انتر ہوت اداسی
بانو قدسیہ
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پھر تیسری بار ایسے ہوا۔ اس سے پہلے بھی دو بار اور ایسے ہوا تھا…بالکل ایسے۔ جب میرا بایاں پاؤں بانس کی سیڑھی کے آخری ڈنڈے پر تھا اور میرا دایاں پیر صحن کی کچی مٹی سے چھ انچ اونچا تھا تو پیچھے سے ماں نے میرے بال ایسے پکڑے جیسے نئے نئے چوزے پر چیل جھپٹتی ہے۔ میرا توازن بری طرح بگڑا اور میں کپڑے کی گڈی کی مانند اڑنگ بڑنگ کچی مٹی پر جا گری۔ ماں کو مجھے پٹخنی دینے یا دھپہ مارنے کی نوبت ہی نہ آئی کیوں کہ جب انسان کسی سے بچھڑ کر آ رہا ہو تو اس میں اتنی جان ہی کہاں ہوتی ہے۔ مجھے تو ایک گرم سانس اس وقت چاروں شانے گرا سکتا تھا۔ ماں نے تو پھر ہبکا مار کر میرے بال جھنجھوڑے تھے۔
’’بول بول۔ اس بھری دوپہر میں تو کہاں سے آ رہی ہے؟ گشتی الفتی کہاں تھی تو اس وقت…بول! گرمی ایسی کہ چھاؤں تلے دھرتی پھٹ جائے اور تو سخر کوٹھے پر کیا کر رہی تھی نا خصمی؟‘‘
میں چپ رہی۔
’’بول کون ہے اوپر؟ اوپر نہ کوئی کمرہ نہ ٹٹی؟ پھر اوپر کیا لینے گئی تھی تو؟ کس یار حمایتی سے ملنے گئی تھی، اس کا میں لہو پی جاؤں گی! بول اس کا نام…؟‘‘
میں اور بھی گوں گی ہو گئی۔
میرا ابا بھی بڑا چپ آدمی تھا لیکن اس کی چپ، اس کا گونگا پن، اس کے مرن برت سب ماں کو ستانے کے لیے ہوتے تھے۔ اسے ماں کو تڑپانے میں بڑا مزہ ملتا تھا۔ وہ اپنی بڑی بڑی مونچھوں تلے مسکراتا رہتا پر ماں کی کسی بات کا جواب نہ دیتا۔ وہ اس کچہری میں اپنی صفائی کے لیے کبھی ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالتا۔ اسی چپ میں ابا کی ساری عزت اور زندگی بھر کی جیت پنہاں تھی۔ جب ماں بول بول کر ہلکان ہو جاتی، طعنے، بد دعائیں، کوسنے، آہیں، سسکیاں سب باری باری اپنا دور ختم کر چکتیں تو ماں ہلکان ہو کر دیوار کے ساتھ کھڑی چارپائی آنگن میں بچھاتی اور اس پر اوندھی لیٹ جاتی۔
ایسے میں باسی روٹی کی طرح اس کے چہرے پر ان گنت داغ دھبے نظر آنے لگتے۔ مجھے ماں پر بڑا ترس آتا لیکن ابا مختلف تھا۔ عورت مرد کے اس کھیل میں جب وہ جیت چکتا تو پھر چار خانے کا کھیس کندھے پر ڈال کر یوں نکل جاتا جیسے پہلوان اکھاڑے سے کشتی جیت کر جاتے ہیں۔ ماں میرے اور ابا کے درمیان بے طور ٹکرانے والی گیند تھی۔ مجھ دیوار سے ٹکراتی تو ٹپا کھا کر ابا کی طرف جاتی۔ وہاں پتھر سے سر پھوڑ کر پھر بڑک کر میری جانب آتی۔ ماں کی ساری عمر اسی بے مصرف پیش قدمی اور پسپائی میں گزر گئی اور ساری عمر اسے علم نہ ہو سکا کہ یہ کھیل صرف اس کو تھکانے کے لیے کھیلا جاتا تھا۔
بڑی رات گئے ابا لوٹتا تو ماں ویسی نیند سوئی ہوتی جو زچہ کو بچے کی پیدائش کے بعد نصیب ہوتی ہے۔ میں کنڈی کھولتی۔ ابا محبت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرتا اور چپ چاپ اندر چلا جاتا۔ ابا کی ہر بات بن کہے مجھے سمجھ آتی تھی اور ماں کی باتیں ایسے تھیں جیسے گوندھے آٹے کی بھری کنالی پر اوپر ہی اوپر مکھیاں بھنبھنا رہی ہوں، میرے پلے کبھی کچھ نہ پڑا۔
ابا بڑا چپ آدمی تھا لیکن ابا کی چپ میں ایک چال تھی۔ میں ابا کی طرح چپ نہیں تھی۔ میری چپ حویلی کے صدر دروازے کے قدموں میں گرے ہوئے اس قفل کی مانند ہے جسے پچھلی رات چور، دروازے کے کنڈے سے اتار کر پھینک گئے ہوں۔ ایسا تالا بہت کچھ کہتا ہے لیکن کوئی تفصیل بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ وہ ساری واردات سے آگاہ ہوتا ہے لیکن اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ حفاظت نہ کر سکنے کا غم، اپنی ہیچمدانی کا احساس، اپنے مالکوں کے ساتھ گہری دغابازی کا حیرت انگیز انکشاف اسے گم سم کر دیتا ہے۔ میری اور ابا کی چپ میں بڑا فرق تھا۔ ابا ان اونچے پہاڑوں کی طرح چپ تھا جن کے قدموں میں لہریں شور مچا مچا کر سو جاتی ہیں۔ میری چپ اس لاوے کی مانند تھی جو زمین کے اندر ابلتا سڑتا، بہتا کہیں کا کہیں اتر جاتا ہے۔
’’یوں چپ کیوں کھڑی ہے اپنے کپتے باپ کی طرح…بول کس یار کی بغل گرم کر کے آئی ہے نامراد…؟‘‘
اسی مصیبت کے ہاتھوں ابا نے کچھ سال پہلے بڑی لمبی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ وہ صفائیاں پیش کرنے کے جھنجھٹ سے فارغ ہو کر لمبی تان کر سو گیا تھا۔ میں ماں کو کیا بتاتی؟ کہاں سے شروع کرتی اور کہاں جا کر ختم کرتی؟
’’کتی! ہمارا کوٹھا سارے محلے سے نیچا ہے۔ کس کس نے تجھے آتے جاتے نہ دیکھا ہو گا۔ بول؟ کتنے عرصے سے یہ سلسلہ جاری ہے؟ کون سا مہینہ لگا ہے؟ بتا جلدی۔ کوئی ڈاکٹر دائی تو کر مروں عزت گنوانے سے پہلے۔‘‘
یکدم آنسو میری آنکھوں سے بہنے لگے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے بھی میری چوٹی پکڑ کر یہی کہا تھا۔ میں اماں کو کیا بتاتی کہ ابھی ابھی میں اس کے منہ سے بھی یہی سن کر آئی تھی:
’’بول بتاتی کیوں نہیں۔ روئے کیوں جاتی ہے؟ کسی ڈاکٹرنی کی ضرورت ہے تو خرچ میں کروں گا۔ بول روتی کیوں جاتی ہے۔ کچھ بتاتی کیوں نہیں؟‘‘
نہ میں اسے کچھ بتا سکی اور نہ اماں کو…بچپن سے مجھے یوں لگتا ہے کہ اگر میں نے کسی سے کچھ کہا تو وہ سمجھے گا نہیں، الٹا نہ سمجھ کر میرا دشمن ہو جائے گا۔
میں کچی مٹی سے اٹھی اور اندر غسل خانے میں چلی گئی۔ ماں کچھ دیر دروازہ دھڑدھڑاتی رہی۔ پھر طعنے، کوسنے، بد دعائیں جاری ہوئیں۔ ان کا سٹاک ختم ہو گیا تو وہ دیر تک دروازے کے ساتھ لگ کر روتی رہی۔ پھر اس نے اپنی پرانی تکنیک استعمال کی۔ آنگن میں چارپائی پر لیٹ گئی اور میرے پیدا ہونے سے لے کر آج تک کے تمام واقعات اونچے اونچے دہرانے لگی۔ میرا حمل اس پر کیسا بھاری تھا؟ مجھے جننے میں اس نے کیسی دردِزہ برداشت کی تھی؟ پھر کیسے چھلے میں مجھے خسرہ نکل آیا اور وہ پورے انیس دن پلنگ پر بیٹھی رہی۔ گود میں لے کر…مجھے پالنے پوسنے میں اسے جو جو مصیبت، مرحلے قربانیاں درپیش رہیں ان کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے کرتے شام ڈھل گئی۔
جب میں باہر نکلی تو ماں کی ساری گیس نکل چکی تھی۔ وہ ایک چھوٹے معصوم بچے کی طرح الانی چارپائی پر گھوک سو رہی تھی اور اس کی بائیں گال پر بان کی رسیوں کا جال بنا ہوا تھا۔
شام کو نیم کے درخت پر ان گنت چڑیاں چہچہا رہی تھیں لیکن ماں کو ان کے شور کا علم نہ تھا۔ ایسے میں اگر میں کسی کے ساتھ بھاگ جاتی تو بھی ماں کو علم نہ ہوتا۔ لیکن میں بھاگتی کس کے ساتھ؟ جن عورتوں کو مرد بھگا لے جاتے ہیں خدا جانے وہ کیسی ہوتی ہیں؟ ہم جیسی لڑکیوں سے تو کوئی بھگا لے جانے کا وعدہ بھی نہیں کرتا!
میں چپ چاپ چارپائی کے پائے سے سر جوڑ کر بیٹھ گئی۔ ماں کے سوائے اس دنیا میں میرا تھا بھی کون؟ ابا کا بھی سوائے ماں کے دنیا میں اور کوئی نہیں تھا۔ وہ لاکھ بار گھر سے گیا اور پھر اس لیے لوٹ آیا کہ اس کھوٹے سکے کو سنبھال کر رکھنے والی ایک ہی تجوری تھی۔ میرا ابا اتنا نکھٹو تھا، اتنا نکھٹو تھا کہ منہ پر جھولنے والی مکھیاں بھی بالآخر اسے چھوڑ جاتیں۔ وہ کھاتا بہت کم تھا کیونکہ اسے نوالے توڑنے سے وحشت ہوتی تھی۔ آدھے پنڈے سے زیادہ کو کبھی وہ ایک وقت میں صابن نہیں لگا سکا، اسی لیے وہ نہانے سے بھی کتراتا تھا۔ سردیوں میں بغیر لحاف کے پڑا رہتا۔ گرمیوں میں پسینے میں نہایا نظر آتا لیکن پنکھا کبھی نہ جھلتا۔ ابا اس کھتی سے مشابہ تھا جو بچے گلی ڈنڈا کھیلتے وقت کھو دیتے ہیں۔ کبھی کبھی برساتی پانی اس میں آپی آپ بھر جاتا ہے ورنہ عمر اس کی منہ کھولے ہی گزر جاتی ہے۔
ماں نے ساری عمر ابا کا ساتھ دیا۔ بول کر، طعنے دے کر، ہلکان ہو کر، سسکیاں بھر کر دیا، پر دیا۔ ہم دونوں پکی دیواروں سے سر پھوڑ پھوڑ کر ماں بوڑھی ہو گئی۔ اس بوڑھی نیم جان گھائل کو میں کیا بتاتی؟ کہاں سے بات شروع کرتی اور کہاں جا کر ختم کرتی؟ ہمارے گھر میں ہر اس چیز کا فقدان تھا جس سے زندگی پروان چڑھتی ہے، سرشار ہوتی ہے۔ دولت، شرافت، محبت، ان چیزوں کا ہمیشہ گھاٹا ٹوٹا رہا۔ ہمیں تو ہر چیز ایسے ملی کہ سانسیں قائم رہیں لیکن زندگی کے آثار کھل کر نہ پیدا ہو سکے۔ جب میں تین سال کی ہوئی تب سے ماں ایک قریبی فیکٹری میں کام کرنے جانے لگی۔ ابا اور میں گھر پر رہتے تھے۔ ہم دونوں اپنی اپنی چپ کے قلعے میں بند سارا دن پاس رہتے ہوئے بھی بہت دور دور رہتے۔ جب ابا گھر پر ہوتا تو یوں لگتا تھا کہ جیسے کہیں باہر گیا ہوا ہے اور جب وہ باہر ہوتا تو یوں لگتا کہ ادھر ادھر ہی کہیں ہو گا۔
کچھ عرصہ میں سکول جاتی رہی۔ پھر یہ سلسلہ خرچ کی زیادتی کے باعث بند ہو گیا۔ یہ بھی اچھا ہوا کیونکہ سکول مجھے دل سے برا لگتا تھا۔ وہاں سب لڑکیاں بڑی خوش خوش آتی تھیں۔ ان کے پاس بتانے کے لیے اتنی ساری باتیں ہوتی تھیں کہ وہ استانی کے پڑھاتے وقت بھی رقعوں پر پیغامات لکھ لکھ کر ایک دوسرے کو پہنچاتی رہتی تھیں۔ مجھے میری کلاس کی لڑکیاں ’’بل بتوری ناساں چوڑی‘‘ کہہ کر چھیڑتی تھیں لیکن میں ان کو کبھی پلٹ کر کچھ نہ کہتی۔ ان کی چھیڑ چھاڑ اس طعن و تشنیع کے مقابلے میں پھول کی چھڑی تھی جس سے میرا دل میری تواضع کیا کرتا تھا۔ سکول سے ہٹ کر میری زندگی پھر کنوئیں کی مال بن گئی۔ ہر وقت وہی صبح و شام، وہی چلو بھر پانی، وہی چہ بچہ بھر زندگی، کبھی طغیانی نہیں، کبھی سیری نہیں۔
پھر ابا مرگیا۔
اس رات اس نے چار خانے والا کمبل اوڑھا، اپنی خاموشی کی مسہری تانی اور پھر ہمیشہ کے لیے چپ ہو گیا۔ ماں دنگ سی رہ گئی۔ نہ اس نے اونچے اونچے بین ڈالے، نہ دیواروں سے ٹکرائی۔ بس دیکھتے ہی دیکھتے وہ بنجر زمین کی طرح چٹخ گئی۔ ہمارے نہ کوئی رشتے دار آئے، نہ قرآن ختم ہوئے، نہ گٹھلیاں پڑھی گئیں۔ بس محلے والوں نے چندہ کر کے ماں کے سر سے بوجھ اٹھا دیا اور سوئم کے بعد ماں پھر فیکٹری جانے لگی۔
اب ابا ہر وقت گھر میں رہنے لگا۔
اسی ابا سے خوف زدہ ہو کر میں کوٹھے پر چڑھ جاتی۔ ہمارے گھر کی چھت پر اونچی اونچی منڈیریں نہیں تھیں۔ بس ابھرواں کنارے تھے جن کی سوکھی مٹی میں تلکے چمکتے رہتے ہیں۔ اسی کنارے پر بیٹھے بیٹھے مجھے نکڑ سے ماں آتی دکھائی دیتی تو میں نیچے چلی آتی۔ محلے میں بہت لڑکیاں تھیں لیکن میری چپ کا تالا کھول کھول کر وہ سب بیزار ہو چکی تھیں۔ اب میں تھی اور کوٹھے کی منڈیر، آسمان پر اڑنے والی چیلیں، محلے کے کبوتر اور شام کو لوٹنے والی کوؤں کی قطاریں۔
ایک روز چوتھے کوٹھے سے مجھے سیٹی کی آواز سنائی دی۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ سیٹی بجانے والا قدیر کھوکھے والا ہے۔ تب مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ قدیر کے پانچ بچے ہیں اور اس کی بیوی محلے کی سب سے خوبصورت عورت ہے۔ مجھے تو صرف یہ دکھائی دے رہا تھا کہ قدیر کا پکا گھر سارے محلے میں خوبصورت اور اونچا ہے۔ اس کی کھڑکیوں میں پردے تھے اور اس کی دیواروں پر جالیاں بنی ہوئی تھیں۔ سب سے اوپر ایک ہوادار کمرہ تھا جس کی کھڑکیوں پر نیم فیروزی نیم ہرا، تازہ تازہ رنگ کیا ہوا تھا۔
یہی کمرہ میرا پہلا گھر بنا۔ اسی کمرے میں پہلی بار قدیر نے مجھے اپنے کھوکھے سے لا کر ٹھنڈا کوکا کولا پلایا۔ پلاسٹک کے کلپ، نقلی ہار، کانچ کی چوڑیاں اور ناک میں ڈالنے والا بڑا چمک دار لیکن جھوٹا کوکا دیا۔ قدیر کی ہر بات اپنے کھوکھے کی طرح تھی۔ وہ تھوڑی قیمت پر زیادہ مال خریدنے کا عادی تھا۔ اس کے ہاں ادھار قطعی بند تھا اور وہ کسی گاہک کو بھی ناراضگی کا موقع نہیں دیتا تھا۔
پتا نہیں میں ابا کے ڈر سے وہاں جاتی تھی؟ پتا نہیں جوانی میں تنہائی کا سانپ کیوں ایسے بلوں میں لے گھستا ہے؟ خدا جانے میری طغیانی، جی بھر کر کچھ کھانے، کچھ ہنس لینے، کچھ وقت جھولی بھر کر گزارنے کی خواہش مجھے وہاں کھینچ کر لے جاتی تھی۔ غالباً کبھی کبھی کوئی وجہ نہیں بھی ہوتی۔ بس یونہی انسان زندگی کے پہیے میں ریشم کے تھان کی طرح الجھتا چلا جاتا ہے۔ قدیر کو اپنے خاندان سے بڑی محبت تھی۔ وہ ماسیوں، پھوپھیوں، ہم زلفوں کی باتیں کرتا تھکتا نہ تھا۔ اسے اپنی بیوی سے بھی بڑی محبت تھی کیونکہ اس کی بیوی اس کے خاندان کا ایک اہم حصہ تھی۔ وہ وصال کے لمحوں میں بھی اسی کا نام لے لے کر مجھ سے لپٹتا رہتا۔ اس کی محبت پھوکے انداز کی تھی کہ جس سے میرے لہو کا طائر کبھی بھی زخمی ہو کر نہ گرتا بلکہ اوپر ہی اوپر…اور اوپر اڑتا چلا جاتا۔ بالکل تنہا۔
اپنے بچوں کی باتیں کر کے قدیر کو بڑی خوشی ملتی تھی۔ اپنی خاندانی روایات کا، اپنی محلے کی ساکھ اور برادری کی عزت کا اسے بڑا پاس تھا۔ قدیر بھی در اصل طغیانی سے نا آشنا تھا۔ اس کی ساری زندگی بھی معاشرے کے پیمانوں میں ناپ تول کر گزری تھی۔ وہ اتنی چھوٹی عمر سے کھوکھا چلا رہا تھا کہ اب اس کی اپنی زندگی خالی کھوکھے کے علاوہ اور کچھ نہ تھی۔ ان سب قیود کے باوجود وہ بڑے اہتمام سے مجھے ملتا تھا۔ وہ بڑے حساب سے اپنے کھوکھے سے ایسی چیزیں میرے لیے لاتا جو اس کے بال بچوں کی حق تلفی نہ کریں۔ وہ اپنی زندگی کی لذتیں یوں اکٹھی کرتا جیسے کوئی بڑی بی حساب کا پان لگا رہی ہو۔ برابر کا چونا، برابر کا کتھا، چٹکی بھر زردہ۔ اس کی جذباتی زندگی بھی ایک خاص پیمانے پر چلتی تھی۔ نہ یہاں کوئی ادھار تھا نہ فضول خرچی…وہ جو کچھ مجھے دیتا فوراً اس کی قیمت وصول کر لیتا۔ لیکن میری بول بلاوے والی ماں یہ سب کچھ کیسے سمجھ سکتی تھی؟
جب بڑی شام گئے اس کی آنکھ کھلی تو چند لمحے وہ مجھے دیکھتی رہ گئی۔ میں سمجھی شدید غم نے اس کے ذہن کو ماؤف کر دیا ہے لیکن پھر وہ میرے کندھے پر ہاتھ مار کر بولی:
’’بول بدبخت۔ کون سا مہینہ لگا ہے تجھے، بول مر۔‘‘
میں اسے کیسے سمجھاتی کہ ایسے لیکھے داروں کے ساتھ مہینے نہیں چڑھا کرتے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ کبھی نفع ہوتا ہے نہ نقصان۔ صرف زندگی کا بہی کھاتہ ہندسوں سے بھر جاتا ہے جنہیں کوئی پڑھ نہیں سکتا۔
’’بول پھر ملے گی تو اس سے …بول؟‘‘
پورے ہاتھ کا چانٹا آیا اور بجلی کی طرح میرے جسم سے گزر گیا۔ میں ماں کو کیا بتاتی کہ مجھے قدیر سے ملنے کا کچھ ایسا شوق بھی نہیں تھا۔ یہ بات اگر میں قدیر یا ماں کو سمجھانے کی کوشش کرتی تو غالباً وہ دونوں مجھے جان سے مار دیتے۔
’’بول گشتی…بول حرام خور…ملے گی اس سے؟‘‘
میں نے ماں کے پاؤں پکڑ لیے۔ اپنے دکھ کی وجہ سے نہیں۔ میرے اپنے کوئی دکھ نہیں تھے لیکن میں اسے اس قدر ہلکان ہوتے دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اگر وہ مجھے مارتی رہتی تو شاید مجھ پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ لیکن اب وہ اپنے منہ پر چانٹے مار رہی تھی۔ اپنے بال کھسوٹ رہی تھی۔ اسے یوں اپنے سے بدلہ لیتے ہوئے دیکھ کر مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔
میں نے بڑی قسمیں کھائیں کہ پھر قدیر سے نہ ملوں گی۔ قرآن اٹھایا۔ اس کے بعد میں کبھی قدیر کے کوٹھے پر نہیں گئی لیکن ماں چونکہ سارا دن فیکٹری میں کام کرتی۔ اس لیے اسے کبھی یقین نہ آ سکا کہ میرے عہد سچے تھے۔ وہ مجھ سے بڑی محتاط ہو گئی تھی۔ جب میں سو جاتی تو وہ چوری چوری آ کر میری قمیض میرے پیٹ سے اٹھاتی اور بڑے پولے پولے ہاتھوں سے میرے پیٹ کی ٹوہ لیتی۔ اسے پورا شک تھا کہ یہ اندر ہی اندر بڑھ رہا ہے۔ کبھی کبھی رات کے پچھلے پہر وہ میرے سرہانے بیٹھ کر ہولے ہولے رونے لگتی جیسے بلیاں مستی میں آ کر بولتی ہیں۔
قدیر نے میرے کھاتے کو پھر کبھی نہ کھولا۔ نہ میں کبھی اس کے کوٹھے پر گئی۔ ڈوبی رقم پر وہ زیادہ وقت ضائع کرنے کا عادی نہ تھا۔ اتنے سارے میل جول کے باوجود نہ کوئی نفع ہوا نہ نقصان…زندگی چلو بھر پانی کھینچتی رہی، نہ کوئی طغیانی آئی نہ سیری کا احساس بڑھا۔ بس صرف سانس کی ڈوری نہ ٹوٹی۔
پھر ایک دن فیکٹری سے ماں بڑی خوش لوٹی۔ اس کے ہاتھ میں مٹھائی کا بڑا سا ڈبہ تھا:
’’لے کھا ہاجرہ…کھا…تیرے تو نصیب کھل گئے۔ آ چندریے مٹھائی کھا۔ تیری بات پکی کر کے آئی ہوں بادامی باغ میں …‘‘
بات پکی کرانے کا شوق میرے دل میں قدیر نے ڈالا۔ وہ اتنی پریت سے اپنی بیوی کی باتیں کیا کرتا تھا کہ میرا دل بھی کرتا کوئی میرے متعلق ایسی ہی باتیں کیا کرے۔ میرا خیال تھا کہ ایک روز مجھے دیکھنے والیاں آئیں گی۔ پھر ایک سہرے والا چہرے پر رو مال رکھے آئے گا۔ میں اس کے چمکدار بوٹوں کو دیکھتی گھر سے رخصت ہو جاؤں گی۔ مجھے جنگل کے اس پار جانے کا بڑا شوق تھا۔
’’آ…منہ لپیٹ کر نہ پڑی رہا کر۔ تیرا انتظام تو اللہ نے خود کیا۔ منیجر صاحب کی بیوی خود میرے پاس آئی۔ سن رہی ہے ہاجرہ؟ نازاں بیٹی…سن رہی ہے؟‘‘
’’سن رہی ہو ماں!‘‘
’’پھر خوش کیوں نہیں ہوتی؟‘‘
’’خوش ہو رہی ہوں …ماں!‘‘
ماں راز داری سے میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور بیٹھی ہوئی آواز میں بولی:
’’منیجر کی بیوی بولی، میری بہن کا بیٹا ہے۔ پڑھا لکھا تو نہیں ہے، پر جائیداد کا اکیلا وارث ہے۔ ہم تو جائیداد کا نفسہ بھی منہ سے نہیں لے سکتے تو جائیداد والی ہو جائے گی۔ میں خود بادامی باغ گئی تھی منیجر صاحب کی کار میں۔ گھر دیکھ کر آ رہی ہوں۔ پیلی حویلی ہے دومنزلہ، پنکھے، ریڈیو، ٹیلی ویژن، قالین، سب کچھ ہے گھر میں …لے لڈو کھا۔ اوپر والی منزل میں لڑکا رہتا ہے۔ بڑا گھر ہے۔ ساری عمر ریشم پہنے گی۔ اس کچے کوٹھے کے عذابوں سے بچی رہے گی۔ خوش ہو جا…جس کا کوئی سدھارنے والا نہ ہو رب اس کے کام کرتا ہے …رج کھانا رج سونا…‘‘
بڑی دیر بعد میں نے پوچھا:
’’اور وہ…وہ کیسا ہے؟‘‘
’’جیسا گھر ہوتا ہے ویسے لوگ ہوتے ہیں اس میں رہنے والے۔ ایسے گھروں میں کوئی ہما شما تھوڑی رہتے ہیں۔‘‘
’’کیسی شکل ہے اس کی؟‘‘
’’ماں خوبصورت ہے تو بیٹا بھی خوبصورت ہو گا۔ گوری چٹی، یہ بڑا سا کوکا ناک میں، پورا بازو چوڑیوں سے بھرا ہوا۔ کوئی پیاری باتیں کرتی ہے ہاجرہ، کوئی پیاری باتیں کرتی ہے …بیٹھیے بہن جی…کھائیے بہن جی…یہ گدی کمر کے پیچھے رکھ لیں۔ ٹھنڈا پئیں گی کہ گرم؟ میرا تو وہاں سے آنے کو جی نہیں کرتا تھا۔ سچ ہاجرہ…‘‘
میں چپ رہی۔
’’بادامی باغ والی کہہ رہی تھی ہاجرہ! بہن جی ہمیں صرف لڑکی چاہیے جو ہمارے گڈو کو خوش رکھے۔ اس سے ہمدردی کرے۔ اس کا دل لگائے۔ ہمیں کسی چیز کی طمع نہیں۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے۔ اگر ہمیں لالچ ہوتا تو ہم امیروں کی لڑکی کبھی کی لے آتے۔ ہمیں تو یہ پتا ہے کہ غریبوں میں غیرت ہوتی ہے۔ محبت ہوتی ہے، شرافت ہوتی ہے۔‘‘
میں اندر ہی اندر ہنس دی۔ بادامی باغ والی نہیں جانتی تھی کہ ان ہی تینوں کے فقدان سے غریبی پیدا ہوتی ہے …دولت کا فقدان تو فقط غریبی کو سدا بہار بناتا ہے۔ اصلی بہار تو ان تینوں ہی کے نہ ہونے سے ہوا کرتی ہے۔
’’لے سوئیے کھا…اصلی موتی چور کے لڈو ہیں۔ لے کھا…‘‘
اماں اس روز بڑی خوش تھی۔ وہ ہانڈی بھونتے ہوئے کچھ گنگناتی رہی۔ پھر محلے والوں کو یہ خبر سنانے چلی گئی۔ واپس آئی تو اس کا چہرہ دغ دغ کر رہا تھا۔ میں نے اماں کو اس قدر خوش کبھی نہیں دیکھا۔ نکاح سے ایک رات پہلے تک اسی طرح ہنستی گنگناتی رہی۔ شادی سے ایک دن پہلے جب شام کو بادامی باغ سے لوٹی تو اس کا چہرہ بجھا ہوا تھا اور وہ چپ چپ تھی۔ مشکل سے اس نے وہ سوٹ کیس لاکر آنگن میں رکھا جس میں کپڑے اور زیور تھے۔ اس کے بعد وہ بغیر مجھے آواز دیے اندر غسل خانے میں چلی گئی۔ نہ اس نے سوٹ کیس کھول کر مجھے کپڑا زیور دکھائے نہ منہ سے کچھ بولی۔ اس رات کے بعد میری ماں نے پھر مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ آدھی رات کو میں اس کی سسکیوں کی آواز سن کر جاگ گئی۔ وہ سوٹ کیس کھولے کپڑوں کو گھور رہی تھی۔
’’کیا ہوا ماں؟‘‘
’’کچھ نہیں۔ تو سوجا…‘‘
’’پھر تو رو کیوں رہی ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘
ماں مجھ سے لپٹ گئی۔ اس کے طعنے کوسنے بددعائیں زندہ تھیں۔ آج مجھے اس بغل گیری سے یوں لگا گویا اس کی جان جسم چھوڑ رہی ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ مجھ سے بچھڑنے کا غم کر رہی ہے لیکن میرا دل ہر قسم کے جذبات سے خالی تھا۔ یہاں نہ کسی سے سے ملنے کی خوشی تھی نہ کسی سے بچھڑنے کا رنج، میری زندگی کے ماہ و سال تو یوں گزرے تھے جیسے کسی گودام میں نئے سال کا کلینڈر لٹکے لٹکے پرانے سالوں سے جا ملے۔ ماں صبح تک مجھ سے لپٹی رہی اور روتی رہی اور جب میری شادی کا دن طلوع ہوا اور اس کی پہلی سفیدی ابھرنے لگی تو ماں بولی:
’’دیکھ ہاجرہ! نصیب سے نہ جھگڑنا۔ عورت کی ساری زندگی نصیب سے چلتی ہے۔ مجھے دیکھ! تیرہ برس کی بیاہی آئی تھی۔ ایک دن شوہر کی کمائی کا کھوٹا پیسہ تک نہیں ملا۔ ایک دن اس گھر کے مالک نے مجھے سیپی بھر پیار بھی نہیں دیا۔ پر رانیے! میں نے نصیب سے جھگڑا نہیں کیا۔ جو میرے کرم اچھے ہوتے تو سب کچھ مل جاتا۔ ہاتھ پاؤں مارے بغیر مل جاتا۔ سنتی ہے کہ نہیں؟ کسی کو اللہ دولت دیتا ہے تو اولاد نہیں ہوتی۔ اولاد دیتا ہے تو صحت نہیں ملتی۔ اتنے تارے اللہ نے نہیں بنائے جتنے غم بنائے ہیں۔ سب اپنے اپنے تارے کاغم سہنے آئے ہیں اس جہاں میں۔‘‘
پہلی بار مجھے شک گزرا جیسے ماں مجھ سے کچھ چھپا رہی ہے مجھ سے جھوٹ بول رہی ہے۔ کیونکہ ان دونوں کی اسے عادت نہیں تھی۔
’’کیا بات ہے ماں؟‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ ہر ماں بیٹی کو کچھ نہ کچھ ساتھ دیتی ہے۔ میں تجھے جہیز تو دے نہیں سکتی، دلاسا بھی دے کر رخصت نہ کروں۔‘‘ مجھے رونا آ گیا اور میں ماں سے لپٹ گئی۔
’’جب میں یہاں سے فیکٹری جاتی ہوں تو راستے میں کئی مین ہول کھلے ملتے ہیں۔ اندھیری راتوں میں ان میں راہ گیر گر بھی پڑتے ہیں۔ ہاجرہ! یوں سمجھ لے سوہنیے! ہمارے رب نے ہر چوڑائی کے ہر گہرائی کے مین ہول بچھا رکھے ہیں اپنی دنیا میں۔ آخر آدمی کب تک بچے گا۔ بندہ بشر ہے۔ لمبی سیاہ زندگی ہے کسی نہ کسی کھڈ میں تو گر کر ہی رہے گا۔‘‘
’’تو مجھے صاف صاف بتاتی کیوں نہیں کیا بات ہے؟ ہوا کیا ہے؟‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ کچھ نہیں ہوا۔ نیا گھر ہو گا نئے لوگ ہوں گے۔ وہاں تیری ماں نہیں ہو گی لیکن غریبی بھی نہیں ہو گی۔ ہر جگہ کا اپنا سکھ ہے اپنا دکھ ہے۔ جو لڑکی میکے کے سکھ یاد کرتی ہے وہ کبھی سسرال گھر جا کر خوش نہیں ہوتی…‘‘
’’تجھے کسی نے کچھ کہا ہے ماں؟ بتا، تو بتاتی کیوں نہیں؟‘‘
میری ماں چپ رہی۔ اس کی چپ میری اور ابا کی چپ سے بھی اٹل تھی کیونکہ شادی کی دوسری رات میری ماں چپ چاپ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ میرے سسرال والوں نے خاموشی سے اس کو سپرد خاک کر دیا اور مجھ کو نہ بتایا۔ وہ مجھے دو صدمے ایک ہی وقت میں نہ دینا چاہتے تھے۔
جس طرح شش ما ہے بچے کو مصنوعی حرارت میں رکھ کر اس دنیا میں رہنے کے قابل بناتے ہیں، اسی طرح میرے سسرال والوں نے مجھے آسائش، آرام اور بڑی چاپلوسی کی روئی میں بچا بچا کر کئی دن رکھا تاکہ گڈو سے بہت پہلے میں اس گھر کی دولت بھری زندگی کی عادی ہو جاؤں۔ جتنے دن گھر میں مہمان رہے یہی سننے میں آیا کہ گڈو بیمار ہے اور نچلی منزل میں اپنی ماں کے کمرے میں ہے۔ کئی بار جی میں آئی کہ ایک نظر گڈو کو دیکھ آؤں، اس کی بیمار پرسی کروں۔ پر دوسری منزل سے نیچے جانے کی ہمت پیدا نہ ہوئی۔
میری ساس میری ماں کا الٹ تھی۔ گوری گوری گول گول…چپ چپ سی، بڑی صابر، بڑی برداشت والی۔ کبھی کبھی مجھے لگتا…وہ اس دنیا کی مخلوق نہیں ہے۔ اس کی آنکھوں میں اتنا غم ہوتا کہ مجھے اس سے ڈر آنے لگتا۔ ماں کی موت کے بعد سب سے پہلے میری ساس نے میرا دل جیت لیا۔ وہ چپ چپ بیٹھی ہوتی تو مجھے بڑا دکھ ہوتا جیسے ماں کو دیکھ کر ہوتا تھا۔ جس رات پہلی بار میں گڈو سے ملی، دیر تک ساس میرے پاس بیٹھی رہی۔ اس کا ہاتھ میرے گھٹنے پر تھا اور وہ بار بار اسے تھپک رہی تھی۔ وہ جس بات کا سرا پکڑتی، بیچ میں ادھورا چھوڑ کر چپ چاپ میرا منہ تکنے لگتی۔
’’گڈو صاحب کا اب کیا حال ہے جی؟‘‘
’’ٹھیک ہے اب تو۔ آج آئے گا تیرے پاس…“
ان دیکھے دولہے کی آرزو روشن سورج کی طرح میرے دل میں طلوع ہو گئی۔
’’کبھی کبھی جو تصور عورت دولہے کا بناتی ہے ہاجرہ! دولہا اس سے مختلف ہوتا ہے۔ پرساری چیز عورت کا جذبہ ہے … گھر عورت بناتی ہے۔ بچے عورت جنتی ہے۔ مرد تو ایسے ہی گھر کے باہر نام کی تختی ہے۔‘‘
میرا دل پہلی بار ڈرا۔ لیکن پھر سوچا گڈو شاید بدصورت ہو اسی لیے یہ تمہید باندھ رہی ہے۔ اتنے دن اسی لیے اسے میرے پاس آنے بھی نہیں دیا۔ لیکن میری ساس کو شاید علم نہ تھا کہ اتنے دن سسرال میں رہ کر میں پریشان ہو گئی تھی۔ اب مجھے اچھے برے آدمی کی پہچان نہ رہی تھی۔ مجھے اپنا شوہر درکار تھا۔ بڑی دیر تک ساس یونہی بے مصرف چپ چاپ میرے پاس بیٹھی رہی۔ پھر جب وہ آدھی دہلیز کے اندر اور آدھی باہر تھی تب وہ بولی:
’’سن ہاجرہ! ہم لوگ تیری بڑی قدر کریں گے، صرف تو گڈو کی قدر کرنا۔ وہ ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔ پانچ بہنوں کا اکیلا بھائی۔ دیکھ بیٹی! جو کچھ وہ تجھے نہ دے سکے تو ہم سے مانگنا۔ میرے پاس گڈو سے اور کوئی قیمتی چیز نہیں ہے۔‘‘
میں اپنی ساس کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پر وہ…اپنے دل کی بھٹی کو آنسوؤں اور باتوں سے ٹھنڈا کر رہی تھی:
’’میرے رشتہ داروں میں لڑکیوں کا کال نہیں ہے لیکن میں غریب گھر کی لڑکی اس لیے لائی ہوں کہ غریبوں میں ہمدردی ہوتی ہے۔ وہ محبت کرنا جانتے ہیں۔ اب گڈو جیسا بھی ہے تیرا ہے ہاجرہ…جیسا بھی ہے …صرف تیرا ہے …‘‘ میری ساس جلدی سے رخصت ہو گئی۔
اس کی بات ٹھیک تھی کہ گڈو صرف میرا تھا لیکن افسوس میں اس کی اتنی بھی نہ ہو سکی جتنی میں قدیر کی تھی۔ رات کے پچھلے پہر گڈو کمرے میں داخل ہوا۔ پہلے باہر کچھ کھسر پھسر ہوتی رہی۔ پھر گڈو اندر آیا۔ وہ اندر آتے ہی مجھے ایسے چمٹا جیسے ریچھ درخت سے جپھی ڈالتا ہے۔ اس کے پیچھے میری ساس اور بڑی دو نندیں کھڑی تھیں۔
’’اماں میری دلہن…میری بیوی…میری اماں جی پاری پاری دلہن جی…“
میری ساس اور نندوں نے جلدی سے اسے مجھ سے جدا کر دیا۔
’’کیا کر رہا ہے گڈو!‘‘
’’دیکھو دلہن! یہ مجھے تمہارے پاس نہیں آنے دیتی تھیں۔ کہتی تھیں دلہن بھاگ جائے گی۔ تو بھاگے گی؟ بتا میں کوئی برا ہوں …میں اپنا قاعدہ لا کر تمہیں سناؤں؟ کہاں ہے میرا قاعدہ…لاؤ…لاتے کیوں نہیں؟ میں دلہن کو قاعدہ سناؤں۔‘‘
میری ساس نے اسے چپ کرانے کی کوشش کی تو وہ رونے لگا:
’’سب مجھ سے برا سلوک کرتے ہیں پھر کہتے ہیں ہم تمہارا بھلا کر رہے ہیں۔ میں کیوں چپ رہوں بڑی آپا۔ تم چپ ہو جاؤ۔ تم دفع ہو جاؤ۔ میری دلہن ہے میں اس سے بولوں گا…بولوں گا…بولوں گا۔‘‘
ڈھیلی مسہری کبھی کبھی بانسوں کے ساتھ لگانی بڑی مشکل ہوتی ہے۔ ایک سرے پر ڈنڈوں کا کراس ٹھیک کرو تو دوسرے سرے کے ڈنڈے سرک کر پایوں کے نیچے سے نکل جاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی میری ساس نندیں تتو تھمبو کر کے گڈو کو انسان کے روپ میں پیش کر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد وہ ڈھیلی مسہری مجھ پر تان کر جلدی سے نیچے چلی گئیں۔ ان کا خیال تھا خطرے سے اوجھل ہوتے ہی خطرہ ٹل جائے گا۔
یہ آغاز تھا۔ مین ہول میں گرنے کا آغاز۔ ایک نیم دیوانے شوہر کے ساتھ ازدواجی زندگی کا آغاز۔ میں نے اتنی عمر بغیر اچھا کھائے پیے گزاری تھی کہ اگر گڈو عام سا دیوانہ ہوتا تو شاید میں بڑی رضا و رغبت سے آسائش اور دولت کی زندگی میں ڈوب جاتی لیکن گڈو دیوانہ ہونے کے ساتھ ساتھ عاشق مزاج بھی تھا۔ اسے بغل گیر ہونے، چومنے، مساس کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اس کا جی چاہتا کہ میں سارا سارا دن اس کے ساتھ پلنگ پر پڑی رہوں۔ وہ ناشتے کی میز سے میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹنے لگتا۔
’’گڈو! ناشتا کرنے دو ہاجرہ کو!‘‘
’’ایک بات ہے امی…میری پالی امی۔ پرائیویٹ بات۔ کمرے میں کرنے والی۔‘‘
’’ٹوسٹ تو ختم کر لینے دے بیے چاری کو۔‘‘ میری بڑی نند کہتی۔
پھر وہ سب کے سامنے میرے کان میں منہ ٹھونس کر ایک آدھ ایسی بات کہتا جو سب کو سنائی دیتی اور جس کا تعلق جسم کے ایسے حصوں سے ہوتا جن کا ذکر عام طور پر لوگ نہیں کیا کرتے۔
’’اٹھ نا ضروری کام ہے …‘‘
’’تو چل۔ ابھی آ جائے گی ابھی…‘‘
وہ مجھے دوپٹے سے گھسیٹنا شروع کر دیتا۔
’’جلدی چل…چل ناں …‘‘
کمرے میں پہنچ کر میرا پھنکارنا بولنا، اسے پرے پرے کرنا سب بیکار تھا۔ وہ بندروں کی طرح اچک اچک کر مجھے چومنے لگتا۔ میں زیور کپڑا اتارنے میں حجت کرتی تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ جاتا، ایسے ہی لمحوں میں گڈو مجھ پر حاوی ہو جاتا کیونکہ اس سنہری بالوں والے دیوانے کو روتا دیکھ کر نہ جانے کیوں میرے رحم کے اندر کہیں دکھ کی ٹیسیں اٹھنے لگتیں اور میرا جی اسے گود میں اٹھانے کو چاہتا۔
عجیب سے دن تھے عجیب سی راتیں۔ تیز بخار میں آنے والے خوابوں کی طرح ان کا حجم، ان کی جسامت کچھ بھی درست نہ تھا۔ نہ جانے دن کو سورج نکلتا بھی تھا کہ نہیں۔ خدا جانے راتوں کو اندھیرا ہوتا بھی تھا کہ نہیں۔ میری ساس میری آؤ بھگت میں لگی رہتی۔ نئے نئے زیور، خوبصورت کپڑے آتے رہتے۔ میری نندیں مجھ سے شرمندہ شرمندہ پرے رہتی تھیں۔ میرا سسر البتہ کبھی کبھی مجھے پاس بٹھا کر زندگی کی اونچ نیچ سمجھایا کرتا۔
گڈو پر کبھی کبھی سیانے پن کے دورے پڑتے تو مجھے بڑی امید بندھ جاتی۔ شاید کوئی معجزہ کوئی کرامت ہو جائے۔ ایسے دنوں میں کوئی گڈو کو پہچان ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ سر پر ٹوپی پہن کر بازو پر جائے نماز لٹکائے میرے پاس آتا اور بڑی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا:
’’دیکھ ہاجرہ! میں مسجد میں عشاء کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں تو کھانا کھا کر سو جانا۔ بیٹھی انتظار نہ کرتی رہنا۔‘‘
پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کی ایسی نارمل بات سن کر میری ساس کا لب و لہجہ نارمل ہو جاتا۔
’’سو جائے گی۔ سو جائے گی۔ تم فکر نہ کرو۔ تم آرام سے نماز پڑھنے جاؤ۔‘‘
واپسی پر وہ سب کو سلام کر کے اپنے کمرے میں آتا۔ بڑی دیر تک وہ ایک معمر آدمی کی طرح دانت صاف کرتا رہتا۔ پھر صوفے میں بیٹھ کر بیڈ لیمپ کی روشنی میں وہ کتابیں دیکھتا رہتا جن کا پڑھنا اس کے لیے مشکل تھا۔ بڑی رات گئے وہ پلنگ پر آتا اور میری طرف پیٹھ کر کے سو جاتا۔ فرزانہ ہوتے ہی اسے مجھ سے کوئی غرض نہ رہتی۔ ایسے ہی دنوں میں وہ بڑے تواتر کے ساتھ میرے سسر کے ہمراہ فیکٹری جانے لگتا۔ واپسی پر وہ خاموشی سے کھانا کھاتا، فیکٹری کے مسائل پر گفتگو کرتا اور پھر مجھ سے ملے بغیر سنیما دیکھنے چلا جاتا۔ ان دنوں میری ساس زمین سے دو دو فٹ اونچا چلنے لگتیں۔
’’ہم نے سب کچھ گڈو کے نام منتقل کروا دیا ہے ہاجرہ! کوٹھی، مربعے، فیکٹری سب کچھ۔ یہ سب تو اپنے اپنے گھر چلی جائیں گی۔ سب کچھ تیرا ہے …تیرا اور گڈو کا…‘‘
یہ دن بڑے پرسکون ہوتے۔ اگر میں غلطی سے اسے کسی کے سامنے ہاتھ بھی لگا لیتی تو وہ بدک جاتا اور آواز گرا کر کہتا:
’’کیا کرتی ہے ہاجرہ! کسی کا لحاظ بھی نہیں تمہیں۔ میری جوان بہنیں دیکھتی ہیں۔‘‘
لیکن یہ دن زیادہ نہیں ہوتے تھے۔ ازلی درد کی طرح کسی صبح اٹھتے ہی گڈو اپنے چولے کو اتار کر اصلی روپ میں آ جاتا۔ جب گڈو ہوش میں ہوتا، ان دنوں سسرال میں اوپر نیچے قہقہے ہوتے۔ میری نندوں کے رشتوں کی باتیں ہوتیں۔ سارا گھر میٹنی شو دیکھنے جاتا۔ رشتہ داروں کی دعوتیں ہوتیں۔ میری ساس فراخدلی سے مجھے سب سے ملاتی اور اونچی آواز میں کہتی:
’’میری ہاجرہ کا جادو دیکھا بہن جی؟ جو کام ڈاکٹر نہ کر سکے میری بہو نے کر دکھایا۔ دس سال سے سرت ماری گئی ہے گڈو کی…اب دیکھ لو چنگا بھلا، ہوش مند ہو گیا ہے۔ ہاجرہ نے اسے زندگی دی ہے …ہاجرہ نے اسے انسان بنا دیا ہے۔‘‘
مجھے اپنی ساس کی فراخدلی سے بڑی شرم آتی۔ وہ ماں تھی۔ اس لیے اس کا جذبہ سچا تھا اور میں عورت تھی اور چونکہ میری ضرورتیں ادھوری تھیں اس لیے میں ابھی ادھوری تھی۔ میں جو کچھ بھی ظاہر کرتی اندر محسوس کرنے سے عاری تھی۔ اگر میری ساس کا بس چلتا تو وہ خود گڈو کی بیوی بن جاتی اور ساری عمر اسے اپنے پروں تلے یوں چھپائے رکھتی جیسے بطخ سوں سوں کرتی اپنے انڈوں کو سمیٹتی ہے۔ کبھی کبھی گڈو پلنگ پر پیشاب کر دیتا تو چوری چوری خود ہی چادریں گدے دھلوا دیتی۔ مجھ پر گڈو کی دیکھ بھال کا کوئی بوجھ نہ تھا۔ میں اپنی ساس کو دیکھ کر سوچتی رہتی، ایک انسان کی اتنی ساری کمزوریوں پر کوئی اس نفاست سے پردہ ڈال سکتا ہے؟ اتنی بڑی کوتاہی کے باوجود اسے اس قدر جی جان سے قبول کر سکتا ہے؟ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جیسے اللہ میاں بھی اپنی مخلوق کو اسی لیے موت کے پردے میں چھپا لیتا ہے تا کہ ابلیس اس کی مخلوق کی کوتاہیوں کا مذاق نہ اڑائے۔
اپنی ساس کے سامنے مجھے اپنا وجود ایک چور کا سا لگتا۔ اس گھر کی ساری آسائشیں، سارے آرام، چاؤ چونچلے بیکار گئے۔ میں گڈو کے لیے اپنے دل میں جگہ نہ بنا سکی۔ میں کوشش کرتی تھی، معرکہ کرتی تھی لیکن جہاں پکی سلائی کی ضرورت ہو وہاں ٹانکے یا پن سے کام نہیں چلتا۔ جہاں تن من دھن سے تپسیا کی ضرورت ہو وہاں وقتاً فوقتاً کی چوما چاٹی سے گزر اوقات نہیں ہو سکتی۔
خدا جانے یہ گڈو کے باعث ہوا؟ خدا جانے ماں کی موت کے بعد میرا دل خالی پنجرے کی طرح ہو گیا تھا۔ یا اللہ کی مرضی تھی۔ زندگی کبھی سیدھا راستہ نہیں پکڑتی۔ اسے تنگ پگڈنڈی، بنجر راستے، پتھریلے کھنگریالے مقامات سے گزرنے کا بہت شوق ہے۔ مرغزاروں میں چلنے والے جان بوجھ کر کانٹوں سے الجھتے ہیں۔ امیروں کی زندگی میں ہمیشہ ڈاکٹر، دکھ اور بڑے بڑے ناسور رہتے ہیں۔
یہ دوسری بار تھی! جب میرا بایاں پاؤں آخری سیڑھی پر اور میرا دایاں پاؤں سنگ مرمر کے خوبصورت فرش سے چھ انچ اونچا تھا، میری ساس نے پیچھے سے میرے بال پکڑ لیے۔ جو انسان گناہ کے احساس سے میری طرح بوجھل ہو وہ تو اپنے پاؤں پر مشکل سے کھڑا ہو سکتا ہے اسے گرانے کے لیے مار پیٹ دھول دھپے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
’’بول۔ یہ آدھی رات کو تو کدھر سے آ رہی ہے؟ بول حرام زادی!‘‘
میرا سر پکے فرش سے گالف کی گیند کی طرح ٹکرایا۔
’’اوپر نہ کمرہ نہ پاخانہ…صرف برساتی میں اتنی رات گئے تو کیا کرنے گئی تھی؟ نامراد بول!‘‘
میرا دل و دماغ، روح، خصلت، سب پتھر کے ہو چکے تھے۔
’’بول کون تھا وہ؟ کون ہے ہماری عزت کے ساتھ کھیلنے والا؟‘‘
میری ساس تیسری منزل کو جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھی زار و زار رو رہی تھی اور اوپر برساتی میں کمبل اوڑھے دسمبر کی سردیوں میں میرا سسر ٹھٹھر رہا تھا۔ میں اپنی ساس کو کیا بتاتی کہ میں اس کی عزت کے ساتھ کھیلنے والی نہیں ہوں۔ میں تو اس کی عزت بنانے والی ہوں۔ لیکن کچھ باتیں جب ہونٹوں پر آتی ہیں تو عجیب قسم کا جھوٹ لگتی ہیں۔
’’کون تھا اوپر؟ کون ہے ہمارے گھر میں سیندھ لگانے والا؟ مردار، حرام خور، احسان فراموش، کچھ تو بول۔‘‘
میں ٹھنڈے فرش پر چت لیٹی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اپنی ساس کو کیا بتاؤں؟ کہاں سے شروع کروں اور کہاں جا کر ختم کروں؟ کیا وہ اتنی ساری الجھاؤ کی باتیں سمجھ بھی سکے گی؟
’’سن ہاجرہ! یا تو اس کا نام بتا دے سیدھے سبھاؤ یا پھر میں تجھے کھڑے کھڑے طلاق دلا دوں گی۔‘‘
مجھے اپنی ساس سے پیار ہو گیا تھا۔ میں اسے سیدھے سبھاؤ کیسے کسی کا نام بتا سکتی تھی؟
’’ہاجرہ! میں نے تیری کیسی کچھ خدمت نہیں کی اور اس کا تو نے یہ بدلہ دیا کلموہی…؟ بول، بتا اس کا نام۔ دیکھ میں نے آج تک کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا لیکن…لیکن بول ہاجرہ، بتا تو کون تھا اوپر…؟“
میں اپنی ساس کو کیا بتاتی کہ میں نے بھی اس کی خدمتوں کے بدلے میں اتنی بڑی گناہ کی گانٹھ سر پر اٹھائی تھی۔ یہ گانٹھ بازار کی ان گانٹھوں سے مشابہ تھی جن سے پرانے بدبو دار استعمال شدہ صاحبوں کے کپڑے نکلا کرتے ہیں۔
شروع سردیاں تھیں جب ایک روز میرا سسر میرے پاس آیا۔ اس روز گھر کے تمام لوگ گڈو کو لے کر ایک مزار پر دیگ چڑھانے گئے ہوئے تھے۔ مجھے بخار تھا اس لیے میں ان کے ساتھ نہ جا سکی تھی۔ میرے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی جیسے کوئی چڑیا آ کر بار بار راستہ تلاش کرنے میں ٹکرا رہی ہو۔ بڑی دیر بعد ایک مری سی آواز آئی:
’’ہاجرہ…!‘‘
میں نے دروازہ کھولا تو میرا سسر کھڑا تھا۔
’’کیسی طبیعت ہے اب؟‘‘
’’ٹھیک ہے جی۔‘‘
جب میں لوٹنے لگی تو اس نے میری کلائی کو پکڑ کر بڑی گرماہٹ سے کہا:
’’ڈاکٹر صاحب آئے تھے؟‘‘
’’آئے تھے جی!‘‘
بڑی دیر تک وہ میرے پلنگ کے پاس صوفے میں بیٹھ کر دوائیوں کے پمفلٹ پڑھتا رہا۔ شاید وہ اپنے نفسِ مضمون کو تیار کر رہا تھا۔ جب میں نے تھک کر اس کی طرف پشت کر لی تو وہ کھنکار کر بولا:
’’تم سے ایک بات کرنی ہے ہاجرہ! پتا نہیں تم میری بات کو کس روشنی میں سمجھو!‘‘
’’جی فرمائیے۔‘‘
’’گڈو میرا اکلوتا بیٹا ہے اور میری ساری جائیداد اس کے نام ہے۔‘‘
’’اللہ نے چاہا تو گڈو صاحب ٹھیک ہو جائیں گے جی…امی جی شاہ قلندر کے دیگ چڑھانے گئی ہیں۔‘‘
’’ٹھیک اس نے کیا ہونا ہے امریکہ تو پھر آیا…ایک صورت ہے۔‘‘
وہ کون سی صورت تھی؟ اس کے انتظار میں میں کتنی دیر ان کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر یکدم میرے سسر کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے …قطرہ قطرہ!
’’گڈو کے اگر بچہ ہو جائے تو میری عزت بچ سکتی ہے …اس گھر کا بوٹا ضرور لگنا چاہیے۔‘‘ مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ اس گھر کا بوٹا کیوں لگنا چاہیے اور بوٹا لگنے سے کسی کو کیا فائدہ ہوتا ہے لیکن مجھے اپنے بوڑھے سسر پر ترس آ رہا تھا۔
’’مجھے بچا لو۔ میرے گھر کی خوشی کو بچا لو…اس گھر کی عزت، خوشی، نام، سب کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے ہاجرہ!‘‘
میری ساس تیسری منزل کو جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھی احسانات کی وہ فہرست گنوا رہی تھی جو اس تھوڑے عرصے میں اس نے مجھ پر کیے تھے۔ باڑسے کی شاپنگ، ہوٹلوں کے ڈنر، فلموں کے نام بار بار اس کے ہونٹوں پر آ رہے تھے۔ دور کہیں ایک مرغِ صبح خیر باریک سی آواز میں بانگ دے رہا تھا۔ مجھے اپنی ساس کا وجود ٹپا کھائی گیند کی طرح نظر آ رہا تھا۔ وہ بھی اپنے دیوانے بیٹے کے عشق میں ٹکرا ٹکرا کر زخمی ہو چکی تھی۔ اس وقت پتا نہیں کیوں مجھے اپنی ماں بہت یاد آ رہی تھی۔
’’بول ہاجرہ! بتا دے خدا کے لیے … کون تھا وہ…ایک بار اس کا نام بتا دے، میں اس کا لہو چوس لوں گی۔ میرے گڈو کی خوشیوں پر ڈاکہ ڈالنے والا مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتا۔‘‘
میں اپنی ساس کو کیا بتاتی کہ مجھے بھی گرزِ گاؤ سر زیر نہ کر سکتا تھا۔ مجھ پر ڈاکہ ڈالنے والے نے ابریشمی کمند کو استعمال کیا تھا۔ میں اپنی ساس کو سمجھا نہیں سکتی تھی کہ جو رشتہ عزت بچانے سے شروع ہوا تھا وہ حمل ٹھہر جانے کے بہت بعد تک کیوں جاری رہا؟ کئی باتیں تاریخ کے واقعات کی طرح ہوتی ہیں۔ ان کی کئی تاویلیں، کئی تھیوریاں تو ہو سکتی ہیں لیکن سچائی اور اصلیت تک پہنچنا قریب قریب نا ممکن ہوتا ہے۔
’’بتا ہاجرہ! میں آخری بار پوچھ رہی ہوں۔ آخری بار۔ بتا ہماری خوشیوں سے کھیلنے والا کون ہے؟‘‘
میری ساس بے چاری مامتا کی ماری ہوئی کیسے سمجھ پاتی کہ جب سے دنیا بنی ہے، ایک ہی کھیل انسان کا سچا اور اصلی کھیل رہا ہے۔ اگر لوگوں نے اس کھیل کے ساتھ عزت کو نتھی نہ کیا ہوتا تو بنی نوع انسان ہنستے کھیلتے بہت دور نکل جاتے۔ اب تو بندھے ٹکے اصولوں سے کوئی رتی بھر بھٹکا اور عزت کے لالے پڑ گئے۔ خدا جانے پہلے پہل کس کافر نے عشق کیا اور افزائش نسل کے کھیل کے ساتھ عزت کا تصور تعویذ کے طور پر باندھ دیا۔ پتا نہیں کس صدی میں کس نئی سوچ والے نے مذہب عشق اور جسمانی تعلقات کی ضرورت کو یکجا کر کے حدیثِ عشق تیار کی۔ اب تو عزت اعضائے جنس اور محبت عجیب قسم کے تکون بن گئے ہیں جن کا ہر زاویہ صلیب کی طرح زاویہ قائمہ اور ہر ضلع قیامت سے بھی لمبا تھا۔
’’ہاجرہ! میں آخری بار پوچھ رہی ہوں تیرے پیٹ میں کس کا حمل ہے؟‘‘
میرے جی میں آئی چیخ کر کہوں آج تک کسی کو میرے حمل کی خوشی نہیں ہوئی۔ جو بھی جاننا چاہتا ہے یہی چاہتا ہے کہ حمل کس کا ہے؟ کیا حمل بذاتِ خود کوئی حیثیت نہیں رکھتا؟ کیا اسی حمل کی خوشی کی جا سکتی ہے جو جائز بندھے ٹکے اصولوں کے تحت ہوتا ہے؟ اگر فطرت کا بھی منشا یہی ہوتا تو عورت کو اپنی ناجائز اولاد سے کبھی پیار نہ ہوتا۔
’’بول ہاجرہ! کون ہے وہ…؟ اگر تو بتا دے گی تو قسم خدا کی میں حرام کی اولاد کو بھی اپنی کہوں گی۔ پر اگر تو نے نہ بتایا تو…تو…تو تجھے طلاق دلوا دوں گی۔‘‘
میں اپنی ساس کو بتانا چاہتی تھی لیکن مجھے اس عورت سے پیار تھا۔ اس کے دکھ سے گہری ہمدردی تھی۔ میں ایک ہی جملے میں اس کا دوہرا نقصان نہیں کر سکتی تھی۔
میں اپنے گھر چلی آئی…چپ چاپ! یہاں ہر وقت میرا ابا رہتا تھا۔ چپ چاپ۔ ان دیکھا، بولنے، جھڑکنے اور احسان جتانے والی ماں جانے کہاں چلی گئی تھی؟
اور آج اچانک بائیس برس گزر جانے کے بعد۔ یہ تیسری بار تھی! جس وقت میرا دایاں پیر سیڑھی کی آخری ٹیک پر تھا اور میرا بایاں پاؤں زمین سے سوا چھ انچ اونچا تھا۔ کسی نے پیچھے سے میرا چونڈا پکڑ لیا۔ میرا جسم تو پہلے ہی زینہ اترنے سے ہانپ رہا تھا، اسے زمین پر گرتے دیر نہ لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے گرتے ہی میری کنپٹی سے ہلکی سی خون کی دھار نکلی۔
’’اس وقت آدھی رات کو تو کہاں سے آ رہی ہے ماں؟ بول، بتا…اور دوسری منزل میں تیرا کیا کام تھا اس وقت؟‘‘
میں چپ رہی۔ جوان بیٹے کو میں کیا بتاتی کہ بیٹوں کو پالنے میں ماؤں کو کیا کچھ کر گزرنا پڑتا ہے۔
’’میں نے ادھر ادھر سے بہت سی باتیں سن رکھی ہیں۔ تیرا کیا تعلق ہے مالک مکان سے۔ بول…شیخ صاحب سے تیرا کیا ناطہ ہے؟‘‘
میں چپ رہی۔ میں اسے کیا بتاتی کہ شیخ صاحب ہمارے محسن تھے۔ انہوں نے برسوں ہمارا ساتھ دیا تھا۔ کرائے کے پیسے کبھی وصول نہیں کیے تھے اور اس کے علاوہ ہر طرح مدد کی تھی۔
’’میں …میں تجھے کیا سمجھتا تھا ماں …میں …میں سمجھتا تھا تو جنت کی حور ہے۔ فرشتہ ہے۔ میں سمجھتا تھا کہ… کہ کیا ہوا میرا باپ دیوانہ تھا۔ میری ماں تو…‘‘
جوان آدمی کے آنسو بے دریغ اس کی آنکھوں سے برس رہے تھے۔ وہ بچپن سے لے کر آج تک کی ساری محرومیاں گنوا رہا تھا۔ باپ کے گھر سے ٹوٹی ہوئی ہر آس اسے ڈس رہی تھی۔ وہ اپنے آپ سے جھگڑ رہا تھا۔ دنیا سے جھگڑ رہا تھا۔
’’بول کون تھا اوپر…بول ماں! شیخ صاحب سے تیرا کیا ناطہ ہے؟‘‘
پہلی بار میری زبان کھلی…چپ کے مہیب دہانے سے آواز آئی:
’’میرا کسی سے کبھی کوئی ناطہ نہیں رہا بیٹا…میرا کسی سے کبھی بھی کوئی ناطہ نہیں رہا…کسی سے بھی نہیں …کسی سے بھی نہیں …میں اس قابل نہ تھی کہ کوئی مجھ سے رشتہ جوڑتا…‘‘
٭٭٭
ماخذ:
https://asaanurdu.com/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں