FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

بیادِ پیغام آفاقی

 

 

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

سہ ماہی ’سمت‘ کے گوشے سے ماخوذ

 

 

 

 

 

پیغام آفاقی کا سوانحی خاکہ ۔۔۔ صبیحہ حسین

 

( چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے ایم۔فل۔ کے مقالے سے اقتباس)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیغام آفاقی ایک مشہور اور معروف ناول نگار ہیں اور ان کے کئی تخلیقات کتابی شکل میں منظر عام پر آ چکی ہیں جیسے ’’مکان‘‘، ’’مافیا‘‘، ’’پلیتہ‘‘ اور ’’درندہ‘‘۔ مکان ان کا نہایت ہی مقبول ناول ہے۔ یہ ان کا سب سے مشہور و معروف ناول ہے جس نے شائع ہوتے ہی اردو ادب میں ایک ہلچل سی مچا دی۔

پیغام آفاقی کی پیدائش ۱۹۵۳ء میں جانپ ضلع(سیوان، بہار) میں ہوئی۔ ۶فروری جمعہ کے دن شام کوسورج غروب ہونے سے پہلے شام ساڑھے چار بجے اس عظیم ہستی نے جنم لیا۔ آپ کے والد کا نام شیخ عبدالجبار فاروقی تھا۔ والدہ کا نام وظیفۃ النساء ہے۔ آپ کے دادا کا نام شیخ علی جان تھا۔ آپ کے والد دو بھائی اور آپ کی دو پھوپھیاں تھیں۔ آپ کے پردادا کا نام اطہر حسین تھا ان کے والد کا نام حاجی بخش تھا۔ آفاقی صاحب کے چھ بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ایک ان سے چھوٹی اور ایک بڑی آپ پانچویں نمبر کے بھائی ہیں۔ آپ کے والد کی تعلیم پہلے سیوان میں پھر کلکتہ میں ہوئی۔ اس طرح ان کا ایکسپوزر کلکتہ کا تھا۔ دادا کے انتقال کی وجہ سے پھرسیوان واپس آ گئے تھے۔ آپ کا زمیندارانہ گھرانہ تھا۔ زمینداری سن انیس سو چھپن میں ختم ہوئی تھی۔ بقول آفاقی صاحب:

’’والد کی شخصیت کا ہم پراس لیے اثر پڑا کہ وہ ہر موقع پر مہابھارت کی کہانیاں سنایاکرتے تھے گاؤں میں بہت سے لوگ برہمن برادری کے بھی رہتے تھے جن سے میرے خاندان کو بہت قربت تھی اور ان میں بھی بہت پڑھے لکھے لوگ تھے۔ میرے والد صاحب کبیرداس کے دوہے اکثر گایا کرتے تھے۔ حضرت آسی کے اشعار بھی سناتے اور گاتے بھی تھے۔ ‘‘ ۱؂

مزید فرماتے ہیں :

درویشوں سے بہت گہرا رشتہ ہمارے خاندان کا رہا ہے اور مجذوب قسم کے درویشوں کی عزت کرنے کی بہت خاص ہدایت ہمارے خاندان میں رہی ہے۔ خواجہ معین الدین چشتی کے ہمارے والد مرید تھے لیکن ہر طرح کے بناؤٹی فقیروں، منافق قسم کے عالموں اور مذہب کے نام پر دھونس جمانے والے لوگوں سے بہت بے زار ہوتے تھے۔ ان کے گھر میں بحث کی بڑی آزادی تھی اور کسی بچے کو بھی اس کے سوال کا جواب ضرور دیا جاتا تھا۔ بقول پیغام آفاقی:

’’میرے اوپر میری بڑی بہن جو تقریباً مجھ سے دس سال بڑی تھیں ان کی گہری چھاپ پڑی ہے۔ میں نے ان کو اپنی والدہ کی مدد کرتے ہوئے اور گھر کے کام کاج کو چستی سے چلانے میں حصہ لیتے تو دیکھا ہی تھا مگر ان کی سوچ کا جو انداز تھا اس نے میرے اندر ذہنی وسعت پیدا کی ایک بار میں نے ان سے پوچھا تھا کہ دوسرے مذہب کی کتابیں پڑھنی چاہیے یا نہیں تو انھوں نے کہا تھا کہ پڑھنی چاہیے مگر اس سے پہلے اپنے مذہب کی کتابوں کو ٹھیک سے پڑھنا چاہیے۔ میں نے ان کی زبانی پیغمبروں اور نبیوں کی کہانی بھی سنی تھی۔ ‘‘

(پیغام آفاقی سے گفتگو پر مبنی)

آفاقی صاحب کے والد گرمیوں کے روزے رکھنے کے بڑے پابند تھے۔ وہ گرمیوں کے روزوں کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ حضرت عبدالقادر جیلانی کی واعظ اور تذکرۂ اولیا کا خصوصی مطالعہ بھی کرتے تھے۔ ان کی بہن امیرالنساء انسانی دردمندی پر زیادہ زور دیتی تھیں۔ غریبوں اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرنے کی نصیحت تھی۔ ان کے گھر میں اور تمام مسلم گھروں میں مذہبی کتابیں تو ہوتی ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ قصہ ’’حاتم طائی‘‘ اور ’’عربیہ نائٹ‘‘(الف لیلہ) جیسے انھوں نے بچپن میں پڑھا تھا۔ اس کے بعد انھیں سب سے زیادہ علامہ اقبال کا کلام ’’بانگ درا‘‘ پسند آیا۔ ایسے زمانہ میں مختلف حصوں میں خاص طور سے کلکتہ اور جمشید پور  اور قلعہ میں جو فسادات ہوئے اور اس سے جو کہانیاں ان کے گھروں تک پہنچیں اس کا ان کے اوپر زیادہ اثر پڑا۔  جس میں خاص طور پر ایک ایسی خاتون تھی جو ان کے گھر کے پڑوس میں رہتی تھی اور وہ فسادکا شکار ہوئی (جمشید پور میں ) ان کا چہرہ اکثر ان کی نگاہوں میں گھوم جاتا ہے کیونکہ ان کی ماں سے ان کی بہت قربت تھی۔ تقسیم کے وقت جو فسادات ہوئے اس میں چھپرا شہر (بہار) میں جس طرح ایک محلہ کو گھیر کر لوگوں کا قتل عام ہوا تھا اس پر بھی ایک کتاب انھوں نے پڑھی تھی اس لیے بچپن سے ہی یہ دنیا ان کے لیے ایک پر خطر جگہ تھی۔ گھر کی مخصوص تربیت کی وجہ سے مذہب ان کے لیے انسانی خدمت کا دوسرانام تھا اور آس پاس کے ماحول سے لے کر دور دور تک پھیلے مسائل نے ان کی سوچ کو اپنے اندر گرفتار کر لیا تھا۔ گھر میں زمیندارانہ روایت اور زمینداری ختم ہونے کے بعد بدلے ہوئے حالات زندہ رہنے کی کاوشوں نے کوشش اور محنت کو بنیادی اقدار کی جگہ دے دی تھی۔ ذاتی، خاندانی، سماجی اور عالمی تمام مسئلوں کو ضرورتوں نے ان کے ذہن کو ایسے سانچے میں ڈھال دیاجس نے آگے چل کر ایک معقول ملازمت سے لے کر ادب کے ذریعہ انسانی مسائل کے حال کی تلاش نے ان سب کو زندگی میں برابرمقام دے دیا۔ جہاں مذہب سے گہری وابستگی قائم رہی وہیں اپنے فرقہ کا تحفظ سوچ کا ایک موضوع بن گیا۔ لیکن ان کے والد کے کھلے ذہن نے انھیں پوری دنیا کو سطحی نظر کے ساتھ دیکھنا سکھایا اور انسانی اصولوں کے لیے کسی بھی چیز پرسوالیہ نشان لگانے میں کبھی کوتاہی نہیں ہوئی۔ ان کے والد عورتوں کے اوپر چاہے وہ بیوی ہو، بہو ہو یا بیٹی یا کوئی اور ہو ان کے اوپر ہاتھ اٹھانے کو مرد کی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ عورتوں کی حق تلفی کے سخت خلاف تھے۔ زمیندارانہ خاندان ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں کبھی کسی کے آگے سرجھکانے کی نوبت نہیں آئی اور اپرسے خدا کی رحمت اور ’’کلمہ طیبہ‘‘ کو بے حد اہمیت دے کر ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی گئی کہ یقین کا معاملہ عمل سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور عمل میں کوتاہی ہو بھی جائے تو یقین میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ دنیاپرستی اور دنیا داری کی تربیت پر بالکل نہیں ہوئی۔

ان کے گاؤں میں ایک مکتب تھا تیسرے درجہ تک انھوں نے وہیں پڑھا وہ اکثر سبق سے آگے کے اوراق پڑھنے لگتے تھے۔ ان کے اسکول میں جو استاد تھے مولوی مختار علی انھوں نے اس بات پر ایک دن ان کی پٹائی کر دی۔ انھوں نے جا کر اپنے والد سے شکایت کی اور بتایا کہ سمجھی ہوئی چیز کو بار بار پڑھنے میں میرا دل نہیں لگتا وہ ان کی بات سمجھ گئے۔ ان کے والد نے اس سلسلے میں ان کے استاد سے بات کی اور اس سلسلے میں انھیں ٹوکنے یا روکنے سے منع کر دیا۔ اسکول کے دنوں کا تجربہ بھی انھیں ابھی تک یاد ہے۔ وہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالے جانے والے واقعہ کو اور اس آتش کولے کر باغ میں تبدیل ہو جانے والے واقعہ کو اپنے بڑوں سے سن کر اس کے ممکن ہونے کا ان کے اندرایسا یقین پیدا ہو گیا کہ ایک دن جب وہ اسکول میں چھٹی ہو چکی تھی اور بارش ہو رہی تھی توانھوں نے بسم اللہ اورکلمہ طیبہ پڑھ کر دوڑ پڑے اور انھیں یقین تھا کہ وہ بارش میں نہیں بھیگیں گے۔

بقول پیغام آفاقی:

’’مجھے لگتا ہے کہ تعلیم اور تربیت کے دو ذرائع شانہ بشانہ بچپن سے اپنا اثر قائم کرتے رہے ہیں جہاں ایک طرف اپنے علائق سے اور کتابوں سے علم حاصل کرنے کاجو سلسلہ رہا اس کو تو لا ذہن ہمیشہ کتابی ذہن سمجھتارہا جو باتیں کسی ایسے شخص نے کیں جو کسی بھی اعتبار سے مربی سرپرست یا خیر خواہ چاہتے وہ ذاتی طور پر میرا خیر خواہ ہو یا اسے ہمارا معاشرہ خیر خواہ سمجھتا ہو۔ اس کی باتیں سیدھے ذہن اور دل میں اترتی چلی گئیں اور یہ محسوس بھی نہیں ہوا کہ اس میں میری تربیت ہو رہی ہے لہٰذا سچ اور بھوت کا فیصلہ یا فرق کہنے والے کے جذبہ خیرخواہی ہوتی رہی۔‘‘ (پیغام آفاقی سے گفتگو پر مبنی)

بہت بعد میں انھیں اندازہ ہوا کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ کا پیمانہ یہ بھی ہے کہ کسی بات کو کہنے والا آپ کا دوست ہے یا دشمن ایسے ہی لوگوں میں ان کے ایک بزرگ حکیم الدین تھے جنھیں عاقل میاں بھی کہا کرتے تھے۔ ان کے خاندانی حجام تھے۔ انتہائی دیندار اور کتابوں کا مطالعہ کرنے والے بزرگوں اور صوفیا سے بہت قربت رکھتے تھے۔ اکثرمسجد میں امامت بھی کرتے تھے۔ وہ ان سے بہت سارے سوالات زندگی اور مذہب کے بارے میں پوچھتے تھے اور ان کے جواب سے مطمئن ہوتے تھے۔ انھوں نے ہی عربی اور قرآن شریف پڑھوایا ان سے پہلے ایک میاں جی تھے جو مسجد میں اذان دیتے تھے ، وہ نہایت مختصر قد کے انسان تھے ، سانولا چہرہ، میٹھی آواز، انھوں نے ان کی پردادی کو بھی قرآن شریف پڑھنا سکھایا تھا۔ سنا ہے تقریباً۹۰ برس کی عمر میں ایک دن ان کی پردادی نے انھیں بلایا اور پوچھا کہ میری ایک نماز قضا ہو گئی ہے لہٰذا وہ قضا نماز پڑھنے کا طریقہ بتا دیں تو انھوں نے بتا دیا۔

وہ جب بھی عید کے موقع پر اپنے گھر (بہار)جاتے ہیں تو ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے ضرور جاتے ہیں بعد میں اپنے خاندان والوں کی قبروں پر جاتے ہیں۔ علم، تربیت، تعلیم ان سب کے ذرائع ایک نہیں کئی ہیں اور علم، آواز، محبت، برتاؤ عمل کتابوں کی قرأت ان سب راستوں سے ہو کر انسانوں تک پہنچتا ہے۔ ان کی بنیادی تعلیم مکتب کے بعد شہر کے اسلامیہ اسکول میں اور اس کے بعد D.A.B.اسکول چلے گئے۔ D.A.B.اسکول کی تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ مخلوط تعلیم اور خواتین کے ساتھ مذہبی انداز میں پیش آنا سکھایا گیا۔ اردو کے بہترین استادوں سے ان کاسابقہ پڑا جنھوں نے فارسی کی بنیادی تعلیم دے کر اردو کے خمیر کو واضح کیا۔ اسکول کے زمانے سے ہی انھوں نے نظمیں لکھنی شروع کی جب وہ ۹ویں کلاس میں تھے لیکن شاعری کے فن سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ان کے استاد مولانا شیخ القادرین نے انھیں حکیم بشیر الدین کے پاس خاص طور پر بھیجا جہاں چند روز کی تربیت کے بعد ایک دن انھوں نے ان سے کہا کہ اگر اسے شاعری کہتے ہیں تو  جو مجھے آپ بتا رہے ہیں تواس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص شاعر نہیں ہے وہ در اصل گوں گا ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ بات بالکل سچ ہے۔ انھوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ شاعری در اصل چیزوں کے خواص و معنی اور اپنے مفہوم کو مراد کے مکمل اظہار کا نام ہے۔

آگے چل کر اس تربیت نے انھیں جدے دیت کے ذریعہ نظم، افسانے ، ناول اور شاعری کے اوپر سوالیہ نشان لگانے میں مدد کی کیونکہ ابہام جدے دیت کی پہچان بن گئی تھی۔ شاعری کے علاوہ انھیں مذہبی معاملات میں مقامی علما سے بھی الجھنا پڑا۔ ان کے نزدیک مذہب کے جو معنی تھے اس میں ایمان اور قربانی بہت حیثیت رکھتے تھے جبکہ علما کے نزدیک مذہب خدا کے اقتدار اور مذہبی اقدام کی پابندی اور ایمان کے فائدے کمانے کے مترادف تھا۔ اس صورتِ حال نے ایسی ذہنی کشمکش پیدا کیا کہ ایک دن بہت افسوس زدہ ہو کر وہ یہ سوچتے رہے کہ بقول پیغام آفاقی:

’’میرا ایک بہت ہی عزیز ترین دوست ہے جو انتہائی اچھا انسان ہے مگر وہ ہندو ہے۔ اسے قیامت کے دن دوزخ کی آگ میں جلایا جائے گا، کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سے کہوں کہ وہ مسلمان ہو جائے ، کبھی میں سوچتا ہوں کہ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے کیونکہ وہ کسی بھی طرح سے غلط انسان نہیں ہے تو پھر خدا اسے کیسے آگ میں جلانے کا حکم دے سکتا ہے۔ میرے نزدیک یہ سوالات بہت اہمیت رکھتے تھے اور آج میں پاتا ہوں کہ ان سوالات میں ہمارا سماج، ہمارا ملک اور پوری دنیا بری طرح گرفتار ہے۔ ‘‘

(پیغام آفاقی سے گفتگو پر مبنی)

اسی طرح کے سوالات نے انھیں یونیورسٹی میں آنے کے بعد M.A.کی سطح پر تاریخ کے موضوع میں اسلامیات اوراسلامی تاریخ کو ایک خصوصی موضوع کے طور پر لینے کی ترغیب دی۔ اسکول میں ان کا ارادہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر بننے کا تھا لیکن معاشرے میں پھیلے ہوئے مختلف مسائل پر غور کرتے کرتے اس کا کچھ ایسا اثر پڑا کہ ہائرسیکنڈری پاس کرنے کے بعد ان کا ارادہ بدل چکا تھا۔ ڈاکٹر بننے کا ارادہ بھی اسی لیے پیش نظر تھا کہ انسانیت کی خدمات کرنے کا موقع ملے گا لیکن بعد میں محسوس ہوا کہ جہاں یہ کام دوسرے لوگ بھی کر سکتے ہیں، وہیں کچھ دوسرے ایسے بڑے مسائل سماج میں موجود ہیں جو بڑے پیمانے پرانسانوں کے لیے دکھ کا مآخذ ہیں۔ بچپن میں ان کا ایک خواب سائنس داں بننے کا بھی تھا کیونکہ غور و فکر کرنا ان کی فطرت میں شامل تھا۔ ان کا زیادہ تر وقت تنہائی میں تجربات کرنے میں گزرتا تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے لینس خرید کر ایک دوربین بنائی اور کھلیانوں میں بیٹھ کر رات کو ستاروں اور بادلوں کو دیکھا کرتے تھے۔ آگے چل کر یہ رجحان ان انسانی مسائل سے جڑ گیا جن سے انھیں گہری دلچسپی تھی۔ سائنس دانوں کی ایک بات انھیں بے حد پسندتھی وہ یہ کہ زد و کوب اور انتہائی بھیانک سزادینے کے باوجود وہی بات کہتے تھے جس کو سچ سمجھتے تھے۔ وہ ایسے سائنس داں کی زندگی کے بارے میں بار بار پڑھا کرتے تھے۔

ان کے ذہن اور دل پر یہ معاملات اتنی شدت سے حاوی تھے کہ ہائرسیکنڈری کا امتحان دینے کے بعد امتحان کی چھٹیوں میں وہ اپنے شہر سیوان سے ڈیڑھ مہینے کی چھٹی میں پٹنہ چلے گئے اور وہاں گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں لائبریریوں کے چکر لگاتے رہے۔ ان کا زیادہ تر وقت خدا بخش لائبریری پٹنہ میں گزرا۔ جہاں انھوں نے انسان سے متعلق تقریباً تمام کتابوں کی الٹ پلٹ کی اور انہی دنوں انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان ’کتابِ قوم‘ ہے اور جوان کی کتاب شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ میں شامل ہے۔ ڈیڑھ مہینے کے اس مطالعہ نے ان کی پیاس کو بجھانے کے بجائے اور بڑھا دیا اور انھیں محسوس ہونے لگا کہ اگر وہ میڈیکل میں گئے تو اس مطالعہ کے لیے انھیں فرصت نہیں ملے گی جس کی انھیں شدید ضرورت تھی لہٰذا انھوں نے ڈاکٹر بننے کا ارادہ ترک کر دیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آرٹس میں انگریزی آنرز میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ادب میں ان کی یہ دلچسپی زندگی کے مسائل کے حوالے سے تھی۔ وہیں پٹنہ میں ان کے بزرگ رشتہ دار سیدعلی حیدر نیر تھے جو مدرسہ شمس الہدی کے ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے تقریباً۶۰۔ ۷۰ کتابوں کی فہرست انھیں دی جس میں اردو ادب کے کلاس کے علاوہ دنیا کی چند اہم کتابیں تھیں اور انھیں ان کتابوں کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔

علی گڑھ میں داخلہ لینے کا ان کا مقصد دنیا کے عظیم ترین دانشوروں کے ذہن کو سمجھنا تھا۔ ۱۹۷۱ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں آ گئے۔ انگریزی ادب کے علاوہ اردو اور پولٹیکل سائنس ان کے مضامین تھے۔ یہاں انھوں نے ۱۹۷۲ء میں پہلی بار ایک ناولٹ لکھاجس کا نام ’’راگنی‘‘ تھا۔ یہ ناول کہیں شائع نہیں ہو سکا مگر اسے ڈیڑھ دوسولوگوں نے پڑھا۔ افسانے بعد میں لکھے اور شاعری بھی جاری رہی۔ زندگی اور قوموں کے مسائل ہی ان کے اصل موضوع رہے۔ علی گڑھ میں ان کے اساتذہ میں جن سے انھوں نے فیض حاصل کیا۔ انگریزی کے اردو اور تاریخ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی شامل تھے۔ جیسے انگریزی کے رضوان احمد، زاہدہ زیدی، اردو کے حسین قریشی، خلیل الرحمن اعظمی، اطہر علی، انتظار علی خان، احمدسورتی اور دیگر لوگ رہے ، جس میں شہریار دوستوں میں بشیر  بدر، صلاح الدین پرویز، فرحت احساس، سیدمحمد اشرف، غضنفر علی وغیرہ ہر نوجوان کے طرح پیغام آفاقی کے سامنے ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر بننے کے علاوہ اورکسی انتخاب کا امکان نہیں تھا۔ جب ۱۹۷۵ء سے ۱۹۷۷ء تک وہ علی گڑھ یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کے سال اول اور سام دوم کا نتیجہ آ گیا تھا اور انھیں انٹرویو کے لیے بلایا گیا۔ روزگار کے سلسلے میں ان کا سابقہ کچھ ایسے تجربات سے ہوا جنھوں نے ان کی سوچ پر گہرا  اثر ڈالا۔ ہوا یہ کہ اسکول کے رجسٹرمیں ان کی تاریخ پیدائش ۱۰جنوری ۱۹۵۶ء درج ہو گئی تھی۔ جب وہ ہائی اسکول کے آخری درجوں میں آئے تو انھوں نے اندازہ لگایا کہ اگر وہ آئی اے ایس کے امتحان میں بیٹھنا چاہیں گے تو انھیں M.A.کے بعد انتظار کرنا پڑے گا جبکہ وہ میڈیکل میں جانے کا ارادہ کر چکے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنی پیدائش کی تاریخ وسیع کرنے کی درخواست دی۔ اپنی تاریخ پیدائش کودرست کرانے کے سلسلے میں ان کے اپنے شہر سیوان کے اسپتال اور محکمہ تعلیم کے ہیڈکوارٹر تینوں جگہوں پر رشوت خوری کا سامنا کرنا پڑا جس میں بہ ظاہر پڑھے لکھے لوگ ان جیسے طالب علم سے رشوت چاہتے تھے۔ بڑی مشکل سے اس کی تصحیح ہوئی لیکن چندبرسوں بعد وہ آئی اے ایس کے امتحان میں پاس ہو گئے تو ان کی تاریخ پیدائش کا سوال ازسرنواٹھایا گیا اور پرانی تصحیح کو زبردست منسوب کر دیا گیا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ پیغام آفاقی سب سے کم عمر کامیاب امیدوار تھے۔ یہی نہیں اس کے بعد انڈین پولیس سروس میں کامیاب ہونے اور حتمی اور ختمی طور پر منتخب ہونے کے باوجود ان کی جگہ کسی اورکو تقرری دے دی گئی اور ان کی تقرری کم تر جگہ پرکر دی گئی۔ جب انھیں یہ معلوم ہوا تو انھوں نے سرکار سے اس سلسلے میں انصاف کے لیے آواز اٹھائی یہ دیکھ کر انھیں حیرت ہوئی کہ سرکار انصاف کے لیے اٹھائی جانے والی آواز پر ’’لبیک‘‘ کہنے کو قطعی تیار نہ تھی۔ جب اس سلسلے میں انھوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انھوں نے اس بناپرسرکارکی حمایت کی کہ جعل سازی کا یہ معاملہ سولہ سال پرانا ہو چکا تھا۔

پیغام آفاقی نے یہ محسوس کیا کہ نا انصافی اور بے ایمانی کو جنم دینے والی اور اس کی پرورش کرنے والی ذہنیت کی جڑیں بہت مضبوطی سے خود حاکم طبقہ اورسیاسی طبقہ میں پیوست ہیں۔ اس سنگین تجربہ اور مشاہدہ کے بعد ہی انھوں نے عالم گیر سطح پر موجود مافیا طرزِ فکر کو منکشف کرنا شروع کیا جس کا آغاز ان کے افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ سے ہوا۔ ۵مئی ۱۹۷۸ء کو انھوں نے پولیس سروس جوائن کی تھی۔ اس زمانے میں انھوں نے چار بہت طویل خطوط اپنے دوست جو ناول نگار ہیں غضنفر کو لکھے جس میں انھوں نے آگے چل کر اپنے ناول ’’فسحو‘‘ میں شامل کیے۔ ایک سال کی ٹریننگ کے بعد اگلے سال وہ دہلی میں رہے اور ایک سال بعد ان کی پوسٹنگ جزائر انڈمان نکوبار میں ہو گئی، جہاں انھیں ایک جزیرے کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اس دوران وہاں ایک بلوہ ہونے کے بعد فائرنگ ہونے کی وجہ سے ایک انکوائری کمشنر کا بھی سامنا کرنا پڑا جس میں انھیں حکومت اور سیاست کے مختلف پہلوؤں کو محسوس کرنے کا موقع ملا۔ وہاں انھوں نے ’’کالا پانی‘‘ کی تاریخ کا بھی مطالعہ کیا۔ ۱۹۸۴ء میں وہ جیسے ہی دہلی آئے ، یہاں وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعدسکھوں کے خلاف جو دنگا پھوٹا اس کے مناظر کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا۔ پیغام آفاقی نے ایک جگہ اپنی ڈائری میں لکھا ہے :

’’میں اپنے پیشے کی زندگی کو جہاں ایک پولیس آفیسر کی حیثیت سے دیکھتا ہوں اور اپنے فرائض انجام دیتا ہوں تو وہیں ایک ادیب کی حیثیت سے زندگی کا بہت قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ‘‘

’’مکان‘‘ کی کہانی بھی ایسے ہی تجربوں کی پیداوار ہے جس میں واقعتہً  نیرا نام کی ایک لڑکی اپنے مکان کے سلسلے میں مدد کے لیے ان سے ملی تھی اور یہیں سے انھیں اپنی اس کہانی کا پلاٹ ملا تھا۔ ۱۹۸۴ء کے بعدسے اب تک وہ دہلی پولیس کے مختلف عہدوں پر  کام کرتے رہے ہیں۔

پیغام آفاقی کی سب سے پہلی تخلیق ایک نظم ہے جو پٹنہ میں شائع ہوئی تھی جو ۱۹۶۸ء میں چھپی تھی۔ اس کے بعد ان کی غم خوار پٹنہ میں چھپی تھی۔ ۱۹۷۱ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آنے کے بعد ان کی کچھ نظمیں گوپال متل کے رسالہ ’’تحریک‘‘ دہلی میں چھپیں پھر ان کے افسانے ’’آج کل‘‘، دہلی،  ’’ تحریک‘‘،  ’’دہلیز‘‘، ’’آہنگ‘‘، گیا، بہار اور کئی دوسرے رسالوں میں شائع ہوئے۔ اس کے کافی عرصہ بعد ازسرنو ان کی کہانیاں ’’پیتل کی بالٹی‘‘ اور ’’قطب مینار‘‘ ماہنامہ ’’آج کل‘‘ دہلی میں شائع ہوئیں۔ ۱۹۸۹ء میں ان کا ناول ’’مکان منظر عام پر آیا۔ ۲۰۰۰ میں شعری مجموعہ ’’درندہ‘‘ شائع ہوا۔ ۲۰۰۲ء میں افسانوی مجموعہ ’’مافیا‘‘ شائع ہوا۔ پیغام آفاقی کے کئی اور تنقیدی مضامین بھی ہیں جو انھوں نے سمیناروں میں پڑھے اور رسالوں میں شائع ہوئے۔

٭٭٭

 

 

 

مکان ____ٹوٹنے کے بعد کی کہانی ۔۔۔ ڈاکٹر غضنفر

 

 

تہہ دار تخلیق کی ایک پہچان ہوتی ہے کہ وہ آسانی سے تفہیم کی گرفت میں نہیں آتی،  اس کے باوجود اپنے حسن اور معنویت کا احساس دلا دیتی ہے۔ اس کے اندر کا تجربہ اپنے رگ و ریشے میں معنی کی اتنی جہتیں سموئے ہوئے ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کو مختلف روپ اور الگ الگ رنگ میں دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو ایک ہی نگاہ جب اس کی طرف دو با را دیکھتی ہے تو اس کی شکل بدل جاتی ہے۔

ایسا ہی کچھ پیغام آفاقی کے ناول ’’ مکان ‘‘ کے مطالعے کے وقت ہوتا ہے۔ آفاقی کا مکان ایک ہوتے ہوئے بھی ایک نظر نہیں آتا۔ یہ الگ الگ نگاہوں کو الگ الگ شکلوں میں دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو یہ ایک بیوہ عورت اور ایک یتیم بے سہارا بچّی کا مکان دکھائی دیتا ہے جسے ایک کرایے دار اپنے حربوں اور ہتھکنڈوں سے ہڑپ لینا چا ہتا ہے اور وہ بے سہار لڑکی اتنے بڑے،  بھرے پرے اور مضبوط سماج کی موجودگی میں،  جس میں عدالت بھی ہے اور پولیس بھی،  جس کے پاس قانون بھی ہے اور انصاف بھی،  کچھ نہیں کر پاتی۔

کسی کو یہ مکان انسانی پناہ گاہ اور تحفّظ کی علامت نظر آتا ہے تو کوئی اسے غیر محفوظیت کے نشان کا نام دیتا ہے۔ کسی کو اس میں انسانوں کے استحصال کا عکس دکھائی دیتا ہے اور کسی کو سماج کے جبر کا گھناؤنا منظر نظر آتا ہے۔ کوئی اس ناول کو عرفانِ ذات کی کہانی کہتا ہے تو کوئی اسے ذات کے عرفان کا عرفان سمجھتا ہے۔

مجھے بھی یہ مکان مختلف اوقات میں مختلف نظر آیا ہے۔ پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو یہ دنیا کی علامت نظر آیا تھا۔ دنیا جہاں انسان نہ صرف یہ کہ پناہ لیتا ہے اور اپنے کو محفوظ رکھتا ہے بلکہ اپنی نشو و نما بھی کرتا ہے اور اپنی شخصیت کلا ارتقا بھی۔ یہ مکان جس دنیا کی علا مت ہے اس میں کچھ ایسی طاقتیں بھی ہوتی ہیں جو مکان سے لوگوں کو بے دخل کر کے اسے اپنے لیے محفوظ کر لینا چاہتی ہیں تاکہ وہ اسے اپنے لیے عیاشی کا اڈّہ بنا سکیں،  اور جو بھی ان طاقتوں کے راستے میں آتا ہے اسے وہ یا تو کچل ڈالتی ہیں یا اگر اسے مضبوط پاتی ہیں تو کبیرے کی میگنیٹ میں جکڑ کر رکھ لیتی ہیں۔

اسی دنیا میں کچھ ایسی قوتیں بھی ہوتی ہیں جو اس دنیا کے تحفظ اور انسانی بقا کے لیے وجود میں آتی ہیں،  جنھیں ہم نظام حیات کا نام دیتے ہیں لیکن وہ بھی بشری طاقتوں کے دباؤ یا ان کے دکھائے گئے منظروں اور تماشوں کے لالچ میں آ کر اپنے فرض کو بھول جاتی ہیں اور انھیں اپنے وجود تک کا احساس نہیں رہتا۔ پولیس اور عدالت ان کی واضح مثالیں ہیں۔ اور اس طرح یہ مکان دنیا کا آئینہ بن جا تا ہے۔ دوسری بار مکان مجھے انسانی تخلیقیت یا انسان کی تخلیقی قوّت کی کہانی محسوس ہوا۔ مکان کا خالق انسان کے اندر پوشیدہ اس تخلیقی قوت کو متشکل کرنا چاہتا ہے جس کا ادراک ہوتے ہی جسم بے معنی ہو جاتا ہے اور جسمانی طور پر کمزور سے کمزور انسان بھی اس قوّت کے زور پر اپنے اِرد گرد کے گھیروں کو توڑ تا اور رکاوٹوں کو روندتا چلا جاتا ہے اونچے اونچے پہاڑ گرنے اور بکھرنے لگتے ہیں۔ خلیجیں پٹنے لگتی ہیں۔ نشیب و فراز ہموار ہونے لگتے ہیں اور جو انسان اپنی تخلیقیت کو پا لیتا ہے وہ نیرا کی طرح پر پیچ راستوں اونچے اونچے پہاڑوں،  گہری گہری گھاٹیوں،  خوفناک موڑوں اور ٹیڑھی میڑھی اور تنگ سڑکوں سے ڈرنے کے بجائے ان سے کھیلنے لگتا ہے۔ ان میں اسے مزا آنے لگتا ہے اور اسے بھی ویسا ہی محسوس ہونے لگتا ہے جیسا کے شملہ کی پہاڑیوں پر چڑھتے ہوئے نیرا کو محسوس ہوا:

’’ وہ اس ترنگ کی تھر تھری کو اپنے اندر محسوس کرنے لگی۔۔ یہ پہاڑ پر پوری قوت سے چڑھنے کا تھرل تھا۔ اسے لگا جیسے وہ گاڑی کی اس قوت سے خود ہم آہنگ ہو گئی ہو اور اپنی قوت سے پہاڑ کی اونچائی پر رفتار کے ساتھ چڑھ رہی ہو۔ ..۔ ..۔ اس کا جی چاہا اُونچائیاں اور زیادہ ہوں تاکہ گاڑی کے استعمال کی وہ مشینی آواز محسوس کرے جو اس کے جسم میں نشے کی کیفیت گھولتی جا رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ اگر وہ خود گاڑی ہو تو زیادہ سے زیادہ سیدھی اوپر چڑھتی پہاڑی کا انتخاب کرے تا کہ زیادہ سے زیادہ مزہ آئے۔ ‘‘

اور یہ احساس اس انسان کے اندر یہ شعور پیدا کر دیتا ہے کہ :

’’ جن چیزوں سے ڈر لگتا ہے،  ان کی وہی کیفیت سب سے زیادہ خوبصورت ہوتی ہے۔

جب لوگ ان خوفناک سڑکوں سے مسلسل گزرتے ہیں تو یہ ٹیڑھا پن کسی سطح پر انسانی شعور میں خوف پیدا کرتا  ہے۔

وہی ٹیڑھا پن اچھا لگنے لگتا ہے۔

اور وہ حسن در اصل بر تر ہو جانے کا احساس ہوتا ہے کہ یہ احساس انسانی روح کو چمکتا ہے۔ ‘‘

اور انسان جب اپنی تخلیقیت کو پا جات ہے یا اسے اپنی تخلیقی قوت کا عرفان ہو جاتا ہے تو وہ اپنی اس تخلیقیت سے دوسروں کے اند ر تخلیقیت کو بھی بیدار کرنے لگتا ہے جیسا کے نیرا کی تخلیقیت سے جڑی سی پی مسنر بترا نیرا جاگی ہے یا اے۔ سی۔ پی۔ الوک بدلا ہے۔ یہی نہیں  بلکہ اس تخلیقی قوت سے راستے میں کھڑی مزا حم قوتیں بھی ہلنے اور ٹوٹنے لگتی ہیں جیسا کہ اس ناول میں اشوک ہلا ہے اور کمار ٹوٹا ہے۔

یہ تخلیقی قوت جسے ناول نگار اپنے مکان میں دکھانا چا ہتا ہے یہ وہی تخلیقیت ہے۔ جو گوتم بدھ کو گیا میں پیپل کے پیڑ کے نیچے دھیان کے ذریعے ملی تھی جسے خواجہ معین الدین چشتی نے کشف سے پایا تھا۔ اور مکان کی نیرا نے سے تصادم اور مسلسل جدّو جہد سے حاصل کیا ہے۔

مکان کو غصب کرنے والی قوتوں سے ٹکرا نے لوگوں پر بھروسہ کر کے مدد کے لیے مختلف دروازوں پر جانے اور گرم پر خار راستوں پر مسلسل بھاگتے رہنے کے دوران نیرا پر انکشاف ہوا کہ :

’’ یہ سارے بھرو سے صرف اذیت پہنچاتے ہیں۔ ‘‘

اور اس انکشاف پر جب اس نے سوچنا شروع کیا تو :

’’سوچنے کے دوران اس نے محسوس کیا کہ اس کے دماغ کے ریشے ازسر نو مرتب ہو رہے ہیں،  جیسے اس سے کوئی ہولے ہولے کہہ رہا تھا،  یہاں قدم قدم پر رہزن گھات میں بیٹھے ہیں،  یہ بیسویں صدی کی نویں دہائی کی دلّی ہے،  یہ وہ شہر ہے جہاں کب رات ہوتی ہے،  اور کب دن نکلتا ہے،  پتا نہیں چلتا۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہر انسان اپنی حفاظت کا آپ ہی ذمّہ دار ہے یہاں بھروسوں کی تجارت ہوتی ہے،  یہاں معاہدہ بنانے والے ایک ایک لفظ کے ہزاروں روپے لیتے ہیں اور اس شہر میں تم بھروسوں پر چل رہی ہو۔ ‘‘

اور اسی سوچ کے بیچ اسے یہ بھی محسوس ہوا کہ :

’’ بچپن سے لے کر چند روز پہلے تک وہ زندگی کو جس روپ میں دیکھ رہی تھی وہ زندگی کا اصل روپ نہیں تھا،  زندگی اس روپ میں تو بھیس بدل کر کھڑی تھی۔ وہ زندگی کا جو روپ اب دیکھ ۵رہی ہے،  یہ حقیقت ہے ___زندگی کے اس روپ کے ایک ایک خد و خال کو غور سے دیکھنے کے لیے وہ بے چین ہو گئی۔ ‘‘

اور جب وہ اصل زندگی کے خد و خال کی تلاش میں نکلی تو اس پر کائنات کے اسرار کھلنے لگے اسے صاف دکھائی دینے لگا کہ :

’’ یہ سب کچھ جو وہ دیکھ رہی ہے،  وہ محض تماشا ہے اور زندگی ایک کھیل ہے اور اس کھیل میں جیتنے یا ہارنے کا احساس ہی اس کی روح ہے اور اسی روح کی گہرائی میں اس کی بقا مضمر ہے کہ لہروں کی طرح ڈوبتے اور اتراتے رہنے کا احساس ہی دائمی سے اور اس احساس کی لہریں ہی ہر چیز کی اصل ہیں۔ ‘‘

زندگی کی مزید باریکیوں کی تلاش کرتے ہوئے ایک دن اسے نیند آ گئی اور اس نے :

’’نیند میں اپنے اندر ایسی کیفیت محسوس کی کہ اسے لگا کہ آج اس کی نیند حسب معمول نہیں تھی۔ صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو اس کے اندر بدلتے موسموں والی بے چینی تھی۔ تم سب مجھے کیا سمجھتے ہو ؟ اس نے ایک ایک کوکھا جانے والی نگاہ سے اپنے چاروں طرف کے ماحول کو دیکھا۔ تم سمجھتے ہو کہ میں ایک کمزور لڑکی ہوں،  میں عورت ہوں،  میں سمندر ہوں کہ جس میں پورا کا پورا پہاڑ غرقاب ہو سکتا ہے لیکن میں جو کچھ اپنے اندر سہتی ہوں اس سے نئی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ میں کوکھ ہوں میرے اندر جو عکس پیدا ہوتا ہے وہ محض خیال نہیں ہوتا۔ ‘‘

اس دن کے بعد نیرا کو یہ محسوس ہونے لگا :

اس کی زندگی کے نقوش اب اور تیزی سے یکے بعد دیگرے بدلنے لگے۔ چند ماہ پہلے اس کے ذہن میں جو آتش فشاں پھوٹا تھا اور جس نے سب کچھ جلا کر  راکھ کر دیا تھا،  اس کی ایک ایک چنگاری سے سورج پیدا ہو رہا تھا۔ ‘‘

اور اس سورج کے پیدا ہوتے ہی اس پر یہ راز روشن ہو گیا کہ :

’’ اپنی زندگی کے اس دور میں جب وہ اندھوں کی طرح چل رہی تھی،  لوگ اسے اپنے اشاروں پر دوڑاتے تھے اور وہ چوٹ کھاتی تھی تو ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی،  لیکن اب یہ چوٹیں اور یہ دوسروں پر بھروسہ کرنا،  ایک کھیل،  ایک لذتّ آ میز عمل بن گیا تھا۔ اور جیسے جیسے وہ اس آندھی کے ساتھ تیز حرکت میں آ رہی تھی،  ویسے ویسے اس کو لگ رہا تھا کہ وہ ایک رقّاصہ کی طرح دوسروں کے لیے سب کچھ کر رہی ہے،  وہا پنے آپ سے باہر نکل آئی تھی۔ اسے ناچنے،  دوڑنے،  بھاگنے اور تھکنے میں لذّت مل رہی تھی۔

گویا اس طرح نیرا کی تخلیقیت اس پر آشکار ہوتی ہے اور وہ دبلی پتلی کمزور سی لڑکی مضبوط اور طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے۔

تخلیقیت کی اس کہانی سلسلے یں خود ناول نگار کا یہ اقتباس ملا خطہ کیا جا سکتا ہے :

’’ انسان کے اندر جو تخلیقی اور اخلاقی صلاحیتیں ہیں ان کا استعمال کرنا ان سے رجوع نہ کرنا۔

اور اس گدھے کی طرح جو ایک جانور ہے،  ذلّت کا بوجھ اٹھائے جانا۔

یا کتے کی طرح وفاداری کی دُم ہلائے جانا۔

انسان کی مٹیّ کا مذاق ہے۔

اپنی تلوار اپنے نگار خانۂ دل کی دیور پر لٹکتی ہوئی چھوڑ کر غیر متناسب طاقتوں سے خالی ہاتھ لڑنا۔

اور شکست کھا کر دوسروں کی بھی ہمت پست کرنا بے معنی ہے نیرا اپنی اندرونی طاقت سے کہو کہ ان مسائل کا حل تلاش کرے اس قوت سے جو تعمیر اور آزادی کا چشمہ ہے جہاں پر تہذیبی مسئلوں کا حل ملتا ہے۔ جہاں سے سپہ سا لار اور بادشاہ اپنا اعتماد حاصل کرتے ہیں،  جہاں سے سائنسداں اپنی ایجادوں کا انجام لے کر آتے ہیں۔ جہاں سے فقیر بے نیازی کی دولت سے مالامال ہوتے ہے۔ جہاں سے مجاہد زندگی کے معنی حاصل کرتے ہیں۔

نیرا وہ طاقت ہر انسان کے اندر ہے۔ یہ وہ جڑ ہے جس سے انسان اپنی زندگی کی اصل خوراک کرتے ہیں۔ ‘‘

نیرا کی تخلیقیت کی اس کہانی کو پڑھتے وقت قاری اپنے اندر رون میں ایک ابھرتی ہوئی قوت کی گونج سنتا ہے اور اور بعض بعض موڑ پر خود کو بدلتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ اور جب نیرا کے ساتھ شملے کی پہاڑیوں پر چڑھتا ہے تو نیرا کی طرح وہ بھی پہاڑی راستوں،  اندھے موڑوں،  خوفناک گھاٹیوں اور خطرناک اونچائیوں کو بے پروائی سے روندتا ہوا گزرتا چلا جاتا ہے اور ایک سرور کی کیفیت بھی محسوس کرتا ہے اس طرح پیغام آفاقی کا یہ مکان اپنے قاری کو بھی ایک ایسی بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ جہاں زندگی نغمہ بن جاتی ہے اور روح لذتوں سے بھر جاتی ہے۔

ممکن ہے اگلی بار پڑھنے پر مکان کسی اور ہی صورت میں نظر آئے۔ اور اس کے در و  دیوار سے معنی کا کوئی اور ہی چہرہ نکل آئے۔

قاری کی نگاہ میں مکان کی بار بار بدلتی ہوئی شکل اسے ایک ایسی بلندی عطا کرتی ہے جو اسے فن کی عظمتوں کی طرف لے جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

مکان:ہیئت اور تکنیک ۔۔۔ پروفیسر خورشید احمد

 

 

ایک کہانی ہے کہ سول اپنے باپ کی بھیڑیں تلاش کرنے نکلے اور مل گئی انہیں بادشاہی۔ اس کی دوسری صورت یہ تھی کہ سول ان بھیڑوں کی جستجو کرتے جس میں وہ کامیاب بھی ہو سکتے تھے اور ناکام بھی۔ اس دوسری صورت میں ایسی کہانی بنتی جو ہمارے بہت سے افسانوں اور ناولوں کا بنیادی اسٹرکچر ہے۔ لیکن بصورت اول ناکامی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ اس کے اسٹرکچر میں دوسری صورت کے مقابلے میں ایک خاص قسم کی پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے جو ناکامی کو مانع ہے۔ ’’مکان‘‘ کا بنیادی اسٹرکچر یہی ہے کیونکہ یہاں بھیڑوں کی جگہ مکان نے لے لی ہے اور بادشاہی کی جگہ نیرا کے عکس ذات نے۔ اس طرح اس ناول کا بالائی ڈھانچہ یا نام نہاد کینوس گو وسیع نہیں لیکن بنیادی ساخت زیادہ پیچیدہ ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغام نے اس بنیاد پر کہانی کی جو عمارت تعمیر کی ہے ، اس کی ہیئت کیا ہے۔ در اصل ’’مکان‘‘ ایک Bildungs roman ہے یعنی ایسا ناول جس میں ایک نوخیز کردار کی شخصیتی تشکیل کی کہانی بیان ہوئی ہے۔ تاکہ اس کے اندر سماجی زندگی میں داخل ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جائے ایسے ناول یورپ میں بھی کم ہی لکھے گئے ہیں۔ ناول کا یہ فارم جرمن ادب کی خاص عطا ہے۔ یہاں اس مخصوص فارم کی خصوصیات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ صرف ’’مکان‘‘ اور اس کے متوقع قاری کو ذہن میں رکھتے ہوئے چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔ اکثر وجودی ناولوں میں ہیرو کو موت سے ہمکنار ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ موت کے ذریعے زندگی کی لایعنیت بخوبی واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن Bildungs romanمیں ہیرو مر نہیں سکتا۔ کیونکہ اسے درس گاہ حیات میں شخصیت کی تکمیل کے بعد کارزار حیات میں قدم بھی رکھنا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ناولوں کا انجام المناک بھی ہو سکتا ہے اور خوش آئند بھی۔ مگر ایسے ناول کا انجام بہرحال خوش آئند ہوتا ہے۔ اس خوش آئند انجام کا میلو ڈراما سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ جن سخت آزمائشوں سے یہ کردار گزرتا ہے اس کا میلو ڈراما میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا اور آخری بات یہ کہ اس قسم کے ناول میں پختہ عمر یا ادھیڑ عمر یا پہلے سے نمو یافتہ ہیرو جگہ نہیں پا سکتا بلکہ اس کا ہیرو کوئی نوعمر ہوتا ہے ، جس کی نشو و نما کی تکمیل کے ساتھ ہی یہ ناول ختم ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ایسے ناول میں سب سے مشکل مرحلہ اختتام کا ہوتا ہے یعنی وہ نقطہ کہاں ملے جو درس گاہ حیات کا نقطۂ اختتام بھی ہو اور رزم گاہِ حیات کا نقطۂ آغاز بھی۔ یہ ’’مکان‘‘ کی خوش نصیبی ہے کہ اسے وہ نقطہ مل گیا ہے۔ اب محققین کے لیے گنجائش رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ’’مکان‘‘ نہ صرف فنی تکمیل کا عمدہ نمونہ ہے بلکہ اس فارم میں لکھا ہوا اردو کا پہلا ناول بھی ہے۔

اردو میں فکشن کی تنقید کو ٹائپ، فلیٹ اور راونڈ کرداروں کی بحث میں پڑ کر جو نقصان اٹھانا پڑ رہ ہے ، وہ سب کے سامنے ہے۔ اس بحث سے قطع نظر ’’مکان‘‘ کے دو کرداروں کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ناولوں میں عموماً سنگین صورت حال کا سامنا ہونے پر ہیرو کے نزدیک دوہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو فرار یا مفاہمت۔ پیغام نے اسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیسرا متبادل پیش کیا ہے جس کو فی الحال کوئی نام دینا مشکل ہے لیکن مادام بواری کی ’’بوارزم‘‘ پر قیاس کر کے ’’نیرائیت‘‘ کہا جا سکتا ہے جس کا مفہوم ناول کے مطالعے سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ صنف قوی کے مقابلے میں صنف لطیف کو مرکزی کردار کیوں بنایا اور پھر مرکزی کردار کو ڈاکٹری کی تعلیم کیوں دلوائی؟ صنف لطیف تو اس لیے کہ یہ کہنے کی گنجائش نہ رہے کہ اگر عورت ہوتی تو ٹوٹ جاتی اور ڈاکٹری کی تعلیم اس لیے کہ سماج سے بے لوث رشتہ قائم کرنے کا یہ بہترین وسیلہ ہے۔

’’مکان‘‘ کا دوسرا کردار ہے۔ سونیا جس کی تخلیق ناول نگار کی فنی بصیرت کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ سونیا تنقید کی اصطلاح میں فلیٹ کردار ہے اور اتنا فلیٹ کہ اگر ناول سے سرسری گزریں تو نظر بھی نہ آئے۔ وہ ناول میں نیرا کے ساتھ شروع سے آخر تک رہتی ہے۔ اس پورے عرصے میں دو تین بار سے زیادہ نہیں بولتی اور اسی طرح تین چار بار مسکراتی ہے ، بس لیکن اس کی پیشکش کے انداز سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ مصنف نے ایک قسم کی فنی عیاری کے ساتھ اسے نیرا کے تقابل میں پیدا کیا ہے کیونکہ اس کا وجود نیرا کے طرز عمل کو مسائل کا واحد حل سمجھنے کے ایقان پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے اس سے ناول کی ہیئت میں ایک حیرت انگیز فنی توازن پیدا ہو گیا ہے۔

چونکہ اس ناول کا مرکز ثقل نیرا ہے ، اس لیے اس کو سہارا دینے کی غرض سے تین طرح کے استعارے خلق کیے گئے ہیں۔ ایک تو قید کا استعارہ مثلاً تالا، پنجرہ، نماز اور لباس وغیرہ۔ دوسرا آزادی کا استعارہ مثلاً کھلی چھت، کھلی ہوا وغیرہ اور تیسرے نباتاتی استعارہ مثلاً کونپل، پودا، درخت، کلی اور پھول وغیرہ۔ یہ تیسرا استعارہ باقی دو استعاروں کے باہمی عمل اور رد عمل کے نتیجے میں نیرا کے داخلی نمو کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس سے فنی انضباط کی فضا قائم کرنے میں خاطر خواہ مدد ملی ہے۔

ذہنی واردات کو پیش کرنے کی جتنی بھی آزمودہ تکنیکیں ہیں خود کلامی، منقول خود کلامی داخلی خود کلامی151 یہ سب آپس میں چاہے جتنی مختلف ہوں لیکن اس بات میں مشترک ہیں کہ ان میں کردار تحت شعوری طور پر سرزد ہوتا ہے۔ پیغام کے ہاں یہ سب تکنیکیں صورتاً موجود ہیں مگر ان میں معنوی تبدیلی آ گئی ہے یعنی ان میں کردار جتنا سمجھتا ہے اتنا ہی قاری بھی سمجھتا ہے کیونکہ پیغام کے کرداروں کے ہاں سوچ کا عمل شعوری سطح پر سرزد ہوتا ہے۔ یہ تبدیلی ’’مکان‘‘ میں فنی ضرورت کے تحت واقع ہوئی ہے۔

اب آخری بات پیغام کے اس مخصوص اسلوب اظہار کے بارے میں جس کی وجہ سے ان کا ناول بظاہر طویل معلوم ہوتا ہے۔ شعور جب رواں ہوتا ہے تو ایک نہیں انیک خیالات انمل بے جوڑ، پرے ادھورے ، منطقی ربط سے بے نیاز ذہن کے اسٹیج سے گزرتے ہیں۔ یہاں صرف یہ بات توجہ طلب ہے کہ ایک نہیں انیک خیالات۔

’’مکان‘‘  کے کرداروں میں ذہنی عمل اس کے بالکل الٹ ہوتا ہے۔ یہاں خیال ایک ہوتا ہے اور کردار اس ایک خیال کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتا ہے۔ پھر اس جان کاہ عمل سے گزرنے کے بعد اس کے اندر کشف کی ایک کرن چمکتی ہے جو اس کردار کے داخلی نمو کا حصہ بن جاتی ہے۔ خود پیغام نے اس عمل اور اس عمل کے فائدے کی طرف ناول میں ایک جگہ اشارہ کیا ہے۔ وہ نیرا کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ایک ہی بات کو کئی کئی پہلوؤں سے یوں دہراتی رہی جیسے اپنے اعتماد کو بٹھا بٹھا کر مضبوط کر رہی ہو۔ ‘‘

اب اس طریقۂ اظہار کی وضاحت کے لیے ایک مختصر سی عبارت ملاحظہ کیجئے :

’’اس نے غور کیا!

یہ مکان تمہاری ملکیت ہے۔ تم اس مکان کی مالک ہو۔ یہ دو طرفہ رشتہ ہے کہ مکان تمہاری ملکیت ہے اور تم مکان کی مالک ہو اور اس طرح مکان تمہارے ساتھ مقفل ہے اور تم مکان کے ساتھ مقفل ہو۔ لیکن مکان کے ساتھ تمہارا رشتہ ایک الگ ہی چیز ہے اور یہ تمہارے اور مکان کے علاوہ تیسری چیز ہے۔

اسے محسوس ہوا کہ وہ اس وقت بالکل فلسفی ہو گئی تھی۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

پلیتہ پر ایک ادھورا تبصرہ ۔۔۔ سبین علی

 

پلیتہ ناول اس لیے لکھا گیا کہ ہر دور کا کم از کم ایک مفکر ضرور ہوتا ہے ہاں کبھی کبھار ایک سے زیادہ بھی جنم لے لیتے ہیں اور ان مفکروں کو اپنے اپنے حصے کی شعور کی وہ شمع جلانی پڑتی ہے جو نہ صرف اس عہد کی سوچ و ادراک کو جلا بخشے بلکہ آنی والی نسلوں کے لیے بھی ایک فلیتے کی مانند جل کر نہ صرف روشنی بکھیرے بلکہ مستقبل کے مفکروں کے لیے شعور تفکر اور ذمہ داری کا چین ری ایکشن جاری رکھنے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ جیسے اپنے اپنے عہد میں مولانا روم، سعدی، وارث شاہ، بلھے شاہ، خواجہ غلام فرید، میاں محمد بخش اور علامہ اقبال جیسے مفکر و دانشور ادیب و شعراء کرتے چلے آئے ہیں۔ ( یہ کچھ مثالیں مشرق سے ہیں مغرب میں بھی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ) یہی کام کسی اور سطح پر پیغام آفاقی صاحب کے ناول پلیتہ نے بھی سر انجام دیا ہے۔ یہ ناول نہ تو محض کسی کتاب کا آغاز ہے نہ اختتام بلکہ یہ transitional عمل سرانجام دیتا وہ انٹر لنک ہے جو برصغیر کے ماضی سے مستقبل میں جھانکے اور پالیسیاں ترتیب دینے میں دانشوروں تھنک ٹینکز اور عام افراد کے لیے بھی سوچ کا نیا در وا کر رہا ہے۔ بیٹ ہوون کی نویں سمفنی نے انقلاب فرانس کی بنیاد میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ ہماری مٹی نے بھی ایسے ایسے انمول فنکار دانشور شاعر پیدا کیے مگر ان کے افکار سے اس طرح استفادہ نہیں کیا گیا جیسے ان کا حق تھا ـ اگر یہ استفادہ نہیں کیا گیا تو آخر کیوں ؟

کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ عوام کے شعور کو اس سطح تک آنے ہی نہیں دیا گیا؟

مجھے پیغام آفاقی کا پلیتہ بابا بلھے شاہ کے فلیتے سے جڑ کر سلگتا محسوس ہوا۔ پلیتہ کی قرات کے دوران کئی مقامات پر مجھے بلھے شاہ کے اشعار بے ساختہ یاد آئے اور اس پوری قرات کے دوران بلھے شاہ پس منظر سے ابھر کر پیغام آفاقی کا کندھا تھپکتے ملے۔

مجھے اندازہ ہے کہ پیغام آفاقی پنجابی زبان نہیں جانتے یقیناً انہوں نے تفصیل سے بابا بلھے شاہ کو پڑھا بھی نہیں ہو گا کیونکہ ان کی شاعری کے تراجم بہت زیادہ نہیں پھر پنجابی زبان بھی بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔

نو آبادیاتی نظام نے ہمارے فکری اثاثوں کو بقا کے خطرے سے دوچار کر دیا تھا۔ پوسٹ کالونیل اثرات میں یہ خطرہ پہلے سے بھی بڑھ چکا ہے۔

لیکن کیا ہم اس کالونیل نظام سے قبل درست تھے ؟

نہیں …۔ .

اگر ہم فکری طور پر درست ہوتے تو اس عنکبوت کو اپنا جال یہاں بچھانے کا موقع ہی کیوں ملتا۔

بلھے شاہ ۱۶۸۰ ء میں پیدا ہوئے تھے

بلھے شاہ کا بچپن قصور کے ایک گاؤں میں مویشی چراتے گزرا۔ گاؤں میں امام مسجد کی حیثیت دوسرے دستکاروں کی طرح ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ بلھے شاہ نے زندگی کو بچپن ہی سے پسے ہوئے عوام کی نظروں سے دیکھنا شروع کیا۔ سید گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے باوجود انہوں نے کھیتی باڑی کرنے والے ارائیں عنائیت شاہ کو اپنا مرشد بنایا تو ان پر بہت سخت تنقید کی گئی۔

"بلھے کائیاں لیکاں لائیاں تو پھڑ کے پلا ارائیاں ” بلھے شاہ ذات پات کی بنیاد پر برتری کے شدید مخالف تھے۔ خود کو سید کہلانا پسند نہیں کیا۔ یہی رنگ مجھے پیغام آفاقی کے پلیتہ میں کالے پانی کے جزائر پر بکھرے نظر آئے۔ کالا پانی کوئی علامت نہیں بلکہ ایک تلخ سیاہ مگر حقیقی استعارہ ہے کالونیل نظام اور تاجروں کے ہاتھوں میں کھیلتے حکمرانوں کا جو عام انسان کے شعور کو ذات پات مذہب فرقے کی حد بندیوں سے آزاد کرتا اس مقام پر پہنچانے کا خواہاں ہے جہاں لیڈروں کے دعوے نظریات اور ملمع کاری نہیں بلکہ اس ملمع کی تہہ تلے چھپے اصل جوہر کی کھوج ہے۔ وہ جوہر خواہ کتنا ہی بد ہیت کیوں نہ ہو مگر وہ اصلی ہے۔ کالا پانی الفاظ نہیں عمل کا متلاشی ہے اور کتاب پر لکھے آئین اور انتظامی شعبدہ بازوں کی بازی گری کے تلے کچلے لوگوں کی داستان ہے وہ اس نظام تعلیم کا مخالف ہے جو تاجروں کے لیے محض تربیت یافتہ عملہ تیار کرتا ہو ـ وہ ان لیڈروں پر سوال اٹھاتا ہے جن کی شبیہ امن کے علم برداروں کی ہے مگر ان کی چھتری تلے لاکھوں انسان گاجر مولی کی مانند ذبح کر دیے جاتے رہے۔ وہ شبیہ کی نہیں اصل کی کھوج ہے۔

بلھے شاہ نے تو کتابی ملاؤں پنڈتوں کے گھسے گھسائے علم کو بھی انسانی فلاح اور برادری کے لیے مضر قرار دیتے ہوئے کہا کہ :

علموں پے قضیئے ہور اکھیں والے انھے کور

پھڑھ لیے سادتے چھڈے چور دوہیں جہانیں ہویا خوار

علموں بس کریں اویار اکوالف تینوں درکار

انہوں نے ملاؤں کی اصلیت بیان کرتے ہوئے کہا:

ملاں تے مشالچی دوہاں اکو چت

لوکاں کر دے چاننا آپ ہنیرے وچ

٭٭٭

 

 

 

 

جدید اردو ناول میں ’’مکان‘‘ کے مقام کا تعین ۔۔۔ صبیحہ حسین

 

( چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی، میرٹھ کے ایم۔فل۔ کے مقالے سے اقتباس۔اس مقالے پر مقالہ نگار کو ایم۔فل۔ کی ڈگری عطا کی گئی http://esbaatpublications.com/urducamp/2011/08/ccsu۔urdu۔dept۔mphil/)

 

پیغام آفاقی نے اپنے فن کا اظہار کئی اصناف میں کیا ہے جس میں ناول، شعری مجموعہ وغیرہ شامل ہے۔ پیغام آفاقی کی اس ہمہ جہت فنی شخصیت نے کم و بیش ہر صنف پر اپنی چابک دستی کی چھاپ چھوڑی ہے۔ انھوں نے اپنی تکنیک کا موضوع زیادہ تر ناول کوہی بنایا ہے اور اس صنف کو اپنے فن سے اس جگہ پرلا کھڑا کیا ہے جہاں زندگی کسی قلب ماہیئت سے گزرتی ہے تو ایک نیا ناول انسان کی ضرورت بن جاتا ہے۔ اس خیال کی عکاسی ان کا ناول ’’مکان‘‘ کرتا ہے۔ ان کا  یہ ناول اردو کا ایک مشہور و معروف ناول ہے۔ اس ناول نے اردو ادب میں ایک ہلچل مچا دی۔ آج اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میں ہوتا ہے۔

بعد   ۔ ’زو ؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازاں پیغام آفاقی صاحب ایک اچھے ناول نگار، شاعر اور ادیب ہیں۔ آج کل وہ پولیس میں ایک سینئر آفسر کے عہدہ پر فائز ہیں اور اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی وہ صنف ناول کی طرف توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے اردو فکشن کو جدید اور متنوع جہات سے روشناس کیا۔ انھوں نے ٹی وی سیریل اور اسکرپٹ میں بھی ایک منفرد جگہ بنائی ہے۔ ان کے فن کے بارے میں ڈاکٹر مولابخش اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں :

’’ناول شاعری کی اولاد نرینہ ہے جس نے اپنے پاؤں، اصناف نثر و نظم میں تاریخ کی تدریس کے ذریعہ جمائے تھے مگر اب رقص حیات، رزم گاہ انسان اور انسانیت کی بقا کی جمہوری جنگ کا بلیغ میڈیم بن چکا ہے جس کے لیے نثر پہلی شرط ہے۔ اس نثری ہیئت میں جملہ اصناف نثر و نظم کے اہم اسلوبی و تکنیکی خصائص شیرو شکر ہو کر اسے ام الاصناف کا درجہ عطا کر دیتے ہیں۔ غالب نے داستان سرائی کو اسی حقیقت کے پیش نظر منجملہ فنون سخن قرار دیا تھا۔ ‘‘(مکان، ص۱)

آفاقی صاحب نے اپنے فن میں لوگوں کی سوچ کو صحیح سمت عطا کرنے کے لیے عصری مسائل پر گہری نظر ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آفاقی صاحب نے اس ناول کے فن، ہیئت اور موضوع سب کچھ نیا اور منفرد ہے اور فن کار زندگی کی ایک بھرپور بصیرت دینے میں کامیاب ہے۔ ان کے ناولوں میں ماضی کی یادیں سموئی ہوئی ہیں۔

بدر عالم خان ’’مکان‘‘ ناول کے بارے میں کچھ اس طرح اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں :

’’پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘ ایک عہد شکن، عہدساز اور عہد آفرین تخلیق ہے۔ اسلوب کے سلسلہ میں انھوں نے مروج روایات سے بغاوت کی ہے ، اس لیے یہ ایک باغیانہ تخلیق بھی ہے۔ آفاقی صاحب نے در اصل ’’زمانہ بساز‘‘ ہونے کے گمراہ کن عمل سے گریز کیا ہے اور ’’با زمانہ تیز‘‘ ہونے کی روایت کا آغاز کیا ہے۔ انھوں نے اپنے ناول کے ذریعہ نئی نسل کے خفتہ تخلیقی شعور کو بیدار کیا ہے اور انھیں اپنی بے پناہ تخلیقی قوتوں کا عرفان کرایا ہے۔ ان کا ناول Impactکے نقطہ نظر سے ادبی فرعونیت پر ضربِ کلیمی کا اثر رکھتا ہے۔ اس لیے ’مکان‘ ایک Trendsetterہے۔

مشاہدے کی باریک بینی احساسات کی شدت اور نقطہ نظر سے یہ اس دور کا ایک عظیم ناول ہے۔ آفاقی صاحب نے اپنے ناول ’’مکان‘‘ میں اپنی فنی تقاضوں کو کس طرح برتا اور کس حد تک پورا کیا ہے۔ پیغام آفاقی کا ناول ’’مکان‘‘ یہ پیغام سنارہا ہے کہ کوئی بھی کام صرف ارادہ کرنے سے نہیں بلکہ محنت کرنے سے ہوتا ہے۔ محنت اور ایمانداری کے بغیر کوئی پھل حاصل نہیں ہوتا جس کام کا ارادہ کرو، اس کی جستجو میں لگے رہو، قدرت ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب کر دے گی۔ غیرمستقل مزاج اور کمزور انسان کبھی بلندی پر نہیں پہنچ سکتے ، بلندی پر وہی پہنچتا ہے جو ناکامی سے گھبراتا نہیں بلکہ سبق حاصل کرتا ہے۔ ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے مستقبل ارادہ ہی واحد راستہ ہے۔ جنسی مسائل، معاشی جبر، عورت کی مجبوری، انسانی رشتے ، ذہنی و جذباتی کشمکش اور خواب و حقیقت کا تصادم جیسے موضوعات اردو ناول کے لیے نئے نہیں ہیں لیکن آفاقی صاحب نے ان موضوعات کو اپنے ناول ’’مکان‘‘ میں اس طرح پیش کیا ہے کہ زندگی کی کچھ حقیقتیں زیادہ واضح شکل میں سامنے آ جاتی ہیں اور قاری کو غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ ہمارے آس پاس اور خود جو ہمارے ساتھ ہو رہا ہے اسے ہم محسوس نہیں کر پاتے۔

ناول کا پلاٹ ایک ایسی سماجی حقیقت کی کوکھ سے جنم لیتا ہے ، جہاں نیرا جیسی عورت صرف جنسی آسودگی کا ذریعہ ہی نہیں رہتی بلکہ وہ مختلف حیثیتوں میں جد و جہد کرتی نظر آتی ہے۔ آفاقی صاحب نے حالات کے جبر کی طرف اشارہ کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ آدمی حالات و ماحول کا قیدی ہے۔ وہیں یہ نشاندہی بھی کی ہے کہ حالات کے ساتھ جنگ اور مفاہمت میں ہی زندگی کا راز چھپا ہے۔ سچے بہادر انسان گمبھیر اور آزاد ہوتے ہیں۔ ان کی خاموشی ایک کمزوری معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب یہ شیر گرجتے ہیں توبرسوں ان کی دہاڑسنائی پڑتی ہے اور باقی ساری آوازیں بند ہو جاتی ہیں۔ ’’مکان‘‘ میں نیرا کے کردار نے اسی بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔ آفاقی صاحب کے اس ناول میں انسان کا گرا ہوا ضمیر ہی ساری برائی کی جڑ ہے۔ پیغام آفاقی کا یہ ناول ایک بیوہ عورت اور ایک یتیم بے سہارالڑکی نیرا  کا مکان ہے جسے ایک کرایہ دار کمار اپنے حربوں اور ہتھ کنڈوں سے ہڑپ لینا چاہتا ہے اور وہ بے سہارالڑکی اتنے مضبوط سماج کی موجودگی میں جس میں عدالت بھی ہے پولیس بھی ہے ، قانون اور انصاف بھی ہے لیکن پھر بھی کچھ کر نہیں پاتی۔ انصاف اور اپنے تحفظ کے لیے ادھر ادھر بھٹکتی رہتی ہے اور اپنے کرایہ دار کمار کے ذریعہ پیدا کی گئی مصیبتوں سے بھی جوجھتی رہتی ہے۔ نیرا کے مکان کو ہڑپنے کے خاطر کمار کے ذریعہ نیرا کو طرح طرح سے پریشان کرنا اور نیرا کے ذریعہ کمار کے بچھائے ہوئے جال کو کاٹنا نیرا اور کمار کی اس لڑائی کاپولیس، تھانہ، وکیل اور موقع پرست انسانوں کے ذریعہ استحصال کرنا اور اپنا اصلی چہرہ ظاہر کرنا ان کرداروں کے اردگرد پورا ناول گھومتا رہتا ہے۔

ناول مکان پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پیغام آفاقی نے ہندوستانی سماج کی قدروں، یہاں کے عورت مرد کی نفسیات اوراس ملک کے سرکاری محکموں خاص کر تھانہ، عدالت، یہاں کی سیاست کے مردہ قانون، ہندوستانی سماج کی روز مرہ کی زندگی کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ قاری کو ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی ایک جھلک وہ خود بھی دیکھ چکا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا سماج اور ہمارا محکمہ برا ہے بلکہ اصلیت تو یہ ہے کہ ہم خود برے ہیں۔ ہم الزام لگاتے ہیں کہ رشوت خوری بڑھ رہی ہے لیکن ہم یہ نہیں سوچتے کہ اس رشوت خوری کو ہم خود بڑھا رہے ہیں۔ ہم رشوت دیتے ہی کیوں ہیں۔ ہم کسی دوسرے انسان کے سامنے خود پریشانی کیوں کھڑی کرتے ہیں۔ جیسا کہ کمار اوراس کی بیوی آشا نے نیرا کے سامنے پریشانی کھڑی کی۔ ہم کسی کی بھلائی کا بدلا برائی سے کیوں دیتے ہیں۔ نیرا کے والد نے کمار کو اپنے گھر میں پناہ دے کر بھلائی کی تو کیا بھلائی کا احسان یہی تھا جو کمار اور اس کی بیوی آشا نے اس کے ساتھ کیا، اگرپولیس خراب ہے تو کیوں ہے ؟

ناول ایک نہ دکھائی دینے والے پلاٹ پر یوں مضبوطی سے قائم ہے جیسے اس کے واقعات محض مقناطیسی قوت سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس ناول میں حیرت انگیز حد تک کہانی پن ہونے کے باوجود کوئی کہانی دکھائی نہیں دیتی۔ در اصل اس ناول کا ڈھانچہ ایک انسانی کاز پر قائم ہے اور اس کے دقیق فکری تجزیے کو بھی کہانی کا ناگزیر حصہ بنا دیتا ہے۔ اپنے چاروں طرف موجود تمام چیزوں کو دیکھنے اور جاننے کی گہری دلچسپی بھی پیدا کرتا ہے۔ ناول کے مکالمے بھی آسان زبان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ناول کی دلکشی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کا صحیح اور بر محل استعمال کیا گیا ہے۔ مکالمے ناول کے واقعات میں اس طرح پیوست ہو گئے ہیں کہ انھیں وہاں سے علاحدہ کرنا ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ ناول کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ واقعات کا سلسلہ ماضی سے حال اور حال سے مستقبل میں اس خوبی سے منتقل ہوتا ہے کہ اس تبدیلی کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ یہ ناول شروع سے آخر تک قاری کی دلچسپی برقرار رکھنے میں پوری طرح کامیاب ہے۔

آل احمدسرور کہتے ہیں کہ:

’’ناول ’’مکان‘‘ مجھے کئی وجوہ سے پسند آیا۔ یہ عام ناولوں سے مختلف ہے۔ مصنف نے جو موضوع لیا ہے وہ آج کل کے آشوب کا مظہر ہے مگر اس کو برتنے میں مصنف نے بلندی اور گہرائی دونوں کوچھو لیا ہے۔ اس ناول میں جو نفسیاتی اور فلسفیانہ گہرائی ہے وہ اس ناول کو عام ناولوں سے ممتاز کرتی ہے۔ کہانی توسیدھی سادی ہے مگر اس کے ارتقا میں نیرا، کمار، اشوک، آلوک، انکل، سونیا کے یہاں جو اتار چڑھاؤ آئے ہیں وہی اس ناول کی جان ہے۔ کہیں کہیں کرداروں کی سوچوں میں تکرار محسوس ہوتی ہے۔ شاید یہ عمل ناگزیر ہو۔ موجودہ زندگی کی پیچیدگی، تضادات، اخلاقی قدروں کا زوال، بڑھتی ہوئی کرپشن اور اس کے اثر سے تمام اعلیٰ قدروں کا زوال، یہ باتیں بہت کھل کر سامنے آ جاتی ہیں۔ بڑی چیز ان سب کے باوجود، مصنف کا زندگی کے ثبات اور انسان کی روح پر اعتماد ہے جو پورے ناول کو ایک مجاہدہ بنا دیتا ہے جس میں مکان کو محفوظ رکھنے کی جد و جہد انسانیت کی بقا کی ایک سعی بن جاتی ہے۔ کچھ کرداروں یعنی آلوک کا بہہ جانا اور اشوک کے یہاں آخری تبدیلی، ان کے لیے قاری کو پہلے سے تیار نہیں کیا گیا کم سے کم میرا تاثر یہی ہے۔ یہ تبدیلی اچانک ہوئی ’’مکان‘‘ اب بھی اردو میں ایک منفرد ناول کہا جا سکتا ہے اور اس کے فکر و فن کی خصوصیات یقیناً ادبی دنیا کو اپی طرف متوجہ کریں گی۔

ڈاکٹر آغاسہیل کہتے ہیں کہ:

’مکان‘ اردو کے روایتی ناولوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں اعلیٰ درجے کے ادبی ناولوں کی کچھ ایسی کمی بھی نہیں ہے۔ اگرچہ مغرب کے روسی، فرانسینی اور انگریزی ناولوں کے مقابلے میں بہت کمی ہے لیکن مشرق میں بالخصوص تیسری دنیا میں اردو کا ناول اتنا کمزور بھی نہیں کہ اس کے بارے میں اظہارِ خیال نہ کیا جائے۔ گزشتہ چندسالوں میں ’’گردش رنگ چمن‘‘، ’’دشت ہوس‘‘۔ ’’دیدار کے پیچھے ‘‘، ’’نادیدہ‘‘ اور ’’زوال‘‘جیسے ناول اردو میں آ چکے تھے۔ ’مکان‘ اس سلسلے کو آگے بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ چارسوصفحات پر پھیلے ہوئے اس ناول کا پلاٹ بہت مختصر ہے ، جس سے نیرا کے مکان پر اس کا کرایہ دار کمار ایک پراپرٹی ڈیلر کے اکسانے اور ایک پولیس انسپکٹر کے شہ دینے پر قبضہ کر لینا چاہتا ہے۔ پیغام آفاقی ایک طرف تو انڈین سول سروس کے حوالہ سے پولیس کے افسر ہیں۔ دوسری طرف انگریزی ادبیات کے فاضل ہیں۔ تیسری معاشرتی تارجیت، عمرانیات اورنفسیات کے حوالہ سے معروضی تجربوں پر قدرت رکھتے ہیں اور اسی مثلث میں یہ ناول شروع سے آخر تک اپناسفر پورا کر لیتا ہے۔ پیغام آفاقی نے نہایت احتیاط سے تمام کرداروں کی سائیکی میں ایسے ہی منفی کرداروں کو جھلکایا ہے اور بتایا ہے کہ سیدھے سادے سچے راستے پر چلنے والے کردار منفی کرداروں کی نگاہ میں کیوں ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں جیسا کہ ابتدا میں کہا جا چکا ہے کہ یہ اردو کے روایتی ناولوں سے مختلف ہے۔ اس طرح انھوں نے اردو ناول کے روایتی قاری کو جُل دے دی اور نئے امکانات روشن کر دیے۔

ادبیات کی کسی مسلمہ تعریف کا قائل نہیں ادب سائنس سے مختلف ہے۔ ادیب فن پاروں کا لیبارٹری میں تجربہ نہیں کرتا وہ تو انگلش کی زبان میں انسانی روح کا انجینئر ہوتا ہے۔ یہ انجینئرنگ پل صراط سے گزرنا سکھاتی ہے۔ لوہے اور کنکر سے پل بنانا اس کا کام نہیں۔ اس میں تمام انسانی تجربات کا گارا ہوتا ہے جس میں خونِ دل کی سرخی شامل رہتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ادبیات کے لیے فارم کی تلاش کامسئلہ ہے لیکن فارم کی تلاش یا اس کی یافت بھی تخلیقی تجربوں کی خاص منزل میں حاصل ہوتی ہے۔ کہانیوں سے داستان پھر ناول اور پھر مختصر افسانہ یہ سب ہمارے تخلیقی اور جمالیاتی تجربوں کی جستجو کے ذریعہ ابتدا وسط اور انتہا قصہ، پلاٹ، کردار وغیرہ عناصر کو یکجا کر کے ایک شکل دینے کی کوشش کی اور پھر اس کو ایک نام دیا۔ پیغام آفاقی کے ناول ’’مکان‘‘ کے شائع ہونے تک پریم چند اور ان کی قبیل کے تمام فن کار ہی اردو افسانہ اور ناول کی دنیا میں سب کچھ تھے لیکن پیغام آفاقی کا یہ ناول اب پریم چند کی حدوں سے آگے اور بہت آگے نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اب تک اردو میں جتنے ناول لکھے گئے ہیں، ان پر کوئی نہ کوئی لیبل فوراً ہی چپکا دیا جاتا ہے۔

’’مکان‘‘ ایساناول ہے جس پر بادی النظر میں کوئی لیبل نہیں لگا ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر ارضی فضا میں شروع ہو کر بتدریج سماوی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر ارضی پھرسماوی ہوتا ہے مگر سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کے خلق کا رشتہ زمین سے مضبوط تر ہو جاتا ہے۔ اس فن کار کو ایک ایسی بصیرت عطا کرتا رہتا ہے جو اس کی آئندہ زندگی میں بھی اس کے تخلیقی عمل کے آخری لمحات تک اسے کبھی بھی متوازن ہونے نہیں دے گا۔ ناول میں پلاٹ اور واقعات کا وہ پھیلاؤ نہیں ہے جس کی چارسو صفحات کے ایک ناول میں توقع ہو سکتی ہے۔ مصنف نے کہانی کی بنت اور اس کے پھیلاؤ سے زیادہ کرداروں کی خود کلامی، تجزیے ، سوچ اور فکر کی حالتوں اور کیفیتوں کو معیاری اہمیت دی ہے۔ کہیں ناول نگار خود واقعات کا تجزیہ کرتا ہے اور کہیں کردار بلکہ زیادہ تر کردار ہی حالات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان میں بڑی گرہوں کو کھولتے ہیں اور آنے والے دنوں میں زندگی کے تئیں اپنی حکمت عملی کی بساط بچھانے کے خاکے بتاتے ہیں اور یہی اس ناول کے وہ حصے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے ایک وسیع و عریض زندگی کی تہہ در تہہ پیچیدگیوں کا علم ہوتا ہے۔ مصنف نے اس ناول میں جس خاص فرد، ماحول یا علاقہ کو بنیاد بنایا ہے۔ وہ محض علامت ہے پورے سماج سے چند جیتے جاگتے ایسے کردار و واقعات نکال لیے ہیں۔

وسیع تر معنوی جہتوں کے ساتھ ایک فریم میں شامل کیے جا سکتے ہیں۔ نیرا اس دور کے ان سادہ لوح انسانوں کی علامت ہے جو اپنے گرد و پیش کی غیر ضروری چیزوں کی طرف نگاہ بھی نہیں اٹھاتے اور اپنے جائز تعمیری مقاصد کی تکمیل کے لیے وقف رہتے ہیں۔ اس ناول کے واقعات میں جو بے ترتیبی ہے اور کرداروں میں جو کھردرا پن ہے وہ بھی زندگی کا کھردرا پن ہے۔ زندگی کو اتنے قریب سے دیکھ لینا اپنے آپ میں ایک بڑی بات ہے مگراس سے بڑی بات یہ ہے کہ اس پورے مشاہدے کو اپنی پوری دیانت داری کے ساتھ پیش کیا ہے۔

’مکان‘ اردو کا ایک شاہکار ناول ہے۔ یہ ناول عہد جدید کے زوال پذیر رویوں، ناکام جمہوریت کے خلاف ایک جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ ’مکان‘ نے اردو ناول نگاری کو ایک نیا انداز دیا ہے جو کہ غیر روایتی ہے۔ پیغام آفاقی کے اپنے ہم عصر ناول نگاروں کے موضوع فساد، تقسیم کا المیہ، ہجرت کا کرب، زمینداری اور جاگیردارانہ نظام کا بھوت تھا جو اردو ناول پراس طرح سے حاوی تھا کہ قارئین کوایسے موضوعات کے گرد چکر کاٹنے کی عادت سی پڑ گئی تھی مگر اسی دور میں ۱۹۸۹ء میں پیغام آفاقی نے ان موضوعات سے الگ ہٹتے ہوئے ناول کا موضوع ہی بدل دیا۔

ناول ’مکان‘ کے شائع ہوتے ہی اردو ادب میں ایک ہلچل سی مچل گئی تھی۔ مصنف نے اپنے دور کے مسائل اوربیسویں صدی کی زندگی کو ایک کہانی کے پردے میں پیش کیا۔ ناول کا موضوع جدیدہندوستان کی جمہوریت کے تلے پنپنے والی زندگی اور اس کے المیے ، افراد کی روحانی و مادی کشمکش ناول نگار کی زبان میں تارکول کی طرح پھیلی ہوئی رشوت خوری، نوکر شاہوں کی دھاندلی، پولیس کے مظالم، عورت کو گری نظر سے دیکھنے کا دستور جمہوریت کے نقائص اوراس پس منظر میں انسان کے عظیم مقصد کو پیش کرنا تھا۔

اس ناول کا موضوع محض مکان مالک اور کرایہ دار کا جھگڑا یا مکان مالکوں کو کرایہ داروں سے محفوظ رکھنے کا نسخہ وغیرہ بتایا ہے۔ اگر یہی مطلب ہوتا تو ۴۰۰ صفحات پر اتنی بات کیسے پھیل گئی چونکہ ناول نگار نے مکان مالک اور کرایہ دار کی جنگ کے ذریعہ حیات و کائنات کے بڑے مسائل سامنے لائے ہیں۔ یہ بات دھیان میں رکھنے والی ہے کہ اس ناول کا ہندوستان کی آزادی کے پچاس سال بعد کا ہندوستان ہے۔ مصنف نے اپنے خاص کردار نیرا چھوئی موئی سی عورت یا لڑکی کی صورت میں نہیں بلکہ ایک مستحکم ارادہ والی عورت ہمارے سامنے آتی ہے۔ ان کی لڑائی انتہائی سرد جنگ/نفسیاتی و ذہنی جنگ کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ اس لڑائی میں مکان بچاتے بچاتے نیرا مکان کے بچ جانے پر خوش نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک نئے مسئلے کا شکار ہو کر زندگی کو اور کریدنے کے لیے آگے بڑھ جاتی ہے۔

ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اپنی کتاب ’’اردو فکشن کی تنقید‘‘ میں مکان کا تجزیہ سرسری طور پر نہ کر کے اس کی تہہ تک جانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نظر میں یہ ناول محض جدید شہری معاشرے کی پوشیدہ کرپشن، لاقانونیت اور اخلاقی بے راہ روی کی نشاندہی ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بھی بہت کچھ کہتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہماراجسم مکان ہے اور ہم نے اپنے جسم کے سارے اعضا کو کرایہ پر اٹھا رکھا ہے۔ کہیں پیغام آفاقی نے اس ناول کے تعلق سے عرفانِ ذات کی توسیع تو نہیں پیش کی ہے ؟ ارتضیٰ کریم نے اس نثری فن پارے سے ایک اچھوتا معنی برآمد کیا ہے۔ اس ناول کے موضوع و مقصد کے بعد اس کی تکنیک پربھی ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ مصنف نے ناول کی تکنیک میں ایک انوکھا تجربہ کیا ہے۔ اس کہانی کا بیان کنندہ صرف ناول نگار کی ذات نہیں ہے۔ بعض حصوں میں کرداروں کی زبانی ہے۔ کچھ جگہوں پر خطوط نگاری کا تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ نیز خواب کے سہارے بھی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ناول میں یکسانیت (Monotonous Style)کا لہجہ (اکتا دینے والی، بور ہونے والی) نہ پیدا ہو اس لیے مسائل مختلف Narrative Strategiesکاسہارا لیتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ اس انداز سے ناول میں منتشر آہنگ پیدا ہو گیا ہے جو کہ فکشن کی جان ہے۔

اس ناول میں سے بڑی خصوصیات یہ ہے کہ جہاں اردو ناولوں میں کرداروں کے سراپا کا بیان ملتا ہے وہاں مکان میں نیرا جو کہ مرکزی کردار ہے اس کے سراپا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔ تو پھر دوسرے کرداروں کی تو بات ہی دور ہے۔ ایسا اس لیے کہ اس ناول کا مقصد کرداروں کی ذہن کی کہانی لکھنا ہے اور ان کے ذہن کی تقصیر سے نیرا یا دوسرے کرداروں کاسراپا قاری خود بخودVisualizeکر لیتا ہے۔ یعنی کرداروں کے ظاہری حسن کے بیان سے یہ ناول انحراف کرتا ہے۔ ہر ناول اپنے حصے کی اپنے دور کی نئی زبان ساتھ لاتا ہے۔ اس ناول کے مکالمے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر جملہ جذباتی نہ ہونا، بڑے سے بڑے المیہ سے گزرنے کے باوجود جملوں کی ادائیگی جذبات سے پر ہے یہ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے کیونکہ ناول اپنے اجزائے ترکیبی کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے خالق کے فلسفہ حیات اور بصیرت افروزی کی وجہ سے زندہ جاوید فن پارہ بنتا ہے۔ مصنف نے پورے ناول میں جن تشبیہوں کا استعمال کیا ہے اس سے ان کی نثر کے اسٹائل میں فنی ترسیل کا اندازہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ان کے عمیق مشاہدے کا اظہار ہوا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان کی سوچ منفرد ہے کیونکہ انھوں نے اشیا کو اپنی طرف سے دیکھا ہے۔ ان کے یہاں خارجی حسن سے زیادہ داخلی سچائیاں پیش کی گئی ہیں۔ کچھ تشبیہوں کی مثالیں اس طرح ہیں۔

اسٹیل پن، گھنی زندگی، گندھا ہوا کیچڑ، سنگین مسئلہ، روشنی، فلامنٹ، گھومتا دماغ، شوقین عورت، زور پکڑتی آندھی، اُبلا ہوا انڈا، ٹھنڈے لمس، جادوئی گھروندا، سپاٹ منظر وغیرہ۔

تمام موضوع پر بحث کرنے کے بعد ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’مکان‘ کا مقام ہر روایتی ناول سے بہت بلند ہے۔ اپنے عہد میں موضوع اور فن کے اعتبار سے ایک اچھوتا فن پارہ ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ ہر اعتبار سے یعنی کہ اپنے موضوع، مقصد، کردار نگاری، پلاٹ، مکالمہ، تشبیہ، تمثیل ہر اعتبار سے اس کا درجہ اعلیٰ ہے۔ اس طرح ’’مکان‘‘ دنیائے فکشن میں ہی نہیں انسانی اذہان کی تاریخ کا ایک نیا تناظر لے کر ہمارے سامنے آتا ہے۔ بلا مبالغہ اردو ناول کے معیار سازی میں اہم کردار ادا کرنے والا رجحان ساز ناول ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 پیغام آفاقی! ۔۔۔ محمد علم اللہ

 

حسرت رہی کہ’ تم ‘سے دوبارہ نہ مل سکا

 

اب کوئی شام نہیں آئے گی ان آنکھوں میں

تیری کرنوں نے جلا ڈالی ہیں پلکیں میری

پیغام آفاقی

 

پاکستان سے نوجوان ادیب باسط آزر کا میسیج آیا ’’ایک دوست سے علم ہوا کہ آپ سے پیغام آفاقی صاحب کے بارے میں معلومات مل سکتی ہیں، سو برائے مہربانی، اگر ان کے بارے میں ریسنٹ اپڈیٹ ہو تو آگاہ کیجئے گا ‘‘آزر کی بات سے مجھے اس بات کا اندازہ ہی نہ ہوا کہ ان کے ریسنٹ اپڈیٹ سے کیا مراد ہے۔ میں نے بھی استفہامیہ انداز میں ریسنٹ اپڈیٹ کا مطلب ؟ لکھ کر انھیں جوابی پیغام بھیجا۔ گویا میں خود جاننا چاہتا ہوں کہ اس سے آپ کی کیا مراد ہے ؟۔ آفاقی صاحب کی بہادری، ہمت اور حوصلہ نے اس بات کا اندازہ ہی نہ ہونے دیا تھا کہ وہ بیمار تھے۔ حالانکہ انھیں کینسر جیسا مہلک مرض لاحق تھا، لیکن ان کے بہت سے قریبی دوستوں کو بھی اس بات کا علم نہیں تہا کہ ان کی ایک کیمیو  تھراپی بھی ہو چکی ہے۔

ابھی باسط آزر کا جواب آیا نہیں تھا کہ میں نے فیس بُک کھولا تو دیکھا آفاقی صاحب کے چاہنے والوں کی قطار لگی ہے ، ان کے دوستوں اور عزیزوں کی صف کھڑی نظر آئی، جو ان کی صحت و عافیت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ پیغام آفاقی صاحب کے کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہونے کی خبر سن کر ایسا لگا جیسے یہ بیماری مجھے لاحق ہو گئی ہے۔ میرے اندر خوف و ہراس کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔ پھر بھی خداوند قدوس کی ذات سے امید تھی کہ اللہ آفاقی صاحب کو ٹھیک کر دے گا اور وہ بہت جلد شفا یاب ہو کر ہمارے درمیان موجود ہوں گے۔ مگر ’’وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے‘‘۔

ع الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

انتقال کی خبر سن کر دل دکھ سے بھر گیا۔ ذہن اس بات کو قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھا کہ اب آفاقی صاحب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ایک ہوک سی دل میں اٹھی اور جانے کیا کیا باتیں یاد آتی رہیں، دیر تک ان کے بارے میں سوچتا رہا، ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ، آنکھوں کے سامنے یوں پھرنے لگا جیسے اب آفاقی صاحب کوئی نئی داستان چھیڑنے والے ہیں، محفل جمی ہے اور سب ہمہ تن گوش بیٹھے ہیں۔ سخن سنجوں کو کیا پتہ تھا کہ داستان گو اتنی جلدی آناً فاناً  سب کو مایوس و غمگسار چھوڑ کر، ہمیشہ کے لئے چلا جائے گا، نگری کے اس پار جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔ آفاقی صاحب نے ہمیں سوچنے کا بھی موقع نہیں دیا کہ ہم ان سے انھیں کے الفاظ میں کہتے۔

رات تاریک تر ہو رہی ہے ، مٹ رہا ہے ستاروں کا جلوہ

ہو گئے غم کے بادل نمایاں، ٹھہرو ٹھہرو کہاں جا رہے ہو

چھا گئی ہر شجر پہ اداسی، سو گئے آج بلبل کے نغمے

کر کے تم سارے گلشن کو ویراں، ٹھہرو ٹھہرو کہاں جا رہے ہو

آفاقی صاحب اس صدی کے ان قد آور لکھاریوں میں سے تھے ، جن پر بجا طور پر زمانے کو ناز ہو سکتا ہے۔ میری ان سے فیس بُک کے ذریعہ شناسائی ہوئی اور یہ شناسائی اس قدر بڑھی کہ میں ان سے ملنے کے لئے بے تاب ہو گیا، کہ جس شخصیت کو میں نے محض کتابوں میں پڑھا، رسالوں اور اہل علم کے ذریعے سنا اور جانا ہے وہ شخصیت کیسی ہو گی؟۔ قریب سے جاننے کی جستجو بڑھ گئی اور آخرکار وہ دن بھی آ گیا جب ان سے ملاقات ہوئی اور وہ ملاقات یادوں کا درپن بن گئی۔ جب کسی شخصیت سے بالمشافہ ملاقات نہ ہوئی ہو تو اس شخصیت کا ایک ہیولہ ہمارے ذہن میں بن ہو جاتا ہے۔ میرے ذہن میں بھی ایسا ہی کچھ اختر علی فاروقی المعروف پیغام آفاقی مرحوم کے تعلق سے تھا کہ پولس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا یہ افسر بھی شاید ہمارے ملک کے عام پولس والوں سے ملتا جلتا ہو گا، رویہ بھی ویسے ہی کرخت اور غصہ والا ہو گا وغیرہ۔

مگر جب ان تک رسائی ہوئی اور میں نے ان کو قریب سے دیکھا تو وہ کوئی اور ہی مرنجان مرنج قسم کی سدا بہار شخصیت تھی، علم و ادب کا ایک کوہ گراں، شفقت و محبت کا پیکر، با ذوق، آرٹ اور فن کا پارکھ۔ ہمیں دیکھتے ہی گلے سے لگا لیا اور سیدھے اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ چند منٹ بعد ہی انواع و اقسام کے ناشتے ، چائے اور گفتگو کا دور شروع ہوا۔ صبح سے دو پہر، دو پہر سے شام، شام سے رات ہو گئی، ہم باتوں میں اس قدر محو ہوئے کہ گذرے وقت کاپتہ ہی نہ چلا۔ ادب کی جب بات نکلی تو آفاقی صاحب نے قدیم سے لے کر جدید اور اسلوب سے لے کر تکنیک تک پوری بساط بچھا دی۔

ع وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

تہذیب، تاریخ اور ثقافت کا تذکرہ ہوا تو کئی صدیوں کو آئینہ کر دیا، فلم اور اس کے تکنیک پر بات نکلی تو ایسی ایسی باریکیاں اور نکات پر گفتگو ہوتی رہی کہ مجھ جیسا طفل مکتب محض سننے پر ہی اکتفا کر سکتا تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کی صورتحال اور ان کے مسائل کا حل، آزادی کے بعد لٹریچر کا رول، ہندوستان پاکستان کے ادیب و شاعر۔ کہاں کیا تخلیق ہو رہا ؟ اس وقت کس قسم کے ادب کی ضرورت ہے ؟، نوجوانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟، عمر رسیدہ افراد کو کیا کرنا چاہئے ؟۔ ادیب اور شاعر کیا کر رہے ہیں اور ان کو کیا کرنا چاہئے ؟ ایک وسیع جہان موضوعات تھا جس پر باتیں ہوتی رہیں۔ برسوں سے میرے ذہن میں پلنے والے انتشار، فلسفہ، تاریخ اور نہ جانے کن کن موضوعات کے بارے میں میرے الم غلم سوالات بھی تھے۔ مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ انھوں نے میرے سارے سوالات کے جوابات انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ دیے۔

آفاقی صاحب کو ان سے ملاقات سے قبل میں محض ادیب اور ایک سرکاری افسر کے طور پر جانتا تھا اور حیرت بھی کیا کرتا تھا کہ پولس ڈپارٹمنٹ سے تعلق رکھنے والا بندہ ادب سے کیسے جڑ سکتا ہے کہ یہاں تو ’’ انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ‘‘والی بات ہے ، لیکن شوق، ہمت اور جستجو انسان سے کیا کچھ نہیں کر وا دیتی۔ آفاقی صاحب ایک عمدہ نثر نگار کے ساتھ ساتھ خوش بیان شاعر بھی تھے۔ ملاقات کے دوران جب انھوں نے اپنا شعری مجموعہ درندہ میرے ہاتھوں میں تھمایا تو دبے لفظوں میں میں نے ان سے کہا ’’ آپ نے اس کا نام ’درندہ‘ کیوں رکھا یہ تو انتہائی غیر شاعرانہ نام ہے ؟‘‘

تو آفاقی صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہا کہ اسی لئے تو یہ نام رکھا ہے ، پھر وضاحت کی کہ در اصل یہ استعارہ ہے ’رقیب ‘ کا۔

پیغام صاحب ادب میں پروپیگنڈا کے شدید مخالف تھے۔ اعزاز و انعام کو انھوں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ ان کا ماننا تھا کہ ادیب کا اصل اعزاز اس کے قارئین ہیں۔ ان کے ناول کے سلسلے میں میں نے کہا کہ آپ اس کو پن گوئن یا آکسفورڈ جیسے کسی بڑے ادارے سے کیوں نہیں چھپواتے ؟ تو انھوں نے کہا کہ اچھے پکوان کی خوشبو خود بخود دور تک پھیلتی جاتی ہے ، اس کے لئے بڑے ہوٹل اور خوشنما بورڈ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھوں نے کہا میں تو چاہتا ہوں میری کتاب گلی اور نکڑ میں چھپنے والے دو ٹکے کے کاغذ میں چھپے ، لیکن لوگ اس کو پڑھیں، اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں مجھے خوشی نہیں مل سکتی۔

آفاقی صاحب محض ایک اچھے ادیب ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ تھے ، کتنوں کے مشفق اور مربی، شاید ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگ ان کے اسیر تھے ، جس کا اندازہ ہندو پاک سمیت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ان کی محبین، شاگردوں اور عزیزوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

آفاقی صاحب کو فلم اور آرٹ سے بھی بے حد دلچسپی تھی اس سلسلہ میں جے این یو سمیت کئی اداروں میں ان کا لیکچر انتہائی دلچسپی کے ساتھ سنا جاتا تھا، وہ جے این یو کے مہمان اساتذہ میں شامل تھے۔ انھوں نے ٹیلیوژن سیریل کی ہدایت کاری بھی کی تھی، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ نہ وہ ماس کمیونی کیشن کے طالب علم تھے اور نہ ہی کبھی کسی فلم کی کوئی تربیت لی تھی، اس کے برعکس فلم کے طلبہ کو پڑھایا اور کئی ایسی ٹیمیں تیار کر دیں جو مختلف چینلوں اور میڈیا صنعت میں کام کر رہی ہیں۔ آفاقی صاحب نے اس کا قصہ کچھ یوں سنایا تھا۔

جب انھوں نے ناول لکھا تو اس کی بہت دھوم مچی، اسی درمیان ان کے ذہن میں فلم بنانے کا خیال آیا، لیکن جب انھوں نے اس خیال کو پکانا شروع کیا تو اس نے مستقل ایک سیریل کا روپ دھار لیا۔ انھیں دنوں دور درشن میں ڈائریکٹروں سے ٹینڈر طلب کیا گیا تھا کہ وہ اپنے پر پوزل ڈالیں، اتفاق سے انھوں نے پر پوزل ڈالا اور وہ پاس ہو گیا۔ لیکن پاس ہونے کے بعد سرد خانہ کا شکار رہا، کام جمع کرنے کی تاریخ قریب سے قریب تر آتی جا رہی تھی، خیال آیا کسی ڈائریکٹر سے بات کر کے کام کرا لیا جائے ، یکے بعد دیگرے کئی ڈائریکٹروں سے بات کی گئی، لیکن ان کے مزاج اور طبیعت پر کوئی ڈائریکٹر کھرا نہ اترا۔ آخرکار انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اس کو ڈائریکٹ کریں گے ، اسکرپٹ لکھیں گے اور خود ہی ایڈٹ کرائیں گے۔ کئی مہینوں کی انتھک محنت اور مطالعہ سے انھوں نے ساونڈ، لائٹ، اسکرپٹنگ، ڈیزائننگ، میک اپ، سیٹ سازی پر معروف کتابیں منگائیں اور ساری کتابیں چاٹ ڈالیں، اپنے گھر کے بالا خانہ کو اسٹوڈیو بنایا اور کام شروع ہو گیا۔ ایکٹر، آرٹسٹ کی تلاش شروع ہوئی تو فیس اور ان کے نخرے دیکھ کر ایک مرتبہ پھر انھوں نے نئی پیڑھی کو اس فن میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور نوجوانوں کو اداکاری، مکالمہ اور جملوں کے زیر و بم سے متعارف کرانے لگے ، یوں بہت جلد انھوں نے ایک ٹیم تیار کر لی اور سیریل بھی بن کر تیار ہو گیا، ان کے بقول اس سیریل میں کوئی بھی بڑا یا چھوٹا اداکار نہیں تھا جو پہلے کہیں کام کر چکا ہو بلکہ سب کے سب ان کے ذریعہ ٹرینڈ کئے گئے نوجوان تھے ، لیکن اس کے باوجود سیریل انتہائی کامیاب رہا اور لوگوں نے کافی پذیرائی کی۔ سیریل کا ’’ نام ٹوٹنے کے بعد ‘‘تھا۔ ( 2)۔

آفاقی صاحب کی یہ بہت بڑی خصوصیت تھی کہ وہ نوجوانوں اور نئے لکھنے والوں کی ہمیشہ ہمت افزائی کیا کرتے۔ خود میرے کئی افسانوں پر انھوں نے کئی مفید مشورے دئے۔ میں نے ان سے ایک مرتبہ مطالعہ کے لئے کچھ کتابوں کی نشاندہی کی گذارش کی تو انھوں نے کہا۔ پڑھنے سے زیادہ سوچنے اور سوچ کو لکھ ڈالنے پر توجہ دیں، آپ رائٹر ہیں پرو فیسر نہیں، اور لکھنے کے لئے خیالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوچنے کی عادت ہی آپ کو بتاتی جائے گی کہ کیا پڑھنے کی ضرورت ہے ورنہ دنیا میں اچھی کتابیں اتنی ہیں کہ کئی عمریں گذر جائیں۔

ہمارے ہاں اردو ادیبوں کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ وہ اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے مصنفین کی کتابوں کو در خور اعتناء نہیں سمجھتے ، حالانکہ اس سے بہر حال قوت مشاہدہ اور فکر و فن میں اضافہ ہوتا ہے۔ آفاقی صاحب ایک اچھے قلم کار کے لئے دیگر زبانوں پر عبور کو بھی بہت اہمیت دیتے تھے ، اس کے لئے انھوں نے اکیسویں صدی فکشن کے تحت ایک ٹرانسلیشن اکیڈمی بھی تشکیل دی تھی، جس کا ایک صفحہ بھی فیس بُک پر بنایا تھا، وہ مجھے مستقل اس کے ایڈمن بن جانے پر ضد کرتے رہے ، لیکن میں نے ان سے کہا وہاں تو خود ہی بڑے بڑے ماہرین زبان و ادب موجود ہیں میں اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا نہیں کر سکوں گا، تو انھوں نے مجھے سخت لفظوں میں سر زنش کرتے ہوئے کہا تھا، اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے۔ اور انگریزی کی چند سطریں (1) میں تحریر کی تھیں۔

خوف آپ کو کبھی بھی کامیاب نہ ہونے دے گا۔ پھر ہم خوف کیوں کھائیں۔ نتیجے دو ہی نکل سکتے ہیں یا تو ہم کامیاب ہو کر سرخرو ہوں گے یا پھر ناکام ہو جائیں گے۔ دونوں چیلنجوں کا زندگی کے ہر میدان میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہئے۔ پھر آپ محسوس کریں گے کہ دنیا آپ کی مٹھی میں ہے۔ انھوں نے مجھے آئی ایس کی تیاری کے لئے بھی کئی مرتبہ ابھارا، وہ اس وقت بھی ایسی ہی عزم و ہمت دلانے والے کلمات سے مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ، ان کا کہنا تھا پہلے جاب سیکیور کیجئے پھر چاہے جتنا چاہیں لکھیں۔

انگریزی اورمدیگر زبانوں کے ادب سے انھیں اچھی واقفیت تھی۔ بات بات میں وہ اپنے سامعین یا قارئین کو موٹے موٹے نام لے کر مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے ، لیکن ان کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ انہوں نے چیخوف، ہیگو، شیکسپیر، جیسے نابغہ روزگاروں کو پڑھا ہی نہیں بلکہ گھول کر پیا ہے۔

علی گڑھ اور ان کی یادوں کا بڑے دلچسپ انداز میں دیر تک تذکرہ کرتے۔ میری ان سے جب ملاقات ہوئی تو اور چیزوں کے علاوہ علی گڑھ سے متعلق بھی انھوں نے بہت ساری چیزیں بتائیں۔ کہنے لگے :

جب وہ علی گڑھ گئے تو انگریزی آنرس میں داخلہ لے لیا۔ لٹریچر کی کلاس بڑی مشکل محسوس ہوتی تھی کہ اس کے استعارات اور تشبیہات سے واقفیت نہ تھی، پھر انگریزی کے کچھ معروف ناولوں کو اٹھایا اور اس کے ترجمے ، چند ہفتہ میں سارے پڑھ ڈالے اس سے اصطلاحات اور مفہوم کو سمجھنے میں کافی مدد ملی اور پھر وہ اس کلاس کے ٹاپر ثابت ہوئے۔

آفاقی صاحب در اصل ایک مہم جو شخص تھے جو کسی بھی چیز کو ایک مہم کے طور پر لیتے اور اس کو پورا کر کے چھوڑتے۔ میرے خیال میں ہر کامیاب آدمی کا ایسا ہی رویہ رہتا ہو گا۔ اس کے بغیر کامیابی شاذ ہی ملتی ہے۔

ناول کے مصنف کو تخلیق کار اس لئے کہا جانا چاہئے کہ وہ انسانی کردار تخلیق کرتا ہے اور ان کرداروں کے لئے معاشرہ تخلیق کرتا ہے اور یہ تخلیقات اتنی توانا ہوتی ہیں اور ان کے اندر پنپنے کی ایسی طاقت پنہاں ہوتی ہے کہ اگلے موسموں میں وہی معاشرے کی شکل میں زمین پر چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلاشبہ آفاقی صاحب جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گئے ہیں لیکن جب تک اردو ادب زندہ ہے ان کا پیغام آفاقی اور سنہری حروف میں نیر و تاباں رہے گا۔ اور ان کی فکر اگلے موسموں میں بھی گُل کھلاتی رہے گی۔ بقول اقبال:

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حاشیہ۔۔۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

(1)انگریزی اقتباس جو آفاقی صاحب نے 7 جون 2015 رات آٹھ بج کر اٹھارہ منٹ پر فیس بُک ان باکس میں مجھے ارسال کیا۔

۔ Being scared will not help you. So why to be scared. There will be only two results. Yes. No. Keep. ready to face both۔ and you will feel in command and control of yourself.

(2)۔ سیریل کے نام کی جانکاری معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی نے دی۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈولی۔۔۔ پیغام آفاقی

 

دو ڈھائی سال پہلے میں ایک سرکاری کام کے سلسلے میں چمپارن، بہار گیا تو مجھے خیال آیا کہ وہیں آس پاس میں کہیں میرے طالب علمی کے زمانے کا ایک دیرینہ دوست کا گھر تھا جو بہار پبلک سروس سے اب ریٹائر ہو کر اپنے گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ ان کا فون نمبر میرے موبائل میں موجود تھا۔ میں نے فون کیا اور بات ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ ان کا گھر وہاں سے کوئی ساٹھ کیلو میٹر پر تھا۔ دلی شہر میں تیس برس رہنے کے دوران ان کے علاقے میں جانے کی خواہش مجھے اکثر ہوئی تھی کیونکہ میرے اندازے کے مطابق وہ ایسی دور دراز کی جگہ تھی جہاں آج بھی پچھلے زمانوں کا ماحول موجود تھا  اور میں وہاں کی زندگی کو دیکھنا چاہتا تھا۔

دوسرے دن کام ختم ہونے کے بعد میں ایک ٹیکسی لے کر چل پڑا اور ہری بھری کھیتیوں کے بعد جنگلوں سے گزرتا ہوا ایک کھلی وادی میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کا گاؤں وہیں کچھ دور آگے سڑک کے کنارے ہے۔ جب دور سے ایک مسجد نظر آئی تو ان کے بتانے کے مطابق میں سمجھ گیا کہ یہی ان کا گاؤں ہے۔ مسجد سے آگے جا کر ایک طرف کافی کھلی جگہ کے بعد ایک پرانے طرز کی کوٹھی سی نظر آئی جس کا صف کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا اور اس کے احاطے میں نئے طرز کے چند مکان بن گئے تھے۔ میں نے وہاں گاڑی رکوائی تو دیکھا کہ بشیر عالم وہیں دکانوں کے سامنے میرے ہی انتظار میں ہی کھڑے تھے۔ ان پر نظر پڑتے ہی جیسے پینتیس سال پرانی دوستی کے جذبے نے میری رگ رگ میں ایک عجیب سی شادمانی کی لہر دوڑا دی۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے گھر میں لے گئے۔ ان کے ہاتھوں کے لمس نے چند لمحوں میں وقت کی دیوار چین کو نیست و نابود کر دیا۔ ان کے اس سرگرم استقبال کے بعد جب ہم ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے پرانی باتوں میں محو تھے مجھے دیوار پر ایک بڑی سی تصویر آویزاں نظر آئی۔

تصویر کے نیچے لکھا تھا ـ 1911 تا 2011

لیکن اس میں کسی آدمی کی تصویر نہیں تھی بلکہ تصویر میں ایک جنازہ تھا جسے لوگ اٹھائے ہوئے سڑک پر جا رہے تھے۔ میری نظر اس تصویر پر ٹک گئی تو بشیر عالم بولتے بولتے خاموش ہو گئے اور خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے اور ایک قلم کو بغل کی تپائی سے اٹھا کر یوں ہی اس کے ڈھکن کو کھولتے اور بند کرتے رہے۔

میں نے پوچھا ” یہ کیا ہے۔”

"یہ میری ماں کے جنازے کی تصویر ہے۔”

بات کچھ عجیب سی تھی۔

” اس تصویر کو دیکھ کر مجھے کچھ محسوس ہو رہا ہے لیکن کیا محسوس کر رہا ہوں یہ میں خود نہیں سمجھ پا رہا ہوں۔ اسے لگانے کی تو ضرور ہی کوئی خاص وجہ ہو گی۔ کیونکہ کسی ڈرائنگ روم میں جنازے کے تصویر میں پہلی بار ہی دیکھ رہا ہوں۔”

"اس کی کچھ خاص وجہ تو ہے۔ تبھی تو لگی ہوئی ہے۔” انہوں نے قلم کا ڈھکن بند کر کے اسے واپس تپائی پر رکھ دیا۔ ” میری ماں اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس کوٹھی کے سامنے برآمدے میں اکثر بیٹھا کرتی تھیں۔ بالکل آخری دنوں میں ایک دن جب گاؤں کی ایک خاتون کا جنازہ جانے والا تھا تو جنازہ لے جانے کا وقت معلوم کر کے بطور خاص باہر آ کر بیٹھ گئیں اور جہاں سے بائیں جانب سے جنازہ سڑک پر نمودار ہوا وہاں سے اسے سڑک پر گزرتے ہوئے دیکھتی رہیں۔ دوسرے جو ان کے آس پاس بیٹھے تھے ان کو اس طرح جنازے کو دیکھتے ہوئے دیکھ کر سکتے میں آ گئے۔ سب کو یہی خیال آیا تھا کہ وہ اب عمر کی جس منزل کو پہنچ گئی تھیں اس کے بعد ان کے دماغ میں شاید اب یہی خیال بار بار آتا ہو گا۔

اسی دوران انہوں نے کہا۔ ” میں بھی اسی طرح جاؤں گی۔”

اس کے کچھ ہی دنوں بعد ان کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کے بعد ہمیں وہ منظر ہمارے ذہن میں گھومنے لگا اور ہمیں محسوس ہوا کہ ان کے لئے یہ منظر بہت خاص تھا۔ میں نے ایک لڑکے کو ہدایت دی کہ وہ اس وقت جب ان کا جنازے مسجد کے سامنے سے اٹھنے کے بعد وہاں سامنے سڑک سے گزر رہا ہو تو وہ یہیں برآمدے میں کھڑے ہو کر اس کی تصویر لے لے۔ یہ وہی تصویر ہے۔ اب جو آپ یہ دیکھ رہے ہیں کہ تصویر کے نیچے سو برسوں کے وقفے کے سال لکھے ہوئے ہیں تو یہ ان کی پیدائش اور انتقال کے سال ہیں۔ عام  طور پر لوگ مرنے کے قریب آنے پر مذہبی باتوں پر زیادہ دھیان دیتے ہیں یا پھر اپنے خاندان و جائداد کے متعلق وصیت وغیرہ کرتے ہیں لیکن وہ تو جیسے اپنے متعلق سارے انتظام اپنے ہاتھوں سے کئے جا رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی قبر پر لگانے کے لئے خود ایک کتبہ بنوا کر منگایا تھا اور یہ ہدایت کی تھی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی قبر پر وہ کتبہ لگا دیا جائے جس پر انہوں نے اور کچھ نہیں لکھوایا بلکہ سنگتراش سے اپنا نام لکھنے کو بھی منع کر دیا۔ اس پر انہوں نے صرف اپنی پیدائش کا سال کھدوا دیا تھا اور وفات کے سال کے دو ہندسے بھی کھدوا دئے تھے۔ وہ اس بارے میں اتنی سنجیدہ تھیں کہ سب دیکھنے والے چپ رہے۔ ان کی قبر پر یہی کتبہ لگا ہوا ہے۔”

بشیر عالم اتنا بتانے کے بعد اچانک گہرے خیالوں میں کھو گئے۔  میں نے ان کو بالکل نہیں چھیڑا۔ تھوڑی دیر بعد وہ آگے کہنے لگے۔

زندگی میں تو کبھی ہم نے ان کی طرف اتنا دھیان نہیں دیا لیکن ان کی شخصیت نے ان کی وفات کے بعد ہم لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ کہ کر بشیر عالم خاموش ہو گئے اور سر نیچا کر کے کچھ سوچنے لگے۔ میں ان سے اس بارے میں مزید سننے کے لئے ان کو دیکھنے لگا۔

شاید یہ تصویر اس لئے لگائی گئی ہے کہ ہر وقت یہ یاد رہے کہ ایک دن اس دنیا سے جانا ہے۔

یہ تو ایک ایسی بات ہے جو عام طور سے لوگ کہتے ہی رہتے ہیں اور یاد بھی رہتی ہے لیکن اس تصویر سے ایک بہت بڑا ذہنی جھٹکا جڑا ہوا ہے  جس نے ہم لوگوں کی پوری زندگی بدل دی اور ہم آج بھی اس کے اثر سے باہر نہیں نکلے ہیں۔ یوں سمجھئے کہ آسمان سے ایک بجلی گری تھی۔

میں بالکل دم سادھے خاموشی سے ان کو سننے لگا۔ اور انہوں نے پوری بات بتانی شروع کی جو 1911 تا 2011 کی ایک طویل تفسیر تھی۔

کتبے پر لکھا تھا ” نور النساء۔ 1911 تا 2011 ” یہ مرنے والی کی وصیت کے مطابق لکھا گیا۔ انگریزی کا سن بھی ان کی مرضی کی وجہ سے ہی لکھا گیا تھا۔ نہ جانے ان کے دل میں کیا تھا ورنہ اس گاؤں کے قبرستان میں کسی قبر پر اس طرح کا کچھ لکھنے کو رواج نہیں تھا۔ شاید وہ صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ سو سال زندہ رہیں۔ شاید یہ کہ انہوں نے دنیا کو سو سال تک دیکھا۔ شاید یہ کہ وہ وقت کا ایک ایسا ٹکڑا تھیں جس کی لمبائی سو سال کی تھی۔ شاید وہ اس سے اپنے عہد کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرنا چاہتی تھیں اور یہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ سن ان کی زندگی کی پوری تاریخ اور ان کی سوانح کو بغیر ایک لفظ کی مدد کے بیان کرنے کے لئے کافی تھا۔

کیا وہ اتنا سوچتی تھیں ؟ یہ اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا کہ وہ کتنا سوچتی تھیں۔ لیکن ان کی زندگی کے آخری برسوں میں سب کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ انہوں نے زندگی اور دنیا کو بہت غور سے دیکھا تھا۔ انہوں نے گاؤں کے ایک پرانے مکان کے آنگن اور گھر میں اپنی پوری زندگی گزاری تھی لیکن ان کے بچے اس دن چونکے تھے جب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ انگریزی ہزاروں الفاظ سمجھ سکتی تھیں۔ یہ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا۔ وہ تو ایک دن اتفاق سے پوچھ لیا کہ کنڈیشن کا معنی سمجھتی ہیں تو جواب دینے کی بجائے بولیں کہ تم لوگ کیا سمجھتے ہو  تو بچوں  نے دس پندرہ اور الفاظ کے معنی پوچھے۔ پیٹیشن، انٹری، بیک گراؤنڈ، روٹیشن، ٹرمینیٹ، اور ان جیسے لگ بھگ بیس تیس الفاظ کے معنی جب وہ بتا گئیں پھر سبھی چونکے اور ہنسنے لگے۔ انہوں نے مسکرا کر بچوں جن میں ایک انگریزی کے پروفیسر تھے اور ایک کلکٹر رہ کر ریٹائر ہوئے تھے اور ایک ہائی کورٹ میں وکیل تھے ایسے دیکھا جیسے وہ اپنی حماقت کی وجہ سے ان کو بدھو سمجھ رہے  تھے—

تم لوگ میری گود میں پلے ہو۔ اور تب سے تم لوگوں کی آوازیں سن رہی ہوں۔

ان کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں اور سبھی اعلی تعلیم یافتہ اور ابتدائی تعلیم تو سب نے گھر سے ہی اسکول جا کر حاصل کیا ہی تھا، جب چھٹیوں میں گھر آتے تو پرانے برآمدے میں ہی دنیا بھر کی باتیں کرتے اور مسئلے مسائل پر بحثیں کرتے جس میں ان کے والد بھی اکثر شریک رہتے۔ انہیں آج اندازہ ہوا تھا کہ جو ہاتھ انہیں کھانا کھلاتے تھے وہ ان کی باتوں کو بھی سنتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

بچوں کی پرورش میں انہوں نے کافی پریشانیوں کا سامنا کیا تھا لیکن کسی بچے کو کبھی محسوس اس لئے نہیں ہوا تھا کہ ان کی پوری توجہ پڑھائی کی طرف مبذول کر دی گئی تھی اور گھر کے کسی بھی معاملے میں دلچسپی لینے پر سخت پابندی تھی۔ زمینداری ختم ہونے کے بعد کے دنوں میں اتنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کو نبھانا پہاڑ کاٹ کر نہر لانے جیسا تھا لیکن میرے والدین کا ذہن اس بارے میں بالکل واضح تھا کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے اس لئے یہ سفر آسان ہو گیا۔ بچوں کو کہ دیا گیا تھا کہ جب تک وہ سب کے سب پڑھ نہیں لیں گے ان کے مکان میں کوئی مزید تعمیر نہیں ہو گی، کپڑے جوتے سب تعلیم کے بعد خود بخود ہو جائیں گے۔ بس مقوی غذائیں اور صحت اور پڑھائی ہی اس وقت ضروری ہیں جن کی بعد میں بھرپائی نہیں ہو سکتی لہذا دودھ والی گائے اور بھینس مسلسل گھر میں ہوتیں باقی ہمارے کپڑے جب تک پھٹ نہیں جاتے تب تک بدلے نہیں جاتے تھے۔ جب پڑھائی کا خرچ بڑھا اور خاندانی دشمنوں کی طرف سے ان کی پڑھائی کو روکنے کے لئے جھوٹے مقدموں کا یلغار ہوا تو زمینیں گروی ہوئیں اور آمدنی سکڑتی گئی لیکن اس کے بعد ایک بیٹے کے وکیل بنتے ہی مقدموں کی تعداد اچانک کم ہونے لگی۔

اس پورے دور میں میری ماں  نور النساء نے شوہر کا بھرپور ساتھ دیا اور برسوں تک صرف ایک دو معمولی کپڑوں سے تن بدن ڈھکنے کو ہی اپنا دستور بنا لیا۔ انہوں نے اپنے سارے ارمان اپنے مستقبل کے خوابوں میں بسا لئے۔ بچے بڑے ہوں گے۔ دلہنیں آئیں گی۔ تب وہ گھر میں ملکہ ہوں گی۔ ایک تنکے کو بھی خود اٹھانے کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اپنی زندگی کے بیسیوں برس انہوں نے ان خوابوں کے ساتھ گزار دئے تھے۔

اس کے بعد وہ عہد آیا تھا جب پہلی بار گھر میں ایک بیٹے کی شادی ہوئی اور دلہن آئی۔ دلہن کو کیسے سنبھالا جاتا ہے اس کی تربیت انہیں خود اپنی ساس سے ملی تھی۔ لیکن تندہی سے زندگی کی مشقتوں میں لگے رہنے کی وجہ سے انہیں کبھی یہ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ ان بیس تیس برسوں میں زمانہ بدل رہا تھا۔ بڑے بیٹے کی شادی کے چند مہینوں کے اندر بہو اپنے شوہر کے ساتھ شہر میں رہنے چلی گئی اور بیٹے کی آمدنی سے ان کی توقعات ایسے بندھی تھیں جیسے برسات کے بادلوں سے بارش کی بندھی ہوتی ہے۔ لیکن بیٹا اپنے باپ کو کچھ بھی نہیں دے رہا تھا۔ البتہ اس کی وجہ سے مقدموں کے اخراجات کم ہو گئے۔

میرے والد بہت سخت جان تھے۔ وہ اپنے راستے پر چلتے رہے۔ دوسرے بیٹے کی شادی کے بعد بھی وہی ہوا۔ ایک ایک کر کے سب کی شادیاں ہو گئیں۔

ایک ایک کر کے لڑکے پہلے پڑھنے کے لئے باہر جاتے، اس کے بعد نوکری سے لگ جاتے اور اس کے بعد ان کی شادی ہوتی اور ایک دو ماہ گھر پر رہنے کے بعد وہ اپنی دلہنوں کو لے کر چلے جاتے۔ ہم سب نے یہی کیا۔ تو کہیں نا کہیں تو کوئی خواب تھا ساس بن کر جینے کا۔ وقت کی ہواؤں نے وہ خواب تباہ کر دئے۔ جب تیس تیس پینتیس پینتیس سال گزارنے کے بعد سبھی دھیرے دھیرے واپس لوٹے تب تک ان کے اپنے اپنے الگ الگ گھر بن چکے تھے اور وہ سیدھے اپنے گھروں میں اتر رہے تھے۔ وہ گھر ان کے تھے اور ان کی دلہنیں ان گھروں کے کیچن سے لیکر ڈرائنگ روم تک کی کرتا دھرتا تھیں۔ اب ماں کو وہاں رہنے کے لئے مہمان کی طرح بلایا جاتا اور کسی کے یہاں جانے کے بعد وہ محض ایک فرد بن کر رہ جاتی تھیں۔ ان کی عزت احترام، خدمت، کسی چیز میں کوئی کمی نہیں رکھی جاتی لیکن وہ واپس اپنے پرانے گھر میں جانے کا فیصلہ کر لیتیں۔

اس درمیان انہیں کچھ تلخ تجربے ہوئے تھے جن کا ہم لوگوں کو علم نہیں ہوا اور نہ ہی انہوں نے کبھی ہمیں بتایا۔ بہوؤں نے عام طور پر یہ جتایا تھا کہ انہیں صرف اپنی خدمت کا حق ہے لیکن وہ ان کے تابع نہیں تھیں اور یہ ان کا گھر تھا۔ برسوں تک اپنے اپنے گھروں کی مالکن رہنے کے بعد ساس ان کے لئے ایک الگ ذات بن چکی تھیں۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ انہیں کیسا محسوس ہوا ہو گا تو دل رونے رونے جیسا ہو جاتا ہے۔

ماں نے بھی ٹھان لیا کہ وہ اکیلی رہیں گی۔ وہ سمجھ گئی تھیں کہ وہ ساتھ رہیں گی تو کچھ نہ کچھ بولیں گی ہی اور کسی کو بھی کوئی ایسی پرچھائیں اچھی نہیں لگتی تھی جو خود بخود پرانی ساسوں کی موجود گی کا احساس دلا دیتی تھیں۔ میری ماں اتنے کھلے ذہن کی تھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے تو کچھ نہیں کہا لیکن اس بات کا سب کو یقین ہو چلا تھا کہ ان کو بہوؤں اور بیٹوں سے جس طرح الگ رہنا پڑ رہا تھا اس ماحول میں کوئی ان کو بہکا دے گا اور وہ مرنے سے پہلے وہ جائداد جو ان کے نام سے تھی کسی کو لکھ دیں گی لیکن بیٹے بھی اپنے باپ کی طرح ہی خود دار تھے اور وہ ماں کو یہی جتاتے رہے کہ وہ ماں کی عزت کرتے ہیں لیکن دولت کے لالچ میں کچھ بھی نہیں کرتے۔

یہ ایک زمیندار گھرانا تھا۔ اب تک یہ ہوتا آیا تھا کہ اولاد تا زندگی اپنے اجداد کے اختیار میں ہوتی تھی، پہلی بار ایک لڑکا وکالت کے پیشے میں گیا تھا تو اس کے اندر بغاوت دکھائی دینے لگی تھی اور وہ اپنی آمدنی کو اپنی سمجھنے لگا تھا اور اس بات پر والد کو اس سے کمائی کا پیسہ مانگتے ہوئے ‘مانگنے’ کا احساس ہونے لگتا تھا۔ ایک دن انہوں نے اپنا یہ درد اپنی ماں سے بیان کیا اور اس کے بعد وہ بار بار یہی کہتے کہ وہ کسی سے مانگیں گے نہیں۔ مرتے وقت ان کو صرف یہ فکر تھی کہ کہیں ان کی بیوی کو مانگنا نہ پڑ جائے۔ ایک دن ان کی بیوی نے ان سے کہ دیا کہ وہ اس معاشی آزادی اور کسی کا دست نگر نہ ہونے کے احساس کے ساتھ  ہی پوری زندگی گزار دیں گی۔

بشیر عالم اس پوری بات کا ذکر ایسے کر رہے تھے جیسے وہ اپنے ابا امی کا ذکر نہیں کر رہے ہوں بلکہ دو ایسے افراد کا ذکر کر رہے ہوں جن کو کبھی  اپنے حال پر بالکل تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔

جب والد بستر مرگ پر تھے اور ڈاکٹر نے اشارہ کر دیا کہ وہ اپنی وصیت وغیرہ کرنا چاہیں تو کر ڈالیں تو انہوں نے بیگم سے بہت سی باتیں کیں اور آخر میں بچوں کا دھیان رکھنے کی ہدایت کر کے چپ ہو گئے۔

بیگم نے پوچھا ” اور میرے لئے کیا کہہ رہے ہیں۔”

"میں جا رہا ہوں۔ لیکن میں نے آپ کے لئے اتنا انتظام کر دیا ہے کہ آپ کو بچوں کا منھ نہیں تکنا پڑے گا۔  بس آپ کو اپنا دھیان رکھنا پڑے گا کیونکہ وقت بہت بدل رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بچے آپ کا دھیان رکھیں گے۔ اس لئے آپ اس دھوکے میں مت پڑئے گا۔”

یہ سن کر ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ انہیں وہ دن یاد آ گئے جب ان کے شوہر سخت مالی مشکلات میں ہوتے تھے اور پیسوں کے انتظام میں پریشان پھرتے تھے لیکن بیٹوں نے کبھی ان کو اپنی کمائی کے پیسے لا کر نہیں دئے اور ان کو ہمیشہ یہ انتظام اپنی جائداد سے ہی کرنا پڑے۔

ان کے شوہر کے یہ جملے انہیں تلخ تجربوں کی پیداوار ہیں۔ انہوں نے سوچا۔

انہوں نے اپنے شوہر کے چہرے کو غور سے دیکھا، ان کو لگا کہ ان کے شوہر نے ان کو جو ہدایت کی ہے وہ ان کے لئے حکم کا درجہ رکھتی ہے اور اسی حکم میں ان کے مستقبل کا تحفظ پوشیدہ ہے۔ انہوں نے اپنے دل سے اپنی ممتا کے سارے ارمان مٹا دئے اور اسی لمحہ اپنے بچوں پر بھروسہ کرنے کا خیال دل سے نکال دیا۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک ان کے شوہر کی روح اپنی زندگی کی تمام تلخیوں کے ساتھ ان کے اندر حلول کر گئی ہو اور وہ اس روح کی امین بن گئی ہوں۔  انہوں نے اپنے شوہر کے جانے سے پہلے ہی شوہر کے ساتھ بچوں کے ذریعے ہوئے سلوک کو اپنی آن کا مسئلہ بنا لیا۔ انہوں نے طے کر لیا کہ وہ اپنے شوہر کے سر کو کبھی جھکنے نہیں دیں گی۔ انہوں نے اپنے آپ کو ختم کر لیا اور اب وہ شوہر کے نقش قدم پر چلنا چاہتی تھیں۔

باپ نے سب کو اپنے مکان بنانے کے پلاٹ دے دئے۔ اور ایک ایک کر کے سب کے مکان بھی بننے لگے۔ اس کے ساتھ ہی سب اپنے اپنے مکان میں رہنے لگے۔ ان گھروں کا پورا اختیار ان کی دلہنوں کے ہاتھ میں تھا۔

شوہر کے مرنے کے بعد  وہ اپنے پرانے مکان میں ہی رہ گئیں۔ ایک دن آخری دلہن بھی باہر چلی گئی۔ وہ اپنے مکان میں ہی رہیں۔ بیٹوں نے ان کو اپنے اپنے یہاں آ کر رہنے کے لئے کہا لیکن وہ نہیں مانیں۔ لیکن سب کے یہاں آتی جاتی رہیں۔

اسی دوران ایک دن وہ کسی گھریلو معاملے میں مشورہ دے رہی تھیں اور کسی نکتے پر زور بھی دیا۔

"اماں ، آپ ان معاملات میں مت پڑئے۔ یہ لوگ اب خود دادا نانا ہو چکے ہیں۔ ہمیں اپنے طور پر سوچنے سمجھنے دیجئے۔” میری بیوی نے کہا۔” آپ کو اب کسی بات سے کیا لینا دینا۔ آپ کو اپنے لئے جو چاہئے بتا دیا کیجئے۔ ”

تقریباً سارے بیٹے موجود تھے۔ سب کو یہ بات اچھی لگی۔

لیکن ماں اچانک خاموش اور سنجیدہ ہو گئیں۔ انہیں ایسا لگا جیسے ان کے اور ان کے بچوں کے درمیان ایک گہری کھائی چلی آئی ہو اور وہ ون سے بہت دور ہو گئی ہوں۔ "ٹھیک ہے بیٹا۔ اب میں تم لوگوں کے ذاتی معاملات میں نہیں بولوں گی۔ ”  انہوں نے خشک لہجے میں کہا لیکن کسی نے اس خشکی کو محسوس نہیں کیا۔ اس کے بعد ان کے اندر ایک عجین سنجیدگی پیدا ہو گئی۔ وہ جیسے رفتہ رفتہ اپنے ارد گرد سے دور رہنے لگیں۔ وہ سب کی باتیں سنتیں لیکن خود بہت سنبھل کر کچھ بولتیں۔ انہوں نے اب پہلے سے زیادہ توجہ سے اپنا دھیان رکھنا شروع کر دیا۔ ان کی گفتگو اب گھر کی سب سے بڑی خاتون کی بجائے ایک بزرگ جہاندیدہ خاتون کی طرح ہونے لگی۔

بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ وہ اپنے پرانے مکان میں ہی رہیں اور ان کا خرچ دیا جائے۔ بھائیوں نے یہ طے کر دیا کہ وہ سب مل کر ہر مہینے ایک خاص رقم انہیں دے دیں گے۔ جس سے ان کے اخراجات چلیں گے۔ نوکرانی ، مہمان، باورچی خانہ اور دیگر اخراجات جوڑ کر ماہانہ رقم طے ہو گئی۔ اس سے ان کو آزادی کا احساس تو ہوا لیکن علیحدگی کا بھی احساس ہوا۔ یہ احساس ان کے دل میں کہیں گہرائی میں اتر گیا۔ خاندان کی بیشتر زمینیں ان کے نام سے تھیں۔ دو تین زمینیں ایسی تھیں جن کو وہ بالکل اپنی نجی زمینیں مانتی تھیں کیونکہ یہ انہیں مہر کے عوض میں ملی تھیں۔

جب ان کا کوئی ایسا بیٹا گھر آتا جس نے ابھی مکان نہیں بنایا تھا تو وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ انہیں کے پاس ٹھہرتا۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ وہ گھر میں بالکل اکیلے ہوتیں۔ سبھی شام میں دیر تک وہاں بیٹھے، بستی کے اور ملنے والے بھی وہیں آتے۔ ان کے بھائی اور دوسرے رشتے دار بھی ان سے ملنے وہیں آتے۔ انہیں ان تمام لوگوں کی خاطر داری کرنے کی پوری آزادی چاہئے تھی۔ لوگوں کو حیرت ہوتی تھی کہ وہ اس عمر میں اکیلے کیوں رہتی ہیں لیکن انہیں اپنی آزادی پیاری تھی۔

آٹھ دس برس اور گزر گئے۔ اس دوران انہوں نے کسی کے گھریلو معاملے میں کچھ نہیں کہا۔  سب لوگ اب ان کی پہلے سے زیادہ ادب بھی کرنے لگے۔ کوئی ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیتا۔  وہ اس بات کو محسوس بھی کرتیں اور محسوس بھی کروا دیتیں۔

ان کے اندر اپنے ملکہ ہونے کا احساس تھا۔ انہوں نے اپنی بیوگی کا کسی کو احساس نہیں ہونے دیا۔ اور ایسا کرتی بھی کیوں۔ ان کے شوہر نے ہمیشہ اس بات کا ذکر کیا تھا کہ وہ نہ تو اپنی اولاد کا محتاج ہونا چاہتے ہیں اور نہ انہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے کبھی اپنی اولاد سے ان کی کمائی سے کچھ نہیں مانگا اور سخت سے سخت مالی مشکلات کے زمانے میں بھی خود ہی اپنی جائداد سے اپنی ضرورتیں پوری کیں۔ تنہائی میں والد بھی ان کو یہی ہدایت کر گئے تھے۔ شروع کے دنوں میں جب انہوں نے دیکھا کہ نور النسا کی اچھی باتیں بھی بہوؤں کو اچھی نہیں لگتیں اور ان کے جواب سے نور النسا کی خواہ مخواہ دلآزاری ہوتی ہے تو انہوں نے ایک دن انہیں دیر تک سمجھایا۔ اپنے شوہر کی بات ان کی سمجھ میں آ گئی تھی لیکن ان کے بیٹوں کو اس کا پتہ نہیں چلا۔ اب ہم ان تمام باتوں اور چہروں کے تاثرات کے معنی سمجھنے لگے ہیں جو ان دنوں سمجھ میں نہیں آئے تھے۔

زمانہ بدل چکا تھا۔ گھروں میں چونکہ بیویوں کا راج تھا۔ اس لئے لڑکوں سے کچھ کہنے کا کوئی معنی نہیں تھا۔ ان کی نظروں میں تو بہوئیں ہی تھیں۔ اور ان کے سامنے اپنا مقام چھوڑنا ان کو پسند نہیں تھا۔ وہ تو اپنے کو اس ساس اور ساس کی ساس کی جگہ رکھ کر دیکھ رہی تھیں جن کی وہ بہو رہ چکی تھیں۔ زمانے کی زمین نیچے اترتی رہی لیکن انہوں نے اپنا آسمان نہیں چھوڑا۔

"میں کسی پر بوجھ بننا نہیں چاہتی۔” ایک دن انہوں نے کہا تھا۔ سب نے اس بات کو بڑھاپے کی بڑ بڑ سمجھا۔ بیٹوں کا منہ تکتے تکتے وہ بیزار ہو گئی تھیں۔

ان کو دنیا اور زندگی سے مایوس ہوتے یا الجھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ بچوں کی ذمہ داریوں سے فارغ ہوئیں تو ان کی نظر زمانے پر چلی گئی۔ زندگی کے کتنے ہی واقعات تھے جن کا ذکر وہ اپنی گفتگو میں کیا کرتی تھیں۔ بڑھتی عمر کے ساتھ یہ مشاہدے اور بھی بڑھتے گئے تھے۔

اب وہ گاؤں کے بچوں اور جوانوں تک کے لئے ایک کتاب بن چکی تھیں۔

وہ دوسری جنگ عظیم کی کہانیاں سناتی تھیں۔ انگریز، جاپان، رنگون۔ کہ جب جاپانی برما تک پہنچ گئے تو انگریز ادھر سے ہو کر کس طرح بھاگ رہے تھے۔ انگریزوں کے اس طرح بھاگنے کا ذکر کتابوں میں تو کہیں تھا ہی نہیں۔

آزادی اور بٹوارے کی کہانیاں۔

وہ ہندوستان اور چین کی لڑائی کی کہانیاں سناتی تھیں۔ قحط سالی کے قصے  اور مختلف طرح کی سرکاری ریلیف میں ملنے والی اشیا اور اس میں خرد برد کی کہانیاں۔

بٹوارے کے بعد ہونے والی فرقہ وارانہ کشیدگی کی کہانیاں۔ اس زمانے میں دور دور سے آئی ہوئی کہانیاں۔ جنگوں سے لوٹے ہوئے سپاہیوں کے ذریعے سنائے گئے محاذ جنگ کی کہانیاں۔

آدمی کے چاند پر جانے کا واقعہ۔

آسمان پر چھوڑے گئے راکٹوں کے تاروں کی طرح چلنے کا منظر اور امریکہ اور روس کے مقابلوں کی کہانیاں۔

کبھی کبھی گھر کی پرانی کہانیاں سناتیں۔

زمینداری کے زمانے کے زمینداروں کے دبدبے کی کہانیاں۔

گھر میں بھائیوں میں ہوئے بٹوارے میں مٹی کے برتنوں کو توڑ کر بانٹنے کی دلچسپ کہانیاں۔

بچوں کے سنگین طور پر بیمار ہو جانے اس کے نتیجے میں جھیلی ہوئی مشقتوں کی داستان۔

کبھی کبھی اپنے زمانے اور مستقبل کی پیشن گوئیوں کا ذکر کرتیں۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ جب چودھویں  صدی آئے گی تو گھر گھر میں ناچ گانا ہو گا۔ میں سوچتی تھی کہ یہ کیسے ہو گا۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔

یہ بھی لکھا ہے کہ بچوں کے دل سے ماں باپ کی محبت ختم ہو جائے گی۔ وہی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔

اپنی ساس اور ساس کی ساس کی کہانیاں سناتے ہوئے وہ انتہائی روحانی سکون سے سرشار نظر آتیں۔ یہ ان کی وہ پسندیدہ کہانی تھی جو وہ بہت خاص موقعوں پر سناتیں۔ ” مرتے وقت تمہاری دادی نے کہا کہ بہو میں اپنی ساس کی ذمہ داری تمہارے ہاتھوں میں چھوڑے جا رہی ہوں۔ ان کو کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دینا۔ یہ میری ساس کی وہ ساس تھیں کہ جب اولاد نہیں ہو رہی تھی تو بیٹے کی دوسری شادی کرنے پر بضد ہو گئی تھیں۔ یہ ہدایت انہوں نے مجھے مرتے وقت اپنی اس ساس کے لئے دی تھی۔ وہ بیٹے کی دوسری شادی کرنے کے لئے بضد ہوئیں تو ان کے شوہر نے ان سے کہا تھا کہ اگر پوتا پوتی دیکھنے کی اتنی شدید خواہش ہے تو وہ کرنے کی ہمت کرو جو میں بتاتا ہوں۔ ان کے بتانے پر وہ چالیس دنوں تک مسجد میں جا کر بتائی ہوئی دعا کی ورد کرتی رہیں۔ ہدایت تھی کہ جب وہ کوئی خوفناک چیز دیکھیں تو گھبرا کر بھاگیں نہیں ورنہ پاگل ہو جائیں گی انہوں نے یہ چیلنج قبول کیا۔ ایک رات انہوں نے اپنے چاروں طرف اژدہوں کو پھنکارتے ہوئے دیکھا۔ لیکن ٹس سے مس نہیں ہوئیں۔ ایک اور رات انہوں نے شیروں کو گرجتے ہوئے آتے دیکھا۔ اس کے بعد بالکل آخر کے دنوں میں ایک دن دیکھا کہ مسجد کی دیواریں ہٹ گئی ہیں اور دور تک چٹیل میدان ہے اور سفید پوش لوگوں کی قطاریں نماز پڑھ رہی ہیں۔ جب انہوں نے یہ منظر اپنے شوہر کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ اب چمئین کو بلا کر دلہن کو دکھائیں۔ دکھانے پر معلوم ہوا کہ وہ حاملہ تھیں۔

اسی حمل سے ان لوگوں کے والد کی پیدائش ہوئی تھی۔ یقیناً دادی کو دونوں باتوں کا علم اور احساس تھا  یعنی اولاد نہ ہونے پر دوسری شادی پر بضد ہونا اور ان کی گود ہری ہونے کے لئے ایسے خوفناک لمحات کا سامنا کرنا۔ ایک عورت کا حال عورت ہی بہتر سمجھتی ہو گی اور اس ساس کے لئے اس قدر خیال شاید اسی کا نتیجہ تھا۔ شاید وہ یہ کہنا چاہتی تھیں کہ تمہارا ا اس گھر کا بہو ہونا اسی بوڑھی عورت کی محنتوں کا ثمر ہے یہ مت بھولنا۔

زمانے کو یاد کرنا، اس کو بیان کرنا اور موجودہ زمانے کو دیکھنا ہی ان کی زندگی بن گئی تھی۔ ان کے پوتے پوتیاں ، نواسے نواسیاں ان سے بے حد پیار کرتے تھے۔ ان کے لئے ان کے لبوں پر ہمیشہ مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ وہ ان سے ہنستیں ، بولتیں ، ان کی ہونے والی دلہنوں اور دولہوں کے حوالے سے مذاق کرتیں۔ بچیاں کبھی ان سے روٹھ جاتیں ، پھر ان کے پاس جا کر ان سے پیار سے باتیں کرنے لگتیں۔ کبھی ان سے پرانے زمانے کی باتیں سنتیں ، کبھی موجودہ زندگی سے متعلق اپنی ذہنی الجھن کو ان سے شیئر کر کے انہیں سلجھاتیں۔ ان سے بہتر شاید ان بچوں کے لئے پورے گاؤں میں دوسرا کوئی دوست نہیں تھا۔

وہ گھر میں اکیلی رہ گئی تھیں لیکن خوش تھیں۔ پورے گاؤں محلے کے لوگ ان سے ملنے آتے تھے۔ سامنے کرسیاں لگی تھیں۔ ایک تخت تھا۔ سامنے ہی گیس کا چولہا تھا اور نوکرانی وہیں کھانا بناتی تھی۔ اپنے تمام بیٹوں بیٹیوں اور پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں اور ان کی اولادوں کی خبر لیتی رہتی تھیں۔ ان کو اسی سے فرصت نہیں تھی۔  نوکرانیاں ان کے پاس کام کرنے میں اس وجہ سے خاص دلچسپی لیتی تھیں کہ وہ یہاں طرح طرح کے کھانا بنانا سیکھ جاتی تھیں۔

ان کی 99 سالہ آنکھوں نے، جو دور سڑک پر آتی جاتی ٹریفک کو دیکھ رہی تھیں ، اس سڑک کا اسی برسوں کا طویل منظر دیکھا تھا اور اس منظر میں ہوتی ہوئی تبدیلیاں دیکھی تھیں۔ ان کے اوپر جب کبھی فلسفیانہ طبیعت کی بہار آتی تھی تو دنیا کے اوپر بہت معرکے کے کمنٹ کرتی تھیں۔ اکثر اس زمانے اور پرانے وقتوں کا موازنہ کرتی تھیں لیکن یہ موازنہ کبھی بھی زمانے میں برائیوں کے بڑھنے جیسی باتوں کا نہیں ہوتا تھا بلکہ دونوں وقتوں کے حالات آئینہ کی طرح سامنے آنے لگتے تھے۔

ایک دن ایک شادی کے جشن میں  سامنے سے ٹریکٹر پر ایک لڑکی ڈسکو کرتی جا رہی تھی اور پیچھے پیچھے گاؤں محلے کے سیکڑوں لونڈے اور بچے چل رہے تھے۔ فلمی گانے کی بلند آواز آ رہی تھی۔ انہوں نے دیکھنے کے لئے دروازے کے پٹ کھلوائے اور دلچسپی سے دیکھتی رہیں۔ ان کے دیکھنے کے انداز سے یہ سیکھنے کو ملا کہ زمانے کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔

جب ٹریکٹر نظروں سے اوجھل ہو گیا تو انہوں نے کہا۔

ایک آج کا یہ وقت ہے اور ایک پہلے کا وقت تھا :

ایک مرتبہ تمہارے ابا ہم لوگوں کو باغات دکھانے لے گئے۔ تمہاری پردادی بھی تھیں۔  ٹمٹم پر دونوں طرف سے پوری طرح پردہ کسا گیا، پھر اس میں ہم لوگ بیٹھے تھے۔ اب میری  بیٹی مجھ سے لڑتی ہے کہ اسے اسکول کالج میں  پڑھایا کیوں نہیں گیا۔ بتاؤ۔ اس وقت بھلا یہ کیسے ممکن تھا۔  یہ بات نہیں سوچتی۔ جب وہ یہ باتیں کہتیں تو ان کے لہجے میں اپنے اور اپنی بیٹیوں کے قیمتی لمحوں کی بربادی کی کسک اور اس بات کا افسوس صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ زمانہ آیا لیکن کتنی دیر سے آیا۔

وہ بچوں سے الگ طرح کی باتیں کرتیں ، لڑکیوں سے الگ طرح کی اور ہم لوگوں سے الگ طرح کی۔ ایک دن مجھے بتانے لگیں کہ اب ساری بہوئیں شہر میں جا کر رہ رہی ہیں۔ جن جن عورتوں کے شوہر عرب کمانے گئے ہیں ان میں کوئی بھی دیہات میں رہنا نہیں چاہتی۔ سب بچوں کو اسکولوں میں پڑھانے کے نام پر شہر میں کرائے کا مکان لے کر رہ رہی ہیں۔ انہوں نے کئے نام گنا دئے۔ ان کو سب معلوم تھا۔

ایک محلے کی لڑکی ہے۔ اس نے اپنی شادی سیل فون پر ہی دوستی کر کے طے کر لی۔ اس لڑکے سے گھنٹوں فون پر بات کرتی رہتی تھی۔ ان دنوں وہ ان کا کھانا پکانے بھی آتی تھی۔ ان کو اس افیئر کے بارے میں بتا بھی دیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ لڑکا عرب ممالک میں کام کرتا ہے تو وہ کچھ سوچنے لگیں اور پھر سختی سے تاکید کی کہ لڑکے کے گاؤں کسی کو بھیج کر معلوم کر لے اس کے بارے میں ٹھیک سے معلوم کر لے کہ وہ لڑکا کہیں شادی شدہ تو نہیں ہے  لیکن لڑکی نے اپنی مستی میں دھیان  نہیں دیا۔ پورے محلے کو اس افیئر کے بارے میں معلوم ہو گیا۔ اس کے بعد شادی کا دن بھی مقرر ہو گیا۔ آخر میں بھید کھلا کہ اس لڑکے کے پہلے سے ہی سات بچے تھے اور بیوی بھی تھی اور دوسری شادی کا خیال اسے عرب میں رہنے کی وجہ سے آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس لڑکی کے سیل فون عشق کا یہ پورا معاملہ ان کو معلوم تھا۔ ان کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ وہ فون پر کسی اجنبی لڑکے سے کیوں بات کرتی ہے۔ ان کو اعتراض اس بات پر ہوا کہ جس سے وہ بات کرتی تھی اور جس سے اپنی شادی طے کر چکی اس کے بارے میں آگے چل کر معلوم ہوا کہ وہ سات بچوں کا باپ تھا۔ شادی کی بات ٹوٹی اور لڑکی بہت روئی اور ان کی گود میں سر رکھ کر کہنے لگی کہ میں نے آپ کی بات پر دھیان نہیں دیا اسی لئے یہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔ دوسری لڑکیاں بھی اس معاملے میں ‘دادی’ کے مشورے کی حمایت کرتی رہیں۔

ہم نے ان کی زندگی پر غور کر کر کے بہت کچھ دیکھا اور سیکھا۔

ہم بچپن میں جوائنٹ فیملی کی بہت تعریف سنتے تھے اور تعجب ہوتا تھا کہ وہ لوگ کتنے خود غرض ہوتے ہوں گے جو اپنے خاندانوں کے بھرے بھرے ماحول سے الگ ہو کر اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں لیکن اپنے خاندان کو جو تمام پیار اور محبت کے ساتھ بکھرتے دیکھا تو ایسا لگا کہ جوائنٹ فیملی بھی میری ماں کی طرح بدلتے وقت کا شکار ہو گیا۔

ہم اپنے بچپن میں یہ بھی سوچا کرتے تھے کہ بوڑھے لوگوں کا ذہن تبدیلیوں کو قبول نہیں کرتا ہے اور اس کی وجہ سے چڑچڑے ہو جاتے ہیں لیکن میری ماں کے لئے تو بدلتا وقت ایک خوبصورت تماشا بن گیا تھا۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ ایک لمبے زمانے کی تبدیلیوں نے انہیں وقت کی تبدیلیوں کے تئیں اتنا حساس بنا دیا تھا جتنا خود ہم بھی نہیں۔ وہ لوگوں کی سوچ میں ہوتی تبدیلیوں کو بہت دلچسپی سے سنتی تھیں اور ان کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کی کوشش کرتی تھیں کہ یہ تبدیلی کن وجوہات سے آتی تھی۔

نئے زمانے کے بارے میں تو گویا ان کا ذہن کئی دہوں سے بنا ہوا تھا۔ وہ بچپن میں ہم لوگوں سے کہا کرتی تھیں کہ جب چودہویں صدی آئے گی تو کیا کیا ہو گا اور ایسا لگتا تھا کہ ہرچند کہ چودہویں صدی کو ذکر لوگ زوال کے طور پر کرتے تھے لیکن وہ ہمیشہ ایسے ذکر کرتی تھیں جیسے یہ نئی حیرت انگیز چیزوں کے نمودار ہونے کا عہد ہو گا۔ اور بعد کے دنوں میں ان کی گہری دلچسپی کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے وہ طویل زندگی پا کر اس عہد کو دیکھنا چاہتی تھیں اور قدرت نے ان کی یہ خواہش پوری کر دی تھی۔ انہیں تو میں نے گذشتہ زمانے کے تئیں شاکی ہی پایا۔ وہ بار بار اس زمانے کے غریب لوگوں کی زندگی کی حالت اور زندگی کے قید و بند میں جانوروں کی طرح کی زندگی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ اب حالت بہت اچھی ہے اور بہت پیار سے کہتیں کہ بابو وہ زمانہ اچھا نہیں تھا۔

آخری دنوں میں پوری فصل کی کٹائی پر ماں اپنی ضرورت کے لائق لے لیتیں اور باقی بیٹوں میں بٹ جاتی تھی۔ لڑکوں نے ان کے اخراجات کو ان کے ذاتی اخراجات تک محدود رکھنا طے کر دیا تھا۔  شروع شروع میں تو وہ کبھی کسی ضرورت کے سامنے آنے پر بیٹوں کو بلا کر کچھ کہ بھی دیا کرتیں لیکن جب انہوں نے دو تین بار دیکھا کہ انہوں نے آناکانی یا ان سنی کر دی تو انہوں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تھی  اور یہی بات غلط ہو گئی تھی۔ والد اکثر یہ دھمکی دیا کرتے تھے کہ اگر بیٹے کما کر نہیں دیں گے تو وہ جائداد کو بیچنا شروع کریں گے حالانکہ انہوں نے آخری سانس تک ایسا کیا نہیں۔ اور اب یہی خیال ماں کے بارے میں آنے لگا تھا کیونکہ  زمین کسی کو بھی لکھ دینے کا حق و اختیار انہیں کے پاس تھا اور آدھی سے زیادہ موروثی جائداد انہیں کے نام تھی۔ اور ماں کی مکمل خاموشی سے سب خوفزدہ تھے کہ وہ جائداد کے بارے میں ضرور کچھ ایسا کر بیٹھیں گی جس سے ان سب کو اپنے حق سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اکڑ ایسی کہ کوئی ان سے بات کر لینا نہیں چاہتا تھا تاکہ کم از کم اندیشہ ہی دور ہو جائے۔ بیویوں کو تو اب بہت پریشانی ہونے لگی تھی یہ سوچ سوچ کر۔

سچی بات تو یہ ہے کہ میرے ایک دو بھائیوں کو تو ان کے مرنے کا انتظار رہنے لگا تھا اور وہ اندازہ لگاتے رہتے کہ اب وہ کتنے دنوں اور زندہ رہیں گی اور ان کے اندازوں کے مسلسل غلط ثابت ہونے پر دوسرے ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ اتنی بات تو واضح تھی کہ وہ سب کے لئے مرنے سے پہلے مر چکی تھیں ، مرنے سے کئی برس پہلے ہی اور اس بات کو شاید ان کو بھی احساس ہو گیا تھا لیکن انہوں نے زندگی سے ناتا توڑنا بالکل ضروری نہیں سمجھا۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک زندگی کے تانے بانے کو اپنے طور پر ٹٹولنے میں دلچسپی لیتی رہیں۔

میں ان کا بیٹا ہوں اور مجھے اب یہ صاف صاف دکھائی دینے لگا ہے کہ وہ کیا سوچتی تھیں اور کیا محسوس کرتی تھیں۔ افسوس ان کی زندگی میں ہم لوگوں نے کبھی اس پر غور نہیں کیا، دھیان نہیں دیا۔ سچی بات تو یہ ہے جو ہمارے لئے اب بھی شرم کی بات ہے کہ انہوں نے تسلیم کر لیا تھا کہ ان کے پیٹ سے پیدا ہونے اور پھلنے پھولنے والا پورا خاندان ایک مختلف دنیا بن چکا ہے اور وہ اس دنیا سے بہت آگے بڑھ آئی ہیں۔ اور اب اس سے ان کا رشتہ ہے لیکن یہ رشتہ خانہ بندی کا شکار ہو چکا ہے۔ اور وہ ایک الگ خانے میں ہیں۔ اور اس خانے میں وہ تنہا ہیں۔ اور گویا کسی پر ان کی بات ماننا اب لازم نہیں اور ان کی اولاد انہیں بس ایک مقدس ذمہ داری سمجھ کر اس ذمہ داری سمجھ کر نبھا رہی ہے۔ ان کے بیٹوں کو اب اتنا بھی خیال نہیں آتا تھا کہ ہر روز کم از کم ان میں سے ایک ہی ان کے کمرے میں آ کر سو جائے تاکہ اگر انہیں رات میں کوئی ناگہانی تکلیف ہو جائے تو انہیں سنبھال ے۔ وہ یہ بات ان سے کہنا نہیں چاہ رہی تھیں لیکن اس بات کو شدت سے محسوس کر رہی تھیں۔ صرف میرا چھوٹا بھائی ان کے قریب زیادہ دن رہا۔ وہ کاروبار کر رہا تھا اور گاؤں میں ہی رہ رہا تھا۔ اس نے ماں کی بے حد خدمت کی۔ جب ان کی طبیعت نازک ہوتی تو وہ رات بھر اٹھ اٹھ کر ان کے پاس بیٹھا رہتا تھا۔ لیکن وہ اس کمی کو کیسے پورا کر سکتا تھا جو کمی وہ دوسرے بیٹوں سے وابستہ توقعات کے پورے نہ ہونے کے سبب محسوس کرتی تھیں۔

شاید وہ یہ سوچنے لگی تھیں کہ کیا اب ان کی حیثیت اتنی سی باقی رہ گئی تھی کہ کسی دن ان کی آنکھ بند ہو جائے اور وہ ان کی آخری رسوم کی ادائیگی کر کے زندگی کے سفر میں آگے بڑھ جائیں۔ یہ بات کوئی خاص مسئلہ بھی نہیں تھی لیکن ان کے لئے دلچسپ بات تو ایک ماں اور اس کی اولاد کے درمیان کے رشتے کا اس مقام پر پہنچ جانا تھا۔ ادھر پندرہ بیس برسوں سے تو ان کا زیادہ تر وقت دنیا کو سمجھنے میں ہی کٹتا تھا۔ وقت بھی کچھ ایسا آیا تھا کہ روز نئی نئی چیزیں سامنے آ رہی تھیں۔

لوگ ان کے اکیلے رہنے کے اسٹائل کو لے کر ان کی با رعب شخصیت کا ذکر کرنے لگے تھے۔ حالانکہ ان کے اندر رعب والی بات ذرہ برابر بھی نہیں تھی لیکن عزت نفس کا احساس کہیں گہرائی میں اتنا مضبوط تھا کہ اس کا عکس ان کی شخصیت میں صاف نظر آتا تھا۔ کسی بہو کی ہمت نہیں تھی کہ ان کے سامنے اونچی آواز میں بات کرے  اور جس میں تھی اس کے اوپر ان کے  گھر کا دروازہ بند تھا۔ اس سلسلے میں وہ کسی مصالحت کے لئے تیار نہیں تھیں۔ بیٹے کبھی کسی مسئلہ پر اونچی آواز میں بول بھی دیتے تو بہت پیار سے تھوڑی ہی دیر میں وہ انہیں زمین پر اتار لاتی تھیں۔ اس کے بعد وہ وہی چھوٹا بچہ بن جاتا۔

جنازے والا واقعہ ان کے انتقال سے دو تین ماہ پہلے کا ہے۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ خاص طور سے برآمدے میں آ کر بیٹھی تھیں۔ اس دن  گاؤں میں ایک دوسری بزرگ خاتون کی وفات ہوئی تھی۔  انہوں نے پہلے سے ہی معلوم کر لیا تھا کہ جنازہ کب جائے گا۔

میں اندر سے نکلا تو مجھے دیکھ کر بولیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ میں ہی جا رہی ہوں۔

میں سناٹے میں آ گیا کہ یہ اپنی موت کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

وہ جنازے کو اتنے انہماک سے دیکھ رہی تھیں کہ جب وہ دروازے کی اوٹ میں جانے لگا تو بائیں طرف جھک کر دیکھنے لگیں  اور تب تک دیکھتی رہیں جب تک وہ اگلے محلے کے مکانوں سے آگے کی طرف نہ چلا گیا۔ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئیں تو ان کے چہرے پر ایک گہرا ٹھہراؤ تھا۔

میری پریشان نظروں کو دیکھ کر بولیں۔

اور کیا ؟ مجھے بھی تو لوگ اسی طرح لے جائیں گے۔

مجھے محسوس ہوا کہ یہ سفر بھی اب ان کے لئے صرف ان کے ادھر ادھر چلنے پھرنے کے دوسرے قدموں کی طرح ایک معمول کا قدم تھا۔

ایک دن وہ بستر سے اٹھیں اور زمین پر پاؤں اتارے اور چپل پہننے کی کوشش کی تو انہیں محسوس ہوا کہ ان کے پاؤں میں کچھ بے حسی پیدا ہو گئی ہے۔ پاؤں اوپر کھینچ کر قریب سے دیکھا تو اس پر سوجن آ گئی تھی۔ انہیں احساس ہو گیا کہ ان کی منزل قریب تر آ رہی ہے۔ اس کے بعد وہ کچھ بے چین رہنے لگیں جس کی وجہ خود ان کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہی تھی۔ سوچتے سوچتے انہیں محسوس ہوا کہ ان کے دل و دماغ پر کچھ بوجھ سا ہے۔ غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ کچھ باتیں تھیں جو انہیں پریشان کر رہی تھیں۔ کچھ ایسی باتیں جنہیں وہ اپنے ساتھ لیکر مرنا نہیں چاہتی تھیں۔

بشیر عالم نے ایک گہری سانس لی اور آگے بولے۔

اپنی زندگی بھر انہوں نے کوئی جائداد نہیں بیچی۔ جو کچھ بیٹوں نے اپنی مرضی سے دیا اس پر صبر کیا۔ لیکن وہ اپنے غصے کو اپنے ساتھ لے کر مرنا نہیں چاہتی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ یہ غصہ بد دعا میں تبدیل ہو جائے گی۔ وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ ماں باپ کی بد دعا وہ نہیں ہوتی جو وہ اپنے منھ سے بول دیتے ہیں ، ماں باپ کی بد دعا وہ شکایت بن جاتی ہے جو ان کے دل میں رہ جاتی ہے۔ انہوں نے اس پر کافی سوچا اور اس کے بعد اپنے ایک پوتے کو بلا کر اپنی ایک وصیت لکھوائی جس کے ذریعے وہ اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سزا دے کر اپنے شکوے کے اثرات کو ختم کر دینا چاہتی تھیں۔

رات میں انہوں نے اپنے ایک پوتے کو بلوا کر یہ وصیت لکھوانے کے بعد اسے ہدایت کر دی تھی کہ وہ اس کے بارے میں کسی کو نہ بتائے اور جس دن ان کا انتقال ہو،اسی دن یہ تحریر ان کے بیٹوں کو دے دے۔

اس تحریر میں انہوں نے اپنے اس بیٹے کو مخاطب کیا تھا جو پروفیسر تھے اور اب ریٹائر ہونے والے تھے۔ "بیٹے خورشید، تم نے مجھ سے ایک بار پوچھا تھا کہ انسان بڑا ہے یا وقت اور تم نے کہا تھا کہ تمہاری سمجھ یہ کہتی ہے کہ وقت برا ہے۔ میری زندگی پورے سو سال کی ہونے جا رہی ہے۔ میں نے تمہاری باتوں پر بہت غور کیا اور مین سمجھتی ہوں کہ انسان بڑا ہے ، وقت نہیں ، کیونکہ انسان اپنی مرضی سے بدل سکتا ہے لیکن وقت اپنی مرضی سے نہیں بدل سکتا۔ وہ متحرک ہوتے ہوئے بھی ایک پتھر کی طرح ہے۔ میں نے تاریخ کے سو سال صرف دیکھے نہیں بلکہ جئے ہیں۔ تاریخ پیڑ کی طرح بڑھتی رہی اور میں بیل کی طرح اس پر چڑھتی رہی۔ میں نے تاریخ کے حسن کے کئی رنگ دیکھے ہیں اور اسے دیکھتے دیکھتے اپنی پوری عمر کاٹ دی۔ جو لوگ تبدیلیوں پر اعتراض کرتے ہیں وہ دکھی رہتے ہیں۔ تم لوگ ان کتابوں کو اور ان فلسفیوں کو دوبارہ پڑھنا جن پر دن رات بحثیں کرتے تھے  تو تم کو وہ کتابیں اور گہرائی سے سمجھ میں آئیں گی اور جب تم لوگ میری زندگی پر غور کرو گے تو تم لوگوں پر ان کتابوں کا کچا پن بھی کھلے گا کیونکہ میں نے ان مصنفوں سے زیادہ لمبی، پیچیدہ اور بدلتی ہوئی زندگی جی ہے اور یہ تحریر اس مقام سے لکھ رہی ہوں جہاں پہنچ کر ان میں سے کسی نے  زندگی کو نہیں لکھا۔ وقت چلتا رہے گا کیونکہ اسے اختتام میسر نہیں۔ میں یہیں رک جاؤں گی کیونکہ میری عمر پوری طرح خرچ ہو گئی۔ میری زندگی کا ایک ایک لمحہ ذرے کی طرح چمک رہا ہے اور میرے سامنے وقت تہی دامن ہو چکا ہے۔ اب میرے لئے وقت ایک ایسا ہمسفر مداری ہے جو دنیا کو مصروف رکھنے کے لئے ڈگڈگی بجاتا رہے گا اور تماشا دکھاتا رہے گا۔ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔

یہ دنیا کیسی ہے ؟ یہ دنیا ہر انسان کے لئے ویسی ہی ہے جیسی وہ اس کے مشاہدوں اور تجربوں میں نظر آئی ہے۔ اسی لئے آج تک کوئی دنیا کی تصویر نہیں بنا پایا۔ یہ دنیا ایک آئینہ ہے اور ہر شخص کو اس میں اپنا ہی باہری حصہ دکھائی دیتا ہے۔ ہر شخص اس دنیا کا ہی ایک حصہ ہے۔ اور جس قدر ہر شخص پراسرار ہے اسی قدر یہ دنیا بھی پر اسرار ہے۔ رشتہ دار صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے وقت باقی سارے رشتے اسی کے تابع ہیں۔ تم وقت کی گود میں کھیلتے ہوئے ایک بچے ہو۔ ہر لمحے کو ماں کی گود سمجھو۔ یہی میری نصیحت ہے۔ زندگی کا ہر لمحہ تمہاری پرورش کا لمحہ ہے اس سے انکار مت کرو۔ اور تمہیں میری خود اعتمادی کا راز مل جائے گا۔

میرے مرنے کے بعد تم سب بہت روؤ گے یہ بھی میں دیکھ چکی ہوں۔ میں نے مرنے والی ماؤں کے بچوں کو روتے دیکھا ہے۔ یہ دنیا ہے۔ اس میں یہ سب بار بار ہوتا ہے۔ تمہیں میرے اٹھ جانے سے کسی بوجھ کے ختم ہونے کا احساس نہیں ہو گا۔ میں کتنی بد قسمت ماں ہوں کہ تم لوگوں نے مجھ سے دنیا کا یہ سب سے میٹھا احساس چھین لیا کہ میں تم لوگوں کی ذمہ داری تھی۔ تم نے مجھے آزاد کر کے دراصل ایک ماں کو اس کی ممتا کے احساس سے آزاد کر دیا تھا۔ میں صرف بیوہ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کے بعد میں اپنے بچوں سے آزاد ہو کر کچھ اور بھی ہو گئی تھی۔ لیکن اس میں تمہارا کوئی رول نہیں۔ یہ بھی وقت کا ہی ایک روپ تھا۔ اب تم سب لوگ میرے لئے دنیا کے سامان اور دنیا کے لوگوں کی طرح ہو اور وہ بھی ایسے سامان کی طرح جن کی مجھے اس عمر میں کوئی ضرورت نہیں۔ میرے لئے تو وہ چند کھیت کافی ہیں جو تم لوگوں نے میرے لئے مخصوص کر رکھے ہیں۔

مجھے وقت نے ایسا کڑوا گھونٹ پلایا کہ میں کئی برس سے دراصل صرف ایک زندہ روح بن کر رہ گئی ہوں جو اس دنیا کو ایک مسافر کی طرح دیکھتا ہے۔ اسی لئے جب بھی جسمانی تکلیف  ہوتی ہے اور جی گھبراتا ہے تو کہتی ہوں کہ اللہ مجھے اٹھا کیوں نہیں لیتے۔ یہ بڑا حقیقی جملہ ہوتا تھا  لیکن تم لوگوں نے اسے کبھی دھیان سے نہیں سنا۔ تم لوگوں نے اسے ہمیشہ ایک رٹا رٹایا جملہ سمجھا۔ انسان اس عمر میں یہ جملہ کہ کر دنیا سے بدلہ لیتا ہے اور بتاتا ہے کہ دراصل اسے اب دنیا کی ضرورت نہیں ہے۔

کل سے یا دوچار دنوں کے بعد سے یہ برآمدہ اور یہ آنگن سونے ہو جائیں۔ پھر یہ نئے سرے سے آباد ہوں گے۔ یہی ہیں میرے جواب تمہارے ان چند سوالوں کے جو تم میری عمر کی ایک بوڑھی عورت سے جاننا چاہتے تھے۔ میرے دل پر یہ سوالات ایک مدت سے بوجھ بنے ہوئے تھے اس لئے آج انہیں لکھوا کر میں نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیا۔ بیٹا ایک بات اور، میں نے کبھی کبھی محسوس کیا ہے کہ میں اپنی روٹی، کپڑے اور دیگر چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے بھی اپنے ان بیٹوں   پر بوجھ محسوس ہوئی جن کے پاس کروڑوں کی جائداد اور آمدنی ہے۔ میں نے ان کو کچھ مانگنے پر سوچتے ہوئے دیکھا۔ مجھے ان کی یہ بزدلی پسند نہیں آئی۔ اپنے اخراجات سے اس قدر مت ڈرو۔ یہ میری آخری نصیحت ہے۔ اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا ایسے ہی ہے جیسے غذا میں وٹامن کی کمی جو انسان کو بیمار کر دیتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر تکلیف نہیں ہوئی لیکن تم لوگوں کے لئے تشویش ضرور ہوئی۔ خیر میرا وقت میرے لئے اور تم لوگوں کا وقت تم لوگوں کے لئے۔ جیتے رہو۔ خوش رہو۔ تمہاری اولادیں خوش رہیں۔

اور میں نے اپنے حج کے موقع پر خرید کر لایا ہوا کفن خوشنودہ کی امی کے انتقال کے موقع پر بھجوا دیا تھا اس لئے کہ اس وقت میرے پاس پیسے نہیں تھے اور میں اپنی اس خواہش کا بوجھ تم لوگوں پر ڈالنا نہیں چاہتی تھی کہ میں اس غریب کے لئے کفن کا کپڑا بھیج دینا چاہتی ہوں۔ اس لئے حج والے کفن کے کُڑے کی  میرے بکسے میں تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنا۔ میں نے اپنے کفن کے لئے الگ سے پیسے رکھ دئے ہیں اسی بکس میں ایک سرخ کپڑے میں۔ میری قبر تیار کرنے کے اخراجات بھی اسی سے پورے ہو جائیں گے اس کے علاوہ  اس میں سے کچھ پیسے بچیں گے وہ فقیروں میں تقسیم کر دیا جائے۔  اور میرے چالیسواں کے لئے اسی بکسے میں نیچے ایک تھیلے میں  پیسے رکھے ہوئے ہیں وہ سارے پیسے چالیسویں میں خرچ کر دینا اور اس سے ایک پیسہ بھی زیادہ خرچ نہیں کرنا یہ میری سخت وصیت ہے۔ یہ پیسے پوری بستی کو کھانا کھلانے کے لئے کافی ہوں گی لیکن باہر سے تم لوگوں کو اپنے ان خاص لوگوں اور دوستوں کو بلانے کی اس میں گنجائش نہیں ہو گی جن کو بڑی تعداد میں تم لوگوں نے اپنے والد کے انتقال کے وقت بلایا تھا۔ یاد رہے کہ میری یہ وصیت کسی حال میں نہ توڑی جائے۔ اس کی کوئی خاص وجہ نہیں بس وجہ صرف یہ ہے کہ یہ تم لوگوں کی سزا ہے۔ میری جائداد میری اولاد برابر برابر بانٹ لے اور میرے مہر کے پیسے سے برگد والی (پرانے برگد کے پیڑ کے قریب والے) جو زمین خریدی گئی تھی اس کی آمدنی میں مسجد میں چراغ جلانے کے لئے بھیجتی تھی، وہ جاتی رہے گی۔ میں نے ایک ایک کر کے ان تمام لوگوں سے اپنے قصور معاف کروا لئے ہیں جن کو میری زندگی میں کبھی بھی کوئی تکلیف پہنچی تھی پھر بھی لوگوں کو بتا دیا جائے کہ اگر مجھ سے کوئی بھول چوک ہو گئی ہو تو اسے معاف کر دیں۔ میں نے اپنے تمام بچوں اور بچیوں کا دودھ بخش دیا ہے اور میرے کسی بچے کی کسی بات سے اگر کبھی کوئی تکلیف پہچی تو اسے بھی معاف کر دیا ہے۔ میرے اوپر کسی کا کوئی قرض باقی نہیں ہے لیکن اگر کوئی کسی قرض کا ذکر کرے تو میرے زیورات میں سے کچھ زیور فروخت کر کے ادا کر دیا جائے اور باقی میری بہوؤں میں بانٹ دیا جائے کیونکہ ان میں سب نے کبھی نہ کبھی میری خدمت کی ہے۔ اور  میرے کپڑے، فرنیچر اور برتن غریب غربا میں تقسیم کر دئے جائیں۔ نور النساء

میت رکھی ہوئی تھی۔ جنازے کی تیاری چل رہی تھی۔ کفن کے لئے سب نے پیسے نکالے تھے لیکن بڑے بیٹے نے سب کو روک کر خود پیسہ دے دیا تھا اور ان کا چچا زاد بھائی کفن اور تدفین کے سامان لانے کے لئے جا چکا تھا اس کے ساتھ تیسرا بیٹا بھی گیا تھا۔ اسی بیچ اس لڑکے نے وہ کاغذ بڑے بیٹے کو دیا جس پر اس کی دادی نے وصیت لکھوائی تھی۔ بڑے بیٹے نے وصیت کو پورا پڑھا۔ دوسرے دیکھ رہے تھے اور جاننا چاہ رہے تھے۔ وصیت پڑھ کر ان کی خالی آنکھیں دیوار پر جا ٹکیں۔ بدن میں حرکت نہیں جیسے لکڑی ہو گئے ہوں۔ سب ان کا منھ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے وصیت اپنے سے چھوٹے بھائی کی طرف بڑھا دی۔ وصیت خاموشی کے ساتھ اور ہر ایک کو خاموش کرتی سارے بیٹوں کے ہاتھوں میں گردش کرتی ہوئی سب سے چھوٹے بیٹے کے ہاتھوں میں پہنچ گئی۔ اور وہیں جا کر ٹھہر گئی۔

مجھے ان کا یہ جملہ بے تحاشہ یاد آیا تھا کہ ” مجھے لگ رہا ہے کہ یہ میں خود جا رہی ہوں۔”

"جب اماں کا جنازہ مسجد کے سامنے سے اٹھ کر ادھر سے گزرے گا تو تم اس کی تصویر لینا۔” میں نے ایک لڑکے کو کیمرہ دے کر ہدایت کر رکھی تھی۔ جب ان کا جنازہ اٹھا یا گیا تو ان کا بدن اتنا ہلکا محسوس ہوا کہ کندھے پر کسی شئے کے ہونے کا احساس تک نہیں ہوا۔ وہ اسی راستے چلی گئیں جس راستے پر  اپنی عمر کے آخری حصوں میں جنازوں کو جاتے دیکھا کرتی تھیں۔

میں نے وہی تصویر یہاں لگا دی تھی۔ اور اس کے نیچے بھی وہی لکھ دیا  تھا جو ان کی قبر کے کتبے پر لکھا گیا تھا۔ 1911 تا 2011

قبرستان سے واپس آنے سے لے کر چالیسواں کے چند روز پہلے تک ہمیں کیا پریشانی ہوئی یہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میت کے دن تو جیسے تیسے وقت ٹل گیا کہ مہمانوں کو پڑوسی بلا لے گئے تھے لیکن اتنے بڑے خاندان کے چالیسواں میں ان لوگوں کو نہ بلایا جائے جو بلائے جانے کی توقع رکھتے تھے یہ شرط پہاڑ کی طرح کھڑی ہو گئی تھی۔ ہماری سانسیں جیسے رک سی گئی  تھیں۔

 

اس دن قبرستان سے واپس آنے اور میت میں شریک ہونے کے لئے آئے ہوئے عزیز و اقارب سے فارغ ہونے کے بعد میں انگن میں جا کر ایک کنارے پڑے تخت پر ایک تکیہ اور چادر ڈال کر لیٹ گیا۔ میرا دل بہت اداس تھا۔ میں نے آسمان پر نظر ڈالی۔ کہکشان آب و تاب سے ایک ابدی سڑک کی طرح دمک رہی تھی۔ اس کا وجود ایک لامتناہی کنارے سے ظاہر ہوا تھا اور ایک لامتناہی کنارے میں ختم ہو رہا تھا۔

بشیر عالم کی باتیں سنتے سنتے مجھے اس تصویر میں کفن کے اندر ایک ایسی بوڑھی خاتون دکھائی دینے لگی جو سو سال کی زندگی گزار چکی تھی لیکن اب بھی پورے آب و تاب کے ساتھ زندہ تھی اور اپنے بچوں پر ماں جیسی حکمرانی کر رہی تھی۔

میں نے بشیر عالم کو دیکھا جو اس داستان کو بیان کرتے کرتے خاتمہ کے قریب آ کر کسی قصور وار بچے کی طرح گھگیانے لگے تھے۔ انہوں نے بغیر کچھ بولے اٹھ کر ڈرائنگ روم کی ایک الماری کے پٹ کھولے اور سب سے اوپر کے خانے سے ایک پتلی سی کتاب جیسی چیز نکالی اور اسے لا کر سامنے بیٹھ گئے۔ اسے بوسہ دیا، کھولا اور اس کے اندر موجود دو تین صفحات پر ہتھیلی رکھتے ہوئے بولے۔ یہ میری ماں کی لکھوائی ہوئی وصیت ہے  اسے سن کر آپ پوری بات سمجھ جائیں گے۔ یہ کہ کر وہ اس تحریر کو پڑھنے لگے  اور پڑھنے سے پہلے بتایا:

اس کی اوریجنل کاپی میرے بڑے بھائی کے پاس ہے اور اس کی ایک ایک کاپی ہم سب بھائیوں کے پاس ہے۔ انہوں نے پوری تحریر پڑھ کر سنائی اور پڑھنے کے دوران ان پر کئی بار رقت طاری ہو گئی۔ پوری تحریر سنانے کے بعد بولے۔

ماں کی اس وصیت کو پڑھ کر ہم سب سناٹے میں آ گئے تھے۔ ہم ایک دوسرے سے آنکھ تک نہیں ملا پا رہے تھے۔  لیکن ابھی چالیسواں کے چند دن باقی تھے اور ہم سب اکٹھا ہو کر اسی مسئلے پر سوچ میں ڈوبے تھے کہ میرے سب سے چھوٹے بھائی پر سوچتے سوچتے دورہ سا پڑ گیا۔ اور وہ کھڑا ہوا تو اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔

وہ اچانک چیخ پڑا۔ انہوں نے ایسی وصیت کر دی ہے تو کیا ہو گیا۔ وہ ہمیں بچپن میں تھپڑ نہیں مارا کرتی تھیں۔ تو اس کے بعد کیا کرتی تھیں۔ وہ سب کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا۔ اور اچانک ہم سب روہانسے ہو گئے اور ایک ساتھ اتنا روئے کہ زندگی میں اتنی ہچکیوں کے ساتھ کبھی نہیں روئے تھے۔ جب سب رو لئے تومیں نے وصیت کا کاغذ لے کر چہرے پر رکھا اور وہ میرے آنسوؤں سے بھیگ گیا۔ یہ انہیں آنسوؤں کے داغ ہیں۔

بشیر عالم نے وصیت کی کتابچہ گھما کر دکھائی۔ تحریر کی روشنائی بھیگ کر پھیل پھیل گئی تھی۔

ہم جیسے دوبارہ بچے بن گئے تھے اور ہم نے وصیت کی اس شرط کو زبردستی بھلا دیا۔ اور کاغذ کو سینت کر رکھ دیا لیکن وہ اب ایک ایسی دستاویز ہے جسے ہم اکثر نکال کر پڑھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ اس کو پڑھنے سے ہمارے ایمان پر گزرتے وقت سے پڑنے والا غبار صاف ہو جاتا ہے۔ اوپر سے یہ تصویر بھی ہمیں یاد دلاتی رہتی ہے کہ ہم کو اسی طرح ایک دن جانا ہے۔ اس تحریر اور اس تصویر کی وجہ سے ہمیں آج بھی لگتا ہے کہ ہماری تربیت دینے والی شفیق ماں اس گھر میں ہمہ وقت موجود ہیں اور ہمیں وقت تبدیل ہوتا ہوا تو دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے تسلسل کے ٹوٹنے پھوٹنے کا احساس نہیں ہوتا ۔ رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ یہ کہانی ہمارے بچوں کو بھی معلوم ہو چکی ہے اور وہ اکثر ہم سے اپنی دادی کے متعلق کچھ نہ کچھ پوچھتے رہتے ہیں۔ اتفاق سے چالیسویں کے دن لوگوں کو اس وصیت کے بارے میں معلوم ہوا تو کچھ بزرگ اس بات پر بہت بہت ہنسے تھے۔

مجھے سنتے سنتے تصویر کو ایک بار پھر دیکھنے کا خیال آیا۔ تصویر کو دیکھتے ہوئے مجھے کچھ ایسے نظر آ رہا تھا جیسے کوئی ڈولی مسلسل سڑک پر آگے بڑھ رہی تھی اور وقت دونوں طرف ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔

٭٭٭

تشکر: فیس بک، اردو افسانہ گروپ

٭٭٭

 

 

 

ڈائن۔۔۔ پیغام آفاقی

 

جی، میں نے اپنے ڈاکٹری کے پیشے میں بہت سے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا ہے۔ جی۔ ان میں چند اموات سے میں کافی متاثر بھی ہوا ہوں۔ جی۔ ان میں سب سے زیادہ ایک ایسی موت سے ہوا کہ وہ شخص تب تک نہیں مرا جب تک بیمار تھا لیکن جیسے ہی میں اس کے اندر کے زہر کو نکال لینے میں کامیاب ہوا ویسے ہی وہ ایک پرسکون حالت میں جا کر سرد ہو گیا۔

یہ کیسے ؟

میڈیکل کے طلبا حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

دھیان سے سنو کہ میں کہہ کیا رہا ہوں۔ کچھ واقعات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جب وہ ماضی میں گم ہو جاتے ہیں تو ان کے بطن سے کہانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کہانیاں اپنے صدموں، اپنی عجیب عجیب سچائیوں اور انکشافات کی وجہ سے انسان کے علم اور اس کے فطری ارتقا میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور جب تک وہ اپنے کو منوا نہیں لیتیں کہ وہ سچائیوں کا حصہ ہیں تب تک وہ اپنے دم پر ہمارے اجتماعی شعور میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہیں۔

ایسی ہی ایک کہانی اس کے اندر اٹکی ہو ئی تھی۔ کہانیاں دبانے سے ختم نہیں ہو جاتیں۔ خبریں دب جاتی ہیں۔ کہانیاں نہیں۔ اسیئے یہ اخباری رپورٹ ٹا ئپ کہانی دبی نہیں۔ یہ یہاں، ڈاکٹر نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا، کانٹے کی طرح موجود رہتی ہیں۔ اس ائے بہتر یہ ہے کہ ان کو کھلے عام سنا جائے۔ وہ تہذیب یعنی دنیا کی سب سے بڑی عدالت کی وکیل ہوتی ہیں۔ اور انہیں کی وکالت سے دنیا کے کئی بڑے مہذب ملکوں نے ماضی کی کئی کہانیوں پر افسوس اور شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے کھلے عام پوری دنیا کے سامنے معافی مانگی ہے۔

ڈاکٹر تلخی سے مسکرایا۔ اس مریض کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی تھی۔ اس مریض نے مجھے راتوں رات ایک ڈاکٹر سے فلسفی بنا دیا۔ مجھے لکھنا معلوم ہوتا تو میں کہانی کار ہو جاتا۔ اب تم لوگوں نے پوچھا ہے تو سنو کہ میں بھی سنانا چاہتا ہوں۔

میں یہ کہانی تم کو اسیئے سنارہا ہوں کہ یہ کہانی منظر عام پر آئے اور اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ جو قومیں، حکومتیں اور اشخاص اس پر بھی تیار نہ ہوں وہ انسانی نسل کے چہرے پر بد تہذیبی کا بہترین نمونہ ہیں۔ میں نے اس کا علاج کیا تھا۔ میں دوا اور انجکشنوں سے تو اس کو ٹھیک نہیں کر پایا تھا لیکن جیسے ہی میں نے اس کی زہر بھری کہانی چوس کر پی لی وہ ٹھیک ہو گیا تھا اور اسے پہلی بار بغیر کسی انجکشن کے گہری نیند آئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مرگیا اور تب سے اب تک میری نیند ڈسٹرب رہتی ہے۔

تم اپنے تخیل میں اس کہانی کا تصور کرو۔

یہ کولمبو سے شمال کی جانب واقع ایک پاگل خانے کا منظر ہے۔ یہ کہ یہ منظر کتنی وسعتوں تک پھیلا ہوا ہے یہ کہنا میرے لئے مشکل ہے۔ لیکن اس منظر میں رفتہ رفتہ کئی ملک شامل ہو گئے ہیں۔

میں نے اس مریض پر ہر ممکن دوا استعمال کر چکا تھا لیکن کسی دوا نے کام نہیں کیا۔ البتہ دوائیں دیتے دیتے میں اپنی گفتگو اور ہمدردی کی وجہ سے اس عرصہ میں اس مریض کے دل کے قریب ضرور ہو گیا تھا۔ اور آخر میں اچانک یہی بات مریض پر اثر کر گئی۔

، وہ لوگ فوج کے تھے ، پولیس کے تھے یا قوم پرستوں کا کا کوئی دستہ تھا ؟ میں نے اس سے پوچھا۔

مریض کی گفتگو سے مجھے اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ مریض خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔

میں جانتا ہوں کی تم کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے تم کو ہر طرح کی دوا دے کر دیکھ لیا۔ لیکن تم ٹھیک نہیں ہو رہے ہو۔ میں پریشان ہو رہا ہوں۔ اب میرا اپنے آپ پر سے ، اپنی صلاحیتوں پر سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ تم ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا۔ میں صرف تم کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ اور صرف ڈاکٹر ہوں۔ میں انٹیلیجنس کا کوئی آدمی نہیں ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔

اور پھر وہ ادھیڑ عمر کبڑے جیسا آدمی اچانک اتنی سلجھی ہوئی باتیں کرنے لگا کہ مجھے حیرت ہوئی۔

مریض اب اس منظر کو بیان کر رہا تھا جس کی پرچھائیں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اس نے اس علاقے کا نام بتایا۔

چلو آگے کی باتیں بتاؤ۔ جگہ تو کوئی بھی ہو سکتی ہے۔

میرا گھر وہیں ایک چوڑی سڑک سے منسلک گھنی آبادیوں کے بیچ تھا۔ اس دن میں ایک دوسرے شہر اپنی دکان کے ائے کچھ مال خریدنے گیا ہوا تھا۔ کچھ دنوں سے میں بیمار بھی تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے مری طبیعت بہت ملول سی ہو رہی تھی پھر بھی مجبوراً جانا پڑا تھا۔ دن دو پہر سے کچھ پہلے اچانک تین چار بکتر بند گاڑیاں اور ایک ٹرک آ کر میرے گھر کے سامنے رکے۔ گاڑیوں کے رکنے کا منظر دیکھتے ہی چاروں طرف سنسنی پھیل گئی، ایک سناٹا سا چھا گیا اور فضا میں موت کی آواز سنائی دینے لگی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ جب ایسی گاڑیاں آتی تھیں تو کیا ہوتا تھا۔ لوگ چھتوں اور کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھنے لگے۔

گاڑیوں سے کچھ لوگ اترے اور سیدھے میرے گھر کے دروازے پر پہنچے اور دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ میرے گھر کے کسی فرد نے دروازہ کھولا تو وہ لوگ گھر کے اندر گھس آئے۔

پھر ایک ایک کر کے سب کو گھر سے باہر نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑے بوڑھے سب کو باہر نکالا گیا۔ عورتیں دروازے تک آئیں تو ایک شخص نے جو گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ان کو بھی بلاکر قطار میں کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ چند لمحوں بعد دو تین نوجوان گھر کے تین چار چھوٹی عمر کے بچوں کو لے کر باہر آئے جس میں میرا ڈیڑھ سال کا وہ بیٹا بھی تھاجس نے ابھی چند ہے روز پہلے اپنے قدموں ہر ہلتے ڈولتے چلنا سیکھا تھا۔ انہوں نے بچوں کو لے کر آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے شخص کے حکم کے لئے اس کی طرف دیکھا۔

ہاں، ہاں، انہیں بھی لاؤ۔ اس شخص نے نظر پڑتے ہی حکم دیا۔

ایک اشارے پر گھر کی دیوار کے پاس سب کو کھڑا کر دیا گیا۔

اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے سب کو ڈھیر کر دیا گیا۔

گاڑی میں آئے لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔

میں اسٹیشن سے اترا ہی تھا کہ اپنے محلے میں ہوئے اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بارے میں سنا۔ مجھے اپنے بھتیجے کی کارستانیوں کا خیال آیا اور دل میں خوف بھی پیدا ہوا کہ ہو نہ ہو یہ میرے کنبے کے بارے میں نہ ہو۔ باہر نکلا تو تیز ہواؤں کے جھکڑ سے دھول سی اڑ رہی تھی۔ کو ئی رکشا دکھائی نہیں دیا تو پیدل ہی تیز تیز چل پڑا۔ راستے میں یہ دیکھ کر میں اور بدحواس ہوا کہ وہی گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ سب کچھ کھا پی رہے تھے۔ ان میں ایک نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے پکڑ کر لے گئے۔ گاڑی میں آگے بیٹھے آدمی سے پوچھا گیا کہ مجھے گاڑی میں ڈال لیا جائے کیونکہ وہاں دور تک کافی لوگ تھے اور سب کے سامنے مجھے ختم کرنا شاید انہیں مناسب نہیں لگا۔ لیکن اس آدمی نے ہنستے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔

نہیں اسے چھوڑ دو۔ بچ گیا تا بچ گیا۔ یہ کہانیاں ڈھوئے گا۔

گھر پہنچ کر میں نے جو منظر دیکھا اس سے میرے ہوش اڑ گئے تھے اور میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ میرے گھر کے سامنے پڑی میرے گھر والوں کی لاشوں پر محلے والوں نے چادریں ڈال دی تھیں۔ میں دوڑا قریب پہنچا۔ ایک چھوٹی سی ہلکی چادر میری نونہال بیٹے کے اوپر بھی پڑی تھی۔ ہوا کے چلنے سے اس کے اوپر کی چادر ایسے ہلی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی چادر ہٹائی تو جو دیکھا وہی میرے حافظے پر اب تک نقش ہے۔ اس کے جسم پر پیشانی، منھ، سینے اور ہاتھ پر گولیاں لگی تھیں۔ لوگوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں کئی دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔ اب میرے گھر کے افراد میں صرف ایک شخص زندہ بچ گیا تھا اور وہ تھا میرا بھتیجہ جو دہشت گردوں کے گروہ میں شامل تھا۔ اور گھر نہیں آتا تھا۔

لیکن انہیں تمہارے گھر کے اور لوگوں کو نہیں مارنا چاہیے تھا۔ میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔

جی ہاں۔ لیکن میں پوری بات بتاتا ہوں۔

اس نے سنجیدگی سے بتانا شروع کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس بار دہشت گردوں کے ایک گروہ نے پولیس کالونی میں گھس کر گولیاں چلائی تھیں۔ پولیس کالونی کی اس فائرنگ میں جو لوگ مرے تھے ان کی تصویریں بہت دلدوز تھیں۔ محکمہ پولیس میں کام کرنے والوں کے اہل کنبہ کو اس طرح سے گولیوں سے بھون ڈالنا۔ انتہائی درندگی تھی۔ نہیں۔ میں غلط کہ گیا۔ انتہائی انسانیت تھی۔ نہیں میں غلط کہ گیا۔ معاف کرنا ڈاکٹر مجھے لفظ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن میں لفظ کی تلاش میں ہوں اور میں ضرور ڈھونڈ لوں گا۔ میں تب آپ کو بتاؤں گا۔

جی ہاں۔ میرا بھتیجہ بھی ان میں شامل تھا۔

ہاں ڈاکٹر وہ لفظ مل گیا۔ انتہائی درجہ کی حب الوطنی تھی۔ نہیں، وہ جو پولیس والوں کے گھر کے افراد کو مارا تھا وہ حب الوطنی نہیں تھی۔ وہ جو میرے گھر والوں کو مارا تھا وہ حب الوطنی تھی۔ دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد میرا بھتیجہ کبھی گھر نہیں آیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے پہلے سے ہی خوفزدہ تھے اور ہم سب کو پہلے سے ہی اس کا اندیشہ تھا کیونکہ اب ہر طرف ایسا ہی سننے کو مل رہا تھا۔ پولس کئی بار ہمارے گھر پر چھاپہ مار چکی تھی۔ پولس ایک بار مجھے بھی لے گئی تھی۔ لیکن تب وہ دہشت گردی کے شروع کے دن تھے اور لڑائی دہشت گردوں اور پولیس و فوج کے درمیان ہوتی تھی۔

اس کے بعد پولیس کی گاڑیوں اور ٹھکانوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ اور اس کے بعد پولس والوں کی سرکاری رہائش گاہوں پر حملے ہونے لگے۔

اور اس طرح ہوا گرم تر ہونے لگی۔

اب کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنی پیچیدہ لڑائیوں کا حل کیا ہو سکتا تھا۔ لوگ یہی سوچتے تھے کہ اگر وہ خود پولیس یا فوج میں ہوتے یا سرکار چلا رہے ہوتے تو کیا کرتے۔

یہ جنگ سنگین اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ ہوا تیز ہوتے ہوتے بگولوں کی شکل لینے لگی۔ اور ان بگولوں کے رقص میں ایک دن قانون کا دوپٹہ ایک جھونکے سے اڑ کر گرد و غبار میں تہس نہس ہو گیا۔

ہوا اتنی تیز ہوئی کہ یہ پہچاننا مشکل ہو گیا کی سڑک یا گلی میں چلتا ہوا کون سا شخص دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ ہے اور کون پولیس کا آدمی ہے۔ کہ جا بجا دہشت گرد پولیس کے یونیفارم میں اور پولس کے لوگ دہشت گردوں کے حلیوں میں گھوم رہے تھے۔

میرے خاندان کے ساتھ ہوئے اس سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پولیس کی انتقامی کاروائی تھی۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دہشت گرد ہی تھے جنہوں نے پولیس کے خلاف عوام میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔

سچ پوچھئے تو کافی دنوں تک میں تذبذب میں تھا۔

میں اپنی اسی ذہنی حالت میں ایک دن بھٹکتا بھٹکتا اپنے اس گھر کو دیکھنے چلا گیا تھا جو اب کھنڈر سا ویران ہو گیا تھا۔ میں وہاں دالان میں لکڑی کے تخت پر اپنے گھٹنوں پر سر ٹیکے اپنے پیاروں کو یاد کر رہا تھا کہ میرے دو تین پڑوسی آئے اور انہوں نے مجھے تنبیہ کی کہ میں فوراً وہاں سے غائب ہو جاؤں۔ انہوں نے بہت اداس لہجے میں مجھے بتایا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ چونکہ میرے اندر انتقام کا زہر بھرا ہوا ہے اس ائے میں حقیقتاً ایک خطرناک دہشت گرد بن گیا ہوں۔

 

جب واقعہ تازہ تھا تب مجھے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی اب اس واقعے کے زہر بن جانے کی وجہ سے ہے۔ وہاں تو سب کچھ برابر ہو گیا لیکن یہاں سب کچھ باقی ہے۔ وہ قہر کا دن میری زندگی کے لمحوں میں تحلیل ہو گیا۔

ڈاکٹر، مجھے چلتے ، پھرتے ، بیٹھتے ایسا لگتا ہے کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین نہیں ہے۔

میں ڈر جاتا ہوں۔

میں نے کئی بار خواب میں دیکھا ہے کہ جیسے زمین اچانک قہقہہ لگا کر مجھے نگل جانا چاہتی ہے۔ لیکن

میں ہوا میں پرواز کر کے بچ جاتا ہوں۔

کئی بار تو جب میں اڑتے اڑتے تھک گیا تو مجھے کسی پرندے نے بچا لیا۔

ایک بار میں بادلوں پر جا بیٹھا۔

میں نے محسوس کیا کہ مریض پھر بے قابو ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر مجھے بار بار لگتا ہے کہ میری زمین مجھے پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے اور مجھے جان سے مار دیگی۔

مریض پھر ہوش میں آنے لگا تھا۔

اس پورے عرصے میں میں ٹھیک سے سو نہیں پایا ہوں۔ میں سوؤں کہاں ؟ زمین مجھے سوتے میں نگل لے گی۔ جھٹکے سے۔ اچانک۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نگل لے گی۔ وہ میری جان کی بھوکی ہے۔ ڈاکٹر، تم کو پتہ ہے۔ ڈائنیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی جان لیتی ہیں۔

میں شاید پاگل نہیں ہوں بلکہ نیند نہیں آنے کی وجہ سے میری یہ حالت ہو گئی ہے۔ تم کیسے میرا علاج کر پاؤ گے۔

اس نے مجھ سے ایسے بات کی جیسے وہ پوری طرح ہوش میں ہو لیکن پھر فوراً ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور وہ اس طرح بات کرنے لگا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہیں ہو۔ وہ رک رک کر وقفوں کے بعد مجھ سے تخاطب کے انداز میں ہی کہتا رہا۔

ایک دن میں نے اڑتے ہوئے اچانک دیکھا کہ میری ماں کا منھ کھلا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں نے ہمت کر کے سیدھے اس کے منھ کے اندر پرواز کی اور اس کی زبان سے بچتا ہوا اس کے حلق کے راستے اس کے پیٹ میں گھس گیا۔ وہاں دیکھا میرے گھر والوں کے علاوہ اور بھی ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کی ہڈیاں سڑ رہی تھیں۔ میں پھڑ پھڑا کر باہر اتنی سرعت سے نکلا کہ اوپر بادلوں پر جا بیٹھا۔

نیچے سے میری ماں مجھے بلا رہی تھی۔ لیکن میں نیچے نہیں اترا۔ تب سے یہیں بیٹھا ہوں۔

پھر وہ اچانک کانپنے لگا جیسے موت کے قریب آنے پر کچھ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

دیکھو۔

اب وہ گھڑیال جیسا منھ کھولے بادلوں تک پہنچ رہی ہے۔

مجھے یہاں سے بھی بھاگنا پڑے گا۔

ڈاکٹر۔ اب میں اڑوں گا۔

اور یہ کہنے کے بعدبستر پر بیٹھے بیٹھے اس کے دونوں بازو بالکل چڑیا کے ڈینوں کی طرح تیز تیز حرکت کرنے لگے جیسے وہ پرواز کر رہا ہو۔

یہ اس سے میری آخری گفتگو تھی۔

٭٭٭

 

 

 

کوآپریٹیوسوسائٹی۔۔۔ پیغام آفاقی

 

وہ کھرا آدمی بالکل مایوس کھڑا تھا۔ چوکیدار ہاتھ میں تالا لیے ادب سے اس کے ہال سے نکلنے کا انتظار کر رہا تھا۔ بظاہر یہ بات انتہائی غیر منطقی تھی۔ اس کے ذہن میں معاملے کا یہ انتہائی رخ اس سے پہلے کبھی نہیں ابھرا تھا۔ وہ اس سوسائٹی کا جس کی میٹنگ ابھی ابھی ختم ہوئی تھی، ایک بنیادی ممبر تھا اور اس کے فروغ کے لیے ہمیشہ ہی اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا۔ یہ سوسائٹی اس کا لونی کے مکینوں کے فلاح و بہبود کے لیے بنی تھی اور اس کا قیام اس مقصد سے ہوا تھا کہ کسی سامان پر جو خرچ آئے اتنے ہی پیسوں میں وہ اس کا لونی کے لوگوں کو مل جائے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد دیکھا گیا کہ اس کا لونی کے ارد گرد رہنے والے کچھ اور لوگ بھی یہیں سے سامان خرید نے کے لیے لپکنے لگے تھے۔ ان کو روکنا عملاً ممکن نہیں تھا کیونکہ عملہ کا کوئی رکن کالونی کی تمام عورتوں اور بچوں کو نہیں پہچانتا تھا۔ لیکن اس بڑھتی ہوئی بھیڑ سے جو بے چینی پیدا ہوئی اس کا اظہار لوگوں نے اگلی میٹنگ میں کیا۔ اس پر بحث ہوئی اور تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ سوسائٹی چیزوں کی قیمت پر کچھ منافع بھی لے اور اس منافع میں سے تھوڑی رقم سوسائٹی کے اراکین میں تقسیم کر دی جائے اور تھوڑی رقم سوسائٹی کے مشترکہ مقاصد کے لیے خرچ ہو جس میں ایک عمدہ عمارت کی تعمیر اور دیگر سہولیات کا ذکر ہوا۔ اس میٹنگ کے دوران کچھ لوگوں نے یہ بات دلچسپی سے سنی تھی کہ اگر منافع کمایا جائے تو اس سے سستا سا مان دینے کے علاوہ کچھ اور بھی کام لیا جا سکتا ہے۔ جیسے اس آمدنی میں سے کچھ خرچ کر کے اچھا خاصا سماجی، معاشی اور سیاسی اثر خریدا جا سکتا تھا جو سوسائٹی کے اراکین کے کام آ سکتا تھا۔ گفتگو اور بحث کے دوران ذہین تر مقرروں کے یہ اشارے بھی سننے کو ملے کہ کسی بھی سوسائٹی کے کسی عام رکن کی دلچسپی کا مرکز تو صرف وہی پیسہ ہوتا ہے جو وہ اپنی جیب سے دیتا ہے صرف اسی کے اوپر وہ کڑی نگاہ رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی منافع پیدا ہوتا ہے تو اس کے انتظام کی ذمہ داری کو لوگ انتظامیہ کے سر گرم اراکین کے اوپر چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ یہ پہلو کسی عام رکن کے تخیل کے دائرے سے باہر تک پھیلا ہوتا ہے۔ میٹنگ میں ہو رہی ایسی گفتگو کو سن کر اس کھرے آدمی کو اپنے لاشعور کی گہرائی میں کوئی بنیادی بات ادھر سے ادھر کھسکتی ہوئی محسوس ہوئی تھی لیکن وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہا تھا اور اس کو وہ لفظوں میں کیسے پکڑے۔ میٹنگ تیز رفتاری سے منطق کی گہری لیک پر چل رہی تھی۔ وہ خاموش رہا۔ پھر بھی جب گفتگو اختتام کو آئی تو اسے محسوس ہوا کہ کم از کم اسے ٹوک تو دینا ہی چاہیے۔ اس نے ایک انتہائی صاف گو اور کھرے انسان کی طرح کھڑے ہو کر کہا۔ ’’آپ لوگ جو کچھ سوچ رہے ہیں اور کرنے جا رہے ہیں اس میں مجھے کوئی برائی نہیں دکھائی دیتی۔ پھر بھی میں ایک بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ جس مقصد کے لیے یہ سوسائٹی قائم ہوئی تھی وہ مقصد ہمیشہ مدّ نظر رکھا جانا چاہیے اور وہ مقصد یہ ہے کہ جو سامان جتنے میں حاصل کیا جائے۔ ..۔ اس کے بعد آپ کچھ بھی کرتے ہوں اس میں اگر اچھے امکانات پیدا ہو رہے ہیں تو یہ اچھی ہی بات ہے۔ ‘‘ اس نے یہ کیوں کہا تھا اس کا تو اس کو اندازہ نہیں ہوا لیکن اس مداخلت کے بعد اس نے خود اپنے کو مطمئن پایا۔ چیرمین نے پوچھا بھی تھا کہ وہ کہنا کیا چاہتا تھا کہ اس کی بات کو میٹنگ کی روداد میں لکھ لے لیکن اس نے الجھن میں اکڑے ہوئے اپنے ہی سر کو جھٹکتے ہوئے کہا تھا۔ ’نہیں، میں کہہ کچھ نہیں رہا ہوں۔ ‘ اس کی سادہ بات اپنے اندر اس قدر بنیادی بات تھی کہ اس کو دہرانا ایک لغوسی بات لگ رہی تھی اور لوگوں نے مذاق اڑاتی ہنسی کے ساتھ اس کی طرف دیکھا تھا۔ اس کے بعد میٹنگ کی کاروائی اور آگے بڑھی۔ چونکہ اب سوسائٹی کی کارکردگی کے امکانات اور وسیع ہو رہے تھے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اس سلسلے میں ایک واضح آئین مرتب ہو جس میں لوگوں کے فرائض اور حقوق کے بارے میں حتی الا مکان وضاحت موجود ہو۔ بلکہ ایسی ٹھوس وضاحت موجود ہو کہ اس کو کوئی بھی کبھی توڑ مروڑ نہ سکے۔ اس نقطۂ نظر کی سب نے پُر زور حمایت کی کیونکہ دنیا سب نے دیکھی تھی اور سب جانتے تھے کہ اگر کہیں وضاحت اور معنوں میں ذرا بھی گنجائش رہ جاتی ہے تو مکار لوگ آگے چل کر اس کا کس قدر فائدہ اٹھا لیتے ہیں۔ سوسائٹی کے اوپر اختیار کے سلسلے میں بھی کئی وفعات بنائے گئے اور اس میں یہ بات بھی بالکل واضح کر دی گئی کہ سوسائٹی کی پچاس فیصد سے زیادہ کی اکثریت کسی بھی وقت میٹنگ بلا کر انتظامیہ کمیٹی کو بدل سکتی ہے۔ یہ بھی طے پایا کہ سوسائٹی کے سارے کاروبار اور لین دین کا حساب کتاب رکھنے کے لیے مستند رجسٹر ہوں گے جن پر تمام ممبران کے دستخط ہوں گے تاکہ یہ رجسٹر کبھی دھوکے سے تبدیل نہیں کیے جا سکیں اور گو کہ وہ بات جو اس کھرے شخص نے کہی تھی وہ بے نکتہ تھی لیکن وہ بات بھی اس میں شامل کی گئی کیونکہ دل ہی دل میں اس کی اہمیت کو سب سمجھ رہے تھے اور وہ ہنسے صرف اس لیے تھے کہ وہ بات کسی ذہین شخص نے نہیں کہی تھی۔ سوسائٹی تیزی سے آگے بڑھی اور ایک پھلتے پھولتے کاروبار کی طرح اس میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے علاوہ اب بڑے بڑے سامان بھی منگانے کی بات ہونے لگی۔ کہاں آلو پیاز اور اب کہاں ٹیلی ویژن اور ماروتی کاروں کی بکنگ۔ سوسائٹی کی میٹنگوں میں انتظامیہ کمیٹی کے اراکین سنجیدگی اور دوراندیشی سے فیصلے کرتے ہوئے دور دور تک کے فائدے کے امکانات پر گرفت رکھنے لگے۔ پھر تو سوسائٹی کا یہ عالم ہوا کہ ایک دن یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں کو سامان اس سے بھی کم قیمت پر دیا جائے جتنی اس کی لاگت آتی ہے اور اس کے باوجود منافع میں بھی ان کو سالانہ حصہ دیا جائے۔ لوگوں کو منافع کی ایسی رقم ملنے بھی لگی۔ سوسائٹی کے دفتروں کے لیے اب ایک الگ پُر شکوہ عمارت بنائی گئی اور اس کے کاغذات اور پیسوں کی حفاظت کے لیے گارڈ بھی لگائے گئے جو سوسائٹی کے ممبروں کو بھی بغیر ضروری پوچھ تاچھ کے اندر نہیں جانے دیتے تھے۔ سوسائٹی کے دفتروں میں ایک پر سکون فضا قائم رکھنے کے لیے اور غیر ضروری بحث مباحثوں کے شور کو الگ رکھنے کے لیے ایک دن یہ سختی بھی کرنی پڑی کہ کوئی ممبر بھی کسی ضروری کام یا اجازت یا آئین کے مطابق ملے ہوئے اپنے اختیارات یا کسی ذمہ دار کارکن کی دعوت کے بغیر اندر نہیں جا سکتا تھا۔ اور یہ طے پایا کہ اگر کوئی ایسی بنیادی ضروری بات نہ ہو کہ اندر گئے بغیر کام ہی نہ چلے تو پھر محض گفتگو اور تبادلہ خیال وغیرہ کے لیے اراکین سوسائٹی کی طرف سے بنائی گئی اس کینٹین میں جایا کریں جہاں سستی قیمت پر چائے ملتی تھی۔ اور یہ مشورہ دیواروں پر لکھ کر لگا دیا گیا کہ گپ شپ اور تبصرہ کے لیے وہیں کی فضا زیادہ موزوں تھی۔ یہ کینٹین واقعی شاندار تھی۔ پوری کالونی کو اس سوسائٹی کی طرف سے مکمل اطمینان تھا۔ اراکین کے گھر پر سوسائٹی خود ہی سامان بھجوا دیتی تھی تاکہ اراکین کو سوسائٹی کی دوکانوں یا دفتروں میں جانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی سامان خراب نکلتا تو سوسائٹی کی گاڑی خود اسے واپس لے جاتی تاکہ اراکین کو اس سلسلے میں سوچنے کی زحمت بھی نہ کرنی پڑے۔ اس سے واقعی کالونی والوں کو جو ذہنی فراغت نصیب ہوئی تو انھوں نے اپنی اپنی جگہوں پر یکسوئی سے کام کرنا شروع کر دیا۔ دفتروں میں انھیں زیادہ عزت ملنے لگی اور کاروبار میں برکت دکھائی دینے لگی۔ سوسائٹی کی اس کامیابی کو سبھی ننگی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ ایک دن کہیں سے یہ بات بگولے کی طرح اٹھی کہ سوسائٹی کے معصوم اراکین سر مستی میں اس بات سے بے خبر ہیں کہ در اصل اب سوسائٹی اس قدر چل نکلی ہے کہ اس کی آمدنی میں ہر ممبر کا جو حصہ ہوتا ہے وہ در اصل اس ممبر کی ذاتی آمدنی کے ایک بڑے حصہ کے برابر ہے، لیکن ان کو اتنا مل نہیں رہا تھا۔ یہ چرچا زوروں سے ہوا کہ سوسائٹی کے امکانات بے حد روشن ہیں اور ملک کی دوسری سوسائٹیوں نے تو اتنی ترقی کی ہے کہ سوسو اراکین کی سوسائٹیاں اب منافع اور سرکاری مراعات کی وجہ سے کروڑوں روپے کی مالک ہو گئی ہیں اور کئی سوسائٹیاں تو اب پونجی پتیوں سے مل کر یہ بھی کرنے لگی ہیں کہ ان کے سامان کو اپنے کھاتے کے ذریعے بیچتی ہیں تاکہ اس سے ٹیکس کی بچت ہو۔ اس کے بعد ہر ممبر کے دماغ میں ایک سوال تو ضرور اٹھنے لگا۔ ’کیا ہماری سوسائٹی میں بھی ایسا ہو رہا ہے ؟‘ لوگوں میں ایک گفتگو سی چل پڑی۔ ’ہمیں چھان بین کرنی چاہیے۔ ‘ کچھ لوگوں نے تو اس گفتگو کو یہ کہہ کر روکنا چاہا کہ اس بات کو بے جا ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ سوسائٹی کے منتظمین کو ڈسٹرب کرنے سے کیا فائدہ؟ لوگوں کو فائدے سے مطلب ہے اور فائدہ انھیں مل رہا تھا۔ انھیں میں سے ایک نے اس کھرے آدمی سے کہا۔ ’’کون سی سہولت ہے جو شہر کی کسی دوسری سوسائٹی میں اس قدر ملتی ہے جو ہم لوگوں کو مل رہی ہے۔ ایک دن تمہیں نے کہا تھا کہ تمہیں اور کسی چیز سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ تمہیں صرف ایک بات سے زیادہ تعلق ہے اور وہ یہ کہ سوسائٹی جس مقصد کے لیے قائم ہوئی تھی اس میں اس کے اراکین کو دھوکا نہ ہو۔ اور تم اسی پر زور دینا چاہتے تھے جو لوگ سوسائٹی کے کارکن ہیں وہ سوسائٹی کو کیسے چلا رہے ہیں یہ وہ بہتر جانتے ہیں۔ یہ کیا کم ہے کہ ہمیں بیشمار دیگر سہولیات بھی میسّر ہیں۔ کیا یہ محض ہماری ذہنی الجھن کا نتیجہ نہیں کہ اب ہم ان کارکنوں کی کارکردگی میں ضرورت سے زیادہ ہی دلچسپی لینے لگے ہیں۔ اور آخر یہ سارا کچھ فائدہ انھیں کی محنت کا تو نتیجہ ہے۔ ‘‘ ’میں کہاں اُس آئین کے خلاف کچھ کہہ رہا ہوں جو پہلے دن طے ہوا تھا لیکن ہمیں یہ تو دیکھنا ہی ہے کہ اگلے انتخاب میں ہمیں کمیٹی کے ان ممبروں کو بدلنا ہے یا انھیں کو رکھنا ہے۔ ‘ کھرے آدمی نے کہا۔ پچھلے بارہ سالوں میں سوسائٹی کے سو ممبروں میں سے ہر سال پانچ نئے لوگ ہی کارکن مقرر ہوئے ہیں۔ اور اب تک تو تقریباً آدھے سے زیادہ ممبر خود کارکن رہ چکے ہیں۔ پھر ہم شُبہ کس کے بارے میں کر رہے ہیں ؟آپ خود کارکن بن کے دیکھ لیں۔ آپ تو خود اس کی الجھنوں سے دور بھاگتے ہیں۔ ہر بار تقریباً اسی قسم کے اعتراضات کی وجہ سے یا حفظ ماتقدم کی بنا پر نئے لوگوں کو کمیٹی میں لایا گیا۔ میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال یہی اعتراض ہوتا ہے کہ سوسائٹی کا کام ٹھیک سے نہیں چل رہا ہے جس کے پس پردہ در اصل یہ اشارہ ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں کچھ گھوٹالہ ہے لیکن اس کے باوجود کوئی کچھ بولتا نہیں۔ وہ تو جانتے ہیں جو خود کمیٹی کے ممبر رہ چکے ہیں، جن کو تجربہ نہیں ہے صرف وہی لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ اور پھر یہ کہ اس تمام شور شرابا کے باوجود کبھی کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔ اگلی میٹنگ میں کھرے آدمی نے سختی کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کو پیش کرتے ہوئے کہا ’میں یہ مانگ کرتا ہوں کہ سوسائٹی کے اکاؤنٹس کی آڈٹ کرائی جائے۔ چیر مین نے فوراً اس کی بات کی طرف توجہ کی اور کہا: ’’میں سوسائٹی کے اراکین کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے اپنے معزز دوست کی اس عمدہ رائے کی تائید کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آپ حضرات خود اپنے درمیان سے ایک ممبر ایسا دیں جسے اس آڈٹ پارٹی کا سربراہ مقرر کیا جائے۔ ‘‘ فوراً کسی شخص نے اٹھ کر کسی آدمی کا نام تجویز کیا۔ دوسرے لوگوں نے اٹھ کر چستی سے اس کی تائید کی۔ ’لیکن میں چاہتا ہوں کہ آڈٹ پارٹی کا ممبر کوئی ایسا شخص ہو جو ابھی تک انتظامیہ میں نہیں رہا ہو‘۔ اس کھرے آدمی نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ آپ کے جذبات کا لحاظ رکھا جائے گا۔ کوئی شخص ہے جو پہلے انتظامیہ کا ممبر نہیں رہا ہو۔ ‘‘ میٹنگ میں سوسائٹی کے ایک سو اراکین میں تیس پینتیس اراکین غیر حاضر تھے۔ باقی لوگوں میں ساٹھ اراکین ایسے تھے جو پہلے کمیٹی کے ممبر رہ چکے تھے۔ صرف پانچ اراکین ایسے تھے جو کمیٹی کے کبھی ممبر نہیں رہے تھے۔ ’کیا ایسے لوگ ہاتھ اٹھائیں گے جو انتظامیہ کے کبھی ممبر نہیں رہے۔ ‘

صرف وہی پانچ ہاتھ اُٹھے۔ بھاری اکثریت خاموش رہی۔ ’یہ انتہائی افسوس کی بات ہے ‘ چیر مین نے بھاری لہجے میں کہنا شروع کیا ’ہمارے اراکین سوسائٹی کے کاموں میں دلچسپی نہیں لیتے اور سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ انتظامیہ کے ممبر ہوتے آئے ہیں وہ اپنی دل جمعی کی وجہ سے منتخب ہوئے۔ وہ لوگ انتہائی سرگرم اراکین تھے۔ اور آج بھی ان میں اس قدر مستعدی ہے کہ وہ پورے کے پورے موجود ہیں۔ اعتراض صرف سست لوگ کرتے ہیں۔ ‘ ہال میں تالیاں گونج اٹھیں ’بہرحال۔ آپ حضرات ان میں کسی کے نام کی تائید کریں۔ ‘ کھرے آدمی نے اٹھ کر اس میں سے ایک شخص کا نام تجویز کیا اور آڈٹ پارٹی کے سر براہ کی حیثیت سے اس آدمی کا انتخاب ہو گیا۔ میٹنگ کی کارروائی آگے بڑھی۔ ’’اب آپ کو اپنی نئی انتظامیہ کمیٹی کا بھی انتخاب کرنا ہے۔ اب تک کی تاریخ یہ رہی ہے کہ جو بھی کمیٹی اس انتظامیہ میں آئی اس کی مخالفت اس بنا پر کی گئی کہ وہ کمیٹی ایماندار نہیں تھی۔ حالانکہ کبھی بھی بے ایمانی ثابت نہیں ہو سکی۔ جن لوگوں نے نکتہ چینی کی وہی لوگ منتخب کر لیے گئے اور اب وہ سب آپس میں خاموش اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی تنقید بے جا تھی۔ ’بہرحال‘ اس وقت اس کمیٹی کا سر براہ میں ہوں۔ اس موجودہ کمیٹی کی بھی ایک سال کی میعاد پوری ہو چکی ہے اور اب آپ کو نئی کمیٹی کا انتخاب کرنا ہے۔ ‘‘ لوگ خاموش رہے۔ چیر مین نے آگے کہا۔ ’’گو کہ اب تک یہ روایت قائم ہو چکی ہے کہ ہر بار وہی لوگ کمیٹی کے ممبر ہوتے ہیں جو اس سے پہلے کمیٹی کے ممبر نہیں تھے لیکن یہ بات اب بہت ہی ہتک آمیز لگنے لگی ہے۔ اور یہ بے حد لغوسی بات ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ مجھے اکثریت پر شک کرتے ہوئے جو پشیمانی ہو رہی ہے اس کا اظہار کیے بغیر میں رہ نہیں سکتا۔ اس لیے میں اس روایت کو توڑنے کی پر زور سفارش کرتا ہوں۔ ایسا میں اس لیے کر رہا ہوں کہ سوسائٹی کی عظیم کامیابیوں کے باوجود ہماری میٹنگوں میں یہ نا گوار رویہ قائم رہا ہے کہ ہر بار اس کے کارکنوں کو تعریفی نظر سے سراہنے کے بجائے ان کی توہین کی گئی ہے۔ ہمیں در اصل اس پرانے گھٹیا نقطہ نظر کو بدلنا چاہیے اور دیکھنا یہ چاہیے کہ کسی کمیٹی نے سوسائٹی کے اثاثے کو کہاں تک آگے پہنچایا ہے ہمیں منفی انداز میں سوچنے کے بجائے مثبت انداز میں سوچنا چاہیے۔ ‘‘ چیر مین نے اس تقریر کے بعد سا معین سے پوچھا۔ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ کمیٹی کا کام ان لوگوں کے ہاتھوں میں سونپا جائے جن کو اس سلسلے میں تجربہ نہیں ہے یا آپ یہ چاہیں گے کہ اب یہ ذمہ داری ان لوگوں کو دی جائے جنھوں نے ماضی میں اپنی خدمات کے زمانے میں سوسائٹی کو بلند سے بلند تر کیا۔ میں انتخاب کے کسی اصول کی مخالفت نہیں کر رہا ہوں اور یہ بھی نہیں کہہ رہا ہوں کہ انتخاب کا میابی کی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہو۔ میں ان بنیادی جمہوری اصولوں کی نفی قطعی نہیں کر رہا ہوں جو انسان کی مرضی اور سروکار کی عکاسی کرتے ہیں۔ لیکن بے جا تعصب اور بے جا خوف اپنے ذہن میں بسا کر اپنی رائے کو اس کا قیدی بنا دینا بھی مناسب نہیں ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ذہن کو خوف کا قیدی بنائے رکھنے کے بجائے اپنی آزادی فکر کا استعمال کرتے ہوئے غور کریں کہ سوسائٹی کی ترقی کس بات میں مضمر ہے۔ ‘‘ ’’ٹھیک ہے مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ‘‘ وہ کھرا آدمی اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’لیکن یہ فیصلہ بھی اسی میٹنگ میں ہو جائے تو بہتر ہے کہ جس شخص کے خلاف آڈٹ رپورٹ میں کوئی بھی بے ایمانی کی بات پائی جائے گی اس کے خلاف۔ ..۔ .‘‘ تھوڑی دیر تک میٹنگ پر ایک بھاری خاموشی طاری رہی۔ پھر چیر مین نے کہا۔ ’’آپ بجا فرما رہے ہیں لیکن آپ کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ ہم آڈٹ کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ وہ ہمارے بارے میں ان تفصیلات میں جائے جہاں ہم نے سوسائٹی کے مفاد کے لیے نیک نیتی سے کچھ کیا ہے۔ اور میں چاہوں گا کہ آپ کی باتوں کا اطلاق ان لوگوں پر نہ ہو جنھوں نے کوئی نمایاں کامیابی دکھائی ہے کہ میں ایمانداری اور بے ایمانی کے اصولوں سے زیادہ اہم اراکین کے مفاد کو سمجھتا ہوں۔ اور یہ اس لیے کہ ہماری سوسائٹی ایمانداری کے معنوں پر تحقیق کرنے کے لیے نہیں بلکہ اراکین کے لیے سستے داموں پر سامان مہیا کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ ‘‘ وہ کھرا آدمی اسٹیل کی چھڑی کی طرح تن کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے دوبارہ اپنے نکتے پر زور دینے کی کوشش کی۔ ’’میں آپ کی باتوں کی اہمیت اور معنویت کا اعتراف کرتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ آڈٹ کے اصولوں اور ایمانداری کو بہرحال قائم رکھا جائے کہ یہی مستقبل میں بھی سوسائٹی کی کامیابی کے ضامن ہوں گے۔ ‘‘

’’یعنی ہماری اب تک کی کامیابی ہماری ایمان داری کا ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ اور اس بنیاد پر جو آپ کی ہی گفتگو کی بنیاد ہے ، میں کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں ہم اسی طریقہ کار پر بھروسہ کر سکتے ہیں جس پر چل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ ‘‘ ’’نہیں۔ میں ایمانداری کو پھر بھی‘‘۔ اس کی زبان لڑکھڑا گئی۔ لیکن وہ سنبھل کر پھر بولا۔ ’’آپ غالباً یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر آپ کا کوئی کارکن مستقبل میں بھی سب کو دھوکے دیتا ہوا خود پیسے بنا تا رہے اور غبن کے پیسے سے اپنا کاروبار کہیں اور چمکاتا رہے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ ‘‘ کھرے آدمی کو لگا کہ جیسے اس نے مخالفین کے اوپر ایک بہت بڑا پتھر پھینک دیا ہو۔ لیکن ہوا کچھ بھی نہیں۔ بلکہ مزید وہ غصہّ میں آ گئے۔ چیر مین نے سخت لہجے اور قدرے اونچی آواز میں اس کھرے آدمی کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جی ہاں۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔ یہ میری رائے ہے۔ اور میری رائے یہ بھی ہے کہ آپ خواہ مخواہ سوسائٹی کے ان اراکین کا جو سبھی معزز ہیں اور اس میٹنگ میں اپنا اپنا کاروبار چھوڑ کر شامل ہوئے ہیں۔ ان کا بے حد قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ممکن ہے یہ بات آپ کو بری لگے لیکن میں ایمانداری سے اپنی اس رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ ‘‘ وہ ہیرو کی طرح گر جا۔ ’’ہاں، اگر ان کی بات پر غور کرنا ضروری ہی ہو تو ہم اگلے مہینے انھیں کے اٹھائے ہوئے نکتے پر سوسائٹی کی جانب سے دانشوروں کا ایک سمینار کر لیں گے اور اس سمینار میں طے کریں گے کہ برائی اور اچھائی کے سلسلے میں اخلاقیات ارتقا کی کس منزل تک پہنچی ہے۔ ‘‘ چیر مین نے اور لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ ہال میں زور دار تالیاں بج اٹھیں۔ چیر مین نے آگے کہا ’ہم کچھ بھی چھپا نا نہیں چاہتے۔ ہم ساری باتیں کھل کر کہنا چاہتے ہیں۔ ‘وہ کھڑا کا کھڑا رہا۔ چیر مین نے لوگوں کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا اور ان آنکھوں میں کچھ پر کھا اور آگے کہا۔ ’’بلکہ میں یہ کہوں گا کہ ہم اس آڈٹ پارٹی کا قیام کر کے خواہ مخواہ اپنی ترقی کی راہ پر گامزن سوسائٹی کو لگام نہ دیں بلکہ اسے آزادانہ آگے بڑھنے دیں کیونکہ یہ سوسائٹی جو دوسری سوسائیٹوں سے کامیابی کی دوڑ میں برسرِ پیکا رہے ایک مقابلے سے بھرے نازک دور سے گزر رہی ہے۔ ‘‘ میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ ایک نے اٹھ کر کہا۔ ’’اور میں تجویز رکھتا ہوں کہ ابھی ابھی جو تجویز آڈٹ پارٹی قائم کرنے کے بارے میں پاس ہوئی ہے وہ ردّ کی جائے۔ ‘‘ ہال میں تالیاں بجیں ٹھیک ہے، چیرمین نے پہلے والی تجویز سرخ قلم گھما کر ردّ کر دی۔ ’’بلکہ میری ایک اور تجویز ہے۔ وہ سارے اکاؤنٹس نذر آتش کر دئیے جائیں جو ہمارے مردہ ماضی کی زندہ یادگاریں ہیں۔ ‘‘ ہال میں زبردست تالیاں بجیں۔ کھرا آدمی کھڑا کا کھڑا رہا۔ ’’میں اس تجویز کی تائید کرتا ہوں ‘‘ ایک آواز آئی۔ پھر کئی آوازیں ایک لڑی میں نتھی ہوئی آئیں۔ ’’ہم سب تائید کرتے ہیں۔ ‘‘ تائیدی آوازوں کا ایک سلسلہ دیر تک گونجتا رہا۔ یہ تجویز نوٹ کر لی گئی۔ چیرمین نے لوگوں کے چہرے کی بشاشت دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’وہ لوگ ہاتھ اٹھائیں جو اس تجویز کی تائید کرتے ہیں۔ ‘‘ پورے پچپن لوگوں نے ہاتھ اٹھائے۔ ’’اور آپ سب؟‘‘ اس نے انتظامیہ کمیٹی کے ساتھیوں سے بھی پوچھا۔ ’’ہم بھی تائید کرتے ہیں۔ ‘‘ ’’اب کل سے سارے اکاؤنٹس نئے لکھے جائیں گے اور پرانے تمام اکاؤنٹس کو ان میں سے موجودہ لین دین کے اقتباسات لے لینے کے بعد جلا دیا جائے گا۔ یہ کام ایک ماہ کے اندر ہو جانا چاہیے۔ اس عمل سے سوسائٹی ترقی کے ایک نئے مرحلے میں آ جائے گی۔ ‘‘ ’’کیوں نہ یہ کام دس دن کے اندر کریں۔ ‘‘ ’’میں تو کہتا ہوں کہ دو دن کے اندر کیوں نہیں ہو سکتا۔ کبھی تو ہم اپنی غیر معمولی چُستی کا مظاہرہ کریں۔ اس سے اراکین کے اندر خود اعتمادی اور حوصلے کا جذبہ اور بڑھے گا۔ ‘‘ گھنٹی بجی۔ باہر سے چیف اکاؤنٹنٹ کو بلایا گیا اور اس سے سکریٹری نے پوچھا کہ وہ کم سے کم کتنے عرصہ میں اس کام کو کرے گا۔ ’ایک دن‘ ’کیا اور جلدی نہیں کر سکتے ؟ چیر مین نے بظاہر ممبروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے کہا ’کوشش کروں گا۔ ‘‘

کوشش کی جا رہی ہے کہ جلد سے جلد یہ پرانے کاغذات جلا دئیے جائیں۔ چیرمین نے اعلان کر دیا۔ وہ کھرا آدمی کھڑا کا کھڑا رہا۔ ’’اب میٹنگ بر خواست کی جاتی ہے ‘‘۔ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر لوگ نکلنے والے راستے سے ہو کر باہر جانے لگے۔ کچھ لوگ جو پیچھے تھے اور آہستہ آہستہ چل رہے تھے، بھیڑ کم ہوتے دیکھ کر وہ بھی جلدی جلدی دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ صرف وہ تنہا ہال میں رہ گیا تھا۔ اس کی نظر دروازے پر کھڑے ایک آدمی پر پڑی۔ وہ چوکیدار تھا جو دروازے کا تالا ہاتھ میں لیے ادب سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیم لاش ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

­­­­­­­__________________________________________________

شہر

­­­­­­­

اس کی نگاہوں کے کینوس پر شہر کی اونچی عمارتیں ابھرنے لگی تھیں۔ وہ درخت کے سائے میں آرام کرنے بیٹھ گیا۔ گاڑیوں میں خون سے لت پت اور نیم زندہ لوگوں کو لے جایا جا رہا تھا۔اور ان پر نصب بندوقیں چاروں طرف جھانک رہی تھیں۔ تیز دھوپ سے پوری فضا گرم ہو گئی تھی۔ اسے پیاس لگ گئی لیکن دور دور تک خشک گرم ہواؤں کے سوا کچھ نہ تھا۔ پاؤں پھٹنے لگے تھے۔

اس نے اپنے پھٹے ہوئے جوتوں کو دیکھا، ان پر کتنی دھول جم گئی تھی۔

وہ کہاں جا رہا ہے ؟

کتنے دنوں سے جا رہا ہے ؟

جب چلا تھا تو اس کے جوتے نئے تھے ، اب پرانے ہونے لگے ہیں۔

وہ یہی سب کچھ سوچتا رہا۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

موٹر گاڑی

­­­­­­­

اس کی نگاہوں میں ایک کالی سی چیز ابھری اور پھر ابھرتی چلی گئی۔ ایک، دو بچے ، ایک موٹا سا چمکیلا آدمی۔ ڈرائیور کے سامنے شیشے پر جمی ہوئی دھول۔ اور پھر کار تھوڑی دور آگے جا کر رک گئی۔

وہ غور سے دیکھنے لگا۔ شاید چشمے والے نے مجھے تھی ہوئی حالت میں اس بیابان سی جگہ پر دیکھ کر گاڑی روک دی ہے۔

ڈرائیور نے بونٹ اٹھا کر کچھ ٹھیک کیا، اندر بیٹھا، چشمے والے نے کھڑکی سے جھانک کر باہر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے بعد ڈرائیور نے باہر نکل کر اسے آواز دی۔

"آنا، بھیا، ذرا دھکا لگا دینا۔”

اوہ، کتنے مناسب وقت پر گاڑی خراب ہوئی ہے۔ اس نے سوچا اور ڈرائیور کی آواز پراس کے پھٹتے ہوئے پاؤں ہرے بھرے ہو گئے۔ وہ جھومتا ہوا دوڑ پڑا۔ دھکا لگایا۔ کار اسٹارٹ ہو گئی۔ سبھی دوبارہ اس میں بیٹھ گئے۔

Thank you very much.

کار دھول میں کھوگئی۔ چشمے والے نے سر باہر نکال کر مسکراتے ہوئے کہا۔

وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ اس سے کیا کہا گیا تھا۔ گاڑی میں خالی جگہ تھی۔ کہیں اس چمکیلے آدمی نے اس سے کار میں بیٹھ لینے کے لئے تو نہیں کہا تھا ؟ بگر وہ سمجھتا کیسے ، وہ تو کسی اجنبی آواز میں کچھ کہا تھا۔

وہ اپنے بھاری پاؤں گھسیٹتا ہوا پھر پیڑ کے نیچے آ کر بیٹھ گیا۔

موسم گرما میں ریت پر بھاگتے ہوئے بگولے ،

جھاڑیوں میں چھپے ہوئے جنگلی جانور،

اور پیاس !

اور کار !

 

­­­­­­­__________________________________________________

جنگل

­­­­­­­__________________________________________________

 

اس کے گھر میں آگ کیوں لگائی گئی تھی

اس کے عزیزوں کا خون کیوں کیا گیا تھا ؟

وہ اپنے وطن میں جلا وطن کیوں کیا گیا تھا ؟

مردے کتنا تیز بھاگ رہے تھے ، ؟ گاڑیوں پر۔

اور وہ زندہ تھا اس لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔

وہ کتنا پیچھے چھوٹ گیا تھا۔

لیکن کیوں ؟

وہ تو وہاں سے خود بھاگا تھا۔

لیکن کیوں بھاگا تھا ؟

وہ کہاں جا رہا تھا ؟

شہر کی طرف۔ کیوں ؟ کس لئے ؟

شہر اس کی نگاہوں میں آ چکا تھا۔

اونچی اونچی عمارتیں،

سڑکیں، دکانیں، کاریں

ہسپتال، کونوینٹ اسکول، اسٹیڈیم، الیکٹرونکس کی دنیا، رقص، ایر کنڈیشنڈ کمرے۔

وہ کس کی تلاش میں جا رہا ہے ؟ وہ کہاں تک بھاگ سکتا ہے ؟

سڑک نگاہ سے بھی زیادہ لمبی ہے اور اس کے پاؤں بہت چھوٹے ہیں۔

ان سڑکوں پر تو رولر کے رولر گھس کر کنڈم ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کے جوتوں میں کیا رکھا ہے۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

کاروبار

­­­­­­­__________________________________________________

 

پٹرول سے آنسوؤں کا کیا مقابلہ۔ کوئی مقابلہ نہیں۔

اسی لئے تو اس کا مکان لٹ گیا۔ وہ لٹیرے کون تھے جو کل آئے تھے اور زندگی کو موت میں بدل گئے تھے۔ اور یہ کون ہیں جو مردوں کو اٹھائے لئے جا رہے ہیں ؟ یہ کیسا کاروبار ہے ؟ یہ مردوں کو کہاں لئے جا رہے ہیں ؟

سب کچھ جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھے کیوں نہیں لے جا رہے ہیں۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

شکار

­­­­­­­__________________________________________________

 

اس کے سامنے درخت پر ایک چڑیا بیٹھی تھی۔ وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اگر میں بھی اسے مار کر کھا جاؤں تو کیا ہو جائے گا ؟ لیکن آگے ؟ بغیر بھنا ہوا گوشت کھانا، کچا گوشت کھانا، درندگی ہے !

کچھ نہیں۔ سب بکواس ہے۔

کوئی فرق نہیں پکے ہوئے گوشت میں، بھنے ہوئے گوشت میں اور کچے گوشت میں۔

بھوک اس کے پیٹ کو کاٹ رہی تھی۔

پیاس سے اب اس کا حلق سوکھ گیا تھا۔

سامنے کا پتھر اٹھاکر اس نے مارا اور چڑیا گر پڑی۔

اس جا کر چڑیا کو اٹھایا۔ دانتوں سے اس کا گلا کاٹا لیکن خون کے صرف چند قطرے نکلے۔ اس کی پیاس باقی رہ گئی۔ پھر اس نے اس کے پر نوچے اور لگ بھگ ہڈیوں سمیت اسے کھا گیا۔

بھون کر کھانا چاہئے تھا۔ اسے لگا وہ خود دھوپ میں سامنے پھیلی ہوئی ریت میں بھنا جا رہا ہے اور جیسے تھوڑی دیر میں وہ بھنتا ہوا بے ہوش ہو جائے گا۔ کباب، لذیذ کباب بن جائے گا اور کوئی گاڑی اسے بھی اٹھا لے جائے گی۔

ایک کار پھر سامنے رکتی سی لگی اور گزر گئی۔

ایک گاڑی پھر لاشوں سے بھری ہوئی شہر کی طرف چلی گئی۔کی بھوک ختم نہیں ہوئی تھی اور سفر لمبا تھا۔

” مجھے بھی ان لاشوں میں سے ایک دے دو۔”

اس نے کہنا چاہا لیکن بندوقیں دیکھ کر ڈر گیا۔ چڑیا کی بچی کھچی ہڈیاں اس کے سامنے پڑی تھیں۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

دھول

­­­­­­­__________________________________________________

 

تھوڑی دیر تک وہ پھر اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا۔

اب وہ پھر شہر کی طرف جا رہا تھا۔

کاروں، گاڑیوں کا ایک ریلا پھر آیا اور گزر گیا۔

 

­­­­­­­__________________________________________________

نیم لاش

­­­­­­­__________________________________________________

 

وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی نیم لاش ہو چکا تھا۔

وہ چل پڑا۔

ایک گاڑی کی رفتار پھر کم ہوئی۔ اس نے گاڑی کی طرف دیکھا۔ لیکن وہ تو اسے للچائی ہوی بظر سے دیکھ رہے تھے جیسے قصائی بکرے کے گوشت کے وزن کا اندازہ لگاتا ہے۔ وہ پیچھے ہٹ کر سڑک کے بالکل کنارے چلا گیا اور گاڑی رفتار بڑھا کر آگے نگل گئی۔

ہوا اور گرم ہوئی۔

دھول اور اڑی۔

جوتے کا تلوہ ٹوٹ گیا۔

پاؤں جلنے لگے۔

اور وہ نیچے سے گھسنے لگا۔

لیکن وہ گھستا رہا اور چلتا رہا۔

پھر اس کے پاؤں ٹخنوں سے اوپر تک گھسنے لگے۔ اس کے بازوں گھس کر پیچھے گر گئے لیکن وہ بڑھتا رہا۔

شہر اس کی نگاہوں میں تھا۔

اور اب وہ نیچے سے آنکھوں کی جڑ تک گھس گیا تھا۔

اور صرف دو آنکھیں کھوپڑی سمیت دماغ کو اپنے اوپر لئے ہوئے شہر کی طرف بڑھتی جا رہی تھیں۔ اب وہ شہر کی گھنی ٹریفک کے درمیاں آ چکا تھا لیکن وہ اتنا چھوٹا ہو چکا تھا کہ گاڑیوں کے درمیان کھو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

امرہ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

 

فسادیوں نے پورے گاؤں کو تباہ کر دیا تھا۔ ان کے جانے کے بعد وہاں قوم کے رہبر اور علما کا وفد پہنچا۔ سفید ریش عمامہ پوش مفتیِ شہر نے پورے وفد کے ساتھ پوری بستی کا دورہ شروع کیا۔

اسی بستی کا ایک پتلا دبلا نوجوان جو کہیں چھپ کر بچ گیا تھا ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔

"اس گھر کے لوگوں نے خطرے کو پہلے ہی محسوس کر لیا تھا اور رات میں ہی یہاں سے کوچ کر گئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ عورتوں اور لڑکیوں کو بھی لے گئے تاکہ ان کی عصمت محفوظ رہے۔ ” مفتی صاحب چپ رہے۔

"اس گھر کے لوگوں کو بھی خبر ہو گئی تھی لیکن یہ رات بھر اپنی تلواریں تیز کرتے رہے۔ جب حملہ ہوا تو انہوں نے کئی حملہ آوروں کو مار گرایا لیکن حملہ آوروں کی تو تعداد اندازے سے بہت زیادہ تھی لہذا یہ سب مارے گئے۔ ”

"مارے نہیں گئے شہید ہوئے۔ ” ان کا مقام جنت میں ہو گا اور بہت بلند ہو گا۔

"اور یہ دیکھئے۔” نوجوان انہیں ایک گھر کے دالان میں لے گیا ” یہ بری طرح زخمی ہوئے ہیں۔ دیکھئے ، ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا ہے۔”

"ماشا اللہ یہ غازی ہیں۔ اور اللہ کے یہاں ان کو بڑا اجر ملے گا اور بستے کے لوگوں میں ان کا مقام بہت افضل ہے۔”

"اور یہ ان کی بیوی ہیں۔ ظالموں نے ان کے پیٹ میں بھالا مار دیا لیکن یہ ابھی تک زندہ ہیں۔”

” ہمیں ان کے علاج کا فوراً انتظام کرانا چاہئے۔ جو بھی اس سلسلے میں تعاون کرے گا وہ اللہ کے نزدیک سرخرو ہو گا "۔

"اور اندر سے کس کے سسکنے کی آواز آ رہی ہے ؟ ” مفتی صاحب نے پوچھا۔

” وہ ان کی بڑی بیٹی ہے۔ فسادیوں نے اس کے عضو خاص میں برچھی مار کر گھائل کیا اور ویسے ہی چھوڑ دیا۔”

"اس کا مقام بھی انہیں غازیوں کے برابر ہے جن کے ہاتھ کاٹے گئے ہیں۔ ” مفتی صاحب نے ذرا ٹھہر کر استفسار کیا ” کیا اس گھر میں کوئی اور بھی ہے۔ مجھے ایک اور سسکتی ہوئی آواز سنائی دے رہی ہے۔”

نوجوان نے سر جھکا لیا۔

"کیا ہوا۔ بتاؤ ؟ "مفتی صاحب نے اصرار کیا۔

"وہ ان کی چھوٹی بیٹی ہے۔ خود کو کمرے کے اندر بند کر کے بیٹھی ہے۔”

"کیوں ؟”

"اس کو ظالموں نے اس وقت دیکھ لیا جب وہ تلوار نکال کر اپنے چچا کو پکڑا رہی تھی۔ انہوں نے آگے بڑھ کر زور دار حملہ کیا اور اسے دبوچ لیا۔ اس کے بعد انہوں نے اسے بالکل برہنہ کر دیا، اندر لے گئے اور یکے بعد دیگرے جا کر کئی حملہ آوروں نے اس کے ساتھ (زبردست مباشرت کی) / اندھا دھند ہوس کی آگ بجھائی / اور پھر اسے تڑپتا ہوا چھوڑ گئے۔”

یہ کہ کر وہ مفتی صاحب کے چہرے کو دیکھنے لگا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کہا۔ وہ نگاہیں نیچی کر کے خاموش ہو گئے تھے۔

چند لمحوں بعد انہوں نے سر اٹھا کر بیحد درد بھرے لہجے میں کہا ” نہ جانے ہماری قوم کو اس ذلت سے کب نجات ملے گی۔”

سب خاموش تھے جیسے کسی کے ذہن میں کوئی جواب نہیں تھا۔ اس نوجوان نے سب کے چہروں کو ایک اڑتی نظر سے دیکھا اور بولا۔

"مفتی صاحب، مجھے معلوم ہے۔”

پورے وفد نے اس کی اس بات کو گستاخی سمجھا اور اس کو تنبیہی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

” میری قوم کی حالت اس دن بدلے گی جب مفتی صاحب نے جس طرح ان سب لوگوں کے مقام اور ثواب کے بارے میں بتا دیا ہے اسی طرح یہ بھی بتا دیں گے کہ جو لڑکیاں اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنی بستی، یہاں کی مسجد، مدرسے اور قبرستان کو چھور کر بھاگ گئیں ان سے اس لڑکی کا مقام کتنا بلند تر ہو گیا ہے جو کمرے میں بند ہو گئی ہے۔ اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے عوض اسے قیامت کے روز کیا انعام ملے گا۔ جس دن مفتی صاحب میرے اس سوال کا جواب دے دیں گے اس کے بعد اس طرح ہماری کسی بستی کو ذلیل نہیں کیا جا سکے گا۔ ”

لوگ مفتی صاحب کی طرف دیکھنے لگے اور مفتی صاحب اپنے ذہن میں اپنی پڑھی ہوئی کتابوں کے اوراق الٹنے میں لگے ہوئے تھے۔

جب کافی دیر ہو گئی تو اس نے مفتی صاحب کو جیسے ان کے خیالوں کی دنیا سے باہر کھینچتے ہوئے کہا۔

"میں نے اس امرہ کو پہچان لیا ہے۔ آپ یہاں سے جانے سے پہلے اس سے میرا نکاح پڑھا کر جائیں گے۔ میں کوشش کروں گا کہ وہ مجھ سے نکاح کرنے پر تیار ہو جائے۔”

سب نے اسے تعجب سے دیکھا تو وہ سوالیہ نشانوں کو سمجھ گیا۔ میں اس بستی کا امیر ترین لڑکا ہوں اور میرے اندر کوئی برائی بھی نہیں ہے۔ میں نماز روزے کا بھی پابند ہوں۔ لیکن میرے جسم پر کوئی زخم نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ کہیں مجھے قبول کرنے سے انکار نہ کر دے۔ میں کئی بار اس کمرے کے دروازے تک گیا لیکن میری ہمت نہیں پڑی کہ میں اس سے دروازہ کھولنے کو کہوں۔ جب بھی میں نے چاہا کہ میں آواز دوں میری نظر اپنے جسم پر چلی گئی اور میری آواز میرے حلق میں رک گئی۔ میں اس وقت اس کا کمرہ کھلو کر اس کو آپ لوگوں سے ملواتا۔ وہ بہت ہمت والی لڑکی ہے لیکن مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں وہ آپ لوگوں کے جسموں کو اپنی نگاہوں سے ٹٹولنے نہ لگے۔”

یہ کہتے ہوئے نوجوان نے تمام لوگوں کو دیکھا اور پھر انہیں لے کر آگے کی گلی میں چلا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

گلاس۔۔۔ پیغام آفاقی

ایک دن وہ آفس میں آ کر اطمینان سے بیٹھا تو اسے پیاس کا احساس ہوا۔ اس نے سامنے رکھے گلاس کا پانی پی لیا اور پھر چپراسی سے ایک گلاس پانی لانے کے لئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی سکریٹری مانسی بھی آئی تھی جو میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی۔ مانسی کی نظر قلمدان پر لگے ایک قلم پر بیٹھے ایک پیلے رنگ کے اڑنے والے کیڑے پر پڑی۔ مانسی اس کو اڑانے کے بہانے انگلی سے چھونے لگی۔”اس کو انگلی سے نہ چھوؤ، یہ کاٹ لے گا۔ زہریلا ہوتا ہے۔”اس نے مانسی کو منع کیا اور پھر اس نے ایک قلم کی نوک سے اس کیڑے کو چھیڑا۔

کیڑا اڑنے کے بجائے قلمدان سے اتر کر میز کے شیشے پر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ کچھ دور چلنے کے بعد وہ اڑ گیا لیکن اس کے بعد وہ دوبارہ شیشے پر ہی آ کر بیٹھ گیا۔

اتنی دیر میں چپراسی پانی لے کر آ گیا۔ اس نے پانی کا ایک گھونٹ اور پیا اور ابھی پیاس باقی ہی تھی کہ پانی پینے کے دوران وہ کیڑا اڑ کر ٹھیک اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ اور ایک وقفے کے بعد ادھر ادھر چلنے لگا۔ اس نے کیڑے کو شیشے کے گلاس سے دبایا کہ وہ اس میں دب کر مر جائے لیکن وہ گلاس کے پیندے کی خالی جگہ میں صرف قید ہو کر رہ گیا۔ یہ گلاس بھی عجیب انداز کا تھا کہ اس کے پیندے میں گھونٹ بھر پانی کے برابر جگہ تھی۔ اب اس کیڑے کے پاؤں کے نیچے میز کا شیشہ تھا اور اوپر گلاس۔ وہ اس کیڑے کو دیکھنے لگا۔ بار بار اس کا جی چاہتا تھا کہ گلاس اٹھا کر پانی پی لے لیکن وہ گلاس نہیں اٹھا پا رہا تھا کیونکہ اس کیڑے کی قید و بند کی کیفیت کو دیکھ کر اسے خود اپنے اندر ایک عجیب سا درد محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ موازنہ کرنے لگا۔

‘ وہ طبعی پیاس جس کو مٹانے کے لئے وہ گلاس میں رکھے پانی کو پینا چاہتا تھا وہ زیادہ طاقتور ہے یا اذیت میں مبتلا کیڑے کو دیکھنے کی لذت جس کو وہ بہت گہرائی سے محسوس کر رہا تھا۔’

ان لمحوں میں گلاس میں رکھا پانی اس کے لئے زندگی کے اجنبی نظام کے نقوش کو واضح کر رہا تھا اس لئے وہ چاہتا تھا کہ وہ کیڑے کو تب تک آزاد نہ کرے جب تک اس پر گزر رہی کیفیت اس مکمل علامت کو کھول نہ دے جو اتفاقا اس وقت اس کے سامنے نمودار ہوئی تھی۔ وہ اس کیڑے کی اس کیفیت کو، اس کے امید و بیم کے اس تناؤ کو کہ وہ اس قید سے نکل پائے گا یا نہیں اور اس کے اندر موجود بے یقینی کو گہرائی سے محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر وہ کون سی بات ہے جو اس کی اپنی پیاس سے بھی زیادہ اہم ہے اور جو اس کو گلاس نہیں اٹھانے دے رہی ہے۔ اب تک جو اس کا خیال تھا کہ خیال کمزور اور دکھائی دینے والی چیزیں زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور اس نے جو گذشتہ دنوں کسی اخبار کے کالم میں پڑھا تھا کہ یاد یں اور ناسٹلجیا تاریخ اور جغرافیہ سے زیادہ با معنی نہیں ہوتیں یہ بات غلط ثابت ہو رہی تھی۔ اور وہ اس مشاہدے کے دوران یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ انسان اندر اندر اس کائنات کی چیزوں اور انسانوں سے جو رابطہ محسوس کرتا ہے وہ حقیقی اور کافی مضبوط ہوتا ہے۔ گلاس اب بھی سامنے تھا اور اس کے نیچے کیڑا چل رہا تھا۔ قید اس کیڑے کو جیسے بھیا نک لگ رہی تھی۔ وہ نکلنے کے لئے تیزی سے دوڑ بھاگ کر رہا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ چکا تھا کہ ‘ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی رہا تو اس کی زندگی کو باقی رکھنے کے ذ رائع منقطع ہو جائیں گے۔ ‘

‘وہ پریشان کیوں ہے ؟؟ ‘ ‘وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جس طرح یہ قید اچانک آ گئی ہے اسی طرح یہ اچانک ختم بھی ہو جائے گی۔ لیکن وہ کیسے جانے کہ یہ ختم ہو بھی جائے گی ؟ اگر نہیں ختم ہوئی تو یہ جو قید تھی وہ مستقل قید کی صورت میں تو اس کی موت بن کر آئی ہے۔ ‘ وہ شیشے کے باہر جھانکتا رہا۔ چاروں طرف وہی سب کچھ دکھائی دے رہا تھا۔ وہی قلمدان، وہی چھت، وہی پنکھے ، وہی الماریاں، وہی پردے۔ وہی کلنڈر، وہی میز پر پڑا ہوا پلاسٹک کے پھولوں کا گلدان، وہی کھڑکیاں جن سے باہر درختوں کی پتیاں دکھائی دے رہی تھیں۔اور وہی لڑکی جو اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ اور وہی شخص جو سامنے کرسی پر بیٹھا تھا اور جس کے چہرے پر رحم کا شائبہ تک نہیں تھا۔ جو بار بار گلاس کو دیکھتا تھا اور پھر اس کو دیکھتا تھا اور پھر اپنے آپ میں ڈوب جاتا تھا۔ وہ دیکھتا رہا اور شیشے کے اندر ہی اندر چکر لگاتا رہا۔

اسے بار بار دھوکا ہوتا کہ وہ جدھر بڑھ رہا ہے ادھر کھلی ہوا ہے اور کچھ اور نہیں ہے لیکن جیسے ہی وہ بڑھتا ویسے ہی آگے ٹکرا جاتا۔ اور تب اسے لگتا کہ وہ خالی دکھنے والی سمت تو کوئی ٹکرا جانے والی شے تھی جو اسے دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن جو وہاں مضبوطی سے موجود تھی۔ اور پھر اسے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی تمام چیزوں پر شک ہو جاتا کہ ہو نہ ہو ہر طرف ویسا ہی کوئی ٹکرا جانے والا منظر ہو یا چیز ہو یا حد یں ہوں۔ اس شخص کی پھیلائی ہوئی جو اسے دیکھ رہا تھا۔ اس خیال کے آنے کے بعد تو اس نے ایک جگہ باقاعدہ اپنی ٹانگیں اٹھا کر اس دیوار سے زور آزمائی کرنے کی کوشش کی اور پھر وہاں سے چلا اور دوسری جگہ پر زور آزمائی کی اور پھر کئی جگہوں پر کی اور پھر جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس سے کوئی راستہ نکلتا ہے نہ اس محنت سے اس کے ذ ہن میں کوئی نیا سوال پیدا ہو کر کوئی اور تدبیر دکھاتا ہے تو اس نے یہ محنت بند کر دی۔ اب وہ یونہی کھڑا ہو کر سوچنے لگا گویا سوچنے سے کوئی فائدہ تھا اور پھر چکر لگانے لگا۔ اس بار وہ صرف چلتا رہا۔ دیوار کے سہارے ،دیوار کو چھو چھو کر اور دیوار کے کنارے کنارے کہ جہاں دیوار ختم ہوتی ہے اس کا اس کو اندازہ ہو جائے اور پھر اس نے دیکھا کہ پورا گلاس آگے کھسک رہا ہے اور پیچھے سے شیشہ اس سے ٹکرایا تو وہ آگے بڑھا اور اس کی ایک ٹانگ اس شیشے میں دب کر ٹوٹتے ٹوٹتے بچی۔

در اصل وہ کیڑے کی صورتحال میں کچھ مزید جہات کا اضافہ کرنے کے لئے گلاس کو کھسکا رہا تھا۔ اب کیڑا اس سمت کو بڑھنے لگا جس سمت میں گلاس اسے دھکا لگا رہا تھا۔ چلتے چلتے ایک جگہ دھکے کی رفتار کچھ کم ہوئی اور دوبارہ پھر تیز ہو گئی۔ وہ چاروں طرف اور اوپر کی جا نب نگاہیں گھما کر اور اپنے جسم کو بچا بچا کر دیکھتا رہا کہ یہ سب کچھ جا کدھر رہا تھا کہ وہ اس کے مطابق ہی چل سکے اور جب اس کے جانے کی سمت کا اس کو کچھ کچھ اندازہ ہوا تو اس کی خود اعتمادی کچھ کچھ بحال ہوئی اور چلتے چلتے جب سب کچھ تھما تو وہ بھی تھم گیا۔ اب وہ نئے امکانات کی تلاش میں ادھر ادھر جھانکنے لگا اور جب جھانکتے جھانکتے تھک گیا تو ایک کنارے کھڑا ہو گیا۔ اور تب اس نے دیکھا کہ اب وہ لڑکی اس آدمی کو انگلی کے اشارے سے بتا رہی تھی کہ کہ اب وہ تھم گیا ہے۔ پھر جیسے دونوں اس کے تھم جانے کی اس حرکت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کا تھم جانا اتنا معنی خیز تھا یہ اسے معلوم ہی نہ تھا۔ اور پھر وہ ایک کونے میں کھڑا حیرت سے اس شخص کو دیکھتا رہا جو اب کچھ لکھ رہا تھا۔

اسے اپنے اوپر کچھ لکھے جانے میں ہزاروں اسرار دکھائی دینے لگے۔ وہ شخص بار بار اسے اور اس کے اوپر کے گلاس کو دیکھے جا رہا تھا اور لکھے جا رہا تھا۔ اتنی ہی دیر میں اس کے لئے چائے بھی آ گئی۔ لیکن وہ چائے پینے کے بجائے لکھتا ہی رہا حتی کہ چائے ٹھنڈی ہو کر شاید خراب ہو گئی کیونکہ لڑکی نے کچھ دیر بعد اپنے سامنے کی پیالی سے چائے پینی شروع کر دی اور جلد ہی خالی کر کے ایک طرف رکھ بھی دی۔ کیڑے کو یہ بات بہت پریشان کر رہی تھی کہ وہ شخص کیا سوچ رہا تھا۔ نہ جانے اب اس کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ اتنی دیر میں وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ جب تک وہ اس گلاس میں ہے تب تک محفوظ ہے۔ ایک جگہ اسے شیشے میں اپنی آنکھوں اور اپنے چہرے اور اپنے پیلے پیلے پنکھوں کا عکس دکھائی دیا تو اسے صاف صاف معلوم ہوا کی وہ شیشوں میں قید ہے۔

مانسی کی متجسس نظروں کو اپنے چہرے پر تھامے ہوئے اور قلم ہاتھ میں لئے ہوئے وہ اس کیڑے کو مسلسل دیکھ رہا تھا اور تب اسے محسوس ہوا جیسے ایک روح اس شیشے کے قید خانے میں گھری ہوئی لاچار نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی اور وجود کے عناصر سے نبرد آزما تھی کہ کس طرح اس میں آزادی کی سوراخ کھود سکے اور عناصر تھے کہ اپنی جگہ سخت، بے حس اور بے جان تھے اور پھر بھی اس کو گھیرے ہونے میں پورا پورا انہیں کا رول تھا اور اس رول میں وہ مستعد تھے۔ جامد اور خاموش، لب سلے ہوئے۔ جیسے کہتے نہ ہوں لیکن جانتے ہوں کہ صرف وہی شخس ان کو اٹھا سکتا ہے جو سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ اور اس روح کو اگر کسی کی تلاش ہے ، اگر وہ کسی چیز کو چھو کر اس کا ادراک کرنا چاہتی ہے کہ وہ کتنی شقی القلب ہے اور کیسے اس میں نرمی آئے گی تووہ یہ جان لے کہ یہ چیز خود اس شخص کی اپنی روح تھی جو سامنے بیٹھا تھا–

وہ تحریر کر چکا تھا : میں تمہیں اس وجہ سے آزاد نہیں کر رہا ہوں کہ تم متحرک ہو اور میں مردہ ہوں۔ تم مجھے اپنی کوششوں کو دیکھتے دیکھتے ان کے زیر اثر متحرک ہو جانے دو۔ اپنی مایوسیوں کے مواد سے میرے اوپر جو موٹی موٹی پرتیں جم گئی ہیں انہیں پگھل جانے دو کہ میں بھی ان سے آزاد ہو کر تمہاری طرح متحرک ہو جاؤں، ان دیواروں کے خلاف، ان دیواروں کے روبرو جو دیواریں مجھے گھیرے ہوئی ہیں کہ مجھے بھی تو تمہاری ہی طرح کسی نے زمین و آسمان کے بیچ ڈال دیا ہے۔ تم چاہتے ہو کہ میرا دل پسیج جائے اور میں تم کو چھوڑ دوں۔ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔

میں تمہیں اس شیشے میں گھرا ہوا رکھ کر، تمھارا دم گھٹا کر، ترسا ترسا کر اور تمہاری کوششوں کو بے معنی ثابت کرتے ہوئے تمہیں اسی میں ختم کر دوں گا۔ اور اس میں سے صرف تمہاری بے جان لاش نکلے گی۔

تم سمجھتے ہو کہ یہ گلاس میں نے تمہارے اوپر رکھا ہے ؟ یہ تو محض اتفاق کی بات تھی کہ تم یہاں گرے اور اس وقت میں پانی پی رہا تھا اور میں نے تمہارے اوپر یہ گلاس تم کو مار ڈالنے کے لئے رکھا تھا لیکن تم مرنے کے بجائے اس میں قید ہو گئے۔ یہ میری منشا نہیں تھی۔ یہ تو یونہی ہو گیا اور تمہارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ یونہی ہو رہا ہے۔ اور تم اس ہو جانے میں قید ہو۔ اس نے کیڑے کی ان بڑی بڑی آنکھوں سے جو اس لمحے ٹھہر کر اسی کو دیکھ رہی تھیں، نظریں ملائیں۔ اگر میرا خاتمہ قید میں ہو سکتا ہے تو تمہارا خاتمہ قید میں کیوں نہیں ہو سکتا ؟ اس کے چہرے پر پاگلوں جیسا تاثر ابھرا۔ کیڑا بچارہ کسی بکری کے بچے کی طرح معصومیت سے دیکھ رہا تھا، اس امید میں کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اب اس کی مدد کرے گا۔

اس نے چاہا کہ وہ کیڑے کو مار دے لیکن یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا کیونکہ اس کے لئے اسے گلاس کو اٹھانا پڑتا اور گلاس کو اٹھاتے ہی کیڑا اڑ سکتا تھا۔ میں تمہیں اس گلاس کے نیچے ہی چھوڑوں گا جب تک تم مر نہ جاؤ۔ اسے محسوس ہوا کہ اس نے کیڑے کے نام موت لکھ دی ہے لیکن موت اس کے ہاتھ میں بھی نہیں تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ اس کی دی ہوئی موت کیسے ہے جبکہ وہ کیڑے کو مار نہیں سکتا۔ وہ کیڑا اب اس کی طرف سے نا امید ہو کر منھ پھیر چکا تھا اور از سر نو دیواروں کے معائنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ اسے اپنے خدائی کا زعم مسمار ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ اگر وہ گلاس کو اٹھاتا ہے تو کیڑا اڑ جائے گا۔ اگر گلاس کو یونہی چھوڑ کر چلا جائے تو چپراسی ٹیبل کو صاف کرتے وقت گلاس اٹھائے گا اور کیڑا اڑ جائے گا۔ وہ گلاس کو اسی طرح چھوڑے رہنے کا حکم بھی نہیں دے سکتا کہ لوگ اسے اس کے دماغ کا خلل سمجھیں گے۔

کیڑا بار بار گلاس کے شیشے کے اوپر کسی سرکش مکڑے کی طرح پاؤں پھینک کر کھڑا ہوتا رہا اور زور پر زور لگا تا رہا۔ اس نے عاجز آ کر پانی سے بھرا گلاس پینے کے لئے اٹھا لیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

یہ افسانہ نہیں ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

بہکانے کا پیشہ کرنے والے مکروہ چہرے اور مکار آنکھوں والے نے اس سے خواب میں آ کر کہا تھا :

تم ان لوگوں کی ذہنیت کو نہیں جانتے۔

یہ اس کو تمام دیوتاؤں سے بلند تر رتبہ دیتے ہیں اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔

یہ عورتوں کو بھی دیویوں کا رتبہ دیتے ہیں اور ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔

لیکن وہ ان دونوں کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ان کی ذاتی ملکیت ہوں۔

یہ ان دونوں کے لئے گھر بناتے ہیں۔

لیکن خود کو اس گھر کا مالک تصور کرتے ہیں۔

یہ در اصل ان کی منافقت کی اعلی ترین شکل ہے۔

یہ دونوں کو پردے میں رکھتے ہیں۔

یہ دونوں کی قدر و قیمت سے آگاہ ہیں۔

انہوں نے دونوں کے بارے میں بڑے سخت قانون بنا رکھے ہیں۔

یہ دونوں ہی ان کے بنائے ہوے سخت قوانین سے باہر نہیں آ سکتے۔

ان دونوں سے ہی الگ سے انفرادی حیثیت میں راہ و رسم بڑھانے والوں کے لئے سخت سزائیں مقرر ہیں۔

جب سے اس کی نیند ٹوٹی تھی اس کا جیسے پورا وجود تباہ ہو گیا تھا۔

وہ بار بار کوشش کر رہا تھا کہ اس نے جو کچھ خواب میں دیکھا اور سنا تھا اسے محض ایک خواب مان کر بھلا دے لیکن حملہ اتنا شدید تھا کہ سوچتے سوچتے بالآخر وہ بے ہوش ہو گیا۔

اس نے بے ہوشی کے عالم میں ہی دیکھا۔

دو خوفناک جانور ایک دوسرے پر جان لیوا حملہ کر رہے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

 

افسانچہ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

منطق: مجھے غلط ثابت کرو یا مجھے تسلیم کرو۔

تخلیق: جیو اور جینے دو۔

منطق: تمہارا یہ رویہ کافرانہ ہے۔

تخلیق: یعنی تم ہو اور میں نہیں ہوں۔ تمہارا یہ رویہ بہت آمرانہ ہے۔

منطق: تمہارا رویہ باغیانہ ہے۔ تمہارا یہ جیو اور جینے دو کا رویہ میرے تئیں قاتلانہ ہے۔

تخلیق: تو پھر ایک کام کرو۔ تم بھی تخلیق بن جاؤ۔ ادھر بہت کشادگی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ریت کا صحرا۔۔۔ پیغام آفاقی

 

جب ریت کا صحرا دیکھ کے ڈر جاتا ہے ادیب کا سینہ بھی

وہ لمحے اکثر آتے ہیں

جب ذہن کے سارے پردے اٹکے اٹکے سے رہ جاتے ہیں

جب شور مچاتی شاخ زباں سے سارے پرندے مر مر کے

گر جاتے ہیں

وہ لمحے اکثر آتے ہیں

جب آوازوں کے پنجر

اپنے سوکھے سوکھے ہاتھ لیے

میرے سر پر چھا جاتے ہیں

اور میں گھبرا سا جاتا ہوں

اک قبرستان کی تنہائی

اک بے معنی خالی رستہ

اور دو پاؤں کی خالی خالی تھکی تھکی سی چاپ

تو اپنے آپ سے بھی ڈر جاتا ہوں

جب ریت کا صحرا دیکھ کے ڈر جاتا ہے ادیب کا سینہ بھی

وہ لمحے اکثر آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

کہاں جا رہا ہوں ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

زمیں پہلے ایسی کبھی بھی نہ تھی

پاؤں مٹی پہ ہوتے تھے

نظریں افق پر

ہمیں اپنے بارے میں معلوم ہوتا تھا

ہم کون ہیں ؟

اور کیا کر رہے ہیں۔

کہاں جا رہے ہیں ؟

مگر آج عالم یہ ہے

پاؤں رکے نہیں

آنکھ کھلتی نہیں

اجنبی راستوں پر

میں بڑھتا چلا جا رہا ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

فکشن میں حقیقت نگاری اور حقیقت بیانی کا فرق ۔۔۔ پیغام آفاقی

 

 

فکشن نگاری کے مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں :

 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حقیقت کی دریافت

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

(1) تحریر سے قبل کے ایک مرحلے میں مصنف اور حقیقت کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے۔ اس فاصلے کو کبھی کبھی تو وہ تحریر کے آغاز سے پہلے ہی ختم کر چکا ہوتا ہے اور کبھی کبھی تحریر کے دوران ہی حقیقت کی دریافت کے عمل سے گزرتے ہوئے ختم کرتا ہے۔ جہاں وہ تحریر کے آغاز سے پہلے دریافت کی منزل تک پہنچ چکا ہوتا ہے وہاں وہ حقیقت کو ایک خیال کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ لیکن جہاں وہ تحریر کے ذریعے حقیقت کی دریافت کرتا ہے وہاں تحریر میں حقیقت کی صورت اور حقیقت شناسی کی بصیرت دونوں ہی عناصر شامل ہوتے ہیں۔ پہلی صورت میں فنکار خیال کو اپنے طور پر بیان کرتا ہے لیکن دوسری صورت میں وہ اس سفر کی روئداد لکھتا ہے جس کو طے کر کے وہ حقیقت کے روبرو پہنچتا ہے اور اس میں تحریر کا فارم تلاش کے فارم کے تابع ہو جاتا ہے۔ چونکہ حقیقت کے علاوہ حقیقت اور انسان کے درمیان کا رشتہ بھی اپنے آپ میں ایک حقیقت ہوتی ہے اس لئے اس نوعیت کی تحریریں حقیقت نگاری کے نقطہ نظر سے دوہری اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

قاری تک ترسیل

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 

پیشکش میں پہلی قسم کی حقیقت نگاری فارمل فکشن کی شکل لیتی ہے لیکن دوسری قسم کی حقیقت نگاری اپنے اندر دریافت کا جلوہ پیدا کرتی ہے اور اپنے کو پوری طرح اس کے تئیں سپرد کر دیتی ہے۔ ایسا فکشن قصے اور کردار سے بے نیاز دکھائی دے سکتا ہے ہر چند کہ وہ ایسا ہوتا نہیں بلکہ یہ اس کی فطری مجبوری ہے۔

(1) دوسری قسم کا فکشن قاری کے تئیں بہت ڈیمانڈنگ ہوتا ہے۔ اس کا آئیڈیل قاری وہ ہوتا ہے جو اسی کی طرح متجسس، ذہین اور فلسفیانہ ذہن کا ہو اور اس کے ساتھ ہمسفری میں اسے بھی مزا آئے۔ اور اس کو ساتھ رکھنے کے لئے اسے اکسٹرا لوازمات کا اہتمام نہیں کرنا پڑے۔ جو قاری اس سے اس طرح کی مطابقت نہیں رکھتے ہوں ان سے اس کی توقع یہ ہوتی ہے کہ وہ دوران قرأت تلاش و جستجو کی اسپرٹ کے تحت قرات کریں گے اور اپنے تخیل کو بھی پوری طرح اڑان پر آمادہ کریں گے اور اور اپنی یاد داشت کو بھی اس تلاش میں فعال کریں گے تاکہ ان کے ذہن میں بھی وہ سب کچھ خود بخود ابھرے جس کو مصنف نے طوالت سے گریز کرنے کے لئے بیان نہیں کیا۔

(3) اس طرح ان دو قسموں کے فکشن کے لئے دو طرح کے قاری ہوتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مخصوص قاری ان دونوں طرح کے فکشن کو یکساں طور پر یا کم و بیش یکساں طور پر پڑھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

(4) کوئی ضروری نہیں کہ دوسری قسم کا فکشن مسلسل دوران تحریر ہی ترتیب پائے۔ بنیادی طور پر یہ ایک اسلوب کی شکل رکھتا ہے اور اس کا کنٹنٹ دوران تشکیل آگے پیچھے بھی جا سکتا ہے اور باہر سے درآمد بھی ہو سکتا ہے۔ در اصل اس اسلوب کا فارم خود ہی حقیقت کے بنیادی عناصر کو دریافت کی شکل میں سجانے کا جتن کرتا ہے۔ مکمل حقیقت کے عناصر کو اپنے اندر جذب اور ہضم کرنے کی صلاحیت ہی اس اسلوب کو ایک بھرپور اظہار میں تبدیل کرتی ہے۔

(5) داستانوں اور ناولوں کے عروج اور ان کے دور دورہ کے بعد دوسرے قسم کے فکشن کا وجود ہوا۔ ایسا فکشن زندگی کے حقائق کی قربت کو ہی اپنا جوہر مانتا ہے حتیٰ کہ نان۔فکشن تک کہے جانے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس طرح کا فکشن فارمل ناول کے عناصر کو لازمی قرار دے کر لکھا ہی نہیں جا سکتا۔ ایسے فکشن میں مصنف خود راوی کے طور پر ایک کردار بننے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسا فکشن روایتی قاری کے تصور افسانہ و ناول سے بری طرح ٹکراتا ہے۔ ایسے فکشن میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کنٹنٹ کو کس طرح پیش کیا گیا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو کنٹنٹ پیش ہوا ہے وہ مصنف کی نظر میں کیوں قابل ذکر ٹھہرا۔ اس کی اہمیت کیا ہے اور اس کی معنویت کیا ہے۔ ایسے فکشن میں مصنف کا ذہن اور اس کے ذہنی اعمال ہی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ ایسے فکشن میں فکشن کی اہمیت اس کی پیشکش سے نہیں جوڑی جاتی ہرچند کہ پیشکش کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہوتی ہے۔ ایسا فکشن ایک طرح کی دریافت کی مہم ہوتا ہے۔ یہاں مصنف اپنی دریافت کو حقیقت تو کہتا ہے لیکن اس کو خیال کی طرح ایک حاصل شدہ اور آزمائی ہوئی شئے کے طور پر پیش نہیں کرتا۔ اس میں وہ تخلیقی لچک ہوتی ہے جو حقیقت کو اس کے بدلتے رنگوں کے ساتھ قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اس کے برعکس خیال والے فکشن میں حقیقت ایک ٹھوس شکل میں سامنے آتی ہے جو حقیقت کی حقیقی تصویر نہیں ہوتی بلکہ اس کی یک رخی تصویر محض ہوتی ہے۔

(6) قاری فکشن کی اپنی جانکاری کی روشنی میں تصدیق کرتا ہے۔ اور اسی کی روشنی میں وہ فکشن کے حقیقی ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ تبصروں میں اکثر یہ پہلو آتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ قاری کے ذہن میں سماج کے مختلف افراد اور دنیا کی بہت سی چیزوں مثلاً جگہوں، اداروں وغیرہ کی فطرت کے بارے میں ایک خاص تصور ہوتا ہے۔ اگر فکشن میں اس سے مختلف بات آتی ہے تو قاری اسے قبول نہیں کرتا۔ اس بات کی مصنف کو جانکاری ہونی چاہئے۔

(7) حقیقت کی واضح اور بامعنی پیشکش۔ جس سے ایک نیا، ضروری یا کارآمد معنی ابھر کر سامنے آئے۔ اگر یہ عمل کی شکل میں آئے تو اور اچھا ہے کیونکہ اس سے اس بات کے مختلف پہلو ابھر کر سامے آتے ہیں۔

(8) زبان حقیقت کی سچی عکاس ہو اور اپنے مروجہ مفہوم سے معنی کی ترسیل میں گمراہی کی فضا نہ قائم کرے۔

(9) جس نقطہ نظر سے حقیقت کو دیکھا گیا ہے اس نقطہ نظر کو ٹھیک سے قائم کیا جائے تاکہ قاری وہیں کھڑے ہو کر چیزوں کو دیکھ سکے۔

(10) نئی حقیقتوں سے سب سے شدید ٹکراؤ اخلاقیات کا ہوتا ہے۔ کسی ناپسندیدہ کردار کو دیکھنے کے مصنف کے نقطہ نظر کو ممکن ہے کہ قاری قبول نہ کرے کیونکہ ایسا کرنے میں اسے یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ نقطہ نظر جو اس کے اخلاقی نقطہ نظر سے مختلف ہے اس کے شعور کا حصہ نہ بن جائے۔

(11) تحریر میں جہاں کہیں بھی صورتحال قاری کے مفاد کے خلاف دکھائی دیتی ہے وہاں قاری تحریر یا تحریر کے متعلقہ حصے کو پڑھتے ہی اپنے مفاد کے تئیں الرٹ ہو جاتا ہے اور اس کے اندر ایک ہنگامہ سا پیدا ہو جاتا ہے۔

(12) حقیقت اپنی جگہ لاکھ اہم اور ضروری صحیح لیکن قاری کی توقع یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اس طرح اس کے سامنے آئے کہ وہ اسے سمجھ سکے۔ اس سلسلے میں بیان میں سلاست اور مانوس زبان کی توقع کی جاتی ہے۔

(13) یہ درست ہے کہ مصنف کسی بات کو اسی لئے لکھتا ہے کہ وہ اہم ہے لیکن اس کی اہمیت کو قاری پر بھی واضح کرنا ضروری ہے۔

(14) فکشن کی حقیقتیں کردار اور ان کے اعمال اور ماحول اور واقعات کی صورت میں ہی سامنے آتی ہیں اس لئے فکشن میں کردار نگاری، واقعہ نگاری اور منظر نگاری کا حسب ضرورت استعمال ہونا چاہئے۔

(15) ان تمام باتوں کے اشتراک سے فکشن کا بیانیہ بنتا ہے۔

(16) اس کے ساتھ ہی فکشن نگار قاری کے ذہن تک حقیقت کو پہنچانے کے لئے قاری کے اندر اس حقیقت کے تئیں مختلف طریقوں سے دلچسپیاں بھی پیدا کرتا ہے جیسے سوال اٹھا کر، تجسس پیدا کر کے اور حقیقت کو قدرے سجا کر لیکن سجانے کا عمل وہیں تک ہونا چاہئے جہاں تک حقیقت کی تصویر بدلے نہیں کیونکہ اس کی تصویر بدلتے ہی وہ حقیقت نہیں رہ جائے گی اور تحریر کی صداقت ختم ہو جائے گی۔ مقبول اور تفریحی فکشن اکثر یہاں حقیقت سے انحراف کرتے ہیں اور حقیقت کا شائبہ پیدا کرتے ہوئے بھی ایک غیر حقیقی دنیا کی تعمیر کرتے ہیں۔

میں نے جس دوسری قسم کے فکشن کا ذکر کیا ہے اس میں فکشن میں ہمارے اپنے تجربے میں آئے ہوئے انسان ہی کردار بن جاتے ہیں اور درمیان میں روایتی ناول کا ماڈل کردار حائل نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے یہ فکشن روایتی فکشن سے یکسر مختلف نوعیت کی چیز ہے۔

افسانے میں بھی اس طرز کا فکشن روایتی افسانے سے الگ ہو گا۔ اور اس کی قدر و قیمت کرداروں کے تجزیہ سے نہیں بلکہ کرداروں کی موجودگی سے اٹھائے گئے سوالات سے قائم ہو گی کیونکہ یہاں کردار اخلاقی ماڈل کے طور پر پیش نہیں کئے جاتے بلکہ وہ اپنے وجود کی اہمیت کی وجہ سے فوکس میں آتے ہیں۔ ان کی حرکتیں اور نفسیات عجیب و غریب ہو سکتی ہیں۔ ان کا ایسا ہونا ہی مصنف کی توجہ کو کھینچتا ہے۔ اور مصنف یہ چاہتا ہے کہ اس کا قاری بھی اس کو اسی دلچسپی سے دکھے اور اپنے طور پر ری۔ایکٹ کرے۔ اور اس کے لئے وہ مصنف کا دست نگر نہیں رہے بلکہ اپنی آزادی کو مکمل طور پر برقرار رکھے۔ ایسے افسانے قاری کے ذہن میں چپک تو سکتے ہیں اور اس پر چپکے رہنے کی وجہ سے اس کے تصور حقیقت کو تبدیل کرتے رہیں گے لیکن وہ قاری کے ذہن پر کسی واقعہ کی طرح اثر انداز ہو کر اس کی یاد داشت کی پہلی صف میں جگہ بنا لیں یہ ان کا مدعا اور مقصد نہیں ہوتا۔ یعنی جہاں روایتی افسانے امپیکٹ کا استعمال کرتے ہیں وہاں یہ فکشن امپیکٹ کو بنیادی اہمیت نہیں دیتا لیکن جہاں امپیکٹ قاری کی سوچ میں پست میں بیٹھا رہتا وہیں یہ فکشن قاری کے ذہن کے پورے منظر نامے کی از سر نو تخلیق کرتا ہے۔ اس طرح یہ فکشن قاری کے دماغ کو مکمل طور پر تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یہ فکشن حقیقت کے سمندر کو فوکس کرتا ہے محض اس کی لہروں اور گرداب کو نہیں۔ یہ فکشن صرف سمندر کے قابل توجہ اور ارجنٹ مظاہر پر نظر نہیں رکھتا بلکہ ذہن میں سمندر کی پوری نوعیت کی ایک تصویر بناتا ہے۔ یہ فکشن ایک بڑے اور وسیع حقیقت کو اپنا  ٹارگیٹ بناتا ہے۔

یہ فکشن انشائیہ نہیں ہے ، مضمون بھی نہیں ہے ، کیونکہ یہ زندگی کی کلی حقیقت کی عملی اور متحرک تصویر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہ حقیقت کی ہمہ وقت حرکت و عمل کو اتنی ہی دلچسپی سے دیکھتا ہے جتنی دلچسپی سے روایتی فکشن اس پر صرف تب نظر ڈالتا ہے جب وہ سر پر آ پڑتی ہے۔ فرق کوتاہ نظری اور دور اندیشی کی ہے۔ یہ فکشن بڑی بصیرت کا اوزار ہے۔ اور عموماً بڑے ذہن کا تقاضا کرتا ہے۔

عالمی اور ملکی سطح پر مختلف میدانہائے زندگی میں ہو رہی حرکتوں اور تبدیلیوں کی سچی پیش کش اسی فکشن سے ممکن ہے۔ اسی وجہ سے روایتی فکشن اس وقت ماند پڑنے لگتا ہے جب کسی عالمی نوعیت کی حقیقت کو پیش کرنے کا معاملہ درپیش آتا ہے (یہاں عالمی اور آفاقی میں فرق کرنا ضروری ہے )– عالمی سروکار عمومی حالات میں واقعاتی نوعیت کے نہیں ہوتے اور جب تک وہ واقعات کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اور بصیرت باسی ہو چکی ہوتی ہے۔ عالمی صورتحال کی چڑھتی ہوئی لہروں کو آخر کس طرح دکھایا جا سکتا ہے جبکہ ان کی شدت توجہ طلب ہوتی ہے۔ اس کے لئے پورے سمندر کو ایک حقیقت کے طور پر کینوس بنانا اور اس کی شکل و صورت کی عکاسی کرنا پہلی ضرورت ہو گی اور اگر ان کو عالمی افسانوی واقعات کی شکل میں پیش کیا جائے گا تو اس میں حقیقت بری طرح غیر حقیقی نوعیت اختیار کر جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

بڑے ناولوں کو پڑھنا۔۔۔ پیغام آفاقی

 

بڑے ناولوں کو پڑھنا اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہوتا ہے :

ہمارے ایک نوجوان ہونہار ناول نگار رحمان عباس نے ایک بڑی اچھی کتاب بعنوان ” اکیسویں صدی میں اردو ناول” شائع کی ہے جس میں چند معرکے کے مضامین ہیں اور ان کا پورا انداز بیان ان کی اس سچائی اور بے باکی کا مظہر ہے جو ایک تخلیقی فنکار کی شان ہوتی ہے۔ ان سے میں اس طرح کی مزید تحریروں کی توقع کرتا ہوں لیکن ساتھ ہی ان کو کچھ باتوں پر مزید غور کرنے کا مشورہ دینا بھی ضروری ہے۔

میرے ناول کے حوالے سے انہوں نے دو باتیں کہی ہیں جن پر میں ہرگز کوئی تبصرہ نہیں کرتا اگر یہ باتیں صرف میرے ناول سے متعلق ہوتیں لیکن یہ باتیں چونکہ خود ناول کے فن سے متعلق ہیں اس لئے ان پر روشنی ڈالنا ہی بہتر ہے۔

میرے ناول "پلیتہ” کے انداز بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ” پیغام آفاقی کا بیانیہ اس ناول کی طاقت ہے جو انتہائی باریک بینی سے انگریز سامراج کی فلسفیانہ بنیادوں میں دبی ہوئی غیر انسانی اخلاقیات کا پردہ فاش کرتا ہے۔۔۔۔۔ یہ سفاک حقیقت نگاری کے لئے درکار سفاک بیانیہ ہے۔ حالانکہ اس بیانیہ اسلوب کے ساتھ ایک مصیبت یہ ہوتی ہے کہ عام طور پر یہ قرأت کے سفر کو صحرا کا سفر بنا دیتے۔ ”

آگے ایک جگہ لکھتے ہیں ” واقعات نگاری اور خشک بیانی اس ناول کے پڑھنے والے کو امتحان میں ڈالتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوئی یہ امتحان کیوں دے ؟ ”

اب آئیے اس بات کا جواب تلاش کریں کہ یہ امتحان دینا کیوں ضروری ہے۔ ناول نگار دوران تحریر اپنے ناول میں مناسب ترین زاویئے سے زندگی کے اسرار کو کھول رہا ہوتا ہے۔ لکھتے وقت اس کی نظر میں ترسیل کا مقصد ضرور حاوی رہتا ہے لیکن حقیقت کی تصویر کی کتر بیونت کے ذریعہ ترسیل کو آسان بنانے کی کوشش کرنا خود اس حقیقت کو مسخ کرنے جیسا عمل ہوتا ہے جبکہ تصویر کو کامیابی سے پیش کرنا ہی ناول کا فن ہے۔ یہ تصویر ہی وہ شئے ہے جو قاری کے اندر زندگی کی بصیرت پیدا کرتی ہے۔ اس کے کساؤ، اس کی پیچیدگی، اس کی خشکی اور اس کے کڑوا پن وغیرہ کو کامیابی سے پیش کر کے قاری کو اس کی حقیقت اور فطرت کا مزہ چکھا دینا ہی ناول کے تجربے کی ترسیل ہے۔ جن لوگوں کو ایسے تجربات میں دلچسپی ہی نہ ہو ان کے لئے یہ ناول ہوتے ہی نہیں۔ چاول کو دکھانے کے لئے اس کو پلاؤ بنانا اور اسے ڈش کی طرح طشتری میں پیش کرنا تفریحی ناول کا فن ہے۔ حقیقی ناول اس طرح کا ڈش تب پیش کرے گا جب اسے پلاؤ کو ڈش کے طور پر دکھانا ہو۔ لیکن جہاں کھیتوں سے دھان حاصل کرنے سے لے کر چاول نکالنے اور ان کے درمیان سے کنکریوں کو چن کر نکالنے اور پھر اس سے پلاؤ بنا کر کھلانے کی پوری مشقت کی تصویر پیش کرنا مقصود ہو اور قاری کو یہ بتانا مقصود ہوک پلاؤ کی خوشبو کے پیچھے کتنی عرق ریزی درکار ہوتی ہے وہاں معاملہ کچھ اور ہو جاتا ہے۔ ناول کا فن یہ ہے کہ اگر وہ کسی جنگ کے واقعہ کو پیش کر رہا ہو تو ناول میں پیش کی گئی جنگ کی تصویر قاری کو جنگ کی اپنی اصل شکل یعنی مکمل اور ننگی حالت میں جنگ کا ایسا تجربہ کرا دے جو اس جنگ میں شامل کسی سپای کو ہوتا ہے۔ یہ ناول اس قاری کے لئے ہو گا جو جنگ کی حقیقت کو جاننا چاہتا ہو لیکن اسے کسی جنگ میں شریک ہو کر اس کو محسوس کرنے کا موقع نہیں ملا ہو۔ جنگ کو تفریح بنا کر پیش کرنا فلموں اور نو ٹنکی کا کام ہے۔ ناول سے ایسی توقع کرنا ناول کے فن کی عظمت کا مذاق بنانے جیسا ہے۔

اسی طرح دنیا کی اس حقیقت کو جاننے کے لئے جس میں صحرا کی کیفیت ہوتی ہے ناول کے شروع ہوتے ہی صحرا کی وسعتوں اور سنگلاخیوں کی کیفیت کا آغاز ہو جانا چاہئے۔ اپنے بستر پر لیٹے ہوئے ناول کو پڑھنا اور بات ہے لیکن اپنے ذہن کے اندر بھی سب کچھ بستر پر ہی پانے کی تمنا کرنا ایک ایسی سہل پسندی ہے جو ناول کے قاری کو خود قاری کے منصب سے نیچے اتار دیتی ہے۔ قاری کو اگر زندگی کے صحرا کو دیکھنا ہے تو اسے اس سفر کے لئے ذاتی طور پر آمادہ ہونا پڑے گا۔ اردو کے ناولوں نے سہل پسندی کی اس روایت کو مضبوط کر کے ناول کے لئے یہ لازمی شرط بٹھا رکھی ہے کہ اسے آسان ہونا چاہئے۔ یہ روایت تو ان داستان گویوں کی قائم کی ہوئی ہے جو کسی زمانے میں فلموں کی طرح تفریح طبع کا سامان مہیا کرنے کا پیشہ کرتے تھے۔ آج کا فکشن تو زندگی کو سمجھنے کے معاملے میں سائنس کا ہم پلہ ہے۔ اس لئے اس خیال کی ترویج کرنا کہ اچھا ناول وہ ہے جو آسان ہو در اصل ناول کے لئے ایک غلط معیار کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ بے شک آپ ناول نگاروں کے قبیلے سے تفریحی یا آسان ناولوں کی توقع کر سکتے ہیں جیسے فلم انڈسٹری سے تفریحی فلموں کی توقع کرتے ہیں لیکن کسی ناول کے سہل ہونے اور اس کے چٹپٹا ہونے کو ان ناولوں سے بہتر قرار دئے جانے کی دلیل سمجھنا جو ناول زندگی کے مشکل پہلوؤں سے الجھتے ہیں، تفریح کو بصیرت پر فوقیت دینے جیسا ہو گا جو صریحاً ناسمجھی ہے اور کسی فنکار یا ناقد کے قلم سے ایسی بات کے لکھے جانے کی توقع ہم قطعی نہیں کرتے۔ ناولوں کی دنیا میں سو دو سو یا ہزار دو ہزار ناولوں میں دو چار ناول ایسے بھی آئیں گے جو انتہائی مشکل ہوں گے اور جن کو محض زندگی کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے لکھے جانا اور پڑھے جانا چاہئے۔ ایک انگریز مفکر نے کہا ہے کہ کچھ کتابیں تفریح کے لئے پڑھی جاتی ہیں، کچھ محض معلومات کے لئے اور کچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں چبانا اور اچھی طرح ہضم کرنا ہماری ذہنی صحت اور توانائی کے لئے لازمی ہے۔ اسی لئے کچھ ناولوں کو زندگی کے مشکل نصاب کا ایک باب سمجھ کر پڑھنا ہی پڑے گا۔ یہ امتحان دینا یا نہ دینا اور اس میں کامیاب ہونے کی سند حاصل کرنا یا نہ کرنا قاری کی مرضی ہے لیکن کسی کے پڑھنے نہ پڑھنے سے اس سبق کی اہمیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جو سبق ایسے مشکل ناولوں میں موجود رہتا ہے۔

کچھ مغربی فنکاروں کا یہ خیال ہے کہ آرٹ زندگی کے غیر دلچسپ عناصر کو کاٹ کر صرف دلچسپ پہلوؤں کو پیش کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک کاروباری قسم کی بات ہے۔ یہ بات نہ صرف یہ کہ مطمئن نہیں کرتی بلکہ ناول کے فن کے معاملے میں زہر ہلاہل ہے۔ ناول کا کام زندگی کی بامعنی تصویر پیش کرنا ہے چاہے و دلچسپ ہو یا غیر دلچسپ اور ناول کو دلچسپ رکھنے کے لئے اس کی معنویت کی روشنی کا سہارا لینے کے بجائے چیزوں کی محض دلچسپ سطحی چیزوں کے انتخاب کو فنی مہارت کا معیار بنانا حقیقت کی تصویر کے ساتھ ایک بھونڈا کھلواڑ کرنے جیسا ہے۔

ناول نگار کا کمال زندگی کے مختلف پہلوؤں کی معنی خیزی کو دریافت کرنے میں ہے نہ کہ اپنی بصیرت کی کمی کی بنا پر کسی چیز کو غیر دلچسپ سمجھ کر نظر انداز کرنے میں۔ اگر کوئی شئے حقیقت کا حصہ ہے اور واقعتا ً غیر دلچسپ اور اکتا دینے والی ہے تو اس کی یہ منفی حیثیت اپنے آپ میں زندگی کی تصویر کا قابل غور پہلو ہے۔

بڑے یا مشکل ناولوں کو پڑھنے کے لئے انہیں ہاتھ میں لینے اور کھولنے سے پہلے اپنے ذہن کو اسی طرح سنجیدہ کر لینا ضروری ہوتا ہے جیسے معاشیات، سائنس یا ریاضی کی کسی کتاب کو پڑھنے کے لئے ذہن کو تیار کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی بڑا ناول نگار قارئین سے اپنے ناول کو پڑھے جانے پر اصرار نہیں کرتا۔ وہ جانتا ہے کہ جس حقیقت کو وہ پیش کر رہا ہے اس میں ہر ایک قاری کو اتنی دلچسپی نہیں ہو سکتی کہ وہ اسے پڑھے۔ زیادہ سے زیادہ قارئین کو مد نظر رکھتے ہوئے ناول کے فنی اقدار کو قربان کر کے پڑھوانے کی کوشش کمرشیل رائٹر کرتے ہیں۔ اگر آپ کسی سنجیدہ ناول کو اس سنجیدگی سے پڑھنے یا زندگی کو اس سنجیدگی سے سمجھنے پر آمادہ نہیں ہیں جس طرح اس ناول میں وہ پیش کی گئی ہے تو ایسے ناول کو نہ پڑھیں لیکن ایسے ناولوں کی ثقالت پر سوال اٹھانے سے بہتر ہے کہ خود اپنی ذہانت اور ادبی سروکار پر سوال قائم کریں۔

بڑے ناولوں کو پڑھنا اور سمجھنا اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 کیا پروپگنڈہ ہی در اصل قبائے افسانہ ہے ؟؟؟۔۔۔ پیغام آفاقی

 

پروپگنڈہ در اصل فکشن کی روح رواں اور اس کی پہچان ہے۔ کوئی بھی حقیقت چاہے وہ جزوی حقیقت ہو یا کلی حقیقت ہو اس وقت تک محض ایک علم یا خبر کی حیثیت رکھتی ہے جب تک وہ پروپگنڈہ کی حیثیت نہیں اختیار کرتی۔ایسی افسانوی تحریر جو پروپگنڈہ ہونے کے وصف سے خالی ہوتی ہے ایک بے جان سچ دکھائی دیتی ہے۔ افسانوی تحریر میں پروپگنڈا افسانہ نگار کی نیت اور پیش کش کے مقصد سی پیدا ہوتی ہے۔ جب افسانہ نگار محسوس کرتا ہے کہ جس صداقت کا اس کو عرفان ہوا ہے اس کو لوگوں تک پہنچنا چاہئے تو وہ اس مقصد کے لئے قلم اٹھاتا ہے اور اس صداقت کو ان تمام لوازمات سے لیس کر کے پیش کرتا ہے جو اس صداقت کو کامیابی کے ساتھ قارئین کے ذہن میں ان کی اپنی دریافت کے طور پر ثبت کر دے۔ فکشن کی ساری لوازمات جیسے ایک پرکشش آغاز، منظر نگاری، کردار نگاری، ماجرا، جذبات کی عکاسی، تجسس، قوت بیان، زبان، ، فلسفہ اور وحدت تاثر صداقت کی ترسیل کے اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں گویا وہ ایک روکٹ لانچر اور راکٹ ہوتے ہیں جو اپنے اندر رکھے ہوئے صداقت کو نشانے تک پہچانے کا کام انجام دیں گے۔ اس صداقت سے افسانہ نگار کی یہ امید وابستہ ہوتی ہے کہ اپنی متعینہ جگہ پر پہنچنے کے بعد یہ صداقت اپنے اطراف کو متاثر کرے گی۔ گویا افسانہ افسانہ نگار کا ایک عمل ہوتا ہے اور اس عمل کا مقصد کسی مطلوبہ نتیجے کا حصول ہے۔

جو افسانہ پروپگنڈہ کے اس خاصے سے خالی ہوتا ہے وہ ایک بے راہ رو اور خلا میں بھٹکتی ہوئی ایک ایسی شئے کی مانند دکھائی دیتا ہے جس کے اڑنے کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا۔ آپ کو جو افسانے بہت پسند آتے ہیں اور جن افسانوں کو درسی کتاب کے کسی سبق کی طرح پڑھنا پڑتا ہے ان کے درمیان یہ فرق صاف طور پر دکھائی دیتا ہے۔ کوئی افسانہ کیوں لکھتا ہے یا کوئی افسانہ کیوں پڑھے اس کی وجہ افسانے کی اس خصوصیت میں مضمر ہے۔

افسانہ نگاری کی شکل میں پروپگنڈہ افسانہ نگار کا وہ عمل ہے جس سے وہ دنیا کے ذہنوں کو بیدار کرتا ہے۔ پروپگنڈہ کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے ذہنوں کو جھنجوڑ دے ، دلوں کو ہلا دے ، روحوں کو لرزا دے ، فکری عمل کو بیقرار کر دے ، خیالات کو تبدیل کر دے ، توجہ کو مرکوز کر دے ، عمل کی خواہش کو مہمیز کرے اور سوتے ہوئے لوگوں کو میدان جنگ میں اتار دے۔ پروپگنڈہ ایک انتہائی طاقتور اور اس لحاظ سے مفید یا خطرناک ہتھیار ہے۔ اور صداقت کی توانائی سے دنیا کو تبدیل کرتا ہے۔

افسانہ نعرہ نہیں ہے لیکن ہر افسانہ کے اندر ایک نعرہ موجود ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کے افسانوی پروپگنڈہ کی انفرادیت یہ ہوتی ہے کہ اس کی صداقت سیاسی، تاجرانہ، مذہبی اور نظریاتی پروپگنڈہ کی طرح صداقت مستعار لی ہوئی نہیں ہوتی اور یہ صرف اور صرف افسانہ نگار کی دریافت شدہ صداقت کو ہی پیش کرتا ہے۔یہ پروپگنڈہ اس کی اپنے دریافت اور اس کی اپنی باتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ لیکن افسانہ نگار کسی اور ماخذ سے بھی کسی منجمد صداقت کو اٹھا کر اسے فعال بنا سکتا ہے۔ اس کا انحصار افسانہ نگار کی معاشرہ کا احتساب کرتی ہوئی اس نگاہ پر ہے کہ کسی ابھرتی ہوئی ضرورت کے مد نظر کسی منجمد صداقت کو کے استعمال کی ضرورت محسوس کرے۔

اگر افسانہ نگار محض ایک خبر رساں یا عالم کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں خبریں اپلوڈ کرتا ہے تو اس کے افسانے میں وہی خشکی محسوس ہو گی جو کورس کی یا علمی کتابوں میں محسوس ہوتی ہے اور ایسے افسانے صرف ایسے چند ذہنوں کی دلچسپی کا سامان بن کر رہ جائیں گے علم کو برائے علم بٹورتے ہیں۔ ایسے افسانے بھی بیجوں کی طرح مناسب موسم اور زمین ملنے پر پودوں کی شکل میں اگ آتے ہیں لیکن افسانہ نگار کو مناسب موسم کا انتظار کرنا ہو گا۔البتہ موسم آنے پر ان افسانوں کی صداقت بھی پروپگنڈہ کی مشین سے ہی اڑان بھرے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

وقت کا تخلیقی تصور اور آج کا اردو فکشن

 

تصور کائنات میں وقت کی اہمیت اور عظمت وقت کے دو پہلوؤں کی وجہ سے قائم ہوتی ہے۔ وقت کا ایک تسلیم شدہ کردار یہ ہے کہ وہ نئی چیزوں کو جنم دیتا ہے۔ اور اس کا دوسرا کردار یہ ہے کہ وہ چیزوں کو جنم اور موت کے دائرے میں قید کر کے پیدا کرتا ہے۔ اس طرح جہاں وہ خالق کی طرح دکھائی دیتا ہے وہیں قادر مطلق بھی نظر آتا ہے حالانکہ اس کا اپنا کوئی وجود ہی نہیں اور یہ محض کائنات کی ایک خصوصیت ہے۔ یہ کائنات تبدیلی مسلسل کے سفر میں ہے اور یہ سفر ہی ہمارے سامنے وقت کی شکل میں ابھرتا ہے۔ چیزوں کی تبدیلی کا ہی نام وقت ہے اور یہ اپنے آپ میں کوئی شئے یا قوت نہیں ہے۔ ہم وقت کی ابد سے ازل کی دوری اور اس کی قرنوں، صدیوں، برسوں، منٹوں اور سکنڈوں کی یونٹ میں اس متحرک کائنات کی حرکت کی شکل میں ہی دیکھ سکتے ہیں۔ کائنات کی ہر چیز کائنات کی اس اندرونی تبدیلی کے عمل سے بندھی ہوئی ہے اور کائنات کے کسی بھی گوشے میں ہو رہی کوئی بھی حرکت چاہے اس کا محرک اشیا میں موجود خصوصیات ہوں یا انسانی ارادے سب وقت کا حصہ ہیں اور کائنات کے کسی بھی حصے میں ہو رہی تبدیلی کائنات ان تمام قوتوں کو ایک توازن کی شکل میں ہم آہنگ کر کے رکھتی ہے

 

                فطری اور ارادی وقت

 

اس طرح ہم وقت کو دو مخصوص قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک وہ جو انسانی ارادے سے باہر ہیں اور ایک خود انسانی ارادے۔ اس طرح انسانی وجود کی قوتیں ارادے کی حد تک وقت کی پہلی قسم سے آزاد ہیں۔ لہذاجس طرح زمین پر اگائی جانے والی کھیتیوں کی قسمیں انسانی اختیار میں ہونے کی وجہ سے غیر انسانی وقت کی قید سے آزاد ہیں یعنی ان کی مسافتیں تو طے ہیں لیکن اس سفر کی نوعیت اور ہیت انسان طے کرتا ہے اور انسانی ضرورتیں طے کرتی ہیں اسی طرح جن انسانوں میں زندگی کی کھیتی میں کوئی فصل اگانے کی خواہش اور امنگ ہوتی ہے وہ وقت کو ایک سرچشمہ حیات اور اور ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں اور جن کے حوصلے پست ہوتے ہیں وہ وقت کو مشکلات کے مداوا اور ایک تباہ کن طاقت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وقت کو سب سے بڑا مسیحا مانا گیا ہے کیونکہ وقت صرف اچھی چیزوں کو نہیں بدلتا بلکہ بری چیزوں کو بھی مٹاتا ہے۔ وقت یعنی کائنات کے بدلنے کو ایک ایسی قوت بھی مانا گیا ہے جوان تاناشاہوں کو ختم کرتا ہے جو اتنی قوت حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کو مٹانے کی ہر انسانی کوشش بیکار ثابت ہو جاتی ہے۔ ان تانا شاہوں کو ختم کرنے والا وقت انسانوں کے لئے آزادی کی نئی راہیں کھولتا ہے۔ انسانی دانشوری کے لئے وقت کی ان اقسام اور خصوصیات کا ادراک اور فہم لازمی ہے۔ اس کے بنا کسی انسان کی سوچ معتبر ہوہی نہیں سکتی۔ اس لئے ہمارا یہ جاننا بہت اہم ہے کہ وقت اپنے دو رنگی بادلوں سے ہماری زندگی میں تخریب اور تعمیر کی قوتوں کی مسلسل بارش کرتا رہتا ہے اور ہم خود بھی برسنے والے بادلوں کا حصہ ہیں اور کبھی کبھی ہم بادلوں کو اپنی من چاہی سمت میں بھی لے جا سکتے ہیں کیونکہ وہ کوئی شئے نہیں بلکہ صرف بدلنے کی قوت کا چشمہ ہے۔ جس طرح سمندر کا جہاز مسلسل پانی کی لہروں پر چلتا ہے اسی طرح دنیا کی ہر شے موسموں کے سائے میں ابھرتی ہے اور ڈوبتی ہے۔

 

                وقت کی دوربینی اور خورد  بینی حقیقت

 

وقت کی اس حقیقت کی عکاسی ہر ناول میں ہوتی ہے۔ کہیں یہ عکاسی دوربینی ہوتی ہے اور کہیں خورد بینی۔ دور بینی عکاسی خوربینی عکاسی سے نسبتا آسان ہے۔ کیونکہ اس میں تجزیہ کی ضرورت برائے نام ہوتی ہے۔ لیکن خوردبینی تجزیہ اتنا مشکل، پیچیدہ اور ملائم ہوتا ہے کہ وقت کا جس قدر خورد بینی تجزیہ کرنا درکار ہو گا اسی قدر زیادہ تخلیقی صلاحیت درکار ہو گی۔ یہ بتانا کہ دنیا میں بڑی بڑی تہذیبیں کب پیدا ہوئیں، کب ختم ہوئیں بہت آسان ہے لیکن اپنے آس پاس کی زندگی میں اور خود ایک فرد کی زندگی میں وقت جو کر رہا ہے اس کی ترجمانی ایک مشکل کام ہے۔ اس کا عمل ایک فرد کی زندگی میں کہاں تعمیری ہے اور کہاں تخریبی ہے یہ بتانا انسان کی عقل اور اس کے فہم سے ماورا بات لگتی ہے اور اسی صلاحیت کو حاصل کر لینے کا نام دانشوری ہے۔ اس لئے کسی ناول کی عظمت اس سے طے ہو گی کہ اس نے وقت کے عمل کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے میں اپنے کردار کی کتنی مدد کی اور اس کے اندر دانشوری کے کتنی صفات پیدا کئے۔ اس خوبی کو ناول میں پیدا کرنے کے لئے تخلیق کار کے اندر ایک ایسی پینی نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے جو سماجی قوتوں کی لہروں، گنگناہٹوں، آہٹوں اور چیزوں کا افراد کے جسمانی، سماجی، جذباتی، اعصابی اور مجموعی اشاروں کے ذریعے معروضی انداز میں قیاس لگا سکے اور اسے نثری زبان کے کیمرے میں قید کرے۔ جہاں وقت کے بڑے دائروں کو شاعرانہ زبان میں عروج و زوال، اقدار کے زوال، ناسٹیلجیا اور تصوفانہ تھیوریز کے ذریعہ بیان کیا جا سکتا ہے وہیں لمحہ لمحہ انسانی زندگی میں داخل ہوتے ہوئے وقت کی زہریلی لہروں کو چھوٹ چھوٹے انسانی کرداروں کی زندگی کی کشمکش اور اس کے سماجی سیاق و سباق میں رکھ کر ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔

 

                فکشن نگار اور وقت

 

اس بات کو یہاں واضح کرنا ضروری ہے کہ جہاں رہبانیت کی راہ سے ہوتے ہوئے تصوف کے منازل طے کر کے در اصل انسان زندگی کی پیچیدگیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے وہیں فکشن رائٹر زندگی کی پیچیدگیوں سے آنکھ ملا کر اسے غور سے دیکھتے ہوئے ان پیچیدگیوں کو سلجھا کر جو بصیرت حاصل کرتا ہے اس سے وہ اپنی اور اپنے قارئین کی بے خوفی کی منزل تک پہنچتا ہے۔ اور یہاں وہ رہبانیت کی عین متضاد سمت میں جا کر وقت کے سنگلاخ چٹانوں اور پہاڑیوں اور جنگلوں کو کھیتی کے لائق بناتا ہے۔ جرات اور محنت کے اس راستے پر آگے چلنے والے زندگی کے لئے نئی گنجائشیں پیدا کرتے ہیں۔ جدید فکشن نگاری کا نصب العین بھی یہی ہے چاہے وہ ٹالسٹائے ہو، کافکا ہو یا جیمس جوائس ہو، ان میں سے کسی کی بھی تحریر شاعرانہ کھڑکیوں سے نہیں جھانکتی نہ اس کا استعمال کرتی ہے۔ یا تو وہ کمرے میں جھانکتی ہے یا دروازے سے باہر نکل کر ان اشیا کے قریب پہنچتی ہے جو دور سے یک سطحی نظارہ دلفریب یا نظارہ قیامت پیش کرتی ہیں۔

 

اس طرح جہاں خورد بینی نگاہ انسان کو وقت کی سواری کرنا سکھاتی ہے وہاں دوربینی نگاہ زندگی کے سفر کا حوصلہ نہ رکھنے والوں کو وقت کے نام پر اپنے دیوالیہ پن کو زندگی کی ایک ناگزیر شکل کے طور پر پیش کر کے اس کے ذریعہ تسکین مہیا کرتی ہے۔ اس طرح سہل پسند نگاہیں وقت کے خورد بینی عمل سے دوربینی عمل کی طرف بھاگتی ہیں۔ اور تخلیقی نگاہیں دوربینی عمل کو خورد بینی باریکی سے دیکھتی ہیں۔ دنیا چونکہ انسانی زندگی میں مسلسل مقابلہ آرائی پر آمادہ ہے اس لئے بحیثیت مجموعی دنیا (پچھلی کئی صدیوں کی تاریخ ہمارے سامنے ہے ) دور بینی تجزیہ وقت سے خورد بینی تجزیہ وقت کی راہ پر گامزن ہے۔ یورپ کی تاریخ کا تو یہ حال رہا ہے کہ تخلیقی ذہن اسی خورد بینی تجزیہ کی بدولت سائنسی اور ایجاداتی تاریخ کو مالا مال کرتی رہی ہے۔ ہندوستان میں سر سید نے سائنٹفک سوسائٹی کا قیام اسی مقصد سے کیا تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے یہاں پورا تہذیبی رویہ دوربینی تجزیہ کی حمایت کرتا ہے۔ اور اس کو یہاں فکری نظام میں فضیلت حاصل ہے۔ عالم یہ ہے کہ نتیجے کے طور پر یہ رویہ قبول عام ہے کہ اگر خورد  بینی مغرب اپنے مال میں مست ہے تو ہم اپنے دور بینی رویہ کی وجہہ سے اپنی کھال میں مست ہیں۔

 

انسانی زندگی کی تربیت میں ادب کا اولین رول ہے۔ اور اس پر بحث کرنا بے حد ضروری ہے کہ اپنے عہد اور اپنے آس پاس کی زندگی کو اپنی تخلیقی فکر کا موضوع بنانا زیادہ اہم ہے یا چھت پر چڑھ کر، خانقاہ میں جا کر، آنکھیں بند کر کے ایسے تصورات کو اپنی فکر کی بنیاد بنانا زیادہ اہم ہے جو ہم عصر زندگی کی اذیتوں پر ٹھنڈی ہوا کا پنکھا جھل کر ہمیں آرام کا جھوٹا احساس کرائے۔

 

اردو فکشن کا نیا ذہن گھریلو، معاشرتی اور سیاسی زندگی کے منجدھار میں رہتا ہے۔ اور فرار سے زیادہ اپنی زندگی کی پیچیدگیوں میں جھانک کر اس میں موجود سانپ بچھوؤں سے آنکھ مچولی کرنے کو فوقیت دیتا ہے۔ آج کا فکشن خورد بینی وقت یعنی لمحہ لمحہ الجھتی اور بدلتی زندگی کے پیٹرن کو سمجھنے پر آمادہ ہے جسے سکنڈ سکنڈ زندگی اور مہینوں اور برسوں کی زندگی میں دیکھا جا سکے تاکہ لمحہ موجود کے نظام شمسی میں صدیوں کا بھی جائزہ معروضی تناسب میں دیکھا جا سکے۔ کیونکہ کوئی بھی چیز ماضی بعید میں موجود نہیں ہے بلکہ پورا ماضی حال کے ہر لمحے میں اپنی جگہ موجود ہے۔ حال کے لمحے میں وہ جس شکل اور کردار میں موجود ہے وہی اس کی اصل معنویت ہے۔

 

                فکشن نگاری اور فکشن میں وقت ایک اہم پہلو

 

ہمیں یہ تجزیہ کرنا چاہئے کہ ہمارے ناول نگاروں نے ناول لکھتے وقت اپنے حال کے لمحوں کو ان چھوٹے یونٹوں میں بانٹ کر ان کا خورد بینی جائزہ کس حد تک لیا۔ اور اس جائزے میں انہوں نے اپنے زمانے کو وقت کی دوربینی نگاہ سے دیکھا یا خورد بینی نگاہ سے۔

مطالعے کے لئے ناول کے معیار اور ماڈل کو طے کرتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے کہ آیا ناول نگار زندگی کی چھوٹی گولائیوں کو دیکھ رہا تھا ؟ ایک ماہر نباتات صرف پیڑوں کہ نہیں دیکھتا بلکہ پیڑوں کے ریشوں کو دیکھ کر کروموزوم میں موجود ہزاروں سال کے اثرات کا

مطالعہ کرتا ہے۔ اور نتیجے کے طور پر وہ ایسی حقیقت تک پہنچ جاتا ہے جہاں اس پر بایو ٹیکنالوجی کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ انسانی زندگی کی حقیقتوں تک پہنچنے کے لئے تہذیبوں کے بڑے بڑے پیڑوں، ان پر آنے والی بہاروں اور خزاؤں کا شاعرانہ نظارہ کرنے کے بجائے موجود زندگی کے افراد کا باریک ترین تجزیہ ہی فکشن کو زندگی کے لئے اہم بنا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ مطالعہ چشم دید گواہی جیسا اعتبار رکھتا ہے۔ در اصل ہمیں اپنے کچھ ناولوں کو فکشن کی تخلیقی منطق کی بنیاد پر داستانوں کے خانے میں ڈال دینا چاہئے کیونکہ شعری انداز بیان، تہذیبی عناصر اور گمشدہ قدروں کی نمائندگی کی بنیاد پر وہ بھی ہمارے ادب کا حصہ ہیں لیکن ہمارے جو ناول نگار تہذیبی المیوں کے ڈرامائی اثر میں دلچسپی رکھتے ہیں اور کسی بھی اعتبار سے رتن ناتھ سرشار کی دنیا میں لے جاتے ہیں، مصوری، موسیقی، مرثیہ گوئی، رزمیہ گوئی، رومانس اور شاعری جیسے فنون لطیفہ کا جائزہ لینے کو فکشن کہتے ہیں یا وقت کی ستم گری کے خورد بینی تجزیہ سے بچتے ہیں اور اس کا دوربینی نظارہ کرتے ہیں انہیں فکشن کی بنیادی منطق کا علم و شعور نہیں ہے۔ فکشن لکھنے کے لئے موجودہ زندگی کے خورد بینی مطالعہ کی اہمیت پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ خورد بینی مطالعہ خود ماضی کے دیو پیکر واقعات کی اس طرح ازسر نو چھان بین اور تول شروع کر دیتا ہے جو ماضی کے خوشنما مناظر کا پول کھول دیتا ہے۔ سچا فکشن زندگی کے دھند کو ختم کرتا ہے۔ جھوٹے فکشن کا اختتام دھند میں ہوتا ہے۔ فکشن نگار کے لئے اپنے تجربے اور تجزئے کے نتائج کا چشم دید گواہ ہونا لازمی ہے۔ فلسفی اور فکشن نگار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ فلسفی ادھوری سچائیوں کو سچ کا درجہ دیتا ہے، شاعر بھی یہی کرتا ہے لیکن فکشن نگار کا سچ پورا سچ ہوتا ہے۔ اسی لئے خورد بیں فکشن دور بیں فکشن سے زیادہ اہم اور عظیم تر ہے۔

ہماری داستانی اور رومانی سوچ تہذیب کے بڑے بڑے گارڈن ضرور دکھاتی ہے لیکن یہ ایک طرح سے تفریح زیادہ کراتی ہے اور بصیرت کو روشنی کم دیتی ہے۔ یہ ان کے زوال پر ماتم بھی کرتی ہے۔ وقت کے استبداد کا شکوہ بھی کرتی ہے۔ لیکن یہ بتانا بھول جاتی ہے کہ اسی وقت نے غیر مہذب انسان کو تہذیب کے استبداد سے آزاد بھی کرایا ہے۔ آج پوری دنیا اس آزادی کی طرف بھاگ رہی ہے اور اسی کے ساتھ نئی تہذیبیں دنیا پر حاوی ہونا چاہتی ہیں۔ موجودہ ہندوستان میں کئی اعتبار سے بگڑتی ہوئی صورتحال اور کئی اعتبار سے انسانی آبادی کے لئے تہذیب کے محبوس قلعوں میں کھلتی ہوئی کھڑکیاں اور عالمی سطح پر تہذیبوں کے ٹکراؤ سے غیر مہذب انسان کی ملنے والی وہ آزادی جو اسے زندگی کا جشن منانے کا موقع دے رہی ہے، وقت کے ایک نئے دائرے کا انکشاف کر رہی ہے۔ اس نئے دائرے کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ وقت کے اس فرسودہ تصور کو جو صدیوں اور قرنوں تک جائز رہا ہے اس تیزی سے بدلتے ہوئے اور پوری دنیا کو ایک چھوٹا دائرہ بنانے والے زمانے میں رد کر کے اس کا از سر نو انکشاف کیا جائے اور فکشن اس کے لئے ایک نئے مزاج کو ہموار کرے۔

 

فلسفی کی نگاہ سے دیکھیں تو وقت ایک بہتا ہوا، چنگھاڑتا ہوا دریا ہے، حقیقت بیں کی نگاہ سے دیکھیں تو وقت شیشے کی کرچیوں اور گولائیوں میں ڈھلے پتھروں کا ایک مرکب ہے جس پر چلنے کے لئے انتہائی خورد بیں نظر کی ضرورت ہے۔ انسان بار بار ان کرچیوں سے نظر چرانے  کے لئے زندگی کے دور بینی نقطہ نگاہ کا سہارا لے کر اپنے کو اندھا کرنا چاہتا ہے۔ وقت کے دریائی تصور کا افیم پی کر اپنے پیروں کے درد کو نظر انداز کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے بچے چیخ چیخ کر روتے ہیں اور اس کی نگاہ توجہ کو اپنی طرف موڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو اتنے بے حس نہیں کہ اس آواز کو اپنے بلند بانگ فلسفے میں ضم کر سکیں وہ ان بچوں کی نگاہ سے وقت کی چمڑی پر چلنے کے آلے اور سواریاں ایجاد کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اس زمین پر، جس پر انسان پیدا ہوا ہے، جینے کے ساز و سامان پیدا کرتے ہیں۔ رہبانیت کی طرح فلسفہ ہیچ ہے اس میکانکی علم کے سامنے جو مسائل کو حل کرتی ہے۔ فلسفے زخمی انسان کو صرف بے ہوش کرتے ہیں۔ تخلیقیت اس زخم کو مندمل کرتی ہے۔ زندگی کو خورد بینی نگاہ سے دیکھنے کا ہی دوسرا نام انسانیت ہے۔ زخموں کے باوجود بڑی خوشیوں کا احساس افیم کے نشے میں ڈوبے رہنے کا نام ہے۔ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹ چھوٹے دکھ ہی زندگی کی اینٹ ہیں۔ دور کے ڈھول سہانے ضرور ہوتے ہیں لیکن وہ انسان کی کم نگاہی کا ثبوت ہیں۔ چاند اور سورج کو خوبصورت سمجھنے والے اس مسافر کی طرح ہیں جو آدم خور درختوں کے سائے میں پہنچ کر لمبی سانس لیتے ہوئے اطمینان کی ہوا کے جھونکوں میں اپنا پسینہ خشک کرتے ہیں اور رومانی شاعری کرتے ہیں اور اگلے ہی لمحہ آدم خور پیڑ کی غذا بن جاتے ہیں۔ جو برفیلی وادیوں کو جنت کی وادیاں سمجھتے ہیں ان فلسفیوں سے وہ کتیا اچھی ہے جو اپنے بچوں پر حملہ کرنے والوں پر غراتی ہے اور اپنی جان پر کھیل کر دشمن سے لڑ پڑتی ہے۔ کامیاب ہیں وہ لوگ جو ایک ذرے سے لے کر کائنات تک سب کو خورد بینی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بے خبری کی مستیوں کا لطف لینا ہمارا نہیں نوجوانوں اور بچوں کا حق ہے۔ ان کو کھلی وادیوں میں چھوڑو تاکہ ان کے ذہن کے دریچے وا ہوں۔ لیکن خود ہوشیار رہو۔ آسمانوں کی بلندیوں پر اڑنے والے گدھ زمین پر پڑے ہوئے ذروں کو دیکھ لیتے ہیں۔ پرواز کی سیرابی دانشمندوں کو کم نگاہ نہیں بناتی۔ اس کی سوچ کا مرکز وسیع آسمانوں کی وادیاں نہیں ہوتیں۔ بلکہ وہ ذرے ہوتے ہیں جو لامتناہی تعداد میں اس کے زیر نظر پھیلے ہوتے ہیں۔ مقصد پرواز فرار اور اطمینان نہیں بلکہ انتخاب اور ایجاد ہے۔ خوبصورت وادیوں کے رومان کا اصل مقصد رومانی جوڑے کو بستر کی گہرائی میں اتارنا اور ذروں سے آفتاب پیدا کرنا ہے۔

آپ وسیع تر دنیا اور تاریخ اور انسانوں کے دل و دماغ کو کسی وسیع تناظر کے فلسفیانہ کینوس سے نہیں جان سکتے۔ بلکہ صرف قوت ہمدردی و ہم نفسی کے ذریعے ہی انسانیت کی وسیع ترین سرحدوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور کائنات اور انسان کی تقدیر کے معاملات کو تبھی جان سکتے ہیں جب تقدیر کا ایک ایسا معنی اخذ کریں جس کی پیمائش شمسی وقت سے نہیں بلکہ انسانی سکھوں اور دکھوں کے زیر و بم سے کی جائے۔ دانشوری کی عظمت انسانوں کو دور سے دیکھنے میں نہیں بلکہ قریب سے محسوس کرنے میں پنہاں ہے۔ ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ہلاکت کا حال چند لفظوں میں لکھنے والا مورخ ہوتا ہے۔ اور ایک انسان کی موت کا حال ہزاروں الفاظ میں لکھنے والا فنکار ہوتا ہے۔ انسانی دکھوں سے آشنا ہونے کے لئے فلسفے اور تاریخ کی نہیں بلکہ انسانی دکھوں سے آشنائی درکار ہوتی ہے۔ عظیم آوازیں وہ ہوتی ہیں جو انسانی زندگی کی پاسبانی کرتی ہیں۔

 

ناولوں اور افسانوں کے تجزیہ میں وقت کی اس جہت کو ٹٹولنا اور انسانی ارادے کے شعوری، لاشعوری اور تحت الشعوری سطحوں پر انسانی ارادے کو متاثر کرنے والے عناصر کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

٭٭

آخری مضمون کے علاوہ باقی مضامین ’سمت‘ کے پیغام آفاقی پر مبنی گوشے سے مستعار ہیں

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید