بیدل اور غالب
وحید اختر
جمع و ترتیب: راغب اختر، اعجاز عبید
نظریاتی بحثوں اور نثری تحریروں سے بھی قبل شعرا نے تصوّف کے خیالات شاعری میں پیش کرنا شروع کردیے تھے۔ ابوسعید ابوالخیر، سنائی اور عطّار— سب ابن عربی سے پہلے کے شعرا ہیں ، تصوّف، ایرانی مزاج کی پیداوار تھا۔ اس لیے فارسی زبان نے اس کا گہرا اثر قبول کیا۔ فارسی شاعری کی تاریخ سے تصوف کے تصوّرات کا ارتقا بآسانی مرتّب کیاجاسکتا ہے۔
ابوسعید اور سنائی کے یہاں عشق معرفت بھی ہے اور وسیلۂ معرفت بھی۔ ابوسعید کا کلام عشق کے نشے میں ڈوبا ہوا ہے۔ مگر سنائی کی زبان اور طرزِ کلام حکیمانہ ہے۔ ان کے یہاں فلسفہ و اخلاق کے مضامین پہلی بار، تصوّف کے توسط ہی سے شاعری میں داخل ہوئے۔ سنائی کے بعد اوحد الدین کرمانی اور اوحدی اصفہانی، سنائی اور عطّار کی درمیانی کڑیاں ہیں ۔ عطّار سے پہلے عمر خیّام نے شاعری کو حکیمانہ زبان میں بات کرنے کا سلیقہ سکھا دیا تھا۔ خیّام کے یہاں بھی تشکیک و عقلیّت کے ہمراہ تصوّف کے چند بنیادی رویّوں کا بھرپور اظہار ہوتا ہے۔ عطّار کی منطق الطیر وحدت الوجود کے مسائل کا تمثیلی بیان ہے۔
عطّار کے بعد مولانا روم، سعدی، عراقی، محمود شبستری، امیرخسرو اور حافظ کے نام متصوّفانہ شاعری میں اہمیت رکھتے ہیں ۔ سعدی اور حافظ کا دائرہ فکر تصوّف سے زیادہ وسیع تھا۔ ان کا موضوع انسان اور انسانی زندگی تھی، جسے دونوں نے اپنے اپنے انداز سے کائنات اور حقیقت کائنات کے رشتے سے سمجھنے کی کوشش کی۔ ان دونوں عظیم المرتبت شعرا کی فکر کو تصوّف سے لہجے کی شایستگی، عشق کی پاکیزگی اور وسعتِ نظر ملی تھی۔ مولانا روم خالص تصوّف کے سب سے اہم شاعر ہیں ، جن کے یہاں تصوف کے ساتھ فلسفہ و اخلاق کے آفاقی مسائل کی شاعرانہ توجیہیں بھی ملتی ہیں ۔ رومی نے پہلی بار وضاحت کے ساتھ عشق اور عقل کا موازنہ کیا۔ رومی کے یہاں عقل ابلیس ہے، عشق آدم، عقل حکمتِ یونانیان ہے، اور عشق حکمتِ ایمانیاں ۔ رومی کی شاعری متصوفانہ فکر کا وہ نقطۂ عروج ہے جس کے آگے فارسی شاعری کی پرواز ممکن ہی نہ تھی۔ گہرائی اور بلندی کے ساتھ ان کے یہاں تنوع اور وسعت اس قدر ہے کہ کوئی صوفی شاعر ان کی برابری نہیں کرسکتا۔ رومی کا یہ بھی کارنامہ ہے کہ انھوں نے استدلال کے لیے تمثیلی پیرایہ اختیار کیا۔ رومی کی فکر وحدت الوجودی تھی۔ اسی دور میں عراقی نے ابن عربی کے تصوّرات کو غزل کا جامہ پہنایا۔ عراقی کی مثنوی ’’عشّاق نامہ‘‘ ابن عربی کے نظریے کی مربوط اور مسلسل تفسیر ہے۔ سعدی، عراقی کے ہمعصر تھے۔ ان کے یہاں اخلاق کا متصوفانہ، فعّال اور نیا تصوّر ملتا ہے۔ حافظ کی پوری شاعری سرمستی کی شاعری ہے۔ ان کی غزل کے نشاطیہ لہجے کے نیچے افسردگی کی وہ لہر دوڑتی نظر آتی ہے، جو حقیقت کے عرفان کا نتیجہ ہے۔ حافظ کا رجحان مخالفِ عقل تھا، وجود ان کے لیے انسانی تجربہ کا سرچشمہ ہے۔ حافظ پہلے شاعر ہیں ، جن کے یہاں زندگی اپنی پوری توانائی اور تنوع کے ساتھ متصوفانہ فکر کے قالب میں جلوہ گر ہوئی۔ اگرچہ حافظ کو عمر خیّام اور سعدی کی طرح تصوّف کی حدود میں بند کرنا مشکل ہے، مگر ان کے فکری رویّوں میں عرفانِ ذات، تحیّر، شک، کائنات سے ہم آہنگی کی زبردست خواہش، زندگی کرنے کا حوصلہ، غم کو قوت کا سرچشمہ بنانے کی صلاحیت، وسیع المشربی، انسان دوستی کی جو لہریں ملتی ہیں ، ان کا رشتہ براہِ راست یا بالواسطہ تصوّف کی ان روایات سے جا ملتا ہے، جن کی آبیاری وحدت الوجود نے کی تھی۔
حافظ کے بعد ابن یمین نے مولانا روم کے انداز میں وجود اور مراتبِ وجود کی شاعرانہ تشریح کی۔ ابنِ یمین کے یہاں جاہ و ثروت، حکومت و اقتدار سے علانیہ بغاوت کا جو جذبہ ملتاہے، اس میں کوئی اور صوفی شاعر ان کا شریک نہیں ۔ مغربی کے یہاں وحدت الوجود کے مضامین بے رنگ طریقے سے بہ تکرار باندھے گئے ہیں ۔ ایران میں متصوفانہ شاعری کی تکمیل جامی سے ہوئی۔ جامی نقش بندی سلسلے میں مرید تھے اور وحدت الوجود کے حلقہ بگوش۔ ان کی غزلوں کے تین دیوان اور سات مثنویاں تصوّف کے مضامین سے لبریز ہیں ، جن پر وجودی فکر کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ہندستان پہنچتے تک تصوف کی تحریک اپنا نظریاتی سفر ختم کر چکی تھی۔ وحدت الشہود، متصوفانہ فکر سے زیادہ شریعت پرستی کا نظریہ ہے۔ بعد کی بحثیں بھی تصوّف کو آگے نہیں لے جاتیں ، بلکہ گھوم پھر کر انہی دائروں میں رہتی ہیں جہاں تک اکابر صوفیہ اسے پہنچا چکے تھے۔ ہندستان کے فارسی شعرا پر تصوف کا اثر بالواسطہ پڑا۔ فیضی کو متصوفانہ خیالات سے شغف ہے لیکن اس کا شمار خیّام ایسے آزاد خیال اور سرمد ایسے آزاد لباس صوفی کے زمرے ہی میں ہوسکتا ہے۔ عرفی نے تصوف پر ایک رسالہ بھی لکھا، مگر وہ تصوف کے ساتھ زیادہ دور تک نہ چل سکا، البتہ کفر و دین کے تفرقوں کے بے معنی ہونے پر جو اشعار اس کے یہاں بکھرے ہوئے ہیں ، وہ متصوفانہ فکر کی آزاد خیالی ہی کی دین کہے جاسکتے ہیں ۔ نظیری خانقاہی تصوف کے زوال آمادہ نظام سے متاثر تھا۔ اس کے یہاں متصوفانہ رواداری کی جگہ تنگ نظری اور تعصّب نمایاں ہے۔ اس کے باوجود اس کی شاعری نے عشقیہ شاعری کو پاکیزگی، طہارت علوئے جذبات اور بلند خیالی کے ساتھ لہجے کی شایستگی بھی دی۔ وہ شعرا بھی جو براہِ راست تصوف کے تحت نہیں آتے، تصوف کے پروردہ تصوّرِ عشق کی طہارت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ ظہوری کی شاعری عشق و تصوف کا ایسا امتزاج ہے کہ غالب نے بھی ظہوری کو اپنا مرشدِ معنوی مانا۔ سرمد کے یہاں داراشکوہ کے خیالات کی پرچھائیاں ملتی ہیں ۔ دارا شکوہ کے خیالات کی وسعت اور ہندو تصوّف سے اس کی دلچسپی میں سرمد کا بھی اثر کارفرما تھا۔ سرمد نے شریعت کو طریقت کا حریف بنا کر پیش کیا۔ اس لیے سرمد کے نعرۂ ہمہ اوست میں وہ گرمی ہے، جس نے منصور کی طرح اس کی شہادت کا حکم نامہ بھی شریعت کے ہاتھوں سے لکھوایا۔
ہندستان کے متاخر فارسی گو شعرا میں غنی، ناصر علی، جلال اسیر، شوکت بخاری، صائب سب ہی، کوئی کم کوئی زیادہ، تصوف کے زیرِ اثر ہیں ۔ لیکن ان شعرا میں بیدلؔ کو دو لحاظ سے فوقیت حاصل ہے۔ ایک تو اس لیے کہ بیدل کی شاعری بنیادی طور پر تصوف کی شاعری ہے، دوسرے ان کے یہاں تصوف کی روایتِ عشق منطقی اور مربوط فکر کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہے۔ اپنے تعصّبات اور تصورات کے لحاظ سے ان کا رویّہ سیاسی، سماجی اور عملی زندگی میں شیخِ مجدّد کے سلسلے کی توسیع ہے۔ وہ بھی شیخ مجدّد کی طرح ہندوؤں اور شیعیوں سے سخت تعصب رکھتے ہیں ۔ وہ بھی طریقت کو شریعت کا پابند بنانا چاہتے ہیں ، لیکن ان کی شاعری میں یہ ذہنی تنگی کم نمایاں ہوتی ہے، ’’رقعات‘‘ اور ’’نکات‘‘ کی نثری عبارتوں میں زیادہ۔ اسے بھی وحدت الوجودی فکر کا عطیہ کہنا چاہیے کہ اس کے اثر سے بھی ان کی طبیعت کی سخت گیری اور نظر کی تنگی کا اثر زائل نہ ہو تو ہلکا ضرور پڑ جاتا ہے— بیدل نے زندگی کے عملی پہلوؤں میں تو شیخ مجدّد سے مطابقت پیدا کی، مگر تصوف میں وہ وحدت الوجود ہی کے شارح رہے۔ بیدل کی متصوفانہ شاعری سراسر وحدت الوجود کے نشے کا خمار ہے۔ اس خمار میں ان کے حواس اور عقل بیدار ہوتے نظر آتے ہیں ۔ اس لیے انھوں نے منطقی اور استدلالی انداز اختیار کیا ہے۔ غالباً بیدل کی یہی استدلالی خصوصیت غالب کو پسند آئی۔ فکر سے زیادہ غالب پر بیدل کے اندازِ بیان کی ندرت اور پیچیدگی نے اثر ڈالا۔ اس میں شک نہیں کہ بیدل اپنے تمام حدود کے باوجود معنی آفریں شاعر ہیں ۔ ان کے یہاں معنی کی ایک نہیں کئی تہیں ، کئی سطحیں ملتی ہیں جو غالب کی مشکل پسندی اور فکری مزاج نے بیدل کو ان کے طرز بیان کے ساتھ ان کی معنی آفرین خیال بندی کے باعث بھی انتخاب کیا۔
تصوف کا اتنا زبردست، کیفیت و کمیت کے لحاظ سے وقیع سرمایہ غالب نے وراثت میں پایا۔ غالب نے اس پورے سرمایے سے فائدہ اُٹھایا۔ ان کی نگاہِ انتخاب نے اس سرمایے سے وہ سامان نظر چُن لیا، جو ان کے تصورِ حیات و کائنات کی تشکیل کے لیے موزوں اور ضروری تھا۔
جہاں تک غالب کے فکری سرچشموں کا سوال ہے، ان کی متصوفانہ فکر کی مثالیں دینے سے پہلے دو شاعروں کے متصوفانہ نظریات کا ایک سرسری جائزہ لینا مفید ہوگا۔ ان میں سے ایک شاعر فارسی کا ہے اور ایک اردو کا۔ فارسی گو شعرائے ہند میں نظیری، عرفی، ظہوری، ناصر علی، جلال اسیر، صائب اور دوسرے شعرا کا اثر غالب کے ابتدائی اسلوب پر تو پڑا، لیکن فکر میں ان کی اثر اندازی پوری فارسی شاعری کے فکری سرمایے کے مجموعی اثر سے ہٹ کر کوئی خاص معنویت نہیں رکھتی۔ البتہ فیضی جن کے یہاں خیّام کی آزاد خیالی، ہندستان کے ماحول اور اکبری عہد کی تہذیبی رواداری کے قالب میں ڈھل کر ایک نئے مذہبی اور فلسفیانہ رویّے کی نشاندہی کرتی ہے، غالب کی عقلیت پسندی اور تشکیک پر ایک اہم اثر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ غالب پر فیضی کا اثر ایک مستقل مضمون کا مستحق ہے۔ یہاں تمام فارسی شعرا میں سے صرف بیدل کی متصوفانہ فکر اور ان کے مخصوص تصورات پر ایک نظر ڈالنا کافی ہوگا۔ اس لیے بھی کہ بیدل تصوّف کی روایت کے متاخرین میں سب سے اہم نمائندے اور شارح ہیں ، ساتھ ہی اس بات کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں کہ غالب نے ان سے شعوری طور پر گہرا اثر قبول کیا تھا۔ غالب کا جو قدیم ترین مخطوطہ دستیاب ہوا ہے، اس کے سرورق پر یہ عبارت ملتی ہے:
یا علی المرتضیٰ علیہ و علیٰ اولادہ الصلوٰۃ و السّلام
یا حسن — بسم اللہ الرحمن الرحیم — یا حسین
ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل رضی اللہ عنہ
اس وقت تک دیوان غالب کا یہ قدیم ترین نسخہ ہے۔ اس سے بیدل کے ساتھ غالب کی غیر معمولی عقیدت کا اظہار ہوتا ہے۔ اس میں انھوں نے حضرت علی کے ساتھ جنھیں وہ رسولؐ خدا کے بعد امت کا افضل ترین انسان اور اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں ، بیدل کا نام بھی اس طرح لکھّا ہے، جیسے صحابہ کا لکھا جاتا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ حضرت علی کو اپنا روحانی پیشوا مانتے تھے تو بیدل کو مرشدِ معنوی — بیدل سے ان کی یہ نسبت زیادہ تر تصوّف ہی کی فکر تک قابلِ قبول ہے، پھر تصوف کے تصورات میں بھی بیدل اور غالب بہت دور تک ہم سفر اور ہم خیال نہیں رہ سکے۔ بعض لوگ اسے بیدل کے مقابلے میں غالب کی فکری نارسائی کی دلیل سمجھتے ہیں ۔ میرے خیال میں بیدل سے ہم آہنگ نہ ہوسکنا، غالب کی فکری نارسائی کی بجائے ان کی وسعت فکر کا ثبوت ہے۔ بیدل کے لیے تصوف ہی سارا سرمایۂ فکر تھا۔ اس کے برخلاف غالب کے نزدیک تصوف واماندگیِ شوق کی راہ میں ایک پناہ گاہ سے زیادہ کچھ اور نہیں ۔ بیدل زندگی بھر اس پناہ گاہ میں عُزلت نشیں رہے۔ غالب نے اس سہارے کو چھوڑ کر فکر کے آزادانہ سفر کو ان حدود تک پہنچانے کی کوشش کی، جو تصوف سے ماورا ہیں ۔ غالب کا مطمح نظر بھی بیدل کی پیرویِ تصوف نہ تھا۔ وہ تو ان کی معنی آفرینی اور اسلوب کی تہ داری و پیچیدگی پر فریفتہ تھے۔ یعنی انھوں نے بیدل سے اپنی فکر کے لیے زبان اور لہجہ مستعار لیا، مگر ان کی فکر کو تمام و کمال قبول نہیں کیا۔ غالب کا مطمحِ نظر خیاّم، سعدی اور حافظ کی طرح ایک وسیع تر فلسفۂ حیات و کائنات تھا، جس میں تصوف ایک پہلو ہے اور بس۔ غالب کے تصورِ حیات و کائنات کی تشکیل میں اس پہلو کو بڑی اہمیت حاصل ہے، لیکن اسی کو سب کچھ سمجھ لینا غالب کی فکر کے دوسرے زیادہ جاندار، فعّال اور امکان آفریں پہلوؤں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہوگا۔ اسی لیے متصوفانہ فکر میں بیدل اور غالب کا موازنہ، شعری روایات کے حدود میں رہ کر ہمیں کسی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچا جاسکتا — بیدل صرف غالب کی فکر کا ایک سرچشمہ ہیں ، لیکن غالب نے دوسرے سرچشموں سے بھی فیضان حاصل کیا ہے۔ ہمیں ان سرچشموں کی معنویت اور اہمیت کو بھلانا نہیں چاہیے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی اہم ہے کہ بیدل کا متصوفانہ نظریہ، قدما کے مقابلے میں محدود اور بہت کم روادار تھا۔ غالب اپنی وسعتِ فکر اور روا داریِ مشرب کے لحاظ سے بیدل کے مقابلے میں ان صوفیا سے ذہنی طور پر قریب تر ہیں جن کا اصول یہ تھا کہ ’’صوفی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔‘‘ غالب کے یہاں اسلام بھی فانوس کی گردش کا ایک دور ہے۔ شمعِ حقیقت کی لَو ان کے نزدیک دیر و حرم کے فانوسوں کی محتاج نہیں ۔ ان کا موحّدانہ تصورِ حقیقت ترکِ رسوم ہے، ملّتوں کی زنّاری نہیں ۔ بیدل کے یہاں حقیقت کی روشنی مذہبِ اسلام کے فانوس میں قید ہے۔ وہ ترکِ رسوم کے بجائے شریعت کی پابندی پر زور دیتے ہیں ۔
بیدل اور غالب کے اس فرق کو جاننے کے لیے بیدل کے چند مخصوص تصوّرات کی تشریح بے محل نہ ہوگی۔
بیدل کائنات کی وحدت الوجودی توجیہ کے قائل ہیں ۔ ان کے نثری ٹکڑوں اور اشعار میں وحدت الوجود کے مضامین اس تکرار کے ساتھ آئے ہیں کہ اکثر مقامات پر وہ اپنے آپ کو دہراتے نظر آتے ہیں ۔ نکات، رقعات اور چہار عنصر میں انھوں نے وجودِ حق اور اس کے ظہور کے مختلف تنزّلات و درجات کو اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ۔ ان کا نقطۂ نظر مجموعی طور پر وہی ہے جو صوفیائے وجودیّہ کا ہے یعنی وجودِ مطلق و حقیقی بس ایک ہے، کائنات حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کی تجلّی ہے، عالم کی اصل عدم ہے، ابتدا و انتہا بھی عدم ہے:
بہ ہوا مکش چو سحر علم، بجہاں فسونِ ہوس عدم
عدمی عدم، عدمی عدم، ز عدم چہ پردہ دری عبث
اگرچہ بیدل عالم کی حقیقت کا کھلا ہوا انکار نہیں کرتے، تاہم عالم کو عدم قرار دے کر، صوفیائے وجودیّہ کے مسلک سے تھوڑے سے منحرف ہوجاتے ہیں اور وحدت الشہود کے قریب آجاتے ہیں :
لی مع اللہ وقتِ اشارۂ کیفیتی است از حضورِ احدیتِ حق کہ آن نشاء ثبوت دوام ندارد مگر بر معدومِ مطلق در تمیز آبادِ و احدیت ہماں کیفیت مصروفِ تجددِ امثالست و ہماں نشہ مقسومِ ساغرِ احوال و افعال گروہی کہ از رمزِ تحقیق جرعہ بخشیدہ اند و از دورِ یقین دماغی نرسانیدہ حصولِ نشا در طبیعتِ تاکِ توہم کردہ اند و بوے گل را در مزاجِ ہوا بہ رنگ آوردہ۔ ہرچند طراوتِ ظہور در نسقِ تکالیفِ شرعیہ معاینہ کنند از بے خردی برفع آں می کوشند و بآں کہ رونقِ ہستی در حفظِ مراتب آداب شاہد می نمایند، از ترکِ حیا آزادی می فروشند، غافل کہ ایں مشتِ خاک چہ قدر خونہا خوردہ تا نقشِ آدمیتی بستہ است و ایں یک نفس نسیم چہ مقدار در ضبط کوشیدہ است تا بہ شکل حبابی پیوستہ۔ نظم:1؎
جمعی از پیشِ خویش آگاہند
بر فلک رفتہ اند و در چاہ اند
بہ سُہانا رساندہ ظرفِ فراغ
طشتِ خورشید و ساغرِ ماہ اند
ہمچو فرزیں بہ کج خرامیِ جہل
ہم عنانِ عزیمتِ شاہ اند
بحر پیماے رشحۂ شبنم
کوہ پرواز ترّۂ کاہ اند
تا بہ گردند خاکِ جادّۂ شرع
گر ہمہ منزل اند، گمراہ اند
یہاں بیدل نے کائنات کو ’’معدومِ مطلق کہا ہے‘‘۔ وہ عوام کے لیے جادۂ شرع کی خاک بن جانا بھی ضروری گردانتے ہیں ۔ یہ شیخِ مجدّد کے مسلک کا اثبات ہے۔ اسی لیے وہ عدمِ مطلق کو وجودِ مطلق سے جدا مانتے ہیں ، اور دوئی یا غیریت کا بھی اثبات کرتے ہیں 2؎:
جہانی دریں واحدیت نواست
کہ از ہر شئے وحدتی جلوہ راست
نہ گردد عیاں بے گمان و شکے
ز تحقیق ہر یک بغیر از یکے
دریں ہر یک افعال و آثار گم
چو در پاے خوابیدہ رفتار گم
خروشِ سپش ہاے فعل و اثر
کہ دارد ز قانونِ قدرت خبر
ظہورش در آغوش ربطِ ہم است
اثر یک قلم در دوئی مدغم است
وگر نہ چو دُف زیں ہمہ بیش و کم
نہ خیزد نوائے بیکدست ہم
تب و تابِ ہنگامۂ اعتبار
ز امدادِ یک دیگر است آشکار
دریں بزم گر مہر و گر کینہ است
نمودار عکسِ دو آئینہ است
نتائج بہر جا اثر ریز شد
ز ربطِ دو واحد جنوں خیز شد
دو پایک چو شد متفق، کثرت است
دو کف تا بہم می رسد، شہرت است
زباں از دو سُو تا نہ غلطد بکام
خموشیست سازِ ظہورِ کلام
نہ باشد اگر ربطِ لوح و قلم
محالست در جلوہ آید رقم
ز کیفیتِ بادہ بے بادہ خوار
نہ از نشہ جوشد اثر، نے خمار
غرض موج ہاے محیطِ ظہور
کز افعال و آثار دارد نہ شور
مپندار بر روے ہم می زنند
ز وحدت بوحدت قدم می زنند
اگر عرض و اعراض و گر جوہر است
نواہاے امدادِ یک دیگر است
نیابی دریں بزمِ دانش گداز
یکے را بغیر از دوئی برگ و ساز
منی اعتبارِ جہانِ توئیست
سر و برگِ اثباتِ وحدت دوئیست
یکے بے دوئی باب تمیز نیست
توئی گر نباشی منی نیز نیست
اس نظم کو اگر شیخ مجدّد کے نظریۂ تخلیق کو سامنے رکھ کر پڑھا جائے، تو ان کی قائم کی ہوئی ثنویت بیدل کے اس دوئی کے فلسفے میں صاف نظر آسکتی ہے۔ دوئی پر یہ اصرار وحدت الوجود کی روایت سے مغائر ہے۔ بیدل اس دوئی کو وحدت تک پہنچنے کا وسیلہ بتاتے ہیں ۔ اس تضاد سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ممکن ہوسکتا ہے۔ وہ یہ کہ کائنات کے وجود کی نفی کی جائے یا شیخ مجدّد کی طرح اسے ظلّی اور غیر حقیقی وجود کہا جائے۔ شیخِ اکبر کے نزدیک اعیان، جو اشیائے عالم کی بنیاد ہیں ، عدم اضافی ہیں کیونکہ اگر یہ عدمِ محض ہوتے تو خدا انھیں امرِ کُن سے مخاطب کیسے کرتا اور پھر منطق کی رُو سے عدم سے وجود کا ظہور نہیں ہوسکتا۔ اس کے برخلاف شیخ مجدّد اعیان کو اعدام کہتے ہیں ۔ اعیان صفاتِ وجودِ حقیقی کے اعدامِ متقابلہ ہیں ۔ جن پر اعیان کا پرتو پڑتا ہے تو وجودِ اضافی کا ظہور ہوتا ہے، جو نمودِ بے بود سے زیادہ نہیں ۔ اس طرح شیخِ مجدد تخلیق و تکوین کی بنیاد صفات و اسماے الٰہی اور اعدامِ متقابلہ کی دوئی پر رکھتے ہیں ۔ بیدل اسی نظریے کے قائل نظر آتے ہیں ۔
اگر بیدل اور شیخ مجدّد کے نقاطِ نظر کی مماثلتوں کو تلاش کیا جائے، تو بیدل کے اس رویّے کا سراغ مل سکتا ہے جو غیرمسلموں کی طرف ان کے یہاں ملتا ہے۔ اس نقطے کو ہم بیدل اور غالب کی فکر کا نقطۂ انحراف بھی مان سکتے ہیں کیونکہ غالب بیدل کے برخلاف کٹّر وحدت الوجودی ہیں ۔ وہ شیخ اکبر کی طرح عالم کو حقیقی مانتے ہیں ، یعنی اس کے وجود کو ظلّی، وہمی یا قیاسی نہیں مانتے۔ عالم اور خدا کی عینیّت عالم کا بھی اثبات کرتی ہے جب کہ دونوں کی غیریت کا نتیجہ عالم کی نفی کی شکل میں نکلتا ہے۔
میں نے وجود کے سلسلے میں بیدل کے محض دو اقتباسات ’’نکات‘‘ کے دو قریبی مقامات سے پیش کیے ہیں ۔ نکات، رقعات اور چہار عنصر کے تفصیلی مطالعے اور طویل اقتباسات سے بھی انہی نتائج کی تصدیق ہوگی، جن تک ہم یہاں پہنچے ہیں ۔ البتہ بیدل کی غزلوں اور بہت سے اشعار کو ان کی نثری تحریروں کے سیاق و سباق سے جدا کر کے پڑھا جائے، تو وہ اکثر مقامات پر وحدت الوجود کے نشے میں سرشار نظر آئیں گے۔ وحدت الوجود کا یہ اثبات اس لیے بھی فطری ہے کہ شہودی توحید والوں کو بھی اس مقام سے گزرنا ہی پڑتا ہے جسے ’’جمع الجمع‘‘ کہا گیا ہے، جہاں عالم اور خدا میں دوئی نظر نہیں آتی۔ مگر یہ مقام نہ تو شیخِ مجدّد کے یہاں معرفت کا آخری مقام ہے، نہ بیدل کے یہاں ۔
غالب نے وجود و شہود کے فرق پر شاید اسی طرح سے غور بھی نہیں کیا ہوگا، جس طرح بیدل نے کیا۔ بیدل جن صوفیانہ ریاضتوں ، مجاہدوں ، مراقبوں پر زور دیتے ہیں ، غالب نے ان پر نہ کبھی سنجیدگی سے غور کیا ، نہ عمل۔ وہ حقیقت کی اصل تک صوفیا کے ان طریقوں سے پہنچنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ ان کے لیے تو شہود ہی معرفت کا وسیلہ تھا، وہ شہود اوروجود میں فرق نہیں کرتے۔ مشہود کائنات ہی ان کے لیے وجودِ حقیقی کا آئینہ خانہ ہے۔ اسی لیے وہ کائناتِ مشہود و محسوس کو حقیقی مان کر اس کے ہر جلوے سے اپنی نظر کی پیاس اور اپنے احساس کی تشنگی بجھانا چاہتے ہیں ۔ جہاں وہ کہتے ہیں :
ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز ، جو جاگے ہیں خواب میں
اس وقت بھی ان کے یہاں دوئی کی بجائے عینیّت ہی پر اصرار ملتا ہے۔ عالمِ شہود ان کے لیے عالمِ خواب ہے، شہود میں حواس کی بیداری، خواب کی بیداری سے زیادہ وقیع نہیں ۔ اسی لیے وہ شہود کو ’’غیبِ غیب‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی شہود کے پسِ پردہ بھی (یہ پردہ ہماری غفلت نے ڈال رکھا ہے) وہی وجود حقیقی کار فرما ہے۔ غالب کے یہاں بعض اشعار روایتی تصوّف کے رنگ کے بھی ملتے ہیں ، مثلاً جہاں کہیں انھوں نے عالم کی نفی کی ہے:
ع ’’عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے‘‘ یا ع ’’ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘
ع ’’شاہد ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالم‘‘
عالم کی اس نفی کو ہم شہود کا ’’غیبِ غیب‘‘ ہونا بھی سمجھ سکتے ہیں ، مگر ضروری ہے کہ کائنات، مظاہرِ کائنات اور مادّی اشیاء سے متعلق غالب کے حقیقت پسندانہ رویّے کو فراموش نہ کریں ۔ بیدل وجودِ انسانی کی بے اعتباری پر اسی نقطۂ نظر سے زور دیتے ہیں 1؎۔
وجودِ تو لفظیست حیرت رقم
کہ تحریر ناید بچندیں قلم
نماید ز ہر صفحۂ اعتبار
بخطِّ خفی و جلی آشکار
بخارج اگر داد عرضِ شہود
حبابیست از جلوہ اش درنمود
نہ جنباں شد آں لفظ اصلا زجاے
نگردید از ذہنِ کاتب جداے
وگر حک شود آنچہ نفسِ نمو ست
دلِ کاتبش لوحِ محفوظِ اوست
تو ایں لفظ معدومِ ہستی مداں
بغیر از غبارِ توہّم مخواں
خیالت بہ موہومے آشفتہ است
وگرنہ بقا در عدم خفتہ است
نگہ گرچہ سیرِ جہاں می کند
سفرہاے وہم و گماں می کند
نکردست بر ہیچ منزل عبور
نرفتست از خانۂ چشم دُور
جنوں نقش تحقیق واژوں زدہ است
ز آئینہ تمثال بیروں زدہ است
کس از نقشِ ایں پردہ آگاہ نیست
کہ می تازد و ہیچ سُو راہ نیست
چہ مقدار حیرت فسوں رفتہ است
کہ ہم درخود، از خود بروں رفتہ است
دنیا بے بود ہونے کے ساتھ، نظر کا فریب بھی ہے1؎:
آتش است ایں کہ رنگ می خوانی
عبرت است ایں کہ جلوہ می دانی
ثمرِ آبِ دیدہ است ایں جا
خونے از دل چکیدہ است ایں جا
نتواں صحنِ گلستاں فہمید
مرقدِ صد ہزار مرگِ شہید
اسی لیے وہ دنیا اور انسان دونوں کا ذکر حقارت سے کرتے ہیں :
زمعاملاتِ جہان کد تو برآں کزیں ہمہ دام و دَد
عف عف سگے بہ سگے خورد، لکدے خرے بہ خرے رسد
اور پھر مشورہ دیتے ہیں 2؎:
ہمہ غیب است، شہود ایں جا نیست
جملہ اخفا ست نمود ایں جا نیست
اعتبارات ہمہ اوہام اند
تو عدم باش، وجود ایں جا نیست
عالم اور خدا کی ثنویت کے ساتھ عالم کی نفی کا یہ منطقی نتیجہ ہے، جس حد تک بیدل اپنی متصوفانہ فکر کو استدلال کے ساتھ پہنچانا چاہتے ہیں ۔ اس نظریے کو دوسرے مقام پر یوں بیان کرتے ہیں 3 ؎:
آیینۂ تحقیق مخبر است کہ ہرچہ از عالمِ غیب بہ شہادت خواہد رسید و آنچہ از خفا بظہور خواہد انجامید حقیقتِ ایں کس محیط اسرارِ او نیست و مرآتِ علامات و آثارِ او مثلِ پریدن چشم پیش از گل کردن تقدیر خیر و شر و طپیدنِ دل قبل از ظہورِ اسبابِ نفع و ضرر چوں عقل جزئی بحسبِ اکتسابِ علومِ امکانی مملوست از امتیازِ مراتبِ شک و یقین و محشا بعباراتِ اوہامِ شبہ و تلقین در حکمِ تحقیق ناگزیر اشتباہ شماریست و در انکشافِ رموزِ یقین بے اختیار تغیرنگاری۔ اگر راہی بخلوتِ اسرار می شگافت حلقۂ تغیر نمی گردیدہ۔ اگر عقدہ ٔشہادت می کشود، بر رشتہ ٔ تقریر نمی تنید۔ پس توانی کہ جمیع حقائق بے واسطۂ عقل بر تو مکشوف است و تو بہ علّت امتیاز در شغلِ حجاب آرایی مصروف مانعِ شہودِ حقیقی۔ ہمیں معلوماتِ عقل جزئی ست کہ از طورِ یک دیگر کسب نمودہ عقلِ کلّی بر کیفیتِ آن اصلا چشم نکشودہ:
فریاد کہ دوکانِ ستم وا کردیم
خورشید بخاکِ تیرہ وا کردیم
کثرت پیش از تمیزِ ما وحدت بود
آئینہ شدیم عکس پیدا کردیم
اس کے آگے لکھتے ہیں 1؎:
باہمہ بے تعیّنی غیرعبارتِ تعینِ ماست یعنی حصولِ توہّم پیدایی و عینِ اصلاحِ بے صفتی، یعنی تغافلِ او ضاعِ خود نمایی۔ صفتِ بے ذات معدوم است، تاملّی باید فرمود و ذاتِ بے صفت موہوم چیزے نمی تواں نمود۔ ہرجا موہوم صفات ہستیم ذاتیم و اگر ہمہ ذات باسم آمدہ ایم، صفاتیم۔
اس بیان کا خاتمہ وہ ان اشعار پر کرتے ہیں :
گہر و محیط توہمے، نہ سفر گزیں نہ اقامتی
قِدم و حدوث تخیّلی نہ شکستگی نہ سلامتی
چمنت حقیقتِ بے خزاں ، وطنت طرب گہٖ جاوداں
اَلَمی بہ خود نہ بری گماں کہ تو عبرتی نہ ندامتی
بفلک فروغِ تو در نظر بزمیں بہارِ تو جلوہ گر
بہ چمن سحاب و بگل سحر، ہمہ جا ظہورِ کرامتی
چو ز خود بخود نظری کنی، روی از خود و دگری کنی
تو مگر چنیں ہنری کنی کہ بگویمت چہ علامتی
بہ بیاں کمال شریعتی، بعمل شکوہِ طریقتی
بخیال خیرِ حقیقتی، تو قیامتی، تو قیامتی
یہ اشعار حمد کے ہیں ۔ مگر ان میں بیدل کا نظریۂ وجود و تکوینِ کائنات بھی موجود ہے۔
اس طویل اقتباس سے ایک تو وہی بات سامنے آتی ہے، جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، یعنی یہ کہ ہمارے آئینے نے عکوس پیدا کیے، اس طرح ہمارے اور خدا کے وجود کی دوئی سے اعتبارات کی کثرت ظہور میں آئی۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ذات اور صفات کی دوئی عالمِ کثرت کے ظہور میں آنے کا سبب بنی۔ صوفیائے وجودیہ اور معتزلین صفات کو عینِ ذات مانتے ہیں جب کہ اشاعرہ، ماتریدیہ اور شیخ مجدّد کے حلقہ بگوش صفات کو زائد از ذات سمجھتے ہیں ۔ بیدل کا مسلک بھی وہی ہے جو وحدت الشہود کا ہے۔
تیسرا نکتہ اس بیان میں یہ ہے کہ عقلِ جزئی، یعنی کثرت بین عقل (جو سائنس و فلسفہ کی عقلِ تحلیلی ہے) وجود کے امتیازات و اعتبارات قائم کرتی ہے، جب کہ عقلِ کلّی جو وحدت کی محرم ہے (اسے الہام، وحی، کشف یا وجدان کہاجاسکتا ہے) ان امتیازات و اعتباراتِ وجود کی نفی کرتی ہے۔ اسی سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عقل معرفت کا وسیلہ نہیں بلکہ یہ ہمیں کثرت کے توہم میں مبتلا رکھتی ہے۔ جب کہ معرفتِ حقیقی، جو حضوری اور وہبی عقل کلی ہے، اس توہّم کی نفی کرتی ہے۔
چوتھا نکتہ یہ ہے کہ بیدل شریعت کو اس معرفت کا قال یا بیان سمجھتے ہیں اور طریقت کو اس بیان کا عملی پہلو، یا حال۔ بیدل کے یہاں شریعت و طریقت کی دوئی حقیقی دوئی نہیں ، بلکہ دو مختلف طریقہ ہاے فکر کا نتیجہ ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے۔
عقل اس معرفت کی راہ میں حائل ہے۔ اس لیے وہ عقل کے ساتھ علم و فن کی بھی نفی کرتے ہیں :
عقلِ موہوم را چہ علم و چہ فن
شخصِ معدوم را چہ ما و چہ من
عقل و علم و فن کا یہ انکار خود بخود کثرت اور عالم کے وجود کے انکار پر منتج ہوتا ہے۔ جہاں بیدل نے تقلید کا انکار اور رسم کی پیروی سے انحراف کیا ہے، وہاں بھی تعقّل پسندی کا رستہ اختیار نہیں کرتے1؎:
طبائع را تقلیدِ اوضاعِ یکدگر رہزن تحقیق است، و تبعیتِ عادات و رسوم مانعِ سفرِ منزلِ توفیق۔ اکثر استعدادہا در حجابِ قوت از فعل محروم ماند و یکے از انہا عنان خیال بہ عرصۂ وقوع نہ گرداند۔ فرصت سرِ زانو آں قدر دور ساخت کہ بہ سعی دست ہاے برہم سودہ آوازش تواں داد و کلفت تضیع اوقات بر روے حقیقت دیواری برنیاوردہ کہ بچاکہاے گریبان ندامت راہے تواں کشاد۔ جمیعتِ دل بہ شرطِ عزلت ہمہ را میّسراست، اگر ہم صحبتاں معذور دارند۔ بمطالعۂ نسخہ تسلی ہرکس در بغل دارد، اگر ہمدرساں بحالِ خود واگزارند۔ آب در ہر طبعی کہ راہ یافت مائل بہ تکلیف تری نمودن است و آتش بر ہرمزاج کہ غالب افتاد، سرگرم دوکانِ حرارت کشودن۔ دیریاں را بہ حکمِ تسلّطِ رسوم سر از جیب بر نیاوردہ، در خروشِ ناقوس غوطہ خواریست و مسجدیاں را سرِ حسابِ ادراک نفس ناگردیدہ، ہماں تعلّق سُبحہ شماریست۔ نہ برہمن را کشاکشِ دامِ اختلاطِ زنّارِ تعلق گسیختن تا بہ تامّل کوشد کہ ناقوسِ دیرستانِ فطرت چہ آہنگ دارد۔ نہ شیخ را از آفاتِ رجوعِ خلق بہ حصارِ تنہائی گریختن تا فہم نماید کہ بیک طپیدنِ نگاہ کعبۂ دل چہ سبحہ می شمارد و ناچار نقدیکہ در گرہِ خویش نہ بستہ اند، ازکیسۂ غیر می شمارند و سرے کہ بخیالِ خود نہ ورزیدہ اند، از گریبانِ دیگراں بر می آرند۔ از غلغل آباد آفت کدۂ این و آں مگر در پناہِ خاموشی گریزی تا بے تقلیدِ زبانہا حرفے توانی فہمید و از صدمہ زارِ غولستانِ وہم و ظن گوشِ التجا بگیری، تا از پردۂ غیب نوائے توانی شنید:
انگاریِ غیر باش، تصدیق اینست
وا کرد بدل دلیل، توفیق اینست
تبعیتِ خلق از حقت باطل کرد
ترکِ تقلید گیر، تحقیق اینست
————
شدہ فہم مقصد عالمی زتلاشِ ہرزہ قدم غلط
تہہ پا ست کعبہ و دیر، اگر نکنیم راہِ عدم غلط
ز تمیز جادہ و منزلست المِ تردّد نیک و بد
خطِ پا بہ دائرہ می رسد سر اگر شود بہ قدم غلط
اس بیان میں بیدل بظاہر شیخ و برہمن اور دیر و حرم کے تفرقوں کو بے بنیاد بتاتے ہیں اور دونوں کو تقلید و رسوم کا اسیر سمجھتے ہیں ۔ مگر وہ ’’فہم ہرزہ قدم‘‘ کی رہنمائی پر بھی زیادہ اعتبار نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک تحقیق ’’ترکِ تقلید‘‘ ہے۔ یہ ترکِ تقلید شاہ اسماعیل شہید اور ان کے متبعین کے غیر مقلّدانہ رویّے سے قریب ہے۔ ترکِ تقلید کا رستہ ان لوگوں کے نزدیک بھی، اور بیدل کے نزدیک بھی، معرفت کا رستہ ہے، جو عقل کی رہنمائی میں طے نہیں ہوسکتا، بلکہ وحی و کشف کے سہارے ہی کٹ سکتا ہے۔ بیدل اور ان کے ہم مشربوں کی تحقیق بھی عقلیت کی ہم عناں نہیں ، بلکہ اس کی مخالف ہے، جب کہ غالب کی تحقیق کا راستہ عقلیت پسندی اور تشکیک کا رستہ ہے۔
بیدل اور غالب میں تقلید گریزی راہِ عوام سے گریز کے مترادف ہے۔ مگر دونوں میں اس اتفاق کے باوجود ایک بنیادی اختلاف ہے۔ بیدل عوام کو عارفوں کے گروہ سے الگ ہی نہیں مانتے، بلکہ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ وہ فطرتاً معرفت حاصل کرنے کے اہل ہی نہیں ۔ غالب کی عوام گریزی ان رسوم و تصوّرات اور اقدار سے گریز ہے جن سے عام لوگ چمٹے ہوئے ہیں اور جن کو غالب مردہ سمجھ کر توڑنا چاہتے ہیں ۔ غالب کہتے ہیں :
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسّر نہیں انساں ہونا
بیدل نے بھی یہی بات کہی ہے1؎:
درجہانِ خلق ازہر خلقتی، آدم کم ست
باز در اصنافِ آدم، آدمِ محرم کم ست
بوے اُنسے در مزاجِ دہر نتواں یافتن
آں سوے ایں انجمن گویاش در عالم کم ست
اس کا سبب بیدل کے نزدیک یہ ہے کہ دنیا غبارِ غفلت سے آلودہ ہے، اہل دنیا، تن پروری سے مردہ ہورہے ہیں ، جذبات نے دماغوں کو دھواں دھواں کر رکھا ہے۔ بیدل کے نزدیک عارفوں کی صحبت ہی ایسی پناہ گاہ ہے جہاں اس تاریکی سے بچاؤ ممکن ہے۔ بیدل نے اپنے زمانے کے اخلاقی زوال اور عوام کی دنیاداری اور تن پروری کا نوحہ لکھا ہے2؎ ۔لیکن وہ عوام کو عرفان کی سطح تک لانا ضروری سمجھتے ہیں ، نہ ممکن۔ عارف و عامی کے فرق پر صوفیاے متقدمین نے بھی زور دیا ہے، مگر ان کے نزدیک عرفا و عوام کا فرق مراتبِ علم کی وجہ سے ہے، فطرت کی بنا پر نہیں ۔ بیدل کے خیالات کا ایک نمونہ دیکھیے3؎:
حکم الفقر النفس واحدِ بمناسبتِ محرمیتِ کلّی ست، یعنی وفور نشاء وحدت کہ دراں مقامِ سازِ اعتبار رنگ مغایرت نیافتہ است و توہّم دوئی پردۂ یکتائی نشگافتہ بحسبِ لطفاتِ آشنائیِ آں مرتبہ ہرگاہ بمبالغۂ توصیفِ غیرہم کوشیدہ اند، فی الحقیقت خود را در نقابِ اشارتش پوشیدہ اند۔ اگر بہ آرایش عبارتی پرداختہ اند، جز طرح شہودِ معنیِ نینداختہ و بیگانگیِ طبائعِ عوام از یک دیگر باعتبارِ تشخصّات جزویست یعنی امورِ عالمِ کثرت کہ دریں چار سو جز اجناس مخالفتِ اشکال و اثقال برہم نچیدہ اند غیر از اسبابِ تمییز سود و زیاں بعرضِ اظہار نرسیدہ۔ بہ سبب کثافت نمای ایں مواقع اگر ہمہ چشم برصورتِ خود می کشایند چوں عکسِ آیینہ غیر از نفسِ دوئی مشاہدہ نمی نمایند، و ہر چند سر بجیبِ خود فرو می برند، چوں شعلۂ قِدَم جز بکام اژدہا نمی سپرند۔ ایں جا متفق ست کہ ناقص طبعانِ دبستانِ کونی از فہم کما ہی در پیشگاہِ الٰہی دور ند و پست فطرتانِ طبائع ادنیٰ در درکِ حقائق اعلیٰ مقدورِ کیفیتِ معین از لطیف مطلق چہ نماید و رنگ مکدّر از صفائی آیینہ چہ پردہ کشاید:
حالِ عالی فطرتان از نسبتِ ادنیٰ مپرس
پر زمین گیرست خاک از عالمِ بالا مپرس
آشنایانِ حقیقت از جہاں بیگانہ اند
وحشتِ احوالِ مجنوں دیدی، از لیلیٰ مپرس
محرمانِ حال ہم در بزمِ حال آسودہ اند
زیں عمل فرسودہ طبعانِ ہوس پیما مپرس
فکر شو تا یابی از نیرنگیِ معنی نشاں
از نگہ غیر از سراغِ رنگِ صورت ہا مپرس
ہر کس ایں جا از مقامِ خویش می گوید خبر
جُز حدیثِ گاو و خر از مردمِ دنیا مپرس
ایک اور جگہ لکھتے ہیں 1؎:
در عنصر آبادِ کیفیتِ ظہور بعض سنگِ محض اند بحکم طبیعتِ افسردگی رواج، و بعضی آیینہ بمقتضاے طینت لطافت امتزاج۔ آیینہ گل کردنِ طبائع نتیجہ، رفع حجابست یعنی کسب وداعِ اوہام کدورت و سنگِ نقش بستن حصولِ آرایش نقاب یعنی تعلّق دام گاہِ صورت در طبعِ آیینہ فطرتاں آبِ غبارِ خاک شکستہ است، در مزاج خارنشیناں خاک بر روے آب نشستہ۔ لاجرم آنجا ہرچند خامۂ نقش بہ جنبش آمدہ باشد، اثرش بر صفحۂ شہود منقوش ہست و ایں جا اگر ہمہ خنجرستان ست، لوحِ صفا منقوش ؎
غفلت و تحقیقِ ما را اعتبار آیینہ است
ہر طرف اندیشہ می نازد دو چار آیینہ است
گر نگہ بالد مقابل، جز بہار جلوہ نیست
ور بہم آوردۂ مژگان غبار آیینہ است
در جہانِ بیدماغی یاس مطلب روبروست
در نگارستانِ امید انتظار آیینہ است
خوب و زشتِ اعتبار خلق را تکرار نیست
جلوہ درکارست ایں جا، صد ہزار آیینہ است
انسان کی غفلت شعار فطرت کا بیدل نے اس طرح ماتم کیا ہے1؎:
افسوس کہ ما دامنِ پندار گرفتیم
خورشید عیاں بود، شبِ تار گرفتیم
از غفلتِ دل معنیِ بے پردہ عیاں ماند
صد جلوہ در آیینۂ زنگار گرفتیم
در گلشنِ تحقیق نشستیم بہ تقلید
ایں باہمہ رنگست کہ دیوار گرفتیم
عالم ہمہ یک نسخۂ آثار شہود ست
غفلت چہ فسوں خواند کہ اسرار گرفتیم
آوارۂ اوہام نمودیم یقیں را
یعنی ز تامل رہِ گفتار گرفتیم
سودائیِ وہم است تخیّل چہ تواں کرد
از تنگیِ دل خانہ بیازار گرفتیم
بیدل کے لیے انسان کا مقصدِ حیات معرفتِ حق ہے۔ جو طبقۂ انسانی اس معرفت کی راہ سے غافل اور اس جذبے سے محروم ہے، وہ انسان نہیں ، اسی لیے وہ اس کا ذکر افسوس اور حقارت سے کرتے ہیں ۔ بیدل کے یہاں انسان کی غفلت کا وجود ی تصوّر ہے۔ مگر اس میں وہ فعّالیت، توانائی اور انسان دوستی نہیں جس نے تصوف کو قرونِ وسطیٰ میں سماجی انقلاب، اخوت و مساوات اور آزادی کا علمبردار بنا دیا تھا۔
بیدل کا تصوّرِ انسان مابعد الطبیعیاتی ہے۔ ان کی فکر کا مرکز نہ تو کائناتِ مادّی ہے، نہ انسان، بلکہ وجودِ حقیقی ہے۔ کائنات اور انسان کا ذکر ان کے یہاں خدا کے ضمن میں آتا ہے، انسان ان کے لیے مقصود بالذّات نہیں ہے2؎۔
چیست انساں ، حرف و صوتِ فارغ از نطق و بیاں
جلوۂ نیرنگیِ در پردۂ حیرت عیاں
یک نفس پروازِ آہنگش ز ہستی تا عدم
یک قدم جولانِ عزمش بے نشاں تا بانشاں
شوخیِ مضمون اُو حرفِ عبارت ہاے خاص
غیب در دل، روح در فکر و مثال اندر زباں
زیں صدا تمثالِ بال افشاں دو عالم زیر و بم
زیں نفس طینت عیاں صد رنگ پیدا و نہاں
نسخۂ اسرارِ تحقیقش اگر برہم زنی
چوں سخن جز معنیِ محضش نیابی درمیاں
آب شد اندیشہ زیں افسونِ نیرنگی مپرس
سوخت تب ہای ازیں افسانۂ عبرت مخواں
از طلسمِ خاک طوفانِ سخن سحر است و بس
نیست جُز اعجاز ہر جا سُرمہ بردار د زباں
————
آں نغمۂ بے نشانی پردۂ راز
کانساں زنواے دوست مخرج پرواز
در آیینۂ جماد موجِ رنگ است
در طبعِ نبات بوے حیواں آواز1؎
————
بہر رنگ آفاق حرفست و بس
نفس در عبارات حرفست و بس
حقیقت کہ آنسوے ما و منست
چو بے پردہ شد حرف پیراہنست
چہ مقدار بے تابِ اظہار شد
کہ آخر در انساں نمودار شد
در انساں نمودار گردیدنش
بہ تحقیق خویش ست پیچیدنش2؎
در اعتبارستانِ نتائجِ عنصری حقیقت خود را یک شخص تصوّر کردنست باید نمود کہ مرتبۂ جماد طبیعتِ او ست بحکم ثبوتِ جوہرِ فنا و مرتبۂ نبات ہیولاے آں بحسبِ میلانِ ہواے نشو و نما و مرتبۂ حیوان عرض پیکر باظہارِ قدرتِ حِس و حرکات ورتبۂ انساں مشخّص مصورِ فطرت جامعِ آیات ؎
گر ہست جماد آینہ ات در زنگست
و ز نامیہ شوقِ تو بعرضِ رنگ است
حیواں آثارِ ناشناساییِ تست
اے رمزِ عیاں ! ایں چہ بلا نیرنگ است1؎
انسان کی فطرت پر بیدل نے نکات کے مختلف مقامات پر روشنی ڈالی ہے، یہاں ان کی تفصیل طوالت کا باعث ہوگی۔ چند اشعار اور دیکھ لیجیے۔ انسان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں 2؎:
اے عدم زادۂ وجود طراز
نیستی نقشِ حیرت آینہ ساز
اوّلت ہیچ و آخرت معدوم
وسط اندیشہ ہاے نا مفہوم
در شکنج دو نیستی جایت
ویں ہمہ شوخیِ من و مایت
کاش زیں ما و من خبر گیری
پردۂ گوش در نظر گیری
نہ صدایت شنیدنی دارد
بسکہ پیدا ست دیدنی دارد
درس ما و منی کہ می خوانی
از زبانِ حدوث می دانی
نقدِ فطرت بہ ہیچ و پوچ مباز
قدمت اینکہ می دہد آواز
تو برآنی کہ من مقیمِ تنم
نیستی بانگ می زند کہ منم
اس کے آگے ایک حکایت کے ذیل میں کہا ہے3؎:
حرف چندے کہ صرف انسان است
چو تامّل کنی نہ آسان است
خاک گردیدن و نیاسودن
نیست مشکل چو آدمی بودن
کاین طلسمِ مراتبِ چپ و راست
ہمہ رنگ است و ضبطِ رنگ بلاست
گاو و خر از تکلّف آزاد است
بار بر دوشِ آدم افتاد است
در مقامے کہ نامِ آدم نیست
گر ہمہ خر تواں شدن غم نیست
لیک آں جاکہ نسبتِ بشریست
ایں قدر نیز یک طویلہ خریست
آدمی کی عظمت کا راز اسی میں ہے کہ وہ صاحبِ مرتبۂ جامع ہے، اور ولایت و نبوت کے مناصب اسی کے لیے مخصوص ہیں ۔ بیدل کے نزدیک کمالِ الٰہی جامعِ صفاتِ جمال و جلال ہے۔ وہ نبوت کو جمال کا مظہر اور ولایت کو جلال کا مظہر جانتے ہیں ۔ مقاماتِ نبوت و ولایت کے اس فرق سے قطعِ نظر، جس کا انھوں نے کئی جگہ ذکر کیا ہے، نبوت کے خاتم، پیغمبرؐ اسلام کو وہ عام صوفیا کی طرح تنزل اول واحدیت پر فائز مانتے ہیں ۔ واحدیت ہی مقامِ محمدی ہے۔ تخلیقِ کائنات کی تشریح کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے1؎:
معنی بپایانِ نسخۂ اسرار از معمّائی تامّل لطیفۂ واشگافتہ اند و از نغزِ تفکّر معانی خاصۂ دریافتہ کہ حصولِ مابینِ دو عدم لفظ مع است و مراد ازیں معیّت امتیاز رب و مربوب یعنی فہمِ مرتبۂ دوئی و ادراکِ حقیقتِ منی و توئی است بحکمِ تمیزِ ایں مرتبہ غیبِ مطلق را باشارتِ احدیت منسوب کردہ اند و بواسطۂ ظہورِ ایں نتیجہ از شہادتِ اضافی عبارت و احدیت برآوردہ:
حق می گوید نہ من ازل، نے ابدم
آنسوے شمار لا تعیّنِ احدم
یکتائیِ من کرد خیالِ دو عدم
جوشید مع از میاں بغرضِ عدوم
اسی خیال کو دوسری جگہ یوں ادا کیا ہے2؎:
زآغوشِ احد یک میم جوشید
کہ بیرنگی لباسِ رنگ پوشید
نہ کرد آں جلوہ جُز ساز نگاہے
نبود آں میم جز بر خود گواہے
ز احمد بر احد چیزے نیفزود
اگر میمے فزود آں ہم یکے بود
محمد ظاہر و باطن خداوند
ندارد موج جُز با بحر پیوند
نگنجد در احد غیر از احد ہیچ
یکے در یک گم است، ایں جا عدد ہیچ
بیدل کے نزدیک تقاضائے جمال نے نورِ محمدی میں اپنا اظہار کیا، اور اسی نور نے بیتاب ہو کر کائنات و مظاہر و اشیائے کائنات کو خارجی ظہور بخشا۔ ’’چہار عنصر‘‘ کے چوتھے عنصر میں انھوں نے تخلیق کے درجات کا تفصیلی بیان کیا ہے۔ 1081ھ کی ایک رات تھی، جب کہ غنودگی کے غلبے کے ساتھ خواب کے عالم میں بیدل نے مختلف مراتبِ ظہور کا مشاہدہ کیا۔ اس خواب کے متعلق کہتے ہیں :
گرچہ بیداری چراغِ بزمِ آگاہ است لیک
خواب یکسر دولتِ بیدار دارد در کنار
پردۂ غفلت کمینگاہِ ظہورِ راحت است
ریشۂ خوابیدہ غافل نیست از طبعِ بہار
با ہمہ در سایۂ ابرِ کرم خوابیدہ ایم
تاچہ وقت آگہ شود فطرت ز فضلِ کردگار
کچھ ساعت غلبۂ حکم جلالی سے انھوں نے جہانِ احدیت کا نظارہ کیا۔ اس کے بعد نسیمِ تخلیق موجزن ہوئی اور جمالِ خداوندی نے ایک کے بعد ایک نقاب حقیقت کے چہرے سے ہٹانا شروع کیے۔ وہ ایک وجودِ حقیقی بیشمار آئینوں میں عکس انداز ہوا۔ اس کی تفصیل سے متصوفانہ نظریۂ تخلیق کے مختلف مراتب، جس طرح بیدل پر مکشوف ہوئے، سمجھ میں آسکیں گے1؎:
ساعتی چند غلبۂ حکمِ جلال محوِ جہانِ احدیتم داشت تا آنکہ نسیم گلشنِ وفاق یعنی تقاضاے بے نقابی ہاے جمال بر اجزاے بے جسم گماشت و آں دوراں اتفاقی بود، از حضور نشائِ اعتدال و زماں آگاہی از لطائفِ سعادت اقبال نخستین، قدمے کہ درکارگاہِ تامّل کشودم گردشِ رنگِ شیونات داشتم تجدّدِ نگار ہورِ حقایقِ اشیائِ اولیں قدمی کہ در ریاحین کدۂ تخیّل زدم حرکتِ نفسی دیدم خروش آمادۂ کیفیاتِ ارواح و اسماء ناگاہ فراغ جمیعتِ حواس انجمنِ انوار جبروت پرداخت و حضورِ ہنگامۂ قوی طرحِ مجمعِ ملکوت انداخت۔ آثارِ مراتبِ عقول از پسِ زانوے تعقل مشاہدہ کردم و اسرارِ مدارجِ نفوس در سوادِ نظرِ طبیعت بمطالعہ در آوردم۔ دودہاے دماغ خیمۂ اقتدار می بر افراخت۔ اعتبارِ پایۂ عرش معین دیدم و غرائف مسامات سامان چشمکے کرد بروشنی بروج و ثوابت وا رسیدم۔ طفلِ دبستان ربوبیتم، سوادِ معنی روشن نمود، تربیت زحلِ ہر قسم نمود پیوست و تلمیذ درسگاہِ فطرتم جریدۂ سبقے بعرض آورد اوراقِ کمال بر جس دفتر فضل شیرازہ ام بست۔ جوہر آیینۂ تحقیقم بقطع شبہات غیرتیغ معرفتی آب داد پردۂ خواص بہر دم درید و تمغۂ پیشانی یقینم برفع حجب اوہام طرفِ نقابے شکست و شعشۂ جمالِ مہر بیروں تابید۔ نواے حرکات موزونیم گوش استعدادی برہم بالید، زمزمۂ بساطِ ناہید خروش بے پردگی انگیخت و جنبشِ نبضِ تاملم عقدِ اناملے وا شمردبر می سبد آہنگان دیوانِ عطار دریخت۔ بے پروائی ہاے شخص اوضاعم تا لباسِ تجلی تازہ نماید۔ ہیئات قمری کسوتِ کم و کاست پوشید۔ جنوں جولانیِ گرمی ہاے شوقم تاگردِ دامنی برافشاند۔ غرورِ عالم تاری بر خود بالید۔ اعتدالِ شوخیِ تقریرم تا بہ اصلاحِ آشفتگیِ نفس پردازد۔ صبحِ اقبال ہوا بستن دمیدن از برگردد۔ شرم جوہرِ آگاہیم تا بہ پیشِ پا نظر اندازد و صفائیِ آیینۂ آبِ تمثال عرق بعرض آوردہ سبقِ معنیِ خود داریم رتبہ بہم رساند۔ پیکرِ خاک استخواں بندیِ تمکینِ جمادات پرداخت و رفعِ کلفتِ افسردگیم را اہتزاز می گرداند۔ حوصلۂ نباتات بسامانِ نشوو نما بیروں تاخت۔ مادۂ ہیولاے طبیعت را قابلِ ارشادِ آدمیّت گماں بُردم۔ عالمِ حیوان منقادِ احکامِ تو ہم گردید منقادِ بالقوّہ استعدادِ دماغ را شایستہ انشا جامعیت اندیشیدم۔ حقیقتِ انسان بمعرض تحقیق رسید۔ القصّہ بسوادِ عرصۂ تنزّل عناں گُسیختم۔ جُز سجدۂ آستانِ عزتم گرد آگاہی نداشت و ہر قدر بقضاے عالم ترقی جنوں انگیختم غیراز ارتفاعِ بارگاہ تعظیم علمِ یقین نیفراشت:
حیرتے آمد بہ پیشم زیں تماشاگاہِ راز
گر ہزار آیینہ آں کیفیتم باور نبود
شمعِ ایں نہُ انجمن از جیبِ من فانوس داشت
بر سرِ ہفت آسماں جز دامنم چادر نبود
ہرچہ گل کرد از سوادِ منظر پست و بلند
جُز کشاد و بستِ مژگاں سازِ بام و در نبود
رنگ خلد از گردِ دامانِ تخیّل ریختم
گر نمی زد آرزو، ساغر بخوں کوثر نبود
آتشے دیگر نیامد در نظر جُز وہمِ غیر
دوزخے جُز خجلتِ طبعِ ہوس پرور نبود
باہمہ جوشِ جنوں سر بر نیاوردم ز جیب
ہر قدر پرواز کردم جُز بزیرِ پر نبود
ظرف و مظروفِ خراباتِ اثر بر ہم زدم
جز ہماں یک نشّۂ مطلق مے و ساغر نبود
آگہی گر داشت غیر از من کسے دیگر نداشت
محرمے گر بود من بودم، کسے دیگر نبود
عالمے بودم محیطِ تحت و فوق و پیش و پس
غیرِ پایم زیرِ پا و جز سرم بر سر نبود
اس مقام پر بیدل کو پہلے رسولِ ختمی مرتبت اور پھر ولایت مآب حضرت علی کی زیارت ہوتی ہے۔ یہاں انھوں نے نبوّت و ولایت کے مراتب اور وظائف بیان کیے ہیں ۔ اس مقام سے نعت کے بعض شعر درج کیے جاتے ہیں 1؎:
آں کہ امکاں تا وجوبِ واحدیت تا احد
صورتِ تمثال از آیینہ، زانوے اوست
رونقِ ایں ہفت محفل از چراغش پرتوے
جوشِ ایں نُہ بحرِ اخضر رشحۂ از جوے اوست
از سوادِ ملک ہستی تا شبستانِ عدم
ہر کجا مژگان کشایی، سایۂ گیسوے اوست
ہرچہ آید در خیال و آنچہ بالد در نظر
یک قلم جوشِ بہارستانِ رنگ و بوے اوست
خواہ مشرق وا شمارد خواہ مغرب کن قیاس
ہر طرف روے نیاز آوردہ باشی روے اوست
کثرتے کز وحدتش خارج شماری، باطل است
چار سوے شش جہت ہنگامہ، یکسوے اوست
موج از دریا و ریگ از دشت بیروں تاز نیست
ہر دو عالم در کنارش محوِ جُست و جوے اوست
ز آستانِ اُو سراغِ ہرچہ خواہی، می دہد
گر ہمہ دل در بغل گم کردۂ در کوے اوست
از منِ بیدل چہ امکاں داشت فہمِ تر از غیب
شد یقینم کایں اشارت از خمِ ابروے اوست
حضرت مولا علی کرّم اللہ وجہہ کی منقبت سے پہلے یہ تمہید ہے2؎:
لمعاتِ پردۂ جلالش شعاعِ آفتاب جُز راہِ دیدۂ خفّاش نمی شگافت، شیرے دراں ایوان مستقبلِ قبلہ نشستہ و جمیع جہاتِ تعیّن احرامِ نگاہِ غیرت پناہش بستہ، سروش اسرارِ یقین گوشِ تاملّم بہ ایں آہنگ کشود۔ و ملہمِ روزِ تحقیق آیینۂ آگاہیم بایں صیقل ز دود کہ جنابِ ولایت مآب علی مرتضیٰ است متمکنِ بساط کبریا۔
اس کے بعد یہ شعر ہیں 3؎:
آں کہ نتواں یافت در ذاتِ جلال آینہ اش
چوں کمالاتِ نبی کس را مجالِ دم زدن
آں کہ در خلوت سراے نشۂ تنزیہِ ذات
نورِ اُو با نورِ احمد خفتہ در یک پیرہن
پَرتوِ رمزِ سرایم ہوش می باید گماشت
کز ولایت تا نبوت محرمت باید شدن
فرقِ موج و آب می خواہد مژہ وا کردنی
بے نقاب افتاد ایں جا صورتِ سرِّ و علن
غنچہ آغوشِ کشودہ، آینہ گلرنگ بست
او تامّل ایں تبسّم، او شگفتن ایں چمن
اُو بطون داد ظہور و حُسنِ ایں طوفانِ ناز
اُو جلال و ایں جمال، اُو خلوت و ایں انجمن
ایں دو مضموں کردہ گل از درسگاہ کاف و نون
فارغ ازو ہم دوئی چوں لفظ و معنی از سخن
باعباراتِ تکلّف چند پردازد ہوس
’’یاعلی‘‘ انشا کن و در علم و فن آتش فگن
ایں قدر از فطرتِ ناقص کمالِ آگہی ست
بیدلم جُز عاجزی نکشود راہِ فکرِ من
بیدل کے نزدیک نبوت و ولایت باعث تخلیقِ کثرت ہیں ۔ لیکن وہ رسولؐ اور ان کے ولیِ خاص کو عالمِ انسانیت سے بالاتر مانتے ہیں ۔ ان کے یہاں انسان کا جو تصوّر ہے، وہ حقیقی گوشت پوست کا زندہ دکھ سہنے اور آزمائشوں سے گزر کر موت کا سامنا کرنے والا، انسان نہیں ، بلکہ ایک کُلّیہ ہے، ایک جوہر یا تجرید ہے ۔ جوہر انسان کا نقطۂ کمال ولایت اور پھر نبوت ہے۔ یہ انسان الٰہیاتی جوہر ذات کا ایک موہوم عکس ہے۔ اگرچہ وہ صوفیائے وجودیہ کی طرح انسان کو مرتبۂ جامع یعنی مظہرِ صفات و کمالاتِ حق مانتے ہیں ، مگر انسان کے اس ’’احسن التقویم‘‘ ہونے کو وہ دنیا کی تگ و دو، زندگی کی جدوجہد اور سماجی رشتوں ، دنیوی معاملات میں خوار و زبوں محسوس کرتے ہیں ۔ انسانی زندگی کے ان پہلوؤں کو، جو اس کی ذات اور وجود کی تکمیل کے ناگزیر مراحل ہیں ، وہ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ یہ بھی ایک اہم مقام ہے، جہاں غالب کا رویّہ بیدل سے مختلف ہے۔ غالب گوشت پوست کے زندہ حقیقی انسان ہیں ، اس کے تجرباتِ وجود، اس کی خوشیوں ، غموں اور دکھوں ، اس کی خواہشوں ، محرومیوں اور مسرّتوں کے ہر ایک پہلو کی عکّاسی کرتے ہیں اور دنیوی زندگی گزارنے والوں سے خلوص اور ہمدردی رکھتے ہیں ۔ غالب اور بیدل دونوں عامی اور عارف کے فرق کو مدِّ نظر رکھتے ہیں ۔ لیکن بیدل کے یہاں عارف و عامی کا امتیاز اس وجدان، ذوق اور معرفت پر مبنی ہے، جو عطیّہ خداوندی ہے، یعنی انسان کی فطرت یا استعداد (عین) ہی اس فرق کا سبب ہے۔ غالب کے یہاں عام اور خاص کا فرق اُن ذہنی صلاحیتوں پر منحصر ہے، جن کی بنیاداکتسابی علم و عقل اور زندگی کی جدوجہد میں اجتہاد یا تقلید پر ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
Great work but how it can be downloaded