FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔۔ ۱۰

بچوں کے نصرت شمسی

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔۔ ۱۰

بچوں کے نصرت شمسی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

درخت کی گواہی

گرمیوں کی چھٹیاں تھیں اور سب بچے اپنی نانی دادی کے گھر گھومنے گئے ہوئے تھے۔ لبیب بھی اپنی نانی کے گھر گیا ہوا تھا۔ لبیب کے خالہ ماموں کے بچے بھی وہیں گئے ہوئے تھے۔ سب کو خوب مزہ آ رہا تھا۔ دن بھر کھیل، اودھم کود، بچوں کی محفلیں الگ تو بڑوں کی الگ، رات کو کھانے پر تو سب مرد بھی جمع ہوتے اور خوب رات تک محفلیں چلتیں، کبھی مشاعرہ ہوتا تو کبھی بچے بڑے مل کر کوئی کھیل کھیلتے۔ لبیب کو لوڈو اور کیرم بہت پسند تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ہر وقت کسی نہ کسی کے ساتھ کھیلتا رہے۔ لوڈو ہر وقت اس کی بغل میں دبی نظر آتی۔ نانی بچوں کو یوں ہنستے کھیلتے دیکھتیں تو خوب خوش ہوتیں اور ان سب کی سلامتی کی دعائیں کرتی رہتیں۔

آج سب بچے پروگرام بنائے بیٹھے تھے کہ رات کو نانی اماں سے کوئی کہانی سننا ہے۔ اس لئے سب کھانا کھاتے ہی نانی اماں کے کمرے میں چلے گئے۔ لبیب چونکہ سب سے بڑا تھا اور نانی کا لاڈلا بھی تھا اس لیے اس نے نانی اماں کے پاس جاتے ہی اپنے پروگرام کا اعلان کر دیا۔

’’نانی اماں آج ہم سب کو آپ سے کہانی سننا ہے۔ بتایئے کون سی سنائیں گی؟‘‘

لبیب نے لوڈو کی گوٹوں کو نکال کر پھر سے رکھتے ہوئے کہا۔ نانی اماں نے لبیب کی بات سن کر اسے مسکرا کر دیکھا اور اسے ٹالنا چاہا۔

’’بچے کہانی کیوں؟ تم سب ایسا کرو کہ یہاں مل کر بیٹھو اور لوڈو کھیلو۔‘‘

’’نہ نہ ایسا کوئی چکر نہیں ہے۔ ہمیں کہانی سننا ہے تو سننا ہے۔‘‘

لبیب نے ضد کرتے ہوئے کہا اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا۔

’’نانی اماں سنائیے نا پلیز۔ دیکھئے ہمیں آئے ہوئے ایک ہفتہ گزر گیا اور چار پانچ دن بعد ہم سب چلے جائیں گے اور ابھی تک آپ نے ایک بھی کہانی نہیں سنائی۔‘‘

’’اچھا چھا۔ چلو سب بیٹھو، سناتی ہوں۔‘‘

’’ہرے ہرے ……‘‘

’’ہاں تو بچو، جو کہانی میں سنانے والی ہوں وہ فارسی کی کہانی ہے اور پتہ ہے کہ یہ کہانی میں نے بہت پہلے پڑھی تھی جب میں اسکول جایا کرتی تھی۔‘‘

’’اچھا نانی! آپ کو ابھی تک وہ سب یاد ہے؟‘‘

بچوں نے حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں بیٹا! اور یہ کہانی مجھے بہت پسند ہے۔ جس کو میں اردو میں سناتی ہوں۔ کہانی کا نام ’درخت کی گواہی‘ ہے۔ بچو! کہانی یہ ہے کہ ایک نیک آدمی تھا۔ ایک دن اس کا ایک ملنے والا اس کے پاس آیا اور اپنی کچھ پریشانی بتائی اور اس سے کچھ قرض مانگا۔ اس نیک انسان نے اس کی پریشانی سن کر اسے سو اشرفیاں دے دیں۔ قرض لینے والا اسے چار ماہ بعد لوٹانے کا کہہ کر چلا گیا۔

وقت گزرتا گیا۔ چار ماہ کا وقت گزر گیا لیکن وہ قرض لوٹانے نہیں آیا اور نہ ہی اس نے کچھ اور مہلت مانگی۔ اس طرح چھ ماہ گزر گئے۔ ایک دن وہ نیک آدمی اس کے گھر گیا اور اس سے اپنا قرض واپس مانگا تب قرض لینے والے نے اس سے کہا کہ کون سا قرض؟ میں نے تو کوئی قرض لیا ہی نہیں ہے۔ دونوں میں کافی بحث ہوئی لیکن وہ انکار کرتا رہا۔ آخر کار اس نیک آدمی نے کہا کہ اچھا چلو ہم قاضی کے پاس چلتے ہیں۔ وہ جو فیصلہ کریں گے وہ ہم دونوں قبول کر لیں گے۔‘‘

بے ایمان شخص اس بات پر راضی ہو گیا اور اگلے دن چلنے پر راضی ہو گیا۔ اگلے دن دونوں قاضی صاحب کی عدالت میں پیش ہوئے اور اس نیک شخص نے پورا واقعہ قاضی جی کو سنایا۔ قاضی جی نے کہا کہ ٹھیک ہے ابھی فیصلہ ہو جائے گا۔ اس نیک شخص سے پوچھا کہ ’’تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟‘‘

’’نہیں حضور! کوئی نہیں۔ اس وقت میں اپنے کھیتوں میں تھا۔ میرے آس پاس کوئی نہیں تھا۔‘‘

قاضی جی نے پوچھا کہ ’’تم نے اشرفیاں کس وقت دیں تھیں اور تم اس وقت کیا کر رہے تھے؟‘‘

’’حضور میں کھانا کھانے کے لیے درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔‘‘

’’اچھا تو جاؤ اس درخت کو یہاں لے کر آؤ۔ وہی گواہی دے گا۔‘‘

قاضی جی یہ بات سن کر سب حیران رہ گئے کہ درخت کیسے گواہی دے گا؟

’’حضور! درخت کیسے آ سکتا ہے؟‘‘ اس نیک انسان نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’آئے گا۔ تم جاؤ اور اس سے کہو کہ قاضی صاحب نے بلایا ہے۔‘‘

وہ نیک آدمی حیران تھا لیکن قاضی جی کا کہنا بھی ماننا تھا اس لیے چل پڑا۔ قاضی جی نے اس بے ایمان شخص سے کہا کہ تم یہیں میرے ساتھ درخت کے آنے کا انتظار کرو۔ بے ایمان شخص قاضی جی کی بے وقوفی پر بہت خوش ہوا کہ ’’درخت تو آ ہی نہیں سکتا تو گواہی کیا دے گا۔‘‘

کئی گھنٹے گزر گئے لیکن گواہی دینے کوئی نہیں آیا نہ ہی وہ نیک آدمی واپس آیا۔ تین گھنٹے گزرنے کے بعد اچانک قاضی جی نے اس بے ایمان شخص سے پوچھا کہ ’’وہ آدمی درخت تک پہنچ گیا ہو گا؟‘‘

تب اس نے بے ساختہ کہا ’’ابھی نہیں۔‘‘

تین گھنٹے اور گزر گئے۔ شام ہونے کو تھی کہ وہ نیک آدمی پسینہ میں شرابور تھکا ماندہ قاضی جی کی عدالت میں واپس آیا اور رو رو کر کہنے لگا

’’حضور میں نے اس درخت سے بہت کہا کہ میرے ساتھ چل تجھے قاضی جی نے گواہی دینے کے لیے بلایا ہے لیکن وہ نہیں آیا۔‘‘ قاضی صاحب مسکرائے اور بولے

’’لیکن درخت تو آ کر گواہی دے بھی گیا۔‘‘

اتنا سننا تھا کہ سب نے حیران ہو کر ایک دوسرے کو دیکھا کہ ’’کب آیا درخت؟‘‘ وہ بے ایمان شخص بھی چونک اٹھا۔

تب قاضی صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا کہ ’’یہ آدمی سچا ہے اور تم اس کی سو اشرفیاں واپس کرو۔‘‘

’’لیکن قاضی صاحب درخت کب آیا؟‘‘ کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی۔ تب قاضی صاحب نے اس بے ایمان شخص سے کہا کہ ’’جب میں نے تم سے پوچھا کہ کیا گواہی کے لیے گیا شخص درخت تک پہنچ گیا ہو گا؟ تب تم نے کہا کہ ابھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم اس درخت کو جانتے ہو جہاں یہ گیا تھا۔ بس یہی درخت کی گواہی تھی۔‘‘

دربار کے سب لوگ قاضی جی کے اس سمجھداری کے فیصلے پر بہت خوش ہوئے اور اس طرح اس نیک انسان کو اس کی اشرفیاں بھی واپس مل گئیں۔

سب بچے بہت غور سے کہانی سن رہے تھے۔

’’تو بچو! کیسی لگی کہانی؟ اور کیا سیکھا؟‘‘

نانی نے مسکرا کر سب سے پوچھا۔

’’واہ نانی مزہ آ گیا۔‘‘

لبیب نے لوڈو بغل میں دبائی اور خوش ہو کر سب کو دیکھا

’’اور نانی یہ سیکھا کہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ یہ ہمیشہ ہمیں شرمندہ کراتا ہے۔‘‘

’’شاباش میرے بچو! چلو اب بھاگو۔ مجھے ابھی نماز بھی پڑھنا ہے۔‘‘

’’ہپ ہپ ہرے چلو بچو۔‘‘ بچوں کا سردار بنا لبیب شور مچاتا ہوا سب کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔

٭٭٭

سورج گیا نانی کے گھر

مما یہ اتنے دن سے سورج چاچو کہاں چلے گئے ہیں۔ آ ہی نہیں رہے۔ کڑکتی ٹھنڈ اور مما کے نہانے کے اعلان نے علی کو بے چین کر دیا، اب وہ نہانے کے تصور سے ہی کپکپا رہا تھا۔ اس نے منہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا جہاں دور دور تک کہرا چھایا ہوا تھا۔ ٹھنڈ سے دانت جمے جا رہے تھے۔ سورج جیسے کہیں گم ہو گیا تھا۔ کڑاکے کا جاڑا پڑتے آج دسواں دن تھا اور محکمہ موسمیات بتا رہا تھا کہ ابھی دس دن سورج اور غائب رہے گا۔ اس زبردست ٹھنڈ سے ہر چیز سکڑی سمٹی اپنی جگہ ٹھٹھری پڑی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ ہر وقت لحاف میں گھسے رہو۔ اب ایسے میں نہانے کا تصور ہی جان لیوا محسوس ہو رہا تھا۔

’’علی چلو پانی تیار ہے بیٹا، نہانے کے لئے اٹھ جاؤ‘‘

مما نے علی کے کپڑے غسل خانے میں رکھتے ہوئے آواز لگائی۔

’’مما ایک دن اور رک جائیے۔ کل نہلا دینا‘‘۔ علی نے لحاف میں منہ چھپاتے ہوئے کہا۔

’’نہیں بچہ بہت گندے ہو رہے ہو۔ چلو شاباش اٹھ جاؤ جلدی سے۔‘‘

’’دیکھو دادو نے انگیٹھی جلائی ہے۔ نہا کر ان کے پاس بیٹھ جانا۔ گرمائی آ جائے گی۔‘‘

’’مما! لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ سورج چاچو کہاں کھو گئے ہیں؟‘‘

’’علی آ جاؤ بیٹا، میں نہاتے ہوئے سورج کی کہانی سناؤں گی۔ سورج آج کل نانی کے گھر گیا ہوا ہے۔ چلو شاباش! جلدی آ جاؤ۔‘‘

’’مما‘‘

علی نے پھر بھرائی ہوئی آواز نکالی ’’ٹھنڈ لگ رہی ہے۔‘‘

’’علی!‘‘

مما نے زور سے آواز لگائی۔

مما کی ناراضگی والی آواز سن کر علی دوڑتا ہوا غسل خانے تک چلا گیا۔

’’مما سورج والی کہانی۔‘‘

’’ہاں ہاں بیٹا ابھی سناتی ہوں۔ ذرا گرم پانی کو اپنے پیروں پر ڈالو‘‘

گرم پانی پڑتے ہی علی کو ٹھنڈ لگنا ختم ہو گئی اور مما نے اسے نہلانا شروع کر دیا۔

’’ہاں تو بیٹا علی اب بتاؤں سورج چاچو کہاں چلے گئے؟ علی! آپ کو میں نے بتایا تھا کہ یہ زمین جس پر ہمارا گھر ہے یہ انڈے جیسے شیپ کی ہے۔ یعنی گول بھی ہے اور تھوڑی لمبی بھی ہے بالکل انڈے کی طرح۔‘‘

’’جی مما۔‘‘

کپکپاتے ہوئے علی نے جواب دیا اور سر پر لگے شیمپو سے کھیلنے لگا۔

’’شاباش! اور زمین کے نیچے ایک لٹو جیسی پھرکی ہوتی ہے۔ جیسے لٹو کو گھما کر چھوڑ دیتے ہیں تو وہ نوک کے سہارے گھومتا رہتا ہے بس اسی طرح ہماری یہ زمین ہر وقت گھومتی رہتی ہے اور یہ تھوڑی ترچھی سی گھومتی ہے۔ مما نے اپنا ہاتھ لائٹ کے آگے سیدھا کیا اور پھر ترچھا کیا اور علی کو دکھایا کہ دیکھو میرے ہاتھ پر لائٹ کیسی پڑ رہی ہے۔‘‘

’’مما آپ نے ہاتھ آڑا کر لیا ہے تو لائٹ ہاتھ کے کسی حصے پر آ رہی ہے اور کسی پر نہیں۔ اسے سیدھا کریں تاکہ یہ سب جگہ آ جائے۔‘‘

’’شاباش! میرا بیٹا بہت سمجھدار ہو گیا ہے۔ بس ایسی ہی زمین چلتی رہتی ہے اور چلتے چلتے ہماری زمین والا حصہ سورج سے دور ہو جاتا ہے۔ تم اس لائٹ کو سورج سمجھ لو اور دیکھو اس کی لائٹ میرے ہاتھ کے جس حصے پر نہیں پڑ رہی ہے تو اس حصے تک سورج نہیں آ پاتا ہے اور پھر کڑاکے کی ٹھنڈ پڑتی ہے اور سورج گم ہو جاتا ہے۔ یا یوں کہہ لو کہ سورج نانی کے گھر چلا جاتا ہے۔ جیسے آپ جاتے ہیں تو پاپا کی نظروں سے دور ہو جاتے۔ ہیں اسی طرح وہ بھی اپنی نانی کے گھر چلا گیا۔ سمجھو کچھ دنوں بعد جب زمین گھومتے گھومتے اوپر کی طرف آ جائے گی تو سورج واپس آ جائے گا اور موسم بدل جائے گا۔ آ گیا سمجھ میں؟‘‘

’’جی مما۔ اب میں اپنے دوستوں کو بتاؤں گا کہ سورج اپنی نانی کے گھر گیا ہوا ہے۔ مما ٹھنڈ لگ رہی ہے۔‘‘

’’ہاں ہاں علی بس ہو گیا۔ دیکھو آپ نے نہا بھی لیا اور پتہ بھی نہیں چلا۔ چلو اب بھاگو دادو کے پاس اور انگیٹھی کے پاس بیٹھ کر دادو کو سورج کے کھو جانے کی کہانی سناؤ۔‘‘

’’ارے سورج نانی کے گھر گیا ہے۔ کھویا کب ہے؟‘‘

علی نے دادو کے کمرے کی طرف دوڑ لگائی جہاں انگیٹھی سے چڑپڑ شعلے اٹھ رہے تھے اور کمرے کو گرم کر رہے تھے۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل