فہرست مضامین
بلال صاحب
شکیل احمد چوہان
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
انتساب
محبت پر یقین رکھنے والوں کے نام!
پیش لفظ
’’بلال صاحب ‘‘میری پہلی تحریر ہے۔ کچی عمر کی محبت اور پہلی تحریر دونوں ہی دل کے قریب ہوتی ہیں۔ یہ دونوں ننھے پودے دل کی مٹی پر محبت کا پانی گرنے سے نشو و نما پاتے ہیں، اس ڈر سے بے نیاز ان پر محنت کا پھل لگے گا یا نہیں۔
یہ کہانی میں نے 2002ء کے شروع میں فلم اسکرپٹ کی طرح لکھی تھی، اسی اسلوب پر بعد میں کئی اور کہانیاں تحریر کیں۔
2 اکتوبر 2014 کی صبح میں فجر کی نماز کے بعد اپنی ماں جی کے کمرے میں حاضر ہوا ماں جی نے فرمایا: ’’تمہارے لکھنے کا کیا فائدہ کسی کو پڑھاتے بھی نہیں اور کسی کو سناتے بھی نہیں ‘‘ میں نے اسی وقت ماں جی کو اس اسکرپٹ سے ایک سین سنایا میری ماں کی آنکھوں میں آنسو تھے، وہ قبولیت کے آنسو تھے یا پھر محبت کے میں جان نہیں سکا۔
ماں جی نے حکم دیا، تم اس کہانی پر کتاب لکھو میں نے بال پین چھوڑا اور قلم اٹھایا پوری رات میں میرے قلم سے کاغذ کے سینے پر ایک بھی لفظ نہ اتر سکا۔
اگلے دن عصر کے بعد میں داستاں سرائے حاضر ہوا، محترمہ بانو قدسیہ آپا سے اپنا مسئلہ عرض کیا، بانو آپا نے فرمایا: ’’بیٹا لکھو گے تبھی لکھاری بنو گے۔ ‘‘
میں نے عرض کی اصلاح کون کرے گا؟
’’تمہارے پڑھنے والے تمہارے نقاد ہوں گے۔ لکھنے کے لیے ایک وقت مقرر کر لو پھر خیالات کی مچھلیاں روز اسی وقت آ جایا کریں گی‘‘ بانو آپا نے کمال کا مشورہ دیا تھا۔
ماں جی کی دعا سے قلم اٹھانے کی ہمت پیدا ہوئی تھی، اس قلم کو اعتماد کی سیاہی محترمہ بانو قدسیہ نے مہیا کر دی تھی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا نام لے کر میں نے یہ ناول لکھنا شروع کر دیا۔
اس سفر کے دوران میرے پہلے نقاد جو کہ دوست بھی ہے اور قدردان بھی محمد جمیل ملک نے میرا ہاتھ تھامے رکھا۔
زندگی کے ہر معاملے کی طرح اس ناول کو لکھنے کے دوران بھی مجھے میرے استاد حکیم محمد حنیف صاحب کی رہنمائی میسر رہی، حکیم صاحب شہر اقبال کی مشہور اور بزرگ شخصیت ہیں۔
مجھے یاد ہے دسمبر اور جنوری کی وہ سرد راتیں جب میرے ابا جان تہجد کے لیے اٹھتے اُسی وقت میں لکھ رہا ہوتا، ابا مجھ پر محبت کی نگاہ ڈالتے اور مُسکرا کر چلے جاتے، نماز تہجد کے بعد ان کی دعاؤں میں مجھے خاص جگہ مل جاتی۔
ان سب قابل احترام افراد کے ساتھ ساتھ میں ان سب جاننے والوں کا بھی مشکور ہوں جنہوں نے میرا مذاق اڑایا یا پھر میری حوصلہ افزائی کی۔
میں گل فراز احمد کا شکر گزار ہوں جن کے تعاون سے میری اس کوشش کو کتاب کی شکل نصیب ہوئی۔
گل فراز احمد کے متعلق گھسے پٹے جملوں سے ہٹ کر سیدھی بات کہتا ہوں۔ گل صاحب واقعی گل ہیں، جو اپنا کام ایمانداری سے کرتے ہیں، سیدھی اور کھری بات کہتے ہیں۔
میں امید کرتا ہوں میرے پڑھنے والوں کو میری پہلی تحریر پسند آئے گی، جس طرح پہلی محبت دل سے کی جاتی ہے اسی طرح پہلی تحریر بھی تجربے کی روشنی کے بغیر دل کے دیے کی لَو ہی سے لکھی جاتی ہے۔
آپ کی قیمتی آرا کا منتظر
شکیل احمد چوہان
مئی 2015
shakeelahmaedchohan1@gmail.com
بلال وہ اک نام جو اس کی سوچ کی پتھریلی زمین پر، پتھر پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح نقش ہے، وہ نام جسے وہ اپنی زبان پر لانا پسند نہیں کرتی تھی۔ اب اس کی زبان کا کل اثاثہ ہے، وہ ایک ہی ورد جپتی ہے، صبح ہو یا شام بہار ہو یا خزاں اس کے ہونٹوں پر وہی ایک نام ہے، باقی سب کچھ وہ بھول چکی ہے، قحط کے دنوں میں میلوں دور تک پھیلے ہوئے ریگستان میں پانی کے آخری کنوئیں سے جیسے زندگی کو امید وابستہ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ نام اس کی زندگی میں پانی کا آخری کنواں ہے، جس سے اس کی زندگی سیراب ہوتی ہے۔
جس نام کا مطلب وہ پوچھا کرتی تھی، اب اسی کا وظیفہ کرتی ہے، اور وہ نام ہے بلال……
وہ جو رنگ و نور کی دنیا میں رہتی تھی، وہ جو رنگوں کو رنگین کر دیتی، جسے اپنے حسن پر ناز تھا اور اپنے حسب و نسب پر فخر تھا، اپنی دولت پر اتراتی پھرتی تھی، چاند سا چہرہ تھا، مگر اس میں تپش سورج جیسی علم واجبی تھا اور دانش واجبی سے بھی کم، جاذب نظر اتنی کہ نظر اس کے حضور مؤدب کھڑی رہتی اس کی دلفریبی دیکھ کر اکثر دل فریب کھا جاتے۔
خوشبو کی دلدادہ تھی خوشبو کی دکان میں جاتی تو اپنی خوشبو چھوڑ آتی، اس کا پہناوا دیکھ کر لڑکیاں نقل کرتیں، اس کی وارڈ روب کپڑوں سے فل تھیں، ڈریسنگ ٹیبل پر پرفیوم کی بوتلوں کا قبضہ تھا، جوتوں کا شمار کرنا مشکل تھا۔
اس کا کمرہ تتلی سے زیادہ رنگین تھا، لبرل سوچ کی وہ مالک تھی اختصار جس کے پاس سے نہیں گزرا تھا، لیونگ سٹینڈرڈ اپر کلاس والا، پارٹیز میں جانا ڈنرز انجوائے کرنا، فیشن شوز ایگزی بیشن اور کنسرٹ جس کی زندگی تھے۔
پھر اس کی زندگی میں ایک تلاطم آیا یکایک سب کچھ بدل گیا، ان سب نعمتوں سے اس کی علیک سلیک ختم ہو گئی اب 12بائی 14کا کمرہ اس کا مقدر ہے اور یہی اس کی دنیا ٹھٹھرتی راتوں اور پگھلتی دوپہروں میں وہ اکیلی ہے اس کا مال و متاع اس کے کسی کام کا نہیں رہا، وہ خالی خالی نظروں سے دیواروں کو دیکھتی رہتی ہے جن کا کلر آف وائیٹ ہے سفید لباس میں ملبوس جس سنگل بیڈ پر وہ بیٹھی ہے اس کا تکیہ اور بیڈ شیٹ بھی سفید ہیں۔ جنوبی دیوار کی جانب پشت کر کے وہ اپنے بیڈ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھی شمالی دیوار پر اٹیچ باتھ کے دروازے کے اوپر لگی ہوئی پینٹنگ کو دیکھتی رہتی ہے۔
شمالی دیوار پر باتھ روم کے ساتھ 4بائی 6کی کھڑکی ہے، کھڑکی کے نیچے ونڈو ACلگا ہوا ہے۔ ACسے پہلے بلیک لیدر کا لباس پہنے ایک صوفہ پڑا ہوا ہے۔ بیڈ کے دائیں ہاتھ کمرے کا داخلی دروازہ اور بائیں ہاتھ ایک سائیڈ ٹیبل پڑا ہوا ہے، ایک ٹیوب لائٹ اور ایک سفید پنکھا ہے۔ کھڑکی پر لگے پردوں کا رنگ بھی آف وائیٹ ہے، اس کمرے میں اگر کچھ رنگ ہیں بھی تو وہ اس پینٹنگ میں قید ہیں جس سے اس کی نظریں نہیں ہٹتی ہیں۔
وہ پینٹنگ رنگین تو ضرور ہے مگر تلاطم خیز موجوں میں پھنسی ہوئی، ناؤ جس کا ماجھی اُسے چھوڑ کر جا چکا ہے اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے تن تنہا ماجھی کے بغیر بقا کی جنگ لڑنا نا ممکن سا ہے، یہ اس پینٹنگ کا مضمون (کیپشن) ہے۔ یہ بیس کمروں کا وارڈ ہے آمنے سامنے بیچ میں کوریڈور ہے مغرب کی طرف شروع میں کمرہ نمبر 1اور 20آمنے سامنے ہیں اور کوریڈور کے آخر میں مشرق کی طرف کمرہ نمبر 10اور 11آمنے سامنے ہیں، کوریڈور کے آخر میں مشرقی دیوار کے ساتھ 8بائی 10کی ایک بڑی کھڑکی لگی ہوئی ہے۔
وہ کمرہ نمبر 11کی ملکہ ہے اس کی سلطنت میں سورج کی کرنوں کا داخلہ منع ہے۔
دوسرے تیسرے دن سورج کی کرنیں اس کے دیدار سے فیض یاب ہوتی، جب وہ صبح 10بجے کے آس پاس کوریڈور میں تشریف لاتی ہے کوریڈور میں لگی ہوئی کھڑکی کی دوسری طرف دو کنال کا خالی پلاٹ ہے جہاں جنگلی گھاس کا بسیرا ہے۔
ایک بڑا بوڑھا پیپل کا درخت دو کنال کے پلاٹ کا راجہ ہے اور نیم کا درخت اس کا وزیر اور امرود کے کئی چھوٹے درخت سپاہی ہیں۔ پلاٹ کے دوسری طرف سرکاری ہسپتال کا کچن ہے جہاں سے کھانوں کی خوشبوئیں ہوا کے پروں پر سوار ہو کر اس تک پہنچتی ہے جب وہ کوریڈور میں کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوتی ہے پیپل کا درخت ایک موسیقار کا احساس لیے ہوئے اس کے سامنے کھڑا ہے جو ہلکے سے ہوا کے جھونکے پر اس کو جھوم کر دکھا دیتا ہے جبکہ نیم اور امرود کے درخت اس ہوا کے جھونکے کو محسوس نہیں کر پاتے سورج کی کرنیں پتوں سے لڑتی جھگڑتی اور لوہے کی جالیوں سے بچھتی بچھاتی اس کے رخساروں کا بوسہ لیتی ہیں۔
وہ کمرہ نمبر 11کے سامنے کھڑی ہے ایک کے ساتھ ایک کھڑا ہو تو 11بنتا ہے جسے وہ 2کہتی تھی۔
11تو اسے اب بھی یاد نہیں ہاں البتہ 11کہنے والے کا نام یاد ہے۔ بلال……بلال…… بلال……
٭…٭…٭
ڈاکٹر ہاجرہ نیازی اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی ہیں عمر 50سال کے آس پاس اس ہسپتال میں تقریباً20سال سے اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ان کے سامنے میز کی دوسری طرف ایک مرد اور عورت بیٹھے ہیں عورت زندگی میں تقریباً 25بہاریں دیکھ چکی ہے اس کی گود میں ڈیڑھ دو ماہ کا بچہ ہے، اس کے چہرے پر پریشانی کا پڑاؤ ہے۔ مرد کچھ حد تک مطمئن ہے۔
اپنے سامنے پڑی رپورٹس دیکھ کر ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے کہا ’’پہلے سے کافی بہتر ہے اب میڈیسن کھا لیتی ہے’‘ ’’اور کھانا’‘ عورت یک لخت بولی اس کا پوچھنا فکر مندی ظاہر کر رہا تھا پاس بیٹھے مرد نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا ’’انشاء اللہ وہ ٹھیک ہو جائے گی’‘ اس نے اپنی طرف سے تشفی دینے کی پوری کوشش کی۔ ’’دیکھو بیٹا ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں’‘ ڈاکٹر ہاجرہ نے نہایت شگفتگی سے کہا اتنے میں آفس بوائے چائے لے کر آ گیا اس نے چائے کمرے کے کونے میں پڑے صوفہ سیٹ کے سامنے سینٹر ٹیبل پر رکھ دی۔ ’’میڈیم چائے’‘ ٹرے میز پر رکھ کر اس نے کہا ’’تم جاؤ میں بنا لوں گی’‘ ڈاکٹر ہاجرہ نے جواب دیا ’’آؤ چائے پیو’‘ اپنی کرسی سے اٹھتے ہوے کہا اور صوفے پر بیٹھ کر چائے بنانے میں مصروف ہو گئی، عورت نے اپنے اشکوں کو پلکوں کی دہلیز پر زبردستی روکا ہوا تھا۔ مرد نے اسے بازو سے پکڑا اور آنکھوں سے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں اٹھے اور ڈاکٹر ہاجرہ کے سامنے بیٹھ گئے ان کے بیچ میں سنٹر ٹیبل پڑا ہوا تھا جس پر چائے والی ٹرے پڑی تھی۔ ڈاکٹر ہاجرہ نے چائے کا کپ عورت کی طرف بڑھا دیا، مرد نے خود اپنا کپ اٹھا لیا چائے کا سپ لیتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا ’’ریالٹی یہ ہے کہ چانس تو ہے مگر بہت کمI will try my best، Miracle کرنے والی ذات وہ ہے۔’‘ عورت کی باڈی لینگویج ایک ہارے ہوئے کھلاڑی کی مانند تھی جو میچ ختم ہونے سے پہلے ہی ہار مان چکا ہو۔
’’میں ان سب باتوں میں بھول ہی گئی تمہیں بہت بہت مبارک ہو’‘ ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے دانائی سے موضوع تبدیل کر دیا۔ عورت کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی جسے وقتی طور پر اس کے زخموں پر مرہم رکھ دیا گیا ہو اور اس کے غم کا مداوا کر دیا گیا ہو۔
’’کیا نام رکھا بیٹے کا’‘ بغیر توقف کے ڈاکٹر ہاجرہ نے پوچھا ’’بلال محسن’‘ مرد نے تفاخر سے جواب دیا۔ ڈاکٹر ہاجرہ نیازی نے حیرانی سے ان دونوں کی طرف دیکھا اور آہستگی سے کہا ’’پھر سے بلال’‘
٭…٭…٭
سورج کے بیدار ہونے سے پہلے فجر کے وقت جب چاند اپنے بستر پر جا کر لیٹ چکا تھا۔ سردیوں کی دھند سورج سے دست و گریباں ہونے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ کمرے میں بڑی پرسکون خاموشی تھی۔ وال کلاک دن کے جاگتے ہی اور رات کے سوتے ہی اپنی آواز سے محروم ہو گیا تھا۔ پرانی وضع کا ایک سنگل بیڈ اور اس کے سامنے دیوار کے ساتھ ایک دیوان اس کا ہم عمر پڑا تھا۔ دیوان کے پڑوس میں رائٹنگ ٹیبل اپنی ساتھی کرسی کے ساتھ جلوہ افروز تھی۔ بیڈ کے بائیں جانب دیوار کے ساتھ لاثانی اور لکڑی کی بنی ہوئی ایک وارڈروب تھی اور اس سے پہلے بیڈ کے ساتھ کتابوں کا ایک خوبصورت آشیانہ تھا جہاں مختلف موضوعات کی سینکڑوں کتابیں محفوظ زندگی گزار رہی تھیں۔ ان کتابوں کو دیکھ کر قاری کی نفاست اور ذوق کا اندازہ ہوتا تھا کمرے کا داخلی دروازہ جو کہ مغرب کی طرف تھا دائیں ہاتھ اٹیچ باتھ روم تھا جس کا دروازہ داخلی دروازے کے ساتھ تھا بائیں ہاتھ ایک دیوار تھی جس کی اندر والی سائیڈ میں سنک لگا تھا۔ چھوٹے سے کوریڈور سے گزرتے ہوئے بائیں ہاتھ پر اوپن کچن تھا۔ اس کچن کی جنتا کم ہے ایک چھوٹا سا فریج سینڈوچ میکر، الیکٹرک کیٹل اور چند چینی کی پلیٹس اور کرسٹل کے گلاس اور ایک جگ اور چار بڑے خوبصورت مگ اور کچھ چمچ ہیں۔ اوون اور چولہے کو کیسے بھول سکتے ہیں۔ دیوان کے ساتھ جائے نماز پر بندہ اپنے اللہ کے سامنے فجر کا آخری سجدہ ادا کر رہا ہے۔ دروازہ کھلتا ہے اور گل شیر خان کی نظر سجدے سے اٹھتے ہوئے جاذب نظر چہرے پر پڑتی ہے وہ رائٹنگ ٹیبل والی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ سلام پھیرتے ہی گل شیر خان بول اٹھے ’’ماشاء اللہ’‘ ’’السلام علیکم خان صاحب’‘ نمازی نے جائے نماز لپیٹے ہوئے کہا اور اسے دیوان کے بازو پر رکھ دیا، گل شیر خان یکایک بولے ’’وعلیکم السلام میری جان کیسے ہو بلال بیٹا۔۔۔ !’‘ ’’ اللہ کا شکر ہے’‘ بلال احمد نے جواب دیا جو کہ نماز سے فارغ ہو چکا تھا۔ ’’آپ کے لیے چائے بناؤں’‘ بلال نے کہا۔ ’’تو بہ توبہ تمہاری چائے تم ہی پی سکتے ہو، ہم دودھ والا چائے پیتا ہے’‘ گل شیر نے جواب دیا۔ بلال کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی ’’آپ کیسے تشریف لائے کچھ کام تھا ؟’‘ بلال نے شائستگی سے پوچھا۔ ’’بڑے صاحب آ گئے ہیں میں بتانے کے لیے آیا تھا’‘ گل شیر خان نے جواب دیا۔ ’’ٹھیک 9بجے ناشتہ ہے’‘ جاتے ہوئے کہا ’’جی ٹھیک ہے’‘ بلال نے ہولے سے جواب دیا۔ گل شیر خان کے جانے کے بعد بلال کسی گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سوچوں کے سفر سے واپس لوٹا تو اس کی نظر وال کلاک پر پڑی جو اب خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا ’’دیر ہو گئی’‘ اس نے خود سے کہا اور جلدی سے ٹریک سوٹ پہنا اور ململ کا کرتہ لٹھے کا پائجامہ اتار کر واشنگ مشین میں ڈال دیا جو کہ بڑے سے باتھ روم کے ایک کونے میں پڑی تھی اور خود جاگنگ کے لیے چلا گیا۔
٭٭٭
کمرے میں گیس ہیٹر کی وجہ سے اچھی خاصی حرارت موجود تھی۔ جہاں آرا بیگم ہاتھ میں تسبیح لیے توبہ استغفار میں مصروف تھیں دروازہ کھلتا ہے۔
’’ماں جی آداب۔۔۔ !’‘ اندر آتے ہوئے جمال رندھاوا نے کہا۔ جہاں آرا بیگم کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنی موونگ چیئر سے اٹھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’’آپ تشریف رکھیں ماں جی’‘ جمال رندھاوا آگے بڑھ کر گلے ملتا ہے اور ماں کے قدموں میں کارپیٹ پر کُشن کے اوپر بیٹھ جاتا ہے ’’میرا بچہ’‘ ہولے ہولے بالوں اور منہ پر پیار کرتے ہوئے جہاں آرا بیگم نے کہا ’’کب آئے’‘ جمال رندھاوا نے ہاتھ چومتے ہوئے جواب دیا ’’تھوڑی دیر پہلے، آپ کی طبیعت کیسی ہے ؟’‘ ’’اللہ کا شکر ہے بیٹا کافی دن لگا دیے اس بار’‘ جہاں آرا نے پوچھا۔ ’’بس کام کچھ زیادہ تھا ماں جی خیر آپ سنائیں کیا چل رہا ہے آج کل’‘، جمال نے ایک ہی سانس میں سب کچھ پوچھ لیا ’’میں گھر میں پڑی رہتی ہوں تمہارا بیٹا اور بیوی اپنی فیکٹری کے کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔ نوشی اور توشی وہ کیا کہتے ہیں اسے۔۔۔ ؟’‘
’’بوتیک’‘ جمال نے لقمہ دیا۔
’’ہاں بوتیک میں مصروف رہتی ہیں’‘
’’اور بلال’‘ جمال نے آنکھوں سے سوال کیا۔
’’وہ عشا کے بعد آ کر میری خدمت گزاری کرتا ہے اور صبح جانے سے پہلے سلام کرنے آتا ہے’‘ جہاں آرا بیگم نے تفصیل سے اپنے بیٹے جمال رندھاوا کو جواب دیا۔
٭٭٭
بلال جاگنگ کر کے اپنے کمرے میں واپس لوٹتا ہے تو سورج کی کرنیں دھند کو کھا جاتی ہیں۔ وہ کمرے کے پردے ہٹاتا ہے تو کرنیں اس کا چہرہ چوم لیتی ہیں۔ سامنے ٹیرس کا شیشے والا دروازہ کھول کر وہ گملوں میں لگے ہوئے پودوں رات کی رانی، سرخ گلاب، موتیا اور دن کا راجہ سے ملتا ہے جو مسکرا کر اس کا استقبال کرتے ہیں۔
رات کی رانی کی خوشبو اب بھی فضا میں موجود ہے۔ تمام پودوں کے پھولوں کا بازار حسن سجا ہوا ہے۔ پھولوں کے چہروں پر ہلکا ہلکا تبسم ہے۔ جن کو دیکھ کر پیام حیات کا احساس ہوتا ہے۔
اب باری چھت پر جانے کی ہے وہ کمرے سے باہر آ کر داخلی دروازے کے ساتھ اوپر جاتی سیڑھیوں پر چلتا ہوا اپنے کمرے کی چھت پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں جمالیات کی ایک الگ دنیا آباد ہے۔ ایک طرف پودوں کا گرین ہاؤس اور دوسری طرف پرندوں کا ایئر پورٹ ہے۔ چھت کے مشرقی حصے پر بڑے بڑے گملوں کا قبضہ ہے۔ جن کے اندر پودینہ، ہری مرچ، دھنیا کے پودوں کا جم غفیر ہے۔ یہ سارے پودے بلال کی محنت کا ثمر ہیں۔ یہ گرین ہاؤس ہے بلال کا گرین ہاؤس ہے۔
چھت کے مغربی حصے پر پرندوں کا مسافر خانہ ہے پرندوں کی خاطر مدارت کے لیے مختلف اقسام کا دانہ اور پانی میسر ہے جو کہ چھوٹی بڑی مٹی کی کنالیوں میں رکھا گیا ہے۔ اکثر مسافر پرندے اس دستر خوان سے پانی پینا اور دانہ چننا عین سعادت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ بلال کا دستر خوان ہے۔ بلال کا یہ معمول تقریباً 14 سال سے ہے۔ وہ ہر روز ان کنالیوں میں دانہ اور پانی ڈالتا ہے اور ہفتے میں ایک بار ان کی صفائی کرتا ہے۔
٭٭٭
یہ دو کنال کا خوبصورت بنگلہ ڈیفنس میں واقع ہے جو کہ اب جمال رندھاوا کی ملکیت ہے۔ چوہدری ارشاد رندھاوا نے کئی سال پہلے اپنے دونوں بچوں جمال اور جمیلہ کے لیے دو پلاٹ خریدے، جن پر باہمی مشاورت سے یہ خوبصورت بنگلہ تعمیر کیا گیا۔ جمال کے پلاٹ پر یہ بنگلہ بنایا گیا اور ساتھ دوسرے پلاٹ پر ایک خوبصورت چھوٹا سا ڈبل یونٹ تعمیر کیا گیا جس کو ڈیزائن خود جمیلہ رندھاوا نے کیا تھا۔
اب یہ ایک ہی گھر کا حصہ ہیں۔ بنگلہ کے سامنے گھر کا خوبصورت لان ہے اور پچھلی سائیڈ پر سرونٹ کواٹرز ہیں۔ ڈبل یونٹ کے سامنے اب گاڑیوں کا پورچ ہے اور اس سے پہلے گھر کا میں گیٹ ہے۔ میں گیٹ کے ساتھ بائیں جانب سکیورٹی گارڈ کا روم ہے۔
یہ بنگلہ جدید فن تعمیر کا ایک دلکش نمونہ ہے۔ بنگلے کے بیرونی حصے پر سرخ گھٹکا لگا ہوا ہے۔ جیسے کوئی دلہن سرخ عروسی لباس پہن کر بیٹھی ہو۔
یہ رندھاوا ہاؤس ہے۔
٭٭٭
بڑے سے ڈائننگ ہال میں جمال رندھاوا بڑے سے ڈائننگ ٹیبل پر اخبار پڑھنے میں مصروف تھے۔ باجی غفوراں اور شاہد محمود سکھیرا کچن میں ناشتہ تیار کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ ہال کے عقب میں ایک بڑا دلکش کچن واقع ہے۔
’’اوئے شاہد آج تو بلال بھی ناشتے کے لیے آئے گا’‘ باجی غفوراں نے کہا جو کہ چائے بنانے میں مصروف تھی۔
’’Yes BG’‘ شاہد نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اوئے فرنگیوں کی اولاد تجھے کتنی بار سمجھایا ہے یا باجی بول نہیں تو سیدھا غفوراں کہہ لے یہ BGمت کہا کر’‘ باجی غفوراں نے بائیں ہاتھ کو اپنی کمر پر رکھتے ہوئے دائیں ہاتھ سے شاہد محمود کی گرد پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا۔
’’یہ ہاتھ چالاکی مت کیا کر باجی غفوراں تجھے کتنی بار کہا ہے’‘ چڑ کر تیور دکھاتے ہوئے شاہد محمود سکھیرا نے تلخ جواب دیا۔
’’تیری ماں جیسی ہوں تجھے اپنے بچوں کی طرح چوما چاٹا ہے۔ اتنا بھی حق نہیں ہے میرا؟’‘ بازو سے پکڑ کر جھنجوڑ کر جواب دیا۔
’’چل فیر کوئی گل نئیں’‘ پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح شاہد نے کہا۔ ’’تینوں سات خون معاف BG’‘
’’خون تو ایک بھی معاف نہیں ہوتا شاہد’‘ لمبی ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے باجی غفوراں بول اٹھی جیسے کوئی زخم ہرے ہو گئے ہوں اسکے۔
نو بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے جب بلال ڈائننگ ہال میں داخل ہوتا ہے۔
’’السلام علیکم ماموں جان’‘ بلال نے شائستگی سے کہا۔
’’وعلیکم السلام’‘ وال کلاک دیکھتے ہوئے ’’ٹائم کی پابندی کوئی تم سے سیکھے بلال۔۔۔ !’‘ گلے لگا کر بلال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر کہا۔
اتنے میں جہاں آرا بیگم بھی تشریف لے آتی ہیں ڈائننگ ٹیبل کے اطراف میں محفل سج جاتی ہے۔
جمال کے دائیں ہاتھ جمال کی بیوی ناہید جمال اور ایک کرسی چھوڑ کر اس کی دونوں بیٹیاں نسیم اور تسلیم یعنی نوشی اور توشی براجمان ہیں، بائیں ہاتھ ایک کرسی خالی ہے۔ جس پر سب کی نظریں ہیں، اس گھر کا ولی عہد شعیب جمال عرف شیعبی جمال کا اکلوتا اور بڑا بیٹا۔ جمال لیڈر آف دا ہاؤس ہے اس کی بالکل سامنے اس کی ماں جہاں آرا بیگم تشریف فرما ہیں جہاں آرا بیگم کے دائیں ہاتھ ان کا نواسہ بلال احمد بیٹھا ناشتہ کر رہا ہے۔ انتہائی سادہ ناشتہ دو براؤن بریڈ کے سلائس ایک انڈے کی سفیدی اور چائے کا پھیکا کپ۔
جمال رندھا وا خاموشی توڑتے ہوئے ناہید جمال سے مخاطب ہوتے ہیں۔
’’شعیب صاحب کہاں ہیں’‘ چائے کا سپ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’اپنے کمرے میں ہو گا’‘ ناہید نے ابرو چڑھاتے ہوئے تیکھی نظروں سے جمال کو دیکھ کر جواب دیا۔
’’شاہد …شاہد …!’‘ جمال نے رعب دار آواز میں شاہد کو بلایا۔
’’جی سر’‘ شاہد چند سیکنڈ میں پاس کھڑا عرض کر رہا تھا۔
’’شعیب صاحب کو بلا کر لاؤ’‘ جمال نے دھیرے سے حکم دیا۔
شاہد محمود کے جانے سے پہلے آواز آئی۔
’’ہیلو ڈیڈ۔۔ ہیلو ایوری باڈی…’‘ شعیب جمال آ چکا تھا۔
’’بیٹا آپ پندرہ منٹ لیٹ ہیں’‘ شعیب کی طرف دیکھتے ہوئے تبسم بھرے لہجے میں کہا جو کہ ان کے بائیں ہاتھ خالی سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔
’’ڈیڈ ہمارے سوشل سرکل میں ٹائم پر آنے والے کو ایڈیٹ سمجھا جاتا ہے’‘ بلال کی طرف دیکھ کر طنزیہ لہجے میں کہا۔
’’بیٹا یہ تمہارا سوشل سرکل نہیں تمہارا گھر ہے’‘ جمال نے نرم شگفتہ لہجے میں سمجھایا۔
’’خیر چھوڑو تم ناشتہ کرو’‘ ’’مگر کیا؟…’‘ شعیب عجلت میں بولا شانے اچکاتے ہوئے۔
’’کہاں مر گئے ہو۔ SMS…’‘ شعیب بھڑبھڑایا۔
’’آپ نے بلایا بندہ حاضر ہے’‘ SMSیعنی شاہد محمود سکھیرا مسکا پالش لگاتے ہوئے مؤدب جوس کا گلاس لیے پاس کھڑا تھا۔
شعیب غٹاغٹ جوس کا گلاس پی کر فارغ ہو گیا اور اجازت لے کر چلا بھی گیا۔
’’ڈیڈ ہم بھی یہاں بیٹھے ہیں’‘ توشی نے خفگی سے کہا ’’ہمیں تو کوئی پوچھ ہی نہیں رہا’‘ جمال نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جی میرا بچہ آپ فرمائیں’‘
’’فرمائیں خاک آپ نے کچھ پوچھا ہی نہیں’‘ توشی یکایک بولی۔ ’’سب ہنس پڑے’‘ ناشتے کے دوران ناہید اور نوشی لال پیلی ہوتی رہیں مگر کچھ کہا نہیں شعیب جوس کا گلاس پی کر پہلے ہی جا چکا تھا ناشتے سے فارغ ہو کر نوشی اور ناہید بھی چلے گئے بلال اٹھنے لگا جس کے ہاتھ میں اپنی نانی جہاں آرا بیگم کا ہاتھ تھا۔
’’بلال۔۔۔ ! تم رکو’‘ جمال نے سگار سلگاتے ہوئے بلال سے کہا۔ ’’ماں جی آپ توشی کے ساتھ تشریف لے جائیں’‘ توشی اپنے باپ کی آنکھوں کی زبان پڑھ لیتی تھی۔
جمال رندھاوا اور بلال ڈائننگ ہال سے نکل کر لاؤنج سے ہوتے ہوئے کوریڈور میں تھے جب جمال نے اپنے بلیک کوٹ کی دائیں پاکٹ میں پڑے چیک کو نکالا۔
گل شیر خان بلیک مرسیڈیز کا دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ گاڑی کے پاس پہنچ کر جمال نے وہ چیک بلال کو دیا۔
’’ماموں جان ضرورت نہیں ہے’‘ بلال نے دبی دبی آواز میں عرض کیا۔
’’جب ضرورت ہو گی مانگ لوں گا’‘
’’کاش وہ دن آئے میری زندگی میں’‘ نپے تلے انداز میں بولے ’’میں نے اپنی زندگی میں تم جیسا خود دار اور (Selfless)بندہ نہیں دیکھا’‘ جمال نے چیک بلال کے ہاتھ میں تھما دیا وہ چیک Cashکا تھا بلال نے وہ چیک گل شیر خان کو دیتے ہوئے درخواست کی آپ Cashکروا دیجیے گا۔
جمال گاڑی میں بیٹھ چکا تھا اور جانچتی نظروں سے بلال کو دیکھ رہا تھا۔ جمال اپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔
ناہید اور اس کی بڑی بیٹی نسیم عرف نوشی گھر کے ٹیرس پر کھڑے قہر آلود نگاہوں سے بلال کو دیکھ رہی تھیں۔
٭٭٭
اس گھر میں محبت اور نفرت کی یہ جنگ پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔ بلال محبت کی فوج کا سپاہ سالار ہے اور نوشی نفرت کی سینا کی رانی ہے۔ جمال رندھاوا کے تین بچے ہیں شعیب عرف شعیبی بڑا بیٹا، نسیم اور تسلیم جڑواں بہنیں جواب نوشی اور توشی کے نام سے جانی جاتی ہیں۔ جمال صاحب لیدر سے بنی اشیا کے بہت بڑے ایکسپورٹر تھے۔ ان کی فیکٹری ڈسکہ اور سیالکوٹ کے درمیان میں ڈسکہ روڈ پر واقع ہے۔ اکثر وہ ملک سے باہر ہوتے ہیں۔
ان کی بیوی اور بیٹا شعیب شعیبی کوٹ لکھ پت میں ٹریک سوٹ بنانے والی فیکٹری کے مالک ہیں۔ اور ان کی بیٹیاں نوشی اور توشی ڈیفنس کے yبلاک میں واقع اپنی بوتیک چلاتی ہیں۔
ڈیفنس کے فیز IIIمیں Sبلاک میں دو کنال کی شاندار کوٹھی ان کی راج دھانی ہے۔ ویسے تو اس گھر میں ملازموں کی سینا موجود ہے مگر ان میں سے 4بہت اہم ہیں۔
گل شیر خان اس گھر کے سب سے پرانے وفادار ہیں، ان کے عہدے کو کوئی نام نہیں دے سکتے وہ 30سال سے جمال رندھاوا کے ساتھ ہیں۔
جمال صاحب کے بعد فیکٹری معاملات وہی ہینڈل کرتے ہیں ان کے دو بیٹے بھی جمال صاحب کی فیکٹری میں ملازم ہیں، جمال صاحب جب ملک سے باہر ہوتے ہیں تو وہ سیالکوٹ میں اپنے گھر قیام کرتے ہیں۔ جمال صاحب جب پاکستان ہوں تو وہ ان کے ساتھ دن ہو یا رات۔۔ چوبیس گھنٹے ساتوں دن۔
باجی غفوراں بھی تقریباً اتنے عرصے ہی سے کام کر رہی ہے اس گھر میں وہ صبح سویرے آ جاتی ہے اور رات گئے واپس جاتی ہے، کچن کی ہیڈ ہے وہ ڈیفنس میں واقع چرڑ گاؤں کی رہنے والی ہے جو کہ Sبلاک کے پاس ہی واقع ہے۔
شاہد محمود سکھیرا اس گھر میں جوان ہوا ہے۔ سب کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتا ہے اور مزے کی بات سب گھر والے اسے اپنا خاص آدمی سمجھتے ہیں جمال اور بلال کے علاوہ سب اسے SMSکہتے ہیں۔
DJیعنی دلاور جتوئی لاہور ہیرو بننے آیا تھا۔ DJ نوشی اور توشی کا ڈرائیور کم سیکرٹری اگر چمچہ کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔
جہاں آرا بیگم ایک زیرک خاتون ہیں جو گھر کے افراد کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ڈوری میں باندھے ہوئے ہیں وہ ٹپیکل کنبہ پرست خاتون ہیں۔
وہ ڈوری جہاں آرا بیگم ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ناہید اور شعیبی کا رویہ بلال کے ساتھ غیر مناسب ہے اور نوشی کی ستم ظریفی بھی ان سے پوشیدہ نہیں ہے۔
بلال اس گھر میں رہتا تو ہے مگر وہ اس کا گھر کا فرد نہیں وہ اس گھر میں صرف جہاں آرا کے حکم سے رکا ہوا ہے ورنہ کب کا جا چکا ہوتا۔
وہ,26 25سال کا ایک خوبصورت گبرو جوان ہے۔ مضبوط قد کاٹھ کا مالک مگر سلم اینڈ سمارٹ اس کی پرسنالٹی دیکھ کر اکثر نظریں راستہ بھول جاتی ہیں۔ گفتار پر جس کو عبور حاصل ہے۔ کردار جس کا اعلیٰ ہے۔ بات کرتا تو جناب اشفاق احمد صاحب یاد آ جاتے، آواز اتنی رعب دار اور نفیس جیسے گلزار صاحب اپنا کلام اپنی ہی آواز میں سنا رہے ہوں …
اس کے رخِ پُر نور پر نظر پڑتی تو تبسمی مسکراہٹ آپ کا استقبال کرتی، دھیمی آواز میں بات کرتا نہ کم نہ زیادہ۔
نماز، روزہ، زکوٰۃ کا پابند، حج اس نے دو سال پہلے ہی کر لیا تھا۔ ہفتے میں دو روزے ضرور رکھتا۔ جمعہ اور پیر، قرآن مجید روز پڑھتا مگر ترجمے کے ساتھ اس کے پاس اردو کے چودہ تراجم کے نسخے موجود تھے۔ جو کہ الگ الگ مکاتب فکر کے علماء کرام کے تھے۔ تمام مسالک کی مساجد میں نماز پڑھ لیتا، مذہبی بحث سے اجتناب کرتا۔ اس کے پاس قرآن مجید کے علاوہ بھی دوسری کتابیں موجود تھیں۔ کافی ساری احادیث کی کتب بھی اس کے پاس تھیں۔ تصوف سے بھی لگاؤ رکھتا تھا۔ مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی اس کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھی۔
اردو ادب سے لگاؤ تھا شاعری پڑتا ضرور تھا مگر شعر کہنا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔
غالب، اقبال، فیض، فراز سے ہوتے ہوئے گلزار تک سب کے کافی اشعار اُسے یاد تھے۔ اس کے پسندیدہ شاعروں میں اقبال اور گلزار تھے۔
ناول اور افسانہ بھی اُسے پسند تھے۔ پریم چند، بیدی، منٹو، قاسمی سے ہوتے ہوئے بانو قدسیہ تک اس کے پاس کافی رائٹرز کے ناول اور افسانے تھے۔
احمد ندیم قاسمی اور بانو قدسیہ اس کے پسندیدہ رائٹرز تھے۔ خاص طور پر راجہ گدھ جو کہ بانو قدسیہ کی تحریر ہے اُسے بہت پسند تھی۔
اشفاق احمد کا ڈرامہ من چلے کا سودا اس نے کئی بار دیکھا تھا۔ آرٹ فلموں کا دلدادہ تھا۔ خاص طور پر نصیر الدین شاہ اور سمیتا پاٹل کی ساری فلمیں اس نے دیکھ رکھی تھیں۔
غزلیں اور لائٹ میوزک اسے بہت پسند تھا۔ مہدی حسن صاحب اور عابدہ پروین اس کے پسندیدہ سنگر تھے۔
کپڑوں کے معاملے میں اس کی پسند مختلف تھی۔ لائٹ بلو جینز کے اوپر اکثر وائٹ شرٹ پہنتا۔ اوپر بلیک کوٹ، کوٹ اسے بہت پسند تھے تقریباً ہر کلر اور ہر سٹف کا کوٹ اس کی وارڈروب میں موجود تھا۔ اور لائٹ کلر جینز میں جتنی ورائٹی تھی سب اس کے پاس تھی۔ زیادہ تر شرٹس لائٹ کلر میں استعمال کرتا۔
گھر میں شلوار قمیض پہنتا۔ کھانے کا شوقین تھا مگر زندہ رہنے کے لیے کھاتا، گرل فش بہت پسند تھی اس کے علاوہ پیاز گوشت، زیادہ تر ہرے بھرے سینڈوچ کھاتا جو کہ وہ خود ہی بناتا تھا۔ چھت پر پڑے گملوں سے پودینہ، دھنیا اور ہری مرچ توڑ کر ان کا پیسٹ بنا لیتا اور فریج میں محفوظ کر لیتا۔ بھوک کے وقت براؤن بریڈ کے اوپر وہ پیسٹ ڈال کر سینڈوچ میکر کی خدمات سے فائدہ اٹھاتا۔
کم گو مگر جب بولتا تو محفل لوٹ لیتا اکثر شعر سناتا تمام بڑے شاعروں کے، دوست بہت کم تھے دل کی بات زباں پر کم ہی لاتا۔
خود دار اتنا کہ خودی اُس کو عقیدت سے سلام پیش کرتی۔
اکثر کہتا دینے والی ذات صرف ایک ہے اس سے رو کر دل کھول کر مانگو اس لیے کہ کسی اور سے مانگنا نہ پڑے۔
اپنے ملازموں سے اخلاق سے بات کرتا اور وقت پر تنخواہ ادا کرتا۔
وہ ایک روشن خیال اور حدود میں رہنے والا انسان تھا۔ ہر عمر کی خواتین اسے پسند کرتیں کیونکہ اس کی آنکھوں میں حیا تھی۔ وہ کہتا عورت کو آپ جس نظر سے دیکھتے ہو اسے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے حیا کی نظر سے دیکھو۔
سگریٹ اور شراب کو زندگی میں ہاتھ تک نہیں لگایا۔
لڑکیاں اس کے پیچھے پاگل تھیں۔ جو عورت اسے ملتی جانے سے پہلے پوچھ لیتی بیٹا تمہاری شادی تو نہیں ہوئی نا؟
جدت پسند تھا تمام جدید اشیا استعمال کرتا، Tv LCD، Lap Top، Tablet، سوائے دو کے (موبائیل اور گاڑی) اس کے پاس ایک پرانا Nokiaموبائیل فون تھا اور گاڑیLand Cruiser، 1988ماڈل۔ یہ چیزیں وہ نہیں بدلتا تھا وجہ صرف وہ جانتا تھا۔
اندرون لاہور میں ایک بلڈ ڈونر سوسائٹی کا ممبر تھا۔
اور سال میں 3بار بلڈ ڈونیٹ کرتا اس کا بلڈ گروپ نیگیٹوOتھا۔
بلال ایک سیلف میڈ اور ڈاؤن ٹو ارتھ بندہ تھا۔ اپنے سارے کام وہ خود کرتا۔ انتہائی صفائی پسند تھا، روزانہ گرم پانی سے نہاتا اور نیم گرم پانی پیتا، کلین شیو روز کرتا۔ اپنی صحت کا بہت خیال رکھتا ورزش روز کرنا اچھا عطر لگانا اسے بہت پسند تھا اس کے علاوہ انڈونیشیا کی بنی ہیئر کریم Jony Andrean اسے بہت پسند تھی ہمیشہ اپنے گھنگھریالے بالوں میں وہ کریم لگاتا، بلال کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں موٹی گرین آنکھیں۔
کافی اور گرین ٹین بہت پیتا مگر چینی کے بغیر۔ رات سونے سے پہلے ایک مگ خالص دودھ پیتا شہد ڈال کر اُسے اقبال چائے والے سے خالص دودھ مل جاتا تھا۔
اس کا نام اس کے باپ ملک جلال احمد نے رکھا تھا حضرت بلال حبشیؓ کے نام پر۔ ملک بلال احمد ان سب خوبیوں سے بڑھ کر اس میں ہر مومن کی طرح ایک خوبی اور تھی جو ان تمام خوبیوں سے بڑھ کر تھی وہ نبی پاکﷺ سے بہت محبت کرتا تھا۔ نام محمدﷺ سن کر اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں اور اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی اس کا نام تو ضرور بلال تھا مگر وہ حضرت بلال حبشیؓ کے پیروں کی خاک جیسا بھی نہیں تھا۔
ملک بلال احمد کو حضرت بلال حبشیؓ عاشق رسول سے بڑی عقیدت تھی۔
٭…٭…٭
ست رنگی کمرے میں وہ داخل ہوتی ہے۔
’’ملاقات ہو گئی تمہاری’‘ دانت پیستے ہوئے نوشی نے کہا جو کہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔
’’کس سے’‘ توشی نے سوال پر سوال کیا۔
’’تمہارے بلال سے’‘ تفتیشی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر نوشی بولی۔
’’جسٹ شٹ اپ میں نے تم سے زیادہ اسٹوپڈ اور نیگٹو سوچ کسی کی نہیں دیکھی…
وہ تم سے منسوب ہے بچپن سے تمہارے علاوہ اس نے زندگی میں کسی کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا’‘
توشی نے اپنی Tone(لہجہ) بدلا: ’’کیوں اپنے آپ کو نفرت میں جلا رہی ہو۔’‘
وہ نوشی کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور محبت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ’’میں بہن ہوں تمہاری اچھا چاہوں گی تمہارے لیے’‘
’’تمہارا مشورہ مانگا ہے ؟ ایک نمبر کی ڈفر ہو تم’‘ نوشی نے اپنے شانے اچکاتے ہوئے اس کی ہمدردی واپس کر دی۔
’’جلدی سے تیار ہو جاؤ دیر ہو رہی ہے’‘ نوشی نے حکمیہ انداز میں کہا جو کہ اب کھڑی ہو چکی تھی اور جانے کے لیے تیار تھی۔
توشی اپنی جگہ سے اٹھی اور نوشی کے بالکل سامنے آ کر کھڑی ہو گئی اس کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا۔ اس نے بغیر تمہید باندھے ترش لہجے میں دو ٹوک کہا۔
’’میں آج تک یہ سمجھ نہیں پائی کیوں تم بلال سے نفرت کرتی ہو…؟’‘
’’کس وجہ سے محبت کروں’‘ نوشی نے جان لیوا مسکراہٹ سے پوچھا۔
دونوں بہنوں میں جرح شروع ہو چکی تھی۔ توشی سرخ آنکھوں کے ساتھ بولی۔
’’محبت بے وجہ ہوتی ہے مائی ڈیر’‘
’’نفرت کرنے کے لیے بھی وجہ ضروری نہیں ہوتی’‘ نوشی نے جواب دیا۔
’’غلط بالکل غلط، محبت کرنا نیکی اور ہے بغیر وجہ کے نفرت گناہ’‘ توشی یک لخت بولی۔
’’کیا محبت کرنے سے ثواب ملتا ہے ؟’‘ نوشی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں اگر وہ حرص و ہوس سے پاک ہو’‘ توشی نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’اس کی سنگت میں ملگنی مت بن جانا’‘ نوشی نے اس کے رخساروں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا اور توشی کی پیشانی چوم لی۔
’’میں جا رہی ہوں تیار ہو کر آ جاؤ’‘ جاتے ہوئے بولی۔ ’’DJ اُلّو کا پٹھا بھی سویا ہو گا ابھی تک’‘
٭٭٭
کچن میں SMS برتن دھو رہا تھا اور اس کے بالکل پیچھے دوسری طرف BGدودھ گرم کر رہی تھی۔ دونوں کی پشتیں ایک دوسرے کی طرف تھیں سنک کے سامنے کھڑا SMSاچانک بولا بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ …
’’BGتمہیں پتہ ہے بلال بھائی اس گھر کا کھانا نہیں کھاتے’‘
’’محمود مجھے تو یہ بھی پتہ ہے کب سے نہیں کھاتا’‘ BGدودھ ہلاتے ہوئے بولی۔
’’میں شعیب صاحب کے کمرے میں فروٹ دینے گیا تھا تو چھوٹی بیگم صاحبہ بھری پڑی تھیں غصے سے، انہیں پتہ نہیں کیوں بلال بھائی پر غصہ آتا ہے …’‘ جو کہ برتن دھوکر فارغ ہو چکا تھا۔
’’میں تو کبھی اس کے کمرے میں نہیں گئی کھاتا کیا ہے ؟’‘ BGبولی دودھ مگ میں ڈالتے ہوئے۔
’’اکثر تو وہ سینڈوچ بنا کر کھاتا ہے ہفتہ میں ایک دفعہ پیاز گوشت پکاتا ہے’‘ SMSنے تفصیلی رپورٹ دی ’’سینڈوچ تو وہی کھا سکتا ہے مگر پیاز گوشت کی کیا بات ہے’‘ SMSکے منہ میں پانی آ گیا جیسے لذیذ کھانا یاد کر رہا ہو۔
’’ہیلو BG ہائے SMS’‘ DJفاتحانہ انداز میں کچن کے اندر داخل ہوتا ہے
’’لو ان کی کمی تھی’‘ BGبڑبڑائی ’’چمچہ کہی کا …میں دودھ دینے جا رہی ہوں اس مسٹنڈے کو ناشتہ دے کر تتر بتر مت ہو جانا ساری صفائی کر کے جانا’‘ BGجاتے ہوئے تمام احکام سنا کر گئی۔ وہ روزانہ ناشتہ کے بعد بڑی بیگم صاحبہ کے لیے ایک مگ دودھ لے کر جاتی تھی۔
’’کیا کھاؤ گے’‘ SMSبوسی انداز میں بولا۔ BGکے جانے کے بعد کچن پر اب اس کی حکومت تھی۔
’’پیاز گوشت’‘ DJنے اُسی انداز میں جواب دیا۔ دونوں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔
’’پیاز گوشت کے بچے چپ کرو’‘ SMSدونوں ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر بولا ’’بیگم صاحبہ آ گئیں تو ہمارا قیمہ بنا دیں گی ویسے بھی آج ان کا موڈ خراب ہے’‘
’’وہ کیوں’‘ DJنے سرگوشی کے انداز میں سوال کیا۔ ’’کہیں بلال بھائی تو گھر نہیں آئے تھے’‘ اور خود ہی جواب بھی دے دیا۔
’’بیگم صاحبہ تو نہیں مگر۔۔ نوشی میڈم کو تو۔۔ سمجھا سکتے ہو’‘ SMSنے ناشتہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
’’توبہ توبہ بھائی میرے میں مرمت کروا کر ہی آ رہا ہوں’‘ DJنے نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے جواب دیا۔
٭…٭…٭
توشی اپنی دادی کی گود میں سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھی اور دادی اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھیں۔
’’بیٹا وقت کیا ہوا ہے’‘ دادی نے پوچھا۔
’’گیارہ بجنے والے ہیں’‘ توشی نے بند آنکھوں کے ساتھ غنودگی میں جواب دیا۔
’’کیا تم آج اپنی دکان پر نہیں جاؤ گی؟’‘ دادی نے سوال کیا۔
’’دادی آپ کو کتنی بار بتایا ہے دکان نہیں ہے بوتیک ہے بوتیک…بوتیک’‘
’’اچھا …اچھا وہی جو تم کہہ رہی ہو بوتیک…’‘ دادی نے جان چھڑائی۔
’’آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے’‘ دھیرے سے جواب دیا توشی نے۔
’’پھر لڑائی ہو گئی تم دونوں بہنوں کی کتنی دفعہ لڑتی ہو دن میں’‘ دادی توشی کے چہرے کی طرف دیکھ کر خود سے بولیں۔ ’’ایک دوسری پر جان بھی تو دیتی ہو، ابھی آ جائے گی تمہیں منانے کے لیے’‘
دروازے پر دستک ہوتی ہے۔
’’لو آ گئی’‘ دادی یکایک بول اٹھی ’’اِسے کہیے گا میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے’‘
’’توبہ توبہ میں جھوٹ نہیں بول سکتی’‘ دادی نے فوراً کہا
دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی۔
’’آ جاؤ بھئی آ جاؤ’‘ دادی نے آواز دی ’’یہ تو اپنی غفوراں بی بی ہے’‘
’’دودھ، بیگم صاحبہ’‘ غفوراں نے کہا جو دودھ کا مگ ٹرے میں رکھے کھڑی تھی۔
’’بیٹھ جاؤ غفوراں’‘ غفوراں قالین پر نیچے بیٹھنے لگی ’’اوپر بیٹھو غفوراں کرسی پر نیچے مت بیٹھا کرو’‘
’’وہ جی آپ کا ادب لحاظ کرتی ہوں اس لیے’‘ غفوراں نے صفائی دی۔
’’غفوراں ادب لحاظ دل سے ہوتا ہے نیچے بیٹھنے سے نہیں’‘
’’جی توشی بی بی تو سو گئی ہے’‘ غفوراں نے بات بدلی۔ دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی ’’آ جائیں جی آ جائیں’‘ غفوراں نے بیگم صاحبہ کی طرف سے صدا لگا دی۔ نوشی پاؤں پٹختے ہوئے اندر داخل ہوئی اور چنگھاڑ کر بولی۔
’’دادو یہ میرے ہاتھ سے قتل ہو جائے گی۔ اب تک تیار نہیں ہوئی۔’‘
’’قتل کرو گی تو جیل جانا پڑے گا’‘ توشی معصومیت سے بولی بند آنکھوں کے ساتھ۔
’’بیٹا کیوں لڑتی رہتی ہو’‘ دادی بول پڑیں بچ بچاؤ کے لیے۔
’’دادو میری واقعی طبیعت خراب ہے میں نہیں جا سکتی آج’‘ توشی نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا۔
’’نوشی بیٹا تم جاؤ’‘ دادی نے کہا اور کلائی پکڑ کر دایاں ہاتھ چوم لیا نوشی کا۔
’’دادو بہت ڈھیٹ اور کام چور ہے’‘ نوشی نے شکایت لگائی اور مسکراتے ہوئے چلی گئی۔
’’دروازہ بند کر کے جانا دادو کو سردی لگ جاتی ہے’‘ توشی نے حکمیہ انداز میں کہا۔
غفوراں کرسی پر بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی۔ اچانک بول اٹھی جیسے کچھ یاد آ گیا ہو۔
’’بیگم صاحبہ مجھے اجازت دیں ورنہ وہ کام چور سجے کھبے ہو جائے گا’‘ توشی نے بند آنکھوں سے آواز دی۔ ’’BG’‘
’’جی پتہ ہے دروازہ بند کرنا ہے’‘ باجی غفوراں نے جاتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی۔
’’چلو اب اٹھ جاؤ سب چلے گئے’‘ دادی نے حکم دیا۔
’’نہیں دادو مجھے نیند آ رہی ہے’‘ توشی نے بند آنکھوں سے ہی جواب دیا۔
’’بیٹا مجھے بات کرنی ہے تم سے’‘ توشی کے گالوں پر پیار کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔ توشی اٹھ کر بیٹھ گئی اپنے بالوں کو کیچر سے کس کے باندھا اور اپنے گھٹنوں پر تکیہ رکھا۔
’’جی دادو فرمائیے’‘ دادی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بولی۔
’’بیٹا یہ کام وام چھوڑو اور شادی کر لو’‘ دادی نے اس کے دائیں گال پر ہاتھ پھیر کر بولا۔ توشی یک لخت شوخی سے بولی۔
’’اُو شادی …مگر وہ کم بخت…مانے تو…’‘
’’بات ٹالنے کی کوشش مت کرو۔ تم دونوں کو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے دو دو فیکٹریاں ہیں، تم دونوں کے پاس اپنا بہت کچھ ہے، اگر ماہانہ کرایہ بھی لو تو وہ لاکھوں میں ہے باپ تمہارے نے اپنی زندگی میں تم لوگوں کا حصہ تقسیم کر دیا ہے’‘ دادی نے اپنی بات تفصیل سے بیان کر دی۔ ’’وہ مانے تو’‘ دادی نے جیسے سنا ہی نہیں۔
’’شادی مگر کس سے کوئی لڑکا بھی تو ہو’‘ ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے الفاظ بدل کر کہا توشی نے۔
’’ویسے ایک لڑکا ہے اگر آپ بات کریں تو وہ مان جائے گا’‘
’’وہ کون؟…’‘ حیرت سے پوچھا دادی نے۔
توشی کھل کھلا کر ہنس پڑی اور اپنا سر تکیہ سے لگا دیا جو کہ دادی کے بالکل سامنے تھا دادی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا شگفتگی سے بولیں۔
’’بیٹا وہ تمہاری بہن سے منسوب ہے وہ بھی بچپن سے تمہاری پھوپھو اور تمہارے باپ نے یہ رشتہ جوڑا تھا۔ اب یہ ممکن نہیں ہے’‘ دادی نے سمجھانے کی کوشش کی۔ توشی گردن اٹھا کر دادی کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ رنجیدگی سے بولی۔
’’مگر نوشی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی اور اُسے پسند بھی نہیں کرتی رہا میرا سوال تو میں اسے پسند بھی کرتی ہوں اور محبت بھی’‘
’’دیکھو بیٹا شادی اس سے کرنی چاہیے جو آپ سے محبت کرتا ہو اور وہ نوشی سے محبت کرتا ہے اور وہ اس کی ماں کی پسند بھی ہے’‘
’’پھوپھو نے مجھے کیوں نہیں پسند کیا’‘ وہ معصومیت سے بولی ’’مگر دادو بلال کو تو مجھ سے شادی کرنی چاہیے کیونکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں’‘
’’نہیں بیٹا تم اس کو صرف پسند کرتی ہو۔ اس کی اچھائیوں کی وجہ سے اس کی خود داری کی وجہ سے اس کے اخلاق کی وجہ سے اور بس …’‘
’’اور بس…دادو…اور بس…’‘ وہ بھری آواز سے بولی جیسے اور بس اس کے گلے میں ہڈی بن کر پھنس گیا ہو۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ جیسے اور بس اس پر زبردستی مسلط کیا گیا ہو۔
’’بیٹا مجھے غلط مت سمجھو مگر یہ حقیقت ہے تجربہ دنیا کی کسی درسگاہ سے نہیں ملتا یہ عمر گزار کر آتا ہے۔ یہ 82سال پرانی آنکھوں کا تجربہ ہے۔ میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے ایک دوسرے کے لیے بے پناہ محبت…’‘
دادی نے توشی کو بازو سے پکڑ کر اپنے سینے سے لگا لیا وہ اپنی دادی کے گلے لگ کر بلک بلک کر روئی جیسے کوئی چھوٹا بچہ کھلونا نہ ملنے پر روتا ہے۔
٭٭٭
بلال اپنے آفس میں داخل ہوتا ہے۔ فوزیہ اس کے استقبال میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ بڑا خوبصورت اور دلکش آفس ہے۔ روشن اور خوبصورت رنگوں کا امتزاج آفس میں داخل ہوتے ہی آپ کی نظر دو خوبصورت بڑی بڑی تصویروں پر پڑتی ہے جو کہ سامنے والی دیوار پر آویزاں ہیں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصاویر خوبصورت فریموں میں سجی ہوئی ہیں۔
دائیں طرف کی دیوار پر سی گرین کلر ہوا ہے۔ اس کے اوپر چھوٹے بڑے سائز کی بہت سی تصاویر آپ کو نظر آئیں گی جن میں سب سے اوپر بانی پاکستان محمد علی جناح اور شاعر مشرق علامہ اقبال، نیچے خان لیاقت علی خان، ڈاکٹر ثمر مبارک، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، فیض احمد فیض، احمد فراز، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی، فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، انور مسعود، عبدالستار ایدھی، مہدی حسن، نور جہاں، نصرت فتح علی خان، احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، کیپٹن محمد سرور شہید، میجر طفیل محمد شہید، میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، راشد منہاس شہید، شبیر شریف شہید، سوار محمد حسین شہید، میجر محمد اکرم شہید، لانس نائیک محمد محفوظ شہید، کرنل شیر خان شہید، حوالدار لالک جان شہید اور بائیں طرف کی دیوار پر ایک گھڑی ہے اور اس کے ساتھ دیوار کے اوپر World Mapبنا ہوا ہے۔ داخلی دروازے کی طرف فائلز کے لیے کیبن بنے ہوئے ہیں دائیں طرف کی دیوار سے پہلے ایک صوفہ سیٹ اور درمیان میں شیشے کی ٹیبل پڑی ہوئی ہے۔
بائیں دیوار کی طرف فوزیہ کا ٹیبل ہے جس کے اوپر کمپیوٹر LCDکے ساتھ پرنٹر اور سکینر ہیں۔
’’السلام علیکم سر’‘ فوزیہ نے جوش کے ساتھ کہا ’’سر آج آپ پہلی دفعہ لیٹ ہوئے ہیں’‘
’’وعلیکم السلام’‘ جتنا تم مسکا لگاتی ہوا اتنا کام بھی کیا کرو۔’‘ بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’سر گیسٹ آئے ہیں’‘ فوزیہ نے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ بلال نے صوفے کی طرف دیکھا۔ دو ویل ڈریس اور فیشن ایبل خواتین صوفے پر بیٹھی تھیں اس سے پہلے بلال اُن سے بات شروع کرتا پنڈی ایکسپریس اندر آ چکی تھی ’’کہاں ہے بلال بھائی’‘ وہ زور سے بولی، بلال کو دیکھ کر رک گئی جیسے اس کی چین کسی نے کھینچ دی ہو۔ بلال نے اپنائیت سے کہا۔
’’جی بھابھی آپ آئیں ادھر بیٹھیں’‘ اپنے ٹیبل کے سامنے والی کرسیوں کی طرف اشارہ کیا اور ترچھی نگاہوں سے ان دو خواتین کی طرف منہ کر کے بولا۔
’’ Excuse me, I will be back(معاف کیجیے میں آتا ہوں )’‘ فوزیہ کو چائے بسکٹ وغیرہ کے لیے کہا اور خود بھابھی فرح کے سامنے اپنی چیئر پر بیٹھ گیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
’’جی بھابھی آپ کیسے راستہ بھول گئیں’‘
’’بلال یہ کیا بات ہے میرے بچوں کے ساتھ غریب غربا لوگوں کے بچے پڑھیں گے بچوں کا ماحول خراب ہوتا ہے اس سے’‘ خفگی سے کہا بھابھی فرح نے۔
’’اچھا یہ بات ہے …بھابھی وہ سارے بچے انتہائی لائق اور ذہین ہیں میں نے خود سب کا ٹیسٹ لیا تھا اس کے بعد ہی انہیں ایڈمیشن ملا’‘ بلال نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
’’لیکن ہیں تو وہ سارے غریب گھرانوں کے بچے’‘ بھابھی فرح نے دو ٹوک کہہ دیا۔
’’صرف غربت …اس کے علاوہ کوئی اور عیب یا برائی ان بچوں میں’‘ بلال نے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’یہ کیا کم ہے’‘ بھابھی فرح نے شانے اچکاتے ہوئے کہا۔
’’ایک بڑے آدمی نے کہا ہے غریب کے گھر پیدا ہونا کوئی گناہ نہیں مگر غریب ہی مر جانا گناہ ہے۔ اور میں صرف ان کی مدد کر رہا ہوں کہ بچے صرف غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہ رہ جائیں اور غریب ہی نہ مر جائیں’‘
’’تم اسکول چلا رہے ہو یا خیراتی ادارہ’‘ بھابھی فرح نے ابرو چڑھاتے ہوئے تیکھا سا جواب دیا۔
’’میں صرف اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔’‘ بلال نے کہا۔ وہ دونوں عورتیں ٹکٹکی باندھے یہ ساری گفتگو سن رہی تھیں۔ فوزیہ واپس آ چکی تھی اور آفس بوائے ان کے سامنے چائے اور بسکٹ وغیرہ رکھ رہا تھا۔’‘
’’بھابھی آپ کے والد صاحب سے میری ملاقات ہوئی تھی پچھلے سال جب ہم لوگ مری گئے تھے تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا بچپن انتہائی غربت میں گزرا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی محنت سے سول سروس میں آئے اور اسی احساس نے انہیں اعجاز جنجوعہ کی مدد کے لیے رہنمائی دی۔
اعجاز جنجوعہ آپ کے خاوند نے مجھے بتایا کہ اگر میرے خالو چوہدری جبار ہماری مدد نہ کرتے تو نہ تو وہ پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی اس شہر کے بڑے ٹھیکیدار بن سکتے تھے۔
یہ آپ کے ساتھ دو خواتین بیٹھی ہیں مسز نقوی اور مسز عباسی۔ نقوی صاحب اس شہر کے بڑے ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کے والد صاحب لاہور مصری شاہ میں گیس کٹر چلاتے تھے۔ اور میجر عباسی نے بھی مجھے خود بتایا ان کے ابا گجر پورہ لاہور میں ٹانگہ چلاتے تھے۔
مجھے آپ سے زیادہ آپ کے بچوں کی فکر ہے مجھ پر اعتماد کریں میں آپ کے اعتماد کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دوں گا انشاء اللہ۔’‘ بلال نے دھیمے لہجے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا۔
’’چلیں بھابھی ادھر آئیں چائے پیتے ہیں’‘ بلال نے احترام سے کہا۔ چائے پینے کے دوران مسز عباسی نے انگلش پر ہاتھ صاف کیا۔
’’You provide me some information about this(کیا اس بارے میں مجھے کچھ معلومات فراہم کر سکتے ہیں )’‘
’’ہاں بالکل’‘ بلال نے تفصیل بتانا شروع کی۔
’’ہم نے کل 40بچوں کا انتخاب کیا ہے۔ ہر کلاس میں چار بچے۔ ان تمام بچوں کو کتابیں اور یونیفارم اسکول فراہم کرے گا فیس ان کی معاف ہو گی اور انہیں پاکٹ منی بھی دی جائے گی اور سب سے بڑی بات ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اس لیے ان بچوں کا علم میرے اور فوزیہ صاحبہ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ہے۔
اور سچی بات یہ ہے اس سے ہر کلاس کا ماحول بہتر ہوا ہے کیونکہ میں نے بچوں کو احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ تعلیم سب کا حق ہے۔ امیر ہو یا غریب…’‘ مسز نقوی بول اٹھی جو کہ اب تک خاموش تھیں۔
’’What a Wonderful Idea(کتنا زبردست خیال ہے )’‘ مسز عباسی نے ان کی ہاں میں ہاں ملا دی۔
٭٭٭
بلال کا یہ اسکول الگ طرح کی درسگاہ تھی۔ جہاں تعلیم سے زیادہ تربیت دی جاتی تھی۔ کتابیں کم تھیں۔ جہاں اردو، عربی، فارسی اور انگلش پڑھائی نہیں جاتی تھی بلکہ بچوں سے صرف بولی جاتی تھی اس اسکول کے Subjectبھی مختلف تھے۔
قرآن مجید پہلا مضمون جو کہ اُردو ترجمے کے ساتھ پڑھایا جاتا اور سمجھایا جاتا اس کے علاوہ صرف تین مضمون اور تھے سائنس، میتھ اور کمپیوٹر۔
بلال احمد کا ماننا تھا کہ عمل کی زبان سب سے آسان ہوتی ہے۔ وہ ٹیچرز کا انتخاب خود کرتا تھا۔
وہ ان ٹیچرز کا انتخاب کرتا جو با عمل ہوتے انہیں کسی ایک زبان پر عبور حاصل ہوتا اور وہ کسی بھی ایک فیلڈ میں ماہر ہوتے یا کسی ہنر میں مہارت ہوتی اس کا ماننا تھا کہ جو انسان اپنی ذات سے محبت نہیں کرتا وہ دوسروں سے خاک محبت کرے گا اس کے نزدیک اپنی ذات سے محبت کا پیمانہ بھی الگ تھا۔
جو ورزش نہ کرتا ہو، جو اپنے گھر والوں کو وقت نہ دیتا ہو جو حلال حرام کی تمیز نہ رکھتا ہو اور جو فرائض نہ ادا کرتا ہو جو اس کے ذمے شریعت نے لگائے ہیں وہ اچھا ٹیچر تو کیا اچھا انسان بھی نہیں بن سکتا۔
وہ ہر کلاس میں ہفتے میں ایک بار ضرور جاتا بچوں سے ہر ٹاپک پر بات کرتا ان کی سنتا اور اپنی سمجھاتا۔
وہ بچوں کو ہنر سکھاتا اور اپنا کام خود کرنے کی تلقین کرتا۔ اسی لیے اس نے ہنر والے استاد بھی رکھے تھے۔
اس کا ماننا تھا۔ علم والا وہی ہے جو عمل کرتا ہے۔
’’Man is as much educated as he looks.(آدمی اتنا ہی پڑھا لکھتا ہوتا ہے جتنا وہ نظر آتا ہے۔ )’‘
جب وہ ٹیچر رکھتا تو ان باتوں کا خیال رکھتا۔
-1نماز روزہ کا پابند ہو۔
-2جو اپنے بیوی بچوں کو وقت دیتا ہو روزانہ دو گھنٹے اور ہفتہ میں ایک پورا دن۔
-3طلاق یافتہ اور کنوارے استاد بالکل نہیں رکھتا تھا۔
-4وہ کوئی ورزش ضرور کرتا ہو صحت مند جسم ہی صحت مند دماغ کا مالک ہو سکتا ہے۔
-5اور وہ مطالعہ ضرور کرتا ہو اس کا ماننا تھا جو خود پڑھتا نہیں وہ پڑھا نہیں سکتا۔
٭٭٭
اسی دن عصر کے بعد بلال حسب معمول بابا جمعہ کے پاس گیا جو کہ اپنے کام میں مصروف تھے ان کے پاس ایک لڑکا عمر تقریباً 25سال ہو گی اپنے جوگر شوز سلائی کروا رہا تھا اور وہ بابا جمعہ سے ملکی حالات پر بحث میں مصروف تھا وہ بابا جمعہ کی پرسنالٹی سے بہت متاثر ہوا اور ان کے نالج کی تعریف کر رہا تھا۔ اس لڑکے نے کہا آپ کافی تعلیم یافتہ لگتے ہیں۔
’’صرف میٹرک …’‘ بابا جمعہ سلائی کرتے ہوئے بولے۔
’’میٹرک صرف میٹرک’‘ وہ ہکا بکا رہ گیا اس کے چہرے پر تجسس تھا۔ بابا جمعہ سلائی کر کے فارغ ہو چکے تھے وہ اس کے چہرے کی حیرانی دیکھ کر بولے۔
’’بیٹا جی…! کیا ہوا آپ کو…؟’‘
’’میں نے جس ٹاپک پر آپ سے بات کی آپ ایک ماہر لیکچرار کی طرح پریزنٹیشن دے رہے تھے آپ ٹپیکل موچی تو نہیں لگتے آپ ایک وژنری پرسنالٹی ہیں’‘
اس نے بابا جمعہ کی تعریف میں لمبا چوڑا بھاشن دے ڈالا۔ بلال اس کے پیچھے کھڑا سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ بابا جمعہ نے بلال کو دیکھ لیا اس لڑکے کے جوگر سلائی کر کے شاپر بیگ میں ڈال کر اس لڑکے کو تھما دیے۔
’’یہ لو بیٹا…بلال صاحب بھی آ گئے’‘ بابا جمعہ نے ایک ساتھ سب کہہ دیا
’’بیٹا چائے پیو گے ؟’‘ بابا جمعہ نے اس لڑکے سے پوچھا۔
’’جی وہ …جی ہاں ضرور…ضرور…’‘ وہ یکایک بولا۔
’’بلال بیٹا…! تین چائے کا اقبال کو فون کر دو’‘
بلال نے اپنا پرانی وضع قطع کا نکالا اور بالی چائے والے کو فون کر دیا جو پیچھے بازار میں چائے کی دکان چلاتا تھا۔ بالی چائے والے کی دکان چرڑ گاؤں کے بازار میں واقع تھی چرڑ گاؤں آج سے تقریباً 40سال پہلے لاہور شہر سے باہر ایک پسماندہ گاؤں تھا اور اس تک رسائی کے لیے کوئی باقاعدہ راستہ بھی موجود نہیں تھا۔ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اسی گاؤں اور کچھ اور دیہاتوں کے زرعی رقبے پر تعمیر ہوئی۔ بڑھتے ہوئے آبادی کے طوفان نے زرعی رقبوں پر نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ ڈیفنس ہاؤسنگ ا تھارٹی کا یہ علاقہ گلبرگ کی طرح لاہور شہر کا پوش ترین علاقہ ہے۔ یہ گاؤں ڈیفنس کے تین بلاکس Z.J.Kکے درمیان واقع ہے۔
یہ گاؤں غریب اور مڈل کلاس لوگوں کی بستی ہے اور ان کا روزگار ڈیفنس کے گھروں سے وابستہ ہے غریب عورتیں مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں اور مرد کوئی سبزی کا کام کرتا ہے، دودھ، کریانہ، سٹور، مالی، ڈرائیور، سکیورٹی گارڈ، مستری، مزدور، موٹر مکینک، کارپینٹر اور موچی جی ہاں موچی…
بابا جمعہ بھی موچی ہے چرڑ گاؤں سے ڈیفنس میں داخل ہوں تو دائیں ہاتھ گاؤں کے علاقے میں میں روڈ سے پہلے یعنی غازی روڈ جو ڈیفنس سے گزر کر بھٹہ چوک تک جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ بابا جمعہ کا موچی خانہ آباد ہے، بائیں ہاتھ مسجد ہے گاؤں کی مسجد میں روڈ کی دوسری طرف Lesco Officeسے پہلے بس سٹاپ ہے۔ بابا جمعہ کا موچی خانہ اور بس سٹاپ آمنے سامنے ہیں۔
بابا جمعہ کا موچی خانہ بھی بابا جمعہ کی طرح صاف ستھرا ہے جہاں بابا جمعہ بیٹھے ہیں ان کے پیچھے Zبلاک کی کسی کوٹھی کا لان ہے۔ جس کے اندر بے شمار پھولوں کے پودے لگے ہوئے ہیں اور ایک بڑا نیم کا درخت اور ایک شہتوت کا درخت بھی موجود ہیں ان دونوں درختوں کا جھکاؤ گلی کی طرف ہے جہاں بابا جمعہ بیٹھے ہیں کیونکہ وہ دونوں درخت تقریباً اس دیوار کے ساتھ ہیں جو Zبلاک اور گاؤں کو جدا کرتی ہے جس چھوٹے نالے پر بابا جمعہ کا موچی خانہ ہے وہ اوپر سے سیمنٹ کی پلیوں سے ڈھکا ہوا ہے بابا جمعہ کے دائیں ہاتھ سڑک کی جانب بجلی کا کھمبا ہے جو کہ قدرے آگے کی طرف ہے پچھلی طرف Zبلاک کی دیوار سامنے گلی کی دوسری طرف مسجد اور بائیں ہاتھ چرڑ گاؤں کو جانے والا راستہ ہے۔
بابا جمعہ کے اوپر نیم کا درخت اور ساتھ شہتوت کا درخت سائبان کیے ہوئے ہیں۔ اگر کچھ کمی تھی تو وہ فائبر کی بنی گرین شیٹ نے پوری کر دی جو کہ بریگیڈیئر امان اللہ نے لگوائی تھی، دھوپ اور بارش سے بچاؤ کے لیے بریگیڈیئر صاحب بھی بابا جمعہ سے بڑی عقیدت رکھتے ہیں انہوں نے ہی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے پرمیشن لے کر دی تھی بابا جمعہ کے موچی خانہ کی اور ماہانہ فیس بھی وہ خود ادا کرتے ہیں۔
بابا جمعہ سے کوئی ان کی عمر پوچھے تو پاکستان کا ہم عمر بتاتے ہیں۔ سفید لباس میں ملبوس ململ کا کرتہ اور پائجامہ پہنتے ہیں جو کہ دودھ کی طرح سفید ہی ہوتا ہے کام کرتے وقت اون کے بنے دستانے یعنی گلوز پہنے رکھتے ہیں۔ پانچ وقت نماز با جماعت ادا کرتے ہیں۔ ظہر، عصر، مغرب سامنے والی مسجد میں اور باقی دو اپنے گاؤں کی مسجد میں بابا جمعہ کماہاں گاؤں کے رہنے والے ہیں جو کہ ان کے موچی خانہ سے تقریباً4کلومیٹر دور ہے صبح فجر کی نماز پڑھ کر ناشتے سے فارغ ہو کر اپنے کام پر پیدل آ جاتے ہیں اور مغرب کی نماز پڑھ کر واپس گھر چلے جاتے ہیں یہ ان کا تیس سال سے معمول ہے۔
ببلو چائے لے کر آ گیا بالی چائے والے کا چھوٹا بابا جمعہ نے لکڑی کا سٹول آگے کر دیا بلال شوز اتار کر اوپر بنی جگہ پر بیٹھ گیا جو کہ نالے کے اوپر تھی اور دوسرا لڑکا عادل عقیل پاؤں لٹکا کر نالے کے اوپر بیٹھ گیا بلال کافی عرصہ پہلے ایک کارپیٹ کا ٹکڑا خرید کر لایا تھا جو بیٹھنے کے کام آتا ہے۔ یہ دونوں اسی کارپیٹ کے ٹکڑے پر بیٹھے تھے۔ بلال نے چائے کپوں میں ڈالی وہ تینوں چائے پینے میں مصروف ہو گئے۔ عادل عقیل دوبارہ بول اٹھا۔
’’میں اب تک کنفیوژ ہوں’‘
’’کس بات پر …’‘ بابا جمعہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ کہ آپ کی تعلیم صرف میٹرک ہے …اور آپ زمانے بھر کے علوم کے بارے میں بات کر سکتے ہیں وہ کیسے میں سمجھنا چاہتا ہوں’‘ عادل نے حیرت سے پوچھا۔
’’اندھوں میں کانا سردار…پدی کیا پدی کا شوربا کیا’‘ بابا جمعہ نے پرنم لہجے میں جواب دیا۔ عادل عقیل اور بلال احمد بابا جمعہ کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ بابا جمعہ نے بغیر تمہید کے بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ کہا۔
’’بچے …! اب لوگوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر علم اور تعلیم و تربیت کے بغیر یہ ایسے ہی ہے ماشکی کے پاس مشک تو ہو مگر اس کے اندر پانی نہ ہو جسم تو ہو مگر اس جسم میں روح نہ ہو۔ علم روح کی طرح ہلکا لطیف ہے۔ علم اور عمل متوازی روح اور جسم۔
جس طرح روح اور جسم ساتھ ہیں مگر روح نظر نہیں آتی صرف جسم نظر آتا ہے اسی طرح علم اور عمل ساتھ ساتھ ہیں بندے کا کمال یہ ہے کہ علم کو چھپائے اور عمل کر کے دکھائے بیٹا یاد رکھو عزت ہمیشہ ان کی ہوئی جنہوں نے علم کے اوپر عمل کیا۔ مگر اب ترتیب غلط ہو گئی ہے لوگ صرف کھوکھلے علم سے خالی مشک کی طرح عمل کے بغیر عزت، شہرت، روپیہ چاہتے ہیں۔’‘ بابا جمعہ نے شائستگی سے مسحور کن انداز میں اپنی بات مکمل کی مگر عادل عقیل کو تشفی نہیں ہوئی اس نے ایک اور سوال داغ دیا۔
’’مگر بابا جی میرا سوال کچھ اور تھا …میں نے سورس آف نالج پوچھا تھا آپ سے’‘
’’دیکھو بیٹا…! آپ میری معلومات کو علم سمجھ رہے ہو ان دونوں کو الگ کرو تو بات سمجھ آئے گی۔ میری آپ سے جنتی بات ہوئی تھی وہ دنیاوی معلومات تھی اس میں علم کی بات تو کوئی بھی نہیں تھی آپ نے معلومات لینی ہے تو اخبار پڑھو۔ اور اگر آپ علم کے طالب ہو تو قرآن پڑھو ترجمے کے ساتھ اور غور و فکر کرو۔ اور جہاں تک میری بات ہے تو میں بے علم بے عمل ایک حقیر سا بندہ ہوں’‘ بابا جمعہ کچھ دیر بعد دوبارہ بولے جیسے اپنا احتساب کیا ہو۔
’’میں نے پچھلے پچاس سال سے ہر روز اخبار پورا پڑھا ہے اور روزانہ دو گھنٹے قرآن مجید بھی پڑھا ہے ترجمہ کے ساتھ ایک گھنٹہ صبح فجر کے بعد اور ایک گھنٹہ رات میں عشا کے بعد، خوشی ہو غمی ہو، سردی، گرمی ہر موسم میں …’‘ یہ بات کر کے بابا جمعہ کافی دیر نظریں جھکائے بیٹھے رہے۔ بلال نے بات دوبارہ شروع کی عادل عقیل کو مخاطب کیا۔
’’کیا کرتے ہو’‘ بلال نے پوچھا۔
’’میں پنجاب یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر پڑھ رہا ہوں’‘ عادل عقیل نے جواب دیا، عادل عقیل بابا جمعہ کے جواب سے مطمئن ہو گیا تھا اور دوبارہ آنے کی اجازت لی وہ بلال احمد کی پرسنالٹی سے بھی کافی متاثر ہوا وہ نوٹ کر رہا تھا بلال کی بابا جمعہ سے عقیدت کو اس کے بات کرنے کے انداز کو اسے لگا جیسے بلال اپنی عمر سے کافی بڑا ہو اور ذہین ہو گو کہ عادل اور بلال کی عمر میں کوئی سال بھر کا فرق ہو گا عادل کو ایسے محسوس ہوا جیسے بلال ہنر، علم اور سلیقہ میں اس سے بہت آگے ہو۔
٭٭٭
اُسی دن رات عشا کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلال حسب معمول نانی کی خدمت میں حاضر ہوا تو کمرے میں پہلے سے کھسر پھسر ہو رہی تھی جب اس نے دروازے پر مؤدبانہ دستک کی تو اندر سے نوشی کی آواز آئی Yes come inاس نے دروازے کی ناب کو بائیں ہاتھ سے پکڑا اور نہایت آہستگی سے جب دروازہ کھولا تو سامنے صوفے پر نوشی بیٹھی تھی۔
دروازہ کھولتے ہی لمحہ بھر کے لیے دونوں کی نظریں ایک دوسرے سے سیراب ہوئی تھیں۔ توشی سامنے کمبل میں بیٹھی آج پہلی دفعہ بول کم اور دیکھ زیادہ رہی تھی۔ (میں نے ان دونوں کی آنکھوں میں محبت دیکھی ہے بے شمار ایک دوسرے کے لیے …)صبح یہ جملہ دادی نے بولا تھا اور توشی نے اب دیکھ لیا اس نے دل میں سوچا بعض اوقات انسان آنکھیں رکھتے ہوئے بھی بینائی سے محروم ہوتا ہے۔
بلال آ کر سلام کرتا ہے اور دیوان پر بیٹھ جاتا ہے جو کہ نوشی کے بائیں ہاتھ تھا اور توشی دائیں ہاتھ بیڈ پر آلتی پالتی مار کر کمبل میں بیٹھی تھی نوشی کے سامنے دادی موونگ چیئر پر بیٹھی بائیں ہاتھ میں تسبیح لیے جلوہ افروز ہیں، نوشی نے چور نگاہوں سے ایک بار پھر بلال کو دیکھا اس کا دیکھنا توشی سے بچ نہیں پایا توشی کے تیکھے نین تفتیش کر رہے تھے۔
جہاں آرا بیگم نے بلال سے پوچھا۔
’’بلال بیٹا کھانا کھا لیا’‘ اس کی طرف متوجہ ہو کر۔
’’جی ہاں’‘ بلال نے آہستہ سے جواب دیا۔
’’سینڈوچ؟’‘ توشی یکایک بول اٹھی جو کہ ٹکٹکی باندھے بلال کو دیکھ رہی تھی۔
’’نہیں وہ آج باہر کھانا کھایا تھا’‘ اس نے جہاں آرا بیگم کی طرف دیکھ کر کہا۔
’’گرل فش؟’‘ توشی نے پوچھا جیسے پہلے سے جانتی ہو۔
بلال نے توشی کی طرف دیکھ کر اثبات میں سر ہلا دیا زبان سے کچھ نہیں کہا۔
’’ان دونوں فراڈیوں کے ساتھ کھایا ہو گا ؟’‘ توشی پھر بولی جو کہ اپنی طرف سے آج کم بول رہی ہے اور دیکھ زیادہ رہی ہے۔
’’کون فراڈیے ؟’‘ دادی نے تشویش سے پوچھا بلال کو دیکھ کر۔
’’جی وہ طارق رامے اور اعجاز ٹھیکیدار مگر وہ اچھے بندے ہیں’‘، بلال نے صفائی دی۔
’’مجھے فوزیہ نے سب کچھ بتا دیا ہے کہ تم لوگ ہفتے میں ایک بار باہر کھانا کھاتے ہو اور تمہارا ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے’‘ توشی سرزنش کرنے والے انداز میں بولی جیسے کوئی ماں اپنے آٹھ سال کے بچے کو ٹریٹ کرتی ہے
’’بیٹا مکمل انسان تو کوئی بھی نہیں ہوتا اگر ان دونوں میں کوئی عیب ہیں بھی تو بلال کے ساتھ وقت گزار کر ٹھیک ہو جائیں گے’‘ جہاں آرا بیگم نے ایسے سمجھایا جیسے وہ چند دنوں میں بلال کے معتقد ہو جائیں گے انہیں ان کی خامیوں سے زیادہ بلال کی خوبیوں پر اعتماد تھا۔
’’نانو مالش کر دوں’‘ بلال نے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا نوشی نے کر دی ہے’‘ جہاں آرا بیگم نے جواب دیا۔
بلال نے خوابیدہ نگاہوں سے نوشی کی طرف دیکھا وہ پہلے ہی سے منتظر تھی اس کی ایک نظر کی جیسے پہلی دفعہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں۔
’’میری بھی دادو ہیں’‘ نوشی نے جاذبیت سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
’’کل ہیڈ بلوکی چلیں’‘ توشی پھر سے بول اٹھی۔
اس نے نینوں کی چہ میگوئیاں روکیں جو کہ آپس میں محو گفتگو تھے۔
’’کل نہیں پھر کبھی کل میں مصروف ہوں’‘ بلال نے جواب دیا۔
’’تم تو ہر سنڈے مصروف ہوتے ہو…ویسے جاتے کہاں ہو’‘ توشی نے تجسس سے پوچھا۔
’’اپنی جاسوس فوزیہ سے پوچھ لینا’‘ بلال نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
سب ہنس پڑے۔
٭٭٭
فرح اپنے بیڈروم میں بیٹھی گھڑی کی طرف بار بار دیکھ رہی تھی اس کے چہرے پر پریشانی اور غصہ دونوں موجود، موبائل پکڑ کر بار بار فون کر رہی تھی۔
’’فون کی گھنٹی بجتی ہے’‘ بلال فون سکرین پر فرح بھابھی پڑھتا ہے۔
’’ہیلو…جی بھابھی خیریت ہے’‘ بلال نے سوال کیا۔
’’بلال…جنجوعہ صاحب ابھی تک گھر نہیں آئے … اور فون بھی ریسیو نہیں کر رہے’‘ فرح بھابھی نے پریشانی میں جواب دیا۔
’’بھابھی آپ فکر نہ کریں …میں پتہ کرتا ہوں’‘ بلال نے تسلی دی۔
فون کٹ کرنے کے بعد (کہاں گئے ہوں گے ) خود سے کہا اور نمبر ملایا بیل جا رہی تھی مگر رسپانس کوئی نہیں ملا۔ پھر دوسرا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’جی…بلال صاحب…’‘ طارق رامے نے پوچھا۔
’’جنجوعہ صاحب…’‘ بلال کے بات کرنے سے پہلے ہی۔
طارق رامے نے زور سے کھل کھلا کر ہنسنا شروع کر دیا۔
’’جنجوعہ بڑا کمینہ ہے کروڑ پتی ہے مگر گاڑی نہیں بدلتا وہی پھٹیچر Suzuki FX’‘ ہنستے ہوئے جواب دیا ’’مجھے بھی ذلیل کروا دیا’‘
’’ٹھیک ہے …رامے صاحب…صبح بات ہو گی’‘ بلال نے فون بند کر دیا۔
وہ ساری بات سمجھ گیا ڈیفنس سے کھانا کھانے کے بعد اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے جوہر ٹاؤن جانے کے لیے نکلے تو راستے میں جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہو گئی تھی اور فون Silentموڈ پر تھا اور وہ ریسیو نہیں کر رہے تھے بلال نے بھابھی فرح کو فون ملایا۔
’’جی بلال …کچھ پتہ چلا …خیریت تو ہے، کہاں ہیں’‘ بھابھی فرح نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے۔
’’جی بھابھی خیریت ہے جنجوعہ صاحب کی گاڑی خراب ہو گئی تھی ابھی تھوڑی دیر میں آ جاتے ہیں’‘ بلال نے تسلی دی۔
’’مگر وہ فون کیوں نہیں اٹینڈ کر رہے تھے’‘ وہ غصے سے چیخیں۔
’’وہی پرانی عادت ان کی’‘ بلال نے جواب دیا اور فون بند کر دیا۔
بلال کا فون دوبارہ بول اٹھتا ہے۔
’’جی رامے صاحب’‘ بلال فون ریسیو کرتا ہے۔
’’جنجوعہ کی …آج ہر گئی…اس کی مرمت ہووئے ہی ہووئے …تم دیکھ لینا’‘ رامے نے ہنستے ہوئے کہا فون کی دوسری طرف خوشی کا ماحول تھا۔
اعجاز جنجوعہ اور طارق رامے تقریباً ہم عمر تھے۔ طارق رامے 34سال کا گندمی رنگ والا زندہ دل یاروں کا یار خوش خوراک اور خوش اخلاق رنگ باز مگر دل کا بہت اچھا بندہ تھا اور اعجاز جنجوعہ تقریباً 36سال کا درمیانے قد کاٹھ کا انسان تھا۔
دونوں میں ہنسی مذاق خوب تھا۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہتے۔ اسٹیج ڈراموں کی طرح جگتیں کستے رہتے۔ ان کے تعلق کی ایک وجہ ان کا کاروبار بھی تھا اعجاز جنجوعہ ٹھیکیدار تھا اور طارق رامے پراپرٹی ڈیلر تھا۔
بلال کا ان سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ ہفتے میں ایک دن وہ ان کے ساتھ باہر کھانا کھاتا۔ جس بلڈنگ میں بلال کا اسکول تھا۔ وہ طارق رامے کے کسی انویسٹر کی تھی جو کہ ملک سے باہر تھا۔ طارق رامے کے ساتھ سارے معاملات طے کرنا ہوتے بلال کو، اور جنجوعہ صاحب کے تینوں بچے بلال کے اسکول میں پڑھتے تھے۔
مین، گیٹ پر گاڑی کا ہارن بجتا ہے Suzuki FX اندر داخل ہوتی ہے بیڈروم کا دروازہ کھول کر جنجوعہ صاحب اندر داخل ہوتے ہیں۔
’’جنجوعہ صاحب…آپ کو کسی کی فیلنگ کا ذرہ برابر بھی احساس ہے’‘ فرح زخمی شیرنی کی طرح دھاڑی ’’میں کب سے فون کر رہی تھی آپ کو …ذہن میں ہزاروں طرح کے خیال…دل میں وسوسے خدشے اللہ خیر کرے …اور آپ کو کوئی پرواہ ہی نہیں’‘
اعجاز جنجوعہ خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے اور اپنا ما تھا انگوٹھے اور دو انگلیوں سے پکڑ لیا۔ فرح نے دیکھا تو اس کا سارا غصہ فکر مندی میں بدل گیا۔
وہ پاس آئی دو زانو بیٹھ کر جنجوعہ صاحب کا چشمہ اتارا۔
’’طبیعت تو ٹھیک ہے …آپکی’‘ فرح نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’بس کچھ سر میں درد ہے’‘ اعجاز جنجوعہ نے جواب دیا۔ فرح نے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کا دراز کھولا۔ پیناڈول کی گولی نکالی سائیڈ ٹیبل پر پڑے جگ سے پانی دیا ’’آپ یہ کھائیں …
میں گرم دودھ لے کر آتی ہوں’‘ وہ یہ کہہ کر دودھ لینے چلی گئی بیڈ روم کا دروازہ کھلا تھا اتنے میں طارق رامے کا فون آ گیا فون اعجاز جنجوعہ کے ہاتھ ہی میں تھا جو فرح کی مس کالز دیکھ رہا تھا۔
’’ہاں وئی …مرمت ہو گئی…یا ہونے والی ہے’‘ طارق رامے نے انجوائے منٹ سے پوچھا۔
’’بیٹا جی…ہم بھی کھلاڑی ہیں …بیوی کو بے وقوف بنانا کون سا مشکل کام ہے’‘ جنجوعہ صاحب نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
’’کون سے گولی دی ہے بھابھی کو اس بار’‘ طارق رامے نے پوچھا۔
’’ہزاروں گولیاں ہیں کوئی سی بھی دے دو تو بیٹا شادی کروا ایسے ایسے مشورے دوں گا بیوی تمہارے سامنے بھیگی بلی…’‘
فرح پیچھے کھڑی سب سن رہی تھی۔
’’یہ لیجیے دودھ’‘ فرح نے کہا۔ ’’تم کب آئی’‘ جنجوعہ نے پوچھا۔ ’’جب آپ گولیاں دے رہے تھے’‘ فرح نے تلخ لہجے میں جواب دیا۔
’’یار…وہ …یہ …فون…ہاں فون سائلنٹ تھا۔ فون بند کرتے ہوئے ہکلاہٹ میں کہا۔’‘
’’گولی کھائی بھی ہے …یا پھر صرف گولیاں دیتے ہی ہیں۔’‘ دودھ کا مگ جنجوعہ صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی۔
’’نہیں وہ…وہ…سوری یار’‘ جنجوعہ صاحب نے فوراً ً ہتھیار ڈال دیے۔ جنجوعہ صاحب کرسی پر بیٹھ کر دودھ پینے میں مصروف ہو گئے اور فرح ٹیرس کا دروازہ کھول کو باہر ٹیرس پر چلی گئی اور لان کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی جب جنجوعہ صاحب کی نظر اس پر پڑی تو دودھ کا مگ سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر فرح کے پیچھے گئے اور فرح کے پیچھے کھڑے ہو کر بولے۔
’’فری جی …سوری…یار وہ فون سائلنٹ تھا …کہا نا سچی یہی بات تھی’‘ اعجاز جنجوعہ نے انتہائی سنجیدگی سے صفائی پیش کی۔
’’آگے سے خیال رکھوں گا پکا وعدہ، فری جی …فری جی …’‘
’’آپ مجھے فری مت کہا کریں’‘ فرح نے دو ٹوک جواب دیا۔ اعجاز جنجوعہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف چہرہ کر کے بولا۔
’’مجھے پتہ ہے آپ کی والدہ کہتی ہیں اور بس مجھے اجازت کی ضرورت نہیں’‘
’’وہ کیوں جی’‘ شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے فرح نے سوال کیا۔
’’اس لیے کہ …محبت کرنے کے لیے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی اور محبوب کو کوئی بھی نام دے دو وہ محبوب ہی رہتا ہے’‘
فرح کے چہرے پر جان لیوا مسکراہٹ تھی۔
’’آج آپ بلال کے ساتھ تھے اس لیے رومینٹک باتیں کر رہے ہیں ورنہ آپ تو سیمنٹ، ریت، سریا، بجری، ماربل اور بس یہی کچھ…ہے’‘
فرح نے کھا جانے والی نظروں سے اعجاز جنجوعہ کو دیکھا۔
’’چلو اندر چلو باہر سردی ہے’‘ اعجاز جنجوعہ نے بازو کے حصار کے ساتھ اندر لاتے ہوئے کہا۔
اعجاز جنجوعہ اور فرح ایک آئیڈیل زندگی گزار رہے تھے۔ اور وہ آئیڈیل کپل تھے۔ فرح ایک گول مٹول گوری چٹی رنگت والی گھریلو خاتون تھی جو کہ اپنے بھرے ہوئے جسم کے ساتھ خوبصورت لگتی تھی۔ شادی سے پہلے افسانے اور ناول پڑھنے والی یہ لڑکی ایک ایسے شخص کے ساتھ بیاہی گئی جو کہ اس کا خالہ زاد تھا۔ اور اس کے باپ کی پسند بھی۔ مزاج اور طبیعت دونوں کی مختلف تھی، بچپن میں ایک دوسرے کو دیکھا ہو گا۔ وجہ یہ تھی۔ اعجاز جنجوعہ شاہدرہ لاہور کا رہنے والا تھا اور فرح راول پنڈی سے تھی اعجاز جنجوعہ 15سال کا ہو گا جب اس کے ماں باپ ایک بس حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے ان کے ساتھ اس کی سب سے چھوٹی بہن جو کوئی 4سال کی ہو گی وہ بھی چل بسی پیچھے اعجاز جنجوعہ اور اس کی 3چھوٹی بہنیں شازیہ گیارہ سالہ، نازیہ نو سالہ اور رابعہ سات سالہ جو کہ گھر پر تھیں بچ گئیں ان سب کی ذمہ داری اعجاز جنجوعہ کے کندھوں پر آ گئی۔
ان حالات میں فرح کے والد اور والدہ نے اعجاز جنجوعہ کا ساتھ دیا۔ اعجاز اپنی خالہ اور خالو کی بہت عزت کرتا اور فرح اس کی خالہ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی تھی۔
اعجاز جنجوعہ زیادہ پڑھ نہیں سکا صرف BA کیا مگر اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائیں۔
گندمی رنگت والے درمیانہ قد 0.75کا چشمہ پہننے والے اسمارٹ آدمی تھے چہرے پر چھوٹی بھوری موچھیں، چشمے کے اوپر سے دیکھتے اور اکثر بیٹھے ہوئے بائیں ہاتھ سے اپنی مونچھوں کو اوپر سے نیچے انگلی اور انگوٹھے سے پریس کرتے رہتے یہ ان کی عادت تھی۔
اپنے کام سے عشق تھا۔ فارغ وقت میں طارق رامے کے دفتر میں اخبار پڑھتے پائے جاتے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں لیے ہوئے طارق رامے جتنا فضول خرچ اور دل پھینک تھا اعجاز جنجوعہ اتنا ہی کنجوس اور وفادار اپنی بیوی کے ساتھ، فرح اس کی زندگی میں پہلی عورت تھی اور شاید آخری بھی، اس کے برعکس طارق کے دل میں آنے والے کو روک نہیں تھی اور جانے والے پابند نہیں تھے۔
ان سب باتوں کے باوجود وہ روزانہ ملتے گپ شپ لگاتے ہنسی مذاق کرتے۔ بلال سے ان کی ہفتہ میں ایک ملاقات ہوتی وہ بھی ہفتہ کے دن مغرب کے بعد جب وہ لوگ باہر کھانا کھاتے بل دینے کی باری ہفتہ وار ہوتی سب کی۔
طارق رامے وکیل بھی تھا مگر نام کا اس کے علاوہ MSEمیتھ اور بی ایڈ بھی کیا ہوا تھا۔ پراپرٹی ڈیلر کا کام نہ جانے کیوں کرتا تھا اس کا بڑا بھائی راشد رامے جو کہ وکیل تھا، جب کبھی دینہ جہلم سے لاہور آتا تو جھگڑا کرتا کہ تم وکالت شروع کرو یہ پراپرٹی کا کام چھوڑ دو۔
٭٭٭
وہ من ہی من میں سوچ رہی تھی۔ جب اس نے سونے کی کوشش کی تو نیند آنے کو تیار نہیں تھی۔ ذہن میں دادی کے الفاظ گونج رہے تھے وہ اٹھی واش روم گئی اپنا چہرہ غور سے دیکھا آئینے میں، کیا اپنی بہن سے جلن محسوس کر رہی ہوں، اس کے من میں خیال آیا۔ نہیں نہیں میں ایسی تو نہیں ہوں، اس نے خود ہی صفائی دی تو پھر یہ کیا ہے جو مجھے سونے نہیں دے رہا۔
بلال تو کہتا ہے کہ حسد اور محبت ایک دل میں نہیں رہ سکتے تو یہ محبت ہے یا حسد، کیا ہے۔ اس نے اپنا چہرہ دھویا اور واپس بیڈ روم میں آ گئی رات اپنی آخری سانسیں لی رہی تھی جب اس نے اپنے موبائل پر ٹائم دیکھا۔ ساڑھے 4بج گئے تھے اس نے نوشی کی طرف دیکھا جو نیند کی آغوش میں تھی۔ یہ میری بہن ہے اور میں اس کے منگیتر سے، نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔
وہ کمرے سے نکل گئی کوریڈور میں آ کر رک گئی مگر کہاں جاؤ، پھر وہ دبے پاؤں چلتی ہوئی بغیر ناک کیے دادی کے کمرے میں تھی۔
دادی جائے نماز پر بیٹھی تھیں۔ وہ دادی سے لپٹ جاتی ہے۔
’’کیا ہوا میرا بچہ’‘ دادی نے پوچھا پریشانی سے۔
’’نیند نہیں آ رہی ہے’‘ زخمی آواز کے ساتھ توشی بولی اس کے اندر داخلی ٹوٹ پھوٹ جاری تھی۔ دادی نے اسے اٹھایا اور بیڈ پر لے گئی۔
’’ادھر لیٹ جاؤ میں ابھی آتی ہوں’‘ دادی نے اسے لٹایا اور کمرے کی لائٹ جلائی انٹرکام پر پیغام دیا اور خود توشی کے ساتھ لیٹ گئیں۔ اس کے گالوں پر ہاتھ رکھا پھر اس کا ما تھا چوم لیا اور اس کے بالوں کو سہلانے لگیں۔ تھوڑی دیر بعد زینب دو مگ دودھ لے کر آ گئی۔ زینب جہاں آرا بیگم کی خاص ملازمہ تھی۔ باجی غفوراں کی دور کی رشتہ دار تھی اور بیوہ تھی۔
’’بیگم صاحبہ دودھ’‘ زینب نے تابعداری سے کہا۔
’’معاف کرنا بیٹی تمہاری نیند خراب کر دی’‘ جہاں آرا بیگم نے کہا۔
’’نہیں بیگم صاحبہ کوئی بات نہیں، کچھ اور چاہیے آپ کو’‘ زینب نے عرض کی۔
’’نہیں بیٹی تم جاؤ شکریہ’‘ زینب جا چکی تھی
’’اٹھو بیٹا دودھ پی لو’‘ دادی نے کہا
’’نہیں دادو دل نہیں چاہ رہا’‘
’’پی لو وہ بیچاری گرم کر کے لائی، اس کی نیند بھی خراب کی، چلو اٹھو تھوڑا سا پی لی’‘ دودھ ختم کرنے کے بعد۔
’’کیوں نیند نہیں آ رہی میری جان کو ؟’‘ دادی نے پوچھا۔
’’دادی کیا میں خود غرض ہوں’‘ توشی نے سوال پر سوال کر دیا۔
’’نہیں ایسا تو بالکل بھی نہیں ہے بلکہ تم تو مدد کرنے والی اور دوسروں کے کام آنے والی ہو…ایسا کیوں سوچا تم نے’‘ دادی نے جواب دیا۔ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بولیں۔
’’تم کل والی بات پر پریشان ہو’‘ دادی نے سوال کیا۔
’’جی ہاں …مگر نوشی کی مجھے سمجھ نہیں آتی…ماما کے ساتھ بلال کی بہت برائیاں کرتی ہے۔ مگر کل رات کو بلال کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے …’‘ توشی نے صاف گوئی سے ساری بات کہہ دی۔
’’تمہاری ماں نے اسے بچپن سے نفرت کرنا سکھایا ہے، نفرت کی چھاؤں بھی برگد کے پیڑ کی چھاؤں کی طرح گھنی ہوتی ہے جس کے نیچے چھوٹے پودے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح نفرت کی چھاؤں میں محبت مرتی تو نہیں مگر کمزور ہو جاتی ہے۔’‘
’’دادو…! آپ بھی بلال کی طرح باتیں کرنا شروع ہو گئی ہیں’‘
’’ہاں بیٹا ٹھیک کہہ رہی ہو…میں نے بلال سے بہت کچھ سیکھا ہے’‘
’’دادو…! اگر نوشی بلال سے محبت کرتی ہے تو وہ شادی کے لیے راضی کیوں نہیں ہوتی…؟’‘
’’اس لیے کہ اُس کی محبت نفرت کے پنجرے میں قید ہے اور اُس کی پنجرے کی چابی تمہاری ماں کے پاس ہے’‘
’’کیا نوشی بلال سے شادی کرے گی ؟’‘ توشی نے بھولی صورت بنا کر پوچھا۔
’’یہ تو آنے والا وقت بتائے گا …تم میرا بچہ سو جاؤ’‘
’’دادی دیر تک اس کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے سہلاتی رہیں’‘
٭٭٭
اگلے دنا توار تھا۔ بلال صبح نو بجے گھر سے چلا گیا اور اس کا موبائل بھی آف تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً پچھلے دس سال سے جاری تھا۔ وہ ہر سنڈے 9بجے کے آس پاس گھر سے چلا جاتا اور مغرب کی نماز کے بعد واپس آتا، ہاں عصر کے بعد اس کا نمبر ضرور On ہو جاتا، جب وہ بابا جمعہ کے پاس ہوتا اس سے پہلے وہ کہاں ہوتا، کیا کرتا، کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔
اگر کسی نے پوچھا بھی تو اس کا جواب ہوتا میں بتانا نہیں چاہتا۔ اس کی نانی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں جاتا ہے۔
کئی سال پہلے اس نے بابا جمعہ سے سنا تھا۔ آقا کریمؐ کی ایک حدیث کا مفہوم کہ میرا امتی ہر گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے ایک جھوٹ نہیں بول سکتا اور دوسرا دھوکہ نہیں دے سکتا۔
یہ بات اس کے ذہن میں نقش ہو گئی تھی۔ وہ کوشش کرتا ہے ان دونوں باتوں سے بچنے کی …
٭٭٭
اسی دن یعنی سنڈے کو عصر کے بعد وہ بابا جمعہ کے پاس نالے کے اوپر التی پالتی مار کر اخبار پڑھ رہا تھا اور بابا جمعہ جوتا پالش کرنے میں مصروف تھے۔
ایک آدمی انتہائی پریشان عمر پچاس کے آس پاس ہو گی شیو بڑھی ہوئی گرم چادر کندھوں پر اور پیروں میں پشاوری کالی چپل پہنے ہوئے آیا۔
’’بابا جی مجھے تعویذ دے دیں یا پھر کوئی وظیفہ بتا دیں، میں تو برباد ہو گیا ہوں جو بھی کام کرتا ہوں بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔ ہر طرف سے بری خبر ہی ملتی ہے۔ میری تو کچھ سمجھ نہیں آ رہا کروں تو کیا کروں۔ دوسری بار میرا کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے۔ بڑے بیٹے کو مسقط بھیجا تھا وہ وہاں فارغ بیٹھا ہے نہ کوئی پیسہ نہ کوئی دھیلا بھیجتا ہے۔’‘
اس نے ایک ہی ساتھ اپنی دکھ بھری رُوداد سنا دی بابا جمعہ نے پالش کرنا چھوڑ دی اس کی ساری بات توجہ سے سنی۔
’’بیٹھ جاؤ محمد طفیل…! بلال بیٹا طفیل صاحب کو پانی پلاؤ’‘
بلال اٹھ کھڑا ہوا اور بجلی کے کھمبے کے ساتھ پڑے ہوئے پانی کے گھڑے سے ایک پیالہ پانی محمد طفیل کو دیا جو ایک ہی سانس میں غٹاغٹ سارا پانی پی گیا جیسے پریشانی کی آگ بجھا رہا ہو۔
’’اب بتاؤ کیا ہوا ہے …؟’‘ بابا جمعہ نے اس سے سوال کیا۔
’’ہونا کیا ہے مقدر ماڑے آپ کو تو پتہ ہے پوری زندگی ریلوے کی ملازمت کی، ریٹائرمنٹ سے جو روپیہ ملا تھا اس سے دونوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کر دیے پھر خالی ہاتھ۔ ریلوے کوارٹر خالی کرنا پڑا’‘
’’گاؤں میں 5ایکڑ زمین تھی وہ بیچ کر ایک چار مرلے کا گھر لیا بڑے بیٹے کو باہر بھیجا جو پیسے بچ گئے اس سے کپڑے کی دکان ڈالی، پندرہ دن بعد دکان میں چوری ہو گئی سارا مال ظالم لے گئے کپڑے کی ایک لیر (کپڑے کا چھوٹا پیس) بھی نہیں چھوڑی ظالموں نے …چھوٹا بیٹا شیف ہے کہنے لگا ابا ریسٹورنٹ بناتے ہیں مکان گروی رکھ کر بینک سے لون لیا کام تو اچھا چل پڑا تھا مگر میری قسمت پھر جل گئی ریسٹورنٹ میں آگ لگ گئی۔ سب کچھ جل کر سوا (راکھ) ہو گیا…
اب بلڈنگ کا مالک مرمت کے لیے پیسے مانگتا ہے …میں کہاں سے دوں۔’‘
محمد طفیل نے گھائل سپاہی کی طرح ساری داستان بیان کر دی اور خود گردن جھکائے کسی کرامت کا انتظار کر رہا تھا اُسے اُمّید تھی کہ بابا جمعہ کوئی پھونک ماریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا مگر حقیقت اس کے برعکس تھی تھوڑی دیر خاموشی کے بعد بابا جمعہ بول پڑے:
’’بلال بیٹا…! طفیل صاحب کو چائے پلاؤ’‘
’’جی ابھی فون کرتا ہوں’‘ بلال نے عقیدت سے جواب دیا۔ بابا جمعہ محمد طفیل کی طرف متوجہ ہوئے اور حلیمی سے بولے۔
’’دیکھو بھئی…محمد طفیل سچ بولنا اور سچ سننا دونوں ہی مشکل کام ہیں’‘
’’آج ہم دونوں سچ بولیں گے اور سچ سنیں گے …کچھ غلطیاں تو تم سے بھی سرزد ہوئی ہیں’‘
’’وہ کیا بابا جی؟’‘ محمد طفیل نے حیرت سے پوچھا۔
’’گاؤں کی زمین کس کی تھی’‘
’’ابا جی بہشتی کی’‘
’’کتنے بہن بھائی ہو تم سب ؟’‘ بابا جمعہ نے پھر پوچھا۔
’’میں ہوں اور تین چھوٹی بہنیں ہیں’‘ محمد طفیل نے بتایا۔
’’کیا زمین بیچ کر بہنوں کا حصہ دیا…؟’‘ بابا جمعہ نے سیدھا سوال کیا۔
’’کیسا حصہ جی …؟’‘ بابا جی آپ بھی کمال کرتے ہیں …اب بھی ان کا حصہ باقی ہے …میں نے ابا جی کے مرنے کے بعد اُن کو پالا ان کی شادیاں کیں اُن کی ہر خوشی غم میں پہنچتا ہوں۔ آپ اب بھی حصے کی بات کرتے ہیں’‘ محمد طفیل نے بے رخی سے جواب دیا۔
بابا جمعہ مسکرائے جیسے انہوں نے محمد طفیل کی تلخی اور بے رخی دیکھی ہی نہ ہو۔ وہ خاموشی سے محمد طفیل کو سن رہے تھے۔
’’میٹرک میں پڑھتا تھا جب ابا جی فوت ہو گئے تھے محنت مزدوری کر کے خود پڑھا بہنوں کو بھی پڑھایا، ایک باپ کی طرح فرض نبھایا ہے میں نے، بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کر دیا میں نے’‘
’’مگر ان کا حق تو نہیں دیا’‘ بابا جمعہ بول اٹھے ’’محمد طفیل یہ تمہارا فرض تھا اور فرض کا اجر صرف اللہ تبارک و تعالیٰ دے سکتا ہے، فرض تو تم نے احسن طریقہ سے ادا کر دیا مگر وراثت میں جو حق اللہ تعالیٰ نے بہنوں کا رکھا ہے وہ ادا نہیں کیا جو تم پر اپنی بہنوں کا قرض ہے …
اور دوسرا گناہ جو تم کر بیٹھے وہ یہ کہ سود پر قرض لے لیا میرا ماننا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سب سے سخت الفاظ سود کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔
یہ دو گناہ تم سے سرزد ہو گئے پہلا بہنوں کا حصہ نہیں دیا اور دوسرا سود پر قرض لے لیا۔’‘
محمد طفیل بھڑک اٹھا چائے کا کپ سائیڈ پر رکھا اور غصے سے بولا:
’’یہ جو اس ملک کے سیاست دان ہیں آج تک کسی کا بھی حق ادا کیا انہوں نے، بینکوں سے اربوں کے قرضے لیے اور کبھی ادا نہیں کیے، عوام کو روٹی میسر نہیں اور ان کے کتے بسکٹ کھاتے ہیں، ان کی تو اللہ پکڑ نہیں کرتا…مجھ غریب سے انجانے میں دو گناہ ہو گئے اور مجھے اتنی بڑی سزا دے دی’‘
بابا جمعہ نے ٹھنڈی سانس لی اور آسمان کی طرف دیکھا اور بولے:
’’اللہ کا شکر ہے کہ تم گناہ کو گناہ سمجھ گئے ہو، رہی بات اس ملک کے سیاسی لوگوں کی تو وہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے، اس لیے اللہ تعالیٰ انہیں توبہ کی توفیق نہیں دیتا تم سچے دل سے توبہ کرو اور سب سے پہلے سود کے پیسے واپس کرو بہنوں کے حق ادا کرنے کی نیت کرو محنت کرو خرچے کم اور کام زیادہ کرو پھر دیکھو کیسے برکت نازل ہوتی ہے’‘
محمد طفیل عاجزی سے بول پڑا:
’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر کیسے …؟میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے …بہنیں الگ ناراض ہیں، اُن سے ادھار کیسے مانگوں، دوسرے رشتہ دار سب مشکل سے دال روٹی کھا رہے ہیں۔ دس لاکھ تو بینک کا ہی ہے۔ دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے بھی پیسے چاہئیں۔’‘
محمد طفیل شکستگی سے سب کچھ بیان کر رہا تھا۔ بلال ساری گفتگو کے دوران خاموش رہا۔ بابا جمعہ سے کچھ کہنے کی اجازت چاہی۔ بابا جمعہ نے اجازت دی۔ بلال بابا جمعہ کی طرف دیکھ رہا تھا آنکھوں کی زبان سے، بابا جمعہ نے آنکھیں بند کر کے جواب دیا اور اثبات میں سر کو جنبش دی۔
’’آپ کل تشریف لے آئیں اللہ بہتر کرے گا’‘ بلال نے طفیل صاحب سے کہا۔
’’محمد طفیل تم کل آؤ’‘ بابا جمعہ نے حکم صادر کیا۔
٭٭٭
مکمل کتابڈاؤن لوڈ کریں