اک نام ہتھیلی پر
طاہر عدیم
جمع و ترتیب: ارشد خالد، اعجاز عبید
اللہ سے ڈرتے ہیں
ٹوٹ بھی جائیں تو
بکھرا نہیں کرتے ہیں
٭٭٭
رونے پر ہنستا ہے
دشمن سا کوئی
اس دل میں بستا ہے
٭٭٭
اس غم نے چُور کیا
پھر بھی نہیں ٹھہرا
کتنا مجبور کیا
٭٭٭
جب یاد وہ آتے ہیں
مَ کے ہاتھوں کو
ہم کیوں پچھتاتے ہیں
٭٭٭
دنیا کی عادت ہے
رزقِ حلال کما
یہ عین عبادت ہے
٭٭٭
کچھ خاص اداؤں میں
اڑنے دو پنچھی
آزاد فضاؤں میں
٭٭٭
دولت کے ہالے میں
سایا ساتھ یہاں
چلتا ہے اجالے میں
٭٭٭
کل کوئی نہیں تھا گھر
لکھا مہندی سے
اک نام ہتھیلی پر
٭٭٭
دولت کے لٹیروں نے
دل کو راکھ کیا
اگنی کے پھیروں نے
٭٭٭
تن ہجر میں جلتا ہے
آگ بجھانے کو
دل اشک میں ڈھلتا ہے
٭٭٭
کھیتوں کھلیانوں کو
رکھنا شاد سدا
میرے دہقانوں کو
٭٭٭
گوری پُر عزم ہوئی
گھر کے آنگن میں
مہندی کی رسم ہوئی
٭٭٭
پانی ہے مری ہستی
اُبلوں جتنا بھی
پر آگ نہیں لگتی
٭٭٭
تُو بھی تہوار منا
بُندوں کے بدلے
کالی شلوار منگا
٭٭٭
مٹی مُٹھی بھر ہے
گر ہو دس مَن بھی
مُردے کو برابر ہے
٭٭٭
اک شعر سنا جاؤں
ساری محفل کو
ہمراز بنا جاؤں
٭٭٭
اپنے اُس گاؤں میں
ماں کا سایا تھا
رہتے تھے چھاؤں میں
٭٭٭
کر دن کو رات دیا
ایک ہی چال چلی
مجھ کو شہ مات کیا
٭٭٭
صورت ہی دکھا جاؤ
ہجر میں کیسے ہو
اتنا تو بتا جاؤ
٭٭٭
اک درد سا رہتا ہے
اور اس پر موسم
کچھ سرد سا رہتا ہے
٭٭٭
چاہت میں ادھوری ہے
رہنا دور اس سے
جو آنکھ بھی بھوری ہے
٭٭٭
چھب اپنی دکھاتا ہے
پیری میں بچپن
بھی لَوٹ کے آتا ہے
٭٭٭
دھُونی کو رچائے ہیں
تیری چاہت میں
جوگی بن آئے ہیں
٭٭٭
رسموں کو توڑ گئے
رشتہ دار سبھی
غُربت میں چھوڑ گئے
٭٭٭
آنکھوں کے کٹوروں پر
کچھ پَل اور ٹھہر
بارش ہے زوروں پر
٭٭٭
روتے ہو رلاتے ہو
آگ لگا کر خود
پانی برساتے ہو
٭٭٭
دن مر کر شام کیا
سالگرہ آئی
اس دن بھی کام کیا
٭٭٭
کب تک تڑپاؤ گے
خط ہی لکھو گے
یا خود بھی آؤ گے
٭٭٭
سَر موم ہے شانے پر
برف کی سیڑھی ہے
سورج ہے نشانے پر
٭٭٭
آنکھوں میں پھرتے ہیں
اشک مرے تھک کر
اندر کو گرتے ہیں
٭٭٭
ماخذ: ’عکاس‘ شمارہ ۱۰، ۱۱، مدیر: ارشد خالد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید