فہرست مضامین
بعد از تقسیم خطبات و تقاریر قائد اعظم محمد علی جناح
(نفسیاتی مطالعہ)
محمد خرم یاسین
محمد علی جناح الملقب بہ قائد اعظم برصغیر کے ان عظیم ترین سیاسی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے اپنی پختہ فکر اور عملِ پیہم کے ذریعے دنیا کے نقشے پر ایک نئی اسلامی مملکت کا اضافہ کیا۔ مثبت اور اصولی سیاست، عملی دیانت داری، ان تھک جد و جہد اور معتدل مزاجی ایسے کتنے ہی اوصاف ان کی ذات میں یکجا تھے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنی زندگی ہی میں ’’قائد اعظم‘‘ کہلائے بلکہ ’’قائد اعظم شناسی‘‘ کے جس دور کا آغاز ہوا وہ تا حال جاری ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے اور ان کی زندگی خود اسی امر کا عملی نمونہ رہی۔ سیاست ایسے میدان میں بھی ان کا کردار بے داغ اور مثبت عملی کا نمونہ رہا۔ ان کی پالیسیاں اس قدر کامیاب تھیں کہ کبھی ’’ نہرو رپورٹ‘‘ کے مقابلے میں مسلمانوں کی سلامتی کی غرض سے ’’چودہ نکات‘‘ پیش کر کے اور کبھی کانگریس ایسی بڑی جماعت کو انتخابات میں کامیابی کے باوجود شکست دے کر محیر العقول سیاسی کارنامے سر انجام دئیے۔ یہاں تک کہ انھوں نے اپنی تیزی سے گرتی صحت کا بھی خیال بھی نہ کیا
اور شبانہ روز محنت کے نتیجے میں پاکستان کا جھنڈا دنیا کے نقشے پر لہرایا۔ اسی لیے ان کی سیاسی بصیرت کو مسلمانانِ برصغیر ہی نے نہیں بلکہ ہنود و فرنگیان نے بھی بنظر تحسین دیکھا اور اپنی تحاریر و کتب میں اس کا برملا اظہار کیا ہے۔ ان حوالوں میں اسٹینلے والپرٹ ’’Jinnah of Pakistan‘‘، ہیکٹر بولیتھو ’’Jinnah, Creator of Pakistan‘‘، جسونت سنگھ ’’Jinnah India-Partition Independence‘‘ گوپال کرشنا گوکھلے، سروجنی نائیڈو "Muhammad Ali Jinnah-An Ambassador of Unity”، ڈاکٹر سچدانند سنہا اور کانجی دوارکا داس ایسے معتبر سیاست دان، تاریخ دان اور سوانح نگار شامل رہے۔ ان کی قائد اعظم محمد علی جناح پر تحریر کردہ کتب اور تہنیتی مضامین اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ وہ ان کی طرزِ سیاست سے کس قدر مرعوب تھے۔ سروجنی نائیڈو نے آپ کی تقاریر اور خطابات کے مجموعے کو "Muhammad Ali Jinnah – An Ambassador of Unity” (محمد علی جناح۔ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر) کے عنوان کے تحت شائع کیا جس میں انھیں امن و محبت کا داعی اور بر صغیر کی اقوام میں اولاً اتحاد کا استعارہ قرار دیا۔ سروجنی کا ان کی شخصیت کے حوالے سے یہ استدلال اس لیے بھی مبنی بر دلائل ہے کہ وہ سرسید کی طرح آغاز میں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر رہے اور یہ بھی کہ ان کی کسی تقریر یا تحریر سے ہرگزہندو مذہب کی تذلیل ثابت نہیں ہوتی البتہ وہ جداگانہ مسلم تشخص کے خواہاں اور ہنود و دیگر اقوام سے مذہبی و معاشرتی اقدار و روایات کے اختلاف کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک الگ قوم تسلیم کرتے تھے۔ مزید یہ کہ کانگریس کی مسلم دشمن پالیسیوں اور کٹر ہندو تنظیموں کی جانب سے ’’شدھی‘‘، ’’سنگھٹن‘‘ اور ’’ودیا مندر سکیم‘‘ ایسی مسلم کش تحریکوں نے بھی ان کے الگ وطن کے مطالبے کے فیصلے کو عین درست ثابت کیا۔ اسی لیے ان کی مثبت اور مدبرانہ سیاست اور غیر متشدد پالیسیوں کو دنیا بھر میں خوب سراہا گیا۔ انھوں نے سیاسی میدان میں بھی اپنے پیرو کاروں کو ہمیشہ مثبت رہنے، تشدد سے بچنے، صبر کا دامن تھامنے اور رضائے الٰہی پر شاکر رہنے کی نصیحت کی۔ اگر ان کی تقاریر سے کہیں مسلمانوں کے جذبات میں تلاطم بھی برپا ہوا تو ایک نیک مقصد کے تحت ہوا نا کہ کسی کو نقصان پہچانے کی غرض سے ہوا۔
ڈاکٹر سچدانند سنہا کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت حیران کن تھی اور اپنی زندگی کے آخری بارہ برسوں میں مسلمانان برصغیر کے تسلیم شدہ رہنما رہے۔ جب ان کی حقیقت پسندانہ تقاریر مسلمانوں کے جذبات کو چنگاری دکھاتی تو مسلمانوں کا مقابلہ کرنا نا ممکن ہو جاتا اور وہ یوں اپنے پختہ ارادوں اور عزمِ مصمم کے سبب پاکستان کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ "Jinnah As I Knew Him” میں لکھتے ہیں:
"The astonishing feature of Jinnah’s success was that he had been, during the last twelve years of his life, the acknowledged leader of Islam in India, for the fascination of a "homeland for Muslims” was too strong for them to resist when inflamed by Jinnah with religious zeal……The main cause of Jinnah’s success was; one Voice, one (1)Theory and one Objective-Pakistan.”
ان کے ذاتی اوصاف کے حوالے سے سروجنی نائیڈو کا خیال ہے کہ کہ ان کا بظاہر دبلا پتلا یا نحیف وجود در حقیقت غیر معمولی توانائی اور قوت برداشت رکھنے والی روح کی نیام کی مانند تھا اور انھیں جاننے والے یہ بھی جانتے تھے کہ وہ طبعی طور پر انسان دوست، نزاکت ونفاست کا مظہر اور اور دل موہ لینے والے مزاج کا مجموعہ تھے۔ مزید یہ کہ سیاسی بصیرت، عقلیت پسند ی، معاملاتِ زندگی کے ماہر، عموماً غیر ضروری جذباتیت سے پرہیز اور علم و دانش بھی ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھا۔ اسی حوالے سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:
"Mohomed Ali Jinnah’s attenuated form is the deceptive sheathe of a spirit of exceptional vitality and endurance. Some what formal and fastidious, and a little aloof and imperious of manner, the calm of his accustomed reserve but masks for those who know him, a naive and eager humanity, an intuition quick and tender as a woman’s, a humor gay and winning as a child’s pre-eminently rational and practical, discreet and dispassionate in his estimate and acceptance of life, the obvious sanity and serenity of his worldly wisdom effectually disguise a shy and splendid idealism which is of the very (2) essence of the man.”
قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کی انفرادی خصوصیات کے بارے میں بہت سے حقیقت پسندانہ اعترافات کا ذکر ڈاکٹر صفدر محمود نے بھی کیا ہے۔ اپنے تحقیقی مقالے ’’Jinnah’s Vision of Pakistan‘‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ سیاسی منافقت یا اس کی کسی بھی صورت کو ناپسندکرتے تھے۔ وہ عوامی جلسوں میں بھی بنا لگی لپٹی بات کرتے جن کے معنی و مفاہیم میں کہیں کوئی شائبہ نہ ہوتا۔ جب کہ ان کی باتیں بھی سادگی، سلاست، روانی اور کسی بھی قسم کے تصنع سے بالا تر ہوتی تھیں:
He was not a hypocrite and abhorred hypocrisy in all its forms; double standards, extravagance, pomp and show. He always spoke with sincerity in public meetings and never played to the gallery or with the emotions of the people. His speeches and statements reflect selfless service to the cause of Islam and Muslims.(3)
محترمہ فاطمہ جناح جو رتن بائی کے انتقال کے بعد اپنا مطب بند کر کے مستقل طور پر بھائی کی خدمت پر معمور ہو گئی تھیں، انھوں نے اپنی یادوں سے قائد اعظم محمد علی جناح کی انگریزی سوانح ’’My Brother ‘‘ (میرا بھائی) تحریر کی۔ یہ کتاب نہ صرف اُن کی زندگی کو بہت سے نہاں گوشوں پر روشنی ڈالتی ہے بلکہ ان کی پاکستان اور اسلام سے محبت کا بیّن ثبوت بھی پیش کرتی ہے۔ ان کی بیماری کے متعلق بیان کرتی ہیں کہ وہ عمر کے آخری عشرے میں نقاہت اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا رہے۔ یہ امراض ان کی شبانہ روز محنت اور بے آرامی کے سبب نمونیہ اور پھیپڑوں کی ٹی بی میں تبدیل ہو گئے۔ اس بیماری میں انھیں آرام کی جس قدر زیادہ شدت سے ضرورت تھی وہ اسے نظر انداز کر کے اپنے مقصد سے اسی قدر اخلاص اور لگن کے ساتھ لگے رہے۔ اسی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش بپا نہ ہوئی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ان کے لافانی حوصلے اور عظمت کا ذکر کئی جگہوں پر کیا ہے جن میں سے ایک کا حوالہ ملاحظہ کیجیے:
کام، کام ۔۔۔ اور زیادہ سے زیادہ کام، بس یہی ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انھوں نے فطرت کے ایک فضول خرچ یا فیاض بچے کی مانند اپنی توانائی کے آخری ذرے کو بھی بے دریغ خرچ کر دیا۔ ان کی خرابی صحت سے گھبرا کر اور خوفزدہ ہو کر جب بھی کبھی میں نے ان سے اتنی زیادہ دیر تک کام نہ کرنے اور کچھ عرصے کے لیے اپنے مسلسل اور طوفانی دوروں کو ترک کرنے کی درخواست کی جن کی بناء پر وہ ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جاتے رہتے تھے تو انھوں نے یہی جواب دیا: ’’کیا تم نے کبھی کسی جرنیل کو اس وقت رخصت پر جاتے دیکھا ہے جب اس کی فوج میدانِ جنگ میں اپنی بقاء کے لیے مصروفِ پیکار ہو؟‘‘(۴)
وہ شدید بیماری سے گزرے رہے لیکن آخری دو سالوں کے علاوہ اسے کبھی خود پر حاوی نہ ہونے دیا۔ وہ وطن کے دور دراز علاقوں کے دورے کرتے، اجلاسوں میں شرکت کرتے، تقاریر کرتے اور ہزاروں کے مجمعے سے مخاطب ہوتے لیکن کہیں بھی عوام الناس کو یہ باور نہ ہونے دیتے کہ وہ کس بیماری کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کی بڑی اور واضح وجہ یہی تھی کہ اس طرح کی خبروں سے کہیں تحریکِ آزادی متاثر یا بے جان نہ ہو جائے یا کہیں تحریکِ آزادی کے متوالوں کے حوصلے پست نہ ہوں۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ ایک رہنما کی کسی بھی قسم کی پسپائی یا نقصان ساری تحریک کے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بنتا ہے۔ ان کے پیشِ نظر تحریکِ خلافت کا نتیجہ بھی تھا جس میں تحریک کے رہنماؤں کو نظر بند کرنے کے نتیجے میں یہ ناکامی سے دوچار ہوئی تھی۔
چونکہ قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانانِ ہند کے لیے مینارہ نور تھے اور وہ بڑی محبت اور جوش سے ان کی تقاریر سننے چلے آتے تھے، اس لیے ان کا خلوص اور جذبہ بھی قائد اعظم محمد علی جناح کا حوصلہ پست نہ ہونے دیتا تھا۔ اس سلسلے میں ان کی زندگی سے کئی واقعات بطور حوالہ پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ محترمہ فاطمہ جناح اور قائد اعظم محمد علی جناح نے ۱۹۴۰ء میں مرکزی مجلسِ قانون ساز میں اجلاس میں شرکت کے لیے بمبئی سے دہلی کا سفر کیا۔ دوران سفر ان کی طبیعت بگڑ گئی لیکن ڈاکٹروں کے آرام کے حوالے سے پر زور مشورے کے باوجود اس پر عمل نہ کیا ہے۔ لکھتی ہیں:
’’وہ سونے کے لیے بستر میں لیٹے تھے کہ اچانک ان کے منھ سے زور دار چیخ بلند ہوئی جیسے گرم آہنی سلاخ سے ان کا جسم چھید دیا گیا ہو۔ میں گھبرا کر اٹھی اور ان کے پاس پہنچی۔ ان سے چیخنے کا سبب پوچھا مگر درد اتنی شدت کا تھا کہ ان کی قوتِ گویائی بھی جیسے سلب ہو گئی ہو۔۔ ۔ ٹرین علی الصبح دہلی اسٹیشن پر رکی اور جلد ہی ہم اپنی رہائش گاہ ۱۰۔ اورنگزیب روڈ پہنچ گئے۔۔۔ تفصیلی معائنے کے بعد ڈاکٹر نے فیصلہ سنایا کہ ان پر پھیپھڑوں کی سوزش (Pleurisy) کا حملہ ہوا تھا اس لیے انھیں کم از کم پندرہ دن آرام کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر کے جاتے ہی انھوں نے گویا ڈاکٹر کے فیصلے کو ساقط کرنے کے لیے مجھ سے کہا ’’کیا بد قسمتی ہے۔ یہ انتہائی اہم اجلاس ہے اس میں میری شرکت از حد ضروری ہے۔ اور میں ہوں کہ زبردستی فراش کر دیا گیا ہوں اور آرام فرمانے کی عیاشی کر رہا ہوں۔۔۔ انھوں نے جو فیصلہ سنایا تھا وہی کیا۔ ‘‘(۵)
ایسی ہی صورتِ حال میں جب کہ وہ پھیپڑوں کی تکلیف میں مبتلا تھے، بر صغیر کے طول و عرض میں تحریک کے لیے دوروں میں وقفہ نہ آنے دیا۔ اس دوران میں گرمی سردی کے موسم کی سختیاں، آندھیاں، بارش اور طوفان، سب ان کی صحت پر اثر انداز ہوتے رہے۔ انھیں نزلے سے سخت الرجی ہو گئی تھی اور مسلسل کھانسی اور بخار بھی پیچھا نہ چھوڑتے تھے۔ ا۱۹۴ء میں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے بمبئی سے مدراس جاتے ہوئے ان کی ناساز طبیعت مزید بگڑ گئی۔ اس سفر میں فاطمہ جناح بھی ساتھ تھیں، ٹرین میں طبیعت بگڑنے کے باوجود عزم و ہمت کی تصویر کشی الفاظ کی صورت میں یوں کرتی ہیں:
۱۹۴۱ء میں بمبئی سے مدراس جاتے ہوئے نروس بریک ڈاؤن ہوا، ٹرین میں گر گئے اور ڈاکٹر نے نہایت پر زور طریقے سے منع کیا کہ کم از کم ایک ہفتہ چلنے پھرنے سے مکمل گریز کریں لیکن ایسا نہ ہوا اور اگلے ہی روز مدراس میں ہزاروں لوگوں کے جلسے سے مخاطب ہوئے اور انھیں بنا نوٹس دو گھنٹے تک اس عظیم اجتماع سے مخاطب رہے۔ (۶)
ایک نئی مملکت کی تخلیق کے لیے ایسی ہی بلند حوصلہ شخصیت کی ضرورت تھی جس کی عملی زندگی پیرو کاروں کے لیے تحریک ہو۔ اس ضرورت کو سمجھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے فکر و عمل سے بلند ہمتی کی مثال قائم کی اور بیماری کو کبھی مقاصد کے آڑے نہ آنے دیا۔ اسی سبب ان کی شخصیت میں ایسا نکھار پیدا ہوا کہ لوگ جوق در جوق ان کے حلقہ اثر میں آتے گئے۔ وہ لوگ جو ان کی تقاریر کو پوری طرح سمجھ بھی نہ پاتے تھے، ان کے جذبات پر صدقِ دل سے ایمان لاتے اور ان کے کہے کو حق سچ سمجھتے۔ گو کہ کانگریس کی طرح خود مسلمانوں کے کچھ مخصوص ذہنیت کے گروہوں نے ان کی مخالفت بھی کی لیکن اس نئی آزاد مملکت کا احسان ان کے کاندھوں پر بھی رہا اور جس کی تخلیق کے بعد وہ اس میں منتقل ہو گئے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششیں رنگ لائیں اور ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس سے ان کی پختہ ارادی میں اضافہ ہوا اور گرتی صحت سے مقابلے (Psychic Energies) کی صورت پیدا ہوائی۔ اسی لیے قیام پاکستان کے بعد عوام الناس کے درمیان کراچی کی سڑکوں سے گزرتے ہوئے ان کے چہرے سے ٹپکتی بشاشت نے بڑھتی بیماری کو چھپا لیا تھا۔ لوگوں کے جم غفیر نے انھیں گھیرا ہوا تھا اور وہ ان کے درمیان خوش اور پر جوش تھے لیکن محترمہ فاطمہ جناح کو ان کی صحت کے حوالے سے شدید تشویش لاحق ہو رہی تھی۔ لکھتی ہیں:
’’جس وقت ہم کراچی کی سڑکوں پر موجود جوش مسرت و انبساط سے نعرے لگاتے لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے گورنر جنرل ہاؤس کی جانب بڑھ رہے تھے تو ان مشتاقان دید کو اس بات کا قطعی کوئی علم نہ تھا کہ ان کے عظیم و محبوب رہنما اور قائد اعظم کتنے بیمار ہیں۔ ان کی قوم کے لیے تو یہ یومِ آزادی تھا اور خود قائد اعظم کے لیے عمر بھر کی جد و جہد کا حاصل تھا۔‘‘ (۷)
صحت کے سلسلے میں محترمہ فاطمہ جناح کے ٹوکنے یا سمجھانے پر وہ اپنے موقف سے ایک لمحہ بھی پیچھے نہ ہٹتے۔ قیام پاکستان کے بعد اب ان کے سامنے اب استحکامِ پاکستان کا نیا مقصد تھا جو انھیں نیا عزم و حوصلہ بخشتا تھا۔ اسی لیے انھوں نے ایک موقع پر فاطمہ جناح ہی سے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی زندگی قوم کی امانت ہے۔ وہ اپنے آخری سانس اور خون کے آخری قطرے تک جو کچھ ہو سکے گا ملک و قوم کے لیے ضرور کریں گے۔ ان کا یہ پیغام در حقیقت ان کی قوم کے نام تھا جن کی زندگیاں اور مستقبل قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسیوں سے مشروط ہو چکا تھا۔ ملاحظہ کیجیے:
’’میں اپنی جسمانی طاقت اور توانائی کے ذخیرے کو اس وقت تک استعمال کرتا رہوں گا جب تک اس میں عوام کی خدمت کے لیے توانائی کا آخری قطرہ موجود ہے اور جب یہ آخری قطرہ بھی صرف ہو جائے گا تو میرا کام اختتام کو پہنچے گا کیوں کہ پھر زندگی ہی نہ ہو گی۔‘‘(۸)
قیامِ پاکستان کے بعد عوام الناس کو لا تعداد مسائل و مصائب گھیرے ہوئے تھے۔ محمد علی جناح نے جس مقصد کے لیے نئے ریاست کو حاصل کیا تھا، لوگ اسے پورا ہوتا دیکھنا چاہتے تھے لیکن اس میں وقت درکار تھا۔ ایسے میں قوم کو یکجا رکھنا، حوصلہ دینا اور اس فکر سے آزاد کرنا کہ ان کی نسلیں ان کی طرح مشقت نہیں اٹھائیں گی بلکہ پہلے سے زیادہ توانا اور خوش حال ہوں گی، ایک مشکل کام تھا۔ اسی لیے ان کے مقصد کے تکمیل کی فکر نے انھیں بستر سے نہ لگنے دیا۔ خود انھوں نے اس ذمے داری کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا جو ان کے لیے نفسیاتی محرک بھی ثابت ہوا۔ پاکستان کا قیام جس قدر ضروری تھا اس سے کہیں زیادہ اہمیت یہ معاملہ اختیار کر گیا تھا کہ اس کے قیام کو دوام کیوں کر مل سکتا ہے۔ یوں یہ ایک مرحلے کا اختتام دوسرے مرحلے کا آغاز تھا۔ اس نئی مملکت کو مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا اور سیاسی، سماجی، معاشی و معاشرتی ہر حوالے سے اسے استحکام بخشنا ایک کٹھن کام تھا جس کے بارے میں محترمہ فاطمہ جناح لکھتی ہیں:
’’پاکستان کے افق پر مایوسیوں کے گہرے بادل منڈلا رہے تھے اور وہ عوام کے ذہنوں سے مایوسی اور محرومی کے احساس کو زائل کر کے انھیں امید و رجا اور نئی امنگوں اور جذبوں سے سرشار کرنا چاہتے تھے۔ ‘‘(۹)
اسی سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو قوم کے نام ریڈیو پاکستان سے جو پیغام نشر کیا اس کے تجزیاتی اور نفسیاتی مطالعے سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ تمام مشکلات کے باوجود ہر طرح سے اپنی قوم کو ایک جیتی جاگتی، پختہ اور مصمم ارادے والی قوم بنانے کے خواہاں تھے۔ اس پیغام کے ایک اقتباس کا تجزیاتی مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل سے پوری طرح واقف تھے اورنفسیاتی طور پر انھیں متحرک بھی رکھنا چاہتے تھے تاکہ نا امیدی اور مایوسیاں ان سے دور رہیں۔ قوم سے پہلے خطاب میں انھوں نے قوم کو پاکستان بننے کی مبارکباد پیش کی، اپنے شہیدوں کو نذرانہ شہادت کو خراجِ تحسین پیش کیا، ان کے تعمیری جذبات کو ابھارا تاکہ وہ مستقبل قریب و بعد میں مزید کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز نہ کریں اور گزشتہ مشکلات و مصائب کو بھول کر نئے سرے سے قومی دھارے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان کے بیان میں موجود ہمت، امید، جستجو، آرزو حوصلے کے تعمیری نفسیاتی محرکات کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:
’’آج کا دن مسلم قوم کی سربرآوری کا دن ہے جس نے اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے گزشتہ کئی برسوں میں بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اس انتہائی اہم ساعت میں میرا دل جنگِ آزادی کے ان دلیر مجاہدوں کی یاد سے معمور ہے جنھوں نے پاکستان کو حقیقت بنانے کے لیے اپنا سب کچھ حتیٰ کہ اپنی جانیں تک نثار کر دیں۔ میں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان ہمیشہ ان کا ممنون احسان رہے گا اور ان ساتھیوں کو جو ہم میں نہیں ہیں، ہمیشہ دل سے یاد رکھے گا۔۔۔ آئیے ہم آج کے دن اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لائیں اور دعا کریں کہ وہ ہمیں اس کا اہل ثابت ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آج ہماری قومی تاریخ کی تلخیوں سے بھرپور دور کا اختتام ہوتا ہے اور آج ہی کے دن سے ہمارے نئے شاندار اور پر وقار عید کا آغاز بھی ہونا چاہیے۔‘‘ (۱۰)
قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی بیان میں مسلمانوں کو آزاد وطن کی مبارک باد اس حوالے سے بھی دی کہ یہ ان کے آزاد وطن کی عید ہے۔ یہ ان کے لیے پیامِ بہار اور ان کے صبر و استقلال کا اجرِ عظیم ہے۔ اس عید کا ان کی مملکت کے قیام سے اس لیے بھی گہرا تعلق ہے کہ جس طرح عید کا چاند طلوع ہوا ہے اسی طرح دنیا کے افق پر ان کا وطن چاند بن کر چمکا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’آزاد اور خود مختار پاکستان کے قیام کی خوشیاں منانے کے عین موقع پر عید بھی ہمیں پیامِ مسرت دینے آ گئی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی عید ہے۔ پورے عالم اسلام میں مسرتوں اور خوشیوں کا پیغام لانے والا یہ دن عین اس وقت نمودار ہوا ہے جب ہماری اپنی مملکت نمودار ہو رہی ہے اور اس لحاظ سے آج کا دن ہم سب کے لیے خصوصی اہمیت اور مسرت کا دن ہے۔ ایک ایسی عید جو انشاء اللہ خوش حالی کا ایک نیا باب کھولے گی اور جو اسلامی ثقافت و نظریات کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔‘‘ (۱۱)
اسی خطاب کے آخر میں انھوں نے قوم کو رجائی رویہ (Optimist Behavior) اپنانے کی تلقین کی اور کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل میں دنیا کے کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں ہے۔ اگر اس نئی مملکت کے سبھی باشندے مل کر پاکستان کو عظیم ملک بنانے کی کوشش کریں گے تو وہ اس میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ مثبت تحریک کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:
’’میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرزمین عظیم وسائل سے مالا مال ہے لیکن اسے ایسا ملک بنانے کے لیے جو مسلم قوم کی شایان شان ہو، ہمیں اپنی تمام قوتوں کی آخری رمق تک درکار ہو گی اور مجھے بھروسہ ہے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے سب لوگ دل و جان سے اپنی پوری قوتیں وقف کریں گے۔ (پاکستان زندہ باد) (۱۲)
قائد اعظم محمد علی جناح نے عید کی نماز کراچی کی میمن مسجد میں ادا کی۔ آپ کے ساتھ ہزاروں مسلمانوں کے اجتماع نے عید کی نماز میں شرکت کی۔ اس وقت آپ کی ان سب میں موجودگی ہی ان کے لیے بہت حوصلہ افزا اور تحریک کا سبب تھی۔ اس حوالے سے کلیم نشتر لکھتے ہیں:
’’اگرچہ پاکستان کی پہلی عید سخت نا مساعد حالات اور صبر آزما ایام میں آئی تھی لیکن قوم نے اپنے قائد کے آہنی عزم و ارادے کے سہارے اس دن کو روایتی آن بان سے منایا۔‘‘ (۱۳)
امید و رجا اور حوصلہ افزائی کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح کے خطابات و تقاریر میں کراچی میں گیارہ (۱۱) اکتوبر ۱۹۴۷ء کا ایک بیان بھی شامل ہے جو انھوں نے اجلاس میں شرکت کے وقت کیا تھا۔ آپ کو دشمن کے اوچھے ہتھکنڈوں کے بارے میں پوری معلومات تھی، اسی لیے انھوں نے اس کا جواب دینے کے لیے اس ایسی ہی حرکتیں کرنے کے بجائے محنت اور لگن سے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کو ترجیح دی۔ کیوں کہ ان کے دیگر بیانات سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ دنیا کی کوئی قوت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔ ملاحظہ کیجیے:
’’دشمنوں کی خواہش اور اس کے ہتھکنڈوں کا بہترین جواب یہ ہے کہ ہم پاکستان کی تعمیر و ترقی کا عزم صمیم کریں۔ ایک ایسی اچھی اور عظیم مملکت جو ہماری آنے والی نسلوں کے رہنے کے قابل ہو۔ ‘‘(۱۴)
قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی سال ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو دو ماہ بعد عید الاضحی کے موقعے پر قوم سے جو خطاب کیا وہ نہ صرف تاریخی اہمیت کا حامل ہے بلکہ اسے اس نفسیاتی تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک رہنما کس طرح اپنی قوم کو متاثر کرتا ہے، ان میں مثبت جذبات جگاتا ہے اور متحد رکھنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر انھوں نے قوم کو حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کی یاد دلاتے ہوئے قربانی کے مفہوم اور مواقع پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر جذبات کو ابھارا اور یہ درس دیا کہ آزادی قربانی طلب کرتی ہے، مشکلات کے بعد ہی آسانیوں کے در وا ہوتے ہیں اور اب جب کہ نئے وطن میں اپنے لوگوں کے درمیان اتحاد قائم رہے گا تو جلد از جلد تمام لوگ ترقی کی منازل طے کر سکیں گے۔ اس لیے نا مساعد حالات سے کبھی دل چھوٹا نہ کریں بلکہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ کہتے ہیں:
’’یہاں ہمارے پاکستان میں تو شکر گزاری اور خوشیوں بھرا دن ان تکلیفوں، اذیتوں اور زخموں سے خون آلود ہے جو مشرقی پنجاب اور دوسرے علاقوں میں پچاس لاکھ مسلمانوں پر لگائے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آج کے مبارک دن جہاں کہیں بھی مسلمان مرد اور عورتیں جمع ہو کر خداوند تعالیٰ کے حضور میں سجدہ شکر بجا لائیں گے تو وہ اپنی خلوص و دعاؤں میں ان بد نصیب مردوں، عورتوں اور بچوں کو ضرور یاد رکھیں گے جنھوں نے اپنے پیاروں کے گلے کٹوائے، گھر سے بے گھر ہوئے اور اب کٹے پٹے تباہ و برباد، پریشان حالت میں ایسی ایسی اذیتیں اور ظالمانہ تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں کہ آج تک انسانیت نے کبھی برداشت نہیں کیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ خطرے اور ضرورت کی اس گھڑی میں ہمدردی، امداد اور تعاون کا ہاتھ ہماری جانب بڑھائیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کر سکتی۔ خدا جن لوگوں سے محبت کرتا ہے، ان کو امتحان اور آزمائش میں بھی ڈالتا ہے۔۔۔ آج بھی خداوند کریم پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے بہت ہی بڑی بڑی قربانیاں طلب کی ہیں۔۔ ۔ چاروں طرف سے تاریک بادلوں نے گھیر رکھا ہے مگر ہم ان کے خوف سے رک نہیں سکتے کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے قربانی کا وہی جذبہ پیش کیا جیسا حضرت ابراہیمؑ نے کیا تھا تو مصیبتوں کے بادل چھٹ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیمؑ کی طرح ہم پر بھی اپنی رحمتوں کی بارش کرے گا۔‘‘ (۱۵)
تقسیم کے اعلان کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی، ان کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، خواتین پر ہر طرح کے مظالم کیے گئے اور قافلے کے قافلے لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گردی کا شکار ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس صورتِ حال پر رنجیدہ تھے اور اپنے خطابات میں ان سبھی حوالوں کو بیان کرتے ہوئے امید، ہمت اور صبر کا درس دیتے تھے تاکہ قوم متحد رہے اور پریشانیوں کا دیوانہ وار مقابلہ بھی کرے۔ اسی حوالے سے ان کا اہلِ لاہور سے ۳۰ اکتوبر ۱۹۴۷ء کا خطاب بھی قوم کے جذبات میں نئی روح پھونکنے، ہمت و حوصلے کا دامن تھامنے کے درس کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ بیان کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’تاریخ ان لوگوں کے بارے میں بھی اپنا فیصلہ رقم کرے گی جن کے گٹھ جوڑ، فریب کاری اور سازشوں نے برصغیر میں انتشار اور تباہی کی قوتوں کو بے لگام کر دیا اور جس کے نتیجہ میں لاکھوں افراد موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ بہت بڑے پیمانے پر املاک تباہ کی گئیں اور لوکھوں افراد کے گھر اجاڑ کر ان کو بے گھر اور بے در کر کے اور ان سے وہ سب کچھ چھین کر جو انھیں بے حد عزیز تھا انھیں آلام و مصائب میں مبتلا کر دیا۔ جس منظم انداز میں نہتے اور بے بس اور بے گناہ افراد کو قتل عام میں موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے اس پر تاریخ کے انتہائی ظالم و جابر حکمران بھی اپنے شرمناک اور قابل نفرین و ملامت آمیز مظالم پر شرمسار نظر آتے ہیں۔۔ ۔۔ ہم خدائے رحیم و کریم کے شکرگزار ہیں کہ اس نے شر کی ان قوتوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں حوصلہ اور ایمان عطا کیا۔ اگر ہم نے قرآن کریم سے رشد و ہدایت حاصل کرنے کو اپنا شعار بنایا تو یقین رکھئے کہ آخری فتح ہماری ہو گی۔‘‘(۱۶)
اسی بیان میں انھوں نے پھر سے اس بات کا اعادہ بھی کیا تھا کہ پاکستان ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر مکمل ہوئی اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی مزید یہ کہ مومنین کی قربانیوں نے ہمیشہ سے اسلام کا صحن آباد رکھا ہے اس لیے ڈرنے یا گھبرانے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اس پیغام میں انھوں نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ ان کی فتح کا یقین بھی دلایا تھا اور نفسیاتی طور پر پہلے سے زیاہد مضبوط بنانے کی بھی کوشش کی تھی۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اپنے حوصلے بلند رکھیں، موت سے ہرگز خوفزدہ نہ ہوں۔ ہمارا مذہب ہمیں موت کے لیے ہر وقت تیار رہنے کا حکم دیتا ہے۔ پاکستان اور اسلام کے وقار کو بچانے کے لیے ہمیں جرات کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی چاہئیں۔
ایک مسلمان کے لیے حق کی خاطر شہید کی موت سے بڑھ کر بہتر کوئی ذریعہ نجات نہیں۔۔ اپنا فرض ادا کیجیے اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔ روئے زمین پر ایسی کوئی طاقت نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔ ‘(۱۷)
قائد اعظم محمد علی جناح مضبوط قوتِ ارادی کے حامل شخص تھے۔ مشکلات نے انھیں ہمیشہ پہلے سے زیادہ قوی کیا۔ ان پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے، جابر حکم کے سامنے کلمہ حق کہنے کا مرحلہ آیا اور اپنے حق کے لیے ظلم کے سامنے سینہ سپر ہوا لیکن کسی جگہ ان کی ذات میں کوئی کجی واقعی نہ ہوئی۔ پاکستان کے قیام سے قبل ہی خود قائد اعظم محمد علی جناح کو ممکنہ قاتلانہ حملے کی مصدقہ خبر بھی ملی تھی جس کی بابت ان کے احباب پریشان ہوئے تھے اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھی اس کی خبر کی گئی تھی لیکن ماؤنٹ بیٹن نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی تھی۔ ایسے کئی مواقع پر جب احباب ان کی حفاظت کی غرض سے بھی جمع ہوتے اور انھیں خطاب سے منع کرتے وہ ان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے اور اپنے جاں نثاروں کے سامنے نڈر اور بے باک ہو کر خطاب کرتے۔ وہ ہر ممکن طریقے سے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کے کیتھارسز کی فکر میں رہتے۔ اسی ضمن میں لاہور میں ان کا خانہ جنگی سے متعلق ۳ دسمبر ۱۹۴۷ء کو لاہور میں خطاب کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان حاصل ہو چکا ہے۔ پاکستان کے حاصل کرنے کے لیے ہم نے کوئی خونی جنگ نہیں شروع کی تھی۔ ہماری لڑائی دماغی اور اخلاقی قوت پر مبنی تھی۔ ہم نے ثابت کر دیا کہ قلم کی طاقت تلوار کی طاقت سے زیادہ ہے۔ ہمیں اپنا مقدس پاکستان حاصل ہو گیا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کی نجات کا راستہ تھا بلکہ ہندوستان کی سیاسی گتھیوں کا واحد حل بھی تھا۔‘‘(۱۸)
قائد اعظم محمد علی جناح کا ۲۱ فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان کے فوجی جوانوں سے خطاب بھی انھیں روشن مستقبل، قوم کی خاطر قربانی کی تلقین اور جدید دفاعی منصوبہ بندی کی تلقین سے متعلق ہی رہا۔ یہ خطاب اس لیے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ان کا فوج سے پہلا خطاب تھا اور اس لیے بھی کہ اس میں انھوں نے پاکستانی فوج کو ایک طرح سے لائحہ عمل دیا تھا۔ اس مختصر خطاب کا ایک ایک لفظ عزم و ہمت کی تحریک سے عبارت ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’آپ کو بھی زمانے کے ساتھ چلنا ہو گا اور اپنا اسلحہ جدید ترین طرز کا رکھنا ہو گا۔ اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم رکھتے ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی طاقت ہمیں بے خبری کے عالم میں نقصان پہچانے میں کامیاب نہ ہو جائے، ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم امن اور چین سے رہیں اور ہم بیرونی مداخلت کے بغیر اپنے ملک میں اپنے عقائد اور اپنی مرضی کے مطابق ترقی کریں۔‘‘(۱۹)
قائد اعظم محمد علی جناح ڈھاکہ سے آنے والی خبروں سےد ل گیر رہتے تھے۔ اسی لیے وہ انتہائی خراب صحت کے باوجود ۲۱مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ پہنچے اور وہاں کی عوام، بالخصوص نوجوانوں کو حصول پاکستان کے منشور پر قائم رہنے کی تلقین کی۔ انھوں نے صوبائیت کے نعرے لگانے والوں کی حوصلہ شکنی کی اور واشگاف الفاظ پاکستان مخالف و دشمن عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں راہِ راست پر رہنے کی تلقین کی۔ انھوں نے بنگالیوں کو صوبائیت کی بجائے مرکزیت سے زیادہ مضبوط تعلق رکھنے، پاکستان کا خیر خواہ ہونے اور ہر قسم کے فسادات سے دور رہنے کی تلقین بھی کی لیکن ان کے اس صوبے سے متعلق خدشات بعد میں عین درست ثابت ہوئے اور یہ پاکستان کا حصہ نہ رہا۔ ان کے خطاب کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے:
’’آپ نے ایک سلطنت اپنے لیے بنائی ہے، ایک وسیع و عریض سلطنت۔ یہ سب آپ کی ہے۔ یہ نہ پنجابی کی ہے، نہ بنگالی کی، نہ سندھی یا پٹھان کی، یہ سب آپ کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بنگالی، پٹھان، سندھی اور بلوچی وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ سب اپنی اپنی جگہ وحدتیں ہیں لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا آپ وہ سبق بھول گئے جو تیرہ سو سال پہلے آپ کو سکھایا گیا تھا؟‘‘ (۲۰)
قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ خطاب خاصا طویل ہے جس کی تحریر چھ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سے اس بات کا اندازہ لگانا ہرگز مشکل نہیں رہتا کہ وہ بنگال کی بگڑی صورتِ حال سے خوب واقف تھے۔ اسی لیے انھوں نے بنگالی طلبہ کے لیے ایک خطاب ۲۴ مارچ، ۱۹۴۸ء کو بھی کیا تھا جس میں ان پر واضح کیا تھا کہ دشمن ان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتا ہے اور اور انھیں اپنا آلہ کار بنا کر انتشار پھیلانے کا مقصد رکھتا ہے۔ ان کا یہ خطاب بھی طویل خطاب ہے جو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں انھوں نے بہت تفصیل سے عیار دشمن کی سازشوں کا پردہ چاک کرنے اور متحد رہنے کی تلقین کی ہے۔ ڈھاکہ میں انھوں نے عوام الناس اور طلبہ سے خطابات کے بعد چٹاگانگ میں بھی ۲۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو حکومتی افسران سے خطاب کیا۔ یہ خطاب فرض شناسی کی تلقین، پیشہ وارانہ مہارتوں کے استعمال اور درست انداز میں عوامی خدمات کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کے بعد ان کی ۳۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ سے ایک تقریر نشر ہوئی جس میں عوام الناس سے مخاطب ہوتے ہوئے انھوں نے دیگر تمام خوبیوں کو احسن انداز میں بیان کیا۔
واپس کراچی پہنچ کر انھوں نے گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں یکم اپریل ۱۹۴۸ء کو پاکستانی نوٹوں کے اجرا پر عوام الناس کو مبارک باد پیش کی اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی مضبوطی کو بھی بطور مثبت محرک پیش کیا۔ انھوں نے اسی خطاب میں عوام الناس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان شر پسند عناصر کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جنھوں نے پاکستانی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ یہ زیادہ دیر چل نہ پائے گی۔ ملاحظہ کیجیے:
’’آپ نے پہلا ہی جو بجٹ پیش کیا ہے اسی سے ان جھوٹی پیش گوئیاں کرنے والوں کی آنکھیں کھل گئی ہوں گی۔ پہلے ہی بجٹ سے دنیا پر یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا ہو گا کہ پاکستان کی معاشی بنیادیں مضبوط ہیں اور حکومتِ پاکستان ان بنیادوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرے گی۔ ‘‘ (۲۱)
پاکستان کو ایک دیوالیہ ملک بنانے میں کانگریس لیڈروں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ عملی طور پر بھی اور فکری طور پر بھی پاکستان کے خلاف تھے۔ پاکستان بننے سے قبل بھی اس کی سکیم کے حوالے سے کانگریس، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مہا سبھا وغیرہ سبھی جماعتیں پاکستان دشمنی میں ہر حد پھلانگ چکی تھیں۔ ان جماعتوں کے سربراہان و رہنماؤں کے بیانات بھی بہت حوصلہ شکن تھے ان کے بیانات سے ان کی ذہنی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۵ اپریل ۱۹۴۷ء کو پاکستان دشمنی پر مبنی نہرو کے بیان کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
’’کانگریس کسی بھی حالت میں نظریہ پاکستان قبول نہیں کر سکتی چاہے برطانوی حکومت اس نظریے کو تسلیم ہی کیوں نہ کرے۔ روئے زمین کی کوئی طاقت حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی اس پاکستان کو قائم نہیں کرا سکتی، جس کا مطالبہ مسٹر جناح کرتے ہیں۔‘‘(۲۲)
اسی طرح ۳ اپریل ۱۹۴۷ء کو پٹیل کے بیان کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے:
’’پاکستان کی سکیم ایک مسخرہ پن اور بچوں کا کھیل ہے۔‘‘(۲۳)
گاندھی کا بیان بھی نہرو اور پٹیل ایسے ہندو رہنماؤں سے مختلف نہیں تھا۔ ۵ جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے فیصلے کی مخالفت میں بیان دیا تھا کہ:
’’کوئی بری چیز اس لیے اچھی نہیں ہو جاتی کہ متعلقہ فریقوں نے اسے منظور کر لیا ہو۔‘‘ (۲۴)
تقسیمِ بر صغیر کے وقت ریزرو بنک آف انڈیا کے اکاؤنٹ میں سے (متحدہ ہندوستان کی حکومت کا کیش بیلنس چار ارب) معاہدے کے مطابق پچھتر کروڑ روپے پاکستان کے حصے میں آتے تھے۔ ان میں سے تقسیم کے وقت محض بیس کروڑ روپیہ حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں منتقل کیا گیا اور بچپن کروڑ روپیہ روک لیا گیا۔ جس کی بابت یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ پاکستان یہ روپیہ کشمیر کے حق میں خرچ کرے گا۔ بھارت مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو کسی بھی طرح کے مالی بحران میں مبتلا کر دینا چاہتا تھا۔ ایسے میں اسٹیٹ بینک کے افتتاح اور نئے پاکستانی نوٹوں کے اجرا کے موقع پر تقریر یقیناً قوم کے لیے پیامِ بہار اور قائد اعظم محمد علی جناح کے وعدوں کی تصدیق تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس موقع پر اس لیے بھی زیادہ خوش تھے کہ پاکستان پہلی بار وسائل کے حوالے سے خود مختار اور بہتری کی جانب گامزن ہونے جا رہا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا اسلامیہ کالج پشاور کے طلبہ سے خطاب بذاتِ خود امید و رجائیت اور زندگی کے لائحہ عمل کا بڑا ثبوت ہے۔ اس خطاب کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہ پاکستان کے طلبا کے لیے ابھی تک ایسا ہی نیا اور تازہ ہے جیسا ۱۲ اپریل ۱۹۴۸ء کو تھا۔ اس میں انھوں نے انھیں پاکستان دشمن عناصر سے بچتے رہنے کی تلقین کی، نئی مملکت کو مضبوط اور پہلے سے بہتر بنانے کی تحریک دی اور اس کے مستقبل کے لیے بہت سی نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔ ملاحظہ کیجیے:
’’آپ کی مملکت کی مثال ایک باغ کی سی ہے۔ آپ کا باغ اتنا ہی پھلے پھولے گا جتنی دیکھ بھال اور کوشش آپ اس کے لیے کرٰن گے۔ اسی طرح آپ کی حکومت بھی اسی وقت اچھی طرح چل سکتی ہے کہ آپ وطن دوستی کے ساتھ اپنی پر خلوص اور تعمیری کوششیں اس کی اصلاح اور درستی کے لیے صرف کریں۔‘‘(۲۵)
اسی خطاب میں انھوں نے صوبائیت کے عفریت کا بھی ذکر کیا اور اس سے بچنے کی تلقین بھی کی۔ آخر میں انھوں نے طلبا کو ان کی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس دلاتے ہوئے تعلیم کو محض سرکاری نوکری کے حصول کا ذریعہ نہ بنانے پر زور دیا۔ اس کے بعد صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخواہ) میں پاکستان آرمرڈ کور کے افسران اور سپاہیوں سے خطاب کیا۔ اس میں بھی انھوں نے انھیں چاق و چوبند رہنے، وسائل کی کمی میں نہ گھبرانے، مستقل کے حوالے سے حوصلہ مند رہنے اور متحد رہنے اور اپنے تاب ناک ماضی سے جڑے رہنے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر فخر کرنے کی تلقین کی۔ اس کے بعد انھوں نے ۱۳ اپریل ۱۹۴۸ ء کو رسال پور میں پاک فضائیہ (رائل پاکستان ائیر فورس سے) کے کیڈٹوں سے خطاب کیا۔ یہ خطاب بھی امید بخش اور حقائق کو سمجھنے کے حوالے سے اہم خطاب تھا۔ یہ خطاب پاکستان ائیر فورس سے پہلا خطاب بھی تھا۔ ملاحظہ کیجیے:
’’مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے پاس طیاروں اور ساز و سامان کی کمی ہے لیکن ضروری ساز و سامان حاصل کر کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ جدید طیاروں کے لیے آرڈر دئیے جا چکے ہیں مگر یاد رکھیے کہ طیارے اور عملہ کے افراد خواہ کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہوں، وہ اس وقت تک بیکار ہیں جب تک فضائیہ میں ٹیم اسپرٹ اور نظم و ضبط کا انتہائی سخت احساس نہ ہو۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ صرف اور صرف نظم و ضبط اور خود اعتمادی کے ذریعہ ہی رائل پاکستان ائیر فورس پاکستان کے شایانِ شان ہو سکتی ہے۔‘‘(۲۶)
اس کے بعد انھوں نے ۱۴ اپریل ۱۹۴۸ء کو سول سروس کے ملازمین سے خطاب کے لیے پشاور گورنمنٹ ہاؤس میں اجلاس طلب کیا۔ اس میں انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ بہترین بیوروکریسی کے قواعد و ضوابط پر بات کی اور انھیں کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاستدان یا کسی سیاسی دباؤ میں ہر گز نہ آنے کی تلقین کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے انھیں ملک و قوم کے خادموں کی حیثیت سے بلا خوف و خطر اور پوری دیانت داری کے ساتھ فرائض کی انجام دہی کی بھی تلقین کی۔ اس کے بعد انھوں نے پشاور ہی میں ایڈورڈز کالج میں طلبہ کے سے خطاب کیا۔ اس میں انھوں نے طالب علموں کو علم کے حصول پر توجہ دینے، نئی حکومت کو چلانے کے لیے بہتر حکمتِ عملی بنانے اور ملک کی بہتری میں فعال کردار ادا کرنے کی تلقین کی۔ یہ خطاب بھی گو کہ مختصر تھا مگر اس میں جامعیت تھی اور مثبت لائحہ عمل بھی۔ اس بیان کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے:
’’میں چاہتا ہوں کہ اب آپ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے شہریوں کی حیثیت میں اپنے آپ کو بلند رکھیں۔ جب آپ کی حکومت کوئی اچھا کام کرے تو اس کی تعریف کیجیے، ہر وقت نکتہ چینی، عیب جوئی اور وزارت یا عہدہ داروں کے خلاف تخریبی تنقید سے لذت حاصل کرنے کی پرانی عادت ترک کر دیجیے۔ یہ آپ کی اپنی حکومت ہے، یہ سابقہ حکومتوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہاں جب حکومت کوئی غلط کام کرے تو بے خوفی سے تنقید کیجیے۔‘‘(۲۶)
قائد اعظم محمد علی جناح کا پشاور ہی میں خطاب۳۰ اپریل ۱۹۴۸ء کا خطاب بھی پاکستانیوں کے دل میں نئے جذبات جگانے کے لیے نہایت اہم ہے۔ یہ جلسہ عام تھا جس میں تین لاکھ پٹھانوں نے شرکت کی۔ اس میں انھوں نے امید، ہمت، حوصلے اور صبر کی تلقین کے ساتھ ساتھ متحد رہنے، یگانگت کو فروغ دینے، امن و امان قائم رکھنے اور پاکستان دشمن عناصر کی باتوں میں نہ آنے کی تلقین کی۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اب جب کہ پاکستان قائم ہو چکا ہے اس کی تعمیر کا فریضہ باقی ہے جو قیام پاکستان سے بھی زیادہ اہم ہے۔ خدا کی مہربانی آپ کے تعاون اور ہمارے صحیح اقدام سے مجھے امید ہے کہ ہم اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اب بھی خطرہ ہے اور اس وقت بھی غلط رہنمائی کا اندیشہ ہے۔ اس لیے یہ آپ کا کام ہے کہ آپ غلط رہنمائی قبول نہ کریں۔ ‘‘(۲۷)
٭٭
حوالہ جات
- Sachidanand Sinha, Jinnah As I Knew Him, New Delhi: Literary Art Press, 1993 (2nd Edition)
2.Sarojini Naidu, Mohomed Ali Jinnah, An Ambassador of Unity, His Speeches & Writings 1912-1917, Madras: Ganesh & Co. 1918
- Dr. Safdar Mahmood, Jinnah’s Vision of Pakistan, included: PakistanJournal of History and Culture, Vol. XXXV, No. I, 2014
۴۔ فاطمہ جناح، میرا بھائی، مترجم: خواجہ رضی الدین، کراچی: قائد اعظم اکیڈمی، ۱۹۸۸ء
۵۔ ایضاً،
۶۔ ایضاً
۷۔ ایضاً
۸۔ ایضاً
۹۔ ایضاً
۱۰۔ محمود عاصم، مرتب، افکارِ قائد اعظم، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۱۱۔ کلیم نشتر، قائد اعظم بحیثیت سربراہِ مملکت، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۱۲۔ محمود عاصم، مرتب، افکارِ قائد اعظم، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۱۳۔ کلیم نشتر، قائد اعظم بحیثیت سربراہِ مملکت، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۱۴۔ محمود عاصم، مرتب، افکارِ قائد اعظم، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
- Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah: Speeches as Governor-General of Pakistan, Islamabad: Directorate of Research Reference and Publications. (Y.N.F.)
- Ibid.
۱۷۔ فاطمہ جناح، میرا بھائی، مترجم: خواجہ رضی الدین، کراچی: قائد اعظم اکیڈمی، ۱۹۸۸ء
۱۸۔ رئیس احمد جعفری، خطباتِ قائد اعظم، لاہور: مقبول اکیڈمی، س۔ ن
۱۹۔ محمود عاصم، مرتب، افکارِ قائد اعظم، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۲۰۔ ایضاً،
۲۱۔ ایضاً
۲۲۔ کلیم نشتر، قائد اعظم بحیثیت سربراہِ مملکت، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۲۳۔ ایضاً
۲۴۔ ایضاً
- Quaid-e-Azam Mohammad Ali Jinnah: Speeches as Governor-General of Pakistan, Islamabad: Directorate of Research Reference and Publications. (Y. Not Found)
۲۶۔ کلیم نشتر، قائد اعظم بحیثیت سربراہِ مملکت، لاہور: مکتبہ عالیہ، ۱۹۷۶ء
۲۷۔ رئیس احمد جعفری، خطباتِ قائد اعظم، لاہور: مقبول اکیڈمی، س۔ ن
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید