FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

اندھیروں کی کہانی

 

 

 

                   سید اسد علی

 

 

 

 

 

 

 

 

Or (the unbeliever’s state)

is like the depth of darkness

In a vast deep ocean,

Overwhelmed by billow,

topped by dark clouds;

Depths of darkness, one

above another: if a man

stretches out his hand,

he can hardly see it!

for any to whom God

giveth not light,

There is no light.

 

(Nur:40)

 

 

 

 

 

The Break down

 

 

 

یہ کہانی بہت الجھی ہوئی ہے۔ شاید اس لئے کہ یہ میری زندگی کی کہانی ہے اور زندگی بھی وہ جو ہزاروں آغازوں میں بٹی ہوئی ہو۔ یہ کوئی سیدھی لکیر نہیں ہے، یہ تو بادلوں میں بنی اشکال کی طرح ہے۔ مبہم، پیچیدہ، گنجلک اور ناقابل اعتبار۔ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں وہ معمہ جسے میں خود بھی حل نہیں کر سکا؟شاید آسان طریقہ یہی ہے کہ حقائق کے دفاتر کو بیچ کی میز پر رکھ دیں، کچھ اس طرح کہ ہمارے ہاتھ ان کی گہرائیوں کی کھوج کریں اور آنکھیں ایک دوسرے کے چہرے پر پیوست رہیں۔ جہاں کہیں سانسیں بوجھل ہونے لگیں، آنکھوں کے کونوں میں جگنو چمکنے لگیں یا پھر گالوں پر سرخی دوڑنے لگے۔۔۔۔۔ ہم سمجھ جائیں گے کہ کوئی معانی، کوئی اسرار گرفت میں آ گیا ہے۔ اتنی توجہ، اتنی قربت میں بھلا کہاں چھپا سکیں گے ہم کسی راز کو؟

تو میں ایک بڑے سادہ انداز میں آغاز کرتا ہوں۔ میرا  ایک مسئلہ ہے اور کسی نئی بیماری کی طرح یہ مجھے ناقابل فہم اور نہ حل ہونے والا لگتا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں اس کے بارے میں کیا کروں؟سوائے اس کے کہ کچھ اور خوفزدہ ہو جاؤں۔۔۔۔ خوف اور میں بہت دیر سے انگلی پکڑے ساتھ چلے آ رہے ہیں۔ یہ وہ سادہ سی سنسنی نہیں ہے جو آپ اندھیروں میں گھومتے ہوئے یا پھر بلا تحاشہ بھونکتے کتے کو دیکھ کر محسوس کرتے ہو۔

نہیں جناب میں ایسی چیزوں سے کبھی بھی خوفزدہ نہیں رہا۔ بھلا وہ بھوت جو خود کسی انجانے خوف سے پرانے گھروں میں دبکا بیٹھا ہو، وہ اندھیرا جو دو روپے کی موم بتی سے چھٹ جائے، وہ کتا جو ادھ کھائی ہڈی سے بہل جائے۔۔۔۔۔ مجھے کیسے ڈرا سکتے ہیں؟

مگر وہ کتا جو تازہ گوشت سے بھی بہل نہ سکے، وہ بھوت جو نئے گھروں میں رقصاں ہو اور وہ اندھیرا جو ہزاروں وولٹ کے بلب لگانے سے بھی دور نہ ہو۔۔۔۔ خوف کی ایک ممکن وجہ ہو سکتے ہیں۔

گو ایسا ہوتا نہیں۔ یہ کردار ہمیں عام زندگی میں نہیں ملتے۔ چاہے میں ہزاروں دفعہ اپنے کیلکولیٹر پر دو جمع دو کروں جواب چار ہی آتا ہے، پانچ کبھی نہیں آتا۔ جب بھی اپنی دائیں جیب میں ہاتھ ڈالوں تو گاڑی کی چابی ہی نکلتی ہے، سانپ کبھی نہیں نکلا۔ علتو معلول کے اس نظام کو میں نے لاکھوں مرتبہ آزمایا مگر اس لمحے کا خوف کبھی میرے دل سے نہ نکل سکا جب یہ ٹوٹ جائے گا۔ یہ خوف بہت مبہم انداز میں شروع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ آپ کی پوری زندگی پہ چھاتا چلا جاتا ہے اور پھر ایک مقام ایسا بھی آتا ہے جب آپ مزید خوفزدہ نہیں ہو سکتے۔ آپ کہتے ہو کہ بس بہت ہو چکا۔

ایسے میں لوگ شیروں کی کچھاروں میں کود پڑتے ہیں، ہنستے ہنستے اپنی صلیبوں کو اٹھا لیتے ہیں، خود کو بلند و بالا عمارات سے گرا دیتے ہیں اور چلا چلا کر یہ کہتے ہیں کہ اب مجھے اور خوفزدہ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ بھی ایک ایسے ہی بے مہر لمحے کا قصہ ہے جب میں خوف کی صورت میں اپنی آخری پناہ گاہ، مہربان دوست سے بھی محروم ہو گیا۔ اور اصل خطرہ تو اب شروع ہوا تھا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے روزانہ رات کو لیٹتے ہوئے بھیڑیوں کی howlingآپ کو سونے نہ دے اور پھر ایک رات اکتا کر آپ گھر کا دروازہ ہی کھول ڈالو۔ دروازہ جو آپ اور لاتعداد عفریتوں کے بیچ آخری پردہ تھا۔ اب آپ کسی چیز کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہو تو یقیناً اس کی قیمت تو چکانا پڑے گی۔ میں اس میں چھپے خطرات سے آگاہ تھا پر کبھی کبھار آپ بس، گھر میں دبکے نہیں رہ سکتے۔

یہ سب بڑی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے شروع ہوا۔ چیزیں جنہیں آپ آسانی سے نظر انداز کر سکتے ہو اور کبھی اچھے موڈ میں ہو تو ان پر جی کھول کر ہنس بھی سکتے ہو۔ جیسے کہ اس دن میں نے سبزی فروش کو مردہ مولیاں بیچتے دیکھا۔ یہاں میں گلی سڑی کی بات نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ان میں بھی ایک قسم کی زندگی ہوتی ہے۔ اس زندگی کو آپ محسوس کر سکتے ہو اور اگر آپ کا تخیل طاقتور ہے تو دیکھ بھی سکتے ہو۔ مگر وہ تو پتھروں کی طرح مردہ تھیں (اور کچھ پتھر بھی تو ایسے ہوتے ہیں جن میں زندگی کی علامات مل سکتی ہیں)۔ آپ جتنی چاہے کوشش کرو، خود کو یقین نہیں دلا سکتے کہ یہ مولیاں ہی ہیں۔ اگرچہ یہ ان جیسی نظر آتی ہیں۔ مگر ان میں ایک سرد پن، ایک جامد پن سا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ شاید میں خود کو صحیح سمجھا نہ سکوں۔ پر سمجھا سکنے کا دعوی میں نے کیا ہی کب تھا؟

سو ایک مسئلہ تھا کہ میں غیر منطقی چیزیں دیکھتا تھا۔ میں علت و معلول کے قانون کو ٹوٹتے دیکھتا تھا۔ اور یہ اتنی بار ہوتا کہ میرا اعتبار ہر چیز سے اٹھتا چلا جا رہا تھا۔ اگر آپ مجھے کچھ عرصہ پہلے ملے ہوتے تو بہت مختلف پاتے۔ میں کبھی بھی معجزوں، جادو اور ارواح جیسی چیزوں پر یقین کرنے والا نہیں رہا۔ میری تربیت سائنسی اور منطقی انداز میں ہوئی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں انہیں ناممکن سمجھتا تھا۔ بس کچھ یوں تھا کہ یہ سب میرے لئے بے پناہ غیر اہم تھیں۔ ایک سائنسی انداز میں تخلیق کی ہوئی کائنات میں مجھے ان کی کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ خدا ہے اور ہر شئے کے خالق کی حیثیت سے اس کا وجود تسلیم کئے بنا کوئی چارہ نہیں ہے مگر کتنا غیر خدائی طرز عمل ہو گا اس کا کہ وہ ہمیں متاثر کرنے یا جھنجھلاہٹ میں مبتلا کرنے کو ایسے شعبدے کرتا پھرے۔ اور یوں زندگیوں کو اور قابل رحم بنا دے۔

پر یہی تو اس قصے کا سب سے مضحکہ خیز حصہ ہے۔ آپ گہرے تفکر کے بعد معلوم کرتے ہو کہ کوئی شئے کتنی ناممکن ہے اور پھر آپ کی آنکھوں کے سامنے وہ بڑے عام سے حالات میں وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔ آغاز میں، میں نے انہیں نظر انداز کرنے کا طریقہ اپنایا۔ یہ میرے لئے ایسی ہی تھیں جیسے کسی شاہکار تصویر میں چند لا پرواہ چھوٹے چھوٹے سے برش سٹروک۔ جب آپ تصویر کو بحیثیت مجموعی دیکھتے ہو تو ہمیشہ ان سے نا  آشنا رہتے ہو اور انہیں پاتے ہو تو صرف خورد بینی انداز میں ڈھونڈنے پر۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ تصویر میں چھوٹے چھوٹے سے جھول موجود ہیں پر ہم انہیں اک شاہکار کی ستائش میں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پر اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ تصویر خورد بینی مطالعہ کے لئے بنی ہی کہاں ہے؟تو چھوٹے موٹے عجیب واقعات کے ساتھ میں ایسے ہی نمٹتا رہا۔

کچھ دیر تو سب اچھا رہا مگر پھر ان واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہونے لگا۔ اور آخر میں سب سے خوفناک بات ہوئی کہ میں انہیں ٹھیک کرنے کو نکل کھڑا ہوا۔ اب یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ گو دکھتا ضرور آسان ہے کہ بھلا کوشش کرنے میں کیا حرج ہے؟

پر ان فطری مظاہر میں ایک طرح کی زندگی ہے۔ اور میں یہاں dullنباتاتی زندگی کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ نہیں جناب!، میں با شعور زندگی کی بات کر رہا ہوں۔ آپ ان کی مدافعت کو محسوس کر سکتے ہو جب بھی کوئی تبدیلی ان کا رخ کرتی ہے۔ یہ منجمد ہو جائیں گے، خود کو معصوم اور بے ضرر شبیہوں میں چھپا لیں گے۔ حتی کہ ان کی شدت بھی کم ہو جائے گی اور پھر جب یہ ہمیں بے خبری میں پائیں گے تو پہلے سے بھی خوفناک طاقت سے اپنی گھات سے نکل آئیں گے۔ اب کے حملہ اتنا سخت ہو گا کہ آپ کی ساری زندگی الٹ پلٹ ہو جائے گی۔ اگر ایک دفعہ یہ شروع ہو جائے تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں رہتا۔

میں جانتا ہوں۔ میں سب جانتا ہوں کہ یہ خوف ہماری جبلت، ہمارے شعور میں چھپا ہے۔ لیکن میں سب کچھ داؤ پر لگا رہا ہوں کیونکہ میں اس انجانے وجود کی دیوانہ وار صداؤں سے اکتا گیا ہوں۔ اب چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اپنا دروازہ کھول رہا ہوں اور اپنی سوچ اور حواس کی مدھم روشنی میں ہی اس درندے کو تلاش کر کے رہوں گا جس کی howlingنے میری نیندوں کو اڑا رکھا ہے۔

یہ کتاب میری اس تلاش کی داستان ہے۔ یہ کہانیاں اس بکھرے ہوئے معاشرے کے مختلف پہلو ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو اہرام مصر یا تاج محل سا کوئی لازوال شاہکار نہیں دکھا سکا۔ مگر کیا کروں کہ مجھے ان کہی کو کہنا ہے، ان دیکھے کو دکھانا ہے اور ایک نہ سمجھ میں آنے والے عہد کی داستان رقم کرنا ہے۔ میں تو جیسے ایک inevitable junkyardمیں کھڑا ہوں، جہاں اکیسویں صدی کا ہر خواب ٹوٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ تہذیب کا یہ قبرستان بہت ڈراؤنا ہے اور جب خوف حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس میں دوسروں کی شرکت لازم آتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اس بہت بڑے خوف سے اس بھی بڑی امید پیدا ہو گی(کہ یہی اس نگر کا دستور ہے)۔ پر اس دن کے سواگت کے لئے ہمیں اپنی آنکھوں کو کھولنا ہو گا۔ آنکھیں جو ان دیکھے درندوں کے خوف سے بند کر رکھیں ہیں ہم نے۔ آنکھیں جنہیں کھولتے ہیں تو اندھیرے جسم کی ہر درز میں گھسے چلے جاتے ہیں اور آنکھیں جو اگر بند ہوں تو شام و سحر کی ہر تفریق مٹ جاتی ہے۔

٭٭٭

 

اکیلا گھر

 

 

میرے گھر میں بھوت کا سایہ ہے۔ اور سایہ ہے تو یقیناً وہ  وجود بھی ہو گا جو اس کا باعث ہے۔ مگر میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں۔ بہت بار ایسا ہوا کہ میں دروازے کے قریب سرسراتے اس سائے کے پیچھے بھاگا، کہ دیکھوں اس کے قدموں سے ملا کون ہے؟مگر شاید وہ جسم بہت بڑا ہے کیونکہ میں جتنا بھی بھاگا اس سیاہ وجود کے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ سکا۔ بہرحال میرے قریب والے سرے سے تو وہ خاصا جسیم نظر آتا ہے۔ پر سائے اس معاملے میں تو دھوکہ دے ہی جاتے ہیں۔ کبھی تو چوہے کا سایہ ہاتھی سے بڑا دکھتا ہے اور کبھی ہاتھی کا سایہ بھی نظر نہیں آتا۔ اس میں سارا کھیل روشنی کا ہے۔ اب میرے ان مختصر، گھٹن زدہ کمروں میں وہ کون سا سورج ہے جو ایک جسم سے اتنا بڑا سایہ پیدا کر رہا ہے؟یہاں سے ہی میں سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ وہ کوئی بھوت ہی ہو گا۔ پر بھوت ہے تو جیسا کہ تصور کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس ماورائی طاقتیں بھی ہوں گی۔ پلک جھپکنے میں وہ دنیا کے اس کونے کی خبر لا سکے گا وغیرہ۔ لیکن یہ تو سارا دن اس

٭٭a vast deep oc پروفائل سےبید سیلن زدہ فلیٹ میں پڑا رہتا ہے کسی بوڑھے بیمار کتے کی مانند۔ بس میری آہٹ سن کر ایک کمرے سے دوسرے میں یا کچن، باتھ روم میں سرسراتا رہتا ہے۔ اگر وہ ان لامحدود طاقتوں کے ایک ہزارویں حصے کا بھی مالک ہے تو یہ بڑی معمولی بات ہو گی کہ وہ اپنا وقت یوں مجھ جیسے عام سے انسان کو خوفزدہ کرنے یا پھر چڑانے میں صرف کر رہا ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ سب قصے کہانیاں فرضی ہیں، یا پھر یہ میرے والا کوئی بہت بیکار قسم کا بھوت ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ میری طرح یہ بھی بس تنہائی پسند ہو۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے کہ وہ ایسا کیوں ہے؟مگر سوال یہ ہے کہ وہ میرے گھر میں کیوں دندناتا پھر رہا ہے؟

مجھے ٹھیک سے یاد تو نہیں کہ کب مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ جیسے کوئی اور بھی ہے یہاں؟شاید جب میں نے کافکا کی کتاب کو بستر کی بجائے میز پر پڑے پایا۔ یہ بات تو طے ہے کہ میں خود کو کبھی میز، کرسی پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور نہیں کر سکا (اگرچہ اس کے لئے میں نے کوشش بھی بہت کی)۔ ہاں البتہ یہ ممکن ہے کہ سونے سے پہلے میں نے کتاب کو پہلو میں رکھنے کی بجائے میز پر پھینک دیا ہو۔

مگر کتاب تو میز پر ایسے پڑی تھی جیسے کوئی پڑھتے پڑھتے بند کر گیا ہو۔ پھینکنے  اور اس حالت میں جو فرق ہے میں اس کو بخوبی محسوس کر سکتا ہوں۔ یہاں میں اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مجھ جیسے آدمی کو جس کے گھر میں ہر چیز بکھری نظر آتی ہے، بھی احساس ترتیب رہتا ہے۔ بکھرا ہونا اور بے معنی ہونا دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ میری قمیض زمین پر کیوں گری ہے؟کیونکہ میں کمرے میں آتے ہی اس کونے میں اپنے کپڑے تبدیل کرتا ہوں۔ اب کپڑے اتار کر زمین پر پھینک دینا بے ترتیبی ضرور ہے مگر ان کا اس مخصوص کونے میں گرا ہونا منطقی طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ تو ایک ایسی ہی منطقی ترتیب میرے گھر میں بھی تھی جس میں ذرا سا بھی بگاڑ فوراً نظر میں آ جاتا ہے۔ اب فرض کریں کہ یہی بھوت کسی ایسے آدمی کے گھر میں ڈیرا جماتا جس کی ہر چیز قرینے سے لگی ہوتی۔ ایسے حالات میں اسے بے خبر رکھنا بہت ممکن تھا۔ دھونے کے بعد پلیٹ الماری میں جائے گی، پڑھنے کے بعد کتاب میز پر سلیقے سے رکھی ہو گی۔ ہر چیز کا ایک مخصوص مقام ہے اور وہ اتنا obviousہے کہ کوئی بھی اسے جان سکتا ہے۔ مگر میری ترتیب کو صرف میں ہی جان سکتا ہوں۔ تبھی تو میں چونک اٹھا، جب میں نے باربرا کورٹ لینڈ کے نئے تہلکہ خیز ناول کا اقتباس (جو ایک کتابچے کی صورت میں کوک کے ڈبے سے نکلا تھا) اپنی کھڑکی کے سامنے سڑک پر پایا۔ مانا کہ اس best-seller ناول کا اقتباس ہی اتنا لایعنی تھا کہ اسے سڑک پر کیا شہروں سے دور صحراؤں میں پھینک دینا چاہئے تھا۔ مگر مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ چند صفحے پلٹنے اور سطروں پر نظریں دوڑانے کے بعد میں نے اسے خاصی احتیاط کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ اور مجھے یاد ہے کہ ایسے کتابچے کا گھر میں ہونا میرے لئے تکلیف دہ ضرور تھا پر اب کون اس سرد موسم میں بستر سے اٹھے، کھڑکی کھولے اور اسے باہر پھینک دے۔۔۔

مگر یہ باہر سڑک پر تھا اور میری ردی کی ٹوکری میں کوئی اور کتابچہ نہ تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ میرے جانے کے بعد اس نے اسے ٹوکری سے نکالا(دیکھنے میں سرورق خاصا جاذب نظر تھا) ، چند سطروں پر نظریں دوڑائیں، کچھ صفحے الٹے پلٹے۔ پھر تیز تیز قدموں سے چلتا کھڑکی تک گیا، پٹ کھولے اور تمام تر طاقت کے ساتھ اسے باہر پھینک دیا۔ یقیناً ایسا ہی ہوا ہو گا۔ مگر۔۔۔۔کتاب کھڑکی سے بہت دور نہیں تھی اور اس بات کی تو میں قسم اٹھا نے پر  تیار ہوں کہ اسے بہت طاقت سے پھینکا گیا ہو گا۔۔۔ تو کیا وہ اتنا کمزور ہے؟کتنی مشکل ہوتی ہے گی اسے میرے آنے پر ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک جانے میں؟یہ سوچ کر میں نے بلا ضرورت کمروں میں گھومنا کم کر دیا۔ اور اگر گھومتا بھی تو بڑی کاہلی سے کہ میں اسے جلدی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

ہمارے بیچ ایک خاموش سمجھوتہ سا ہو گیا تھا۔ جیسے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے میں assumeکر لیتا کہ اس نے یقیناً آنکھیں بند کر لیں ہوں گی، یا پھر دوسرے کمرے میں چلا گیا ہو گا۔ اسی طرح اگر صبح کے اخبار میں کوئی دلچسپ خبر ہوتی تو میں اسے با اواز بلند پڑھتا تا کہ اسے اس خبر کے لئے بہت انتظار نہ کرنا پڑے(میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی دن وہ بیتاب ہو کر میرے ہاتھ سے اخبار ہی چھین لے)۔ اخبار کی دو کاپیاں لینے کے بارے میں بھی سوچا پر پھر خیال بدل دیا۔ اس سے اسے بھی احساس ہو جائے گا جیسے میں اس کی موجودگی سے باخبر ہوں اور یہ جو چھپنے والا بھیس اس نے اتنے دن سے بدل رکھا ہے ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔ پھر اخبار پھینکنے والا بھی چونک تو ضرور پڑے گا۔ اور مجھے کہنے دیں کہ اس قسم کی اپارٹمنٹ بلڈنگز میں مجھ جیسے آدمی کو بہت محتاط ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ جہاں لوگ پالتو جانوروں کا وجود برداشت نہیں کرتے وہاں ایک بھوت کا خیال بھی کھلبلی مچا سکتا ہے۔ بستر پر صبح سے شام تک میرا قبضہ ہوتا اور دن میں اس کا۔ ایک دن جلدی گھر آنے کے باوجود میں گھنٹوں بلا ضرورت  ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھا رہا کیونکہ میں اس کی نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔

مجھے مابعد طبیعات کے مسائل اور ماورائے عقل چیزوں میں کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ اس لئے شاید مجھے جاننے والوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہو گی کہ میں ایک بھوت پر یقین کرنے لگا ہوں (ویسے مجھے جاننے والا ہے ہی کون پر فرض کریں کہ۔۔۔)۔ اس میں سب کھیل محسوسات کا ہے۔ اور محسوسات عقل سے پہلے آتے ہیں۔ جب ایک parameciumروشنی کی تلاش میں سفر کرتا ہے تو اسے کسی عقل کی ضرورت نہیں ہوتی، ایسے ہی چھوئی موئی کا ہاتھ لگانے پر سکڑ جانا یا پھر خوفزدہ جانوروں کا بے تحاشا بھاگنا۔ یہ سب اعمال محض محسوسات کی وجہ سے ہیں اور زندگی کے ایسے ادنی طبقات میں بھی نظر آتے ہیں جہاں عقل کا تصور محال ہے۔ تو میں اس پر یقین کرتا ہوں کیونکہ میں اسے محسوس کرتا ہوں، کمروں میں ادھر سے ادھر سرسراتا ہوا پاتا ہوں۔ رہی بات اسے سمجھنے کی، تو کسی نے کب کسی کو سمجھا ہے؟کسی نے تمام عمر ایک شیر کو سدھانے میں لگا دی اور ایک دن  شیر نے اسی کا بھیجا کھا لیا۔ کسی نے اپنے سارے خلوص اور دیوانگی کے ساتھ ایک عورت کو چاہا اور ایک دن اس کو بستر میں کسی اور کے ساتھ پایا۔ تو جب آپ معمولی چیزوں  جیسے کتا، بندر وغیرہ  کو نہیں سمجھ سکتے تو مجھے اسے سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟بس وہ ہے کیونکہ میں اسے محسوس کرتا ہوں۔ پر محسوس تو میں خدا کو بھی کرتا ہوں۔ میں اس کی تنبیہی آواز سنتا ہوں جب جب کسی آنکھ میں میری وجہ سے آنسو آتے ہیں۔ میں اسے دیکھ سکتا ہوں جب گہرے طوفانوں میں جہاز کے بچنے کی کوئی امید نہ رہے، میں اس کی کی خوشبو محسوس کرتا ہوں جب باغ میں موتیا کے بہت سارے پھول کھلے ہوں۔ تو کیا اس سب کا مطلب ہے کہ خدا ہے۔۔۔۔۔؟

نہیں میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ ان اربوں لوگوں کی طرح جن کی سوچ کی trailیہاں آ کر رک جاتی ہے یا وہ روک دیتے ہیں۔ ہمیں بس اتنا ہی خدا چاہیے ہوتا ہے جتنا وہ ہمیں تھوڑا motivateاور کچھmeditateکرنے کے لئے کافی ہو۔ اسے سے زیادہ خدا تو ہماری زندگیوں پہ چھاتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایسی دلدل کی طرح ہے جس میں سوچنے والا بڑی تیزی سے اندر اترتا چلا جاتا ہے اور نہ سوچنے والا بڑی آہستگی سے، بڑے غیر محسوس انداز میں۔ جب اس دلدل کی گود ہی مقدر ٹھہری تو پھر یہ جھجکنا کیسا؟یا پھر جب دلدل کی گود میں اترنا ہی مقدر ہے تو پھر کیوں نہ ان چند لمحوں کو، جو ہمارے شعور کی پہلی صبح اور دلدل میں اترنے والی رات کے بیچ ہیں، بھرپور جی لیا جائے؟

پھر ایک شام میں گھر کو لوٹا تو میرے ساتھElena بھی تھی۔ وہ ایک معمولی صورت کی سطحی سی عورت تھی۔ کسی pizza shopمیں کام کرتی تھی اور مہینوں  میں کبھی ایک مرتبہ جب شاید کوئی اور اس کے پاس نہیں ہوتا تھا تو وہ مجھے کال کر دیتی۔ اور میں ہمیشہ تیار ہی ہوتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ میں کوئی بہت sexually activeقسم کا انسان تھا بلکہ کچھ یوں تھا کہ اس کے سوا اب میں کسی کو جانتا ہیں نہیں تھا۔ اور کسی نئے تعلق کا حوصلہ اور patienceاب میں خود میں نہیں پاتا تھا۔ اس بھوت کے بعد یہ پہلی بار تھی کہ وہ میرے گھر میں آ رہی تھی۔ میں نے آہستگی سے دروازہ کھولا۔ اور اگرچہ یہ تھوڑا نامناسب ہی لگتا تھا پر میں پہلے خود اندر داخل ہوا۔ سایہ آہستگی سے سرسراتا ہوا کچن میں چلا گیا۔ میرے پیچھے پیچھے Elenaبھی داخل ہوئی۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی بیزاری تھی۔ آخر ایک اوسط درجے کا گھرSaturday nightکی خواب بھری آنکھوں کے لیئے خاصی تلخ سچائی تھی۔ وہ تیزی سے چلتی ہوئی کچن کی طرف گئی۔

’’بہت پیاس لگ رہی ہے‘‘۔

میں نے اسے روکنا چاہا اور پھر ارادہ ترک کر دیا۔ ساتھ ہی ایک عجیب سا احساس ہوا۔ اب اگر وہ کچن سے نکل کر اس کمرے میں آتا ہے تو میں یقیناً اسے دیکھ لوں گا اور اگر کچن میں رہتا ہے تو Elena۔ اس سے پہلے تو میں نے بس ایک سرسراتے ہوئے سائے کو ہی دیکھا تھا۔ میں نے بیتابی سے نظریں کچن کے دروازے پر جما دیں۔ اب کسی لمحے وہ آنے کو ہی تھا۔ مگر کچھ نہ ہوا۔ نہ Elenaکی کوئی چیخ اور نہ اضطرابی حالت میں حرکت کرتا ہوا وہ بھوت۔ وہ واپس آئی اور بستر پر گر گئی۔

’’میں ابھی آیا‘‘۔ کہ کر تیزی سے کچن میں گیا۔ وہ کہیں نہیں تھا۔

آخر وہ کہاں جا سکتا تھا؟

ایسے میں ایک چھوٹا سا دھبہ مجھے میز کے نیچے سرسراتا ہوا محسوس ہوا۔

’’ہوں تو جناب یہاں ہیں۔ چھوٹی سی میز ہے، خاصی تکلیف میں ہوں گے۔ ‘‘میں مسکراتا ہوا باہر نکل آیا۔

اس رات میں نے بڑی بے رحمی سے بہت بار کچن کا رخ کیا۔ کبھی پانی پینے کے بہانے، کبھی کچھ کھانے کے لیے، کبھی دبے پاؤں، کبھی تیزی سے پاؤں پٹختے ہوئے۔ اور ہر بار میں نے اسے ایک نئی تکلیف دی۔ میں یہ سب کیوں کر رہا تھا؟کیونکہ آج میں اکیلا نہیں تھا۔ میرے ساتھ کوئی تھا(خواہ ایک رات کے لیے ہی سہی)۔

وہ رات گزر گئی۔ ہر رات گزر ہی جایا کرتی ہے۔ مگر گزرا ہوا  وقت آنے والے لمحوں پر اپنے نقش  چھوڑ جاتا ہے۔ صبح بستر پر میں اکیلا تھا۔ اور یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔ اگر اس کے الٹ ہوتا تو میں پریشان ہو تا۔ میں آہستگی سے اٹھا اور کچن میں گیا۔ آج مجھے کوئی سایہ سرسراتا ہوا محسوس نہیں ہوا۔ میں نے محتاط نظروں سے ہر سمت دیکھا مگر ایک روکھا پن، ایک نا آشنا ٭٭٭سا احساس، ایک خالی گھر  ے اسے خا ہر سمت رقصاں تھا۔ ایک بہت بڑی تنہائی ایک چھوٹے سے گھر میں، جیسے کوئی جن کسی بوتل میں۔ اور جن سے بھری بوتل تو میں بچپن میں خود کھوجتا رہا تھا۔ پھر میں آج اس قدر خوفزدہ کیوں ہو رہا تھا؟شاید اس لیے کہ اس جن کے ساتھ میں خود بھی بوتل میں تھا۔

اکیلا گھر جس کے کمروں میں جتنا بھاگو کوئی سایہ نہیں سرسراتا۔ اکیلا گھر جس میں صبح کو بلند آواز میں جیسی بھی خبر پڑھ کر سنا ڈالو کوئی کان اسے نہیں سنتا۔ اکیلا گھر جس میں ایک بوڑھی ہوتی ہوئی عورت کے قہقہوں کے سوا کوئی آواز نہیں گونجتی۔ اکیلا گھر جس کے کونے میں پڑے میز کے نیچے ایک سایہ بہت دنوں سے ٹھہرا ہے۔ وہ مجھ سے خوفزدہ ہے، ناراض  یا بے پرواہ۔ میں نہیں جانتا۔ میرے ایک مذاق نے اسے اتنا ڈرا دیا کہ اعتبار کا موسم لوٹنے میں نجانے کتنے زمانے لگیں؟میری ایک بھول نے اسے اتنا خفا کر دیا کہ پھر سے مان جانے میں شاید کیا کیا بہانے لگیں؟میرا تجسس بہت بڑا سہی مگر میرا انتظار اس سے بھی بڑا ہے۔ یہ ایک امید، کہ اس گھر میں کبھی کوئی سایہ لہرا سکے گا زندہ رہنے کا خاصہ معقول بہانہ ہے۔ اور پھر زندہ رہنے کے لئے اگر ایک معقول بہانہ مل جائے تو  اور چاہیے بھی کیا؟

٭٭٭

 

 

ایک چھوٹے سے گاؤں کی کہانی

 

 

میرا تعلق شمالی پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں  پیر بلہ سے ہے۔ گاؤں کے اکثر لوگ رشتہ دار ہیں۔ ہمارا گاؤں پنجاب کے ان ہزاروں غیر اہم علاقوں میں سے ایک ہے، جو مختصر اتنا ہے کہ کبھی کبھار یونین کونسل کے نقشوں میں بھی اسے ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے اردگرد نسبتاً بڑے گاؤں ہیں۔ اس لئے اسے اکثر ان میں ملا دیا جاتا ہے۔ چھوٹا ہونے کے باوجود اس گاؤں میں، اس کے لوگوں میں، اس کے جانوروں میں، ہر چیز میں ایک خاص طرح کی انا ہے، انفرادیت ہے۔ آپ کسی مویشی منڈی چلے جاؤ۔ اتنے جانور کہ سر چکرا جائے۔ پر ایسے میں بھی پیر بلہ کا جانور سب سے الگ نظر آئے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے جانور کچھ قد کاٹھ میں بڑے ہیں، یا ان کے رنگ صاف ہیں۔ بس سخت گرمی کے موسم میں جانوروں کو یکدم پانی دکھائے دے تو سب اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ ایسے میں جو جانور بے نیازی سے زمین پر پڑے گھاس پھوس کے ٹکڑوں پر منہ مارتا نظر آئے وہ یہیں کا ہو گا۔ یہی خوبی انسانوں میں بھی آ گئی ہے۔ ہمارے لوگ یوں تو اکثر گاؤں کی حدود سے کم ہی باہر نکلتے ہیں پر جب نکلیں تو خوب بن سنور کر نکلتے ہیں۔ ایسے کہ عام جاٹوں سے بڑے مختلف نظر آتے ہیں۔

پڑھنے لکھنے کا رواج یوں تو اس علاقے میں کم ہی تھا مگر اب کچھ عرصے سے بچے سکول جانے لگے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کو گاؤں چھوڑنے کی ضرورت پیش آنے لگی ہے۔ کچھ سال پہلے جب نور دین کے بیٹے نے ڈاکٹری پاس کی تو اسے گجرات میں نوکری ملی۔ اس نے باپ سے شہر منتقل ہونے کی اجازت چاہی۔ باپ نے صاف کہ دیا کہ

’’میاں تمہاری زندگی ہے۔ جو چاہے کرو اور پھر اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ میری زمین میں پھیل جاؤ۔ سو میں تمہیں روکوں گا نہیں۔ بس سوچتا ہوں کہ اس گاؤں کے لوگوں کا بھی کچھ حق ہے تم پر۔ سو ایک سال تم مفت لوگوں کی خدمت کرو پھر جہاں چاہے چلے جاؤ۔ ‘‘

آفرین ہے اس بیٹے پر جس کے ماتھے پر ایک شکن بھی آئی ہو۔ ایک سال تک اس نے لوگوں کا دلجمعی سے علاج کیا۔ پھر سال کے بعد لوگوں نے آنسوؤں اور دعاؤں کے سائے میں اسے رخصت کر دیا۔ جاتے ہوئے یہ بھی وعدہ کر گیا کہ وقتاً فوقتاً گاؤں کی خدمت کو آتا رہے گا۔ پھر اس کے بعد تو اس چیز نے ایک مقدس روایت کی حیثیت اختیار کر لی۔ اب کوئی وکیل ہے تو پہلا سال گاؤں کے لوگوں کے مقدمے مفت لڑے، استاد ہے تو ایک سال تک بچوں کو مفت تعلیم دے۔

ایسے میں جس دن میں پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں ڈگری لے کر گھر پہنچا تو پورے گاؤں نے میری خوب خاطر مدارت کی۔ کچھ دن تو اسی پذیرائی میں گذر گئے۔ ایک صبح جو سو کر اٹھا تو ناشتے کے بعد ابا نے باہر چلنے کو کہا۔ ہم دونوں دیر تک کھیتوں کے کنارے ٹہلتے رہے۔ مختلف باتیں ہوئیں۔ پھر ابا نے پوچھا کہ میرا ارادہ کیا ہے؟

’’بس ابا شہر جاؤں گا۔ سوچ رہا ہوں کہ چھوٹا سا فلیٹ لے لوں۔ ‘‘میں ابھی شاید اور کچھ بولتا پر ابا نے ٹوک دیا

’’مجھے پنج سالہ منصوبے نہ سناؤ۔ صاف لفظوں میں بتاؤ کہ آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘

’’بس ابا میں لکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’پر بیٹا یہ تو کوئی کام نہ ہوا؟‘‘

’’ارے نہیں ابا۔۔۔۔۔ شہر میں بڑی عزت ہوتی ہے لکھنے والوں کی۔ بڑے بڑے سرکاری افسروں اور ڈاکٹروں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں یہ لوگ۔ ‘‘میں نے کہا۔

’’اچھا۔۔ چل رب تجھے خوش رکھے۔ پر تجھے گاؤں کا قاعدہ تو معلوم ہی ہے۔ پہلا سال گاؤں کے واسطے۔ ‘‘

میں تھوڑا گڑبڑا گیا۔

’’پر میں۔۔۔ ادھر کیا کر سکتا ہوں؟‘‘

’’وہی جو تو نے کرنا ہے۔ کہانیاں لکھ۔ ‘‘ابا نے جھلا کر کہا۔

’’پر اس چھوٹے سے گاؤں میں، میں کونسی کہانیاں لکھ سکوں گا۔ بڑی کہانیاں، بڑے شہروں میں ہوتی ہیں ابا۔۔۔ یہ میری عمر کے بڑے اہم سال ہیں۔ مجھے جانے دو تاکہ میں وہاں رہ کر کچھ کر سکوں۔ ‘‘

ابا کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گذر گیا۔ اس نے مجھے ایک کٹے ہوئے درخت کے تنے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ پھر کچھ دیر خاموش رہا جیسے بولنے کے لئے الفاظ اکٹھے کر رہا ہو۔

’’تیرا دادا۔۔۔۔ انگریزوں کی فوج میں سپاہی تھا۔ ان کے ساتھ اس نے پتہ نہیں کتنے ملکوں کی سیر کی۔ کہتا تھا کہ چار سال سمجھو ریل گاڑی اور جہاز میں ہی گذر گئے۔ پہاڑ، ریگستان، سمندر، میدان، جنگل۔۔۔۔۔ کہاں کہاں نہیں گیا۔ بولتا تھا کہ موسم بدلتے رہے، آدمیوں کے قد اور رنگ بدلتے رہے۔ پر جہاں بھی گیا زندگی کی کہانی نہیں بدلی۔ وہی لوگ، وہی کام، وہی لالچ، وہی پیار۔۔۔ بولتا تھا کہ ہم سب لوگ ایک عجیب ڈور سے بندھے ہوئے ہیں۔۔۔ میں نے وہ علاقے، وہ لوگ، وہ منظر کبھی نہیں دیکھے اور سچ پوچھو تو کبھی دیکھنے کی خواہش بھی نہیں ہوئی۔ کیونکہ جانتا ہوں کہ آدمی چھوٹے بڑے نہیں ہوتے ان کا فاصلہ ہمیں ان کو چھوٹا بڑا دکھاتا ہے۔ اگر تو سچ مچ کہانیاں لکھ سکتا ہے تو یقین کر تو یہاں بھی لکھ لے گا۔ ‘‘

میں لا جواب سا ہو گیا۔ گو کہنے کو تو میرے پاس بھی بہت کچھ تھا۔ بہت بار چاہا کہ ابا سے کہوں کہ زمانہ بہت بدل گیا  ہے۔ بہت خیال ہوا کہ انہیں جتلاؤں کہ جس علاقے کے لوگ گائے بھینسوں سے اوپر کی سوچ نہیں سکتے وہاں کونسا لافانی ادب تخلیق ہو سکتا ہے؟پر میں خاموش رہا۔ ابا کافی دیر میری طرف دیکھتا رہا پھر مایوس انداز میں آہستہ آہستہ چلتا گاؤں کی طرف چلا گیا۔ کہنے کو تو میں اب بھی مرے مرے انداز میں اس کے پیچھے چل رہا تھا مگر میں اس سے بہت دور تھا۔

اس رات میں بہت دیر تک جاگتا رہا۔ میں چھت پر لیٹا تھا اور میرے سامنے ہزاروں ستارے تھے۔ لیکن میرے ذہن میں شہر کے پوش علاقے میں لئے ایک فلیٹ کا منظر تھا(جو کبھی کبھی کسی فیشن ایبل گھر میں paying guest  کے منظر سے بدل جاتا)۔ کمرے میں جا بجا کتابیں اور کاغذات بکھرے تھے۔ الجھے الجھے بالوں، کثرتِ سیگرٹ نوشی سے کالے ہونٹوں اور مدقوق چہروں والے دانشوروں کا ایک جمگھٹا تھا۔ میں جن کی توجہ کا مرکز تھا۔ وہ سب میری تحریر کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، ملکی مسائل کا جائزہ لے رہے تھے، معاشرے کو بدلنے کی بات کر رہے تھے اور پھر ایسے میں کتوں کے بھونکنے نے مجھے اپنے خیالوں سے چونکا دیا۔ میرے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یونیورسٹی کے سب دوست، اساتذہ یاد آنے لگے۔ یونیورسٹی چھوڑنے کا وقت ایک طالب علم کی زندگی کا سب سے بہترین وقت ہوتا ہے۔ وہ بے حد پر جوش ہوتا ہے، دنوں میں سب کچھ کر ڈالنا چاہتا ہے، آسمان کو چھو لینا چاہتا ہے۔۔۔۔ اور ایسے میں اگر کوئی اسے کہے کہ ابھی نہیں۔ ابھی ایک سال ٹھہر جاؤ۔۔۔۔۔۔ کوئی انتظار کرے تو کیسے؟

پر پھر بڑے لوگ یاد آئے۔ استاد اللہ بخش کی پینٹگنز جن میں گاؤں کے عام سے مناظر جاوداں ہو گئے تھے، پریم چند کے افسانے، احمد ندیم قاسمی کے کردار۔ تو بڑی کہانیاں چھوٹے موضوعات پر بھی لکھی جا سکتی ہیں۔۔۔۔ کیا کریں کہ بڑا شہر ان کے لیئے لاکھ زرخیز سہی۔ میں تمام رات سوچتا رہا اور موذن کی پہلی آواز کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ میری ماں اس وقت نلکے پر کھڑی وضو کو پانی بھر رہی تھی۔

’’اماں۔۔۔۔۔ میں پہلا سال یہیں رکوں گا۔ ابا کو بتا دینا۔۔۔ اور ہاں وہ چوبارے کا کمرہ بھی صاف کروا کر میری سب کتابیں وہاں لگوا دینا۔ ‘ ‘میری ماں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ لگی مجھے دعائیں دینے اور میں ایک نئے عزم کے ساتھ مسجد کی طرف چل پڑا۔

٭٭

 

کہنے کو تو میں رک گیا تھا اور گاؤں کے لوگوں نے بظاہر خوشی کا اظہار بھی کیا تھا۔ پر چونکہ وہ لوگ ابھی تک کچھ صحیح سمجھ نہ سکے تھے کہ میں کیا کروں گا اس لئے بات کرنے میں وہ کچھ محتاط سے تھے۔ اس شام چوپال میں کچھ لوگوں نے تو یہاں تک کہ دیا ابا سے کہ تیرے لڑکے کو کام نہ کرنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ اب بھلا کہانیاں لکھنا بھی کوئی کام ہوتا ہے؟ اس موقع پر ابا کچھ لاجواب سا ہو گیا، تو فرمانبردار بیٹے کی طرح میں آگے بڑھا۔ گلا صاف کیا اور لیڈرانہ انداز میں کہا۔

’’بھائیو۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگ میرے بارے میں شکوک میں مبتلا ہو۔ اور میں بھی کوئی بڑا بول نہیں بولنا چاہتا۔ سچی بات اتنی ہے کہ میں اس گاؤں سے بڑی محبت کرتا ہوں اور دوسرا یہ کہ اگر میری کہانی کامیاب ہو گئی تو آج نہیں آنے والے سو سالوں میں بھی لوگ اس گاؤں کو، اس کے لوگوں کو بھولیں گے نہیں۔ رانجھے کے تخت ہزارہ کی طرح یہ گاؤں بھی کتابوں اور ذہنوں میں نقش ہو جائے گا۔ ‘‘

لوگ تھوڑی دیر تو خاموش رہے۔ مگر جب حافظ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر لوگوں کو بتایا کہ گاؤں کے کسی لڑکے نے آج تک انہیں مایوس نہیں کیا اور مجھ سے تو انہیں بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تو اس نے شکوک کی فضا دور کر دی اور گاؤں کے  تقریباً سب لوگوں نے مجھے اپنے پورے تعاون کی یقین دہانی کروائی۔ اس شام چوپال سے میں ایک کامیاب انسان کی طرح نکلا۔

ویسے یہ کوئی بہت آسان کام نہ تھا۔ میں ہمیشہ سے بہت idealist رہا ہوں۔ میں جب کسی نئی جماعت میں جاتا تو ایک لمحے کے واسطے بھی کبھی نہ سوچتا کہ میں اول کے سوا بھی کوئی پوزیشن لے سکتا ہوں۔ ایسے ہی اگر میں کہانی لکھنے کا سوچ رہا تھا تو کچھ ایسا نہیں تھا کہ میں چھوٹا موٹا کمرشل ادیب بننا چاہتا تھا، ایسا بھی نہیں تھا کہ میں قاسمی یا منٹو بننے پر مطمئن ہو جاتا۔ میں اپنی تحریروں کے ذریعے

بہت آگے جانا چاہتا تھا۔ ایک منزل جس پر کافکا، ٹیگور اور گوئٹے بھی گرد راہ معلوم ہوں۔ میں اس سے کم پر سمجھوتا نہیں کر سکتا تھا۔ سو یہ تھا میں اور اس چھوٹے سے گاؤں سے مجھے آغاز کرنا تھا اپنے اس بیکراں سفر کا۔

بہرحال میں نے اپنے کام کا آغاز بڑے منظم انداز میں کیا۔ بالکل جیسے میں ہر نئے تعلیمی سال میں کیا کرتا تھا۔ تمام کتابوں کو اکھٹا کرنا، الٹنا پلٹنا، پرانے امتحانی پرچہ جات دیکھنا اور اس سب کی روشنی میں ایک قابل عمل مگر دشوار گیم پلان بنانا۔ میں ایسے پلان پر کبھی ایک ہفتہ بھی نہ چل سکا۔ یوں پڑھنے بیٹھتا تو دس دن کا کام ایک دن میں ختم کر ڈالتا اور پھر خود کو ملامت کرتا کہ آخر ایسا آسان ٹارگٹ ہی کیوں چنا، مگر پھر ہفتوں گزر جاتے اور طبیعت پڑھائی کی طرف مائل ہی نہ ہوتی۔ یہاں بھی میں نے اپنے کام کو زبان و ادب، زمینی حقائق اور کہانی کے انتخاب صورت میں تقسیم کیا۔ اب مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بارے میں بھی کچھ بیان کر دیا جائے۔

زبانو ادب سے میری مراد بہرحال یہی تھی کہ فنی طور پر میری کہانی میں کوئی سقم نہ ہو۔ اس کے واسطے میرے ذہن میں دو راستے تھے۔ ایک تو پھر سے گرائمر کے اصولوں پر نظر ڈالنا اور دوسرا اعلیٰ ادب کا مطالعہ کرنا۔ گرائمر یوں تو اردو ادب میں ایم اے کرنے کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ طالب علم جانتا ہی ہو گا اور خاص طور پر جو اہل زبان بھی ہو مگر جو حضرات ہمارے تعلیمی نظام کو جانتے ہیں انہیں یہ سن کر حیرت نہ ہو گی۔ دوسرا ملکیو غیر ملکی ادب کے مطالعے سے یہ مقصود تھا کہ کسی ایسے موضوع پر قلم نہ اٹھایا جائے جس پر پہلے لکھا جا چکا ہو، ساتھ میں دیکھا جائے کہ دیگر ادباء کیسے لکھتے ہیں وغیرہ۔ اس کے لئے میں نے ایک طویل لسٹ کتابوں کی تیار کی جنہیں اس سال میں پڑھنا تھا۔ دیکھا جاتا تو اتنی تیاری پی ایچ ڈی کے لئے بھی کافی ہوتی۔

دوسرے حصے کا تعلق اس علاقے کے حقائق سے تھا۔ یوں تو میں یہیں پلا بڑھا تھا مگر ایک کامیاب کہانی نگار کے لئے اپنے موضوع کا جزئیاتی علم بھی ضروری ہوتا ہے۔ بغیر اس کے وہ اپنے موضوع سے انصاف نہیں کر سکتا۔ اس لئے میں نے چہل قدمی شروع کی تاکہ گاؤں کا کوئی چپہ میری نظروں سے اوجھل نہ رہ سکے، گھنٹوں کھڑا رہ کر لوگوں کو کام کرتے دیکھتا، بڑھے بوڑھوں کے لمبے انٹرویو کیے تاکہ اس علاقے کی تاریخ اور اہم واقعات سے شناسائی ہو سکے۔ اور تو اور علاقے میں چلنے والی ہوا کی سمت، خوشبوؤں کے منبع، جانوروں کے خصائل جیسی چیزوں کے متعلق بھی مکمل معلومات حاصل کرنے کی سعی میں تھا۔

البتہ تیسرے حصے کے بارے میں میں خود بھی اتنا ہی لاعلم تھا جتنا کوئی ہو سکتا ہے۔ اب اسے سقراط کی زبان میں inspirationکہتا یا پھر کسی muse  والے قصے کو سچ سمجھ لیتا ایک برابر تھا۔ جانتا تھا تو صرف اتنا کہ میں جتنی چاہے ریسرچ کر لوں پھر بھی مجھے کہانی لکھنے کے لئے اس ایک لمحے کا ہی انتظار کرنا ہو گا۔ وہ لمحہ۔۔۔۔۔ خیر میں اس لمحے کی وضاحت نہیں کر سکتا کیونکہ اگر وضاحت کرتا ہوں تو سمجھو میں اسے جانتا ہوں۔ اور اگر میں اسے جانتا ہوتا تو روز کوئی شاہکار نہ تخلیق کر لیتا؟میں بس اس لمحے کے لیے تیار رہ سکتا تھا۔ سو میں نے اپنا کام شروع کر دیا۔

صبح سورج نکلنے سے تھوڑا پہلے میں اٹھ بیٹھتا۔ ایک چھڑی ہاتھ میں لے کر گاؤں کی سیر کو نکل جاتا۔ کھیتوں، پگڈنڈیوں میں بڑی دیر تک گھومتا رہتا، سرسراتی فصلیں، پانی لگاتے کسان، رات بھر بول کر تھکے ہوئے جھینگر، پھر دور درختوں کی اوٹ سے شرماتے ہوئے جھانکنے والا سورج  اور اس کے بعد ہر شئے پر گویا ایک سنہری سی چادر پڑ جاتی۔ دن چڑھے میں گھر آتا۔ لسی، پراٹھوں کے بعد چوبارے پر جاتا اور کتابیں کھول لیتا۔ میرا یہ وقت عظیم شاہکاروں کے بیچ میں گذرتا۔ دوپہر کو ماں آواز دیتی تو چوبارے سے اترتا۔ ایسے میں ابا بھی آ جاتا۔ ہم مل کر کھانا کھاتے۔ کھانے کے بعد تھوڑا سا سستاتا پھر گاؤں میں نکل جاتا۔ لوگوں سے ملتا، شام کو چوپال میں بیٹھتا اور پھر رات گئے جب واپس آتا تو بیٹھ کر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا۔ پر اس لمحے کی عدم موجودگی محسوس کر کر بستر پر پڑا رہتا۔

کچھ ہفتے تو اسی ڈرل میں گذر گئے اور پھر میں اکتا سا گیا، یا تھک گیا۔ آخر ایسی زندگی گذار سکتا تو پطرس کے الفاظ میں ’’دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے۔ ‘‘اب میں دن چڑھے اٹھتا، ناشتہ کرتا، کمرے میں آ کر کتابوں کے ورق الٹتا رہتا، کسی دوست کا خط آ جاتا تو جواب دے دیتا اور پھر گھنٹوں خلاؤں میں گھورتا رہتا، پر کچھ اس طرح کہ کان ہمیشہ نیچے سے بلائے جانے کی آواز پر لگے رہتے۔ دوپہر کے کھانے سے شام تک سوتا اور پھر آوارہ لونڈوں کے ساتھ نوجوان لڑکیوں کے جسموں کے پیچ و خم پر بحث کرتا اور رات گئے آ کر سو رہتا۔

اپنے دل کی حالت پر میں لاکھ پردہ ڈالتا پر یوں لگتا تھا جیسے گاؤں کے سب لوگ میری حالت جانتے تھے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا جیسے میں بالکل شفاف ہو گیا ہوں اور سب لوگ میرے آر پار دیکھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں جیسے میرا کوئی راز راز نہ تھا۔ میں خواہ مخواہ ہی لوگوں سے نظریں  چرائے پھرتا۔

ایک دن یونہی خاموشی سے لیٹا چھت کو تک رہا تھا کہ قدموں کی آواز سنائی دی۔ عام طور پر جب میں یہاں ہوتا تھا تو کوئی نہیں آتا تھا۔ وہ میری یکسوئی میں خلل ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔ پر اب شاید ان کی نظر میں پانی سر سے گذرتا جا رہا تھا۔ اٹھ کر دیکھا تو ابا تھے۔ میں نے انہیں بیٹھنے کو کرسی پیش کی۔ پر وہ کھڑے رہے۔

’’میں نے تمہیں روک کر غلطی کی۔ تمہیں شہر ہی چلے جانا چاہیے تھا۔ ‘‘

’’میں کوشش تو کر رہا ہوں ‘‘میں نے شرمندہ انداز میں کہا۔

’’مجھے پتہ ہے پر تجھے روک کر غلطی کی میں نے۔ ‘‘اس کے بعد ہم دونوں تھوڑی دیر تک ایک دوسرے سے نظریں چرائے کھڑے رہے۔ ایسے میں اماں نے کھانے کے لیے پکارا اور میں نے گویا سکون کا سانس لیا۔

کھانے کے بعد میں گھر سے باہر نکل آیا۔ اب چلنے پر آیا تو گاؤں سے باہر نکل گیا۔ گاؤں کے باہر پیر بلہ کا چھوٹا سا مزار تھا۔ میں اس کے باہر بیٹھ گیا۔ بڑی دیر پریشان بیٹھا رہا۔۔۔۔ کیا کروں؟۔۔ کیا خود سے گھڑ لوں اگر کوئی واقعہ نہیں ملتا؟آخر کیا لکھوں؟

بے معنی محبت کی کہانی۔۔۔ ایک لڑکی تھی

یا پھر کوئی دیو مالائی داستان۔۔۔ جیسے کوئی بولنے والا درخت تھا

کون پڑھے گا آخر اس قسم کی خرافات۔ ایک دفعہ تو جی میں آئی کہ کچھ بھی لکھ ڈالوں۔ آخر کو کون جان سکے گا؟اس گاؤں میں میری کہانی سمجھنے والا آخر ہے ہی کون؟اور کہانی چھپوانا کون سا مشکل کام ہے؟

اس خیال کے ساتھ میرے اندر جیسے ایک گہری اداسی چھا گئی۔ مختار مسعود کا لکھا جملہ ذہن میں گونجنے لگا۔

’’صفحات زندگی کے ہوں یا کتاب کے انہیں یونہی نہیں بھرنا چاہیے۔ ‘‘

میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے پورے گاؤں کے طعنوں کا نشانہ بننا قبول ہے پر اس طرح اپنی نظروں سے گر کر تو زندہ رہنا بھی بے فائدہ لگتا تھا۔

میں درخت کے نیچے سے اٹھا اور قریب ٹیلے پر بنے چھوٹے سے قبرستان میں پہنچ گیا۔ یہ کافی پرانا قبرستان تھا۔ اکثر قبریں خستہ حال تھیں۔ بہت سی قبروں پر تو کتبے بھی نہیں تھے۔ ایسے میں ایک قبر کے قریب سے گذرتے ہوئے میں رک گیا۔ یہ قبر نہیں بلکہ اس کے سرہانے بیری کا درخت تھا جس نے میرے قدم روکے۔ بچپن میں اکثر، میں یہاں آیا کرتا تھا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے یہاں کے بیر کسی بھی دوسری بیری سے میٹھے لگتے تھے۔ اتنی مرتبہ میں اس بیری پر آیا پر کبھی بھی میں نے اس کے نیچے قبر کو غور سے نہ دیکھا۔ یہ ایک ٹوٹی پھوٹی قبر تھی جس پر جا بجا سرخ سوکھے ہوئے بیر گرے تھے۔ اس کے کنارے سنگ مرمر کا کوئی کتبہ بھی لگا تھا جس پر مٹی کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی تھی۔ میں اس کے کنارے اکڑوں بیٹھ گیا اور ایک خشک شاخ کی مدد سے مٹی کو کھرچنے لگا۔ تھوڑی دیر میں میں اس پر لکھا پڑھنے کے قابل ہو گیا۔

شاہ بانو

تاریخ وفات ۲۵ اگست ۱۹۴۷

بیچاری قیام پاکستان کے بعد بہت تھوڑے دن جی سکی۔ نجانے کیوں مجھے تجسس سا ہو رہا تھا اس کے بارے میں جاننے کا۔ شاید اس لئے کہ وہ بھی میری طرح اسی مٹی کی پیداوار تھی، انہی گلیوں میں کھیل کر جوان ہوئی ہو گی، یا پھر کیا خبر وہ فسادات میں ماری گئی ہو اور میں اس کی کہانی لکھ سکوں۔

گاؤں واپس لوٹا تو ماسی رحمت نظر آئی۔ ماسی کی عمر ستر سے اوپر ہی تھی پر اب بھی اپنے سارے کام خود ہی کرتی تھی۔ وہ گاؤں کے بیچ میں ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اولاد اس کی کبھی ہوئی ہی نہیں پر ویسے اس کا تعلق ایک کھاتے پیتے گھر سے تھا اس لئے دیکھنے میں خوشحال ہی نظر آتی تھی۔

’’ماسی کیسی ہو؟‘‘

’’ٹھیک ہوں۔ تو سنا کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’بس گھوم پھر رہا  ہوں۔ ‘‘

’’چل اللہ تجھے خوش رکھے‘‘

’’ماسی ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ یہ پاکستان بننے پر ہمارے گاؤں میں بھی کوئی فساد ہوا تھا کیا؟‘‘

’’نہیں پتر۔۔۔۔۔ ادھر تو امن ہی رہا تھا۔ سارا گاؤں مسلمانوں کا ہی تھا۔ پر تو کیوں پوچھ رہا ہے؟‘‘میں تھوڑا سا مایوس ہوا پر پھر بھی پوچھ لیا

’’یہ قبرستان میں بیری کے نیچے جو قبر ہے کس کی ہے؟‘‘

ماسی سوچ میں پڑ گئی۔ اب اس عمر میں یادداشت بھی کہاں رہ جاتی ہے۔

’’شاہ بانو نام ہے اس کا۔ ‘ ‘میں نے اس کو سوچنے میں مدد کرنے کی کوشش کی۔

’’اچھا شاہ بانو کا پوچھتے ہو۔۔۔۔ اور کون ہو گا بیری کی قبر والا۔ بڑی سوہنی لڑکی تھی۔ اتنی عمر میں اس سی زندہ دل اور خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی۔ پیر میں تو اس کے چکر تھا چکر۔ ہمیشہ بھاگتی رہتی۔ بیریوں پر سارا دن چڑھی رہتی۔ دوست تھی میری۔ ‘‘ماسی کا چہرہ تمتمانے لگا۔

’’اس کے بارے میں بتاؤ۔ کیا ہوا تھا اس کو؟‘‘

’’تو کیوں پوچھ رہا ہے؟‘‘

’’تو تو جانتی ہے کہ کہانی لکھ رہا ہوں ایسے میں پرانے قصے ٹٹولنے پڑتے ہیں۔ ‘‘

’’اس بیچاری کا کیا قصہ۔۔۔۔۔ اس نے تو دیکھا ہی کیا تھا۔ بس ایک ہوا کے جھونکے کی طرح آئی اور گذر گئی۔ بڑی خوبصورت لڑکی تھی، باپ بھائیوں کی لاڈلی۔ سارا دن کھیل کود میں لگی رہتی۔ اسے کسی نے کبھی روتے نہ دیکھا تھا۔ اور پھر ایک دن سنا کہ وہ بیمار ہے۔ اس کے گھر گئی تو دیکھا کہ وہ تو بستر سے لگی ہے۔ ایک دن میں گھل کر گویا آدھی رہ گئی تھی۔ مجھے دیکھ کر تھوڑا سا مسکرائی۔۔۔۔۔ پھر اپنے بھائی سے کہا کہ اس کی قبر پر بیری ضرور لگوانا۔ ہم سب نے اسے روکا کہ ایسی باتیں نہ سوچے پر وہ شاید جان گئی تھی کہ وقت آ گیا ہے۔ اسی شام وہ مر گئی۔ پتہ کچھ نہیں چلا کہ اسے کیا ہوا تھا؟لوگوں نے بڑی باتیں کیں۔ کسی نے کہا کہ اسے عشق ہو گیا تھا کسی پردیسی سے جو اسے چھوڑ گیا، کسی نے کہا کہ جن کا سایہ لگتا ہے۔ پر میرا دل کسی بات پر نہ ٹھہرا۔ اب قدرت کی رمزیں تو وہ ہی جانے۔ میں ابھی تک جیتی ہوں اور وہ۔۔ بس ہوا کا جھونکا تھی، آئی اور گذر گئی۔ ‘‘

میں ماسی سے اور کیا پوچھتا۔ موت ایک ایسی نگری ہے جس کے بارے میں ہم سب کو خاموش ہو جانا پڑتا ہے۔ ایک ایسا جہاں جانا تو سبھی کو ہے پر اس سے انوکھی چیز بھی کوئی نہیں۔

اس رات مجھے نیند نہیں آئی۔ رہ رہ کر ایک بھاگتی، کھلنڈری نوجوان لڑکی کا چہرہ نظروں کے سامنے گھومنے لگتا۔ میں لاکھ آنکھیں بند کرتا، لاکھ کروٹیں بدلتا پر وہ بھاگتی بھاگتی پھر سے سامنے آ جاتی۔ اور پھر وہ مجھے اپنی طرف توجہ کرتا نہ پا کر دکھی سی ہو گئی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں دکھی ہو کر وہ اس دن کی طرح گھلنے ہی نہ لگے۔ میں پھر سے اسے مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ پانی کے دو گلاس پئے اور ایک چھڑی لے کر باہر نکل آیا۔ ہم گاؤں والوں کے لئے رات میں باہر نکلنا کوئی عجیب بات نہیں ہوتی اور پھر آج تو چودہویں کی بدولت بڑی روشنی تھی۔

گاؤں سے نکلا تو وہ لڑکی میرے ساتھ ہو لی۔ وہ کبھی بھاگتی ہوئی آگے نکل جاتی اور پھر دوڑ کر واپس آتی، جیسے کچھ بتا رہی ہو۔ شاید یہ کہ آگے کتنا خوبصورت سماں ہے، شاید کسی درخت کی کھوہ میں طوطوں کے بچے دیکھ آئی تھی یا شاید کسی کھیت میں تربوز چوری کرنے کا سوچ رہی تھی۔ میں اس کی آواز نہیں سن سکتا تھا۔ بس اسے دیکھ سکتا تھا۔ چلتے چلتے ہم قبرستان کے نزدیک پہنچے تو اس کے چہرے پر خوف کے سائے لہرانے لگے۔ میں جا کر بیری کے اس درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا اور وہ دور سے مجھے دیکھتی رہی۔ شاید وہ ڈر رہی تھی(سمجھ رہی تھی کہ میں کوئی بھوت ہوں جو یوں رات گئے قبرستان میں کھڑا ہوں) ، یا پھر وہ خود قبر میں لیٹے لیٹے اکتا گئی تھی اور اب وہاں نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ بہت دیر تک یونہی ساکت کھڑی رہی اور پھر صبح ہونے پر مجھے وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ میں تھوڑی دیر تو یہی سمجھا کہ ضرور وہ کسی جھاڑی میں چھپی مجھے خوفزدہ کرنے والا کھیل کھیل رہی ہو گی۔ بہت آوازیں دیں، بہت تلاش کیا۔ اور آخر شام ہونے پر تھک ہار کر گھر واپس آ گیا۔

اب میں سونے کو ہی تھا کہ وہ چھم سے میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے مجھے باہر بلا رہی تھی۔ ساری رات پھر میں اس کے ساتھ گلیوں اور کھیتوں میں پھرتا رہا۔ میں نے کئی بار اس سے بات کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ ہرن کی طرح قلانچیں بھرتی کہیں نکل جاتی۔ اس معصوم بچی کی طرح جو اپنے دوست کو وہ سب کچھ دکھا دینا چاہتی ہے جو اس کی چھوٹی سی دنیا میں ہے۔ اس نے اس رات مجھے دریا کے پانیوں میں تیرتا چاند دکھایا جو لہروں کے چلنے سے جھلملا رہا تھا، ایک لومڑی دکھائی جو بڑی ڈھٹائی سے ہمیں دیکھے جا رہی تھی، ہم نے پانی دینے کے لئے جانے والے کسانوں کو شی شی کی آوازیں نکال کر خوفزدہ بھی کیا اور۔۔۔ کیا کیا بتاؤں؟

وہ رات جیسے میں کسی خواب نگری میں تھا۔ کسی پرستان میں۔ جہاں ہر چیز بڑی ماورائی، بڑی دلفریب تھی۔ پچیس برسوں میں میں نے جو کچھ اس گاؤں کے بارے میں جانا تھا وہ سب گویا ایک پردہ تھا جس نے اصل گاؤں کو چھپا رکھا تھا۔ صبح ہونے کے ساتھ ہی وہ ہواؤں میں تحلیل ہو جاتی اور یہ سارا طلسم جیسے ٹوٹ جاتا۔

اب میں تمام دن شام ڈھلنے کا انتظار کرتا اور تمام شب نوخیز بچوں کی طرح اس کے ساتھ گھومتا رہتا۔ گاؤں کے لوگوں نے ابا سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ میں پاگل ہو رہا ہوں۔ راتوں کو میرا جنون بہت بڑھ جاتا ہے۔ پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے میں دوستوں کو بھی نہیں پہچانتا، ہواؤں سے باتیں کرتا ہوں۔ میرے گھر والے بہت پریشان تھے۔ میں ان کو کیسے بتاتا کہ سب کچھ بہت ٹھیک تھا۔ میں بس ایک بیکراں زندگی کی کہانی لکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پر کہانی کیسے لکھتا۔ ہر رات وہ میرے سامنے ایک نئے، دلفریب رنگ میں آتی، کیا لکھتا کہ ابھی تو اس کی زندگی کی ساری پرتیں ہی کہاں کھلی تھیں میرے سامنے۔

ابا نے کہا ’’بیٹا شہر چلے جاؤ‘‘

’’میں ٹھیک ہوں۔ بہت مزے میں ہوں۔ ‘‘

پھر ایک شام جب ہم دونوں دریا کنارے لیٹے خاموشی سے سرکنڈوں کی سر سر سن رہے تھے۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ ان آنکھوں میں بڑی گہرائی تھی۔ میں اسے بہت دنوں سے جانتا تھا پر اس سے پہلے اس نے مجھے اپنی آنکھیں دیکھنے ہی کہاں دیں تھیں۔ وہ ہمیشہ بھاگتی ہوئی مجھے کچھ اور دکھانے لگتی۔ پر اس رات وہ کہیں نہیں گئی۔ اس کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا

’’کیا تم میری کہانی لکھو سکو گے؟‘‘

کیا کوئی کسی کی کہانی لکھ سکتا ہے؟وہ بھی ایسی لڑکی کی کہانی جو نصف صدی قبل مٹی میں مل چکی ہو۔ کون پڑھے گا ایک ایسی لڑکی کی کہانی۔ مگر میں جانتا تھا کہ مجھے اس کی کہانی لکھنا ہو گی۔ اس لئے نہیں کہ میں اسے جانتا تھا بلکہ اس لئے کہ میں اسے جانے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ مجھے پرواہ نہیں تھی کہ اس کہانی کا ادبی معیار کیا ہو گا، کوئی آغاز انجام بھی ہے اس کا یا نہیں، کوئی اسے چھاپے گا یا نہیں۔۔۔ کیونکہ یہ کہانی صرف میرے لئے تھی اور اس کے لئے تھی۔

’’میں تمہاری کہانی لکھوں گا۔ تم مجھے بتاؤ کہ اس رات کیا ہوا تھا۔ تمہارے جیسی لڑکی کیسے ایک رات میں ختم ہو گئی۔ ‘‘

اس کی آنکھوں میں بے اعتباری اتر آئی جیسے کہ رہی ہو کہ

’’یہ جو ہفتوں ہم ساتھ گھومے ہیں، یہ جو ان گنت لمحے ہمارے بیچ مشترک ہیں، یہ سب جو میری زندگی کا سرمایہ ہے۔۔۔۔ تم اس پر کیوں نہیں لکھ سکتے۔ وہ ایک غم جو میں پچاس سال پہلے سینے میں گھٹ کر لے گئی تھی بس اس سے کیوں دلچسپی ہے؟‘‘

پر میں جیسے اب اس کی آنکھوں اور شوخیوں سے اور بہلنے کا نہیں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ اسی غم، اسی دکھ میں میرے ہر سوال کا جواب بھی ہے۔ ساتھ میں یہ احساس بھی تھا کہ جیسے کسی دیو کی جان طوطے میں ہوا کرتی تھی ایسے ہی شاید اس کی جان بھی اس راز میں ہو۔ مگر نجانے کیوں اس رات میں بہت بے رحم ہو گیا تھا۔ اس نے  میری توجہ پانی میں تیرتے سانپوں کی طرف دلانا چاہی مگر میں نے منہ پھیر لیا۔ جیسے کہ رہا ہوں کہ بہت کھیل ہو چکا۔ وہ بہت دیر ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں بیچارگی تھی۔ جیسے کہ رہی ہو کہ ان کہی کو کیسے کہ دوں؟اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے پر وہ پھر بھی کچھ نہیں بولی۔ میں اس رات صبح سے پہلے ہی گھر آ گیا۔

وہ اگلی شام میرے چوبارے پر آئی۔ ویسی ہی خاموش اور اداس۔ اس کی آنکھوں میں ویرانی تھی۔ وہ بہت کمزور نظر  آ رہی تھی۔ اتنی کہ اسے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر کھڑا ہونا پڑ رہا تھا۔ میں نے منہ دیوار کی طرف کر لیا۔ اور پھر تمام رات میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ بس جانتا تھا کہ دو بہت اداس آنکھیں تمام رات میرے جسم پر رینگتی رہیں۔

میں دن چڑھے اٹھا۔ طبیعت میں بہت کسلمندی سی تھی۔ جیسے میں نے کچھ کھو دیا ہو۔ ناشتہ کرنے کو جی نہیں چاہا تو ٹہلتا ہوا قبرستان کی طرف چلا گیا۔ وہاں پہنچا تو ایک عجیب منظر سامنے تھا۔ رات کی رات میں وہ بیری کا درخت سوکھ گیا تھا۔ ایسا کہاں ہوتا ہے بھلا؟میں نے وہ سارا دن بڑی مشکل سے گذارا۔ شام ہوئی، پھر رات آئی مگر میں جس کا منتظر تھا وہ نہیں آئی۔ وہ رات بڑے کرب میں گزری۔ صبح پھر میں اس قبر پر گیا۔ اسے بہت آوازیں دیں۔ بہت پکارا

’’شاہ بانو !!! میں تو صرف تمہاری آواز سننا چاہتا تھا۔ میں تو صرف تمہاری خوشیوں کے ساتھ کرب کو بھی جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ واپس آ جاؤ۔ میں اب کبھی ایسی خواہش نہیں کروں گا۔ ‘‘

میں بڑی دیر تک چلاتا رہا پر کہیں دل کے کسی گوشے میں یہ جانتا تھا کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اس شام واپس آتے ہوئے میں نے ماسی رحمتے کو پھر دیکھا۔

’’پتر کیا حال بنا لیا ہے تو نے؟‘‘

’’ماسی میں ٹھیک ہوں۔ اچھا بھلا تو ہوں۔ ‘‘

’’تیری کہانی ہو گئی پوری؟‘‘

’’کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں۔ پر تم مجھے شاہ بانو کے بارے میں بتاؤ۔ کیسی لڑکی تھی وہ؟کیا سوچتی تھی، تم لوگ آپس میں سہیلیاں تھیں نہ تو کیا باتیں کرتی تھی وہ تم سے؟‘‘

ماسی ہنس پڑی’ ’ اے لو۔۔۔۔ اس نے کیا بات کرنی تھی؟ وہ تو بول ہی نہیں سکتی تھی۔ پیدائشی گونگی تھی۔۔ پر اس کی آنکھیں بولتی تھیں اور میں سب سمجھ جاتی۔۔۔ ‘‘

ماسی کے الفاظ ہوا میں بکھرتے چلے گئے۔ مجھے لگا جیسے کسی نے یکدم آسمان سے سارے بادل کھینچ لئے ہوں اور میں جسم چھیدتی ہوئی دھوپ میں اکیلا کھڑا ہوں۔ میں شاید بہت دیر تک اپنے قدموں پر کھڑا نہ رہ سکا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ کیا ہوا؟جیسے کوئی بہت تیز آگ تھی، مجھے جس میں ڈال دیا گیا ہو۔ اور میں آنکھیں بند کئے چپ چاپ اس میں جلتا رہا۔ پھر سمے کی ہلکی ہلکی شبنم سے یہ  شعلے مدھم ہونے لگے۔ اب میں نے خوف سے کھنچی آنکھیں کھول ڈالیں۔ میں کسی ہسپتال میں تھا۔ میری ماں کمرے کے کونے میں بیٹھی تسبیح کے دانے پھیر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں پریشان صورت باپ بھی آ گیا۔ میری آنکھیں کھلی دیکھ کر وہ پہلے سجدے میں گر گیا۔ پھر میرے قریب آیا

’’بیٹا فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ ‘‘

میں ہسپتال سے گھر نہیں گیا۔ ابا نے شہر میں میرے لئے کمرہ لے دیا تھا۔ وہیں ایک رات میں نے شاہ بانو کی کہانی لکھی۔ اس لڑکی کی کہانی جس کی آنکھوں میں ست رنگ خواب تیرتے تھے، وقت خود جس کے ہاتھوں کے محور پر گھومتا تھا، جس نے زندگی میں دوسروں کو صرف خوشیاں بانٹی تھیں اور جب غم کی باری آئی تو اس نے بڑی خاموشی سے اپنے سینے میں چھپا لیا۔ وہ کہانی بہت مقبول ہوئی۔ میں نے رسالے کی ایک کاپی ابا کو بھی بھیج دی کہ وہ بہرحال ہمارے گاؤں کی ہی کہانی تھی۔ اب ابا کو لوگوں کے سامنے سر جھکا کے چلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب کی بار وہ گاؤں سے آیا تو اس نے میرا ما تھا چوم لیا(حالانکہ وہ اس قسم کے expressive behaviorپر یقین نہیں رکھتا تھا۔) اس سے مجھے لگا کہ وہ کتنا خوش ہے۔

وہ اس رات بہت دیر تک میرے پاس بیٹھا رہا۔ گاؤں کی چھوٹی چھوٹی باتیں سناتا رہا۔

’’منشی جی کی بھینس کوئی کھول کر لے گیا۔۔ برکتے کا بیٹا امریکہ میں کسی گوری سے شادی کر رہا ہے، قبرستان میں لگا بیری کا درخت پھر سے ہرا ہو گیا۔۔۔ تجھے اس کے بیر بہت پسند تھے نہ۔۔۔ ‘‘

وہ نجانے کیا کیا بولتا رہا اور میں دیکھ رہا تھا گاؤں کی پگڈنڈی پر بھاگتی ایک خوبصورت لڑکی کو جس کی آنکھوں میں نقرئی خواب تھے اور جو اتنی خوبصورت تھی کہ اس کے واسطے کوئی استعارہ ممکن ہی نہ تھا۔

’’بابا اب کے میں بھی تمہارے ساتھ گاؤں چلوں گا۔ ‘‘میں نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔

اس کے  چہرے پر ایک رنگ آ کر گذر گیا

’’ہاں ہاں۔۔۔۔ کیوں نہیں۔ وہاں تو سب تمہارا پوچھتے ہیں۔ ہم کل صبح ہی نکل چلیں گے۔۔۔۔‘‘

وہ اب بھی بول رہا تھا مگر میں کچھ بھی سن نہیں رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

دو لمحوں کے خواب

 

 

اسے میری کہانی سننے کا کوئی حق نہیں جس کے پہلو میں کسی دل نے کبھی ڈیرا نہیں ڈالا۔ جس کی آنکھوں میں خوابوں نے سویرا نہیں پھونکا وہ بھلا بخت کے اندھیرے آسماں پر ڈولتا کیسے دیکھے گا مجھے۔ میرے پیر پاتال سی گہرائیوں میں تھے کہ نصیب تھا میرا اور آنکھیں نقرئی ستاروں پر کہ ہر خواب بہت عجیب تھا میرا۔ میرے پر نہیں تھے مگر کھلی فضاؤں میں  اڑنے کا شوق نہیں جنون تھا مجھ کو۔ اسی لئے ایک شب اپنی بستی وحشت کی سب سے اونچی چٹان پر جا کھڑا ہوا، بازوؤں کو پھیلا لیا اور ایک مجنونانہ قہقہے کی گونج میں کود پڑا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میرے پر نہیں ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب سنگلاخ، پتھریلی چٹانوں سے ٹکرانا مقدر ٹھہر رہا ہے۔ میں مطمئن تھا کہ کبھی کبھی خواب منزلوں سے، زندگی سے بہت اہم ہو جاتے ہیں۔ مجھے خبر نہیں کہ کب میں زمیں سے آ ٹکرایا۔ میں تو ان لمحوں کے خمار میں ہوں (ان دو لمحوں کے) جن میں میرے قدموں نے اس زمین سے سارے رشتے توڑ ڈالے، جس پر کسی بے رحم نے مجھ جیسے کھلونوں سے ایک پلے لینڈ بنایا تھا۔ اس زمین سے جو آوارہ کتے کی طرح ہر معصوم راہگیر پر بھونکتی ہے، اپنے نوکیلے دانتوں کو زندگی کے پیروں میں گاڑ دیتی ہے۔ اس زمین سے جس پر خوابوں کی کھیتی خواہ لہو سے بھی سینچو فصل عذابوں کی ہی کٹتی ہے۔ یہ  دو لمحے میری ساری زندگی سے اہم ہیں۔ سو میری کہانی بس ان دو لمحوں کی کہانی ہے۔ اور مجھے معاف کرتے رہنا جب جب میری زبان بہکنے لگے، جب جب میرا خرد لڑکھڑانے لگے۔ آخر کو میں نشے میں ہوں اپنی عمر بھر کے خوابوں کے۔

میرے گھر میں ہر اس روز روٹی پکتی جب ہم بھوک سے تھک جاتے اور ہم بڑے کم ظرف تھے۔ ایک پہر کے فاقے پر ہماری زبانیں باہر نکل آتیں، ہونٹوں پر پیڑی جمنے لگتی، پیشانی پر جیسے آگ لگ جاتی اور آنکھوں کی آگ بجھنے لگتی۔ مجھے اس چہرے کی بے بسی یاد ہے(اس مہربان چہرے کی جسے کچھ دیر تو میلے، بیسیوں چھیدوں والے دوپٹے میں چھپایا جاتا، جس کے کچھ شریر سے چھید مجھے اس کے آنسو دکھاتے اور کچھ بے پرواہ سی درزیں اس کے جوان، شفاف چہرے پر نہ نظر آنے والی جھریاں)۔ میں سوچتا تھا کہ اٹھوں اور کچھ چپکے سے اس کا ہاتھ تھام لوں۔ جب وہ دوپٹے کو ہٹا کر مجھے دیکھے  تو اس کی آنکھوں میں چھلکنے والے سارے موتی میں اپنے دامن میں چھپا لوں اور پھر انہیں اس کے کسی لمبے سے بال میں پرو دوں۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر دیکھوں کہ چمکتی دکانوں میں بیٹھنے والے کیسے قیمت ادا کر پاتے ہیں میری اس مالا کی۔ جی میں آتا  کہ آج دنیا کو اس کی بے قدری دکھا ہی دوں۔ سو اٹھنے کی کوشش کرتا مگر بھوک کا بھاری پتھر سینے پر کلبلانے لگتا، مجھے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوتا۔ میں واپس گر جاتا۔ پھر بہت سے چھوٹے چھوٹے ہاتھ مجھے اپنے جسم پر رینگتے محسوس ہوتے۔ میں نظر نہ بھی ڈالتا تو بھی سوال تو سن سکتا تھا۔ جذبات کو آنکھوں، کانوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دل کو مضبوط کرتا اور کہتا

’’بھوک لگی ہے۔ کیا تو نہیں سمجھتی؟‘‘

میرے بعد چند اور معصوم کراہیں بلند ہوتیں

’’روٹی ۔۔۔ دودھ۔۔۔۔ بھوک۔۔۔۔ ماں ‘‘

وہ گھبرا جاتی، دوپٹہ ہٹاتی، سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھتی۔ اس کی آنکھیں عجیب آنکھیں تھیں۔ گہری، باتیں کرتی ہوئی۔ وہ مجھ سے کہتی

’’تو بھی۔۔۔۔۔۔ تو تو سمجھتا ہے، بڑا ہو گیا ہے۔ روٹی تیرے گھر کے صحن میں تو نہیں اگتی کہ ہاتھ بڑھاؤں اور تجھے لا دوں۔ یہ تو بازار میں بکتی ہے اور جو شئے بازار میں چلی جائے بڑی قیمت دینی پڑتی ہے اس کی۔ زندگی کی، عزت کی، خوابوں کی قیمت۔ مجھے لگتا ہے کہ بھوک اس سے ہلکی ہے۔ تھوڑا صبر کر لو۔ بس ایک رات ہی تو ہے‘‘

وہ کہتی کہتی خاموش ہو جاتی۔ پھر اپنے الفاظ کو بے تاثیر دیکھ کر رونے لگتی اور ..

’’سسکتی راتوں کو باہر نہیں نکلتے اجالے روٹھ جاتے ہیں۔ اندھیرے میں بازار نہیں جاتے۔۔۔۔۔ ان دیکھی چڑیلوں کی طرح بازار گھر میں آ جاتے ہیں۔ اس کی ضد نہ کرو جسے تم  اٹھا نہ سکو۔ ‘‘

میں مگر جیسے ان آنکھوں کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیتا۔ شاید محبت بہت بعد کا جذبہ ہے۔ وہ میرے قریب آتی۔ میرے میل سے جکڑے بالوں میں انگلیاں پھیرنے کی کوشش کرتی تو میں اس کا ہاتھ جھٹک دیتا۔ وہ تیزی سے اٹھتی اور کہیں چلی جاتی۔

میں نہیں جانتا تھا کہ کہاں مگر جب رات گئے وہ واپس آتی تو اس کے ہاتھ میں روٹی ہوتی، دودھ ہوتا، کھانے کے بعد میں اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی نرم انگلیاں اپنے کھردرے بالوں میں پھیرتا اور وہ تھکے تھکے سے لہجے میں میرا سر سہلا کر کہتی

’’جو چیز بازار میں چلی جائے بڑی قیمت دینی پڑتی ہے اس کی اور افسوس کہ روٹی بازار میں بکتی ہے۔ ‘‘

زندگی اگر محض چلتی سانسوں اور نوالوں کے نگلنے کا نام ہے تو پھر ہم جی رہے تھے۔ صبح سے شام تک وہ کام کرتی۔ جب آتی تو اس کے ہاتھوں میں چند مڑے تڑے نوٹ ہوتے اور جسم میں پہلے سے کہیں کم زندگی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کے جسم میں کوئی چھید ہے جس سے غیر محسوس طور پر وہ تھوڑی تھوڑی زندگی کھو رہی ہے۔ چند نوٹوں کے بدلے اتنی قربانی۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم خوش تھے کہ اب اسے روٹی لینے بازار میں نہیں جانا پڑتا۔ کتنی عجیب ہے یہ دنیا کہ چند نوٹ ہوں تو بازار گھر میں آ جاتا ہے اور نہ ہوں تو گھر بازار میں۔ پھر بھی یہ نوٹ کم تھے۔ سوچتا ہوں کہ پیسہ ہمیشہ کم ہی ہوتا ہے اور پھر پسینے کے ترازو پر تلا پیسہ تو بہت ہی کم ہوتا ہے۔ بھلا پسینے کا وزن ہی کتنا ہوتا ہے۔ اس کے دن رات کام کے باوجود بھی وہ دن آتے جب ہمیں بھوکا سونا پڑتا اور کبھی جب گڑیا کی دوا  آ جائے، میرا کرتہ لینا پڑے، مینا کو جوتا چاہیے ہو تو فاقے بڑھ جاتے  اور ہم بے جان ہو کر چار پائیوں پر گر جاتے۔ کوئی بھی کسی سے بات نہ کرتا۔ وہ بہت دیر پلو میں منہ چھپائے روتی رہتی پھر بازار میں چلی جاتی اور اس شب لوٹنے پر مجھے کہتی

’’جو چیز بازار میں چلی جائے بڑی قیمت دینی پڑتی ہے اس کی اور افسوس کہ روٹی بازار میں بکتی ہے۔ ‘‘

میں نے سنا تھا کہ ستم کشوں کی کہانی کبھی بدلتی نہیں۔ یہاں تک کہ موت کے بعد بھی ان کی اولاد اسے جاری رکھتی ہے۔ مگر  میری کہانی بدل گئی۔ ایک شب ماں تھکی آئی اور ہمیں حسرت سے خود کی طرف دیکھتا محسوس کر کر اس نے بے بسی سے دیکھا اور اب کے دوپٹے کے پلو میں منہ چھپانے کی بجائے مصلے پر جا بیٹھی۔ وہ آج بھی رو رہی تھی مگر بہت مختلف۔ پہلے اس کے آنسو جھیل کی طرح پرسکون تھے، ہمارے وقت کی طرح ٹھہرے ہوئے تھے مگر آج سمندر کی طرح پر شور، ہمارے مقدر کی طرح منہ زور تھے۔ ہم تینوں حیرانی سے اسے دیکھتے رہے۔ وہ آج بازار کیوں نہیں جاتی؟بھوک لگی ہے۔ مگر وہ ہماری سوچوں سے بے پرواہ روتی رہی۔ یہاں تک کہ گڑیا نے اس کا شانہ تھام لیا۔ اس نے گڑیا  کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔ پھر اٹھی اور ہمارے اکلوتے کمرے میں گئی۔ وہ ہمارے واحد دھلے ہوئے کپڑے لے آئی۔ سب کو اس نے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا، کنگھی کی، آنکھوں میں سرمہ لگایا۔

’’ہم کہیں جا رہے ہیں؟‘‘

مینا نے پوچھا تو ماں تھوڑا سا مسکرائی۔ ہاں اس مسکراہٹ کے بہت قریب  کوئی دکھ جیسے انگڑائیاں لے رہا تھا۔

’’ہاں ۔۔۔۔ ایک جگہ ہے۔ جہاں بہت سے کھانے ہیں، پہننے کو کپڑے ہیں، کھلونے ہیں۔ بہت کچھ ہے۔ تم میرے ساتھ آؤ‘ ‘

اس نے گڑیا کو اٹھا لیا اور میں اور مینا اس کے پہلوں سے لگے اس کے ساتھ چلنے لگے۔ وہ سر اٹھائے چلی جا رہی تھی۔ ایسے میں مینا نے سرگوشی کی

’’ہم بازار جا رہے ہیں ‘‘

میں کچھ نہیں سمجھ رہا تھا سو بولا

’’کاش‘‘

مگر وہ کوئی اور جگہ تھی۔ ویران سی دریا کے کنارے۔ اس نے ہم تینوں کو اپنے سینے سے لگایا اور پھر بہت دیر چومتی رہی۔

’’ماں !!‘‘

میں نے اسے چونکا دیا۔ وہ مسکرائی۔ گڑیا اور مینا کو اس نے خود کے قریب کر لیا۔ پھر میری طرف دیکھا۔

’’دیکھو!! دور شہر کی روشنیاں نظر آ رہی ہیں اور وہ شہر تیرا ہے۔ تو ابھی میری باتوں کو سمجھ نہ سکے گا مگر یاد رکھ تجھے اب اس شہر میں اکیلے رہنا ہے جس میں تیری ماں کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ تجھے اس گھر کو جس کی بنیادوں میں بھوک بھری ہے روٹی سے بھرنا ہے۔۔۔ یہ کام کر تو شاید میں بھی سکتی تھی مگر کچھ چیزیں زندگی، اس بھوک سے بڑی ہوتی ہیں۔ تو سمجھتا ہے روٹی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟عورت کے لئے عزت اور آدمی کے لئے انا۔ عزت چھوڑ دو تو انسان اپنی زندہ آنکھوں کے سامنے گلنے سڑنے لگتا ہے۔ ہاں مگر انا  نہ رہے تو سب سے پہلے آنکھیں ہی مردہ ہو جاتی ہیں۔۔۔۔ سو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ ‘‘

وہ رکی تو جیسے بجلی کڑک کر کہیں کھو جائے اور پھر ایک برسات کا پانی میرے دل کی دھرتی پر سیلاب لے آیا۔ میں بہ جاتا مگر اس نے زور سے مجھے اپنے سینے سے بھینچ لیا۔

’’دنیا کی کوئی ماں اپنے بیٹے کو برا نہیں بنانا چاہتی مگر دیکھ تو۔۔۔۔۔۔ تیری ماں کتنی تھک گئی ہے۔ وہ تیری بجھتی آنکھوں میں اپنی آخری سانسوں کو بھی ٹوٹتا نہیں دیکھنا چاہتی۔ ‘‘

اس کے بعد وہ رکی نہیں۔ گڑیا اور مینا کو اپنی بانہوں میں چھپائے دریا کے پاس چلی گئی۔ میں دوڑتا ہوا کنارے پر آیا۔ دیکھا تو تین ہاتھ پانی سے نکل کر مجھے بتا رہے تھے کہ

’’ہم بہت مزے میں ہیں۔ ‘‘

میں چند قدم اور آگے بڑھا مگر نجانے کیوں رک گیا۔ میں صرف ایک لمحے کو رکا تھا کہ شاید کچھ سوچ سکوں مگر بھول گیا تھا کہ کچھ لمحے ٹھہر جاتے ہیں۔ وہ لمحہ بھی ٹھہر گیا۔ وہ ہاتھ بہتے بہتے دور چلے گئے اور میں واپس آ گیا کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح۔

میں واپس گھر نہیں گیا۔ بس سوچنے لگا کہ اب زندگی کے بازار میں میرے لیے کوئی نہیں بکے گا اور میں اس بھوک سے آوارہ کتے کی طرح مارا جاؤں گا۔

’’نہیں ‘‘

میرا دل تڑپ رہا تھا۔

’’میرے پاس خواب ہیں، زندگی ہے۔ میں ضرور جاؤں گا اور اگر لکھنے والا میرے مقدر میں بھوک لکھتا ہے تو میں اس بھوک کو کھا جاؤں گا‘‘

میں یونہی سڑکوں پر گھومنے لگا۔ اس وقت تک جب میرے قدم لڑکھڑانے نہ لگے۔ جب تک میں منہ کھول کر ہانپنے نہ لگا۔ میں ایک سفید روشنی  والے کھمبے کے پاس بیٹھ گیا۔ ذرا دیر گذری کہ ایک بوڑھا آہستہ آہستہ چلتا میرے قریب آیا۔ میں نے بیٹھے بیٹھے سوال کیا

’’بازار کہاں ہے؟‘‘

بوڑھا ایک لمحے کو تو ٹھٹھکا، عینک سیدھی کر کر ناک پر جمائی، گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا۔ پھر نجانے مجھے کوئی بھوت سمجھا۔ یا اس خیال سے کہ بے سہارا لڑکے کی سنبھالنا نہ پڑ جائے، وہ کچھ بڑبڑاتا ہوا چل پڑا۔ شاید کوئی دعا پڑھ رہا تھا۔ میں کسی پر ہنسنے کے لئے ابھی بہت چھوٹا تھا مگر میں بہت ہنسا۔ اتنا کہ میرے تھکے پیر بھی ہنسنے لگے، اتنا کہ میرا روتا دل بھی قہقہے لگانے لگا۔ میں اٹھا اور اس طرف چل دیا جہاں سے بوڑھا آیا تھا۔

تھوڑی دیر میں، میں ایک عجیب جگہ جا پہنچا۔ وہ جگہ اتنی عجیب تھی کہ رات بھی گھبرا کہ تھوڑی دور کھڑی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ ڈرتی تھی، تبھی بازار میں گھسنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی اس میں۔۔۔ اور میں۔۔۔ میں شاید رات سے بھی مشتاق تھا۔ سو قریب ہوتا گیا۔ قہقہے، چوڑیوں کی کھنک، تلے پکوانوں کی مہک اور منہ بسورتے بچے۔ میں دیکھتا دیکھتا بچوں پر آ کر ٹھہر گیا۔ عجیب بات ہے۔ اس قہقہے لگاتی دنیا میں بچے اکثر رو رہے تھے۔ شاید اس لئے کہ بچے جھوٹے قہقہے نہیں لگا سکتے یا پھر نجانے کیوں؟جب ہی میری ماں مجھے بازار نہیں لاتی تھی۔ وہ میرے آنسو نہیں دیکھ سکتی تھی نہ۔ میں بہت دیر جگمگاتی دکانوں کے قریب رہا۔ مجھے اب بھوک لگ رہی تھی۔ پہلے تو چہرہ زرد ہونے لگا، ہونٹوں پر پیڑیاں جمنے لگیں، آنکھیں بھی بس بجھنے کو ہی تھیں کہ خیال آیا۔ وہ جو، ان آنسوؤں سے پگھل جاتی تھی وہ ممتا تو ہواؤں میں بکھر گئی۔ اب کون آئے گا بھلا میرے آنسوؤں کو پونچھنے؟میرے پیٹ میں بہت درد ہو رہا تھا مگر آنکھیں صحراؤں کی طرح خشک تھیں۔ کیا جہاں آنسو پونچھنے والے نہیں ہوتے وہاں آنکھیں رویا نہیں کرتیں؟ رونے کا رشتہ غم سے ہے یا غمگسار سے؟میں پہلے ذرا سی بھوک پر چلا اٹھتا تھا مگر آج خاموش تھا۔ پتہ نہیں یہ ایک شام میں میں کتنا بڑا ہو گیا تھا؟

ایسے میں میری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے سیاہ پرس سے کچھ نوٹ نکال کر ایک فقیر بچے کو دے رہی تھی۔ وہ بچہ اتنا خوش دکھائی دیتا تھا کہ میں سوچنے لگا۔ اگر کوئی اسے پوری کائنات بھی اٹھا کر دے ڈالے تو وہ اس سے زیادہ خوش بھلا کیا ہو گا؟یہ اور بات ہے کہ اتنی چھوٹی خوشیوں پر مطمئن ہونے والے کو بھلا کون ساری کائنات دیتا ہے۔ وہ نوٹ لے کر تیزی سے بھاگا مگر میلے کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر آدمی نے اسے جکڑ لیا۔

’’بھاگتا ہے‘‘

’’نہیں۔۔۔۔ میں تو آپ ہی کے پاس آ رہا تھا۔ ‘‘

اس آدمی نے نوٹ چھین لئے اور اسے پھر بازار میں دھکا دے دیا۔

میں نے اپنے اندر جھانکا۔ میں کبھی بھی وہ بچہ نہیں بن سکتا۔ مگر جینا تو تھا۔ سانس تو لینی تھی۔ اور میں کھلی فضا میں سانس لینے کو آگے بڑھا۔ پھر نجانے کیا ہوا۔ میں بھاگنے لگا خوفزدہ ہرنی کی طرح۔ ایک لمحے کو تو میں گھبرا گیا۔ پھر جو ذرا سنبھلا تو دیکھا کہ میں اس سیاہ پرس والی عورت سے ٹکرا رہا ہوں۔ میں نے نہیں چاہا مگر میرے ہاتھوں نے وہ پرس چھین لیا، میں نے حکم نہیں دیا مگر میرے پیر دوڑنے لگے۔ شاید کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے جسم پر ہماری بجائے بھوک حکم چلاتی ہے۔ میں بھاگا سڑک کی طرف۔ ایک سرخ کار(جس میں کوئی نوجوان دو نشیلی آنکھوں کے تصور میں کھویا ہوا تھا) میرے قریب آئی۔ میں چیخا اور شاید کار کے بریک بھی چرچرائے اور شاید۔۔۔۔۔۔۔

پھر کیا ہوا مجھے خبر نہیں؟بہت ممکن ہے کہ وہ کار مجھ سے ٹکرا گئی ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں نکل بھاگا ہوں۔ مگر۔۔۔

مگر کل، کسی آنے والے کل مجھے اس انجانی کار سے ٹکرانا ہی ہے۔ پر میں ابھی سے اس کے بارے میں کیوں سوچوں؟یوں کیوں نہ سوچوں کہ یہ جو بہت سے روپے ہیں، میں ان سے کھانا کھاؤں گا، کپڑے خریدوں گا، جوتے لوں گا اور دریا کے پانی پر تیرتی تین قبریں بناؤں گا۔ دو چھوٹی اور ایک بڑی۔ میری  ماں کے قد کے برابر۔ پتہ نہیں میں اور کیا کیا کر ڈالوں؟

میرے بھاگنے اور ٹکرانے کے بیچ بس دو لمحے ہیں اور مجھے ان دو لمحوں کے خواب دیکھنے کا پورا حق ہے۔ کیونکہ برسوں کی زندگی میں یہی دو لمحے تو میرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

اندھیروں کی کہانی

 

 

میں اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں کہ کوئی سرا میرے ہاتھ نہیں آتا۔ کبھی سوچتا ہوں کہ شاید کوئی آغاز ہے بھی اس کا کہ نہیں؟یہ اندھیرے کی طرح ہے۔ ذرا آنکھ اٹھا کر افق سے ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھو۔ روشنی کے پرامید پیامبر کس دھوم سے اندھیرے کو کھاتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے مرکز، اپنے سورج سے نکل کر۔ مگر ایک لمحے کو سوچو کہ اس اندھیرے کا مرکز کہاں ہے؟

شاید اسی سورج میں؟

مگر وہ تو روشنی ہے؟؟؟

یہ کہانی اندھیروں کی کہانی ہے، ان اندھیروں کی جن کی پہچان صرف روشنیوں کا عدم وجود ہے۔

تو پھر میں اسے کہاں سے شروع کروں؟

ایک کتا تھا جو بچوں کے پھینکے پتھروں سے بنے زخم چاٹتا تھا اور سمجھ میں آنے والی آواز میں ہولے ہولے روتا تھا۔

ایک مزدور تھا جو پسینہ بہاتا تھا اور مر جاتا تھا۔ پھر کسی اندھیری کوٹھڑی میں پیدا ہوتا اور مر جاتا، صدیوں سے اس کا یہی چلن تھا۔

یا پھر ایک بیٹی ہے کسی کی جسے پاگل کر دینے والی بھوک نے بازار میں لا کھڑا کیا ہے(اور بھوک صرف روٹی کی تو نہیں ہوتی، خوابوں کی بھی ہوتی ہے)۔ اب اس کی ایک ایک ادا کے خریدار ہیں مگر کوئی  بھی ایسا نہیں جو اسے بیٹی کہے۔

ایک کتا، ایک مزدور، ایک طوائف۔۔۔۔۔ کسی کہانی کے لئے کوئی اچھا آغاز نہیں۔

میں اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں؟

چلو یوں کرتے ہیں جیسے زندگی کی ہے۔ کوئی آغاز، کوئی انجام، کوئی راہگذر، کوئی ہمسفر کچھ نہیں۔ بس درد ہے کوئی جو بے دوا ہوا جاتا ہے۔

تو ایک کتا، ایک مزدور اور ایک طوائف سبھی رہتے تھے اور روتے تھے اس شہر کے اندر جس میں، میں رہتا تھا اور اس رات میں سڑک پر سویا۔ دریا کنارے میلوں تلک پھیلا وہ فٹ پاتھ جس کے قریب پتھر کی بنچ تھی، پہلی ہی نظر میں مجھے اپنا لگا۔ جب میں بنچ پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا تو لگا جیسے مجھے گھر مل گیا ہو۔ ایسا ہوتا ہے۔ جب لامحدود  فطرت کے سامنے انسان خود کو بے حقیقت لگنے لگے تو وہ کسی آنچل، کسی گھر، کسی مقصد میں منہ چھپا کر بیٹھ رہتا ہے۔ ریت میں سر دبائے شتر مرغ کی طرح وہ خود کو بہت محفوظ سمجھتا ہے۔ میں بہت دیر شاید یونہی پڑا رہتا کہ ایک ہلکی سی آہٹ نے مجھے متوجہ کیا۔ وہ ایک بد رنگ، مرنجان اور میلا سا کتا تھا، جو بڑی بے یقینی اور غصیلی نگاہوں سے مجھے دیکھتا تھا۔ کچھ یوں جیسے کوئی رات گئے اپنے بستر پر کسی اجنبی کو دیکھ لے۔ مجھ سے پہلے یہ بنچ شاید اس غریب کا بسیرا تھی۔

اس ایک لمحے کے بعد جس میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کو بھانپ لیا میں نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’یہ اب میرا گھر ہے، میں نے سب کچھ دے کر اسے خرید لیا ہے۔ ‘‘

مگر وہ اسی انداز میں مجھے تکتا رہا۔ اس کی ابھری پسلیوں سے اچھلتا دل صاف محسوس ہو رہا تھا۔ وہ مجھ سے خوفزدہ تھا اور مجھے ڈرانا بھی چاہتا تھا، اس لئے دھیرے دھیرے غرانے لگا۔ مگر وہ مجھے کیا ڈراتا؟میں تو پہلے ہی جہاں بھر کے خوف سے دبک کر یہاں بیٹھا تھا۔ اب یہاں سے اٹھ کر کہاں جاتا۔ تنگ آ کر میں نے اسے ایک چھوٹا سا پتھر دے مارا اور پھر جیسے کوئی بہت بڑا شیش محل ٹوٹ گیا ہو، جس سے اس کی روح لہو لہو ہو گئی ہو۔ وہ اداس، بہت اداس ہو گیا۔ پھر ہارے ہوئے جواری کی طرح وہ لڑکھڑاتے قدم اٹھاتا میری طرف بڑھا اور اب کہ اس کے انداز میں کچھ تھا کہ میں اسے نہیں روک سکا۔ اس نے بنچ کے قریب کچی زمین پر پنجے مارے اور تھوڑی دیر میں ایک بوسیدہ سی ہڈی منہ میں دابے وہ وہاں سے چلا گیا۔ گھر خالی ہو چکا تھا نئے مکین کے لئے۔ میں نے صرف یہی سوچا کہ جس دن مجھے جانا ہو گا تو میرے پاس شاید کوئی ہڈی بھی نہ ہو۔

یہ بہت بڑا شہر ہے۔ لوگ اتنے کہ گننے بیٹھو تو گن نہیں سکو اور اگر پرکھنا چاہو تو پاگل ہو جاؤ۔ مگر کوئی بھی اتنے لوگوں کو دیکھ کر پاگل نہیں ہوتا۔ سب کرتے کیا  ہیں کہ اس اتنے بڑے شہر کے اندر ایک چھوٹا سا شہر بنا لیتے ہیں۔ ایسا شہر جس کے لوگوں کو وہ جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، گن سکتے ہیں، پرکھ سکتے ہیں۔ اس چھوٹے شہر کے باہر جو لوگ ہیں وہ گویا بت ہیں جو شہر کی رونمائی میں اضافہ کرتے ہیں، یا مشینیں  ہیں جو ادھر سے ادھر دوڑتی پھرتی ہیں۔ کتنا عجیب لگتا ہے کہ ایک تہذیب صدیوں کے بعد ایک بڑا شہر بنا تی ہے اور پھر اس میں بسنے والے عمارتوں کی بلندیاں دیکھ کر انگلیاں داب لیتے ہیں۔ کشادہ، چمکدار سڑکوں پر گاڑیاں دوڑا کر قہقہے لگاتے ہیں۔ اپنے محبت کر نے والوں کو آرام دہ گھر دکھا کر اتراتے ہیں اور پھر ایک لمحے میں بغیر سوچے سمجھے اس حیرت کدہ میں چھوٹے چھوٹے، معمولی سے شہر بن جاتے ہیں۔ ایک لمحے میں لاکھوں لوگوں کی نفی ہو جاتی ہے۔ وہ سحر، وہ غیر معمولی پن جو شہر پر چھایا تھا،  چھٹ جاتا ہے۔ بڑی بڑی بلڈنگز میں بونوں کا ایک کارواں آ کر بس جاتا ہے۔ ان بونوں کے گھروں اور دل کی کھڑکیاں اتنی چھوٹی ہوتی ہیں کہ وہ شہر کو  مکمل کبھی دیکھ ہی نہیں سکتے۔

شہریوں کے دلوں میں چھوٹے چھوٹے سے خواب پلتے  ہیں اور شہر کی سڑکوں پر مایوسی کی حد تک پھسپھسے انقلاب جنم لیتے ہیں۔ سو بھیڑیں مل کر ایک بھیڑیا نہیں بن سکتیں  اور سب ادھر سے ادھر بھاگتی پھرتی ہیں، یہ سوچے بنا کہ گھاس چرنے کو تو عمر پڑی ہے۔ وہ بھاگتے ہوئے مرتی ہیں، خوف میں جیتی ہیں۔ مگر اتنا نہیں کر سکتیں کہ مرنے سے پہلے اسے ایک دھکا ہی مار دیں۔ دھکے کھانے کے بعد بھیڑیا کبھی  نہیں آئے گا۔ مگر یہ زندگی ہے۔ یہاں دو جمع دو چار کبھی نہیں ہوتا۔ اس مساوات کا جواب ہمیشہ ایک رہتا ہے۔ کروڑوں کے مجمع میں ہر شخص اکیلا ہے۔ بھیڑیا روز ایک بھیڑ کو لے جاتا ہے اور بھیڑیں چند لمحے بھاگ کر، تھوڑا ممیا کر گھاس چرنے میں لگ جاتی ہیں۔ میں ان ڈرپوک بھیڑوں سے شاید کچھ زیادہ expectکرنے لگا ہوں۔ مگر ایک کام تو وہ کر ہی سکتی ہیں۔ ہری بھری چراگاہ کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ چرتے ہی چلے جاؤ اور کسی بھی بھیڑیے یا قصاب کے لئے نعمت بنتے جاؤ۔ یہ بات ذرا مشکل ہے اس لئے اسے سمجھنے کے لئے مجھے کچھ دور جانا  ہو گا۔

جہد، کوشش، محنت بہت خوبصورت الفاظ ہیں۔ انہیں اقدار اور اعتقادات کے جس معیار پر بھی پرکھا جائے ہمیشہ لائق تحسین ہی ٹھہرتے ہیں۔ مگر مجھے کہنے دیں کہ یہ ایک جال ہے، سراب ہے، چوہے دان ہے عقل والوں کے لئے اور موت ہے وجدان والوں کے لئے۔

میرے اردگرد ایک ہجوم ہے تابناک چہروں اور روشن آنکھوں والے کامیاب لوگوں کا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو لوح ایام پر آزادی کی تحریر رقم کرتے ہیں، وہ دیوانے جو انسانوں کے قدموں کو ستاروں کی طرف لے جا رہے ہیں، وہ اہل جنوں جو محبت کرتے ہیں، وہ متقی جن کی پیشانیاں سجدوں سے منور ہیں اور اہل دولت کہ جن کی دسترس میں وہ سارے خواب ہیں جن کی تعبیریں سراب نہیں ہوتیں۔

ایک دوسرا گروہ ہے ملگجے چہروں اور بجھی آنکھوں والے ناکام لوگوں کا۔ ان کے چہروں کے عضلات کھچے رہتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں خون تمنا کے سوا کوئی رنگ نہیں اور ہاتھوں میں فکر فردا کے سوا کوئی اثاثہ نہیں۔ وہ لوگ جو تاریک راہوں میں مارے گئے، جن کی محبتیں بازار میں نیلام ہوئیں، جن کی وحشتیں انہیں اندھیرے کھدروں میں دبکنے نہیں دیتیں اور سڑکوں، دریاؤں، صحراؤں میں حقیر جانوروں کی طرح مرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

ایک طرف جگمگاتے خواب ہیں اور دوسری طرف تعفن زدہ لاشیں۔ اور۔۔۔۔۔۔ اس ہجوم بیکراں میں ایک نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ وہ زندگی جسے جسم اس کے اجداد دیتے ہیں، عقل ملتی ہے تاریخ انسانی سے اور وجدان فطرت کی دین ہے۔ اپنی شفاف، معصوم آنکھوں سے وہ اس دنیا کو دیکھتی ہے۔ جسم اور اس کے حواس کو حقائق اکھٹا کرنے والے آلات سمجھو، عقل ان کو پرکھنے کے لئے میزان کی طرح ہے اور وجدان اک احساسِ محض ہے، کچھ کھونے کا۔ یہ ہیں اس معصوم کے سارے ہتھیار جسے اس دنیا میں پھینکا گیا ہے۔

پھر ہر کوئی اس کی قوت برداشت کو آزماتا ہے۔ ان میں دوسری speciesکا ایک طوفان بلا خیز بھی ہے جسکے لبوں پر

survival of fittestکے رجز ہیں اور فطرت نام کا ایک دیو ہزار پا بھی جسے لاشیئت کی طرف سفر کر نے کا جنون ہے۔ اور ان سب سے خطرناک وہ دشمن جو ہماری رگوں میں گھس بیٹھا ہے۔ اسے تہذیب کہ لو، immitation، یا محفوظ راستہ  مگر میں اسے کھونٹے سے بندھی رسی کی طرح جانتا ہوں، جسکے ہوتے ہوئے ہمارا ہر سفر ایک محدود دائرے کے سوا کچھ نہیں۔ یہ سب مل کر زندگی کو یہ باور کرا دیتے ہیں کہ بہت بڑی کوشش ہی وہ واحد راستہ ہے کہ تم اس کائنات میں surviveکر سکو۔ شاید اب بھی وجدان کا کوئی گوشہ ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دے مگر کامیابیوں کا نشہ squareکرنے کے انداز میں بڑھتا ہے اور احساس زیاں کو یوں جانیں جیسے موجیں چلتی ہیں۔ یہ آہستہ آہستہ فراز کی طرف جاتا ہے اور ایک انتہائی مقام کو چھونے کے بعد گہرائیوں میں کھونے لگتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ یہ cycleکتنا بڑا ہے مگر سائنسی تحقیق سے ثابت ہے کہ موجوں کی صورت میں سفر کرنے والے اجسام اپنے جلو میں کس قدر طاقت لے کر چلتے ہیں۔

تو پھر زندگی کے گرد اس سراب جسے ہندو mythologyمیں مایا کہا جاتا ہے، کا گھیرا تنگ ہو جاتا ہے۔ اس دوڑ میں کچھ کامیاب ہوتے ہیں اور کچھ ناکام۔ مگر اصل کھیل اس جیت ہار سے ماورا ہے۔

جیسے ایک بہت بڑا سمندر ہے۔ اتنا کہ اس کے کناروں کی کچھ خبر نہیں۔ اور ہم سب اس کے کہیں بیچ میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ یہاں موجوں، گرداب، typhoonsکو فطرت سمجھ لیں۔ ان بے شمار اجسام میں اگر کوئی چیز مشترک ہے تو وہ ہے کوشش۔ کچھ جو تیرنا نہیں جانتے، یا بھاری موجوں کے تلے دب جاتے ہیں، یا پھر جن کی ٹانگ کسی سمندری جانور نے اندر کھینچ لی وہ تڑپتے ہوئے ڈوب جاتے ہیں۔ ان لوگوں کی آنکھوں میں خوف ہوتا ہے، چہروں پہ بے بسی۔ یہ سب دنیا میں ناکام لوگوں کی طرح ہیں۔

اس ہجوم میں ایک دوسرا گروہ بھی ہے۔ یہ لوگ بلا کے خوش قسمت اور ماہر تیراک ہیں۔ ان کے مضبوط بازو اور امیدوں سے دمکتے چہرے انہیں دور لے جا رہے ہیں۔ ڈوبنے والے حسرت سے دیکھتے ہیں کہ وہ گئے منزل پہ پہنچنے والے۔ مگر ایک چیز جو کوئی نہیں دیکھتا اور جو پانی میں گھٹ گھٹ کر آتی موت سے زیادہ خوفناک ہے۔ وہ یہ ہے کہ جیسے جیسے یہ کامیاب لوگ بڑھتے جا رہے ہیں، وسیع سمندر میں وہ اکیلے ہوتے جا رہے ہیں۔   ایک دن ان میں سے ہر کوئی تا حد نظر پھیلے سمندر کے بیچ خود کو تنہا محسوس کرتا ہے اور بہت ڈر جاتا ہے۔ مگر جسم میں ا بھی جان باقی ہے تو وہ ہار کیسے مانے۔ پھر وہ دن آتا ہے جب وجود کی برداشت ختم ہو جاتی ہے۔ پیڑی جمے پیاسے ہونٹ اور تھکن سے چور بدن کوشش ترک کر دیتا ہے۔ سمندر بڑی بے رحمی سے اس کامیاب اور با ہمت تیراک کو اپنی دلدل سی گہرائیوں میں اتار لیتا ہے۔ تو کامیاب اور ناکام کے بیچ فرق صرف ایک چیختی، چلاتی پر ہجوم اور ایک ٹھٹھکی، ٹھہری، اکیلی موت کا ہے۔

 

چھوٹے تالاب اور بڑی مچھلی میں

زندگی کی محبوسی مشترک ٹھہری

تھکی تھکی، مضمحل سانسوں

اور تڑپتی موت کی گھٹن کے بیچ

فیصلہ کرنے کو کوئی

چھوٹی مچھلی

کتنی آزاد ہوا کرتی ہے

 

یہاں مجھ سے مت پوچھو کہ صحیح اور غلط کون ہے۔ میری طرف ان نظروں سے نہیں دیکھو کہ میں جانتا ہوں سمندر کے پرے کسی منزل کے بارے میں۔ مگر میں دیکھتا ہوں ایک شخص جو ہاتھ پیر نہیں چلا رہا ہے۔ جس کے چہرے پر مسکراہٹ ہے اور جو چیختے، تڑپتے ہجوم کے بیچ خاموشی سے floatکر رہا ہے اور جو صرف ایک بات سوچتا ہے۔ کہ اگر اس سمندر سے نکلنا ممکن نہیں تو ہم یہاں کیوں ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا  امتحان اس سمندر سے نکلنے سے سوا کچھ اور ہو؟شاید ڈوب جانا ہی کلید کامیابی ہو؟

اسے کوئی جلدی نہیں ہے۔ زندہ رہنے کے لئے اسے بے پناہ طاقت سے ہاتھ پاؤں نہیں چلانے۔ اسے تو صحیح سمت میں بس ایک قدم اٹھانا ہے۔ وقت ایسا ہے کہ شاید کھیل کے قوانین کو ہی بدلنا پڑے۔ سو وہ خاموشی سے سوچتا ہے اور پھر ایک دن سمندر اسے بھی نگل لیتا ہے۔

یہ مثال بہت طویل ہوتی جا رہی ہے مگر میں ایک بات ضرور کہوں گا کہ اگر میں اس کھیل کا خالق ہوتا تو میرے لئے چیلنج یہ آخری شخص ہوتا جو اپنی بے نیازی، بے پروائی اور خاموشی سے یہ بتا رہا ہے کہ وہ مہرہ نہیں اپنی ذات میں ایک مکمل کھلاڑی ہے۔ کوئی سوچے تو اس شخص کے بارے میں جس نے میدان جنگ کو اپنا گھر بنا لیا ہو۔

بات بہت دور تک نکل گئی۔ میں ایک بڑے شہر میں تھا۔ اور مجھ سے پوچھو بڑا شہر کیسے بنتا ہے؟کروڑوں لوگوں کو چھوٹا بنا کر۔

وہ لاکھوں آنکھیں جو کائنات کی تسخیر جیسے بڑے بڑے خواب دیکھتی تھیں انہیں سمجھوتا کرنا پڑتا ہے ہر روز سو کیک بنانے پر، ہر صبح تین سو اخبار پھینکنے پر، ہر رات کسی بن چاہی بانہوں میں سونے پر اور جب بہت سے لوگ ایسا کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں تو ان چھوٹے چھوٹے حقیر ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک شہر وجود میں آتا ہے۔ مجھے انکار تھا۔۔

مجھے تلاش تھی ایک گندے، بے جھاڑ بیاباں کی جس میں میری فطرت کی زنجیریں ہی میری چھلانگ کی حد ہوں اور جنہیں توڑنے میں میں لہو لہان ہوتا  رہوں مگرGod must have a sense of humorاور میں ایک بہت بڑے شہر میں لا پھینکا گیا۔

بڑا شہر جس میں بونے رہتے ہیں۔ اس کے ایک ڈربہ نما فلیٹ میں میں جمائیاں لیتے ہوئے اٹھتا ہوں۔ کپڑے تبدیل کر کر لفٹ کا رخ کرتا ہوں۔ لفٹ بوائے بڑے اخلاق سے سر جھکا کر مجھے گڈ مارننگ کہتا ہے۔ میں سر کو تھوڑا سا ہلا دیتا ہوں۔ الفاظ کبھی میرے لبوں سے نہیں نکلے۔ میرے لئے وہ اس لفٹ کا ایک حصہ ہے۔ ایک اور بت جو اس شہر میں رونمائی کے لئے استادہ ہے۔ ایک اور مشین جیسے کے یہ لفٹ۔ پھر میں کتنا بیوقوف لگوں گا ایک بت سے باتیں کرتے ہوئے۔ صبح کے وقت لفٹ ہمیشہ بھری ملتی ہے۔ لوگ بہت جلدی میں ہوتے ہیں۔ سب کی نظریں گھڑیوں پر ہوتی ہیں۔ عورتیں اکثر اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں میں کاٹتی ہوتی ہیں یا ہونٹوں کو سکیڑ کر لپ اسٹک درست کرنے کی کوشش میں ہوتی ہیں۔ اور مرد اپنا وقت جمائیوں کو روکنے میں صرف کرتے ہیں۔ یہ سب بھی بت ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں اس شہر میں نیا آیا تو انہیں جیتا جاگتا انسان سمجھ بیٹھا تھا۔ اس لئے جیسے ہی میں لفٹ میں گھستا تو چہرے پہ مسکراہٹ لا کر good morningکہتا۔ جواب ہمیشہ  دگنی شائستگی سے ملتا۔

’’کتنے مہربان لوگ ہیں اس شہر کے۔ ایک اجنبی کو یہاں کتنا کم وقت لگتا ہے adjustہونے میں؟‘‘

پھر میں ادھر ادھر کی کوئی بات کرتا۔ جیسے موسم کتنا خوشگوار ہے۔ جواب میں سر کی ہلکی سی جنبش ملتی۔ یا پھر کیسا محسوس کر رہے ہیں آپ؟ اور زبردست، never been better، جیسے جوابات ملتے۔ شروع کے کچھ دن تو میں ایک سرخوشی کے عالم میں تھا اس لئے کچھ محسوس نہ کر سکا۔ پھر ایک شرمندگی، ایک لاچارگی سی محسوس ہونے لگی۔ جیسے لندن کے مادام تساد میوزیم میں کسی مومی پتلے کو آپ تھوڑی دیر تک انسان سمجھ کر دیکھتے رہو اور کوئی بات بھی کر ڈالو اور پھر۔۔۔۔۔۔ ایک احساس کہ کوئی نہیں ہے۔ اور آپ کھسیا کر وہاں سے چل پڑو۔ تھوڑا مسکراتے ہوئے پر کچھ دور جا کر طبیعت پر بہت اداسی چھا جائے۔

یا پھر جیسے ایک معصوم بچہ بندر کے پنجرے کے باہر کھڑا ہو اور پکارے

’’چھلانگ لگاؤ‘‘

بندر ایک نظر اس کے چہرے  پر ڈالے اور چھلانگ لگا دے۔ اس جھولے سے اس جھولے تک۔ بچہ خوشی سے پاگل ہو جائے۔ کہ بندر تو اس کی زبان سمجھتا ہے۔ پھر بولے ’’میرے پاس آؤ۔ ‘‘

بندر چونک کر اس کی طرف دیکھے اور پھر چھلانگ لگا دے۔ اس جھولے سے اس جھولے تک۔

بندر اس کی زبان نہیں سمجھتا، اسے جانتا نہیں۔ وہ تو بس اس پنجرے میں ہے چھلانگ لگانے کے لئے۔ ایسے ہی یہ لوگ اس شہر میں ہیں لفٹ چلانے کے لئے، گیس بھرنے کے لئے، کافی دینے کے لئے۔ تو جب تک آپ انہیں ان کی مطلوبہ چیز بولو گے تو لگے گا کہ یہ آواز سنتے ہیں، سمجھتے ہیں اور  جواب دیتے ہیں۔ زندگی کے ہر معانی میں ایک جیتے جاگتے انسان ہیں۔ پر جس لمحے آپ ان سے کوئی اور سوال کرو۔ اس بندر کی طرح یہ ایک اور چھلانگ لگا دیں گے۔ کافی والا ایک اور کافی لا دے گا۔ گیس بھرنے والا پھر سے گیس بھرنے لگے گا یہاں تک کے آپ کے گیس ٹینک سے گیس باہر گرنے بھی لگے۔

پھر سارے رستے آپ اکیلے ہوتے ہو اور  دفتر میں بھی ادھر سے ادھر سب مشینیں گھومتی ہیں جو رٹے رٹائے الفاظ دہراتی  رہتی ہیں۔

’’کمپنی کی سیل گر رہی ہے‘‘

advertising  بڑھا دو‘‘

’’مارکیٹ میں slumpہے‘‘

’’پورٹ فولیو diversifyکر لو‘‘

زندگی سے خالی سوالات اور ایسے ہی جوابات۔ مگر یہ جواب دینے والے اپنی مدد کے لئے

high speed laptops, projectors, graphicsایسے استعمال کرتے ہیں جیسے ان سے بڑا analystکوئی کہاں ہو گا؟پر جب ان شوخ figuresکی تہہ میں جھانکو تو خالی پن کا احساس ہو گا۔ آپ یہ محسوس کر کر بولنا چاہتے ہو کہ یہ سب ڈھونگ ہے تو ہر کوئی عجیب نظروں سے دیکھتا ہے۔

آپ انہیں حقیقت سمجھانا چاہتے ہو تو  وہ سمجھ نہیں پاتے۔ کیونکہ حقیقت ہمیشہ اتنی سادہ نہیں ہوتی کہ اسے خوبصورت گرافس یا آسان فارمولوں کی مدد سے سمجھا جا سکے۔ اس کے لئے دماغ چاہیے ہوتا ہے۔ کاغذ کے انباروں، گنجلک لکیروں کے بیچ اسے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

’’نہیں تمہاری بات clientکے پلے نہیں پڑے گی‘‘

’’تو پھر کیا کیا جائے؟‘‘

advertising”بڑھا دو‘‘

بندر ایک جھولے سے دوسرے جھولے پر چھلانگ لگا جاتا ہے اور میں پھر کھسیا جاتا ہوں۔

پھر شام ڈھلے جب گھر پہنچو تو بیوی سے لگاوٹ کی باتیں کرو۔ اپنے ہر عمل سے ظاہر کرو کہ آپ اس سے بے پناہ محبت کرتے ہو اور آپ میں sexکرنے کا وحشیانہ جذبہ موجود ہے۔ پھر اس سب کے بعد جب لفظ exhaustedبھی آپ کی حالت کو مکمل describeنہ کر سکے تو سونے کے لئے لیٹ جاؤ۔ آنکھیں موندنے سے پہلے ایک لمحہ سوچو

’’میں کیا کر رہا ہوں؟‘‘

اور پھر جسم کی تھکن روح کے سوال پر حاوی ہو جائے اور۔۔۔۔ الارم کی ٹوں، ٹوں کے ساتھ ایک اور دن، ایک اور چھلانگ۔

ہماری پیدائش کے ساتھ دنیا میں ایک سوال جنم لیتا ہے۔ وہ سوال بہت سیدھا سادا سا ہے۔ وہ سوال زندگی کا essenceہے۔ سوال اتنی بنیادی نوعیت کا ہے کہ اس کے بغیر لیا زندگی کا ہر سانس بے معنی ہے۔

’’ہم کون ہیں؟ یہاں کیوں ہیں؟‘‘

دیکھنے میں یہ بہت آسان ہے مگر صرف اس سوال سے بچنے کے لئے انسان نے کیا کچھ نہیں کیا؟مذہب بنائے اور beliefکو سوچ کا زنداں بنا دیا، قانون ایجاد کئے اور معاشرے کو فرد پر ہمیشہ کے لئے فوقیت دے دی، محبت کی اور خود فراموشی کو وہ قلعہ بنا لیا جس کی فصیلیں تازہ ہوا کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ میں کس کس چیز کا ذکر کروں؟یہ سب چیزیں anodynesہیں، ہر وہ چیز جو ہمیں حقیقت کے بارے میں سوچنے سے روکتی ہے میرے نزدیک ایک نشہ ہے اور نشہ خواہ کتنا بھی گہرا کیوں نہ ہو کسی ترشی، کسی حادثے سے رفو ہو جاتا ہے۔ مگر ہم کب تک کسی حادثے کے منتظر رہیں گے؟

میرے لئے آج کا دن کوئی حادثہ نہیں تھا۔ پر کبھی کبھی ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ متلی کا احساس نشہ ہرن کر دے۔ اور یہ احساس تب تب ضرور ہوتا ہے جب آپ بے پناہ لایعنیت نگل لو۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ میں نے مہینوں کی محنت سے تیارکر دہ رپورٹ اپنے باس کی میز پر رکھی اور اس نے بڑے فخر سے میری طرف دیکھا۔ سمری پر سرسری نظر ڈال کر اس نے میری قابلیت اور محنت کی داد دی۔ پر اس سب کے بعد جب میں  باہر نکلنے لگا تو اس نے drawer سے چند کاغذات نکالے اور میری طرف بڑھائے، یہ کہ کر کہ بہت اہم ہیں ان پر آج ہی کام شروع کرنا ہے۔ مجھے متلی کا احساس ہونے لگا۔ آپ دن رات محنت کرتے ہو کس لئے۔۔۔۔

ایک کام ختم ہونے کے بعد دوسرا شروع کر سکو۔ یاجوج ماجوج کی دیوار کی طرح ایک بے معنیchallengeہمیشہ میرے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ کاغذات مجھے ہاتھ میں انگاروں کی طرح محسوس ہو رہے تھے۔ میں نے باس کے کمرے سے نکلتے ہی وہ ڈسٹ بن میں پھینک دیے۔ میری سیکریٹری  نے حیران نظروں سے مجھے دیکھا۔

’’آپ ٹھیک تو ہیں؟‘‘

میں ٹھیک کہاں تھا۔ میں کچھ نہیں بولا۔ باہر نکل کر پارکنگ لاٹ میں جانے کی بجائے سڑک سے بس لے لی اور سیٹ پر آنکھیں بند کر کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد موبائل فون بولا تو اسے بند کر کر سیٹ کے نیچے ڈال دیا۔ اور میں بس سے باہر نکل آیا۔ اب میں خود کو بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔

تمام دن شہر میں یونہی بے مقصد گھومنے کے بعد اس بنچ کے پاس آ ٹھہرا۔ میں نے اپنا پرس نکالا اور پوری قوت سے اسے دریا میں پھینک دیا۔ کچھ یوں تھا جیسے اپنے پرس میں رکھے سارے روپوں، کریڈٹ کارڈوں اور ایک مشینی زندگی کے بدلے میں نے یہ نیا اور پرسکون گھر خرید لیا تھا۔ بس کاش میں اس آوارہ کتے کو اپنا گھر دے سکتا مگر وہ میرے بس میں نہ تھا اور ویسے بھی اس معصوم کے ساتھ میں یہ زیادتی کیسے کر سکتا تھا؟وہ کہیں نہ کہیں اپنی جگہ ڈھونڈ ہی لے گا۔ میں بنچ پر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔

میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیا میرا انجام بھی ان پاگلوں سا ہونے والا ہے جو ننگ دھڑنگ سڑکوں پر پھرتے رہتے ہیں اور کسی دن ان کی اکڑی ہوئی لاش کسی گٹر کے کنارے نظر آتی ہے۔ مجھے اپنا آپ بے پناہ غیر اہم لگتا ہے۔ ہر چیز میرے سے بے حد بے نیاز ہے۔ میں ایک بہت بڑے کھیت کا ایک خوشہ ہوں یا پھر ایک سمندر کا کوئی اکیلا قطرہ۔ ایک شرمناک حد تک بے حقیقت ہوں۔ سو اگر کوئی مجھ سے بات کرتا بھی ہے تو با امر مجبوری، اگر کوئی میرے سامنے مسکراتا بھی ہے تو اس لئے نہیں کہ وہ مجھ سے مل کر خوش ہوا ہے اور نہ یوں ہے کہ وہ میرا دل رکھنا چاہتا ہے، بلکہ کچھ یوں ہے کہ وہ سب اداکاری کرتے ہیں۔ ایک بہت بڑے ڈرامے میں لکھے اپنے رول کو نبھاتے ہیں۔ میں ان کے لئے اسٹیج پر پڑی جیسے کوئی بے جان چیز ہوں جو انہیں مکالمے بولنے کے لئے back groundپیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ یقیناً بہت خوفزدہ کرنے والی بات تھی۔ آپ پرانے غیر آباد شہروں میں گھومتے ہو یا پھر کسی قبرستان کے پاس  سے گزرتے ہو تو ایک سرد لہر جسم میں دوڑنے لگتی ہے۔ یہ خوف کی بہت نچلی سطح ہے۔ اور یہ شہر اب اس سے گیا گذرا کیا ہو گا۔ مگر ایک دن یونہی آپ کو خبر ہو کہ اصل میں تو آپ بھی قبر میں ہو، یا پھر اس قدیم شہر کے ماضی میں بسنے والا کوئی شخص ہو(جیتے جاگتے انسان نہیں کوئی بھوت ہو)۔

یہی احساس مجھے بھی ہوا۔ اس شہر میں آ کر میں بھی ایک بت بن گیا تھا۔۔۔۔ میں سب کچھ وہی کر رہا تھا جو یہ دوسرے لوگ میرے ساتھ کر رہے تھے۔ میں ان کے لئے ایک بت ہی تو تھا۔

وہ رات قیامت کی رات تھی۔ اس رات میں نے بہت سوچا۔ اتنا کہ ساری زندگی میں کبھی نہ سوچا ہو گا۔ وہ باتیں بے دھڑک سوچ ڈالیں جن کا گمان بھی کبھی آ جاتا تو کانپ اٹھتا تھا۔ خدا، مذہب، رشتے، کائنات، اپنی ذات۔۔۔۔۔۔۔۔ اس رات میں کہاں کہاں نہیں گیا۔ اور جب صبح کا سورج ابھرا تو میں نے ایک فیصلہ کیا۔ میں خود کو کسی بھی کھیل کا مہرہ نہیں بننے دوں گا۔ میں بہت کام کر چکا ہوں۔ انسانیت کی immortality کے لئے میں بہت قربانیاں دے چکا ہوں۔ میں نے صحراؤں کی تپتی ریت پر کسی فرعون کے لئے اہرام تعمیر کیے، میں نے اپنے جلتے لہو کی روشنی میں hamletاور مونا لیزا جیسے شاہکار تراشے، میں نے بے وفا عورتوں کی کوکھ میں ایک بے شعور نسل کا بیج رکھا۔ میں نے کیا کیا نہیں کیا؟انسانیت کے لیے اپنے آپ کو  مٹا دیا اور  اب ان ہزاروں برسوں کے بعد میری محنت اور قربانیوں کا یہ صلہ مل رہا ہے کہ میں اپنی بنائی ہوئی دنیا میں اجنبی اور بے حقیقت ہوں۔

بہت ہو چکا، اب فرمان پورے کرنے کی استطاعت ختم ہوئی۔ اب مجھے اپنا مقام ڈھونڈنا ہے۔ مگر میں کہاں سے شروع کروں؟

بات اس شہر کی نہیں، بات میرے حالات کی نہیں۔ بات اس سمت کی ہے جس میں ہم سب ہانکے جا رہے ہیں۔ کبھی ان کسانوں کو دیکھا ہے جو جنگلی سوروں کا شکار کرتے ہیں۔ یہ سور جو گنے کی قد آدم فصلوں میں گھسے بیٹھے ہوتے ہیں، ان کی تین طرف ہانکا لگایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ڈھول بجائے جاتے ہیں اور وہ سب اس شور سے گھبرا کر چوتھی سمت بھاگتے ہیں، جہاں خاموش شکاری اپنی بندوقوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ مرنے کے لئے بھاگا نہیں جا رہا ہوں۔ مگر باقی تین سمتوں میں سے کون سی سب سے محفوظ ہے اس کی خبر بھی نہیں ہے۔ یا پھر یوں کیا جائے۔ ڈر کر بھاگنے کی بجائے کسی خرگوش کے بچے کی طرح وہیں دبک جایا جائے۔ اس لمحے تک جب ہانکا لگانے والے چلے نہ جائیں۔ جب تک کسی ایک سمت میں جانا زیادہ محفوظ نہ ہو جائے۔ کچھ ٹہنیاں اپنے چہرے پر گرا لو، سانس کو ساکت کر لو، خاموشی سے پڑے رہو اور انتظار کرو۔ اگر ایسے میں کوئی وہاں آ بھی نکلے تو تھوتھنی کو ذرا جھکا کر آنکھوں میں میں محبت کے پیالے لے آؤ۔ شاید تمہیں چھوڑ دیا جائے۔

تو میں اس دن بنچ سے نہیں اٹھا اور اگلی رات بھی نہیں۔ بس خاموش پڑا رہا۔ اپنی ذات اور خوابوں کو کیمو فلاج کئے رہا۔ پھر شاید تیسرے دن ایک وین آئی اور مجھے ہسپتال لے گئی۔ انہوں نے بہت جتن کیے۔ میری بیوی، ماں باپ، دوست، سیکریٹری سب آئے۔ محبت بھرے لہجے میں مجھے پکارتے رہے۔ وہ سب پرانی باتیں یاد دلاتے رہے جن کا تصور ہی کبھی تنہائی میں میرے ہونٹوں پر ہنسی لا دیا کرتا تھا۔ مگر میں خاموش رہا۔ میں خوفزدہ تھا۔ ڈرتا تھا کہ یہ کوئی چال نہ ہو۔ یہ آوازیں، یہ چہرے ایک اور ہانکا نہ ہوں مجھے اس سمت بھگانے کے لئے جہاں سب بھاگنے والے گئے اور اب جن کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔

میں کسی سمت نہیں چلا تو انہوں نے مجھے پاگل خانے پہنچا دیا۔ وہاں میرے جیسے بہت سے تھے، جنہوں نے خود کو کیمو فلاج کر رکھا تھا۔ میں آج بھی ان اونچی دیواروں اور سفید کپڑے والوں کے بیچ دبکا سا رہتا ہوں۔ میری بیوی اب بھی کبھی کبھار آتی ہے۔ گھنٹوں اپنائیت کی باتیں کرتی رہتی ہے اور میں چپ چاپ کھڑا سنتا ہوں اور پھر رات کی تنہائی میں جب سب سو جاتے ہیں تو تکیہ منہ پر دے کر روتا ہوں۔ رونے سے شاید یوں لگتا ہے جیسے میں یہاں خوش نہیں ہوں مگر یہ اس وقت سے تو اچھا ہے جب رات بے پناہ تھکاوٹ اور بوریت کی وجہ سے آپ رو بھی نہ سکو۔

٭٭٭

 

 

 

بے حقیقت

 

 

اور وہ دن جب مجھے احساس ہوا کہ اس بہت بڑی کائنات میں میرا وجود شرم انگیز حد تک بے حقیقت ہے۔ میں خواب دیکھوں یا مر جاؤں کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا اور کوئی اگر آپ کے لئے دو آنسو بہاتا بھی ہے تو اس سے قانون نہیں بدلتا کہ خود اس کے آنسوؤں کی حقیقت کیا ہے؟یہاں کی پیاسی دھرتی تو  ہزاروں بارشیں پی گئی۔

پھر جیسے کسی چابی سے ہنسنے والے جوکر کی چابی ختم ہو جائے اور وہ اوندھے منہ گر جائے۔ میں بھی گر ا۔۔۔۔۔۔ مگر بہت اونچائی سے اور میری روح تڑخنے لگی۔ میری اس بے پناہ کمزوری نے ایک احساس میرے اندر پیدا کیا۔ بہت عجیب ہے کہ یہ احساس طاقت کا تھا۔ جب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ زندہ رہو یا مر جاؤ تو پھر کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری اس چھوٹی سی دلیل نے مہرباں ماں کی طرح مجھے اٹھایا، کپڑے تبدیل کروائے اور مجھے رخصت کرنے کے لئے دروازے تک آئی۔ پھر کچھ سوچ کر اس نے گھر کو چھوڑا اور میری انگلی تھامے، میرے ساتھ چلنے لگی۔

دفتروں کا وقت گزر چکا تھا اور گھریلو عورتوں کو ابھی صفائی ستھرائی سے فرصت نہیں ملی تھی۔ میں بڑی شاندار تنہائی میں اس سڑک پر چلتا تھا جہاں سے روز احمقوں کی طرح میں  تقریباً بھاگتا ہوا نکلتا تھا۔ مجھے دیر ہو رہی ہوتی تھی اس عمارت میں پہنچنے کے لئے جہاں بہت سے احمق بے حقیقت کاغذوں پر لکیریں کھینچتے تھے اور سوچتے تھے کہ وہ اس کرہ ارض کی سب سے productiveنسل ہیں۔

تو میرے قدم بس سٹاپ کی طرف اٹھ رہے تھے۔ جہاں ایک بوڑھا جوڑا بس کے انتظار میں تھا۔ میں بے شمار مہینوں سے انہیں اسی طرح دیکھتا تھا۔ شاید انہیں اکثر بوڑھے کے علاج کے لئے کہیں جانا ہوتا تھا۔ دونوں خاموش تھے اور مخالف سمت میں دیکھتے تھے۔ شاید اب انہیں کسی اور کا بھی انتظار رہنے لگا تھا۔ زندگی یہ بھی دکھاتی ہے جب ہمارے کان فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ بھی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بڑھیا کے ہاتھ میں ایک بڑا لفافہ تھا جس سے جھانکتے کاغذوں پر میڈیکل رپورٹوں کا گمان ہوتا تھا۔

بوڑھے نے سڑک پر دور تک دیکھا  اور بڑبڑایا

’’اور کتنا انتظار کروں؟‘‘

بڑھیا جو کہیں اور دیکھتی تھی اور نجانے کیا سوچتی تھی چہرے پر جبری مسکراہٹ لا کر بولی

’’تم ٹھیک ہو جاؤ گے۔ ‘‘

بوڑھے نے اس کی طرف ایسے دیکھا جیسے وہ احمق ہو۔

’’مجھے پتہ ہے کہ اب جانا ہی ہو گا۔ ‘‘اس کی آواز میں ایک بھرپور گذاری ہوئی زندگی کی کسک تھی۔ پھر دونوں خاموش ہو گئے اور مخالف سمتوں میں دیکھنے لگے۔

تھوڑی دیر اور گذری اور بس نہیں آئی۔ بڑھیا نے قدم ایک قریبی سٹور کی طرف بڑھائے اور جاتے جاتے کہا

’’تم یہیں رہنا، میں آتی ہوں۔ ‘‘بوڑھا ہواؤں میں دیکھنے لگا۔ میں اس کے قریب ہوا اور سرگوشی کی

’’موت سے بھاگتے ہو؟‘‘

اس نے تیز نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر جیسے اس کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے کہ موت کا فرشتہ نہیں یہ تو وہی بے حقیقت سا انسان ہے۔ اس کی آنکھوں کی اداسی اور مضمحل چہرے کو دیکھ کر مجھے اس کی حالت پر افسوس ہوا۔ میں نے دور سڑک پر تیزی سے آتی ایک کار دیکھی۔ جیسے ہی وہ فٹ پاتھ کے نزدیک سے گذری میں نے بوڑھے کو دھکا دے دیا۔ ایک گھٹی گھٹی سی چیخ کے ساتھ وہ اس کار سے جا ٹکرایا۔ کار والے کے قدم بریک پر پڑے اور فضا میں چرچراہٹ گونجی۔ پھر وہ رکنے کی بجائے گاڑی بھگا کر لے گیا۔ میں سڑک پر آیا۔ بوڑھا بڑے تکلیف دہ انداز میں گرا تھا۔ اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا لیا۔ اس طرح کہ اس کے جسم سے بہنے والے ہلکے ہلکے خون نے میرے کپڑوں کو سرخ کرنا شروع کر دیا۔ ایسے میں مجھے سسکنے کی آواز آئی۔ پلٹ کر دیکھا تو وہ بڑھیا کھڑی تھی۔ میں نے اسے کہا کہ

’’زندگی کے سفر میں شاید کسی نے تمہاری مدد نہ کی ہو مگر موت کے اس سفر میں میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘‘

میں لاش اٹھائے آگے چلتا رہا اور پیچھے وہ آنسو بہاتی بڑھیا۔

اس رات میں نے بہت سوچا۔ آپ کسی کو ایک اذیت، ایک کرب سے نجات دلاتے ہو تو یہ کوئی جرم نہیں۔ وہ رات بے چینی کی رات تھی۔ مگر اگلی صبح جب کھڑکی سے باہر دیکھا تو ویسا ہی چمکدار دن تھا جیسا روز ہوا کرتا تھا۔ ایک انسان کے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے کپڑے تبدیل کئے اور باہر نکل آیا۔ آج میں پہلے سے زیادہ مطمئن تھا۔ قدم اٹھاتے بس  اسٹاپ تک پہنچا۔ وہاں ویسی ہی خاموشی تھی جیسی کل تھی۔ سڑک پر گرد اڑ رہی تھی۔ بوڑھے کے خون کے نشان کب کے مٹ چکے تھے۔ میں سڑک کے ساتھ لگی ریلنگ کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ایسے میں دل میں کچھ کسک سی ہوئی تو میرے قدم اس قبرستان کی طرف اٹھنے لگے۔ تھوڑی دیر میں میں ایک تازہ قبر کے سرہانے کھڑا تھا جس پر سرخ گلاب کی پتیاں بکھری تھیں۔ قبر کے قدموں میں وہی بڑھیا بیٹھی تھی اور اس کی بند آنکھیں اور ہلتے ہونٹ بتا رہے تھے کہ وہ کوئی دعا پڑھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں۔ نظریں مجھ پر پڑیں تو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کے قریب زمین پر بیٹھ گیا۔

’’تم نے جو کچھ کیا میں نے دیکھ لیا تھا۔ ‘‘مجھے لگا جیسے بہت بڑی ندامت میرے اندر اتر رہی ہے۔

’’یہ سب تو میں بھی تم سے بہت پہلے، تم سے بہت بہتر طریقے سے کر سکتی تھی۔ مگر میں نے ایسا نہیں کیا۔ پتہ ہے کیوں؟‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’اتنی جوان، اتنی مسکراتی زندگی میں ایک بوڑھا اگر کچھ دیر کھانس لے تو زندگی کو کیا فرق پڑے گا؟‘‘

مجھے اپنا دم اس کھلی فضا میں گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ میں ڈگمگاتے قدموں کے سہارے اپنے گھر تک پہنچا۔ دروازے کو مضبوطی سے بند کیا اور بستر پر گر گیا۔ پھر نہ جانے کس وقت مجھے نیند آ گئی۔

اگلی صبح میں بھاگتا ہوا گھر سے نکلا۔ دوسرے بہت سے احمقوں کی طرح گھڑی پر تیزی سے نظر ڈالتا میں  تقریباً بھاگتا ہوا بس اسٹاپ تک پہنچا۔ آج وہاں کوئی کھانستا ہوا بوڑھا نہ تھا۔ خواب دیکھنے والے احمقوں کے ساتھ میں بس میں سوار ہو گیا اور بس چل پڑی۔ مدہوشوں کے ایک سمندر میں بھلا ایک ہوشمند کیا کرتا؟

٭٭٭

 

 

 

اللہ مسبب الاسباب ہے

 

شاہ صاحب بڑی قناعت پسند طبیعت کے مالک تھے۔ تمام عمر  انہوں نے اپنی سرکاری ملازمت کو بڑی ایمانداری سے نبھایا۔ بیوی بھی وفا شعار، عقلمند اور خدمت گذار ملی۔ اس لئے ان کی ساری زندگی ایک پر سکون ماحول میں بسر ہوئی۔ نماز کے بعد ہمیشہ دیر تک مصلے پر بیٹھے دعا مانگتے رہتے مگر اپنے لئے انہوں نے سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق کے سوا کبھی کچھ نہ مانگا۔ ان کی دعائیں ہمیشہ دوسروں کے لئے ہوتیں۔ مظلوموں اور دکھی لوگوں کے لئے۔

کئی دفعہ ان کی بیوی صفیہ گلہ بھی کرتی کہ آپ کو مجھ سے، اس گھر سے محبت نہیں ہے جبھی تو ہمارے لئے کچھ نہیں مانگتے۔ وہ ہمیشہ مسکرا دیتے اور کہتے

’’پر سب کچھ تو ہے ہمارے پاس۔ ہمیں اور کس چیز کی ضرورت ہے؟‘‘

زندگی یوں ہی گذرتی رہی۔ ان کی بیٹی اب جوان ہو رہی تھی۔ صفیہ اب دبے دبے انداز میں فکر کا اظہار بھی کرنے لگی تھی مگر شاہ صاحب ہمیشہ مطمئن نظر آتے۔ انہیں اللہ پر بے حد توکل تھا۔ پھر ایک اچھا رشتہ آیا اور جھٹ شادی کی باتیں ہونے لگیں۔ شاہ صاحب نے کہا کہ دیکھو میں نہ کہتا تھا کہ اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے۔

گرچہ شاہ صاحب کی آمدنی ہمیشہ سے محدود ہی تھی مگر وہ فضول خرچ ہرگز نہ تھے۔ صفیہ بیگم بچی کے پیدائش کے دن سے اس وقت کے لئے پیسے جمع کر رہی تھیں۔ یہ پیسے شاہ صاحب اپنے بھائی کے پاس رکھوا دیتے۔ ان کی کپڑوں کی دکان تھی۔ شاہ صاحب کو اس رقم پر کاروبار میں ہونے والے منافع سے حصہ بھی مل جاتا اور وہ بینک میں ہونے والے سودی لین دین سے بھی بچ جاتے۔

اب بدقسمتی سے ان کے بھائی دل کے دورے سے جاں بحق ہو گئے۔ لکھت پڑھت تو دونوں بھائیوں کے بیچ تھی کوئی نہیں اور بھتیجوں نے باپ کے مرتے ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ لیں۔ شاہ صاحب نے دو ایک بار تقاضہ کیا مگر اپنی وضع دار طبیعت اور ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہو کر بیٹھ رہے۔

اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ کبھی اس پیسے کے بارے میں سوچتے بھی نہ۔ پیسہ تھا ہی ایسی غیر اہم سی چیز ان کی زندگی میں۔ مگر سوال ان کی اکلوتی بیٹی کی خوشیوں کا تھا۔ اور ساتھ میں لڑکی کے سسرال والے بھلا ان باتوں کو کہاں سمجھتے تھے۔ ساری زندگی کسی سے ادھار وغیرہ کی نوبت نہ آئی تھی۔ اب کڑا وقت پڑا تو چاہا کہ کسی سے رقم پکڑ لیں اور پھر آہستہ آہستہ لوٹا دیں۔ مگر اب انہیں احساس ہوا کہ وہی لوگ، وہی رشتہ دار جو انہیں عقیدت سے سر آنکھوں پر بٹھاتے رہے، پیسہ مانگنے کا وقت آیا تو آنکھیں پھیر گئے۔ ہمارے معاشرے میں نیک اور ایماندار کی عزت تو سب کرتے ہیں پر اعتبار کوئی نہیں کرتا۔ یہاں اگر کسی کو تھانے دار بھرتی ہونے کے لئے رشوت دینا ہو تو لوگ گھر آ کر ادھار دے جاتے ہیں۔ جانتے ہیں کہ پوسٹنگ ہوتے ہی رقم سود سمیت واپس ہو جائے گی اور اوپر سے رسوخ علیحدہ۔ مگر ایک ایماندار سرکاری ملازم کہاں سے ادا کر پائے گا رقم؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ رقم واپس کرنے کے لئے رقم سے زیادہ نیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کیوں لاکھوں لوگ فنانس اور کواپریٹو کمپنیوں کے ہاتھوں لٹتے؟

شاہ صاحب مایوس ہونے والے تو نہ تھے مگر انہیں دکھ ضرور ہوا۔ انہوں نے آفس سے ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی رقم نکلوانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس میں کئی مہینے درکار ہیں۔ اگر جلدی چاہیے تو متعلقہ محکمے میں رشوت دینی پڑے گی۔

’’اب اتنی جلدی تو ہے نہیں کہ جہنم سے ہی گذر جائیں۔ ‘‘شاہ صاحب نے اپنے اسی شگفتہ لہجے میں کہا۔ لیکن جیسے جیسے شادی کے دن قریب آ رہے تھے پریشانی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ایک رات صفیہ نے کہا

’’اب کیا ہو گا؟‘‘

’’اللہ مسبب الاسباب ہے۔ ‘‘

’’آپ دعا بھی تو نہیں مانگتے اللہ سے؟‘‘

’’آج تک ان چیزوں کے لئے دعا کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ پر اب مانگوں گا۔ ‘‘

اس رات عشاء کے بعد شاہ صاحب بڑی دیر تک مصلے پر بیٹھے رہے۔ انہوں نے شادی کے تمام اخراجات کا حساب لگا کر دیکھا کہ انہیں  تقریباً تین لاکھ کی ضرورت تھی۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں یہ پیسے مل جائیں۔

اگلا دن معمول کے مطابق گزرا۔ ہاں دفتر میں کچھ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے نکلتے ہوئے کافی دیر ہو گئی۔ ویسے انہوں نے صفیہ کو فون کر دیا تھا مگر اس طرح رات دس بجے گھر لوٹنے کا ان کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ سردیوں میں تو سر شام ہی سڑکیں سنسان ہو جاتی ہیں۔ تھوڑی دیر تک بس سٹاپ پر کھڑے رہے مگر سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے شاید بس والوں نے بھی اس گھاٹے کے چکر کی بجائے گھر جانے کو ترجیح دی تھی۔ خیر اب پیدل چلنے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ گھر بہت دور نہ تھا۔ غالباً آدھ گھنٹے میں پہنچ جاتے۔

ابھی تھوڑی دور پہنچے کہ سڑک پر کوئی سیاہ رنگ کی شئے گری نظر آئی۔ قریب جا کر دیکھا تو ایک بریف کیس تھا۔ بادی النظر میں تو لگتا تھا جیسے اسے چلتی گاڑی سے پھینکا گیا ہے یا پھر ہو سکتا ہے کہ کسی موٹر سائیکل والے کا گر گیا ہو۔ اگرچہ ایسا بریف کیس مشکوک سامان کے زمرے میں آتا تھا۔ ایسی چیزیں دہشت گرد استعمال کر سکتے ہیں مگر دہشت گردوں کو بھلا اس ویران جگہ پر بریف کیس پھینکنے سے کیا ملنے والا تھا؟ضرور یہ کسی کا غلطی سے گر گیا ہو گا۔

انہوں نے اسے اٹھایا اور کھولا تاکہ شاید کوئی نام پتہ مل جائے۔ وہ اندر سے  تقریباً خالی ہی تھا۔ بس ایک کونے میں ایک خاکی لفافہ دھرا تھا۔ لفافہ کھولا تو ان کا جی دہل گیا۔ وہ نوٹوں سے بھرا تھا۔ ہزار ہزار کے نوٹ تھے۔ یقیناً لاکھوں میں تھے۔ اب تو وہ سٹپٹائے کہ کسی کا بھاری نقصان ہو جائے گا اور پھر کوئی اتہ پتہ بھی نہیں۔ اس لئے وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے کہ اگر کوئی شخص اسے ڈھونڈتا آئے تو اس کی امانت اس کے سپرد کر سکیں۔ ایک دفعہ تو جی میں آئی کہ کہاں اس رات گئے شدید سردی میں یہاں بیٹھا رہوں؟گھر چلتا ہوں اور صبح تھانے میں جمع کروا دوں گا۔ پر پھر جب اس شخص کی کیفیت کا سوچا جو اتنی بڑی رقم کھو چکا تھا تو انتظار کرنے کو ہی ترجیح دی۔

اب بیٹھے تو احساس ہوا کہ سردی کتنی شدید تھی۔ پہلے تو چل رہے تھے اس لئے جسم گرم تھا۔ پھر صفیہ کی پریشانی کا خیال بھی تھا۔ ایسے میں دور سے سیٹی کی آواز سنائی دی۔ کوئی دھیمے سروں میں کسی پرانے گانے کی دھن بجاتا آ رہا تھا۔ ایک دفعہ تو جی خوش ہوا کہ شاید بریف کیس کا مالک ہی آر ہا ہو۔ پھر جی میں آئی کہ وہ بھلا کیوں بے فکری سے سیٹیاں بجاتا آنے لگا۔ قریب آیا تو دیکھا کہ وہ کوئی طالب علم تھا جو شاید فلم کا آخری شو دیکھ کر آ رہا تھا۔ شاہ صاحب کو بیٹھے دیکھ کر ٹھٹھکا۔

’’کیا ہوا؟خیریت تو ہے‘‘

’’ہاں اللہ کا شکر ہے۔ بس کسی کا انتظار ہے۔ ‘ ‘انہوں نے کہا۔

’’انتظار بری چیز ہے۔ فلم میں بھی ہیرو انتظار کرتا رہ گیا اور ہیروئن کسی دوسرے کے ساتھ چلی گئی۔ ‘‘

’’ہاں ایسا بھی ہوتا ہے۔ پر میں اس قسم کے انتظار کی عمر سے گذر گیا ہوں۔ ‘‘

’’شاید آپ سچ کہتے ہو۔۔۔ پر میرے نزدیک انتظار کا عمر سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق تو امید سے ہے اور امید کوئی کبھی بھی، کسی بھی عمر میں توڑ سکتا ہے۔ پرانے درخت کو کاٹتے ہوئے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔۔۔۔ بہرحال چلتا ہوں۔ ‘‘

وہ مسکراتا، سیٹی بجاتا اپنے راستے پر ہو لیا۔ اور شاہ صاحب پنے کوٹ کو سمیٹ کر کچھ اور سکڑ گئے۔ وقت بڑی آہستہ آہستہ گذرتا رہا۔ رات کے دو بجے تک ایک سائیکل والے اور دو بھاگتے کتوں کے سوا کوئی ادھر سے نہ گذرا۔ سائیکل والا اپنی دھن میں تھا۔ انہوں نے اس وجہ سے اسے آواز دے ڈالی کہ کہیں انہیں پریشانی میں دیکھ ہی نہ پایا ہو۔ آواز سننے پر وہ سائیکل پر تن کر بیٹھ گیا اور زور زور سے پیڈل مارتا، ہوا ہو گیا۔ شاید وہ منہ میں کچھ قرآنی آیات بھی پڑھ رہا تھا۔ شاہ صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے سوچا کہ اب بھوتوں کے قصے سنانے والوں میں ایک اور چشم دید قصہ گو کا اضافہ ہو جائے گا۔ وہ جو ایسی ساعتوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے کہ آدمی پتھر کا ہو جاتا ہے۔ وہ شاید اس لئے تھا کہ کوئی بھوتوں کی اصلیت نہ جان سکے۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے والے کہانی کے طلسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔ قصہ گو کے کسی کام کے نہیں رہتے۔

اب شاہ صاحب کا جسم بھی جواب دے رہا تھا، ہونٹوں پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔ یہی سوچا کہ اس سے پہلے کہ وہ واقعی بھوت بن جائیں انہیں چلنا  چاہیے۔ اگر ان صاحب کو آنا ہوتا تو اب تک آ جاتے۔ اور پھر اب تو صفیہ بھی نفل پڑھ پڑھ کر تھک چکی ہو گی۔ سو وہ وہاں سے چل پڑے۔ گھر کا دروازہ پہلی دستک پر یوں کھل گیا جیسے صفیہ دہلیز سے ہی لگی کھڑی ہو۔ شاہ صاحب کو بخیریت دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی۔

’’میں تو پریشان ہو گئی تھی۔ اتنی دیر تو آپ نے کبھی نہ کی۔ ‘‘

’’بھئی اندر آنے دو تو بتاتا ہوں کہ کیا ہوا؟‘‘شاہ صاحب بشاشت سے مسکراتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور صفیہ ان کے کرسی پر بیٹھتے ہی پانی کا گلاس لے آئی۔

’’نہیں بھئی۔۔۔ سردی سے قلفی جم رہی ہے۔ چائے چاہیئے۔ پر ایسا کرو کہ پہلے کھانا ہی لے آؤ۔ ‘‘

’’ہاں ضرور۔۔۔۔۔ تیار ہی ہے۔ ‘‘وہ کچن کی طرف دوڑی۔ کھانے اور چائے کے بعد اس نے پھر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ انہوں نے سب تفصیل بتائی تو وہ ہنس پڑی۔

’’لو۔۔۔ بس یہ بات تھی۔ وہیں سردی میں کھڑے ہونے کی کیا ضرورت تھی۔ صبح دے دینا تھا تھانے میں۔ پر پہلے کھول کر دیکھ لو کہ شاید کوئی پتہ وغیرہ مل جائے۔ ‘‘

شاہ صاحب نے اب کے ایک مرتبہ پھر اسے کھولا۔ خوب دیکھا بھالا۔ سوائے لفافے کے بریف کیس میں کچھ بھی نہ تھا۔ رقم گڈیوں کی صورت میں تھی اور وہ پورے تین لاکھ تھی۔

’’ہائے اتنی بڑی رقم کوئی ایسے ہی پھینک گیا؟‘‘

’’تبھی تو بیوقوفوں کی طرح بیٹھا رہا اتنی دیر۔ ‘‘شاہ صاحب نے کہا۔

’’اچھا کیا۔۔۔۔ پر اب ان کا کیا کرو گے؟‘‘اس نے تجسس سے پوچھا۔

’’بھئی کرنا کیا ہے؟صبح تھانے میں جاؤں گا اور ذمہ داری ختم۔ ‘‘

’’اب اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ تھانے والے مالک کو ڈھونڈ کر پوری رقم ادا کر دیں گے، تو تم بہت بھولے ہو۔ ‘‘

’’ہاں کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ پر اب اس کے سوا اور راستہ کیا ہے؟اور یوں بھی خواہ مخواہ کی بدگمانی اچھی نہیں ہوتی۔ پولیس میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ ‘‘شاہ صاحب نے اسے سمجھایا۔

’’ہاں ہاں۔۔۔ بدگمان تو میں ہی ہوں۔ ساری دنیا تو جھک مارتی ہے نہ۔ اور یہ جو پولیس کی رشوت کے قصے ہیں ان کا کیا؟میں تو کہتی ہوں کہ اللہ نے ہماری بچی کی شادی کے لئے غیبی مدد کی ہے۔ یاد ہے کہ کل ہی تو تم دعا کر رہے تھے کہ اگر تین لاکھ مل جائیں تو سارا مسئلہ حل ہو جائے۔ دیکھ لو پورے تین لاکھ ہیں۔ ‘‘

شاہ صاحب جھلا گئے۔

’’صفیہ مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ ٹھیک ہے کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ پر اگر اللہ کو دینے ہوں گے تو وہ جائز طریقے سے دے گا، جنہیں میں سر اٹھا کر وصول کر سکوں۔ کہ یہ میرے مالک کی عنایت ہیں۔ ان کو لینے سے تو میں اپنے آپ سے بھی نظر نہ ملا سکوں گا۔ ‘‘

صبح دفتر جانے سے پہلے شاہ صاحب نے پیسے تھانے میں جمع کروا دیے۔ تھانے والوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ مالک کو ڈھونڈنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اور ساتھ میں ان کی ایمانداری کی تعریف بھی کی۔ دفتر میں سارا دن کوئی خاص بات نہ ہوئی سوائے اس کے کہ ایک ٹھیکیدار نے اپنی فائل چلانے کے عوض انہیں تین لاکھ روپے رشوت کی پیشکش کی۔ شاید وہ نیا آیا تھا۔ ورنہ محکمے میں سب جانتے تھے کہ شاہ صاحب غلط کام کسی بھی قیمت پر نہیں کرتے اور رشوت تو ناممکن۔ گھر پہنچے تو ان کی بیٹی رابعہ کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ صفیہ بھی مسکرا رہی تھی۔

’’ارے بھئی کیا ہوا؟آج تم دونوں بہت خوش ہو۔ ‘‘

’’ابو۔ آپ سنو گے تو یقین نہیں کرو گے۔ پتہ ہے۔ آج گھی کا ڈبہ کھولا تو اس میں سے ہمارا انعام نکل آیا ہے۔ پورے تین لاکھ۔ ‘‘رابعہ نے خوشی سے بتایا۔

شاہ صاحب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ سیدھے گئے اور سجدے میں گر گئے۔ وہ رو رہے تھے اور آہستہ آہستہ کہ رہے تھے۔

’’اے خدا !  میری آزمائش کب ختم ہو گی؟ کیا میری پوری زندگی بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ مجھے تیری محبت کے سوا کچھ نہیں چاہیئے۔ پھر یہ ابتدائے سفر والے سراب کیوں دیکھ رہا ہوں میں؟‘‘

وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ آخر ان کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟پھر انہیں یاد آیا کہ’ ’جو دل خواہش کرے گا اللہ اسے آزمائش میں مبتلا کر دے گا۔ ‘‘

یہ خیال آتے ہی دل کو ذرا اطمینان ہو گیا۔ انہوں نے ایک مادی چیز کی فرمائش کر کر غلطی کی تھی۔ پر اب انہیں اس آزمائش میں کامیاب ہونا تھا۔ وہ کمرے سے نکلے تو رابعہ کا چہرہ اب تک چمک رہا تھا۔ وہ سمجھی کہ ابا سجدہ شکر ادا کر رہے تھے۔

’’بیٹی۔۔۔ ہم یہ پیسے نہیں رکھ سکتے۔ یہ جوا، لاٹری وغیرہ اسلام میں جائز نہیں ہیں۔ ‘‘

رابعہ کو لگا کہ ابا مذاق کر رہے ہیں۔ صفیہ البتہ انہیں اچھی طرح جانتی تھی۔ اس نے انہیں نرم کرنے کے لئے کہا۔

’’آپ صحیح کہ رہے ہو، پر ہم کہاں جوا کھیلنے کے واسطے گئے ہیں؟اور گھی تو وہی ہے جو ہم برسوں سے استعمال کر رہے ہیں۔ اب اگر اس میں سے انعام نکل آیا ہے تو رکھنے میں کیا حرج ہے؟ کیا خبر کہ خدا نے اسی راستے سے ہماری مدد کی ہو؟‘‘

’’نہیں صفیہ بیگم۔۔۔ اللہ کی مدد ایسے راستوں سے نہیں آتی۔ یہ تو آزمائش ہے ہمارے لئے۔ ‘‘

’’پر ہم نہیں لیں گے تو یہ رقم اس غیر ملکی کمپنی کے پاس پڑی رہ جائے گی۔ آپ یہ بھی تو سوچو۔ ‘‘

’’یہ جہنم کا ایندھن انہی کے پاس رہے تو اچھا ہے۔ ‘‘شاہ صاحب کے لہجے میں قطعیت تھی۔

’’اچھا تو پھر کسی غریب کو ہی دے دیں۔ یونہی تو اسے ضائع نہ کریں۔ ‘‘صفیہ نے آخری اپیل کی۔

’’جو میں اپنے لئے حرام سمجھتا ہوں اسے اپنے بھائیوں کو کیسے دے دوں؟‘‘

اس کے بعد اس موضوع پر بات نہیں ہوئی۔ صبح مسجد میں فجر کے بعد نکلنے لگے تو آغا صاحب نے شانہ پکڑ لیا۔

’’شاہ صاحب کیا جلدی میں ہو؟‘‘

آغا صاحب بڑے نیک دل بزرگ تھے۔ ان کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔ اور دل ایسا تھا کہ ہمیشہ غریبوں کے لئے تڑپتا رہتا۔ کئی بیواؤں اور یتیموں کے مہینے لگا رکھے تھے۔

’’ارے نہیں آغا صاحب۔ جلدی کاہے کی۔۔۔ بس گھر جا رہا تھا۔ ‘‘

’’اچھا بیٹھو تو ایک منٹ کو۔ ‘‘

دونوں ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھ گئے۔ آغا صاحب نے کہا۔

’’آپ کی ایک امانت ہے ہمارے پاس۔ بس وہ آپ کو دینا چاہتے ہیں۔ ‘‘

’’امانت؟‘‘شاہ صاحب کا لہجہ استفہامیہ تھا۔

’’آغا صاحب نے ایک چھوٹا سا لفافہ ان کی طرف بڑھایا۔ اس میں تین لاکھ کا چیک ہے آپ کے لئے۔ ‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘شاہ صاحب گڑبڑا گئے۔

’’مجھے پتہ ہے کہ آپ حیران ہو رہے ہو گے۔ قصہ یہ ہے کہ رات سوتے ہوئے ایک بزرگ کو خواب میں دیکھا۔ انہوں نے مجھے تاکید کی کہ آپ کو تین لاکھ روپے دے دیے جائیں۔ سو میں حاضر ہو گیا۔ ویسے خیریت تو ہے نہ؟‘‘

’’مگر مجھے صدقات۔ زکواۃ سے کیا لینا دینا۔ مجھے یہ پیسے نہیں چاہیں۔ ‘‘شاہ صاحب نے لفافہ واپس کر دیا۔

’’آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ تو ایک تحفہ ہے، اسے ہدیہ عقیدت جانیں۔ اور پھر دولت کی حیثیت ہی کیا ہے؟اور اگر ایسا ناکارہ آلہ خدا کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے تو پھر اور کیا چاہیے؟‘‘

شاہ صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ وہ جانتے تھے کہ آغا صاحب بڑے نیک شخص ہیں اور ان کی آمدنی بھی غالباً حلال پرہی مشتمل تھی۔ کوئی شرعی عذر بھی مانع نہیں تھا۔ پر دل نہیں مان رہا تھا۔ یہی انہوں نے آغا صاحب سے بھی کہ دیا۔

’’شاہ صاحب۔۔۔ اگر خدا کی رحمت دروازے پر دستک دے تو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘

’’میں یہ رقم نہیں لے سکتا۔ اس پر میرا کوئی حق نہیں بنتا۔ ‘‘

’’بندے کو کیا سمجھ کہ حق کیا ہے؟اور پھر بندے کا حق ہے ہی کیا؟سب تو اس کا فضل ہی ہے۔ تو پھر اللہ کی رحمت سے کیسا شرمانا؟‘‘آغا صاحب نے پھر سمجھانے کے انداز میں کہا۔

’’نہیں۔۔۔ میرا دل نہیں مانتا اور حکم ہے کہ جہاں شک ہو اسے چھوڑ دو۔ ‘‘شاہ صاحب کے لہجے میں قطیعت تھی۔

آغا صاحب جھلا گئے۔

’’بھئی مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ خدا آپ کی مدد کس طرح کرے؟ یہاں دنیا میں ہر کام وسیلوں سے ہی ہوتا ہے اور آپ ٹھہرے اس درجہ شکی مزاج۔ مجھے تو لگتا ہے کہ اگر خدا خود بھی زمین پر آ کر آپ کو یہ رقم دے تو بھی آپ نہ لینے کا کوئی نہ کوئی بہانہ بنا ہی لو گے۔ ‘‘

’’بالکل ایسا ہی ہے۔ کیونکہ وہ زمین پر آ ہی نہیں سکتا۔۔۔۔ جب کوئی آنکھ اسے دیکھ نہیں سکتی۔ اس جیسی کوئی شئے ہی نہیں۔ تو پھر وہ بھلا زمین پر کیسے آ سکتا ہے۔ ضرور یہ نظر کا دھوکا ہی ہو گا۔ ‘‘

آغا صاحب نے ان کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھا اور اپنا لفافہ اٹھا لیا۔

’’شاہ صاحب میں تو آپ کو سمجھدار آدمی سمجھتا تھا پر اب لگتا ہے جیسے آپ کو پیسوں کی ضرورت ہی نہیں۔ اور میں اس بندے کے بارے میں کیا کہوں جو اللہ کو آزمانے چلا ہے۔ ‘‘یہ کہ کر وہ چلے گئے۔

شاہ صاحب تھکے تھکے  قدموں سے گھر کی طرف چل پڑے۔ وہ کافی پریشان ہو گئے تھے۔ سوچ رہے تھے

’’کیا واقعی میں رقم چاہتا ہی نہیں؟کیا واقعی میں اپنی بیٹی سے اس کی خوشیاں چھین رہا ہوں؟کیا واقعی میں نے کفران نعمت کیا ہے؟‘‘

ان کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ سوچ رہے تھے کہ اگر ایسا رہا تو پھر تو چاہے چھت پھاڑ کر سونے کی بارش ہو جائے یا پھر گہری زمین سے دفینہ مل جائے۔ وہ کبھی بھی رقم حاصل نہ کر پائیں گے۔

’’اے اللہ مجھے سیدھا راستہ دکھا۔۔۔ ‘‘انہوں نے بڑی بے بسی سے دعا کی۔

وہ گھر میں آئے اور چارپائی پر لیٹ گئے۔ عموماً وہ بڑے مطمئن قسم کے انسان تھے۔ اس لئے صفیہ انہیں سوچتا دیکھ کر فکرمند ہو گئی اور پوچھنے لگی کہ کیا ہوا؟انہوں نے سارا واقعہ بلا کم و کاست بیان کر دیا۔

صفیہ نے ان کی ڈھارس بندھائی کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ سو انہیں پریشان ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔

’’پر صفیہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کیوں مجھے کسی با وقار اور جائز طریقے سے پیسے نہیں مل سکتے۔ اب دیکھو وہ میرے بھتیجے۔۔۔۔۔ وہ دے دیں میرے پیسے، دفتر والے بغیر رشوت کے پروسیس کر دیں میری فائل کو، کوئی ادھار بھی تو دے سکتا ہے؟پھر آخر یہ راستے ہی کیوں اگر واقعی میری مدد مطلوب ہے؟‘‘

’’شاید اس لئے کہ فیصلہ کرنے میں اللہ نے ہمیں آزادی دے رکھی ہے۔ آپ کے بھتیجے، ادھار نہ دینے والے اقارب اور رشوت مانگنے والے کلرک اتنے خوش قسمت کہاں ہیں کہ وہ رضائے الہی کا ذریعہ بن سکیں۔ جس شئے کی سطح ہی شفاف نہ ہو اس کے سامنے آپ جیسا بھی وجود رکھ دو، وہ دھندلا ہی نظر آئے گا۔۔۔۔ وہ تو اپنی اپنی اناؤں کے الجھاووں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ میں آپ جیسے شخص کی بیوی ہوں۔۔۔۔ اور سوچئے کہ رابعہ بھی تو ہماری بیٹی ہے۔ آپ اس کی طرف سے زیادہ پریشان نہ ہوں۔ پتہ ہے وہ کل مجھے کہ رہی تھی کہ اگر اس کی شادی سادگی سے ہو گئی تو وہ زیادہ خوش ہو گی۔ ‘‘صفیہ نے کہا

’’پر اس کے سسرال والے کہاں مانیں گے؟‘‘شاہ صاحب گڑبڑا گئے۔

’’میں خود بات کروں گی ان سے۔ اپنی پریشانی بتاؤں گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھلے لوگ ہیں اور ہماری مجبوری سمجھیں گے۔ اور سچ پوچھیں تو اگر وہ واقعی ضد کرتے ہیں تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمیں اپنی بیٹی کا ہاتھ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دینا چاہیے۔ ‘‘

’’صفیہ بیگم۔۔۔ سچ بتاؤں تو تم نے میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ نیک عورت واقعی دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ تم صحیح کہتی ہو۔ ویسے بھی ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ میں کل پھر بھتیجوں کے پاس جاؤں گا اور پینشن کی فائل بھی جمع کروا دوں گا۔ میرے خیال میں ان گم کر دہ راہ روحوں کو بھی نیکی کرنے کا ایک اور موقع ملنا ہی چاہیے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے شاہ صاحب کا چہرہ پر امید اور آنکھیں شکر سے لبریز تھیں۔

٭٭٭

 

 

 

آشنا لمحوں کے بیچ اجنبی مسافر

 

 

برسوں پہلے کا ایک دور افتادہ ریلوے اسٹیشن۔ بھاپ کے انجن کے پیچھے بھاگتی ایک ریل یہاں دم لینے کو رکی۔ اسے یہاں بہت تھوڑی دیر رکنا تھا۔ اتنی تھوڑی دیر کہ اپنے باغ کے سب سے اونچے پیڑ پر چڑھ کر اسے حسرت سے دیکھنے والے کا اس تک پہنچنا مشکل تھا۔ پھر بھی وہ درخت کے موٹے، کھردرے تنے پر مضبوطی سے ہاتھ جماتا،  تقریباً پھسلتا ہوا نیچے آ گیا۔ دوڑا دوڑا گھر کے اندر گیا۔ ایک میلی سی، بڑی چارد میں اس نے دو جوڑے کپڑے رکھے، گھٹڑی کی صورت باندھا اور ایک لمبی چھڑی کے سرے پر ٹکا لیا۔ چھڑی کو کاندھے سے ٹکایا، پیروں میں کھسہ پہنا، ایک لمبی سانس لی اور چل پڑا۔ نجانے کیوں اس کے دہلیز پر قدم رکھتے ہی صحن میں چارے کو منہ مارتی گائے نے چہرہ اٹھایا جس سے اس کے گلے میں پڑی گھنٹی بولی

’’رک جاؤ‘‘

’’نہیں میری پیاری دوست۔ مجھے بھاپ اڑاتے انجن کے ساتھ بہت دور جانا ہے۔ اس گاؤں کے آخری کھیت سے بھی دور۔ ‘‘

اس نے پہلا قدم بڑی آہستگی سے باہر رکھا جیسے باد صبا سے لہکتے ٹیولپ ایک دوسرے کو چھوتے ہیں، دوسرا قدم ذرا تیز جیسے کوئی بھونرا کچھ خیال ذرا بے خیالی میں کسی گلاب سے ٹکرا جائے اور اس کے بعد بہت تیز جیسے آندھیوں میں لمبی گھاس بچھتی ہی چلی جاتی ہے۔

گلی کا موڑ مڑتے ہی ایک بد رنگ سا پردہ سرسرایا اور وہ نجانے کیوں ٹھہر گیا۔ پھر چوکھٹ پر پڑتی برہنہ دھوپ کے تن پر جیسے کسی نے چادر پھینک دی ہو۔ بائیں درز سے ایک چہرے نے جھانکا۔ مت پوچھو کہ بادلوں سے نکلتا چاند اس نے کبھی دیکھا تھا یا نہیں، مت سوچو کہ پھر کیچڑ میں کوئی کنول ہے یا نہیں، مت کہو کہ کوئی خواب ایسا حسیں تھا یا نہیں۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ اس کی آنکھیں جلنے لگیں اور بدن ٹھنڈا پڑ گیا، ہاتھ کانپنے لگے اور پاؤں سن ہو گئے، حلق میں کانٹے چبھنے لگے اور۔۔ نجانے کیوں وہ کھونے لگا؟پھر ریل کا بھونپو سنائی دیا۔

’’اونہہ ! ابھی بہت دیر ہے‘‘

’’نہیں چلو‘ ‘

کوئی جیسے اسے گھسیٹتا ہوا لے گیا اور ان آنکھوں میں کاجل مسکرانے لگا۔ مت پوچھو کہ کاجل کیسے مسکراتا ہے کیونکہ یہ تو شاید وہ بھی نہ بتا سکے جس کے چہرے پر، برف سے چہرے پر ہنستے ہنستے دو لکیریں پڑ گئی تھیں۔ جیسے ابھی وہاں سے دو سانپ گذرے ہوں۔ وہ دونوں شاید بہت جلدی میں تھے جبھی تو چہرہ اب سنسان تھا۔ مگر وہ جلدی میں کیوں تھے؟کیا انہیں بھی کہیں جانا تھا؟

’’ریل میں ‘‘

وہ گلی چھوڑ کر اب کھیتوں کے بیچ میں سے گذرنے لگا۔ گاؤں کے آخری کھیت سے قدم باہر نکالا تو ایک جھاڑی اس کی دھوتی سے لپٹ گئی۔ وہ جتنا کپڑا کھینچتا وہ اتنا ہی الجھتی جاتی، بالکل زندگی کی طرح۔ اس نے زور سے جھٹکا دیا۔ جھاڑی ٹوٹ گئی، دھوتی میں چھید ہو گئے اور کچھ کانٹے تو بہر حال ساتھ لے جانے پڑے۔ پاؤں گھسیٹتا وہ چلتا گیا۔ اسٹیشن پر پہنچا تو بھونپو زور زور سے بجنے لگا۔ وہ بھاگا۔ پلیٹ فارم کی پہلی سیڑھی پر وہ گرا۔ نجانے کیوں۔۔۔۔۔۔۔ جب کہ کیلے کا کوئی چھلکا، کوئی پتھر، کوئی نکلی ہوئی پتری کچھ بھی نہ تھا۔ ریل تھوڑا سا کسمسائی اور منہ سے خاک صاف کرتا، دوڑتا پائدان تک جا پہنچا۔ ریل آہستہ آہستہ پھسلنے لگی۔ پائدان پر کھڑے اس نے فخر سے دیکھا۔

’’یہاں سے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ نہ میرا باغ، نہ گھر کی دہلیز، نہ نکڑ والی چوکھٹ، نہ جھاڑی اور نہ اسٹیشن کی سیڑھیاں۔ ‘‘

ڈبے میں دیکھا تو عجیب سے چہرے نظر آئے۔ دھلے دھلے بے سلوٹ چہرے۔ جیسے سب چہروں نے کفن پہن رکھے ہوں۔ ریلوے لائن پر بکھرے تیل سے اسے کافور کی بو آنے لگی۔ ریل اب تیز ہو رہی تھی۔ مت پوچھو کہ کسی نے اسے دھکا دیا یا وہ خود کود گیا۔ بہرحال اگلے لمحے پتھروں پر لوٹتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اسٹیشن سے باہر نکلا تو پہلی سیڑھی کا کونا ٹوٹا ہوا تھا، اس پر ایک پتھر بھی پڑا تھا اور کیلے کا چھلکا بھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں پھر بھی نہیں گرا۔ میں نہیں کہ سکتا کہ وہ گرنا چاہتا بھی تھا یا نہیں؟کھیتوں میں داخل ہوا تو ذرا راستہ چھوڑ کر جھاڑیوں سے گزرا مگر کسی نے اس کا دامن نہیں پکڑا، نکڑ کا پردہ خاموش تھا جیسے طوفان سے نکلنے کے بعد جہاز کا مستول پرسکون ہوتا ہے۔ گھر کی دہلیز پر آیا تو گائے نے گردن اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ایک پل میں وہ کتنا اجنبی ہو گیا تھا۔ پھر یوں لگا جیسے دور ریل بھونپو بجا رہی ہو۔ وہ دوڑتا ہو کمرے میں گیا۔ گھٹڑی رکھی اور باغ میں اسی اونچے درخت پر چڑھ گیا۔ اسٹیشن پر اب کوئی ریل نہ تھی مگر وہ دیکھتا رہا۔ مت پوچھو کہ کیوں۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

میلا کپڑا

 

وہ ایک عجیب آدمی تھا۔ دمکتی کاروں کے شہر میں میلا کپڑا لئے گھومتا تھا۔ اور جب کوئی کار ایک لحظہ کو رکتی تو وہ بکھرے بالوں اور گندے ہاتھوں والا شخص کپڑا لئے نمودار ہوتا۔ بالکل اچانک اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سوچتا وہ سکرین پر کپڑا پھیرنے لگتا۔ کار والا باہر منہ نکال کر غصے سے دیکھتا تو بڑی ڈھٹائی سے دانت نکال دیتا۔ یقیناً بڑے بڑے بورڈ لکھوانے والے ڈاکٹروں کو سیکھنا چاہئے کہ وہ کتنی آسانی سے بغیر تکلیف کے دانت نکال دیتا تھا۔ مگر نہیں۔۔۔۔۔ تکلیف تو شاید بہت ہوتی تھی تبھی تو رات اس کی چارپائی سے سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔ بہت ملتی جلتی تھی اس کی تکلیف اس مریض سے جسکا آپریشن تو اینستھیزیا کے زیر اثر ہو گیا ہو اور اب سارے درد گم گشتہ کے قافلے فصیل جسم تک آ پہنچے ہوں۔

میرا اس سے رشتہ کیا تھا؟شاید صرف بھوک کار شتہ۔ میں اس کے ساتھ صرف اس لئے تھا کہ وہ مجھے روٹی دیتا تھا اور اسکول کی فیس کے لئے پیسے بھی۔ ہاں یہ سر چھپانے کی کٹیا اور بستر بھی اسی کا تھا پر میں ان کے بغیر بھی گذارا کر سکتا تھا۔ کہنے کو تو لوگ اسے میرا باپ کہتے تھے مگر مجھے کبھی اس کا یقین نہیں آیا۔ کیونکہ کبھی کسی تنہائی میں اس نے مجھے سینے سے نہیں لگایا، کبھی میرے لئے کوئی خواب نہیں دیکھا۔ وہ تو بس جیسے شیشوں کا باپ تھا۔ جن سے اسے واقعی محبت تھی۔ وہ اسی محبت سے سامنے کے جوہڑ میں اپنے کپڑے کو دھوتا تھا جس سے  کوئی ماں اپنے بچے کے گندے بستر کو صاف کرتی ہے۔ وہ گھنٹوں جوہڑ کے کنارے اکڑوں بیٹھا  اسے دیکھتا رہتا جیسے کسی دن وہ بڑا ہو جائے گا۔ اتنا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے خوابوں کی تکمیل کر سکے۔ اس کے خواب کیا تھے؟ مجھے خبر نہیں۔ شاید اس کے کاندھے سے ٹکا کپڑا کچھ جانتا ہو۔

میٹرک کے بعد کالج کی فیس کے لئے اس سے پیسے مانگے تو اس نے کپڑے کا ا یک چھوٹا ٹکڑا مجھے تھما دیا۔ اس کی آنکھوں میں اس دن بڑی بے اطمینانی تھی۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو اس نے فوراً  رخساروں کی لگامیں کھینچ کر دانت نکال دیے۔ میں اس حربے سے کیا پگھلتا۔ اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا اور باہر نکل آیا۔ باہر نکلا تو دنیا بدلی نظر آئی۔ آسمان جو کل تک سائبان لگتا تھا آج بہت اونچا ہو گیا۔۔۔۔۔ ناقابل حصول۔۔۔۔ زمین جسے ماں کے ہاتھوں کی طرح نرم ہونا چاہیے تھا باپ کی لاٹھی کی طرح کھردری تھی۔ خیر مجھے کیا غم۔ پڑھا لکھا تھا۔ میں اپنی دنیا آپ بنا سکتا تھا۔ وہ ایک دن کیسے گذارا، میں کہاں کہاں گیا۔ یہ سب یاد اس لئے نہیں کہ اس شام عہد کر لیا تھا کہ میں اسے بھول جاؤں گا۔ وہ صبح کا اپنی دنیا تراشنے نکلا اس اداس شام کو بھول کر اپنے ہی گھر آ گیا اور میرے گھر سے اب صرف ایک راستہ نکلتا تھا۔ دمکتے شیشوں اور میلے کپڑے کا راستہ۔

اس رات میرے باپ کے گھر میں ایک بچہ مر گیا اور ایک جواں مرد پیدا ہوا۔ جنم ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ میں بھی اس رات بہت تکلیف میں تھا۔ میں ہر اس شئے سے لڑا جس پر میرا ذرا بھی حق تھا۔ اس کٹیا سے، خود سے، اس باپ سے، اپنے مقدر کا احاطہ کئے ہوئے بے پناہ اندھیروں سے۔ کسی نے میرے نوکیلے سوالوں کا جواب نہیں دیا مگر باپ نے پہلی بار ایک سوال ضرور پوچھا۔

’’کیا کر لو گے اگر چار حرف پڑھ بھی لو؟‘‘

’’میں جانور نہیں رہنا چاہتا۔ مجھے سمجھنا ہے دنیا کو‘‘

اس کی آنکھوں میں شدید کرب اترا، کسی بڑے پھل والے چاقو کی طرح۔ مگر آنسو، کوئی قطرہ خون نہیں نکلا۔ کیونکہ لاشیں خواہ کتنی صحت مند نظر آتی ہوں ان میں خون نہیں ہوتا۔ اس کے آنسو بھی بہت پہلے کے خشک ہو چکے تھے۔ اس نے سر کو زور زور سے ہوا میں موجود ان دیکھی دیواروں سے ٹکرایا اور وہی کپڑے کا ٹکڑا میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ جیسے وہ میرے سوال کا جواب ہو۔ اتنے سمجھدار سوال کا ایسا بے معنی جواب۔ مگر دن بھر میں دل کچھ ایسا ٹوٹا تھا کہ یہی بے معنی جواب میں اپنی پوٹلی میں باندھ کر اگلی صبح گھر سے نکل آیا۔

چوک پر پہنچا تو قدم بھاری ہو رہے تھے، بھیگی پیشانی ایک عجیب آگ میں جل رہی تھی، تھوک نگلنا چاہا تو لگا جیسے اس کے سب سوتے ہی خشک ہو گئے ہوں۔ بیسیوں گاڑیاں لمحوں میں میری آنکھوں کے سامنے گذر رہی تھیں۔ ایک سے ایک چمکتی۔ ہر گاڑی میں دھلے دھلے پاکیزہ چہرے تھے۔ ایک نظر ہاتھ میں دبے میلے جوہڑ سے دھلے اس کپڑے پر ڈالی جسکے ایک کونے میں کسی جونک نے پنجے گاڑ رکھے تھے اور دوسرے کونے پر گھاس کے چند تنکے ایک دوسرے سے جکڑے ہوئے تھے۔ اتنی شفاف دنیا میں ایک بے روزگار کیا کرے؟کیوں نہیں بنا دیتا  مالک کیچڑ کی سڑکیں۔ ہزاروں لوگوں کو روزگار تو ملے گا۔ میں واپسی کو مڑا جبھی ایک چمکتی گاڑی قریب آ کر کھڑی ہوئی۔ جس میں سے ایک موٹے سے سفید چہرے والے شخص نے دو روپے کا نوٹ میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔

’’ذرا کپڑا مار دو‘‘

میں نے بڑی حیرانی سے ایک نظر اپنے کپڑے پر ڈالی اور دوسری دو روپوں پر۔ زیادہ سوچا نہیں اور چمکتی ونڈ اسکرین پر کپڑا مارا۔ حیرت کے مارے میری چیخ نکلنے لگی۔ بدبو کا ایک بھبھکا میرے ناک سے ٹکرایا۔ کپڑے پر اتنی میل اس شیشے سے اتری  یا اس چہرے سے جو شیشے کے پیچھے تھا۔ شفاف شیشوں اور دھلے چہروں کی اس دنیا میں مجھے اس وقت سب سے پاکیزہ چیز وہ میلا کپڑا نظر آ رہا تھا یا پھر بکھرے بالوں اور گندے ہاتھوں والا وہ بوڑھا شخص جو اپنی گرد بھری آنکھوں سے بہت دور تک دیکھ سکتا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

ایک تصویر

 

 

نیو یارک کی ایک شام تھی اور میں ان آوارہ گردوں کی طرح جنہیں وقت گزارنے کا کوئی بہتر مصرف میسر نہیں ہوتا، سڑکوں پر تھا۔ اتنے بڑے شہر میں جہاں قدم قدم پر کسی سے ٹکرانے کا خوف موجود ہوتا ہے ہمیں خبر ہوتی ہے کہ تنہائی کس قدر بھیانک شئے ہو سکتی ہے۔ پھر جیسے راستے میں بیکار چلتے ہوئے کوئی کسی پتھر کو ٹھوکر لگاتا ہے یا کسی جھکی ٹہنی کو کھینچ لیا جاتا ہے (جھکے ہوؤں کو اور جھکانا کیا خبر کیا معانی رکھتا ہے ہمارے لئے)۔ میں سڑک کنارے بیٹھے ایک مصور کے قریب رک گیا۔ یوں تو اس شہر میں ایسے بہت سے لوگ ملیں گے اور زیادہ تر یہ لوگ چائنیز یا جاپانی ہوتے ہیں مگر یہ والا کوئی یورپی تھا۔ یہ دوسروں سے ذرا الگ بیٹھا تھا۔ اس کے بال خاصے بڑے اور میلے تھے۔ بادی النظر میں تو میں نے اسے ناپسند ہی کیا۔ مگر زندگی میں بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو ہم ۔۔ بس کرتے ہیں۔ کسی بھی وجہ کے بغیر۔ خیر میں اس کے سامنے رکھے چھوٹے سے اسٹول پر بیٹھ گیا، کسی بت کی طرح ساکت اور وہ لگا اپنی پینسل سے لکیریں کھینچنے۔

یہ کام خاصا طویل اور صبر آزما تھا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنے کام میں مگن تھا۔ ایسے میں ایک اطالوی عورت گذری۔ اس نے ایک نظر میرے چہرے پر ڈالی اور ایک نظر پورٹریٹ پر، پھر نجانے کیوں اس کے چہرے پر ایک حیران آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں تھوڑا سا گھبرا گیا، مگر بہر حال انتظار کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔

خاصی دیر گزر گئی۔ میرے جبڑے مجھے منجمد سے محسوس ہونے لگے۔ پھر میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ سخت سست کہتا اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا

’’بس ہو گئی مکمل‘‘

اب کچھ کہنے سننے میں کیا رکھا تھا۔ میں نے تصویر کو گھما کر سامنے کیا اور غصے کی ایک شدید لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ وہاں کوئی تصویر نہ تھی۔ بس بہت سی آڑھی ترچھی لکیریں اور گول دائرے تھے۔ اتنے زیادہ کہ آپس میں ضم ہوتے دکھتے تھے۔

’’کیسی لگی جناب!  ‘ ‘ اس نے معصومانہ لہجے میں پوچھا۔ جیسے کسی بچے نے بڑی محنت سے کوئی سوال حل کر لیا ہو۔ اس کے چہرے پر اتنی حسرت تھی کہ مجھے لگا اگر میں نے کچھ کہا تو اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹ جائے گا۔

میں نے بے دلی سے سر ہلایا اور جیب سے اس کی مطلوبہ رقم نکال کر اسے دے دی اور چلنے لگا۔

’’ارے کہاں چل دیے؟ اپنی تصویر تو لیتے جایئے‘‘ اس نے جلدی سے اسے میرے ہاتھ میں تھما دیا۔

مجھے لگا جیسے وہ میری تضحیک کر رہا ہو۔ مگر اس کی آنکھوں میں ابھی تک وہی معصومیت تھی۔ اس لئے میں نے تصویر تھامی اور چل پڑا۔ سڑک کے کنارےwalk-signalکے انتظار میں رکا تو ساتھ کھڑی بوڑھی عورت ہنسی یا کھانسی۔ صحیح طور پر اندازہ لگانا مشکل تھا، مگر مجھے اپنے جسم میں چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہونے لگیں۔ تصویر بہت بھاری لگ رہی تھی۔ اشارہ کھلتے ہی میں  تقریباً بھاگ اٹھا۔ سب وے پر جاتے ہوئے بھیڑ کی وجہ سے تصویر کا کونہ کئی لوگوں کو لگا، مگر سب ہی نے جواب میں مجھے مسکرا کر دیکھا۔ وہ مسکراہٹ اس ماں کی مسکراہٹ سے مشابہ تھی جو اس کے چہرے پر بکھر جاتی ہے جب اس کا ننھا سا بیٹا اپنے کپڑے خراب کر لے۔

اپنے اپارٹمنٹ میں آنے کے بعد میں نے تصویر کو ایک کونے میں پھینک دیا، اور دھم سے بستر پر گر گیا۔ میں تھک چکا تھا اور عموماً ایسی حالت میں میں گرتے ہی سو جایا کرتا تھا۔ مگر آج نیند ذرا مشکل تھی۔ کچھ یوں تھا جیسے میرے سوا اور بھی کوئی کمرے میں موجود ہے۔ کوئی ذی روح، کوئی جیسے مدھم مدھم سانس لے رہا تھا۔ میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ چاروں طرف دیکھا، کچن اور باتھ روم بھی چھان مارا۔ کوئی نہ تھا۔

ایسے میں اتفاقا نظر تصویر پر پڑ گئی۔ تو اسے اٹھا لایا۔ لائنیں بہت گنجلک اور بے ربط سی تھیں۔ میں بہت دیر اس تصویر کو دیکھتا رہا جیسے mathematicsکے کسی سنجیدہ مسئلے میں الجھا ہوا ہوں۔ تصویر کو ہر زاویے پر گھما پھر اکر دیکھا، ہر لائن کو نکتہ آغاز سمجھ کر دیکھا۔ اچانک تصویر کے بائیں کونے میں ایک شبیہ دکھائی دی۔ شاید ویسے ہی جیسے بہت دیر بادلوں کو دیکھتے رہیں تو وہ کسی نہ کسی صورت میں ڈھل جاتے ہیں۔ میں نے بڑے تجسس اور لگن سے اسے دیکھنا شروع کر دیا۔ بڑی وجہ غالباً یہی تھی کہ میں اس تصویر سے کچھ نہ کچھ برآمد کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ میری دی ہوئی رقم خیالوں میں آ کر مجھے تنگ نہ کرے اور یار رہے کہ بے احتیاطی سے خرچ کی ہوئی رقم بھوتوں کی طرح ہوتی ہے جو اکیلے پا کر انسان کو ڈراتے ہیں۔ تو بات ہو رہی تھی اس شبیہ کی۔ وہ کوئی نوجوان تھا فربہ سا۔ مگر اس کا چہرہ کیونکہ دوسری طرف تھا اس لئے اندازہ لگانا مشکل تھا۔ بہرحال کچھ تو ہے۔ اطمینان کی ایک لہر میرے اندر دوڑ گئی۔ اب میں نے زیادہ اعتماد سے تصویر کو دیکھنا شروع کیا۔ وہیں اس شبیہ کے نیچے ایک کبوتر کی قبیل کا کوئی پرندہ  پرواز کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اور اس کے انتہائی داہنی طرف ایک نسبتاً جان پہچانا سا منظر تھا۔ حیرت سے میری آنکھیں پھیل گئیں۔ یہ ایک تاریک گلی تھی جس میں ایک سیاہ فام لڑکا کسی لڑکی کو بانہوں میں لئے کھڑا تھا۔ یہ منظر میرے لئے نیا نہیں تھا۔ وہ لڑکی، وہ رات، وہ گلی سب کچھ میں کچھ دن پہلے گھر آتے ہوئے دیکھ چکا تھا۔

ہنہ ۔۔۔۔۔ تو یہ ہے حقیقت۔ اب میرا لاشعور ان لکیروں میں میری یادداشت سے معنی بھر رہا ہے۔ مگر وہ کبوتر، وہ فربہ شخص؟۔۔۔ میں اس کے جال میں نہیں آؤں گا۔ یہ سوچتے ہوئے میں نے تصویر ایک کونے میں ڈال دی اور خود لیٹ گیا۔ اس رات مجھے بہت پرسکون نیند آئی۔ ایسا ہوتا ہے ہر اس وقت جب ہم کوئی وضاحت (جو کم از کم ہمیں مطمئن کر سکے، خواہ وہ کتنی ہی بیکار کیوں نہ ہو) دریافت کر لیتے ہیں۔

وہ صبح عام سی تھی۔ سوائے اس کے کہ ایک کبوتر میری کھڑکی سے کمرے میں آ گیا اور کچھ دیر تک پھڑپھڑاتا رہا۔ پھر یہ جان کر کہ یہ جگہ مستقل رہنے کو صحیح نہیں وہ پرواز کر گیا۔ کتنی آسان ہوتی ہیں کچھ آزمائشیں۔ کمرہ نہیں تو کھلا آسمان سہی۔ مگر ذرا سوچو کہ اگر کسی دن مجھے خبر ہوئی کہ یہ جگہ، یہ زندگی رہنے کو کچھ صحیح نہیں تو میں کہاں جاؤں گا؟تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ میں نے ایک طویل غسل کیا۔ ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ چھتری اٹھائی اور گیراج کی طرف نکل گیا۔ گیراج میں پہنچا تو میرا مالک منہ دوسری طرف کئے کھڑا کاریگروں کو کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ میں لرز سا گیا۔ یہ وہی تھا۔ وہی تصویر کے بائیں کونے والا۔ مجھے سینے میں اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔ میں مڑا اور تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چل پڑا۔ مبادا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ یہ سب کیا تھا؟کیا یہ اس کے الٹا ہے جو میں نے پہلے سوچا تھا۔ یعنی میں جو تصویر میں دیکھتا ہوں وہ زندگی میں ڈھونڈنے کی کوشش کر تا ہوں لاشعوری طور پر؟

مگر۔۔۔ کچھ تھا جو مجھے یقین دلاتا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ میں گھر میں داخل ہوا تو ایک عجیب سا احساس ہوا۔ ایک ایسا احساس جسے بیان کرنے لگوں تو میں اپنی نظروں میں ہی بیوقوف بنوں گا۔ مگر۔۔  بس کچھ یوں تھا جیسے کمرے کی ہر چیز حرکت میں تھی اور میرا دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی سب تھم سے گئے۔ یہ وہی احساس ہے جو کسی بچے کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر ہوتا ہے کہ ضرور کہیں سے شرارت کر کر آ رہا ہے۔ میں نے جلدی سے تصویر اٹھائی اور سامنے رکھ لی۔ اب بائیں کونے پر کوئی کبوتر نہیں تھا۔ میں نے بے اطمینانی سے سب جگہ نظریں دوڑائیں مگر بس وہی بے ربط سی ٹھہری ہوئی لکیریں ہی تھیں۔ پھر کہیں بیچ میں مجھے ایک نکتہ نظر آیا، جس پر غور کر کر ایک ہیولا دکھائی دینے لگا۔ رفتہ رفتہ جو واضح ہو رہا تھا۔ یہ ایک عجیب سا کمرہ تھا۔ جس میں بہت ساری عورتیں تھیں۔ یہ سب کچھ کسی ہسپتال کی انتظار گاہ کی طرح تھا۔ ہر عورت کی گود میں ایک گوشت کا لوتھڑا سا تھا۔ کہیں وہ مرغ کی شکل کا تھا اور کہیں سادہ لکڑی کے تختے جیسا۔ ایک عورت تو ہاتھوں میں تازہ خون لئے اس گوشت پر ڈال رہی تھی اور ساتھ میں آنسو بھی بہا رہی تھی۔ اس کی کوشش میں خلوص اور معصومیت تھی۔ جیسے کسی زخمی کو پٹیوں میں جکڑ دیا جائے یہ سوچ کر کہ ہم موت سے لڑ سکتے ہیں۔ میں نے نظریں ہٹا لیں۔ یہ تصویر ضرور مجھے پاگل کر دے گی۔ مجھے اس سے چھٹکارا پا لینا چاہیے۔

ایسا لگا جیسے تصویر مجھ پر ہنسی ہویا جیسے۔۔۔۔ جیسے اس تصویر سے چھٹکارا پانا ایسا آسان نہ ہو گا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اسے جہاں بھی چھوڑ آؤں تو یہ بلی کے بچے کی طرح پھدکتی ہوئی پھر واپس آ جائے گی اور اگر کسی نے یہ منظر دیکھ لیا(اور کیوں نہ دیکھے بھلا اس بلڈنگ میں رہتا کون ہے ریٹائرڈ  بڈھوں اور آوارہ لونڈوں کے سوا جو سارا دن سٹریٹ پر ہی بھٹکتے رہتے ہیں) تو میرا یہاں رہنا ناممکن سا ہو جائے گا۔ بھلا ایسے شخص کو کون اپنے پڑوس میں برداشت کرتا ہے جس کے دروازے پر اول جلول قسم کی تصویریں پھدک رہی ہوں۔

تو کیا کروں اس کا؟چاقو لے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہیے۔ پر نہیں۔۔۔

کیا خبر خون بہہ نکلے اور اتنا کہ یہ ایک پتلی لکیر کی صورت بیرونی دروازے سے باہر نکل جائے۔ ایسے میں، میں بھلا کیسے وضاحت کرتا اس سب کی۔ مجھے بہت غصہ آیا اس بلڈر پر جس نے اپارٹمنٹ کی ساخت ایسی رکھی تھی کہ فرش کا slopeباہر کی طرف تھا۔ اب فرض کریں کہ اگر یہ کہیں اور مثلاً باتھ روم کی طرف ہوتا تو۔۔ خیر تو بھی شاید اتنا خون دیکھ کر میں ہوش میں نہ رہ سکتا۔

مگر میں یہ کیوں فرض کر رہا ہوں کہ خون ضرور ہی نکلے گا؟ہاں یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عام سی تصویر کی طرح بس کاغذ کے چند ٹکڑے بکھریں اور۔۔ بس۔۔۔۔ جنہیں میں آسانی سے سمیٹ سکتا ہوں۔ مگر۔۔۔ چیخ نکلی تو۔۔۔۔۔ اب ان اپارٹمنٹس کی دیواریں تو گویا کاغذ کی ہیں۔ ایسے میں مجھے کیا سمجھا جائے گا جب میرے گھر سے لڑکی کے چیخنے کی آواز آئے؟کوئی قاتل یا پھر جنسی طور پر نا  آسودہ کوئی جنونی۔ ضروری نہیں کہ چیخ کی آواز لڑکی کی ہی ہو۔ وہ مرد کی بھی تو ہو سکتی ہے۔ یہ تو اور بھی خطرناک ہے۔ میرے چہرے پر شرمندگی پھیل گئی۔

مجھے لگا جیسے اس تصویر کی وجہ سے میں نارمل نہیں سوچ پا رہا ہوں۔ اور اگر یہ حالت قائم رہی تو میں یقیناً پاگل ہو جاؤں گا۔ مجھے جب کچھ سوجھا نہیں تو میں تصویر بغل میں داب کر نکل کھڑا ہوا۔ گھر سے سب وے، سب وے سے down town اور پھر لمبی سڑکوں پر ایک طویل آوارہ گردی۔ کوئی خاص مقصد تو تھا نہیں مگر ایک کھوج جو اس مصور کی تھی وہ ناکام رہی۔ چلتا رہا، سارا دن اور شام کو تصویر بغل میں داب کر واپس آ گیا۔

وہ رات میں صحیح طریقے سے سو نہیں سکا۔ عجیب سے مناظر نظر آتے رہے۔ اگلی صبح کام پر جانے کی بجائے تصویر اٹھا ئی اور پھر نکل کھڑا ہوا۔ یہ سلسلہ کئی دن چلتا رہا۔ اب میرے بال میلے ہو چکے تھے، شیو گھنی ہو گئی تھی۔ خوف اور کراہت کی وجہ سے پھر میں نے تصویر پر نظر نہیں ڈالی تھی۔ چلتے چلتے ایک مصور کی لگی کرسی دیکھی۔ وہ شاید اِدھر اُدھر کچھ کھانے کو لینے گیا تھا۔ میں تھکان اور بے بسی کے عالم میں اسی چھوٹی سی کرسی پر بیٹھ گیا۔

ابھی بیٹھے تھوڑی دیر گذری تھی کہ ایک نوجوان، کہ معصومیت اور بے فکری جس کے چہرے سے عیاں تھی میرے قریب آ کر رکا۔

’’تصویر بن جائے گی؟‘‘

وہ مجھے مصور سمجھ رہا تھا۔ کہنے ہی لگا تھا کہ میں وہ نہیں ہوں کہ اچانک کچھ سوچ کر ٹھہر گیا۔ کرسی اس کے لئے خالی کی۔ وہی تصویر کھولی اور مصور کی رکھی پینسل نکال کر چند اور لکیریں لگانے لگا۔ یہ بے ربط لکیریں کھینچتے ہوئے مجھے لطف آ رہا تھا۔ ایسے میں ایک عورت گذری۔ اس نے حیرت آمیز مسکراہٹ سے تصویر اور نوجوان کو دیکھا اور چل دی۔ میں نے نوجوان کے چہرے پر پریشانی کی لکیریں بنتی دیکھیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا میں نے پینسل نیچے رکھ دی اور تصویر نوجوان کو تھما دی۔ اس کی حیرت دیدنی تھی۔ وہ کچھ کہنے لگا، پھر نجانے کیا سوچ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ پیسے مجھے تھما دیے اور تصویر لے کر رخصت ہو گیا۔ میں بہت دور تک اسے جاتے دیکھتا رہا۔ ایسے میں کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔

’’تصویر بناؤں؟‘‘

میں نے گھبرا کر دیکھا۔ کوئی چینی یا جاپانی تھا اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

’’نہیں شکریہ۔۔۔۔ میں تو خود بھی تھوڑی بہت لکیریں کھینچ لیتا ہوں ‘‘

یہ کہ کر میں وہاں سے چل دیا ایک بہت بڑی آزادی کے احساس کے ساتھ۔

٭٭٭

 

 

 

 

تکون

 

 

مجھے خواب دیکھنے کی سزا ملی ہے اور یہ سزا کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ میرے خون میں شامل ہے، مجھے ورثے میں ملی ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کون تھا جس نے پہلا خواب دیکھا(اور وہ خواب اس طلسم کدے کی تخلیق ہی ہو سکتا ہے) ، مجھے نہیں پتہ وہ کون تھا، میں خود جس کے خواب کی تکمیل میں شامل ہوں۔ اور میں تو ہزاروں خوابوں کی تکمیل میں شامل ہوں۔۔۔۔ وہ خواب جو میرے چاہنے والوں نے دیکھے، وہ خواب جو بہت بیگانوں نے دیکھے، وہ خواب جو پہلا خواب تھا، وہ خواب جو آخری خواب ہو گا۔

میں بہت سے خوابوں کو مکمل کرتا ہوں مگر اس اتنے بڑے خواب کدہ میں میری جگہ کہاں ہے؟ایک خواب کے خواب کی جگہ ڈھونڈنی ہے مجھے۔ اس لئے نہیں کہ میں بہت خود غرض ہوں بلکہ کچھ یوں ہے کہ اس کے بنا وہ خواب مکمل ہی نہیں ہوتا۔ میں کیوں پاگل ہو رہا ہوں اس تکمیل کے لئے جو میری نہیں، اس منزل کے لئے بھاگتا کیوں ہوں جسے نجانے کتنے زمانے پہلے کسی نے سوچا تھا اور جسے نجانے کتنے زمانوں کے بعد میرا کوئی جانشین شاید چھو لے۔ اور کتنا بے معنی، کتنا لاحاصل ہو گا اس منزل کو پا لینا جو اس کی نہ ہو۔ کتنا عجیب ہو گا وہ منظر جب خواب حقیقت بن جائیں اور خواب دیکھنے والے کی ہڈیاں مٹی میں مل کر محض خیال۔

مجھے زندگی کسی محبت کرنے والے کے تحفے کی طرح نہیں، کسی مخیر کی خیرات، کسی محسن کے احسان کی طرح ملی ہے۔ اور بہار کے پھول کی طرح میں آزاد نہیں تھا کھلنے کے لئے۔ میں بہت مجبور تھا۔ جب جب فطرت سے مجبور ہو کر میں نے کوئی آرزو کی میری ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ جب جب خواہشوں کی رنگیں تتلیاں چھونے نکلا میرے بابا کی پیشانی پر سلوٹیں اور گہری ہو گئیں۔ مجھے لگا اس ایک لمحے میں وہ بہت بوڑھا ہو گیا ہے۔ کیسے بھاگتا میں کسی سراب کے پیچھے جب کہ میرے سارے چاہنے والے اس ڈوبتی کشتی میں سوار تھے جس کے سوراخ کو میں نے اپنے ہاتھوں سے بند کر رکھا تھا اور اگر میں ایک لمحے کی غفلت کرتا تو میری یہ حقیقت بھی سراب بن جاتی۔

میں جانتا تھا کہ میں یہاں سے کہیں نہیں جا سکتا مگر کمبخت دل بہت مچلتا تھا۔ کبھی کبھی سوچتا یہ خواب تو بہت قریب ہے۔ اسے تو ہاتھ بڑھا کر چھولوں مگر ہاتھ اٹھا تا تو کشتی زیست میں پانی بھرنے لگتا اور میری ماں ایک بے نام نظر سے مجھے دیکھتی۔ اس کی آنکھوں میں کوئی التجا، اس کے چہرے پر کوئی سوال نہ ہوتا۔ مگر آنکھوں سے دور، چہرے کے پیچھے بس کوئی بہت اداس ہو جاتا اور میں سوراخ کو اور بھی مضبوطی سے بند کر لیتا۔

اس کی حفاظت کرتے میں بہت بار تھکا۔ اس دن جب برفیلا پانی نوکیلے کیلوں کی طرح میرے ہاتھوں میں گڑ گیا، جب گرم ہوا میری آستینوں میں آگ کی بھٹی سلگانے لگی۔۔۔۔۔ مگر تھوڑی دیر چیخنے کے بعد میرے اندر کی ماورائی طاقتیں بیدار ہو جاتیں۔ جیسے بھاری برسات سے جنگل کی آگ بجھ جاتی ہے۔ مگر جب بھی کوئی خواب پانی کے بلبلے کی طرح ٹوٹتا تو میرے اندر بہت اداسی اتر آتی اور پھر کوئی قوت مجھے بہلا نہ سکتی۔ بس ماں میرا سر اپنے گھٹنوں پر رکھتی اور اس کی آنکھوں سے دو سرد سے آنسو میرے چہرے پہ گرتے اور ہر آگ بجھ جاتی۔ میں اسے رلانا تو نہیں چاہتا تھا پرکیا کرتا؟۔۔۔۔ جلتا ہی رہتا کیا؟

میں، رشتے اور خواب ایک بہت پراسرار مثلث کے تین کونے تھے۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے کو کھینچ  رہا تھا اور ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے دور ہو رہا تھا۔ زندگی کو اتنا پیچیدہ میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ پھر وہ دن آیا جب میں نے سوچا کہ اب فیصلہ کر دوں اور میں نے فیصلہ کر لیا۔۔۔

اب دل کسی سراب کو مچلے گا نہیں، اب کوئی خواب آنکھوں میں جچے گا  نہیں اور اس دن میری ماں نے میرا ما تھا چوما

’’میرا بیٹا تو جوان ہو گیا‘‘

محنت ٹڈی دل کے بادل طرح دل میں اتر آئی اور مجھے لگا میری ماں کی اداسی، میرے باپ کی سلوٹیں کم ہونے لگیں۔ میں خوش تھا کہ میں نے بیکار خوابوں کو اپنی آنکھوں سے نوچ پھینکا۔ مگر وہ دن جب میں محبت کے طوفان میں گھر گیا۔ میں نے اس افتاد سے بچنا چاہا مگر جیسے تیروں کی کوئی برسات تھی جنہوں نے ایک چپہ زمیں بھی نہ چھوڑی۔ عشق کے تیروں نے مجھے گھائل کیا اور میں نے  محنت کے دیوتا سے آنکھیں چرا کر ایک بہت بڑے دیوتا کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ کسی نے اسے سراب کہا، کسی نے زندگی، کسی نے ہوش کہا کسی نے دیوانگی۔ مگر مجھے اب کسی کی پروا نہیں تھی۔ نہ اس کی کہ میری ماں کتنی اداس ہے، نہ اس کی کہ میرے باپ کے چہرے کی شکنیں بڑھ رہی ہیں اور نہ اس کی کہ یہ منزل ہے یا سراب۔

خوابوں کو پوجنے والوں، سرابوں کے پیچھے بھاگنے والوں کے عذاب کبھی ختم نہیں ہوتے۔ مگر میں نے ہر چیز سے اپنی آنکھوں بند کر لیں جب محبت نے میری انگلی پکڑ کر مجھے چلایا۔ زندگی وہیں تھی مگر میں اس کے سب غم بھول گیا۔ اور مجھے میرا عشق ایک بہت عجیب جگہ لے گیا۔ ایک سمندر کے کنارے جہاں بہت سے درخت تھے اور ان درختوں پر ہزار رنگ کے پرندے چہچہاتے تھے۔ میں بہت دیر اپنی محبت کی بانہوں میں بانہیں ڈالے اس جنت ارضی میں گھومتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک شام جب سورج بجھ رہا تھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دو چاند ڈوبتے دیکھے۔ میں گھبرا گیا۔ انہیں تو طلوع ہونا تھا۔ پھر وہ چہرہ سرد ہونے لگا، اس کے الفاظ ہونٹوں میں منجمد ہونے لگے اور میں دیوانوں کی طرح چلانے لگا۔

اسے پکارتے ہوئے ایک عجیب سا احساس میرے دلو دماغ میں گونجنے لگا۔

’’اس جسم کو چھپا دو۔ گرم مٹی کی آغوش میں تاکہ حرارت سے اس جسم پر جمی برف پگھل جائے۔ ‘‘

میں نے اسے بہت گہری قبر میں دبا دیا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر اسے تکنے لگا۔ اس طرح کہ میرے آنسو اس کی مٹی کو بھگو رہے تھے۔ ایسا ہوتا رہتا تو وہ جسم کبھی گرم نہ ہو سکتا۔ آنسو تو نہ رک سکے پر میں نے قبر کو چھوڑ دیا اور کہیں پیچھے چل پڑا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ میرا بھائی کشتی کے سوراخ کو ہاتھوں سے دبائے بیٹھا تھا اور اس کا دل خوابوں کو چھونے کو مچلتا تھا۔ میری ماں کی آنکھوں میں ویسی ہی اداسی تھی اور باپ کے چہرے پر اتنی ہی سلوٹیں۔ میں نے خاموشی سے اپنا سر ماں کی گود میں رکھ دیا مگر وہ کسی سنگی مجسمے کی طرح ساکت رہی اور اس دن  اس کی آنکھوں سے کوئی آنسو نہیں گرے۔۔۔

اگرچہ میرے اندر اس دن بھی بہت آگ جلتی تھی۔ میں بہت دیر وہاں رہا مگر جیسے کسی خشک کنوئیں کے پاس پیاسا، جیسے سرد کوئلوں کے پاس کوئی ٹھٹھرتا۔ اور پھر میں اٹھ گیا۔ وہاں سبھی کچھ تھا مگر میری جگہ نہ تھی۔

کتنا خوبصورت ہوتا سب کچھ اگر زندگی نہ ہوتی، زندگی ہوتی تو خواب نہ ہوتے، خواب ہوتے تو محبت نہ ہوتی اور محبت ہوتی تو موت نہ ہوتی۔

٭٭٭

 

 

 

ایک محبت کی کہانی

 

 

وہ شہر بہت خوبصورت تھا۔ سرسبز پہاڑوں کے بیچ ایک سمندر سا دریا بہتا تھا اور دریا کے کنارے درختوں میں گھرا تھا یہ چھوٹا سا شہر۔ جنگل میں سائیں سائیں کرتی تنہائیوں اور ایک بڑے شہر کے بے پناہ ہجوم کے بیچ یہ چھوٹا سا قصبہ گویا دیوانگی و فرزانگی کے بیچ حد فاصل تھا۔ بڑا شہر نیویارک تھا، دریا ہڈسن اور قصبہ مونٹروس۔ یہاں کے لوگ خواب اور حقیقت کی کہیں بیچ کی دنیا میں رہتے تھے۔ کام کے لئے لوگوں کی اکثریت صبح سویرے نیویارک کو چل پڑتی اور جب شام کو یہ لوگ گھر لوٹتے تو انہیں جا بجا ہرن، خرگوش اور ریکون جیسے جانور ہوا خوری کرتے نظر آتے۔ یہاں فضا میں ایک عجیب پاگل کر دینے والی خوشبو تھی۔ پر کسی نے اس خوشبو کو کبھی کھوجنے کی کوشش نہ کی۔ سب جانتے تھے کہ ہر صحن میں لہلہاتے خوش رنگ پھول، خزاں میں دھنک رنگ ہو جانے وا لے  درخت، ہرن، ہر رنگو نسل کے لوگ۔۔ یہ سب اس خوشبو کا منبع تھے۔

یہ شہر کسی مصور کا خواب ہو سکتا تھا مگر آج جب اسے سوچنے بیٹھا تو ایک لڑکی کے سوا کچھ یاد نہیں آتا۔ وہ لڑکی جس کی رنگت اتنی گوری تھی جیسے راج ہنس، اس کی آنکھیں اتنی نیلی تھیں جیسے۔۔۔۔ کہاں سے لاؤں وہ استعارے جو اس حسن کو بیان کر سکیں جسے شاید میں نے کبھی نظر بھر کر دیکھا بھی نہ تھا۔ ہاں میں نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ کیا تھا؟مجھے یاد نہیں کہ وہ کیسے بال بناتی تھی؟میں بھول گیا ہوں کہ اس کے ہونٹ کیسے تھے؟بس یاد ہیں تو چھوٹی چھوٹی غیر اہم باتیں۔

جب میں پہلی بار نیویارک گھومنے نکلا تو اس شہر کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتا تھا۔ سب وے میں ایک آدمی سے پوچھا کہ شہر دیکھنے کا ارادہ ہے۔ کہاں اتروں؟وہ مسکرایا اور بولا

’’کولمبس سرکل اتر جانا‘‘

یہ جگہ کوئی بہت مشہور نہیں ہے۔ یہاں سے نہ ایمپائر اسٹیٹ نظر آتی ہے اور نہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر، نہ مجسمہ آزادی کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے اور نہ ہی ٹائم اسکوئیر کی رنگا رنگی۔ کوئی اہتمام، کوئی پر جلال مناظر، کوئی بوکھلا دینے والی رفعتیں کچھ نہیں۔ بس بڑے خاموش انداز میں شہر آپ کے سامنے بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو اجنبی نہیں سمجھتا۔ اس کے ایک طرف وسیع سنٹرل پارک ہے، چوک میں ہزار ہا مختلف اشیا بیچنے والے لوگ ہیں اور پھر بلند و بالا عمارات کا ایک وسیع سلسلہ ہے۔ چلتے جایئے اور ہر قدم آتش شوق کو بڑھاتا چلا جائے گا۔ یہاں سے ہر راستہ ایک ہی جیسا لگتا ہے۔ میں نے بھی کسی بے پرواہ ملاح کی مانند جیسے اپنی کشتی کو ہواؤں کے سپرد کر دیا۔ میرے قدم مجھے چلاتے ہوئے شہر کے باہر دریائے ہڈسن کے کنارے لے گئے۔ جی ہاں وہی ہڈسن جو اس وادی سے آتا ہے جہاں وہ لڑکی رہتی ہے۔ جس کی رنگت۔۔۔ مگر خیر اس کے خدوخال کی وضاحت کے لئے ہی تو مجھے اتنی تمہید باندھنی پڑ رہی ہے۔ اس لئے کچھ انتظار اور سہی۔

اس دریا کے کنارے پھولوں کی نمائش ہو رہی تھی۔ جیسی بہار میں اکثر شہروں میں ہوا کرتی ہے۔ مگر مجھے کچھ یوں لگا جیسے شہر نے اپنا دل نکال کر میرے سامنے رکھ دیا ہو۔ مجھے اپنے گرد  ان دیکھی خوشبو سے بنی زنجیریں لپٹتی محسوس ہوئیں۔ ایسا لگا جیسے میں کبھی چل نہ سکوں گا، جیسے سمندروں میں بھٹکتے جاں بلب مسافر کو کنارہ نظر آ جائے یا جیسے مجھے اس شہر سے محبت ہو گئی ہو۔۔۔ میں اس نمائش سے نکل کر شہر میں بہت گھوما۔ مہینوں میری اکثر شامیں، متعدد راتیں اور بہت سے دن انہی سڑکوں پر گھومتے گذرے۔ میرے کمرے میں شہر سے خریدی چیزوں کا ڈھیر لگتا گیا۔ پرفیومز، اسکیچیز، پوسٹ کارڈ، مرجھائے ہوئے پھول، رنگا رنگ ٹوپیاں اور نجانے کیا کیا؟رات بارہ بجے کوئی پکارتا کہ ففتھ اسٹریٹ سے مزیدار کافی پی جائے اور میں گھنٹوں واک کر کر وہاں پہنچ جاتا، چائینا ٹاؤن میں سی فوڈ کی کسی دکان کا سنتا تو سب وے پکڑ کر ادھر چل پڑتا۔ میرا دوست تو اس پیدل شہر کھوجنے کو ابن بطوطہ کے سفر سے بھی دشوار اور بیکار قرار دیتا تھا۔ پر وہ کیا سمجھتا ان محبت کی رمزوں کو۔

آج برسوں کے بعد سوچنے بیٹھا ہوں تو نیو یارک کا نام آتے ہی ہونٹوں پہ ایک مسکراہٹ سی پھیل جاتی ہے اور بس۔۔۔ مسکراہٹ جیسے بچپن کی کسی نادانی کا خیال آ جائے۔ یہ انداز محبت کا تو نہیں ہو سکتا۔ پر یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنے تئیں محبت کو سمجھتا تھا۔ اور اب۔۔ میں اس دن کے بعد اب کچھ بھی صحیح طور سے نہیں جانتا۔ وہ دن جب میں ایک لمبے سے سفر کے دوران بس یونہی چند لمحے کو ایک ویران کھائی کے کنارے رکا۔ محض وقت گذارنے کو میں چلتا ہوا اس تک پہنچا۔ شاید پاؤں کی ٹھوکر سے ایک چھوٹا سا پتھر بھی پھینک دیا۔ پھر اس کی آواز سننے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنی بڑی کھائی میں ایک ننھے سے پتھر کی آواز بھلا کیا آتی۔ مگر دھیان لگایا تو ہواؤں کی سائیں سائیں گہری ہونے لگی۔ میں نے سر جھٹک کر واپسی کا ارادہ کیا۔ اور پھر جیسے کسی نے میرے قدموں کو روکا ہو۔ یہ بندھن نیویارک کی طرح نہیں تھا۔ یہ تو جیسے کسی نے انمٹ سیاہی سے میرے پیروں پرا یک زنجیر بنا دی ہو۔ میں نے چلنا چاہا تو کوئی چیز مانع نہ ہوئی، مڑ کر دیکھا تو کوئی بلند و بالا عمارت، کوئی حسین چہرہ، کوئی شعبدہ بازی کچھ نظر نہ آیا۔ بس پتھر تھے، نوکیلے پتھر اور بہت گہرائی میں کچھ اور پتھر۔ اور شاید سرگوشیاں کرتی ہوئی آوارہ ہوا تھی۔ اس میں ایسا تو کچھ نہ تھا جو مجھے ایک لمحے کو بھی روک سکتا۔ سو میں چل دیا۔

اس رات میں سو نہیں سکا۔ ایک عجیب سا احساس جیسے کچھ کھو رہا ہوں میں۔ آنکھیں بند کرنے کی کوشش کی تو کچھ نظر نہ آیا۔ بس کچھ پتھر تھے اور گہرائی میں کچھ اور پتھر۔ کان لگا کر سننے کی کوشش کی تو کچھ سنائی نہ دیا۔ بس شاید ہواؤں کی کچھ سرگوشیاں سی تھیں۔ پر اتنی مدھم کہ کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔ یہ کھائی نیویارک نہیں تھی۔ ان دونوں میں وہ فرق تھا جو ایک بے لباس مغربی ماڈل اور اور دوپٹے کے پلو میں منہ چھپائے اندرون لاہور کی لڑکی میں ہو۔ میں غلطی پر تھا۔ مجھے کبھی بھی نیویارک سے عشق نہیں ہوا۔ بس ایک طالب علم تھا جو ایک خیرہ کر دینے والی رنگا رنگی کے بارے میں معلومات اکٹھی کر رہا تھا۔ عشق تو مجھے اس کھائی سے ہوا تھا۔

زندگی میں بہت بار ایسا ہوا جب میں نے وہاں لوٹنا چاہا۔ کئی راتیں ایسی گذریں جب اس احساس نے مجھے سونے نہ دیا۔ وہ لڑکی بھی اس کھائی کی طرح تھی۔ جب میں اسے دیکھتا تھا تو وہ مجھے بہت معمولی، بڑی غیر اہم نظر آتی تھی۔ اتنی کہ میں نے کبھی اس کی آنکھوں کا رنگ جاننے کی بھی کوشش نہیں کی اور اب جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے ایک انمٹ زنجیر میرے جسم اور روح کے گرد لپٹتی چلی جا رہی ہے۔ اس سے جدائی کے چاہ ماہ بعد مجھے اس سے محبت ہو گئی۔

اب وہ مجھے یاد آ رہی ہے جب ہمارے بیچ ناقابل عبور فاصلے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ اب وہ مجھے تڑپا رہی ہے جب تشفی کے لئے میرے پاس اس کی یاد تک نہیں۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے ناخن کتنے لمبے تھے۔ حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس اینجلا کے ناخن کوئی ایک انچ لمبے تھے  جن پر وہ خاصے گہرے رنگ کی نیل پالش لگاتی تھی۔ اس اینجلا کی انگلیاں کتنی بے معنی ہیں میری زندگی میں مگر وہ مجھے یاد ہیں۔ ایسی ہی لایعنی یادوں کا ایک بہت بڑا انبار ہے میرے دل میں۔ اس کباڑ خانہ میں سے اس کی کوئی یاد ملے تو کیونکر۔ پر کبھی کبھی یہ تلاش بھی کم دلچسپ نہیں ہوتی۔

جب میں چھوٹا تھا تو اپنی بہنوں کے ساتھ گھر کا صحن کھودتا اور خزانے ڈھونڈتا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ ٹوٹی شیشیوں اور بیکار لوہے کے ٹکڑوں کے سوا میں کچھ ڈھونڈ پایا یا نہیں پر اس تلاش کی یاد اب تک میرے ساتھ ہے۔ ایسے ہی جب برسوں کے بعد گھر لوٹا تو ایک دن اپنی پرانی الماری کھولی۔ ایک بوسیدہ سرٹیفیکیٹ دیکھا اور ایک پرانے سکول، ایک خوش مزاج ہیڈ ماسٹر، دو اساتذہ اور چھ دوستوں کے چہرے یاد میں تازہ ہو گئے۔ بی ایس سی کے دور میں حل کئے میتھ کے سوالات کا ایک صفحہ ملا اور سردیوں کی ان لمبی راتوں کا منظر سامنے آ گیا جب میں رات رات جاگ کر پڑھا کرتا تھا۔ وہ دن بہت خوبصورت تھا جو ان یادوں میں کٹا۔ آج مجھے ایک پہاڑ سی رات کاٹنا تھی۔ کیوں نہ یہاں بھی یادوں کی پوٹلی ٹٹولوں؟کیا خبر میں جان ہی لوں کہ اس لڑکی میں کیا خاص بات تھی اور کیوں میں اس کی محبت میں گرفتار ہوا؟

وہ یقیناً کوئی چونکا دینے والا لمحہ نہیں تھا کیونکہ مجھے یاد نہیں کہ میں نے اسے پہلے کب دیکھا تھا؟بس وہ سبز رنگ کی ایک پرانی سی کار میں آتی تھی۔ تب میں ایک دکان میں کام کرتا تھا۔ یہ دکان اس چھوٹے سے قصبے میں ایک مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ سو سارا دن قصبے کے نوجوان لڑکے، لڑکیاں اس کی پارکنگ لاٹ میں مٹکتے رہتے۔ وہ بھی ان نوجوانوں کے ہجوم میں سے ایک تھی۔ پھر ایک دن وہ تھوڑی گھبرائی ہوئی آئی۔ شاید اس کی گاڑی خراب ہو گئی تھی۔ وہ پہلا دن تھا جب میں نے غالباً اسے نظر بھر کر دیکھا۔ کوئی سترہ، اٹھارہ برس کی ہو گی۔ چھوٹا سا قد، دبلی سی، بہت چھوٹے بال۔ دیکھنے میں وہ اپنی عمر سے بھی خاصی چھوٹی لگتی تھی۔ پھر کچھ دنوں کے وقفے کے بعد وہ کالے رنگ کی ایک نئی کار میں آنے لگی۔

اب صرف اتنا تھا کہ اس کا چہرہ ہجوم سے تھوڑا مختلف نظر آنے لگا تھا۔ کبھی کبھار ہیلو ہائے بھی ہو جاتی۔ سب لوگ اسے پیار سے وولی کہتے تھے۔۔۔۔ اور پھر وہ دن جب میں نے اسے روتے دیکھا۔ اس روز کوئی بات ہوئی تھی۔ اس میں اور اس کے بوائے فرینڈ میں کسی بات پر جھگڑا ہوا۔ مگر ان معصوم آنکھوں کے آنسو میں آج تک نہیں بھول سکا۔ وہ اس دن اپنے دوستوں میں گھری تھی اور وہ سب اسے چپ کروانے کی کوشش کر رہے تھے۔ روتی ہوئی ایک لڑکی۔۔ شاید وہی لمحہ تھا جس نے مجھے اپنا اسیر کر لیا۔

پر یہ میں اس وقت تو نہیں جانتا تھا۔ بس کچھ یوں تھا کہ اب نگاہیں اسے ڈھونڈنے لگیں۔ وہ دکان میں آتی تو نظریں بے اختیار اس کی طرف اٹھ جاتیں۔ نہ آتی تو میں تھوڑا منتظر بھی رہتا(پر تھوڑا منتظر تو شاید میں اپنے سبھی گاہکوں کا رہتا تھا۔ مجھے ہر ایک کے بارے میں یاد تھا کہ وہ کب کب یہاں آتا ہے؟کیا خریدتا ہے؟اسے کیا پسند ہے وغیرہ؟)۔ یوں تو میں ہمیشہ کچھ ریزرو ہی رہتا تھا، خاص طور پر خوبصورت لڑکیوں سے تو میں ہمیشہ دور بھاگتا۔ پر اس کا شاید میں عادی ہو گیا تھا۔ شاید میں سمجھتا تھا کہ میں اتنا وقت گذار کر immuneہو گیا ہوں۔ پھر اس کے ہزاروں مسئلے تھے۔ کالج تھا، وہ سکول کے بچوں کو ڈرائینگ بھی سکھاتی، ایک لا ابالی سا بوائے فرینڈ بھی تھا(جسے ایک دفعہ میں گھنٹوں سمجھاتا رہا کہ آگے بڑھنے کے لئے اس کا اس چھوٹے سے قصبے سے نکلنا کتنا ضروری ہے۔ وہ بعد میں چلا بھی گیا مگر ادھر ادھر دھکے کھانے کے بعد واپس آ گیا۔ میں یقیناً اس وقت کینہ دکھا رہا تھا ورنہ کسے پڑی تھی کہ اس جنت سی جگہ کو چھوڑ کر کہیں جائے)۔

پھر آہستہ آہستہ ہم دوست بننے لگے۔ وہ کبھی کبھار اپنی کوئی پینٹنگ اٹھا لاتی مجھے دکھانے کو، کبھی بتاتی کہ کورس کتنا مشکل جا رہا ہے۔ پھر ایک مرتبہ جب میں نے اکیلا پورا امریکہ گھومنے کا ارادہ کیا تو وہ بہت خوش ہوئی۔

’’میں تو خواب دیکھتی ہوں کہ کبھی ایسے سفر پر جا سکوں۔۔۔ میں کل تمہیں ایک سی ڈی لا کر دوں گی۔ اس میں ایک ایسا گانا ہے جو تم سارا راستہ بھی سنتے رہو تو بور نہیں ہو گے۔ ‘‘

میں مسکراتا رہا۔ مگر اگلی صبح کی بجائے اسی شام اپنے سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ اس کا گانا میرے پاس نہیں تھا، میں تو یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کونسا تھا مگر سارے راستے میں اور میری تنہائی اس انجانی سی دھن پر جھومتے رہے۔ وہ تمام راستہ میرے ساتھ رہی(اگرچہ یہ بھی میں اس وقت نہیں جانتا تھا۔ میں نے تو اسے بس راستوں کا حسن سمجھا، آوارگی کی بیکراں پہنائیوں میں چھپا ایک اور راز)۔ منظر بڑے تیزی سے بدلتے رہے۔ سرسبز پہاڑ، وسیع میدان، نہ ختم ہونے والے کھیت، برف پوش سنگلاخ پہاڑ، صحرا اور پھر سمندر۔

میں واپس آیا تو میرے پاس بتانے کو بہت کچھ تھا۔ اس نے گلا کیا کہ میں اسے بتائے بغیر کیوں نکل گیا تھا۔ اس نے وہ سی ڈی بھی اٹھا کر مجھے دی(میں نے اسے آج تک نہیں سنا۔ میں اسے سن کر وہ سحر ختم نہیں کرنا چاہتا جو ایک ماورائی گیت کے تصور نے مجھ پر قائم کیا تھا۔۔۔۔ ایک ایسا گیت جسے آپ ہزاروں میل تک سن سکتے ہو بغیر بور ہوئے۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے، شاید اسی لئے میں نے وہ سی ڈی کبھی نہیں سنی)۔

’’اب اسے گھر میں ہی سن لینا‘ ‘میں نے مسکرا کر اسے جیب میں ڈال لیا۔ پھر اس نے کرید کرید کر سفر کی باتیں پوچھیں۔ میں نے کچھ بتائیں اور کچھ ٹال گیا۔ دن پھر اسی طرح گذرنے لگے اور پھر ایک دن میں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا۔ سب دوستوں نے مجھے رکنے کو کہا۔ پاکستان کے حالات سے ڈرایا۔ مگر میں بس فیصلہ کر چکا تھا۔

’’بہت رہ لیا امریکہ میں۔۔۔ بس اب اپنے دیس چلتا ہوں ‘‘

اسے پتہ چلا تو دوڑی دوڑی آئی

’’کیوں جا رہے ہو؟‘‘

’’جانا ہے۔۔۔ میرے سب لوگ ہیں وہاں۔ ماں باپ ہیں، بھائی بہن ہیں۔۔۔ جانا تو ہے‘‘

وہ تھوڑی دیر رکی رہی مگر کیا کہتی۔ ہمارے درمیان تعلق ہی کیا تھا؟اگلی شام میں ائیرپورٹ پر بیٹھا سوچ رہا تھا۔ کتنا خوبصورت وقت گذرا ہے یہاں، پر شاید پاکستان جا کر کبھی اسے یاد بھی نہ کر سکوں۔ امریکہ کے ساتھ کوئی اٹوٹ رشتہ کبھی بنا ہی نہ تھا۔ میں نے اس معاشرے میں خود کو ہمیشہ ایک اجنبی ہی سمجھا تھا۔ اور جو تھوڑا بہت تعلق تھا وہ بھی چند مہینوں میں بھول گیا۔ اتنے محبت کرنے والے رشتے تھے یہاں کہ جنت سے بھی آتا تو سب بھول ہی جاتا۔

پھر آج کی رات آئی جب سونے کو آنکھیں بند کیں تو چھم سے وہ سامنے آ کھڑی ہوئی۔ اسے دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ میرا اس کا تعلق ہی کیا تھا؟مگر اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں یاد آنے لگیں۔ مجھے اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ لگا جیسے بہت ضروری چیز بھول گیا ہوں۔ میں نے سر جھٹک کر اسے بھلانے کی کوشش کی مگر وہ ساری رات، پھر اگلی صبح اور پھر ہر روز۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چہرہ میرے سامنے رہتا۔ میں کتاب کھولتا تو الفاظ بھاگ کر ادھر ادھر چھپ جاتے اور اس کا چہرہ سارے صفحے پر چھا جاتا، دفتر جانے کو نکلتا تو ہر گاڑی میں وہی جاتی نظر آتی۔ کھانے کی میز پر، پارک میں، کمپیوٹر کی سکرین پر۔۔۔۔ اور یوں مجھے اس سے بچھڑنے کے چار ماہ بعد اس سے محبت ہو گئی۔

میں نہیں جانتا کہ اب کیا ہو سکتا ہے؟وہ نجانے اب کہاں ہو؟اسے شاید کسی یونیورسٹی میں داخلہ بھی تو لینا تھا۔ پھر بگڑے ہوئے حالات میں وہاں جا بھی تو نہیں سکتا اور اگر کسی طرح چلا بھی جاؤں، اسے ڈھونڈ بھی لوں تو بھلا کیا کہوں گا اسے؟یہی کہ تم سے جدا ہونے کے بعد مجھے تم سے محبت ہو گئی۔ احمق لگوں گا میں ایسا کہتے ہوئے۔ شاید وہ اب بھی اسی بوائے فرینڈ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چل رہی ہو گی۔ شام کو پہاڑ پر چڑھ کر قصبے کی روشنیاں دیکھتی ہو گی۔ دن میں دریا پر کشتی رانی کرتی ہو گی۔

مگر میں۔۔۔ میں کہاں جاؤں؟مجھ تہی دست کے پاس تو اس کی یاد بھی نہیں کہ جس کے سہارے زندگی گذار لوں۔ شاید کچھ دن شیو بڑھا کر، چادر لے کر اسے یاد کرنے کی کوشش کروں گا اور پھر آہستہ آہستہ کچھ نارمل بھی ہو جاؤں مگر یہ سوال ہمیشہ مجھے تڑپاتا رہے گا کہ مجھے اس سے محبت ہوئی کیونکر؟

٭٭٭

 

 

 

دوسری موت

 

 

میں زندگی سے ہار گیا، پر زندگی سے کون نہیں ہارتا؟اور میرے بھی قدم ایک بزدلانہ خودکشی کی طرف اٹھنے لگے، پر خود کشی کون نہیں کرتا؟صرف یہ تو نہیں ہوتا کہ آپ کی گردن ریل کی پٹری سے دور جا گرے یا لبوں کے کونے سے نیلی جھاگ نکلنے لگے تو آپ اس فرار کے مرتکب ہوتے ہو۔ ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کسی ریل کے انتظار سے اکتا کر آپ کی روح دور جا گرے یا بس آنکھوں میں جلتے خواب کچھوے کی طرح کسی سخت خول میں چھپ جائیں۔ اور کچھ خول دلدلوں سے مہربان ہوتے ہیں جن کے باسی اندر ہی اندر دھنستے چلے جاتے ہیں۔

تو میری اس نفرت انگیز موت کے دوسرے دن وہ میری زندگی میں آئی(بہرحال میں سانس تو لے ہی رہا تھا اس لئے اسے زندگی کہنے میں کوئی حرج نہیں)۔ میں نے مردوں کی بے پرواہ سرد مہری سے اسے نظر انداز کیا۔ اسے یقین نہیں آیا۔ وہ بہت خوبصورت، بہت پاکیزہ، بہت معصوم تھی۔ اس شب آئینے کے سامنے اس نے اپنا سراپا دیکھا، پھر بند آنکھوں سے سینے میں موجزن محبت کا سوچا اور ایک بہت بڑی بے یقینی اس کی روح میں در آئی۔

موسم، وقت، گھر ہر چیز میرے لئے ایک بے ڈھنگ سانچہ تھا، میں جس میں ڈھلنا نہیں چاہتا تھا، مگر ایک صیاد ایسا مہربان بھی تھا جسکے زنداں کی دیواریں میری رفتار سے مجھ سے دور بھاگتی تھیں۔ میں آزاد تھا، جہاں چاہتا چلا جاتا مگر میرے چاروں طرف وہ زندان پھر بھی موجود ہوتا اور وہ زنداں محبت کا تھا۔ اس معصوم لڑکی کی بے پناہ محبت کا۔ رات کے دو بجے جب نیند سے بوجھل ہاتھوں سے اندھیرے میں اپنے گھر کا تالہ ٹٹول رہا ہوتا تو سامنے گھر کا دروازہ تھوڑا سا کھلتا اور روشنی کی لکیر میرا اکام آسان کر دیتی۔ میں نے کبھی پلٹ کر اس دروازے کی طرف نہیں دیکھا تھا مگر مجھے یقین تھا کہ روشنی کی اس لکیر کے پیچھے دو آنکھیں ہیں جن میں کسی بیوقوف لڑکی نے بہت سا کاجل لگا رکھا ہے۔

مرنے والے کبھی زندہ نہیں ہوتے اور جینے والے بہت دیر تک انہیں مردہ نہیں سمجھتے۔ یہ بھی یہاں کا رواج ہے۔ میری کہانی موت کے بعد کسی زندگی کی کہانی نہیں ہے۔ میری کہانی ایک زندہ انسان کی کہانی ہے جسے ابھی یہ یقین کرنا ہے کہ کوئی مر بھی سکتا ہے۔

وہ برسات کی ایک شام تھی جب میں کچھ بھیگتا، کچھ بھاگتا اپنے گھر کے دروازے پر آیا اور جیبیں ٹٹولنے لگا مگر چابی شاید کہیں گر گئی تھی۔ میں وہیں گھر کی دہلیز پر بیٹھ گیا اور پشت دروازے سے لگا لی۔ ایسے میں روشنی کی ایک لکیر مجھ پر پڑی جس کے پیچھے دو سیاہ آنکھیں (جن پر گھنی پلکوں کا سایہ تھا) مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔ میرے اندر بہرحال کوئی بچہ نہیں مچلا مگر ایک کسک جو کہیں دل کے اندر اٹھی۔ اچانک ہوا کے تیز تھپیڑے سے وہ دروازہ چوپٹ کھلا اور بارش کا ایک ریلا اس کے کپڑوں کو بھگو گیا۔ وہ یوں سکتے میں کھڑی تھی جیسے بیچ بازار کسی نے اس کی چادر کھینچ لی ہو۔ اس نے تیزی سے دروازہ بند کر دیا اور میرے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔

وہ اس موسم کی سب سے بڑی بارش تھی اور میں یونہی گھنٹوں اس میں بھیگتا رہا۔ میری آنکھیں اس بند دہلیز پر تھیں اور میرے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ کتنی بڑی شکست ہو گئی تھی موت کو۔ میں مگر مسکرا رہا تھا، کیونکہ میں زندہ تھا۔ ہم اس مضحکہ خیز زندگی میں جہاں قدم قدم پر ہنسنا، مسکرانا پڑتا ہے بھلا کیسے مر سکتے ہیں؟

ہاں میں زندہ تھا اور مسکرا رہا تھا اس وقت جب گھنٹوں دروازے سے پشت ملائے میں اس کی دہلیز تکتا تھا، اس وقت بھی جب بارش کے پانی میں نہاتے بچوں نے مجھے حیرت سے دیکھا، اس وقت بھی جب محلے کے چند معزز افراد میرے گرد جمع ہوئے اور چند جوانوں نے اٹھا کر مجھے چارپائی پر لٹا دیا اور اس وقت بھی جب قبرستان کے کونے میں کھدی تازہ قبر میں مجھے ڈال دیا گیا۔ ہاں میں بہت ہنس رہا تھا، بڑے بڑے قہقہے لگا رہا تھا اور میں زندہ تھا۔ مگر جب اس نے بے رحم یقین سے اٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔۔۔۔ اور آنکھوں میں بھرا کاجل میرے چہرے پر اتر آیا۔ میرے قہقہے رک گئے اور۔۔۔۔۔ میں مر گیا۔

جہاں موت پر ایسا محبت بھرا ماتم ہو، اس دنیا میں بھلا کون زندہ رہ سکتا ہے؟

٭٭٭

 

 

 

گاڑی چلانے والا کتا اور جارج کی بیوی

 

 

وہ ایک عام سا دن تھا اور میں معمول کی سی بیزاری سے فائلوں کو نمٹا رہا تھا۔ ایسے میں کافی کی طلب ہوئی تو اٹھ کھڑا ہوا۔ کافی لئے واپس آ رہا تھا تو میری نظر اس ٹھگنے سے شخص پر پڑی۔ وہ کسی بات پر ڈیسک کلرک سے الجھ رہا تھا۔ وہ اگرچہ بہت معمولی سا انسان تھا۔ ایسے لوگ آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں کام کرتے ہوئے روز دیکھتے ہو۔ اتنی تعداد میں دیکھتے ہو کہ پھر ہنری، جیمز اور کلارک کا فرق مٹ جاتا ہے۔ پھر یہ ٹھگنے، معمولی نقوش کے لوگ محض بیکار چیزوں کے ریفرنس سے ہی یاد رکھے جا سکتے ہیں۔

کلارک کون؟۔۔۔۔۔ وہی چلتے ہوئے جس کا جوتا چرچراتا ہے۔

جیمس۔۔۔۔۔ ارے وہی جس کی سفید بلی پچھلے سال بوڑھی مارتھا پر جھپٹ پڑی تھی اور

ہنری۔۔۔۔۔۔ وہی بوڑھا جو بالوں کو رنگتے ہوئے کنپٹیوں کے پاس سے سفید ہی چھوڑ دیتا ہے تاکہ ذرا قدرتی رنگ محسوس ہو۔

وہ ٹھگنا بھی انہی لوگوں میں سے تھا اور اس کا ریفرنس تھا خوف اور غصے سے بھری اس کی وہ موٹی موٹی آنکھیں۔ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر ڈیسک کلرک کو کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ڈیسک کلرک کے چہرے سے صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ اس کی باتوں میں قطعی دلچسپی نہیں لے رہا، بلکہ جان چھڑانے کی کوشش میں تھا۔ پر اس کی باتوں میں کوئی وقفہ آتا تو وہ کچھ کہ سکتا۔

کبھی کبھی جب بوریت حد سے بڑھ جاتی ہے تو انسان عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے۔ جیسے مجھے فلمیں دیکھنے کا شوق ہے اور جیسے بہت ساری فلمیں دیکھنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ میرا بھی اب ایک taste developہو چکا ہے۔ میں اب سطحی اور فارمولہ قسم کی چیزیں نہیں دیکھ پاتا۔ پر کبھی کبھی انتہائے بوریت کی گھڑیوں میں کوئی نہایت فضول اور تھرڈ کلاس فلم اٹھا لاتا ہوں۔ وہ جتنی بکواس اور فارمولہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے دیکھنے کا لطف آتا ہے۔ ایسے ہی میں نے آج اس ٹھگنے بوڑھے کو ٹٹولنے کا فیصلہ کیا۔ میں خاموشی سے اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔

’’ہیلو۔۔۔۔۔ میں سارجنٹ رسل ہوں۔ آپ میرے ساتھ آئیں۔ ‘‘

ڈیسک کلرک نے اپنی خلاصی ہونے پر مجھے تشکر آمیز نگاہوں سے دیکھا اور ٹھگنا گردن اکڑائے میرے ساتھ چل پڑا۔ غالباً ڈیسک کلرک کی بے توجہی کے بعد ایک سارجنٹ کی نظر کرم اس کی توقع سے کچھ زیادہ ہی تھی۔ میں نے اسے اپنے سامنے بٹھایا اور پوچھا

’’اب بتایئے، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟‘‘

بوڑھا ایک لمحہ کو خاموش رہا پھر آہستگی سے کہنے لگا

’’شاید مجھے دوبارہ شروع سے سب کچھ کہنا چاہیے۔ اس کلرک نے تو غالباً کچھ سنا ہی نہ ہو گا۔ ‘‘

’’بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔ شروع سے ہی بتایئے۔ ‘‘

’’دیکھیے جناب میں معاشرے کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی غیر معمولی چیز حکام کے نوٹس میں لاؤں۔ اور اسی لئے میں اپنا وقت کھوٹا کر کر یہاں آیا اور آپ کا کلرک مجھے یوں دیکھتا تھا جیسے میں کوئی پاگل ہوں۔ ‘‘

’’میں آپ کے جذبے کی  قدر کرتا ہوں۔ ‘‘میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

’’خیر سب لوگ آپ جیسے ہو جائیں تو پھر بھلا اور کیا چاہیے۔ میں آپ کا زیادہ وقت ضائع نہیں کروں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج صبح میں نے ایک عجیب واقعہ دیکھا۔ غالباً آپ یقین نہیں کریں گے۔ مجھے بھی یقین نہیں آیا تھا۔ بلکہ شاید اب بھی نہیں ہے پر دال میں کچھ کالا ہے ضرور۔ ‘‘

’’کیا دیکھا تھا آپ نے؟‘‘

’’کچھ عجیب سی بات ہے۔ وہ ایک کتا تھا۔ سیاہ رنگ کا بڑا سا کتا۔ میں نے اسے صبح گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا۔ ‘‘

’’کیا؟‘‘

’’میں نے کہا تھا نہ کہ عجیب سی بات ہے۔ پر میں نے اس کے گھر تک اس کا پیچھا بھی کیا۔ وہ کتا ہی تھا۔ ‘‘

’’کیسا کتا تھا؟‘‘میں نے پوچھا

’’سچ پوچھیے تو ان کتوں کے بارے میں مجھے کچھ زیادہ علم نہیں ہے۔ اس لئے اس کی نسل کے بارے میں تو شاید کچھ نہ کہ سکوں مگر اس میں عام کتوں کی سی بے اطمینانی نہیں تھی۔ آپ سمجھ رہے ہیں نہ کہ میں کیا کہ رہا ہوں؟اب گاڑی میں گھسا کوئی کتا دیکھ لیں، وہ ضرور نہایت چھچھورے انداز میں کھڑکی سے باہر جھانکتا نظر آئے گا، یا پھر پچھلی نشست سے اگلی پر آنے کی بے معنی کوشِشیں کرتا دکھائی دے گا۔ آپ نے تو دیکھا ہی ہو گا۔ اس کمبخت کو واک کروانے بھی لے جاؤ تو دوڑتا ہوا آگے نکل جائے گا، پھر واپس دوڑتا چلا آئے گا۔ یوں اگرچہ واک کے بعد وہ پہنچتا تو گھر پر ہی ہے مگر دس گنا زیادہ فاصلہ طے کر کے۔ پر اس کتے میں یہ عادتیں آپ کو نہیں ملیں گی۔ ارے آپ یقیناً سوچ رہے ہو گے کہ اس کتے کے بارے میں بھلا میں ایسی قطعیت سے کیسے بات کر سکتا ہوں۔ آخر میں نے تو اس کو بس تھوڑی دیر کو دیکھا ہے۔ تو سیدھا سا جواب یہی ہے کہ جو سنجیدگی اور متانت میں نے اس کے چہرے پر دیکھی ہے اس کا تو یہی منطقی نتیجہ ہے۔ آپ میرے سے لکھوا لیجئے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہو گا۔ اس کے چہرے پر پہلی مرتبہ والی کوئی سنسنی، کوئی تحیر موجود نہیں تھا۔ ‘‘

’’ہوں۔۔۔۔ آپ بڑی حیران کن بات کہہ رہے ہو۔ کیا میں آپ سے ایک سوال کر سکتا ہوں؟۔۔۔ برا مت مانئے گا یہ معمول کے سوال ہیں جو ہم سب سے پوچھتے ہیں۔ ‘‘میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ویسے وہ خاصے دھیان سے میری بات سننے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’آپ کوئی دوا تو استعمال نہیں کر رہے؟‘‘

وہ تلملا گیا

’’دیکھیے ایک تو میں حکومت کی مدد کر رہا ہوں اور اوپر سے ایسے سوالات۔۔۔۔ خیر آپ کی تسلی کے لئے ایسا کچھ نہیں ہے۔ کوئی دوا، کوئی نشہ ور چیز، کچھ نہیں۔ میری نظر بھی بالکل ٹھیک ہے اور سب سے تیز ہے میرا مشاہدہ۔ دیکھیے میری چھوٹی سی ایک دکان ہے سکول کے پاس۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ یہ سکول کے بچے کیسے ہوتے ہیں؟ایسے میں اگر آپ کا مشاہدہ تیز نہ ہو تو یہ بچے آپ کی پوری دکان چرا کر لے جائیں۔ سو آپ اس پہلو کی طرف سے بالکل ہی بے فکر ہو جائیں۔ جارج کو اپنے مشاہدے پر بہت ناز ہے جو کبھی غلط ثابت نہیں ہوا۔ ‘‘اس نے جذباتی انداز میں کہا۔

میں نے اس کی ڈھارس بندھائی اور اس واقعہ اور اس کے متعلق کئی سوالات پوچھے۔ وہ ایک چھوٹا موٹا دکاندار تھا۔ گھر میں بیوی، بچے، بلیاں، پھولوں کا باغیچہ سب موجود تھے۔ یعنی وہ ہر لحاظ سے ایک نارمل زندگی گذار رہا تھا۔ آج صبح دکان پر جاتے ہوئے اس کا دعوی تھا کہ اس نے ایک بڑے سیاہ رنگ کے کتے کو گاڑی چلاتے  ہوئے دیکھا تھا۔ یہ گاڑی سیاہ کرولا تھی۔ اس نے تعاقب کر کر گھر بھی دیکھ لیا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ یہ چاہتا تھا کہ میں سارے معاملے کی تحقیقات کروں۔

ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جیسے ہمیں روزانہ نمٹنے کو ملتے ہیں اس لئے میں کچھ دلچسپی لے رہا تھا۔ پر حقیقت یہی ہے کہ اس قسم کی رپورٹس ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوا کرتی تھیں۔ پر اس کا جوش دیکھ کر میں نے اس گھر کو چیک کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جارج میرے ساتھ ہی چل پڑا۔ جگہ زیادہ دور نہیں تھی۔

وہ ایک عام سا گھر تھا۔ گیراج کا دروازہ بند تھا اس لئے میں گاڑی کی جھلک تو نہ دیکھ سکا۔ البتہ گھر کے سلیقے سے سجائے ہوئے لان کو دیکھ کر مجھے گھر والوں کے ذوق کی داد دینا پڑی۔ گھر میں ایسے آثار نظر نہیں آ رہے تھے جو بچوں کی موجودگی کا پتہ دے سکیں اس لئے میں نے اندازہ لگایا کہ میرا سامنا کسی اکیلے شخص سے ہونے کو ہے۔

دروازہ کھٹکھٹانے پر ایک سنجیدہ صورت نظر آئی۔ یہ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جس کی کنپٹیوں کے بال سفید ہو رہے تھے۔ ایسے میں کالے رنگ کے گاؤن میں لپٹا یہ شخص خاصا پر وقار نظر آ رہا تھا۔ مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ ابھی میں اس پُر وقار شخص سے بیکار سوالات کر کے اس کا دماغ کھاؤں گا۔ یہ بھی ہماری نوکری کا خاصا ناپسندیدہ پہلو ہے کہ ہمیں لوگوں کے احساسات سے قطع نظر اپنا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔

’’جناب۔۔ مجھے آپ سے کچھ سوالات کرنے ہیں۔ امید ہے کہ آپ تعاون کریں گے۔ ‘‘

وہ ہلکا سا متفکر نظر آیا پر اتنا تو کوئی بھی شریف آدمی اپنے دروازے پر پولیس کو دیکھ کر ہو ہی جاتا ہے۔ اس نے مجھے اندر آنے کو کہا۔ پیسیج سے گذرتے ہوئے میری نظر دیواروں پر لگی خوبصورت چھوٹی چھوٹی پینٹنگز پر پڑی۔ وہ بہت خوبصورت نظر آ رہی تھیں۔ ایک لمحے کو خیال آیا کہ میں بھی اپنے پیسیج کو ایسے ہی سجاؤں گا۔ ڈرائینگ روم بھی خاصے نفیس انداز میں آراستہ تھا۔ اب تک میں اپنے ذہن کے کونوں سے موہوم سے موہوم شک بھی نکال چکا تھا کہ میری نظر کمرے کے وسط میں پڑے چھوٹے سے قالین پر پڑی جس پر ایک سیاہ رنگ کا بڑا سا کتا سر اگلی ٹانگوں پر ٹکائے پڑا تھا۔ جارج کا بیان کم از کم کتے کی حد تک تو صحیح تھا۔ کتے نے ہمارے کمرے میں داخل ہونے کے بعد ایک لمحے کو تھوتھنی اٹھائی  اور پھر دوبارہ آنکھوں کو بند کر لیا۔

’’آپ اکیلے رہتے ہیں مسٹر۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘

’’میں ہارڈی ہوں۔۔۔۔ گھر میں ہم دونوں ہی ہوتے ہیں۔ ‘‘ایسا کہتے ہوئے اس نے اپنے کتے کی طرف دیکھا۔

میں شاید صحیح طور پر وضاحت نہ کر سکوں کہ میں نے اس لمحہ کیا محسوس کیا۔ جانوروں سے محبت و شفقت تو اس معاشرے کا خاصہ تھا پر جن نظروں سے اس نے کتے کی طرف دیکھا وہ عام محبت کی نظر نہ تھی۔ اس نظر میں بے پناہ محبت کے ساتھ ایک طرح کی عقیدت، ایک طرح کا والہانہ پن تھا۔۔۔۔۔۔ جیسی کہ اگر پالتو جانوروں کے چہرے پر تاثرات ہم دیکھ سکتے تو شاید اپنے مالکوں کو دیکھ کر ہوتی۔ میں جانتا ہوں کہ یہ خاصا فضول خیال تھا مگر میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ معاملہ اہم ضرور ہے۔

’’آپ صبح قریباً آٹھ بجے کہاں تھے؟‘‘

میرے اس جملے پر حیرت ناک رد عمل دیکھنے کو آیا۔ جہاں تک رسل کا سوال تھا تو اس کے چہرے پر ہلکی سی تفکر کی لہریں اٹھیں اور اس نے ایک اچٹتی سی نظر لیٹے ہوئے کتے پر ڈالی۔۔۔ پر زیادہ واضح رد عمل اس کتے کا تھا جو  تقریباً اٹھ کھڑا ہوا۔ ہارڈی نے کچھ سوچ کر کہا کہ وہ اس وقت سو رہا تھا۔ اور یہ کہ وہ ذرا دیر سے ہی اٹھتا ہے۔

’’سارجنٹ معاملہ کیا ہے؟‘‘

’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔ پر میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اگر آپ آٹھ بجے سو رہے تھے تو پھر آپ کی کار اس وقت سڑک پر کیسے آ سکتی ہے؟‘‘

’’کیا؟۔۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ گاڑی تو کل سے گیراج سے ہی نہیں نکلی۔ ‘‘

’’خیر ہمیں اطلاع ملی تھی کہ صبح آٹھ بجے آپ کی گاڑی خاصی غیر ذمہ داری سے چلتی ہوئی بینتھم سٹریٹ سے گذری۔ اب آپ کا کہنا ہے کہ گاڑی گیراج سے ہی نہیں نکلی۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں ایک نظر گاڑی پر ڈال لوں۔ ‘‘میں نے نوٹ کیا کہ جب میں نے لفظ غیر ذمہ داری استعمال کیا تو کتا کافی جزبز سا نظر آیا۔

ہارڈی ان لوگوں میں سے معلوم ہوتا تھا جو کافی متحمل مزاج ہوتے ہیں۔ اس نے میری بات پر کندھے ضرور اچکائے جیسے وہ اسے جھوٹ سمجھتا ہو مگر ساتھ میں مکمل تعاون کے انداز میں مجھے لے کر اپنے گیراج کی طرف چلا۔ میری نظر کتے پر ہی تھی۔ وہ بھی سر جھکائے، دم ہلاتا ہمارے پیچھے ہی آ رہا تھا۔ جارج نے میرے پہلو میں کہنی ماری۔ میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

ہارڈی نے ریموٹ کنٹرول سے دروازہ کھولا(غالباً کتے نے بھی گیراج کا دروازہ کھولنے کے لئے ایسا ہی بٹن استعمال کیا ہو گا۔۔۔۔۔ اس خیال کے ساتھ مجھے ہنسی بھی آئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مجھے جارج کی باتوں کا یقین ہوتا جا رہا تھا)۔ کالے رنگ کی کرولا عین بیچ میں پارک کی گئی تھی۔ گاڑی پر گرد کا ایک ذرہ بھی نہ تھا۔ میں نے ڈرائیونگ سائیڈ کے ہینڈل کے گرد دیکھا کہ شاید کچھ پنجوں کے نشانات وغیرہ مل جائیں۔ مگر مجھے کچھ نہ مل سکا۔ گاڑی کا انجن البتہ ابھی تک ہلکا سا گرم تھا۔ سو ہارڈی مجھ سے بالکل سچ نہیں بول رہا تھا۔ کتا اس دوران بے خیالی کے انداز میں اڑتی تتلیوں کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ مگر نجانے کیوں مجھے لگ رہا تھا جیسے اس کے کان ہماری طرف ہی لگے ہوئے ہیں، جیسے وہ کن اکھیوں سے مجھے دیکھ رہا ہو۔ میں نے نظریں اس پر جما دیں اور بڑی دھیمی آواز میں ہارڈی کو اپنے پاس بلایا۔ اس بار میں بڑی سرگوشی کے انداز میں بول رہا تھا تاکہ کتے کو میری بات سننے میں دشواری ہو۔ میں نے دیکھا کہ کتے کہ کان کھڑے ہو گئے تھے۔

’’بس یہی کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ رپورٹ غلط ہی تھی۔ میں اب اجازت چاہوں گا۔ ‘‘میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

میری بات سن کر کتے کی آنکھوں میں بے اعتباری اور شرمندگی کا رنگ آ گیا۔ وہ شاید سمجھ گیا تھا کہ میں اب اس کی حقیقت جانتا ہوں۔ وہ ایک بار پھر پارک میں جا کر تتلیوں سے کھیلنے میں مشغول ہو گیا۔

ہم باہر آئے تو جارج نے پر جوش طریقے سے پوچھا۔

’’تو پھر آپ نے کیا محسوس کیا؟دیکھا وہ بدمعاش کتا کس طرح ہمارے اردگرد گھوم رہا تھا؟‘‘

اب وقت آ گیا تھا کہ جارج سے بھی پیچھا چھڑوا لیا جاتا۔

’’نہیں جناب۔۔۔ آپ کو غلطی ہی ہوئی ہے۔ کئی دفعہ ایسا ہو جاتا ہے۔ روشنی اور سایوں کے امتزاج سے عجیب و غریب شکلیں بنتی ہیں۔ پھر متحرک گاڑی میں یہ اندازہ لگانا کئی دفعہ مشکل ہو جاتا ہے کہ کتا سائیڈ والی نشست پر تھا یا مالک کی گود میں گھسا ہوا تھا۔ میں نے اچھی طرح دیکھا ہے کہ گاڑی پر کہیں پنجوں کے کوئی نشان نہیں تھے، گاڑی کا انجن بالکل سرد تھا۔ ‘‘

پہلی بار میں نے جارج کا اعتماد متزلزل ہوتے دیکھا۔

’’پر۔۔۔۔ ‘‘

’’لیکن میں پولیس کی مدد کرنے کے لئے آپ کا شکریہ ضرور ادا کروں گا۔ اب چلتا ہوں۔ ویسے آپ کہیں تو میں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کر سکتا ہوں؟‘‘

’’نہیں میں قریب ہی رہتا ہوں۔ ‘ ‘جارج نے بے خیالی سے کہا۔

میں نے سرکاری گاڑی دفتر چھوڑی اور اپنی پرائیویٹ گاڑی لے کر پھر اس سٹریٹ پر آ گیا۔ مجھے وہاں کھڑے کوئی دو گھنٹے گذرے ہوں گے کہ میں نے وہ کرولا باہر نکلتی دیکھی۔ میں نے احتیاط سے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔ گاڑی ہارڈی ہی چلا رہا تھا۔ جبکہ کتا بے پروائی سے کھڑکی سے منہ نکالے ہوا سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ وہ لوگ وال مارٹ جا کر رکے۔ ہارڈی نے کتے کو گاڑی میں ہی چھوڑ دیا اور سٹور کا رخ کیا۔ کتا شیشے سے سر لگائے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شاید کچھ اداس تھا کہ اس کا بھید کھل گیا یا پھر ویسے ہی بس دھوپ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کتے کو یہیں چھوڑ کر ذرا ایک نظر ہارڈی پر بھی ڈال لی جائے۔

اتنے بڑے سٹور میں اسے ڈھونڈنا ذرا مشکل کام لگتا تھا پر پتہ نہیں کیوں میرے دل نے کہا کہ وہ ضرور کتوں کی خوراک کے سیکشن میں ہو گا۔ اور وہ وہیں تھا۔ میں نے ایک طائرانہ نظر اس پر ڈالی۔ اس کی ٹرالی مختلف اقسام کی ڈاگ فوڈز سے بھری ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ یہاں اپنے لئے نہیں بلکہ اس کتے کے لئے شاپنگ کرنے آیا ہو۔

میں اس کے پیچھے پیچھے چلتا باہر آ گیا۔ واپسی کے سفر میں بھی کتا بے نیازی سے گردن نکالے باہر دیکھتا رہا۔ گھر پہنچ کر ہارڈی اور کتا تو اندر چلے گئے اور میں کئی گھنٹے اپنی گاڑی میں بیٹھا میوزک سنتا رہا۔ اگرچہ میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے مگر برسوں کے بعد پہلی مرتبہ مجھے کوئی کام کرنے کا مزا آ رہا تھا۔ یہ ان شروع کے دنوں کی طرح تھا جب اس پیشے سے وابستہ سنسنی اور نیا پن میرے لئے بہت اہمیت رکھتا تھا، جب میری آنکھوں میں لاتعداد خواب تیرتے تھے اور اب تو میں گویا بوڑھا ہو گیا تھا۔

شام ہونے پر میں نے روشن کھڑکی سے اندر جھانکے کا فیصلہ کیا۔ ٹیلی ویژن چل رہا تھا اور کوئی سنجیدہ سی فلم آ رہی تھی۔ وہ کتا بڑی آرام دہ کرسی پر بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا اور ہارڈی کا کچھ پتہ نہ تھا۔ غالباً وہ کچن میں تھا۔

میں اس رات گھر نہیں گیا۔ اور گھر میں تھا بھی کون جس کے پاس جاتا۔ میرے گھر میں تو کوئی کتا، بلی بھی نہیں تھے کہ جن کی دیکھ بھال کے لئے مجھے وقت پر پہنچنا پڑتا۔ اس لئے اکثر ایسا ہوتا کہ دفتر کے بعد میں گھنٹوں بے معنی طور پر خاموش سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہتا، یا پھر پیدل چلنا شروع کر دیتا۔ میں تمام شہر کا اپنے سامنے آہستہ آہستہ بند ہونا دیکھتا۔۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ میں اتنا تھک جاتا کہ مجھے سونے کے لئے بس اپنے بستر کی ضرورت رہتی۔

مگر آج مختلف تھا۔ آج میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے۔ اتنے کہ شاید میں بے انتہا تھک کر بھی نہیں سو پاتا۔ سو میں اپنے آفس چلا گیا۔ رات کے اس پہر وہاں گنتی کے چند لوگ تھے۔ یہ ایک دو لوگ وہی تھے جو شاید روزانہ ہی رات گئے تک اپنے کام میں مصروف رہتے۔ میری طرح غالباً ان کے پاس بھی کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں جا کر یہ سکون محسوس کر سکیں۔ مگر میرے برعکس انہوں نے خالی سڑکوں پر پھرنے کی بجائے خود کو کام کے انبار میں ڈبو لیا تھا۔ میں ایسا نہیں تھا مگر آج انہی کے بیچ موجود تھا۔ انہوں نے بڑی حیرانی سے مجھے دیکھا۔ ہیلو ہائے کے بعد میں اپنی ڈیسک پر پہنچ گیا۔ گھنٹوں کے بعد اٹھا تو ہارڈی اور کتے کے بارے میں چند ضروری معلومات حاصل کر چکا تھا۔

ہارڈی سٹاک مارکیٹ میں کام کرتا تھا۔ شاید کام کے دباؤ کی وجہ سے اسے دل کا دورہ پڑا اور اس نے خاصی سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ بچت اس نے غالباً بلو چپس کمپنیوں میں انوسٹ کر دی۔ بیوی بچے تو تھے نہیں سو اب ایک پرسکون زندگی گذارتا تھا۔ میں نے کتوں کی عادات کے بارے میں بھی کافی معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی مگر کہیں سے بھی ایسے رویے کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا جسے میں آج دیکھ کر آ رہا تھا۔ رات دو بجے میں گھر پہنچا۔ بستر پر گر کر بہت دیر اس کیس کے بارے میں سوچتا رہا۔ ہارڈی اور اس کتے میں کچھ ایسا تھا جس کی نہ تو میں وضاحت کر سکتا تھا اور نہ ہی جسے ہضم کر سکتا تھا۔ میں بس لیٹے سوچتا رہا اور نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔

صبح الارم کی تیز آواز نے مجھے اٹھا دیا۔ جسم میں کسلمندی سی تھی۔ بلیک کافی کے دو کپ لینے کے بعد میں اس قابل ہوا کہ دفتر جا سکوں۔ وہاں بیکار قسم کی فائلوں کا انبار اکھٹا ہو رہا تھا۔ میرے کیپٹن نے مجھے بلا کر کل کی مصروفیت کے بارے میں پوچھا تو میں ٹال گیا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے لگتا تھا جیسے دوسرے لوگ اس کیس کی اہمیت کو سمجھ نہیں سکیں گے۔ چند ضروری فائلوں کو نمٹانے کے بعد میں ہارڈی کے گھر چلا گیا۔ وہ اپنے صحن میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا اور کتا تیزی سے صحن کے چکر لگا رہا تھا۔

میں کتوں کی نفسیات کے بارے میں کچھ زیادہ تو نہیں جانتا تھا مگر مجھے لگ رہا تھا جیسے یہ سب وہ حرکتیں ہیں جو ایک نارمل کتا کرتا ہے۔ آپ سمجھے نہ میں کیا کہ رہا ہوں؟شاید نہیں۔۔۔ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ یہ کتا بالکل ایسے کر رہا تھا جیسے کوئی انسان ایک عام سے کتے سے expectکر سکتا ہے۔ جب کہ حقیقی کتے نارمل کتے کے اس تصور سے ذرا مختلف ہی ہوتے ہیں۔ ہر کتے کی اپنی ایک شخصیت ہوتی ہے۔ پر اس نے جیسے کوئی خول اپنے اوپر چڑھا رکھا ہو۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جب خول چڑھایا جاتا ہے تو وہ حقیقت نہیں بلکہ تصور کے قریب ہوتا ہے۔

ہارڈی کے بارے میں البتہ میں الجھن کا شکار تھا۔ کبھی لگتا تھا جیسے وہ کچھ بھی نہیں جانتا(جیسے اب وہ بڑی لاپروائی سے اخبار پڑھ رہا تھا) اور کبھی لگتا جیسے وہ کوئی قیدی ہو؟میں کئی گھنٹے انہیں دیکھتا رہا۔ اس دوران میں وہ اندر چلے گئے۔ کبھی کبھار ڈرائنگ روم اور کچن کی کھڑکیوں سے ان کی جھلک دکھائی دے جاتی۔ مجھے لگا کہ میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ اور میں واپس دفتر جانے کو ہی تھا کہ میں نے دونوں کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ ہارڈی نے گاف بیگ اٹھایا ہوا تھا۔ میں نے ان کا پیچھا کرنے کی بجائے گھر کی تلاشی لینے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ خاصا غیر قانونی سا کام تھا مگر قانون کے ساتھ یہ تھوڑی بہت ہیرا پھیری تو ہم پولیس والوں کو کرنا ہی پڑتی تھی۔ گھر کا ڈرائنگ روم تو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ کچن، باتھ روم اور بیڈ روم سے بھی نفاست کا اظہار ہو رہا تھا۔ ان میں ایسا کچھ نہیں تھا جو غیر معمولی ہوتا۔ اوپر کی منزل پر غالباً دو بیڈ روم تھے۔ میں نے جب دروازہ کھولا تو تھوڑا پریشان ہو گیا۔ ایک کمرے میں فرنیچر بالکل نہیں تھا۔ کمرے میں البتہ میوزک سسٹم اور چند ایک سٹول موجود تھے۔ عجیب چیز دیواروں پر ٹنگی تصویریں تھیں جو سب کی سب اس کتے کی تھیں۔ تصویروں میں بعض جگہ وہ کپڑے پہنے بھی دکھائی دیا۔ دوسرا کمرہ البتہ ایک سٹور ثابت ہوا۔ میں گھر سے نکلنے کو ہی تھا کہ مجھے گیراج میں گاڑی رکنے کی آواز آئی۔ میں گھبرا گیا۔ یقیناً کسی وجہ سے گالف کا پروگرام کینسل ہو چکا تھا۔ مجھے گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی آواز کے ساتھ کتے کے بھونکے کی ہلکی سی آواز بھی آئی۔ کچن سے پیچھے گارڈن میں کھلنے والی کھڑکی میرے فرار کا واحد راستہ ثابت ہو سکتی تھی۔ میں نے تیزی سے اس کے پٹ کھولنے کی کوشش کی پر وہ شاید جام ہو چکی تھی۔ ایسے میں مجھے دروازے میں چابی کی آواز آئی۔ میں کھڑکی کھولنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ اور پھر دروازہ کھلا۔ اس کے ساتھ ہی ایک جھٹکے سے کھڑکی بھی کھل گئی۔ میں نے خود کو باہر الٹ دیا۔ اور جب میں کھڑکی بند کر رہا تھا تو اس لمحے مجھے لگا کہ جیسے وہ کتا کچن میں داخل ہو گیا ہو۔ مجھے اس کے بھونکنے کی آواز بھی آئی۔ مگر میں اب جھک کر چلتا ہوا ان کی باڑ کراس کر گیا۔ مجھے لگا کہ شاید کتے نے مجھے دیکھ لیا تھا۔ سیکنڈ کے ہزارویں حصے کے لئے میری نظریں اس سے ٹکرائیں تھیں اور مجھے ان آنکھوں سے شعلے نکلتے نظر آئے تھے۔

اس کے بعد میں وہاں نہیں رکا بلکہ آفس چلا گیا۔ باقی دن آفس میں بالکل بھی دل نہیں لگا۔ بس بڑی بے دلی سے روزمرہ کے کام نمٹاتا رہا۔ سہ پہر کو ہارڈی کی کال موصول ہوئی۔ موصوف نے میرے کیپٹن سے بات کی اور الزام لگایا کہ میں غیر قانونی طور میں ان کے گھر میں گھسا رہا اور یہ کہ بھاگتے ہوئے انہوں نے میری جھلک دیکھی تھی(مجھے یقین ہے کہ وہ جھلک انہوں نے نہیں بلکہ کتے نے دیکھی تھی)۔ ظاہر ہے کہ اس فون کال میں انہوں نے اپنے کل کے بھرپور تعاون کا بھی ذکر کیا تھا۔

میں وہاں موجود تو نہیں تھا پر جانتا تھا کہ کیپٹن نے بڑے ڈپلومیٹک انداز میں انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی ہو گی اور یقین دلایا ہو گا کہ ایسا پھر نہیں ہو گا وغیرہ۔ اس کے بعد مجھے انہوں نے اپنے کمرے میں بلایا اور سخت سست کہا۔ میرے پاس ان واقعات کی صحت سے مکمل انکار کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ پر مجھے لگا کہ انہیں میری وضاحتوں پر یقین نہیں آیا ہے۔

میں چھٹی کے بعد بہت دیر تک آفس میں ہی بیٹھا رہا۔ جب شام گہری ہو گئی تو بھی گھر جانے کی بجائے ایک بار میں جا بیٹھا۔ میں شاید ایک گھنٹے تک کونے میں بیٹھا پیتا رہا جب کسی نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا کر مجھے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔

’’سارجنٹ اجازت دو تومیں یہاں بیٹھ جاؤں؟‘‘

وہ جارج تھا۔

’’ہاں ضرور‘‘ میں نے ملائمت سے کہا۔

’’مجھے بس معذرت کرنا تھی۔ اس دن اتنا وقت جو ضائع کیا آپ کا۔ یقین کیجئے کہ میں ایسا ہرگز نہیں تھا۔ ہمیشہ بہت واضح دیکھ سکتا تھا۔ ‘‘وہ کافی نشے میں لگ رہا تھا۔ میں نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی مگر وہ جذباتی ہو کر بولنے لگا۔

’’ارے جناب !!نجانے کیا ہو گیا تھا اس دن مجھے۔ صبح میں نے اس شریف آدمی پر الزام لگایا اور پھر گھر گیا تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے میری بیوی کے ساتھ بیڈ روم میں کوئی اور بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔ آپ یقین کریں کہ میں ایسا انسان نہیں ہوں جو بلاوجہ شک کرتا پھرے۔ میں تو اس سے بڑی محبت کرتا ہوں۔۔۔۔ پر مجھے تو ایسا ہی لگا تھا۔ شاید میں نے کھڑکی سے اس کا سراپا بھی دیکھا تھا۔ پر جب میری بیوی نے بھی وہی بات کی جو آپ نے کی تھی کہ ضرور مجھے وہم ہوا ہو گا۔ تو مجھے یقین ہو گیا کہ میں ہی غلط تھا۔ آپ مجھے معاف کر دیجیئے گا اور اگر ہو سکے تو مسٹر ہارڈی سے بھی میری طرف سے معافی مانگ لیجئے گا۔ ‘‘

وہ یونہی بڑبڑاتا ہوا میرے قریب سے چلا گیا۔ میں بہت دکھی ہو گیا تھا۔ اس رات سونے سے قبل میں نے خود سے عہد کیا کہ میں اس خرافات سلسلے کو ابھی یہاں ختم کرتا ہوں۔ میں اس تحقیق میں اور آگے نہیں جاؤں گا۔ کل صبح ایک نئے عزم سے اپنی جاب پر واپس جاؤں گا۔ اور روزمرہ کی فائلوں پر بڑی محنت سے کام کروں گا۔ آخر یہ روزمرہ کا معمول ہی تھا جس نے اب تک مجھے پاگل ہونے سے بچا رکھا تھا۔ اس فیصلے کے بعد میرے اندر اطمینان کی ایک گہری لہر دوڑ گئی۔ اور میں بہت دنوں کے بعد پرسکون طریقے سے سو گیا۔

مگر اگلے دن جو ہوا اس میں میرے لیئے ممکن نہیں رہا کہ میں اپنے پلان پر عمل کر سکتا۔ ہوا یوں کہ بینتھم سٹریٹ پر ایک حادثہ ہو گیا جس کی وجہ سے پولیس کو سڑک عارضی طور پر بند کرنا پڑی۔ صبح کے رش کی وجہ سے یہاں سڑک بلاک ہو گئی۔ ٹریفک میں پھنسنے والی گاڑیوں میں ایک کالی کرولا بھی تھی۔ جس میں۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر اب مجھے بتانے کی ضرورت تو نہیں۔ یہ خبر پورے شہر میں پھیل گئی۔ ہارڈی نے مجھے معذرت کا فون بھی کیا۔ وہ یہی ظاہر کر رہا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں وہ خود حیران ہے۔ میں جانتا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے پر میں نے منافقانہ انداز میں اسے سمجھایا کہ کوئی بات نہیں۔ میں نے کل والی بات کا بالکل بھی برا نہیں مانا۔

باقی سارا دن میں معمول کے کاموں میں مصروف رہا اور مجھے خوشی ہوئی کہ میں ایک نارمل انسان کی طرح کام کر کر خوش رہ سکتا ہوں۔ واپسی پر گھر جاتے ہوئے میں نے جارج کو سڑک پر جاتے دیکھا۔ وہ کچھ کھویا ہوا سا لگ رہا تھا۔

’’مسٹر جارج۔۔۔۔ کیا آپ نے وہ خبر سنی؟آپ کا مشاہدہ بالکل بھی غلط نہیں تھا۔ ‘‘

جارج نے میری طرف دیکھا مگر اس نے کچھ خاص خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ بس دہراتا رہا کہ

’’ہاں۔۔۔ مشاہدہ غلط نہیں تھا۔ ‘‘

میرے لیئے اس کا رویہ بڑا حیران کن تھا۔ پر اب ایسی چیزوں کے بارے میں سوچنا میرے جیسے عملی انسان کے لئے بیکار تھا۔ اس لئے سر جھٹک کر میں گھر کی طرف چل دیا۔ میرا ارادہ تھا کہ کپڑے بدل کر کلب جاؤں۔ سوچ رہا تھا کہ پھرسے ٹینس کھیلنا شروع کر دوں۔ میں تیار ہو کر نکلنے کو ہی تھا کہ فون پر پیغام ملا کہ ایک خون ہو گیا ہے اور مجھے فوراً پہنچنا تھا۔ ڈسپیچر کہ رہا تھا کہ کسی جارج نامی آدمی نے اپنی بیوی کا خون کر دیا ہے۔ جارج کو پکڑ لیا گیا تھا اور اس کی ذہنی حالت صحیح نہیں لگ رہی تھی۔

’’میں ابھی پہنچتا ہوں۔ ‘‘میں نے مختصر سا جواب دیا اور فون رکھ دیا۔ میں جانتا تھا کہ مجھے اب جارج سے کیا سوالات کرنا ہوں گا؟ اس سے بھی بڑھ کر یہ بھی جانتا تھا کہ وہ کیا جواب دے گا؟ مگر پھر بھی مجھے اس شریف آدمی کو ان سوالوں سے پریشان کرنا تھا۔ اسی وجہ سے میں اپنی اس نوکری کو پسند نہیں کرتا۔ شاید اسی وجہ سے میں راتوں کو سو نہیں پاتا۔ مگر خیر یہ تو بڑا لمبا قصہ ہے۔ ابھی تو مجھے پولیس اسٹیشن چلنا چاہیئے جہاں میرا انتظار ہو رہا تھا۔

٭٭٭

 

 

الاؤ

 

 

وہ کہتی ہے لکھو تم میری داستان کو۔ مگر میں کیا لکھوں؟کہ اس الاؤ سے جو اندھیرا دھواں بن کر بکھرا تھا اسے تو یہ آنکھیں دیکھ ہی نہ پائیں۔ ہاں کیا لکھوں اس راہگذر کا جس سے میں گزرا مگر اس طرح کہ میری آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی تھی، ایسے کہ میرے لبوں پر قفل پڑے تھے اور کچھ یوں کہ میری سماعتوں پر وقت کے پہرے تھے۔ مگر یہ تو کسی کی پہلی خواہش ہے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ میں لکھتا ہوں اس کہانی کو کسی تمہید کے بغیر، میری بیس سالہ زندگی جس کا ابتدائیہ تھی۔

وہ ایک ایسی ہی رات تھی جیسی ہر روز ڈھلا کرتی ہے۔ ممکن ہے اس رات بہت سردی پڑی ہو، یا اس رات اندھیرا ٹوٹ کر برسا ہو مگر سب لاحاصل۔ کتنی بے معنی ہے اس رات کی زندگی جسے محض ایک نام دینا بھی ممکن نہیں؟میں بھی سبھی زیست بیزار نوجوانوں کی طرح اس رات سڑکوں پر تھا اور کسی ٹوٹی پھوٹی سے بے نام سڑک پر میں رکا۔ میرے قدموں کو روکنے والی چیز کیا تھی؟بہت ممکن تھا کہ ہمیشہ کی طرح کوئی بے حقیقت گٹھڑی یا بیگ ہوتا جسے ہر آوارہ کی طرح میں اپنا حق سمجھتا۔ چند میلے کپڑوں، کچھ کاغذوں، سیگرٹ کے ایک آدھ پیکٹ اور بہت خوش قسمت ہونے پر کچھ روپے حاصل کر کر میں قہقہے لگاتا وہاں سے چل پڑتا۔ یا کاش وہ کوئی لاش ہوتی کسی ناکام سے عاشق کی یا کسی بے خیال مسافر کی اور میں گھڑی بھر اکڑوں بیٹھتا، آنکھوں سے ایک آنسو چھلکتا اور میں چل پڑتا اپنی اسی ڈگر پر۔ ہاں یہ بہتر تھا کہ زندگی اس دائرے میں گھومتی رہتی۔ رہٹ کے بیل کی طرح۔ کہ کہتے ہیں یہ راستہ بہت محفوظ ہوتا ہے، مگر میں اتنا خوش قسمت نہ تھا۔ میرے سامنے ایک بہت مختلف روح تھی ایک عام سے جسم میں ملبوس۔ میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ میں نے بھاگ جانا چاہا مگر جیسے کوئی چھوٹا سا خرگوش پہلی بار اپنے بل سے گردن نکال کر روشنی کو دیکھتا ہے۔ ایک خوف اسے باہر نکلنے نہیں دیتا اور ایک شوق اسے اندر گھسنے نہیں دیتا۔ میں یونہی بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھتا رہا۔ میں بہت خوفزدہ تھا مگر میرے قدم اس کی طرف بڑھنے لگے۔ مجھ سے مت پوچھو کی اس کے چہرے کا رنگ کیا تھا؟مت کہو کہ وہ جس گداز تھا یا نہیں؟یہاں مت سوچو کہ وہ سانس چل رہی تھی یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ میں نے بھی نہیں سوچا تھا ایسا کچھ۔ بس میری آنکھوں سے دیکھو، ان آنکھوں کو جن میں کچھ ایسا تھا کہ سب سوچ میں پڑ جائیں۔ میں بھی سوچنے لگا کہ وہ کیا تھا۔ وہ کوئی آگ تھی جو بجھ رہی تھی مگر کیسی آگ؟  نہ کوئی راکھ نہ دھواں۔ اگر مجھے پاگل نہ سمجھو تو بتا دوں کہ میرے سامنے ایک ایسا الاؤ بجھ رہا تھا جو کبھی جلا ہی نہ تھا۔ میں اس کے قریب ہوا۔ اتنا کہ رک رک کر چلتی چند گرم سانسیں مجھ سے ٹکرائیں۔

’’تم کون ہو؟‘‘

میرے لب خاموش رہے مگر یوں لگا جیسے میری آنکھیں بول رہی ہوں، میرے ہاتھ چیخ رہے ہوں، یا جیسے میری سانسوں کو زباں مل گئی ہو۔ اس نے سن لیا۔ یقیناً میں ایک ایسے پل میں تھا جہاں گویائی اور سماعت ثانوی ہو کر رہ جاتے ہیں۔

’’مجھے تم سے محبت ہے؟‘‘

یہ میرے سوال کا کوئی جواب نہ تھا مگر میں اس کے سوا کچھ بھی نہ سن سکا۔ میرے اندر بہت سے سر نفی میں ہلے جیسے وہ کچھ بھی نہ سمجھ پائے ہوں۔ مجھے اپنے سوال کا جواب چاہیے تھا اس لئے دونوں ہاتھوں سے اس کے سر کو قدرے اٹھایا اور چلایا

’’مجھے جواب دو‘‘

مگر ہر سوال کا جواب کہاں ہوا کرتا ہے؟میں نے دیکھا وہ بجھتا ہوا الاؤ تھوڑا بھڑکا اور پھر سرد ہو گیا۔ ہاں وہ الاؤ ہی تھا کہ جب بجھا تو میں نے جانا کہ اس کی راکھ اس کا جلنا اور دھواں اس کا بجھنا ہی تو تھا۔ جانے والا کسی بے مہر دیس میں جاتے اک ایسی زنجیر دے گیا تھا جسے شاید موت بھی نہ توڑ سکے۔ میں چند قدم پیچھے ہٹ گیا۔ دو یا چار اعداد بے معنی تھے۔ پھر بھاگا مشرق یا مغرب سمت لاحاصل تھی اور  پھر گر گیا گھر  یا  راہگذر منزل بے حقیقت تھی۔

میں نے سنا تھا کہ راتوں کو ویرانوں میں نہ پھرنا بھوت چمٹ جاتے ہیں۔ مگر آج کہتا ہوں کہ دن کو بھی کبھی انسانوں سے نہ ملنا کہ کچھ لوگ بد روحوں کی طرح لپٹ جاتے ہیں، شیطان کی طرح خون میں دوڑنے لگتے ہیں، موت کی طرح آنکھوں پہ نقش ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے بچنا ورنہ ہمیشہ کے لئے قید ہو جاؤ گے۔ واقعی وقت کے کچھ لمحے زندان ہوتے ہیں، گرداب ہوتے ہیں جن میں پھنسنے والے ساری زندگی نکل نہیں سکتے۔ وہ پل بھی ایک ایسا ہی صیاد تھا جس نے کھلی فضاؤں میں مجھے اسیر کر لیا۔

بہت کچھ ٹوٹتا بنتا ہم ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر آج مجھے کہنے دو یہ آنکھ کسی دیوار میں کوئی درز نہیں ایک پردہ ہے۔ ایک رنگین پردہ جس پر متحرک  نقش سینما اسکرین کی طرح ہم پر جادو کر دیتے ہیں اور باقی ساری دنیا پس پردہ چھپ جاتی ہے۔ تو ایک ایسی ہی نہ نظر آنے والی ٹوٹ پھوٹ ہو رہی تھی اس سمے میرے اندر۔ یوں لگتا تھا کہ اب عمر بھر میں اس ساعت سے نکل نہ سکوں گا۔ میں اب اپنی آنکھوں سے بہت کم دیکھ پاتا تھا۔ میرے سامنے اب میرے اندر کی دنیا تھی۔ بڑی بے چین اور مضطر۔ میں آبادیوں میں، ویرانوں میں، مسجدوں میں، مے خانوں میں پھرتا رہا۔ دعا دیتا ہوں ان قدموں کو جنہوں نے میرا ساتھ اس وقت دیا جب میں خود بھی اپنے ساتھ نہ تھا۔ یہ مجھے لے گئے ہر طبیب، ہر ڈاکٹر کے پاس مگر میرے درد کی دوا ان کے پاس کہاں سے آتی جنہوں نے وہ الاؤ دیکھا ہی نہ تھا؟جنہوں نے وہ سوال سنا ہی نہ تھا وہ بھلا جواب کیا دیتے؟پھر وہی سب دیوانوں کی طرح میں ویرانوں کو نکل گیا اور سارا وقت الاؤ روشن کئے اسے تکتا رہتا کہ شاید میری ٹھٹھرتی روح کو قرار مل جائے۔

کسی صبح سے بہت پہلے، رات کے ایک انجانے پہر موہوم سی چاپ سنائی دی۔ مدھم، سہمی اور سوچتی ہوئی چاپ۔ مدھم اس لئے کہ کوئی اس کی خبر نہ پا سکے، سہمی یوں کی اگر جان گیا تو نجانے کیا ہو اور سوچتی یہ کہ

’’معلوم نہیں یہ کون ہے جو موسم سے بے نیاز صرف ایک الاؤ کے سہارے رات بتا رہا ہے؟‘‘

میں نے گھٹنوں پہ رکھا اپنا سر اٹھایا۔ الاؤ کے سرخ مدھم پڑتے شعلوں کے دوسری طرف ایک اور الاؤ تھا۔ مجسم دہکتا ہوا، شاید کبھی نہ بجھنے والا۔ دل میں اس ساعت کوئی جذبہ نہ تھا ایک ابھرتی ملامت کے سوا کہ آج تک کہاں بھٹکتا رہا۔ اپنے ہاتھوں سے جلائی اور سمے کی ہلکی سی پھوار سے بجھ جانے والی وہ آگ بھلا اس الاؤ کا مقابلہ کیسے کر سکتی تھی، جسے خود وقت نے سلگایا ہو۔۔۔ کبھی نہ بجھنے کے لئے۔ بہت ممکن تھا کہ میری بہکی سوچیں مجھے ان قدموں میں گرا دیتیں، آسماں بھی جہاں جھکتا ہوا محسوس ہوتا تھا مگر انا کی فصیلوں اور آرزو کے بارود کے بیچ فقط ایک چیز حائل تھی

’’اس کا چہرہ‘‘

جس سے نظریں ہٹانا نہ گوارا تھا اور نہ ممکن۔

’’تم کون ہو؟‘‘

اس کے شیریں لب ہلے اور جیسے ساری کائنات اس کا سوال دہرانے لگی۔ میں نے سر جھکا لیا۔ بھلا اس نگر کی خبر میں اسے کیا دیتا  جس کی تلاش نے مجھے آبلہ پائی کے سوا کچھ نہ دیا؟نہ سرخ آگ میں، نہ چمکتے دن میں اور نہ سیاہ رات میں۔۔۔۔ کہیں بھی تو نہیں تھا اس سوال کا جواب۔ مگر شاید اس سوال کا جواب ہو کسی ماں کی آغوش میں، کسی آزاد زمیں پر، یا پھر اس دھرتی اور میری سوچ کی حدوں سے پرے کسی ان دیکھی کائنات میں۔ مگر اسے پانے کے لئے نجانے کتنا انتظار کرنا پڑے اور کیا خبر کہ وقت اتنی لامتناہی مہلت ہی نہ دے اور زندگی کا آخری تحفہ جان کر یہ کسک مجھے اپنے ساتھ ہی لے جانی پڑے اس نگر کو جہاں کوئی بھی سوال بن جواب نہیں ہوتا۔

چاہتا تو میں یہی تھا کہ اپنی خامشی کی بوسیدہ ردا میں ہی اپنی برہنہ الجھن، اپنی بکھری حقیقت چھپا لوں مگر ایسا ہو نہ سکا کہ وہ آسماں جس کے سائے تلے میں کھڑا تھا، وہ دھرتی جس نے میرے قدموں کو جکڑ رکھا تھا، وہ ہوائیں جن میں میں سانس لیتا تھا، سب کی زبان پر بھی وہی ایک سوال تھا۔

’’میں شہرام ہوں ‘‘

میرے اندر کوئی چیخ اٹھا۔ ہاں یہی اس سوال کا ممکن جواب ہو سکتا تھا۔ میرے ہونٹ لڑکھڑائے اور یہی جواب دہرا گئے۔ مگر کوئی بھی مطمئن نہ ہوا۔ نہ زمیں، نہ آسماں، نہ ہوائیں اور نہ وہ مہرباں۔ میں جھنجلا اٹھا اور سب کو اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا محسوس کر کے پھٹ پڑا۔

’’میں شہرام ہوں، اس لئے کہ میں کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ میرے باڑے میں بہت سی بھیڑیں اور گائیں نہیں ہیں کہ میں خود کو ان کا مالک بتا سکوں۔ اس پوری کائنات میں ایک چپہ زمیں بھی ایسی نہیں جسے میں صرف اپنا کہ سکوں۔ کوئی آرام دہ مکان، کوئی تیز رفتار گھوڑا، کوئی ماورائی طاقت کچھ بھی تو نہیں جو میرا حوالہ بن سکے۔ اس لئے میں صرف شہرام ہوں۔ یہی نام میری جائیداد بھی ہے، ورثہ بھی اور حوالہ بھی۔ ‘‘

میں نے اپنی مخاطب کے شفاف چہرے پر سوچ کی لکیریں بکھرتی دیکھیں جیسے کسی پر سکون جھیل میں کسی من چلے نے پتھر پھینک دیا ہو۔ اس کے ہونٹ کپکپائے جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہو، مگر پھر سر جھٹک کر کہنے لگی۔ اس کے لبوں پر اب ایک ماورائی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔

’’اپنے آرام دہ بستر پر گرتے ہیں نیند مجھے بہلا دیا کرتی ہے مگر آج میں سو نہ سکی، شاید اس لئے کہ مجھے یوں تم سے ملنا تھا۔ میں سوچتی ہوں کہ ہم ایسے ہی آزاد نہیں ہیں۔ دور کہیں کائنات کے کسی گوشے میں کوئی ہے جو بیٹھا ڈوریاں ہلا رہا ہے اور ہم کٹھ پتلیوں کی مانند گردش میں ہیں۔ اس طاقت نے چاہا کہ میں تم سے ملوں تو میں آ گئی۔ ‘‘

وہ ایک لمحے کو رک گئی تو مجھے لگا کہ گویا کوئی بہت حسیں سپنا تھا جو ٹوٹ گیا۔ مگر پھر اسی دلنشیں مسکراہٹ کے جلو میں نقرئی گھنٹیاں بجنے لگیں۔

’’آج دور پہاڑ سے تمہارا لاؤ دیکھا تو یہاں چلی آئی۔ بہت سے سوال ہیں دل میں۔ کیا تم بتاؤ گے کہ اس سرد رات میں جب بھاری کھالوں والے جنگلی جانور بھی باہر نکلنے سے گھبراتے ہیں تم ایسے تنہا اس جگہ کیوں ہو؟‘‘

’’میں اس جگہ اس لئے ہوں کہ میں اور کہیں جا ہی نہیں سکتا۔ میں اس بھیڑ کی طرح ہوں جسکے باڑے کی دیواریں مضبوط پتھروں کی ہیں یا پھر مجھے رسی سے بندھی ایک گائے جانو جس کی آزادی کی حد رسی کی لمبائی ہے۔ اب اس قید مسلسل میں، میں کھلی فضا میں بیٹھوں یا کسی جھونپڑے میں برابر ہے۔ ‘‘

’’شاید کوئی بہت کڑی ساعت گذری ہے تمہارے جیون میں، جبھی تو ساری زندگی ہی زہر میں بجھی نظر آتی ہے؟‘‘اس نے میرے چہرے پہ نظریں گاڑتے ہوئے کہا اور میں نے گھبرا کر آنکھیں چرا لیں۔

’’کوئی کڑی ساعت نہیں یہ تو صدیوں کا ذہر ہے جو زندگی کی نس نس میں بھر گیا ہے اور اب اگر چاہوں بھی تو اسے جسم سے نکال کر پھینک نہیں سکتا کہ یہ اس خون کی قیمت ہے جو جوازِ زندگی بن کر میری رگوں میں دوڑ رہا ہے۔ ہاں یہ ایک منطقی نتیجہ ہے اس سہمی، ذلت بھری زندگی کا جسے محض چلتی سانسوں کے بدلے  خرید لیا ہے میں نے۔ تم نے کبھی کوئی ایسا پنجرہ دیکھا ہے جس کا قیدی سلاخوں سے لپٹ کر روتا نہ ہو؟جس کی آنکھیں دور کھلی فضاؤں کو حسرت بھری نگاہوں سے تکتی نہ ہوں؟کیا دیکھا ہے کبھی کوئی ایسا پنچھی جو قفس میں آشیانہ تعمیر کر لے؟کوئی قیدی جو زنداں میں گھر کی بنیادیں ڈالنے لگے؟‘‘

میرے خاموش ہونے پر وہ سوچنے لگی۔ شاید زنداں کی دیواروں میں جڑی ایک مجبور زندگی کا تصور  اس کے لئے مشکل تھا۔ پھر سر جھٹک کر بولی۔

’’میں اب چلوں گی‘‘

وہ میرے جواب کا انتظار کئے بنا مڑی اور چل دی، مگر چند قدم جا کر ایک لمحہ کو رکی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی

’’میرا نام ماریہ ہے اور حوالہ محبت۔ جب انسان بہت مجبور بھی ہو تو یہ وہ حوالہ ہے جو اسے بے نام نہیں ہونے دیتا۔ میں چلتی ہوں مگر پھر کسی صبح ضرور آؤں گی۔ اس امید پر کہ جو ننھا سا دیا آج میرے دل میں جل اٹھا ہے وہ کسی درخشاں کہکشاں تک میری رہنمائی کرے گا؟‘‘

وہ چلی گئی اور مجھے لگا جیسے میری ساری زنجیریں بھی لے گئی ہو۔ میں چلایا

’’یہ بھوت، پریت، یہ وقت کے زنداں اتنے مضبوط کہاں ہوتے ہیں کہ انسانوں کو جکڑ سکیں؟ یہ تو پنجہ شیطاں سے بھی پھسل پھسل جاتا ہے۔ مجھے خبر نہ ہوئی۔ ہاں بھلا شکار کو پھندے کی خبر کہاں ہوا کرتی ہے؟میں تو اسیر محبت تھا اور صیاد جانا سمے کو۔ اب میں آزاد ہوں۔ کسی بھی من چلے پرندے کی طرح کہیں بھی جا سکتا ہوں۔ ‘‘

میں اٹھا اور چلنے لگا مگر ایک کسک سی محسوس ہوئی۔ شاید میں کچھ بھول رہا تھا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو دور غبار سا نظر آیا۔ شاید وہ پھر آ رہی تھی۔ میں دیکھتا رہا مگر کوئی نہ تھا۔ سوچا کہ چند ساعتیں انتظار کر لوں۔ سو اسی الاؤ کے سامنے بیٹھ گیا۔ پھر جیسے ایک سوچ نشتر کی طرح روح میں اتر آئی۔

’’کیا میں اب کہیں جا سکوں گا؟‘‘

’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ کائنات چیخ اٹھی

میں آزاد کہاں ہوا تھا بس زنداں بدل گیا تھا۔

بے بسی سے آسماں کو دیکھا اور نظریں الاؤ پر جما دیں۔ ایک آنسو گرم رخساروں پر گرا اور دو فراموش سی آنکھیں چیخ چیخ کر فریاد کرنے لگیں۔

’’مجھے پھر سے یاد کرو۔ کہ کبھی ہم بھی تم سے تھے آشنا‘‘

اور میں سسکتی آنکھوں سے الاؤ پر وہ کہانی لکھنے لگا جسے بہت پہلے مجھے بھول جانا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

کھویا ہوا آدمی

 

 

آسمان پہ تیرتے بادلوں کے کہیں بیچ روشنی کا ایک ہالہ تھا۔ چاند اس کے مرکز میں تھا اور اس کی برف سی روشنی بادلوں سے مل کر بہت سے رنگ پیدا کر رہی تھی۔ رات بہت بیت چکی تھی اس لئے چاروں جانب سناٹا طاری تھا۔ وہی سڑک جس پر دن بھر کوئی لمحہ ایسا نہ ہو گا جب گاڑیاں بھاگتی نہ ہوں اب سنسان تھی۔ میں پتھر کی ایک بنچ پر اکیلا بیٹھا تھا۔ یوں اکیلے بیٹھ کر چاند کو تکنا اس شہر کے لوگوں کا طریقہ نہیں مگر میں۔۔۔۔۔۔

میں بھلا اس شہر میں رہتا ہی کہاں ہوں؟ایک اور دنیا ہے۔ جس میں بڑے بڑے خوابوں کے محل ہیں، حسرتوں کی تعمیر کر دہ بلند و بالا عمارات ہیں اور خواہشات کے بھاگتے ہوئے بے لگام گھوڑے ہیں۔ ایک دنیا جو اس شہر جیسی بے رنگ اور پتھر دل نہیں۔ ایک دنیا جس کے جلو میں بیکراں امکانات ہیں۔ میں جیسے کوئی مصور تھا اور وہ دنیا میرا کینوس، میرے رنگ۔ میں جو چاہوں تخلیق کر سکتا تھا۔ اور یہاں۔۔۔۔۔۔۔ اس شہر میں تو سب کچھ پہلے سے ڈھلا، ڈھلایا پڑا ہے۔ ہر ایک شبیہ پتھر کی ہے اور پتھر کہاں خالی ہاتھوں سے شکل بدلتے ہیں۔

تو اپنی دنیا سے میں اس شہر کو ایسے دیکھتا ہوں جیسے زمین پر کھڑا کوئی چاند کو دیکھتا ہو۔ چاند ایک حقیقت ہے مگر اس کے اور ہمارے بیچ پھیلے یہ لاکھوں میل اس سے بھی بڑی حقیقت ہیں۔ کہتے ہیں چاند پر بہت سردی پڑتی ہے، کہتے ہیں وہاں بے وزنی کی کیفیت ہے۔ میں سب مانتا ہوں مگر ہمارے بیچ یہ جو بہت فاصلہ ہے نہ، یہ کچھ محسوس نہیں کرنے دیتا۔ میں information ageمیں رہتا ہوں۔ کتابوں، انٹرنیٹ، اخبارات، زبان خلق سے ہزاروں باتیں سنتا ہوں مگر یہ سب چیزیں اس ایک لمحے کا متبادل نہیں بن سکتیں جس میں کوئی سب حدوں کو چیرتا ہوا چاند پر جا پہنچے۔

تو یہ شہر بھی میرے لئے چاند کے جیسا ہے۔ میں اسے جانتا ہوں۔ اس میں رہتا ہوں مگر اسے محسوس نہیں کر سکتا۔ بس کبھی کبھی جب فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے سر کسی جھکی ہوئی ٹہنی سے ٹکرا جائے، یا پھر پیر بے خیالی میں کسی گڑھے میں جا پڑے۔ ایسے ہی کچھ اور لمحے ہیں جب میں اسے محسوس کرتا ہوں۔ ورنہ تو کسی بوڑھے ہوتے ہوئے پالتو کتے کی طرح یہ ایک کونے میں پڑا رہتا ہے۔ کبھی کبھار نظر انداز کرنے پر تھوڑا چلا لیتا ہے مگر باقی وقت ایک لامتناہی سناٹے میں گذرتا ہے۔ بہت عمر ایک دوسرے کے ساتھ گذارنے کے بعد ہم ایک دوسرے کو بہت حد تک سمجھ گئے ہیں۔

میں شاید اس شہر کے بارے میں اتنا کچھ نہ لکھتا مگر ایک وقت تھا جب کسی نوخیز پلے کی طرح یہ میرے چاروں طرف دوڑتا پھرتا تھا۔ وہ وقت جب میری آنکھیں اسے دیکھتے تھکتی نہیں تھیں۔ میں سوتا تھا تو بہت جلد آنکھ کھلنے کا سپنا لئے۔ وہ وقت جب دنیا ایک لامتناہی امکان کی طرح تھی اور آسمان خدا کے سائے کی طرح۔ جب محبت بانسری کے سروں کی مانند روح میں گھلتی جاتی تھی اور جب جسم۔۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا وہ کیا تھا؟مگر میری رگوں میں ہر وقت ایک پارہ سا بھرا رہتا۔ ایک آگ سی لگی رہتی۔

اتنا بڑا شہر ہے اور میں پتھر کی اس بنچ پر اکیلا بیٹھا ہوں۔ میں نے اپنی مٹھیاں بھینچ رکھی ہیں حالانکہ ان میں کچھ ہے نہیں جسے کھو دینے کا ڈر ہو۔ ہوا قدرے خنک ہے اور بڑی آہستگی سے میرے چاروں طرف سرسرا رہی ہے۔ ایک اور رات ہے جو مجھے گزارنی ہے۔ ابھی کچھ گھنٹوں کے بعد وہاں اس بلند مکان کی اوٹ سے روشنی کی کرنیں نکلیں گی اور تھوڑی ہی دیر میں یہ سارا طلسم ختم ہو جائے گا۔ گاڑیوں کا ایک کارواں نکلے گا اور سناٹا کہیں دور جنگلوں میں دبک جائے گا۔ میں پھر سے روشنی میں اپنے جسم پر نظر ڈالوں گا اور ایک بڑی بدمزگی میری روح میں در آئے گی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی ساری رات جھیل میں ہاتھ ڈالے پانی کو ہٹاتا رہے اور سوچے کہ صبح ہونے پر شاید کوئی چھوٹا سا گڑھا ہی پڑ جائے پانی کی سطح پر۔ وہ کام جو اندھیرے میں بہت آسان، بہت ممکن لگتا تھا اب پھر سے ایک ناممکن کی طرح سامنے کھڑا ہے۔ میں اسی لئے روشنی کو پسند نہیں کرتا۔ یہ بھی شہر کی طرح ہے۔ اس میں ہر چیز بہت rigid، بہت سخت نظر آتی ہے۔ جسے بدلا نہ جا سکے۔

میں نے جب سے شعور سنبھالا خود کو بدلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میرے سامنے کامیاب لوگوں، عظیم شخصیات کا ایک ہجوم تھا۔ اور میں ان ہزاروں بے ترتیب ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک آئیڈیل بناتا اور پھر خود اس میں ڈھلنے کی کوشش کرتا۔ ہر نئے دن میرا آئیڈیل بدلتا۔ ہر نئے دن میں ناکام ہوتا اور ہر نئی رات میں پھر سے ایک نئے جذبے سے اٹھتا۔ برسوں گزر گئے اور جب ایک دن میں اس کھیل سے تھک گیا۔۔۔۔۔۔ تو میں بوڑھا ہو گیا۔ اب میں کوئی آئیڈیل نہیں بناتا، اب میں کوئی کوشش نہیں کرتا۔ اب میں صرف انتظار کرتا ہوں کسی معجزے کا۔

یہ شہر مجھ سے بہت مختلف ہے۔ شاید میرے جیسے کچھ اور بھی ہوں گے مگر میں انہیں جانتا نہیں۔ وہ سب بھی اپنے اپنے کونوں میں دبکے ہانپ رہے ہوں گے۔ دوسرے سب جن سے یہ شہر بھرا پڑا ہے وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے کسی لمحے میں ایک سمجھوتا کر لیا۔ اور بس ایک سمجھوتا ہی تو چاہیے ہوتا ہے۔ ایک جواب جو کوئی بھی ہو سکتا ہے، ساری دنیا کے سوالوں کو خاموش کر سکتا ہے۔ ہے نہ عجیب بات؟ہم لوگ ساری زندگی کی محنت کے بعد بھی مطمئن نہیں ہوتے اور اس سوال کا جواب کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایک مصور کے لئے اس کا جواب تصویریں بنا نا ہے اور اس جواب کے پیروکاروں میں سڑک کے کنارے بیٹھے اسکیچ کھینچنے والوں سے لے کر ملین ڈالرز کی تصویریں بیچنے والے سبھی ہیں۔ کسی کے نزدیک اس کا جواب کوئی کھیل ہے اور وہ ساری زندگی گیند کو ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ تک لے جانے میں صرف کر دیتا ہے۔ ایسے ہی معمار ہیں، سپاہی ہیں، ڈاکٹر ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے کبھی نہ کبھی  یہ فیصلہ کر لیا کہ آج سے یہ جواب زندگی کے ہر سوال کا احاطہ کرے گا۔ پھر اس کے بعد ایک لمبی جدوجہد کی کہانی ہے جس میں انہیں اپنے فیصلے کو حق بجانب ثابت کرنا ہے۔ عجیب لوگ ہیں یہ۔۔۔۔۔

مگر میں ان پر ہنسوں گا نہیں۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ میں انہی کی اندھی نفسانیت کے وجہ سے وجود میں آیا، میں انہی کے آباد کئے ہوئے شہروں میں رہتا ہوں، ان کی بنائی ہوئی سڑکوں پر چلتا ہوں۔ مجھے کوئی حق نہیں کہ میں انہیں غلط کہ سکوں۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں کہ میں ان کی نفی کر سکوں۔ سو دل ایک بڑے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اور میں بنچ پر خاموش بیٹھا ہوں۔

مگر میں ان جیسا نہیں بن سکتا۔ یقین کرو کہ میں نے بہت کوشش بھی کی۔ دل کو بہت سمجھایا۔ ناکام لوگوں کے انجام سے ڈرایا۔ پر شاید سمجھوتہ کر لینے والا دل اور ہوتا ہو گا۔ ہم امکانات کی اس دنیا میں ایک لکیر پر آگے بڑھے جانے پر بھلا کیسے رضامند ہو سکتے ہیں؟ میں نہیں کہتا کہ ایسا ہوتا نہیں میرا اصرار تو صرف اتنا ہے کہ منطقی طور پر ایسا  ممکن نہیں۔ ہاں میں ایک idealistہوں اور کوئی بھی شخص جو انسان میں چھپی بے پناہ طاقت کا وجدان کر سکتا ہو، کوئی بھی شخص جس نے مائیکل جورڈن کو فضا میں گھومتے دیکھا ہو، کوئی بھی شخص جسے خدا کے ہونے کا یقین ہو کیسے رضامند ہو سکتا ہے بھلا؟کیسے سمجھوتہ کر سکتا ہے؟

میں مان سکتا ہوں کچھ لوگوں کے بارے میں جو بہت تھک گئے۔ جیسے کسی لمبی دوڑ میں کچھ لوگ ہمت ہار جاتے ہیں۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ کتنی بڑی دوڑ ہے جس نے سبھی کو تھکا دیا۔ کچھ ہوں گے اپنے کونوں میں دبکے ہوئے، سڑکوں پہ گھسیٹے جاتے ہوئے جسم، مگر باقی ہر جگہ ایک بہت بڑی افسردگی ہے جو سب پہ چھائے جاتی ہے۔

ذینو کا تیر کبھی ایک نکتے سے دوسرے تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ منطقی طور پر محال ہے مگر ہم اپنی آنکھوں کے سامنے تیر کو چلتا دیکھتے ہیں۔ ایسے ہی سمجھوتہ محال سہی مگر ہر جگہ ہو رہا ہے۔ ارزاں سمجھوتوں کا ایک بازار ہے اور میں اس بنچ پر اکیلا بیٹھا ہوں۔

کوئی نہیں جانتا کہ اسے کہاں جانا ہے؟پھر بھی ایک دوڑ لگی ہے۔ بس ذرا سورج کو نکلنے دو پھر ہر موڑ، ہر سڑک پر چیونٹیوں کی طرح قطار میں رینگتی گاڑیاں نظر آئیں گی، کندھے سے کندھے ٹکراتے ہجوم دکھائی دیں گے۔ ہر ایک کی کلائی پر دیوانگی سے دوڑتے ہندسے ہوں گے یا پھر بے قراری سے گھومتی سوئیاں۔ اور ہم سوچتے ہیں کہ وقت کا وجدان ممکن ہے۔۔۔۔۔۔ وقت ہنستا ہو گا ہم پر، ہمارے پیمانوں کی سوئیاں ہماری کم مائیگی سے زیادہ کسی چیز کا اظہار نہیں کر سکتیں۔ وقت تو لامتناہی ہے۔ ہم لامتناہی کو کیسے ماپ سکتے ہیں؟منطقی طور پر محال سہی مگر تجرباتی نظر سے دیکھیں تو ہر جگہ ہو رہا ہے۔

تو یہ تضادات ہیں جو ہمیں ایک بہت بڑی ناکامی کا احساس دلاتے ہیں۔ شعور گھٹنے ٹیک چکا ہے تجربات کے آگے۔ میں مانتا ہوں کہ اس مادیت، اسی تجرباتی سوچ نے انسانیت کو اٹھا کر بہت بلند مقام پر بٹھا دیا ہے۔ ایک ایسی جگہ پر جہاں وہ بجا طور پر خود کو شہنشاہ سمجھ سکتا ہے۔ اس نے ہماری زندگی کو بہت محفوظ اور پر آسائش بنا دیا ہے۔ مگر ایک نکتہ جو ہم یہاں بھول رہے ہیں۔ آج سے ہزاروں سال پہلے اگر انسان وجدان کو تجربات پر قربان کر دیتا۔ اگر مادیت کو روحانیت پر فوقیت دے دیتا۔ تو ہم آج بھی stone ageمیں جی رہے ہوتے۔ تجربہ ہمیں perfectionistبنا سکتا ہے مگر ہمیں اس ایک دائرے سے باہر کبھی نہیں نکال سکتا جو ہمارا environmentہوتا ہے۔ جب جب ہم اس دائرے سے باہر سوچتے ہیں تب تب ہم idealistہوتے ہیں۔

آج جب انسانیت سب کچھ حاصل کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مجھے کہنے دیں کہ شعور کو پس پشت ڈال کر ہم خود کو ترقی کے اس درجے پر محدود کر لیں گے۔ ایک رسی ہے جو ہمارے حلقوم پر تنگ ہوتی جائے گی۔ ایک entropyہے جو اس closed systemمیں بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ہمیں ضرورت ہے اس ایک دیوانہ وار چھلانگ کی جو انسانیت نے بہت بار لگائی ہے۔ مگر اب آسائشات کی لاٹھیوں نے اس کو کمزور کر دیا ہے۔ انسانیت ایک جیتی ہوئی بازی ہار رہی ہے اور میں اس کا ماتم کرنے کو اکیلا بیٹھا ہوں۔

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ شاید میں غلط ہوں۔ i’m good for nothing۔ ایک کشتی ہے جو ڈوب رہی ہے۔ کشتی والے اپنے ہنگاموں میں مست ہیں۔ کسی کو کچھ خبر نہیں۔ اور میں جو سب جانتا ہوں ایک کونے میں دبکا ہوا ہوں۔ میرا خلوص، میری ناکام زندگی کسی کام کی نہیں۔ اس سے تو اچھا تھا کہ میں بھی دوسرے لوگوں کی طرح کسی کام میں لگ جاتا۔ کوئی فیکٹری بناتا، کوئی کھیت سینچتا، کوئی اولاد پیدا کرتا۔ دوسرے لوگ آخر یہ سب کیوں کرتے ہیں؟ ایک بہتر نسل کے لئے ایک بہتر ماحول پیدا کرنے کے لئے۔

زندگی ایک بہت بڑا چیلنج ہمارے سامنے کھڑا کرتی ہے اور ہم انسان اسے لاحاصل سمجھ کر اس سے ٹکرانے کی بجائے اپنی لڑائی، اپنے خواب آنے والی نسلوں کو سونپ دیتے ہیں۔ مجھے انسانیت پر اعتماد ہے۔ وہ اب بھی آگے بڑھ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ۔ دیکھنے والوں کو یہ حرکت محسوس نہیں ہوتی۔ اس میں ڈرامہ کم ہے۔ مگر وہ ہر لمحہ اپنے چیلنج سے ٹکرانے کے لئے طاقتور ہو رہی ہے۔

میں اس approachکی عزت کرتا ہوں۔ اسے سمجھتا ہوں۔ مگر میں ایسا کر نہیں سکتا۔ میں پیدائش و تہذیب کی لاکھوں کڑیوں میں جکڑا بھی خود کو آزاد اور ذمہ دار محسوس کرتا ہوں۔ کروڑوں کی آبادی میں رہتے ہوئے بھی ایک individualہوں۔ میں کسی لمبی کہانی کا ایک ایکٹ، ایک سین نہیں خود ایک مکمل کہانی ہوں۔ سو میں نظام کو تکلیف دیے بنا کہانی کو آگے نہیں چلا سکتا۔ پوری تاریخ کی کہانی مجھ پر آ کر رک گئی ہے اور یہ تھوڑا سا وقت جو میرے پاس ہے اس میں مجھے اس کہانی کو کسی بامعنی انجام تک پہنچانا ہے۔ ایک انسان، ایک زندگی کی کیا اہمیت ہے اتنے بڑے حیرت کدہ میں؟میری جستجو کا لا حاصل ہونا مجھے اداس رکھتا ہے۔

ہزاروں پتے میرے اردگرد سڑک پر بکھرے ہیں۔ جنہیں پہنچتے سرما کی ہوائیں ادھر سے ادھر اڑائے پھر رہی ہیں۔ رات خاموش ہے۔ رات بے نیاز ہے۔ اسے میرے دل میں مچے طوفانوں کی خبر نہیں۔ اس کائنات کی ہر شئے کی طرح سورج اپنے مقررہ وقت پر نکلتا ہے۔ بارش کے وقت اور مقام متعین ہیں۔ کوئی فرق نہیں پڑتا چاہے ایک پوری قوم ہاتھ اٹھائے دعا مانگ رہی ہو۔ ہم دعاؤں کی حقیقت کو جانتے ہیں پھر بھی ہم میں ملحد ترین شخص بھی کسی نہ کسی حد تک ان پر یقین رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ انسانیت بھی ہم سے بے پرواہ ہے۔ اپنے ہم نفسوں سے بھری دنیا میں یہ اجنبی اکیلا بیٹھا ہے۔

بہت دن ہوئے جب میں اپنا یقین، اپنا اعتماد کھو بیٹھا۔، مگر آج بھی کبھی کبھار میں نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں، آج بھی قرآن پڑھتے میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، آج بھی شراب اور سور کے گوشت کو کھانے سے اجتناب میری زندگی کا حصہ ہے۔ ہاں اپنی تمام تر بے یقینی کے باوجود میں ایک مسلمان ہی ہوں۔ بہت دفعہ سوچا میں نے کہ یہ سب کھیل یقین کا ہی تو ہے۔ پھر جب یقین نہیں رہا تو خود پر اتنا جبر کر کر ایک بے پناہ بوجھ کو گھسیٹنے کا فائدہ؟

دو باتیں ہیں۔ پہلی تو یہ کہ اب یہ بوجھ گھسیٹنے کی عادت سی ہو گئی ہے مجھے اور دوسرا یہ کہ جیسے کوئی بہت ماہر تیراک نہیں ہے مگر اپنی سی کوشش میں ہاتھ پاؤں چلا رہا ہے۔ ایسے میں کوئی اسے سمجھاتا ہے کہ تمہارا تیرنے کا انداز غلط ہے۔ وہ بتانے والی کی بات کو سمجھتا ہے، اس پر یقین کرتا ہے اور کبھی وقت ملا تو اسے سیکھنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ مگر اس ایک لمحے سے پہلے جب وہ صحیح طرح تیرنے کے قابل ہو جائے۔۔۔۔۔ اس ایک لمحہ سے پہلے وہ ہاتھ پاؤں مارنا چھوڑ نہیں سکتا۔۔۔۔ ورنہ وہ ڈوب جائے گا۔ صحیح خدا کی پہچان تک میں اس خدا کا دامن کیسے چھوڑ سکتا ہوں جو اب میرے پاس ہے۔ شاید سانس لئے بغیر کچھ لمحے جینا ممکن ہو مگر ایک خدا کے تصور کے بغیر کوئی سانس لینا بھی بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

شاید یہی تو ہو رہا ہے ہر جگہ۔ کوئی تضاد نہیں ہے۔ بس ہم لوگ اپنے اپنے سمندر میں تیر رہے ہیں۔ وہ کھلاڑی جو دیوانہ وار گیند کو ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ تک لے کر جا رہا ہے، وہ مزدور جو سورج کے ہر چکر کے ساتھ زمین پر اپنا پسینہ گرا رہا ہے۔ یہ سب لوگ انتظار میں ہی تو ہیں۔ جیسے ہی کسی دل میں گھنٹی بجتی ہے، جیسے ہی کسی آنکھ سے پردہ گرتا ہے وہ لبیک کہتا ہوا اس سمت چل دیتا ہے۔

میں ناکام ہوں کیونکہ دنیا کو کسی سوچنے والے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس سب کو اپنے اپنے سمندر میں surviveکرنا ہے۔ اس وقت تک جب نقارہ بج اٹھے۔ میرے جیسے لوگ جو وقت سے بہت پہلے پانی سے گردن نکالے کسی انتظار میں ہیں، انسانیت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہ ہمارا  نصیب ہے کہ کسی کونے میں سسکتے ہوئے دم توڑ جائیں۔ ایک لاحاصل زندگی کی طرح ایک بے معنی موت۔ انسانیت کی بڑی تصویر میں جس کی کوئی اہمیت نہیں۔ چھوٹے، معمولی اعشاری اعداد کی طرح  ہمیں round offکر دیا جائے گا۔ یہی ہمارا مقدر ہے کہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے کراہتے رہیں کیونکہ ہماری حیثیت ناقص مال کی سی ہے۔ ہماری پیدائش کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ ہم تو بس ایک بن چاہی by productہیں۔ انہیں سوچنے والوں کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟سر جھکانے والے غلاموں کی کھیپ تھی اور کچھ غلط ہو گیا اور ہم نے سوچنا شروع کر دیا۔ زندگی سے بھی بڑی چیزوں کے بارے میں۔ ہم نے اس سرحد پر پاؤں رکھ دیے جہاں صرف دیوتاؤں کی اجارہ داری تھی۔ کچھ عجب نہیں کہ ہر شئے ہمیں بیگانی نظر آتی ہے۔ کچھ عجب نہیں کہ ہم مکمل طور پر کھو چکے ہیں۔ مگر یہ عیب ہماری تخلیق میں ہے۔

سورج کی پہلی کرن نے اس بڑے پرانے گھر کے پیچھے سے چہرہ اٹھایا۔ میں انہیں سن سکتا ہوں، محسوس کر سکتا ہوں۔ وہ شور کرنے والے غلام بیدار ہو چکے ہیں۔ میرے حساس کان یہ سب برداشت نہیں کر پائیں گے۔ مجھے کسی اور کونے میں دبک جانا ہو گا شام ڈھلنے تک۔ کونا، جہاں مکمل تنہائی میں میں سوچ سکوں۔ کیونکہ سوچنا ہی ہے جو میں کر سکتا ہوں۔ جیسے کھلاڑی ایک پوسٹ سے دوسری تک گیند کو لے جاتے ہیں مجھے بھی اپنے خیالات کے گھوڑوں کو دوڑانا ہو گا۔ یہی میرا تیرنے کا طریقہ ہے۔ میں نہیں جانتا۔ کیا خبر ایک آواز، ایک مدھم سی گھنٹی  میرے جیسے لوگوں کے لئے بھی ہو؟کیا خبر کہ نفیر عام ہو جائے کہ مجھ جیسے راندۂ  درگاہ لوگوں کے لئے بھی کوئی نجات ہے؟ہاں مگر اس وقت تک مجھے اپنے سمندر میں ہی تیرنا ہو گا۔

٭٭٭

 

 

نیند سے پہلے کا ایک گھنٹہ

 

 

میں نے سر بستر کے پشت سے ٹکا کر جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ اور مجھے کچھ یوں محسوس ہوا جیسے میرے دماغ میں چیختے، چنگھاڑتے سارے خیالات بھی رخصت ہو گئے ہوں۔ جیسے گولی چلنے پر درختوں پر بیٹھے کوے۔ مگر کوے تو ایک چکر لگانے کے بعد پہلے سے زیادہ  زور و شور کے ساتھ کائیں کائیں کرتے آن موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے شاید یہ مثال کچھ صحیح نہ ہو۔

شاید یہ مثال غلط ہو مگر میں تو اس لمحے کی بات کر رہا ہوں جو ان خیالات کی واپسی سے پہلے کا ہے اور جس میں یہ مثال validہے۔ تو جب سب خیالات رخصت ہوئے تو مجھے لگا کہ اب میں یکسوئی سے کچھ سوچ سکوں گا۔ کوئی بہتر، کوئی بڑا خواب۔ بہت دولتمند بننے کا یا کسی حسین اداکارہ سے شادی کر لینے جیسے حقیر خواب تو میں ہر وقت دیکھا کرتا تھا۔

مگر ذہن خالی کہاں ہوا؟اس خواب کا خیال تو یہیں ہے نہ!

اور نجانے ایسا اور کیا کیا کچھ ہو۔ میں اسے خاموش خیالات کہوں گا۔ اور ان کی مثال سبز پتوں میں چھپے ہرے طوطوں کی جانو۔ جو آپ کے اردگرد بھرے ہوتے ہیں اور آپ ان کے وجود سے نا آشنا رہتے ہو۔ مگر طوطے خاموش کہاں رہتے ہیں؟ادھر بولے اور ادھر وہ طلسم ٹوٹا جس نے انہیں ڈھانپ رکھا تھا۔ مگر مثال بہرحال اس خاموشی اور آوازوں کے بیچ کے وقفے میں تو کام کر ہی جائے گی۔ اور مجھے اسی لمحے کی بات کرنا ہے۔ تو اس لمحے جب خاموش رہنے والوں کا احساس ممکن نہیں اور شور کرنے والے رخصت ہو چکے ہیں ممکن ہے کہ میں اسے سوچ سکوں۔ اسے جو۔۔

اف! !!! مگر یہ ٹیوب لائیٹ سے نکلنے والی ہلکی سی آواز۔ جیسے کوئی چھوٹا جھینگر تان لگاتا ہے۔ اور مچھر کے اس آخری دانے کی بھنبھناہٹ جو تمام حفاظتی تدابیر کے باوجود یہاں موجود ہے۔ اس کمرے میں میرے جسم سے بہتر اور مکمل ترین چیزیں موجود ہیں۔ جیسے اس گوری اور قدرے فربہی کی طرف مائل برطانوی اداکارہ کی تصویر۔ کیسا کافر ہے جو اس صنم کدہ کو چھوڑ کر مجھ جیسے راندۂ  درگاہ کا طواف کر رہا ہے۔ شاید گرم سرخ خون، زندگی کی ایک لہر زیادہ اہم ہوتے ہیں حسن مطلق کے پرتو سے بھی۔ یہ ایک سبق میں نے اس مچھر سے سیکھا ہے۔

ہاں یہ آسان ہے، سیدھا  اور واضح ہے اس لئے فلسفیانہ عقائد کے شکوہ کے سامنے کم حقیقت نظر آتا ہے اور ہم انسان جو دوسری انواع سے برتری کے زعم میں سادگی میں پیچیدگیاں ڈھونڈتے ہیں اسے کیسے قبول کر لیں۔ میں بھی اسے قبول نہ کروں گا۔ مگر مچھر کا مجھ پر لپکنے کا فیصلہ اس کی فطرت کی پکار ہے۔ بس یوں جان لیں کہ ایک دریا ہے جس میں وہ بہاؤ کی سمت بہتا ہے اور مجھے بہرحال اس کی مخالف سمت میں ہاتھ پاؤں چلانے ہوں گے کیونکہ میں بہ حیثیت نوع اس سے برتر ہوں۔

تو شور کرنے والے چلے گئے، خاموش رہنے والوں کا ادراک ممکن نہیں۔ ٹیوب لائیٹ کا شور اور مچھر کی بھنبھناہٹ حاصل ہیں میری ارتکاز فکر کا۔ اس سے تو بہتر نہیں کہ کمبل جو میری ٹانگوں کے نیچے دبا ہے اسے ذرا  اوپر کھینچ لوں اور پرسکون انداز میں خود کو گرم بستر کے حوالے کر دوں۔

بھلا سوچو کہ آپ سطحی خیالوں سے خود کو خالی کرتے ہو کہ کچھ بہتر سوچ سکو مگر حاصل کیا ہوتا ہے۔ زیر ذہن کلبلاتے ہوئے بیکار احساسات۔ اگر کوئی ذرا اور کریدنے کا حوصلہ رکھے تو وہ پائے گا ایک خود غرض اور مکار چہرہ جو ہاتھوں میں چابک لئے خیالات کے گھوڑوں کو دوڑائے چلا جا رہا ہے۔ ایک ایسی منزل کے طرف جہاں دوسرے کہ سکیں کہ سچائی کی کھوج میں وہ بہت دور تک گیا۔ تو اس لگن، اس ارتکاز کا مقصد تھا سب سے ماورا ہو کر سچ کی تلاش اور ملا کیا؟ہاتھ نہ آنے والے مچھروں سے تھک کر خود میں چھپے ستائش اور فریب کے رذیل احساسات تک آ پہنچا۔

کوئی بہت بڑا تعلق نہیں ہے ان مختلف حالتوں کا جن سے میں اس مختصر سے وقت میں گذرا، مگر ایک بات یقینی ہے کہ یہ سفر بلندی سے پستی کی طرف ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگلی پرت کھلنے پر نسبتاً زیادہ ناقابل برداشت منظر میرے سامنے ہو گا۔

سفر نصیب سہی مگر منزل تو کہیں اور ہے نہ۔ چلو واپس چلتے ہیں۔ مچھر کی بھنبھناہٹ سے، طوطوں کی چہچہاہٹ تک اور پھر میں پہنچتا ہوں چکر کاٹ کر واپس آتے ہوئے کوؤں تک۔ اب پھر میرے ذہن میں ناچ رہے ہیں اور اودھم مچا رہے ہیں وہ سارے خیال اور میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیل رہی ہے۔ چلو دوسری جانب سفر شروع کرتے ہیں۔ کمبل کو چہرے تلک بڑھا لو اور آنکھیں موند لو۔ میں نہیں کہتا کہ سچائی یہاں ہے۔ مگر وہ وہاں بھی تو نہ تھی اور اگر تھی بھی تو اتنی تعفن زدہ شئے کو میں اپنی حقیقت کیسے تسلیم کر لوں؟اس کی مثال ایسے جانو جیسے سخت محنت کے بعد تمہارے جسم سے پسینے کی بدبو پھوٹنے لگتی ہے اور پھر راہگذر پر تمہارے ساتھ چلتی خاتون اسے محسوس کر کے ناک  کو انگلی سے مسلتی ہے۔ اسے یقین دلانے کے لئے کہ یہ کہیں اور سے آ رہی ہے تم بھی چہرے پر بے اطمینانی کو لے آتے ہو۔ وہ تمہاری طرف ایسی محبت بھری نگاہ سے دیکھتی ہے جس سے ایک کشتی میں سوار  دو مسافر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ تم مطمئن ہو جاتے ہو۔

پھر وہ گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھتی ہے اور کسی کو نہ پا  کر سمجھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اس شعور کے ایک لمحے سے پہلے تک تو میری مثال لاگو ہوتی ہی ہے۔ تو چلو جمائی لو، کاغذ کو سلیقے سے تپائی پر سجا دو اور آنکھوں کو پرسکون انداز میں بند کر لو۔ نیند سے پہلے کا ایک گھنٹہ کسی تخلیقی کام میں صرف کرنا کتنا خوشگوار تجربہ ہوا کرتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

چلو اور سمندر

 

مجھے مسیحائی کا دعوی کبھی نہ تھا پھر بھی عمر خوابوں کی نبضیں ٹٹولتے گذار دی۔ شاید میں وہ کچھ کھوجنا چاہتا تھا جو میرا نصیب، میرا مقدر نہیں تھا۔ کتنا عجیب تھا میں۔ سیپ کی سمٹائیوں میں سمٹا خود کو بیکراں سمندر کا سب سے با اختیار پرزہ سمجھتا تھا۔ میں نے کہیں پڑھا، کسی سے سنا نہیں مگر مجھے یقین تھا کہ میرا، صرف میرا اس تخلیق کار سے کوئی انوکھا رشتہ ہے۔ ایسا اٹوٹ رشتہ جس نے مجھے تصرف دے دیا اس کے سب شاہکاروں پر۔ ایسا تھا نہیں مگر مجھے لگتا تھا جیسے اس بھوری دھرتی اور نیلے آسماں کے بیچ میں سب سے اہم ہوں۔ آج نہیں تو کل کوئی بہت ماورائی طاقت مجھے خوابوں کے اس نگر میں پہنچا دے گی جس کا میں ایک بھٹکا ہوا شہزادہ ہوں۔ اور شہزادوں کی کہانیاں تو امید بھری ہوتی ہیں پھر میں بھلا نا امید کیسے ہو سکتا تھا؟

میں جب پہلی شام تمہارے شہر میں آیا تو ویگن کی ٹوٹی کھڑکی سے دھکے دیتی ہوئی ہوا کے بیچ جو پہلی آنکھ کھلی وہ حیران تھی۔ دور۔۔۔۔۔۔ نظر کی حد تک پھیلے روشنیوں کے اس نگر پر جس کی نجانے کونسی گلی بلکہ سڑک تمہارے گھر کے سامنے سے گزرتی تھی۔ میں اس اجنبی شہر میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا مگر تمہیں جانتا تھا۔ ہاں جب نہر کنارے ویگن کی ایک لمبی بریک کے بعد میں سمٹا ہوا باہر نکلا اور جب پورے شہر کی خنکی شہد کی مکھیوں کی طرح مجھ پر جھپٹ پڑی تو میرے پھٹے سوئیٹر کے اندر تمہارا تصور تھا جو مجھے حرارت بخش رہا تھا۔ ہاسٹل کی لوڈ شیڈنگ سے بھری اس پہلی رات کو میں نے تمہاری روشنی میں اپنا پہلا سبق پڑھا۔ امید کا سبق۔ لوگ کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے۔ مگر میں تو روشنی میں تھا۔ تو کیا تم مجھ سے کچھ دور تھی؟

میں اس لمحے میں نہیں تھا جب دوریاں مجسم ہو سکتی ہوں۔ میں بے شمار جگنوؤں کے بیچ اڑتا بیوقوف پتنگا بھلا کیسے سوچ سکتا تھا کہ میں اندھیرا ہوں؟

اس خاموش رات میں تمہارے ساتھ رہا یہاں تک کہ سویرے گونجنے لگے۔ اپنا سب سے قیمتی جوڑا پہن کر یونیورسٹی گیا تو قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ کچھ تو نئے جوتے کی نا موافقت بھی سہی مگر کچھ نشہ جسم پاتے خوابوں کا بھی تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کے سامنے ہی میں نے تمہیں دیکھ لیا۔ ایک لمبی کار کی پچھلی نشست پر۔ بڑا عجیب سا آنسو میرے گالوں پر لڑھک آیا۔ جو عنوان تھا میرے قلاش ماضی کے دکھوں اور سہانے مستقبل کی خوشیوں کا۔ میں نے سب سے چھوٹی انگلی کو آنکھ کے کونوں میں گھمایا جیسے کوئی شئے، کوئی تنکا آن گرا ہو۔ اب کسے بتاتا کہ آنکھ سے بھی بڑے شہتیر کا آنسو تھا۔ کون یقین کرتا ہے ایسی عجیب باتوں کا؟

محبتوں کی کہانیاں لکھنے والے ایک نشے میں ہوتے ہیں مگر میں ہوش میں ہوں۔ شاید محبت تو میں نے کبھی کی ہی نہیں۔ تم تو میرے لئے بس ایک امید، ایک جادو کا چراغ تھی جو مجھے میرا مستقبل دے دے۔ مجھے میرے خوابوں نے کتنا خود غرض بنا دیا تھا کہ میں نے ایک جیتے جاگتے جسم سے نہیں اس سے بندھی تصورات کی ڈولتی پتنگ سے محبت کی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ لوٹی ہوئی پتنگیں سڑکوں پہ تار تار ہو جاتی ہیں۔ پھر آسمان میں اڑنا انہیں میسر نہیں ہوتا۔

پھر وہی کھیل شروع ہوا۔ بہت unfairاور دھوکوں سے بھرا۔ ایک ایسا کھیل جو سبھی کھیلتے ہیں (کچھ دیوانوں کا ذکر رہنے دو)۔ دودھیا جسموں کو بھنبھوڑنا چھوئی موئی سی نازک محبت سے بڑی حقیقت ہے۔ کیا لکھوں کہ کتنی شامیں نہر کنارے چوڑے فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ قدم اٹھاتے بے معنی، لا متناہی وعدے کرتے گذاریں۔ شطرنج کی اس بہت بڑی بساط پر یہ سوچ کر میں اپنی چالیں چلتا رہا کہ ابھی، بس ایک شہ مات کے بعد میدان ہاتھ میں ہو گا۔

کون سمجھاتا۔۔۔۔۔۔۔؟اس اجنبی شہر میں کون تھا میرا غمگسار؟کون بتاتا کہ یہ کھیل بہت سنسنی خیز سہی مگر اس میں ہم کھلاڑی نہیں مہرے ہیں۔ جو ایک کے بعد ایک پٹتا ہی چلا جاتا ہے۔ جیت سمیٹنے والے تو کہیں اور ہوتے ہیں۔ ہم بہت عجیب لوگ ہیں سرابوں کو جانتے ہیں، عذابوں کو محسوس کرتے ہیں اور پلکیں گرا کر خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ میری محبت فریب تھا، ڈھونگ تھا۔ مگر اس کے کمزور پردے میں بھی میں خود کو بڑا محفوظ سمجھتا تھا۔ مگر محفوظ کوئی نہیں ہوتا۔ گھنے جنگلوں کے بیچ چھپا درخت آتشدانوں کی پہنچ سے دور سہی مگر کیا وہ جنگل میں لگی آگ سے بچ سکتا ہے؟کیا وہ فنا سے بھاگ سکتا ہے؟

میں بہت غلط سہی مگر ایسا غلط بھی نہیں تھا۔ میں نے اس اذیت ناک طرز زندگی میں آنکھ کھولی جو تیسری دنیا کا تیسرا کونا ہے۔ ایک ایسا کونا جو بازار کے بہت سامنے ہے۔ ہم ایک شریف آدمی کا صبر کب تک آزما سکتے ہیں؟بڑی بڑی دکانوں پر کیک اور پیزے سجا کر باہر ان بھوکوں کو کھڑا کر دیا ہے سماج نے جن کے پاس خریدنے کو پیسے کبھی آتے ہی نہیں۔ بہت صبر ہوا۔ میرا باپ، دادا، پردادا خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے، دل کو اچھے وقت کے دلاسے دیتے شریف ہی چلے گئے۔ مگر جسے ضبط کیا وہ لاوا میرے اندر پھوٹ پڑا۔ کیا فرق پڑتا ہے ایک ارب پتی کے خزانوں میں اگر ایک لٹیرا اس سے چند کروڑ، چند لاکھ چھین لے؟کیوں نہیں وقف کر دیتے یہ سال میں ایک دن کی خوشیاں صرف غریبوں کے نام؟

میں کمزور، بے غیرت، بزدل انسان کہاں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا حق مانگتا۔ حق جو میرے پیدا کرنے والے نے انمٹ سیاہی سے میرے ہاتھوں کی لکیروں کی صورت رقم کر دیا تھا۔ میں اتنا ہی کمزور تھا کہ میں نے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں کہ کہیں یہ لکیریں انہیں ڈرا نہ دیں۔ وہ مجھے باغی نہ سمجھ لیں اس لئے ڈرتا رہا۔ نسلوں تک تھر تھر کانپنے کے بعد میں نے ہمت کی اور اس گھر میں نقب لگائی جس میں میرا خزانہ بھرا تھا۔ اور میں کیا کرتا جب

 

تیرے گھر کا دروازہ

نوکیلے پتھر کا تھا

ایسا جس پر دستک دیں

تو ہاتھوں سے خون بہے

 

اور دیواریں

پھولوں کی تھیں

جنہیں روند بھی دیں

تو خوشبو پھوٹے

 

میں چور دروازے سے آیا اور کامیاب رہا۔ کوئی بیکار تفصیل نہیں لکھوں گا۔ ہاں مگر وہ آخری شام جو میں نے تمہارے ساتھ گذاری۔ ایک لا متناہی اعتماد کے ساتھ میں نے لینڈ کروزر دوراہے پر کھڑی کی۔ میرے کندھے سے سر ٹکائے تم نے خمار آلود نظروں سے مجھے دیکھا۔

’’رک کیوں گئے؟‘‘

’’بہت اچھا وقت گذارا ہے ہم نے۔۔۔۔ قہقہوں سے بھرپور۔ کیوں نہ آج اس وقت کو preserveکر لیں، حنوط کر لیں کسی شیشے کے کیس میں تاکہ کسی آنے والے پل میں ہم اسے یاد رکھ سکیں۔ ‘‘میں نے کہا۔

’’نہیں ہم اسے زندہ رکھیں گے، تاکہ آنے والے ایسے اور پل تراش سکیں۔ ‘‘تمہارا لہجہ عاشقانہ تھا۔

’’تم نے شاید ہسپتالوں میں کھانستے بوڑھے نہیں دیکھے، جنہیں میڈیکل سائنس کچھ سانسیں تو اور دے سکتی ہے مگر زندگی نہیں۔ مردہ ہوتے ہوئے جسموں کو جھنجھوڑنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ انہیں عزت سے دفن کر دینا چاہیے۔ ‘‘میرے انداز میں نسلوں کا انتقام تھا۔

’’یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘

’’اس شہر با مراد میں آنے کے بعد آج پہلی بار سچ بول رہا ہوں۔ چھت پر پہنچ جانے کے بعد اب مجھ سے سیڑھی اٹھائے اٹھائے پھرنے کی ضد نہ کرو۔ ‘‘

’’تو کیا ہوئے وہ خواب جو ہم نے اکھٹے تراشے، وہ مستقبل جو ہم دونوں کا تھا؟‘‘

’’خواب۔۔۔۔۔۔۔۔ خواب کوئی حق نہیں ہوتے۔ یہ تو پانچ ارب انسان صبح شام دیکھتے ہیں۔ مگر ان کی کرچیاں ہونے پر کوئی عدالتوں میں نہیں چلا جاتا۔ تم نے اس عہد بے اعتبار  کے خوابوں پر یقین کر لیا جو بکتے ضرور ہیں مگر ان کے خریدار بیوقوف ہوتے ہیں یا پھر قلاش جو اپنی زندگی کے مول پر انہیں خرید لیتے ہیں۔۔۔۔۔ اور مستقبل کوئی نہیں ہوتا کہ کل ہم سب مر جائیں گے۔ ‘‘

’’کیا بگاڑا تھا میں نے تمہارا۔ تمہیں چھت پر پہنچنے کے لئے سیڑھی چاہیے تھی نہ اور تم نے مجھے گرا کر سیڑھی بنا لیا۔ یہ سوچے بنا کہ میرا کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش کہ تم نے مجھ سے مانگ کے دیکھا ہوتا۔ خدا کی قسم میں اپنی ساری دولت تجھے دے دیتی اور دعا بھی کہ سیراب ہو جاؤ۔ محبت کرنے والے پر اتنا اعتبار تو کیا ہوتا۔ ‘‘

میں تمہارے آنسوں سے نہیں پگھلا، مجھ پر اثر تمہاری آہوں کا نہیں ہوا کہ یہ تو نتیجہ تھا ٹھکرائے جانے کا۔ اگر میرے ساتھ ایسا ہوتا تو میں بھی یہی کرتا مگر تم مجھ سے محبت کرتی تھی یہ سوچنا مشکل تھا۔ کون بیوقوف کرتا ہے آج کے دور میں محبت۔ تم کہیں چلی گئی اور کچھ دنوں کے بعد مجھے تمہارا خط ملا جس میں صرف ایک جملہ لکھا تھا

’’محبت ٹھنڈے پانی کا ایک چلو اور دولت نمکین سمندر ہے۔ سوچ لو تمہاری پاگل ہوتی ہوئی تشنگی تمہیں کسی سراب کو تو نہیں لے جا رہی‘‘

پتہ نہیں کہ تم اب کہاں ہو؟ مگر میں اب کہیں نہیں ہوں۔ میرے ہونٹوں پہ پیڑیاں جم چکی ہیں۔ میں بہت پیاسا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ کہیں واپس چلا جاؤں مگر وہاں بھی اگر وہ چلو سوکھ گیا ہوا، تو ماضی کے اس تصور سے جو شبنم سی ہر صبح میرے من پہ اترتی ہے وہ سوکھ جائے گی اور میںا تھاہ پانیوں میں پیاسا مر جاؤں گا۔

میں وہاں نہیں جاتا۔ میں کہیں نہیں جاتا۔ بس اپنے خشک ہونٹوں اور بے آواز کراہوں سے اس لمحے کا ماتم کرتا ہوں جس نے زندگی کی قیمت پر پھر ایک قلاش کو خواب بیچ دیا۔

ہم الم نصیبوں، جگر فگاروں کو صبح نہیں ملے گی جب تک ہم اپنی آنکھوں کی سیاہ پتلیوں سے نقرئی خواب اتار نہیں پھینکتے۔ مگر زندگی کی قیمت پر خواب خریدنے والے بیوقوف ایسا کبھی نہ کر سکیں گے۔

٭٭٭

 

 

مقدس قبروں کے مجاور

 

 

یہ شائد ایک سانحہ تھا کیونکہ میں بہت سہم سا گیا تھا۔ میرا گماں مبہم اس لئے ہے کہ میں ایک عہد بے یقین میں رہتا ہوں۔ ایک ایسے دور میں جہاں الفاظ بے حرمت اور سچائی بے وقعت ہے۔ مجھے جینے کے لئے وہ وقت ملا ہے جب سڑک کے ہر دوسرے چوک پر جامہ تلاشی دینی پڑتی ہے۔ جہاں لائبریری میں جانے کے لئے کسی فرسٹ کلاس آفیسر کی ضمانت چاہیے ہوتی ہے۔ جہاں پینشن لینے کے لئے ڈاکٹر سے زندگی کا سرٹیفیکیٹ بنوانا پڑتا ہے۔ ہم ایک ایسی نسل ہیں جو ضمانتوں پر جی رہے ہیں۔

بات دور نہیں نکلے اس لئے اگرچہ میرے پاس کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیں ہے مگر کیونکہ مجھے دکھ کا شائبہ تھا اس لئے میں رونے لگا۔ یہ نہ سمجھو کہ میری آنکھوں سے بڑے بڑے آنسو ٹپکنے لگے کہ بڑے دھوکے باز ہوتے ہیں یہ آنسو تو۔ بس میرے اندر کوئی شئے گھلنے لگی۔ میں کیا کرتا میری محبت مر گئی تھی؟اس لئے کہ محبت کی لاش گلنے سڑنے نہ لگے میں نے اسے اپنے گھر کے پچھواڑے میں دفن کر دیا۔ بس یونہی امانتاً۔ سوچا کہ کوئی اچھی سی جگہ ڈھونڈھ کر منتقل کر دوں گا۔ رات تو بڑی آسانی سے گزر گئی(اگرچہ مجھے اس کے گزرنے کا بھی یقیں نہیں ہے)۔

روشنی کی پہلی کرن جب اس قبر پر پڑی تو مجھے کوٹ پتلون میں اپنا سانس گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ نجانے کہاں سے میرے کمرے میں ایک سبز چولا آ گیا اور بڑی بے خودی میں میں نے اسے پہن لیا۔ پہنتے ہی یوں لگا جیسے گنجان آباد شہر کی آلودہ فضا سے نکل کر کسی گاؤں میں آ گیا ہوں۔ لمبے لمبے سانس لئے اور اس لمحے کی ساری راحت اپنی پور پور میں پہنچانے کی کوشش کرنے لگا۔ کمرے  سے نکل کر کہیں گیا، لوٹا تو ہاتھ میں کچھ اگر بتیاں اور چراغ تھے۔ پہلے قبر پر جھاڑو لگایا اور پھر چند اگر بتیاں سلگا دیں۔ مجھے بہت سکون ملا۔

بہت دن گذر گئے۔ میری شیو بڑھ گئی، بالوں کی لٹیں بن گئیں، کپڑے پھٹنے لگے۔ کوئی دیکھتا تو یہی سمجھتا کہ میں اس بھولی بسری قبر کا مجاور ہوں۔ آخر کب تک میں اس قبر پر بیٹھا رہوں گا؟میں نے خود سے بہت پوچھا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ ایسے سوالوں کے جواب خود سے ملا بھی نہیں کرتے۔ سوچا کسی دوسرے سے پوچھتا ہوں۔ اس لئے گھر سے نکلا۔ نکڑ پر ایک پان والے کے پاس کھڑا ہو گیا جو ہنس ہنس کر گلوریاں بنا رہا تھا۔

’’سنو !  میری محبت مر گئی ہے۔ بہت دن سے میں سوگ میں تھا مگر اب ہنسنا چاہتا ہوں۔ مجھے ہنساؤ کوئی ایسا قہقہ جو جاودانی ہو۔ ‘ میں نے اس سے کہا

’’قہقہے تو پانی کے بلبلوں کی طرح ہوتے ہیں۔ لمحوں میں ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں اور یہ مت پوچھو کہ ٹوٹ کر بکھرنے کا کرب کتنا ہوتا ہے؟تمہاری محبت تو اس آئینے کی ایک کرچی ہے جس نے ہی تمہیں لہو لہان کر دیا۔ ‘‘

’’پھر تم کیسے ہنستے ہو؟‘‘

’’میں بہت روتا ہوں۔۔۔ مگر رات کو۔ رات سمجھتے ہو نہ۔ جب دیکھنے والی آنکھیں سو جائیں اور منظر جاگ جائیں۔ میں اس لئے ہنستا ہوں کہ رات کو رو سکوں۔ اتنا کہ سو نہ سکوں اور وہ منظر دیکھ لوں جب نظارے جاگتے ہیں۔ ‘‘

میں اس سے بہت کچھ کہتا مگر وہ ایک بڑا قہقہہ مار کر دوسری طرف متوجہ ہو گیا۔ موٹی توند والے کسی دکاندار کو ایک گلوری دینا جسے وہ اپنے ادھ کھائے دانتوں کے بیچ رکھ کر پچکاریاں مارتا پھرے، واقعی ایسا گناہ ہے جس کی پاداش میں راتوں کو کیا صدیوں تک رویا جا سکتا ہے۔

پھر چل پڑا۔ سوچا کہ کسی دوسرے سیانے سے رونے کا راز بھی پوچھ لوں اور پھر گھر چل کر جاگتے منظر دیکھتا ہوں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو جلاد صورت آدمی ایک منحنی سے شخص کو موٹی موٹی زنجیروں میں باندھ کر ایک میدان میں گھسیٹ رہے ہیں اور وہ رو رہا ہے، چیختا ہے، چلا رہا ہے۔ جلادوں نے اسے بیچ میدان ایک چبوترے پر پٹخ دیا۔ ایک مجمع اکھٹا ہو گیا۔ جلاد اس سے دور ہو کر کھسر پھسر کرنے لگے اور وہ دھاڑیں مار کر روتا رہا۔

’’کیا ماجرا ہے؟ کہ تو دن میں رو رہا ہے جب منظر ابھی نیند سے جاگے نہیں۔ ‘‘میں نے اس کے قریب ہو کر سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔

’’یہ آنسو کسی شاہ کا تاج محل نہیں جسے سوچا اور تعمیر کروا لیا۔ یہ تو غریب کا نصیب ہیں جو موت کی طرح اٹل ہے۔ ‘‘

’’مجھے بھی رونا سکھا دو‘‘

’’کیا کرو گے رو کر؟رونے سے حقیقت دھندلا جاتی ہے اور خواب اتنے شفاف ہو جاتے ہیں کہ دل انہیں چھونے کو مچلنے لگتا ہے۔ مت رونا۔ کسی کے حال پر مت رونا ورنہ عمر بھر سرابوں کے پیچھے بھاگ کر یہ انجام ہو گا جو میرا ہے۔ تم ہنسا کرو، بہت ہنسا کرو، قہقہے لگایا کرو۔ ‘‘

’’وہ قہقہے جو پانی کے بلبلوں کی طرح بکھر جاتے ہیں؟‘‘

’’کرنے کو کچھ نہ ہو تو بلبلوں کا کھیل ایسا برا بھی نہیں ‘‘

مجھے وہاں سے جانا پڑا کیونکہ کھسر پھسر کرنے والے جلاد واپس آ گئے تھے اور پھر سے اس شخص کی کراہیں گونجنے لگیں جو سراب چھونا چاہتا تھا۔ میں ہجوم چیرتا ہوا باہر آ گیا۔

بے یقین معاشروں میں ہر کارخانے، ہر یونیورسٹی سے ایک ہی کھیپ نکلتی ہے سوالوں کی کھیپ اور نہیں ملتے تو ان کے جواب۔

یہ میں کہاں آ گیا؟میں تو گھر سے نکلا تھا بس یہ دیکھنے کہ محبت کے بعد زمین کیسی لگتی ہے؟بس یونہی چلتا رہا تاکہ کہیں د ور نکل جاؤں۔ یوں لگتا تھا جیسے سڑکوں پر سوگواری کی صفیں بچھائی جا رہی ہوں  اور میں کچھ دیر بھی ٹھہرا تو رات کا آسیب مجھے اپنی بانہوں میں جکڑ لے گا۔ اس طرح کہ سانس یہ زندگی کی آخری علامت بھی کہیں دب کے رہ جائے گی۔ ‘‘

میں چلتا رہا کسی گھر کی روشن کھڑکی سے چھنکتے قہقہوں کے باوجود۔

ایسے میں ایک سفید کار میرے قریب آہستہ آہستہ کھسکنے لگی جس میں سفید کنپٹیوں والا ایک خوش مزاج چہرہ میری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

’’مجھے کہیں نہیں جانا۔ ‘‘میں جھلا کر بولا۔

’’ایسا لگتا ہے مگر جسم وجاں کی رات سے پہلے یہ قدم سات نگر گھومتے ہیں جیسے بلی کے بچے سات گھر۔ ‘‘

’’پتہ نہیں ‘‘

’’ایسا ہوتا ہے مگر شعور کے پہلے خواب سے پہلے بھی شعور تو ہوتا ہے۔ ‘‘

’’میں یہاں زندگی کے فلسفوں پر بحث کرنے نہیں آیا۔ مجھے زمین کے رنگ دیکھنے ہیں آج۔ ‘‘میں نے اکتا کر کہا۔

’’اتنی گھنی شام میں رنگ دیکھنے نکلے ہو۔ ‘‘

’’کچھ لوگ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جن کے نصیب میں کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ تو کیا وہ اندھیروں میں بھی کوئی پیکر نہ تراشیں جہاں نظر ٹھہر سکے۔ ‘‘

’’بیٹھ جاؤ ! یہ موٹر تمہیں تم سے شاید کچھ دور لے جائے، جہاں تم تھوڑی آسانی سے سانس لے سکو۔ آخر ہم سب کو کبھی نہ کبھی کچھ  وقت خود سے دور گذارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ‘‘

میں نے مزید کچھ سوچنے کی بجائے کار کا دروازہ کھولا اور بیٹھ گیا۔ کشادہ سڑک پر کار کھسکنے لگی۔

’’بس ایک لڑکی کی ہی بات ہے نہ۔ ‘‘اس کا لہجہ ہمدردانہ تھا۔

’’وہ ایک لڑکی نہیں تھی۔ پوری کائنات تھی جس میں میں سانس لیتا تھا۔ مجھے اب ایسا لگتا ہے کہ میں کسی بہت اونچی چوٹی پر کھڑا ہوں اور سانس لینے کو ہوا مجھے حاصل نہیں۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے میں نے اسے کتنا چاہا۔۔۔۔؟ اتنا کہ جسم کے تقاضے مانند پڑ گئے۔ اتنا کہ روح کے سوالات دب سے گئے۔ اتنا جتنا کوئی خود کو بھی نہیں چاہ سکتا۔ ‘‘

’’کیوں چھوڑا اس نے تمہیں؟‘‘

’’کیوں چھوڑتا ہے کوئی کسی کو۔۔۔۔؟بس اس لئے کہ وہ دوسرے کی ضرورت نہیں ہوتا۔ اس نے مجھے چھوڑ دیا مگر سانس لینا نہیں چھوڑا، عجیب بات ہے نہ کہ وہ سونے کے بنے خواب آنکھوں سے نوچ کر پھینک سکتی ہے مگر پلکیں جھپکانا نہیں چھوڑ سکتی۔ میری بدقسمتی کہ میں اس کا عاشق، اس کا محبوب، اس کا غمگسار سب کچھ بنا مگر اس کی ضرورت نہ بن سکا۔ اگرچہ یہ بہت آسان تھا۔۔۔۔ مگر محبت کوئی پنجرہ تو نہیں ہوتی کہ کوئی خوش رنگ پنچھی اس میں قید کر لیا جائے۔ محبت تو ان پروں کی مانند ہے جن سے کوئی دیوانہ اس ارضی دنیا کی تمام حدوں کو چیر جاتا ہے۔ محبت تو اک اِذن ہے ہمیشہ آزاد  رہنے کا۔ ‘‘

’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’پھر یہ کہ محبت مر گئی۔ وہ میری زندگی سے چلی گئی۔ مگر بات اتنی ہوتی تو شاید ختم ہو جاتی مگر وہ میرے کمرے میں محبت کی ایک مقدس لاش چھوڑ گئی۔۔۔۔۔۔ میں اس کا کیا کرتا؟‘‘

’’بہت کچھ ہو سکتا ہے اب بھی۔ ‘‘

’’اب کچھ ممکن نہیں۔ جب میری محبت کا بے روح جسم  میرے سامنے پڑا تھا تو میری آنکھوں میں کوئی آنسو نہ تھا۔ میں نے صرف اس خوف سے کہ جسم گل سڑ نہ جائے اپنے کمرے کے پچھواڑے میں ایک قبر بنا دی۔ اور اب اوس میں بھیگی ہر صبح میں وہاں جھاڑو دیتا ہوں اور گرد میں لپٹی ہر شام دیے جلاتا ہوں۔ مجاور ختم ہو جاتے ہیں قبریں ختم نہیں ہوتیں۔ اب میرا کچھ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

اس نے بہت بے بسی سے میری طرف دیکھا۔

’’ہم میں سے ہر کوئی کسی قبر کا مجاور ہے۔ مجھے دیکھو میں نے کبھی کسی سے محبت نہیں کی۔ باپ نے جس لڑکی سے رشتہ کیا خامشی سے شادی رچا لی۔ پہلے ہی دن مجھے خبر ہو گئی کہ ہم بہت مختلف راستوں کے لوگ ہیں اور آج بیس سال کے ہو گئے ہم دونوں ایک پر ہجوم راستے پر چل رہے ہیں کچھ اس طرح کہ ہماری آنکھیں راہ فرار ڈھونڈتی ہیں جو ممکن نہیں۔ ہم اپنے مردہ احساسات کی قبر کے پجاری ہیں۔ جانتے ہیں کہ مرنے والے پھر نہیں آتے مگر پکار رہے ہیں ہم اس احساس کو جو پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ دنیا کے سامنے ہم ایک ہنس مکھ جوڑا ہیں، زندگی سے بھرپور۔۔۔۔ مگر اندر سے ہم وہی ہیں مردوں کو جھنجھوڑتے مجاور۔ ‘‘اس نے کہا۔

’’کتنی عجیب بات ہے کہ مجھے فرقت کا غم ہے اور تمہیں قربت کا دکھ‘‘

اس نے اداس انداز میں کھڑکی سے باہر دیکھا اور بے خیالی سے بولا

’’مجھے بہت دفعہ لگتا ہے کہ میرا سانس گھٹ رہا ہے مگر سوچتا ہوں کہ اگر میں مر گیا تو یہ دنیا والے میری بھی قبر بنا دیں گے اور میں اپنی اذیت میں کسی اور کو نہیں دیکھنا چاہتا۔ ‘‘

اس نے گاڑی روک دی اور کچھ کہا نہیں مگر میں سمجھ گیا کہ مجھے اتر جانا ہے۔ میں نے باہر نکل کر دروازہ بند کیا اور اندر جھانک کر کہا۔

’’میں نے تمہیں آزردہ کیا۔ آئندہ تم ویران سڑکوں پر گاڑی کھڑی نہیں کرنا۔ کسی بڑی پر رونق مارکیٹ میں چلے جانا جہاں قہقہے مل سکیں۔ کھنکتے قہقہے۔ ‘‘

’’وہ قہقہے جو پانی کے بلبلوں کی طرح پھٹ جاتے ہیں چند لمحوں میں۔ ‘‘اس نے پوچھا۔

’’جب زندگی کا اعتبار بلبلے کی سانسوں سے تھوڑا ہو تو یہ کھیل ایسا برا بھی نہیں۔ ‘‘

میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا چل پڑا کہیں واپس کہ شاید میری قبر کے چراغ بجھ نہ رہے ہوں۔ چلتا رہا بہت دیر تک۔۔۔۔۔ اتنی دیر تک کہ یہ رات، وہ ہمسفر زندہ حقیقت کی بجائے ایک یاد، ایک قبر بن کر رہ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

شیشے بیچنے والا

 

 

چھوٹے سے شہر کی ایک چھوٹی سی دکان سے ایک چھوٹے سے گھر کا راستہ تھا۔ وہ ہلکے ہلکے گنگناتا، ٹہلنے کے انداز میں اس پر چلا جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک تھکن(جو لمبے سفر کا حاصل ہوتی ہے) اور ایک آسودگی (جیسے کڑک سردی میں کوئی کمبل لپیٹ لے) تھی۔

’’سنبل‘‘

ایک نام نہیں، ایک عورت نہیں، ایک چھوٹی سی دنیا تھی۔ جس میں یہ چاند، زمین، خواب، تلے ہوئے بٹیر، مصر کے اہرام سب رہتے تھے۔ اسے آج بھی یاد تھا وہ دن جب پہلی بار اس نے سنبل کو دیکھا۔ بڑی بڑی آنکھوں والی وہ لڑکی جس کے ہونٹ گہرے سرخ تھے اور جس کی رنگت اتنی سفید تھی جیسے راج ہنس۔ جو چلتی تھی تو اس  غرور کے ساتھ جیسے اسے منزلوں کی خبر ہو اور۔۔ اور جس کے بارے میں کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر جو اتنی بے وقوف تھی کہ اس جیسے بے رنگ، عام سے نوجوان کو خود کی طرف دیکھتا پا کر غصے سے جھلانے کی بجائے اسے اپنا دل دے بیٹھی۔ اور جو بہت با وفا تھی۔ جس نے اس سے کبھی کچھ نہیں مانگا۔ نہ بڑا گھر، نہ کوئی آسائش اور نہ ہی اولاد۔ اور جس نے اس کے چھوٹے سے گھر اور بے کیف زندگی کو ایک دنیا بنا ڈالا تھا۔ جس میں چاند، زمین، خواب، تلے ہوئے بٹیر۔۔۔ سب رہتے تھے۔

سنبل کے بارے میں سوچ کر اس کے دل میں سرشاری سی امڈ آئی۔ اور اس کی گرم بانہوں کے تصور نے ایک وارفتگی کے عالم میں اسے اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا۔ گھر کی چوکھٹ پر پہنچا تو سب کچھ اجنبی سا تھا۔ شادی کے ان بیس سالوں میں آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ گھر لوٹا تو دروازے کی درز سے جھانکتی دو آنکھیں اسے نہیں ملیں۔ وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگا۔۔۔۔۔۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا اور وہ جھنجھلا گیا۔ ابھی کل شام ہی تو سنبل نے اس سے پہلی مرتبہ اکیلے اپنی ماں کی طرف جانے کی اجازت مانگی تھی۔ اور اس نے کتنی خوشدلی سے اجازت دے بھی دی تھی۔ پھر وہ بھلا کیوں درز کے پیچھے دو آنکھیں ڈھونڈ رہا تھا۔

وہ دروازے کے قریب ہوا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کاش اس کی یادداشت اسے دھوکہ دے رہی ہو اور سنبل وہیں ہو۔ کہیں کچن میں یا بیڈ روم میں۔ مگر دروازے پر موٹا سا تالا پڑا تھا۔

اس نے سر کو مایوسی کے عالم میں جھٹکا اور لگا جیب میں چابیوں کو تلاش کرنے۔ مگر کہاں؟وہ دکان سے چابیاں لے کر چلا ہی کہاں تھا۔ اب کیا کیا جائے؟

اس وقت کہاں جاؤں؟

’’خیر ایک رات ہی تو ہے!دکان  میں سو جاتا ہوں۔ اب کون اتنی دور جا کر چابیاں لے کر آئے۔ ‘‘

یہ سوچ کر وہ  واپس گھوم گیا۔

آج جیسے یہ کوئی نیا راستہ تھا۔ ویران، خاموش اور پر اسرار سا۔ صبح کو تو کتنے لوگ ہوتے تھے۔ سب کے سب جلدی میں۔ نیم خوابیدہ  سے، سوجی آنکھوں والے۔ وہ چلتا رہا۔ راستے میں ایک ہوٹل پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ گلی کی نکڑ پر کھڑے کتے کو دیکھ کر ذرا سا جھجکا، مگر پھر جی مضبوط کر کر گذر گیا۔ ایک گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے کسی عورت کے چلانے کی آواز سنی۔۔۔۔ بس اور کوئی خاص واقعہ نہیں ہوا  اس واپسی کے سفر میں۔ دکان کے قریب پہنچا تو ایک عجیب سا احساس ہواجیسے۔۔۔۔ جیسے اکیلے گھر میں کسی ان دیکھے بھوت کا احساس۔ قطرہ قطرہ منجمد ہوتا ہوا لہو، دریا دریا پھیلتا ہوا خوف۔ ٹھٹھکتے قدموں، تیز ہوتی ہوئی سانسوں اور گھومتی ہوئی نظروں کے بیچ کسی کو نہ پانے کا کرب۔ یہ سب اس کے لئے نیا تھا۔ اس ایک زندگی سے باہر جو سنبل تھی ایک اور دنیا بھی تھی۔ اس کی اور اس کے شیشوں کی دنیا۔ اس کی دکان میں ہر قسم کا شیشہ تھا۔ چھوٹے جیبی آئینے سے لے کر بڑے سنگھار میز کے شیشے تک سبھی وہاں تھے۔ وہ سارا دن، سارا سال، تمام عمر اپنے لا تعداد عکس اپنے گرد گھومتے دیکھتا رہا۔ مگر ایسا احساس کبھی نہیں ہوا تھا۔ واقعی رات اور تنہائی ہر چیز کو بہت مختلف کر دیتے ہیں۔

آخر کب تک وہیں ششدر کھڑا رہتا۔ وہ آگے بڑھا۔ ایک جھجک کے ساتھ۔ بالکل ویسے ہی جیسے کسی کا دوست اسے نقاب لگا کر، ہاتھوں میں بندوق لئے  ڈرائے اور وہ اپنے دوست کی کسی حرکت کو پہچان کر اس کا نقاب اتارنے کو آگے بڑھے۔ ایک یقین، ایک اعتماد اور تھوڑی سی بے یقینی کے ساتھ۔ اس نے قریب جا کر شٹر کے ساتھ کان لگا دیے۔ اندر سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں۔ مدھم، ہلکی سی، مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی سی آوازیں۔ آوازیں جیسے کوئی دھیمے دھیمے چل رہا ہو، جیسے بہت سے سر ساتھ ساتھ جڑے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔

کون ہو سکتا تھا؟اس نے آہستگی سے شٹر کا تالہ کھولا۔ پھر یکدم اس نے ایک جھٹکے سے شٹر اٹھا دیا۔ کمرے میں ایک بھگدڑ سی مچ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر لائیٹ آن کر دی۔ کمرے میں لاتعداد عکس تھے۔ چھوٹے بالشت بھر کے، بڑے اس کے قد کے برابر اور سب بالکل اسی کی شکل و صورت کے۔ پھر سبھی جلدی جلدی اپنی اپنی جسامت کے مطابق آئینوں میں گھس گئے۔ یہ صرف ایک لمحہ ہی تھا۔ اب ہر چیز اپنے معمول کے مطابق تھی۔ خاموش، ویران، بے کیف سی۔ کتنے رنگ ہماری زندگی میں بکھر نہیں پاتے کہ انہیں دیکھنے کے سمے ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ کتنے ہنگامے زندگی کی بے کیفی کا سحر توڑنے  کی طاقت رکھتے ہیں مگر ہم ان کا ادراک ہی نہیں کر پاتے۔

تھوڑی دیر وہ بت بنا کھڑا رہا۔ پھر اس نے شٹر گرا دیا اور تھکے تھکے قدم اٹھاتا اپنی کرسی پر جا گرا۔ سامنے وہی سالخوردہ میز تھی جس کے ایک پاؤں ٹوٹنے پر اس نے اینٹ رکھی ہوئی تھی۔ اتنی بے احتیاطی سے کہ ذرا سا  وزن پڑنے پر میز گویا گر جاتی۔ یہ میز بہت پرانی تھی اور اینٹ بھی۔

اسے یاد تھا وہ دن جب میز بھی اس کی طرح جوان اور شفاف تھی۔ بالکل نئے چمکتے سکے کی طرح۔  وہ اس میز کا پہلا دن تھا۔ دکان اس کی وجہ سے کچھ اور چمک رہی تھی۔ پھر منظر بدلا اور وہ سر جھکائے یہیں اسی میز کنارے آ کھڑا ہوا۔ اس کے باپ کے ہاتھوں میں اخبار تھا جس میں اس کا ریزلٹ چھپا تھا۔ وہ فیل ہو گیا تھا۔

اور فیل کون نہیں ہوتا؟زندگی میں کبھی نہ کبھی ہر کوئی ہوتا ہے مگر وہ دن اتنا مہربان نہیں تھا کہ اس کے سینے پر کوئی زخم چھوڑے بنا گزر جاتا۔ اس کا باپ اپنی کرسی سے اٹھا۔ ایک زوردار ٹھوکر نئی نویلی میز کو لگائی جس سے میز کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میز ایک طرف کو جھک گئی۔ اس پر رکھا پانی کا گلاس گر کر ٹوٹ گیا۔ وہ آگے بڑھا۔ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کا باپ ہاتھ جھٹک کر باہر نکل گیا۔

وہ شام تک باپ کی راہ دیکھتا رہا۔ پھر کہیں سے ایک اینٹ لا کر اس نے میز کو سیدھا کیا، ٹوٹے شیشے اکھٹے کر کر باہر پھینکے، روشنیاں بجھائیں اور شٹر گرا کر گھر کی طرف چل دیا۔ اس کا باپ گھر پر تھا۔ گھر پہ ہی رہا۔ ایک دن وہیں سے قبرستان پہنچ گیا۔ اور وہ جسے اس کے باپ نے شدید غصے کے باوجود ایک لفظ بھی نہ کہا تھا، ہر رات اپنے گناہ کی صلیب اٹھائے گھر کو لوٹتا۔ کتنی بڑی سزا ملی تھی اس کو کہ اس کے کام، اس کی عبادت کو ہی اس کی بیگار بنا دیا تھا۔ جیسے سمندر کے بیچ تیرتی مچھلی سے کہ دیا جائے کہ یہ سمندر تیرا زنداں ہے۔ کتنا چھوٹا لگنے لگے گا اسے ان بیکراں پانیوں کا سلسلہ؟کتنا دم گھٹے گا اس کا؟اس کا بھی دم گھٹا مگر وہ کھلا آسماں جس میں وہ سانس لیتا رہا۔

اسے مایوس، اداس اور دکھی دیکھ کر قد آدم آئینے سے ایک عکس نکلا۔ بالکل اس جیسا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا اس کے قریب آ رہا تھا۔ ایسے میں باقی سب آئینوں سے بھی عکس جھانکنے لگے۔ کچھ نے تو ایک قدم باہر بھی رکھ دیا۔ وہ بڑے والا عکس اس کے قریب آیا اور بڑی احتیاط سے میز پر بیٹھ گیا۔ اتنی آہستگی سے کہ اینٹ نہ سرک جائے۔ پھر ایک مدھم بھنبھناتی ہوئی آواز میں کہنے لگا

’’بہت سال ہوئے، میں نے تجھے کبھی اتنا اداس نہیں دیکھا۔ ‘‘

’’میں اداس اس لئے ہوں۔۔۔

کہ میں اپنے خواب پورے نہیں کر سکا۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اس لئے کہ سنبل نہیں ہے۔ وہ دنیا نہیں ہے جس میں میں سب کچھ بھول جاتا ہوں۔۔۔۔ اور اس لئے کہ میں یہاں، رات گئے احمقوں کی طرح تم سے باتیں کر رہا ہوں۔ ‘‘اس نے جھلا کر کہا۔

’’بہت لمبا راستہ ہے۔ تم اس پر کب تک آنکھیں بند کر کر چلو گے۔ کب تک ایک خواب ایک محبت کے لئے ساری حقیقتوں کو جھٹلاتے رہو گے۔ ایک گناہ کے ڈر سے تم نے نئی سمت میں قدم ہی نہیں اٹھایا۔ فیل کون نہیں ہوتا۔ مگر اس خوف سے کوئی امتحان میں بیٹھنا بند نہیں کر دیتا۔ یہاں کامیابی غلطیوں سے مطلق بچنے کا نام نہیں بلکہ مسلسل قدم اٹھا نے کا نام ہے۔ ‘‘

’’مجھے پرواہ نہیں ہے اور سنو۔۔۔ شاید لوگ دیکھتے ہوں گے اور بولتے ہوں گے تنہائی میں اپنے عکس سے اور بھینچ کر سینے سے لگا لیتے ہوں گے سناٹوں کے خوف سے تم کو۔ مگر میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں اتنا بڑا اداکار نہیں ہوں۔ اگر دنیا نے جان لیا تو لوگ مجھے پاگل خانے لے جائیں گے۔ ‘‘

عکس کے چہرے پر مایوسی پھیل گئی۔ ’’میرے ساتھ چلو۔ جہاں امکانات کے دریا بہتے ہیں۔ میں تمہیں دکھاؤں گا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟‘‘

’’نہیں۔۔۔۔۔۔ خاموش رہو۔ مجھے مت کہو کہ تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو؟کیونکہ مجھے کچھ کرنا ہی نہیں۔ مجھے بس زندہ رہنا ہے دنیا میں ایک عام آدمی کی طرح اور محسوس کرنا ہے بس اتنا، جتنا ضروری ہے۔۔۔ سانس لینے کے لئے معجزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور جو سانس لینے کے لئے زندہ رہتا ہے۔ وہ ہی بس سکھی رہ سکتا ہے۔ ‘‘

عکس شاید ابھی کچھ بولنا چاہتا تھا مگر پھر لاحاصل جان کر مایوسی کے انداز میں چلتا اپنے آئینے میں گھس گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ سب جھانکنے والے بھی چلے گئے۔ اب وہ پھر سے اکیلا تھا۔ اس نے احتیاط سے میز پر سر رکھا اور آنکھیں موند لیں۔

وہ نجانے کب تک پڑا سوتا رہتا کہ شٹر اٹھنے کی آواز نے اسے جگا دیا۔ سامنے اس کا پڑوسی کھڑا تھا۔

’’مجھے یقین تھا کہ آپ یہاں ہوں گے۔ جلدی چلیے۔ رات سنبل بھابھی کا انتقال ہو گیا۔ ان کے میکے سے خبر آئی ہے۔ دل کا دورہ پڑا تھا ان کو۔۔۔ ارے صاحب چلیے تو۔ ‘‘

اس کی آواز مدھم ہوتی گئی اور کائنات میں شور بڑھنے لگا۔ اتنا کہ کچھ  سنائی نہ دیتا تھا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کہیں لے گیا۔ کسی شور والے گھر میں۔ پھر ایک خاموش نگر میں انہوں نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں والی سنبل کو قبر میں اتار دیا۔ پھر پھول اور نجانے کیا کیا۔۔

کتنے دن وہ دکان بند رہی۔ پھر ایک شام اس نے شٹر اٹھایا۔ اندر بہت خاموشی تھی۔ اس نے چیخ چیخ کر سب کو آوازیں دیں۔

’’باہر آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ مجھے معجزوں کی ضرورت ہے۔ میں نے تمہیں ٹھکرایا کہ میرے پاس بڑی خوبصورت حقیقت تھی اور اب تمہاری ضرورت ہے کہ ہر حقیقت فانی ہوتی ہے اور معجزات لافانی۔ میرے سامنے آؤ کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔۔ ‘‘

اس رات کے بعد شہر کا بازار کبھی نہیں سویا۔ کہ ایک دکان کی روشنیاں ہمیشہ نظروں کو خیرہ کرتی رہتی ہیں۔ جس میں ایک بوڑھا اپنے شیشوں کو چمکاتا، ساری رات خود سے بولتا رہتا  ہے اور صبح ہوتے ہی دکان کا شٹر گرا کر گھر کو چل دیتا ہے۔ دھندہ اس کا اب بھی چلتا ہے۔ شیشوں کے گاہک شام کے بعد چلے  آتے ہیں۔ اور چھوٹے سے شہر میں وہ جائیں بھی تو کہاں؟

٭٭٭

 

 

 

عفریت

 

 

ہمیں ایک سفر پہ چلنا ہے۔ دور بہت دور ملگجی سی منزلوں کی طرف۔ ایک مسافر کے تعاقب میں جس نے بہت دیر ہوئی شاہراہ کو چھوڑ دیا تھا۔ شاہراہ جس پر سب، ایک دوسرے سے پیوست وقت کی طرح بہے چلے جا رہے ہیں۔ نہیں جانتے کہ اگلے موڑ پر کونسے عفریت منہ کھولے کھڑے ہیں، خبر نہیں کہ ان راستوں پہ نجانے کتنے خوابوں کے مقبرے ہیں۔ بس ایک حدت جو ہمراہیوں کے بدن سے اٹھتی ہے اور یخ بستہ جنگلوں میں پھنکارتا اکیلا پن۔ یہ نہ ہوتا تو شاید سبھی اس مسافر کے پیچھے نکل کھڑے ہوتے۔ اور پھر جنگل میں اتنا شور مچتا، صحراؤں میں ایسے رقص ہوتے کہ وقت سے عاجل کو بھی لمحہ بھر ٹھہرنا پڑتا۔ اور کون جانے وہ کتنی دیر میلے میں مبہوت ہوئی لڑکی کر طرح اس ناٹک کو دیکھتا رہتا؟

مگر ایسا نہیں ہوا۔۔۔۔

بہت خامشی تھی۔۔۔ جیسے کوئی گلاب کی جھولی میں شبنم بھر رہا ہو،

بڑی نا سمجھی۔۔۔۔ جیسے کوئی محبت کر رہا ہو

اور ایک بہت بڑی حیرانگی۔۔۔۔ جیسے کوئی پہلی بار مر رہا ہو۔

اس نے اپنے بوسیدہ کوٹ کو جسم کے گرد مضبوطی سے لپیٹ لیا اور پھر ہجوم میں آہستگی سے ایک طرف ہونے لگا۔ کسی نے اسے نہیں دیکھا کیونکہ ہر نظر تو کہیں سامنے لگی تھی۔ اس نے بس ایک مرتبہ مڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔ شاید کوئی نظر ڈھونڈتا تھا جس میں لوٹ آنے کی التجا ہوتی۔ اور پھر اس نے کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔ بس آہستگی سے وہ یخ بستہ تنہائیوں کی گود میں اترتا چلا گیا۔ ہمارا سفر اس لمحے کی طرف ہے، اس مسافر کی سمت ہے۔

اس لئے نہیں کہ وہ کوئی بہت خاص آدمی تھا۔۔۔۔۔ آدمی تو سبھی خاص ہوتے ہیں۔ اس راہگذر کے ہر ذرے میں لافانی کہانیاں چھپی ہیں۔ پر ان سب کا تعلق ماضی سے ہے اور بھیڑ سے جدا ہوتا ہوا وہ شخص ہمارا مستقبل ہے۔ اس کارواں میں چلنے والے ہر اس ذی روح کا مستقبل جو ابھی سوچ سکتا ہے۔ ہمیں جاننا ہو گا۔۔۔۔۔ وہ کونسی دیوانگی ہے جو ایک اچھے خاصے بھیڑ میں چلنے والے شخص کو یوں تنہائی کی گود میں لا پھینکتی ہے۔ یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں ہم جن سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ تو آئیے ایک سفر پر چلتے ہیں۔ ملگجی سے منزلوں کی طرف۔ ایک مسافر کہ جس نے شاہراہ کو چھوڑ دیا تھا۔

٭٭

 

وہ ایک سرد رات تھی۔ سارا شہر سر شام ہی اپنے بھٹ میں دبک گیا تھا۔ اگر کوئی اجنبی ہوتا تو ضرور پوچھتا

’’اس وقت کس بلا کا گذر ہوتا ہے۔ جو یہ شہر اتنا سنسان ہے؟‘‘

پر زندگی کے عفریت سے سہمائے، وقت کے شور سے اکتائے اس شہر میں کوئی اجنبی نہیں تھا۔ اجنبی تو وہاں ہوتے ہیں جہاں آشنا ہوں۔ ایک دھرتی جس پر زندگی کے سارے رنگ پھولوں کی بیلوں کی طرح آپس میں پیوست ہوں، ایک ساحل جس پر ہر لمحہ پیار کے گھروندے بنتے ہوں، ایک گھر جس میں لوگ ایک دوسرے سے نظریں چراتے نہ ہوں۔

یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ ایک بہت بڑا ہجوم اور اس سے بھی بڑی تنہائی۔ یہاں سوال کریں تو کس سے؟سو سبھی دبک لیتے ہیں اپنے اپنے کونوں میں اور موٹے کمبلوں میں رات بھر ٹھٹھرتے ہیں۔ وہ بھی سو نہیں پا رہا تھا۔ اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ اس نے اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولا اور سیڑھیاں چڑھتا ہوا چھت کی طرف نکل گیا۔ چھت پر پہنچتے ہی انتہائی سرد ہواؤں نے اس کا استقبال کیا۔ مگر ساتھ میں ان برف کے نشتروں نے اس کی روح میں بھری ساری کسلمندی ددر کر دی۔ وہ آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا منڈیر کی طرف گیا۔ یہ خاصے اونچے اپارٹمنٹس تھے۔ وہ یہاں سے شہر کا ایک بڑا حصہ دیکھ سکتا تھا۔ دور تک پھیلے نیم تاریک گھر اور اپنے بستروں میں دبکے اس جیسے انسان۔ کاش وہ سب کو یہیں، اس چھت پر اکھٹا کر سکتا۔ یہ آزادی، یہ توانائی جو یہاں اس وقت تھی، وہ سب میں بانٹنا چاہتا تھا۔ جیسے یہ سب ہزاروں برس پرانی کسی کارواں سرائے کا صحن ہو اور آگ کے گرد بیٹھے مسافروں کو وہ دور دیس کے قصے سنا سکے۔ پر یہاں کون تھا؟شہر خموشاں میں بھی سلام کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم ہے کہ زندگی کے کچھ درجات ایسے بھی ہیں، ہم جن کا شعور نہیں رکھتے۔ پر اس شہر کی نیند تو موت سے بھی گہری تھی۔ یہاں سلام بھی کرو تو وہ پہاڑوں کی بازگشت کی طرح اپنے ہی کانوں کا طواف کرنے لگتا ہے۔ وہ منڈیر سے پشت ملا کر بیٹھ گیا۔ اس کا چہرہ سفید ہو رہا تھا، ہاتھ سردی سے پھول رہے تھے۔۔۔۔ پر وہ پھر بھی کہیں جانا نہیں چاہتا تھا۔

ایسے میں اسے ایک سسکی سنائی دی۔ اس نے دیکھا کہ چھت کے دوسرے کونے پر کوئی تھا جو آسمان کی طرف چہرہ اٹھائے رو رہا تھا۔ وہ اسے جانتا تھا(اگرچہ یہ واقفیت خاصی حیران کن بات تھی۔ پر اس لڑکے کو تو گویا ان اپارٹمنٹس میں ہر کوئی پہچانتا تھا)۔ وہ ایک مدقوق سا لڑکا تھا جس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے۔ وہ ہمیشہ گھبرایا اور کھویا ہوا نظر آتا تھا۔ ہر مہینے وہ خود کشی کی کسی نئی کوشش میں ناکام ہوتا ہوا پکڑا جاتا تھا۔ کبھی وہ اپنی کلائیوں کو بلیڈ سے کاٹ لیتا، کبھی بہت سی خواب آور گولیاں کھا لیتا، ریل کی پٹڑی پر جا لیٹتا، پنکھے سے لٹکنے کی کوشش بھی کر دیکھی۔۔۔۔ مگر ہر دفعہ بچا لیا جاتا۔ کون جانے کہ وہ یہ کوششیں کیوں کرتا تھا؟وہ حیران تھا تو صرف اس بات پر کہ دوسرے بہت سے لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے تھے؟

پھر اس نے دیکھا کہ لڑکا منڈیر پر کھڑا ہو گیا۔ اس کا جسم ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ اس کے آنسو ابھی تک تھمے نہیں تھے۔ اس کے قدم غیر ارادی طور پر لڑکے کی طرف اٹھنے لگے۔ لڑکا اسی طرح اس منڈیر پر کھڑا لرز رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ابھی وہ چھلانگ لگا دے گا۔

’’تو آج اس بیوقوفانہ اقدام کو روکنے کی باری میری ہے۔ ‘‘اس نے بیزاری سے سوچا اور لڑکے کو بازوؤں سے پکڑ لیا۔ اور پھر اسے ایک عجیب سا احساس ہوا۔ لڑکے کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔ لڑکے نے مڑ کر اسے دیکھا تو ان آنکھوں میں دیوانگی کی کوئی جھلک نہ تھی۔ ایک ممنونیت تھی، احساس تشکر تھا اور جیسے کہ وہ اسی لمحے کا منتظر تھا۔ اسے لگا جیسے وہ لڑکا دل ہی دل میں مسکرا بھی رہا ہو اس پر، اس شہر پر، زندگی پر۔۔۔۔۔۔۔ وہ شاید مرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اسے شاید بس زندگی و موت کا یہ کھیل کھیلنے میں مزا آتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا نہ ہوتا تو بھلا وہ کیوں منتظر ہوتا؟

اور اب لڑکے کا ڈھیلا ہوتا ہوا جسم انتظار میں تھا کہ وہ اسے کب اپنی طرف کھینچتا ہے پر اس نے۔۔ بڑی آہستگی سے اسے باہر کی طرف دھکیل دیا۔ لڑکے کی آنکھوں میں بے اعتباری کا سیلاب اتر آیا اور پھر ایک دلدوز چیخ کے ساتھ وہ نیچے گرنے لگا۔

پہلی روشن کھڑکی جس سے اس نے سفید شلوار قمیض پہنے اس بڑھیا کو نماز پڑھتے دیکھا، دوسری روشن کھڑکی جہاں سر جھکائے ایک لڑکا اپنی کتابوں میں مشغول تھا، تیسری روشن کھڑکی جہاں ایک عورت اپنے شوہر کے سینے سے لگی کھڑی تھی اور پھر روشنی کی ایک چھوٹی سی کھنچتی ہوئی درز۔۔۔۔ جس سے وہ سب کچھ دیکھ سکتا تھا۔ وہ عورت، وہ لڑکا، وہ بڑھیا، پچھلے سال نظر آنے والا سورج گرہن، اپنی محبوبہ کی شادی پر جلنے والے قمقمے، اپنی ماں کی آنکھیں اور۔۔۔۔۔ وہ سب کچھ دیکھ سکتا تھا مگر تیز برفیلی ہوا جواس کی آنکھوں میں گھسی جا رہی تھی، بے پناہ طاقت سے بجتے ہوئے ڈھول کا شور اور پاگل کر دینے والی چنبیلی کی خوشبو۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ اب کچھ اور دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اور پھر دھپ کی ایک بے ڈھنگی صدا کے ساتھ اندھیرے اس کے جسم میں بکھر گئے۔

نماز پڑھتی بڑھیا نے ایک مدھم سی چیخ سنی۔۔۔۔ اس نے کن اکھیوں سے کمرے میں دیکھا۔ یہ عمر کا وہ دور تھا جب آپ فرشتوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ بھی سننے لگتے ہو اور ہر آہٹ کسی بلاوے کی طرح لگتی ہے۔ کمرے میں کسی کو نہ پا کروہ پہلے کے سے خشوع سے پھر عبادت میں مصروف ہو گئی۔

میز پر پڑھتے لڑکے کو کوئی صدا نہیں آئی۔ کیونکہ اس کے کمرے میں خاصی تیز آواز میں میوزک بج رہا تھا پر اسے لگا جیسے کوئی سایہ سا اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرا ہو۔ اس نے کھڑکی کے قریب ہو کر باہر دیکھا تو سب کچھ ویسا ہی تھا۔ آسمان پر چاند جگمگا رہا تھا اور سامنے سارا شہر نیم تاریک اور خاموش تھا۔ وہ پھر سے اپنی کتاب میں کھو گیا۔

عورت نے چیخ سنی اور وہ وہیں منجمد ہو کر رہ گئی۔ اس نے ایک لمحہ کو انتظار کیا کہ شاید کوئی اور صدا آئے جس سے اس اسرار کی کچھ خبر ہو سکے اور پھر تھوڑے انتظار کے بعد پہلی سے گرمجوشی سے اپنے شوہر سے لپٹ گئی۔

اور وہ اب تنہا چھت پر کھڑا تھا۔ اس نے ایک مرتبہ بھی منڈیر سے جھانک کر نیچے نہیں دیکھا۔ اسے دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ تو بس یہ سوچ رہا تھا کہ اگر کچھ دیر اور چھت پر کھڑا رہا تو سردی لگ جانے کا امکان ہے۔ اس لئے اپنے اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑا۔ کمرے میں جاتے ہی وہ بستر پر گرا اور جلد ہی گہری نیند سو رہا تھا۔ ویسی ہی میٹھی نیند جیسی لمبی مسافت طے کرنے کے بعد میسر ہوتی ہے۔

 

٭٭

 

وہ اس دن بہت دیر تک سوتا رہا۔ ایسی نیند اسے بہت کم نصیب ہوا کرتی تھی۔ اسے بہت سے خواب بھی آئے۔ جیسے وہ ہواؤں میں اڑ رہا ہو اور بلند پہاڑوں کے بیچ گھوم رہا ہو۔ اس نے اس لڑکے کو بھی دیکھا۔۔۔۔ بہت خوش اور سفید چمکتے لباس میں ملبوس۔ اٹھا تو جسم میں ایک تازگی تھی۔ ایسی تازگی جیسے۔۔۔

جیسے آپ نے رات گئے کسی کا خون کیا ہو(مجھے معاف کر دیجئے پر مجھے اس تازگی کے لئے اس کے سوا کوئی اور استعارہ مل ہی نہ سکا)۔

وہ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟آخر اس نے ایک معصوم کی جان لی تھی۔ تو پھر وہ احساس ندامت کیا ہوا؟وہ بے خوابی، وہ ضمیر کے نشتر، وہ غشی کے دورے۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں تھا۔ آخر ایسا کیوں تھا؟شاید اس لئے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا۔ اس نے ایک تکلیف اٹھاتے جسم کو اگر اس قید زندگی سے رہا کیا تو کیا برا کیا؟وہ اپنے جواب سے مطمئن نہیں تھا۔

’’کیا میں ایک عفریت ہوں جو رحم، محبت اور پچھتاوے جیسی انسانی خصوصیات سے ہی محروم ہوں؟ میں تتلیوں کے پیچھے بھاگتے اس بچے سے کب اس سرد عفریت میں ڈھل گیا، خبر ہی نہ ہوئی؟ابھی تھوڑی دیر پہلے میں زخمی چڑیا تک کی تیمار داری کے لئے رات بھر جاگتا تھا اور کل رات میں نے جھک کر منڈیر سے اس کی لاش تک نہ دیکھی۔۔۔۔۔۔ آخر یہ سب کیسے ہوا؟کیا اکیسویں صدی کا ایک منطقی انسان عفریت بنے بغیر رہ سکتا ہے؟‘‘

یہ اور ایسے ہی چند دوسرے سوالات تھے جو اس کے ذہن میں کلبلا رہے تھے۔ ایسے بے معنی، خالص علمی سوالات آپ صرف تبھی سوچ سکتے ہو جب آپ کا پیٹ بھرا ہو ہو۔ موسم خوشگوار ہو، رزق کمانے کی فکر سے بے نیاز ہو۔ بس ایسے ہی حالات میں یہ ذہنی عیاشی ممکن ہے۔ آپ یہاں سوچوں کے تانے بانے بنتے ہو۔ لامتناہی سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہو، لامحدود کو گھیر لینے والا زنداں بناتے ہو۔ اور یہ سب کچھ آپ محض اس لئے کرتے ہو تاکہ آپ کو انسان سمجھا جا سکے۔۔۔ دوسرے لوگوں کو خود شناسی کے لئے ایسے کمزور سہاروں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ محنت کرتے ہیں، پسینہ بہاتے ہیں، محبت کرتے ہیں، خواب دیکھتے ہیں اور اس طرح وہ خود کو پہچان لیتے ہیں۔

خیر دوسرے لوگ کیا سوچتے ہیں؟اور کیا مصائب اٹھاتے ہیں؟میں کبھی نہیں جان سکتا۔ میں تو ساری حجت ظاہر پر ہی قائم کر سکتا ہوں۔ میرا تجزیہ تو بس ان کے آنسووں، چہرے کے تاثرات، اعضا کی حرکات تک جا سکتا ہے۔ کیا خبر ایک بہروپیا سا عفریت ان کے دلوں میں بھی چھپا ہو۔ جو اپنی سرد مہری کو گرمجوشی میں چھپا لے، جو اپنی آنکھوں کی بیگانگی کو آنسوؤں کی چادر میں لپیٹ لے۔ یقیناً ایسا ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگر یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں ان سے مختلف ہوں۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ وہ سب واقعی محبت کرنے والے، تکلیف اٹھانے والے اور جذبات رکھنے والے انسان ہوں اور میں ان سے مختلف محض ایک عفریت۔ مگر میں پھر دہراؤں گا کہ ہر عاقل اور منطقی انسان ایک عفریت ہونے پر مجبور ہے۔ تو کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ انسان منطقی طور پر ایک  irrational entityہے؟

یہ سوال ایسا نہیں کہ چند ذہنی قلابازیوں سے وہ اس کا جواب ڈھونڈ سکتا۔ وہ اس سوال کو اوڑھے اپنے فلیٹ سے نکل آیا۔ زندگی اسی معمول سے جاری تھی۔ سڑک پر گاڑیاں بڑی رفتار سے دوڑے چلی جا رہی تھیں (اس گمان سے بھی بے خبر کے کل رات یہاں کسی لڑکے نے اپنی آخری سانسیں لیں تھیں)۔ فٹ پاتھ پر اپنی گھڑیوں پہ نظریں جمائے لوگ چل رہے تھے۔ اتنی بیگانگی، اتنی اجنبیت۔ یہ شہر انسانوں کا تو نہیں ہو سکتا۔ وہ چلتا رہا۔ چوک پر کھڑے سپاہی نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی اور پھر گاڑیوں کے اس بیکراں قافلے کو سنبھالنے میں مصروف ہو گیا۔ اس کے سوا کسی اور نے اسے نہیں دیکھا۔ وہ یونہی بے خیالی سے چلتا قریبی ہسپتال میں پہنچ گیا۔ وہاں وہ بڑی دیر انکوئری والے سے اپارٹمنٹس کی چھت سے گرنے والے لڑکے کے بارے میں پوچھتا رہا۔ اسے کوئی بھی معلومات نہ مل سکیں۔ پھر سوچنے لگا کہ بھلا ایسے لڑکے کو کوئی ہسپتال کیوں لانے لگا۔ وہ تو غالباً گرتے ہی مر گیا ہو گا۔ وہ وہاں سے نکل کر قبرستان چلا گیا۔ وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ ایک گورکن کے سوا جو ایک کونے میں نئی قبر کے لئے کھدائی کر رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ گورکن اپنے کام میں مصروف رہا۔ پھر وہ تھک کر ایک قریبی پتھر پر بیٹھ گیا۔ اور پھر بیٹھا ہی رہا۔ یہاں تک کہ زور زور سے کلمہ پڑھنے والوں کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں۔ وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے بڑی خامشی سے تمام رسومات میں شرکت کی۔ بڑے اعتماد سے روتی ہوئی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ اور مٹھی بھر مٹی قبر پر بھی پھینکی۔ پھر سب لوگ آہستہ آہستہ چلے گئے۔ وہ پھر پتھر پر بیٹھ گیا۔ اب شام ہو چلی تھی۔ آخری آدمی نے جاتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہلکی سے تھپکی دی۔

تھپکی کے ساتھ ہی وہ گویا کسی گہری نیند سے جاگ گیا۔ اب پھر وہ ایک سرد عفریت تھا۔ اس نے ایک لمحے کو بھی مڑ کر قبر کی طرف نہیں دیکھا گو تازہ مٹی کی خوشبو ابھی تک اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ قبرستان سے تھوڑا دور وہ ایک تکے بنانے والے کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور پھر سنسان ہوتی سڑکوں پر چہل قدمی کرنے لگا۔ ایسے میں اس کی نظر بس سٹاپ سے کچھ دور کھڑی ایک لڑکی پر پڑی۔ اس نے اسے یہاں بہت بار کھڑے دیکھا تھا اور خوب جانتا تھا کہ وہ یہاں کیوں ہے مگر کبھی بھی یقین نہیں کر سکا۔ وہ اتنی شفاف، اتنی معصوم نظر آتی تھی جیسے سکول بس کا انتظار کرتی کوئی بچی۔ مگر اس کے قریب ہمیشہ لمبی لمبی کاریں ہی رکا کرتیں۔ وہ کچھ جھک کر ان سے کچھ کہتی اور پھر سڑک کا وہ کنارا ویران ہو جاتا۔ وہ یہ منظر روز دیکھتا تھا مگر یقین نہیں کر پاتا تھا۔ وہ شاید کبھی بھی اس کے قریب جانے کی ہمت اپنے میں نہ لا پاتا مگر پچھلی رات کے خمار نے اسے نڈر بنا دیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا اس کے قریب چلا گیا۔ لڑکی نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی اور شاید سمجھ گئی کہ وہ کوئی اہم شخص نہیں ہے۔ وہ اس کے قریب جا کر سڑک کے کنارے بیٹھ گیا۔

’’ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟‘‘اس نے آہستگی سے کہا۔

لڑکی کے چہرے پر ناگواری بکھر گئی۔ شاید وقت ضائع ہونے کا احساس بھی تھا اور ساتھ میں ملنے والے لیکچر کی کوفت کا بھی خیال تھا۔ وہ کچھ نہیں بولی۔

’’آپ جواب نہیں دے رہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ جس کا انتظار آپ کو ہے وہ ابھی کہیں نہیں ہے۔ ‘‘

’’جس کا انتظار مجھے ہے وہ آپ کے یہاں بیٹھے رہنے سے تو آنے سے رہا۔ ‘‘اس نے جھلا کر کہا۔

وہ ہنسنے لگا۔ ’’آپ ٹھیک کہتی ہو۔ مجھے واقعی اس وقت یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔ پر کیا کروں کسی اور وقت آپ ملتی کہاں ہیں۔ ‘‘

’’ضرورت کیا ہے ملنے کی؟‘‘اس نے بیگانگی سے کہا۔

’’میں یہاں کبھی نہ آتا اگر ہر شام میں نے گاڑی نظر آنے پر آپ کے چہرے پر ناگواری بکھرتے نہ دیکھی ہوتی۔ ‘‘

وہ چونک پڑی۔ سڑک پر چلتے ہوئے ہزاروں لوگ ہمیں دیکھتے ہیں پر نجانے کیوں ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ہمارا پیچھا کرنے لگے، یا ہم پر نظریں گاڑ دے تو ہم گھبرا جاتے ہیں۔ اپنے اپنے خولوں میں مزید سمٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بھی ایسا ہی کر رہی تھی۔ پہلے اس لڑکی نے اسے نظرانداز کرنے کی کوشش کی اور اب شاید ایک مصنوعی گھبراہٹ کے پیچھے چھپنے کی۔ وہ کہنا چاہتا تھا کہ

’’گھبراؤ نہیں۔ میں تو صرف تمہیں جاننا چاہتا ہوں۔ تم سے باتیں کرنا چاہتا ہوں اور اگر ہو سکے تو تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘مگر وہ جانتا تھا کہ اس کی طرف بڑھا ہر قدم اسے اور خوفزدہ کر دے گا۔ اس لئے محتاط تھا۔

’’تمہیں پتہ ہے کہ تم بہت خوبصورت لڑکی ہو۔ اس لئے اگر یہاں سے گذرتے ہوئے میں روزانہ تم پر نظر ڈالے بنا نہیں رہ سکتا تو اس میں سارا قصور میرا بھی نہیں ہے۔ ‘‘

اس نے دیکھا کہ وہ تھوڑی پرسکون ہو گئی تھی۔ غالباً یہی سوچ کر کہ وہ محض ایک اور شخص تھا جو صرف اس کے جسم کو دیکھ سکتا تھا۔ شاید اس کے لئے یہ خیال بڑا دلفریب تھا کہ وہ یا کوئی بھی اس کے اندر جھانک نہیں سکتا۔

’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘اس نے مصنوعی خفگی کے انداز میں کہا۔

’’بس کچھ وقت تمہارے ساتھ بتانا چاہتا ہوں۔ ‘‘اس نے عاشقانہ انداز میں کہا۔

’’پر میرے وقت کی قیمت ہے۔ ‘‘

’’کاش تمہیں اپنی قیمت کا اندازہ ہوتا۔۔۔بہرحال میں تمہارے وقت کی قیمت ادک کرنے پر بھی تیار ہوں۔ ‘‘

اب کے اس نے انکار نہیں کیا اور اس کے قریب آ گئی۔

’’کہاں چلنا ہو گا؟‘‘

’’اس سڑک پر گھومتے ہیں۔ بڑا خوبصورت موسم ہے آج۔ ‘‘

وہ اس کے ساتھ چلنے لگی۔

’’تم نے بتایا نہیں کہ کسی نئی گاڑی کے رکنے پر تمہیں خوشی زیادہ ہوتی ہے یا دکھ؟‘‘

اس کے سوال پر وہ ہنس پڑی۔

’’لگتا ہے تم کتابیں بہت پڑھتے ہو۔ زندگی کو نہیں پڑھتے۔ یہاں چیزیں سکھ دکھ، اچھائی برائی کے کمپارٹمنٹس میں ترتیب سے رکھی نہیں ملتیں۔ مجھے یاد نہیں کوئی ایسی خوشی جس میں دکھ نہ ملا ہو، کوئی ایسا غم جس پر میں زیر لب ہنس بھی نہ سکوں۔۔۔۔۔ پر یہ سب تم میری باتوں سے نہیں سمجھ سکتے۔ تمہیں کوئی کام کرنا چاہیے۔ ‘‘

’’کیا کام کروں؟‘‘

’’کچھ بھی کر لو۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب ایک مزدور سارا دن پسینہ بہا کر اپنی دیہاڑی لیتا ہے تو وہ دکھ سکھ کا اسرار سمجھ لیتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے میں اپنے کام میں۔ پر تم کام نہ کرنے والے لوگ کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ تکلیف اٹھانا ہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ کہ دکھ سہنا ہی اپنے اندر میں ایک خوشی ہے۔ ‘‘وہ بولتی چلی جا رہی تھی۔

کچھ لوگوں کے بارے میں آپ کا اندازہ کتنا غلط ہوتا ہے۔ نجانے کیوں اسے لگتا تھا کہ یہ لڑکی جسے وہ ہر رکنے والی کار سے محض چند جملوں میں باتیں کرتا دیکھتا تھا، بس انہی جملوں کو بولنے پر قادر ہے۔ جیسے کافی بنانے کی مشین ہو۔ آپ جب بھی اس میں ایک سکہ ڈالو تو وہ کافی کا کپ آپ کے سامنے رکھ دے گی۔ آپ خواہ جو مرضی کر گزرو پر وہ یا تو کچھ نہیں کرے گی یا پھر کافی بنائے گی۔ پر انسان ایسے تو نہیں ہوتے۔ اور وہ بھی ایک انسان تھی۔ اسی کی طرح ارب ہا سوالات میں گھری، اسی کی طرح ارب ہا جوابات سے لیس۔

’’اور تم کیا یہ کام اس راز کو جاننے کے لئے کر رہی ہو؟‘‘اس نے پرخیال انداز میں پوچھا۔

’’نہیں میں مجبور ہوں۔ کاش کہ زندگی میرے سامنے بھی دو راستے رکھتی۔ مجھے خواہش ہی رہی کہ کبھی میں اپنے لئے، اپنی مرضی سے بھی کچھ منتخب کر سکوں۔ جیسے میں کسی لمبی سی گاڑی میں سوار ہوں اور سڑک پر کھڑے لوگ میرے التفات کے منتظر۔ پر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ زندگی مجھ پر کبھی اتنی مہربان نہیں رہی۔ ‘‘اس نے ٹوٹتی ہوئی آواز میں کہا۔

’’تم نے کیسے سمجھ لیا کہ یہ لمبی گاڑیوں والے یہاں اپنی مرضی سے کچھ منتخب کرنے آتے ہیں؟یہ سب تو اسی خوابِ محبت کے ڈسے ہوئے ہیں اور یوں گلی گلی دیوانوں کی طرح کسی تریاق کی تلاش میں پھرتے ہیں۔ اور صحرا میں پیاس سے مرتے ہوئے انسان کے سامنے ہر راستہ کھلا نظر آتا ہے مگر وہ پھر بھی سراب کے پیچھے ہی بھاگتا ہے۔ تم اس آزادی کو کیا نام دو گی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ راستے ہمیشہ ہمارے سامنے ہوتے ہیں مگر ہم میں ان کا سامنے کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’تم مجھے نہیں جانتے۔ میری زندگی کو نہیں جانتے۔ میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ کیا تمہیں نہیں لگتا کہ اس تعفن زدہ زندگی سے نکلنے کی کوشش کی ہو گی میں نے؟کیا کیا نہ کر دیکھا میں نے مگر۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دن مجھے احساس ہوا کہ موت کے سوا اس قید سے رہائی ممکن نہیں۔ ‘‘

’’تو تم مر کیوں نہیں جاتی؟‘‘میرے اندر کا عفریت بیدار ہونے لگا۔

’’شاید میں نے غلط کہہ دیا۔۔۔ میں بدنصیب تو مر بھی نہیں سکتی۔ بہت سے زندگیاں جڑی ہیں میری زندگی سے۔ ‘‘

’’ہم اور ہمارے چاہنے والوں کی زندگیاں ایک عجیب ڈور سے بندھی ہیں۔ اس ڈور کو جتنی بار توڑو، یہ پھر سے جڑ جاتی ہے۔ اور پھر ٹوٹے ہوئے ٹکڑوں کو تو کوئی یاد بھی نہیں رکھتا۔ ‘‘میں نے کہا۔

’’تم صحیح کہتے ہو پر کیا موت زندگی سے بہتر ہے؟‘‘اس نے سوال کیا۔

’’یہ تو میں نہیں جانتا۔ پر جب ہم لا یعنیت کی گہرائیوں میں پہنچ چکے ہوں تو کیا یہ خیال دلفریب نہیں کہ اس سے فرار بھی ممکن ہے؟اور یہ فیصلہ تو بہرحال تمہیں کرنا ہے کہ تم کہاں ہو؟‘‘

اس کے ہونٹ کانپنے لگے۔ وہ سوچ میں پڑ گئی۔

’’شاید میں بھی مرنا چاہتی ہوں۔ پر خوفزدہ ہوں، کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟‘‘

 

٭٭

 

اسے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ لوگ زندگی سے بہت محبت کرتے ہیں۔ یہ اس لئے تھا کیونکہ وہ انہیں ہمیشہ تکلیف اٹھاتے دیکھتا تھا، محنت کرتے دیکھتا تھا، خود پر جبر کرتے دیکھتا تھا۔۔۔۔۔۔ اور یہ سب محض اس لئے کہ وہ چند سانسیں اور جی سکیں۔ مگر اب جب اس نے لوگوں سے ملنا شروع کیا تو اسے خبر ہوئی کہ موت سے تو کوئی بھی نہیں ڈرتا۔ ہاں وہ یہ سمجھتے ضرور ہیں (اور یہ لاعلمی انہیں ایک بھرپور زندگی کے بعد ایک با وقار موت سے بھی محروم رکھتی ہے)۔

حقیقت صرف اتنی سی تھی کہ کسی نے ایک آسان سا سوال پوچھ ڈالا۔ شاید یہ کہ کیا خوشی غم سے بہتر ہے؟

ہر سننے والے نے اسے بہت آسان سمجھا۔ اکثریت نے اس کا جواب اثبات میں دیا اور اپنے موقف کو سچ کرنے کے لئے وہ خوشیوں اور لذت کی تلاش میں نکل گئے۔ وہ اپنے سفر میں جتنا دور ہوتے گئے خوشی کی ماہیت بدلتی گئی۔ اس کی ہر پرت کھلنے سے دلوں میں کرب کا ایک تیر گڑ جاتا۔ کچھ سیانے ایسے بھی تھے جنہوں نے دوسرا راستہ چنا۔ وہ تکلیف اٹھانے لگے، دکھ سہنے لگے۔ انہیں لگا کہ شاید دکھ زیادہ بڑی حقیقت ہے۔ پر شومیِ قسمت کہ انہیں اپنے اس کرب میں بھی مزا آنے لگا۔ جیسے دہستویئفسکی سمجھاتا ہے کہ ہم کیسے دانت کے درد جیسی تکلیف میں بھی لذت کا پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں۔

یہ راز اسے پہلی بار سڑک پر کھڑی ایک آوارہ سی لڑکی نے بتلایا۔ اور اسے پہلی بار اس سوال، اس paradoxکی بے معنویت کا احساس ہوا۔

’’کتنا بھٹک گئے تھے ہم جب ہم نے اس لاحاصل تلاش کو اپنی زندگی کا محور بنا لیا۔ پر موت ہمیشہ زندگی سے بہتر تو نہیں ہوتی۔ تو ہمیں اس سوال کا جواب کہیں اور ڈھونڈنا چاہیے تھا۔ زندگی کا مقصد نہ تو محض تکلیف اٹھانا ہے اور نہ ہی سکون و آسائش کی تلاش۔ زندگی تو بس ایک مہلت ہے کچھ کر گزرنے کی۔ اور ہر گام پر ایک ہی سوال ہمارے سامنے ہونا چاہیے۔ کیا یہ زندگی موت سے بہتر ہے؟ اگر ہے تو پھر ہم اور جی سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس مقام تک پہنچ جائیں جہاں negative productivityکی وجہ سے بے عملی، عمل سے بہتر ہو جائے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں موت کی بانہوں میں سمٹ جانے سے بڑی نعمت کوئی نہیں۔ ‘‘اس نے سوچا۔

اب وہ گلی گلی یہ سوال لئے گھومتا ہے۔ اور اس کا کام صرف اسی سوال کے معروضی تجزیہ میں مدد دینا ہے۔ کسی ماہر نفسیات کی طرح وہ اپنے کلائینٹس کو ان کے خود  دہستو ا ہر موھبہانے والے ڈاکڑساختہ زندانوں سے باہر نکالتا ہے، انہیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے، انہیں خوف سے نجات دلاتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اور کیا کیا بتاؤں؟بس اتنا جانتا ہوں کہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سب سے پہلے اپنے آپ سے یہی سوال کرتا ہے کہ

’’کیا میری زندگی موت سے بہتر ہے؟‘‘

اور جس دن آپ اسے سڑکوں پر گھومتے دیکھو، کسی کے دل کے دروازوں پر دستک دیتے دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو سمجھ لو کہ وہ یقیناً کچھ کر گزرنے پر قادر ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ایک مچھیرا جو بہت زیادہ جانتا تھا

 

میں اس وقت تیرہ برس کا تھا اور دریا کے کنارے ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ یہاں اکثریت لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی یا فارمنگ تھا۔ بہت تھوڑے لوگ تھے جنہیں حقیقی معنوں میں پیشہ ور مچھیرا کہا جا سکتا تھا اور جانسن ان لوگوں میں سے ایک تھا۔

وہ ایک عام مچھیرے کی طرح نظر آتا تھا۔ لمبا، مضبوط، گنجلک بال اور تھوڑی سی نکلی ہوئی توند۔ وہ ایک عام مچھیرے کی طرح ہی تھا سحر خیز، شرابی، بے ضرورت گلا پھاڑ کر گانے والا مگر وہ ایک عام مچھیرا نہیں تھا۔ مگر یہ بات شاید کوئی نہیں جانتا تھا۔ یہ ایک مادی دنیا ہے۔ اس میں اہم اور قابل تجزیہ چیز اگر کوئی ہے تو وہ ہیں حقائق۔ رہے محسوسات تو انہیں جانچنے کا دماغ کسے ہے۔ سو سب جانتے تھے کہ اپنی جوانی میں وہ کسی یونیورسٹی میں پڑھنے کو گیا تھا اور یہ بھی کہ چند سال گذارنے کے بعد بھی وہ ایک کورس تک نہ پاس نہ کر سکا۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایسا کیوں ہوا؟شاید اس کے لوٹنے کے فوراً بعد کچھ لوگوں نے، کچھ نوجوان لڑکیوں نے تجسس کا اظہار کیا ہو مگر اس کی سرد مہری نے آہستہ آہستہ سب زبانوں کو خاموش کر دیا۔ اب وہ ایک محنتی اور قابل بھروسہ مچھیرا تھا اور بس۔ میں اکثر اسے ناؤ پر بیٹھے دور تلک جاتے دیکھتا رہتا یہاں تک کے دونوں، دریا اور آسمان کے ملاپ میں کہیں گم ہو جاتے۔

وہ ایک چاندنی رات تھی۔ شام کو میرا بابا سے جھگڑا ہوا۔ میں نے بہت سے جگنوں کو پکڑ کر ایک بوتل میں بند کر لیا تھا اور اب اندھیرے کمرے میں ا نہیں چمکتے دیکھتا تھا کہ ایسے میں دروازہ کھلا اور بابا اندر آ گئے۔ انہوں نے وہ بوتل میرے ہاتھ سے لے لی، شاید مجھے دھکا بھی دیا۔ برا بھلا بھی کہا اور صحن میں جا کر بوتل کو انڈیل دیا۔ جگنو بیچارے ایک دوسرے پر اکھٹے ہو کر زمین پر جا گرے اور پھر ایک ایک کر کر فضا میں اڑنے لگے۔ بابا بیکار کاموں کے بہت خلاف تھا۔ اس کی اپنی ایک منطق تھی۔ ایک سوچ تھی  جسے کوئی بدل نہیں سکتا تھا۔ کاش میں انہیں بتا سکتا کہ ایک اندھیرے کمرے میں بچے کی آنکھوں میں چمکتے جگنو کتنے اہم ہو سکتے ہیں۔ مگر وقت گذر چکا تھا۔ اس چاندنی رات کو میں خاموش تھا اور آج وہ۔

تو میں بستر پر اوندھے منہ گر کر روتا رہا۔ یہاں تک کہ گھر کے سب لوگ سو گئے اور کھیتوں میں بولنے والے گیدڑوں کی آوازیں اب گاؤں کے قریب سے آنے لگیں۔ ایسے میں کوئی بھاری بھرکم کتا زور سے بھونکا اور میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا۔ نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں کھڑکی سے آ لگا۔ اس رات آسمان پر بہت سے ستارے تھے۔ اس بڑی بوتل کو جس میں یہ سب ستارے قید ہیں بھلا کون چھین سکتا ہے مجھ سے؟

میں مسکراتے ہوئے کھڑکی سے باہر کود پڑا۔ دریا میرے گھر سے بہت قریب تھا۔ مجھے گھاٹ سے مدھر سی لے میں کسی کے گانے کی آواز سنائی دی۔ تھوڑا قریب ہوا تو وہ جانسن تھا۔ وہ کوئی پرانا، دیہاتی گیت گنگنا رہا تھا۔ وہ دریا کنارے اپنی کشتی کے قریب ریت پر بیٹھا تھا۔ اس کے قریب ایک چھوٹا سا الاؤ جل رہا تھا جس پر وہ مچھلی بھون رہا تھا۔ میں اسے اچھی طرح سے دیکھ لینا چاہتا تھا اس سے پہلے کہ وہ

دریا اور آکاش کے ملاپ میں گم ہو جاتا۔ مگر چپو تو کنارے پر پڑے تھے۔ جلد ہی اس نے اپنا کام ختم کر لیا اور کشتی کے قریب بیٹھ کر مچھلی کھانے لگا۔ ایک ٹکڑا وہ اپنے منہ میں ڈالتا اور دوسرا کشتی میں پھینک دیتا۔ یوں لگتا تھا جیسے دو پرانے دوست مل کر کھانا کھا رہے ہوں۔ کھانے کے بعد اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور مدھم آواز میں بڑبڑایا

’’کوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘

میں سمجھا کہ وہ میری موجودگی بھانپ گیا ہے مگر وہ ہر چیز سے بے نیاز پکارتا رہا۔

’’اس آباد ویرانے میں کوئی ہے۔ ایک ایسا صیاد جو ہر پل، ہر ساعت ہمارے واسطے زندان تراشتا ہے۔ اسی محبت اور لگن سے جس سے کوئی خوش فہم عورت چھوٹے چھوٹے کپڑے سیتی ہے۔ عمدہ اون سے ٹوپیاں بنتی ہے اور اسی  محنت سے جس سے کوئی بہار امید پکھیرو کسی نازک سی شاخ پر آشیاں بناتا ہے۔۔

کوئی ہے جو زمیں کو آسماں، حسن کو مکاں اور خوشبو کو آشیاں بنا دیتا ہے۔ جو ہمارے قدموں میں ایسی بیڑیاں ڈال دیتا ہے جو دیکھنے میں  تو پھولوں کا ہار ہیں مگر روح کی گہرائیوں میں کسی شمشیر کی مانند گھس جاتی ہیں۔ ہاں کوئی ہے جو ہمیں آزاد نہیں رہنے دیتا۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے بے بسی سے ناؤ کی طرف دیکھا۔ جسے میں نے ہمیشہ اس کا ساتھی سمجھا تھا نجانے کیوں وہ مجھے کسی زنجیر کی طرح نظر آتی تھی آج۔ میں جلدی سے اٹھا اور اس کی نظروں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ وہ تھوڑا مسکرایا مگر کچھ ایسے کہ کوئی اس کے پیچھے خنجر لئے کھڑا ہے اور دھمکی دیتا ہے کہ نہ مسکرائے تو خیر نہیں۔ میں نے وہ دھمکانے والا بہت ڈھونڈا مگر وہاں کچھ نہ تھا سوائے اس کی ناؤ کے۔

’’آپ بھاگ کیوں نہیں جاتے؟‘‘

’’کیا؟‘‘اس نے حیرانی سے پوچھا

’’یہاں سے دور میدانوں میں، یا پھر پہاڑوں میں جہاں یہ کشتی آپ کو پکڑ نہ سکے۔ ‘‘

اس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گذر گیا۔

’’تم بہت بڑے ہو گئے ہو۔ مگر میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ میں کہیں نہیں جا سکتا۔ میں یہیں کا ہوں۔ اس سے ذیادہ آزادی مجھے کہیں نہیں ملنے والی۔ ‘‘

’’آپ ایسا کیوں سوچتے ہو؟یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ ‘‘

’’ہاں یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ مگر بد قسمتی سے بہت organizedبھی ہے۔ جیسے کسی مشین میں ہر پرزہ اپنے اپنے دائرے میں ہی گھوم سکتا ہے یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ‘‘

’’میں سمجھا نہیں ‘‘

’’سمجھاتا ہوں۔۔۔۔۔  شاید تم آج اس سب کا ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکو مگر ایک دن تم ضرور سمجھ جاؤ گے۔ سنو۔۔۔۔۔ اس سب کو ایک pyramid  کی طرح جانو۔ جس میں ہر شخص، ہر اینٹ، ہر آواز، ہر خیال ایک اکائی ہے۔ اور یہ سب ایک دوسرے سے اتنے مختلف ہیں کہ ہم اس unity in diversityکا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مونا لیزا کو  electronic microscopeکے نیچے رکھ کر دیکھنے لگیں۔ ہمیں مختلف رنگوں کی ماہیت کا پتہ چلے گا۔ بہت سے پیچیدہ اجزا  نظر آئیں گے اور اگر کبھی کوئی ایسا ہو جس کی نظر وہ خوردبین ہی ہو تو کیا وہ کبھی مونا لیزا کا مقصد، اس کا حسن، اس کی منطق جان سکے گا؟ہم سب اس دنیا کے pyramidمیں ایک اینٹ ہیں۔ اور ایک عہد، ایک زمانہ، ایک تہذیب جو بھی intelligent unit

تصور کیا جا سکتا ہے اس کی حیثیت ایک تہہ کی طرح ہے۔ اہرام کی بنیادوں میں لگی اینٹ اس کی ہیبت، شانو شوکت اور بلندی کا اندازہ نہیں کر سکتی۔ وہ اندازہ کر سکتی ہے تو اس ایک احساس کا، اس بے پناہ بوجھ کے respective shareکا۔

ایک اینٹ جو اپنے اوپر ایک اپنی ہی جیسی اینٹ دیکھتی ہے۔ جس کی شباہت، جس کی رنگت، جس کی سختی سبھی کچھ عقل میں آنے والا ہے۔ جسے وہ اپنے حواس سے محسوس کر سکتی ہے۔ مگر وہ حیران ہے اس بے پناہ بوجھ، اس ناقابل برداشت دباؤ پر جو وہ اوپر والی اینٹ اس پر ڈالتی ہے۔

ہم بھی ایسی ہی ایک دنیا میں رہتے ہیں۔ ہماری عقل، ہمارے حواس اس مادی کائنات کی ایک بہت خوبصورت توجیہہ کر سکتے ہیں۔ مگر ایک انکار کی آواز جو ہر سمت گونجتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک بڑے مقصد کا وجدان جس کا دباؤ ہمیں کچلے دیتا ہے۔

ایک اینٹ کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس بوجھ کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی پتے کی مانند تیرتی پھرے اور جب اس اہرام کو ہر طرف سے دیکھ ڈالے تو اسے خبر ہو کہ وہ کتنے اہم، کتنے بڑے مقصد کا ایک حصہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس اہرام کے ایک دیوانہ وار طواف کے بعد وہ ایک ناظر کی بجائے اس شاہکار قدرت کا حصہ بننا پسند کرے گی۔ وہ تیرتی ہوئی اپنی جگہ پر آ لگے گی۔ اور رجز پڑھے گی اس معمار کے جس نے اسے ٹھیک جگہ پر پیوست کیا۔ جیسا ارسطو نے کہا تھا کہ ایک اینٹ بھی اپنے سے بڑھ کر کچھ بننا چاہتی ہے۔ اور اس کی  یہ خواہش پوری ہو گئی۔ اب وہ اپنی جگہ کبھی نہ چھوڑنا چاہے گی۔ وہ نہیں چاہے گی کہ وقت کی آندھیاں اسے پتوں کی طرح اڑاتی پھریں۔ اس کی اس خواہش کا وجدان کر کے اسے معمار نے گارے اور چونے سے اردگرد کی اینٹوں کے باہم رشتوں میں جکڑ دیا۔ اب وہ اپنی جگہ مقید ہے۔ مگر اسے کبھی بھی کسی زنداں، کسی تنگی کا احساس نہ ہو گا۔ ‘‘

’’عجیب بات ہے۔ آپ یہ سب کچھ جانتے ہو۔ پھر بھی پریشان کیوں ہو؟خود کو قید کیوں محسوس کرتے ہو۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ خدا نے ایک بہترین معمار کی طرح بہترین جگہ کا انتخاب کر کر آپ کو یہاں بھیجا۔ ٹھیک اسی جگہ جہاں آپ کو ہونا چاہیے تھا۔ پھر یہ بے دلی کیسی؟‘‘

’’صرف ایک وجہ کہ میں خدا نہیں ہوں۔ میں اس مقصد کا وجدان نہیں کر سکتا اور یہ تصور مجھے باندھے دیتا ہے۔ جب میں ہزار کوشش کے بعد بھی اس دائرے سے نکل نہیں پاتا تو مجھے اپنا آپ زنجیروں میں جکڑا لگتا ہے۔ ارسطو کا کہنا کہ ایک اینٹ اپنے سے بڑھ کا کچھ بننا چاہتی ہے آدھا سچ ہے۔ درحقیقت ایک اینٹ بھی خدا بننا چاہتی ہے۔ اس اہرام کی ہر اینٹ اس کا طواف کرنا چاہتی ہے۔ اور یہ منطقی طور پر ناممکن ہے۔ اور اپنے خدا نہ بن سکنے کی مجبوری ہمیں زنجیروں کی طرح لگتی ہے۔ ‘‘

’’مگر آپ تو بہت کچھ جانتے ہو؟‘‘

وہ ہنسا۔

’’ہاں مگر میں نہیں جانتا کہ میں بہت کچھ جانتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہ کر وہ اپنی کشتی کی طرف چل پڑا۔ ابھی تھوڑی دیر میں وہ افق میں گم ہو جائے گا اپنی کشتی کے ساتھ اور مجھے اس لمحے سے پہلے گھر چلے جانا چاہیے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید