فہرست مضامین
- انتخاب کلام شاہ نصیرؔ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
- ادھر ابر لے چشم نم کو چلا
- اس دل کو ہمکنار کیا ہم نے کیا کیا
- اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
- ایک یاں قسمت کا اپنے کنج تنہائی ملا
- باز آؤ بتو دل کا ستانا نہیں اچھا
- بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
- بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا
- بیاباں مرگ ہے مجنون خاک آلودہ تن کس کا
- ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ
- ترے ہے زلف و رخ کی دید صبح و شام عاشق کا
- تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
- ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا
- جب تلک چرب نہ جوں شمع زباں کیجئے گا
- جسم اس کے غم میں زرد از ناتوانی ہو گیا
- جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا
- چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
- خال رخ اس نے دکھایا نہ دوبارا اپنا
- خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
- دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
- دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
- دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
- دل میں ہے کیا جانئے کس کا خیال نقش پا
- دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیا
- رنگ میلا نہ ہوا جامۂ عریانی کا
- اے جنوں روز رہے ہے مرے دامن سے لگا
- زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا
- زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
- صبح گلشن میں ہو گر وہ گل خنداں پیدا
- کر کے آزاد ہر اک شہپر بلبل کترا
- لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
- میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا
- میں نے بٹھلا کے جو پاس اس کو کھلایا بیڑا
- نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
- ہاتھوں کو اٹھا جان سے آخر کو رہوں گا
- ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا
- یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
- یاں سے دیں گے نہ تم کو جانے آج
- جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
- کیوں نہ کہیں بشر کو ہم آتش و آب و خاک و باد
- خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر
- دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
- طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت سوال دیگر جواب دیگر
- ہو چکی باغ میں بہار افسوس
- جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
- واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف
- جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
- میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
- پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
- جو گزرے ہے بر عاشق کامل نہیں معلوم
- جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
- چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
- کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
- نکہت گل ہیں یا صبا ہیں ہم
- نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
- اٹھتی گھٹا ہے کس طرح بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
- اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
- بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
- حرم کو شیخ مت جا ہے بت دل خواہ صورت میں
- خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
- دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
- سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
- شب جو رخ پر خال سے وہ برقعہ کو اتارے سوتے ہیں
- شمیم زلف معنبر جو روئے یار سے لوں
- فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
- قدم نہ رکھ مری چشم پر آب کے گھر میں
- کبھو نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
- لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
- مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
- نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
- ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
- ہوا اشک گلگوں بہار گریباں
- غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
- گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
- ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
انتخاب کلام شاہ نصیرؔ
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ماخذ: ریختہ ڈاٹ آرگ
ڈاؤن لوڈ کریں
ادھر ابر لے چشم نم کو چلا
ادھر ساقیا! میں بھی یم کو چلا
مبارک ہو کعبہ تمہیں شیخ جی!
یہ بندہ تو بیت الصنم کو چلا
سر رہ گزر آہ اے بے نشاں
کدھر چھوڑ نقش قدم کو چلا
جواہر کا ٹکڑا ہے یہ لخت دل
تو اے اشک لے اس رقم کو چلا
ترا مائل حسن اے سرو قد
سنا ہے کہ ملک عدم کو چلا
حباب لب جو کی مانند آہ
خبر جلد لے کوئی دم کو چلا
ترے عشق میں ساتھ اپنے نصیرؔ
لیے حسرت و درد و غم کو چلا
٭٭٭
اس دل کو ہمکنار کیا ہم نے کیا کیا
دشمن کو دوست دار کیا ہم نے کیا کیا
رہتا یہی ہے دل میں شش و پنج یار سے
آئینہ کیوں دو چار کیا ہم نے کیا کیا
مٹھی بھرم کی غنچہ صفت اس چمن میں کھول
اسرار آشکار کیا ہم نے کیا کیا
در پردہ دوستی ہوئی ہم اپنے حق میں آہ
مطرب پسر کو یار کیا ہم نے کیا کیا
اسلام بھی بہ جبر تھا اے شیخ و برہمن
کیوں جبر اختیار کیا ہم نے کیا کیا
تسبیح تو پڑی تھی گلے ایک دوسری
زنار کو بھی ہار کیا ہم نے کیا کیا
دل کو دکھا کے چین جبین پری وشاں
جوں برق بے قرار کیا ہم نے کیا کیا
کہنے لگا وہ قبر پہ عاشق کی کیوں گزر
سہواً سر مزار کیا ہم نے کیا کیا
ہیہات آشنا تھے جو موج بلا کے پیچ
ان کا نہ انتظار کیا ہم نے کیا کیا
بحر جہاں سے دیدہ و دانستہ جوں حباب
با چشم تر گزار کیا ہم نے کیا کیا
دشت جنوں سے توڑ کے رشتے کو جیب کے
داماں بھی تار کیا ہم نے کیا کیا
اس سرو قد کے عشق میں یہ پھل ملا نصیرؔ
ہر صد آہ وار کیا ہم نے کیا کیا
٭٭٭
اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
دل سر سے بلا تیرے یہ ٹل جائے تو اچھا
بوسے کا سوال اس سے کروں ہوں تو کہے ہے
چل رے مرے کچھ منہ سے نکل جائے تو اچھا
اثبات نہ ہو دعوئ خوں اس پہ الٰہی
صورت مرے قاتل کی بدل جائے تو اچھا
لے سر پے وبال اپنے پتنگوں کا نہ اے شمع
تو اور بھی جوبن سے جو ڈھل جائے تو اچھا
ڈسنے کو مرا دل ہے تری زلف کی ناگن
طاؤس خط اس کو جو نگل جائے تو اچھا
ہم چشمی تیری چشم سے کرتا ہے یہ بادام
اس کو کوئی پتھر سے کچل جائے تو اچھا
زلفوں کے تصرف میں ہے بے وجہ رخ یار
کفار کا کعبہ سے عمل جائے تو اچھا
خوں ہو کے رواں دل ہو گر آنکھوں سے تو بہتر
یا عشق کی آتش میں یہ جل جائے تو اچھا
لب پر سے بلاق اپنی دم بوسہ اٹھا دو
اندیشۂ زنبور عسل جائے تو اچھا
پہلو سے نکل جائے اگر دل تو بلا سے
تو چھوڑ کے خالی نہ بغل جائے تو اچھا
کہتے ہیں نصیرؔ اپنی نہ تم آہ کو روکو
یہ تیر نشانے پہ جو چل جائے تو اچھا
٭٭٭
ایک یاں قسمت کا اپنے کنج تنہائی ملا
دوسرے جو یار تھا سو وہ بھی ہرجائی ملا
دیکھیے کیوں کر ہو اس سے دوستو صحبت برآر
ہم تو دیوانے ہی تھے پر دل بھی سودائی ملا
بعد مجنوں کیوں نہ ہوں میں کار فرمائے جنوں
عشق کی سرکار سے ملبوس رسوائی ملا
جل گیا پروانہ جس دم شعلہ رو آیا بہ بزم
خاک میں شب شمع نے دی محفل آرائی ملا
طالع بیدار کی ہمت اٹھانی تھی ولے
اس سے شب ہم کو تمنا خواب میں لائی ملا
اپنی قسمت میں ازل سے تھی لکھی سرگشتگی
گرد باد آسا جو کار دشت پیمائی ملا
واہ وا رحمت ہے تجھ کو اور اس کو آفریں
راہ میں بن کر عصا جو خار صحرائی ملا
دستگیری ہی نہ کی تو نے کہ جوں نقش قدم
خاک میں تیرے لیے میں اے توانائی ملا
خوب سا سیدھا بنے گا سرو گلشن اے نصیرؔ
اس کی رعنائی سے گردے کا یہ زیبائی ملا
٭٭٭
باز آؤ بتو دل کا ستانا نہیں اچھا
یہ گھر ہے خدا کا اسے ڈھانا نہیں اچھا
رخ پر تمہیں گیسو کا دکھانا نہیں اچھا
خورشید کا بدلی میں چھپانا نہیں اچھا
اے داغ تجھے دل سے مٹانا نہیں اچھا
کعبے کا چراغ آہ بجھانا نہیں اچھا
دل ابروئے جاناں کے تصور میں نہ کھینچ آہ
قبلے کی طرف تیر لگانا نہیں اچھا
لپکا ہے اسے دیکھ پریشاں نظری کا
آنکھ آئنے سے یار لڑانا نہیں اچھا
کشتہ ہوں قد یار کا اے شور قیامت
سونے دے مجھے میرا جگانا نہیں اچھا
ہوں نخل چنار اے بت پرکالۂ آتش
جلتوں کو شرارت سے جلانا نہیں اچھا
تھا قصد تہ چرخ ہو دو روزہ قیامت
دیکھا تو یہ خیمہ ہے پرانا نہیں اچھا
سر شمع صفت عشق کی منزل میں کٹے ہے
اس رہ میں قدم آگے بڑھانا نہیں اچھا
ڈر چرخ ستم گار سے دل ضبط فغاں کر
نے شیر کے ہاں منہ پہ بجانا نہیں اچھا
گرداب بلا ہے یہ تری زلف کا حلقہ
اس میں دل عاشق کا ڈبانا نہیں اچھا
سلواؤں میں کیا خاک گریباں ابھی ناصح
ہے فصل بہار اس کا سلانا نہیں اچھا
دیتا ہوں قسم اپنے لہو کی مجھے بتلا
کس نے یہ کہا پان کا کھانا نہیں اچھا
یاقوت جگر سوختہ پاتا نہیں قیمت
لب پر تجھے مسی کا لگانا نہیں اچھا
کہتا ہوں نصیرؔ اٹھ کے در یار پہ جا بیٹھ
دنیا میں کہیں اور ٹھکانا نہیں اچھا
٭٭٭
بے سبب ہاتھ کٹاری کو لگانا کیا تھا
قتل عشاق پہ بیڑا یہ اٹھانا کیا تھا
سر پہ اپنے تو نہ لے خون اب اک عالم کا
فندق ہائے نگاریں کو دکھانا کیا تھا
سر بلندی کو یہاں دل نے نہ چاہا منعم
ورنہ یہ خیمۂ افلاک پرانا کیا تھا
اس لئے چین جبیں موج رہے ہے ہر دم
اے حباب لب جو آنکھ چرانا کیا تھا
ساقیا اپنی بلا سے جو گھٹا اٹھی ہے
دے کے اک جرعۂ مے دل کو گھٹانا کیا تھا
سرزمیں زلف کی جاگیر میں تھی اس دل کی
ورنہ اک دام کا پھر اس میں ٹھکانا کیا تھا
کہہ غزل دوسری اس بحر میں ایک اور نصیرؔ
یک قلم لکھنے سے اب ہاتھ اٹھانا کیا تھا
٭٭٭
بے مہر و وفا ہے وہ دل آرام ہمارا
کیا جانے کیا ہووے گا انجام ہمارا
کیا قہر ہے اوروں سے وہ ملتا پھرے ظالم
اور مفت میں اب نام ہے بد نام ہمارا
اے آب دم تیغ ستم کیش بجھا پیاس
ہوتا ہے تری چاہ میں اب کام ہمارا
لبریز کر اس دور میں اے ساقیِ کم ظرف
مت رکھ مئے گلگوں سے تہی جام ہمارا
کس طرح نکل بھاگوں میں اب آنکھ بچا کر
صد چشم سے یاں ہے نگراں دام ہمارا
یہ زلف و رخ یار ہے اے شیخ و برہمن
باللہ یہاں کفر اور اسلام ہمارا
بیعت کا ارادہ ہے ترے سلسلے میں جوں
شانہ ہے اب اے زلف سیہ فام ہمارا
اس شوخ تلک کوئی نہ پہنچا سکا ہمدم
جز حقہ یہاں بوسہ بہ پیغام ہمارا
کیا کہئے کس انداز سے شرمائے ہے وہ شوخ
تقریباً اگر لے ہے کوئی نام ہمارا
صیاد سے کہتے تھے کہ بے بال و پری میں
آزاد نہ کر بد ہے کچھ انجام ہمارا
پرواز کی طاقت نہیں یاں تا سر دیوار
کیوں کر ہو پہنچنا بہ لب بام ہمارا
اس عشق میں جیتے نہیں بچنے کے نصیرؔ آہ
ہو جائے گا اک روز یوں ہی کام ہمارا
٭٭٭
بیاباں مرگ ہے مجنون خاک آلودہ تن کس کا
سیے ہے سوزن خار مغیلاں تو کفن کس کا
بہ گرد کارواں دل جوں جرس ہے نعرہ زن کس کا
عزیزو کم ہوا ہے یوسف گل پیرہن کس کا
پڑا رہنے دے اب ہے تجھ کو فکر غسل تن کس کا
شہید ناز ہوں تیرا لحد کس کی کفن کس کا
٭٭٭
ترے دانت سارے سفید ہیں پئے زیب پان سے مل کر آ
نہیں دیکھے آج تک ابر میں مجھے اب دکھانے کو اختر آ
شب وعدہ تو اگر آئے ہے تو درنگ کیا ہے مرے گھر آ
کہ یہ آنکھیں لگ رہی در سے ہیں شب رشک مہ بخدا در آ
مرے سر پہ ہر گھڑی فاختہ کرے کام کیونکہ نہ ارے کا
قد دل ربا کے حضور تو نہ چمن میں بن کے صنوبر آ
مرے تن سے سر کو جدا کر اب نہیں خوں بہا کی مجھے طلب
کہ یہ تن یہ بار گراں ہے بس کہیں تیغ لے کے ستم گر آ
یہ مکاں ہیں دونوں ترے لیے نہیں غیر کا ہے یہاں گزر
جو تو چشم میں نہیں آئے ہے مرے دل میں یار سخنور آ
تری راہ دیکھوں میں تا کجا کہوں کس سے یہ کہ خبر ہی لا
مرا اس سے لے کے جواب خط کہیں جلد اڑ کے کبوتر آ
بجز ابر دے بت بادہ کش نہیں دل کے واسطے جائے خوش
کہ یہ شیشہ اور وہ طاق ہے تو نصیرؔ جا کے اسے دھر آ
٭٭٭
ترے ہے زلف و رخ کی دید صبح و شام عاشق کا
یہی ہے کفر عاشق کا یہی اسلام عاشق کا
پیا پے قدح لبریز دے اے ساقی مستاں
تہی تجھ دور میں افسوس رہوے جام عاشق کا
ہر اک یاں منزل مقصود کو پہنچے ہے تجھ سے ہی
مگر اک خلق میں فرقہ ہے سو ناکام عاشق کا
کبھی معشوق کو مرتے نہ دیکھا در پہ عاشق کے
یہی باقی ہے سر معشوق کے الزام عاشق کا
ہوا ہے خط نصیرؔ آغاز اس مہ رو کے چہرے پر
دو چند اب یہ نظر آتا ہے کچھ انجام عاشق کا
٭٭٭
تو ضد سے شب وصل نہ آیا تو ہوا کیا
ہم مر نہ گئے دل کو کڑھایا تو ہوا کیا
تصویر نہالی سے ہم آغوش رہے ہم
گر آ کے نہ ساتھ اپنے سلایا تو ہوا کیا
دیکھا ہی کیے تیرے تصور میں قمر کو
گر تا سحر اے یار! جگایا تو ہوا کیا
پھولوں کی رہی سیج جو خالی تو بلا سے
انگاروں پہ گر ہم کو لٹایا تو ہوا کیا
منہ لال ہوا غنچہ صفت خون جگر سے
ہاتھوں سے ترے پان نہ کھایا تو ہوا کیا
بہتر یہ ہوا نامہ و پیغام سے چھوٹے
گر آپ نہ آیا نہ بلایا تو ہوا کیا
دشمن کا اڑانے کو دھواں یہ بھی بہت ہیں
غیروں کے سکھانے سے جلایا تو ہوا کیا
مر جانے سے تو ہم رہے جوں پنجۂ مرجاں
ہاتھ اپنا جو مہندی سے بندھایا تو ہوا کیا
تو آپ ہی دیکھ انگلیوں کی فندقیں اودی
جامن کے جو پودوں کو لگایا تو ہوا کیا
دیکھا ہے بہت بھان متی کا یہ تماشا
سرسوں کو ہتھیلی پہ جمایا تو ہوا کیا
ہم سرو چمن دل کی ہر اک آہ کو سمجھے
اپنا قد موزوں نہ دکھایا تو ہوا کیا
ہم نے بھی محبت کو تری طاق پہ رکھا
ابرو جو سوئے غیر ہلایا تو ہوا کیا
یہ یاد رہے ہم بھی نہیں یاد کریں گے
گر تو نے ہمیں دل سے بھلایا تو ہوا کیا
مینا بہ بغل آبلۂ دل سے رہے ہم
جام مے گل گوں نہ پلایا تو ہوا کیا
دم اور ہی اک دوستی کا یار بھریں گے
منہ جوں نئے قلیاں نہ لگایا تو ہوا کیا
مت کہہ کہ تصور میں خط سبز کے میرے
گر شاہؔ نصیرؔ اشک بہایا تو ہوا کیا
ہے دلنے کو چھاتی پہ تری مونگ خط سبز
گر زہر غم ہجر کھلایا تو ہوا کیا
٭٭٭
ٹانکوں سے زخم پہلو لگتا ہے کنکھجورا
مت چھیڑ میرے دل کو بیٹھا ہے کنکھجورا
چمپا کلی اس کی کیوں کر خیال چھوٹے
بے وجہ دل سے آ کر لپٹا ہے کنکھجورا
وہ جنبش نگہ کیوں مارے نہ ڈنک ہر دم
تحریر سرمہ گویا کالا ہے کنکھجورا
زیب گلو ہے کنٹھی یاقوت کی ہے گھنڈی
اے شوخ یہ گریباں تیرا ہے کنکھجورا
رہتا ہے کیا تصور دن رات مجھ کو اس کا
آنکھوں میں لال سر کا پھرتا ہے کنکھجورا
طفلی میں کھیل سیکھے مجھ پر جو اب بنا کر
تنکوں سے سینگرے کے پھینکا ہے کنکھجورا
خط سیاہ درپئے ہے زلف کے نصیرؔ اب
بچھو کا چھیننے گھر نکلا ہے کنکھجورا
٭٭٭
جب تلک چرب نہ جوں شمع زباں کیجئے گا
سرگزشت اپنی کا کیا خاک بیاں کیجئے گا
برق ساں ہنس کے جو وا آپ دہاں کیجئے گا
معنی مخزن اسرار عیاں کیجئے گا
دل کو جب مائل چشمان بتاں کیجئے گا
طرفۃ العین میں سیر دو جہاں کیجئے گا
دل صد پارہ مرا شیشۂ بشکستہ ہے
اس کو پامال ذرا دیکھ کے ہاں کیجئے گا
دل پر آبلہ لایا ہوں دکھانے تم کو
بند اے شیشہ گرو! اپنی دکاں کیجئے گا
کیوں لگاتے ہو مرے سینۂ صد چاک کو ہاتھ
چشم سوزن سے نظر بخیہ گراں کیجئے گا
تم کو اپنا دل پر داغ دکھاتے جو کبھی
سیر گلشن نہ پھر اے لالہ رخاں کیجئے گا
ہاتھ سے محتسب دہر کے اک دن برپا
سر پہ شیشے کے خرابی نہ یہاں کیجئے گا
آبرو مد نظر ہم کو ہے تیری یاں تک
اشک کو روکیے گا ضبط فغاں کیجئے گا کذا
کیونکہ نرگس تری آنکھوں سے کرے ہم چشمی
جب تک اس کا نہ علاج یرقاں کیجئے گا
رو کشی دیکھ نہ کر گوشہ نشینوں سے فلک
ہر طرح سے تری خاطر پئے شاں کیجئے گا
ناوک آہ لگائیں گے پیاپے تجھ پر
قد خم گشتہ کو جب اپنے کماں کیجئے گا
ابر نیساں کی بھی جھڑ جائے گی پل میں شیخی
دیدۂ تر کو اگر اشک فشاں کیجئے گا
دل میں کچھ یہ نہ سمجھنا کہ ہمارا ہے دور
جامداری میں شک اے بادہ کشاں کیجئے گا
دل میں رکھتے ہو خیال اس کی کمر کا جو نصیرؔ
لا مکاں میں کہیں کیا جا کے مکاں کیجئے گا
٭٭٭
جسم اس کے غم میں زرد از ناتوانی ہو گیا
جامۂ عریانی اپنا زعفرانی ہو گیا
بے تکلف وہ جو بیٹھا کھول چھاتی کے کواڑ
آئینہ ہو منفعل دیکھ اس کو پانی ہو گیا
کیا ہوا بہکائے سے تیرے بھلا اب اے رقیب
آخرش اس نے ہماری بات مانی ہو گیا
جاگ اے غافل کہ پیری کی ہوئی تیری سحر
کٹ گئی غفلت کی شب عہد جوانی ہو گیا
٭٭٭
جو رقیبوں نے کہا تو وہی بد ظن سمجھا
دوست افسوس نہ سمجھا مجھے دشمن سمجھا
ناتواں وہ ہوں کہ بستر پہ مجھے دیکھ کے آہ
تار بستر کوئی سمجھا کوئی سوزن سمجھا
تیغ قاتل جو محبت سے لگی آ کے گلے
تاب کو اس کی میں اپنی رگ گردن سمجھا
اپنے پاجامۂ کمخواب کی ہر بوٹی کو
شمع رو شب کو چراغ تہہ دامن سمجھا
سرعت ابلق ایام سے غافل تھا آہ
دم آخر میں اسے عمر کا توسن سمجھا
خار صحرا سے چھدی جب کف پا مجنوں کی
خاک بیزی کو وہ غربال کا روزن سمجھا
کمر یار کا ازبسکہ جو رہتا ہے خیال
دل کو میں چینیِ مو دار کا برتن سمجھا
گل کو معلوم نہ تھی ہستئ فانی اپنی
اے نسیم سحری وقت شگفتن سمجھا
بستر گل سے منقش جو ہوا اس کا بدن
تن نازک پہ وہ پھلکاری کی چپکن سمجھا
جیتے جی چاہئے ہے عاقبت کار کی فکر
فائدہ کیا اگر انساں پس مردن سمجھا
میرزائی کو نہ فریاد نے چھوڑا تا مرگ
جیغۂ سر تجھے اے تیشۂ آہن سمجھا
عکس افگن ہے ترے ساغر صہبا میں یہ زلف
تو عبث اے بت مے کش اسے ناگن سمجھا
سایۂ زلف نے اس کے یہ دیا دھوکا رات
چلنے والوں نے جسے افعی رہزن سمجھا
چشم نے اپنی طرف سے تو سجھائی تھی نصیرؔ
دل نہ پر اس ستم ایجاد کی چتون سمجھا
٭٭٭
چھوڑا نہ تجھے نے رام کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
ہم سے تو بت کافر بہ خدا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
افسوس عدم سے آ کے کیا کیا ہم نے گلشن ہستی میں
جوں شبنم و گل رویا نہ ہنسا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اس آئینہ رو کے وصل میں بھی مشتاق بوس و کنار رہے
اے عالم حیرت تیرے سوا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
دل کوئے بتاں میں جا بیٹھا دم خانۂ تن کو چھوڑ گیا
حیف آخر کار رفیق اپنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
یا بہر طواف کعبہ گئے یا معتکف بت خانہ ہوئے
کیا شیخ و برہمن ہم نے کیا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اے قاصد اشک و پیک صبا اس تک نہ پیام و خط پہنچا
تم کیا کرو ہاں قسمت کا لکھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
کھینچ اس کو نہ لایا جذبۂ دل تاثیر نہ کچھ نالے ہی نے کی
میں دونوں کا بس شاکی ہی رہا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
اس لب کا لیا بوسہ نہ کبھو ہیہات نہ لپٹا پاؤں سے
دل تجھ سے برنگ پان و حنا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
مجنوں تو پھرا جنگل جنگل فرہاد نے چیرا کوہ دلا
میں آہ رہا بے دست و پا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
دن کو بھی نہ دیکھا ہم نے اسے شب خواب میں بھی یارو نہ ملا
اس طالع خفتہ کا ہووے برا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
نزدیک نصیرؔ اپنے آساں فرمائش تھی گویا یہ غزل
کچھ اس کا بھی کہنا مشکل تھا یہ بھی نہ ہوا وہ بھی نہ ہوا
٭٭٭
خال رخ اس نے دکھایا نہ دوبارا اپنا
چندے اک اور ہے گردش میں ستارا اپنا
دل و دین و خرد و صبر کجا کو آرام
گھر لٹا ہم نے دیا عشق میں سارا اپنا
بولی صیاد سے بلبل کہ نہ کر گل سے جدا
تختۂ باغ ہے یہ تخت ہزارا اپنا
سیر کی ہم نے جو کل محفل خاموشاں کی
نہ تو بیگانہ ہی بولا نہ پکارا اپنا
مثل نے ہم نے تو فریاد بہت کی لیکن
کوئی ہمدم نہ ہوا آہ ہمارا اپنا
دل ہوا چاہ ذقن ہی میں غریق رحمت
اس میں غواص نظر گرچہ اتارا اپنا
کھل گیا عقدۂ ہستی و عدم مثل حباب
لب دریا پہ ہوا جب کہ گزارا اپنا
پیرہن اس کو ہوا خلعت شاہی کہ نصیرؔ
جس نے یہ پیرہن خاک اتارا اپنا
٭٭٭
خدا کے واسطے چہرے سے ٹک نقاب اٹھا
یہ درمیان سے اب پردۂ حجاب اٹھا
یہ کون بادہ پرستی ہے اے بت بد مست
اٹھا جو بزم سے تیری سو ہو کباب اٹھا
مطالعے سے ترے بیت ابروؤں کے شوخ
رکھی ہے شیخ نے اب طاق پر کتاب اٹھا
بسان نقش قدم جس نے پا تراب کیا
وہ راہ عشق میں مٹ کر غرض شتاب اٹھا
بہ چشم تر ہی کوئی دم تو بیٹھ ورنہ عبث
تو ایک دم کے لیے بحر سے حباب اٹھا
پیا ہے شیشۂ گردوں سے جس نے اک جرعہ
مثال جام وہ با دیدۂ پر آب اٹھا
نصیرؔ شور نہ کر فتنہ ہووے گا برپا
خدا نخواستہ اب گر وہ مست خواب اٹھا
٭٭٭
دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
شیشہ یہ ایک دم میں پری خانہ ہو گیا
شب کیوں کہ سلطنت نہ کرے تاج زر سے شمع
رشک پر ہما پر پروانہ ہو گیا
کیفیتوں سے گردش چشم بتاں کی دل
شیشہ کبھی بنا کبھی پیمانہ ہو گیا
طغیانی سرشک سے اپنی بھی بعد قیس
دریا کا پاٹ دامن ویرانہ ہو گیا
زنجیر کیوں نہ اس کی قدم بوس ہو بھلا
جو کوئی تیرے عشق میں دیوانہ ہو گیا
یاں تک کیا ہے شہرۂ آفاق عشق نے
قصہ مرا بھی خلق میں افسانہ ہو گیا
کیا روئیے خرابیِ اقلیم دل کو دیکھ
آنکھوں کے دیکھتے ہی تو کیا کیا نہ ہو گیا
ساقی کدھر پھرے ہے تو تنہا برنگ جام
تجھ بن خراب ان دنوں مے خانہ ہو گیا
آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب
بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا
باور نہیں تو اشک مسلسل کو دیکھ لے
دست مژہ میں سبحۂ صد دانہ ہو گیا
کہتے ہیں اس کے سلسلۂ زلف میں نصیرؔ
دل بھی مرید اب صفت شانہ ہو گیا
٭٭٭
دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
دیوانہ وار سلسلہ جنبان نالہ تھا
نالے سے میرے کیا ہے ہوائی کو ہم سری
تیر شہاب رات کو قربان نالہ تھا
ڈھونڈوں نہ کیونکہ دل کو میں اے آہوان دشت
سینے میں وہ تو شیر نیستان نالہ تھا
کرتا تھا جن دنوں یہ فلک ہم سے سرکشی
ناوک زنی کا آہ سے پیمان نالہ تھا
عشق بتاں تھا دل سے جو دم ساز مثل نے
ہر دم اثر میں تابع فرمان نالہ تھا
صیاد کے جگر میں کرے تھا سناں کا کام
مرغ قفس کے سر پہ یہ احسان نالہ تھا
گاڑے فلک پہ کیا یہ دل ناتواں علم
وہ دن گئے جو اوج فراوان نالہ تھا
کل شب کو ذکر تھا جو کسی نیزہ باز کا
عاشق کا تیرے چرخ ثنا خوان نالہ تھا
یاروں کے قافلے کی مجھے جب کہ یاد تھی
سینے میں جوں جرس مرے سامان نالہ تھا
مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ
میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا
لینے کو اختران فلک سے خراج و باج
ہر آن شعلہ و شرر افشان نالہ تھا
٭٭٭
دل کو کس صورت سے کیجے چشم دلبر سے جدا
شیشۂ مے کو نہیں رکھتے ہیں ساغر سے جدا
میں تو ہوں اے طالع برگشتہ دلبر سے جدا
اور پتھر آسیا کا ہو نہ پتھر سے جدا
اس کے بحر حسن میں مت چھوڑ اے دل تار زلف
غرق ہو جاتی ہے کشتی ہو کے لنگر سے جدا
عشق میں شیریں کے تو نے جان شیریں دی ہے آہ
نقش تیرا کوہ کن ہو کیوں کہ پتھر سے جدا
چشم یہ تجھ سے ہے یارب تا نہ ہو لیل و نہار
چشم اس پردہ نشیں کے رخنۂ در سے جدا
کندہ اس میرے نگین دل پہ تیرا نام ہے
اس کو اپنے خاتم دل کے نہ کر گھر سے جدا
اس کو کہتے ہیں محبت شیشۂ ساعت کو دیکھ
ایک کے ہوتا نہیں ہے دوسرا بر سے جدا
وہ ادھر خنداں ہے میں گریاں ادھر حیرت ہے یہ
برق چمکے ابر گرجے اور مینہ برسے جدا
صورت بادام توام روز و شب ہوتا نہیں
چشم دلبر کا تصور چشم کے گھر سے جدا
سوزن بے رشتہ آتی ہے کسی کو کب نظر
تو نہ ہو اے آہ دل اس جسم لاغر سے جدا
پردۂ مینا سے ساقی دخت رز نکلے ہے کیوں
آفتاب خاوری ہوتا ہے خاور سے جدا
اس کی مژگاں سے چھڑاؤں دل کو کس صورت سے میں
پنجۂ شاہیں نہیں ہوتا کبوتر سے جدا
تاب اس چمپا کلی کی یوں ہے تکمے کے تلے
جوں کرن چمکے ہے ہو کر مہر انور سے جدا
اشک چشم تر کو رہنے دوں تہ مژگاں نہ کیوں
طفل کو کرتے نہیں دامان مادر سے جدا
اس زمیں میں لکھ غزل اک اور پر معنی نصیرؔ
رنگ یعنی ہو نہیں سکتا گل تر سے جدا
اس غزل کو سن کے خاقانیؔ کرے وجد اے نصیرؔ
انوریؔ بھی سر کو اپنے پٹکے پتھر سے جدا
٭٭٭
دل میں ہے کیا جانئے کس کا خیال نقش پا
لگ گئیں آنکھیں زمیں سے جو مثال نقش پا
طاقت اٹھنے کی نہیں ہے تن میں ضعف عشق سے
حال اپنا ان دنوں ہے حسب حال نقش پا
صفحۂ صحرا میں ہے خار مغیلاں جوں الف
خوب اے مجنوں تری آئی ہے فال نقش پا
یک قلم اے گل بدن رشک گل قالیں ہے دیکھ
فرش خاکستر ہے تیرا یہ نہال نقش پا
در فشانی سے تری رہتا ہے ہم چشم صدف
تھا یہی اے چشم تر تجھ سے سوال نقش پا
ٹکٹکی یاں تک بندھی ہے گی کہ خال مردمک
بن گیا اس شوخ کا ہر وجہ خال نقش پا
سوجھتا ہے ہاتھ سے اس ناتوانی کے نصیرؔ
رفتہ رفتہ ہوں گے اک دن پائمال نقش پا
٭٭٭
دیکھ تو یار بادہ کش! میں نے بھی کام کیا کیا
دے کے کباب دل تجھے حق نمک ادا کیا
کیوں سگ یار سے خجل مجھ کو پس از فنا کیا
کھا گیا استخواں مرے تو نے یہ کیا ہما کیا
زخم جگر سے دم بدم کب نہیں خوں بہا کیا
تو بھی نہ قاتل اپنے سے دعویِ خوں بہا کیا
اس بت رشک گل نے جب بند قبا کو وا کیا
اپنی نظر یہ غنچہ دو ہاتھ سے پھر ملا کیا
کون سے دن نہ یار نے چشم کو سرمہ سا کیا
کب نہ دل سیاہ بخت خاک میں تو ملا کیا
دل بر شعلہ خو نے جب زلف کو رخ پہ وا کیا
دل پہ میں سورۂ دخاں کرنے کو دم پڑھا کیا
بادہ کشی کو ساقیا کس کی مجھے بتا حباب
زور بھنور کے چاک پر ساغر مے بنا کیا
وصل کی رات ہم نشیں کیونکہ کٹی نہ پوچھ کچھ
برسر صلح میں رہا تس پہ بھی وہ لڑا کیا
پائے نگار سے لپٹ چور بنی تو آپ کو ہی
ہاتھ نہ کیوں ترے بندھیں کام یہ کیا حنا کیا
دل کی جدائی کا کہوں کس سے میں ماجرائے غم
سیل سرشک چشم تر شام و سحر بہا کیا
شکل عصائے موسوی تھا تو وہ گیسوئے دراز
پر اسے دست شانہ نے دے کے خم اور دوتا کیا
زیب سر شہاں کبھی تو نے نہ دیکھا تیرہ بخت
بال مگس نے کب دلا کار پر ہما کیا
تار نفس الجھ گیا میرے گلو میں آ کے جب
ناخن تیغ یار کو میں نے گرہ کشا کیا
بوسۂ لب سے ایک دن اس کے ہوا نہ کامیاب
دلبر بد زباں کی میں گالیاں ہی سنا کیا
آ کے سلاسل اے جنوں کیوں نہ قدم لے بعد قیس
اس کا بھی ہم نے سلسلہ از سر نو بپا کیا
منہ تو نہ تھا یہ غیر کا اس کو کھلائے برگ پاں
پر نہ مرا جو بس چلا خون جگر پیا کیا
اس کی شکستگی کا غم کیوں نہ ہو مجھ کو ساقیا
میری بغل میں آہ یاں شیشۂ دل رہا کیا
تار نفس جدا کیا بربط تن سے میرے آہ
کودک مطرب اور کیا تجھ کو کہوں بجا کیا
کوہ کو کھینچتا جو تو کاہ ربا تو جانتے
اک پر کاہ کو اٹھا ناز کیا تو کیا کیا
کیوں ہو خضر رہ رواں خاک نشینی پہ مری
جس نے بشکل نقش پا مجھ کو ہے رہ نما کیا
شعلہ رخوں کے عشق نے کنج مزار میں بھی آہ
سونے دیا نہ چین سے میں تو سدا جلا کیا
مجھ کو ہے ہجر و وصل ایک اس کی خوشی نہ اس کا غم
کیسی مصیبتوں کے دن بار خدا بھرا کیا
وصل ہوا تو یہ ہوا مار سیاہ جان کر
رات بھر اپنی زلف کے سائے سے وہ ڈرا کیا
اور میں مدعا طلب عیش سے نا امید ہو
شعلۂ شمع کی طرح سر کو پڑا دھنا کیا
مدرکۂ بشر ہے کیا پائے جو اس کی کنہ کو
چاہا جو اس نے سو کیا کون کہے کہ کیا کیا
یعنی بنا کے چشم کو صورت شیشۂ حباب
صاحب ظرف تھا جو دل جام جہاں نما کیا
اپنی شرارتوں سے وہ باز نہ آیا اے نصیرؔ
مجھ کو رلا کے ابر ساں برق نمط ہنسا کیا
٭٭٭
رنگ میلا نہ ہوا جامۂ عریانی کا
سر و ساماں ہے ہمیں بے سر و سامانی کا
آئینہ دیکھے ہے وہ اور اسے آئینہ
زور عالم ہے دلا عالم حیرانی کا
دم ہستی پہ حباب اپنی عبث ابھرے تھا
آنکھ کھلتے ہی مقام اس پہ کھلا فانی کا
تشنگی خاک بجھے اشک کی طغیانی سے
عین برسات میں بگڑے ہے مزا پانی کا
زلف گر کھینچ سکے یار کے تو شانے سے
ہاتھ یک دست قلم کیجئے گا مانیؔ کا
جھڑ گئی ابر بہاری کی بھی شیخی لیکن
نہ گھٹا زور مرے اشک کی طغیانی کا
٭٭٭
اے جنوں روز رہے ہے مرے دامن سے لگا
ہوں قدم بوس نہ کیوں خار بیابانی کا
کیوں نہ انگشت نما ہووے ہلال ابرو
زور عالم ہے ترے قشقۂ پیشانی کا
دل نہ چھٹ زلف بتاں چشم کا باندھے ہے خیال
یاد مضموں ہے پریشاں کو پریشانی کا
جام و مینا جو بنے آبلہ و داغ نصیرؔ
دل نے سامان کیا کس کی یہ مہمانی کا
٭٭٭
زلف چھٹتی ترے رخ پر تو دل اپنا پھرتا
گھر کو بے شام نہیں صبح کا بھولا پھرتا
دیکھنے کو جو مرا تو نہ تماشا پھرتا
تو میں جوں شعلۂ جوالہ نہ چلتا پھرتا
کب جفاؤں سے تری دل ہے ہمارا پھرتا
شک اگر تجھ کو ہے ظالم تو دوبارہ پھرتا
بخت برگشتۂ مجنوں ابھی سیدھے ہو جائیں
دشت میں آئے اگر ناقۂ لیلیٰ پھرتا
گردش چرخ سے سر کیوں نہ مہ و خور کا پھرے
کہ شب و روز یہ رہتا ہے ہنڈولا پھرتا
جنس دل کا تری اس زلف سے پھرنا معلوم
ہو کے خط کش جو بکے وہ نہیں سودا پھرتا
خال رخسار بتاں کا نہیں بھرتا یہ خیال
کشور دل میں ہمارے ہے کنھیا پھرتا
دل کی قسمت میں ازل سے تھی لکھی تشنہ لبی
کیوں نہ اس چاہ ذقن سے یہ پیاسا پھرتا
شرم سے دامن ساحل میں چھپی ہے ہر موج
تو جو اٹھکھیلیوں سے ہے لب دریا پھرتا
درد دل عشق کی چوسر میں نہ کٹتی ہرگز
گر کبھی جیت کا اپنی کوئی پاسا پھرتا
آج پیری میں بھی اپنے نہ پھرے بخت سیاہ
کہ درختوں کا بھی دن ڈھلتے ہے سایا پھرتا
ٹوٹ جاتی جو کبھی آس ترے ملنے کی
تو نہ لٹو کی طرح دل یہ ہمارا پھرتا
باعث جنبش انساں ہے تو اے تار نفس
ورنہ یہ بیٹھ کے اٹھتا نہ یہ چلتا پھرتا
سیر صحرائے جنوں خیز کا ارماں نہ رہا
تیرے ہاتھوں سے میں کیا آبلۂ پا پھرتا
تو نے ہر کام پہ کی چشم نمائی ورنہ
میں بگولے کی طرح خاک اڑاتا پھرتا
اپنے گریے کی دکھاتا میں تجھے طغیانی
گر شب وصل مرے پاس نہ تو آ پھرتا
انجم چرخ بھی بن جاتے ہیں مانند حباب
ماہ کا صورت گرداب ہے بالا پھرتا
لکھ نصیرؔ ایک غزل اور بدل کر کے ردیف
توسن خامہ ہے اب دیکھ تو کیسا پھرتا
٭٭٭
زلف کا کیا اس کی چٹکا لگ گیا
زور دل کے ہاتھ لٹکا لگ گیا
تار مژگاں پر چلا جاتا ہے اشک
کام پر لڑکا یہ نٹ کا لگ گیا
چشم و ابرو پر نہیں موقوف کچھ
جان من دل جس کا اٹکا لگ گیا
جام گل میں کیوں نہ دے شبنم گلاب
صبح دم غنچے کو چٹکا لگ گیا
منزل گم کردہ اک میں ہوں نصیرؔ
راہ سے جو کوئی بھٹکا لگ گیا
سرزمین زلف میں کیا دل ٹھکانے لگ گیا
اک مسافر تھا سر منزل ٹھکانے لگ گیا
گلشن ہستی نہیں جائے شگفتن اے صبا
دیکھ جو غنچہ گیا یاں کھل ٹھکانے لگ گیا
آبرو رکھ لی خدا نے اس کی ہم چشموں میں آہ
تیغ ابرو کا تری گھائل ٹھکانے لگ گیا
فرصت یک دم پہ پھولا تھا حباب آب جو
تھا جو نقش صفحۂ باطل ٹھکانے لگ گیا
جان شیریں دی ترے عاشق نے بھی جوں کوہ کن
سر سے اپنے مار کر اک سل ٹھکانے لگ گیا
رکھ قدم ہشیار ہو کر عشق کی منزل میں آہ
جو ہوا اس راہ میں غافل ٹھکانے لگ گیا
چھاؤں میں نخل مژہ کی لوٹتا ہے طفل اشک
خاک میں یا رفتہ رفتہ مل ٹھکانے لگ گیا
آشنا کوئی نہ دیکھا غرق بحر عشق کا
ایک دم میں جو تہ ساحل ٹھکانے لگ گیا
بے کلی کیوں کر نہ ہووے اس کی فرقت میں نصیرؔ
عشق میں اس گل بدن کے دل ٹھکانے لگ گیا
٭٭٭
صبح گلشن میں ہو گر وہ گل خنداں پیدا
بیضۂ غنچہ سے ہو بلبل نالاں پیدا
اشک ہے ہم رہ آہ دل سوزاں پیدا
کیا تماشا ہے کہ آتش سے ہے باراں پیدا
ہے عجب کار نمایاں ترے چشم و لب سے
پل میں مر جاتے ہیں ہم دم میں ہیں پھر ہاں پیدا
قد ترا اے بت گل پوش ہو گر سایہ فگن
تو قیامت ہو سر خاک شہیداں پیدا
لے اڑا باد کے مانند پہ پانی ساقی
کشتئ مے ہوئی جوں تخت سلیماں پیدا
ہوں وہ مجنوں کہ کرے ہے مری پا بوسی کو
سلسلہ حلقۂ چشمان غزالاں پیدا
ہنس کے دنداں کو دکھا دو تو نہ شبنم سے سحر
دہن غنچہ کرے باغ میں دنداں پیدا
زلف و خط دیکھ ترے رخ پہ نہ کیوں حیراں ہوں
چشمۂ مہر میں ہیں سنبل و ریحاں پیدا
کیا غضب ہے یہ ترے دامن مژگاں کی جھپک
عشق کے دل سے ہوئی آتش پنہاں پیدا
تجھ کو دوں حور سے نسبت تو یہ میرا ہے قصور
کہ جہاں میں نہیں تجھ سا کوئی انساں پیدا
تیری خدمت کو پرستاں میں بنی ہیں پریاں
اور غلامی کے لئے ہیں تری غلماں پیدا
یہ ترے زیر ذقن دست حنائی ہے کہاں
سیب جنت سے ہے سر پنجۂ مرجاں پیدا
طرفہ تر لکھ غزل اس بحر میں اک اور نصیرؔ
کرتے ہیں گوہر معنی کو سخنداں پیدا
٭٭٭
کر کے آزاد ہر اک شہپر بلبل کترا
آج صیاد نے ایک اور نیا گل کترا
جیب کتروں میں ہے مشہور صبا بادی چور
صبح غنچے کا جو کیسہ بتأمل کترا
دیکھ ٹک اپنے گریبان میں منہ ڈال کے شیخ
حرص کے ہاتھ سے دامان توکل کترا
پنجۂ مہر بنا شانۂ مشاطۂ صبح
مہ جبیں تو نے جوں ہی رشتۂ کاکل کترا
لیں گے مرغان چمن خاک گلستاں کا سبق
باغباں جب کہ خزاں نے ورق گل کترا
کس قدر تیز ہے مقراض سخن تیری نصیرؔ
گوش ہوش و خرد طالب آ مل کترا
٭٭٭
لیا نہ ہاتھ سے جس نے سلام عاشق کا
وہ کان دھر کے سنے کیا پیام عاشق کا
قصور شیخ ہے فردوس و حور کی خواہش
تری گلی میں ہے پیارے مقام عاشق کا
غرور حسن نہ کر جذبۂ زلیخا دیکھ
کیا ہے عشق نے یوسف غلام عاشق کا
ترے ہی نام کی سمرن ہے مجھ کو اور تسبیح
تو ہی ہے ورد ہر اک صبح و شام عاشق کا
وفور عشق کو عاشق ہی جانتا ہے نصیرؔ
ہر اک سمجھ نہیں سکتا کلام عاشق کا
٭٭٭
میں ضعف سے جوں نقش قدم اٹھ نہیں سکتا
بیٹھا ہوں سر خاک پہ جم اٹھ نہیں سکتا
اے اشک رواں ساتھ لے اب آہ جگر کو
عاشق کہیں بے فوج و علم اٹھ نہیں سکتا
سقف فلک کہنہ میں کیا خاک لگاؤں
اے ضعف دل اس آہ کا تھم اٹھ نہیں سکتا
سر معرکۂ عشق میں آساں نہیں دینا
گاڑے ہے جہاں شمع قدم اٹھ نہیں سکتا
ہے جنبش مژگاں کا کسی کے جو تصور
دل سے خلش خار الم اٹھ نہیں سکتا
دل پر ہے مرے خیمہ ہر آبلہ اسناد
کیا کیجئے کہ یہ لشکر غم اٹھ نہیں سکتا
ہر جا متجلیٰ ہے وہ بر پردۂ غفلت
اے معتکف دیر و حرم اٹھ نہیں سکتا
یوں اشک زمیں پر ہیں کہ منزل کو پہنچ کر
جوں قافلۂ ملک عدم اٹھ نہیں سکتا
رو رو کے لکھا خط جو اسے میں نے تو بولا
اک حرف سر کاغذ نم اٹھ نہیں سکتا
ہر دم لب فوارہ سے جاری یہ سخن ہے
پانی نہ ذرا جس میں ہو دم اٹھ نہیں سکتا
میں اٹھ کے کدھر جاؤں ٹھکانا نہیں کوئی
میرا ترے کوچے سے قدم اٹھ نہیں سکتا
مہندی تو سراسر نہیں پاؤں میں لگی ہے
تو بہر عیادت جو صنم اٹھ نہیں سکتا
بیمار ترا صورت تصویر نہالی
بستر سے ترے سر کی قسم اٹھ نہیں سکتا
میں شاہ سوار آج ہوں میدان سخن میں
رستم کا مرے آگے قدم اٹھ نہیں سکتا
کیا نیزہ ہلاوے گا کوئی اب کہ کسی سے
یاں توسن رہوار قلم اٹھ نہیں سکتا
جوں غنچہ نصیرؔ اس بت گل رو کی جو ہے یاد
یاں سر ہو گریباں سے بہم اٹھ نہیں سکتا
٭٭٭
میں نے بٹھلا کے جو پاس اس کو کھلایا بیڑا
قتل پر میرے رقیبوں نے اٹھایا بیڑا
مشتعل تا بہ فلک آتش پر دود ہوئی
مل کے جس وقت مسی تم نے چبایا بیڑا
سرخ رو ہو کے یہ کس منہ سے تو اب بولے ہے
میں نے کس روز ترے ہاتھ سے پایا بیڑا
میری اور آپ کی مجلس میں بگڑ جائے گی
تم نے دینے کو کسی کے جو بنایا بیڑا
سبز بختی کہوں کیا اپنی کہ وہ جان گیا
پڑھ کے افسوں میں کھلانے کو جو لایا بیڑا
لال کر دوں گا ابھی بزم میں منہ کتنوں کے
ہاتھ سے تو نے کسی کو جو کھلایا بیڑا
اے نصیرؔ اس کے گلے کا ہوں نہ میں کیوں کر ہار
آج گل رو نے مجھے دیکھ چبایا بیڑا
٭٭٭
نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا
دکھا کے دست حنائی نہ خوں بہا دل کا
کہ اور رنگ سے لوں گا میں خوں بہا دل کا
میں طفل اشک کو مژگاں پہ دیکھ حیراں ہوں
کہ نور دیدہ ہے یا ہے بالکا دل کا
تو آئنے پہ نہ اپنے کر اے سکندر ناز
کہ ہم بھی رکھتے ہیں جام جہاں نما دل کا
بہشت پہنچے ہے زاہد! کب اس کی وسعت کو
عجب روش کا ہے یہ باغ دل کشا دل کا
بجا ہوں سر بہ گریباں کہ اس کے دامن تک
نہ پہنچا آہ کبھی دست نارسا دل کا
ترے خدنگ مژہ سے ہے یک قلم مجروح
نہ پوچھ اے بت بد کیشں! ماجرا دل کا
لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا
ہزار بین کہیں کیوں نہ اہل بینائی
کہ صاف بو قلموں ہے یہ آئنا دل کا
بہار تجھ کو دکھائیں گے ہم بھی اے گل رو
کسی روش سے جو غنچہ کبھی کھلا دل کا
ظہور جلوۂ معبود ہے بہر صورت
رکھا ہے نام بجا خانۂ خدا دل کا
رواق چشم میں مت رہ کہ ہے مکان نزول
ترے تو واسطے یہ قصر ہے بنا دل کا
قرار و طاقت و صبر و خرد ہوئے سب گم
تمہاری زلف میں ابتر ہے حال کیا دل کا
کہیں گے ہم یہ سراسر جو کوئی پوچھے گا
سواد ہند میں لوٹا ہے قافلہ دل کا
نہ کیونکہ آہ سے خاطر نشاں ہو اب میری
کہ تیر یہ نہیں کرتا کبھی خطا دل کا
ہمارے داغ سے بھونرے کو کیا بھلا نسبت
کہ وہ رفیق ہے گل کا یہ آشنا دل کا
لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ
برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا
٭٭٭
ہاتھوں کو اٹھا جان سے آخر کو رہوں گا
پر دل ہے رفیق اس کو کبھی تجھ کو نہ دوں گا
بے بوسۂ لب کے تو کبھی میں نہ ٹلوں گا
گو گالیاں تو دے گا تو بن جاؤں گا گونگا
گر وصل کی ٹھہرے گی نہ تجھ سے تو مروں گا
پر بار جدائی کی مصیبت نہ سہوں گا
میں غیر کو کب پاس ترے بیٹھنے دوں گا
گر وہ نہیں اٹھنے کا تو لاحول پڑھوں گا
٭٭٭
ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا
اور کہاں سے عاشق مفلس لائے یہ گہنہ پھولوں کا
دیکھے ہے وہ صحن چمن میں جا کے تماشا پھولوں کا
داغوں سے بن جائے یہ سینہ کاش کہ تختہ پھولوں کا
کاش دل صد چاک یہ بن کر بیچنے والا پھولوں کا
کوئے بتاں میں جا کے پکارے لو کوئی گجرا پھولوں کا
حرف نہیں ہے دیدۂ تر ٹکڑوں سے جگر کے لائق پر
سیل اشک کو دریا سمجھو اس کو نواڑا پھولوں کا
صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ
دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا
مجھ کو نہ لے چل باد بہاری رنگ چمن ہے وحشت خیز
جیب سے لے کر دامن تک سو ٹکڑے کرتا پھولوں کا
تو نے لٹایا انگاروں پر صبح تلک اے وعدہ خلاف
تیری خاطر ہم نے کیا تھا شب کو بچھونا پھولوں کا
سلک سرشک سرخ زمیں تک تجھ کو دکھاوے مژگاں سے
پھلجھڑی ایسی چھوڑ کوئی ہوں میں بھی لچھا پھولوں کا
کان سے تیرے جھک جھک کر یہ لیتا ہے بوسے عارض کے
یا تو ہمارے ٹکڑے کر یا توڑ یہ بالا پھولوں کا
دھوپ میں اس کا ہائے قفس صیاد ستم ایجاد رکھے
رہتا تھا جس مرغ چمن کے سر پر سایا پھولوں کا
جھل کھائے اغیار نہ کیوں کر کل چلون سے ہات نکال
مارا تھا اس پردہ نشیں نے مجھ کو پنکھا پھولوں کا
عشق میں تیرے گل کھا کر جاں اپنی دی ہے نصیرؔ نے آہ
اس کے سر مرقد پر گل رو لا کوئی دونا پھولوں کا
٭٭٭
یارو نہیں اتنا مجھے قاتل نے ستایا
جتنا کہ مرے دشمن جاں دل نے ستایا
کچھ سرزنش کار کا شاکی وہ نہیں ہے
مجنوں کو تو ہے صاحب محمل نے ستایا
غنچہ کہوں یا درج گہر تیرے دہن کو
کھلنا نہیں اس عقدۂ مشکل نے ستایا
آرام سے سویا نہ کمر کا تری کشتہ
مرقد میں بھی موران تہہ گل نے ستایا
اس کا مجھے شب یاد دلایا رخ پر نور
شکل اپنی دکھا کر مہ کامل نے ستایا
میرا دل سودا زدہ کرتا نہ کبھی غل
اس کاکل پیچاں کے سلاسل نے ستایا
افیوں کی کسی روز میں کھا جاؤں گا گولی
بے وجہ رخ یار کے گر تل نے ستایا
جب بوسہ میں مانگوں ہوں تو کیا کہتے ہو منہ پھیر
ایسا تو کسی بھی نہیں سائل نے ستایا
ہر جا متجلی ہے وہ بے پردہ ولیکن
غفلت کے مجھے پردۂ حائل نے ستایا
تھا ایک تو صیاد گرفتار قفس میں
اور دوسرے آواز عنادل نے ستایا
اے ہم سفراں پیش روی کی نہیں طاقت
کیا کیجے ہمیں دوریِ منزل نے ستایا
پہلو میں نصیرؔ آہ نہیں ہے دل مضطر
اس شعر غم آلودۂ بے دل نے ستایا
٭٭٭
یاں سے دیں گے نہ تم کو جانے آج
لاکھ اب تم کرو بہانے آج
بن لیے آج تیرا بوسۂ لب
کب بھلا دوں گا تجھ کو جانے آج
بس یہ مجھ سے نہ تم کرو کل کل
اتنی ہے کل کہاں کہ جانے آج
داغ جوں لالہ کھا چمن میں نسیم
میں بھی آیا ہوں گل کھلانے آج
لگ گیا خاک ہو کے جسم نصیرؔ
کوچۂ یار میں ٹھکانے آج
٭٭٭
جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
حباب بحر میں ہے بحر ہے حباب کے بیچ
لگا ہے جس سے مرے دل میں عشق کا کانٹا
ہوں مثل ماہیِ بے تاب پیچ و تاب کے بیچ
کسو کے دل کی عمارت کا فکر کر منعم
بنا نہ گھر کو تو اس خانۂ خراب کے بیچ
ہر ایک چلنے کو یاں مستعد ہے شاہ سوار
زمیں پہ پاؤں ہے اک دوسرا رکاب کے بیچ
برنگ شمع چھپے حسن جلوہ گر کیوں کر
ہزار اس کو رکھیں برقع و نقاب کے بیچ
نصیرؔ آنکھوں میں اپنی لگے ہے یوں دو جہاں
خیال دیکھتے ہی جیسے شب کو خواب کے بیچ
٭٭٭
کیوں نہ کہیں بشر کو ہم آتش و آب و خاک و باد
قدرت حق سے ہیں بہم آتش و آب و خاک و باد
اخگر غنچہ آب جو گرد چمن نسیم صبح
ہیں یہ گرہ کشائے غم آتش و آب و خاک و باد
حقے کو اہل معرفت کیوں کہ نہ سمجھیں ہمدم اب
یہ بھی رکھے ہے بیش و کم آتش و آب و خاک و باد
سوزش داغ و آبلہ گرد الم شمار دم
ہجر میں چاروں ہیں بہم آتش و آب و خاک و باد
برق و سحاب و گرد باد دشت جنوں میں ساتھ ہیں
ہیں یہ مرے رفیق دم آتش و آب و خاک و باد
رو و عرق غبار خط جنبش زلف کی ہوا
چاروں ہیں دل کے حق میں سم آتش و آب و خاک و باد
چشم میں آتشیں ہیں اشک دل میں غبار آہ سرد
دونوں سے لیتے ہیں جنم آتش و آب و خاک و باد
مجھ کو خدائی کی قسم رکھتے ہیں گھیرے دم بدم
تیرے یہ عشق میں صنم آتش و آب و خاک و باد
کیوں نہ حواس خمسہ گم اہل سخن کے ہوں نصیرؔ
تجھ ہی سے بس ہوئے رقم آتش و آب و خاک و باد
٭٭٭
خال مشاطہ بنا کاجل کا چشم یار پر
زاغ کو بہر تصدق رکھ سر بیمار پر
مجھ کو رحم آتا ہے دست نازک دل دار پر
میں ہی رکھ دوں گا گلا اے ہمدمو تلوار پر
بے سویدا ہاتھ دل مت ڈال زلف یار پر
ماش پہلے پڑھ کے منتر پھینک روئے یار پر
گر حفاظت رخ کی ہے منظور تو مٹوا نہ خط
باغباں رکھتا ہے کانٹے باغ کی دیوار پر
کون کہتا ہے کہ سبزہ آگ پر اگتا نہیں
خط ہے پیدا یار کے دیکھو رخ گلنار پر
دیکھ مژگاں پر مری طغیانی سیل سرشک
نوح کا طوفاں نہ دیکھا ہووے جس نے خار پر
جس کو دیکھا ہی نہیں اس کے وطن میں قدر خاک
باغ سے ہو کر جدا پہنچے ہے گل دستار پر
حق اگر پوچھو تو اعجاز سر منصور تھا
ورنہ لگنا تھا تعجب پھل کا نخل دار پر
٭٭٭
دکھا دو گر مانگ اپنی شب کو تو حشر برپا ہو کہکشاں پر
چنو جبیں پر کبھی جو افشاں تو نکلیں تارے نہ آسماں پر
نہیں ہیں شبنم کے صبح قطرے یہ برگ گلہائے بوستاں پر
بیاد آتش رخاں پھپھولے پڑے ہیں ہر پھول کی زباں پر
کہاں سر شمع پر ہے شعلہ نگاہ ٹک کیجے شمع داں پر
کہ استخواں ہے غذا ہماری ہما یہ بیٹھا ہے استخواں پر
اسیر نو کی خبر لے آ کر ذرا تو صیاد ظلم پیشہ
یہاں تلک ہوں قفس میں تڑپا کہ میرے سارے ہیں دھجیاں پر
ہمارے اس روئے زرد پر جو سرشک افشاں ہے ابر مژگاں
نہ دیکھی لالی کبھی برستی کسی نے یوں کشت زعفراں پر
کوئی غریبوں کے مارنے سے ہوا بندھی ہے کسی کی ظالم
اگر سلیمان وقت ہے تو قدم نہ رکھ مور ناتواں پر
بنا کے آئینہ صاف اس کو کیا ہے حسن ادا سے واقف
الٰہی آئینہ ساز کی اب شتاب پتھر پڑے زباں پر
جہاں میں اس کے شہید کا ہو نہ کیونکہ رتبہ بلند یارو
یہی ہے معراج عاشقوں کی جو سر ہو بعد از فنا سناں پر
کرے چمن میں نہ کیونکہ برپا ترا یہ بوٹا سا قد قیامت
نثار آنکھوں پہ کیا ہے نرگس کہ غنچہ قربان ہے دہاں پر
رہی ہے بزم جہاں میں منعم سدا بلندی کے ساتھ پستی
بسان فوارہ قصد مت کر زمیں سے جانے کا آسماں پر
سفر عدم کا کہاں کرے ہے یہ بحر ہستی سے ایک دم میں
حباب چشمک زنی کرے ہے خضر تری عمر جاوداں پر
امید کیا چرخ سفلہ پرور ہمیں ہو اب تجھ سے ایک ناں کی
کہ تیرے ہاتھوں سے ماہ نو نے یہاں قناعت کی نیم ناں پر
نصیرؔ کہتے تو سب یہاں ہیں کہ اس کے عاشق ہیں ہم ولیکن
بڑا ستم ہو بڑا غضب ہو اگر وہ آ جائے امتحاں پر
٭٭٭
طلب میں بوسے کی کیا ہے حجت سوال دیگر جواب دیگر
سمجھ کے کہہ بات بے مروت سوال دیگر جواب دیگر
کلام تجھ سے ہے اور اپنا سخن کو ہم تیرے کیونکہ جانیں
ذرا یہ کھلتی نہیں حقیقت سوال دیگر جواب دیگر
میں اپنے مطلب کی کہہ رہا ہوں وہ آئنہ رو اک عیب میں ہے
بھلا ہو ملنے کی خاک صورت سوال دیگر جواب دیگر
اگر کہوں میں سنوارو زلفیں تو وہ بگڑتے ہیں دے کے گالی
عجب نصیبوں کی کچھ ہے شامت سوال دیگر جواب دیگر
مرا تو پیغام وصل کا ہے تمہاری تقریر ہجر کی ہے
بتاں ہے یہ بھی خدا کی قدرت سوال دیگر جواب دیگر
کہا جو میں نے کہ دو مرا دل تو بولے ہنس کر کدھر ہے دلی
کہوں تو کیا اور ان کو رحمت سوال دیگر جواب دیگر
٭٭٭
ہو چکی باغ میں بہار افسوس
آہ اے بلبلو ہزار افسوس
قافلہ عمر کا ہے پا بہ رکاب
زیست کا کیا ہے اعتبار افسوس
مری راتوں کو دیکھ سوختگی
نہ کیا ایک دن بھی یار افسوس
شب سے پروانے کی لگن میں شمع
صبح تک روئی زار زار افسوس
سخت بے تابی سے کٹی کل رات
آج بھی دل ہے بے قرار افسوس
خال و خط کو سمجھ کے دانہ و دام
مرغ دل ہو گیا شکار افسوس
آہ دست جنوں سے اے ناصح
ہے گریبان تار تار افسوس
جان ہونٹوں پہ آ گئی ہم دم
لیکن اب تک پھرا نہ یار افسوس
عمر غفلت میں کٹ گئی ہے نصیرؔ
آہ افسوس صد ہزار افسوس
٭٭٭
جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
وہ مطلب دل خود کام سے نہیں واقف
ہنسا چمن میں جو دل دیکھ صورت صیاد
یہ مرغ دانے سے اور دام سے نہیں واقف
تمام شہر میں جس کے لیے ہوئے بد نام
وہ اب تلک بھی مرے نام سے نہیں واقف
ہر ایک عشق کے کب قاعدے سے محرم ہے
ہنوز شیخ الف لام سے نہیں واقف
ہزار حیف یہاں چھت سے لگ گئیں آنکھیں
وہاں وہ شوخ لب بام سے نہیں واقف
دلا عبث طلب بوسہ ہے تجھے اس سے
وہ لعل لب کہ لب جام سے نہیں واقف
سجی ہے لیک اسے زر کلاہ گزری کی
فقیر اطلس و پیلام سے نہیں واقف
تپش سے دل کی خبر ہووے ہے یہاں معلوم
میں طرز نامہ و پیغام سے نہیں واقف
نہ خوش وصال میں ہو رکھ تو یاد ہجر نصیرؔ
مگر تو گردش ایام سے نہیں واقف
٭٭٭
واں کمر باندھے ہیں مژگاں قتل پر دونوں طرف
یاں صف عشاق ہیں زیر و زبر دونوں طرف
زلف کا سربستہ کوچہ مانگ کا رستہ ہے تنگ
دل تری شامت ہے مت جا بے خطر دونوں طرف
دیر و کعبہ میں تفاوت خلق کے نزدیک ہے
شاہد معنی کا ہر صورت ہے گھر دونوں طرف
ہے وہ دریا میں نہاتا میں ہوں غرق آب شرم
کچھ عجب اک ماجرا ہے طرفہ تر دونوں طرف
عشق وہ ہے جس کے ہاتھوں قمری و بلبل کے آہ
زیر سرو و گل پڑے ہیں بال و پر دونوں طرف
چشم میں کیا نور ہے دل میں بھی اس کا ہے ظہور
ظاہر و باطن وہی ہے جلوہ گر دونوں طرف
آمد و شد میں ہے دیکھی سیر بستی و عدم
ہم کو اس مہماں سرا میں ہے سفر دونوں طرف
شمع کچھ جلتی نہیں پروانہ بھی دیتا ہے جی
سوزش الفت سے ہے جی کا ضرر دونوں طرف
پنجۂ مژگاں پہ رکھوں کیوں نہ میں دل اور جگر
نذر کو لایا ہوں تیری کر نظر دونوں طرف
دل میں گر آتا ہے تو آ جان من آنکھوں کی راہ
اس مکان دل کشا کے ہیں یہ در دونوں طرف
کچھ حباب و بحر میں مت فرق سمجھو اے نصیرؔ
دیکھو ٹک چشم حقیقت کھول کر دونوں طرف
٭٭٭
جگر کا جوں شمع کاش یارب ہو داغ روشن مراد حاصل
کہ دل کو لو لگ رہی یہی ہے چراغ روشن مراد حاصل
مدام کیفیت اپنے دل میں مئے محبت کے نشے کی ہے
کہ ساقی اس آفتاب سے ہے دماغ روشن مراد حاصل
اسیر کنج قفس تو ہو تم یہ عندلیبو سدا یہ بولو
شتاب یارب چراغ گل سے ہو باغ روشن مراد حاصل
لگے نہ کیوں آگ تیرے سر سے کہ عشق میں میں نے پاؤں رکھا
بجا ہے اے شمع تجھ کو کہنا دماغ روشن مراد حاصل
جو یار آتا ہے میرے گھر میں تو جلد خانہ خراب اڑ جا
جہاں میں تیرا شگوں یہ سب پر ہے زاغ روشن مراد حاصل
پھرے ہے اے چرخ تو تو باندھے شکم پہ خورشید کا یہ گردہ
کہے نہ کیوں کر کہ گرسنہ ہو چراغ روشن مراد حاصل
جہاں میں کیا ڈھونڈھتا پھرے ہے سراغ یاران رفتگاں کا
نصیرؔ ہے چشم نقش پا سے سراغ روشن مراد حاصل
٭٭٭
میری تربت پر چڑھانے ڈھونڈتا ہے کس کے پھول
تیری آنکھوں کا ہوں کشتہ رکھ دے دو نرگس کے پھول
ایک دن ہو جاؤں گا تیرے گلے کا ہار میں
سونگھنے کو مت لیا کر ہاتھ میں جس تس کے پھول
بستر گل پر جو تو نے کروٹیں لیں رات کو
عطر آگیں ہو گئے اے گل بدن سب پس کے پھول
وصل مہوش کا دلا مژدہ ہمیں دے ہے چراغ
جھڑتے ہیں ہر دم شب ہجراں میں منہ سے اس کے پھول
کچھ خبر بھی ہے تجھے چل فاتحہ کے واسطے
آج ہیں اے شوخ تیرے عاشق مفلس کے پھول
اور ہی کچھ رنگ ہے سینے کے داغوں کا مرے
اس روش کے ہیں کہاں تیرے سپر پر مس کے پھول
تو ہے وہ جو مہر و مہ شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول
کیا نوا سنجی کریں اے ہم صفیران چمن
آ گئی فصل خزاں گلشن سے سارے کھسکے پھول
ہیں مہ و خورشید جو شام و سحر تجھ پر سے وار
سیم و زر کے پھینکتے ہیں بیچ میں مجلس کے پھول
کس نے سکھلائی ہے تجھ کو یہ روش رفتار کی
مٹ گئے قالیں کے جو تیرے قدم سے گھس کے پھول
پھلجھڑی سے کم نہیں مژگان اشک افشاں تری
موتیا کے دیکھنا جھڑتے ہیں منہ سے اس کے پھول
رنگ خوب و زشت میں کیوں فرق سمجھے ہے نصیرؔ
خار بھی تو ہے اسی کا ہیں بنائے جس کے پھول
٭٭٭
پامال راہ عشق ہیں خلقت کی کھا ٹھوکر بھی ہم
جوں شیشہ نازک تر تھے کیا سختی میں ہیں پتھر بھی ہم
آئینہ دل کا صاف کر کہلائے صیقل گر بھی ہم
اپنے سوا دیکھیں کسے اندر بھی ہم باہر بھی ہم
جاں بر ہو ان سے کیونکہ دل کہتی ہیں پلکیں یار کی
نیزہ بھی ہم ناوک بھی ہم برچھی بھی ہم خنجر بھی ہم
اشکوں کی دولت کیوں نہ ہو سلطان اقلیم جنوں
رکھتے ہیں ساتھ اپنے سدا لڑکوں کا اک لشکر بھی ہم
چنوا کے ابرو مجھ سے کیا وہ ہنس کے فرمانے لگے
اس تیغ کے دم لے سدا دکھلائیں گے جوہر بھی ہم
کیا خاک کیجے مے کشی اے ساقیِ گلفام آ
گریاں ہیں مثل ابر کیا جوں برق ہیں مضطر بھی ہم
کہتے ہیں وہ پاں خوردہ لب یاقوت کے ٹکڑے تو تھے
کہلائے لیکن آج سے برگ گل احمر بھی ہم
اے شوخ دانتوں کا ترے یاں یہ تصور ہے بندھا
دن رات چشم تر سے یاں برساتے ہیں گوہر بھی ہم
رکھتے تو ہیں گرداب یم پر ڈر ہے یہ اے چشم تر
گرداب دریا کی طرح کھاتے ہیں یاں چکر بھی ہم
جو چاہے کر جور و جفا پر دل کا مہر داغ سے
روز قیامت کوسنا دکھلائیں گے محضر بھی ہم
قد سے نصیرؔ اس کے سدا اک شور محشر ہے بپا
چھوٹے عذاب قبر سے کیا خاک یاں مر کر بھی ہم
٭٭٭
جو گزرے ہے بر عاشق کامل نہیں معلوم
جبریل ہے ہر آن میں نازل نہیں معلوم
کیا پردۂ غفلت ہے کچھ اے دل نہیں معلوم
رہتا ہے شب و روز وہ نازل نہیں معلوم
ہر دم یہی رہتا ہے یہاں دل میں پس و پیش
جینے کا بجز مرگ کچھ حاصل نہیں معلوم
رخ دیکھ کے حیراں ہوں ترا جوں گل خورشید
چھٹ تیرے مجھے کوئی مقابل نہیں معلوم
بخشش یہ جو رکھتا ہے بکف بحر ہے کشتی
کیا جانیے یہ کس سے ہے سائل نہیں معلوم
بے تھاہ ہو کیا بحر حقیقت کا شناور
جس کا کہیں آخر لب ساحل نہیں معلوم
کیوں رہتے ہیں نت ریوڑی کے پھیرے میں عاشق
اس کے لب شیریں پہ کہیں تل نہیں معلوم
جراح یہ کہتا ہے مجھے دیکھ کے بے دم
کس تیغ نگہ کا ہے یہ گھائل نہیں معلوم
جوں آئینہ حیرت زدہ یاں دیکھوں ہوں سب کو
کیا جانیے کس پر ہوں میں مائل نہیں معلوم
چل چل کے رہ عشق میں جوں نقش قدم ہم
تھک بیٹھے نصیرؔ اب ہمیں منزل نہیں معلوم
٭٭٭
جوں ذرہ نہیں ایک جگہ خاک نشیں ہم
اے مہر جہاں تاب جہاں تو ہے وہیں ہم
شب حلقۂ رنداں میں عجب سیر تھی ساقی
ساغر کو سمجھتے تھے مہ ہالا نشیں ہم
سیتے ہیں سدا رشک اتوے قلمی دیکھ
ہر تار سرشک اپنے سے دامان زمیں ہم
اے رشک نسیم سحری کیوں ہے مکدر
گلشن میں تجھے دیکھتے ہیں چیں بہ جبیں ہم
برپا نہ کہیں کیجے اب شور قیامت
وحشت زدہ اے خانۂ زنجیر نہیں ہم
سر رشتہ رہ عشق کا اب ہاتھ لگا ہے
جوں دانۂ تسبیح نہ ٹھہریں گے کہیں ہم
لے کر مہ و خورشید کی پھر تیغ و سپر کو
اے چرخ تجھے جانتے ہیں بر سر کیں ہم
یک دست اٹھا لیویں گے اس صفحۂ دل پر
نقش قدم یار کو جوں نقش و نگیں ہم
عیسیٰ نفس اب جلد پہنچ تو کہ ہیں تجھ بن
مہمان کوئی دم کے دم باز پسیں ہم
کھو بیٹھے ہیں اس عشق کے ہاتھوں سے نصیرؔ اب
ہوش و خرد و صبر و قرار و دل و دیں ہم
٭٭٭
چشم میں کب اشک بھر لاتے ہیں ہم
رات دن موتی ہی برساتے ہیں ہم
جبکہ وہ تیر نگہ کھاتے ہیں ہم
سہم کر بس سرد ہو جاتے ہیں ہم
جنس دل کو چھوڑ مت اے زلف یار
ہے یہ سودا مفت ٹھہراتے ہیں ہم
ناصحا دست جنوں سے کام ہے
کب یہ چاک جیب سلواتے ہیں ہم
اس قدر مت کر شرارت شعلہ خیز
تیری ان باتوں سے جل جاتے ہیں ہم
کون کہتا ہے نہ کیجے امتحاں
گر ابھی کہیے تو مر جاتے ہیں ہم
خط بت نو خط لکھے ہے غیر کو
پیچ و تاب اس واسطے کھاتے ہیں ہم
کھولیے کیا آنکھ مانند حباب
طرفۃ العین آہ مٹ جاتے ہیں ہم
چھیڑنے سے زلف کے الجھو نہ تم
پڑ گیا ہے پیچ سلجھاتے ہیں ہم
گرچہ ہیں درویش لیکن اے فلک
تجھ کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں ہم
نیم ناں کے واسطے کب جوں ہلال
تیرے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ہم
گلشن دنیا ہے نیرنگی کے ساتھ
اور کچھ اس کی روش پاتے ہیں ہم
کب برنگ بوئے گل باہر صبا
اپنے جامے سے نکل جاتے ہیں ہم
جس قدر ہاں دیکھتے ہیں اوڑھنا
پاؤں یاں اتنے ہی پھیلاتے ہیں ہم
کیا کریں کس سے کہیں ناچار ہیں
دل کی بے تابی سے گھبراتے ہیں ہم
کوئی بھی اتنا نہیں کہتا نصیرؔ
صبر کر ظالم اسے لاتے ہیں ہم
٭٭٭
کچھ سرگزشت کہہ نہ سکے روبرو قلم
گردش نصیب روز ازل سے ہے تو قلم
کاغذ کا تاؤ کیا ہے ترے روبرو قلم
ایسا ہی یعنی پیر کا نیزہ ہے تو قلم
ظالم نہیں تو حرف محبت سے آشنا
مشق ستم سے شرم کر اے جنگجو قلم
کیا خامہ لکھ سکے صفت زلف مشک بار
شورے کے بھی ہوئے ہیں کہیں مشک بو قلم
نامہ پر ہما ہو مرا اے شہ بتاں
لکھو گر استخواں سے بنا کر کبھو قلم
قاتل کو میں نے خط نہیں شنجرف سے لکھا
کس وجہ سے ہوا ہے تو اب سرخ رو قلم
یعنی کہ اس کے عشق میں اس دم ملا ہے یاں
منہ سے لہو لگا کے شہیدوں میں تو قلم
لکھ اور اک غزل کہ شگفتہ زمین ہے
لے کر نصیرؔ اب یہ لب آبجو قلم
٭٭٭
نکہت گل ہیں یا صبا ہیں ہم
نہیں معلوم کچھ کہ کیا ہیں ہم
روشناسی ہے ہم کو آئینہ ساں
ایک عالم سے آشنا ہیں ہم
خاکساری سے بزم عالم میں
صفحۂ نقش بوریا ہیں ہم
ہے ہمیں سے وہ شاہد معنی
حرف مطلب کے مدعا ہیں ہم
جام مے ساقیا شتابی دے
کون کہتا ہے پارسا ہیں ہم
شمع ساں ہے دراز رشتۂ عمر
کہ فنا ہونے سے بقا ہیں ہم
تیرے کوچہ تلک کی طاقت ہے
نہیں اتنے شکستہ پا ہیں ہم
بانگ سنکھ اور نالۂ ناقوس
کہے ہمدم جو کم نما ہیں ہم
چشم کیا کیجے وا برنگ حباب
طرفۃ العین میں ہوا ہیں ہم
نرگسی چشم تھا وہ کافر آہ
جس کے بیمار و مبتلا ہیں ہم
نازنینان دہر کے ہر دم
کشتۂ غمزہ و ادا ہیں ہم
اے وفا تو کدھر ہے ہو دم ساز
کشتۂ خنجر جفا ہیں ہم
چشم بد دور کیا غزل ہے نصیرؔ
خوب اس فن میں مرحبا ہیں ہم
٭٭٭
نہ دکھائیو ہجر کا درد و الم تجھے دیتا ہوں چرخ خدا کی قسم
مرے یار کو مجھ سے نہ کیجو جدا تجھے سرور ہر دوسرا کی قسم
وہ صنم کئی دن سے ہے مجھ سے خفا نہیں آتا ادھر کو خدا کی قسم
دل مشفق من اسے کھینچ تو لا تجھے جذبۂ کاہ ربا کی قسم
یہی چاہے ہے جی کہ گلے سے لگو ذرا میرے دہن سے دہن تو ملو
نہیں غرفے سے آن کے جھانک تو لو تمہیں اپنی ہے شرم و حیا کی قسم
کبھی شب کو اکیلا جو پاؤں تجھے تو گلے سے پھر اپنے لگاؤں تجھے
کبھی چھاتی پہ اپنی سلاؤں تجھے مجھے عشق کے جور و جفا کی قسم
ترے اٹھتے ہی پہلو میں درد اٹھا ترے جاتے ہی دم یہ عدم کو چلا
مجھے چھوڑ کے آہ تو گھر کو نہ جا تجھے اپنے ہی فندق پا کی قسم
مجھے بہر خدا کہیں اس سے چھڑا ترے ہجر کی شب ہے یہ کالی بلا
نہیں جھوٹ میں کہتا کچھ اس میں ذرا مجھے تیری ہی زلف دوتا کی قسم
اجی دیکھو تو کیسی اٹھی ہے گھٹا یہی عیش کا دن ہے اڑا لے مزا
کرو بادہ کشی مرے ماہ لقا تمہیں دیتا ہوں ابر و ہوا کی قسم
اجی جاتی ہے آج تو وصل کی شب نہیں کیوں ہے ملایا لبوں سے یہ لب
مجھے اب تو اڑانے دے عیش تو اب تجھے اپنے ہے مہر و وفا کی قسم
لگے تیری بلا مجھے آفت جاں کبھو پھر بھی یہ کہہ کے کھلائے گا پاں
مرے سر کی قسم مری جاں کی قسم مرے غمزہ و ناز و ادا کی قسم
مریں غیر پہ آپ میں تم پہ مروں مجھے کیا ہے غرض کہو کیوں میں جلوں
یہی جی میں ہے تم سے نہ بات کروں مجھے اپنی اس آہ رسا کی قسم
کسے دیکھوں کہو لگوں کس کے گلے شب وصل میں مجھ سے جو تو یہ کہے
کہ یہ بادۂ سرخ تو پی لے تجھے مرے ہاتھوں کے رنگ حنا کی قسم
کہاں جاتا ہے منہ کو چھپائے ہوئے ترے ہجر میں جاتے ہیں ہم تو مرے
کبھی مڑ کے ادھر کو بھی دیکھ تو لے تجھے حضرت شیر خدا کی قسم
سنو سیری نہ ہو مجھے کھاؤ اجی مجھے پیٹو جو مجھ کو گراؤ اجی
مرے گھر سے نہ آج تو جاؤ اجی تمہیں میری ہی شب کی بکا کی قسم
مرے بچھڑے کو مجھ سے ملاؤ کوئی مرے روٹھے کو لا کے مناؤ کوئی
ارے یارو تم اس کو بلاؤ کوئی تمہیں خالق ارض و سما کی قسم
٭٭٭
اٹھتی گھٹا ہے کس طرح بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
برق چمکتی کیونکہ ہے ہنس کے یہ پھر کہا کہ یوں
چوری سے اس کے پاؤں تک پہنچی تھی شب کو کس طرح
آ کہیں ہاتھ مت بندھا کہہ دے اب اے حنا کہ یوں
دن کو فلک پہ کہکشاں نکلے ہے کیونکہ غیر شب
چین جبیں دکھا مجھے اس نے دیا بتا کہ یوں
جیسے کہا کہ عاشقاں رہتے ہیں کیونکہ چاک جیب
اس کو گل چمن دکھا کہہ کے چلی صبا کہ یوں
ہو گئے بر سر خلش لے کے سناں جو خار دشت
کر نے کلام تب لگا قیس برہنہ پا کہ یوں
پوچھے ہے وہ کہ کس طرح شیشہ و جام کا ہے ساتھ
کہہ دے ملا کے چشم سے چشم کو ساقیا کہ یوں
کرتے سفر ہیں کس طرح بحر جہاں سے اے حباب
خیمے کو اپنے لاد کر کر دے یہ عقدہ وا کہ یوں
٭٭٭
اک قافلہ ہے بن ترے ہمراہ سفر میں
اشک آنکھ میں ہے دل میں ہے داغ آہ جگر میں
آرام مجھے بن ترے اک پل نہیں گھر میں
جوں مردمک دیدہ ہوں دن رات سفر میں
پھرتا ہے وہ گل پوش مرے دیدۂ تر میں
ہے شعلۂ جوالہ کی تصویر بھنور میں
سوراخ یہاں صورت فوارہ ہیں سر میں
دکھلاؤں تماشا جو مجھے چھوڑ دے گھر میں
رشک آئے نہ کیوں مجھ کو کہ تو دیکھ زر و سیم
رکھتا ہے قدم پلۂ خورشید و قمر میں
میں ان در شہوار کے اشکوں سے ادھر آ
تولوں گا بٹھا کر تجھے حیران نظر میں
آ دیکھ نہ ہنس ہنس کے رلا مجھ کو ستم گر
اک نوح کا طوفاں ہے مرے دیدۂ تر میں
عکس لب پاں خوردہ سے دنداں ہیں ترے سرخ
یا آتش یاقوت ہے یہ آب گہر میں
باز آؤ شکار افگنی سے ہاتھ اٹھاؤ
بھالے کو میاں کس لیے رکھتے ہو کمر میں
رہتی ہے بہم زلف بنا گوش سے تیرے
کچھ فرق نہیں ہے سر مو شام و سحر میں
ہے اس میں رقم حال سیہ بختی عاشق
یہ نامہ کوئی باندھ دو اب زاغ کے پر میں
یہ بھی کوئی انصاف ہے اے خانہ خراب آہ
اوروں کو تو لے جائے ہے تو دن دیئے گھر میں
اور ہم جو ہیں سو دیکھنے کو بھی ترے ترسیں
دیوار میں رخنہ ہے نہ سوراخ ہے در میں
کس وجہ نصیرؔ اس لب شیریں پہ نہ ہو خال
ہوتا وطن مور تو ہے تنگ شکر میں
٭٭٭
بادہ کشی کے سکھلاتے ہیں کیا ہی قرینے ساون بھادوں
کیفیت کے ہم نے جو دیکھا دو ہیں مہینے ساون بھادوں
دیکھے نہ ہوں گے آج تلک یہ ایسے کسی نے ساون بھادوں
چشم کی دولت ہم کو رہے ہیں بارہ مہینے ساون بھادوں
چھوٹے ہیں فوارۂ مژگاں روز و شب ان آنکھوں سے
یوں نہ برستے دیکھے ہوں گے مل کے کسی نے ساون بھادوں
ٹانکنے کو پھرتی ہے بجلی اس میں گوٹ تمامی کی
دامن ابر کے ٹکڑوں کو جب لگتے ہیں سینے ساون بھادوں
بھولے دم کی آمد و شد ہم یاد کر اس جھولے کی پیں گیں
سوجھے ہے بے یار نہ دیں گے آہ یہ جینے ساون بھادوں
کیونکہ نہ یہ در ہائے تگرگ اے بادہ پرستو! برسائیں
کان گہر چھٹ زر کے نہیں رکھتے گنجینے ساون بھادوں
کان جواہر کیونکہ نہ سمجھے کھیت کو دہقاں اولوں سے
برساتے ہیں موتیوں میں ہیروں کے نگینے ساون بھادوں
ابر سیہ میں دیکھی تھی بگلوں کی قطار اس شکل سے ہم نے
یاد دلائے پھر کے ترے دندان و مسی نے ساون بھادوں
کھیت رکھے گی آخر اک دن فرقت دہقاں پسر کی نصیرؔ
کرتے ہیں جوں گندم شق مغلوں کے سینے ساون بھادوں
٭٭٭
حرم کو شیخ مت جا ہے بت دل خواہ صورت میں
اگر ہے مرد معنی دیکھ لے اللہ صورت میں
نظر کر اس کی ٹک نیرنگیوں پر چشم حیرت سے
کہیں گل ہے کہیں کانٹا کہیں ہے کاہ صورت میں
صنم کی سطر ابرو کاتب قدرت نے لکھی ہے
کلید علم معنی ہے یہ بسم اللہ صورت میں
سبو و جام پر کم ظرف کرتے ہیں نظر ورنہ
بنے ہیں ایک مٹی کے گدا و شاہ صورت میں
مرا وہ طفل ابجد خواں پڑھے کیوں کر نہ اب ہجے
بغیر اس قاعدے کے ہو سکے کب راہ صورت میں
جدا دیوار سے کب طاق ہے کوئی بتاؤ تو
دکھائی دے ہے پر احوال کو دو اک ماہ صورت میں
کر اپنے دل کو صیقل اے سکندر تا ہو یہ روشن
صفا سے آئنے کے کب خلل ہے آہ صورت میں
گیا ہو گا طرف کعبہ کی جو محرم نہیں اس سے
کہ حاجی اس کے آمد رفت کی ہے راہ صورت میں
نصیرؔ اس کی ذقن میں بند ہے وہ یوسف کنعاں
نکلتی ہے عزیزو دیکھ لو کیا چاہ صورت میں
٭٭٭
خاندان قیس کا میں تو سدا سے پیر ہوں
سلسلہ جنبان شور خانۂ زنجیر ہوں
خاکساری کے ابھی تو درپئے تدبیر ہوں
کشتہ ہو کر خاک جب ہوں تب کبھی اکسیر ہوں
ضعف نے گو کر دیا ہے جوں کماں گوشہ نشیں
اب بھی چلنے کو جو پوچھو تو سراسر تیر ہوں
رشتۂ الفت نے باندھے ہیں پر پرواز آہ
دام حیرت میں برنگ بلبل تصویر ہوں
تجھ سے یہ عقدہ کھلے گا اے نسیم صبح دم
غنچے کی مانند اس گلشن میں کیوں دلگیر ہوں
منتظر چشم رکاب اے صید افگن ہے ہنوز
بوسۂ فتراک کی خواہش ہے وہ نخچیر ہوں
فقر کی دولت کے آگے سلطنت کیا مال ہے
بسترے پر اپنے اے روبہ مزاجو شیر ہوں
سچ ہے اپنے دم سے قائم ہے یہ بنیاد جہاں
رونق افزائے چمن آرایش تعمیر ہوں
جیسی چاہے ویسی لے مجھ سے قسم قاتل نہ ڈر
حشر کو بھی گر کبھی تیرا میں دامن گیر ہوں
اہل جوہر ہی مرے مضموں کو سمجھے ہے نصیرؔ
میں بھی اقلیم سخن میں صاحب شمشیر ہوں
٭٭٭
دم لے اے کوہ کن اب تیشہ زنی خوب نہیں
جان شیریں کو نہ کھو کوہ کنی خوب نہیں
ٹک تو ہنس بول یہ غنچہ دہنی خوب نہیں
رشک گل اتنی بھی ہاں کم سخنی خوب نہیں
سر پہ قمری کو بٹھایا تو ہے تو نے پر سرو
تیری آزاد وشی بے کفنی خوب نہیں
قابل چشم نمائی ہے تو اے طفل سرشک
ابتر اتنا بھی نہ ہو ناشدنی خوب نہیں
فصل گل آنے دے دکھلا نہ ابھی سے زنجیر
یہ روش موج نسیم چمنی خوب نہیں
منع ہنسنے سے تو کرتا نہیں اے برق و شو
پھر شرارت سے یہ چشمک زدنی خوب نہیں
ہو سکے تجھ سے تو کر مرغ چمن گل کا علاج
اس کو بیماری اعضا شکنی خوب نہیں
کوئی دم اور بھی اس ابروئے پر خم کو چھو
اصفہانی یہ ابھی تیغ بنی خوب نہیں
چشم سے اس کی نہ کر دعویِ ہم چشمی دیکھ
کہ خطا ایسی غزال ختنی خوب نہیں
مار کھائے گا وہ خیاط کہ جس نے تیرے
بند جامے کے لیے ناگ پھنی خوب نہیں
منہ کو دیکھ اپنے تو اور اس کے لب لعل کو دیکھ
روکشی اس سے عقیق یمنی خوب نہیں
ترک چشم بت بد کیشں خیال اس کا چھوڑ
مرغ دل سہمے ہے ناوک فگنی خوب نہیں
شاخ گل ہے کہ کمر باد سے لچکے ہے تری
اے میاں اتنی بھی نازک بدنی خوب نہیں
میں بھی ہوں بادیہ پیمائے جنوں اے مجنوں
اس قدر آگے مرے لاف زنی خوب نہیں
چھلنی کانٹوں سے ہوئے گو مرے تلوے لیکن
دشت وحشت کی ابھی خاک چھنی خوب نہیں
زہر کھا جاؤں گا اے ساقیِ پیمانہ بہ کف
باز آ جانے دے پیماں شکنی خوب نہیں
٭٭٭
سدا ہے اس آہ و چشم تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
نکل کے دیکھو تم اپنے گھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
وہ شعلہ رو ہے سوار توسن اور اس کا توسن عرق فشاں ہے
عجب ہے اک سیر دوپہر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
ہنسے ہے کوٹھے پہ میرا یوسف میں زیر دیوار رو رہا ہوں
عزیزو دیکھو مری نظر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
پتنگ کیوں کر نہ ہووے حیراں کہ شمع شب کو دکھا رہی ہے
بہ چشم گریاں و تاج زر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
نہا کے افشاں چنو جبیں پر نچوڑو بالوں کو بعد اس کے
دکھاؤ عاشق کو اس ہنر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
کہاں ہے جوں شعلہ شاخ پر گل کدھر ہے فصل بہار شبنم
ترے ہے اعجاز طرفہ تر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
کرو نہ دریا پہ مے کشی تم ادھر کو آؤ تو میں دکھاؤں
سرشک ہر نالہ و جگر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
کدھر کو جاؤں نکل کے یارب کہ گرم و سرد زمانہ مجھ کو
دکھائے ہے شام تک سحر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
وہ تیغ کھینچے ہوئے ہے سر پر میں سر جھکائے ہوں اشک ریزاں
دکھاؤں اے دل تجھے کدھر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
غضب سے چیں بر جبیں دکھائے بدن سے ٹپکے بھی ہے پسینہ
عیاں ہے یارو نئے ہنر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
نصیرؔ لکھی ہے کیا غزل یہ کہ دل تڑپتا ہے سن کے جس کو
بندھے ہے یوں کب کسی بشر سے فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں
٭٭٭
شب جو رخ پر خال سے وہ برقعہ کو اتارے سوتے ہیں
چشم قمر لگتی ہی نہیں کیا بلکہ نہ تارے سوتے ہیں
بند کیے آنکھیں وہ اپنی نشے کے مارے سوتے ہیں
وقت یہی ہے گھات کا اے دل دیکھ چکارے سوتے ہیں
ہجر میں تیرے شمس و قمر کی آنکھ لگے کیا لیل و نہار
چرخ کے کب گہوارے میں یہ عشق کے مارے سوتے ہیں
آیا تھا وہ ماہ جبیں اقرار پہ آدھی رات کو آہ
یارو کیوں کر جاگتے رہیے بخت ہمارے سوتے ہیں
فرصت پا کر ہاتھ لگایا پاؤں کو ان کے جب میں نے
کہنے لگے چل دور سرک مت ہاتھ لگا رے سوتے ہیں
بستر گل کی بالش پر کی ان کو نہیں کچھ حاجت ہے
سر کو ترے زانو پر رکھ جو شب کو پیارے سوتے ہیں
کیا جانے اس خواب عدم میں لذت ہے جو اہل قبور
اپنے اپنے گھر میں ہاں یوں پاؤں پسارے سوتے ہیں
اک مدت میں پھرتے پھرتے منہ سے سنی درباں کے یہ بات
شکر خدا کا اپنے وہ گھر میں آج تو پیارے سوتے ہیں
چوری سے ہم شب کو پہنچے پاؤں تلک جوں دزد حنا
لیکن چوکیدار کئی نزدیک تمہارے سوتے ہیں
اس کے قریب چشم کہاں ہے خال دلا ٹک غور سے دیکھ
کیفیت سے مست پڑے دریا کے کنارے سوتے ہیں
وہ تو کبھی بیداری میں جز خواب نہیں ملتے یارو
کوئی ہمیں ہرگز نہ اٹھانا ہجر کے مارے سوتے ہیں
مانگ میں تیری کیوں نہ کریں عشاق کے دل آرام بھلا
ہیں یہ مسافر رستے میں منزل کے مارے سوتے ہیں
چشم ملاقات ان سے رکھیے تو ہی بتا کس وجہ نصیرؔ
غیر کی جانب ابرو سے وہ کر کے اشارے سوتے ہیں
٭٭٭
شمیم زلف معنبر جو روئے یار سے لوں
تو پھر خطا ہے مری مشک گر تتار سے لوں
قدم رکھے مرے سینے پہ آ کے گر وہ نگار
حنا کا کام میں خون دل فگار سے لوں
اگر ملے ترے ہاتھوں سے اے جنوں فرصت
قصاص آبلہ پائی میں نوک خار سے لوں
مرے حضور یہ لوٹے ہے تیری چھاتی پر
جو پہنچے ہاتھ تو بدلا گلوں کے ہار سے لوں
دلا بجے کہیں گھڑیال تا میں گھڑیوں کا
حساب اس شب ہجر سیاہ کار سے لوں
عجب ہے سیر کسی دن تو ساتھ باغ میں چل
کہاں تلک میں قدم عجز و انکسار سے لوں
پٹاپٹی کا مرے پاس گر نہ ہو خیمہ
تو یار تیرے لیے ابر نو بہار سے لوں
جو مے کشی کا ارادہ ہو کچھ ترے دل میں
چمن میں ساغر گل دست شاخسار سے لوں
اگر صراحی غنچہ میں ہو نہ بادۂ سرخ
تو شیشۂ مے خس سرو جوئبار سے لوں
نہ ہووے مطرب نغمہ سرا تو اس کا کام
قسم ہے مجھ کو تری عندلیب زار سے لوں
لگے نہ ہاتھ کوئی گر رباب و چنگ نواز
تو اپنے دوش پہ رکھ بین کو میں تار سے لوں
یہ جی میں ہو کہ نہ دیکھے کوئی تو پردے کو
کنار آب رواں چادر آبشار سے لوں
بلائیں لینے سے میرے اگر خوشی ہو تری
بلائیں مہر سے اخلاص سے پیار سے لوں
گر اس پہ بھی گل عارض کا تو نہ دے بوسہ
تو پھر میں جبر کروں اپنے اختیار سے لوں
نصیرؔ مدرسۂ عشق میں مطول کا
سبق نہ کیونکہ میں زلف دراز یار سے لوں
٭٭٭
فرصت ایک دم کی ہے جوں حباب پانی یاں
خاک سیر ہو کیجے سیر زندگانی یاں
اب تو منہ دکھا اپنا کاش کے تو اے پیری
مل گئی تری خاطر خاک میں جوانی یاں
کیا یہ پیرہن تن کا جوں حباب چمکے تھا
باندھی ہے ہوا میری تو نے ناتوانی یاں
وقت گریہ موزوں ہو کیوں نہ آہ کا مصرع
رفتہ رفتہ اشک اپنا بن گیا فغانی یاں
جان من مجھے ہر دم تیرا پاس خاطر ہے
اس لیے میں کرتا ہوں دم کی پاسبانی یاں
اس کے تیر مژگاں سے ہو گیا جو دل چھلنی
بیشۂ نیستاں کی ہم نے خاک چھانی یاں
گھیر تو نے جامے کا بے طرح بڑھایا ہے
اب زمین ناپے گا دور آسمانی یاں
آگے اس کی قامت کے ایک دن جو اکڑا تھا
خوب سا بنا سیدھا سرو بوستانی یاں
یار کی گلی میں تو جا کے بیٹھ مت رہنا
حال پر مرے رکھنا چشم مہربانی یاں
قاصد سرشک اپنی تجھ سے ہے غرض اتنی
کھائے گر وہاں کھانا پیجو آ کے پانی یاں
خار سے خلش رکھنا اے نصیرؔ بے جا ہے
ہے یہ آبلہ پائی وجہ سر گرانی یاں
٭٭٭
قدم نہ رکھ مری چشم پر آب کے گھر میں
بھرا ہے موج کا طوفاں حباب کے گھر میں
کہے ہے دیکھ کے وہ عکس رخ بساغر مے
نزول ماہ ہوا آفتاب کے گھر میں
مدام رند کریں کیوں نہ آستاں بوسی
حرم ہے شیخ مشیخت مآب کے گھر میں
ہمارے دل میں کہاں آبلے ہیں اے ساقی
چنے ہوئے ہیں یہ شیشے شراب کے گھر میں
تڑپ کو دیکھ مرے دل کی برق آتش بار
خجل ہو چھپ گئی آخر سحاب کے گھر میں
دلا نہ کیونکے کروں اختلاط کی باتیں
حجاب کیا ہے اب اس بے حجاب کے گھر میں
نصیرؔ دیکھ تو کیا جلوۂ خدائی ہے
ہمارے اس بت خانہ خراب کے گھر میں
٭٭٭
کبھو نہ اس رخ روشن پہ چھائیاں دیکھیں
گھٹائیں چاند پہ سو بار چھائیاں دیکھیں
فتادگی میں جو عزت ہے سرکشی میں کہاں
کہ نقش پا کی یہاں رہنمائیاں دیکھیں
بلائیں لیوے ہے ہاتھوں سے اس کی زلفوں کی
یہ دست شانہ کی ہم نے رسائیاں دیکھیں
چمن میں ناخن ہر برگ گل سے بلبل کی
ہزار رنگ سے عقدہ کشائیاں دیکھیں
زبان تیشہ بہت کام آئی اے فرہاد
جو عشق نے تری زور آزمائیاں دیکھیں
نظر میں اپنی وہ پھرتی ہیں صورتیں ہیہات
فلک نے خاک میں کیا کیا ملائیاں دیکھیں
کسو نے لی نہ خبر غرق بحر الفت کی
ان آشناؤں کی یہ آشنائیاں دیکھیں
ہماری اس کی کدورت کی وجہ کچھ نہ رہی
کہ آئنے نے دلوں کی صفائیاں دیکھیں
ہم اپنا تجھ کو ہوا خواہ جانتے تھے صبا
بہاریں تو نے بھی تنہا اڑائیاں دیکھیں
بیان کس سے کروں اپنی تیرہ بختی کا
اندھیری راتیں وہ اے دل پھر آئیاں دیکھیں
نصیرؔ کیجے وفا کب تلک بقول میرؔ
جفائیں دیکھ لیاں بے وفائیاں دیکھیں
٭٭٭
لگا جب عکس ابرو دیکھنے دل دار پانی میں
بہم ہر موج سے چلنے لگی تلوار پانی میں
نہانا مت تو اے رشک پری زنہار پانی میں
حباب ایسا نہ ہو شیشہ بنے اک بار پانی میں
سنا اے بحر خوبی تیری اٹھکھیلی سے چلنے کی
اڑائی رفتہ رفتہ موج نے رفتار پانی میں
جھلک اس تیرے کفش پشت ماہی کی اگر دیکھے
کرے قالب تہی ماہی بھی پھر لاچار پانی میں
نہیں لخت جگر یہ چشم میں پھرتے کہ مردم نے
چراغ اب کر کے روشن چھوڑے ہیں دو چار پانی میں
لب دریا پہ دیکھ آ کر تماشا آج ہولی کا
بھنور کالے کے دف باجے ہے موج اے یار پانی میں
کہوں کیا ساتھ غیروں کے تو اس بے دید نے ہمدم
نہانے کے لیے ہرگز نہ کی تکرار پانی میں
کہا میں نے جو اتنا رکھ قدم اس دیدۂ تر پر
لگا کہنے کہ آتی ہے مری پیزار پانی میں
نصیرؔ آساں نہیں یہ بات پانی سخت مشکل ہے
اٹھائی ریختے کی تو نے کیا دیوار پانی میں
٭٭٭
مل بیٹھنے یہ دے ہے فلک ایک دم کہاں
کیا جانے تم کہاں ہو کوئی دم کو ہم کہاں
کوچے سے تیرے اٹھ کے بھلا جائیں ہم کہاں
جز نقش پا ہے رہبر ملک عدم کہاں
دامن کشاں پھرے ہے مری خاک سے ہنوز
رکھتا ہے آہ وہ سر مرقد قدم کہاں
اس کے صف مژہ سے لڑاوے نشان آہ
اے فوج اشک جائے ہے لے کر علم کہاں
میرا ہی لخت دل ہے کہ ہمراہ اشک ہے
ورنہ رہے ہے آب سے آتش بہم کہاں
سب سے جدا ترے خط ریحاں کی شان ہے
اس خط کو لکھ سکے ہے زمرد رقم کہاں
منہ دیکھوں جو کرے ید قدرت سے ہم سری
ایسی صفائی ہاتھ کی اور یہ قلم کہاں
کیوں کر نہ سقف چرخ کہن تھم رہے نصیرؔ
میرے ستون آہ چھٹ اس میں ہے تھم کہاں
٭٭٭
نہ ذکر آشنا نے قصۂ بیگانہ رکھتے ہیں
حدیث یار رکھتے ہیں یہی افسانہ رکھتے ہیں
چمن میں سرو قد گر جلوۂ مستانہ رکھتے ہیں
برنگ طوق قمری ہم خط پیمانہ رکھتے ہیں
خیال آنکھوں کا تیری جبکہ اے جانانہ رکھتے ہیں
تو جوں نرگس ہر اک انگشت بر پیمانہ رکھتے ہیں
نمایاں زلف کے حلقے میں کر ٹک خال عارض کو
کہ ہیں صیاد جتنے دام میں وہ دانہ رکھتے ہیں
بجز آئینہ معشوقوں کی کب ہو زلف پردازی
کہ عکس پنجۂ مژگاں سے دست شانہ رکھتے ہیں
بجائے حلقۂ کاکل ہیں خال روئے صید افگن
بہ چشم دام جائے مردمک یاں دانہ رکھتے ہیں
بسان چوب و نقارا ہیں خار و آبلہ پائی
بہ وادیِ جنوں انگیز نوبت خانہ رکھتے ہیں
نہیں اشک مسلسل یہ گریباں گیر اے ساقی
گلے میں اپنے عاشق سبحۂ صد دانہ رکھتے ہیں
صدائے آشنائی مثل ہمدم ہو سو وہ جانے
کہ مثل بانسری انگشت بر ہر خانہ رکھتے ہیں
نہ الجھو اس قدر بے وجہ سلجھانے میں زلفوں کے
دل صد چاک تو ہم بھی برنگ شانہ رکھتے ہیں
دل اپنا کیوں نہ ہو بحر جہاں میں جوں گہر کالا
تلاش آب ہے ہم کو نہ فکر دانہ رکھتے ہیں
نہ کیوں کر بزم میں روشن ہو اپنی شب یہ دل سوزی
کہ الفت شمع رو سے ہم بھی جوں پروانہ رکھتے ہیں
بہار آئی ہے اب تو اے جنوں ہو سلسلہ جنباں
کہ ہم مدت سے قصد رفتن ویرانہ رکھتے ہیں
نگہ ٹک ابرو و چشم بتاں پر کیجیو زاہد
کہ یہ محراب مسجد کے تلے مے خانہ رکھتے ہیں
بٹھائیں سرو و شمشاد اپنے سر پر کیوں نہ قمری کو
ترے قد کے ہیں بندے وضع آزادانہ رکھتے ہیں
ٹھکانا کچھ نہ پوچھو ہم سے تم خانہ بدوشوں کا
جہاں جوں بوئے گل ٹھہرے وہیں کاشانہ رکھتے ہیں
ہمیں مت چھیڑ کر دیکھو رلاؤ اور جلاؤ تم
کہ طوفاں چشم میں سینے میں آتش خانہ رکھتے ہیں
کریں گے بیعت دست سبو پیر مغاں تجھ سے
کہ شوق شرب مے ہے مشرب رندانہ رکھتے ہیں
نصیرؔ اب ہم کو کیا ہے قصۂ کونین سے مطلب
کہ چشم پر فسون یار کا افسانہ رکھتے ہیں
نصیرؔ اس شوخ سے کہنا کہ پیش چشم حیرت میں
تصور روز و شب تیرا ہم اے جانانہ رکھتے ہیں
٭٭٭
ہم پھڑک کر توڑتے ساری قفس کی تیلیاں
پر نہیں اے ہم صفیرو! اپنے بس کی تیلیاں
بہر ایواں اور بنوا چلمن اے پردہ نشیں
ہو گئی بد رنگ ہیں اگلے برس کی تیلیاں
خاک میں نا جنس رہتے ہیں نہ اہل امتیاز
اے فلک بنتی نہیں جاروب خس کی تیلیاں
عین فصل گل میں ہی صیاد بے پروا نے آہ
دس کے پر کترے تو کیں آنکھوں میں دس کی تیلیاں
حرص دنیا چاہتی ہے یہ کہ سیم و زر کی ہوں
یہ چراغ خانۂ اہل ہوس کی تیلیاں
امتیاز نیک و بد خود ہو نہ جس کو اے نصیرؔ
اس کے نزدیک ایک ہیں خاشاک و خس کی تیلیاں
٭٭٭
ہوا اشک گلگوں بہار گریباں
برنگ رگ گل ہے تار گریباں
رہے ہے سدا چاک ماتم کدہ میں
تحیر نہیں اختیار گریباں
کبھو ہاتھ دامن تک اس کے نہ پہنچا
چے جائے کہ قرب و جوار گریباں
تری دیکھ آنکھیں خجل ہو گی نرگس
جھکا چشم کو ہے دو چار گریباں
بنے موج رو آستیں گر نچوڑوں
ہو گرداب ہر جا فشار گریباں
صبا کب اٹھاتے ہیں جوں نکہت گل
سبک روح گردن پہ بار گریباں
سپرد ہم نے اب ناصحا کر دیا ہے
بدست جنوں کاروبار گریباں
جہاں میں ہے خورشید سے صبح روشن
کہ آتا ہے تکمہ بکار گریباں
گلے میں ہے چمپا کلی یا کسو کے
ہیں لخت جگر ہمکنار گریباں
لگائی نہیں اس نے گوٹے کی مغزی
ہوئی برق آ کر نثار گریباں
نہیں طوق پہنے ہے قمری کہ ہے اب
یہ زیب گلوبند و ہار گریباں
گلستاں میں یہ معتکف ہے جو اب ہے
سر غنچہ صحبت برار گریباں
نصیرؔ اب یہاں چشم سوزن ہے محرم
ز سر رشتہ ہائے وقار گریباں
٭٭٭
غرق نہ کر دکھلا کر دل کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
بحر حسن کے ہیں یہ بھنور دو کان کا بالا زلف کا حلقہ
ہالۂ مہ پہنچے ہے نہ اس کو نے خط ساغر اس کو لگے ہے
آئینہ تم لے کر دیکھو کان کا بالا زلف کا حلقہ
آہوئے دل اور طائر جاں کے حق میں یہ دونوں پھندے ہیں
ہم کو دکھا کر تم نہ چھپاؤ کان کا بالا زلف کا حلقہ
آج سوائے شانے کے یاں کس کا منہ ہے کون ہے ایسا
چھوڑے تمہارے چہرے پر جو کان کا بالا زلف کا حلقہ
دونوں تیرے عارض پر دن رات ملے یہ رہتے ہیں
عینک مہر و ماہ نہ کیوں ہو کان کا بالا زلف کا حلقہ
طیش زنی میں یہ عقرب ہے کالا ہے وہ کنڈلی مارے
حضرت دل باز آؤ نہ چھیڑو کان بالا زلف کا حلقہ
کس کو حصار حسن کہوں میں کس کو خط پرکار کہے دل
منہ سے الٹ برقعہ کو دکھا دو کان کا بالا زلف کا حلقہ
یہ ترے رخ کے بوسے لیں اور ترسیں مری آنکھیں اے وائے
دیکھ کے کیوں رشک آئے نہ مجھ کو کان کا بالا زلف کا حلقہ
آج زلیخا گر یہاں ہوتی دام کمند و چاہ میں پھنستی
دیکھ مرے یوسف کا عزیزو کان کا بالا زلف کا حلقہ
کیونکہ نصیرؔ ارباب سخن تحسیں نہ کریں سن کر یہ غزل
جبکہ تم اس صورت سے باندھو کان کا بالا زلف کا حلقہ
٭٭٭
گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
شکل سایہ کے مجھے ساتھ لگا لیتا ہے
گو ملاقات نہیں عالم بیداری میں
خواب میں پر وہ ہمیں ساتھ سلا لیتا ہے
اشک کو ٹک بن مژگاں میں ٹھہرنے دے دلا
یہ ترا دیکھ تو ہاں دیکھ تو کیا لیتا ہے
راہیِ ملک عدم سے نہ کر اتنی کاوش
دم مسافر یہ تہ نخل ذرا لیتا ہے
شیشۂ دل میں مرے تیرے خیال خط سے
آ گیا بال ہے تو مول اسے کیا لیتا ہے
یہ مثل اے بت مے نوش سنی ہے کہ نہیں
لے ہے برتن جو کوئی اس کو بجا لیتا ہے
تو وہ ہے نام خدا اے بت کافر کہ ترے
زاہد گوشہ نشیں بھی قدم آ لیتا ہے
دل پہ تلوار سی کچھ لگتی ہے جب غیر کو تو
پاس ابرو کے اشارے سے بلا لیتا ہے
کیوں نہ پھولے دل صد چاک ہمارا یارو
گل سمجھ کر وہ اسے سر پہ چڑھا لیتا ہے
موج دریا تو کب اٹکھیلی سے یوں چلتی ہے
پر تری کبک دری چال اڑا لیتا ہے
زلف مشکیں کو نہ چھیڑ اس کی دلا مان کہا
اپنے کیوں سر پہ بلا اہل خطا لیتا ہے
ہوک سی اٹھتی ہے کچھ دل میں مرے آہ نصیرؔ
جب وہ پہلو میں رقیبوں کو بٹھا لیتا ہے
٭٭٭
ماخذ:
ریختہ ڈاٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں