FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

اٹلی ہے دیکھنے کی چیز

 

حصہ دوم

(سفرنامہ)

 

 

 

سلمیٰ اعوان

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

باب9: پانیوں پر لکھے ہوئے نام والا جان کیٹس۔۔ کیٹس شیلے میوزیم

 

* کیٹس، شیلے اور بائرن کو میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ پڑھا اور ان کی محبت میں گرفتار ہوئی۔

* جوزف سیورن جیساپرستار بھی کہیں مقدر والوں کو نصیب ہوتا ہے۔

* فینی براؤن سے اُسے محبت نہیں عشق تھا۔

*  ستارے جیسا بننے کی تمنا اور لا فانی ہونے کی خواہش۔

ہ

 

یہ بتانا مشکل نہیں کہ سات سمندر پار والے اُس خوبصورت موٹی آنکھوں، کھڑی ناک اور گھنگریالے رومانوی کلاسیکل شاعر کیٹس سے میرا عشق کب شروع ہوا؟ بلکہ اس میں اگر تھوڑا سا اضافہ کروں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اِس دوڑ میں اس کے دوست شیلے اور بائرن بھی شامل تھے۔ گوکیٹس ہمیشہ میری کمزوری رہا۔ تاہم شیلے بھی کم نہیں۔ ہاں البتہ اِس رومینٹک تکون نما مثلث کا تیسرا سرا لارڈ بائرن کہیں تھوڑا سا پیچھے ہے۔

سچی بات ہے اِس تفصیل کے ساتھ میں نے کہاں پڑھنا تھا انہیں اگر میری بیٹی انگریزی ادب میں ماسٹرز نہ کرتی اور کنیئرڈ کالج میں لٹریچر کی مس کوثر شیخ اُس کی استاد اِن شاعروں کی عاشق صادق نہ ہوتی۔ اُن کے عشق میں ڈوبے اس کے طویل لکچر اور آئے دن کی آسائنمنٹوں نے بیٹی کے ساتھ ساتھ اُس کی ماں کو بھی پڑھنے ڈال دیا تھا۔

اسلامیات اور تاریخ جیسے مضامین کے ساتھ بی اے اور ایم اے کرنے والی ماں کو احساس ہو گیا تھا کہ انگریزی ادب سے شناسائی اُردو ادب میں اپنا قد کاٹھ بڑھانے کیلئے کتنی ضروری ہے؟ اسی لئیے چور نالوں پنڈ کاہلی کے مصداق بیٹی طالب علم سے زیادہ ماں اُستاد ریفرنس بُکس کیلئے بھاگی بھاگی پھرتی تھی۔

مطالعے نے اُن کی زندگیوں کے ایک ایک گوشے سے شناسائی کروا دی تھی۔ دل کی مسند پر البتہ دو نے تو قبضہ کر لیا تھا۔ ساری ہمدردیاں اور محبتیں سمیٹ لی تھیں۔ جان کیٹس اور پرسی Percy Bysshe Shelleyدونوں جوانا مرگ۔ ایک تپ دق سے اور دوسرا ڈوب کر۔

روم اور یہیں وہ سپینش سٹیپز والا گھر جہاں کیٹس نے اپنی بیماری کے دن کاٹے اور ختم ہوا۔ شیلے بھی اٹلی میں ہی ڈوب کر مرا۔ دونوں دفن بھی روم کے پروٹسنٹ قبرستان میں ہیں۔ ایک کی ہڈیاں اور دوسرے کی راکھ۔ پر کیٹس کی محرومیوں پر دل زیادہ کڑھتا تھا کہ "حسرت اُن غنچوں پر ہے جو بن کھِلے مرجھا گئے۔ "تتّے کے نصیب میں کچھ بھی نہ تھا۔ محبوبہ کا پیار بھی نہیں کہ وہ بھی کم بخت بڑی دنیا دار اور بے وفا نکلی۔

تو روم پہنچ کر دل کا وہاں جانے کیلئے مچلنا اور ہمکنا سمجھ آتا ہے کہ عاشقوں کی زیارت گاہ ہے۔

راہنمائی کیلئے راہگیر ہی دستیاب تھے۔ تندرست و توانا سے لوگ جنہوں نے سپینش سٹپز بارے یوں ہاتھ ہلا کر گلیوں گلیوں سے جانے کا بتایا کہ جیسے یہ گلی کٹی اور اُس گلی کا موڑ مڑوں گی تو محبوب کے درآستانے کا دیدار ہو جائے گا۔ ہاں البتہ ایک معقول سے بندے نے سمجھایا کہ میٹرو سے جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا۔

’’ہائے ربّا اِس میٹرو کے سیاپے نے جان نہیں چھوڑنی۔‘‘

بہرحال نیچے اُتری۔ چیختی چنگھاڑتی دنیا میں داخل ہوئی۔ زیادہ مشکل پیش نہیں آئی۔ بڑی مہربان سی عورت نے ہاتھ تھام لیا تھا۔ تیسرے اسٹیشن پر اترنے کی تاکید تھی۔ چلئیے یہ معرکہ سر ہوا۔

سپگناSpagnaمیٹرو اسٹیشن کے بل سے باہر نکلی تو خوشگوار مسرت بھری حیرت آنکھوں میں پھیل کر ہونٹوں پر بکھر گئی تھی۔ اتنا خوبصورت ماحول سامنے تھا کہ جی خوش ہو گیا۔

تھوڑا سا چلنے پر ہی میں spagnaپیازہ سکوائر میں کھڑی اپنے چاروں طرف پھیلی رنگ رنگیلی دنیا دیکھتی تھی۔ موتی اڑاتے Bernin’s فوارے کے تعمیری حُسن نے سحر زدہ کرتے ہوئے کھڑا کر دیا تھا۔

’’بھلا اس کا نام "بدصورت کشتی والا”فوارہ کیوں رکھا گیا تھا۔ یہ تو بڑی انفرادیت والا ہے۔‘‘ سوال جواب خود سے ہوئے تھے۔ شاہوں کے مزاج اگر موڈی اور متلون ہوتے ہیں تو مذہبی راہنماؤں کا حال بھی کچھ اُن سے کم نہیں ہے۔ پوپ اربن ہشتم کی خواہش پر اس کی تعمیر ہی ایسی ہوئی تھی کہ دریائے ٹبرTiber کے ایک سیلاب میں بہتی ایک بد رنگی بے ڈھبی سی کشتی یہاں آ گئی تھی اور پوپ اس سے بہت متاثر ہوا تھا۔

ذرا سی نگاہیں اوپر اٹھیں۔ کیا نظارہ تھا۔ کشادہ سیڑھیوں کا ایک پھیلاؤ اپنے نُقطہ عروج پر خم کھاتے ہوئے ایک اور دل ربا سے منظر کا راستہ کھولتا تھا۔ ایک Obelisk ٹرینٹا مونٹی چرچ کے دو باروق سٹائل ٹاوروں کے سامنے بڑی آن بان سے کھڑی منظر کو عین درمیان سے کاٹتی تھی۔

چرچ در اصل فرانس والوں کا ہے۔ اللہ کی مخلوق اپنے من موہنے رنگوں کے ساتھ سارے میں بکھری ہوئی تھی۔ کہیں فوارے کے گرد پیلیں ڈالتی، کہیں بینچوں کی لمبی قطاروں پر بیٹھی، کہیں سیڑھیوں پر ایک دوسرے کی بغلوں میں گھُسی، کہیں سیڑھیاں چڑھتی، کہیں اوپر سے نیچے اترتی، کہیں کیمروں سے کھیلتی اور کہیں بوس و کنار کے مزے لوٹتی۔ اتنے رنگوں کی افراط تھی کہ انہیں دیکھتے رہنا بھی ایک دلچسپ شغل تھا۔

یہ علاقہ تب انگلش گیتو Ghetto کہلاتا تھا کہ آرٹ سیکھنے کیلئے برطانیہ سے بہت سے آنے والے لوگ اسی علاقے میں رہتے تھے۔ روم تو یوں بھی مذہبی، تاریخی اور آرٹ کے حوالوں سے ایک خصوصی اہمیت کا حامل شہر کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ Eternal سٹی(ابدیت ) کا نام اسی لئیے تو اِسے دیا گیا ہے۔ شیلے اور بائرن بھی یہاں بہت آتے تھے۔

بہت سی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد رُک گئی ہوں۔ سستانا ضروری تھا۔ نظروں کو نظاروں کی تپش سے سیکنا اہم تھا۔ دل کو رجھانا لُبھانا بھی تو تھا۔ اور جب یہ سارے کام کر بیٹھی تو اب خود سے پوچھتی ہوں۔ مجھے جانا کہاں ہے؟ کیٹس کے میوزیم میں یا چرچ میں۔ ایک طرف خدا اور دوسری طرف اُس کا دلبر سا بندہ۔

’’ارے بھئی Trinita Monti چرچ کو کیا دیکھنا۔ اللہ کے گھر تو کم و بیش ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اُس دلبر کے پاس چلتی ہوں جس کے لفظوں سے محبت کے سامنے رومن بادشاہوں کا جاہ و جلال، اُن کی تاریخ اور ان کی عظمتوں کی داستانیں سب بے معنی ہو گئی تھیں کہ بنگالی لڑکے مستفیض الرحمن نے کلوزیم Colosseumبارے پل بھر میں گڈے باندھ دئیے تھے۔ پر میرا من چلا دل مائل ہی نہیں ہوا تھا۔

تو میں چار منزلہ عمارت جو کہیں 1725 میں بنائی گئی تھی اور اس وقت کیٹس شیلے ہاؤس کے نام سے روم کی ایک اہم قابلِ دید جگہ ہے۔ اس کی دوسری منزل پر کیٹس میوزیم جانے کیلئے اٹھ جاتی ہوں۔ سیڑھیوں پر بیٹھ کر دل کا رانجھا تو راضی کر لیا تھا۔

اس کے نام کے ساتھ شیلے کے نام والا بڑا سا بورڈ عمارت کی پیشانی پر جگمگاتا ہے۔ کلاسیکل ڈیزائن کی کھڑکیاں بند ہیں۔ عمارت کے باہر سکوائر کا سارا منظر ہی بے حد خوبصورت اور موہ لینے والا ہے۔ اندر جانے کیلئے لمبی قطار ہے جسمیں شامل ہو جاتی ہوں۔ مجھ سے آگے کھڑی لڑکی نما عورت بڑی ہنس مکھ سی ہے۔ کینیڈا سے شوہر، نند اور بچوں کے ساتھ آئی ہے۔ اور میری طرح سب سے پہلے یہیں آئی ہے۔

26کا ہندسہ پلیٹ پر چمکتا دُور سے نظر آتا ہے۔ ایک چھوٹے سے دروازے کی گزرگاہ سے اندر داخلہ ہوتا ہے۔ اس کی دل کو بھگونے والی نظم قدموں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی ہے۔ ہلکی سی نمی بھی آنکھوں میں اُتر رہی ہے۔

خوف و خدشات کے سائے جب مجھے گھیر لیں

اس سے پہلے کہ

میرا قلم میرے دماغ کی معذوری کا احاطہ کرے

اور کتابوں کے ڈھیر اور اُن کے اندر کی خوبصورتیاں

مجھے گرفت میں لے لیں

اس بھرے غلّے کی کوٹھڑی کی طرح

جو پکے اناج سے بھری ہوتی ہے

جب میں رات کے چہرے کو دیکھتا ہوں

جیسے ایک دلکش رومانس کے دبیز بادل ہوں

سوچتا ہوں کہ میں تو شاید

زندگی کے اِس رخ کو دیکھنے کے لئے زندہ ہی نہ رہوں

ان کے سائے اتفاق کے جادوئی ہاتھ کے ساتھ

جب میں محسوس کروں

صرف ایک گھنٹے کی خوبصورت تخلیق

اور میں اسے اس سے زیادہ نہ دیکھ سکوں

کبھی نہ منعکس ہونے والا پیار

تب ساحلوں پر

اس وسیع و عریض دنیا میں

میں اکیلا کھڑا ہوں اورسوچتا ہوں

محبت اور شہرت سب بیکار ہیں

پس مر جاؤ

اِدھر اُدھر جانے کی بجائے سب سے پہلے اُس کے اُس کمرے میں جانے کی خواہش مند ہوں جہاں اُسنے آخری سانسیں لیں۔ پانچ یورو کا ٹکٹ۔ Attendant لڑکیاں بڑی خوبصورت اور ہونٹوں پر شہد جیسی مسکراہٹ بکھیرے ہوئے ہیں۔

ایک قابل فہم ہیجان کی سی کیفیت طاری ہے کہ کبھی روم آنے اور اس زیارت گاہ کو دیکھنے کی خوش بختی کا تو کہیں تصور ہی نہ تھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے راہنمائی کر دی ہے۔ مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ میری دائیں بائیں کسی طرف کوئی توجہ نہیں۔ رک گئی ہوں۔ سانس کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ سامنے وہ کمرہ ہے۔ جس پر پیتل کی بڑی سی پلیٹ پر لکھا ہوا پڑھنے لگتی ہوں۔

In this room,

on the 23rd of February 1821

Died John Keats

آنسووں کو پلکوں سے نیچے نہ اُترنے میں تھوڑی سی نہیں بہت کوشش کرنی پڑی ہے کہ رُک کر گردن کو پیچھے لے گئی تھی۔

یہ کمرہ اس کے زمانے میں دو حصّوں میں منقسم تھا۔ ایک مالک مکان اینا Angelettiکے تصرف میں اور بقیہ حصّہ جس کا چہرہ میدان کی طرف تھا کیٹس اور جوزف سیورن کے پاس تھا۔

میں نے مارگریٹ(نگران) سے چند لمحوں کیلئے کمرے میں ٹھہرنے کی اجازت لی ہے۔ وہ کمرہ جہاں وہ چھبیس سالہ خوبصورت آنکھوں، چہرے اور خوبصورت دماغ والا شخص موت کے ہاتھوں کی ظالم گرفت میں جکڑتا چلا گیا تھا۔ شیشوں سے پار سکوائر میں زندگی کتنی خوش و خرم، ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے نظر آ رہی ہے۔

میری تیسری آنکھ کھل گئی تھی جس نے ماہ نومبر کے کِسی چمکتے خوشگوار سے دن کو سکوائر میں بھاگتی بگھیوں اور اُن میں جُتے گھوڑوں کے سموں کی ٹھپ ٹھپ اُسے سُناتے اور شیشوں میں سے زندگی کو آج ہی کی طرح رواں دواں دکھاتے ہوئے یقیناً اُسے اپنی صحت کے حوالے سے ایک نوید دی ہو گی۔ میٹھی سی اِس نوید نے پل بھر میں گنگناتے خوابوں کو اس کی آنکھوں میں بیدار کر دیا ہو گا۔ وہ خواب جنہیں وہ جوان ہونے کے بعد سے دیکھتا چلا آیا تھا۔

مارگریٹ نے مجھے بتایا ہے کہ منظروں کی یکسانیت میں تب اور آج کے حوالوں سے کچھ زیادہ فرق نہیں۔ میں نے دیکھا تھا۔ بگھیاں تو اس وقت بھی سکوائر میں بعینہٖ اُن دنوں کی طرح بھاگتی دوڑتی پھر رہی تھیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھنے والے سمجھدار اور ذہین لوگ اپنے تاریخی ورثوں اور اُن مخصوص روایات کو اسی ماحول سے ہم آہنگ کرتے ہوئے وقت کی چال کو اسی روپ میں نہلاتے ہوئے لوگوں کو مسرت و سرشاری سے نوازتے ہیں۔ اب میں مقابلہ "من و تو”میں کہاں کہاں کھپتی اور اپنا خون جلاتی۔

کمرہ اس وقت کتنا چمکتا دمکتا ہے۔ کھڑکی کے پردے کھینچے ہوئے ہیں۔ ڈیتھ ماسک سامنے دیوار پر آویزاں ہے۔ ساتھ ہی چھوٹا سا شوکیس سجا ہے۔ ذرا فاصلے پر ایک بڑا شوکیس اور درمیان میں آتش دان ہے۔ تب یہ کمرہ یقیناً ایسا شاندار تو نہ تھا۔ عام سی دیواروں، چھت اور کھڑکی والا تھا۔

گلاب کے پھول بکتے دیکھ کروہ بہت خوش ہوتا تھا۔ پھول تو آج بھی ہیں۔ یہ ہاتھوں میں ہاتھ دئیے جوڑے اُس وقت بھی تھے جب نومبر کی سنہری اُترتی شاموں میں وہ اپنے اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اُتر کر سیر کیلئے بورگیز باغ Borghese جاتا۔ تب نیلے آسمان پر پرندوں کی اڑانیں دیکھتے ہوئے کبھی اس کا دل غم سے بھر جاتا اور کبھی امید اُسے خواب دکھانے لگتی۔

تصور کی آنکھ کھل گئی ہے اور منظر کِسی نازنین کی نشیلی آنکھ کے خمار سے بھر گیا ہے۔ میٹھی آواز کا جادو چاروں اور پھیل گیا ہے۔ ’’A thing of Beauty‘‘ میرے لبوں پر آ گئی ہے۔ دنیا بھرمیں حسن و خوبصورتی کے حوالے سے ایک مثالی محاورہ بننے والا یہ مصرع A thing of Beauty is a joy for ever اُسی شاعر کا ہی ہے۔ جو لافانی ہونے کی تمنا رکھتا تھا۔

حُسن ہمیشہ رہنے والی ایک خوشی ہے

اس کی خوبصورتی بڑھتی رہتی ہے

یہ کبھی فنا نہیں ہوتی

ہمیشہ اپنے وجود کو قائم رکھتی ہے

جیسے یہ ہمارے لئے پھولوں کا کوئی پر سکون کنج ہو

یا نیند جو میٹھے خوابوں سے بھری ہو

جس میں تندرستی یا صحت اور خوشگوار

سانسوں کی مہک ہو

ایسے شعر کہنے والا میٹھے خوابوں کا مژدہ سنانے، صحت کا پیغام دینے اور مہکتے سانسوں کی روانی رواں رکھنے والا غموں کی بھٹی میں کیوں کر گر پڑا۔

اُسے فینی یاد آتی تھی جو لندن میں تھی۔ اس کی یاد اس کی آنکھیں بھگو دیتی۔ اُس کی محبت، منگنی اور پھر اس کی بیماری کا جان کر التفات بھرے اظہار میں اس کی بے رُخی اور بے نیازی جیسے رویّے۔

مجھے بھی فینی یاد آئی تھی۔ بہت سی یادوں نے گھیراؤ کر لیا تھا۔

فینی ہمسائی تھی اس کی۔ بیوہ ماں کی پہلوٹھی کی اولاد۔ سترہ اٹھارہ سالہ مٹیار اور تیئیس 23چوبیس24سال کے جذباتی سے جوشیلے لڑکے کا پیار ہمارے وقتوں کے گلی کوچوں جیسا۔ سانجھی دیواروں سے تاکا جھانکی، چٹوں کی پھینکا پھینکائی اور چھوٹے بہن بھائیوں یا کزنوں کے ہاتھوں چوری چھپے خطوط کا تبادلہ۔ منگنی بھی کروا لی تھی۔ پر یار دوستوں کا کہنا تھا کہ یہ خوبصورت لڑکی ناقابل اعتبار ہے۔ مگر اس کا دل تھا کہ بے طرح لٹو تھا۔ ہر دوسرے دن لمبا چوڑا خط لکھنا ضروری ہوتا۔ ہر تیسرے دن محبت کی تجدید چاہتا۔

میری پیاری فینی کیا میں امید کروں تمہارا دل کبھی نہیں بدلے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پیار کی کوئی انتہا ہی نہیں۔ دیکھو مجھے کبھی مذاق میں بھی دھمکی نہ دینا۔

ایک اور خط میں لکھتا ہے میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ آدمی مذہب کیلئے مرتے ہیں تو شہید کہلاتے ہیں۔ میں تو سچی بات ہے اِس خیال اور نظرئیے پر ہی تھرّا اٹھتا ہوں۔ میرا مذہب محبت ہے۔ میں صرف اس کے لئیے مرسکتا ہوں۔ میں تمہارے لئیے جان دے سکتا ہوں۔

ایک اور خط دیکھئیے۔ محبت اور چاہت میں بھیگا ہوا۔ دنیا میں کیا کوئی چیز اتنی خوبصورت، چمک دار اور من موہنے والی ہے جتنی تم ہو۔

Bright Starیادداشتوں سے نکل کر لبوں پر آ گئی ہے۔

 

روشن ستارے

 

روشن ستارے کاش میں آرٹ کی طرح امر ہو جاتا

میں بھی فطرت کے کسی رسیا کی طرح

جاگتے رہنے والے کسی رشی منی کی طرح

رات کے خوبصورت جلووں میں کبھی اکیلا تو نہ ہوتا

اس ابدی حسن کو آنکھیں کھول کھول کر دیکھتا

دھرتی کے انسانی ساحلوں کے گرد

رواں پانیوں سے وضو تو کسی پادری کا ہی کام ہے

کیسی خوبصورت شاہکار نظم۔ ابدی چمکنے والے ستارے جیسا بننے کی تمنا۔ لافانی ہونے کی خواہش۔ اپنی محبت اور چاہت کا دل آویز اظہار۔

اس نے اپنے جنون، اپنی وارفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی محبوبہ کے ساتھ ابدیت کی ایسی خواہش کی جسے وقت اور حالات کبھی تبدیل نہیں کرتے۔ اُس روشن ستارے کی طرح جو اپنی جگہ پر ہمیشہ ساکت رہتا ہے۔ وہ تنہائی سے خائف اس کی محبت اور رفاقت کیلئے بے قرار اور اس کے بغیر مر جانے کا خواہش مند۔ ستارے زمین اور پانیوں کے تشبیہاتی استعاروں والی یہ نظم اعلیٰ شاعرانہ ذوق کی حامل جسے پڑھتے ہوئے ہم ماں بیٹی نے لطف اٹھایا تھا۔

موت سے ایک سال قبل مئی 1820کا خط ذرا دیکھئیے۔

تم کتنی خودغرض ہو، کتنی ظالم ہو۔ مجھے خوش رہنے نہیں دیتی ہو۔ میرے لئیے تمہاری محبت کی استقامت کے سوا کسی چیز کی اہمیت نہیں۔ تمہیں فلرٹ کرنے کی عادت سی ہو گئی ہے۔ مسٹر براؤن سے بھی یہی سلسلہ ہے۔ کیا کبھی تمہارے دل نے میرے بارے میں ذرا سا بھی سوچا ہے۔ مسٹر براؤن اچھا آدمی ہے مگر وہ مجھے انچ انچ موت کی طرف لے جا رہا ہے۔

اس کے مہکتے خواب بکھر گئے۔ دہکتا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن رہا تھا۔ اس کے سانسوں کی ڈوری کتنی جلدی ٹوٹ گئی۔

بیماری تو وراثت میں ملی تھی کہ ماں اور بھائی ٹوم دونوں اسی سے مرے تھے۔

مجھے 1816میں لکھی جانے والی اس کی پہلی First looking into Chapman’s Homerاور دیگر”ode to a nightingale”اور "ode on a Grecian” دونوں یاد آئی تھیں۔

اس نے سارے سفر بڑی سرعت سے طے کئے تھے۔ صرف چھ سال کا مختصرسا وقت۔ جس میں حیران کن حد تک ہر دل عزیزی سمیٹی۔ شاعری، محبت، منگنی، بیماری اور موت۔ پہلے مجموعے Chapman’s Hamer نے لوگوں کی توجہ کھینچی۔ مگر ساتھ ہی نک چڑھے نقاد اسے تباہ کرنے پر بھی تُل گئے تھے۔ 1818 میں اس کی ambitious زیادہ بہتر رہی۔ یہاں اُسے ہنٹ، ولیم اور بینجمن ہائیڈن نے بہت سراہا۔

1819اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین زمانہ تھا۔

وہ فینی کی محبت میں گرفتار ہوا۔ Bright Star اور The Eve of St Angles جیسی شاہکار نظمیں تخلیق ہوئیں۔

میری نظریں بے اختیار اُس بیڈ پر جم گئی ہیں۔ نہیں جانتی ہوں کہ اس کی ترتیب اُس وقت بھی یہی تھی جو اب ہے کہ آخری دنوں میں وہ زیادہ تر اپنے بیڈ پر ہی رہنے لگا تھا۔ یہی کھڑکی جو اس وقت میرے سامنے ہے اس کی دلچسپی اور دنیا سے ربط کا واحد ذریعہ رہ گئی تھی۔ اسی سے وہ سسپنش سٹیپز اور برنینز Berninsکشتی کو دیکھتا۔ آسمان، موسم، لوگ، درخت اور زندگی کے کچھ رنگ اسی سے اُسے نظر آتے تھے۔

منظر کسی فلم کے سین کی طرح بدل گیا تھا۔ سکوائر میں فروری کے آخری دنوں کی صُبح کتنی دھُند اور سردی میں لپٹی ہوئی تھی۔ درختوں کی چوٹیوں پر دھرنا مارے بیٹھی برف دنوں پہلے ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرتی رہی تھی۔ سارے ماحول پر اُداسی اور تھکن کے سائے لرزاں تھے۔

کمرے میں کھڑے جوزف Severn نے اپنی تھکن کی لالی سے لبریز آنکھوں کو باہر سے اٹھا کر اندر پھینکا ہے۔ چار راتوں سے جاگتا اُس کا جسم اسوقت پھوڑے کی طرح درد کر رہا ہے۔ کمرے کی فضا میں کسی نحوست کے سائے سے بکھرے نظر آتے ہیں۔ دوسرے بیڈ پر گٹھڑی سی بنی ہڈیوں کی مٹھ میں سے ایک دل خراش سی آواز گندی مندی سی منحوس دیواروں سے ٹکراتی کمرے میں بکھرتی ہے۔

’’سیورن‘‘(Severn)

سیورن فوراً سے پیشتر اُس گٹھڑی کو کلاوے میں بھر لیتا ہے۔

’’سیورن میں مر رہا ہوں۔ میرا سر اوپر کر دو۔ ڈر کیوں رہے ہو؟ سیورن ذرا سا اور اوپر کرو نا۔‘‘

چھبیس سالہ جوزف سیورن Severn یادداشتوں میں ابھر آیا ہے۔ یہ سنہری گھنگھریالے بالوں، خوبصورت خد و خال والا دلکش نوجوان آرٹسٹ بہت دن گزرے شاعر کی محبت میں گرفتار ہوا تھا۔ اُن محفلوں میں اُس کا جانا اور شاعر کیلئے محبت کے جذبات رکھنے کی پذیرائی نہ شاعر کی طرف سے ہوئی اور نہ اس کے دوستوں نے اُسے قابل توجہ گردانا۔ مگر وہ اس کے ایک خاموش پرستار کی صورت اُن محفلوں میں جاتا رہا جہاں شاعر اپنا کلام سُناتا تھا۔

سیورن اپنے فن کے مزید نکھار کیلئے روم جانے اور آرٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا بڑا خواہشمند تھا۔ موقع ملا تو اس کی تکمیل کیلئے روم چلا آیا۔ محبت اور عقیدت رکھنے والے نے تو کبھی شاعر کی نجی زندگی میں جھانکا ہی نہ تھا کہ اُسے دُکھ کون کون سے ہیں؟

وہ حیران رہ گیا تھا جب اُسے خط ملا۔ کیٹس بیمار تھا۔ اُسے تپ دق تھی۔ ڈاکٹروں نے اُسے روم جانے اور وہاں رہنے کا مشورہ دیا تھا کہ یہاں کی آب و ہوا اُس کیلئے صحت کی پیامبر بن سکتی ہے۔ وگرنہ لندن کی سردی اُسے مار دے گی۔ اُسے شاعر کیلئے روم میں گھر لینے اور اُسے ایٹینڈ کرنے کی درخواست تھی۔

اور یہ سیورن تھا اور یہی وہ گھر تھا جہاں وہ اُسے لے کر آیا اور اُس کی نرس بنا۔

اُسے لانے اور اس کی خدمت گیری کرنے میں اس کی فیملی کے بہت سے لوگوں کی مخالفت تھی۔ سب سے بڑا مخالف تو باپ تھا جسنے بھّناتے ہوئے اُسے کہا تھا۔

’’تم پیشہ ور آدمی ہو۔ سیکھنے کیلئے روم گئے ہو۔ کیسے اُسے وقت دو گے؟ اپنا نقصان کر کے اور سب سے بڑی بات وہ بیمار ہے۔ چھوت کی یہ بیماری تمہیں لگ گئی تو کیا بنے گا؟ باز آؤ اس سے۔ مگر اُسنے نہ کچھ سُنا اور نہ کچھ سوچا۔

چار ماہ کا یہ وقت اگر کیٹس کیلئے تجربات اور دوستوں رشتوں کی پہچان کا تھا کہ کون سے ایسے کڑے وقت اس کے ساتھ کھڑے تھے اور کون سے کان منہ لپیٹ کر روپوش ہو گئے تھے۔ تو یہ بھی قابل ذکر بات تھی کہ سیورن اپنی شخصیت کی بھرپور خوبیوں کے ساتھ اُبھر کر اس کے سامنے آیا تھا۔ یہی سیورن جسے کیٹس نے کبھی اہمیت ہی نہ دی تھی۔

پہلی بار وہ اُس کے قریب ہوا۔ دل کے قریب اور جانا کہ فینی براؤن Browneسے علیحدگی کے غم نے کیسے کیٹس کو غموں کے پاتال میں پھینک دیا تھا۔

وہ کبھی کبھی اُس سے کہتا تو جب میں ٹھیک تھا، تندرست تھا وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔ اور جب میں بیمار ہوا اُس کی محبت کہاں گئی؟

کچھ باتیں پھر یادوں میں اُبھری ہیں۔ اپنے کِسی خط میں سیورنSevernجوزف نے لکھا تھا۔ ابھی ابھی وہ سویا ہے۔ میرے لئیے ہر دن اُسے نمک کی طرح گھُلتے دیکھنا کتنا تکلیف دہ ہے؟ شاید اگلے ماہ بہت بُری خبر کے ساتھ طلوع ہو۔ جب میں اُسے لے کر چلا تھا تو مجھے اس کی صحت یابی کا یقین تھا۔ مگر اب؟

ہاں پیسے بھی ختم ہو گئے ہیں۔ آخری چند کراؤن ہی رہ گئے ہیں۔ بل واپس آ گیا ہے۔ بیکر نے چیزیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔ میرے لئیے باہر نکلنا اور دو گھنٹے کیلئے پینٹنگ سے کچھ کمانا نا ممکن ہو گیا ہے کہ اُسے میری چند لمحوں کی دوری بھی برداشت نہیں۔ کِس امید کا پلّہ اُسے پکڑاؤں۔ یہ بہت اذیت میں ہے۔ اس کا خدا پر یقین اور ایمان تو پہلے ہی نہیں تھا۔ چلو عقیدے کی مضبوطی اور توانائی بھی کہیں تکلیف کی شدت میں کمی کا باعث بن جاتی ہے۔ اگر کچھ کہتا ہوں تو لعن طعن سنتا ہوں۔ اب مجھے تو سمجھ نہیں آتی ہے کہ میں کیسے اس کے زخموں پر پھاہا رکھوں۔ اور ہاں دیکھو نا زندگی کا کوئی فلسفہ، مذہب کی کوئی تھیوری کِسی نہ کِسی حوالے سے مُطمئن کرنا اور مُطمئن ہونا بھی کتنا ضروری ہے؟

آنکھیں پھر کہیں وقت کی ٹنل میں گھُس کر ایک اور منظر سامنے لے آئی ہیں۔ نڈھال سا ایک جسم۔ ایک کمزور شکستہ سی آواز کمرے کے سناٹے میں ذرا سا شور کرتی ہے۔

’’میرا دل اس وقت کیفے Greco میں کافی پینے کو چاہ رہا ہے۔ چلو وایا ڈی کون ڈوٹیVia dei condotti چلتے ہیں۔‘‘

سیورن نے جنوری کی اِس یخ بستہ شام میں اُسے دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترنے میں مدد دی۔ یہ بھی محسوس کیا کہ اُس کی صحت بہتر ہونے کی بجائے زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ پیتے ہوئے اُس نے کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

’’جانتے ہو شیلے اور بائرن جب بھی روم آئے اسی کیفے میں کافی پینے آتے ہیں۔ سیورن شیلے بھی کیا کمال کا شاعر ہے۔‘‘

اور جب وہ بائرن اور شیلے کے ساتھ اپنی محبتوں کا ذکر کرتا تھا۔ اُس نے بہت سے اور اپنے گہرے دوستوں کے نام لینے سے گریز کیا تھا۔ اب ہانٹ کی بیوی کو تپ دق ہے۔ اس کے ڈھیرسارے بچے ہیں اور اس پر قرضوں کا بوجھ ہے۔ اُس نے اپنے خوبصورت سر کو مایوسی سے ’’ہونہہ‘‘ کے سے انداز میں ہلایا تھا۔ بچنے اور جان چھڑانے کے کتنے خوبصورت بہانے ہیں۔ لیکن یہی تو وہ کڑا مقام ہے جہاں پرکھ کی کسوٹی پر رشتے اور تعلقات پہچانے جاتے ہیں۔

اٹھنے سے قبل اسنے کہا تھا۔

’’Leigh Hunt کی یاد نے مجھے مضطرب کر دیا ہے۔ مگرسیورن تمہیں تو میں جان ہی نہ سکا کہ تم کتنے عظیم ہو۔‘‘

اس کی آنکھیں احساس جذبات نے بھگو دی تھیں۔

کیفے ہاؤس کا پرانا بوڑھا اب Saxo phone بجا رہا تھا اور وہ دھیمے دھیمے When I have fears کو گنگنانے لگا تھا۔

When I have fears that I may cease to be

Before my pen has glean’d my teeming brain

اُس کی صحت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ کتنا بدمزاج اور چڑچڑا ہوتا جا رہا ہے۔ گالیاں نکالتا ہے۔ ہر بات کو شک و شبے کی نظرسے دیکھتا ہے۔

ابھی ایک نئے منظر نے دروازہ کھولا ہے کمرے میں شور ہے۔ کیٹس ہاتھوں میں پکڑے تکیے کو کبھی بیڈ کی پائنتی، کبھی اس کے سرہانے اور کبھی کمزور ٹانگوں پر مارتے ہوئے اپنے حلق اور پھیپھڑوں کی پوری طاقت سے چلاتے ہوئے کہتا ہے۔

’’تمہیں کیا تکلیف ہے آخر۔ میرے لئے عذاب بن گئے ہو۔

مرنے دو مجھے۔ لوڈونم Laudanumکی شیشی تم نے کہاں چھُپا دی ہے؟ ذلیل انسان کیوں نہیں دیتے ہو مجھے۔ کیا کرنا ہے مجھے زندہ رہ کر۔‘‘

اُس کا سانس اکھڑنے لگا ہے۔ بلغم حلق سے جیسے اُبلنے لگی ہے۔ سیورن نے فوراً بڑھ کر اُسے کلاوے میں بھر کر اس کا سرجھکاتے ہوئے کہا ہے۔

’’پھینکو اسے، نکالو اندر سے۔‘‘

اس کے بازوؤں میں نڈھال سا وہ پھر ضدی بچے کی طرح کہتا ہے۔

’’ مرنے دو مجھے۔‘‘

اور پھر وہ کسی کٹی شاخ کی طرح اس کے بازوؤں میں جھولنے لگا ہے۔ اس نے دھیرے سے اُسے لٹا دیا ہے۔ سانس کیسے چل رہا ہے۔ آنکھیں بند ہیں۔ چہرہ پسینے سے تر ہے۔ سیورن اس کے بیڈ پر بیٹھا اس کے چہرے پر نگاہیں جمائے سوچے چلے جا رہا ہے۔ سوچے چلا جا رہا ہے۔

بہت سے اور دن گزر گئے ہیں۔ ہر دن اُسے موت کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایسی ہی ایک غم زدہ اور المناک صبح میں وہ سیورن کو ہیجانی انداز میں کہتا ہے۔

’’مجھے تھام لو۔ ڈرو نہیں۔ دیکھو موت مجھے لینے کے لئے آ گئی ہے۔ میرے جسم کی پور پور میں درد ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ سانس جیسے میری پسلیوں میں ٹھہر گیا ہے۔ میرے اندر شاید اب کچھ نہیں۔ خون کا قطرہ بھی نہیں۔

شیشوں سے باہر کی دُنیا میں کتنی چہل پہل ہے؟ کتنے رنگ کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں اندر کتنا سناٹا اور کتنی خاموشی ہے؟

کچھ اور دن گزر گئے ہیں۔ موسم نے تھوڑی سی انگڑائی لی ہے۔ لنڈ منڈ درختوں پر سرسبز روئیدگی پھوٹ رہی ہے۔ سیورن بے چین اور مضطرب ہے۔ اُسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُس کا سانس کہیں اٹکا ہوا ہے۔ بس کسی لمحے کا منتظر ہے۔ اور یہ لمحہ بالاخرتئیس (23) فروری کی شب کو جب سیورن نے اُسے اپنے کلاوے میں بھر کر چھاتی سے چمٹا یا تو معلوم بھی نہ ہوا کہ کب اُس کے اندر سے کوئی چیز نکلی اور پھُر سے بند کھڑکیوں کی کسی چھوٹی سی درز سے باہر نکل گئی۔

خوبصورت کمروں کے ایک پھیلے ہوئے سلسلے میں گھُستے ہوئے بے اختیار ہی میں نے سوچا تھا تھا کہ زندگی میں جن چیزوں کیلئے بندہ سِسکتا ہوا مر جاتا ہے۔ موت بعض اوقات کتنی فیاضی سے وہ سب کچھ اُسے دان کر دیتی ہے۔ یہ سب جو یہاں بکھرا ہوا ہے اس کے لافانی ہونے کی خواہش کا عکاس ہی تو ہے۔

یہ سیورن کا کمرہ ہے۔ اُن تصویروں کے پاس کھڑی ہوں جو کیٹس کے بھائیوں کے پوٹریٹ ہیں اور جنہیں سیورن نے بنائے۔ فینی براؤن کے پوٹریٹ کو بہت دیر دیکھا ہی نہیں اُس سے باتیں بھی کیں۔

’’کبھی تم نے اپنے مقدر پر رشک کیا۔ تم عام سے گھر کی عام سی لڑکی جسے شاعر کی محبت نے کتنا خاص بنا دیا کہ انجانی سرزمینوں اور دوردیسوں کی لڑکیاں اور عورتیں شاعر کو پڑھنے والے مرد اور لڑکے تم سے محبت اور نفرت کے ساتھ ساتھ تم پر رشک بھی کرتے ہیں۔

Leigh Huntاور ولیم ورڈز ورتھ کے پوٹریٹ۔ کیٹس کا لائف ماسک اور اس کی نظموں کے پہلے ایڈیشن یہاں ہیں۔

بڑے کمرے میں کرسیاں، تصویریں، خوبصورت فرش، چھت کو چھوتی الماریاں، دنیا بھر کے رومانی لٹریچر کے خزانوں سے بھری ہوئیں۔ نادر اور نایاب چیزوں سے سجی ہوئیں۔ چھوٹا سا دروازہ ساتھ کے کمرے میں کھلتا ہے۔ شوکیسوں میں اس کے سکرپٹ، فریم کئیے ہوئے خطوط، ڈرائینگز کیٹس کی مدح میں ایک سونیٹ، اس کے سنہری بال، فینی کی انگوٹھی، آ سکروائلڈ کی تحریر، والٹ وٹمین Walt Whitman کی ذاتی لکھائی میں لکھا گیا مضمون۔ ماسک جیسے بائرن نے venetian carnival پر پہنا۔ الزبتھ Barrettکا تعریفی خط اور خوبصورت سینریاں سب ماحول کو اُس مخصوص فضا میں لے جاتے ہیں۔ مجسمے اور دیدہ زیب فرنیچر شان میں مزید اضافے کا موجب ہیں۔

اِسے میوزیم بنا دینے کی داستان بھی بڑی عجیب ہے۔

وہ کمرے جن میں کیٹس اور سیورن رہے تھے اُن میں 1903میں امریکی لکھاریوں کا ایک جوڑا ماں بیٹا جمینر وال کوٹ Walcott یہاں ٹھہرے اور انہوں نے یہاں کافی وقت گزارا۔ دونوں کو بڑا تجسّس تھا۔ کمروں کی حالت ناگفتہ بہہ تھی۔ خاتون اسے خریدنا اور ایک یادگار کے طور پر محفوظ کرنے کی حد درجہ خواہش مند تھی۔ جذبے بڑے طاقتور تھے مگر پیسہ پاس نہیں تھا۔

انہی دنوں ایک امریکی شاعر رابرٹ انڈروڈ جانسن نے اسے دیکھا اس کی ابتر حالت نے اسے بہت متاثر کیا۔ روم میں رہنے والے بہت سے امریکیوں کو اس نے آواز دی۔ ان کاوشوں نے برطانوی ڈپلومیٹ رینل روڈ(Rennell Rodd) کی توجہ کھینچی۔ اُس نے اس اجلاس کی صدارت کی۔ جس نے گھر خریدنے اور اس ادبی ورثے کو محفوظ کرنے کی حکومتی سطح پر کاوشیں کی تھیں۔

1906میں اسے ایڈورڈ ہفتم کی مالی اعانت سے خریدا گیا۔

دوسری جنگ عظیم میں بھی اسے نازیوں کے ہاتھوں محفوظ کرنے کی حد درجہ کوششیں ہوئیں۔

چھوٹے سے سینما گھر میں لوگ بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑی دیر ڈاکومنٹری دیکھی۔ گفٹ شاپ میں کتابوں کی قیمتوں کا جائزہ لیا۔ میرے حساب سے مہنگی تھیں۔ تین دن میں نے روم میں رہنا تھا۔ کتابوں کی دکانوں پر جانا بھی ضروری تھا تو جلدی کا ہے کی ہے۔ خود سے کہا گیا۔

دونوں لڑکیوں کو رخصت ہونے سے قبل خدا حافظ کہا۔ اُن کی یہ بات کتنی اچھی لگی تھی۔

یہاں آنے والے کچھ لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ وہ کہاں آئے ہیں۔ مگر کچھ لوگ جب یہاں سے رُخصت ہوتے ہیں۔ تب جانتے ہیں کہ وہ کہاں آئے تھے۔

اس کی قبر پر کیا عمدہ لکھا ہوا ہے۔ مارگریٹ نے ہی بتایا تھا۔

یہاں وہ شخص لیٹا ہوا ہے۔ جس کا نام پانیوں پر لکھا ہوا ہے۔

کاش وہ اپنی چھوٹی سی عمر میں جان سکتا کہ صدی کی اگلی نصف دہائیاں اُس کے لئے بے پناہ شہرت لے کر آنے والی ہیں۔

اور وہ وقت بھی آنے والا ہے جب وہ سب سے زیادہ پسندیدہ اور کوڈ کرنے والا شاعر بن جائے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب10: کلو زویم۔ آرچ آف کونسٹنٹائن، پیلاٹن ہل اور مسٹر اُفیذی سے ملنا

 

* روم کی بلند و بالا عمارات کی پیشانیوں پر روم کی عظمتوں کی کہانیوں کی ما تھا پٹیاں سجی ہیں۔ ایک ابدیت والا شہر۔

* مذہبی انتہا پسندی کی جنونیت اگر قبل مسیح تھیں تو بعد مسیح بھی ویسی ہی جارحانہ تھیں۔

* آج کے ماڈرن امریکہ کا تشّدد کے لئے ذوق و شوق اور محبت بھی ماضی کے رومن شاہوں جیسی ہی ہے۔

* رومی سلطنت کی عمر ایک ہزار سال۔ پانچ سو سال عروج اگلے پانچ سو سال زوال کے۔

 

صبح کا ناشتہ بڑا بھرپور تھا۔ دودھ کا جلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ بڑے ہوٹلوں کے بین الاقوامی قاعدے کُلیوں سے واقف ہونے کے باوجود وینس والا تجربہ بڑا عجیب سا تھا۔ شاید اسی لئیے شہر کے مرکز اور ایک مناسب ہوٹل ہونے کے باوجود میرے اندر گومگو والی کیفیت تیار ہونے تک رہی۔

پتہ نہیں ناشتہ ملے گا کہ نہیں۔ ہوٹل تو خاصا بڑا ہے۔ سوچتے ہوئے یونہی پوچھ بیٹھی۔

’’بریک فاسٹ۔‘‘

راہداریوں میں بھاگتے دوڑتے ویٹروں میں سے ایک نے ہاتھ کے اشارے سے ایک طرف جانے کی راہنمائی کی۔

لیجیے باچھیں کھِل گئیں۔ ناشتے کا بازار سجا پڑا تھا۔ وینس والی تلخی پر بھی پھوار سی برس گئی۔ تاہم احتیاط اور باریک بینی کا عنصر میزوں پر سجی اشیاء کے جائزے میں بڑا محتاط اور چوکس سا رہا۔ ہاں البتہ دودھ، دہی اور جوس کے معاملے میں حالات معمول کے انصاف سے بھی بڑھ کر تھے۔ بسم اللہ کے ہتھیار کو نفسیاتی حربے کے طور پر ساتھ رکھا۔ چور نظروں سے سروس کرتی عورتوں پر بھی کڑی نظریں رکھیں کہ کہیں اُن کی نظروں میں نہ آؤں کہ ایک دوسرے سے کہتی پھریں۔

’’ہیں بڑی پیٹو ہے۔ چار بندوں کا دودھ دہی ڈپ گئی ہے۔ ناں بھئی ناں۔ ابھی رہنا ہے مجھے یہاں۔‘‘

زیادہ لمبے چوڑے چکروں میں نہیں پڑی۔ سڑک پر آتے ہی سیدھی اُسی دکان پر گئی جس کے بارے کل پتہ چلا تھا کہ "ہوپ آن ہوپ آف” کا ٹکٹ اِدھر سے مل جائے گا۔ بنگالی سیلز میں نے سبز رنگ کی ایک اور بس سروس کا کہا جس کا ٹکٹ اٹھارہ یورو کا تھا۔

’’ارے نہ بھائی اسی سُرخ والی کا دو مجھے۔ دو یورو کو بچا کر کیا کرنے ہیں۔ اتنی مشکل سے تواِس پبلک بس کمپنی کے بس سٹاپوں کا مخصوص ڈیزائن کھوپڑے میں آیا ہے۔ بسوں کی پہچان ہوئی ہے۔ اب نئے سیاپوں میں پڑوں دو ٹکے بچانے کیلئے۔‘‘

تو بس کہاں سے ملے گی؟ وہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔

دو قدم پر بس سٹاپ تھا۔ صبح نو بجے بس نے یہاں سے روانہ ہونا تھا اور شام چھ بجے یہیں اُتارنا تھا۔ سڑک کی ایک کراسنگ کے بعد ریلوے اسٹیشن سے ذرا ادھر جائے مطلوبہ تھی جہاں بس کے ساتھ ساتھ لوگ بھی کھڑے تھے۔ میں نے موبائل پر ٹائم چیک کیا۔ نو بجنے میں ابھی پندرہ منٹ باقی تھے۔

پہلے میں نے سوچا اوپر کی منزل پر جاتی ہوں۔ نظاروں کی لوٹ مار میں آسانی رہے گی اور مزہ بھی آئے گا۔ پھر دھوپ کا سوچ کر ارادہ بدل دیا۔ روم اِن دنوں بہت گرم تھا۔ یوں بھی سیڑھیاں اُترنے چڑھنے سے پرہیز ہی رہے تو اچھا ہے۔

خوبصورت سیاہی مائل سڑکوں کی سورج کی روپہلی روشنی میں چمک دمک اور کناروں پر گہرے سبز درختوں کی ہریالی۔ بھئی کیا بات تھی اِس حسین امتزاج کی۔ شاندار گاڑیوں، بسوں، سیاحوں کے پُروں کا ان شاہراہوں پر چلنے کے انداز اور اُن میں چھلکتے کہیں کہیں متانت، اتراہٹ اور کہیں چُلبلے رنگ دیکھ کر مزہ آتا تھا۔ اس پر طرّہ بلند و بالا عمارات کا وسیع و عریض پھیلاؤ جن کی پیشانیوں پر روم کی عظمتوں کی کہانیوں کے سلسلوں کی ما تھا پٹیاں سجی ہیں۔

کل شام مسز سمتھ کے پاس تھی۔ خوش تھیں کہ روم جا رہی ہوں۔ A Roman Holidayاور بن حرBen-Hur جیسی شہرہ آفاق فلمیں میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام کے دوران دیکھی تھیں۔ اُس کا تاثر ابھی تک تھا۔ مسز سمتھ نے رات لفظوں سے جو تصویریں بنائیں انہوں نے ساری رات اسی فسوں میں رکھا تھا۔

کیا بات تھی اس قوم کی جس کی سلطنت کا دائرہ سکاٹ لینڈ سے لے کر مصر شام اور میسو پو ٹیمیا (موجودہ عراق) تک پھیلا ہوا تھا۔ ہوا کے جھونکوں میں عظمت رفتہ کی خوشبو تھی جو چہرے سے ٹکراتے ہی اس کی لطافت سے آشنا کرتی تھی۔

پانچ سو قبل مسیح اور پانچ سو بعد مسیح کا یہ شہر جو جمہوریت کا علمبردار تھا تو بادشاہت کو پروان چڑھانے کا سہرا بھی اسی کے سر سجا تھا۔ بربری لوگوں کا ایک چھوٹا سا قبیلہ جو تاریخ میں امر ہو گیا۔ اسی قبیلے نے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیادیں رکھیں اور پھر کیسے آہستہ آہستہ سکڑتے ہوئے ایک شہر کے حجم میں قید بھی ہوا۔ اِس عروج و زوال کی بڑی دلچسپ داستانیں اس کی پشت پر بکھری ہوئی ہیں۔

پہلے پانچ سو سالوں میں جب روم کی فوجوں نے پورے اٹلی کے جزیرہ نما اور اس سے بھی پرے کے علاقے اپنی حکمرانی میں شامل کئیے تب روم ایک جمہوریت تھی جس کے حکمران اس کے منتخب سینیٹرز ہوتے۔

اگلا پانچ سو سال کا دور اس کے دنیا میں پھیلاؤ اور زوال کا تھا۔ روم تب ایک سلطنت اور حکمران فوجی ڈکٹیٹر تھے۔

جولیس سیزر کی یاد آئی تھی۔ اقتدار اور جاہ و حشمت کا خواہش مند حکمران جس نے جمہوریت اور بادشاہت کے درمیان ایک پل کی طرح کام کیا۔ بڑی کرشماتی شخصیت کا مالک۔ اس ایک پر کیا۔ اُس وقت کے بیش تر جرنیل ایسی ہی دیومالائی اور طلسماتی شخصیتوں کے مالک تھے۔ سُلاsulla، کریسس Crassus پومپئی pompey۔

جولیس سیزر تو خیر زمانوں اور صدیوں بعد پیدا ہونے والا دیدہ ور قسم کا انسان جس کی جُملہ خوبیوں میں ایک مصر کی ملکہ قلوپطرہ کا عاشق اور دوسرے The Gallie Wars کا مصنف ہونا بھی تھا۔ تو یہی وہ تھا جس نے رومن آئین کو معطل کر کے آمر کا تمغہ سینے پر سجا لیا تھا۔ اپنے چار سالہ دور اقتدار میں یہ آمریت اِس درجہ جارحانہ ہو گئی کہ سینیٹرز اِس فکر میں مبتلا ہو گئے کہ کوئی دن جاتا ہے جب وہ بادشاہت کا تاج سر پر رکھ لے گا۔

تو یہ مارچ ہی کے دن تھے۔ خوبصورت، چمکدار اور شگوفوں کے پھوٹنے کے۔ جب اُن سب سینٹیرز نے اُسے پار لگانے کا منصوبہ بنایا۔ حملے میں وہ بھی شامل تھا، وہ یعنی جولیس کا گہرا دوست ہی نہیں اس کا پروردہ آگسٹس۔

ارے اس بارے بھی کتنی روایتیں، حکایتیں، کتنے افسانے ہیں۔ سیزرکا ناجائز بچہ بھی انہی قیافوں کی فہرست میں شامل ہے۔

پس تو انہی سینیٹرزکی باہم سازشوں نے جلد ہی تختہ دار پر لٹکا دیا۔

اقتدار پھر اس کے متبنیٰ بیٹے آگسٹس نے سنبھالا۔ جولیس تو دنیا سے چلا گیا۔ اب اللہ بھلا کرے شیکسپیئر کا کہ اُس کے جانے کو بھی امر بنا دیا۔ وگرنہ تو تاریخ جانے والوں سے بھری پڑی ہے۔ تو جو تصویر شیکسپیئر نے کھینچی ہے اُسے بھی ایک نظر دیکھ لیں۔

تو وہ تیزی سے پلٹا۔ وہ یعنی جولیس اور اس نے دیکھا۔ اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کو، اپنے بد خواہوں پر بھی نظر ڈالی مگر وہ پتھر ہو گیا تھا۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ جانے کیسے اس کی زبان سے نکلا۔

’’بروٹس تم بھی۔‘‘

اب یہ بھی اللہ جانے یا شیکسپیئر جانے کہ ایسا کچھ کہا بھی گیا تھا یا سارا شاخسانہ اس کے قلم کا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہوا کہ اس کے نام کا دوسرا حصّہ نام نہ رہا رومن سلطنت کا ٹائیٹل بن گیا۔

یہ آگسٹس کا زمانہ تھا جب روم اپنی بلندیوں کو چھُو رہا تھا۔ سکاٹ لینڈ سے مصر اور تُرکی سے مراکش تک۔

اور کلوزویم Colosseum آ گیا تھا۔

گاڑی نے سڑک کے کنارے اُتار دیا۔ دھوپ تیز اور بے حد چمک دار تھی۔ بجری بچھے راستے پر فوراً سپرس کے درخت کے نیچے رُک کر مسرت و تشکر سے لبریز نگاہوں سے گرد و پیش کو دیکھا۔ ذرا دور اُترائی میں پُر ہیبت گول محرابی سلسلے والی 2000سالہ پرانی عمارت جو رومن انجینئیرنگ کی کلاسیکل مثال ہے وقت اور موسموں کے ہاتھوں بظاہر شکست خوردہ مگر انتہائی قابل توجہ تمکنت سے کھڑی تھی۔

تھوڑا سا آگے چلنے پر دو رویہ سپرس کے درختوں سے سجی سڑک پر آ گئی۔ دائیں بائیں لوگوں کے پُرے چلتے تھے۔ اردگرد کے بکھرے منظروں سے لُطف اٹھاتے کونسٹنٹائن محراب کے پاس رکنا پڑا۔

رنگا رنگ لوگ اور رنگا رنگ زبانیں محراب کے گردا گرد وسیع پختہ میدان میں بکھری ہوئی تھیں۔ یہ بھی کیا شاہکار چیز ہے۔ چہار جانب آرٹ کے نمونوں کی کندہ کاری سے گتھی اور ہر نمونے میں تاریخ کی یاد اپنے چہرے پر سجائے۔ سہولت کیلئے لمبے چوڑے تذکرے کی بجائے مختصراً اتنا ہی کافی ہے کہ یہ اُس اہم واقعے کی نمائندہ ہے جس نے عیسائیت کی تاریخ کو نیا موڑ دیا۔

شہنشاہ کونسٹنٹنConstantineنے جب اپنے حریف میکسنٹسMaxentiusکو ملوئین برجMilvian Bridge کی لڑائی میں شکست دی۔ اُس رات اُس نے آسمان پر کراس دیکھا تھا۔ وہ تو عیسائیت کا جانی دشمن تھا۔ گو ماں اور بہن عیسائی تھیں۔ بس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ یہودیت کو کہیں دفع دور کرتے ہوئے عیسائیت کی گود میں یوں گرا کہ ساری مغربی دنیا کو اِس رنگ میں رنگ دیا۔

کیا مزے کی بات کہ 300بعد مسیح میں آپ عیسائی ہونے کے جرم میں قابل قتل تھے۔ کجا کہ آپ قتل ہو سکتے ہیں اگر آپ عیسائی نہیں۔ واہ مذہبی جنونیت کی انتہا ہیں۔

رومن آرٹ نے اپنی انتہاؤں پر پہنچ کر ماضی کے بادشاہوں کو پر شکوہ بنا دیا تھا۔ ٹاپ پر ٹراجن اور آگسٹس کے مجسمے تھے۔ ٹراجن بھی رومن تاریخ کا بڑا لائق فائق شہنشاہ تھا۔ Hadrian اور مارکس کے زمانوں تک عروج کی دیوی مہربان رہی۔ یہ سب دو صدیوں کا معاملہ تھا۔ اگلی تین صدیاں زوال کی نذر ہوئیں۔ جسامت میں سکڑا۔ سائز میں کم ہوا۔ کرپشن کی بیماری، بے حدوحساب فوج اور حکومتی شاہ خرچیاں۔

وہ شہرہ آفاق بیماریاں کل بھی تھیں، آج بھی ہیں اور آنے والے کل میں بھی رہیں گی۔ ماضی میں سلطنتوں کے ڈنڈے ڈولیاں گرانے کا باعث، عصر حاضر میں تاج شاہی گرانے کا باعث، اور آنے والے وقتوں میں بھی انھی کی پردھانی چلے گی۔

یہ شہنشاہDiocletian تھا جس نے سلطنت کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کر دیا۔ کونسٹیٹن Constantine نے اپنا پایہ تخت قسطنطنیہ کو بنایا(یعنی موجودہ استنبول)۔

تقریباً پندرہ لوگوں پر مشتمل اُدھیڑ عمر لوگوں کا ایک ٹولا گائیڈ کے ہمراہ قریب آ کر رُک گیا۔ صورتوں سے یورپی لگتے تھے۔ گائیڈ کی آواز اتنی اونچی اور انگریزی کا لب و لہجہ اتنا صاف اور واضح تھا کہ میری پوری توجہ اُس نے کھینچ لی تھی۔

یاد رکھیں رومی سلطنت ایک ہزار سال قائم رہی۔ پانچ سو سال اس کی بڑھوتری اور پھیلاؤ کے، اگلے دو سو سال اس کے انتہائے کمال پر پہنچنے کے اور آخری تین سو سال اس کے زوال کے۔

گروپ میں سے دو تین لوگ کھلکھلا کر ہنس پڑے۔

’’ لیجیے دو فقروں میں عظیم سلطنت کی قصہ کہانی کنارے بھی لگ گئی۔‘‘

گائیڈ نے بھی خوش دلی سے اپنے پیلے دانتوں کی نمائش کی۔

یہ قصہ کہانی بھی لُطف دینے والی ہے۔ کہ ہر ایک نے الزام دوسرے پر دھرا۔ عیسائیوں کے ایک طبقے کا کہنا تھا کہ تباہ تو انہیں (یعنی باقی مذاہب کو) ہونا ہی ہونا تھا۔ کوئی اخلاقیات رہیں ان کمبختوں کے پاس۔

اب یہ بت پرست بھی ڈھاڈے نکلے۔ انہوں نے الٹا الزام عیسائیوں پر دھرا۔

ریاست کے سوشلسٹ کون سا کم تھے۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ جب مار دھاڑ اور جنگ و جدل کی لتیں پڑ جائیں تو لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال کہاں رہتا ہے؟ لوگوں کے معاشی حالات خراب ہیں تو حکمرانوں کو کیا؟ بس علاقے پر علاقہ فتح کرتے جاؤ۔

رہ گئے جمہوریت پسند انہوں نے آمروں پر اور آمروں نے جمہوریت والوں کو رگیدا۔

یوں وقت کی عظیم سلطنت اپنا وجود قائم ہی نہ رکھ سکی۔ جرمنی اور ایشیا کے جنگجو لوگوں نے جزیرہ نما اٹلی کو نہ صرف تاراج کیا بلکہ اس روم کو بھی لوٹ کر لے گئے۔ کہ جب آخری شہنشاہ باہر نکلا تو بتیاں بجھ گئیں اور دھیرے دھیرے پورا یورپ جہالت اور غربت کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔

گائیڈ بھی ایک نمبر ڈرامے باز دکھتا تھا۔ آواز ’’اندھیروں میں ڈوب گئی‘‘کے ساتھ پہلے مدھم سی اور پھر جوشیلے سے انداز میں اُبھری۔

پر روم زندہ رہا کیتھولک چرچ کی گود میں۔ روم کی آخری نسلوں کا ریاستی مذہب عیسائیت ہی تھا۔ اب نیا ڈرامہ شروع ہو گیا کہ پہلے تو شہنشاہوں نے پوپ کا تاج سروں پر سجالیا۔ دونوں نے خود کو پاپائے روم Pontifex اور Maximus کہلوانا شروع کر دیا۔

دوسرا نمبر سینیٹرز کا تھا خیر سے وہ بشپ زBishops کا روپ دھار بیٹھے۔ تقریروں کے ماہر اور خطیب لوگ پادری بن گئے اور Basilicas کو گرجا گھروں میں منتقل کر دیا گیا اور دیکھ لیں روم کی شاہانہ عظمتوں نے اسے ابدیت والا شہر بنا دیا۔

مجمع میں سے کِسی نے سوال کیا۔

’’یہ بتائیے کہ پوپ کیا کیتھولک تھا؟‘‘

ہنسی کا ایک ریلا سارے میں بہہ گیا۔ ایک دو اور ایسے ہی اونگے بونگے سوال ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا جنرل نالج میں یورپی بڑے ہی غریب ہیں۔ سچ تو یہ تھا کہ گائیڈ کا کیا انداز تھا کِس دلچسپ انداز میں اُس نے عروج و زوال کے المیوں کو نئے حالات سے آہنگ کیا۔ مزہ آ گیا تھا سارے قصے کو سُن کر۔

آرچ سے کلوزویم جانے والا ایک راستہ گول پتھروں والا تھا۔ ذرا دھیان سے چلنا پڑتا تھا۔ میں کچھ دیر بعد جب میدان میں پہنچی تو وہی گائیڈ اپنے گروپ کے ساتھ کھڑا نظر آیا۔

میں نے سوچا کہ بہتی گنگا میں نہانا نہیں تو منہ دھونے میں کیا حرج ہے؟ ابھی ابھی ہاتھ تو میں نے دھوئے تھے اور مزہ بڑا آیا تھا۔

وہ ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا تھا۔ میں قریب چلی گئی تھی اور دیکھتی تھی کہ اشارہ سپرس درختوں کی جانب تھا۔

تو یہاں کبھی کانسی کا سوفٹ لمبا نیرو کا مجسمہ تھا جو اب نہیں تھا۔

روم کی تاریخ کا ایک بدنما باب۔ ماں کو قتل کرنے، حاملہ بیوی کو ٹھڈے لگا کر موت کے منہ میں دھکیلنے، ہزاروں بے گناہ عیسائیوں کو قتل کرنے جن میں سینٹ پیٹر جیسی مقدس ہستی شامل تھی۔

تو خواتین و حضرات اس کی زندگی کے اُس شہرہ آفاق ایپی سوڈepisode کی بھی چند جھلکیاں دیکھ لیں۔

تو یہ نیرو کلاڈیس سیزر محل کی چھت پر بیٹھا تقریباً دو فٹ لمبی بانسری ہونٹوں سے لگائے آنکھوں سے سازندوں کو موسیقی کا کوئی سُر شروع کرنے کا حکم دیتا نیچے روم کی کچی آبادیوں کو دیکھتا تھا جہاں آگ کے شعلے لمبی لمبی زبانیں نکالے غریبوں کے گھر اور اُن کے بچے نگل رہے تھے۔ نیچے محل کے سامنے لوگوں کے ہجوم تھے۔ چیختے چلاتے لوگ۔ آگ پھیلتی جا رہی تھی۔ پورا روم لپیٹ میں آ چکا تھا۔ عورتیں، بوڑھے، بچے جل مرے تھے۔ پورا روم راکھ کا ڈھیر بنا پڑا تھا۔

پھر اِس ڈھیر پر خواہشوں کے لا متناہی سلسلوں کا پھیلاؤ ہوا۔ نیا شہر عالیشان محل۔ مگر عظیم الشان محل باڑیوں کے لئے پیسہ کم پڑ گیا۔ خزانہ خالی ہو گیا۔ ہنگامے اور احتجاج کرنے والوں نے محل کا گھیراؤ کر لیا۔ جان بچانے کے لئے بھاگا تو کہیں جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ایک غلام کے کچے گھر میں داخل ہوا۔ یہاں سلین تھی۔ بدبو تھی۔ روشنی نہیں تھی۔ کتنے ہی دن وہاں ٹھہرا۔ بپھرے ہوئے لوگوں کا تعاقب جاری تھا۔ پھر معلوم ہو گیا۔ تو خودکشی ہی زیادہ بہتر نظر آئی کہ مشتعل ہجوم نے تکّہ بوٹی کر دینی تھی۔

’’تو اے بندے تو کب جانے گا کہ ٹھکانہ تو دو گز زمین ہی ہے۔‘‘

میں خود سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

بڑی لمبی قطار تھی جو ٹکٹ کیلئے لگی کھڑی تھی۔ اسی میں لگنا پڑا تھا۔ مجھے دوسرے راستوں کا پتہ چل گیا تھا مگر ان کے پروگرام بڑے تیز رفتار اور بھاگ دوڑ والے تھے۔ اس میں رومن فورم اور Capital Hill اور کچھ مزید جگہیں شامل تھیں۔

کلوزویم بھی اپنے اندر ایک پورا جہاں سمیٹے ہوئے تھا۔ بہرحال ٹکٹوں کا نظام تیز تھا۔ سکیورٹی چیکنگ کے مرحلے بہت منظم تھے۔ ٹکٹ کو ٹرن سٹل سے مس کرنے اور میٹل ڈیٹکڑوں کی سارے جسم پر پھیرا پھرائی سے فراغت پاتے ہی آگے دھکیل دی گئی۔

کلوزویم میں داخل ہونا گویا صدیوں کی تاریخی کتاب کو کھولنا تھا۔ اندر داخل ہونے سے قبل ہی اِس چار منزلہ عمارت نے عجیب سا سحر پھونک دیا تھا۔

کہیں دو ہزار سال سے بھی زائد کی یہ قدیم ترین تعمیر در اصل رومن انجینئرنگ کا بھی ایک شاہکار ہے۔ یہ رومن بھی کس پایے کے لوگ تھے۔ یہی تھے کنکریٹ اور گول محرابوں کے بانی۔

’’اُف‘ ‘ یوں محسوس ہوتا تھاجیسے میں صدیوں قبل کے وقت کی کسی ٹنل میں داخل ہو ئی ہوں۔

اس کی راہداریوں میں چلنا اور اپنے اردگرد بلند و بالا دیواروں کا گھیراؤ، اس کے چھتے ہوئے طویل محرابی صورت گلیارے خنکی اور ہیبت سے لبریز ہر قدم پر روکتے اور کچھ سناتے ہیں۔

کتابوں کا ایک بک سٹور اندر کھینچ کر لے گیا تھا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھی ان کی پھولا پھرولی کی۔ ہر منزل کیلئے راستے کھلتے تھے۔ تاہم لفٹ بھی تھی اور بیٹھنے کیلئے لمبے لمبے خوبصورت سنگی بینچ بھی تھے۔ کچھ چلنے کے بعد سستاتی۔ نظارے دیکھتی۔ تاریخ میں تاکا جھانکی کرتی اور کھڑی ہو جاتی۔ تیسری منزل پر کھڑے مجھے محسوس ہوا تھا۔ جیسے میں موت کے کنوئیں میں کھڑی ہوں۔ چاروں طرف پر ہیبت عمارتوں نے گھیراؤ کر رکھا ہے۔

تو تعمیر تب ہوئی جب رومن سلطنت عین اپنے عروج پر تھی۔ یہ اُس سلطنت کے جاہ و جلال اور شکوہ کا آئینہ دار ہے۔ اس کا اصلی نام فلیویئنFlavian ایمفی تھیٹر تھا۔ اس تماشا گاہ میں گلیڈی ایٹرGladiator مقابلے کی آڑ میں ہزاروں تماشائیوں کے سامنے موت کا وہ کھیل کھیلتا تھا جو ظالمانہ حد تک بے رحم تھا۔

رومن بادشاہوں نے اپنی سفاک فطرت کی تسکین کیلئے جب موت کے اِس کھیل سے لُطف اندوز ہونا اور لوگوں کو بھی محظوظ کروانا شروع کیا تو پھر اُن کی خواہش تھی کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اِسے دیکھیں اور گلیڈی ایٹروں، جنگی مجرموں اور جنگلی جانوروں کے اِس وحشیانہ کھیل کو موت تک ہر انداز اور ہر زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہوئے خوش ہوں۔ انسان جس کے پاس طاقت اور اقتدار ہے کتنا سفاک ہے؟

صدیوں پہلے بھی ایسی ہی فطرت کا اظہار کرتا تھا اور صدیوں بعد آج بھی وہی سب کچھ ہے۔ بس ذرا انداز بدل گئے ہیں۔ بنانے والا شہنشاہ Vespasian Flavianتھا۔ فلیوئین اُن کا خاندانی نام تھا۔

سال 721 ADتھا۔

یہ کیسی مزے کی بات تھی کہ جب میں بینچ پر بیٹھی ذرا سستاتی اور گرد و پیش کو دیکھتی تھی مجھے لوگوں کے جتّھے گائیڈوں کے ہمراہ بھیڑ بکریوں کے اُن ریوڑوں کی طرح دکھتے تھے جو گلّہ بان کے اشاروں کے ساتھ ساتھ اس کی رہبری میں حرکت کرتے ہیں۔ ایک گروپ میرے بالکل پاس آ کھڑا ہوا تھا۔ گائیڈ اُس ظالمانہ کھیل کی منظر کشی کر رہا تھا۔

عین اُس وقت مجمع میں سے ایک نوجوان لڑکی کی آواز بلند ہوئی تھی۔

’’آج کے ماڈرن امریکہ کا تشّدد کیلئے ذوق و شوق اور محبت بھی ماضی کے رومن شاہوں جیسی ہی ہے۔‘‘

زور دار قہقہے بلند و بالا دیواروں کے دائروں میں گونجنے لگے۔ مزہ آیا تھا یہ بات سُن کر۔ کتنی سچی اور کھری بات۔ لڑکی جس نے ہنستے ہوئے یہ کہا تھا میرے سامنے ہی تھی۔ یہی کوئی تیس، چوبیس سال کی تھی۔ منہ چوم لینے کو جی چاہتا تھا۔

خدا کا شکر تھا کہ لفٹ کے پاس ہی باہر جانے والے راستے پر واش روم تھا۔ اچھا بڑا اور خاصا صاف ستھرا۔ اب ایک جگہ بیٹھ کر میں نے بیگ سے سیب اور کیلے نکالے۔ دودھ کی بوتل ساری خالی کی اور ڈسٹ بن میں پھینکی کہ چلو بوجھ تو کم ہو۔

دو تین ٹولوں کو اپنے سامنے کی سمت جاتے دیکھ کر کِسی سے پوچھا۔

’’اسطرف کیا ہے؟‘‘

نیرو کا گولڈن ہاؤس۔ اور میمر ٹائن بندی خانہ Mamertine Prison۔ رُک کر میں نے سوچا میں جاؤں اسطرف۔ تاریخی جگہوں کی کشش دامنِ دل کو کھینچتی تھی اور بدنی ہمت مایوس کرتی اور کہتی تھی کہ روم کی جس اینٹ کو اٹھاؤ گی نیچے سے تاریخ کا پٹارا نکلے گا۔ احتیاط پسندی کا کہنا تھا کہ سکون سے چلو۔ آرام آرام سے جو اور جتنا دیکھ سکتی ہو دیکھو۔ کھپنے والی عمر نہیں تمہاری۔

کچھ دیر بعد اُٹھی اور نیرو کے گولڈن ہاؤس کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ اب چپ چاپ چلی جا رہی ہوں۔ یہ کلوزویم کے بالمقابل ہے۔ نرے کھنڈرات تھے۔ کبھی کی شاہانہ عظمتیں خاک کا ڈھیر ہوئی پڑی تھیں۔ گو ورلڈ ہیریٹیج نے بہت بار مرمتوں سے اِس مردے کو کھڑا کرنے کی کوششیں کیں۔ مگر مردے کو مکھن کی کتنی چپڑ چپرائی ہو سکتی ہے۔ ہر پانچ دس سال بعد اِسے دوا دارو کی ضرورت پڑتی ہے۔

وسیع و عریض محلات کی یہ صورت جائے عبرت۔ ایک کمرے کے عین وسط میں کھڑا اس کا مجسمہ۔ کہیں محرابی صورت کمروں کا سیمی سرکل میں پھیلاؤ۔

یہ نیرو بھی روم کی تاریخ کا کتنا بد نما باب تھا۔ ماں کو قتل کرنے، حاملہ بیوی کو ٹھڈے مار مار کر موت کے منہ میں دھکیلنے، ہزاروں معصوم اور بے گناہ عیسائیوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے جن میں سینٹ پیٹر جیسی مقدس ہستی بھی شامل تھی۔

اس کی زندگی کا وہ شہرہ آفاق ایپی سوڈ بھی کتنا زبان زد عام ہے۔ ایک جگہ بیٹھی تو جیسے فلم کی طرح منظر سامنے آتے گئے۔

تو یہ نیرو کلاڈلیس سیزر محل کی چھت پر بیٹھا تقریباً دو فٹ لمبی بانسری ہونٹوں سے لگائے آنکھوں سے سازندوں کو موسیقی کا کوئی سُرشروع کرنے کا حکم دیتا، نیچے روم کی کچی آبادیوں کو دیکھتا اور محظوظ ہوتا تھا۔ آگے کے شعلے لمبی لمبی زبانیں نکالے غریبوں کے گھروں اور اُن کے بچے نگل رہے تھے۔ نیچے محل کے سامنے لوگوں کا ہجوم تھا۔ چیختے چلّاتے لوگ۔ آگ پھیلتی جا رہی تھی۔ روم لپیٹ میں آ چکا تھا۔ عورتیں، بوڑھے، بچے جل مرے تھے اور پھر یہاں وہاں ہر جانب خوبصورت شہر راکھ کا ڈھیر بنا تھا۔

پھر اس ڈھیر پر خواہشوں کے لامتناہی سلسلوں کا پھیلا ؤ ہوا۔ نیا شہر اور عالیشان محل۔

مگر عظیم الشان محل باڑیوں کے لئے پیسہ کم پڑ گیا۔ خزانہ خالی ہو گیا۔ لوگ بھوک اور بے روزگاری کے ہاتھوں مرنے لگے۔ تب ہنگامے جاگ اٹھے اور احتجاج کرنے والوں نے محل کا گھیراؤ کر لیا۔ سینیٹرز کا بھی ضمیر جاگا۔ انہوں نے بھی دہائی دی کہ وہ عوام کا دشمن ہے۔ جان بچانے کے لئے بھاگا تو کہیں جگہ نہیں مل رہی تھی۔ ایک غلام کے کچے گھر میں داخل ہوا۔ یہاں سلین تھی، بدبو تھی۔ روشنی نہیں تھی۔ کتنے ہی دن وہاں ٹھہرا۔ بپھرے ہوئے لوگوں کا تعاقب جاری تھا۔ کھوج کر لیا گیا۔ خودکشی ہی زیادہ بہتر نظر آئی کہ مشتعل ہجوم نے تکہ بوٹی کر دینی تھی۔ اُسی غلام کے چھرے سے اپنی گردن کاٹ لی۔

ہاں ایک روایت سزائے موت دئیے جانے سے بھی ہے اور یہ بھی کہ مرتے ہوئے اس نے مجمع کو دیکھتے ہوئے حسرت زدہ انداز میں کہا تھا۔

’’میں ایک انمول ہیرا۔ میں ایک عہد ساز فنکار۔ افسوس بے قدری دنیا نے میری قدر نہ کی۔‘‘

واہ رے انسان تیری خوش فہمیاں

بس حقیقت یہی ہے کہ ٹھکانہ تو بس دو گز زمین ہی ہے

میں خود سے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔

اپنے سامنے پہاڑی پر میں مٹیالے رنگوں کے ایک طویل سلسلے کو دیکھتی تھی یہ Palatine Hillتھیں۔ جہاں بیٹھی تھی وہاں میری عمر کے تین لوگ اور بیٹھے تھے۔ دو مرد اور ایک عورت یقیناً وہ بھی سستا رہے تھے۔ لاس ویگاس سے تھے۔ گھُلنے ملنے والے، بغیر وجہ کے بھی مسکراہٹیں بکھیرنے والے۔ مسٹر اُفیذی، مسز لدرا اُفیذی اور اُن کی دوست۔

یہ لوگ ابھی رومن فورم اور پیلاٹن ہل دیکھ کر آ رہے تھے۔ مرد نے بتایا کہ دونوں جگہوں کا دیکھنے سے تعلق ہے مگر پھیلاؤ اور پستہ قامت پہاڑی سلسلے تھکانے والے ہیں۔

تھوڑی سی بات چیت سے جانی تھی کہ رومن فورم ہی وہ جگہ ہے جہاں قدیم شہر کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہیں وہ سات پہاڑیاں ہیں جن پر آغاز میں شہر بسا۔ قدیم شہر میں ہونے والے ہر اہم اور غیر اہم واقعے کا تعلق اسی مقام سے ہے۔ مختصراً مغربی تہذیب یہیں پروان چڑھی۔

’’ہائے میں نے حسرت سے اوپر دیکھا تو مجھے کب یہاں لایا جب دانے ہی بک گئے۔‘‘

کچھ ایسا ہی تاریخی ورثہ پیلاٹن ہل پر بکھرا ہوا ہے۔ Remusاور Romulusکے گھر لیویا اور آگسٹس کا عظیم الشان محل، فلاں فلاں کے محل۔ محلات کی لام ڈوریاں اور عجائب گھر جس میں دھرے مجسمے اور چیزیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ اُن کی زندگیاں کیسی شاہانہ تھیں۔

مختصر سی تفصیل مضطرب کرنے کیلئے کافی تھی۔ جوش اضطراب میں کھڑی بھی ہو گئی کہ پیاسا کنویں کے کنارے پر پہنچا ہوا تھا۔ مگر ہمت اور طاقت کا بوکا پاس نہیں تھا۔ اب کنویں میں چھلانگ لگانے والی بات ہی تھی نا۔

بوتل منہ سے لگائی کہ اندر کی بے چینی پر چھینٹے پڑ جائیں۔ ذرا سے سکون میں آنے پر خود سے کہا۔

’’سیدھا راستہ ناپ اور منہ زور جذبوں کو نکیل ڈال۔ کوئی گٹا گوڈا اُتر گیا تو بیٹھی رہنا۔ تھوڑے سے بھی جائے گی۔‘‘

کہیں اضطراب میں یہ اظہار مسٹر اُفیذی uffizi سے بھی ہو گیا۔ اچھا ہی ہوا ہو گیا۔ چیزوں کا روشن پہلو دیکھنے والا، مسٹرچیئر فل کی طرح مسٹر اُفیذی جس نے بڑی ہی دانائی کی بات کی۔

’’آپ خدا کا شکر ادا نہیں کرتی ہیں کہ دور دیس سے تعلق کے باوجود آپ روم میں بیٹھی ہیں۔ اٹلی کے ہی کتنے لوگ ہوں گے جو کبھی روم نہیں آئے۔ اور اگر ویٹی کن کی زیارت کیلئے آئے بھی ہوں گے تو بس وہیں سے واپس ہو گئے ہوں گے۔ جو نعمت میسر آتی ہے اور جس وقت آتی ہے اُس کا شکریہ ادا کریں۔ آپ نے کلوزیم دیکھا۔ بہت اچھا۔ پیلاٹن ہل نہیں دیکھی۔ کوئی بات نہیں۔ ہم نے بھی سینٹ پیٹرز کا قید خانہ اور نیرو کا گولڈن ہاؤس نہیں دیکھے۔ انسان سب کچھ نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

میرے دل میں ٹھنڈک اُتری۔ میں نے ان کا نام، ای میل ایڈریس کا پی پر لکھا۔ وہ لوگ ویٹی کن سٹی دیکھ کر آ رہے تھے۔ لگے ہاتھوں میں نے یہ بھی پوچھ لیا کہ وہاں کیا کیا دیکھوں؟ رات کتابوں کی پھولا پھرولی نے بہت کچھ بتا دیا تھا۔ اتنا بہت کچھ تو دیکھنا ممکن ہی نہیں تھا۔

’’بس ویٹی کن میوزیم کافی ہے۔ سسِٹن Sistine Chapel کو ذرا اچھی طرح دیکھیں۔

ڈھیر سارا شکریہ ادا کیا۔ خدا حافظ کہا۔

واپسی کا راستہ دھوپ میں اٹا پڑا تھا۔ ’’ہائے اندر سے آہ نکلی تھی۔

سٹاپ پر کراچی کے ایک جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ میں تو درخت کے نیچے بیٹھ گئی تھی۔ لڑکی پاس آ کر کھڑی ہوئی تو پاکستانیت نے فوراً توجہ کھینچ لی تھی۔ بڑی بیبی سی بچی ہنی مون کیلئے آئی ہوئی تھی۔ لڑکا بھی خوش شکل اور خوش اطوار دکھتا تھا۔ ابھی باتوں کی محفل نے رنگ نہیں پکڑا تھا کہ میری بس آ گئی۔ ’’میری بس‘‘کہتے ہوئے میں تو یوں اس کی طرف بھاگی کہ جوڑے کو خدا حافظ کہنا بھی یاد نہ رہا۔

ویٹی کن کا بھی بڑا اشتیاق تھا۔ مگر میری ایک عجیب سی عادت ہے کہ میں ہر شہر کو آخری تحفے کی صورت میں وصول کرتی ہوں۔ ویٹی کن کا انوکھا تحفہ اسے ابھی مجھے سنبھال کر رکھنا اور آخر میں مزے لے لے کر دیکھنا تھا۔

بس میں بیٹھی اور ساتھ ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ مجھے اب دو گھنٹوں کے لئے کہیں نہیں اُترنا۔ بس میں بیٹھے بیٹھے نظاروں کی رِم جھم برسات میں نہانا ہے۔ منظروں سے آنکھیں لڑاتے ہوئے انہیں اپنے قلب و نظر میں اُتارنا ہے۔

اسی طرح ایک تو ٹانگوں کو آرام مل جائے گا۔ گو اس وقت میں خود کو خاصی توانا، تازہ دم اور ہشاش بشاش محسوس کر رہی تھی۔ کھانے پینے اور تھوڑے سے آرام نے تازگی دی تھے۔ پانی کی دو اور دودھ کی ایک بوتل خرید کر بیگ میں گھسیڑی تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب 11: تریوی فاؤنٹین

 

* تریوی فاؤنٹین کے پانیوں کی پھوٹنے اور گرنے کی گنگناتی آوازیں آپ کو چونکاتی اور کِسی خوبصورت منظر کا دروازہ کھولنے کا اذن دیتی ہیں۔

* دائیں ہاتھ اور بائیں کندھے سے ہوتا ہوا سکہ پانیوں میں گرا اور میرے اندر نے کہا۔ پروردگار میں روم دوبارہ آنا چاہتی ہوں۔

 

 

میرے خیال میں کسی بھی شہر سے تعارف لوکل بسوں، میٹرو یا پھر وہاں کی پبلک موڈ آف ٹرانسپورٹ میں ٹیکسی کا بھی اضافہ کر لیں، بہترین ذرائع ہیں۔ یہ بس مقامی تو تھی مگر سیاحوں کے لئے وقف تھی۔ تاہم شہر سے آشنائی کی صورت تو موجود تھی نا۔

میں نے سوچا تھا کچھ روم کا مزید دیدار ہو گا اور جب جی چاہے گا تب خیر سے تریویTrevi Fountain دیکھنے کے لئے اُتر جاؤں گی۔ اس کی بھی بڑی شہرت ہے کہ روم آ کراسے نہ دیکھنا کچھ ایسا ہی ہے جیسے پرانے لاہور کے گلی کوچوں میں اتر کرمیاں صلاح الدین کی حویلی دیکھے بغیر بندہ باہر آ جائے۔

گائیڈ لڑکی نے پوچھا تھا۔ ’’اگلا پروگرام کیا ہے؟‘‘

جو دل میں تھا اُسے بتایا۔

مجھے محسوس ہوا تھا جیسے وہ لڑکی مجھ بوڑھی عورت میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہو۔

’’وہاں تو رات کو جاؤ۔ اُسے تو برقی روشنیوں میں دیکھو گی تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔‘‘

میں نے بے بسی سے اُسے دیکھا اور کہا۔

’’در اصل میں اکیلی ہوں۔ آپ کی گاڑی نے چھ بجے اُتار کر فارغ ہو جانا ہے۔‘‘       ’’ارے تو ٹیکسی لے لینا۔ چلو بولو ٹھہری ہوئی کہاں ہو؟‘‘

میں نے بیگ سے ہوٹل کا کارڈ نکال کر اُسے دکھایا۔ اُسے دیکھتے ہوئے اُس نے اپنا تعارف کروایا۔ روم کے جنوبی شہر پوسٹینوPositano کی اُس سلونی سی نازنین ازولینو نے فوراً کہا تھا۔

’’ آپ تو مرکز میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔‘‘

میرے ہوٹل والا کارڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے وہ ایک مسافر کی طرف متوجہ ہوئی جو اُس سے کچھ پُوچھ رہا تھا۔ میں نے بھی نگاہوں کا رخ باہر پھیر لیا۔

سہ پہر کی دھوپ میں دوپہر والی تیزی تھی۔ اور سیاحوں کے پُروں میں بھی کچھ ویسی ہی شدت تھی۔ ٹولیوں کی ٹولیاں یہاں وہاں گواچی گائیوں کی طرح گھومتی پھرتی تھیں۔ دریائے Tiber کے خوبصورت پُلوں پر سے گزرنا اور کناروں پر درختوں کی بہتات اور عمارتوں کے حسن سے مسرتیں کشید کرنے کا بھی ایک مزہ تھا۔ بیٹھے بیٹھے میں نے اولڈ سٹی والز کو دیکھا۔ کچھ لوگ یہاں اُترے۔ کچھ چڑھے۔ پورا دن چاہیے تھا اس کے لئے تو۔

قبل مسیح کے زمانوں کی اس یادگار کو دیکھنے کے لئے ازولینو Azzolino نے تھوڑی سی وضاحت کی تھی۔

پرانے وقتوں کی یہ حفاظتی دیواریں جب شہر اِن میں مقید ہوتے تھے۔ یہ دیوار Servian اور چھٹے رومن بادشاہ سرویٹن نے بنائی اور اسی کے نام پر ہے۔ اور یلئینAurelianوالز، اوریلیئن شہنشاہ کا کارنامہ ہے۔ تاریخ کے لیجنڈری لوگوں کا کہنا ہے کہ روم شہر کی بنیادیں رمیولسRomulus اور رعمیس Remus نے کہیں قبل مسیح رکھی تھیں۔ ہر دیوار اور دیواروں کی لمبی چوڑی تاریخ ہے۔

بس سٹاپ پر رکی ہوئی تھی۔ شاید یہاں کچھ دیر رُکنا تھا۔ ازولینو اپنی ڈیوٹی میں مصروف ہو گئی تھی۔ پھر اُس نے میری طرف دیکھا اور کہا۔

’’یہ بورگیز Borghese میوزیم ہے۔ آپ نے یہاں اُترنا ہے تو اُتر جائیے۔ اگلے پھیرے میں آپ کو لے لوں گی۔‘‘

میں نے اپنی ٹانگوں کو دیکھا تھا۔

’’نہیں میری بچی۔ میں ابھی روم میں مزید دو دن ہوں۔ ازولینو نے مجھے اپنا موبائل نمبر دیا۔ میری درخواست پر اُس نے خود ہی فیڈ کر دیا۔ مقصد تھا کہ کل میں اسی بس میں بیٹھوں جہاں اس کی ڈیوٹی ہے۔

تریوی فاؤنٹین کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت اس وقت ہوئی جب اُس نے کہا۔

’’ ہم تریوی ڈسٹرکٹ میں داخل ہو رہے ہیں اور یہ فوارہ تین سڑکوں کے جنکشن پر ہے۔ یہ زمانہ ماضی میں روم کے شہریوں کو پانی سپلائی کرنے کا ایک بہت بڑا خود ساختہ ذریعہ تھا۔ پانی کے اِس تودے کو 1762میں نکولا سلوی جیسے ماہر تعمیرات نے باروق سٹائل دیتے ہوئے آرٹ کے رنگوں سے سجایا۔ سلوی نے اِسے پوپ سے کرایے پر حاصل کیا تھا کہ وہ آب رسانی کے قدیم ترین ذرائع کی نمائش کرنے کا خواہش مند تھا۔

بس نے جہاں اُتارا۔ ازولینو نے بتایا تھا کہ تھوڑا پیدل چلنا اور پُوچھتی جانا۔ ٹیکسی سٹینڈ کا بھی بتا دیا تھا۔

کیسی پیاری اور بیبی سی بچی ہے یہ ازولینو بھی۔ تھوڑی سی سانولی ہے پر دل کی کتنی گوری ہے۔

اب پوچھنے پُوچھانے کے کام میں جُت گئی تھی۔ تاہم زیادہ نہیں چلنا پڑا تھا کہ اس کے پانیوں کے پھوٹنے اور گرنے کی زوردار آوازیں آپ کو متوجہ کرتی، چونکاتی، ذہنی طور پر کِسی خوبصورت منظر کا دروازہ کھولنے کا اذن دیتی نظر آتی ہیں۔

سکوائر میں جونہی داخل ہوئی محسوس ہوا تھا جیسے کوئی گلوکار اونچے سروں میں گیت گاتا مجھے خوش آمدید کہہ رہا ہو۔

ٍ      کیسی تھکن، کہاں کی تھکاوٹ؟ نہال ہو گئی تھی۔ موہ لینے، جذب کر لینے اور متحرک قدموں کو روک دینے والا منظر سامنے تھا۔ بس لگتا تھا جیسے طلسم ہوش ربا کی دنیا میں داخل ہو گئی ہوں۔ سہ منزلہ کہیں چہار منزلہ عمارات کا تعمیری حُسن شام کی کرنوں کے طلائی رنگوں میں چمکتا تھا۔ کہیں گاجری، کہیں چنبیلی، کہیں سرسوں، کہیں مٹیالے آسمانی رنگوں کی بہار لگی پڑی تھی۔

پس منظر میں جو محل تھا وہ بھی آن بان اور شان والا تھا۔ سلوی نے اِسے تھیٹر کی صورت دی تھی۔ اس کے منہ متّھے کو کیا کیا ماورائی روپ دئیے تھے۔ صدقے جاؤں رومن آرٹسٹوں کے۔

واہ کیا دلربا سے منظر سامنے تھے۔ ایک طرح اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے، مگر گنگ کرنے والے کہ کھڑی بٹر بٹر اِنہیں تکے چلی جا رہی تھی۔ آنکھیں جیسے مدار پر چڑھ گئی تھیں۔ گھوم رہی تھیں۔ کبھی دائیں، کبھی بائیں، کبھی سامنے۔ دائیں بائیں پھیلی عمارتوں کے رنگ و روپ تو چلئیے خوبصورت تھے ہی مگرانسانوں اور جانوروں کو آرٹ کے کن کن سانچوں میں ڈھالا گیا تھا۔ مجسموں کے انداز اور چٹانوں پر اس کی وسعتوں کو کیسے گھیرے میں لیا گیا۔ واقعی اِسے رات کو دیکھنے کا اپنا ہی ایک لُطف ہو گا۔

میں بینچ پر بیٹھ گئی تھی۔ کیا پُرفسوں دنیا تھی مگر صرف محبت کرنے والوں کی کہ ہرسو نظارے تھے۔ کہیں پانیوں میں کھڑے ننگے مجسموں کے اور کہیں زندہ رومیو جیولٹ کے۔

اگر یہ دنیا کا خوبصورت ترین باروق سٹائل کا فوارہ آرٹ کا ایک نادر شاہکار ہے تو وہیں یہ ایک خوبصورت روایت سے بھی جڑا ہوا ہے کہ اس میں اگر سکہ پھینکا جائے تو پھینکنے والا پھر روم آتا ہے۔ مزے کی یہ بات بھی کہ دو سکّے پھینکنے کا مطلب بہت جلد شادی اور تین سکے اگر پھینکے گئے تو لازمی طلاق۔ اب اس میں جدّت کچھ یوں کر لی گئی ہے کہ سکے تو تین پھینکے جائیں مگر ایک اپنے دایاں ہاتھ سے دوسرے کے بائیں کندھے سے اچھال کر۔

خلقت تھی کہ موج مستیوں میں اُلجھی ہوئی۔ بیٹھنے کے انتظامات بھی مزے کے تھے۔ جہاں جی چاہے بیٹھو۔ فوارے کے گردا گرد بنی سلیب پر بیٹھ کر سبزی مائل نیلگوں پانیوں میں ہاتھ ڈالو۔ اور اِس بات کو اپنے کریڈٹ پر ڈال لو کہ روم کے پانیوں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔

ایک فلم میں اب نام یاد نہیں اگر رنگیلے نے اس ڈائیلاگ پر بے حد داد سمیٹی تھی کہ میں نے تین سال تک ہانگ کانگ کے نلکوں کا پانی پیا ہے کوئی مذاق تھوڑی ہے تو آپ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تین دن روم کے فواروں سے ہاتھ دھوئے ہیں۔ کوئی مذاق تھوڑی ہے۔

میرے ساتھ ایک چُلبلا سا جوڑا بیٹھا ہوا تھا جن کے پاس اس کے بارے کتابچہ تھا۔ میری دیکھنے کی خواہش پر انہوں نے اِسے میرے حوالے کر دیا۔ فوارے کی تاریخ کیسی دلچسپ اور رومانوی سے تصور کی حامل تھی۔

’’تو کہتے ہیں۔ میں نے خود کو سُنایا چند لمحوں کے لئیے چلونا اُس دنیا میں جو انیس19سو سال قبل مسیح کی تھی۔

وہ وقت جب سیزر کا بیٹا آگسٹس حکمران تھا۔ رومن سپاہیوں کے ایک ٹولے کو دوران گشت پیاس لگی۔ در اصل آگسٹس کے داماد اگرپاAgrippaنے روم کے گرد و نواح میں پانی کے فوارّے ڈھونڈنے کی ڈیوٹی انہیں سونپی تھی۔ گرمی کے دن اور تپتا سورج۔ پیاس نے حلق میں کانٹے اُگا دئیے۔ پاگلوں کی طرح پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر گھومتے تھے کہ چاند چہرے جیسی ایک نوجوان کنواری لڑکی نظر آئی۔ لڑکی مسکرائی اور اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ اسی چشمے پر وہ انہیں لے آئی۔ جس کے ٹھنڈے میٹھے پانیوں سے انہوں نے پیاس بجھائی۔

وہاں اور بھی بہت کچھ تھا۔ پھر کیا ہوا؟ اور پھر یہ کیسے اپنی موجودہ شکل کو پہنچا۔ اور میں نے خود سے کہا تھا۔

’’ارے بھئی میں نے کچھ اِس چکر میں نہیں پڑنا۔ لوگ تو پہلے ہی ناکوں ناک آئے پڑے ہیں میری تاریخ دانی سے۔ ہاں بس اتنا ہی کافی ہے کہ دنیا میں کوئی ملک کوئی جگہ ایسی نہیں جس نے پانیوں کی طاقت کو نئی جنیاتی تعمیرات کے ساتھ اِس درجہ اہتمام سے منانے کا اہتمام کیا ہو۔ جیسا کہ روم نے کیا ہے۔ ہاں البتہ مختصر سا تعارف اتنا سا کافی ہے کہ مجسمے بحر، صحت، کثرت Abundance وغیرہ کے نمائندے ہیں۔ بالکونیوں میں کھڑے مجسموں کی دل رباعی آنکھوں کو جگمگاتی ہے۔

میرے پاس بیٹھے جوڑے نے اپنے کندھوں کے اوپر سے سکہ اچھال کر پانیوں میں پھینکا۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا تھا کہ ہر روز ڈھیروں ڈھیر یہ سکے جو تقریباً 3000یورو کی مالیت کے ہوتے ہیں۔ اِسے روم کی ایک سپر مارکیٹ کو دیا جاتا ہے جہاں غریب لوگ رعایت پر کھانے پینے کی چیزیں حاصل کر لیتے ہیں۔ واہ کیا کہنے ہیں ایک رومانی اور روایتی حرکت کا تعمیری اور بہترین اخلاقی نمونہ اور کردار۔

کیسا رنگ رنگیلا سا مجمع بکھرا ہوا تھا۔ کہیں سیڑھیوں پر، کہیں سنگی بینچوں پر بیٹھا۔ شادی شدہ نئے نویلے جوڑے بھی بہتیرے تھے۔ شام بہت خوبصورت تھی۔ کرنوں کی تپش بہت کم ہو گئی تھی۔ میں نے سوچ لیا تھا میں یہاں رات کا پہلا

پہر گزاروں گی۔ ٹیکسی سے واپسی کروں گی۔ میں نے یہ منظر دیکھنے ہیں۔ مڑ کون روم آتا ہے یا قسمت یا نصیب۔

میں اپنا کافی کا مگ بھروا لائی تھی۔ فش سینڈوچز بھی ساتھ تھے۔ رات کی اپنی زُلفیں کھولنے سے قبل کے منظروں کی کوئی بوقلمونیاں تھیں۔ میں کِسی فلمی سین کی طرح آنکھیں اس سکرین پر جمائے حیرتوں میں کنگ تھی۔ ستاروں نے اپنے حُسن کی پوٹلی کھول کر یوں دھرتی پر اُچھالی تھی جیسے کوئی راجہ مہاراجہ جوش مسرت میں اپنے ہیرے جواہرات کے خزانوں سے مٹھیاں بھر بھر کر اپنی رعایا پر اُچھال دے۔ سکوائر السپراؤں سے بھرا پڑا تھا۔ دھیرے دھیرے ماحول ایک سرمدی گیت میں ڈوب رہا تھا۔ قہقہوں کی برسات برس رہی تھی۔

میرے خیال میں فش سینڈوچ کی چھوٹی سے چھوٹی بائٹ اور کافی کے چھوٹے چھوٹے گھونٹوں سے میں بہتے وقت کے پاؤں میں کتنی دیر تک بند باندھ سکتی تھی۔ چلو جتنی دیر بندھ سکتا ہے وہ تو باندھوں۔

پھر میں نے خود سے سوال کیا تھا۔

’’میں بھی سکہ پھینکوں۔‘‘

اندر نے اذن دیا۔ تو ہرج کیا ہے۔ کیا تم اِس ماحول میں دوبارہ سانس لینا نہیں چاہو گی؟

چاہوں گی۔ ضرور چاہوں گی۔ پرس سے سکّہ نکالا۔ دائیں ہاتھ اور بائیں کندھے سے ہوتا ہوا وہ پانیوں میں گرا اور میرے اندر نے کہا تھا۔

’’پروردگار میں روم پھر آنا چاہتی ہوں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب12: ویٹی کن سٹی

 

* شاہی قلعے جیسی بلند و بالا پُر ہیبت دیوار کے سائے میں چلتی سیکورٹی کے لام ڈور والے سلسلوں سے گزرتی لائن کے سلسلے اکتاہٹ کے ساتھ ساتھ دلچسپی لئیے ہوئے بھی تھے۔

* ڈریس کوڈ کی پابندی لازمی امر ہے۔

* Sistine chapelکو بلاشبہ میوزیم کا دل کہا جا سکتا ہے۔

* مائیکل اینجلو کی خیال آفرینیوں پر ہنسی اور لطف دونوں نے مزہ دیا۔

 

 

تو آج کیتھولک عیسائیوں کے مکے مدینہ کا دیدار کرنا تھا۔ شوق کی فراوانی تھی۔ عقیدت کا رنگ تھا۔ روم میں میرا تحفہ خاص تھا جو آج میں وصولنے جا رہی ہوں۔

ایزو لینا سے بات ہو گئی تھی۔ ناشتے اور کنگھی پٹی سے فراغت کے بعد میں نے تھوڑی دیر کے لئے اٹلی پر لکھی ہوئی کتاب کھولی جسے میں نے کل وکٹر ایمونیل دوم کی یادگار سے نکل کر دوسری جانب کی سڑک کے کنارے بنی چھوٹے چھوٹے کھوکھے نما دکانوں سے ایک طرح کوڑیوں کے بھاؤ خریدی تھی۔ کتابوں کا ڈھیر دکان کے سامنے فٹ پاتھ پر بکھرا ہوا تھا۔ سانولا سلونا منحنی سے جسم کا نوجوان جس سے بات کر کے جانی تھی کہ بنگلا دیشی ہے، اس سارے کھلارے کی چھانٹی کرنے اور اسے ترتیب دینے میں لگا ہوا تھا۔ میں نے خالی کرسی گھسیٹ کر خود بھی اِس ڈھیر میں سے ہیرے موتی ٹٹولنے شروع کر دیئے تھے۔

مجھے انار کلی کے فٹ پاتھ یاد آئے تھے۔ اپنا وہاں جانے اور پھولا پھرولی کا جنون یاد آیا تھا۔ بھاؤ تاؤ کرنے اور پھر شاپروں کو بھر کر لانے کے نشے کے سرور کی ہلچل یاد آئی تھی۔ اس وقت میں اُسی ناسٹلیجائی کیفیت میں ڈوبی ہوئی تھی۔ مطلب کی چند کتابیں نکل آئی تھیں۔ قیمت کا تو میزان الرحمن بولا۔

’’جو مرضی دے دیں۔ بسم اللہ کرنی ہے۔ آپ جیسی خاتون کا پیسہ برکت والا ہو گا۔ آج میرا پہلا دن ہے۔ دو دن پہلے دکان لی ہے۔ آج اسے سجا رہا ہوں۔‘‘

کتابیں تو میں نے ایک یورو اور دو یورو کے حساب سے ہی خریدیں۔ تاہم بیس یورو بنگلا دیشی بیٹے کو بونی کے شگن کے طور پر دئیے۔

’’اللہ برکت ڈالے گا۔ زندگی میں رزقِ حلال کمایا اور کھایا ہے۔‘‘

کتاب کھولنے سے جو سامنے آیا ہے اسے پڑھ رہی ہوں۔

تقریباً ایک سو ایکڑ پر مشتمل آزاد خود مختار ایک بڑے ملک کے پایہ تخت روم کے اندر ہی دنیا کا سب سے چھوٹا ملک جس کے اپنے مسلح فوجی دستے، اپنا ڈاک کا نظام، ہیلی پیڈ، منی ٹرین اسٹیشن، ریڈیواسٹیشن، اپنا یورو سکہ جس پر پوپ بینڈکسٹBenedictxvi سولہواں کندہ ہے۔ سیاسی طر پر طاقتور۔ 1.1بلین رومن کیتھولک لوگوں کا روحانی مرکز۔ پوپ ویٹی کن سٹی کا بیک وقت روحانی اور سیکولر لیڈر ہے۔ صدیوں سے وہ کنگ پوپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ویٹی کن کے رہائشی تقریباً ساڑھے نو سو کے قریب ہیں اور 3000 کے قریب لوگ یہاں کام کرتے ہیں۔

ایک مضبوط چھوٹی سی ریاست۔

وقت دیکھا۔ نو بج رہے تھے۔ فوراً اٹھی۔

’’ویٹی کن سٹی دیکھنا ہے۔ کتابوں کی دکانوں پر جانا ہے۔ شام کسی خوبصورت پیازے میں گزارنی ہے اور پرسوں اس خوبصورت شہر سے رخصت ہونا ہے۔‘‘

میں سوچوں سے باتیں کرتی گویا ایک طرح اڑی جا رہی تھی۔

ایزولینا نے محبت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کی پیشانی چومتے ہوئے اس میں آگے بڑھ کر قریبی سیٹ پر بیٹھ گئی۔

اب اگر ذہن کہیں ویٹی کن کی تاریخ میں الجھا ہوا تھا تو آنکھوں نے بھی ساتھ دینا ضروری سمجھا تھا کہ بند ہو کر کامل یکسوئی سے تاریخ کی بھول بھلیوں میں الجھنے لگی تھیں۔

بس تاریخ تو ابھی اتنی ہی پڑھی گئی تھی کہ منزل آ گئی۔

بصارتوں میں جونہی وہ مانوس سی عمارت آئی۔ آنکھوں میں قندیلیں سی جل اٹھیں۔ کیتھولک عیسائیت کے اِس مرکز اور پاپائے روم کے بیانات سے اکثر و بیشتر پرنٹ و الیکڑونک میڈیا کے توسط سے خاصی مانوسیت رہی ہے۔

سچی بات ہے اب یہ تو مجھے یہاں آ کر پتہ چلا تھا کہ پوپ اتوار کو اپنا دیدار کرواتے ہیں۔ اس دن ٹکٹ ویکٹ بھی فری۔ اب عقل پر بندہ ماتم ہی کرئے گا کہ ویک اینڈ پر روم آنے سے گریز جان بوجھ کر کیا۔

بس نے عین سینٹ پیٹرز سکوائر سے جب موڑ لیا تو میں نے سوچا ’’ ہائے اللہ اسے تو یہیں اُتارنا چاہیے تھا۔‘‘

یقیناً اُسے اپنے اسٹاپ پر رُکنا تھا۔ خاصا چلنا پڑا۔ ایک دھوپ کی تیزی اوپر سے چھتری بھی وہ کہ بچے کا کھلونا جان پڑے۔ گرد و پیش کے حُسن کو دیکھتے ہوئے پھر دھوپ کی جوانی پر نظر ڈالی۔ ایسی شباب سے بھری ہوئی تھی کہ فوراً کھول کر سر پر تاننے والی چھتری تو اُس پلی ہوئی بلی کے سامنے کسی بچونگڑی کی طرح نظر آئی۔ بس سر اور چہرہ بچ گیا تھا چلو یہی غنیمت۔ چھتری کو سنبھالنا کونسا آسان۔ یہ تو بیگ میں گھسڑ جاتی ہے۔

عین سکوائر کے سامنے آ کر میں نے چھاؤں میں بیٹھ کر ڈیرے ڈال لئیے کہ پہلے تو جی بھر کر اسے دیکھنا مطلوب تھا۔ نقشے پڑھنے کی ضرورت تھی۔

میرے سامنے ایک وسیع قطعۂ زمین پر ستونوں پر کھڑی دائیں بائیں سیمی سرکل میں گھومتے برآمدوں سے سجی عمارتیں مرکزی عمارت کو گویا اپنے حصار یا دوسرے لفظوں میں اپنے تحفظ میں لینے کا تاثر دیتی تھیں۔

ٹکٹ کیلئے لمبی قطاریں تھیں۔ دھوپ کیسے سارے میں پیر پسارے بیٹھی تھی۔ یاسر پیرزادہ یاد آیا تھا۔ گذشتہ سال کا اُس کا کالم سامنے آ گیا تھا۔ یہی مہینہ جب وہ لکھتا تھا ویٹی کن میں تو لگتا ہے۔ سورج جیسے سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ تو آج بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔

پانی کی ایک بوتل خالی کر کے میں اٹھی کہ اب کمر ہمت باندھوں کہ گوڈے نے ایک کڑاکا بجایا۔

’’ہائے جوانی۔ اندر سے ایک آہ سی نکلی۔ ساتھ ہی وہ سکھ بھائی یاد آ گیا۔ جسنے میری طرح ایسا ہی نعرہ بلند کیا تھا اور بعد میں رازدارانہ انداز میں خود سے کہا تھا۔ جو تیر میں نے جوانی میں مارے وہ مجھے معلوم ہی ہیں۔‘‘

پر میں نے تو کہا تھا کہ بھئی میری ٹانگوں نے تو بڑے تیر مارے۔ بیچاریوں نے میرے شوق کے بڑے ستم سہے۔ میلوں چلنا تو کوئی بات ہی نہ تھی۔ سچی بات اب مجبوری ہے۔

اب 2000کمروں پر پھیلے وہ پرسرار کہانیاں اور راز جو ویٹی کن کی دیواروں نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے جاننا اور ان چیزوں کو دیکھنا کیسا دلچسپ اور سنسنی خیز تجربہ ہوتا جسے اب کرنا زبانی کلامی اور لفظوں کے راستوں سے تو ممکن ہے ہاں ذرا ٹانگوں سے کچھ مشکل ہے۔ مگر جی کرتا تو ہے۔

جی چاہتا تھا کہ کِسی کی منت کروں کہ وہ یا میرا ٹکٹ لے لے۔ یا مجھے اپنی جگہ دے دے۔ جگہ دینے کی درخواست کا احمقانہ مطالبہ خود مجھے بڑا کمینہ سا لگا۔ اور ٹکٹ کیلئے دھوپ میں پینڈا مارتی لائن تک پہنچی۔ رکاوٹی جنگلے کے پار کھڑی پھینی سی ایک لڑکی سے درخواست کی۔ جس انداز میں مجھ بیچاری کی پذیرائی ہوئی اُس نے چلّو بھر پانی میں ڈوب مرنے والی بات یاد دلا دی تھی۔ لڑکی نے بے حد عجیب سی نظروں سے مجھے یوں گھورا تھا جیسے کہتی ہو۔

’’کیوں لوں تمہارا ٹکٹ۔ تمہاری کیا ٹانگیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ اتنی تو ہٹی کٹی لگ رہی ہو۔‘‘

’’چلو میاں سیدھے سبھاؤ لگو قطار میں۔‘‘

بعد میں جب اس کے مشکل مراحل سے گزری تو احساس ہوا کہ دو نمبریوں کی یہاں کہاں گنجائش ہے؟ ایسے حربے صرف ہمارے ہاں ہی چلتے ہیں۔ بہرحال کام تو وہاں مار دھاڑ کے سے انداز میں ہو رہا تھا۔

سکوائر میں رکاوٹی جنگلوں کی باڑوں میں مقید لائنیں جیسے تیز واک کے سے انداز میں چلتے ہوئے سیکورٹی کے لمبے چوڑے مرحلوں سے گزرتی جاتی تھیں۔ پر خدا جھوٹ نہ بلوائے۔ ایک تو میوزیم جیسے اللہ میاں کے پچھواڑے۔ وہ لمبی لائن شاہی قلعے جیسی بلند و بالا پُر ہیبت دیوار کے سائے میں چلتی۔ کہیں ٹکٹ کا پہلا ٹریک کہیں دوسرا۔ اوپر سے سیکورٹی کی لام ڈور والے سلسلوں کے ساتھ ساتھ ڈریس کوڈ کی بھی سختی۔ کیا مجال کوئی ننگے بازوؤں والی من چلی حسینہ یا شارٹس پہنے کوئی دلبر سا ہیرو پذیرائی پا جائیں۔ یوں قطار میں سے نکال کر پھینک دیئے جاتے ہیں جیسے دودھ میں سے مکھی۔

اب اگر کہیں یہ جان جاتی کہ” سلک دی لائن "والا سلسلہ سو تکلیفوں سے نجات کا باعث ہے۔ انٹرنیٹ سے دُوری ہم بڈھوں کیلئے بڑی اذیتوں کا باعث ہے۔ دُنیا اب ہماری نہیں نوجوانوں کی ہے۔ چلو شکر اپنے جٹکے پن کے باوجود یہاں تک پہنچ ہی گئے۔ آگے بھی رب سوہنا کرم کرے گا۔ بڑے شوخ و چلبلے رنگوں کے لباس زیب تن کیے سوئس دربان سنگی مجسموں کی مانند ایستادہ تھے۔

تو صبر کا پھل بڑا رسیلا اور میٹھا تھا کہ جب کانسی کے ایک بھاری بھرکم عظیم الشان دروازے سے اندر قدم رکھا تو اوپر والے کیلئے شکر گزاری کے احساسات نے جذبات کو بڑا رقیق سا کر رکھا تھا۔

’’ارے میں اور یہ سب۔‘‘

وہیں ایک جادوئی سحر جیسی دنیا میں داخلہ ہو رہا تھا۔ دنیا کی سب سے چھوٹی خودمختار سلطنت کا عجائب گھر جو آپ پر آرٹ کی دنیا کے اسرار کھولتا ہے۔ جہاں دنیا کے عظیم مصور آپ پر ایمان اور آرٹ، عیسائیت اور کلچر، خدا اور انسان کے درمیانی سلسلوں کی گتھیاں کھولتے چلے جاتے ہیں۔

اِس میوزیم کا بننا بھی بس ایک اتفاقی واقعہ ہی تھا کہ 1506کی بات ہے ایک بہت پرانا مجسمہ Laocoonteانگوروں کے باغ کی ایک پہاڑی سے ملا تو محقق لوگوں کے ساتھ لاطینی مصنف پلینی Plinyنے بھی اس کی عظمت اور قدامت کی تصدیق کی۔

پس اِسے ویٹی کن میں سجا دیا گیا جہاں پہلے ہی پوپ جولیس دوم کے بہت سے نوادرات جمع تھے۔ کوئی اٹھارویں صدی کے وسط میں اسے دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا۔ پوپ کے محلات اور دوسرا یہ میوزیم۔

تو اب میں خود سے پوچھتی ہوں کہ مجھے داخل کس میں ہونا ہے؟ مصری حصّے میں؟ کوئی خواہش نہیں کہ مصر، عراق کی سیاحتوں سے رجی پجی اور مصری اور میسوپوٹیمیائی تہذیبوں سے خاصی شناسائی رکھتی ہوں۔ سو اِس دنیا میں تو ہرگز نہیں جانا۔ اب کھڑی ایسی سوچوں میں گھر گئی ہوں۔ کچھ لوگوں کو ایک گلیارے میں داخل ہوتے دیکھ کر ان کے پیچھے ہو لیتی ہوں۔

کیا بات تھی اُس دنیا کی جہاں داخل ہوئی تھی۔ بڑی کلاسیکل قسم کی عمارت کا آنگن ہے۔ محرابی گزر گاہوں والے برآمدوں میں ٹھنڈک، سکون اور شانتی سی جیسے اُتری ہوئی ہے۔ قدامت پور پور میں رچی بسی زمانوں کی خوشبو اپنے اندر بسائے ہوئے ہے۔

میں نے ذرا سا سستانا چاہا تھا۔ پودوں کے پاس دھرے سنگی بینچ پر بیٹھ کر سکون سے دائیں بائیں جدھر دیکھتی ہوں آرٹ کی دنیا آباد ہے۔ مجسمے ستونوں کے ساتھ ایستادہ ہیں۔ اٹھتی ہوں۔ قریب جاتی ہوں۔ کہیں نیپچونNeptune، کہیں Hellenistic، کہیں اپالو اور کہیں Laocoomگروپ نے یارڈ کو سجا رکھا ہے۔ یہ یونانی اور رومن تہذیبوں کے نمائندے ننگے دھڑنگے۔ بولوں تو کیا کہ اظہار کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ فتووں سے ڈر لگتا ہے۔

ہاں البتہ عقیل رُوبی بے طرح یاد آیا ہے۔ جس کی دُنیا یونانی کرداروں سے آباد رہتی تھی۔

اب نقشہ کھول لیا ہے۔ مصری حصّہ قریب دکھتا ہے۔ اس سے بچنے کے چکر میں ڈیلا پگما میں نکل گئی۔ کیا بات تھی؟ بے اختیار ہی ہنسی نے نہال سا کر دیا۔ سامنے سرسبزو عریض لان کلاسیکل قسم کی عمارتوں کو گھیرے میں لئیے ہوئے آنے کی دعوت دیتا تھا۔ قبل مسیح کانسی کے فرکون کو دیکھنے لگی۔ مجھے اس کی خاک سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ہے کیا بلا؟ دفع کرو۔ سورج چمک رہا ہے۔ ہوا بہت مزے کی ہے۔ میں اب کسی سے مدد چاہوں گی کہ وہ میری راہنمائی کرے۔

چلو اللہ رازق اور مددگار ہے۔ انڈین لوگ مل گئے۔ اُدھیڑ عمر مسٹر و مسز پُونم رائے روم میں ہی رہتے ہیں۔ بریلی سے آئے ہوئے بھانجا اور اس کی بیوی کو سیر کروانے لائے تھے۔ پہلے تو خوب باتیں ہوئیں۔ نواز شریف کے بڑے دلدادہ تھے۔

میری خواہش پر کاپی پر لکیریں کھینچ کھینچ کر چیزوں کو وضاحت سے بتا دیا کہ بس دو چیزیں دیکھ لو۔ زیادہ کھپنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں تو آرٹ اور تہذیبوں کا سمندر ہے۔ بندہ باریکیوں میں پڑا تو گیا۔ مگر انہوں نے Pinacoteca دیکھنے کی سفارش کی کہ وہ قریب ہی تھا۔

تو اِن پیارے سے لوگوں سے رُخصت ہوتی ہوں۔ Pinacotecaکو جانے والے راستے پر بڑھتے ہوئے اُس عمارت کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہوں جو ایک خوبصورت اور شاندار سے پورٹیکو کے ذریعے مرکزی عمارت سے جڑا ہوا ہے۔ اک ذرا رک کر اپنے چاروں اور دیکھتی ہوں۔

یہ کچھ ویسی ہی دنیا ہے جو میں ابھی اکیڈیمیہ وینس میں دیکھتی آئی ہوں یا اُس سے بڑھ کر ہے۔ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ میں تو شارٹ کٹ چاہتی تھی مگر جانتی ہی نہ تھی کہ یہ آرٹ کا پورا جنجال پورہ ہے۔ کمروں کا پھیلاؤ اور ان کا اندر ہی اندر ایک دوسرے میں گھُسے چلے جانا۔ اب بندے کیلئے کہیں ممکن تھا کہ وہ آرٹ کے اِن خزانوں سے آنکھیں بند کر لے۔ نہیں مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا کروں اور کیسے اِس دنیا سے نکلوں جو جٹ جپھا ڈال رہی ہے۔

سچ تو یہی تھا کہ ان سے آنکھیں بچا کر نکل جانا کتنا مشکل تھا کہ کہیں بہار جیسے شوخ و شنگ رنگ، کہیں دھیمے میٹھے اور کہیں پھیکے رنگوں کی بارش بھگو بھگو کر شرابور کر رہی تھی۔ وہ برس رہی تھی۔ راستہ روک رہی تھی اور مجھے بھگوتی چلی جا رہی تھی۔ ونچی کا شاہکار سینٹ جروم جیسے کسی دشت تنہائی کا اسیر۔ Giotto اور بلینی دونوں اپنی انتہائے معراج کو پہنچے ہوئے۔ دونوں کے فن سے آنکھیں چرانا کہیں ممکن تھا۔

چہروں کا ایک ایک نقش، ایک ایک خم واضح کر رہی تھی۔ زنجیروں کی حد بندیاں تو قریب جانے میں مانع تھیں۔ ڈھیروں ڈھیر کمرے بس جو چیز باعث راحت تھی وہ کمروں میں بیٹھنے کا شاہانہ قسم کا اہتمام تھا۔

میں لطف اٹھا رہی تھی۔ مریم کی جنسی تعلق سے آزاد حاملہ ہونے کی تصوراتی صورتوں کی آگاہی سے جو بڑی ہی موہ لینے والی تھی کہ اِس تصور نے نہ صرف کام کو انفرادیت دی بلکہ اس کی وسعتوں میں بھی نئے رخ تھے۔

Raphael rooms تک پہنچنے میں تین بار رُک رُک کر تھوڑا آرام اور تھوڑی منہ ماری کی تھی۔ باداموں اور کاجو کے چھوٹے لفافوں کی سیکورٹی سپاٹ پر وضاحتیں کرنی پڑی تھیں کہ جناب انہیں لے جانے دیں وگرنہ ایسا نہ ہو آپ کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔

ان کمروں کا رُخ دوسری جانب جا نکلتا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ رافیل اور اس کے ساتھیوں کا کام حد درجہ متاثر کن تھا۔ سولہویں صدی کی ابتدائی دہائیوں کا نمائندہ یہ کام جسے رافیل اور اُس کے ساتھیوں نے فریسکوٹیکنیک استعمال کرتے ہوئے نشاۃ ثانیہ کے دور کے کام کو زندہ و جاوید کر دیا۔ چوکھٹوں کی بس چھتوں کو ہاتھ لگانے ہی کسر باقی تھی۔ کمروں کی محرابی صورت دیتی دیواروں پر آرٹ کے کیا شاہکار نمونے بکھرے ہوئے تھے کہ پلکیں جھپکنی مشکل تھیں۔

بہت سے ایسے موضوعات تھے جنہوں نے آنکھوں کو جکڑا ہوا تھا مگر ان کا تعلق کِس پس منظر سے ہے اس سے کوئی شناسائی نہیں تھی۔ لطف اندوزی رنگوں، کرداروں، ان کے رویوں اور ماحول کے ساتھ فنکارانہ چابک دستیوں کے ہاتھوں ضرور ہو رہی تھی۔

البتہ بورگو روم میں آگ لگنے کے واقعے کی عکاسی بڑی واضح تھی۔ میرے نزدیک مقدّس سیکرامنٹSacrament(جس میں شادی بیاہ کے موقع پر شراب اور روٹی پر جھگڑے کی شکل)کی کیا شاندار عکاسی تھی۔ آسمانی اور زمینی زندگی کے رنگ، تصور کی بلند پروازی۔ خدا تو کہیں دھرتی کے پادریوں جیسا ہی نظر آتا تھا۔

جی چاہتا تھا وقت کی ٹنل میں گھُس جاؤں۔ اس دور میں چلی جاؤں جہاں وہ موٹی آنکھوں والا رافیل لگتا تھاThe school of Athens پینٹ کر رہا ہے۔

سارا کمرہ گویا علم کے اعتراف میں سرنگوں تھا۔ سچائی اور دلیل کی عظمت کو سلام پیش کرتا تھا۔ کلاسیکل فلاسفی سے مذہب کی طرف کا راستہ عیسائیت سے پہلے اور بعد کا عہد زندہ و تاباں تھا۔ یہ شاہکار ایتھنز کے مکتبہ فکر کے عظیم مفکروں ارسطو، افلاطون وغیرہ کو خراج پیش کرتے تھے۔ 1520 The Transfiguration کا اس کا یہ کام ابھی تکمیل کو نہیں پہنچا تھا کہ وہ فوت ہو گیا۔ اِسے بعد میں اس کے شاگردوں نے مکمل کیا۔

رافیل بہت جلدی مرگیا صرف 37سال میں اور اس کے چاہنے والے اُس کا یہی شاہکار اٹھائے روم کی گلیوں میں ماتم کرتے پھرتے تھے۔

کتنا وقت میں نے وہاں گزارا۔ مجھے اس کا خود احساس نہیں تھا۔

Sistine chapelدر اصل اِس میوزیم کا دل ہے۔ پوپ کا ذاتی چیپل یہی وہ جگہ ہے جہاں جب وہ مرتا ہے اُسے رکھا جاتا ہے اور یہیں نیا پوپ منتخب ہوتا ہے۔ یہاں Michelangeloکا کام ہے۔ اور کیا شاہکار کام ہے۔ بائبل کی پہلی کتاب اس کے سارے سبق یہاں جس کا جی چاہے وہ پڑھ لے۔ ساری بات تو ہدایت اور روشنی کی ہے۔

خدا کو دیکھنا بڑا انوکھا تجربہ تھا۔ میرے تصوراتی خدا سے خاصا مختلف۔ بوڑھے تو دونوں تھے۔ مائیکل اینجلوMichelangelo کا خدا البتہ بہت جلال والا دکھتا تھا۔ میں نے اپنے کا سوچا۔

’’نہیں بھئی وہ تو مجھے بڑا نرم خو سا نظر آتا ہے۔ محبت سے لبالب بھرا۔ ہمدرد اور غمگسار دوست جیسا۔ گلے شکوے کر لو۔ غم و غصے کا اظہار کر لو۔ آدم اور خدا کے درمیان تعلق کی ڈور۔

کیا خیال آفرینی تھی۔ دونوں کے بڑھے ہوئے ہاتھوں کی انگشت شہادت کا ملاپ آسمان اور زمینی کرّے کا ایک دوسرے کی طرف جھُکاؤ۔ واہ کیا کھلا ڈلا معاشرہ ہے۔ خدا کو اپنے جیسا بنا کر رکھ لیا ہے۔

ممتاز مفتی کے خدائی تصور کی من وعن ایسی ہی تصویر ہے۔ چاند، ستاروں اور زمین کی پیدائش کے عمل کے ساتھ آدم اور حوا کی پیدائش جنت سے نکالے جانے کا منظر۔ نوح اور سیلاب۔

مزہ آ رہا تھا یہ سب دیکھتے ہوئے۔ آدم اور خدا کے درمیان تعلق کے مختلف انداز۔ سب کی شکلوں سے تعارف ہوا۔ حضرت علی، حضرت امام حسین اورحسن سے بغداد میں تصویری تعارف ہو گیا تھا۔ بغدادیوں کی بھی افتاد طبع کی داد دینی پڑتی ہے۔ کیا خوبصورت اور دلآویز سی صورتیں بنا کر دیواروں پر ٹانگ دی ہیں۔

The Last Judgment  کی مجھے خاک سمجھ آنی تھی اگر ایک گروپ اپنی گائیڈ سے اس کا پس منظر نہ سُن رہا ہوتا۔ اور میں ان کے پاس نہ کھڑی ہوتی۔ مائیکل اینجلو کو اِسے بنانے کیلئے کہا گیا تھا۔ کہہ لیجیے یہ قیامت کا منظر ہے۔ حضرت عیسیٰ کی دوبارہ آمد اور خد

ا کا یومِ حساب۔ روحوں کا اٹھنا اور اپنی قسمتوں کا فیصلہ سننا۔ یہی وہ دن کہ جب کوئی جنت اور کوئی دوزخ میں جائے گا۔ ایک افراتفری کا عالم۔ حضرت عیسیٰ اپنے ممتاز ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے مقدروں کے فیصلے کرتے ہیں۔

ایک سحر کی سی کیفیت سے نکلنے میں کافی دیر لگی۔ خدا کا شکر تھا یہاں سے سینٹ پیٹرز سکوائر کا جانے کا راستہ تھا۔ جس سے میں سکوائر میں آ گئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب13:  پنتھین Pantheon، پیازہ نیوون   ٹراسٹی ویرا Trastervera اور Testaccio

 

* پنتھینPantheon کے گرد و نواح کو اگر روم کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا

* پینتھین چرچ کی وسیع و عریض گنبد دار چھت ایک حیرت انگیز عجوبہ ہے

* نیپلز کا ایڈمنڈو Admondo تربیلا ڈیم پر کام کرنے والا انجینئر پاکستانی محبتوں کا مقروض تھا

* اٹلی کے جنوبی علاقوں کو شکایت ہے کہ اُن کا پیسہ شمالی علاقوں کی ترقی و ترویج کے لئے استعمال ہوتا ہے اور شمالی حصوں کو بھی یہی شکایت جنوب سے ہے

* Trastevere میں قدامت کے رنگ موہ لینے والے تھے

 

بس میں چڑھتے ہی اپنی مہار میں نے ایزولینا کے ہاتھوں میں دے دی تھی۔ صُبح ناشتے کے بعد اُسے فون کیا تھا۔ آواز سنتے ہی اس کی جانب سے وقت مقر رہ پر پہنچنے کی تاکید تھی۔ اور جب میں ٹرمینل پر کھڑی بسوں کی یکے بعد دیگرے روانگی دیکھتی تھی وہ مجھے نظر آئی تھی اور میں پُر جوش سے انداز میں اس کی طرف بڑھ گئی تھی۔

یہ کیسی پُر مسرت سی بات تھی کہ اُس نے بھی ایک خوش الحان اور خوش اطوار صحرائی ساربان کی طرح میری بڑھائی ہوئی اِس مہار کو پکڑ لیا تھا۔ بیٹھنے کو جگہ بھی قریب ترین دی تھی۔ یعنی اپنی اکلوتی نشست کے عین عقب میں۔

جب ذرا سی کاروباری سرگرمی سے فرصت پاتی یعنی مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے، انہیں بروشرز دینے اور مائیک پر اُن سے چند لفظوں میں بات چیت کے بعد وہ فوراً گردن گھما کر مجھے کچھ بتانے لگ جاتی۔ ایک پمفلٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے اس نے کہا تھا۔

’’آپ کو پہلے Pantheonاُترنا ہے۔ اِسے روم کا دل کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔‘‘

میں نے اس کی اہمیت کی نوعیت جاننا چاہی تو ازولینا نے کہا۔

’’اس کے اردگرد کی دنیا بڑی مسحور کن سی ہے۔ ایک جانب دریائے ٹبرTiberتو دوسری جانب یہ اپنے گرجا گھروں، اپنے پیازوں Piazzas، اپنی صدیوں پرانی عمارتوں، اپنے کوچہ و بازاروں کی قدامت و جدّت کے حسن سے لدی پھندی، لوگوں کے پُروں کو اپنی بانہوں میں سمیٹے اپنے اندر اور باہر کے راز اُن پر کھولتی ہے۔ بس آپ نے ذرا آنکھیں کھلی رکھنی ہیں۔ روم کی شہری اور دیہاتی زندگی کا دلکش امتزاج یہاں نظر آئے گا۔‘‘

اسی دوران کسی مسافر نے اس کی توجہ چاہی تھی۔ فرض شناس لڑکی کا چہرہ کیا پورا وجود جیسے مجسم ہو کر اپنے مخاطب کو سننے لگا تھا۔ مطمئن ہو کر جب وہ آگے بڑھا تب وہ میری جانب متوجہ ہوئی۔

’’ارے ہاں۔‘‘ دفعتاً اُسے کچھ مزید یاد آیا تھا۔

’’ہمارا وہ خوبصورت، انقلابی اور اٹلی کا پہلا نوبل انعام یافتہ شاعرGiosue Carducciکہ وہ پیسا Pisa کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوا اور بلوگناBologna میں ملازمت کرتا تھا۔ جب پہلی مرتبہ روم کی سیاحت کے لئے آیا تو بطور خاص اِسے دیکھنا گیا تھا اور بے حد متاثر ہوا تھا اس سے۔ اس کا اظہار اُس نے اپنی ایک نظم میں بھی کیا۔‘‘

’’ روم کی بھلا کون سی ایسی چیز ہے جسے سراہانہ جائے ایزولینا۔ ہاں اگر ایک عظیم شاعر کو کوئی مقام اور جگہ بہت پسند آئی تو بھئی پھر اس کے باکمال ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔‘‘

سچی بات ہے رات اتنی تھکی ہوئی تھی۔ دیر بھی خاصی ہو گئی تھی کہ کوئی کتاب، کوئی برو شر، کوئی گائیڈ بک کھولنے کی ہمت نہیں پڑی۔ بستر پر گری اور کہیں رومن بادشاہوں کی دُنیا میں پہنچ گئی۔

صبح تو یوں بھی بھاگ دوڑ میں پھنسی ہوئی تھی۔ ناشتے کا شیڈول بھی واجبی سا نہیں بلکہ خاصا اہم اور پیٹ کی ناک تک بھرائی سے متعلق تھا۔ اب ایسے میں کتاب کا کھلنا اور کچھ دیکھنا ممکن کب تھا؟

بس نے مرکزی شاہراہ سے ذرا آگے اُتارا۔ ایزولینا نے تھوڑا گائیڈ کیا تھا۔ کچھ لوگ بھی اُترے تھے۔ انہی کی سنگت میں قدم اٹھائے چلی جاتی تھی۔ یہ اور بات تھی کہ کہ وہ رجّی پجی نظروں والے اپنے اردگرد بس ایک طائرانہ سی نگاہ پھینکتے اور آگے بڑھ جاتے۔ یہاں بے چاری فقیر فقری سی جدھر جاتیں وہیں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتیں۔ طرلے منتوں سے کہیں واپس بُلاتی۔

ملحقہ گلیوں میں تھوڑا چلنا پڑا۔ یہ چلنا بھی کیا چلنا تھا کہ قدم رُک رُک جاتے۔

اب جس Panthoen کو دیکھنے جا رہی تھی وہ تو اپنی عقبی سمت سے کوئی جنّاتی سی صورت کا جان پڑتا تھا۔ ایسی بلند و بالا دیواروں والا جیسے کوئی قلعہ ہو۔ ایسا پیٹ پھلائے ہوئے جیسے کوئی نو ماہ کی حاملہ ہو۔

جب پیازہ Piazzaڈیلا روٹنڈہ میں داخل ہوئی تو داہنے ہاتھ گرینایٹ کے چمکتے steps نظر آئے۔ فوراً جا کر وہاں بیٹھی۔ پہلے تھوڑا آرام کیا۔ پھر عمارت کے منہ متھے پر نظریں ڈالیں۔ ایک جانب پستہ قامت پوڈیم پر بنے فوارّے میں خوبصورت کندہ کاری کے پیڈسٹل پر کھڑی obeliskسجی سنوری اپنے چہرے مہرے سے سو فی صدی مصری دکھتی تھی۔ جو یقیناً کِسی شہنشاہ کی مار دھاڑ میں ہی یہاں لائی گئی ہو گی۔ کراس کا نشان بعد میں ٹانگ دیا گیا ہو گا۔

کتاب کھولی اور جانی کہ گرینائٹ کے ڈھیروں ڈھیر کورنتیئن Corinthianدر اصل قدیم یونانی اور رومی طرز تعمیر کے امتزاج سے بنائے گئے کالم ہیں جن پر عمارت کھڑی کی گئی ہے۔

رومن دیوتاؤں کا گھر ہے۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا تھا کہ دو تین کا نہیں ماشاء اللہ ماشاء اللہ پورے تیرہ دیوتاؤں کا۔ جیوپٹر سے شروع کریں تو جینوJuno، نیپچونNeptune، Bacchus، اپالوAppollo، ڈائیناDiana، مر کری، Mars، وینس، Vulcanاور Ceres۔

مزے کی بات سب یہیں رہتے تھے اور لڑتے وڑتے بالکل نہیں تھے۔ ہے نا عجیب سی بات۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں مان، ایک سلطنت کو دو بادشاہ نہیں قبول۔ یہاں تو خیر سے خداؤں کی فوج پڑی تھی۔ تو بھئی اگر کوئی ایسی بات ہے تو پھر تاریخ نے روند مارا ہے۔

وقت چاہے صبح کا ہو، چاہے دوپہر کا یا شام کا۔ سیاحوں کے پُروں کا ہونا شرط ہے۔ ایسا بھریا میلہ کہ رشک آئے۔ کچھ ایسا ہی لگتا تھا جیسے دنیا نے بس اٹلی کا گھیراؤ کر لیا ہے۔

’’ہائے میرے ملک میں ایسا کب ہو گا؟ مجھے تو بس یہی ہو کے لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ کمبخت مارے لُطف اٹھانے بھی نہیں دیتے۔‘‘

دیر بعد جب اندر جانے کیلئے اٹھی تو جان کر چہرہ کھِل اٹھا کہ یہاں کوئی ٹکٹ نہیں۔ شکر میرے مولا انہوں نے بھی کوئی چیز مفت کی۔ وگرنہ تو ٹکٹوں نے ہی مت مار دی تھی۔ چلو اِن پیسوں سے کچھ کھانے پینے کی عیاشی کروں گی(جیسے تجھ غریبڑی کے پاس پیسے نہیں ہیں خوش کتنی ہو رہی ہے؟ )اندر نے طعنہ مارا تھا۔

’’دیکھو بھئی مفتہ تو پھر مفتہ ہے۔ قاضی جیسے بندے نے نہیں چھوڑا تھا تو میں بے چاری کِس کھیت کی مولی؟‘‘

چونکہ یہ ایک چرچ بن گیا ہے جو اُن شہدا کے لئیے وقف ہوا جو سقوط روم کے وقت شہید ہوئے۔

اب ایک ٹولا کوئی پندرہ لوگوں کا قریب آ کر کھڑا ہوا۔ گائیڈ بھی ساتھ تھا۔ لکچر شروع ہو گیا تھا۔ میں نے بھی کان اُن کی جانب دھکیل دئیے اور آنکھوں کو بھی وہیں گاڑ دیا۔

اس کے پورٹیکو کو روم کی چھتری کہا گیا ہے۔ جب اسے دیکھا تو لگا واقعی یہ ایسے ہی ٹائٹل کی مستحق تھی کہ طوفانی قسم کی بارشوں اور آندھیوں میں جائے پناہ تھی۔ اور جب میں اس کے کانسی کے بھاری بھرکم دروازوں سے اندر داخل ہو رہی تھی تو گویا 2000سال پرانی تاریخ میں قدم رکھ رہی تھی۔

اور سچی بات ہے کہ محسوس تو یوں ہوا تھا کہ جیسے ایلس ان ونڈرلینڈ کی طرح کِسی ایسی گل و گلزار دنیا میں آ گئی ہوں کہ جہاں آنکھیں جھپکنی مشکل ہو گئی ہیں۔ رنگ و نور کا جہان اُبلا پڑ رہ تھا۔ چھت کے گنبد کی گولائی دار غیر معمولی وسعتوں کی ہر ہر موڑ اور مقام پر رنگوں کی نقاشی اور قد آدم طاقچوں میں کھڑے مجسمے کیا دل لُبھاتے تھے۔ چھت کے گول سوراخوں سے چھن چھن کرتی دھوپ پیلیں ڈالتی پھرتی تھی۔

کیسی افسانوی دنیا تھی جس میں گھومتا پھرتا ایک چھوٹا سا انسانی جہان سانس روکنے کو کافی تھا۔ میں بھی پتھر کی طرح مبہوت بنی کھڑی تھی۔ پھر بیٹھ گئی تھی کہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ رُعب حُسن سے غش کھا کر گر جاؤں گی۔

میرے خیال میں اس کی تعمیراتی فنی خوبیوں پر بحث فضول ہے۔ ظاہر ہے صدیوں پرانا شاہکار وقت کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ، جلنے بجھنے اور ملیا میٹ ہونے کے مرحلوں سے دسیوؤں بار تھوڑی بیسوؤں بار گزرا ہو گا۔ موجودہ رنگ تو جدتّوں کے ساتھ ہے جسے رافیل Raphaelجیسے آرٹسٹوں کے ہاتھوں نے سنوارا اور عہد جدید کے فنکاروں نے جلا دی۔

میں چھوڑتی ہوں اِس کی اندرونی ڈیزائن کاری کو کہ وہ کیسے مربعوں اور دائروں میں رقصاں ہے۔ بس اس کالم کو دیکھتی ہوں جس پر قربان گاہ اور apsesہے۔ تین اہم طاق اور تین اہم ملحقہ گرجے جن میں ایک میں بادشاہ وقت وکڑایمونیل Emmunuel IIاور ایک میں وہ لازوال مصور جس پر اٹلی کو ناز ہے رافیل

Raphealدفن ہیں۔ میں نے فاتحہ پڑھی۔ دل میں مگر ہاتھ نہیں اٹھائے۔ وکٹر ایمونیل کے لئے تو خصوصی دعا بھی کی۔

اور جب میں باہر نکلی تھی مجھے احساس ہوا تھا کہ باہر کے لیول اور عمارت کے لیول میں بہت فرق ہے۔ میں قریبی میکڈونلڈ سے فش برگر لائی۔ اُف لوگوں کو، نظاروں کو دیکھتے ہوئے کھانے کا اپنا ایک مزہ ہے اور میں یہ مزے لوٹ رہی تھی۔

جب ایک عجیب سی بات ہوئی۔ ایک اونچے لمبے کوئی ساٹھ60 باسٹھ62 کے پیٹے (میرے خیال کے مطابق) میں ایک شخص نے قریب آ کر پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں؟ پوچھنے والا یورپی لگتا تھا۔ حیرت کے چھلکاؤ سے لبریز آنکھوں سے میں نے مخاطب کو دیکھا کہ یہ سوال میرے اتنے دنوں کے قیام میں پہلی بار ہوا تھا۔

’’پاکستان‘‘۔ ہائے میرے لہجے میں پور پور شرمندگی اور خوف رچا ہوا تھا۔

’’ ارے۔‘‘

مرد کی باچھیں کھِلیں۔

’’آپ کے تربیلا ڈیم کی تعمیر میں میرے ہنرمند ہاتھوں کا بھی خاصا دخل ہے۔‘‘

اب میری باچھیں کھلنے کی باری تھی۔ یہ اور بات ہے کہ میرے اندر سے کہیں ایک ہوک بھی اٹھی تھی کہ اسی تربیلا ڈیم پر میرا جواں سال کزن خالد علوی ہزاروں فٹ اونچی کرین سے گر کر شہید ہوا تھا۔

مسٹرایڈ منڈو کوئی چار سال پاکستان میں رہا۔ چار سالہ یادوں کی لو اُس کی نیلی مائل بھوری آنکھوں میں جیسے فانوس کی طرح جگمگائی۔

’’ہم کبھی ویک اینڈ اور کبھی پندرہ دن بعد اسلام آباد جایا کرتے تھے۔‘‘

اسلام آباد کے چند ایلیٹ کلاس گھرانوں سے اُس کے مراسم تھے جن کا ذکر اس نے اِس وقت محبتوں بھرے رچاؤ سے کیا تھا۔

وہ نیپلز سے تھا۔ اپنی چھوٹی سی ایک کنسٹرکشن کمپنی کا مالک تھا۔ روم کِسی کام سے آیا تھا۔ مجھے وہ کچھ گالڑی ٹائپ لگا تھا۔

اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میرا نیپلز آنے کا کوئی پروگرام ہے۔

میں نے اپنی اکیلے ہونے کی مجبوری اُسے بتائی۔

بڑی بے ساختہ سی دعوت تھی جو اس نے فی الفور دے ڈالی۔

’’میرا گھر ہے وہاں۔ میرے پاس ٹھہرئیے۔ پاکستانیوں کی محبتوں کا میں مقروض ہوں۔‘‘

اتنی خوبصورت بات۔ میری آنکھیں پل بھر میں گیلی ہو گئیں۔

’’ارے نیپلز بہت خوبصورت جگہ ہے۔ دو باتیں تو اس کی بڑی مشہور ہیں۔ پیزا اور صوفیہ لورین۔ یقیناً دونوں کی آپ بھی مدّاح ہوں گی۔ دونوں کی جائے پیدائش نیپلز ہی تو ہے۔ اس کے رنگین پرانے شہر کا تو بس دیکھنے سے تعلق ہے۔‘‘

اُس نے اپنی بھوری مائل آنکھیں دائیں بائیں پھینکیں اور پھر میری طرف جھکتے ہوئے بولا۔

’’بھئی بڑی پرانی تاریخ ہے اس کی بھی۔ آپ لکھاری ہیں۔ اُس شہر کو تو ضرور دیکھنا چاہیے۔ نیپولین کو جب شکست ہوئی تو یہ ایک خود مختار سلطنت بن گئی تھی مگر اِن رومنوں کی اجارہ داری 1861میں کھل کر سامنے آئی۔ ’’اٹلی کو متحد کیا جائے۔‘‘ اس کے بادشاہ سے لے کر دانش وروں تک سب کی ایک ہی رَٹ تھی۔

اس اتحاد کے شور و غوغا میں کِسی نے ہمارا تو سوچا ہی نہیں کہ یہ بیچارے بھی کسی گنتی شمار میں ہیں۔ اِن سے بھی کچھ پوچھ لو کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ اِن کی بھی سن لو کہ یہ کیا کہتے اور کیا چاہتے ہیں؟ نتیجہ کیا ہوا ہماری تہذیب و ثقافت اور سیاسی لحاظ سے مضبوط آزاد و خودمختار سلطنت محض ایک صوبہ بن کر رہ گئی۔ اس کے سارے وسائل اور پیسہ کہیں شمال کی صنعتوں کے فروغ کے لئے اور کہیں مرکز کے لئے استعمال ہونے لگا۔

اور جب میں اُسے سُنتی، دل میں ہنستی اور خود سے کہتی تھی۔

یہ ساری دنیا ایسے ہی پھنبڑ پھوسوں اور کنجر کانیوں میں اُلجھی پڑی ہے۔ گھروں سے شروع ہو کر محلّوں، شہروں، صوبوں اور ملکوں تک میں یہی ہتھکنڈے اور سیاستیں کارفرما ہیں۔ اللہ نے بنی نوع انسان کی سرشت ہی کچھ ایسی بنا دی ہے۔ اب وہی حال ہے نا گجراتیوں سے بچو مکّار لوگ ہیں۔ سیالکوٹی نام نہ لو ان کا تو۔ سانپ اور سیالکوٹی میں کوئی فرق نہیں۔ بس تو ہر جگہ انسانی نفسیات ایک سی ہے۔ خدا کا بس کرم ہے کہ بیچ میں ہی کچھ لوگ ایسے پیدا ہو جاتے ہیں۔ کہہ لیجیے وہ خود پیدا کر دیتا ہے۔ جو بھرم، آبرو اور عزت و توقیر کے ضامن بن جاتے ہیں۔ خاندانوں، شہروں اور ملکوں کے لئے۔ بس یہی سرمایہ ہوتے ہیں۔

ایڈمنڈو خدا جانے کس بات پر ہنسا تھا۔ میں نے اپنی سوچوں سے نکل کر جب اُسے دیکھا۔ اُس نے کہا۔

’’ارے ہاں وہ قرون وسطیٰ کا اطالوی شاعر دانتے Dantجو اطالوی زبان کا باپ اور اطالوی قومیت کے اتحاد کا بڑا علم بردار تھا۔ تھا تو وہ فلورنس سے پر نیپلز میں ہر جگہ سجا ہوا ہے۔ یقیناً بہت سے پاکستانیوں کی طرح تم بھی اُس کی بہت بڑی مدّاح ہوں گی۔‘‘

’’کیوں نہیں۔ وہ تو میں ہوں۔ تمہارے رنڈی رونے اپنی جگہ۔ مجھے اُن سے کیا۔‘‘

کوئی گھنٹہ بھر ہم لوگوں نے باتیں کیں۔ اپنا نام پتہ موبائل نمبر سب اُس نے میری ڈائری میں لکھے اور موبائل میں بھی فیڈ کر دئیے۔

اور جب میں بس کے انتظار میں تھی۔ اگلے پچھلے سبق بھول کر ایک نئی سوچ میرے گرد رقصاں تھی تو نیپلز کا چکر کیوں نہ لگا لیا جائے۔

ہڈیوں گوڈوں میں اُتری ہوئی تھکن نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔

’’کچھ خوف خدا کرو۔ جو ماڑا موٹا دیکھنا ہے۔ دیکھ لو۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی ہوس سے باہر نکل آؤ۔‘‘

ازولینا کے مسکراتے چہرے نے اپنایت کی خوشبو میں نہال کر دیا تھا۔

اس نے پوچھا تھا۔

’’کیسا رہا۔ لُطف آیا۔‘‘

ظاہر ہے دونوں کا جواب مسکراہٹ اور اور کمال کی چیزیں ہیں کہنے میں ہی تھا۔

’’روم کے سب سے خوبصورت سکوائر پیازہ ناوہ ناNavonaدیکھنے کے لئیے تیار ہو جائیں۔‘‘

یہ تو سچی بات ہے۔ سیاحوں کی جنت محسوس ہوئی تھی۔ اس کی کشادگی، اس کا ماحول، اس کے مجسمے اور فوارے۔ عمارتوں کی قدامت کا حسن اور تاریخی اہمیت۔ بگھیوں میں

بیٹھے سیر کرتے منچلے اور جا بجا بیٹھے کھڑے، گھومتے پھرتے سیاحوں کی ٹولیاں۔

پورا ایک گھنٹہ یہاں گزار کر واپسی کی۔ بس میں بیٹھنے کے ساتھ ہی میں نے کہا۔

’’ازولینا تم بہت پیاری سی لڑکی ہو۔ مگر اب مجھے کہیں نہیں اُترنا۔ اگر تھوڑا سا زبانی کلامی تعارف کرواتی جاؤ تو تمہیں دعائیں دوں گی۔‘‘

وہ ہنسی۔ ’’تھک گئی ہیں؟‘‘

جواب میں میرے چہرے پر بکھری حسرت و یاس نے اُسے یقیناً متاثر کیا ہو گا۔ تبھی اس نے فی الفور کہا تھا۔

’’اوکے اوکے۔ گٹ ریلیکس۔‘‘

وکٹر ایمونیل Victor Emmanual Monument دوم کی یادگار پر اُس نے جیسے دخترانہ سا محبت بھرا اصرار کیا تھا۔

’’دیکھ آئیے اِسے۔ تاریخ میں بڑی اہمیت ہے اس کی۔ پورا گھنٹہ ہے آپ کے پاس۔‘‘

اُس کے ایک طرح دھکا دینے پر ہی میں اُتری تھی۔ یادگار تک چلنا بھی پڑا تھا۔ دوسرے سیڑھیاں بھی اتنی۔ بہرحال وکٹر ایمونیل دوم اٹلی کا پہلا بادشاہ جس نے 1870میں پورے اٹلی کو متحد کرتے ہوئے اُسے ایک قومی شناخت دی۔ اِس کردار سے تو میری اب خاصی شناسائی کیا ایک طرح کی دوستی ہو گئی تھی۔ اٹلی میں اپنے آنے کے پہلے دن مسز سمتھ کے ہاں جو مجسمے میں نے دیکھے تھے وہ اسی وکٹر اور اس کے تین ساتھیوں کے ہی تو تھے۔

’’تو بھئی اسے خراج پیش کرنا توازبس ضروری ہے کہ وعدہ کیا ہوا ہے۔ یوں بھی ایسی شخصیتیں چمکتے نگینے ہوتی ہیں۔ اپنی تاریخ کو تو جگمگاتی ہیں پر دوسری قوموں اور لوگوں کی بھی سانجھی بن جاتی ہیں۔

اٹلی کے اس پہلے بادشاہ گھڑ سوار کا یہ مجسمہ دنیا کا سب سے بڑا گھڑ مجسمہ ہے۔ مونچھیں دیکھ کر ہنسی چھوٹ گئی۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو کوئی ساڑھے چار پانچ فٹ سے کیا کم چوڑی ہوں گی۔ گھوڑے کے سموں کی کشادگی میں بندے بیٹھ سکتے تھے۔ سفید ماربل سے چمکتی یہ یادگار دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نامعلوم سپاہیوں کا مقبرہ اور ہمیشہ جلنے والا شعلہ دیکھا۔ اٹلی کے دربان یہاں بھی پتھر کے مجسموں کی مانند ساکت کھڑے دِکھتے تھے۔

پتہ چلا تھا کہ یہیں ایک چھوٹا سا میوزیم بھی ہے جس میں Risorgimento تحریک اور جنگ کی پوری تاریخ محفوظ کی گئی ہے۔ یقیناً دیکھنے کی چیز ہو گی مگر کیا کرتی۔ اپنی ٹانگوں کو بھی تو دیکھنا تھا۔ یوں بھی ابھی آدھا دن پڑا تھا۔

محبت و پیار کے اُن جذبات کا اظہار ممکن ہی نہیں جو میرے دل نے ازولینا کے لئیے محسوس کئیے تھے۔ اجنبی دیسوں میں ملنے والے فرشتوں میں وہ اِس صنف کا سب سے بڑا

کردار تھی کہ روم کا جنوب مغربی اور جنوبی حصّہ دکھانے کا سارا کریڈٹ اُس کے کھاتے میں جاتا ہے۔ میں نے تو کہیں نہ کہیں بیٹھ کر شام گال دینی تھی۔ مگر یہ وہ تھی کہ جس نے دو گاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ اپنی کولیگ سلوا کو میرے بارے بتایا اور اُسے میری مدد کے لئے کہا۔

ازولینا کی دوست سلوا نے دریائے ٹبر کے ساتھ مجھے Trastevereاور Testaccioکی ہر اہم جگہ دکھائی اور معلومات سے سرشار کیا۔ قرون وسطیٰ کے عکاس گاؤں کے طرز تعمیر کی جھلکیاں دیکھیں اور مندروں میں بجتی گھنٹیاں سُنیں۔ کیا حُسن تھا۔

کاش میں شاعرہ ہوتی تو نظمیں کہتی۔ میں مصور ہوتی تو اُن منظروں کو پینٹ کرتی۔ پیازہ سانتا ماریا اُتری۔ وہاں کچھ دیر بیٹھی۔ رب کے بندوں کی رنگا رنگی دیکھی۔ آئس کریم کھائی۔ خود کو خوش کیا۔ شکر ادا کیا کہ اس نے یہ جگہ بھی مجھے دکھائی۔

بس میں بیٹھے بیٹھے میں نے تنگ گلیوں میں چھلکتے قدامت کے جس حسن کو دیکھا۔ اُس حسن کو تفصیل سے دیکھنے کے لئیے دل کیسے مچل مچل گیا۔ اس کا احوال کیا سناؤں۔ دمشق یاد آیا تھا۔ اس کی فراخ کشادہ گلیوں میں وہ شاندار ولاز یاد آئے تھے۔ وہ گھر جن کے دروازوں پر کھڑے دربانوں نے میرا اندر دیکھنے کی خواہش پر میری پاکستانیت کو احترام دیا تھا۔ تعمیری حسن کے کیا رنگ تھے اُن گھروں میں۔ دمشق کیسا ہو گا اب۔

ہائے ان بڑی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں۔ یہ شام قدیم تہذیب و تمدن کا گہوارہ۔ سچی بات ہے لگتا تو کچھ یوں ہے جیسے طبل جنگ اب اسی سرزمین پر بجے گا۔ ایٹمی ہتھیاروں کے تباہ کن نتائج اسی خطہ زمین کو بھوگنے شاید مقدر کر دئیے ہیں۔ کیا امریکہ اور برطانیہ، کیا فرانس اور کینیڈا، حتیٰ کہ ترکی بھی ہر روز یہاں میدان جنگ سجاتے ہیں۔

جنگ کے شعلے بھڑکنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ماچس کی ایک چھوٹی سی تیلی ہی نہیں مان۔ پہلی جنگ عظیم میں ہوا کیا تھا۔ سربیا کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہی قیامت بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم بھی جرمنی کی جانب سے پولینڈ پر حملے کی صورت میں پھوٹ پڑی۔ اب ترکی نے روسی طیارے کو مار گرایا ہے۔

آنکھیں تو بھیگ رہی تھیں۔ کوئی مجھے گھسنے دے گا یہاں۔ دہشت گرد کا کہہ کر حوالہ پولیس نہ ہو جاؤں گی۔ ہم مسلمان آہ راندہ درگاہ۔

پروٹسٹنٹ قبرستان کا پتہ چلا تھا۔ کچھ لوگ اُترے اور کچھ چڑھے تھے۔ جی چاہا تھا اُتر جاؤں۔ یہیں وہ کیٹس اور سیورن دفن ہیں۔ یہیں شیلے بھی ہے۔ دل بڑا مچلا تھا۔ مگر نہیں اُتری تھی کہ جانے کتنا چلنا پڑے گا۔

سلوا نے مجھ سے پوچھا تھا۔ مونٹیمرٹینیMontemartiniدیکھنے کا موڈ ہے۔ میں نے نفی میں سر ہلایا تھا۔

’’بہت خوبصورت میوزیم ہے۔ چار سو کے قریب نادر ترین مجسموں والا۔‘‘

میرے ہونٹوں پر شکستہ سی ہنسی بکھر گئی تھی۔

سلوانے مجھے تین گھنٹے کی اِس سیر کے بعد پیازہ نووینا کے پاس اُتارا جہاں سے میں ازولینا کی بس میں سوار ہو سکتی تھی۔ پیازہ اس وقت شام کے حسن میں پور پور ڈوبا ہوا تھا۔ بیٹھی انتظار کرتی رہی۔ دو تین بسوں کے بعد ازولینا کی بس میں چڑھی۔ اس کا وہی مخصوص سوال تھا۔

’’انجوائے کیا؟‘‘

’’وہ تو کیا مگر بیٹھے بیٹھے۔ ازولینا میں تو اسی میں بڑی خوش ہوں۔ میں نے اُن ہواؤں اور فضاؤں میں سانس لیا۔ اُن چیزوں کا بصری دیدار کیا جنہیں میں نے کب دیکھنا تھا؟ ازولینا تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟ لفظ بہت تھوڑے ہیں اور چھوٹے بھی ہیں۔‘‘

میری جذباتیت پر اُس نے میرا ہاتھ دبایا تھا۔ اس کا چہرہ اس کے اندر کے احساسات کی رو میں بہنے لگا تھا۔

’’میری ماں روم آنا چاہتی تھی۔ نہیں آ سکی۔ دنوں میں چٹ پٹ ہو گئی۔ آپ کی تھوڑی سی مدد کر کے میں نے اپنے اُس جذبے کی تسکین کی ہے۔‘‘

کل کے بارے میں پوچھا۔

ازولینا کل تو میرا واپسی کا ارادہ ہے۔ ایک دن آرام کے بعد پیسا اور لوکا کے لئیے نکلنا ہے۔ فلورنس بھی جانا ہے۔

پیازہ ڈل پاپلوPiazza Del Popolo پر اُترنے اور بقیہ شام وہاں گزارنے کا مشورہ مجھے ایزولینا سے ہی ملا تھا۔

’’دو گھنٹے وہاں ضرور گزارنے ہیں آپ نے۔ لُطف آئے گا۔‘‘

چھ بجے سے پہلے میں نے بس کو نہیں چھوڑا۔ جتنا مزید دیکھ سکتی تھی۔ دیکھتی رہی۔

اُترنے سے قبل میں نے اُس کا ما تھا چوما تھا۔ اُسے خوشگوار اور پرمسرت زندگی کی دعا دی تھی۔

کہہ لیں کہ تھوڑی سی عجیب یا نرالی سی بات ہوئی۔ یا انسان کے کسی انسان دوستی جذبے کا ترجمان وہ ایک خوشگوار سا لمحہ تھا کہ جب میں بس سے اُتر رہی تھی اُس نے ایک چھوٹا ساخوبصورت گفٹ پیک شاپر میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ پٹڑی پر قدم رکھتے ہی میں نے حیرت سے اُسے دیکھا وہ اپنے مسافروں کے ساتھ مصروف تھی۔

اور جب آخری مسافر اندر داخل ہونے پر خودکار دروازے بند ہو گئے۔ اُس نے مجھے دیکھا تھا۔ میں ابھی تک ایک اجنبی زمین پر ایک اجنبی انسان سے محبتوں کی یافت پر گم سُم اور حیران سی کھڑی تھی۔ اُس کے ہاتھ ہلانے پر مسکرائی تھی اور نمی اُترتی آنکھوں سے ایک جانب بس اور دوسری جانب خود اپنے راستے پر آگے بڑھتے ہوئے صرف یہی سوچے چلی جا رہی تھی کہ دھرتی کا سارا حُسن تو بس ایسے ہی لوگوں کا مرہون منت ہے۔

میری جذباتیت اور تھوڑی سی دل گرفتگی راستے کے خوبصورت منظروں نے کم کرتے کرتے ختم کر دی تھی۔ شام ہو رہی تھی اور تا حد نظر جلوے ہی جلوے بکھرے ہوئے تھے۔ Piazza Del Popolo سکوائر زیادہ دور نہ تھا۔ یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ گلیوں گلیوں سے وہاں جا یا جا سکتا ہے۔

سچی بات ہے ساری گلیاں چُلبلے سیاحوں سے بھری پڑی، بلند و بالا عمارتوں سے سجی ہوئیں کسی بے حد پر اسرار سی فلم کی طرح جو ہر آن نئے نئے منظروں کو وا کرتی ہوں جیسی تھیں۔ یہاں بھی وہی حال تھا۔ میں جگہ جگہ بیٹھ جاتی۔ ابھی سورج تو بینروں پر بیٹھا تھا مگر روشنیوں نے گلیوں کو بقعہ نور بنا رکھا تھا۔ ہواؤں میں لطافت گھل گئی تھی۔

صدیوں پرانا یہ سکوائر روم کے روایتی حسن سے سجا سنورا اپنے اندر زمانوں کی تاریخ کا اثاثہ سنبھالے روم کے ماتھے کا جھومر بنا اُس کی شان بڑھانے کا باعث ہے۔ اس کے اندر داخل ہوتے ہی عجیب سی سرشاری اور لطف رگ و پے میں دوڑنے لگا تھا۔ سکوائر کی وسعت، اُس کا گرد و نواح لوگوں کی رونق سب مسرور کن تھے۔

ایک وقت تھا بہت پرانا وقت جب یہ مسافروں کے لئے مشرقی جانب سے روم کے اندر داخل ہونے کی پہلی گزرگاہ اور پہلا راستہ اور پہلا منظر نامہ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کبھی یہoval صورت کا تھا۔ ہو گا کبھی۔ مگر اب تو اپنی وسعتوں کے ساتھ ساتھ عمارتوں کے حسن ترتیب، اپنے جڑواں چرچوں کے باروق ڈیزائن کی حسن کاریگری، اپنے فواروں میں سجے جانوروں کے مجسموں سے سجا سنورا قلب و نظر کو گرماتا ہے۔

اس کی بلند و بالا مصر یobeliskجسے دنیا کی نمبر دو کا قدیم ترین ہونے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ روم میں سب سے اونچی اور بلند ہونے کا مرتبہ بھی حاصل ہے۔ اس کی ہر سمت کسی نہ کسی انداز میں تاریخی حسن سے سجی ایک داستان سناتی ہے۔ آگسٹس 10قبل مسیح میں اسے مصر سے لا یا تھا۔

یہ Aurelian walls میں گھِرا جس کی دیواروں کے عقبی حصے اور ستون آرٹ شاہکاروں سے سجے اس کی شان دو چند کرتے ہیں۔

Obeliskکی سیڑھیوں پر من چلوں کے نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ ایک پر بیٹھ کر میں نے اپنی گردن کو بہت خم دے کر اس کی بلندی کو دیکھا۔ دس منزلہ جو کبھی رعمسیس دوم کے ٹمپل کی شان بڑھانے کی موجب تھی۔ جسے سیتی اول نے بنوایا تھا۔ مصر کے پہلے رسم الخط ہیرو گلیفی سے اس کی تین اطراف سجائیں اور اپنی تاریخ کو کندہ کاری سے محفوظ کیا۔ ہائے یہ تاریخ بھی کیسی ظالم ہے۔ مار دھاڑ، اُکھاڑ پچھاڑ کے بغیر اُسے کہیں چین ہے۔ نہیں ہے کبھی یہ رعمیس دوم کے محل کی شان بڑھائی تھی۔ آج کسی اور جگہ کسی اور کو نواز رہی ہے۔

لانے کے فوراً بعد اِسے سرکس میکسمس Circus Maximus میں نصب کی گئی۔ بعد میں کوئی1589 میں اس سکوائر کی شان کو دوبالا کرنے کی ضرورت پڑ گئی۔ تب یہاں گاڑ دیا۔

اس پیازہ کی مشرقی اور مغربی سمتوں کو حسن دینے میں اُن دو فواروں کا ذکر کتنا ضروری ہے۔ Neptune کا فوارہ اس کی مغربی سمت سے اور رومہ مشرقی جانب سے دل کو رجھانے اور آنکھوں کو لبھانے والے نظر آتے ہیں۔ پیازہ ڈل پاپلو کا مطلب لوگوں کا سکوائر سے ہے۔

میں نے شام کا حُسن یہاں بیٹھ کر دیکھا۔ دھوپ کی آخری کرنوں کو obeliskکی چوٹی پر سے غائب ہوتے دیکھ کر اپنے دل میں عجیب سے احساسات کا ہجوم یلغار کرتے محسوس کیا۔ مجھے اپنے ساتھ ساتھی نہ ہونے کا بھی قلق تھا۔ میں اپنے جذبات شیئر ہی نہیں کر سکتی تھی۔

تاہم اس شام کا حُسن ایزولینا کے محبت بھرے تحفوں نے بھی بڑھا دیا تھا کہ چاکلیٹ ایسی مزے کی تھی۔ چھوٹی سی اس کی بائٹ اور ساتھ نٹنر۔

پھر جب دن ڈوبا اور رات کی حسینہ اپنے سیاہ بالوں کے ہر ہر تار میں چمکدار موتی پروئے چھم چھم کرتی اُتری اور سارے میں اُس کا طلسم بکھر گیا۔ تو سچی بات ہے دل اُس بھر یا میلے سے اٹھنے پر مائل نہ تھاپر جسم میں اٹھتی تھکن کی لہریں لعن طعن کرتی تھیں۔

اب ٹیکسی میں اسٹیشن آ گئی سوچاکہ ٹکٹ کے ٹنٹنے سے بھی نمٹ جاؤں۔ جب بکنگ آفس کھوج کرتی تھی تو بھول گئی تھی کہ ایجنٹ تو یہاں جنگلی کھمبیوں کی طرح جا بجا اُگے ہوئے ہیں۔ ایک نے پکڑ لیا تھا۔ ساتھ لے کر مشینوں پر آ گیا۔

انگلیوں سے ٹک ٹک۔ چند لمحوں بعد بولا۔

’’ ارے بھئی بڑی خوش قسمت ہیں۔ ٹکٹ سیل پیکج پر چل رہا ہے۔ 57یورو دینے ہوں گے۔‘‘

لو بھئی خوشی سے نہال ہونے والی بات ہو گئی۔ پورے تیس یورو کی بچت۔

ابھی اس خوشی کی ساعت کو پل نہیں گزرا تھا کہ اُس نے ہانک لگائی۔

’’سوری مجھے غلطی لگی۔ یہ ستتر 77یورو کا ہے۔‘‘

ساری خوشی موت کے جھاگ کی طرح بیٹھ گئی۔ میرے یکدم کھلنے اور آناً فاناً مرجھا جانے والے چہرے کے دونوں روپ اُس نے دیکھے اور عجیب بونگے سے انداز میں بولا۔

’’دس یورو کی تو ابھی بھی بچت ہو رہی ہے۔‘‘

چلو خیر اب یورو مشین میں ڈالے۔ ٹکٹ نکلا۔ بقیہ پیسے نکلے۔ میں نے تین یورو اس کی ہتھیلی پر رکھے۔

اُس کی نظروں میں جیسے مجھے کھلم کھلا اِس نفرت بھرے طعنے کا عکس نظر آیا تھا۔

’’بڑی کمینی عورت ہو۔‘‘

گھبرا کر فوراً میں نے مزید دو یورو اُس کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔ مگر وہاں وہی رکھائی، کمینگی اور سرد مہری سی نظر آئی تو میں بھی یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

’’الو کا پٹھا۔ ساری بچت خود ہی ہڑپ کر جانا چاہتا ہے۔ بھئی ذرا سی خوش ہونے پر تو میرا بھی حق بنتا ہے نا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

باب 14: اٹلی کا قومی شاعر گوزیو کاردوسی

 

 

* اٹلی کے پہلے نوبل ایوارڈ یافتہ قومی شاعر گوزیو کاردوسی کی سوچ بڑی انقلابی تھی۔

* اُس کا کہنا تھا کہ شاعری ہی وہ ہتھیار ہے جو کِسی بھی قوم کے شعور کی بیداری اور اُسے سیاسی بلوغت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

* شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھا استاد، بہترین نثرنگار اور تنقید نگار بھی تھا۔

* ملکی سیاست میں بھی وہ بڑا فعال تھا۔

 

پہلا تعارف روم میں ایزولینا کی زبانی ہوا تھا۔ اپنے قومی اور نوبل انعام یافتہ شاعر پر بات کرتے ہوئے اس کا لہجہ خاصا پر غرور سا تھا۔ تفصیلی تعارف مسز ریٹا سمتھ کی سٹڈی روم میں ہوا۔ یوں یہاں دانتے Dantaکانسی کے بڑے اور گوزیو کاردوسیGiosue Carducei ذرا چھوٹے دیدہ زیب مجسموں کی صورت موجود تھے۔ دانتے سے تعارف ڈیوائن کومیڈی کے حوالے سے پرانا تھا۔ مگر اس کی مخصوص طوطے جیسی ناک سے شناسائی یہاں اٹلی میں ہوئی۔

مگر یہ صورت۔ وجاہت برستی تھی۔ بنانے والے کی ہنر مندی کو بھی سراہنا پڑا تھا کہ دانشوری کا گھمبیر سا تاثر فنکار نے کمال فن کی صورت چہرے پر بکھیر دیا تھا۔ داڑھی اور مونچھیں بھی کمال کی تھیں۔ یہ صدی دو صدی پہلے کے بڑے بڑے لکھاری، دانشور، سائنس دان اور فنون لطیفہ کے ماہر اپنی تمام تر روشن خیالی کے باوجود اتنی بڑی بڑی مونچھیں اور داڑھی رکھتے تھے۔ کیا ایسا کرنا تب معاشرے میں مردانگی کی علامت سمجھی جاتی تھی یا پھر سست الوجودی اور کاہلی کا کوئی مسئلہ ہوتا تھا؟

مسز ریٹا کے لہجے میں بھی چھلکتے فخر کا احساس اور اظہار بڑا زور دار قسم کا تھا۔

’’ہمارے ملک اٹلی کا پہلا نوبل ایوارڈ یافتہ اور ماڈرن اٹلی کا قومی شاعر۔‘‘

در اصل شدید خواہش کے باوجود مسز سمتھ کا سٹڈی روم میرے لئے ابھی تک شرلک ہومز جیسا اسرار لئے ہوا تھا۔ پہلے دن کی پہلی شام اس کے دروازے ضرور کھلے تھے مگر اندر جانے، وہاں بیٹھنے اور شیلفوں میں بند ہیروں کو دیکھنے کی حوصلہ افزائی نہ تھی۔ آج شام کو ان کے گھر جاتے ہوئے میں نے دل میں کہا تھا۔

’’اب دم واپسی ہے۔ ڈھیٹ بن کر مدّعا ضرور گوش گزار ہو گا۔‘‘

وہ مجھے دیکھ کر خوش ہوئیں۔ روم کے بارے باتیں ہوئیں۔ میرے تاثرات اور تجربات بڑے ہی دل خوش کن تھے۔ پیسا کے بارے بھی بتایا کہ کل وہاں جانے کا ارادہ ہے۔ مسرور ہوئیں۔ پھر درخواست کو بھی پذیرائی ملی۔ کتابوں، مجسموں اور پھول پتوں میں گھرے کمرے میں سانس لیتے ہوئے اپنے اندر سرشاری کی سی کیفیت روح تک میں اُترتے محسوس کرتے ہوئے میں فکر و آگہی کی دنیا میں داخل ہوئی تھی۔

میں شاعر سے تفصیلی متعارف ہونا چاہتی تھی۔ مجھے محسوس ہوا تھا جیسے شناسائی کی ساری منزلیں مسز ریٹا سمتھ خود طے کروانا چاہتی تھیں کہ شاعر سے بڑا عشق تھا۔ مگر میں بھی ایک نمبر کی کائیاں۔ میرے دل نے کہا تھا۔

’’آپ کی محبت کا بہت شکریہ۔ مگر پلیز جانیے میرا تو رشتہ ہے اس سے۔ میرے قلم قبیلے کا فرد ہے۔‘‘

مسز سمتھ کی مہربانی، اُن کی نوازش کہ انہوں نے بھاپ اڑتی کافی کا مگ مجھے پکڑایا۔ بھاپ کے مرغولوں میں سے جھانکتی، شیلف پر سجی بے حد ذہین آنکھوں نے مجھے دیکھا۔ مسکراتے ہوئے میں نے کہا۔

’’گوزیو تمہاری زبان سے سننے کا تو اپنا ہی لطف ہو گا۔ اور تمہیں تو انگریزی پر بھی بہت عبور ہے۔‘‘

میں نے گھونٹ بھرا۔ ایک بھاری سی آواز گونجی تھی۔ ایک سوال ہوا۔

’’تم نے لوکا Lucca دیکھا ہے؟‘‘

’’کل پیسا کے لئے روانگی ہے۔ لوکا بھی جاؤں گی۔ فلورنس کا بھی پروگرام ہے۔

میرے لہجے میں کہیں مسرت اور کہیں شوق کا اظہار تھا۔

’’لوکا بہت خوبصورت جگہ ہے۔ تمہارے اِس شاعر نے لوکاLucca کے ایک چھوٹے سے قصبے والدی کیسٹلوValdicastello میں 1835کے سال جنم لیا تھا۔

ارے ہاں یاد آیا۔ بتاتا چلوں تمہیں کہ اِس جگہ سے قریب ہی وہ سمندر ہے جہاں انگریزی ادب کا وہ مشہور شاعر شیلے ڈوب کر مرگیا تھا۔‘‘

’’ہائے۔‘‘ میرے اندر سے ہوک اُٹھی تھی۔ کیا خوبصورت شاعر تھا؟

میرا گھرانہ قدیم فلورنٹائن روایات کا اسیر تھا۔ میرے دادا کو اپنے وقت کی انقلابی تحریکوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہاں اُسے اپنے ڈیوک سے بہت پیار تھا مگر میرے بابا میخائل کاردوسی جو ایکمائننگ کمپنی میں ڈاکٹر تھا۔ بڑا انقلابی تھا۔ اٹلی کے اتحاد کا سب سے بڑا داعی۔ کاربونیری Carbonari (اٹلی کی خفیہ تنظیم آزادی) کے ساتھ منسلک ہونے اور ملکی سیاست میں سرگرمی سے حصّہ لینے کی پاداش میں وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا اور نتیجتاً خاندان کو ٹک کر ایک جگہ رہنا نصیب نہ ہوتا۔ شاعر کا سارا بچپن اِدھر اُدھر گھومتے گزرا تھا۔ اسی دربدری میں کچھ سال فلورنس میں بھی گزرے۔

اگر میں اپنے بچپن کی یادوں بارے کوئی بات کروں تو کہنا پڑے گا کہ دو واقعات ایسے تھے کہ وہ ہمیشہ اپنی پوری توانائی سے میرے اندر محفوظ ہوئے اور گاہے گاہے ان کی جھلمل اپنی پوری آب و تاب سے سامنے آتی رہی۔

ابھی میں چھوٹا ہی تھا۔ ہمارے گھر کے پچھواڑے باغ تھا۔ اب جگہ کیسی تھی اس کی خوبصورتی یا بدصورتی کا کوئی واضح تصور ذہن میں نہیں۔ مجھے موسم بھی یاد نہیں۔ یہ بہار کے دن تھے۔ کیا سردیاں تھیں؟ گرمیاں یا خزاں کے دن۔ بس اتنا سا یاد پڑتا ہے کہ جیسے زمین سے آسمان تک ہر چیز گیلی گیلی اور دھواں دھواں سی تھی۔ میری ہی عمر کی ایک لڑکی میرے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس کے رسے کا ایک کونا میں نے پکڑا ہوا تھا اور وہ ٹاپ رہی تھی۔ دفعتاً ایک بدصورت مینڈک نما چیز ہمارے پاؤں کے سامنے آ گئی۔ ایک خوفناک سی چیخ ہم دونوں کے حلق سے نکلی اور فضا میں بکھر گئی۔ دفعتاً عین سامنے والے گھر کا دروازہ کھلا۔ لمبی سیاہ داڑھی والا ایک مرد کتاب ہاتھ میں پکڑے دروازے میں نمودار ہوا۔ اس کی نگاہوں میں غصے کی تپش تھی اور اس نے مجھے ڈانٹا تھا۔ رسہ پھینک کر میں اس کی طرف بھاگا چلاتے ہوئے۔

’’دفع ہو جاؤ۔ تم بدصورت انسان۔ دفع ہو جاؤ۔‘‘

وقت کا یہ کوئی فیصلہ کن لمحہ تھا جس نے میرے اندر یہ بیج بو دیا کہ میں نے زندگی بھر ہر اُس آدمی کو جس نے مجھے اخلاقیات کے نام پر لعن طعن کرنے کی کوشش کی۔ یہی کہا۔

ہاں اب دوسرا واقعہ بھی سنائے دیتا ہوں۔

گھر کا ماحول بے حد منظم اور سخت تھا۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی تھے۔ بچوں کی مجال نہ تھی کہ اپنی مرضی سے کوئی کام کر لیتے۔ مجھے جانور پالنے کا بہت شوق تھا۔ مگر اجازت ہی نہ تھی۔ اب کڑھنا اور احتجاج کرنا تو ضروری تھا۔ ماں کا سوالوں سے ناک میں دم کر دیتا۔

میڈر (ماں ) آخر میں عقاب کو کیوں نہیں پال سکتا۔ مجھے اُلّو بہت پسند ہیں۔ میں اُسے گھر میں رکھنا چاہتا ہوں۔ میڈر مجھے اجازت دو کہ میں بھیڑ کا بچہ رکھوں۔

وہ کام کرتے کرتے بیٹے کی اِن معصومانہ باتوں کو سُنتی اور دھیرے سے کہتی۔

’’تمہارا باپ پسند جو نہیں کرتا۔‘‘

پھر یوں ہوا کہ میں بھائیوں سے سازباز کر کے اُلّو گھر لے آیا۔ جیب خرچ جمع کرتا رہا اور چھوٹا سا عقاب خرید لیا اور پھر بھیڑیا کا بچہ بھی پالنے لگا۔

بھانڈا ایک دن پھوٹ گیا۔ گھر کے پچھواڑے رکھے ہوئے پرندوں میں اُلّو مار دیا گیا، عقاب کو اڑا دیا گیا اور بھیڑئیے کے بچے کو بھگا دیا گیا۔

اور جب میں سکول سے گھر آیا۔ میرے پچھواڑے کا مال متاع لٹ چکا تھا۔ میری آنکھوں سے آنسو نہ تھمتے تھے۔

ایسا دل شکستہ اور مایوس سا کہ گھر سے بھاگ کر جنگل میں چلا گیا۔ درختوں سے لپٹ کر روتا رہا۔ ساحل سمندر کے کنارے پر بیٹھا رہا، آنسو بہاتا اور خود سے باتیں کرتا رہا۔

بچپن کا یہ دکھ مجھے ہمیشہ یاد رہا۔ میری شاعری میں بھی اس کا اظہار ہوا۔

ادب میں ناموری مقدر کیوں نہ بنتی کہ مطالعہ کا شوق بچپن سے ہی جڑوں میں بیٹھا ہوا تھا۔ یوں استاد بننا اور پڑھانا بہت پسند تھا۔ ہاں البتہ مطالعہ کرنا میرا بہترین مشغلہ تھا۔ واحد خوشی ہر موضوع پر کتاب پڑھنا اور شاعرانہ خیالات اور سوچوں میں گم رہنا ہوتا تھا۔ میرے امیر دوست میرے اِس شوق سے آگاہ تھے۔ انہیں ہمارے مالی حالات کا بھی علم تھا۔ وہ ہمیشہ کتابوں کا تحفہ دیتے۔ جنہیں میں خرید نہیں سکتا تھا۔

ایک اور خوبصورت یاد حافظے میں محفوظ ہے۔ گھر کے ماحول میں بہت سے رنگ گھُلے ہوئے تھے۔ والد کے دوست آتے تو زوردار سیاسی بحثیں ہوتیں۔ ادب پر گفتگو، تاریخ کے حوالے، طب، فلسفہ غرض کونسا موضوع تھا جس پر بات چیت نہ ہوتی۔ تو اِن سب کا اثر یہی تھا کہ میرے اندر انقلاب، جمہوریت اور تاریخ کے حوالوں سے بہت کچھ باہر نکلنے کے لئیے مضطرب رہنے لگا تھا۔

اس کا پہلا بھرپور اظہار ہماری کھیلوں میں ہوا جو میں اور میرے دوست کھیلتے تھے۔ ڈرامے شروع ہو گئے۔ سکرپٹ لکھا جاتا جو میں لکھتا۔ ملک کے موجودہ حالات کی نمائندگی طوفانی قسم کی میٹنگز سے ہوتی جن میں اختلاف رائے پر پتھر اور ڈانگ سوٹے چلتے۔ اور آخر میں ہم ایک بہترین سا لائحہ عمل روم کی حکومت کو دینے کے قابل ہو جاتے۔

تاریخی کرداروں خاص طور پر رومن سیزر اور اُن میں بھی جولیس سیزر اور وہ اس کا سگا بھتیجا نیرو۔ کبھی کبھی ہماری یہ ڈرامہ بازی اپنے کرداروں کی زبانی اتنا شور و غوغا برپا کر دیتی کہ میرے والد باہر نکلتے۔ مجھے بازو سے پکڑ کر گھیسٹتے ہوئے کمرے میں لاتے اور میز پر رکھی تین کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے۔

’’ انہیں پڑھو۔ اور اپنی رائے کا اظہار کرو۔‘‘

یہ کیتھولک اخلاقیات پر مبنی کتابیں ہوتیں۔ میں نہیں جانتا تھا میرے باپ کا انہیں پڑھانے سے مجھے کیا سبق دینا مقصود تھا۔

سچ تو یہ تھا کہ مجھے نفرت تھی ایسی سب کتابوں سے۔ میں سمجھتا تھا کہ انہوں نے انسانی آزادی کو سلب کیا۔ جنگ و جدل کے رجحانات کو ہوا دیتے ہوئے قتل و غارت اور لڑائیوں کو راستہ دکھایا۔ تازہ ہوا سے محرومی اور بھوک ننگ دیا۔

مجھے انہیں پڑھنے اور ان پر وقت ضائع کرنے کی بجائے کمرے میں کھڑے ہو کر کھلی کھڑکی سے فطرت کے نظاروں کو دیکھنا اور باپ کی طرف سے عائد کی ہوئی سب سزاؤں کو بھگتنا بہتر لگتا۔

آغاز میں ادب میں سب سے زیادہ متاثر یونانی اور رومن ادیبوں سے ہوا۔ ابھی کالج میں قدم رکھا ہی تھا کہ سنجیدہ کلاسیکل ادب کی طرف بھی رجحان ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میرے سرہانے لاطینی شاعر ہورسHoraceاور ورجل Virgilرہتے تھے۔ دن رات انہیں پڑھتا اور ان کے عشق میں ڈوبا رہتا۔ یہی وہ دن تھے جب میں نے ہومر کی ایلیڈIliadکی کتاب 9کو اطالوی میں ترجمہ کیا۔

1856میں گریجوایشن سے فارغ ہونے کے ساتھ ہی میں نے درس و تدریس کا آغاز کر دیا۔ اٹلی سے بے پناہ محبت مجھے وراثت میں ملی تھی کہ میرا ڈاکٹر باپ پاگلوں کی طرح اٹلی سے پیار کرتا تھا۔ لاطینی میں نے اپنے باپ سے سیکھی تھی۔

یہی وہ سال تھا جو ہمارے چھوٹے سے خاندان پر کِسی قہر کی طرح ٹوٹا۔ میرے چھوٹے بھائی دانتے نے خودکشی کر لی تھی۔ اُس نے ایسا کیوں کیا؟ ہمیں تو معلوم ہی نہ ہوا کیسا جان لیوا صدمہ تھا؟ میں دیکھتا تھا۔ میرا باپ اس غم سے کتنا شکستہ ہو رہا تھا؟ اس کی شکستگی نے اندر ہی اندر اُسے گھول دیا۔ چند ہی ماہ گزرے تھے کہ وہ بھی ختم ہو گیا۔

میں نے اپنی ماں کو دیکھا وہ کس قدر اجڑی پجڑی نظر آئی تھی۔ میں نے اُسے بانہوں میں سمیٹا۔ اس کے بالوں کو چوما اور بڑے بیٹے کی طرح اُن ذمہ داریوں کو اٹھا لیا جو میرے اوپر عائد ہوتی تھیں۔ ہم اس وقت بہت غریب تھے۔ باپ نے جو ورثہ چھوڑا تھا وہ چند شیلنگ تھا۔

غموں کے اِس ہجوم میں میرے پہلے مجموعے Rimکی اشاعت نے مجھے ان کربناک دنوں میں اُس مسرت سے ہم کنار کیا جو کسی شاعر یا ادیب کو اپنی پہلی تخلیق سے حاصل ہوتی ہے۔ اِس مجموعے کی بہت سی نظمیں میرے ہیرو شپ جذبات، جنگ و جدل کی کہانیوں اور قدیم تاریخ کے ظالم اور مہربان کرداروں، تلخ و شیریں واقعات، کھیلوں، خاص طور پر ضلعی ٹورنامنٹوں اور کام سے بے پناہ لگن اور محبت کے حوالوں سے خاصی طویل تھیں۔

اس مجموعے کی ایک خوبصورت نظم” "Love and Death بہت اثر انگیز تھی۔ میرے لڑکپن کے کبھی کے سُنے ہوئے پسندیدہ عجیب و غریب سے واقعات، فاتح نائٹ کا کوئین آف بیوٹی کولے جانا، ہیروئن کے بھائی کا تعاقب کرنا، نائٹ کا قتل، اس کا پاگل پن اور پھر موت کے منہ میں چلے جاناجیسے تاریخی واقعہ کا بیان، حب الوطنی اور انقلابی خیالات نے بھی اِن میں اپنے ہونے کا بہت کھل کر اظہار کیا۔ یہ مجموعہ ایک ایسے معاشرے میں تہلکہ مچانے کیلئے کافی تھا جو ابھی تک پوپ اور پادری کی گرفت میں جکڑا ہوا تھا۔

میں اس کی شادی، اس کی بیوی بچوں اور ازدواجی زندگی کے بارے جاننے کی بھی بڑی خواہش مند تھی۔ مسز ریٹاسمتھ نے اپنی کافی ختم کر لی تھی۔ وہ گوزیو کو تھوڑا سا ریلیکس کرنے کے موڈ میں تھیں۔ اُن کی میٹھی مدھم اور مہربان سی آواز کمرے کی فضاؤں میں خوشبو کی طرح بکھری۔

وہ اُس کی ایک نظم گنگنا رہی تھیں۔

شمال کی کہر آلود زمینوں کی دختر

 

یہ چھوٹا سا اظہار تحسین اُس کے لئے ہے

جو بربط کے تاروں کو کسی

اَن دیکھے ہاتھ سے چھوتا ہے

اور کوئی قدیم سی دھن نکالتا ہے

نئی موسیقی میں سمونے کے لئے

معاف کرنا اگر کوئی تند و تیز سر نکل آئے

تمہاری سحر آگیں موسیقی کی تانیں

جنہیں تمہاری اعلیٰ روح شاید ہی سمجھ سکے

لیکن تمہارا شہد جیسا میٹھا گلا

شاید اس کا کوئی سراغ پا جائے

قدیم اٹلی کے دیوتا اور سمندری دیویاں

دیکھو پہاڑ جنگل، گھاٹیاں اور وادیاں

تمہاری کاہلی، سستی، تمہارا فخر و غرور

تمہارا جوش و اضطراب، تمہارا رشک وحسد

سب کھیل کو برابر کرتے ہیں

محبت اور پیار کو ان سب پر غالب آنے دو

کمرے میں سناٹا تھا۔ بہت دیر ہم دونوں اس کے سحر میں ڈوبی رہیں۔ پھر مسز سمتھ نے بولنا شروع کیا۔ وہ اُس کی شادی کا احوال سنا رہی تھیں۔

شادی اس نے 1859میں ایلویرا Elvira Memicucciسے کی۔ ایلویرا اس کے ایک دوست کی بیٹی تھی۔ شادی اس کی پسند اور خواہش سے ہوئی۔ اپنی ماں اور بھائی کو ایلویرا کے ساتھ ہی وہ اپنی نئی جائے ملازمت پر لے آیا تھا۔ ازدواجی زندگی خوشگوار تھی۔ کامیاب بھی رہی۔ تین بیٹیاں اور ایک بیٹا خاندان میں شامل ہو گئے تھے۔

بلوگنا Bologna میں پروفیسر ہونا بھی کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ یونیورسٹی میں دھوم مچ گئی تھی کہ زمانوں پرانی عمارت میں خوشگوار اور معطر ہوا کا جھونکا آیا ہے۔ زنگ آلود اور تھکی ہوئی روحوں کے درمیاں ایک نئے خیال اور نئے رجحان رکھنے والی شخصیت کا ورود ہوا ہے۔

دھیرے دھیرے ادب کے اونچے مقام پر فائز، شہرت کے اعتبار سے ملک میں ہی نہیں میں بیرون ملک بھی مشہور ہو چکا تھا۔ ایک اچھے استاد کے ناطے اپنے طلبہ میں ہردلعزیز اور اُن کے اندر کی پوشیدہ صلاحیتوں کو کھوج کرنے والا تھا۔ یہاں اس کے طلبہ میں سے ایک Pascoliپا سکولی بہت نمایاں ہو کرسامنے آیا اور اس نے شاعری میں بھی بڑا نام پیدا کیا۔ وہ اچھا استاد ہی نہ تھا بلکہ بہترین اور تند نقاد بھی تھا۔ ادب اور سوسائٹی دونوں کے چیتھڑے اڑاتا۔ پکا دہریہ تھا۔ اس کے سیاسی نظریات کی گولہ باری عمومی طور، پر عیسائیت اور کیتھولک چرچ کی سیکولر طاقتوں پر خصوصی طور پر مستقل رہتی۔

ایک بار اس نے کہا۔

’’میں نہ تو خدا کی سچائی کو جانتا اور مانتا ہوں اور نہ ہی پادریوں اور ویٹی کن والوں کی جانب سے امن پر میرا اعتبار ہے۔ یہی اٹلی کے حقیقی اور نہ بدلے جانے والے دشمن ہیں۔‘‘

1850سے 1860 تک کی شاعری” "Juveniliaکے ٹائیٹل کے تحت منظم ہوئی۔ تنقید نگاروں کا کہنا ہے کہ اِس مجموعے میں شاعر اپنی بہترین کاوشوں سے حیرت انگیز نتائج حاصل کرتا نظر آتا ہے۔ اِن میں کچھ نئی نظموں کا اضافہ تھا۔ ان میں بھی کچھ خاصی طویل نظمیں تھیں۔ وکٹر ایمونیل کو خراج تحسین پیش کیا تھا۔ سارڈیناsardina کا بادشاہ جو اس وقت اٹلی کی آخری امید تھی۔ اس کے جوشیلے جذبات اور خیالات نے ان نظموں میں کھل کر اپنے ہونے کا اظہار کیا تھا۔ یہ کلیات اس کے بے باکانہ شاعرانہ وجدان کا خوبصورت اظہار تھی۔

Confessions and Battles میں بھی اگرچہ یہ ذرا مشکل ہے کہ اسے ثابت کیا جائے کہ اس نے اپنے دفاع میں کیا کہا۔ تاہم بڑی بات یہ ہے کہ اس جیسے حساس شاعر کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ کیتھولک چرچ نے لوٹ مار اور لوگوں کو احمق بنانے کے جو طریقے اپنا رکھے تھے۔ ان سب کا حقیقی چہرہ لوگوں کے سامنے پیش نہ کرے اور اس مکروہ چہرے کی پوری تصویر کشی نہ ہو۔

وقت کے ساتھ ساتھ شاعرانہ صلاحیتیں نکھرتی گئیں۔ وسعت اور گہرائی میں اترتی گئیں۔ Rime nuove یعنی The new lyricsا ورBar barian odesبھی میرے خیال میں وہ بہترین مجموعے ہیں۔ جو 1877میں چھپے اور جنہوں نے بہت ہی مقبولیت حاصل کی۔ اس کا کہنا تھا کہ شاعری ہی وہ ہتھیار ہے جو کسی بھی قوم کے شعور کی بیداری اور اُسے سیاسی بلوغت دینے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اِن مجموعوں کی کلاسیکل نظمیں، دانشورانہ آہنگ کے ساتھ ساتھ متوازن اور شاعری کے وضع کردہ پیمانوں پر پوری اترتی ہی نہ تھیں بلکہ فی الفور دل میں گھر کرتی تھیں۔

ایسے جوشیلے، ترقی پسند خیالات والا اپنی ہر دل عزیزی سے گھبراتا بھی بہت تھا۔ Cross if savoyایک ایسی خوبصورت ڈرامائی پیش کش تھی کہ اِسے جب پرگولا Pergolaتھیٹر میں پیش کیا گیا اور ناظرین نے اس کے مصنف سے ملاقات کرنی چاہی تو وہ بھاگ گیا۔ دوست تعارف کروانے کے لئے اُسے جگہ جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔

1870ء کا سال بھی بڑا دکھ بھرا تھا۔ پہلے والدہ فوت ہوئیں۔ ایک محبت کرنے والے بوڑھے وجود سے گھر خالی ہو گیا تھا۔ ابھی اِس صدمے سے باہر نہیں نکلنے پایا تھا کہ میرا اکلوتا بیٹا دانتے فوت ہو گیا۔ تین سال کا خوبصورت بیٹا جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا۔ شاعر نے ایک جگہ لکھا۔

’’وہ میری امید تھا، میری محبت اور میرا مستقبل تھا۔ غم کی اس اندوہناک کیفیت سے نکلنے کے لئے میں نے خود کو کام میں ڈبو نا چاہا۔ مگر نہیں۔ مجھے لگتا تھا جیسے میرا اندر چھلنی ہو گیا ہے۔ مجھے خود پر حیرت ہوتی کہ میں نے اُسے قبر میں کیسے اُتارا؟ کس قدر غم انگیز نظمیں تخلیق ہوئیں جنہیں اعلیٰ معیار کے نوحے کہا جا سکتا ہے۔‘‘

حسن فطرت سے بے پناہ عشق تھا اور اس کا اظہار بھی اس کی شاعری میں جا بجا ملتا ہے۔ ode to Queen کا قصہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔

کہہ لیجیے وہ بہرحال ایک سیاسی دانشور کے طور پر بہت نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ اپنے باپ کی زندگی اور اس کے بعد کچھ وقت تک جمہوریت کا زبانی کلامی یا تحریر کے حوالے سے حامی رہا۔ تقریباً1859ء سے عملی طور پر اور شاعری کے ذریعے دونوں طرح اِس کا حصہ دار بنا۔ ملک کے اتحاد اور اس کے روشن مستقبل سے وابستہ امیدوں کے خون ہوتے حالات نے اسے اپوزیشن کے کیمپ میں پھینک دیا۔

وکٹر ایمونیل کی موت نے رد عمل دکھایا۔ نوجوان بادشاہ اور ملکہ کے لئے ہمدردی کے جذبات اس کے سیاسی نظریات پر اثر انداز ہوئے۔ ایک نظم ode to Queen بھی کہی۔ جس پر یار لوگوں کی خاصی لے دے ہوئی۔ رنگا رنگ قسم کی باتیں، کہیں سیاسی اور مالی فوائد کے حصول کے لئے اور کہیں اونچا عہدہ حاصل کرنے کی خواہش جیسے تبصروں کی بازگشت خاصی واضح تھی۔

یہ سال 1878ء تھا جب نوجوان بادشاہ ایمبر ٹوUmberto اور ملکہ مار گیریٹا Margherita نے بلوگنا کے دورے کا پروگرام بنایا۔ شاہی جوڑے کے استقبالیہ کے لئے شہر کے معززین کا انتخاب کرتے ہوئے ریکٹر اور دیگر لوگوں نے اس سے درخواست کی کہ وہ استقبالیہ میں اپنی شمولیت یقینی بنائے کیونکہ ملکہ اس سے ملنے کی خواہش مند ہے۔ وہ اس کی شاعری کی مدّاح ہے۔

یہاں میں شاعر کی ہی تحریر کے کچھ ٹکڑے سناتی ہوں۔

تاہم میں سنجیدہ نہ تھا۔ میرے بچپن کی کہانیوں کی ملکہ جن کے بارے میں پڑھتا، سوچتا، بڑے ہو کر اُن کے کرداروں کو ڈرامائی تشکیل دیتا اور رزمیہ نظموں میں انہیں مجسم کرتا چلا آیا تھا۔ میں تو ملکاؤں سے بڑا مانوس تھا۔ مجھے زندہ ملکہ دیکھنے کا قطعی کوئی شوق نہ تھا۔ اس ملکہ کو بھی نہیں جسے شاعری اور آرٹ میں دلچسپی تھی۔

پھر وہ آئے۔

یہ اُن دنوں میں سے ایک ایسا دن تھا کہ جو بلوگنا میں شاید ہی کبھی آتے ہوں۔ آسمان اور زمین سب گرد آلود سے تھے۔ کچھ یوں لگتا تھا جیسے گرد کا یہ طوفان سا گھروں کی چھتوں سے بہہ رہا ہے۔ جیسے یہ دیواروں سے چمٹ رہا ہے۔ جیسے اس کا یہ پھیلاؤ ہر آن گھروں پر بڑھ رہا ہو اور ہر چیز میں سرایت کرتا جا رہا ہو۔ روح تنگ پڑتی اور طبیعت کوفت اور بیزاری میں اُلجھتی ہے۔ جب بندے کا جی خواہ مخواہ ہی کسی راہ چلتے کو ٹانگ مارنے کو چاہے۔ تو میں بھی کچھ ایسے ہی جذبات کی گھمن گھیریوں میں اُلجھا ہوا تھا۔

یہ شام تھی۔ چار نومبر کی شام۔ میں وایا گلیریاVia Galliera کے محرابی راستے کے رش میں پھنس گیا تھا۔ اسی ہنگامے میں میں نے دیکھا ملکہ میرے پاس سے گزری۔ سفید خوبصورت ایک رومانوی سا وجود جو حقیقت نگاری کے بین بین موجود ہو۔ کچھ ہی دیر بعد پیازہ سینٹ پیٹر ویناPetronio میں قدیم سرخ اینٹوں والے محل کی کھڑکی کھلی اور بادشاہ اور ملکہ بالکونی میں نمودار ہوئے۔ پس منظر میں روشنیوں کی آب و تاب کی ناقابل بیان جگمگاہٹ تھی۔ باہر کی تاریکی اور سبز سفید اور سرخ روشنیوں کے امتزاج میں ایک خوبصورت چہرے کو زیورات اور بہترین ملبوسات میں دیکھنا ایک تحیر کن تجربہ تھا۔

اور اگلی صبح جب میں اٹلی کے شاہی جوڑے سے ملنے جا رہا تھا۔ میری چھوٹی بیٹی نے کہا۔

’’ملکہ کو میرا پیار کہنا۔ اُس کا نام لیبرٹاLiberta ہے۔ جو اچھا شگون ہے۔‘‘

میں نے چیمبر میں داخل ہوتے ہوئے شاہ کو دیکھا۔ وہ لوگوں سے ہاتھ ملا رہا تھا جو دائرے میں کھڑے تھے۔ اور ملکہ اٹلی کے متوسط طبقے کے مضحکہ خیز ملبوسات پہنے لوگوں کے درمیان کھڑی اپنے پہناوے، اطوار اور رویے کی شائستگی کے ساتھ میٹھے اور مہربان لب و لہجے میں بات کرتی ایک ماورائی شے نظر آئی تھی۔ بچپن کی مہربان اور حسین پری جیسی۔

یہ ملکہ ہے۔ بس ایسے ہی میرے تاثرات تھے۔ میں نے بلوگناBologna شہر کی خواتین کی جانب سے سپاس نامہ لکھنے سے انکار کر دیا۔ وہ قصیدہ جو میں نے پہلے ہی اپنے خیالات اور پیازہ کے تاثرات سے متاثر لکھا تھا بس اسی کو مکمل کرنے کا ارادہ کیا۔ اور ایک دن جب میں اس کی آخری لائنیں لکھ کر فارغ ہوا ہی تھا میری بڑی بیٹی بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور اس نے خوف زدہ آواز میں کہا۔

’’شاہ کو نپلز میں گولی مار دی گئی ہے۔‘‘

پچپن برس کی عمر میں وہ اینا Anni Vivanti سے ملا جو مستقبل کی ایک خوبصورت لکھاری اور شاعرہ بنی اور جس سے اُسے محبت ہو گئی تھی۔ پاگلوں جیسی محبت۔

وہ ہمیشہ جب بھی سفر کرتا تھا اس کے پاس ایک سوٹ کیس ہوتا۔ جسمیں وہ اینا کی ایک بڑی سی پینٹ رکھتا۔ دوران سفر وہ سوٹ کیس کھولتا۔ پینٹ نکالتا، اسے سونگھتا اور مد ہوش سا ہو جاتا۔ دونوں کے درمیان جو محبت نامے لکھے گئے وہ بھی کیا شاہکار ہیں؟

اٹلی کی وہ پہلی شخصیت ہے جسے 1906میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ نوبل انعام ملنے تک وہ دنیا بھر سے شاعری کے میدان میں خود کو منو اچکا تھا۔ سینیٹر کے طور پر بھی وہ نامزد ہوا۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر شاعر ہی ہے تاہم نثر میں بھی اس کا کام اعلیٰ معیار کا ہے۔ ادبی تنقید میں اس نے نئی جہات کا تعارف کروایا۔ بائیوگرافی، تقاریر اور مضمون نویسی کا کام ہی تقریباً 20 والیوم پر مشتمل ہے۔

نو بج رہے تھے۔ جب جب بھی میں مسز ریٹا سمتھ سے ملنے آئی۔

میری اُن کے ساتھ نشست کا دورانیہ ایک گھنٹے سے زیادہ نہ ہوتا۔ آج پہلی بار دو گھنٹے ہو چکے تھے۔ وہ بھی تازہ دم تھیں اور میں بھی۔

’’ بہت شکریہ آپ کا مسز سمتھ۔ شام بہت اچھی گزری۔‘‘

’’ ہاں گوزیو آپ کی بھی ممنون ہوں۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

باب15: پیسا اور لوکا

 

* آئرش ٹولے کی پھُرتیاں سمجھانے کے لئے کافی تھیں کہ خیر سے اُن کاساتھ میرے گٹے گوڈوں کو کسی ہو چھے کی یاری کی طرح تڑاخ سے دو ٹوٹے کرتے ہوئے وہیں کسی سڑک پر لم لیٹ کر سکتا ہے۔

* پیسا کا جھکاؤ دار ٹاور دنیا کا ساتواں عجوبہ جسے دیکھنا ایک تحیر آمیز مسرت تھی۔

* پرانے پیسا کی گلیاں اور بڑے بڑے پتھروں سے بنے گھر تعمیراتی شاہکار کے نمونے تھے۔

* لوکا کی دیوار، رومن ایمفی تھیٹر اور گونوجی ٹاور اس کے لینڈ مارک ہیں۔

 

 

روم میں تین دن کا قیام تھا۔ آخری دن نقشے نے مجھے بڑی ترغیب دی کہ پیسا جو Ligurian Sea کے دہانے اور بارہ سو بعد مسیح کا وینس کی طرح ہی ماضی میں سمندری کاروباری مرکز کا گھر رہا ہے۔ دنیا میں اپنے سا تویں عجوبے Leaning Tower اور قدیم ترین یونیورسٹی کی وجہ سے بڑی شہرت کا حامل ہے۔ تو اُسے دیکھنے کا کتنا اچھا موقع ہے؟ فائدہ اٹھا۔ اور ہاں لوکا بھی نرا دو قدم پر ہے اور مزے کی بات فلورنس دونوں کے ہمسائے میں بیٹھا ہے۔ ایک ٹکٹ میں کتنے ہی مزے لوٹے جا سکتے ہیں۔

مگر نہیں۔

صبح سے شام تک آنکھوں اور ٹانگوں کی اِس مشقت نے تھکا دیا تھا۔ میں واپس جانا چاہتی تھی۔ مگر ہوا کیا؟ صرف ایک دن کے آرام نے مجھے بے چین کر دیا۔ اندر نے جیسے بلبلا کر کہا تھا۔

’’تو کیا منجیاں توڑنے یہاں آئی ہے۔ یوں تیرے گلے شکوے دور نہیں ہوتے۔ اوپر والے نے تجھے یہ نہیں دکھایا۔ وہ نہیں دکھایا۔ اب کیا مسئلہ ہے؟ ہل جل تو تو نے ہی کرنی ہے۔ روٹیاں تو تجھے مل گئی ہیں۔ اب تو چاہتی ہے کوئی نوالے توڑ کر تیرے منہ میں بھی ڈالے۔ شرم کر کچھ۔ ایسا ہوتا ہے کبھی؟‘‘

’’ارے ہاں۔‘‘ اندر نے جیسے مسَکہ لگایا۔

’’وہ تیرے رومان بھرے خوابوں کا سوئزرلینڈ بھی تو بس ذرا پاؤں بڑھائے تو اُسے بھی چھولے جیسا معاملہ ہے۔‘‘

ویسے سچی بات ہے سوئزرلینڈ کے لئے دل مچل رہا تھا۔ پیسا اورفلورنس کے لئے بھی ’’مری جا رہی ہوں‘‘ والی بات تھی۔

سوئزرلینڈ کے لئے تو اقبال بھی کمپنی دینے کے لئے تیار تھا۔ مگر میں اپنے مزاج کی عجیب سی مردانہ بیزاری کے ہاتھوں مجبور۔ اس کے ساتھ کو قبولنے سے انکاری۔

مجھے بھی تپ چڑھی۔ خوب بک بک جھک جھک کی۔

’’لا یا ہی اب جب دانے مکنے کے قریب ہیں۔ جوانی میں لاتا نا۔ ایک ایک جگہ پر شکرانے سے بھرا ما تھا ٹیکتی اور اٹلی کے رَوم رَوم میں تیری وحدانیت کے رنگ بھرتی۔‘‘

ہائے انٹرنیٹ میں بھی نری کوری ہوں۔ ہوٹل کی بکنگ ہوتی تب بھی آسانی رہتی۔ ویسے آپس کی بات ہے۔ خود کا تجزیہ کروں تو یہ سب باتیں میری بہانے بازیوں اور دل کو بہلانے اور مطمئن کرنے کے زمرے میں ہی آتی ہیں۔ کوئی پوچھے جب طبیعت ہی خود پر فراخ دلی سے خرچ کرنے اور اُسے تھوڑی سی عیاشی میں گیلا سوکھا کرنے سے گریزاں ہو گی تو یہی بہانے ہوں گے۔

روم کے ہوٹل سے سیدھی بکنگ ہوتی۔ اسٹیشن پر کارڈ اٹھائے ہوٹل والوں کا بندہ موجود اور باہر گاڑی شوفر کے ساتھ حاضر۔ مسئلہ تھا کوئی۔ مگر نہیں جی۔ دام بنائے کام والا فارمولا ہم نے نہیں اپنانا۔ موت (پیشاب) میں سے مچھیاں (مچھلیاں ) پکڑنی ہیں۔ جان بے چاری کو اذیت کی سولی پر ہی چڑھائے رکھنا ہے۔

’’چلو پیسا تو دیکھوں۔‘‘

اقبال نے دن کی طوالت کا ذکر کرتے ہوے گائیڈ کیا تھا کہ اگر سویرے نکلتی ہیں تو شام کو دونوں تینوں جگہیں دیکھ کر واپس آ سکتی ہیں۔ تو شام کو صبح سات بجے کی ٹرین سے پیسا کے لئے بکنگ کروا آئی۔

قدرت کبھی کبھی مہربان ہو جاتی ہے۔ آپ کے خیال اور توقع کے مطابق ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے جیسا محاورہ ہمیشہ نہیں تو کبھی کبھی آپ کو نہال کر دیتا ہے۔

اور وہ صبح ایسی ہی تھی اور وہ لمحے ایسے ہی تھے جب میں نے یہ سب سوچا تھا۔

گاڑی میں داخل ہوتے ہی میرا ٹکراؤ اُن آئرش لوگوں سے ہوا جو مجھے وینس کے اسٹیشن پر ملے تھے۔ آمنے سامنے کی سیٹوں پر تین تو وہی تھے۔ چوتھی میں تھی۔ باقی دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے۔ سبھوں کو میں یاد تھی اور مجھے بھی اُن کا جتھہ یاد تھا۔

میرے اندر باہر سرشاری کی لہریں رقصاں تھیں جس کا اظہار میں نے بھنے ہوئے باداموں کے پیکٹ کو پھاڑ اور اٹھ کر اُن میں سے ہر ایک کو خصوصی طور پر پیش کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے بھی میری پذیرائی کو قبولیت بخشی اور میری اس درخواست کہ پیسا کے لئے بس میں بیٹھنے کے لئے مجھ سے کرایہ لے کر ذرا ساتھ نتھی کرنا ہے۔ چیزیں میں اکیلے ہی دیکھوں گی۔

فلورنس انہوں نے نہیں جانا تھا۔ دو بجے کی روم کے لئے ٹرین پکڑنی تھی۔

ہائے اتنے قریب آ کر فلورنس نہ جاؤں۔ میں نے خود سے کہا۔

’’چلو جو دیکھنا ہے وہ تو دیکھوں۔ اندیشہ ہائے دور دراز میں گھلنے کا فائدہ۔‘‘

وہ سب کم و بیش تھے تو میری عمروں کے ہی۔ کوئی چار چھ سال چھوٹے بڑے ہو سکتے تھے۔ برمودا اور ٹی شرٹوں میں ملبوس۔ مگر کیا توانائی تھی اُن میں۔ پارے کی طرح متحرک۔ ٹرین پیسا کے اسٹیشن پر ابھی رکی تھی کہ جب برقی انداز میں انہوں نے اپنے رُک سیک اپنے کندھوں پر لادے اور باہر آئے۔

اُن میں کچھ بھاگتے ہوئے پلیٹ فارم کے آخری کونے پر گئے۔ پتہ چلا کہ سامان خانے میں سامان رکھنے گئے ہیں۔ جو دو تین میرے پاس کھڑے تھے ان میں سے ایک کو میں نے بیس(20) یورو دیتے ہوئے کہا کہ بس یا ٹیکسی کے لئے میرا ٹکٹ بھی لے لیں۔          ٹرین اسٹیشن کی بک شاپ سے انہوں نے بس کے لئے ٹکٹ خریدے اور نقشے لئے۔ مار دھاڑ کرتے ہوئے باہر نکلے۔ اسٹیشن کے قریب ہی جولی ہوٹل کے سامنے بسیں کھڑی تھیں۔

میں کسی مسکین پلے کی طرح اُن کے پیچھے پیچھے دم ہلاتی ہوئی ضرور چلی۔ تاہم بس میں بیٹھنے تک کے وقفے میں مجھے گاڑی سے اُترنے اور یہاں بس تک آنے میں اُن کی پھرتیوں اور اِدھر جانے، اُدھر جانے کی جو جو تیزیاں دیکھنے میں آئیں انہوں نے مجھے بلند آہنگ آواز میں سمجھا دیا تھا کہ خیر سے اگر تو نے ان کے ساتھ چلنے کی کوشش کی تو گٹھے گوڈے کسی ہوچھے کی یاری کی طرح تڑاخ سے ٹوٹتے ہوئے تجھے یہیں کہیں پیسا کی کسی سڑک پر لم لیٹ کر سکتے ہیں۔

میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ رُل کھُل کر مجھے خود ہی سب اپنی مرضی اور سہولت سے دیکھنا ہے۔ اُن کا ساتھ دینے کی نہ مجھ میں تاب ہے اور نہ ہی مجال۔

یوں مطمئن سی ہو کر میں نے باہر منظروں کو دیکھا۔

میرے سامنے پیسا کا خوبصورت شہر اپنے البیلے رنگوں کے ساتھ موجود تھا۔

گائیڈ کی آواز صاف اور تلفظ سمجھ آتا تھا۔

پیازہvittorio میں وکٹر ایمونیل دوم کے مجسمے پر نظر پڑتے ہی میں نے مسز سمتھ سے وعدے کے مطابق اُسے دل میں سیلوٹ مارا۔ مدھم سے لہجے میں سراہا۔ اس وقت گو ماڈرن لوگوں کے مطابق ابھی صبح ہی تھی تاہم پیازہ میں لوگوں کے پرے یہاں وہاں چہلیں کرتے اور موج مستی کی سی ترنگ میں ڈوبے نظر آتے تھے۔ خوبصورت رنگوں کی حامل بلند و بالا عمارتیں، شفاف شیشوں کے اندر سے جھلملاتے منظر اور بند شیشوں میں سے ہواؤں کی درختوں کی ٹہنیوں سے اٹھکھیلیاں کتنی خوبصورت لگی تھیں۔ ماڈرن دکانیں اور ان میں گھسے لوگوں کے انبوہ سب کچھ بہت ہی مسرور کن تھا۔

دریائے آرنوArno کے پانیوں نے مسکرا کر دیکھا۔ آگے ایک اور جگہ کے بارے تاریخی پہلوؤں سے روشنی ڈالی جا رہی تھی۔ عین دریا کے ساتھ کہ جب رومنوں نے دریا پر پل بنایا تو یہ جگہ پیسا کا مرکز اور ان کے تہواروں کو منانے کے لئے بڑی معتبر ٹھہری۔

دوسری طرف پیازہ دانتے تھا۔

بس کی رفتار جتنی مدھم تھی نظاروں کی بہتات اتنی ہی تیز تھی۔ ایک منظر نظروں کی گرفت میں آتا تو اس سے بھی خوبصورت دوسرا اُسے دھکیل کر خود آگے آ جاتا۔

تاہم پیازہ کیولری Cavalieri نے شاد کیا۔ نہال کیا۔ تھوڑی سی تاریخ جانی۔ تھوڑی سی نظر بازی کا چکر چلا۔ قدیم ترین کلاک، خوبصورت رنگوں سے سجے لشکارے مارتے محل اور کوسیمو Cosimo کے مجسمے کو دیکھتے ہوئے جانا۔ کوسیموڈی میڈیسی سولہویں صدی میں پیسا کا حکمران تھا۔ سکوائرکی یہ عمارتیں اپنے وقتوں میں فریسکو کے کام سے سجی تھیں جنہیں سمندر کی نمکین ہواؤں نے سخت نقصان پہنچایا۔

بس کہاں کہاں رخ بدل رہی تھی کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ گائیڈ کی زبان کی تیزی اپنے عروج پر تھی۔ چرچ آف سان سستو san sisto دیکھا۔ اینٹوں کی بڑی موٹی موٹی دیواروں اور مختصر کھڑکیوں والا یوں پل جھپکتے نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا۔

اِس سے بھی برا حال سانتا ماریا کے ساتھ ہوا۔ گائیڈ بیچارہ” دیکھیئے دیکھیئے ” کرتا رہ گیا تھا۔ سانتا ماریا کی بابت گلے کی پوری توانائیاں جھونک رہا تھا۔ تاریخ کا سینہ چھلنی کر رہا تھا۔ پیسا کی مشہور یونیورسٹی کا سُنا۔ ہائے پیسا یونیورسٹی۔ میں خود سے بولی تھی۔

’’مجھے یورپ کی اس قدیم ترین یونیورسٹی کو صرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ کچھ وقت بھی وہاں گزارنا ہے۔ جس کی فضاؤں میں سولہویں صدی کے وسط تک گرما گرم متنازعہ نظریاتی بحثوں میں اُس فطین ذہین پروفیسر گلیلیو گلیلی کا تیا پانچہ ہوا۔ سچی بات ہے اُس کے شمسی نظریات نے چرچ کے اندھے طاقتور نظریات کو چیلنج کر دیا تھا۔‘‘

میرے اندر نے تنتناتے ہوئے مجھے خبردار کیا تھا۔

’’ ضرور دیکھنا ہے۔ رات رکنا پڑے تو رکو۔ اوکھلی میں سر دیتی ہو تو موسلوں سے مت ڈرو۔ خود کو کمزور اور بوڑھا سمجھنا چھوڑو۔‘‘

گاڑی نے فراٹے بھرے۔ ابھی ڈھنگ سے کچھ دیکھ بھی نہ پائی تھی کہ ایک خوبصورت میدان پیازہ مانن Manin میں بس آ کر رک گئی تھی۔

میرے ساتھیوں کی چھلانگیں اور تیزیاں دیکھنے والی تھیں۔ میں نے انہیں جانے دیا۔ دو تین نے دوستی نبھائی۔ میں نے گوڈوں کی طرف جھکتے ہوئے اشارہ کیا کہ آرام آرام

سے چلنا ہے مجھے۔

سڑک پر چلنا شروع کیا۔ آسمان کی نیلاہٹوں پر واری صدقے ہونے کو جی چاہتا تھا۔ اتنا نیلا کچور تھا کہ زندگی میں کبھی کم ہی ایسا نظر آیا ہو گا۔ دھوپ چمکیلی مگر تیز ہواؤں کی سرمستی میں ڈوبی ہوئی جسم اور چہرے سے ٹکراتی بڑا لطیف سا تاثر پیدا کر تی تھی۔

داخلی گزرگاہ نے خوش آمدید کہا۔ جب اندر داخل ہوئی تو ہریالیوں اور سفیدیوں کا ایک جہاں مسکراتا ہوا دکھائی دیا۔ میں چلتی جا رہی تھی۔ کہیں قرون وسطیٰ کے عہد کی موٹی گنگری دار دیوار، کہیں آنکھوں کو طراوت بخشتے گھاس کے میدان، اسی دور کی عمارتیں اور دنیا کا سا تواں عجوبہ جھکا ہوا پیسا ٹاور۔

کشادہ سڑک پر دائیں بائیں نظارے بکھرے ہوئے تھے۔ نوجوان، بوڑھے، بچے، عورتیں، مرد سب ہنستے مسکراتے تصویریں بناتے کہیں گھاس کے قطعوں پر بیٹھے، کہیں لیٹے سرمستیوں میں مگن تھے۔ ایسی تھوڑی سی مستی کرنے کو میرا بھی دل چاہا۔

ٹکٹ کہاں سے لینا ہے؟ معلوم نہیں تھا۔ سوچا دفع کرو۔ وہ بھی مل جائے گا۔ پہلے دل کا رانجھا تو راضی کروں۔ دو چار لوٹنیاں لگاؤں۔ تھکاوٹ کو اُڑنچھو کروں۔

اب دیکھتی ہوں کہ تا حدّ نظر بچھے سبز قالینوں تک جانے کا راستہ یا ذرا پیچھے جا کر اِن قطعوں کو چیرتے ہوئے اسفالٹ کی سڑک پر سے ہوتے ہوئے آتا ہے۔ یا پھر اس کے گردا گرد لگی ڈھیلی سی خم کھاتی آ ہنی زنجیر کو پاٹنے سے تھا۔ بس تو پاکستانی ذہنیت کا مظاہرہ کیا۔ شارٹ کٹ ڈھونڈا۔ بیگ گھاس پر پھینکا۔ پہلے بیٹھی۔ تھوڑی دیر بعد لم لیٹ ہو گئی۔ مزے سے ٹانگیں سیدھی کیں۔ تین چار پلسٹے مارے۔

’’ ہائے کتنا مزہ آ رہا ہے۔‘‘

اُٹھ کر بیٹھی۔ بادام نکالے۔ تھوڑی منہ ماری کی۔ دیکھا تو ایک نوخیز سا جوڑا چہکتا مہکتا قریب سے گزرا۔ آواز دے کر روکا ’’اور ٹکٹ کہاں سے ملے گا؟‘‘اور کچھ بروشرز وغیرہ کا پوچھا۔ خدا کا احسان کہ انگریزی بولنے والے تھے۔

لڑکی نے میٹھے سے لہجے میں بتایا کہ ٹکٹ کے لئے یا تو آگے جائیے۔ ٹاور کے عین پیچھے بائیں طرف پیلے سے رنگ کی عمارت ہے۔ وہاں ملیں گے یا پچھلی جانب داخلی گیٹ سے آگے جہاں میوزیم افsinopiasہے وہاں ٹکٹ گھر ہے۔ یہ سووینزز کی دوکانوں کے ذرا پیچھے ہے۔

پندرہ بیس صفحات کا کتابچہ انہوں نے کمال مہربانی سے اپنا میرے حوالہ کر دیا۔

اور جب پوچھا کہ ان خوبصورت عمارتوں کا پس منظر کیا ہے؟ کچھ رہنمائی ہو سکتی ہے؟ جوڑے نے کندھے اُچکائے اور بولے۔

’’اِسے پڑھ لیں۔ کچھ زیادہ تو ہمیں بھی نہیں معلوم۔ ٹاور کے پاس ہی ایک جانب پیسا یونیورسٹی ہے۔ ڈوما کیتھڈرل بھی ساتھ ہے۔ یونیورسٹی ہم نے دیکھی ہے مگر کیتھڈرل کے اندر نہیں گئے۔‘‘

اب پیسا ٹاور پر چڑھنے کے تجربے کا پوچھ لیا۔

لڑکی جو ہیلن تھی۔ اِس تجربے سے بہت لطف اندوز ہوئی تھی۔ فوراً چہک کر بولی۔

’’اُف بڑا لطف آیا۔ ویسے سیڑھیاں جھکاؤ دار ہیں اور اوپر تک اسی انداز میں جاتی ہیں۔ انہیں چڑھنے اور ٹاپ پر جا کر نیچے دیکھنا بلا شبہ ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ اترائی بھی مجھے تو بہت دلچسپ لگی۔‘‘

بائے کرتے ہوئے جوڑا تو چلا گیا۔

میں نے کتابچہ کھولا۔ پہلا صفحہ فیلڈ آف ماریکلزField of Miracles کے بارے تھا۔ ڈوموDuomo بیپٹسٹری Baptistery، کمپوسنتو قبرستان Composanto cemetery، میوزیم آف سنوپسزMueseum of the Sinopiasتو اِس منظر نامے کو جگمگانے والی یہ عمارتیں کسی طرح بھی نظر انداز کئے جانے والی نہیں۔

کتاب کی تحریر کہتی تھی کہ آپ ٹاور دیکھ کر ہی نہ کھسک جائیں۔ باقی جگہیں بھی بہت اہم ہیں۔ ٹکٹ کی بھی تفصیلات درج تھیں۔ ایک دیکھو۔ یا پھر تین چار تو ٹکٹ میں رعایت ہو گی۔

میں نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔ ’’لود یہاڑی تو انہی میں گل ہوئی۔‘‘

خاصا چلنا پڑا۔ ٹاور سے تھوڑے فاصلے پر مجسموں سے سجے کالم کے کٹاؤ دار چبوترے پر بیٹھ کر سستاتے ہوئے میں نے ٹاور کو پھر دیکھا تھا۔ اس کی آخری بالکونی کی چھت پر اٹلی کا جھنڈا تیز ہواؤں میں پھڑپھڑاتا تھا۔ تھوڑی سی اس کی تاریخ بھی جانی۔

200 فٹ لمبا۔ 55فٹ چوڑا، پانچ ڈگری زاویے پر یہ جھکاؤ دار آٹھ منزلوں والا ٹاور کوئی دو صدیاں پہلے بنایا گیا تھا۔ بنانے والا بھی کوئی ایک نہیں تین تھے۔ جھکاؤ کیوں پیدا ہوا۔ زمیں کی مضبوطی کا خیال نہیں کیا۔ دلدلی اور غیر مستحکم زمین اہم وجہ تھی۔ پہلی تعمیر بونینوBonanno کے ہاتھوں کوئی 1173ء سے 1178ء تک ہوئی۔ خرابی کا اندازہ تو تبھی ہو گیا تھا کہ بنیادیں گہری نہیں۔ 1272ء میں ممکنہ کوششیں ہوئیں۔ حتیٰ کہ 1990ء میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے اسے ادھیڑ پُدھیڑ کر اس کی تکّا بوٹی کرتے ہوئے کافی حد تک مستحکم کر دیا گیا۔ اب دیکھیں سینکڑوں ٹن سیسہ نگل جانے والا یہ کب تک زندہ رہے گا؟

ٹکٹ پندرہ یورو کا ملا۔ تیس کے ٹولے کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ ہدایات مل گئیں کہ بہت دھیان رکھنا ہے خود کا۔ چکر آ سکتے ہیں۔ ٹاپ پر جا کر صرف پندرہ منٹ ٹھہرنے کی اجازت ہے۔ ٹکٹ تو میں نے لے لیا۔ لمبی قطار میں لگ کر کھڑی بھی ہو گئی۔ دروازے سے اندر داخل ہو کر چند سیڑھیاں بھی چڑھ گئی۔ پھر ذرا کمر دیوار سے ٹکاتے ہوئے خود سے پوچھا۔

’’او بڑی ابن بطوطہ کی بھتیجی۔ یہ294سیڑھیاں چڑھنے اور اُترنے کی کشٹ کیا تو سہہ سکے گی؟ چکر آ گیا۔ بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تو بنے گا کیا تیرا؟‘‘

اسپتال کا سین بڑا خوفناک سا تھا۔ پل نہیں لگایا اور نیچے اُتر آئی۔

پندرہ یورو میری جان کا صدقہ گیا۔ واہ کیا خوبصورت تاویل۔ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

نظریں بھر کر دائیں بائیں دیکھتی ہوں۔ یہاں و ہاں ایک اژدہام بکھرا پڑا تھا۔

پہلی بسم اللہ غلط ہوئی۔ چرخے کی پہلی پونی کاتی ہی نہیں گئی۔ قلق اور دکھ کا گہرا احساس کچوکے دے رہا تھا۔ نیچے کھڑی حسرت بھری آنکھوں سے تیسری چوتھی اور آخری منزل پر کھڑے لوگوں کو حسرت سے تکتی اُن کے شاداں ومسرور چہرے دیکھ کر رشک و حسد سے جلتی بھنتی جاتی تھی۔ پندرہ یورو تو نالی میں رُڑ گئے تھے۔

اب ڈومہ کیتھیڈرل اور یونیورسٹی کی طرف گئی۔ پیسا کے مخصوص رومن سٹائل کے اِس کتھیڈرل کے کانسی کے دروازے اور اس پر کندہ کاری کی مذہبی آئی کونک شخصیات اور کہانیوں کا اپنا حسن تھا۔ تاہم میں تو ناواقف تھی۔ بس فن کے حوالے سے میرے یہاں گہرا جذباتی اظہار ضرور تھا۔ خصوصی طور پر بازنطینی دور کی بابت۔

میری محویت پر گائیڈ کی آواز آئی تھی۔ یہ دروازے اصلی نہیں نقلی ہیں۔ اصلی تو اندر سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ تو خاص الخاص موقعوں پر نمائش کئے جاتے ہیں۔

اندر کی دنیا بھی کیا دنیا تھی؟ تعمیر کی محراب در محراب تہوں میں گھلی، دیواروں پر شاہکاروں سے سجی اور کندہ کاری میں گتھی۔ واہ مزہ آیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کی کہانی شبیہوں میں بیان ہوتی ہوئی کسی دلچسپ کہانی سے کم نہ تھی۔

مذہبی لحاظ سے کہہ لیں۔ دینیاتی حوالے سے سوچ لیں کہ فیلڈ آف ماریکلزmiracles کی حیثیت پیسا کے ایک شہری کی زندگی میں چار لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ بیپسٹٹری Baptistry میں اُسے عیسائی بنایا جاتا ہے۔ ڈومہ میں اُس کی شادی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کی تقریبات میں اُسے دنیاوی اعزازات سے نوازا جاتا ہے اور کمنپٹو قبرستان میں وہ دفن ہوتا ہے۔

لیجیئے پیسا اور اہل پیسا کی کہانی تو ہو گئی مکمل۔

اب میں اپنی کہانی کا کیا کروں؟

میں نے تو رومن شہنشاہ ہنری ہفتم کا مقبرہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ بس تھوڑا سا کتاب میں سے پڑھا۔ جرمن بادشاہ جس نے اٹلی پر حملہ کیا۔ پیسا کے لوگوں نے تو شاہ کا بڑے کھلے دل سے استقبال کیا۔ امن اور اتحاد کے علمبردار کی حیثیت سے اُسے سراہا۔ مگر بدقسمتی یا شہر والوں کی ہو گی یا پھر شہنشاہ کی کہ بیچارہ بیمار ہوا اور مر بھی گیا۔ تو اہل پیسا نے محبت کے اظہارئیے میں مقبرہ بنا دیا۔

باقی جگہوں کو میں نے صرف باہر سے دیکھا۔ Baptisteryکے حُسن کو سراہا۔ یونیورسٹی کے سامنے کچھ وقت گزارا۔ سونیئرز کی دکانوں پر جا کر چیزیں دیکھیں۔ فروٹ اور ویجی پیزا کھایا، کافی پی اور سوچا کہ اب آگے کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟

ڈومہ کیتھڈرل میں جب میں ایپسApse کو دیکھتی تھی۔ ایک سانولی سلونی رنگت والی حسینہ نے مجھے مخاطب کیا۔ کینیڈا کی سکھنی۔

’’سوہنیو تسی کھتوں او؟‘‘

ہائے پنجابی زبان کی خوشبو سارے میں پھیل گئی تھی۔ معلوم ہوا تھا کہ وہ اور اس کا شوہر یہاں سے قریب ہی ہوٹل ولاکنزقاkinzica میں ٹھہرے ہیں۔ بہت اچھا ہوٹل ہے۔ سنگل بیڈ کا کرایہ 78یورو ہے۔ لوکا اور فلورنس کا ان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ آدھ گھنٹے کی گوڑھی بات چیت کے بعد میں نے ٹیکسی کے کرایے اور رات ٹھہرنے اور بسوں ٹرینوں سے جگہیں دیکھنے میں تقابلی اخراجات کا جائزہ لیا تو مجھے احساس ہوا کہ خجل ہونے کا شوق ضرور پورا ہو گا۔ وگرنہ سودا گھاٹے کا ہی رہے گا۔

’’ہٹاؤ یار ٹیکسی پکڑو۔ لوکا کی موٹی اور اہم چیزیں دیکھو اور گاڑی پر چڑھ جاؤ۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔‘‘

ڈومہ میوزیم کے پاس ہی ٹیکسی سٹینڈ تھا۔ اطالوی بھی ایک نمبر خرانٹ ہیں۔ خوب بھاؤ تھاؤکرتے ہیں۔ بہرحال سویورو پر مک مکا ہو گیا۔

1343ء کی پیداوار یونیورسٹی قدامت کے رنگوں سے سجی سنوری اٹلی کی دس بہترین یونیورسٹیوں میں شمار ہوتی ہے۔ اُس نے مجھے اس کے مختلف شعبے دکھائے۔ درختوں سے گھرے کشادہ راستوں سے سجے اس کا بویٹنیکل گارڈن کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔

ٹیکسی ڈرائیور کسی اچھی ماں اور باپ کا تخم تھا کہ اس نے پیسا ڈاؤن ٹاؤن کی بھی چند جھلکیاں مجھے دکھا دیں۔ شاید وجہ یہ بھی ہو کہ میں نے اُسے بتایا تھا کہ میں لکھنے والی ہوں اور اٹلی پر مجھے لکھنا ہے۔

میں تو اِن رنگوں کو دیکھ کر حیران سی حیران تھی۔ پرانے پیسا کی گلیوں میں بڑے بڑے پتھروں کے گھر تھے۔ کس خوبصورتی سے دیواروں کی چنائی تھی۔ پتھر کی گلیاں، کہیں تنگ، کہیں کشادہ، گھروں پر پینٹ کے رنگ اور لوہے کی بالونچیاں۔ کیا حسن تھا۔ میں گاڑی سے اُتر کر رکتی اور حسرت سے انہیں دیکھتے ہوئے اپنے ملک کا موازنہ کرتے ہوئے سوچتی چلی جاتی۔

اِس حصّے کے پیازے یعنی میدان یا چورا ہے بھی کیا کمال کے تھے۔ محرابی صورت والی چھتوں کے برآمدے پھیلتے چلے جاتے جن میں دکانوں کے ان گنت سلسلے پھیلے ہوئے تھے۔

مڈل برج سے اس نے گاڑی گزاری۔ یہ پرانے شہر کا پل تھا۔ واہ بھئی واہ مزہ آیا۔

لوکا کا راستہ خوبصورت تھا۔ پہلا تعارف تو اس کی اہم لینڈ مارک دیواروں سے ہوا جن کی تہوں میں تاریخ گھسی بیٹھی تھی۔ مستطیل صورت کی پہلی رومن دیوار، دوسری قرون وسطیٰ عہد کی اور تیسری سولہویں صدی کے احیائے علوم کی دیوار۔ واہ دیواروں کی بھی بڑی شان ہے۔ ان کے بھی رنگ ہیں اور تاریخ ان کے بغیر بھی نامکمل ہے۔

رومن سٹائل کے چرچوں کی بھی بڑی بہتات تھی۔ تھوک کے حساب سے پیداوار تھی۔ یہ ہر گلی کوچے میں ہماری مسجدوں کی طرح جھانکتے پھرتے تھے۔

یہاں جس مشکل اور مصیبت سے دوچار ہونا پڑا تھا وہ پارکنگ تھی۔ بیچارے کو جگہ ہی نہیں ملتی تھی۔ یوں بھی سارا جوش و جذبہ پیسا نے نگل لیا تھا۔ تھکی ہوئی تھی۔ چیزوں کو دیکھنے کی اب قطعی تمنا نہیں رہی۔

’’جو دکھانا ہے بس باہر سے ہی دکھا دو۔‘‘

چلو اس کی بھی موجیں ہو گئیں۔ ایسی ٹُٹی پجھی(خستہ حال) سواری تو کہیں مقدروں سے ملتی ہے۔ رومن ایمفی تھیٹر دیکھا۔ بس باہر باہر سے ہی۔ تعمیراتی جن تھا۔ Guinigi Tower دیکھنے کی چیز تھی۔ مزہ آیا۔ اُتری۔ کچھ کچھ بابل کے معلق باغ کا سا تاثر دیتا تھا۔ چھت گل وگلزار ہوئی پڑی تھی۔

اب ہمت تو تھی نہیں کہ دو سو سے بھی زیادہ سیڑھیاں چڑھ کر جاتی اور پھر باغ باغیچے کا نظارہ کرتی اور دیکھتی کہ درختوں سے پھوٹتی خوشبو نے ماحول کتنا معطر کر رکھا ہے اور اردگرد کے نظارے حشر سا مانیاں سی لئے ہوئے ہیں۔

میں نے ڈرائیور سے کہا۔

’’ تم نے جو کچھ کہا میں نے آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کیا۔ مگر داستان طلسم ہوش ربا کو اتنا نہ بڑھا کہ میں دامن چاک کر بیٹھوں۔ اگر میری ٹانگوں نے میرے سلوک کے خلاف احتجاجی دھرنا دے دیا تو بولو کیا کرو گے؟ دور دیسوں کی ایک بھاری گٹھری کو کہاں کہاں اٹھائے پھرو گے؟

بہرحال لوکا کی گلیوں کی خوب خوب سیر کی۔ ڈرائیور نے لوکا کا اسپیشل سنیکGarbanzo bean Crepe کھلایا۔ جس محبت سے مجھے کھلایا میں نے کھا لیا۔ غیر مشروط شرطوں کے ساتھ۔

لوکا کی تاریخ سے بھی تھوڑی سی شناسائی کروائی۔ جو بتایا اُسے توجہ اور شوق سے سنا اور جانا کہ ہر جگہ ہر شہر ہر اہم مقام کے کھُرے کہیں نہ کہیں یا بازنطینوں سے جا جڑتے ہیں یا پھر رومنوں سے۔ تو یہ شہر بھی ابتدا میں رومنوں کی نو آبادی ہی تھا۔

دائیں بائیں نکلتی اور آگے پیچھے مڑتی گلیوں کا جال اور ایمفی تھیٹر اسی دور اور ان ہی کی یادگاریں ہیں۔ یوں عیسائیت بھی اپنے آغاز سے ہی یہاں چلی آئی تھی۔ تو اب رومن سٹائل چرچوں سے شہر کو تو سجنا ہی سجنا تھا۔

لوگ ذہین، ہوشیار اور سمجھ دار تھے۔ جوڑ توڑ سے اسے ہر صورت ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے قائم رکھتے تھے۔ سِلک انڈسٹری بھی اس کی ایک پہچان رہی۔

ہاں ایک بڑی دلچسپ چیز جو سننے کو ملی کہ اپنے عروج کے زمانوں میں شہر میں ٹاوروں کی بڑی بھرمار تھی۔ ہر ٹاور ایک امیر اور صاحب ثروت آدمی کی ملکیت اور رہائش گاہ ہوتی۔ اس میں زیر زمین کمرے، گراؤنڈ فلور پر دکانیں، بالائی منزلوں پر رہائش گاہیں، چھت پر باغ باغیچہ، کچن گارڈن اور درخت سائے کے لئے لگائے جاتے۔ سبزی ترکاری کی ضرورت پڑتی۔ چوبی سیڑھیوں جن سے سارا گھر جڑا ہوتا کوئی بھی اوپر جا کر ٹوکری بھر ترکاری اور پھل لے آتا۔

واہ کیا بات تھی ایسے خوبصورت گھروں کی۔ میری دیکھنے کی خواہش پر ڈرائیور نے بتایا کہ ایسے گھر اب شہر میں نہیں۔ ایک آدھ کونونٹ کی صورت موجود ہے۔ اس کے اندر جانے کی اجازت نہیں۔

تاریخی حوالے سے دلچسپ بات جو سننے کو ملی وہ1799ء میں نپولین جب طوفانی آندھی کی طرح اٹلی میں آیا اس کے لئے لوکا کی حد درجہ پسندیدگی تھی۔ یہ اتنی زیادہ تھی کہ اس نے اس پیارے سے مال غنیمت کو بہن کو تحفے کے طور پر دے دیا۔ واہ شاہوں کے تحفوں کا بھی کیا کہنا۔ بعد میں نپولین کی بیوہ کو یہ سوغات ملی۔

کوئی پانچ بجے اس نے مجھے ٹرین اسٹیشن چھوڑا۔

اور رات کے نو بجے چیزاتے پہنچ کر اس فقیر کی طرح جو بڑی اعلیٰ ظرفی کا اظہار کرتے ہوئے ہانک لگاتا ہے۔

’’جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔‘‘

میں نے بھی اوپر والے کو دیکھتے ہوئے صدا لگائی تھی۔

 

’’جو دکھایا اس عنایت پر شکریہ اور جو نہیں دکھایا اس پر بھی شکریہ۔‘‘

اب لاکھ زبان نہ کھولوں۔ لاکھ گلہ نہ کروں مگر کہیں میرے دل میں فلورنس نہ دیکھ سکنے کا دکھ تو تھا نا۔

٭٭٭

 

 

 

باب نمبر16: الوداع میلان۔ الوداع اٹلی

 

* جھیل کو مو ورینا کی سب سے خوبصورت اور بہترین جھیل ہے۔

* تتلی سی مُسکان میرے قیام کا خوبصورت سا تحفہ تھا۔

* مسز سمتھ میری شکر گزار اور میں اُن کی۔ جتنا کچھا سفار نے دیا اس سے زیادہ انہوں نے دیا۔

* عطاء کا لخت جگر یا سر پیرزادہ بزنس کلاس کے سڑے بُسے خراٹے مارتے لوگوں میں سوتا کسی خوبصورت شہزادے جیسا ہی نظر آیا تھا۔

تو اُس گھر کی اکلوتی منی سی بچی مسکان سب سے زیادہ پریشان تھی۔ خاموشیوں میں ڈوبے رہنے والے گھر میں بہرحال تھوڑا بہت ہنگامہ تو میرے آنے سے پیدا ہوا تھا جس نے اس ننھّی سی جان کو مسرور کئے رکھا تھا۔

ٍ      صبح میرے کہیں بھی نکلنے سے پہلے وہ کِسی تتلی کی طرح میرے اردگرد منڈلاتی پھرتی۔ سوالوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چلتا رہتا۔

’’امّاں کہاں جا رہی ہو؟ امّاں جی کب آؤ گی؟ اماں جی مجھے بھی ساتھ لے چلیں نا۔‘‘

اماں جی اس کا منہ ما تھا چُومتی اور کہتی۔

’’میری جان تو اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارہ۔ منتوں مرادوں کی پیداوار۔ اماں تو بھٹکتی پھرتی ہے۔ تجھے ساتھ کیسے رولے گی۔‘‘

اماں اب واپسی کی تیاریوں میں تھی اور بچی نہیں چاہتی تھی کہ میں جاؤں۔

’’اماں مت جاؤ۔ میں اُداس ہو جاؤں گی۔‘‘

وہ میرے گلے میں اپنی ککڑی جیسی لوچ دار پتلی پتلی بانہیں ڈالتی۔

اس کی اِس والہانہ محبت پر میرا دل بھیگ سا جاتا۔ جی چاہتا کاش وہ بڑی ہوتی۔ پنچھی اور پردیسی کب کِسی کے میت ہوتے ہیں جیسے مہاورے کے مفہوم سے آشنا ہوتی۔ پھر شاید اس کا لہجہ اتنا رقیق اور گداز نہ ہوتا۔

پیسا سے آنے اور ایک دن آرام کے بعد اگلے دن پوری فیملی میرے ساتھ کومو جھیل کی سیر کے لئیے گئی تھی۔ کہہ لیجیے یہ ایک طرح مسکان کے لئیے میری ٹریٹ تھی۔ اقبال کا ایک ملنے والا یوسف مالٹرسیوMoltrasioمیں عرصہ دراز سے یہاں کے ایک بڑے ہوٹل میں شیف کے طور پر کام کرتا تھا۔

ٹرین کا سفر بے حد خوشگوار اور مزے کا تھا۔ تھا بھی مختصر۔ جہاں اُترے وہ ورینا Varennaکی جھیل کومو تھی۔ Bellagioدوسری اور پرانی تہذیب و ثقافت کی نمائندہ اور تیسری Menaggio۔ چھوٹے موٹے بہتیرے سلسلے اور بھی اندر پھیلے ہوئے ہیں۔ ورینا کی جھیل کومو Comoجھیلوں کے اِس شہر کا سب سے خوبصورت اور بہترین تحفہ ہے۔ فطرت کے یہ شاہکار کوہ الپس سے جڑے ہوئے ہیں۔

سوئیزرلینڈ کی سرحدوں کے نوکیلے کٹاؤ اِن جھیلوں کے اندر تک گھُس آئے ہیں۔ دست قدرت کی خصوصی عنایت و نوازش اور اطالویوں کے ہنر مند ماہرانہ ہاتھوں نے جھیل پر دونوں جانب پاسبانوں کی طرح کھڑے پہاڑوں کے دامنوں سے لے کر چوٹیوں تک وہ رنگ بکھیرے ہوئے تھے کہ بندہ تو سانس لینا بھول جاتا ہے۔

اب میری عمر فیری میں بیٹھ کر بہت دور جہاں نیلا آکاش سبزی مائل سیاہ پانیوں سے ملتا ہے جیسے منظر کو دیکھتے ہوئے یہ تو گنگنا سکتا تھا کہ ملتا ہے جہاں پانیوں سے گگن۔ آؤ وہیں ہم جائیں۔ مگر اگلے مصرعے کے لئیے کِسے آواز دوں کہ لٹر لگنے والے نے تو کبھی پکار پر دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ لے دے کے اوپر والا ہی تھا اور اُسے لے کر وہاں جانے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟ وہ تو یہاں بھی میرے ساتھ تھا۔

دھوپ بہت چمکیلی تھی۔ میں اندر سے باہر عرشے پر آ گئی۔ لمبے سے ایک بینچ پر جہاں پہلے ہی ایک گورا اور تین گوریاں براجمان تھیں بیٹھنا چاہا۔

جیسے دفعتاً کسی کو بھڑ کاٹ لے۔ اچھے بھلے بیٹھے بیٹھائے کسی کو محسوس ہو کہ جیسے شلوار میں گھُسی کسی چیز نے ران پر زور دار چٹکی کاٹ لی ہو۔ اور وہ اضطراری کیفیت میں اچھل کر اپنی جگہ سے کھڑا ہو جائے۔ عین اسی سے ملتا جُلتا سین میرے سامنے آیا تھا۔

بھونچکی سی ہو کر میں نے اُس نخریلی گوری سے کہا۔

’’کیا ہوا ہے تمہیں؟ کیا میں اچھوت ہوں؟‘‘

میرے لہجے میں گھُلے غُصے، تلخی اور شدت نے لوگوں کو فوراً متوجہ کیا تھا۔

مراکش کا ایک نوعمر جوڑا جو سیلفی سے تصویریں بنانے میں مصروف تھا بھی چونک پڑا۔ لوگوں کا خاموش سا ردّ عمل سامنے آیا۔ کچھ تو سُن وٹے سے بنے بیٹھے رہے۔ تاثر کچھ ایسا تھا بھئی بھاڑ میں جاؤ تم اور چولہے میں جائے وہ۔ ہمیں کیا؟ صرف ایک دو کی آنکھوں میں خفیف سی مذمت کی لہریں تھیں۔ ہاں اُس مسلمان جوڑے نے کھل کر لعن طعن کی۔ گو یہ عربی میں تھی۔ تاہم لہجے کو اندر کے جذبات نے جو پیغام دیا تھا اس نے پوری طرح نمائندگی کر دی تھی۔

اِس فضول سی تلخی کو بھُلا کر میں نے گرد و پیش کو دیکھا۔ بخدا اتنے خوبصورت منظر تھے کہ یادوں میں استنبول کے "شہزادوں کے جزیرے "بھاگتے دوڑتے آ گئے۔ اُن کی وضع قطع بھی ایسی ہی ہے۔

مالڑوسیہ آ گیا تھا۔ فیری جیٹی سے جا لگی تھی۔ میرا جی اترنے کی بجائے آگے جانا چاہتا تھا۔ وہاں تک جہاں پانی سوئیزر لینڈ کی سرزمین میں داخل ہوتے ہیں۔ مگر وائے مجبوری میزبان کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ اکیلی ہوتی تو شاید کچھ مار دھاڑ کر ہی لیتی۔

کیا جگہ تھی؟ خوبصورتیوں میں سرتاپا ڈوبی، طلائی کرنوں میں ہنستی مسکراتی، تا حد نظر چوٹیوں پر گھروں کی صورت نظارے بکھیرتی اور انگوروں کی بیلوں سے ڈھنپے قدیم اور جدید گھروں سے سجی۔

کتنا لمبا سانس بھرا تھا میں نے؟ میری آنکھوں میں تحّیر اور مسرتوں کے کیسے کیسے رنگوں کا چھلکاؤ ہوا ہو گا؟ یہ سب میں شیشہ دیکھے بغیر ہی جانتی تھی۔

میرے سامنے زینے تھے۔ لمحہ بہ لمحہ بلندیاں چڑھتے ہوئے زیتون کے پیٹر تھے جو مجھے بتاتے تھے کہ اٹلی زیتون کے تیل کا گھر ہے۔ سیب کے درختوں پر بس بلوغت کو پہنچنے والے سیبوں کی اپنی کہانیاں تھیں۔

بہرحال تنگ تنگ راستوں سے گزرنے میں مزہ آیا۔ اونچے اونچے پوڈے بل کھاتے راستے۔ دو کمروں کا چھوٹا سا گھر۔ اٹلی کے مالکوں کی مہربانیوں کی داستان تھی جو سنی۔ ملازمتوں کے اصول و قواعد جانے، انہیں سراہا اور دعا بھی کی کہ میرے ملک میں بھی ایسا سب ہو۔

شہد جیسا تربوز کھایا۔ سیب کھائے۔ سیب ذائقہ والے نہ تھے۔ ہاں پیزا لاجواب تھا۔ میزبان نے خود بنایا تھا۔ موسم پہلے ابرآلود ہوا پھر بارش برسنے لگی۔ اسی رم جھم میں ہم نے واپسی کی۔

اگلے دو دن میں نے سوئیزلینڈ جانے اور نہ جانے کے چکر میں گزارے۔ موسم گرما ہو گیا تھا۔ پیٹ اپ سیٹ تھا۔ ذہن میں تذبذب تھا۔ جی چاہتا تھا اُڑ کر سوئیزرلینڈ اور پیرس پہنچ جاؤں۔ جرمنی میں بھی جا اُتروں، مگر بدنی نقاہت اور اکیلے ہونے کا خوف پھڈا ڈال رہے تھے۔ کشمکش بہت زیادہ تھی۔ زِچ آ کر میں نے معاملہ اللہ کے سپر کرتے ہوئے یاسر کے دوست راؤ خورشید کے ہاں گلیلیاتے Galliate-Fn جانے کا طے کر لیا کہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے مجھے اپنے ہاں بلانے اور ارونا جھیل کی سیر کے لئے دعوت کی پیشکش کر رہا تھا۔

شام تو خوبصورت تھی دو گاڑیاں بدلنی تھیں۔ باڈی لینگوئج کے تماشوں نے ساری مشکلیں آسان کر دیں۔ گلیلیاتے آیا۔ اتری تو شکر ادا کیا کہ پار جو شہر بسا ہوا تھا اس تک جانے کا راستہ پٹڑیوں پر بچھے چھوٹے سے چوبی راستے سے تھا۔ سیڑھیاں اترنے، لفٹوں میں گھسنے اور الجھنے الجھانے والا کوئی سین منتظر نہیں تھا۔ راؤ خوشنود سامنے کھڑا اپنی سلونی سی رنگت پر مدھم سی مسکراہٹ بکھیرے ہوئے تھا کہ مصائب کی تلخیوں نے چہرے پر سختی کی تحریر رقم کر رکھی ہے۔

چھوٹی سی گاڑی اور خوبصورت سا قدیمی قصبہ جس کی بل کھاتی چھوٹی چھوٹی گلیاں بڑی تاریخی سی تھیں۔ گھر بھی ایک خوبصورت گلیارے میں تھا۔ خوبصورت بیوی حمیرا نام والی سگھڑ اور سلیقہ مند۔ گھر ٹھنڈا آرام دہ۔ سیڑھیوں کا کوئی چکر نہیں تھا۔ کھانا پر لطف۔ مزہ آیا۔ دونوں کی شادی کو پانچ سال ہوئے تھے مگر بچہ نہیں تھا۔ شاید اسی لئے حمیرا کے چہرے پر خوشی اور مسرت کے وہ رنگ نہیں تھے جن کی موجودگی جوان چہروں پر ضروری ہوتی ہے۔

جھیل ارونا کی سیر نے بھی بڑا لطف دیا۔ یہاں ٹرین بھی جاتی ہے۔ ٹرین کا راستہ گھنے جنگلوں میں سے گزرتا ہے۔

’’ہائے‘‘ دل نے کہا تھا۔ کہیں جانتی یا کوئی بتا ہی دیتا تو اس سے سفر کرتی۔ کتنا مزہ آتا؟

راستے کے پہاڑوں کے مناظر دلفریب تھے۔ کتنے چھوٹے چھوٹے قصبات آئے اُن میں اولیگوoleggo نے بہت متاثر کیا۔ میں گاڑی رکوا کر نیچے اُتر آئی۔

مکئی کے پھیلے ہوئے کھیتوں پر سے آتی ہواؤں میں ایک میٹھی سی خوشبو کا رچاؤ بڑا لطیف سا احساس دے رہا تھا۔ چھلیاں پردوں میں لپٹی میرے دل میں ہلچل مچاتی تھیں۔ جی چاہتا تھا ابھی بھاگتی ہوئی جاؤں اور دو چار کی گچھیاں مروڑ کر لے آؤں۔ قصبے کا قبرستان بھی بڑا رومانوی سا تھا۔ پھولوں سے لدا پھندا۔ ہر یالیوں میں بسا ہوا۔ چرچ کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ خوشنود سے پتہ چلا تھا کہ قصبے میں کوئی مر گیا ہے۔

راستے میں پاکستانیوں بارے باتیں ہوئیں۔ چھوٹی عمروں کے لڑکے جو دھکے کھاتے یہاں آ پہنچتے ہیں۔ کیسے کیسے پاپڑ بیلتے ہیں۔ ہاں ایک بات کو سراہنا پڑے گا کہ اٹلی کی حکومت اور پولیس اِن معاملات میں بڑا ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے۔ پاکستانیوں کے البتہ بڑے متضاد رویے سامنے آتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ اچھے کارکنوں کے طور پر اچھی شہرت کے حامل ہیں۔

یہ بھی مجھے خوشنود سے ہی پتہ چلا تھا کہ پاکستانی ویلفیئر سوسائٹی بہت سی جگہوں پر بڑا فعال کردار ادا کر رہی ہے۔ سوسائٹی کا ممبر بننے کے لئے 200یورو اگر فیملی ساتھ ہو تو 400 یورو۔ اگر سوسائٹی کے پاس پیسہ ہو تو پھر سالانہ فیس نہیں لی جاتی۔ آغاز میں قرض سسٹم بھی تھا مگر بعد میں اسے ترک کرنا پڑا کہ بعض پاکستانیوں کی گندی عادات کہ واپس نہیں کرنا۔ ہمارے لوگ سمجھتے نہیں کہ ناگہانی آفات کی صورت میں یہ تنظیم کتنا فعال کردار ادا کرتی تھی۔ کسی موت کی صورت میت کو پاکستان بھجوانے، متاثرہ خاندان کی مدد کرنا سوسائٹی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے۔

جھیل بہت خوبصورت لمبی چوڑی تا حد نظر پھیلی ہوئی۔ انسانی ہاتھوں کی کاریگریوں نے منظروں میں وہ رنگ بھر دئیے تھے کہ دکھ کی لمبی لمبی لہریں اندر سے اٹھنے لگی تھیں۔ جھیلوں کی ہمارے ہاں کمی نہیں، مگر سنوارنے والے ہاتھوں کی بجائے بگاڑنے والے ہاتھ زیادہ ہیں۔ کیا کریں افسوس، دکھ اور تاسف ہی ہے نا ہمارے پاس۔

وہ دن ان کے ہاں گزار کر واپس آ گئی۔ اب میری واپسی سر پر تھی۔

سچی بات ہے مسز سمتھ میری شکر گزار اور میں اُن کی۔ جتنا کچھ اسفار نے دیا اُس سے زیادہ مسزسمتھ نے جھولی میں ڈال دیا۔

چیزاتے کے پر سکون سے قصبے کو میں نے محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ کافی بار کے سامنے پڑی ایک کرسی پر بیٹھ کر میں نے درختوں اور سہ منزلہ گھروں پر سے تیر کر آتی خوشگوار تیز ہواؤں کو اپنے بدن سے ملتے دیکھ کر تھوڑی سی افسردگی کا اظہار کیا۔

’’یہاں تمہارے ساتھ شام کے اتنے رنگ میں نے دیکھے ہیں کہ ہمیشہ میرا دل یہاں کچھ وقت گزارنے کو ضرور چاہا۔ اے ہواؤ، اے نظارو میں تمہیں دوبارہ کبھی دیکھ پاؤں گی۔ میرے اندر نے خود ہی نفی میں کہہ دیا تھا۔ کہاں؟‘‘

ائیر پورٹ کی کیفیت پنجابی کے اُس شعر کی ہی عکاس تھی۔

نی گڈئیے تو آنی تے جانی ایں

کیئاں نو ملانی تے کیئاںنوں وچھوڑنی آں

اقبال کو میں نے رخصت کرنا چاہا پر وہ مُصر تھا کہ نہیں آپ کو توسوار کر کے ہی جاؤں گا۔ بورڈنگ شروع ہونے والی تھی اور ہمارے ملک جیسی صورت ہر گز نہیں تھی۔ رخصت کرنے کے لئے آنے والے بھی وہیں مسافروں کے پاس ہی بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے۔

دفعتاً ایک لمبے تڑنگے مرد نے میرے پاس آ کر کہا۔

’’آپ اکیلی ہیں۔ تھوڑی سی مدد درکار ہے۔ میرا تھوڑا سا فالتو سامان اپنے ساتھ ایڈجسٹ کر لیں۔‘‘

میں تو تیار ہو گئی۔ چھوٹا سا میرا اٹیچی کیس۔ گنجائش ہی گنجائش۔

اقبال نے ایڑی نہ لگنے دی۔ آپ تو بندھ جائیں گی اس کے ساتھ۔ اس کے اتنے لمبے چوڑے پٹارے۔

’’ارے بیبا جانے دو۔ کیا ہے؟ مفت کی نیکی ہی سہی۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے پتہ نہیں کیا کیا لئے جا رہا ہے؟‘‘

چلو جی کہنے سننے پر ساتھ نتھی کر لیا۔ میں بھی خوش کہ چلو لگے گا خود ہی لائن میں۔ مزے سے ٹانگ پر ٹانگ دھرے بیٹھی رنگ رنگیلی دنیا کے مزے لوٹتی تھی۔ تبھی پکار پڑی۔ پتہ چلا کہ کاؤنٹروں پر بیٹھی اٹلی کی موٹی تازی چاق و چوبند عورتیں پاکستانیوں کی سب چوتیوں چالاکیوں کو سمجھتی ہیں۔

’’چلو ہٹاؤ ان سب پر کھنڈوں کو۔ سیدھے سیدھے سامنے آؤ۔ اپنے اپنے ٹکٹ اور پاسپورٹوں کے ساتھ۔

’’ہائے بے چارہ۔ بڑا ترس آیا۔ بھرا ہوا کُپا کہیں انڈیلنا چاہتا تھا۔ جی تو چاہا کہوں۔

’’ ارے کہاں پھینکو گے۔ اس اقبال کو دے دو۔ وطنی ہے تمہارا۔‘‘

میں نے چاہا بھی کہ اُسے یہی سب کہہ دوں جو میرے اندر سے ہونٹوں تک آیا تھا۔ مگر اقبال نے کہا۔

’’رہنے دیں اُسے بندوبست کرنا آتا ہے۔‘‘

پاکستانی ایک دوسرے کی رگوں سے تو واقف تھے۔ وہ واقعی پل جھپکتے ہی جانے کہاں غائب ہو گیا؟

مزید کچھ چھوٹے بڑے مرحلوں کے بعد اقبال کو خدا حافظ کہتے زیر زمین دنیا میں داخل ہو گئی۔ جہاز فرانس سے آ رہا تھا۔ سیٹ جو ملی وہ بوڑھے اور نوجوان بچے کے درمیان سینڈوچ جیسی صورت کی عکاس تھی۔ شکر ہے چودہ پندرہ سالہ لڑکا کھڑکی کی سمت تھا۔ اُدھیڑ عمر کا مرد تو بڑا سڑیل اور سنکی سا دکھتا تھا۔ اپنے آپ میں ہی گم تھا۔ چہرہ بھی تنا ہوا۔ بچے نے مہربانی کی۔ سیٹ کی ادلی بدّلی ہوئی۔ شیشے سے باہر جہاز کا دیو ہیکل پر سارے میں پھیلا پڑا تھا۔

میرے ساتھ عجیب تماشا ہے۔ جب بھی سفر کرتی ہوں۔ پروں کے سائے ہی ہمسائے گی کا شرف عنایت کرتے ہیں۔ منظر کھل کر سامنے آنے نہیں دیتے۔ عجیب اتفاق ہے۔ بہرحال قہر درویش برجان درویش والا معاملہ تھا۔

پندرہ سالہ طارق ایچی سن کا سنئیر کیمرج کا طالب علم تھا۔ ایچی سن کے بگڑے اور بدتمیز بچوں کی اخلاقیات کا مجھے ذاتی تجربہ تھا۔ اور یہ ہرگز ہرگز خوشگوار نہ تھا کہ بڑے بیٹے کے دونوں بیٹے اِس کے جونئیر سکول میں کلاس پنجم اور دوم میں پڑھتے ہیں۔ دس سالہ پوتے کے بارہ تیرہ دوست چائے پر آئے۔ ماں نے اٹھارہ بیس ہزار خرچ کر کے میز سجائی۔ لڑکوں نے تو بیٹھتے ہی طوفان اٹھا دیا۔

’’نفرت ہے مجھے تو نوڈلز سے۔ کولا بھی کوئی پینے کا ڈرنک ہے۔ پینا کلاڈو نہیں بنایا۔ ہاں پیزا کیوں نہیں منگایا۔ مہنگا ہے اس لئے؟‘‘

یہ دس گیارہ سال کے بچے تھے۔ فریحہ میری بہو دم بخود کھڑی انہیں دیکھتی اور گھگھیاتے ہوئے کوئی نہ کوئی ڈش انہیں پیش کرتے ہوئے کہتی۔

’’ لیجیے نا بیٹے یہ لیں۔ یہ سب ہوم میڈ ہیں۔‘‘

وہ جب اٹھے۔ ڈائننگ روم میں کھانے کی میز جس منظر کو پیش کر رہی تھی وہ لمحہ فکریہ تھا۔ سب دوستوں کو رخصت کرنے کے بعد بیٹے نے ماں سے گلہ کیا کہ اس نے کنجوسی سے کام لیا۔ اس کے دوست خوش نہیں تھے۔ جلی بھنی فریحہ نے جوتا اُتارا اور ٹھکائی کرتے ہوئے چلّائی۔

’’الو کا پٹھا۔ میرے پندرہ ہزار خرچ ہو گئے اور اس کے دوستوں کو مزہ نہیں آیا۔ مرغی جان سے گئی اور کھانے والے کو سواد نہیں آیا۔ ہم حرام نہیں کماتے ہیں۔ جاؤ اپنے یاروں کو بتاؤ کہ میری ماں تو لنڈے سے ہمارے لئے کپڑے لاتی ہے۔‘‘

اور میرے سامنے زار زار آنسو بہاتے ہوئے اُس نے کہا تھا۔

’’ آنٹی میں تو پریشان ہوں۔ مجھے انہیں اٹھا لینا چاہیے ایچی سن سے۔‘‘

میں نے دلداری کی۔

’’ اپنا ماحول ٹھیک رکھو۔ دونوں بچے غیر معمولی ذہین ہیں۔ اسکول کی ادلی بدلی ممکن ہے۔ ان کے لئیے ٹھیک نہ رہے۔‘‘

میں جانتی تھی اس نے داخل کروانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے۔ کہاں کہاں تیار کروایا اور خود کتنا کھپی تھی۔ داخلے کا لیٹر آنے تک امید و بیم کی جس کیفیت سے وہ گزری تھی۔ میرے نزدیک وہ ہرگز صحت مند رویّے کی عکاس نہ تھی۔

’’ارے چھوٹی موٹی کامیابیوں کے لئے کیا جلنا کڑھنا؟ بس خدا سے زندگی میں کامیاب ہونے کا کہو۔ سلامتی، تندرستی اور زندگی مانگو۔‘‘

اب سمجھانا ہی مقصود تھا۔ سو سمجھایا ضرور۔ باقی آج کی اولاد اپنے فیصلوں میں خود کفیل ہے۔ والدین کا تو دعا پر ہی زور تھا۔ سو وہ مانگ لی کہ اللہ کرے میرے بچے کے بچے ایسے ہی تمیز دار اور مہذب ہوں۔ جیسا یہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا بچہ۔ بیبا، مودب اور نرم گفتار سا ہے۔ سوئیزر لینڈ میں ہونے والی کسی بچوں کی کانفرنس میں شرکت سے فارغ ہو کر میلان کی سیر کے لئیے آ گیا تھا۔

کھانے کا شور شرابا زیادہ تھا۔ ذائقے اور کوالٹی کا بس گزارہ ہی تھا۔ قہوہ چائے کے بعد بتیاں بجھ گئیں اور لوگ اُونگھنے لگے۔

سیٹیں تنگ تھیں۔ تکیے غائب تھے۔ گو میری نیند ہر گز ہرگز نخریلی زنانی جیسی نہیں۔ بس رات کا ہونا لازم ہے اور تکیے ہوں۔ یہاں رات تو تھی مگر تکیے نہ تھے۔ ایک آدھ بھی نہیں۔ ائیر ہوسٹس کو بلایا۔ اس نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔

’’بزنس کلاس کے مسافروں نے زیادہ مانگ لئے۔‘‘

’’ یہاں اکانومی میں تو انسان نہیں جانور ہیں شاید۔‘‘

میرا لہجہ گلے گلے تک طنزیہ تھا۔ چہرہ بھی ایسے ہی تاثرات کا عکاس ہو گا مگر بتیاں بجھی تھیں۔ لوگ سوتے تھے اور لڑکی کے پاس یقیناً ایسی باتوں کے لئے سوچ بچار کا وقت نہ ہو گا۔

کچھ دیر بعد سوچتے ہوئے اٹھی کہ دستِ خود دہان خود والد کام کروں۔ بیٹھے بیٹھائے تو کچھ ملنے سے رہا۔ شاید کسی سیٹ پر کوئی ایک آدھ پڑا مل جائے۔ بزنس کلاس کی بہت سی سیٹیں خالی تھیں۔ ہائے بڑی کھلی ڈلی آرام دہ ہیں۔ میں مڑی۔ درمیانی پیسجpassageمیں بیٹھی ایر ہوسٹس سے کہا۔

’’میں یہاں نہ تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاؤں؟‘‘

سوچا تھا۔ ذرا پاؤں رکھنے کی اجازت تو دے۔ وجود اندر کرنا میرا کام۔

وہ بھی بڑی گھاگ تھی۔ پل نہیں لگایا کہ چہرہ "پر نہیں ” بھی سجا لیا اور زبان سے بھی اقرار کیا کہ ایسا ممکن نہیں۔ میری جواب طلبی ہو جائے گی۔ میں نے خود کو کوسا۔

’’ یہ تیری منگتوں جیسی عادت نہ گئی۔ ضرورت کیا تھی بھلا؟‘‘ا ب پھر اندر داخل ہوئی کہ چلو کچھ تو ملے۔

کیسے موٹے تازے توندیں نکالے مردوں کے خراٹے گونجتے تھے۔ تین تین تکیئے قابو کئے بیٹھے تھے یوں کہ ایک بھی نکالتی تو جاگنے کا سوفی صد امکان تھا۔

چلتے چلتے میں یکدم ٹھٹک سی گئی۔ مجھے اپنی بصارت پر دھوکے کا سا گمان گزرا تھا۔

’’ہیں۔‘‘ میں نے خود سے کہا تھا۔ یہ کیا دیکھتی ہوں میں؟

ایک چاند چہرہ عین میری نظروں کے سامنے تھا۔ جوانی کی مد ہوش نیند میں ڈوبا ہوا۔ کیسا خوبصورت اور دلچسپ حسن اتفاق تھا۔ ابھی ویٹی کن سٹی میں یاد کرتی رہی تھی۔

یہ یاسر پیرزادہ تھا۔ عطا کا لخت جگر۔

ساتھ والی سیٹ پر ساٹڈ کے بل نیم دراز کوئی خاتون تھی۔ چہرہ نہیں دکھتا تھا۔ اِس دلبر سے لڑکے کی سہیلی ہے، بیوی ہے۔ دیکھنا چاہتی تھی۔

نہیں سہیلی تو نہیں ہو گی۔ جو لڑکا کوٹھے پر چڑھ کر اپنی معصوم سی نایاب (بیٹی) کا ذکر کر دیتا ہے وہ تو گویا دوستی یاریوں کے سارے راستے از خود ہی بلاک کر دیتا ہے۔ بیوی ہو گی بھئی اس کی۔ کیسی ہے؟

تجسّس ضرور انگلی دے رہا تھا کہ بڑھ کر آگے ہو۔ پنڈ کا اتا پتہ لگ ہی جائے گا مگر یہ خطرے والا کام تھا۔ آدھی سے زیادہ گزری رات کے اِس سمے جب ہر سو تنہائی اور خاموشی کا راج ہے ایسی کوئی کاوش ناپسندیدگی کے زمرے میں آ سکتی ہے۔

تکیہ نہیں ملا۔ نامراد ہی واپس آنا پڑا تھا۔

مگر جب اپنے غریبڑے سے حصے میں آئی تو ایک خالی سیٹ پر تکیہ پڑا دیکھا فوراً اٹھا کر بغل میں دبوچا اور پل بھر کے لئے اِس سوچ کو دماغ میں گھسنے نہیں دیا کہ یہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے۔ کسی ایسے بندے کا جو بیچارہ باتھ روم کے لئے گیا ہو۔ پاکستانی ہوں نا جو صرف اپنا سوچتے ہیں اور اخلاقیات اور ایٹی کیٹس کو مونڈھے مارتے گزر جاتے ہیں۔

تکیے کا بھی بہانہ ہی ہوا۔ ذرا سکون نہ ملا۔ یونہی اس کی اٹھا پٹخی میں لگی رہی۔ کہیں تھوڑی سے آنکھ نے جھپکی لی ہو گی۔ نیند کے کسی جھونکے نے تھکن زدہ آنکھوں کو ہلکی سے تھپکی دی ہو گی کہ جیسے کسی نے جنجھوڑسا دیا۔

شیشے سے باہر دیکھا۔ میرے سامنے صبح کاذب کا سا منظر تھا۔ افق اپنے لغوی معنوں میں یہاں فلک سے فلک تک کے پس آئینہ میں ایک بے حد دلکش منظر پیش کرتا تھا۔ کہیں گہرے بسنتی رنگ، کہیں سرسوں کے پھولوں جیسے اور کہیں اس سے بھی اوپر رنگوں کی ایک ایسی برسات دیکھنے میں آر ہی تھی کہ ساکت ہونے والی بات تھی۔ میرے سیٹ کے نیچے جہاز کا پر تھا۔ اس کے کناروں پر جیسے صبح کا نور پھیلنے لگا تھا۔ پھر کہیں دور جیسے ایک پھیلے ہوئے ٹیلے کے کنارے آگ کی سی روشنی سے جھلملانے لگے تھے۔ چند ساعتیں گزر گئیں اور پھر عین میرے سا منے روشنی کا کوندا سا لپکا۔ ایک چھناکے سے آگ کا گولہ نمودار ہو گیا۔ کیا منظر تھا۔ خدائی حُسن کے اِس اظہار پر میرا سارا وجود مجسم ہو گیا تھا۔

’’پروردگار۔‘‘ میرے لبوں نے بے اختیار کہا۔

آتشیں گولا دھیرے دھیرے اوٹ سے باہر آ رہا تھا۔ سری لنکا میں سری پاڈا پر ایسے ہی لمحوں کے کھیل میں کائنات جیسے بقعہ نور بن گئی تھی۔ فطرت نے کسی دلربائی سے اپنے ہونے کا اظہار کیا تھا۔

لاہور ائیر پورٹ دھواں دھار بارش کے نرغے میں تھا۔ جہاز چکر کاٹ رہا تھا۔ بہرحال بحفاظت لینڈنگ ہو گئی اور پائلٹ کے لئے پورے جہاز نے تالیاں بجائیں۔

 

سلمیٰ اعوان

279-A نیو مسلم ٹاؤن لاہور

0301-4038180

salma.awan@hotmail.com

www.salmaawan.com

٭٭٭

تشکر: مصنفہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل