فہرست مضامین
باتونی لڑکی
(بچوں کے لیے کہانیوں کا مجموعہ)
(اصل کتاب سے مصنف کے بارے میں مضامین اس ای بک سے علیحدہ کر کے شائع کیے گئے ہیں)
رئیس صدیقی
تشکر:
www.idealideaz.com
کتاب ایپ
انتساب
اُن نانا نانی
اور دادا دادی
کے نام
جو بچوں کو روزانہ کہانی سُناتے ہیں
اور
اُن بچوں کے نام جو روزانہ کہانی سُنانے کی ضد کرتے ہیں
پیش لفظ
بچوں کا ادب لکھنا
بڑوں کے لیے
ادب لکھنے سے
کہیں زیادہ مشکل ہے
اور اِس سے زیادہ مشکل ہے
بڑے ادیبوں کی
پُر خلوص توجہ !!!
رئیس صدیقی
میرے دل کی بات
میرے پیارے دوستو!
بچپن سے، بہت سے بچوں کی طرح، میرے مزاج میں بھی کچھ عجیب سی بے چینی اور بے قراری رہی ہے۔ در حقیقت، میں عام بچوں کی طرح ہوتے ہوئے بھی، کچھ ’’خاص بچہ‘‘ بننا چاہتا تھا۔ دل میں کچھ ایسا کر گزرنے کی خواہش تھی جس سے میرا اور میرے ماں باپ اور خاندان کا نام روشن ہو۔
لیکن میرے بچپن میں، آپ کے بچپن کی طرح، اپنی صلاحیتوں کو جلد از جلد اور نمایاں طور پر ظاہر کرنے کے لیے کافی ذرائع اور سہولتیں میسر نہیں تھیں۔ مگر پھر بھی، کچھ کر گزرنے کا جذبہ برقرار رہا۔
لہٰذا، مختلف شوق کے ساتھ ساتھ، بچوں کے رسالے اور کتابیں نہ صرف با قاعدگی سے پڑھتا تھا بلکہ کہانی وغیرہ کے ساتھ قلم کار کا نام لکھا ہونا، میرے لیے بہت ہیGlamorousیعنی باعثِ کشش ہوتا۔
لہٰذا میں نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا اِرادہ کیا۔
خدا کا شکر ہے کہ میری پہلی کہانی روزنامہ قومی آواز لکھنؤ کے سنڈے اِڈیشن میں شائع ہوئی۔ میرے لیے وہ دِن کوئی خزانہ پانے سے کم نہیں تھا۔
پس تب سے، بچوں کے لیے کہانیاں، مضامین اور ڈرامے وغیرہ ماہنامہ بچوں کی دنیا، پیامِ تعلیم، کھلونا، اُمنگ، اردو دنیا، افکار ملی دہلی، ماہنامہ ٹافی لکھنؤ، ماہنامہ چندا نگری مرادآباد، ماہنامہ غنچہ کلکتہ، ہفت روزہ غنچہ بجنور، روزنامہ قومی آواز لکھنؤ؍دہلی، روزنامہ قائد لکھنؤ؍الٰہ آباد، روز نامہ راشٹریہ سہارا دہلی، ہفت روزہ عالمی سہارا، روزنامہ انقلاب، دہلی وغیرہ اور ریڈیو و ٹی وی کے بچوں کے پروگراموں میں شائع و نشر ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
بچوں کے لیے اب تک دس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان میں بچوں کی کہانیوں کا مجموعہ ’’شیروں کی رانی‘‘، ’’ننھا بہادر‘‘ اور ’’شیرازی کہانیاں ‘‘ بہت مقبول ہوئے۔
بچوں کے لیے کہانیوں کا یہ چوتھا مجموعہ ’’باتونی لڑکی‘‘ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اُمید ہے کہ کہانیوں کا یہ مجموعہ بھی آپ کو پسند آئے گا۔
آپ کا اپنا
رئیس صدیقی
Ph: 9810141528, 9811426415
9993152278
Email: raissiddiqui01@gmail.com
٭٭٭
باتونی لڑکی
میری چھوٹی بہن شنّو بڑی باتونی لڑکی ہے۔ ابھی اسکول سے آ کر بستہ رکھا بھی نہ تھا کہ اسکول کا قصہ لے بیٹھی۔
امی جان جھنجھلا کر بولیں۔ ’’اے لڑکی ! تجھے کیا بھوک نہیں لگتی؟ دوسروں کے بچے اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتے ہیں، لیکن تو ہے کہ باتیں کئے جا رہی ہے، پہلے کھانا کھا لے، پھر بک بک کرنا۔ ‘‘
شنو کھانا کھانے کے لئے بیٹھ تو گئی مگر کیا مجال جو کھانا کھاتے وقت بھی اُس کی زبان بند رہتی، کوئی سُنے یا نہ سُنے اُسے اِس کی پرواہ نہیں، اُس کا کام تو بولنا ہے، وہ بولنے سے کبھی نہیں تھکتی، لگاتار بولتی رہتی ہے۔
مجھے آپ بچوں کے لیے ایک کہانی لکھنی تھی لیکن اس کے بولتے رہنے سے میں کہانی نہیں لکھ پا رہا تھا۔
پہلے تو میں نے اسے بُلا کر سمجھایا۔ ’’شنو ! دیکھو، بچوں کے لئے ایک کہانی لکھنی ہے، تھوڑی دیر کے لئے چپ ہو جاؤ۔ ‘‘ مگر وہ نہ مانی، قینچی کی طرح اُس کی زبان چلتی رہی، میں نے پھر اُسے بلایا اور کہا۔
’’شنو اگر تم آدھے گھنٹے کے لئے خاموش ہو جاؤ تو میں تمہیں دس روپے چاکلیٹ لانے کے لیے دوں گا، اِس وقت دو بجے ہیں، تم صرف ڈھائی بجے تک خاموش رہو۔ ‘‘
یہ تیر صحیح نشانے پر بیٹھا۔ وہ فوراً مان گئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اِدھر میں کہانی لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ لکھنؤ سے میرے بڑے بھائی رشید احمد صاحب آ گئے، وہ اس باتونی لڑکی کی باتوں کے بہت دلدادہ ہیں، اس لئے آتے ہی مجھ سے پوچھ بیٹھے۔
’’رئیس ! شنو کہاں ہے ؟‘‘
میں نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہے۔
جب رشید بھائی کمرے میں داخل ہوئے تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ خاموش میز پر سر رکھے، آنکھیں بند کئے کرسی پر بیٹھی ہوئی ہے۔
رشید بھائی بولے۔ ’’شنو! دیکھو میں تمہارے لئے کیا کیا لایا ہوں۔ ‘‘
رشید بھائی کی آواز سن کر شنو نے اپنا سر اٹھایا اور اشارے سے سلام کرنے کے بعد اشارے ہی سے کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا۔
رشید بھائی یہ دیکھ کر گھبرا گئے۔ وہ کچھ چلّاتے ہوئے بولے۔ ’’ شنو! تم بولتی کیوں نہیں ہو؟کیا بات ہے شنو! ‘‘
مگر اِس وقت یہ باتونی لڑکی بالکل خاموش تھی۔ اس پر رشید بھائی اور بھی گھبرا گئے۔ لہٰذا وہ چلّاتے ہوئے بولے۔
’’امی جان! نرگس آپا، عارفہ، دیکھئے شنو کو کیا ہو گیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے مجھے بھی آواز لگائی۔
’’ارے رئیس، یہاں آؤ ! دیکھو شنو کو کیا ہو گیا ہے ؟‘‘
رشید بھائی کی آواز سن کر سبھی لوگ شنو کے کمرے میں آ کر جمع ہو گئے۔ سبھی لوگ شنو کو خاموش دیکھ کر فکر مند تھے کہ آخر اسے ہوا کیا ہے، کہیں خدا نخواستہ گوں گی تو نہیں ہو گئی ہے !
لیکن میں ایک کنارے کھڑا مسکرا رہا تھا۔ اِس پر رشید بھائی کی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں۔ وہ مجھے کھا جانے والی نگاہوں سے گھورنے لگے۔
یہ دیکھنا تھا کہ میری تو حالت بُری ہو گئی۔ میں نے فوراً اصل بات بتا دی کہ شنو نے مجھ سے آدھے گھنٹے تک خاموش رہنے کا وعدہ کیا ہے لیکن کسی کو بھی میری بات پر یقین نہیں آیا۔ چنانچہ رشید بھائی بولے۔
’’شنو! کیا رئیس صحیح کہہ رہے ہیں ؟ بولو نہ میں 10 کے بدلے 100 روپے دوں گا، یہ لو 100روپے کا نوٹ۔ ‘‘
اِس پر شنو مسکرائی اور ہاتھ بڑھا کر100روپے کا نوٹ لے لیا، لیکن کچھ بولی نہیں۔ اسی خاموشی میں وقت گزرتا رہا اور گھر والوں کی فکر بڑھتی رہی۔ اچانک دیوار گھڑی نے ٹن سے آدھا گھنٹے کا الارم بجایا۔ الارم بجنا تھا کہ وہ تقریباً چیختے ہوئے رشید بھائی کی طرف لپکی اور بولی۔
’’بھائی جان… آپ میرے لئے کیا لائے ہیں ؟‘‘
پھر بجائے اس کے کہ کوئی اس سے خاموش رہنے کی وجہ پوچھتا، اس نے خود ہی اپنی عادت کے مطابق بولنا شروع کر دیا۔
’’بھائی جان! آپ ناراض نہ ہوں، میں اس لئے نہیں بول رہی تھی کہ میں نے آدھے گھنٹے تک خاموش رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ اب آپ خود ہی بتائیے اگر میں اپنا وعدہ نہ نبھاتی تو آپ لوگ مجھے جھوٹا اور وعدہ خلاف کہتے۔ ‘‘
اُس کی اس سمجھ داری سے خوش ہو کر امی جان نے اسے ممتا بھری نگاہوں سے دیکھا اور اس کی پیشانی کو چومتے ہوئے کہا۔
’’خدا تمہاری جیسی اولاد سب کو دے۔ آمین!‘‘
٭٭٭
اِنسانیت کے مسکراتے پھول
ابھی دونوں بڈھے بڑھیا کھانا کھانے جا ہی رہے تھے کہ دروازے پر کسی نے دستک دی۔ بڈھا چٹائی سے اٹھتے ہوئے بولا۔
’’ابھی آیا بھائی، کون صاحب ہیں ؟‘‘
’’سادھو ہے، صبح سے بھوکا ہے۔ ہو سکے تو اس سادھو کو پیٹ بھر کر بھوجن کرا دو۔ بھگوان تمہارا بھلا کرے گا۔ ‘‘
’’اچھا، آپ دو منٹ انتظار کیجئے۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں۔ ‘‘
یہ کہہ کر بڈھا اپنی بیوی کے پاس آیا اور بولا۔
’’سنو! ایک سادھو مہاراج آئے ہوئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ پیٹ بھر کے بھوجن کرا دو۔ میں بھوکا ہوں۔ ‘‘
’’یہاں ہم دونوں کا ہی پیٹ مشکل سے بھرتا ہے۔ ان کا پیٹ کہاں سے بھروں ؟‘‘ بڑھیا نے آہستہ سے کہا۔
’’اچھا تو میں جا کر ان سے کہہ دیتا ہوں کہ مہاراج معاف کیجئے۔ ‘‘
بڈھا یہ کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھا ہی تھا کہ بڑھیا نے آواز دی۔
’’سنیے ! میرا خیال ہے ہم ان کو کھانا کھلا ہی دیں، آگے اللہ مالک ہے۔ ‘‘
’’آئیے اندر تشریف لائیے۔ یہاں تشریف رکھئے۔ ابھی کھانا لے کر حاضر ہوتا ہوں۔ ‘‘ بڈھے نے سادھو کو بہت عزت سے اندر بلا کر کھانا کھلایا۔
’’سچ ہے۔ آپ ہی جیسے نیک بندوں کی وجہ سے یہ دنیا ابھی تک چل رہی ہے ورنہ یہ پاپی دنیا نہ جانے کب کی مٹ چکی ہوتی۔ بھگوان تمہارا بھلا کرے۔ بھگوان تمہاری آشائیں پوری کرے ‘‘
سادھو نے کھانا کھایا اور دعائیں دیتا ہوا چلا گیا۔
’’بانو! اللہ تم سے بہت خوش ہے۔ خدا کی خدائی کو تم پر ناز ہے۔ تم نے آج اِنسانیت کی سب سے بڑی خدمت کی ہے۔ تم نے دنیا کی سب سے بڑی نیکی کی۔ تم نے ایک بھوکے کو کھانا کھلایا۔ تم نے ایک بھوکے کا پیٹ بھرا۔ تم نے مذہب، ذات، نسل، رنگ و روپ نہیں دیکھا۔ تم نے صرف انسان دیکھا، آدمی دیکھا، خدا کا بندہ دیکھا، تمہاری انسانیت مردہ انسانیت کی مسیحا ہے، خدا سے دُعاء ہے کہ تمہاری ہر آرزو پوری ہو۔ آمین۔ ‘‘
میں نے ابھی ابھی خواب میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ کو یہ کہتے ہوئے دیکھا۔ میں لپک کر ان کا دامن پکڑنا چاہتی تھی کہ وہ مسکراتے ہوئے غائب ہو گئے۔
بڑھیا کا چہرہ مارے خوشی کے کھلا ہوا تھا۔ وہ بہت ہی عقیدت سے اپنے میاں کو اپنا یہ خواب سُنا رہی تھی۔
دونوں کی یہ آرزو تھی کہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ اس دنیا سے کوچ کریں، اور کچھ دنوں کے بعد دونوں بڈھے بڑھیا ایک ہی سال، ایک ہی ماہ ایک ہی دن اپنے خدا سے جا ملے۔
محلے والوں نے دونوں کی قبریں اسی مکان میں ایک ہی جگہ آس پاس بنوا دیں۔
اب دونوں قبروں کے اردگرد ہری ہری گھاس اور جنگلی پھول اُگے ہوئے ہیں۔
دونوں بڈھے بڑھیا کی قبروں کے تعویذ پر سُرخ گلاب کے پھول اس طرح مارے خوشی کے جھوم رہے ہیں جیسے وہ مُردہ انسانیت کو زندگی کا سبق دے رہے ہوں !!!
٭٭٭
ٹھوکر
سڑک کے کنارے ایک بوڑھا آدمی میلے اور پیوند لگے کپڑے پہنے سودا بیچا کرتا تھا۔ اُن دنوں چونکہ مونگ پھلی کا موسم تھا، اس لئے وہ اُس دن بھی مونگ پھلی لگائے بیٹھا تھا۔
اچانک قریب چار بجے شکل و صورت سے شریف لگنے والا ایک آدمی اُس بڈھے کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور نہایت بدتمیزی کے لہجے میں بولا۔
’’ابے او بڈھے ! اتنا جھوٹ بولتا ہے تو !! ابھی تک تو آ ہی رہا ہے پیسے دینے !!!
خیر، اب بول۔ ۔ آج تُو پیسے دے گا یا نہیں ؟
اگر آج بھی تو نے کوئی بہانہ بنانے کی کوشش کی تو میں تیرا خوانچہ اٹھا کر پھینک دوں گا۔ ۔ سمجھے ؟‘‘
بڈھے نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’بابو جی! میں کل ضرور ضرور آپ کو تھوڑے پیسے دے دوں گا … آپ یقین کیجئے … آپ …!‘‘
’’ابے تو کیا دے گا۔ تُو تو روز ہی کوئی نہ کوئی رونا رو دیتا ہے۔ ‘‘
’’نہیں بابوجی … آپ یقین رکھیں میں کل ضرور کچھ نہ کچھ دے دوں گا۔ کیا کروں بابوجی، ادھر مجھ پر پریشانیوں کے کچھ ایسے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں کہ میں کچھ بتا نہیں سکتا۔ بس بابوجی، اسی وجہ سے دیر ہو گئی۔ ‘‘
بڈھے نے بڑی انکساری سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔
’’نہیں … میں یہاں بکواس سننے نہیں آیا ہوں۔ میں ابھی، اسی وقت پیسے لوں گا۔ ‘‘
یہ کہتے ہوئے اُس نے ڈلیا کے ایک کونے کی تلاشی لینا شروع کر دی۔
’’بابوجی! میرے گھر میں فاقہ ہو جائے گا مجھ پر مہربانی کیجئے۔ نہیں تو ہم لوگ بھوکوں مر جائیں گے۔ میں اپنی اولاد کی قسم کھاتا ہوں۔ تھوڑا تھوڑا کر کے سارا پیسہ چُکتا کر دوں گا۔ ‘‘
اُس نے اپنی پونجی پر ہاتھ رکھ کر اپنی بے بسی اور مجبوری ظاہر کرتے ہوئے خوشامد کی۔
بابوجی کا چہرہ نرم نہیں بلکہ غصہ کی شدت سے سخت اور سرخ ہو گیا۔ وہ بڈھے کو بھوکے شیر کی طرح گھور رہا تھا اور بڈھا بھیگی بلی کی طرح نظریں جھکائے درخواست کر رہا تھا۔
اِتنی ہی دیر میں راہ چلنے والے بہت سے لوگ اس طرح آ کر کھڑے ہو گئے جیسے کوئی تماشا ہو رہا ہو۔ اب دونوں ہی نے لوگوں کو اپنی اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
بابوجی اُس کو جھوٹا اور بے ایمان ثابت کرنے میں سارا زور لگا رہے تھے جبکہ بڈھا صرف اپنی مجبوری ہی بیان کر رہا تھا۔
لیکن کوئی بھی شخص ان دونوں کے بیچ صلح کرانے کی کوشش میں آگے نہیں بڑھا۔
بابوجی چند منٹ کھڑے رہے پھر اس کی آنکھیں لال پیلی ہونے لگیں اور وہ یہ کہتے ہوئے … تو تُو آج پیسے نہیں دے گا، اس کی مونگ پھلی کی ڈلیا پر ایک بھرپور ’’ٹھوکر‘‘ مارکر اسکوٹر پر سوار ہو آگے بڑھ گیا اور لوگ دیکھتے ہی رہے۔
کچھ دیر کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ وہ بابوجی آگے جا کر ایک ٹرک سے ٹکرا کر دور جا گرے۔
اُس کا اسکوٹر چکنا چور ہو کر اس طرح بکھر گیا جیسے اب سے کچھ دیر پہلے اس غریب بڈھے کی ساری مونگ پھلی بکھر کر سڑک پر پھیل گئی تھی۔
وہ خون سے لت پت تھا اور درد سے کراہ رہا تھا۔
کچھ لوگ اس کو اٹھانے میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ کھڑے ہوئے دیکھ رہے تھے اور کچھ لوگ کہہ رہے تھے۔
’’کسی غریب کا دِل نہیں دکھانا چاہئے۔ کسی کی آہ نہیں لینی چاہئے۔ ‘‘
’’دل سے نکلی ہوئی بددعا اثر رکھتی ہے۔ ‘‘
لیکن مونگ پھلی والے سے رہا نہیں گیا وہ لپک کر بابوجی کے پاس پہونچا اور اپنے انگوچھے سے اس کا بہتا ہوا خون صاف کرنے لگا۔
٭٭٭
سزا
جب میں قریب بارہ سال کا تھا تو اکثر میں اپنی نانی ماں کے ساتھ لال پور نامی گاؤں میں رہا کرتا تھا۔ نانی ماں، جنھیں ہم لوگ دُلار سے اماں کہتے تھے، مجھے اکثر و بیشتر اپنے گاؤں کے بازار لے جاتی تھیں۔ اُس بازار سے کچھ ہی دور پہلے ایک کھنڈر تھا، جہاں ایک بھکاری بیٹھا بھیک مانگا کرتا تھا۔ ایک دن بازار جاتے ہوئے اماں نے بڑے رازدارانہ انداز میں بتایا کہ وہ فقیر ایک زمیندار کا لڑکا ہے اور کچھ سال پہلے تک وہ بڑا آدمی تھا۔
یہ سننا تھا کہ فوراً میں اماں سے سوال کر بیٹھا کہ تو پھر وہ بھکاری کیسے بن گیا؟
اِس سوال پر اماں اپنی عادت کے مطابق جھنجلا اُٹھیں اور زور سے بولیں۔
’’تجھے تو بات بتاؤ، پھر بات کی جڑ۔ مجھے صرف اتنا ہی معلوم ہے اور کچھ نہیں۔ ‘‘
چونکہ میں اماں کے غصے سے اچھی طرح واقف ہوں، اس لئے فوراً چپ ہو گیا۔ لیکن اتنا ضرور سمجھ گیا کہ اماں جانتی سب کچھ ہیں مگر بتانے سے کترا رہی ہیں۔
چونکہ میں یہ بات جاننے کے لئے بے چین تھا، اس لئے دوسرے ہی دن اُس فقیر کے پاس پہنچا اور ذہن میں پلتے ہوئے سوال کا جواب جاننے کی کوشش کی۔ لیکن نہ جانے کیوں زبان گُنگ تھی، البتہ نگاہیں اس کے چہرے پر جم کر رہ گئی تھیں۔
’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘
’’کچھ نہیں بابا۔ کوئی بات نہیں ہے !‘‘
’’نہیں۔ کوئی بات تو ضرور ہے۔ بولو کیا بات ہے ؟‘‘
’’اچھا، یہاں آؤ بیٹھ جاؤ۔ ‘‘
اُس کے لہجہ میں اس قدر نرمی اور خلوص تھا کہ میری ساری ہچکچاہٹ دور ہو گئی اور میرے قدم خود بخود اس کی طرف بڑھ گئے۔ میں بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’شکریہ بابا۔ معاف کرنا، بابا۔ ایک بات ہے آپ ناراض تو نہیں ہوں گے ؟‘‘
’’نہیں بیٹے ! میں ناراض نہیں ہوں گا۔ بولو کیا بات ہے ؟‘‘
بابا نے ہمت بڑھائی تو میں نے کہنا شروع کیا۔
’’بابا! میری نانی جان کہتی ہیں کہ آپ بہت مالدار آدمی تھے۔ لیکن اب آپ؟‘‘
’’ہاں بیٹے، تمہاری نانی جان صحیح کہتی ہیں۔ ‘‘
فقیر نے ایک سرد آہ بھری اور ماضی کے جھروکوں میں کھو گیا۔
’’بے شک بیٹا۔ میں ایک شریف اور دولتمند گھرانے کا ہوں۔ میرے باپ زمیندار تھے۔ زمینداری تو ان کے جیتے جی ہی ختم ہو چکی تھی لیکن دولت کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ باپ نے مرنے سے پہلی ہی میری شادی ایک زمیندار کی لڑکی سے کرا دی تھی۔ ایک دن جب میرے والد صاحب اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے تو انہوں نے مجھے بڑی محبت سے اپنے پاس بلا کر بٹھایا اور تجوری کی چابیاں دیتے ہوئے تمام جائیداد کے کاغذات میرے حوالے کر دیے۔ کچھ نصیحتیں کیں۔ کچھ وعدے لئے اور اس رنگ برنگی دنیا سے کوچ کر گئے۔
اُن کی موت کے بعد کچھ دنوں تک تو میں انسانوں کی طرح جیتا رہا۔ پھر جانور بن گیا۔ بلکہ جانور سے بھی بدتر!میں نے سوتیلے بھائی کو دوسرے گاؤں کے بدمعاشوں سے مروا ڈالا اور دولت کے نشے میں بدمست ہاتھی کی طرح گاؤں کے غریب کسانوں اور مزدوروں کو روندنے لگا۔ کسی کو ذرا سی بات پر گھر سے باہر پھنکوا دیا۔ کسی کے ہاتھ پیر تڑوا دئیے۔ کسی کو پیڑ سے بندھوا دیا۔ کسی کے کوڑے لگائے۔ کسی کے مکان میں آگ لگوا دی۔ کسی کے کھیت رندوا دیئے۔ بس اس طرح میرے دن رات ظلم کے سیاہ سائے میں گزرتے رہے۔ لیکن جب میری عمر لگ بھگ تیس برس کی ہو گئی تو تقدیر نے ایسی ٹھوکر ماری کہ میری زندگی حادثوں کی زنجیر سے جکڑ کر رہ گئی۔ سب سے پہلا حادثہ ان دنوں پیش آیا جب میں ایک مقدمے کے سلسلے میں کانپور گیا ہوا تھا اور وہاں دو دن رکنا پڑا۔
اُن دنوں موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ جس روز میں کانپور پہنچا، اس رات یہاں بارش اِتنی زور سے ہوئی کہ بہت سے مکان گر گئے اور بہت سے بچے، جوان، بوڑھے مر گئے۔ بہت سے زخمی ہو گئے۔ میرا مکان بھی ڈھے گیا۔ گاؤں والوں کو بھی حیرت تھی کہ پکی اینٹوں کا اِتنا مضبوط مکان اتنی بری طرح کیسے ڈھئے گیا!
لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ کیوں ڈھئے گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ میرے گناہوں کا بوجھ نہیں سنبھال سکا تھا۔ اتنا ہی نہیں، میری بے قصور بیوی بھی اس میں دب کر مر گئی۔ میں جب کانپور سے واپس آیا تو میرے گناہوں کی سزا میرے سامنے تھی۔
اُس حادثے کے بعد، قریب ایک مہینے کے بعد، ایک مقدمہ کی پیشی میں پھر مجھے کانپور جانا پڑا۔ میں جس بس میں سوار تھا، وہ بارہ دیوی مندر کے پاس اُلٹ گئی اور میری دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ دوا علاج میں میرا بچا کھچا سارا پیسہ خرچ ہو گیا۔ لیکن میری ٹانگیں ٹھیک نہیں ہوئیں۔ زہر پھیلتا گیا اور مرض لاعلاج ہوتا گیا۔ آخر کار ٹانگیں کاٹ دی گئیں اور میں اپاہج ہو گیا۔ یہ سزا میرے لئے پہلی سزا سے بھی زیادہ سخت اور جان لیوا تھی۔ یہ حادثہ میرے لئے وہ وقت لایا کہ مجھے پیٹ بھرنے کے لئے بھیک مانگنی پڑی۔ ‘‘
بس تب سے اب تک اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہوں۔
٭٭٭
ضمیر
اقبال دسویں درجے میں میرا کلاس فیلو تھا۔ وہ بہت ذہین اور خود دار لڑکا تھا، لیکن وہ مِسکین، یتیم اور غریب تھا۔ وہ صبح پڑھتا، شام کو پڑھاتا اور رات کو نوٹس وغیرہ تیار کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے دوستوں میں خوش و خرم رہتا۔ اس کے باسلیقہ رہن سہن سے کبھی کسی نے یہ محسوس نہیں کیا کہ وہ بے سہارا ہے۔ اقبال خود بھی ان باتوں کی طرف توجہ نہیں دیتا تھا۔ وہ اپنا ہر دن جد و جہد میں گزارتا۔ اس سلسلے میں جب بھی اس کی ہمت افزائی کرتے ہوئے میں کہتا۔
’’بھئی واقعی تم بڑے محنتی اور خوش مزاج لڑکے ہو۔ آج کل تمہارے جیسے لڑکے بہت کم نظر آتے ہیں۔ میں تمہارے مزاج اور کردار سے بہت متاثر ہوں۔ ‘‘
اس کا جواب ہوتا۔ ’’ارے چھوڑیے ان باتوں کو۔ یہ تو آپ کی محبت ہے۔ ورنہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ میں بہت سی کمیاں ہیں ‘‘۔
کئی دِن سے موسمی بخار کی وجہ سے میں اسکول نہیں جا رہا تھا۔ ایک دن جب بخار ذرا ہلکا ہوا تو میں اقبال کے گھر گیا۔ وہ بستر پر کسی سوچ میں ڈوبا لیٹا ہوا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ اُٹھ بیٹھا، لیکن اس کا چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میں پوچھ بیٹھا۔ ’’ کیا ہوا اقبال؟ آج تم اتنے اُداس کیوں ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں رئیس بھائی‘‘۔ اس نے بڑی اُداسی سے کہا۔
’’نہیں، کوئی بات ضرور ہے۔ بتاؤ کیا بات ہے ؟‘‘ میرے اِصرار پر وہ بولا۔
’’رئیس بھائی آپ سے کیا چھپانا۔ آپ تو میری زندگی کے ایک ایک ورق سے واقف ہیں، میں بہت پریشان ہوں۔ کوئی کام ہو تو دلوائیے۔ اگر ٹیوشن مل جائے تو اور بھی اچھا ہے۔ ‘‘
’’اچھا اِس بارے میں شام کو بتاؤں گا۔ میرے ایک دوست عاصم کو اپنے بھائی کے بچوں کے لیے ٹیوٹر کی ضرورت ہے۔ میں ان سے بات کروں گا، لیکن تمہارے پاس تو ٹیوشن تھے۔ یہ اچانک پریشانی کیسے نازل ہو گئی؟‘‘
میں نے پوچھا۔
’’بھئی ٹیوشن تو اب بھی ہیں، لیکن دو ٹیوشن کم ہو گئے ہیں۔ پچھلے دنوں میں بخار کی وجہ سے ایک ہفتے تک ٹیوشن کرنے نہیں گیا۔ اس درمیان غنی نے زاہد بھائی اور نفیس بھائی کو اپنی جھوٹی پریشانیاں سنا کر دو ٹیوشنوں پر قبضہ کر لیا۔ بس وہی پیسے کم ہو گئے۔ ‘‘ اقبال نے تفصیل بتائی۔
میں اُس کو تسلی دے کر گھر جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔
شام کو میں عاصم کے پاس گیا اور بولا۔
’’عاصم، تم ایک دن کہہ رہے تھے کہ تمہارے بھائی جان کے بچوں کے لیے ایک ٹیوٹر کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے ایک کلاس فیلو سے بات کر لی ہے۔ اگر تم کہو تو میں ملاقات کرا دوں ‘‘۔
’’ارے اتفاق دیکھو۔ ابھی ابھی تمہارے آنے سے پہلے جعفری بھائی ایک صاحب کو بچوں کو پڑھانے کے لیے لے کر آئے تھے۔ میں نے ان کو زبان دے دی۔ ان کا نام غالباً غنی تھا۔ ‘‘ یہ سننا تھا کہ میرا دل بیٹھنے سا لگا۔
’’ کیا بات ہے ؟ کیا ہوا؟‘‘ عاصم کو میرے چہرے پر آتے جاتے تاثرات دیکھ کر فکر ہوئی۔
’’بات در اصل یہ ہے کہ… ‘‘ میں ذرا جھجکا۔
’’ہاں ہاں، کہو، کیا بات ہے ؟‘‘ عاصم بولا۔ میں نے اقبال کے متعلق سب کچھ بتا ڈالا اور میں بولا۔ ’’بس اتنی سی بات ہے۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ…‘‘
’’اِس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔ تم کل سے اقبال کو بھیج دو۔ بس خوش!‘‘
’’شکریہ!‘‘ مارے خوشی کے میرا چہرہ کھل اٹھا۔ میں اسی وقت اقبال کے پاس پہنچا اور ایک ہی سانس میں اُسے یہ خوشخبری سناتے ہوئے بولا۔ ’’میں نے کم بخت غنی سے تمہاری طرف سے بدلہ لے لیا۔ وہ بھی کیا یاد کرے گا۔ ‘‘
’’کیا مطلب؟ کیسا بدلہ؟‘‘ اس نے تفصیل سے جاننا چاہا۔
’’ارے بھئی غنی نے تمہارے ٹیوشن پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں نے اس کے ٹیوشن پر قبضہ کر لیا۔ سمجھ میں بات آئی یا اور تفصیل سے بتانا پڑے گا۔ ‘‘
یہ سن کر اقبال کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
’’بھائی، میں یہ ٹیوشن نہیں کروں گا۔ ‘‘
’’کیوں بھئی کیوں ؟‘‘ میں نے وجہ جاننا چاہی۔
’’ میں غنی کی روزی نہیں چھین سکتا۔ ‘‘ اقبال نے مختصر سا جواب دیا۔
’’لیکن اس نے بھی تو تمہارے ٹیوشن پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا بدلہ تو یہی ہے۔ اگر تم یہ ٹیوشن نہیں کرو گے تو فیس کہاں سے جمع کرو گے ؟ امتحان کیسے دو گے ؟‘‘ میں نے سمجھانے کی کوشش کی۔
لیکن اس نے مجھے یہ کہہ کر خاموش کر دیا۔
’’میں کبھی ایسی ذلیل اور چھچھوری حرکت نہیں کر سکتا۔ میرا ضمیر اِس کی اجازت نہیں دیتا۔ میرا خدا مالک ہے۔ غنی نے میرے ساتھ جیسا کیا وہ خود بھگتے گا۔ اگر بدی کا بدلہ بدی سے دیا تو پھر مزہ ہی کیا رہا، مزہ تو جب ہے کہ بدی کا بدلہ نیکی سے دیا جائے۔ ‘‘
میں اُس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭
تلاش
یہ اُس وقت کی بات ہے جب رضوان ایک مدرسے میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ ایک دن بڑے مولوی صاحب نے سب طالب علموں کو بلایا اور کہا-
’’میرے عزیز شاگردو! میں نے تم سب کو یہاں ایک خاص مقصد کے لیے بلایا ہے۔ میرے سامنے ایک مسئلہ ہے۔ میری بیٹی شادی کے لائق ہو گئی ہے، لیکن اس کی شادی کرنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں کیا کروں ؟‘‘
اس پر کچھ طالب علم، جن کے والدین مالدار اور امیر تھے، آگے بڑھے اور ادب سے بولے –
’’مولوی صاحب! ہم اپنے ماں باپ سے پیسے مانگ لائیں گے۔ آپ انہیں نذرانہ سمجھ کر قبول کر لیجئے گا۔ ‘‘
’’نہیں، قطعی نہیں ! اگر تم پیسے مانگ کر لاؤ گے تو تمہارے ماں باپ سوچیں گے کہ میں لالچی ہوں، اور میں اپنی بیٹی کی شادی شاگردوں سے مانگے ہوئے پیسوں سے کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘
بڑے مولوی صاحب نے امیر شاگردوں کی پیش کش کو نا منظور کرتے ہوئے کہا اور پھر کسی سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر کچھ دیر بعد مولوی صاحب بولے۔
’’ایک ترکیب سمجھ میں آئی ہے تم لوگ پیسے لاؤ۔ لیکن مانگ کر نہیں۔ بلکہ کچھ اس طرح لاؤ کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس طرح میرا کام بھی ہو جائے گا اور میری عزت بھی رہ جائے گی۔ ‘‘
سبھی شاگرد اِس بات پر رضامند ہو گئے۔ پھر مولوی صاحب غریب طالب علموں سے بولے۔
’’تم لوگ بھی اپنے اپنے گھروں سے کچھ نہ کچھ لیتے آنا۔ لیکن خیال رہے کہ کسی کی بھی اُس پر نظر نہ پڑے۔ ورنہ میں لوں گا نہیں۔ ‘‘
سبھی شاگردوں نے یقین دلایا کہ وہ جو کچھ بھی لائیں گے، آپ کی ہدایت کے مطابق لائیں گے۔
دوسرے ہی دن سے طرح طرح کا سامان آنے لگا۔ جسے بڑے مولوی صاحب خوشی سے قبول کرتے رہے۔
کچھ دنوں بعد بڑے مولوی صاحب کے پاس اپنی بیٹی کی شادی کے لئے کافی سامان اِکٹھا ہو گیا۔
لیکن تمام طالب علموں میں صرف رضوان ہی ایک ایسا طالب علم تھا جو ابھی تک کچھ نہیں لا سکا تھا۔
ایک دن بڑے مولوی صاحب نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے رضوان سے کہا۔
’’تم کچھ نہیں لائے ؟ کیا تم بالکل مفلس ہو ! کچھ تو لانا ہی چاہئے تھا۔ ‘‘
رضوان نے جواباً بڑی نرمی سے عرض کیا۔
’’میرے گھر میں خدا کی مہربانی سے کسی بھی جائز اور ضروری چیز کی کمی نہیں ہے لیکن پھر بھی میں کچھ نہیں لا سکا اور نہ لا سکوں گا۔ ‘‘
’’کیوں ؟ کیا تم اپنے استاد کی خدمت نہیں کرنا چاہتے ہو؟‘‘ بڑے مولوی صاحب نے تیوری پر بل ڈالتے ہوئے کہا۔
’’نہیں مولوی صاحب! یہ بات نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ ایسی چیز لانا جسے لاتے وقت کسی نے دیکھا نہ ہو۔
میں نے بہت کوشش کی۔ لیکن گھر میں کوئی بھی ایسی جگہ نہ ملی جہاں کوئی دیکھ نہ رہا ہو۔ ‘‘ رضوان نے تحفہ پیش نہ کر سکنے کی وجہ بتائی۔
’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔ کبھی نہ کبھی تو ایسا موقع ملا ہو گا جب تم کچھ نہ کچھ لا سکتے تھے۔ ‘‘ بڑے مولوی صاحب نے اس کی بات پر یقین نہیں کیا
’’مولوی صاحب! آپ بجا فرما رہے ہیں، لیکن کوئی دیکھے نہ دیکھے۔ میرا ضمیر تو دیکھ رہا ہے، ہم سب کا خدا تو دیکھتا رہتا ہے۔ اسی خوف سے میں کچھ نہ لا سکا۔ ‘‘ رضوان کے منہ سے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا ہوئے۔
ابھی وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا کہ بڑے مولوی صاحب نے آگے بڑھ کر اپنے گلے لگا لیا اور سرپر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
’’پس تو ہی میرا سچا شاگرد ہے۔ میرے کہنے پر بھی تم نے بُرا راستہ نہیں اپنایا۔ یہ تمہارے کردار اور دل و دماغ کی پاکیزگی ہے اور یہی میری تعلیم کا مقصد ہے۔
بیٹے ! مجھے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے دولت کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے تو ایک ایسے لڑکے کی ’’تلاش‘‘ تھی جو سنجیدگی، سمجھداری، مستقل مزاجی، اچھے بُرے کی تمیز کی صلاحیت اور پاکیزگی کی دولت سے مالا مال ہو۔ مجھے ایسے لڑکے کی تلاش تھی جو اپنے ضمیر، اپنے خدا سے ڈرتا ہو۔
خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ مجھے جِس دولت کی تلاش تھی، آج وہ مل گئی!‘‘
٭٭٭
غریب مہمان
بارات آ چکی تھی، نکاح ہو چکا تھا‘ اب ایک وسیع میدان میں کھانا کھلانے کی تیاریاں ہونے لگیں۔ لوگ کرسیوں پر بیٹھ رہے تھے کہ سڑک پر ایک یکہ آ کر رُکا اور اس سے ایک بوڑھی سواری اُتری۔ اس کے پاؤں میں پلاسٹک کی چپل تھی۔ جس کے پٹے کئی جگہ سے موچی کی اعلیٰ کاری گری کا نمونہ تھے۔ چپل کے ساتھ ساتھ پیر بھی گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ کمر پر پاجامہ لٹک رہا تھا مگر مَٹ میلے رنگ کا۔ یہ اس کا اپنا رنگ نہیں تھا بلکہ وقت کی دھُوپ سے اس کی جلد کی طرح اُس کے پاجامہ کا رنگ بھی بدل گیا تھا۔ بدن پر قمیص اور اس پر ایک سفید کھادی کی صدری تھی جو گرد کھاتے کھاتے سیاہی مائل ہو گئی تھی۔ بال کچھ سفید، کچھ کالے مگر سوکھے، میلے اور آپس میں اُلجھے ہوئے تھے۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑے ہوئے تھے۔ دیدے اندر کی طرف دھنسے ہوئے تھے۔ چہرے کی ہڈیاں اُبھری ہوئی تھیں۔
اُس کی نگاہیں کچھ تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ اس نے ماحول کا بھرپور جائزہ لیا اور اس کے قدم دعوت گاہ کی طرف بڑھنے لگے۔ لوگ اُس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اس طرح راستہ چھوڑنے لگے جیسے کوئی زہریلا ناگ اُن کو ڈسنے کے لئے ان کی طرف لپک رہا ہو۔
مہمان کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ صرف ایک کونے میں ایک کرسی خالی پڑی تھی۔ وہ بھی شاید اس لئے کہ اس کی چولیں ڈھیلی تھی۔ وہ غریب مہمان اسی کرسی پر سنبھل کر بیٹھ گیا اور کھانا کھانے لگا۔ اِسی اثناء میں ایک خوبصورت جوان وارد ہوا۔ اس کا قیمتی اور خوبصورت سوٹ اس کی کار کے رنگ سے میل کھا رہا تھا۔ وہ بہت جلدی میں تھا۔ وہ جلد سے جلد کھانا کھانے کی زحمت سے چھٹکارا پانا چاہ رہا تھا لیکن تمام کرسیاں پہلے ہی سے بھری ہوئی تھیں۔
وہ ایک آدمی کے پاس گیا اور آہستہ سے کچھ کہا۔ اِس پر اُس انتظام کار کی نگاہیں اِدھر اُدھر گھومنے لگیں اور اِس طرح اُس بوڑھے مہمان پر آ کر رُک گئیں جیسے وہ غیر قانونی طور پرسرحد پھاند کر کسی ملک میں گھس آیا ہو۔ ’’ایں ! یہ بڈھا کون ہے ؟ یہ کہاں سے گھس آیا؟‘‘زیر لب کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور اس کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔
’’ابے تو یہاں کیسے بیٹھ گیا۔ چل باہر ابھی کھانا بھجواتا ہوں۔ نہ جانے کمبخت کہاں سے چلے آتے ہیں۔ چل اُٹھ شرافت سے … اُٹھ جا، نہیں تو ابھی جوتے کی ٹھوکر مار کر اُٹھاؤں گا۔ ‘‘
بڈھا حیرت سے اُس کا منہ تک رہا تھا۔ اُس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ماجرا کیا ہے ؟ ابھی وہ کچھ کہنے ہی والا تھا کہ انتظام کا راُس پر پھر برس پڑا۔
ابے جائے گا یا نہیں ؟ یا بتاؤں پھر؟ بے شرم کہیں کا۔ اوقات زمین کی بیٹھا ہے کرسی پر، چل باہر جا کر لائن میں لگ جا! ‘‘
اُس کی بے عزتی دیکھ کر میرا دل بے چین ہو رہا تھا۔ میں حیرت میں تھا کہ یہ کیسی مہمان نوازی ہے۔ یہ کیسا سلوک ہے ؟ شاید یہ سلوک تو کسی بھکاری کے ساتھ ہو سکتا ہے لیکن یہ تو فقیر نہیں ہے۔ قطعی نہیں ہے۔ اگر بھکاری ہوتا تو اس کی اتنے بڑے بڑے لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے کی ہمت نہ ہوتی۔ یہ مہمان ہے البتہ غریب ہے۔ اس کی رشتہ داروں نے شادی میں بلانے کو بلا تو لیا لیکن کسی نے معمولی طور سے بھی خیر مقدم نہیں کیا۔ ابھی میں اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کانوں سے آواز ٹکرائی۔
’’اے اللہ! اس پر ایک لمحہ کے لئے کچھ لوگوں کے کان کھڑے ہوئے، نگاہیں انھیں اور دماغ نے سوال کیا کہ کیا ہوا؟
ایک لمحہ بیتتے ہی پھر سب اپنے اپنے کام میں لگ گئے۔ کھانے میں، باتیں کرنے میں، استقبال کرنے میں، لیکن میرا دل نہ مانا۔ میں باہر کی طرف لپکا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سڑک پر وہ بوڑھا غریب مہمان منہ کے بل گرا پڑا ہے اور اس کی ناک سے خون بہہ رہا ہے۔
٭٭٭
معصوم آرزو
صبح کا وقت تھا، بڑی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ اس کا مزا لیتے ہوئے میں چادر اوڑھے چارپائی پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک میرے دائیں کان میں کسی کی پتلی پتلی اُنگلیاں محسوس ہوئیں۔
میں ہڑبڑاتے ہوئے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ میرے چھوٹے بھائی میاں سعید کھڑے ہوئے ہیں۔
’’کیا بات ہے ‘‘؟ میں نے آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے سوال کیا۔
’’بھیا! آپ ایک لوری سنایا کرتے تھے۔ ’چندا ماما دور کے۔ ‘ اور آپ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ چاند میں رات کو بڑے بڑے بلب جلتے ہیں۔ اِسی لیے چاند بہت خوبصورت دِکھائی پڑتا ہے۔ وہاں شیشے کی پریاں رہتی ہیں جو ناچتی ہیں، گاتی ہیں اور رات کو پریاں ستارے بن جاتی ہیں۔ کہا تھا نہ آپ نے۔ ‘‘
اُس نے اس کہانی کو سنا ڈالا جو کہ اکثر میں اس کو بہلانے کے لیے چاند کے متعلق سنایا کرتا تھا۔
’’ اور آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ خدا کی عبادت بھی کرنا جانتی ہیں۔ اگر وہ اللہ میاں کا حکم نہیں مانتی ہیں تو اللہ میاں ان پریوں کو زمین پر پھینک دیتے ہیں جو یہاں تک آتے آتے سفید پتھر بن جاتی ہیں۔ انھیں پتھروں کا تاج محل بنا ہے … مگر بھیا، ابو جان تو باہر کسانوں کو بتا رہے ہیں کہ وہ لوگ … وہ جو چاند پر گئے تھے، ان لوگوں نے واپس آ کر بتایا ہے کہ چاند پر صرف پتھر ہی پتھر ہیں۔ وہاں نہ ہوا ہے اور نہ پانی۔ وہاں کوئی زندہ چیز نہیں ہے، اور وہاں اندھیرا بھی بہت ہے، چاند کی کوئی اپنی روشنی نہیں ہے ؟‘‘
بڑی حیرت سے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے اس نے سوال کیا۔
’’بھیا آپ جھوٹ بولتے ہیں، وہ بھی اتنا جھوٹ! میرے ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ آپ اتنے دنوں تک گناہ کرتے رہے … ایں ایں …‘‘ اور وہ آنکھیں ملتے ہوئے رونے کا بہانا کر کے بولا۔
’’بھیا، مجھے ایک روپیہ دیجیے، نہیں تو میں امی سے شکایت کر دوں گا کہ آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر آپ خوب مار کھائیں گے۔ ‘‘
اور میں نے بات ٹالنے کے لیے کچھ پیسے دے دیئے تاکہ میاں سعید کا بناوٹی رونا بند ہو جائے اور یہ تاثر بھی قائم ہو جائے کہ میں اپنے بلاوجہ کے جھوٹ پر شرمندہ ہوں۔
خیر میاں سعید اُچھلتے کودتے امی کے پاس گئے اور فرمایش کی کہ امی آج پوری سبزی پکائیے۔ آج میرا بہت دل چاہ رہا ہے۔
اُدھر امی نے پوری سبزی پکانے کی تیاری شروع کی کہ ادھر میاں سعید بغیر بتائے کہیں غائب ہو گئے۔
قریب ایک گھنٹہ کے بعد ایک بسکٹ کا بنڈل اور کچھ چاکلیٹ کے ساتھ آئے۔ سب لوگوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد میاں سعید بولے۔
’’امی، آپ ناشتہ دان میں پوری رکھ دیجیے۔ ‘‘
امی نے سوچا کہ شایدسعید میاں پوری سبزی اپنے دوستوں کے لیے لے جائیں گے۔ اس لیے انھوں نے پوری سبزی ناشتے دان میں رکھ دی۔
میاں سعید نے ناشتہ دان، بسکٹ کا بنڈل اور چاکلیٹ ایک پلاسٹک کی باسکٹ میں رکھی۔ کپڑے بدلے، جوتے پہنے، کنگھی کی، ایک ہاتھ میں باسکٹ سنبھالی اور دوسرے ہاتھ سے سلام کر کے یہ کہتے ہوئے چل پڑے۔
’’امی ٹاٹا، بھائی جان ٹاٹا، گڑیا ٹاٹا، میں چاند پر جا رہا ہوں۔ ‘‘
اِس پر امی نے حیرت سے پوچھا۔
’’خیریت تو ہے بیٹے ! چاند پر کیا کرنے جا رہے ہو؟‘‘
اِس کے جواب میں سعید نے بڑے پُر اعتماد لہجہ میں کہا۔
’’یہ دیکھنے کہ کہیں بھائی جان کی طرح ابو جان بھی تو چاند کے بارے میں جھوٹ نہیں بول رہے ہیں۔ ‘‘
٭٭٭
شاہین
شاہین اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ اسے بچپن ہی سے جانوروں سے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شکار پر جایا کرتی تھی۔ وہ اپنے باپ کی بے حد لاڈلی تھی، مگر جب وہ تیرہ سال کی ہوئی تو اس کے والد ایک روز اچانک اِس فانی دُنیا سے کوچ کر گئے۔ اب گھر میں وہ تھی اور اس کی ماں۔ گزارے کا کوئی معقول ذریعہ نہ تھا۔ بس زندگی کے دن جوں توں کٹ رہے تھے۔
ایک بار شہر میں ایک مشہور سرکس آیا۔ شاہین کا سرکس دیکھنے کو بہت جی چاہتا تھا۔ مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ سرکس کے باہر لگی ہوئی تصویروں کو دیکھ کر مایوس اپنے گھر لوٹ آتی تھی۔
ایک دن شاہین روزانہ کی طرح سرکس کے باہر لگی ہوئی جانوروں کی تصویریں دیکھ رہی تھی کہ اندر سے اسے ہاتھیوں کے چنگھاڑنے اور شیروں کے دہاڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ ہاتھیوں اور شیروں کی آوازیں سُن کر بے تاب ہو گئی اور اس نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیا کہ آج وہ سرکس دیکھ کر رہے گی۔
سب ہی چھوٹے بڑے ٹکٹ خرید کر پنڈال میں داخل ہو رہے تھے۔ اسی قطار میں شاہین بھی لگ گئی۔ ٹکٹ کے بغیر ہی اس نے ایک ریلے کے ساتھ اندر گھسنے کی کوشش کی مگر ایک بھاری آواز نے اُسے روک دیا۔ ’’اے لڑکی تمہارا ٹکٹ؟‘‘
’’میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ ‘‘ شاہین نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔
یہ جواب سنتے ہی ٹکٹ چیکر نے مضبوطی سے ہاتھ پکڑ لیا لیکن شاہین نے ایسا زور کا جھٹکا مارا کہ اس کا ہاتھ خود بخود ڈھیلا پڑ گیا۔
اِتنے میں ایک لحیم شحیم آدمی جو سب کچھ دُور سے کھڑا دیکھ رہا تھا، آ کر بولا۔ ’’بے بی… میرا نام دارا ہے۔ میں شیروں کا ماسٹر ہوں۔ کیا بات تھی جو اِس نے تمہارا ہاتھ پکڑ لیا تھا؟‘‘
’’جی۔ ‘‘ وہ ذرا شرمندہ ہوتے ہوئے بولی۔ ’’انکل مجھے جنگلی جانور بہت اچھے لگتے ہیں اور میں …‘‘
’’لیکن تم نے ٹکٹ کے بغیر کیوں داخل ہونے کی کوشش کی؟‘‘
’’میں شرمندہ ہوں لیکن کیا کروں۔ جانوروں کی آوازیں سُن کر میرا دل بے قابو ہو گیا۔ میرے شوق نے مجھے اندھا کر دیا۔ میں بے حد شرمندہ ہوں مجھے معاف کر دیجئے۔ ‘‘ وہ معافی مانگ کر آگے بڑھی ہی تھی کہ دارا نے لپک کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور بڑی نرمی سے بولا۔
بے بی رُکو۔ میں تمہارے شوق سے بہت خوش ہوا۔ مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ تمہیں بھی میری طرح جانوروں سے بہت لگاؤ ہے بچپن میں مجھے بھی جانوروں سے بہت پیار تھا۔ بالکل تمہاری طرح اور آج بھی ہے۔ اچھا آؤ، میں تمہیں منیجر سے پاس دلوا دوں۔
دارا نے اس کو داخلے کا پاس دلا دیا اور یہ کہتے ہوئے شیروں کے کٹہرے کی طرف چل دیا کہ آؤ میں تمہیں اپنے دوستوں سے ملوا دوں۔ ‘‘
دارا شاہین کو شیروں کے پنجرے کے پاس لے گیا اور ہر شیر سے بڑے پیار سے مخاطب ہوا۔ شیروں نے بھی اپنے اپنے انداز میں جواب دیا۔
شاہین شیروں کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی کہ دارا نے اس کے ذوق و شوق کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم ان شیروں کی ماسٹر بن سکتی ہو، اگر تم چاہو تو۔ ‘‘
’’میں …؟‘‘ اُس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
’’ہاں ہاں … تم۔ ‘‘ دارا نے اُسے یقین دلاتے ہوئے کہا۔ ’’اِن شیروں کے لئے جتنی محبت، ہمت اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ تم میں موجود ہے۔ بولو سیکھو گی یہ کام؟‘‘
یہ سُن کر شاہین پھولی نہ سمائی اور بولی۔ ’’انکل آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔ میں بالکل تیار ہوں۔ ‘‘
دارا اس کے دلیرانہ جواب سے بہت خوش ہوا اور اُس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ ’’اچھا آج تم سرکس دیکھو کل گیارہ بجے اپنے کسی سرپرست کو لے کر میرے پاس آ جانا۔ ‘‘
دُوسرے دن شاہین اپنی ماں کو لے کر دارا کے پاس آئی۔ دارا نے اس کی ماں سے ایک فارم پر دستخط کرائے اور شاہین کو شیروں کے پنجرے کے پاس لے گیا اور پوچھا۔ ’’روزانہ کی طرح آج بھی رہرسل ہونے والی ہے۔ کیا تم تیار ہو؟‘‘
‘’جی ہاں ! میں بالکل تیار ہوں۔ ‘‘ شاہین نے جواب دیا۔
دارا اس کو ڈریس روم میں لے گیا اور بولا۔ ’’یہ لو کپڑے … اِنہیں پہن کر جلدی باہر آؤ۔ ‘‘
شاہین نے جلدی سے کپڑے تبدیل کئے اور باہر آ گئی۔ دارا نے اسے ایک ہنٹر تھماتے ہوئے چند ضروری باتیں بتائیں۔
’’بے بی شیروں کے درمیان جانے سے پہلے چند باتیں یاد کر لو۔ ہر شیر تم سے نظر ملائے گا۔ اگر وہ ذرا سا بھی بھانپ گیا کہ تم ڈر رہی ہو یا تم باتیں اس سے کر رہی ہو، لیکن دیکھ کسی اور کی طرف رہی ہو، تو وہ تم پر ٹوٹ پڑنے میں قطعی دیر نہیں کرے گا۔ دُوسری بات یہ ہے کہ تم کو اس بات کا بھی اندازہ لگا لینا ہو گا کہ وہ تم سے خوش ہے یا نہیں۔ ‘‘
دارا نے یہ باتیں بتانے کے بعد لوہے کی چھڑوں سے بنے ہوئے پنجرے کا دروازہ کھلوایا اور شاہین کے ساتھ اُس کے اندر داخل ہو گیا۔ دروازہ کھلتے ہی پانچوں نر اور مادہ شیر اپنی اپنی لال چوکیوں پر چھلانگ لگا لگا کر جا بیٹھے۔ دارا سب سے پہلے موتی سے مخاطب ہوا۔ موتی نے غرّا کر ظاہر کیا کہ وہ خوش ہے۔ دارا نے شاہین کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بے بی… اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھو، لیکن دھیان رکھنا کہ یہ پنجہ تو نہیں اُٹھا رہا ہے۔ اگر ایسا محسوس کرو تو فوراً اپنے ہنٹر کی موٹھ اس کی ناک پر جما دینا کیوں کہ شیر کی ناک بہت نازک ہوتی ہے اور اس عمل سے وہ جلد قابو میں آ جاتا ہے۔ ‘‘
اِس کے بعد ہیرا، جواہر اور راجہ سے شاہین کو ملوایا گیا۔ ان سب نے اُس کی دوستی قبول کر لی لیکن پانچویں شیرنی نے جس کی طرف شاہین نے ذرا کم توجہ دی تھی اپنی جگہ سے چھلانگ لگائی اور دھول اُڑاتی ہوئی شاہین کی طرف جھپٹی۔ مگر دارا نے گرج کر کہا۔ ’’رانی رُک جا۔ ‘‘ اِس آواز کو سن کر رانی وہیں رُک گئی۔ اس کا پنجہ جو اُس نے اُٹھایا تھا مارے غصے کے کانپ رہا تھا۔ دارا نے آہستہ سے شاہین سے کہا۔ ’’رانی گھبرا گئی ہے۔ خطرہ ٹل گیا ہے۔ ‘‘
دارا نے یہ کہتے ہوئے شاہین کے چہرے کا جائزہ لیا لیکن اس کے چہرے پر خوف کے ذرا سے بھی آثار نہ تھے۔ اس نے رانی سے لڑنے کے لیے بائیں ہاتھ میں ہنٹر سنبھال لیا تھا۔ دارا اس کی بہادری دیکھ کو بولا۔
’’اگر خدا نے چاہا تو تم اگلے ہی مہینے اِن سب کی ماسٹر بن جاؤ گی اور ان کے درمیان آ کر تماشا دکھانے لگو گی۔ ‘‘
دارا کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی۔ اگلے ہی مہینے سے وہ شیروں کے درمیان آ کر تماشا دکھانے لگی اور سب سے حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ حملہ آور رانی اب اس کی گہری دوست بن گئی تھی۔ ایک بار راجہ اُس پر جھپٹا تو رانی نے اپنی دوست کی حفاظت کرتے ہوئے جواباً اچھل کر اُس کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسید کر دیا۔
مہینے کی پہلی تاریخ کو دس دس کے نوٹوں کی دو گڈیاں شاہین کو دیتے ہوئے دارا بولا۔ ’’تمہیں روزانہ ایک بار موت کے منہ میں جانا پڑتا ہے۔ اِس کے عوض میں یہ روپے بہت کم ہیں لیکن جلد ہی تمہاری تنخواہ بڑھا دی جائے گی۔ تمہارے کام سے سب ہی لوگ بہت خوش ہیں۔ ‘‘
ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا آئیں اور وہ بولیں۔
’’بیٹی! تو نے جو یہ خطرناک کام شروع کیا ہے اس سے میں رات دن خوف کے مارے کانپتی رہتی ہوں اور ہر وقت دعا کرتی ہوں کہ تو ہمیشہ صحیح سلامت رہے۔ ‘‘
شاہین نے بات کاٹتے ہوئے ماں کو تسلی دی۔
’’ماں … تم گھبراؤ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے روزانہ کچھ گھنٹے موت کے سائے میں گزارنے پڑتے ہیں، لیکن یہ موت کے سائے انسانی سائے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔ یہ جنگلی اور خونخوار جانور انسان کے مقابلے میں کہیں زیادہ نیک اور وفادار ہوتے ہیں۔ یہ للکارتے ہیں، چھپ کر کسی پر وار نہیں کرتے۔ یہ غرّا کر ڈراتے ضرور ہیں، لیکن اپنے فائدے کے لئے کسی کی زندگی سے نہیں کھیلتے۔ ‘‘
٭٭٭
اَب
ایک بار کا واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ کے دِل میں یہ خیال آیا کہ کتنا اچھا ہو اگر مجھے یہ معلوم ہو جایا کرے کہ :
۱۔ صحیح کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
۲۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے سخت ضرورت ہے ؟
۳۔ اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے ؟
دل میں خیال آتے ہی بادشاہ نے اپنی پوری سلطنت میں اعلان کرا دیا کہ جو شخص بادشاہ کے ان تین سوالوں کے مطمئن کر دینے والے جواب دے گا، اس کو انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا جائے گا۔
سلطنت کے بڑے بڑے عالم و فاضل، شاعر و ادیب، فلسفی اور ذہین و عقلمند لوگ بادشاہ کی خدمت میں اپنے اپنے جواب لے کر حاضر ہوئے، لیکن کوئی بھی شخص بادشاہ کو اپنے جوابات سے مطمئن نہ کر سکا۔ آخر کار بادشاہ نے طے کیا کہ وہ اُس بزرگ درویش کی خدمت میں حاضری دے گا، جو ایک سُنسان جنگل میں رہتا ہے اور صرف عام آدمیوں سے ہی ملاقات کرتا ہے۔
بادشاہ نے اُس درویش سے ملاقات کرنے کی غرض سے عام آدمیوں والے کپڑے پہنے اور اُس کی معمولی سی جھونپڑی سے کچھ دور ہی اپنے گھوڑے سے اُتر پڑا اور اپنے سپاہیوں کو چھوڑ کر اُس سے ملنے کے لیے اکے لیے چل دیا۔
جب بادشاہ جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس وقت وہ درویش اپنی جھونپڑی کے سامنے پڑی ہوئی زمین کی گُڑائی کر رہا تھا۔
بادشاہ کو دیکھتے ہی اُس نے اپنی عادت کے مطابق پہلے سلام کیا اور پھر وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
بادشاہ نے درویش کی خدمت میں بڑے ادب سے عرض کیا۔
’’اے بزرگ درویش! میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کے جواب لینے آیا ہوں۔ اور وہ یہ ہیں :
۱۔ صحیح کام کرنے کا صحیح وقت کیا ہے ؟
۲۔ وہ کون لوگ ہیں جن کی مجھے بہت سخت ضرورت ہے ؟
۳۔ اور وہ کون سے معاملات ہیں جن پر فوری توجہ دینی چاہیے ؟
درویش نے بادشاہ کے تینوں سوال بہت غور سے سنے لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ بلکہ پھر زمین گوڑنا شروع کر دی۔
آپ تھک گئے ہوں گے، لائیے پھاؤڑا مجھے دے دیجیے۔ تھوڑی دیر آپ کا کام میں کروں گا۔ ‘‘ بادشاہ نے درویش سے پھاؤڑا لیتے ہوئے کہا۔
’’شکریہ۔ ‘‘ درویش نے یہ کہہ کر پھاؤڑا بادشاہ کو دیا اور خود زمین پر بیٹھ گیا۔
جب بادشاہ دو کیاریاں گوڑ چکا تو اس نے پھر اپنے سوال دوہرائے، لیکن درویش نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا بلکہ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور بادشاہ سے پھاؤڑا لینے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے صرف اتنا کہا۔
’’ اب تم دَم بھر آرام کرو اور مجھے تھوڑا کام کرنے دو۔ ‘‘
لیکن بادشاہ نے درویش کو پھاؤڑا نہیں دیا اور زمین کی گڑائی کرتا رہا۔ اِس طرح وقت گزرتا گیا۔ دھیرے دھیرے شام ہو گئی۔ انجام کار بادشاہ نے زمین پر آخری پھاؤڑا مارتے ہوئے کہا۔
’’بزرگ درویش! میں آپ کے پاس اپنے تین سوالوں کے جواب لینے آیا تھا۔ اگر آپ میرے سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے تو کہہ دیجیے تاکہ میں اپنے گھر لوٹ جاؤں۔ ‘‘
بزرگ نے جواب دینے کی بجائے پیچھے مُڑ کر دیکھا اور وہ بولے۔
’’دیکھو، کوئی آدمی اِدھر ہی بھاگا ہوا آ رہا ہے۔ آؤ دیکھیں، وہ کون ہے ؟‘‘
بادشاہ نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ ایک آدمی جنگل سے جھونپڑی کی طرف بھاگا آ رہا ہے۔ وہ شخص اپنے ہاتھوں سے اپنا پیٹ دبائے ہوئے ہے اور خون اُس کے ہاتھوں کے نیچے سے بہہ رہا ہے۔ جھونپڑی کے قریب آ کر وہ شخص کراہتا ہوا بادشاہ کے پاس آیا اور زمین پر گر کر بے ہوش ہو گیا۔
بادشاہ اور درویش نے اُس آدمی کے زخم کو غور سے دیکھا۔ اس کے پیٹ پر بڑا سا زخم تھا۔ بادشاہ نے جہاں تک ہو سکا اس کے زخم کو اچھی طرح صاف کیا اور اس پر اپنے رو مال اور درویش کے انگوچھے سے پٹی باندھی۔ بڑی مشکل سے اس کا خون بہنا بند ہوا۔
اب سورج ڈوب چکا تھا۔ ٹھنڈک بھی بڑھ چلی تھی۔ اس لیے بادشاہ نے درویش کی مدد سے زخمی کو جھونپڑے کے اندر پہنچا دیا اور اس کو چار پائی پر لٹا دیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ زخمی شخص سو گیا۔
بادشاہ بھی دِن بھر کی دوڑ دھوپ اور کام کی وجہ سے اِتنا تھک گیا تھا کہ وہ دہلیز پر ہی سو گیا۔
صبح جب بادشاہ کی آکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ چارپائی پر پڑا ہوا زخمی اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں سے اُسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے۔
’’مجھے معاف کر دیجیے، میرے آقا۔ ‘‘ اُس زخمی نے بادشاہ سے التجا کی۔
’’میں تم کو نہیں جانتا اور جب جانتا نہیں تو معاف کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ بادشاہ نے جواباً کہا۔
’’ میں آپ کا دشمن ہوں۔ آپ نے میرے بھائی کو قتل کرا دیا تھا اور اس کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ میں نے عہد کیا تھا کہ میں آپ کو قتل کر دوں گا۔ آج جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ درویش سے اکے لیے ملنے گئے ہیں تو میں نے طے کیا کہ آپ جب واپس لوٹیں گے تو میں آپ کو راستے میں ہی قتل کر دوں گا، لیکن پورا دن گزر گیا اور آپ واپس نہیں لوٹے تو میں آپ کا پتہ لگانے کے لیے اپنے ٹھکانے سے باہر آیا۔ جلد ہی آپ کے محافظ سپاہیوں سے میری مڈبھیڑ ہو گئی۔ انھوں نے مجھے پہچان لیا اور مجھے زخمی کر دیا۔ میں ان سے بچ کر بھاگ نکلا، لیکن اگر آپ میرے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو میں زیادہ خون نکل جانے کی وجہ سے مر جاتا۔ میں نے آپ کو قتل کرنا چاہا، لیکن آپ نے میری جان بچا لی۔ اب اگر میں زندہ رہا تو ساری عمر غلام بن کر آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ مجھے معاف کر دیجیے۔ ‘‘
بادشاہ دشمن سے اتنی آسانی سے صلح کر کے اور اُسے دوست بنا کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اُس کو معاف ہی نہیں کیا، بلکہ اُس سے یہ بھی کہا۔
’’میں اپنے خادموں اور شاہی طبیب کو تمہاری دیکھ بھال اور علاج کے لیے بھیج دوں گا اور تمہاری جائیداد بھی واپس کر دوں گا۔ ‘‘
زخمی آدمی سے رخصت ہو کر بادشاہ جھونپڑی سے باہر آیا اور درویش کو اِدھر ادھر دیکھنے لگا کیوں کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر اپنے سوالوں کے جواب حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔
درویش باہر اپنے گھٹنوں پر جھُکا ہوا ان کیاریوں میں بوائی کر رہا تھا جو ایک روز پہلے گوڑی اور بنائی گئی تھیں۔
بادشاہ درویش کے پاس پہنچا اور بولا۔
’’بزرگوار! میں آخری بار اپنے سوالوں کے جواب کی درخواست کرتا ہوں۔ ‘‘
’’تم جواب پا چکے ہو، لیکن شاید تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ خیر میں تفصیل سے بتاتا ہوں۔ اگر تم نے کل میری بزرگی پر ترس کھا کر ان کیاریوں کو میرے لیے گوڑا نہ ہوتا اور اپنے راستے چلے گئے ہوتے تو وہ آدمی تم پر حملہ کر دیتا، اس لیے وہ وقت بہت اہم تھا جب تم کیاریاں گوڑ رہے تھے۔ میں بہت اہم آدمی تھا اور میرے ساتھ نیکی کرنا سب سے اہم کام تھا۔
بعد کو جب وہ آدمی بھاگ کر ہم لوگوں کے پاس آیا تو وہ بڑا اہم وقت تھا کیونکہ تم اس کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اگر تم اس کے زخموں پر پٹی نہ باندھتے تو وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لیے وہ اہم آدمی تھا اور جو کچھ تم نے اُس کے ساتھ کیا وہ بہت اہم کام تھا۔
اس لیے یاد رکھو کہ ایک ہی وقت بہت اہم ہے اور وہ ہے ’’اب‘‘ یعنی موجودہ وقت۔ اس لیے کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں کوئی موقع اور کوئی طاقت حاصل رہتی ہے۔
’’سب سے اہم آدمی وہ ہے جس کے ساتھ تم ہو، اِس لیے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ پھر کبھی اُس سے معاملہ پڑے گا یا نہیں …
اور سب سے اہم کام یہ ہے کہ اس کے ساتھ نیکی کی جائے، کیوں کہ انسان کو اسی مقصد سے یہ زندگی عطا ہوئی ہے۔‘‘
اِتنا کہہ کر درویز پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
٭٭٭
ٹکٹ ٹکٹ ٹکٹ ؟
ٹکٹ …؟
ٹکٹ چیکر نے ہمارے پاس بیٹھے ہوئے مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے کے بعد ہم دونوں سے بھی ٹکٹ مانگے۔ اس پر رضوان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا۔
’’جی ہم لوگ ایم۔ اے رضوی صاحب کے بھائی ہیں۔ ‘‘
’’آئی سی، تو آپ دونوں ایم۔ اے رضوی کے بھائی ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی آپ دونوں سے مل کر۔ … اَب آپ برائے مہربانی اپنے ٹکٹ دِکھانے کی زحمت کیجئے۔ اگلا اسٹیشن آنے والا ہے اور مجھے دوسرا ڈبہ بھی چیک کرنا ہے۔ ‘‘ ٹی۔ سی۔ نے سخت لہجے میں کہا۔
’’ارے آپ تو مذاق کرنے لگے۔ ـ‘‘رضوان نے سنجیدگی سے کہا۔
’’جی نہیں جناب، مذاق کرنے کے لئے سرکار تنخواہ نہیں دیتی ہے۔ میرا وقت برباد مت کیجئے۔ ذرا جلدی سے ٹکٹ دکھائیے۔ ‘‘ ٹی سی کا لہجہ ایک دم سخت ہو گیا۔
اب تو رضوان گھبرایا۔ وہ مِنّت کرتے ہوئے بولا۔ ’’میں سچ کہتا ہوں۔ ہم دونوں رضوان صاحب کے بھائی ہیں۔ ‘‘
’’وہ تو میں بہت دیر پہلے سن چکا ہوں۔ ‘‘ ٹی۔ سی نے اپنی جیب سے رسید بک نکالتے ہوئے کہا۔
’’آپ دونوں کو کرائے کے علاوہ جرمانہ بھی دینا پڑے گا۔ بولیے کہاں تک جانا ہے ؟‘‘ ٹی سی نے رسید پر قلم چلاتے ہوئے دریافت کیا۔
’’دِلّی…‘‘
رضوان نے بڑی بے دلی سے کہا اور میں نے خاموشی سے پیسے ادا کر دیے۔
’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ٹکٹ لے لو، لیکن تم پر تو نقشے بازی سوار رہتی ہے ! کرائے سے زیادہ پیسے دینے پڑے اور جو اتنے آدمیوں کے سامنے بے عزتی ہوئی، وہ الگ۔ ‘‘ میں غصہ سے بڑبڑانے لگا۔ رضوان بھی غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ وہ ایک دم پھٹ پڑا۔
’’اَب بھلا میں اس کے لئے کیا کروں۔ یہ تو اتفاق ہے۔ ورنہ میں اکثر رضوی صاحب کا نام بتا کر نکل جاتا ہوں۔ لگتا ہے یہ اس لائن پر نیا نیا آیا ہے !‘‘
’’یہ رضوی صاحب کون ہیں۔ ؟ اُن کو تم کیسے جانتے ہو؟‘‘
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے رضوی صاحب کے بارے میں جاننا چاہا۔
’’وہ میرے ایک دوست کے بڑے بھائی ہیں۔ میں نے آج تک ان کی شکل نہیں دیکھی ہے۔ صرف نام سے واقف ہوں۔ ذرا ان صاحب کا نام تو یاد کر لوں تاکہ موقع ملنے پر ان صاحب کی خاطر تواضع کر سکوں۔ ‘‘
رضوان نے جذبات کی رو میں بہہ کر ٹی سی کو سبق سکھانے کا منصوبہ بنایا اور اس نے اپنی قمیص کی جیب سے رسید نکال کر ٹی سی کا نام جاننے کے لئے اُس کے دستخط پڑھنے کی کوشش کی۔
وہ رسید کو آنکھیں پھاڑے گھور تا رہ گیا کیونکہ اس پر واضح طور پر لکھا تھا… ’’ایم۔ اے۔ رضوی۔ ‘‘
٭٭٭
شرط
’’کیا میں اندر آ سکتا ہوں ؟‘‘
گھر کے دروازے پر کھڑے ایک اجنبی نوجوان نے پوچھا۔
’’جی ہاں، تشریف لائیے۔ ــ‘‘کرسی سے اٹھتے ہوئے میں نے کہا۔
’’آداب عرض ہے جناب، کیا آپ ہی کا نام رئیس صدیقی ہے ؟‘‘
اجنبی نے دروازے کے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’جی ہاں قبلہ، ہے تو اسی نا چیز کا نام، لیکن جناب یہ بندہ صرف نام کا رئیس ہے۔ خیر فرمائیے، کیسے زحمت کی آپ نے ؟ اور آپ کا اسم مبارک؟‘‘
’’جناب میرا نام رضوان احمد ہے۔ افسر علی صاحب نے آپ کے نام ایک خط بھیجا ہے۔ ‘‘
رضوان نے میری طرف خط بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے خط کھول کر پڑھنا شروع کیا۔
’’میاں رئیس خوش رہو…
ارے بھئی کہنا یہ ہے کہ میرے ایک دوست جناب رضوان صاحب تفریح کی غرض سے لکھنؤ تشریف لا رہے ہیں۔ ذرا تم ان کو ٹھیک سے لکھنؤ گھما دینا۔
نوٹ: اور ہاں میں خاص بات بتانا تو بھول ہی گیا۔ بھئی یہ حضرت شرط لگانے میں ماہر ہیں۔ تم ذرا محتاط رہنا۔ کیوں کہ تمہاری بھی شرط لگانے کی بہت بُری عادت ہے !
دُعا گو
افسر علی، دہلی
’’ارے ابھی تک آپ کھڑے ہیں۔ تشریف رکھئے۔ ‘‘ خط ایک طرف رکھتے ہوئے میں نے کہا۔
’’بیٹا ثمنؔ! ذرا دو کپ چائے اپنی امی سے بنوا کے لائیے۔ ‘‘
’’ہاں رضوان صاحب! سب سے پہلے تو آپ چائے نوش فرمائیے۔ پھر دوسری باتیں ہوں گی۔ ویسے آج بڑی گرمی پڑ رہی ہے۔ ‘‘ میں نے کہا
’’جی ہاں گرمی تو آج واقعی بہت زیادہ ہے۔ ‘‘ رضوان بولا۔
’’لیجئے جناب۔ ‘‘
چائے کی پیالی میاں رضوان کی طرف بڑھاتے ہوئے میں نے کہا۔
’’شکریہ!‘‘
رضوان نے کپ سنبھالتے ہوئے کہا۔
’’رئیس بھائی ایک بات عرض کروں ؟ بات کچھ ایسی ہے کہ اسے گستاخی تصور کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے کہتے ہوئے ڈر سا لگ رہا ہے۔ ‘‘
چائے پیتے ہوئے رضوان نے کہا۔
’’ہاں ہاں فرمائیے کیا بات ہے ؟ آپ بلا تکلف فرمائیں۔ ڈر نے کی کیا بات ہے۔ ‘‘ میں نے ہمت بڑھائی۔
’’جناب آپ کے دائیں کان میں کوئی چیز بھری ہوئی ہے، غالباً میل ہے !‘‘
میرے دائیں کان کی طرف دیکھتے ہوئے رضوان نے کہا۔
’’کان میں کچھ ہے …؟ نہیں تو…! کان تو بالکل صاف ہیں میرے !‘‘ اپنے داہنے کان میں اُنگلی ڈالتے ہوئے میں نے کہا۔
’’رئیس صاحب واقعی آپ کے کان میں کچھ ہے !‘‘
چائے کی پیالی رکھتے ہوئے میاں رضوان نے کہا۔
’’بھئی واہ! رضوان صاحب آپ بڑے دلچسپ آدمی ہیں۔ ‘‘ میں بولا۔
’’جناب یقین کیجئے کہ آپ کے کان میں ضرور کچھ ہے۔ مجھے یہاں سے صاف دکھائی دے رہا ہے۔ لیجئے میں 100روپے کی شرط لگانے کو تیار ہوں۔ ‘‘
رضوان نے میری بات کاٹتے ہوئے اپنے کرتے کی جیب سے 100کا نوٹ نکالا۔
’’اگر آپ کو اپنے اوپر اتنا ہی اعتماد ہے تو میں بھی شرط لگاتا ہوں۔ ‘‘
میں نے 100روپے میز پر رکھ کر اپنا دایاں کان ان کی طرف کرتے ہوئے کہا۔
’’ایں ! کان میں تو کچھ نہیں ہے، دور سے نہ جانے مجھے کیا دکھائی دے رہا تھا!‘‘ کرسی پر بیٹھتے ہوئے رضوان نے کہا۔
میں نے مسکراتے ہوئے 100کا نوٹ اپنی جیب میں رکھا۔ لیکن چند ہی لمحوں بعد میں شدت سے سوچنے لگا…
ضرور میرے کان میں کچھ ہے۔ ورنہ خواہ مخواہ رضوان 100روپے کی شرط کیوں لگاتا؟ میں کمرے میں رکھے قد آدم آئینہ کے سامنے آیا اور ترچھے ہو کر پہلے دایاں، پھر بایاں کان غور سے دیکھنے لگا۔ لیکن دونوں کان بالکل صاف تھے۔
میں نے اپنی بیوی ثمینہ سے کہا کہ ذرا غور سے میرے کانوں کے اندر کی طرف دیکھو کہ کیا کان میں میل ہے ؟
’’کچھ بھی تو نہیں ہے کان میں۔ ‘‘ ثمینہ نے کان دیکھتے ہوئے کہا۔ بہرحال بات آئی گئی ہو گئی۔ رضوان بھی لکھنؤ گھوم پھر کر دلّی چلے گئے۔
ایک دن میں نے افسر علی صاحب کو خط لکھا اور ساتھ ہی ساتھ اس دلچسپ واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ غالباً ایک ہفتے بعد خط کا جواب آیا جس میں لکھا تھا۔
میاں رئیس خوش رہو!
آج ہی تمہارا خط ملا۔ بھئی کیا بتاؤں خط پڑھ کر میاں رضوان پر غصہ بھی آیا اور ہنسی بھی۔ تم سوچ رہے ہو گے کہ تم نے شرط جیت لی حقیقت یہ ہے کہ تم اور میں یعنی دونوں شرط ہار گئے۔ سچ پوچھو تو اس نے شرط پر شرط لگائی تھی۔
در اصل قصہ یہ ہے کہ میاں رضوان نے یہاں سے لکھنؤ روانہ ہوتے وقت مجھ سے 100روپے کی شرط لگائی تھی کہ جس دن وہ تم سے ملاقات کرے گا، اسی دن وہ تمہارا دایاں کان اینٹھے گا۔
٭٭٭
اپریل فول بنایا
ابھی آدھی رات گزری تھی کہ نہ جانے کیوں اور کیسے میری آنکھ کھل گئی۔
میں نے بہت کوشش کی کہ سو جاؤں، مگر نیند تھی کہ کسی طرح آنے کو راضی نہیں تھی۔
میں نے لائٹ آن کی اور گھڑی دیکھی تو وہ صبح کے چار بجا رہی تھی۔ اچانک لیٹے لیٹے میں اُٹھ بیٹھا اور نئی نئی شرارتیں ذہن میں جنم لینے لگیں۔ بہت غور کرنے کے بعد میں نے طے کیا کہ اس شرارت پر عمل کرنا چاہئے۔ بس پھر کیا تھا۔ ’’چور چور … چور‘‘ چلّاتے ہوئے میں اپنی امی کے پلنگ پر منہ کے بل دھڑام سے گِر پڑا۔ آواز اتنی تیز تھی کہ ان کے ساتھ ساتھ۔ ۔ ۔ بہن بھائی بھی جاگ گئے اور ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چونکہ گھر پر والد صاحب نہیں تھے اس لئے ذرا امی بھی ڈریں اور فوراً دونوں کمروں کی لائٹ روشن کی اور میرے کمرے کا جائزہ لیا۔ میرے کمرے میں چور تو چور ایک چوہا بھی نظر نہ آیا۔
’’کہاں چور ہے۔ جو چور چور چلّا رہے تھے ؟‘‘ امی بڑبڑائیں۔
وہ سوالات پہ سوالات کئے جا رہی تھیں اور میں بالکل خاموش اور گُم سُم بیٹھا ہوا تھا۔
اس طرح چند لمحے گزر گئے۔ اچانک میں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اب تو سب لوگ اور ڈر گئے۔
’’کیا بات ہے رئیس؟‘‘ امی نے مجھے جھنجھوڑا۔
’’ارے واہ بھئی واہ۔ ۔ ۔ آپ لوگ اس قدر ڈرپوک ہیں۔ میں نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا۔
’’بھیا ڈرنے کی تو بات ہے۔ ‘‘ میری چھوٹی بہن ناہید بولی۔
’’ارے پگلی آج پہلی اپریل ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’اچھا تو آج آپ نے فرسٹ اپریل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم سب کو فول (بیوقوف) بنایا ہے۔ ‘‘ میری بہن فردوس بولی۔
’’جی ہاں بہت دیر کے بعد آپ سمجھیں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے میں اپنے کمرے کی طرف لپکا تاکہ امی میری خاطر تواضع سے باز رہیں۔
ابھی صبح ہوئی تھی کہ میں نے اپنی شرارتوں کا نشانہ بنانے کے لئے چند دوستوں کو منتخب کیا۔ میں نے اپنے دوست عاصم کے ذریعے اپنے محلے کے ہوٹل کے مالک قمر کو یہ اطلاع دی کہ ممبئی سے ٹرنک کال آیا ہے۔ جلدی آ جاؤ۔
قمر صاحب پوری وغیرہ چھوڑ کر میرے پاس بھاگے ہوئے آئے۔
قمر بھائی وقت ختم ہو رہا تھا اس لئے آپ کے بھائی صاحب نے آپ کے نام ایک پیغام لکھوانے کے بعد فون رکھ دیا۔
میں نے ایک کاغذ قمر صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
انھوں نے جلدی سے پرچہ کھولا۔ ایں فرسٹ۔ ۔ اپریل۔ ۔ ۔ فول‘‘ انھوں نے پڑھتے ہوئے میری طرف دیکھا۔
’’قمر بھائی گستاخی معاف آج فرسٹ اپریل ہے۔ ‘‘ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
پھر میں نے سوچا کہ بھئی کیوں نہ آج کسی رشتہ دار کو فول بنایا جائے چنانچہ میں دوڑا دوڑا اپنی ممانی کے یہاں پہنچا۔ ’’ممانی! ممانی! میری امی کی بہت طبیعت خراب ہے جلدی چلئے آپ کو بلایا ہے۔ ‘‘
ایکٹنگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔
ممانی ہائے اللہ کرتے ہوئے ڈلی وغیرہ کا بٹوہ سنبھالنے لگیں۔ میں موقع پا کر اسی بیچ امی کے پاس آیا اور ہانپتے ہوئے بولا۔
’’امی۔ امی۔ ممانی کو دورہ پڑ گیا۔ جلدی چلئے۔ ماموں ڈاکٹر کو بلانے گئے ہیں۔
’’ارے !۔ ۔ ۔ اچھا جلدی رکشہ بلا لاؤ۔ امی نے حکم دیا۔
میں رکشہ لے کر آیا۔ ابھی ہم بیٹھ ہی رہے تھے کہ ممانی کا رکشہ آ گیا۔ دونوں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اور میں ’’اپریل فول‘‘ بنایا کہہ کر بھاگا۔
پھر میں سامنے ٹیلر ماسٹر صاحب کے پاس گیا اور بولا۔
بھائی نے آپ کو یاد فرمایا ہے شیروانی کی ناپ لینا ہے۔
ماسٹر صاحب نے اپناسامان سنبھالا اور رشید بھائی کے پاس آئے۔
’’بھئی جلدی کرو، ہمیں ایک کام سے جانا ہے۔ ‘‘ چونکہ دونوں گہرے دوست ہیں، اس لئے وہ بلا تکلف بولے۔
’’کیا مطلب ماسٹر صاحب؟‘‘ رشید بھائی ذرا فکر مند ہوکے بولے۔
’’بھئی شیروانی کی ناپ دو گے یا نہیں ؟‘‘ ماسٹر صاحب بیزار ہوتے ہوئے بولے۔
رشید بھائی نے میری طرف دیکھا۔ میں ہنسی نہ روک سکا۔ رشید بھائی سمجھ گئے۔
’’بھائی جائیے … آج فرسٹ اپریل ہے۔ رئیس نے آپ کو فول بنایا ہے۔
ماسٹر صاحب کھسیاگئے مگر بے چارے اپنی جھینپ مٹانے کے لئے قہقہہ لگانے لگے۔
قریب دو بج رہے ہوں گے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی کو بیوقوف نہ بنایا جائے … لوگ بہت بن چکے۔ چنانچہ میں پڑھنے بیٹھ گیا۔
قریب ایک گھنٹہ کے بعد دروازے کی گھنٹی بجی میں باہر آیا تو شکیل کو کھڑا پایا۔ ارے بھئی خیریت تو ہے کہئے کیسے آنا ہوا؟ میں نے پوچھا۔
’’تمہارے رشید بھائی نے رام بابو کانپور والوں کے پیسے پوچھے ہیں۔ اس پرچے میں ان کا حساب نوٹ کر دو۔
شکیل نے کاغذ بڑھاتے ہوئے کہا۔
میں نے پرچہ لیا اور اس کو کھولتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
’’تمہارا چچا …!‘‘
اچھا تو میاں نے مجھے فول بنایا ہے۔ صبح سے میں لوگوں کو بنا رہا ہوں۔ یہ میاں مجھ کو بنا گئے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ ۔ ۔ میرا نام بھی رئیس ہے۔ ‘‘
میں فوراً باہر آیا تاکہ کسی طرح سے شکیل کو فول بناؤں۔ مگر شکیل وہاں سے جا چکا تھا، اور میں دن پھر افسردہ رہا کہ صبح سے تو میں لوگوں کو اپریل فول بنا رہا تھا اور وہ نامراد مجھے فول بنایا گیا۔
٭٭٭
ریشمی جنگ
تاریخِ عالم میں ہر جنگ کسی نہ کسی مقصد کے لئے لڑی گئی ہے کبھی کوئی جنگ بادشاہت کے لئے، کبھی زمین کے لئے، کبھی دشمنی کی بنا پر، کبھی کسی سے اِنتقام لینے کی غرض سے، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی نسلی برتری کے لئے، تو کبھی عورت کے لئے اور کبھی مال و دولت کے لئے۔
لیکن۱۹؍اگست۳۸۸اء کو انگلینڈ میں ایک ایسی جنگ لڑی گئی جو صرف ’’ایک ریشمی رومال‘‘ کے لئے ہوئی تھی۔
تقریباً چھ سو سال قبل کی یہ خونریز داستان در حقیقت۶؍ جولائی۱۳۸۸ء میں اُس وقت شروع ہوئی، جب اس کاٹ لینڈ کا ایک طاقتور جاگیردار ’’ڈگلس‘‘ سیر و تفریح کے خیال سے ایک مختصر سی فوج کے ساتھ انگلینڈ میں داخل ہوا۔
انگلینڈ میں اس وقت رِچرڈ دوئم کی حکومت تھی۔ ان دنوں انگلینڈ میں فرانس کے حملہ کا خطرہ تھا اور اِس اِمکانی حملہ کے پیشِ نظر پورے ملک میں ایک زبردست انتشار پھیلا ہوا تھا۔
چنانچہ ڈگلس کی کسی جگہ مزاحمت نہیں کی گئی۔ اس نے ایک کے بعد ایک کئی قلعے فتح کر لئے، اور بڑھتے بڑھتے مقام ’’نیوکیسل‘‘ کی سرحد تک پہنچ گیا۔
ڈگلس کا مقصد ہر گز توسیعِ سلطنت نہیں تھا۔
’’نیوکیسل‘‘ نامی قلعہ کے دروازے پر اُس کی ملاقات ایک جاگیردار ’’ہنری پرسی‘‘(Henry Persy)سے ہوئی۔ وہ اپنی فوج کے ساتھ وہاں موجود تھا۔
ہنری پرسی نے آگے بڑھ کر ڈگلس سے نیوکیسل آنے کا سبب پوچھا۔
’’ڈگلس نے اس کی بات کا جواب دینے سے قبل انگریز جاگیردار ’’ہنری پرسی‘‘ کا ریشی رو مال چھین لیا اور بڑی بے نیازی سے کہا۔
’’بس۔ ۔ ۔ یوں ہی چلا آیا تھا۔ ‘‘
’’اتنا کہہ کر ڈگلس نے اپنی فوج کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا۔ اس کاٹ لینڈ کی فوج نے نیوکیسل سے بتیس۳۲ میل دور ایک قصبہ کے نزدیک پڑاؤ ڈالا۔
سورج غروب ہو چکا تھا اور آہستہ آہستہ رات کی گہری تاریکی نے پوری فضا کو اپنے دامن میں سمیٹ لیا تھا۔ ڈگلس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ انگریز جاگیر دار ’’ہنری پرسی‘‘ کی فوج اس کے تعاقب میں آ رہی ہے۔
در اصل پرسی کو یہ بات بہت ناگوار گزری تھی کہ ڈگلس نے اس کا ’’ریشمی رومال‘‘ چھین لیا تھا۔
ہنری پرسی فیصلہ کر چکا تھا کہ وہ ہر قیمت پر اپنا ریشمی رو مال ڈگلس سے واپس لے گا۔
بہر حال ۱۵؍اگست۱۳۸۸ء کو ہنری پرسی اپنی فوج کے ساتھ ڈگلس کی افواج کے پڑاؤ کے بہت نزدیک پہنچ گیا۔ اس وقت ڈگلس کو یہ احساس بھی نہ تھا کہ ہنری پرسی کی فوج اس پر حملہ کرنے آ رہی ہے۔
ادھر ہنری پرسی نے اپنی فوج کے سامنے ایک پر جوش تقریر کی۔ اس نے کہا۔ ’’اس کاٹ لینڈ کے اس جاگیردار نے میرا رو مال چھین کر اس نے میرا ہی نہیں بلکہ تم سب کا مذاق اُڑایا ہے۔ ‘‘
’’اب میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ ڈگلس سے اپنا ریشمی رو مال واپس لے کر رہوں گا۔
اس لئے میرے ساتھیو… آگے بڑھو اور ڈگلس سے میرا رو مال چھین لو۔ ‘‘
ہنری پرسی کی اس تقریر کو اس کے سرداروں اور فوج کے سپاہیوں نے پسند نہیں کیا۔
کیونکہ صرف ایک رو مال کے لئے جنگ نہ انہوں نے کبھی پہلے سنی تھی، اور نہ کبھی سوچی تھی۔
انہوں نے بے دِلی سے ہنری پرسی سے کہا۔ ۔ ۔
’’اگر یہ حملہ رات کی تاریکی میں کیا جائے تو زیادہ مناسب رہے گا۔ ‘‘
ہنری پرسی نے اپنی فوج کی یہ بات مان لی۔
ہنری پرسی کے ساتھ اس وقت تین ہزار فوج تھی اور ڈگلس کے پاس صرف ایک ہزار سپاہی تھے۔
ہنری کی فوج یہ سمجھتی تھی کہ وہ اپنی اکثریت اور ڈگلس کی بے خبری کی وجہ سے پہلے ہی حملہ میں ڈگلس کا خاتمہ کر دے گی، لیکن یہ اس کی خوش فہمی تھی۔
ڈگلس کو ہنری پرسی کے حملہ کی خبر مل چکی تھی اور وہ حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے بالکل تیار کھڑا تھا۔
ہنری پرسی کی تین ہزار فوج جیسے ہی خیموں کے قریب آئی۔ اُس پر تیروں کی بارش شروع کر دی گئی اور سینکڑوں اس کاٹس تلواریں تان کر انگریزوں پر ٹوٹ پڑے۔
اِس طرح ایک غیر مہذب عمل نے ایک غیر ضروری جنگ کو جنم دیا۔
کبھی کبھی ہماری کوئی بُری بات اتنی بُری ہوتی ہے کہ اس سے ایک اور بُری بات ہمارے لئے مشکل پیدا کر دیتی ہے۔
٭٭٭
خانِ خاناں اور اُن کی سخاوتیں
بہت کم ہندی اور اردو جاننے والے ایسے ہوں گے جو عبد الرحیم خانِ خاناں کے نام سے نا واقف ہوں۔ عبد الرحیم خانِ خاناں، ہمایوں کے بہنوئی اور اکبر کے پھوپھا اور بیرم خاں ترکمان خانِ خاناں کے بیٹے تھے، لیکن ان کے والد بزرگوار مکہ معظمہ جاتے ہوئے راستے میں قتل کر دیے گئے اور وہ چار برس کی عمر میں یتیم ہو گئے۔ یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ اکبر نے بیرم خاں کی خدمات کے پیشِ نظر عبدالرحیم کی پرورش اور تعلیم و تربیت اپنے ذمے لے لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت جلد اپنے بہادر باپ کے نمایاں عکس نظر آنے لگے۔
رحیم نے جنگی قواعد کسی ملیٹری اسکول میں نہیں سیکھے تھے، لیکن وہ فنِ سپہ گری سے اپنی چھوٹی سی عمر میں ہی کافی واقف ہو گئے تھے۔ جب اکبر نے گجرات پر چڑھائی کی تو ’’نشانِ لشکر‘‘ اس چودہ برس کے لڑکے کے ہاتھ میں تھا۔ آگے چل کر عبدالرحیم ایک ماہر سپہ سالار اور عربی، فارسی، سنسکرت، ترکی، برج اور اودھی زبان کے زبردست عالم اور ہندی زبان کے مقبولِ عام شاعر ہوئے۔ وہ ہندی شاعروں کا بڑا احترام کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ گوسوامی تلسی داس سے ان کے بڑے اچھے مراسم تھے۔
ہندی میں ان کی شعری تخلیقات کا مجموعہ ’’رحیم رتناولی‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
عبدالرحیم نے زبان فارسی میں بھی لکھا ہے۔ وہ اپنی خوبیوں کے باعث نہ صرف عوام میں ہر دلعزیز تھے بلکہ وہ اکبر کے بھی نورِ نظر تھے۔ اکبر ان کو پدرانہ شفقت سے فرزندِ برادر اور بے تکلفی میں یارِ وفادار کے نام سے مخاطب کرتے تھے۔ اکبر ان کی شخصیت سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے عبدالرحیم کو اپنے بیٹے جہانگیر کا اتالیق مقر ر کیا۔ اس کے علاوہ اکبر نے ان کو خانِ خاناں کے خطاب سے نوازتے ہوئے ’’پنچ ہزاری‘‘ منصب عطا کیا اور بعد میں ’’سپہ سالارِ اعظم‘‘ اور وزیر بنایا۔ یہ تھا اکبر کے نورتنوں میں سے ایک رتن عبد الرحیم خانِ خاناں کا سرسری تعارف۔
آگے ہم ان کی زندگی کی پانچ حقیقی کہانیاں سناتے ہیں جو ان کی سخاوت کو ظاہر کرتی ہیں۔
پھل دار درخت
ایک روز خانِ خاناں اپنی مخصوص سواری پر بیٹھے کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک شریر بچے نے ان کی سواری پر ایک پتھر مارا۔ سپاہی دوڑے اور اسے پکڑ کر لے آئے لیکن رحیم نے اسے سزا دینے کے بجائے کچھ روپے دینے کا حکم دیا۔ اس پر سب حیران ہوئے اور بولے کہ جو سزا کا مستحق تھا، اُسے آپ نے انعام سے نوازا۔ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ یہ سن کر رحیم نے جواب دیا۔
’’لوگ پھل دار درخت پر ہی پتھر مارتے ہیں۔ ‘‘
توا اور پارس
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خانِ خاناں اپنی سواری سے اتر ہی رہے تھے کہ ایک بڑھیا آئی اور اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے توے کو خانِ خاناں کے جسم سے رگڑنے لگی۔ سب سپاہی ارے ارے کر کے دوڑے لیکن رحیم نے ان سب کو روک دیا اور حکم دیا کہ اس بڑھیا کو توے کے برابر سونا تول کر دے دو۔ سبھی مصاحب اس فیصلے پر حیرت زدہ ہوئے اور بولے۔ ’’یہ فیصلہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔ ‘‘ اس پر رحیم نے کہا۔
’’یہ بڑھیا دیکھ رہی تھی کہ بزرگوں کی یہ بات کہاں تک سچ ہے کہ بادشاہ اور اس کے امیر ’’پارس‘‘ ہوتے ہیں اور کیا ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں ؟‘‘
ایک بُوند آبرو
ایک روز خانِ خاناں کی سواری چلی جا رہی تھی کہ راستے میں ایک پریشان حال شخص ملا۔ اس نے ایک شیشی میں ایک بوند پانی ڈالتے ہوئے اس شیشی کو نیچے کی طرف جھکا دیا۔ شیشی جھکانے پر جب وہ پانی کی بوند گرنے کو ہوئی تو اس نے شیشی کو اوپر کی طرف سیدھا کر لیا۔
یہ دیکھ کر رحیم اس کو اپنے ساتھ محل میں لے آئے اور پھر کچھ دنوں کے بعد انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔
مصاحبوں کے پوچھنے پر خانِ خاناں نے بتایا کہ ایک بوند پانی شیشی میں بھر کے شیشی کو جھٹکا نے کا مطلب یہ تھا کہ صرف ایک بوند آبرو بچی ہے اور اب وہ بھی خطرے میں ہے !
خادم سے مصاحب
ایک دن کا واقعہ ہے کہ خانِ خاناں اپنے مصاحبوں کے ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ ایک خادم اچانک رونے لگا جو اُسی روز ملازم رکھا گیا تھا۔ خانِ خاناں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ… ’’میں ایک دولت مند باپ کا بیٹا ہوں۔ آج دستر خوان پر چُنی نعمتیں دیکھ کر مجھے اپنی امیری کا زمانہ یاد آ گیا۔ ‘‘
اِس پر خانِ خاناں نے امتحان لینے کے غرض سے اس سے پوچھا کہ بھنے ہوئے مرغ میں سب سے اچھی چیز کیا ہوتی ہے ؟
خادم نے جواب دیا۔ ’’پوست یعنی کھلڑی۔ ‘‘
خانِ خاناں کو یقین ہو گیا کہ وہ کسی دولت مند کا بیٹا ہے۔ پس اس کو اپنے پاس بٹھایا اور اپنے مصاحبوں میں شامل کر لیا۔
بڑا آدمی
ایک دن کا واقعہ ہے کہ جہانگیر بادشاہ کسی منہ پھٹ بھاٹ کی کسی بات پر ناراض ہو گیا اور اسے ہاتھی کے پاؤں تلے کُچلنے کا حکم دیا۔ اتفاق سے اس وقت خانِ خاناں بھی موجود تھے۔ بھاٹ نے پہلے تو ان کو دیکھا، پھر برجستہ بولا۔ ’’حضور نواب خانِ خاناں بڑا آدمی ہے۔ اسے ہاتھی کا پیر چاہیے۔ میں تو چیونٹی سے بھی بدتر ہوں۔ میرے لیے تو چوہے کا ایک پیر ہی کافی ہے۔ ‘‘
اس پر جہانگیر اور زیادہ خفا ہو گئے۔ لیکن خانِ خاناں مسکرا دیے اور اس کی جان بخشی کروائی۔ اس کے علاوہ اس نے یہ کہتے ہوئے روپے بھی دیے اور بولے …
اس نے مجھے بڑا آدمی سمجھا تو کہا۔ بڑا آدمی نہ سمجھتا تو کیوں کہتا!
٭٭٭
مولانا روم اور اُن کی کہانیاں
مولانا رومی اپنی مثنوی کی وجہ سے بہت مشہور ہیں۔ مثنوی میں بہت سے قصے، کہانیاں اور واقعات اشعار میں بیان کیے گئے ہیں۔ مثنوی کی چھ بڑی بڑی جلدیں ہیں۔ یہ کتاب شعروں میں لکھی گئی ہے۔ اس میں تقریباً پچیس ہزار شعر ہوں گے۔
مولانا روم جلال الدین کے نام سے مشہور تھے۔ ان کا اصلی نام محمد بن محمد حسین تھا۔ یوں تو مولانا کا وطن بلخ تھا مگر بچپن ہی میں روم جا بسے تھے۔ اس زمانے میں ایشیائے کو چک کو روم کہتے تھے۔
مولانا۱۲۰۷ء میں پیدا ہوئے اور بڑی لمبی عمر پائی۔ بچپن سے لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے اِتنا پڑھا لکھا کہ اُن کا شمار اپنے زمانے کے مشہور عالموں میں ہونے لگا۔ ان کے علم اور استادی کا چرچا جگہ جگہ ہونے لگا۔ بہت سے طالب علم ان کے پاس رہنے لگے۔ ان کے اچھے اخلاق اور پڑھانے کے طریقے سے لوگ اِتنے خوش تھے کہ ان کو دل و جان سے چاہتے تھے۔
ایک روز کی بات ہے کہ ایک قلندر سا شخص ان کے مدرسے میں آیا۔ مولانا حوض کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور پاس ہی کچھ کتابیں رکھی ہوئی تھی۔ اس شخص نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سی کتابیں ہیں۔ مولانا نے کہا یہ تم نہیں جانتے۔ انھیں ’’قیل و قال‘‘ کہتے ہیں۔
اُس شخص نے وہ تمام کتابیں اٹھا کر پانی میں ڈال دیں۔ مولانا کو بہت افسوس ہوا۔ وہ کچھ غصے سے بولے۔ تم نے یہ کیا کیا؟ اس میں تو کئی ایسی کتابیں تھیں جو کہیں نہیں ملتیں !‘‘
اُس قلندر نے پانی میں ہاتھ ڈال کر سب کتابیں نکال لیں۔ وہ جوں کی توں سوکھی نکلیں۔ مولانا کو بہت حیرت ہوئی۔ انھوں نے پوچھا کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ اُس قلندر نے کہا۔ ’’یہ تم نہیں جانتے۔ اِسے ’’ذوق و حال‘‘ کہتے ہیں۔ ‘‘
اب تو مولانا درویش کے مرید ہو گئے اور ان ہی کے رنگ میں رنگ گئے۔ یہ درویش حضرت شمس تبریزی تھے۔ یہ بڑے بزرگ اور اللہ والے تھے۔ مولانا پر حضرت شمس تبریزی کا ایسا رنگ چڑھا کہ انھوں نے پڑھنا پڑھانا، لکھنا، لکھانا سب چھوڑ دیا۔ اپنے پیر کے ساتھ جنگلوں اور ویرانوں میں وقت بتانے لگے اور رات دن حق کی باتیں کرنے لگے۔
اس مثنوی میں اچھا انسان بننے کی بہت سی باتیں لکھیں ہیں۔ سب باتیں شعروں میں کہانی کے طور پر بیان کی گئی ہیں۔ ہندوستان کا ذکر اس میں جگہ جگہ ہوا ہے۔ انھوں نے بڑے کام کی باتیں سمجھائیں ہیں جو ہمیں ایک اچھا انسان بننے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ اس مثنوی سے چند قصے آپ بھی پڑھئیے۔
دو غلام
کسی بادشاہ نے باتوں باتوں میں کسی بزرگ سے کہا کہ آپ جو کچھ مجھ سے مانگیں گے وہ حاضر ہو جائے گا۔ بزرگ کو یہ بات بہت بُری لگی۔ انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم مجھ سے ایسا کہتے ہو۔ کیا تم نہیں جانتے کہ میرے دو معمولی غلام تم پر حکومت کر رہے ہیں ؟
بادشاہ نے تعجب سے پوچھا۔
’’وہ کون سے دو غلام ہیں ؟ مجھے تو آج تک ان کی خبر نہیں۔ ‘‘
بزرگ نے فرمایا۔ ’’غصہ اور لالچ… یہ دونوں میرے غلام ہیں، اور تم ان دونوں کے غلام ہو!‘‘
علم کا گھمنڈ
ایک نجومی کشتی میں سوار ہوا اور گھمنڈ سے اپنا علم بگھارنے لگا۔ اس نے ملاح سے پوچھا۔
’’تم نے کچھ علم نجوم بھی پڑھا ہے ؟
اُس نے کہا۔ ’’نہیں !‘‘
اس پر نجومی بولا۔ افسوس تم نے اپنی آدھی زندگی ضائع کر دی۔
ملاح کو یہ بات بہت بری لگی۔ مگر وہ کشتی چلاتا رہا۔
تھوڑی دیر میں طوفان اُٹھا۔ اب کشتی والے نے اس سے پوچھا۔
جناب آپ تیرنا بھی جانتے ہیں یا نہیں ؟
اس نے کہا ’’بالکل نہیں۔ ‘‘
کشتی والے نے کہا۔ ’’پھر تو آپ نے ساری عمر یوں ہی گنوا دی۔
پانی مُردوں کو تولیے پھرتا ہے، زندوں کو نہیں ! اگر کوئی تیرنا نہیں جانتا تو وہ ڈبو دیتا ہے !‘‘
موت سے کون بچ سکتا ہے !
حضرت سلیمان پیغمبر تھے۔ وہ پرندوں کی بولی جانتے تھے۔ ہر پرندہ ان کی خدمت میں رہنا عزت کی بات سمجھتا تھا۔ سب اپنے اپنے کمالات ان پر جتاتے اور اپنے آپ کو ان کے پاس رہنے کے لائق بتاتے۔
ہُد ہُد نے اپنے بارے میں حضرت کو بتایا کہ مجھ میں جو خوبیاں ہیں، وہ تو خیر ہیں ہی، ایک خاص بات مجھ میں یہ ہے کہ میں ہوا میں اُڑ کر زمین کی ہر چیز دیکھ لیتا ہوں۔ پانی کو تو ایک ہی نظر میں پہچان لیتا ہوں کہ کتنا گہرا اور کس رنگ و بو کا ہے ؟ اگر آپ اپنے لشکر کے ساتھ مجھے رہنے کی اجازت دیں تو میں مفید ثابت ہو سکتا ہوں۔
حضرت سلیمان نے فرمایا۔
’’بے شک۔ تمہارا فوج کے ساتھ رہنا بہت مفید ہو گا۔ جنگل و صحرا میں ہر جگہ پانی کی کھوج لگا لو گے اور فوج کو کہیں پیاس کی مصیبت نہ اُٹھانی پڑے گی۔ تم ضرور ہماری فوج کے ساتھ رہا کرو۔ ‘‘
کوے نے ہُدہُد کی عزت بڑھتے دیکھی تو مارے حسد کے جل گیا اور موقع پا کر حضرت سلیمان سے کہا۔
حضور ہُد ہُد اپنی نظر کی جھوٹ موٹ ڈینگیں مارتا ہے۔ اگر اس کی نظر اتنی تیر ہوتی تو پھر جال میں پھنس کر کیوں مرتا؟جال نہ دیکھ لیتا؟
اس پر ہُد ہُد نے بہت ادب سے عرض کیا۔
حضرت! اگر میری بات غلط نکلے تو جو چور کی سزا وہ میری۔ میں غلط بات کبھی نہیں کہوں گا۔ کوا یونہی جھوٹ لگایا کرتا ہے۔ اس کی باتوں پر آپ نہ جائیے۔ میں تو آسمان کی اونچائی سے بھی جال دیکھ سکتا ہوں۔ لیکن اگر موت کا وقت ہی آ جائے تو اور بات ہے کیوں کہ پھر عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ چاند کالا اور سورج بے نور نظر آنے لگتا ہے۔
یعنی موت سے بھلا کون بچ سکتا ہے !
نا سمجھی کا جھگڑا
ایک شخص نے چار آدمیوں کو ایک دِرم دیا۔ یہ سب الگ الگ ملکوں کے رہنے والے تھے۔ اُن کی بولی جدا جدا تھی۔ انھوں نے سوچا کہ اس درم سے کچھ خرید کر بانٹ لیں گے۔ لیکن اب اس بات پر جھگڑا ہو گیا کہ کیا خریدیں ؟
ہندوستانی بولا۔ ’’ایسا کرتے ہیں، انگور خرید لیتے ہیں۔ ‘‘
ایرانی بولا۔ ’’میں انگور بالکل پسند نہیں کرتا۔ مجھے تو عنب چاہیے۔ ‘‘
ترکی بولا۔ ’’دونوں نہیں۔ میں تو اوزم لوں گا۔ ‘‘
رومی بولا۔ یہ سب چھوڑو۔ ’’استافیل سب سے اچھے رہیں گے۔ ‘‘
مگر کسی نے کسی کی نہ مانی۔ لڑائی بڑھ گئی۔
سب ایک ہی بات کہہ رہے تھے۔ لیکن بولیاں الگ الگ تھیں۔ ایک دوسرے کی بات نہیں سمجھ پا رہے تھے، یعنی نا سمجھی سے جھگڑ رہے تھے۔
ایک معصوم بہرہ
ایک بار کا ذکر ہے کہ ایک بہرے کا پڑوسی بیمار پڑ گیا۔ بہرے نے سوچا کہ یہ میرا اخلاقی فرض ہے کہ میں اس کی خیریت معلوم کرنے جاؤں۔ پھر خیال آیا کہ وہ بہرہ ہے اور پڑوسی بیمار کی آواز بھی کمزور ہو گئی ہو گی، جس سے اور بھی نہیں سنائی دے گا۔ پھر اس نے قیاس لگایا کہ جب میں کہوں گا کہ ’’تم کیسے ہو؟‘‘ تو وہ کہے گا کہ ’’اچھا ہوں۔ ‘‘ اس پر میں کہوں گا کہ ’’اللہ کا شکر ہے۔ ‘‘ پھر میں پوچھوں گا کہ ’’کھانا کھایا؟‘‘ تو وہ کہے گا کہ ’’ہاں، شوربہ پیا۔ ‘‘ اس پر میں کہوں گا کہ مناسب ہے۔ ‘‘ پھر میں پوچھوں گا کہ ’’کون حکیم تمہارا علاج کر رہا ہے ؟ اس پر وہ کہے گا کہ ’’فلاں فلاں حکیم!‘‘ تو اس پر میں کہوں گا کہ مبارک ہو، وہ اچھا حکیم ہے، اس کے قدم مبارک ہیں۔ ‘‘
یہ قیاسی اور اندازے کے جواب تیار کر کے وہ بہرہ اپنے پڑوسی کے پاس گیا۔ اس کے پاس بیٹھا اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بہت محبت سے پوچھا کہ وہ کیسا ہے ؟
بیمار نے کہا۔ ’’میں تو مر گیا۔ ‘‘ پڑوسی نے کہا کہ ’’شکر ہے۔ ‘‘
بہرے نے دوسرا سوال کیا کہ ’’تم نے کیا کھایا؟‘‘ بیمار نے جواب دیا کہ ’’زہر۔ ‘‘ بہرے نے کہا کہ ’’یہ مناسب ہے۔ ‘‘
بہرے نے پھر پہلے سے تیار کیا سوال کیا کہ کون سے حکیم تمہارے علاج کے لیے آتے ہیں ؟‘‘
اب تک بیمار پڑوسی غصے سے لال پیلا ہو چکا تھا۔ اس نے تلملاتے ہوئے کہا کہ ’’موت کا فرشتہ۔ ‘‘
بہرے نے بڑی معصومیت سے کہا۔ ’’اس کے قدم مبارک ہیں۔ ‘‘
٭٭٭
وعدہ
(بچوں کے لیے ڈرامہ)
کردار
۱۔ افشاں (باتونی لڑکی کی عمر ۹ سے ۱۲ سال)
۲۔ عارفہ(افشاں کی بڑی بہن، عمر ۲۱ سے ۲۵ سال)
۳۔ امی(افشاں اور عارفہ کی ماں )
۴۔ رئیس(افشاں اور عارفہ کا خالہ زاد بھائی)
پہلا سین
(افشاں اسکول سے پڑھ کر گھر آتی ہے )
افشاں :امی جان، عارفہ آپا السلام علیکم!
امی:آ گئیں تم افشاں بیٹی، چلو، جلدی سے بستہ رکھو اور
افشاں :امی جان، آج تو مزہ آ گیا اسکول میں …
امی:بس آتے ہی اسکول کا قصہ لے بیٹھتی ہو، آج یہ ہوا، آج وہ ہوا…
افشاں :امی جان! نہ آج یہ ہوا، نہ آج وہ ہوا بلکہ …
امی:اچھا چُپ، دوسروں کے بچے اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتے ہیں لیکن یہ ہے کہ باتیں بنائے جا رہی ہے۔ پہلے کھانا کھا لے، پھر کرنا بک بک، تمہیں کیا بھوک نہیں لگتی؟
عارفہ:لگتی تو ہے لیکن یہ اپنا پیٹ باتوں سے بھر لیتی ہے، امی۔
افشاں :سب میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں، عارفہ آپا بھی، بس میرے ابو ہی اچھے ہیں۔
امی:بس باتیں بند، اب خاموشی سے کھانا کھا لے۔
افشاں :جی ہاں امی جان، اب کھانا کھا ہی لینا چاہیے۔ امی کیا پکایا ہے آج آپ نے ؟
امی:جو کچھ پکایا ہے، ابھی تمہارے سامنے آ رہا ہے۔ تھوڑی دیر ذرا اپنا منہ بند رکھو۔
افشاں :امی جان، اگر منہ بند کر لیا تو کھانا کیسے کھاؤں گی؟
امی:اُف، فوہ! یہ چھٹانک بھر کی ہے لیکن باتیں کیسی آتی ہیں اسے !
افشاں :نہیں امی، میں چھٹانک بھر کی نہیں ہوں۔ میں تو بارہ دونی چوبیس کلو کی ہوں۔
امی:ارے بابا، کچھ دیر خاموش رہو۔ کھانا لگ گیا ہے، اب چپ چاپ بیٹھ کر کھانا کھالو۔
افشاں :واہ امی (چٹخارہ لے کر) مزہ آ گیا امی! میری امی کتنا مزیدار کھانا پکاتی ہیں۔ سنئے امی، آج اسکول میں میرے دوستوں نے مجھ سے کہا۔
افشاں :آج تو تمہارے بال اور بھی اچھے لگ رہے ہیں۔ تم روزانہ اتنے اچھے بال کیسے بنا لیتی ہو؟
میں نے کہا ……
یہ سب میری کھوپڑی کا کارنامہ ہے۔ لیکن امی عارفہ آپا تو روز تقریر فرماتی ہیں کہ سادگی سے بال سنوارو، جیسے میرے بال سادے نہ ہو کر ٹیکنی کلر ہوں۔
عارفہ:افشاں، پھر تم بولیں، امی کے کہنے کے باوجود!
افشاں :میں بول نہیں رہی ہوں، بتا رہی ہوں۔
امی:جی ہاں (طنز سے ) آپ صحیح فرما رہی ہیں۔ بولنے اور بات کرنے میں فرق ہے، ہے نا؟۔
افشاں :نہیں امی، میرا یہ مطلب نہیں ہے۔ میں کہنا یہ چاہتی ہوں کہ …
امی:مطلب و طلب کچھ نہیں، خاموشی سے کھانا کھا کر، اپنے کمرہ میں آرام کرو۔
عارفہ:ہاں افشاں، آج تم کھانا کھانے کے بعد فوراً اپنے کمرہ میں چلی جانا۔ آج مجھے نوٹس بنانے ہیں۔
افشاں :ارے عارفہ آپا، آپ کیا کرنے جا رہی ہیں۔ نوٹس بنانے کے چکر میں نہ پڑیے۔ نہیں تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
عارفہ:بے وقوف لڑکی، نوٹس بنانے کا مطلب ہے۔ سبق کا خلاصہ تیار کرنا، تاکہ اِمتحان کے وقت دوہرا سکوں۔
افشاں :جی ہاں، جیسے میں جانتی نہیں کہ نوٹس کسے کہتے ہیں۔ اگر آپ ڈاکٹری پڑھ رہی ہیں تو میں بھی اسکول میں پڑھ رہی ہوں اور تقریر میں بھی اوّل آتی ہوں۔
عارفہ:جی ہاں جی ہاں، یہ تو میں بھول ہی گئی تھی کہ آپ ماشاء اللہ بہت پڑھی لکھی ہیں۔
افشاں :دیکھئے امی، عارفہ آپا جلی کٹی باتیں کرنے لگی ہیں۔ میں اسی لیے زیادہ نہیں بولتی ہوں۔ اگر آپ لوگوں کو میرا بولنا برا لگ رہا ہے تو میں کھانا کھا چکی۔
(سین ختم ہونے کی موسیقی)
دوسرا سین
(فریدہ اپنے کمرہ میں بیٹھی پڑھ رہی ہے کہ افشاں آتی ہے )
افشاں :عارفہ آپا، آپ اس کمرہ میں بیٹھی کیا کر رہی ہیں ؟
عارفہ:بکواس کر رہی ہوں۔
افشاں :تو اکے لیے بکواس کیوں کر رہی ہیں۔ اس میں مجھے بھی شامل کر لیجئے۔
عارفہ:دیکھو افشاں خاموش رہو۔ مجھے نوٹس بنانے دو۔ نہیں تو میرا موڈ خراب ہو جائے گا۔
افشاں :فکر کی کوئی بات نہیں۔ اگر موڈ خراب ہو گیا تو میں ریحان بھائی کو بلا لاؤں گی۔ وہ ہنسا ہنسا کر آپ کا موڈ ٹھیک کر دیں گے۔
عارفہ: خاموش پلیز، میری پیاری بہن یہاں، آؤ پلیز
افشاں :لیجئے آ گئی۔ اب بتائیے آپ مکھن کیوں لگا رہی ہیں
عارفہ: میری پیاری افشاں، تم صرف آدھے گھنٹے کے لیے خاموش ہو جاؤ۔
دیکھو اس وقت چار بجے ہیں۔ تم صرف ساڑھے چار بجے تک خاموش رہو۔ میں تمہیں چاکلیٹ لانے کے لیے دس روپے دوں گی۔
افشاں :ہوں، چونکہ پیار سے کہہ رہی ہو، اس لیے بات مان لینی چاہیے، ٹھیک ہے، جاتی ہوں۔
عارفہ:ایسے نہیں، وعدہ کرو۔
افشاں :چلئے وعدہ کیا۔ اچھا اب میں اپنے کمرہ میں جاتی ہوں۔ خدا حافظ۔
(سین ختم ہونے کی موسیقی)
تیسرا سین
(دروازہ کی کال بیل بجتی ہے )
عارفہ:کون؟۔ ابھی آئی۔
(عارفہ دروازہ کھولتی ہے )
ارے رئیس بھائی آپ!۔ امی دیکھئے رئیس بھائی آئے ہیں۔
رئیس:عالیہ خالہ کہاں ہیں، عارفہ؟
امی:ارے رئیس تم!
رئیس:السلام علیکم خالہ جان۔
امی:وعلیکم السلام، لیکن یہ اچانک کیسے ؟ نہ کوئی خط، نہ کوئی اطلاع، خبر کر دیتے، ہم لوگ اسٹیشن آ جاتے لینے کے لیے۔
رئیس:بس اچانک پروگرام بن گیا، اس لیے اچانک آ گیا، خالو جان کہاں ہیں ؟
امی:وہ تو لکھنؤ گئے ہوئے ہیں۔
رئیس:اور ہماری باتونی افشاں کہاں ہے ؟
امی:وہ اپنے کمرے میں ہے۔
رئیس:(کمرہ میں داخل ہوتے ہوئے ) اوہ ! تو میری باتونی گڑیا یہاں خاموش میز پر سر رکھے، آنکھیں بند کئے کرسی پر بیٹھی ہے۔ افشاں، دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ (افشاں اشارے سے سلام کرتی ہے۔ ) ارے یہ تم اشارہ سے سلام کیوں کر رہی ہو؟ تم بولتی کیوں نہیں ؟
ارے بیٹھنے کے لیے بھی اشارہ سے کہہ رہی ہو۔ لو میں بیٹھ جاتا ہوں، لیکن اشارہ سے کیوں بات کر رہی ہو؟ کیا بات ہے افشاں ؟ بولتی کیوں نہیں ؟ بولو نا، ارے اب بھی اشارہ!
خالہ: عارفہ ذرہ یہاں آ کر دیکھئے اسے کیا ہو گیا ہے !
(امی اور عارفہ لپک کر آتی ہیں۔ )
امی:کیا بات ہے، رئیس؟
رئیس:دیکھئے، یہ کچھ بول نہیں رہی ہے۔ نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے !
امی:افشاں، میری پیاری بیٹی کیا بات ہے ؟ بولتی کیوں نہیں ؟ دیکھو تمہارے رئیس بھائی آئے ہیں۔ تم بہت دن سے یاد کر رہی تھیں۔ دیکھو تمہارے لیے کیا لائے ہیں۔ ارے واہ کتنا اچھا سوٹ تمہارے لیے لائے ہیں۔
عارفہ:افشاں، رئیس بھائی تمہیں کتنا چاہتے ہیں۔ صرف تمہارے لیے سوٹ لائے ہیں۔
امی:ارے یہ تو اب بھی خاموش ہے۔ کیا ہوا اسے ؟یہ تو کسی قیمت پر خاموش نہیں رہ سکتی۔ عارفہ جلدی سے ڈاکٹر کو فون کر کے بلاؤ۔
امی:امی اسے کچھ نہیں ہوا ہے۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ اگر آدھے گھنٹے تک خاموش رہو گی تو میں اسے دس روپے دوں گی۔ شاید، اسی لیے یہ خاموش ہے۔
امی:بھئی! یہ صرف دس روپے کے لیے خاموش ہو گئی؟ مجھے تو یقین نہیں آتا۔
رئیس:افشاں اگر یہ سچ ہے تو میں تمہیں دس کے بدلے سو روپے دوں گا۔ اے یہ لوسو کا نوٹ لیکن بھئی چپ شاہ کا روزہ توڑ دو۔
امی:ارے ! یہ تو اب بھی نہیں بول رہی ہے ! الٹا چپ رہنے کا اشارہ کر رہی ہے۔ اس عارفہ کی بچی کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ دیکھو تو میری گلاب جیسی بیٹی کا کیا حال ہو گیا ہے۔ رئیس، اس کو ہنسانے کی کوشش کرو۔
رئیس:ہوں ! تو انتر جنتر، نکل کھوپڑی سے ہنسانے کا منتر، اے نکل آیا۔ لو سنو ایک کہانی، کنجوسوں کا باپ، یہ کہانی میرے دادا جان سنایا کرتے تھے۔
ایک کنجوس کی ایک مکھی چوس سے گہری دوستی تھی۔ ایک دن کنجوس نے اپنے مکھی چوس دوست سے کہا، میرے دوست! میں دو سال کے لیے سفر پر جا رہا ہوں۔ تم نشانی کے طور پر اپنی یہ انگوٹھی مجھے دے دو، تاکہ جب کبھی میری نظر تمہاری انگوٹھی پر پڑے تو تمہاری یاد تازہ ہو جائے۔
اس پر مکھی چوس نے بہت سنجید گی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
میرے دوست، اگر تم مجھے یاد ہی رکھنا چاہتے ہو، تو جب کبھی تم اپنی خالی انگلی دیکھو تو یہ سوچ کر مجھے یاد کر لینا کہ تم نے مجھ سے انگوٹھی مانگی تھی مگر میں نے ان کار کر دیا۔
عارفہ:ہا ہا (ہنستے ہوئے ) مزہ آ گیا، رئیس بھائی، کس خوبصورتی سے اس مکھی چوس نے اپنے دوست کو ٹرخا دیا۔
رئیس:تمہیں تو مزہ آ گیا لیکن میری افشاں کو خاک مزہ آیا۔ یہ تو صرف مسکرا کر رہ گئی۔
امی:عارفہ، اگر افشاں کو کچھ ہو گیا تو تمہاری خیر نہیں۔
عارفہ:نہیں امی، اسے کچھ نہیں ہوا ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں ابھی اس کو ہنساتی ہوں۔ رئیس بھائی، آپ نے ’کنجوسوں کا باپ‘‘ کی کہانی سنائی۔ میں ’’کنجوسوں کا دادا‘‘ سناتی ہوں۔ یہ کہانی میری دادی جان نے مجھے سنائی تھی۔ تو سنئے۔
کسی فقیر نے ایک کنجوس کے دروازہ پر آ کر آواز لگائی۔ خدا کے لیے کچھ دے دو۔ خدا تمہارا بھلا کرے گا۔
کنجوس گھر سے باہر آیا اور بہت معصومیت سے بولا…دیکھو بھائی، اگر تم میری ایک بات مان لو تو میں تمہاری ہر بات ماننے کو تیار ہوں۔ فقیر نے بہت عاجزی سے کہا …میں ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوں۔
اِس پر اُس کنجوس نے بڑی سنجیدگی سے کہا… برائے مہربانی تم مجھ سے کبھی بھی ’’کچھ دے دو‘‘ نہ کہنا، اس کے سوا تم جو کہو گے، میں اُسے خوشی سے کرنے کے لیے تیار ہوں۔
رئیس:ہا ہا (ہنستا ہے ) بھئی واہ! واقعی تمہاری دادی کا کنجوس کنجوسوں کا دادا نکلا۔ مزہ آ گیا، طبیعت خوش ہو گئی۔ لیکن جس کو ہنسانے کے لیے تم نے یہ کہانی سنائی وہ تو اب بھی نہیں ہنسی، صرف مسکرا کر رہ گئی۔
عارفہ: اب تو مجھے بھی فکر ہو رہی ہے۔ خدا نخواستہ اسے کچھ ہو تو نہیں گیا۔
امی:اب باتیں نہ بناؤ، جلدی سے جا کر ڈاکٹر کو فون کرو۔
عارفہ: میں ابھی فون کرتی ہوں۔ (فون پر) ہیلو ڈاکٹر صاحب، اسلام علیکم، میں جلیل صاحب کی بیٹی عارفہ بول رہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب افشاں نے اچانک بولنا بند کر دیا ہے۔ وہ کچھ بول ہی نہیں رہی ہے۔ نہ جانے اسے کیا ہو گیا ہے۔ پلیز جلدی سے آ جائیے۔
امی:نہ جانے میری بیٹی کو کیا ہو گیا ہے۔ اس کو نظر بھی تو بہت لگتی ہے۔ ابھی تک ڈاکٹر صاحب بھی نہیں آئے !
رئیس:کیا تم مجھ سے بھی ناراض ہو؟ کیا میں چلا جاؤں ؟ تم بس اشارہ سے منع کر رہی ہو۔ بول کر کہو پلیز۔
(اتنے میں دیوار پر لگا ہوا کلاک ساڑھے چار بجنے کا اعلان کرتا ہے ) اس کے ساتھ ہی افشاں ’’امی‘‘ کہہ کر اپنی ماں سے لپٹ جاتی ہے۔
افشاں :میری پیاری امی، آپ کتنی اچھی ہیں، رئیس بھائی! آپ میرے لیے اور کیا کیا لائے ہیں ؟ ہوں !… میں سمجھ گئی۔ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ آپ لوگ ناراض نہ ہوں۔ میں کوئی ڈرامہ نہیں کر رہی تھی، میں تو اس لیے نہیں بول رہی تھی کہ میں نے عارفہ آپا سے آدھا گھنٹے تک خاموش رہنے کا ’’وعدہ‘‘ کیا تھا۔ بس جیسے ہی گھڑی نے ساڑھے چار بجنے کا اعلان کیا، میں بول پڑی، اب آپ لوگ خود ہی سوچئے اگر میں اپنا وعدہ توڑ دیتی تو کیا عارفہ آپا یا آپ لوگ مجھ پر کبھی بھروسہ کرتے ؟ قطعی نہیں کیونکہ کسی ’’وعدہ خلاف‘‘ پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ !!!
٭٭٭
تشکر: کتاب ایپ )رئیس صدیقی کی کتاب ’باتونی لڑکی‘ سے ماخوذ)
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید