FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

بابائے اردو مولوی عبدالحق۔۔فن اور شخصیت

 

فن اور شخصیت

 

حصہ اول

 

               ڈاکٹر سید معراج نیئر

 

 

 

 

حرفے چند

 

زیر نظر مقالہ میری ایک دیرینہ آرزو کی بدست دگر صورت تمام ہے۔۔۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق میرا پہلا عشق اور میری پہلی ادبی ترجیح ہیں اور رہے ہیں۔ ان کی عمر عزیز کے آخری دو برسوں میں مجھے ان کی خدمت میں حاضری کی عزت اور سعادت حاصل رہی۔ میں نے کراچی اور پھر لاہور سے بابائے اردو کی شخصیت اور خدمات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کی آرزو اور کوشش کی لیکن کراچی یونیورسٹی موضوع تحقیق اور پنجاب یونیورسٹی میں امیدوار تحقیق اصحاب مجاز کے لئے ناپسندیدہ اور معتوب ٹھہرا، اور مجھے دوسرے موضوعات کی طرف نکل جانا پڑا بایں ہمہ مولوی عبدالحق آج بھی میرا محبوب موضوع ہیں ان کی شخصیت اور خدمات کے بارے میں میری بعض کتابی کاوشوں کی کچھ قدر بھی ہوئی۔۔۔۔ میرے لئے اطمینان کی بات یہ بھی ہے کہ مجھے بابائے اردو کی ذات اور خدمات سے اپنے گہرے شغف کو اپنے بعض شاگردوں کا درد سر بنانے میں کسی قدر کامیابی ہوئی ہے۔ جن میں ڈاکٹر سید معراج نیر کا نام بہت نمایاں ہے۔

مولوی عبدالحق کے بارے میں پیش نظر مقالہ میری تجویز اور تحریک پر لکھا گیا اس کے لئے میں نے بطور خاص سید معراج نیر کا انتخاب کیا جن کی محنت، مستعدی اور شرافت نفس کا میں ان کی ایم اے کی طالب علمی کے زمانے سے معترف اور مداح رہا ہوں۔۔۔۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ زیر نظر مقالہ میری ایک دیرینہ آرزو کی بدست دگر صورت اتمام یا تعبیر نا تمام ہے! پنجاب یونیورسٹی لاہور کی جانب سے اس کام کی نگرانی کی ذمہ داری میرے اور ڈاکٹر عبید اللہ خان کے سپرد ہوئی لیکن خان صاحب نے اسے زیادہ موزوں خیال کیا کہ بے خلل وہی اس کام سے وابستہ رہیں مجھے موضوع اور مقالہ نگار کی عافیت نیک مطلوب تھی خان صاحب کی خوشی و خوشنودی کو مقدم جانا، بے دخلی اور دستبرداری (یا دستبرد) کو گوارا گیا۔

خیر اور خوشی کا پہلو یہ ہے کہ جیسے تیسے کام مکمل ہوا حد انتہا کس نے پائی ہے کار تحقیق کس سے، کب تمام ہوا ہے اور پھر اس کام کی دیکھ ریکھ میں میرا دخل ہوتا بھی تو کیا ضرور تھا کہ یہ کام ویسا ہی ہوتا۔ جس کا میں نے خواب دیکھا اور منصوبہ بنایا تھا۔ کسی عہد آفریں شخصیت کے کارناموں کا احاطہ یا حق ادا کرنا کسی ایک جست یا کوشش میں ممکن بھی نہیں ہوتا، لیکن مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں ڈاکٹر سید معراج نیر کے اس کام سے بے نیاز ہو کر بابائے اردو مولوی عبدالحق کے علمی کارناموں کا کوئی جائزہ لینا ممکن نہیں ہو گا، اور یہ کچھ کم اہم بات نہیں!

بابائے اردو مولوی عبدالحق کو اس خاکدان ارضی سے رخصت ہوئے ایک تہائی صدی ہو رہی ہے ڈاکٹر سید معراج نیر پاکستان کے پہلے اور واحد ریسرچ اسکالر ہیں جنہوں نے بابائے اردو پر تحقیقی کام کر کے پی ایچ ڈی کی سند فضیلت پانے کا قابل رشک امتیاز اور اعزاز حاصل کیا۔۔۔۔ میری خوشی دو چند ہوئی جب جمیل النبی صاحب نے میری خواہش پر اس مقالے کو بابائے اردو کی تینتیس ویں برسی کی مناسبت سے اپنے اشاعتی پروگرام میں شامل کیا، خدا انہیں جزائے خیر دے اور توفیقات عالیہ سے نوازے۔

امید ہے کہ اس علمی کام کی قدر کی جائے گی اور بات اسی مقالے تک نہیں رہے گی، مولوی عبدالحق کی خدمات،ا ن کے اثرات اور احسانات کا سلسلہ شناخت اور اعتراف، کارواں در کارواں آگے چلے اور بڑھے گا۔۔۔۔۔۔ لیکن اتفاق یا اختلاف، دونوں صورتوں میں سید معراج نیر کے اس کام کا حوالہ ناگزیر ہو گا، اسی میں ا س کتاب اور کام کی اہمیت اور منزلت مضمر ہے۔

ڈاکٹر سید معین الرحمن

پروفیسر و صدر شعبہ اردو

گورنمنٹ کالج لاہور

٭٭٭٭٭٭

 

 

پیش لفظ

 

اردو زبان اور ادب پر مولوی عبدالحق کی ذات نصف صدی سے زیادہ چھائی رہی جس کے نتیجے میں اردو کا ذکر مولوی عبدالحق کے تذکرے سے اور مولوی عبدالحق کا تذکرہ اردو کے ذکر سے کچھ اس طرح پیوست ہو گیا کہ شاہد و مشہود کی تمیز نہ رہی۔

مولوی عبدالحق نے اپنا لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا سارے کا سارا اردو پر قربان کر دیا۔ انہیں ایک ہی دھن رہی کہ اردو زبان کو اس کا جائز مقام ملے اور وہ اتنی پھلے پھولے کہ بین الاقوامی زبانوں کے شانہ بہ شانہ چل سکے۔ انہوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے عملی میدان میں بھی قدم رکھا۔ تھکا دینے والی طویل مسافتوں کے سفر کئے، خطبات دئیے اور لوگوں کو اردو کی عظمت اور اہمیت کا قائل کیا۔ اس ضمن میں انہیں غیروں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا اور اپنوں کی ستم ظریفیوں کا بھی شکار ہونا پڑا۔

مضامین لکھے، خاکے قلمبند کئے، تبصرے تحریر کئے، رسالے نکالے، دور افتادہ مقامات پر اردو کے مدرسے قائم کئے، انجمن ترقی اردو کی شاخیں کھولیں، قاعدے لکھے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر قدیم مخطوطات منظر عام پر لائے تاکہ اردو کی قدامت کو ثابت کیا جا سکے ان کی یہی ولولہ انگیز شخصیت میرے لئے باعث کشش ہوئی اور جب میں نے پی ایچ ڈی کے لئے موضوع کا انتخاب کرنا چاہا تو مولوی عبدالحق کی ذات میرا محور بنی میں نے سوچا کہ ’’مولوی عبدالحق احوال و آثار‘‘ پر کام کروں لیکن موضوع کی وسعت کے پیش نظر استاد گرامی خواجہ محمد زکریا صدر شعبہ اردو جامعہ پنجاب لاہور نے از راہ شفقت مولوی عبدالحق کی ہفت پہلو شخصیت کے ایک گوشہ ’’مولوی عبدالحق بطور محقق‘‘ کا تعین کرایا موضوع طے ہوتے وقت یقیناً مجھے یہ احساس نہ تھا کہ مولوی عبدالحق کا یہ پہلو بھی بہت وسعت رکھتا ہے اور اسے ہی سنبھالنا میرے لئے آسان نہ ہو گا پھر بپتا یہ پڑی کہ میں اس زمانے میں جب ذہنی اور عملی طور سے اس کام کا آغاز کر چکا تھا، درس و تدریس کے بجائے انتظامی امور کی سولی پر بطور پرنسپل متعین کر دیا گیا مجھے لاہور سے شہر بدر کر کے نارنگ منڈی کے دور افتادہ علاقے میں تعینات کر دیا گیا۔ اس دلبرداشتہ ہو جانے والی منزل پر میرے استاد اور مقالہ کے نگران و رہنما ڈاکٹر عبید اللہ خان صاحب اور ڈاکٹر سید معین الرحمن نے مجھے حوصلہ دیا آہستہ آہستہ کام آگے بڑھنا شروع ہوا سرکاری فرائض منصبی کی تکمیل کے لئے ریل اور مقالے کی تکمیل کے لئے اوراق پریشاں کا سفر جاری رہا۔

ابتدا میں مجھ پر ڈاکٹر عبید اللہ خان صاحب کی شخصیت کا اتنا رعب اور خوف تھا کہ میں ان کے پاس جاتے ہوئے پہلو تہی کرتا تھا لیکن جب تھوڑی سی جھجک دور ہوئی تو انہیں محبت اک ایک شجر سایہ دار پایا اور انہوں نے میرے ایک ایک نقطہ لفظ حرف اور سطر و جملے پر نہایت جاں فشانی سے دیدہ ریزی کی ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب نے بھی میری ہر منزل پر رہنمائی کی یہاں تک کہ ان کے ذاتی کتاب خانے کی نایاب کتب تک بھی رسائی ممکن رہی۔

یہ مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے پہلا باب مولوی عبدالحق کی زندگی کے احوال سے تعلق رکھتا ہے جبکہ دوسرے باب میں ان کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح اردو کے اس مرد مجاہد نے قلم کا جہاد جاری رکھا تیسرے باب میں فن تحقیق پر بات کی گئی ہے تاکہ جب ہم مولوی عبدالحق کا بطور محقق جائزہ لیں تو یہ باب میزان بن سکے چوتھے باب میں اردو میں تحقیق کی روایت کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ مولوی عبدالحق کے سامنے وہ کون کون سے پیش رو تھے جنہوں نے اس میدان میں ان سے پہلے دشت نوردی کی تھی پانچویں باب میں مولوی عبدالحق کی تحقیقی کاوشوں کا جائزہ لیا گیا ہے جب کہ چھٹے باب میں فن تحقیق کی روشنی میں مولوی صاحب کی تحقیق کی خصوصیات کا اجاگر کیا گیا ہے ساتویں باب میں اردو تحقیق کی روایت کی روشنی میں بطور محقق مولوی عبدالحق کے مقام و مرتبے کا تعین کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کی تحقیق نگاری نے اردو تحقیق پر کیا اثرات مرتب کئے ہیں اور آخری باب میں اردو کے ان ارباب تحقیق کا ذکر ہے جنہوں نے مولوی عبدالحق کی تحقیقی کاوشوں اور خصوصیات کو آگے بڑھانے میں کار ہائے نمایاں انجام دئیے۔

مقالے کی تکمیل میں میرے اساتذہ کرام کے علاوہ بھی بہت سے بزرگوں اور احباب نے میری اعانت کی جن کا ذکر نہ کرنا احسان فراموشی ہو گا بالخصوص سید ابن حسن قیصر (مرحوم) اور ان کے چھوٹے بھائی مظفر احسن سید پیرانہ سالی اور بیماری کے باوجود گاہے گاہے میرے مدد کرتے رہے۔ اسی طرح میری زوجہ محترمہ رباب بانو نے بھی مقالہ کی تکمیل کے لئے پر سکون ماحول مہیا اور خواب گاہ و کمرہ طعام کو کمرہ تحقیق بنا رہنے دیا اور انہوں نے اپنی نفاست پسندی اور انتہائی حسن ترتیب کی عادت کے باوجود کتابوں اور کاغذات کے بکھرے رہنے پر کبھی اعتراض نہیں کیا۔ اس منزل پر عالم جوانی میں بچھڑ جانے والے دو افراد کی یاد بھی بہت ستا رہی ہے ایک لڑکپن کا دوست جمیل احمد صبا جو شارجہ سے بھی فون کرتا تو مجھ سے زیادہ میرے مقالے کے متعلق پوچھتا دوسرا نو عمر بھانجا سید اسد عباس کہ جب بھی مجھے ملتا تو کہتا کہ ماموں آپ مقالہ کب مکمل کریں گے اور اب یہ مکمل ہوا تو دونوں ماضی کی داستان بن چکے ہیں دور افتاد بڑے بھائی ڈاکٹر ایس اے عباس اور بھابی ڈاکٹر رابعہ عباس بھی ہر کٹھن منزل پر حوصلہ دیتے رہے اور یقیناً انہیں مقالے کی تکمیل پر مجھ سے زیادہ مسرت ہوئی ہو گی۔

اس مقالہ میں جن کتب کے حوالے دئیے گئے ہیں وہ لائبریری جامعہ پنجاب لاہور، پنجاب پبلک لائبریری لاہور، لائبریری گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور، لیاقت نیشنل لائبریری کراچی، کتب خانہ خاص و عام انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کی ذاتی اور راقم الحروف کی نجی لائبریری میں موجود ہیں میں مذکورہ بالا تمام ناظمین کتب خانہ جات اور پروفیسر ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے کتب خانوں سے مجھے استفادہ کرنے کی اجازت دی میں اس ضمن میں اختر وڑائچ، لائبریرین، گورنمنٹ کالج آف سائنس اور قیصر حسن کاظمی لائبریرین گورنمنٹ اسلامیہ کالج بدو ملہی کا خاص طور سے ممنون ہوں اس مقالے کو کتابی حسن و قبا عطا کرنے میں جمیل النبی صاحب کی سلیقہ شعاری اور کتاب سازی کی ان کی وہبی و تخلیقی استعداد کو بڑا دخل ہے میں ان کا بہ دل ممنون ہوں۔

ڈاکٹر سید معراج نیر

استاد شعبہ اردو

گورنمنٹ کالج لاہور

٭٭٭٭٭٭

 

 

ڈاکٹر سید معراج نیر زیدی۔۔۔۔ مقالہ نگار

 

مشاغل

لیکچرار شعبہ اردو اسلامیہ کالج چنیوٹ 1974ء تا 1978ء

لیکچرار شعبہ اردو گورنمنٹ کالج جڑانوالہ 1978ء تا 1980ء

لیکچرار شعبہ اردو گورنمنٹ کالج آف سائنس لاہور 1980ء تا 1988ء

پرنسپل گورنمنٹ انٹر کالج نارنگ منڈی 1988ء تا 1992ء

اسسٹنٹ پروفیسر اردو گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن لاہور 1992ء تا 1993ء

موجودہ مصروفیت

استاد شعبہ اردو گورنمنٹ کالج لاہور

تصانیف و تالیف

1رئیس الاحرار حسرت موہانی

2اردو شاعری کا ارتقا

3اقبال منفرد

4اقبال کا تجزیاتی مطالعہ

5حضرت شہباز قلندرؒ

6خواب رفتہ (انتخاب کلام شرقی)

7انتخاب کلام ظفر

8انتخاب کلام میر

9عطیہ فیضی (زیر طبع)

10مکاتیب قائد اعظم کا سیاسی و تاریخ پس منظر (زیر طبع)

سفر:

امریکہ، کینیڈا، شام، عراق، ایران، سعودی عرب وغیرہ

٭٭٭٭٭٭

 

 

 

پہلا باب

مہد سے لحد تک

 

 

انیسویں صدی برصغیر کی تاریخ میں ایک انقلاب آفریں صدی تھی، جس کے آغاز میں برصغیر میں مغربی طاقتیں بر سر پیکار رہیں۔ وسط میں اس مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوا جس کی داغ بیل ظہیر الدین بابر کے تابڑ توڑ حملوں نے 1526ء میں ڈالی تھی اور بقیہ نصف صدی مسلمانوں نے اپنے کھوئے ہوئے وقار اور سماجی و معاشرتی شیرازہ بندی میں وقف کی۔

اس صدی کا ایک بڑا واقعہ 1857ء کی جنگ آزادی ہے، جس کے ذریعے اہل ہند نے مغربی سامراج کا طوق غلامی اتار پھینکنے کے لئے بھر پور طاقت کا مظاہرہ کیا اس جنگ آزادی میں ہندوستان کے ایک شہر نے بہت شہرت حاصل کی یہ دلی کے قریب صوبہ یو پی کا شہر میرٹھ تھا، جہاں سے مجاہدین نے 6مئی 1857ء کو غدر برپا کیا اور طوفان کی طرح ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک بستی سے دوسری بستی تک پرچم حریت لہراتے ہوئے ختم ٹھونک کر میدان عمل میں آ گئے۔ اسی میرٹھ کے قصبے ہاپوڑ میں مولوی عبدالحق پیدا ہوئے۔ انہوں نے ساری زندگی اردو زبان و ادب کے لئے جہاد میں گزار دی اس کے لئے وہ بستی بستی اور قریہ قریہ میدان عمل میں رہے ان کے بھتیجے محمود حسین تحریر کرتے ہیں:

’’دہلی سے چھتیس میل دور مراد آباد کی جانب میرٹھ میں ایک قصبہ ہاپوڑ واقع ہے ہم لوگ اس قصبے کے رہنے والے ہیں اگر آپ ہاپوڑ جائیں تو کوئی بھی آپ کو محلہ قانون گویان میں پتھر والے کنوئیں کا پتہ بتا دے گا۔ اس کنوئیں کے سامنے ایک بڑی سی عمارت دکھائی پڑتی ہے، جو آج سے تقریباً چالیس برس پہلے مٹی گارے کے کچے مکان کو منہدم کر کے نئے سرے سے تعمیر کی گئی تھی۔ یہی بابائے اردو مولوی عبدالحق اور ہم سب کا آبائی مکان ہے۔ ہمارے اجداد یہیں رہتے تھے اور ان کے سپرد دور مغلیہ میں محکمہ مال کی قانون گوئی کی خدمتیں تھیں‘‘

مولوی عبدالحق کے بزرگ ہاپوڑ گے کا نستخیر تھے جنہوں نے مغلیہ عہد میں اسلام کی روشنی سے اپنے دلوں کو منور کیا۔ ان کے سپرد سلطنت مغلیہ میں ہمیشہ محکمہ مال کی اہم خدمات رہیں۔ مسلمان ہونے کے بعد بھی انہیں و مراعات اور معافیاں حاصل رہیں جو سلطنت مغلیہ کی خدمات کی وجہ سے عطا کی گئی تھیں یہ معافیاں انگریزی حکومت نے بھی بحال رکھیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی احمد حسن کے بقول:

’’میں ہی خاندان کا وہ آخری فرد ہوں جس نے بہ منظوری گورنمنٹ 1945ء میں اپنی خاندانی معافی کو ختم کیا۔‘‘

مولوی عبدالحق کے خاندانی حالات پر ان کے بھتیجے محمود حسین نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’یہ سب ہندو تھے اور کائستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے ان میں سے ایک صاحب عہد شاہجہانی میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور شیخ عبدالدائم نام پایا ان کی اولاد شمال مغربی ہند جس کو آج اتر پردیش کہا جاتا ہے کے تمام اضلاع میں پھیل گئی ان ہی میں سے ہمارے مورث اعلیٰ شیخ صادق حسین تھے، جن کی قبر آج بھی ہمارے خاندانی قبرستان ہاپوڑ میں موجود ہے شیخ صادق حسین مرحوم سے جو سلسلہ چلا اس میں میرے دادا یخ علی حسین صاحب مرحوم تھے، جن کی آٹھ اولادیں ہوئیں چار لڑکے اور چار لڑکیاں اولاد نرینہ میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق صاحب مرحوم تھے، اس کے بعد مولوی عبدالحق اب صرف میرے والد مولوی احمد حسن، جو بابائے اردو کے چھوٹے بھائی ہیں بقید حیات ہیں باقی سب بہن بھائیوں کا انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

لیکن بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک خاص ملازم عبدالرشید جن کی تین پشتیں (دادا والد اور عبدالرشید) مولوی عبدالحق کے خاندان کی خدمت میں رہیں، اپنے ایک انٹرویو میں، جو انہوں نے مولوی عبدالحق کی وفات پر شمیم احمد کو دیا تھا، محمود حسین صاحب کے اس بیان سے اختلاف کیا ہے جس میں شیخ محمود حسین نے اپنے دادا کی آٹھ اولادیں بتائی تھیں صوفی عبدالرشید اپنی والدہ کی روایت سے بتاتے ہیں:

’’مولوی صاحب سمیت تین بھائی اور تین بہنیں تھیں بھائیوں میں بڑے ضیاء الحق صاحب ہاپوڑ میں رہتے تھے منجھلے بھائی عبدالحق صاحب تھے اور چھوٹے احمد حسن، جو بھوپال میں انجینئر تھے مولوی صاحب کی بڑی بہن منشی اخلاق حسین محرر اور زمیندار کو بیاہی گئی تھیں، جو ہاپوڑ میں رہتے تھے باقی دو چھوٹی بہنیں بھی ہاپوڑ کے زمیندار گھرانوں میں بیاہی گئی تھیں۔‘‘

غیور عالم صاحب نے ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1968ء میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی سوانحی خاکہ اپنی ذاتی تحقیق کی بنیاد پر تحریر کیا گو اس تحقیقی خاکے میں انہوں نے تحقیقی حوالے، شواہد اور روایتوں کا تذکرہ نہیں کیا، لیکن تحریر میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندانی پس منظر پر اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:

’’بابائے اردو مولوی عبدالحق کے خاندان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔ روایتیں کمزور ہیں ہاں صرف ان کے جد اولیٰ صادق علی کے نام کا پتہ چلتا ہے، لیکن درمیانی کڑیاں غائب ہیں اور ہمیں ان کے خاندان کا سلسلہ ان کے دادا صفدر بخش سے شروع کرنا پڑتا ہے۔ شیخ صفدر بخش کے دو بھائیوں کے نام جو مجھے اپنی ذاتی تحقیق کے دوران میں معلوم ہوئے ان میں ایک کا نام شیخ بشارت علی اور دوسرے کا شیخ ضامن علی تھا۔ ان میں شیخ صفدر بخش ہی سب سے بڑے نکلے۔ شیخ صاحب نے دو شادیاں کیں ان میں پہلی بیوی سے شیخ امام بخش وغیرہ تھے جن کے خاندان کے افراد آج بھی ہاپوڑ میں موجود ہیں دوسری بیوی سے شیخ علی حسن تھے جو مولوی عبدالحق کے والد تھے۔‘‘

شیخ علی حسن کے سات اولادیں تھیں ان میں سب سے بڑے شیخ ضیاء الحق ، شیخ احمد حسن اور چھوٹے محمود تھے، ان کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا۔ بعض حضرات نے جب بابائے اردو کے خاندانی حالات پر روشنی ڈالی تو انہوں نے ان کے صرف تین بھائیوں کا تذکرہ کیا۔ شیخ احمد حسن نے بھی اپنے چھوٹے بھائی محمود کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے شاید اس وجہ سے کہ وہ بچپن میں انتقال کر گئے تھے اہمیت نہیں دی، لیکن میں نے یہ ذکر ضروری سمجھا، اس لئے کہ آئندہ تحقیقی اعتبار سے غلطی کا امکان نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ حالات کی گرد جب عبدالحق کے خاندانی حالات پر دبیز ہو جائے گی تو غلطی ایک حقیقت بن جائے گی، اور ان کے خاندانی حالات لکھنے والے تحقیق اور یقین کے ساتھ ان کے دو بھائیوں کا ذکر کریں گے۔ اس لئے میں نے زیادہ اختصار بہتر نہ سمجھا۔ بابائے اردو کے تین بھائیوں کا تو ذکر کر چکا ہوں، اس کے علاوہ ان کی تین بہنیں تھیں۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے خاندانی پس منظر کے سلسلے میں ہمیں مولوی عبدالحق صاحب کے بھائیوں کا تذکرہ تو تفصیل سے مل جاتا ہے لیکن بہنوں کے سلسلے میں صرف اشارے یا ان کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ بے باک صحافی تھے بقول فضول احمد صدیقی:

’’شیخ صاحب کی شہرت ان سے بہت آگے آگے چلتی تھی۔ پگڑیاں اچھالنے میں ان کا نام خاصا اونچا تھا اور وہ اونچی اونچی کی ہی خبر لیتے تھے مرحوم مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ حسن نظامی میں جو بم خچ رہی اس سلسلے میں ہاپوڑی صاحب محتاج تعارف نہ تھے ایک ہاپوڑ کیا ان سے رجواڑے تک پناہ مانگتے تھے اس لئے شیخ صاحب کا ہر شہر میں ڈیکلریشن کا چھاپہ خانہ تھا اور وہ جہاں سے چاہتے اپنے عجیب عجیب دستخط شدہ پمفلٹ بڑے طرم بازوں کے خلاف بے دھڑک شائع کر دیتے۔‘‘ (۶)

دراصل یہ زمانہ ہندوستان میں انگریزوں اور ان کے گماشتوں کے خلاف بغاوتوں کا دور تھا رجواڑے مغربی سامراج کی پناہ گاہیں تھیں جہاں کے عوام روایتی ظلم و ستم کا شکار تھے شہزادوں، ولی عہدوں اور نوابوں میں باہم جنگ تخت نشینی رہتی تھی اور دربار میں سازشیں پروان چڑھتی تھیں، اس لئے اخبار نویسوں کا ایک طبقہ جس کے علم بردار دیوان سنگھ مفتون تھے بے باک صحافت کی داغ بیل ڈال رہے تھے اس طبقے سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بڑے بھائی ضیاء الحق صاحب کا تعلق تھا اس سلسلے میں فضل احمد صدیقی لکھتے ہیں:

’’تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ان کے شبدیز قلم نے بجائے ادب کے میدان سیاست کو جولاں گاہ بنایا جیسا کہ ان کی تصانیف سے ظاہر ہوتا ہے وہ اردو کے بڑے زبردست اہل قلم، انشاء پرداز، ماہر صحافی تھے بابائے اردو کو سر سید، علی گڑھ کالج کی تعلیم اور ماحول نے شہرت پر پہنچا دیا مگر وہ اپنے وطن اور پنجاب ہی میں رہے جہاں ان کے والد بر سر ملازمت تھے۔ انیسویں صدی کے آخر دور میں انہوں نے دیسی والیاں ریاست کی بد عنوانیاں اور بد کرداریاں اور مظالم بے نقاب کرنے کے لئے قلم اٹھایا اور کتابچے لکھ کر شائع کرنا شروع کیے جن میں سنسنی خیز انکشافات کئے گئے ۔ جس کے نتیجے میں ان پر مقدمات دائر ہوئے۔۔۔۔ 1904 کی تقسیم بنگال اور جنگ روس و جاپان کے ایام میں ہندو بنگالیوں نے حکومت انگریزی کے خلاف منظم ہل چل شروع کر رکھی تھی صوفی اصبا پرشاد کا ایک اردو اخبار نکلتا تھا جس سے شیخ صاحب بھی وابستہ رہے اور ان کے ہم نوا اور شریک کار ہو گئے جب حکومت نے ان لوگوں کے خلاف اقدامات شروع کئے تو اجیت سنگھ، اصبا پرشاد اور شیخ صاحب ہندوستان سے ایران چلے گئے اصبا پرشاد کا ایران میں انتقال ہو گیا، اجیت سنگھ ایران سے لاپتہ ہو گیا شیخ صاحب انگریزی سفیر متعینہ ایران کی ایماء پر گرفتار کر لئے گئے اور سات سال کی سزا ہو گئی۔۔۔۔ ان کورشین اسپائی (روس جاسوس) قرار دیا گیا اور سینٹرل انٹیلی جنس (مرکزی سی آئی ڈی) نے نگرانی شروع کر دی۔‘‘ (۷)

شیخ ضیاء الحق عمر کے آخری حصے میں بیمار رہنے لگے انہوں نے اپنے خط محررہ 8ستمبر 1936 ء میں سراج احمد عثمانی کو بیماری کے سلسلے میں تحریر کیا:

’’ڈاکٹروں کے علاج سے کچھ فائدہ ہوا، مگر کل نہیں تین چار دن سے یونانی علاج ایک باہر کے حکیم کا ہے بخار بالکل نہیں رہا کچھ یرقان کا اثر ہے کھایا پیا کچھ نہیں جاتا بلا سہارے نہیں چل سکتا۔‘‘

اس خط کے کچھ عرصے بعد شیخ ضیاء الحق صاحب کا یرقان کے سبب انتقال ہو گیا۔

شیخ ضیاء الحق مرحوم کو کتب بینی کا بہت شوق تھا اور ہزاروں کی تعداد میں بیش قیمت کتابیں ان کے ذاتی کتب خانے میں موجود تھیں۔ ان کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ نا قدری کا شکار ہو گیا اور یہ کتابیں ان کے صاحبزادے 1934ء میں دیوان سنگھ مفتوں کے حوالے کر آئے جنہوں نے اسے دہلی کے کتب خانہ نذیرہ کو دے دیا۔

مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی شیخ احمد حسن انجینئر تھے جن کی کفالت بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے کی شیخ احمد حسن نے اپنے مضمون ’’ابدی بھائی‘‘ مطبوعہ سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1936ء مرتبہ سید وقار عظیم صاحب میں تسلیم کیا ہے۔

’’انہوں نے 1897ء میں راقم الحروف کو بغرض تعلیم اپنے پاس حیدر آباد بلا لیا اور مدرسہ آصفیہ میں داخل کر دیا۔ فرصت کے اوقات میں خود بھی پڑھاتے رہے چھ سال تک میں ان کے پاس رہا۔ میرا رحجان ٹیکنیکل تعلیم (ڈرائنگ وغیرہ) کی طرف دیکھتے ہوئے نواب افسر الملک سے اس کا تذکرہ کیا ممدوح نے فرمایا کہ میجر اٹیکسن پرنسپل روڑ کی کالج میرے دوست ہیں احمد حسن کو اس کے پاس بھیج دیتا ہوں، جہاں لیاقت اور اہلیت کے مطابق اس کا داخلہ ہو جائے گا چنانچہ روڑ کی بھیج دیا گیا اور میجر اٹیکس پرنسپل تھامسن سول انجینئرنگ کالج روڑ کی نے امتحانی مقابلہ سے مستثنیٰ قرار دیتے ہوئے میرا داخلہ کر لیا یہاں سے 1907ء میں میں نے ڈپلوما حاصل کیا زمانہ تعلیم میں بحیثیت واحد سرپرست بھائی صاحب مرحوم ہی میرے جملہ مصارف ادا کرتے رہے صرف یہی نہیں بلکہ گھر کے اخراجات اور بہن بھائیوں نیز والدین کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر رہی۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی ساری حیات علم و ادب کی نذر کی۔ لوگوں کے تذکرے لکھے، خاکے قلم بند کئے، افکار و حالات پر قلم اٹھایا لیکن انہیں اپنی مربوط اور منظم آپ بیتی لکھنے کی فرصت نہ ملی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی یہ بحث چل رہی ہے کہ مولوی عبدالحق کا مولد اور تاریخ پیدائش کیا ہے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کے انتقال16اگست 1961 پر اخبارات میں ان کی عمر کے سلسلے میں کافی تضاد تھا اس ضمن میں افضل صدیقی صاحب نے اپنے مضمون ’’بزم سر سید کی آخری شمع‘‘ میں تحریر کیا:

’’مولوی صاحب کی عمر گذشتہ کئی دنوں سے 93یا94سال لکھی جا رہی ہے، جو غلط ہے کل بھی مولوی صاحب کی صحیح تاریخ شائع نہیں ہوئی، مارچ 1870ء لکھا گیا اصل میں بابائے اردو 20اپریل 1870ء کو پیدا ہوئے اس حساب سے ان کی عمر91برس اور4مہینے ہوتی ہے یہ بھی غلط ہے کہ وہ ہاپوڑ میں پیدا ہوئے ہاپوڑ کے قریب ایک مقام ہے ’’سسراواں‘‘ مولوی عبدالحق صاحب اس قصبے میں پیدا ہوئے۔‘‘

ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے بھی مشفق خواجہ صاحب کے نوٹس کے حوالے سے جو انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی میں لئے تھے اور اس پر ان کی زندگی میں منظوری بھی لے لی تھی، مولوی عبدالحق صاحب کی پیدائش20اپریل 1870ء اور جائے ولادت ’’سسراواں‘‘ نامی گاؤں بتایا ہے۔

ڈاکٹر ممتاز حسن11سے قبل اور بعد کے مصنفین تحریر کرتے رہے کہ مولوی عبدالحق کا خاندان کائستھ سے عہد شاہ جہانی میں مسلمان ہوا تھا لیکن ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب کا کہنا ہے:

’’ان کے بزرگوں نے جہانگیر کے عہد میں اسلام قبول کیا‘‘

شاہد عشقی نے مولوی عبدالحق کا سنہ ولادت 1871ء اور جائے ولادت ضلع میرٹھ کا شہر ہاپوڑ قرار دیا ہے۔

ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب 14نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کا سنہ ولادت اور زندگی کے ابتدائی حالات کے ضمن میں سب سے معتبر شہادت ان کے برادر خورد شیخ احمد حسن کی ’’معلومات آفریں تحریر‘‘ 15کو قرار دیا ہے جس میں وہ (شیخ احمد حسن) تحریر کرتے ہیں:

’’میرے دونوں بھائیوں کی پیدائش ہاپوڑ کی ہے اور جیسا اکثر لکھا گیا ہے کہ بھائی عبدالحق مرحوم سرواہ جو ہاپوڑ سے ملحق واقع ہے میں پیدا ہوئے، صحیح نہیں یہ بات ہمارے خاندانی رسم و رواج کے خلاف تھی کہ زچگی کا انتظام میکے میں ہو اس غلط فہمی کی وجہ شاید یہ ہو کہ والدہ مرحومہ اپنے ماں باپ کی واحد لڑکی اور اپنے بھائیوں کی ایک ہی بہن تھیں ہمارے نانا اور ماموں ان کو بہت عزیز رکھتے تھے اور ان کا قیام سراوہ میں رہتا تھا لیکن جہاں تک بھائی صاحب کی پیدائش کا تعلق ہے ان کا مولد ہاپوڑ ہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر سید معین الرحمن نے اس دلیل کا مزید ثبوت بابائے اردو مولوی عبدالحق کے 6مئی 1947ء کے اس اسلحہ کے فارم کی خانہ پری سے بھی دیا جس میں مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے قلم سے اپنی تاریخ ولادت اور وطن (ھوم ایڈریس) کی صراحت کی ہے جس کے مطابق مولوی عبدالحق صاحب کی تاریخ پیدائش20اگست 1870ء ہے اور مولد ھاپوڑ

بابائے اردو مولوی عبدالحق کے چھوٹے بھائی شیخ احمد حسن تحریر کرتے ہیں:

’’ہمارے خاندان میں نام حسن یا حسین پر رکھے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے سنا تھا کہ والد مرحوم شیخ علی حسین 18کے پیرو مرشد نے ان سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کے نام ’’حق‘‘ پر رکھنا لہٰذا پہلی دو نرینہ اولادوں کا نام حق پر رکھا گیا اب اسے محض حسن اتفاق کہئے یا پیر صاحب کی کرامت کی ہمارے خاندانی نام میں لفظ ’’حق‘‘ کا شامل ہونا بڑا مبارک ثابت ہوا۔‘‘

’’میرے دو بڑے بھائی تھے ایک حقیقی بھائی(شیخ ضیاء الحق مرحوم جرنلسٹ) دوسرے ’’ابدی بھائی‘‘ کسے معلوم تھا کہ یہ غلط تلفظ ایک دن حقیقت ہو کر رہے گا اور بھائی عبدالحق صاحب اپنے اس عشق کی بدولت جو انہیں اردو سے تھا واقعی ابدی شہرت کے مالک ہو کر رہیں گے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کا خاندان اوسط درجے سے تعلق رکھتا تھا لیکن ان کے والد نے اپنے بچوں کی تعلیم پر پوری توجہ دی۔

’’یہاں تک کہ زمین بیج دی اور قرض بھی حاصل کیا ہر طرح کی مصیبت اٹھائی لیکن اپنے لڑکوں کی تعلیم کے لئے کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کو بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق تھا اور ان کا دل کھیل کود کے بجائے لکھنے پڑھنے میں زیادہ لگتا تھا اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان کے بچوں کے ایک پروگرام میں مولوی عبدالحق صاحب نے ایک بچے کے سوال پر کہ انہیں کون سا کھیل پسند تھا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’یوں تو بچپن میں انہوں نے گیڑیاں اور گلی ڈنڈا بھی کھیلا ہے لیکن وہ کھلنڈرے نہیں تھے وہ بچپن سے غور و فکر کرنے کے عادی تھی یہی وجہ ہے کہ سر سید احمد خان انہیں عبدالحق فلسفی کے نام سے یاد کرتے تھے۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مولد اور تاریخ پیدائش کی طرح ان کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے اقبال یوسفی صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’ابتدائی تعلیم اپنے ننھیال سرواہ میں پائی جو ہاپوڑ کے قریب میرٹھ ہی کے ضلع میں واقع ہے پرائمری کے بعد مڈل تک ان کی تعلیم مشرقی پنجاب میں ہوئی۔‘‘

حکیم اسرار احمد صاحب کا بیان اس سے زیادہ واضح اور قرین قیاس ہے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’ابتدائی تعلیم ہاپوڑ اور سرواہ میں پائی (سرواہ ہاپوڑ کے قریب ایک گاؤں ہے جہاں مولوی صاحب کی ننھیال تھی) ابتدائی تعلیم سے فراغت پا کر وہ اپنے والد شیخ علی حسن مرحوم کے پاس فیروز پور پنجاب چلے گئے شیخ علی حسن صاحب سرکاری ملازم تھے اور ان دنوں فیروز پور میں تعینات تھے مولوی عبدالحق صاحب نے اردو مڈل تک یہیں تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ چلے گئے اور وہیں سے 1894ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔‘‘

ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے تحریر کیا ہے:

’’مولوی صاحب ابھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ ان کے ماموں شیخ امتیاز علی اور دوسرے ماموں نے جو پنجاب کے محکمہ مال میں ملازم تھے مولوی صاحب کی پرورش کی مولوی صاحب کی ابتدائی تعلیم کا دور پنجاب کے مختلف اضلاع مثلاً فیروز پور، گجرات وغیرہ میں گذرا میٹرک کا امتحان بھی انہوں نے پنجاب یونیورسٹی ہی سے پاس کیا یہ 1890ء کا واقعہ ہے یعنی مولوی صاحب20سال کی عمر میں انٹر پاس ہوئے اس سال وہ علی گڑھ گئے۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بھائی احمد حسن نے اپنے مضمون ’’ابدی بھائی‘‘ میں تحریر کیا کہ ان کی میٹرک تک تعلیم پنجاب میں ہوئی۔

مولوی عبدالحق صاحب کی ابتدائی تعلیم کے ضمن میں مختلف محققین بھی اس بات پر تو متفق ہیں کہ ان کی کم از کم مڈل تک تعلیم پنجاب میں ہوئی لیکن یہ بات حتی طور پر نہیں کہہ سکے کہ پنجاب کی وہ کون سی بستی اور درسگاہ تھی جس سے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب نے علم کا فیض حاصل کیا یا ان کے وہ کون سے ابتدائی معلمین تھے جن سے ان کے نیاز مندانہ مراسم تھے لیکن گوجرانوالہ کے ایک قانون گو شیخ خاندان کے چشم و چراغ خالد محمود ربانی مرحوم (صحافی) کی جستجو سے اس راز سے پردہ اٹھ گیا ہے اور یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی مڈل تک تعلیم گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں ہوئی جہاں خالد محمود ربانی مرحوم کے دادا ان کے معلم تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کے ان سے نیاز مندانہ مراسم تھے اس سلسلے میں خالد محمود ربانی صاحب کے پاس مولوی عبدالحق صاحب کی وہ نایاب تحریر ہے جو انہوں نے خالد محمود ربانی صاحب کے والد محترم شیخ اکرم ربانی صاحب سپرنٹنڈنٹ اسلامیہ کالج گوجرانوالہ کو ان کے اس خط کے جواب میں تحریر کی تھی جو انہوں نے مولوی صاحب کو گوجرانوالہ آنے کی دعوت کے لئے لکھا تھا۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے مرقومہ 17فروری 1953ء کے مکتوب سے ان کی ابتدائی تعلیم سے پردے اٹھ جاتے ہیں اور یہ بحث ختم ہو جاتی ہے کہ مڈل تک انہوں نے پنجاب میں کس جگہ تعلیم حاصل کی تھی مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’آپ کے والد شیخ کرم داد صاحب گوجرانوالہ کے مشن ہائی سکول میں معلم تھے اور میں طالب علم تھا وہ میرے حال پر بڑے مہربان تھے اور بہت شفقت فرماتے تھے کچھ دنوں بعد میں علی گڑھ چلا آیا اور ایم اے او کالج میں داخل ہو گیا اس کے چند سال بعد جب علی گڑھ کالج میں مسلم ایجوکیشن کانفرنس کا اجلاس ہوا تو آپ کے والد بھی اس میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے اس موقع پر ان سے ملاقات ہوئی وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے تعلیم سے فراغت کے بعد میں حیدر آباد دکن چلا گیا۔ بہت عرصے کے بعد جب میں صوبہ اورنگ آباد کا صدر مہتمم تعلیمات تھا آپ کے والد کا خط آیا(انہوں نے شاید اخباروں میں نام پڑھا تھا) اور مجھ سے دریافت کیا کہ تم وہی عبدالحق ہو جو کچھ دن گوجرانوالہ میں تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ میں وہی ہوں تو بہت خوش ہوئے ۔۔۔۔۔ معلوم نہیں ہے وہ مشن ہائی سکول اب ہے یا نہیں اس وقت گوجرانوالہ کوئی بڑا شہر نہیں تھا اب سنا ہے کہ بہت بڑا ہو گیا ہے، اور تجارت و صنعت کا مرکز ہے اس زمانے میں منشی محبوب عالم گوجرانوالہ ہی میں تھے اور انہوں نے اپنا ہفت روزہ ’’پیسہ اخبار‘‘ وہیں سے نکالا تھا۔‘‘

اس وقت مشن ہائی سکول کے کھنڈرات کے سوا اس کے کچھ آثار نہیں ہیں خالد محمود ربانی صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں داخل اور خارج ہونے کے ضمن میں مزید شہادتوں کے لئے گوجرانوالہ میونسپلٹی (جس کیزیر انتظام یہ ہائی سکول تھا) کا ریکارڈ نکالنے کی کوشش کی لیکن ریکارڈ کرم خوردہ اور ضائع ہو جانے کی وجہ سے ان کی کوشش بر آور نہ ہو سکی۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اس مکتوب سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشن ہائی سکول گوجرانوالہ سے ہی علی گڑھ گئے لیکن انہوں نے میٹرک تک تعلیم یہاں حاصل نہیں کی کیوں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’تہذیب الاخلاق کا مطالعہ مجھے کھینچ کر علی گڑھ لے گیا اور میں کالج کے سکول میں داخل ہو گیا پہلے کانوں پر تکیہ تھا اب آنکھوں نے جلوہ دکھایا۔‘‘

کالج کے سکول میں داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق انٹرنس پاس کرنے سے قبل ہی علی گڑھ گئے اور یہ امتحان انہوں نے علی گڑھ کے زمانہ قیام میں پاس کیا۔

مولوی عبدالحق کو علی گڑھ کے مدرسے کا ماحول بڑا طلسماتی اور دلکش محسوس ہوا اس کا تذکرہ وہ بڑے پر لطف انداز میں کرتے ہیں، کہتے ہیں:

’’میں جب اول روز مدرسۃ العلوم مسلمانان ایم اے او کالج علی گڑھ کے سکول میں داخل ہوا تو بورڈنگ ہاؤس میں پرنسپل صاحب کی عنایت سے کمرہ مل گیا، مجھے ایسا معلوم ہوا کہ نئی دنیا میں آ گیا ہوں وہاں کے طالب علم، ان کی عادات اور شرارتیں اور مصروفیات، وہاں کے ڈائننگ ہال اور اس کے کھانے، دنیا بدل گئی پر اس کا مزہ نہ بدلا، مسجد اور نمازیں اور موذن کی کڑک دار آواز، یہ سارا ماحول میرے لئے بالکل نیا اور عجیب سا تھا 1888ء یا 1889ء کی بات ہے، اس وقت طالب علموں کی تعداد تین سو سے زیادہ نہ تھی۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے علی گڑھ کے مدرسے میں بڑی دلجمعی سے پڑھا انہیں کھیل کود سے رغبت نہ تھی، بلکہ مسٹر بیک کمرے سے پکڑ انہیں کھیل کے میدان میں لے بھی جاتے، تو مولوی صاحب فیلڈ میں پہنچ کر غچہ دے کر دوسری طرف نکل جاتے مولوی صاحب کے ذہن پر اسکول کے اساتذہ کی بڑی گہری چھاپ تھی اور وہ بڑے خلوص اور عقیدت سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں مولوی صاحب کہتے ہیں:

’’اسکول کے سب معلم ہندوستانی تھے سوائے ہیڈ ماسٹر ہیورسٹ کے، جو بلند قامت، گراں ڈیل شخص تھے اور کسی فوج کے کرنیل معلوم ہوتے تھے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر ولایت حسین تھے، جو بڑے محنتی اور فرض شناس تھے بورڈنگ ہاؤس کی نگرانی انہی کے ذمے تھی اور وہ بورڈنگ ہاؤس ہی کے کمرے میں رہتے تھے۔ ان کے ذمے اور بھی کئی کام تھے سر سید، محسن الملک اور دیگر اکابرین کے بہت عزت کرتے تھے میرے حال پر بڑی مہربانی فرماتے وہ ہماری جماعت کو ریاضی بھی پڑھاتے تھے۔‘‘

’’اسکول کے معلمین میں مولوی خلیل احمد صاحب کی دھج نرالی تھی وہ عربی کے استاد تھے چھوٹے قد کے، ٹخنوں سے اونچا شرعی پاجامہ، کوتاہ نظر، وہ بورڈنگ ہاؤس ہی میں رہتے تھے۔‘‘

اسکول کے زمانے کی طرح کالج کے ایام بھی بابائے اردو مولوی عبدالحق بہت یاد کرتے ہیں سر سید کی محبت، مسٹر بیک کا تذکرہ، کالج کا ماحول اور پروفیسروں کی شفقتیں بابائے اردو مولوی عبدالحق کی یادوں کا انمول خزانہ ہیں۔ مولوی عبدالحق ان ایام رفتہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’کالج میں تمام پروفیسر سوائے عربی، فارسی، سنسکرت اور ریاضی کے انگریز تھے، فارسی، عربی کے پروفیسر مولانا شبلی اور مولانا عباس حسین تھے ریاضی کے بابو مکر جی، مولانا شبلی، شاعر ادیب اور مورخ تھے ان کی جماعت میں بیٹھ کر جی خوش ہوتا تھا۔ موقع موقع سے ادبی نکات اور اساتذہ کے اشعار اور لطائف سنا کر تاریخی واقعات اس طرح بیان کرتے تھے کہ درس کا حق ادا ہو جاتا تھا عباس حسین نرے ملا تھے ادبی ذوق سی عاری، البتہ ضلع جگت کے استاد تھے ضلع بولنے سے کبھی نہ چوکتے اور جو کوئی ان کے جواب میں ویسا ہی بول جاتا تو باغ باغ ہو جاتے۔۔۔۔۔ پروفیسر آرنلڈ کی حیثیت کالج میں خاص بلکہ امتیازی تھی وہ علم کے سچے طالب اور علم دوست تھے۔‘‘

کالج کے زمانے میں جو نامور شخصیات ان کی ہم جماعت تھیں ان میں ڈاکٹر ضیاء الدین، مولوی حمید الدین، مولانا ظفر علی خان، ولایت اللہ، سید محفوظ علی، خواجہ غلام الثقلین، شیخ عبداللہ، سیٹھ یعقوب حسین اور خان بہادر شوکت علی شامل تھے۔

ان تمام مباحث کا حاصل یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انٹرنس(میٹرک) یا بی اے علی گڑھ سے کیا شہاب الدین ثاقب لکھتے ہیں

’’ 1892ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد مولوی صاحب بی اے کی جماعت میں پہنچے بی اے میں فلسفے سے شغف ہوا، اس وجہ سے شمس العلماء مولانا خلیل احمد مرحوم بہت دنوں تک انہیں فلاسفر کے لقب سے یاد فرماتے تھے۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے بی اے کرنے کے سلسلے میں بھی مختلف اور متضاد بیانات میں مثلاً افضل صدیقی، شاہد عشقی، ممتاز حسین، ڈاکٹر سید معین الرحمن اور حکیم اسرار احمد وغیرہ نے بی اے پاس کرنے کا سال 1894ء تحریر کیا ہے، جبکہ شہاب الدین ثاقب نے ایم اے او کالج کی ڈائریکٹری کے حوالے سے تحریر کیا ہے:

’’مولوی عبدالحق صاحب نے 1895ء میں بی اے سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔۔۔۔۔۔ ضیاء الدین احمد، ظفر علی خان، سید محفوظ حسین اور محمد ولایت اللہ وغیرہ مولوی صاحب کے ہم جماعت تھے اور سب نے ساتھ ہی 1895ء میں بی اے پاس کیا۔‘‘

اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب نے 1895ء میں بی اے کیا۔

ڈاکٹر ممتاز حسین صاحب نے ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ میں ان کے بی اے کے داخلے کے ضمن میں تحریر کیا ہے:

’’مولوی صاحب ابھی کم سن ہی تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ان کے بڑے ماموں شیخ امتیاز علی اور دوسرے ماموؤں نے جو پنجاب کے محکمہ مال میں ملازم تھے، مولوی عبدالحق کی پرورش کی۔‘‘

یہ بات بھی درست نہیں ہے کیونکہ بہت سے ایسے بیانات ملتے ہیں جن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ملازمت کر لینے تک ان کے والد صاحب کا تذکرہ ملتا ہے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق کے بھائی شیخ احمد حسن نے مولوی صاحب کا علی گڑھ میں داخلے کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:

’’بھائی صاحب مرحوم کو علی گڑھ میں داخل کر دیا گیا جہاں سے انہوں نے 1894 ۔95ء میں بی اے پاس کیا یہ ہاپوڑ کے پہلے شخص تھے جو انگریزی تعلیم کے لئے کالج میں داخل کئے گئے اس وقت ماحول اور شدید خاندانی مخالفت کے پیش نظر والد صاحب کا یہ اقدام بے حد جرأت مندانہ تھا۔‘‘

مندرجہ بالا بیان کی تصدیق کہ بابائے اردو کے والد کا سایہ بچپن میں نہیں اٹھا تھا، محمود حسین صاحب کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب کے اپنے خاندان سے تعلقات اور ان کی خاندان پروری کا ذکر بڑی سپاس گزاری سے کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’مولوی صاحب نے علی گڑھ سے بی اے کرنے کے فوراً بعد حیدر آباد کا رخ کیا اور نواب محسن الملک کے توسط سے آصفیہ سکول کے ہیڈ ماسٹر ہوئے بعد ازاں بڑے سے بڑے عہدوں پر فائز رہے اور جو ترقی کی وہ سب پر ظاہر ہے ملازم ہوتے ہی اپنے چھوٹے بھائی یعنی میرے والد کو اپنے پاس بلا لیا اور ان کو تعلیم دلائی ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے خرچ پر انجینئری کی تعلیم کے لئے روڑکی بھیجا۔۔۔۔ دادا دادی کو برابر ماہانہ معقول رقم اخراجات کے لئے تا حین حیات بھیجتے رہے اور دادا دادی کے انتقال کے بعد یہی رقم اپنے بڑے بھائی شیخ ضیاء الحق مرحوم کو بھیجتے تھے۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق 1888ء میں بحیثیت طالب علم علی گڑھ وارد ہو کر 1895ء میں فارغ التحصیل ہوئے یہ زمانہ علی گڑھ کے عروج کا زمانہ تھا سر سید کی ولولہ انگیز شخصیت اور مولانا حالی کی پاس داری مولوی عبدالحق کی شخصیت پر وہ نقش اول تھا جو نقش آخر ثابت ہوا۔

پروفیسر آرنلڈ کی ’’اخوان الصفا‘‘ نے مولوی عبدالحق کے لئے خطبات کی راہیں ہموار کیں اور طالب علموں میں بہت مشہور ہو گئے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’ایک مضمون میں سینٹ پال پر پڑھا اس دن سے لڑکے مجھے سینٹ پال کہنے لگے‘‘

علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی سے ہی مولوی عبدالحق کو مضمون نگاری کا چسکا پڑ گیا یہاں تک کہ انہیں 1888 -89ء میں ان کے ایک مضمون پر تمغہ لارڈ لینسی ڈاؤن ملا۔

سر سید احمد خان جوہر شناس تھے انہوں نے جوہر قابل پایا تو:

’’ان کی صلاحیتیں دیکھتے ہوئے سر سید نے تہذیب الاخلاق میں بھی ان سے کام لینا شروع کر دیا‘‘

مولد، سن ولادت اور تعلیم کی طرح ان کی شادی کا مسئلہ بھی روایات کی گتھیوں کا شکار ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے سرے سے شادی ہی نہیں کی اور اکثر یہ کہتے ہیں کہ کی تھی، لیکن گھر نہیں بسایا محمود حسین تحریر فرماتے ہیں:

’’مولوی صاحب نے عمر بھر شادی نہیں کی۔۔۔۔ ایک دفعہ جب دادا دادی نے شادی کرنا چاہی تو منہ سے تو نہ کہہ سکے لیکن ایسا طریقہ اختیار کیا کہ یہ زنجیر ان کے پاؤں میں نہ پڑ سکی۔۔۔۔ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بھوپال میں شادی کی تھی یا کچھ عرصہ ازدواجی زندگی گزاری تھی۔۔۔۔ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے صحیح اور حقیقی معنی میں ان کی شادی، جیسا کہ خود مرحوم نے ایک دفعہ فرمایا تھا اردو سے ہو چکی تھی وہی ان کی محبوب ان کی اولاد‘‘

شاہد احمد دہلوی کا بھی یہی خیال ہے کہ مولوی عبدالحق نے شادی ساری عمر نہیں کی۔

لیکن بعض لوگوں نے اپنی تحریروں اور بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کا تذکرہ بڑے وثوق سے کیا ہے اور ان کی زوجہ کا نام تک تحریر کیا ہے صوفی عبدالرشید نے اپنی والدہ کے حوالے سے کہا:

’’جب ان کی چھوٹی بہن کی شادی چھوٹے محل میں ہونے لگی جو ہاپوڑ کا ایک زمیندار گھرانہ تھا تو مولوی صاحب کی شادی بھی اسی گھرانے کی ایک لڑکی سے طے کر دی گئی تھی مولوی صاحب کی بیوی کا نام جعفری تھا یہ شادی مولوی صاحب نے زبردستی والدہ کے اصرار پر کی تھی مگر ان سے یہ زبردستی زیادہ دیر تک برداشت نہ ہوئی، اور بیوی سے بالکل تعلق نہ رکھا، اور علی گڑھ چلے گئے۔ تھوڑے عرصے بعد مولوی صاحب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ان کی شادی کسی دوسری جگہ ہو گئی پھر مولوی صاحب نے ساری عمر شادی نہ کی۔‘‘

بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک دوسرے معتمد جن کی ساری عمر مولوی صاحب کی خدمت میں گزری، انہوں نے بھی اپنی والدہ سے روایت کی ہے کہ:

’’جناب قبلہ مولوی صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی، یہ بات غلط ہے انہوں نے شادی کی تھی اور جس لڑکی سے شادی کی تھی وہ بھی مولوی صاحب کے خاندان کی تھی یہ بات اس لئے اور پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ میرا مکان بھی مولوی صاحب کے بالکل قریب تھا اور میری والدہ صاحبہ برابر ان کے ہاں جایا کرتی تھیں اور جس دن مولوی صاحب کی شادی ہوئی، میری والدہ بھی شریک ہوئی تھیں۔ جب شادی سے فارغ ہو گئے تو سب اگلے دن صبح کو ولیمے کی تیاری میں مصروف تھے معلوم ہوا کہ دولہا میاں علی الصبح گھر سے روانہ ہو چکے ہیں، یہ بات بڑی مضحکہ خیز تھی گھر کے لوگوں کو بڑی شرمندگی اٹھانا پڑی کچھ عرصے کے بعد معلوم ہوا مولوی صاحب قبلہ نے اپنی بیوی کا مہر وغیرہ سب کچھ ادا کر دیا ہے ان کی بیوی کافی عرصے تک میکے بیٹھی رہی اور پھر کافی عرصے بعد ایک دوسرے صاحب ممتاز حسین کے ساتھ ان کا نکاح ہوا اور کئی بچے بھی ان سے ہوئے جو اب تک ہاپوڑ میں موجود ہیں‘‘

غیور عالم صاحب نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں ہاپوڑ کے لوگوں کے حوالے سے ان کی شادی ہونے کی شہادت دی ہے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’مولانا کی شادی ہوئی تھی لیکن وہ شادی کے سخت خلاف تھے۔ ہاپوڑ میں بعض لوگوں نے بتایا کہ مولانا نے شادی کی شروع ہی سے مخالفت کی تھی، بقول ہاپوڑ کے ایک بزرگ ’’وہ کہتے تھے کہ میری شادی اور میری بہن کی شادی بدلہ میں مت کرو‘‘ اور بقول مقتدا خان شیروانی ’’میں بیوی کے حقوق ادا نہ کر سکوں گا‘‘ لیکن والدین نہیں مانے اور خصوصاً والدہ نے بہت اصرار کیا تو مولوی عبدالحق چپ ہو گئے لیکن ادھر دلہن رخصت ہو کر آئی، ادھر مولانا دوسرے دروازے سے نکل کھڑے ہوئے، اور حیدر آباد جا کر طلاق لکھ کر بھیج دی۔‘‘

ڈاکٹر سید معین الرحمن نے یکم اگست 1964ء کو بابائے اردو کے ایک قدیم دوست نواب معشوق یار جنگ کا ایک طویل انٹرویو لیا تھا جس میں انہوں نے ان سے بابائے اردو مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں بھی ایک سوال کیا تھا یہ انٹرویو ’’قومی زبان‘‘ کراچی کے 1964ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا ڈاکٹر سید معین الرحمن تحریر کرتے ہیں کہ میرے ایک سوال کے جواب میں نواب صاحب نے فرمایا:

’’تجرد پسندانہ زندگی کی نعمتوں یا متاہلانہ زندگی کی برکتوں کا بھی کوئی ذکر مولوی صاحب نے مجھ سے کبھی نہیں کیا بلکہ کسی سے نہیں۔۔۔ ویسے میں نے سنا ہے کہ مولوی صاحب کی شادی ہو گئی تھی۔ لڑکی والوں نے پرانی رسموں کی انجام دہی پر اصرار کیا تو مولوی صاحب بدک گئے اور وہاں سے بمبئی بھاگ آئے۔ یہاں سے کچھ دنوں بعد حیدر آباد چلے گئے بعد میں سنا ہے، طلاق بھی ہو گئی۔۔۔۔ یہ میں کوئی شہادت نہیں دے رہا یہ ساری بات ہے میں نے جیسا سنا، آپ کو بتا دیا، اب صحیح صورت حال کیا تھی، اللہ جانے‘‘

مولانا عبدالماجد دریا آبادی صاحب نے بھی نواب معشوق یار جنگ سے ملتا جلتا بیان دیا ہے۔ انہوں نے بابائے اردو مولوی عبدالحق کے ایک پرانے رفیق منشی ظفر الملک علوی مرحوم کاکوروی کے حوالے سے تحریر کیا ہے:

’’منشی ظفر الملک مرحوم علوی کاکوروی سے یہ روایت سننے میں آئی تھی کہ شادی ٹھہر چکی تھی مگر بارات جس وقت پہنچی، اس وقت کوئی ایسا نا خوشگوار واقعہ پیش آ گیا، جس سے متاثر ہو کر موصوف نے عمر بھر مجرد ہی رہنے کا عہد کر لیا۔‘‘

شہاب الدین ثاقب نے مشفق خواجہ صاحب اور صوفی عبدالرشید کے حوالے سے یہی کہا ہے:

’’جناب مشفق خواجہ اور صوفی عبدالرشید نے راقم الحروف کو کراچی میں ملاقات کے دوران بتایا کہ مولوی عبدالحق کی شادی ہوئی تھی لیکن بیوی کے حقوق کی ادائیگی کے متعلق انہیں ناکامی کا احساس تھا اس لئے بیوی کو طلاق دینے کے سوا ان کے نزدیک چارہ کار نہ تھا۔‘‘

مولوی عبدالحق کی شادی کے سلسلے میں جتنے بیانات سامنے آئے ہیں ان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا پڑتا ہے کہ ان کا نکاح ضرور ہوا تھا لیکن بات نکاح سے آگے نہ بڑھ سکی اور وہ گھر بسانے اور گھریلو جھنجھٹوں سے آزاد رہے۔ ان کی ازدواجی زندگی سے آزادی، علم و ادب کے لئے نیک فال ثابت ہوئی اور ان کی بھر پور توجہ ان کے اپنے مشن یعنی اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لئے وقف ہو گئی۔ اردو کی خدمت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ اردو سے ان کا والہانہ عشق اس بلندی کو چھو گیا جہاں ان کی ذات اور اردو ایک دوسرے میں مدغم ہو گئیں۔

٭٭٭٭٭٭

 

 

دکن کا دور اور انجمن ترقی اردو سے تعلق

 

( 1895ء تا 1935ء)

 

ہندوستان میں جس طرح حصول علم کے لئے علی گڑھ مسلم نوجوانوں کے لئے مرکز نگاہ تھا، یہی حیثیت حصول روزگار کے لئے ریاست حیدر آباد دکن کو حاصل تھی۔ دکن میں پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں کو بڑی عزت اور قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا اور ان کی ہمت افزائی کی جاتی تھی اس کے نتیجے میں سارے ہندوستان اور بالخصوص بہار، بنگال، یوپی اور پنجاب سے پڑھا لکھا طبقہ حیدر آباد دکن کا رخ کرتا اور وہاں اپنے جوہر دکھاتا بقول محمد اعظم:

’’مولوی عبدالحق کے علی گڑھ سے فارغ التحصیل ہونے کا زمانہ وہ تھا جب ہندوستان کے طول و عرض سے اہل فضل و کمال کھنچ کھنچ کر اس عروس البلاد میں پہنچ گئے تھے، جو عہد عباسیہ کے بعد بغداد کی طرح علم و حکمت کا گہوارہ بنا ہوا تھا اور جہاں علم و فن کے با کمال کثیر تعداد میں جمع تھے۔ چنانچہ اس وقت اردو کے اکثر ممتاز ادیب، شعراء اور انشاء پرداز حیدر آباد میں موجود تھے مثلاً نواب حیدر یار جنگ، طباطبائی، جوش ملیح آبادی، فصاحت جنگ، جلیل، سجاد مرزا بیگ دہلوی، مرزا ہادی رسوا اور مرزا فرحت اللہ بیگ وغیرہ۔‘‘

گو مولوی عبدالحق کے بھائی شیخ احمد حسن کا بیان ہے:

’’وہ علی گڑھ سے بی اے پاس کرنے کے بعد سر سید کی ایماء پر محسن الملک کے خط کے ساتھ حیدر آباد گئے، جہاں نواب وقار الملک کمانڈنگ چیف نے مدرسہ آصفیہ میں بطور ہیڈ ماسٹر تقرری کرا دی۔‘‘

لیکن خود مولوی عبدالحق صاحب اور ان کے رفقاء کار کی تحریروں سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے حیدر آباد جانے سے قبل بمبئی کا رخ کیا تھا جہاں وہ تجارت اور صحافت کا پیشہ اختیار کرنا چاہتے تھے۔

بمبئی میں ان کا تعلق لیڈی حیدری کے خاندان سے رہا جو روشن خیال سلیمانی بوہری کنبہ تھا گو وہ تاجر پیشہ تھے، لیکن علی گڑھ تحریک اور جدید علوم کے حامی تھے محمد حبیب اللہ رشدی کا بیان ہے:

’’مولوی عبدالحق نے ایک مرتبہ گفتگو کے دوران میں فرمایا تھا کہ بمبئی میں لیڈی حیدری کے والد انہیں کام سکھاتے تھے‘‘

بمبئی کے سفر کا ذکر مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کانفرنس منعقدہ بمبئی 1945ء میں بھی کیا تھا انہوں نے فرمایا:

’’بمبئی کی اردو سے وابستگی خاصی پرانی ہے نوے سال پہلے بھی یہاں سے اردو اخبار نکلتے تھے جس میں کشف الاخبار، روضۃ الاخبار، ریاض الاخبار، برق خاطف کے نام اب تک ملتے ہیں ایک اخبار ’’پریم گوپال پرکاس‘‘ نام کو بھی تھا جو اردو میں شائع ہوتا تھا جب 1895ء میں یہاں آیا تو اس وقت بھی جاری تھا اور میں اس کے ایڈیٹر سے ملا تھا‘‘

تحسین سروری لکھتے ہیں:

’’ریاست حیدر آباد کے معتمد مال نواب محسن الملک سے ان کی ملاقات ہوئی جو تبدیل آب و ہوا کی غرض سے وہاں ٹھہرے ہوئے تھے نواب صاحب نے مولوی صاحب کو عارضی طور پر پرائیویٹ سیکرٹری بنا لیا مولانا ظفر علی خان اور مولوی امین زبیری بھی وارد بمبئی ہوئے وہ محسن الملک سے ملے اور انہی کے ساتھ رہنے لگے ان تینوں نوجوانوں نے اپنے علم، اپنی روشن خیالی اور مستعدی سے نواب صاحب کو کافی متاثر کیا اور نواب صاحب ان نوجوانوں کو دل سے چاہنے لگے۔‘‘

لیکن مولوی عبدالحق اور ان کے ان رفقاء کا بمبئی میں قیام بہت مختصر اور عارضی تھا بالآخر امین زبیری صاحب نے بھوپال اور ظفر علی خان نے حیدر آباد دکن کا رخ کیا تحسین سروری تحریر کرتے ہیں:

’’مولوی عبدالحق اور ظفر علی خان نے محسن الملک سے سفارشی خط لے کر 1889ء میں حیدر آباد دکن کی راہ لی حیدر آباد میں اس وقت ہوم سیکرٹری مولوی عزیز مرزا تھے انہیں نے علی گڑھ کے ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی قدر کی اور اپنے دفتر میں ملازم رکھ لیا ان کے ذمے مترجمی کا کام تھا۔‘‘

لیکن ’’نقوش‘‘ لاہور کے آپ بیتی نمبر 1964ء میں مولانا ظفر علی خان کے حیدر آباد دکن پہنچنے کے سلسلے میں یوں تحریر ہے:

’’مولانا ظفر علی خان یہاں (دکن) 1896ء کے آخر میں پہنچے اور تیرہ سال قیام کیا‘‘

اور یہی سن حیدر آباد دکن جانے کا درست معلوم ہوتا ہے پروفیسر سید محمد نے اپنے مضمون ’’بیسویں صدی کا سر سید‘‘ میں لکھا ہے:

’’مولوی صاحب علی گڑھ سے نکلتے ہی بمبئی میں نواب محسن الملک کے ہاں انگریزی مراسلت اور مضمون نگاری کے کام پر مامور ہوئے۔ دو سال کے اندر ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو دیکھ کر افسر الملک انہیں حیدر آباد لے آئے اور مدرسہ آصفیہ کی پرنسپلی پر ان کا تقرر کرا دیا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے بمبئی جانے کا سن 1895ء بتایا ہے اور اگر وہ مولانا ظفر علی خان کے دو سال بعد حیدر آباد گئے تو یقیناً 1896ء کا آخر درست معلوم ہوتا ہے۔

حبیب اللہ رشدی کا خیال ہے کہ پہلے مولوی عبدالحق صاحب کو بریگیڈ آفس میں ملازمت ملی اس کے بعد مدرسہ آصفیہ ملک پیٹھ حیدر آباد کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا یہ مدرسہ نواب سر افسر الملک بہادر کمانڈر انچیف افواج کے ایما پر ان کے داماد میجر ممتاز الدولہ نے فوجیوں کے بچوں کے لئے قائم کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب 1908ء تک اس مدرسے کے ہیڈ ماسٹر رہے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے مدرسہ آصفیہ کے نظم و ضبط کے لئے ان تھک جدوجہد کی اور اس کا دائرہ فوجی افسروں کے بچوں سے بڑھا کر عام شہریوں تک وسیع کر دیا بہت جلد مدرسہ آصفیہ نے حیدر آباد کی درسگاہوں میں امتیازی مقام حاصل کر لیا بقول محی الدین صاحب:

’’اب تک حیدر آباد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اس مدرسے میں مولوی صاحب کے زمانہ صدارت میں تعلیم پائی تھی، وہ ان کے دل چسپ طریقہ تعلیم اور محبت آمیز برتاؤ کا ابھی تک ذکر کرتے ہیں۔‘‘

مدرسہ آصفیہ کی سربراہی اور رسالہ ’’افسر‘‘ سے مولوی عبدالحق کے تعلق کا تذکرہ ایک ساتھ چلتا ہے محی الدین احمد کا خیال ہے:

’’مولوی عبدالحق صاحب نے اسکول میگزین کے طور پر سالہ ’’افسر‘‘ جاری کیا جو کرنل افسر الملک بانی مدرسہ کے نام سے معنون ہے۔‘‘

یہ رسالہ 1897ء میں نواب افسر الدولہ نے حیدر آباد دکن سے جاری کیا تھا بعض محققین کا خیال ہے کہ مدرسہ آصفیہ کی صدر معلمی اور رسالہ ’’افسر‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں مولوی عبدالحق کو ایک ساتھ سونپی گئی تھیں یہی خیال تحسین سروری کا ہے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’ایک موقعہ پر 1898ء مولوی عبدالحق کی ملاقات حضور نظام (نواب میر محبوب علی خان غفران مکان) کے ایڈی کانگ اور افواج آصفیہ کے سپہ سالار افسر الملک نواب افسر یار جنگ سے ہوئی افسر جنگ سپاہی زادے تھے، لیکن وہ علم و فضل کے بڑے قدر دان تھے چنانچہ مولوی صاحب کے علمی ذوق و شوق اور ان کی ادبی معلومات سے اتنے خوش ہوئے کہ انہیں اپنے رسالے (افسر) کی ادارت کے لئے منتخب کر لیا، اور ساتھ ہی اپنی قائم کی ہوئی درس گاہ مدرسہ آصفیہ کی صدر مدرسی کی پیش کش کر دی۔‘‘

مولوی عبدالحق کا مدرسہ آصفیہ سے تعلق 1897ء میں ہو چکا تھا 1899ء میں رسالہ ’’افسر‘‘ سے منسلک ہوئے اور جنوری 1900 سے رسالے کی باقاعدہ ادارت کرنے لگے یہ رسالہ پانچ سال جاری رہنے کے بعد سن 1902ء کے وسط میں بند ہو گیا مولانا الطاف حسین حالی نے رسالے کے بند ہونے پر اپنے ایک مکتوب بنام مولوی عبدالحق صاحب محررہ 10جولائی 1902ء میں بہت افسوس کا اظہار کیا، انہوں نے لکھا:

’’کیا ’’افسر‘‘ بالکل بند ہو گیا؟ افسوس ہے ہندوستان میں کوئی عمدہ رسالہ نہیں چل سکتا معارف، ادیب، حسن اور دیگر عمدہ میگزین چند روز کی دنیا کی ہوا کھا کر نوبت بہ نوبت راہئی ملک عدم ہو گئے پھر ’’افسر‘‘ کے چلنے کی کیا امید ہو سکتی تھی؟ (بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں) جس چیز کی خریداری کا مدار زیادہ تر مسلمانوں پر ہو گا، اس کا رونق اور فروغ معلوم۔۔‘‘

مولانا ظفر علی خان بھی مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ حیدر آباد دکن وارد ہوئے تھے وہ مختلف خدمات انجام دیتے ہوئے 1900ء میں معتمد عدالت و امور عامہ کوتوالی میں صدر مترجم کے عہدے پر فائز ہوئے لیکن درباری سازشوں نے مولانا ظفر علی خان کے قدم حیدر آباد دکن سے اکھاڑ دیے اور 9اکتوبر 1909 کو مولانا ظفر علی خان کو حیدر آباد سے اخراج کا حکم صادر ہوا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس واقعہ پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:

’’9اکتوبر 1909 کو ہماری قسمت نے دفعتاً پلٹا کھایا، یعنی مشیت ایزدی عتاب الٰہی کی شکل میں نازل ہوئی۔۔۔۔ اگر13سال تک دولت آصفیہ کی سلک ملازمت میں منسلک رہنے کے بعد بلا اس بات کے آگاہ کئے ہوئے کہ میرا جرم کیا ہے، صرف اس مبہم علت پر کہ میں نے مولوی عزیز مرزا مرحوم کے ساتھ مل کر دولت آصفیہ کے ساتھ خفیہ ساز باز میں حصہ لیا، اور مجھے اڑتالیس گھنٹے کے اندر حیدر آباد کو ، جو میرا دوسرا وطن عزیز تھا چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو یہ سب کچھ سرمایکل اڈوائر کی عنایت کا نتیجہ تھا۔‘‘

حیدر آباد دکن سے مولانا ظفر علی خان کی ریاست بدری کے بعد مولوی عبدالحق کو ان کی جگہ بطور مترجم ہوم آفس مامور کیا گیا۔

فروری 1911ء میں مسٹر گوبند رام چندر کالے مددگار مہتمم تعلیمات حیدر آباد رخصت پر گئے تو نواب سر بلند جنگ معتمد تعلیمات نے مولوی عبدالحق صاحب کو 7فروری 1911ء سے تین ماہ کے لئے اپنی نیابت میں لے لیا کالے صاحب نے مزید چھ مہینے کی رخصت لے لی تو مولوی عبدالحق صاحب مستقل طور پر محکمہ تعلیمات سے وابستہ ہو گئے وہ یہ خدمت بطور مہتمم تعلیمات 1915ء تک انجام دیتے رہے اور ان کا مرکز اورنگ آباد ہو گیا۔ جہاں اس کے بعد وہ صدر مہتمم تعلیمات بھی مقرر ہوئے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے بطور مہتمم تعلیمات اپنی صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کیا اور ماہر تعلیمات کی حیثیت سے اپنی قابلیت تسلیم کر الی۔

مولوی عبدالحق صاحب نے مہتمم تعلیمات ہوتے ہی اس شعبے میں جان ڈال دی۔ وہ بڑی پابندی سے مدرسوں کا معائنہ کرتے اور اساتذہ کی تدریسی کانفرنس منعقد کرتے مولوی صاحب کی ان انتظامی صلاحیتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے سید سجاد علی تحریر کرتے ہیں:

’’مولوی صاحب نے صدر مہتمم تعلیمات کی حیثیت سے صوبہ اورنگ آباد کے اضلاع کی ہی نہیں بلکہ ملحقہ چھوٹے چھوٹے مقامات کی تحتانی مدارس تک کا تفصیلی دورہ کیا۔ وہاں کے حالات سے ذاتی واقفیت حاصل کی۔ انتظامات کی اصلاح کی طریقہ تدریس میں جدتیں پیدا کیں ریل، سڑک، بیل گاڑی، ٹٹو، پیدل، غرض جس طرح بنا، طویل دورے کئے۔ سفر کی صعوبتیں برداشت کیں اور صوبے میں تعلیم اور ترقی کا غیر معمولی جوش و ولولہ پیدا کیا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی تعلیمی اصلاحات کا آغاز ہی کیا تھا کہ دسمبر 1912ء میں ان کے کندھوں پر انجمن ترقی اردو کی ذمہ داریاں بھی آن پڑیں۔ انجمن ترقی اردو کے معتمد عزیز مرزا صاحب تھے لیکن 1902ء میں ان کے انتقال کے بعد سے یہ عہدہ خالی پڑا تھا 1911ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس لکھنو میں منعقد ہوا تو اس میں اس عہدہ کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو منتخب کر لیا گیا اور انہوں نے مہتمم تعلیمات کے ساتھ ساتھ معتمد انجمن کے طور سے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی ملازمت کا مرکز اورنگ آباد تھا، اس لئے انجمن ترقی اردو کا مرکز بھی اورنگ آباد کو قرار دیا گیا اور انجمن کا دفتر جو پہلے علی گڑھ میں تھا اورنگ آباد منتقل ہو گیا یہاں مقبرہ درانی ہی انجمن اور مولوی صاحب دونوں کا مستقر مقرر ہوا۔

مولوی عبدالحق صاحب کو بطور معتمد انجمن ترقی اردو، وراثت میں رسی سے بندھا ہوا ایک چوبی صندوق ملا جس میں چند غیر مرتب مسودات، ایک رجسٹر اور قلم دوت تھی۔

’’لیکن 1912ء میں اجلاس کانفرنس کے انتخاب نے ان کی جولانی طبع کے لئے بالکل نیا اور وسیع میدان کھول دیا اور وہ ایسے تازہ شوق اور ولولے کے ساتھ اس اقلیم جدید میں داخل ہوئے جو سرکاری عہدہ داری یا تصنیف و تالیف کے عام مشغلوں میں پیدا نہ ہو سکتے تھے انجمن، زندگی کی نئی دھن اور سب سے بڑا مقصد حیات بن گئی۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی جدوجہد اور سر تن کی بازی سے انجمن ترقی اردو کی آبیاری کی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق کی ذات ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہو گئیں کہ جدا کرنا مشکل ہو گیا۔

مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کا معتمد بننے کے بعد اس کی تنظیم نو کی پسلو تارک کی ’’مشاہیر یونان‘‘ لہکی کی ’’تاریخ اخلاق یورپ‘‘ اور البیرونی کی ’’کتاب الہند‘‘ جیسی نادر روزگار کتب کے تراجم کرا کے شائع کئے انجمن کی مطبوعات کی فروخت کا باقاعدہ انتظام کرنے کے لئے الناظر پریس لکھنو کو ایجنسی دی گئی انجمن کے لئے سرمایہ جمع کرنے کی تحریک چلائی اول عطیات و چندے امراء اور والیاں ریاست سے لئے گئے دوم انجمن کی ممبر سازی سے انجمن کی انتظامی مجلس بنائی گئی سرپرستوں سے یک مشت ہزار روپیہ دوامی ممبران سے پانچ سو روپیہ وصول کیا گیا۔ ارکان کی اعانت، اور خریدار ارکان کی مدد کا یہ ذریعہ نکالا کہ انہیں انجمن کی مطبوعات نصف قیمت پر دی جاتی تھیں اس طرح مختلف مدوں سے دو سال میں انجمن کا سرمایہ آٹھ ہزار روپیہ ہو گیا۔ ابتدا میں اعلیٰ حضرت نظام نے بارہ سو روپے سالانہ انجمن کے لئے منظور کئے، بعد میں مستقل طور پر پانچ ہزار روپے سالانہ امداد ملتی رہی۔ انجمن ترقی اردو کے دکنی دور میں نواب حیدر نواز جنگ (سر اکبر حیدری) کو ایک یونیورسٹی کے قیام کے لئے قائل کیا۔

’’کیونکہ ریاست کے لئے تنہا ڈگری کالج یعنی نظام کالج سے بقول شخصے سالانہ ڈیڑھ دو گریجویٹ نکلتے تھے یہ کالج مدراس یونیورسٹی سے ملحق تھا۔ مدراس یونیورسٹی ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں میں ایک عجوبہ سمجھی جاتی تھی تعلیمی نصاب اتنا مشکل رکھا گیا تھا جو طالب علموں کی تمام ذہنی قوتوں کا خاتمہ کر دیتا تھا۔‘‘

جامعہ عثمانیہ کا منصوبہ منظور ہوتے ہی اس کے عملی خد و خال کی تیاری کے لئے ناظم تعلیمات سر راس مسعود کے تحت دار الترجمہ قائم ہوا تو سر اکبر حیدری کی نگاہ انتخاب مولوی عبدالحق پر پڑی لیکن مولوی عبدالحق کو اورنگ آباد سے جو تعلق خاطر ہو گیا تھا اس وجہ سے وہ اورنگ آباد چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے بالآخر وہ اس شرط پر رضا مند ہو گئے کہ مہینے میں دس دن وہ اورنگ آباد میں رہا کریں گے اس واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے مولوی عبدالحق نے اپنے 7دسمبر 1958ء کے مکتوب بنام محمد علی میں تحریر کیا ہے:

’’سید ہاشمی صاحب کہا کرتے تھے کہ اورنگ آباد کے قدر دان اورنگ زیب عالمگیر تھے یا عبدالحق تم کو معلوم تھا کہ جب عثمانیہ یونیورسٹی کا منصوبہ منظور ہوا تو پہلے دار الترجمہ قائم کیا گیا اس کی نظامت مجھے بخشی گئی میں اورنگ آباد کو چھوڑنے کو تیار نہ تھا حیدری صاحب اور حبیب الرحمن خان شیروانی نے کہا کہ یہ سارا کارخانہ تمہارے مشورے اور تمہارے بھروسے پر کھڑا کیا گیا ہے اگر تم دار الترجمہ کی نظامت قبول نہ کرو گے تو یہ کارخانہ کیسے چلے گا؟ میں نے ان کے اصرار پر دو سال کے لئے یہ خدمت اس شرط پر منظور کی مہینے میں دس دن اورنگ آباد میں رہوں گا‘‘

مولوی عبدالحق نے اس دار الترجمہ میں بھی بڑی جانفشانی اور لگن سے کام کیا دار الترجمہ کا بنیادی مقصد جامعہ عثمانیہ کے لئے نصاب کو اردو میں منتقل کرنا تھا مولوی صاحب کے انتقامی شعور پر نظر ڈالتے ہوئے محی الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:

’’اس شعبے میں مولوی صاحب نے اپنے ذوق اور قابلیت کا پورا پورا ثبوت دیا جس فن کی کتاب کا ترجمہ کرنا ہوتا اس مضمون کا قابل ترین شخص جو دونوں زبانوں پر پوری مہارت رکھتا ہو، منتخب کیا جاتا۔ چنانچہ اس دار الترجمہ میں ہندوستان کا گویا عطر کشید کر کے رکھ دیا تھا۔ ان میں مولانا عبداللہ عمادی، سید ہاشمی فرید آبادی، مرزا ہادی رسوا، پروفیسر چودھری برکت علی، قاضی محمد حسین جیسے لوگ شامل تھے جو کتاب بھی ترجمہ کی جاتی وہ مختلف مراحل سے گذرتی۔ اول زبان و ادب کی جانچ ہوتی۔ جوش ملیح آبادی اس دار الترجمہ میں ناظر ادبی تھے اس کے بعد مولانا خیر المبین جو یہاں بڑے زبردست عالم دین تھے، وہ اور نواب حیدر یار جنگ صدر الصدور مذہبی امور پر مشتمل کمیٹی میں یہ کتاب پیش ہوتی، اور مذہبی نقطہ نظر سے جانچ پڑتال کی جاتی یہاں سے گزر کر جس فن پر کتاب ہوتی اس کے ماہر پروفیسروں کی کمیٹی میں پیش ہو کر فنی نقطہ نظر سے اس پر جرح و تنقید کی جاتی یہاں سے پاس ہونے کے بعد مسودہ مطبع میں جاتا اور اس کی طباعت عمل میں آتی ظاہر ہے کہ اس اہتمام سے جو کتاب تیار ہو اس کی افادیت میں کیا شبہ ہو سکتا تھا۔‘‘

7اگست 1919ء کو عثمانیہ یونیورسٹی کا افتتاح ہوا اور مولوی عبدالحق اپنے مشن کو مکمل کرنے دوبارہ مستقل طور پر بطور مہتمم تعلیمات اورنگ آباد آ گئے اور اپنے معمولات انجام دینے لگے۔

جامعہ عثمانیہ کے قیام سے ریاست حیدر آباد دکن کے تعلیمی ماحول پر بڑے مثبت نتائج سامنے آئے۔

’’جامعہ عثمانیہ کے قیام نے ریاست حیدر آباد میں تعلیم اک شوق پیدا کر دیا تھا، جس سے مدارس کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ اس زمانے میں محکمہ تعلیمات نے آپ سے فرمائش کی کہ میٹرک تک کی جماعتوں کے لئے اردو کی ریڈریں تیار کریں اس وقت تک انجمن کی ساکھ نہیں بندھی تھی، اس لئے محکمہ نے معاملہ آپ کی ذات سے کیا۔ انجمن سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا آپ نے بڑی محنت اور مشقت سے دس جماعتوں کے لئے درس عثمانیہ کے نام سے ریڈریں تیار کیں۔۔۔۔ ان ریڈروں کے علاوہ آپ کی قواعد اردو بھی میٹرک کے نصاب میں شامل تھی۔ یہ گیارہ کتابیں بیس پچیس برس اس وسیع ریاست کے تمام مدرسوں میں رائج ہیں، جن کی فروخت کی آمدنی دس لاکھ سے زیادہ تھی یہ سالانہ آمدنی انجمن کے حساب میں جمع ہوتی رہی آپ نے اس میں سے ایک پیسہ بھی نہ لیا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے نہ صرف ریڈریں مرتب کیں بلکہ ان کی کتابت اور طباعت تک اپنی نگرانی میں کرائی اس ضمن میں انہوں نے اپنے ایک مکتوب بنام غلام ربانی محررہ یکم نومبر 1958ء میں بتایا ہے:

’’دلی سے کاتب بلا کر وہاں رکھے ان کی مہمان داری اور ناز برداری کی اپنے سامنے اصول املا کے مطابق کتابت کرائی بہت سے سبق خود لکھے اور باقی سبقوں میں اصلاح اور ترمیم کی یہ کام دن رات ہوتا رہا۔ کئی مہینوں بلکہ ایک سال اس شغل میں صرف ہو گیا۔‘‘

1923ء میں مدرسہ فوقانیہ مشرقیہ اور انگریزی ہائی سکول اورنگ آباد کو یک جا کر کے اورنگ آباد انٹرمیڈیٹ کا قیام عمل میں آیا مولوی عبدالحق کو صدر مہتمم تعلیمات اور معتمد انجمن کے ساتھ ساتھ اس کالج کی پرنسپلی بھی دی گئی 1924ء میں وہ صدر مہتمم کے عہدے سے سبکدوش ہو گئے، لیکن بد ستور اورنگ آباد کالج کے پرنسپل رہے۔ یہاں سے انہوں نے 1929ء میں وظیفہ (پنشن) لیا

مولوی عبدالحق صاحب کی زمانہ پرنسپلی میں اورنگ آباد کالج میں شاندار روایات کی بنیاد پڑی مثلاً کالج ڈے شاندار طریقے سے منایا جاتا تھا اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر ہارون خاں شیروانی تحریر کرتے ہیں:

’’مولوی صاحب نے عثمانیہ کالج اورنگ آباد کی صدارت کیا کی، وہاں کے جنگل کو منگل بنا دیا اور لوگ مقبرہ درانی کے باغ کو اردو باغ کہنے لگے سن 1926ء میں انہوں نے مرزا فرحت اللہ بیگ مرحوم کی لکھی ہوئی ادبی تمثیل کو جس کا عنوان سن 1261ء ہجری کا مشاعرہ تھا اپنے کالج میں پیش کیا اس تمثیل کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حیدر آباد سے جو لوگ اسے دیکھنے کے لئے اورنگ آباد گئے تھے ان میں اس زمانے کے حیدر آباد کے روح رواں حیدری صاحب اور یہاں کے ممتاز ناظم تعلیمات مسعود جنگ بھی تھے اور ان کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کے تقریباً تمام اساتذہ بھی (جن کی تعداد اس زمانے میں تیس چالیس سے زیادہ تھی) بلائے گئے تھے مولوی صاحب نے سب مہمانوں کے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا ایسا انتظام کیا تھا کہ آج بھی اس کی یاد تازہ ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق کے وظیفہ خدمت (پنشن) پر جانے کے بعد بھی کالج ڈے شاندار طریقے سے منایا جاتا رہا کالج کے منتظمین اور طلبا اپنے کالج ڈے پر مولوی عبدالحق صاحب کو ضرور بلاتے رہے اس قسم کے ایک اجتماعی میں طلباء نے انہیں ’’بابائے اردو‘‘ کے خطاب سے نوازا۔ اس زمانے میں واردھا سکیم کے نام پر اردو اور اسلامی ثقافت کے خلاف سازش کی گئی تھی جس کا مسلمانوں میں بھی شدید رد عمل تھا 1935ء میں جب عثمانیہ کالج کے طلبا نے حسب معمول کالج ڈے منایا تو مولوی عبدالحق صاحب مہمان خصوصی تھے اس موقع پر مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کے حق اور واردھا اسکیم کی مخالفت میں بڑی جذباتی تقریر کی تھی۔ محمد احمد سبزواری لکھتے ہیں:

’’تقریر بڑی مدلل اور موثر تھی۔ کچھ لوگ آبدیدہ بھی ہو گئے تھے دکن کے ایک جوشیلے نوجوان محمد یوسف نے نعرہ لگایا ’’اردو زندہ باد‘‘ ’’بابائے اردو زندہ باد‘‘ بس پھر کیا تھا ساری محفل بابائے اردو زندہ باد کے نعروں سے گونجنے لگی جب اس موقع کی خبر اورنگ آباد کے ایک ہفتہ وار اخبار شائع ہوئی تو سرخی تھی ’’بابائے اردو کا کالج کے طلبا سے خطاب‘‘ پھر یہ خطاب حیدر آباد پہنچا اور اس کے بعد وہاں سے ساتھ ہی ساتھ سارے برصغیر میں پھیل گیا اور جب تک اردو زندہ ہے بابائے اردو کا نام بھی زندہ رہے گا۔‘‘

عثمانیہ کالج اورنگ آباد کی پرنسپلی کے زمانے میں مولوی عبدالحق کا ایک بڑا کارنامہ رسالہ نورس کا اجرا تھا جو عثمانیہ کالج اورنگ آباد کا علمی و ادبی جریدہ تھا یہ رسالہ 1925ء کے وسط سے شروع ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے ایک مکتوب محررہ 22فروری 1925ء میں سید ساجد علی کو اس رسالے کے ضمن میں تحریر کیا:

’’میں کالج سے بھی میگزین شائع کرنے والا ہوں منظوری آ چکی ہے امید ہے کہ مہینے ڈیڑھ مہینے میں پہلا پرچہ شائع ہو جائے گا یہ دو ماہی ہو گا، یعنی سال میں چھ پرچے نکلا کریں گے۔ اس کا نام میں نے بہت ہی اچھا رکھا ہے آپ سن کر خوش ہوں گے ’’نورس‘‘ ہر لحاظ سے مناسب ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب پنشن پر آنے کے بعد اپنی باقی عمر اورنگ آباد میں گزارنا چاہتے تھے تاکہ صبر و سکون سے وہ اردو زبان و ادب کی خدمت کر سکیں لیکن حالات و واقعات کے دھارے اس کے خلاف جا رہے تھے 1929ء میں مولانا وحید الدین کا بہ سبب کینسر انتقال ہوا تو جامعہ عثمانیہ میں اردو کی پروفیسری کی آسامی خالی ہوئی شہاب الدین ثاقب کا کہنا ہے کہ اس جگہ پر مولانا صاحب پنڈت کیفی کو لانا چاہتے تھے مہاراجہ کشن پرشاد، سر اکبر حیدری وغیرہ کی خواہش تھی کہ مولوی عبدالحق اس پر تعینات ہوں لیکن نہ تو مولوی صاحب راضی ہوتے تھے اور نہ قانون میں ایسی گنجائش تھی لیکن سر اکبر حیدری کی شخصیت نے مولوی عبدالحق کو راضی کر لیا اور ارباب جامعہ کو بھی پروفیسر مسعود احمد کا کہنا ہے:

’’حیدر آباد کی ملازمت کے سلسلے میں انہیں600پنشن ملتی تھی پروفیسر کے کل 1000 روپیہ‘‘

مولوی صاحب پھر اورنگ آباد سے حیدر آباد واپس آ گئے اور درس و تدریس میں مصروف ہو گئے انجمن کا کام اور تحقیق و تدوین کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ پروفیسر عبدالقادر سروری ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’ان کی پروفیسری بڑی طنطنہ کی تھی وہ ہفتے میں پانچ چھ گھنٹوں سے زیادہ درس نہیں دیتے تھے اور درس بھی جامع کی عمارت میں دینے کی بجائے اکثر سبزہ زار پر بیٹھ کر دیا کرتے تھے‘‘

جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری کے زمانے میں بھی انجمن کا مرکز بد ستور اورنگ آباد رہا اور وہ پروفیسروں کے ساتھ تن دہی سے انجمن کے اماور اور تحقیق و تدوین میں مصروف رہے۔ اس زمانے کا سب سے بڑا کارنامہ اردو کی جدید اور کلاں لغت کی تیاری ہے۔ جس کے لئے حکومت حیدر آباد نے بارہ ہزار سکہ عثمانیہ سالانہ کی مدد بھی فرمائی تھی ڈاکٹر سید معین الرحمن صاحب لکھتے ہیں:

’’لغت کا دفتر حیدر آباد میں کھولا گیا جس قدر کام زیادہ ہوا۔ مولوی عبدالحق صاحب کے منصوبے بڑھتے رہے دس بارہ سال میں لغت کا اتنا کچھ سرمایہ فراہم ہو گیا کہ پہلے کسی کے خیال میں بھی نہیں آ سکتا تھا کتاب تکمیل کو نہ پہنچی چند اجزا حیدر آباد کے سرکاری مطبع میں چھپے تھے کہ آزادی ہند کی آندھیوں میں وہ دفتر ہی پراگندہ ہو گیا۔‘‘

جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری اور اورنگ آباد عثمانیہ کالج کی پرنسپلی کے زمانے میں مولوی عبدالحق کی نگاہیں جواہر قابل پر پڑتی رہیں اور انہوں نے بعض ایسے نامور افراد تربیت کئے جنہوں نے اردو ادب میں کافی شہرت حاصل کی بقول نصیر الدین ہاشمی:

’’آپ نے جن طلبا پر توجہ فرمائی وہ آگے چل کر ہم چشموں میں ممتاز اور نامور ہو گئے مثلاً شیخ چاند مرحوم، سکندر علی وجد وغیرہ‘‘

ملکی حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے سیاسی کشمکش اور نشیب و فراز نے مذہبی اور لسانی تعصبات کی آگ بھڑکا دی تھی انگیزوں نے اہل ہند میں تعلیم عام کرنے کے لئے ’’سارجنٹ سکیم‘‘ کے نام کا منصوبہ بنایا گاندھی جی نے اس کے جواب میں ودیا مندر اسکیم کا منصوبہ جاری کیا ان تمام اسکیموں کا نزلہ اردو اور اسلامی ثقافت پر پڑا سید ہاشمی فرید آبادی کا کہنا ہے:

’’اردو اور ہندی کے اختلافات نے سب سے پہلے نزاع کی صورت بہار ہی میں اختیار کی تھی پھر یہ جھگڑا یہاں سے بڑھا اور آگے دو آب میں قدم بڑھاتا رہا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے پہلے مصالحت چاہی گاندھی جی سے خط و کتابت کی کانگریس کے ارباب سیاست سے بحث و مباحثے کیے لیکن جب یہ دیکھا کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے تو خم ٹھونک کر میدان عمل میں نکل پڑے حالات جس سمت لے کر جا رہے تھے اس کے لئے ضروری تھا کہ مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کا مرکز جنوبی ہند سے وسط ہند کی طرف منتقل کریں تاکہ پورے ملک میں اردو اور اسلامی ثقافت کی بقا کے لئے جہاد کیا جا سکے چنانچہ25-24اکتوبر 1936ء کو علی گڑھ میں حالات کا جائزہ لینے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے اجلاس منعقد ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی روداد میں تحریر کیا:

’’ 1936ء کی کانفرنس علی گڑھ میں منعقد ہوئی تھی ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ آئندہ انجمن کا صدر مقام کہاں ہو ڈاکٹر سر محمد اقبال، مولانا ظفر علی خان اور دوسرے احباب کو اصرار تھا کہ انجمن کا صدر مقام لاہور ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر اقبال مرحوم کا کہنا تھا کہ اب اردو پنجاب ہی میں رہ جائے گی اس لئے یہیں رہ کر کام کرنا چاہئے سر راس مسعود (مرحوم) نے علی گڑھ کا سبز باغ دکھایا کیونکہ یونیورسٹی کی وجہ سے وہاں ہر قسم کے کام کرنے والے موجود تھے میری رائے دلی کی طرف مائل تھی۔۔۔۔ قطع نظر دیگر وجوہ کے، میں انجمن کو ان دو بلاؤں سے بچانا چاہتا تھا جو آجکل سارے ہندوستان پر مسلط ہیں۔ ایک بلا تو فرقہ واری اور دوسری صوبہ داری۔۔۔۔۔۔ اردو کسی خاص فرقے یا طبقے کی زبان نہیں نہ کسی خاص طبقے یا صوبے سے منسوب ہے، اور سوائے دہلی کے جہاں کہیں بھی انجمن کا صدر مقام ہوتا وہ صوبہ داری کے الزام سے نہیں بچ سکتا تھا۔‘‘

اس اجلاس میں انجمن ترقی اردو کو دہلی منتقل کرنے کی تجویز منظور کر لی گئی انجمن کے دہلی منتقل ہونے سے پہلے یہ بھی لازم تھا کہ مولوی عبدالحق اورنگ آباد اور حیدر آباد کی مصروفیات سے فراغت حاصل کر لیں چنانچہ 1937ء میں مولوی عبدالحق صاحب جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری سے سبکدوش ہو گئے اور انجمن کا دفتر دہلی منتقل ہو گیا۔

اورنگ آباد اور حیدر آباد میں مولوی عبدالحق صاحب انجمن ترقی اردو کے علاوہ درس و تدریس اور انتظامی امور کے بکھیڑوں میں بھی الجھے ہوئے تھے اس کے باوجود انہوں نے انجمن میں ایک نئی روح پھونک دی تھی انجمن کی رکن سازی کے لئے مختلف اضلاع کے دورے کیے انجمن کی شاخیں قائم کیں یہاں تک کہ چھ سال کی کوشش کے نتیجے میں:

’’ 1920ء سے ہمیں انجمن کے حوصلوں میں بلندی اور منصوبوں میں نمایاں وسعت نظر آتی ہے وہ دوسرے مفید تراجم و تصانیف کے علاوہ زبان کے ایسے بنیادی کاموں کو اٹھاتے ہیں جیسے اصطلاحات علم جدید، اصطلاحات پیشہ وراں، انگریزی سے اردو کی اور خود اردو کی بڑی لغت کے آخر الذکر کی تکمیل تو ابھی تک نہ ہو سکی مگر دوسری آٹھ جلدوں میں اور انگریزی اردو لغت بڑی تقطیع کے کوئی ہزار  صفحات پر کئی سال کی محنت اور صرف کثیر سے طبع کرا دی گئی۔۔۔۔ انتخاب کلام میر اور فلسفہ جذبات جو چند ہی سال پہلے چھپی تھی دوسری دفعہ طبع کرائی گئیں۔‘‘

جنوری 1921ء سے مولوی عبدالحق کی ادارت میں رسالہ ’’اردو‘‘ کا اجرا ہوا 1924ء میں انجمن کے آئین کی تجدید اور با ضابطہ مجلس ناظمین بنی اس سال اردو باغ میں انجمن کا اپنا ٹائپ کا مطبع قائم ہوا جنوری 1928ء میں مولوی عبدالحق نے رسالہ سائنس جاری کیا جس کے بالترتیب مظفر قریشی، محمد احمد خان اور نصیر احمد مدیر تھے مولوی صاحب نے دکنی ادب کے قدیم نسخوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالا اور دکنی زبانوں کی بیسیوں کتابوں کو گوشہ گمنامی سے شہرت دوام بخشی سید ہاشمی فرید آبادی کا تجزیہ ہے:

’’اجمالی طور پر نظر ڈالئے تو انجمن ترقی اردو صحیح معنوں میں اورنگ آباد آ کر ہی علی گڑھ کی ماتحتی سے آزاد ہوئی مستقل ادارہ بنی اور ترقی اردو کے مقاصد استقلال و تسلسل کے ساتھ انجام دیے۔۔۔۔ انجمن جس وقت علی گڑھ سے اورنگ آباد آئی تو کل کائنات ایک ٹوٹا ہوا صندوق تھا اور جب یہاں سے دلی چلی تو مطبوعات کے ذخائر مال گاڑی کے کئی ڈبوں میں لادے گئے۔ چھاپے خانے کا کثیر بھاری سامان اور کلوں کو حمل و نقل کی دشواری کی وجہ سے اورنگ آباد ہی میں فروخت کر دینا پڑا۔‘‘

اس طرح مولوی عبدالحق صاحب کی زندگی کا ایک اہم دور، جو سن 1896ء سے شروع ہو کر 1935ء تک کے چالیس سالوں پر محیط ہے، ایک نیا رخ اختیار کر لیتا ہے بقول حبیب اللہ رشدی صاحب:

’’ایک گمنام نوجوان کی حیثیت سے حیدر آباد گئے اور تین چالیس سال کے بعد کل ہند شہرت کے مالک بن کر حیدر آباد سے لوٹے‘‘

 

٭٭٭٭٭٭

 

 

 

دلی کا دور اردو کی اشاعت و مدافعت میں جہاد

( 1937ء تا 1947ء)

 

مولوی عبدالحق دکن میں علم و ادب کی خاموشی سے خدمت کرتے رہے اور بحیثیت معتمد انجمن ترقی اردو مولوی صاحب نے اردو زبان اور ادب کی بیش بہا خدمات انجام دیں، جس سے اردو زبان اور ادب کے سرمائے میں اضافہ ہوا الہ آباد یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے صلے اور اعتراف میں 1937ء میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ مولوی صاحب کی جانثاری اور جدوجہد جاری تھی سید معین الرحمن صاحب لکھتے ہیں:

’’پہلی جنگ عظیم برصغیر پاک و ہند کی کشت سیاست کے لئے طوفان کا پہلا جھکڑ ثابت ہوئی تحریک خلافت اور ترک موالات کے مناشقوں نے اس تلاطم کو پر شور کر دیا۔ آگے چل کر یہ طغیانی اور طوفان ہندو مسلم فسادات اور اختلافات کی صورت میں متشکل ہوا۔ اس زمانے میں زبان کے مسئلے نے نہایت ناگوار اور اندیشہ ناک صورت اختیار کر لی مولوی عبدالحق صاحب اس لسانی یورش کے مقابل اردو کو بچانے اور منوانے والوں کے محاذ کے سپہ سالار تھے انہیں اردو کی محبت اور مدافعت میں ایک طویل جنگ لڑنا پڑی‘‘

1936ء میں اردو کے خلاف باقاعدہ مورچہ قائم کیا گیا بھارتیہ ساہتیہ پریشد اور ودیا مندر اسکیم کے تحت اردو کے خلاف ہندی کو فروغ دینے کی مہم کا آغاز ہوا ابتدا میں مولوی صاحب نے اردو کے مخالفین سے مصالحت چاہی اور انہیں اردو کی اہمیت اور وسعت کا قائل کرنا چاہا لیکن مہاتما گاندھی کی حکمت عملی اور کانگریسی رہنماؤں کی ضد سے یہ اختلاف تنازعہ کی شکل اختیار کر گیا اپریل 1936ء میں کل ہند زبان کا اجتماع ’’اکھل بھارتیہ ساہتیہ پریشد‘‘ کے زیر اہتمام گاندھی جی کی صدارت ہوا اس میں یہ قرار داد پیش ہوئی:

’’اس پریشد کا ادیش ہو گا: (الف) ہندوستان کے سب پرانتوں کی بھاشاؤں کے ساتھ ساتھیوں اور ساہت کاروں میں آپس میں میل جول کرنا۔۔۔۔ (ب) اس سبھا کا کام ’’ہندی ہندوستانی‘‘ میں ہو گا‘‘ ۔۔۔۔۔

مولوی عبدالحق صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ گاندھی جی اور ان کے چیلے ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں اور کوئی بھی معقول بات انہیں قائل نہیں کر سکتی تو انہوں نے ساہتیہ پریشد کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا اور اردو کی مدافعت میں خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے لیکن دکن کی زمین اس مہم کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کے لئے ایک ایسے مرکز کی ضرورت تھی، جہاں سے ہر علاقے اور مقام پر نظر رکھی جا سکے چنانچہ اس سال علی گڑھ میں دسمبر 1936ء میں انجمن ترقی اردو نے کل ہند کانفرنس منعقد کی جس میں بہت غور و خوض کے بعد یہ طے ہوا کہ انجمن ترقی اردو کا مرکزی دفتر دلی منتقل کر لیا جائے۔ مولوی عبدالحق صاحب حیدر آباد میں اپنے بکھرے ہوئے کام کو سمیٹ کر اور جامعہ عثمانیہ کی پروفیسری ترک کر کے حیدر آباد سے دلی منتقل ہو گئے انجمن ترقی اردو کا دفتر بھی دلی منتقل ہوا بھاری عمر کم سامان اور پریس کی مشینیں وہیں فروخت کر دی گئیں۔ انجمن کی مطبوعات، کتب خانہ اور مسودات سے بھرے ہوئے صندوق مال گاڑی کے ڈبوں میں دلی روانہ کئے گئے اس ضمن میں سید ہاشمی فرید آبادی نے تحریر کیا:

’’شروع شروع میں نئی دہلی کی ایک کوٹھی (القریش) انجمن کے واسطے کرائے پر لی گئی تھی مگر چند ماہ کے بعد احباب کے اصرار سے ڈاکٹر انصاری مرحوم کی کوٹھی ( نمبر1دریا گنج) کو کرائے پر لیا۔ آگے چل کر مرحوم کے وارثوں نے اسے سیٹھ صاحب کے ہاتھ فروخت کر دیا انجمن سیٹھ صاحب کی کرایہ دار ہو گئی دفتر، کتاب خانہ جناب مولوی صاحب، پنڈت کیفی صاحب اور عملے کے بہت سے افراد سن47ء (آزادی ہند کے فسادات) تک اس احاطے میں مقیم رہے۔‘‘

اب مقبرہ درانی اورنگ آباد کی خاموش اور پر سکون علمی و ادبی کاوشوں کی زندگی کی بجائے دریا گنج کی طوفانی اور مہم جو زیست تھی، اور مولوی عبدالحق اردو کے دفاع کے لئے مجاہدانہ خدمات کا آغاز کر چکے تھے اس دوران میں کانگریس کی عبوری وزارتوں نے اپنے عمل سے اردو کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور ہندی زبان، دیو ناگری رسم الخط مسلط کرنے کے لئے منصوبے بنائے لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کے تحفظ کے لئے دن کا چین اور رات کا آرام حرام کر لیا۔ اپنے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے سید ساجد علی کو تحریر کیا:

’’اس بر اعظم پاک و ہند کا شاید ہی کوئی بڑا یا چھوٹا قصبہ ایسا ہو جس کی خاک میں نے نہ چھانی ہو شہر اور قصبے تو میری جولاں گاہ تھے، پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں اور سمندروں کی بھی جی بھر کر سیر کی جس دنوں مجھ پر اردو کا جن سوار تھا اور ہندی والوں اور کانگریسی حکومت سے معرکہ آرائی تھی تو سچ مچ زمین کا گز بنا ہوا تھا وہ دور عجیب و غریب تھا اگر تحریر میں لاؤں تو الف لیلیٰ کی داستان معلوم ہو گی۔‘‘

مہاتما گاندھی اور کانگریسی رہنماؤں نے اردو کی مخالفت بہار سے شروع کی تھی لیکن سی پی کی زمین اردو ہندی تنازعہ کا مرکز بن گئی۔ چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب کو سب سے زیادہ سی پی کی حکومت سے معرکہ آرائی کرنا پڑی۔ سی پی میں کانگریسی عبوری حکومت نے ’’ودیا مندر اسکیم‘‘ کا جبراً نفاذ چاہا، لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی شدید مخالفت کی اور اپنے دست راست حکیم اسرار صاحب کی قیادت میں31مارچ 1938ء کو ناگپور سیکرٹریٹ میں ایک وفد روانہ کیا جس نے حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی کو اپنی شکایات پیش کیں اور مطالبہ کیا:

1 ودیا مندر سکیم کا نام تبدیل کیا جائے اگر وہ اس سکیم کے لئے کوئی نام رکھنا ہی چاہتے ہیں تو ’’پڑھائی گھر‘‘ رکھ لیں

2 مسلمان بچوں کے لئے اردو تعلیم کا انتظام کیا جائے

3 سی پی میں جو کتابیں رائج ہیں ان میں ہندو دیو مالا، ہندو سورماؤں اور بزرگوں کا حال درج ہے مسلم تہذیب و آداب یا مسلمان بزرگوں کا نام تک نہیں، اس ضرورت کو پورا کیا جائے۔

4 ودیا مندر سکیم کی رو سے کسی گاؤں میں مدرسہ جاری کرنے کے لئے چالیس لڑکے لڑکیوں کی شرط کی بجائے جہاں دس یا دس سے زائد بچے ہیں، اسکول کھولے جائیں اور جہاں پانچ بچے اردو پڑھنے والے ہیں وہاں اردو رسم الخط میں ان کی تعلیم کا بندوبست کیا جائے۔

اس مسئلے پر مولوی عبدالحق نے گاندھی جی کے نام کھلی چٹھی بھی لکھی جس میں ان پر واضح کیا گیا کہ اگر مسلمانوں کی تعلیمی شکایات رفع نہ ہوئیں تو ان پر ان ہی کے حربے استعمال ہوں گے۔

سی پی میں انجمن کے رضا کاروں اور کارکنوں نے سارے صوبے کا دورہ کیا۔ شہر شہر، قصبہ قصبہ انجمن کی شاخیں، کتب خانے اور مدرسے قائم کئے جس کے نتیجے میں نارتھ ارکاٹ، ساؤتھ ارکاٹ، ٹائر نکور اور کوچین جیسے اہم علاقوں میں انجمن کی شاخیں قائم ہو گئیں مجموعی طور پر سی پی اور برار میں تیرہ مدرسے اور صوبے بھر میں ایک سو آٹھ (108) انجمن کی شاخیں قائم ہوئیں۔

چھوٹے ناگپور میں رومن کیتھولک کا زور تھا چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب نے ان کے پادریوں کو اپنے اعتماد میں لے کر ان کے مدارس میں اردو کی تعلیم کا اجراء کیا جس کے نتیجے میں چھ ہزار عیسائی لڑکے اور لڑکیاں اردو زبان کی تدریس سے فیض یاب ہوئیں یہاں تک کہ کیتھولک ننوں نے اردو پڑھ کر اردو میں مڈل کا امتحان دیا۔

انجمن نے اچھوتوں کے لئے مدرسے قائم کئے اور سی پی کے تمام کالجوں میں جن کی تعداد آٹھ تھی اردو کی تدریس کے لئے لیکچرار مقرر کئے ڈاک خانوں کے فارموں اور ریل کے ڈبوں پر اردو تحریر کی جانے لگی سی پی کی اسمبلی میں اردو میں تقاریر کا آغاز ہوا۔ اسمبلی کی کارروائی اردو میں لکھی جانے لگی ’’ناگپور‘‘ ’’جاگپور‘‘ میں تبدیل ہو گیا مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی ان کامرانیوں کا اردو کانفرنس کراچی منعقدہ 1951ء میں بڑے فخر سے ذکر کیا:

’’یا تو ایک وقت یہ حالت تھی کہ مسلمان اردو بولنے سے شرماتے تھے یا تھوڑے ہی عرصے میں یہ نوبت ہوئی کہ مرہٹے اردو بولنے لگے اور اردو میں تقریریں کرنے لگے ناگپور اردو کا خاص مرکز بن گیا۔‘‘

بنگال میں اردو تدریس کا معقول انتظام نہ تھا مولوی عبدالحق صاحب کی یہ خواہش تھی کہ یہ سر زمین اردو زبان سے فیض یاب ہو، چنانچہ مولوی عبدالحق صاحب کی جدوجہد، کاوش اور منصوبہ سازی سے وہ بنگالی طلبا جو دلی کے عربی مدرسوں میں زیر تعلیم تھے، مسجد فتح پوری میں دو کمرے لے کر ان میں شبینہ مدرسہ قائم کر کے اردو کا درس لینے لگے۔ وہ آگے چل کر بنگال میں اردو کی ترویج کے لئے معاون ہوئے۔

مالا بار میں تقریباً آٹھ لاکھ عربی النسل موپلے آباد تھے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سعی سے انجمن نے وہاں ان کے لئے مدرسے قائم کئے اور انجمن کی شاخیں قائم کیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں کے سرکاری مدرسوں میں بھی اردو زبان رائج ہو گئی۔

صوبوں کے ساتھ ساتھ ریاستوں میں بھی اردو کے خلاف سازشوں کا جال بچھایا گیا تھا، بالخصوص کشمیر اور جے پور میں اردو کے خلاف باقاعدہ مہم چلائی گئی۔ ان ریاستوں میں مدت سے فارسی زبان رائج تھی اس ضمن میں جے پور میں ریجنٹ کلائنٹس کی خدمت میں وفود جاتے اور اردو کے اخراج کا مطالبہ کرتے لیکن مرزا اسمعیل کے عہد وزارت سے قبل ایسا ممکن نہیں ہوا۔ بقول عبادت بریلوی صاحب:

’’جب مرزا اسماعیل اس منصب جلیلہ پر فائز ہوئے تو بلا تامل اردو کی جگہ ہندی کو سرکاری زبان بنا دیا۔ اور جو کام خود مہاراجہ نہ کر سکے، جو انگریزی ریجنٹ سے نہ ہو سکا اور جسے ہندو وزیر اعظم نے رد کر دیا وہ جناب مرزا صاحب سے بے خرخشے انجام پایا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے اس موقع پر بھی مرزا اسماعیل کے اس نازیبا اقدام پر سخت احتجاج کیا حالانکہ وہ کچھ عرصے کے بعد جب ریاست حیدر آباد دکن کے وزیر اعظم ہوئے تو انہوں نے انجمن کی وہ امداد بند کرا دی جو ریاست حیدر آباد کی سلطنت عثمانیہ انجمن کو اورنگ آباد سے دلی منتقل ہونے کے بعد پچیس ہزار روپے سالانہ اس شرط پر دیتی تھی کہ انجمن ہر سال بیس کتابیں شائع کرے گی۔

باوجود اس کے کہ مولوی صاحب اردو کے دفاع کے لئے بر سر پیکار تھے، وہ انجمن کے بنیادی مقصد یعنی اردو کی ترویج اور اشاعت سے کنارہ کش نہ ہوئے، بلکہ ان کے مقاصد میں وسعت اور عزم میں پختگی پیدا ہو گئی انہوں نے 1939ء میں کل ہند کانفرنس منعقد کی اس کانفرنس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے سجاد مرزا صاحب لکھتے ہیں:

’’مولوی صاحب کی تحریک پر اردو زبان کے متعلق چند اہم تحریکات منظور کیں، جن کے خد و خال پر اب بھی عمل ہو رہا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کی خواہش تھی کہ انجمن ترقی اردو کی دلی میں اپنی عمارت ہو اس کے لئے انہوں نے باقاعدہ فنڈ کا اجرا کیا، جس کی رسیدوں پر مجوزہ عمارت کا نقشہ دیا گیا تھا۔ یہ فنڈ جمع کرنے کے لئے تنخواہ دار کارکن مامور کئے گئے حکیم امامی صاحب کہتے ہیں:

’’حیدر آباد دکن سے دہلی آنے کے بعد آپ نے دہلی میں ایک اردو کالج کا ڈول ڈالا آپ کی کوشش یہ تھی کہ دلی میں ایک یونیورسٹی قائم ہو جائے۔‘‘

سالہا سال کی کوشش کے بعد آپ نے دہلی میں ہزاروں روپے کی مالیت کا ایک وسیع قطعہ زمین حاصل کیا۔ یہ زمین انجمن کی عمارت کے لئے تھی اس عمارت کے لئے مولوی صاحب نے نہ صرف قوم سے ڈیڑھ لاکھ روپوں کا چندہ فراہم کیا، بلکہ اپنی عمر بھر کی کمائی 54ہزار روپے بھی اس کار خیر میں دے دئیے بابائے اردو کا ارادہ تھا کہ دہلی کی سر زمین پر ایک اردو گھر تعمیر ہو جائے اور بربک کوچک دہلی اردو زبان اور ادب کی اشاعت کا مرکز قرار دیا جا سکے۔

انجمن کو اورنگ آباد سے دلی منتقل کرنے کے بعد مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کے اشاعتی پروگرام اور سرگرمیوں کو نظر انداز نہ ہونے دیا، بلکہ اس جانب بھی پوری توجہ دی۔ دلی منتقل ہوتے ہی اپریل 1939ء سے پندرہ روزہ ’’ہماری زبان‘‘ کا اجرا ہوا۔ پہلے ہی سال انجمن نے ’’معلومات سائنس‘‘ اور ’’فرہنگ اصطلاحات پیشہ وراں‘‘ جیسی قابل قدر تحقیقی کتابیں شائع کیں 1946ء میں ماہنامہ ’’معاشیات‘‘ کا اجرا ہوا۔

دلی کے اس سارے دور میں اشاعتی پروگرام میں بھی سرگرمی رہی۔ اس نو سال کی قلیل مدت میں انجمن نے تقریباً ’’ڈیڑھ سو کتابیں شائع کیں جس کے نتیجے میں انجمن کی مطبوعات کی کل تعداد اڑھائی سو کے لگ بھگ ہو گئی۔‘‘

1961ء میں حیدر آباد دکن سے مولوی عبدالحق صاحب کی خدمات عالیہ کے اعتراف میں ’’مجلس‘‘ نے مولوی عبدالحق نمبر شائع کیا جس میں پروفیسر سید محمد صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے دلی کے نو سالہ دور جہاد پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا:

’’نو برس تک علمی کارناموں کے ساتھ ساتھ اردو کے حقوق کی حفاظت اور حمایت کے لئے بالکل مجاہدانہ انداز میں مصروف رہے۔ مولوی صاحب کے طوفانی دورے، جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت اور ان کی صدارت، اس دور کے خطبات اور مضامین پر روشنی ڈالو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک جواں ہمت اور کبھی نہ تھکنے والا سپاہی، جو ہر محاذ پر مصروف جنگ ہے۔ اس کو نہ گرمیوں کی دھوپ اور لو کا ڈر ہے، نہ جاڑے اور برسات کی سردی اور مینہ کا اندیشہ وہ اپنی پوری طاقت سے مخالفوں کا تن تنہا مقابلہ کر رہا ہے۔ ہر حملے کا منہ توڑ جواب دے رہا ہے اس کا یہ ایثار، اس کا یہ جوش عمل، اس کی یہ سرفروشی و مستعدی ایسی موثر اور ولولہ انگیز ثابت ہوئی کہ خود بخود اس کے گرد اردو ہوا خواہ جمع ہونے لگے۔ جو اپنی زبان کی خدمت کے فرض کو بھولے ہوئے تھے، وہ سب جاگ اٹھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مرد مجاہد کی للکارنے دم کے دم میں سارے اردو دانوں کو بیدار کر دیا۔‘‘

لیکن دلی کی بزم بہت جلد درہم برہم ہو گئی۔ انقلاب کے جھکڑوں نے تمام منصوبوں، کامیابیوں اور کامرانیوں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا دیا۔

بقول مختار الدین احمد:

’’انجمن کا کام پوری طرح دلی میں جم بھی نہیں سکا تھا کہ ملک کی سیاست کا رخ بدل گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب اس کے تحفظ کے لئے سینہ سپر ہو گئے۔ انہوں نے ہر محاذ پر اس کے لئے جنگ لڑی، مگر حالات روز بروز نا سازگار ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ ملک کی تقسیم کا اعلان ہو گیا۔ ہر طرف فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ دلی میں انجمن کا دفتر تباہ کر دیا گیا، جس میں کتنی قیمتی کتابیں اور کتنے قیمتی کاغذات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تباہ ہو گئے۔‘‘

جب انجمن کے دفتر پر قیامت گزری تو مولوی عبدالحق صاحب دلی میں موجود نہ تھے، وہ انجمن کی امداد بحال کرانے اور رسالہ ’’سائنس‘‘ اور سائنس کمیٹی کے معاملات طے کرنے حیدر آباد دکن گئے ہوئے تھے جب انہیں اپنے امور سے فراغت ہوئی تو وہ بھوپال میں منزل کرتے ہوئے دلی آنے کے عزم سے 3ستمبر 1947ء کو حیدر آباد سے بھوپال روانہ ہوئے۔ بھوپال پہنچ کر مولوی عبدالحق صاحب کو دلی کے حالات سے آگاہی ہوئی۔ مولوی عبدالحق صاحب دلی روانہ ہونے کے لئے بضد تھے، لیکن ان کے رفیق خاص شعیب قریشی صاحب نے بمشکل تمام انہیں بھوپال رو کا ہوا تھا۔ وہاں انہیں رحم علی ہاشمی اور حکیم رشید احمد صاحب کے خطوط سے یہ معلوم ہوا کہ انجمن کا دفتر بلوائیوں نے تباہ کر دیا ہے اور تمام سامان لوٹ لیا ہے۔ ملازمین جان بچا کر بھاگ گئے ہیں۔ سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں کہ بقول مولوی صاحب:

’’اس وقت مجھے سب سے بڑی فکر ان کتابوں کی تھی جو میرے کمرے میں تھیں اور کتب خانے کی جان تھیں۔ ان کی کیفیت معلوم نہ ہونے سے دل بے چین تھا میں چاہتا تھا کہ خود جاؤں اور دیکھوں کہ کیا گیا اور کیا رہا، کیا کھویا اور کیا پایا لیکن شعیب صاحب اور دوسرے افراد مانع آئے کہ یہ وقت دلی جانے کا نہیں۔‘‘

آخر مولوی صاحب نے اپنے ہمسفر اور رفیق خاص سید علی شبیر حاتمی کو دلی روانہ کیا جنہوں نے وہاں سے واپس آ کر اس بات کی تصدیق کی کہ انجمن کا دفتر اور مولوی صاحب کا ذاتی سامان لوٹ لیا گیا ہے اور سید ہاشمی کی موٹر کار توڑ پھوڑ دی گئی ہے صرف وہی سامان بچا ہے جو بلوائیوں سے اٹھ نہ سکا۔

25ستمبر 1947ء کو مولوی عبدالحق صاحب چار و ناچار بھوپال سے دوبارہ حیدر آباد دکن روانہ ہو گئے، لیکن ان کے دل کی دھڑکنیں دلی سے وابستہ ہیں۔ انہیں دلی کی اس تباہی پر بہت افسوس تھا انہوں نے اپنے خط محررہ6اکتوبر 1947ء بنام ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کو تحریر کیا:

’’آپ کا خط پہنچا آپ کا پہلا جملہ دلی تباہ ہو گئی ہے۔ ہر گز نہیں، مسلمان تباہ ہو گئے۔ اب دلی شاہجہان کی نہیں، سکھوں اور پٹیل کے گرگوں کی ہے۔۔۔۔۔ نادر شاہ کا قتل عام چند گھنٹے رہا اور اس میں ہندو مسلمان سبھی تھے۔ غدر کی تباہی میں اگرچہ مسلمان زیادہ تباہ ہوئے لیکن ہندو بھی نہیں بچے رہے۔ 1857ء کے بعد 1947ء کی تباہی اور قتل و غارت گری سب سے بڑھی ہوئی تھی جو پورے نوے برس بعد ہوئی اور اس میں صرف مسلمان تباہ و برباد ہوئے۔ یہ منظم سازش تھی نیشنل ہیرلڈ لکھنو نے جو خاص کانگریس اخبار ہے۔۔۔۔ اس سازش کا راز فاش کیا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب تقریباً ایک ماہ بعد24اکتوبر کو پھر بھوپال پہنچے اور وہاں سے انہوں نے مولانا ابو الکلام آزاد سے دلی میں رابطہ کیا اور دلی آنے اور ان کے گھر قیام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے ان کا پیغام مثبت جواب میں دیا اور مولوی عبدالحق صاحب 8نومبر 1947ء کو بھوپال سے روانہ ہو کر 9نومبر کو دلی پہنچے اور 10نومبر کو انجمن کا تباہ شدہ دفتر دیکھنے گئے تو دفتر کا دفتر ہی پلٹا ہوا تھا مولوی صاحب نے اس المناک رو داد کو خود قلم بند کیا ہے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’کتابوں کی متعدد الماریاں تھیں کھلی الماریوں کے سوا دو بڑی فولادی الماریاں جن میں خاص خاص نادر قلمی نسخے اور قدیم کاغذات اور بعض نامور اشخاص مثلاً ناسخ، غالب، سر سید، حالی، محسن الملک، اقبال، سرتیج بہادر وغیرہ کے خطوط اور اسی قسم کی بہت سی عزیز اور بیش بہا قیمتی اشیاء تھیں۔ ان کے علاوہ کئی بڑے صندوق تھے جن میں میرے نوٹ اور یاد داشتیں مختلف قسم کی خاص کر اردو لغت کے متعلق بہت سامان، الفاظ کی اصل کا تحقیقی سرمایہ اردو زبان کی تاریخ کی یاد داشتیں اور مضمون اور اردو اور ہندی تنازعہ کے متعلق بہت سے قدیم کاغذات (میرا ارادہ اس تنازعے کی تاریخ لکھنا تھا)۔۔۔۔۔۔ میرے کپڑے کی الماریاں اور صندوق تھے کپڑے اور دوسری چیزیں جو اس کمرے میں تھے، وہ تو لٹیروں نے سب لوٹ لیں جو صندوق، بڑے نئے اور اچھے تھے وہ انہیں بہت پسند آئے۔ کاغذات تو انہوں نے وہیں پھینک دئیے اور صندوق لے کر چلتے بنے فولادی مقفل الماریوں پر ان کی للچائی ہوئی نظریں پڑیں اور سمجھے کہ ان میں ضرور مال و زر ہو گا پتھر مار مار کر انہیں توڑ دیا جب ان کو کتابوں اور کاغذوں کے سوا کچھ نہ ملا تو بڑی مایوسی ہوئی اور غصے کے جانجھ میں وہ سب کاغذات اور کتابیں نکال کر باہر پھینک دئیے۔‘‘

مالک مکان نے کرائے کے لالچ میں یہ عمارت بھارت کمپنی کو دے دی اور لٹا پٹا اور بچا بچایا سامان ردی کی شکل میں غسل خانوں، برآمدوں، باورچی خانوں اور گوداموں میں ڈھیر کر دیا۔ مولوی عبدالحق صاحب، چودھری رحم علی، رفیق الدین احمد، محمد یعقوب اور حامد علی، ان ڈھیروں سے قلمی نسخوں کے کاغذات اور پرزوں سے ’’جگر کے ٹکڑے‘‘ جمع کرتے رہے مولوی عبدالحق صاحب اور علی شبیر حاتمی مولانا ابو الکلام آزاد کی کوٹھی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن دو تین دن بعد جب رفیق الدین احمد بھی آ گئے تو یہ لوگ نظام پیلس میں منتقل ہو گئے لیکن حیدر آبادی وفود کی آمد کی وجہ سے یہ جگہ ان کے لئے تنگ ہو گئی۔ دہلی کے حالات نا گفتہ بہ تھے، آخر مجبوراً مولوی عبدالحق صاحب کو کراچی آنا پڑا۔ لیکن ابھی مولوی عبدالحق کو یکسوئی حاصل نہ ہوئی تھی ان کا عزم ہندوستان میں اردو کی خدمت کرنے کا تھا اور حالات کے دھارے انہیں پاکستان کی سر زمین کی جانب دھکیل رہے تھے اس ضمن میں مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’میں دلی جانے کے لئے تڑپ رہا تھا۔ میرے سب دوست احباب سمجھاتے تھے کہ اب اس ملک میں اردو کے کام کے لئے کوئی گنجائش نہیں حکومت مخالف، اکثریت مخالف، کوئی کیا کام کر سکتا ہے۔ خصوصاً تمہارا وہاں جا کر کام کرنا خطرے سے خالی نہیں اور تو اور، ہمارے مخدوم علامہ کیفی صاحب بھی دلی میں رہ کر کام کرنے کے مخالف تھے وہ بھی کہتے تھے کہ ہندوستان میں تو اردو کا خاتمہ ہو گیا۔ اب یہ پینے گی تو پاکستان میں پنپے گی۔‘‘

ملک تقسیم ہوتے ہی مولانا ابو الکلام آزاد بھی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق کے بھارت میں کام کرنے کے خلاف ہو گئے۔ حالات بھی خلاف جا رہے تھے لیکن مولوی عبدالحق صاحب اتمام حجت کی غرض سے ہندوستان جانا چاہتے تھے آخر تیرہ جنوری 1948ء کو مولوی عبدالحق صاحب حامد علی صاحب کو اپنے ساتھ لے کر ایک دفعہ پھر دلی پہنچے اس دفعہ ان کا قیام زاہد حسین صاحب کی عنایت سے پاکستان ہائی کمیشن میں تھا اور وہ پھر انجمن کے لٹے ہوئے کوچے کے چکر کاٹنے لگے جہاں ابھی تک ردی کی چھٹائی کا کام جاری تھا۔

25جنوری 1948ء کو مولوی عبدالحق صاحب کی درخواست پر اولڈ بوائز لاج علی گڑھ میں ہمدردان اردو کا ایک اجتماع ہوا۔ اس کے ایجنڈے میں یہ امور تھے۔

1 انجمن ترقی اردو کا صدر مقام اب کہاں ہو

2 موجودہ حالات میں اس کا پروگرام کیا ہو

سید ہاشمی فرید آبادی کا کہنا ہے:

’’اس میں قریباً25حضرات تشریف لائے اس میں نواب اسماعیل خان صاحب وائس چانسلر، بیگم اعزاز رسول، شیخ عبداللہ، پروفیسر محمد شریف، پروفیسر منظور، آل احمد سرور، پروفیسر رشید احمد صدیقی، سید الطاف حسین، محمد بشیر الدین صاحب لائبریرین، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، امیر الدین وغیرہ تھے۔‘‘

25جنوری 1945ء کو مولوی عبدالحق صاحب الہ آباد گئے تاکہ انجمن ترقی اردو کے صدر سر تیج بہادر سپرو سے تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لئے وہ 31جنوری کو مولوی بشیر الدین صاحب سے ملاقات کرنے اٹاوہ گئے۔ لیکن ان سے ملاقات نہ ہو سکی کیوں کہ وہ ڈاکٹر ضیاء الدین مرحوم کی تدفین میں شرکت کے لئے علی گڑھ گئے ہوئے تھے مجبوراً مولوی صاحب دلی واپس آ گئے۔ یہاں ان کی مصروفیت انجمن ترقی اردو کے دفتر کو کسی نئی جگہ منتقل کرنا تھا۔ آنریبل قدوائی صاحب نے اینگلو عربک کالج میں انجمن کا دفتر منتقل کرنے کی تجویز پیش کی کیوں کہ ان دنوں فسادات کی وجہ سے یہ عمارت ویران پڑی تھی اس سلسلے میں کالج کمیٹی کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین خاں سے درخواست کی گئی جسے انہوں نے منظور کر لیا ابھی انجمن کا دفتر عربک کالج منتقل بھی نہ ہو پایا تھا کہ زاہد حسین صاحب کا دلی سے کراچی تبادلہ ہو گیا اور مولوی عبدالحق کا دلی میں رہنا پھر ایک دفعہ نا ممکن بن گیا چنانچہ مولوی صاحب 4مارچ 1948ء کو لاہور چلے آئے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد یعقوب خان، حامد علی و دیگر ملازمین نے انجمن کا بچا کھچا اثاثہ اینگلو عربیک کالج میں منتقل کر دیا آثار تو یہ تھے کہ شاید اینگلو عربیک کالج کو سنبھالتے دو تین سال لگ جائیں گے اس سے پہلے درس و تدریس ممکن نہ ہو سکے گی، لیکن پاکستان سے جو سکھ اور ہندو مہاجرین کا ریلہ دہلی پہنچا، وہ ہندی سے آشنا نہ تھے، بلکہ اردو تعلیم کے خواہاں تھے۔ اس لئے ان کے لڑکے لڑکیوں کو تعلیم دینے کے لئے اینگلو عربیک کالج کو جلد کھول دیا گیا اس لئے:

’’ہم انجمن کا سامان اور کتب خانہ پھر نمبر 1دریا گنج میں منتقل کرنے پر مجبور ہو گئے اس آر جار میں کتابوں کی ترتیب میں ابتری پیدا ہو گئی، اور شکست و ریخت سے نقصان پہنچا‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کے پاکستان میں ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں انجمن ترقی اردو بھی معتوب ہو گئی اور مولوی عبدالحق کی ذات کو شک و شبہ سے دیکھا جانے لگا اور انجمن کے خلاف نئی سازش کا جال بچھنا شروع ہوا۔

عبداللطیف خان مالک لطیفی پریس دلی نے بھی اس خبر کی تصدیق کی:

’’اگر میں جلد دلی نہ پہنچا تو حکومت انجمن کو امداد بھی نہ دے گی (جس کی منظوری ہو چکی ہے) زمین بھی ضبط کر لے گی اور کتب خانے سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے اس خبر کے بعد دوبارہ ہندوستان جانے کی تیاریاں کیں۔ ہندوستان کے ہائی کمشنر متعینہ پاکستان سری پرکاش نے مولوی عبدالحق صاحب کے لئے ایک خصوصی پرمٹ جاری کیا، جس کے تحت یہ انجمن کی ضرورت کے لئے جب چاہیں ہندوستان جا سکتے ہیں اور واپس آ سکتے ہیں چنانچہ وہ 3اکتوبر 1948ء کو دہلی روانہ ہوئے اور 5اکتوبر کو انجمن کے معاملات کے سلسلے میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے۔ سید ہاشمی فرید آباد ی لکھتے ہیں:

’’حقیقت حال بیان کی کہ انجمن کے لئے کوئی مکان نہیں ملتا انجمن کے نام سے لوگ کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ بہت بد گمانیاں ہیں آپ لاہور یا کراچی کو اپنا صدر مقام بنائیں یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آپ کی ایک ٹانگ یہاں اور ایک ٹانگ وہاں۔۔۔۔ جناب کیفی صاحب سے ملا وہ اس سے قبل ڈاکٹر تارا چند سے ملے تھے انہوں نے بھی ایسی ہی باتیں کیں کہ حکومت ہم سے بد گمان ہے۔‘‘

12اکتوبر 1948ء کو مولوی عبدالحق صاحب دوبارہ مولانا ابو الکلام آزاد سے ملے اور انہیں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ انجمن کو کراچی لے جانے پر مجبور ہیں لیکن انہیں انجمن کا کتب خانہ لے جانے کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی واپس ملنی چاہئے جو انجمن نے حکومت ہند کو زمین کی قیمت میں ادا کی تھی مولانا ابو الکلام نے یہ معاملات حل کر دینے کا یقین دلایا۔ لیکن اس وعدے کے بر خلاف 17 اکتوبر 1948ء کو دریا گنج میں انجمن کا دفتر سر بہر کر دیا گیا مولوی عبدالحق انتہائی مایوسی کے عالم میں 21اکتوبر 1948ء کو سر تیج بہادر سپرو صدر انجمن ترقی اردو کو نئی صورتحال سے آگاہ کرنے الہ آباد گئے۔ انہوں نے بھی واقعات سن کر افسوس کیا اور ڈاکٹر تارا چند اور مسٹر شنکر پرشاد چیف کمشنر کے نام مکاتیب میں انجمن کے معاملات کی طرف توجہ دلائی۔ کلکتے سے عبدالرحمن صدیقی دلی آئے اور مولانا ابو الکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین خان، تارا چند اور رفیع احمد قدوائی سے ملے اور انجمن کے معاملات میں بات چیت کی لیکن سر تیج بہادر سپرو اور عبدالرحمن صدیقی صاحب کی کوششیں لا حاصل رہیں۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے خط محررہ 3جنوری 1953ء بنام مولانا امین زبیری صاحب، اس واقعہ کی داستان اس طرح بیان کی ہے:

’’مد محفوظ بھارت کی انجمن کے پاس رہا اور امپریل بنک سے ہم کوئی رقم نکالنے نہ پائے تھے کہ بھارت کی انجمن نے کارروائی کر کے رقم رکوا دی۔ پولیس نے چیف کمشنر کے حکم سے کتب خانہ کو سر بمہر کر دیا۔ اس موقع پر سر تیج بہادر سپرو نے چیف کمشنر کو خط لکھا اور شکایت کی کہ یہ کارروائی نا مناسب اور نا جائز کی گئی ہے چیف کمشنر نے لکھا کہ یہ میں نے ابو الکلام آزاد اور ڈاکٹر تارا چند کے اشارے پر کیا ہے۔ سر تیج بہادر سپرو نے یہ نقل مجھے بھیج دی یہ بڑی لمبی داستان ہے خط میں اس کی گنجائش نہیں کبھی موقع ہو گا تو بیان کروں گا‘‘

پاکستان ہائی کمیشن کا فعل بھی انجمن ترقی اردو اور مولوی عبدالحق صاحب کے حق میں مثبت نہ ہوا مولوی عبدالحق صاحب نے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کیا:

’’مجھے سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہائی کمشنر اور ان کے عملے سے کسی قسم کی مدد نہ ملی صرف جھوٹے وعدے کرتے رہے۔ یہ ان کے متعلق عام شکایت تھی۔ لوگ حیران تھے کہ ایسے شخص کو ہائی کمشنر کیوں مقرر کیا گیا جو پاکستان سے زیادہ بھارت کا خیر خواہ ہے۔‘‘

دلی میں مولوی عبدالحق صاحب پر عرصہ حیات تنگ ہونے لگا۔ حکومت ہند نے مولوی صاحب اور ان کے رفقا کار پر باقاعدہ پولیس متعین کر دی جو ان کی نقل و حمل کی نگرانی کرتی اور بعض اوقات ان کے مہمانوں کو بھی ناجائز تنگ کرتی ان میں بعض ان کے ہمدرد بن کر مخبری کرتے۔ مولوی عبدالحق صاحب کا بیان ہے:

’’اکثر ایک مرد معقول باریش مقطع ملنے آیا کرتے تھے اور اردو سے اور ہمارے کام سے بہت ہمدردی ظاہر کرتے تھے بڑے چرب زبان تھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان کا تعلق سی آئی ڈی سے ہے۔‘‘

آخر کار6جنوری 1948ء کو مولوی صاحب نے دل پر پتھر رکھ کر دلی سے مجبوراً ہجرت کی اور بھوپال کی راہ لی وہاں اٹھارہ دن قیام کر کے 24جنوری کو بمبئی گئے بقول سید فرید ہاشمی صاحب:

’’دو ایک کام تھے وہ کئے آخر 28جنوری 1948ء کو بمبئی سے یہ شعر پڑھتا ہوا جہاز میں سوا ہوا:‘‘

رخصت اے ہندوستان، اے بوستان بے خزاں

رہ چکے تیرے بہت دن ہم بدیسی مہمان

’’وہ جو کہتے ہیں ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کبھی کبھی یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے حالی نے یہ شعر75سال پہلے لکھا تھا اس وقت کون کہہ سکتا تھا کہ کبھی ایسا وقت آئے گا!‘‘

جہاز ساڑھے بارہ بجے کراچی پہنچا ہوا خانے پر شعیب قریشی صاحب، سید ہاشمی، خان عبداللطیف خان صاحب اور حسام الدین راشدی ملنے آئے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر کیا کہ خیر و عافیت سے پاکستان پہنچ گئے اب یہاں نئی مہم کا آغاز ہو گا۔

٭٭٭٭٭٭

 

 

کراچی کا دور

انجمن ترقی اردو کی تاسیس اور جدوجہد

 1948ء تا 1961ء

 

 

آزادی کا اعلان ہوتے ہی برصغیر فسادات کی لپیٹ میں آ گیا اور ایسی آگ لگی کہ بجھنے کا نام نہ لیتی تھی اس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو ہند کی بزم بھی تتر بتر ہو گئی دفتر لٹیروں نے لوٹ لیا عمارت انشورنس کمپنی کے قبضے میں چلی گئی ملازمین اور کارکن شہید ہو گئے یا جس کے جہاں سینگ سمائے چلے گئے۔ تمام ادارے تقسیم ہو کر رہ گئے۔ اس لئے تشکیل پاکستان کے ساتھ ہی ساتھ پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی، جو ہندوستان کی انجمن ترقی اردو سے جداگانہ اور آزاد اپنے کام و سفر کا آغاز کر سکے کیونکہ تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان کے علاقوں کی شاخوں کا الحاق ہندوستان کے مرکز سے رہنے کا جواز نہ تھا۔ صرف یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پاکستان میں انجمن ترقی اردو کا مرکز کہاں ہو۔ جس وقت اورنگ آباد سے انجمن کو منتقل کرنے کے لئے 24,25اکتوبر 1936ء کو علی گڑھ میں کل ہند کانفرنس منعقد کی تھی تو اس میں پنجاب سے ڈاکٹر اقبال مرحوم کو بھی خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا مگر وہ اپنی علالت کی وجہ سے شرکت نہ کر سکے تھے، لیکن انجمن کی اورنگ آباد سے منتقل کے بعد نئے مرکز کے سلسلے میں دعوت نامے کے جواب میں مولوی عبدالحق صاحب کے نام اپنے مکتوب 27ستمبر 1936ء میں تفصیلی اور مدلل رائے دی تھی:

’’میرے خیال میں اس کا مستقر لاہور ہونا چاہئے اور اس کے لئے ایک سے زیادہ وجوہ ہیں:‘‘

1 مسلمانوں کو اپنے تحفظ کے لئے جو لڑائیاں آئندہ لڑنی پڑیں گی ان کا میدان پنجاب ہو گا پنجابیوں کو اس میں بڑی دقتیں پیش آئیں گی کیونکہ اسلامی زمانے میں یہاں کے مسلمانوں کی مناسب تربیت نہیں کی گئی مگر اس کا کیا علاج کہ آئندہ رزمگاہ یہی سر زمین معلوم ہوتی ہے۔

2 آپ انجمن اردو سے متعلق ایک پبلشنگ ہاؤس قائم کرنا چاہتے ہیں، اس کی کامیابی بھی لاہور ہی میں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ایک بڑا پبلشنگ سنٹر ہے اور بہت سا طباعت کا کام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے انگریزی پبلشنگ کی طرف بھی یہاں کے مسلمان توجہ کر رہے ہیں۔

3 یہاں کے لوگوں میں اثر قبول کرنے کا مادہ زیادہ ہے سادہ دل صحرائیوں کی طرح ان میں ہر قسم کی باتیں سننے اور ان سے متاثر ہو کر ان پر عمل کرنے کی صلاحیت اور مقامات سے بڑھ کر ہے۔ ایک معمولی جلسے کے لئے آٹھ دس ہزار مسلمانوں کا جمع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ بیس ہزار کا مجمع بھی غیر معمولی نہیں یہ بات پنجاب کے ہندوؤں میں بھی نہیں پائی جاتی۔

اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار مولانا ظفر علی خان، حافظ محمود شیرانی اور پنجاب کے دیگر اکابرین نے کیا تھا اس لئے جب پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی جانے لگی تو مولوی عبدالحق صاحب کے ذہن میں انجمن ترقی اردو کے مرکز کے لئے لاہور کا نام آیا۔

مولوی عبدالحق صاحب نے لاہور میں پنجاب کے وزیر مہاجرین میاں افتخار الدین کو خط لکھا کہ وہ انجمن کا دفتر لاہور لانا چاہتے ہیں اور اسی مضمون کا مکتوب 19اکتوبر 1947ء کو میاں بشیر احمد صاحب کو رقم کیا جس میں تحریر تھا:

’’ہم سب کی رائے یہ قرار پائی ہے کہ اب انجمن کا صدر مقام لاہور ہونا چاہئے بشرطیکہ آپ صاحبان بھی اس سے اتفاق فرمائیں۔۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ ہندوؤں نے جو عمارتیں اور پریس وغیرہ چھوڑے ہیں ان کی تقسیم عمل میں آ رہی ہے۔ اگر آپ کی توسط اور عنایت سے ہمیں کوئی اچھا پریس اور ایسا مکان مل جائے جس میں انجمن کا دفتر اور کتب خانہ وغیرہ آ سکے تو ہم بخوشی اس کو خریدنے کے لئے تیار ہیں یہ بہت اچھا موقع ہے شاید پھر ایسا موقع نہ مل سکے میں نے اس مضمون کا ایک خط میاں افتخار الدین صاحب کو بھی لکھا ہے اگر از راہ کرم تکلیف فرما کر اس بارے میں گفتگو کر کے کوئی انتظام فرما دیں تو بہت ممنون ہوں گا۔‘‘

لیکن مولوی عبدالحق صاحب کو لاہور سے میاں افتخار الدین نے کوئی جواب نہ دیا اس کے بعد مولوی عبدالحق صاحب خود لاہور آئے اور میاں بشیر احمد کو یاد دہانی کرائی اس ضمن میں ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب کا نام ایک مکتوب میں مولوی عبدالحق صاحب نے میاں بشیر احمد کے رویے کے سلسلے میں تحریر کیا:

’’انہوں نے لاہور کے ممتاز ادیبوں کو جو با اثر تھے، مدعو کیا جب اس معاملے کا ذکر آیا تو انہوں نے اس ڈھنگ سے گفتگو کی جس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ انجمن یہاں پر آئے پروفیسر حمید احمد خان صاحب بھی اس صحبت میں تھے۔‘‘

دوسری نظر انتخاب کراچی شہر پر پڑی جو پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی دار الحکومت بننے کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل کر رہا تھا اس کے علاوہ تقسیم ہند سے قبل بھی انجمن ترقی اردو کی کراچی شاخ بڑی سر گرم عمل رہی تھی اس لئے فیصلہ ہوا کہ پاکستان میں کراچی کو انجمن کا مرکز بنایا جائے اور اس کے لئے ایسے مکان کی تلاش شروع کر دی گئی جو انجمن کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ مکان کی تلاش سید علی بشیر صاحب کے ذمے تھی جنہوں نے پیر حسام الدین راشدی کے تعاون سے سہ منزلہ عمارت کا انتخاب کر لیا جو کہ گجراتی ایجوکیشن سوسائٹی کی ملکیت تھی اور جس میں لڑکیوں کا ایک ہائی سکول چلتا تھا سید ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں:

’’چنانچہ اس کے لئے ہم نے ایک درخواست آنریبل پیر الہٰی بخش صاحب وزیر تعلیم کی خدمت میں پیش کی پیر صاحب نے ہماری درخواست پر سید ہاشم رضا کلکٹر کے نام سفارش کر دی۔‘‘

لیکن اس عمارت پر مہاجرین کا قبضہ تھا جب اس کا ذکر کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر حکیم محمد احسن صاحب سے ہوا تو انہوں نے شاردا مندر کی نشاندہی کی جو گجراتی ایجوکیشن سوسائٹی کی عمارت سے زیادہ وسیع اور بہتر تھی۔ اس عمارت کے حصول کے لئے از سر نو تگ و دو شروع ہوئی اور آخر کار یہ عمارت انجمن ترقی اردو پاکستان کے لئے الاٹ ہو گئی۔

’’شاردا مندر گجراتیوں کا سب سے بڑا ادارہ تھا، اور اس میں تخمیناً بارہ سو طالب علم تعلیم پاتے تھے انجمن کے لئے اس سے بہتر عمارت کراچی شہر میں نہیں مل سکتی تھی۔‘‘

کراچی میں انجمن ترقی اردو کا مرکز قائم ہو جانے کے باوجود مولوی عبدالحق صاحب مستقل پاکستان ہجرت کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ دونوں ملکوں میں اردو کی ترویج کرنا چاہتے تھے انہوں نے اضطرابی کیفیت میں بار بار دلی اور کراچی کے چکر کاٹے۔ پاکستان آ جاتے تھے تو دلی کی انجمن کے مسائل بے چین کر دیتے تھے اور دلی میں بے سر و سامانی دیکھتے تھے تو پاکستان آ جاتے تھے جب تک انہیں مولانا ابو الکلام آزاد، تارا چند اور ڈاکٹر ذاکر حسین خان صاحب نے بالکل مایوس نہ کیا، وہ ذہنی طور پر یہ بات قبول کرنے کو تیار نہ تھے کہ بھارت میں اردو کی خدمت نہیں کی جا سکتی 12فروری 1948ء کو انہوں نے دلی سے پیر حسام الدین راشدی کو تحریر کیا:

’’جب کوئی مناسب مکان مل گیا تو دفتر و مکتب خانہ اس میں منتقل کر کے ضروری انتظامات کر کے کراچی چلا آؤں گا وہاں مجھے کسی علیحدہ مکان کی ضرورت نہیں شاردا مندر میں رہ کر کام کروں گا اور رات کو وہیں پڑ رہوں گا میرے پاس اب کیا ہے، جس کے لئے مکان کی ضرورت ہو ایک بچھونا اور دو چار جوڑے کپڑے ہیں اور بس۔۔۔۔۔ دوسرے مجھے تو دونوں ملکوں میں رہنا ہے پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی، کام کرنے والے ساتھیوں کی تلاش ہے۔۔۔۔۔ دونوں جگہ انتظام کرنے میں کچھ مدت لگے گی۔۔۔۔۔ سارے رسالے بند ہیں۔۔ انہیں پھر زندہ کرنے کی ضرورت ہے کتابوں کی اشاعت بھی رک گئی ہے، ان کا سلسلہ پھر سے قائم کرنا ہے۔‘‘

’’کوئی ڈیڑھ دو برس تک وہ اس رائے پر قائم رہے پاکستان میں انجمن کا یہ زمانہ کار گزاری کے اعتبار سے تذبذب اور تعطل کا زمانہ ہے۔ لیکن انہیں بھارت کے مرکز اور محاذ سے دست کش ہونے پر مجبور ہونا پڑا اور آخر 1949ء میں صرف پاکستان میں رہ کر کام کرنے کے عزم و ارادے کے ساتھ مستقل بھارت کو خیر باد کہہ آئے۔‘‘

ہندوستان میں مولوی عبدالحق صاحب نے جو کچھ محنت کی تھی، وہ سب اکارت ہو چکی تھی۔ اب سب کچھ نئے سرے سے کرنا تھا انجمن کے اغراض و مقاصد کو نئے سرے سے مرتب کرنا تھا ادارے کی اشاعتی سرگرمیاں، کالج کی بنیاد، یونیورسٹی کی مہم، غرض ہر چیز کو نئے طریقے سے شروع کرنا تھا اس کے لئے مولوی عبدالحق صاحب اپنی پیرانہ سالی کی باوجود نئے عزم اور حوصلے سے میدان میں اتر آئے۔

انجمن کے پاس سرمایے کی شدید کمی تھی کیونکہ ہندوستان کی حکومت انجمن ترقی اردو کی تمام اثاثے منجمد کر دیے تھے، حالانکہ یہ وہ سرمایہ تھا جس پر انجمن کی ہر شاخ اور تنظیم کا حق تھا اور برصغیر کے دونوں ملکوں میں پھیلی ہوئی تھیں ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں:

’’دہلی چھوڑنے سے پہلے یعنی ختم سال 1946ء میں انجمن ترقی کے پاس تقریباً دو لاکھ روپیہ نقد اور مطبوعات، کاغذ وغیرہ کوئی تین لاکھ روپیہ مصدقہ کا اثاثہ تھا۔ فروخت کتب و رسائل سے ان کی آمدنی کم و بیش 65ہزار اور حیدر آباد کی امداد ملا کر ایک لاکھ روپیہ سالانہ سے بڑھ جاتی تھی نقد و جنس کا سارا اثاثہ بھارت کی حکومت نے غصب کر لیا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اپنی تیس سالہ زیست کی جمع پونجی تقریباً پچاس ہزار روپے دلی کے دور ہی میں انجمن پر نچھاور کر دیے تھے، تاہم کسی نہ کسی طرح حیدر آباد دکن سے اس کی سالانہ امداد مل گئی تھی اور بیس ہزار روپیہ حکومت پاکستان نے یک مشت، پچیس ہزار روپیہ سالانہ کراچی میونسپل کارپوریشن نے دینے کا وعدہ کیا 1951ء میں جب ممتاز حسین قزلباش ریاست خیر پور کے وزیر اعلیٰ اور مسٹر حسن حبیب سیکرٹری ریاست ہوئے تو پانچ ہزار کا عطیہ اور دو ہزار چار سو روپیہ سالانہ ریاست سے موصول ہوا۔ حکومت پنجاب نے 1952 -53ء کے بجٹ سے 50ہزار روپے انجمن کو عطا کیے اس طرح انجمن ترقی اردو کی تجدید عمل میں آئی۔

1948ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن کا نیا دستور مرتب کیا اور انجمن کی باقاعدہ رجسٹری کروائی پاکستان کے معرض وجود میں آنے اور انجمن ترقی اردو کی پاکستان تنظیم نو پر سر شیخ عبدالقادر صاحب کو انجمن کا صدر مقرر کیا گیا اور مولوی عبدالحق بد ستور معتمد رہے۔

1948ء میں جب انجمن ترقی اردو کی بنیاد رکھی گئی تو اس کی رسم افتتاح کے لئے بانی پاکستان بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو مدعو کرنے کی تجویز ہوئی ان سے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے بخوشی 15اپریل 1948 کے بعد کسی بھی دن آنے کا ارادہ ظاہر کیا۔لیکن اس دوران میں انجمن کے معاملات نبٹانے کے لئے مولوی عبدالحق صاحب کو دلی جانا پڑا پھر قائد اعظم علیل ہو گئے اور آخر 11ستمبر 1948ء کی شب ان کا انتقال ہو گیا چنانچہ انجمن کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور انجمن نے رسم افتتاح کے بغیر ہی اپنے نئے سفر کا آغاز نئے حوصلے اور عزم سے کیا اس سلسلے میں انہوں نے بیگم حسن قزلباش بانو کو11جون 1948ء کو کراچی سے تحریر کیا:

’’قائد اعظم کے پروگرام ایسے جلدی جلدی بدلے اور وہ کچھ علیل رہے اس وجہ سے وہ اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے کوئٹہ جاتے وقت خاص طور سے بڑی معذرت کی اور کہا کسی اور سے افتتاح کرا لیجئے، میں کسی اور موقع پر انجمن آ جاؤں گا۔ اب ہم نے بغیر رسم افتتاح کے کام شروع کر دیا۔‘‘

بند رسالے دوسری مرتبہ جاری کئے گئے سب سے پہلے مئی 1948ء سے انجمن ترقی اردو کا ترجمان ’’قومی زبان‘‘ شائع ہونا شروع ہوا 1949ء سے محمد سبزواری کی زیر ادارت رسالہ ’’معاشیات‘‘ جاری ہوا لیکن 1954ء میں ان کے امریکہ چلے جانے کے بعد 1955ء سے یہ رسالہ بند ہو گیا سہ ماہی ’’اردو‘‘ کا جنوری 1950 ’’سائنس‘‘ اور ’’تاریخ و سیاست‘‘ کا 1951ء میں اجراء ہوا انجمن نے اپنی مطبوعات کا سلسلہ از سر نو شائع کیا انجمن کی شاخیں کھل گئیں اور کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔

مولوی عبدالحق صاحب کی کاوشوں سے کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں جہاں لوگ روپے کی ریل پیل کے پیچھے سرگرداں رہتے ہیں، دس ہزار کتابوں کے ذخیرے سے لائبریری کی بنیاد رکھی۔ اس میں ایک خاص کتب خانہ ترتیب دیا گیا جس میں مخطوطات اور علم و فن کی نایاب کتابیں رکھی گئیں یہ کتب خانہ آج کراچی کے بڑے اور اہم کتب خانوں میں صف اول میں شمار ہوتا ہے اس کتب خانے کے افتتاح کے لئے پاکستان کی پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو مدعو کیا گیا انہوں نے متحدہ ہند میں عبوری وزارتوں کے زمانے میں انجمن کے لئے چار لاکھ یک مشت اور چالیس ہزار سالانہ کی رقم منظور کی تھی۔ توقع تھی کہ اب جب وہ اس زمانے سے زیادہ با اختیار ہیں، انجمن کی دست گیری زیادہ اہم طریقے سے کریں گے۔ لیکن ان کی تقریر اور رویہ سے مولوی عبدالحق کو بہت دکھ ہوا جس کا ذکر انہوں نے ایک اپنے مکتوب محررہ 5اکتوبر 1949ء بنام ڈاکٹر داؤد رہبر(ڈاکٹر محمد اقبال پروفیسر اورینٹل کالج لاہور کے صاحبزادے) سے اس طرح کیا ہے:

’’ہم نے ایک عام اردو کتب خانہ بھی قائم کر دیا، جس میں اب تک دس ہزار کتابیں فراہم ہو چکی ہیں۔ اس کے افتتاح کے لئے وزیر لیاقت علی خان صاحب کو تکلیف دی۔ بڑی شان سے جلسہ کیا ایک ایڈریس کالج کی طرف سے اور دوسرا انجمن کی طرف سے پیش کیا گیا، لیکن وزیر اعظم نے تحسین و تعریف تو ایک طرف ایک لفظ بھی ہمت افزائی کا نہ کہا اور امداد کی درخواست کا جواب انکار سے دیا انجمن کے بہی خواہوں کو اس جواب سے بڑی مایوسی ہوئی مرکز کا محکمہ تعلیم ہمارے کاموں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتا وہ حسد کرتا ہے خود کچھ نہیں کرتا، دوسرے کرتے ہیں تو انہیں کرنے نہیں دیتا۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے دکن کے قیام کے دوران اکبر حیدری کو جامعہ عثمانیہ کا منصوبہ پیش کیا تھا اور دلی میں اتنی مصروف ترین مجاہدانہ زندگی میں بھی اردو کالج قائم کرنا اپنے مشن میں شامل کیا تھا۔ اس لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ پاکستان میں مولوی عبدالحق صاحب اپنے اس مشن سے دستبردار ہو جاتے۔ ان کی خواہش تو کراچی میں اردو کی بین الاقوامی جامعہ قائم کرنا تھی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس مشن کے آغاز کے لئے 23جون 1949ء کو ایک نہایت سادہ لیکن پر وقار تقریب میں ’’انجمن ترقی اردو کالج‘‘ کی بنیاد رکھی جس میں ابتدا میں صرف علوم شرقیہ کی تعلیم دی جاتی تھی اس کے طلبا بطور پرائیویٹ امیدوار جامعہ پنجاب کے امیدوار بنتے تھے اس کالج کا پہلا پرنسپل پروفیسر مولوی عبدالغنی کو مقرر کیا گیا اور اس کالج میں25جون 1949ء سے باقاعدہ تعلیم دی جانے لگی سندھ یونیورسٹی کو اس کالج کے الحاق کی درخواست دی گئی لیکن11جولائی 1949 ء کو سندھ یونیورسٹی کی سنڈیکیٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی پنجاب یونیورسٹی کو یہ عذر تھا کہ یہ اس کی حدود و قیود سے باہر ہے یہ تمام صورتحال مولوی عبدالحق کے لئے غیر متوقع تھی اس لئے اس سے انہیں بڑی الجھن اور ذہنی پریشانی ہوئی۔ انہوں نے اس بات کا اظہار اپنے مکتوب 15 اکتوبر 1949ء بنام ڈاکٹر محمد داؤد رہبر سے اس انداز میں کیا ہے:

’’پہلے ہی پریشانیاں کیا کم تھیں یہ کالج قائم کر کے میں نے بیٹھے بٹھائے ایک پریشانی اور مول لے لی کوئی یونیورسٹی اس کے الحاق کے لئے آمادہ نہیں۔ سندھ یونیورسٹی نے انکار کر دیا پنجاب یونیورسٹی کی حدود ارضیس ے باہر ہے اب میں اس سوچ میں ہوں کہ کروں تو کیا کروں اب بند کرتا ہوں تو بدنامی الگ اور بیچارے لڑکوں کی اتنے دنوں کی محنت اور روپیہ رائیگاں جائے گا انجمن نے باوجود بے سر و سامانی جو ہزاروں کا خرچ برداشت کیا وہ بھی ضائع ہو جائے گا ہم ہندوستان سے لٹ پٹ کر برباد ہو کر آئے تھے توقع تھی کہ اب پاکستان ہمارے آنسو پونچھے گا اور ہماری ہمت افزائی کرے گا، لیکن اب جو دیکھتا ہوں تو یہاں کا رنگ ہی کچھ اور ہے خدا ہمارے حال پر رحم کرے، کہاں تک لکھوں بڑی طولانی داستان ہے۔‘‘

قریب تھا کہ مولوی عبدالحق صاحب کا یہ سارا منصوبہ تلپٹ ہو جائے 1950ء میں بمشکل اس زمانے کے وزیر خزانہ مسٹر غلام محمد اور وزیر تعلیم فضل الرحمن کی مدد سے سندھ یونیورسٹی نے کالج کا الحاق منظور کر لیا کالج میں ایف اے ایف ایس سی اور آئی کام سے لے رک پی ایچ ڈی تک نہ صرف تدریس ہونے لگی، بلکہ اس نے تمام قدیم کالجوں کے مقابلے میں بھی بہتر سے بہتر نتائج حاصل کئے۔

انجمن ترقی اردو پاکستان کا پہلا صدر سر شیخ عبدالقادر صاحب کو منتخب کیا گیا تھا ان کا انتقال ہو گیا اور 1950 میں انجمن ترقی اردو پاکستان کی مجلس نظم نے مولوی عبدالحق کو اس کا صدر منتخب کیا۔

انجمن ترقی اردو نے اپنے دلی کے دور میں 1939ء میں بڑی سج دھج اور جوش و ولولے سے کل ہند کانفرنس منعقد کی تھی، جس کی یاد برسوں تک دلوں کو گرماتی رہی۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جب انجمن کے آشیانے میں تنکے جمع ہونے لگے تو مولوی عبدالحق صاحب نے ایک بار پھر کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ دلی کے دور میں کانفرنس ہندی اور اردو کے تنازعہ کے پس منظر میں منعقد ہوئی تھی اور اب پاکستان میں ’’قوم زبان‘‘ کا مسئلہ چھڑا ہوا تھا یہ کانفرنس 13 اپریل 1951 کو سردار عبد الرب نشتر کی صدارت میں منعقد ہوئی اور اس کا افتتاح پاکستان کے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین صاحب نے کیا انہوں نے اپنے خطبے میں مشرقی پاکستان میں اردو کی ترویج کے لئے تجاویز پیش کیں۔

گو جون 1948ء میں جامعہ کراچی قائم کر دی گئی اور پروفیسر اے بی اے حلیم کو اس کا وائس چانسلر نامزد کیا گیا، لیکن 1953ء جامعہ کراچی کا شعبہ پروفیسر شپ سے محروم تھا جس کے نتیجے میں ان طلبا کو جو ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کے خواہشمند ہوتے تھے، مایوس ہونا پڑتا تھا۔ پروفیسر اے بی حلیم، مولوی عبدالحق صاحب کو اس منصب پر فائز کرنا چاہتے تھے لیکن مولوی عبدالحق کسی طرح رضا مند نہ ہوتے تھے لیکن چند طالب علموں کی طلب علم نے مولوی صاحب کو رضا مند کر کے سکھ کا سانس لیا اس سلسلے میں ڈاکٹر ابو سعید نور الدین تحریر کرتے ہیں:

’’وہ 1952ء میں اقبال اکیڈمی میں ریسرچ فیلو تھے اور پی ایچ ڈی کرنے کے خواہشمند، جب وہ اس ضمن میں کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اے بی اے حلیم سے ملے تو انہوں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب کو کراچی یونیورسٹی کا اعزازی پروفیسر اور نگران بننے پر راضی کر لیں تو وہ پی ایچ ڈی کی اجازت دے سکتے ہیں انہوں نے مولوی عبدالحق صاحب کی منت سماجت کی اور مولوی صاحب راضی ہو گئے۔۔۔ اس کے بعد یونیورسٹی کی طرف سے باقاعدہ کارروائی ہوئی اور مولوی صاحب کو اردو کا اعزازی پروفیسر مقرر کر دیا گیا اس عہدے پر وہ ڈیڑھ سال تک فائز رہے اس عرصے میں وہ میرے علاوہ پی ایچ ڈی کے کئی اور طالب علم ان کی نگرانی میں کام کرتے رہے۔۔۔ وہ اس عہدے سے غالباً 1953ء کے آخر میں سبکدوش ہو گئے۔‘‘

اس قسم کی روایت ابن انشاء صاحب نے بھی بیان کی ہے وہ لکھتے ہیں:

’’کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کی جو پہلی کھیپ نکلی اس میں ہم بھی تھے ہر نئے ایم اے کے دل میں تحقیق اور پی ایچ ڈی کرنے کا سودا ہوتا ہے۔۔۔۔ اس وقت تک اردو کا پروفیسر یا صدر شعبہ کوئی مقرر نہ ہوا تھا وائس چانسلر صاحب نے کہا تمہارا داخلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اگر مولوی عبدالحق صاحب کو راضی کر لو کہ وہ اعزازی صدر شعبہ ہونا قبول کر لیں تو چشم ما روشن دل ما شاد ہم مولوی صاحب کے پاس گئے، بولے بھائی انکار کر چکا ہوں لیکن تمہارے داخلے کی یہی شرط ہے تو لاؤ قلم دوات، منظور کر لیتا ہوں چنانچہ یونیورسٹی کو مولوی صاحب مل گئے اور ہمیں داخلہ‘‘

پاکستان منتقل ہونے کے بعد مولوی صاحب کا ایک بڑا مشن اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان کا درجہ دلانا تھا بد قسمتی سے قومی اور سرکاری زبان جو خالصتاً ایک لسانی اور ثقافتی مسئلہ تھا، سیاسی گتھیوں میں الجھا کر سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اس کے نتیجے میں ملک میں اچھی خاصی ہنگامہ آرائی رہی پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی مشرقی پاکستان کے نوجوانوں کے ایک طبقے نے بنگلہ زبان کو اس لئے قومی زبان بنانے کے لئے تحریک چلائی کہ آبادی کے اوسط کے لحاظ سے یہ سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان تھی لیکن بانی پاکستان حضرت قائد اعظم نے اس شورش کے اثرات کو بھانپ لیا ہاشمی فرید آبادی تحریر کرتے ہیں:

’’انہوں نے اپنی زندگی کو لسانی وحدت اور استحکام کی بازی پر لگا دیا۔ ایک پرانے (ڈیکوٹہ) جہاز میں ڈھاکہ پہنچے اور ان سر پھرے طلبا کو جنہوں نے دشمنان پاکستان کے کہنے میں آ کر اس قسم کا سوال اٹھایا تھا، سمجھایا کہ اگر تم پاکستان کو قائم رکھنا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ پاکستان کی زبان صرف اور صرف اردو ہو سکتی ہے کوئی اور زبان نہیں ہو سکتی۔‘‘

لیکن سیاستدان اور بیورو کریسی اس مسئلے کو الجھاتی چلی گئی یہاں تک کہ محمد علی بوگرہ کے عہد وزارت میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک ایسا بل منظور کرنے کی تیاریاں ہوئیں جس میں قائد اعظم کی خواہش اور مولوی عبدالحق کی تمنا کے خلاف اردو کو نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ جب مولوی عبدالحق صاحب کو اس امر کی اطلاع ملی تو بپھرے ہوئے شیر کی طرح ( 1954ء) اسمبلی ہال میں پہنچ گئے۔ شاہد احمد دہلوی صاحب بیان فرماتے ہیں:

’’مولوی عبدالحق صاحب کی للکار پر لاکھوں فدائی ان کے گرد جمع ہو گئے اور جس دن اسمبلی کے اجلاس میں بوگرہ کی تجویز پیش ہونے والی تھی مولوی صاحب اس ضعیفی اور کمزوری کے عالم میں انجمن کے دفتر سے پیدل روانہ ہوئے ان کے ساتھ لاکھوں کا مجمع تھا اسمبلی پہنچے تو مولوی صاحب اور ان کے ساتھ اتنا مجمع دیکھ کر سب سٹپٹائے، پولیس کے دستے لاٹھیاں لئے کھڑے تھے، اشک آور گیس کا بھی انتظام تھا اور گولی چلانے والے دستوں کا بھی، مجمع اس قدر مشتعل تھا کہ اگر پولیس ذرا بھی حرکت میں آتی تو غدر مچ جاتا اور یہ آگ کراچی سے پھیل کر سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔‘‘

مجبوراً حکومت کو اسمبلی کا یہ اجلاس بغیر کسی قرار داد کے ملتوی کرنا پڑا اور حکمران بڑی عیاری سے یہ سارا معاملہ گول کر گئے جس کے نتیجے میں اردو کو قومی زبان کے ناطے سرکاری زبان کا وہ وقار حاصل نہ ہو سکا، جو پاکستان کے معرض وجود میں آ جانے کے فوراً بعد ہی مل جانا چاہئے تھا۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لئے نہ صرف عوامی تحریک چلائی اور گلی کوچوں میں نکل آئے، بلکہ قومی زبان کا درجہ دلانے کے لئے ایسے ٹھوس کام بھی کئے جس سے اردو زیادہ سے زیادہ اہم زبان بن سکے۔

اردو میں اصطلاحات کی ایسی کوئی لغت نہ تھی جو دفتری اور عدالتی ضروریات کو پورا کر سکے۔ اس ضمن میں ضرورت مند ادارے اور دفاتر جب کسی اصطلاحی مشکل کا شکار ہوتے تھے، تو وہ مولوی عبدالحق صاحب سے رجوع کرتے تھے اس لئے مولوی عبدالحق صاحب نے حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہئے جو اس دفتری اصطلاحات کے خواہش مند اداروں، دفتر اور شعبوں کی رہنمائی کر سکے، چنانچہ حکومت نے مولوی عبدالحق صاحب ہی کے زیر صدارت ایجوکیشن ایڈوائزری بورڈ تشکیل دیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مکتوب بنام مولانا عبدالماجد دریا بادی محررہ25جون 1950ء میں تحریر کیا:

’’میں نے حکومت سے کچھ رقم طلب کی ہے، تاکہ تمام دفتری اور عدالتی الفاظ و اصطلاحات کی ڈکشنری تیار کروں۔ علمی اصطلاحات جو اس وقت تک بن چکی ہیں، وہ سب جمع کر رہا ہے انجمن اور کالج کا کام اس سے الگ ہے۔‘‘

’’قاموس ادب‘‘ مولوی صاحب کے منصوبوں میں عرصے سے شامل تھی لیکن ہجوم کار مولوی صاحب کو اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کا موقع فراہم نہیں کر رہا تھا بہ مشکل تمام 1955ء میں وہ اس کا آغاز کر سکے۔

1953ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن ترقی اردو کی گولڈن جوبلی منعقد کی، جس کے اجلاس8مئی 1953ء تا 12مئی 1953ء جاری رہے۔ اس میں برصغیر کے دونوں ممالک کے نمائندے شامل تھے اس موقع پر سب سے یادگار کام ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ کی ترتیب و تدوین تھا جسے سید ہاشمی فرید آبادی نے انجام دیا تھا لیکن 1947ء کی المناک تباہی کا حال و تذکرہ مولوی عبدالحق صاحب نے خود تحریر کیا تھا۔

پاکستان ہجرت کرنے سے قبل مولوی صاحب کا وظیفہ خدمت جو انہیں سرکار عثمانیہ سے ملتا تھا وہ نہ صرف ان کی، بلکہ آئے گئے کی کفالت کے کام آتا تھا۔ لیکن پاکستان آنے کے ایک سال بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ذاتی اثاثہ یہاں تک کہ تن کے کپڑے تک 1947ء کی لوٹ مار کی نذر ہو گئے، جس کے نتیجے میں ان پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ کوڑی کوڑی کے محتاج ہو گئے اس زمانے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے انہیں رائے دی کہ وہ انجمن سے کچھ مدد لیں لیکن مولوی عبدالحق صاحب جنہوں نے ساری عمر، اپنا تن من اور دھن نچھاور کیا تھا ان کی غیرت یہ کیسے گوارا کر سکتی تھی مولوی عبدالحق صاحب نے 30جنوری 1951ء کے اپنے مکتوب میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کی تجویز رد کرتے ہوئے کہا:

’’تم کہتے ہو میں اب کچھ انجمن سے لے لوں یہ نا ممکن ہے مجھے فاقے کرنے منظور ہیں مگر انجمن سے کچھ لینا ہر گز منظور نہیں‘‘

اس زمانے میں انجمن ترقی اردو کی مالی حیثیت بھی بہت کمزور ہو چکی تھی انجمن کی امداد بند تھی ادھر اردو کالج کھلنے سے اخراجات کا مزید بوجھ بڑھ گیا تھا مولوی عبدالحق صاحب کی فیاضی کی حد تو یہ تھی کہ انہیں جو پنشن بھی ملتی تھی وہ بھی انجمن کو عطیہ کر دیتے تھے 1951ء کے آخر میں انہیں کچھ رکے ہوئے پیسے ملے تو وہ بھی انجمن کو دے دیے مولوی عبدالحق صاحب خود اس موضوع پر تحریر کرتے ہیں:

’’حکومت نے جو پنشن میرے لئے اپنی فیاضی اور قدر دانی سے عطا فرمائی تھی وہ میں نے انجمن کو منتقل کر دی ہے۔ انجمن رکھنا سب سے مقدم ہے۔ میں یا مجھ جیسے دوسرے افراد رہیں یا نہ رہیں، انجمن کا رہنا لازم ہے میں نے حقہ، چائے وغیرہ ترک کر دئیے ہیں اور اپنی ضرورتیں بہت کم کر دی ہیں۔ کھانے کے لئے میں نے تریسٹھ روپے ماہانہ رکھے ہوئے ہیں چند روپے دھوبی حجام کے سمجھ لیجئے کپڑوں کی ضرورت ہے نہ جوتوں کی البتہ دو تین طالب علموں کو مدد دیتا ہوں وہ کچھ مدت دیتا رہوں گا۔‘‘

انجمن کی مالی حالت اس حد تک گر گئی کہ انجمن کے ملازمین کی تنخواہیں اور دفتر کے اخراجات بھی چلنا مشکل ہو گئے اور پیسے آنے کی کوئی سبیل نہ تھی، یہاں تک کہ انجمن کے تین رسالے (سائنس، معاشیات اور تاریخ سیاست) بھی تعطل کا شکار ہو کر بند ہو گئے اور انجمن کم و بیش چالیس ہزار روپے کی مقروض ہو گئی مجبوراً20فروری 1951ء کو مولوی عبدالحق صاحب نے ملازمین کو سبکدوش کرنے کے نوٹس جاری کر دئیے جیسے ہی یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی، تہلکہ مچ گیا اور حکومت نے فوری طور پر پندرہ ہزار روپے کی قلیل رقم کی امداد کا اعلان کیا۔ ادھر یہ انجمن کا بحرانی دور تھا، ادھر مولوی عبدالحق صاحب اور انجمن ترقی اردو کی مجلس ناظمین کے درمیان پہلے غلط فہمیاں اور پھر اختلافات پیدا ہونے لگے جس کے نتیجے میں انجمن ترقی اردو انتشار کا شکار ہو گئی۔

’’اب وہ دور ابتلا آیا کہ انجمن کے کارکن جن سے مولوی عبدالحق کو توقعات تھیں، سازشیں کرنے لگے اور تخریبی کارروائیاں ہونے لگیں مولوی صاحب کا کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور ان کو رسوا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی غرض ایسی اذیت پہنچائی کہ شرافت کو شرم آنے لگی۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کے لئے یہ دور بڑی اذیت کا دور تھا مولوی عبدالحق نے اپنی ساری زندگی انجمن کے لئے داؤ پر لگا رکھی تھی اور اب وہی انجمن جسے مولوی عبدالحق صاحب نے پالا، پوسا، جوان کیا، ایک ایسے موڑ پر لے آئی تھی جہاں مولوی عبدالحق صاحب انجمن کو خیر باد کہنے کے لئے تیار ہو گئے انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کو15جون 1951ء کو تحریر کیا:

’’میں اب انجمن سے بھی الگ ہونا چاہتا ہوں کالج اور انجمن کے کاموں میں الجھنیں پیدا ہونے لگی ہیں جس سے تضیع اوقات کے علاوہ طرح طرح کی فکریں دامن گیر ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ انجمن کے سالانہ جلسے میں (جولائی میں کرنا چاہتا ہوں) انجمن کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں گا۔۔۔۔۔ اور دنیا سے کوئی واسطہ نہ رکھوں گا۔‘‘

اس سارے پس منظر پر تفصیلی روشنی شمیم احمد صاحب نے اپنے مضمون ’’شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘‘ میں ڈالی ہے شیخ رزاق مجلس ناظمین کے سر گرم رکن، انجمن ترقی اردو اور اردو کالج کے خازن اور اس تحقیقی کمیٹی کے رکن تھے جو مولوی عبدالحق اور ان کے حریف گروپ کے معاملات کی تحقیق کرنے کے لئے قائم ہوئی تھی ان کا کہنا ہے:

’’ایک زمانے میں مولوی صاحب بہت علیل رہتے تھے، اس وقت ایک صاحب نے ان کی خدمت کی اور اس بنا پر مولوی صاحب ان پر اعتماد کرنے لگے تھے اور یہی صاحب انجمن اور مولوی صاحب کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہوئے۔ ابتدا میں تو صورت حال زیاد سنگین نہیں ہوئی تھی لیکن جب انجمن اور پریس کے تمام حسابات معرض خطر میں پڑنے لگے تو بات خطرناک مرحلوں میں داخل ہو گئی مجلس نظما اور مولوی صاحب کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع ہوتی گئی۔ مجلس معاملات کی گڑ بڑ کی وجہ مذکورہ صاحب کو سمجھتی تھی اور مولوی صاحب اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے۔۔۔۔۔ وہ ان صاحب کے خیال کے مطابق اس کی ذمہ داری مجلس کے اراکین پر عائد کرتے تھے اس کے علاوہ مولوی صاحب انجمن کے سلسلے میں اس وقت تک مطلق العنان ہستی رہے تھے بلکہ خود انجمن تھے وہ مجلس کے اعتراضات کو اپنے معاملات میں دخل اندازی کے مترادف سمجھتے تھے حالات اس قدر نازک ہو گئے کہ ایک تحقیقی کمیٹی قائم ہوئی جس کا ایک ممبر میں بھی تھا تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے دونوں فریقوں کے بیانات آئے دونوں ایک دوسرے پر الزام لگا رہے تھے ہم لوگوں نے ایک طریقہ وضع کیا کہ مذکورہ شخص کے بیانات اور عائد کردہ الزامات کی تحقیقات پہلے کی جائے، کیوں کہ مولوی صاحب بھی اس سے متفق تھے، اور پھر صحیح نتیجے پر پہنچنے پر سختی سے ان حالات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ تحقیق شروع ہوئی اور ان صاحب کے الزامات غلط ثابت ہوئے۔ ہم نے یہی رپورٹ مرتب کر کے پیش کر دی۔ مولوی صاحب کو اس سے اتفاق نہ تھا انہیں صدمہ بھی ہوا اور وہ ہم لوگوں سے ناراض بھی ہو گئے، مگر ایسے نہیں کہ تعلقات ختم ہو جائیں، بس ایک غبار دل پر آ گیا۔‘‘

حالات انتہائی نا گفتہ بہ ہو گئے کتب خانہ سر بمہر کر دیا گیا اور مولوی صاحب تن تنہا عمارت کی آخری منزل پر مقید ہو کر رہ گئے کبھی کبھار کوئی پردیسی مولوی عبدالحق صاحب سے ملنے چلا آتا تو مولوی صاحب اپنی روداد غم سناتے۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سب سے زیادہ ناراضگی انجمن کے کالج کے پرنسپل مولوی آفتاب حسن اور حکیم احسن اللہ خان سے تھی جس کا اظہار انہوں نے بار بار اپنے مکاتیب میں بھی کیا ہے اور نجی محفلوں میں بھی ذکر چھیڑا ہے۔ محمد طفیل مرحوم مالک و مدیر ’’نقوش‘‘ لاہور، نقوش کا مکاتیب نمبر شائع کرنے کے سلسلے میں مولوی عبدالحق صاحب سے ملے تو انہوں نے فرمایا:

’’مولوی آفتاب (اردو کالج کے سابق پرنسپل) نے میرا ناطقہ بند کر رکھا ہے حتی کہ میری بوڑھی ہڈیوں تک کو پیس ڈالا ہے اب ایسی باتیں یاد نہ دلاؤ اور چپکے سے لاہور چلے جاؤ اور میری بد بختی کے دن کٹنے کی دعا کرو۔‘‘

اس تمام ہجوم غم نے مولوی عبدالحق صاحب کی صحت بگاڑ کر رکھ دی اور بیماریوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ انہوں نے19نومبر 1957ء کو ڈاکٹر عبادت بریلوی کو تحریر کیا:

’’میری صحت اچھی نہیں رہی۔ اب پھر خراب ہو گئی ہے کچھ دن ہوئے اسہال شروع ہوئے اب پیچش نے آ گھیرا ہے۔ ادھر انجمن کی حالت بہت خراب اور ناگفتہ بہ ہے اور روز بروز نازک ہوتی جا رہی ہے محمود حسن خان نے جب سے معتمد ہوئے ہیں، اب تک انجمن میں قدم رنجہ نہیں فرمایا سارے اختیارات حکیم احسن (احسن اللہ خان) کو دے رکھے ہیں اس نے اودھم مچا رکھی ہے تغیر، تبدل، تعطل و برطرفی کا بازار گرم ہے۔ مجھے طرح طرح کی اذیتیں پہنچائی جاتی ہیں اصل کام معطل ہے، یہ بڑی طویل داستان ہے خط میں سمائی نہیں ہو سکتی۔‘‘

اس قسم کا اظہار انہوں نے 24فروری 1959ء میں اسلامیہ کالج لاہور کی ’’بزم فروغ اردو‘‘ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا آپ نے فرمایا:

’’مجھے تیس سال سے بڈھا بڈھا کہتے آ رہے ہیں۔ میں نے اپنے آپ کو کبھی بوڑھا نہ ہونے دیا۔ لیکن دو سال کے عرصے میں بعض غداروں اور دون فطرت ساتھیوں نے مجھ پر ایسے ایسے مظالم کیے کہ بڈھا ہو گیا ہوں۔‘‘

انہوں نے انجمن کو تباہ کرنے کی، میرے رفیقوں اور ہمدردوں کو مجھ سے الگ کرنے کی کوشش کی تاکہ مجھے ختم کر دیں لیکن مجھے پھر بھی ختم نہ کر سکے انہوں نے سوچا کہ اس کا کام چھین لیا جائے تو یہ مر جائے گا۔ میں پھر بھی نہ مرا۔ میں اپنی جوانی پھر واپس لاؤں گا۔ میں مرنے کے لئے تیار نہیں ہوں اور اس وقت تک نہیں مروں گا جب تک اردو یونی ورسٹی قائم نہ کر لوں۔

دوست احباب مولوی عبدالحق کو چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ لوگ جنہیں بچوں کی طرح پالا پوسا ان کی جان کے لاگو تھے اور مولوی عبدالحق صاحب کو محرومی اور احساس تنہائی کا شکار اور اسیر کر دیا تھا۔ نہ اخبار میں مولوی عبدالحق کا کوئی ذکر آتا تھا اور نہ کوئی خبر شائع ہوتی تھی اور وہ گوشہ تنہائی کے ساتھ ساتھ گوشہ گمنامی میں بھی چلے گئے تھے تحسین سروری صاحب کا بیان ہے:

’’اب مولوی عبدالحق صاحب کے پاس صرف ابن انشا اور۔۔۔ جایا کرتے تھے میں بھی کبھی کبھی جاتا انجمن کا طباعتی پروگرام اور رسائل تو بند ہو گئے تھے لیکن ’’قومی زبان‘‘ تھا جو مولوی عبدالحق کی نگرانی میں جاری رہا۔ جب حالات انتہا کو پہنچ گئے اور مولوی صاحب کی کسمپرسی دیکھ کر جی امڈنے لگا تو ابن انشاء سے نہ رہا گیا انہوں نے ’’لیل و نہار‘‘ میں ایک مضمون لکھا جس میں مولوی صاحب کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے مولوی صاحب کی حالت زار کا نقشہ کھینچ دیا۔ اب کیا تھا، قوم چونکی اخبارات میں مولوی صاحب کی تائید میں بیانات اور ادارئیے چھپنے لگے اس کے چند ہی ہفتے بعد ’’لیل و نہار‘‘ نے ایک پورا ’’عبدالحق نمبر‘‘ نکال دیا جس کے سر ورق پر مولوی صاحب کی نہایت دیدہ زیب سہ رنگی تصویر چھپی۔‘‘

عبد الرؤف عروج ’’نیا راہی‘‘ میں کام کرتے تھے انہوں نے بھی ایک ’’عبدالحق نمبر‘‘ نکال دیا مولوی عبدالحق کا مخالف گروپ یہ پروپیگنڈہ بھی کر رہا تھا کہ بابائے اردو اصل میں اردو اور انجمن ترقی اردو کے حق میں نہایت غیر مخلص ہیں یہ عجیب بے عقلی کی بات تھی۔

عملی طور سے انجمن ترقی اردو اور اردو کالج سے مولوی عبدالحق صاحب کا اخراج ہو چکا تھا، کتب خانہ بند تھا اور انجمن کی ترقی معکوس شروع ہو چکی تھی کہ 18اکتوبر 1958ء کو فیلڈ مارشل محمد ایوب خان بر سر اقتدار آ گئے اور ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہو گیا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے مارشل لاء کی حکومت اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان سے انجمن کے معاملات میں مداخلت کی درخواست کی قدرت اللہ شہاب کے ذریعے مولوی عبدالحق صاحب کی ایوب خان صاحب سے ملاقات کا اہتمام اور انتظام ہو گیا:

’’انقلاب کے بعد ایک روز بابائے اردو صدر ایوب خان سے ملنے آئے صدر نے انجمن کی داستان مصائب کو غور سے سنا اور ایک دم چپ ہو گئے اس کے بعد مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا مولوی صاحب تو اردو کے قائد اعظم ہوئے نا؟ انہیں انجمن سے بے دخل کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ پاکستان بن جانے کے بعد قائد اعظم کو دیس نکالا دے کر کسی اور ملک بھیج دیا جائے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مارشل لاء ریگولیشن تیار ہو گیا اور انجمن کا بابا از سر نو انجمن میں آ گیا۔‘‘

سر بمہر کتب خانہ کھل گیا کتابوں کی گرد صاف ہوئی کتب خانے سے مرے ہوئے پرندے اور بلیاں پھینکی گئیں اور مارشل لاء ضابطہ 21کے تحت انجمن اور اس کے ملحقہ مجلس ناظمین توڑ دی گئی حلقہ الف مارشل لاء کی نگرانی میں انجمن کی نئی مجلس ناظمین مولوی عبدالحق کی قیادت اور راہنمائی میں تشکیل دی گئی کالج کی بازیابی ہوئی اور مولوی عبدالحق صاحب نے انجمن اور اردو کالج کے کام کا نئے عزم سے آغاز کیا ایک جامع لغت کے لئے ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ کا قیام عمل میں آیا جس کا صدر مولوی عبدالحق صاحب کو مقرر کیا گیا۔

1959ء میں مولوی عبدالحق صاحب کو ان کی اعلیٰ خدمات کے صلے میں نشان قائد اعظم سے سرفراز کیا گیا اور دس ہزار روپیہ نقد انعام دیا گیا۔ لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے اس موقع پر اپنی روایت کو نہ توڑا اور انعام کی یہ رقم اپنی ذات پر صرف کرنے کے بجائے فوری طور پر اردو یونیورسٹی کے نام منتقل کر دی تاکہ انجمن کی تحریک کو سنبھالا جا سکے اس موقع پر ان کے بہی خواہوں اور دوستوں نے انہیں تہنیت کے پیغامات روانہ کیے لیکن مولوی عبدالحق صاحب ایسی بھٹی سے نکلے تھے کہ خوشی و مسرت ان کے لئے بے معنی چیز ہو کر رہ گئی تھی اس سال مولوی عبدالحق صاحب کو ’’آدم جی پرائز کمیٹی‘‘ کا صدر نامزد کیا گیا۔

مولوی عبدالحق عزم کا پیکر تھے۔لیکن اب وہ زندگی کے تیز و تند 90سال دیکھ چکے تھے اور انجمن کے المناک معاملات اور احباب کی چشم پوشیوں نے مولوی عبدالحق کو کھوکھلا کر دیا تھا اس لئے مولوی عبدالحق صاحب آئے دن بیمار رہنے لگے مجبوراً انہوں نے ’’ترقی اردو بورڈ‘‘ سے استعفیٰ دے دیا۔

مولوی صاحب کا عمر بھر یہ وطیرہ رہا تھا کہ جو کچھ اور جہاں کہیں سے انہیں ملتا یا وہ کماتے انجمن کی نذر کر دیتے۔ اس لئے اس آخری دور میں مولوی عبدالحق کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ وہ ڈھنگ سے اپنا علاج بھی کرا سکیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں یکم جون 1961ء کو محمد علی صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں (جو غالباً ان کی زندگی کا آخری مکتوب ہے) تحریر کیا:

’’میں پچھلے دو تین مہینے سے پیچش اور یرقان میں مبتلا ہو گیا تھا گھر پر بہتیرا علاج معالجہ کیا لیکن حالت روز بروز بگڑتی ہی چلی گئی 5مئی 1961ء کو یہاں کے مشہور ہسپتال (جناح ہسپتال) میں داخل ہو گیا اور اب تک یہیں ہوں۔۔۔ یہاں کے مصارف بہت زیادہ ہیں اس لئے اب مجھے روپوں کی ضرورت پڑ گئی ہے۔‘‘

جناح ہسپتال کراچی میں کچھ فائدہ بھی ہوا لیکن بد قسمتی سے ان دنوں کراچی میں شدید گرمی کی لہر آئی جس سے مولوی صاحب کا مرض پھر شدت پکڑ گیا۔ دن رات حکیم اسرار کریوی اور اعظم سواتی خدمت کرتے رہے لیکن مرض میں کمی نہ آئی جب مولوی عبدالحق صاحب کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو فیلڈ مارشل ایوب خان صاحب نے مولوی عبدالحق صاحب کے نام ایک تار میں انہیں مری آنے کی پیشکش کی جہاں ان کا کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں صدر کے ذاتی معالج بریگیڈیر سرور کی نگرانی میں علاج کرانے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا۔

مولوی صاحب نے جنرل ایوب خان کی اس پیشکش کو قبول کر لیا اور23جون 1961ء کو تیز گام سے پنڈی روانہ ہو گئے 24جون ہی کو انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں مختلف معائنوں کے بعد پیچش اور یرقان کی شکایت تجویز ہوئی، لیکن دو ماہ کے مسلسل معائنوں کے بعد معلوم ہوا کہ مولوی عبدالحق صاحب کو جگر کا سرطان ہے۔

حکیم اسرار کریوی مولوی عبدالحق صاحب کے بہی خواہوں کو ان کی کیفیت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ انہوں نے 7جولائی 1961ء کو سید ساجد کو یہ مایوس کن اطلاع دی:

’’دو ماہ سے ان کے ساتھ ہوں اور حالات کے گہرے مطالعے اور مشاہدے سے جس نتیجہ پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ جہاں تک ظاہر حالات و کیفیات کا تعلق ہے مولوی صاحب قبلہ کی جاں بری کے امکانات، خاکم بدہن ختم ہو چکے ہیں ان کے معالجوں کا بھی کم و بیش یہی خیال ہے دوائیں جاری ہیں اور قسم قسم کی، لیکن شاید دواؤں کا وقت ختم ہو چکا ہے اور صرف مخلص عقیدت مندوں کی دعائیں ہی کچھ کر سکتی ہیں۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کی طبیعت نہ سنبھل سکی، چنانچہ مولوی صاحب کو دوبارہ کراچی میں پاکستان نیول ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ ڈاکٹر شوکت علی کے زیر علاج رہے۔

15اگست 1961ء کو ان کی طبیعت ا چانک بگڑ گئی اور16اگست 1961ء کو صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر وہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

انا للہ وانا علیہ راجعون

کمشنر کراچی جے اے مدنی خود ہسپتال گئے تدفین کا انتظام کیا گیا ان کے خدمت گار اعظم سواتی نے غسل دیا۔ میونسپل کارپوریشن گراؤنڈ میں مولانا احتشام الحق تھانوی نے نما جنازہ پڑھائی اور14ربیع الاول 1338ء بمطابق16اگست 1961ء چھ بجے شام ان کی خواہش کے مطابق انجمن ترقی اردو کے صحن اور اس عمارت کے عقب میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

٭٭٭٭٭

 

حواشی

 

1 ’’تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’قومی زبان‘‘ کراچی15اگست 1961ء ص72

2 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص20

3 ’’تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1961ء ص72

4 صوفی عبدالرشید از شمیم احمد ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1963ء ص226

5 صوفی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم۔۔۔ ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1967ء ص 103-102

6 ’’بابائے اردو بمبئی سے بلدیہ کراچی تک‘‘ از فضل احمد صدیقی ’’قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر)ص64

7 ’’بابائے اردو کے بڑے بھائی‘‘ از سراج احمد عثمانی ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1961ء ص 180-181

8 ایضاً۔۔۔۔۔ص187

9 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص23

10 ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست تا دسمبر 1961 ص 123

11 ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ از ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور دسمبر 1973 ص17

12 ایضاً

13 ’’اردو کے دوسرے درویش کی کہانی ’’از شاہد عشقی ایم اے ‘‘ ماہنامہ ’’الشجاع‘‘ کراچی‘‘

ڈاکٹر عبدالحق نمبر اگست 1959 ص:31

14 ’’ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 1985ء ص 35

15 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص20

16ایضاً

17 ’’ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور 1985ء ص 22

18 مولوی عبدالحق صاحب نے اسلحہ کے حصول کے لئے جو فارم بھرا اس میں اپنے والد صاحب کا نام علی حسن تحریر کیا

19 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص20

20 ایضاً

21 ’’تایا ابا‘‘ از محمود حسین قومی زبان کراچی15اگست 1961ء ص72

22 ’’چراغ انجمن افروز‘‘ از نصر اللہ خاں ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1961ء ص 92

23 ’’اردو کا معمار اعظم۔۔۔۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق‘‘ از اقبال خان یوسفی

’’برگ گل‘‘ عبدالحق نمبر 1963ء ص 321

24 ’’اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد سہ ماہی ’’مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص 58

25 ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء ص 17

26 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص 22

27 غیر مطبوعہ خط بنام شیخ اکرام ربانی مرسلہ ڈاکٹر مولوی عبدالحق 17فروری 1953

28 ’’بابائے اردو احوال و افکار‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص 171

29 ’’یادوں کے چراغ‘‘ از ڈاکٹر مولوی عبدالحق قومی زبان اگست 1960ء ص 5

30 ایضاً ص 7

31 ایضاً

32 ذکر عبدالحق از ڈاکٹر سید معین الرحمن ص 32

33 ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب ص 24

34 ’’بزم سر سید کی آخری شمع‘‘ از افضل صدیقی کراچی، ’’قومی زبان‘‘ 15 اگست 1961 ص 123

35 ’’اردو کے دوسرے درویش کی کہانی‘‘ از شاہد عشقی ایم اے ’’الشجاع‘‘ کراچی ص 31

36 ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن، لاہور، مجلس ترقی ادب 1973ء ص 18

37 ’’ذکر عبدالحق‘‘ ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور 1975ء ص 42

38 ’’اردو کا معمار اعظم‘‘ از حکیم اسرار احمد، حیدر آباد دکن، سہ ماہی ’’مجلس‘‘ 1960 ص 58

39 ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات اور علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب، کراچی، انجمن ترقی اردو، 1985 ص 25

40 ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء ص 17

41 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1962ء ص 23

42 ’’تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1961ء ص 78

43 ’’ذکر عبدالحق‘‘ سید معین الرحمن لاہور، سنگ میل پبلی کیشنز 1985ء ص 32

44 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن، سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص 32

45 ’’تایا ابا‘‘ از محمود حسین ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1961ء ص 75-76

46 ’’مولوی عبدالحق‘‘ از شاہد احمد دہلوی ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1964 ص 16

47 ’’صوفی عبدالرشید‘‘ از شمیم احمد ’’قومی زبان‘‘ اگست 1963ء ص 226

48 ’’بابائے اردو کی کہانی ان کے معتمد کی زبانی‘‘ ۔۔۔۔۔ از بشیر احمد قریشی ہاپوڑی کراچی ’’فریڈم انٹر پرائزز‘‘ 1983ء ص 40

49 مولوی عبدالحق (سوانحی خاکہ) از غیور عالم ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1964ء ص 108

50 ’’نواب معشوق یار جنگ سے ایک ملاقات‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1964ء ص 32

51 ’’بابائے اردو‘‘ از مولانا عبدالماجد دریا بادی ’’قومی زبان‘‘ کراچی، اگست 1961ء ص 231

52 ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق۔۔۔۔ حیات و علمی خدمات‘‘ شہاب الدین ثاقب انجمن ترقی اردو کراچی 1985ء ص 28

53 ’’یاد ایام عشرت‘‘ از محمد اعظم سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص 49

54 ’’ابدی بھائی‘‘ از شیخ احمد حسن سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی 1962ء ص 13

55 ’’بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی ’’قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر 1967ء ص 162

56 ’’خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964 ص 334

57 ’’مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص 169

58 ’’مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری قومی زبان کراچی 1966ء ص 169

59 ’’نقوش‘‘ لاہور آپ بیتی نمبر 1964ء ص 53

60 ’’بیسویں صدی کا سر سید‘‘ از پروفیسر سید محمد ’’مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص 26

61 ’’سلسلہ روز و شب‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1968ء ص 91

62 ’’مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از محی الدین ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص 197

63 ’’دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص 70

64 ’’حیدر آباد میں مولوی ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر ایک طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی ’’الشجاع‘‘ کراچی عبدالحق نمبر اگست 1959 ص51

65 ’’مولوی عبدالحق اور رسالہ افسر‘‘ از تحسین سروری ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص 169

66 ’’رسالہ افسر اور مولانا حالی ‘‘ از شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ’’قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر 1968ء ص 85

67 ’’مولانا ظفر علی خاں احوال و آثار‘‘ از ڈاکٹر نظیر حسنین زیدی مجلس ترقی ادب لاہور جون 1986ء ص:68

68 ’’مولوی عبدالحق اور تعلیمات‘‘ از سید ساجد علی سہ ماہی ’’اردو‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1962 ص 307

69 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ از: سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 27-28

70 ’’بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی ’’قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر 1967ء ص 193

71 ’’مجلس‘‘ عبدالحق نمبر حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص 222

72 ’’دکن پر مولوی صاحب کے احسانات‘‘ از محی الدین احمد ’’قومی زبان‘‘ کراچی 1966ء ص 74-73

73 ’’عظیم انسان‘‘ از غلام ربانی ’’مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص 17

74 ’’قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1970ء ص 71

75 ’’ڈاکٹر مولوی عبدالحق‘‘ از پروفیسر ہارون خاں شیروانی ’’مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء ص 38

76 ’’چند تاثرات‘‘ از محمد احمد سبزواری ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1964ء ص 33-32

77 ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1970 ص 136

78 ’’بابائے اردو مولوی عبدالحق حیات و علمی خدمات‘‘ از شہاب الدین ثاقب، انجمن ترقی اردو کراچی 1985ء ص 35

79 پروفیسر محمود احمد خان (انٹرویو) از ڈاکٹر سید معین الرحمن قومی زبان کراچی (بابائے اردو نمبر) 1966ء ص 276

80 ’’مولوی عبدالحق۔۔۔۔۔۔میرے تاثرات‘‘ از پروفیسر عبدالقادر سروری ’’مجلس‘‘ حیدر آباد دکن 1960ء ص 55

81ذکر عبدالحق از: ڈاکٹر سید معین الرحمن 1985ء ص 55

82 ’’حیدر آباد میں ڈاکٹر عبدالحق کی خدمات پر طائرانہ نظر‘‘ از نصیر الدین ہاشمی ’’الشجاع‘‘ کراچی ص 52

83 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن اردو‘‘ مرتبہ، سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 76

84 ایضاً ص 106-105

85 ایضاً ص 40

86 ایضاً ص 56

87 ’’بیاد عبدالحق‘‘ از محمد حبیب اللہ رشدی ’’قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر) 1967ء ص 160

88 ذکر عبدالحق ا ز ڈاکٹر سید معین الرحمن لاہور 1985ء ص 60-59

89 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 62

90 ایضاً ص 63

91 ایضاً ص 93

92 ’’سید ساجد علی کے نام‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1970ء ص 166-165

93 ’’خطبات عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی انجمن ترقی اردو کراچی 1964ء ص 525-524

94 ایضاً ص 522

95 ’’اردو کا زخمی سپاہی‘‘ از سجاد مرزا مجلس حیدر آباد دکن 1960ء ص 2

96 ’’نقوش و تاثرات‘‘ حصہ اول از حکیم امامی انجمن ترقی اردو میسور 1958ء ص 196-197

97 ’’بیسویں صدی کا سر سید‘‘ از پروفیسر سید محمد ’’مجلس‘‘ حیدر آباد دکن جنوری 1960ء

98 ’’عبدالحق۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی ادب کے معمار‘‘ از مختیار الدین احمد ساہتیہ اکیڈمی نئی دہلی 1984ء ص 41

99 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 175

100 ’’خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ ترتیب و مقدمہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء ص 41

101 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 179

102 ایضاً ص 186-185

103 ایضاً ص 203

104 ایضاً ص 200

105 ایضاً ص 204-203

106 ’’مکتوب بنام امین زبیری‘‘ قومی زبان کراچی(بابائے اردو نمبر) 1967ء ص 144

107 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 227-226

108 ایضاً ص 227

109 ایضاً ص 228

110 ’’اقبال اور عبدالحق‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ممتاز حسن مجلس ترقی ادب لاہور 1973ء ص 44-43

111 ’’اردو مصفے‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی فروری 1961ء ص 254

112 ’’خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ مرتبہ ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء ص 115

113 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953

114ایضاً ص 185

115 ’’قومی زبان‘‘ بابائے اردو نمبر اگست 1964ء ص 239

116 ’’ذکر عبدالحق‘‘ از ڈاکٹر سید معین الرحمن 1985ء ص 87

117 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ سید ہاشمی فرید آبادی انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 232

118 ’’مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتبہ جلیل قدوائی کراچی، مکتبہ اسلوب 1963ء ص 574

119 ’’اردوئے مصفیٰ‘‘ مرتبہ عبدالحق جوبلی کمیٹی لاہور ناشر ابو تمیم فرید آبادی 1961ء ص 319

120 ایضاًص320-319

121 ’’برگ گل‘‘ بابائے اردو نمبر کراچی اردو کالج 1963ء ص 77-76

122 ’’مولوی صاحب‘‘ از ابن انشاء قومی زبان کراچی 1971ء ص 6

123 ’’پنجاہ سالہ تاریخ انجمن ترقی اردو‘‘ مرتبہ ہاشمی فرید آبادی، انجمن ترقی اردو کراچی 1953ء ص 245

124 ’’بزم خوش نفساں‘‘ از شاہد احمد دہلوی مرتبہ ڈاکٹر جمیل جالبی کراچی مکتبہ اسلوب 1985ء ص 45-44

125 ’’مکتوبات عبدالحق‘‘ مرتب جلیل قدوائی اردو اکیڈمی کراچی 1963ء ص 225

126 ’’خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از ڈاکٹر عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید 1984ء ص 92

127 ایضاً ص 142

128 ’’مولوی عبدالحق دید و شنید‘‘ از محمد حسین خاں زبیری ’’قومی زبان‘‘ کراچی (بابائے اردو نمبر) 1966ء ص 120

129 ’’خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی ادارہ ادب و تنقید لاہور 1984ء ص 116

130 ’’شیخ عبدالخالق عبدالرزاق‘‘ از شمیم احمد ’’قومی زبان‘‘ کراچی بابائے اردو نمبر 1966ء ص 305

131 ’’جناب‘‘ از محمد طفیل ادارہ فروغ اردو لاہور 1970ء ص 18

132 ’’خطوط عبدالحق بنام عبادت بریلوی‘‘ از عبادت بریلوی لاہور ادارہ ادب و تنقید 1984ء ص 293

133 ’’بابائے اردو اسلامیہ کالج لاہور میں‘‘ از پروفیسر حمید اللہ خاں سہ ماہی ’’اردو ‘‘ کراچی 1962ء ص36

134 ’’شمع انجمن فروزاں‘‘ از تحسین سروری قومی زبان(بابائے اردو نمبر) کراچی 1963ء ص 118

135 ’’اینٹ کا جواب روپیہ‘‘ از قدرت اللہ شہاب ’’قومی زبان‘‘ کراچی ستمبر 1968ء ص 14

136 ’’قومی زبان‘‘ کراچی اگست 1970ء ص 200

137 ایضاً ص 176

٭٭٭٭٭٭

 

 

دوسرا باب

مولوی عبدالحق کا تصنیفی و تالیفی سرمایہ

 

مولوی عبدالحق صاحب 1888ء میں علی گڑھ آئے علی گڑھ اس زمانے میں برصغیر کے مسلمان نوجوانوں کا مرکز نگاہ و قلب تھا برصغیر کے گوشے گوشے سے مسلمان طلباء علی گڑھ میں داخلہ لینا اپنی شان اور عزت تصور کرتے تھے یونین سازی، کھیل کود اور مختلف انجمنیں علی گڑھ کی جان تھیں مولوی عبدالحق صاحب نے بھی علی گڑھ کے ماحول میں اپنے لئے ادبی میدان چن لیا مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’میں کالج کا ایک مٹھا طالب علم تھا۔ نہ کبھی کھیلوں میں شریک ہوا نہ یونین میں حصہ لیا اور نہ انتخاب پریذیڈنٹ و سیکرٹری کے ہنگاموں میں شامل ہوا کالج میں کئی انجمنیں تھیں، میں نے نہ ان میں شرکت کی البتہ ’’اخوان الصفا‘‘ میں جس کے بانی پروفیسر آرنلڈ تھے دو ایک مضمون پڑھے ایک مضمون میں نے سینٹ پال پڑھا اس دن سے طالب علم مجھے سینٹ پال کہنے لگے۔‘‘

علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں مولوی عبدالحق صاحب کو مضمون نویسی کے مقابلے میں ایک مضمون پر لارڈ ڈینس ڈاؤن تمغہ ملا۔ گو یہ سب کچھ طالب علمانہ سرگرمیاں اور شوق تھے لیکن سر سید احمد خان صاحب نے انہیں بھانپ لیا اور ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ میں ان سے کام لینا شروع کیا۔ سر سید احمد خان صاحب کی نظر کرم، حالی کا قرب اور شبلی کی شاگردی نے اس جوہر کو کندن بنا دیا اور علی گڑھ کے زمانہ طالب علمی میں قلم سے جو رشتہ جوڑا وہ بستر مرگ تک قائم رہا اور لکھنا پڑھنا ہی مولوی عبدالحق صاحب کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ مولوی عبدالحق نے اپنے ابتدائی مضامین کے سلسلے میں اپنے ایک خط مورخہ21 ستمبر 1951ء میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کو تحریر کیا:

’’میرے تین مضمون مجلہ عثمانیہ میں چھپے تھے ایک ’’ایہام‘‘ اور دوسرا ’’چندہ‘‘ ’’چندہ‘‘ تو کچھ لوگوں نے الگ بھی چھاپ دیا لیکن ’’ایہام‘‘ مجلہ عثمانیہ سے مل سکتا ہے تیسرا ’’قدیم اردو میں قرآن مجید کے ترجمے‘‘ ’’اردو‘‘ میں بھی چھپا تھا۔ ایک اور مضمون ’’انسانیت اور درندگی‘‘ مولوی ظفر علی خان کے رسالے میں چھپا تھا، جو کسی زمانے میں انہوں نے الہ آباد سے نکالا تھا یہ مضمون نصاب کی کتابوں میں بہت نقل ہوا ہے ایسے ہی مضامین قدیم علی گڑھ میگزین وغیرہ میں ہوں گے مگر وہ قابل ذکر نہیں ’’دکن ریویو‘‘ (ظفر علی خان) میں بھی کچھ مضمون لکھے تھے عالم اسلامی پر ایک مسلسل مضمون تھا جو کم و بیش 300 صفحوں پر ختم ہوا مگر اس قابل نہیں کہ مجموعہ میں شامل کیا جائے ، زمانہ بہت بدل گیا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب کا باقاعدہ تصنیف و تالیف کا سلسلہ 1905ء میں مولانا ظفر علی خان کی کتاب ’’جنگ روس و جاپان‘‘ کے مقدمہ سے شروع ہوا اور اس کی آخری کڑی ’’قاموس الکتب‘‘ کا مقدمہ ہے جو انہوں نے بستر مرگ پر 22جون 1961ء کو جناح ہسپتال کے کمرہ نمبر تیرہ میں مکمل کیا۔

مولوی عبدالحق صاحب کی لوح و قلم کی اس طویل رفاقت نے اردو ادب کو انمول خزانوں سے بھر دیا۔

مولوی عبدالحق صاحب کی تصنیفی و تالیفی خدمات کا دامن بہت وسیع ہے۔ انہوں نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں ان میں اردو کی نشوونما میں صوفیا کرام کا حصہ، مرحوم دلی کالج، سر سید احمد خان (حالات و افکار) افکار حالی، نصرتی ملک الشعراء بیجاپور، سر آغاز خان کی اردو نوازی، اردو زبان میں اصطلاحات کا مسئلہ، مرہٹی زبان پر فارسی کا اثر، انتخاب کلام میر، چند ہم عصر، قواعد اردو اور اردو صرف و نحو جیسی کتب شامل ہیں جب کہ تالیفی سرمایہ میں دی اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری، اسٹوڈنٹس ڈکشنری، جیسی لغات ہیں اور اس کے علاوہ بہت سی ایسی قدیم کتب کی تدوین و ترتیب ہے جو گوشہ گمنامی میں تھیں۔ ان پر معلومات افزا مقدمات تحریر کئے جو اپنی جگہ خود تحقیقی و تخلیقی اور تصنیفی حیثیت رکھتے ہیں۔ سینکڑوں کتب کے دیباچے و تعارف مولوی عبدالحق صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہیں انجمن ترقی اردو کی رو دادیں، اردو کی ترویج کی خاطر برصغیر کے گوشے گوشے اور کونے کونے میں دئیے گئے خطبات اور ہزاروں اپنوں اور غیروں کو لکھے گئے مکاتیب، یہ سب کچھ مولوی عبدالحق صاحب کا تصنیفی و تالیفی سرمایہ ہے، جس کی بدولت اردو زبان و ادب کا دامن وسیع ہوا۔

مولوی عبدالحق کے تصنیفی و تالیفی سرمایہ کا ایک کثیر حصہ ان کی زندگی میں ہی منظر شہود پر آ چکا تھا لیکن ان کی بعض کاوشیں اور بالخصوص ان کے بکھرے ہوئے خطوط ان کے انتقال کے بعد مرتب ہو کر طباعت کے زیور سے آراستہ ہوئے اور اب بھی ان کے بہت سے مضامین اور خطوط غیر مطبوعہ شکل میں موجود ہوں گے ان کا جو بھی تصنیفی و تالیفی سرمایہ کتابی شکل میں سامنے آیا ہے اس کا عہد بہ عہد اور سال بہ سال جائزہ درج ذیل ہے:

گلشن ہند (مشہور شعرائے اردو کا ایک تذکرہ)

1930ء کے سیلاب میں شہر حصار (دکن) کی ندی میں کچھ سامان بہتا ہوا آیا اس میں مولوی غلام محمد صاحب مددگار کیبنٹ کونسل دولت عثمانیہ کو ایک تذکرہ شعراء ہاتھ لگا۔ انہوں نے اسے عبداللہ خان کو دیا، عبداللہ خاں نے وہ تذکرہ 1906ء لاہور سے طبع کرایا اور حیدر آباد دکن سے فروخت کیا۔

یہ تذکرہ مشہور مستشرق جان گل کرسٹ کی فرمائش پر میرزا علی لطف نے 1801ء میں علی ابراہیم خاں کے فارسی تذکرہ شعراء ’’گلزار ابراہیم‘‘ سے انتخاب کیا ہے انہوں نے تین سو بیس شعراء میں صرف اڑسٹھ شعراء کا حال فارسی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔

مشفق خواجہ کی تحقیق ہے:

’’فورٹ ولیم کونسل رپورٹ مرتبہ 4اپریل 1803ء کے مطابق اس تذکرے کو طباعت کے لئے پریس بھیج دیا گیا تھا (گل گرسٹ ص 197)لیکن کسی وجہ سے یہ طبع نہیں ہوا‘‘

اس تذکرے کی اشاعت میں عبداللہ خاں نے طویل اقتباسات، حوالہ جات اور بعض شعراء کے کلام کو حذف کر دیا ہے۔

گارسان و تاسی نے اپنے پانچویں خطبہ (4دسمبر 1854ء) میں اس تذکرے کی زبان کو اسلامی ہندوستانی یعنی اردو کانام دیا ہے۔

عبداللہ خان نے اس تذکرے کی تصحیح شمس العلماء مولوی شبلی نعمانی سے کرائی اور مولوی عبدالحق صاحب نے مقدمہ تحریر کیا چونکہ تذکرہ جان گل کرسٹ کے ایما پر وجود میں آیا ہے، مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمے میں مستشرقین کی اردو نوازی کا ذکر ضروری سمجھا اور فورٹ ولیم کالج کی ادبی خدمات اور تصانیف و تالیفات کا بھی جائزہ لیا۔ مقدمے میں ’’انجمن پنجاب‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے اور ’’نیچرل نگاری‘‘ کی تحریک پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

مولوی عبدالحق نے میرزا لطف علی کے حالات زندگی بھی بیان کئے ہیں اور ان کے ترجمہ کئے ہوئے تذکرے کی خوبیاں نمایاں کی ہیں۔ ان کی بعض تحریروں سے اختلاف بھی کیا ہے اور اپنے اختلاف کی دلیل میں دوسرے تذکروں کے مواد سے مدد لی ہے تذکرے کی زبان کے بارے میں مولوی عبدالحق صاحب رقم طراز ہیں:

’’سو برس پہلے کی زبان ہے، جس سے زبان کے متعلق بہت کچھ پتہ لگایا جا سکتا ہے اور محقق علم اللسان اور نیز ان لوگوں کو جنہیں زبان کا چسکا ہے، بہت کچھ نئی باتیں معلوم ہو سکتی ہیں‘‘

یہ تذکرہ 1906ء میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا تھا۔

 

               انتخاب مضامین رسالہ ’’حسن‘‘

 

رسالہ ’’حسن‘‘ حیدر آباد نے ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ کے بعد علمی و ادبی دنیا میں بہت شہرت حاصل کی۔ یہ رسالہ 1887ء میں حیدر آباد دکن سے شائع ہونا شروع ہوا تھا اس رسالے کو ملک کے نامور اہل قلم کا تعاون حاصل تھا اور اس میں ہر قسم کے بلند پایہ مضامین شائع ہوتے تھے تعلیم یافتہ حلقے میں اسے تہذیب الاخلاق کا جانشین اور نعم البدل تصور کیا جاتا تھا۔ مولوی عبدالحق اس کی تحریروں کو بہت اہمیت دیتے تھے اور بقول خود رسالہ کی اس خصوصیت نے انہیں اس کی منتخب تحریروں کو یک جا کر کے محفوظ کرنے پر مائل کیا وہ تحریر کرتے ہیں:

’’لائبریریوں میں بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ بہت سی علمی تحقیقات جو مدتوں کے مطالعہ اور محنت کے بعد تحریر کی جاتی ہیں ایک دفعہ چھپ کر ایسی گم ہو جاتی ہیں کہ ڈھونڈے سے نہیں ملتیں۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے اس انتخاب میں درج ذیل نو مضامین شامل کئے ہیں:

1 ابن رشد اور اس کے ہم عصر از نواب عماد الملک بہادر مولوی سید حسن بی اے

2 علم اللسان  از شمس العلما مولوی سید علی

3 طلسم اعضائے انسانی  ایضاً

4 قبل از اسلام اہل عرب کا حال  از مولوی محمد ذکا اللہ

5 تاج محل آگرہ  از نواب عماد نواب جنگ بہادر

6 اہرام مصر   از مولوی محمد ابو الحسن صاحب

7 قد آدم   از محمد الکریم خاں صاحب آزاد

8 نیچرل چیزوں کی تسخیر میں ہزار درجہ

زیادہ فائدہ ملکوں کی تسخیر

9 النظری التاریخ  از مولوی غلام الثقلین

اس انتخاب پر کہیں سن اشاعت درج نہیں ہے قومی زبان نے تحریر کیا ہے:

’’قیاس ہے کہ 1910ء سے پہلے شائع ہوا‘‘

مولوی عبدالحق کی ابتدائی تحریروں میں سے ایک مضمون ’’قاہرہ کی مسجد عمرو‘‘ رسالہ ’’حسن‘‘ کے جون 1894ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔

 

               رقعات اردو

 

مولوی عبدالحق صاحب نے زمانہ صدر مدرسی مدرسہ آصفیہ، یہ کتاب نواب عماد الملک ڈائریکٹر انسٹرکشن ریاست حیدر آباد کے کہنے پر بک کمیٹی کے واسطے تحریر کی۔ اس کتابچہ میں پرائمری اور چوتھی جماعت کے طالب علموں کے لئے خطوط نویسی کے رہنما اصول بیان کئے گئے ہیں اور مختلف مراتب کے لوگوں کے لئے خطوں کے نمونوں سے ان کی وضاحت کی گئی ہے۔ یہ رقعات دو حصوں پر مشتمل ہیں۔

یہ کتاب ٹیکسٹ بک کمیٹی نے قاسم پریس حیدر آباد دکن سے شائع کی۔ لیکن کتاب کہیں بھی سن اشاعت نہیں دیا گیا۔

 

               اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام

 

انگریز مصنف ریورنڈ ملکم میکال نے اپنے مضمون ’’کیا زیر حکومت اسلام اصلاحات کا ہونا ممکن ہے؟‘‘ کم پوری ریویو اگست 1881ء میں تحریر کیا تھا کہ ’’اسلام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے‘‘

مولوی چراغ علی نے اس مضمون کے جواب میں انگریزی میں ایک کتاب بعنوان ’’ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ تحریر کی تھی جس میں ملکم کے اعتراضات کا جواب دیا تھا جواب کو وزنی اور مدلل بنانے کے لئے قرآن مجید، احادیث اور تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ ملکم کا نظریہ درست نہیں ہے جب کہ اسلام روحانی، اخلاقی اور ذہنی ارتقاء میں آج بھی معاون ہے اور تعلیمات اسلامی ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ مولوی چراغ علی نے اپنے خیالات کی تائید میں مغربی مفکرین کی آراء بھی دی ہیں۔

حکیم اسرار احمدکریوی تحریر کرتے ہیں:

’’کتاب مولوی چراغ علی مرحوم نے ترکی کے سابق خلیفہ سلطان عبدالحمید مرحوم کے لئے لکھی تھی اور اسے انہیں کے نام معنون کیا تھا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے ’’ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ کا ’’اعظم الکلام فی ارتقاء الاسلام‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا ہے۔ دراصل ترجمہ کا آغاز خود مولوی چراغ علی نے کیا تھا لیکن یہ ترجمہ ابتدائی اوراق سے آگے نہ بڑھ سکا تھا مولوی عبدالحق نے ’’اس قدر حصہ اپنے ترجمہ کا خارج کر کے مصنف کا اصل ترجمہ داخل کر دیا۔‘‘

یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ مسلمانوں کی سیاسی و قانونی اصلاحات سے تعلق رکھتا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج اور اقتدار میں کون کون سی انقلابی اصلاحات نافذ کیں اور کس طرح غیر مسلموں کو سیاسی آزادیاں عطا کیں اور فوائد پہنچائے مولوی عبدالحق فرماتے ہیں:

’’مصنف نے اپنی کتاب میں سیاسی، تمدنی اور فقہی اصلاحات کی بنا قرآن پر رکھی ہے اور ان تمام اعتراضات کا جواب دیا ہے جو مخالفین کی جانب سے اسلام پر وارد کئے گئے ہیں نیز ان غلطیوں کو جو مسلمانوں میں رائج ہو گئی ہیں قرآن سے رد کیا ہے۔‘‘

مولوی عبداللہ خان نے اس حصہ کو 1910ء میں مفید عام پریس آگرہ سے شائع کیا تھا۔

دوسرا حصہ مسلمانوں کی تمدنی اصلاحات کے ذکر پر مشتمل ہے اس حصہ میں اسلام میں عورتوں کی حالت، ازدواج، طلاق، غلامی جیسے مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مولوی عبدالحق نے نہ صرف اس حصہ کا ترجمہ کیا ہے بلکہ اٹھاسی  صفحات کا ایک مقدمہ بھی تحریر کیا ہے یہ مقدمہ دو حصوں پر مشتمل ہے، پہلے میں مولوی چراغ علی کے خاندانی پس منظر، حالات زندگی اور ان کے تصنیفی کارناموں کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا چراغ علی اپنے عہد کے بڑے محقق تھے انہیں کئی زبانوں پر عبور تھا نیز انہوں نے عیسائی مشنریوں اور مغربی مفکرین کے ان اعتراضات کے مدلل جواب تحریر کئے ہیں جو وہ سرکار کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر عائد کرتے رہے ہیں۔

مولوی صاحب نے اس مقدمہ میں مولانا چراغ علی کی کئی کتب کا بھی تعارف کرایا ہے۔ ان میں تعلیقات (پادری عماد الدین کی کتاب ’’تاریخ محمدی‘‘ کا جواب) تحقیق الجہاد، محمددی ٹرو پرافٹ، اسلام کی دینی برکتیں، قدیم قوموں کی مختصر تاریخ اور زیر بحث کتاب ’’ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ شامل ہیں۔

مقدمہ کے دوسرے حصے میں مولوی چراغ علی کی کتاب ’’ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

یہ حصہ اس لئے بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مولوی عبدالحق کی ہی زیر نگرانی 1911ء میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے شائع ہوا تھا۔مجموعی اعتبار سے یہ کتاب اسلامی قانون سازی کے لئے بھی اساسی حیثیت رکھتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے بستر مرگ پر اپنی عیادت کے لئے آئے ہوئے صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان سے اس کتاب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا:

’’اس کتاب میں مولوی چراغ علی مرحوم نے اس سوال پر بڑی مدلل بحث کی ہے کہ فروعی مسائل میں حاکم مجاز کو مفاد ملت کے پیش نظر مناسب ترمیم کا حق حاصل ہے اور خلفائے اسلام کے طرز عمل سے اس کی جا بجا تائید ہوتی ہے۔‘‘

 

               قواعد اردو

 

مولوی عبدالحق صاحب نے یہ کتاب 1914ء میں دار الاشاعت انجمن ترقی اردو لکھنو سے شائع کی تھی اور یہ قواعد کی کتاب مولوی عبدالحق صاحب نے اس زمانے میں لکھی تھی جب وہ اورنگ آباد (دکن) کے صدر مہتمم تعلیمات تھے یہ کتاب انگریزی قواعد نویسی کے اصولوں پر مرتب کی گئی تھی۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اس کتاب کے مقدمہ میں قواعد کی تعریف، تاریخ اور قواعد نگاری بالخصوص مستشرقین کی قواعد نگاری کے ضمن میں ان کی کاوشوں کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ان لوگوں نے کتنی کاوش و محنت سے اردو زبان کی اس صنف کے لئے خدمات انجام دی ہیں۔

مقدمہ میں قواعد کی ان کتابوں کا بھی ذکر ہے جو مقامی لوگوں نے تحریر کی ہیں قواعد نگاری کے اس تناظر میں مولوی عبدالحق صاحب نے اپنی قواعد مرتب کرنے کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:

’’عموماً ‘‘ اور اکثر کسی زبان کی صرف و نحو اس وقت لکھی گئی ہے جب کہ کسی غیر قوم کو اس زبان کی تحقیق یا اس کے سیکھنے کی ضرورت واقع ہوئی کیوں کہ اہل زبان اس سے مستثنیٰ ہوتے ہیں یہی حال اردو زبان کا ہوا اس کے صرف و نحو اور لغت کی طرف اول اول اہل یورپ نے بضرورت توجہ کی۔ اس کے بعد جب اہل ملک نے یہ دیکھا تو ان کے فائدہ کی غرض سے خود بھی کتابیں لکھنی شروع کیں ۔۔۔۔۔۔ زبان اردو ملک کی عام اور مقبول زبان ہو گئی ہے اور ملک میں کثرت سے بولی جاتی ہے اور ہر جگہ سمجھی جاتی ہے۔۔۔ اس زبان کو کچھ ایسے مقامات کے لوگ بھی پڑھتے اور سیکھتے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اس لئے یہ ضرورت واقع ہوئی کہ اس زبان کے قواعد منضبط کئے جائیں اور مستند کتابیں لغت پر لکھی جائیں تاکہ زبان بگڑنے سے محفوظ رہے۔ میں نے اس کتاب کو لکھنے میں اس خیال کو مد نظر رکھا ہے اور صرف طلبائے مدارس کی ضرورت کا لحاظ نہیں کیا بلکہ زیادہ تر کتاب ان حضرات کے لئے ہے جو زبان کو نظر تحقیق سے دیکھنا چاہتے ہیں۔

مولوی عبدالحق نے ’’قواعد اردو‘‘ کو چار فصلوں میں تقسیم کیا ہے۔ فصل اول میں ہجا، اعراب اور حروف شمسی و قمری پر بحث ہے اس فصل میں انہوں نے حروف کی تاریخ بیان کی ہے اور حروف تہجی کی موجودہ صورتوں کی وضاحت ہے۔

دوسری فصل میں علم صرف کا بیان ہے اس حصے میں اسم، اسم کی اقسام، صفت، اس کی مختلف صورتوں، ضمائر اور فعل پر روشنی ڈالی ہے۔

تیسری فصل مرکب الفاظ کے بیان پر مشتمل ہے فصل چہارم کا تعلق نحو سے ہے اس حصہ میں نحو تفصیلی اور نحو ترکیبی کا ذکر ہے اس نحوی تراکیب کے بیان میں انہوں نے انگریزی قواعد کے اصولوں کو مد نظر رکھا ہے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

’’انگریزی نحو (Syntax) کے ان عناصر کو جو اردو میں پورے اترتے ہیں اپنی قواعد میں شامل کر لیا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے قواعد کے آغاز میں الفاظ کی تعریف کی ہے اور پھر ان کی اقسام کی بحث کو چھیڑا ہے آخر میں رموز و اوقاف (Punctuations) کے اصول بتائے ہیں۔

قواعد اردو کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے ہیں 1936ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد 1940ء میں انجمن ترقی اردو دہلی نے اس کے ایڈیش شائع کئے 1951ء میں مولوی عبدالحق نے اس پر نظر ثانی کر کے مزید اضافوں کے ساتھ انجمن ترقی اردو پاکستان کے تحت شائع کی 1975ء اور 1981ء میں انجمن ترقی (ہند) نے دہلی سے شائع کی جب کہ عبدالحق اکیڈمی دہلی، ادبی دنیا دہلی اور ناز پبلشنگ ہاؤس دہلی نے بھی اسے طبع کیا لیکن سن اشاعت تحریر نہیں کیا۔ لاہور سے لاہور اکیڈمی نے اس کا ایک نیا ایڈیشن 1987ء میں شائع کیا۔ قواعد اردو سے ماخوذ کچھ حصے الگ الگ ناموں سے بھی شائع ہوتے رہے۔ 1923ء میں ’’مختصر قواعد اردو‘‘ علی گڑھ سے شائع ہوئی جب کہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے 1937ء میں اور اردو اکیڈمی سندھ کراچی نے 1969 , 1961ء میں ’’اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے مولوی عبدالحق صاحب کی کتابیں شائع کیں۔

 

               دریائے لطافت

 

’’دریائے لطافت‘‘ مرزا قتیل اور سید انشا صاحبان کی مشترکہ فارسی تصنیف ہے یہ کتاب 1222 ھ مطابق 1802ء میں تالیف ہوئی تھی اور 1848ء مطبع آفتاب عالم مرشد آباد میں بہ تصحیح و اہتمام مسیح الدین خان بہادر کاکوری شائع ہوئی تھی۔ اس مایہ ناز کتاب کو 1916ء میں مولوی عبدالحق صاحب نے مرتب کر کے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد کی طرف سے الناظر پریس لکھنو سے شائع کیا تھا۔

مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں:

’’اس میں اردو صرف و نحو تو سید انشاء اللہ انشا کی تصنیف ہے اور دوسرا حصہ یعنی منطق، عروض و قافیہ و معانی مرزا محمد احسن قتیل کا تالیف کیا ہو اہے۔ کتاب کی جان پہلا ہی حصہ ہے۔ اگرچہ اس سے قبل بعض اہل یورپ نے متعدد کتابیں اردو قواعد پر لکھی تھیں لیکن یہ پہلی کتاب ہے جو ایک ہندی اہل زبان نے اردو صرف و نحو پر لکھی اور حق یہ ہے کہ عجیب جامع اور بے مثل کتاب ہے۔ اردو زبان کے قواعد، محاورات اور روز مرہ کے متعلق اس سے پہلے کوئی ایسی مستند اور محققانہ کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔‘‘

دریائے لطافت مندرجہ ذیل نو ابواب پر مشتمل ہے:

1 اردو زبان کی کیفیت

2 دہلی کے مختلف فرقوں اور محلوں کی زبان

3 دہلی کے روز مرہ اور محاورے (بالخصوص عورتوں کے محاورے)

4 حرف کا بیان (فعل کے صیغے)

5 نحو (اسم کا بیان)

6 فعل

7 حرکت و سکون

8 فن بیان

9 علم بدیع و اصناف شعر

مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں سید انشاء اللہ خان انشا کی اس لسانی خدمت کا بھر پور تجزیہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں:

’’سید انشاء نے دوسرے صرفیوں اور نحویوں کی طرح (حالانکہ وہ بعد میں ہوئے ہیں) آنکھوں پر پٹی باندھ کر عربی فارسی کی تقلید نہیں کی بلکہ انہوں نے زبان کی فطرت اور ساخت کو سمجھ کر اس کے اصول قائم کئے ہیں ان کی حیثیت مقلد کی نہیں بلکہ مجتہد کی ہے انشا کی یہ آزادی نظر سب سے زیادہ قابل تعریف ہے۔‘‘

دوسری مرتبہ 1936ء میں مولوی عبدالحق نے ’’دریائے لطافت‘‘ کو پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی کے ترجمہ اور اپنے مقدمہ کے ساتھ انجمن ترقی اردو (ہند) اورنگ آباد سے شائع کیا جس میں پنڈت کیفی صاحب کا دیباچہ بھی شامل ہے۔ پنڈت صاحب لکھتے ہیں:

’’دریائے لطافت کا سن تالیف انیسویں صدی عیسوی کا آٹھواں برس ہے۔ اس زمانہ میں اور یورپ کی زبانوں اور علم و ادب سے نا واقف محض ہونے کے باوجود سید انشا کا یہ کتاب تصنیف کرنا اور اس کی یہ پرداز رکھنا، ان کی دقت نظر اور سائنٹیفک تنقید اس روشنی کے زمانے میں محیر العقول ہے۔‘‘

الغرض سید انشاء صاحب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اردو زبان کی اصل اور ہیئت پر تحقیق کی اور ’’دریائے لطافت‘‘ جیسی یادگار تالیف چھوڑی۔

 

               انتخاب کلام میر

 

مولوی عبدالحق نے 1921ء میں میر تقی میر کے کلام کا انتخاب مرتب کیا اور اسے ’’انتخاب کلام میر‘‘ کے نام سے طبع کرایا۔ اس میں152  صفحات پر مشتمل کلام اور 40  صفحات کا مقدمہ ہے مقدمے میں میر کے ذاتی احوال کے علاوہ ادب میں ان کا مرتبہ و مقام متعین کیا ہے۔ مولوی عبدالحق کا خیال ہے:

’’کسی شاعر کے کلام پر اس کی طبیعت اور سیرت کا اس قدر اثر نہ پڑا ہو گا جتنا میر کے کلام میں نظر آتا ہے۔‘‘

اور اس نظریہ کی بنیاد پر مولوی عبدالحق نے میر تقی میر کے مخفی اور ظاہر حالات زندگی، ان کے خاندان و وطن، ان کی دلی میں آمد اور خان آرزو سے تعلقات ان کی پریشان حالی، دلی کی بربادی پر لکھنو کی طرف ہجرت اور وہاں کے روز و شب اور میر کی آشفتہ مزاجی وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

مرتب نے ابتدا غزلیات سے کی ہے اور ان کی ردیف کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے اس کے بعد قطعات، رباعیات اور مستزاد ہندی ہیں۔ مخمسات میں مخمس در شہر گاما گفتہ شدہ اور شہر آشوب ہے، اور مثنویات میں جھوٹ، گھر کا حال، در ہجو خانہ خود، جوش عشق دنیا، مناجات در تعریف عشق اور خواب و خیال شامل ہیں۔

مولوی عبدالحق نے میر تقی میر کے بعض اردو اشعار کا شیخ سعدی کے ایسے فارسی اشعار سے موازنہ کیا ہے جو موضوع یا مفہوم کے اعتبار سے مماثلت رکھتے ہیں اور میر تقی میر کے کلام پر مجموعی تنقیدی نگاہ ڈالتے ہوئے لکھا ہے:

’’میر صاحب کی رباعیات میں کچھ کم لطف نہیں اور بعض تو بہت اچھی ہیں ان کے علاوہ متفرق مخمس، مستزاد اور فرد وغیرہ ہیں۔ لیکن میر کا اصل رنگ غزل میں ہی پایا جاتا ہے اور اس میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘

یہ کتاب 1921ء میں دائرۃ الافادہ حیدر آباد میں سے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے شائع کرائی تھی۔

 

               مثنوی خواب و خیال

 

میرا اثر کی یہ مثنوی مولوی عبدالحق صاحب نے پہلی مرتبہ انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) کے زیر اہتمام 1926ء میں مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کی تھی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن انجمن ترقی اردو (پاکستان) نے ناظر پرنٹنگ پریس کراچی سے نستعلیق میں 1950ء میں شائع کیا گیا۔

میراثر، خواجہ میر درد کے چھوٹے بھائی تھے۔ مختلف تذکروں میں ان کا ذکر آیا ہے۔ تفصیلی حالات نہیں ملتے تاہم ہر کسی نے یہی لکھا ہے کہ یہ خواجہ میر درد کی طرح درویش صفت تھے اور گوشہ نشینی کی زندگی گزارتے تھے اپنے بھائی میر درد کے مرید تھے اور سخن وری میں ان سے ہی تلمذ حاصل کیا تھا۔

قدرت اللہ شوق نے اپنے تذکرے ’’طبقات الشعراء‘‘ میں ان کا نام ’’میر محمدی‘‘ اور تخلص اثر لکھا ہے لیکن شوق کے علاوہ ہر تذکرہ نگاہ نے ان کا نام میر محمد لکھا ہے۔

صاحب تذکرہ ’’گلشن ہند‘‘ نے ان کا ذکر ذرا تفصیل سے کیا ہے اور نمونہ کلام کے علاوہ ان کی مثنوی کے چند اشعار بھی دئیے ہیں مرزا علی لطف کا بیان ہے:

’’اثر تخلص، میر محمد نام، شاہ جہاں آبادی، چھوٹے بھائی تھے خواجہ میر درد مرحوم کے واقف تھے فن تصوف سے اور آگاہ تھے علم معرفت سے بطور درویشاں صاحب معنی کے گوشہ نشینی اختیار کی تھی اور درد اثر کے ساتھ نہایت طبیعت ہموار تھی بھائی اپنے سے انہوں نے کسب کمال کا کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کلام ان کا چاشنی سے درد اثر کی آشنا ہے۔ ایک مثنوی بہت طولانی بیان عشق میں ان کی تصنیف ہے۔‘‘

میر اثر کی یہ مثنوی کمیاب تھی لیکن مولوی عبدالحق صاحب نے دو نسخوں کی مدد سے مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ ٹائپ میں شائع کی تھی مثنوی کا متن 135 صفحات پر پھیلا ہوا ہے 16  صفحات کا مقدمہ اور ایک صفحہ غلط نامہ اس کے علاوہ ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب نے جن دو نسخوں کی مدد سے اس مثنوی کو مرتب کیا ہے اس میں سے ایک ان کے بڑے بھائی شیخ ضیا الحق صاحب نے انہیں فراہم کیا تھا جب کہ دوسرا نسخہ انجمن اصلاح زیسنہ (بہار) کے کتب خانے سے مولوی نجیب اشرف نے روانہ کیا تھا۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اپنے مقدمہ میں میر اثر کا تعارف کراتے ہوئے ان کے کلام کی قدر و قیمت پر روشنی ڈالی ہے اور میر اثر کی مثنوی ’’خواب و خیال‘‘ اور مرزا شوق کی مثنوی ’’بہار عشق‘‘ کے اشعار کا مقابلہ و موازنہ کر کے ثابت کیا ہے:

’’اگر دونوں مثنویوں کے اس قسم کے اشعار برابر برابر رکھ کر پڑھے جائیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ مرزا شوق نے ’’خواب و خیال‘‘ ہی کو اپنا نمونہ بنایا ہے۔‘‘

’’مثنوی خواب و خیال‘‘ ایسی مثنوی ہے جس میں کوئی مسلسل قصہ نہیں مختلف کیفیات و واردات قلبی بیان کی گئی ہیں اور محبوب کا سراپا کھینچا گیا ہے۔ موئے سر سے کف پا تک ہر ہر عضو پر مضمون باندھے گئے ہیں۔

مثنوی کا آغاز حمد و نعت سے ہوتا ہے اور اختتام پر مناجات دی گئی ہے۔ مناجات سے قبل ایک قطعہ اور ترجیع بند ہے جس میں میر اثر نے اپنے کلام پر خواجہ درد کے اثرات و تاثرات بیان کئے ہیں اور در کو اپنا پیر و خواجہ بتایا ہے۔

 

               چمنستان شعرا

 

رائے لچھمن نرائن شفیق کا تعلق لاہور کے کھتری خاندان سے تھا ان کے جد عالم گیری لشکر کے ہمراہ دکن آ گئے تھے۔ شفیق کے والد رائے منسا رام، نواب نظام الملک آصف جاہ کے عہد میں پیشکار و صدر نشین دکن تھے۔ وہ خود بھی صاحب تصنیف تھے اور ان سے ’’ماثر نظامی‘‘ اور ’’قانون دربار آصفی‘‘ منسوب ہے۔

شفیق 1185ء میں پیدا ہوئے اور گیارہ سال کی عمر سے شعر کہنے لگے ابتدا میں ’’صاحب‘‘ تخلص کرتے تھے، لیکن بعد میں تبدیل کر دیا وہ لکھتے ہیں:

’’اب کہ میری عمر اٹھارہ سال کی ہے، مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک صاحب میر محمد مسیح کا تخلص فارسی میں صاحب ہے، تو میں نے میر صاحب قبلہ (آزاد بلگرامی) سے تخلص کی التجا کی ۔ آپ نے از راہ شفقت، شفیق، تخلص عطا فرمایا۔‘‘

شفیق اردو و فارسی کے شاعر ہونے کے علاوہ صاحب تصنیف بھی تھے اور انہوں نے شعراء کے تذکرے اور تاریخی کتب تحریر کی تھیں۔

1928ء میں مولوی عبدالحق نے ان کا تذکرہ ’’چمنستان شعرا‘‘ نسخ میں اورنگ آباد سے شائع کیا تھا۔ تذکرے میں213 شعراء کا بیان ہے۔ شعرا کے نام حروف تہجی کی ترتیب سے دئیے ہیں تذکرے کا آغاز سراج الدین خاں آرزو سے کیا ہے اور خاتمہ پر سید غلام کا حال درج ہے۔

مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمے میں رائے لچھمن نرائن شفیق کی دوسری تصانیف کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ان میں تاریخی کتب ’’حقیقت ہائے ہندوستان‘‘ ’’تنبیق شگرف‘‘ مآثر آصفی ’’بساط الغنائم‘‘ اور ’’حالات حیدر آباد‘‘ شامل ہیں اور تذکرے ’’شام غریباں‘‘ ’’گل رعنا‘‘ اور ’’چمنستان شعراء‘‘ ہیں ’’چمنستان شعراء‘‘ پر تفصیلی بحث کی ہے اور اس کا مرتبہ و مقام متعین کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’شفیق نے یہ تذکرہ اٹھارہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور بغیر کسی کی مدد کے بہت تھوڑے عرصے میں ختم کر دیا ہے۔ اس عمر میں ایسی اچھی کتاب کا تالیف کرنا اعجاز سے کم نہیں ہے۔ کتاب کا نام ’’چمنستان شعراء‘‘ تاریخی ہے اور اس سے 1175 ھ سن تالیف نکلتا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس نسخے کو کتب خانہ آصفیہ سرکار عالی حیدر آباد (دکن) کے مخطوطے کی مدد سے مرتب کیا تھا انہوں نے اپنے مقدمے میں رائے لچھمن نرائن شفیق کا کچھ کلام مع اپنے تبصرے کے بطور نمونہ بھی شامل کیا ہے۔

یہ کتاب انجمن ترقی اردو نے مطبع انجمن اورنگ آباد سے 1928ء میں شائع کی تھی۔

 

               ذکر میر

 

مولوی عبدالحق صاحب نے 1928ء میں میر تقی میر کی خود نوشت سوانح عمری انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سے ٹائپ میں شائع کی تھی جس پر انہوں نے ایک مقدمہ بھی تحریر کیا تھا۔ یہ خود نوشتہ سوانح عمری گوشہ گمنامی میں تھی۔ صرف ڈاکٹر سپونگر کی فہرست میں اس کا ذکر ملتا تھا۔ لیکن اتفاق سے 1222 ھ ( 1808ء) میں مولوی عبدالحق صاحب کو اس کا ایک کتابت شدہ نسخہ مسلم ہائی اسکول اٹاوہ کے بانی مولوی بشیر الدین صاحب سے مل گیا۔

مولوی عبدالحق صاحب نے اسے مرتب کرنے کا منصوبہ بنایا جب پروفیسر محمد شفیع پرنسپل اورئینٹل کالج لاہور کو مولوی عبدالحق صاحب کے منصوبے کا علم ہوا تو انہوں نے بھی اپنی ملک میں ایک دوسرے نسخہ کی اطلاع دی اور مولوی عبدالحق صاحب کو مستعار روانہ کیا۔ مولوی عبدالحق نے ان دونوں نسخوں کی مدد سے ’’ذکر میر‘‘ مرتب کیا ان دونوں نسخوں کا موازنہ کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:

’’پروفیسر صاحب کا نسخہ اچھا لکھا ہوا نہیں ہے جیسا اٹاوے کا ہے اور ناقص بھی ہے یعنی ایک چوتھائی سے زائد کم ہے معلوم ہوتا ہے کہ آخری حصہ میر صاحب نے بعد میں بڑھایا ہے چنانچہ لکھنو جانے کا حال لاہور کے نسخہ میں مطلق نہیں۔ جہاں کہیں ان دونوں نسخوں کی عبارت میں اختلاف تھا، اس اختلاف کو ہم نے حاشیے میں (ن) کا نشان کر کے لکھ دیا ہے۔‘‘

’’ذکر میر‘‘ میر تقی میر نے فارسی میں رقم کیا تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اس کی زبان فارسی ہی رہنے دی البتہ مضامین کے عنوانات شامل نسخہ نہیں تھے جو مولوی عبدالحق صاحب نے مرتب کرتے وقت تحریر کر دئیے ہیں۔ مشکل الفاظ اور محاورات کے معنی جس انداز سے میر تقی میر نے دئیے تھے، ویسے ہی چھاپ دئیے۔

مولوی عبدالحق نے اپنے اس مقدمہ میں ’’ذکر میر‘‘ کی روشنی میں میر تقی میر کے حالات درج کئے ہیں اور بتایا ہے کہ ’’ذکر میر‘‘ وہ داخلی شہادت ہے جس کی روشنی میں میر تقی میر کے سلسلے میں مبالغہ، قیاس آرائیوں اور حکایتوں کی دھند صاف ہونے میں مدد ملی ہے۔

’’ذکر میر‘‘ سے میر کے خاندانی پس منظر، حالات زندگی، عادات و اطوار، آشوب زندگی اور اس کے رد عمل پر روشنی پڑتی ہے۔

مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’اس کتاب میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں کہ اس کے پڑھنے کے بعد ان کی بعض نظموں کی اصل حقیقت معلوم ہوتی ہے اور لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔‘‘

’’ذکر میر‘‘ تاریخی نام ہے میر تقی میر نے اپنی اس کتاب کا قطعہ تاریخ خود لکھا تھا جس سے ان کی خود نوشت کا سال اتمام معلوم ہوتا ہے بقول مولوی عبدالحق:

’’کتاب کا نام ’’ذکر میر‘‘ ہے جس کے عدد 1170 ھ ہوتے ہیں اس میں 27 ملائیے تو سن تالیف 1197ھ ہوئے۔‘‘

کتاب کی تالیف کے وقت میر تقی میر نے اپنی عمر ساٹھ سال بتائی ہے۔ جس سے مولوی عبدالحق صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ میر تقی میر کا سن پیدائش تقریباً 1137 ھ ہے۔

 

               مخزن نکات

 

شیخ محمد قیام الدین قائم قصبہ چاند پور، ضلع بجنور (روہیل کھنڈ) کے رہنے والے تھے اور ملازمت کے سلسلے میں عرصہ دراز تک دلی میں رہے۔ مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے:

’’اگرچہ قائم چاند پور کے رہنے والے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں ’’بدو شعور‘‘ سے ان کا رہنا دلی میں ہوا شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں وہ شاہی توپ خانے کے داروغہ ہو گئے۔‘‘

دلی زیر و زبر ہوتی ہی رہتی تھی ان کے عہد میں بھی ایسا ہی ہوا اور وہ دلی چھوڑ کر بجنور، ٹانڈہ اور رام پور میں تلاش معاش کے لئے سرگرداں رہے اور آخر 1208 ھ مطابق 1793ء رام پور میں انتقال ہوا سن پیدائش محقق نہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر اقتدا حسن کے اندازے کے مطابق ’’قائم کی پیدائش 1135 ھ اور 1138 ھ ( 1723ء اور 1726ء) کے درمیان ہوئی ہے۔‘‘

قائم نے اپنے قیام دلی کے زمانے میں ایک تذکرہ شعرائے اردو رقم کیا تھا۔ جس کی تاریخ آغاز اور تاریخ اختتام انہوں نے کہیں درج نہیں کی، تاہم خواجہ اکرام کے بیان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ اکرام نے ایک قطعہ میں مخزن نکات سے اس تذکرے کی تاریخ 1128 ھ نکالی تھی اور یہی نام انہوں نے اپنے تذکرہ شعرائے اردو کے لئے پسند کر لیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری تحریر کرتے ہیں:

’’تذکرے کے مختلف تراجم کی روشنی میں محققین نے یہ رائے قائم کی ہے کہ مخزن نکات کا آغاز 1168 ھ سے بہت پہلے ہو چکا تھا اور مولف نے 1168 ھ کے بعد تک اس میں اضافے کئے ہیں۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس تذکرے کے آغاز میں 25 صفحات کا ایک مقدمہ مع 180 اشعار ایک رباعی اور ایک قطعہ تحریر کیا ہے مقدمے میں قائم کے حالات زندگی، ان کے اساتذہ اور تذکرہ کی تالیف پر روشنی ڈالی ہے۔ مقدمہ ٹائپ میں ہے باقی  صفحات لیتھو پر خط نستعلیق میں شائع ہوئے ہیں، جو اصل متن اور مختصر سے صحت نامے پر مشتمل ہیں قائم نے اس تذکرے میں شعراء کے تین طبقات بنائے ہیں:

طبقہ اول میں شعرائے متقدمین کا بیان اور اشعار ہیں

طبقہ دوم میں شعرائے متوسطین کا ذکر ہے

طبقہ سوم میں شعرائے متاخرین کا تذکرہ ہے

اس تذکرے میں صرف 67 شعرا کو شامل کیا گیا ہے آخری شاعر مولف خود ہیں ہر شاعر کے حالات کے ساتھ اس کے کلام کا انتخاب بھی دیا ہے۔

اس کتاب کو انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن کے مطبع خانہ سے 1929ء میں شائع کیا۔

 

               دیوان اثر

 

مولوی عبدالحق نے خواجہ میر اثر کے دیوان کا زیادہ حصہ دو قلمی نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے۔ ایک نسخہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے کتب خانے میں تھا جو انہیں ڈاکٹر ذاکر حسین خان نے مستعار دیا تھا اور دوسرا کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن سے فرحت اللہ بیگ نے نقل کر کے بھیجا تھا۔ باقی کلام مولوی عبدالحق نے مختلف تذکروں اور دوسرے ذرائع سے جمع کیا تھا۔

اس دیوان میں100 غزلیں، 65 رباعیات اور 44 متفرق مطلعے ہیں سب سے زیادہ غزلیں ردیف ’’ی‘‘ کی ہیں جن کی تعداد 66 ہے، ردیف ’’الف‘‘ میں 24  اور ردیف ’’ک‘‘ میں دو ہیں ب، ت،ث، ج، ح، د اور ’’ل‘‘ کی ردیف میں ایک ایک غزل ہے۔ ردیف ’’ن‘‘ میں بھی ایک نا مکمل غزل ہے دیوان کا آغاز ایک ایسی غزل سے ہوتا ہے ، جس میں اثر نے حمد، نعت اور منقبت کو سمو دیا ہے اثر نے چھوٹی بحرین استعمال کی ہیں زبان سلیس ہے اور بیان میں بے ساختگی، مولوی عبدالحق نے اس کے کلام کے اسلوب و انداز کا موازنہ میر تقی میر کے کلام سے کیا ہے۔

مولوی عبدالحق کو تلاش کے باوجود اثر کے حالات زندگی نہ مل سکے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:

’’افسوس ہے کہ اثر کے حالات کہیں نہیں ملتے اس سے قبل ان کا کلام بھی مفقود تھا۔ بارے غنیمت ہے کہ اب ان کا کلام مل گیا ہے۔ مثنوی پہلے چھپ چکی ہے۔ اب دیوان شائع کیا جاتا ہے۔ دونوں نہایت قابل قدر ہیں۔ اردو کی بڑی بد قسمتی ہوتی اگر یہ گمنامی میں پڑے رہتے اور شائع نہ ہوتے، یہی ان کی کائنات ہے اور اس میں ان کی حیات کا سارا سرمایہ ہے۔ اگر ان کی زندگی کے حالات معلوم نہیں تو نہ ہوں۔ ان کے کلام کامل جانا بہت بڑی فتح ہے۔ اردو کے دلدادہ کے لئے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔‘‘

انجمن ترقی اردو (ہند) اورنگ آباد نے یہ دیوان مسلم یونی ورسٹی پریس علی گڑھ سے 1930ء میں شائع کیا۔

 

               باغ و بہار

 

میرا من دہلوی کی ’’باغ و بہار‘‘ اردو ادب کی لافانی تصنیف ہے جس کی ابدیت کے لئے میر امن دہلوی نے دعوے کیا ہے:

خزاں کا نہیں اس میں آسیب کچھ

ہمیشہ تر و تازہ ہے یہ بہار

مرے خون دل سے یہ سیراب ہے

اور لخت جگر ہیں سب برگ و بار

مجھے بھول جاویں گے سب بعد مرگ

رہے گا مگر یہ سخن یادگار

اس تالیف کو جان گلکرسٹ اور میرا من دہلوی دونوں نے فارسی سے ترجمہ بتایا ہے اور اس کا مصنف امیر خسرو کو قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر جان گلکرسٹ نے اپنے مختصر سے مقدمہ میں اس کا تعارف اس طرح کرایا ہے:

’’اس کی تصنیف کا سبب یہ ہے کہ ایک دفعہ امیر خسرو کے پیرو مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی طبیعت نا ساز ہوئی تب دل بہلانے کے لئے امیر خسرو نے یہ قصہ فارسی زبان میں رقم کیا اور اس کا نام ’’نو طرز مرصع‘‘ رکھا اردو میں اس کا ترجمہ سب سے پہلے میر حسین عطا خان تحسین نے کیا اور اس کا نام نو طرز مرصع رکھا لیکن اردو زبان کے ایک معیاری نمونے کی حیثیت سے ان کا ترجمہ ناقص قرار پایا کیونکہ اس میں عربی اور فارسی کے فقروں اور محاوروں کی بہتات ہے۔ اس نقص کو دور کرنے کے لئے میرا من عالم و فاضل دلی والے نے جو کہ فورٹ ولیم کالج سے وابستہ ہیں عطا خان تحسین کے ترجمے سے یہ نیا اسلوب (Version) نکالا ہے۔‘‘

میرا من دہلوی نے بھی جان گلکرسٹ کی اس بیان کی تائید اس طرح کی ہے:

’’اب خداوند نعمت، صاحب مرو، نجیبوں کے قدر دان جان گلکرسٹ صاحب نے (کہ ہمیشہ اقبال ان کا زیادہ رہے، جب تک گنگا جمنا بہے) لطف سے فرمایا کہ اس قصہ کو ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں جو اردو کے لوگ، ہندو مسلمان، عورت مرد، لڑکے بالے، خاص و عام آپس میں بولتے چالتے ہیں ترجمہ کرو موافق حکم حضور کے میں نے بھی اس محاورے سے لکھنا شروع کیا جیسے کوئی باتیں کرتا ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق نے میرا من دہلوی کی ’’باغ و بہار‘‘ پر 1930ء میں توجہ دی اور اس پر ایک تفصیلی مضمون رسالہ ’’اردو‘‘ کے جولائی 1930ء کے شمارے میں شائع کیا بعد میں جب مولوی صاحب نے ’’باغ و بہار‘‘ مرتب کی تو اس مضمون کو بطور مقدمہ شامل کتاب کر لیا۔

مولوی عبدالحق نے جان گلکرسٹ کے اس خیال کو غلط ثابت کیا کہ ’’باغ و بہار‘‘ کا قصہ امیر خسرو کی چہار درویش سے ماخوذ ہے اور تحقیق کی ہے اس تالیف کا ماخذ صرف محمد حسین عطا خان تحسین اٹاوے والے کی تصنیف ’’نو طرز مرصع‘‘ ہے

مولوی عبدالحق نے امیر خسرو سے منسوب تصنیف کی تردید جن بنیادوں پر کی ہے ان میں پہلی دلیل یہ دی ہے کہ امیر خسرو کی تصانیف میں کہیں بھی قصہ چہار درویش کا تذکرہ نہیں ملتا، دوسرے آغاز قصہ میں جو ’’حمد‘‘ ہے اس کے مقطع میں ’’صفی‘‘ تخلص آیا ہے جو خسرو کا نہیں بلکہ کسی غیر معروف شاعر کا ہے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

’’خسرو جیسے زبردست اور پر گو شاعر سے یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ کسی غیر معروف شاعر کی نظم حمد سے نقل کرتے، یہ ان کی طبیعت سے بعید معلوم ہوتا ہے اس سے یہ شبہ اور بھی قوی ہو جاتا ہے کہ یہ قصہ امیر خسرو کا لکھا ہوا نہیں تھا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے فارسی قصہ، نو طرز مرصع اور میرا من دہلوی کی باغ و بہار کے بعض حصوں سے عبارتوں کا مقابلہ اور موازنہ کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ میرا من کی باغ و بہار فارسی سے ترجمہ نہیں بلکہ اس کا ماخذ ’’نو طرز مرصع‘‘ ہے اور بعض بعض مقامات پر جملے کے جملے اور الفاظ بھی وہی ملتے ہیں جو نو طرز مرصع کے ہیں مولوی صاحب کا کہنا ہے:

’’تعجب اس بات کا ہے میرا من نے فارسی کتاب اور اس کے ترجمے کا تو ذکر کیا مگر نو طرز مرصع کا ذکر صاف اڑا گئے‘‘

مولوی عبدالحق کی یہ بات درست نہیں ہے کیوں کہ میرا من کی باغ و بہار کے سر ورق پر ہی درج ہے:

’’باغ و بہار تالیف کیا ہوا میرا من دلی والے کا ماخذ اس کا نو طرز مرصع کہ وہ ترجمہ کیا ہوا عطا حسین خان کا ہے فارسی قصہ چہار درویش سے۔‘‘

مولوی عبدالحق کے پیش نظر غالباً کوئی ایسا نسخہ تھا جس پر یہ سر ورق نہیں ہو گا اس کے باوجود مولوی صاحب موصوف نے جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ ان کی تحقیقی صلاحیتوں اور بصیرت کے ترجمان ہیں۔

 

               مقدمات عبدالحق (حصہ اول)

 

مرزا محمد بیگ نے مولوی عبدالحق صاحب کے تحریر کردہ 14 مقدمات مولانا محمد حبیب الرحمان صاحب کے مقدمہ اور اپنے تحریر کئے ہوئے دیباچہ کے ساتھ بسلسلہ مطبوعات مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد (دکن) سے 1931ء میں شائع کئے تھے۔

مولانا محمد حبیب شیروانی صاحب نے ان مقدمات کی تعریف کرتے ہوئے اپنے مقدمہ میں تحریر کیا تھا:

’’مولوی صاحب اپنے موضوع پر قلم اس وقت اٹھاتے ہیں جب اس پر پورا عبور حاصل کر لیتے ہیں نہ صرف کتاب پر بلکہ مصنف پر اور موضوع پر، اس لئے ان کے مقدمات میں یہ سہ گانہ پہلو روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے۔‘‘

مرزا محمد بیگ صاحب نے اپنے دیباچہ میں مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمات کی قدر و منزلت کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مولوی عبدالحق صاحب کے مقدمات ان کے لئے باعث کشش ہوئے انہوں نے ان مقدموں کو مرتب کرنا چاہا تو مولوی عبدالحق بہ مشکل اس بات پر رضا مند ہوئے پھر ان مقدمات پر مقدمہ لکھنے کے لئے اسی معیار کی شخصیت کی تلاش ہوئی۔ آخر نظر انتخاب مولانا محمد حبیب الرحمان شیروانی صاحب پر پڑی۔

مرزا محمد بیگ صاحب نے مقدمات عبدالحق پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’مولوی صاحب کا ہر وہ مقدمہ جو عموماً ہر ٹکسالی کتاب پر مرتب ہوا ہے اپنا مرتبہ آپ حاصل کر چکا ہے بقول مولوی عبدالحق صاحب کے وہ ’’مقدمہ باز‘‘ مشہور ہو چکے ہیں یہ لقب علمی معنی میں ایک ایسی خصوصیت رکھتا ہے کہ اردو مقدمہ نویسی کے فن میں مولوی صاحب کو زمانہ ہمیشہ معلم اول سمجھتا رہے گا۔‘‘

مرزا محمد بیگ نے ان چودہ مقدمات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:

الف  اسلامیات

ب سائنس و فلسفہ

ج تاریخ و تذکرہ

’’مقدمات عبدالحق‘‘ میں مندرجہ ذیل مقدمات شامل ہیں:

1 اعظم الکلام فن ارتقاء الاسلام مصنف: مولوی چراغ علی

مترجم: مولوی عبدالحق  ناشر: مولوی عبداللہ خان کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن)

مولوی چراغ علی صاحب نے یہ کتاب انگریز مصنف ریورنڈ ملکم کے اس مضمون کے جواب میں جو ’’ریفارمز انڈر مسلم رول‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا تھا، لکھی تھی جس میں اس نے تحریر کیا تھا کہ اسلام دور جدید کی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ہے مولوی عبدالحق صاحب نے نہ صرف مولوی چراغ علی صاحب کی اس کتاب کا ترجمہ کیا بلکہ دو حصوں پر مشتمل ایک مقدمہ بھی لکھا مقدمہ کے پہلے حصہ میں مولوی چراغ علی صاحب اور ان کی دیگر تصانیف کا تعارف ہے اور دوسرے میں متذکرہ کتاب کے نفس مضمون کو زیر بحث لائے ہیں۔ کتاب کے حصہ دوم میں بھی یہی مقدمہ جوں کا توں شامل ہے اس کتاب کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ یہ مولوی عبدالحق صاحب ہی کی نگرانی میں رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سے 1911 میں شائع ہوئی۔

2 تحقیق الجہاد

مصنف:مولوی چراغ علی  مترجم: مولوی غلام الحسنین

ناشر:مولوی عبداللہ خان  طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور

سن اشاعت: 1913ء

3 معراج العاشقین

مصنف: سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو درازؒ

مرتب: مولوی عبدالحق  ناشر: غلام محمد انصاری وفا مدیر ’’تاج‘‘ حیدر آباد

طابع: تاج پریس حیدر آباد دکن سن اشاعت: 1343 ھ 1943 -ء

1 یہ کتاب امریکی مصنف واشنگٹن اورنگ کی اس کتاب کے جواب میں ہے جس میں اس نے تحریر کاے تھا کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا کتاب میں ثابت کیا ہے کہ حضور کریم ؐ کے تمام غزوات دفاعی تھے اور صحابہ نے مدافعت میں جہاد کئے ضمیمہ کا ترجمہ مولوی عبد الغفور صاحب نے کیا ہے۔

2 ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کا دعوی ہے کہ خواجہ گیسو دراز ’’معراج العاشقین‘‘ کے مصنف نہیں ہے وہ لکھتے ہیں ’’اب یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ گیارھویں صدی ہجری کے اواخر یا بارھویں صدی ہجری کے اوائل کی تصنیف ہے اور اس کے مصنف مخدوم شاہ حسینی بیجا پوری ہیں۔‘‘

4 معرکہ مذہب و سائنس

مصنف:ڈاکٹر جان ولیم ڈربیر  مترجم: مولوی ظفر علی خان

طابع: رفاہ عام پریس لاہور  سن اشاعت 1910ء

5 مبادی سائنس

مترجم: مولوی معشوق حسین خان ناشر: انجمن ترقی اردو حیدر آباد (دکن)

طابع: مطبع اختر حیدر آباد(دکن) سن اشاعت 1910ء

6 مشاہیر یونان و روما

مصنف: پلوٹارک  مترجم: سید ہاشمی فرید آبادی

ناشر: انجمن ترقی ہند، دہلی طابع: مفید عام پریس لاہور

سن اشاعت 1943ء

7 جنگ روس و جاپان

مصنف: مولوی ظفر علی خان  ناشر: مطبع اختر حیدر آباد دکن

طابع: مطبع اختر حیدر آباد (دکن) سن اشاعت 1905ء

8 حیات النذیر

تالیف: مولوی سید افتخار عالم مارہروی طابع: شمسی پریس دہلی

سن اشاعت 1912ء

9 تذکرہ گلشن ہند

مصنف: مرزا علی لطف  مرتبہ: مولوی شبلی نعمانی

ناشر: عبداللہ خان، کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن)

طابع: رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور سن اشاعت 1906ء

10 ماثر الکرام

مصنف: مولانا غلام علی آزاد بلگرامی

ناشر: کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد (دکن) طابع: مفید عام پریس آگرہ

سن اشاعت 1910ء 1328ء

11 تذکرہ مخزن نکات

مصنف: محمد قیام الدین قائم چاند پوری مرتبہ: ملوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع:مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد

سن اشاعت 1929ء

12 چمنستان شعراء

مصنف: لچھمن نرائن شفیق اورنگ آبادی مرتبہ: مولوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: مطبع انجمن ترقی اردو اورنگ آباد

سن اشاعت 1928

13 ذکر میر

مصنف: میر تقی میر   مرتبہ: مولوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) طابع: انجمن اردو پریس اورنگ آباد (دکن)

14 تمدن ہند

مصنف: موسیو گستالیبان  مترجم: مولوی سید علی بلگرامی

ناشر: شمسی پریس آگرہ  طابع: مطبع شمسی آگرہ

سن اشاعت 1913ء

 

               مقدمات عبدالحق(حصہ دوم)

 

یہ حصہ اول سے پیوستہ ہے، اس لئے اس میں کوئی مقدمہ یا دیباچہ نہیں ہے یہاں تک کی فہرست کا سلسلہ بھی حصہ اول کی ترتیب سے آگے بڑھا ہے۔ مثلاً حصہ اول کی فہرست میں مقدمات کی تقسیم الف، ب، ج ہے تو اس میں د،ھ ،و وغیرہ

یہ حصہ بھی سلسلہ مطبوعات ابراہیمیہ حیدر آباد (دکن)220کے تحت شائع ہوا تھا متن212 صفحات پر پھیلا ہوا ہے کتاب کے آخر میں 8 صفحات کا غلط نامہ ہے

کتاب مندرجہ ذیل مقدمات پر مشتمل ہے:

1 انتخاب کلام میر

مولفہ: میر تقی میر  مرتبہ مولوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: ادارہ الافادہ حیدر آباد (دکن)

سن اشاعت 1921ء

2 مسدس حالی

مصنف: الطاف حسین حالی  مقدمہ و تنقید: مولوی عبدالحق

ناشر: دار الاشاعت کانپور  طابع: نامی پریس کانپور

سن اشاعت 1929ء

3 دیوان اثر

مولفہ، محمد میر اثر   مرتبہ: مولوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع: مسلم یونی ورسٹی پریس علی گڑھ

سن اشاعت 1930ء

4 مثنوی خواب و خیال

مولفہ: محمد میر اثر   مرتبہ: مولوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد طابع :ا نجمن اردو پریس اورنگ آباد

سن اشاعت 1936

5 سی پارہ دل

مصنف : خواجہ حسن نظارمی  ناشر: خواجہ بک ڈپو دہلی

طابع:دلی پرنٹنگ پریس دہلی  سن اشاعت 1921ء

6 خطوط عطیہ بیگم

مرتبہ: محمد امین زبیری (و) سید محمد یوسف قیصر

ناشر: ظل السلطان بک ایجنسی بھوپال  طابع: شمسی مشین پریس آگرہ

سن اشاعت (س ن)

7 باغ و بہار

مصنف : میرا من دہلوی  مرتبہ: مولوی عبدالحق

ناشر: انجمن ترقی اردو  طابع یونیورسٹی پریس علی گڑھ

سن اشاعت 1944ء

8 قواعد اردو

مولفہ: مولوی عبدالحق  ناشر : دار الاشاعت انجمن ترقی اردو لکھنو

طابع: الناظر پریس لکھنو  سن اشاعت 1914ء

9 دریائے لطافت

مولفہ: سید انشا اللہ خان انشا  مترجم: برج موہن دتاتریہ کیفی

ناشر: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سن اشاعت 1916ء

10 فرہنگ اصطلاحات علمیہ

مرتبہ: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد  طابع: انجمن ترقی اردو اورنگ آباد

ناشر: انجمن پریس اورنگ آباد  سن اشاعت 1925ء

11 تجرد و ازدواج

مصنف: سید محمد تقی   طابع: مطبع فیض عام علی گڑھ

ناشر: مطبع فیض عام علی گڑھ  سن اشاعت 1907ء

12 مطبوعات دار الترجمہ عثمانیہ

مرتبہ: سرشتہ تالیف و ترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن

طابع: عثمانیہ یونیورسٹی پریس  ناشر: دار المطبع جامعہ عثمانیہ

اشاعت 1948ء

 

               سب رس

 

مولوی عبدالحق کسی کتاب کو مرتب کرنے سے پہلے عموماً اس کا تعارف رسالہ ’’اردو‘‘ میں کراتے تھے ملا وجہی کی ’’سب رس‘‘ پر بھی انہوں نے اکتوبر 1924ء میں ایک مضمون بعنوان اردو نثر کی ایک قدیم کتاب: سب رس لکھا جس میں کتاب کی قدامت کا ذکر انہوں نے ان الفاظ میں کیا ہے:

’’اب تک اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی سے منسوب کی جاتی تھی اور اس کی کربل کتھا اردو نثر کی پہلی کتاب سمجھی جاتی تھی لیکن حال ہی میں معلوم ہوا کہ فضلی سے کہیں پہلے نثر میں بہت سی کتابیں لکھی گئی تھیں مگر پردہ اخفا میں تھیں تحقیق و جستجو نے اب انہیں گمنامی سے نکالا ہے انہی میں ایک قابل قدر کتاب ’’سب رس‘‘ ہے‘‘

سب رس کا مصنف ملا وجہی تھا جو عبداللہ قلی قطب شاہ ( 1035 ھ 1082 /ء 1625ء 1672 /ئ) کا درباری شاعر تھا۔ ملا وجہی نے یہ قصہ عبداللہ قلی قطب شاہ کی فرمائش پر ہی قلم بند کیا تھا۔

مولوی عبدالحق کا خیال ہے کہ یہ قصہ ملا وجہی کا طبع زاد نہیں ہے بلکہ اس کا ماخذ مثنوی ’’دستور عشق‘‘ ہے جو محمد یحیی ابن سیک فتاحی نیشا پوری کی تحریر ہے جسے اس نے ’’شبستان خیال‘‘ اور ’’حسن و دل‘‘ کے ناموں سے الگ الگ بھی تحریر کیا ہے مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں:

’’میرا تو قیاس یہ ہے کہ وجہی کو فتاحی کی حسن و دل جو نثر میں ہے ہاتھ لگ گئی تھی۔‘‘

مولوی عبدالحق کی تحقیق ہے کہ ملا وجہی سے قبل بھی یورپ اور برصغیر کے بعض مصنفین و شعرا نے اس قصے کا فارسی، ترکی اور انگریزی وغیرہ میں ترجمہ کیا ہے۔ البتہ ملا وجہی کو اردو میں یہ قصہ تمثیل کرنے کی اولیت حاصل ہے اور ماخوذ ہونے کے باوجود وجہی نے اسے طبع زاد کے قریب تر کر دیا ہے۔ یہ قصہ تمثیلی انداز سے پند و نصائح کا مرقع بھی ہے اور حسن و عشق کی داستان بھی۔

مولوی عبدالحق نے وجہی کی ’’سب رس‘‘ کا خلاصہ اپنے مقدمہ میں مروجہ اردو میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’سب رس کی زبان تین سو برس پہلے کی ہے اور وہ بھی دکن کی بہت سے لفظ اور محاورات ایسے ہیں جو اب بالکل متروک ہیں اور خود اہل دکن میں بھی نہیں سمجھے جاتے اس لئے کتاب کے آخر میں ایک فرہنگ بھی لگا دی ہے۔‘‘

’’سب رس‘‘ کا نسخہ مولوی عبدالحق نے دو قدیم نسخوں کی مدد سے مرتب کیا ہے جس میں سے ایک نسخہ انہیں حیدر آباد دکن اور دوسرا بیجا پور سے ملا تھا یہ دونوں نسخے 1171 ھ اور 1177 ھ کے کتابت شدہ ہیں۔

ملا وجہی نے کہیں بھی قصہ کے آغاز کا سن نہیں دیا ہے لیکن قصہ کے اختتام پر نغلی کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:

’’بارے جس وقت تھا ایک ہزار و چہل و پنج اس وقت ظہور پکڑیا یو گنج جو کوئی صاحب اچھے گا، جو کوئی صاحب فن اچھے گا اسے یو سخن اثر کرے گا مست بے خبر کرے گا اپنا کرے گا اپنی ادھر کرے گا‘‘

وجہی کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب 1045 ھ میں اختتام پذیر ہوئی یہ کتاب 1932ء میں انجمن اردو اورنگ آباد نے شائع کی تھی۔

 

               جنگ نامہ عالم علی خان

 

مولوی عبدالحق صاحب نے 1933ء میں انجمن ترقی اردو اورنگ آباد (دکن) سے غضنفر حسین مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون ’’جنگ نامہ عالم علی خان‘‘ مرتب کر کے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا تھا اس جنگ نامہ کو ترتیب دیتے ہوئے مولوی عبدالحق صاحب کے پیش نظر تین نسخے تھے ایک نسخہ مولوی عبدالحمید صاحب وکیل کنٹر نے عنایت کیا تھا جب کہ دوسرا نسخہ مسٹر ولیم آرون کا وہ نسخہ تھا جو مسٹر ولیم نے مہاراجہ بنارس کے کتب خانہ سے حاصل کیا تھا مسٹر ولیم اردون اس نسخہ کو انگریزی ترجمہ کے ساتھ رسالہ انڈین اینٹی کیوری (INDIAN ANTIQUARY) مارچ 1904ء کے شمارے میں شائع کرا چکے تھے اور تیسرا نسخہ مولوی عبدالحق صاحب کا ذاتی نسخہ تھا۔

مولوی عبدالحق صاحب نے ’’جنگ نامہ عالم خان‘‘ مرتب کرنے کے لئے اپنے نسخے کو بنیاد بنایا تھا اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:

’’مسٹر ارون کا نسخہ اول و آخر سے ناقص ہے۔ عبدالحمید صاحب کے نسخہ میں شروع کے کچھ اشعار غائب ہیں میرا نسخہ مکمل ہے اور اس کی ترتیب اور تحریر دوسرے نسخوں سے بہتر ہے۔‘‘

مولوی عبدالحق صاحب نے حاشیوں میں اپنے نسخے کا دوسرے نسخوں سے اختلاف تحریر کر دیا ہے اور جن دوسرے نسخوں کی مدد سے اشعار کا اضافہ کیا ہے اس پر بھی علامتیں ظاہر کر دی ہیں۔

اس جنگ نامہ میں نواب آصف جاہ نظام الملک مرحوم اور عالم علی خان صوبے دار دکن کی جنگ کا حال درج ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر 1718ء میں سادات بارہ کے بیس سالہ سید عالم علی خان نے آصف جاہ نظام الملک کے لشکر سے بڑی مردانگی اور شجاعت سے لڑتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی۔ مولوی عبدالحق صاحب نے اسے تاریخی نظم قرار دیا ہے اور بتایا ہے:

’’اس میں جو نام اور سنین آئے ہیں وہ تاریخ کی رو سے بالکل صحیح ہیں۔‘‘

مجموعی اعتبار سے اس جنگ نامہ میں 491 اشعار ہیں اختتامی اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جنگ نامہ ربیع الاول 1132 ھ میں تکمیل پذیر ہوا۔

اس جنگ نامہ کے مصنف کے سلسلے میں اختلاف رائے ہے مسٹر ولیم ارون نے اس کا مصنف ’’سو دشت‘‘ نامی دکنی شاعر بتایا ہے جب کہ مسٹر ولیم کے منشی نے اس کا وطن پنجاب قرار دیا ہے مولوی عبدالحق صاحب کے خیال میں اس کا مصنف دکنی ضرور تھا لیکن وہ ’’سو دشت‘‘ نہیں بلکہ ’’دلی‘‘ تھا مولوی عبدالحق صاحب لکھتے ہیں:

’’دلی اس زمانے میں زندہ تھا اور سنہ 1132 ھ میں دہلی میں تھا اور یہ واقعات بھی اس سن میں واقع ہوئے ہیں اس لئے غالباً اس کا مصنف ولی ہے۔‘‘

 

               مرحوم دہلی کالج

 

’’مرحوم دہلی کالج‘‘ کے نام سے مولوی عبدالحق نے ’’دہلی کالج‘‘ کی تاریخ تحریر کی ہے اور مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر75 کے تخت نسخہ ٹائپ میں شائع کیا ہے۔

اس کالج نے تقریباً ایک صدی تک اردو زبان اور علم و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں مولوی عبدالحق نے اس نادر روزگار تعلیمی ادارے کی داستان میں بتایا ہے کہ 1792ء میں غازی الدین کے مدرسے کی عمارت میں اس کی داغ بیل ڈالی گئی جب مشرقی اور انگریزی شعبے یک جا ہوئے تو کالج کتب خانہ دار شکوہ میں اٹھ آیا اور 1875ء کی جنگ آزادی تک وہیں رہا۔

1825ء میں سرکاری درسگاہوں کے قیام کی تحریک ہوئی تو اسے بھی پانچ سو روپیہ ماہانہ کی امداد ملی مسٹر جے ایچ ٹیلر مقامی مجلس کے سیکرٹری اور اس کے پرنسپل مقرر ہوئے 1828ء میں سر چارلس منکاف برٹش ریزیڈنٹ کمشنر کی سفارش پر انگریزی جماعت کا اضافہ ہوا لیکن اس کلاس کے اجراء سے بے چینی پھیلی اور اسے اس کالج کی زیر نگرانی علیحدہ شعبہ بنا دیا گیا۔ 1931ء تک انگریزی پڑھنے والوں کی تعداد تین سو تک پہنچ گئی اس طرح یہ ادارہ مشرقی و انگریزی جدا جدا شعبوں پر مشتمل تھا۔

1835ء میں ایک حکم نامہ کے تحت دیسی علوم کی حوصلہ شکنی کی گئی مشرقی حصے کی امداد میں تخفیف ہوئی وظائف بند کر دئیے گئے حکومت نے اپنی اس پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا:

’’حکومت برطانیہ کا بڑا مقصد اہل ہند میں یورپین لٹریچر اور سائنس اشاعت کرنا ہے اور جس قدر رقوم مقصد تعلیم کے لئے مخصوص ہیں وہ صرف انگریزی تعلیم پر صرف ہونی چاہیں۔‘‘

ان حوصلہ شکن سرکاری پالیسیوں کے باوجود مشرقی شعبہ، مغربی شعبے سے سائنس میں کہیں بڑھا ہوا تھا اور اس شعبہ میں تمام علوم بڑی کامیابی سے اردو میں پڑھائے جاتے تھے۔

1857ء کی جنگ آزادی کے ہنگاموں نے اس کالج کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا 11مئی 1857ء بروز پیر دلی میں ہنگامہ ہوا تو کالج کے انگریز عملہ نے ’’میگزین‘‘ میں پناہ لی لیکن جب اس پر بھی حملہ ہوا تو دہلی کالج کے پرنسپل مسٹر ٹیلر کو مولوی محمد باقر نے پناہ دی لیکن ٹیلر ان کے پاس سے بھی فرار ہوئے اور مجاہدین آزادی کے ہاتھوں ہلاک ہو گئے انگریزوں نے ٹیلر کے قتل میں مولوی باقر کو مورد الزام ٹھہرا کر بر سر عام ’’باڑ‘‘ مار کر ہلاک کر دیا۔

اس جنگ آزادی میں دہلی کالج پر بھی حملہ ہوا انگریزی کتابیں پھاڑ کر جلا دی گئیں باقی ذخیرہ تباہ ہو گیا سائنسی آلات ٹوٹ پھوٹ گئے اور ’’دہلی کالج‘‘ غیر معینہ مدت کے لئے بند ہو گیا مئی 1863ء میں پروفیسر ہٹن کی زیر نگرانی یہ ادارہ دوبارہ منظم کیا گیا 1487 0-71ء میں ایم اے کلاسوں کا اجراء ہوا لیکن اپریل 1877ء میں اس کالج کو توڑ دیا گیا اور یہاں صرف اسکول رہ گیا ’’دہلی کالج‘‘ کی جگہ ’’مشن کالج‘‘ نے لے لی، یہ پہلے صرف ہائی اسکول تھا اس واقعہ کا تذکرہ کرتے ہوئے مولوی عبدالحق نے لکھا ہے:

’’کالج سن 1877ء تک اچھا خاصا چل رہا تھا کہ نہ معلوم گورنمنٹ کے جی میں کیا آئی کہ اسے اپریل 1877 ء میں توڑ دیا اور اس کا سارا اسٹاف لاہور کالج بھیج دیا یعنی اس کالج کو لاہور کالج میں مدغم کر دیا۔۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دلی اپنے عزیز کالج سے محروم ہو گئی اور اب سب اساتذہ و طلبہ لاہور چلے گئے۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں انگریزی اور مشرقی شعبے کے نصاب کا بھی جائزہ لیا اور لکھا ہے کہ 1843ء تک شعبہ مشرقی اور انگریزی کا نصاب علیحدہ علیحدہ تھا لیکن 1854ء میں یکسانیت قائم کرنے کی کوشش کی گئی کتاب کے اس حصہ میں مولوی عبدالحق نے 1854ء تک کے دونوں نصابوں کے خاکے دئیے ہیں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس کالج میں دینی تعلیم پر بھی زور دیا جاتا تھا مسلمانوں کے فقہی مسائل کو بھی پیش نظر رکھا جاتا تھا وہ لکھتے ہیں:

’’کالج میں سنی اور شیعوں کی تعلیم کا الگ الگ انتظام تھا یعنی صرف تعلیم میں فرق تھا باقی نصاب ایک ہی تھا۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں طلباء کی تعداد، وظائف اور فیسوں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن اس ضمن میں انہوں نے سرکاری ذریعوں پر اعتبار نہیں کیا بلکہ ذاتی طور سے ریکارڈ جمع کیا ہے۔ مولوی عبدالحق تحریر کرتے ہیں:

’’ان اعداد کے بہم پہنچانے میں بڑی دقت پیش آئی سرکاری مطبوعہ رپورٹوں میں اعداد کے متعلق بہت ہی بے احتیاطی کی گئی ہے اس لئے مختلف کاغذوں کو دیکھ کر ان کی تصحیح کی گئی۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں ’’دہلی کالج‘‘ کی ’’دہلی ورنیکولر سوسائٹی‘‘ کا تفصیلی ذکر کیا ہے یہ سوسائٹی تالیف و ترجمہ کے لئے بنائی گئی تھی اور اس نے انگریزی کتب کے تراجم میں نمایاں خدمات انجام دیں ترجمہ کے اصول اور اصطلاحات طے کی گئیں جس کے نتیجہ میں دہلی کالج میں117 کتب کی تدوین ہوئی۔

مولوی عبدالحق نے آخری حصے میں کالج کے عملہ کا بھی تعارف کرایا ہے جن میں16 انگریز اور 17دیسی اساتذہ کا ذکر کیا ہے اس طرح ’’دہلی کالج‘‘ کے 24قدیم طلباء کا بھی ذکر ہے جس میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا محمد حسین آزاد، ماسٹر تارا چند اور منشی ذکا اللہ جیسے نامور لوگ شامل ہیں

یہ کتاب انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن کے مطبع خانے سے 1933ء میں شائع کی تھی۔

مخزن شعراء

مولوی عبدالحق نے قاضی نور الدین خان رضوی فائق کا تذکرہ ’’مخزن شعرائ‘‘ مرتب کر کے نستعلیق میں سلسلہ مطبوعات انجمن ترقی اردو71کے تحت 1933ء میں شائع کیا تھا۔

یہ تذکرہ بارھویں اور تیرھویں صدی ہجری کے 111گجرات کے شعراء اردو کے حالات و نمونہ کلام پر مشتمل ہے۔

فائق اسد اللہ خان غالب کے ہم عصر تھے اور غالب سے تعلق خاص بھی رکھتے تھے۔ فائق نے اس تذکرہ پر غالب سے نظر ثانی و تصحیح کرائی تھی جس کا ذکر غالب نے اپنے مکتوب میں اس طرح کیا ہے:

’’مخدوم و مکرم حضرت قاضی نور الدین حسین خان بہادر کی خدمت میں عرض ہے کہ برخوردار مرزا شہاب الدین خاں بہادر نے یہ اجزاء مجھ کو دئیے نظم سے میں نے بالکل قطع نظر کی۔ کامل صاحب کی نثر جو آغاز میں ہے اس کو بھی نہیں دیکھا۔ صرف آپ کی نثر کو دیکھا اور اس کو موافق حکم آپ کے بعض موقع پر منشائے اصلاح بھی لکھ دی ہے مجھ کو یہ پایہ نہیں کہ آپ کی نثر میں دخل کروں بضحوائے الادب الامرفوق حکم بجا لایا ہوں مرحبا آفرین بخدا خوب نثر لکھی ہے اللہ سبحانہ آپ کو مدارج اعلیٰ تک پہنچا دے اور سلامت رکھے‘‘

مرقومہ دو شنبہ14جولائی 1863ء

خوشنودی احباب کا طالب

غالب

اس تذکرہ کی دوسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دلی کے گجراتی ہونے پر بحث کو چھیڑا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ولی کا تعلق سر زمین گجرات سے تھا۔

مصنف کا تعلق بھی سر زمین گجرات (بھروچ) کے علمی و ادبی خاندان سے تھا فائق کے والد سید احمد حسین رضوی شیرازی علمی و ادبی ذوق رکھتے اور اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب نے تحریر کیا ہے:

’’فائق کا انتقال 1286ء میں ہوا‘‘

مولوی عبدالحق نے اپنے مقدمہ میں اہل گجرات کی علمی و ادبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گجرات حکومت دہلی کا ایک ممتاز صوبہ تھا جس کے نتیجہ میں گجرات کی معاشرت اور زبان پر دہلی کے گہرے اثر اب مرتب ہوئے۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:

’’اردو کی نشوونما دکن کی طرح گجرات میں بھی پہلے سے شروع ہو گئی۔‘‘

اس ضمن میں مولوی عبدالحق نے حضرت قطب عالم (ولادت 790ھ وفات850ھ) حضرت شاہ عالم (ولادت817ھ وفات880ھ) سلطان شاہ غزنی (وفات922ھ) شاہ علی جیو گام دھنی (وفات972ھ) اور میاں محمد چشتی (وفات 1023 ھ) کی لسانی و ادبی خدمات کا ذکر کیا ہے۔

مولوی عبدالحق نے یہ تذکرہ دو نسخوں کی مدد سے مرتب کیا تھا جس میں سے ایک بمبئی یونی ورسٹی کی ملکیت تھا جب کہ دوسرا بھڑوچ سے فائق کے ایک پوتے اور ہم نام قاضی نور الدین نے انہیں عنایت کیا تھا۔

’’مخزن شعراء‘‘ کتاب کا تاریخی نام ہے مولف نے ’’مخزن شعراء‘‘ سے اس کا سن تکمیل 1268 ھ نکالا ہے فائق کے علاوہ شیخ نجم الدین مشتاق میاں سمجھو اور میر عباس علی شوق کے قطعات سے بھی 1268 ھ ہی سن تالیف قرار پاتی ہے قاضی نور الدین فائق نے تذکرہ کی اختتامی سطور میں کتاب کی تکمیل شانزد ہم ماہ شوال یوم جمعہ 1268 ھ تحریر کی ہے کتاب کے آغاز میں میر کمال الدین حسین کامل نے کتاب کی تقریظ قلم بند کی ہے جب کہ دیباچہ خود مصنف کا لکھا ہوا ہے۔

 

 

               مرہٹی زبان پر فارسی کا اثر

 

مولوی عبدالحق نے اپریل 1921ء کے سہ ماہی رسالہ ’’اردو ‘‘ اورنگ آباد میں ’’مرہٹی زبان پر فارسی ادب کا اثر‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ قلم بند کیا تھا یہی مقالہ 1933ء میں مطبوعات انجمن ترقی اردو نمبر73کے تحت شیخ ٹائپ میں مرہٹی اقتباسوں کی درستی و تصحیح کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوا۔

مولوی عبدالحق نے اس کتاب میں مرہٹی زبان پر فارسی کے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ 1318ء سے 1728ء تک مرہٹی پر فارسی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’فارسی کا اثر محض اسماء و صفات تک محدود نہیں رہا بلکہ زبان کے بنیادی عصر تک پہنچ گیا‘‘

اس کتاب کے آغاز تک مہاراشٹر میں مسلمانوں کی آمد اور اس کے تاریخی سماجی اور معاشرتی اثرات اور ہندو مسلم روابط کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا ہے:

1 سرکاری دفاتر میں فارسی رائج تھی رفتہ رفتہ مرہٹی زبان میں فارسی الفاظ گھل مل گئے اور جزو زبان بن گئے

2 سرکاری دفاتر میں آنے والے اور عدالتوں میں حاضر ہونے والے لوگوں کی زبان غیر ارادی طور پر بھی فارسی زبان کے اثرات مرتب ہوئے

3 فقیر فقراء کے ذریعہ فارسی عربی الفاظ کی دلکشی اور صداؤں کی موزونیت کی وجہ سے عام لوگوں کے خیال اور حافظے میں رہ گئے۔

4 درویشوں، صوفیوں، واعظوں کی گفتگو اور درس میں فارسی اثرات سے مرہٹی زبان متاثر ہوئی

5 جو ہندو دائرہ اسلام میں آئے ان کے مسلمانوں سے ارتباط کی وجہ سے مرہٹی زبان میں فارسی اثر آیا۔

6 سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لئے لوگوں نے فارسی زبان پڑھی

7 ہندو عورتوں نے مسلمانوں سے شادی کے باعث اپنے شوہروں کی زبان اپنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے فارسی نے مرہٹی پر اثرات ڈالے

8 مسلمانوں کی ایجادات عام ہونے سے بہت سے الفاظ بطور اصطلاحات مرہٹی میں آئے

9 فنون جنگ اور آلات حرب کے ناموں کے طفیل مرہٹی میں بہت سے الفاظ داخل ہوئے۔

ان تمام عوامل اور وجوہ کے اثرات سے فارسی کا مرہٹی پر گہرا اثر پڑا بقول مولوی عبدالحق:

’’ساڑھے تین سو سال کی یک جائی سے سینکڑوں فارسی الفاظ کا مرہٹی زبان میں آ جانا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن تعجب اس امر کا ہے کہ مرہٹی پر فارسی کا ایسا گہرا اثر چڑھا کہ یہ اثر الفاظ ہی تک محدود نہ رہا بلکہ فارسی ترکیبیں تک اس میں داخل ہو گئیں۔‘‘

مولوی عبدالحق نے اپنے لسانی جائزہ میں اس دور کی بہت سی تحریریں بطور نمونہ پیش کی ہیں اس میں مرہٹی زبان کے مشہور شعراء مثلاً دتاتیشور وغیرہ کے کلام سے اقتباسات دئیے ہیں۔

مولوی عبدالحق نے اس ضمن میں کتبے، فرمان اور عرض داشتوں کے نمونے بھی دئیے ہیں انہوں نے ان اثرات کا بھی جائزہ لیا ہے جو مرہٹی زبان کی قواعد و تراکیب الفاظ پر پڑ رہے تھے ضرب الامثال کی ایک فہرست بھی دی گئی ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرہٹی ضرب الامثال میں فارسی الفاظ بے تکلفی سے استعمال ہونے لگے تھے۔

مولوی عبدالحق نے مرہٹی کی موڑی طرز کتابت سے بحث کرتے ہوئے بتایا ہے:

’’چوں کہ فارسی کا شکستہ خط موجود تھا لہٰذا اس طرز اور نمونے پر موری کی کتابت ایجاد کر لی گئی‘‘

کتاب کے آخری حصہ میں چند مرہٹی شاعروں کا ذکر ہے اور ان کے کلام پر بحث کرتے ہوئے ان کے کلام پر فارسی کے اثرات کی نشان دہی کی ہے کتاب کے خاتمہ پر مولوی عبدالحق نے تحریر کیا ہے:

’’مرہٹی اور ہندوستانی (اردو) بہنیں بہنیں ہیں دونوں ہندی نژاد ہیں اور دونوں آریائی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں کم و بیش دونوں نے فارسی کا دودھ پیا ہے اور آج کل دونوں پہلو بہ پہلو آباد ہیں۔‘‘

یہ کتاب انجمن ترقی اردو اورنگ آباد نے انجمن کے طبع خانے سے 1933ء میں شائع کی تھی۔

 

               کہانی رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی

 

سید انشا اللہ خان انشا دہلوی معروف انشا پرداز ہیں انہوں نے جہاں ’’دریائے لطافت‘‘ جیسی خالص تحقیقی و علمی تالیفات کیں وہاں انہوں نے کہانی نویسی کے میدان میں بھی شہرت حاصل کی اس سلسلے کی ایک کڑی ’’کہانی رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی‘‘ ہے اس کہانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فارسی اور عربی کا ایک لفظ بھی استعمال نہیں کیا گیا اور نہ ہی خالص ہندی و سنسکرت کی چھاپ ہے بلکہ اردو اور ہندی ہر دو طبقہ کے لوگ اسے اپنی زبان تصور کرتے ہیں۔

اس کہانی کو مولوی عبدالحق صاحب نے اپریل 1926ء میں مرتب کر کے رسالہ ’’اردو‘‘ اورنگ آباد میں شائع کیا تھا پھر اسے کتابی شکل دی گئی مولوی عبدالحق صاحب تحریر کرتے ہیں:

’’اس داستان کا ذکر مدت سے سنتے آتے تھے لیکن ملتی کہیں نہ تھی آخر ایشیا ٹک سوسائٹی آف بنگال کی پرانی جلدوں میں اس کا پتا لگا مسٹر کلنٹ پرنسپل لا مارٹن کالج لکھنو کو اس کا ایک نسخہ دستیاب ہوا تھا جسے انہوں نے سوسائٹی کے رسالے میں طبع کرا دیا۔ سنہ 1852ء میں ایک حصہ طبع ہوا اور دوسرا حصہ 1855ء میں لیکن بہت غلط چھپی تھی مجبوراً اس کی ایک نقل میں نے رسالہ اردو جلد ششم ماہ اپریل 1926ء میں شائع کی اور جہاں تک ممکن ہوا اس کی تصحیح بھی کی۔‘‘

رسالہ ’’اردو‘‘ میں چھاپنے کے بعد مولوی عبدالحق صاحب کو اس کہانی کا ایک نسخہ ناگری حروف میں مطبع لکھنو پنڈت منوہر لال زتشی سے ملا۔ جس کی مدد سے مزید تصحیح کر کے مولوی عبدالحق صاحب نے 1933ء میں انجمن کے مطبع اورنگ آباد سے نستعلیق ٹائپ میں شائع کیا۔

1955ء میں اس کا ایک نیا ایڈیشن شائع ہوا جس کے متن کو مولانا امتیاز علی عرشی صاحب نے رضا لائبریری رام پور کے دو نسخوں کی مدد سے درست کر کے اپنے حاشیوں کے ساتھ مرتب کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (پاکستان) کراچی نے شائع کیا لیکن اس ایڈیشن پر مولانا عرشی صاحب کا نام تو ایک طرف کہیں حوالہ تک نہ آیا اور یہ ایڈیشن بھی مولوی عبدالحق صاحب کے تحریر کئے ہوئے ’’دیباچہ‘‘ کے ساتھ شائع ہوا جس سے قارئین کو یہ تاثر ملا کہ یہ ایڈیشن بھی مولوی عبدالحق صاحب کا مرتب کیا ہوا ہے جب مولوی عبدالحق صاحب کو اس بات کا احساس ہوا تو بقول شہاب الدین ثاقب صاحب:

’’بابائے اردو نے اس کی معذرت کر لی اور اس غلطی کا ازالہ ا س کے تیسرے ایڈیشن میں کر دیا جو سید قدرت نقوی کی نظر ثانی اور فرہنگ الفاظ و مقدمہ کے ساتھ انجمن ترقی اردو کراچی سے 1975ء میں شائع ہوا۔‘‘

 

٭٭٭

تشکر: القلم ریسرچ لائبریری

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید