فہرست مضامین
اور پھر بیاں اپنا۔۔۔۔۔۔۔
محمد غالب نشتر
(شموئل احمد کے مجموعے "نملوس کا گناہ اور دوسری کہانیاں” کا پیش لفظ)
سیمی نار کا ایک موسم ہوتا ہے۔ اس موسم میں ملک کے مختلف شہروں میں پھل پک کر تیار ہوتے ہیں۔ فصل کی کاشت کاری سے لے کر کٹائی تک کے معاملات کا یہ دورانیہ کئی مہینوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس موسم کی ابتدا سے کئی ماہ قبل، صاحبِ ثمر حضرات کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی فصل اگائیں تاکہ معینہ میعاد پر اُن کی فصل پک کر تیار ہو جائے اور معقول اجرت سے نوازے جائیں۔ اجرت کی کئی قسمیں ہوتی ہیں لیکن اس سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ (موسم سے مراد سیمی نار، پھل یا فصل سے مراد فرمائشی اور بے مواد مضامین، کاشت کار سے مراد فن کار، زمیندار سے مراد مقالہ نگار یا بقراط ناقد اور اجرت سے مراد وہ رقم جس کی وجہ سے سیمی نار کا انعقاد کیا جاتا ہے ) تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی۔ باصلاحیت حضرات معقول اجرت سے نوازے جاتے ہیں۔ ان میں بعض حضرات اجرت کی مقدار دیکھ کر ہی کاشت کاری میں ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اگر معقول اجرت نہیں تو محنت نہیں۔ البتہ نووارد حضرات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اجرت کی فکر نہ کر کے فقط کاشت کرنے کے مواقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بعضے زمین دار ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا ہر سیمی نار میں غلبہ ہوتا ہے۔ وہ جہاں چاہیں اور جس طرح چاہیں اپنی کاشت اگا سکتے ہیں اور اُگانے پہنچ جاتے ہیں۔ فکشن کی فصل ہو یا نان فکشن کی، غزلیہ شاعری کا ذائقہ ہو یا نظمیہ شاعری کا، ان کا وہاں پہنچنا باعث تبرک تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے زمین دار کم کم ہی ہیں لیکن ہمارے اردو ادب میں ہر فن کار خود کو کاشت کار اور ہر ناقد اپنے آپ میں زمین دار ہوتا ہے۔ کاشت کار اور زمیندار کے مابین سر جنگ ایک زمانے سے چل رہی ہے۔ ہندوستانی ادبیات ہی نہیں بلکہ یونانی، فرانسسی، روسی اور انگریزی ادبیات میں بھی اس طرح کے واردات رونما ہوتے رہے ہیں۔ کبھی کاشت کار خود کو بر تر سمجھنے کی جتن کرتا ہے تو کبھی جاگیردار اپنے کو بڑا بننے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے۔ خیر! یہ بات متفق علیہ ہے کہ دونوں حضرات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ جملۂ معترضہ کے طور پر عرض یہ کرنا ہے کہ ناچیز کو کسی موسم میں پٹنہ جانے کا اتفاق ہوا تھا جس میں خواتین فکشن نگاروں کا بازار گرم ہونے والا تھا۔ موسم کے ظہرانے میں چائے کی چسکیوں کے دوران دیکھا کہ ایک شخص سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے چلا آ رہا ہے۔ معلوم ہوا شموئل احمد ہیں۔۔ ۔۔ سرو قد، لحیم شحیم بدن، سر پر لمبے بال اور پیل مست بے زنجیر کے مصداق۔۔ ۔۔ ۔ عجیب سی مقناطیسی کشش۔۔ ۔۔ ۔ سگریٹ کے کش اور چائے کی چسکیوں کے ساتھ جب حالات حاضرہ اور موسم پر تبصرہ کرتے ہوئے گالیوں کی بوچھار کرتے تو غالب کے مصداق’ گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا‘ اُن کی باتیں مزہ دیتیں۔
ظہرانہ ختم ہوا اور لوگ منتشر ہونے لگے۔ باقی ماندہ لوگوں میں شموئل صاحب رہ گئے تھے۔ ان کی مجھے ایک زمانے سے تلاش تھی۔ پی ایچ ڈی کے دورانیے میں اُن سے رابطے کی کئی کوششیں کیں جو ناکام رہیں۔ لوگوں میں افواہیں گرم تھیں کہ وہ پٹنہ چھوڑ چھاڑ کر بن باس کی زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ کے لیے پونے ہجرت کر گئے ہیں۔ رابطے کی کوئی صورت نہیں تھی اور آج اچھا موقع میسر ہاتھ لگا تھا۔ میں نے سوچا کہ آج کے بعد کہیں اور نہ غائب ہو جائیں لہٰذا میں نے ان کے ہمراہ اُن کے گھر کی راہ لی۔ اپارٹمنٹ کے گراؤنڈ فلور میں اُن کا ذاتی مہمان خانہ ہے جس کا انھوں نے ’’جیوتشی کیندر‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ اس مخصوص کمرے کا استعمال مطالعہ کرنا، تصنیف و تالیف کا کام کرنا، دوستوں اور غیر دوستوں سے پر تکلف باتیں کرنا، علم نجوم پر خامہ فرسائی کرنا اور بے وقوف لوگوں پر اُس کا تجربہ آزمانا۔۔ ۔۔ اور۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
اس کمرے میں ادب کے علاوہ تمام کتابیں ہوتی ہیں۔ خصوصی طور پر علم نجوم کے حوالے سے مستند کتابیں اُن الماریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ اردو کتابوں کا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی اردو نواز، نئی کتاب کو دیکھتا ہے تو مطالعے کی ایسی ضد مچاتا ہے کہ وہ پہلی ہی فرصت میں کتاب کو چاٹ کھائے گا اور کتاب لے کر اس پر غاصبانہ حق جتاتا ہے اور کبھی واپس نہیں کرتا۔ جیسا کہ ایک مثل مشہور ہے کہ اپنی کتابیں دوسروں کو دینے والا بے وقوف ہوتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ بے وقوف وہ ہوتا ہے جو کتابیں پڑھ کر واپس کر دے۔ اسی لیے شموئل احمد بے وقوف بننے والا کام نہیں کرتے۔ میری خوش نصیبی تھی کہ میں جیوتشی کیندر میں بیٹھا اردو فکشن کے اہم رائٹر سے باتیں کر رہا تھا۔ اس کیندر میں ادبی اور غیر ادبی ڈھیر ساری باتیں ہوتی رہیں۔ میں تو اُن کی تحریروں سے پہلے ہی واقف تھا، آج ان کی شخصیت نے مجھے اور بھی مرعوب کیا۔ شام کا سورج اپنی شعاعوں کو سمیٹ لینے کی تیاریاں کر ہی رہا تھا کہ میں نے بھی ان سے اجازت لے کر اپنے قیام گاہ کی راہ لی اور اُن کے افسانوں سے متعلق مواد جمع کرتا رہا۔ دو ماہ گزر جانے کے بعد میں نے ایک چھوٹا سا مضمون لکھا جو میرا پہلا مضمون تھا۔ ظاہر ہے وہ مضمون ڈھیر ساری غلطیوں کا ملغوبہ تھا۔ یہ مضمون سہیل، گیا اور چہار سو، راولپنڈی میں شائع ہوا تھا۔ دو چار سالوں کے دورانیے میں شموئل احمد کی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان کے افسانوں کو ایسا انتخاب شائع ہو جو نوجوان طالب علموں کی رہنمائی کر سکے۔ ان کے افسانوں پر گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی شخصیت اور فن کے ادوار کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے۔
ان کی ابتدائی دو کہانیاں اس وقت شائع ہوئیں جب وہ درجہ ہفتم کے طالب علم تھے۔ ظاہر ہے وہ کہانیاں اُن کی ادنا سی کوشش تھی اور اس بات کا اشاریہ بھی، کہ ان کا ذہن باغیانہ ہے اور کج روی اُن کی شخصیت کا ایک انمول حصہ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا جب پہلا افسانہ شائع ہوا تو سماج سے بغاوت کی بو موجود تھی۔ ان کا پہلا افسانہ ‘‘صنم‘‘ پٹنہ میں ’’چاند کا داغ‘‘ کے عنوان سے نومبر۔ دسمبر 1962ء میں شائع ہوا۔ اس کی کہانی بڑی معنی خیز تھی جو ان کے باغیانہ ذہن اور خلاقانہ قدرت کا پتا دیتی تھی۔ اپنی سوانحی کتاب ’’اے دلِ آوارہ‘‘ میں اس کہانی کی کہانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میری زندگی کے سبھی بڑے فیصلے میرے بزرگوں نے لیے۔ صرف ایک فیصلہ میں نے اپنے لیے محفوظ رکھا۔۔ ۔۔ وہ ہے۔۔ ۔۔ میری تحریر۔۔ ۔۔ ۔۔ میری پہلی دو کہانیاں پٹنہ کے صدائے عام میں شائع ہوئیں تب میں ساتویں درجے کا طالب علم تھا۔ میرے والد کہانی پڑھ کر بہت خوش ہوئے تھے، سب کو دکھاتے پھرتے تھے۔ میں جب انٹر میں پہنچا تو ایک اور کہانی لکھی۔ ’’چاند کا داغ‘‘ جو ماہنامہ ’صنم‘ پٹنہ میں شائع ہوئی۔ والد پڑھ کر تردد میں مبتلا ہوئے۔ دن بھر آنگن میں ٹہلتے رہے۔ ایک ہی بات کہتے تھے ’’اُس نے اس طرح کیوں لکھا؟ کہاں سے یہ بات دماغ میں آئی؟‘‘ کہانی میں ایسا کچھ نہیں تھا کہ والد کی نیند اُڑ جاتی۔ پھر بھی ان کے اپنے ویلوز تھے جن کی میں نے نفی کی تھی۔ یہ کہانی ایک عورت کی تھی جسے بچہ نہیں ہو رہا تھا۔ ایک دن بچہ ہوا تو دادی بہت خوش ہوئی۔ بیٹے کو پوتے کا منہ دکھا کر کہنے لگی کہ گھر میں چاند اتر آیا ہے لیکن بیٹا اداس تھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ بنجر زمین پر اُس کے پڑوسی شوکت میاں ہل چلا رہے ہیں۔ وہ ماں سے کہنا چاہتا تھا کہ گھر میں چاند نہیں چاند کا داغ اتر آیا ہے۔‘‘
یہ افسانہ کسی بھی مجموعے میں شامل نہیں ہے۔
’’بگولے‘‘ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جسے سرخاب پبلی کیشنز، پٹنہ نے 1988ء میں بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔ اس کتاب میں چودہ افسانے شامل ہیں جن کے مشمولات درج ذیل ہیں:
1۔ قصبہ کا المیہ 2۔ قصبہ کی دوسری کہانی 3۔ مرگھٹ 4۔ باگمتی جب ہنستی ہے 5۔ سبز رنگوں والا پیغمبر 6۔ آخری سیڑھی کا مسافر 7۔ ٹوٹی دشاؤں کا آدمی 8۔ وہ 9۔ عکس عکس 10۔ ایک اور عکس 11۔ عکس تین 12۔ عکس چار 13۔ آدمی اور مین سوئچ 14۔ بگولے
اس مجموعے کی کئی کہانیوں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ سبز رنگوں والا پیغمبر، عکس سیریز کی کہانیاں، آدمی اور مین سوئچ، بگولے وغیرہ اسی ضمن کی کہانیاں ہیں۔ اس مجموعے میں کئی کہانیوں کو علامتی کے ضمن میں بھی رکھ سکتے ہیں جسے حالات کے تقاضے والی کہانیاں بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ کہانیاں اس عہد میں رقم کی گئیں جب فن کاروں کے مابین یہ تصور عام تھا کہ علامتی افسانے ہی ایک فن کار کو زندہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا اس ’بلا‘ سے آنکھیں ملانے کے لیے کئی افسانہ نگاروں نے علامتی اور نیم علامتی کہانیاں لکھیں جو ظاہر ہے مقبول نہ ہو سکیں۔ ترقی پسند افسانہ نگار بھی اس زد سے نہ بچ سکے۔ شموئل احمد کی کہانیوں کو مکمل علامتی نہیں کہہ سکتے بلکہ انہیں نیم علامتی کوشش کہہ سکتے ہیں۔
صنف افسانہ میں اپنی ہنر مندی کا ثبوت پیش کرنے کے بعد ناول نگاری میں بھی قدم رکھا اور اُن کا ناولٹ ’’ندی‘‘ 1993ء میں شائع ہوا جسے موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی نے شائع کیا۔ اس ناولٹ کی حد سے زیادہ تعریف ہوئی، اہم ناقدین کے مضامین لکھے، تبصرے کیے اور خطوط کی شکل میں اپنی آرا سے نوازا۔ اس ناولٹ کے تا ہنوز پانچ ایڈیشن شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکے ہیں۔ انگریزی ایڈیشن River کے عنوان سے 2012ء میں Just Fiction, German سے شائع ہوا۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر قنبر علی نے ایک کتاب ترتیب دی جس کا عنوان ’’ندی: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ رکھا جس میں ندی کے متن کے ساتھ وہ مضامین اور تبصرے بھی شامل تھے جو وقتاً فوقتاً مشاہیر نے نوازے تھے۔ مختصر یہ کہ شموئل احمد کا یہ ناول انسانی رشتوں کی پاسداری، شادی کے بعد عورتوں کی زندگی کا دوسرا پہلو اور مَردوں کی جانب سے ہونے والی بے اعتنائی کے خلاف احتجاج ہے۔ یہاں عورت کھلے طور پر مزاحمت تو نہیں کرتی البتہ اس کے اندر مزاحمتی رویّہ ضرور ہے لیکن شوہر پرستی کا خیال کرتے ہوئے جھجھک محسوس کرتی ہے گویا وہ ایک مکمل مشرقی عورت ہے جس کے لیے معاشرے نے ایک حد مقرر کیا ہوا ہے۔ مزاحمت کی ایک صورت تو یہ ہے کہ عورت سب کچھ سہہ کر خاموش رہنا اور اپنے شوہر سے دور دور رہنا زیادہ پسند کرتی ہے اور دوسری یہ کہ وہ گھر کا تالا بند کر کے، چابی پڑوسی کے حوالے کر کے، اپنے شوہر کو بنا کچھ بتائے اپنے پاپا کے پاس چلی جاتی ہے۔
شموئل احمد کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’سنگھار دان‘‘ کے عنوان سے 1996ء میں منظر عام پر آیا جسے معیار پبلی کیشنز، نئی دہلی نے اہتمام کے ساتھ شائع کیا۔ اس مجموعے میں دس کہانیاں شامل ہیں۔ مجموعے کی ٹائٹل کہانی ’سنگھار دان‘ ناقدوں اور فن کاروں کے درمیان کافی شہرت کا باعث بنی۔ پروفیسر طارق چھتاری نے اس افسانے کا خوبصورت تجزیہ کیا۔ اس کے علاوہ بھی اس افسانے کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔ اس مجموعے میں مندرجہ ذیل کہانیاں شامل ہیں:
1۔ سنگھار دان 2۔ آنگن کا پیڑ 3۔ بہرام کا گھر 4۔ بدلتے رنگ 5۔ ٹیبل 6۔ برف میں آگ 7۔ جھاگ 8۔ کہرے 9۔ بگولے 10۔ آدمی اور مین سوئچ
تیسرا مجموعہ ’’القمبوس کی گردن‘‘ 2002ء میں نقاد پبلی کیشنز، پٹنہ سے شائع ہوا جس میں نو افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں سابقہ مجموعوں کے چند افسانے بھی شامل ہیں جن کی پذیرائی خاطر خواہ ہوئی۔ تیسرے مجموعے کے بعد شموئل احمد نے دوسرا ناول ’’مہاماری‘‘ کے عنوان سے 2003ء میں رقم کیا جسے نشاط پبلی کیشنز، پٹنہ نے شائع کیا۔ اس ناول کا دوسرا ایڈیشن 2012ء میں عرشیہ پبلی کیشنز، نئی دہلی سے شائع ہوا۔ سیاسی نوعیت کا یہ ناول لوگوں کی توجہ کا مرکز نہ بن سکا جس طرح ’’ندی‘‘ نے شہرت حاصل کی تھی۔ سیاسی و سماجی رسہ کشی کے حوالے سے بُنا ہوا یہ ناول الگ معنویت لیے رکھتا ہے۔ اس ناول کا موازنہ پہلے ناول سے کریں تو دونوں کے موضوعات میں کافی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ ایک کا بنیادی حوالہ ازدواجی رشتے سے ہے تو دوسرا بالکل سیاسی نوعیت کا ہے۔ اس ضمن میں پہلا ناول ندی ہے جودر اصل ایک مشینی زندگی کے تحت مرد اور عورت کے ختم ہوتے رشتے کا استعارہ ہے۔ دو متضاد کیفیت کا باہمی تصادم اور اس کے ذریعے ختم ہوتی، بکھرتی اور ٹوٹتی ازدواجی زندگی کا المیہ ہے۔ مرد جو مشینی زندگی کی علامت ہے، وہ اسی خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ رویّہ اس کی زندگی میں شادمانی و کامرانی عطا کرے گا جب کہ عورت اس کرب کو بری طرح جھیل رہی ہے۔ دیویندر اسر نے اس حوالے سے نہایت موزوں بات کہی ہے۔ ان کے بہ قول: ’’ندی ایک مرد اور ایک عورت کے انٹی میٹ رشتے کی داستان ہے جو جنسی کشش سے شروع ہوتی ہے اور روحانی کرب میں ختم ہوتی ہے۔‘‘
شموئل احمد کا چوتھا اور آخری افسانوی مجموعہ ’’عنکبوت‘‘ کے عنوان سے 2010ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے شائع ہوا جس میں نئے پرانے گیارہ افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں درج ذیل افسانے ہیں:
1۔ عنکبوت 2۔ ظہار 3۔ سراب 4۔ اونٹ 5۔ مصری کی ڈلی 6۔ محمد شریف کا عدم گناہ 7۔ جھاگ 8۔ کاغذی پیرہن 9۔ چھگمانس 10۔ منرل واٹر 11۔ القمبوس کی گردن
ناولٹ ’’ندی‘‘ کے علاوہ Just Fiction, German نے شموئل احمد کے نمائندہ تیرہ افسانوں کا انتخاب 2012ء میں The Dressing Table کے نام سے شائع کیا۔ افسانوں کا ترجمہ بہ ذات خود شموئل احمد نے کیا۔ انگریزی کے علاوہ اُن کے افسانوں کا ترجمہ ہندی، پنجابی اور دوسری زبانوں میں بھی ہو چکا ہے۔ ’’مرگ ترشنا‘‘ پنجابی ترجمے کا انتخاب ہے جسے بھی کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔
شموئل احمد کا تیسرا ناول ’’گرداب‘‘ کے عنوان سے جمشید پور سے نکلنے والے ادبی رسالے ’’راوی‘‘ کی دوسری جلد میں شائع ہوا ہے، ساتھ ہی الگ سے کتابی صورت میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے ۲۰۱۶ء میں اشاعت سے ہمکنار ہو چکا ہے۔ ایک شادی شدہ عورت کا غیر مرد سے ناجائز رشتے سے متعلق یہ ناول مطالعے کا متقاضی ہے۔ فکشن کے باب کے علاوہ شموئل احمد کی تالیفات اور خود نوشت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ’’اردو کی نفسیاتی کہانیاں‘‘ قابل ذکر ہے۔ اس کتاب میں شموئل احمد نے اردو کی چند نفسیاتی کہانیوں کو یکجا کیا ہے اور مبسوط مقدمہ بھی تحریر کیا ہے۔ کتاب میں شامل افسانے کچھ اس طرح سے ہیں:
1۔ ننگی آوازیں۔ سعادت حسن منٹو 2۔ شہزادہ۔ کرشن چندر 3۔ انوکھی مسکراہٹ۔ سید محمد محسن 4۔ افعی۔ غیاث احمد گدی 5۔ ماتھے کا تل۔ ممتاز مفتی 6۔ اس کی بیوی۔ غلام عباس 7۔ کبھی کھوئی ہوئی منزل۔ ضمیر الدین احمد 8۔ استفراغ۔ سلام بن رزاق 9۔ گومڑ۔ عبد الصمد 10۔ نماز پڑھو۔ اقبال کرشن 11۔ گلوب۔ طارق چھتاری 12۔ کرچیاں۔ جاوید نہال حشمی 13۔ برف میں آگ۔ شموئل احمد
اس انتخاب کے علاوہ شموئل احمد کا ایک اور انتخاب ’’پاکستان: ادب کے آئینے میں‘‘ بھی قابل قدر ہے۔ یہ کتاب بھی 2014ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں صاحبِ کتاب نے پاکستان کے حوالے سے لکھے گئے مضامین اور چند افسانوں کو یکجا کیا ہے جس سے وہاں کی ادبی و سیاسی صورتحال بھی واضح ہو جاتی ہے۔ ہندوستان میں اس قبیل کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی ہے۔ اس ضمن میں شموئل احمد کی کتاب ’’اے دلِ آوارہ‘‘ جسے سوانحی کولاژ اور خود نوشت بھی کہا جا سکتا ہے، قابل قدر ہے۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے 2015ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کو قارئین نے خوب سراہا۔ خود نوشت سوانح چوں کہ عمر گذشتہ کی کتاب ہوتی ہے اور پوری ایمانداری، دیانت داری اور یادداشتوں کے البم کو قرینے سے سجانے کا کام بڑا ہی صبر آزما، تھکا دینے والا اور الجھن والا ہوتا ہے۔ فن کار ایک عمر گزر جانے کے بعد ایسی یادوں کو مجتمع کرتا ہے جب یادِ ماضی عذاب بن جاتی ہے اور عقل سلیم بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے، بڑا ہی صبر آزما ہوتا ہے۔ اس کتاب کو شموئل احمد نے کئی ابو اب میں تقسیم کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
1۔ سماجی رسہ کشی اور فن کار 2۔ تعلیم اور گھریلو ماحول 3۔ سیاست، ملازمت اور کرپشن 4۔ آباء و اجداد 5۔ جنسی رویّے اور عورت۔ 6۔ علوم، نجوم اور فن کار کا تصادم 7۔ ملازمت، جیوتش اور ہم پیشہ لوگ 8۔ شراب نوشی، عورت اور سماج 9۔ ادب اور ادیبوں کے سرقے 10۔ ادبی عناد و ادبی صورتِ حال 11۔ فسادات اور مذہب
شموئل احمد کی مندرجہ بالا کتابوں کے علاوہ کئی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہونے والی ہیں جن میں علم نجوم پر ایک ضخیم کتاب، دہشت گردی کا فسانہ اور افسانوی صورتحال، عالمی افسانوں کا ایک انتخاب اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ بہ عنوان ’’کیکٹس کے پھول‘‘ سر فہرست ہیں۔
شموئل احمد کی کئی کہانیاں ہند و پاک کے مختلف انتھالوجیز میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن کے حوالے سے کئی رسالوں کے خصوصی نمبر قابل ذکر ہیں۔ چہار سو (راولپنڈی) ، نیا ورق (ممبئی) اور مژگاں (کلکتہ) اس سلسلے میں اہم ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی شموئل احمد مقبول رہے ہیں۔ ہندی کے رسالے ’سمبودھن‘ نے بھی اُن پر خصوصی گوشہ شائع کیا۔ اُن کے فن کے حوالے سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر درجنوں تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں جن میں ایک تحقیقی مقالہ ہندی میں بھی قابل ذکر ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود شموئل احمد کو دوحہ قطر کے (عالمی اردو ایوارڈ) کے علاوہ سہیل عظیم آبادی فکشن ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہے۔
شموئل احمد کا تعلق اردو افسانہ نگاری کے اس عہد سے ہے جب جدیدیت کا رجحان طلوع ہو رہا تھا اور اپنی شعاعیں اردو دنیا پرمسلّط کرنے کے درپے تھا۔ یہ وہی عہد ہے جب علامت و تجرید کو بہ طورِ فیشن برتا جا رہا تھا اور قاری کا رشتہ افسانے سے ٹوٹ رہا تھا۔ شموئل احمد نے ایسے ہی عہد میں افسانہ نویسی کی ابتدا کی۔ ان کی دور اندیشی کہیے یا مصلحت پسندی، انھوں نے کسی تحریک یا رجحان کا تتبع نہیں کیا بل کہ اپنی راہ خود نکالی۔ اس سے ان کو کتنا فائدہ یا نقصان ہوا، یہ الگ مسئلہ اور ادب کے الگ باب کا متقاضی ہے۔
شموئل احمد کی پچاس سالہ افسانوی زندگی کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کے افسانوی موضوعات کسی ایک نہج پر مرکوز نہیں ہوتے بل کہ دنیا جہان کے مسائل، سیاسی وسماجی حالات اور اسی طرح کے دوسرے مسائل کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے پچاس سالہ افسانوی سفر میں کئی اہم موڑ آئے اور اسالیب و موضوعات کی سطح پر بھی تبدیلیاں واقع ہوئیں لہٰذا شموئل احمد نے اپنے عہد میں نمو پانے والے اکثر موضوعات کو افسانے کے قالب میں ڈھالا ہے۔ اگر اُن کے اسلوب کی بات کی جائے تو اُن کے تہہ دار بیانیے کا قائل ہر قاری و ناقد ہے البتہ انھوں نے چند علامتی افسانے بھی لکھے ہیں لیکن کہانی کے جوہر کو پوری طرح ملحوظ رکھا ہے۔ نیم علامتی کہانیوں کی فہرست میں آخری سیڑھی کا مسافر، عکس سیریز کی کہانیاں، سبز رنگوں والا پیغمبر کو رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح موضوعات کی بات کریں تو سیاسی و معاشرتی تشدد کے ذیل میں باگمتی جب ہنستی ہے، سنگھار دان، آنگن کا پیڑ، بدلتے رنگ، چھگمانس، گھر واپسی، سراب اور عدم گناہ کو رکھ سکتے ہیں۔ علم نجوم سے شموئل احمد کو خاص مناسبت ہے۔ اس ’’ہنر‘‘ نے انھیں ایک خاص عزت و شرف سے نوازا ہے۔ اردو کے کم ہی فکشن نگار ہوں گے جنھیں علم نجوم سے مناسبتِ خاص ہو۔ جنھیں مناسبت ہے بھی، وہ اپنی تحریروں میں اس فن کو بروئے کار لانے سے گریز کرتے ہیں۔ شموئل احمد نے ’نجوم‘ کا فائدہ اٹھا کر اپنے متن کو بامعنی اور جاندار بنایا ہے۔ چھگمانس، القمبوس کی گردن، مصری کی ڈلی اورنملوس کا گناہ وغیرہ افسانوں میں اس علم کی واضح صورتیں دیکھنے کو مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ناول ’’ندی‘‘ اور ’’گرداب‘‘ میں بھی کہیں کہیں اس فن کے نمونے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
جنس، انسانی زندگی کا ایک ایسا باب ہے جسے کسی بھی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کے تقریباً ہر بڑے فکشن نگار نے جنس کو موضوع بنا کر فن پارہ تخلیق کیا ہے۔ منٹو، ممتاز مفتی، محمد حسن عسکری سے لے کر شموئل احمد، انیس رفیع، علی امام نقوی، اسرار گاندھی،م ناگ، احمد رشید، شاہد اختر، شبیر احمد، صغیر رحمانی اور اشتیاق سعید تک ایسے کئی اہم لکھنے والوں کی فہرست ہے جن کے فن پارے کو جنس زدہ کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شموئل احمد کا نام اس بھیڑ میں اپنی الگ ہی شناخت رکھتا ہے۔ ان کے فن پارے پر جنسیت کا الزام لگا، حضرت ناصح نے ایسے نازیبا حرکات سے باز رہنے کی تاکید کی لیکن بہ قول فیض ’’ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب۔۔ ۔ وہ شب ضرور سر کوئے یار گزری ہے‘‘ کے مصداق انھوں نے بھی اس سے کنارہ کشی تو نہ کی بلکہ ان کے فن پارے میں اس سے مزید نکھار آ گیا۔ بگولے، مصری کی ڈلی، منرل واٹر، عنکبوت، ظہار، اونٹ، عکس۔ ۳، بدلتے رنگ، کایا کلپ، جھاگ جیسی کہانیوں کو محض جنسیت کا الزام لگا کر نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سر دست شموئل احمد نے چند افسانوں پر گفتگو کی جائے تاکہ اُن کے موضوعات کا بہ خوبی اندازہ ہو سکے۔
شموئل احمد کے پہلی قسم کے افسانوں کا تعلق سیاسی حوالے سے ہے جن میں انہوں نے بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں طریقوں سے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کے ابتدائی دور کے افسانے سیاست پر طنز کی ردا میں لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ اپنی بات کہنے میں مکمل طور پر کامیاب ہیں اور کہیں بھی جذباتی ہوتے نظر نہیں آتے جب کہ سیاست ایک ایسا مکروہ شعبہ ہے جس پر خامہ فرسائی کرتے ہوئے بہت سے فن کار جذبات کے رو میں بہہ جاتے ہیں اور افسانویت مجروح ہو جاتی ہے۔ شموئل احمد نے جب افسانہ نگاری کی ابتدا کی تو سیاسی حالات اور اس کے نتیجے میں زبوں حالی کا ذکر شدید طور پر کیا۔ ’’چھگمانس‘‘، ’’ٹیبل‘‘، ’’قصبہ کا المیہ‘‘، ’’مرگھٹ‘‘، ’’قصبہ کی دوسری کہانی‘‘، ’’گھر واپسی‘‘ اور ’’باگمتی جب ہنستی ہے‘‘ جیسی کہانیاں اسی زمرے میں آتی ہیں۔ ان کہانیوں میں کہیں سیاسی حالات کا بے باکانہ نقشا کھینچا گیا ہے تو کہیں سیاست کی رسّہ کشی کا بیان، کہیں ایک ہی سیاست داں دوسرے کو زیر کرنے کی تدابیر پر غور و خوض کر رہا ہے تو کوئی فسادبرپا کر کے اقتدار قائم کرنے کے درپے ہے۔ مجموعی طور پر ایک سیاست داں جسے ملک کی ترقی کے لیے کوشاں ہونا چاہیے، وہ قصباتی فضاکو مکدّر کیے ہوئے ہے۔ ’’قصبہ کا المیہ‘‘، ’’قصبے کی دوسری کہانی‘‘ اور ’’مرگھٹ‘‘ میں یہی فضا اپنے پر پھیلائے ہوئے ہے جس سے بنی نوعِ انسان خوف زدہ ہے اور ایک دوسرے سے یہی سوال کر رہا ہے کہ آیا مرنے والا اس کا رشتہ دار تو نہیں؟ اگر نہیں ہے تو کیا معلوم اگلی باری اسی کی ہو اور اُسے احساس تک نہ ہو۔ ان افسانوں کا تانا بانا اسی فضا میں بُنا گیا ہے کہ آدمی دہشت کے عالم میں سانس لینے پر مجبور ہے اور کچھ مفاد پرست لوگ دہشت زدہ ماحول بنائے ہوئے ہیں کہ ان کی روزی روٹی کا انتظام اسی پر منحصر ہے۔ ’’قصبہ کی دوسری کہانی‘‘ میں ایک شخص یہ ارادہ کرتا ہے کہ وہ جب بھی اپنے قصبے کی باگ ڈور سنبھالے گا، سب سے پہلے امن بحال کرے گا، لوگوں کے دلوں سے خوف و دہشت کو نکال باہر پھینکے گا لیکن جب وہ عملی میدان میں قدم رکھتا ہے تب اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ پورا سسٹم ہی کرپٹ ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کرتا ہے لیکن اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے سوائے اس کے کہ وہ بھی اسی ماحول میں ڈھل جائے اور اپنے آپ کو اس کے حوالے کر دے۔ جو شخص وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیں کرتا، وہ ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے اور یہ اصول اُس خلیفہ کو اچھی طرح معلوم ہے۔
اسی طرح افسانہ ’’باگمتی جب ہنستی ہے‘‘ میں شموئل احمد نے ایسے موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس کی دو شکلیں ہیں۔ ایک طرف سماج میں ناگہانی آفات کے ہر خاص و عام کی زبان پر ورد ہو رہے ہیں، جہاں لوگ سیلاب (باگمتی) کی وجہ سے پریشان ہیں، کچھ لوگ بھوکوں مر رہے ہیں تو کچھ کے احباب اُن سے جدا ہو گئے ہیں اور نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ وہ بھی ایسی جگہ پر جہاں اُن کے رہنے کا کوئی معقول نظم نہیں۔ مصیبت زدہ لوگوں کو سرکاری امداد کی ضرورت ہے اور سرکار اس کی جانب توجہ بھی نہیں دیتی ہے لیکن دوسری جانب سیاست کی رسہ کشی کے نتیجے میں بانٹنے کا کام بھی مشکل سے ہی ہو رہا ہے۔ لوگوں میں راحت کا سامان جیسے چوڑا، گڑ، موم بتی اور ماچس صحیح طور پر نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ لوگوں میں چے می گوئیاں بھی ہو رہی ہیں لیکن سپر وائزر کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہو رہی ہے۔ ’’ہریا‘‘ گاؤں کا کڑیل جوان ہے، وہ صدائے احتجاج بلند کرتا ہے تو مقامی ایم۔ ال۔ اے۔ کامتا پرشاد کی نظر اُس پرجا ٹکتی ہے۔ وہ مسکرائے بغیر نہیں رہ پاتا۔ وہ موقعے کی نزاکت کو بھانپ کر اُسے کنارے لے جا کر ہری بابو!! ہری بابو!! جیسے القاب سے نوازتا ہے اور بڑی شفقت سے پوری بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’ہری بابو…آپ جیسے سجگ نوجوان کی دیش کو ضرورت ہے‘‘ ۔
’’ہری بابو……‘‘ ۔
ہریا کے کانوں میں ہری بابو کا لفظ عجیب کیفیت پیدا کر رہا ہے۔ جیسے کامتا پرشاد جی دیسی مشین میں ولایتی پرزے لگا رہے ہوں۔
’’ہری بابو۔ تھوڑی بہت چوری تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں …‘‘ ۔ کامتا پرشاد مسکرا کر کہتے ہیں۔
ہریا چپ ہے۔ اب کیا کہے؟ وہ ہریا سے ’’ہری بابو‘‘ بن گیا ہے۔
’’ویسے بی۔ ڈی۔ او آدمی اچھا ہے۔ آپ کی بھی مدد کرے گا‘‘ ۔
ہریا سے ہری بابو کا لقب اُس کے کانوں میں رس گھول دیتا ہے۔ شموئل احمدسیاست کی اس زنجیر کی بھی وضاحت کرتے ہیں اور اس بات کی بھی کہ ہر شخص غلامی کے پٹے میں بندھا ہوا ہے اور کسی کے ماتحت مجبور ہے۔ اس کے بعد ہریا ماحول کی نزاکت کو سمجھنے لگتا ہے۔ کامتا پرشاد اسے ناؤ چلانے کا مشورہ دیتا ہے تاکہ آمدنی کا مستقل ذریعہ بھی نکل آئے اور یہ بات اُسے بہت اچھی لگتی ہے۔ ہریا کے کانوں میں ہری بابو کا سرور اس طرح گھل رہا ہے کہ اب ظلم اور برائی کے خلاف وہ احتجاج تک نہیں کرتا اور اس طور پر کامتا پرشاد کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ ہمارے افسانہ نگار نے اس کہانی میں سیاست کے مختلف شیڈس کو اس طرح ظاہر کیا ہے کہ وہ پوری طرح بے نقاب ہو جاتے ہیں اور قاری بھی ان اشاروں کو سمجھ لیتا ہے۔ رشوت خوری اور لوٹ کھسوٹ کے معاملات کو ہمارے افسانہ نگار نے بہ ذات خود جھیلا اور قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔
سیاست پر طنز کی واضح مثالیں افسانہ ’’ٹیبل‘‘ اور ’’چھگمانس‘‘ میں بھی ہیں۔ ’’ٹیبل‘‘ میں سرکاری معاملات میں رشوت خوری کے گرم بازار کو موضوع بحث بنایا گیا ہے تو ’’چھگمانس‘‘ میں کانگریس اور اس کے سابق حکم راں راجیو گاندھی پر براہ راست طنز ہے۔ افسانے کے عنوان کی بات کریں تو چھگمانس (چھگ+ مانُس) کا مطلب ہی ہوتا ہے Sub Human یعنی وہ انسان جو ارتقا کی نچلی سیڑھی پر کھڑا ہو اور جس شخص کا کوئی وجود نہ ہو۔ اس افسانے میں بھاگل پور فساد کا وہ کریہہ منظر پیش کیا گیا ہے جس میں سیاسی جماعتوں کا دخل کلی طور پر تھا۔ سیاست ایسا غلیظ لفظ ہے جس سے ہر ذی شعور شخص پریشان ہے اور ان کی زبان سے سیاست دانوں کے نام سن کر گالیاں ہی نکلتی ہیں۔ پھر بھی سماج کے کچھ ایسے اشخاص ہوتے ہیں جواُن کے دام میں آ جاتے ہیں اور ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جن کاخمیازہ انہیں تاحیات بھگتنا پڑتا ہے۔ افسانہ ’’چھگمانس‘‘ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے شموئل احمد اپنے سوانحی کولاژ ’’اے دلِ آوارہ‘‘ میں یوں لکھا ہے:
’’جب بابری مسجد مسمار ہوئی تو جہاں سب ذمے داری سے بچ رہے تھے وہاں ٹھاکرے خم ٹھوک کر سامنے آئے۔۔ ۔۔ ۔ میں نے توڑی مسجد۔۔ ۔۔ میرے آدمیوں نے توڑ ی۔ حکومت ہمیشہ اُن کے آگے گھٹنے ٹیکتی رہی ہے۔ ٹھاکرے کے ساتھ لوگ نریندر مودی، پروین توگڑیہ اور اشوک سنگھل وغیرہ کا نام لیتے ہیں اور کانگریس کو بھول جاتے ہیں۔ کانگریس اتنی ہی کمیونل ہے۔ سورن مندر کا سینہ کانگریس نے ہی گولیوں سے چھلنی کیا، سکھوں کا قتل عام کیا، بابری مسجد کے ٹوٹنے کی فضا تیار کی۔ بھاگلپور میں تو سب سے شرمناک رول ادا کیا۔ وہاں فساد ہوا تو ایس پی ذمے دار تھے۔ بہار کے ہوم سکریٹری نے اُن کا تبادلہ کر دیا تھا لیکن راجیو گاندھی حالات کا جائزہ لینے گئے تھے۔ بی ایم پی کے جوانوں نے تبادلہ کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج تھا، قتل عام کے لیے کھلی چھوٹ ملے اور راجیو گاندھی نے ایس پی کا تبادلہ ردّ کیا اور الیکشن مہم میں ایودھیا چلے گئے۔ دوسرے دن لوگائی گاؤں میں قتل عام شروع ہوا۔ لاشیں کنویں میں پھینکی گئیں۔۔ ۔۔ چیل کوّے منڈلانے لگے تو کنویں سے نکال کر کھیتوں میں دفن کر دی گئیں اور اُن میں گوبھی کے پودے لگا دیے گئے۔ راجیو نے ایودھیا میں مجمع سے خطاب کیا کہ ہمارے ہاتھ مضبوط کیجیے۔۔ ۔۔ ہم رام راجیہ لائیں گے۔۔ ۔۔ ۔! یہ کیسا رام راجیہ ہے جہاں کٹے ہوئے سروں کے پھول کھلتے ہیں۔ میری کہانی ’’چھگمانس‘‘ اسی المیے کو بیان کرتی ہے۔‘‘
اسی طرح افسانہ ’’گھر واپسی‘‘ نئی صدی کی سیاسی بے چہرگی کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ ایسی صدی کا بیان ہے جب اقلیت کے لیے پوری دنیا تنگ پڑ رہی ہے، مسلم کے نام پر لوگوں کو در بہ در کی ٹھوکریں کھانی پڑ رہی ہیں۔ ایسے میں عظیم ملک ہندوستان کے مسلمانوں کی قومیت پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور انہیں گھر واپسی کا سبق دیا جا رہا ہے۔
سیاسی حوالوں کی بات کریں تو یہ مناسب ہو گا کہ سردست شموئل کے ان افسانوں کا ذکر بھی کر دیا جائے جن میں فسادات کو موضوع بنا کر افسانے کا بیانیہ Narration ملحوظ نظر رکھا گیا ہے۔ ان کے دوسرے حصے کا تعلق انہی افسانوں سے ہے جو فسادات کے پس منظر میں رقم کیے گئے ہیں۔ خاص طور پر اُن افسانوں میں اقلیت کے مسائل کو موضوع بحث بنا کر یہ بات کہی گئی ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ہی ایسے فساد کیوں برپا ہوتے ہیں۔ یہاں شموئل احمد قاری کے ذہن پر ایک سوال قائم کرتے ہیں۔ ظاہر ہے اس سوال کا جواب توہے لیکن کوئی حل نہیں۔ ’’بہرام کا گھر‘‘ اور ’’بدلتے رنگ‘‘ جیسے افسانوں کا موضوع فسادہی ہے جو اُن کے دوسرے مجموعے ’’سنگھار دان‘‘ میں شامل ہیں۔ ’’بہرام کا گھر‘‘ تو Flash Back کی تکنیک میں ہیں جن کا راوی خود مصنف ہے جو واحد غائب کا صیغہ استعمال کر کے بہرام کے دوست کی کہانی سناتا ہے۔ اقتباسات سے اندازہ ہوتا ہے آگ ہندوؤں نے بھڑکائی ہے اور مسلمانوں کو اُس کی سزا بھگتنی پڑی ہے۔ ان کا قصور صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ فسادات میں مارے جانے والے لوگوں کی اکثریت وہ ہوتی ہے جو فقط نام نہاد مسلمان ہیں، ان کو بنیادی چیزوں سے بھی کوئی دل چسپی نہیں ہوتی بلکہ اگر نام ہٹا دیے جائیں تو کوئی ہندو مسلم کا فرق محسوس نہیں کر سکے گا۔ لیکن جب صورتِ حال سنگین ہوتی ہے تو گیہوں کے ساتھ گھُن بھی پس جاتے ہیں۔ بہرام کا گھر امن، سکون اور محبت کا گہوارہ ہے اسی لیے بڑھیا یعنی مقتول کی ماں آخر وقت تک بہرام کا گھر دیکھنا چاہتی ہے۔ بڑھیا یہ اندازہ لگانا چاہتی ہے کہ تشدد اور عدم تشدد میں کتنا فاصلہ رہ گیا تھا۔ اگر وہ بہرام کے گھر تک پہنچ جاتا تو وہ بچ سکتا تھا۔ اس افسانے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے شموئل احمد یوں رقم طراز ہیں:
’’کہانی بہرام کا گھر‘‘ بھی بھاگلپور فساد کی کہانی ہے۔ ہمارے محلے میں ایک نوجوان تھا۔۔ ۔۔ اسلم۔۔ ۔۔ ۔ وہ فساد میں شہید ہوا۔ وہ بہرام کے گھر جانا چاہتا تھا جہاں محفوظ رہتا لیکن وہاں تک پہنچ نہیں سکا۔ فسادیوں نے اُسے چوک پر ہی گھیر لیا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ اُس کی لاش کنویں میں پھینکی گئی ہے۔ کنویں سے جب لاش نکالی جا رہی تھی تو اسلم کی ماں چوک پر پہنچی اور بہرام کے گھر کا پتا پوچھنے لگی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ بہرام کا گھر چوک سے کتنی دور رہ گیا تھا کہ بچہ وہاں پہنچ نہیں سکا۔ اس کی آنکھوں میں حسرت تھی اور کہانی یہیں پر تھی۔۔ ۔۔ ۔ تشدد سے عدم تشدد کی دوری۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
افسانہ ’’بدلتے رنگ‘‘ کا منظر نامہ دوسرے فسادات پر لکھے گئے افسانوں سے مختلف اس طور پر ہے کہ اس کا زمان و مکان رکمنی بائی کا کوٹھا ہے اور شہر میں جب بھی دنگا ہوتا ہے تو سلیمان وہی کوٹھا پکڑتا ہے، اس کے ساتھ وہسکی پیتا اور دنگائیوں کو موٹی موٹی گالیاں دیتا ہے۔ رکمنی بائی جو اُس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتی ہے اور پولیس کو ’’بھڑوی کی جنی‘‘ کہتی ہے۔ سلیمان کو مذہب سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اس کی اپنی Philosphy ہے اور اپنا نظریہ ہے۔ وہ یہی کہتا ہے کہ مذہب آدمی کو نہیں جوڑتا جب کہ سلیمان آدمی کو جوڑنے کی بات کرتا تھا۔ اس کی بیوی کو اُن باتوں سے کوفت ہوتی۔ جب وہ سلیمان سے ایمان و یقین کی باتیں کرتی تو اُسے یہ حسرت ہوتی کہ کاش! کوئی ایسا آدمی ملے جو مذہب کا رونا نہ روئے بل کہ آدمی کی بات کرے۔ لے دے کے رنڈیاں ہی تھیں جو ذات پات کے جھمیلے سے آزاد تھیں …سلیمان کو ان کی یہ ادا پسند تھی اسی لیے جب کہیں دنگا ہوتا تو سلیمان۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
شہر میں یکایک دنگے کے آثار نمایاں ہوتے ہیں تو سلیمان کوٹھے کی طرف چل پڑتا ہے لیکن آج وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔ رکمنی بائی دروازے پر تن کے کھڑی ہے۔ وہ عاجزی کر رہا ہے کہ پلیز مجھے اندر آنے دو، یہی تو ایک جائے امان ہے۔ اگر تم نے مجھے پناہ نہیں دی تو میں کہاں جاؤں گا۔ کسی طرح سے وہ اندر جانے میں کام یاب ہو جاتا ہے اور یہ راز کھلتا ہے کہ پنچایت نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ … ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’اور دفعتاً سلیمان کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی کٹوا ہے …اپنے مذہب اور فرقے سے کٹا ہوا… وہ لاکھ خود کو ان باتوں سے بے نیازسمجھے لیکن وہ ہے کٹوا…۔ اورسلیمان کو عدم تحفظ کا ایک عجیب سا احساس ہوا…اس نے جلتی ہوئی آنکھوں سے رکمنی بائی کی طرف دیکھا۔ وہ اسی طرح ہنس رہی تھی …اور سلیمان کا دل غم سے بھر گیا۔ وہ یکایک اس کی طرف مڑا اور اس کے بازوؤں میں اپنی انگلیاں گڑائیں ……۔ رکمنی بائی درد سے کلبلائی…۔
سلیمان نے بازؤں کا شکنجہ اور سخت کیا…۔
رکمنی بائی پھر کلبلائی۔
دفعتاً اس کو محسوس ہوا جیسے رکمنی بائی طوائف نہیں ایک فرقہ ہے …اور وہ اس سے ہم بستر نہیں ہے …وہ اس کا ریپ کر رہا ہے …۔
سلیمان کے ہونٹوں پر ایک زہر آلود مسکراہٹ رینگ گئی‘‘ ۔
اس کے کچھ دیر بعد رکمنی بائی باتھ روم میں چلی جاتی ہے اور سلیمان کو اپنا دم گھٹتا سا محسوس ہوتا ہے۔ وہ بسترسے اٹھتا ہے اور رکمنی بائی کی ساڑی کو جلدی جلدی اپنے بیگ میں ٹھونس کر گھر کی جانب چل پڑتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اسے طمانیت کا احساس ہوتا ہے گویا رنڈی کو، جس کی شناخت ہی ننگا پن ہے، ہمیشہ کے لیے ننگا کر دیا ہو اور ’’بھڑوی‘‘ کہہ کر آہستہ سے مسکرا کر اپنے مکان کی طرف چل پڑتا ہے۔
عورت کا موضوع ہمارے ادب میں ہمیشہ سے جاذب نظر رہا ہے۔ شاعری ہو، افسانہ ہو یا دوسری اصناف، تمام میں سرّاً و اعلانیاً یہ موضوع زیر بحث رہا ہے۔ افسانوں کے ذیل میں شموئل احمد کی کہانیوں میں بھی عورت کا موضوع کثرت سے ہوتا رہا ہے لیکن یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اُن کے ہاں عورت کی جانب سے کی جانے والی محبت کا موضوع بدلا ہوا ہے، جہاں عورت فرسودہ روایات اور مذہبی آزادی کی جانب زیادہ مائل نہ ہو کر دنیا سے آنکھیں ملانے کی سکت رکھتی ہے اور انہیں کوئی بھی مات نہیں دے سکتا۔ شموئل احمد کی کہانیوں میں وہ عورت بالکل نہیں جنہوں نے ماحول کے شکنجے میں اپنے آپ کو محصور کر لیا تھا اور پوری زندگی اپنے آقاؤں (شوہروں ) کی خدمت میں صرف کر دیا تھا لیکن شموئل احمد کے ہاں عورت، ہتھیاروں سے معمور ہیں اور مردوں کو قابو میں کرنے کا خوب ہنر جانتی ہیں اور اُن کے پاس وہ اوزار نہیں جن سے مردوں کو جانی نقصان ہو بلکہ وہ ذہنی طور پر مردوں کو اپنے قابو میں کرنے کا ہنر خوب جانتی ہیں ساتھ ہی انھوں نے سامنے والے کو زیر کرنے کے سارے حربے زمانے سے مستعار لیے ہیں اور کچھ انٹر نیٹ کی دنیا نے انہیں یہ ہنر بخشا ہے۔
اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شموئل احمد کے اُن افسانوں کا تذکرہ کیا جائے جن کے حوالے سے ان کی شناخت ہے کیوں کہ ان افسانوں کا تعلق ہمارے ارد گرد معاشرے میں پھیلی برائی سے ہے اور یہ حقیقت توسب پر عیاں ہے کہ دنیا میں جتنے بھی فسادات ہوتے ہیں جتنی بھی خوں ریزیاں ہوتی ہیں، ان سب کا تعلق بھوک سے ہے۔ بھوک ایک جبلّت اور زندگی کا ناگزیر حصہ ہے جس سے ہر شخص نبرد آزما ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات وضاحت طلب ہے کہ بھوک کی دو قسمیں ہو سکتی ہیں یا ہوتی ہیں۔ ایک کا تعلق پیٹ سے ہے تو دوسرے کا پیٹھ سے۔ جب دونوں طرح کی بھوک شدت اختیار کر جائے تو انسان صحیح و غلط، حرام و حلال اور مثبت و منفی پہلوؤں کو نظر انداز کر کے، بھوک کی اس آگ میں کود پڑتا ہے۔ جنس کی بھوک زیادہ خطرناک ہے۔ کوئی شخص جب اس جرم کا ارتکاب کر لے تو پورے معاشرے میں وہ معتوب سمجھا جاتا ہے اور اس کا اثر معاشرہ کے ہر ذی شعور پر پڑتا ہے۔ شموئل احمد کے افسانوں کا بنیادی حوالہ جنس ہی ہے جسے موضوع بنا کروہ معاشرہ کی کھوکھلی ریا کاری اور جنسی بے راہ روی پر نظر ڈالتے ہیں۔ ان کے بیش تر افسانوں میں جنس کی کار فرمائی نظر آتی ہے ’’بگولے‘، ’’سنگھار دان‘‘، ’’ظہار‘‘، ’’جھاگ‘‘، ’’برف میں آگ‘‘، ’’عنکبوت‘‘، اونٹ‘‘ ’’منرل واٹر‘‘ اور کئی دوسرے افسانے اس کی واضح مثالیں ہیں۔
اردو ادب میں کوئی فن کار جنس کو حوالے کے طور پر استعمال کرتا ہے توسب سے پہلے اس پر منٹو کی نقالی کا الزام لگتا ہے اور اس کا ادب ثانوی اختیار کر جاتا ہے۔ یہاں پر منٹو سے شموئل احمد کا موازنہ مقصود نہیں بل کہ صرف یہ بتانا ہے کہ منٹو کی کہانیاں ایک خاص طبقے کے ارد گرد ہی گھومتی ہے جب کہ شموئل احمد نے عام انسانی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کو جگہ دی ہے۔ جنس ایک ایسا موضوع ہے کہ قاری متن کے نشیب و فراز میں الجھ کر رہ جاتا ہے اور فن پارہ کی تہہ تک پہنچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے ان افسانوں کی تفہیم کے لیے باصلاحیت قاری کی ضرورت ہوتی ہے جو اُس کی تہہ تک پہنچ سکے۔ ایک فن کار کا یہ کمال ہے کہ وہ قاری کی ذہنیت کا خاص طور پر خیال رکھے اور اس کے ذہن کو بھٹکنے نہ دے۔ اتنا اختیار تو ایک فن کار کو ہے ہی۔ البتہ انداز الگ ہو سکتا ہے اور مسائل بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ ایسا بھی ضروری نہیں کہ فن کار کی تمام چیزیں ایک قاری کو پسند آ ہی جائیں۔
افسانہ ’’بگولے‘‘ پر بحث سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شموئل احمد کے اُس متن پر سرسری نظر ڈالی جائے جس میں انھوں نے اس افسانے کا پس منظر بیان کیا ہے۔ وہ اپنی سوانح ’’اے دلِ آوارہ‘‘ کے ابتدائی صفحات میں اس افسانے کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں:
’’بگولے، مجھے رانچی جانے والی بس میں ملی، تب میں طالب علم تھا اور رات کی بس سے رانچی جا رہا تھا۔ میری سیٹ کھڑکی سے قریب تھی۔ آگے کی سیٹ پر تین عورتیں آپس میں چہل کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے مڑ کر دیکھا بھی۔۔ ۔۔ مجھے اس کی نظر عام سی نہیں لگی۔ بس چلی تو کنڈکٹر نے روشنی گل کر دی۔ وہ عورت میری طرف پھر مڑی اور پوچھا وقت کتنا ہو رہا ہے؟ وقت پوچھتے ہوئے میں نے اس کی آنکھوں میں چمک سی دیکھی۔ بس دور چلی تو وہ پھر مڑی اور پوچھا کہ ہسڈیہہ کب آئے گا؟ سوال بے تکا تھا لیکن آنکھوں کی چمک بے تکی نہیں تھی۔ یہ نزدیک آنے کا اشارہ تھا۔۔ ۔۔ ۔ اور عورتیں اسی طرح کے اشارے کرتی ہیں۔ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور اُس کو چھونے کی کوشش کی۔ مجھے یقین تھا وہ برا نہیں مانے گی۔ میں نے اپنی انگلیوں کے پوروں پر اُس کی کمر کا لمس بہت صاف محسوس کیا۔۔ ۔۔ ۔ اور اس نے جھک کر اپنی سہیلی سے کچھ کہا اور ہنسنے لگی۔ سہیلی نے مڑ کر میری طرف دیکھا اور مسکرائی۔ اس کی مسکراہٹ معنی خیز تھی۔ میں نے ہات نہیں ہٹایا۔ مجھے اپنے دل کی دھڑکن تیز سی محسوس ہوئی۔ اچانک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے پیٹ پر بھینچ لیا۔۔ ۔۔ میں سہر اٹھا۔ میری سانس جیسے رک گئی۔۔ ۔۔ ایک تھرل۔۔ ۔۔ ۔ ایک اجنبی عورت کا رسپانس۔۔ ۔۔ ۔ ایسی سہرن میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ بس سڑک پر تیزی سے بھاگ رہی تھی۔ اندر سرمئی اندھیرا تھا اور باہر ہیڈ لائٹ کی روشنی میں پیڑ لبِ سڑک جھوم رہے تھے۔ ہوا میں پتوں کی سر سراہٹ دل کی دھڑکنوں میں گھل رہی تھی۔ وہ میرا ہاتھ سہلانے لگی اور مجھے لگا کہ سمندر کے کنارے کھڑا ہوں اور لہریں میرے پاؤں بھگو رہی ہے۔ میری انگلیوں کی پوروں پر چیوٹیاں سی رینگنے لگیں۔۔ ۔۔ ۔ میں ہوش کھونے لگا۔۔ ۔۔!
اچانک بس رکی۔۔ ۔۔ ۔ کوئی اسٹاپ تھا۔ کنڈکٹر نے روشنی کی۔ میں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ وہ ہنسی اور سہیلی سے کچھ بولی۔ میں چائے پینے نیچے اترا۔ چائے پی کر واپس آیا تو ایک شخص میری جگہ بیٹھ گیا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اُس کی طبیعت متلا رہی ہے، اس لیے وہ کچھ دیر کھڑکی کے پاس بیٹھنا چاہتا ہے۔ میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور اس کی جگہ بیٹھ گیا۔ اصل میں وہ کیفیت ابھی بھی طاری تھی اور میں اس احساس کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ بس چلی تو پھر اندھیرا ہو گیا۔ سیٹ کی پیٹھ سے ٹک کر میں اسی ترنگ میں ڈوب گیا کہ اس نے کس طرح میرا ہاتھ۔۔ ۔۔ ۔۔
اچانک وہ زور سے چلائی۔ گاڑی روکو! گاڑی روکو!!
کنڈکٹر نے روشنی کی۔۔ ۔۔ ۔ بس رک گئی۔ وہ اس شخص کی طرف مڑی اور برس پڑی۔
’’حرامی۔۔ ۔۔ ۔ مجھے چھوتا ہے۔۔ ۔۔ ۔ سوؤر کا جنا۔۔ ۔۔ ۔!‘‘
کہانی ’’یہاں‘‘ تھی۔ اس کا رِی ایکٹ کرنا۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘کیا میں اتنی بری ہوں کہ مجھے ہر کوئی ہاتھ لگا سکتا ہے۔۔ ۔۔؟‘‘ اسی جذبے کو لے کر میں نے کہانی ’’بگولے‘‘ لکھی۔
’’بگولے‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں لتیکا رانی اپنی جنسی خواہش کو مٹانے کے لیے کسی بھی مرد کا شکار کر سکتی ہے اور اپنی سہیلیوں سے موازنہ بھی کرتی ہے۔ اسے یہ چیز بہت اذیت دیتی ہے کہ اس کی سہیلی کا محبوب اس کاکیوں نہیں ہو سکتا۔ جس کے لیے وہ مال و متاع لٹانے کے لیے پوری طرح سے تیار ہے لیکن اس کام کے لیے بھی سلیقے کی قائل ہے۔ کوئی مرد پیار محبت سے ہر چیز حاصل کر سکتا ہے شرط یہ ہے کہ جلد بازی سے کام نہ لے کیوں کہ وہ محض جنسی آسودگی کے لیے ہی رسم و راہ بڑھاتی ہے۔ اس دفعہ جس لڑکے کو اپنے دام میں پھنسایا ہے وہ نادان ہے، اس معاملے میں صفر ہے اور جلد باز بھی۔ لتیکا یوں تو فاحشہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر کوئی اسے فاحشہ سمجھے یا رنڈی کی طرح برتاؤ کرے۔ یہ عورت کی اَنا کی کہانی ہے اور کل کے لونڈے نے اس کی اَنا پر وار کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ لتیکا رانی اُسے باہر بھگا دیتی ہے۔ افسانہ ’’جھاگ‘‘ میں یہ اشارہ ہے کہ رشتے مرجھا جاتے ہیں، مرتے نہیں ہیں۔ راوی کا پرانا پیار، جسے وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی پسند کرتا ہے، اچانک راستے میں مل جاتی ہے اور باتوں باتوں میں راوی اسے گھر آنے کی دعوت بھی دے دیتا ہے۔ جس کے بعد راوی کو سخت ندامت ہوتی ہے کہ اس نے بیوی کا اعتبار کھو دیا ہے۔
افسانہ ’’سنگھار دان‘‘ کا پس منظر بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ اس کے المیاتی پس منظر کو بیان کرتے ہوئے شموئل احمد لکھتے ہیں کہ:
’’کہانی سنگھار دان مجھے راحت کیمپ میں ملی۔ بھاگلپور فساد میں طوائفوں کا بھی راحت کیمپ لگا تھا۔ وہاں ایک طوائف نے رو رو کر مجھے بتایا تھا کہ دنگائی اس کا موروثی سنگھار دان لوٹ کر لے گئے۔۔ ۔۔ یہی تو ایک چیز آباء و اجداد کی نشانی تھی۔۔ ۔۔ کہانی یہاں پر تھی۔۔ ۔۔ موروثی سنگھار دان کا لٹنا، اپنی وراثت سے محروم ہونا۔۔ ۔۔ ۔۔ پہلے جان و مال کے لٹنے کا خوف تھا، اب وراثت سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔ میں نے کہانی شروع کی تو بچپن کا ایک واقعہ میرے تخلیقی عمل میں شامل ہو گیا۔ میری عمر سولہ سترہ سال کی رہی ہو گی۔ اپنے بھائی سے ملنے ‘‘بتیا‘‘ گیا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ ٹرین رات تین بجے پہنچی۔ اسٹیشن سے باہر آیا تو دیکھا ایک جگہ خیمہ گڑا تھا۔ معلوم ہوا نوٹنکی چل رہی ہے۔ میں اندر بیٹھ گیا۔ ایک بالا ناچ رہی تھی۔ عمر دس بارہ سال ہو گی۔ وہ لہک لہک کر گارہی تھی، اس کا جسم سانپ کی طرح بل کھا رہا تھا، اس نے بالوں میں گجرا لپیٹ رکھا تھا، ہاتھ مہندی سے سرخ تھے اور آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر کچھ اس طرح سے کھنچی ہوئی تھی کہ نین کٹاری ہو گئے تھے۔ سانپ کی طرح بل کھاتا ہوا اس توبہ شکن کا جسم۔۔ ۔۔ ۔ گھنگھروؤں کی رن جھن، مہندی سے لہکتے ہوئے ہاتھ اور تیکھی چتون۔۔ ۔۔ رات جیسے ٹھہر سی گئی تھی اور میں ہوش کھو بیٹھا تھا۔ اس کا رقص ختم ہوا تو ایک ادھیڑ عمر کی عورت اسٹیج پر آئی اور عجیب بھدے طریقے سے کمر لچکانے لگی۔ اس کی آواز بھونڈی تھی اور کولہے بھاری تھے۔ اس نے بھی بالوں پر گجرا لپیٹ رکھا تھا۔ وہ اسٹیج پر زورسے پاؤں پٹکتی اور کولہے مٹکاتی۔ میرے دل و دماغ میں دھواں سا اٹھنے لگا۔۔ ۔۔ جیسے کسی نے گلاب کی کلیوں پر باسی گوشت کا لوتھڑا رکھ دیا ہو۔۔ ۔۔ ۔ اور جب اس نے اپنی بھونڈی آواز میں گانا شروع کیا کہ ’بھرت پور لٹ گیو ہائے موری اماں!!‘ُ تو میں نے الجھن سی محسوس کی اور وہاں سے اٹھ گیا۔ گھر آیا تو طبیعت مکدر تھی۔ میں برسوں اس کیفیت سے آزاد نہیں ہو سکا۔ جب بھی اس بالا کو یاد کرتا، وہ عورت گلاب میں آیوڈن کے قطرے ملانے لگتی۔ مجھے نجات اس وقت ملی جب کہانی سنگھار دان لکھی۔‘‘
افسانہ ’’سنگھار دان‘‘ میں ایک لوٹی ہوئی ذات جسے ہم طوائف کہتے ہیں، کو افسانے کا موضوع بنا کر یہ بتایا گیا ہے کہ فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں اور برجموہن کو نسیم جان کا سنگھار دان ہاتھ لگا تھا۔ جسے زبردستی اس نے حاصل کیا تھا جب کہ نسیم جان کا یہ موروثی سنگھار دان تھا۔ سنگھار دان سے نسیم جان کو برجموہن نے اس کی وراثت سے محروم کر دیا۔ یہ افسانہ وراثت سے محرومی کا نوحہ ہے اسی لیے وہ بہت گڑگڑائی تھی مگر برجموہن نے دھکے دے الگ کر دیا تھا اور وہ سہم سی گئی تھی۔ برجموہن کے گھر میں بیوی بیٹوں نے سنگھار دان کو کافی پسند کیا لیکن کچھ ہی دنوں بعد برجموہن نے محسوس کیا کہ سب کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے ہیں۔ بیٹیاں اب چھت پہ تانک جھانک کیا کرتی ہیں اور عجیب عجیب حرکتیں بھی کرنے لگی ہیں۔ کئی بار تو برجموہن خود شرمندہ ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ برجموہن نے اپنی بیوی کے منہ سے ’’اوئی دیّا‘‘ اور ’’ہائے راجا‘‘ جیسے الفاظ آج سے پہلے کبھی نہیں سنے تھے۔ آخر میں سنگھار دان نے برجموہن پر بھی اپنا نقش چھوڑ ہی دیا اور برجموہن نے آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ کلائی پر گجرا لپیٹا اور گلے میں لال رومال باندھ کر نیچے اتر گیا اور سیڑھیوں کے قریب دیوارسے لگ کر بیڑی کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔ ’’سنگھار دان‘‘ شموئل احمد کا وہ افسانہ ہے جس نے اردو افسانے میں دھوم مچا دی۔ اردو کے اہم ناقدین نے اس افسانے کو کافی سراہا۔ اس ضمن میں طارق چھتاری کا یہ قول زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ان کے بہ قول:
’’میرے لحاظ سے شموئل احمد اپنے مقصد میں پوری طرح کام یاب ہیں۔ برجموہن نے سنگھار دان لوٹا تھا مگر شموئل احمد نے اردو کے قارئین کو سنگھار دان تحفے میں دیا ہے۔ ایک خوب صورت تحفہ۔ اور لوٹی ہوئی چیز کے اخلاق پر برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں تحفے میں ملی ہوئی شے کے نہیں‘‘ ۔
افسانہ ’’منرل واٹر‘‘ کا بنیادی موضوع کنزیومر کلچر کی کہانی، دو طبقوں کے مابین تصادم اور ان کے سوچنے کا انداز ہے۔ ایک عام حیثیت کا کلرک جسے منیجر کی جگہ دلی تک کا سفر کرنا ہے اور اسے سفر کا زیادہ تجربہ بھی نہیں ہے۔ وہ بھی راجدھانی ایکس پریس سے جس میں بورژوا طبقے کے لوگ سفر کر رہے ہوں گے۔ اسے یہ سوچ کر گھبراہٹ ہوئی کہ اس کے پاس تو پہننے کے لیے کپڑے بھی نہیں ہیں۔ خیر وہ سفر کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے لیکن پورے سفر وہ بورژوا طبقے سے اپنا موازنہ کرتا رہا ہوتا ہے۔ اتفاق کی بات یہ کہ اس کے سامنے والی سیٹ پر ایک خاتون بیٹھی ہے جو بورژوا طبقے کی نمائندہ مثال ہے۔ اب کلرک اپنا اور اپنے ارد گرد کے ماحول کا موازنہ اس عورت سے کرنے لگتا ہے۔ اس عورت کو دیکھ کر ٹی وی پر دیکھے گئے ’’ایڈ‘‘ یاد آنے لگے کہ ٹی وی میں ایک عورت لرل صابن کا اشتہار کرتے ہوئے کس ادا سے اپنے بال لہراتی ہے۔ رات ہو چلی ہے اور تذبذب کا شکار ہے جو رات کا کھانا کھا کر سونے کی تیاری کرنے لگا ہے۔ سامنے والی عورت سے اس کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن رات کے سناٹے میں وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بورژوا عورت اس کے پہلو میں ہے اور وہ بوس و کنار میں مشغول ہے۔ خاتون اس پر جھکی ہوئی ہے اور اس نے اپنے بازو پھیلا دیے ہیں اور وہ جیسے سکتے میں آ گیا ہے۔ ملاحظہ ہو یہ اقتباس:
’’اس عالم میں اس نے بار بار آنکھیں کھول کر خاتون کی طرف دیکھا۔ اس کو جیسے یقین نہیں تھا کہ ایک بورژوا حسینہ کا تن سیمیں اس کی بانہوں میں مچل رہا ہے۔ اور ایسا ہی تھا…بورژوا خاتون کا مرمریں جسم اس کی بانہوں میں تھا، لب و رخسار کے لمس جادو جگا رہے تھے۔ ہر لمحہ اس کا استعجاب بڑھ رہا تھا۔ یہ لمحہ خود قدرت نے انھیں عطا کیا تھا۔ یہ خالص فطری ملن تھا جس میں ارادے کو کوئی دخل نہیں تھا، دونوں انجان تھے‘‘ ۔
اس طرح کلرک نے محسوس کیا کہ کیبن کے فرش پر سوٹ کیس کا فرق بے معنی ہو گیا ہے۔
یہ افسانہ بورژوا اور پرولتاری طبقے کے درمیان فرق کو سمجھنے کا عمدہ نمونہ ہے۔ انسان اذلی طور پر ایک ہے لیکن ہمارا سماج ان کے مابین تفریق پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح افسانہ ’’عنکبوت‘‘ جدید تکنیک سے پھیلی برائیوں کی طرف واضح اشارہ کرتا ہے۔ ایک طرف ٹکنالوجی کے فوائد ہیں تو دوسری طرف نقصانات بھی۔ نوجوان طبقہ اس میں اتنا ملوث ہے کہ وہ سر تا پا ڈوبا ہوا ہے۔ افسانہ ’’عنکبوت‘‘ سائبر کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے جہاں سچ اور جھوٹ گڈمڈ ہوتے ہیں اور جنہیں ایک دوسرے سے الگ بھی نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ سائبر ورلڈ میں پیدا شدہ رشتے کی مثال اس مکڑے کے جالے کی طرح ہے جس کا کوئی مستقل وجود نہیں اور اس کی بنیادی وجہ وہی فریب ہے جس میں ایک شخص کا وجود وہاں وہ نہیں ہے جو حقیقی دنیا میں ہے یا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ یہی صارفی کلچر کا تقاضا ہے۔ محمد صلاح الدین انصاری کو بھی چند دنوں سے یہی چسکا لگا ہے کہ وہ حقیقی دنیا سے نظریں چرا کر سائبر سیکس سے لطف اندوز ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کیفے جاتا ہے لیکن وہاں فری محسوس نہیں کرتا ہے۔ خاص طور پر پورن سائٹس سے لطف اندوز ہونا وہاں ذرا مشکل ہے اسی لیے گھر پر ہی کمپیوٹر اور نٹ کا استعمال کرنے لگا ہے لیکن یہاں اس کی بیوی نجمہ اس کام میں دخل اندازی کرنے لگی۔ وہ بڑے اشتیاق سے اسکرین کو گھورا کرتی ہے تو صلاح الدین نے دو بارا کیفے کاہی سہارا لیا ہے تاکہ سکون سے چیٹ کر سکے۔ چیٹنگ روم میں داخل ہو کر خود کو رلیکس محسوس کرے۔ مادھری سکسینہ اس کی فرسٹ سائبر لو Cyber Love ہے جس سے وہ کافی مانوس ہو چکا ہے۔ اس کے ساتھ چیٹ کرتے ہوئے وہ یوں محسوس کرتا ہے گویا ایک بستر میں ہم آغوش ہوں۔ اسی اثنا نجمہ کے بھی پَر نکلنے شروع ہو گئے ہیں اور اس نے بھی بیوٹی ان چین کے نام سے فیک آئی ڈی بنائی ہے جس کا انکشاف سیکس چیٹنگ کے بعد ہوتا ہے۔ راز کھلنے کے بعد اس کے لب سل گئے ہیں جسم کانپنے لگا ہے اور سکتہ طاری ہو گیا ہے۔ نجمہ کے جھنجھوڑنے کے بعد وہ اچانک نیند سے جاگتا ہے اور نشے کی حالت میں نجمہ سے یوں مخاطب ہوتا ہے:
’’ہائے! بیوٹی اِن چین…! اور نجمہ کا چہرہ کالا پڑ گیا۔
’’ٹائیگر ووڈ ہیئر‘‘ ۔ وہ چیتے کی چال سے اس کی طرف بڑھا۔ وہ گھبرا کے پیچھے ہٹی۔
’’کم آن ڈارلنگ! آئی وِل اِن چین یو…!‘‘ اس نے نجمہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا لیکن اس نے ہاتھ چھڑا لیا۔
’’یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘
’’ہولڈ مائی ڈِک…!‘‘
نجمہ خوف سے کانپنے لگی۔
’’فیل اِٹ‘‘ ۔ وہ چیخا۔
’’اَن زپ یور برا‘‘ ۔ نجمہ کا گریبان پکڑ کر اس نے زور سے اپنی طرف کھینچا۔ بلاؤز کے بٹن ٹوٹ گئے۔ نجمہ کی چھاتیاں جھولنے لگیں …اس نے زور کا قہقہہ لگایا‘‘ ۔
شموئل احمد نے یہاں صرف ایک پہلو کو دیکھنے کی کوشش کی ہے اور انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ سائبر کلچر سیکس کلچر ہے جہاں تیسری دنیا کا آدمی پانی میں نمک کی طرح گھل رہا ہے …ہر کوئی اپنے لیے ایک اندامِ نہانی ڈھونڈ تا ہوا…!
اس ضمن میں ان کے آخری اور اہم افسانے کا ذکر نہایت ضروری ہے جس کا تعلق موجودہ سماج سے ہے جسے ہم گلوبل ایج بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس دور میں انسان نے جتنی بھی ترقی کر لی ہو لیکن انسانی رشتوں کے شکست و ریخت کا مسئلہ سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ قرابت داری کا پاس و لحاظ ہے نہ رشتوں کے ختم ہونے کا احساس۔ اس زمرے میں ان رشتوں کے اقدار بھی پامال ہو گئے ہیں جن کی بنیاد تیقن پہ ہے۔ افسانہ ’’مصری کی ڈلی‘‘ اسی زبوں حالی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہمارا معاشرہ کچھ تو مغربی تہذیب کے اثر سے تنزل کا شکار ہے اور کچھ اپنی ہی خامیاں ہیں اور ان خامیوں نے پوسٹ کولونیئل ایج میں اپنے پَر زیادہ ہی پھیلا رکھے ہیں۔
اس افسانے میں عثمان اور راشدہ ایک رشتے میں بندھے تو ہیں لیکن عثمان کا تعلق برج حمل سے ہے اور راشدہ پر ستارہ زہرہ کا اثر ہے۔ اسی لیے عثمان شریف طبیعت کا مالک ہے اور راشدہ چلبلی۔ ایک ایسا شوہر جو بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں کی طرف جھانکتا بھی نہیں۔ ویسے تو ہر انسان کے اندر جانوروں کی خصلت ہوتی ہے، وہ خصلت عثمان میں بھی ہے۔ وہ شیر یا بھیڑیا تو ہر گز نہیں البتہ خرگوش اور میمنا ضرور ہے۔ اس کے برخلاف راشدہ چنچل اور پھکّڑ ہے۔ اسے ہر فن مولا مردوں سے زیادہ دل چسپی ہے جو چھچھورے پن سے محبت کا اظہار کرے اور دوسرے شغل بھی فرمائے۔ راشدہ کے اندر شیر اور بھیڑیے والی خصلتیں بھی ہیں۔ ان تمام رازوں کا انکشاف عثمان پراس وقت ہوتا ہے جب ان کے پڑوس میں الطاف نام کا نوجوان نیا نیا وارد ہوتا ہے۔ وہ کھڑکی پر کھڑا ہو کر تانک جھانک کرتا اور سگریٹ پیتا ہے تو یہ عادتیں راشدہ پسند کرتی ہے۔ دھیرے دھیرے قرابت بڑھتی ہے اورسارے حدود و قوانین کوت وڑ کروہ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں۔ عثمان ان حرکات و سکنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا بھی ہے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتا۔ عورت ’’تریا چرتر‘‘ کی عمدہ مثال ہے جس کا انکشاف اس وقت ہوتا ہے جب راشدہ ایک غیر محرم الطاف کے ساتھ رات گزارتی ہے اور الطاف کے پوچھنے پر کہ وہ شوہر کو کیا منہ دکھائے گی، کھل کھلا کر ہنس پڑتی ہے۔ یعنی اس کے لیے یہ کام معمولی ہے اور اپنے شوہر کو بہ آسانی جھانسا دے سکتی ہے۔ اس نکتے کو شموئل احمد نے یوں بیان کیا ہے کہ پہلی مرتبہ جب عثمان کے گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنستا ہے تو اس کی بیوی خود چاول کا نوالہ بنا کراُسے دیتی ہے تاکہ چاول کے ساتھ کانٹا بھی نکل جائے لیکن جب دوسری بار یہ ہوتا ہے تو عثمان خود نوالہ بنا کر گلے سے کانٹا نکالنے پر مجبور ہے۔ اس کا یہ فعل اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ وہ اب ایسی زندگی پر قناعت کرنے والا ہے جب کہ الطاف صاحب اسی کے بیڈ روم میں آرام فرما رہے ہیں۔
مندرجہ بالا افسانوں کی روشنی میں یہ بات بلا تامل کہی جا سکتی ہے کہ شموئل احمد نے اپنے فن پاروں میں آج کے سماج کی بہتر طور پر عکاسی کی ہے اور جہاں جنس کا اظہار کیا گیا ہے، وہ بے معنی اور قاری کے ذہن کو اپنی جانب کشید کرنے کے لیے ہر گز نہیں ہے بلکہ سماجی معاملات کی نقاب کشائی کے لیے ہے۔ ہم ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں جنسی مسائل ایک ناسور کی شکل میں موجود ہے، دنیا ایک خاص ہدف کی جانب رواں دواں ہے جس کا احساس چند ہی لوگوں کو ہے اور اپنے فن پاروں میں اس کا بر ملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ شموئل احمد بھی انہی فن کاروں میں ایک ہیں۔ ان کی کہانیوں کو اس حوالے سے دیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ امید ہے کہ شموئل احمد کے بائیس افسانوں کا یہ انتخاب قارئین کو پسند آئے گا۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید