FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

بچّوں کے باباسائیں

 شکیل الرّحمن

 

 

               شعیب شمس

 

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

اماں سائیں کے نام

جو

باباسائیں کی آتما اور روح ہیں

اور ملک کے اُن تمام بچوں کے نام

جو ملک کے خوبصورت مستقبل کے لیے

جدوجہد کریں گے

 

شعیب شمس

 

 

 

 

بچّوں کے بابا سائیں ،  ڈاکٹر شکیل الرحمن

ہم سب کے بھی بابا سائیں بن گئے ہیں !

 

ہاں

اب تو وہ پورے دیش میں بابا سائیں کے نام سے مشہور ہو گئے ہیں۔دیش کے باہر بہت سے بچے انہیں اسی نام سے جانتے ہیں ، دنیا میں کئی ملکوں کے بچوں سے ا ن کی دوستی ہے۔جہاں جاتے ہیں جھٹ بچوں سے دوستی کر لیتے ہیں۔چین ، روس ، سعودی عرب، امریکہ ، کناڈا، نیپال، تاجکستان، ازبکستان، ترکمانیہ، پاکستان، بنگلہ دیش اور کئی ملکوں میں ان کے ننھے دوست موجود ہیں۔

انہوں نے ’’ بابا سائیں کی کہانیاں ‘‘ کے عنوان سے بچوں کے لیے درجن بھر کہانیاں لکھیں اور بچے کہنے لگے انہیں ___ بابا سائیں۔گوڑگاؤں میں ایک نئی کالونی ہے ساؤ تھ سِٹی، وہیں رہتے ہیں۔صبح سے شام تک اسکول جاتے ہوئے اسکول سے آتے ہوئے، بازار جاتے ہوئے، بازار سے آتے ہوئے، کھیلنے جاتے ہوئے، کھیل کر واپس آتے ہوئے چھوٹے بڑے بچے انہیں دیکھتے ہی نہایت ادب سے کہتے ہیں ’’نمستے باباسائیں ‘‘ ’’آداب باباسائیں ‘‘’’السلام علیکم باباسائیں ‘‘ ___اور بابا سائیں سب کو آشرواد دیتے ہیں ، دعائیں دیتے ہیں ، بچوں کا پیار دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چھلک آتے ہیں اور بچے بھی تو انہیں کم پیار نہیں کرتے۔

بچوں کے بابا سائیں

میرے آپ کے بابا سائیں ڈاکٹر شکیل الرحمن ۱۸؍ فروری۱۹۳۱ء کو موتی ہاری شہر میں جنمے۔ موتی ہاری، ضلع چمپارن میں ہے اور چمپارن ریاست بہار میں۔

لوہار پٹی محلے میں ’’ حویلی خان بہادر محمد جان ‘‘ میں ان کا جنم ہوا۔ان کے والد خان بہادر مولوی محمد جان مرحوم اپنے وقت کے ایک نامور وکیل گزرے ہیں۔ صوفیانہ مزاج رکھتے تھے، آخری وقت میں پھلواری شریف کے معروف صوفی بزرگ حضرت نعمت اللہ شاہ ؒ کے مرید ہو گئے تھے ، میرے آپ کے باباسائیں پر تصوف اور صوفیوں کاجو اثر ہے اس کا ایک سبب غالباً یہ بھی ہے۔ان کے نام سے پہلے محمد ان کے والد خان بہادر محمد جان کی دین ہے اور نام کے بعد ’رحمن، ان کے دادا حضور جناب عبدالرحمن کی دین!میں بھی موتی ہاری کا ہوں ، یہ شہر میر ا بھی وطن ہے ، میرے والد الحاج سید شاہ محمد مجیب صاحب مرحوم بھی صوفیانہ مزاج رکھتے تھے، بہت معروف شاعر تھے ، نعت گوئی میں اپنی مثال آپ تھے ، مجموعہ کلام ’’تخیلات شاہ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔’’حویلی خان بہادر محمد جان ‘‘ میں اکثر مشاعرے ہوتے جن میں میرے والد بھی شرکت کرتے، حویلی سے ہمارے گھریلو تعلقات تھے ، میرے آپ کے باباسائیں کی بہنیں اور میری بہنیں سہیلیاں تھیں ، خوب ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا، میں بہت چھوٹا تھا تب سے بابا سائیں کو شکیل بھائی کہتا تھا، عمر میں ان سے بہت چھوٹا تھا اس لیے جب حویلی جاتا یا شکیل بھائی آتے تو ہم بھائی بہن انہیں گھیر لیتے اور ان سے کہانیاں سنتے۔یاد نہیں بچپن میں ان سے کتنی کہانیاں سنی ہیں البتہ ایک کہانی ایسی ہے کہ جو اب تک ذہن میں رچی بسی ہوئی ہے۔ اسے کبھی بھولتا نہیں اور کبھی بھول بھی نہیں سکتا۔یہ کہانی آپ بچوں کو ضرور سناؤں گا۔

ہوا ایسا کہ ایک روز شکیل بھیّا ہم لوگوں کے گھر آئے، اس وقت تک ہم بھائی بہن کچھ بڑے ہو گئے تھے پھر بھی ہم نے انہیں گھیر لیا، اسی طرح جس طرح ان سے کہانیاں سننے کے لیے انہیں گھیر لیا کرتے تھے۔میں نے پوچھا’’ بھیا یہ تو بتائیے کہ ہم لوگوں کے شہر موتی ہاری کا نام موتی ہاری کیوں ہے ؟ یہ نام ہم سب کی سمجھ میں اب تک نہیں آیا۔میرے بھائی بہنوں نے بھی کہا ہاں ہاں ، سمجھائیے ہمیں ، اس شہر کا نام موتی ہاری کیوں ہے ؟‘‘

جانتے ہو بچو! ہمارے تمہارے بابا سائیں نے جھٹ ایک پیاری سی کہانی سنادی اور یہ کہانی ہم سب کے دل میں بیٹھ گئی۔

اُس وقت کے چھوٹے بابا سائیں نے کہا ’’شبو میاں (مجھے پیار سے شبو کہتے تھے ) یہ موتی ہاری نہیں ہے ’’موتی_ہری‘‘ ہے ، انگریزی میں موتی _ہری(Moti Hari) ہی لکھتے ہیں عوام کی زبان نے اسے موتی ہاری بنا دیا۔جانے کتنے جگ بیت گئے، جانے کتنی صدیاں گزر گئیں جب ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام ’موتی_ہری ، پڑا تھا۔یہ گاؤں اب ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر بن گیا ہے ،  پہلے تو یہ ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ اس وقت کے چھوٹے بابا سائیں اور ہم سب کے شکیل بھیّا نے کہانی کچھ اس طرح سنائی تھی۔

___ ’’یہ جو ایک چھوٹا سا شہر ہے نا جسے ہم سب موتی ہاری کہتے ہیں بہت کم آبادی والا ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، اس کا کوئی نام تو ہو گا لیکن آج کسی کو معلوم نہیں اس کا پہلا نام کیا تھا۔ اس گاؤں میں ایک جھیل تھی جو آج بھی موجود ہے اور اس گاؤں میں کھیتی باڑی کرنے کے لیے زمین کے کئی خطّے تھے ، ہوا ایسا شبو میاں کہ اچانک اس گاؤں پر آفت ٹوٹ پڑی، جھیل میں ایک خوفناک ناگ نے جنم لیاجس کے زہر سے جھیل کا پانی اتنا زہریلا ہو گیا کہ کوئی ایک قطرہ منہ میں ڈال لیتا تو مر جاتا اور پانی کی تھی سخت قلّت۔جھیل کے پانی ہی پر لوگ جی رہے تھے اور وہ بھی زہریلا ہو گیا تھا۔ ایک دوسری آفت آئی کھیتوں کی طرف، جس زمین پر اس گاؤں کے غریب کسان ہل چلا کر اناج پیدا کر لیتے تھے وہاں ایک ایسا بھیانک ناگ آ گیا جو اپنی سانس سے اناج کو جلا دیتا ، اس کی سانس سے شعلے نکلتے اور بچارے کسان محنت مشقت کر کے جو پیدا کرتے ان کا وجود مٹ جاتا، سانس کے شعلے سے کھیت کھلیان میں آگ لگ جاتی۔

کچھ نہ پوچھو پورے گاؤں میں دونوں جانب سے بڑی تباہی آ گئی، جو جھیل کا پانی پینے جاتے تو مر جاتے ، کھیتوں میں اناج پیدا کرتے تو آگ لگ جاتی ، گاؤں کے لوگوں نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا ، تم ہی سوچوایسے گاؤں میں کوئی کیسے رہے کہ جہاں  کوئی پانی پئے تو مر جائے اور اناج اُپجائے توہر دانہ اناج کاجل جائے !

اس گاؤں میں دو دوست رہتے تھے موتی اور ہری، دونوں میں بڑی گہری دوستی تھی۔ وہ دونوں بہت ہی پریشان تھے ، ان کے گھر والے گاؤں چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتے تھے لیکن یہ دونوں اپنی مٹی کو چھوڑ کر کہیں بھی جانا نہیں چاہتے تھے۔دونوں صبح سویرے گاؤں سے کچھ دور نکل جاتے اور ایک دوسرے گاؤں پہنچ جاتے جہاں ہمالہ سے اترے ہوئے ایک رشی رہتے تھے ، ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر تپسیا کرتے رہتے تھے، وہ دونوں یعنی موتی اور ہری ہر صبح ان کے پاس پہنچ جاتے اور ہاتھ جو ڑ کر گزارش کرتے ’’اے رشی بابا !دعا کیجئے ہم لوگو ں کا گاؤں دونوں ناگوں کے ظلم سے بچ جائے ‘‘ کئی دنوں تک موتی اور ہر ی رشی بابا کے پاس جاتے رہے اور رشی بابا تھے کہ تپسیا میں ڈوبے رہتے، آنکھیں ہی نہیں کھولتے، ایک صبح موتی اور ہری نے دیکھا کہ رشی بابا نے آنکھیں کھول دی ہیں۔دونوں گڑگڑائے ، روئے ، رشی بابا نے دونوں بچوں کی محبت دیکھی، اپنے گاؤں سے دونوں کتنی محبت کرتے تھے اس کا اندازہ ہوا تو انہوں نے پہلے موتی کو پاس بلایا اور اس کے کان میں کچھ کہا ، پھر ہری کو بلایا اس کے کان میں کچھ کہا اور یہ کہتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں ’’بچو!، ظلم کے خلاف لڑو، قربانی بھی دنیا پڑے تو پروانہ کرو‘‘۔

موتی اور ہری دونوں اپنے گاؤں واپس آ گئے

دونوں دوست گلے ملے ایک دوسرے کو پیار کیا

موتی، جھیل میں اُتر گیا

اور ہر ی کھیتوں کی طرف چلا گیا۔

جھیل میں اترتے ہی جانتے ہو کیا ہوا!  اس زہریلے ناگ نے موتی پر زبردست حملہ کیا اور موتی کو بر ی طرح ڈس لیا، موتی بھی پانی کے اندر ناگ سے لڑتا رہا ، موتی اور ناگ کی جنگ ایسی تھی کہ گاؤں کے لوگ کانپ کانپ گئے۔ جھیل کے کنارے گاؤں کے لوگوں کا ہجوم تھا، وہ صاف شفاف جھیل کے پانی کے اندر زہریلے ناگ اور  موتی کی جنگ دیکھ رہے تھے ، موتی میں جانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ اس نے اتنے بڑے ناگ کو دبوچ لیا اور اپنے ہونٹ اس کے منہ پر رکھ دئیے اور اس ناگ کاسارا زہر پی لیا، دیکھتے ہی دیکھتے ناگ مر گیا اور موتی فخر سے سر اٹھائے جھیل سے باہر نکلا۔ لوگوں نے اسے گود میں اٹھا لیا لیکن ناگ کے زہر سے اس کا جسم نیلا پڑ گیا تھا ، موتی نے آہستہ آہستہ کہا ’’ اب جھیل کا پانی پی کر کوئی نہیں مرے گا، اب جھیل کا پانی میٹھا ہو گیا ہے ‘‘۔ اس کے بعد موتی کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں ، موتی نے اپنے گاؤں کے لیے اتنی بڑی قربانی دے دی تھی۔اب ہری کی کہانی بھی سن لو۔

جب ہری کھیتوں میں پہنچا تو اس وقت کھیتوں کو اپنی سانس کے شعلوں سے تباہ کرنے والا ناگ کھیتوں کو تباہ کر رہا تھا اور غریب کسان دور سے یہ دیکھ رہے تھے اور روتے جا رہے تھے۔ ان کی محنت ہر سال یہ ناگ دو بار اسی طرح تباہ کرتا رہتا تھا، ہری نے ناگ کے سامنے کھڑے ہو کر اسے للکارا تو ناگ نے سانس کے شعلے سے ہری کو بھی جلا دینا چاہا، دونوں میں خوب لڑائی ہوئی۔ہری میں بھی جانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ اس نے زہریلے ناگ پر تابڑ تو ڑ کئی حملے کر دئیے اور آخر میں شعلے اگلنے والے ناگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ گاؤں والے اس کی جانب بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ہری ناگ کے منہ سے نکلے ہوئے شعلوں سے بری طرح جھلس گیا ہے۔ اس کے ہونٹوں پر وہی مسکراہٹ ہے جو کسی بڑے فاتح کے ہونٹوں پر ہوتی ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے مسکراتے ہوئے ہری نے بھی دم تو ڑ دیا، اس نے بھی اپنے گاؤں کے لیے ایک بڑی قربانی پیش کر دی۔اور ادھر سے موتی کی ارتھی اٹھی اور اُدھر سے ہر ی کی۔ جھیل کے پاس ہی دونوں کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ آج بھی وہاں دو پرانی سمادھیوں کی نشانی موجود ہے، میرے ساتھ چلو گے تو دکھاؤں گا۔

شکیل بھیا نے کہا’’ تب سے جھیل کا نام موتی جھیل ہو گیا اور کھیتوں میں جو ہریالی آئی تو لوگوں نے اسے ہری کی ہریالی کہنا شروع کر دیا۔تب سے اس گاؤں کا نام’’ موتی ہری‘‘ ہو گیا، دو گہرے دوستوں کی قربانیوں نے اس گاؤں کو ایک خوبصورت پیارا سا نام دے دیا’’ موتی ہری‘‘ اور یہی ’موتی ہری، آج موتی ہاری ہے۔صدیوں بعد گوتم بدھ ادھر سے گزرے اور اس پورے علاقے کو دعا دی، ایک بچے نے انہیں چمپا کا ایک پھول دیا وہ خوش ہو گئے تو پورا علاقہ چمپا کے پھولوں سے بھر گیا، تب سے یہ علاقہ چمپارن کہا جانے لگا یعنی چمپا کے پھولوں کا جنگل‘‘

اپنے شہر کے بارے میں ایسی کہانی سن کر ہم سب جانے کہاں کھو گئے ، شاید ماضی میں چلے گئے موتی اور ہری کے پاس۔دیکھو نا تمہارے بابا سائیں کی سنائی ہو ئی کہانی مجھے اس عمر میں بھی یاد ہے۔

٭۔     پروورش رنجن ڈے نے ۱۹۶۲ء میں ایک کتاب شائع کی تھی، کتاب کا نام تھاWho’s who of Indian Children’s Literature۔یہ کتاب کلکتے سے جولائی۱۹۶۲ء میں شائع ہوئی تھی۔اس کا دیباچہ ڈاکٹر اختر حسین، ڈائریکٹر UNESCO Regional Centre for Reading Material in South Asia, Karachi, Pakistan نے تحریر کیا تھا۔اس میں ان تمام ادیبوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھا گیا تھا جنہوں نے بچوں کے لیے لکھا ہے۔ اس کتاب میں بچوں کے باباسائیں میرے اور آپ کے بابا سائیں کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔بچوں کے باباسائیں ڈاکٹر شکیل الرحمن کی تین کتابوں کا ذکر ہے جو بچوں کے لیے لکھی گئی تھیں ، یہ کتابیں کہانیوں کی ہیں۔پہلی کتاب ہے ’’عمرو عیار کی واپسی‘‘ دوسری کتاب کا نام ہے ’’نیلی کھوپڑی‘‘ اورتیسری کتاب کا نام ’’درخت کی آواز ‘‘ ہے۔ یہ تینوں کہانیاں ۱۹۶۲ء سے پہلے لکھی گئیں ، بچوں نے انہیں شوق سے پڑھا اور بہت جلد اس کے ایڈیشن ختم ہو گئے۔’’عمرو عیار کی واپسی‘‘ بچوں کا ناول ہے اور کرشن چندر کے ناول’’ الٹا درخت‘‘ کے بعد بچوں کے لیے یہ پہلا پیارا ناول ہے، اس کا ذکر آگے کروں گا۔کلکتے سے چھپی ہوئی جس کتاب کا ذکر کیا ہے اس کا مقدمہ   Dr.Richard Bomberger  نائب صدر، انٹر نیشنل بو رڈ آن بکس فور ینگ پیپل آسٹریا (International Board on Books for young people Austria) نے لکھا ہے۔بچوں کے کہانی کار کی حیثیت سے باباسائیں کو بچے جانے کب سے جاننے پہچاننے لگے تھے۔ہمارے تمہارے بابا سائیں نے اپنا پہلا مضمون ’’ شور‘‘         پھول لاہور کے لیے ۱۹۴۱ء میں لکھا تھا جس کے ایڈیٹر تھے سید امتیاز علی تاج، ہاں وہی ’انار کلی ‘، ڈرامے والے۔ اس ڈرامے کی بنیاد پر مغل اعظم فلم بنی ہے۔ اس کے بعد ہمارے تمہارے بابا سائیں نے بچوں کے لیے بہت سے کہانیاں لکھیں جو بچوں کے رسالوں میں شائع ہوئیں۔اردو زبان میں بچوں کے لیے پیار ی پیاری نظمیں لیے جناب شفیع الدین نیّر نظر آتے ہیں اور پیاری پیاری کہانیاں لیے تمہارے باباسائیں ڈاکٹر شکیل الرحمن! ان کی ’’بابا سائیں کی کہانیاں ‘‘ تو بہت مشہور ہوئیں ، صرف بچوں نے ہی نہیں بڑے بزرگوں نے بھی یہ کہانیاں بہت پسند کیں۔

٭۔     آؤ تمہیں بابا سائیں کی کہانیوں میں سے ایک کہانی کے کچھ اقتباس سنائیں۔ یہ کہانی چھپ چکی ہے۔

’’پیارے بچو! تم نے بہادر شاہ ظفر کا نام ضرور سنا ہو گا، اپنے ملک ہندوستان کے آخری مغل بادشاہ تھے، جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھیج دیا جہاں وہ بہت تکلیف میں رہے اور کچھ عرصہ بعد رنگون ہی میں ان کا انتقال ہو گیا۔

بہادر شاہ ظفر تمام لوگوں سے محبت کرتے تھے ، کہتے تھے ہندو میری ایک آنکھ تو مسلمان دوسری آنکھ ہے ، دونوں وقت غریبوں کو خوب کھلاتے ، عید، بقر عید، ہولی ، دیوالی ، راکھی بندھن سب تہوار لال قلعے میں مناتے، خودان تہواروں میں شریک ہوتے، اسی طرح جب ساون کا ختم ہو گئے۔’’عمر کل جاتے او دم کی

مہینہ آتا، چاندنی چوک اور جامع مسجد کے آ س پاس ہر کوچے میں جھولے پڑتے اور بچیاں جھولوں پر ساون کا گیت گاتیں۔

 

اماں ، میرے باوا کو بھیجو جی کہ ساون آیا

بیٹی تیرا باوا تو بدھاری کہ ساون آیا

 

واقعہ یہ ہے بچوکہ بہادر شاہ ظفر کے جو بڑے دادا حضور تھے ، حضر ت عزیز الدین عالمگیر، وہ بھی اپنے وقت کے ایک انصاف پرور بادشاہ تھے ‘‘۔

بچو!  تم لوگ چاہو تو اس کہانی کی بنیاد پرایک ڈراما تیار کرسکتے ہو اور بہت اطمینان سے بچوں کے چھوٹے سے اسٹیج پرپیش کرسکتے ہو، اپنے اسکولوں میں بھی یہ ڈرامادکھا سکتے ہو_____ہمارے تمہارے باباسائیں نے ایسی بہت ساری پیاری پیاری کہانیاں لکھی ہیں۔

 

٭       جب بابا سائیں کشمیر میں تھے توانہوں نے ریڈیو کشمیر کے لیے بچوں کے بہت سے ڈرامے لکھے۔ خود ریڈیو پر بچوں کو کہانیاں سنانے بھی آتے رہے۔ بچوں کے ڈرامے بہت پسند کئے گئے ، گاؤں شہر کے بچے تمہارے بابا سائیں کے نام سے واقف ہو گئے۔بابا سائیں نے بچوں کے ایسے ڈرامے بھی لکھے جوقسطوں میں پیش کئے گئے ان ہی میں ا ن کامشہور ڈراما تھا’’لمبا آدمی‘‘ جو کشمیر کے بچوں کو بے حد پسند آیا۔ بہت سے بچوں کو آج بھی یہ سیریل یاد ہو گا۔ بچوں کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو کی کتاب’ڈسکوری آف انڈیا، (Discovery of India)کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ، ڈرامے کانام رکھا’’گلاب کاسفر‘‘۔یہ ڈراما بہت مقبول ہوا۔

٭۔     بچو! یہ جو تمہارے بابا سائیں ہیں نا ڈاکٹر شکیل الرحمن، بڑے نڈر، حوصلے والے، بے باک اور بہادر ہیں۔غلط خیالات اور غلط باتوں سے ٹکراتے ہیں توانہیں بس توڑ ہی کر رکھ دیتے ہیں۔ وہ خودٹوٹ جانے والے کٹ جانے والے شخص تو نہیں ، غلط باتوں اور غلط خیالات کے سامنے جھکنے والے نہیں ہیں ، شاہین کی آنکھیں رکھنے والے لیکن حد درجہ ہمدرد اور محبت کرنے والے ہیں ، بزرگوں کا احترام کرنا کوئی ان سے سیکھے، چھوٹوں کوسلام کرنے میں اکثر بازی لے جاتے ہیں ، محبت اور پیار کو سب سے قیمتی تصور کرتے ہیں۔جہاں محبت ملی خوش ہو جاتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ بچپن سے کبھی ان کے دل میں کسی کا ڈر خوف پیدا نہیں ہوا۔مشہور تھا کہ ان کی حویلی میں ایک جن رہتا ہے۔حویلی کے بہت سے لوگوں کو نظر آتا ہے۔کہا جاتا تھا کہ وہ حویلی کے احاطے کے اندر ایک کنویں میں رہتا ہے ، باباسائیں کہتے ہیں وہ اس جن کے وجود   سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوئے،  بچپن میں اس جن کی بہت سی کہانیاں سنتے رہے لیکن دل میں کبھی ڈر پیدا نہیں ہوا اور انہوں نے اور لوگوں کی طرح اس حویلی والے جن کو کبھی دیکھا بھی نہیں۔نڈر بہادر اتنے کہ چین گئے تو چند چینی بچوں کے ساتھ دیوار چین پر چڑھ گئے ، دیوار چین پر چڑھنے کے بعد انہیں ایک سر ٹیفکیٹ بھی ملا۔دنیا کے بعض بڑے بڑے لوگوں اور سیاست دانوں سے ملے لیکن ان میں کسی سے مرعوب نہیں ہوئے، ____بس ڈر ہے تو ایک شخص سے۔جانتے ہو کس سے؟ ابھی بتاتا ہوں۔

تمہارے ہمارے باباسائیں بہت چھوٹے تھے ، ایک بہروپیا آیا کرتا تھا حویلی میں ، وہ جب بھی آتا چھوٹے سے باباسائیں ڈر کے مارے حویلی کے اندر بھاگ جاتے ، وہ روز نیا بہروپ بھر کر آتا تھا اور خاص طور پر چھوٹے بابا سائیں کو ڈراتا تھا، دور سے اس کی آواز سنائی دیتی’’ ناک دھو دھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں ‘‘ بابا سائیں آج بھی کہتے ہیں کہ اس بے معنی آواز کو وہ اب تک بھولے نہیں ہیں۔اپنی سچی کہانی لکھتے ہوئے بابا سائیں نے لکھا ہے :

’’اس بے معنی آواز کو اب تک بھولا نہیں ، آج کبھی میرے کان میں یہ آواز بچپن کی بعض یادوں کے ساتھ آ جاتی ہے تو بے اختیار ہنس دیتا ہوں ، کل اس آواز کا خوف اس طرح طاری ہو جاتا تھا کہ تھر تھر کانپنے لگتا تھا اور پہلے دن جب یہ آواز سنی تو ڈر سے بخار آ گیا تھا‘‘۔

(نیا بہروپ)

تمہارے ہمارے بابا سائیں نے اس بہروپئے کی بڑی عمدہ کہانی لکھی ہے۔کہانی لکھتے ہوئے انہیں اس بات کا خیال تھا کہ اسے بچے بھی سنیں گے پڑھیں گے ، بہروپئے کی کہانی لکھتے ہوئے کہانی کی ابتداء اس طرح کی ہے۔

’’مجھے یاد ہے

وہ اچانک حویلی میں دندناتے ہوئے داخل ہوئے تھے، انتہائی بھیانک چہر ہ کہیں سے بھالو، کہیں سے ہنومان اور کہیں سے لنگور، بڑے بڑے بال، ایک اچھلتی لچکتی بڑی سی دم اچھلتے ہوئے میرے سامنے آن کھڑے ہوئے اور اچھل اچھل کر کہنے لگے‘‘

’’ناک دھوڈھر کی ناک نجر کھررے کھاں ‘‘۔میں تھر تھر کانپنے لگا ڈر سے، میرے ماموں نے مجھے پکڑ کر اور بھی ان سے قریب کر دیا اور انہوں نے مجھے گود میں لے لیا۔پھر کیا تھا پوری حویلی میری چیخ سے گونجنے لگی، روتے روتے بے حال، جب انہوں نے مجھے چھوڑا تو حد درجہ نڈھال ہو چکا تھا، خوف سے کانپ رہا تھا اور پھر مجھے فوراً تیز بخار آ گیا‘‘۔

’’وہ ہر جمعہ کو آتے اسی طرح چیختے’’ ناک دھوڈھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں ‘‘ میں سہم کردالان کے دروازے کے پیچھے چھپ جاتا، چونکہ ہر ہفتے جمعہ کے دن ابو میرے ہاتھ سے محتاجوں میں پیسے تقسیم کراتے اس لیے وہ بھی ہر ہفتے بس اسی دن آ جاتے، حویلی سے انہیں پیسے مل جاتے۔ میں کیسے دیتا بھلا پیسے انہیں ، انہیں تو دیکھتے ہی میری روح فنا ہو جاتی تھی‘‘۔

بابا سائیں آگے لکھتے ہیں :

’’وہ اور ان کے بے معنی لفظوں کی آواز دونوں میری ذات سے وابستہ ہو کر رہ گئے تھے۔ کچھ لوگوں کو مجھے ڈرانا ہوتا تو کہتے دیکھو وہ آ گیا! وہ وہاں چھپا  بیٹھا ہے ، ناک دھو دھڑ کی ناک نجر کھررے کھاں !میری حالت غیر ہو جاتی کبھی پلنگ کے نیچے اور کبھی لحاف کمبل میں دیکھا جاتا‘‘

(نیا بہروپ)

ہمارے تمہارے باباسائیں بہت چھوٹے تھے تو ایک بہروپئے سے ا س طرح ڈرے تھے ، آج بھی انہیں بہروپئے کی سب باتیں یاد ہیں۔ان کی تحریر کے مطابق بہروپئے کا نام لکھن تھا اور وہ شہر سے کچھ دور ’’ بلو ا ٹال ‘‘ میں رہتے تھے۔

’’بہت دن بیت گئے ، موتی ہاری گیا تو لکھن کی یاد آئی پرانے لوگوں میں ان سے بھی ملنے کی خواہش ہوئی اپنے عزیز دوست ممتاز احمد سے کہا میرے ساتھ بلوا ٹال چلو لکھن کا مکان ڈھونڈ لیں۔شاید زندہ ہوں اور ملاقات ہو جائے۔ بڑی مشکل سے ان کی جھونپڑی ملی ، اندر گئے دیکھا ایک کھٹولہ ہے اور اسی کھٹولے پر ایک چھوٹا سا پنجر، ایک انسان کا ڈھانچہ، لکھن سکڑ گئے تھے ، اندر دھنسی ہوئی آنکھیں ، بال ابر و غائب ، دانت ندارد، حد درجہ سوکھاجسم، کھلا ہوا منہ، چہرے پر اتنی جھریاں کہ بس انہیں ہٹا ہٹا کر ہی چہرے کو ڈھونڈا جا سکتا ہے۔منہ کھولے اپنی دھنسی آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے، کہانی بس ختم ہونے کو تھی، چراغ بس بجھنے کو تھا۔اچھا ہوا جو مل لئے اچھا ہوتا جو نہ ملتے ، وہ اس روپ میں ملیں گے سوچا بھی نہ تھا۔ وہ بھالو ہنومان اور لنگور کا لکچر یاد آ گیا کہ جس نے اچھل اچھل کر پہلی بار مجھے اتنا خوفزدہ کیا تھا کہ اب تک بھولا نہیں ہوں ‘‘۔

لکھن نے آہستہ آہستہ ہاتھ بڑھایا تو میں نے تھام لیا، اسی وقت ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک لکیر سی کھنچ گئی ، ایسی لکیر جو مٹائے نہ مٹے، نم آلود دھنسی ہوئی آنکھیں بھی مسکرارہی تھیں۔وہ ایک ٹک بس مجھے دیکھے جا رہے تھے ، ہم دونوں آنکھوں میں پچھلی کہانیوں اور رشتوں کو پڑھ رہے تھے ، کوئی آواز نہ تھی ، میں سوچ رہا تھا عمر بھر بہروپ بھرتے رہے سب کو ہنساتے ڈراتے رہے، آپ کا جواب نہیں لکھن جی، مالک کے پاس جانے کے لیے، جو نیا بہروپ بھرا ہے وہ ’’ اے ون ‘‘ ہے۔سنتے ہیں مالک ہر وقت ہنستا ہی رہتا ہے اور اس کی ہنسی پر دنیا قائم ہے۔ذرا اب تو وہ ہنس کر دیکھے، اس بہروپئے کو دیکھے گا اور رو پڑے گا، جب رخصت ہونے لگا تو انہوں نے روکا،     آہستہ آہستہ بولنے لگے ’’ناک…..دھو……دھڑ…..کی ناک……نجر…. . . کھررے کھاں ‘‘۔پورے چہرے پر عجیب طرح کی مسکراہٹ پھیلی جیسے کہہ رہے ہوں یہ زندگی بھی ان لفظوں کی طرح بے معنی ہے!___اور پھر میری طرف دیکھتے دیکھتے آنکھیں بند کر لیں ، پاس کھڑے ان کے کسی رشتہ دار نے بتایا وہ اچانک اسی طرح سوجاتے ہیں۔

اور ایک صبح لکھن اچانک ابدی نیند سوگئے!

بہروپیا اپنے نئے روپ کے ساتھ مالک کے پاس پہنچ گیا!

لکھن جی میری یادوں کا قیمتی حصہ ہیں !!

(بابا سائیں ___نیا بہروپ)

لکھن کی یہ سچی کہانی پڑھتے پڑھتے میری آنکھوں میں آنسوآ گئے۔ یہ انسان ہنسنے ہنسانے زندگی کے اسٹیج پر آیا تھا جس طرح آہستہ آہستہ گم ہوا اس کی تصویر دیکھ کر پیارے بچو میں واقعی رو پڑا۔بابا سائیں اپنی کہانیوں میں کبھی ہنساتے ہیں اور کبھی رلاتے ہیں ، شروع میں اپنے خوف ڈر کا ذکر کر کے ہمیں خوب ہنسایا اور پھر دیکھو کیا کیا ہم سب کو آخر میں رُلایا۔ یہ سچی کہانی بھی ہمارے تمہارے بابا سائیں کی بہترین کہانیوں میں ایک ہے۔ہے نا؟

٭۔     آپ کے اور میرے بابا سائیں محمد شکیل الرحمن کچھ دن محلّے کے ایک چھوٹے سے مدرسے میں پڑھنے گئے پھر ایک مولوی صاحب انہیں گھر ہی پر پڑھانے لگے، بہت چھوٹے تھے، اسکول میں داخلہ ہو نہیں سکتا تھا لہٰذا مولوی صاحب رکھے گئے جو انہیں ہر صبح اردو پڑھاتے اور تختی لکھواتے، باباسائیں نے اپنی کتاب ’آشرم‘ میں مولوی صاحب کی بہت تعریف کی ہے ، انتہائی ملنسار اور بچوں سے پیار کرنے والے مولوی صاحب تھے، بابا سائیں کو اردو کا پہلا سبق مولوی صاحب ہی سے ملا، مولوی صاحب نے بڑی محنت کی، حروف کو خوبصورت بنا کر لکھنے کی مشق کراتے رہے ، تختی لکھنے کی وجہ سے چھوٹے بابا سائیں کی تحریر خوبصورت ہو گئی ، مولو ی صاحب خود تختی کے لیے چاول کی روشنائی بناتے اور کنڈے کے قلم تراشتے۔اردو لکھنے کا ہنر ان ہی سے سیکھا۔ مولوی صاحب بہت دنوں تک پڑھاتے رہے ، قاعدہ ، اردو کی پہلی کتاب، دوسری کتاب ، تیسری کتاب__پھر قرآن پاک پڑھانے لگے۔ بابا سائیں کے مولو ی صاحب بہت غریب شخص تھے، ایک ٹوٹی ہوئی بائیسکل پر پڑھانے آتے تھے، چھوٹے بابا سائیں کو ان کی پھٹی قمیض، پرانی لنگی اور ٹوٹی پھوٹی بائیسکل دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا، انہوں نے اپنی کتاب ’’آشرم ‘‘ میں لکھا ہے۔’’سوچتا جب بڑا ہو جاؤں گا ملازمت کروں گا تو مولوی صاحب کے لیے ایک نئی بائیسکل خریدوں گا___اور جب یہ وقت آیا ا س وقت مولوی صاحب اس دنیا سے گز ر چکے تھے ، ’آشرم ، میں اپنے مولوی صاحب ، مولوی منظور صاحب کا ذکر اس طرح کیا ہے ہمارے تمہارے بابا سائیں نے۔

’’مذہبی تعلیم گھر پر ہوئی اورد و مدرسو ں میں بھی

اسی کمرے میں ایک ٹیبل پر اردو اور عربی کی کتابیں سلیقے سے رکھتا تھا، قرآن مجید رحل پر نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ رکھتا، قریب ہی ایک تخت پر جائے نماز بچھا کر پانچ وقتوں کی نماز یں ادا کرتا۔

مولوی منظور صاحب اپنی ٹوٹی ہوئی بائیسکل پر دور کسی محلے سے پڑھانے آتے تھے ، وہ پہلے استاد تھے، انتہائی شفیق اور بہت پیارے، اردو کے حروف ان ہی سے سیکھے، مسلسل لکھتے رہنے کی مشق ان ہی کی نگرانی میں کرتا رہا، مولوی صاحب کے حروف موتیوں جیسے تھے ، ان کے حروف کی نقل کرنا آسان نہ تھا، رفتہ رفتہ تحریر اچھی ہو گئی، مولوی منظور صاحب روز تختی لکھواتے روشنائی تیار کرتے، سلیقے سے کنڈے کے قلم تراشتے‘‘۔

اور بہت سی باتیں لکھ کر تحریر کیا ہے باباسائیں نے :

’’مولو ی منظور صاحب کے لباس اور ان کی بائیسکل دیکھ کر بہت دکھ ہوتا تھا، جب ایک دن کہا۔’’مولوی صاحب آپ اپنی بائیسکل ٹھیک کیوں نہیں کرا لیتے؟‘‘

تو جواب ملا:

’’بیٹے ہم غریب ہیں مشکل سے دال روٹی چلتی ہے ‘‘

غالباً اپنی زندگی میں اتنے تعلیم یافتہ غریب کو پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا تھا ، اکثر سوچتا وہ غریب کیوں ہیں۔ان کے کپڑے پھٹے کیوں رہتے ہیں ، نماز پڑھتا تو یہ بھی دعا کرتا’’ اللہ میاں مولوی صاحب کو امیر بنا دے‘‘ لیکن مولوی منظور صاحب عمر بھر اسی حال میں رہے، سوچتا نوکری کروں گا تو ان کے لیے ایک نئی بائیسکل خریدوں گا، یہ حسرت دل میں رہ گئی، ابھی ایم اے کا امتحان بھی نہ دیا تھا کہ مولو ی صاحب کا انتقال ہو گیا!

بچو، دیکھو نا بابا سائیں نے ہمیں پھر اپنی تحریر سے اداس کر دیا۔ان کی تحریر میں عجب  جادو ہے جب چاہتے ہیں ہمیں ہنسا دیتے ہیں جب چاہتے ہیں ہمیں اداس کر دیتے ہیں۔

٭۔     یہ جو ہیں نا ہمارے تمہارے بابا سائیں ماضی کو خوب یاد رکھتے ہیں ، ان کی زندگی کے حوالے سے ماضی کی کچھ کہانیاں ایسی ہیں جو دل کو چھو لیتی ہیں ، انہیں پڑھ سن کر سوچنا پڑتا ہے، سچی کہانیاں بھی دل و دماغ میں کسی طرح اتر جاتی ہیں اور زبردست اثر ڈالتی ہیں ، ہمارے تمہارے بابا سائیں جو کچھ بھی لکھ دیتے ہیں نا وہ کہانی ہے۔اپنی زندگی کے ایک پیار ے واقعے کو اس طرح یاد کرتے ہیں :

’’ بہت چھوٹا تھا، ۱۹۳۶۔۱۹۳۷ء کی بات ہے، میرے نانا جان عبدالصمد صاحب چھپرہ سے موتی ہاری آئے تھے، میں ان سے بہت جلد گھل مل گیا تھا، وہ مجھے چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری کہانیاں سناتے اور ہر کہانی میں ایک طاقتور ، بہادر اور خوبصورت گھوڑا ضرور ہوتا، کہانیوں کا یہ گھوڑا میری تنہائیوں کاساتھی بن گیا۔

میرے نانا نے بتایا ان کے پاس بھی ایک ایسا ہی گھوڑا ہے جسے انہوں نے میرے لیے خریدا ہے۔اب تخیل میں اس گھوڑے پر بیٹھنے لگا، سرپٹ دوڑنے لگا گھوڑا، اس پر بیٹھ کر پہاڑوں پر دوڑا ہوں جنگلوں میں گیا ہوں ، جادو گروں سے لڑائیاں کی ہیں انہیں شکست دی ہے۔اس گھوڑے نے بار بار مجھے دشمنوں سے بچایا ہے ، بڑے معرکے سرکیے ہیں اس پر بیٹھ کر ، میرے نانا جب بھی آتے ، میرا پہلا سوال یہ ہوتا:نانا، میرا گھوڑا کہاں ہے ؟‘‘

مجھے وہ گھوڑا کبھی نہیں ملا۔

آج میرے نانا پاکستان کی مٹی میں ابدی نیند سورہے ہیں اور میرے خوابوں میں اکثر وہ خوبصورت، بہادر، طاقتور گھوڑا آتا ہے اور میں اس پر بیٹھ کر دور جانے کہاں دھندلکوں میں چھپ جاتا ہوں ‘‘

بابا سائیں سے ملنے جاؤ گے تو دیکھو گے ان کے ٹیبل پر کسی دھات کا بنا ہوا ایک گھوڑا اپنی دو ٹانگیں اٹھائے بس باباسائیں کو لے کر اُڑنے کو تیار ہے۔ان کے گھر میں کئی جگہ گھوڑے نظر آئیں گے۔ایک بار کہنے لگے میرے پوتے عرفی کو بھی گھوڑے کا شوق ہے اب تو وہ گھوڑسواری بھی کرتا ہے۔وہ جب بھی آتا ہے میرا کوئی نہ کوئی گھوڑا اٹھا کر لے جاتا ہے ، گھوڑے کے لیے دادا پوتے میں لڑائی ہوتی ہے۔اس لڑائی میں کتنا مزا آتا ہو گا ذرا سوچو!

 

٭       باباسائیں نے موتی ہاری کے ’’ ہیکوک ا کیڈیمی‘‘ منشی سنگھ کالج موتی ہاری اور  پٹنہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ بی۔اے آنرز میں فرسٹ کلاس کی ڈگری لی اور ایم اے(اردو) میں فرسٹ کلاس فرسٹ کی ، پٹنہ یونیورسٹی سے طلائی تمغہ حاصل کیا۔ جب ایم۔اے کے طالب علم تھے تو ان کی پہلی کتاب’’ ادب اور نفسیات‘‘ شائع ہوئی جس کے مضامین، ا س وقت کے لکھے ہوئے تھے جب وہ بی۔اے میں پڑھ رہے تھے ، اس کتاب میں مشہور نقاد پروفیسر سید احتشام حسین صاحب کا تعارف شامل ہے، حضرت نیاز فتح پوری اور جناب فراق گورکھپوری صاحبان نے پہلی بار ہمارے تمہارے باباسائیں کی تنقید نگاری اور  نثری اسلوب کی تعریف کی تھی۔ اس کے بعد تو بابا سائیں اپنی تنقید اور نثری اسلوب سے اپنی پہچان بناتے گئے ہیں اور آج ایک ایسے ممتاز نقاد ہیں کہ خود ایک دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی تنقید نگاری پر بہت سے مقالے کتابیں لکھی جاچکی ہیں ، ایک کتاب میں نے مرتب کی ہے ’’شکیل الرحمن __ایک لیجنڈ‘‘۔ اقبال انصاری صاحب نے باباسائیں کی معروف کتاب’’ منٹو شناسی‘‘ پر ایک کتاب لکھ دی ہے، ’’ شکیل الرحمن__اردو تنقید کا ایک منفرد دبستان‘‘۔ باباسائیں کی بہت سی کتابیں چھپ کر مقبول ہو چکی ہیں۔ان میں ’ مرزا غالب اور ہند مغل جمالیات، ’آشرم، ’ امیر خسر و کی جمالیات، ’ابوالکلام آزاد، ’کبیر کے نغموں پر گفتگو، ’منٹو شناسی، ’میر شناسی، ’رقص بتانِ آذری، ’اخترا لایمان__ ایک جمالیاتی لیجنڈ، ’فکشن  کے فنکار__پریم چند، ’داستان امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا، ’غالب کاداستانی مزاج، ’ہندوستان کا نظامِ جمال__بدھ جمالیات سے جمالیات غالب تک، ’راگ راگنیوں کی تصویریں ، ’محمد اقبال، وغیرہ بہت مقبول ہوئیں۔ ان کے پاس ایک کبھی نہ تھکنے والا ذہن اور کبھی نہ تھکنے والا قلم ہے۔

 

٭ بچوں کے بابا سائیں بڑے لوگوں کے لیے کتابیں لکھتے ہوئے بھی بچوں کو نہیں بھولتے، دیکھو نا انہوں نے اردو ہندی کے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار منشی پریم چند پر کتاب لکھی ’’فکشن کے فنکار پریم چند‘‘۔اس میں تو پریم چند کے افسانوں میں بچوں کے ذہن کو بھی تلاش کرنے لگے۔اپنی کتاب میں ا یک باب قائم کر دیا۔’’بچے کا ذہن‘‘!پریم چند کے کئی افسانوں میں بچوں کے کردار ملتے ہیں مثلاً رام لیلا، قزاقی،  سوتیلی ماں ، بوڑھی کاکی، مہاتیرتھ، (حج اکبر) عیدگاہ، دودھ کی قیمت‘‘ وغیرہ۔ باباسائیں نے بچوں کے کرداروں کو طرح طرح سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔تمہیں یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ ہمارے تمہارے بابا سائیں نے ’’ پریم چند__فکشن کے فنکار‘‘ پر کام کر کے پٹنہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری لی ہے اسی لیے وہ ’ڈاکٹر‘  کہے جاتے ہیں ___ڈاکٹر شکیل الرحمن!

 

٭ بابا سائیں نے ۱۹۵۶ء میں ایک پیاری سی کہانی لکھی تھی۔’’ نیلی کھوپڑی‘‘۔ بچوں کے لیے یہ چھوٹی سی کتاب اکتوبر ۱۹۵۶ء میں کھلونا بک ڈپو دہلی نے شائع کی۔ اس میں کہانی کے حوالے سے کچھ تصویریں بھی تھیں۔میں اس کہانی کا خلاصہ لکھ رہا ہوں ، چونکہ اب یہ کتاب نہیں ملتی اس لیے اس کا قصہ پھر کبھی کوئی سن نہ سکے گا۔

کہانی اس طرح ہے۔

ایک سائنس داں تھے ڈاکٹر سرکار۔ان کے پاس ایک نیلا صندوق تھا اور اس نیلے صندوق میں انسان کی ایک کھوپڑی تھی کہ جس کا رنگ نیلا تھا۔ تمہارے بابا سائیں نے ڈاکٹر سرکار سے گزارش کی کہ وہ نیلے صندوق اور اس نیلی کھوپڑی کی کہانی سنائیں۔ڈاکٹر سرکار نے بتایا وہ انسان کے قدیم ڈھانچوں اور انسانی کھوپڑیوں پر کام کرتے رہے ہیں ، یہی شوق انہیں مصر لے گیا۔انہوں نے دریائے نیل کے پاس اپنا کیمپ لگایا۔ان کے ساتھ صرف ان کا ایک باورچی تھا جو ان کے کھانے ناشتے کا خیال رکھتا تھا۔ایک رات وہ اپنے کیمپ سے نکلے اور پہنچ گئے بہت دور ، چاندنی رات میں ہر چیز صاف صاف نظر آئی، دور سے انہوں نے دیکھا کہ ایک پر اسرار شخص ریت کے نیچے سے کچھ نکال رہا ہے، کچھ اور قریب گئے تو کیا دیکھتے ہیں اس شخص نے ریت کے اندر سے ایک صندوق نکالا ہے کہ جس کا رنگ نیلا ہے۔ ڈاکٹرسرکار آہستہ آہستہ چپکے چپکے اور آگے بڑھے تو کیا دیکھتے ہیں اسی پر اسر ار شخص نے نیلے صندوق سے ایک نیلی کھوپڑی نکال رکھی ہے اور اس سے باتیں کر رہا ہے۔ کھوپڑی کی آنکھیں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں۔باتیں کیا ہوئیں دونوں میں ، ڈاکٹر سرکار نے کچھ بھی نہیں سنا، اس پراسرار شخص نے وہ نیلی کھوپڑی صندوق میں رکھ دی اور صندوق کو ریت میں دبا دیا   اور اس طرح گم ہو گیا جیسے وہ وہاں تھا ہی نہیں۔ ڈاکٹر سرکار تو کھوپڑیوں کی تلاش میں ہی آئے تھے۔انہوں نے سینکڑوں کھوپڑیاں جمع کی تھیں ریسرچ کے کام کے لیے

لیکن کبھی ایسی کھوپڑی نہیں دیکھی تھی کہ جس کا رنگ نیلا ہو اور جو آنکھیں گھماتی ہو    اور باتیں کرتی ہو۔اس پر اسرار شخص کے چلے جانے یا گم ہو جانے کے بعد ڈاکٹر سرکار اس مقام پر آئے کہ جہاں نیلا صندوق دبا ہوا تھا اور جس میں وہ نیلی کھوپڑی تھی ، انہوں نے نیلا صندوق نکالا اور بھاگے اسے لے کر اپنے کیمپ کی جانب۔ڈاکٹر سرکار نے بتایا ان کے پاس کئی بادشاہوں ، شہزادوں ، شہزادیوں ، کنجوسوں ، سائنس دانوں اور ڈاکٹروں کی کھوپڑیاں ہیں لیکن یہ کھوپڑی سب سے الگ ہے ایک تو اس کا رنگ نیلا ہے پھر یہ باتیں بھی کرتی ہے اور آنکھیں بھی گھماتی نچاتی ہے۔ڈاکٹر سرکار نے باباسائیں سے کہا’’ ڈاکٹر رحمن، میں تو بہت خوفزدہ ہو گیا لہٰذا دوسری صبح اپنا کیمپ اٹھا لیا اور اپنے باورچی کے ساتھ نیلی کھوپڑی لے کر وطن واپس آ گیا۔یہ کھوپڑی ایک ہزار پرانی ہے لیکن بہت پُر اسرار ہے اس میں اڑ کر کہیں بھی جانے کی طاقت ہے ، میں نے اس پرایسی دواؤں کا استعمال کیا کہ اس میں اڑ کر جانے کی طاقت باقی نہیں رہی__ انہوں نے باباسائیں سے کہا کہ جہاں یہ کھوپڑی صندوق میں پڑی ہے وہاں نیلے نیلے موتی صندوق سے گرتے رہتے ہیں ، میں ان موتیوں کو جمع کر کے سرکار کو دیتا ہوں اور سرکار کو اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔کچھ موتی میرے پاس ہیں ابھی آپ کو دکھاتا ہوں ‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر سرکار نے باباسائیں کو کئی موتی دکھائے جو بہت روشن اور چمکتے ہوئے تھے۔ ان کی قیمت کا اندازہ کرنا آسان نہیں تھا۔ ڈاکٹر سرکار جب باباسائیں کو اپنی لیبارٹری میں لے گئے تو بابا سائیں یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ ہر جانب الماریوں میں کھوپڑیاں ہی سجی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر سرکار کھوپڑی نکالتے اس کے بارے میں کچھ بتاتے پھر رکھ دیتے ، ایک کھوپڑی کے بارے میں یہ بتایا کہ یہ مصر کی ملکہ قلو پطرہ کی کھوپڑی ہے۔ایک دوسری کھوپڑی دکھائی کہا’’ یہ کھوپڑی ایک افریقی بچے کی ہے ، یہ کافی ہوشیار اور ذہین بچہ تھا، اس نے صرف چار سال کی عمر پائی تھی اور اسی عمر میں اس نے چاند تک پہنچ جانے کی ترکیب سوچ لی تھی ، اس نے ایک طیارہ بنانا شروع کر دیا تھا، وہ یتیم تھا اس کے ماں باپ گزر چکے تھے کوئی سہارا نہیں تھا، وہ بچہ بھوک پیاس سے مر گیا اور اس کا طیارہ نہیں بن سکا۔ڈاکٹر سرکا ر نے ایک اور کھوپڑی نکالی بتایا__یہ دیکھئے یہ کھوپڑی دنیا کے ایک بہت بڑے کنجوس کی ہے ، اس کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی لیکن دولت کی ہوس اتنی تھی کہ پاگل ہو گیا۔ڈاکٹر سرکار باباسائیں کو نیلے صندوق والے کمرے میں لے گئے، صندوق کار نگ نیلا تو تھا ہی اس میں ایسی چمک دمک تھی کہ کچھ نہ پوچھو۔ڈاکٹر سرکار نے صندوق کھول کر نیلی کھوپڑی نکالی۔ ڈاکٹر رحمن حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے یہ دیکھا کہ کھوپڑی کی آنکھیں گھوم رہی ہیں۔آنکھوں میں آنسو تھے ، نیلی کھوپڑی ایک خاص انداز سے آنکھیں اٹھا رہی تھی اور گرا رہی تھی ، ڈاکٹر سرکار نے کہا ایسا لگتا ہے نیلی کھوپڑی مسلسل ایک ہی بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔سمجھ میں نہیں آتا یہ کھوپڑی کہنا کیا چاہتی ہے ، آنکھوں میں آنسو دیکھ کریہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ کھوپڑی کسی غم میں مبتلا ہے۔ اس کی آنکھوں میں کوئی خواہش ایسی ہے جو اس کی زندگی میں پوری نہیں ہوئی ہے۔

ایک شب جب ڈاکٹر سرکار اپنے کمرے میں اور باباسائیں نیلی کوٹھی کے مہمان خانے میں سورہے تھے ایک عجیب و غریب چیخ گونجی۔ ڈاکٹر سرکار کے چیخنے کی بھی آواز گونج رہی تھی۔الماریوں کے ٹوٹنے کی آوازیں آئیں ، تمام بتیاں بجھ گئیں۔نیلی کوٹھی میں ایک طوفان آ گیا تھا۔باباسائیں مہان خانے سے نکل کر ڈاکٹر سرکار کے کمرے کی جانب دوڑے، وہاں ڈاکٹر سرکار موجود نہ تھے ، پھر نیلی کھوپڑی والے کمرے میں آئے، وہاں تمام الماریاں ٹوٹ چکی تھیں۔نیلے صندوق کے ساتھ نیلی کھوپڑی غائب تھی۔صندوق کے آس پاس موتی کے چمکتے ہوئے خوبصورت دانے لا پتہ تھے۔دواؤں کی بو ہر جانب پھیلی ہوئی تھی۔بابا سائیں کی نظر اچانک دروازے کے پیچھے ڈاکٹر سرکار پر گئی جو تھر تھر کانپ رہے تھے ، ان کا چہرہ زرد تھا۔باباسائیں نے انہیں سہارا دیا۔وہ چیخ رہے تھے ’’وہ وہی تھا وہی جسے میں نے مصر میں دیکھا تھا ریت سے نیلے صندوق کو نکالتے ہوئے اور نیلی کھوپڑی سے باتیں کرتے ہوئے ‘‘وہی تھا ہو بہو وہی، صبح ڈاکٹر سرکار کی حالت نازک ہو گئی، ڈاکٹر آئے  دیکھا ڈاکٹر سرکار کی زبان بند ہو چکی تھی وہ کچھ بھی بولنے سے مجبور تھے ، ڈاکٹروں کے سامنے ڈاکٹر سرکار کو دو تین ہچکیاں آئیں۔انہوں نے اشارے سے قلم اور کاغذ طلب کیا اور آہستہ آہستہ لکھنے لگے:

’’وہ وہی شخص تھا ، دریائے نیل والا۔ جس نے درختوں سے اتر کر پتھر ہٹایا تھا اور نیلے صندوق سے نیلی کھوپڑی نکال کر اسے پیار کیا تھا، میں نے اسے اس کمرے میں آتے ہوئے دیکھا، اس نے صندوق سے نیلی کھوپڑی نکالی، اسے پیار کیا اور یہ کہا میری پیاری ماں ، تم روٹھ کر یہاں کیو ں چلی آئیں ، میں تمہارا غم سمجھتا ہوں ، وعدہ کرتا ہوں اب اپنی نئی زندگی میں کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا کہ جس سے تمہیں تکلیف ہو۔میں ایک شریف اور نیک لڑکا بنوں گا۔میں نے جو غلط کام کئے ہیں میری پیاری ماں ، ا نہیں معاف کر دیجئے۔اس شخص نے معافی مانگی اور پھر میں نے دیکھا کھوپڑی کی آنکھیں ہمیشہ  کے لیے بند ہو گئیں اور وہ کھوپڑی دیکھتے ہی دیکھتے عام کھوپڑیوں کی طرح سفید ہو گئی اور پھر وہ شخص کھوپڑی اور صندوق لے کر بھاگ گیا۔وہ وہی تھا‘‘۔

ڈاکٹر سرکار کے ہاتھ سے قلم گر گیا اور  وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئے۔

مصر کے اخباروں میں یہ خبر آئی کہ مصر میں دریائے نیل کے پاس ایک نیلا صندوق ملا ہے لیکن اس میں نیلی کھوپڑی نہیں ہے ’’کھوپڑی کی تلاش جاری ہے ‘‘۔

پیارے بچو

ہمارے تمہارے بابا سائیں نے ہمیں کتنی دلچسپ کہانی سنائی ہے ہزار برس گزر جانے کے بعد ماں نے بیٹے کی تمام خطائیں معاف کر دیں۔ باباسائیں نے ایسی اور کہانیاں لکھی ہیں جن سے ہمیں نصیحتیں ملتی ہیں۔

 

٭       باباسائیں سے میری خط و کتابت اب بھی ہے، میں ان سے سوالات کرتا رہتا ہوں اور وہ مجھے بہت پیار سے جواب دیتے رہتے ہیں۔میں نے ایک خط کے ذریعہ ان سے پوچھا ’’بابا سائیں یہ تو بتائیے کہ آپ کی کامیابی اور کامیاب زندگی کا راز کیا ہے ؟آپ نے بی۔اے(آنرز) فرسٹ کلاس میں پاس کیا ، ایم اے میں فرسٹ کلاس فرسٹ رہے پٹنہ یونیورسٹی کا طلائی تمغہ حاصل کیا، لیکچرر ہوئے ، ریڈر بنے، پروفیسر ہوئے ، صدر شعبہ رہے، فیکلٹی آف آرٹس اور فیکلٹی آف اورینٹل اسٹیڈیز کے ڈین رہے ، ایک نہیں تین یونیورسیٹیوں کے کامیاب وائس چانسلر رہے، لوک سبھا کے لیے چنے گئے کابینہ درجے کے مرکزی وزیر رہے ، اتنی بڑی بڑی علمی اور ادبی تخلیقات پیش کیں ، ایوارڈ بھی لیے جن میں غالب ایوارڈ بھی شامل ہے ، رتھ یاترا کے بعد مرکزی وزیر کی حیثیت سے فرقہ وارانہ فسادات کو ختم کرنے کی کوشش کی اس کے لیے بنگال سے ایک ایوارڈ بھی ملا___زندگی میں اتنی ساری کامیابیاں کتنے لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں۔ بچوں کے لیے آنے والی نسلوں کے لیے مجھے یہ بتائیے کہ آپ کی کامیاب اور کامیاب ترین زندگی کا راز کیا ہے ؟‘‘

بابا سائیں نے جواب میں لکھا ’’شبو میاں ، معلوم نہیں زندگی میں کتنا کامیاب رہا لیکن زندگی بسر کرتے ہوئے جن باتوں کو اہمیت دی وہ یہ ہیں۔ ان بارہ نکات کو جو عزیز رکھے بھلا اسے کون چکھے:

۱۔ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوا، اس کی ذات پاک پر مکمل بھروسہ رکھا۔

۲۔ حسد سے دور رہا، حاسدوں کو خوب جانا پہچانا اور انہیں ہمیشہ بزدل پایا۔

۳۔ جو کچھ بھی ملا اسی کو نعمت تصور کیا خود کو ہوس سے ہمیشہ دور رکھا۔

۴۔ہمیشہ اپنا جائزہ لیتا رہا یہ دیکھتا رہا ، مجھ میں کوئی کمی تو نہیں آئی ہے۔

۵۔سب پر مہربان رہنے کی کوشش کی، جس نے برا کیا اس پر بھی مہربان رہا ، کوشش      کی اس کی مدد کرسکوں۔

۶۔ پیار محبت کو بہت ہی قیمتی تصور کیا، انسان دوستی کو ہمیشہ عزیز رکھا۔انسان کو فرقوں         مذہبوں میں تقسیم کر کے نہیں دیکھا۔

۷۔سچائی کو عزیز رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی ، سچائی کے لیے کئی بار لڑا، کبھی کامیاب ہوا کبھی ناکام رہا، اپنی ناکامی کو بھی اپنی کامیابی کی ایک منزل سمجھتا رہا۔

۸۔مسکراتا رہا ، دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تاکہ دوسرے بھی مسکراتے رہیں۔

۹۔عبادت کو ضروری جانا۔

۱۰۔علم حاصل کرنے کی کوشش ہر وقت کی۔انسان، دنیا اور کائنات کو سمجھتے رہنا میرا مشغلہ رہا۔

۱۱۔بہت کوشش کی کہ وقت کی قدر کرتا رہوں۔ اس سے میرا بڑا فائدہ ہوا۔

۱۲۔جب بھی کوئی مشکل پیش آئی پوری سمجھ بوجھ کے ساتھ اسے حل کرنے کی کوشش کی۔ اس معاملے میں کامیابی زیادہ ہوئی۔

کیا خیال ہے تمہارا ؟ بابا سائیں کے یہ بارہ نکا ت تمام بچوں کے لیے مشعل راہ بن سکتے ہیں نا؟‘‘

غور کرو ہمارے تمہارے بابا سائیں کن باتوں پر عمل کرتے رہے ہیں۔دنیا کے بڑے بڑے لوگوں کے بارے میں پڑھو گے تو ان کی زندگی میں بھی باباسائیں کے بارہ نکات کی جھلکیاں ملیں گی۔بابا سائیں نے اسی خط میں مجھے یہ لکھا کہ وہ بچپن ہی سے علامہ اقبال کے یہ اشعار پڑھتے رہے ہیں اور آج بھی انہیں گنگناتے رہتے ہیں۔

 

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صور ت ہو خدا یا میری

 

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے

ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

 

میرے اللہ ، برائی سے بچانا مجھ کو

نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو

 

٭       پیارے بچو، یہ جو ہیں نا ہمارے تمہارے بابا سائیں دنیا کی دو بہترین کہانیوں کے دو کرداروں سے بڑی محبت کرتے ہیں۔یہ دونوں انتہائی دلچسپ کردار ہیں ، نئی دنیا اور نئی زندگی کو ان کی آنکھوں سے دیکھنے کی بار بار کوشش کی ہے ، ان میں ایک کردار خواجہ عمرو عیّار کا ہے جو داستانِ امیر حمزہ اور طلسم ہوشربا سے آیا ہے اور دوسراخواجہ نصرالدین کا جو وسط ایشیا کی کہانیوں کے کرداروں میں اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔خواجہ نصرالدین پر ٹیلی ویژن نے ایک سیریل بھی بنایا تھا۔ غالباً تم نے دیکھا ہو گا لیکن یہ سیریل بعد میں بنا، ہمارے تمہارے بابا سائیں نے خواجہ نصرالدین کی کئی کہانیاں بہت پہلے لکھ دی تھیں۔ خواجہ نصر الدین عرف خواجہ بخارا تعارف کے محتاج نہیں ہیں ، اسی طرح ان کا تیز رفتار حد درجہ وفادار گدھا بھی محتاج تعارف نہیں ہے۔  بابا سائیں نے ایک کہانی لکھی’’ خواجہ نصر الدین ہندوستان میں ‘‘ انہوں نے لکھا خواجہ بخارا کی کہانیاں ساری دنیا میں پہنچ چکی ہیں۔ انتہائی چلبلے اور ذہین شخص کا نام خواجہ نصر الدین ہے۔ وہ سخت مصیبتوں اور مایوسی کے ماحول میں بھی اپنی راہ نکال لیتے ہیں ، بابا سائیں لکھتے ہیں :

’’اگر آپ کو کہیں تیز چالاک آنکھیں اور سانولے چہرے پر سیاہ داڑھی لیے کوئی شخص نظر آئے تو رک جائیے اور غور سے دیکھئے، اگر اس کی قبا پرانی اور پھٹی ہوئی ہے ، سرپر ٹوپی میلی اور دھبوں سے بھری ہو اور اس کے جوتے ٹوٹے ہوئے اور خستہ حال ہوں تو یقین کر لیجئے کہ وہی خواجہ نصر الدین بخارا ہیں جن کی تجربوں سے بھری ہوئی آوارہ گردی کی کہانیاں آج بھی عراق، ایران، ترکی، روس، جرمنی اور انگلستان وغیرہ میں بہت سے لوگوں کو یاد ہیں۔از بکستان، آذر بائیجان، ترکمانیہ اورتاجکستان وغیرہ میں تو ان کا ذکر اس طرح رہتا ہے جیسے وہ اپنے گھر کے ہوں ! ان کا گدھا بھی گھر ہی کا کوئی فرد ہو___تو صاحب!خواجہ نصر الدین عرف خواجہ بخارا اپنے گدھے پر سوار ہندوستان کے سفر پر آئے ہوئے ہیں ، ہوشیار، چمکتی ہوئی آنکھیں ، سانولے چہرے پرسیاہ داڑھی اگائے ہوئے پھٹی پرانی قبا اور سرپرمیلی کچیلی ٹوپی کے ساتھ کوئی شخص گدھے پر سوار یا اپنے گدھے کو تھامے کہیں نظر آ جائے تو بلا تکلف اسے روک لیجئے ورنہ آپ ایک بہت بڑی شخصیت کے دیدار سے محروم ہو جائیں گے‘‘۔

(خواجہ نصر الدین ۔  ہندوستان میں )

 

عرف خواجہ بخارا پولس کی ڈانٹ

 

خواجہ نصرالدین عرف خواجہ بخارا کا تعارف کیسا لگا؟اس کہانی کے حصے کچھ پیش کر رہا ہوں امید ہے تمہیں پسند آئیں گے :

___ ’’انڈیا گیٹ سے سرپٹ جو اپنا گدھا دوڑایا تو خواجہ نصر الدین عرف خواجہ بخارا نے بوٹ کلب کے میدان کے پاس ہی آ کر دم لیا‘‘۔

___ ’’ خواجہ نصر الدین نے زمین سے اٹھ کر فوراً اپنے گدھے کی رسی پکڑی، انہیں ڈر تھا اس بھگڈر میں ان کا پیارا گدھا نہ گم ہو جائے۔ عجیب منظر سامنے تھا ، میدان سے دوڑتے ہوئے لوگوں کو جیسے محسوس ہو رہا تھا کہ ملک تو بہت پہلے آزاد ہوا لیکن اس کی آزادی کا مزہ چکھنے کا وقت ابھی ملا ہے۔پتھراؤ شروع ہوا، کئی لوگ اپنے تھیلوں میں اینٹ پتھر بھر کر لے آئے تھے۔لہٰذا ان کا استعمال بروقت اپنی پوری آزادی کے ساتھ کرنے لگے، سڑکوں کے خوبصورت بلب تڑاخ تڑاخ ٹھپاک ٹھپاک ٹوٹنے لگے ، جانے کتنے     پہر ے دار، سپاہی ہر طرف کھڑے تھے ، یہ صاحبانِ عقل و دانش تماشائی تھے ان کی نظر میں ابھی قانون ٹوٹا      نہیں تھا‘‘۔

___ ’’خواجہ نصرالدین عرف خواجہ بخارا سوچنے لگے انسان کے ضمیر میں چار عناصر ہیں آب، خاک، آتش اور باد۔خون میں فساد ہو جاتا ہے تو سب اپنے اپنے طور پر خودی کو بلند کرنے لگتے ہیں ‘‘

___ ’’خوبصورت باغ اور پارک میں جب لوگوں کی دوڑ اور بھگڈر سے دھول اڑنے لگی تو بھلا خاک کی خود ی کیوں بلند نہ ہوتی، کچھ لوگ آگے بڑھے اور مٹھیوں دھول      بھر بھر کر پہرے داروں کے چہروں پر ڈالنے لگے۔  پہرے دار آخر پہرے دار تھے بھلا ان کی خود ی کیوں بلند نہ ہو تی انہوں نے ہوا کا سہارا لیا اور لگے ہوائی فائر کرنے، دھائیں دھائیں ، تڑاخ تڑاخ اب تو خواجہ بخارا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔انہوں نے حکیم ابو علی سینا، حکیم ہیو کرٹس ، ورکارڈو اور جانے کن کن حکیموں کے ارشادات کو چائے خانوں اور قہوہ خانوں میں سن رکھا تھا لہٰذا سمجھ گئے باد یعنی ہوا کا ردِ عمل تیز ہو گا ہی ‘‘

___’’خواجہ بخارا نے ٹھنڈی سانس لی اور  اپنے گدھے کی رسی تھام کر بیٹھ گئے اس لیے کہ بوٹ کلب سے نکل کر باہر قیامت باہر ٹوٹ رہی تھی اور وہ صرف ایک تماشائی تھے۔بڑی حسرت سے میدان کی لٹی ہوئی گھاس کو تک رہے تھے۔

___’’یہ بتاؤ یہ سب کیا ہو رہا ہے تمہارے ملک میں ؟ ہندوستان کو کیا ہو گیا ہے ؟اس  ملک کی صحت کیوں خراب ہو رہی ہے ‘‘ خواجہ بخارا نے دریافت کیا ’’صحت خراب نہ ہو گی تو اور کیا ہو گا‘‘ وہ شخص جھنجھلا کر بولا۔

’’یہاں ہر وقت نئی نئی بیماریاں پھیلتی رہتی ہیں ‘‘

’’مثلاً ؟‘‘  خواجہ نے پوچھا

’’مثلاً؟ اے جناب مثلاً کیا، بھوک، بیکاری ، بے روزگاری ، غریبی، مہنگائی، سیلاب، خشک سالی، یہ سب بیماریاں تو پہلے سے ہی موجود تھیں اب کسی کو منڈل کمیشن ہو گیا ہے کسی کو اینٹی منڈل کمیشن، کسی کو رتھ یاترا ہو گیا ہے کسی کو مار کاٹنے کا روگ، کسی کو کرسی ہو گئی ہے کسی کو بھاشن ہو گیا ہے، ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے سب کو ’بوفورس، ہو گیا تھا، ابھی ایک مرض دور نہیں ہوتا کہ دوسرے کئی امراض دبوچ لیتے ہیں ‘‘۔

(خواجہ نصر الدین ہندوستان میں۔فروری۱۹۹۱ء)

دیکھا بچو، ہمارے تمہارے بابا سائیں کتنی سادگی سے یہ باتیں کہہ جاتے ہیں ، انہوں نے خواجہ نصر الدین کو سارے ہندوستان میں گھمانے کا پلان بنایا تھا لیکن اس  زمانے میں سیاسی مصروفیتوں کی وجہ سے یہ کام نہ کرسکے، اس وقت بابا سائیں پارلیمنٹ کے ممبر جو تھے، بہت کم فرصت ملتی تھی پڑھنے لکھنے کی ، دن رات سیاسی کا م میں جٹے رہتے تھے۔

٭       باباسائیں کے دوسرے محبوب کردار ہیں ’’عمرو عیار‘‘۔انہوں نے بچوں کے لیے ایک ناول لکھا تھا: ’’عمرو عیار کی واپسی‘‘ داستانوں کے اس چلبلے کردار کو آج کی دنیا میں لے آئے تھے۔ اس ناول کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ۵۳۔۱۹۵۲ء کے باباسائیں یاد آرہے ہیں جو گرمی کی دوپہر میں کمرہ بند کر کے ہم لوگوں کے لیے یہ ناول لکھ رہے تھے۔یہ ناول سرینگر کشمیر سے شائع ہوا۔لکھا گیا موتی ہاری میں ، شائع ہوا کشمیر میں اور وہ بھی اتنے برسوں بعد!

’’عمرو عیار کی واپسی‘‘ بچوں کے بہترین ناولوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔یہ سترہ ابواب پر مشتمل ہے۔اس کے عنوانات اس طرح ہیں :

پہلا باب            پہلی داستان

دوسرا باب          اشرف المخلوقات

تیسرا باب          بابا شملہ کی فاتحہ

چوتھا باب          آفت کی پڑیا

پانچواں باب      پہلی عیّاری

چھٹا باب            برکت کہاں گئی

ساتواں باب       گنجے جادو گر کی فاتحہ

آٹھواں باب      تسمہ پا

نواں باب          آؤ پڑوسن لڑیں

دسواں باب       رنگ میں بھنگ

گیارہواں باب   سد سکندری

بارہواں باب     چاند تاروں کا کھیت

تیرہواں باب     گوشت کے کپڑے

چودھواں باب    مشاعرہ

پندرہواں باب   زعفران کے کھیت میں سفید بھوت

سولہواں باب     ریڈیو کی تقریر

سترہواں باب    عمرو عیار کی واپسی

عنوانات ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’’عمرو عیار کی واپسی‘‘ کتنا دلچسپ ناول ہو گا ، بچوں کے لیے ’باتیں ، کے عنوان سے بابا سائیں ڈاکٹر محمد شکیل الرحمن نے جو ایک صفحہ لکھا ہے اس میں لکھتے ہیں :

’’عمرو عیار___داستانِ امیر حمزہ اور طلسم ہوش ربا کا ایک دلچسپ کردار ہے۔اس کے پاس ایک زنبیل ہے اس میں دنیا کی کوئی بھی چیز ڈال سکتا ہے، جو چیز بھی ڈالتا ہے وہ غائب ہو جاتی ہے۔

اس زنبیل پر ہاتھ رکھ کر جو صورت چاہتا ہے بدل لیتا ہے

اس زنبیل میں اپنے قیدی بھی بند کر دیتا ہے

عمرو عیار کے پاس ایک ایسی قمیص ہے جسے پہن کر وہ ہر بلا سے محفوظ رہتا ہے اور جو زبان چاہتا ہے بولتا ہے۔

اس کے پاس ایک ایسا پیالہ ہے جس میں پانی ڈال کر اس پانی سے اپنے دشمنوں ا ور دوستوں کی صورتیں تبدیل کر دیتا ہے۔

اس کے پاس ایک ایساآئینہ ہے جس سے دنیا کی ہر بات معلوم کر لیتا ہے۔ ایک ایسا تخت ہے جس پر بیٹھ کر جہاں چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔

جب تک تین مرتبہ مرنے کی دعا نہیں مانگتا مرتا نہیں اور وہ کبھی دو بار سے زیادہ دعا نہیں مانگتا۔

اس کے پاس بزرگوں کی دی ہوئی بہت سی چیزیں اور نعمتیں ہیں۔ جب چاہتا ہے ان کا استعمال کرتا ہے۔خصوصاً جب مشکلوں مصیبتوں میں گھِر جاتا ہے تو ان کا استعمال ضرور کرتا ہے۔

داستانِ امیر حمزہ اور ’طلسم ہوشربا، کے عجائب گھر سے نکل کر اس عجائب گھر کی خصوصیات لیے عمر عیار یعنی عمرو اس دنیا میں آیا ہے ، دیکھو کیا کیا ہوتا ہے اور وہ کیا کیا کرتا ہے۔

___شکیل الرحمن

’’عمرو عیار کی واپسی‘‘ کی کہانی موتی ہاری شہر کی موتی جھیل سے شروع ہوتی ہے۔اس جھیل کے پاس گڑیا کا گھر ہے (بابا سائیں نے یہ ناول اپنی بیٹی گڑیا کے لیے لکھا تھا، کل کی گڑیا آج کی ڈاکٹر انجم شکیل ہیں )عمرو عیار داستانوں سے نکل کر موتی جھیل کے پاس نمودار ہوتا ہے جہاں اس کی ملاقات ایک ننھی سی بچی سے جس کا نام گڑیا ہے ہوتی ہے۔عمرو عیار پرانی دنیا سے نکل کر نئی دنیا کو دیکھنا چاہتا ہے ، گڑیا دوست بن جاتی ہے اور دونوں سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ اس ناول میں ہر باب کا عنوان طلسم ہوشربا کی یاد دلاتا ہے۔واقعات نئی دنیا کے ہیں۔ہر باب ایک کہانی ہے اور اتنی بہت سی کہانیاں مل کر ناول بن گئی ہیں ، بچوں کا دلچسپ ناول!

عمرو عیار کے پاس امیر حمزہ کی کھوپڑی ہے جو باتیں کرتی ہے۔امیر حمزہ گڑیا سے باتیں کرتے ہیں ’’ پیاری بیٹی جب بھی کوئی خطرہ ہوتا ہے میں اپنی آنکھیں نچاتا ہوں اور پھر میری بہت سی چیزیں حفاظت کے لیے سامنے آ جاتی ہیں ، ’’ یہ بہت سی چیزیں کیا ہیں ؟‘‘ گڑیا دریافت کرتی ہے۔

’’ تم نہیں جانتی؟اجی وہی اسمٰعیل نبی کا پیراہن، ہودؑ کا خود، داؤدؑ کی زرہ، یوسف کے دستانے ، صالح نبی کے موزے، یعقوبؑ کی کمر بند، رستم پہلوان کا خنجر، الیاس نبی کی دو تلواریں ، صمصام اور قمقام پہلوان کی ڈھال، سام بن نرعیان کا گرز اور سہراب پہلوان کی تلوار، نوح نبی کا نیزہ اور گھوڑا جو خضر علیہ السلام نے مجھے دیا تھا جسے قیطاس سیاہ کہتے ہیں ، انہوں نے کہا تھا دنیا میں کوئی پہلوان برابر نہ آسکے گا اور وہی ہوا ، ہر جگہ مجھے کامیابی ہوئی میں عمرو کی حفاظت کرتا رہا‘‘

گڑیا اور عمرو عیار سفر پر روانہ ہوتے ہیں لیکن روانگی سے پہلے عمرو عیار اس طرح تیار ہوتا ہے :

’’سب سے پہلے بزر چمہر کی دی ہوئی مخمل کی لنگوٹ یعنی جس پر سات رنگ کے بیل بوٹے بنے ہوئے تھے ، پھر ایک پاجامہ پہنا پھر دوسرا پیراہن، عمرو عیار نے گڑیا سے کہا        ’’ جانتی ہو ان کے پہننے سے جسم نرم رہتا ہے اور گرمی سردی میں تکلیف نہیں ہوتی، پھر زربفتی کی قمیض ڈالی، سرپر جواہر کا تاج رکھا، اس تاج کی خصوصیت بتاتے ہوئے عمر عیار نے کہا اس تاج سے اس وقت خوشبو نکلتی ہے جب کوئی اسے پہن کر دوڑتا ہے۔پھر سات رنگے ریشم کا گوپیا لیا جس میں پتھر رکھ کر گھما گھما کر مارا جاتا ہے۔ پانچ مرصع خنجر کمر میں لٹکائے، مختلف قسم کی داڑھیاں اور صور ت تبدیل کرنے  کے لیے رنگ و روغن زنبیل میں رکھ لیے۔ دام ماہی چادر، کی جس کی خاصیت بتاتے ہوئے عمرو عیار نے گڑیا سے کہا’’اس میں کسی شخص کو کئی دن تک باندھ دیا جائے پھر بھی اس کا دم نہیں گھٹتا۔ گڑیا یہ حیرت انگیز چیزیں دیکھ کر حیرت زدہ تھی۔گڑیا نے کہا عمرو چاچا ایسا کیجئے اپنی زنبیل سے کچھ اور چیزیں نکال کر دکھایئے۔عمرو عیار نے گڑیا کی بات مان لی اور وہ زنبیل سے کچھ چیزیں نکال کر دکھانے لگا۔ یہ دیکھ یہ آدم کا بٹوہ ہے اس میں جو چیز ڈال دوں غائب ہو جائے گی اور جو چیز چاہوں نکال لوں۔ جب میں اس پر دونوں ہاتھ رکھ کر صورت بدلنا چاہوں تو بدل سکتاہوں۔میں اس میں اپنے قیدی بھی بند کرتا رہا ہوں اور یہ دیکھو یہ وہ جامہ ہے جسے پہن لو تو پھر ہر بلا سے محفوظ رہو جو زبان چاہو بول لو اور یہ دیکھو یہ اسحٰق نبی کا پیالہ ہے اس پر لکھے ہوئے اسم اعظم کو پڑھ کرپانی ڈالنے کے بعد صور ت بدلنے میں آسانی ہوتی ہے جس کی صورت چاہوں بد ل دوں۔پھر اس پر دو قطرے پانی چھڑک دینے سے صور ت اصل حالت میں آ جاتی ہے اور یہ دیکھو یہ سکندر بزرگ کا آئینہ ہے اور یہ ان ہی کا دیا ہوا تخت ہے آئینہ سے جو حال دریافت کرنا چاہو گی کر لو گی، تخت پر بیٹھ کر جہاں بھی چاہو گی چلی جاؤ گی۔داؤد نبی کا تحفہ یہ بانسری ہے اسے بجانے سے دنیا کا ہر بانسری بجانے والا اپنی بانسر ی روک دے گا۔اپنی زنبیل کا منہ بند کرتے ہوئے عمرو عیار نے کہا‘‘ میری زنبیل میں ابھی اور بہت کچھ ہے ، سکندر بزرگ کا تخت صاف کر دوں ، ہم دونوں اس پر سفر کریں گے۔

(عمرو عیار کی واپسی)

بچو، اندازہ کرو بچوں کا یہ ناول کتنا دلچسپ ہو گا۔ہے بھی بہت دلچسپ۔پڑھنا ، شروع کرو تو بس ختم کر کے ہی دم لو۔عمر عیار گڑیا کے ساتھ سکندر بزرگ کے تخت پر بیٹھ کر کہاں کہاں جاتے ہیں اور کیا کیا دیکھتے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں۔یہ سب سننے اور پڑھنے سے معلوم ہو گا۔ افسوس ہے کہ اب یہ ناول کہیں نہیں ملتا، میں نے تم سب کی طرف سے اپنی طرف سے بابا سائیں سے کہا ہے کہ وہ نظر ثانی کر کے اسے پھر شائع کریں ، دیکھو وہ میری بات کب مانتے ہیں۔تم سب بھی تو ان سے کچھ کہو۔تم لوگوں کی باتیں وہ ضرور مان لیں گے۔عمرو عیار ایک اور مشاعرے میں بھی شرکت کرتے ہیں اور ریڈیو پر تقریر بھی کرتے ہیں ، اپنی واپسی سے پہلے ریڈیو پران کی تقریر سن کر بچے بہت اداس ہو جاتے ہیں ، گڑیا بھی بہت اداس ہو جاتی ہے اس لیے کہ عمرو عیار اپنی زنبیل اور امیر حمزہ کی کھوپڑی لیے واپس داستانوں کی دنیا میں جا رہے ہیں۔جب  عمرو عیار موتی ہار ی کی موتی جھیل کے پاس آئے تھے اور گڑیا سے ملے تھے اس وقت ہندوستان میں ٹیلی ویژن تو تھا نہیں اس لیے وہ ٹیلی ویژن پر نمودار نہ ہوئے ورنہ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے بچے عمرو عیار کو ان کی زنبیل کے ساتھ ضرور    دیکھ لیتے۔

٭

ہمارے تمہارے باباسائیں ملک کی تین یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر رہے۔ ان میں دو یونیورسٹیاں تو بہت بڑی تھیں ، بہار یونیورسٹی اور میتھلا یونیورسٹی (اب ان دونوں یونیورسٹیوں کو تقسیم کر دیا گیا ہے )__ باباسائیں کشمیر یونیورسٹی کے بھی وائس چانسلر رہے۔ مشکل دور میں ہر یونیورسٹی کے کامیاب وائس چانسلر ثابت ہوئے۔ اردو کے پہلے پروفیسر ہیں جو وائس چانسلر رہے۔ جب بہار یونیورسٹی کے وائس چانسلربنے اس وقت جانتے ہو ان کی عمر کیا تھی۔ صرف۴۸ سال! اتنی کم عمر میں اتنی بڑی یونیورسٹی کاوائس چانسلر شاید ہی کوئی بنا ہو۔مظفر پور اور در بھنگہ میں طلبہ اور ان کے مستقبل کے لیے انہوں نے جو کارنامے انجام دئیے اب وہ تاریخ بن گئے میں۔بہار یونیورسٹی اور متیھلا یونیورسٹی میں جو سدھار کئے وہ اپنی مثال آپ ہیں ، امتحانات درست کئے، نقل کی وبا روکی، یونیورسٹیوں میں ڈسپلن پیدا کی۔پسماندہ اور پچھڑے ہوئے طبقوں کے طلبہ کے ساتھ اب تک جو نا انصافیاں ہو رہی تھیں وہ روک دیں۔ بہت کچھ کیا انہوں نے۔متیھلا یونیورسٹی میں تو انہوں نے ایک تاریخ لکھ دی، طلبہ کے ساتھ انصاف کے لیے اس وقت کی ’’ بھگوت جھا آزاد‘‘ حکومت سے ٹکرائے، اپنی ملازمت کی پروا نہیں کی ، انہیں نئی نسل کے بچوں کے مسقبل کی فکر رہی، ملازمت سے ہٹا دئیے گئے تو نوجوان نسل کے ساتھ بہار میں ایسی لڑائی لڑی کہ بھگوت جھا آزاد کی حکومت ختم ہو گئی، اس وقت کے وزیر تعلیم کے مقابل لوک سبھا الیکشن میں کھڑے ہوئے اور اپنے مخالف کو زبردست شکست دی، یہ بھی باباسائیں کا ایک بڑا تاریخی کارنامہ ہے۔دربھنگہ سے الیکشن لڑ کر لوک سبھا میں آئے اور پھر مرکزی حکومت میں صحت عامہ اور خاندانی بہبود کے کابینہ درجے کے وزیر بنے اور بڑے بڑے کام کئے۔

جب باباسائیں بہار یونیورسٹی مظفر پور کے وائس چانسلر بنے بہت سے دلچسپ واقعات پیش آئے۔کاش کوئی ان اہم اور یادگار واقعات کو لکھ دے۔ اس وقت ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا تھا جسے آج بھی بہت سے لوگ یا د کرتے ہیں۔باباسائیں ابھی ابھی وائس چانسلر بن کر آئے تھے ، انہیں معلوم ہوا کہ ایک شخص جس پر قتل اور ڈکیتی کے کئی مقدمے چل رہے ہیں۔اکثر اپنے غنڈے ساتھیوں کے ساتھ جیپ میں سوار ہو کر یونیورسٹی آتا ہے اور یونیورسٹی آفس اور کلاس روم وغیرہ سے پنکھے نکال لیتا ہے، اور بھی چوریاں کرتا ہے اور سب کی آنکھوں کے سامنے ساری چیزیں جیپ میں رکھ کر چلا جاتا ہے۔کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ ٹوکے، پولیس بھی خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔بابا سائیں نے وائس چانسلر ہوتے ہی یونیورسٹی آفس اور کلاس روم اور دوسرے بہت سے کمروں میں نئے پنکھے لگوائے تھے۔ اب انتظار تھا اس شخص کا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ آتا اور انہیں کھول کر لے جاتا ، ایک شام اپنے باباسائیں یونیورسٹی لائبریری کے سامنے ٹہل رہے تھے کہ اس شخص کی جیپ کئی بدمعاشوں کو لئے دندناتے ہوئے آئی اور باباسائیں کے سامنے رک گئی۔ اس شخص نے بابا سائیں کو غور سے دیکھا اور پھر جیپ سے اتر کر انتہائی بدتمیزی کا ثبوت دیتے ہوئے بابا سائیں سے پوچھا:

’’تو آپ ہی ہیں اپنے نئے کل پتی جی؟ اخبار میں فوٹو دیکھا تھا آپ کا۔تب ہی پہچان کر اتر گیا‘‘

پھر اس نے اپنا نام بتایا، بابا سائیں کواس کا نام پہلے ہی سے معلوم تھا ، بابا سائیں تنہا کھڑے تھے۔ان غنڈوں کی جیپ سامنے کھڑی تھی ، وہ شخص بابا سائیں کے پاس تھا اور اس کے غنڈے ساتھی اسے گھیر کر کھڑے تھے ، سب کے ہاتھ میں چمڑے کے بیلٹ تھے۔یقیناً بابا سائیں کی جان خطرے میں تھی ، تم ہی بتاؤ جس نے کئی خون کئے ہوں لوگوں کو لوٹا ہو ، وہ اس وقت کچھ بھی کرسکتا تھا ، مقصد صاف تھا وہ بابا سائیں کو ڈرانا چاہتا تھا۔

’’ہاں میں ہی ہوں نیا کل پتی‘‘ باباسائیں نے جواب دیا۔

’’ سنا ہے یونیورسٹی میں نئے پنکھے لگے ہیں۔خبر تو ہو گی آپ کو کہ ہم ہر بار انہیں اتار کر لے جاتے ہیں ، آج بھی انہیں اتارنے آئے ہیں ، ہم انہیں بازار میں بیچ دیتے ہیں اور روپے کما لیتے ہیں ، یہ بھی ہمارا ایک دھندا ہے۔ہاں کل پتی جی پولیس کو خبر نہ کیجئے گا۔آپ نئے کل پتی ہیں اس لئے بتائے دیتا ہوں۔پچھلے کل پتی لوگ تو یہ سن کر کہ میں آیا ہوں اپنی کوٹھی میں چھپ جاتے تھے‘‘

پھر زور دار قہقہہ لگایا، اس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی قہقہہ لگا کر اس کا ساتھ دیا۔

باباسائیں نے کہا ’’ٹھیک ہے تم جو کام کرتے آئے ہو کر لو لیکن تھوڑی دور میرے ساتھ اکیلے چلو۔تم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں ‘‘

اس شخص نے حیرت سے پوچھا’’ اے کل پتی جی کیا بات کریں گے آپ؟بھاشن واشن دیں گے ؟میں بھاشن واشن نہیں سنتا‘‘

باباسائیں نے جواب میں کہا’’ نہیں بھاشن نہیں دیں گے ، آؤ میرے ساتھ چلو لنگٹ سنگھ کالج تک ، کتنی دور ہے ، سامنے ہی توہے۔ ہم دونوں کچھ بات تو کر لیں پھر جانے کب ملنا ہو‘‘

جانتے ہو بچو !وہ شخص بابا سائیں کے ساتھ چلنے کو تیار ہو گیا اور دونوں یعنی باباسائیں اور وہ آہستہ آہستہ لنگٹ سنگھ کالج کی طرف بڑھنے لگے۔ بابا سائیں کے ایک سیکرٹری پرشوتم جی نے بتایا ’’ہم لوگ بہت ڈر گئے تھے ، کل پتی جی اکیلے اس آدمی کے ساتھ جا رہے تھے جس نے کئی خون کئے تھے اور جانے کتنی ڈکیتیاں کی تھیں ‘‘

پھر جانتے ہو کیا ہوا؟

کچھ دیر بعد دور سے اس شخص نے چیخ کر اپنے ساتھیوں کو آواز دی ’’ جیپ لے کر ادھر آؤ‘‘ جیپ اسی طرف دوڑ گئی، اس شخص نے باباسائیں کے پاؤں چھوئے اور جیپ پر بیٹھا اور پھر ایک دو تین، تیزی سے چلا گیا ___اور اپنے بابا سائیں اپنے خاص انداز سے آہستہ آہستہ ٹہلتے ہوئے کل پتی نواس آ گئے ، جتنے لوگ وہاں جمع تھے سب    حیرت زدہ تھے ، یہ کیسے ہوا، وہ جو یونیورسٹی کو لوٹنے آتا رہا اور آج بھی لوٹنے کے ارادے سے آیا تھا بغیر کچھ کئے اس طرح واپس کیسے چلا گیا۔فوراً یہ خبر پھیلی کہ نئے کل پتی یعنی وائس چانسلر یعنی اپنے بابا سائیں منتر تنتر جانتے ہیں۔ کچھ پڑھ کر اس غنڈے پر پھونک دیا اور وہ واپس چلا گیا۔

بابا سائیں نے کسی کو نہیں بتایا کیا بات ہوئی کہ وہ کیمپس چھو ڑ کر اس طرح چلا گیا، یہ ابھی تک سب کے لیے معمہ ہے۔

پھر وہ شخص کبھی بہاریونیورسٹی نہیں آیا، ایک دو ماہ ہی گزرے تھے کہ معلوم ہوا بیگو سرائے میں اسے کسی نے قتل کر دیا۔

اتنے برسوں کے بعد( یہ ۱۹۷۸ء کا واقعہ ہے ) میں نے باباسائیں سے اس با ت کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا۔

’’کیا یہ واقعہ ہے؟ یہ صحیح ہے ؟ کیا ایسا ہوا تھا؟ مظفر پور میں کئی لوگوں نے مجھ سے اس بات کا ذکر کیا ہے ‘‘

انہوں نے جواب دیا   ’’ ہاں ،  ایسا ہی ہوا تھا‘‘

میں نے دریافت کیا’’ یہ تو بتائیے آپ نے اسے کیا کہا کہ وہ چلا گیا اور پھر یونیورسٹی کی طرف نہیں آیا؟ کیا واقعی آپ نے کوئی منتر مارا تھا یا کوئی دعا پڑھی تھی !

باباسائیں نے ہنستے ہوئے کہا’’ دعا تو ہر وقت پڑھتا رہتا ہوں ، اس وقت بھی پڑھ رہا تھا۔کوئی منتر نہیں جانتا بھئی، میں نے دور لے جا کر اس سے صرف اتنا کہا تھا’’ تم مجھے اپنی جیپ میں بٹھا کر اپنی ماتا جی کے پاس لے چلو میں ان سے ملنا چاہتا ہوں ‘‘وہ گھبرا گیا پوچھا

’’کیوں ؟ آپ میری ماتا جی سے کیوں ملنا چاہتے ہیں ‘‘

میں نے کہا ’’بیٹے شاید تمہاری ماتا جی یہ نہیں جانتیں تم کیسی زندگی گزار رہے ہو ، دیش اور لوگوں کا کتنا نقصان کر رہے ہو۔  میں انہیں صرف یہ بتا کر چلا آؤں گا کہ آپ نے اس لڑکے کو جنم دے کر کتنا بڑا پاپ کیا ہے ؟

یہ سمجھوشبو میاں کہ اندھیرے میں تیر صرف چلا نہیں بلکہ اندھیرے میں تیر لگ گیا۔ایسا لگا جیسے وہ شخص حد درجہ بزدل اور ڈرپوک ہے، اپنی ماں سے بے حد ڈرتا ہے۔کسی اور سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا اپنی ماں سے ڈرتا ہے ، ممکن ہے کسی نفسیاتی الجھن یا کمپلکس کا شکار ہو۔وہ گھبرا سا گیا۔ میری باتوں سے جانے اس پر کیا اثر ہوا کہ میرے پاؤں چھوئے اور اپنے دوستوں کو بلا کر جیپ میں بیٹھ گیا اور چلا گیا۔تم تو جانتے ہی ہو ایک دو ماہ ہی گزرے تھے کہ اس کے کسی مخالف نے بیگو سرائے میں اسے قتل کر دیا!

بچو! بابا سائیں کتنے حوصلہ مند ہیں ، پریشانیوں میں بھی نہیں گھبراتے ، حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت سے تیار رہتے ہیں۔ ان کی زندگی اس وقت خطرے میں تھی، ان کی حوصلہ مندی دیکھ کر دیکھو اللہ نے ان کی کس طرح حفاظت کی !!

٭       تم لوگوں کو اس بات کی خبر نہیں کہ ہمارے تمہارے بابا سائیں پر تین بار جان لیوا حملے ہو چکے ہیں ، ایک حملہ اس وقت ہوا تھا جب وہ متھیلا یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ہوا یہ کہ وہ چند پروفیسروں اور طلبہ و طالبات کے ساتھ بیٹھے تھے ، فوٹو گرافر تصویر کھینچنے کی تیار ی ہی کر رہا تھا کہ اوپر سے لوہے کا ایک مضبوط اور بھاری فانوس ان کے سر کو نشانہ بنا کر گرایا گیا۔ یہ مہاراجہ در بھنگہ کے زمانے کا فانوس تھا جو زنگ آلود اور خطرناک حد تک نوکیلا تھا۔بہت بڑی سازش تھی یہ ، اللہ کی قدرت دیکھو باباسائیں بال بال بچ گئے، جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔وہ فانوس ، زنگ آلود لوہے کا بھاری بھر کم نوکیلا فانوس ایک پروفیسر کے سر پر گرا جو باباسائیں کے ساتھ بیٹھتے تھے ، پروفیسر صاحب لہو لہان ہو گئے ، ان کاسر پھٹ گیا، نیم بیہوشی کے عالم میں انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔

دوسری بار باباسائیں پر جان لیوا حملہ اس وقت ہوا جب وہ دربھنگہ سے الیکشن لڑ رہے  تھے۔اسٹیشن ویگن پر سوار تھے۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو چائے کی طلب ہو ئی تو ایک ڈھابے کے پاس رکے۔ سبھوں نے چائے پی اور پھر وہاں سے روانہ ہو گئے ، بابا سائیں کو قریب ہی ایک گاؤں میں جانا تھا جہاں انہیں تقریر کرنا تھی۔ اسٹیشن ویگن کی رفتار جیسے ہی تیز ہوئی پیچھے سے ایک جیپ پوری اسپیڈ کے ساتھ آئی اور کسی شخص نے اس اسٹیشن ویگن پر بم پھینک دیا جس پر باباسائیں اور ان کے دوست احباب سوار تھے۔جیپ تیزی سے آگے بھاگ گئی، باباسائیں کا اسٹیشن ویگن پیچھے رہ گیا، جیسے ہی اسٹیشن ویگن آگے بڑھا پیچھے وہ بم بڑی تیز آواز کے ساتھ پھٹا جسے جیپ سے پھینکا گیا تھا، اسٹیشن ویگن آگے بڑھ گیا تھا ورنہ کوئی زندہ سلامت نہیں بچتا۔بابا سائیں بھی بچ گئے اور ان کے ساتھی بھی،  اللہ نے سبھوں کو اپنی خاص حفاظت میں لے لیا۔ یہ بات ٹھیک ہے نا کہ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے!

تیسرا واقعہ یہ ہے کہ الیکشن کے دوران اپنے لیے ووٹ مانگنے جب ایک گاؤں میں پہنچے(وہ گاؤں گاؤں جا رہے تھے کبھی اسٹیشن ویگن پر کبھی پیدل، کبھی کسی کی سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر، خوب پد یاتر ا کی ہے اس زمانے میں اپنے بابا سائیں نے) تو انہیں ایک گھر میں لے جایا گیا، ان کے ساتھ اور بہت سے لوگ تھے ، باباسائیں کے آنے کی خبر سے تیاری مکمل تھی، انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور جو لوگ ساتھ تھے انہیں چائے پیش کی گئی۔باباسائیں کے پاس جو پیالی آئی وہ دیر سے آئی معلوم ہوا کہ ان کے لیے کافی بنائی گئی ہے۔کافی بنانے میں دیر ہو گئی۔باباسائیں کافی بہت کم پیتے ہیں ، انہیں عجب سا لگا کہ سب چائے پی رہے ہیں اور انہیں کافی دی جا رہی ہے۔ابھی وہ سوچ ہی رہے تھے کہ ایسا کیوں ہوا کہ اسی گھر کا ایک چھوٹا بچہ دوڑا آیا اور اس کے جھٹکے سے کافی کی پیالی نیچے گر کر ٹوٹ گئی۔ مالک مکان نے حیرت سے بابا سائیں کو دیکھا جو اطمینان سے بیٹھے تھے۔وہ شخص اٹھا اور سب کے سامنے باباسائیں کے پاؤں پر گر کر رونے لگا۔ کہنے لگا آپ کرشن کے اوتار ہیں ، لوگ سچ کہتے تھے آپ کرشن کے اوتار ہیں ، مجھے معاف کر دیجئے یا مجھے پولیس کے حوالے کر دیجئے۔پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نے بتایا کسی کی ہدایت پر اس نے باباسائیں کی کافی میں کوئی زہر ڈال دیا تھا۔اسے انتظار رہا کہ بابا سائیں کے منہ سے پیالی کب لگتی ہے کہ اس کا چھوٹا سا ننھا سا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور ایک جھٹکے کے ساتھ کافی کی پیالی نیچے گرا دی۔بابا سائیں مسکرائے، بولے اپنے ساتھیوں سے ’’ یہ بات بس یہیں تک رہے گی، باہر نکل کر کوئی اس کا ذکر نہیں کرے ‘‘انہوں نے اس شخص کو اٹھایا سینے سے لگایا اس کے گمچھے سے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا، اس کے ننھے بچے کو گود میں اٹھا کر پیار کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر نکل آئے۔ باہر ایک بڑے جلوس کے آگے چلتے چلتے دوسرے گاؤں پہنچ گئے جہاں ان کا شاندار استقبال ہوا۔

٭

یہ جو ہمارے تمہارے بابا سائیں ہیں نا ان کے قلم میں جانے کیا جادو ہے جو لکھ دیتے ہیں کوئی بھو لتا نہیں۔ان کی تحریر کو کہانی بننے میں دیر نہیں لگتی۔اپنی کتاب       ’’ آشرم‘‘ میں اپنے بچپن کے ایک واقعے کو اس طرح یا د کرتے ہیں :

’’بہت چھوٹا تھا ، ابو پرندے خریدتے اور مجھ سے کہتے     ’’ انہیں اڑادو‘‘ پرندوں کو اس طرح آزاد کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی ہوتی تھی۔جب پرندے میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اڑتے تو ابو کے چہرے پر عجیب ہی مسکراہٹ پھیل جاتی تھی اور ان کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو چھلک آتے تھے۔

مجھے آزاد ہوتے ہوئے خوبصورت پرندے بہت اچھے لگتے تھے

تب سے آزادی مجھے پسند ہے

جی چاہتا ہے سب اسی طرح اڑتے پھریں

کوئی کسی کو اذیت نہ دے

کوئی کسی کو دکھ نہ دے

آزادی کا یہ پہلا احساس تھا

جو مجھے ملا تھا!

جب بھی بعض لمحوں میں قید ہوا ہوں

ایک عجیب کرب کا احساس ہوا ہے

اور مجھے

پرندہ بیچنے والے کی

وہ ٹوکری یا د آ گئی ہے

کہ جس میں

پرندوں کو قید دیکھا ہے ‘‘       (ڈائری ۲؍جولائی ۱۹۷۵ء)

غور سے پڑھو باباسائیں نے کتنی گہری باتیں کہی ہیں !

اسی طرح اپنے ابو کے باغ کے ایک درخت کی کہانی سنائی ہے۔ یہ آم کا خوبصورت گھنا پیڑ تھا۔ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ درخت بچپن سے میرے دوست رہے ہیں ، ان سے میری دوستی بہت پرانی ہے بچپن میں آم کے اس درخت سے دوستی ہو گئی، وہ اس درخت پر چڑھتے اس سے باتیں کرتے۔بابا سائیں کی امی کو گزرے کئی برس ہوچکے تھے ، جب بھی ان کی یاد آتی آم کے اس درخت کے نیچے بیٹھ جاتے تھے۔ اس سے باتیں کرتے، اسے کہانیاں سناتے۔ اس پیڑ پر ننھے بابا سائیں نے اپنے نام کا پہلا حرف ’ش‘، لکھ دیا تھا۔لکھتے ہیں ’’ جب بسم اللہ ہوئی اور پہلی بار مولوی عترت حسین صاحب کے پاس نئی شیروانی نیا کرتا نیا پاجامہ اور نئی ٹوپی پہن کر بیٹھا تو اسی درخت کی چھاؤں میں ، ایسا لگا جیسے اپنی امی کے آنچل کے سائے میں بیٹھ گیا ہوں۔

زمین حکومت نے خرید لی، باغ اجڑنے لگا، درخت کٹنے لگے، ایک دن دیکھا آم کا وہ درخت، میرا دوست کٹ کر زمین پر گراہوا ہے۔ میرے نام کے پہلے حرف پر مٹی لگی ہوئی ہے۔ میں بے اختیار رو پڑا۔

جانے وہ درخت کتنے دن اسی طرح پڑا رہا۔ ایک روز جب اسے دیکھنے گیا تو دیکھا اس کے کئی حصے کاٹے جاچکے ہیں اور مزدور انہیں بیل گاڑی پر رکھ کر لے جا رہے ہیں۔

مجھے اچانک اپنی امی کا جنازہ  یاد آ گیا!!

بابا سائیں کی یہ سچی کہانی سن کر آ گئے نا تمہاری آنکھوں میں بھی آنسو، دیکھو میری آنکھیں بھی بھیگ گئیں ، ننھے بابا سائیں کے زمانے کے واقعات لکھ کر۔ یہ جو بڑے بابا سائیں ہیں نا ہمیں رلا دیتے ہیں۔

 

٭

ہا ں بھئی اب جھٹ سے آنکھیں صاف کرو اور اپنے بابا سائیں کی یہ کہانی سنو، باباسائیں نے بچوں کے لیے ’’ باباسائیں کی کہانیاں ‘‘ کے عنوان سے جو بارہ کہانیاں لکھی ہیں ان میں یہ دوسری کہانی ہے ، پہلی کہانی کا ایک حصہ سناچکا ہوں یعنی بہادر شاہ ظفر کی کہانی کا۔ اب سنو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی کہانی کا یہ حصہ۔باباسائیں کی دوسری کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے۔

تم نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کانام ضرور سنا ہو گا۔پنجاب کے راجا تھے ، لوگوں سے بہت پیار کرتے تھے اور لوگ بھی ان سے پیار کرتے تھے ، ان کی بڑی عزت تھی، ہندو مسلمان سکھ سب مل جل کر رہتے اور اپنے مہاراجہ کا گن گاتے۔

فقیر عزیز الدین مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیر اعظم تھے ، اتنے اچھے تھے اتنے اچھے کہ لوگ انہیں بھی چاہنے لگے تھے ، پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مٹی کی مورتیاں بنی تھیں توساتھ ہی فقیر عزیز الدین کی مورتیاں بھی بنتی تھیں۔ لوگ اور خاص طور پر بچے مہاراجہ اور فقیر عزیز الدین کی مورتیاں اپنے گھروں میں سجاتے تھے۔

ایک بار مہاراجہ رنجیت سنگھ ایک جنگل سے گزر رہے تھے تو کسی جنگلی جانور نے ان کے گھوڑے پر حملہ کر دیا تھا، مہاراجہ گھوڑے سے نیچے گرے تو وہ جنگلی جانور ان پر جھپٹا، اس وقت فقیر عزیز الدین نے اپنی تلوار سے اس جنگلی جانور کے دو ٹکڑے کر دئیے۔ تب سے مہاراجہ اپنے وزیر اعظم کو بہت پیار کرنے لگے تھے ، فقیر عزیز الدین کے مشورے کے بغیر وہ کوئی کام نہیں کرتے۔

 

٭

میں بابا سائیں کی مطبوعہ ڈائری پڑھ رہا تھا۔۱۹ دسمبر۱۹۷۶ء پر لکھا ہے :

’’بچوں سے بہتر دوست مجھے اب تک نہیں ملے ہیں ، ان کی محبت میرے لیے ہمیشہ نعمت رہی ہے، ہندوستان اور دنیا کے کئی ملکوں میں میرے ننھے دوست ہیں جو مجھے پیارے پیارے خط لکھتے ہیں ، ان کی تصویروں نے مجھے اکثر کربناک لمحوں سے باہر نکالا ہے۔ریلوے اسٹیشنوں پر بھیک مانگتے، پلیٹ فارم پر پڑے پتوں کو چاٹتے، ورک شاپ،  میں کام کرتے ، جوا کھیلتے، فٹ پاتھ اور ناپاک گلیوں میں پڑے، روتے بھوک سے بے چین، حیرت سے ٹکٹکی باندھے تیز رفتار، بدحواس، بے تعلق زندگی کو دیکھتے، لڑتے جھگڑ تے اور گالیاں دیتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر رو پڑتا ہوں

اوراس وقت میرے معصوم بھولے بھالے پیارے دوستوں کے خط بھی

اور ان کی بنائی ہوئی تصویریں بھی

مجھے سہارا نہیں دیتیں !

یہ___کیسے کربناک لمحے ہیں !!

(نوٹ بک  مطبوعہ۱۹دسمبر۱۹۷۶ء)

بابا سائیں کی مطبوعہ ڈائری کا یہ صفحہ پڑھو:

’’دنیا کے تمام بچوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کی خواہش ہمیشہ ایسی رہی ہے کہ اب بھی اکثر لمحوں میں تلملا جاتا ہوں !

جی چاہتا ہے سب کام چھوڑ کر صرف یہی ایک کام کروں

اپنی سوسائٹی میں انہیں اپنا حق نہیں ملا ہے

ان کا استحصال ہوتا رہا ہے

زندگی کے انتشار کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے !

حکومت نے آئین میں ملک کے بچوں کے بنیادی حقوق کی بات تو کی ہے

لیکن یہ اپنا احساس کب بنا ہے

کیا وہ جبلت ہی مر گئی ہے جو پتھر کے زمانے سے بچوں کا تحفظ کرتی رہی ہے ؟

(نوٹ بک   ۷ستمبر ۱۹۷۴ء)

 

ہمارے تمہارے باباسائیں جب پارلیمنٹ کے ممبر بنے تو بچوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہے ، اس وقت کے وزیر اعظم وشواناتھ پرتاب سنگھ سے گزارش کی کہ حکومت جلد سے جلد قومی سطح پر بچوں کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے جو ملک کے بچوں کے مسائل حل کرے اور ان کے بہتر مستقبل پر سوچے۔بابا سائیں نے وزیر اعظم کو اپنے خط کے ساتھ تجاویز بھیج کر گزارش کی کہ وہ جلد کارروائی کریں اس لیے کہ ملک کے مستقبل کا انحصار اپنے بچوں پر ہے۔بابا سائیں نے کئی مثالیں دے کر وزیر اعظم کو بتایا کہ کن سطحوں پر بچوں کا استحصال ہو رہا ہے۔بچوں کو ایک اچھی صحت مند زندگی کی  ضرورت ہے، ان کی عمدہ غذا کا خیال رکھنا ہے، ان کی تعلیم و تربیت اور ان کے کھیل کود کی جانب زیادہ دھیان دینا ہے۔ ہندوستان کے بچے تحفظ چاہتے ہیں اور ہم آزادی کے بعد انہیں تحفظ نہیں دے سکے ہیں۔ وزیر اعظم نے باباسائیں کو یقین دلایا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور جلد کچھ نہ کچھ کریں گے لیکن افسوس وہ کچھ نہ کرسکے، ان کی تمام تر توجہ دوسرے مسائل کی جانب رہی بچوں کی جانب نہیں رہی۔

جب باباسائیں مرکزی وزیر صحت عامہ و خاندانی بہبود بنے تو مختلف ہسپتالوں کا معائنہ شرو ع کیا اور ہسپتالوں میں بچوں کی دیکھ بھال کے انتظامات درست کئے ، ایک دن وہ اچانک ٹی ، بی ہسپتال پہنچ گئے۔انہیں یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ اگر ماں کو ٹی، بی ہے اور اس کا علاج ہو رہا ہے تو اس کے بچے جنہیں کوئی بیماری نہیں ہے ماں کی پلنگ ہی پرسو رہے ہیں۔انہوں نے احکامات جاری کئے، بچوں کا ایک علیٰحدہ وارڈ قائم کیا گیا اور ان کی بہتر دیکھ بھال کے انتظامات کئے گئے۔چھوٹے بچوں کے علاج اور ان کے آپریشن وغیرہ کے لیے جس نے بھی درخواست دی (درخواستیں سارے ملک سے آتی تھیں ) اسے خرچ کے لیے کثیر رقم منظور کی۔ جو شخص بھی اپنی درخواست لے کر ان کے پاس گیا مایوس واپس نہیں آیا، جب بھی کمرے سے نکلا بابا سائیں کو دعائیں دیتا ہوا نکلا۔ تم جانتے ہو دہلی کے معروف ہسپتال کے صدر ہونے کے بعد انہوں نے ہسپتال کے سامنے الیکٹرونک کا ایک بورڈ لگوایا جواب بھی یہ بتا تا ہے کہ ملک میں ہر سکینڈ کتنے بچے پید ا ہوتے ہیں۔

٭

باباسائیں کا ایک واقعہ سناؤں ، یہ واقعہ مجھے دربھنگہ کے ایک دوست نے سنایا تھا۔باباسائیں الیکشن لڑ رہے تھے ، کہتے ہیں لوگوں کے چندے پر اکتفا کر کے باباسائیں نے جس طرح پارلیمنٹ میں الیکشن لڑا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لوگ لاکھوں خرچ کرتے ہیں الیکشن پرا و راب تو کروڑوں خرچ ہوتا ہے۔باباسائیں کی حالت سے سب واقف تھے ، عام لو گ دن بھر چندہ کرتے، رکشے والے ہر شام اپنی کمائی سے کچھ نہ کچھ دیتے، مزدور چندہ دیتے اسکول اور کالج اوریونیورسٹی کے طلبہ چندہ جمع کرتے ، گاؤں میں کسان اپنی کمائی سے کچھ دیتا، اس طرح پوسٹر ، جھنڈے جھنڈیاں ، پمفلٹ وغیرہ بنانے کاسلسلہ شروع ہوا۔ادھر مخالف جماعت کا امیدوار لاکھوں روپے خرچ کر رہا تھا، باباسائیں کے پیچھے عوام کی طاقت اور ان کے حق حلال کی کمائی کے پیسے تھے اس لیے بابا سائیں کو یقین تھا کہ وہ کامیاب ہوں گے۔وہ گاؤں گاؤں جاتے ، کبھی کسی کی گاڑی میں کبھی کسی کی بائیسکل کے پیچھے بیٹھ کر کبھی پیدل، لوگوں سے باتیں کرتے، تقریریں کر تے اور چندہ لے کر واپس آ جاتے، چھوٹے بڑے بچے پوسٹر تیار کرتے، بینر تیار کرتے، جھنڈیاں بناتے ، سڑکوں اور گلیوں کو جھنڈیوں سے سجاتے۔ہوا یہ کہ مخالفت جماعت کے امیدوار نے ایک شخص کو صرف اس کام پر معمور کیا کہ وہ رات میں نکلے اور باباسائیں کے تمام بینر جھنڈیاں اتار لے۔ دن بھر بچے جو کرتے یعنی جو بینر جھنڈیاں بناتے کوئی انہیں اتار کر ضائع کر دیتا۔ باباسائیں کی پارٹی کے لوگ بہت پریشان تھے سب سے زیادہ پریشان وہ بچے اور رکشے والے تھے جو رات دیر تک جھنڈیاں تیار کر کے لگاتے بینر لٹکاتے۔سب نے بابا سائیں سے شکایت کی تو انہوں نے کہا ’’پروا نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا اللہ مالک ہے ‘‘باباسائیں ہر بات پر کہتے’’ اللہ مالک ہے ‘‘ اور ان کی یہ بات شہر میں اتنی مشہور ہو گئی کہ اب ہر شخص کہنے لگا اللہ مالک ہے۔ لوگوں نے اس شخص کو پہچان لیا تھا جو شب میں غلط کام کرتا تھا لیکن چونکہ باباسائیں کی جانب سے کوئی اشارہ نہ تھا اس لیے سب خاموش تھے۔

ایک دن صبح یہ خبر ملی کہ تالاب میں ایک لاش تیر رہی ہے۔معلوم ہوا یہ اس شخص کی لاش ہے جوباباسائیں کے بینر جھنڈیاں اتار ا کرتا تھا۔اس نے خود کشی کر لی تھی۔

جب اس کی ارتھی اٹھی تو جانتے ہو بچو ہمارے تمہارے بابا سائیں ارتھی کے ساتھ تھے۔ان کی زبان پریہ کلمہ تھا ’’ اللہ مالک!‘‘

یہ تو تمہیں معلوم ہی ہے کہ بے شمار تکلیفوں کے باوجود بابا سائیں نے پارلیمانی الیکشن میں اپنے مخالف کو زبردست شکست دی اور ان کی فتح کے بعد د ربھنگہ شہر میں جوجلوس نکلا اس میں لاکھوں لوگ تھے ، جلوس میں لو گ رقص کر رہے تھے، شکیل الرحمن زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے، اسی شب ہولی کھیلی گئی، دیوالی منائی گئی، گھروں میں چراغاں کیا گیا۔دربھنگہ کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا جلوس تھا، اس سے پہلے اور اس کے بعد کسی نے ایسا جلوس نہیں دیکھا۔

بابا سائیں نے ایک جگہ تحریر کیا ہے۔

’’کتنا خوش نصیب ہوں میں کہ اپنی موت کے فوراً بعد زندہ ہو جاؤں گا!

کسی کے دل میں زندہ رہوں گانا!

وہ کون ہے کہ جس کے دل میں

زندہ رہوں گا؟؟ ‘‘

 

_____باباسائیں اللہ آپ کو سلامت رکھے! آپ بچوں کے دل میں ہمیشہ زندہ رہیں گے،  ہاں بچوں کے دل میں آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے !

شعیب شمس

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر شکیل الرحمٰن،جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید