FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

گزار دی یہ زندگی

 

 

 

 

                عذرا عبّاس

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

میں نے پوچھا

 

میں نے پوچھا ان سے

وہ جو گلی کے نکڑ پر رہتے تھے

اس گلی کو چھوڑے مجھے عرصہ ہوا

بتاؤ مجھے اس گلی کا کیا حال ہے

کیسا ہے وہاں کا موسم

کہتے ہیں

نہ دھوپ ہے نہ چھاؤں

نہ ہوا ہے نہ حبس

میں نے پوچھا کیا یہ کوئی نیا موسم ہے

ہاں

نہیں

وہ ہاں نہیں کرتے رہے

میں نے سوچا

شاید یہ بتا نہیں پا رہے

یہ اداسیوں کا کوئی موسم ہو گا

اداسیاں تو ہمیشہ نئی ہوتی ہیں

میں نے پوچھا کیسے رہتے ہو بنا دھوپ اور چھاؤں کے

بولے انتظار کرتے رہتے ہیں

ہر وقت کسی بری خبر کے آنے کا

اور کیا کرتے ہو

کچھ نہیں

بس اپنے اپنے خوابوں کے مردہ چوہے اٹھائے پھرتے ہیں

تم انھیں اتار  پھینکو

کیسے ؟

خواب پھینکے تو نہیں جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

ریت

 

کو ئی دن ایسا آئے گا

جو مجھے فراغت سے جینے دے

میں اپنے آپ کو چھو کر دیکھوں تو پہچان جاؤں

ہاں یہ میں ہوں

وہی جو اپنے خوابوں میں تھی

پاؤں میں کھڑاؤں ڈالے

اونی ٹوپی پہنے

آنکھوں میں سرمہ لگائے

کانوں میں لوہے کی بالیاں

گلے میں بھاری طوق

ارے یہ کیا

یہ کس کا نقشہ کھینچ رہی ہوں

جبھی تو لوگ کہتے ہیں پاگل

نہیں نہیں

خواب میں  میں نے کبھی خود کو ایسا نہیں دیکھا

بس کبھی کبھی ریت اچھی لگتی تھی

اس پر چلنا چاہتی تھی

لیکن خواب میں نہیں

جیتے جاگتے

اور چلی بھی خوب گرم بھبکے لیتی زمین پر

اور کیوں نہیں چلتی

مزا جو آتا تھا

لوگوں کی زبان جب میرے لئے آگ اگلتی تھی

تب

تو میں آج بھی فراغت ڈھونڈھ رہی ہوں

ایک مضحکہ خیز فراغت

لوگوں کی مدح سرائی سے

جب وہ میرے دل کو کچوکوں سے بھر دیتے ہیں

میرا دل چاہتا ہے

ریت پر چلوں

ہاتھوں میں لوہے کے کڑے پہن کر

گلے میں لوہے کا طوق ڈال کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

بس 176

 

آج کل ’ناٹ اِن سروس‘ ہے

تمہارے ملک میں تمام سروسیں ناٹ اِن سروس ہیں

کیا بجلی کیا پانی

روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ کرنے والے نمبر

بھی

اب تو ناٹ اِن سروس ہیں

یہاں

176 نمبر کی

بس گیراج میں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہے

یقین ہے

اب یہ ٹھیک ہو کر آئے گی

لیکن تمہارے ملک میں ناٹ اِن سروس کے لئے

کوئی گیراج آج تک بنا ہی نہیں ہے

میں جو آج کل برطانیہ میں رہتی ہوں

اور سوچتی ہوں

تم کیسے رہے ہو وہاں

جہاں ناٹ اِن سروس میں

لوگ جی رہے ہیں

اور زندہ ہیں

جہاں ناٹ ان سروس کے لئے کوئی گیراج نہیں

٭٭٭

 

 

 

غموں کی چہل پہل

 

وہاں جہاں کبھی

ہم سب اپنی اپنی بیٹھکوں میں بیٹھ کر

کسی بھی عمدہ شاعر کا ذکر بڑے

زور و شور سے کرتے

اس کے مصرعوں کو داد دیتے ہوئے

کبھی کبھی تو سڑکوں پر

بے ساختہ نکل پڑتے

اور ایک دوسرے کو حیران

کرتے ہوئے

اپنی اپنی دانست میں

خوش ہوتے

ہاں جب سڑکوں پر چلتے ہوئے

صرف کتوں سے ڈر لگتا تھا

اگرچہ کہ وہ بھی جانتے تھے

کہ یہ صرف  موالی ہی نہیں ہیں

وہ بہت حجاب سے ہمارے

گھسیٹتے ہوئے قدموں کی آواز سن کر ایک طرف دبک جاتے تھے

راتیں اپنی تنہائیوں سے تھکی ہوئی ہمارا انتظار کرتی تھیں

ہم دن کی بھیڑ میں روزی روٹی

کی بھاگ دوڑ سے

تھکے ہوئے ہوتے

لیکن نکل پڑتے

چاند ہوتا یا نہیں ہوتا

ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں تھا

ہاں وہاں تندور

بھی جاگتے ہمارے انتظار میں

ہم لکڑی کی بینچوں پر بیٹھ کر

کسی عمدہ شاعر کے مصرعوں پر سر دھنتے

ہوا بھی کیسی چلتی تھی

نمکیں

اورایسی جیسے کسی برف کی سل کو چھوتی ہوئی آئی ہو

دریا بھی تو جب ہم پر مہربان تھے

اور آسمان بھی انتہائی حد تک اپنی باچھیں پھیلائے

ہمیں تاکتا تھا

اب وہاں کیا ہے

غموں کی چہل پہل کے سوا

سرپھری موت

جو یہ نہیں جانتی

کہ زندگی تو صرف ایک بار ملتی ہے

٭٭٭

 

 

 

میں کیوں ہوں ؟

 

مجھے ابھی تک اپنے پیدا ہونے کاسبب پتہ نہیں چلا

ہو سکتا ہے جیسے خدا نے جنگل میں بہت سی جڑی بوٹیوں کو پیدا کیا ہو گا مجھے بھی کچھ اسی موڈ میں بنا دیا ہو

اور بنانے کے بعد

مصروف ہو گیا ہو

لیکن جب میں نے سوچا مجھے

کس نے بنایا ہے ؟

اور  کیوں ؟

تو یہ میری سمجھ سے باہر تھا

آخر کیوں ؟

پھر میں نے سوچا بنانے والے کا کوئی

نام تو ہو گا

میں نے اس کے ناموں کی تلاش شروع کی

کسی کو اس کے نام سے پکارا جائے تووہ

ضرور پلٹ کر دیکھتا ہے

کہ کون پکار رہا ہے

میں جاننا چاہتی تھی

کون ہے وہ

جس نے مجھے بنایا

کہاں ہے وہ

لوگ اپنے اپنے جہانوں میں اسے ڈھونڈھے بیٹھے تھے

اور مطمئن تھے

مجھے اطمینان نہیں ہوا

پھر مجھے ایک ترکیب سوجھی

اس کے وہ تمام نام جن سے لوگ اسے پکار رہے تھے

میں نے ایک ایک نام لے کر اسے آوازیں دینا شروع کیں

منہ اٹھا اٹھا کر میں اس کو پکارتی رہی

مجھے یہ تو یقین تھا

اگر کوئی ہوتا ہے تو ضرور سنتا ہے

پھر وہ جو بھی ہے جہاں بھی ہے اسنے میری سن لی

اور جواباً اس نے مجھے ایک کویتا بھیجی

جو میرے دل کو بھائی

پھر ہوا یوں کہ جب جب میں اداس ہوتی اور سوچتی

کہ کیوں ہوں میں ؟

تو میں اسے کسی بھی اس کے نام سے پکارتی

تو

وہ پھٹ سے

مجھے ایک کویتا بھیج دیتا

ایسا تو بہت دنوں تک جاری رہا

مجھے آہستہ آہستہ یہ احساس ہو رہا تھا کہ شاید

اب اس سے کام نہیں چلے گا

مجھے ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ

مجھے کیوں پیدا کیا

کویتاؤں سے تو ٹالا نہیں جا سکتا

میں بیتاب رہی یہ جاننے کے لئے

اب جو میں دیکھ رہی ہوں میرے سامنے

بہتے ہوئے پانی میں اس

تنکے کو جو بے سبب بہا جا رہاتھاکسی سمت کو

میں بھی ؟

نہیں ایسا تو نہیں ہو سکتا

یہ تنکا بھی کیا میری طرح سوچ رہا ہو گا

کہ اسے کیوں بنایا گیا

نہیں یہ تو نہیں سوچ رہا ہو گا

اور کیا یہ بھی اپنے ہونے پر میری ہی طرح کڑھ رہا ہو گا

جبھی تو اسنے پانی میں بہنے کا ارادہ کیا ہو گا

چلا جا رہا ہے پانی کے رحم و کرم پر

پھر مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

کیا میں بھی احتجاجاًیسا ہی کوئیراستہ ڈھونڈوں

جو مجھے بھلا دے

کہ میں کیوں ہوں ؟

٭٭٭

 

 

سر کٹے

 

 

 

ہمارے اختیارات غصب کر لئے گئے ہیں

ان سر کٹے بدن والوں نے

انھوں نے بڑی دل جمعی سے

اپنے سر اپنے اپنے دھڑسے الگ کروا لئے

تاکہ وہ پہچانے نہ جائیں

انھوں نے ہمیں منڈیروں پر بٹھا دیا ہے

تاکہ

جب ہوا تیز چلے تو ہم دوسری طرف بنی کھائی میں گر پڑیں

کبھی نہ اٹھنے کے لئے

وہ سمجھتے ہیں

وہ پہچانے نہیں جائیں گے

ایسا بھلا ہو سکتا ہے

مرنے سے پہلے ہم ان کے سر ڈھونڈ نکالیں گے

اور جب وہ ہوائیں چلیں گی

جو ہمارا ساتھ دیں گی

ہم ان کے سروں کو ان کے سامنے کچلیں گے

ورنہ ایک ترازو ہے

جس میں ایک طرف ان کے سر ہوں گے

اور ایک طرف ہم سب

موافق ہوا شاید ہمارا ساتھ دے

٭٭٭

 

 

 

یادیں

 

بہت سنبھال کے رکھیں ہیں

ہم نے ان وقتوں کی یادیں

جو ہمیں مغموم رکھتے تھے

جو اپنے اپنے وقتوں میں

ہم پر مسلط رہے

ان دنوں میں مصروفیت کے باوجود

ہم زندگی کو ایسے دیکھ رہے تھے

جیسے

خود سے کہہ رہے ہوں

ہم نہیں لڑنا چاہتے ان کے ان ارادوں سے

جو ہمیں ملیامیٹ کرنا چاہتے ہیں

ہم جانتے تھے

ان کے ارادوں کے سامنے ہمارے ارادے

ان کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں

لیکن ہماری خاموشی نے ان کو بڑھاوا دیا

یہ ہمارے ارد گرد اداسی کا دائرہ

تنگ کرتے رہے

یہاں تک کہ ہم اس اداسی کے عادی ہو گئے

لوگ کہتے ہیں

ہم اس وقت ہمیشہ حالتِ جنگ میں نظر آتے تھے

جھیلے ہوئے دنوں کو ہم آج بھی نہیں بھولے

بہت سینت کر رکھی ہیں ہم نے ان وقتوں کی یادیں

اپنے اثاثے میں

اپنے پرانے صندوق میں

یہ شاید

جب ہم پر کوئی جرم عائد ہو رہا ہو

یہ ہماری حمایت میں پرانے صندوق سے باہر آ جائیں

٭٭٭

 

وحشتیں

 

وحشتیں ادھم مچاتی ہیں

وہ جب چاہتی ہیں ہمیں ہلکان کرنے آ جاتی ہیں

کبھی دروازوں سے کبھی کھڑکیوں سے

کبھی روشندان کی اس روشنی سے

جن سے ہمارے بچے کبھی کھیلتے تھے

ہمیشہ افسردگی  کی چادر ہم یوں بھی اوڑھے رہتے ہیں

اور منہ چھپائے پڑے رہتے ہیں

کہیں کوئی  نئی واردات ہماری تاک میں نہ ہو

کہیں کوئی زبان ہم کو ڈس نہ لے

لیکن  اگر ہم بچ بھی جائیں تو کیا

یہ وحشتیں رات اور  دن

کبھی لفظوں میں چھپ کر اندھا دھند ہم پر وار کرتی ہیں

کبھی اپنے ساتھ جمگھٹوں میں نفرت کی کوئی نئی قسم کی

زہریلی گیس بن کر ہم پر چھوڑتی ہیں

ان کا پورا ارادہ ہے

ہم موت کے منہ میں چلے جائیں

بہت دنوں بعد ہم نے ان وحشتوں کو دریافت کیا ہے

یہ کیوں ہیں اور کیا چاہتی ہیں

انگنت ناموں کے ساتھ یہ ہمارے بدن کو کھرچتی ہیں

انگنت لفظوں کی کلہاڑیوں سے یہ ہمارے سر کو نشانہ بناتی ہیں

اور ہم ہیں کہ دُبا سادھے آنکھیں موندے

ان کے ارادوں  کوپسپا کرنے کے آس میں پڑے رہتے ہیں

یہ وحشتیں اکثر ہمارے بدن کے کسی حصے میں داخل ہو کر

ہمیں ڈراؤنے خواب دکھاتی ہیں

بچاؤ کی کوئی صورت نہ پا کر

ہم تنہائی کی اس کھردری سڑک پر نکل جاتے ہیں

جہاں ہم دلاسا دیتے ہیں خود کو

چلو آج تو ہم بچ گئے       ٭٭٭

 

معلومات

 

روزمرہ کی معلومات

اکثر ہمارے گھروں میں تہلکا مچا دیتی ہے

گٹر ابلنے کی خبر

بجلی کی عدم توجہی

پانی کا فساد

گیس کی کمی بیشی

یہ مسائل چھین لیتے  ہیں

ہم سے اس کتاب کی دوستی جو ہم نے

پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی ہے

یا کسی نئے دکاندار کی مہربانی ہے

اگر پیٹ میں کچھ پڑا ہوا نہ ہو تو

کتاب مایوسی سے ہمیں کمرے میں آتے جاتے دیکھتی ہے

اور صفحے کو غصے سے پلٹ دیتی ہے

جو ہم ابھی پڑھنے کی کوشش میں مبتلا تھے

روزمرہ کی معلومات

ہمارے آداب بھی ہمارے اندر بجھا دیتی ہے

ہم مغلظات گالیوں سے اپنا دن شروع کرتے ہیں

اور ماں بہن تک پہنچتے پہنچتے

ہماری آواز ہمارے نرخرے میں کھجلی کرنے لگتی ہے

دن  ان اوٹ پٹانگ حرکتوں میں گزر جاتا ہے

لیکن زندگی کو آرام کے پلونگڑے ڈالنے کی طلب میں

ہم بھول جاتے ہیں

ناصر عباس نیر کے مضمون کا کون سا ٹکڑا ہماری سمجھ سے باہر ہو گیا تھا

کتاب تو پہلے ہی منہ پھلا کر بیٹھی تھی

وہ تمام سہولتیں جو ہم سے چھین لی گئیں

صرف اس  ہی لئے کہ ہم آلو بیچنے والے یا پیاز بیچنے والے کی طرح

ایک ٹھیلا گھسیٹے پھریں

جس میں ہماری جہالت پیاز کے چھلکو ں کی طرح ہوا میں اڑتی پھرے

اور ہم بھول جائیں

سب کچھ یہاں تک کہ فراموشی کی دلدل

ہمیں ایک قبر بنا دے

٭٭٭

 

 

 

بچھو

 

روز سورج گردن اونچی کر کے نکلتا ہے

روز چاند کھلکھلا تھا ہوا نظر آتا ہے

ہم ان دونوں کی عادتوں سے واقف ہیں

جس دن سورج ہمارے جسموں کو پریشان کرنے کا ارادہ بنا تا ہے

اس کا چہرا ہم دیکھ نہیں سکتے

چاند بھی اس رات شرما حضوری بادلوں کی بغلوں میں منہ دیتا نظر آتا ہے

ہمارے پاس اب ورثے میں ملا ہوا اثاثہ بھی نہیں رہا

ہم نے اسے ایک دن بھاپ بن کر اپنے سامنے اڑتے ہوئے دیکھا تھا

ہم اس دن اداس تھے

آج کل ہم دل بہلانے کے لئے

مسکراتے ہیں

ہنستے ہیں

اور نئی افتاد کا انتظار کرتے ہیں

یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمیں چھوڑ دیا جائے

کچھ نہ کچھ ہمارے حصے میں آتا ہی ہے

اور ہم اپنے اپنے پلنگوں پر بیٹھ کر رات گئے تک

خدا کا کوئی نام ورد کر تے ہیں

تب نیند

ہمارے تکیوں پر سر رکھ کر سو جاتی ہے

صبح سے لے کر رات تک ہمارا یہی حال ہوتا ہے

وہ جو ہماری طرح لوگوں کی بے خبری کا شکار ہوتے ہیں

وہ ابھی نہیں جانتے

ان کی آستینوں میں بچھوکس نے چھوڑے ہیں

وہ اپنی حیران آنکھوں سے اس کہانی کو یاد کرتے ہیں

جو ان کی ماؤں نے انھیں لوریاں گاتے ہوئے سنائی تھیں

جب بچھو آستینوں تک نہیں پہنچے تھے

٭٭٭

 

 

 

سوغات

 

 

نظم کون لکھتا ہے

وہ جو ملال میں مبتلا ہے

یا وہ جو جشن منانا بھول گیا

ہمارے پاس تمھاری دی ہوئی سوغات ہے

برسوں پرانی

ہم نے اسے پرانے سامان کے ساتھ سینت کے رکھا ہے

دوسروں کی نظروں سے چھپا کر

کو ئی دیکھے گا

نہیں کوئی نہیں

ہم جانتے ہیں

اگر ہم نہیں بھی جانتے پھر بھی

یہ تو خفیہ واردات ہے

یہ وہ نہیں ہے

جیسے تم کوڑے کے ڈھیر سے اٹھا لو

چندروٹی کے ٹکڑوں کے لئے

ملال کی کتنی قسمیں ہیں ؟

گنو گے تو گنتے رہ جاؤ گے

ہم جس آبادی میں رہتے ہیں

یہ وہاں کی پہچان ہے

اسے ہم نے اپنے بچوں کی پہنچ سے دور رکھنے کی پوری کوشش کی

یہ سوچ کر کہ وہ کیا سوچیں گے

کس تھالی میں کھائیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

قہر کے دنوں میں

 

قہر کے دنوں میں

ہم اپنی   ہتھیلیوں کو ملتے ہیں

ہم اس آسمان کو تکتے ہیں

جو ہم سے کہتا ہے

ہم تمھارا  سائبان ہیں

ہم حیران ہوتے ہیں

اتنا چھپنے کے بعد بھی اس  قہر نے ہم کو گھیر لیا

ہم کہاں کہاں نہیں چھپے

ہم بھاگتے رہے

بھاگتے بھاگتے ہماری ایڑیاں ٹوٹ گئیں

سفید دھوپ نے ہمارے چہروں کو

کمھلا دیا

بہت سی نا انصافیوں نے ہماری بولتی بند کر دی

ہر نا انصافی کے بعد

ہم کہتے  ہیں اپنے من ہی من میں

کوئی ہے ہماری مدد کرنے والا

ہماری آواز قریب کھڑے ہوئے پیڑوں سے ٹکرا کر

چاروں طرف بکھری ہوئی جھاڑوں میں

دبک جاتی ہے

وہ ہمیں بے یارو مددگار چھوڑ کر

اپنا منہ چھپا لیتی ہیں

اور ہم چیختے رہ جاتے ہیں

کوئی ہے ہماری مدد کرنے والا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نفرت

 

جھوٹ کے پہلو میں بیٹھا ہے ایک جھوٹ

اس کے پہلو میں ایک اور جھوٹ

وہ ایک دوسرے سے جڑے  بیٹھے ہیں

یہ کڑیوں کی طرح ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہیں

ان میں زنگ بھی لگا ہوا ہے

لیکن یہ بہت مضبوط ہیں

ان کی شکلیں ایک دوسرے سے بہت ملتی ہیں

جب جگہ بھر جاتی ہے

یہ ایک دوسرے کے سر پر اپنی جگہ بنا لیتے ہیں

ان میں سے کو ئی ایک بھی اکیلا نہیں ٹک سکتا

انھیں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے

وہ سب ایک سے بڑھ کر ایک

ایک دوسرے سے سبقت لینے میں مصروف

ان کا شیوہ نفرت ہے

نفرت یہ کاشت کرتے ہیں

نفرت کے کھیت ان کی ملکیت ہیں

اور نفرت ان کا اوڑھنا  بچھونا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

کراس

 

 

سب ایسے ہوا

جیسے زمین سرک گئی ہو

سب چیزیں بے ترتیب

تھوڑی  سی اوپر  تھوڑی سی نیچے

تتر بترسی

جو دائیں تھیں

وہ بائیں چلی گئیں

جو بائیں تھیں

وہ دائیں چلی گئیں

کچھ تو بالکل ایسے

جیسے کراس بنا رہی ہوں

چھوٹے چھوٹے بہت سے کراس

اور ان سے مل کر ایک بڑا کراس

جو زندگی پہ بھی لگا ہوا ملا

جو ان سے مل کر بنی تھی

جب یہ ترتیب میں تھیں

خود میں بھی تھوڑی سی بہت تھوڑی سی

ایک طرف کو پڑی ہوئی ملی

لیکن ابھی پتہ نہیں چلا

اِدھر یا اُدھر

دائیں یا بائیں

کروٹ بدل کر دیکھوں تو پتہ چلے

میرا سرھانہ کدھر ہے

اور پائنتی کدھر

جو دیکھوں تو شاید بڑے کراس نے

مجھے ڈھانپ لیا ہے

جو لوگ دیکھیں گے

تو اس کراس کے پیچھے پڑی ہوئی

میں

انھیں نظر نہیں آؤں گی

اس لئے کہ وہ بھی مجھے نظر نہیں آ رہے ہیں

۔۔۔۔۔۔

( ایک پرانی نظم جو اب پرانی نہیں رہی)

٭٭٭

 

 

 

گزار دی یہ زندگی

 

 

گزار دی یہ زندگی

صرف روٹی کے چند ٹکڑوں کے لئے

جو بھر سکیں ہمارا پیٹ

اس وقت تک کے لئے

جب تک دوسری بھوک ہمیں نہ اکسائے

گزار دی یہ زندگی

اپنے تن کو ڈھانپنے کے لئے

گزار دی یہ زندگی

ان ایک ایک لمحہ برستے عذابوں کے ساتھ

کبھی موت کو دیکھتے ہوئے

کبھی اس کے پیچھے دوڑتے ہوئے

گزار دی یہ زندگی

ان لہروں میں جن میں خوشیاں بہتی ہوئی

ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں

کہاں گزار دی یہ زندگی

جو گزر گئی

کوئی نشان ایسا نہیں ہے

کوئی لفظ

کوئی بات

جو ہمارے جسموں کو سنبھال کر رکھ سکے

اور گلنے سڑنے نہ دے

دوسرے جسموں کی طرح

جو کھاتے ہوئے

اور خوشیوں سے کھیلتے ہوئے

گزار دیتے ہیں

اپنی زندگی

٭٭٭

 

قبرستان

 

 

ہم  ناپتے رہتے ہیں روز

موت ہم سے کتنی دور ہے

ایک انچی ٹیپ خرید لائے ہیں ہم

اور فرضی فاصلے سے موت کو اپنے آپ سے ناپتے ہیں

دن کو گڈ مارننگ کہتے ہوئے

سورج کی روشنی سے ہم پوچھتے ہیں

آج کیا ہمارا نمبر ہے

سورج کھلکھلا تا ہے ہماری بزدلی پر

ہمیں اس کی ہنسی زہر لگتی ہے

لیکن ہم شرما حضوری

اس کے ساتھ دانت نکال کر ہنستے ہیں

پھر ہم اس قبرستان میں جا تے ہیں

جہاں ہم کو دفن کیا جائے گا

اور دیکھتے ہیں کیا کوئی جگہ باقی ہے

قبرستان تو پٹا ہوا ملتا ہے

ہم خوش ہوتے ہیں

مارنے والے ہمیں نہیں ماریں گے

جب ان کو یہ پتہ ہو گا کہ

قبرستان میں اب جگہ نہیں رہی

ہم لہکتے ہوئے قبرستان سے   باہر آ گئے

مگر راستے میں ایک گولی ہمیں ٹھمکتی ہوئی نظر آئی

ہم سڑ ک پر لیٹے ہوئے سوچ رہے تھے

اپنی آخری سانس کے درمیان

اس کو معلوم نہیں تھا کیا

قبرستان میں اب جگہ نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

CID

 

دیکھ رہی ہوں CIDمیں

جب جب اداس ہوتی ہوں میں

ٹی وی کھول کر صرف سی آئی ڈی دیکھتی ہوں

اب یہ مت پوچھنا کیوں

میں بتاؤں گی تو تم سب  ہنسو گے

اس میں مجرم پکڑے جاتے ہیں

اس میں ایمانداری کا شور مچانے والے

ایمان دار ہوتے ہیں

وہ جھوٹے نوالے نہیں کھاتے

اس میں مجرموں کو شناخت کی بنیادوں پر چھوڑا نہیں جا تھا

میں جب جب اپنے ٹی وی پر خبروں میں دیکھتی ہوں

ملزموں کی چاندی ہوتے ہوئے

میرا دل  قلابازیاں کھا تا ہے

پھر میں ٹی وی سی آئی ڈی کھول کر دیکھتی ہوں

جس میں مجرم کٹہرے میں ہوتے ہیں

ان کو سزا مل رہی ہوتی ہے

میں سکون سے سو جاتی ہوں

کہیں تو انصاف ہو رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

قلعی

 

 

پرانی باتیں

پرانے خواب

پرانے لوگ

ہم پرانی چیزوں کونیا  کرتے ہیں

پرانے خوابوں کو قلعی کر کے کاغذوں پر چپکاتے ہیں

قلعی بڑی مہارت سے ہوتی ہے

کوئی نہیں پہچانتا

کہ پرانی بساندہ سے لپٹی ہوئی ہماری باتیں

ہم قہقہے لگاتے ہیں

جب لوگ ہماری باتوں میں آ جاتے ہیں

قلعی کرنے کی مہارت ہم نے بہت دنوں میں سیکھی ہے

بہت  غور سے ہم دیکھتے تھے

ہمارے گھر ے باہر جب قلعی کرنے والا آتا تھا

ماں اپنے برتن اس کو گن کر دیتی تھی

ہم سے کہتی تھی

دیکھو کو ئی برتن غائب نہ ہو

برتن تو غائب نہیں ہوتا تھا

ہم غائب ہو جاتے تھے

مہارت سیکھنے کے پہلے عمل کو یاد کرتے کرتے

لیکن جب ہم آج خود کو نیا کرنا چاہتے ہیں

ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہوئے

نئے چہروں کو دیکھ کر

تو ہم ہار جاتے ہیں

ہماری مہارت ہمارا ساتھ نہیں دیتی

ہم سوچتے رہتے ہیں

جب ہم پرانی باتوں کو نیا کر دیتے ہیں

تو ہم قلعی کی مہارت  سے

خود کو نیا کیوں نہیں کر سکتے

٭٭٭

 

 

 

 

زندہ کیسے رہ جائے

 

 

کون نہیں جا تھا زندگی کیا ہے

جو زندہ ہے وہ جانتا ہے

زندہ کیسے رہا جا تا ہے

زندہ رہنے کے لئے کیا نہیں کرنا پڑتا

زندگی مکڑی کا جال ہے

جس میں مکھی کی طرح ہمیں پھانس لیا جا تا ہے

نکلنے کا راستہ صرف ایک ہے

صرف ایک

یعنی

شاید آپ کی سمجھ میں آ جائے

شاید نہ آئے

شاید اس وقت

جب اس مکھی کی طرح

آپ اپنی آخری کوشش میں مبتلا ہوں

اس جال سے نکلنے کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

بینر

 

 

کیسے لکھیں ایک محبت کی نظم

کیسے لکھیں موسم بہت سہانا ہے

کیسے بتائیں سب کو اپنے گھروں کے ٹی وی بند کر دو

ہر چینل پر لاشوں کی کتھا بیان کی جا رہی ہے

لیکن کھڑ کیاں سب گھروں کی کھلی ہیں

لاشیں اٹھانے والی گاڑیوں نے شور مچایا ہوا ہے

کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی

اور وہ نظم جو لکھوانا چاہتی تھی

کونے میں  دبکی کھڑی ہے

دیکھو شاید تھر تھر کانپ رہی ہے

تواتر میں دیکھ رہی ہے اور سن رہی ہے

لاشوں کی آمدورفت

وہ لاشیں جو قبروں میں اتار ی جا رہی ہیں

اور وہ جیتی جاگتی لاشیں

وہ حنوط شدہ   ؟

ہاں ان کو لوگو ں  نے قبروں میں اتارنے میں کوتاہی کی

اب ان کے ہاتھوں میں لاشیں بنانے کا ٹھیکہ ہے

دیکھو میری نظم وہاں

وہ دہائی دینے والی عورتوں کے ساتھ

تپتی دوپہر میں بینر اٹھائے کھڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

یہ کون ہیں

 

سڑکوں پر پچھتاوا بکھرا ہوا ہے

درخت شرمندگی سے اپنے پتے جھاڑ رہے ہیں

بہتے پانی نے اپنے آنسو بھی شامل کر دئیے ہیں

جن کو آسمان ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے

ان کے گالوں میں کڑواہٹ ٹھونس دی گئی ہے

وہ غم کی کلیاں کر رہے ہیں

مرغن غذاؤں کو اپنی ڈاڑھوں میں پھنسائے ہوئے

کالی بھینسوں کا گوبر ان کے چہروں کے لئے تیار ہے

وہ کہتے ہیں

مرنے والے شہید ہو گئے

اور جو زندہ ہیں

وہ اس شہادت کے انتظار میں سر نہیوڑائے بیٹھے ہیں

کب ان کی باری آ جاتی ہے

ڈھکی چھپی مت کہو

صاف صاف کہو

بچہ ماں سے پوچھتا ہے

ہمیں کون مارنا چاہتا ہے ماں

ماں اپنے بچے کو چادر میں چھپا کر کہتی ہے

یہ تو میں ہماری حفاظت کرنے والوں سے پوچھوں گی

اگر وہ اپنے حفاظتی عملے کے بغیر ہم سے ملنے آئے تو

ماں میں بھوکا ہوں

تم باہر مت نکلنا

ورنہ وہ تم کو مار دیں گے

میں پھر ہمیشہ کے لئے بھوکا رہ جاؤں گا

میں نے سنا ہے بھوکے کوے ان کی ڈاڑھوں میں پھنسا ہوا کھانا کھا چکے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ننگے

 

 

ایک نظم منہ بسورے کھڑی ہے

میں اس سے پوچھتی ہوں

کیا ہوا ؟

وہ مجھے خوفناک آنکھوں سے گھورتی ہے

پھر وہی ہو ا ہے جو ہوتا آیا ہے

یعنی ؟

پھر مار دیا گیا

ان کو جو خوابوں کی گٹھریاں اٹھائے ہوئے تھے

وہ جو موت ان کے لئے لائے تھے

آدھے ننگے تھے

اوپر سے یا نیچے سے ؟

نظم دھاروں دھار رونے لگی

وہ کون ؟

جن کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے

لاکھوں روپے کھائے گئے

کس نے ؟

جو دعوے دار ہیں

وہ کہتے ہیں موت کو ڈھونڈھ  ڈھونڈھ کر

اس کی عزت لوٹیں گے

کہتے ہیں بھوک اور موت کو بھگانے کے لئے

جو روپے درکار تھے

وہ پانی میں بہے گئے

وہ آنسو بہاتے ہیں

وہ روتے ہیں اور تماشائیوں سے کہتے ہیں

ہماری دل آزاری ہو ئی ہے

ہمارے سکون کو برباد کر دیا

اور پھر اپنے اپنے گھروں میں میوزک سنتے ہوئے

اس کے نشے میں سو جاتے ہیں

نظم میدان میں پڑے ہوئے ایک پتھر پر بیٹھ جاتی ہے

اور مجھ سے کہتی ہے

تم مجھے نہیں چھیڑنا

آج کی رات میں ان پتھروں پر گزاروں گی

جہاں مرنے والوں کا خون پڑا ہے

٭٭٭

 

 

 

وہ دن

 

جب مجھ کو اس کٹہرے میں کھڑا کیا گیا تھا

جہاں مجھ سے کہا جا رہا تھا

کہ بولو

تم نے خودکشی کا ارادہ باندھا تھا

کہ نہیں

کیا تم نے خودکشی کے ارادے سے

ہماری منظم عورتوں کو ورغلایا تھا

کہ نہیں

میں نے کہا تھا ہاں

مجھے معلوم تھا یہ میرا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے

میرے خلاف بولنے والے سب اپنی آوازوں کو سنبھال نہیں سکے

وہ تتلانے لگے تھے

وہ ہکلانے لگے تھے

ان کی آنکھیں مجھے دیکھتے ہوئے پوری کھل نہیں رہی تھیں

تمھاری گواہی دینے کون آیا ہے ؟

کوئی نہیں

میری گواہی دینے والا چل بسا

پھر تمھارے ساتھ کیا کیا جائے

کچھ نہیں مجھے آزاد کر دو

تاکہ

ہاں تاکہ میں منظم عورتوں کو بہکا سکوں

وہ جب تک میرے ساتھ ہیں

جب تک بھوک جو تم نے سڑکوں پر پھیلائی ہوئی ہے

ان کا راستہ روکے گی

میری آواز سن کر مجسٹریٹ کی آواز اس کی قمیض کے کالر میں دبک گئی تھی

اور میں

یہ سوچتی ہوئی عدالت سے باہر آ رہی تھی

آج میری دودھ پیتی بچی ڈبے کا دودھ نہیں پئے گی     ٭٭٭

 

 

قید میں لکھی ایک نظم

 

میرے ہاتھ کھول دئیے  جائیں

تو میں اس دنیا کی دیواروں کو

اپنے خوابوں کی لکیروں سے

سیاہ کر دوں

اور قہر کی بارش برساؤں

اس دنیا کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر

مسل دوں

میرا دامن خوابوں کے اندھیرے میں پھیلا ہوا ہے

میرے خواب پھانسی پر چڑھا دئیے گئے

میرا بچہ میرے پیٹ سے چھین لیا گیا

میرا گھر قہر خانوں کے اصطبل کے لئیے

کھول دیا گیا

مجھے بے زین گھوڑے پر

اندھیرے میں اتار دیا گیا ہے

میری زنجیر کا سرا کس کے پاس ہے

قیامت کے شور سے پہلے

میں اپنی دھجیوں کوسمیٹ لوں

اپنے بچوں کو آخری بار غذا فراہم کروں

اور زہر کا پیالا پی لوں

میری زنجیر کھول دی جائے

اس کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے

۔۔۔۔

ایک پرانی نظم

(جب مجھے قید میں رکھا گیا تھا)

٭٭٭

 

 

 

 

 

اب؟کب؟

 

 

اس شہر  میں کسی سڑک پر

اک سفر ہو

ایک تھیلا

اور ایک روٹی

صبح سے شام تک

لوگوں کی بھیڑ میں

نکل جاؤ گھر سے باہر

اور چلو زِگ زیگ

بڑا مزہ آتا ہے

ایسے چلنے میں

ہلکورے لیتا ہوا جسم

اور تیز تیز چلتے قدم

بھیڑسے ٹکراتے ہوئے

ایسے چلو

جیسے ہوا تمھارے چہرے سے

ٹکرا رہی ہو

تیز اور تیز

چلتے رہو

سفر جاری رہنا چاہئیے

بڑا مزہ آتا ہے

ایسے چلنے میں

کسی ریستوران کے سامنے

شور کو سنتے ہوئے

کسی نیون سائن کی روشنی کو پڑھتے ہوئے

شام کے جھٹپٹے میں

روشنیوں کے ساتھ دوڑتے ہوئے

آوازوں سے ٹکراتے ہوئے

بڑا مزہ آتا ہے

نکل پڑو گھر سے

بس ایک سڑک  ہو

ایک سفر ہو

اور تھیلے میں گرم گرم روٹی

۔۔۔۔۔

(ایک پرانی نظم)

٭٭٭

 

 

 

موسم

 

 

موسم بدل جاتے ہیں

موسم بدل جاتے ہیں ؟

ہاں

مگر کہاں

ہمارا موسم ایک ہی جیسا ہے

ہمارے موسم کا اثر اس پر بھی ہے

کس پر؟

وہاں جہاں ہم رہتے ہیں

خزاں کا موسم

کہنا کیا چاہتی ہو

کہنا !

ہم تو صرف کہہ سکتے ہیں

جیسے وہ صرف کہہ رہے ہیں کر نہیں رہے

اپنی آوازوں میں گھلاوٹ ملا کر بول رہے ہیں

جو ہمارے کانوں تک آتے آتے

بھونک میں تبدیل ہو جاتی ہے

تمھیں کیوں ایسا لگتا ہے ؟

تم نے اپنے کان بند کر لئے کیا ؟

ہاں بس آنکھیں کھلی ہیں

جو دیکھ رہی ہیں بچوں کو کوڑے کے ڈھیر سے آج کا کھانا ڈھونڈھتے ہوئے

جو دیکھ رہی ہیں ایک بچے کو دیوار سے ٹیک لگائے

دیوا رکا سایہ کسی وقت بھی اس کا ساتھ چھوڑ سکتا ہے

کتنا پرانا ہے یہ موسم

ہر موسم کبھی نہ کبھی ختم ہو جا تا ہے

لیکن یہاں کا موسم

خزاں کا موسم کبھی ختم نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

زمین اور پاؤں

 

جب

گزر جائے ایک خواب

اور رہ جائے صرف تلچھٹ

پیٹ بھرتا ہے

جب درختوں پہ روٹی نہیں اگتی

دھول اور دھوپ

خالی کرتے ہیں جسم

رہ جاتی ہے ایک سانس

جو ملاتی ہے پاؤں کو زمین سے

جب گزر جائے ایک دن

اور رہ جائے ایک رات

بے مزہ اورکسیلی

باقی  کچھ  نہیں رہتا

صرف زمین اور پاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

 

ٹکڑوں میں بٹی زندگی

 

 

پہلے ہم زندگی کو ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہیں

اور پھر ان ٹکڑوں کو رکھ کر بھول جاتے ہیں

یہ بھول ہمارے جسم کو

ایک جال میں لپیٹ لیتی ہے

کون سا ٹکڑا کہاں رکھا تھا

جس کی ضرورت پڑتی ہے

وقت پر وہ نہیں ملتا

ہم ساری زندگی ضرورت کے وقت

اپنی زندگی کے ٹکڑے تلاش کرتے رہتے ہیں

لیکن

بے ترتیبی اور بھول بھلیاں جاری رہتی ہے

زندگی گزر جاتی ہے

اور گزر جانے کے بعد

ٹکڑے آپس میں مل جاتے ہیں

یا کوئی دوسرا انھیں جمع کر لیتا ہے

۔۔۔۔۔

(ایک پرانی نظم)

٭٭٭

 

 

 

 

 

اس کے لئے

 

موت نے تم کو چھوا

تو کیا ہوا

موت ان کو کیا چھوڑ دے گی

جن کے ہاتھوں نے موت کو تمھاری طرف بھیجا

موت نے ان کی تصویر کھینچ لی ہے

جب وہ اسے تمھاری طرف بھیج رہے تھے

اور میں نے سنا ہے

کتنوں کے اسکیچ اس کے پاس ہیں

جو قطار سے یکے بعد دیگرے اس کی یاد داشت میں ہیں

وہ ان کی باری کا انتظار کر رہی ہے

اس کا ارادہ ہے ان کو بے موت مارنے کا

بس باری کا انتظار ہے

٭٭٭

 

 

 

 

چھٹی کا دن

 

 

صبح ہو گئی

ہاں

یہ صبح تو ہماری ہے

اچھا

ہاں ،لوگ ہم کو یاد کرتے ہیں

تم لوگ آپس میں

نہیں

بہت پرانی بات ہے

جب کسی نے ہم پر توڑے جانے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی

اچھا

پھر کیا کو ئی فرق پڑا

ہم پر ،نہیں دیکھو میرے ہاتھ

اینٹیں اٹھا اٹھا کر  میری انگلیاں جھڑ گئیں

وہ سب ہمارا وہ دن مناتے ہیں

جب ہم ان کی نظر میں آئے

پھر

وقت گزرتا رہا

اب یہ دن منایا جا تا ہے

لیکن اب یہ فیشن بن گیا

وہ ہمارا دن مناتے ہیں

اور عزت کماتے ہیں

وہ کون ؟

جو ہم سے مزدوری کروا کر

روٹی کو ہم سے دور کرتے ہیں

لیکن ہم اس دن بھی بھوکے مرتے ہیں

جیسے آج کا دن ہے

آج کوئی مزدوری نہیں ملتی

آج مزدوروں کا دن ہے

آج چھٹی کا دن ہے

ہمارے گھر کے چھولے بھی چھُٹی منا رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

جب

 

کہنے کے لئے کچھ نہیں ہوتا جب

صرف بد گوئیاں اور بے ہودہ گالیوں میں

لتھڑے ہوئے لفظ

اور گلی میں جھگڑا کرتی ہوئی آوازیں

پھر ہم کیا کرتے ہیں

بد گوئیاں

اور خود کو خوش کرنے کے لئے

بد فعلیاں

یا پھر گلی سے باہر

جھگڑے میں لتھڑی ہوئی گالیاں

جو لباسوں کے لئے

خوش کن ہوتی ہیں

اور جب کہنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو

یہ خطرہ بھی ٹل جا تا ہے

ہم اپنے نام کی تختی الٹ کر

گلی میں نکل جاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

ان کے لئے جن کو مار دیا گیا

 

وہ لوگ جو بچپن میں

سڑک پار کرتے ہوئے

حادثے کا شکار نہیں ہوتے

انھیں کوئی وبائی مرض

کھا جا تا ہے

اور جو اس سے بچ جاتے ہیں

وہ کسی ناگہانی میں پھنس کر مر جاتے ہیں

لیکن جو اس ناگہانی کی زد میں نہیں آتے

انھیں دوسرے بچے ہوئے مار دیتے ہیں

اور دوسرے بچے ہوئے

پھر اپنی موت آپ مر جا تے ہیں

٭٭٭

 

بولو

 

تم بول کے دیکھو

سب مل جاؤ اور بولو

یہ بول ایک چیخ میں تبدیل کر دو

تو کیا ہو گا

اب تک جو فریادیں آہ و بکا میں بدل گئیں

ان کا کیا ہوا

وہ آواز کا گولا بن کر زمین میں دفن ہو گئیں

ان آوازوں کی جگہ جگہ ننھی ننھی قبریں بن گئیں

تو کیا ہوا

تم بولو جب تمھاری آواز ان کانوں تک پہنچے گی

جن تک تم پہچانا چاہتے ہو

تو وہ تمھاری زندگی کا آخری دن ہو گا

اگر تم بھی تیار ہو تو بولو

ہم تمھارے ساتھ ہیں

لیکن تمھاری آوازسے آواز نہیں ملائیں گے

ہمیں مرنا تھوڑی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

تیرے لئے

 

پرندے کی پہلی پکار

روشن لکیر اور دائرہ بناتی ہوئی

اڑ جاتی ہے

اوپر

آسمان جس کے انتظار میں ہوتا ہے

ایسے ہی سمے کی قسم

میں نے دلیل پائی ہے

ایک حیرت میں بھرے ہوئے یقین کی

اور ان دروازوں کے کھلنے کی آوازسنی ہے

جو تیری طرف کھلتے ہیں

میں نے اپنے قلب میں

تجھے جھانکتے دیکھا ہے

سپردگی کے اس لمحے میں

جب تو نے مجھے پایا

میں نے کہا

میں نے بھی تجھے پایا

٭٭٭

 

 

 

 

بارش

 

بارش ہو سکتی تھی

نہیں ہوئی

اگرچہ کہ سڑکیں تیار تھیں

کیچڑ میں لت پت ہونے کے لئے

لوگ تیار تھے

بجلی  کا کرنٹ لگنے والی موت کے لئے

گٹر اپنا منہ کھولے پڑے تھے

گلیاں اپنا دم سادھے ہوئے بادلوں کو دیکھ رہی تھیں

کمزور چھتیں بھی دانت نکالے ہنس رہی تھیں

کہ

اب کس کی باری آئے گی

کون ان کے دھمال سے موت کے منہ میں جائے گا

سب آسمان تک رہے تھے

جہاں بادل بہت گہری سنجیدگی سے

گھور رہے تھے اس شہر کو

جن پر وہ تنے ہوئے تھے

اور حیران تھے

شہر کی مستعدی پر

پھر وہ تنے رہے برسے بغیر

بہت  وقت گزر جانے کے بعد

انتظار کی دھول میں

سب کہہ رہے تھے

بارش ہو سکتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

گولی

 

جب ایک گولی مجھے لگی

میں وہاں نہیں تھی

نشانہ باندھنے والے نے

میرے بالوں سے دھوکا کھایا

اور چلا دی

وہ گولی جس کو لگی وہ ،وہ نہیں تھا

جس کو گولی ماری  جانی تھی

مرنے سے پہلے وہ جان گیا تھا

یہ  گولی اس کے نام کی نہیں تھی

اس نے ایک گندی گالی  منہ سے نکالی

اور مر گیا

میں اس  وقت   ایک کیفے میں بیٹھی

وادکا کی چسکیاں لے رہی تھی

اور سوچ رہی تھی

بچاری گولی ضائع ہونے سے بچ گئی

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

چیزیں جو کھو جاتی ہیں

انھیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے تھک جاتی ہوں

چیزیں جو شامل ہو جاتی ہیں ان چیزوں میں جو

جو بہت پہلے کھو گئیں تھیں

جو مجھ سے خفا ہو کر غائب  ہو گئی تھیں

نہیں آتی ہیں یہ میرے سامنے

مرے ہوئے لوگوں کی طرح

میں اداس ہوتی ہوں اور انھیں

ان مرے ہوئے لوگوں میں شامل کر لیتی ہوں

دانستہ یا نا دانستہ

ان کی یاد کو کھرچ دیتی ہوں

اپنی بہت سی یادوں میں سے

نہیں آئیں یہ  میرے سامنے

تو نہیں آئیں

وہ بھی تو اب کبھی نہیں آئیں گے

جو مر گئے

کبھی نہیں آنے کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

کیا تمھارے پاس وقت ہے

میری نظم سننے کا

اور تمھارے پاس بھی

میری نظم پڑھنے کا

ہے ؟

نہیں ہے ؟

چلو اچھا ہوا

میں اپنی نظم سے کہہ دوں گی

کچھ دیر کے لئے

چناروں کے درختوں پر ہو آئے

یا وہاں جہاں  کوئلیں کوک رہی ہیں

کچھ دیر

کھوج آئے ان بچوں کو

جنہیں ماؤں سے چھین لیا گیا ہے

میں نے کہہ دیا ہے اپنی نظم سے

وہ آزاد ہے

جب تک چاہے جہاں تک چاہے

گھومے پھرے

تمھارے پاس میری نظم سننے کا وقت نہیں ہے

اور تمھارے پاس بھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

خالی بینچ

 

ایک وقت ایسا آئے گا

کہ میں

یہ سب بھول جاؤں گی

اس وقت کی سنگینی بھی

جس میں میرا دل گاڑھے دکھ سے بھر گیا ہے

اور میں

اس سفید بینچ کی طرح رہ جاؤں گی

جو خالی پڑی ہے

اس ارادے سے کہ میں

اس پر بیٹھوں

اور آگے دیکھوں

آگے جہاں پانی کے قطرے

خام مال کی طرح پڑے ہیں

ہوا کا لباس بننے کے لئے

٭٭٭

 

 

 

 

غیض میں ہے سمندر

 

غیض میں ہے سمندر

سمندر نہیں دے رہا ہے

پانی ان بادلوں کو

جو لے کے جاتے ہیں پانی ان زمینوں پر

جہاں بسنے والے لوگ

ظلم کے سامنے سر جھکا رہے ہیں

جو بھوک اور انا انصافی

ایک دن کی غذا کے عیوض

اپنے کشکول میں ڈال رہے ہیں

سمندر غیض میں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

نظم

 

تم   مجھے مقروض کر دیتے ہو

اپنے بوسوں سے

میرا بال بال بندھ گیا ہے

اس قرضے میں

روز بلا ناغہ

یہ بوسے ،جیسے اپنی یاد داشت کھو دیتے ہیں

جب آہستہ آہستہ

میں

اپنی انگلیاں پھیرتی ہوں

ان کے ثبت کئے ہوئے نشانوں پر

یہ میری پوروں پر

اپنا کوئی لمس نہیں چھوڑتے

ان کی گرم جوشی اور تپش

میرے چہرے پر سرسرانے کے بجائے

ہواؤں کی تندی سے جا ملتی ہے

اور ان پتوں سے

جن کو پالا مار گیا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

زندگی

 

اگر مجھے ایک زندگی

اور مل جائے

تو میں اپنے سفر کو اپنے اسباب کے ساتھ

باندھ کر رکھوں

ایک پرندے کی طرح

پانیوں سے ٹکراتی ہوئی

آنکھ سے اوجھل ہو جاؤں

ایک ایسے درخت کی طرح

جو ساری عمر

دھوپ اور چھاؤں کا مزہ لیتا ہے

ایک ایسے بنجارے کی طرح

جو پہاڑوں اور میدانوں کو

اپنے قدموں کی دھول میں سمیٹ لیتا ہے

کسی ایسی رقاصہ کی طرح

جو اپنے من کا بوجھ

اپنے جسم پر ڈال دیتی ہے

کسی ایسی جنگ میں شریک ہو کر

جو بھوک اور نفرت کے خلاف

لڑی جا رہی ہو

ماری جاؤں

٭٭٭

 

 

 

 

بازی گر

 

بازی گر

اپنا قد اونچا کرنے والے جوتے پہنتا ہے

وہ نشے میں

بازی گری دکھا تا ہے

اس کے جوتے اتنے اونچے ہیں

کہ اگر

اس کی ماں دیکھتی

تو رو دیتی

اور اس کی محبوبہ

جو اب کسی اور کے بستر میں ہے

بازی گر

اپنی محبوبہ سے ہاتھ دھو بیٹھا

اس لئے کہ

وہ اس کے سامنے بازی گری

نہیں دکھا سکا

بازی گر

اونچے جوتے والا کھیل

جب سے ہی دکھا تا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سوال کی گردش

 

اس نے مجھ سے پوچھا

کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟

میں نے کہا

نہیں –

اس نے مجھ سے پھر پوچھا

میں نے کہا

نہیں

وہ پوچھتا رہا

میں انکار کرتی رہی

پھر میں اس سوال کی عادی ہو گئی

سوال سننے کی عادت نے

مجھے انکار بھلا دیا

بیچ سے انکار نکل گیا

پوچھنے والا پوچھتے پوچھتے تھک گیا

میں سوال کی محبت میں گرفتار ہو گئی

میں نے وہ سوال خود کرنا

شروع کر دیا

اب سوال کرنے والی

میں ہوں

اور جواب دینے والا وہ

٭٭٭

ماخذ: عذرا عباس کے فیس بک پر موجود نوٹس سے

https://www.facebook.com/azra.abbas.90/notes

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید