FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

انتخاب میرا جی

 

حصہ دوم

                میرا جی

انتخاب: حیدر قریشی

مدیر: جدید ادب
ماخذ:  جدید ادب، شمارہ ۱۹،  میرا جی نمبر

 

 

 

 

 

مجھے گھر یاد آتا ہے

 

 

سمٹ کر کس لئے نقطہ نہیں بنتی زمیں ؟کہہ دو!

یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لُبھاتا تھا؟

ہر اک سمت اب انوکھے لوگ ہیں اور ان کی باتیں ہیں

کوئی دل سے پھسل جاتی کوئی سینہ میں چبھ جاتی

انہی باتوں کی لہروں پر بہا جاتا ہے یہ بجرا

جسے ساحل نہیں ملتا

میں جس کے سامنے آؤں، مجھے لازم ہے

ہلکی مسکراہٹ میں کہیں یہ ہونٹ’’ تم کو

جانتا ہوں ‘‘دل کہے ’’کب چاہتا ہوں میں ‘‘

انہی لہروں پہ بہتا ہوں مجھے ساحل نہیں ملتا

سمٹ کر کس لئے نقطہ نہیں بنتی زمیں، کہہ دو

وہ کیسی مسکراہٹ تھی، بہن کی سمکراہٹ تھی

میرا بھائی بھی ہنستا تھا

وہ ہنستا تھا، بہن ہنستی ہے اپنے دل میں کہتی ہے

یہ کیسی بات بھائی نے کہی، دیکھو

وہ امّاں اور ابّا کو ہنسی آئی

مگر یوں وقت بہتا ہے تماشا بن گیا ساحل

مجھے ساحل نہیں ملتا

سمٹ کر کس لئے نقطہ نہیں بنتی زمین، کہہ دو

یہ کیسا پھیر ہے، تقدیر کا یہ پھیر تو شاید نہیں لیکن

یہ پھیلا آسماں اس وقت کیوں دل کو لبھاتا تھا؟

حیاتِ مختصر سب کی بہی جاتی ہے اور میں بھی

ہر اک کو دیکھتا ہوں مسکراتا ہے کہ ہنستا ہے

کوئی ہنستا نظر آئے کوئی روتا نظر آئے

میں سب کو دیکھتا ہوں، دیکھ کر خاموش رہتا ہوں

مجھے ساحل نہیں ملتا !

(سوغات۔ بنگلور)

٭٭٭

 

 

 

 

انجام

 

مجھے گریہ سنائی دے رہا ہے

بہت ہی دور سے آتی ہوئی آواز ہے جیسے

کبھی لہروں میں گھل جائے، کبھی آگے نکل جائے

یہ اس سُونے سمے میں کس نے گہرا کر دیا دل کی اداسی کو

نہیں، یہ عکس کب ہے، دور کی اک بات ہے

یہ گریہ تو نہیں ہے، ایک لمحہ ہے

کہ جیسے صبح کا سورج شفق میں جا کے کھو جائے

اگر سورج شفق میں جا کے کھو جائے تو کیا پھر رات بھی

من موہنی ہو گی؟

ستارے تو مگر جن دوریوں سے جھلملاتے ہیں

اُداسی کو بڑھاتے ہیں

شبِ تاریک تو بس جگمگاتے چاند ہی سے کچھ نکھرتی ہے

کہاں ہے چاند؟ اندھیری رات ہے، مجھ کو

اندھیری رات میں گریہ سنائی دے رہا ہے

یہ گریہ تو نہیں ہے، ایک معمولی صدا ہے،

وقت کے آغوش میں کھویا ہوا لمحہ۔۔۔

زمانہ ایک بے پایاں سمندر ہے

اور اس میں کس قدر بے کار آنسو ہیں

اور اس میں ساحلِ افسردہ کی کچھ سسکیاں ہیں

میں سب کچھ دیکھتا ہوں اور پھر ہنستا ہوں، روتا ہوں

یہ دو لہریں بڑھی جاتی ہیں، اس کھوئے ہوئے لمحے سے

ٹکراتی ہیں اور پھر لوٹ آتی ہیں

کہ جیسے ایک ہچکی آئے اور پھر سانس رُک جائے

میں کیوں کھویا ہوا ہوں رات کی گہری اداسی میں ؟

مجھے گریہ سنائی دے رہا ہے،

یہی جی چاہتا ہے پاس جا کر بھی اسے سن لوں

مگر ڈر ہے جب اس کے پاس پہنچا میں تو گریہ ختم ہو گا

ایک گہری خامشی ہو گی

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

چل چلاؤ

 

بس دیکھا اور بھول گئے،

جب حسن نگاہوں میں آیا

من ساگر میں طوفان اٹھا

طوفان کو چنچل دیکھ ڈری۔ آکاش کی گنگا دودھ بھری

اور چاند چھپا تارے سوئے،  طوفان مٹا، ہر بات گئی،

دل بھول گیا پہلی پوجا، من مندر کی مورت ٹوٹی

دن لایا باتیں انجانی، پھر دن بھی نیا اور رات نئی

پیتم بھی نئی، پریمی بھی نیا، سکھ سیج نئی ہر بات نئی

اک پل کو آئی نگاہوں میں جھلمل جھلمل کر تی، پہلی

سندرتا اور پھر بھول گئے،

مت جانو ہمیں تم ہرجائی،

ہرجائی کیوں،  کیسے ؟ کیسے ؟؟

کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی؟

جو بات ہو دل کی، آنکھوں کی،

تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو،

جتنی بھی جہاں ہو جلوہ گری اس سے دل کو

گرمانے دو،

جب تک ہے زمیں

جب تک ہے زماں

یہ حسن و نمائش جاری ہے !

اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو

ہم اس دنیا کے مسافر ہیں

اور قافلہ ہے ہر آن رواں

ہر بستی، ہر جنگل، صحرا اور روپ منوہر پربت کا

اک لمحہ من کو لبھائے گا، اک لمحہ نظر میں آئے گا

ہر منظر، ہر انساں کی دَیا، اور میٹھا جادو عورت کا

اک پل کو ہمارے بس میں ہے،  پل بیتا سب مٹ جائے گا

اس ایک جھلک کو چھچھلتی نظر سے دیکھ کے جی بھر لینے دو

تم اس کو ہوس کیوں کہتے ہو؟

کیا داد جو اک لمحے کی ہو وہ داد نہیں کہلائے گی؟

ہے چاند فلک پر اک لمحہ،

اور اک لمحہ یہ ستارے ہیں،

اور عمر کا عرصہ بھی،  سوچو اک لمحہ ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

دیوداسی اور پجاری

 

 

لو ناچ یہ دیکھو، ناچ، پوَتر ناچ اک دیو داسی کا

دھیرے دھیرے دور ہوا ہے سایہ میرے دل سے دل

کی اداسی کا

تول تول کر پاؤں ہے رکھتی، ہلکے ہلکے ایسے،  میرا من

چاہے

بن کر چندا کا اجیالا اس دھرتی پر بچھ جائے !

میں پتھریلے کھمبے کے پیچھے چھُپ کر اس کو دیکھوں،

چپکے چپکے حیرانی میں یہ پوچھوں

جیسے دیوی کی مورت ہی جی کر ناچ رہی ہو ناچ !

یا بھولے سے پریوں کے جھرمٹ کی رانی

دھرتی پہ آئی ہو،

اور پانی کے لہروں ایسے ہلتی جائے،  لہرائے،

یا جنگل کی چنچل ہرنی پتّوں پر پھسلی جائے،

ایک اندھیرے بن کر ناگن پھنکارے اور بل کھائے،

جیسے میری للچائی نظریں پچکاریں اس کا انگ

دیوداسی دھرتی سے چھوکر ویسے دکھلائے رنگ،

کالی کالی چمکتی آنکھیں بجلی جیسا ناچ کریں

اور ہیرے موتی کے گہنے اجیالے میں یوں چمکیں

جیسے اونچے نیلے منڈل میں چاند اور تارے ناچیں !

باہوں میں پھنس پھنس کر آئی ہوئی انگیا کی سلوٹ کو

جب میں دیکھوں دل میں زور کی دھڑکن ہو،

اور تیزی سے سانس چلے !

لمبے،  ڈھیلے ڈھالے دامن میں لہروں کے بہنے سے

اور گھومر کے پڑنے سے

ذہن کی ہر اک رگ تھرکے،

آہوں کا نغمہ نکلے،

آگے آنا، پیچھے جانا، تھرک تھرک کر رہ جانا

سَنبھل سَنبھل کر گرتی جائے،  گر گر کر سنبھالے لے

ڈرنا، جھجکنا، پھر شوخی سے،  بے باکی سے بڑھ آنا،

ڈگمگ ڈولے دھرم کی ناؤ، ڈگمگ میرا دھرم کرے !

ناچ ناچ کر جب تھک جائے،  تھک کر ہو جائے ہلکان،

لے جائے یکسوئی میری، چین مرا اور میرا گیان،

اور پھر ایسا موہن منظر آنکھوں سے اوجھل ہو جائے،

جب پتھریلے،  اونچے کھمبوں کے سائے اس سے لپٹیں

جیسے گھٹائیں چمکتی بجلی کو اپنے دامن میں لیں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

نارسائی

 

رات اندھیری،  بن ہے سُونا، کوئی نہیں ہے ساتھ،

پَوَن جھکولے پیڑ ہلائیں،  تھر تھر کانپیں پات،

دل میں ڈر کا تیر چبھا ہے،  سینے پر ہے ہات،

رہ رہ کر سوچوں یوں کیسے پوری ہو گی رات،

بر کھا رت ہے اور جوانی،  لہروں کا طوفان،

پیتم ہے نادان،  مرا دل رسموں سے انجان،

کوئی نہیں جو بات سجھائے،  کیسے ہو سامان ؟

بھگون ! مجھ کو راہ دکھا دے،  مجھ کو دے دے گیان،

چپّو ٹوٹے،  ناؤ پرانی،  دور ہے کھیون ہارا،

بیری ہیں ندّی کی موجیں اور پیتم اُس پار،

سُن لے سُن لے دکھ میں پکارے اک پریمی بیچارا،

کیسے جاؤں،  کیسے پہنچوں،  کیسے جتاؤں پیار ؟

کیسے اپنے دل سے مٹاؤں بِرہ اگن کا روگ ؟

کیسے بجھاؤں پریم پہیلی،  کیسے کروں سنجوگ ؟

بات کی گھڑیاں بیت نہ جائیں دور ہے اس کا دیس،

دور دیس ہے پیتم کا اور میں بدلے ہوں بھیس،

٭٭٭

 

 

 

 

کیفِ حیات

 

نرم اور نازک،  تند اور تیز،

میٹھا میٹھا درد مرے دل میں جاگا،

میرا ہے،  میرا ہے جھولا خوشیوں کا ؛

مست،  منوہر،  میٹھا میٹھا درد مرے دل میں جاگا !

جھول رہی ہوں،  جھول رہی ہوں سُندر جھولا خوشیوں کا

نرم بہاؤ تند اور تیز،

پیارے گھاؤ جنوں انگیز،

میٹھا میٹھا درد مرے دل میں جاگا !

جیون کی ندی رک جائے،

رک جائے تو رک جائے،

رک جائے تو رک جائے،

صرف مرے احساس کی ناؤ چلتی جائے،  نرم اور تیز !

گرم لہو رگ رگ میں مچلتا،

ساتھ ہے سپنوں کے پیتم کا،

خوشیوں کا جھولا ہے میرا،

جھول رہی ہوں،  جھول رہی ہوں،  نرم بہاؤ،  نرم اور تیز

جیون کی ندی رک جائے،  رک جائے جیون کا راگ،

رک جائے تو رک جائے،

رک جائے تو رک جائے،

رک جائے تو رک جائے،

میٹھا میٹھا درد مرے دل میں جاگا،

جھول رہی ہوں،  جھول ․․․․․․․․․

٭٭٭

 

 

 

 

سرگوشیاں

 

آج رات

میرا دل

چاہتا ہے تو بھی میرے پاس ہو،

اور سوئیں ساتھ ساتھ

تیرے پیراہن مجھے

یاد آتے ہیں بہت،

آسماں بھی صاف ہے

اور ستارے اور چاند

بے خود و سرمست ہیں،

تازگی

ہے عیاں

ذرّے ذرّے سے زمیں کے،  آہ لیکن بے بسی،

اور تنہائی مری ؛

آج تُو آ جا،  مری ہمراز بن،

آ بھی جا،

لے،  گھٹائیں آ رہی ہیں بے نشاں رفتار سے

اور ان کالی گھٹاؤں میں ہے سرمستی،  خمار،

اور پانی کے ہیں تار،

تو بھی آ،

مل کے ہم

آج رات

گا ہی لیں چاہت کے گیت ؟

جسم بھی تیرا مجھے مرغوب ہے۔

اور تیری ہر ادا

اور یہ چہرہ ترا

محبوب ہے۔

تیری یہ پیاری جوانی اک اچھوتی سی کلی

اور صورت سادی سادی سانولی۔

اور تیرے بالوں میں یہ چمپا کے پھول،

اور نازک ہاتھ پر لپٹا ہوا گجرا ترا،

اور گلے کے ہار میں ایک ہار،

آہ تیرے سب سنگار

کھینچتے ہیں دل کے تار

اور اک ہلکی سی گونج

اس فضا کی وسعتوں میں کھو گئی ؛

آ مری ننھی پری !

آ مری من موہنی !

آج رات

چاہتا ہوں تو بھی میرے پاس ہو۔

٭٭٭

 

 

 

 

سنگِ آستاں

 

سکھا نغمہ محبت کا، مجھے محسوس کرنے دے

جوانی کو

ہے نغمہ جس میں خوابیدہ انہیں تاروں کی حرکت سے

میں لے آؤں گا ہستی کو مجسّم شکل کی صورت،

انہیں تاروں کو خوابوں سے جگانے دے مجھے اے رات کے ساقی !

دکھانے دے مجھے جلوہ ستاروں کے الجھنے کا

اسی منظر کو لے آؤں گا میں

پھر سے نگاہوں میں

جو ہے باقی،

جو آویزاں ہے اب تک وقت کی دیوی کے

آنچل میں

پکڑ کر ہاتھ میں پنچھی کو اس دھرتی کے

جنگل میں

اسی خلوت کے محمل میں

ترے دل میں

جگادوں گا میں اپنی گرم آہوں سے

اسی نغمے کو جو سویا ہے تیرے جسم کے محبوب تاروں میں !

مجھے معلوم ہیں باتیں،

وہ باتیں جو اچھوتی اور پرانی ہیں

مگر نادان ہیں جذبے،

ارادہ ہے کہ لے کر آج اِن جذبوں کو میں تاریک غاروں میں

بنوں گا ہم سفر تیرا،

چل آ ! رنگیں کہانی کو

شروعِ عشق کی منزل سے لے بھاگیں

اُسے اِس رات کے پھیلے اندھیرے میں

وہاں پر مل کے پہنچا دیں

جہاں ہے گوہرِ مقصود پوشیدہ نگاہوں سے

سُہانی گرم آہوں میں !

٭٭٭

 

 

 

 

ہندی جوان

 

ساق سیمیں کا فسوں رنگ جنوں لے آیا،

کیوں سکوں سر کو نگوں کر کے ہوا محوِ ملال ؟

کیوں نظر آتے ہیں پھیلے ہوئے بازو مجھ کو ؟

مری آنکھوں میں ہیں بازو اپنے

جیسے اک پیڑ کے ٹہنے ہوں کہیں پھیلے ہوئے

جن پہ طائر کا نشیمن کبھی بنتا ہی نہ ہو

سوکھتے جاتے ہوں ٹہنے غمِ محرومی سے

کیسی ڈھلوان ہے پھسلا ہے شعور،

سوچ اک تیتری بن کر یوں اڑی جاتی ہے۔

اے جو انسال! ترے دل کو لبھاتا ہے یہ منظر،  لیکن

مرمریں قصر کا لذّت سے یہ لبریز ستون

اپنی دوری،  تری مجبوری سے

کہیں احساس کو ہی ساکت و جامد نہ کرے

اپنی محرومی پہ بل کھاتے ہوئے جھنجھلا کر

جاگ اٹھا ہے عیال

پیراہن شعلے کی مانند لپک اٹھے ترا

اور مجھے غرق مے رنگ نسائی کر دے،

لیکن اک منظر پس ماندہ نظر آئے گا،

دلکشی جس کی جھپٹ کر مجھے آنے ہی نہ

دے گی آگے

اس حکایت میں مَیں پس ماندہ ہی رہ جاؤں گا۔

ذہن آلودہ ہے افسانے سے

وہ جو دیکھا تھا ابھی پردۂ سیمیں پہ نگاہوں نے مری،

رقص میں پاؤں اٹھے جاتے تھے سر سے اوپر،

پیراہن کا تو کہیں نام نہ تھا،

دل مرا غرقِ مے ٔ رنگ نسائی ہو کر

جھوم اٹھا تھا جب آیا انجام۔

اب وہ افسانہ حقیقت بن کر

لوٹ آیا ہے نگاہوں میں مری

لیکن اس منظرِ بے باک پہ اب

بارشِ پنبۂ لرزاں کی حیا چھائی ہے۔

چار۔۔ ہاں،  چار۔۔ فقط چار قدم

فاصلہ مجھ سے ترے جسم کا ہے،

دسترس شعلہ بناتی نہیں پیراہن کو

پیرہن شعلہ کی مانند نہ لپکے گا کبھی،

وہ جو دیکھا تھا ابھی پردۂ سیمیں پہ نگاہوں نے مری

وہ تو افسانہ تھا

مرے مقدور میں تھا اس کا حصول،

جیب سے میری نکل کر چاندی

روئی پہ جا کے چمک اٹھی تھی،

نیم عریاں یہ حقیقت نہیں قسمت میں مری

مرمریں قصر کا لذّت سے یہ لبریز ستون

ترے دامن میں ہی پوشیدہ ہے۔

مجھ کو تسلیم ہے اے ہمدم افسانہ طراز !

چاک آنکھوں کے تو مل سکتے ہیں،

نیند آ سکتی ہے اب بارِ تصوّر سے مجھے،

جیب و داماں میں مگر دوری ہے،

تو سمجھ سکتا نہیں ہے یہ بات ؟

جیب تو میری ہے دامن اس کا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت

 

زرد چہرہ شمع کا ہے اور دھندلی روشنی

راہ میں پھیلی ہوئی،

اک ستون آہنی کے ساتھ استادہ ہوں میں

اور ہے میری نظر

ایک مرکز پر جمی،

آہ ! اک جھونکا صبا کا آ گیا

باغ سے پھولوں کی خوشبو اپنے دامن میں لیے

ساری بستی نیند میں بے ہوش ہے

راہ رو کوئی نہیں،

راہ سب سونی ہوئی،

آسماں پر حکمراں ہے شب کی گہری تیرگی

اور فضا میں خامشی کے سانس کی آواز ہے

اور ہے میری نظر

ایک مرکز پر جمی،

سامنے

روزنِ دیوار سے

ایک سایہ مجھ کو آتا ہے نظر۔

٭٭٭

 

 

 

 

چنچل

 

’’کبھی آپ ہنسے، کبھی نین ہنسیں، کبھی نین کے بیچ ہنسے کجرا‘‘

کبھی سارا سُندر انگ ہنسے، کبھی انگ رُکے،  ہنس دے گجرا

یہ سندرتا ہے یا کِوتا، میٹھی میٹھی مستی لائے،

اس روپ کے ہنستے ساگر میں ڈگ مگ ڈولے من کا بجرا

یہ موہن مدھ متوالی ہے،  یہ مے خانے کی چنچل ہے

یہ رُوپ لٹاتی ہے سب میں،  پر آدھے منہ پر آنچل ہے

کیا ناز انوکھے اور نئے سیکھے اِندرؔ کی پریوں سے

اور ڈھنگ منوہر اور زبری سوجھے ساگر کی پریوں سے ؟

پہلے سپنوں میں آتی ہے،  پازیبوں کی جھنکاروں میں

آوارہ کر کے چَین مِرا،  چھپ جاتی ہے سیاروں میں

(۱۹۳۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

سمندر کا بلاوا

 

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مِرے

دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں، مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ آئندہ شاید تھکے گا

’’مِرے پیارے بچے ‘‘۔۔ ’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے ‘‘۔۔ ’’دیکھو‘‘ اگر یوں کیا تو

بُرا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا۔۔ ’’خدایا، خدایا!‘‘

کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسم، کبھی صرف تیوری

مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں

انہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے

مگر یہ انوکھی ندا جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

یہ ہر اک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئے جا رہی ہے

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم نہ تیوری

فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں

یہ اک گلستاں ہے۔۔۔ ہوا لہلہاتی ہے،  کلیاں چٹکتی ہیں

غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں،  کھِل کھِل کے مرجھا کے

گِرتے ہیں، اِک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر

مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں

کہ جیسے گلستاں ہی اِک آئینہ ہی

اسی آئینے سے ہر اک شکل نکھری، مگر ایک پل میں جو جو مٹنے لگی ہے تو پھر نہ اُبھری

یہ صحرا ہے۔۔۔ پھیلا ہوا، خشک، بے برگ صحرا

بگولے یہاں تند بھوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں

مگر میں تو دور۔۔ ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں

نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں

اب آنکھوں میں جنبش نہ چہرے پہ کوئی تبسم تیوری

فقط ایک انوکھی صدا کہہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مِرے دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے نہ شاید تھکے گا

تو پھر یہ ندا آئینہ ہے، فقط میں تھکا ہوں

نہ صحرا، نہ پربت، نہ کوئی گلستاں، فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو

کہ ہر شے سمندر سے آئی سمندر میں جا کر ملے گی

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

 

یگانگت

 

 

زمانے میں کوئی برائی نہیں ہے

فقط اک تسلسل کا جھولا رواں ہے ؍یہ میں کہہ رہا ہوں

میں کوئی برائی نہیں ہوں، زمانہ نہیں ہوں، تسلسل کا جھولا نہیں ہوں

مجھے کیا خبر کیا برائی میں ہے، کیا زمانے میں ہے، اور پھر میں تو یہ بھی کہوں گا

کہ جو شے اکیلی رہے اس کی منزل فنا ہی فنا ہی

برائی، بھلائی، زمانہ، تسلسل۔۔ یہ باتیں بقا کے گھرانے سے آئی ہوئی ہیں

مجھے تو کسی بھی گھرانے سے کوئی تعلق نہیں ہے

میں ہوں ایک، اور میں اکیلا ہوں، ایک اجنبی ہوں

یہ بستی، یہ جنگل، یہ بہتے ہوئے راستے اور دریا

یہ پربت، اچانک نگاہوں میں آتی ہوئی کوئی اونچی عمارت

یہ اُجڑے ہوئے مقبرے اور مرگِ مسلسل کی صورت مجاور

یہ ہنستے ہوئے ننھے بچے، یہ گاڑی سے ٹکرا کے مرتا ہوا ایک اندھا مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ کیا ہیں ؟

یہی تو زمانہ ہے، یہ اک تسلسل کا جھولا رواں ہی

یہ میں کہہ رہا ہوں ؍یہ بستی، یہ جنگل، یہ رستے، یہ دریا، یہ پربت، عمارت، مجاور۔ مسافر

ہوائیں، نباتات اور آسماں پر اِدھرسے اُدھر آتے جاتے ہوئے چند بادل

یہ سب کچھ، یہ ہر شے مرے ہی گھرانے سے آئی ہوئی ہے

زمانہ ہوں میں، میرے ہی دَم سے اَن مٹ تسلسل کا جھولا رواں ہے

مگر مجھ میں کوئی برائی نہیں ہی

کہ مجھ میں فنا اور بقا دونوں آ کر ملے ہیں !

(تین رنگ)

٭٭٭

 

 

 

 

 

ریل میں

 

’’گجرات کے ہو؟‘‘۔۔۔۔ کیا تم سے کہوں، پردیسی کو دھتکارتے ہیں اس دیس میں

جس کے تم ہو امیں،

انگشت سے خاتم دور ہوئی، کیا تم سے کہوں، اب پہلی چمک باقی ہی نہیں، اب

ٹوٹ چکا وہ نقشِ حسیں، اوجھل ہے نگاہوں سے وہ نگیں

پربت سے دھارا بہتی ہے، ویسے ہی بہا ہے نورِ جبیں

دل کا امرت، آنکھوں کا لہو۔

یوں رستے میں گھل جاتے ہیں وہ رنگ نہیں کچھ جن کو خبر

جب چاند ڈھلے، جب تاروں کا آکاش سے مٹ جائے منظر

کالی راتوں سے بڑھ کے کہیں کالا دن کیسے ہو گا بسر؟

تم گھلتے ہو، میں گھل بھی چکا، اب آنکھ میں کوئی نہیں ہے اثر

تم دیکھتے ہو، میں دیکھتا ہوں اور کہتی ہے میری یہ نظر

جب راتیں تھیں، جب باتیں تھیں، اور ایک ہی دھیان تھا۔۔۔ میں اور تو!

بے کار یہ باتیں کرتے ہیں، کیوں پوچھتے ہیں گجرات کے ہو؟

کیا اپنی بات کے دامن سے پونچھیں گے آنکھ کے آنسو کو؟

جو ہونی تھی وہ ہو بھی چکی اب چاہے ہنسو، چاہے رو لو،

بس یونہی کبھی آ جاتی ہے گھلتی گھلتی میٹھی خوشبو

آنکھوں کی چمک، بازو کی دمک ایسے ہے جیسے دودِ روا ں، باقی ہی نہیں ؍ کچھ ان کا نشاں

لہنگے کا جھولا ٹوٹ گیا، اب سوکھی ہے وہ جوئے رواں ؍جس میں بہتے بہتے میں نے دیکھا تھا سماں

اُس چاندنی کا جو آتی ہے اور جاتی ہے جیسے سورج کی کرن سے دھندلکا ہو پنہاں

جیسے جنگل میں پھسلتے پھسلتے پتوں پر ہو جائے نگاہوں سے اوجھل کوئی آہو!

(۱۹۴۲ء)

٭٭٭

 

 

 

 

کٹھور

 

 

دھرتی پر پربت کے دھبّے،  دھرتی پر دریا کے جال،

گہری جھیلیں،  چھوٹے ٹیلے،  ندی نالے،  باولی،  تال،

کالے ڈرانے والے جنگل،  صاف چمکتے سے میدان،

لیکن من کا بالک اُلٹا،  ہٹ کرتا جائے ہر آن،

انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چندر مان !

سندر سانولی موہن گوری گود میں لیں کاندھے سے لگائیں،

میٹھی،  رسیلی،  ہلکی ہلکی صدا میں لوری۔ گیت سنائیں،

لیکن روئے،  روئے مچلے،  مچل مچل کر ہو ہلکان،

میرے من کا بالک اُلٹا،  ہٹ کرتا جائے ہر آن،

انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چندر مان !

چُن چُن کلیاں صاف اور اجلی، نرم،  چمکتی سیج بچھائیں،

گلے لگائیں چومیں چاٹیں،  سو نازوں سے ساتھ سلائیں،

سوئے نہ سونے دے اوروں کو، جاگے،  جگائے رکھے ہر آن،

میرے من کا بالک اُلٹا،  ہٹ کرتا جائے ہر آن،

انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چندر مان !

٭٭٭

 

 

 

 

دُکھ، دل کا دارو

 

سفید بازو،

گداز اتنے

زباں تصور میں حظ اُٹھائے

اور انگلیاں بڑھ کے چھونا چاہیں،  مگر انہیں برق ایسی لہریں

سمٹتی مٹھی کی شکل دے دیں،

سفید بازو گداز اتنے کہ ان کو چھونے سے اک جھجک روکتی چلی جائے،  روک ہی دے،

اور ایسے احساس اپنی خاصیتیں بدل کر

تمام ذہنی رگوں کے تاروں کو چھیڑ جائیں

اور ایک سے ایک مل کے سب تار جھنجھنائیں

اور ایک جھنجھلا کے کروٹیں لیتی گونج کو نیند سے جگائیں

اور ایسے بیدار ہوں اچھوتے،  عجیب جذبے،

میں ان کو سہلاؤں اتنی شدّت سے،  چٹکیاں لوں کہ سیمگوں سطح عکس بن جائے

نیلگوں بحرِ بیکراں کا،

اور اس طرح دل کی گہری خلوت میں ایسی آشائیں کروٹیں لیں

کہ ایک خنجر

اتار دوں میں چُبھا چُبھا کر

سفید مرمر سے مخملیں جسم کی رگوں میں۔

اور ایک بے بس، حسین پیکر

مچل مچل کر تڑپ رہا ہو

مری نگاہوں کے دائرے میں،

رگوں سے خوں کی ابلتی دھاریں

نکل نکل کر پھسل رہی ہوں،  پھسلتی جائیں

سفید، مرمر سے جسم کی چاند رنگ ڈھلوان سے ہر اک بوند گرتی جائے

لپٹتی جائے ادھورے،  بکھرے ہوئے پریشاں لباس کی خشک و تر تہوں میں

اور ایک بے بس حسین عورت کے آنسوؤں میں

مری تمنائیں اپنی شدّت سے تھک تھکا کر

عجیب تسکین اور ہلکی سی نیند کے اک سیاہ پردے میں چھپتی جائیں

سیاہ پردہ  وہ رات کا ہو !۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

برہا

 

 

سیمابی اور عنّابی چیتے ہیں اندھیری راتوں کے،

جیسے منتر ہوں جنگل کے جادوگر کی باتوں کے،

یا ساون میں کالی گھٹاؤں کی تیکھی بر ساتوں کے،

دل پر چھانے والے نغمے،  بے ہوشی لانے والے !

ایسی راتیں۔ چندا گھونگھٹ کاڑھے چپکے سوئے ہیں،

اور گنتی کے چند ستارے نیند میں کھوئے کھوئے ہیں،

پیڑ اور پتّے،  ٹہنی ٹہنی تاریکی میں دھوئے ہیں،

دل کو ڈرانے والے سائے،  دل کو دہلانے والے !

سائے،  کالے کالے سائے رینگ رینگ کر چلتے ہیں،

اور ان کالے سایوں سے بھوتوں کے جھنڈ ابلتے ہیں،

دل میں اندھے،  بے بس،  بے پایاں جذبات مچلتے ہیں،

گیت بنانے والے نغمے،  نغمے چاہت کے گانے والے !

٭٭٭

 

 

 

 

سنجوگ

 

دن ختم ہوا،  دن بیت چکا،

رفتہ رفتہ ہر نجمِ فلک اس اونچے،  نیلے منڈل سے

چوری چوری یوں جھانکتا ہے

جیسے جنگل میں کٹیا کے اک سیدھے سادے دوارے سے

کوئی تنہا چپ چاپ کھڑا چھُپ کر گھر سے باہر دیکھے !

جنگل کی ہر اک ٹہنی نے سبزی چھوڑی،  شرما کے چھُپی تاریکی میں،

اور رنگ برنگے پھولوں کے شعلے کالے کاجل بن کر رو پوش ہوئے،

اور بادل کے گھونگھٹ کی اوٹ سے ہی تکتے تکتے چنچل چندا کا روپ بڑھا !

یہ چندا کرشن۔ ستارے ہیں جھرمٹ برندا کی سکھیوں کا !

اور زُہرہ نیلے منڈل کی رادھا بن کر کیوں آئی ؟

جنگل کی گھنی گپھاؤں میں جگنو جگمگ جگمگ کر تے،  جلتے بجھتے چنگارے ہیں !

اور جھینگر تال کنارے سے گیتوں کے تیر چلاتے ہیں،

نغموں میں بہتے جاتے ہیں !

لو آدھی رات دلہن کی طرح شرماتی تھی،  اب آ ہی گئی،

ہر ہستی پر اب نیند کی گہری مستی چھائی۔ خاموشی !

کوئل بولی !

اور رات کی اس تاریکی میں ہی دل کو دل سے ملائے ہیں

پریمی پریتم۔

ہاں،  ہم دونوں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

اغوا

 

چاند خاموش ہے،  فضا خاموش

راہ خاموش ہے،  ہوا خاموش

سارے عالم پہ چھائی خاموشی

نیند کی پر سکون بے ہوشی

دھیرے دھیرے قدم اٹھائیں ہم

اور بستی کو چھوڑ جائیں ہم

دیکھو! محدود زندگی کیوں ہو ؟

غیر کے بس میں سر خوشی کیوں ہو ؟

آؤ، بھولو سماج کی باتیں

اپنی ہیں اب سے چاندنی راتیں

آؤ، پابندیوں کو بھولو تم

آؤ آزادیوں کو چھولو تم

دل کی افسردگی کو دور کرو

دل سے پژمردگی کو دور کرو

آج کی رات ہے مسرت کی

آج ہر بات ہے مسرت کی

آج تکمیل جذبۂ دل کی

ہو گی ہمدم ہماری محفل کی

کشتیِ عمر چھوڑ دو آزاد

اپنی ہستی کو اب کرو آزاد

ہاتھ میں ہاتھ تھام لو میرا

اب سے بس ایک نام لو میرا

ہو کے تحلیل میری ضوَ میں تم

آؤ چل دو مرے جلوَ میں تم

چار دن کے لیے مری بن جاؤ

میرے ہمراہ آؤ، چل دو، آؤ!

زندگی چار دن ہے،  چار ہی دن

دل میں چاہت ہے چار دن ساکن

رات ایسی نہ آئے گی پھر سے

وقت ایسا نہ لائے گی پھر سے

چاند خاموش ہے فضا خاموش

سارا عالم ہے نیند میں بے ہوش

چپکے چپکے قدم اٹھائیں ہم

آؤ آؤ،  یہاں سے جائیں ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

اجنبی،  انجان عورت رات کی

 

میں دھندلی نیند میں لپٹا تھا سو پردوں میں وہ جاگ اٹھی

ہلکے ہلکے بہتی آئی اور چھائی میٹھی خوشبو سی

باریک دوپٹّہ سر پہ لیے اور آنچل کو قابو میں کئے

چنچل نینوں کو اوٹ دیے شرمیلا گھونگھٹ تھامے تھی

نردوش بدن اک چندر کرن، اٹھتا جوبن بس من موہن

میں کون ہوں،  کیا ہوں،  کیا جانے،  من بس میں کیا اور بھول گئے

جب آنکھ کھلی اور ہوش آیا تب سوچ لگی، الجھن سی ہوئی

پھر گونج سی کانوں میں آئی وہ سندر تھی سپنوں کی پری

٭٭٭

 

 

 

 

اُجالا

 

آشا آئی سادے من کے دکھ اک پل میں مجھ کو بھولے

من مندر میں سُکھ سنگت نے ایسی امنگیں آن جگائیں

جیسے کوئی ساون رُت میں پھلواری میں جھولا جھولے

کومل لہریں میرے من میں ایک انوکھی شوبھا لائیں

جیسے اونچے نیلے ساگر میں دو کُونجیں اڑتی جائیں

جیسے بسنتی سماں سُہانا من کو چنچل ناچ نچائے

حیرانی ہے میرے من میں ایسی باتیں کہاں سے آئیں

من سویا تھا، سوئے ہوئے کو کون پکارے،  کون جگائے

جیسے کوئی نو جیون کا ہرکارہ سندیسہ لائے

جس کے من میں آشا آئے بس وہی سمجھے،  وہی بتائے

٭٭٭

 

 

 

 

ترقی پسند ادب

 

 

اس کو ہاتھ لگایا ہو گا ہاتھ لگانے والے نے،

پھول ہے رادھا،  بھنورا، بھنورا، بھنورے نے ہاں کالے نے،

جمنا تٹ پر ناؤ چلائی ناؤ چلانے والے نے،

دھوکا کھایا، دھوکا کھایا، دھوکا کھانے والے نے،

سکھیاں کب تھیں لاج بچاتیں کچھ نہ سنی متوالے نے،

کام نہ آیا، بات نہ رکھی اپنے دل کے اجالے نے،

دل کا اجالا بنسی والا میٹھی جس کی بانی ہے،

بنسی دھن کی بات نہ کہنا یہ تو پرانی کہانی ہے،

اب تو ساری دنیا بدلی ہر صورت انجانی ہے،

دل میں سب کے چھایا اندھیرا ظاہر ہی نورانی ہے،

یہ بھی رت ہے مٹ جائے گی، ہر رت آنی جانی ہے،

اتنی بات کہ دل بے چین رہے جگ میں لافانی ہے،

دل بے چین ہوا رادھا کا کون اسے بہلائے گا

جمنا تٹ کی بات تھی ہونی، اب تو دیکھا جائے گا

چپکی سہے گی رنگ وہ رادھا جو بھی سر پہ آئے گا،

اودھو شیام پہیلی رہتی دنیا کو سمجھائے گا،

یہ تو بتاؤ کون سورما اب کے ہاتھ لگائے گا؟

٭٭٭

 

 

 

 

اونچا مکان

 

 

بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے ہوئے استادہ ہے تعمیر کا اک نقشِ عجیب

اے تمدّن کے نقیب !

تری صورت ہے مہیب،

ذہن انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا،

ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی مجھے دیتے ہیں،  مگر

ان میں اک جوش ہے بیداد کا، فریاد کا اک عکسِ دراز،

اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے،

کیا کوئی روحِ حزیں

ترے سینے میں بھی بے تاب ہے تہذیب کے رخشندہ نگیں ؟

گھٹ کے لہریں ترے گیتوں کی مٹیں،  مجھ کو نظر آنے لگا

ایک تلخابہ کسی بادۂ بد رنگ کا اک ٹوٹے ہوئے ساغر میں،

نشّۂ مئے سے نظر دھندلی ہوئی جاتی ہے

رات کی تیرہ فضا کیوں مجھے گھبراتی ہے ؟

رات کی تیرہ فضا میں تری آنکھوں کی چمک مجھ کو ڈرا سکتی نہیں ہے،  میں تو

اس سے بھی بڑھ کے اندھیرے میں رہا کرتا تھا

اور اس تیرگیِ روح میں رخشاں تھے ستارے دکھ کے،

اور کبھی بھول میں ہر نجمِ درخشاں سے لپک اٹھتے تھے شعلے سکھ کے،

جیسے روزن سے ترے تان لپکتی ہوئی پھیلاتی ہے بازو اپنے،

جذب کر لیتا ہے پھر اس کو خلا کا دامن،

یاد آنے لگے تنہائی میں بہتے ہوئے آنسو اپنے

وہی آنسو،  وہی شعلے سکھ کے

لیکن اک خواب تھا،  اک خواب کی مانند لپک شعلوں کی تھی،

مری تخئیل کے پر طائرِ زخمی کے پروں کی مانند

پھڑپھڑاتے ہوئے بے کار لرز اٹھتے تھے،

مرے اعضا کا تناؤ مجھے جینے ہی نہیں دیتا تھا، تڑپ کر، یکبار

جستجو مجھ کو رہائی کی ہوا کرتی تھی،

مگر افسوس کہ جب درد دوا بننے لگا مجھ سے وہ پابندی ہٹی،

اپنے اعصاب کو آسودہ بنانے کے لیے

بھول کر تیرگیِ روح کو میں آ پہنچا

اس بلندی کے قدم میں نے لیے

جس پہ تو سینکڑوں آنکھوں کو جھپکتے ہوئے استادہ ہے۔

ترے بارے میں سنا رکھّی تھی لوگوں نے مجھے

کچھ حکایاتِ عجیب،

میں یہ سنتا تھا ترے جسمِ گرانبار میں بستر ہے بچھا،

اور اک نازنیں لیٹی ہے وہاں،  تنہائی

ایک پھیکی سی تھکن بن کے گھسی جاتی ہے

ذہن میں اس کے،  مگر وہ بے تاب

منتظر اس کی ہے پردہ لرزے،

پیرہن ایک ڈھلکتا ہوا بادل بن جائے

اور در آئے اک ان دیکھی، انوکھی صورت،

کچھ غرض اس کو نہیں اس سے

دل کو بھاتی ہے،  نہیں بھاتی ہے

آنے والے کی ادا۔۔۔

اس کا ہے ایک ہی مقصود،  وہ استادہ کرے

بحرِ اعصاب کی تعمیر کا اک نقشِ عجب

جس کی صورت سے کراہت آئے

اور وہ بن جائے ترا مدّ مقابل پل میں

ذہنِ انسانی کا طوفان کھڑا ہو جائے

اور وہ نازنیں بے ساختہ،  بے لاگ، ارادے کے بغیر

ایک گرتی ہوئی دیوار نظر آنے لگے

شب کے بے روح تماشائی کو !

بھول کر اپنی تھکن کا نغمہ

مختصر لرزشِ چشمِ در سے

ریگ کے قصر کی مانند سبکسار کرے،

بحرِ اعصاب کی تعمیر کا اک نقشِ عجیب

ایک گرتی ہوئی دیوار کی۔۔۔ مانند لچک کھا جائے

یہ حکایات مرے ذہن میں اک بوئے خراماں بن کر

جب کبھی چاہتی تھیں رقص کیا کرتی تھیں،

اور اب دیکھتا ہوں سیکڑوں آنکھوں میں تری

ایک ہی چشمِ درخشاں مجھے آتی ہے نظر،

کیا اسی چشمِ درخشاں میں ہے سکھ کا شعلہ؟

ہاتھ سے اپنے اب اس آنکھ کو میں بند کیا چاہتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

چودہ مئی کی رات

 

اب کچھ نہ رہا، مٹّی میں ملا، جو دھن تھا پاس وہ دور ہوا،

وہ دھن بھی دھیان کی موج ہی تھی، مچلی، ابھری، ڈوبی، کھوئی،

وہ پہلی، اچھوتی سندرتا نیند آہی گئی اس کو،  سوئی،

نادان جوان مرے دل کا۔ نشّہ تھا نیا۔ مخمور ہوا،

اک گیان کی موج اٹھی۔ چنچل، اچپل، البیلی سی ناری،

جو بات بتائی اس نے مجھے وہ بات لگی دل کو پیاری،

کچھ سوچ نہیں،  کچھ سوچ نہیں،  کیوں سوچ میں کھوئے دل میرا؟

کیوں اپنے لہو کی بوندوں سے آنکھوں کو دھوئے دل میرا؟

اب رنگ لہو کا اور ہوا، اب رنگ لہو کا اور ہوا،

گیسو کی کلیاں مرجھائیں،  اک کھیت کپاس کا پھولا ہے،

من سوچ کرے تو گیانی نہیں،  اگیانی ہے،  من بھُولا ہے،

اس جگ کی ریت ہے یہ ناداں،  ہر بات بدلتی رہتی ہے

رُت آتی ہے،  رُت جاتی ہے،  یوں وقت کی ندّی بہتی ہے

بچپن آیا، کیسا تھا سماں ! جگ کی ہر بات نرالی تھی،

من اپنا بھولا بھالا تھا، سب دنیا بھولی بھالی تھی،

پر من کی دھارا پھوٹ بہی، میٹھی رُت آئی جوانی کی،

من میں تھیں امنگیں پیتم کی، آشائیں پریم کہانی کی،

یہ دنیا ایک شکاری تھی، کیا جال بچھایا تھا اس نے،

دو روز میں ہم نے جان لیا، سکھ اور کا ہے اور دکھ اپنا،

سنجوگ کے دن گنتی میں نہیں اور پریم کی راتیں ہیں سپنا،

یہ دنیا اک بیوپاری تھی، کیسا بہکایا تھا اِس نے !

من جال میں پھنس کر جب تڑپا، جھنجلا اٹّھا، جھنجلا اٹّھا!

اک تار کے جادو میں کھو کر پھر آیا جوانی کا ریلا،

دل میں الجھن تھی آنکھوں میں اک رنگ لہو سا چھایا تھا،

دو پل کو مدماتے ہو کر دیکھا ہم نے انوکھا میلہ،

اک گیان کی چنچل موج اٹھی، اس جگ میں جیون دو دن کا،

اب من کو کیسے سوچ آئے،  انجانی ہولی کیوں کھیلا!

٭٭٭

 

 

 

 

 

عکس کی حرکت

 

کچھ رنگ کا نور، کچھ آوازیں،  کچھ سائے،  دھندلکے کا پردہ،

۔۔ اور مجھ کو جھجک ہے،  کیسے کہوں،  سننے والے جھلّائیں گے،

اک مورت ہے،  میٹھی من موہنی صورت ہے،

انمول بدن، اک چندر کرن۔۔ لہراتی ہے،

بہتی ندّی۔۔ بل کھاتی ہے،

اک پل کو دکھائی دیتی ہے،

پھر آنکھ جھپکتے میں اوجھل ہو جاتی ہے،

حیران ہوں،  کیسا جادو ہے،

یا میری آنکھ میں آنسو ہے،

آنسو ہے دھندلکے کا پردہ۔۔

کچھ سائے ہیں،  کچھ آوازیں،  کچھ رنگ کا نور بھی لرزاں ہے،

اور مجھ کو جھجک ہے،  کیسے کہوں،  سننے والے جھلّائیں گے،

کیا دھیان آیا، کیا دھیان آیا ؟

کیوں آنکھ جھکی، دل شرمایا ؟

تیری پوجا کے مندر کی مورت ٹوٹی،  جگ بیت چُکے،

اب ہارنے والے ہار چکے اور جیتنے والے جیت چکے،

کیا سوکھی،  پھیکی کہانی میں اس رنگ سے موہنی آ جاتی۔۔

وہ رنگ کا نور،  وہ آوازیں،  وہ سائے،  وہ پردہ۔۔ دھندلا ؟

دھندلا پردہ پیراہن ہے

ساری کا رسیلا دامن ہے

رہ رہ کے لرزتا جاتا ہے

رک رک کے مچلتا جاتا ہے

اک سایہ اُن آوازوں کی

اجلی، نورانی کہانی کو

کہہ کہہ کے لرزتا جاتا ہے

اور آگے نکلتا جاتا ہے

اور مجھ کو جھجک ہے کیسے کہوں

خاموش رہوں،  دکھ درد سہوں یہ بات نہیں میرے بس کی

کیوں جاگتی ہیں لہریں رس کی؟

اِن زہری پھولوں کو کون چنے ؟

دکھ درد کی بات نہ کوئی سنے،

ہاں مجھ کو جھجک ہے،  کیسے کہوں،  سننے والے جھلائیں گے،

خاموش رہوں،  چپ چاپ سہوں،  سہتا جاؤں،

اک ندّی میں بہتا جاؤں،

بہتی ندّی۔۔ بل کھاتی ہے،

لہراتی ہے۔۔ اک چندر کرن، انمول بدن،

میٹھی من موہنی صورت ہے،

چنچل،  متوالی مورت ہے،

کچھ رنگ کا نور، کچھ آوازیں،  کچھ سائے لرزتے جاتے ہیں،

اور لمحے گزرتے جاتے ہیں،  اور لمحے گزرتے جاتے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

شام کو، راستے پر

 

 

رات کے عکسِ تخیّل سے ملاقات ہو جن کا مقصود،

کبھی دروازے سے آتا ہے کبھی کھڑکی سے،

اور ہر بار نئے بھیس میں در آتا ہے۔

اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں،

وہ تصوّر میں مرے عکس ہے ہر شخص کا ہر انساں کا،

کبھی بھر لیتا ہے اک بھولی سی محبوبۂ نادان کا بہروپ،  کبھی

ایک چالاک،  جہاں دیدہ وہ بے تاب ستمگر بن کر

دھوکہ دینے کے لیے آتا ہے،  بہکاتا ہے،

اور جب وقت گزر جائے تو چھپ جاتا ہے۔

مری آنکھوں میں مگر چھایا ہے بادل بن کر

ایک دیوار کا روزن،  اسی روزن سے نکل کر کرنیں

مری آنکھوں سے لپٹتی ہیں،  مچل اٹھتی ہیں

آرزوئیں دلِ غم دیدہ کے آسودہ نہاں خانے سے،

اور میں سوچتا ہوں نور کے اس پردے میں

کون بے باک ہے،  اور بھولی سی محبوبہ کون ؟

سوچ کو روک ہے دیوار کی،  وہ کیسے چلے ؟

کیسے جا پہنچے کسی خلوتِ محجوب کے مخمور صنم خانے میں ؟

وہ صنم خانہ جہاں بیٹھے ہیں دو بُت۔۔ خاموش،

اور نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتے ہیں،

ذہن کو ان کے دھندلکے نے بنایا ہے اک ایسا عکّاس

جو فقط اپنے ہی من مانے مناظر کو گرفتار کرے،

میں کھڑا دیکھتا ہوں،  سوچتا ہوں،  جب دونوں

چھوڑ کر دل کے صنم خانے کو گھر جائیں گے،

ایک سوچے گا مری جیب،  یہ دنیا،  یہ سماج،

ایک دیکھے گا وہاں اور ہی تیاری ہے۔

مجھ کو الجھن ہے یہ کیوں،  میں تو نہیں ہوں موجود

رات کے خلوتِ محجوب کے مخمور صنم خانے میں،

مری آنکھوں کو نظر آتا ہے روزن کا دھواں

اور دل کہتا ہے یہ دودِ دلِ سوختہ ہے،

ایک گھنگھور سکوں،  ایک کڑی تنہائی

میرا اندوختہ ہے۔

مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ دنیا مٹ جائے،

مجھ کو کچھ فکر نہیں آج یہ کے کار سماج،

اپنی پابندی سے دم گھٹ کے فسانہ بن جائے،

مری آنکھوں میں تو مرکوز ہے روزن کا سماں،

اپنی ہستی کو تباہی سے بچانے کے لیے

میں اسی روزنِ بے رنگ میں گھس جاؤں گا،

لیکن ایسے تو وہی بُت نہ کہیں بن جاؤں

جو نگاہوں سے ہر اک بات کہے جاتا ہے،

چھوڑ کر جس کو صنم خانے کی محجوب فضا

گھر کے بے باک،  المناک سیہ خانے میں

آرزوؤں پہ ستم دیکھنا ہے،  گھُلنا ہے،

میں تو روزن میں نہیں جاؤں گا،  دنیا مٹ جائے

اور دم گھٹ کے فسانہ بن جائے

سنگدل،  خون سُکھاتی ہوئی،  بے کار سماج،

میں تو دک دھیان کی کروٹ لے کر

عشق کے طائرِ آوارہ کا بہروپ بھروں گا پل میں،

اور چلا جاؤں گا اس جنگل میں

جس میں تو،  چھوڑ کے اک قلبِ فسردہ کو اکیلے چل دی،

راستہ مجھ کو نظر آئے نہ آئے،  پھر کیا،

ان گنت پیڑوں کے میناروں کو

میں تو چھوتا ہی چلا جاؤں گا

اور پھر ختم نہ ہو گی یہ تلاش،

جستجو روزن دیوار کی مرہون نہیں ہو سکتی،

میں ہوں آزاد۔۔ مجھے فکر نہیں ہے کوئی،

ایک گھنگھور سکوں،  ایک کڑی تنہائی

میرا اندوختہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اُفتاد

 

اپنے اک دوست سے ملنے کے لیے آیا ہوں،

ایک دو بار تو زنجیر ہلائی میں نے

لیکن آواز کوئی آئی نہیں،

گھر پہ موجود نہیں ؟۔۔ سویا ہوا ہے دن میں ؟

اور اک بار ہلاؤں زنجیر ؟

چھیڑ دوں سونی گلی میں وہی گستاخ صدا

راہ تکتے ہوئے جس پر مجھ کو

رات میں بھونکتے کتّے کا گماں ہوتا ہے ؟

لیکن اک لمحہ ٹھہر جاتا ہوں

سوچتا ہوں کوئی بھولی بھٹکی

سرِ کوچہ سے نکل آئے گی

خم دیوار پہ۔۔۔ سیّارے کی مانند رواں

اور اک لمحہ گزر جائے گا اس منظرِ رنگین کے جلوے کا تماشا کرتے

ایک پل ایسے بھی کٹ جائے گا

لیکن افسوس مرے سامنے دروازہ ہے

راہ تکنا ہی مقدر میں لکھا ہے شاید۔

ایک دروازے میں کیا راز کی باتیں ہیں نہاں

ابھی کھولوں۔۔ کوئی ان دیکھی،  انوکھی صورت

سامنے بُت بنی،  استادہ نظر آ جائے،

اور شاید کسی ہلتے ہوئے دروازہ کا تختہ یہ المناک حقیقت سمجھائے

ابھی دہلیز کو کرتے ہوئے پار

زندگی سے تری افسوس ! ہمیشہ کے لیے،

کوئی رخصت ہوا،  رخصت ہوا،  معدوم یا۔۔ عدم

بند ہوتا ہوا،  کھلتا ہوا دروازہ ہے !

ہاں،  یہی منظرِ لبریزِ بلاغت اب تو

آئینہ خانے میں آنکھوں کے جھلکتا ہے مدام۔

بند دروازہ نظر آتا

بند ہوتے ہوئے دروازے کے پردے میں مجھے

پھیلتی وسعتِ چالاک نے بہکایا ہے۔

یہی وسعت مرے ماضی کے گھروندے میں بھی ہے،

مگر اک مرکزِ بے نام و نشاں،  سُن،  خاموش !

ایک دلہن سے لجاتی ہوئی،  شرماتے ہوئے بل کھاتی،

اور سمٹتی چلی جاتی ہوئی مرکز کی طرف۔

گرم بستر پہ تڑپتا ہوا دل بول اٹّھا،

بند ہوئے دروازے کے جادو نے مجھے

پھیلتی وسعتِ نمناک میں الجھایا ہے۔

پھیلتی وسعتِ نمناک ہے اک دامِ خیال،

بند ہوتا ہوا دروازہ کسی کالے کا پھن بنتا ہے،

بین سے تیر کے پھل کی طرح تھرّاتی ہوئی

زخم کو لاتی ہوئی،  تیکھی صدا آتی ہے

جس میں پوشیدہ ہے،  آسودہ ہے سُمِ قاتل

لیکن احساسِ سماعت ہی نہ تھا مجھ کو مرے کانوں میں

ایک ہی گونجتی،  جھلّاتی ہوئی تلخ صدا آتی تھی

بند ہوتا ہوا دروازہ ترے سامنے کیوں آیا ہے ؟

بین کے نغمے سے چونکا، اٹّھا،

پھن کو پھیلائے ہوئے جھومنے،  لہرانے لگا،

آنکھ تو مست ہے،  اب بھی اسی منظر کی طرف مائل ہے،

اور بوسیدہ،  فتادہ تختے

بازوؤں کی طرح کھلتے ہیں،  لپٹ جاتے ہیں۔

گرم بستر پہ پڑی،  لیٹی ہوئی،  بیسوا دہلیز کی گردن میں حمائل ہو کر،

جو آپہنچے،  بس اس کے پاؤں

روندتے روندتے دہلیز کو بڑھ جاتے ہیں،

اور پھر تیرگی۔۔ نادان کا۔ جاہل کا دماغ۔۔

جس میں بھرّائی ہوئی سرد صدا گونجتی ہے۔

جسم کے نور کو کھا جاتی ہے،

اور بوسیدہ،  فتادہ تختے

چوستے ہونٹوں کی مانند مرے گرم لہو کو پل میں

اپنی رگ رگ میں سمو لیتے ہیں،  چلّاتے ہیں،

ایک وحشت کے فسوں میں کھو کر

میں بھی بن جاتا ہوں اک چیخ۔۔ المناک صدا !

تیر کے پھل کی طرح چھوٹ کے تھرّاتی ہوئی !

اب خلش،  درد،  تڑپ،  رسوائی

بند ہوتے ہوئے کھلتے ہوئے دروازے ہیں !

٭٭٭

 

 

 

 

محبوبہ کا سایہ

 

آکاش کے نیلے ساگر کا متوالا چاند ہے دل میرا

لیکن اب نور نہیں باقی،  مرجھایا ہے،  ماند ہے دل میرا

وہ نور کہ جس کی کرنوں کے سایوں سے دھندلکے بنتے تھے

بوجھل احساس مرے دل کے چھن چھن کر ہلکے بنتے تھے

اب نور کے رنگ مٹے سارے،  اب ایک اندھیرا چھایا ہے

اب تاریکی کے بندھن نے دکھ درد کا روپ دکھایا ہے

کیسا تھا سماں،  جب سارا جہاں میری آنکھوں میں سایا تھا

وہ سایہ تھی، میں سایا تھا، دونوں پر جادو چھایا تھا

جیسے جنگل میں غزالوں کا اک جھرمٹ ڈر کر بھاگ اٹھے

اور پیچھے پیچھے شکاری کا ہر تیر بھی نیند سے جاگ اٹھے

سوکھے پتوں میں جاکے گرے،  تھرّا اٹھّے،  جھنجلا اٹھّے

جنگل کی فضا کے گنبد میں ٹوٹے تاروں کی صدا اٹھے

یہ سارا منظر بھی اب تو میری آنکھوں میں سایا ہے

اور یاد کے ساحل پر پانی کی جھاگ نے راج جمایا ہے

اس شہر کا ہر سونا رستہ مجھ کو دھارا ہے ندّی کی

ہر راہ سے یاد تڑپ کے ابلتی ہے پہلی سکھ بیتی کی

شوبھا ہے اونچے محلوں کی ہر راہ کے دونوں کناروں پر

اک منظر زخمہ بنتا ہے میرے سازِ دل کے تاروں پر

منظر ہے محل کا، رستے کا، رستے پر پریمی جاتا ہے

چھت پر پیراہن لٹکا ہے،  لہراتا ہے،  بل کھاتا ہے

اور سورج اپنے نور کے پیراہن کو سایا بناتا ہے

دل گپت بھون کے ساگر کی سندرتا میں کھو جاتا ہے

وہ گپت بھی سایہ ہے اک میرے دل کے مندر کا

اس میں رانی کی مورت ہے اور گیت اشنان کے منظر کا

متوالا چاند چمکتا ہے،  دل میرا۔۔ انگ کسی کا ہے

رستا ہے لہو میرے دل کا اور اس میں رنگ کسی کا ہے

چھت پر پیراہن لٹکا ہے،  رانی اشنان میں کھوئی تھی

کیا بیتی رات وہ سُکھ کی سیج پہ ساتھ کسی کے سوئی تھی؟

یہ سوجھ جگاتی ہے دل میں اک درد کے مہلک جادو کو

اور گپت بھون کا منظر خون بنا دیتا ہے آنسو کو

منظر ہے محل کا، رستے کا، رستے پر پریمی جاتا ہے

چھت پر پیراہن لٹکا ہے،  لہراتا ہے،  بل کھاتا ہے

اور درد کا پنچھی تنگ آ کر اک ڈالی پر رک جاتا ہے

دل گیانی ہے سو رنگوں کا یہ بات نئی سمجھاتا ہے

’’یہ پیراہن آنے والی میٹھی، متوالی راتوں میں

تیرے گالوں کو سہلائے گا، سیج کی ان برساتوں میں

کچھ دھیان نہ اس کا آئے گا، پھلواری میں سو بھنورے تھے

انمول بدن تھا پیتم کا، سولہ سنگار سے سنورے تھے

سب انگ اچھوتے،  ان دیکھے اور سُکھ کی سیج سہانی تھی

اوروں کے لیے تو اجالا تھا، پریمی کو دکھ کی کہانی تھی‘‘

یہ دل کی بات لگی پیاری، میں دھیان کی دھن میں ڈوب گیا

دکھ درد مٹا، میدان میں ہارا، دور ہوا، محجوب گیا

لیکن یہ رنگ خیالوں کے اب میری نظر میں سایہ ہیں

سب بیتی رات کا جادو ہیں،  سب پچھلے جنم کی مایا ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

بعد کی اڑان

 

 

چوم ہی لے گا، بڑا آیا کہیں کا۔۔ کوّا،

اڑتے اڑتے بھلا دیکھوں تو کہاں آ پہنچا،

کلموا، کالا کلوٹا، کاجل ․․․

میں اگر مرد نہ ہوتا تو یہ کہتا تجھ سے،

دوش پر بکھرے ہوئے ہیں گیسو،

بندی دمدار ستارہ ہے مگر ساکن ہے،

چلتے چلتے کوئی رک جائے اچانک جیسے،

غسل خانے میں نظر آیا تھا انگلی پہ مجھے سرخ نشاں،

وہی دمدار ستارے کی نمائش کا پتہ دیتا تھا،

آپ ناپید ہوا ہے مگر اپنے پیچھے

کسی نقشِ کفِ پا کی صورت

رات کے راستے میں چھوڑ گیا ہے وہ کہانی جس کو

سننے والا یہ کہے گا مجھ سے

گیت میں ایسی لرزتی ہوئی اک تان کی حاجت ہی نہ تھی،

ایسی ہی ایک لرزتی ہوئی تان آئی تھی

جب پھسلتے ہوئے ملبوس لرزتے ہوئے جا پہنچے تھے،

فرش پر،  ایک مسہری کے کٹہرے پہ ہوا آویزاں،

’’چھوڑ دو،  رہنے دو۔۔ اس کو تو یہیں رہنے دو۔ ‘‘

نیم وا آنکھوں کو پھر بند کیا تھا اس نے،

ہاتھ بھی آنکھوں کے پردے پہ رکھے تھے یکدم۔

اور اب ایک ہی پل میں یہ اگر کھل جائیں

یہی آنکھیں جو مجھے دیکھ نہیں سکتی تھیں

دیکھتے دیکھیں مجھے،۔۔ ہاتھ کہاں رکھیں گی؟

وہیں رکھّیں گی۔۔ وہی ایک نشانِ منزل

جس جگہ آ کے ازل اور ابد ایک ہوئے تھے دونوں،

ایک ہی لمحے بنے تھے مل کر،

اسی لمحے میں یہ بندی مجھے دمدار ستارہ سا نظر آئی تھی

رات کے راستے میں چھوڑ گئی تھی وہ کہانی جس کو

سننے والا یہ کہے گا مجھ سے

گیت میں ایسی لرزتی ہوئی اک تان کی حاجت ہی نہ تھی،

اب لرزتے ہوئے ملبوس نظر آتے نہیں ہیں،  لیکن

ان کی آنکھوں کو ضرورت بھی نہیں

وہ تو اک رات کے طوفان کا اعجاز تھا،  طوفان مٹا،

کیسا طوفان تھا !۔۔ اندھا طوفان،

جس کے مٹنے پہ مجھے نوح کی یاد آتی ہے

اور پھر نوح نے بیٹوں سے کہا

کھول دو پنجرہ،  اسے چھوڑ دو۔۔ اس فاختہ کو

جا کے خشکی کا پتہ لے آئے،

چند لمحوں میں ہی وہ فاختہ لوٹ آئی، مگر ناکامی

اس کی قسمت میں لکھی تھی،

اور پھر کوّے کو چھوڑا،  یہی خشکی کا پتہ لائے گا،

اڑتے اڑتے بھلا دیکھو تو کہاں آ پہنچا،

چُوم ہی لے گا،  بڑا آیا کہیں کا کوّا،

کلموا،  کالا کلوٹا،  کاجل !

٭٭٭

 

 

 

 

دن کے روپ میں رات کہانی

 

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں،

جھلملاتے ہوئے کمزور ستارے یہ کہے جاتے ہیں

چاند آئے گا تو سائے بھی چلے جائیں گے

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہیں ہوتا ہے،

رات اک بات ہے صدیوں کی، کئی صدیوں کی

یا کسی پچھلے جنم کی ہو گی،

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا

رات کا پھیلا اندھیرا۔۔ محتاج،

اک بھکاری تھا اُسی پہلی کرن کا جو لرزتے ہوئے آتی ہے،  جگا دیتی ہے،

سوئے سایوں کو اٹھا دیتی ہے،  بیداری میں،

زیست کے ہلتے ہوئے،  جھومتے آثار نظر آتے ہیں،

زیست سے پہلے مگر بات کوئی اور ہی تھی

رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا۔

چاند کے آنے پہ سائے آئے۔

اس کے بکھرے ہوئے گیسو سائے،

لاج کی میٹھی جھجک بھی سایہ،

اور بھی سائے تھے۔۔ ہلکے،  گہرے،

کالی آنکھوں کی گھنیری پلکیں

اپنے آغوش میں سایوں کو لیے بیٹھی تھیں،

اور ان سایوں میں محسوس ہوا کرتا تھا

دل کا غم،  دل کی خلش،  دل کی تمنّا۔۔ ہر شئے

ایک سایہ ہے،  لرزتا سایہ۔

اور مجھے دیکھنے پر اس کی گھنیری چپ چاپ

ایک ہی سایہ نظر آتی تھی

ایسا اک سایہ جو خاموش رہا کرتا ہو،

اور اسے دیکھتے ہی میں بھی تو اک سایہ ہی بن جاتا تھا،۔۔

سایہ خاموش رہا کرتا ہے

اور اک لرزشِ بے تاب کے ہونے پہ بھی خاموشی ہی

راہ میں میری عناں گیر ہوا کرتی تھی۔

سیدھا جاتا ہوا رستہ بھی تو اک سایہ تھا

اس پہ آتے ہوئے جاتے ہوئے انسان۔۔ تمام

دھندلے سائے تھے،  مگر سائے تھے،

میں بھی جاتا ہوا،  آتا ہوا اک سایہ تھا،

میں بھی اک سایہ تھا ؟۔۔ کس کا سایہ ؟

کس کے قدموں سے لپٹتے ہوئے چپ چاپ چلا جاتا تھا ؟

کہہ تو دوں،۔۔ دل میں یہ غمناک خیال آتا ہے

سایہ خاموش رہا کرتا ہے۔

رات کے سائے ہی خاموش رہا کرتے ہیں

دن کے سائے تو کہا کرتے ہیں

بیتی لذّت کی کہانی سب سے

اور مری ہستی بھی اب دن کا ہی اک سایہ ہے

جس کے ہر ایک کنارے کو شعاعِ سوزاں

اپنی شدّت سے جلانے پہ،  مٹانے پہ تلی بیٹھی ہے

کاش آ جائے گھٹا،  چھا جائے گھٹا۔۔ اور بن جائے

چڑھتے سورج کا زوال۔

چڑھتا سورج یہ بتا دیتا ہے

بڑھتے سائے ہیں کسی کے غمّاز،

بیتے بہتے یہ کہے جاتے ہیں۔

رات کے جاگے ہوئے سوئے ہوئے اٹھّے ہیں

دھوپ کھاتے ہوئے لٹکے لٹکے

جب کوئی پیرہنِ آویزاں

ایک جھونکے سے لرز اٹھتا ہے

ہمنوائی کو لرزتا ہوا سایہ کہے جاتا ہے

بیتی لذّت کی کہانے سب سے۔

بیتی لذت بھی مرے واسطے اک سایہ ہے

کسی سورج کے تلے آتے ہوئے بادل کا

سرسراتے ہوئے جھونکے کی طرح آتا ہوا، جاتا ہوا

باتیں کرنے کو وہ اک پل بھی نہیں رکتا تھا۔

دن کا سایہ تھا اسے رات کی اک بات بھی معلوم نہ تھی

رات اک بات ہے صدیوں کی،  کئی صدیوں کی

اور اب دن ہے۔۔ مجھے سائے نظر آتے ہیں

بولتے سائے نظر آتے ہیں،

جانے پہچانے ہیں،  پھر بھی نئے مفہوم سجھاتے ہیں،  سجھاتے ہی چلے جاتے ہیں

پھر پلٹ آتے ہیں،

جیسے میں جاتا تھا اور جا کے پلٹ آتا تھا

اسی رستے پہ جو اک سایہ تھا۔

راستہ آج بھی سایہ ہے مگر ایک نیا سایہ ہے،

راہ میں ایک مکان،

وہ بھی سایہ ہے اداسی کا،  گھنیرا سنسان،

راہ میں آتی ہوئی ہر مورت

ایک سایہ ہے۔۔ چڑیل،

حور کا اس میں کوئی عکس نظر آتا نہیں،

دیکھتے ہی جسے میں کانپ اٹھا کرتا ہوں،

آنکھوں میں خون اتر آتا ہے

سامنے دھند سی چھا جاتی ہے

دل دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے

اور میں دیکھتا ہوں

سائے ملتے ہوئے،  گھُلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں،

ہنہناتے ہوئے ہنستے ہیں،  پکار اٹھتے ہیں

دل میں کیا دھیان یہی ہے اب بھی

سایہ خاموش رہا کرتا ہے،

دیکھ ہم بولتے ہیں،  بولتے سائے ہیں تمام،

ہم سے بچ کر تو کہاں جائے گا ؟

اور میں کانپ اٹھا کرتا ہوں

اور وہ بولتے ہیں

کانپ اٹّھا ہے،  لرزتا ہے یہ بزدل،  ناکام،

بات کرتا ہی نہیں ہے کوئی،

اب بھی شاید یہ سمجھتا ہے لرزتے دل میں

سایہ خاموش رہا کرتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کلرک کا نغمۂ محبت

 

سب رات مری سپنوں میں گذر جاتی ہے اور میں سوتا ہوں

پھر صبح کی دیوی آتی ہے،

اپنے بستر سے اٹھتا ہوں،  مُنہ دھوتا ہوں،

لایا کل جو ڈبل روٹی

اس میں سے آدھی کھائی تھی

باقی جو بچی وہ میرا آج کا ناشتہ ہے،

دنیا کے رنگ انوکھے ہیں

جو میرے سامنے رہتا ہے اس کے گھر میں گھر والی ہے،

اور دائیں پہلو میں اک منزل کا ہے مکاں،  وہ خالی ہے،

اور بائیں جانب اک عیّاش ہے جس کے ہاں اک داشتہ ہے،

اور ان سب میں اک میں بھی ہوں لیکن بس تو ہی نہیں،

ہیں تو اور سب آرام مجھے،  اک گیسوؤں کی خوشبو ہی نہیں،

فارغ ہوتا ہوں ناشتے سے اور اپنے گھر سے نکلتا ہوں

دفتر کی راہ پہ چلتا ہوں،

رستے میں شہر کی رونق ہے،  اک تانگہ ہے،  دو کاریں ہیں،

بچّے مکتب کو جاتے ہیں،  اور تانگوں کی کیا بات کہوں ؟

کاریں تو چھچھلتی بجلی ہیں،  تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں ؟

یہ مانا ان میں شریفوں کے گھر کی دولت ہے،  مایا ہے،

کچھ شوخ بھی ہیں،  معصوم بھی ہیں،

لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بدقسمت مغموم بھی ہیں،

تانگوں پر برقِ تبسّم ہے،

باتوں کا میٹھا ترنّم ہے،

اکساتا ہے دھیان یہ رہ رہ کر،  قدرت کے دل میں ترحّم ہے ؟

ہر چیز تو ہے موجود یہاں اک تو ہی نہیں اک تو ہی نہیں،

اور میری آنکھوں میں رونے کی ہمّت ہی نہیں،  آنسو ہی نہیں !

جوں توں رستہ کٹ جاتا ہے اور بندی خانہ آتا ہے،

چل کام میں اپنے دل کو لگا یوں کوئی مجھے سمجھاتا ہے،

میں دھیرے دھیرے دفتر میں اپنے دل کو لے جاتا ہوں،

نادان ہے دل،  مورکھ بچّہ۔۔ اک اور طرح دے جاتا ہوں،

پھر کام کا دریا بہتا ہے اور ہوش مجھے کب رہتا ہے،

جب آدھا دن ڈھل جاتا ہے تو گھر سے افسر آتا ہے

اور اپنے کمرے میں مجھ کو چپراسی سے بلواتا ہے،

یوں کہتا ہے،  دوں کہتا ہے،  لیکن بے کار ہی رہتا ہے،

میں اس کی ایسی باتوں سے تھک جاتا ہوں،  تھک جاتا ہوں،

پل بھر کے لیے اپنے کمرے کو فائل لینے آتا ہوں،

اور دل میں آگ سلگتی ہے،  میں بھی جو کوئی افسر ہوتا

اس شہر کی دھول اور گلیوں سے کچھ دور مرا پھر گھر ہوتا،

اور تو ہوتی !

لیکن میں اک منشی ہوں تو اونچے گھر کی رانی ہے

یہ میری پریم کہانی ہے اور دھرتی سے بھی پرانی ہے !

٭٭٭

 

 

 

 

سرسراہٹ

 

یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں ؟

یہ لہریں ہیں بہی جاتی ہیں اور مجھ کو بہاتی ہیں

یہ موجِ بادہ ہیں ساغر کی،  خوابیدہ فضا دل میں

اچانک جاگ اٹھتی ہے،

حقیقت کے جہاں سے کوئی اس دنیا میں در آئے

تو اس کے ہونٹ متبسّم شاید قہقہہ اٹھ کر

مرے دل کو جکڑ لے اپنے ہاتھوں سے،

مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ لہریں ابھی تک ساحلی منظر سے ناواقف ہیں یوں ہی

اک بہانہ کر رہی ہیں،  اک بہانہ کس کو کہتے ہیں

بہانے ہی بہانے ہیں،

بڑھا کر رکھ دیا لہروں پہ میں نے ہاتھ۔۔ مرا ہاتھ اک کشتی کی مانند ایک موجِ تند

کی افتاد کے جلوے کو مرے سامنے لا کر

ہوا ہے گم،

یہ سب موجِ تخیل کی روانی تھی․․․

مگر میں سوچتا ہوں بات جو کہنے کی تھی میں نے نہ کیوں پہلے ہی کہہ دی۔۔

وقت کا بے فائدہ مصرف

ہر اک پوشیدہ منظر کو

اگل ڈالے گا،  اک لمحہ وہ آئے گا

کہ جب اس بات کے سننے پہ سننے والے سوچیں گے

بہانہ کیا تھا ؟ سلوٹ کیا تھی،  موجِ بادہ بھی کیا تھی۔

مگر شب کی اندھیری خلوتِ گمنام کے پردے میں کھو کر ان کو یہ معلوم ہو جائے گا

اک پل میں

اور اک لذت کے کیفِ مختصر میں کھو کے وہ بے ساختہ یہ بات کہہ اٹھیں گے :

’’کیا مجھ کو اجازت ہے۔ ‘‘

’’یہاں ان سلوٹوں پر ہاتھ رکھ دوں ؟‘‘۔۔ یہ جھجک کیسی ؟

یہ لہریں ہیں،  انہیں نسبت ہے کالی رات کے غمناک دریا سے

جو بہتا ہی چلا جاتا ہے،  رکتا ہی نہیں پل کو

جسے کچھ بھی غرض اس سے نہیں میں ہاتھ رکھوں یا جھجک اس ہاتھ کو میرے کلیجے

سے لگا دے،  اور میں سوجاؤں ان لہروں کے بستر میں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نادان

 

یہ کیسے منظر ہیں،  کیسی باتیں ہیں مجھ سے جو کہنا چاہتی ہو ؟

سرود میں سنے ہیں پیڑوں کی ٹہنیوں سے

لچکتے نغمے،

فلک پہ بہتے ہیں بادلوں کے جو ننھے ٹکڑے

پھسلتے مغمے،

ہوا کے جھونکوں سے میرے کانوں نے سن رکھے ہیں

مچلتے نغمے،

مگر مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔

ہوا سے بادل کے چند ٹکڑے بہے چلے جا رہے تھے،  میں نے

اُنہیں جو دیکھا تو میرے دل میں جھجکتی آشا نے آہ بھر کر

کہا کہ یہ کیسی بات مجھ سے کہے چلے جا رہا ہے بادل ؟

مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آ ئی۔

مری نگاہوں نے شرم سے جھُک کر دیکھا بہتی ہے ایک ندّی

اور اس میں لہریں اور اس میں کچھ بلبلے سناتے ہیں اک اچھوتا،  عجیب نغمہ،

سرود میں نے سنے تھے پتّوں سے،  شاخ سے،  ابر سے،  ہوا سے

مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔

میں تنگ آ کر اُٹھا اور اُٹھ کر چلا،  اسی غم کدے میں پہنچا

مجھے جو لے کر گیا تھا ندّی کی پھیلی پھیلی کھلی فضا میں

مگر وہاں بھی وہی تھے بادل سیاہ،  تاریک،  چُپ ہٹیلے

وہاں تھیں لہریں اداس باتوں کی،  بلبلے تھے،  کسی میں کوئی

نہ تھا دھندلکا،

مگر مجھے کچھ سمجھ نہ آئی۔

میں دیکھ کر ان کو پوچھتا ہی رہا کہ آخر یہ بھید کیا ہے

یہ کیسی منظر ہیں،  کیسی باتیں ہیں،  مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

محرومی

 

میں کہتا ہوں تم سے اگر شام کو بھول کر بھی کسی نے کبھی کوئی دھندلا ستارہ نہ دیکھا،

تو اس پر تعجب نہیں ہے،  نہ ہو گا

ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی ظاہرا بے ضرر،  شوخ ناگن،

ابھرتے ہوئے اور لچکتے ہوئے اور مچلتے ہوئے کہتی جاتی ہے آؤ مجھے دیکھو میں  نے تمہارے لیے ایک رنگین محفل جمائی ہوئی ہے،

انوکھا سا ایوان ہے،  ہر طرف جس میں پردے گرے ہیں،  وہیں جو بھی ہو اس کو

کوئی نہیں دیکھ سکتا

تہیں اس کے پردوں کی ایسے لچکتی چلی جاتی ہیں جیسے پھیلی ہوئی سطح دریا نے اٹھ

کر دھندلکے کی مانند پنہاں کیا ہو فضا کو نظر سے

ذرا دیکھو،  چھت پر لٹکتے ہیں فانوس،  اپنی ہر ایک نیم روشن کرن سے سُجھاتے ہیں

اک بھید کی بات کا گیت جس میں مسہری کے آغوش کی لرزشیں ہوں،

ستونوں کے پیچھے سے آہستہ آہستہ،  رکتا ہوا،  اور جھجکتا ہوا چور سایہ یہی کہہ رہا

ہے،  وہ آئے،  وہ آئے،

ابھی ایک پل میں اچانک،  یوں ہی جگمگانے لگے گا یہ ایوان یکسر،

ہر اک چیز کیسے قرینے سے رکھی ہوئی ہے

میں کہتی ہوں مانو، چلو۔۔ آؤ محفل سجی ہے،

تم آؤ تو گونج اٹھے شہنائی،  دالان میں آنے جانے کی آہٹ سے ہنگامہ پیدا ہوا

ہو،  لیکن مسہری کے آغوش کی لرزشوں میں تمہیں اس کا احساس بھی ہونے پائے

تو ذمّہ ہے میرا،

ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے موج بے تاب اس کو خبر بھی نہ ہو گی کہ اک

شاخِ نازک نے بیباک جھونکے سے ٹکرا کے آہیں بھری تھیں،

مگر میں یہ کہتا ہوں تم سے اگر شام کو بھول کر بھی کسی نہ کبھی کوئی دھندلا ستارہ نہ  دیکھا تو اس پر تعجب نہیں ہے

ازل سے اسی ڈھب کی پابند ہے شام کی شوخ ناگن

یہ ڈستی ہے،  ڈستے ہوئے کہتی جاتی ہے۔۔ جاؤ اگر تم جھجکتے رہو گے تو ہر لمحہ  یکساں روش سے گزر جائے گا اور تم دیکھتے ہی رہو گے اکیلے اکیلے

تمہیں دائیں بائیں،  تمہیں سامنے کچھ سجھائی نہ دے گا، فقط سرد دیواریں ہنستی رہیں گی،

مگر ان کا ہنسنا بھی آہستہ آہستہ بیتے زمانے کی مانند اک دور کی بات معلوم ہونے لگے گی،

دھندلکے میں ڈوبی ہوئی آنکھ دیکھے گی روزن سے دور اک ستارہ نظر آ رہا ہے،

مگر چھت پہ فانوس کا کوئی جھولا نہ ہو گا،

شکستہ،  فتادہ ستونوں کی مانند فرشِ حزیں پر تمہارا وہ سایہ تڑپتا رہے گا

جسے یہ تمنّا تھی ․․ کہہ دوں ․․․ تمنّا کیا تھی ؟

بس اپنی غمناک باتوں کو اپنے ابھرتے ہوئے اور بدلتے ہوئے رنگ میں تو  چھپا لے،

میں اب مانتا ہوں کہ تو نے روانی میں اپنی بہت دور روزن سے دھندلے  ستارے بھی دیکھے ہیں لاکھوں،

میں اب مانتا ہوں مری آنکھ میں ایک آنسو جھلکتا چلا جا رہا ہے،  ٹپکتا نہیں ہے،

میں اب مانتا ہوں مجھے دائیں بائیں،  مجھے سامنے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے

فقط سرد دیواریں ہنستی چلی جا رہی ہیں،

میں اب مانتا ہوں کہ میں نے اس ایوان کو آج تک اپنے خوابوں میں دیکھا ہے  لیکن وہاں کوئی بھی چیز ایسے قرینے سے رکھی نہیں ہے،  کہ جیسے بتایا ہے تو نے تری ایک رنگین محفل سجی ہے،

مسہری کے آغوش کی لرزشوں کا مجھے خواب بھی اب نہ آئے گا،  میں اپنے کانوں سے کیسے سنوں گا،  وہ شہنائی کی گونج،  سیندور کا سرخ نغمہ،  جسے سن کے دالان میں آنے جانے کی آہٹ سے ہنگامہ ہو جاتا ہے ایک پل کو،

مجھے تو فقط سرد دیواریں ہنستی سنائی دئیے جا رہی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

جاتری

 

ایک آ گیا، دوسرا آئے گا، دیر سے دیکھتا ہوں یوں ہی رات اس کی گزر جائے گی، میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے،  مجھ کو کیا کام ہے،  یاد آتا نہیں،  یاد بھی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی ہے،  جس کی رکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہہ ہے،  مگر میرے کانوں نے کیسے اسے سن لیا۔۔ ایک آندھی چلی، چل کے مٹ بھی گئی، آج تک میرے کانوں میں موجود ہے سائیں سائیں مچلتی ہوئی اور ابلتی ہوئی، پھیلتی پھیلتی،۔۔ دیر سے میں کھڑا ہوں یہاں،  ایک آیا،  گیا،  دوسرا آئے گا، رات اس کی گزر جائے گی،  ایک ہنگامہ برپا ہے دیکھیں جدھر، آ رہے ہیں کئی لوگ چلتے ہوئے،  آ رہے جا رہے ہیں اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر۔۔ جیسے دل میں مرے دھیان کی لہر سے ایک طوفان ہے ویسے آنکھیں مری دیکھتی ہی چلی جا رہی ہیں کہ اک ٹمٹماتے دئیے کی کرن زندگی کو پھلستے ہوئے اور گرتے ہوئے ڈھب سے ظاہر کیے جا رہی ہے،  مجھے دھیان آتا ہے اب تیرگی اک اجالا بنی ہے۔ مگر اس اجالے سے رستی چلی جا رہی ہیں وہ امرت کی بوندیں جنہیں میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہا ہوں،  ہتھیلی مگر ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی تھی، لپک سے اجالا ہوا، لو گری، پھر اندھیرا سا چھانے لگا،  بیٹھتا بیٹھتا، بیٹھ کر ایک ہی پل میں اٹھتا ہوا، جیسے آندھی کے تیکھے تھپیڑوں سے دروازے کے طاق کھلتے رہیں،  پھڑپھڑاتے ہوئے طائرِ زخمِ خوردہ کی مانند میں دیکھتا ہی رہا ایک آیا، گیا، ․․․ دوسرا آئے گا، سوچ آئی مجھے،  پاؤں بڑھنے سے انکار کرتے گئے،  میں کھڑا ہی رہا، دل میں اک بوند نے یہ کہا رات یونہی گزر جائے گی، دل کی اک بوند کو آنکھ میں لے کے میں دیکھتا ہی رہا، پھڑ پھڑاتے ہوئے طائرِ احساس زخم خوردہ کی مانند دروازے کے طاق اک بار جب مل گئے،  مجھ کو آہستہ آہستہ احساس ہونے لگا۔۔ اب یہ زخمی پرندہ نہ تڑپے گا لیکن مرے دل کو ہر وقت تڑپائے گا، میں ہتھیلی پہ اپنی سنبھالے رہوں گا وہ امرت کی بوندیں جنہیں آنکھ سے میری رسنا تھا، لیکن مری زندگی ٹمٹماتا ہوا اک دیا بن گئی، جس کی رکتی ہوئی اور جھجکتی ہوئی ہر کرن بے صدا قہقہ ہے کہ اس تیرگی میں کوئی بات ایسی نہیں،  جس کو پہلے اندھیرے میں دیکھا ہو میں نے،  سفر یہ اجالے،  اندھیرے کا چلتا رہا ہے۔۔ تو چلتا رہے گا، یہی رسم ہے راہ کی ایک آیا، گیا، دوسرا آئے گا، رات ایسے گزر جائے گی، ٹمٹماتے ستارے بتاتے تھے۔ رستہ کی ندّی بہی جا رہی ہے،  بہے جا، اس الجھن سے ایسے نکل جا، کوئی سیدھا منزل پہ جاتا تھا لیکن کئی قافلے بھول جاتے تھے انجم کے دور یگانہ کے مبہم اشارے مگر وہ بھی چلتے ہوئے اور بڑھتے ہوئے شام سے پہلے ہی دیکھ لیتے تھے۔ مقصود کا بند دروازہ کھلنے لگا، مگر میں کھڑا ہوں یہاں،  مجھ کو کیا کام ہے،  میرا دروازہ کھلتا نہیں ہے،  مجھے پھیلے صحرا کی سوئی ہوئی ریگ کا ذرّہ ذرّہ یہی کہہ رہا ہے کہ ایسے خرابے میں سوکھی ہتھیلی ہے اک ایسا تلوا کہ جس کو کسی خار کی نوک چبھنے پہ بھی کہہ نہیں سکتی مجھ کو کوئی بوند اپنے لہوکی پلا دو، مگر میں کھڑا ہوں یہاں کس لئے ؟ کام کوئی نہیں ہے تو میں بھی ان آتے ہوئے اور جاتے ہوئے ایک دو تین۔۔ لاکھوں بگولوں میں مل کر یونہی چلتے چلتے کہیں ڈوب جاتا کہ جیسے یہاں بہتی لہروں میں کشتی ہر اک موج کو تھام کر لیتی ہے اپنی ہتھیلی کے پھیلے کنول میں،  مجھے دھیان آتا نہیں ہے کہ اس راہ میں تو ہر اک جانے والے کے بس میں ہے منزل، میں چل دوں،  چلوں۔۔ آئیے آئیے،  آپ کیوں اس جگہ ایسے چپ چاپ، تنہا کھڑے ہیں،  اگر آپ کہئے تو ہم اک اچھوتی سی ٹہنی سے دو پھول۔۔ بس بس مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے،  میں اک دوست کا راستہ دیکھتا ہوں۔۔ مگر وہ چلا بھی گیا ہے،  مجھے پھر بھی تسکین آتی نہیں ہے کہ میں ایک صحرا کا باشندہ معلوم ہونے لگا ہوں خود اپنی نظر میں۔ مجھے اب کوئی بند دروازہ کھلتا نظر آئے۔ یہ بات ممکن نہیں ہے،  میں ایک اور آندھی کا مشتاق ہوں جو مجھے اپنے پردے میں یکسر چھپا لے،  مجھے اب یہ محسوس ہونے لگا ہے سہانا سماں جتنا بس میں تھا میرے وہ سب بہتا سا ایک جھونکا بنا ہے جسے ہاتھ میرے نہیں روک سکتے کہ میری ہتھیلی میں امرت کی بوندیں تو باقی نہیں ہیں،  فقط ایک پھیلا ہوا، خشک، بے برگ، بے رنگ صحرا ہے جس میں یہ ممکن نہیں میں کہوں۔۔ ایک آیا، گیا، دوسرا آئے گا، رات میری گزر جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

رخصت

 

ہاں یہ مانا کہ بہت دور تھا لیکن اکثر

سوچتے سوچتے ہی راستہ کٹ جاتا تھا،

شہر کے قرب و جوار

گویا اک آنکھ جھپکتے میں نہاں ہوتے تھے،

سامنے مجھ کو نظر آتا تھا

ایک ویران محل،

یوں ہی بے دھیانی میں چوکھٹ بھی نکل جاتی تھی،

وہی چوکھٹ جسے لاکھوں پاؤں

(ہاتھ کے بل پہ ہمیشہ چھُپ کر)

روندتے روندتے اس حال میں لے آئے تھے،

ٹوٹے دروازے کے سب نقش و نگار

کچھ تو بوسیدہ تھے،  اور باقی مری آنکھوں کو

اتفاقاً ہی نظر آئے تھے،

جیسے چلتے ہوئے۔۔ رستے میں پھسل کر کوئی

بے چلے راہ پہ کچھ دور نکل آتا ہے

میں بھی دروازے سے،  چوکھٹ سے گزر جاتا تھا،

جیسے ساون میں کسی ڈال پہ کوئی گرگٹ

دیکھتے دیکھتے میں رنگ بدل جاتا ہے،

ایک ہی وقت میں،  اک لمحہ میں،

یونہی ایوان بھی لیٹا ہوا،  بیٹھا ہوا استادہ نظر آتا تھا،

راہ تکتے ہوئے چپ چاپ۔۔ نگاہیں اس کی

مجھ کو بے رنگ جھروکوں سے نکلتی ہوئی کرنوں کی طرح

بھولی یادوں سے ملا دیتی تھیں

بھولی یادیں جو پھسلتے ہوئے ملبوس کی مانند نئی باتوں کو لے آتی ہیں،

کبھی للچاتی ہوئی اور کبھی شرماتے ہوئے قلب کو گرماتی ہوئی

آپ ہی آپ میں بہتے ہوئے دھارے کی طرح

اپنے پاؤں کو بڑھا لیتا تھا،

آپ ہی آپ میں رستی ہوئی بوندوں کی طرح

سوچتے سوچتے رک جاتا تھا

آپ ہی آپ ابلتی ہوئی چشمِ نمناک

یار کے دامنِ بوسیدہ سے

خشک ہونے کے لیے پل کو لپٹ جاتی تھی،

آپ ہی آپ میں اڑتے ہوئے طائر کی طرح

بہتے بہتے کسی ٹہنی پہ بسیرا لے کر

جھولتی ٹہنی سے لپٹی ہوئی،  پھیلی ہوئی،  بے جان زمیں کے اوپر

اپنی ہستی کو گرا دیتا تھا،

اور گرتے ہی نظر آتا تھا،

ایک ویران محل،

جس کی چوکھٹ کو مرے ہاتھوں کے ناخن ہر دم

چھیلنے کے لیے بے تاب رہا کرتے تھے

جیسے یوں چھیلنے سے منظرِ بوسیدہ پر

کچھ نئے نقش ابھر آئیں گے !

اب سمجھتا ہوں کہ یوں بات نہیں بنتی ہے،

آپ ہی آپ کوئی بات کبھی بن بھی سکی؟

آپ ہی آپ کلی کھلتی ہے

اس کی صورت بھی بگڑ جاتی ہے،

آپ ہی آپ زمیں ہلتی ہے

اس کی صورت ہی بگڑ جاتی ہے،

آپ ہی آپ گھٹا چھاتی ہے

آسماں صاف نظر آتا نہیں

آپ ہی آپ چلی آتی ہے اندھی آندھی

اور پھر منظرِ بوسیدہ ابھر آتا ہے،

آپ ہی آپ کوئی بات کبھی بن بھی سکی ؟

اب سمجھتا ہوں کہ یوں بات نہیں بنتی ہے،

آپ ہی آپ میں شرمندہ ہوا کرتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

آخری عورت

 

ہجوم دائیں بائیں، سامنے دکھائی دے تو مجھ کو ایک پر شکوہ سیل کا فسانہ یاد آتا ہے

میں بھول جاتا ہوں کہ کون ہوں،  میں بھول جاتا ہوں یہ کون ہیں،

میں بھول جاتا ہوں کہ ایک دن تھا ایک رات تھی کبھی،

میں بھول جاتا ہوں ہوئے شوق نے مجھے

دکھایا تھا وہ جلوہ جس کو دیکھ کر

بس ایک گردشِ نگاہ میں

بدل گیا وہ رنگ پہلے گیت کا،

بدل گیا وہ نقش،  خام تھا،

اسے ذرا خبر نہ تھی کہ نقش مٹنے پر جب آئے ایک پل میں مٹتا ہے،

بدل گیا سپیدۂ سحر،  سیاہ رات آ گئی،

ستارے چاند ایک ایک کر کے جاگ اُٹھے گہری نیند سے،

چمک نگاہ کی نہ تھی وہ گیسوئے شبانہ ہی کا عکس تھا،

وہ سیمگوں لباس کب تھا سیلِ موجِ نور تھا،

وہ گال پر حیا کی سرخ لرزشیں نہ تھیں، وہ اک اشارہ تھا

کہ اک حقیقت آج بن کے آئی ہے نظر۔۔

جو لہر اب تک عاجزانہ دھیان ہی کی بات تھی،

کبھی ․․․ تو سوچ آئی ہو گی،۔۔ کیا کبھی نہیں ؟

کبھی بھی اک ہجوم دائیں بائیں،  سامنے دکھائی دے کے ایک مٹتے نقش کی طرح خمِ مکاں میں آج تک چھُپا نہ تھا،

ہمیشہ چاند بھی،  ستارے بھی چمکتے تھے،

ہمیشہ اک سیاہ رات پھیل کر چھپاتی تھی نگاہ سے وہ سیمگوں لباس جس کو سیلِ موجِ نور کہہ رہا ہوں میں،

ہمیشہ گال پر حیا کا اک اشارہ اپنے رنگ کو

چھپائے رکھتا تھا لرزتے گیت کی ہی تان میں،

میں بھول جاتا تھا کہ میں کون ہوں،  میں بھول جاتا تھا وہ کون ہے،

میں بھول جاتا تھا کہ ایک دن میں،  ایک رات میں،

ہوائے شوق مجھ کو تیرتے ہوئے اِسی محل میں لے کے آئے گی

جہاں میں آج منتظر تھا اور تو درِ کشا دہ سے نکل کے ایسے آ گئی،

کہ جیسے چاند اور ستارے ایک ایک کر کے جاگ اٹھیں اپنی گہری نیند سے،

بدلنے کو اب یہ نقش نو،  جو خام تو نہیں مگر،

اسے بھی کچھ خبر نہیں،

کہ نقش مٹنے پر جب آئے ایک پل میں مٹتا ہے،

سفیدۂ سحر سیاہ رات کو شبانہ گیسوؤں سے دور کر کے بھول جاتا ہے۔

کوئی ستارہ،  کوئی چاند پھر خمِ مکاں سے آنے پائے،  یہ سنا نہیں،

سنے ہیں دل نے پر شکوہ سیل کے فسانے لیکن ان میں کوئی ایسی بات تھی کبھی

یہ مجھ کو یاد ہی نہیں۔ میں ہوں وہی

جسے ہجوم دائیں بائیں،  سامنے دکھائی دے تو ایک پر شکوہ سیل کا فسانہ یاد آتا ہی

ہجوم کب ہے،  پیرہن کی سلوٹیں ہیں،  رفتہ رفتہ یہ بکھر ہی جائیں گی،

ہجوم کب ہے گال پر حیا کا اک اشارہ اپنے رنگ سے

سجھاتا ہے وہ بات جس کو بھول کر

مجھے سفیدۂ سحر

یہ کہتا ہے کہ پہلا نقش خام تھا،  اسے خبر نہ تھی ذرا،

کہ نقش مٹنے پر جب آئے ایک پل میں مٹتا ہے،

اسے خبر نہ تھی ہمیشہ چاند بھی،  ستارے بھی چمکتے ہیں،

اسے خبر نہ تھی کہ اک سیاہ رات پھیل کر

وہی محل دکھاتی ہے،

جہاں درِ کشادہ سے تو اک ہجوم پیرہن کی سلوٹوں کا،  گیسوؤں کا اپنے ساتھ لے کے ایسے آئی ہے

کہ جیسے جانتی نہیں،

کہ نقشِ نو بھی مٹنے پر جب آئے ایک پل میں مٹتا ہے،

خمِ مکاں،  رمِ زماں پھر اس کو روک سکتے ہی نہیں کبھی،

فقط سفیدۂ سحر درِ کشادہ بند کر کے چاند کو،  ستاروں کو چھپاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

دھوکا

 

ا تھاہ کائنات کے خیال کو غلط سمجھ رہے ہیں ہم ستاروں کی مثال سے،

ا تھاہ کائنات اک کنواں نہیں،  یہ بحر ہے،

ستارے کیا ہیں،  کچھ نہیں،  یہ جگنوؤں کی طرح اب چمک رہے ہیں،  ایک پل میں ماند ہو کے راکھ بن ہی جائیں گے

ا تھاہ کائنات پھر بھی جیسے اب ہے ویسے ہی دکھائی دیتی جائے گی،

ا تھاہ کائنات کون،  میں کہ تم،  تمہیں تو ہو،

تمہیں تو اپنے نیلگوں دوپٹّے کو ستاروں سے سجا کے،  شب کی تیرگی کو آنکھ سے چھپا کے آج آئی ہو،

مگر مجھے تو شب کی تیرگی میں لطف آتا ہے ا تھاہ کائنات کا،

اتار دو،  اتار دو،  دوپٹے کو اتار دو،  مجھے پسند ہے مگر ابھی نہیں،

ابھی تو رات اپنی ہے،  ابھی ہزار بار ایسے لمحے آئیں گے کہ تم

دوپٹّے سے ا تھاہ کائنات کو چھپاؤ گی،

جو شامیانہ کٹ گیا تو پردۂ درِ سکوں بھی ہٹ گیا،

مگر ہیں پھر بھی،  سلوٹیں ہی سلوٹیں

لو دیکھنا،  یہ چاند ایک پھاٹک بن کے یوں لٹک رہا ہے جیسے اس کو بھید کی خبر نہیں کوئی،

مگر تمہیں تو علم ہے،  تمہیں سہیلیوں نے کچھ اشاروں میں کہا تو ہو گا، مان جاؤ، مان لو،

نہیں ؟۔ تو پھر یہ چپ لگی ہوئی ہے کیوں ؟

یہ چپ تو مجھ سے کہہ رہی ہے جانتے ہیں،  آج ہی کی راہ دیکھتے تھے ہم،

سمجھ گیا ا تھاہ کائنات اک کنواں نہیں،  یہ بحر ہے،

ہزاروں بھید اس کی سلوٹوں میں ہیں نہاں مگر

یہ ایسے ہے پڑی ہوئی کہ جیسے کوئی بات جانتی نہیں۔

تو پھر بڑھیں مرے قدم،

بڑھے قدم،  مگر یہ کیا،  ا تھاہ کائنات ہے اک کنواں،  نہیں،  یہ بحر ہے،

ا تھاہ کائنات کے خیال کو غلط سمجھ رہے تھے ہم ستاروں کی مثال سے،

مگر جو سلوٹیں کھلیں تو کھلتی ہی چلی گئیں،

سہیلیوں کا ذکر کیا،  سہیلیوں سے پہلے ہی تمہیں ہر ایک بھید کی خبر ہوئی۔

٭٭٭

 

 

 

 

تفاوتِ راہ

 

 

اس زمانے میں کہ جنگل تھا یہ باغ

گلّے بانوں نے ستاروں سے لگایا تھا سراغ

بھولے رستوں کا جو بے دھیانی میں کھو جاتے ہیں،

ویسے ہی باغ مرا جب سے بنا ہے جنگل

ایک اک لمحہ ستاروں کا ہی دھیان آتا ہے،

ہر ستارہ مجھے لے جاتا ہے

اسی چوپال کے بے نام کنارے کی طرف

جس میں بیٹھے ہوئے انسان،  یونہی بے مصرف

میری ناکامی،  ترے نام کی رسوائی سے

تلخ باتوں میں ہر اک رات بسر کرتے ہیں۔

بھولا رستہ کسی کشتی کی طرح سطح پہ اک پل میں ابھر آتا ہے

آنکھ میں اشک جھلکتے ہیں مگر اشکوں میں

وہ چمن اور وہ مکاں اور وہ روزن تینوں

گھلتے رنگوں کی طرح عکس بنا کرتے ہیں

ایک انسان کا جو تقدیر کی بے راہی سے

کبھی مالی،  کبھی عاشق تھا، کبھی دیہاتی

گلّے بانی میں جسے یاد جب آئے ماضی

بنسری اپنی بجاتے ہوئے رو دیتا ہے

جیسے رستوں میں کوئی ہاتھ میں دو شمعوں کو

لیے جاتا ہو شبِ ماہ کی طغیانی میں

اور زمیں سینے پہ اک شخص کے،  اک رہرو کے

تین سایوں سے ڈری جاتی ہو۔ سہمی سہمی

اس کے ہر بڑھتے قدم کو دل میں

جان کر اپنی رہائی کا ثبوت

یہ سمجھتی ہو ابھی دور چلا جائے گا

اور پھر خوف سے حیران نگاہوں کو فقط

چاند ہی چاند نظر آئے گا،

اس طرح تو نے بھی سوچا ہو گا :

راہرو پاؤں سے جو دھول کے ذرّے مجھ پر

پھینکتے پھینکتے بڑھتے ہی چلا جاتا ہے

انہیں سیندور کی سرخی سے مٹا ڈالوں گی

اور پھر دودھ کے دریا میں نہا کر یکسر

سینۂ صاف کی مانند نظر آؤں گی !

گلّے بانوں نے ستاروں سے لگایا تھا سراغ،

راستہ ملتا نہیں مجھ کو ستارے تو نظر آتے ہیں،

پیرہن رنگِ گلِ تازہ سے یاد آتا ہے

اور زر کار نقوش

اک نئی صبحِ حقیقت کا پتا دیتے ہیں،

کبھی ڈھولک کبھی شہنائی کی آواز سنا دیتے ہیں،

زینے کی بھول بھلیّاں اسی آواز میں کھو جاتی ہے،

ہاتھ میں تھامی ہوئی شمعیں بھی بجھ جاتی ہیں،

ساتھ کے باغ کی ہر صاف روش بھولا ہوا راستہ بن جاتی ہے،

اور شہنائی پھر اک سانپ نظر آتی ہے،

ڈستی جاتی ہے،  کہے جاتی ہے،

گلّے بانوں نے ستاروں سے لگایا تھا سراغ

کیوں بہن،  ہم نے سنا تھا کہ دلہن کی آنکھیں،

آنکھ بھر کر نہیں دیکھی جاتیں ؟

اور کہتی ہے بہن

میرے بھیّا کو بڑا چاؤ ہے۔ کیوں پوچھتا ہے ؟

اب تو دوچار ہی دن میں وہ ترے گھر ہو گی۔

کس کا گھر،  کس کی دلہن،  کس کی بہن۔ کون کہے

میں کہے دیتا ہوں،  میں کہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں !

٭٭٭

 

 

 

 

 

جہالت

 

جبڑا بندر کا مداری کے تماشے میں کبھی دیکھا ہے ؟

کچھ بناوٹ ہی کڈھب ہوتی ہے،  کچھ اس کی شرارت،  کر تب

منہ چڑھاتے ہوئے رسّی کو یونہی ہاتھ میں بل دے کے پھدکتے جانا !

ڈگڈگی پر بھی مداری جو بٹھا دے تو اچھل کر یکبار

کسی بچّے کی طرف ایسے لپکنا کی اسے کاٹ ہی کھائے گا ابھی،

اور پھر بچے کا بیٹھے ہوئے پیچھے کی طرف گرنا،  تماشے میں تماشا،  چیخیں،

ہاں یہ باتیں یہ بچپن میں مزا دیتی ہیں،

دیکھتے دیکھتے ہر بات بھلا دیتی ہیں،

اور اب اپنی جوانی ہے،  امڈتا ہوا دریا ہے،  کہ بہتی ہوئی دھارا جس کو

بہہ نکلنے پہ کوئی روک نہیں سکتا ہے،

انہی بل کھاتی،  مچلتی ہوئی لہروں کا تقاضا ہے کہ جب رات آئے،

ہم بھی گھر چھوڑ کے جاتے ہیں کسی باغ کے ویران سے کونے کی طرف،

موجۂ بادِ پریشاں سے کوئی سوکھا سا پتّا گر جائے۔

ساتھ کے راستے پر ایک اکیلی،  گہری

چاپ یہ ہم سے کہے۔ آئے،  وہ آئے،  آئے

دل کی دھڑکن یہ کہے جاتی ہے۔ ٹھہرو،  سنبھلو،

سوکھا پتّا ہے،  کوئی اور ہے۔ کوئی دم میں

ابھی آ جاتے ہیں۔ آتے ہیں۔ ابھی آتے ہیں،

اور ٹہلتے میں ذرا مڑ کے جو دیکھا تو وہی آپہنچے،

اور پھر باتیں ہی باتیں ہیں۔ یونہی باتوں میں

چاند چھپ جاتا ہے اور تارے بھی چھپ جاتے ہیں،

آنکھوں میں آنکھیں گھل جاتی ہیں اور سانس میں سانس۔

گال پہ ہاتھ جو رکھّا تو کنول یاد آیا

ایسا نم۔ ایسا گداز۔

ناک سے ناک لگاتے ہوئے پیشانی پہ پہنچی جو نگاہیں تو کہا

یہی اب چاند ہے۔ تاروں کی ضرورت ہی نہیں

تارے فرقت کی شبِ تار میں گننے کے لیے ہوتے ہیں،

آج تم بھی ہو یہیں،  ہم بھی یہیں۔ گال کا خم

ہم سے کہتا ہے خمِ دورِ زماں ہوں۔ مجھ کو

دیکھ کر اور کوئی بات نہ یاد آئے گی !

بات یاد آئی۔ ابھی کل ہی پڑھا تھا شاید

ڈارون کہتا ہے بندر سے ترقی کر کے

آج انسان بھی انسان بنا بیٹھا ہے،

دونوں کے گالوں پہ،  جبڑوں پہ ذرا غور کرو

ناک بھی دیکھو،  یہ رفتہ رفتہ

اونچی ہوتے ہوئے اس درجہ ابھر آئی ہے

اور پیشانی تو ویسی ہی نظر آتی ہے

یہ خیال آنے پہ ہر رات کی باتیں مجھ کو

یوں ہنسا جاتی ہیں جیسے وہ لطیفہ ہوں کوئی۔

یہ لطیفہ۔ کسی جنگل میں کسی ٹہنے پر

ایک بندر یہ بندریا سے کہا کرتا تھا

آج تم بھی ہو یہیں،  ہم بھی یہیں،  گال کا خم

ہم سے کہتا ہے خمِ دورِ زماں تم ہوں۔ مجھ کو

دیکھ کر اور کوئی بات نہ یاد آئے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

آدرش

 

مکاں اور مکیں سے دور ایک ایسا باغ ہے

ہر اک روش سجی ہوئی،  دلہن بنی یہ سوچتی ہے راہرو اب آئے گا

اب آئے گا،  اب آئے گا،  وہ آ گیا،  نہیں۔ یہ اک خیال،  ایک خواب تھا، دبا ہوا،

شگافِ کوہ میں اک چشمہ سو رہا تھا۔ آنکھ کھل گئی،  ابل پڑا،

مگر چمن تو پر سکوں فضا کو گود میں لیے یہ کہہ رہا ہے دل کی دھڑکنیں شمار کیجیے،

فضا یہ کہہ رہی ہے دل کی دھڑکنوں کو بھولیے

جو چیز آنکھ دیکھ لے اسی کو پیار کیجیے۔

ہر اک صدا، ہر ایک رنگ بے خودی کے بوجھ سے رہائی پا کے اپنی اپنی بات کہتا

جاتا ہے

کہیں تو رنگ ابھرتا ہے،  کہیں صدا لرزتی ہے،

کوئی کلی کھلی ہوئی،  کوئی سمٹ کے پتّیوں کی گود میں چھُپی ہوئی،

کہیں روش کا خم اچانک ایک ایسے منظرِ نہاں کو گدگداتا ہے

جو اک تڑپ کے ساتھ کھلکھلا کے یوں نگاہوں کو لبھاتا ہے

کہ اس کو دیکھتے ہی ایک رات کا فسانہ یاد آتا ہے،

لو دیکھنا،  وہ بیتی رات اب تو کنجِ باغ سے نکل کے سامنے ہی آ گئی

یہ اک ہجوم نرم بازوؤں کا،  گرم گیسوؤں کے سائے لے کے آیا ہے

ساز کوئی بھی نہیں مگر یہ ناچ ایسے ہے کہ جیسے کنجِ باغ جھوم اٹھے یک بیک

کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ برشگال میں،

ہر ایک قطرہ ابر سے ٹپکتا ہے

ردائے آب اس کو اپنے سماج میں سموتے ہیں

مگر یہ کوئی سوچتا نہیں کہ لوگ جلترنگ کس طرح بجاتے ہیں،

ٹپکتے آنسوؤں کو کوئی دیکھتا نہیں ہے،  ایک ایک کر کے گرتے ہیں

جو دامن اب دھوئیں کی طرح مٹ چکا ہے،  دھول بن کے سینۂ زمیں پہ سورہا

ہے،  بوند بوند اس میں جذب ہوتی ہے،

کوئی بھی سوچتا نہیں صدائے آبِ دل نے کیا کہا،

ہر ایک اپنے اپنے ساز کی صدا میں محو ہو کے جھوم اٹھتا ہے،

ہر ایک اپنے اپنے دل میں یہ سمجھتا ہے کہ ساز ہے تو ایک ساز ہے،  ہمارا ساز،  اور

ساز کوئی بھی نہیں کہیں،

مگر جب ایک پل میں آنسوؤں سے گیسوؤں کے سائے ڈھل کے مٹتے ہیں،

تو آنکھ دیکھتی ہے اور دل میں دھیان آتا ہے،

یہ کنجِ باغ خنیاگر ہے آرزوئے خواب کا،

اور اس کے آگے ایک جھیل سوئی سوئی مست جھیل کے کنارے پر کھڑا ہے ایک

پیڑ جس کی ایک ایک شاخ سوچتی ہے ناؤ لوٹ آئے گی،

مگر وہ ناؤ لوٹتی نہیں ہے،  دوسرے کنارے پر وہ دور سے دکھائی دیتی جاتی ہے

بطیں یہاں تو تیرتی ہیں ان کے پر چمکتے ہیں،

برس کے بوند بوند ان پروں پہ گرتی ہے،  پھسل کے ساتھ کے کنول پہ جاتی ہے

اور ایک صدا تڑپ کے ایک تیر کی طرح نکل کے آتی ہے

اور اس کی گونج پے بہ پے سنائی دیتی جاتی ہے

کہاں چلی گئی۔ یہی صدا۔ کہاں چلی گئی ؟

مکان مٹ چکا،  مکیں بھی رفتہ رفتہ گھلتے گھلتے ایک روز مٹ کے کھو ہی جائے گا

دلہن سجی بنی چھپی رہے،  کوئی بھی راہرو نہ آئے گا

بس اب تو ایک اجنبی ہجوم سامنے ہے،  اور میں ہوں،  اور کوئی بھی نہیں،

وہ باغ اک خرابہ ہے کہ جس میں جھیل کے جزیرے پر محل دکھائی دیتا تھا،

محل کہاں بس اب تو چند چوکھٹیں،  شکستہ فرش کہہ رہا ہے۔ ہم بھی تھے

ہر ایک شے کو شب کی تیرگی نے اپنی گود میں چھپا یا ہے،

اندھیری رات گھات میں لگی ہے اب وہ چاہتی ہے مجھ کو مجھ سے چھین لے،

میں دیکھتا ہوں تیرگی کی لہر لہر رینگتی، سمٹ سمٹ کے پھیلتی ہوئی مری ہی سمت آتی ہے۔

سیاہی اپنے دل میں ایک بھید کو چھپاتی ہے،

ہر ایک لہر رفتہ رفتہ گھلتے گھلتے ایک دھندلی شکل بنتی جاتی ہے

اور ایک پل میں دائیں بھوت، بائیں بھوت، سامنے چڑیل ناچتی دکھائی دیتی ہے

چڑیل کب ہے،  اک صدا ہے،  تلخ،  سرد،  بے رُخی کے بوجھ سے دبی ہوئی، گھٹی ہوئی،  کسی کراہتے مریض کی صدا،

یہی صدا اور اس کی گونج پے بہ پے سنائی دیتی جاتی ہے،

کہاں چلی گئی،  وہ اب کہاں چلی گئی۔ یہی صدا۔ کہاں چلی گئی ؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

کتھک

 

دیوار پہ نقش مصوّر کے یا سنگتراش کی کاریگری

یا سرخ لباس سجائے ہوئے موہن، چنچل، شیشے کی پری

یا بن کے پرانے مندر میں بولے جو پجاری ہری ہری

اس کے دل کی دیوداسی اک اور ہی روپ میں ناچتی ہے

اب دائیں جھکو، اب بائیں جھکو، یوں،  ٹھیک، یونہی، ایسے ایسے !

کیوں چھوڑ سنگھاسن راجا نے،  بن باس لیا، کیا بات ہوئی

کب سکھ کا سورج ڈوب گیا، کب شام ہوئی، کب رات ہوئی

ساون کی رم جھم گونج اٹھی۔ بادل چھائے برسات ہوئی

راجا تو کہاں،  پرجا پیاسی اک اور ہی روپ میں ناچتی ہے

اب دائیں جھکو، اب بائیں جھکو، یوں،  ٹھیک، یونہی، ایسے ایسے !

کوئی گیت سنے کوئی ناچ پر اپنے سر کو دھنے۔ دیوانہ ہے،

مٹ جائے دھندلکا، دھیان آئے،  یہ گیت، یہ ناچ بہانہ ہے،

سا رے گا ما پا دھا نی بھید ہے،  بھید مگر یہ فسانہ ہے،

اس بھید کو بوجھ تھکے گیانی۔ اب ندّی بہتی جاتی ہے

کبھی دائیں گئی، کبھی بائیں گئی، کبھی لوٹ کے پھر سے بڑھی آگے !

تو کون ہے،  بول بتا تیرا کیا نام ہے،  دیس کہاں تیرا؟

کیا ایک چھلاوہ ہے ؟ کھو جائے تو پائیں کیسے نشاں تیرا؟

ہم ایک زمان و مکاں کے ہیں اوت تو۔ ہر ایک جہاں تیرا،

تیری آواز تو الجاتی ہے،  گونج کے کہتے جاتی ہے

جو جاگ رہے تھے،  سو بھی چکے،  جو سوئے تھے چونک اٹھے جاگے !

٭٭٭

 

 

 

 

 

حرامی

 

قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے

اس بھید کی تو رکھوالی ہے

اپنے جیون کے سہارے کو اس جگ میں اپنا کر نہ سکی

یہ کم ہے کوئی دن آئے گا۔ وہ نقش بنانے والی ہے

جو پہلے پھول ہے کیاری کا، پھر پھلواری ہے،  مالی ہے

غیروں کے بنائے بن نہ سکے،  اپنوں کے مٹائے مٹ نہ سکے

جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے اس بھید کی تو رکھوالی ہے

یہ سکھ ہے،  دکھ کا گیت نہیں،  کوئی ہار نہیں،  کوئی جیت نہیں

جب گود بھری تو مانگ بھری، جیون کی کھیتی ہو گی ہری

جو چاہے ریت کی بات کہے،  ہم پیت ہی کے متوالے ہیں

کوئی ناچ ناچ کر تھکتا ہے،  سوئی سکھ میں مگن ہو جاتا ہے

کوئی دکھ سے نور بڑھاتا ہے،  کوئی دور سے بیٹھا تکتا ہے

جو چاہے ریت کی بات کہے،  ہم پیت ہی کے متوالے ہیں

آکاش پہ لاکھوں بادل ہیں،  کچھ اجلے،  کچھ مٹیالے ہیں

سب روپ بڑھانے والے ہیں،  سب دل گرمانے والے ہیں

کچھ لال ابلتے سورج سے،  کچھ پیلے چاند کی سج دھج سے

کچھ کاجل جیسی کالی کالی رجنی کے اندھیاروں سے

کچھ دور چمکتے تاروں سے،  آکاش کا روپ نکھرتا ہے

جو پل آتا ہے سنورتا ہے اور دل پر جادو کرتا ہے

یہ سورج چاند ستارے سارے اجالے سارے اندھیارے

قدرت کے پرانے بھیدی ہیں

جو چاہے ریت کی بات کہے یہ پیت کا گیت سناتے ہیں

ہنستے ہیں،  ہنستے جاتے ہیں،  جو دیکھے اس کو ہنساتے ہیں

ہر ایک کرن سے پھوٹتا ہے وہ نور۔ وہ بھید جو چھپ نہ سکے

اس بھید کی تو رکھوالی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

فنا

 

ہاں تمنّا ارادہ تو بنتی تھی،  لیکن یونہی اک کلی جیسے پھول،

وہ کسی لہر کی طرح دل سے مچل کر نکلتی تھی دو بول بن کر کبھی

اور یہ تو آپ جانتے ہیں کلی کھل کے جب پھول بن جائے گی

پھر کلی ہی رہے گی،  رہے گا نہ پھول

باغ کوئی نہ تھا، کوئی صحرا نہ تھا، کوئی پربت نہ تھا، کچھ نہ تھا

ایک ساگر ہی ساگر جدھر دیکھئے موجزن موجزن آگے بڑھتا ہوا

کوئی ساحل نہ تھا، کوئی منزل نہ تھی،  سوچیے آگے بڑھ کر وہ رکتا کہاں،

دھیان اٹھا تڑپ کر۔ یونہی سامنے روپ کی ناؤ اک چھوڑ دی

دیکھتے ہی تھما،  آگے بڑھتا ہوا۔ موجزن۔ اب تو کوئی نہ تھا،

باغ کوئی نہ تھا، کوئی صحرا نہ تھا، کوئی پربت نہ تھا،  کچھ نہ تھا

باغ میں پھول کے ساتھ کانٹا ہوا۔ سوچ اس کی تو آئے یہ ممکن نہیں،

اور صحرا میں تو پیاس مٹتی نہیں،  اور بڑھتی ہے۔ یہ بھی تو ممکن نہ تھا،

کوئی پربت جو آ جائے پاؤں تلے،  دھیان کی بار چلنے والا پھسل کر گرے۔ یہ بھی

ممکن نہ تھا،

اور جو کچھ بھی نہ ہو،  پھر تو اندیشہ کوئی بھی بھولے سے آئے۔ یہ ممکن نہیں

پہلے کہہ تو دیا باغ کوئی نہ تھا، کوئی صحرا نہ تھا، کوئی پربت نہ تھا،

پوچھتے ہو کہ پھر کیوں جھجکتے ہوئے،  آگے بڑھتا ہوا موجزن بحر سمٹا، سمٹ ہی گیا

پہلے کہہ تو دیا۔ اک کلی کھل کے جب پھول بننے لگی

پہلی رُت کھو گئی۔ تم سمجھتے ہو آئی نئی،

یہ نئی بھی نئی کب ہے اس کو بھی جانو۔ گئی تو گئی،

آنے والا یہ کہتا ہے میں جاؤں گا،  دیکھنے والا اس کو سمجھتا نہیں،

دیکھنے سے اگر اس کو فرصت ملے،  دیکھنا چھوڑ دے،  بات سننے لگے،

سُن کے وہ جان لے اور اس کی تمنّا ارادہ تو بننے نہ پائے کبھی،

وہ کسی لہر کی طرح دل سے نکل کر نہ جائے کبھی،

پھر کلی بھی کلی ہی رہے،  اور ساگر بہے آگے بڑھتا ہوا۔ موجزن، موجزن

باغ کوئی نہ ہو اس کی پروا نہیں،

کوئی صحرا نہ ہو اس کی پروا نہیں،

کوئی پربت نہ ہو اس کی پروا نہیں،

خواہ کچھ بھی نہ ہو اس کی پروا نہیں،

اک تمنّا تو ہے،  اک اچھوتی کلی،

یہ کلی تو کلی ہی رہے گی، اسے دھیان کچھ بھی کہے،

اس کلی کو کبھی سوچ آتی نہیں،  کون آیا۔ گیا،

اس کلی کو کبھی سوچ آتی نہیں،  کس نے کیا کچھ کہا،

یہ کلی ہے مگن،  سیج پر اک دلہن کی طرح،

راہ تکتی نہیں،  اس کو معلوم ہے۔ آئے گا آنے والا یہاں،

شام سے سیج اس نے سجائی ہے لیکن اسے رات کا دھیان کوئی نہیں،

ایک ہیں اس کو دن رات، شام و سحر، ایک ہیں سال، صدیاں۔ سبھی ایک ہیں،

اس کلی کو کبھی سوچ آئی نہیں کون آیا۔ گیا،

یہ کلی ہے مگن،  سیج پر اک دلہن کی طرح،

اک دلہن۔ اک دلہن !۔ اور ساگر کہاں ہے جو تھا موجزن

کوئی ساگر نہیں،  باغ۔ صحرا نہیں،  کوئی پربت نہیں،

آہ کچھ بھی نہیں۔ !

٭٭٭

 

 

 

 

رس کی انوکھی لہریں

 

میں یہ چاہتی ہوں کہ دنیا کی آنکھیں مجھے دیکھتی جائیں،  یوں دیکھتی جائیں،

جیسے کوئی پیڑ کی نرم ٹہنی کو دیکھے،

(لچکتی ہوئی نرم ٹہنی کو دیکھے )

مگر بوجھ پتّوں کا اترے ہوئے پیرہن کی طرح سیج کے ساتھ ہی فرش پر ایک

مسلا ہو ڈھیر بن کر پڑا ہو،

میں یہ چاہتی ہوں کہ جھونکے ہوا کے لپٹتے چلے جائیں مجھ سے

مچلتے ہوئے،  چھیڑ کرتے ہوئے،  ہنستے ہنستے کوئی بات کہتے ہوئے،  لاج کے

بوجھ سے رکتے رکتے،  سنبھلتے ہوئے رس کی رنگین سرگوشیوں میں،

میں یہ چاہتی ہوں کبھی چلتے چلتے کبھی دوڑتے دوڑتے بڑھتی جاؤں،

ہوا جیسے ندّی کی لہروں سے چھوتے ہوئے،  سرسراتے ہوئے بہتی جاتی ہے،

رکتی نہیں ہے،

اگر کوئی پنچھی سہانی صدا میں کہیں گیت گائے،

تو آواز کی گرم لہریں مرے جسم سے آ کے ٹکرائیں اور لوٹ جائیں،  ٹھہرنے نہ پائیں،

کبھی گرم کرنیں،  کبھی نرم جھونکے،

کبھی میٹھی میٹھی فسوں ساز باتیں،

کبھی کچھ کبھی کچھ نئے سے نیا رنگ ابھرے،

ابھرتے ہی تحلیل ہو جائے پھیلی فضا میں،

کوئی چیز میرے مسرّت کے گھیرے میں رکنے نہ پائے،

مسرّت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے

کھلا کھیت گندم کا پھیلا ہوا ہے

بہت دور آکاش کا شامیانہ انوکھی مسہری بنائے رسیلے اشاروں سے بہکا رہا ہے،

تھپیڑوں سے پانی کی آواز پنچھی کے گیتوں میں گھل کر پھسلتے ہوئے اب نگاہوں

سے اوجھل ہوئے جا رہی ہے،

میں بیٹھی ہوئی ہوں

دوپٹّہ مرے سر سے ڈھلکا ہوا ہے،

مجھے دھیان آتا نہیں ہے،  مرے گیسوؤں کو کوئی دیکھ لے گا

مسرّت کا گھیرا سمٹتا چلا جا رہا ہے،

بس اب اور کوئی نئی چیز میرے مسرّت کے گھیرے میں آنے نہ پائے،

٭٭٭

 

 

 

 

ایک تھی عورت

 

جی چاہتا ہے کہ تم ایک ننھی سی لڑکی ہو اور ہم تمہیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لیں،

یونہی چیخو، چلّاؤ، ہنس دو، یونہی ہاتھ اٹھاؤ ہوا میں ہلاؤ، ہلا کر گرا دو،

کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگی ہو،

کبھی ایسے جیسے نہ بولیں گے تم سے،

کبھی مسکراتے ہوئے،  شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کرو ایسی باتیں،

ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے،

جو گنجان پیڑوں کی شاخوں سے ٹکرائے دل کو انوکھی پہیلی سجھائے مگر وہ پہیلی سمجھ  میں نہ آئے

کوئی سرد چشمہ ابلتا ہوا اور مچلتا ہوا یاد آئے

جو ہو دیکھنے میں ٹپکتی ہوئی چند بوندیں

مگر اپنی حد سے بڑھے تو بنے ایک ندّی،  بنے ایک دریا،  بنے ایک ساگر،

یہ جی چاہتا ہے کہ ہم ایسے ساگر کی لہروں پہ ایسی ہوا سے بہائیں وہ کشتی جو بہتی نہیں ہے

مسافر کو لیکن بہاتی چلی جاتی ہے،  اور پلٹ کر نہیں آتی ہے،  ایک گہرے سکوں  سے ملاتی چلی جاتی ہے،

یہ جی چاہتا ہے کہ ہم بھی یونہی چیخیں چلّائیں،  ہنس دیں،  یوں ہی ہاتھ اٹھائیں،

ہوا میں ہلائیں،  ہلا کر گرا دیں،

کبھی ایسے جیسے کوئی بات کہنے لگے ہیں،

کبھی ایسے جیسے نہ بولیں گے تم سے،

مگر تم ہمیں گود میں لے کے اپنی بٹھا لو،

مچلنے لگیں تم سنبھالو،

کبھی مسکراتے ہوئے،  شور کرتے ہوئے پھر گلے سے لپٹ کر کریں ایسی باتیں

تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے،

وہی سرسراتی ہوا جس کے میٹھے فسوں سے دوپٹّہ پھسل جاتا ہے،

وہی سرسراتی ہوا جو ہر انجان عورت کے بکھرے ہوئے گیسوؤں کو

کسی سوئے جنگل پہ گھنگھور کالی گھٹا کا نیا بھیس دے کر

جگا دیتی ہے،

تمہیں سرسراتی ہوا یاد آئے

ہمیں سرسراتی ہوا یاد آئے

یہ جی چاہتا ہے،

مگر اپنی حد سے بڑھے تو ہر اک شئے۔ بنے ایک ندّی، بنے ایک دریا،  بنے

ایک ساگر

وہ ساگر جو بہتے مسافر کو آگے بہاتا نہیں ہے،  جھکولے دیئے جاتا ہے، بس

جھکولے دیئے جاتا ہے،

اور پھر جی ہی جی میں مسافر یہ کہتا ہے اپنی کہانی نئی تو نہیں ہے،

پرانی کہانی میں کیا لطف آئے،

ہمیں آج کس نے کہا تھا۔ پرانی کہانی سناؤ۔

٭٭٭

 

 

 

 

کروٹیں

 

اجنبی آرزو دل میں آنے لگی

پھر سے لانے لگی اپنے نغمے کے بل پر وہی موہنی

جس نے پابند کر کے دکھایا نہ تھا

ایک ہی راہ میں اور بھی راستے جو نئے سے نئے ہوں چلے آتے ہیں،

دیکھ لے آنکھ گر ہٹ کے ایک پل کو پہلو کے منظر کی باتوں کا جلوہ جسے

سوئے رہنا ہے یونہی اچھوتی، کنواری دلہن کی طرح

جب تک آئے نہ بن کر کوئی سورما،  بانکا ترچھا جواں،

اپنے گھوڑے کی باگوں کو تھامے ہوئے،

تھامتے تھامے

دھیرے دھیرے وہ بڑھتا تو جائے مگر

سامنے ہی جمی ہو نہ اس کی نظر،

ایک پل کے لیے اپنی پہلو کی باتوں کے جلوے کو بھی دیکھ لے،

کوئی ہنستا نہ ہو،  کوئی روتا نہ ہو،

اس کے پہلے،  پرانے جنم کے سبھاؤ پہ ہنستا نہ ہو،

اس کے انجان، اک رنگ والے بہاؤ پہ،  اس کو جو آگے لگے گا اسی گھاؤ پہ کوئی روتا نہ ہو

اور پہلو کا منظر دلہن کی طرح سیج پر راہ تکتے ہوئے،

راہ تکنے سے تھکتے ہوئے،

یونہی سوجائے دل میں کسی تان کی گونج کو تھامتے تھامتے،

جس میں کھویا ہوا ہو رسیلی فضا کا سہانا مزہ

وہ مزہ جس نے پابند کر کے دکھایا نہ تھا

ایک ہی راہ میں اوربھی راستے ہیں نئے سے نئے

جیسے نغمہ کوئی

اپنے پہلو میں لے کر کئی۔ سر کے رنگین،  مہمل اشارے پھسلتے ہوئے

اور مچلتے ہوئے،  اور ابلتے ہوئے،  گرتے بڑھتے ہوئے،

بہتا جاتا ہے جیسے کہیں

دور صحرا کے ذرّوں کو موجیں ہوا کی اٹھا کر بہاتے ہوئے،

لے کے پہنچائیں پورب سے پچّھم کے در تک مگر

سوچ اس کی تو اب آئی ہے،

آج تک سونے رستے پہ چلتے ہوئے

آنکھ کو بھول کر دھیان آیا نہیں تھا کہ اس راہ میں

دائیں بائیں کئی ایسے منظر پڑے ہیں جنہیں

سوئے رہنا ہے یونہی اچھوتی،  کنواری دلہن کی طرح

جس نے آنچل سے آگے نہ دیکھا کبھی

رنگ کی لہر میں کیسے چہرے چھپے ہیں جو اک پل میں بیتاب ہو جائیں گے،

اور کہہ دیں گے ہم نے تمہارے لیے آج تک غیر کو آنکھ بھر کر نہ دیکھا کبھی

بھول کر جا پڑی بھی جو اپنی نظر سرسراتے ہوئے اور چھچھلتے ہوئے

سرسری طور پر دیکھ کر لوٹ آئی اسے دھیان آیا یہی

اس سے ملتی ہوئی لیکن اس سے کہیں بڑھ کے کھلتی ہوئی

اک کلی راستہ دیکھتی ہے اسے چل کے سینے سے اپنے لگا لے کہ تو

اور وہ۔ دونوں اک دوسرے کے لیے ہی بنائے گئے ہیں،  مگر

میٹھی باتوں کے نیچے جو پاتال ہے

اس کی گہرائی سے ایک زہریلی ناگن ابھر آئے گی

رینگتے رینگتے،  اپنی پھنکار سے صاف کہہ دے گی چاہو تو مانو اسے

لیکن اس کی ہر اک بات میں جھوٹ ہے یوں سمویا ہوا

جیسے بادل کے گھونگھٹ میں کھویا ہوا

چاند کا روپ چبھتی ہوئی تان کے بھیس میں

پھوٹ پڑتا ہے چشمے کی مانند لیکن بجھاتا نہیں پیاس کو

اور بھڑکا کے بے چین کرتا چلا جائے گا،

رات سو جائے گی

اور سویرا ابلتے ہوئے نور کو اپنے پہلو میں لے کر نظر آئے گا،

سوچ جاگے گی اور سیج کے پھول کانٹے بنیں گے سبھی

رنگ کے گیت میں سارے مہمل اشارے ہی رہ جائیں گے

ایک تنکے کی مانند بہہ جائیں گے بول سب پریت کے،

دھیان آئے گا دل میں کہ اب تو یونہی سوچتے سوچتے،

کھوئے کھوئے ہمیں ایک اچھوتی، کنواری دلہن کی طرح

بیٹھے رہنا ہے رستے کو تکتے ہوئے،

جب تک آئے نہ بن کر کوئی سورما،  بانکا ترچھا جوان

اپنے گھوڑوں کی باگوں کو تھامے ہوئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بُرقع

 

آنکھ کے دشمنِ جاں پیرہن

آنکھ میں شعلے لپکتے ہیں،  جلا سکتے نہیں ہیں ان کو

آنکھ اب چھپ کے ہی بدلہ لے گی

نئی صورت میں بدل جائے گی،

جھلملاتے ہوئے ملبوس لرزتی ہوئی کرنوں کی طرح سایوں میں کھو جائیں گے،

اور نظر آئے گی اک آنکھ کی تصویر بظاہر بے نام،

آنکھ بھی کب ہے،  اسے پھول کنول کا کہیے

دیکھنے ہی سے جسے بات نہیں بنتی ہے

جب نگاہوں سے نگاہیں مل جائیں

کون کہہ سکتا ہے دل بھی کھل جائیں

ایک ہی بات کا آتا ہے یقیں

آنکھ کے دشمنِ جاں پیراہن

دل کے رستے میں کوئی روک نہیں لا سکتے،

آنکھ میں شعلے لپکتے ہوئے رہ جاتے ہیں،

دل میں جو آگ سلگتی ہے اسے آنکھ بجھا دیتی ہے

دل کے شعلوں کو مٹا دیتی ہے

اپنے آغوش میں لے لیتی ہے،

وہی آغوش جو اک غنچے کی مانند نظر آتا ہے

وہی غنچہ جو کسی گلشنِ شب رنگ کے دامن میں چھپا بیٹھا ہو،

پیڑ کی ایک لچکتی ہوئی ٹہنی کو ہوا کا جھونکا

اپنی لہروں سے ہلاتے ہوئے چل دیتا ہے

اور پھر شاخ بھی بن جاتی ہے اک لہر،  مجسّم خوشبو،

وہی خوشبو جسے ملبوس چھپاتے ہیں نگاہوں سے دکھاتے ہی نہیں،

وہی ملبوس،  وہی آنکھ کے دشمن ہر دم

سامنے جھولتے رہتے ہیں،  جھکولوں سے مدام

دل میں جو آگ سلگتی ہے اسے اور بڑھا دیتے ہیں،

آنکھ میں شعلے لپکتے ہوئے رہ جاتے ہیں،

آنکھ بھی کب ہے،  اسے پھول کنول کا کہیے !

پھول تو شاخ کے دامن میں لگا رہتا ہے،

اور آوارہ ہوا کا جھونکا

بہتا جاتا ہے۔ یونہی بہتا ہے

پیڑ کی ایک لچکتی ہوئی ٹہنی کو ہلا سکتا نہیں،

سائے میں بیٹھے ہوئے غمزدہ راہی کے لیے پھل کو گرا سکتا نہیں،

آنکھ کے دشمنِ جاں پیراہن

شاخ کے پتّے۔ سیہ،  سبز نقاب

اپنے ہاتھوں میں لیے رہتے ہیں

اسی گوہر کو جسے دیکھ کے آنکھیں دل سے

وہی اک بات کہیں،  رات کی بات،

جو بھڑکتے ہوئے شعلوں کو مٹا دیتی ہے،

دل میں سوئی ہوئی نفرت کو جگا دیتی ہے،

اور چپکے سے یہ آسودہ خیال آتا ہے

آج تو بدلہ لیا ہم نے نگاہوں سے چھپے رہنے کا،

آج تو آنکھ۔ اسی پھول کو دیکھا ہم نے

جسے پتّوں کا نقاب

اپنے ہاتھوں میں لیے رہتا تھا،

پہلے پھیلی ہوئی دھرتی پہ کوئی چیز نہ تھی

صرف دو پیڑ کھڑے تھے۔ چپ چاپ

ان کی شاخوں پہ کوئی پتّے نہ تھے

ان کو معلوم نہ تھا کیا ہے خزاں،  کیا ہے بہار،

پیڑ کو پیڑ نے جب دیکھا تو پتّے پھوٹے

وہی پتّے۔ وہی بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے نشاں

شرم سے بڑھتے ہوئے،  گوہرِ تاباں کو چھپاتے ہوئے سہلاتے ہوئے،

وقت بہتا گیا،  جنّت کا تصوّر بھی لڑھکتے ہوئے پتّے کی طرح

دور ہوتا گیا،  دھندلاتا گیا،

پتّے بڑھتے ہی گئے،  بڑھتے،  بڑھتے ہی گئے،

نت نئی شکل بدلتے ہوئے،  کروٹ لیتے،

آج ملبوس کی صورت میں نظر آتے ہیں،

آج تو آنکھ کے دشمن ہیں تمام،

آنکھ اب تو چھپ کے ہی بدلہ لے گی،

جھلملاتے ہوئے پتّے تو لرزتی ہوئی کرنوں کی طرح سایوں میں کھو جائیں گے

اور بھڑکتے ہوئے شعلے بھی لپکتے ہوئے سو جائیں گے

دل میں سوئی ہوئی نفرت سگِ آوارہ کی مانند اندھیرے میں پکار اٹھّے گی۔

ہم نہ اب آپ کو سونے دیں گے

اور چپکے سے یہ آسودہ خیال آئے گا

آج تو بدلہ لیا ہم نے نگاہوں میں چھپے رہنے کا

لیکن اب آنکھ بھی بدلہ لے گی

نئی صورت میں بدل جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

تن آسانی

 

 

غسل خانے میں وہ کہتی ہیں ہمیں چینی کی اینٹیں ہی پسند آتی ہیں،

چینی کی اینٹوں پہ وہ کہتی ہیں چھینٹا جو پڑے تو پل میں

ایک اک بوند بہت جلد پھسل جاتی ہے،

کوئی پوچھے کہ بھلا بوندوں کے یوں پھسل جانے میں کیا فائدہ ہے،

جب ضرورت ہوئی جی چاہا تو چپکے سے گئے اور نہا کر لوٹے۔

دھل دھلا کر یوں چلے آئے کہ جس طرح کسی جھیل کے پانی پہ کوئی مرغابی

ایک دم ڈبکی لگاتی ہے لگاتے ہی ابھر آتی ہے،

اور پھر تیرتی جاتی ہے ذرا رکتی نہیں،

وہ یہ کہتی ہیں مگر چینی کی اینٹوں کا اگر فرش ہو،  دیواریں ہوں

دل یہ کہتا ہے کہ ہر چیز کا نکھرا ہوا رنگ

آنکھوں کو کتنا بھلا لگتا ہے

جیسے برسات میں تھم جاتے بادل جو برس کر تو ہر اک پھلواری یوں نظر آتی ہی

جیسے جانا ہو اسے،  اپنے کسی چاہنے والے سے کہیں ملنے کو جانا ہو مگر

ابھی کچھ سوچ میں ہو

کوئی پوچھے کہ بھلا چینی کی اینٹوں کو کسی سوچ سے کیا نسبت ہے

چینی کی اینٹیں تو بے جان ہیں پھلواری میں ہر پھول کلی ہر پتّہ

زیست کے نور سے لہراتا ہے

پھول مرجھائے کلی کھلتی ہے

اور ہر پتّہ نئے پھول کے گن گاتا ہے

چینی کی اینٹیں تو خاموش رہا کرتی ہیں

ایسی خاموشی سے اکتا کے نہانے والا

کچھ اس انداز سے اک تان لگاتا ہے کہ لقمان ہی یاد آتا ہے

جب میں یہ کہتا ہوں وہ پوچھتی ہیں

کوئی پوچھے تو بھلا تان کو لقمان سے کیا نسبت ہے

اور میں کہتا ہوں لقمان کو ․․․ لقمان کو ․․․ یا تان کو ․․․․ رہنے دو چلو

اور کوئی بات کریں

اور یوں لیٹے ہی رہتے ہیں کسی کے دل میں

دھیان آتا ہی نہیں

غسل خانے قدم رکھیں نہا کر سوئیں۔

لیٹے لیٹے یونہی نیند آتی ہے سو جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اداکار

 

 

مری زبان چھپکلی کے مانند پھول سے چھو رہی ہے گویا

گداز پتّی کے رس کو اک پل میں چوس لے گی

مگر اسے یہ خبر نہیں ہے ہر ایک پھول ایک۔ ایک بھنورے کے دھیان میں کھو کے جھومتا ہے

کھلے ہوئے پھول کو جو دیکھے

یہی سمجھتا ہے اس کی نکہت مرے فسردہ مشامِ جاں کے لیے بنی ہے

مگر کھلا پھول کس کا ساتھی ؟

میں اک مسافر۔ چھتوں پہ دیوارو در پہ دہلیز پر بسیرا رہا ہے میرا

اور آج رستے میں آ گئی تو

یہ تیرا پردہ کہ جس کے اس پار مجھ کو دیوار و در بھی،  دہلیز بھی،  چھتیں بھی دکھائی دیتی ہیں خاک آلودہ آگہی سے

کبھی تو اٹھتا ہے،  اٹھ کے گرتا ہے،  گر کے اٹھتا ہے۔ اس کی لرزش

کبھی تبسّم کبھی سکوں کی پکار بن کر

مجھے بلاتی ہے پھر یہ کہتی ہے چُپ۔ ٹھہر جاؤ دیکھو شاید کوئی ہمیں دیکھتا ہے لیکن

کھلا ہوا پھول کس کا ساتھی

اسے چمن سے نہیں ہے نسبت، وہ اس جہاں میں

ہر اک کے ہاتھوں سے ہوتے ہوتے کبھی کسی سیج پر، کبھی کسی سیج سے چتا تک  پہنچتا رہتا ہے اور زمانہ  پکارتا ہے

کھلا ہوا پھول کس کا ساتھی ؟

وہ مٹ کے رہتا ہے،  مٹ کے رہتا ہے چاہے رستے میں جو بھی آئے اسے مٹا دے

میں جانتا ہوں کھلا ہوا پھول کس کا ساتھی

میں جانتا ہوں یہ چند اشارے مجھے بھی اس رات سے ملا کر

شکستہ ساحل کی جھاگ بن کر

سکوں کے آغوشِ بے رخی میں ہی جا بسیں گے

وہی سیہ رات جس کے مبہم گلوئے تیزہ کا گرم اندھیرا

ابلتے دودِ سیہ کی مانند یہ بتاتا ہے کوئی شئے اس جگہ جلی ہے

وہی ابلتا ہوا اندھیرا ہماری ہستی پہ چھا گیا ہے

ہماری ہستی جو ایک تنکے کا روپ بھر کر مچلتی لہروں پہ بہہ رہی ہے

مچلتی لہریں ترا تبسّم ترا اشارہ ہیں،  میرے ماضی کی خاک آلودہ آگہی ہے

میں جن کے بل پر یہ کہہ رہا ہوں

مری زباں چھپکلی کے مانند پھول سے چھو کے رس کو اک پل میں چوس لے گی

مگر یہ پردہ جو روک بن کر محل کو گھیرے ہوئے ہے رستے سے کب ہٹے گا ؟

یہ کب مسہری بنے گا تیری ؟

اچانک اک سمت سے وہ بھنورا پھسل کے آیا

تو میں نے دیکھا خیال کی گود ہی کھلی ہے

کھلا ہوا پھول کس کا ساتھی ؟

میں سوچتا ہوں کہ سیمگوں دورِ کہکشاں میں

کئی مسافر بھٹک رہے ہیں

مگر سفر کس کا طے ہوا،  کس کو آگے جانا ہے ساتھ پژمردگی کو لے کر

اسے یہاں کون جانتا ہے

ہر اک کے پہلو میں خاک آلودہ آگہی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:  جدید ادب، شمارہ ۱۹،  میرا جی نمبر

تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید