FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اٹلی ہے دیکھنے کی چیز

 

(سفرنامہ)

 

حصہ اول

 

سلمیٰ اعوان

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

اجنبی ملکوں میں کسی کی راہنمائی، کسی کا حُسن، کسی کے میٹھے بول اور محبت آپ کے لئے بیش قیمت اثاثے کی مانند ہوتی ہے۔ انہی جذبات واحساسات کو لفظوں کا پیرہن پہنایا ہے۔

 

صد آفرین اُن پر ہے

 

اجنبیت کے ریلے میں

بھیڑ کے جھمیلے میں

بیگانگی کے میلے میں

اُداسیوں کے بیلے میں

وہ پیارے پیارے لوگ      جو

پردیسیوں، سیاحوں کو

محبتوں کی بارش میں

پور پور بھگوتے ہیں

پیاری میٹھی دھوپ میں

دیر تک بٹھاتے ہیں

شیریں شیریں لفظوں کے

گلاب سے کھِلاتے ہیں

دھرتی کے حُسن کا

یہی روشن چہرہ ہیں

شرفِ آدمیت کا

یہی عَلم اٹھاتے ہیں

صد آفرین اُن پر ہے

صد آفرین اُن پر ہے

 

 

 

 

کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں

 

کچھ سفر شوق کے تھے۔ دعاؤں کے عوض ملے تھے۔ سالوں اُن کے عشق میں ڈوبی رہی۔ انہیں دیکھا بھی محبتوں سے اور اُن پر لکھا بھی چاہتوں سے۔ اُن کا خمار ایسا تھا کہ ’’میں نے دنیا بھلا دی تھی تیری چاہت میں‘‘ جیسی صورت کے حقیقی ترجمان تھے۔ کچھ دانا پانی کا طفیل تھے۔ کچھ کے معاملے میں نیت بڑی کھوٹی تھی۔ یہ کچھ ایسا ہی تھا کہ ’’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ کی طرح ساتھ لپٹ گئے تھے۔

اٹلی کا سفر کہہ لیجیئے سوغات تھی، عنایت تھی۔ یہ بھی کہہ سکتی ہوں کہ دانا پانی نصیب کیا گیا تھا۔ قدموں نے اُس دھرتی پرپاؤں دھرنے تھے۔ گو روم اور وینس اوائل عمری کے عشق تھے۔ وہاں جانے کے لئے شوق کی بھی بے حد فراوانی تھی۔ میلان، وینس، روم، پیسا، لوکا، جھیل کومو اور پومپیئی کو کس محبت سے دیکھا بتا ہی نہیں سکتی۔ یوں جگہیں تو چھوٹی موٹی اور بھی دیکھیں اور اطمینان و سکون سے دیکھیں۔

ہاں مگر جب لکھنے کے لئے بیٹھی۔ ڈائری کھولی۔ اپنے جذبات و احساسات کا تجزیہ کیا تو محسوس ہوا کہ میرے رنڈی رونے اٹلی کی ہر جگہ جاتے ہوئے ایک سے تھے۔ سب سے بڑا میرا مسئلہ اکیلے ہونے کا تھا۔ پھر عمر بھی بڑھاپے میں داخل شدہ جہاں دل کی ذرا سی بات پر ہنگامہ کھڑا ہونے کا اندیشہ سر پر لٹکی تلوار کی طرح دِکھنے لگتا تھا۔

لکھتے ہوئے اُن کا بار بار سیاپا کرنا مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں اپنے قاری کو بور کروں۔ اُس خوف کو دہراؤں۔ پس چند شہروں تک ہی میں نے اپنے قلبی احساسات اور اپنے مشاہدات کو تفصیلاً لکھا۔ میرا ٹرینوں میں دھکے کھانا اور ہر روز نئی جگہ جانے کے تجربات کے ساتھ جو لازمے تھے وہ تھے تو اگرچہ مختلف مگر میرے احساسات ایک جیسے ہی تھے۔ اب قاری کو کسی امتحان میں ڈالنا مقصود نہ تھا۔ ہاں اگر کسی مقام پر اِن جذبات کا اعادہ محسوس ہو تو معافی کی خواستگار رہوں گی۔

دعاؤں کے ساتھ

سلمیٰ اعوان

 

 

 

 

باب 1: لاہور سے میلان کے لیے

 

٭ جانا تو پی آئی اے سے ہی تھا کہ عشق و عاشقی والا معاملہ ہے۔ گو باکمال لوگ لاجواب پرواز جیسے سلوگن کی مٹی پلید ہو گئی ہے۔

٭ پاکستانیوں کی ایک اکثریت نے خود کو یورو کمانے پر ضرور فوکس کیا مگر تعلیمی اور فنّی علوم سے مستفیذ ہونے کو ترجیح نہیں دی۔

٭ مسز ریٹا سمتھ سے ملنا گویا ملاقاتِ مسیحا و خضر سے کہیں بڑھ کر تھا۔

 

اب اگر اوپر والے نے یورپی تہذیب کے گہوارے، رومن بادشاہوں کی عظمت و شان کے مظہر اور رومن کیتھولک چرچ کی قدیم تاریخ اوفر اُس کے شاندار مذہبی ورثے کے حامل ملک اٹلی کا پانی اور اُس کے کھیتوں کھلیانوں میں اُگے دانہ دُنکا چگنے کے لئے میرا وہاں جانا لازمی ٹھہرا دیا ہے تو بھلا اکیلے جانے اور دنیا بھر کے سیاحوں کے بھرئیے میلے میں بونگوں کی طرح پھر نے میں میرے ڈر اور خوف کے جذبات کی اوقات ہی کیا تھی؟

فرح میری بیٹی کی دوست کے شوہر یاسر کے سامنے جب اِن جذبات کا اظہار ہوا تو اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’آنٹی جانا تو آپ کو ہے۔ میں نے بینک گارنٹی دی ہے آپ کی۔ اور گھبرانے وبھرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ ابھی اتنی بوڑھی بھی نہیں۔ اِس عمر میں تو اکثر عورتیں وہاں تیسری چوتھی شادی کرتی ہیں۔‘‘

میری تو پوری بتیسی نکل کر باہر آ گئی تھی۔

’’ لو میاں بولو اب بیچ اس مسئلے کے۔ یہاں تو ایک بیاہ کو ٹھکانے لگاتے لگاتے ادھ موئے ہو گئے ہیں۔ یہ تین چار کے جھولے پر چڑھنا اور جوٹھے لینا تو بھئی اُنہی کو مبارک ہو۔ جن کیلئے بیاہ تو گویا گڈے گڑیوں جیسا کھیل تماشا ہے۔ ہم تو ایسے ہی بھلے۔‘‘

اب یاسر نے مجھے مال پینساMalpensa ائیر پورٹ کی تفصیل، وہاں سے لوکل ٹرینوں کے اہم اسٹیشنوں میلانو کودورناMilano Codorna، سرونوSarono، چیزاتے Cesate، نوویتے Novate، بولیتے Bollate اور اِسی جیسے اور ثقیل سے ناموں کی ایک لسٹ گنوانی شروع کی تو مجھے کہنا پڑا۔

’’ارے بیبے سے بچے میرے پلّے کچھ نہیں پڑ رہا ہے اور نہ پڑے گا۔ چھوڑو سب کچھ۔ جب دریا میں اتروں گی تو خود ہی ہاتھ پاؤں مارتے مارتے یا ڈوبوں گی یا تیرنے لگوں گی۔‘‘

ایک لمبی یاس میں لپٹی آہ سی سینے سے نکلی جس نے میرا لہجہ جیسے افسردگی میں بھگو سا دیا تھا۔

ایسے ہی الٹے سیدھے مرحلوں کا سامنا کرتے کرتے اِک عمر گزار بیٹھی ہوں۔ بس بات اتنی سی ہے کہ اب بڑھاپا ہے جب قویٰ کمزور اور دل ذرا ذرا سی بات پر گھبرانے لگ پڑتا ہے۔ انٹر نیٹ سے بھی کچھ گہری شناسائی نہیں ہے کہ بندہ اٹھتے بیٹھتے شغل شغل میں ہی تھوڑا بہت سبق پڑھ لے۔‘‘

سفر تو ہمیں پی آئی اے سے ہی کرنا تھا۔ چاہے وہ سیدھی جاتی یا پڑاؤ کرتی کہ ہم اس کے عاشق ہیں۔ اُس وقت سے جب یہ لا جواب پرواز تھی اور اِس میں باکمال لوگ سفر کرتے تھے۔ یہ سبز اور سفید جھنڈے کے ساتھ ایک تیزی سے ترقی پذیر ملک کی نمائندگی کتنے خوبصورت انداز میں کرتی تھی۔ اب تو خیر” حال نہ پوچھو کچھ” والا معاملہ ہے۔ پر ہم بھی کیا کریں۔ سچی بات ہے "دل ہے پاکستانی تو جان ہے پاکستان والا "معاملہ ہے ہمارا تو۔

تو میلان اور پیرس جانے والی اِس پرواز میں سارے پاکستانی ہی تھے۔ عورتیں، بچے، مرد اور بوڑھے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ جو میلان اور پیرس میں تقریباً ڈیڑھ دو دہائیوں سے مقیم ہے۔ کچھ تونو جوانوں کی نئی نویلی دلہنیں تھیں جو شوہروں کے پاس پہلی بار جا رہی تھیں۔ آنکھوں میں خواب بسائے، ہاتھوں پر مہندی رچائے، تن پر جھلملاتے کپڑے سجائے، کلائیاں کہیں طلائی، کہیں کانچ کی چوڑیوں اور انگلیاں نقلی اور اصلی سونے کی انگوٹھیوں سے بھری ہوئیں۔ کچھ عید گزار کر جا رہی تھیں۔ بازو ان کے بھی کہنیوں تک حنائی رنگوں اور ڈیزائنوں میں لُتھڑے پڑے تھے۔

منظر کیا دلچسپ تھے۔ پھول پٹیوں والے ریشمی جوڑوں کے ساتھ کُٹ کُٹ کرتی مرغیوں کی طرح اِدھر اُدھر بھاگی پھرتی تھیں۔ کچھ اتنی پڑھی لکھی بھی نہ تھیں۔ گجرات، فیصل آباد اور خوشاب سے بیشتر کا تعلق تھا۔ کہیں سیٹوں کے تبادلے تھے۔ اور کہیں ایر ہوسٹس سے پنگے چل رہے تھے۔

یہ بھی مقام شکر تھا کہ جہاز نے دیر تک دم سادھنے کے بعد زبردست انگڑائی لے کر اڑان بھری تھی۔

ثمینہ میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ سمجھدار سی، ستائیس اٹھائیس سال کی لڑکی دو سال پہلے شادی ہوئی تھی۔ پندرہ دن کی وصل کہانی کے ساتھ سات سو تیس دن کے ہجر کی زخم خوردہ داستان جو ساس نندوں کے ظلم و ستم سے بھری ہوئی تھی۔

مجھ سے بار بار تقاضا کرتی تھی کہ آپ نے میرے پاس ضرور آنا ہے۔ نیز اختر(شوہر) سے ایرپورٹ پر آپ کی ملاقات کرواؤں گی۔‘‘

اس کی باتوں نے جیسے اونگھنے جیسی کیفیت طاری کر دی تھی۔ معلوم ہی نہیں ہوا کہ آنکھیں کب بند ہوئیں۔ شور سے جب کھُلیں تو عادت اور مزاج کے خلاف کوئی گھنٹہ بھر کی نیند لی ہو گی۔ تازگی محسوس ہوئی تھی۔

رات کیا بہت دنوں سے ایک اضطراب کی سی کیفیت میں غوطے کھاتی تھی۔ اکیلے جانے کا احساس۔ کچھ گٹے گوڈوں کا حال پتلا۔ شوق کے عالم کی تو خیر بات ہی کیا کہ جی چاہے اڑن کھٹولے پر بیٹھ کر ساری دنیا گھوم جاؤں پر بات تو شاعر نے کر دی کہ

گو ہاتھوں میں جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے

رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے

تو بس اپنا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ بلڈ پریشر کی بیماری ہر دم سولی پر ٹانگے رکھے۔ اب ایسے میں اِس نظر عنایت کا کیا کہتی کہ جو اوپر والے نے نازل کی۔

مہینہ تو شاید اپریل کا ہی تھا۔ جب آفس میں میرے کمپوزر نے ایک میل لا کر رکھی۔ میلان سے کسی یاسر کی تھی کہ جسنے اٹلی کیلئے مجھے اور بیٹی کو Sponsor کیا تھا۔ حیرت سے کاغذ پر نظریں دوڑائیں اور خود سے پوچھا۔

’’بھئی یہ کون ہے؟ میں تو شاعرہ بھی نہیں کہ سمجھوں کِسی میرے پرستار کی محبت و چاہت کا تحفہ ہے یہ۔‘‘

با ایں ہمہ خوشی و مسرت سے بھری پُری کلکاری اندر سے نکلی اور ہونٹوں پر ناچنے لگی تھی۔

تھوڑا سا غور و خوض کرنے پر معلوم ہوا کہ میری بیٹی سعدیہ کی دوست فرح کا شوہر اور ساتھ ہی اُس کا سُسرالی عزیز تھا۔ فرح کوئی چار سال قبل اپنے شوہر کے پاس اٹلی جا رہی تھی جب میں نے کہیں ہنستے ہوئے کہا تھا۔

’’ہائے فرح مجھے بھی ساتھ لے چلتیں۔ اُف اٹلی تو تاریخ و تہذیب اور آرٹ کا گڑھ ہے۔‘‘

فرح مسکرا دی تھی۔ بے چاری سیدھی سادی ایم اے پاس لڑکی جسے تاریخ و ادب سے کچھ شغف نہیں۔ جی چاہا اُسے بتاؤں کہ وہ ہنری جیمز کے ناول اور گوئٹے Goethe کا سفر نامہ اٹالیئن جرنی Italian Journey کہیں پڑھ لیتی یا پھر اوپن سٹی اور رومن ہولیڈے جیسی فلمیں دیکھ لیتی تو ممکن ہے کہ شوہر کے پاس جانے کی مسرت کے ساتھ اُسے ایک تاریخی و ثقافتی اہمیت کے حامل ملک کو دیکھنے کے شوق کا بھی احساس ہوتا۔

بیچاری کے کہیں دل میں بات رہ گئی ہو گی میں کیا جانوں؟ نہ کبھی بعد میں کوئی ذکر ہوا نہ تذکرہ۔ اب ایکا ایکی یہ نظر کرم۔ دل تو سربازار می رقصم والی کیفیت میں تھا مگر سامنے ادھورے کاموں کے پلندے تھے جن میں گوڈے گوڈے دھنسی بیٹھی تھی۔ اوپر سے بڑھتی عمر کے مسائل۔ اب خیرخواہ لاکھ کہیں۔

’’ ارے مت سمجھو خود کو بوڑھا۔ یہ سوچیں ہی ہیں جو بندے کا بیڑہ غرق کرتی ہیں۔‘‘

’’لو یہ بھی اچھی رہی۔ اب لمبی چوڑی باتوں کے چکر میں کیا پڑنا۔ ایک سے ہی اندازہ لگا لو کہ جب سارا دن کمر چارپائی پر نہ ٹکانے والی عورت تھوڑی سی دیر بعد لیٹ جانے اور آرام کی ٹیکی چاہے گی تو بڑھاپے کا رنڈی رونا نہ روئے گی۔ تو اور کیا کرے گی۔ بھئی مان لو۔ روئے گی۔

تو پھر اِس نوازش سے منہ موڑ کر اِس نئی کہانی کو جیسے دفع دور کر دیا کہ چھوڑو کیا جانا۔ میرا تو شناختی کارڈ بھی جانے کہاں گم ہو گیا ہے؟ اس کے بغیر تو بات ہی نہیں بننی۔ نیا بنوانے کی خجل خواری کیلئے ابھی وقت نہیں۔‘‘

کچھ ہی دنوں بعد ایک اور میل آ گئی تھی کہ کاغذات کی خانہ پُری کر دیں۔ وہ بھی کہیں کوڑے کی نذر ہوئی۔ یونہی ایک دن کتابوں کی پھولا پھرولی میں ایک کتاب کھولی۔ کیا دیکھتی ہوں شناختی کارڈ صفحات میں لیٹا مسکرا رہا تھا۔ حیرت سے میں نے اُسے ہاتھ میں پکڑا اور خود سے کہا۔

’’اف میرے خدایا میں نے اِسے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اور دیکھو اب یہ کیسے بیٹھے بیٹھائے ہاتھ آ گیا ہے۔‘‘

اور جیسے میرے وجدان نے کہا تھا ’’ سلمیٰ اعوان تمہیں اٹلی جانا ہے۔‘‘

یہ شاید جون کا آخری ہفتہ تھا جب یاسر میرے دفتر میں خود موجود تھا۔ وہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آیا تھا۔ میرے ٹوٹے پھوٹے بہانے سُن کر اُسنے دو ٹوک الفاظ میں اُس بات کو دہرایا۔ جس کا ذکر آغاز میں ہوا ہے۔ بیٹی کا نام ڈراپ ہو گیا کہ اُسے حج پر جانا تھا۔

’’آپ جائیے میں سارا انتظام کر کے آیا ہوں۔‘‘

دو دنوں میں کاغذات تیار ہوئے۔ اور پورے بیس دن بعد FedEx والوں نے ویزا میرے ہاتھ میں پکڑا دیا تھا۔

اٹلی بابت اور جدید موبائل کے سبق یاسر نے پڑھانے کی بہت کوشش کی جو ایک تو میری آپ پھدری طبیعت اور دوسرے کاموں کے اژدہام نے پڑھنے ہی نہ دئیے۔

’’ٹھیک ہے بھئی۔ یہ بٹن دباؤں گی تو تمہارے اِس دوست کا نمبر آ جائے گا اور یہ دبے گا تو یہ ہو جائے گا۔ بس بس ٹھیک ہے۔ باقی اللہ مالک ہے۔‘‘

بڑا بیٹا کچھ زیادہ ہی مضطرب تھا کہ ماں اکیلی ہے۔ چاہتا تھا کہ اس کی سالی جس کے پاس امریکن ویزا ہے۔ اور وہ اٹلی گھومے ہوئے ہے میری دوسراہت کیلئے ساتھ ہولے۔ اس کے دونوں بچے وہ دونوں میاں بیوی (یعنی بیٹا اور بہو) سنبھال لیں گے۔ میں نے سُنا تو ڈپٹا۔

’’ارے باؤلے ہو گئے ہو۔ چھوٹے چھوٹے دو بچوں کی ماں جس کا دل اپنے بچوں میں ہی اٹکا رہے گا۔ گالیاں نکالے گی مجھے۔ چل ہٹ۔ بہنوئی ہونے کا اتنا رعب نہیں جماتے۔‘‘

اب میں لاکھ دعوے کروں کہ میں توہمات کی قائل نہیں۔ بالکل غلط۔ منگل کے دن کی فلائٹ مجھے تذبذب میں ڈال رہی تھی۔

’’ یہ بُدھ کو نہیں ہو سکتی۔ بدھ کم سدھ۔

’’نہیں ممکن نہیں۔ ہفتہ میں ایک دن پی آئی ائے کی میلان اور پیرس کیلئے فلائٹ۔ ا توار کو اسلام آباد سے۔‘‘

بخاری ٹریولز میں ٹکٹ ایجنٹ فرحان بتا رہا تھا۔

اب خود سے کہتی ہوں۔ عجیب عورت ہوں میں بھی۔ دن سب اللہ کے مگر وہ جو کہتے ہیں آپ کا وہم آپ کو لے ڈوبتا ہے تو وہی بات ہوئی۔ نئی نکور گاڑی اور میرا تجربہ کار ڈرائیور انور۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی پل کے نیچے گاڑی آگے جانے والی سے ٹکرائی اور میرا دل دہلا گئی۔

’’یا اللہ خیر۔‘‘

لبوں سے نکلا۔ تاہم میاں نے ضبط اور حوصلے سے کہا۔

’’گاڑی نکال لو۔‘‘

شکر ہے کِسی رپھڑ میں نہیں پڑنا پڑا۔ بد شگونی کا وہم سامنے آ گیا۔ سر جھٹکا۔ خود کو لعن طعن کیا۔ بار بار کہا۔ دن سب اللہ کے۔ ایمان کو پکّا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

چیکنگ کا عملہ بہت سُست تھا۔ کیمروں پر صورتیں چیک ہو رہی ہیں اور ساتھ ساتھ زبانیں تیز گام کی سی رفتار سے سیاست پر تبصرے کر رہی ہیں۔

’’عمران کیا بونگیاں مار رہا ہے؟ جنرل راحیل اٹلی پہنچا ہوا ہے۔ وزیر خارجہ سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ دونوں ملکوں میں دفاعی تعاون بڑھانے کی پیشکش۔ پاک فوج کیلئے اٹلی کی حکومت کی زبردست ستائش وغیرہ وغیرہ۔‘‘

تو اب دانہ پانی اجنبی سر زمینوں کی طرف اڑائے لئیے جا رہا تھا اور میں تھوڑی سی جھپکی کے بعد جہاز میں کھانے کی اڑتی خوشبوؤں کو اپنے نتھنوں میں گھسیڑتے منتظر تھی کہ کب ٹرالی میرے پاس آئے گی۔

کھانا تو بس گزارہ اور گوارہ تھا۔ ہم جیسے چاولوں کے رسیا لوگوں کو چاول مل جائیں تو گریس مارکس دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ بس تو کچھ ایسا ہی حال پی آئی اے کے اِس کھانے کے ساتھ تھا۔

’’ٹھیک ہے بھئی ٹھیک ہے۔‘‘کھاتے کھاتے نگاہ سامنے اٹھی۔ سکرین پر جہاز کا روٹ دکھایا جا رہا تھا۔ واہ کیا سین تھا۔ بلیک سی پر جیسے رسہ تنا ہوا ہو۔ آدھا پیلا اور آدھا فیروزی مائل سبز۔ درمیان میں جہاز جیسے اڑتا ہوا پرندہ۔ اب مجھے دلچسپی ہوئی۔ کھانے والا پٹارا سمیٹا اور سکرین پر نظریں جادیں۔

سپین کنارے پر نمایاں ہو رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہی منظر سکرین پر نمودار ہوتا۔ اسی تنے ہوئے رسے کے اوپر نیچے مشرقی یورپ کے شہروں کو دیکھنا بڑا دلچسپ لگا تھا۔ لاہور سے MXP تک کا راستہ جیسے ہندوستان کے نقشے جیسی صورت والا خشکی کا کوئی قطعہ ہو۔

نشست کھڑکی کے ساتھ والی تھی۔ اور سفر اپنے اختتام کی طرف گامزن تھا۔ بلندی سے اُترائی کے سفر میں بادلوں کے پُروں کا پھیلے ہوئے ہونا ایساہی تھا جیسے میں اپنے بچپن میں اپنی دادی کودیسی کپاس صحن کے کچے پکے فرش پر بکھیرے دیکھتی تھی۔ میلان اور اس کے گرد و نواح کے مناظر میں وہ حسن کہیں نہیں تھا جو آپ کو استنبول اُترتے ہوئے نظر آتا ہے۔

جہاز میں چونکہ سبھی پاکستانی تھے۔ شاید اسی لئیے ایرپورٹ انتظامیہ نے میٹرو اسٹیشن کے قریب ترین Exit والے ہال میں چیکنگ کے مراحل سے مسافروں کو گزار دیا۔ یہ اور بات ہے کہ اِس ٹرمینل تک پہنچنے کی پریڈ چلنے کی مشقت سے لبالب بھری ہوئی تھی۔

ثمینہ اور میں دونوں ساتھ ساتھ باہر نکلیں۔ وہاں بھی سارے پاکستانی ہی نظر آئے تھے۔ ثمینہ کی بے چین نظریں اپنے شوہر کی تلاش میں تھیں جو وہاں نہیں تھا۔

یاسر کا دوست اقبال ائیر پورٹ پر موجود تھا جو میری ایک زور دار آواز پر ہی بھاگ کر سامنے آ گیا تھا۔ جس نے میرا سامان پکڑا۔ ثمینہ کو دعا اور تسلی دیتے ہوئے مجھے اس کے شوہر پر شدید غصہ آیا۔ کیسا عجیب اور لا پرواہ شخص ہے اُسے اپنی نئی نویلی دلہن کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ پھر خود ہی تاویل دی کہ عین ممکن ہے لیٹ ہو گیا ہو۔

بہرحال اقبال مجھے سٹیل کلر کی ایلیویڑوں سے گزارتا ٹرین تک لے آیا۔ کیسی شاندار ٹرین تھی؟ اتنی نئی نکور جیسے ابھی ابھی افتتاح کے بعد پلیٹ فارم پر آ کر کھڑی ہوئی ہو۔ سرنگوں سے گزرتی کشادگی میں آئی تو سبزے اور خوبصورت مضافاتی بستیوں سے آنکھوں کو چمکانے اور ٹھنڈا کرنے لگی۔

یہ مضافاتی آبادیاں اپنے دامنوں میں زندگی کی سب سہولتوں سے مزین ان سب لوگوں سے آباد تھیں جو فطرت کے قریب رہنا چاہتے تھے۔ سبزے اور خاموشی سے محبت کرتے تھے۔ یہاں وہ لوگ بھی تھے یعنی جنوبی مشرقی ایشیا کے محنت کش لوگ جنہیں سستی رہائش گاہیں چاہیے تھیں۔

در اصل میلان اٹلی کا دوسرا بڑا شہر جو صنعتوں کی وجہ سے، اپنی محنت، کاروباری مراکز کے اعتبار، اپنی تاریخ و تہذیب کے حوالے سے، سیاحوں کیلئے اور اٹلی کے سب سے بڑے میٹرو پولٹین شہر کی وجہ سے خاصا گنجان اور مہنگا ہو گیا ہے۔ اب ڈھیروں ڈھیر لوگ مضافات میں آبسے ہیں۔

سرونوSaronno پر اترنا پڑا کہ یہاں سے گاڑی بدلنی تھی۔ یہ جنکشن تھا۔ پٹٹریوں کا جال بچھا ہوا نظر آیا۔ دائیں بائیں آر پار پلیٹ فارم آباد۔ پل پل کے وقفوں سے گاڑیوں کی آمدورفت۔ زندگی گویا سیکنڈوں اور منٹوں سے چلتی تھی۔

چیزاتے بھی ایسی ہی ایک بستی تھی۔ آ ہنی جنگلوں اور زیر زمین راستوں میں گھری یہ سب سلسلے تحفظ اور سلامتی کے ضامن ہیں کہ بستیاں اِن کے ذریعے ریلوے ٹرینوں سے جڑی ہوئی ہیں۔

میرے سامنے خاموش سناٹے میں ڈوبا، ہواؤں میں جھولتا اور سنہری کرنوں میں نہاتا ایک خوبصورت قصبہ تھا۔ جسے میں کئی بار شوق و محبت سے دیکھا تھا۔

اب جو چلنا شروع کیا تو راستہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ آج تو صبح سے اب تک چل چل کر ملیدہ ہونے والی بات ہو گئی تھی۔ اوپر سے ستم بالائے ستم چوتھی منزل پر گھر۔ لفٹ بھی نہیں۔

پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی میں نے شاہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک رہنے والے سے گلہ کیا۔

’’تیرا انتہائے کرم ہے۔ عنایت ہے تیری کہ اٹلی جیسے خوبصورت ملک کی سیاحت کا دودھ تو تو نے مجھے پینے کو دیا مگر پر کیسے ہائے؟ آگے میری زبان میں جو کہاوت ہے وہ تو میں دہرا نہیں سکتی خود ہی سمجھ لو نا۔ مگر نہیں دہرائے دیتی ہوں۔ کہیں تم بھی بھُولے نہ پڑے ہو۔ آخر اتنی بڑی دُنیا کے وختے تھوڑے ہیں۔

میں رُک گئی۔ رُخ پھیر کر سیڑھیوں کے شیشوں سے جھانک کر نیلے آسمان کو دیکھا اور شکستہ سے لہجے میں کہا۔

’’ہاں تو میں گینیں ڈال کر نا۔‘‘

سرگودھا شہر کے ایک گاؤں کی سادہ سی چوبیس پچیس سالہ لڑکی رضیہ جس نے اہتمام سے سر ڈھانپا ہوا تھا اپنی چار سالہ پیاری سی بیٹی مسکان کے ساتھ دروازے پر کھڑی مجھے خوش آمدید کہتی تھی۔ میں نے پیار کیا اور کمرے میں دھرے صوفے پر دھم سے ڈھے سی گئی۔

پر اندر جیسے بلبلانے لگا تھا۔

تو یہ کشٹ روز کیسے کٹے گا؟ میلان میں کوئی ہوٹل ہو جائے۔ سوچ در آئی۔ "ہائے ” ایک کراہ سی نکلی۔ اکیلے رہنے کا بھوت سامنے آ کر ڈرانے لگا تھا۔ اب اقبال سے کیا” کِیا جائے ” پر بات ہونے لگی۔ کسی ٹیکسی وغیرہ کا بندوبست ہو جائے۔‘‘

’’یہ تو ممکن ہی نہیں۔ اُس کا حتمی جواب تھا۔

باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کے پاس سکوٹر ہے۔ چلو فی الحال یہ کرو کہ اسٹیشن پر ڈراپ کر دیا کرنا۔ واپسی پر فون کر دیا کروں گی۔‘‘

’’مگر ہیلمٹ پہننا پڑے گا۔‘‘

’’تو بھئی پہن لیں گے۔ یہ کونسا مشکل کام ہے۔ بغداد میں تو ریڑھیوں پر بھی بیٹھی تھی۔ کم از کم اِس فالتو فٹیک سے تو فی الحال جان چھوٹے گی۔‘‘

’’چلئیے تھوڑا سا اطمینان ہوا۔ اب کمرے کے کھلے دروازے اور کھڑکیوں سے تاکا جھانکی کا سلسلہ شروع ہوا۔ کہیں کہیں منظروں کی دلربائی سی ضرور دیکھی مگر فوراً گرفت میں جکڑنے والی نہ تھی۔

آمنے سامنے کے گھروں میں اطالوی بوڑھے رہتے تھے کہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے میں نے فربہی بدن کی کم و بیش میری ہی عمر کی عورت کو ٹیرس پر رکھے گملوں میں اُگے بوٹوں کو پانی دیتے دیکھا تھا اور اِن کے بارے معلوم ہوا تھا کہ خاتون اُستاد ہے۔ اب ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہی ہے۔ دو بیٹے ایک باہر اور ایک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ لڑکا شراب کا انتہائی رسیا اور قدرے نکھٹو ٹائپ کا تھا۔

قوموں کے مزاج اور ان کے اطوار کا اندازہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے ہو جاتا ہے۔ ایک ہی سائز اورجسامت کے ٹیرس۔ ایک گل و گلزار ہوا پڑا تھا اور دوسرا جس کے سامنے میں بیٹھی تھی کے کونے کاٹھ کباڑ سے بھرے نظر پر گراں گزرتے تھے۔

اس پورے بلاک میں بمشکل کوئی دس خاندان ہوں گے۔

جانا تو اور بھی بہت کچھ تھا کہ بے روزگار میرا میزبان اِن دنوں بے روزگاری الاؤنس لے رہا تھا۔ دو مالکوں کی کیمیکل فیکٹری پولینڈ شفٹ ہو گئی تھی کہ وہاں لیبر سستی تھی۔ بے کار ہونے والے نئی ملازمتوں کی تلاش میں تھے پر فکر مند ہرگز نہ تھے کہ بے روزگاری آلاؤنس عزت سے گھر کی دال روٹی چلنے کا اہتمام کر دیتا ہے۔ ایک رفاعی ریاست کا حقیقی نفاذ۔ علاج معالجہ، سکول سب ریاست کی ذمہ داری۔

پندرہ سال قبل اٹھارہ سالہ نوجوان جب دھکے کھاتا یہاں پہنچا تھا تو زندگی بڑی کٹھن تھی مگر اس کی جد و جہد یورو کمانے پر تو رہی مگر خود کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ اعتبار سے آگے بڑھانے کو اس نے فوکس ہی نہیں کیا۔ اس کا اندازہ مجھے اِس مختصر سے وقت میں ہی ہو گیا تھا کہ میلان میں ہوٹلوں کو دیکھنے اور ان کے بارے میں جاننے کیلئے جب میں نے بات کی اُس نے اپنا لیپ ٹاپ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا۔

’’آپ اِس سے کھوج کر لیں۔‘‘

میں نے بے بسی سے اُسے دیکھا اور کہا۔

’’ارے میاں میں تو خود اس میں ابھی کوری ہوں۔‘‘

آنے والے دنوں میں یہ تکلیف دہ بات زیادہ کھل کر سامنے آئی تھی کہ ایسا ہی حال اس جگہ اور اِن سے ملحقہ دیگر کمیونزComunes (یعنی قصبات)میں مقیم پاکستانیوں کا تھا جنہیں یہ لوگ (یعنی پاکستانی) پنڈ (گاؤں ) کہتے ہیں۔

شام کی چائے پر اِس چھوٹے سے خاندان کا اہتمام اُن کی بساط سے کچھ زیادہ تھا۔ میں نے ممتا بھری ڈانٹ دی۔ اور جب میں رضیہ کا ہوم میڈ پیزا کھاتی اور چائے پیتی تھی مجھے پتہ چلا تھا کہ نچلے فلور پر ایک پچھتّر۷۵ سالہ خاتون رہتی ہے جو ہمہ وقت کتابیں ہی پڑھتی رہتی ہے۔ جس کے گھر میں کتابوں کے انبار ہیں۔ یوں وہ ایک مہربان اور شفیق سی عورت ہے۔ جس کی ایک بار بیماری کے دوران دونوں میاں بیوی نے اس کا بہت خیال کیا۔ شوہر بھی ایسے ہی مزاج کا تھا۔ دو سال ہوئے دنیا سے چلا گیا ہے۔

بھولی بھالی سی رضیہ ہنسی اور بولی۔

’’امّاں جی میں نے جب پہلی بار روغن زیتون سے ان کی ٹانگوں کی مالش کی تو انہیں اتنا سکون ملا کہ میں خوشی سے نہال ہو گئی۔ پھر تو ہر روز ان کی پورے بدن کی مالش معمول بنا۔ وہ غسل کر کے تازہ دم ہوتیں اور مجھے پیار کرتیں۔ وہ میری ماں جیسی ہیں۔ اُن کا ایک ہی بیٹا ہے جو بس سال چھ ماہ میں ایک بار آتا ہے۔ آپ کو بھی لے کر چلوں گی۔‘‘

اقبال کے لہجے میں خوشی و سرشاری نے اس کی باچھیں گویا آخری داڑھوں تک نمایاں کر دی تھیں۔ ’’ہم تو آپ کے منتظر تھے ہی۔ وہ بھی آپ کے بارے میں پوچھتی رہتی تھی۔‘‘

تو گویا ایک ادبی ذوق کی حامل، کتابوں کی رسیا، کیا پتہ لکھنے لکھانے سے بھی تعلق ہو۔ ایسی خاتون سے ملنا تو ملاقاتِ مسیحا و خضر سے بھی افضل ہے۔ سچی بات ہے یہ ایسا خوش آئند خیال تھا کہ یونہی محسوس ہوا کہ میلان کے کِسی قدر گرم سے موسم میں پھولوں کی خوشبو سے لدی پھندی ہواؤں نے جیسے میرے رخساروں پر بوسے دیتے ہوئے مجھے نہال کر دیا ہے۔

اقبال انہیں بتا کر آیا تھا کہ میں ان سے ملاقات کی خواہش مند ہوں۔ اذن

ملاقات کوئی گھنٹہ بھر بعد کا عطا ہوا تھا۔

رضیہ اور اس کی بیٹی ہمراہ ہوئیں۔ ایک منزل نیچے کا گھر۔ دروازہ مسز ریٹا سمتھ نے خود کھولا۔ سامنے نیلی کانچ جیسی آنکھوں اور گرے بالوں والی عورت نے مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے خوش آمدید کہا۔

گھر تو ایک جیسا ہی تھا۔ تین کمروں اور چھوٹی سی راہداری والا۔ مگر کیسا تھا۔ روح تک میں لطافت اُتر گئی۔ راہداری کی پوری بلائنڈ دیوار پھولوں اور بیلوں سے سجی ہوئی تھی۔ پہلا کمرہ چھوٹا تھا مگر اس درجہ با ذوق طریقے سے سجا ہوا کہ رشک آیا۔

بڑے کمرے میں الماریاں کتابوں سے بھری ہوئی تھیں۔ باتیں ہوئیں تو پتہ چلا کہ لکھتی وکھتی تو نہیں تاہم کتابوں سے عشق ہے۔

نشست گاہ کی سادگی اور پُرکاری کی سجاوٹ بڑی منفرد سی تھی یا ایسا مجھے محسوس ہوا تھا۔ دیوار میں نصب چوبی ڈیزائن کاری کی حامل لمبی سی الماری کے شیلف مختلف مجسموں سے سجے تھے۔ بڑے منفرد سے۔

چند ایک کے بارے پوچھنے پر پتہ چلا کہ بالائی خانے میں داہنی طرف کا وکٹر ایمونیل دوم، اٹلی کے شہنشاہ جس نے اٹلی کو ایک کیا، کا مجسمہ ہے۔ اس کے ساتھ اُسی خانے میں تین اور تھے جو قدرے چھوٹے اور وکٹر ایمونیل کے دائیں بائیں دھرے تھے۔ تو پتہ چلا تھا کہ یہ تو بڑے تاریخی کردار ہیں۔ اطالویوں کے محسن، Risorgrimentoتنظیم کے بانی اور رکن۔

پسِ منظر نے بتایا تھا کہ اُنسیویں صدی کے ابتدائی سالوں میں جب اٹلی پر نپولین بونا پارٹ کی حکومت تھی۔ کہہ لیجیے بیج تو اس تحریک کا نپولین نے ہی بویا تھا کہ اُس نے اطالویوں کواُکسایا اور یقین دلایا تھا کہ وہ یورپ کے لوگوں کی طرح اکٹھے ہو کر اپنے ملک پر خود حکومت کرنے کے اہل ہیں۔ تو اسے Risorgrimentoیعنی دوبارہ اٹھنے سے جوڑا گیا۔ یعنی اٹلی کی عظمتوں کا احیاء تو اگلے پچاس سالوں میں یہ ایک انقلابی تحریک بن گئی۔ جس میں حصّہ لینے کی سزا موت تھی۔ بنیادی طور پر چار مرکزی کردار تھے۔ گیری بالڈیGaribaldi(جو جرنیل تھا۔ )، میزانیMazzini(بے حد دلیر اور جی دار لکھاری)، کیورCavour(سیاست دان و ڈپلومیٹ) اور وکٹر ایمونیل دوم۔

مسز ریٹا نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

یہ میرے ہی گھر میں موجود نہیں ہیں۔ جب آپ اٹلی کے شہروں کی سیر کریں گی تو اس کے کوچہ و بازاروں کی پیشانیوں پر یہ جگمگاتے نظر آئیں گے۔ تب محبت و عقیدت میں ڈوبے دو بول آپ نے ضرور اِن کے لئیے کہنے ہیں۔‘‘

’’کیوں نہیں۔‘‘محبت بھرا میرا جواب تھا۔

یہ وہ خفیہ تنظیم تھی جن کے لوگوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئیے۔ خود ختم ہوئے مگر تحریک کو مرنے نہیں دیا۔ حتیٰ کہ وہ وقت آ گیا جب سپین، آسٹریا اور فرانس جو ملک پر قابض تھے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔

تو میں اٹھی اور فوجیوں کے سے انداز میں انہیں سلوٹ مارا اور کہا۔

’’مسز ریٹا جب اٹلی کے شہروں میں انہیں دیکھوں گی تو رُک کر خاموش کھڑے ہو کر اظہار عقیدت کا گہرا اظہار کروں گی۔ آپ کا شکریہ۔ آپ نے آج ہی اِن سے میری ملاقات کروا دی۔‘‘

مسز ریٹا کی آنکھیں چمکیں۔ انہیں میری یہ ادا بہت بھائی تھی۔

پینتیس 35سال کی عمر میں ڈیوائن کومیڈی جیسا شاہکار لکھنے والا دانتے ایلیگریDante Alighieri، جس نے اطالوی ادب کیا دنیا کے ادب کو مالا مال کیا، کو پہچاننے میں ذرا دشواری نہیں ہوئی کہ ڈیوائن کومیڈی کو پڑھنے کی کوشش میں اُس کی صورت اور سٹائل کی انفرادیت نے تصویری نقش ذہن میں بیٹھا دیا تھا۔ مجسمہ ساز بھی کمال کا تھا کہ طوطے جیسی ناک اور پندرھویں صدی میں رائج سر پر پہننے والا مخصوص ہڈ اپنے رنگوں کے ساتھ نمایاں کیا ہوا تھا۔ شیکسپئر بھی نمایاں تھا۔

ریٹا خود اگر اطالوی تھی تو شوہر انگریز تھا۔ دونوں اپنی اپنی زبانوں کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ فرنچ اور جرمن میں بھی طاق تھے۔ مسٹر سمتھ کا کوئی دو سال ہوئے انتقال ہو گیا تھا۔

سچی بات ہے جب وہ کافی بنانے کے لئیے اٹھیں۔ میرا جی چاہا تھا میں کتابوں کی الماری کے پاس جا کھڑی ہوں۔ اُسے کھولوں اور اُس خزانے میں جھانکوں تو سہی کہ میرے مطلب کا بھی کوئی لال یاقوت وہاں دھرا ہے۔ مگر میں نے خود کو لگام ڈالی۔ ہوچھوں کی طرح ٹپوسیاں مارنے کو خود ہی ردّ کیا۔ اور رجّی پُجی خاندانی عورت کی طرح با وقار طریقے سے بیٹھی رہی۔ کہ رضیہ سے پتہ چلا تھا کہ وہ بڑے رکھ رکھاؤ والی ہیں۔

کافی میں پینا نہیں چاہتی تھی۔ مگر انکار کرنا بھی مناسب نہ لگا۔

کسیلا گھونٹ بھرا اور ان کی خدمت میں عرض کیا۔

’’ آپ اجازت دیں تو شام کا ایک گھنٹہ آپ کے پاس گزار لیا کروں۔ آپ سے بہت کچھ جان سکتی ہوں۔ اٹلی کا ماضی اور اُس کا حال۔‘‘

نرمی کی پھوار میں جیسے بھیگے چہرے پر بڑی شیریں سی مسکراہٹ پھیل گئی۔

’’ارے ماضی کی تاریخ تو بڑی ہی دلچسپ ہے۔ شاید تاریخ ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہے۔ اور ڈراؤنی بھی۔‘‘

اب یقین کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بالکل ذاتی ہے کہ بھیڑ مادہ نے دوانسانی بچوں رومیولسRomulusاور ریمسRemusکو اپنا دودھ پلا کر پالا۔ جنہوں نے جوان ہو کر روم شہر کی بنیاد رکھی۔‘‘

ہم ہنس پڑے تھے۔ بہرحال شام سات بجے کا ٹائم سیٹ کر کے میں اُن سے رُخصت ہوئی۔

سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے رب سے شکوے شکایتوں کے جو پٹارے میں نے تین گھنٹے قبل کھولے تھے۔ اُسے جو طعنوں کی سان پر چڑھایا تھا۔ فی الفور اُس سے معافی کی طلب گار ہوئی کہ اوپر والے نے تو میرے لئیے اس کشٹ کے عوض جو انعام مسز ریٹا سمتھ کی صورت رکھا تھا اس کا ہی شکریہ ادا کرنے کے لئیے ڈھیر سارے لفظوں کی ضرورت تھی۔ اب نفل پڑھنے کی تو ہمت نہیں تھی۔ اس لئیے ہر پوڈا چڑھتے ہوئے میں نے شکریہ اے پیار تیرا شکریہ ضرور کہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

باب 2:  میلان

 

*    شہر کا خاص الخاص تحفہ ڈومو سکوائر، اس کا کیتھڈرل اور گلیریا میلان کے لینڈ مارک ہیں۔

*    چنترال ریلوے اسٹیشن پر بنگالی لڑکوں سے ملنا، ان کی ہدایات کو پلّے باندھنا اور اُن کے تجربات سُننا یقیناً دلچسپ اور حیرت انگیز تھے۔

*    خاندان، مذہب اور کھانا اٹلی کی معاشرتی اور تہذیبی زندگی کے تین پہلو جو کبھی بہت اہم تھے۔ اب مذہب اور خاندان کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ اور کھانے باقی رہ گئے ہیں۔

 

میلان کی سیر کیلئے پہلے دن میں نے اقبال کو ساتھ لیا کہ ٹرینوں اور میٹرو کے پیچیدہ نظام کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ مختلف ممالک میں اِن تجربات سے ہر روز گزری تھی۔ مگر پتہ نہیں مجھے یہاں کچھ اُلجھن سی محسوس ہوئی تھی۔ شاید عمر کا بھی تقاضا تھا۔

’’سُنو۔ میرے بیٹوں کی عمر کا تھا وہ۔ آج مجھے اپنی شاگرد سمجھنا۔ مجھے دیکھنا اور گائیڈ کرنا۔ کل سے اکیلے سب کام ہوں گے۔‘‘

خود کار نظام کو عملی طور پر کرنے میں بونگیاں ماریں مگر کچھ سمجھی بھی۔

حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے بھی تین سو سال قبل کا یہ شہر نام جس کا میلان ہے۔ جسے رومنوں نے مرکزی جگہ کا نام دیا۔ چوتھی صدی بعد مسیح میں یہ رومن سلطنت کا دار الخلافہ تھا۔ ابتدائی عیسائیت کو قبول کرنے اور اُسے اہم مذہبی مرکز بنا دینے والا بھی یہی شہر ہے۔

تو رومنوں کا یہ شہر لیونارڈو نچی کا ثقافتی مرکز جسے وہ اپنا گھر کہتا تھا۔ میں اسی شہر کو دیکھنے جا رہی تھی اور خاصی پر جوش تھی۔

میلانو کو دورنا اسٹیشن سے اُتر کر باہر نکلے تو میلان شہر کا انتہائی خوبصورت منظر دیکھنے کو ملا۔ بلند و بالا عمارتیں۔ سڑکوں پر چلتی گاڑیاں، بسیں، لوگوں کے ہجوم۔ اب تھوڑا سا چلنے اور شہر کی دیدہ زیب عمارتوں کا حسن دیکھتے ہوئے سفورزاقلعہ Saforza castle کی طرف بڑھے۔

اینٹوں سے بنا یہ قلعہ در اصل شہر کا ماضی ہے۔ کبھی اس کے نیچے گہری خندق تھی جو پانی سے بھری رہتی تھی۔ ہر قلعہ کی طرح یہ بھی شہر کی حفاظت کیلئے 1450 میں بنایا گیا۔ یہ زمانہ تھا کہ جب صفورزہ Sforzaڈیوک میلان شہر کا مئیر بنا تو اُسنے بہت سے آرٹسٹ اسے سجانے سنوارنے کیلئے بلائے جن میں لیونارڈوونچی بہت نمایاں تھا۔ تو یہ سجا سنورا شہر صفورزہ فیملی اور بعد ازاں لیونارڈو کیلئے تہذیب و ثقافت کا مرکز بن گیا۔

چند لمحوں کیلئے مبہوت کرنے والا منظر تھا۔ موتی اڑاتے فوارے کے سنگی بنیروں پر بیٹھے لڑکے لڑکیاں اور دور تک اینٹوں کی بلند و بالا دیواروں اور ان میں بنی برجیوں جسمیں جھانکتا سینٹ ایمبروسیس St Ambrosius کا مجسمہ۔ اب اندر سے ہوک اٹھنی تو قدرتی بات تھی کہ قلعے تو ہمارے پاس بھی ہیں اور ماشاء اللہ سے اچھے بھلے ہیں مگر ہم نے کتنے سنبھالے؟

بلند و بالا گیٹ سے داخلہ اور بلند و بالا دیواروں کے حصار میں دائیں بائیں سرسبز لان اور گول پتھروں کے راستے۔ کونوں میں بنی خوبصورت برجیاں۔ کشادہ اور بلند و بالا دیوڑھیوں جیسی راہداریاں۔

ٹکٹ لیا اور میوزیم میں داخل ہوئے۔ یہ دو منزلہ وسیع و عریض میوزیم آرٹ اور تاریخ کا گھر تھا۔ سات صدیوں کے مال و متاع جسمیں میلان شہر کی عظمتوں اور عہد کے رنگ حد درجہ مسحور کرنے والے تھے۔ اس کی پکچر گیلری میرے خدایا ایسے کمال کے شاہکار، اس کا مصری حصّہ، قبل از تاریخ، لکڑی کے مجسمے، شاہکار پینٹنگز، صفورزہ فیملی کا محل، کمروں میں دھرا فرنیچر۔

بس زیادہ توجہ تو ابتدائی Lambard آرٹ نے ہی کھینچی۔ دیر تک روکے رکھا۔ سب سے دلچسپ اور اہم مائیکل اینجلو کا نامکمل پائیٹاPietaتھا۔ اب پائیٹا کیا ہے؟ کرسٹ کا مردہ جسم اور دُکھ کی عکاس کنواری مریم کا مجسمہ جسے مختلف روپ دئیے گئے۔ آرٹ کے اس شاہکار پر کام ہو رہا تھا جب ونچی فوت ہو گیا۔ اس نامکمل کام کی نمائش بھی بڑے انوکھے انداز میں کی گئی ہے۔

میں نے چند لوگوں کو گھوم کر پیچھے سے انہیں دیکھتے ہوئے پایا تو خود کو ایسا کرنے سے نہ روک سکی۔ اس زاویے سے اِسے دیکھنا اور آرٹ کے اِس رُخ کا سامنے آنا کہ مقدس مریم کا عقبی حصّہ اپنے بیٹے کے بوجھ کو اٹھانے میں کِس اذیت سے دوچار ہے واقعی کمال کا تھا۔

قریب ہی خوبصورت پارک میں برنکا Branca Tower تھا۔ یہ بھی دیکھنے کی چیز تھی۔ 3یورو کا ٹکٹ لفٹ کے ذریعے آپ کو آسمانوں میں لے جاتا ہے۔ جہاں سے آپ میلان شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔

میلان شہر کا خاص الخاص تحفہ ڈومو یا دومو Duomo ضرور تھا مگر یورپ کا چوتھا بڑا کیتھڈرل اور اس کا میوزیم بھی میلان کو منفرد بنانے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈومو سکوائر دیکھنے اور وہاں کچھ وقت گزارنے کا بھی اپنا مزہ تھا۔ میٹرو کی شور مچاتی، دل دہلاتی تیز اور ہنگامی زندگی کے طوفان سے نکل کر اور کوئی بیس کے قریب سیڑھیاں چڑھ کر جب کھُلے آسمان تلے آئی تو کیتھڈرل پر نظر پڑتے ہی آنکھیں چمکیں اور باچھیں کھلیں۔

مجھے اس سکوائر میں چھوڑ کر اقبال کو اس جگہ کے قریب ہی کسی سے ملنے جانا تھا۔ خوشدلی سے اُسے اجازت دیتے ہوئے میں نے نکھرے چمکتے آسمان کو دیکھتے ہوئے ایک بار پھر مسرت بھری کلکاری بھری۔

’’ہائے یہ خوبصورت منظر، میلان کا لینڈ مارک جسے زمانوں سے ہم اپنے ملک میں کیلنڈروں پر، اخباروں اور رسائل میں چھپا دیکھتے دیکھتے بوڑھے ہو گئے تھے۔ آج اِسے مجسم صورت میں سامنے دیکھ کر بھلا آنکھیں کیوں نہ چمکتیں اور باچھیں کیوں نہ کھلتیں۔ کتنی دیر ایک دلفریب سے سحر میں گرفتار اس کے انوکھے طرز تعمیر کو تحسین پیش کرتی رہی۔

کیتھڈرل میں داخل ہونے کے بڑے آداب تھے۔ بڑا رکھ رکھاؤ تھا۔ لباس کے معاملات میں بڑی سختی اور پابندی تھی۔ شارٹس اور بغیر آستینوں والی قمیضوں کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں۔ بڑوں کو تو چھوڑیں چھوٹے بچے بھی دروازے سے ہی دھتکار دئیے جاتے ہیں۔

سچی بات ہے ہمیں تو بڑی خوشی ہوئی تھی۔ بڑی شان سے اندر داخل ہوئے کہ پورے ڈھنپے ہوئے ہیں۔

اب اندر کے اُس نرالے طلسم، انوکھے سحر، حیران کن مجسموں، بلند و بالا ستونوں، ان کے وجود سے پھوٹتی روشنیوں، نقش و نگاری، جا بجا پینٹنگز ان کی تاریخ۔ بندہ تو آنکھیں پھاڑے کہیں فرشوں پر بکھرا ماربل اپنے خوش رنگ نمونوں کے ساتھ، کہیں کھڑکیوں کی بناوٹ، کہیں چھت کی کندہ کاری کو دیکھتے دیکھتے بے ہوش ہونے والا ہو جاتا ہے۔ قربان گاہ کے بلند و بالا حصّے، ان کی رنگا رنگی یہاں اگر نظروں کو لبھاتی تھی تو تاریخ دل کو تڑپاتی تھی۔

جب یورپ بے شمار چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس وقت میلان کے ڈیوکز اپنے جرمنی اور فرانس کے ہم عصروں کو کچھ ایسا شاہکار بنا کر نہ صرف متاثر کرنا چاہتے تھے بلکہ شمالی یورپ کے بادشاہوں، شہزادوں اور ویٹی کن والوں کی نظروں میں "میلان "کو ممتاز اور منفرد بنا کر دکھانا بھی مقصود تھا۔ انسانی فطرت کی نمائش کے یہ انداز کوئی نئی بات تو تھی نہیں۔ وہ کیتھڈرل پر اپنی بھرپور توانائیاں صرف کر دینے کے متمنی تھے۔ قدامت پرست تو میلان کو گوتھک سٹائل پر ہی رکھنے کے خواہش مند تھے مگر ڈیوکز اس پر مُطمئن نہ تھے۔ اسی لئیے اس کی محرابیں کیا کلس تک کو جدّتوں کے ساتھ مزّین کر دیا۔

قربان گاہ کے اردگرد کی ساری جگہ باروق سٹائل سے بنائی گئی ہے۔ قربان گاہ پر چمکتی سرخ روشنی میں یسوع کے کراس میں سے ایک پر نیل رکھا ہوا نظر آتا ہے۔ اِس مقدس نشانی کو شہنشاہ کونسٹینن کی والدہ سینٹ ہیلن کوئی چوتھی صدی میں میلان لائی تھی۔ فلسطین پر لکھتے ہوئے میں اِس پاکباز خاتون سے بہت اچھی طرح متعارف ہوئی تھی۔

تو1386سے یہ جو بننا شروع ہوا تو 1965 تک بنتا ہی چلا گیا۔ کہیں نہ کہیں کِسی نہ کِسی انوکھی چیز کا اضافہ۔ ہمہ وقت ہر قسم کی تبدیلی کیلئے سرگرم۔ اِس مسلسل تعمیراتی عمل نے اطالوی زبان کی لغت میں اُس مشہور زمانہ کہاوت کا اضافہ کیا۔

"ایک کیتھڈرل کی تعمیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ ”

ڈومو میوزیم دیکھنے کو معلوم نہیں کیوں جی نہیں چاہا۔ شاید برو شروں میں دیا گیا مختصر سا تعارف ہی کافی تھا کہ یہ کیتھڈرل کی تاریخ کی تصویری صورت ہے۔

’’چلو ہٹاؤ ایک تو رومن کیتھولک مذہب کی اتنی مشکل تاریخ سے ما تھا پھوڑو اوپر سے ٹکٹ بھی خریدو۔ ہاں البتہ ایک چیز جو مس کرنے والی نہیں تھی وہ چھت کی سیر تھی۔ 8یورو کے ٹکٹ کے ساتھ۔ جس کیلئے میں نے سوچا پندرہ دن رہنا ہے۔ کِسی بھی دن آ کر یہ مزے لوٹ لوں گی۔

ڈومہ سکوائر کلاسیکل یورپی سین ہے۔ یہاں بیٹھنا اور اِس بھریے میلے کو دلچسپی سے دیکھنا کتنا دلچسپ کام تھا؟ دو گھنٹے یہاں بیٹھنا ہے۔ شام یہاں کیسے اُترے گی؟ اس کے رنگ کِس انداز میں بکھریں گے اُسے دیکھنا ہے۔

فی الحال تو ریسٹورنٹوں کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے لوگوں کا ایک ہجوم نظر آ رہا ہے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جوڑے کہیں تصویریں اُترواتے، کہیں چہلیں کرتے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔

وہ خاتون آئس کریم کھا رہی ہے۔ کونسی ہے؟ اور کہاں سے ملتی ہے؟ اُس سے پوچھنے جاتی ہوں کہ دل للچا رہا ہے۔ اُس نے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لمبی لائن میں لگ کر اسے خرید کر لائی ہوں۔ اب یہاں بیٹھی اُسے مزے سے کھا رہی ہوں۔ لُطف اٹھا رہی ہوں۔

ایک طرف وکٹر ایموئنیل Emmanuel دوم اٹلی کے پہلے بادشاہ کا مجسمہ ہے۔ نظریں کِس جانب دیکھ رہی ہیں۔ تعارف پر جانا کہ عظیم الشان گلیریاGalleria کو دیکھا جا رہا ہے۔

میلان کے شہریوں کی طرف سے شاہ کو تحفہ۔ تبصرہ ہو گا اور ضرور ہو گا کہ یہ محبتوں بھرا تحفہ ہے۔ نام چمکانے کی خواہشوں سے قطعی مبّرا۔

شاہ کے بارے تو آنے کے ساتھ ہی متعارف ہو گئی ہوں۔ ایک قابل قدر ہستی جسے میں نے چاہت بھری آنکھوں سے دیکھا ہے کہ مسز سمتھ سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ رات سیلوٹ بھی اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہی تو مارے تھے۔

یہ گلیریا Galleria بھی میلان کا سمبل ہے کہ دو رویہ چار منزلہ خوبصورت عمارات فائبر گلاس یا اسی ٹائپ کے کسی اور شیشے سے ڈھنپی چھت کے تلے دو رویہ حسن و خوبصورتی سے سجی ہیں یوں کہ چلتے چلو۔ دائیں بائیں مڑو۔ تعمیراتی حسن اور شاندار دکانوں کے شیشوں سے چاتیاں مارو۔ یہ عمارات کا وہ سلسلہ تھا جو سب سے پہلے بجلی سے مانوس ہوا۔

یہاں دکانوں میں تاکا جھانکی ضرور کی مگر جیب ڈھیلی نہیں کی کہ چیزیں باوا کے مول لگتی تھیں۔

گلیریا کی مخالف سمت نکل جاتی ہوں۔ یہاں وہ جڑواں فاشسٹ عمارتیں دیکھتی ہوں جو بڑی نمایاں ہیں۔ مسو لینی نے ان کی بالکونیوں سے بڑی لفافٹری ٹائپ تقریریں بڑے جوش و خروش سے کی تھیں۔ یہ بینتو Benito مسولینی بھی تاریخ میں کیا شے تھا۔ مشہور اور ہر دل عزیز لکھاری، سوشلسٹ نظریات کا پرچاری پرفسطائیت کا بھی بڑا علم بردار۔

کہیں 1922میں نئی نویلی بننے والی فاشسٹ پارٹی کا سربراہ بنا تو روم پر چڑھائی کرنے پر تُل گیا۔ کالی قمیضوں والے ٹولے پورے اٹلی سے کہیں بندوقوں، کہیں چھروں اور کہیں باورچی خانے کی چاقو چھریوں سے روم کی طرف چل پڑے۔ مسولینی ان کا لیڈر تھا۔ جس نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔ وکٹر ایمونیل سوم نے اُسے روم بلایا اور حکومت شرافت سے اس کے حوالے کر دی۔

وزیر اعظم کا تاج سر پر سجانے کے بعد اس کا پہلا کام اپنے فاشسٹ ٹولوں کے ساتھ روم کی گلی گلی کوچے کوچے میں مارچ کرنا تھا۔ یہ موسیلینی ہی تھا جس نے پوپ کو ویٹی کن سٹی کی مسند پر بٹھایا۔ کیتھولک چرچ نے اپنی دعاؤں میں اطالویوں کو نوازا۔ ترقی کے بہت سے منصوبے پروان چڑھے مگر اس نے خود کو ہٹلر نازی سے بھی جوڑ لیا اور دوسری جنگ عظیم میں گھُس گیا۔ ذ ہنی اور جسمانی طور پر نہ ملک تیار، نہ فوج۔ نتیجتاً جب اتحادی فوجیں 1943 سسِلی کے مقام پر اُتریں تو مقامی لوگوں نے نجات دہندہ کے طور پر ساتھ دیا۔ ے

یہ اپریل 1945 تھا جب وہ اطالوی مزاحمت کاروں کے ہاتھوں اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ گرفتار ہوا۔ انہوں نے دونوں کو گولی ماری اور دنوں میلان کے پبلک سکوائر میں لاشوں کو ٹانگے رکھا۔

عمارتوں کے چہرے مہرے متوجہ کرتے ہیں۔ ان کے خوبصورت منقش نقوش کچھ سُنانے کی کوشش کرتے ہیں اطالویوں کی طرح۔ اِس ڈرامے سے جان چھڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ہوں۔

اقبال کا فون تھا۔ بتاتا تھا کہ اس کا کام ختم ہو گیا ہے۔ میرا پروگرام کیا ہے؟ مجھے ٹھہرنا ہے یا واپس چلنا ہے۔ لمحہ بھر کیلئے میں نے سوچا۔ اور خود سے کہا۔

’’ارے ڈومو میں تو اتنا کچھ ہے کہ پورا دن یہاں گزارا جائے وہ بھی کم ہے۔ لیکن خیر اب واپسی کرتی ہوں۔ ٹکٹوں کے مرحلوں اور میٹرو سے کچھ مزید شناسا ہوتی ہوں اور کل کا سارا دن میلان کیلئے رکھتی ہوں۔

ثنا (بھانجی) نے جو شہر کی سیر کروانے والی بس ہوپ اون اور ہوپ آف کا ذکر کیا تھا۔ اس پر چڑھوں اور مزے سے گھوموں پھروں۔ اپنے آپ سے یہ سب طے کر لینے کے بعد اُس سے پوچھنے پر پتہ چلا تھا کہ وہ چنترال ریلوے اسٹیشن پر تھا۔

’’چلو رُکو تم وہیں میں خود آتی ہوں۔‘‘ میٹرو کا سمجھا اور اُسے رابطے میں رہنے کا کہا اور خود سے کہتے ہوئے کہ اب اِس ترقی یافتہ ملک کے اِس دریا میں اُترنا ہے تو اپنے زور بازو پر بھروسہ کرنا ہو گا۔ بیساکھیاں کب تک پکڑوں گی۔ ان سے تو یوں بھی بڑی الرجک رہی ہوں۔

ڈوموDuomo سے تین سٹاپ میٹرو پر میلان کا مرکزی ریلوے اسٹیشن چنترال ہے۔ ٹکٹ کا مرحلہ بہت مشکل تھا۔ مشینوں کے گرد کھڑے لڑکوں سے اقبال کی بات کروائی۔ اس پل صراط کو سمجھتے ہوئے اِسے بہت دھیان سے طے کیا۔ میٹرو کی سیڑھیوں کے

منہ پر اقبال کو کھڑے دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بس اب اگلے مرحلے ایسے ہی رُل کھل کر طے کرتے جانے ہیں۔

اِس وقت دوپہر ڈھل رہی تھی۔ میں بھوکی تھی۔ یقیناً اقبال بھی بھوکا ہی ہو گا۔ بیس یورو اُسے دئیے کہ وہ کھانے کیلئے کچھ لے آئے۔

اسٹیشن سے باہر سرسبز گھاس کے خوبصورت ذرا سے اُونچے نیچے قطعات ہیں۔ درختوں کی بہت گھنیری نہ سہی مگر گزارے لائق چھاؤں بھی ہے۔ بے کار اور سیاہ فام لوگوں کے ڈیرے بھی یہاں براجمان ہیں۔ تو میں یہیں بیٹھتی ہوں۔ میں نے گھاس پر ٹانگیں پسار لی ہیں۔ شکر ہے یہاں گھاس پر بیٹھنا منع نہ تھا۔ اور جب میں دائیں بائیں دیکھتی تھی تو جانی تھی کہ بہت سے بنگالی چہرے بھی ہیں یہاں۔

لمبی سانس بھری تھی۔ ” کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ ”

تو جو یہاں بیٹھے ہیں۔ انہیں کیا یاد ہونا ہے؟ وہ تو تب پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ ہاں البتہ جب بات چیت ہوئی تو خوش بہت ہوئے۔ کوئی ان کی زبان بولے، چاہے ٹوٹی پھوٹی ہی ہو اور ان کے شہروں کا احوال سنائے تو دل کا رانجھا راضی تو ہوتا ہی ہے۔

اُن سے بات چیت مفید رہی۔ رش والی جگہوں خاص طور پر اسٹیشن اور ڈومہ سکوائر میں میلان کے چوروں ٹھگوں سے ہوشیار رہنے کی بہت تاکید کی۔ حال حُلیے سے آگاہ کیا کہ فضول قسم کے پھٹے پرانے کپڑے پہنے، اخبار بیچتے، کہیں کارڈ بورڈ ہاتھوں میں پکڑے جہاں کہیں نظر آئیں محتاط رہیں۔ وینس میں بنگلہ دیشی بہت ہیں وہاں جائیں تو اُن سے مدد لے سکتی ہیں۔

میرے یہ پوچھنے پر کہ یہاں وہ لوگ کن سے زیادہ قربت محسوس کرتے ہیں؟ ہندوستانیوں یا پاکستانیوں سے۔ بڑا مزے کا جواب تھا۔ کِسی سے بھی نہیں۔ جس کا جس سے واسطہ پڑا یہ اس کے طرز عمل اور کردار پر منحصر ہے۔ نہ مذہب کو اہمیت ہے وطن اور زبان کو ضرور اہمیت ہے۔ لیکن اِس سے بھی کہیں زیادہ انسان دوستی اہم ہے۔

ان کی باتوں میں ان کی کم عمری کے باوجود وہ تجربہ بول رہا تھا جسمیں ان کی ان مشقتوں، ان کے دکھوں، اپنے سے پیاروں کی جدائی کا غم اور پردیس میں ملنے والی اذیتوں کا کرب تھا جنہوں نے چھوٹی سی عمر میں انہیں وہ سب سکھا دیا تھا جنہیں سیکھنے کیلئے اِک عمر چاہیے ہوتی ہے۔

اقبال نے جب گھنٹہ بھر بعد آ کر کہنی بھر لمبا برگر میرے ہاتھوں میں تھمایا۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’اس سے اور بڑا نہیں تھا کیا۔‘‘بمشکل آدھا کھایا گیا۔ آدھا لپیٹ کر بیگ میں رکھا۔

اور جب اقبال مجھ سے میرے پروگرام کی بابت پوچھتا تھا کہ ابھی واپسی کرنی ہے یا کہیں اور کا پروگرام ہے؟ میں نے نقشہ بیگ سے نکال کر کھولا۔ سامنے پھیلایا۔ مرکزی میلان میرے سامنے تھا۔ اس پر نظر یں دوڑاتے ہوئے بولی۔

’’اقبال ابھی دیکھا ہی کیا ہے؟ اس کی تو ہر سٹریٹ میں کہیں میوزیم ہے، کہیں آرٹ گیلری ہے اور کہیں تاریخی چرچ ہے۔ خاص الخاص ٹاورز ہیں، کہیں ونڈو شاپنگ کیلئے بلاتی شاپنگ سڑیٹز ہیں۔ میں تو تمہارے بلانے پر یہاں آ گئی ہوں۔ وگرنہ تو میں نے شام کو ڈومہ کی صدیوں پرانی کلاسیکل عمارتوں اور گرجوں کے کلسوں سے پاؤں پاؤں اُترتے دیکھنا تھا اور آنکھوں کو انوکھی مسرتوں سے بھرنا تھا۔

میں نے باتوں کی سر پٹ بھاگتی گاڑی کو بریک لگا دئیے۔ چند لمحے دائیں بائیں دیکھتی رہی۔ پھر بولی۔

ارے ابھی سانتا ماریا گریزی St Maria D Grazie چلنا ہے۔ Last Supper The کا دیدار ہو جائے تو کیا کہنے۔ تھوڑی سی مزید تکلیف اٹھاؤ۔ یہ ٹکٹوں والا مرحلہ بڑا مشکل ہے۔‘‘

اقبال بہت سیدھا سادا نوجوان تھا۔ پندرہ سال سے یہاں رہتے ہوئے بھی اُسے Last Supper The کا نہیں پتہ تھا۔

نقشے سے ہی تیر تکے چلائے کہ پہلے میٹرو سے ڈومو چلتے ہیں وہاں سے گاڑی تبدیل کرنی ہو گی۔ اب کمر ہمت کسی۔ سچی بات ہے میٹرو کی زیر زمین چیختی چنگھاڑتی دنیا دل کو بڑا ہراساں کرتی ہے۔ شاید نہیں یقیناً بڑھاپے میں دل بھی کمزور ہو جاتا ہے۔

ٹامک ٹوئیاں مارتے بہرحال جائے مقام پر پہنچے۔ سانتا ماریا گریزی St Maria D Grazi کا یہ چرچ سادگی اور خوبصورتی کا عکاس تھا۔ لوگ باگ کہیں بینچوں پر بیٹھے، کہیں ٹہلتے پھرتے تھے۔ پتہ چلا کہ ٹکٹوں کی تو مہینوں پہلے بکنگ ہوتی ہے۔

اب درخواست کرتی ہوں۔ ترش مزاج سی خاتون تھی۔ فوراً بولی۔

’’ مشکل ہے بلکہ نا ممکن ہے۔‘‘

دوبارہ درخواست کی تو بھی پذیرائی نہیں ملی۔ سوچاچلو ابھی تو کافی دن ہیں میلان میں۔ کوشش جاری رکھوں گی۔ خیر خیرات مل ہی جائے گی۔

تھوڑی دیر وہاں بیٹھی۔ پھر خود سے کہا۔ ’’چلتی ہوں۔ آج کا سبق اتنا ہی کافی ہے۔‘‘

گہری شام بہرحال لُطف دینے والی تھی کہ گھر کا سا ماحول تھا۔ ایک سادہ سی بہو خدمت کیلئے حاضر، ایک پوتی اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے بہلانے اور ٹی وی لگا کمرہ جس پر چلتے پاکستانی چینلز نے پاکستانی ماحول کی رہی سہی کسر بھی پوری کر دی تھی۔ اسی لئیے سیڑھیوں کی مشقت بھول گئی تھی کہ سُکھ کے اتنے پھولوں کے ساتھ اذیت کے کِسی نہ کِسی کانٹے کا ہونا تو لازم ہے۔

گو تھکاوٹ خاصی تھی۔ مگر شام کے ڈھلتے سایوں میں مسز سمتھ سے ملاقات کے لئیے جانے کی اپنی خوشی تھی کہ یقیناً فقیر کو کچھ دان پن ملنے کی آس امید ہی تھی۔

ابھی آٹھ نہیں بجے تھے۔ دھوپ کے رنگ بہت ماند پڑ گئے تھے۔ ٹیرس پر کھڑی میں سامنے والے فلیٹ کو دیکھتی تھی جہاں وہ اُستاد ٹیرس پر کھِلی اپنی چھوٹی سی پھلواڑی کو دیکھنے آئی تھی اور مجھ پر نظر پڑتے ہی مسکرائی تھی۔ رنگا رنگ پھولوں کے درمیان بیٹھی وہ خود بھی مرجھایا ہوا پھول ہی لگ رہی تھی۔ قینچی سے اُن کی کتر بیونت ہو رہی تھی۔

آٹھ بجے میں آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُتری اور بیل پر ہاتھ رکھا۔ مسز سمتھ نے کھولا اور مسکراتے ہوئے مجھے اندر آنے کا راستہ دیا۔ نشست گاہ میں بیٹھتے ہی میں نے کہا۔

’’آپ چائے کافی کے چکر میں نہ پڑئیے۔ میں چائے پی کر آئی ہوں۔ بس باتیں کرنا چاہتی ہوں۔‘‘

’’مگر مجھے تو پینی ہے۔‘‘وہ مسکرائیں۔

خجالت سی محسوس کرتے ہوئے میں نے کہا۔

’’در اصل آپ کی تکلیف کا احساس ہے۔‘‘

مسکرائیں۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میری احمقانہ بات پر مسکرائی ہیں۔ اور کہتی ہوں۔  ’’میں تو گھر کا سارا کام خود کرتی ہوں۔‘‘

شرمندگی مٹانے کی کوشش میں کچھ تو بولنا ضروری تھا۔ پس بغیر سوچے سمجھے بولی۔

’’آپ کا گھر بہت صاف سُتھرا قرینے سلیقے سے سجا ہوا ہے۔‘‘

’’بالعموم ہم بہت صاف سُتھرے لوگ ہیں اور اپنے گھروں کو بھی ایسا ہی رکھتے ہیں۔ ہمارے معاشرتی رویّے بھی اتنے اُلجھے ہوئے نہیں خاصے سُلجھے سے ہیں۔

باتیں کرتے کرتے وہ رُکیں اُن کا کتا دم ہلاتے ہلاتے ان کے پاس آ گیا تھا۔ چنبیلی کے سے رنگ اور لمبے لمبے بالوں والا۔ وہ کچھ دیر اُسے محبت بھری نظروں سے دیکھتی رہیں۔ پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے گویا ہوئیں۔

یورپ بھر میں خاندانی نظام اپنی مضبوط بنیادوں کے ساتھ صرف ہمارے ہاں ہی تھا۔ گو اب یہ بھی اپنی ان روایات سے منہ موڑ رہا ہے۔ نئی نسل کی اپنی روش ہے۔ مگر ہم جیسے بوڑھے لوگ اُن روایات اور قدروں کے ابھی بھی اسیر ہیں۔ ہمیں رشتہ داروں اور عزیزوں دوستوں کے گھروں میں جمگھٹے اچھے لگتے ہیں۔ کھانے کھانے اور گپیں لگانے میں ہم لُطف اٹھاتے ہیں۔ گو ہمارے بچے بھی اِن میں کبھی کبھار شامل ہو جاتے ہیں۔ تاہم پھر بھی اب وہ باتیں نہیں ہیں۔

مذہب کے بارے میں پوچھنے پر کہ یہ آپ لوگوں کی زندگیوں میں کتنا اہم اور دخیل ہے۔

انہوں نے کہا تھا۔ مذہب، خاندان اور کھانا پینا تین چیزیں ایک اطالوی کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی تھیں۔ مگر جیسے خاندان منتشر ہو رہے ہیں ویسے ہی مذہب بھی بس اب بوڑھے لوگوں تک محدود ہو گیا ہے۔ نئے بچوں کے پاس نہ خاندان کے لئیے وقت ہے اور نہ چرچ کے لئیے۔

اٹلی کا اہم مذہب رومن کیتھولک ہے۔ ویٹی کن بھی یہیں ہے اور پوپ بھی یہیں۔ 90%نوے فی صد لوگ اِس سے وابستہ ضرور ہیں۔ مگر یہ وابستگی محض نام کی ہی ہے۔ صرف بیس پچیس فی صد لوگ ہی مذہبی روایات کا احترام کرتے ہیں۔ دس10 فی صد پروٹسٹنٹ، یہودی اور اب مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ ہاں البتہ مذہبی جنونیت نہیں۔ رواداری اور برداشت ہے۔ لوگ دھیمے اور خوش مزاج ہیں۔ اگر کوئی زیادتی کرے تو پھر مزہ چکھاتے ہیں۔

ہم لوگ ہمیشہ یہ بات مدّ نظر رکھتے ہیں کہ پانی کا شیوہ نیچے کی طرف بہنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب3:لاسکیلا، لاسٹ سپر اور وایا دانتے کی سیر

 

* ہوپ آن ہوپ آف پر چڑھنا اُترنا اور شہر کو دیکھنا کیا مزے کا کام تھا۔

* لاسٹ سپر لیونارڈوونچی کا وہ شاہکار ہے جس پر آرٹ ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔

* میلان اور روم کے شہریوں کی نوک جھونک کے قصّے کچھ ایسے ہی تھے جیسے ہمارے ہاں کراچی اور لاہور والوں کے ہیں۔

 

صبح وہی کل والی روٹین دہرائی گئی تھی اس کی تفصیل بھی مزے دار ہے۔ پھر کِسی وقت سناؤں گی۔ بس آج میں پلیٹ فارم پر میلان جانے کیلئے اکیلی کھڑی تھی۔ ٹکٹ کا مرحلہ بڑا گنجل دار تھا یا پھر میری بھس بھری کھوپڑی میں نہ گھستا تھا۔ اقبال نے ہی مدد کی۔ ٹکٹ ہاتھ میں پکڑ کر میں نے اُسے گھر بھیج دیا تھا۔

آج ثنا سے پڑھے ہوئے سبق Hop on Hop off کو عملی صورت دینی تھی۔ میلانو کو دور نو کی عمارت سے باہر آ کر دو پولیس والوں کو پکڑا کہ مجھے سارے شہر کی سُرخ بس میں بیٹھ کر سیر کرنی ہے۔ گائیڈ کریں کدھر جاؤں؟ انہوں نے نیچے جانے اور ATM سے رابطہ کرنے کا کہا۔

’’ارے نیچے تو میٹرو اسٹیشن ہے۔‘‘

میں بوکھلائی۔ انگریزی ماشاء اللہ ان کی بھی ایک نمبری اور سمجھنے کی رفتار میری بھی پوری پوری۔ تو ایسی صورت میں ابہام تو رہتا ہی ہے۔

اب ان کی ہدایت پر عمل کرنے کی بجائے اور لوگوں سے پوچھنے نکل پڑی۔ دونوں نے میری اِس کوشش کو دیکھا اور منہ پھیر لیا۔ یقیناً دل میں کہا ہو گا۔

’’وہمی بڈھی جا پرے مر۔‘‘

دو لڑکیاں کھڑی پمفلٹ بانٹ رہی تھیں۔ یہی بات اُن سے جا کر کی۔ ایسی پیاری اور محبت والیاں۔ ایک نے کام چھوڑا اور میرا ہاتھ پکڑ کر نیچے لے گئی۔ سامنے ہی ایک آفس کی پیشانی پر ATM لکھا دیکھ کر لڑکی نے بتایا یہاں آپ کو ہر طرح کی راہنمائی مل جائے گی۔ ATMدر اصل میلان پبلک ٹرانسٹ سسٹم کا مخفف ہے۔ لڑکی مجھے ان کے حوالے کر کے خود چلی گئی۔

سیاحوں سے بھرئے ہوئے آفس میں اب میری یا وہ گوئیاں شروع ہو گئیں۔ وہی ڈبل ڈیکر Hop on Hop Offکی تکرار۔ انہوں نے قریبی بک شاپ کا راستہ دکھا دیا۔ چلو شکر اُن کے پاس سے بیس20یورو کا ٹکٹ ملا۔ ساتھ ہی ہدایت نامہ کہ میٹرو سے صرف ایک اسٹیشن ہے۔

ہائے ٹکٹ لینے کا جانگسل سا مرحلہ۔ چلو باہر نکل کر دیکھوں تو سہی۔ پیدل کتنا چلنا پڑے گا؟ دو تین سے پوچھا۔ کوئی دو فرلانگ کا فاصلہ تھا۔

’’تو مولا اس مفت کی فٹیک سے تو جان جاتی ہے۔ اب تو ہی اس اللّی بلّلی کا والی وارث ہے۔‘‘

ابھی کوئی بیس قدم چلی ہوں گی۔ سامنے سڑک تھی۔ بسیں، گاڑیاں رکی کھڑی تھیں کہ پیدل چلنے والوں نے سڑک کراس کرنی تھی۔ دفعتاً جیسے مجھے احساس ہوا کہ سامنے کھڑی سرخ رنگ کی بس ہوپ آن اور ہوپ آف ہے۔

میں نے فوراً ٹکٹ نکال کر عین سڑک کے درمیان کھڑے ہو کر گاڑی کے ڈرائیور کے سامنے لہرایا اور اُسے ملتجی انداز میں اشارہ کیا کہ وہ دروازہ کھول کر مجھے بٹھا لے۔

پل جھپکتے میں اشارہ ہوا۔ میں نے تیز تیز چلتے ہوئے اس کے کھلے دروازے میں انٹری دیتے ہوئے ڈرائیور اور گائیڈ لڑکی کو چار بار گراشے گراشے Graize(شکریہ)کہا۔

کنڈیکٹر لڑکی نے میرا ٹکٹ لیا۔ چیک کرنے کے بعد برو شر میرے حوالے کرتے ہوئے مجھے سمجھایا۔ اِس ہوپ آن اور ہوپ آف کے مخصوص بس سٹاپوں سے شناسائی کروائی۔ میرے اندر کی خواہش ایکا ایکی میرے لبوں پر آ گئی۔

’’میری پیاری بچی مجھے Last Supper دیکھنا ہے۔ چرچ پر اُتار دیں۔‘‘

بس اسی روٹ پر تھی۔ تھوڑی دیر بعد چرچ کے سامنے سٹاپ پر اُتری۔ میں نے چند لمحے رُک کر سٹاپ کی صورت اور ڈیزائن کو ذہن نشین کیا۔ اگلا پل صراط ٹکٹ کے حصول کا تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں کل والی خاتون بیٹھی ہوئی توبس سمجھو پکا انکار۔

دن بڑا بھاگوان تھا۔ حلیم الطبع سے مرد کو جب مسئلہ بتایا۔ عاجزانہ سی درخواست کی کہ میں تو ونچی کے اِس شاہکار کو دیکھے بغیر اٹلی سے جانا نہیں چاہتی۔

اُس نے بغور مجھے دیکھا۔ چند لمحے دیکھتا رہا۔ پھر انتظار کیلئے کہا۔

یہ حیرت انگیز بات تھی مجھے نہیں معلوم یہ سب کیسے ہوا؟ بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ مہینوں پہلے اس کی بکنگ ہو جاتی ہے۔ گنجائش کیسے نکلی؟ مجھے نہیں معلوم۔ ٹکٹ ملا۔ آٹھ یورو کا جسمیں گائیڈ کے پیسے بھی شامل تھے۔ شُکر تھا کہ میں نے زبان بند رکھی کہ یہاں آڈیو گائیڈ سے مطلب آڈیو سسٹم تھا ایر فون والا۔

اگر اُن لمحوں کے اپنے جذبات کا تجزیہ کروں۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ جیسے میں اس وقت ایک عجیب سے ٹرانس میں جکڑی کھڑی تھی۔ ماحول فسوں خیزی کی سی کیفیت میں ڈوبا ہوا تھا۔ سمے کی نبضیں سیکنڈوں اور منٹوں کے حصار میں گردش کر رہی تھیں۔

بند ایر کنڈیشن کمروں میں خاموشی ہے۔ جہاں خدمت گار کی آواز آپکے گروپ کو دئیے گئے وقت کے مطابق پکارتی ہے۔ آگے کا دروازہ کھلتا ہے۔ عقبی دروازہ بند ہوتا ہے۔ دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کے سلسلے آگاہی کے عمل سے گزارتے ہیں۔

ونچی کا یہ دیواری نقش گری کا شاہکار آرٹ اپنے چونکا دینے والے تعارف کے ساتھ اٹلی کے زرخیز اور سنہرے دور میں وجود میں آیا۔ ایک مذہبی واقعے کو جسطرح آرٹسٹ کی نظر نے دیکھا، اُسے محسوس کیا۔ یہ اس کا حقیقی ترجمان ہے۔ اسے آرٹ کی پوری دنیا میں جس طرح سراہا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

ایک مستطیل سفید کمرے میں داخل ہوتے ہوئے میرے دل کی دھڑکن کا حال بے حد عجیب سا تھا۔ سامنے وہ شاہکار آویزاں تھا۔ کچھ اس انداز میں کہ اگر اپنے حواسوں پر بندہ قابو نہ پائے تو لگتا ہے کہ سیدھا تصویر کے اندر جا گرے گا۔ رنگوں اور جذبات و احساسات کا نمائندہ۔

1498 میں اپنی تکمیل کے کوئی چھ سال بعد ہی اسمیں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم میں چرچ پر بمباری ہوئی مگر دیوار کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔

میں سنتی تھی یہ ایک معجزہ ہے۔ آواز میں گھمبیرتا اور سکون ہے۔ مجھے اپنے ہاں کے لوگ یاد آئے تھے جو مساجد اور قرآن پاک سے متعلق معجزوں کی روئیداد بڑے ہی جذباتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ آواز اور لہجے کے جوش بیان میں علم کی دانشمندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ بات تو ساری اندر کے عقیدوں کے رولے غولے کی ہی ہے۔ بس ذرا طریقے سلیقے کا تڑکا لگنے سے کہیں زیبائی بڑھ جاتی ہے اور کہیں نہ لگنے سے جھٹکا پن نمایاں ہو جاتا ہے۔

یہ کھانے کا کمرہ تھا۔ تا حدّ نظر خود کو نمایاں کرتا۔ میز کے گرد تیرہ لوگ بیٹھے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کے حا لی موالی۔ چھ ایک طرف اور چھ دوسری طرف۔ درمیان میں وہ خود تشریف رکھتے ہیں۔ میز پر کھانے کی چیزیں، گلاس اور پلیٹیں دھری ہیں۔

پینٹنگ در اصل اُن لمحوں کی تفسیر ہے جب حضرت عیسیٰ یاس بھرے لہجے میں اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’ ہم میں سے ایک ہے جو مجھ سے غداری کرنے والا ہے۔‘‘

کہہ لیجیے یہ شاہکار اِسی کا عکاس ہے۔ ان کے چہروں پر بکھرے تاثرات، ان کے ہاتھوں سے لے کر پاؤں اور وجود کی حرکات میں حیرت، تعجب، دُکھ، بے چینی، اضطراب جیسے انسانی جذبات کے ردّ عمل کاجو اظہار ہے اس کی اس درجہ خوبصورت عکاسی ونچی کا عظیم کارنامہ ہے۔

کہا جاتا ہے جب اُس نے اسے عملی صورت دینے کا سوچا تو وہ سالوں میلان کے گلی کوچوں میں اِن بارہ حوالیوں کی شکلوں سے مشابہ چہروں کی تلاش میں خوار ہوتا رہا۔ جوڈسJudasکو ہی تلاشنے میں تین سال لگائے۔

پندرہ منٹ اِس تصویر کیلئے۔ اِسے تو گھنٹوں دیکھو تو دل نہ بھرے والی بات تھی۔ یہ انسانی نفسیات کی نمائندگی کرتا ایسا تحفہ ہے جسے نہ دیکھنا بڑی محرومی تھی۔ Judas کو جس انداز میں پوٹریٹ کیا گیا ہے وہ بھی اپنی مثال ہے۔ زندگی اور اس کے رنگوں سے بھرا ہوا شاہکار۔

بالمقابل دارکشی کی پینٹنگ بھی تھی۔ اس پر نظریں ڈالیں ضرور۔ سراہا بھی۔ مگر میری آنکھوں میں Last Supper کیلئے ابھی بھی پیاس تھی۔

اب باہر بینچ پر بیٹھی گھونٹ گھونٹ دودھ پیتے کبھی لوگوں پر نگاہیں ڈالتے اور کبھی نقشے کو دیکھتے سوچوں کی گھمن گھیریوں میں تھی کہ آگے کیا دیکھنا ہے؟

قریب بیٹھے تین کینیڈین کا ٹولہ شاید لیونارڈونچی کا میوزیم دیکھنے جا رہا تھا۔ انہیں بس سٹاپ کی طرف جاتے دیکھ کر انہی کے پیچھے ہولی۔ ایسی اوندھی اور عقل سے کوری۔ بکری کے پیچھے پیچھے چلتے اس کے لیلے کی طرح۔

سرخ بس آئی تو ان کے ساتھ چڑھ گئی۔ جہاں اُترے اُتر گئی۔ لائن میں لگ کر آٹھ یورو کا ٹکٹ بھی لے لیا۔ پر اندر جا کر تین چار ہالوں نے ہی کوفت اور بیزاری کے سے جذبات پیدا کر دئیے۔ یوں یہ سرا ہے جانے کے قابل ہے۔ یورپ کا سب سے بڑا سائنس اور ٹیکنالوجی کے ارتقاء کا نمائندہ میوزیم ہے جسے اٹلی کی حکومت نے اپنے مایہ ناز بیٹے کے نام کیا ہے۔

اِس میوزیم کا ایک حصّہ ونچی کی ایجادات کی نمائش کیلئے بھی مخصوص ہے۔ اُس کے ہال اور چیزوں کی نمائش سب کی پیش کش کا انداز خوبصورت اور منفرد سا ہے۔ مگر یہاں اس کے شاہکاروں جومیٹریMetallurgy، فزکس، navigationاور آلات موسیقی وغیرہ سے متعلق تھے۔ بھلا اِن کی مجھ جیسی کوڑھ مغز کو کیا سمجھ آنی تھی جو اس فیلڈ کا بندہ ہی نہیں تھی۔ اِس لئیے جلد ہی باہر نکل آئی تھی۔

اور اب بیٹھی سوچتی تھی کہ پندرھویں صدی کی وسطی دہائی میں پیدا ہونے والے اس فطین شخص کے بارے میں سمجھ نہیں آتی ہے کہ وہ آخر شے کیا تھا؟ فطین انسان کے کمال کی بھی چند ایک جہتیں ہوتی ہیں جن میں وہ اُن کی معراج کو پہنچتا ہے۔ یہاں تو آرٹ اور سائنس کی جس شاخ کو دیکھو وہ اس کی چوٹی پر بیٹھا ہوا تھا۔

وہیں بیٹھے بیٹھے نقشے کو کھولا ضرور۔ مگر اگلا آیٹم "لیونارڈو کا گھوڑا”دیکھنے سے انکاری ہو گئی۔

’’بس بھئی بس بہت خراج تحسین پیش کر دیا ہے میں نے۔ ونچی کے علاوہ بہت کچھ اور بھی ہے میلان میں۔‘‘

نقشہ مجھے Monumental Cemetery کا بتا رہا ہے۔ میں نے اس پر بھی خط تنسیخ پھیرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا۔

’’مجھے اس یادگاری قبرستان دیکھنے بھی ہر گز ہرگز نہیں جانا۔ میں جانتی ہوں اِن مہذب اور سلیقہ مند قوموں کے قبرستانوں کا بھی دیکھنے سے تعلق ہے۔ پھول پتوں کی رنگینیوں، حُسنِ ترتیب، ذوق جمالیات اور فنکارانہ آرٹ سے سجے یہ اپنی جگہ شاہکار نظر آتے ہیں۔ مگر مجھے پھر بھی وہاں نہیں جانا۔‘‘

’’سچی بات ہے میں تو وہموں کی پھُٹی ہوئی عورت ہوں۔ اِن دنوں تو یوں بھی اوپر والے کی جان نہیں چھوڑتی ہوں۔ وہ بھی کہتا ہو گا۔ کِس مصیبت کو اپنی زمین دیکھنے بُلا لیا۔ جٹ جپھا ڈال لیا ہے مجھے تو۔ چاہتی ہے ہمہ وقت اِسی کے ساتھ رہوں اور تو کوئی کام نہیں نا مجھے۔ اتنا ویلا سُتا (فالتو)سمجھتی ہے یہ مجھے۔‘‘

’’تو بس بھئی میلان کے ڈاؤن ٹاؤن چلتی ہوں۔ میلان کا مرکز، حد درجہ حسین، اس کی تاریخ و تہذیب سے لدا پھندا۔ اس کی گلیوں میں نکلتی ہوں اور خوب خوب سیر سپاٹا کرتی ہوں۔‘‘

تو جب بس سے اُتری تو ڈومو کا وہ بھریا میلہ اپنی رعنائیوں سے گویا جگمگاسا رہا تھا۔ گلیریاGalleria کی سہ منزلہ عمارات کے رنگ و روپ اور حسن کو دیکھتے ہوئے خود سے کہتی ہوں۔

’’اف کتنی فنکاری کا غازہ ان کے منہ ماتھوں پر تھپا ہوا ہے۔ ہائے پہلے تو نظر ہی نہیں آیا تھا مجھے۔‘‘

سیاہ آ ہنی جنگلوں میں گھری کھُلی بالکونیوں کا حُسن دیکھتی اُسے سراہتی اور یہ سوچتی اور افسوس کرتی کہ فضول لیونارڈو سائنس میوزیم پر آٹھ یورو ضائع کئیے۔ ہائے اس آٹھ یورو سے میں گلیریا کے اِن شاندار ریسٹورنٹوں میں سے کسی ایک کے اندر جا کر کچھ دیکھتی، کچھ کھاتی۔ چلو ضائع ہی کرتی پر کچھ مزہ تو لیتی۔

اب چلتے چلتے دفعتاً نگاہ نیچے فرش پر پڑتی ہے تو رُک جاتی ہوں۔ ہائے یہ فرش ہیں کہ جیسے مختلف ڈیزائنوں کے رنگوں بھرے قالین بچھے ہوں۔ محرابی دروازوں کے بالائی ستونوں کی منبت کاری کتنی حسین ہے کہ واری صدقے ہونے کو جی چاہتا ہے۔ اُف گلیریا تو تعمیراتی فن کا شاہکار ہے۔ دُکانیں ہیں کہ کروڑوں چھوڑ اربوں کی مالیت کا سامان سمیٹے ہوئے ہیں۔ ہائے مجھ جیسی کو تو اندر جاتے ہوئے بھی ڈر سا لگتا ہے۔

اب چلتی جا رہی ہوں اور آگے کھلے گلیارے سے باہر نکلتی ہوں تو سانس رک جاتی ہے۔ اُف ایسا خوبصورت منظر شاندار عمارتوں سے گھرا میدان۔ ایک جانب اونچے سے پیڈسٹل پر کھڑا یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا وہی محبوب جینئس لیونارڈوونچی اپنی لمبی داڑھی، لمبے چوغے اور اپنا ہائیڈرو انجینئیرنگ ہیٹ پہنے وجود میں اپنے علم کی بے پایاں وسعتوں کو حلم اور عاجزی سے سمیٹے آنکھیں جھکائے، ہاتھ ناف پر باندھے گویا جیسے اِس خوبصورت لا سکالا اوپیرا ہاؤس کو تعظیم دیتا ہو۔ کمال کی بات ہی تھی ناکہ اُس نے میلان کے نہری سسٹم کو لاکز Locks کے تحت کیا۔ اس سسٹم نے 1920 تک بڑی کامیابی سے کام کیا۔

نیچے اس کے چار نوجوان شاگرد مختلف سمتوں میں کھڑے ہیں۔ مشتاقانِ دید کا ایک ہجوم اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے تصویر کشی اور کہیں ایک دو پوڈیم کے نیچے لکھی گئی تحریروں کو پڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

’’اللہ اِس لا سکالا La Scala میدان کی کیا بات۔ کیسے اس کی گلیاں ایک دوسرے کی بغل میں گھُسی اندر ہی اندر جاتی جا رہی ہیں۔ اِن میں ان کی خوبصورت عمارتوں کے بلند و بالا سلسلے کتنے دلفریب نظر آتے ہیں؟ یہ عمارتیں کبھی محل تھیں۔ جو اب کہیں آرٹ گیلریاں ہیں اور کہیں میوزیم ہیں۔

اب بھُوک ستا رہی تھی۔ ویجی ٹیبل پیزا لیا۔ کوک کا ٹن لیا۔ چھوٹی چھوٹی بائٹ لیتے اور گھونٹ گھونٹ پیتے ہوئے میں اِدھر اُدھر کے منظروں سے مسرتیں کشید کر رہی تھی۔

اور جب دھوپ زیتونی رنگی ہوتے ہوتے بلند و بالا عمارتوں کے بنریروں پر ٹکنے لگی۔ تب تک میں نے چلتے چلتے میلان کے اس ڈاؤن ٹاؤن کی دائیں بائیں مڑتی گلیوں اور ان کے دہانوں سے پھوٹتے مختلف سکوائرز دیکھ لئیے تھے۔

سمے کی اِن ساعتوں میں بھی بڑی فسوں خیزی ہوتی کہ انہیں دیکھ کر ایسا ہی لگتا تھا جیسے آپ کسی ٹہنی کے سرے پر خوش رنگ سا کھلا پھول دیکھ رہے ہوں۔ وہیں بیٹھ جاتی۔ میلان کی تاریخی کہانیاں سنتی۔ پیازہ ڈیلا سکالا Piazza Della Scala میں جا بجا صفورزہSforza خاندان کی کہانیاں بکھری ہوئی تھیں جب وہ میلان پر حکومت کرتا تھا اور ونچی ان کی خواہشوں پر شہر کو خوبصورت ترین بنانے میں اُن کا معاون تھا۔

لاسکیلاLascala کی پر وقار عمارتوں کا کوئی حُسن تھا۔ نظریں ایک پر ٹکتیں تو وہاں سے ہٹانا دوبھر ہو جاتا۔ یہیں دنیا کا وہ مشہور اوپیرا ہاؤس ہے جسے بلاشبہ میلان کا لینڈ مارک کہا جا سکتا ہے۔

La Scala Opera Houseاگست میں بند تھا۔ پیٹرز برگ رُوس میں اوپیرا دیکھا تھا۔ دوبارہ دیکھنے کی حسرت تھی۔ اب بندہ خود کو کوستا ہی ہے ناکہ جب انٹرنیٹ کے ساتھ جڑتا نہیں تو پھر یہی کچھ ہونا ہے۔ یہاں میوزیم بھی ہے۔ دیکھنے کی تحریک نہیں ہوئی کہ کچھ لوگوں کو تبصرے کرتے سُن لیا تھا کہ بس ایویں ساہی ہے۔ بعد میں کسی اور بھی سے پتہ چلا تھا کہ نامی گرامی فنکاروں کے ذاتی استعمال کی بس چیزیں ہیں۔ کسی کا ہیٹ، کسی کی عینکیں، کِسی کے آلات موسیقی۔

اور اب میں پیازہ ڈل ڈومہ کے کیتھڈرل کی سیڑھیوں پر بیٹھی ابھی ابھی میکڈونلڈ سے خریدی گئی آئس کریم چاٹتے ہوئے کتنی مسرور سی ہوں۔ بیٹی سے گھر بات ہوئی ہے۔ سب بچے بمعہ اپنے بچوں کے خیر خیریت سے ہیں۔ اندر تک اطمینان اور سرور کی لہر سی دوڑ گئی ہے۔ آنکھیں اوپر اٹھا کر نیلی چھت والے کا شکریہ بھی ادا کر دیا ہے۔ بھلا زندگی کے ایسے خوشگوار ترین لمحات اُس کی عنایت ہی ہیں نا۔ کہ جب آپ اپنی پسندیدہ جگہ پر بھی ہوں اور سکون و طمانیت کی لہریں بھی اندر موجزن ہوں۔

تو شام اب بنیروں پر بیٹھی ہے۔ سامنے فرش پر کبوتروں کی مست خرامیاں جاری ہیں۔ دلبروں کے رنگ ڈھنگ بھی شام کا حُسن بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ایسی چاہتیں نصیب نہ ہوئیں تو بھئی دوسروں کو دیکھ کر جلیں کڑھیں کیوں؟ خوش ہو رہے ہیں۔

تبھی ایک خاندان میرے قریب آ کر بیٹھ گیا ہے۔ پاکستانی نژاد اٹلی میں عرصہ پچیس سال سے مقیم۔ بیوی، بیٹا، بیٹی، شوہر عزیز احمد بڑا گالڑی قسم کا بندہ۔ پل نہیں لگا تھا کہ یوں گھُل مل کر باتیں کرنے لگا جیسے میں تو اس کی سگی آپا، اُس کے ماں باپ کی پہلوٹھی کی اولاد ہوں۔ تاہم تھا تیز بندہ۔ گرم سرد زمانے اور حالات کا چشیدہ، نظر میں وسعت تھی اور دماغی طور پر بہت تیز۔ روم کے قریب اوسٹیاOstia میں کافی سال رہا۔ پھر میلان چلا آیا کہ یہاں کاروباری مواقع زیادہ تھے۔ کوشش اور جد و جہد کی کہانی تھا وہ۔ تعلیمی طور پر بھی آگے بڑھا اور ہنر مندی میں بھی اپنا سکہ جمایا۔ گاڑی، گھر، ذاتی کاروبار بڑے سُکھ میں تھا۔

میلان تو اس کی پوروں پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا کونسا گلی کوچہ تھا جس سے وہ ناواقف تھا۔

اُس نے فوراً پوچھا۔

’’وایا دانتے Vaya Dante سٹریٹ نہیں گئیں۔‘‘ میرے انکار پر بولا۔

’’تو یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہیں؟ وہاں جائیے۔‘‘مجھے اس کے انداز تخاطب پر تھوڑا سا غصہ آیا۔ تنک کر بولی۔

’’میں کھیر تتی تتی کھانے کی عادی نہیں۔ ٹھنڈی کر کے مزے مزے سے کھاتی ہوں۔ میلان کا مرکزی حصّہ ٹھوٹھی میں جمی کھیر جیسا ہے۔‘‘

بڑا ہنسا۔ تیز آدمی تھاسمجھ گیا تھا کہ مجھے بُرا لگا ہے۔ فوراً وضاحت کرنے لگا۔

’’ بھئی کیا بات ہے اُس کی۔ شام کے خوبصورت لمحوں میں جب وہاں اکارڈین بجتا ہے۔ بائیک کی گھوں گھوں فضاؤں میں گونجتی ہیں۔ قدیم کرداروں کے کاسٹیوم پہنے گھومتے پھرتے کردار آپ کے ساتھ تصویریں اترواتے ہیں۔ بہت مزہ آتا ہے سچی وہاں جا کر۔‘‘

’’ابھی تو میں کافی دن ہوں یہاں۔ کل روم کیلئے ٹکٹ لینا ہے تو اِسے بھی دیکھنے جاؤں گی۔‘‘

بہرحال بندہ دلچسپ تھا۔ اُس نے تو میلانیوں اور رومیوں کے وہ مزیدار قصے سُنائے۔ شمال اور جنوبی سمت کے علاقوں کے اپنے اپنے ورثے کی بڑائی اور تفاخر کی داستانیں۔ روم اور میلان کی آپس کی مقابلے بازیاں۔ بڑی ٹسل رہتی ہے میلان اور روم میں۔ ’’ارئے بھئی ویسی ہی ناجیسی ہمارے ملک میں کراچی اور لاہور والوں کی ہے۔

ساتھ ساتھ اس کی رننگ کمینٹری نے گویا سماں باندھ دیا تھا۔

’’کراچی والوں کو لاہوری پینڈو اور لاہور پنڈ لگتا ہے۔ بس یہی حال اِن میلانیوں کا ہے۔ روم والے تو انہیں نری سُستی کی پنڈیں، اور زمانے بھر کے کاہل نظر آتے ہیں۔ وہ تو منہ پھاڑ کر کہتے ہیں۔ کام کے نہ کاج کے، دشمن اناج کے۔ حکومتی نوکریاں کرتے ہیں اور مزے لوٹتے ہیں۔ ایک تو کام کیلئے مخصوص گھنٹے اسمیں بھی ان کی ڈنڈیاں۔

ابھی دفتروں میں آ کر بیٹھے ہیں کہ وقفہ آ گیا ہے۔ بندہ پوچھتا ہے۔ بھئی کا ہے کا؟ جی کافی بریک ہے۔ اب کیا ہے؟ یہ لنچ بریک ہے۔ اب ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ ہو رہی ہے۔ دوستوں، محبوباؤں، کبھی عزیزوں اور بیوی بچوں کے فون سننے بھی تو ضروری ہیں۔ ارے نرے چور اُچکّے یہ رومی۔ حکومت کے ٹیکسوں پر موجیں مارتے ہیں۔ یہ ہم میلانی ہیں جو خون پسینہ ایک کر کے حکومت کا ٹیکسوں سے گھر بھرتے ہیں۔‘‘

میرا تو ہنستے ہنستے برا حال ہو گیا۔

اور یقیناً آپ کو نہیں پتہ ہو گا کہ یہاں بڑی زوردار قسم کی جنوبی حصوں سے علیحدگی کی تحریکیں بھی چلتی رہتی ہیں۔ تو اب تصویر کا دوسرا رخ بھی سُنیے۔ روم والے بھی دور کی کوڑی لاتے ہیں۔ نخوت سے نتھنے پھیلاتے اور تبصرہ کرتے ہیں۔

’’ارے ہٹاؤ اِن میلانیوں کو ہم تو ویسے ہی اِن ہندسوں میں اُلجھے، ہمہ وقت دو اور دوچار کے چکروں میں پھنسے، ایک سے گیارہ یورو بنانے والوں کو ردّ کرتے ہیں۔ زندگی کا کوئی مزہ ہی نہیں ان کے ہاں۔ کمبخت مارے خود بھی پیسہ کے دھُن چکر میں اُلجھے ہوئے اور شہر کو بھی دھُند کے غبار میں ڈبوئے رکھتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے ہمیں بھی اس کا اعتراف ہے کہ ملازمتوں کے مواقع زیادہ ہیں اِس شہر میں۔ میرٹ کا بھی یہ میلانی بہت خیال رکھتے ہیں۔ مگر بھئی کاروبار جو کرتے ہیں۔ ذاتی اور اپنے تو میرٹ کا خیال نہ رکھیں گے تو اور کیا کریں گے؟

دونوں کو ایک دوسرے سے ڈھیروں ڈھیر شکایتیں، کہیں غیر مہذب ہونے، کہیں روم کو ایک گندہ شہر سمجھنے اور کہیں میلانی خشک لوگ ہیں وغیرہ مگر اس کے باوجود ایک دوسرے کی خوبیوں کا بھی خوشدلی سے اعتراف کرتے ہیں۔

یہ سب سُننا میرے لئیے کتنی بڑی تقویت کا باعث تھا کہ میں جو ایسے ہی حالات کی زخم خوردہ تھی اور نہیں سوچتی تھی کہ ایسی صورت اٹلی جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی ہو سکتی ہے۔

سکوائر روشنیوں سے جگمگانے لگا تھا کہ دھوپ اپنا بوریا بستر سمیٹ چکی تھی۔ فیملی نے مجھے اپنا کارڈ دیا۔ گھر آنے کی دعوت دی۔ شام بہت خوشگوار رہی کہ مجھے نہ صرف انہوں نے اپنے ساتھ رکھا بلکہ میٹرو سے مجھے اُس گاڑی میں بھی سوار کرا دیا جس نے مجھے چیزاتے پہچانا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب4: میرے خوابوں کا وینس اور میری بونگیاں

 

* پانیوں میں تیرتا یہ بے حد شاندار اور خوش نما شہر جس کی شہرت دنیا بھر میں حیرت انگیز اور تاریخی ورثے کے طور پر ہے۔

* اٹلی ٹھگوں کے لئے بڑا مشہور ہے۔ بار بار یہ سبق پڑھنے کے بھی اُن کے ہتھے چڑھی۔

* ویپوریٹو پر چڑھنے کی جلدی، جانا کہاں ہے؟ کچھ پتہ نہیں۔ خوب خوب تماشے ہوئے۔

 

 

ہونٹوں پر دعائیہ جملے تو وہی روزمرہ والے تھے۔ ہاں البتہ بے حد مانوس مگر اجنبی زمین پر تنے نیلے سائبان پر جمی نگاہوں سے ٹپکتے شبنم کے قطرے دھیرے دھیرے خوبصورت چہار منزلہ گھروں میں سے ایک کے ٹیرس کے فرش پر گرے۔ ہونٹوں پر تکرار ہوئی۔

’’میرے ساتھ رہنا ہے۔ میرا ہاتھ تھامے رکھنا ہے۔ اکیلی ہوں۔ آج وہاں جا رہی ہوں جہاں جانے کے سدا خواب دیکھتی رہی ہوں۔‘‘

پانیوں میں تیرتا یہ خوبصورت، بے حد شاندار، خوش نما، ایک سو جزیروں، سینکڑوں پُلوں اور ہزاروں گلی کوچوں والا وینس ادیبوں، شاعروں اور تخیلاتی لوگوں کو ہانٹ کرنے والا۔

بچپن کی کہانیاں کہیں بغداد اور کہیں وینس کے سوداگروں کے گرد ہی تو گھومتی تھیں۔ بڑے ہو کر شیکسپئر سے شناسائی ہوئی۔ مجھے یاد ہے The Merchant of Venice اور The Two Gentlemen of Veronaہاتھوں میں آئیں تو کِس شوق و رغبت سے انہیں پڑھا تھا۔ کتنے خواب دیکھے تھے اس وینس کے۔ بڑے ہو کر The wings of the Dove، Italian hours اورThe Aspern Papers نے بے حد متاثر کیا۔ وینس اِن کہانیوں میں ایک بیک ڈراپ کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

ہاں میں تھا مس مینThomas Mann کی کلاسیک کہانی تو بھول ہی گئی۔ Death in venice کیا کمال کی چیز ہے۔

کیسا شہر ہے جس کی شہرت یورپ کے ایک محفوظ کیے گئے حیرت انگیز اور بڑے تاریخی شہر کے طور پر ہے اور جو اب تنزّلی کی طرف گامزن ہے۔ جس کی گلیوں میں دوڑتے ندی نالے دیکھ کر ہمیشہ بسمل صابری کا شعر یاد آتا تھا

اشک بن کروہ میری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

ساتھ میں تھوڑی سی ترمیم بھی ہو جاتی تھی۔ عجیب شہر ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے۔

مختصر سا ناشتہ، چائے کا مگ اور جام لگاخستہ سا بند نما سموسہ۔ بیگ کی چیکنگ، ہیلمٹ پہن کر اقبال کے سکوٹر پر بیٹھنا، چیزاتے اسٹیشن پر آنا۔ مشین سے ٹکٹ نکالنے کا مشکل مرحلہ اقبال سر کرتا۔ اگلے مرحلوں میں طاق ہو گئی تھی۔

آج مجھے میلان شہر کے میٹرو اسٹیشن ریپبلکہRepublica اُتر کر نصف فرلانگ پر چنترال اسٹیشن تک جانا تھا۔ مجھے اسمیں آسانی محسوس ہوتی تھی۔ میں میٹرو کی زیر زمین بھول بھلّیوں سے قدرے خوف زدہ سی رہتی تھی۔ آسان اور سیدھے راستوں پر گو وہ چلنے کی مشقت سے زیادہ بھرے ہوئے تھے ترجیح دیتی تھی۔

دو رویہ بلند و بالا عمارات کے کشادہ برآمدے اِس صبح کے سمے خالی خالی تھے کہ ریسٹورنٹ ابھی جاگنے کی لکن میٹی کھیل رہے تھے۔

میلان کے مرکزی ریلوے اسٹیشن چنترال کا چہرہ مہرہ بڑا بے رونق سا ہے۔ اندر جدید سفری سہولتوں سے مزین چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ذرائع کے ڈھیر لگے پڑے ہیں۔ اور باہر بڑا اجڑا پجڑا سا ہے۔ سنا بھی اور پڑھا بھی کہ فاشسٹ مسولینی کی یاد میں یہ سوغات رکھی ہوئی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں بیچارہ پور پور زخمی ہوا تھا۔ اِس کے چہرے مہرے کی پلاسٹک سرجری قصداً نہیں کی گئی۔

وینس کیلے ٹکٹ لینے کی پوچھ گچھ کے مرحلے سے ابھی دوچار بھی نہ ہو پائی تھی کہ ٹھگ کے ہتھے چڑھ گئی۔ ایسا ہونا ضروری تھا۔ ایک تو لباس اعلان کرتا تھا دوسرے چہرے پر اُڑتی ہوائیاں راز کھولتی تھیں۔ نوجوان خوش شکل سے لڑکے نے قریب آ کر پوچھا۔

’’کہاں جانا ہے؟‘‘وینس کو اطالوی زبان میں وینیزیا کہتے ہیں۔ اسے رٹ کر چلی تھی۔ اسی لئیے بڑے اعتماد سے کہا گیا۔

مگر اٹلی ٹھگوں کیلئے بھی تو بڑا مشہور ہے۔

بہرحال مدّعا جان کر اُسنے آنکھیں اور دل میری راہوں میں بچھاتے ہوئے مجھے ٹکٹ آفس تک جانے ہی نہ دیا۔ خود کار مشینوں کے پاس لے آیا۔ فسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس سوال ہوا۔ کنجوس اور کفایت شعار عورت نے فوراً پوچھا تھا۔

’’ تھرڈ کلاس نہیں ہے کیا؟‘‘زور دار قسم کا NOتھا۔ خود کو لعن طعن کی کہ اوقات دکھانی کیا ضروری تھی؟ 37یورو دیجئیے۔ پچاس یورو کا نوٹ بیگ سے نکالا۔

لڑکے نے حکم دیا ’’مشین میں ڈالو۔‘‘

تعمیل کی۔ دوسری طرف سے دس کا نوٹ نکلا۔ دوبارہ شاہانہ انداز میں کہا گیا۔

’’ پکڑو۔‘‘

میں تو پہلے ہی جھپٹا مار کر نوٹ کو قابو کر چکی تھی اور تین سکوں کی بھی منتظر تھی۔ ٹکٹ باہر نکلا۔ لڑکے نے اُسے میرے ہاتھ میں تھمایا۔

ٹن ٹن موسیقی کی جھنکار کے ساتھ تین سکے باہر نکلے اور ساتھ ہی برقی انداز میں لڑکے کے ہاتھوں نے انہیں دبوچتے ہوئے مجھے اشارہ کیا۔

’’آئیے۔‘‘

دو تین خود کار برقی زینوں سے چڑھاتے تیز رفتاری سے تقریباً دوڑاتے مجھے ایک بڑے سے ہال کے دروازے پر دھکیلتے ہوئے بولا تھا۔

’’آگے جانے سے میرے پَر جلتے ہیں۔ گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہو گی۔ جائیے۔‘‘

میں نے ہونقوں کی مانند اُسے دیکھا تین یورو کے عوض میں نے تو سمجھا تھا کہ وہ مجھ مہارانی کو ڈبے میں بیٹھا کر آئے گا۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ اساطیری کہانیوں کے یاجوج ماجوج کی طرح دو سپاہی شیشے کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے اور مسافر کے سوا ہر ایک کا داخلہ ممنوع تھا۔

اندر قدم دھرا۔

ایک عظیم الشان عمارتی سلسلہ جس کا بیشتر حصّہ آ ہنی و فولادی راڈوں اور ستونوں پر کھڑا ایک خوبصورت لابی کی صورت لئیے جس کی قوسی سفید فائبر گلاس والی چھت نے پورے ماحول کو روشن کر رکھا تھا میری آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔

دنیا بھر کی خوبصورتیوں، بدصورتیوں کے نمونوں اور دائیں بائیں بھاگتی ننگی حسین ٹانگوں، عریاں گداز سینوں کی بڑی بہاریں تھیں یہاں۔ عبایوں، حجابوں میں لپٹی عورتوں اور لڑکیوں کی بھی نمائندگی تھی۔ ان سبھوں کے ساتھ ساتھ بے شمار کاروباری سلسلوں کو بھی عمارت اپنے پیٹ میں سمائے ہوئے تھی۔ کوئی نو کے قریب لابی سے جڑے ٹریک ہوں گے جن میں سے کچھ پر گاڑیاں کھڑی اور کچھ خالی نظر آتے تھے۔

ایک نفسانفسی اور بھاگ دوڑ کا عالم تھا۔ جس میں شامل ہونے کی میری کمی تھی سو خیر سے میری آمد کے ساتھ وہ پوری ہو گئی۔ سب سے زیادہ ڈر ہائے کہیں ٹرین چھٹ نہ جائے کا تھا۔ یہ تھوڑی کہ گاڑیاں کم تھیں۔ ہر گاڑی کے چلنے کا درمیانی وقفہ صرف گھنٹہ بھر کا تھا۔ مگر اُس کے چھٹنے کی صورت میں کٹوتی بھی ٹھیک ٹھاک ہوتی تھی۔ پیٹرز برگ روس میں ایسے ہرجانے بھر چکی تھی۔ پرانی تاریخ یہاں دہرانا نہیں چاہتی تھی کہ مہرانساء ساتھ نہیں تھی۔ ہرجانہ پورا کا پورا میرے پیٹے پڑ جانا تھا۔ اسی لئیے ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے جانکاری کیلئے بھیک منگوں کی طرح بھاگتی پھرتی تھی۔ اِسے پکڑ، اُسے کھینچ، کوئی مونڈھے مارتا آگے بڑھ گیا۔ کسی نے بے اعتنائی سے دیکھا۔ کِسی نے توجہ تو دی مگر خاک نہ سمجھا۔ ہاں ایک سوڈانی مہربان سے بچے نے انفرمیشن بورڈ تک لے جا کر سمجھایا اور کہا۔

’’اطمینان سے بیٹھ جائیے۔ گاڑی جانے میں ابھی پورا ایک گھنٹہ باقی ہے۔‘‘

اب اردگرد نظریں دوڑائیں تو کہیں چھوٹے سے چھوٹا بینچ کا کوئی ٹوٹا تک نہ تھا۔ زمین پر ایک جگہ پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی اور قدرت کی رنگینیاں دیکھنے لگیں۔ بوڑھی عورتیں تھیں کہ مانو جیسے اسکیٹنگ کے پہیوں پر چڑھی ہوئی ہوں۔

بھاری بھر کم اٹیچی کیس ایک ہاتھ سے گھسیٹتے ایک نابینا عورت دوسرے ہاتھ سے سفید چھڑی لہراتے جیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار حیرت زدہ کرتی تھی۔

خود پر لعنت بھیجی۔ ’’کمبخت دیکھ اور سبق سیکھ۔ تجھے توایسے ہی گھبراہٹ کے دورے پڑ رہے ہیں۔‘‘

پر فطرت سے مجبوری کا کیا کیا جائے۔

پھر جیسے شلوار قمیض نے کام کر دکھایا۔ اُن اجنبی فضاؤں میں اپنائیت کی خوشبو میں لپٹی ایک آواز نے متوجہ کیا۔

’’کہاں سے ہیں؟‘‘

حیرت سے پوچھنے والے کو دیکھا ایک خوش شکل پیارا سا لڑکا صفائی کرتی گاڑی میں بیٹھا دیکھتا اور پوچھتا تھا۔

اب جواب، پھر سوال اور اپنی مشکل کو بتانے کے سلسلے میں جانی کہ لڑکا جالندھر سے ہے۔ دلداری کے میٹھے بولوں سے ’’ ابھی آتا ہوں اور سمجھاتا ہوں گھبرائیں نہیں‘‘ جیسے الفاظ نے گھبراہٹ، تلخی اور پریشانی میں پھنکتی جان پر اطمینان کی بوندا باندی کی جیسے پھوار برسائی۔

چند ہی لمحوں بعد وہ مجھے لئیے انفرمیشن بورڈ کے سامنے کھڑا تھا اور میں ٹکٹ ہاتھ میں لئیے سبق پڑھتی تھی۔ گاڑی کا نمبر موجود تھا۔ وینس جانا ہے۔ لکھا ہوا تھا۔ کِس پلیٹ فارم پر اِسے آنا ہے۔ اس کا اندراج از خود ہی پندرہ منٹ پہلے ہو جانا تھا۔ آدھ گھنٹہ باقی تھا اور گاڑی بورڈ پر بہت نیچے تھی۔ گزرتے ہر لمحے میں اِسے اوپر آتے چلے جانا ہے۔

’’چلو اللہ مسب اسباب ہے۔‘‘

ابھی لفظ اندر سے نکل کر ہونٹوں پر آئے ہی تھے کہ خوبصورت نقش و نگار والی چار عربی لڑکیاں عبایوں اور حجاب میں لپٹی اپنی ماں کے ساتھ نمودار ہوئیں۔ فوراً لپک کر اھلاً و سہلاً و مرحبا کہا۔ سعودی تھیں پاکستان کا سُن کر ماں بیٹیوں نے محبت بھرے جذبات کا اظہار کیا۔ انہیں بھی وینس جانا تھا اور گاڑی بھی وہی تھی۔

اب جیسے گم گھپ اندھیرے میں ننھی منی سی قندیلیں جل اٹھیں باتیں ہونے لگیں۔ لمحوں کی لطف اندوزی مسرور کرنے لگی۔

تبھی سوڈانی لڑکے نے ہاتھ پکڑا اور گھسیٹنے لگا کہ گاڑی پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔ اب وسوسے بھی ساتھ ہی چلنے لگے تھے کہ سعودی لڑکیاں تو وہیں اطمینان سے کھڑی ہیں۔

اسی گاڑی میں انہیں بھی تو سوار ہونا ہے۔ شیطان کی آنت کیطرح لمبی گاڑی، جتنی لمبی اتنی ہی خوبصورت اور شاندار بھی۔ نو نمبر ڈبہ کہیں پچھواڑے میں ٹنگا ہوا تھا۔ جونہی نو کا ہندسہ نظر آیا۔ جیسے پارے کی طرح تھرکتے مچلتے دل کو قرار آ گیا۔ زینے پر قدم دھرنے سے قبل مڑی۔ سوڈانی بچے کی چھاتی پر بوسہ دیا۔ پانچ یورو اس کی مٹھی میں تھمائے۔

اب شکر کرتی اندر داخل ہوئی۔ سیٹ ڈھونڈی۔ بیٹھی اور بڑا لمبا سُکھ بھرا سانس اندر سے نکالا۔ ڈیڑھ گھنٹے کا ذہنی اضطراب اور جسمانی دوڑ دھوپ دونوں کو سکون مل گیا تھا۔ سیٹیں آمنے سامنے تھیں۔ درمیان میں کھلنے اور بند ہونے والی چھوٹی سی میزیں من چاہے کاموں کیلئے۔

ٹرین کا سفر بچپن ہی سے بڑا ہانٹ کرتا ہے۔ دادی کے پاس سمندری جاتے تو ہمیشہ ٹرین پر جانے کی ضد کرتے۔ کھانے پینے کی چیزوں کیلئے دنوں پہلے پروگرام بناتے۔ آج وہی پرانے منظر نئی جدّتوں کے ساتھ سامنے تھے۔

گاڑی نے اڑان بھرنے میں ذرا سی دیری نہ کی۔ چلی تو ساتھ ہی کھانے پینے کے موڈرن پٹارے کھل گئے تھے۔ دائیں بائیں سبھوں کی منہ ماری شروع ہو گئی تھی۔ اپنے بچپن میں ہم ایسی صورت پر ہانکیں لگاتے تھے۔ راجے راجے کھاندے، تے بلیاں بلیاں چاہتدیاں۔ تو آج برسوں بعد وہی صورت سامنے تھی کہ راجے کھا رہے تھے اور بلی حسرت سے انہیں دیکھ رہی تھی اور خود کو کوسے چلی جا رہی تھی۔

’’ کمبخت کچھ زندگی سے لطف اندوز ہونا بھی سیکھ لے۔ ہر دم لکھنے اور کہانیوں کے چکر میں ہی پڑی رہے گی۔ کیا تھا جو اپنی بدحواسیوں سے نکل کر ذرا سا اِدھر اُدھر دیکھتی۔ اتنے خوبصورت ریسٹورنٹ۔ اتنی کھانے پینے کی چیزیں۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں نا جن کے مقدر میں بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں ہوتا۔ بس تم انہی لوگوں میں سے ہو۔‘‘

پانی کے گھونٹوں سے اندر سے اٹھتی اِس پھٹکار کی جلن کو کم کرنے کی کوشش کرتی اور یہ بھی عہد کرتی کہ واپسی پر ایسا نہیں ہونے دوں گی۔

ہمسایوں کا جائزہ لیا۔ سامنے درمیانی عمر کی عورت اپنے سات، آٹھ سالہ بیٹے کی بلائیں لینے اور وقفے وقفے سے اُسے کھلانے پلانے میں جتی ہوئی تھی۔ تین بچوں کی ماں پہلوٹھی کی لڑکی جو ابھی ابھی ماں کے بیگ سے اپنی پسند کی چیزیں لے کر اپنی سیٹ پر گئی۔ اس سے چھوٹا لڑکا اور تیسرا یہ پیٹ کروڑی (یعنی آخری) جس کی ماں اور ماں کی اس کے ساتھ لاڈیوں کی انتہا نہ تھی۔

خاتون میلان کے ہیلتھ ڈپارٹمنٹ میں پرسونل آفیسر تھی اور چھٹیوں میں پاڈوPaduaبہن کے پاس جا رہی تھی۔ پاڈو وینس کا نزدیکی علاقہ تھا۔

ساتھ والی نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ لیا اور کام کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد فروٹ سلاد کا ڈبہ نکالا اور کام کے ساتھ ساتھ کھانا پینا بھی شروع ہو گیا۔

تھانہ یہ معدہ و نظر کا امتحان۔ میرا بھوکا اندر بلبلانے لگا تھا۔ منہ ماری کی عادت تڑپنے لگی تھی۔ میرے اور سیما پیروز کے بیگوں میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ہوتا۔ نٹزNuts اپنی کسی نہ کسی صورت میں۔ چھوٹی الائچی یا کوئی گولی ٹافی۔ ہمارا ٹولہ اِس منہ ماری اور تبصروں کیلئے بڑا مشہور ہے۔ مگر ستم ظریفی اب بیگ میں کچھ بھی نہ تھا۔

ماں نے بچے کا ایک بار پھر منہ چوما تھا۔ میں نے خاتون سے پوچھا۔ ( شکر ہے وہ انگریزی بولنے اور سمجھنے میں بہتر تھی )کہ اُس کے اتنے پیارے بچے جوان ہو کر جب گھر سے چلے جائیں گے وہ اُس وقت کے بارے میں کبھی کچھ سوچتی ہے؟ اس کے جواب نے میرے لئیے سوچ کے دروازے کھولے کہ وہ سادہ مگر جذباتیت سے عاری لہجے میں بولی۔

’’ایسا ہونا تو قدرتی ہے۔ بچوں نے بڑے ہو کر اڑانیں تو بھرنی ہیں۔ کوئی انہیں باندھ تھوڑی سکتا ہے۔‘‘

ہم جیسی جذباتی مشرقی ماؤں کیلئے لمحہ فکریہ ہے نا یہ بات۔

ڈھائی گھنٹے کے اِس سفر میں راستے اور آبادیوں کی خوبصورتیوں میں تقابلی جائزے لینا تو حماقت تھی کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگا تیلی۔ پر بندہ اِس ناہنجار دل کا کیا کرے جو آہیں بھرنے سے باز نہیں آتا۔ سچ تو یہ تھا کہ اس وینس اور بعد کے سفروں سے میں یہ ضرور جانی تھی کہ یہاں انسانی ہاتھوں نے اپنی محنت و لگن سے ماٹھے سے خدائی حُسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ مٹی تو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ فصلوں میں زیادہ مکئی پردان تھی۔ قامت میں بھی خاصی چھوٹی تھی۔ جھیلوں اور ندی نالوں کا پانی ہرا کچور تھا۔ تو وینس پر جب ٹرین رکی میں نے فضا پر ایک محبوبانہ نظر ڈالتے ہوئے خود سے کہا۔

’’تو تو نے مجھے اپنے خوابوں کا شہر دکھانے کا انعام دے ہی دیا۔‘‘

پیٹ دہائیاں دے رہا تھا۔ وینس کے ریلوے اسٹیشن کے ٹرمینل کے ساتھ ہی شاپنگ مال تھا۔ دنیا کا سیاح ٹوٹا پڑا تھا۔ ریسٹورنٹ کے خودکار کھلتے دروازے سے اندر داخل ہو کر میں نے ویجی ٹیبل پیزا لیا۔ کیلے خریدے، دودھ کی بوتلیں لیں، پانی لیا اور باہر بچھی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر کھانے میں جت گئی۔

اب باہر نکلنے اور وہ سب کچھ دیکھنے کی بے چینی تھی۔ کسی راہ چلتے سے کشتیاں اور نہر کہنے کی دیر تھی کہ لمبے سے بازو نے راستہ دکھا دیا۔ شیشے کی دیواری سائز کے دروازے سے باہر کا منظر اتنا مانوس سا کہ قدم ٹھٹھک گئے۔ آنکھیں چمک گئیں اور چہرہ کھل گیا۔ وینس کا لینڈ مارک گھاٹ ویپوریٹیWaporetti (پانی کی بسوں )چھوٹے سٹیمروں، سادہ کشتیوں، گنڈولوں اور پل سے ذرا دور کروزوں سے بھرا نظر آتا تھا۔ مختلف کمپنیوں کے بکنگ آفسز کے سامنے لوگوں کے ہجوم کھڑے تھے۔

دس بجے کی دھوپ اپنی تمام تر تیزیوں کے ساتھ پورے منظر پر پھیلی آنکھوں کو چندھیاتی تھی۔ پل بھر کیلئے میں نے سوچا کہ میں نقشے لوں اگر کوئی کتابچہ مل جائے تو اُسے خریدوں۔ اب دوبارہ سٹیشن کی عمارت میں داخل ہوئی۔ نقشے ضرور ملے مگر سب اطالوی زبان میں۔

اب جیسے کسی کشتی، کِسی ویپوریٹوvaporetto (آبی کشی )میں چڑھ جانے کی جلدی تھی۔ سو بغیر سوچے سمجھے ٹکٹ لینے والی قطار میں جا کھڑی ہوئی۔ نہ یہ معلوم کہاں جانا ہے؟ بکنگ کرتی لڑکی سوال کرتی ہے۔ جواب کیلئے آئیں بائیں شائیں ہے۔ اُس نے سوچا ہو گا۔

’’پاگل ہے مائی۔ ٹکٹ پکڑاؤ۔ مجھے کیا بھاڑ میں جائے۔‘‘

سات یورو کا ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے آبی بس میں چڑھ گئی۔ گھبراہٹ بھی سوار ہے۔ منزل کا کوئی تعین نہیں۔ ایک نوجوان جوڑے پر گمان گزرا کہ دیسی ہے تو درخواست کی کہ کچھ گائیڈ کریں۔ جوڑا تو انڈین تھا مگر تھا امریکی۔ موج میلے کیلئے آیا تھا۔ بیچاروں کو ڈر پڑ گیا کہ بڈھی عورت کہیں کباب میں ہڈی بن کر اُن کے گلے میں نہ پھنس جائے یا کمبل بن کر چمٹ نہ جائے۔ پتہ ہی نہ چلا کب کھسک گئے۔

اب گھبراہٹ کا شکار پھر عرشے سے اندر چلی گئی کہ چلو جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ایک بے حد پیاری لڑکی نے فوراً کھڑے ہو کر اپنی سیٹ پیش کی۔ ساتھ بیٹھی اس کی معمر والدہ نے میری قمیض کے دامن اور بازوؤں کے کنارے پر لگی بیل کو پکڑ کر دیکھا اور سراہا۔ میں نے کچھ جاننا چاہا مگر معلوم ہوا کہ سوئزر لینڈ سے ہیں اور انگریزی میں کورے ہیں۔ چلو قصہ ختم۔

اب شیشوں کے باہر کے منظروں کو دیکھتی ہوں۔ کہیں نہر کا پاٹ بے حد چوڑا اور کہیں کم نظر آتا ہے۔ موہ لینے والی عمارتوں سے مزّین ایک جزیرہ سامنے آتا ہے۔ کچھ اترتے ہیں۔ کچھ چڑھتے ہیں۔ پوچھتی ہوں۔ کسی کا پتہ چلتا ہے۔ کسی کا نہیں۔ گھبراہٹ ہے کہاں جا رہی ہوں؟ دائیں بائیں کہیں رنگوں و روغن سے آراستہ پیراستہ عمارتیں کہیں گتھی ہوئی کندہ کاری سے منہ ما تھا سجائے چرچ، کہیں خستگی اور کہن سالی کے ہاتھوں گھرے تھکے اور شکستہ دم گھر۔

پھرجیسے ایک خوبصورت منظر میری آنکھوں کے سامنے آیا۔ عمارتوں کی اتنی رنگینی بالکونیوں کے ستون موہ لینے والے، اُن کے ساتھ لٹکے پھولوں کے گچھے۔ ہر عمارت اپنے جداگانہ طرز تعمیر کا نمونہ۔ اور جب لوگ اُتر رہے تھے میں نے بھی تعاقب کیا تھا۔

یہ Cadora تھا۔ تھوڑی سی تاریخ جانی کہ 1421اور 1440کے درمیان مرینو Marino Contarin تاجر نے اسے آباد کیا۔ اس کا خصوصی تاریخی محل گولڈن ہاؤس تھا۔ یہ وینس کی سب سے قدیم ترین سوغات نہر کے کنارے پر وینس کے مخصوص گوتھک طرز تعمیر کی جھلکیاں مارتی تھی۔ تین منزلہ اِس محل کی بالکونیوں کے ستون، ان پر کی گئی کندہ کاری نظروں میں کھُب کھُب جاتی تھی۔ داخلہ بذریعہ ٹکٹ ہوا جو پانچ یورو کا تھا۔ کاؤنٹر پر بیٹھی لڑکی نے آڈیو گائیڈ کا پُوچھا۔ انکار کیا۔

کمروں اور صحن کی زیبائش میں بہت سی تہذیبوں کے رنگ گھلے ہوئے تھے۔ بازنطینی آمیزش کے ساتھ اسلامی ٹچ بھی نظر آتا تھا۔ بالکونیوں کے جھروکے، صحن، دیواری کنگرے، ستونوں پر بکھری آرائشی بیلیں سب اس کی گواہی دے رہی تھیں۔ ایسا ہونا قدرتی امر تھا کہ یہی وہ زمانہ تھا جب عثمانی سلطنت اپنے عروج کی طرف گامزن تھی۔ تاجروں اور کاروباری لوگوں کے سفر ہی تہذیبوں کے دلکش امتزاج کے مرہون منت ہوتے ہیں کہ جو چیزیں انہیں کہیں بھاتی ہیں۔ انہیں اپنے ملکوں میں رواج دیں۔ اوپر کی منزل میں آرٹ گیلری تھی جسے میں نے زیادہ نہیں دیکھا۔

سچی بات ہے بے طرح قسم کی گھبراہٹ سر پر سوار تھی کہ ابھی ٹھہرنے کا بندوبست بھی کرنا ہے۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹہ اس کی ملحقہ گلیوں میں گزارنے کے بعد سوچا تھا میں واپس جاؤں۔ ٹھہرنے کا بندوبست کروں۔ نقشے ڈھنڈوں دیکھوں کہ مجھے کیا کیا دیکھنا ہے؟

اب سچی بات ہے نری اُلّو کی پٹھی تھی نا کہ اتنی عقل نہیں آئی کہ یہاں جہاں پھر رہی ہوں بھی ہوٹل ہی ہوٹل ہیں۔ یہیں کہیں پتہ کر لوں۔ مگر نہیں جی۔ گھبراہٹوں نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔

ہنری جیمز کی "Italian Hours”میں اِس مشہور زمانہ کہاوت "The Luxury of loving Italy”کا بہت بار اعادہ ہوا تھا۔ جیمز نے اِس لگژری کے ہر ہر لمحے سے لطف اٹھایا۔ میں یہاں مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔ ایسا نہیں کہ میں اپنی کوتاہیوں کو دوش نہیں دیتی ہوں۔ اب علامہ کو ہی دہراتے ہوئے کہتی ہوں کہ زمانے کے انداز بدلے گئے۔ نئے سازوں اور نئے رنگوں سے شناسائی مسئلہ بن گئی ہے۔

بیگ میں سنبھالا ہوا ٹکٹ نکالا۔ خیال تھا کہ یہی چلے گا۔ واہ گھرنوں پھولی۔ بکنگ آفس کی کھڑکی سے جھانکتی لڑکی نے پوچھا۔

’’ جانا کہاں ہے؟‘‘

بونگوں کیطرح سے جواب دیتی ہوں۔ ’’جہاں سے آئی تھی۔‘‘

لڑکی ہنس پڑی تو اپنی حماقت کا احساس ہوا۔

خجل سی مسکراہٹ چہرے پر بکھیری ’’ٹرین اسٹیشن۔‘‘

’’سات یورو۔‘‘

ایک لفظ بولے بغیر سکے تھما دئیے۔

اب تھوڑے سے سکون سے جگہوں کو پانیوں میں تیرتے دیکھتی اور ان کے ناموں کے اعلان سُنتی رہی۔ پلے ککھ نہ پڑا کہ نام ہی اتنے مشکل تھے۔ پھر الٹی پلٹی سوچیں پانیوں کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہنے لگیں۔ ہوٹل کو کھوجنا ہے۔ ہائے کہیں اسٹیشن کے آس پاس ہو، ہائے کوئی ہاتھ نہ ہو جائے۔ خوف کی بڑی اونچی لہر اٹھی تھی۔ سرجھٹکا۔

یاد آیا تھا بنگلہ دیشی یہاں بہت ہیں اُن سے راہنمائی لوں۔ شام تک قابل ذکر جگہیں دیکھوں اور پھر گاڑی پر چڑھ جاؤں۔ دل نے تجویز کو پسند کیا۔ تو سب سے پہلے ٹکٹ لینا چاہیے۔ ارادوں کی گھمن گھیریوں سے نکل کر دیکھا تو سامنے اسٹیشن کی مخصوص عمارت نظر آئی تھی۔ اطمینان سا اندر اُترا کہ چلو ایک جھلک سے تو آشنائی ہوئی۔ بکنگ آفس کہاں ہے؟ پوچھتے کھوجتے اندر داخل ہوئی اور سیدھی دھت مارتی کاؤنٹر پر خاتون کے سر پر جاسوار ہوئی۔

’’پلیز‘‘

چہرے پر جانے بدحواسیوں کے کیسے کیسے سائے ہوں گے۔ لہجے میں گھبراہٹ کے تاثر کا چھلکاؤ ہو گا۔ خاتون نے کوفت اور بیزاری سے نگاہ پلٹا کر دیکھا اور ہاتھ کے اشارے سے انتظار کا کہہ کر اپنی مخاطب کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اب جو دیکھا تو چھوٹی سی لائن میں لوگ کھڑے مجھ اوندھی کو تمسخرسے دیکھتے ہیں۔

’’ہوں پوری اُلّو کی پٹھی۔‘‘

خود کو کوسا۔ ذرا فاصلے سے ایک سلونے مرد نے قریب آ کر اُردو میں کہا۔

’’ٹوکن لیجیے۔ جی چاہے تو لائن میں کھڑی ہو جائیں یا کہیں بیٹھ جائیں۔ آپ کا نمبر سامنے زیپر پر جونہی آئے گا آپ نے فوراً اُس کاؤنٹر پر چلے جانا ہے۔‘‘

شکریہ کہتے ہوئے جانا کہ بھارتی نژاد سریش امریکی ریاست ٹیکساس سے بیوی کے ساتھ سیر کیلئے آیا ہے۔ ذرا فاصلے پر کھڑی بیوی کو دیکھا۔ اُسنے بھی مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ اب اپنی گھبراہٹوں کی داستان انہیں سناتے ہوئے ثابت کرنا چاہا کہ میں پڑھی لکھی پاکستانی ہوں۔ بس ذرا گھبراہٹ میں قاعدہ کلیہ بھول گئی۔

خود کو کوستے لعن طعن کرتے ٹوکن لیا اور لائن میں لگنے کی بجائے فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھی لڑکیوں کے پاس جا کر بیٹھ گئی اور خود کو سُناتے ہوئے بولی۔ ’’اب بھلا لائنیں بنانے کا فائدہ۔ چار کاؤنٹر ہیں۔ اور چاروں کے چاروں مشترکہ طور پر مسافروں کو بھُگتا رہے ہیں۔ آپ کا نمبر کِسی بھی کاؤنٹر پر چلنے والی زیپر پر آ سکتا ہے۔ ’’ہوں‘‘ بڑے مہذب بنے پھرتے ہیں۔‘‘

نمبر میرا 185 تھا اور جو صورت حال مجھے نظر آئی تھی وہ ٹکٹ دینے کی ہی نہیں تھی بلکہ ایک طرح اس میں سیاحوں کے مسائل کو سُننے اور گائیڈ کرنے کے فرائض بھی شامل لگتے تھے کہ جو بندہ باری پر کھڑا ہوتا تھا وہ اپنی مصائب بھری داستان سُنانے حتمی حل کیلئے مضطرب نظر آتا تھا۔ اپنی باری پر اٹھتے ہوئے میں نے خود سے کہا تھا۔

’’میں بھی اپنی اُلجھن ساری کی ساری اُسے سناؤں گی۔‘‘

اور سچ تو یہ ہے کہ حرف بحرف اس پر عمل کیا۔ ذرا سی پکّی عمر کا لڑکا اپنی ٹھوڑی کو ہتھیلی کے پیالے میں جمائے پورے انہماک سے میری بات سُنتا تھا۔

’’ اگر سات بجے کی گاڑی پکڑتی ہوں تو میلان ساڑھے نو بجے پہنچوں گی۔ جانا بھی مضافات میں ہے۔ پہلے میٹرو پھر ٹرین میں بیٹھ کر۔ اور آپ کو بتاؤں چیزاتے جہاں اُترنا ہے وہ تو سُورج کی روشنیوں میں سناٹے اور خاموشیوں میں گم قصبہ ہے۔ رات میں تو زیر زمین اندھیری راہداریوں میں میرا ہارٹ فیل ہو جانے کا ڈر ہے۔ تو میرے مہربان آپ کا کیا خیال ہے کہ مجھے رات یہاں گزارنی چاہیے جو در اصل میری بھی عین خواہش ہے۔‘‘

قینچی کی طرح چلتی زبان اب خاموش تھی اور چہرہ منتظر نظروں سے اُسے دیکھتا اور توقع کرتا تھا کہ دیکھو تو سہی اب کہتا کیا ہے؟

اور اُس کی تجویز کے مطابق میرے لئیے ٹھہرنا زیادہ بہتر تھا۔

تو پھر طے ہے کہ جب ٹھہرنا ہے تو وینس کو جی بھر کر دیکھنا ہے۔ تو بھئی کل کیلئے ٹکٹ اُس ٹرین کا کاٹو جو مجھے لوئے لوئے چیزاتے پہنچا دے۔ ساتھ ہی فوراً اس بات کا بھی ٹکڑا لگا دیا کہ میلان سے چیزاتے تک کا فاصلہ بیس منٹ کا ہے۔

اُسنے گاڑیوں کے اوقات دیکھے اور پانچ بجے کی ٹرین کیلئے ٹکٹ کاٹ کر میرے ہاتھ میں تھما دیا۔

اب ہوٹل کیلئے بھی اُسی سے راہبری چاہی۔ بتایا گیا کہ ٹورزم انفرمیشن والوں کا دفتر ساتھ ہی ہے وہ بہتر رہنمائی کریں گے۔

قیاس سے کیوں کہوں یقین تھا کہ آدھ گھنٹے سے کم میں نے کیا وقت لیا ہو گا۔ فاتحانہ سی شان سے ٹکٹ بیگ میں رکھا اور مزے سے مجمع کو دیکھتی باہر نکل آئی۔

ٹورزم والوں کا دفتر جانے کِس کھڈے میں تھا۔ چار پانچ سے پوچھا۔ الٹی سیدھی پریڈ کی خجل خواری نے زچ کر دیا تھا۔

ابھی دو حرف لعنت کے زبان پر ہی تھے کہ رسالوں، اخباروں والی ایک دکان پر نظر پڑی۔ فوراً اِس میں گھُس گئی۔ نقشے پوچھے۔ کتابیں پوچھیں۔ چلو وینس پر ایک کتاب انگریزی میں ملی۔ کھولی۔ نقشے بھی جا بجا نظر آئے۔ مطمئن ہو کر پندرہ یورو دئیے اور خوش و خرم سی باہر نکلی۔

اسٹیشن کی عمارت کی بیرونی سیڑھیوں پر شیڈ کے نیچے تھوڑی سی چھاؤں میں بیٹھ گئی۔ ابھی مجھے کچھ نہیں کرنا۔ نٹز اور بسکٹ کھاتے ہوئے اپنے اردگرد دیکھنا ہے۔ جب آنکھیں سیر ہو جائیں گی پھر آگے چلنا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب 5: سینٹ مارک سکوائر، چرچ، ڈو گی پیلس اور Rialtoبرج

 

* ہوٹل ملنے کی الف لیلوی کہانی۔

* وینس ایک مرتا ہوا شہر جس کے شہری اور لینڈ لارڈ گوناگوں مسائل کا شکار ہیں۔

* حکومت وینس جیسے تاریخی ورثے کو سنبھالنے کے خبط میں بری طرح مبتلا ہے۔

* وینس جیسے بنگلہ دیشیوں کے ہاتھوں یرغمال ہوا پڑا ہے۔

 

 

سب سے پہلے نقشے کھولے۔ اب جہاں تشریف کا ٹوکرا رکھے ہوئے ہوں وہ ٹرین اسٹیشن سانتا لیوسیاSanta Lucia ہے۔ نقشے پر اِس یافت نے مسرور کر دیا تھا۔ سرور کی لہر دوڑی۔ ٹھیک ٹھیک تولا سا سر ہلایا۔ خوشی کی کلکاری بھری۔ تو بھئی یہاں تو میں بیٹھی ہوں۔ چلو اب آگے چلتی ہوں۔ گرینڈ کینال سانپ کی طرح بل کھاتی اپنے دائیں بائیں مختلف جگہوں کو لئیے سینٹ مارک پر ختم ہوتی ہے۔ یہ بھی بڑا واضح ہے۔ اب دیکھتی ہوں کہ میں جو ابھی ابھی Ca’D’oroکی مہم جوئی کرتی آئی ہوں وہ نقشے پر کہاں ہے؟ اب سر جھکائے آنکھیں پھوڑ رہی ہوں۔ وہ تو کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا۔ ورقے پلٹ کر دوسرا نقشہ کھولتی ہوں۔ کوئی پندرہ بیس منٹ اُس پر سر کھپاتی ہوں۔ خاک پلے نہیں پڑا۔ تیسرا نقشہ کھولا، چوتھا، پانچواں۔ یا اللہ یہ میں کس عذاب میں پڑ گئی ہوں؟

بھئی یا تو میں بڑی نالائق ہوں یا پھر ان نقشہ بنانے والوں کو عقل نہیں۔ نام تو وہ اتنے مشکل کہ پڑھنے میں زبان لکنت کھا کھا جائے۔

زچ ہو کر میں نے کتاب بیگ میں رکھی۔ ٹافی منہ میں ڈالی اور گرد و پیش کا جائزہ لینے لگی۔

ذرا دور مجھے آ ہنی ریڑھیاں سامنے رکھے تین ایسی صورتیں نظر آئیں جن پر بنگلہ دیشی ہونے کا گمان گزرا۔ اپنا پٹارا سنبھالا اور ان کے پاس جا بیٹھی۔ قیاس ٹھیک تھا۔

’’اپنا رکُیمن اچّھن(آپ کیسے ہیں؟ )لہجے میں زمانے بھر کی شیرینی گھول لی۔ میں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے پڑھا ہے۔‘‘

بنگلہ دیش کے سب شہروں کے نام بھی فر فر دہرا دئیے کہ رعب پڑ جائے۔ محسوس ہوا تھا کہ کوشش میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی ہے۔ دو اگر میری عمر کے نہیں تو مجھ سے تھوڑا ہی چھوٹے ہوں گے۔ اِن میں سے ایک وضع قطع اور حال حُلیے سے ذرا بہتر نظر آتا تھا۔ نام بدیع العالم۔ دوسرا ماٹھا سا دکھتا تھا۔ یہ نوراسلام تھا اور تیسرا نوجوان لڑکا جس کا نام حبیب الرحمن تھا۔ لڑکے کے انداز اور طور طریقے کاروباری اطوار کے نمائندہ تھے۔ تینوں میں بدیع العالم کچھ پڑھا لکھا بھی لگتا تھا۔ اُردو اور انگریزی اچھی بول لیتا تھا۔

اپنا مسئلہ انہیں بتایا ساتھ میں یہ بھی کہا کہ ہوٹل سستا ہو اور نزدیک بھی ہو تو کیا بات۔ یعنی چوپڑیاں اور دو دو(مطلب روٹی گھی سے چپڑی ہو اور ہوں بھی دو۔ )

دونوں بوڑھوں نے نوجوان کو مشورے دینے شروع کر دئیے۔ وہاں پتہ کرو۔ اُسے پوچھو۔ بدیع العالم نے تو اپنا موبائل بھی استعمال کیا۔ لڑکے کی انگلیاں بھی موبائل پر تیزی سے متحرک ہو گئیں۔ پھر نوّے یورو پر کمرے کی دستیابی کا مژدہ سُننے میں آیا۔ ’’ہائے اندر نے جیسے تڑپ کر کہا۔ یہ تو بہت زیادہ ہے۔‘‘ اظہار بھی برملا ہو گیا۔ مگر آدھ گھنٹہ کی کاوشوں کا نتیجہ صفر ہی تھا۔

’’در اصل وینس بہت مہنگا ہے۔ خصوصاً ً اسٹیشن کے قُرب و جوار کا علاقہ۔ حبیب الرحمن بولا۔ اب مرتا کیا نہ کرتا والی بات۔ نوّے یورو پر لڑکے کی سوئی اٹک گئی تھی۔

’’چلو دفع کرو۔ ٹھیک ہے۔‘‘ لُور لُور پھرنے اور ہوٹل کھوجنے کی ہمت نہیں تھی۔

لڑکے نے ریڑھی سیدھی کی۔ یہ یقیناً سامان کیلئے تھی۔ مجھ فقیر کے پاس سامان کہاں تھا؟ ایک مُنّا سا دستی ہینڈ بیگ جسے عرف عام میں پرس کہتے ہیں۔ بس۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ دونوں بوڑھوں میں سے ایک نے کہا۔ ’’خود بیٹھ جاؤ۔‘‘ہنسی چھوٹ گئی۔ بغداد اور اس کی چوبی ریڑھیاں یاد آ گئیں۔

میرے انکار سے پہلے ہی نوجوان نے ” ناہیں ناہیں ” کہہ دیا۔ دفعتاً حبیب الرحمن نے مجھے پرس ریڑھی پر رکھنے کا کہا۔

’’پرس یہاں رکھوں۔‘‘

میرا دایاں ہاتھ اضطراری کیفیت میں سینے پر چلا گیا۔ وینس میں لٹیرے بھی ہیں۔ پرس کا بہت دھیان رکھنا ہے۔‘‘محسوس ہوا جیسے فضا میں اقبال کی کہی ہوئی بات کی بازگشت تیرنے لگی ہے۔

دفعتاً سانتا لیوسیاSanta Lucia کاٹرین اسٹیشن، سامنے بہتی گرینڈ کینال، اس پر بنا Scalzi برج، سینٹ میری آف نزّارتNazareth کا چرچ اور لوگوں کے پُرے سب نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔

اور "اب کیا کروں ”

پورے ماحول پر سوالیہ نشان کی صورت بن کر پھیل گیا ہے۔

ہائے وے میریا ربّا کِس سیاپے میں پڑ گئی ہوں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش اعتماد اور محبت کے رشتوں کا خون پہلے ہی کئیے بیٹھے ہیں۔

پھر پتہ نہیں کیا ہوا؟ بس پل بھر میں ہی اِس گومگو سے باہر تھی۔ بیگ کو ریڑھی پر آہستگی سے رکھا اور قدم اٹھائے۔ دو رویہ دکانوں سے سجے راستے پر چلتے، دھڑکتے دل کو قابو کرتے، ہر قدم پر اوپر والے کا کرم مانگتی، پرس پر نظریں جمائے، ایک کلاسیک میدان میں داخل ہوئی۔

یہاں ایک درمیانی عمر کی اونچی لمبی، خوبصورت، ماڈرن، سک سرمے سے آراستہ عورت نے کاروباری مسکراہٹ سے باچھیں پھیلاتے ہوئے کچھ کہا۔ یقیناً خوش آمدید جیسے لفظ ہی ہوں گے۔ ساتھ ہی پرس اٹھا لیا۔

’’ہائے میرے اللہ‘‘

میں نے جھپٹ کر خاتون کے ہاتھوں سے اُسے کھینچا۔

حبیب الرحمن نے کہا۔ ’’گھبرائیے نہیں۔‘‘

مگر میں اُسے کلیجے سے لگائے کھڑی اپنی دھڑکنوں کی تیزی پر خوف زدہ سی اُسے سُنتی تھی جو کہہ رہا تھا۔

’’آپ مجھ پر بھروسہ رکھئیے۔ یہاں کِسی ہیرا پھیری کا کوئی سوال ہی نہیں۔ آئیے۔‘‘

اب میں دونوں کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ میدان کے ساتھ ہی بے حد پر رونق گلی میں پھلوں اور جوسز کی دکان کے ساتھ ایک ڈیڑھ فٹ چوڑے زینے پر خاتون نے آگے چڑھتے ہوئے مڑ کر میری طرف دیکھا۔ پانچ چھ پوڈوں پر میں نے رُک کر خوف زدہ انداز میں اوپر بند دیوار اور دائیں ہاتھ ایک کمرے کو دیکھا۔

یہ کیسا ہوٹل ہے؟ اس کا تو ماحول ہی ہوٹلوں والا نہیں۔ کہاں ہے ریسپشن روم؟ سوال جواب کا یہ کھاتہ میرے اندر نے اپنے آپ سے کھولا۔

خاتون آخری پوڈے پر کھڑی مجھے اشارے کرتی تھی اور تعاقب سے بنگالی چھوکرہ کہتا تھا۔

’’اوپر چڑھیے نا۔‘‘

اب چار قدم اوپر چڑھنے پر دو ڈھائی فٹ مربع نما چوڑے ایک پلیٹ فارم کے ساتھ ایک کمرہ اور اس سے آگے مڑتے ہوئے چھوٹے سے آ ہنی جنگلے کے ساتھ ایک اور کمرہ۔ دفعتاً بجلی بھی چلی گئی۔ سارے میں اندھیرا پھیل گیا۔

ایک چیخ میرے حلق سے نکلی اور میں چلائی۔

’’مجھے یہاں ہرگز نہیں ٹھہرنا۔‘‘

عورت نے دیوار پر برقی انداز سے ہاتھ مارا اور ماحول روشن ہو گیا۔ میں نے ہونقوں کی طرح اپنے سے چند قدم اوپر کھڑی عورت کو دیکھا پھر دیوار کو۔ وہاں تو کِسی قسم کا کوئی سوئچ بورڈ نظر نہیں آ رہا تھا۔

’’ہائے میرے اللہ یہ میں کہاں پھنس گئی ہوں۔‘‘

اب میرا انکار اور پیچھے کی طرف اترنے کی کوشش جسے حبیب الرحمن نے تسلی بھرے الفاظ سے ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔

’’آپ میری ماں جیسی ہیں۔ بھروسہ رکھئیے۔‘‘

عورت نے مجھے بازو سے پکڑا اور چار پوڈے چڑھا کر کمرے میں لے آئی۔ نیچی چھت والا ایک آراستہ پیراستہ کمرہ، ڈبل بیڈ اور سائیڈ پر ایک چھوٹے بیڈ کے ساتھ نظر آیا۔ میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔

’’پانی‘‘

میرے خشک ہونٹوں سے نکلا۔ خاتون نے بھاگ کر سامنے کھُلے باتھ روم کی ٹونٹی سے گلاس بھرا۔

میں نے پھر رونکّھی آواز میں چلّا کر کہا تھا۔

’’مجھے یہ نہیں پینا۔ منرل واٹر چاہیے۔‘‘

کِسی طلسماتی جن کی طرح بوتل آ گئی۔ دو گلاس پانی پینے، ذرا حواس بحال ہونے اور حبیب کے تسلی بھرے الفاظ نے مجھے پاسپورٹ اور 93 یورو اس خاتون کے حوالے کرنے کو کہا جو میرے سر پر کسی دیو کی طرح کھڑی پاسپورٹ اور رقم کا مطالبہ کرتی تھی۔

میں نے بیگ سے پچاس یورو کے دو نوٹ اور پاسپورٹ نکالا۔ اُسے دیا۔ صرف پانچ منٹ بعد ایک رسید، پاسپورٹ، سات یورو سب مجھے تھما دئیے گئے۔ یقیناً تین یورو بوتل کے کاٹے ہوں گے۔

سات یورو کے سکّے میں نے فوراً حبیب الرحمن کی ہتھیلی پر رکھ دئیے۔ چابیاں، کمرے کو بند کرنے کا طریقہاُس نے مجھے سمجھایا۔ ایک بار پھر میری تسلی کی۔

ان کے جانے کے بعد میں نے فوراً دروازے کو لاک کیا۔ دو گلاس پانی کے اور چڑھائے۔ بستر پر لیٹ کر خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی۔ میں اپنے بلڈ پریشر سے خوف زدہ تھی۔ پھر اٹھی۔ چھوٹی سی خوبصورت چوبی شیشوں والی کھڑکی کھولی۔ نیچے نظر ڈالی۔ لوگ جیسے پانی کے ریلے کی طرح ہجوم میں بہہ رہے تھے۔ اپنے وجود کو کھڑکی میں جھُکاتے ہوئے میں نے دائیں طرف نگاہ کی۔ دھوپ میں چمکتا پل نظر آیا۔ نہر کی جھلک دکھائی دی۔ سامنے کی بلند و بالا عمارتیں ایسی ہی بند کھڑکیوں سے سجی لشکارے مارتی تھیں۔

میں دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ حبیب الرحمن کا دیا ہوا کارڈ اٹھایا۔ انگریزی میں چھپے کارڈ سے میں سب جان گئی تھی۔ وہ پورٹر تھے۔ چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کی ایجنٹی کرتے تھے۔ یہ ڈربا نما جگہ ہر گز ہرگز نوّے یورو کی نہیں تھی مگر اُس نے مجھے پھانس لیا تھا۔

ایک گہری اطمینان سے بھری سانس میرے اندر سے نکلی۔ یہاں کوئی ڈرڈُکر نہیں۔ شہر کا مصروف ترین مرکز ہے۔

’’دفع کرو۔ اٹھو، نکلو، لوگوں سے ملو، کروز کی سیر کرو، شہر کے بارے جانو۔‘‘

میں نے دودھ کی ساری بوتل خالی کر دی۔ منہ ہاتھ دھو، بالوں میں کنگھی چلا، ہونٹوں پر لپ اسٹک سجا کر نیچے اُتر آئی تھی۔ اسٹیشن پراُسی جگہ اب صرف بدیع العالم بیٹھا ہوا تھا۔ میں سیدھی اُسی کے پاس چلی گئی تھی۔ خوش ہوا دیکھ کر۔ میں نے اپنی حماقتوں بابت کوئی بات کرنی پسند نہ کی۔

بدیع العالم عرصہ بیس سال سے یہاں تھا۔ ابتدائی دو تین سال سسِلی میں گزارے پھر وینس آ گیا۔ تو کچھ اُس کے حالات اور کام کاج کے بارے جاننے پر پتہ چلا کہ ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی کا حصّہ دار ہے جس کے گھر کا وہ ملازم ہے۔ فیملی بہت اچھی اور خیال رکھنے والی ہے۔ مورینوMuranoمیں اُن کا محل نما گھر ہے۔ خاندان آجکل جنوبی افریقہ سیر سپاٹے کیلئے گیا ہوا ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔

’’لوگ تو ان کے گھر آتے ہیں۔ اور یہ آگے سدھارے ہوئے ہیں۔‘‘

’’ارے بھئی اپنی مرغی تو دال برابر ہوتی ہے نا۔ یوں بھی خاندان وینس سے عاجز آیا پڑا ہے۔ بچے تو سارے نیویارک میں ہیں۔ کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔ یہاں تو میاں بیوی ہیں۔‘‘

میں نے حیرت سے دیکھا اور وجہ پُوچھی۔

یہ بات میں نہیں یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ وینس ایک مرتا ہوا شہر ہے۔ 62000آبادی والا جو تیس سال قبل تھی۔ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ آج بھی وہی ہے۔ لوگ اب ہر سال سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں دوسرے ملکوں میں نقل مکانی کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کی اکثریت یہاں رہ رہی ہے وہ کون ہیں؟ بوڑھے پچپن 55ساٹھ سال یا اس سے ذرا اوپر کے لوگ۔

میں نے حیرت، دُکھ اور تاسف سے یہ سب سنا اور سوال کیا۔

’’اللہ اتنا خوبصورت شہر تاریخ اور تہذیب سے لبالب بھرا آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

بدیع العالم نارمل سے لہجے میں بولا۔

’’یہاں رہائشی گھر بہت چھوٹے ہیں اور وہ کتنے مہنگے ہیں اس چھوٹی سی مثال سے سمجھ لینا کہ ایک ہزار مربع فٹ جگہ تقریباً ایک ملین ڈالر کی بکتی ہے۔ حبس بہت ہوتا ہے۔ سیلاب تو خیر معمول کی بات ہے۔ یہ کوئی سال میں ایک آدھ بار نہیں بلکہ اکثر و بیشتر آتے رہتے ہیں۔ وجہ ان کی لہریں نہیں ہوتیں بلکہ وہ طوفانی ہوائیں ہیں جو بالعموم جنوبی علاقوں یعنی مصر وغیرہ سے اٹھتی ہیں۔ اِس سے نقصان اور املاک کی جو شکت و ریخت ہوتی ہے اس کا حال احوال بھی                                         خاصا بُرا ہے۔ اس کا زیادہ نشانہ سینٹ مارک سکوائر اور چرچ بنتا ہے۔ مگر باقی جگہیں بھی بہت متاثر ہوتی ہیں۔ اب تو خیر سے اسے خاصا اونچا کر دیا ہے مگر پھر بھی جیت تو ہمیشہ پانی ہی کی ہوتی ہے۔

’’حکومت کا اِس ضمن میں کیا کردار ہے؟ میرے تو سُننے میں آیا ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے معاملے میں بھی بڑی دلچسپی رکھتی ہے۔‘‘

گورنمنٹ کو اِس تاریخی ورثے کو سنبھالنے کا خبط پڑا ہوا ہے۔ کیونکہ وہ اِس قیمتی اثاثے کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ ہمہ وقت قانون اور اس کے ضوابط۔ مالکوں کی ملکیت ہوتے ہوئے بھی اُن کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں۔ کہیں عمارت میں کوئی ردّ و بدل کرنی ہو۔ درخواست حکومتی لال فیتے کی نذر ہو جاتی ہے۔ ہر چیز مہنگی ہے کیونکہ ترسیل کا ذریعہ خشکی نہیں جہاز ہیں۔ یہ نہیں کہ حکومت کچھ نہیں کرتی ہے۔ کرتی ہے مگر پھر بھی مقامی لوگوں سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔‘‘

یہ کہنے پر کہ مجھے کیا کیا دیکھنا چاہیے؟ اور ساتھ ہی بیگ سے کتاب نکال کر نقشے کھولتے ہوئے کہا کہ راہنمائی بھی کر دیجئیے جگہوں کی۔‘‘

بدیع عالم نے نقشے اور میری کتاب کو بند کرتے ہوئے کہا۔

’’یہاں اتنی تاریخ ہے کہ اینٹ اٹھاؤ گی تو نیچے سے پوری کتاب نکلے گی۔ اتنے گرجے، اتنے محل، آرٹ سے بھرے عجائب گھر، ان کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ کے پلندے۔ ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی تو آپ کو دو دن میں کیا پتہ چلے گا؟ بس یوں کیجئیے چند موٹی اور قابل ذکر جگہیں دیکھ لیں۔ سینٹ سکوائر دیکھنا ہے۔ وہاں اتنا کچھ ہے کہ چار پانچ گھنٹے گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ ویپوریٹو کا آخری سٹاپ ہے۔ ساتھ ساتھ جڑے ہوئے چرچ، محل، بیل ٹاور، میوزیم۔ برج Rialto مگر وہاں آجکل مرمت ہو رہی ہے۔ اور ہاں اکیڈیمہ Academia بھی ضرور جانا۔ یہی سب بہت کافی ہے۔ زیادہ چکروں میں پڑو گی تو اُلجھ جاؤ گی اور کسی سے لطف اندوز نہ ہو سکو گی۔‘‘

وینس مچھلی جیسی صورت لئیے ہوئے ہے۔ شہر کی ساری اہم شاہراہیں نہریں ہیں جو انسانی جسم کی رگوں کی طرح شہر کے وجود میں خون کی طرح دوڑتی پھرتی ہیں۔ گرینڈ کینال وینس کی مرکزی شاہراہ ہے۔ یہ تقریباً دو میل لمبی 150 فٹ چوڑی اور کوئی پندرہ فٹ گہری ہے۔ یہ وہ نہر ہے جس کے ساتھ وینس کے تمام مشہور آرٹ اور تعمیراتی شاہکار کے حامل محلات جڑے ہوئے ہیں۔ کہہ لیجیے کہ یہ نہر دریا کا ایک ٹکڑا ہے۔ وینس ڈیلٹاؤں کی دلدلی زمینوں پر تعمیر ہوا شہر ہے جس کے محل مینارے اُن زمانوں کی یادگاریں ہیں جب یہ دنیا کا سب سے امیر ترین شہر سمجھا جاتا تھا۔

اُف بدیع عالم کی یہ بات مجھے اٹھا کر میرے بچپن کے اُن سنہری دنوں میں لے گئی تھی۔ جب شام ڈھلتے ہی میں بازار کی طرف بھاگتی۔ دس صفحات پر مشتمل کتابی کہانیاں کرایے پر لے کر آتی جن کے امیر کبیر سوداگر اِسی پانیوں والے شہر وینس کے ہی ہوتے تھے۔

وینس کے اصلی باشندے اس کے ماہی گیر، نمک بنانے والے کارکن جو دنیا کی طاقتور ترین رومن سلطنت کے بادشاہوں سے جڑے ہوئے تھے۔ وینس تب بھی امیر لوگوں کا تفریحی مقام تھا۔ اور جب رومن سلطنت وحشی بربروں کا نشانہ بنی تو پناہ گزینوں نے اسی شہر کے دامن میں پناہ لی۔ ان سب نے اِس شہر کو ثقافتی اور تہذیبی لحاظ سے امیر ترین کیا۔

وینس جگمگاتے رنگوں کا شہر ہے۔ کروز میں بیٹھ کر صدیوں پہلے کے اِن عالیشان محلات کے در و دیواروں کو پانی سے اٹھکیلیاں کرتے دیکھنا کس قدر لطف بھرا کام تھا۔ سانتا لوسیا ٹرین اسٹیشن گویا ایک طرح وینس کے اندر داخلے کا گیٹ وے تھا۔ بہت خوبصورت ماڈرن عمارت جس کی سیڑھیوں پر میں جب سے آئی ہوں تین بار آ کر بیٹھ چکی ہوں۔

میں نے ٹکٹ سینٹ مارک سکوائر کا لیا۔ کروز پر بیٹھی۔ اس بار نہ گھبراہٹ تھی، نہ پریشانی۔ بہت پرسکون۔ مزے سے فضاؤں کو دیکھتی، ہواؤں میں سانس لیتی، اوپر والے کا شکر ادا کرتی۔ سٹاپ آتے۔ آبی بس کے رکنے اور لوگوں کے اُترنے چڑھنے کے سلسلے پہلے ہی طرح جاری تھے۔

اس وقت دھوپ میں تیزی تھی۔ پانیوں پر سورج کی کرنیں نقش و نگار بناتی تھیں۔ سٹاپوں کے حُسن آنکھوں میں تعجب، پسندیدگی اور حیرت کے جذبات بھرتے تھے۔ انتہائی آراستہ پیراستہ محلات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے اسی طرح ایستادہ ہیں جیسے کِسی خوبصورت گیت کے بول بہت سے گلوکاروں کے ہونٹوں سے ایک ساتھ نکل کر فضا میں بکھر کر ایک موہ لینے والا تاثر بکھیر دیں۔ عمارتوں کے وجود پر پھیلی نیلے، پیلے، سرخ، قرمزی رنگوں کی برسات پھوار کی طرح برستی آنکھوں کے راستے جذبات کو بھگوتی چلی جاتی ہے۔

اُف ناموں میں بڑی گڑ بڑ تھی۔ نقشے پر کچھ تھے جس کا اعلان ہوتا تھا اور جو لوگوں سے پوچھتی تھی۔ وہ کچھ اور ہوتے۔ میرا خیال ہے خود میں اُلجھی ہوئی تھی۔ اور یہ سب میری موٹی عقل میں نہیں آ رہے تھے۔

Rialto Bridgeنے پوری طرح اپنے حصار میں لیا۔ ایسا پر رونق، ایسا رنگیلا، ایسا حسین کہ آنکھیں چمکتی تھیں۔ بندہ کِس کِس کی تعریف کرے۔ اُس کی خوبصورت عمارتوں، اُن پر چمکتے ہلکے اور گہرے رنگوں، عمارتوں کی برجیوں، گرجا گھروں کے میناروں، کہیں ڈھلانی چھتوں، کہیں محرابی لمبوتری کھڑکیوں، پل پر سے جھانکتے لوگوں کے پُروں۔

وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے دل میں پختہ فیصلہ کیا کہ مجھے چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر یہاں آنا ہے۔ سٹاپ گزر رہے تھے۔

آبی بس دھیرے دھیرے سینٹ سکوائر کی جیٹی کی طرف بڑھتی ہے۔ ایک طرف وسیع سمندر کے پانیوں کے لشکارے ہیں۔ حُسن و رعنائیوں سے بھرے اڑتے پھرتے منظر ایک کے بعد ایک نگاہوں میں سما رہے تھے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے نظاروں کی بہتات سراسمیہ کرنے والی ہے۔ میں انہیں گرفت میں لینے کی کوشش میں ہپوہان سی ہو رہی تھی۔ جیٹی پر اُتر کر تیزی سے سامنے شاندار سکوائر کی طرف بڑھتے ہجوم کی میں نے پرواہ نہیں کی۔ میں اپنی آنکھوں میں، اپنے کیمرے میں اپنے اردگرد پھیلے اِن منظروں کو سمونے کی خواہش مند تھی۔

میں کھڑی تھی۔ گرد و پیش کو دیکھتی تھی۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ جیسے بلند و بالا کالم پر ٹکا سینٹ تھیوڈور وینس کے پہلے سرپرست نے مجھے خوش آمدید کہا ہے۔ محبت بھرے لہجے میں شکوہ کرتے ہوئے گویا ہوا ہے۔

’’وینس تو تمہارا زمانوں سے انتظار کر رہا تھا۔ کب آئی ہو؟‘‘

اپنی جذباتیت پر آنکھوں میں نمی اُتر آئی تھی۔ کاش یہ منظر کہیں جوانی میں نصیب ہو جاتا۔

دوسرے کالم کی چوٹی پر بیٹھے شیر کو دیکھا۔ شیر ببر اپنے ملک کا شیر یاد آیا تھا۔ چودھویں صدی کے اِن مجسمہ سازوں کو سلام کیا۔ چمکتی دھوپ جس کی تیزی کو پانیوں سے آتی ہوائیں مار رہی تھیں۔

لوگوں کے پُرے جو شیڈوں کے نیچے کرسیوں پر بیٹھے گپیں لگانے اور کھانے پینے میں مصروف تھے نے توجہ کھینچی۔ وینس کے خصوصی گوتھک سٹائل کے ڈوگی Doge’s پیلس اپنی انفرادیت اور تاریخ کے سارے رنگوں کے ساتھ سامنے تھا۔ جب چلنے لگی تو آگے آگے قدم بڑھانے لگا۔ حال کچھ ایلس ان ونڈر ینڈ کی طرح تھا۔ میرے اوپر بھی نئے نئے جہاں وا ہو رہے تھے۔

تو پھر وہاں پہنچی اور اُس سکوائر کو مشتاق نظروں سے دیکھا جسے دنیا کا لاؤنج کہا گیا ہے۔ ہمارے سطح مرتفع پامیر کی طرح جو دنیا کی چھت کہلاتا ہے۔ مستطیل صورت کا جو رنگا رنگ انسانوں، کبوتروں، اطراف کی شاندار عمارتوں اور سان مراکو San Marco چرچ سے بھرا پڑا تھا۔ چرچ کے سامنے بنے بڑھاوے میں سے ایک کے کشادہ پوڈے پر بیٹھ گئی اور خاموش نظروں سے ماحول کے حسن سے لطف اندوز ہونے لگی۔ چلبلے سیاح کبوتروں کے ساتھ کیا کیا کھیل تماشے کر رہے تھے؟

وینس زندگی میں ہمیشہ سے ایک خواب کی طرح رہا۔ آج اِس کی تعبیر دیکھتی تھی اور اوپر والے کی ممنون تھی۔ کتنی دیر گزر گئی۔ میں نظاروں کی، اپنے اندر کے جذبوں کی، مے پیتی رہی، خوش ہوتی رہی۔ مجھے جلدی نہیں تھی۔ دیر بعد اٹھی اور خود سے بولی۔

’’میں کیا کھاؤں؟ اتنے شاندار ریسٹورنٹ اور خوشبوئیں اڑاتے کھانے۔ چکر لگایا۔ شوکیسوں میں جھانکا۔ میزوں پر پڑے کھانوں پر نظر ڈالی۔ میں بڑی لبرل قسم کی مسلمان ہوں۔ مگر کچھ رکھ رکھاؤ اور دل کو بھاتی پابندیوں کو خود پر لاگو کرنے سے دلی تسکین محسوس کرتی ہوں۔ کاک ٹیل فروٹ سلاد لیا، دودھ لیا، پانی لیا، چکن سموسہ لیا۔ بس ایسا ہی ڈھیر سا لے کر باہر آ گئی۔

اب کیا کہوں کہ رنگا رنگ لوگوں کو اپنی ترنگ میں موج میلے کرتے دیکھنا اور ساتھ ساتھ کھانے پینے کا شغل کرنا مجھے ہی دلچسپ لگتا ہے یا لوگ بھی ایسا کرنے میں لُطف اُٹھاتے ہیں۔ گھنٹہ بھر اِس شغل سے منہ ماری کرنے کے بعد گاڈ کا گھر دیکھنے کھڑی ہوئی۔

سینٹ مارکو کے نام پر وقف کیے جانے والا یہ چرچ 828میں تعمیر ہوا۔ مجھے خوشی ہوئی تھی ایک تو یہاں ٹکٹ نہیں تھا دوسرے رومن کیتھولک چرچ کی لباس بارے جو اخلاقیات ابھی بھی قائم ہیں اُن کی یہاں بھی پابندی تھی۔ مجال نہیں کہ کوئی چھ سات سال کا بچہ یا بچی ننگے بازوؤں والی ٹی شرٹ، کسی ٹاپ یا شورٹس پہنے اندر داخل ہو۔

گرجا گھر کا موجودہ نام اس واقعے نے دیا جو تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ مگر کتنا سچا اور کتنا جھوٹا ہے اس کی وضاحت نہیں۔ وینس کے دو تاجر ٹریبیونTribune اور رسٹیکو Rustico اسکندریہ میں تھے۔ جب مصر کے حکمران خلیفہ نے اسکندریہ کے گرجا گھر کو لوٹنے کا حکم دیا۔ دونوں تاجروں نے فوراً سینٹ مارک کا جسد خاکی لکڑی کے صندوق میں ڈالا اور اُسے سور کے ٹکڑوں سے ڈھانپا اور وینس لے آئے۔ وینس والوں نے بڑی محبت اور تکریم سے اسمیں دفنایا اور اسے یہ نام دیا۔

نویں صدی میں یہ چھوٹا سا میدان تھا جسمیں چھدرے چھدرے درخت تھے۔ اس کا یہ شان و شوکت اور رعب و دب والا چرچ تب Dohzh ڈوز حکمرانوں اور محل والوں کا گرجا گھر تھا۔

یہ بازنطینی سٹائل کے ساتھ ساتھ مشرقی اور مغربی طرز تعمیر کی سب خوبصورتیوں کی آمیزش سے مزین ہے۔ اس کا ایک نام "سونے کا چرچ” بھی تھا۔

اور جب میں اس کی اندرونی حصّوں کی محراب در محراب دیواروں اور چھتوں پر گردن اٹھا اٹھا کر آرٹ کے بکھرے شاہکاروں کو دیکھتی اور گنگ سی خود کو کِسی ایسی دنیا میں محسوس کرتی تھی جس پر مجھے حقیقت کا نہیں کِسی خواب کا سا گمان گزرے۔

سچی بات ہے اپنی کم علمی کا کھلے دل سے اعتراف ہے کہ میں تو اُن ہستیوں سے بھی ناواقف تھی جن کی مذہبی حوالوں سے بے حد اہمیت تھی اور وہ یہاں جلوہ افروز تھے۔ میرے تو دامن دل کو کھینچنے والا وہ آرٹ تھا۔ جو یہاں محرابی صورت والی گزر گاہوں، دیواروں اور چھتوں پر بکھرا ہوا تھا۔ رنگوں کی خوبصورت آمیزش متاثر کن تھی۔ مجسمے قدموں کو روکتے اور کہتے تھے کہ کھڑے ہو کر اُن سنگ تراشوں کو خراج عقیدت پیش کرتی جاؤ جنہوں نے یہ بنائے ہیں۔ تفصیلات تو یقیناً تنی ثقیل اور بوجھل ہیں کہ قاری کے پلّے پڑنے والی نہیں۔

ہاں اعتراف کرنے دیں کہ جس شاہکار پینٹنگ نے میرے دل و دماغ کو قابو کیا وہ وینس کے اُن ماہی گیروں کی تھی جو وہ عجیب و غریب صندوق کھولے بیٹھے تھے۔ جسمیں سینٹ مارک کا مردہ جسم اسکندریہ سے آیا تھا۔ وینس کے لوگوں کے لباس، ان کے چہروں پر بکھرے دُکھ اور کرب کے تاثرات کی ایسی دلآویز عکاسی تھی کہ جسنے مجھے دیر تک وہاں سے ہلنے نہ دیا۔ دوسرا موہ لینے والا شاہکار میری (مریم)کا تھا جو یقیناً میری بھی ہے۔

پاس ہی ٹاور ہے۔ اس کے ساتھ پرانے دفاتر کی عمارات کا لمبا سلسلہ ہے۔

چرچ کے ایک طرف سینٹ مارکو کے بیل ٹاور کی بڑی کلاسیکل قسم کی عمارت ہے۔ نشاۃ ثانیہ دور کی عمارتوں کی ایک خصوصیت ان کے مرکزی ٹاور کا ہونا ہے۔ یہ کوئی 1496 – 99 کی یادگار ہے۔ اس کی چھت پر آ ہنی جنگلے کے اندر نصب ایک دیو ہیکل قسم کی گھنٹی کو وینس کے ابتدائی دور کے دو قوی الجثہ کانسی کے مجسمے ایک بوڑھا اور دوسرا جوان گڈریے کے لباس میں ہر گھنٹہ بعد اپنے ہاتھوں میں پکڑے آ ہنی گزر سے بجاتے اور سکوائر میں ایک فسوں خیز سی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ اوپر کے طواف سے نظریں پھسلتی پھسلتی نیچے اتریں اور دوسرے شاہکار پر رُک گئیں۔

یہاں پروں والا شیر کھلی کتاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ کہتے ہیں پہلے یہاں Dohzh خاندان کے ایک ڈیوک Agostino کا مجسمہ تھا جو شیر کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا۔ جب نپولین نے شہر پر قبضہ کیا تو آگسٹینو کا بُت تو فوراً ہٹا دیا۔

شاید نہیں یقیناً یہ فاتح لوگوں کی نفسیات ہوتی ہے کہ پرانی یادیں اور پرانے نقش مٹا دو۔ ہاں اب شیر اور کتاب موجود ہیں۔ اِن دونوں کی کیا فلاسفی ہے؟ اس کا علم نہیں ہوا۔ اس سے ذرا نیچے کنواری مریم اور بچہ ہے۔ اور پھر وہ کلاک ہے۔ دنیا کا پہلا ڈیجیٹل کلاک۔ اس کی بھی خاصی تفصیلات ہیں۔

اس کے محرابی مرکزی گلیارے نما داخلی دروازے سے میں نے اندر داخل ہو کر لوگوں کو پاگلوں کی طرح خریداری کرتے دیکھا۔ میں نے یہ مہم جوئی نہیں کی۔ جوتیوں کی خوبصورت دکانوں نے مجھے ضرور ترغیب دی اور میں ان کے اندر گئی بھی۔ مگر چار فٹ گیارہ انچ والی میری قامت کے پاؤں بونوں جیسے ہیں۔ اچھے خوبصورت ڈیزائن بڑے سائزوں میں تھے۔

در اصل میری آٹھ سالہ پوتی کی جوتی اب میرے پاؤں میں فٹ آنے لگی ہے۔ پنجابی زبان کی کہاوت کے مطابق وہ تو "دیہاڑی کا گٹھ وار”کے حساب سے بڑھ رہی ہے۔ اس کی ماں کی چاؤ سے خریدی اُس کی ڈھیروں ڈھیر جوتیوں کا کیا بنے گا؟

جو میرے حساب کتاب میں آئیں گی وہ میں نے ہی پہننی ہیں تو اب جوتیوں کے ہار تو نہیں بنانے نا۔ سچی بات ہے یوں دل تو میرا بڑا للچایا تھا۔ مگر مصیبت یہاں ایک اور بھی ہے کہ لنڈے سے عشق کرنے والوں کے نصیب میں اترن لکھ دی جاتی ہے۔ اب پچیس تیس یورو کی جوتی مہنگی ہی لگنی ہے جب کہ ساری دیہاڑی گل کر کے ڈیڑھ دو سو کا شاندار پیس جوتوں کے ڈھیروں میں سے ڈھونڈ نکالنا مسئلہ نہ ہو بلکہ مشغلہ ہو۔ گھر لا کر اُسے مسلمان کرنے کیلئے پاک صاف کرنا کہ آخر وہ اُترن تو موئی کافرنیوں کی ہیں۔ دو تین دن پاؤں میں پہن پہن کر اس کا تنقیدی جائزہ لینا بذات خود دلچسپ اور دل کا رانجھا راضی کرنے والا شغل ہے۔ تو بھئی اِس شغل سے محرومی تو بڑی کھِلتی ہے نا۔

یہی بازار آگے چل کر Rialto برج سے جا جڑتا ہے۔ یہ بھی کوئی 1496کے لگ بھگ اسی دور کی تعمیر ہے۔ بلند و بالا بے حد خوبصورت کلاک ٹاور سکوائر کی شان بڑھاتا ہے۔

کاش مجھے تھوڑی سی عقل ہوتی۔ میں تھوڑی سی منصوبہ بندی سے کام لیتی۔ چلنے سے قبل ینٹ پر بیٹھتی اور جانتی کہ Ca’d’ora کی گلیوں سے Rialto برج تک اور وہاں سے آگے بیچ بیچ کی گلیوں سے سینٹ مارک سکوائرتک پہنچا جا سکتا تھا۔ پیسے کا ضیاع ایک طرف اور وقت کا ضیاع دوسری طرف۔ مگر اب ہو کیا سکتا تھا۔ افسوس کف افسوس اور اپنی نالائقیوں پر لعن طعن۔ رونقوں سے لُطف اٹھاتے، نظاروں سے ملتے ملاتے۔ چلو خیر اب ایسی حماقتیں بھی تو سفر کا لازمی جز ہیں۔

مجھے واش روم کی حاجت تھی۔ شکر ہے کہ وہ وہیں سکوائر میں ہی تھا۔

dohzhپیلس کا بھی دیکھنے سے تعلق تھا۔ وینس کا یہ مخصوص گوتھک سٹائل کا حکمران، خاندان کا رہائشی محل تھا۔ اس وقت وینس کا لینڈ مارک اور اس کے بہترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ چودھویں اور پندرھویں صدی کا شاہکار وقت کے حکمران خاندان کی بے تحاشا دولت اور شان و شوکت کا مظہر۔

سچ تو یہ ہے کہ آنکھیں پھٹ پھٹ جاتی تھیں۔ صحن میں داخل ہوتے ہی عمارتی حسن اور اس کی کندہ کاریوں کے جو جلوے نظر آتے ہیں وہ آپ کو مبہوت کرتے ہیں۔ کمروں کی دیواروں اور چھتوں پر شاہکار بنائے گئے ہیں وہ ہلنے نہیں دیتے۔ فنکاروں نے رنگوں اور برش سے وہ حُسن بکھیرا ہے کہ بندہ تو گم سُم خدا کی اِس تخلیق نام جس کا انسان ہے کی مہارت پر عش عش کر اٹھتا ہے۔ ہر کمرہ منفرد، ہر دیوار، ہر چھت رنگوں اور نئے افسانوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ بس چند ہی دیکھے۔

ابھی تو شکر ہے کہ مسافروں کے آرام کا خصوصی خیال رکھا گیا ہے کہ جگہ جگہ خوبصورت بینچ دھرے ہیں۔ بیٹھو اُن پر اور سینکو اپنی آنکھیں اُن شاہکاروں سے۔ کتنے تو نام تھے۔ پنک ہاؤس، شادی کا کیک۔ یہ گوتھک سٹائل کا نمائندہ ہونے کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں اسلامی طرز تعمیر کی جھلکیاں بھی منعکس کرتا ہے کہ اِن ڈیوک کے تعلقات عثمانیہ حکمرانوں کے ساتھ گہرے تھے۔ عثمانی سلطنت کی بحری فوج اور طاقت بھی اپنے عروج پر تھی۔ تعلقات اور دشمنیاں دونوں چلتی تھیں۔ اِسے دیکھ کر مجھے استنبول کے محل یاد آئے تھے۔ روس کا ونٹر پیلس یاد آیا تھا۔ مگر نہیں اِس جیسے شاہکار وہ ہرگز نہ تھے۔ میرا دل نکلنے پر مائل نہ تھا مگر مجھے اپنی اور اپنی آنکھوں کی سلامتی درکار تھی۔

میں تھک کر بیٹھ گئی تھی۔ دھوپ کی شوخی اب دھیرے دھیرے ماند پڑنے لگی تھی۔ پانچ بج رہے تھے۔ بس میں نے سوچا میں یہاں بیٹھ کر سکوائر کے نظارے لوٹوں گی۔ اِن دو رویہ عظیم الشان عمارتوں کے سلسلوں کو اور لوگوں کو دیکھنا کونسا کم دلچسپ کام تھا۔

پھر یوں ہوا کہ ایک فیملی میرے قریب آ کر بیٹھ گئی۔ لباس تو پاکستانی نہ تھا مگر زبان ضرور اپنی تھی۔ جونہی معلوم ہوا جیسے سارا سکوائر اپنایت کی خوشبو سے بھر گیا۔ گھر کا سربراہ افضال احمد کوئی پچیس سال پہلے پاکستان سے آیا تھا۔ اس وقت صرف میٹرک تھا اب مکینیکل انجینئیرنگ کا اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت شاندار پوسٹ پر بیٹھا تھا۔ وینس اس کا پسندیدہ شہر ہے۔ اگست کا مہینہ چھٹیوں کا ہوتا ہے۔ دو بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ سیر کیلئے آیا ہوا تھا۔ میں نے اُن کا نمبر اور انہوں نے میرا نمبر لیا۔ یہ لوگ یہیں سینٹ مارک سکوائر کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔

جیسے جیسے شام اپنے رنگ گہرے کر رہی تھی۔ توں توں سکوائر کی رونقوں میں تیزی آ رہی تھی۔ مختلف ریسٹورنٹوں کے سامنے خوب گہما گہمی تھی۔ میز کرسیاں سیٹ کئیے جا رہے تھے۔ آرکیسٹرا کا اہتمام ہو رہا تھا۔

یہ تو مجھے افضال احمد سے پتہ چلا تھا کہ سکوائر کا کیفے فلورئین Caffe Florian بے حد تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ لارڈ بائرن، چارلس ڈکنزDickens اور Woody Allen جیسی ہستیوں نے وہاں کافی پی تھی۔ میوزک سے لُطف اندوز ہوئے تھے۔

میرا بھی جی چاہا تھا کہ رخصت ہونے سے قبل اُس کیفے کا چکر لگاؤں گی۔ مگر سارا جوش و ولولہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا کہ جب پتہ چلا کہ باہر بیٹھ کر کافی کا کپ پینے اور میوزک سننے کا مطلب تیس یورو کی قربانی ہے۔

’’ تو بھئی یہ تو بڑا مہنگا سودا ہے۔ لعنت بھیجو۔‘‘ بس یہ بات چپکے سے اپنے دل میں کہا۔

عجیب سی بات ہے میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اُس بھریے میلے سے نکلوں مگر واپسی بھی لَولَو میں کرنا چاہتی تھی۔ خاندان سے اجازت لی۔ واپسی کا ٹکٹ لیا۔ اب ہم اناڑیوں کو تو بہت سی باتوں کا پتہ نہیں تھا کہ پاس لیا جائے تو بہت بچت ہو جاتی ہے۔

چلو خیر۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب 6: گریمیا سکوائر، وینس کی گلیاں، اکیڈیمیہ آرٹ کا گھر، موت کا سامنا

 

* چاند رات، گنڈولا، ساتھی اور وینس کا شہرہ آفاق گیت سُننے کو مل جائے تو زندگی کے وہ لمحے قابل ذکر بن جاتے ہیں۔

* بنگلہ دیشی وینس کے گلی کوچوں، چوراہوں اور راستوں پر جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔

* اکیڈیمیہ وینس کا وہ آرٹ گھر ہے جس پر اٹلی کیا پوری دنیا فخر کر سکتی ہے۔

* جلد بازی اور پھرتیاں موت کو کیسے سامنے لے آتی ہیں۔

 

 

اسٹیشن پر اُتری تو سورج ڈھلنے والا تھا اور چہار سو ہر منظر سونے میں نہا رہا تھا۔ چائے کی بڑی طلب تھی۔ ہوٹل بارے ذرا سی بھی پریشانی نہیں تھی کہ راستہ سیدھا اور نزدیک تھا۔ مگر کیسی عجیب بات تھی کہ جس میدان میں سے دوپہر کو میں گزری تھی۔ اب کھڑی تو یقیناً اُسی میں تھی مگر کُنگ سی۔ یہاں، وہاں، دائیں، بائیں بڑا کلاسیکل قسم کا حسن بکھرا دیکھتی تھی۔ جواس کی بلند و بالا دیواروں اور اس کے ماحول سے پھوٹ پھوٹ کر باہر آ رہا تھا۔ اس میں مخصوص مشرقیت والی مانوسیت کی گہری جھلک تھی۔

کونے میں بنگالی لڑکے چہلیں کر رہے تھے کہ ساتھ میں ان کے کوکھے تھے۔ ایک کوکھے کے پیچھے بیٹھی بیوی چھوٹے بچے کی نیپی بدل رہی تھی۔ اب میں ان کے پاس جا کر باتیں کرنے لگی۔ ایک لڑکے نے گرم گرم سموسہ مجھے پکڑاتے ہوئے کہا۔

’’سنگھاڑا(بنگالی میں سموسہ) کھائیے۔ بنگلہ دیش کو یاد کیجئیے جب آپ وہاں سنگھاڑے کھاتی تھیں۔‘‘

ہائے ظالم نے کیا کیا یاد دلا دیا۔ وہ رقیہ ہال، اس کی وہ ہال نما کنٹین، کاؤنٹر پر کھڑا وہ مہربان بوڑھا آدمی اور وہ اس کا چُلبلاسا ملازم چھوکرہ جو مجھ سے چھ اور گیارہ نکات پر زور و شور سے بحث کیا کرتا تھا۔ بنگلہ دیش کے ذکر پر ہمیشہ میری آنکھیں گیلی ہو جاتی تھیں۔

’’ارے تم لوگ کہاں کہاں سے ہو؟ اور یہ کہ کوکھے تمہارے اپنے ہیں یا تم اُن پر ملازم ہو۔‘‘

تھوڑی دیر ان کے ساتھ گپ شپ کی۔ کوئی میمن سنگھ سے تھا تو کوئی باریسال سے۔ یہ خوشی کی بات تھی کہ کوکھے چھوڑ اکثر کی تو دکانیں بھی اپنی تھیں۔

بعض بیویاں بھی ساتھ لائے ہوئے تھے۔ پڑھی لکھی انگریزی بولتیں۔ ان سبھوں میں احتشام کی بیوی بنٹی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کی پوسٹ گریجوایٹ جو شاعرہ تھی، بہت اچھی گلو کارہ تھی۔ اطالوی زبان فراٹے سے بولتی تھی۔ شوہر سے زیادہ تیز اور فعال تھی۔ میرے پوچھنے پر کہ مجھے کِس چیز کو بطور خاص دیکھنا چاہیے۔ اُس نے میری عمر کا لحاظ رکھے بغیر آنکھیں نچائیں۔

گنڈولا کی رات کی سیر کہ بھلا وینس سے ملاقات مکمل کیسے ہو سکتی ہے؟ ہوہی نہیں سکتی۔ روایتی مگر رومانی خواہشوں اور خوشیوں کی عکاس۔ ہاں مگر کتنے افسوس کی بات ہے۔ کہ راتیں تو چاندنی نہیں اور آپ اکیلی ہیں۔ اب بھلا جب راتیں اندھیری ہوں اور بندہ بھی اکیلا اور ہو بھی آپ جیسا۔ تو پھر گیارہ بجے کے بعد سو جانا بہتر ہوتا ہے۔

میں ہنسی تھی۔ اس کی باتوں میں لُطف تھا۔ زندگی اور اس کا حسن تھا۔ شوخی اور چنچل پن تھا۔

’’بنٹی تصویر کھینچو میں لکھنے والی ہوں تصویروں سے لُطف اٹھانا جانتی ہوں۔‘‘

’’اب اگر چاندنی راتیں ہوں، آراستہ پیراستہ گنڈولا ہو، موسیقار بُک ہوں اور آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہوں اور وینس کے شہرہ آفاق گیت”venezia La Luna e Tu” اور "Sole Mio”فضاؤں میں بکھرے ہوئے ہوں تو ماحول کی خواب ناکیوں کا کیا کہنا؟

’’تصور کریں وہ منظر بصارتوں میں لائیں۔ پانی گنگناتے ہیں۔ پُلوں پر کھڑے جوڑے سیاہ ہیولوں کی صورت آپ کی بصارتوں کو قیاس اور واہموں کی پرکھ میں مبتلا کرتے ہیں۔ اور جب کھڑکیوں سے چھن چھن کرتی روشنیاں سیاہ پانیوں میں گرتے ہوئے اپنی صورتیں بناتی ہیں۔ اور گیت سمجھ نہ آنے کے باوجود آپ کے دل و دماغ میں ہلچل مچا دیں تو سمجھ لیں کہ وینس کی سیر مکمل ہو گئی ہے۔‘‘

میں نے بنٹی کو پیار کیا۔ اس سے رُخصت ہو کر میدان میں چلی آئی۔ یہاں پرانے قدرے سیاہی مائل بارشوں اور موسموں کے ستم خوردہ شکستہ سے چوبی بینچ پڑے تھے جن میں سے ایک پر جا کر بیٹھ گئی۔ مگر بیٹھنے سے قبل اپنے ویکیم کپ میں میدان کے ساتھ والی گلی میں کافی بار سے چائے لے آئی تھی۔ آتے آتے اپنے گھر کی تسلی کر آئی تھی۔ فروٹ والی بنگالی کی دکان کے ساتھ سیڑھیوں کو بھی چاتی(نظر) مار آئی تھی اور بے حد سکون میں تھی۔

’’اُف تو تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔‘‘

چائے کا چھوٹا سا گھونٹ جیسے جسم و جان کِسی انوکھی اور سرور آگیں لذت میں نہا گئے ہوں۔ گلاس کے افقی کناروں سے گریمیاGeremia سکوائر میں چوبی بینچ سامنے کوئی تین صدیاں پرانے سہ منزلہ لمبی مگر کم چوڑی کھڑکیوں اور بالکونیوں والے لیبیاLabia محل کو دیکھنا کیسا دلچسپ شغل تھا۔

ملحقہ San Geremia چرچ، اطراف میں گلیوں کے رنگ رنگیلے گھروں کے بنیروں پر آخری دھوپ کو خاموشیوں سے رخصت ہونے کا منظر بھی بڑا موہ لینے والا تھا۔ میدان میں بے نام پر مانوس سی اُداسی کے پھیلاؤ کو محسوس کرنے میں ایک انوکھے سے تجربے میں سے خود کو گزرتا محسوس کرنا بھی پر لُطف تھا۔ کبوتروں نے جانے کب اڈاریاں بھر لی تھیں معلوم ہی نہ ہوا تھا۔ کیسی مانوسیت ساتھ میں پردیسی تڑکا لگی رونق والا احساس سارے میں بکھرا ہوا تھا۔

اب نئے منظروں کی رومانیت نے ہاتھ تھام لیا تھا۔ ان سبھوں کی موجودگی میں تاریخ نے عقبی سمت گھسیٹا تھا۔ جہاں تصّور نے اِس محل کی امیر ترین اور خوبصورت شہزادیوں کو پچھلی سمت کی سیڑھیوں پر نہر کے پانیوں میں اٹھکیلیاں کرتے دیکھا تھا۔ محبتوں اور نفرتوں کی کہانیاں جو دکھوں اور خوشیوں کی رداؤں میں لپٹی ہوئی تھیں۔ محل کو دیکھنے کیلئے مخصوص دن ہیں، مخصوص اوقات ہیں۔

افسوس میں نے وینس میں نہیں ہونا اُن دنوں۔

ہوا اپنے دامنوں میں خوشبو بھرے دھیرے دھیرے میرے گالوں کو چھوتی سارے میں بکھر رہی ہے۔ ریسٹورنٹوں کے بیرونی پھیلاؤ والے سلسلوں پر تنے شیڈ اِن ہواؤں سے کھیلنے لگے ہیں۔ بڑی مدھر سی نغمگی سنائی دے رہی ہے۔ سکوائر میں چلتے پھرتے لوگ اور سرپر تنا مٹیالا رنگا آسمان سب کیسا سُرور اور کیف اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔

زندگی کتنی حسین اور ڈرامائی رنگ لئیے ہوئے ہے۔ میں اور یہ سب۔ جی چاہتا تھا نہ چائے ختم ہو، نہ اِن منظروں میں گھلا سرور۔

دیر تک، بہت دیر تک میں اِس قلعہ بند صحن میں جو اب تیز روشنیوں میں جگمگانے لگا تھا بیٹھی دیکھتی رہی، دیکھتی رہی۔ پھر میری بھوک نے کہا۔

’’کچھ خوف خدا کرو۔‘‘

اپنی رہائشی گلی میں داخل ہوئی۔ اپنے ہمسائے بنگالی کی دُکان سے تازہ مالٹوں کا جوس پیا ڈھائی یورو کا۔ ہوٹل کی سیڑھیاں نہیں چڑھی۔ سیدھی چلتی گئی۔ سامنے پل تھا۔ عین اس کے وسط میں کھڑے ہو کر میں نئے نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگی۔

نہر کے کناروں پر طعام گاہیں سجی تھیں۔ شوقین گٹار بجا رہے تھے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں کہیں قدیم ڈیوک ز، کہیں رانیوں کے ملبوسات پہنے لوگوں کے ساتھ تصویریں بنواتے تھے۔ رات جوان تھی، حسین تھی اور گیت گا رہی تھی۔ کتنی دیر میں یہ گیت سُنتی رہی۔

پھر سامنے والی گلی میں اُتری۔ دو رویہ دکانوں کے ساتھ اُس کا درمیانی حصّہ بھی چھوٹے چھوٹے کھوکھوں سے سجا ایک طرح بنگالیوں کے ہاتھوں یرغمال ہوا پڑا تھا۔ ہنس مکھ لڑکے لڑکیاں کہیں موسک پہنے، کہیں تاریخ کا کوئی کردار بنے ہنستے مسکراتے سیاحوں کو لُبھا رہے تھے۔

رات تو کہیں نظر نہیں آتی تھی۔ ہر شے بقعہ نور بنی نظروں میں جیسے اُجالے بھرتی تھی۔ تھوڑا سا ہی چلنے پر میرے بائیں ہاتھ ایک گلی مڑی۔ اس میں داخل ہوئی۔ دائیں بائیں رنگا قسم کے مکان جو ہوٹلوں کا روپ دھارے بیٹھے تھے۔ یہ ریسٹورنٹ اس وقت کاروباری عروج پر تھے۔ اندر اور باہر گلی کے تھوڑے سے حصّے میں بھی ہر ایک کی میزیں سجی تھیں۔ تھوڑا سا چلنے کے بعد واپس آ گئی۔ تین چار گلیوں کے سیر سپاٹے ایک میدان میں لے گئے۔ جہاں بھریے میلے کا سا سماں تھا۔ بینچ پر بیٹھتے ہوئے نظریں زمینی سطح سے اونچے پختہ ایک گول دائرے نما اوپر سے ڈھنپی چیز پر پڑیں۔

’’یہ کیا کوئی فلتھ ڈپو ہے۔‘‘خود سے سوال کیا۔

عقبی نشست پر بیٹھی دو لڑکیوں کو دیکھا جن کے ساتھ ایک نوجوان بھی تھا۔ لڑکیاں استنبول سے تھیں۔ سچی بات ہے تن پر دھجیاں ہی لپیٹ رکھی تھیں۔ لڑکا اٹلی سے تھا۔ خوش طبع اور ملنسار سا۔

اسی سے میں نے جانا تھا کہ یہ فلتھ ڈپو نہیں بلکہ کبھی پانی کے کنوئیں تھے اب انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ تفصیل خاصی دلچسپ تھی کہ پانیوں میں گھرے شہر میں پینے کے پانی کا بڑا مسئلہ تھا۔ صدیوں تک تو مقامی لوگوں کو پانی کے حصول میں بہت دقّت اور پریشانی اٹھانی پڑتی تھی۔ کوئی نویں صدی میں انہوں نے بارشوں کا پانی شہر کے مرکزی چوکوں میں اکٹھا کرنا شروع کیا۔ اِس غرض سے چونے کے پتھر کی بڑی بڑی انگیٹھیوں میں مٹی کے بڑے بڑے ٹب رکھے گئے۔ پانی فلٹر ہو کر اُن میں جمع ہوتا اور لوگ بالٹیوں سے ضرورت کا پانی اِن کنوؤں سے نکال لیتے۔ کہیں انیسویں صدی میں جا کر پہاڑوں سے بڑے بڑے پائپوں سے پانی کا حصول ممکن بنایا گیا۔

واپسی کیلئے قدم اس وقت اٹھائے جب آنکھوں نے مزید نظارے جذب کرنے، کانوں نے مزید راگ سننے اور جسم نے مزید بیٹھنے سے انکار کر دیا۔

ساری رات ہی جب جب آنکھ کھُلی۔ نیچے گلی میں لوگوں کی باتوں، قہقہوں اور گیتوں نے متوجہ کیا۔ یہ اور بات ہے کہ میں نے آنکھیں کھولنے کی بجائے انہیں بند رکھنے اور نیند میں ڈوب جانے کو ترجیح دی کہ صُبح جلدی اٹھنا تھا۔ افضال کی بات میں نے پلّے سے باندھی تھی کہ اکڈیمیہAcademia ضرور دیکھنا ہے۔ جائیے بھی جلدی۔ وہاں لوگوں کی ایک مخصوص تعداد کو ہی ایک وقت میں اندر جانے دیا جاتا ہے۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دن چڑھے تک سونے یا اینٹھنے کی عیاشی ہو۔ دونوں کو جیسے

مجھ عاجز مسکین سے اللہ واسطے کا بیر ہے۔ رات میں نے تن کی قمیض کو اُتار کر دھو ڈالا تھا۔ چلو شکر وہ سوکھی پڑی تھی۔ غسل سے فارغ ہو کر میں نے کمرے کی ہر چیز کو اُسی ترتیب اور صاف سُتھری کرنے کی کوشش کی جیسی میرے کمرے میں آنے سے قبل تھی۔ شاید میں پاکستانیت کا ایک اچھا تاثر چھوڑنے کی خواہاں تھی۔ آٹھ بجے تک سب کاموں سے نپٹ نپٹا ہو گیا تھا۔ ناشتے کی شدید طلب تھی اور جلدی بھی تھی۔ سوچا کہ میرے پاس کونسا سامان ہے جس کیلئے مجھے واپس آنے کی ضرورت ہے؟ بس چیک آؤٹ ہوتی ہوں۔

اب نیچے سیڑھیوں پر کھڑی سوچتی ہوں کہ چابی کِسے دوں۔ بندہ نہ بندے کی ذات۔ چند لمحے کھڑی سوچتی رہی۔ پھر سیڑھیوں پر ہی پیتل کی اُس بھاری بھرکم چابی رکھ کر پوڈے اُتر کر سڑک پر چلتے لوگوں میں شامل ہو گئی۔

’’میں کیا کروں؟ اُس عیار عورت کو کہاں ڈھونڈوں؟ بھاڑ میں جائے۔‘‘

قریبی کافی بار میں جا کر چائے کا پوچھا۔ کھانے کیلئے جام لگے سموسے ٹائپ بند لئیے۔ ناشتہ کیا اور پھر اکیڈیمیہ کیلئے ویپوریٹو پر چڑھ دوڑی۔

نظروں کو بھانے والی پہلی چیز خوبصورت چوبی اکیڈیمیہ برج کو دیکھنا اور اس کی سیڑھیاں اُتر کر اِس آرٹ میوزیم کے صحن میں داخل ہونا تھا۔ عمارت کا چہرہ پر وقار اور سادگی سے بھری ہوئی سفیدی لئیے نظروں کو گرفت میں لیتا تھا۔

اندر داخل ہونے پر لطیف سی خنکی نے استقبال کیا تھا۔ بھانت بھانت کے لوگ تھے۔ کچھ بینچوں پر بیٹھے، کچھ باتیں کرتے کاش میرے ساتھ بھی کوئی ہوتا۔ صورت حال کا جائزہ لینے کیلئے اِدھر اُدھر چکر کاٹے تو پندرہ یورو کا ٹکٹ پتہ چلا۔ آڈیو گائیڈ کیلئے چھ یورو۔ یہ فیصلہ تو پل جھپکتے ہی میں تھا کہ اِس لینج کو تو گلے سے لگانا ہی لگانا ہے کہ راہبری کی یہ ٹیکنیک بڑی ماڈرن ہے۔ ہیڈ فون والی اور اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ اس عذر کی کوئی اہمیت اور جواز نہیں تھا کہ گائیڈ سے میرے تو پلّے خاک نہیں پڑنا۔ کتابیں جو ہیں راہنمائی کیلئے۔ آپ کو یہ پیسے بھرنے ہی بھرنے ہیں۔ سو بھرے۔

انگلینڈ سے آئے ایک ہنس مکھ سے جوڑے سے ہیلو ہائے ہوئی تو جانا کہ اگر میں اتوار کو آتی تو داخلہ مفت ہونا تھا۔ معلوم ہوا تھا کہ ہر مہینے کی پہلی  اتوار داخلہ فری ہے۔ افسوس کا تو کچھ فائدہ ہی نہ تھا کہ میرا تو کوئی پروگرام بھی Planned نہیں تھا۔ لائن لمبی تھی۔ میں تو اپنے ملک کی طرح سینئر سیٹزن کا شور نہیں مچا سکتی تھی کہ میرے آگے پیچھے کھڑے سب سینئر سیٹزن ہی تھے۔ موٹے تازے بھی تھے اور تگڑے بھی۔ یقیناً ان کے گٹے گوڈوں میں ہماری طرح درد ورد نہیں ہو گا۔

ٹکٹ والی لڑکی سے مکالمہ دلچسپ رہا۔ ٹکٹ کا حصول والا مرحلہ اگر کچھ تھکا دینے والا تھا تو وہیں یہ ساری سرگرمی لُطف دینے والی بھی تھی۔

فسٹ فلور کی سیڑھیاں آرام دہ، چھت شاندار منفرد اور شاہکاروں سے لبالب بھری ہوئی تھی۔ چھوٹے چھوٹے آئی کونک چہرے چار سنہری پروں میں مقید تھوڑا سا روکتے تھے۔

سچ تو یہ تھا کہ یہ وینس کی نشاۃ ثانیہ کا عکاس، آرٹ کا شاہکار عجائب گھر جسمیں

وینس کے آرٹ سے محبت کرنے والے خاندانوں اور آرٹسٹوں کے شاہکار آویزاں ہیں۔

تقریباً اس کی بنیاد 1750 میں رکھی گئی۔ شروع میں تو نام وینس آرٹ اکیڈیمی تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی گئیں۔ پھر اٹلی کی منسٹری آف کلچر اور ہریٹیج نے سنبھال لیا۔

کیا دنیا تھی یہاں۔ تخلیق کے چشمے دیواروں پر پھوٹ رہے تھے۔ حکومتی سطح پر ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش ہوئی کہ کمروں میں بیٹھنے اور نظارے لوٹنے کا بہت خوبصورت انتظام تھا۔ اسی نظام نے مجھے اپنی بساط سے بڑھ کر اس کی سیر کروائی۔ گو میں نے اس سمندر سے صرف پانی کے دو تین قطرے چکھے کہ میرے بس میں نہیں تھا کہ میں اسمیں نہا سکتی، تیر سکتی۔ میں آرام کرتی، اٹھتی اور پھر چل پڑتی۔ مدد بھی کافی ملی کہ اسطرف چلی جائیے۔ Titian کے شاہکار زیادہ وہاں ہوں گے۔ Giovanni Belliniکیلئے

ادھر جائیں۔

میں نے Tintorettoدیکھا۔ جینٹل بلینیGentileکو دیکھا۔ دونوں بھائیوں میں فرق کو دیکھنے کی کوشش کی۔ بلینی Gentile Belliniکی سولہویں صدی کے وینس کی ثقافتی زندگی کی جھلکیاں مارتی کینوس پر کی گئی پینٹنگ۔ کیا بات تھی۔ مکان، پل، کشتیاں لوگ ہر شے جیسے بولتی اور تاثر دیتی تھی۔ کچھ ایسی ہی عکاسی سینٹ مارک گرجا گھر کی ہے۔ 500سال قبل کا وینس کیسا تھا۔ چونکہ کل کا دن اُس آنگن میں گزار کر آئی تھی اس لئیے اُسے اُس کے قدیم رنگ میں دیکھنا مزے کا کام تھا۔

Jacopoہو یاPaolo Veronese       مجھے ایک بات کا شدت سے احساس ہوا تھا۔ انہوں نے مذہب اور مذہبی شخصیات کو جسطرح پوٹریٹ کیا۔ یقیناً عیسائیت

کا احیاء اِن ہی لوگوں کا مرہون منت ہے۔

تھوڑی سی مٹرگشت قریبی گلیوں کی کی۔ تیسری چوتھی منزل کے ہوٹلوں کے نیلے پیلے عنابی تولیے گلیوں کے وسط میں پانیوں کے اوپر لٹکے سوکھتے دیکھے۔

لوگوں سے باتیں کیں۔ کچھ میرے پلّے پڑا کچھ نہیں پڑا۔

تو شام کو شہرسے رخصت ہوتے ہوئے میں نے بے اختیار کہا تھا۔

’’اے میرے خوابوں کے شہر وینس میں تجھ سے رخصت ہوتی ہوں بھادوں کے مہینے میں۔ ہاں افسوس صد افسوس میں گنڈولا کی سیر نہ کر سکی۔ وینس تمہارے شہر کا یہ تفریحی موڈ اکیلے بندے کو وارا کہاں کھاتا ہے؟ لیکن تم قطعی فکر نہ کرو۔ بنٹی نے مجھے تصویر تو دکھا دی ہے۔‘‘

جب اسٹیشن پر واپسی ہوئی تین بج رہے تھے۔ آج میرے ہر کام میں اطمینان اور سکون تھا۔ میں اُسی مخصوص ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی۔ چھ یورو کے چھ کیلے، دو دودھ کی بوتلیں، پانی، ویجی ٹیبل پیزا اور Nuts لئیے۔ گذشتہ ساری محرومیوں کے ازالے کا پکّا پکّا فیصلہ تھا۔

ریسٹورنٹ کے ساتھ اگلی جگہ لوگوں کے بیٹھنے اور کھانے پینے کیلئے مخصوص ہے۔ یہیں بڑی دلچسپ ملاقات ویلز کے مسٹر میخائل سے ہوئی جس نے از خود گفتگو کا دروازہ کھولا کہ کِس ملک سے ہیں؟ پاکستان کا سُن کر اتنا خوش ہوا کہ میں حیرت سے اُسے دیکھنے لگی تھی کہ مسئلہ کیا ہے؟ بہرحال یہ تو خیر بعد میں جانی تھی کہ اُس کا ہمسایہ ڈاکٹر طارق اور اس کی بیوی ڈاکٹر ثمینہ طارق سے اُس کے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس کی پوری فیملی دونوں میاں بیوی کی بے حد شکرگزار رہتی ہے کہ پاکستانی جوڑا ان کی چھوٹی موٹی طبّی مدد کیلئے ہمہ وقت حاضر رہتا ہے۔ کیسا علم سے لدا پھندا آدمی تھا۔ تاریخ سے گہری دلچسپی بات بات میں چھلک رہی تھی۔

یونان تہذیب و ثقافت کی ماں ہے پر لمبا چوڑا لکچر سُننے کو ملا تھا۔ پاکستان تاریخی و ثقافتی لحاظ سے بڑا امیر ملک ہے۔ شکر ہے پاکستان بارے ایسا جملہ کِسی یورپی سے سُننے کو ملا۔

دیر بعد معذرت کرتے ہوئے اٹھ کر چکر لگایا تھا۔ ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ ٹرین ٹریک کے عین سامنے میری عمر کے مردوں کا ایک ٹولہ اپنے سازو سامان کے ساتھ کھڑا انفرمیشن بورڈ پر گاہے گاہے نظریں دوڑاتا نظر آیا تھا۔ توجہ کھینچے والی دو باتیں تھیں۔ ایک ان کی غیر معمولی مستعدی اور دوسرے ان کے قہقہے۔ سب کے سب مرد تھے۔

’’چلو ذرا اِن سے تو گپ شپ کی جائے۔‘‘میں خود سے کہتی ہوئی ان کے پاس جا کھڑی ہوئی۔

باتیں کیں تو جانی کہ فرانس سے ہیں۔ سیرسپاٹے کیلئے نکلے تھے۔ میلان جانا ہے اور میرے والی ہی ٹرین میں سوار ہونا ہے۔

گلے گلے تک طمانیت سے بھر گئی۔ اُس ٹولے کے عین سامنے گرینائٹ کے چھوٹے سے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ جونہی اُن مردوں نے سامان اٹھا کر دُڑکی لگائی۔ تعاقب میں میری بھی تیزی تھی۔ بو گی نمبر7میں سوار ہو کر تصدیق کی کہ گاڑی میلان ہی کے لئیے ہے۔ تسلّی ہو جانے پر سیٹ تلاش کی۔ اور سکون کا لمبا سانس بھرا۔

جو نصف درجن کیلے وینس سے لے کر چلی تھی۔ اُن میں سے تین تو ٹرین میں راجے راجے کھاندے کے شوق کی بھینٹ چڑھے تھے۔ جب میلان پہنچی بقیہ تین بیچارے چار گھنٹوں میں ہی پور پور زخمی ہو گئے تھے۔ پھینک دوں۔ جیسے خیال نے فوراً کلیجے کو ہاتھ ڈال دیا تھا۔

’’اف تین یورو یعنی تین سو پنتالیس روپے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دوں۔ ہائے میرا ملک بے چارہ غریبڑا سا اتنا سستا۔ چتری والے گڑ جیسے میٹھے، بے حد ذائقہ دار درجن بھر صرف پچاس روپے میں۔ ایک وقت میں بندہ رج کر کھا لے تو دوسرے وقت کا صرفہ مارسکتا ہے۔‘‘

اب جانے کہاں سے مسز ارشد یاد آئیں۔ ٹوٹکوں سے شافی علاج کرنے والی ایک دن سر راہ مل گئیں۔ دعا سلام کے بعد بولیں۔

’’گوڈوں کا سستا اور دیسی علاج چالیس دن گلے سڑے کیلے کھاؤ۔ دیکھنا ڈاک گھوڑے جیسے رواں ہو جائیں گے۔‘‘

دو تین بار اس نسخے کو آزمانا چاہا پر جسے بچے منہ نہ لگائیں اُسے کیسے گلے سے اُتارتی۔

اب سنٹرل اسٹیشن سے باہر نکل کر لانوں کے کنارے بنی پتھر کی سلیب پر بیٹھ کر پہلے تو موسم کی رنگینیوں کو جی بھر کر دیکھا۔ دلکش سماں چاروں اور بکھرا ہوا تھا۔ جھولتے جھومتے پھرتے بادلوں کو شوق سے دیکھتے ہوئے ہاتھوں سے پکڑنے کو جی چاہا تھا۔ ہواؤں کی تیزی اور لطافت کوسوں سوں کرتے اپنے اندر اُتار ا۔ جب موسم کے حُسن سے نظریں رج گئیں تب بقیہ اُن تینوں کو دوائی جان کر ” اللہ شافی اللہ کافی "کہتے ہوئے ہڑپ کر گئی۔ لمحہ بھر بعد گوڈوں کو بھی پھیلا پھیلا کر دیکھنے لگی کہ ہتھیلی پر سرسوں جمانا میری گندی اور پرانی عادت ہے۔

میٹرو اسٹیشن Republica مرکزی ریلوے اسٹیشن سے نصف فرلانگ پر ہے۔ یہاں سے چیزاتے تک سیدھی میٹرو جاتی ہے۔ اور میں اِس تھوڑے سے چلنے کو دو دو گاڑیاں بدلنے اور ٹکٹوں کے جھمیلے میں پڑنے پر ترجیح دیتی تھی۔ یونہی اسٹیشن کے سامنے پہلے گول چکر پر پولیس کی گزرتی گاڑی والوں سے ریپبلیکا کا پوچھ بیٹھی۔ کمبخت نے الٹے ہاتھ کا اشارہ دیا۔

’’ہیں اُلّو کا پٹھا ادھر کدھر ہے؟ خود سے سوال جواب اور ساتھ ہی شکوک و شبہات کا بھی سلسلہ شروع۔ اب کھڑی نشانیوں کو دیکھتی ہوں۔

’’نہیں بھئی نہیں۔ کمبخت مارے پیئے ہوئے لگتے ہیں۔‘‘

عقل نے جدھر کی نشان دہی کی اسی پر چلی اور بالآخر بورڈ نظر بھی آ گیا۔ تہہ خانے کے منہ سے ایک بوڑھی عورت نکلی جس نے چنترال کا پوچھا تھا۔ کھڑے ہو کر اُسے تسلی سے سمجھایا اور خود کو تھپکی دی کہ

’’ واہ بھئی واہ کیا بات ہے؟ اب تو تو بھی بتانے جو گی ہو گئی۔‘‘

سیڑھیاں اُتری۔ تو ایک نئی مصیبت انتظار میں تھی کہ اگست سے سکولوں، دفتروں میں چھٹیوں کی وجہ سے گاڑیوں کی تعداد میں کمی کر دی گئی تھی۔ پتہ چلا کہ دو گاڑیاں بدلنی ہوں گی۔

’’لو بھئی موسیٰ ڈریا موت توں تے موت اگے۔ چیزاتے کیلئے سرونو جانا پڑے گا۔‘‘

جی چاہا تھا سر پیٹ لوں۔ چھٹیوں کی وجہ سے اسٹیشن پر وہ معمول کی گہما گہمی بھی مفقود تھی۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آئی بس یونیفارم پہنے مرد کا بازو پکڑا اور اُسے کہا کہ وہ میری مدد کرے۔ اُس نے غالباً ڈیوٹی پر اکیلا ہونے کی وجہ سے کچھ لیت و لعن سے کام لینے کی کوشش کی۔ پھسکڑا مار کر وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔ پیسے پہلے ہی "ٹکٹ ٹکٹ "کا کہتے ہوئے اس کی تلی پر رکھ بیٹھی تھی۔

تھوڑی دیر بعد اُس نے ٹکٹ نکالا۔ مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔ خودکار زینے سے اتر کر دوسرے پلیٹ فارم پر ابھی پاؤں دھرا ہی تھا کہ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ کرتی ٹرین کا اسٹیشن کی حُدود میں آمد کا غلغلہ بلند ہو گیا۔ اُس نے مجھے بھگاتے ہوئے ڈبے میں کھڑے اپنے جیسے یونیفارم پہنے نوجوان لڑکے کے حوالے کرتے ہوئے کچھ بتایا۔

میں نے ابھی اندر قدم رکھا ہی تھا کہ سامنے کھڑی ایک فربہی سی لڑکی نے مجھے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔ یہ ماریہ سولی تھی۔ آسٹرین۔ جو میلان میں اپنے ملک کے قونصلیٹ میں نوکری کرتی تھی۔ اب گھر جا رہی تھی۔ گھر جو چیزاتے سے تین سٹاپ آگے تھا۔ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں۔

سرونو اور آگے چیزاتے تک ماریہ نے اسی توجہ اور محبت سے میرا خیال اور دلداری کی جیسے ایک اچھی بیٹی اپنی ماں کی کرتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سیڑھیاں چڑھ چڑھ اور اُتر اُتر کر حشر ہو گیا۔ اُس کا منہ ما تھا چوم پر جب اپنے اسٹیشن پر اُتری تو بادل گہرے تھے اور بوندا باری مسلسل ہو رہی تھی۔

اقبال کو فون کرنے سے قبل میں نے سوچا کہ میں کیفے بار سے پہلے چائے پیوں گی اور پھر اُسے بلاؤں گی۔

پلیٹ فارم پر کھڑے موسم اور اُس کی رنگینیوں سے تھوڑا لطف اٹھانے کے بعد لفٹ میں داخل ہوئی۔ نیچے راہداری میں آئی اور دوسری سمت کی لفٹ میں داخل ہونے کی بجائے پہلے آنے والی میں داخل ہو گئی جس نے مجھے دوسری طرف تو پہنچا دیا مگر آ ہنی قد آور جنگلے بستی اور میرے درمیان حائل تھے۔ میں نے بارش سے بھیگتے بھاگ دوڑ کی کہ مجھے کوئی چھوٹا موٹا دروازہ نظر آ جائے جسے کھول کر میں آگے چلی جاؤں۔ دروازہ نظر ضرور آیا مگر وہ لاک تھا۔

سلاخوں کے پیچھے بار کے سامنے کھڑے چند لوگوں نے اشارہ کیا کہ مجھے واپس جا کر دوسرے راستے سے آنا چاہیے۔ اب پاکستانی ذہنیت اور شارٹ کٹ راستے کی تلاش اور جلد بازی۔ پٹڑیوں کے درمیان سے چل کر پلیٹ فارم پر پہنچنے کی پھرتی مارنے کی کوشش کی۔ ابھی ایک لائن کراس ہی کی تھی کہ پیچھے سے ہاہا کا شورسنائی دیا۔

اب جو مڑ کر بارش کے قطروں سے بھری عینک کے عقب سے دیکھتی ہوں تو وہاں کھڑے دو تین مرد داہنی سمت اشارہ کر رہے ہیں۔

اب جو نظر کو پلٹا دیتی ہوں تو خون جیسے رگوں میں جم جائے والی کیفیت کا گمان ہوا۔ خدایا کیا کوئی لمحہ ایسا خوفناک بھی ہو سکتا ہے جس کا میں نے اب تک کی زندگی میں سامنا کیا ہو۔

’’کیسے میں نے واپسی کی۔ پٹڑی پار کی کیسے پلیٹ فارم کے سیمنٹ کے بڑھاوے پر جھولنے جیسی کیفیت میں لٹکی گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ کرتی گاڑی کو گزرتے محسوس کیا۔ درمیانی فاصلہ بس ڈیڑھ دو فٹ کا ہی ہو گا۔

میں حیران تھی میرے دل نے دھڑکنا کیسے جاری رکھا؟ میرے بچوں کی دعائیں یا پھر میری اُس اوپر والے کے حضور التجائیں۔

میں بارش میں بھیگتی رہی۔ دیر بعد سیدھی ہوئی۔ نیچے اُتری۔ دوسری لفٹ سے اوپر آئی۔ کیفے میں داخل ہوئی۔ لوگ خوش گپیوں اور پینے پلانے میں مصروف تھے۔

سوچ نے چال کے پاؤں میں ذرا سی اڑنگ ڈالی۔ یہاں بیٹھے کسی بندے کو معلوم ہے کہ اندر آنے والی یہ عورت موت کے پنجوں سے چھٹ کر آئی ہے۔

بڑا لمبا سانس سینے کے اندر سے نکالا تھا۔ بیس گز پرے اس خوبصورت عمارت کے عقب میں پٹڑیوں پر قیمہ بنی لاش نے صرف لمحہ بھر کی ہلچل مچانی تھی۔ پل بھر کی خبر اور یہاں موجود لوگوں کا لمحے بھر کا تبصرہ۔

کیسی احمق ہوں میں۔ نری کھوتے کی کھُر۔ کیسے یہ سوچا تھا کیفے بار میں داخل ہوں گی تو ہر کوئی دیکھے گا اور پوچھے گا۔ ان کے تو فرشتے کو بھی پتہ نہیں ہو گا اور اگر کسی کو ہو گا بھی تو کیا؟ اپنے ملک میں یہ سب نہیں ہوتا۔ سڑک پر لاش پڑی ہے اور گاڑیاں زن زن کرتی پاس سے گزر جاتی ہیں۔ زندگی کا بس یہی چلن ہے۔

کرسی پر بیٹھ کر ٹشو سے عینک کو صاف کیا۔ چہرے کو خشک کیا۔ بالوں میں کنگھا چلایا اور کاؤنٹر پر جا کر چائے کا آرڈر کیا۔ شوکیسوں میں پڑے بسکٹوں اور پیسٹریوں کو دیکھا اور جو نظروں کو بھائی اس کی طرف اشارہ کیا۔

واپس اپنی میز پر آتے ہوئے قیمہ بنی لاش کے منظر بڑے دہلانے والے تھے۔ "گور پیا کوئی ہور”والی بے نیازی نے آج منہ چھپا لیا تھا۔ چائے کے پہلے گھونٹ کا جیسے حلق سے نیچے اُترنا گویا شکریے اور عبودیت کے اتھاہ جذبات کا اظہار تھا۔

فون کرنے پر اقبال کِسی دوست کی گاڑی مانگ لایا تھا کہ بارش اب تیز ہو گئی تھی۔ باہر نکلنے سے قبل میں نے ماحول کو کھلکھلاتے دیکھا اور سوچا۔

دنیا کے سمندر میں گرتے ایک قطرہ کی وقعت اور اوقات کتنی؟

اقبال وینس کے بارے پوچھ رہا تھا۔

بڑا شاندار اور یادگار ٹرپ۔ میں ہنسی تھی۔

٭٭٭

 

 

 

باب7: بریرہ آرٹ گیلری، وایا دانتے کی سیر اور مرینو سے ملنا

 

* بریرہ آرٹ گیلری در اصل نشاۃ ثانیہ دور کے کاموں سے سجی ہوئی ہے۔

* پبلیشنگ ہاؤس میں کام کرتی مورینو کا کہنا تھا کہ ٹائٹل بنانے کے لئے اُسے پوری کتاب کو پڑھنا پڑھتا ہے۔ روح کو سمجھے بغیر وہ کبھی ٹائٹل نہیں بناتی۔

* نشاۃ ثانیہ کی تحریکوں نے اٹلی میں جنم لیا، پورے یورپ کو متاثر کیا اور پھر اپنی ہی سر زمین پر ختم ہو گئیں۔

 

 

اب روم جانا ہے۔ بکنگ کروانی ہے۔ چلو کل یہ کام ہو گا اور وایا دانتے کا سیر سپاٹا بھی ہو جائے گا۔

یہ اللہ بھی کیسا مسبب الاسباب ہے کہ اگر کشٹ میں ڈالا تو ساتھ اقبال کو فری کر دیا۔ ناشتہ بس سادہ سا۔ ایک کپ چائے اور ساتھ میں شہد لگا بند یا پیس۔

اب دھیرے دھیرے سیڑھیاں اُترو۔ بلڈنگ کا مرکزی دروازہ اگر بند ہے تو مختلف بٹن دبا کر اُسے کھولو۔ بیرونی دروازے کو بھی اب کھولنا سیکھ گئی ہوں۔ ٹھک ٹھک بٹن دبتے ہیں۔ ایسے لمحوں میں مجھے کھل جا سم سم یاد آتا ہے۔ مزہ آتا ہے یہ سب کام کرنے میں۔ سڑک پر آ کر بس ایک آدھ منٹ میں ہی اقبال اپنے سکوٹراور میرے پرس کے ساتھ آ جاتا ہے۔ ہیلمٹ پہنتی ہوں۔ دونوں ٹانگیں کشادہ کر کے سکوٹر پر بیٹھتی ہوں۔ گھوں گھوں کرتا سکوٹر اڑنے لگتا ہے۔

"یا اللہ خیر” زیر لب پڑھتی ہوں۔ اسٹیشن کی کافی بار کی ایک سمت پارکنگ ایریا ہے۔ جب آئی تھی تب تو یہاں گاڑیوں کا ایک اژدہام ہوتا تھا۔ واپسی پر کافی با رکے سامنے بیٹھ کر منہ اُٹھائے، خاموش گھروں کو، ہوا کو درختوں سے اٹھکھیلیاں کرتے اور کہیں اکا دُکّا لوگوں کو آتے جاتے دیکھنا اور چائے کا کپ پینا بہت دلچسپ اور پر لُطف شغل لگتا ہے۔ اور میں یہ ضرور کرتی ہوں۔ جب میرے اندر کے رانجھے کی تسلی ہو جاتی ہے تب اقبال کو فون ہوتا ہے کہ وہ آ کر مجھے لے جائے۔

ٹکٹ والا مرحلہ میرے بھیجے میں نہیں گھُستا۔ باقی مرحلے اب آسان ہو گئے ہیں۔ سنٹرل اسٹیشن پر ہرگز خیریت والا معاملہ نہ تھا۔ تاہم ہر بار ہی کچھ نئے منظروں کا آنکھوں میں گھُسنا بھی ضروری ہے۔ ٹکٹ کیلئے بکنگ آفس کی کھوج تھی۔ دیکھا تو خیر سے بڑی لمبی قطاریں اور بڑا جھمیلا سا نظر آیا تھا۔

زمین پر ہی چند عورتیں اور لڑکیاں بڑے موڈ میں پھسکڑے مارے بیٹھی تھیں۔ میں بھی جا کر شامل ہو گئی کہ کیل کی طرح اکڑے کھڑے رہنے سے فائدہ۔ Rick Steves    کی اٹلی پر لکھی ہوئی کتاب ابھی کھولی ہی تھی اور مزے کی بات جو صفحہ سامنے آیا تھا وہ ٹھگوں اور لٹیروں بابت ہی تھا۔ مزے کی تفصیلات تھیں۔ ابھی زیر لب مسکراتے ہوئے پڑھنے میں محو تھی کہ جب اُس نوجوان لڑکے نے میرے قریب اکڑوں بیٹھ کر پوچھا۔

’’ مجھے کیا ٹکٹ خریدنا ہے؟‘‘

میٹھے سے لہجے میں یہ فقرہ رِک کی تحریر سے بڑا لگا کھاتا تھا۔ مشتبہ نظریں تیر کی طرح اس کے اندر اُتارتے ہوئے بڑا نوکیلا سا جملہ خود بخود ہی زبان سے پھسل گیا تھا۔

’’ان دائیں بائیں بیٹھی ڈھیر ساری عورتوں کو چھوڑ کر تم نے مجھے کیوں یہ پیشکش کی؟‘‘

’’یہ تو بڑی چنڈالیں اور ہوشیار عورتیں ہیں۔ ان کو تو سارے سبق ازبر ہیں۔ جو بندہ خود کاموں کا ماہر ہو اُسے کسی کی مدد لینے اور پیسہ کمیشن میں پھینکنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

بات بڑی پتے کی تھی۔ ٹھک سے دل کو لگی۔ لڑکے کی نظر کی گہرائی بھی داد طلب تھی۔ گھاٹ گھاٹ کے چہرے دیکھنے والے کیا قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔

’’روم کا ٹکٹ لینا ہے۔ چلو بتاؤ کمیشن کتنا ہو گا؟‘‘

’’جو دیں گی لے لوں گا۔‘‘

’’نہیں بھئی طے کرو۔‘‘

تین یورو پر معاملہ نپٹ گیا اور میں اٹھ کر اس کے ساتھ ہولی۔

’’سوچا بریرہ گیلری دیکھوں گی اور شام Vaya Dante میں گزاروں گی۔‘‘

اب کیا بیٹھی بیٹھی اِن پٹٹر پٹٹر کرتی لڑکیوں کے چہروں کو ہونقوں کی طرح دیکھتی رہتی۔ کوئی کام کروں۔ کسی ہیلے لگوں۔

مشینوں کے سامنے کھڑے ہو کر میں نے خود مشین میں پچاس پچاس یورو کے دو نوٹ ڈالے۔ جونہی ٹکٹ نکلا۔ لڑکے سے لے کر اُسے قابو کیا۔ دس کا نوٹ بھی ہوشیاری سے سمیٹا اور بقیہ ریزگاری اس کے حوالے کی۔ ستاسی یورو کا ٹکٹ۔

بریرہ آرٹ گیلری نقشے پر نزدیک ضرور تھی مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا تھا کہ اگر پیدل چلنے کی کوشش کی گئی تو بس پھر تم تو ہلنے جو گی نہیں رہو گی۔ میٹرو اسٹیشن سے جاؤ۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ چلو خیر ایک پیاری سی لڑکی کی منت کی۔ اُس نے ٹکٹ تھمایا اور ساتھ پیسے بھی لوٹا دئیے۔

’’ارے نہ نہ کرنے کے باوجود گاڑی میں چڑھانے بھی چل پڑی۔ ریڈ لائن میٹرو جسمیں سوار کرتے ہوئے اُسنے اُنگلیوں سے تین کا اشارہ کیا تھا یعنی تیسرے اسٹیشن پر اُتر جانا ہے۔

ایک خوبصورت کشادہ صحن کے گرد دو منزلہ خوبصورت محراب دار برآمدوں والی عمارت اٹلی کے ثقافتی ورثے کی امین یہ میلان کی بہترین آرٹ گیلری جسمیں تیرھویں صدی سے بیسویں صدی کا آرٹ محفوظ ہے۔ تاہم یہ فلورنس اور روم کی آرٹ گیلریوں کے پلّے کی نہیں۔ یہ پڑھا تھا رائے محفوظ رکھی ہے کہ روم کل جا رہی ہوں اور فلورنس تین دن بعد کا پروگرام ہے۔ اب مقابلہ تو تبھی ہو گا جب اُن دو شہروں کو بھی دیکھ لوں گی۔

نشاۃ ثانیہ دور کا یہ آرٹ 1809میں اکٹھا کیا گیا۔ چودھویں سے بیسویں صدی کے تقریباً 500شاہکاروں سے اِسے سجایا گیا۔ یہ عمارت پہلے مناسٹری تھی۔ اس کا عظیم الشان صحن جسمیں پیڈسٹل پر کھڑا سیاہی مائل نپولین کا ننگا مجسمہ Antonio Canova کے ہاتھوں کا شاہکار آپ کی توجہ کھینچ لیتا ہے۔

نپولین بونا پارٹ بھی تاریخ کا کیا کردار تھا۔ بڑی پسندیدہ شخصیت ہے وہ میری۔ آندھی اور طوفان جیسی ساری خوبیاں اس میں جمع تھیں۔ 1796 میں یہاں بھی وہ اسی کرّوفر سے آیا اور سب کچھ تہس نہس کر دیا۔ سارے ہسپانوی اور آسٹرین ڈیوکز کو باہر پھینکا۔ اٹلی کی ساری ادھر ادھر بکھری ریاستوں کو اکٹھا کیا اور بادشاہت کا تاج اپنے سر پر سجا لیا۔ چرچ والوں کو بھی نتھ ڈال دی کہ یہ کیا ساری اچھی اور بہترین زمینوں پر قابض ہوئے بیٹھے ہو۔ سرکار کی ملکیت ہیں ساری۔

اُنیس بیس سال کی حکمرانی کے بعد جہاں گیری کے جنون نے شکست تو دلائی مگر وہ جاتے جاتے اطالویوں پر ایک احسان بھی کرتا گیا۔ ایک عظیم احسان۔

انتونیو بھی کیا لازوال فنکار تھا۔ میں بہت دیر اِسے دیکھتی رہی تھی۔ در اصل وجہ اُس قربت کی بھی ہے جو مجھے انتونیو سے تھی کہ پیٹرز برگ کی نیو ہرمیٹیج کی راہداریوں میں اِس کے بنائے ہوئے کئی مجسمے ابھی تک میری یادداشتوں میں محفوظ تھے۔ خاص طور پر یونانی دیوتا ایروز کی محبوبہ جو اپنے تتلی نما پروں کے ساتھ کیوپڈ پر جھکی ہوئی تھی۔

سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا ہے۔ ٹکٹ بھی وہیں سے ملتا ہے۔ بے حد و حساب کمرے شاہکاروں سے سجے ہیں۔ میں نے آرام کرتے چند لوگوں سے جو مجھے انگریزی سمجھنے والے محسوس ہوئے ہیں۔ پوچھا ہے کہ کیا خاص خاص چیزیں مجھے دیکھنا چاہییں؟ جواب ملتا ہے۔

’’ ایک تو Crivelliکو ضرور دیکھئیے۔ وہ گوتھک دور کی ساری تاریخ اور فلاسفی آرٹ کے ذریعے بیان کرتا ہے۔ یوں بھی وہ ونچی کا ہم عصر ہے۔ تقابلی جائزہ ہو جائے گا۔

میں دل میں ہنس پڑی۔

’’لو بڑی عالم فاضل اس نے تقابلی جائزے لینے ہیں۔ آرٹ کی روح ہی سمجھ جائے تو بڑی بات۔‘‘

ایک اُدھیڑ عمر کی عورت جو مجھے دیکھ رہی تھی نے سکون سے کہا۔

’’اگر آپ دیکھ سکتی ہیں تو آرام آرام سے کمرہ نمبر اکیس، چونتیس اور پینتیس میں ضرور جائیے۔‘‘

دوسرے Raphael’s کا کام دیکھیں۔ Wedding of the MadonnaاورPierodellaکے شاہکار بھی وہیں پاس ہی ہیں۔ انہوں نے چند اور نام بھی بتائے رافیل Raphael’sکا کام دیکھنے کی بھی مجھے شدید خواہش تھی کہ روس کے سینٹ پیٹرز برگ کے ونٹر پیلس میں بھی میں نے اس آرٹسٹ کے شاہکار دیکھے تھے۔ اس کا کام کئی لاجز میں جگمگاتا ابھی بھی میرے ذہن کے کسی گوشے میں ہے۔ Wedding of the Madonna کیا بات تھی۔ رافیل اپنے آرٹ کی انتہاؤں پر تھا۔ میں نے کمرہ نمبر چوبیس میں بہت وقت گزارا۔ رافیل کے ساتھ پائیروڈیلا کا کام بھی دیکھا۔

وقت کا تو پتہ ہی نہیں چلا تھا اور جب میں اس کے پر لُطف سے کافی بار میں چائے پیتی اور پیسٹری کھاتی تھی اور ساتھ ساتھ سوچے چلی جا رہی تھی کہ ہم کتنے بدقسمت ہیں کہ ہمیں اپنے اثاثوں کو سنبھالنے میں کوئی دلچسپی ہی نہیں۔ اوّل تو اثاثے بھی اس حساب سے نہیں اور جو ہیں وہ بھی انتہا پسندی نے نشانوں پر رکھے ہوئے ہیں۔

اور جب باہر آئی تو اس وقت چار بج رہے تھے۔

’’تو میں نے یہاں چار گھنٹے گزارے اور مجھے پتہ ہی نہیں چلا۔‘‘ خود سے کہا تھا۔

اب بیچ بیچ میں سے چھوٹے چھوٹے راستے تو کتنے تھے۔ مگر وہی بات جوانی ہو تو بندہ میلوں چل لے۔ آرٹ گیلری نے ہی تھکا دیا تھا۔ بس میں نے سوچا کہ میں Via Danteجاتی ہوں۔ وہاں جا کر بیٹھوں گی اور بس نظاروں کے مزے لُوٹ کر لوٹ آؤں گی۔

اور وہاں میری ملاقات مورینوسے ہوئی۔ وہ سکوائر میں بینچ پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ میں نے لوگوں کے ہاتھوں میں کتاب بہت کم دیکھی تھی۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وہ اطالوی ہے؟ اثبات میں سر ہلا اور ساتھ ہی یہ بھی جانا کہ وہ میلان میں ایک پبلیشنگ ہاؤس میں کام کرتی ہے۔ کتابوں کے ٹائیٹل ڈیزائن کرتی ہے۔

میں خوش ہوئی۔

’’ارے واہ یہ تو بہت ہی اچھا ہوا۔ چلو کچھ اِس بارے میں پتہ چلے گا۔‘‘

’’ ٹائیٹل بناتے ہوئے اس کے مدّ نظر کیا چیزیں ہوتی ہیں؟‘‘

سوال بھی فوراً ہی کر دیا تھا۔

اس کا جواب میرے لئیے حیرت انگیز تھا کہ ایسا ممکن نہیں وہ کتاب پڑھے اور اس کی روح کو سمجھے بغیر کوئی ٹائیٹل بنا دے۔

اللہ ایک ہمارے پبلیشر ہیں کتاب چھاپ رہے ہیں اور جانتے ککھ نہیں۔ جس کتاب کو چھاپ رہے ہیں اس کے بارے میں خود نہیں جانتے۔ تو بھلا ٹائیٹل پر کیا توجہ دیں گے؟ مصنف اگر خود بڑا نکتہ چیں قسم کا ہے تو وہ ہر مرحلے پر اپنا خون جلاتا، اپنا پیسہ برباد کرتا محض اپنی تخلیق کو منظر عام آنے کی خواہش میں اس ستم کو مردانہ وار اپنے سینے پر سہتا ہے۔

کتاب جو وہ پڑھ رہی تھی۔ اس کا نام IL Plasoتھا۔ بہت سے لکھاریوں کی منتخب کہانیوں کا انتخابی مجموعہ تھا۔ اس کا مطلب "بہت بڑا گھر” سے تھا۔

’’آپ کے ہاں نیٹ اور موبائل نے کتاب کو کتنا متاثر کیا؟‘‘

’’فرق تو پڑا ہے مگر پڑھنے والوں نے کتابیں اب ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں۔‘‘

مورینو کمر عمری کے باوجود بڑی ذہین اور انٹیلیکچوئل Intellectual قسم کی لڑکی تھی۔ اُس نے مجھ سے میرے اُن چند دنوں کے تاثرات بارے پوچھا۔

’’میں آرٹ اور فن کے بحر بیکراں میں جو غوطے کھاتی اور اپھری ہوئی پھرتی تھی۔ اُن کیفیات کو گوش گزار کر دیا۔‘‘

ہنسی اور جب بولی تو لہجے میں کہیں علم و دانش کے دریا بہتے تھے۔ اٹلی نے تعمیری سٹائل کو بہت عروج دیا۔ بلاشبہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ نشاۃ ثانیہ کی تحریکیں جو لگ بھگ 1400کے اِس جزیرہ نما اٹلی کے بطن سے اٹھیں۔ جنہوں نے اس کی عظمتوں کے سامنے یورپ کو سرنگوں کر دیا۔

کم و بیش اگلی دو صدیوں تک نہ صرف یہ ایک طرح قدیم یونانی، رومن سٹائل، علم اور انسانیت کا ایک طرح احیا کا زمانہ تھا۔ جو نہ صرف یورپ میں پھیلا بلکہ اس کے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اس نے متاثر کیا۔ آج کے یورپ کے بے شمار پینٹرز، مجسمہ ساز اور دانش ور جیسے مائیکل اینجلو، لیونارڈو، رافیل سب اٹلی کے بیٹے تھے۔

یہ اس کے ثقافتی عروج کا زمانہ تھا۔ اس نے لوگوں کی سوچ مذہب سے لے کر زندگی کے ہر پہلو میں بدلی۔ سیاست میں یہ تبدیلی جمہوریت کی صورت آئی۔ مذہب میں چرچ کے غلبے کے خلاف۔ انسان اور انسان دوستی کے حق میں تحریکیں چلیں۔ صدیوں کی جہالت اور فرسودہ نظریات جو سائنس میں رواج پائے بیٹھے تھے وہ چیلنج ہوئے۔ کچھ ایسا ہی حال تعمیرات میں ہوا کہ کالموں اور گنبدوں کی طرف واپسی ہوئی جو رومن اور یونانی طرز تعمیر کے بنیادی ستون تھے۔ پینٹنگ میں اس کا مطلب 3-D realismسے ہے۔

اٹلی نے اپنے شہروں کو آرٹ، یونانی دیوتاؤں اور رومن سٹائل گنبدوں والی عمارتوں سے سجا دیا۔ انہوں نے یونانی طرز جمہوریت کی داغ بیل ڈالی اور قدرتی دنیا دریافت کی۔ ثقافتی یلغار کا طوفان اٹھا تھا اور یہ جزیرہ نما ایک بار پھر یورپ کے لئیے رجحان ساز ثقافتی مرکز کی سی حیثیت اختیار کر گیا۔

شاید ابھی ہمارے درمیان اور باتیں ہوتیں کہ اُس کا موبائل بجا۔ معذرت کرتے ہوئے وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ کچھ دیر باتوں میں مصروف رہی۔ پھر ہنستے ہوئے اجازت چاہی کہ وہ اپنی جس دوست کے انتظار میں یہاں بیٹھی تھی وہ اب آ گئی ہے۔ اپنا بیگ کندھے سے لٹکاتے ہوئے وہ مسکرائی اور بولی۔

’’آپ سے باتیں کر کے بہت مزہ آیا۔‘‘

’’جیتی رہو۔ مجھے بھی بہت اچھا لگا۔‘‘

جب وہ وایا دانتے کی رونقوں میں گم ہو رہی تھی، اپنے بچپن کا گانا میری یادداشتوں میں جیسے بجنے لگا تھا۔

’’جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو۔‘‘

واقعی یہ پیارا سا چہرہ جو ابھی مجھے ملا۔ جس نے بیتے وقت کی چند ساعتیں میرے ساتھ گزاریں۔ اب کہیں دوبارہ اُسے دیکھنا ممکن ہے؟

’’ہم موجیں ساگر کی

بہہ جائیں جب

لوٹ کر نہ آئیں کبھی‘‘

تھوڑی سی افسردگی اور ملال نے مجھے گھیر لیا تھا۔ مگر یہ کیفیت بس چند لمحوں کی ہی تھی۔ میں سکوائر کی رونقوں کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔

مجھے تو یہ ارباط سٹریٹ کی طرح نظر آئی تھی۔ شام اُتر رہی تھی اور اس کی رنگینیاں عروج پر پہنچ رہی تھیں۔ گانے والوں کے ٹولے، فوٹوگرافر اور ماسک پہنے اتراتے پھرتے لوگ۔

سورونو اسٹیشن پر اسما ء کا ملنا گویا خدا کی طرف سے بھیجی جانے والی کوئی غیبی مدد جیسا تھا۔ پی آئی اے آفس میلان میں کام کرتی لڑکی از خود ہی میرے پاس آئی۔ تعارف کروایا۔ ڈیوٹی سے واپس آ رہی تھی۔ والد کوئی بیس سال سے اٹلی میں مقیم ہیں۔ وہ بہن بھائی سب یہیں بڑھے پلے۔

اس نے مجھے گھر چلنے کی دعوت دی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ہر قسم کی مدد کیلئے حاضر ہے۔ میں نے روم جانے کا بتایا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ میرے لئیے وہاں کسی ہوٹل کی بکنگ میں مدد کر دے تو میں شکرگزار رہوں گی۔

’’فکر نہ کریں۔‘‘ اُس نے نمبر لیا۔ ٹکٹ پر میرے روم پہنچنے کا وقت دیکھا اور بولی۔

’’دو گھنٹے کے بعد آپ کو اطلاع دیتی ہوں۔‘‘

نو بجے تک میری روم کے Fiamma ہوٹل کی 55 یورو پر بکنگ ہو چکی تھی۔ یہ بھی اُس نے بتایا تھا کہ ہمارے آفس کا بندہ آپ کو ریلوے اسٹیشن سے پک کر لے گا اور ہوٹل پہنچائے گا۔ ہوٹل ریلوے اسٹیشن کے بالکل قریب ہے۔

’’اسماء تم تو کوئی فرشتہ ہو جسے خدا نے میری مدد کیلئے بھیجا۔‘‘ میری آواز میں ممنونیت کا گہرا رچاؤ تھا۔

شام کو مسز سمتھ سے ملنے گئی وہ مارکیٹ جا رہی تھیں۔ دعوت دی کہ چلو گی۔

میں ہنسی۔ ’’اندھے کو کیا چاہیے؟ پوچھتی کیوں ہیں؟‘‘

گیراج سے گاڑی نکالنے گئیں تو سوچا کہ میں بھی اُن کا ہاتھ بٹاؤں۔ مرکزی دروازہ نمبروں سے کھُلتا تھا جس میں مَیں طاق ہوئی پڑی تھی۔ گاڑی سڑک پر آ گئی۔ دروازہ بند کرتے ہوئے میں ساتھ بیٹھی تو ہنسیں اور میٹھے سے لہجے میں شکریہ ادا کیا۔

اِس چھوٹے سے قصبے کا چرچ بڑا خوبصورت تھا۔ کھیل کے میدان اور پارک شاندار تھے۔ سبزے کی بہتات، خاموشی اور سکون کی فراوانی تھی۔ تیسری دنیا کے ملکوں کا تو ایک مسئلہ ان کی آبادی ہے۔ کلبل کلبل کرتی چینٹیوں کی طرح بلوں سے نکلتی اور بلوں میں گھستی۔ اوپر سے کٹا مٹی کے طوفان جو منہ ناک سے منوں کے حساب سے مرنے تک اندر جاتے ہیں۔

’’کیا کریں بھئی۔‘‘

سپر مارکیٹ میں سبزیوں کے سائز اور جسامت حیرت زدہ کرتے تھے۔ بینگن کون سی اور کِس دنیا کی مخلوق ہے؟ پہچاننے میں نہیں آ رہے تھے۔ کچھ ایسا ہی حال سیبوں کا تھا۔

بہرحال واپس آ کر انہوں نے سارا سامان قرینے سے سمیٹا۔ جب ہم کافی پیتے تھے۔ میں نے سامنے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دس بج رہے تھے۔ ادھر ادھر کی باتوں میں وقت کا تو خیال ہی نہیں رہا۔ گھبراہٹ سی ہوئی کہ خاصا وقت ہو گیا ہے۔ کہیں میں مخل نہ ہو رہی ہوں۔

’’ارے نہیں تو۔‘‘ وہ خوش دلی سے بولیں۔

’’دیکھو تو کتنا اچھا لگا ہے۔ تاریخ کو دہراتے ہوئے۔ ماضی میں جاتے ہوئے۔ پرانے کرداروں پر بات کرتے ہوئے۔‘‘

میں نے مورینو سے ملاقات کا احوال سنایا۔ یہ بھی اعتراف کیا کہ نشاۃ ثانیہ (The Renaissance) کے نام سے شناسائی تو تھی۔ مگر اُس کی گہرائی سے لاعلم تھی۔ مجھ پر تو اس نشاۃ ثانیہ کی حقیقت اپنے پورے معنی سے آج کھلی ہے۔

میں خاموش ہو گئی۔ چند لمحوں بعد جیسے ملتجی سے لہجے میں بولی۔

’’اگر آج آپ کا موڈ کچھ باتیں کرنے کا ہے تو مجھے اس کے باقی ماندہ پہلوؤں یعنی اِس کے زوال سے بھی آگاہ کریں کہ عروج کیسے ہوا سُن بیٹھی ہوں۔‘‘

زیرک خاتون بولیں۔

’’ہر عروج کے نصیب میں زوال بھی لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

کوئی صدی بھر بعد ہی زوال پذیری شروع ہو گئی۔ پہلی اینٹ پرتگال کے واسکوڈے گا ما نے ماری کی جو ہندوستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوا اور نیا سمندری راستہ افریقہ کے گرد دریافت کر کے اٹلی کی مشرق پر تجارتی اجارہ داری توڑنے کا باعث بنا۔

دوسرے پُرتگال، فرانس، سپین، انگلینڈ اور ہالینڈ جیسی مضبوط مرکز کے ساتھ حکومتوں نے اٹلی کو بے اثر کرنا شروع کر دیا۔ اور وہ نشاۃ ثانیہ جو اٹلی میں پیدا ہوا۔ اسے اپنی ہی جنم بھومی میں زوال آ گیا۔ اٹلی ثقافتی طور پر تو زندہ رہا مگر ابھرتی یورپی طاقتوں کے لئے ایک تر نوالہ ثابت ہوا۔

فرانس اور سپین کے اٹلی پر حملے شروع ہو گئے اور مزے کی بات کہ یہ دعوت بھی گھر کے مالکوں نے ہی دی۔ اٹلی کے مختلف لارڈز جو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مرے جا رہے تھے۔ اوپر سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹوں کی مذہبی لڑائیوں کا بھی ملک گڑھ بن گیا۔

1600سے 1800تک دو صدیاں غیر ملکی لارڈز نے اِس ملک پر حکومتیں کیں کہ یہ ان کے لئیے وہ انعام تھے جو انہوں نے اٹلی کو فتح کرنے کے لئیے اپنی حکومتوں کو اپنی خدمات کی صورت دے کر حاصل کئے۔ فکرو سوچ کی دنیا تو پروٹسٹنٹ اور کیتھولک جھگڑوں میں پھنسی ہوئی تھی۔

عدالتی اور سرکاری سطح پر انسانی سوچ اور جدّت کے استحصال کی سب سے بڑی مثال گلیلیو کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

اور چھم سے جیسے مجھے بر ٹولٹ بریخت Bertolt Brecht کا ڈرامہThe life of Galileo یاد آ گیا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ بریخت کے ساتھ مجھے اپنے ملک کا وہ عظیم دانشور بابائے ٹیلی ویژن جناب اسلم اظہر اور ان کا ’’ دستک تھیٹر گروپ‘‘ یاد نہ آتے۔ آئے۔ منصور سعید بھی۔ یہ ڈرامہ میں نے اپنے بڑے بیٹے کے کہنے پر دیکھا تھا۔ کیا شاہکار چیز تھی؟ سارا ڈرامہ اس اہم مقدمے کے گرد گھومتا ہے جس کے تحت کلیسائے روم نے اُسے مجبور کر دیا تھا کہ وہ اپنی اِس شہرہ آفاق انقلابی سائنسی دریافت سے انحراف کر جائے۔

اسے دیکھتے ہوئے سانس کتنی بار رکی۔ بتانا مشکل ہے۔ میں نے مسز سمتھ کو یہ سب سنایا۔ وہ دکھ سے بولیں۔

’’تمہاری باتوں نے مجھے بھی کتنا کچھ یاد دلا دیا ہے۔‘‘

دل دُکھ سے بوجھل سا ہو گیا ہے۔ میں نے دیکھا تھا اُن کی آنکھیں نم سی ہو گئی تھیں۔

اِس ذکر پر مجھے جون کی وہ کسی حد تک گرم سی صبح ایک لشکارے کے ساتھ یاد آئی ہے۔ روم کے کونونٹ منروا میں کھڑا وہ خستہ حال بوڑھا جو آنے والے وقتوں میں انسانیت کے ایک عظیم سائنس دان کی صورت سامنے آنے والا تھا۔ اس وقت بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنا اُس معافی نامے پر دستخط کرتا سامنے آتا ہے جو گوتھک چرچ اور کلیسا نے اس کے خلاف بدعتی نظریے کے اظہار پر فتوی کی صورت جاری کیا تھا۔ اس نے کہا بھی کہ اس نے کب پوپ اربن ہشتم کا مذاق اڑایا ہے۔ ہاں اس کے علم اور مشاہدے نے جو اُسے بتایا اور سمجھایا ہے اُس نے تو اسی کے بارے بات کی ہے۔ زمین ساکت نہیں ہے وہ سورج کے گرد گھومتی ہے۔ مشتری کے گرد گھومتے ستارے اور بے شمار ستاروں کی دریافت مقدس کتاب سے کہاں انحراف ہے؟ ایک علم ہے جس کا یہ تو اظہار ہوا ہے۔ یہ بے ادبی اور گستاخی کا ارتکاب کہاں ہے؟

کتنا بڑا انسان کیسی تنگ نظری کا شکار ہوا۔ اُس کی کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔ دو سوسال تک اس کی کتابوں پر پابندی لگی رہی۔ پادریوں نے اس کی کتابیں پڑھنے والوں پہ فتویٰ لگا دیا تھا کہ انہیں لافانی ارواح کی ہیبت ناک سزا ملے گی۔ گیلیلو کی کتابوں پر 1832ء میں پابندی ہٹی۔

اب اُنیسویں صدی کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ کوئی چار سال رہتے ہوں گے یہی 1796 کے لگ بھگ نپولین بونا پارٹ کرّوفر سے آیا یوں کہ اٹلی کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ مار مار کر بھُرتا بنا دیا۔

تاہم یہ بھی نپولین ہی تھا کہ جس نے ایک بیج اطالویوں کے اندر بویا کہ آخر اُن میں کیا کمی ہے اگر وہ متحد ہوں تو باقی یورپ کی طرح خود حکومت کر سکتے ہیں۔

اور یہی وہ چیز تھی جو اگلے پچاس سالوں میں دھیرے دھیرے لوگوں کے دلوں دماغوں میں اترتی چلی گئی۔ اسے انہوں نے Risorgimentoکا نام دیا۔ یعنی دوبارہ اٹھنا۔ یعنی اٹلی کی عظمتوں کا احیاء۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

باب۸: روم کے لئے روانگی

 

* لگتا تو کچھ یوں تھا جیسے خدا مجھے سیاپے اور مصیبتوں میں ڈالنے کے لئے اٹلی لایا تھا

* آصف علی زرداری سے آپ کی کیا رشتہ داری ہے؟

* سفر پر آٹھ دائرے کھینچے اور پورا روم اِن دائروں میں نمایاں ہو گیا

* سب سے پہلے کلوزیم جائیے یہی پڑھا، یہی سنا۔ مگر دل سپینش سٹیپ زکیٹس کے میوزیم جانے پر مچلا

 

 

اب ہوا کیا؟ روم جانا تھا۔ ایک تو اِس نام سے وابستہ زمانوں بھر کا رومانس اور فینٹسی، اوپر سے اپنے اکیلے ہونے کے تھوڑے بہت ڈر ڈُکر کے ساتھ اِس کے ایک بڑے شہر اور کیپٹل سٹی ہونے کا رعب و دبدبہ جان و دل کود ہلائے دے رہا تھا۔

صبح کاذب کا ڈولا ابھی ٹیرس کے سامنے والی عمارت کے بنیروں پر اُترا ہی تھا کہ آنکھیں پٹ سے کھل گئیں۔ ایک تو میں اپنی اس نور پیر کے ویلے سے جاگنے کی عادت سے ناکوں ناک آئی پڑی ہوں۔ گندی عادت۔ اور نہیں تو مقدر میں یہ ذرا دیر تک سونے کی عیاشی بھی نہیں۔

اوپر سے طرّہ اقبال فیملی بھی اسٹیشن پر مجھے چڑھانے کے لئے تیار ہو رہی تھی۔ میں تو سویرے سویرے ہی نہا دھو، ایک جوڑا پرس میں گھسیڑ کر تیار شیار ہوئے بیٹھی تھی۔ چھٹیوں کی وجہ سے گاڑیاں کم ہو گئی ہیں۔ ٹرین سروس کا درمیانی وقفہ بڑھ گیا ہے۔ ان سب سے میری آگاہی تو اتنی نہ تھی۔

اقبال جب مجھے سکوٹر سے اُتار کر اسٹیشن کی پارکنگ میں اُسے لاک لگا رہا تھا۔ وہ ٹرین جو مجھے سہولت اور کوئی پندرہ منٹ کے مارجن سے گاڑی میں سوار کرا سکتی تھی ہمارے اسٹیشن چیزاتے سے رخصت ہو رہی تھی اور وہ بیوقوف مجھے بتا رہا تھا کہ ہمیں تو اِسے پکڑنا چاہیے تھا۔

’’گدھے۔ مجھے غصہ آیا۔ یہ تو تم نے بتا نا تھا۔‘‘

’’کوئی بات نہیں۔‘‘ حد درجہ لا پروائی کا عنصر تھا انداز میں۔

پندرہ منٹ بعد آنے والی ٹرین نے جب میلانو کو دور نو پر اُتارا۔ پونے نو بج رہے تھے اور ابھی ہمیں میٹر و پر چڑھنا تھا۔ سیڑھیاں کس تیزی سے اُتریں کہ بے اختیار ہی کہنا پڑا۔

’’یا اللہ میرے گوڈوں کی خیر۔‘‘

ٹکٹوں کو ٹرن سٹلز Turnstiles سے مس کر کے راستہ کھولنے کی بھاگ دوڑ کا منظر بھی بڑا پُر جوش سا تھا۔ ایک بار بونگے نے غلط سیڑھیاں چڑھا دیں۔ بہر حال جلد ہی احساس ہونے پر پھر دُڑکی لگائی۔ چلو یہاں Escalators نے مدد کی اور عین چنترال کے ہال میں پہنچا دیا۔ ایک دو، تین۔ اِن برقی زینوں کے بعد اقبال نے مجھے ٹرین ٹرمینل کی لابی میں دھکیل دیا یوں جیسے کہتا ہو میں تو یہاں تک لے آیا ہوں۔ گاڑی ملتی ہے یا نہیں اگے تیرے پھاگ لچھئیے۔

اُس وقت گھڑی پر نو بجنے میں ایک منٹ اور پچیس سیکنڈ تھے۔ سانسیں لوہار کی دھونکنی کی مانند پھُولتی تھیں۔ ہونٹ خشک تھے اور چہرے پر ہوائیاں اُڑتی تھیں۔

’’ یا اللہ اِن مصیبتوں کے لئے، اِن سیاپوں میں ڈالنے کے لئے تو مجھے یہاں لا یا تھا۔ ہر روز ایک نئی مصیبت۔‘‘

اب نو بجنے میں صرف ایک منٹ تھا۔ اور وہ منٹ قیامت کا تھا۔ ٹکٹ ہاتھ میں تھا اور میرے سوال کا کاسہ پھیلا ہوا تھا کہ گاڑی کونسے پلیٹ فارم پر کھڑی ہے؟ اِس نفسانفسی میں شاید اوپر والے کو ترس آ گیا تھا۔ پتہ نہیں کون تھا؟ اُس نے ایک قدم کے فاصلے پر کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔

پہلی بو گی کے پاس یونیفارم میں دو بندے کھڑے تھے۔ میں نے اُسی کے کھلے دروازے سے اوپر جانے اور اندر ہی اندر اپنے کمپارٹمنٹ میں جانے کا عندیہ دیا۔ آواز میں گھبراہٹ، لہجے میں اضطراب تھا۔ ٹکٹ ہاتھ میں تھا۔

اُس نے دسویں بو گی کی طرف اشارہ کیا۔

’’ ہائے میرے اللہ عین تیرے پچھواڑے۔‘‘

اب آؤ دیکھا نہ تاؤاُسے بازو سے پکڑا اور گھسیٹنے لگی کہ مجھے پہنچاؤ۔

بے چارہ نوجوان بے بس ہو گیا۔

’’ریلیکس ریلیکس۔‘‘ اُس نے میری حالت زار کو دیکھتے ہوئے کہا۔

مگر میں تو اڑی جا رہی تھی۔ بو گی نمبر دس کے پہلے پوڈے پر قدم رکھا ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی۔ بیٹے کو ہوائی بوسہ دیا۔ اونچی آواز میں اُس کو دعا دی اور شکر شکر کرتی اندر آئی۔

حلق میں کانٹے چُبھ رہے تھے۔ ایک سیٹ پر ایک معمر مرد پانی کی بوتل سامنے رکھے بیٹھا تھا۔ اُس کی بوتل کو ہاتھ میں پکڑا۔ جھُک کر اُسے بتایا کہ میں بہت پیاسی ہوں۔ بُہت مشکل سے گاڑی پکڑی ہے۔ لیٹ ہو گئی تھی۔ وقت نہیں تھا کہ بوتل خریدتی۔

’’اگر یہ پانی میرے اندر نہ گیا تو یہیں پھُڑک کر مر جاؤں گی۔‘‘

در اصل تیسری دنیا سے تھی نا۔ جن کی وقت کے معاملے میں ڈنڈیاں مارنے کی عادت ہے۔

وہ ہونقوں کی طرح مجھے دیکھتا تھا اور میں زور سے ڈھکن کھول بوتل سے گھٹ گھٹ پانی پی رہی تھی۔ عجیب ڈھٹائی تھی میری۔ پر کیا کرتی۔ مرنا تو نہیں تھا مجھے۔

کمبختوں کی گاڑیاں کیسی ہیں؟ کم از کم اندر ڈائننگ کاریں ہونی چاہئیں۔ ہاکرز کے دو تین چکر لگنے چاہئیں۔ چائے کافی ملنی چاہیے۔

چلو واپس جا کر اٹلی کی وزارت سیاحت کو چِٹھی لکھوں گی کہ بس آپ کے ہاں یہ کمی نظر آئی ہے اگر آپ اس پر غور کریں تو میرے جیسی بہتوں کا بھلا ہو گا اور کوئی بے چاری پھڑک کر مرنے سے بچ جائے گی۔

لاہور ائیر پورٹ پر میلان آنے والی ایک خاتون سے جو اٹلی میں بیس سال سے رہ رہی تھی ملاقات ہوئی تھی جس نے اپنے میلان سے روم کے لئے ایک سفر کی روئیداد سُنائی تھی۔ راستے کے حُسن و خوبصورتی کے جو اُس نے گڈے باندھے تھے۔ میں نے انہیں سانس روک کر سنا تھا اور آج سفر کرتے ہوئے اُس کی باتیں میرے کانوں میں گونجتی تھیں۔ روم کے قریب پہنچنے تک مجھے تو اِس راستے میں قابل ذکر اور قابل دید بس اِس کی پستہ قامت پہاڑیوں اور ڈھلانوں کے سوا کچھ اور اگر نظر آیا تھا۔

تو وہ ہرے بھرے جنگلات کا سلسلہ تھا جو آنکھوں کو طراوت اور تازگی کے ساتھ ساتھ خوشی وسرشاری سے بھی نہال کرتا تھا۔

میں سوچنے پر مجبور تھی کہ آخراُس عورت کو اِس درجہ گڈے باندھنے کی ضرورت کیا تھی کہ میری آنکھیں کھڑکی کے شیشوں سے ہی چپکیں رہیں۔ بہت سوچنے پر مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ آئی کہ گجرات کی وہ عورت نو عمری میں اپنے گھر سے نکلی اور میلان آ گئی۔ اُس نے دنیا تو کیا اپنے ملک کو بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ اگر شمالی علاقہ جات کا حسن دیکھ لیتی تو غش کھا کر گر پڑتی۔

میرے موبائل کی بیل نے متوجہ کیا تھا۔ نثار احمد میلان پی آئی اے آفس کا کوئی کارندہ جسے اسماء نے مجھے وصول کرنے اور ہوٹل پہچانے کی تاکید کی تھی بات کرتا تھا۔ میں نے ممکنہ وقت کا بتایا۔

روم کا مضافات شروع ہو رہا تھا اور میں صرف یہی بات ایک تسلسل سے سوچے چلے جا رہی تھی کہ کتنی تمنا تھی اِس عظیم الشان، سفاک اور اندھی طاقت کے مظہر شہر کو دیکھنے کی۔ یورپین تہذیب کا ایک شوکیس جس کے قدیم ترین ورثے حیران کرنے والے ہیں اور ماڈرن سانچے اِسے توانائی سے مالا مال کرتے ہیں۔

گاڑی کی رفتار کم ہوتے ہوتے رُک گئی۔ اسٹیشن لابیاں ٹرین ٹریکوں کے لیول سے روم میں بھی جڑی ہوئی تھیں۔ مجھے یہ سسٹم بہت اچھا لگا تھا۔

میں انسانوں کے اِس روانی سے بہتے ہجوم میں نثار احمد کو ڈھونڈ رہی تھی۔ ناکامی پر نمبر ملایا۔ پتہ چلا کہ وہ وہیں کہیں موجود تھا۔ چلو دو تین منٹ میں ہی اُسنے مجھے ڈھونڈ لیا۔ شلوار قمیض کے ہوتے ہوئے بھلا پہچان کی کیا دشواری تھی۔

اُس نے میرے ہاتھ میں پکڑی میری ننھی مُنی سی بقچی پکڑی اور میں اُس کے ساتھ باہر آ گئی۔ سڑک پر آنے کے ساتھ اُس کا پہلا سوال آصف علی زرداری سے میری رشتہ داری کس نوعیت کی ہے؟ کے متعلق جاننے کا تھا۔ چلتے چلتے رُک کر میں نے ہونقوں کی طرح اُسے دیکھا اور خود سے کہا۔

’’ ارے یہ اُس نے کیا پوچھا ہے؟ مجھ غریبڑی کا کیا واسطہ ناطہ اُس کھرب پتی سے۔‘‘

دفعتاً جیسے برق سی کوند جائے۔ یقیناً اسماء نے اپنے عملے کو میرے سلسلے میں مرعوب کرنے کیلئے کوئی بڑ ماری ہو گی۔ پھر ایک خیال نے بھی مجھ سے پوچھا۔ پی آئی اے میں زرداری کے شیئرز ہیں؟ یقیناً ہوں گے۔ اگر ظاہراً نہ ہوں تو اندر خانے ہوں گے۔ بڑے لوگوں کے طور طریقوں اور ہتھکنڈوں کو ہم جیسے بھلا کیا سمجھیں؟

بہرحال میں نے ہوشیاری سے کام لیا اور بات نبھا دی کہ اچھے تعلقات ہیں۔ میرا خیال ہے نثار احمد بڑا کائیاں قسم کا آدمی تھا۔ سمجھ گیا تھا۔ بولا کچھ نہیں۔ پر چہرے نے اندر کے سمجھنے کو بوتھے پر سجا لیا تھا۔

میں نے بھی ’’بھاڑ میں جائے جو مرضی سمجھے‘‘ کہتے ہوئے بڑی چاہت سے اپنے گرد و پیش کو دیکھا۔ شاندار عمارتیں، خوبصورت سڑکیں۔ ابھی پچاس قدم چلی ہوں گی کہ پہلے وہ ایک جانب مڑا۔ Fiammaہوٹل کا پوچھا اُنہوں نے دوسری جانب کا راستہ دکھایا۔

لیجیے ایک خوبصورت چار منزلہ عمارت کے سامنے کھڑی ہو کر میں نے اطمینان اور سرور سے اِسے دیکھا۔ عمارت کے خودکار دروازے کھلے اور میں نے اندر داخل ہو کر پسندیدہ نظریں اپنے گرد و پیش پر ڈالیں۔

ایک ہوٹل کوجیسا نظر آنا چاہیے تھاویسا ہی میرے سامنے تھا۔ ریسپشن پر ساری کاروائی بھگتائی۔ 55 یورو کے حساب سے سنگل بیڈ والا کمرہ تین دنوں کی بُکنگ۔

میں نے نثار احمد کو وہیں سے بصد اصرار ٹوکرے بھر شکریے کے ساتھ واپس بھجوانا چاہا۔ مگر وہ مجھے کمرے میں پہچانے پر مُصر تھا۔

’’چلو بیبا کر لو اپنا شوق پورا۔ مائی کو ایک جوڑے اور واش روم کی چپل کے بوجھ سے لدے شاپر کو اُٹھانے کی زحمت سے بچا کر ثواب کما نا ہے تو بھئی کماؤ۔‘‘

کمرہ اچھا تھا۔ نثار احمد نے واپسی ٹکٹ خریدنے کی پیشکش کی جسے میں نے شکرے کے ساتھ یہ کہتے ہوئے ردّ کر دیا کہ میرے موڈ کا کچھ پتہ نہیں۔ روم سے محبت نے زیادہ اچھل کود کی تو ایک آدھ دن مزید ٹھہر سکتی ہوں۔ مگر حقیقتاً ایسا نہ تھا۔ یونہی مجھے خیال آیا تھا۔ اسے پیسے دے کر میں کسی مصیبت میں ہی نہ پھنس جاؤں۔ کون اسماء کو چھوٹی چھوٹی باتوں کیلئے پریشان کرے کہ دو قدم پر تو اسٹیشن ہے۔ جب جی چاہا لے آؤں گی۔

جانے سے قبل اُس نے ایک بار پھر زرداری سے میرے تعلق کی نوعیت جاننا چاہی۔ منہ پھٹ عورت ہوں۔ زیادہ دیر ملّمع سازی نہیں کر سکتی۔ اب بھئی اسماء بُرا مانتی ہے تو مانے میں کیا کروں۔

’’ارے میرے بچے ہمارا کیا تعلق اِن اونچی جاتی کے لوگوں سے۔ ہاں مگر چھوڑو اِس بات سے کیا لینا دینا۔ تم نے جو یہ مہربانی کی اُس نے مجھے پندرہ منٹ میں یہاں پہنچا دیا۔ تمہاری عدم موجودگی میں یہی مرحلہ آدھ گھنٹے میں ذرا خجل خواری سے طے کر لیتی۔ اس لئے تمہارا بہت بہت شکریہ۔ جیتے رہو۔‘‘

مگر اُسے خدا حافظ اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے سے قبل میں نے یہ جاننا ضروری سمجھا کہ اِس وقت جب ایک بجنے والا ہے مجھے کن چیزوں کو دیکھنا چاہیے؟

میری اِس بات پر وہ کرسی پر بیٹھ گیا اور اُس نے کاغذ قلم مانگا۔

پہلی بات کہ آپ روم کی سیر کے لئے رومہ پاس لیں۔ یہ آپ کو تین دنوں کے لئے ٹرانسپورٹ اور اہم جگہوں پر ٹکٹ کے لئے لائنوں میں لگنے اور ٹکٹ کے خرچ سے بچائے گا۔ بیس یورو کا یہ ٹکٹ آپ کو ٹرین اسٹیشن جہاں سے ابھی آپ آئی ہیں سے مل جائے گا۔

اسٹیشن تو اتنا بڑا ہے۔ میں نے بات کاٹی۔ ’’ارے بھئی نیوز سٹینڈوالے بیچتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی کتابوں، رسائل اور اخبارات کا اسٹال نظر آئے۔ اُن کے پاس چلی جائیے۔ برو شر اور نقشے بھی مل جائیں گے وہیں سے۔‘‘

روم ایسا شہر ہے جس کی شما ل، جنوب، مشرق، مغرب ہر سمت تاریخی اثاثوں سے بھری پڑی ہے۔ اُس نے میرے دیئے ہوئے پین سے میری کاپی جو میں نے کھول کر اُس کے سامنے رکھی تھی پر آٹھ دائرے بنائے۔

کاپی کے داہنے ہاتھ چھوٹا سا دائرہ کھینچتے ہوئے واضح کیا کہ یہ اسٹیشن ہے۔ اِس کے قریب ہی نیچرل میوزیم ہے۔ اوپر ایک بڑا سا دائرہ اور بنا۔ وہاں بورگیزBorghese Gallery اور ذرا نیچے سٹیشن اس کے بعد Spanish Steps دکھاتے ہوئے کہا کہ دونوں جگہیں خوبصورت اور تاریخی حوالوں سے اہم ہیں۔ انگریزی کا وہ شاعر جو بڑی رومانی نظمیں لکھتا تھا اور جوانی میں مر گیا تھا۔ وہ یہیں ساتھ ہی عمارت میں مرا تھا وہاں اُس کا میوزیم ہے۔

’’اوہو تم کیٹس کی بات کر رہے ہو۔‘‘

میراسارا اشتیاق میرے چہرے پر اُمنڈ آیا تھا۔ اُدھر ہی Pizza Del Popoloاور شاپنگ مارکیٹ ہے۔ آگے ویٹی کن سٹی ہے مغربی جانب۔ شمال مغربی سمت ویٹی کن کا دائرہ کھینچ گیا تھا اور ساتھ ہی تھوڑی سی وضاحت کہ میوزیم کا دیکھنے سے تعلق ہے۔ رومن کیتھولک کی ساری تاریخ مجسم ہے وہاں۔

اُسی طرف ایک لکیر دریا کی کھینچی اور بتایا کہ یہ Tiber River ہے۔ اب دریا کے اندر کی جانب ایک اور دائرہ کھینچا گیا کہ یہ Pantheom Neighbourhood ہے۔ میں تو اِسے روم کا دل کہتا ہوں۔

نثار احمد نے کاپی پر سے نگاہیں اٹھائیں۔ میری طرف دیکھا اور بولا۔

’’ بہت لوگوں کا یہی کہنا ہے ہاں البتہ جب آپ اُسے دیکھ لیں گی تو شاید آپ بھی یہی کہیں۔‘‘

اب مرکز میں ایک دائرہ کھینچا۔ یہ پرانا روم ہے۔ یہیں Colosseumہے۔ یہیں رومنوں کی تاریخ ہے۔ عین نیچے اور مغربی جانب ذرا اونچائی پر دو دائرے اور بنائے گئے۔ نیچے والے میں اُس نے Testaccio اور دریائے Tiber کے پارTastevere لکھے۔

پھر قلم مجھے تھماتے ہوئے وہ اُٹھا اور اُس نے کہا اگر آپ نے اِن سب کو دیکھ لیا تو سمجھ لیں کہ آپ نے تھوڑا بہت روم دیکھ لیا۔

میں نے کاپی پر نظریں ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’ تم روم میں کب سے ہو؟ بڑے ماہر لگتے ہو۔ تمہارا علم اور معلومات بہت متاثر کن ہیں۔ اِس انداز میں گائیڈ لائنیں یہ تو بڑی ٹیکنیکل اپروچ ہے۔

اُس کا لہجہ نارمل تو تھا مگر اس میں کوفت اور بیزارگی کا عنصر بھی تھا۔ دس سال سے ہوں۔ پی آئی اے کے بڑے لوگوں، اُن کے رشتہ داروں اور اُن کے واقف کاروں کا خادم اعلیٰ ہوں۔ کوئی بڑی اور با اثر شخصیت جب بھی آتی ہے تو انہیں لئے لئے پھرنا اور اُن کے لئے ہر سہولت بہم پہچانا میرا فرض منصبی ہے۔

اُسے رخصت کرنے کے بعد میں بستر پر لیٹ گئی۔ تنہائی، آرام دہ بیڈ، روم شہر میں خود کی موجودگی کا سرور، سب دل خوش کن تھے۔

پورے آدھ گھنے بعد مجھے احساس ہوا میں تو بہت بھُوکی ہوں۔ منہ ہاتھ دھویا۔ کنگھی پٹی، تھوڑی سی لبوں کی لالی سے صورت کو گوارا کرنے کی کوشش ہوئی۔ دروازہ لاک کرنے کے بعد اُن بھول بھلیوں سے احسن طریقے سے نکلنے اور لفٹ تک پہنچنے کی کامیابی نے دل شاد کیا۔ چابی کاؤنٹر پر دیتے ہوئے خود سے کہا۔

’’بات ہوئی نا۔‘‘ وینس یاد آیا تھا۔

ہوٹل سے نکلی تو ساتھ ہی جنرل سٹور نظر پڑا۔ لیجیے بنگالی لڑکوں سے متھا ٹکرایا۔ اب یہاں اپنی بنگلہ دیشی محبت کی ساری روئیداد پھر محبتوں کے شیرے میں گوندھ کر سنائی۔ لڑکوں نے محبت تو دکھائی۔ مگر کاروباری ذہنیت کا بھی اظہار ہوا۔ دودھ اور پانی کی بوتلیں بسکٹ، کیلے، آڑو اور سیب لئے۔

تو کمرے میں آ کر میں نے دودھ کی ایک بوتل اور پانی کی دو بوتلیں پئیں۔ تھوڑی دیر ٹھہر کر دو کیلے کھائے۔ سیب کھایا۔ آڑو دھو کر شاپر میں لپیٹ کر دو عدد کیلوں کے ساتھ بیگ میں رکھے کہ تھکن کی صورت میں توانائی بحال رکھنے کا موثر بندوبست ہو۔

اسٹیشن پر کتابوں کی دکان کھوج کی۔ ایک ملی تو وہاں سے رومہ پاس نہیں ملا۔ میں نے لعنت بھیجی۔ سڑک پر ایک چھوٹی سی دکان سے نقشے کا پوچھا۔ نقشہ ملا۔ رومہ پاس بارے دریافت کیا۔ جواب نفی میں تھا۔ ہاں البتہ ہوپ آن اور آف کے ٹکٹ دستیاب تھے۔

اب جب آدھا دن گزر چکا تھا اس کے لینے کا فائدہ۔ اس پروگرام کو تو کل کیلئے رکھا جائے۔ نقشہ کھولا۔ لمبا چوڑا سا۔ اب جس جس موٹی سرخی پر نظر دوڑاتی ہوں وہ خیر سے مجھ سے بھی زیادہ اتنی گھمن گھیریوں میں اُلجھی ہوئی نظر آتی ہے۔ دریا بڑا کلیئر تھا۔ کولو سیئم Colosseum کا پتہ چلتا تھا۔ اب جو غور کیا تو ماتھے پر ہاتھ مارنا پڑا کہ سارے کا سارا اطالوی زبان میں تھا۔ لکھے موسیٰ تے پڑھے خدا والا معاملہ تھا۔

اور کچھ سمجھ نہ آیا تو سڑکوں پر مٹر گشت شروع کر دی۔ معلوم ہوا کہ روڈ کی ہر تیسری چوتھی دکان کسی بنگالی کی ہے یا وہ وہاں ملازم ہے یا مالک ہے۔

’’واہ بھئی واہ۔ بنگالیوں نے تو بڑے جھنڈے گاڑے ہیں۔ انہی چکر بازیوں میں ایک دکان میں بیٹھ گئی کہ مستفیض الرحمن نے بیٹھنے کو کرسی دی تھی۔ اُسے انگریزی چھوڑ اُردو بھی بہت اچھی آتی تھی۔

سعودی عرب میں پندرہ سال گزارنے والا عربی اور انگریزی بولنے پر بھی قادر تھا۔ بڑا وسیع المطالعہ شخص تھا۔ عرصہ دس سال سے اٹلی میں تھا۔ سخت محنت اور جد و جہد کرنے والا۔‘‘

روم کے بارے بات کرنے پر بولا۔

’’بھئی میرے لئیے تو روم یورپ کا اہم ترین اور بہت بڑا شہر ہے۔ لندن اور پیرس جیسا۔ صدیوں کی تاریخ کو کلیجے سے لگانے اور سنبھالنے والا۔ کوئی دو صدیاں پہلے لفظ "روم”اپنے معنی و مفہوم میں تہذیب و تمدّن کا کھلا اظہار تھا۔ اس کی ہر چیز خواہ اس کا تعلق رومن ایمپائر سے ہو یا لاطینی اور یونانی زبانوں سے یا غیر لاطینی وحشی و غیر مہذب لوگوں سے۔ مگر آج کی دنیا میں "روم”کا مفہوم قطعی طور پر نئے معنی لئیے ہوئے ہے۔ اٹلی کا سیاسی دارالخلافہ، کیتھولک مذہب کا مرکز اور قدیم دنیا کی باقیات جسے ایک طرح نظرانداز کر دیا تھا مگر یہ اپنی جدے دیت کے ساتھ ساتھ اُس عہد اور اس کی اُس خوشبو کو بھی زندہ کرتا ہے۔

تو اب گائیڈ کریں کہ ڈھائی بج رہے ہیں کِس طرف نکلوں؟

اس وقت دکان پر کوئی اکّا دکّا گاہک آتے تھے۔ یہ سونئیرز، فوٹو مشین، انٹرنیٹ کی دکان تھی۔ پرانا روم سب سے پہلے دیکھئیے۔ قدیم زمانوں میں تو یہ عالیشان اور حد درجہ خوبصورت عمارتوں کا ایسا شہر تھا جسمیں کوئی ایک ملین لوگ رہتے ہیں۔ مگر آج کے تناظر میں یہ کلاسیکل نظاروں کا شہر ہے تو پہلے کلوزیمColosseum جائیے۔

مگر اب سچی بات یہی ہے کہ طبیعت نہ تو کلوزیم جانے پر مائل ہوئی اور نہ ویٹی کن کیلئے۔ گو دونوں جگہوں کا اشتیاق کچھ کم نہ تھا۔ مگر یہاں دل کا معاملہ تھا اور دل تو Spanish Stepsجانے اور کیٹس کے اُس عارضی ٹھکانے کو دیکھنے کیلئے ہی ہُمکا اور مچلا تھا۔

٭٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ  کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

 

کنڈل فائل