FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

بیتے ہوئے دن کچھ ایسے ہیں

 

حصہ ۲

 

مشرف عالم ذوقی

 

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

ادبی فائل: چھ

 

عندلیب گلشنِ نا آفریدہ

 

 

بالا خانے پر اونٹ

 

خاموشی شرط ہے کہ اس کے در پر شور کی رسایی نہیں۔ ایک نور جسے انسانی شکل میں دیکھا، اور جس نے میری روح پر اپنی روشنی کا تسلط فرما دیا۔

آمدی درمن مرا بردی تمام

اے تو شیر حق مرا خوردی تمام

میں کون ہوں؟ میں تھا ہی کیا۔۔ ایک حقیر ذرہ۔۔ برسوں پہلے ایک نور کا ظہور ہوا اور میں اس کے سایہ فیض یا مشاہدہ فیض میں سما گیا۔۔ ہزاروں قصے۔۔ لکھنے بیٹھوں تو آنسوؤں کی شاہراہ۔۔۔۔ یاد کرنے بیٹھوں تو بدن میں لرزہ۔۔۔۔ نہ یاد کر سکتا ہوں اور نہ ہی لکھ سکتا ہوں۔۔۔۔ میں وادی جنون یا وادیِ حیرت میں ان لمحوں کا گواہ بن رہا ہوں جہاں کبھی اچھلتا، کودتا ہوا ایک خوبصورت سا جملہ میرے سامنے آیا تھا اور آنکھوں کے آگے کوہ قاف کے راستے کھل گئے تھے۔

’میں حشر کا قائل نہیں۔۔ لیکن حشر کا منتظر ضرور ہوں۔۔ میں قرة العین طاہرہ کے قاتلوں کا حشر دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ ‘

میدان حشر۔۔۔۔ سوچتا ہوں۔ میدانِ حشر میں اگر یہ سوال ہو کہ وہ بے ثبات دنیا جو تم اپنے پیچھے چھوڑ کر آئے، وہاں ایسا خاص کیا تھا، جس کا نام تم پہلی بار میں لینا چاہو۔۔۔۔ ؟

اور میں بغیر تاخیر کیے جواب دیتا۔۔ ڈاکٹر محمد حسن

شہنشاہ التمش کے حوالہ سے ایک قصہ مشہور ہے۔۔ قطب صاحب کی وصیت تھی کہ ان کے انتقال پر ان کی نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے، جس سے کبھی چاشت اور تہجد کی نماز بھی قضا نہ ہوئی ہو۔ جنازہ رکھا ہوا تھا۔۔ اچانک لوگوں نے دیکھا کہ گھوڑے پر ایک نقاب پوش چلا آ رہا ہے۔۔ نقاب پوش قریب آیا۔ نقاب الٹ دی۔ چہرہ زرد۔۔ آنکھوں میں آنسو۔۔ فرمایا، حضرت پیر نے راز فاش کر دیا۔ یہ خود بادشاہ التمش تھے۔۔

رات جب مجھے اپنے محبوب کا خیال آیا، میری نیند اڑ گئی۔۔

یہ قصہ اس لیے ضروری تھا کہ دل میں محبوب کے ایک لمحے کا مشاہدہ تخلیقی سلطنت کو صدیاں دے جاتا ہے۔۔ عمر کی کچی بہاروں کی تلاش میں نکلوں۔۔۔۔ تو میرا شہر آرہ ہے۔۔۔۔ آرہ کی گلیاں۔۔۔۔ جین اسکول۔۔۔۔ مہاراجہ کالج۔۔۔۔ مہاراجہ کالج کو جاتے ہوئے راستے میں سوئر باڑی۔۔۔۔ اور جانے کب نوجوانی کی چمکتی آنکھوں نے اس سوئر باڑی میں ایک کہانی تلاش کر لی۔۔ تب میں ذرّہ بھی نہیں تھا۔ کوئی جانتا بھی نہیں تھا۔۔ کہانی فیئر کی اور عصری ادب کے لیے بھیج دی۔۔ اور یہ کیا۔۔ جیسے ایک پل میں سب کچھ بدل گیا۔ دنیا بدل گئی۔۔ کائنات بدل گئی۔۔ ایک نئی تخلیق لذت کا ادراک ہوا۔۔ ایک خط سامنے تھا۔۔ اور یہ خط ایک دو نہیں۔۔۔۔ میں ہزار بار پڑھ چکا تھا۔۔ اور ہر بار ایک نئی دنیا، ایک نئی کائنات کے دروازے میرے لیے کھلتے چلے جاتے تھے۔

’آپ میں آگ ہے۔ اس آگ کو کبھی کم نہ ہونے دیجئے گا۔۔۔۔ ‘

گربہ بینی یک نفس حسن ودود

اندر آتش افگنی جان ودود

میں گم تھا۔۔ ایک نور مسلط تھا مجھ پر۔۔ اور آہ، کہ اس راز میں التمش بادشاہ کی طرح میں نے کبھی کسی کو شریک ہی نہیں کیا۔۔۔۔ کہ میں تھا ہی کیا۔۔۔۔ لیکن صحرا کے سناٹے میں یہ آواز، تجلیِ طور سے کم نہ تھی۔۔ اور میں کہہ سکتا ہوں کہ اسی چند جملے کا کرشمہ تھا کہ ادب کی جو سلطنتِ لازوال مجھے حاصل ہوئی، وہ اسی محبوب کے تعلق سے، کہ وہ (ڈاکٹر محمد حسن) جب بھی بلاتے یا ان کا فون آتا۔۔۔۔ میری آواز میں تھرتھراہٹ شامل ہو جاتی۔۔۔۔

’میں نہیں آ سکتا۔۔۔۔ ‘

’لیکن کیوں۔۔۔۔ ؟‘

سارے زمانے سے آنکھیں ملانے والا ذوقی یہاں کمزور ہو جاتا ہے۔ ادب کی دنیا کو اپنی بغاوت، اپنے احتجاج سے ڈرانے والا ذوقی یہاں جھک جاتا ہے۔۔۔۔ یہاں اس کی حکومت ہے، جہاں کلمۂ احترام واجب ہے۔۔ اور جس کی چوکھٹ پر میر کی طرح چپکے جانا ہے اور آواز کو نرم رکھنا ہے۔۔

حضرت ابراہیم بن ادھم سے ایک روایت مشہور ہے کہ ایک رات بالاخانے پر آواز سنی۔ دیکھا کوئی ہے، جو اپنا اونٹ تلاش کر رہا ہے۔ بلخ کے سلطان کو اس ادا پر ہنسی آئی کہ بالا خانے پر اونٹ کہاں؟ جواب ملا۔ سچ کہا۔۔ بالاخانے پر اونٹ کہاں۔۔۔۔ لیکن تو بھی تو زندگیِ عیش میں خدا کو تلاش رہا ہے۔۔ ؟

اور یہی بات ان دنوں مجھے حسن صاحب، میرے پیر و مرشد نے سمجھائی۔

کہانی وہی ہے۔ جہاں سوئر باڑی ہے۔ مشاہدہ کی آنکھوں کو اور تیز کرو۔۔ گھر کے ویران کمرے جدیدیت کو آواز دے سکتے ہیں لیکن اس کہانی کے لیے۔ جس کی آج ضرورت ہے، تمہیں گھر سے باہر نکلنا ہو گا۔۔ ان بستیوں میں جاؤ۔۔۔۔ جہاں دکھ ہے۔۔

جہاں غربت ہے۔۔

اس سسکتی ہوئی زندگی کو قریب سے محسوس کرو۔ ‘

میں نے سر جھکا لیا۔ مجھے اسی راستے اپنی کہانیوں کی نئی دنیا آباد کرنی تھی۔

۱۹۸۴ء کی گرمیوں کی بات ہے۔۔ تب میں ایک کہانی لکھ رہا تھا۔۔ وحشت کا بائیسواں سال۔۔ اور یہاں بھی کم و بیش یہ وہی رشتہ تھا جو مولانا رومی نے شمس تبریزؒ کی صحبت میں دیکھا تھا۔۔ اور یہی وہ لمحہ تھا جب میرے سینے میں عشق حق کی آگ داخل ہوئی اور تخلیق کے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ وہ آگ اب بھی میرے وجود کا حصہ ہے۔۔

ابرار رحمانی، آجکل کا دفتر اور ایک ادھورے وعدے کی سسکتی داستان

مجھے ابرار رحمانی کا چہرہ یاد ہے۔۔۔۔ وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہے ہیں۔۔

’حسن صاحب کے یہاں چلنا ہے۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہے نا۔۔۔۔ ‘

’ہاں۔۔ وہ بہت بیمار ہیں۔۔ ‘

’حسن صاحب پر میں ایک گوشہ نکالنا چاہتا ہوں۔ ان کی اپنی زندگی میں۔ آپ کو پتہ ہے۔۔۔۔ میں نے فون کیا تھا۔۔۔۔ ‘ ابرار رحمانی کی آواز میں تھرتھراہٹ ہے۔۔۔۔ میری آواز سنتے ہی وہ بول پڑے۔۔۔۔ ’ ابرار۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔۔ ‘ یہ آ جاؤ۔۔۔۔ آ جاؤ کی آواز ذہن سے گم ہی نہیں ہوتی۔۔ کب چلیں گے۔۔۔۔ ؟‘

’اگلے سومبار۔۔۔۔ ‘

’بھولیے گا مت۔۔۔۔ ہم دونوں ساتھ چلیں گے۔۔ ‘

مفاد پرست اور مکاروں کی اس دنیا میں حقیقی محبت کا یہ چہرہ روشن ہے۔۔۔۔ مگر تب کیا معلوم تھا کہ خواب اور حقیقت میں کتنا فاصلہ ہے۔۔ زندگی اچانک امتحان لینے کا ارادہ کر بیٹھتی ہے۔۔۔۔ اور ایک ایسا ناقابلِ فراموش زخم دے جاتی ہے، جو ساری زندگی آپ کو ٹیس دیتا رہتا ہے۔۔ وعدہ وفا نہیں ہو سکا۔ ایک ضروری کام کے لیے مجھے لکھنؤ جانا پڑا۔۔۔۔ آگ اڑاتی سڑکیں۔۔ تپش ایسی کہ جسم کے ریزے ریزے میں اتر جائیں۔۔ دوپہر کا وقت تھا۔۔ موبائل کی گھنٹی بجی۔۔۔۔ دوسری طرف کمال جعفری تھے۔۔ مشہور شاعر۔۔ آواز میں تھرتھراہٹ تھی۔ آپ نے خبر سنی۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ارتضیٰ کریم کو فون کیا تھا۔۔ بولے۔ ڈاکٹر محمد حسن کا انتقال ہو گیا۔ نماز جنازہ میں شامل ہونے کے لیے آیا ہوں۔۔۔۔

ابرار رحمانی کا چہرہ آنکھوں کے پردے پر کوند گیا۔۔ دیکھئے۔۔۔۔ وہ بہت پیار سے بلا رہے تھے۔۔۔۔ ابرار۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔۔ ‘

از غم ما روز ہا بیگاہ شد

روز ہا با سوزہا ہمراہ شد

غم ایسا کہ زندگی کے یہ لمحے اچانک اجنبی ہو گئے ہیں۔۔ اور میرے شب و روز میں جدائی کا یہ زخم شامل ہو گیا ہے۔۔۔۔

کمال جعفری سے کہتا ہوں۔۔۔۔ ابھی بات نہیں کر پاؤں گا۔ ایک دنیا ابھی اس لمحے مجھ سے دور ہو گئی ہے۔۔ آپ نہیں جانتے میں نے کیا کھویا ہے۔۔۔۔ یہ جتنا اردو دنیا کا نقصان ہے، اتنا ہی میرا ذاتی نقصان بھی۔۔

اودھ انٹر نیشنل کا کمرہ نمبر ۱۱۱۔۔ کمرہ گھوم رہا ہے۔۔۔۔ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ کہیں دور جھانجھریں بج رہی ہیں۔۔۔۔

گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈالے کیس

چل خسرو گھر اپنے سانجھ بھئی چودیس

امیر خسرو بھی تو پردیس میں تھے جب محبوب کے جہاں سے پردہ فرمانے کی خبر ملی تھی۔۔ میرا محبوب بھی گم ہے۔۔۔۔ وہ معصوم سا چہرہ۔۔۔۔ جو مجھے کبھی اس دنیا کا عام چہرہ نہیں لگا۔۔ ہزاروں لاکھوں لکھنے والے۔۔۔۔ سے می نار سجانے والے۔۔۔۔ راتوں رات خبر بن جانے والے۔۔۔۔ اچھے بھی۔۔ برے بھی۔۔ عیار اور مکار بھی۔۔ خود پر مضامین لکھوانے والے۔ اپنی کتابوں کا ڈھول پیٹنے والے۔۔۔۔ لیکن یہ خاموش سنجیدہ چہرہ۔۔۔۔ اس چہرہ میں ادب کے سنجیدہ فرشتے کی روح بسی ہوئی تھی۔۔۔۔ اب یہ چہرہ نہیں ہے۔۔۔۔ اب اس چہرے کو کبھی دیکھ نہیں پاؤں گا۔۔۔۔ میں رو رہا ہوں۔۔۔۔ سسک رہا ہوں۔۔۔۔ وہ سارے لمحے آنکھوں کے پردے پر زندہ ہو گئے ہیں، جو میری زندگی بھر کا حاصل ہیں۔۔۔۔

بوئے آں دلبر چو پراں می شود

ایں زبانہا جملہ حیراں می شود

محبوب کی خوشبو میں صرف حیرتوں کا بسیرا ہے۔۔۔۔ آنسو خشک ہیں۔۔۔۔ جو جینوئن ہوتے ہیں وہ کبھی نہیں مرتے۔۔ وہ پہلے سے کہیں زیادہ ہم میں زندہ ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ واقعات کے رتھ تیزی سے آنکھوں کے پردے پر گھوم رہے ہیں۔۔

آرہ کے آخری شب و روز، دلّی کی گلیاں اور حسن صاحب

سن انیس سو پچاسی۔۔ میں نے آرہ چھوڑ دیا۔۔ آرہ چھوڑتے ہوئے حسن صاحب کی محبت کی میراث لے کر دلّی آ گیا۔۔ آنے کے فوراً بعد ہی ان سے ملا تھا۔ وہ حیران تھے۔۔۔۔ شاید میرے اندر سور باڑی والی کہانی کے خالق کو تلاش کر رہے تھے۔۔۔۔ وہ مجھ سے مل کر خوش تھے۔ کیریئر نہیں، وہ مجھ سے میری کہانیوں کے بارے میں ہی جاننا چاہتے تھے۔۔ وہ پر امید تھے۔۔۔۔ ایسی کہانیاں صرف تم لکھ سکتے ہو ذوقی۔۔ اور پھر وہی جملہ۔۔ اپنے اندر کی آگ کو کبھی بجھنے مت دینا۔۔ یہ وہی دور تھا جب مجھے حسن صاحب سے لے کر ان تمام لوگوں سے عشق تھا، جنہوں نے حسن صاحب کو دیکھا تھا۔۔۔۔ یا اُن کے شاگرد تھے۔۔۔۔ یا حسن صاحب جن سے خاص محبت رکھتے تھے۔ انہی دنوں پیٹ کی خاطر میں کانگریس پارٹی سے نکلنے والے ایک رسالہ دل جگت سے وابستہ ہو گیا تھا۔ آفس ہوٹل جن پتھ کے ٹھیک سامنے تھی۔ ایک دن ۴ نوجوان ملنے آئے۔۔۔۔ یہ شایدستاسی یا اٹھاسی کی بات ہو گی۔۔ ایک خوبصورت چہرہ انور پاشا کا تھا۔۔ انور پاشا تب بھی داڑھی رکھتے تھے۔ آنکھیں بڑی بڑی اور گھنی۔۔ ساتھ میں ابرار رحمانی کی پر کشش شخصیت بھی تھی۔ توحید صاحب تھے۔۔ پیش رو، نکالنے کی بات چل رہی تھی۔ ڈاکٹر محمد حسن کا ذکر بار بار آیا۔۔ اور یہ چہرے اس وقت سے میرے اپنے چہرے بن گئے۔۔ ان سب میں ڈاکٹر صاحب کا عکس کہیں نہ کہیں موجود تھا۔ جیسے ایک ظاہری نقش میں کہیں نہ کہیں کسی کی موجودگی یا آگا ہی کا احساس پوشیدہ ہوتا ہے۔۔۔۔ تخلیق سے الگ بھی ایک چہرہ ہوتا ہے، اس خالق کا۔۔ جہاں گنجینہ معنی کا چشمہ ابل رہا ہے۔۔۔۔ یہ دوستی ہنوز قائم ہے۔۔ ان لوگوں نے بھی میری کہانی اور میری کہانی کے تعلق سے حسن صاحب کی رائے پڑھ رکھی تھی۔۔

سن انیس سو اٹھاسی، (جولائی) عصری ادب کے شمارہ میں حسن صاحب کا ایک مضمون شامل تھا۔۔ ’نئے زاویے، ہندستان میں نئی اردو شاعری اور نئے افسانے کے نو رتن‘۔۔ ان نو رتنوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، اس کا آزادانہ اظہار بھی کیا تھا۔۔

’انیس سو اکہتر میں عصری ادب نکلا تو پچھلے دس سال کی اردو غزل، نظم، افسانے کے خزانوں کو کھنگالا گیا۔۔ یہ اصول پیش نظر رکھا گیا کہ اس مدت میں جن شاعروں اور نثر نگاروں کی کتاب چھپی ہیں، ان کا ذکر کیا جائے۔ اور نئے میلانات کا تجزیہ کیا جائے۔ اب اس کی ضرورت ایک بار پھر ہے۔۔ بیس سال ہونے کو آئے۔ دو دہائیاں بیت گئیں۔۔ انہی خیالات میں الجھے ہوئے جی چاہا کہ اپنی پسند کے شاعروں اور افسانہ نگاروں کی ذرا فہرست سازی کی جائے۔۔

جب یہ شمارہ منظر عام پر آیا، میری عمر ۲۴ سال کی تھی۔۔ اور افسانوں کے نو رتنوں میں سب سے پہلا رتن میں تھا۔۔ میرے بعد سلام بن رزاق، حسین الحق، عبد الصمد، کنور سین، ایم منوجہ، قاسم خورشید، انور خاں اور شفق کے نام درج تھے۔۔ انہوں نے آگے لکھا تھا۔۔ ’ اس میں شوکت حیات، اشرف، علی امام نقوی کے نام نہیں آ سکے۔۔ ان کی کہانیاں فکر انگیز اور کیفیت سے بھرپور ہیں مگر کامیاب کہانیوں کا تسلسل قائم نہیں رہا ہے۔۔ ‘

احترام و عقیدت کا ایک نیا آسمان سامنے تھا۔

عشق می گوید بگوشم پست پست

صید بودن بہتر از صیادی ست

عشق نے میرے کانوں میں کہا کہ صید ہونا، صیادی سے بہتر ہے۔۔ خود کو اس محبت کی تجلی کے حوالے کر دے۔

بر درم ساکن شود بے خانہ باش

دعویٰ شمعی مکن پروانہ باش

عشق نے کہا، میرے دروازہ پر آ جا۔۔ شمع ہونے کا دعویٰ مت کر۔۔۔۔ احترام کی ان گلیوں میں اب جانا کم ہو گیا تھا۔۔ دلی کی مصروفیات نے مجھے گرفتار کر لیا۔۔ سے می ناروں میں چھا جانے والے ذوقی کی زبان اس محبوب کے سامنے گنگ ہو جاتی تھی۔ میں اکثر سوچتا تھا، میری سحر بیانی یا خوش الحانی ڈاکٹر کے سامنے کہاں گم ہو جاتی ہے۔۔ اور اس کا جواب تھا، میں اپنے پروانہ ہونے میں خوش تھا۔ عشق کی شمع کے آگے جل جاتے، فنا ہو جانے والا پروانہ۔۔

اس درمیان ملک کی فضا بد سے بدتر ہوئی اور بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا۔ میں نے اپنا ناول بیان مکمل کیا۔۔ اور اس کی پہلی کاپی خود ڈاکٹر صاحب کو پیش کرنے گیا۔۔ صبح دس بجے میں نے اپنا ناول ان کے سپرد کیا تھا اور ٹھیک دو بجے ڈاکٹر صاحب کا فون آ گیا۔۔ وہ ناول پڑھ چکے تھے۔۔ وہ رو رہے تھے۔۔ ذوقی تم نے کیسے لکھا یہ سب کچھ۔۔۔۔ میں تمہیں ایک خط لکھ رہا ہوں۔۔ خط کو پڑھتے ہی میرے احساس کو سمجھ جاؤ گے۔۔

کچھ ہی دنوں بعد ڈاک سے حسن صاحب کا خط ملا تھا۔ ایک بار پھر عقیدت اور محبت کے رقص کرتے تارے میری جھولی میں آ گرے تھے۔۔

’’ذوقی!

کیسے لکھ پائے تم

اتنا دل دوز المیہ

بغیر خون کے آنسوؤں کے/

سچ یہ ہے کہ ذوقی، تم نے ایک عظیم ناول لکھا ہے۔ بیان: اور خون جگر سے لکھا ہے۔۔ ہر لفظ کثرت استعمال سے گونگا ہو جاتا ہے۔ میرے لفظوں کا بھی یہی ہے حال ہے کہ وہ اس دھڑکتے ہوئے ناول کی کیفیات کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ صرف آنکھ میں تیرتے آنسو ہی اس کام کو انجام دے سکتے ہیں۔ اقبال نے داغ پر نظم لکھی تھی جس میں یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ جس طرح سعدی۔ بغداد کی تباہی پر اور ابن بدروں قرطبہ کی بربادی پر فریادی ہوئے تھے اسی طرح جہاں آباد کی تہذیب کا ماتم داغ کے نصیب میں تھا۔ تقسیم ہند اور اس سے پیدا شدہ تباہی پر بہت کچھ لکھا گیا مگر ۶ دسمبر کی تباہی اس سے مختلف بھی تھی اور اس سے کہیں زیادہ بھیانک بھی کہ اس نے ہمیشہ کے لیے بال مکند شرما جوش جیسے انسان نما فرشتہ شاعر کو پایا تھا۔۔ اور اس کا کیسا عبرت ناک انجام۔۔۔۔ جس پر جان دینے کے لیے اکیلے بال مکند شرما جوش۔۔ قتل ہونے کے لیے منا۔۔ اور اس المیہ کو رقم کرنے والے تم۔۔۔۔ اس زندہ المیہ کو ناول کی حیثیت سے دیکھنا یا اس پر کچھ لکھنا بھی ستم ہے۔۔۔۔ یوں بھی ابھی ہم اس سے پوری طرح گزرے کہاں ہیں، گزر رہے ہیں۔ تمہارے اس ناول کو ناول کی طرح پڑھنے اور پرکھنے کے لیے ابھی کچھ اور وقت اور کچھ اور فاصلہ درکار ہے۔ ابھی تو ایک ایسا کاری زخم ہے جس سے رہ رہ کر خون ابلتا ہے، اسے میں احتجاج نہیں کہوں گا۔ اسے میں دور حاضر کی گواہی بھی نہیں کہوں گا۔ یہ ناول ان اصطلاحوں سے کہیں بڑا ہے اور ان دو متوازی واقعات کے سلسلے پر قایم ہے جو منا کے قتل اور بال مکند شرما جوش کی موت سے عبارت ہے۔۔۔۔ بلکہ یوں کہوں کہ ان دونوں کے ساتھ ایک عظیم تہذیب کے قتل سے عبارت ہے۔ تم نے اسے بڑے اہتمام اور احتیاط سے بیان کر دیا ہے۔ کیسے لکھ پائے تم ایسا دلدوز المیہ بغیر خون کے آنسوؤں کے۔۔۔۔ تمہارے ہاتھ میں قلم ہے۔۔ اس کی عزت کرو جو ایسے دردمند لمحوں کی کہانی اس قدر دلدوزی اور دلدوز انداز میں لکھ سکے۔ اس ناول کا محاکمہ دیر طلب ہے جب تک وقت ان زخموں کو بھر نہیں دیتا یہ کام شاید ممکن نہ ہو گا۔۔

اپنی دھن کا اکیلا مسافر

جانِ قربت دیدہ را دوری مدہ

یار شب را روزِ مہجوری مدہ

جس جان نے تیری قربت کا مزہ چکھا ہو اُسے دوری کا عذاب نہ دیجئے۔۔ میرا تخلیقی سفر جس کی نعمتوں کا محتاج ہو، اس کے بارے میں کیا لکھوں۔ اپنی دھن کا اکیلا مسافر، نہ تاج و تخت کی پرواہ نہ سیاست کی غرض۔۔ خالص ترقی پسند، اور میں یہاں یادوں کے صنم خانے میں تصوف کے موتی چن رہا ہوں۔۔ عصری ادب شان سے نکالا۔۔ اور یہ رسالہ کوئی عام رسالہ نہ تھا۔ حسن صاحب کو خواص سے زیادہ نئی نسل کی آبیاری کی فکر کھائے جا رہی تھی۔۔ اور ساتھ ہی وہ اپنے عہد سے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتے تھے۔ اس لیے ملک گیر حادثہ ہو یا عالمی سیاست، حسن صاحب کے لفظ زمانے کی پرواہ کیے بغیر آگ اگلتے رہتے تھے۔۔

’’اور یہاں جس بات پر سب سے کم زور دیا گیا، وہ ہے ادب میں نظریاتی اور حسیاتی خلوص کی تلاش۔۔ ادب کی اصل ہے نظر۔۔ اور نظر سے ہی نظریہ پیدا ہوتا ہے۔ اور نظریہ جب تک نظر نہ بنے، پروپیگنڈہ رہتا ہے۔۔‘‘

وہ ادب میں پروپیگنڈے کے نہیں نظر کے قائل تھے۔۔ اور شاید اسی لیے تخلیقی سفر میں محض لکھاڑی ہونے کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ شاید اسی لیے وہ ڈرامہ اور اسٹیج کے قائل تھے کہ یہاں سے نظریہ، نظر بنتا ہوا عام انسانی میلانات کا حصہ بن جاتا ہے۔ خود بھی ڈرامے لکھے اور ایسے ڈرامے جو اردو ڈرامے کی تاریخ کا ایک نایاب حصہ بن گئے۔۔ تاریخ کی کتابوں سے ظلم و جبر کی علامت ضحاک میں اپنے عہد کے المیہ کو تلاش کر لیا۔۔ اور اس بہانے سے سرمایہ دارانہ استحصال کو انسانی تہذیب کی تباہی بتا کر اپنے نظریہ اور نظر دونوں کی وکالت کر دی۔۔ زندگی کے آخری سفر تک بے تکان لکھنے کا سلسلہ جاری رہا۔۔ یہاں تک کہ مشہور شاعر مجاز کی یاد میں ناول لکھ ڈالا۔۔ غم دل، وحشت دل۔۔ اور کیا عجیب اتفاق کہ یادوں کی ہر رہگزر پر میں ان کے شامل رہا اور ہر اک کہانی سے نکلتی شاخیں کہیں نہ کہیں سے ہوتی ہوئی مجھ تک پہنچتی رہیں۔۔ ۹۰۰۲ کی سردیاں شروع ہو چکی تھیں۔۔ دور درشن کے اردو چینل کے لیے میرے ایک پروڈیوسر دوست کو سیریل بنانے کے لیے ایک عدد بڑے ناول کی ضرورت تھی۔ کتنا عرصہ گزر گیا تھا۔۔ جیسے ایک بہانہ مل گیا۔۔ میں نے فون کیا۔۔ فون بھابھی نے اٹھایا تھا۔ پھر حسن صاحب کو فون دے دیا۔۔ نعرۂ مستانہ خوش می آمدم۔۔ وہ چہکتی ہوئی نحیف و لاغر آواز جیسے اب بھی مجھ میں گونج رہی ہے۔۔ دوسرے دن میں اپنے دوست کے ساتھ وہاں گیا تھا۔۔ ان کی معیت میں اپنے اندر کے تخلیقی نور کا جائزہ لینا بھی مقصود تھا۔۔ وہ بستر مرگ پر تھے۔۔ کمرے میں گہری خاموشی۔۔ ایک کمزور جسم میرے سامنے تھا۔۔ خوابوں میں بھی میں ایسی کمزوری کا احساس ممکن نہیں تھا۔۔ مگر بیحد کمزوری کے عالم میں بھی وہ آنکھیں بقعۂ نور کی طرح روشن تھیں۔۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ میری آخری ملاقات ہے۔۔ اچانک اس پل جسے اس نحیف جسم میں جانے کہاں سے برقی توانائی دوڑ گئی تھی۔ ٹوٹتے کمزور لہجے میں وہ بتا رہے تھے۔۔ بہت سا کام آدھا ادھورا ہے۔۔۔۔ لے جاؤ ذوقی۔ وہ حضرت محل کا ذکر کر رہے تھے۔ شاید حضرت محل پر بھی کوئی ڈرامہ لکھنا تھا۔۔ میں ان کے سرہانے بیٹھ گیا۔ کانپتی ہتھیلیوں نے میرے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔۔ شاید وہ بہت کچھ بولنا، بہت کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔ لیکن۔۔ یار شب را روز مہجوری مدہ۔۔ تب کیا معلوم تھا کہ یہ آنکھیں عقب کے اس پار یادوں کی ان وادیوں میں کھو جائیں گی کہ انہیں تلاش کرنے کی آرزو میں صرف آنسوؤں میں ڈوبی ایک سڑک ہو گی اور ان آنسوؤں کا بوجھ ڈھوتا ہوا میں۔۔

میں آستانہ سے باہر آیا۔۔ باہر آتے ہوئے کتنے ہی یادیں میرا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ ایک بیان اور لکھ ڈالو۔۔ یاد آیا۔۔۔۔ میں نے ان پر آدھے گھنٹے کی ایک فلم بنائی تھی۔۔ تین دن تک ان کے گھر میں شوٹنگ کی تھی۔ بھابھی کے علاوہ انہوں نے اپنی بیٹی کو بھی بلا لیا تھا۔۔ پھر دنیا بھر کی یادیں۔۔ مجاز، فیض، جوش، کلیم الدین احمد۔۔ زندگی۔۔ آپ بیتی، جگ بیتی۔۔ ان تین دنوں میں وہ سب کچھ بھول گئے تھے۔۔ اور میرے لیے یہ تین دن، صدیوں کے برابر۔۔ عقیدت کے ہر دروازے پر ایک فانوس روشن تھا۔۔ اور یہ لمحے عالم غیب سے مجھے ودیعت کیے گئے تھے۔۔ یادوں کی اسی رہگزر پر ابھی بھی ہزاروں واقعات کی شمع روشن ہے۔۔ لیکن ان میں کچھ ایسی یادیں ہیں، جتنی ابھی لکھنا مناسب نہیں۔۔ شاید وقت اور عمر وفا کرے تو انہیں لکھنا چاہوں گا۔۔ کہ وہ ہر موڑ پر ایک مرشد، ایک گائڈ کی طرح میرے ساتھ کھڑے تھے۔۔ اور اپنی رحمت کے کیمیائی اثر سے میری تخلیقی سلطنت کو فیض پہچانے کے خواہش مند تھے۔۔

میں نے پہلے بھی کہا ہے، وہ خالص ترقی پسند تھے۔۔ اور شاید آخری ترقی پسند بھی۔ وہ جنون، وہ آگ جو میں نے آخری وقت تک ان کے یہاں روشن دیکھی، کسی میں بھی محسوس نہیں کی۔۔ وہ آخری وقت تک اپنے نظریہ پر قائم تھے۔۔ اور شاید ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔ لیکن ادبی سیاست اور گروہ بندیوں نے انہیں کب کا تنہا اور اکیلا کر دیا تھا۔ ان سے ہزاروں بڑے کام لیے جا سکتے تھے۔ ان کے مشاہدہ فیض سے ان ہزاروں یادوں کو ایک کتاب میں جمع کیا جا سکتا تھا۔۔۔۔ آخری وقت تک ان میں جنون، جوش اور محبت کی کمی نہ تھی۔۔ اور بھابھی برے سے برے موسم میں بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار۔۔ مجھے آخری ملاقات کی وہ بولتی، چمکتی آنکھیں اب بھی یاد ہیں۔۔ یہ آنکھیں جیسے اب بھی میرے تعاقب میں ہیں۔۔

سہر العیون بغیر وجھک ضائع

و بکاؤہن بغیر وجھک باطل

اور میں سوچتا ہوں۔۔۔۔ میرے محبوب، اب یہ آنکھیں آپ کے علاوہ کس کا دیدار کریں۔ کس کے لیے جاگیں۔۔ ؟ آپ کی جدائی کے علاوہ کسی کے لیے بھی رونا باطل ہے۔۔۔۔ ابرار رحمانی کی آواز گونج رہی ہے۔۔۔۔ ’انہوں نے بلایا ہے۔۔۔۔ ابرار آ جاؤ۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔۔ ‘

دور تک سناٹا۔۔ دھند میں کھوئے ہوئے راستے۔۔ آخری سفر کو کندھا نہ دے پانے کی کسک۔۔۔۔ ابرار کی لرزتی آواز۔۔ ادب و سیاست کی مکروہ فضا میں، آخری ملاقات میں وہ چمکتی آنکھیں۔۔ کہیں دور بجتی مولانا روم کی بانسری کی آواز۔۔۔۔ بشنو از نے چوں حکایت می کند۔۔۔۔ اور کہیں۔۔۔۔ امیر خسرو کے نقارۂ دل سے گونجتی صدا۔۔۔۔ گوری سوئے سیج پر مکھ پر ڈارے کیس۔۔۔۔ صبر بگذیدند و صد یقیں شدند۔۔ جنہوں نے صبر اختیار کیا، وہ صدیقیت کی منزل پر پہنچ گئے۔۔ صبر ہی تمہیں ان تخلیقی منزلوں پر پہنچائے گا، جس کا خواب تمہارے مرشد نے دیکھا تھا۔۔۔۔

کہیں دور جھانجھریں بج رہی ہیں۔۔ چل ذوقی گھر آپنے سانجھ بھئی چو دیس۔۔ !

٭٭٭

 

 

 

 

ادبی فائل -سات

 

شجاع خاور۔۔ ہیرو کبھی نہیں مرتے

 

 

گہے خندم گہے گریم، گہے اُفتم گہے خیزم

مسیحا در دلم پیدا و من بیمار می گردم

عجیب کیفیت کہ کہ کبھی ہنستا ہوں، کبھی روتا ہوں، کبھی گرتا ہوں اور کبھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ میرے دل میں ایک مسیحا رہتا ہے، میں بیمار، اس کا طواف کرتا ہوں۔۔ مولانا رومی کی آواز کانوں میں گونجتی ہے تو آنکھوں کے سامنے ایک پیکر لہراتا ہے۔۔ ایک ہیولہ نظر آتا ہے، جس نے وحشت کے اندھیروں اور مصائب کے دشت سے الگ اپنے لئے ایک مسیحا کا انتخاب کر لیا تھا۔۔ وہ پہلے بھی عاشق اردو تھا، لیکن جب بیماری نے اپنا دائرہ تنگ کیا تو اسنے پوری طرح خود کو اردو کے سپرد کر دیا۔۔ ایک قلندر جس نے اپنی زندگی اردو کے لئے وقف کر دی۔

آنکھوں کے آگے ایک کولاز بنتا ہے، پھر تصویریں ایک ایک کر کے رخصت ہو جاتی ہیں۔۔ کیا میں انہیں جانتا ہوں؟ اس کا جواب ہے نہیں۔ ہم دشمن نہ دوست۔ عمر میں بھی کافی فاصلہ۔ ہم دونوں کے مزاج نہیں ملتے۔ وہ پولیس والے ٹھہرے اور مجھے پولیس والوں سے صدیوں کا بیر رہا ہے۔ ہمارے رابطے کی زبان اردو ہے اور اردو دلوں کو ہمیشہ سے جوڑنے کا کام کرتی آیی ہے۔ پھر شجاع خاور میں آخر ایسا کیا ہے کہ ان کا چہرہ جب بھی نظروں کے آگے آتا ہے، مجھے ہزاروں حکایتیں، کہانیاں، افسانے سنا ڈالتا ہے۔۔ کولاز کا پہلا چہرہ ایک شیر دل، جوان مرد کا چہرہ ہے، جس کے چہرے پر بادشاہوں سا غرور ہے۔۔ آپ اسے غرور مت کہئے، یہ اس کا پٹھانی تیور ہے۔ اس تیور کے ساتھ جب وہ مشاعروں، سیمیناروں میں قدم رکھتا تو اس کے زندہ دل قہقہوں کے آگے سکندرا عظم اور نپولین بونا پاٹ کی کہانیاں بھی اپنا اثر کھوتی ہوئی معلوم ہوتیں۔ اس کی ذات میں ایک چمک تھی۔۔ اور یہ چمک آسانی سے سیمیناروں کی رونق میں اضافہ کرنے کے لئے کافی ہوتی۔۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ تقدیر کے نرغے میں آ گیا۔۔ مگر شجاعت میں کمی نہ آئی۔ ہمت و حوصلہ وہی رہا۔۔ پہلے وہ طوفان بن کر آتا تھا اب لنگڑاتا ہوا مفلوج جسم کو کھینچتے ہوئے سیمیناروں میں داخل ہوتا، مسکراہٹ وہی ہوتی۔۔ وہ آگے کی صف میں اپنے لئے جگہ بناتا اور کچھ بولنے کی کوشش بھی کرتا۔۔ یہ سلسلہ شجاع کے انتقال تک جاری رہا۔۔

باد صبا جھومتی گاتی ہوئی مجھ سے سوال کرتی ہے کہ ان دو چہروں میں سلطانی کا تاج تم کس کے سر رکھو گے؟ اس کے سر جو سکندر اعظم کی طرح طوفان بن کر دشمنوں پر شب خون مارتا تھا یا اس کے سر، جس کے ساتھ نصیب نے ایک بھیانک کھیل، کھیلا تھا؟ تو مجھے سوچنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔۔ اور میں جواب دیتا ہوں۔۔ اس کے سر جسے تقدیر نے مجبور کیا مگر جس نے تقدیر کو زیر کر لیا۔۔ نصیب نے شکست دی مگر وہ نصیب پر حاوی رہا۔ وقت نے اسے کمزور کرنا چاہا مگر وہ شجاع بن کر ابھرا۔۔ اور آخری سانس تک اپنی مضبوط شخصیت کا بھرم قایم رکھا۔۔۔ اور کولاز کا یہی وہ فریم ہے جس نے مجھے شجاع خاور پر لکھنے کے لئے مجبور کیا۔۔

آئینہ اور عکس

اس کولاز کے ساتھ کچھ اڑے ترچھے آئینے بھی ہیں، جن میں الگ الگ کہانیاں قید ہیں۔۔ موت کے فرشتے سے سوال کیا گیا۔۔ روح قبض کرتے ہوئے کیا کبھی ایسا بھی ہوا کہ تمہارے ہاتھ کانپ گئے ہوں، جواب ملا۔۔ دو بار ایسا ہوا۔۔ جنگل کے ویرانے میں ایک نو مولود اپنی ماں کے ساتھ تھا کہ روح قبض کرنے کا حکم ہوا –۔ اور اس وقت جب شداد اپنے لشکر کے ساتھ اپنی تعمیر شدہ جنت کے دروازے پر پہلا قدم رکھنے والا تھا کہ آواز آئی اندر جانے نہ پاے۔ روح قبض کر لو۔ آواز ابھری۔۔ جانتے ہو وہ بچہ کون تھا؟ ۔۔ یہ وہی بچہ تھا جس نے بعد میں شداد بن کر خدائی کا دعوا کیا۔۔

سوچتا ہوں، مجھے یہ کہانی کیوں یاد آئی۔۔ ؟ شجاع، شداد نہیں تھے۔ شجاع نے کبھی کوئی دعوا نہیں کیا۔۔ مگر جب فالج کا حملہ ہوا، یہ ان کی زندگی کے بہترین دن تھے۔ جب سیاست سے ادب تک وہ ایک نیی لکیر کھینچنے کے خواہشمند تھے۔۔ وہ ایک انقلاب شاعری کی دنیا میں چاہتے تھے۔۔ رشک فارسی، مصرعہ ثانی کی غزلیں پڑھ جائیے تو ایسے لگتا ہے، مختلف مقامات پر شجاع غالب سے ٹکر لے رہے ہوں۔۔ بات ٹکر لینے کی نہیں ہے۔۔ شجاع نے مزاج ایسا بنا لیا تھا کہ وہ اپنے ہر شعر میں پر فیکٹنس اور انفرادیت چاہتے تھے۔۔ اور دوستوں کی غزلیں انہیں پسند نہیں آتی تھیں۔۔ وہ بیباک تبصرہ کرتے تھے اور اس لئے ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ اس بچے کا نصیب تھا کہ دشت کی ویرانی اسے محلوں تک لے آیی۔ خدا بننا منظور نہ ہوتا تو شاید شداد کی حقیقت کچھ اور ہوتی۔۔ خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا۔۔ شجاع نے یگانہ بننے کی کوشش بھی کبھی نہیں کی۔ مگر ان کے پٹھانی تیور نے ان کا نقصان کیا اور جب پولیس کی نوکری سے فارغ ہو کر وہ خود کو مکمل طور پر اردو کے سپرد کرنا چاہتے تھے، بیماری نے بہت حد تک ان کو توڑ ڈالا۔۔ یقینی طور پر بہت سے خواب ٹوٹے ہوں گے۔۔ تخلیقی جنت کا تصور بھی کھو گیا ہو گا مگر اس کے باوجود شجاع نے خود کو زندہ رکھا، ہاں بیماری کے بعد ان کی شاعری سامنے نہیں آیی۔ مگر شجاع کے پاس جو بھی شعری سرمایہ ہے، وہ بھی کم نہیں ہے۔۔۔ انکی شاعری بلند درجے کی شاعری ہے۔ ایسی شاعری جس پر گفتگو کی ضرورت ہے۔

ہوتا نہیں کچھ اپنی دعاؤں میں اثر دیکھ

جا آرزوئے وصل، کوئی دوسرا گھر دیکھ

الحاد سے مہنگا مجھے ایمان پڑے گا

چھت ٹوٹی تو کمرے میں فلک آن پڑے گا

اردو سے عشق کی داستان —دا سٹوری آف اے رئیل مین۔

ویکیپیڈیا سے ملنے والی اطلاع کے مطابق شجاع خاور دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو شاعر تھے اور پولیس سرویس میں بڑے عہدے پر تھے۔۔ ان کی شہرت کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی تھی کہ جنتا پارٹی کے اقتدار کے دور میں 1977ء میں اندرا گاندھی کو گرفتار کرنے کے لیے روانہ پولیس کے جتھے کا وہ حصہ تھے۔ شجاع خاور 23 دسمبر 1948ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا حقیقی نام شجاع الدین تھا۔ ان کے والد کا نام امیر حسین تھا۔ 1964ء سے شجاع نے اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا۔۔

اچھی بری ہر طرح کی یادیں شجاع خاور کے ساتھ وابستہ ہیں۔ دلی میں میرے ناول بیان کا اجرا ہوا۔ اس موقع پر راجندر یادو، مشہور صحافی سیما مصطفیٰ، ڈرامے کی دنیا کے بے تاج بادشاہ حبیب تنویر، پروفیسر قمر رائیس بھی شامل تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شجاع ادب سے سیاست کی دنیا میں خود کو آزما رہے تھے۔۔ دو پارٹیاں بدلی تھیں۔۔ وہ کہیں، کسی ایک مقام پر زیادہ دنوں تک رہ بھی نہیں سکتے تھے۔۔ اس دن پروگرام کے دوران شجاع سے میری کچھ کہا سنی ہوئی۔۔ شجاع اپنے تیور کے ساتھ تھے۔۔ اور یہی تیور ان کی ذات کو خاص بناتا تھا۔۔ پروگرام کے دوسرے ہی دن ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے بعد شجاع سنبھل نہیں سکے۔ دوسرے دن سب سے پہلے میرے ایک قریبی دوست کا فون آیا۔۔

— یار، تم نے شجاع کو کل کیا کہہ دیا تھا۔۔ ؟

میں نے۔۔ ؟

شجاع اسپتال میں ہیں۔ فالج کا حملہ ہوا ہے۔

مجھے اس وقت دوست کا مذاق کرنا پسند نہیں آیا۔ میں صدمے کی کیفیت میں تھا۔۔ میری آواز بھرائی ہوئی تھی۔۔ تم نے مصرع ثانی اور رشک فارسی کا مطالعہ کیا ہے؟ کوئی اپنے شعری مجموعے کا نام ایسے رکھتا ہے کیا۔۔ ؟ پولیس والا ہے مگر گہری فکر رکھتا ہے۔۔ شجاع کے کتنے ہی شعر یاد آتے چلے گئے۔

اصل نہ ہوا کچھ بھی بجز حسرتِ دیدار

اور حسرتِ دیدار بھی، دیدار تلک ہے

—-

یہ جنونِ شوق خاورؔ یہ رہ وفا کی منزل

کبھی خار گل ہوئے ہیں، کبھی گل کو خار سمجھے

 

قربتیں تم سے بڑھاتے ہوئے یوں ڈرتا ہوں

جن کو ہوتا ہے بچھڑنا وہ ملا کرتے ہیں

 

سوچتا ہوں کہ نئے نام دوں، آنکھوں کو تری

جام، مے، جھیل، کنول، تیر کہاں تک آخر

 

کالج کے دنوں میں، میں نے ایک ناول پڑھا تھا۔۔۔۔ داسٹوری آف اے رئیل مین۔ جنگ کے دوران ایک حادثے میں ایک سپاہی کو جب ہوش آتا ہے تو وہ خود کو برف پوش وادیوں میں پاتا ہے۔ اس کا ایک پاؤں جواب دے چکا تھا۔۔ لیکن وہ زندگی کی امید نہیں چھوڑتا اور ایک دن اپاہج ہونے کے باوجود وہ سب کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو کچھ وہ کھو چکا تھا۔ شجاع خاور پر فالج کا حملہ ہوا تھا لیکن یہ ان کی قوت ارادی تھی جس نے انہیں نہ صرف زندہ رکھا تھا بلکہ وہ ہم سب کے لیے زندگی کا ایک ایسا استعارہ بن گئے تھے، جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔

وہ بہت بڑے شاعر تھے اور انہیں اس بات کا شدت سے احساس بھی تھا۔ وہ ایک ایسے شاعر تھے جن کے پاس اپنا مخصوص لب و لہجہ تھا۔ تصنع سے الگ جیتی جاگتی ہنستی مسکراتی زندگی کو وہ ہر بار ایک نئے موضوع کے اسرار و رموز سے گزارتے ہوئے نئے شعری رویوں کو فروغ دیئے تھے۔ شستہ زبان اور رنگینی بیان کے طلسم سے وہ اپنے شعری آہنگ میں ایک ایسی توانائی پیدا کرتے تھے، جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ شجاع شاعری میں درد ویاس کے قائل نہیں تھے۔ ان کے حصے میں ایک حسین زندگی آئی تھی۔۔ وہ میرسے متاثر ضرور تھے لیکن اظہار بیان کی سطح پر وہ سودا کی گھن گرج اور جوش کے زیادہ قریب تھے۔ وہ شاعری کی مروجہ روایات سے انحراف کرتے ہوئے نئے رنگوں کا استقبال کرتے تھے۔ وہ تجربوں کے قائل تھے اور ہر تجربہ ایک نئے شجاع خاور کو سامنے لے آتا تھا۔ اور غور کیجئے تو شجاع نے اپنی پوری زندگی میں اپنے نام کا کتنا خیال رکھا۔ شاعری ہو یا زندگی، آخری وقت تک یہ شجاعت کا رنگ ہی ان کی تخلیقی توانائی کا حاصل رہا۔۔ اس لیے جب تک اردو زبان زندہ ہے، شاعر آتے رہیں گے اور جاتے رہیں گے مگر دوسرا شجاع خاور مشکل سے ملے گا۔ یہ نام ہی ان کی شناخت اور شاعری اسی تیور کا نمونہ۔۔

زندگی سے جنگ —

یادوں کے جزیرے سے گزرتا ہوں تو کتنی ہی تصویریں جھل مل کرتی ہوئی سامنے آ جاتی ہیں۔ وہ مشاعرے کے علاوہ سیمیناروں میں بھی نظر آتے۔۔ وہ بلاوے کا انتظار نہیں کرتے تھے۔ اردو سے عشق کا یہ انداز مجھے اور کہیں نظر نہیں آتا۔ ان دنوں شجاع خاور پرسیاست کا رنگ چڑھ رہا تھا۔۔ میں ان سے ناراض تھا۔ شجاع کی ایک خوبی یا کمزوری یہ تھی کہ وہ ہوا کی سمت نہیں چلتے تھے۔۔ وہ جب بھی چلے ہوا کے مخالف۔ سیاسی پارٹیاں بدلنے کا فیصلہ بھی اسی نظریہ کی دین ہے۔ مجھے یقین ہے اگر ان پر فالج کا حملہ نہ ہوا ہوتا تو وہ اپنے عہد کی سیاست میں بھی بہت دور تک جانے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ خبریں ملتی رہتی تھیں۔ ان سے مل کر آنے والے بتاتے کہ شجاع کمزور ہو گئے ہیں، ٹوٹ گئے ہیں۔ مگر مجھے یقین تھا، بڑا سے بڑا حادثہ بھی شجاع کو توڑ نہیں سکتا۔ وہ صحت سے کمزور ہو سکتے ہیں مگر زندگی کی جو توانائی قدرت نے انہیں عطا کی ہے، وہ انہیں ٹوٹنے نہیں دے گی۔ اور یہی ہوا۔۔ ’دا سٹوری آف اے رئیل مین‘ کی طرح انہوں نے اتنے بڑے حادثہ کو جھٹک کر زندگی کو خوش آمدید کہا اور پہلے سے کہیں زیادہ محفلوں اور سے می ناروں میں نظر آنے لگے۔ موت ہار گئی تھی۔ زندگی جیت گئی تھی۔ اور اتنے بڑے حادثہ کے بعد بھی سترہ برس تک موت کو ٹال دینے کا حوصلہ کوئی آسان کام نہیں۔ یہ شجاع ہی کر سکتے تھے۔ اور اس یقین کے ساتھ کہ اب کوئی دوسرا شجاع خاور ہمارے درمیان نہیں آئے گا۔

سن ۲۰۱۱ء جے، این، یو میں ڈاکٹر محمد حسن پر دو روزہ سے می نار رکھا گیا۔ سے می نار جس ہال میں تھا، وہاں شجاع جیسے بیمار آدمی کے لیے جانا آسان نہیں تھا۔۔ مگر شجاع وہاں بھی موجود تھے۔ اور صرف موجود ہی نہیں تھے بلکہ اب وہ بولنے بھی لگے تھے۔ فالج کے حملے کے بعد انہیں بولنے میں خاصہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مگر وہ شجاع ہی کیا، جو محض سے می نار میں اپنی جھلک دکھا کر خاموش رہ جائے۔ اسی زمانے میں افسانہ نگار سلام بن رزاق دہلی تشریف لائے تو انیس اعظمی نے دہلی اردو اکادمی میں ایک شام سلام کے نام کا اہتمام کیا۔ وہاں بھی آگے کی صف میں شجاع موجود تھے۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ شام کا دھندلکا چھا چکا تھا۔ ٹھنڈ بڑھ گئی تھی مگر شجاع خاور جیسے ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا بھی نہیں کرتے تھے۔ اردو کے سچے عاشق کی طرح وہ نہ صرف اپنی موجودگی درج کراتے بلکہ ہم جیسوں کے لیے سبق بھی بن جاتے کہ زندگی بغیر شمشیر و سناں کے یوں بھی لڑی جاتی ہے۔

شجاع چلے گئے لیکن ایسی یادیں چھوڑ گئے ہیں جنہیں فراموش کرنا آسان نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ نہ صرف ان کی شاعری پر گفتگو کے دفتر کھلنے چاہییں بلکہ ان کی ہمہ جہت شاعری کے ساتھ ان کی شخصیت پر بھی کھل کر باتیں ہونی چاہییں۔۔ وہ ہیرو تھے۔ ہیرو ہیں۔ اور رئیل ہیرو کبھی نہیں مرتا۔

٭٭٭

 

 

 

ادبی فائل: آٹھ

 

انور عظیم: یادوں کا گم ہوتا ہوا سرمایا

 

انور عظیم کون؟ آپ فلم اداکار شاہد کپور کو جانتے ہیں۔؟ انور عظیم ان کے نانا ہیں۔ میں نے دو تین موقعوں پر شاہد کو ان کے گھر میں دیکھا تھا۔ تب شاہد اسٹار نہیں بنے تھے۔ اور یہ بات کس قدر رنجیدہ کرنے والی ہے کہ انور عظیم کے تعارف کے لئے شاہد کپور کے نام کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔۔ انور عظیم ادیب تھے، صحافی تھے۔ کالم نگار تھے۔۔ کیا نہیں تھے۔ ترقی پسند تھے۔۔ جوش میں آتے تو سجاد ظہیر سے بھی دو دو ہاتھ کر لیتے۔۔ اس زمانے میں سجاد ظہیر بھی انور عظیم سے خائف رہتے تھے۔۔ اور ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ شخص ترقی پسند ہے یا ترقی پسندی کا مخالف؟ انور عظیم سچے نیک انسان تھے بلکہ کھرے اور اس لئے اکثر احباب بھی ان سے ناراض ہی رہتے تھے۔۔

 

اکتارا والا بچہ:

یادوں کا میری زندگی سے عجیب سا رشتہ ہے۔ آنکھیں بند کروں تو وہ ننھا منا سا شہزادہ اکتارہ بجاتا ہوا میرے سامنے آ جاتا ہے۔ میں دروازہ پر کھڑا ہوں۔ گندے میلے کچیلے کپڑوں میں لپٹا ہوا بچہ جھوم جھوم کر اکتارہ بجائے جا رہا ہے۔

اکثر سناٹے میں وہ بچہ اور اکتارے کی آواز میرے کانوں میں گونج جاتی ہے۔

پہلی بار قلم تھامتے ہوئے بھی وہ بچہ میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ میں لکھ رہا تھا، مگر اکتارہ کی دھن لگاتار میرے کانوں میں رس گھول رہی تھی۔

ننھی منی چڑیوں کی طرح عمر کے پر نکل آئے تھے۔۔۔۔

ننھے منے ڈینوں کے ساتھ عمر نے اڑنا سیکھ لیا تھا۔۔۔۔

نئی نئی اڑانیں۔۔۔۔ نئی نئی دنیائیں۔۔۔۔ اجنبی دیس کی اور کبھی اپنی دنیائیں۔۔

اکتارہ بجانے والا بچہ پوچھتا ہے۔۔۔۔ ’’کیا لکھ رہے ہو؟‘‘

’’۔۔۔۔ جو بھی اڑنے میں دکھائی دے جائے۔‘‘

’’۔۔۔۔ اچھا، تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے؟‘‘

’’۔۔۔۔ پیڑ، پتے، چھوٹی سی کٹوری میں تیرتا ہوا ننھا منا چاند۔۔ نیلے آسمانوں میں رہنے والی سدا سہاگن راتیں اور۔۔۔۔‘‘

’’۔۔۔۔ تم سب کو لکھ ڈالتے ہو؟ ہے نا۔۔ ؟‘‘

’’۔۔۔۔ ہاں، کبھی نہ مرجھانے والا دن، عطر کی خوشبو میں ڈوبی دو پہریں۔ تم میرے ساتھ رہو۔ میں قلم کو کبھی تھکنے نہیں دوں گا۔‘‘

’’۔۔۔۔ قلم کے چہرے پر پرچھائیاں اگ آئیں تو؟ جھریاں پڑ گئیں تو۔۔۔۔؟

اکتارہ والے بچے کے چہرے پر ہنسی تھی۔ وہ جھوم جھوم کر اکتارہ بجا رہا تھا۔ مورنی کی طرح مست، ندی کی موجوں کی طرح اپنے آپ میں الجھا ہوا۔

پھر عمر کے ’ڈینے‘ بڑے ہو گئے۔

چھوٹے سے شہر آرہ سے، دل والوں کی نگریا تک کا سفر۔۔۔۔

عمر کے ’ڈینے‘ بڑے ہو گئے مگر عمر۔۔۔۔ تھکنے لگی تھی۔ اکتارہ والا بچہ، ابھی تک بچہ تھا۔ ویسا ہی کھلنڈرا، مست۔ یادوں کے گلیارے سے چلتا چلتا سناٹے میں اکتارہ بجانے لگتا۔۔۔۔

زندگی کے شب و روز میں کتنے ہی کانٹے چبھے، کتنے ہی اندھڑ آئے۔ خوفناک طوفان۔ ’پوٹلی والا بوڑھا بابا، کھٹی میٹھی داستانوں کی کیسی کیسی پوٹلیاں لے کر آتا رہا۔ دکھ کی اور سکھ کی پوٹلیاں۔ اور صرف۔۔۔۔ کبھی کبھی صرف پت جھڑ کے موسم۔۔۔۔

’تم لکھ رہے ہو نا۔ ‘ اکتارہ والا بچہ پوچھتا ہے۔

’’۔۔۔۔ ہاں۔۔ میں موسموں میں نہیں گھبراتا۔ کہ جب تک سدا سہاگن راتیں ہیں اور عطر کی خوشبوؤں میں ڈوبے دن۔۔۔۔ اور میرے قلم کا سینہ نور سے پر ہے۔ گھبراؤ مت۔ میں لکھتا رہوں گا۔‘‘

’’کاش! ایسا ہی ہو۔‘‘ اس بار اس کی آواز دکھ میں ڈوبی تھی۔

’’مگر کیوں؟ تم اداس کیوں ہو؟‘‘

’’تم نے آخری پتہ والی کہانی سنی ہے۔۔۔۔ تمہارے قلم کا آخری پتہ، پت جھڑ سے ٹوٹنے والا ہے۔‘‘

’’نہیں۔۔۔۔‘‘ میں ڈر گیا تھا۔

’’ڈرو مت۔ محض ایک زرد سا پتہ، زندگی نہیں ہوتا۔۔۔۔ پتہ کے ٹوٹنے سے۔۔۔۔‘‘ وہ اکتارہ بجاتے بجاتے ٹھہر گیا تھا۔

میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

یہ وہ بچہ نہیں تھا۔ میرے بچپن والا ننھا منا شہزادہ۔ جو محلہ مہا دیوا، میرے گھر کی چوکھٹ سے لگا، آنکھیں بند کیے، جھوم جھوم کر اکتارہ بجا رہا تھا۔۔۔۔

اس کے چہرے پر اچانک جھریوں نے اپنا بسیرا کر لیا تھا۔

’’گھبراؤ مت۔ اب میں آخری بار تمہارے پاس آؤں گا۔۔۔۔ آخری بار۔۔۔۔‘‘

عمر کے ڈینے سخت ہو گئے تھے۔

زندگی کے پاؤں خاردار جھاڑیوں میں الجھ گئے تھے۔۔۔۔ قلم اچانک چلتے چلتے ٹھہر گیا تھا۔ اک بادِ سموم تھی۔ فضا ساکت۔۔۔۔

اکتارہ بجانے والے بچے کا چہرہ دھند میں کھو رہا تھا۔

’’اب میں نہیں آؤں گا۔‘‘

’’کیوں۔۔۔۔ ؟‘‘

’’ تمہارے ادب میں برسوں پہلے خوشیوں کا ایک پودا لگایا گیا تھا۔‘‘

’’ہاں، مگر تم کیسے جانتے ہو۔۔۔۔ ؟‘‘

’’میں سب جانتا ہوں۔۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھا جس نے سب سے زیادہ اس پودے پر دھیان دیا۔۔ وہ پودے کو خوش رکھنے کا ہنر جانتا تھا۔ پودا ہنستا تھا، تو میرے گیت بھی ہنستے تھے۔ مگر اچانک وہ پودا۔ وہ پودا کمھلا گیا ہے، اور میرے گیت۔۔۔۔‘‘ وہ اکتارہ بجانے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔۔

مگر۔۔۔۔ اکتارہ گیت سے محروم تھا۔۔۔۔

دھندلا ہوتے ہوتے بچے کا چہرہ ایک دم سے گم ہو گیا۔۔۔۔

’’مگر وہ پودا۔۔۔۔ ؟‘‘

’’ اس پودے کو کھلکھلانا انور عظیم نے سکھایا تھا۔‘‘

اس کی آواز کہیں کھو گئی تھی۔۔۔۔

’’انور عظیم۔۔۔۔‘‘

 

سناٹے میں اچانک زور زور سے یہ نام گونج جاتا ہے۔ کہانیاں لکھنے کا شوق پیدا ہوا، تو ادب میں انور عظیم کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا۔۔۔۔ پریم چند سے انور عظیم تک۔۔۔۔ یہ تذکرے کچھ اس طرح ہونے لگے تھے کہ انور عظیم کو دیکھنے کی خواہش پیدا ہونے لگی تھی۔۔۔۔

کہانیاں۔۔۔۔ کہانیوں کے آسمان سے جھانکتا ہوا ایک چہرہ۔

اور۔۔۔۔

وقت کی زنبیل میں دفن کہانیاں۔۔۔۔

یہ کہانیاں اچانک میرا راستہ روک لیتی ہیں۔۔۔۔

ایک جانی پہچانی سی، شفقت آمیز آواز میرا پیچھا کرتی ہے۔۔۔۔

’’آپ آئے نہیں؟‘‘

’’نہیں۔۔۔۔ میں نے فون کیا تھا۔‘‘

’’آ جاتے۔۔۔۔ اکیلا آدمی جاتا ہی کہاں ہے۔ اکیلے آدمی کو آنے والوں کا انتظار رہتا ہے۔‘‘

وہ بولتا ہوا سدا بہار چہرہ۔۔ وہ گنگناتا ہواچہرہ۔۔ وہ بچوں سی مسکان لٹاتا ہوا چہرہ۔۔ وہ ہر پل بچہ بن جاتا ہوا چہرہ۔۔۔۔

کیا یہی چہرہ قومی آواز کا ہفتہ وار کالم ’باتیں‘ لکھا کرتا تھا۔

کیا یہی چہرہ بلٹز جیسے انتہائی سنجیدہ رسالہ سے جڑا ہوا تھا۔

کیا اسی چہرے نے لابوہیم جیسی کہانیاں ادب کو دی تھی۔

 

اکتارہ والا بچہ خاموشی سے کہتا ہے۔۔۔۔ ’’بچپن میں، بچپن والا سدا بہار چہرہ کسی نوٹ بک میں رکھ کر انہوں نے اپنے بڑھاپے کے لیے محفوظ کر دیا تھا۔ پھر بڑھاپا آیا ہی نہیں۔‘‘

میں نے جب دیکھا، وہ بچپن والے چہرے کا ماسک لگا چکے تھے۔

 

(۲)

نعش گاڑی

تاریخ۔۔۔۔ ؟

میں گھر میں داخل ہوا ہوں۔ تبسم مجھے بتار رہی ہیں۔ ’’انیس بھائی (انیس امروہوی) کا فون آیا تھا۔ آپ جلدی سے ان کے پاس چلے جائیں۔‘‘

’’کیوں کیا ہوا؟‘‘

تبسم کی آواز لڑکھڑا رہی ہے۔۔۔۔ ’’ انور عظیم گزر گئے۔۔۔۔‘‘

مجھے لگتا ہے۔۔۔۔ نہیں، کہانیاں گزر گئیں۔۔۔۔ کہانیاں کھو گئیں۔۔۔۔

پریم چند کی وراثت کو زندہ رکھنے والا، ویرانیوں کی خاموشی میں کبھی ختم نہ ہونے والی گپھاؤں میں۔ اپنے قصے کہانیوں کی پوٹلی اٹھا کر چلا گیا۔۔۔۔

’’میں جا رہا ہوں۔‘‘

آواز ٹوٹ رہی ہے۔ آواز برف میں دب گئی ہے۔۔۔۔

میں تبسم کی آنکھوں میں ان سسکیوں کو پڑھ سکتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں وہ مجھے کتنا مانتے تھے۔۔۔۔‘‘

مجھے یاد ہے۔۔۔۔ پیرا ڈائز اپارٹمنٹ۔ ہر بار ان کے گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہی پہلا سوال ہوتا تھا۔

’’تبسم نہیں آئیں۔‘‘

’’نہیں۔ اگلی بار ضرور لے کر آؤں گا۔‘‘

’’لے آؤ یار، اگلی بار کا کیا ٹھکانا۔ زندگی ساتھ دے نہ دے۔‘‘ زندہ دل مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے ان کا دوسرا جملہ ہوتا۔۔۔۔ ’’آپ لوگوں کے لیے چائے بناتا ہوں۔۔۔۔‘‘

**

وہی پیراڈائز اپارٹمنٹ۔۔۔۔

یہاں سے جنت کے لیے بھی کوئی کھڑکی کھلتی ہے کیا؟

ضرور کھلتی ہو گی۔

آج ہمیشہ کی طرح دروازہ بند نہیں۔۔۔۔ دروازہ کھلا ہے۔

شناسائی کے قدموں کی چاپ سننے والا، دستکیں پہچاننے والا اور بند دروازے کھولنے والا، کسی اجنبی روزن سے پیراڈائز اپارٹمنٹ کے اپنے کمرے سے نکل کر، انجانی جنت کے خوبصورت راستوں کی طرف مڑ گیا ہے۔

کمرے میں اداسی ہے۔۔۔۔

کتنے لوگ ہیں۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔ مجھے گنتی نہیں آتی۔

لیکن یہاں تو گنتی کی ضرورت بھی نہیں۔۔۔۔ ایک دو۔ تین چار۔۔۔۔

خدیجہ عظیم آہستہ سے ہماری طرف بڑھتی ہیں۔ ’’اچھا کیا آپ لوگ آ گئے۔ ایسے موقع پر جو پڑھا جاتا ہے۔ جلدی جلدی پڑھ ڈالیے۔ تاکہ جنازے کو جلدی جلدی قبرستان پہنچایا جا سکے۔ نند کشور وکرم خاموشی سے میرا ہاتھ دباتے ہیں۔۔۔۔ انیس بھائی میری طرف دیکھتے ہیں۔

سب سے پہلے وہی دعا میں ہاتھ اٹھاتے ہیں۔

دعا میں ہاتھ میرے بھی اٹھے ہیں۔۔۔۔

میں خاموشی سے سناٹے میں گم چہروں کو تکتا ہوں۔۔۔۔ اللہ یہاں سے جنت کو جانے والا رستہ کون سا ہے مولا۔۔ ؟ وہ اپنی کہانیوں کی پوٹلی لے کر چلا گیا ہے۔۔۔۔

میرے اندر ایک چیخ اٹھتی ہے۔۔۔۔

’’سن رہے ہو تم۔ آہ، اردو افسانہ یتیم ہو گیا۔‘‘

جنازہ ایمبولینس میں رکھ دیا گیا۔ انیس بھائی جنازے کے ساتھ ہی ایمبولینس میں بیٹھ گئے۔ میں اور نند کشور وکرم دوسری گاڑی میں ہیں۔ خدیجہ عظیم نے کہا ہے۔ یہاں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ آخری غسل تجہیز و تکفین کے لیے ہم سب اوکھلا کے کسی مدرسے میں چلیں گے۔۔۔۔ اتنی جلد بازی کیوں ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ انور عظیم تو کبھی بھی اپنی کہانیوں کے معاملے میں جلد باز نہیں رہے۔۔۔۔ لمبی لمبی، نہ ختم ہونے والی کہانیاں۔ لیکن شاید موت کے بعد۔۔۔۔ نہیں، مجھے اپنے الفاظ کے ساتھ شاید نرم رویہ اپنانا چاہئے۔ دیکھتے نہیں، نیلما عظیم آ چکی ہیں۔ ان کا ہیرو بیٹا شاہد بھی ہے۔ انور عظیم کا وہ بیٹا بھی ہے جو جے این یو میں پروفیسر ہے۔۔۔۔ میگھا بھی ہے۔ جو انور عظیم کے یہاں گفتگو میں ہمیشہ ہمارے درمیان شریک ہو جایا کرتی تھی۔ ممکن ہے، سب کو ہی جانے کی جلدی ہو۔۔۔۔ آخر کون انتظار کرے۔۔۔۔ لابوہیم جیسی انوکھی کہانیاں تخلیق کرنے والا تو گزر چکا ہے۔۔۔۔

جنازہ اوکھلا کی تنگ گلیوں سے گزر رہا ہے۔۔ مسجد کہاں ہے، کسی کو نہیں معلوم۔۔ کسی کے پاس مکمل پتہ نہیں ہے۔

میری گاڑی کے آگے وہی ایمبولینس ہے جس پر ہندی میں لکھا ہے۔ (شو چالن) یعنی نعش گاڑی۔

اکتارہ والا بچہ اچانک دونوں گاڑیوں کے درمیان آ جاتا ہے۔

وہ افسردہ ہے۔

وہ خوفزدہ ہے۔

وہ سہما سہما سا مجھ سے پوچھتا ہے۔۔۔۔

’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ ان لوگوں کو منزل، کیوں نہیں ملتی؟‘‘

’’تم اپنے لب بند ہی رکھو تو بہتر ہے۔ جسے آخری منزل، مل چکی ہے۔ میں ابھی اس کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا۔۔۔۔‘‘

’’کیا ان کے پاس مکمل پتہ نہیں ہے؟‘‘

’’نہیں۔۔۔۔‘‘

اکتارہ والے بچے کے چہرے پر سہمی سی ہنسی امڈتی ہے۔۔۔۔

’’کیا قبرستان کے پتے کے لیے بھی بھٹکنا پڑتا ہے۔؟‘‘

ایک بار پھر اس کا چہرہ گم ہو گیا ہے۔۔۔۔ مجھے اس اکتارہ والے، ننھے منے شہزادے کے چہرے کے کھونے کا صدمہ ہے۔۔۔۔ کہ یہی چہرہ سدا سے ادب کا چہرہ رہا ہے۔ صاف شفاف۔ ریا، مکاری، دغا بازی اور خود غرضی سے الگ کا چہرہ۔۔۔۔ ایک پاکیزہ، پر نور چہرہ۔۔۔۔ اپنی تنہائیوں سے گھبرا کر جب میں خود کو ادب کی آغوش میں پاتا، تو وہی سدا بہار نغمہ، وہی اکتارہ کی مدھر دھن میرے کانوں میں گونج کرتی تھی۔۔۔۔

اوراس رات بھی وہی ہوا۔۔۔۔

کیا بجا تھا، یاد نہیں۔۔۔۔ انور عظیم کی یادیں لیے میں اپنے کمرے میں واپس آ گیا ہوں۔ اکتارہ والا بچہ بھی ہے۔۔۔۔ لیکن گم سم۔۔۔۔ ہاتھ میں اکتارہ بھی ہے۔۔۔۔

’’آج نہیں گاؤ گے؟‘‘

’’نہیں‘‘

’’سمجھ سکتا ہوں۔‘‘ میں پھر پو چھتا ہوں۔

’’کبھی نہیں گاؤ گے؟‘‘

’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔‘‘

’’ہاں۔ شاید۔ تمہیں یاد ہے۔ شاید تم اس درمیان بھی وہاں موجود ہوتے تھے۔ ہے نا۔۔ وہ کتنی محبتیں کرتے تھے۔ انیس بھائی اور میں ان کی بے تکلف دوستی کے گواہ تھے۔ وہ اکیلے ہوتے تھے، مگر کسی کو بھی تکلیف دینے کے قائل نہیں تھے۔ خود چائے بناتے تھے۔ ناشتہ لگاتے تھے اور۔۔۔۔ ریاکاری سے الگ کی باتیں۔‘‘

’’اچھا ادب تبھی تخلیق ہوتا ہے۔۔۔۔ آہ!‘‘

میں چونک اٹھتا ہوں۔۔۔۔

’’وہ مصلحتوں سے الگ ایک شہنشاہ تھے۔۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ اکتارہ کو سہلائے جا رہا ہے۔

’’یاد کرو۔ تمہارے ساتھ کتنا بڑا حادثہ ہو گیا تھا۔۔۔۔ مگر وہ ایسے بھول گئے، جیسے کچھ بھی نہیں ہوا ہو۔۔۔۔ یاد کرو۔۔۔۔‘‘

وہ ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ یادوں کی پگڈنڈی پر میں ذرا دور نکل جاتا ہوں۔ اس حادثہ نے جیسے پیر تسمہ پا کی طرح مجھے جکڑ لیا ہے۔۔۔۔

میں اپنے آپ کو ایک ایسا مقروض محسوس کر رہا ہوں، جو وداع کی پہاڑیوں میں گم ہو گئی معصوم آنکھوں کے آگے بالکل ہی ننگ دھڑنگ پڑا ہو۔۔۔۔

اور وداع کی پہاڑیوں میں گم ہونے والی آنکھوں نے کہا ہو۔۔۔۔

’’ذوقی، ایسا ہو جاتا ہے۔ ایسا کبھی کبھی ہو جاتا ہے۔ گھبراتے کیوں ہو؟‘‘

انتقال سے کچھ ماہ قبل کی بات ہے۔ ہندی میں ترجمہ کی گئی کچھ کہانیاں انہوں نے میرے حوالے کی تھیں۔ کسی پبلشر سے بات کر لینا۔۔۔۔ یہ ساری کہانیاں وہی تھیں، جو کتابی شکل میں اردو میں موجود تھیں۔۔۔۔ انور عظیم اپنی پسندیدہ کہانیوں کو ہندی میں دیکھنا چاہتے تھے۔ مگر وہ مسودہ میرے پاس سے کہاں چلا گیا، مجھے یاد نہیں۔ وہ پبلشر کون تھا؟ یا میں نے دیا ہی نہیں۔ مجھے یاد نہیں، میں نے، ان کی، بار بار کی یاد دہانی کے بعد کئی کئی دن تک گھر سر پر اٹھائے رکھا۔ مگر مجھے مسود نہیں ملا۔۔۔۔ میرے گھر ہندی کے پبلشر بھی آتے رہتے ہیں۔ ایک ہلکا سا شبہ مجھے یہ بھی ہے کہ مسودہ اٹھا کر میں نے ان میں سے ہی کسی ایک پبلشر کے حوالے نہ کر دیا ہو۔

۔۔۔۔ کہ اچانک ایک دن ہندی میں چھپی ہوئی ان کی کتاب سامنے آ جائے۔۔۔۔ لیکن اگر ایسا ہو بھی گیا تو اب پسندیدہ نظروں سے دیکھنے والی وہ آنکھیں کہاں سے لاؤں گا، جو انہیں دیکھ کر بچوں کی طرح خوش ہو جائیں گی۔۔۔۔ آخری چند ملاقاتوں میں کہی گئی ایک چھوٹی سی بات میرے ذہن میں محفوظ رہ گئی ہے۔

’’کبھی کبھی کچھ گم ہو جانا بھی بہانا بن جاتا ہے۔۔۔۔ بہانا۔۔۔۔ اور اسی بہانے ہم اپنی یادوں کو ٹٹولتے رہتے ہیں۔‘‘

 

مجھے ابھی بھی لگتا ہے۔ وہ کہیں گئے ہی نہیں۔ وہ ابھی بھی پاس میں بیٹھے ہیں۔۔۔۔ اوکھلا اور جامعہ کی گلیوں میں بھٹک رہی نعش گاڑی کو منزل ملی ہی نہیں اور وہ اکتا کر، گھبرا کر اٹھ گئے۔

’’گھر لے چلو۔ مجھے کالم لکھنا ہے۔ کچھ کہانیاں مکمل کرنی ہیں۔‘‘

اکتارہ والے بچے نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ہے۔

وہ ہاتھوں میں قلم لے کر اپنے لکھنے والی میز پر، پھر سے شروع ہو گئے۔ اور اکتارہ والے، ننھے منے شہزادے نے پھر سےا پنے سریلے نغمے کی دھن تیز کر دی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

ادبی فائل –۹

 

کوئی بادلوں کے رتھ پر سوار میری طرف بڑھ رہا تھا

(میرے مولی صاحب: کچھ یادیں )

 

’اچھا، پہلے جتنا رونا ہے، رو لو۔ ‘

’میں اتنی دیر تک رونا جاری رکھوں گا کہ آپ چلے جائیں گے۔ ‘

معصوم چہرے کی مسکراہٹ اچانک ہنسی میں تبدیل ہو گئی۔ ’میں کہیں نہیں جا رہا۔ آپ سبق یاد کر لیں گے تو چلا جاؤں گا۔ ورنہ ساری رات یہیں رہوں گا۔‘

’کیا۔؟‘  اچانک آنسو خشک ہو گئے۔ ’آپ رات بھر یہیں رہیں گے؟‘

’اور نہیں تو کیا۔ آج سوچ لیا ہے۔ یہیں آرام کروں گا۔‘

لیکن میرے مولوی صاحب نے آرام نہیں کیا۔ میرے ہاتھ سے پنسل اور کاپی لے کر ایک ’چارٹ‘ تیار کر لیا۔ کاغذ میری طرف بڑھایا۔ ’اس چارٹ کو، ابّا کو دکھا دینا۔ ‘ابّا کو چارٹ دکھایا تو ابّا زور زور سے ہنسنے لگے۔ امی کو آواز لگائی۔ ابّا کاغذ پر نگاہیں جمائے زور زور سے پڑھ رہے تھے۔ ’رات کے آٹھ بجے۔ دس منٹ رونے کا وقفہ۔ دس منٹ ناک کا بہنا۔ دس منٹ منہ پر پانی ڈالنا، فریش ہونا۔ ساڑھے آٹھ سے پڑھائی، وہ بھی اگر مشرف میاں دل سے راضی ہو گئے۔ ‘

یہ تھے میرے مولوی صاحب۔ میں انہیں مولوی صاحب ہی کہتا تھا۔ اب سوچتا ہوں، کتنا وقت گزر گیا۔ یہ بھی سوچتا ہوں کہ دلی آئے ہوئے مجھے 32 برس گزر گئے۔ لیکن مجھے دلی راس نہیں آئی۔ میں ابھی بھی خود کو آرہ میں محسوس کرتا ہوں۔ مولوی صاحب کے بارے میں سوچتا ہوں تو شہر آرہ کے گلی کوچے نگاہوں میں روشن ہو جاتے ہیں۔ آرہ اسٹیشن سے میرے گھر (محلہ مہا دیوا) کا فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ مہا دیوا سے ملکی محلہ چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔ اور ملکی محلہ کی گلیوں سے آگے نکل کر جامع مسجد سے سیدھے چلتے جائیں تو ایک محلہ آتا ہے۔ عبور پل۔ مولوی صاحب یہیں رہتے تھے۔ ان کے منہ سے اکثر عبور پل کا تذکرہ سنتا رہتا تھا۔ یہ میرے بچپن کا دور تھا جب میرا اسکول جانا بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ایک گھر تھا، جو کوٹھی کہلاتا تھا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو کوٹھی کو گہن لگ چکا تھا۔ اس گھر میں کئی خاندان آباد تھے۔ بڑے ابّا، چھوٹے ابّا، رجّو دادی اور نانی امّاں کا خاندان۔ میں اس گھر کے لئے منّا تھا۔ آنکھیں کھلتے ہی چاروں طرف سے منّا منّا کی آواز سنائی دیتی تھی۔ چھوٹی سی عمر میں، میں اپنے اصل نام کو بھول گیا تھا۔ اس وقت عمر کا پانچواں برس شروع ہونے والا تھا۔ شام کا وقت تھا۔ ابّا نے کمرے میں آتے ہوئے اعلان کیا۔ کل سے منآ کو پڑھانے کیلئے مولوی صاحب آئیں گے۔

میں نے ہاتھ اٹھا دیا۔ میں نہیں پڑھنے والا۔

ابا مسکرائے۔ امی نے سمجھایا۔ ’گھر کے تمام بچوں کو مولوی صاحب نے ہی تعلیم دی ہے۔ بہت پیار سے پڑھائیں گے۔ ‘

’میں نہیں پڑھوں گا۔ ‘ مجھے خوف کا احساس تھا۔ دل دماغ میں ایک خوفناک تصویر بن رہی تھی۔ نانی اماں ڈاکوؤں کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ مجھے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اچانک میں ڈاکوؤں کے نرغے میں آ گیا ہوں۔ مگر اب کیا کروں؟ کل سے مولوی صاحب آ جائیں گے۔ ابا نے بتایا تھا کہ مولوی صاحب رات کے آٹھ بجے آئیں گے۔ 8 سے 9 یعنی ایک گھنٹہ پڑھائیں گے۔ ساری رات خوف میں گزری۔ دوسرا دن آ گیا۔ دیکھتے دیکھتے شام ڈھل گئی۔ امی نے میرے کپڑے بدل دیئے۔ سر پر گول سی سفید ٹوپی پہنا دی۔ میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ 8 بج گیا۔ اور ٹھیک آٹھ بجے باہر کے دروازے سے ایک آواز گونجی۔ مشرف۔۔۔۔

ابّا چونک گئے۔ امّی نے چونک کر ابّا کی طرف دیکھا۔ میرے لئے یہ نام اجنبی تھا۔۔۔۔ مشرف۔۔۔۔ بھلا یہ کون ہے۔۔۔۔ ؟ ابّا فخر سے مسکرائے۔ امّی کی طرف دیکھا اور کہا۔ یہ ہوتی ہے تہذیب۔ مولوی صاحب کو میں نے منّا ہی بتایا تھا۔ انہوں نے کسی سے دریافت کیا ہو گا۔ باہر بیٹھکے کا دروازہ کھل گیا۔ میں روتا ہوا، ڈراسہما مولوی صاحب کے سامنے تھا۔ پہلی بار میں کیا باتیں ہوئی مجھے یاد نہیں۔ مگر وہ پہلا دن تھا جب مولوی صاحب نے میرا منّا نام میری زندگی سے الگ کر دیا تھا۔ اب میں مشرف تھا۔

اب سوچتا ہوں، زندگی کے ان چھوٹے چھوٹ واقعات سے میرا کتنا گہرا تعلق رہا ہے۔ آپ کی شخصیت، آپ کے کردار کو تراشنے میں کئی لوگ ہوتے ہیں، جو نمایاں طور پر آپ کی شخصیت کو سجانے سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میری زندگی کے تین کردار ایسے ہیں جنہیں میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ برکتوں اور رحمتوں والی امّی جان۔ داستان گو ابّا حضور جنہوں نے نازک ننھی عمر سے ہی کہانیاں سنا سنا کر میرے اندر چھپے افسانہ نگار کو زندہ کر دیا تھا۔ اس سلسلے کی تیسری اہم کڑی تھے، مولوی صاحب۔ مولوی صاحب مجھ قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے۔ ساتھ ہی اردو کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ الف ب پر عبور حاصل ہو گیا تو ایک دن مولوی صاحب، اسمعیل میرٹھی کی، اردو کی پہلی کتاب لے کر آ گئے۔ پھر پانچویں کتاب تک ان سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ ان کے پڑھانے کا انداز نرالا تھا۔ آج بچوں کی تعلیم کے لئے ماڈرن ٹکنالوجی آ چکی ہے۔ کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ پر بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔ بچوں کو تعلیمی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ ایسے کچھ پراجیکٹ پر میں نے بھی کام کیا ہے، اب خیال آتا ہے کہ اس وقت، اس دور میں ایسی کوئی ٹکنالوجی ہمارے پاس نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود مولوی صاحب رنگ برنگے کاغذوں سے کبھی ہوائی جہاز بنا لیتے، کبھی گھوڑا یا کوئی دوسرا جانور۔ میں ہنستا ہوا کہتا۔ یہ گھوڑا نہیں ہے۔ یہ ہاتھی ہے۔ وہ مسکراتے۔ زور زور سے ہنستے۔ مولی صاحب کا قد چھوٹا تھا۔ رنگ سانولہ، چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ چھوٹی سی داڑھی تھی۔ سر پر دو بلی ٹوپی۔ وہ مجھے پڑھانے کے لئے نئے نئے طریقے آزماتے تھے۔ جب تک مولوی صاحب مجھے پڑھا رہے ہوتے، کمرے میں کوئی بھی داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ امّی کی طرف سے حکم تھا۔ ابّا گھر میں موجود ہوتے تو مولوی صاحب سے ملنے آتے۔ اور سلام کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتے۔ یہ اس وقت کی تہذیب تھی۔ تربیت کا اپنا انداز تھا۔ وقت کے ساتھ آج یہ پوری دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ برسات کے موسم میں، میں دعا مانگتا تھا، کہ اللہ میاں آج مولوی صاحب کو مت بھیجنا۔ آج مجھے بھائی بہنوں کے ساتھ کھیلنا ہے۔ باہر موسلا دھار بارش ہو رہی ہے۔ بارش نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ گھر میں گفتگو ہو رہی ہے کہ آج مولوی صاحب نہیں آئیں گے۔ وہ جہاں رہتے ہیں، اس علاقے میں پانی بھر گیا ہو گا۔ تیز بارش۔ آنگن میں بھیگتے ہوئے، کاغذ کی ناؤ بنا کر میں چھوٹی سی نلیا، میں تیرا رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ مولوی صاحب کے نہ آنے کی دعا بھی مانگتا جا رہا تھا۔ مگر مجھے یقین تھا، کوئی بادلوں کے رتھ پر سوار میری طرف بڑھ رہا ہے۔ مگر کون؟ اس بارش میں اور سیاہ رات میں بھلا کون آئے گا۔؟ سڑک بھی سناٹی ہو رہی ہے۔ آٹھ بجا۔۔۔۔ اور باہر کے دروازے سے آواز ابھری۔۔۔۔ مشرف۔۔۔۔ امی نے مسکرا کر شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ’ منّا، مولوی صاحب آ گئے۔‘

’سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

زندگی کی بچپن بہاریں اور بچپن خزاؤں کا حساب لگاتا ہوں تو دلی کی زندگی بے ذائقہ لگتی ہے۔ صرف میرا شہر آرہ ہے، جو میری نگاہوں میں گردش کرتا ہے۔ گھر پر مشاعرہ ہوا کرتا تھا۔ مشاعرے میں بڑے ابآ، چھوٹے ابّا اور ابّا بھی شریک ہوتے۔ کبھی کبھی ان مشاعروں میں مولوی صاحب بھی شریک ہوا کرتے۔ ان کا ایک شعر مجھے آج بھی یاد ہے۔

وہ بھی منزل ہے ایک اے آسی

میں جہاں تھک کے بیٹھ جاتا ہوں

وہ جب تک پڑھانے آتے رہے، کبھی ایک دن ناغہ نہیں کیا۔ بلکہ ہر بار ایک نئے مشرف، کو مجھ میں زندہ کر دیتے۔ مجھے ہر بار اپنی شخصیت میں ایک نئی چمک کا احساس ہوتا۔ پہلے دن مجھے مشرف کے نام سے آواز دے کر انہوں نے مستقبل کے مشرف عالم ذوقی کی پیشن گوئی کر دی تھی۔ مولوی صاحب سے تعلیم کا سلسلہ اس وقت ختم ہوا جب میں نے جین اسکول میں داخلہ لیا۔ ابّا حضور اور مولوی صاحب کی تربیت نے مجھے بچپن سے ہی افسانہ نگار بنا دیا۔ میں کالج میں آ گیا تھا۔ ان دنوں ابّا حضور مظفر پور میں تھے۔ میری کہانیاں اردو اور ہندی رسائل میں شائع ہونے لگی تھیں۔ مظفر پور سے آرہ آیا تو خیال آیا کہ مولوی صاحب سے ملنا چاہئے۔ میں عبور پل پہنچا اور ان کا گھر دریافت کیا۔ وہ کمزور ہو گئے تھے۔ دروازے سے باہر نکلے۔ میری طرف دیکھا۔ آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ ایک ایسی چمک، جسے لفظوں میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ مولوی صاحب نے میرے ہاتھوں کو تھاما۔ مسکرائے۔۔۔۔ بڑے ہو گئے ہو۔ بہت بڑے بنو گے۔۔۔۔‘

یہ آخری ملاقات تھی۔ میں اس کے بعد نہیں ملا۔ سننے میں آیا کہ وہ دربھنگہ چلے گئے۔ اپنے بیٹے جنید آروی کے پاس۔ پھر یہ خبر بھی ملی کہ مولوی صاحب نہیں رہے۔ آنکھوں کے پردے پر یادوں کا رقص جاری تھا۔ حضرت داغ کا انتقال ہوا تو علامہ اقبال نے کہا۔

اٹھ گیا ناوک فگن مارے گا دل پر تیر کون

ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون

لیکن یہاں تو مولوی صاحب کے جانے کا احساس ہی نہیں تھا۔ مولوی صاحب کیسے جا سکتے ہیں؟ نالہ مومن ہمی داریم دوست۔ خدا کی محبت سے بندہ کبھی آزاد کیسے ہو سکتا ہے۔ ؟ عقیدت کی موجوں سے میرا دل خالی کیسے ہو سکتا ہے؟ ایک روح نے پردہ کیا۔ ایک روح مجھ پر غالب ہو گئی۔ اور ایسے غالب ہوئی کہ اب تک میرے وجود کا اہم حصہ ہے۔ عرصہ گزر گیا۔ یادیں زندہ رہتی ہیں۔ یہ یادیں ابھی بھی میرا حصہ ہیں۔ مجھے کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا، کہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ تنہائی میں اکثر وہ آواز میرے کانوں میں آج بھی گونج جاتی ہے۔۔۔۔ مشرف۔۔۔۔ برسات کے موسم میں جب مسلادھار بارش ہوتی ہے، مولوی صاحب کا خیال اچانک میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ لا دیتا ہے۔ کوئی بادلوں کے رتھ پر سوار میری طرف بڑھ رہا ہے۔۔۔۔ کچھ آوازیں کبھی گم نہیں ہوتیں۔ عمر کی آخری منزل تک کے لئے ہم ان’ آوازوں‘ میں پناہ ڈھونڈھ لیتے ہیں۔

 

تعارف

 

نام: محمد اسماعیل آسی اروی

پیدائش: انیس جنوری انیس سو اکیس

— انیس سو اسی میں دربھنگا منتقل ہو گئے/ وہیں انتقال ہوا

بیٹے: جنید عالم اروی / دربھنگہ میں قیام۔ عمدہ شاعری کرتے ہیں۔

شعری مجموعہ: شبنم خستہ حال (انتقال کے بعد شایع ہوا)

نمونۂ کلام:

 

تقلید تھی ہمارے لئے جستجو کی موت

اچھا ہوا کہ چھوٹ گئے کارواں سے ہم

٭٭

آسی وہ چند آرزوئے زندگی کہ آہ

جن کو بیاں نہ کر سکے اب تک زباں سے ہم

٭٭

اپنا سرِ نیاز کہاں سنگِ در کہاں

لے کر چلا ہے اے دلِ وحشت اثر کہاں

٭٭

 

بے خودی نام ہے احساس خودی کا شاید

ورنہ کچھ اور تھا منصور خبر ہونے تک

 

یہ کیسا اے جنوں مجھ کو فریبِ روئے جاناں تھا

کہ ہر ذرہ بیاباں کا نگاہوں میں گلستاں تھا

 

تصور کی طلسم آرائیاں پوچھے کوئی مجھ سے

کبھی تھا گھر بیاباں میں کبھی گھر میں بیاباں تھا

 

ذرّہ ذرّہ میں بہارِ رُخِ لیلیٰ ہے نہاں

جا کے دیکھے بھی کوئی قیس کا ویرانہ سہی

٭٭

کل حقیقت مری تسلیم ہی کرنی ہو گی

آج افسانہ سمجھتے ہو تو افسانہ سہی

٭٭٭

 

 

 

 

ادبی فائل- دس

 

شاہد انور: ہندوستانی ڈرامے کی دنیا کا سپر میں

 

شاہد چلا گیا، یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا، کہ روتے کو ہنسانے والا شاہد ہمیں اس طرح چھوڑ کر جا بھی سکتا ہے۔۔ حبیب تنویر اور ڈرامے کی دنیا کا ہر فرد اس سے بے پناہ پیار کرتا تھا۔۔ شاہد اور میں نے کم و بیش ایک ساتھ لکھنا شروع کیا۔ آہنگ میں اس کا افسانوی گوشہ بھی شایع ہوا۔ یہ بڑی بات تھی۔۔ وہ افسانوں سے زیادہ ڈراموں میں جیتا تھا۔ دلی آنے کے بعد آہستہ آہستہ وہ افسانہ نگاری سے دور ہوتا گیا اور خود کو ڈراموں میں مصروف کر لیا۔۔ میں شاہد کو اردو ڈرامے کی حد تک محدود نہیں کرتا۔۔ اس کے پاس بڑا ویژن تھا۔ بڑا کینواس تھا۔ وہ زندگی کو اپنے فلسفوں کی تہ دار معنویت کے ساتھ فریم کرنا جانتا تھا۔۔ اور جب ایک بڑی دنیا اس کے فن سے متاثر ہو کر اس بانسری والے کے پیچھے پیچھے چلنے لگی تو وہ اچانک غایب ہو گیا۔۔ وہ ایسا ہی تھا۔۔ چھپن چھپائی کے کھیل میں ماہر۔۔ ذرا سی عمر اور ملی ہوتی تو ہندوستان کو ایک اور حبیب تنویر مل گیا ہوتا۔۔ تقدیر کے کھیل میں بازی سپر پاور کے ہاتھ رہی۔۔ سپرمین زندگی سے ہار گیا۔۔۔

’’ہاں مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ ابھی کیا سوچ رہے ہیں۔ یہی نا کہ میں یہاں اسپاٹ لائٹ کے نیچے اور آپ کے سامنے بت بنا کیوں کھڑا ہوں؟ در اصل میں کچھ سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ ہم زندگی بھر یہی کرتے ہیں۔ جب تک سانس نہ اکھڑ جائے۔۔۔۔ ایسے لوگوں کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ تیار کرنے میں کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ نہ ڈاکٹر کو، نہ پولس کو نہ رشتہ داروں کو، کیونکہ کاز آف ڈیتھ والے کالم میں ایک جملہ لکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔ کاز آف ڈیتھ۔۔۔۔‘‘

۔۔ غیر ضروری لوگ (شاہد انور کے ڈرامہ سے)

’کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور‘

ڈرامے کی دنیا میں یہ مشہور ڈائیلاگ بار بار دہرایا جاتا رہا ہے۔۔۔۔ پردہ کبھی نہیں گرتا۔ ڈرامہ چلتا رہتا ہے۔ شاہد انور چلا گیا۔ ڈرامہ جاری ہے۔ مگر کاز آف ڈیتھ۔۔۔۔ ؟ وہ کیوں چلا گیا اتنی جلدی۔۔۔۔ ضرورت کیا تھی۔۔۔۔ غیر ضروری لوگ محض ایک ڈرامہ نہیں تھا جہاں اس نے منٹو کے غیر ضروری کرداروں کو ایک خوبصورت ڈرامہ کا حصہ بنا دیا تھا۔ یہ سارے لوگ اتنے ہی غیر ضروری تھے جتنا کہ شاہد۔ اور شاہد یہ بات بہتر طور پر جانتا تھا کہ یہ غیر ضروری کردار ہی در اصل ہمارے سماج اور معاشرے کا سچ ہیں۔ سماج سے سیاست، کامیابی سے ناکامی، اڑان سے پستی، دہشت سے خوف اور معمولی خوشیوں پر جان دینے والے یہ لوگ نہ ہوں تو سیاست کے تیس مار خاں کس کے دم سے سیاست کریں گے؟ بلڈرز مافیا کس کے دم سے خون خرابا کریں گے، کس کا لہو بہائیں گے۔ ؟ یہی غیر ضروری لوگ تو تھے جو آزادی کے وقت مذہبی نعرے لگا کر ٹرینیں پھونک رہے تھے۔ مرنے والے بھی غیر ضرور لوگ تھے۔ مارنے والے بھی۔ انہی میں کوئی پیرن، کوئی باپو گوپی ناتھ، کوئی زینت اور کوئی بشن سنگھ۔۔۔۔ اوپر دی گڑ گڑ دی انیکس دی بدھیانا۔۔۔۔ کوئی ٹیڑھے میڑھے کان والا، کوئی پکوڑے جیسی ناک والا آپ کو آسانی سے مل جائے گا۔۔۔۔ مگر شاہد انور آسانی سے مل جانے والا کردار نہیں تھا۔ وہ ان ہزاروں لاکھوں کرداروں کو ملا کر ایک کردار بن گیا تھا۔ ایک ایسا کردار کہ اس کو بناتے وقت بھی دو جہاں کے خالق کو زور زور سے ہنسی آئی ہو گی۔۔۔۔ ’دنیا والو، لو جھیلو اسے‘۔۔۔۔ مزے کی بات یہ کہ شاہد نے جب اپنی پہلی کتاب مجھے ڈاک سے بھیجی تو یہی جملہ لکھا ہوا تھا۔۔۔۔ ’تبسم اور ذوقی کے نام۔۔۔۔ لو جھیلو اسے۔ ‘ اس کی کتاب کو جھیلنا آسان تھا لیکن اسے نہیں۔ منہ پھٹ تھا۔ اتنا منہ پھٹ کہ ساری دنیا، سسٹم، سیاست، سماج، معاشرہ پر دو ٹوک باتیں کرتے ہوئے قہقہہ لگاتا ہوا، وہ خود پر بھی ہنسنا نہیں بھولتا تھا۔ اور اسی لیے جب اس کے قہقہے سیاست کے ایوانوں سے ڈرامے کے اسٹیج تک پھیلتے چلے گئے تو خدا نے اچانک صدا لگائی۔ بلا لو اسے۔ میں سوچتا ہوں، عرش کی آسمانی چادر پر یقیناً شاہد نے منٹو کے ساتھ اس کے تمام کرداروں کو جمع کر لیا ہو گا۔ اسٹیج بھی تیار ہو گا۔ اور خدا سوچ رہا ہو گا۔ اتنی جلدی بھی کیا تھی۔ اسے جھیلنا سچ مچ مشکل ہے۔ لیکن خدا یہ بھول گیا کہ شاہد دنیا سے گیا ہی نہیں۔ وہ جا بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ یہاں تمام غیر ضروری کردار کے درمیان موجود ہے۔ اور ہر کردار ایک دوسرے سے محبت بھی کر رہا ہے، اور ایک دوسرے کو جھیل بھی رہا ہے۔

ہزاروں واقعات ہیں، جو منظر بہ منظر نگاہوں میں اتر رہے ہیں۔ خورشید اکرم، شاہد انور، اکرام خاور دوستوں کی ایک مختصر سی ٹولی۔ ہنستا ہنساتا قافلہ۔ پھر اس قافلے میں بہت بعد نعمان شوق کا اضافہ ہو گیا۔ دلی آئے ہوئے کچھ برس ہی گزرے تھے۔ تبسم سے افیئر چل رہا تھا۔ گھر والے رضا مند نہیں تھے۔ پھر ایسا موقع آیا کہ تبسم دلی آ گئیں۔ دوستوں کو ہماری شادی کی جلدی تھی۔ پروگرام طئے پایا۔ خورشید اور شاہد پیش پیش تھے۔ جگہ طئے کی گئی۔ مولوی صاحب کو بلایا گیا۔ مجھے یاد ہے۔ شاہد قہقہہ لگاتا ہوا تبسم کے پاس آیا۔ ’ابھی بھی وقت ہے، سنبھل جا۔ کس بربک سے شادی کر رہی ہے۔‘ نکاح کے بعد بھی شاہد کے قہقہے روشن تھے۔ میری شادی میں ایک گواہ خورشید تھے اور دوسرے شاہد۔ یار دوست گھر پر آ جاتے تو ہنسی قہقہوں کا ایک نہ ختم ہونے والا دور صبح سے رات تک جاری رہتا۔ ہمارا کہنا یہی تھا کہ شاہد جس محفل میں ہو وہاں سناٹا نہیں چھا سکتا۔ اس کے قہقہوں کی آواز تو میلوں دور بھی سنی جا سکتی تھی۔

ایک بار دوستوں کا قافلہ اکرام خاور کے گھر پہنچا۔ ہمارے ساتھ ایک پبلشر دوست بھی تھے۔ اس وقت ایک ناول بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ اتفاق سے وہ کتاب اکرام کے پاس تھی۔ میرے پبلشر دوست نے کتاب ہاتھ میں لے کر جب قیمت دیکھی تو چونک کر بولے۔ ’اتنی کم قیمت۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ؟‘ شاہد کا فلک شگاف قہقہہ گونجا۔ ’پڑھ لو۔ پھر قیمت کا اندازہ ہو جائے گا۔۔۔۔‘

ہزاروں واقعات۔۔۔۔ تنہائی کے ان جان لیوا لمحوں میں یہ واقعات زندہ ہو گئے ہیں۔ قہقہے مجھے توڑ رہے ہیں۔ شادی کے بعد کچھ عرصہ تک ہم ملتے رہے۔ پھر کبھی کبھی فون پر باتیں ہو جاتیں، کبھی چار پانچ سال بعد کسی سے می نار میں ملاقات ہو گئی۔ اس کے بعد سال در سال گزرتے رہے، ملنا نہیں ہوا۔ کیا ملنا ضروری ہوتا ہے؟ دلی آنے کے بعد پانچ سات برسوں کی ملاقات کے نقوش اب بھی تازہ ہیں۔ اس درمیان میں اپنی مصروفیات کا شکار رہا۔ اور وہ خاموشی سے غیر ضروری کرداروں میں پھیلتا گیا۔ پھیلتا گیا۔۔۔۔ پھیلتا گیا۔ اس حقیقت کا علم اس کی موت کے بعد ہوا کہ وہ ہر جگہ موجود تھا۔ بڑے لوگوں میں۔ چھوٹے لوگوں میں۔ پردہ اٹھانے اور گرانے والوں میں۔ اسٹیج تیار کرنے والوں میں، اداکاروں میں، آرٹ ڈائرکٹر، میک اپ آرٹسٹ، اسپاٹ بوائے۔۔۔۔ ہر کوئی اس کا دوست تھا۔

’’سچ تو یہ ہے کہ ایسے ہی عجیب آدمیوں کی وجہ سے یہ دنیا، دنیا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتے تو یہ زمین بالکل جنت ہو جاتی۔ جہاں سبھی ایک طرح کے ہوتے۔ اکہرے، سیدھے اور نیک۔۔۔۔ اگر بابو گوپی ناتھ جیسے لوگ نہ ہوتے تو منٹو مرحوم تو چوبیس سال ۸ مہینے اور ۶ دن بھی جی نہیں پاتے۔۔۔۔ ان کا جی لگایا کبھی بابو گوپی ناتھ نے کبھی برج موہن نے۔۔۔۔‘‘

۔۔ غیر ضروری لوگ

دوستوں کی مختصر ٹولی اور اس ٹولی سے پہلا وکٹ گر گیا۔۔ شاہد انور چلا گیا۔۔ میں خود سے سوال کرتا ہوں۔۔۔۔ شاہد کیسے جا سکتا ہے؟ جسے بے رونق، مکار اور ویران دنیا میں قہقہے لگانے کے لئے بھیجا گیا ہو، وہ مردہ سرد اور بے جان کیسے ہو سکتا ہے؟ مول چند اسپتال کے گیٹ کے پاس جب اس کے سرد، بے جان جسم کو دیدار کے لئے رکھا گیا، ممکن ہے کچھ دیر اگر میں اس کے چہرے کے پاس اور جھکا ہوتا تو وہ سفید چادر ہٹا کر قہقہہ لگاتا ہوا اٹھ جاتا۔۔ دھت پاگل۔۔ تم سالے۔۔۔۔ چین سے سونے بھی نہیں دے تے۔۔۔۔

شام کی پرچھائیوں میں لاش کے قریب سوگوار اور چاہنے والوں کا ایک مجمع تھا۔۔۔۔ سسکیاں تھیں، آنسو تھے اور کون تھا، جس کے اندر شاہد کے آخری دیدار کی تڑپ نہ تھی۔۔ اردوداں تھے۔۔۔۔ ڈرامہ اور تھیٹر سے وابستہ اس کے سینکڑوں چاہنے والے۔۔۔۔ بہت سے لوگوں سے تو میں واقف بھی نہیں تھا۔۔۔۔ مگر ان میں زیادہ تر تر وہ لوگ تھے جو آج ادب اور میڈیا کے حوالہ سے بڑے ناموں میں شمار کئے جاتے ہیں۔۔ میں انتظار کر رہا تھا۔۔ درخت کی چھاؤں کے درمیان، آسمان پر چاند بادلوں کے ساتھ ساتھ شرارت سے چھپن چھپیا کا کھیل، کھیل رہا تھا۔۔۔۔ مجھے یقین تھا ابھی وہ اٹھے گا، اور ہنستا ہوا، قہقہہ لگاتا ہوا، چیخ پڑے گا۔۔۔۔

’بہت ڈرامہ کر لیا۔۔ کتنا ڈرامہ کرتا رے۔۔۔۔ اب تم لوگ ڈرامہ کرو۔۔۔۔ رو رہے ہیں، جیسے یہ زندہ رہیں گے۔۔ ہاں نہیں تو۔۔۔۔‘

اس سرائے میں کوئی بھی ہمیشہ کے لئے رہنے نہیں آیا مگر جب شاہد انور جیسے جینیس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں تو لگتا ہے ایک زمانے کو نیند آ گئی ہو۔۔ ایک عہد نہ ختم ہونے والی نیند میں گم ہو گیا ہو۔۔۔۔

میٹھا کریلا تھا وہ۔۔۔۔ کوئی اسے ڈھونڈھ کے لادو۔۔

آپ اس سے سماجیات، معاشیات ڈرامہ، فلم، ادب، تکنیک، جغرافیہ، نفسیات کسی بھی موضوع پر بات کر لیجئے، وہ کھٹ سے آپ کی بات کاٹ دیتا تھا۔۔ بربک‘۔۔ وہ قہقہہ لگاتے ہوئے اپنی بات رکھتا۔۔ اور اچانک آپ کو احساس ہوتا کہ مارکس، اینجل، نطشے، سارترے یا کوئی بھی جینیس ہنسی قہقہے میں ایسی دلیل شاید نہ دے سکتا ہو، جو وہ ہنسی ہنسی میں دے گیا ہے۔۔ اُس کی سنجیدگی میں قہقہہ تھا اور قہقہہ لگاتے ہوئے وہ اچانک ایسی بات کہہ دیتا کہ سامنے والے کے پاس اس سے بہتر کوئی جواب نہ ہوتا۔۔ وہ بہترین فلم کریٹک تھا۔۔ ڈرامہ، تھیٹر، تھیٹر کی خالی کرسیاں، اسٹیج۔۔۔ اس کی ایسی دنیا تھی جہاں وہ ہر دن اپنی جیب سے اچھا خاصہ سرمایہ خرچ کر دیتا تھا۔۔ وہ نئے بچّوں کا دوست تھا۔۔ بزرگوں کا ہمراز اور اپنی عمر کے دوستوں کے لئے میٹھا کریلا۔۔ دھت بربک۔۔۔۔ بڑے سرکاری عہدے پر ہونے کے باوجود بینک بیلنس زیرو۔۔ اسے ضرورت بھی کیا تھی۔۔۔۔ اسٹیج تیار ہے۔۔۔ شو کا وقت ہو چکا ہے۔۔ جیب خالی ہو چکی ہے۔۔۔۔ ’کون چائے پلائے گا۔۔۔۔ ؟‘ اور ایک ساتھ ایک دو نہیں ہزار قدم جوش میں آگے بڑھ جاتے۔۔۔۔ ’میں شاہد بھائی۔۔ ‘ دلچسپ یہ کہ ساری دنیا، تمام علوم اور ان کے ماہرین سے گفتگو کے بعد وہ خود کے لئے بھی کسی قصاب سے کم نہ تھا۔۔ ایسا قصاب جو گوشت کی بوٹیوں کے ٹکڑے کرتے ہوئے اپنے انجام کو بھول جاتا ہو۔۔ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا اور سچ ہے کہ وہ خود کو بھی خاطر میں کہاں لاتا تھا۔۔ بے نیاز۔۔ نہ نمائش پسند نہ شہرت۔۔ کچھ ملا تو ملا۔۔ کبھی پرواہ نہیں کی۔۔ کبھی جیب کا خیال نہیں کیا۔۔ سسٹم سے سیاست تک پر گہری نظر رکھنے والا پارکھی تھا وہ۔۔ ایسا پارکھی اب نہیں آئے گا۔۔ اب سوچاتا ہوں کہ شاہد کیا تھا، ترقی پسند؟ ترقی پسندوں میں وہ رول ماڈل تھا۔۔ جدیدیت پسند؟ خیال اور وژن کی سطح پر وہ اتنا ماڈرن تھا کہ عام جدیدئے، اس کی حیثیت کو نہیں پہنچ سکتے۔۔ وہ ترقی پسندی یا جدیدیت کی کھچڑی تھا؟ میرا خیال ہے، وہ سب سے الگ تھا۔۔ اب تک کے انسانی سفر میں تمام طرح کی فکر، رجحانات کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنی ایک مختلف شخصیت تیار کی تھی۔۔ آگ، مٹی، ہوا، پانی کی جگہ اس نے اپنی خمیر میں صرف انسانیت کو جگہ دی۔۔ وہ میٹھا کریلا تھا اور اس کڑوے کریلے میں جو انسانیت کی مٹھاس تھی وہ دنیا کے اس میلے ٹھیلے میں آج صرف ایک نمائش معلوم ہوتی ہے۔۔

بات ان دنوں کی ہے جب میں آرہ میں تھا۔۔ پھکڑ پن اور آوارہ گردی کے دن تھے۔۔ ادب معمولات کا ایک حصہ تھا۔۔ دوستوں کے درمیان بالخصوص نئی کہانی کو لے کر خوب باتیں ہوا کرتی تھیں۔۔ اس زمانہ میں، کلام حیدری کے رسالہ آہنگ میں ایک نو وارد پر گوشہ شائع ہوا۔۔ نام تھا، شاہد انور۔۔ یہ نام اجنبی تھا۔۔ کہانیاں جدیدیت سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھیں۔۔ لیکن یہ کہانیاں مجھے یاد رہ گییں اور شاہد انور کا نام بھی۔۔ دلّی آنے کے بعد خورشید اکرم سے دوستی ہوئی۔۔ ایک دن خورشید اکرم نے شاہد سے ملوایا تو میں چونک گیا۔۔ بوٹا ساقد لیکن چمکتی ہوئی گہری آنکھوں میں بلا کی ذہانت۔۔ میں نے فوراً کہا۔۔۔۔ ’آہنگ میں گوشہ شائع ہوا تھا؟‘

قہقہہ لگا۔۔ ’ارے مارو یار۔۔ سب بھول گیا۔۔ ‘

’بھول گئے؟‘

پھر قہقہہ لگا۔۔۔۔ ’سب غیر ضروری باتیں۔۔۔۔ ‘ اس قہقہہ سے، چھوٹے سے چائے کے ریستو راں کی دیواریں تک ہل گئی تھیں۔۔ اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد اُس کی کتاب شائع ہوئی۔۔ غیر ضروری لوگ۔۔ ‘ مجھے لیو تا لستائے کے اننا کار نینا کا ایک منظر یاد آ گیا۔۔ شرفا کے درمیان کانپتا ہوا ایک شخص، جسے عیش و عشرت کی محفلوں کے آداب تک پتہ نہ تھے، اس کے ہاتھ سے شیشے کا گلاس چھوٹ کر زمین پر گرتا ہے۔۔ ہنسی کی آوازیں گونجتی ہیں تو شہزادی کہتی ہے، یہ ہے عمدہ آدمی۔۔ سچا آدمی اور ایک ضروری آدمی۔۔ بعد میں منٹو کے کرداروں سے لے کر یہی غیر ضروری لوگ اس کے ڈراموں اور زندگی کا حصہ بنتے گئے۔۔۔۔ اس فانی دنیا میں وہ خود بھی ایک غیر ضروری کردار تھا، جس کے پاس بے نیازی سے زیادہ کچھ تھا تو زندگی کو جاننے اور سمجھنے کا مطالعہ۔۔ اور وہ جانتا تھا۔۔ ڈرامہ چلتا رہتا ہے۔۔ زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن ڈرامہ ختم نہیں ہوتا۔۔ پردہ ہٹے گا اور نئے ڈرامے کا اگلا سین پھر سے شروع ہو جائے گا۔۔۔۔ وہ ابھی بھی منٹو یا شیکسپیر کے مختلف کرداروں کی طرح سامنے ہے۔۔ بلکہ وہ ہر بار نئے کردار میں تبدیل ہو جاتا ہے۔۔

ابھی بھی ذہن و دماغ میں اس کے قہقہے گونج رہے ہیں۔۔ مول چند اسپتال سے گھر واپس لوٹے ہوئے مدت ہو چکی ہے۔۔۔۔ وہ بے جان، سرد اور مردہ چہرہ غائب ہے۔۔ کھڑکی سے باہر فٹ پاتھ پر کچھ عورتیں جھگڑا کر رہی ہیں۔۔۔۔ کچھ بچّے کھیل رہے ہیں۔۔ دو ایک ریھڑی والے ہیں جو آواز لگا رہے ہیں۔۔۔۔ میں ان الگ الگ کرداروں میں گم ہوں۔۔۔۔ شاہد پھر سے زندہ ہو گیا ہے۔۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک مکی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل