فہرست مضامین
بدل دو، زندگی
محمد طلحہ گوہرؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
عرضِ مصنف
کتاب کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ ضرور پڑھئیے!
انسان کو متعارف کرانے کے لیے ہم بہت سی اصطلاحات اور القاب کا سہارا لیتے ہیں ان اصطلاحات و القاب میں اساتذہ، تلامذہ، مصنفین، محقِّقین، مدبّرین، مصلحین، مفلِسین، علماء، شعراء، فقہاء، فقراء، امراء، غرباء نیز ایسی ہزاروں اصطلاحات اور القاب موجود ہیں جن سے ہم کسی بھی انسان کی شخصیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ قابلِ توجہ بات یہ کہ ان تمام اصطلاحات میں ناکارہ اور نکما جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ خدائے ذوالجلال کی تخلیقات میں سے کوئی ایک بھی ایسی چیز نہیں کہ جس میں ذرّہ برابر بھی کمی یا کوتاہی پائی جاتی ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام مخلوقات کی با مقصد تخلیق فرمائی۔ تو ایسے میں کسی بھی انسان، جانور، پرندے یا کسی بھی مخلوق کے کسی بھی فرد کو ناکارہ یا نکما کہنا، خدائے ذوالجلال کی تخلیقات میں نقص نکالنے کے برابر ہے۔ اور انسانی ذہن کے عقل و فہم کی وسعت کا ادراک اس بات سے کیا جا سکتا ہے۔ سائنس اور تمام علوم میں بے پناہ ترقی کے باوجود انسان آج بھی اپنے جسم کے اندر موجود کئی جراثیم اور ان جرثوموں کی موجودگی کے باعث انسانی جسم کو ہونے والے فوائد و نقصانات کے بارے میں کئی کئی کتب لکھنے کے باوجود خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ اس سب کا عشرِ عشیر بھی نہیں جان پایا۔ تو اس اعتراف کے بعد ہم کیسے خدا کی تخلیقات کو پرکھ یا اس میں نقص نکال سکتے ہیں۔
ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ لوگ رشتوں کی قدر کو بھول چکے ہیں۔ ہم دین سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ دولت کی چاہ نے ہمیں اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ہم انسانیت کو بھلا بیٹھے ہیں۔ زندہ رہنے کی چاہت میں ہم روز مرتے ہیں اور اگلے روز پھر مرنے کے لئے دوبارہ تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم اس قدر مصروف لوگ ہیں کہ دن میں کتنے ہی لوگوں کا دل دکھا جاتے ہیں اور ہمیں اس پر کوئی افسوس نہیں ہوتا۔ اصل اور نقل کی پہچان کرنے کے لائق نہیں رہے۔ بے حسی، بے غیرتی اور بے حیائی کو اپنا طرہ امتیاز سمجھ کر چلنے والے ہم لوگ، جب مصیبت میں پھنس جاتے ہیں تو پھر اپنی قسمت کو کوستے ہیں۔ حالاں کہ اس میں قسمت کا کوئی عمل دخل ہے ہی نہیں۔
اس پُر فِتن دور میں مَیں نے یہ چھوٹا سا کتابچہ مرتب کرنے کی جسارت صرف اسی لئے کر رہا ہوں کہ شاید کہیں کوئی ایسا فرد موجود ہو جو زندگی سے بلاوجہ مایوس ہو رہا ہو یا اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھنے والے مرض میں مبتلا ہو تو شاید یہ کتاب اس کی یہ غلط فہمی کو دور کر سکے۔ یہ وہ دور ہے جہاں کتب کی قدر و قیمت نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کے باوجود بھی اگر آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ زندگی میں کچھ بڑا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ تو مبارک باد آپ کو کیوں کہ اس کتاب کا مطالعہ کے بعد آپ کا کچھ کر گزرنے کا اِرادہ اور مضبوط ہونے جا رہا ہے۔
اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ اپنے دوستوں کو بھی یہ کتاب تحفہ کے طور پر یہ کتاب دیں گے۔ ہم نے یہ کتابچہ فی سبیل اللہ مرتب کیا۔ اس کتابچہ میں ہم نے یہ کوشش کی ہے کہ کم الفاظ میں اپنی بات آپ سب تک پہنچائی جائے۔ اس کتابچہ کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیے اور ہمارے اِس مشن میں ہمارا ساتھ دیجئے۔
والسلام
(مصنف: محمد طلحہ گوہر)
سوچ کا شیشہ
فرض کیجئے کہ آپ گاڑی چلا رہے ہیں۔ گاڑی انتہائی خوبصورت ہے اس کے شیشے انتہائی صاف ہیں سڑک بہت ہی اچھی ہے آپ کا سفر بہت ہی پُر سکون چل رہا ہے۔ آگے دو راستے ہیں۔ ایک ویسا ہی راستہ جس پر آپ سفر کر رہے ہیں لیکن یہ ایک لمبا راستہ ہے اس کو چننے سے آپ منزل تک پورے وقت پر پہنچ جائیں گے۔ لیکن ایک دوسرا راستہ بھی ہے جو آپ کو آپ کی منزل پر وقت سے کچھ پہلے پہنچا دے گا اور لوگوں کی اکثریت اسی راستے پر گامزن ہے۔ لیکن اس راستے کی صرف ایک خامی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک کچا راستہ ہے۔ اور ہر عام شخص کی طرح آپ وقت سے پہلے اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے وہی چھوٹا راستہ چنتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کچے راستے پر چلیں گے تو دھول تو اُڑے گی۔ آہستہ آہستہ وہ دھول اُڑتی رہے گی اور آپ کی گاڑی کی حالت خراب ہوتی رہے گی۔ اس راستے پر چلتے آپ ایک دو بار اپنی گاڑی صاف کریں گے لیکن پھر آپ اس دھول زدہ شیشے کے عادی ہو جائیں گے بالکل اسی طرح جس طرح عینک لگائے رکھنے والے ایک خاص مدت کے بعد یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے عینک لگا رکھی ہے۔
چلیں ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ آپ نیلے، پیلے یا کسی بھی ایک رنگ کی عینک لگائیں تو آپ کو اس عینک سے دیکھنے پر ہر چیز اسی رنگ کی دکھائی دے گی جس رنگ کی آپ نے عینک پہن رکھی ہو گی۔ اور اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ یہ عینک آپ کو مسلسل ایک سال تک پہنے رکھنی ہے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے کسی بھی جگہ یا کسی بھی وقت آپ یہ عینک نہیں اتار سکتے تو کچھ عرصے کے بعد آپ یہ بھول جائیں گے کہ آپ نے عینک پہن رکھی ہے اور پھر کچھ ماہ بعد آپ یہ بھی بھول جائیں گے کہ یہ دنیا اصل میں کیسی ہے؟ اور آپ کو ہر چیزاسی رنگ میں ہی دِکھے گی اور آپ اسی کو حقیقی سمجھیں گے۔
بالکل اسی طرح جب آپ پیدا ہوتے ہیں اس وقت سے لے کر جب تک آپ ہوش سنبھالتے ہیں تب تک آپ اسی خوبصورت گاڑی پر اور اسی پہلی سڑک پر ہوتے ہیں جو بالکل آرام دہ اور پر سکون سفر کے لئے ہے۔ جیسے ہی آپ نے ہوش سنبھالا آپ کے سامنے دو راستے رکھ دئیے جاتے ہیں ایک وہ جو پر سکون راستہ ہے اور جس کو چننے کے لئے آپ کا دِل فتویٰ دے رہا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے۔ اور ایک وہ راستہ جس پر بہت سے لوگ رواں دواں ہیں اور یہ ایک چھوٹا راستہ ہے۔ مگر یہ کچا راستہ ہے۔ لیکن چوں کہ سبھی لوگ اسی راستے پر گامزن ہیں تو آپ بھی وہی چن لیتے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس راستے پر چلنے کے آپ کو نقصانات کیا ہوں گے۔ یہ ضروری تو نہیں کہ جو لوگ اس راستے پر چل رہے ہیں ان کی منزل بھی وہی ہے جو آپ کی ہے۔ کیا پتا کہ وہ بھی آپ ہی کی طرح کسی اور کی دیکھا دیکھی اسی راستے پر چل رہے ہوں۔
اور کیا پتا کہ آپ کے ارد گرد لوگوں نے کسی رنگ کی عینک پہن رکھی ہو اور انہیں دنیا صرف اسی رنگ کی نظر آتی ہو۔ بعض اوقات ہم مشکل راستہ صرف اسی لئے چنتے ہیں کہ بہت سے لوگ اسی راستے پر رواں دواں ہیں اور اس لئے کہ یہ ایک چھوٹا راستہ ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دوسرا راستہ پر سکون ہے، آسان ہے۔ پھر بھی ہم چھوٹا اور مشکل راستہ ہی کیوں چنتے ہیں۔ خاص کر اس وقت جب ہم یہ بھی جانتے ہوں کہ اس راستے پر آنے والی مشکلات کیا ہیں اور ہم ان کا سامنا کر بھی پائیں گے یا نہیں۔
ضروری نہیں کہ جس راستے پر سبھی چل رہے ہوں وہی راستہ صحیح ہو۔ جب آپ چھوٹے ہوتے ہیں تو آپ اٹھنے کی کوشش میں کئی بار گرتے ہیں۔ لیکن آپ ہار نہیں مانتے اور پھر اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک دن آپ بغیر کسی سہارے کے اٹھنے اور چلنے لگتے ہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیوں کہ ہماری سوچ کا شیشہ نئی گاڑی کے شیشے کی طرح بالکل صاف ہوتا ہے۔ ہم اپنی ناکامی پر کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتے۔ ہم بہانے نہیں بناتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ فرش گیلا نہ ہوتا تو میں نہ گرتا۔ یا اگر امی جان کی انگلی ہاتھ سے نہ چھوٹتی تو میں فرش پہ نہ گرتی۔ اسی لئے ہم کامیاب ہو جاتے ہیں۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ارد گرد موجود لوگوں کی سوچ، ان کی باتیں اور ان کے حالات کی گرد اڑتی ہے اور ہماری سوچ کے شیشیوں کو دھندلا کر دیتی ہے۔ شروع شروع میں ہم اس سے دور جانے اور اس شیشے کو صاف رکھنے کی کوشش کرتے ہیں پھر آہستہ آہستہ ہم اس گرد کے عادی ہونے لگتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب ہم اس دھندلی نظر آنے والی سچائی کو ہی حقیقی سچائی مان لیتے ہیں۔
لیکن اگر آپ یہ کتاب پڑھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ دھندلی سچائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ اور یہ بہت آسان ہے۔ سچ اور جھوٹ کی تعریف کرتے ہوئے ہزاروں کتابیں لکھی جا سکتی ہیں مگر ایک یہ واقعہ جو میں آپ کو بتانے جا رہا ہوں شاید یہ آپ کی الجھن کو دور کر دے گا۔
حضرت وابصہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں چاہتا تھا کہ نیکی اور بدی(سچ اور جھوٹ) کی ہر چیز بابت (آج) آپﷺ سے پوچھ لوں اور وہاں صحابہ کا ایک مجمع تھا۔ ’میں آپﷺ کے اتنے قریب پہنچا کہ آپ کے گھٹنوں سے میرے گھٹنے چھونے لگے ‘۔ آپ نے فرمایا ’اے وابصہ، کیا میں تمہیں مطلع کروں کہ تم مجھ سے کیا پوچھنے آئے ہو یا تم مجھ کو بتاؤ گے؟ ‘ میں نے جواب دیا ’اے اللہ کے نبی! آپ فرمائیے۔ ‘آپ نے فرمایا، ’تم مجھ سے پوچھنے آئے ہو کہ نیکی اور بدی کیا ہے ‘؟ میں نے کہا، ’جی ہاں ‘۔ تو آپﷺ نے اپنی تین انگلیوں کو یکجا کر کے میرے سینے سے کچوکا لگایا اور فرمایا، ’وابصہؓ! نیکی وہ ہے جس پر دِل مطمئن ہو اور تیرے نفس کو قرار آئے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور تجھے اس کے بارے میں تردُّد ہو، خواہ لوگ تجھے (جواز کے طور پر) فتویٰ دیتے رہیں۔ ﴿ مسند احمد: 18006﴾
تو ابھی اپنی سوچ سے اس گرد کو صاف کیجئے۔ اپنے ذہن کو پُر سکون کیجئے۔ ساری پریشانیوں کو ایک طرف رکھ کر سوچئے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر اپنے اس فیصلے پر اپنے دِل سے فتویٰ لیجئے۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ اب بھی سب کچھ بدل سکتا ہے۔ سوچ کا شیشہ جتنا صاف اور شفاف ہو گا منزل اتنی ہی قریب اور واضح ہوتی جائے گی۔
ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا، جتنی جلدی ہو سکے اپنی سوچ کے شیشے کو صاف کیجئے۔
ہاں! زندگی ایک کھیل ہے
کھیلو! زندگی کا کھیل
فرض کریں کہ کرکٹ کا میچ چل رہا ہے۔ آپ بیٹنگ کر رہے ہیں۔ یہ زندگی کا کھیل ہے۔ اور کرکٹ سے مشابہ ہے۔ میں کرکٹ سے آپ کو مثال دے رہا ہوں لیکن یہ زندگی ہے۔ آپ بیٹنگ کر رہے ہو۔ پیچھے کوئی وکٹ نہیں، کوئی وکٹ کیپر نہیں کوئی اور کھلاڑی نہیں۔ سامنے زندگی ہے۔ جو ایک کے بعد ایک گیند آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ ایک بال آئی۔ آپ نے بیٹ گھمایا، بال بیٹ کے اوپر سے گذر کے پیچھے چلی گئی۔ اب آپ کیا کرو گے؟ یہ کھیل ایسا ہے کہ میں نے آپ سے کہا ناں کہ کوئی وکٹ نہیں، کوئی اور کھلاڑی نہیں مطلب اگر آپ چاہو بھی تو اس زندگی کے کھیل میں آپ آوٹ نہیں ہو سکتے۔ تب تک کہ جب تک آپ میدان کو چھوڑ کر بھاگ نہیں جاتے۔ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ہرا نہیں سکتی اگر آپ پِچ پر ڈٹے رہو۔ زندگی کا بس ایک کام ہے کہ وہ ایک کے بعد ایک گیند پھینکتی جا رہی ہے۔
یہ گیندیں کیا ہیں؟ ۔۔ ۔ یہ مواقع ہیں جو ایک کے بعد ایک زندگی آپ کی طرف پھینکتی جا رہی ہے۔ تو اب کرنا کیا ہے پِچ پر ڈٹے رہنا ہے۔ ایک گیند چھوٹ گئی لگ جاتی تو بہت اچھا ہوتا نہیں لگی اور بڑھیا۔ اپنی توجہ پِچ کی طرف رکھو، اپنی نظر زندگی کی طرف رکھو، غور سے دیکھو ایک اور موقع گیند کی صورت میں آپ کی طرف آ رہا ہے۔ پھر بیٹ گھمایا۔ گیند کو چھوئے بغیر بیٹ آگے بڑھ گیا۔ کوئی بات نہیں۔ کھیل ختم نہیں ہوا۔ دنیا کی نظر میں آپ ہار رہے ہو مگر ڈٹے رہو۔ یہاں پہ اووَرز کی کوئی حد نہیں۔ ہزاروں گیندیں اور ہیں۔ اسی طرح پانچ گیند ضائع ہوئے، آپ نے ہار نہیں مانی۔ چھٹی گیند پر آگے بڑھے اور بیٹ گھمایا، گیند بیٹ کو لگی اور چھَکّا۔ پانچ بال کی کمی پوری ہوئی۔ سارا کھیل پلٹ جائے گا ایک دن کے اندر۔ وہ ایک دن، جس دن آپ یہ ٹھان لو گے کہ چاہے جتنی بھی مشکلیں آئیں، چاہے جتنی بھی مصیبتیں آئیں۔ مجھے ہارنا نہیں ہے، میں ہارنے کے لئے اس دنیا میں نہیں آیا/آئی۔ میں لڑوں گا /گی۔ ڈٹ کر ان پریشانیوں کا سامنا کروں گا/گی۔ وہ دن آپ کی تمام پریشانیوں اور تکلیفوں کا آخری دن ہو گا۔
زندگی میں تین راستے ہیں اور ان تین میں سے آپ کس راستے پر چلو گے اس کا اختیار صرف آپ کے پاس ہے۔ پہلا راستہ جو یقینی طور پر ناکا می کا راستہ ہے۔ جس پر چلنا یقیناً آپ کو ناکامی سے دوچار کرے گا۔ وہ ہے ڈر کا راستہ۔
ایک دوسرا راستہ ہے لالچ کا راستہ۔ یہ بھی آپ کو شدید قسم کی ناکامی سے دوچار کرے گا۔
ان دونوں متشدد راستوں کے درمیان ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ یہ انتہائی آسان راستہ ہے جو یقیناً کامیابی کا طرف جاتا ہے۔ وہ ہے سیکھنے کا راستہ۔ زندگی کو کھیل کی طرح جینا سیکھو۔ اپنے آپ کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچو۔ یہ ہم کیوں نہیں سوچتے۔ ہم ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ جو ہم کو چاہئے وہ ہم کو فوراً مل جائے اور اس چکر میں ہم ذلیل و رسوا ہو جاتے ہیں غلط راستوں پر چلنے لگتے ہیں۔ آپ جو سوچتے ہیں ایک نہ ایک دن آپ ویسے ہی بن جاتے ہیں تو اگر سوچنا ہی ہے تو کچھ بڑا سوچتے ہیں ناں۔
سب سے پہلا کام جو آپ کو کرنا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کی ذمہ داری لیں۔ اپنی غلطیوں پر کسی اور کو مورد الزام مت ٹھہرائیے۔ اپنے آپ سے مقابلہ کرو۔ اس میں کوئی خطرہ نہیں۔ ہارے تب بھی آپ کی جیت ہے، جیتے تب بھی آپ کی جیت ہے۔
جیسے کسی شاعر نے کہا تھا:
یہ بازی عشق کی بازی ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا، ہارے بھی تو بازی مات نہیں
یہ تو عشق کی بازی ہے۔ تو کسی اور سے نہیں بلکہ خود سے مقابلہ کرو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کیا سنتے ہیں یا لوگ آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ اس سے فرق پڑتا ہے کہ آپ کیا مانتے ہیں۔ کیوں کہ جو آپ مان لیتے ہیں، آج نہیں تو کل وہ آپ بن جاتے ہیں۔
جس لمحے آپ جو کر رہے ہوں۔ چاہے وہ کام چھوٹا ہو یا بڑا اس کام میں اپنا سو فیصد لگا دینا ہے۔ اور دل میں یہ لگن ہونی چاہئے کہ مجھے سیکھنا ہے۔ آپ کو بتایا ناں! کہ یہ زندگی کا کھیل ہے اس میں آپ سیکھ تو سکتے ہو لیکن ہار نہیں سکتے۔
’ تو آج سے ایک عہد کریں کہ آج سے ہم زندگی کو جنگ کی طرح نہیں بلکہ ایک کھیل کی طرح جینا شروع کریں گے۔ ‘
مستقل مزاج بنو
میں اپنی زندگی میں جتنے بھی لوگوں سے ملا ہوں۔ ان میں سے تقریباً 99 فیصد لوگوں سے ہمیشہ یہی سننے کو ملا کہ ’ یار میں کامیاب ہو جاتا اگر فلاں مجھے منع نہیں کرتا ‘ یا ’ کیا کروں زندگی میں اتنی پریشانیاں ہیں کہ مجھے یہ کام چھوڑنا پڑا۔ ‘ دیکھا جائے تو اس میں ان کا بھی کوئی قصور نہیں۔ کل تک میں بھی ایسے ہی بہانے بنایا کرتا تھا اسی طرح کی کئی تاویلیں ہر وقت میرے پاس موجود ہوتی تھیں۔ جب تک کہ ایک چھوٹی سی چیونٹی نے مجھے یہ سبق نہیں دیا۔ جو آج میں آپ کو بتانے والا ہوں۔ اور امید کروں گا کہ آپ بھی اس چیونٹی سے سبق سیکھ سکیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ چیونٹیاں ایک قطار کی شکل میں چلتی ہیں اور انتہائی نظم و ضبط سے چل رہی ہوتی ہیں۔ جب یہ چل رہی ہوں اور آپ ان کے سامنے پاوں رکھ دو تو آپ دیکھیں گے کہ یہ کبھی بھی رکیں گی نہیں بلکہ یہ اپنا راستہ تبدیل کر لیں گی۔ آپ وہاں کھڑے ہو جائیے یہ پھر راستہ تبدیل کر لیں گی۔ آپ اِن کے سامنے انگلی رکھیں گے یہ اس کے اوپر سے گزر جائیں گی مگر کبھی ہار نہیں مانیں گی۔ کبھی رکیں گی نہیں۔ آپ لاکھوں جتن کر لو، لاکھوں مشکلیں اِن کے سامنے کھڑی کر دو یہ کبھی نہیں رکیں گی۔ اِن کو روکنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ آپ انہیں مار دو۔ اس کے علاوہ دنیا کی کوئی طاقت انہیں اپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے سے نہیں روک سکتی۔
تو جب لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص یا فلاں مصیبت کی وجہ سے میں اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکتا تو مجھے بہت عجیب لگتا ہے کہ دیکھو ایک چیونٹی جو انسان سے کئی ہزار گنا چھوٹی ہے جب وہ تمام بڑی سے بڑی مصیبت سے گھبرائے یا اس کا گِلہ کئے بغیر آگے بڑھتی رہتی ہے۔ تو ہم جو اشرف المخلوقات ہیں ہم کیوں چھوٹی چھوٹی پریشانیوں سے گھبرا جاتے ہیں۔
میں نے کامیاب لوگوں کی زندگی سے جو سبق سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اگر آپ کی زندگی میں کچھ پریشانیاں ہیں یا تھیں یا مستقبل میں آنے والی ہیں تو میری طرف سے آپ کو بہت بہت مبارک ہو۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسا بے وقوف انسان ہے کہ کسی کی زندگی میں مصیبت اور پریشانی آ رہی ہے یا آ چکی ہے یا آنے والی ہے اور یہ اس کا مبارک باد دے رہا ہے۔ تو ذرا غور سے پڑھئے گا کیوں کہ اب میں آپ کو ان پریشانیوں کے ہماری زندگی میں آنے سے ہونے والے فوائد آپ کو بتانے لگا ہوں۔
ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ جو لوگ خوش ہیں یا کامیاب ہیں ان کی زندگی میں کوئی پریشانیاں نہیں ہوتیں۔ پریشانیاں سبھی کی زندگیوں میں آتی ہیں لیکن لوگوں کے رویوں کا فرق کسی کو کامیاب اور کسی کو ناکام بنا دیتا ہے۔ کامیاب لوگ اپنی زندگی میں آنے والی پریشانیوں میں چھپے کامیابی کے مواقع تلاش کرتے ہیں اور ناکام اس پریشانی میں رونے میں وہ قیمتی وقت گنوا دیتے ہیں۔
پہلا فائدہ پریشانیوں کا یہ ہوتا ہے۔ کہ کچھ دروازے ان پریشانیوں کے آنے پر ہی کھلتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی پریشانی آنے پر ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں؟ لیکن مستقبل میں ہمیں پتا چلتا ہے کہ ایسا ہونا بہت ضروری تھا۔ جیسا کہ ماضی میں آپ کوکسی ادارے کے سر براہ سے لڑائی ہونے کی وجہ سے آپ کو نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا لیکن آج آپ نے اپنی محنت سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی۔ سٹیو جابز کو بھی اگر ایپل سے نکالا نہ گیا ہوتا تو نیکسٹ (NEXT) اور پکسر (PIXER) جیسی کمپنیاں وہ کبھی نہ بناتا۔ یعنی اگر پریشانیاں نہیں ہوں گی تو بہت سے اچھے دروازے نہیں کھلیں گے۔ تو اگر آپ کی زندگی میں کوئی پریشانیاں ہیں تو مبارک ہو! کئی نئے دروازے آپ کے لئے کھلنے کو تیار ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ کہ پریشانیاں ہمیں صحیح راستے پر لے آتی ہیں۔ یاد ہے جب بچپن میں ماں باپ ہمیں کہا کرتے تھے کہ بیٹا فلاں چیز گرم ہے اس کے پاس مت جانا لیکن جب تک ہاتھ جلا نہیں۔ ہم سمجھے نہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے۔ ہماری عادتیں جتنی بھی خراب ہوں، ہم چلنے دیتے ہیں اسے بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور پھر ایک پریشانی ہماری زندگی میں آتی ہے اور ہمیں مجبور کر دیتی ہے صحیح راستے پہ آنے کو۔ ٹریک پر آنے کے لئے ہمیں مجبور کر دیتے ہیں اور ہم اپنے آپ، اپنی عادات کو بدل پاتے ہیں۔
ایک اور فائدہ جو پریشانیوں سے ہمیں ہوتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جب بھی پریشانیاں آتی ہیں جب بھی ہماری زندگی مسائل کا شکار ہوتی ہے۔ ہمیں سیکھنے کو بہت کچھ دے جاتی ہے۔ ہم زندگی کے وہ اسباق ان پریشانیوں کے آنے پر سیکھتے ہیں جو انتہائی ضروری ہوتے ہیں لیکن اگر وہ پریشانیاں نہ آتیں تو ہم وہ اسباق کبھی نہ سیکھ پاتے۔ تو جب بھی زندگی مسائل کا شکار ہو تو سمجھ لیجئے کہ زندگی آپ کو کچھ نیا سکھا نا چاہتی ہے۔ قدرت چاہتی ہے کہ آپ وہ سب سیکھو جو آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے میں مدد فراہم کرے۔
ایک بہت اہم اور نہایت ضروری فائدہ جو ان پریشانیوں سے ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ پریشانیاں ہماری خوبیوں کو عیاں کرتی ہیں۔ ہمیں خود کو پہچاننے میں مدد دیتی ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کوئی خوبی ہم میں ہوتی تو ہے لیکن ہم اس سے نا آشنا ہوتے ہیں۔ لیکن پھر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پریشانی آپ کی زندگی میں آتی ہے اور آپ کی اس خفیہ خوبی، اس پوشیدہ ہنر کو دنیا کے سامنے عیاں کر جاتی ہے۔ بالکلاسی طرح جیسے سوئے شیرو ہنڈا نے جب ٹویوٹا موٹرز میں نوکری کے لئے درخواست کی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ آپ اس کمپنی کے لائق نہیں۔ اس انکار نے ان کے اندر کے ہنر کو باہر نکالا اور انہوں نے ہنڈا موٹرز کے نام سے اپنی کمپنی بنائی جو آج ٹیوٹا کے مقابلے کی کمپنی ہے۔
یہ پریشانیاں ایک واشنگ مشین کی طرح ہوتی ہیں۔ جب آپ ان پریشانیوں اور مسائل سے گھِر جاتے ہو تو یہ آپ کو گھماتی، موڑتی ہیں مروڑتی ہیں جھٹکے دیتی ہیں تا کہ جب آپ ان سے باہر آؤ تو آپ کی شخصیت نکھر جائے۔ آپ کے اندر خود اعتمادی ہو۔ کامیابی کا پُختہ یقین ہو۔ تو آپ کا ان پریشانیوں کا سامنا کرنے کا تجربہ آپ کی شخصیت میں وہ نکھار، وہ مہک اور وہ پُختہ یقین لاتا ہے جو ان کے بغیر نا ممکن ہوتا۔
تو آئندہ جب بھی کوئی پریشانی ہو تو خود کو مبارک دینا اور ان پریشانیوں کے مندرجہ بالا فوائد یاد کر لینا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان پریشانیوں کا سامنا کرنے سے آپ کی شخصیت پہ کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔
تو جب بھی کوئی پریشانی آئے تو گھبرانا نہیں اس پریشانی کے عقب میں کھلنے والے کامیابی کے راستوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کیجئے گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کامیاب ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔
’ پریشانیاں سب کی زندگی میں آتی ہیں لیکن صرف مثبت رویے کے ساتھ ان کا سامنا کرنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ‘
خود کو پہچانو!
ایک دفعہ ایک کسان جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک گھونسلہ جس میں ایک انڈا بھی موجود ہے زمین پر گرا پڑا ہے۔ وہ انڈا عقاب کا تھا لیکن شاید کسی ناگہانی آفت کی وجہ سے وہ گھونسلے کے ساتھ زمیں پر آ گِرا تھا اس کسان نے سوچا کہ اگر یہ انڈا یونہی پڑا رہا تو شاید کسی جنگلی جانور کے پاوں تلے آ کر کچلا نہ جائے اس نے وہ انڈا اٹھایا اور ساتھ لئے اپنے گھر میں موجود مرغی کے انڈوں کے ساتھ رکھ دیا اور چند دن گھر میں رہنے کے بعد کسی کام سے اُسے کچھ ہفتوں کے لئے شہر سے باہر جانا پڑا۔ جب وہ کام سے فارغ ہو کر واپس آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ان انڈوں سے بچے نکل چکے تھے۔ اور چوں کہ عقاب کے بچے کے اس دنیا میں آنے کے بعد سے وہ ایک مرغی اور اس کے بچوں سے گھرا رہا تو وہ بھی ان مرغی کے بچوں کی طرح ہی برتاؤ کرتا تھا۔
لیکن چوں کہ وہ بچہ مرغی کے بچوں سے الگ تھا۔ اس کی شکل و صورت، اس کی آواز اور اس کا حجم ان سے مختلف تھا تو مرغی اور دوسرے بچوں کے ساتھ رہنے میں اسے مشکل پیش آتی تھی۔ ایک دن وہ مرغیوں کے ڈربے سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ ایک اسی کی طرح کا بہت بڑا پرندہ فضا میں محوِ پرواز ہے۔ تو عقاب کا بچہ جس نے مرغیوں جیسی تربیت پائی تھی۔ اپنے جیسے پرندے کو دیکھ کر حیران ہوا اور زمین پر دوڑتے ہوئے اس کا تعاقب کرنے لگا۔ اسی تعاقب کے دوران اس نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور اپنے ہم شکل کی طرح فضا میں پرواز کرنے لگا۔
دوستو! ہم بھی جانے انجانے میں مرغیوں کے بچوں سے گھرے ہونے کی وجہ سے اپنی صلاحیات سے نا آشنا ہیں۔ وہ مُرغیاں یا مُرغ یہ نہیں جانتے کہ آپ کی صلاحیات کیا ہیں؟ آپ کی وقعت کیا ہے؟ میں آپ کو لاکھوں لوگوں کے نام بتا سکتا ہوں جن کو اِن مُرغیوں نے دھتکار کر پھینکا اور آج وہی مُرغیاں ان کا نام جپتی نہیں تھکتیں۔
ایک دِن ایک لڑکا سکول سے جلدی اپنے گھر پہنچا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا کہ ’اماں جان! میرے استاد نے یہ ایک خط مجھے دیا اور کہا ہے کہ جلد سے جلد یہ خط آپ تک پہنچاؤں۔ ‘ اس بچے کی والدہ نے وہ خط کھولا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بچے کے پوچھنے پر کہ اس خط میں کیا لکھا ہے تو انہوں نے بآوازِ بلند وہ خط پڑھا،
’آپ کا بیٹا بہت ہی عقلمند ہے۔ یہ سکول بہت چھوٹا ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ ہم اس کو اچھی تربیت دے سکیں۔ برائے مہربانی آپ خود اس کو پڑھائیں۔ ‘
اس کے کئی سال بعد ان کی والدہ کی وفات کے بعد وہی بچہ دنیا کے سب سے بڑے موجد (INVENTER) کے طور پر سامنے آیا۔ ماں کی وفات کے بعد ایک دن وہ گھر میں کچھ ڈھونڈ رہا تھے تو اسے الماری میں ایک خط پڑا ہو ملا۔ تو اس نے کھول کر پڑھنا چاہا۔ جب اس موجِد نے وہ خط کھولا تو اس میں لکھا تھا۔
’آپ کا بیٹا دماغی طور پر بیمار ہے۔ اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ آئندہ اس سکول میں آئے۔ ‘
یہ وہی خط تھا جو انہوں نے ایک دفعہ سکول سے جلدی واپس آ کر اپنی والدہ کو دیا تھا۔ یہ خط پڑھ کر وہ بہت روئے اور پھر اپنی ڈائری پر لکھا:
’تھامس اَلوَا ایڈیسن (Thomas Alva Edison) ایک دماغی طور پر پاگل بچہ تھا جس کو اس کی ماں نے اس صدی کا سب سے عقل مند اور ذہین شخص بنا دیا۔ ‘
یہ وہی شخص تھا جس نے بجلی پہ چلنے والا بلب بنایا تھا اور اس کی ایجادات کی کُل تعداد1249 ہے۔ یہ تو تھا تاریخ کا ایک ایسا سپوت جس نے اُس دور کے پھَنے خاں لوگوں کو غلط ثابت کیا۔ اب میں آپ کو اِس دور کی لاکھوں میں سے ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک صاحب تھے ان کو سِٹی بنک آسٹریلیا میں نوکری ملی۔ اچھا گھر، اچھی گاڑی اور تنخواہ اتنی کہ پاکستان کے امیر طبقے میں اس کا شمار کیا جا سکتا ہے یعنی تقریباً دس پندرہ لاکھ روپے ماہانہ کماتا تھا۔ ہر چیز اچھی جا رہی تھی لیکن اس کو اپنی صلاحیات پہ یقین تھا تو اس نے کیا کیا؟ نوکری کے علاوہ شام کو ایک چھوٹا سا اپنا کاروبار شروع کر لیا۔ ابھی وہاں سے اچھی کمائی آنا شروع نہیں ہوئی تھی کہ ایک دن اس کے Boss نے بلایا اور کہنے لگا کہ
میں نے سُنا ہے کہ تم اپنا بزنس بھی کرتے ہو؟
جی ہاں! کرتا ہوں۔
تم نے SOP’s پڑھے نہیں تھے۔ ان میں صاف صاف لکھا ہے کہ تم اپنا بزنس نہیں کر سکتے نوکری کے ساتھ ساتھ۔
کہنے لگا کہ سَر آپ کے پاس کوئی سفید صفحہ ہے۔ بنک کے مالک سے سفید صفحہ لے کر اس پہ استعفیٰ لکھ دیتا ہے۔ گھر آتے ہی بیوی سے کہا بنک کا گھر ہے، گھر خالی کر دو۔ ہمیں یہاں سے جانا پڑے گا۔ میں نے اپنے بزنس کے لئے نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ بیوی نے سَر پکڑ لیا۔ کہ اتنی اچھی نوکری چھوڑ دی اور وہ بھی ایسے چھوٹے سے بزنس کے لئے۔
آج وہ بندہ پاکستان میں نمبر ون ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں۔ نام ہے ’سلیم غوری‘۔ NETSOL نیٹ سول کمپنی کا مالک ہے۔ آج سلیم غوری کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر چائنہ استعمال کرتا ہے۔ جس ملک کی چیزیں ساری دنیا استعمال کرتی ہے وہ سلیم غوری کے بنائے ہوئے سافٹ وئیر استعمال کرتا ہے۔ اور ان کی کمپنی اس درجہ کمال کی ہے کہ مرسڈیز (MERCEDES) موٹرز جیسی بین الاقوامی کمپنی ’نیٹ سول‘ کی کلائنٹ ہے۔
خدا کے لئے خود کو پہچانو! ایک لمحے کے لئے اس بارے میں سوچئے کہ شاہین زمین پر پھُدَک پھُدَک کے چل رہا ہو۔ تم کہو بھیّا! تمہیں پرواز کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اور وہ کہے "نہیں نہیں! مجھے یونیورسٹی نے پڑھایا ہے کہ چلنا ہے تو ٹانگوں پہ ہی چلنا ہے، اڑنا نہیں ہے۔” آپ یقیناً ہنسیں گے۔ آج ہمارا بھی اسی شاہین جیسا حال ہے۔
’ اگر انسان کو فقط اپنی طاقت اور صلاحیت کا پتا ہو تو وہ انسان غلامی برداشت نہیں کر سکتا۔ سمجھئے اس بات کو کہ خدا نے آپ کو اس دنیا میں کامیاب ہونے بھیجا ہے۔ نوکری یا غلامی کرنے نہیں۔ ‘
ناکامی کا خوف
سکندرِ اعظم تاریخ کی ایک سحر انگیز غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت کا مالک تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس نے زمیں کا زیادہ تر حصہ فتح کر رکھا تھا۔ ایک عظیم فاتح جنگجو ہونے کے ساتھ ساتھ سکندر ایک دانش ور بھی تھا، ’ارسطو‘ کا شاگِرد تھا، ’ہومر‘ کی شاعری سے بصیرت حاصل کرتا تھا۔ اور صاحبِ بصیرت لوگوں کی محفل میں بیٹھنے کا شوق رکھتا تھا۔ ایک بار سکندرِ اعظم اپنے دور کے ایک بے نیاز مجذوب فلسفی دیو جانس کلبی سے ملنے آیا تو سردی عروج پر تھی کلبی سورج کی حدت اور کِرنوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سکندر حاضر ہوا اور احتراماً کھڑا رہا۔ کلبی سے کہنے لگا کہ
’میں نے دنیا فتح کی ہے کیا میں آپ کے کسی کام آ سکتا ہوں ‘
تو اس بے نفس مجذوب نے اُس فاتح سے بے تکلفی سے صرف اتنا کہا کہ:
’آپ جہاں پر کھڑے ہیں۔ مہربانی فرما کر یہاں سے ذرا سا ایک طرف ہو جایئے۔ کیوں کہ جو دھوپ مجھ پر پڑ رہی تھی آپ نے اسے روک رکھا ہے۔ ‘
اور ایک انتہائی اہم سبق دیا کہ:
’اس دنیا کو فتح کرنے سے بڑا کام خود کو فتح کرنا ہے۔ ‘
کون سی ایسی آنکھ ہے جو کامیابی کا خواب نہیں دیکھتی، کون سا ایسا دل ہے جس میں کوئی خواہش نہ ہو، کون سا ایسا شخص ہے جو سر اٹھا کے جینا نہ چاہتا ہو۔ ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی روز ہمارے دروازے پر دستک ہو، ہم دروازہ کھولیں تو ہمیں ایک پیغام ملے جس میں کامیابی کی نوید ہو۔ ہم سب کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں کبھی ہم خود کو پہچاننا نہیں چاہتے۔ ہم دوسروں کو کامیاب دیکھ کر ان پر فِقرے تو کَستے ہیں، اُن پر الزامات تو لگاتے ہیں، خود کو اُن سے بہتر قرار دینے کے لئے سو بہانا تو تلاش کرتے ہیں لیکن خود کو بہتر بنانے کے لئے اپنا تزکیہ نفس نہیں کرتے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم طرح طرح کے خوف اور بے وقعت عقائد کو اپنے دل میں پنپنے اور اپنے دماغ پر حاوی ہونے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً
’اگر اس کو فلاں شخص کا سہارا نہ ملتا تو وہ کبھی بھی اس اچھی پوزیشن پر نہ ہوتا۔ ‘
’اس نے کوئی بڑا ہاتھ ہی مارا ہو گا جو آج اس کے پاس بڑی گاڑی خریدنے کے پیسے آ گیا۔ ‘
’کل تک اسے بات کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا اور آج یہ ہمیں سکھائے گا کہ کیسے بولنا ہے۔ ‘
وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اس کے نتیجے میں کب ہمارا ذہن غلط سمت میں گامزن ہو جاتا ہے ہمیں یہ معلوم ہی نہیں ہو پاتا۔ ہم خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہم جو بھی کام کرنا چاہتے ہیں ناکامی کا خوف ہمیں وہ کام کرنے سے روکتا ہے۔ جس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جیسا کہ سیانے کہتے ہیں:
’جس شخص میں ناکامی کا خوف کامیابی کی چاہت سے بڑھ جاتا ہے۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو پاتا۔ ‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم کو کامیاب ہونا ہے۔ تو سب سے پہلے اپنے اندر سے ناکامی کے اس خوف کو نکال باہر کرنا ہو گا۔ کیوں کہ خوف آپ کی صلاحیت کو غفلت کے پَردوں میں مخفی کر دیتا ہے۔ جس سے آپ کی کار کردگی محدود ہو جاتی ہے۔ اور محدود کار کردگی سے لا محدود نتائج حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے لئے میں آپ کو امریکی ماہرینِ نفسیات کے ایک ٹڈے (Grasshopper) پر کئے گئے ایک تجربے کی مثال دیتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو جائے کہ خوف کس طرح سے کسی کی صلاحیتوں کو دباتا ہے۔
انہوں نے ایک ایسے ٹِڈے کو لیا کہ جو پانچ میٹر لمبی چھلانگ لگا سکتا تھا اور اسے ایک ایسے ڈبے میں بند کر دیا جو کہ چار میٹر لمبا تھا۔ اسی ڈبے میں اسے خوراک دی جاتی، لیکن اسے باہر نہ آنے دیا جاتا۔ تقریباً ایک ماہ بعد جب اسے باہر نکالا گیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ٹڈا چار میٹر سے زیادہ لمبی چھلانگ لگانے سے محروم تھا پھر اسی طرح اسے تین میٹر پھر دو میٹر اور آخر میں اسے اسی کے حجم کے مطابق ایک ڈبی میں بند کر دیا گیا اور جب آ کر میں اسے باہر نکالا گیا تو اب وہ اپنے جگہ پر پڑے پڑے صرف تھرتھراتا تھا۔ وہ اچھلنا تو کجا چلنا بھی بھول چکا تھا۔
اسی طرح کی مِلتی جُلتی ایک مثال بابا اشفاق احمد صاحب کے ایک پروگرام میں سنی۔ وہ بھی آپ کو بتا دیتے ہیں اور پھر بات کریں گے کہ خوف کی کتنی اقسام ہیں، اس ناکامی کے خوف سے جان کیسے چھڑائی جائے اور اس پر قابو کیسے پایا جائے۔
اشفاق صاحب اس محفل میں بیٹھے لوگوں سے ایک سوال کرتے ہیں کہ ’ وہ کون سا جانور ہے کہ جس کو چڑیا گھر میں بچپن میں لایا جاتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ ‘
سب نے اپنی اپنی سوچ اور معلومات کے مطابق جوابات دیے، کسی نے کہا سانپ، کسی نے شیر اور کسی نے زرافہ کی نشان دہی کی۔ پھر اشفاق احمدؒ صاحب جواب دیتے ہیں کہ وہ جانور ہاتھی ہے اور جب وہ چھوٹا ہوتا ہے تو اس کے پاوں میں لوہے کی ایک زنجیر ڈال دی جاتی ہے۔ شروع کے چند دنوں میں وہ بچہ زنجیر کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام ہو جاتا ہے۔ اور اس زنجیر کا اس کے دماغ میں ایک ایسا تصور بیٹھ جاتا ہے کہ پھر جب وہ اس سے کئی گناہ بڑی زنجیر کو توڑنے کے بھی قابل ہوتا ہے تو بھی وہ کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اور آخر میں کہتے ہیں کہ ایسی ہی کئی زنجیریں بچپن سے ہمارے ذہن اور سوچ کے گِرد باندھ دی جاتی ہیں کہ ہم کبھی کامیابی کے بارے میں صحیح طریقے سے سوچ بھی نہیں پاتے۔
دنیا میں ہونے والی خوف کے موضوع پر ریسرچ سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خوف کی بنیادی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ جو ہماری جبلت میں رکھ دیا گیا ہے۔ جب بھی کوئی انہونی ہوتی ہے۔ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو اچانک واقع ہوا ہو تو ہم خوف کا شکار ہو جاتے ہیں ڈر جاتے ہیں۔ اس قسم میں کسی بلند آواز یعنی کسی دھماکہ ہونے پر آنے والی بلند آواز کا خوف، دوسرا بلندی سے گِرنے کا خوف اور سانس کے بند ہونے کا خوف وغیرہ شامل ہیں یہ وہ خوف ہے جو جبلی طور پر ہمارے اندر موجود ہوتا ہے۔ یہ خوف وقتی ہوتا ہوتا ہے۔
خوف کی دوسری قسم وہ ہے جو بچپن سے لے کر اب تک ہمارے ماں باپ، بہن بھائی، دوست احباب یعنی ہمارے اردگرد کے لوگ ہمارے ذہنوں میں ڈالتے ہیں۔ یہ خوف ہمارے ذہن کو مختلف عقائد بنانے اور ان پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
تیسری قسم کا خوف ہمارے ماضی کے تلخ تجربات کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ مطلب اگر ماضی میں ایک وَن ٹو فائیو موٹر سائیکل سوار نے خدانخواستہ خدانخواستہ لوٹا تھا۔ تو اب جب بھی آپ کو وَن ٹُو فائیو موٹر سائیکل کی آواز سنائی دے گی تو آپ کے ذہن میں وہی پرانا واقعہ آپ کو محتاط ہونے پر مجبور کر دے گا، چاہے ایسا کچھ ہو یا نہ ہو۔
مندرجہ بالا میں دوسری اور تیسری قسم کے خوف میں موت کا خوف، لوگ کیا کہیں گے، غربت کا خوف، غلطی کا خوف اور مار کا خوف سرِ فہرست ہیں۔ اِن اقسام کا خوف ہمیشگی اختیار نہیں کرتا اس کو بدلا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کو بدلنے کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیزوں میں سب سے اہم یہ ہے کہ ہمارے دل میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر کامل یقین خوفِ خدا کا ہونا بہت ضروری ہے۔
موت کا خوف
آج کل بہت سے لوگوں کو مارنے کی دھمکی دے کر جان بخشی کے بدلے میں ان سے بہت سے ناجائز کام کروائے جاتے ہیں۔ اس خوف سے نجات پانے کے لئے یہ سمجھنا ہو گا کہ موت ایک ایسی سچائی ہے کہ جس سے کسی کو فرار حاصل نہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ ’ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ‘ تو جب ہم اس آیتِ قرآنی پر یقین کر لیتے ہیں تو ہمارا موت کے بارے میں عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ جیسے پیدا ہونا ہمارے بس میں نہیں تھا اسی طرح مرنا بھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زندگی اور موت کا فیصلہ کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدائے واحدو یکتا عز و جل کے پاس ہے۔ وہ جب چاہے گا، جسے چاہے گا، جو چاہے گا کرے گا۔ جب آپ یہ عقیدہ اپنا لیتے ہیں اوراس کو تہہ دِل سے قبول کرتے ہیں تو آپ آزادی سے فیصلہ کرنے کے قابِل ہو جاتے ہیں۔
لوگ کیا کہیں گے
ایک وقت تھا کہ جب بھی کسی کو کوئی کام کرنا ہوتا تو وہ یہ دیکھتا تھا کہ جو کام میں کرنے جا رہا ہوں کیا یہ رضائے الٰہی کے خلاف تو نہیں؟ کیا یہ انسانیت کے تقاضوں کی مخالفت تو نہیں کرتا؟ کیا یہ میرے لئے نقصان دہ تو نہیں؟ کیا اس سے میرے گھر والوں، دوستوں اور اردگرد کے لوگوں کو فائدہ ہو گا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وقت کے ساتھ جیسے جیسے معاشرے کے اندر بگاڑ پیدا ہوئے اِن سوالات کی ہیئت میں بھی تبدیلی آئی اور آج ہم اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی کام کرنا ہو تو ہم یا تو اپنے ذاتی مفاد کی فِکر کرتے ہیں یا لوگوں کی سوچ کی، اس میں رضائے الٰہی کا عنصر بھی شامل کرنا ہمیں گوارا نہیں ہوتا۔
’لوگ کیا کہیں گے؟ ‘دنیا کا سب سے بڑا خوف اور روگ بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جس نے لاکھوں خواب چکنا چور کر دیے۔ اور خاص طور پر اِس کا اثر نوجوان نسل پر ہوا ہے۔ آج نوجوانوں کا یہ یقین بن چکا ہے کہ جمہور (لوگوں کی بڑی تعداد) جو کرتا ہے وہ ہی درست ہے۔ اور اسی ایک سوچ نے ہماری پوری نسل کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس بُری اور فضول سوچ کا حصہ نہ بنیں اور اس خوف سے نجات پا سکیں تو ہمیں واپس انہیں سوالات کو اپنی زندگی میں لانا اور نافذ کرنا ہو گا کہ جن سے دوری نے ہمارا یہ حال کیا ہے۔ اگر جو کام آپ کرنا چاہتے ہیں اس میں کسی کو ارادتاً نقصان نہیں ہو رہا اور وہ کام رضائے الٰہی کے عین مطابق ہے تو آپ بسم اللہ کیجئے۔ خدا آپ کی مدد فرمائے گا۔ لوگ کیا کہیں گے یہ لوگوں کو سوچنے دیجئے۔
غربت کا خوف
باقی تمام اقسام کے خوف کی طرح غربت کا خوف بھی بے بنیاد ہے۔ لیکن اس خوف کا شکار امیر اور غریب دونوں ہیں۔ اُمراء کو خوف ہے کہ کہیں وہ غریب نہ ہو جائیں اور جو غریب ہیں اُن کو یہ خوف ہے کہ کہیں اور زیادہ غریب نہ ہو جائیں۔ جب میں یہ بات کرتا ہوں تو بلال قطب صاحب کا ایک قول یاد آتا ہے کہ:
’بعض لوگوں کی غربت ختم ہو جاتی ہے مگر احساسِ غربت نہیں جاتا۔ ‘
غریب کے لئے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ غریب اس وجہ سے غریب نہیں کہ اس کے پاس مواقع یا وسائل کی کمی ہے۔ بلکہ وہ غریب اس لئے ہے کہ وہ یہ سوچتا ہے کہیں وہ اور غریب نہ ہو جائے بجائے اس کے کہ وہ امیر کیوں نہیں؟
رہی بات امراء کی تو ان کے پاس یہ خوف رکھنے اور اس خوف میں جینے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کیوں کہ ایسا سوچنے والا امیر طبقہ یا تو دو نمبری سے امیر بنتا ہے۔ یا امیر رہنے کے لئے اس نے غلط طریقے آزمائے ہو تے ہیں۔
لیکن ان سب سے بڑھ کر اس خوف کی جو سب سی بڑی وجہ ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کا خدائے کون و مکاں پر یقین کامل نہیں ہوتا۔ یہاں پر پھر سے سکندرِ اعظم اور دیو جانس کلبی سے جُڑا ایک اور واقعہ آپ قارئین کے گوش گزار کرتا چلوں:
ایک بار سکندرِ اعظم اپنے ساتھیوں کے ساتھ دیوجانس کلبی کے پاس آیا اسے کچھ دیر وہاں ٹھہرنا تھا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو دیو جانس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ سکندر کے باقی ساتھیوں کے لئے معمول کے مطابق کھانا پیش کیا جائے البتہ سکندر اور میں ایک ساتھ کھائیں گے۔ اور ہمارے کھانے کی جگہ طشت میں ہیرے جواہرات لائے جائیں جب دستر خوان لگا تو سکندر یہ سب چیزیں دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور بولا
’ حضور! یہ تو کھانے کی چیزیں نہیں ہیں یہ کیسے کھائیں گے؟ ‘
مجذوب بولا،
دوسروں کے لئے تو عام کھانا ہے یہ صرف آپ کے لئے ہے۔
سکندر نے حیرت سے جواب دیا کہ
جناب یہ کھانے کی چیزیں نہیں ہیں میں انہیں نہیں کھا سکتا
تو کلبی بولا،
’میں تو سمجھا تھا کہ تم اب فاتح بن کر عام انسانوں والا کھانا نہیں کھاتے ہو گے بلکہ ہیرے جواہرات اب تمھاری خوراک ہوں گے۔ مگر آج پتا چلا تمہیں بھی اسی خوراک کی ضرورت ہے۔ جو عام انسان کھاتے ہیں۔ اگر یہی کھانا کھاتے ہو تو اتنے بڑے پیمانے پر قتل و غارت اور تباہی و بربادی کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب تو گھر بیٹھے بھی کھا سکتے ہو۔
غلطی کا خوف
یہ خوف بھی ایک بھیانک قسم کا خوف ہے۔ یہ خوف ہمارے اندر ماضی کے تلخ تجربات کی صورت میں موجود ہوتا ہے۔ مثلاً ماضی میں آپ نے کوئی کاروبار کیا۔ لوگوں اور رشتہ داروں کے منع کرنے کے باوجود کیا۔ اور اس میں ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا یا نقصان اٹھانا پڑا تو آپ کے اندر یہ خوف پیدا ہو جائے گا اب جب بھی آپ کچھ نیا کرنے کی کوشش کریں گے یہ خوف آپ کے راہ میں روڑے اٹکائے گا۔ آپ کو بار بار آپ کی ماضی کی یاد دلائے گا اور نتیجتاً آپ اپنے اندر بہتری لانے کے قابِل نہیں رہیں گے۔
اس خوف سے جان چھڑانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس بات کا یقین رکھیں
’خدا جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے، جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ‘
جب آپ کو اس بات کا یقین ہو گا تو آپ کو اس کاروبار کی ناکامی کی وجہ تلاش کرنے کا موقع ملے گا۔ آپ اس کاروبار کا انتہائی غور سے معائنہ کریں گے۔ آپ کو سمجھ میں آئے گا کہ میں نے اس اس جگہ یہ یہ غلطیاں کیں تھیں۔ اب آپ جب نیا کاروبار کریں گے اور ویسی غلطیوں سے اجتناب کریں گے تو آپ کو یقیناً کامیابی نصیب ہو گی۔
مار کا خوف
یہ بھی ایک انتہائی بھیانک اور بد ترین خوف ہے یہ زیادہ تر 18 سے 20 سال کی عمر تک بچوں میں رہتا ہے۔ اور یہی وہ عمر ہے جس میں کوئی بھی بچہ سیکھتا ہے۔ اس عمر میں بچہ اپنی زندگی کی 100 میں سے 80 فیصد چیزیں سیکھتا ہے۔ لیکن اس عمر میں یہ خوف کسی بچے کے دل و دماغ پر طاری ہو گیا تو پھر یوں سمجھ لیجئے کہ وہ بچہ زندگی بھر اسی عمر کا رہے گا جس عمر میں یہ خوف اس کے دل میں گھر کر گیا۔
یاد رکھئے اس عمر کے درمیان ایک بچہ جو کچھ بھی سیکھتا ہے اس کا پچپن فیصد اپنے ماں باپ بہنوں یا بھائیوں سے سیکھتا ہے۔ پچیس فیصد اپنے باقی رشتہ داروں سے، دس فیصد اپنے دوستوں سے اور باقی دس فیصد اس کے اپنے تجربات ہوتے ہیں لہذا اس عمر میں اگر کوئی بچہ کسی قسم کی غلطی کرتا ہے یا کوئی غلط قدم اٹھاتا ہے تو اسے مارنے سے پہلے ان سب لوگوں کا جائزہ لیں کہ کہاں کون ایسا ہے جو اس بچے کے اس عمل کا سبب بن رہا ہے۔
اگر آپ بغیر ان سب چیزوں کا جائزہ لئے اس بچے کو ماریں گے تو اس میں کچھ نیا کرنے اور سیکھنے کا جذبہ مر جائے گا جو انتہائی تشویش ناک عمل ہے۔
ان تمام اقسام کے خوف سے جان چھڑانے کے اخلاقی طریقے تو ہم نے اوپر ہی آپ کے گوش گزار کر دیے۔ اب اس کے کچھ نفسیاتی طریقے بھی آپ کو بتائے دیتے ہیں تا کہ اس لعنت سے آپ کو چھٹکارا نصیب ہو۔ سب سے پہلے تو اگر آپ کو کسی قسم کا کوئی خوف یا پریشانی ہے تو کسی ایسے شخص کو ڈھونڈیں جو انسانی نفسیات کو جانتا ہو یا ان مسائل میں آپ کی رہنمائی کر سکتا ہو۔ اگر آپ کو کوئی ایسا شخص نصیب نہیں تو اپنے خوف کا بار بار تذکرہ کرنا چھوڑ دیجئے۔ مثلاً اگر آپ کو اندھیرے سے خوف آتا ہے تو اپنی گفتگو سے رات کت وقت ہونے والے برے واقعات کے تذکرے کو نکال دیں۔ کیوں کہ جیسے پودے کو پانی ملتا ہے تو وہ نشو و نما پاتا ہے اسی طرح اپنے خوف کے بارے میں بار بار گفتگو سے آپ کا ڈر اور خوف بڑھتا ہے۔
تیسرا اور بہت اہم طریقہ یہ کہ اپنے خوف کے بارے میں سوال اٹھائیں۔ مثلاً اگر آپ اس خوف کو پنپنے دیں گے تو آپ کو کیا نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں؟ اور اگر آپ اس خوف کو اپنے دِل سے نکال دیں تو آپ کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟
ایک بار حضرت عبدالقادر جیلانیؒ ایک محفل میں تشریف فرما تھے تو ایک شخص نے آپ کے کان میں سرگوشی کی۔ آپ نے اپنے دل کی طرف دیکھا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کان میں سرگوشی کی، آپ نے پھر دِل کی طرف دیکھا اور خدا کا شکر ادا کیا۔ لوگوں کے پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ پہلے شخص نے مجھے خبر دی کہ آپ کی کشتی دریا میں غرق ہو گئی میں دل کی طرف دیکھا تو دِل رضائے الٰہی پر خوش تھا تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ پھر دوسرے شخص نے مجھے ایک خوشخبری دی میں دل کی طرف دیکھا اور رضائے الٰہی پر خدا کا شکر ادا کیا۔
’ خوفِ خدا اور ناکامی کا خوف ایک ہی دل میں کبھی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اگر آپ کے دل میں کوئی خوف ہے تو اپنا تزکیہ نفس ضرور کیجئے۔ ‘
اپنی کہانی خود اپنے قلم سے آپ بھی لکھ سکتے ہیں
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات
مومن فقط احکامِ الٰہی کا ہے پابند
اس دنیا میں ہر روز کروڑوں لوگ آتے ہیں اور کروڑوں اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ لیکن ہمیشہ کے لئے یاد انہیں رکھا جاتا ہے جو اندیشہ نقصان سے بالاتر سوچ کے مالک ہوتے ہیں۔ جو حالات کے تابع نہیں رہتے بلکہ حالات ان کے تابع ہوا کرتے ہیں۔ وہ کسی تبدیلی یا رہنما کے انتظار میں اپنی زندگی ضائع نہیں کرتے بلکہ وہ خود رہنما بن کر وہ تبدیلی لاتے ہیں جس کا دوسروں کو انتظار ہوتا ہے۔ دنیا میں ایسی ہزاروں شخصیات ایسی گزری ہیں کہ جن کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں تو ان کے احترام میں ہماری نظریں خود بہ خود جھک جاتی ہیں۔ اور ہمارے دلوں سے اُن کے لئے دعائیں جاری ہو جاتی ہیں۔
آج ہمارے معاشرے میں مولانا روم، علامہ اقبالؒ اور قائد اعظم جیسی عظیم ہستیوں کی کمی کی وجہ ہمارے دل میں موجود لالچ، طمع اور دوسروں سے مقابلہ کرنے جیسی بے وقوفانہ خواہشیں ہیں۔ دولت و شہرت کی محبت نے ہمیں خود ہی سے بیگانہ کر دیا ہے۔ ہم اپنی نفسانی لذّتوں کی خاطر اپنے ہی بھائیوں اور دوستوں کے گلے کاٹنے تک کو تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم اپنے آباء و اجداد کے بتائے ہوئے راستوں کو چھوڑ کر نہ جانے کس جانب گامزن ہو چکے ہیں۔ ہم” اھدنا صراط المستقیم“ تو کہتے ہیں لیکن اس سیدھے راستے سے کوسوں دور جانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اور یہاں میں قاسِم علی شاہ صاحب کا ایک قول آپ کی خدمت میں پیش کرتا چلوں:
آپ فرماتے ہیں، "فائدہ تو فائدہ، لوگ لاشعوری طور پر اپنے نقصان کے لئے بڑی محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ “
بظاہر تو ہم اپنا بھَلا کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ دولت آئے گی تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ میرے پاس شہرت ہو گی تو لوگ میری عزت کریں گے۔ اور ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد موجود لوگ بھی ہمیں ایسے ہی مشورے دیتے ہیں کہ دنیا میں عزت دار وہی ہیں کہ جن کے پاس دولت اور شہرت ہے۔ اور یہ نظریہ بچپن ہی سے ہمارے ذہن میں چسپاں ہوتے ہوتے اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے کہ ایک خاص عمر میں ہم اس قدر اس نظریے کے غلام ہو جاتے ہیں کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم مسلمان بھی ہیں۔ پھر ہم ہر جائز و ناجائز طریقہ اپناتے ہیں ان تمام خواہشات کو پورا کرنے کا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:
"دولت، شہرت اور لذّتِ وجودِ نفس ___ اِن تینوں میں اگر احتیاط کی جائے اور ان تینوں کو اگر کلمہ پڑھا دیا جائے تو آپ کا راستہ آسان ہو گیا۔ “
اگر آپ ان خواہشات پر غور کریں تو آپ کو یہ معلوم پڑے گا کہ یہ خواہشیں ہیں ہی نہیں بلکہ یہ تو By-Products ہیں۔ ہوتا کیا ہے؟ آپ بغیر سوچے سمجھے، بِنا غور و فِکر کے چلتے جا رہے ہوتے ہیں۔ اور آپ کو پتا بھی نہیں کہ آپ کے چلتے چلے جانے کی اصل وجہ کیا ہے؟ آپ لوگوں کی دیکھا دیکھی چل رہے ہوتے ہیں، اور یہ ہی آپ کی زندگی کی سب سے بڑی بھول ہوتی ہے۔ آپ جس ہدف کو اپنی زندگی کا مقصد مان کر چل رہے ہوتے ہیں، حقیقت میں وہ ہدف تو بے معنی ہے۔ وہ تو Output ہے اور جب تک کوئی Input ہی نہیں ہو گا تو Output کیا خاک ملے گا۔ اگر آپ کو وہ سب چاہئے جس کے آپ خواہش مند ہیں۔ تو آپ کو اپنی زندگی کا حقیقی مقصد تلاش کرنا ہو گا۔ اور وہ حقیقی مقصد آپ کو تب ملے گا جب آپ خود شناس ہوں گے۔ جب آپ خود کو پہچان لیں گے۔ جب آپ کو اپنی کمزوریاں، اپنی طاقت، اپنی صلاحیت اور اپنی وقعت کا ادراک ہو گا۔ بغیر مقصد کے چلنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آپ کسی ایسی گاڑی میں سوار ہیں جس کی کوئی منزل ہی نہیں، اس کو بس چلنا ہے چلتے ہی جانا، اتنا چلنا ہے کہ جب تک یا تو اس کا پیٹرول ختم نہ ہو جائے یا پھر اس کو حادثہ درپیش نہ آئے۔
کیا کبھی آپ نے یہ سوچا کہ جب دنیا میں پہلے ہی سے لاکھوں کروڑوں لوگ موجود تھے۔ اُن میں علماء بھی تھے، طلباء بھی تھے، فقہاء بھی تھے، فقراء بھی تھے غرباء بھی تھے نیز ہر شعبے اور ہر طرز کے لوگ موجود تھے۔ اور جب اتنے مختلف اقسام کے لوگ موجود تھے دنیا کا نظام چل رہا تھا۔ تو پھر آپ کو بھیج کر دنیا میں کیا تبدیلی مقصود تھی؟ کیا آپ کو بلا وجہ دنیا میں بھیجا گیا۔ قرآن مجید میں سورة ص میں خدائے واحد و یکتا ارشاد فرماتا ہے کہ:
"ہم نے اس آسمان کو اور زمین کو اور اس دنیا کو (اور) جو اِن کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کیا۔ “
اور پھر بار بار کئی جگہ ارشاد فرماتا ہے کہ "عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں “۔ اللہ تعالیٰ بھی یہ چاہتا ہے کہ ہم خود کو پہچانیں۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے، جب ہم خود کو سمجھنے کا ارادہ کریں گے۔ ہر عمل کا آغاز نیت سے ہوتا ہے، ایک ارادے اور عزم سے ہوتا ہے۔ اگر آپ کسی کام کا عزم نہیں کرتے تو کبھی بھی وہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ عزم مصمم کے بعد اہم اور نہایت ضروری عمل یہ ہے کہ ہم اپنے مقصدِ زندگی کا تعین کریں۔
دنیا میں ہر روز کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی جگہ، کوئی نہ کوئی شخص کسی نا ممکن کام کو ممکن بنا کر دنیا کے عظیم اذہان کو حیران و پریشان کرتا ہے۔ ایسی تمام شخصیات کے پاس ایسی کون سی خوبی ہوتی ہے جو وہ کوئی ایسا کام کر جاتے ہیں جسے دیکھ کر دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان، مفکر اور محقق ششدر رہ جاتے ہیں۔ عموماًاس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت سخت محنت کرتے ہیں، پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں، ہار نہیں مانتے اور اپنے راستے کی رکاوٹوں کو دیدہ دلیری سے برداشت کرتے ہیں۔
لیکن یہ ایک بالکل نامکمل اور ادھورا جواب ہے۔ در اصل سچ یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کی زندگی کا محور ایک خواب ہوتا ہے، ایک ایسا خواب جس کی تکمیل کو وہ اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ وہ ہر وقت اس خواب کو حقیقت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہی خواب ان کا مقصدِ زندگی ہوتا ہے۔ اُن کی زندگی کا کوئی دِن ایسا نہیں ہوتا کہ جس میں وہ اس بات سے غافِل ہوں کہ ان کا مقصد کیا ہے؟ وہ اپنے اس خواب کے راستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتے، وہ کام باقی سب لوگوں جتنا ہی کرتے ہیں لیکن ان کا ہر قدم فہم و ادراک سے خالی نہیں ہوتا۔ وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر مصیبت کو اس یقین سے برداشت کرتے ہیں کہ ہر رات کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے۔ ہر تاریکی اپنے اندر اجالے کا پیغام لئے ہوتی ہے۔ وہ اس مصیبت میں مخفی کامیابی کے راستے کو تلاش کرتے ہیں۔ جسے عام شخص رونے دھونے میں کھو دیتا ہے۔ اسی کامیابی کے راستے پر چلتے چلتے جب وہ اس تاریکی سے باہر آتے ہیں تو منزل کو اپنے قدم چومنے کو تیار پاتے ہیں۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب کئی اشخاص نے اپنی زندگی کے لئے کچھ اصول وضع کرنے کے بعد، اپنی زندگی کے مقاصد حاصل کر لئے اور دنیا میں وہ سب کچھ پا لیا جس کے وہ خواہشمند تھے تو ہم کیوں ایسا کوئی خواب نہیں دیکھتے جو ہمیں کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل کر دے۔
یاد رکھئے گا خواب وہ نہیں ہوتا جو سوتے میں دیکھا جائے، خواب وہ ہوتا ہے جو ہم جاگتے ہوئے دیکھتے ہیں اورایسا خواب کبھی مقصد نہیں کہلا سکتا جس کو سن کر لوگ حیران نہ ہوں بلکہ مقصد وہ ہوتا ہے جسے سننے کے بعد لوگ آپ کو پاگل قرار دے دیں۔ تھامس ایڈیسن، نیوٹن، علامہ اقبال، قائد اعظم، بِل گیٹس، مارک زگربرگ، قیصر عباس اور نہ جانے کتنے ہی کامیاب لوگوں کی اگر آپ زندگی کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کو لوگوں نے پاگل، بیوقوف یا دیوانہ نہ کہا ہو۔ لیکن تاریخ نے ثابت کیا، کہ وہی دیوانے تھے جنہوں نے دنیا کو اپنی دیوانگی سے دنیا میں وہ سب کر دیا جس کے بارے میں کبھی ان سیانوں نے (جو انہیں پاگل قرار دیتے تھے) کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
’آج ہم اپنے اردگرد جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں یہ چند بیوقوفوں، کچھ پاگلوں اور کئی دیوانوں کی دین ہے اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی کہانی خود اپنے قلم سے لکھتے ہیں ‘
پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ
ایک آدمی کو ریشم کے کیڑے کا خول ملا جس میں سے پتنگا نکلنے والا تھا۔ وہ اُس خول کو اپنے گھر لے آیا تا کہ دیکھ سکے کہ پتنگاکیسے نکلتا ہے۔ ایک دن اس میں تبدیلی آئی اور خول کھلنے لگا وہ آدمی جلدی سے بیٹھ گیا اور خول کو دیکھنے لگا کہ ابھی اس میں سے پتنگا نکلے گا۔ وہ آدمی کافی دیر تک اُس خول کو دیکھتا رہا۔ پھر وہاں سے چلا گیا۔ اگلے دن اس نے دیکھا کہ اس خول میں سے پتنگا نکلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ پھر وہاں پر بیٹھ گیا کہ دیکھ سکے کہ وہ پتنگا کیسے باہر آتا ہے۔ اس نے دیکھا کہ پتنگا باہر آنے کی بہت کوشش کر رہا ہے کچھ دیر تک اس نے بہت کوشش کی لیکن بالآخر اس خول میں ہلچل ہونا بند ہو گئی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ پتنگے نے باہر آنے کے لئے اپنا پورا زور لگا دیا تھا لیکن اب وہ ہمت ہار چکا تھا۔
اس شخص نے سوچا کہ اس پتنگے کو باہر آنے میں کوئی مشکل پیش آ رہی ہے۔ لہٰذا اُس شخص نے پتنگے کی مدد کرنے کی ٹھانی۔ اِس مقصد کے لئے اس شخص نے قینچی سے اس خول کو کاٹ دیاجس سے وہ پتنگا آسانی سے اُس خول سے باہر تو آ گیا۔ لیکن اُس کا جسم سوجا ہوا تھا اور اس کے پَر سُکڑے ہوئے تھے۔ وہ شخص دھیان سے اسے دیکھنے لگا کہ کسی بھی پل اس کے پَر بڑے ہو جائیں گے اور یہ پتنگا اُڑنے لگے گا۔ یہ پَل وہ ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ پَل کبھی نہیں آیا۔ اور یہ پتنگا اب زمین پر رینگ تو سکتا تھا لیکن اُڑ نہیں سکتا تھا اور بالآخر مر گیا۔
اُس شخص نے جلد بازی میں اور اس پتنگے پر مہربانی میں جو کیا، وہ انجانے میں بہت بُرا ثابت ہوا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس خول میں سے پتنگے کا جد و جہد کر کے باہر نکلنا کتنا ضروری تھا۔ اُس پتنگے کا جد و جہد کرنا خدا کی طرف سے ایک راستہ ہے۔ جب پتنگا اُس خول سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کے جسم سے ایک سیال مادہ نکل کر اس کے پروں میں جاتا ہے جس سے اُس کے پر بھر جاتے ہیں اور اس کا جسم ہلکا ہو جاتا ہے۔ تا کہ وہ پتنگا اُڑ سکے۔
کئی بار ہماری زندگی کو جد و جہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر خدا اُن مشکلات کو ہماری زندگی میں نہ آنے دے تو ہماری زندگی لنگڑی ہو جاتی ہے۔ ہم کبھی بھی اتنے مضبوط نہیں ہو پاتے جتنا ہم بن سکتے ہیں۔ ہم پھر کبھی اُڑ نہیں پاتے۔
ہم نے قُوت مانگی تو خدا نے ہمیں مشکلات دیں تا کہ ہم مضبوط بنیں۔ ہم حکمت مانگتے ہیں اور خدا ہمیں مسائل دیتا ہے۔ تا کہ ہم انہیں حل کر سکیں۔ ہم خدا سے خوشحال زندگی مانگتے ہیں تو خدا ہمیں دماغ اور صحت عطا کرتا ہے، تا کہ ہم کام کریں۔ ہم ہمت مانگتے ہیں اور خدا ہمیں خطرات دیتا ہے، تا کہ ہم دلیر بنیں۔ ہم خوشی مانگتے ہیں تو خدا ہمیں مصیبت زدہ لوگوں سے روشناس کرواتا ہے، تا کہ ہم ان کی مدد کریں۔ ہم خدا سے اِمداد مانگتے ہیں تو خدا ہمیں مواقع عطا کرتا ہے۔
ہمیں ایسا کچھ نہیں ملتا جو ہم چاہتے ہیں۔ بلکہ ہمیں خدا وہ سب دیتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھو، وہ جانتا ہے کہ تمہیں کِس چیز کی حاجت ہے۔ ہر کام میں خدا سے مدد طلب کرو۔ کسی چیز کو پانے میں جلد باز اور بے صبرے مت بنو۔ بلکہ ہر چیز میں صبر اور شکر کرتے رہو۔
خدا نے آپ کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے۔ اس لئے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ماضی کی تلخ یادوں میں ڈوب کر زندگی برباد کرنے کی بجائے اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں وہ غلطیاں نہ دہرانے کا عزم کیجئے۔
آئیں! ٬ ایک اور عہد کرتے ہیں کہ مشکلات سے ڈرنا نہیں، بلکہ مشکلات سے پیار کرنا ہے اور ان کے پس منظر میں موجود کامیابی کو تلاش کر کے لوگوں کو بتانا ہے کہ مشکلات زحمت نہیں بلکہ رحمت ہیں۔
زندگی سے عظیم لوگ
اس موضوع کو میں نے اس لئے چُنا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جاننا ہو گا، آج جب بھائی بھائی کی جان کا پیاسا ہو چکا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر کفر و شرک کے فتوے لگاتے نہیں تھکتے۔ پیسے کی خاطر بچے ماں باپ کو برا بھلا کہتے ہیں، غربت کی وجہ سے مائیں اپنے بچوں کو بیچ دیتی ہیں، باپ اپنے بچوں کے گلے کاٹ دیتا ہے۔ اس دور میں ہمیں ڈگریوں کی نہیں علم و حکمت سے بھرپور زندگی سے عظیم لوگوں سے کچھ اہم اسباق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اس موضوع پر روشنی ڈالنے لے لئے ہمیں تاریخ میں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم اسی صدی کے کچھ ایسے لوگوں کی زندگی کے بارے میں آپ کو آگاہ کئے دیتے ہیں۔ یہاں میں ہمارے عظیم قائد محمد علی جناح کا نام لینے کا شرف حاصل کروں گا جنہوں نے یہ پاک وطن بنا کر ساری دنیا کو حیران پریشان کر دیا۔ شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے مری بات کے مصداق ہو سکتا ہے کہ آپ کو زندگی کی عظمت کا اندازہ ہو جائے۔
بھگت سنگھ
انگریز تاریخ دان کہتا ہے کہ میں نے دو طرح کے لوگ اپنی زندگی میں دیکھے تھے۔ ایک وہ لوگ جو چیختے چیختے مر جاتے ہیں اور ایک وہ جو خاموشی سے مر جاتے ہیں۔ اور پھر میں نے ایک تیسری قِسم کے لوگ دیکھے اور یہ لوگ نہ چیختے تھے اور نہ خاموش تھے۔ یہ نعرے لگاتے ہوئے خوشی سے جا رہے تھے۔ جیسے موت ان کی دلہن ہو۔ ہاں! میں بھگت سنگھ کی بات کر رہا ہوں کہ جب پھانسی کی سزا گئی۔ تو جیل میں بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کوئی کتاب لا کر دے دو، میں اس وقت کا استعمال کرنا چاہتا ہوں۔ کتابیں لا کر دی گئیں، پڑھتے رہے۔ پھانسی کا وقت آن پہنچا، پانچ منٹ باقی ہیں۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ چلو! پھانسی کا وقت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ برائے مہربانی، مجھے یہ کتاب مکمل کرنے دو۔ میں اس حصے کو پڑھے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ کہاں سے لائیں گے یہ عشق۔
محمد علی کلے
یہ وہ مُکے باز (باکسر) ہے، جس نے اپنے آپ کو کہا تھا کہ میں سب سے عظیم ہوں (I AM THE GREATEST)۔ اور کسی نے اس کی بات سے اختلاف نہیں کیا۔ جو کہ اس بات کا اعتراف اور تصدیق ہے کہ کسی کو اِس کی عظمت پہ شک نہیں تھا۔ اِس عظمت کے مقام پر پہنچ کر بھی اس کے کردار پر کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ کوئی ایسی بات نہیں کوئی ایسی رپورٹ نہیں آتی جو محمد علی کے کردار کشی کرتی ہو۔ محمد علی کہتا ہے:
مجھے اپنی کوشش (Practice) کے ایک ایک لمحے سے نفرت ہے۔ لیکن میں نے اس میں پوری لگن لگا دی کیوں کہ میں جانتا تھا کہ یہی وہ لمحات ہیں جو مجھے چیمپئن بنائیں گے۔
لوگ محمد علی سے پوچھتے ہیں کہ
تم کیوں نہیں پھسلتے، تم کردار کے اتنے پکّے کیسے ہو؟
تو محمد علی جواب دیتا ہے:
جب میں کوئی للچا دینے والی چیز دیکھتا، مزیدار چیز دیکھتا۔ تو اپنی جیب سے ایک ماچس کی ڈبی نکالتا اسے اپنی ہتھیلی کے نیچے جلاتا اور اس کی تپِش محسوس کرتا اور پھر خود سے سوال کرتا کہ یہ چیز زیادہ مزیدار ہے یا جہنم کی آگ زیادہ خطرناک ہے۔ اور اس کا جواب مجھے مِل جاتا۔
پڑھ پڑھ علم تے فاضِل ہوئیوں
تے کدے اپنے آپنوں پڑھیا نائیں
بھَج بھَج وَڑنائیں مندر مسیتی
تے کدے مَن اپنے وِچ وَڑیا نائیں
اِکو اَلف تیرے درکار
اِکو اَلف تیرے درکار
(بلھے شاہ)
بُلّھے شاہ کہتے ہیں کہ (اے انسان) تو ستاروں سیاروں کی بات کرتا ہے۔ کہ چاند، سورج کی بات کرتا ہے لیکن اگر تو بات نہیں کرتا تو اپنی نہیں کرتا۔ تو نہیں جانتا، تو اپنے آپ کو نہیں جانتا۔
تخلیقِ انسان کے قِصّوں میں آتا ہے کہ جب انسان کو بنایا گیا، تو سوال یہ آیا کہ زندگی کا راز کہاں چھپایا جائے۔ تو فرشتوں نے کہا کہ:
آسمان میں چھپا دیتے ہیں۔
تو اللہ نے فرمایا:
نہیں! انسان کو بہت عقل دی ہے۔ یہ آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرے گا۔
فرشتوں نے کہا کہ:
سمندر میں چھپا دیتے ہیں۔
اللہ نے فرمایا:
نہیں! انسان کو بہت دانش دی ہے یہ سمندر کی تہیں تک کھنگال لے گا۔
تو پہاڑوں، درختوں سے ہوتے ہوتے آخر میں یہ فیصلہ ہوا کہ اس کی زندگی کا راز اس کے اپنے اندر چھپا دو۔ وہ آنکھوں سے باہر کے نظارے تو دیکھے گا لیکن اپنے اندر نہیں جھانکے گا۔ وہ کانوں سے دوسروں کی آواز تو سنے گا۔ لیکن اپنے اندر اپنے ضمیر کی آواز نہیں سنے گا۔
رب نہ دیوے اُس کو ہمت
ہم مَن کے دریا میں ڈوبے
کیسی نَیّا، کیا منجدھار
بس کریں او یار
علموں، بس کریں او یار
ڈاکٹر مہاتیر محمد
زندگی سے عظیم لوگوں کی بات ہو اور سیاست سے منسلک اُس عظیم سپوت کی بات نہ ہو جس نے ایک ہجوم کو قوم میں تبدیل کر دیا، لوگ جھوٹوں، نِکموں اور بے وقوفوں کو اپنا رہنما مان بیٹھے ہیں۔ آئیں میں آپ کو مردِ قلندر سے ملواتا ہوں۔ اس سے مِل کر دیکھو کہ کیا ہوتا ہے رہنما۔ وہ انسان جس کا نام ’ڈاکٹر مہاتیر محمد‘ ہے۔ وہ انسان جس نے سر زمینِ ملائیشیا کی قسمت بدل کے رکھ دی۔ ملائیشیا میں پاکستان سے کہیں زیادہ کرپشن اور جہالت تھی۔ تُن عبد الرزاق حسین نے جس تحریک کا آغاز کیا تھا۔ مہاتیر محمد نے اس تحریک کو آگے بڑھایا۔ مہاتیر محمد ایک کسان کا بیٹا تھا۔ تعلیم کے لئے ایسی لگن کہ ماں باپ سے لڑے۔ باپ نے قرضے لے لے کر اس کو پڑھایا۔ بیرونِ ملک سے ڈاکٹر کی ڈگری لے کر واپس آئے تو لوگوں نے کہا کہ کتنا پاگل ہے جو اتنا پڑھنے کے بعد بھی واپس آیا۔ اسے کہنے لگے کہ جاؤ! باہر کسی ملک میں نوکری کرو اور سکون دِہ زندگی بسر کرو۔ مہاتیر کو اُن تمام لوگوں کی باتوں پر بہت افسوس ہوا۔ اس نے اپنے ملک میں رہ کر اپنے وطن کی قسمت بدلنے کی ٹھان لی اور 23 سال کی محنت کے بعد مختلف عہدوں سے ہوتا ہوا بالآخر ملائیشیا کا وزیر اعظم بن گیا۔
وزیرِ اعظم بننے کے بعد سب سے پہلا کام اُس نے یہ کیا کہ ایک خط اُن اساتذہ کو لکھا، جو ملائیشیا کے رہنے والے تھے۔ لیکن بیرونِ ممالک میں یونیورسٹیوں میں پڑھاتے تھے۔ اس خط میں لکھا، کہ ملائیشیا کو تمہاری ضرورت ہے، برائے مہربانی واپس آ جاؤ۔ اورساتھ میں ان کو ایک آفر کی کہ جتنا تم وہاں کما رہے ہو ہم کوشش کریں گے کہ تم اتنا ہی یہاں بھی کما سکو۔ تاریخ گواہ ہے کہ 95 فیصد لوگ جو ہارورڈ، فرینکفرٹ اور کئی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے تھے واپس آئے۔ اور ایک تعلیمی انقلاب لے آئے۔
دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے ملک کے باسیوں کو بلایا اور اُن سے پوچھا کہ ہمارے ملک کا سب بڑا مسئلہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے، کیا کریں انڈسٹری نہیں لگا سکتے۔ مہاتیر ان لوگوں کے، جو ٹیکنالوجی کا شوق رکھتے تھے، کے وَفد بنا کر کئی ممالک میں بھیجے کہ جاؤ! ٹیکنالوجی کا علم سیکھ کے واپس آؤ اور ملائیشیا میں کام کرو۔ وہ لوگ سیکھ کر واپس آئے اور ملائیشیا میں صنعتی پیداوار میں اضافہ شروع ہو گیا۔ ہر جگہ Made in Malaysia چیزوں کا بول بالا ہونے لگا۔
کچھ وقت بعد لوگوں نے کہا کہ ہم بہت سی اشیاء بنا تو رہے ہیں لیکن ہمارا اپنا کوئی برینڈ (Brand) نہیں ہے۔ مہاتیر محمد نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی گاڑی بنائیں گے۔ صنعت کار کہنے لگے کہ ہماری گاڑی کوئی نہیں خریدے گا۔ لیکن مہاتیر فیصلہ کر چکا تھا۔ پروٹون نامی پہلی چھوٹی گاڑی بنائی گئی۔ لیکن جیسا کہ صنعت کاروں نے کہا تھا گاڑی برے طریقے سے پِٹ جاتی ہے۔ کوئی خریدار نہیں ملا۔ صنعت کار سَر پکڑ کر آ گئے، ہم نے کہا تھا کوئی نہیں خریدے گا یہ کار۔ تو نے ہمیں تباہ کر دیا ہم نے تمہیں کہا تھا کہ یہ برینڈ نہیں چلے گا۔ اس وقت مہاتیر محمد نے وہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ جو فیصلہ ایک پاک باز اور محب وطن وزیر اعظم ہی کر سکتا ہے۔ وہ فیصلہ یہ تھا کہ جتنے بھی سرکاری ملازمین ہیں، جتنے بھی مشیر، وزیر ہیں وہ سب پروٹون گاڑی ہی چلائیں گے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ مہاتیر محمد خود پروٹون چلاتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اگلے دو سال میں پروٹون ملائیشیا کی نمبر وَن کار بن گئی۔ یہ ہوتی ہے رہنمائی (Leadership)۔
20 سال کی حکومت کے بعد جب مہاتیر نے حکومت چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں چھوڑ کر نہ جائیں۔ آپ نے ہمیں اس قابل کر دیا کہ ہم سَر اُٹھا کے جی سکیں۔ اور مہاتیر نے جواب دیا:
"I AM NOT REQUIRED NOW, THE TEAM IS READY.”
یہ ہوتا ہے عشق۔
کوئی انسان کیسے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دے۔ کوئی انسان کیسے اس نہج پر پہنچ سکتا ہے کہ وہ یہ بھی کہے کہ خدا رازِق ہے، اور پھر رِزق کے بارے میں پریشان بھی رہے۔ میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہوں کہ رضائے الٰہی کو پہلی ترجیح دیں باقی سب خدائے واحد و یکتا کے سپرد کر دیں۔ وہ خدا جو ہمیں ستّر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا ہے وہ کیسے اپنی مخلوق کو تکلیف میں دیکھ سکتا ہے۔
"اپنی صلاحیات کو پہچانئے! جب آپ کا کام، آپ کا عشق بن جاتا ہے، خدا اس میں آپ کو کامرانیوں سے نوازتا ہے۔ “
ذرا نہیں، پورا سوچو!
آج کل ماں باپ کی زندگی کا سب سے اہم مسئلہ اگر پوچھا جائے تو 98 فیصد ماں باپ یہی کہیں گے:
اولاد کی خواہش تو پوری ہو گئی۔ لیکن پتا نہیں! آج کل کے بچوں کو کیا ہو گیا ہے۔ نافرمان ہیں، ہماری بات نہیں مانتے، بے ادب ہیں، ہم تو ایسے نہیں تھے وغیرہ وغیرہ۔
اور وہ بالکل صحیح ہیں۔ موجودہ دور کی بدقسمتی کہیں یا ماں باپ کی بے پروائی، کہ آج کل کے بچوں کی زندگیاں ادب و احترام سے خالی ہیں۔ بڑے چھوٹے کی کوئی تمیز نہیں رہی۔ حقیقت سے بہت دور رہنے والے یہ بچے اور نو جوان لڑکے لڑکیوں کی تمام خواہشات دولت، شہرت اور لذّتِ وجودِ نفس کے گرد گھومتی ہیں۔ دین سے دوری، دنیا سے محبت، دولت کی خواہش، شہرت کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ، لذّتِ وجودِ نفس کے لئے حیا و شرم کی تمام حدود کو پار کر جانے کا جنون، آج کے نوجوانوں کی رگوں میں خون سے بھی زیادہ ہے۔
اس سوال کا جواب پانا نہایت اہم اور ضروری تھا لیکن آج کل کے ماں باپ بھی اپنے بچوں کی زندگیاں بہتر بنانے کی خواہش دِل میں لئے دولت کمانے میں اِس قدر مصروف ہیں کہ اُن کو بھی اس سوال کا جواب پانے کی فُرصت نہیں۔ اور ہم چوں کہ نوجوان ہیں، اس لئے ہم فضولیات سے لطف اندوز ہونے میں اِس قدر مصروف ہیں کہ یہ سوال اُٹھانا تو کُجا، اس بارے میں سوچنا بھی حرام سمجھتے ہیں۔ لیکن اسی مصروف، ادب، احترام اور اِخلاق سے عاری دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی ذمہ داریاں پوری دِل جوئی سے نبھا رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک عظیم استاد سے مجھے علم حاصِل کرنے کا موقع مِلا۔ جنھوں نے بہت ہی خوبصورتی سے اس کا جواب ہم تمام تلامذہ تک پہنچایا۔ اور حضور نبی کریمﷺ کے اُس فرمانِ عالیشان کے تحت کہ جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:
’(اے لوگو) تم میں سے جو یہاں موجود ہیں، میرا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا دیں، جو یہاں موجود نہیں ‘
کے مصداق میں اپنے استاد محترم کی گفتگو( کا کچھ حصہ جو اس موضوع سے تعلق رکھتا ہے )مختصراً آپ تک پہنچاؤں گا اور پھر کچھ واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا، ہو سکتا ہے کہ اس سے آپ کو کچھ فائدہ ہو۔
تزکیہ نفس کے موضوع پر جب ہم نے یہ سوال استادِ محترم جناب ریاست علی سے کیا تو انہوں نے اس کا جواب کچھ یوں بیان فرمایا:
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو پاک اور معصوم ہوتا ہے۔ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان پیدائشی طور پر گنہ گار، خطا کار یا چور ڈکیت یا بد اعمال نہیں ہوتا۔ ماحول، تربیت اور معاشرتی اثرات اس کو نیکی یا بدی کی طرف راغب کرتے ہیں۔
اسی بات کی طرف قرآنِ پاک میں اشارہ فرمایا گیا ہے:
قرآن پاک میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے پھر یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
مزید تفصیل میں جاتے ہوئے استادِ محترم نے بیان فرمایا کہ انسان کی زندگی کے تین مراحل بہت اہم اور ضروری ہیں جس میں اسے تین دنیاؤں سے گزرنا پڑتا ہے۔
عالمِ ارواح
یہ وہ عالَم (دنیا ) ہے جس میں ہم سے یہ وعدہ لیا گیا تھا کہ کسے ہم میثاقِ اَلَست کہتے ہیں، یہاں انسان کی خوراک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ذکر تھا۔ ذکر سے فکر آتی ہے، فکر محبت اور چاہت کو جِلا بخشتی ہے اور جب چاہت مکمل ہوتی ہے تو معرفت ملتی ہے۔ جب ہمیں عالمِ ارواح میں معرِفت مل گئی تو اللہ تعالیٰ نے سوال کیا اَلَستُ بِربِکُم کیا میں تمہارا رب ہوں؟ تو تمام انسانوں نے جواب دیا قالو بلیٰ کہ ہاں (باری تعالیٰ! تو ہمارا رب ہے )۔
یہ وعدہ اس لئے لیا گیا تا کہ روزِ محشر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم تو بے خبر تھے۔ اور یہ وعدہ لینے کے بعد امتحان کے لئے کہ ہم اپنے اس وعدے کا کتنا پاس رکھتے ہیں۔
عالمِ مادہ
یہ اندھیری دنیا ہے۔ روح کو ایک جسم میں قید کر دیا جاتا ہے۔ کئی پردوں میں چھپی یہ ننھی سی جان دنیا و ما فیہا سے بے خبر کئی پردوں میں موجود ہوتی ہے یہاں اس کی خوراک والدین کے نظریات ہوتے ہیں۔ ماں جو کھاتی ہے، جو پیتی ہے، جو بولتی ہے، جو سنتی ہے حتی کہ ماں کا ہر عمل اس کی خوراک ہوتا ہے۔
عالمِ دنیا
یہ وہ دنیا ہے جہاں ہمیں اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوتا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کیا ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ اور ہماری منزل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔
خیر! اب آپ کو میں کچھ دنیاوی حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ایسی قوم سے روشناس کرواتا ہوں جو دنیا کے 90 فیصد بزنس، 85 فیصد حکومتوں اور 100 فیصد میڈیا پر قابض ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کا اپنا کوئی ملک نہیں ہے۔ ہاں! اسرائیل نامی، پاکستان سے 38 فیصد چھوٹے سے علاقے کو اپنا ملک بتاتے ہیں۔ اس کے پیچھے کیا سازش ہے اس پر کئی کُتب لکھی جا چکی ہیں اور کئی اور بھی لکھی جا سکتی ہیں۔ خیر وہ ایک الگ موضوع ہے۔
یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت جب حاملہ ہوتی ہے تو اس کا رہن سہن مکمل طور پر بدل جاتا ہے وہ خشک میوہ جات کھاتی ہے، کیوں کہ یہ مانا جاتا ہے کہ اس سے دماغ تیز ہوتا ہے ماں اور بچے دونوں کا۔ ماں کو دنیا کے جھمیلوں سے مکمل طور پر الگ کر دیا جاتا ہے۔ اچھے کام کرتی ہے، اچھی کتابیں پڑھتی ہے۔ اور میاں بیوی بیٹھ کر مشکل سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔ تاریخ، نفسیات، ریاضی کے سوالات، فلسفہ کے سوالات اور بہت سے سوالات پر غور و خوض کرتے ہیں اور بآوازِ بلند کرتے ہیں۔ اور یہ سائنسی طور پر فائدہ مند ثابت ہو چکا ہے۔
اور بچہ پیدا ہونے کے بعد جب ہم اپنے بچوں کو کارٹون اور ڈراموں جیسی فضولیات دکھا رہے ہوتے ہیں، تو اُن کے بچے گھُڑ سواری، تیر اندازی اور دوڑ میں مہارت حاصل کر چکے ہوتے ہیں کیوں کہ اس سے بچے نشو و نما پاتے ہیں۔ وہ اپنے بچے کو گِرنا سکھاتے ہیں اور گِر کر اُٹھنا سکھاتے ہیں۔ اور جب وہ بچہ 14 سال کا ہوتا ہے تو وہ 21 سالہ امریکی بچے اور 30 سالہ پاکستانی نوجوان سے زیادہ ذہین، عقل مند، فرماں بردار ہوتا ہے۔
شیخ سعدی جب چار سے پانچ سال کے تھے تو آپ کے والد آپ کو تہجد کے لئے اٹھا یا کرتے تھے۔ جب شیخ سعدی اور آپ کے والد وضو کر رہے ہوتے تھے تو باقی اہلِ خانہ سو رہے ہوتے تھے۔ ایک دن شیخ سعدی نے والد گرامی سے سوال کیا کہ
ابا جان! یہ سب سوئے رہتے ہیں۔ اللہ کی عبادت کیوں نہیں کرتے؟
تو آپ نے جواب دیا کہ
وہ تم سے بہتر ہیں کم از کم کسی کی غیبت تو نہیں کر رہے۔
یہ ہوتی ہے تربیت ایک طرف تو تہجد سے قرب الٰہی حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور پھر غیبت سے دور رہنے کا سبق بھی عطا فرماتے ہیں۔
علامہ محمد اقبالؒ بچپن میں جب قرآن پڑھتے تھے تو آپ کے والدِ بزرگوار فرماتے ہیں کہ قرآن اس طرح پڑھو کہ جیسے تم پر نازِل ہو رہا ہو۔ اور تربیت میں ایسی احتیاط کہ کاروبار سے کمائے ہوئے پیسے کو اقبال پر خرچ نہیں کرتے۔ کہ انتہائی احتیاط کے باوجود کہیں حرام کا کوئی لقمہ اس میں شامل نہ ہو۔ مزدوری کر کے بکری خریدی جاتی ہے اور پھر اس کا دودھ اقبال کو پلایا جاتا ہے۔ حلال حرام کا اس قدر خیال۔
عبد الستار ایدھی کی والدہ انہیں دو آنے جیب خرچ دیتی ہیں اور ساتھ تلقین فرماتی ہیں کہ ایک آنہ خود خرچ کرنا اور ایک آنہ کسی مسکین بچے کو دینا۔ ایسے کی جاتی ہے تربیت ان بچوں کی جو ماں باپ کے فرماں بردار، مالِ حلال کمانے والے، دردِ انسانیت رکھنے والے اور ولی اللہ بنتے ہیں۔
دنیا کی رنگینیوں میں مد ہوش انسان آج خدا سے گِلا کرتا ہے کہ ایسا کیوں؟ ایسا کیوں نہیں؟ لیکن شاید یہ بھول جاتا ہے خدا نے ہزاروں راستے دیے ہیں وہ خود ہی ان سے غافل ہوا پھرتا ہے۔
اس لئے ذرا نہیں، پورا سوچئے!
گذشتہ سے پیوستہ
سیکھتے جاؤ اور بڑھتے جاؤ
ہر سڑک ہائی وے نہیں ہوتی کہ آپ کی رفتار دھیمی کرنے کے لئے وہاں کوئی کھڈا، کوئی سگنل یا کوئی نشان نہ ہو۔ ہائی وے تک پہنچنے کی کوشش میں آپ کو اور بھی بہت سی سڑکوں سے گزرنا پڑتا ہے، کچھ سڑکیں ایسی ہوتی ہیں کہ ایک حد سے زیادہ سے زیادہ تیز گاڑی چلانا جرم ہوتا ہے، کچھ سڑکیں پختہ ہوتی ہیں، کچھ شکستہ بھی ہوتی ہیں، راستے میں بہت سے کھڈے بھی آتے ہیں، کچھ سڑکوں پر پھسلن بھی ہوتی ہے۔ کئی سڑکوں پر بہت رش بھی ہوتا ہے۔ اس لئے ایک ہی رفتار پر نہیں چلنا، کئی جگہ رکنا بھی ہے، آہستگی بھی اختیار کرنی پڑتی ہے تا کہ کھڈوں سے بچ سکیں، پھسلن سے بچ سکیں۔ زندگی میں بھی ہمیں اسی طرح ہی چلنا پڑتا ہے۔
ہر سڑک پر ایک ہی رفتار نہیں رکھی جاتی۔ کہیں 40 سے زیادہ رفتار سے جانا جرم ہوتا ہے، کہیں ہماری کم سے کم رفتار بھی زیادہ سے زیادہ ہونی چاہئے۔ رفتار میں کمی یا تجاوز دونوں ہی صورتوں میں ایکسیڈنٹ کا خدشہ ہوتا ہے۔ رشتوں میں بھی ہمارا یہی رویہ ہونا چاہئے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی کوئی غلطی بھی نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات دوسروں کی غلطی کی سزا بھی ہمیں بھگتنا پڑتی ہے اور بعض اوقات پھسلن اس قدر ہوتی ہے کہ دونوں کی غلطی نہیں ہوتی اور دونوں کی بے حد احتیاط کے باوجود بھی ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات رشتوں میں بھی ایسا ہوتا کہ دونوں اطراف سے غلطی نہیں ہوتی لیکن ایک تیسری قوت اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ حالات یکسر بدل جاتے ہیں۔ کیا یہی تیسری قوت نصیب ہوتی ہے۔
لیکن جب بھی ہمیں کسی سڑک پر کوئی بھی حادثہ پیش آتا ہے تو ہم رکتے نہیں۔ اپنی منزل کی طرف مسلسل گامزن رہتے ہیں، سفر کرتے رہتے ہیں، چلتے رہتے ہیں۔ کئی دفعہ ہم راستہ بھول بھی جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم رک کر افسوس کرنے میں وقت ضائع نہیں کرتے جیسے ہی پہلا یو ٹرن ملتا ہے ہم واپس اپنی منزل کی طرف گامزن رہتے ہیں۔
لیکن پھر جب ہم رشتوں میں کسی حادثے سے دو چار ہوتے ہیں ہم رک کیوں جاتے ہیں؟ اس حادثے پر بین کیوں کرتے ہیں؟ کیوں ان چھوٹے چھوٹے حادثوں کو بنیاد بنا کر اپنی اور دوسروں کے لئے مشکلات میں اضافہ کرتے ہرابرٹ ریڈ فارڈ کہتا ہے
"نیچے گرنا ایک حادثہ ہے، نیچے رہنا ایک مرضی ہے۔ “
مشکلات ہم سب کی زندگی میں آتی ہیں لیکن ان مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ اندھیرا نہ ہوتا تو ستارے کبھی نہ چمکتے۔ اگر تاریک رات نہ ہوتی تو ہم سورج کی قدر سے نا آشنا رہتے۔ اس لئے ماضی میں پیش آنے والے حالات و واقعات پر ایک گہری نظر ڈالئے اس سے سیکھئے اور اپنی منزل کی طرف گامزن رہئے۔ ہم میں سے جو لوگ اپنے مستقبل کو ماضی جیسانہیں بنانا چاہتے وہ اسے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخر کار اسے بدل کے رکھ دیتے ہیں۔
گذشتہ سے پیوستہ رہنے والے کبھی امیدِ بہار نہیں رکھ سکتے
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں