوئے دیکھا
اور اس پر تنا آسمان جو میرے تنے ہوئے اعضا کو
کمزور درخت کی طرح جھولتے ہوئے دیکھ رہا ہے
میرے پاؤں کے نشان کہاں کہاں پڑے ہوں گے
میرے خواب کن کن بادلوں میں آنکھ مچولی کھیل رہے ہوں گے
کوئی نہیں جانتا
یہ تو میں بھی نہیں جانتی
بس آنکھ کھولنے اور بند ہونے کے دورانیا میں
جو دیکھا تو صرف نفرت کو پنپتے ہوئے
نفرت جو ایک بھیانک خواب کی طرح روز ہماری نیندوں میں آتی ہے
روز ہمیں اپنے ساتھ لے جاتی ہے
اس ٹریننگ میں شامل ہونے کے لئے کہ ہم بھی نفرت کے بغل بچے بن جائیں
اور اس زمین پر اندھا دھند خون کی ہولی کھیلیں
٭٭٭
چلو بھر
یہ جو سر جوڑے ہوئے پڑے ہیں خاک پر
یہ کون ہیں
کیا ان کی کوئی زمین نہیں ہے
ہے !
تو کہاں ہے
معلوم کرو
ان سے ہی پوچھو
پوچھیں ؟
کیسے ؟
یہ تو سب مر چکے ہیں
تو کیا ہوا؟
تم زندوں سے پوچھو
وہ ،وہ کیا بتائیں گے
وہ تو
زندہ درگور ہیں
تو کیوں ؟
جب تم کو یہی نہیں پتہ ،
تو جاؤ چلو بھر پانی میں ڈوب مرو
ہائیں ؟
چُلو بھر کیوں ؟
وہ دیکھو وہ آ رہا ہے پانی
بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں
تم لاشیں دیکھنے بیٹھ گئے
اب ان کی طرح ہم بھی ایسے ہی
مٹی میں
نہیں پانی میں دفن ہوں گے
٭٭٭
\
من وسلویٰ
زیادتیوں کے شور نے ایک کہرام مچایا ہے
کان پڑی آوازسنائی نہیں دے رہی
شور کے اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا
اس شور میں کہیں ایسا لگ رہا ہے
جیسے پانی کہیں قریب سے غلغلا رہا ہے
چپوؤں کی ترت پھرت بھی شور میں شامل ہے
ایک دوسرے سے پیٹھ ملائے
بھوک کی زد میں آئے
بے شمار انسانی پیٹ
آسیب زدہ
اپنے اپنے نصیبوں کے بھنور میں پھنسے
صبح اور شام کے جھٹپٹے میں آسمان تک رہے ہیں
سنا ہے کسی قوم پر من و سلویٰ بھی اترتا تھا
٭٭٭
تم کون
تم دائیں ہاتھ سے مارتے ہو یا بائیں ہاتھ سے
فرق کچھ نہیں پڑتا
جب تم مرنے والے کا خون دیکھتے ہو
تو تم کراہیت سے قے کر دیتے ہو
یا ایک قہقہہ کی الٹی
تم محبت کو اپنے دل میں رکھتے ہو
یا اپنی انڈرویر میں
چلو بھاڑ میں ڈالو سب
تم کیا چاہو گے
تمھارا نام تاریخ میں کس کے ساتھ آنا چاہئے
فیصلہ تم پر چھوڑا گیا ہے
ہمارا خیال ہے
تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی ہے
تاریخ نے ہمیں کبھی فرعون کو بھولنے نہیں دیا
جب جب اس کا کوئی ہم شکل آیا
٭٭٭
زندگی کو
زندگی کو بیچ چوراہے پر ہار نہیں ماننا چاہئے
زندگی کو اگر نیند آ جائے
تو کیفے لاتے پی لینی چاہئے
اگر میری طرح لندن کی سڑکوں پر اپنے آپ کو ڈھونڈھ رہی ہو تو
ہو سکتا ہے
میری طرح اس کی ملاقات اس فرانسیسی فوٹوگرافر سے ہو جائے
جو اس ہی وقت اس رنگین چڑیا کو حیرت ے دیکھ رہا تھا
جب میری آنکھیں بھی اس چڑیا کی اڑان دیکھ کر حیران تھیں
ہو سکتا ہے زندگی کی ملاقات
کسی بھی نیند سے پہلے
کسی بھی پارک میں ایک دوستی کے ارادے میں بدل جائے
اور کہے ہاں مجھے بھی پرندے اچھے لگتے ہیں
مجھے بھی بچے اچھے لگتے ہیں اور مجھے بھی
کسی بھی شاعر کی طرح پھول اچھے لگتے ہیں
جب زندگی خوش ہو کر اپنا ہاتھ دوستی کے لئے آگے بڑھائے
تو یقین کر لینا زندگی کسی چوراہے پر ہار نہیں مانے گی
زندگی آگے بڑھ جائے گی
اپنے خوابوں کے نئے استعارے ڈھونڈھنے کے لئے
٭٭٭
لمحات
وہ آخری لمحات
ان جنازوں پر اُڑھا دیں گے
جن پر اب رونے والا کوئی نہیں
سنسان سڑکوں پر سرسراتی ہوائیں
پیشین گوئی کے نوحے پڑھنے سے پہلے
درختوں میں چھُپ گئیں
خالی سڑکوں پر قدم نہیں ہیں
بس قدموں کی چاپ یہاں سے وہاں بوکھلائی
ان پتھروں کو کچل رہی ہیں
جو ابھی ابھی خون کے رنگ سے آشنا ہوئے ہیں
خوابوں کی بالیدگی سے پہلے
چہروں پر تکتی ہوئی آنکھیں جاگ گئی ہیں
اور پوچھ رہی ہیں
ایک دوسرے کو تکتے ہوئے
ہم کہاں ہیں ؟
٭٭٭
زمانہ ۔۔
زمانہ اپنی سختیوں کے ساتھ کھڑا ہے
اس کے ہاتھ میں چابک ہے
اس کے پیروں میں کچلنے کی طاقت ہے
مگر کس کو ؟
کیا ان کو جو اپنے مقدر کی کھڑکی کھولے بیٹھے ہیں
ایک عرصہ درازسے
جھانک رہے ہیں باہر
اپنے اس وقت کے انتظار میں
کہ کب زمانہ ان سے بھی سمجھوتہ کرے گا
ان سے بھی دروازہ کھٹکھٹا کر کہے گا
باہر آؤ
تم میرے پاؤں تلے کچلے نہیں جاؤ گے
تمہیں تمھارے حصے کی روٹی ملے گی
تمھارے تن کا کپڑا اب کسی دوسرے کو نہیں دیا جائے گا
آؤ باہر آؤ
پہلے تو وہ حیران ہو کر سنیں گے یہ کس کی آواز ہے
پھر وہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے اس یقین کے ساتھ
کیا وہ بھی یہ آواز سن رہے ہیں
وہ جو ایک عرصہ دراز سے زمانے کے مہربان ہونے کا انتظار کر رہے ہیں
زمانہ اپنی بتیسی نکال کر ہنسے گا
اور کہے گا ہاں آؤ باہر
باہرتو آؤ
پہلے میری شرطیں سنو
پہلے میرے آگے جھکو
اپنی اپنی ناک رگڑو
پھر دیکھو میری رعایت
پھر دیکھو میرا کرم
پھر دیکھو
وہ بھوکے پیٹ سہم جائیں گے
پہلے ایک دوسرے کا منہ تکیں گے
پھر اپنی اپنی کھڑکیاں بند کر لیں گے
اور بھوکے پیٹ ہی سو جائیں گے
٭٭٭
گونج
لفظوں کی گونج میں ہم بھول جاتے ہیں
زندہ رہنے کی مشقت
ہمیں یاد نہیں رہتیں گزرے دنوں کی تیرہ بختیاں
اور نا آنے والے دنوں کی دھندہ میں لپٹی پیشن گوئیاں
لفظ بہت طاقت ور ہوتے ہیں یہ ہمیں بھلاتے ہیں
یہ ہمیں پھسلا پھسلا کر اندھیرے کو روشنی کہتے ہیں
لیکن جیسے ہی دن ،رات کی کوکھ میں اپنا منہ چھپا تا ہے
لفظوں کی گونج ایک بچے کی رونے کی آواز میں تبدیل ہو جاتی ہے
جو بھوک میں ماں کو ڈھونڈھ رہا ہوتا ہے
یہ وہی لفظ ہوتے ہیں
جو ہمیں یقین دلا رہے تھے
کہ ہماری آنے والی نسلیں سجی دھجی سواریوں میں سفر کریں گی
اور بارشیں
ان کی ابتدائی خواہشوں کی تقریبات میں ان پر اپنے نغمے نچھاور کریں گی
کون جانتا ہے
یہ لفظ جن جن ہونٹوں سے نکل کر باہر ادھم مچا رہے تھے
و ہ ان تیرہ بختیوں میں شریک تھے
جو گزر جانے والی نسلوں نے جھیلیں
جو ہم جھیل رہے ہیں
اور جو وہ جھیلیں گے
٭٭٭
تنہائی
آج میری تنہائی سے ملاقات ہو ئی
آکسفورڈاسٹریٹ کی ایک بینچ پر بیٹھی تھی
اور تک رہی تھی
سامنے سے گزرنے والے لوگوں کو
ایسے سمے میں سگریٹ انگلیوں میں پھنسی ہو
اور دھواں مرغولے بنا رہا ہو
زندگی،زندگی نظر آتی ہے
وہ پنجرے میں بند
ایک پرندے کی طرح پھڑکتی نظر نہیں
تنہائی کو موقع مل گیا
شاید وہ بہت دیر سے مجھے تاڑ رہی تھی
وہ مجھ سے چپک کر بیٹھ گئی
اکیلی بیٹھی ہو ،
کوئی تمھارے ساتھ نہیں ہے ؟
ہاں تو !
کون ہو تم؟
تم نے پہچانا نہیں
ہماری بہت دنوں پہلے ملاقات ہوئی تھی
اس وقت بھی تم ایسی ہی بھولی بن گئی تھیں
تم چاہتی کیا ہو
اور کیوں چپک رہی ہو مجھ سے
پہچانو مجھے
سب میرا شکار ہو جاتے ہیں
جن کے پاس میں پھٹکنا بھی نہیں چاہتی وہ بھی
میرے ہونے کا رونا روتے ہیں
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم دوست بن جائیں
دماغ ٹھیک ہے تمھارا
بھاگو یہاں سے
مجھے مزے لے کر سگریٹ پینے دو
دیکھو موسم کتنا اچھا ہو رہا ہے
تمھیں کوئی یاد نہیں آ رہا ہے
تو
تو تم مجھے محسوس کرو
میں تمھارے کتنے قریب ہوں
یادیں ہی تو میری طاقت ہیں
یہ نہ ہوں تو
ہم اس جوتے کی طرح ہوتے ہیں
جو پاؤں کے لئے ترستے ہیں
تم پاگل ہو
جو بھی کہو
اچھا بس بھاگو یہاں سے
میں سگریٹ کا ایک کش کھنچ کر زور سے چیخی
میرے اطراف سے گزرنے والے لوگ
رک گئے
وہ مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے
میں کیوں چیخ رہی ہوں
پھر وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ گئے
شاید اس یقین میں
کہ بینچ پر بیٹھی اس عورت نے
آج بہت پی لی ہے
میں نے چاروں طرف دیکھا
تنہائی میرے پہلو سے غائب ہو گئی
٭٭٭
ماخذ:
https://www.facebook.com/azra.abbas.90/notes
تدوین اور ی بک کی تشکیل: اعجاز عبید